FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

یاور کے نام

 

 

(مکمل کتاب ‘یہ انسان‘ سے الگ کی ہوئی ایک طویل نظم)

 

 

ماجد صدّیقی

 

 

 

یاور کے نام

 

(دوسرے مارشل لاء سے پہلے لکھی گئی ایک نظم)

 

 

مرے ننھے بچّے

تری گدگدی سے

مری مسکراہٹ نہیں لوٹ سکتی

میں پتھر نہیں ہوں

مگر میری آنکھیں

کسی سخت سے سخت تر کانچ میں منقلب ہو چکی ہیں

مری خامشی عہد کی خامشی ہے

کہ یہ کچھ دنوں ہی کا قصّہ نہیں ہے

مری زندگی کے چہل سال

شاہد اسی بات کے ہیں

کہ اس سرزمیں پر

مرے خواب، میرے قیافے

مری آرزوئیں

سبھی دمبدم ریزہ ریزہ ہوئے ہیں

مرے ننھے بچّے !

یہ باتیں تو بالا ہیں تیری سمجھ سے

مگر کیا کروں میں

کہ ضبط سخن بھی تو بس میں نہیں ہے

مجھے یاد پڑتا ہے

جب بھی میں تجھی سا کھلونا کبھی

اپنے ماں باپ کا تھا

تو اسکول جاتے ہوئے میرا بستہ

مہاجن مرے گاؤں کا

چھین لیتا تھا مجھ سے

وہ کہتا تھا

’’لڑکے !‘‘

ترا باپ مسلم ہے

اور مسلموں کا نصیبہ ہے

مقروض رہنا

یہ باتیں تو بالا ہیں تیری سمجھ سے

مگر جان لے تو

کہ مقروض لوگوں کے بچّوں کو

اِس آرزو کا کوئی حق نہیں ہے

کہ وہ علم سی قیمتی چیز کا

خواب دیکھیں

اور اس خواب کو پورا کرنے میں

ماں باپ کو اور مقروض کر دیں

مرے ننھے بچّے !

یہ سب کچھ ہوا پر

مرا باپ مجھ کو

پڑھانے سے ہرگز نہ تھا باز آیا

یہاں تک کہ اب میں

ترا باپ

صاحب جنوں، صاحبِ علم

اہل ہنر ہوں

مگر وائے قسمت

کہ یہ ظاہری رتبۂ فضل ہی

میری منزل نہیں تھا

مرے ننھے بچّے !

جواں ہو کے جب تُو

انہی غیر لفظوں سے مانوس ہو گا

تو تجھ پر کھلے گا

کہ میری یہ باتیں

مری وارداتیں

مرا یہ تخاطب

مرا یہ تلاطم

مری صَوت، میری صدا

تیری جاگیر ہو گی

مرے ننھے بچّے !

مجھے اس امر کا بھی پختہ یقیں ہے

کہ جب فکرِ بالغ تجھے مل چکے گی

تو تیری انا

اپنے ابّو کی صورت نہ زنجیر ہو گی

مرے حرف تیرے گلے کا

وہ تعویذ ہوں گے

کہ میری ریاضت کی

چھاپ جن پر

یہ الفاظ

جن کی وساطت سے

میں اپنے جذبات

اپنے خیالات

تیرے لئے

تیری بہنوں

ترے بھائی کے واسطے

اور تیرے وطن کے

ہزاروں کروڑوں ہی افراد کے

نام پر

مدتوں سے سپرد قلم کر رہا ہوں

یہ الفاظ جن کا احاطہ نہیں ہے

یہ الفاظ جو

میرے انفاس کا آئنہ ہیں

یہ الفاظ جو میری جاں

میری روحِ رواں ہیں

یہ الفاظ جو اس قدر اَن گنت ہیں

کہ تفصیل میں اِن کی

جاؤں تو شاید

تجھے دل کی اک بات بھی کہہ نہ پاؤں

مرے ننھے بچّے !

مجھے جو بھی کچھ تجھ سے کہنا ہے

بس اس قدر ہے

کہ بعدِ چہل سال بھی میں

اگر مضمحل ہوں

تو اِس کا سبب

میری ارض وطن کی وہی نصیبی ہے

جس سے مرا آج تک واسطہ ہے

خُدا تجھ کو

اور تیرے ہم عہد لوگوں کو

ایس نہ پھر دن کھائے

کہ میں نے تو اب تک

تمّنا کے ایلبم میں جو کچھ سجایا ہے

سارے کا سارا ہی

اِک عکسِ صحرا

مرقّع سرابوں کا

نقشِ جراحت ہے

نوحہ مرے اپنے ماحول کا ہے

کہ بچپن میں جب

آنکھ میری کھلی تو

غلامی کا ٹیکہ

جبیں پر مری تھا

غلامی کہ جس کی

نحوست کے سائے میں

قلب و جگر

ذہن و ادراک

ہمّت

بصیرت

حمیّت

سبھی خوبیاں

ایک حبسِ مسلسل میں

پروان چڑھتی ہیں

اور سبزۂ زیر سنگ گراں کی طرح

بندگی، بے کسی اور بے چارگی کی فضاؤں میں

دم توڑ دیتی ہیں اکثر

مجھے یاد پڑتا ہے

جب میری آنکھوں میں

اک روشنی سی دمکنے لگی تھی

تو میں نے یہ دیکھا

کہ صدیوں سے

ترتیب پاتے ہوئے

میرے پیکر میں

اک تازگی

ایک آسودگی

ایک رم

اک لپک

دیکھتے دیکھتے جیسے در آئے ہیں

میں نے اک دن اچانک ہی دیکھا

کہ آنگن میں میری تمنّاؤں کے

آسماں سے ستارے، مہ و مہر

نور اور راحت کے تحفے سنبھالے

بہ لطف و کرم

جیسے یکبارگی ہی اُتر آئے ہیں

مرے ننھے بچّے !

یہ وہ دن تھا جب میری ارض وطن

سامراجی لٹیروں کے چُنگل سے

محبوس شاہیں کی صورت لپک کر

سرِ شاخِ لطف بقا

مسکرانے لگی تھی

یہ وہ دن تھا جب میری ارضِ وطن

ایک آزاد خطّے کی صُورت میں

زیرِ فلک جگمگانے لگی تھی

مجھے یاد پڑتا ہے

جب میں

جوانی کے شہ زور زینے پہ

چڑھنے لگا تھا

تو مجھ میں

مہینوال کی

اپنے دھیدو کی

مرزے کی

ساری توانائیاں

ساری طراریاں

ساری بیتابیاں

مجتمع تھیں

مرے ابتدائی سبھی گیت

رانجھے کی مُرلی کی تانوں سے ہرگز نہ کم تھے

مگر جب اٹھاون میں

میری زمیں

مغویہ لڑکیوں کی طرح

اہل دُنیا کی تنقیص کا

اک نشانہ بنی

اور مرے ہم وطن

ایک دیوالیے باپ کے

ننگ و ناموس سے

عاق بیٹوں کی صورت

گنہگار ٹھہرے

ہاں اسی خاک اولیٰ کے

زخموں کو گننے لگا تھا

نمِ اشک سے

اپنی غمناک آنکھوں کے پھیلے ہوئے اوک ’’مِننے ‘‘ لگا تھا

مرے ننھے بچّے !

وہ دن اور اب یہ کڑے پل

کہ میں جن میں

تجھ سے مخاطب ہوں

میرے شب و روز

صبحیں، مسائیں

اسی ایک چلے میں ہی کٹ رہی ہیں

کہ جب تو جواں ہو

تو میری جوانی کا سایہ تلک بھی

نہ تیری جوانی کے آنگن میں پہنچے

مرے ننھے بچّے !

تجھے کیا بتاؤں

کہ ارضِ وطن کے تقدس، تفاخر

فروغ اور بقا کی تمّنا میں، میں نے

نہ کس کس کو اپنا خداوند سمجھا

پیمبر نہ کس کس کو

اہلِ وطن کی مسرت کا جانا

نہ کس کس کو

اپنے خیالوں میں رُتبہ دیا خضر جیسا

مرے ننھے بچّے !

تجھے جب وطن کی تواریخ کا علم وہ گا

تو میری کتابوں میں

کچھ ایسے ابواب بھی

تیرے نوٹس میں آئیں گے

جو میری اندھی تمناؤں کا

ایک حاصل ہیں

میری وہ اولاد ہیں

جن کو میں آج سے

اس لئے عاق کرنے پہ آیا

کہ میری نگاہِ رسا

آخرش

ایک والا و شیدا

وفا کیش انسان ہی کی نظر تھی

مرے ننّھے بچّے !

اٹھاون سے اب تک

مرے بیس سالوں کی تاریخ

میرے وطن کی وہ تاریخ ہے

میرے وطن کی وہ تاریخ ہے

؁جس کے قصّے

کسی ٹوٹے پھوٹے ہوئے

آئینے کا تصور ہیں

فکر اور وجدان کی انگلیوں میں

اترتی ہوئی کرچیاں ہیں

اٹھاون سے اب تک کی تاریخ کے

جانے کتنے ورق ہیں

کہ جن کی سیاہی سے

میری قیادت کا مکرور یا منعکس ہے

یہ باسٹھ کا سن ہے

کہ پہلو میں جس کے

نصب چھتر ہے

ایک آمر کی گنجلک انا کا

کہ جن کی سیاہی سے

میری قیات کا مکرور یا منعکس ہے

یہ باسٹھ کا سن ہے

کہ پہلو میں جس کے

نصب چھتر ہے

ایک آمر کی گنجلک انا کا

اسی چھتر کے زیر سایہ

مرے دیس کی بیخ و بن

میرے جمہوری کی اپنی رائے کا پرچم

کہ پہلے ہی جو سرنگوں تھا

نُچا اور پھٹا

ریزہ ریزہ۔ ۔ ۔ پڑا ہے

اور اس کی جگہ

دستِ جمہور یں۔ ۔ ۔ جو کہ شل ہے

فقط ایک ہی فرد کی آرزوؤں کا ضامن

بنامِ بقا

ایک دسور تازہ

کھلونوں کی صورت تھمایا گیا ہے

ـ(وہ باسٹھ تھا اور اب

یہ سڑسٹھ کا سن ہے

کہ جس کی حدوں میں

مری ارض کے محسنوں کو

سرِ عام نیچا دکھایا گیا ہے )

یہ پینسٹھ ہے اک اور سالِ خجستہ؟

کہ جس کی رگوں میں

بنامِ ظفر

بے سروپاسی نصرت کا

بے نام سم میں بجھا

ایک افیونی ٹیکہ لگایا گیا ہے

یہ پینسٹھ کا سن ہے

کہ جس کی حدوں میں

پڑے رن کا مقصد تو

جانے خدا ہی

مگر جو بھی کچھ

میرے جمہور کے

ناتواں بازوؤں نے

بزورِ ارادہ کیا۔ ۔ ۔ کر دکھایا

وہ سارا ہی کچھ

ایک آمر کی اپنی بقا کے لئے

بھاڑ میں جھنک چکا ہے

یہ پینسٹھ سے آگے کی سرحد ہے

جس کے کناروں پہ

آمر بہ آمر نیا سلسلہ ہے

تعیّش

تفاخر

تجاہل کی اک اور طرفہ فضا ہے

مگر اب کہ

اِس کھیل کو ایک عرصہ ہوا ہے

نگاوہں سے لے کر

یہ اذہان ماندہ

نئی اک حرارت کا پرچم کھلا ہے

مرے اس وطن کا

مرے اس بدن کا

رُوأں ایک اک سنسنانے لگا ہے

برسوں کی سوزش سے

ترتیب پاتا ہوا

اک الاؤ جلا ہے

الاؤ۔ ۔ ۔ کہ جو مجتمع ہو کے

سڑسٹھ سے لے کر

انہتر کے عرصے پہ

یوں تن گیا ہے

شجر جس طرح کوئی

آکاس بیلوں میں گھرنے لگا ہو

مگر وہ وراثت

زمینِ وطن کی شکستہ قیادت

نئے ایک آمر کے ہاتھوں میں

باوصفِ شور و شغب جا چکی ہے

زبانوں کا لاوا دبکنے لگا ہے

نگاہوں کا غیظ و غضب تھم گیا ہے

زمینِ وطن جیسے سُن ہو گئی ہے

صدائے طلب پھر کہیں کھو گئی ہے

انہتر سے آگے اکہتر تلک کا

عجب فاصلہ ہے

کہ وہ تاج جس کی وراثت کا حق

جب اسی مک و ملت کے

حق ناشناسوں سے

چھننے لگا ہے

تو سفّاک ٹولے کے رہبر نے

اپنے تحفّظ کو

حرص و ہوا کی اسیری میں گھر کے

مرایہ بدن

میرا پیار وطن

اپنی تحریص و نخوت کے آرے سے

اک آنِ واحد میں شق کر دیا ہے

دسمبر اکہتر کے یہ دن

مری ساری تاریخ کا

ایک باب سیہ ہیں

بغاوت اگر ایک پہلو سے

مبنی بحق ہے

تو ہمراہ اس کے برابر کی

سازش ہے

مکروریا ہے

مرے اپنے گھر ہی میں

میرے بڑوں کی

حماقت،

ہوا و ہوس

عاقبت نا اندیشی سے

وہ رن پڑا ہے

کہ بہرِ تحفظ

عوض نان نفقے کے

باہر سے مانگے کے

باہر سے مانگے کا

اک ایک ہتھیار

میریہی پیاروں کے

مجروح سینوں پہ

چلنے لگا ہے

دھواں

گڑ گڑاہٹ

دنا دن کڑکتی ہوئی

میرے ہی پیاروں کے

مجروح سینوں پہ

چلنے لگا ہے

دھواں

گڑ گڑاہٹ

دنا دن کڑکتی ہوئی

چیختی۔ ۔ ۔ بین کرتی فضائیں ہیں

آہ بُکا ہے

مرے ہاتھ ہی

میرے اپنے لہو میں

اترنے لگے ہیں

مرے اپنے بھائی

مری اپنی ماؤں

مری اپنی بہنوں کے سر کی ردائیں

اڑانے لگے ہیں

مرا جسم اک بھر بھری خاک بن کر

بکھرنے لگا ہے

اگر ایک جانب

سرِ عام میرے بدن سے

مرا حون بہایا گیا ہے

تو اُس سمت

مجھ کو ہی میدان میں لا کر

خُدا جانے کتنی ہی قرنوں کا حاصل

مری آبروؤں کا

میری انا کا

فراز اشنا سر جھکایا گیا ہے

مری خاک کی سرحدوں کی نگہدار

قوّت کے سینے میں

اُترے حلف کا علم

خاک و حوں میں ملایا گیا ہے

ادھر اک نیا دور ہے

جو افق سے ابھرنے لگا ہے

معیشت کے صنعت کے نعرے

سماجی مساوات کے غلغلے ہیں

نیا اک علم ہے

کہ جمہور کے دستِ محروم ہیں

جو سجایا گیا ہے

مرے دیس کا ایک اک فرد

اک منتظر رُت کی جانب سے

سونپے گئے

سارے دعوؤں کے

وعدوں کے بنیر

اٹھائے کھڑا ہے

اکہترکی اس سمت کا

ایک پُرسحر منظر کھلا ہے

ہر اک شخص

شورِ قیامت سے باہر نکل کر

محلاتِ عالی پہ نظریں جمائے

یہی سوچتا ہے

کہ یہ دَور جو آ چکا ہے

بڑی مدّتوں بعد

لایا گیا دور یہ

سارے جمہور کا ہے

بڑوں اور چھوٹوں میں

مظلوم و ظالم میں

مجبور و جابر میں

صدیفوں سے جو فرق

یکسانیت سے مروّج چلا آ رہا ہے

وہ فرق اب کسی طور بھی

اپنے مابین رائج نہیں رہ سکے گا

مگر وہ طلسمی محلات

جن میں پہنچ کر

ہر اک صاحب درد

اپنے بدن کے لبادے کو

اک کینچلی جانتا ہے

نئے دور کے سب تقاضوں کو بھی

اپنے آداب میں

ڈھالنے لگ گئے ہیں

یہاں تک کہ

خاموشیوں کے لبوں پر

یہی اک صدا ہے

’’یہ کیا ہو گیا ہے ‘‘

کہ جو کل تلک ناروا تھا

وہی اب روا ہے

قیادت کہ جو سارے جمہور کی

مادرِ مہرباں ہے

اسیر تغافل ہوئی جا رہی ہے

جو اولاد کو ناسمجھ اور انجان ٹھہرا کے

اس کے لبوں میں

وہی چوسنی دے کے

جو سالہا سال سے

اس کا مقدرور ٹھہری

کہیں کھو گئی ہے

قیادت کہ جو سارے جمہور کی

مادرِ مہرباں ہے

فقط اپنے ذاتی تحفّظ

بقا،

تمکنت،

اورمحلات کی ہو گئی ہے

مگر وقت جو

سحت بے رحم منصف ہے

کب چُوکتا ہے

مرے ننھے بچّے !

زرا دی یکھ میری زباں

میرا حرفِ رواں

کیوں ٹھٹکنے لگا ہے

ذرا دیکھ

باہر گلی میں عجب شور سا ہے

یہ آواز کیا ہے ؟

کہیں پتھروں، اینٹ روڑوں کو

اعجازِ دوراں کے ہاتھوں

زباں تو نہیں مل گئی ہے

ذرا دیکھ

یہ وقت ہی تو نہیں ہے

کہ جو بھولے بسرے ہوئے

کل کی باتوں کو دہرا رہا ہے

یہ کیا ماجرا ہے ؟

یہ گولوں کی گھمگار کیسی ہے ؟

دستِ ہوا میں یہ کیا زہر سا ہے

کہ میں تو کہیں دُور کھویا ہوں

پر میری آنکھوں میں آنسو ہیں

میرا گلا جیسے پھٹنے لگا ہے

مرے ننّھے بچّے !

تو معصوم ہے

میں تجھے کیا بتاؤں

مری مصلحت کی زباں

فہم سے تیرے بالا بھی ہو تو

مجھے معذرت کا کوئی حق نہیں ہے

میں چُپ ہوں

مری خاموشی عہد کی خامشی ہے

مرے ننّھے بچّے !

تو کا ہے کو ضد سے نہیں باز آتا

مرے ننّھے بچّے !

تری گدگدی سے

مری مسکراہٹ نہیں لوٹ سکتی

٭٭٭

تشکر: یاور ماجد جنہوں نے مکمل ’یہ انسان‘ کتاب کی ٹیکسٹ فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید