FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

یہ انسان

 

 

 

ماجد صدّیقی

(مکمل کتاب ’یہ انسان‘ سے علیحدہ کی ہوئی نظم)

 

یہ انسان

 

 

 

تو کہ ایک ایک تار نظر سے فروزاں ہے میرے خدا

تو کہ خاموش سانسوں کے سازوں کے پردوں کے

ایک ایک ریشے میں جلوہ نُما ہے

تو کہپ ایک ایک دھڑکن کے

حسنِ تناسب کی جاں

موسموں کی زباں

ذرّے ذرّے میں پوشیدہ

سرِّ نہاں ہے

تو کہ جس کی رضا سے مرے ہاتھ، میری زباں

میری آنکھوں کی یہ پُتلیاں

دشت در دشت لمبے سفر پہ

مرے سر پہ سایہ کناں ہیں

توہ ادراک و وجدان کی

سر زمیں کا مکیں

میرے ہر لحظہ بیدار تخمِ یقیں کا

خدا ہے

تو کہ میرے ضمیرِ درخشندہ کا

چشمہِ مہر ہے

نقطۂ ابتدا ہے

تو کہ میری نظر سے

ہر اک چیز کو دیکھتا ہے

تو کہ پل پل مرے منہ سے جھڑتی صدا کی ادا ہے

تو کہ میرے لبوں کے

میاں بولتا ہے

تو کہ منصور کے بعد

ہر آشنا کی زباں کے تلے

حرفِ بے تاب بن کر رُکا ہے

تو کہ شوخ اور شنگ۔ ۔ ۔ اور

سنجیدہ افکار کے پیکرِ دل نشیں پر

کہیں جھلملاتی کرن ہے

کہیں جھلملاتی ردا ہے

کہیں نُور کا ایک ہالہ

کہیں روشنی کا تنا سائباں ہے

تو کہ دستِ صبا میں

گلو در گلو حسنِ ترتیب پائی

صدا کا نشاں ہے

تو کہ دستِ ہنرمند کی

جنبشِ آخری کا مرقع ہے

مرغ اور ماہی کی پرواز و جنبش کا اک ولولہ ہے

گردش مہر و مہ کے توازن پہ

قادر ہے

خوشبو کو شاحوں میں

شاخوں کو خوشبو میں

نِت گُوندھتا ہے

تو کہ کلیوں کے ہونٹوں کی

دھیمی کھنک

تخمِ زیرِ زمیں کی چٹک ہے

تو کیہ ابرِ رواں سے اُتر کر

صدف کے دہن سے جھلکتی ہوئی رقص کرتی ہوئی

جھلملاتی دمک ہے

تو کہ ہر چشمِ بینا پہ مُنکشف بھی مگر لاپتہ ہے

تو کہ میری نظر، چشمِ تر، فکر و وجدان

میری زبان و سماعت کی ایک ایک بُن میں

رچا ذائقہ ہے

تجھ سے میں اپنا احوال کہنے کو

کیوں مضطرب ہوں

تو کہ ہر بھید ہر راز ہر بات کو

جانتا ہے

میں کہ اک بلبلہ ہوں

پھٹوں بھی تو پھٹنے کا حق

تو نے مجھ کو دیا ہے

جانتا ہوں کہ تجھ سے شکایت مری

میری بے دانشی ہے صریحاً خطا ہے

پر یہ تیرا خطاکار

میں کہ اک بلبلہ ہوں

پھٹوں بھی تو پھٹنے کا حق

تو نے مجھ کو دیا ہے

جانتا ہوں کہ تجھ سے شکایت مری

میری بے دانشی ہے صریحاً خطا ہے

پر یہ تیرا خطاکار

جس تُند اور تیز لاوے کے آگے کھڑا ہے

اس کے آگے وجود اس کا

تنور کے منبہ میں اک قطرۂ آب ہیک

تیری تخلیق کی اِک اکائی ہے جو

نقش فریاد کا ہے

تجھ سے باعجزو با تمکنت پوچھتا ہے

تو کہ میری نگاہوں کی

ایک ایک تہ میں بسا ہے

میں کہ تیری رضا سے

ہوا اور پانی

اناج اور آتش سے

نُور اور ظلمت سے

کسبِ نمو کر رہا ہوں

میں کہ اپنے لئے

دامنِ لطف جاں کو

بہ تدبیرِ ناقص رفو کر رہا ہوں

میں کہ اپنے نہ ہونے سے

پہلے کے

پُرلطف لمحات کی جستجو کر رہا ہوں

میں نہیں جانتا

میرے ہونے نہ ہونے کا

کیا مدعا ہے

میں کہ ہونا مرا عین تیری رضا ہے

پھر بھی اے ربِّ عالی!

میری جاں کے والی

مری عزّت و آبرو کے محافظ

مرے جیتے لمحوں کے واحدِ نگہدار میرے خدا

میرا جینا

نگاہوں میں میری ہی

کیوں ہو چلا ہے خطا

میں کہ تیرے ہُنر کا مرقع

ترے فکرو ادراک کی

اک اکائی ہوں میرے خدا

میں کہ اپنے حریمِ نگاہ میں

دُہائی ہوں میرے خدا

کیسے مانوں کہ مجھ نقشِ بے مثل کی

اپنے بے مثل خلآق کے

فہم و وجدان سے آشنائی نہ ہو

مجھ دُہائی کی تجھ تک رسائی نہ ہو

بس اِسی اک سہارے پہ

میرے خدا

آج میں

اپنے لمحات و روز و شب و ماہ کے

گرد آلود چہرے کو لے کر

ترے سامنے ہوں کھڑا

میں۔ ۔ ۔ کہ میری رسائی

قمر سے بھی آگے

ترے عرشِ عالی کی رفعت تلک ہے

میں۔ ۔ ۔ کہ ہم جنس میرے

غلاظت کے جوہڑ کے جوہڑ بلو کر

دہن اور شکم کو سکوں بخشتے ہیں

میں کہ ہم جنس میرے

ہر اک گام پر

مجھ فرو مایہ کو

نت نیا ایک کربِ دروں بخشتے ہیں

میں کہ خود اپنے دامن میں

پیہم سُلگتا ہوا اِک شر ر ہوں

میں کہ خود پا سے تا فرق

اک آہ ہوں

پا سے تا فرق

اک مبتلائے فغاں

چشم تر ہوں

میں کہ میری نگاہں کے

تلووں میں

صدوں کے پیہم سفر کی

کسیلی چبھن ہے

چبھن۔ ۔ ۔ ان مناظر کی

میں جن کو ہر گام، ہر موڑ پر

دکھتا آ رہا ہوں

میں کہ میرے خیالوں کے

صفحات پر

ٹیڑھی میڑھی لکیروں کا

اک جال سا ہے

جال اُن ٹیڑھی میرھی لکیروں کا

جو میرے ہاتھوں پہ موجود ہیں

پر مرے ذہن سے منعکس ہو کے

میری ہی راہوں کو اُلجھا رہی ہیں

میں کہ اپنے ہی آنگن میں جھانکوں

تو نت اِک نیا غم نیا روگ

بپھرے بگولوں کی مانند

میرے سکوں کے شجر کو

گرفتار کرنے پہ ہر دم تُلا ہے

میں کہ دیر و زو فردا و امروز کی

آہنی بیڑیوں میں گھرا

جانبِ منزلِ بے نشاں

گامزن ہوں

میں کہ خود چیتھڑا ہوں

مگر سوچتا ہوں

کہ رُوئے زمیں پر

ہر اک جسمِ عریاں کا

میں پیرہن ہوں

میں کہ خود میری شاخوں پہ

ہے گرد ایسی

کہ جیسے گدا کے تن خشک پر

کوئی گدڑی سجی ہو

میں۔ ۔ ۔ کہ اپنے خیالوں میں

شاہوں کے جسموں پہ

سجتی قباؤں کی پہلی شکنِ ہوں

میں کہ۔ ۔ ۔ میرے لہو کی لجاجب

مرے ہمرہوں کے لبوں سے

لپکتی ہوئی التجا ہے

میں کہ میرے لہو کی تمازت

مختار لوگوں کے ایواں منّور ہیں

شاہوں کے چہروں پہ

مجھ سے ضیا ہے

میں۔ ۔ ۔ کہ میری نگاہوں میں

تپتی سلاخیں لہو کی

جہاں بھی کہیں جا کے رُکتی ہیں

رُک کر پلٹتی ہیں

منظر کی حدّت سے کچھ اور تپ کر

مرے دل کو تازہ پیام اجل

دمبدم دے رہی ہیں

میں کہ میں ہوں جسے صفحۂ دہر پر

پھر اُبھرنا نہیں ہے

میں کہ۔ ۔ ۔ میری نگاہوں کو

جو زاویہ

اتنے برسوں کی پیہم ریاضت سے

تُو نے دیا ہے

میں۔ ۔ ۔ تری دَین

تیری عطا کو نہ برتوں تو میرے خدا

یہ بھی کفرانِ نعمت سے

کم تونہیں ہے

اور اگر

میرے اس حاسۂ دردمندی کی نعمت کی بنیاد پر

تیرا پر تو ہے

سایہ تیرا۔ ۔ ۔ تو لے پھر

مرا ایک اک حرف بے دم

ترے سامنے

اپنے سینے کو شق کر کے

تخمِ تہ خاک کی مثل پھٹنے لگا ہے

تو لے یہ قلم عالمِ سجدہ ریزی میں

شکوؤں کے گوہر پرونے لگا ہے

تو لے

جو بھی کچھ میری آنکھوں میں

چُبھتا ہے

میرا جُنون

اُس کو تحریر کے پیکروں میں

سمونے لگا ہے

یہ اک پنکھری ہے تروتازہ و نو شگفتہ

سرشاخِ فرخندہ و سرکشیدہ

جہاں میں ترے

آنکھ کھلتے ہیں جس پر

جھکی ہے کسی دستِ گلچیں کی

جابر ہتھیلی

وہ ابرِ رواں سے گری بوند اور

ریگ کے خشک حلقوم میں

ہست سے بود کی گھٹیوں میں کہیں کھو گئی ہے

وہ مہر درخشاں کی پہلی کرن

بطنِ شبنم میں اُتری ہے ایسی

کہ شبنم کا پیکر ہوا ہو گیا ہے

وہ بجلی کا کوندا

کسی شاخِ سرسبز کا

پیرہن لے اڑا ہے

وہ مکھی سے مکڑے نے

جبڑے کو اپنا رفو کر لیا ہے

وہ چِڑیا کے بچّے یہ جھپٹا ہے کوّا

وہ شہباز نے فنِ پرواز دِکھلا کے

کنجشک کو در گلو کر لیا ہے

یہ دریا کہ موجوں کی

حدّت سے بپھرا

تموّج، تلاطم کے نشّے میں

دھُت ہے

یہ دریا بھی آخر

سمندر کی دہلیر پر سر رگڑنے لگا ہے

سمندر کہ خود

مہر کے وار سے تِلملاتا ہوا آسماں تک گیا ہے

ہواسے خلا تک

ہوا کے مکینوں میں اِک کھلبلی ہے

تہِ آب مچھلی

کسی اپنی ہم جنس مچھلی کی

جانِ فرد مایہ سے کھیلتی ہے

تہِ آسماں، برسرِ خاک

کیا کیا مناظر ہیں !

کیا کیا بتاؤں !!

کہیں میش و گاؤ پہ گرگِ گرسنہ کی یلغار دیکھوں

کہیں شیر کے سر پہ

وحشت کے ہاتھوں

نرالی فضیلت کی دستار دیکھوں

کہیں لہلہاتی ہوئی کھیتیوں پر

فلک سے برستے ہوئے

تُند ژالوں کی بوچھاڑ دیکھوں

وہ آندھی اٹھی ہے

وہ طوفان بپھرا ہے

کتنے شجر سرنگوں ہو گئے ہیں

وہ بادل سے چھاجوں

برستا ہے پانی

وہ پانی سے کتنے مکانوں کے پیکر

بُروئے زمیں

بے ستوں ہو گئے ہیں

اِدھر ہیں مکیں ان مکانوں کے

جن کو

ہمیشہ اِسی روگ کا سامنا ہے

’’یہ میں ہوں

یہ میری بہن ہے

یہ بھائی ہے میرا

یہ میں جس کو

آسائشوں کی طلب میں

نہ ایماں عزیز اور نہ اپنا لہو ہی

یہ میری بہن

جس کے اپنے بکھیڑے ہیں

لحظہ بہ لحظہ لہو پینے والے

یہ اُس کی توقع کے صحرا میں

کتنی تمنّاؤں کے

سر دلاشے پڑے ہیں

وہ لاشے کہ مجھ کو

ہر اک گام پر گھورتے ہیں

یہ بھائی ہے میرا

کہ جس کے نصیبوں میں

وہ کچھ بھی شامل نہیں ہے

جسے میرا پائے

طلب خاکِ پا جانتا ہے

یہ میں ہوں

یہ میری بہن ہے

یہ بھائی ہے میرا

یہی ایک چکر

ہر اک ذی نفس کے

قدم میں پڑا ہے ‘‘

گراں ہے کہیں

اپنے آبا کی خدمت

کوئی اپنی اولاد سے مُنفعل ہے

کوئی اپنے ہونے نہ ہونے کے احساس میں گھر کے

میری طرح پابۂ گل ہے

اِدھر میری تہذیب کی

نرم نازک ردا ہے

کہ جس سے اُدھر

جھانک کر دیکھتا ہوں

تو وحشت ہی شحت کا

ظلمت ہی ظلمت کا جنگل اُگا ہے

وہ زردانے بے نواؤں کی

چیخوں سے

اپنے تلذد کو سازِ ہوس پر

نئے ایک سر گم کو پیکر دیا ہے

وہ دستِ ستمگر نے

مظلوم کے نرخوں سے

اپنی قبا پر نئے پھول ٹان کے

وہ کوئی فرومایہ

انصاف کی بھیک کے رنج میں

پاؤں سے تابہ سر اک تحیّر میں گُم

قیدخانے کے دیوار و در سے

اِدھر جھانکتا ہے

وہ اپنے لہُو کی تپش سے کسی نے

کسی کی رگوں کا لہُو پی لیا ہے

وہ اک دستِ مکّار آگے بڑھا ہے

وہ اک بے گنہ اپنی پونجی سے پل؁بھر کو غافل ہوا ہے

وہ قینچی چلی ہے

وہ ظلمت جہالت کا پردہ تنا ہے

کوی لوٹتا ہے کوئی لُٹ گیا ہے

وہ اِک ابنِ آدم وہ ہم جنس میرا

وہ جس کا لہُو

صبح سے تابہ شب

رگ بہ رگ کھولتا ہے

وہ سُورج کی گرمی میں

جس کا تنِ نرم

آہن سے بھی سخت تر ہو گیا ہے

وہ بچّے بِلکتے ہیں جس کے

کہ اُس کی کمائی کی چادر

جو سر پر تنے تو نہ پیروں کو پہنچے

جو پیروں کو پہنچے تو سر تلملائے

وہ اک ابنِ آدم وہ ہم جنس میرا

ہر اک راہ، ہر گام پر ڈگمگائے

اُدھر کچھ سگانِ تنو مند بھی ہیں

کہ اِک ابن آدم کے

ہمدم ہوئے ہاں

سگانِ تنومند۔ ۔ ۔ جن کے لہو میں

کسی اِبن آدم

کسی کیا

ہزاروں ہی ابنائے آدم کے ہاتھوں سے

نوچے

نوالوں کی حدّت رچی ہے

کہیں گھوڑ سواروں کے نیزوں پہ

لاکھوں ہزاروں کے سودے

کہیں ابنِ آدم کی آنتوں میں ناسور محرومیوں کے

بٹیروں کے ریچھوں کے کُتوں کے دنگل پہ

انساں کے ہاتھوں کہیں زر کی بارش

کہیں بیوگاں کے گھروندوں سے

جلتے دلوں کا دھُواں اُٹھ رہا ہے

کہیں گھوڑ سواروں کی

دوڑوں کے منظر

کہیں دوڑ ابنائے آدم کے ہی درمیاں ہے

کوئی نسل کے ناز میں منہمک ہے

کوئی رنگ کو اپنی عظمت کا بنیر بنا کر

بڑھا جا رہا ہے

کوئی دانش و عقل کے زعم میں ہے

کوئی اپنے خوں کی تمازت سے

اپنے مقابل کے ہر شخص کو

روندتا ہے

کہیں دانش و فکر کی کھیتیوں میں

رموز اور اسرار کے تخمِ پنہاں

نئے پھُول، تازہ ثمر دے رہے ہیں

کہیں شق ہے ذرّے کا سینہ

تو اُس سے

پئے ابنِ آدم نئی قوّتوں کے

علم بن رہے ہیں

کہ انسان۔ ۔ ۔ جس کو ہے احساس اپنی فرومائے گی کا

اسی خوف سے قوتوں کی طلب میں

لئے ایک انبوہ اپنی جلو میں

پہاڑوں چٹانوں کو سر کر رہا ہے

کہیں چاند کے فرق پر جا کے اپنے قدم دھر رہا ہے

کہیں اُس کے

اپنے تسلط کی سرحد پہ

پہرہ ہے اُس کی ہوس کا کچھ ایسا

کہ اُس نے حدوں کی بُن و بیخ

اپنے ہی ہم جنس

خوں سے اٹھائی ہوئی ہے

کسی کو کسی ہم نفس سے الجھنے پہ اکسا رہا ہے

کسی کو نئے مشو رے دے رہا ہے

کسی کے لئے اسلحہ لا رہا ہے

کہی خاک اور خوں میں

لتھڑے ہوئے

پیکران فرد مایہ پر ہنس رہا ہے

کسی ایک خطے پہ بارود کی

چادریں تانتا ہے

کسی ایک خطے کے محتاج لوگوں کا رازق بنا ہے

یہ انسان یہ تیرا شہکار میرے خدا

اپنی بے مائے گی اپنی بے دانشی کو کہاں تک

چھپاتا رہے گا

کہاں تک یہ

فرعون و شدّ ادونمرود بن کر

بن نوع انساں کو

اپنا اناؤں کی چوکھٹ پہ

سجدے کراتا رہے گا

کہاں تک یہ تہذیب کے نام پر

روز ترتیب پاتی

تواریخ کے ہر ورق پر

جہالت کے اور جارحیت کے

جنگل گاتا رہے گا

کہاں تک یہ انسان

یہ تیرا شہکار میرے خدا

خونِ ہم جنس کے قطرے قطرے کو

قدموں کی سیڑھی بنا کر

نئی رفعتوں تک لپکتارہے گا

کہاں تک اِسے جسم کے

اقتضا کے جنوں میں

ابھی خوار ہونا ہے

اوروں کو بھی خوار کرنا ہے

ہمراہ اپنے

کہاں تک اِسے رُوح کی

عظمتوں، رفعتوں سے تعرض رہے گا

کہ اب ددرو وہ کون سا آئے گا میرے خدا

جس میں انسان عاروں سے

اس خطۂ ارض کی

ایک ہی جست میں

سارے جہل اور ضلالت کی پابندیوں سے نکل کر

خلاؤں کی پہنائیوں سے گزرتا ہوا

سطحِ ماہتاب پر جلوہ گر ہو سکے گا

اور ماہتاب پر بھی پہنچ کر یونہی

بھولے بھٹکے پرندوں کی مانند

ایک ایک ٹکڑی میں

اس خطۂ ارض کے ہم نشینوں کو

تقسیم کرتا رہے گا

کہاں تک یہ انسان

یہ تیرا شہکار میرے خدا

اپنی عظمت سے

آنکھیں چراتا رہے گا

کہاں تک یہ انسان، آدم کا بیٹا

یہ ہابیل و قابیل کے خوں کی کھیتی

نکل کر بہتِ بریں سے زمیں پر

زمیں سے تہِ خاک جاتے ہوئے

بعد میں آنے والوں کی تضحیک کے

دُکھ اُٹھاتا رہے گا

کہاں تک یہ اپنا لہو چاٹ کر

روز و شب کی تہوں میں سماتا رہے گا

کہاں تک یہ تہذیب کے نام پر

روز ترتیب پاتی

تواریخ کے ہر ورق پر

جہالت کے اور جارحیت کے جنگل اگاتا رہے گا

٭٭٭

تشکر: یاور ماجد جنہوں نے مکمل کتاب  کی ٹیکسٹ فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید