فہرست مضامین
- آنکھیں
- آنکھیں
- 1۔ زین شکیل
- 2- زین شکیل
- 3- سید یوسف علی خاں ناظم
- 4- تارا چند
- 5- محمد نواز
- 6- تعشق لکھنوی
- 7- عاطف سعید
- 8- نامعلوم
- 9- ماجد دیوبندی
- 10- فوزیہ رباب
- 11- اویس احمد دوراں
- 12- ن.م. راشد
- 13- احمد فراز
- 14- ساغر صدیقی
- 15- محسن نقوی
- 16- نامعلوم
- 17- محسن بھوپالی
- 18- نامعلوم
- 18- نامعلوم
- 19- اشفاق احمد خان
- 20- صدف اقبال
- 21- ندیم ناجد
- 22- حسرتؔ موہانی
- ٭23- نا معلوم
- 24- منیر نیازی
- 25- نامعلوم
- 26- مقسط ندیم
- 27- نا معلوم خاور
- 28- شاذیہ اکبر
- 29- آرزو لکھنوی
- 30- نا معلوم
- 31- شاہد کمال
- 32- داغ دہلوی
- 33- نا معلوم
- 34- ساغر صدیقی
- 35- شکیبؔ جلالی
- 36- اثر لکھنوی
- 37- سحر فریاد
- 38- علی سردار جعفری
- 39- عمران نیازی
- 40- نامعلوم
- 41- ماہ نور خانزادہ
- 42- نسرین سید
- 43– نا معلوم
- 44- نا معلوم
- 45- نا معلوم
- 46- خار دہلوی
- 47- ساحر لدھیانوی
- 48- اندرا ورما
- 49- نامعلوم
- 50- غالب ایاز
- 51- نا معلوم
- 52- ڈاکٹر ابرار عمر
- 53- فوزیہ شیخ
- 54- محسن نقوی
آنکھیں
ترتیب: نا معلوم، اعجاز عبید
(آنکھوں کے موضوع پر ۵۴ مختلف غزلیں)
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب کا مطالعہ کریں…..
آنکھیں
ترتیب: نا معلوم، اعجاز عبید
(آنکھوں کے موضوع پر ۵۴ مختلف غزلیں)
1۔ زین شکیل
کون آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں
لے گیا ہے نکال کر آنکھیں
تم بہت دیر بعد لوٹے ہو
کون رکھتا سنبھال کر آنکھیں
میں تری دسترس میں ہوں اب بھی
یوں نہ رو رو کے لال کر آنکھیں
لوٹ کے گھر کو آ گئے واپس
تیرے رستوں پہ ڈال کر آنکھیں
چاہے جتنا تباہ کر مجھ کو
چاہے جتنی نڈھال کر آنکھیں
آج اندھوں کے شہر سے آخر
آ گیا ہوں اچھال کر آنکھیں
٭٭٭
2- زین شکیل
چل رہی ہیں چال آنکھیں
اُس کی بے مثال آنکھیں
لے کے پھر رہا ہے وہ
شہر میں کمال آنکھیں
بھولتیں نہیں مجھ کو
اب بھی پُر ملال آنکھیں
کر رہی ہیں زخموں کا
کب سے اندمال آنکھیں
دیکھ دیکھ راہوں کو
ہو گئیں نڈھال آنکھیں
خود جواب تھیں لیکن
بن گئیں سوال آنکھیں
دیکھ! میری آنکھوں میں
اس طرح نہ ڈال آنکھیں
اے خدا رہیں قائم
اُس کی لازوال، آنکھیں
٭٭٭
3- سید یوسف علی خاں ناظم
رونے کی یہ شدت ہے کہ گھبرا گئیں آنکھیں
اشکوں کی یہ کثرت ہے کہ تنگ آ گئیں آنکھیں
دل سخت ہی کافر کا پر آنکھوں میں حیا ہے
سنتے ہی جفا کا گلہ شرما گئیں آنکھیں
محراب میں ہوتا نہیں مستوں کا گزارہ
ابرو کے تلے خوب جگہ پا گئیں آنکھیں
وہ طالب دیدار کے پاس آئیں مگر کیا
حیرت کا یہ عالم ہے کہ کوبا گئیں آنکھیں
فرہاد نے کیا دیکھ کے سر تیشے سے پھوڑا
سوجھا نہ کچھ اس رو سے کہ تہرا گئیں آنکھیں
دل دے کے رہا گریۂ خونی کا مجھے شغل
باقی تھا جگر سو اسے یوں کھا گئیں آنکھیں
چڑھتے نہیں اب میری نظر میں مہ و خورشید
دیکھا تجھے کیا میں نے کہ اترا گئیں آنکھیں
آ کر ترے کوچے میں نہ کچھ ہم سے بن آئی
جاتے ہوئے اک منہ تھا کہ برسا گئیں آنکھیں
اتنا بھی نہ سمجھے کہ بلائے دل و دین ہے
ناظمؔ تمہیں کیوں اس کی پسند آ گئیں آنکھیں
٭٭٭
4- تارا چند
تڑپا میں جو آنکھوں کو، پسند آ گئیں آنکھیں
دل لوٹ گیا، چوٹ غضب کھا گئیں آنکھیں
کیا مست نگاہیں، مجھے دکھلا گئیں آنکھیں
دو جام تھے لبریز، کہ چھلکا گئیں آنکھیں
مجروح ہوا ایک نظارے میں میرا دل
دو پھل کی کٹاری تھی، کہ چمکا گئیں آنکھیں
آفت کی سفیدی تھی قیامت کی سیاہی
نیرنگِ دو عالم، مجھے دکھلا گئیں آنکھیں
اوروں سے تو بیباک سرِ بزم لڑائیں
عاشق سے ہوئیں چار، تو شرما گئیں آنکھیں
موسیٰ کی طرح تاب تجلی کی نہ آئی
ہم طور پہ پہنچے تھے، کہ پتھرا گئیں آنکھیں
ہوں لاکھ زبانیں رہے پر مشقِ خموشی
پلکوں سے اشارے میں، یہ سمجھا گئیں آنکھیں
معشوق کا جلوہ مجھے دل میں نظر آیا
صد شکر جسے ڈھونڈتی تھیں، پا گئیں آنکھیں
تیغیں تھیں کہ یا رب میرے قاتل کی نگاہیں
بسمل کی طرح سے، مجھے تڑپا گئیں آنکھیں
اس فتنۂ دوراں نے دی جو آنکھ کو گردش
چکر کبھی آیا، کبھی تیورا گئیں آنکھیں
اس ناز سے دیکھا کہ بہم کٹ گئے عاشق
ایک ایک کو ایک ایک سے، لڑوا گئیں آنکھیں
ہے سوزِ غمِ عشق سے یہ سوزِ حرارت
رونے پہ دل امڈا تو، مری آ گئیں آنکھیں
تا چند امیر اس چمنستاں کا نظارہ
دل سیر سے اکتا گیا، پتھرا گئیں آنکھیں
٭٭٭
5- محمد نواز
ہیں تخیل کی ہمسفر آنکھیں
غزل کہتی ہوئی مدھر آنکھیں
دے کے احساس کو حسیں منظر
لے گئی ہیں تمام ڈر آنکھیں
ایک نکتہ ہے روبرو لیکن
دیکھتی ہیں ادھر ادھر آنکھیں
صرف آہٹ ہی سنی تھی دل نے
دیکھ اب بھی ہیں بام پر آنکھیں
ہے لطافت سی لطافت توبہ
روح میں سے گئیں گزر آنکھیں
ایک جنبش سی ہوئی مژگاں کی
کر گئیں وقت کا سفر آنکھیں
مجھ پہ کب کی ہے دسترس اسکی
جانے کس کی ہیں منتظر آنکھیں
آس سے پھول سے کھلاتی ہوئی
تیرگی میں نئی سحر آنکھیں
عشق کو ایک بار سوچا تھا
رہی سجدے میں عمر بھر آنکھیں
دھڑکنیں پوچھ کر چلیں ان سے
ہو گئیں اتنی معتبر آنکھیں
روبرو آئینے کے مت جانا
عکس پر جائیں گی ٹھہر آنکھیں
پھر زمانے میں بچے گا ہی کیا؟
پھیر لی آپ نے اگر آنکھیں
٭٭٭
6- تعشق لکھنوی
جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں
بہہ گئیں آنسوؤں کے ساتھ ہماری آنکھیں
ہیں جلو میں صفت ابر بہاری آنکھیں
اٹھنے دیتی ہیں کہاں گرد سواری آنکھیں
کیوں اسیران قفس کی طرف آنا چھوڑا
پھیر لیں تو نے بھی اے باد بہاری آنکھیں
سامنے آ گئی گلگشت میں نرگس شاید
پلکوں سے چیں بہ جبیں ہیں جو تمہاری آنکھیں
کیا در اشک سے ہیں دامن مژگاں مملو
کب زباں ہے کہ کریں شکر گزاری آنکھیں
دیکھتے ہیں طرف چاہ ذقن الفت سے
مفت میں ہم کو ڈبوتی ہیں ہماری آنکھیں
شوخیاں آہوؤں کی ذہن میں کب آتی ہیں
کچھ دنوں ہم نے بھی دیکھی تھیں تمہاری آنکھیں
قطرۂ آب کو محتاج کیا گردوں نے
یاد ایام کہ تھیں چشمہ جاری آنکھیں
دور سے دیکھ کے تم کو کوئی جی بھرتا ہے
کر رہی ہیں فقط ایام گزاری آنکھیں
ابر کو دیکھ کے ہر مرتبہ جوش آتا ہے
اب تو آئیں ہیں مرے ضبط سے عاری آنکھیں
جب ہٹا آئنہ آگے سے ہوئیں کیا بے چین
اپنے پر آپ ہی عاشق ہیں تمہاری آنکھیں
لطف دیکھا نہ کسی چیز کا اشکوں کے سوا
آئیں تھیں رونے کو دنیا میں ہماری آنکھیں
کہتی ہے بھر کے دم سرد خزاں میں بلبل
ڈھونڈھتی ہیں تجھے اے فصل بہاری آنکھیں
تم کو شرم آتی ہے ہم قابل نظارہ نہیں
نہ رہا حسن تمہارا نہ ہماری آنکھیں
کیوں چراگاہ غزالاں نہ کہوں پلکوں کو
پھر رہی ہیں میری نظروں میں تمہاری آنکھیں
روؤں کس واسطے گر سامنے آنا چھوڑا
آپ کو حسن ہے پیارا مجھے پیاری آنکھیں
کور ہو جاؤں مگر عشق میں رونے کو نہ روک
ناصحا دل سے زیادہ نہیں پیاری آنکھیں
سیکڑوں شیشۂ دل بادہ کشوں کے توڑے
محتسب سے ہیں زیادہ وہ خماری آنکھیں
پھول نرگس کے گرے شاخ سے ڈالی جو نظر
تیری آنکھوں کی اطاعت میں ہیں ساری آنکھیں
فرش ہو جاتی ہیں تم پاؤں جہاں رکھتے ہو
ادب آموز محبت ہیں ہماری آنکھیں
بعد مدت کے ذرا ہوش میں آیا ہوں آج
پھر دکھا دے مجھے ساقی وہ خماری آنکھیں
اشک خونیں سے اسیری میں اٹھا لطف بہار
ہے قفس رشک چمن ابر بہاری آنکھیں
کیا کریں بزم حسیناں میں تعشقؔ جا کر
نہ رہیں قابل نظارہ ہماری آنکھیں
7- عاطف سعید
آنسو ہیں تری یاد ہے اور خام یہ آنکھیں
گر دید کی ہو تشنگی کس کام یہ آنکھیں
دم بھر کو بھی تو مڑ کے نہیں دیکھا اے جاناں
مدت سے تری راہ پہ ہیں عام یہ آنکھیں
ہر شام کو ہونے لگی ہے شہر میں بارش
چھم چھم ہیں تری یاد میں ہر شام یہ آنکھیں
ساقی تری ہی تاک میں ہیں رند یہ سارے
بنجر نہ کہیں ہو رہیں دو جام یہ آنکھیں
ممکن کہاں تھی تجھ سے مرے یار جدائی
اب ڈھونڈتی ہیں مستقل آرام یہ آنکھیں
عاطف یہ ترا دل تھا کہ بے درد سے ملا
بے کار میں ہی پا گئیں الزام یہ آنکھیں
٭٭٭
8- نامعلوم
سب بتاتی ہیں ان کہی، آنکھیں
دل کی کرتی ہیں مخبری، آنکھیں
جھانک لیتی ہیں دل کے اندر تک
جب بھی ملتی ہیں باہمی آنکھیں
اک غزل آج اُن پہ کہہ ڈالوں
کہہ رہی ہیں وہ جھیل سی آنکھیں
ہے خبر، لوٹنا نہیں اُس کو
پھر بھی ہیں راہ دیکھتی، آنکھیں
جاگ جا اب تو چھوڑ دے غفلت
کھول اپنی تُو آدمی، آنکھیں
در حقیقت ہمارے اندر کی
بس دکھاتی ہیں روشنی آنکھیں
رب کی قدرت کے نقش دیکھیں ہم
اس کے کارن ہیں یہ بنی آنکھیں
اُن میں کچھ بات ہے الگ یوسف
ورنہ دنیا میں اور بھی آنکھیں
٭٭٭
9- ماجد دیوبندی
ہماری آنکھیں بھی ہو جائیں خواب رُو آنکھیں
ہماری آنکھوں پر رکھ دے کبھی جو تُو آنکھیں
ہمیشہ رہتی ہیں تیری تلاش میں جاناں
ہمیشہ کرتی ہیں تیری ہی آرزو آنکھیں
نہ جانے کون سے جلووں کی جستجو ہے اُنہیں
بھٹک رہی ہیں فضا میں جو چار سوُ آنکھیں
یہ معجزہ بھی تو کچھ کم نہیں کہ شام و سحر
تمہارے ہجر میں رہتی ہیں با وضو آنکھیں
ترا فراق تری جستجو تری حسرت
یہ زخم زخم تبسم لہو لہو آنکھیں
نصیب، میرا بھی روشن ہو صورتِ مہتاب
کبھی جو کر دیں محبت کو سرخ رُو آنکھیں
بچھڑ کے تجھ سے میں زندہ نہ رہ سکوں شاید
نہ پھیرنا کبھی میری طرف سے تُو آنکھیں
تمہیں جو چھولوں تو ہاتھوں سے خوشبوئیں پھوٹیں
تمہیں جو دیکھوں تو ہو جائیں خوب رُو آنکھیں
٭٭٭
10- فوزیہ رباب
حسنِ سادہ کا وار آنکھیں ہیں
بن ترے بیقرار آنکھیں ہیں
میری جانب ہے جو ترا چہرہ
میری جانب ہزار آنکھیں ہیں
عیب تیرا کہاں چھپے گا اب
شہر میں بے شمار آنکھیں ہیں
میں نے طرز وفا تھا اپنایا
اس لئے اشکبار آنکھیں ہیں
پارسائی کہاں گئی؟ بولو!
آج کیوں داغدار آنکھیں ہیں ؟
ایک نقشہ تھا خواب کا کھینچا
اس لئے تار تار آنکھیں ہیں
جیسے ان میں سحاب رہتے ہوں
کتنی زار و قطار آنکھیں ہیں
جن کی تعبیر میں ملے وحشت
ایسے خوابوں پہ بار آنکھیں ہیں
وہ جو چہرہ ہی پڑھ نہیں سکتیں
کتنی جاہل گنوار آنکھیں ہیں
وہ نظر آر پار ہوتی ہے
ہائے ! کیا دلفگار آنکھیں ہیں
خواب دیکھا رباب نے کیونکر
اس لئے سوئے دار آنکھیں ہیں ٭٭٭
11- اویس احمد دوراں
رونق کوچہ و بازار ہیں تیری آنکھیں
لوگ سودا ہیں خریدار ہیں تیری آنکھیں
کیا یوں ہی جاذب و دل دار ہیں تیری آنکھیں
خالق حسن کا شہکار ہیں تیری آنکھیں
یہ نہ ہوتیں تو کسی دل میں نہ طوفاں اٹھتا
شوق انگیز و فسوں کار ہیں تیری آنکھیں
تیری معصومیت دل کا پتہ دیتی ہیں
تیری محبوبی کا اقرار ہیں تیری آنکھیں
جام و مینا کی طرح خود ہی چھلک جاتی ہیں
کتنی مخمور ہیں سرشار ہیں تیری آنکھیں
ان کی تقدیس پہ ہو عظمت مریم بھی نثار
کون کہتا ہے گنہ گار ہیں تیری آنکھیں
پلکیں بوجھل ہیں مدھر نیند کے مارے لیکن
جانے کیا بات ہے بیدار ہیں تیری آنکھیں
جیسے ساون کی گھٹا ٹوٹ کے برسے اے دوست
آج کچھ ایسے گہر بار ہیں تیری آنکھیں
میرے محبوب دل آویز بتا دے اتنا
مجھ سے کس شے کی طلب گار ہیں تیری آنکھیں
حسرتیں دل میں لئے ڈوب رہا ہے دوراں ؔ
موج در موج ہیں منجدھار ہیں تیری آنکھیں
٭٭٭
12- ن.م. راشد
یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں
مواصلات کا پہلا نظام آنکھیں تھیں
غنیم شہر کو وہ تھا بصارتوں کا جنوں
کہ جب بھی لُوٹ کے لایا تمام آنکھیں تھیں
خطوط نور سے ہر حاشیہ مزیّن تھا
کتاب نور میں سارا کلام آنکھیں تھیں
اب آ گئے ہیں یہ چہروں کے زخم بھرنے کو
کہاں گئے تھے مناظر جو عام آنکھیں تھیں
وہ قافلہ کسی اندھے نگر سے آیا تھا
ہر ایک شخص کا تکیہ کلام آنکھیں تھیں
نظر فروز تھا یوسف کا پیرہن شاید
دیار مصر سے پہلا سلام آنکھیں تھیں
کسی کا عکس بھی دیکھا تو رو پڑیں یکدم
قسم خدا کی بہت تشنہ کام آنکھیں تھیں ٭٭٭
13- احمد فراز
مجھ سے ملتے ہیں تو ملتے ہیں چرا کر آنکھیں
پھر وہ کس کے لیے رکھتے ہیں سجا کر آنکھیں
میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں جہاں تک دیکھوں
ایک وہ ہیں جو دیکھیں نا اٹھا کر آنکھیں
اس جگہ آج بھی بیٹھا ہوں اکیلا یارو
جس جگہ چھوڑ گئے تھے وہ ملا کر آنکھیں
مجھ سے نظریں وہ اکثر چرا لیتے ہیں فراز
میں نے کاغذ پہ بھی دیکھی ہیں بنا کر آنکھیں
٭٭٭
14- ساغر صدیقی
گلاب آنکھیں، شراب آنکھیں
یہی تو ہیں، لاجواب آنکھیں
اِنہیں میں اُلفت، اِنہیں میں نفرت
ثواب آنکھیں، عذاب آنکھیں
کبھی نظر میں بلا کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں
کبھی چھُپاتی ہیں راز دل کے
کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں
کسی نے دیکھی تو جھیل جیسی
کسی نے پائیں سراب آنکھیں
وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے
حضور! آنکھیں۔ جناب! آنکھیں۔
عجیب تھا، گفتگو کا عالم
سوال کوئی، جواب آنکھیں
یہ مست مست بے مثال آنکھیں
مصوری کا کمال آنکھیں
شراب رب نے حرام کر دی
مگر کیوں رکھیں حلال آنکھیں
ہزاروں ان پہ قتل ہوں گے
خدا کے بندے، سنبھال آنکھیں
٭٭٭
15- محسن نقوی
بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں
پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں
اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں
ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں
میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں
یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں
٭٭٭
16- نامعلوم
ساتھ جس کے رہیں سدا آنکھیں
اس سے کیسے کروں جدا آنکھیں
سب محبت کے استعارے ہیں
چاند، بادل، دھنک، ہوا، آنکھیں
لفظ سارے ہی ہو گئے گیلے
میں نے کاغذ پہ جب لکھا آنکھیں
کتنی آنکھوں میں ڈھونڈتا چہرہ
کتنے چہروں میں ڈھونڈتا آنکھیں
کاش کوئی تو دیدہ ور نکلے
یوں تو پھیلی ہیں جا بجا آنکھیں
میری آنکھوں سے دیکھتا خود کو
کاش وہ مجھ سے مانگتا آنکھیں
میری خواہش بھرم رہے باقی
اس کا کہنا کہ آ ملا آنکھیں
کوئی دیکھے تو دل پگھل جائے
کیسے کرتی ہیں التجا آنکھیں
اس سے پوچھا سبب جو لٹنے کا
مسکراتے ہوئے کہا آنکھیں
اب میں سپنے کہاں سے لاؤں گا
کون چہرے پہ لکھ گیا آنکھیں
کم سے کم خود کو دیکھ تو لیتے
کوئی بستی میں بانٹتا آنکھیں
لفظ ڈھلتے گئے تھے چہروں میں
اور میں سوچتا رہا آنکھیں
ہونٹ خاموش ہو گئے اس کے
اور کرتی رہیں دعا آنکھیں
رات ساری جلی ہیں اشکوں میں
اور دیں خود کو کیا سزا آنکھیں
خواب بننے یا اشک رونے ہیں
کر رہی ہیں یہ فیصلہ آنکھیں ٭٭٭
17- محسن بھوپالی
نظر ملا کے ذرا دیکھ مت جھکا آنکھیں
بڑھا رہی ہیں نگاہوں کا حوصلہ آنکھیں
جو دل میں عکس ہے آنکھوں سے بھی وہ چھلکے گا
دل آئینہ ہے مگر دل کا آئینہ آنکھیں
وہ اک ستارا تھا جانے کہاں گرا ہو گا
خلا میں ڈھونڈ رہی ہیں نہ جانے کیا آنکھیں
قریب جاں دم خلوت مگر سر محفل
ہیں اجنبی سے بھی بڑھ کر وہ آشنا آنکھیں
غم حیات نے فرصت نہ دی ٹھہرنے کی
پکارتی ہی رہیں مجھ کو بے صدا آنکھیں
تباہیوں کا کسی نے اگر سبب پوچھا
زبان حال نے بے ساختہ کہا آنکھیں
جھٹک چکا تھا میں گرد ملال چہرے سے
چھپا سکیں نہ مگر دل کا ماجرا آنکھیں
یہ اس کا طرز تخاطب بھی خوب ہے محسن
رکا رکا سا تبسم خفا خفا آنکھیں
٭٭٭
18- نامعلوم
ہیں حقیقی کہ مری جان خیالی آنکھیں
کس نے دیکھی ہیں کبھی ایسی مثالی آنکھیں
تیرے خاموش سوالات مجھے ڈستے ہیں
یاد آتی ہیں بہت تیری سوالی آنکھیں
ہجر نے ڈال دیا بازو مرے بازو میں
درد نے بھی مرے چہرے پہ جمالی آنکھیں
جیسے دل کھینچ لیا تو نے مرے سینے سے
جیسے تو نے مرے چہرے سے اٹھا لی آنکھیں
یہ بھی ممکن ہے کسی روز نظر آ جاؤ
شہر بھر نے تری خواہش میں سجا لی آنکھیں
٭٭٭
18- نامعلوم
سوچ بنتی ہوئی کاغذ پہ خیالی آنکھیں
اس کے کمرے سے چرا لیں وہ نرالی آنکھیں
گرتی اٹھتی ہوئیں پلکوں سے توقف کرتیں
کیا کہوں کتنی مدلل ہیں مثالی آنکھیں
یاد کرنا ہو سبق جیسے ضروری کوئ
میں نے چہرے پہ یونہی اس کے گڑا لی آنکھیں
ہم سے دیکھی نہ گئ ان کی جو بیباک نظر
اوٹ میں ہاتھ کے پھر ہم نے چھپا لی آنکھیں
روز چھپ چھپ کے انھیں دیکھتی رہتی ہوں میں
روز کاغذ پہ بناتی ہوں خیالی آنکھیں
میری باتوں پہ یونہی روٹھ کے کہنا اس کا
رونا روتی ہیں مگر مچھ کا غزالی آنکھیں
ورنہ وہ کھینچ کے لے جاتیں تہہ چشم انھیں
کھینچ کر ہم نے ان آنکھوں سے نکالی آنکھیں
چائے خانے کی کسی میز پہ اک میں اک تو
شام، خاموشی، جھجھک، چائے، متالی، آنکھیں
٭٭٭
19- اشفاق احمد خان
ساجن تیری قاتل آنکھیں
کر دیتی ہیں گھائل آنکھیں
پہلے کیا کوئی کم تھی الجھن
ہو گئی ہیں جو شامل آنکھیں
کوئی سپنا میں بھی دیکھوں
گر ہو جائیں غافل آنکھیں
رہتے تھے جو اپنی دھن میں
کر گئیں ان کو عائل آنکھیں
میں بھی آخر کب تک بچتا
ہو ہی گئی ہیں سائل آنکھیں
چھوڑو بھی اب باتیں ان کیں
بھر آتی ہیں مائل آنکھیں
٭٭٭
20- صدف اقبال
شب ہجراں کی اشاعت میں ہیں جاری آنکھیں
چھوڑ کر آئی ہیں خوابوں کی سواری آنکھیں
مجھ کو تعبیر کی صورت نظر آنے لگا تو
سرمۂ خواب سے جب میں نے سنواری آنکھیں
دیکھ کر مجھ کو جلِا میں یہ تحیر کیوں ہے
ظرفِ آئینہ پہ کیا ہو گئیں بھاری آنکھیں
آپ کا قرض محبت میں چکاؤں بھی تو کیوں
آپ کی آنکھوں میں گروی ہیں ہماری آنکھیں
آئینہ عکس کو یوں جذب کئے رہتا ہے
جیسے آنکھوں میں مری صرف تمہاری آنکھیں
آج شرمندۂ تعبیر ہوا وصل کا خواب
اک سہاگن نے ابھی کھولیں کنواری آنکھیں
تیری آنکھوں نے مجھے جیت لیا ہے جاناں
اک نظر دیکھ کے اک آن میں ہاری آنکھیں
صفحہ دل یہ صدف بھیگ چکا ہے کتنا
ہو نہ ہو تم نے غزل میں ہیں اتاری آنکھیں
٭٭٭
21- ندیم ناجد
چراغ و طاق میں بیدار ہو گئیں آنکھیں
بفیضِ عشق سمجھدار ہو گئیں آنکھیں
تمھارا عکس اُتارا ہے مدتوں اِس میں
عجب نہیں ہے جو تہدار ہو گئیں آنکھیں
یہ سوتے جاگتے جو خواب دیکھنے لگی ہیں
جنابِ عشق سے دوچار ہو گئیں آنکھیں
یہ جان لیتی ہیں سب حالتیں ترے دل کی
مُراد یہ ہے اوتار ہو گئیں آنکھیں
نہ لوٹنے کو تھا جانا کسی کو ساتھ اُس کے
سو بن بتائے ہی تیار ہو گئیں آنکھیں
٭٭٭
22- حسرتؔ موہانی
روگ دل کو لگا گئیں آنکھیں
اک تماشا دکھا گئیں آنکھیں
مل کے ان کی نگاہ جادو سے
دل کو حیراں بنا گئیں آنکھیں
مجھ کو دکھلا کے راہ کوچۂ یار
کس غضب میں پھنسا گئیں آنکھیں
اس نے دیکھا تھا کس نظر سے مجھے
دل میں گویا سما گئیں آنکھیں
محفل یار میں بہ ذوق نگاہ
لطف کیا کیا اٹھا گئیں آنکھیں
حال سنتے وہ کیا مرا حسرتؔ
وہ تو کہئے سنا گئیں آنکھیں
٭٭٭
٭23- نا معلوم
تمہاری بولتی آنکھیں رازِ دل کھولتی آنکھیں
بہت کچھ کہنا چاہتی ہیں تمہاری ڈولتی آنکھیں
سدا مخمور رہتی ہیں مے سے بھرپور رہتی ہیں
بصارت میں رسیلہ سا کوئی رس گھولتی آنکھیں
مرے چہرے پہ ان کا عکس جیسے رقص کرتا ہے
مرے چہرے کے خط و خال کو یہ تولتی آنکھیں
میں نظروں میں نہیں آؤں کسی کونے میں چھپ جاؤں
میری روح میں سمائی ہیں ستارے رولتی آنکھیں
٭٭٭
24- منیر نیازی
جگمگ جگمگ کرتی آنکھیں
ہنستی باتیں کرتی آنکھیں
شاید مجھ کو ڈھونڈ رہی ہیں
چاروں جانب تکتی آنکھیں
اصل میں یہ بے خوف بہت ہیں
ظاہر میں یہ ڈرتی آنکھیں
پل میں خوشی سے بھر جاتی ہیں
پل میں آہیں بھرتی آنکھیں
یار منیر چلو پھر دیکھیں
روز اک وعدہ کرتی آنکھیں
٭٭٭
25- نامعلوم
سہمی سہمی کاجل آنکھیں
پلکیں جن کا آنچل، آنکھیں
غم کی رات میں ہو جاتی ہیں
اکثر اپنی جل تھل آنکھیں
جانے کیا کیا کہہ جاتی ہیں
چپکے چپکے پاگل آنکھیں
کیسے رنگ بدل لیتی ہیں
لمحہ لمحہ، پل پل آنکھیں
دل ہے آس کا ایک سمندر
جس کی بے کل ساحل آنکھیں
شب بھر جیسے جاگ رہی تھیں
صبح کی بوجھل بوجھل آنکھیں
بنا برکھا کے برس رہی ہیں
رم جھم رم جھم، بادل آنکھیں
٭٭٭
26- مقسط ندیم
رات رو رو کے سو گئیں آنکھیں
چہرۂ غم کو دھو گئیں آنکھیں
نیند کے نیم سبز کھیتوں میں
فصل خوابوں کی بو گئیں آنکھیں
دیکھ کر سنگدل زمانے کو
خود بھی پتھر کی ہو گئیں آنکھیں
رنج و غم کے سفید دھاگے میں
سرخ موتی پرو گئیں آنکھیں
دل کی بینائی سے جلا کے چراغ
سفرِ دید کو گئیں آنکھیں
پھر کسی نے تمہارا نام لیا
پھر کہیں دور کھو گئیں آنکھیں
اُس کی آنکھوں کی جھیل میں مقسط
دل کی ناؤ ڈبو گئیں آنکھیں
٭٭٭
27- نا معلوم خاور
”کیف و مستی سے ہیں سر شار تمہاری آنکھیں ”
کس کا کر آئی ہیں دیدار تمہاری آنکھیں ؟
اس نے محفل سے کئی بار تھا اٹھنا چاہا
دل پہ زنجیر تھیں ہر بار تمہاری آنکھیں
سو رہے ہو؟ کہ یونہی دیکھ رہے مجھ کو
بند پلکیں ہیں اور بیدار تمہاری آنکھیں
تھا بہا نہ کہ کبھی جھیل نہیں دیکھی ہم نے
دیکھنے آئے یوں اغیار تمہاری آنکھیں
ہائے کیا لطف ہو گر آئینہ دیکھو تم اور
خود سے ہوں بر سرِ پیکار تمہاری آنکھیں
کاش خاور بھی کہیں ان میں چھپا بیٹھا ہو
جب کریں اپنا ہی دیدار تمہاری آنکھیں
٭٭٭
28- شاذیہ اکبر
اک ترے خواب کی پہچان ہماری آنکھیں
ہو گئیں فخرِ دل و جان ہماری آنکھیں
رکھ کے آنکھوں میں تجھے موند لیں اپنی پلکیں
یوں رہیں صورتِ جز دان ہماری آنکھیں
اب ترے بعد کسی اور کو کیسے دیکھیں
ہو گئیں تجھ پہ تو قربان ہماری آنکھیں
جانے کس عرضِ تمنا نے ثمر بار کیا
کس عبادت کا ہیں فیضان ہماری آنکھیں
جیسے صحرا کی کڑی دھوپ میں پیاسے راہی
اس طرح رہتی تھیں ویران ہماری آنکھیں
اب انہیں گردِ زمانہ سے رکھیں گے محفوظ
اب ہیں سرمایہ ایمان ہماری آنکھیں
٭٭٭
29- آرزو لکھنوی
گورے گورے چاند سے منہ پر کالی کالی آنکھیں ہیں
دیکھ کے جن کو نیند آ جائے وہ متوالی آنکھیں ہیں
منہ سے پلا کیا سرکانا اس بادل میں بجلی ہے
سوجھتی ہے ایسی ہی نہیں جو پھوٹنے والی آنکھیں ہیں
چاہ نے اندھا کر رکھا ہے اور نہیں تو دیکھنے میں
آنکھیں آنکھیں سب ہیں برابر کون نرالی آنکھیں ہیں
بے جس کے اندھیر ہے سب کچھ ایسی بات ہے اس میں کیا
جی کا ہے یہ باؤلا پن یا بھولی بھالی آنکھیں ہیں
آرزوؔ اب بھی کھوٹے کھرے کو کر کے الگ ہی رکھ دیں گی
ان کی پرکھ کا کیا کہنا ہے جو ٹکسالی آنکھیں ہیں
٭٭٭
30- نا معلوم
نجد وحشت میں وہ دمساز غزالی آنکھیں
روشنی دیتی ہوئی، رات سے کالی آنکھیں
واقف غم، متبسم، متکلم، خاموش
تم نے دیکھی ہیں کہیں ایسی نرالی آنکھیں ؟
دیکھ اب چشم تصور سے انہیں دیکھ، اے دل
جو حقیقی تھیں، ہوئیں اب وہ خیالی آنکھیں
ٹوٹتے جاتے ہیں پھر ضبط کے بندھن سارے
پھر الٹنے کو ہیں اشکوں کی پیالی آنکھیں
پھر کہے دیتی ہیں احوال غم و درد حیات
گرچہ ہم نے تھیں بہت دیر سنبھالی آنکھیں
شام فرقت کے سنبھالے ہوئے پلکوں پہ دیے
سال بھر اب تو مناتی ہیں دیوالی آنکھیں
صبح امید کی صورت وہ فروزاں سے چراغ
لیے ڈھونڈ کے پھر ایسی جمالی آنکھیں .
٭٭٭
31- شاہد کمال
حسین چہرہ دمکتی آنکھیں
حیا میں ڈوبی لجاتی آنکھیں
فسانہ دل کا سنا رہی ہیں
سیاہ زلفیں چمکتی آنکھیں
گھنیری زلفوں کے پیچ و خم میں
الجھ، الجھ کر سلجھتی آنکھیں
گلاب چہرے کی پنکھڑی پر
پھسلتی نظریں بہکتی آنکھیں
تری جبیں کی ہر اک شکن سی
ہر ایک لمحہ بدلتی آنکھیں
سرشک قامت ہے گلرخوں میں
گلاب جیسی مہکتی آنکھیں
کمانِ ابرو کے جام جم سے
شراب جیسی چھلکتی آنکھیں
لہو کی پازیب کی کھنک پر
خرام کرتی چھمکتی آنکھیں
تمہارے ہاتھوں کی چوڑیوں سی
کھنن، کھنن، کھن، کھنکتی آنکھیں
تمہاری پلکوں کے اَبر نم سے
ٹپکتی شبنم برستی آنکھیں
ہمارے دل میں اُتر رہی ہیں
سناں کی صورت کھٹکتی آنکھیں
رُلا، رُلا کر ہنسا رہی ہیں
ہنسا، ہنسا کے رلاتی آنکھیں
فسانہ دل کا سنا رہی ہیں
تمہاری یہ گنگناتی آنکھیں
٭٭٭
32- داغ دہلوی
کیوں چُراتے ہو دیکھ کر آنکھیں
کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں
ضعف سے کچھ نظر نہیں آتا
کر رہی ہیں ڈگر ڈگر آنکھیں
چشمِ نرگس کو دیکھ لیں پھر ہم
تم دکھا دو جو اِک نظر آنکھیں
ہے دوا ان کی آتشِ رخسار
سینکتے ہیں اس آگ پر آنکھیں
کوئی آسان ہے ترا دیدار
پہلے بنوائے تو بشر آنکھیں
جلوۂ یار کی نہ تاب ہوئی
ٹوٹ آئی ہیں کس قدر آنکھیں
دل کو تو گھونٹ گھونٹ کر رکھا
مانتی ہی نہیں مگر آنکھیں
نہ گئی تانک جھانک کی عادت
لئے پھرتی ہیں در بدر آنکھیں
کیا یہ جادو بھرا نہ تھا کاجل
سرخ کر لیں جو پونچھ کر آنکھیں
ناوک و نیشتر تری پلکیں
سحر پرداز و فتنہ گر آنکھیں
یہ نرالا ہے شرم کا انداز
بات کرتے ہو ڈھانک کر آنکھیں
خاک پر کیوں ہو نقشِ پا تیرا
ہم بچھائیں زمین پر آنکھیں
نوحہ گر کون ہے مقدّر کا
رونے والوں میں ہیں مگر آنکھیں
یہی رونا ہے گر شبِ غم کا
پھوٹ جائیں گی تا سحر آنکھیں
حالِ دل دیکھنا نہیں آتا
دل کی بنوائیں چارہ گر آنکھیں
داغ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
ان کو دے دو نکال کر آنکھیں
٭٭٭
33- نا معلوم
گہری گہری تکتی آنکھیں
راز چھُپا کر رکھتی آنکھیں
صاف آئینے میں بھی جیسے
خود کو دیکھ نہ سکتی آنکھیں
کُل عالم میں دیکھیں مَیں نے
دیکھ دیکھ کر تھکتی آنکھیں
پل دو پل کو ظاہر ہو کر
پردوں میں جا بستی آنکھیں
٭٭٭
34- ساغر صدیقی
متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں
فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں
جہان رنگ دبو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میں
لگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں
اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں
اٹھاتی ہیں بہار نو کے نذرانے تری آنکھیں
وہ دیوانے زمام لالہ و کل تھام لیتے ہیں
جنہیں منسوب کر دیتی ہیں ویرانے تری آنکھیں
شگوفوں کو شراروں کا مچلتا روپ دیتی ہیں
حقیقت کو بنا دیتی افسانے تری آنکھیں
٭٭٭
35- شکیبؔ جلالی
آئینۂ جذباتِ نہاں ہیں تری آنکھیں
اک کار گہِ شیشہ گراں ہیں تری آنکھیں
سر چشمۂ افکار جواں ہیں تری آنکھیں
تابندہ خیالات کی جاں ہیں تری آنکھیں
اندازِ خموشی میں ہے گفتار کا پہلو
گویا نہ سہی، چپ بھی کہاں ہیں تری آنکھیں
جاؤں گا کہاں توڑ کے زنجیرِ وفا کو
ہر سو مری جانب نگراں ہیں تری آنکھیں
کہنا ہے وہی جس کی توقع ہے تجھے بھی
مت پوچھ مرے دل کی زباں ہیں تری آنکھیں
پلکوں کے جھروکوں سے سبو جھانک رہے ہیں
امید گہِ تشنہ لباں ہیں تری آنکھیں
یوں ہی تو نہیں امڈی چلی آتی ہیں غزلیں
پہلو میں مرے، زمزمہ خواں ہیں تری آنکھیں
٭٭٭
36- اثر لکھنوی
ہائے رے پیاری پیاری آنکھیں
متوالی رتناری آنکھیں
غارت دل پر ٹوٹ پڑی ہے
شیام نگر کی کماری آنکھیں
اس گھڑی دیکھو ان کا عالم
نیند سے جب ہوں بھاری آنکھیں
زہر کبھی ہیں اور کبھی امرت
ان کی باری باری آنکھیں
جن کو جھپکنا یاد نہیں ہے
حیرت کی ہیں وہ ماری آنکھیں
تکتی ہیں اب تک راہ کسی کی
صبح و شام شکاری آنکھیں
کون اثرؔ کی نظر میں سمائے
دیکھی ہے اس نے تمہاری آنکھیں
٭٭٭
37- سحر فریاد
میرے دلبر کی دل نشیں آنکھیں
کیا کہوں ہائے وہ حسیں آنکھیں
مجھ سے کچھ کچھ جنہیں عداوت ہے
توبہ توبہ، وہ خشمگیں آنکھیں
جن کو چھپ چھپ کے دیکھتی ہوں میں
مجھ پہ بگڑیں وہ آتشیں آنکھیں
میری قسمت کا چین چھین کے بھی
غیر کی ہو گئیں حسیں آنکھیں
دل کی بے چینیوں کو چین ملے
جب کبھی دیکھوں سرمگیں آنکھیں
روز و شب خواب میں جنہیں دیکھوں
کبھی دیکھی تو ہیں کہیں آنکھیں
٭٭٭
38- علی سردار جعفری
وہ مری دوست وہ ہمدرد وہ غم خوار آنکھیں
ایک معصوم محبت کی گنہ گار آنکھیں
شوخ و شاداب و حسیں سادہ و پرکار آنکھیں
مست و سرشار و جواں بے خود و ہشیار آنکھیں
ترچھی نظروں میں وہ الجھی ہوئی سورج کی کرن
اپنے دزدیدہ اشاروں میں گرفتار آنکھیں
جنبش ابرو و مژگاں کے خنک سائے میں
آتش افروز جنوں خیز شرر بار آنکھیں
کیفیت دل کی سناتی ہوئی ایک ایک نگاہ
بے زباں ہو کے بھی وہ مائل گفتار آنکھیں
موسم گل میں وہ اڑتے ہوئے بھونروں کی طرح
غنچۂ دل پہ وہ کرتی ہوئی یلغار آنکھیں
کبھی چھلکی ہوئی شربت کے کٹوروں کی طرح
اور کبھی زہر میں ڈوبی ہوئی تلوار آنکھیں
کبھی ٹھہری ہوئی یخ بستہ غموں کی جھیلیں
کبھی سہما ہوا سمٹا ہوا اک پیار آنکھیں
کبھی جھکتے ہوئے بادل کبھی گرتی بجلی
کبھی اٹھتی ہوئی آمادۂ پیکار آنکھیں
نوک ابرو میں کبھی تلخیِ انکار لیے
کبھی گھولے ہوئے شیرینیِ اقرار آنکھیں
آنچ میں اپنی جوانی کی سلگتی چتون
شبنم اشک میں دھوئی ہوئی گلنار آنکھیں
حسن کے چاند سے مکھڑے پہ چمکتے تارے
ہائے آنکھیں وہ حریف لب و رخسار آنکھیں
عشوہ و غمزہ و انداز و ادا پر نازاں
اپنے پندار جوانی کی پرستار آنکھیں
روح کو روگ محبت کا لگا دیتی ہیں
صحت دل جو عطا کرتی ہیں بیمار آنکھیں
صحن زنداں میں ہے پھر رات کے تاروں کا ہجوم
شمع کی طرح فروزاں سر دیوار آنکھیں
٭٭٭
39- عمران نیازی
اُس نے ہاتھوں میں مرے ایسے سما دی آنکھیں
جب بھی تھاما ہے قلم میں نے بنا دی آنکھیں
وہ بھی کیا را ات کہ شب بھر نا اندھیرا دیکھا
شمع بجھنے جو لگی اُس نے جلا دی آنکھیں
لوگ جب وجہِ سخن پوچھنے آئے مجھ سے
میں نے چالاکی سے شعروں میں چھپا دی آنکھیں
ضبط کی آگ میں جل جائیں کہ راکھ ہو جائیں
اشک نہ دیکھیں مری ضبط کی عادی آنکھیں
ہاں خد و خالِ رُخِ یار نہیں یاد مگر
جھوٹ کہتے ہیں جو کہتے ہیں بھلا دی آنکھیں
میں تو مشکل سے کیئے بیٹھا تھا قابو خود پہ
یوں ہوا پھر کہ مجھے اُس نے دکھا دی آنکھیں
ہم نے آنکھوں میں بسایا رُخِ جاناں لیکن،
ذہن کے سارے دریچوں میں سجا دی آنکھیں
دل مرا سادہ و بے رنگ بہت تھا پہلے
اِک مصور نے یہاں آ کے بنا دی آنکھیں
گل کسی طور میسر نہ ہوئے تو آخر
ہم نے جاناں تیرے رستے پہ بچھا دی آنکھیں
٭٭٭
40- نامعلوم
تیری آنکھیں ہیں بولتی آنکھیں
حوصلہ میرا تولتی آنکھیں
تھام کر بیٹھئے زمینِ دل
رقص کرتی ہیں ڈولتی آنکھیں
دھوپ جھلساتی شہر پہ اتری
تیرا سایہ ٹٹولتی آنکھیں
جسم گرتا ہے تھک کے بستر پر
خواب منظر ہیں کھولتی آنکھیں
خامشی میں کبھی کے مر جاتے
کان میں رس وہ گھولتی آنکھیں
تیر کھینچے، کمانِ ابرو سے
پھر کلیجے کو تولتی آنکھیں
٭٭٭
41- ماہ نور خانزادہ
عاشق زلف و رخ دلدار آنکھیں ہو گئیں
مبتلائے کافر و دیندار آنکھیں ہو گئیں
سرخ پلکیں ہو گئیں خوں بار آنکھیں ہو گئیں
دیکھ لو اب زخم دامن دار آنکھیں ہو گئیں
دیکھ کر محو جمال یار آنکھیں ہو گئیں
جام ہائے شربت دیدار آنکھیں ہو گئیں
آئیو اے اشک اب بہنے لگا ہے خون گرم
بھیجیو پانی کہ آتش بار آنکھیں ہو گئیں
لڑ گئیں تم سے جو آنکھیں ہو گئی اک بار صلح
کیجئے دو تین باتیں چار آنکھیں ہو گئیں
کشتیِ مے لے کے اے ساقی پہنچ بہر خدا
بے ترے محفل میں دریا بار آنکھیں ہو گئیں
ہے تصور بسکہ آنکھوں میں خط رخسار کا
آئنے کی طرح جوہر دار آنکھیں ہو گئیں
اے بت کافر ہے بس بے عیب ذات اللہ کی
لب ترے عیسیٰ ہوئے بیمار آنکھیں ہو گئیں
بہہ گئیں پلکیں برنگ خس مری اشکوں کے ساتھ
اب تو نظروں میں گل بے خار آنکھیں ہو گئیں
چشم بد دور ان کو گردش ہے عجب انداز سے
اے پری آہوئے خوش رفتار آنکھیں ہو گئیں
میرے پاؤں کی طرح ہیہات اب گردش میں ہیں
کس کی یہ وارفتۂ رفتار آنکھیں ہو گئیں
عین نادانی ہے اب ان سے جو رکھیے چشم داشت
شکل مژگاں پھر گئیں بیزار آنکھیں ہو گئیں
لخت دل یاقوت میں آنسو ہیں موتی آب دار
آؤ دیکھو جوہری بازار آنکھیں ہو گئیں
دو تو ہیں چشم سخن گو گر نہیں ہے اک دہن
چپ نہ رہیے قابل گفتار آنکھیں ہو گئیں
عشق پنہاں دیدۂ گریاں نے ظاہر کر دیا
ہنسنے کی جا ہے لب اظہار آنکھیں ہو گئیں
ابلق چشم صنم کس ناز سے گردش میں ہے
خوب کاوے ہوتے ہیں رہوار آنکھیں ہو گئیں
ہر کسی نے آنکھ جب ڈالی گلوئے صاف پر
ہنس کے فرمایا گلے کا ہار آنکھیں ہو گئیں
تول لیتے ہیں سدا نظروں میں جنس حسن کو
پلۂ میزاں مری اے یار آنکھیں ہو گئیں
ہے تصور روز و شب کس کی طلائی رنگ کا
چشم نرگس کی طرح زر دار آنکھیں ہو گئیں
کہتے ہو سب دیکھتے ہیں تیری آنکھوں سے مجھے
سچ کہو اغیار کی بے کار آنکھیں ہو گئیں
چلیے اب صحرا سے کوئے یار انہیں دکھلائیے
آبلوں سے پاؤں میں دو چار آنکھیں ہو گئیں
پھول نرگس کے بنائے کب وہاں معمار نے
یہ ہماری نقش بر دیوار آنکھیں ہو گئیں
اے خدا شاہد ہمارا ثم وجہ اللہ ہے
جب نگہ کی بت پہ تجھ سے چار آنکھیں ہو گئیں
آپ سا ان کو بنایا عشق تیر یار نے
ہے سری تار نگہ سوفار آنکھیں ہو گئیں
٭٭٭
42- نسرین سید
ایاغ و مینا، خمار و مستی، فسوں، سراپا غزال آنکھیں
ہیں محوِ حسنِ خیال، یا ہیں خیالِ حسن و جمال آنکھیں
زمینِ دل پر گُلاب مہکے، یہ معجزے ہیں کسی نظر کے
کریں مزیّن مرے فلک کو، ستاروں سی لازوال آنکھیں
ہر ایک پل ہے نیا تجسّس، وہی تلوّن نظر نظر میں
ہر ایک لمحہ کوئی تحیّر ہر ایک لحظہ سوال آنکھیں
جو ملتفت ہوں، تو قطرہ قطرہ رگوں میں ٹھنڈک اترتی جائے
سوادِ جاں میں کریں اُجالا یہ مشعلوں سی کمال آنکھیں
ہے جسم و جاں میں یہ مُشکباری، یہ نغمہ سنجی انہی کے دم سے
مہکتی ہر دم، سراپا سرگم، یہی ہیں وہ بے مثال آنکھیں
٭٭٭
43– نا معلوم
گلاب چہرہ، غزال آنکھیں
یہ نقش گر کا کمال آنکھیں
مرے تصور میں سب سے روشن
یہ تیرا سنگِ جمال آنکھیں
ہر ایک غم کے لیے قیامت
یہ ترچھی مژگاں، جلال آنکھیں
نظر لگے گی انہیں کسی کی
لگا لے چشمہ سنبھال آنکھیں
کتاب چہرہ بھی امتحاں ہے
جواب لب اور سوال آنکھیں
تُو آپ اپنی مثال خود ہے
اور آپ اپنی مثال آنکھیں
چھلک بھی جاویں، چمک بھی جاویں
سُراغِ ہجر و وصال آنکھیں
حسین مکھڑا، کمالِ قدرت
یہ گیسو، لب، ٹھوڑی، گال، آنکھیں
علیؔ کو مسحور کر رہی ہیں
تمہاری یہ پُر خیال آنکھیں
٭٭٭
44- نا معلوم
سب کی آنکھوں سے ہیں اُس بُت کی نرالی آنکھیں
تم نے دیکھی ہیں کبھی بولنے والی آنکھیں
منتخب کتنی ہوئی ہوں گی اماوس راتیں
تب کہیں جا کے بنی ہوں گی وہ کالی آنکھیں
سب سے گھُل مل کہ وہ ہنس بول رہے تھے لیکن
مجھ کو دیکھا سرِ محفل تو چرا لی آنکھیں
کہہ دئیے آنکھوں ہی آنکھوں میں فسانے اُس نے
میں نے اُس شوخ کی آنکھوں میں جو ڈالی آنکھیں
شہر سے ہونے لگی ہے مجھے وحشت اعجاز
جب سے دیکھی وہ غزالوں سی غزالی آنکھیں
٭٭٭
45- نا معلوم
اگرچہ جان کا میری وبال آنکھیں ہیں
قسم خدا کی تمھاری کمال آنکھیں ہیں
ہر ایک چہرے پہ رب نے سجائی ہیں آنکھیں
مگر جناب سی تو خال خال آنکھیں ہیں
عذاب قلب تو اندر کی بات ہے لیکن
جہان سامنے میری نڈھال آنکھیں ہیں
جواب ڈھونڈتے دنیا گئی سمندر تک
نصاب عشق کا مبہم سوال آنکھیں ہیں
کسی سے پھر تو نہیں پھیر لی نگاہ لطیف
حضور! آپ کی کچھ لال لال آنکھیں ہیں
کمال کا بھی سبب تھی تمھاری نظر کرم
زوال کا بھی سبب با کمال آنکھیں ہیں
سوال یہ تھا کہ ان کی مثال لائے کوئی
جواب یہ تھا کہ وہ بے مثال آنکھیں ہیں
ہماری غزل پہ دنیا کی آنکھ کیوں نہ ہو
ہماری غزل میں تیری غزال آنکھیں ہیں
٭٭٭
46- خار دہلوی
دیکھتا رہتا ہوں میں تیری غزالی آنکھیں
دیکھ تو تو بھی ذرا میری سوالی آنکھیں
چشم آہو سے نہ نرگس سے ہے تشبیہ درست
ہیں مثال آپ ہی وہ اپنی نرالی آنکھیں
برہمی حسن کو کچھ اور جلا دیتی ہے
وہ جمالی تیرا چہرہ وہ جلالی آنکھیں
آ کے ہر روز تصور میں بنا جاتی ہے
ایک رنگین سی تصویر خیالی آنکھیں
خط پڑھے یا نہ پڑھے آئے نہ آئے وہ شوخ
خارؔ کیوں بھیج نہ دیں دیکھنے والی آنکھیں
٭٭٭
47- ساحر لدھیانوی
ہر طرح کے جذبات کا اعلان ہیں آنکھیں
شبنم کبھی شعلہ کبھی طوفان ہیں آنکھیں
آنکھوں سے بڑی کوئی ترازو نہیں ہوتی
تلتا ہے بشر جس میں وہ میزان ہیں آنکھیں
آنکھیں ہی ملاتی ہیں زمانے میں دلوں کو
انجان ہیں ہم تم اگر انجان ہیں آنکھیں
لب کچھ بھی کہیں اس سے حقیقت نہیں کھلتی
انسان کے سچ جھوٹ کی پہچان ہیں آنکھیں
آنکھیں نہ جھکیں تیری کسی غیر کے آگے
دنیا میں بڑی چیز مری جان! ہیں آنکھیں
٭٭٭
48- اندرا ورما
ہزار خواب لیے جی رہی ہیں سب آنکھیں
ترے بنا ہیں مگر میری بے سبب آنکھیں
چمکتے چاند ستارو گواہ تم رہنا
لگی رہی ہیں فلک سے تمام شب آنکھیں
تمہارے سامنے رہتی ہیں نیم وا ہمدم
حیا شناس بہت ہیں یہ با ادب آنکھیں
بس ایک دید کی حسرت سجا کے پلکوں پر
ملیں گی تم سے خیالوں میں بے طلب آنکھیں
صلہ دیا ہے محبت کا تم نے یہ کیسا
مسرتوں میں بھی رونے لگی ہیں اب آنکھیں
٭٭٭
49- نامعلوم
اک روپ کے ساگر میں نہاتی رہیں آنکھیں
کچھ خواب مرے دل میں سجاتی رہیں آنکھیں
یادوں کے دریچے پہ وہ دیتی رہی دستک
کل رات بہت مجھ کو ستاتی رہیں آنکھیں
پلکوں پہ ٹپکنے نہ دیا ایک بھی آنسو
یہ رسم محبت بھی نبھاتی رہیں آنکھیں
احساس کے زینے سے اترتی رہی خوشبو
مدہوش مرے دل کو بناتی رہیں آنکھیں
٭٭٭
50- غالب ایاز
بس تیرے لیے اداس آنکھیں
اف مصلحت نا شناس آنکھیں
بے نور ہوئی ہیں دھیرے دھیرے
آئیں نہیں مجھ کو راس آنکھیں
آخر کو گیا وہ کاش رکتا
کرتی رہیں التماس آنکھیں
خوابیدہ حقیقتوں کی ماری
پامال اور بدحواس آنکھیں
درپیش جنوں کا مرحلہ اور
فاقہ ہے بدن تو پیاس آنکھیں
٭٭٭
51- نا معلوم
شام تک پھرتی رہیں ہجر کی ماری آنکھیں
ڈھل گئی شام تو پھر رات سے ہاری آنکھیں
ہم اسی آس پہ آنکھوں کو کھلا رکھتے ہیں
لوٹ آئیں نہ کسی روز تمہاری آنکھیں
اشک ساگر بنے تحریر بنی ہے زنجیر
جب سے بچھڑی ہیں تری پیار سے پیاری آنکھیں
گاتے گاتے ہمیں اک شخص کی یاد آتی ہے
بھیگ جاتی ہیں سرِ بزم ہماری آنکھیں
جانے کیا بات ہے کیوں دیکھتی رہتی ہیں
میری آنکھوں کی طرف شہر کی ساری آنکھیں ____!!
٭٭٭
52- ڈاکٹر ابرار عمر
جب بھی آتی ہیں خیالوں میں تمہاری آنکھیں
بھیگ جاتی ہیں کسی غم سے ہماری آنکھیں
ڈھل گئی شام، اندھیرے نے طنابیں گاڑیں
سو گئیں تھک کے ترے ہجر کی ماری آنکھیں
تم مرے پاس نہیں پھر بھی تمہارا چہرہ
سوچتی رہتی ہیں یہ درد کی ماری آنکھیں
سلسلہ ٹوٹ بھی سکتا تھا بصارت کا کبھی
تھام لیتی نہ اگر آنکھ، تمہاری آنکھیں
منزلِ عشق میں ایسا بھی مقام آیا ہے
لے گئے آنکھوں کے بدلے وہ ہماری آنکھیں
٭٭٭
53- فوزیہ شیخ
ساری دنیا کے چراغوں سے ہیں پیاری آنکھیں
میری منزل کا نشاں ہیں یہ تمہاری آنکھیں
تیرے معصوم سے چہرے کی زیارت کے لیئے
میں نے مانگی ہیں فرشتوں سے ادھاری آنکھیں
چھین لیتے ہو جو یہ دید کی دولت ہم سے
ہم کو بے نور سی لگتی ہیں ہماری آنکھیں۔
مُجھ کو دنیا کا کوئی حُسن دکھائی نہ دیا
مِرے اعصاب پہ رہتی ہیں یہ طاری آنکھیں
ایک لمحے کو بچھڑنے کا جو سوچا دل نے
رات بھر کرتی رہیں زخم شماری آنکھیں
میری قسمت کے اندھیروں کو مٹانے کے لیئے
عرش سے میرے لیئے رب نے یہ اُتاری آنکھیں
وہ بھی یوسف کی طرح آئے جو کبھی محفل میں
غرق حیرت ہوں وہاں ساری کی ساری آنکھیں
٭٭٭
54- محسن نقوی
تمام شب یُونہی دیکھیں گی سُوئے در آنکھیں
تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں
طلوعِ صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جائیں کہیں !
یہ دشتِ شب میں ستاروں کی ہمسفر آنکھیں
ستم یہ کم تو نہیں دل گرفتگی کے لیے !
میں شہر بھر میں اکیلا، اِدھر اُدھر آنکھیں
شمار اُس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرِتا ہے چھین کر آنکھیں
وہ پاس تھا تو زمانے کو دیکھتی ہی نہ تھیں
بچھڑ گیا تو ہُوئیں پھر سے در بدر آنکھیں
ابھی کہاں تجھے پہچاننے کی ضد کیجئے !
ابھی تو خود سے بھی ٹھہری ہیں بے خبر آنکھیں
میں اپنے اشک بچاؤں گا کس طرح محسن ؟
زمانہ سنگ بکف ہے تو شیشہ گر آنکھیں
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں