FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ہڑپہ کی چرواہی اور دوسری کہانیاں

 

                طاہرہ اقبال

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

ہڑپہ کی چرواہی

 

چناں کو لگتا اِن پہرے داروں سے اُس کی نفرت اِتنی ہی پرانی ہے جتنے پرانے ہڑپہ کے یہ کھنڈرات ہیں جن میں بوڑھے خمیدہ کمر، کھوکھلے تنوں والے چھال اُدھڑے اوکان اور جنڈبکائن آدھے آدھے دفن ہیں، جن کی دھول لتھڑی شاخیں چھتریاں تانے بھربھری زمین میں منہ کے بل دھنسی ہوئی ہیں اور جن کی گہری گپھاؤں میں چناں اپنی بکریوں سمیت چھپ جایا کرتی ہے۔ صدیوں پرانی دھول سے اٹااٹ ان جنڈبکائنوں کے کلاوہ بھرتنوں کے گردپختہ بینچ بنے تھے چناں کو اِن پر بیٹھ کر جٹائیں کھجانے اور اُس کی بکریوں کو ان پر پچھلی ٹانگیں ٹکا کر ٹیشاں اور پتے چرنے میں بڑی سہولت رہتی تھی۔

 

نہ وہ خود گارڈوں کی سیٹیوں سے ڈرتی نہ ہی اُس کی بکریوں کو وہ کبھی سنائی دیتیں وہ گھنی شاخوں کی بوجھل چلمنوں سے کھنڈروں میں اُڑتی دھول کے پردوں میں لپٹی بھیڑ کو دیکھتی یہاں نت نئی مخلوقات بھر آتی تھیں۔ گورے کالے گیہوں رنگے جو ایک بار نظر آتا دوبارہ کم ہی دِکھائی پڑتا، سوائے ان منحوس چہرہ پہرے داروں کے جو گھوڑوں جیسی ٹاپوں والے سیاہ بوٹوں پر سوار دگڑ دگڑ چھتناروں میں گھسے چلے آتے۔

مینڈھیاں گندھے چٹلے سے اچھال کر اُسے باہر پٹختے چناں اُن کے ہاتھ کاٹ کھاتی اور کھنڈروں میں بل کھاتی پکی پٹڑی پر بھاگ نکلتی جس کے دونوں اطراف مہیب ٹیلوں کے منہ بند سلسلے رواں تھے، جن میں صدیوں پرانے مدفون منوں مٹی اوڑھ کر سوتے تھے۔

نک کٹی، ٹھگنی، کالی بھدی سیاہ بوٹوں کے گھوڑوں پر سوار گالیاں بکتے جھکتے پہرے داروں کے کئی چھانٹے اور جھانپے لاتیں کھاتی چناں تو نو گزے کے مزار میں گھس کر منت کے مکھانوں پر جھپٹتی اور بک بھر بھر نگلتی اور اُس کی بکریاں تب تک کئی پھلائیاں اور بکائنیں چونڈ چکی ہوتیں۔ کئی بار چرواہے اور بھک منگے اُسے دبوچ بھی لیتے، وہ دھول کے سمندروں بہتے موجیں مارتے نشیبوں میں لڑھکتی کبھی چوڑی بوسیدہ اینٹوں والے بالائی شہر میں گرتی کبھی زیریں بستی، کبھی طبقہ بالا کی رہائش گاہوں میں مچلتی، کبھی نچلے طبقے کے مکانوں میں لوٹتی، کبھی بازار، کبھی منڈی، کبھی زمین دوز نالیوں میں اوندھاتی تو کبھی اندھی باؤلی میں کود جاتی، جیسے چکنی مٹی کی کوئی ڈھلانی ڈھیم، جسے ہڑپہ کے بت تراشوں نے خام سی گھڑت دی ہو، جو زمینوں کے صدیوں برابر بوجھ تلے پڑی گھس پھس گئی ہو۔

دھول کا موجیں مارتا سمندر جوار بھاٹے اُٹھاتا لہریں موجیں اُڑاتا مدفونوں کے مہیب ٹیلوں سے ٹکراتا۔ دامن میں اُترتی گہری کھائیوں میں،کھدائی شدہ آثاروں میں، سنگلاخ تاروں میں لپٹے کھنڈروں میں، بھدی تک کٹی مورتی سی چناں آثاروں آثار بہتی، پہرے دار صدیوں پرانی دھول کے سیلابوں میں لپٹے ڈنڈوں اور بندوقوں کی ٹوہیں دے دے کر اُسے باہر نکالتے۔ مہینوں کے اَن دُھلے بال، گریں بھری چندھی آنکھیں ،سنک اُبلتی چپٹی ناک جیسے انھی آثاروں کی کوئی شبیہ جو وزنی اینٹوں تلے دبی رہ گئی ہو اور اب صدیوں بعد کھدائی میں تیشوں کدالوں کی ضربیں کھا کھا کر باہر نکلی ہو۔ کہیں سے بھری کہیں سے چٹخی، دلی ملی سی۔۔۔

بالائی شہر کی تختی والے آثاروں کے قریب نل پر کپڑے دھوتی بستی کی عورتیں اُسے دھتکارتیں ’’گندی شوہدی، کالی، ٹھگنی۔‘‘

مسجد کے آثاروں والے ٹیلے سے نیچے اُترتے قبرستان میں پانی، مٹی، روڑ ڈالتی عورتیں روڑوں کے بک اور ڈھیلے اُس کی سمت اُچھالتیں۔

’’ہٹ ہٹ دُور دفع بے وضو پلید قبرگھستان کی بے حرمتی نہ کر۔ ‘‘

پرانے داڑھی والے جنڈبکائنوں کے گرد پختہ بینچوں پر نوزائیدہ بچوں کو دُودھ پلاتی اور ہر گزرتے سیاح کے سامنے ہاتھوں کے کشکول پھیلاتی نوجوان مائیں زرد بوسیدہ پتوں کی مٹھیاں بھر بھر اُس کی سمت اُچھالتیں۔

’’دُر پرے دُور دفع ہمارے بچوں پر نحس سایہ نہ ڈال۔‘

۔۔۔۔۔

 

کھنڈروں سے بہت نیچے بچھے کھیتوں میں ہل چلاتے کسان اُسے گھرکتے، جیسے پوری کائنات اُسے ان کھنڈروں سے باہر دھکیلنے پر تلی ہو اور یہ پہرے دار تو شاید یہاں تعینات ہی اسی کام کے لیے کئے گئے ہوں لیکن جب اُنھیں کوئی گوری چمڑی والا دِکھائی دے جاتا تو پھر وہ اُسے وہیں آثاروں میں پھینک پھانک اُس کے پیچھے لگ جاتے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں آثارِ قدیمہ کی تاریخ دُہراتے جواَب چناں کو بھی زبانی یاد ہو چکی تھی چناں اپنے دھول لباس میں لپٹی اوڑھنی کی بوسیدگی میں اُن کی سچی جھوٹی انگریزی پر ہلکے ہلکے قہقہے پھوڑتی بھوتنی سی جیسے پانچ ہزار سال سے انھی ٹیلوں میں کہیں دھنسی پڑی رہی ہو اور ابھی دھونے، مانجھنے والی ہو جب کوئی گورا پوچھتا صدیوں پرانی اس کیل اور دراوڑ نسل کے کچھ باشندے کیا اب بھی اس علاقے میں بستے ہیں تو گارڈ ’’یس سر یس سر‘‘ گردن ہلاتے ہوئے چناں کا چہرہ یوں نوچ کر اُن کے سامنے پیش کرتے جیسے وہ بھی سینکڑوں سالہ پرانی تہذیب کے آثاروں سے نکلا ہوا کوئی ظروف ہو اور اگر اُن کے بس میں ہوتا تو وہ اُسے بھی آثارِ قدیمہ کی گراں قیمت پر اِن گوروں کے ہاتھوں بیچ ڈالتے جس طرح وہ اپنی جیکٹ کی جیبوں میں بھرے ان ٹھیکریوں ہڈیوں اور اینٹوں کے ٹکڑے اُنھیں لال ہرے نوٹوں کے عوض بیچا کرتے تھے جن کے ساتھ کے کئی ثابت پیالے رکابیاں مٹکے ڈول کھلونے مورتیاں گھو گو گھوڑے چناں کے اپنے کوٹھے کی پرچھتی پر سجے تھے اور بستی کے ہر گھر میں استعمال ہو رہے تھے جنھیں چرواہے اور بھیک مانگنے والے بچے اُٹھا لاتے اور گوروں کو دِکھا دِکھا کر دس روپے کا نوٹ مانگتے پھرتے پہرے داروں کو ان کو یہ حرکات پسند نہ آتیں وہ اُنہیں اپنے موٹے موٹے ڈنڈوں کی ٹوہوں کے ساتھ گوروں سے دور پرے رگیدتے رہتے۔ اس بستی کے سارے گھر بھی انھی موٹی چوڑی لال اینٹوں سے بنے تھے جنہیں گارڈ سات ہزار برس پرانی کہتے تھے۔ اُن کے تو بس میں ہوتا تو وہ چناں کا پورا گھر ہی ان گوروں کے ہاتھوں فروخت کر ڈالتے اس کی اندھی ماں سمیت کہ اس ہزاروں سال پرانی تہذیب کا یہ بھی کوئی عجوبہ ہے۔کئی بار تو وہ پھٹ پڑی۔

’’ایسے تو ہمارے گھر میں بھی بھرے پڑے ہیں۔‘‘

’’تمہارا گھر کدھر ہے۔‘‘

سیاح اُس کی جانب متوجہ ہو جاتے پہرے دار ڈنڈے سونت کر اُس کے پیچھے لپکتے۔

’’کم ذات گدھی! سودا ہی خراب کر دیتی ہے۔‘‘

اور اُسے اُس کے ریوڑ کے ہمراہ کسی جھنڈ میں دفن کر آتے۔ یہاں کی ہر شئے زمین برد تھی جن کے آثار سرِزمین نظر آتے لیکن جڑیں صدیوں پرانے ٹیلوں میں گہری گہری پھیلی ہوئی تھیں۔ ہر شئے ہر چہرہ اِک اسرار ملے وقت کی مٹھی میں ساکت و جامد تھا کہ ایک روز اچانک کھدائی والے نشیبی حصوں میں جھلتے جھکڑ پاگل ہو کر باہم منہ سر ٹکرانے لگے جیسے اُبلتے کڑاہے میں بھاپ چکراتی ہو۔ کھنڈرات پر چڑھا کچی دھول کا موجزن سمندر جھکڑوں کے گرداب میں ہلکورے کھاتا، دھول اٹے درخت ٹیلے ٹبے، آثار مورتیاں، پہرے دار سب ہزاروں برس کہنگی میں دفن بوسیدہ اور پرانے، لیکن ہڑپہ کی منڈی کے آثاروں پر بندوق تانے کھڑا یہ پہرے دار بالکل نیا تھا اور نو گزے کے مزار سے نکلتی ہو حق کی صدائیں جھکڑوں پر سوار اُس کے گرداگرد دھمالیں ڈالنے لگی تھیں۔ اوکاں کے گھنے بالوں والے درخت دائیں بائیں جٹائیں گھومانے لگے۔ تیز رو جھکڑوں کے مستانہ وار جھولے نو گزے کے مجاوروں کے ساتھ مِل کر جھوم رہے تھے۔ پتے ٹہنے ٹیلے ٹبے جیسے ر شئے کو بوٹی چڑھی ہو۔ چناں نشہ بھری فضاؤں میں بہکنے لگی۔ اُس کا بالشت بھر وجود آدھوں آدھ ان ٹیلوں میں کہیں اُتر گیا اور سرزمین انگور سے پھوٹے وجود کو دھمال چڑھ گئی۔

چناں کو لگا نئے پہرے دار کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہے بلکہ وہ مرلی ہے جو شوکیس میں بند کسی جوگی کے لبوں سے لگی ہے جس کی لے پر چناں ناگن سی لہرانے لگی ہے۔ اُس کے ہاتھوں میں اوکاں کی ٹہنی کا مورچھل سا آ گیا تھا اور دِل کے سادہ ورق پر اِک شبیہ بنتی چلی گئی۔ مرلی بجاتے ہوئے کرشنا کی لنگوٹ کسے بھوبھل رمائے کسی بھکشو کی نروان کی تلاش میں نکلتے سدھارتھ کی جیسے عجائب گھر کی الماریوں میں سے نکل کر یہ ساری مورتیاں اُس کے گرد آسن جما بیٹھی ہوں۔

اُس کا جی چاہا اُس کے پاس بھی اُس گوری لمبی لڑکی جیسا کاغذ برش ہوتا جو اپنے ساتھی کو سامنے بیٹھا کر اُس کی شبیہیں کھینچتی ہے تو وہ بھی اس کرشن کو اس رام کو سدھارتھ کو کہیں ہمیشہ کے لیے نقش کر دیتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں تو بکریاں ہانکنے والا سانگل تھا جو پتے اور کونپلیں توڑتا تھا اور جانور ہانکتا تھا۔ جنگلی جھاڑیوں کے چوڑے پتوں پر، تہہ بہ تہہ اُترتے کھنڈروں کے پرت،زمین و آسمان میں کھولتے گرد کے طوفانوں پر کہیں چھپ کر اِک مورت سی بنا لیتی اور پھر عمر بھر اُس کو سجاتی سنوارتی رہتی لیکن ریوڑ کی صحبت میں آٹھوں پہر رہنے والی اس چرواہی کو از حد نازک اور نفیس انسانی جذبات نے یکدم پچھاڑ دیا۔

اس کا جی چاہا وہ مووی کیمرے والے سے کہے بس ایک فوٹو اس نئے پہرے دار کا اُتار دو۔جسے وہ اپنی قمیص کے اندر سینے کے ساتھ چپکا رکھے گی۔ معاً اُسے خیال آیا کہ اُس کا کھلا ڈھلا چولا تصویر کو اپنی حفاظت میں رکھنے سے قاصر ہے۔ اُسے پڑوسن کی کھونٹی پہ لہراتی تجوری جیسے خانوں والی بنیان کی اہمیت شدت سے محسوس ہوئی پھراُس کا جی چاہا وہ چائے پان والے لڑکے سے کہے کہ وہ جو ایوانِ خاص والے ٹیلے پہ نیلے گھوڑے پر سوار سنگینوں سے لیس اُونچا لمبا گورا چٹا تیکھے نقوش والا کھڑا ہے اُسے چائے، پان، مٹھائی، بوتل جو کچھ تیرے پاس ہے سب دے آ میرے پاس ادائیگی تو نہیں ہے لیکن بل کے بدلے میں مجھے پھر قتل کر ڈالنا، جب وہ کچھ بھی نہ کر سکی تو اوکاں کی برش نما ٹہنی توڑ کر دھول بھرے سینے والی زمین پر کچھ لکیریں کھینچنے لگی۔

ویسی ہی شبیہیں جیسے عجائب گھر کی الماریوں میں مقید تھیں۔ مرلی بجاتا کرشنا، یدھ کویتار ارجن اپسراؤں کا رقص دیکھتا راجہ اِندر اور آلتی پالتی مارے بیٹھا گوتما، پھر اُسے یہ ساری تصویریں نامکمل معلوم ہوئیں۔ برش جیسی تاروں بھری اوکاں کی ٹہنی پھیر پھیر سب مٹا دیا۔ اُسے لگا یہ نہ کرشنا ہے نہ رام نہ اِندر نہ گوتما یہ تو آریا ہے جس نے ساری مورتیوں، ظروفوں،مٹکوں، چرخوں، کنوؤں، محل ماڑیوں اور اس دھرتی کے سینے پر موجود ہر شئے ہر ذی نفس کو روند ڈالا ہے۔ وہ تو گھوڑوں کی ٹاپوں سے اُڑتی دھول کے کراہے میں لوٹنے اور تڑپنے لگی۔ جیسے اُس گھڑسوار نے اپنی سنگینوں سے اُس کی بوٹی بوٹی چھید ڈالی ہو اور تلوار کی دھار میں پرو کر اُسے فضا میں اُچھال دیا ہو لیکن پہرے دار کی بندوق کا رُخ تو چھت کی جانب تھا اور عجائب گھر کے اندر ایک گوری کے پیچھے چلا جا رہا تھا۔

گوری شوکیسوں پر لکھی تحریر پڑھتی نئے گارڈ سے کچھ سوال کرتی اپنی کاپی پر لکھتی اور اگلے شوکیس کے سامنے جا کھڑی ہوتی۔ چناں گوری کے چھوڑے ہوئے شوکیس میں بند مورتیوں کو دیکھنے لگی چناں نے اُنہیں بیسیوں بار پہلے بھی دیکھا تھا لیکن پہلی بار اُسے احساس ہوا کہ وہ تو سب ننگی ہیں۔

’’ہائے ربا! یہ سب بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر بنا ہی دیا تھا تو پھر پٹولے تو سی دیتے ان گڈیوں کے لیے۔‘‘

ننگے ستر والی یہ مورتیں کس بے حیائی سے تن کر نئے پہرے دار کے مقابل کھڑی تھیں۔ چناں عمر میں پہلی بار شرم کے احساس سے آشنا ہوئی جیسے تیز جھکڑوں نے اُس کے اپنے تن کے کپڑے اُڑا دیئے ہیں اور وہ خود نئے پہرے دار کے سامنے الف برہنہ کھڑی ہے وہ تیسرے چوتھے شوکیس سے ہی پسپا ہو کر باہر کھنڈروں میں بھاگی، اوکاں اور ون کے چھتناروں تلے اُس کی بکریاں موجود نہ تھیں۔ شاید وہ بھی اُس کی طرح سیر ہو کر کہیں کو نکل گئی تھیں۔

یا پھر پہرے داروں نے ٹیلوں کے قدموں میں آثاروں سے نیچے بچھے کھیتوں میں انھیں ہانک دیا تھا۔ جن بنچوں پر وہ کھر جما کر شاخیں چونڈتی تھیں وہاں اب کسی پھنسی مورتیاں مرلی والوں سے ہم آغوش تھیں یہ مناظر ان چھتناروں کے لیے نئے نہ تھے لیکن آج چناں کی گہری سانولی رنگت لال مٹی سے گھڑی ہڑپہ کی بھٹی میں پکی مورتیوں کے ہم رنگ ہو گئی۔ وہ کھدائی شدہ ٹیلوں کے نشیبوں میں بے تحاشا بھاگی ان کھدے ٹیلوں پہ چڑھی ڈھلانوں پہ پھیلے چھتناروں میں گھسی ہر جگہ کوئی مرمریں رادھا کسی لنگوٹ کرشن کی مرلی پر کتھک ناچتی تھی۔ پکی پٹڑی پر بھاگتے بھاگتے حدت اور پسینہ سے اُس کا وجود نچڑنے لگا آثاروں کے پہلو میں بچھے کھیتوں کو سیراب کرتے کھال میں کودی نے گاڑھی نیلی اوڑھنی پرے اُچھال کر پھینکی اسے اپنا عکس اس مورتی جیسا لگا جو کھدائی کے دوران شاید زخمی ہو گئی تھی، جس کے دونوں پستان سامنے سے ٹوٹ کر ہموار ہو گئے تھے جس کی ناک کی پھنک او ر ہونٹوں کی قوس جھڑ گئی تھی۔ اُس نے تیکھی تیکھی رادھاؤں کو حاسدانہ انداز سے دیکھا اور دھول کی مٹھیاں بھر بھر سر پر ڈالنے لگی گرد کا غبار اُس کے گرد تن گیا۔ اسی شام ریوڑ باڑے میں تاڑنے سے بھی پہلے ساتھ والی کی تار پہ لہرائی تیکی تیکھی بنیان اُس نے شلوار کے انگوچھے میں اُڑس لی تھی۔

ہڑپہ کے کھنڈرات میں سے نکلی چوڑی چوڑی عنابی اینٹوں سے اسارے اپنے کوٹھے کے سامنے سے گزرتے کھال کے گاڑھے گلابی پانیوں میں اپنی شبیہ پھر دیکھی۔ لال مٹی سے بنی بیٹھے بیٹھے بھدے خدوخال والی مورتی کے عکس میں سفید سنگِمرمر سے ترشی تیکھے خطوط والی مورتیاں جھلملا گئیں جن کے پیٹ کی پلیٹ میں چیرویں آنکھ دھری ہے۔ جن کے نیم وا ہونٹوں میں کپاسی کلی کھلی ہے۔ جن کے مرمریں پستان تانبے کی گاگریں سی چوٹیاں چڑھے ہیں۔ چناں کو عمر میں پہلی بار سنگِمرمر کی ان سفید مورتیوں جیسا خوبصورت دِکھنے کی چاہ نے پچھاڑ دیا۔

اپنی جلد رنگے کھال کے پانی میں انگوٹھے اور شہادت کی اُنگلی سے نتھنے بند کر کے وہ ڈبکی لگا گئی مٹی کی مورتیوں کے ہم رنگ بدن کو چکنی مٹی کا ڈھیلا مَل مَل رگڑ ڈالا۔ ساتھ والی جو اپنے نام سے زیادہ بنیان والی پکاری جاتی تھی اور ہر بنیان والی کھنڈرات پر چڑھی اس بستی میں کنجری کہلاتی تھی۔ کیونکہ وہ روزانہ گت کھول کے کنگھاک رتی ہڑپہ کے آثاروں سے چرائے دیئے میں کپڑے کی واٹ ساڑ کر کاجل چھنگلیا سے آنکھوں میں لگاتی چقندر کھا کر منہ پونچھنا بھول جاتی۔

اسی لیے اُس کی کوٹھری میں کرخت چہرہ پہرے داروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا، جب چناں اُس کی کوٹھڑی سے نکلی تو چھتناروں میں بھرے ہم آغوشوں تک آوازے پہنچے ’’کنجری کنجری؟‘‘ یہ بھک منگے اور چرواہے فقروں اور قہقہوں کے لٹھ لیے۔ اُسے عجائب گھر کی عمارت میں دھکیل آئے، جہاں نیا گارڈ کسی گورے کو شو کیسوں میں سجی مورتیوں کی تاریخ بتا رہا تھا۔ سفید سنگِمرمر سے ترشی تیکھے نقوش والی نفیس دیویوں کی نسبت گورے کی ساری توجہ ان لال لال بھٹی کی پکی ہوئی مٹے مٹے نقوش والی ان گھڑت اور بھدی بھدی مورتیوں پر تھی۔ اس کے خیال کے مطابق ہڑپہ کی ابتدائی کاریگری کے نقوش یہی تھے۔

گورے نے پھر وہی سوال دُہرایا ’’کیا پرانی دراوڑ اور کیل نسل کے لوگ اب بھی یہاں بستے ہیں۔‘‘

’’یس سر یس سر! یہ یہ دیکھئے۔‘‘

نئے پہرے دار نے اُسے بوٹ کی نوک سے دھکیل کر گورے کے حضور حاضر کر دیا۔ یہ دیکھئے سر! بالکل یہی قد یہی ناک نقشہ انہی مورتیوں کی ہم شکل۔۔۔ یہی تو وارث ہیں اس مرحوم تہذیب کے۔۔۔‘‘ گورے نے اپنے کیمرے کی روشنیاں کئی زاویوں سے اس پر ڈالیں اُس کے بس میں ہوتا تو وہ چناں کو مٹھی میں دبوچ کر اپنے چرمی بیگ میں چھپا لیتا اور یورپ لے جا کر آثارِ قدیمہ کے داموں فروخت کرتا۔ وہ گیلری کے بیچوں بیچ دھرے مردے دفنانے والے بڑے بڑے مٹکوں کی اوٹ میں چھپ گئی جیسے ڈرتی ہو کہ کہیں گورا اُسے اُچک نہ لے جائے۔

جب گورا نئے گارڈ کی مٹھی میں لال نوٹ پھنسا کر چلا گیا تو وہ وقفے کے لیے سیٹیاں بجانے اور لوگوں کو عجائب گھر کی عمارت سے باہر نکالنے لگا۔ بتیاں بند ہوتے ہی وہ اُس شوکیس کے پیچھے سے نکلی جس میں پانچ ہزار سالہ پرانا انسانی ڈھانچہ سبزمخمل کے کپڑے پر لیٹا ہوا ہے۔ جسے پہرے دار دراوڑ نسل کی عورت بتاتے ہیں۔

’’تو نے مجھے ان جیسا کیوں کہا۔‘‘

گارڈ ہنسا۔

’’تو سرخی اور کاجل لگا کر اِن جیسی تو نہیں ہو گئی نا۔‘‘

نئے گارڈ نے تیکھے خطوط والی ہندو دیویوں کی مورتیوں کی سمت اشارہ کیا ’’تو تو ان جیسی ہی ہے نا، یہاں تو ایسی ہی ہوتی تھیں۔‘‘

چھوٹی چھوٹی لال مٹی کی ننگے ستر والی بھدی مورتیوں کے شو کیس پر نئے پہرے دار نے بندوق کی نالی جما دی۔

’’کیوں اُن جیسی کیوں نہیں۔‘‘

چناں نے اوڑھنی کا پلّو کھول کر یوں بکل ماری جیسے اوڑھنی ڈھیلی پڑ گئی ہو۔ اس ایک لمحے میں اُس کی کل سورج ڈھلے والی چوری کھلکھلا کر ہنسی۔

گارڈ نے بھی یہ چوری بھانپ لی۔

’’ہاں یہ تو ہے لیکن باقی سب تو نہیں نا۔ یہ قد بت یہ نین نقش، یہ گوری رنگت، اری کملی! بات تو مٹی کی تاثیر کی ہے، جو جس مٹی سے گھڑے گا وہ اسی مٹی کے جیسا ہی تو ہو گا نا۔ یہ تو سنگِمرمر کی چٹانوں سے گھڑی ہیں یہاں گندم اور کپاس کے کھیتوں میں ایسے سفید پتھر کہاں یہاں کے جلتے اُبلتے موسم تو جنگلی کیکروں کی سولیں، آک کوڑتمے، چیڑ، کوال گندل تھور کنڈیاریاں سینچتے ہیں۔ بے بارش سوکھے کنڈوں والی دریائی مٹی سے تو ایسی بھدی بھدی گھڑتیں ہی گھڑی جائیں گی نا۔۔۔‘‘

چناں کو انھی گارڈوں کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ انھی جسمانی کوتاہیوں کی وجہ سے اس کھنڈر شہر کے باسیوں کو آریاؤں نے اپنا غلام بنا لیا تھا۔ وہ کپاس اور اناج اُگانے والے، مٹی کی مورتیاں اور ظروف گھڑنے والے محل ماڑیاں بازار چوبارے اسارنے والے، بیل گائیں پالنے والے گھوڑوں کی ٹاپوں اور تیر تلواروں کا شکار ہو گئے کیسا گھمسان کارن پڑا ہو گا۔

یہ ہنرمند بستیوں کی ترتیب و تنظیم کرتے رہے۔ تہذیب اور تمدن نکھارتے رہے، فن اور فن پارے تخلیق کرتے رہے، نہ تیر بنائے نہ بھالے، نہ نیزے گھڑے نہ تلواریں نہ گھوڑے پالے نہ ہاتھی، بیلوں سے ہل جوتے،پھٹی سے تانیاں تنیں۔ بھول گئے کہ ان سب کی حفاظت کے لیے جنگل کی سمت کھلنے والے رستوں پر مضبوط قلعے اسارنا اور منجنیقیں گاڑنا بھی ضروری تھا۔ کیونکہ درندے لطافتِ طبع اور حسنِ ذوق نہیں رکھتے وہ تو فنکارانہ تنظیم و ترتیب کا جواب محض اپنے وحشی کھروں اور ٹاپوں سے دیتے ہیں۔

چناں نے باہر جھانکا۔ اس کھنڈر شہر میں بڑی چہل پہل تھی۔ منڈی کے چبوتروں پر خربوزوں، تربوزوں کی پنڈیں دھری تھیں۔ کپاس کی گانٹھیں، گندم کے ڈھیر لگے تھے۔ پیاز،لہسن،بیر،چبڑ، شہتوت، پیلوں ڈھیریاں جمی تھیں۔ آڑھتی اور گاہک بھاؤ تاؤ کرتے چھابڑی والے توری بینگن کے آوازے لگاتے پھرتے، دھوتی نما ساڑھیوں والیاں گھونگھٹ کاڑھے چھاجوں میں اناج بھرے بدلے میں پھل ترکاری وٹاتی تھیں۔

راوی کنارے ناریاں چکنی مٹی کی کوری جھجھریاں بھرتی تھیں۔ بوکے ڈال ڈال گھڑے اور مٹکے سروں اور کولہوں پر چوٹیاں چڑھاتیں جن کی کلائیوں میں آوی کی پکی چوڑیاں بھری تھیں۔ ساگ کے کنے چولہوں پر اُبلتے تھے۔ دھات کے چوڑوں اور مالاؤں والی مالکائیں ہاتھی دانت کے سنگھاردان سامنے کھولے لمبے سیاہ بالوں میں لکڑی کے دندانوں والے کنگھوں سے مینڈھیاں گوندھتی تھیں۔ کنیزیں اُن کے پیر دابتیں اور جھانویں سے ایڑیاں رگڑتی تھیں۔

کمہار چاق پر چڑھے کوزے ساخت کرتے۔ بت تراش مورتیاں گھڑتے۔ پھولوں سے رنگ کشید کر نقش و نگار بناتے راج مزدور چو بارے اور محل اُسارتے من چلے مرلیان بجاتے کہ اچانک جنگل کا در کھلا، اُونچے اُونچے برق رفتار گھوڑوں پر تلوار زن نیزے سنگینیں کسے حملہ آور ہوئے اس فن نگری کو ہتھیاروں کی نوک میں پرو ڈالا، بازاروں کی چہل پہل کو گھوڑوں تلے روند ڈالا۔

بھینکر طوفان اُٹھے، لہو رنگ دھول زمین و آسمان کو لپیٹ گئی۔ گھڑسواروں کے لشکر،نیزوں، بھالوں اور سنگینوں کے ساتھ چپے چپے پر ٹوٹ پڑے۔ پھولوں سے کشید کیے رنگوں سے مورتیاں رنگنے والے پھولوں کی مہکاریں ہاتھوں میں بسائے اپنی مورتیوں پر اوندھا گئے جن کے سینے کے آرپار تلوار کی دھار سرخ گلاب کے پھولوں جیسی شوخ رنگ تھی۔

چاک پر چکنی مٹی چڑھائے ظروف گھڑتے کوزہ گر، تانیوں پر سوت کی اٹیاں لپیٹے کپڑا ساز، کپاس اور اناج بھرے کھیتوں میں ہل چلاتے کسان عمارتوں کے حیرت انگیز ڈیزائن اور بالاخانے تعمیر کرتے راج مزدور سارے مناظر لہو لہو تھے۔ راوی کا لال پانی کٹی دھنکی بوٹیاں اور انسانی گوشت کے پارچے نگلتا سارے بند توڑ گیا تھا۔ اکاں اور کیکروں کی ٹہنیوں پر پناہ لینے والوں کے سینوں میں تیروں کی انی لہو ٹپکاتی تھی۔ باؤلی سے بوکے بھرتی ناریاں مال سے لٹک گئیں۔کنوؤں کا لہو لہو پانی کناروں کناروں اُچھلتا زمین دوز نالیوں کو بھرتا تھا۔ عمارتیں لرزاں تھیں۔ جناتی گھوڑے ہنہنا رہے تھے۔ ہر سو تڑخ تاراج اور انہدام تھا۔ بچ رہے تھے شہر کے کھنڈرات، مورتیاں، ظروف اور غلام جن کے نقوش چناں کے ہم شکل تھے۔

چناں نے اس ساری تباہی پر نگاہ کی تو اُسے لگا وہ بھی کسی تیر کی انی کسی تلوار کی دھار دِل میں کھائے باؤلی کی مینڈھ پر تڑپ رہی ہے اور یہ جو نیا گارڈ عجائب گھر کی الماریوں پر بڑے بڑے تالے لگا رہا ہے۔ تو یہ دراصل وہی آریا ہے ظالم قاتل خونی۔

’’چل اب باہر نکل۔ ‘‘

پہرے دار نے عجائب گھر کی آخری روشنی بھی گل کر دی۔

کوئی زبردستی ہے کیا تو بھی آ رہا ہے جو مجھے کچل ڈالے گا؟

شوکیسوں کے ساتھ ساتھ گُھسڑتی فرش پر پھسکرا مار بیٹھی۔

’’آریا ہی تو ہوں ان مورتیوں کھنڈروں کا آریا تجھ جیسے راکشسوں سے انھیں بچانے پر مامور چل نکل زہر میں بجھے ہیں یہ شیشے کہیں مر گئی تو میرے گلے پڑے گی اور۔‘‘

’’ تو تجھے کیا تو تو آریا ہے، مارنا کاٹنا پیٹنا تو تیرا کام ہے۔‘‘

مردہ اشیاء کی ٹھنڈک عجائب گھر کی گیلریوں میں رینگ رہی تھی۔ جیسے چھت سے فرش تک کافور چڑھا ہو جس میں گڑھی ہوئی مردہ اشیاء بھی کپکپانے لگی ہوں۔

چناں اُسی شوکیس سے ٹیک لگا کر ٹھنڈے فرش پر پھسر گئی، جیسے کافور کی خنکی میں برف کی قاش بن گئی ہو۔نیم تاریک گیلریوں کی اُونچی دیواروں میں گھومنے والے گول پنکھے اندر کی ساری گرمی اور حبس باہر پھینک رہے تھے۔اندر ہر شئے کو کپکپاہٹ چڑھ رہی تھی شیشوں کے پیچھے بند مردہ اشیاء میں بھی اِک خفی سی لرزش تھی۔ پہرے دار نے اپنے ڈنڈے کی ٹوہ اُس کے کولہوں میں کھبوئی۔

’’چل نکل باہر ورنہ اسی مورتی کے سنگ بند کر دوں گا الماری میں، دونوں بہنیں اکٹھی رہیں گی۔‘‘

پہرے دار کی کھل کھلاہٹ دونوں گیلریوں کی کشادہ چھت سے ٹکرا کر بازگشت شو کیسوں میں گونجتی رہی۔

باہر ہاڑ جیٹھ ٹیلوں ٹبوں پر چڑھ بیٹھا تھا۔ کھنڈروں میں اُترتی اور ٹیلوں پہ چڑھتی دھوپ تمازت دھول کے اُبلتے سمندروں میں ہونکتی تھی۔ پسینے چھوڑتی حبس چھتناروں میں دم گھونٹتی تھی۔اس کی بکریاں وقفے کے دوران آثاروں میں پھلانگ گئی تھیں اور چوڑی اینٹوں والی ڈھی بنیادوں پر چہل قدمی کر رہی تھیں جن کے کھروں سے بھربھری اینٹوں کا سفوف اُڑتا اور ذرّات جھڑتے تھے۔ شکستہ بنیادوں کی منڈیریں نرم مٹی کے سینے میں مزید دھنس رہی تھیں۔ اس شکست و ریخت سے بے خبر کنٹین کے سامنے بچھی چارپائیوں پر بیٹھے گارڈ چائے پیتے اور بڑ کے سائے تلے سستاتے تھے۔

پورے کھنڈرات پر چناں اور اُس کی بکریوں کا راج تھا وہ نازک اور قیمتی آثاروں پر ریوڑ کے ہمراہ بھاگتی پھلانگتی انھیں گراتی ڈھاتی چلی گئی۔ وقفے کے خاتمے پر گارڈوں نے دیوانہ وار سیٹیاں بجائیں، بکریاں تو اپنی گستاخی پر خود ہی مجرم کی طرح نو گزے کے مزار سے متصل ٹیلوں سے نیچے لڑھک گئیں لیکن بخارات چھوڑتی صدیوں پرانی دھول لپیٹے چناں سہج سہج چلتی رہی جیسے اُنھی کھنڈروں کے اندر سے کہیں پھوٹ نکلی ہو۔

ہر چھتنار تلے جوڑے مل بیٹھے تھے۔ چونچیں لڑاتے، کبوتروں کے جوڑے، پھدک پھدک ناچتے چڑیوں کے جوڑے، مساموں سے پھوٹتی محبت کے سیلاب میں غوطائے نوجوانوں کے جوڑے، کھنڈروں سے اُچھلتی دھول اور تمازت کی طرح ہر شئے کے بھیتر ملن کی شدت، دہکتی ہوئی دھرتی سے اُٹھتے بخارات کی طرح کھول رہی تھی۔ چاقو کی نوک سے چھال اُترے تنے پر ناموں کا جوڑا کندہ کرتی لڑکی سے چناں نے کہا۔

’’میرا ناں بھی یہاں لکھ دے۔‘‘

’’تیرے ساتھ دوسرا نام کس کا لکھوں جس نے تجھے سارا ہی پایاب کر لیا ہے۔‘‘

چناں نے اپنے منحنی سے وجود کو چادر کی بکل میں سختی سے لپیٹا۔

’’آریا۔‘‘

’’آریا‘‘ بازگشت کھنڈروں، ڈھنڈاروں میں اُبھرتی ڈوبتی رہی۔

چناں نے اُنگلی کا موقلم ایوانِ خاص پر بندوق تانے کھڑے نئے پہرے دار کی سمت لہرایا۔

لڑکی اور اُس کا دوست ایک ساتھ کھلکھلائے۔

’’تیری پسند تو اچھی ہے لیکن کیا وہ بھی تجھے پسند کرتا ہے۔‘‘

چناں کی حیرت آثاروں کے استفہام پر ٹنگی رہ گئی اس سے کیا کہ وہ کسے پسند کرتا ہے وہ خود تو اُس کی پسند ہے نا۔

’’اری تو پوچھ نا کہ تو اُسے اچھی بھی لگتی ہے کہ نہیں۔‘‘

کھلکھلاہٹ کی ٹاپوں سے چھٹتے دھول کے طوفان محل ایوان، منڈی بازار سب ڈھک گئے تھے۔

وہ کسی کالج کی ڈھیر سی لڑکیوں میں گھرا اُنھیں کھنڈرات کی تاریخ بتا رہا تھا۔ چناں ریوڑ کے ہمراہ لوہا پگھلانے والی بھٹی اور منڈی والے آثاروں سے اُوپر چڑھی اور بکریوں کو اوکاں کے اُس پیڑ کی سمت ہانکا، جس کے سائے میں وہ آریا لڑکیوں کو اس کھنڈر شہر کی تاریخ سمجھا رہا تھا۔ لڑکیاں چیخیں مار مار یوں اِدھر اُدھر لڑھکیں جیسے آریاؤں کے کسی مسلح جتھے نے اچانک حملہ کر دیا ہو۔ نازک نازک کانچ سی شہری لڑکیوں کی تیز دھار چیخوں میں چناں کے وحشی قہقہے گتھ گئے۔ زناٹے دار تھپڑ کے ساتھ اُس کی چری ہوئی باچھوں میں دانت پیوست ہو گئے۔

’’چل نیچے بھتنی! ان ماؤں کو لے کر کھنڈروں سے باہر نکل جا۔‘‘

وہ چھپاکا مار کر اوکاں کے تنے کے گرد گھومتے بینچ پر چڑھی اور آریا کی گردن میں نوکیلے دانت دھنسا دیئے۔

جب تک نئے پہرے دار نے چٹلے سے پکڑ کر اُسے کھائی میں اُچھالا اُس وقت تک اُس کی گردن پر وہ تین زخم پرو چکی تھی اور خون زبان کی چتکبری نوک سے چاٹ رہی تھی۔

پہرے دار کی گردن پر دانتوں کے نیلے نیلے نشانوں میں سے لال لال لہو رِستا تھا، جن میں چناں کا لعاب اور آنسو دونوں گھلے تھے۔ وہ ٹیلے کی ڈھلان سے لڑھکتی نشیب میں بہتے کھیتوں کو سیراب کرتے پانی کے کھال میں اوندھائی۔  پانی کی سطح پر جلتی ہوئی کئی زبانیں دھری تھیں۔ پورے وجود پر انگارے سے سر سر بجھے جلد جل کر چرمرا گئی۔ سیخ پہ چڑھا ننگا گوشت بھن گیا۔ سینکڑوں فٹ اُوپر ٹیلے پر لڑکیوں کا گروہ نئے پہرے دار کے گرد پھر جمع ہو گیا تھا۔ چناں نے اپنے ہاتھ بازو دیوانہ وار کاٹے کہ کھارے پانی پر لہو کی دھاری سی چل نکلی، جس میں سورج کی چمک نے نیلاہٹ بھر دی تھی جیسے لال نیلے سوجن بھرے زخم۔

اُوپر آثاروں کی ہر اینٹ، ہر درخت ،ہر ٹیلے، ہر کھنڈر، پر ایک ہی نام کی تختی لٹکتی تھی۔

’’آریا۔‘‘

تصویریں بناتی لڑکی کے کینوس پر، دستاویزی فلم بناتے کیمرے میں فیچر لکھتی لڑکی کے قلم سے ایک ہی تصویر بنتی تھی۔’’ آریا‘‘ سیاحوں اور کالج کی لڑکیوں کے منہ سے ایک ہی لفظ نکلتا تھا ’’آریا۔‘‘

کیکروں اور اوکاں کے دف پر بجتے ایک ہی لفظ کی جھنکار پانی بھرے کھال میں جلترنگ پیدا کرتی تھی اور چناں کے بدن کے ہر ہر تار سے آ کر ٹکراتی تھی۔

آریا آریا۔

عجائب گھر میں وہ ہفتہ وار تعطیل کا دِن تھا۔ سارے کھنڈرات ٹیلے آثار ویران تھے، بس قدموں کے نشانات بھرے تھے۔نشیبوں میں اُترتے ٹیلوں پر چڑھتے اَن گنت قدم حیران تھے پتہ نہیں کون سا کس کا سب گڈمڈ۔

٭٭

 

ہفتہ وار چھٹی ہو عید ہو کہ شب رات ہو۔ چناں کو تو اپنی بکریاں چرانے کے لیے یہاں آنا ہی پڑتا تھا کہ اُس کا ریوڑ چرنے کی چھٹی کبھی نہ کرتا تھا۔ وہ قبرستان والی کھائی سے اُوپر چڑھتی اور ڈھئی ہوئی مسجد کی بنیادوں کو پھلانگتی ہوئی پختہ پگڈنڈی سے بل کھاتی ادائیں ہاتھ نو گزے کے مزار کے اِردگرد بکریاں چراتی رہتی اور کھنڈروں میں بچھے خالی خالی پیروں کے نشانوں کے سلسلے جوڑا کرتی۔ کوئی کہاں تک کس کے ساتھ ساتھ گیا تھا۔ شہری بوٹ دیسی جوتے، فیشنی سینڈل ایڑھیوں والی جن کے بلوں کے سے نشانات بھاری جوگروں کے ساتھ ساتھ جڑے تھے، جیسے یہاں سے گزرنے والے ہزاروں انسان اپنے آثار چپلیں ان آثارِ قدیمہ پر چھوڑ گئے ہوں۔

مزار کے مجاور ہفتہ بھر کے چڑھاووں کو بانٹ بونٹ کر بوسیدہ صفوں پر اوندھے منہ پڑے ہوتے، جن کے بے حس جسموں پر حشرات الارض رِینگتے کھلے منہ سے مکھیاں اندر باہر آتی جاتی رہتیں بعض اوقات چناں کو لگتا ٹھنڈے ہو گئے ہیں لیکن پھر قبر سے ٹکی کونڈی روغنی پیالوں اور گھنگھریاں بندھے گھوٹنے کی دھمک مجاوروں کے خراٹوں سے جھڑتی جن کی انجن جیسی خرخراہٹ سے ڈر کر چناں کی بکریاں کھنڈروں سے نیچے بچھے کھیتوں میں چھلانگیں لگا جاتیں۔ کنٹین بھی بند ہوتی پہرے دار چھٹی پر ہوتے۔ سارے کھنڈر چناں اور اُس کی بکریوں کے رحم و کرم پر ہوتے لیکن یہ نیا پہرے دار شاید کہیں دُور پورب سے آیا تھا جو آج بھی اپنی کوٹھڑی پر چھتری بنائے کھڑے اوکاں کے تنے سے لگا سو رہا تھا۔ ایسی گہری نیند جیسے ہفتہ بھر دِن رات ان کھنڈروں کی چوکیداری کی ہو اور پلک بھی نہ جھپکی ہو۔

کتنا عالی شان جہاں تک اوکاں کی پھنکیں سایہ فگن تھیں وہاں تک اُس کے پیر بچھے تھے۔ اوکاں کے چھتنار میں جہاں بوڑھے جنڈ نے اپنی جڑیں اُلجھا دی تھیں۔ اُنھی پر اُس کے گھنگھریالے بال بکھرے تھے۔ جہاں توری کی نازک بیلیں توریا رنگ پھول برلائی تھیں وہیں اُس کے ہونٹ ذرا ذرا وا تھے۔

چناں نے سیاہ گول بھدے لٹکے ہوئے ہونٹوں کا دائرہ اُس کے پیروں پر زنجیر کر دیا۔وہ اس پھوہاسی ضرب سے ہڑبڑا کر بیٹھے بناہی اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

’’اری تو آج چھٹی کے دِن۔‘‘

اُس نے اُجاڑ پڑے کھنڈروں میں نگاہ گھمائی۔ جہاں نشیب اُترتے اور ٹیلے چڑھتے اَن گنت نقشِ پا ہوا کی مٹھی میں گڈمڈ تھے اور مجاوروں کے خوفناک خراٹوں سے ڈر کر اُس کی بکریاں اِدھر اُدھر نشیبوں میں اُتر گئی تھیں۔

’’اری تو میری نوکری کے پیچھے کیوں پڑی ہے۔‘‘

اُس نے چانٹا سا فضا میں لہرایا، جیسے گھوڑے کو چابک دِکھاتا ہو کہ تلوار سونتے کاری وار کے لیے جست بھر چکا ہو۔ وہ اُس کے چانٹے چابک تلوار کی زد میں آ گئی۔

’’مار مجھے مار۔۔۔ مار ڈال مجھے۔۔۔‘‘

اُس کے دونوں ہاتھ اپنے رُخساروں پر مارنے لگی۔ نئے پہرے دار نے جھٹکے سے دونوں ہاتھ چھڑا کر اُس کے سامنے جوڑ دیئے۔

’’دیکھ تیرا خدا ہے کہ بھگوان بدھ ہے کہ یسوع مسیح۔ تجھے سب کا واسطہ ہے میری نوکری مجھے بخش دے۔ ابھی تو میری شادی کو صرف دو مہینے ہوئے ہیں۔ گھر میں بیٹھی تلے کی تار سی دُلہن میری پہلی تنخواہ کا انتظار کر رہی ہے۔۔۔‘‘

اُس کے پیروں ہاتھوں تلے سے زمین چھٹ گئی۔ جھٹکا کھا کر اندھی باولی میں جا پڑی اور پھر گھٹنے ٹخنے گھسڑتے ہوئے اُوپر چڑھی اور جناتی ہاتھوں میں اُس کی ٹانگیں جکڑ لیں۔ نوکیلے دانت پنڈلیوں میں نکوس دیئے جیسے دانتوں کے رستے ساری ہی اُس کے اندر کہیں اُتر جائے گی۔ دانتوں کے نشانات سے رستے لہو میں گھل مِل کر اُس کی پور پور میں حلول کر جائے گی۔

پہرے دار پاؤں جھٹکنے لگا جیسے چیونٹیاں چڑھ گئی ہوں اور کھنڈروں کے پہلو میں بچھے کھیتوں میں کام کرتے کسانوں کو پکارنے لگا۔

’’او بھائیا بکریاں سارے کھنڈر تباہ کر گئیں بکریاں۔۔۔ او بھائیا میری نوکری کا سوال ہے اوبھائیا بکریوں کو ہنکاؤ۔۔۔‘‘

وہ جدھر گیا چناں اُس کے پیروں سے لپٹی دھول میں گھسٹتی چلی گئی۔ پکی پٹڑی کی رگڑیں کھاتی کہان نما ٹیلوں پر پھسلتی نشیبوں میں لڑھکتی آثاروں کی بھربھری اینٹوں پر بجتی، نو گزے کے مزار سے متصل ٹیلوں پر بچھی کچی دھول میں زندہ دفن تڑپتی پھرکتی رہ گئی، مزار سے نکلتے طبنورے کے سر اور حق ہو کی صدائیں جیسے اُس کے وجود کے کھلے مساموں سے شوکارتی کو کتی ہوں جیسے وہ ساری پگھل پگھل کر کوئی دھڑکتا ہوا سیال بن گئی ہو اور اب موجیں مارتے آتشیں لاوے کی طرح اس مسمار بستی پر بہتی ہو۔ پہرے دار منہ میں دبی سیٹی بجانے لگا جیسے مدد کے لیے نو گزے کے مجاوروں کو پکار رہا ہو برباد بستی پر حملہ آور قزاقوں کی مزاحمت میں پسینہ پسینہ ہو رہا ہو۔ آنسوؤں، دھول اور نکسیر لتھڑے چہرے کے ہتھیاروں کے سامنے بے بس ہو اور نادر آثارِ قدیمہ کو شدید خطرات لاحق ہوں۔

چناں جیسے ہڑپہ کے کھنڈرات میں دھات پگھلانے والی بھٹی میں جھونک دی گئی ہو اور اب وہ کھولتا ہوا سیال لاوا سی قطرہ قطرہ نئے پہرے دار کے وجود کی بندوق کا بارُود بن رہی ہو۔ پہرے دار نے اُسے اُلجھی ہوئی جٹاؤں سے پکڑ کر اُچھالا اور زمین دوز نالی میں پٹخ دیا۔ خود ہانپتا کانپتا نشیب چڑھا، حرارت پسینہ لپیٹے ٹیلے پر واقع اپنی کوٹھری میں دروازہ بند کر کے پڑ رہا۔ وہ بگولا سی بدن کو گانٹھ بنا کر اُچھال اُچھال دروازے پر مارتی رہی، سرپٹختی رہی لیکن کمزور سا در نہ ٹوٹ سکا۔ شاید اندر سے کہیں پہرے دار اپنے مضبوط وجود کے ساتھ اُسے دھکیلے ہوئے تھا۔ چناں کی جلد زخموں خراشوں اور رگڑوں سے اُدھر گئی تھی۔

تپتی دوپہر نے جسم پر جمے دھول اور میل کو کھور دیا تھا، نکسیر پھوٹ پھوٹ کر ہونٹوں، گردن اور گریبان کو بھگو رہی تھی۔خالی خالی نقشِ پا سے بھری کھنڈر بستی کی خاموشی چنگھاڑتی تھی۔ ہوا پڑ باندھ کر کھنڈروں، نشیبوں پر حملہ آور تھی۔ اُس کی بکریاں سارے آثاروں کو لتاڑ چکی تھیں، جیسے کبھی آریاؤں نے اپنے گھوڑوں کے سموں تلے انھیں برباد کر چھوڑا تھا۔ قدیمی اینٹیں بنیادوں سے لڑھک گئی تھیں۔

چناں آنسوؤں اور زخموں کی مٹھی میں چٹختی پتہ نہیں سو گئی تھی کہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ اُس کی بکریاں اُسے سونگھتی رہیں، سم مار مار جگاتی رہیں اور آخر اُس کے اِردگرد دائرہ بنا کر بیٹھ گئیں۔ جیسے اِک دُوجی کی گردنوں سے لپٹی بین ڈالتی ہوں۔ عنابی سورج دھول لپیٹے داغدار تھا۔ شفق کا خون کہانوں والے ٹیلوں پر چھڑکا تھا۔ کھنڈروں میں اُڑتی دھول کی دُھند سیاہ پڑ رہی تھی۔ کوٹھری کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا جس میں گتھا اندھیرا باہر کو آ رہا تھا، جب چناں کی آنکھ کھلی تو مغرب کی اذانیں ڈھنڈاروں کی بازگشت بن رہی تھیں جس میں نو گزے کے مزار سے اُٹھتی ہو حق جذب ہوتی تھی۔ کوٹھری بھرے اندھیرے میں ہر کہیں ہاتھ مارا پہرے دار کہیں نہ تھا۔ شاید وہ کوٹھری کے در پہ بے ہوش پڑے وجود کو پھلانگتا ہوا کہیں کو نکل گیا تھا۔ اپنی تلے کی تار سی نئی نویلی دُلہن کے پاس۔۔۔ اور۔۔۔ اور اُسے خبر بھی نہ ہوئی۔ نس نس سے چنگھاڑتی چیخیں مسجدوں سے اُبھرتی اذانوں میں مدغم ہوتی تھیں۔

اس کے بدن کا سیال لاوا قطرہ قطرہ بہہ گیا تھا۔ خالی خولی ادھڑی ہوئی کینچلی چڑمڑ پڑی رہ گئی تھی۔ اُس کی بکریاں چرنا چھوڑ کر کوٹھری کے باہر ایک دوجی کے پیٹ میں منہ دھنسائے اُداس بیٹھی تھیں۔ کھدائی شدہ آثاروں میں دھواں دھواں تاریکی کے جالے آڑے ترچھے تنے تھے۔ ٹیلوں پر پھیلی تانبا سی شفق کو گرہن چڑھا تھا اور سورج کانسی کے تھال سا چہرہ لیے ٹیلوں کی پشت پر ٹنگا تھا۔ یکبارگی اس برباد بستی میں جنگی نعرے بلند ہوکے کہیں فتح یابی کے بگل بج رہے تھے۔

دگھر  دگھر کی آوازیں تیز تھیں۔ شاید آریاؤں کے جتھے حملہ آور ہو رہے تھے اور زمین و آسمان کے درمیان بھری ہر ہر شئے کو کاٹ پیٹ رہے تھے۔ چناں میں سکت نہ تھی کہ وہ کوٹھری میں بھرے اندھیرے کو چیرتے ہوئے باہر کے ہنگامے کو دیکھ سکے۔

نو گزے کی قبر سے اُٹھنے والا قلندروں، مستوں، ملنگوں کا لشکر نیزے بلمیں تیر تلواریں سونتے اُس کے سر پر آن پہنچا تھا۔ ہنہناتے ہوئے گھوڑے سم اُٹھائے دُمیں لہراتے ٹاپیں بجاتے کوٹھری کا کچا فرش اُدھیڑ رہے تھے۔

دھول اور اندھیرا بھری کوٹھری میں زخم زخم بچھی چناں کی اُدھڑی کینچلی سے سسکار اُبھری۔

’’وہ کدھر گیا۔‘‘

’’اری مورکھ! وہ تو گیا اپنی تلے کی تار جیسی دُلہن کے پاس گیا۔‘‘

عظیم الشان آثاروں کی چوڑی چوڑی اینٹیں دھڑ دھڑ گرنے لگیں۔

’’آریا آریا۔‘‘

سسکارہ اُس کے سیاہ موٹے لبوں پر لتھڑی نکسیر میں چپک کر رہ گئی۔

’’اری اس میں کیا سواد ہے جو ہم قلندروں میں نہیں ملتا تجھے۔‘‘ مسمار ناک کی پھنک ڈھے گالوں کی ہڈی پچکی چپکی ہوئی تھوڑی پر سفیدی میں گھلی زردی لیپ تھی،جیسے عجائب گھر کی کافور خنکی میں لتھڑی ہوئی مردہ مورتی ساکن ٹھنڈی اور بے حس۔۔۔ جس پہ لٹکتی ہوئی تختی پر لکھا تھا۔

’’آریا‘‘

اس کے گرداگرد اَن دُھلی داڑھی کے گچھوں اور مونچھوں کی گھپاؤں میں سے رالیں ٹپکتی تھیں، اذان کی صداؤں کی بازگشت کھنڈروں میں بجتی تھی۔ لمبی جٹاؤں، داڑھی اور مونچھوں کی غلیظ کھال میں ڈھکے سائیں بابا نے ہرے چوغے کی کھلی آستینیں چڑھائیں اور ہنہناتے ہوئے گھوڑوں کو ہاتھ کے اشارے سے روکا۔

’’امامت میں کروں گا۔ تم سب جماعت کے واسطے صف بنا کر اقامت میں رہو۔‘‘

چناں نے بہتی نکسیر سرنگی موٹے موٹے جمے ہوئے لوتھڑے زبان پر ٹیک گئے حلق میں نگلے۔

’’سائیں بابا! آج تم نے نماز نہیں پڑھنی کیا؟‘‘

’’اری یہ نماز ہی تو ہے۔ باہر دیکھ سارے ٹیلے ٹبے، کھنڈر نشیب اوکاں ون بکائتیں سب حالتِ سجدہ میں ہیں۔‘‘

چناں کی چیخیں کونڈی نما سیاہ ریخوں والے ہاتھوں کے پیالے میں بجتی رہیں، جن سے بھنگ کی وحشی بو اُٹھتی تھی۔ سبز چوغوں میں بھری بدبو افیون میں گھلی چناں کے منحنی سے وجود پر لیپ ہو گئی۔ سیاہ ریخنوں والے کریڑی جمے دانتوں میں اڑوڑی برانڈ شراب کی بوندیں چناں کے کھلے منہ میں ٹپکتی تھیں۔

ڈھنڈاروں میں گھومتی اذانوں کی بازگشت خاموش تھی۔

چمگادڑوں کے پروں کی سرسراہٹ اوکاں اور ون کے چھتناروں میں ڈوبتی اُبھرتی اور کھنڈروں کی ڈھنڈروں میں بھری وحشت اب میں ایک ہی بازگشت تھی۔

’’آریا۔‘‘

’’آریا۔۔۔آریا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

غلاما

 

 

جون جولائی کے روزے تھے اور کپاس کی بوائی کا موسم تھا۔ وڈی سرگی(فجر سے پہلے) جب کسان کھیتوں میں بھاپیں مارتے سورج کے بھٹے میں دِن بھر بھننے کی تیاری کر رہے ہوتے تو مولوی ابوالحسن مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے اعلان کرتا۔

’’دروزے دارو اللہ کے پیارو سحری کا وقت ہو گیا ہے کھانے پینے کا انتظام کر لو۔‘‘

ٹریکٹر کے ساتھ ہل جوڑتے بھل آہلی کی ٹرالیاں بھرتے اسپرے کی مشینیں پُشت پر جماتے کھاد بیج کی جھولیاں باندھتے کسان میلوٹی پگڑیاں منہ پر کھینچ مولوی کی نادانی پر حلق کے اندر ہی اندر تضحیک آمیز قہقہے اُنڈیلتے۔

’’مُلّا! یا تو روزہ رکھے یا تیرا رب رکھے جو جہاز پر آسمانوں کے ہنڈولے میں جھولے لیتا ہے اور خود تو مسیت کے تھوڑے فرشوں پر پانی چھڑک دِن بھر ویلا سوتا ہے۔ پانچ اذانیں کوک دیں پانچ ٹیم ماتھا ٹیک لیا کبھی دھوپ کے کراہے میں امن چھوڑتی فصلوں پر زہریلے اسپرے چھڑک کبھی آسمانوں کی دہکتی انگیٹھیوں تلے گوڈیاں کر سہاگے اور جندرے مار کبھی ہاڑ جیٹھ کی بھاپیں مارتی کھیتوں کی آوی میں کوزوں ک طرح دم پر لگ ۔جب پنڈے کا سارا پانی پیاسی مٹی چوس لے جاتی ہے اور جیب حلقوم سے چپہ بھر باہر اُلٹ آتی ہے تو پھر میں تجھ سے پوچھوں۔

’’مُلّا روزہ رکھے گا اللہ کا پیارا بنے گا۔‘‘

پرلی بہک سے کڑوے تمباکو کو سیاہ چقماق سی ہتھیلیوں میں مروڑے دیتے ہوئے سوہنا بغلیں بجاتا سینے کے بلغم میں ہنستا ’’گلا جو دے رکھا ہے تجھے مولوی! وہ کالا خچر،لادو، جیسے تو گلام محمد کہتا ہے۔ چاہے تو نمازوں کے لادے ڈال اُس پر چاہے تو روزوں کے بھار اُٹھوا اُس سے۔‘‘

اللہ دِتے کے اکھڑ لفظوں اور سوہنے کی اجڈ ہنسی سے فوجی نصیر ڈر سا گیا، زبان کی نوک چھو کر کانوں کی لویں پکڑیں اور کلمہ طیبہ پڑھا۔

’’ہر کوئی رب سوہنے کے حکم سے اپنا اپنا کام کر رہا ہے۔ کیوں ڈراتا ہے یار مُلّا! اگر ہم مٹی میں مٹی ہو محنت نہ کریں تو پھر تو گھی شکر کے ساتھ دو دو چپڑی کھا کر روزہ کیسے رکھے اور اگر ہم بھی تیری طرح نہا دھو روزہ رکھ سو رہیں تو پھر خون پسینہ ایک کر کے اناج کون اُگائے۔‘‘

فوجی نصیر نے حقے کے لمبے سوٹے میں آنکھوں کی مشقتی جھریوں کو گچھا مچھا کھینچ فلسفیانہ انداز میں ناک سے دُھواں چھوڑا اور سرمئی لہریوں میں سے جواب کھوجا۔

’’ہر ایک کی اپنی اپنی ڈیوٹی ہے مُلّا تجھے ربّ سوہنے نے نماز روزے دے دیئے۔ ہمیں مٹی اور مشقت دے دی۔‘‘

مولوی ابوالحسن نے اذانِ فجر کے بعد انتظار کھینچا لیکن مسلمانوں کی اس بستی میں سے ایک بھی نمازی مسجد کی چوکھٹ پر نہ پہنچا۔

مولوی ابوالحسن کے دماغ میں دِن میں پانچ مرتبہ آنے والا خیال پھر آیا۔ یہ بستی چھوڑ دینی چاہیے یہاں قہر خداوندی نازل ہونے والا ہے۔مسجد کے سامنے سے گزرتی سڑک پر سے چیختے دھاڑتے، ٹریکٹر ٹرالیاں، بھل صفائی کو جانے والے کسانوں کے جتھے عالم لوہار کی جُگنیاں اور نوراں لال کے گیت الاپتے گزرتے رہے۔ دُکانوں کے تھڑوں پر بیٹھے نوجوان کے فلمی گانوں کی تال پر اپنی معشوقوں کو ننگے اِشارے اور جملے کستے تو جیسے بھڑوں کے چھتے میں دھواں دھخا دیا گیا ہو۔ زہریلے ڈنک ناک کی کرتے پھینک اور کانوں کی لویں ڈنکنے لگے۔ مولوی ابوالحسن نے کانوں کی با وضو لویں چھو کر ایک بار پھر توبہ تائب کی اور اپنے دونوں لڑکوں کو بالمقابل کھڑے ہونے کا اِشارہ کیا۔ کاش اُس کی ساتوں بیٹیوں میں سے کوئی ایک لڑکا ہو جاتی تو کم از کم گھر کی جماعت تو بن جاتی۔

وہ نیت باندھنے کو ہی تھا کہ مسجد کے دروازے میں سے غلاما سیاہ آندھی کا جھولا سا داخل ہوا۔ لمبی لمبی جاہنگوں سے اُٹھی تہمد کے ٹکڑے سے سیاہ چھال تنے جیسے گھٹنے ڈھانپتا مڑی تڑی اُنگلیوں اور کھکھڑی سے پھٹے تلوؤں والے گوبر کیچڑ سے لتھڑے پیر مسجد کی حوضی سے دھوتے ہوئے کامیابی بھرے سیاہ دھبوں والے زرد دانت باہر نکالے جیسے کہتا ہو۔

’’آخر میں پہنچ گیا نا۔‘‘

جماعت بن گئی تھی اور تکبیریں پڑھتے ہوئے مولوی ابوالحسن کا بستی چھوڑنے کا اِرادہ پھر متزلزل ہو گیا۔ حالانکہ اُسے معلوم تھا کہ غلامے کو نماز چھوڑ کلمہ بھی نہیں آتا، جب بھی سکھانے کی کوشش کی وہ اُونٹ سے دھانے کے اندر خالی الذہن مسکراہٹ کے ساتھ شرماتا جیسے کہتا ہو۔

’اس کی بھلا کا ضرورت ہے آپ کا کام تو اس کے بغیر بھی چل جاتا ہے۔‘

لیکن جب وہ مولوی ابوالحسن کے اِتباع میں سجودوقیام کرتا تو ابوالحسن کو وہم سا ہونے لگتا کہ کم از کم اس نماز میں تو وہ اُن سے زیادہ نمبر لے گیا ہے۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ سرپٹ دوڑتا ہوا مالک کے کھیت میں جا کر جت جاتا اور نماز کے وقت کے عوضیانے میں کئی گنا زیادہ محنت چکا دیتا۔

باچھوں کے دونوں اطراف ہتھیلیاں کھڑی کر کے دِن رات میں کئی کوکیں پڑتیں۔

’’گلاما آں ں گلاآا‘‘

غلاما جہاں کہیں ہوتا رساتڑوا کر سیاہ خچر سا، سانڈوں جیسے ٹیڑھے میڑھے کھر بجاتا کھالے بنے ڈھائے ہل ویڑیں ٹاپتا کوک کی سیدھ میں آن ہواؤں اُترتا۔

شہتیر چڑھانے، اڑوڑی کے گڈے بھرتے، مرے ہوئے جانوروں کی کھال اُدھیڑ کر اُنھیں گاؤں سے باہر گھسیٹ کر پھینکنے، شرطیں پوری کرنے اور حلالے کروانے کے لیے گاؤں والوں کے پاس شاید ایک ہی شخص بچا تھا۔’’گلا، گلاما، غلاما، گاما، غلام محمد۔‘‘ جو سحری سے افطاری تک کھیتوں کی دہکتی بھٹی میں روزہ رکھ ایسی جگر توڑ محنت کرتا کہ گاؤں والے بھت اُڑاتے۔ کالا خچر،لادو، کمہار کا کھوتا، مشکی گھوڑا، کملا سانڈ، جس طرح وہ یتیمی کی کوکھ میں آپ ہی آپ پل گیا تھا۔ اسی طرح وہ ہاڑ جیٹھ کے اٹھ پہرے روزے رکھ جلتے بلتے کھیتوں کے کولہو سے جٹا تنومند خچر کی طرح ہنہناتا رہتا۔

گاؤں کے نوجوان شرطیں بدھتے۔

غلاما تین روزے پانی سے رکھے گا اور نمک سے کھولے گا۔ غلاما شرط بدھنے والے کو سو روپیہ جتوا دیتا۔ گلا گڑ کے شربت کی پوری بالٹی پی جائے گا اور اُوپر سے پانچ کلو جلیبی بھی کھائے گا۔ پورے گاؤں کے مرد اور بچے چوک میں جمع ہوتے اور سب کے بیج مداری کا بچہ جمہورایہ کرتب بھی دِکھا جاتا۔

گلام محمد رات کے دو بجے پرانے قبرستان کے بڑ سے پتے توڑ لائے گا۔

شرط بدھنے والے چڑیلوں کے خونی دانتوں سے بھنبھوری ہوئی غلامے کی لاش کے منتظر ہوتے لیکن وہ پتے توڑ کر زندہ لوٹ آتا۔

گاما اس مہینے تین حلالے کروائے گا۔

وہ شرط بدھنے والوں کو جیت کی جلیبی کھاتے دیکھ حبشی شراد ٹوٹی ہوئی ہڈی والے پھیلے نتھنوں سے میٹھی مہک سونگھتا اور کامیابی سے چور شرمیلی مسکراہٹ میں گچ ہو جاتا۔

مولوی ابوالحسن دُکھی ہوتا رہتا۔

’’سن غلام محمد! یہ ناعاقبت اندیش تجھ پر غیر شرعی بدعتوں کا گناہ ڈال رہے ہیں۔‘‘ ڈھیموں جیسے بے حس ڈیلوں اور بڑے بڑے حبشی نژاد جبڑوں کے اندر وہ پوری بتیسی کھول دیتا جیسے کہتا ہو۔

’’مُلّا جی! میں جیسے آپ کی جماعت کھڑی کروا دیتا ہوں ویسے ہی ان کی شرطیں بھی پوری کروا دیتا ہوں۔‘‘

ہاڑ جیٹھ ساون بھادوں کی چلچلاتی گرمی میں کپڑے مار ادویات کی اُمس چھوڑتی فصلوں کی حبس میں لتھڑے پتھڑے کسانوں کے منہ سے سورج کی آگ جیسے ہذیان نکلتے رہتے۔ کھیت میں روٹی پہنچانے میں ذرا دیری ہوئی لسی میں نمک زیادہ کھر گیا۔ روٹی پر دھری مرچ زیادہ باریک کوئی گئی تو وہ اپنی عورتوں کو درانتیاں مار مار لہولہان کر دیتے اور زبان سے ’’طلاق طلاق طلاق‘‘ کا جھانپا برس پڑتا۔

موسم کی شدتوں میں سے ٹپک پڑے ایسی بے قابو طلاقوں کے حلالے کے نکاح مولوی ابوالحسن کو کروانے پڑتے کیونکہ وہ انھی کی غصیلی محنت سے چھ ماہی فضلانہ وصول کرتا اور بخوبی جانتا کہ ان غافلوں کی خودساختہ شرع پر وہ دینِ اسلام کی شرع لاگو نہیں کر سکتا پھر بھی کٹے پروں کی تکلیف میں ایک بار پھڑپھڑاتا ضرور۔

’’غلام محمد نادان ہے۔ فاترالعقل ہے۔ شرعاً وہ نکاح کے قابل ہی نہیں ہے۔‘‘نمبردار حقے کا لمبا سوٹا گھڑگھڑا کر پنچایت میں بیٹھے ہر گھرانے کے ایک ایک معتبر کی طرف دیکھتے ہوئے مولوی کی نادانی پر آنکھ مارتا۔

’’کیوں مُلّا جی!جب اُسے نماز کے کولہو میں جوتتے ہو اور روزوں کے لادے اُس پر چڑھاتے ہو، اُس وقت کیا وہ فاترالعقل نہیں ہوتا۔‘‘

پنچائیت کا کوئی دوسرا معتبر مولوی کی بودی دلیل کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے نمبردار کو داد طلب نظروں سے دیکھتا۔

’’مُلّا جی! اگر وہ جماعت کھڑی کروانے کو پھٹ(فٹ) ہے تو پھر حلالہ کروانے کو بھی بڑا ٹیٹ(ٹائیڈ) ہے۔

مولوی زبان سے نکاح کے کلمے پڑھتے ہوئے دِل ہی دِل میں نعوذ باللہ کا وِرد بھیجتا۔

’’آخر یہ نافرمان مذہب کی بخ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ مسجد اور مُلّا کو اپنی خرمستیوں کے لیے ڈھال کیوں بنائے ہوئے ہیں۔‘‘

غلاما اُونٹ جیسے چھوچھ پھیلا بیلوں جیسی چتکبری بتیسی نکال دولہے کی طرح شرماتا۔

اب حلالہ کروانے والا اُسے اپنی بیٹھک میں لے جاتا۔ پیٹ بھرکر کھا لاتا ۔غلاما دُلہن کا چہرہ دیکھے بنا بے سدھ سو جاتا۔ اگلی صبح حلالے والا طلاق کا گواہ بن مُلّا سے تصدیق نامہ لینے کو آ جاتا۔ کوشش کے باوجود مولوی ابوالحسن یہ بستی چھوڑ نہ پا رہا تھا کہ سترہ افراد کے کنبے کو یہی جاہل پال رہے تھے جو قسمیں بھی اپنی ذات کے حوالے سے نہ کھاتے۔ مُلّا کے رب کی سونہہ۔

مُلّا کے نبی کی قسم۔

مُلّا کے قرآن کی قسم۔

مُلّا کی مسیت کی سونہہ۔

مولوی ابوالحسن سنتا توبہ استغفار پڑھتا۔

’اپنے بیٹیوں کی قسم کھاؤ مال ڈنگر کھیت کھلیان کی قسم کھاؤ نا واقفو بدبختو۔‘‘

وہ رمیاں درانتیاں کسیاں پھاوڑے سروں کے اُوپر ہی اُوپر لہراتے۔

’’مُلّا! اپنی مسیت اور بانگ تک رہ سونہہ قسم مال اولاد کے لیے نہیں ہوتی رب سوہنے کو سوبھتی ہے قسم۔‘‘

وہ تو دُعا بھی اپنے لیے خود نہ کرتے اسی کام کے لیے تو وہ اپنی محنت میں سے مُلّا کو ششماہی وظیفہ دیتے تھے اور جتاتے بھی تھے۔

’’مُلّا دُعا کر بارش ہو۔ دُعا کر فصل کو چھاڑ لگے دُعا کر دودھ پوت بڑھے، فصلانہ لے گھوس مار حجرے میں سوتا ہے نہ رہا کر۔

’’ارے صور کھو! کبھی خود بھی دُعاکر لیا کرو۔ سفارشی دُعا بھی کبھی لگی ہے۔ فوجی نصیر کی خام دانش اُس کی مشقت بھری جھریوں میں سمٹ آئی۔‘‘

’’مُلّا جی ! یہ غریب اَن پڑھ محنت کش اپنا خون پسینہ دہکتی چلم سی دھرتی کو پلا دیتے ہیں پوہ ماگھ کی برفیلی راتوں میں کہرا جمے پانی باندھتے کئی سانپ ڈسے مر جاتے ہیں کئی کا کلیجہ چڑیلیں پنجہ مار نکال لے جاتی ہیں لیکن تمہیں قصیلانہ برابر دیتے ہیں کہ ان کے اور رب کے بیج واسطہ رہے۔ آپ دِل سے دُعا کیا کرو مُلّا جی! کسانوں کی سانسوں سے کیڑے مار ادویات کی بدبو اور کربرے زرہ بیمار دانتوں کی بوچدھٹتی جن کی مہکتی ہوئی قمیصوں پر میل اور زرعی ادویات کی تہیں چڑھی ہوتیں جیسے گنے کی راب کے ڈرم میں غوطے ہوں۔ مولوی جہاں سے گزرتا ہوکارے پڑتے۔

’’مُلّا جی کوئی دم دارو کوئی تعویذ دھاگا، کھاٹے تم پڑھے ہوئے ہو فصلوں کو سوکھا کھا گیا۔ ٹیوب ویل چلوا چلوا ڈیزل کے ادھار میں لوں لوں جکڑا گیا۔ اللہ سائیں سے مینہ کی دُعا کرو۔‘‘

ارے نافرمانو! خود کچھ نہ کرنا صرف غفلت اور جہالت کے کوزے بھرتے رہنا ہے۔ مولوی ابوالحسن جلی ہوئی زرد فصلوں پر عبرت کی نگاہ ڈالتا اور توبہ استغفار کا وِرد کرتا۔

نمبردار نے دخائی سانسوں تلے گلہری کی دم جیسی مونچھوں کو پھڑپھڑاتے ہوئے آخری فیصلہ دیا۔

مُلّا چلا کاٹو جو یہ کر سکتے ہیں وہ یہ کرتے ہیں گیارہویں کا ختم دلاتے ہیں محرم میں گڑ کے شربت کے کوڑے بانٹتے ہیں۔ منتیں مانتے چڑھاوے چڑھاتے ہیں ہر فصل پر میٹھی سلونی دیگیں پکا ختم دلاتے ہیں۔ مسجد میں جمعرات بھیجتے ہیں قبروں والے سائیں کو تین ٹیم روٹی بھجواتے ہیں جو ان کا کام ہے وہ یہ کرتے ہیں جو تیرے کرنے کا ہے تو کر مُلّا۔‘‘

مولوی ابوالحسن نے مسجد میں اعلان کیا۔ گاؤں کے سارے مرد ریڑے میدان میں بعد از نمازِ ظہر نماز استسقا کے لیے جمع ہو جائیں۔

مولوی جب نمازِ ظہر کے بعد میدان میں پہنچا تو عجب تماشا دیکھا۔ روڑوں والے ریتلے ٹیلے پر غلاما ایک ٹانگ پر کھڑا تھا اور اُس کے گرد جمع تماشائی تالیاں پیٹتے ہلاشیری دیتے بکرے بلاتے دور سے ہی چیختے۔

’’مولوی! پرے پرے گلاما چلا کاٹ رہا ہے جب تک مینہ نہیں برستا ایسے ہی ایک ٹانگ پر کھڑا رہے گا۔ دوپہر ڈھلنے لگی، غلامے کی پگھلتی لک سی جلد پر سیاہ آبلے پڑنے لگے۔ خام ڈیزل سا پسینہ نچڑتا، باسی ریت کو بھگوتا رہا۔ جس کے گرم بخارات اُڑ اُڑ کر شاید آسمان پر بادل بستے تھے۔ مولوی کو وہم سا ہوا کہیں بارش ہ نہ برس پڑے پھر تو یہ جاہل اسی گلے کو سائیں بابا بنا لیں گے اور بات بے بات کہیں گے، مُلّا چلا کاٹتا ہے کہ ہم گلے سے کٹوا لیں۔‘‘

وہ کانوں کی لوؤں کو چھوتے ہوئے۔

عصر کی اذان کے لیے واپس پلٹا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اس ہنگامے اور شور میں اذان کی پکار کا جواب دینے والا ایک بھی نہیں۔ آج تو گلا بھی نہیں، لیکن مسلمانوں کی بستی میں اذان نہ گونجے تو پھر۔۔

تبھی مجمع کا شور بھیانک گھن گرج میں تبدیل ہو گیا۔ غلامے کی سیاہ مہیب چٹان تڑخ کر گری جیسے کوئلے کی کان منہدم ہوئی ہو جیسے بھٹی میں اُبلتے لک کا سیال بہہ نکلا ہو چیختے دھاڑتے مرد گھٹنوں گھٹنوں تپتی ریت میں دھنسے غلامے پر گھونسوں اور ٹھڈوں سے ٹوٹ پڑے اوئے کالا خچر خنزیر کی اولاد تھوڑی دیر اور کھڑا رہتا تو مینہ بس برسنے کو ہی تھا۔‘‘

نمبردار دھاڑا۔

او کے ماں کے پارو! میں نے کہا نہ تھا کہ اسے کمر کمر تک ریت میں پورو یہیں کھڑا کھڑا مر جاتا لیکن گرتا تو نہ۔‘‘

مولوی ابوالحسن نے خدا کا شکر ادا کیا کہ بارش نہیں برسی۔

نرم دِل عورتیں سحری افطاری روٹی پکا لے آتیں۔

’’مولوی جوی اتوں قہر گرمی دا گھا پٹھا کرتے مال ڈنگر کی ٹہل سیوا کرتے تنوروں پر دس دس پور روٹیوں کے لگاتے ٹیم ہی نہیں لگتا۔ مُلّاجی! مڑ کے (پسینہ) سے بھیگی اوڑھنیاں نچوڑیں تو آپ چاہے وضو کر لو روزے رکھ تو نہیں سکتیں پر رکھو! تو سکتی ہیں نا۔ مُلّا جی دُعا کرو اللہ سات بیٹیوں اُوپر تو بیٹا بخش دے۔ پھنڈر بھینس لگ جائے۔ وِکی ہوئی بھینس کو اللہ کٹی دے۔‘‘

’’بی بیبیو! غلام محمد کو رکھواؤ، روزہ اُسے پکا کر کھلانے والی کوئی نہیں ہے۔ زیادہ ثواب ملے گا۔۔۔‘‘

مولوی چار خانہ رومال کے گھونگھٹ میں نظریں حجرے کے فرش میں گاڑے رکھتا عورتیں اُس کے پردے کو بٹ بٹ دیکھتیں ایک دوسرے کو چپے دیتیں۔

’’ہائے نی مرد ہو کر زنانیوں سے پردہ کرتا ہے۔ اللہ سائیں کاحکم آیا ہے مرد ہے عورتوں سے پردہ کریں۔‘‘

نہ مُلّا جی! اس خچر کو کھانے کی کیڈی لوڑ ہے۔ اُسے کوئی نماز روزے کی سر سمجھ ہے بھلا وہ تو تیری ریس میں بھوک کاٹتا اور ٹکڑیں مارتا وہ اُس کا نماز روزہ کوئی لگتا ہے بھلا۔۔۔‘‘

مسجد کی صفروں پر ٹکڑیں مار مار غلامے کے کالک ذرہ بجھے دیئے سے ماتھے پر مسا پڑ گیا، جیسے مُلّا محراب کہتا، تو گاؤں کی عورتیں اوڑھنیاں منہ میں دبا دبا ہنستیں۔

گلا کملا مسیت کا دیا بن گیا اس میں جمائیاں کا کڑوا تیل ڈالو۔‘‘

ایک رات نمبردار نے اپنے ڈیرے سے ’’اوملا‘‘ کی ہانک مارنے کی بجائے بلاوا بھجوایا۔ بلانے والے نے زبان کی طنابیں تالو میں کھینچ ہونٹ سیاہ جھال سی اوک میں چھپا کر سرگوشی کی۔

’’مُلّا جی! ڈیڑے پر حاضری آئی ہے۔ مولوی جانتا تھا ایسے خفیہ بلاؤں کا مطلب غیر شرعی وارداتوں پر مذہب کا ٹھپہ لگوانا ہو تا ہے لیکن نمبردار کے بلاوے کو ٹھکرانا مسجد کی سیپ کو ٹھکرانا تھا۔

مولوی کو دور سے دیکھتے ہی نمبردار نے دُھائی مچائی۔

بڑا پاپ مُلّا جی مہا پاپ۔‘‘

لیکن دین اسلام میں پردہ پوشی کا حکم آیا ہے۔ اس گندی بھتی پر نکاح کی چادر ڈالو۔ عیب کبیب جو کچھ بھی ہے اس کا جلد چھپ جانا ضروری ہے۔

مولوی نے چار خانہ صافہ سَر سے اُتار کر زور سے جھٹکا جیسے اس پر اُڑ کر پڑ جانے والی گندگی جھاڑ رہا ہو۔ سامنے کیکر سے بندھی بھینس کے اِردگرد کھلا سانڈ گھوم رہا تھا۔ گاؤں بھر کے بچے اور نوجوان دائرہ بنائے سانڈ کو ہلاشیری دے رہے تھے۔

نمبردار نے پکار کر پوچھا۔

’’اوئے! مُلّائی ہوئی کہ نا۔‘‘

’’نمبردار جی! ابھی کام ٹھنڈا ہے۔‘‘

’’پر ادھر تو کام گرم ہے۔‘‘

نمبردار نے رانوں پر ہاتھ مار لے۔

’’اگر بد بخت حمل گراتی ہے تو یہ قتل ہے ایک معصوم جان کا ناحق خون، اس کی سزا پوری بستی پر آئے گی۔ مولوی جی! قتل بڑا جرم ہے کہ گناہ کا چھپا لینا۔‘‘

مولوی کے جواب سے پہلے پنچائیت نے دھائی مچائی۔

بنا شک قتل مُلّاجی! مٹی پاؤ دو بول پڑھاؤ۔‘‘

بچوں نے اِشتہا انگیز تالیاں بجائیں نوجوانوں نے سانڈ کی مردانگی پر لذیذ نعرے بلند کیے بھینس لگ گئی تھی۔

’’مولوی جی! دِن رات کھیت کھلیان میں اندھیرے اُجالے میں بیچاریوں کو بھورے(مشقت) کرنا پڑتے ہیں ہر طرف سانڈ وہیں سونگھتے پھرتے ہیں ہماری آپ کی بہو بیٹیوں کی طرح غریب پردے میں تھوڑی بیٹھ سکتی ہیں، جب مفقع بہت ہوں تو پھر بندہ بھولن ہار غلطی تو اماں حوا سے بھی ہو گئی تھی۔ مُلّا جی الہ ستار ہے غفار ہے، نبی بھی لج پال ہے پھر ہم آپ نشر کرنے والے کون ہوتے ہیں۔۔۔‘‘

بھینس کا مالک ملائی کی مبارکبادیں وصول کرتا بھینس کو تھپتھپاتا باڑے کو لے جا رہا تھا۔ مجمع ٹوٹ کر اب مولوی کے گرد جمع ہو گیا تھا۔

مولوی ابوالحسن نے قفس کی آخری پھڑپھڑاہٹ لی۔

’’حاملہ عورت کا نکاح غیر شرعی ہے۔ نمبردار جی بستی پر قہر خداوندی نازل ہو جائے گا۔۔۔‘‘

’’مولوی جی پھر کوئی رستہ نکالو آپ دِین اسلام کے عالم ہو قرآن کے حافظ ہو نماز روزے کے محافظ ہو آپ جو کہو گے وہی شرع ہو جائے گی۔ آسمانوں سے انکار تھوڑی نازل ہو گا۔ چلیں پوچھ لیں اپنے رب سے آپ کی تو گل بت رہتی ہی ہو گی نا۔۔۔‘‘

نمبردار دین اسلام میں پردہ پوشی کی اَن گنت مثالیں گنواتے ہوئے پوروں پر پٹاخ پٹاخ بوسے دیتا رہا اور پنچائیت اُس کی پیروی میں سبحان اللہ، سبحان اللہ کے نعرے بلند کرتی رہی۔

آخر آٹھ ماہ کی حاملہ سے عقد کرنے کو کون تیار ہو گا۔

مولوی کے اس احمقانہ استغفار پر پوری پنچائیت کے گدگدی ہوئی۔ نمبردار نے لمبا کش لے کر تضحیک آمیز آنکھ دبائی۔

’’مولوی جی! یہ آپ کی پریشانی نہیں بندوبست ہے ہمارے پاس۔‘‘

غلاما اپنے بڑے بڑے جبڑوں کے اندر مسکرا رہا تھا۔ تارکول سی سیاہ چکتی رنگت میں سے چکنا چکنا روغن چھٹتا تھا۔ لال سرخ مسوڑھوں کے اندر زرد دانت سچے سونے کی طرح چمکتے تھے اور وہ کندھے پر گردن ڈھلکا شرماتا تھا جیسے کہتا ہو۔

’’مولوی جی! میں آپ کی جماعت نہیں پوری کرواتا کیا؟ آپ کے روزے نہیں رکھتا؟ آپ میرا نکاح نہیں پڑھوائیں گے؟‘‘

آٹھ ماہ کی حاملہ لال تلے دار دوپٹے میں چھپنے سے زیادہ اُمڈتی چھلکتی پڑ رہی تھی۔

’’مولوی جی! بسم اللہ پڑھو پردہ ڈالو اس حال میں پنچائیت میں بیٹھی کیا یہ گدھی اچھی لگتی ہے۔‘‘

نمبردار نے ابوالحسن کے کمزور حوصلوں کو ایک اور دھکا لگایا۔

’’غلاما غریب بنا سحری کھائے روزہ رکھتا اور نمک چاٹ کر کھولتا ہے۔ چکر روٹی پکانے والی مل جائے گی جھگی بس جائے گی اس کی مُلّا جی۔‘‘

پوری فضا میں اسپرے کی زہریلی بو رَچ بس گئی تھی۔ تنوروں میں ہانڈیوں بھرولوں میں لسی کے مٹکوں میں کسانوں کے جسموں میں سانسوں میں گھاس چارے جڑی بوٹیوں میں جیسے پوری دھرتی و آسمان زہر میں گندھے ہوں کپاس کے پودے ابھی زمین سے سر نکال کر خود کو سیدھا نہ کر پائے تھے کہ بیماریوں نے آن پکڑا، زرد ٹہنیوں پر کملا کے سکڑے ہوئے پتے جیسے رُوٹھے ہوئے بچے منہ بسورتے روتے ہوئے کسان دِن بھر اسپرے والی مشینیں کمر سے باندھے متعفن سانس چھوڑتی فصلوں پر زہر چھڑکتے کئی ایک کو زہریلے اسپرے چڑھ جاتے کھٹا پلانے سے کئی بچ جاتی کئی مر جاتے، جانور زہریلا چارہ کھا مرنے لگے۔ بھینس دودھ گھٹا گئیں۔ نہروں میں بندیاں آ گئیں۔ ڈیزل سونے کے بھاؤ بکنے لگا۔ کھاد نایاب ہو گئے۔

مولوی ابوالحسن جدھر سے گزرتا ہو کارا پڑا۔

’’مُلّا جی! کوئی دم درود کوئی تعویذ دھاگہ۔ اب کو عرض گزارو بندوں پر رحم کرتے۔‘‘

مولوی ابوالحسن نے تنہامسجد میں جمعے کا خطبہ دیا۔

’’اے لوگو! خدا کے احکامات اور نبی کی شرع سے مذاق مت کرو۔ بستی پر قہر خداوندی نازل ہو جائے گا۔‘‘

’’اے ہے قہر خدا کا۔۔۔ مُلّا بھی بادشاہ بندہ ہے۔‘‘

وہ کھال کے پیندے میں متعفن پانی اوک بھر پیتے کھالے بنے کھودتے حلق میں بھری دھول میں اندر قہقہے پلٹتے۔

’’مُلّا! چہار پہر کھیتوں کے بیلن میں نچڑتے ہیں۔ کہاں ہیں پاک کپڑے کہ نمازیں پڑھیں ،تو تو مُلّا چٹا بانا کر کے مسیت کے حجرے میں ویلا جمراتوں کے حلوے کھاتا ہے۔ رب بھی اُنھی کا پیٹ بھرتا ہے جن کا پہلے پھولا ہوا ہے۔ جب بھی مارآئی ہم غریبوں پر ہی آئی۔ سوکھا پڑا تو سب سڑ گیا مینہ برسا تو سب بہا لے گیا۔ ارے مولوی تو مسیت کے گنبد میں بیٹھا ویلیاں کھاتا ہے۔رب سوہنے کو ہماری پریشانیوں سے آگاہ کیوں نہیں کرتا۔

مولوی ابوالحسن کانوں کی لویں چھو کر توبہ جو استغفار پڑھتا۔ وہ اس موقع پرست جہالت کے خلاف فتویٰ کیسے دیتا کہ اگر ان کی فصل ہو گی تو اسے بھی فصلانہ ملے گا۔ عورتیں کتاب کھلوانے کو جوتے سمیت جوڑے لائیں گی اور جمعراتیں بھیجیں گی اور ہر مشکل میں حلوے پکا کتاب کھلوانے آئیں گی۔

’’مُلّا جی! ذرا کتاب کھول کر بتاؤ میرا مندری چھلا کس نے چرایا، میرے شوہر پر تعویذ کس نے ڈالے۔‘‘

مولوی کے بولنے سے پہلے ہی نشانیاں وہ خود ہی بتاتی چلی جاتیں۔

’’مولوی جی! کیری آنکھ والی ہے نا پیر میں ………ہے نا، گال پر سستا ہے نا۔‘‘

پھر ماتھا پیٹ کر کامیابی بھری چیخ مارتیں۔

’’بوجھ لیا وہی کالے کی رن پہلے ہی پک تھا۔‘‘

مولوی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ کتاب کی گواہی اُٹھا کر کالے کی رن کے تو بے اُدھیڑنے چل پڑتی۔ لیکن حلوے کی رکابی چھوڑ جاتی تو دوسری گڑ کی تھالی بھرے آن بیٹھتی۔

مُلّاجی! کتاب پھر ولو بھینس کا دودھ کس نے باندھا چولہے کی راکھ میں تعویذ کس نے دبائے۔ رضائیوں میں سوئیاں کس نے پروئیں۔ لسی پر مکھن کمر کیوں چڑھنے لگا ہے۔ گویا غیب کے یہ سارے علم گڑ حلوے کی پیٹوں کے رُوبرو بولنے لگے ہوں۔ ضروری تھا، ورنہ وہ فصلانے کے قابل نہیں۔۔۔

مہینے بھر بعد غلاما بیٹے کا باپ بن گیا جس کا نام اُس کی ماں نے نوید رکھا گاؤں کے لڑکے غلامے کو ابو نوید کے نام سے چھیڑتے تو وہ خچر جیسے مضبوط بدن کے اندر پھول سا کھلتا اور بچے سا کھکھلاتا ،دو لتیاں جھاڑتا اور لمبی لمبی ہچکوہچکو کرتا۔

اس نکاح کے بعد مولوی ابوالحسن کی کوشش ہوتی کہ غلامے کے پہنچنے سے پہلے پہلے وہ نماز کی نیت باندھ لے لیکن وہ بڑے بڑے جبڑوں کے اندر دخاتی انجن سا ہونکتا کیچڑ گوبر سے لتھڑے عمر بھر جوتوں کی قید سے آزاد کھروں پر بھاگتا ہوا آن پہنچا اور مولوی کو نہ چاہتے ہوئے بھی جماعت کروانی پڑتی۔اُس شخص کی خاطر جو شرع کی صریحاً خلاف ورزی کروانے کا مرتکب ٹھہرا تھا۔ بعد میں وہ اپنے لڑکوں کو سناتا۔

’’نہ کلمہ آئے نہ اللہ رسولﷺ کا پتہ شریعت کو مذاق بنانے والے آ جاتے ہیں جماعت کروانے۔‘‘

جس روز مرادو دو مہینے کا بچہ غلامے کے پہلو میں سوتا چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ نکل گئی۔غلاما اپنے سیاہ بدن پر اُداسی کے سارے رنگ اوڑھے پھٹے پھٹے بنا پلکوں والے ڈیلوں میں سے میلا میلا پانی بہاتا رہا۔ بھوکا بچہ تانت کی طرح اکڑتا اور پھر گچھا مچھا ہو کرروتا تو لگتا تنی ہوئی رگوں وریدوں میں سے پھٹ کر قطرہ قطرہ بہنے لگے گا۔ لیکن جب وہ بوتل کے منہ پر لگے نپل سے دودھ پینے لگا تو غلاما اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو کا وِرد مسلسل کرنے لگا۔ غلاما جو گونگا بہرا تو نہ تھا لیکن یتیمی کی چپ اور بھیڑ بکریوں کی صحبت میں وہ جملے نہ سیکھ سکا تھا۔ ٹانواں ٹانوں لفظ بول لیتا لیکن آج اِک سوگوار ردھم کے ساتھ لفظوں کا تسلسل اُس کے منہ سے اُمڈا چلا آ رہا تھا۔اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اڑوس پڑوس کی عورتیں حیرت کی انگشتِشہادت خاک کی پھنک پر جمائے جمع ہو گئیں۔ کچھ روئیں کچھ ہنسیں۔ کیوں روتا ہے جھلا اسی کا ہو او کملا گلاما! پتہ نہیں کسی راہی کی سمٹ تھی پھینک کر چلی گئی تیرا کیا لگتا ہے کیوں لوریاںسناتا ہے اُسے۔۔۔‘‘

غلاما عمر میں پہلی بار رونے اور بولنے کے تجربے سے دوچار ہوا تھا جی بھر کیرو یا سر لگا لگا لوریاں سنائیں۔اللہ ہو اللہ ہو اللہ۔

چوکیدار کے رجسٹر میں جب بچے کی ولدیت کے خانے میں غلام محمد رف گلا، لکھا گیا تو وہ بچے کی جھولی جھلاتا مزید اُونچے اور آزادانہ سُروں میں لوری گانے لگا، جس کے لفظوں میں خودبخود تبدیلی ہو گئی تھی۔

اللہ ہو اللہ ہو گلے دا توں

اللہ ہو اللہ ہوں۔۔۔ گلے دا توں

سننے والے پھیپھڑوں کے اندر ہی اندر مخصوص گم دیہاتی ہنسی ہنستے۔

اوئے گلمے دا نیں بیگی دا آکھ (کیہ)

دیہات کی روایت کے مطابق بچوں کے نام لینے کی بجائے اُن کے باپ کے حوالے سے پکارا جاتا ہے،مثلاً

وریامے دا، اللہ دِتے دا، گلامیدا

غلاما جب لوری کا وِرد کرتا تو لوگ پکار کر پوچھتے

او کہڑے دااے۔(یہ کس کا ہے؟)

وہ سیاہ چمک دار روغن جیسے چہرے میں شرماتا۔

’’جی گلے دا۔‘‘

او کے خچرا اے تے بیگی دا اے۔(یہ تو بیگی کا ہے)

گاؤ ں میں کئی اور بچے بھی بیگی کے کہلاتے تھے یعنی جس کسی کے باپ کے بارے میں شک ہوتا وہ بیگی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا۔

غلاما بیلوں جیسی چتکبری بستی پوری کھول دیتا۔

’’نہیں اللہ دے گلے دا بندے دا۔اللہ ہو اللہ ہو۔

اُس روز مولوی ابوالحسن جماعت نہ کروا سکا، وہ اپنے دونوں بیٹوں کو پہلو بہ پہلو کھڑا کر کے نماز سے فارغ ہوا تو درود شریف کا وِرد کرتے ہوئے اس گاؤںسے نکل جانے کی تدبیریں پوری سنجیدگی سے سوچنے لگا۔آج پتہ نہیں غلامے کو باؤلا کتا کاٹ لے گیا تھا جو کہ وہ بھی نہ پہنچ پایا تھا کہ جماعت تبھی ہی میں جاتی اللہ ہو اللہ ہو گلے دا توں کا ہیجان خیز وِرد مسجد کے باہر سے اندر ٹپکا اور مسجد کا دروازہ پٹاخ سیکھلا، وہ سیاہ خچر ٹیڑھے میڑھے کھر ڈغ ڈغ مسجد کے پختہ فرش پر بجاتا ہاتھوں میں حرامی بچے کو اُٹھائے مولوی کے قدموں میں جھکتا چلا گیا۔ مولوی ابوالحسن کا ایک بار تو جی چاہا کہ اس گناہ کی پوٹ کو ٹھوکر مار کر مسجد کے حوض میں اُ چھال دے لیکن یوں تو وضو والا پانی ناپاک ہو جائے گا پھر اُسے غلامے پر بے تحاشا غصہ آیا۔ اس گندگی کو مسجد جیسی پاک جگہ پر یہ کیوں اُٹھا لایا ہے۔ اُس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

’’اوئے اے بیگی دا۔‘‘

وہ اُونٹ جیسے جبڑے کے اندر زرد بتیسی پر گہری سیاہ اُداسی لیپے کپاس کی چھڑی جیسی سیاہ موٹی شہادت کی اُنگلی آسمانوں کی طرف اُٹھائے وِرد کرنے لگا۔

اللہ دا گلامے دا بندے وا اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو۔

بچے کے بدن سے چھٹتی حرارت مولوی ابوالحسن کے قدموں پر بھٹی سے دہکی مولوی نے بچے کو چار اُنگلیوں کے پنجے میں یوں پکڑا جیسے مردہ چوہے کو دست پناہ سے پکڑ کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینکتا ہو۔یہ بیگی دایہ ناپاک حرامی بچہ مرتے ہوئے کس قدر معصوم اور بے گناہ لگ رہا تھا۔ مولوی ابوالحسن کو اُس پر ترس آ گیا۔ مسجد کے حوض میں دوچار ڈوبے دیئے اور پھر حجرے کے ٹھنڈے فرش پر لٹا دیا۔بخار کی شدت سے بے ہوش بچہ مسجد کے ٹھنڈے فرش پر بے سدھ پڑا تھا۔ سیاہ ہونٹ تپ کر لال بوٹی ہو گئے تھے۔

سیاہ کر کتے کاغذ جیسے نتھنے بھنبھیری کی طرح پھڑکتے تو مولوی کے چہرے پر گرم راکھ سی جھڑتی، جیسے دانے بھوتنی دانی کے چھانتے سے گرم ریت اُڑتی ہو۔

غلاما مسجد کے صحن میں کڑکتی دھوپ کے بھرے حوض میں ایک ٹانگ پر کھڑا تھا۔ سیاہ ننگے بدن سے چھٹتا پسینہ پکے فرش کو بھگو رہا تھا۔ سیاہ دیو، کالا خچر مشکی گھوڑا فاترالعقل غلاما لنگوٹ کسے جسے کوئی بھکشو جیسے چلہ کاٹتا کوئی صوفی منش جیسے برگد کے پیڑ تلے گیان دھیان میں لکڑی بنا بدھا۔ جیسے یوگ لیے آلتی پالتی مارے کوئی سادھو۔

مولوی ابوالحسن کی توجہ بچے کیطرف تھی۔ درود شریف کے وِرد کے ساتھ پانی کے چھڑکاؤ سے اُس کی بجتی ہوئی نسیں اور دھکتی ہوئی سانسیں معتدل ہو رہی تھیں اور وہ دودھ کے لیے منہ کھول رہا تھا۔

سامنے ایک ٹانگ پر کھڑا ہوا غلاما سیاہ موٹی گردن کی تنی ہوئی نسیں جیسے کھولتا ہوا لہو دھڑ دھڑ پورے وجود کا دورہ کرتا ہو، جس کے سیال میں سے تین جملے بہتے تھے۔

اللہ دا، گلامیدا بندے دا، اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو

گلامے دا توں اللہ ہو اللہ ہو۔

٭٭٭

 

پردہ

 

مکئی کے کھیت میں سے اُس نے چھلی توڑی، جیسے انگوٹھے اور اُنگلی کی پور کو جوڑ کر چٹکی بجائی ہو۔ ادھ کچری چھلی کے گلابی چہرے والا بوٹا کمر لچکا کر سر سرایا۔ خانو دو بیگھ بھرے برسیم کے جامنی پھولوں پر سے تیرتا ہوا مکئی کے اس کھیت میں اُترا۔ چھلی توڑتی ریشو کے جنڈوں پر ہاتھ پڑا، تو جیسے بھٹے کے پردے میں سے جھانکتے سنہرے ریشم نے پوروں کو لپیٹ لیا، خانو منڈیر سے پھسل بہتے کھال میں دھکا کھا گیا۔

’’ری تو ریشو نائن ہی ہے نا، جس کے جنڈے جنڈ کی جڑوں کی طرح بٹے ہوئے ہوتے تھے اور چہرہ رہو کے پیپے کی طرح گرالوں سے بھرا ہوتا تھا۔‘‘

’’ریشو نہیں ریشماں کہو۔‘‘

اُس نے دودھی چھلی کا گودا چبا کر خانو کی گردن پر پھوگ اُچھالا، خانو نے پھوگ اُنگلیوں پرَمل کر َپوریں چاٹیں اور اچھی اچھی چھلیاں توڑ توڑ اُس کے گلابی آنچل میں بھرنے لگا اور دودھی تُکے چبانے لگا۔

’’اری تیرے بالوں میں کن ریشم اُنگلیوں نے کنگھا پھیرا، تیرے گالوں پر کس پھول کے زردانے جھڑ گئے ، تیرے قد پر کب سنی کے بوٹے نے لہرا کو انگڑائی کھولی اری تو ریشو نائن سے ریشماں کب ہو گئی؟‘‘

ریشو ریشماں ہو گئی ۔ ریشماں جوان ہو گئی۔

یہ خبر ہر نکڑ کونے میں یوں لگی، جیسے میاں خیرے کے میلے میں موت کے کنویں میں کوہ کاف کی حسینہ ایک پہئے والا سائیکل چلاتی ہو اور بنا ٹکٹ والا تنبو توڑ رش، اُس ہٹی پر پڑنے لگا، جس کے سامنے سے گزر کر وہ روز صبح لسّی لینے نمبرداروں کے گھر جاتی تھی۔ ذرا سی کجی کا بوجھ سر پر رکھے ، کبھی کولہے پہ ٹکائے کچی گلیوں کے ٹیڑھے میڑھے موڑ کاٹتی، تو تماش بینوں کو لگتا جیسے موت کے کنویں میں چکرانے والا سائیکل اُن کے سینوں کے نشیب و فراز پر سرپٹ دوڑنے لگا ہے۔ اُس وقت گاؤں کے مردوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ رہتا کہ وہ ہٹی پہ بجتے فلمی گانوں کے تال پر سیٹیاں اور چٹکیاں بجائیں اور مونچھوں پہ ٹپکتی رال کو چوس کر گالیاں چبا چبا تھوکیں۔

’’ لچی، بدمعاش ، لفنگی۔‘‘

وہ بازو کو کمان کی شکل میں خم دے کر َسر پر دھری کجی کی گردن میں ہاتھ ڈالتی، تو اوڑھنی کا پلّو کھنچ کر بائیں کندھے سے لٹک جاتا اور قمیض کا چاک یوں اُوپر اُٹھتا کہ شلوار کے نیفے کے اُوپر کولہے کا اُبھار مصالحہ دار بوٹی سی مردوں کے منہ میں چلا جاتا، وہ ِسی ِسی اُنگلیاں کاٹتے، زبان پر پڑے کالے پیلے چھالے چاٹتے، ’’کنجری، گشتی، بدمعا‘‘ش تب گاؤں کی عورتیں کانوں کو ہاتھ لگا زبان چھوتیں۔۔۔

’’ہائے ہائے نی ساری کی ساری ننگی۔‘‘

تب وہ کولہے سے بوٹی بھر عریاں اتنی ہی ننگی معلوم ہوتی جتنی پنجابی فلموں کی گدرائی ہوئی ہیروئن اور اتنی ہی لچی دکھتی جتنی باری میں سے جھانکتی کوٹھے والی، جوان بیٹوں کی ماؤں کو اُس کی بدمعاشی، اُس کی چھوٹی ذات نیچ فطرت کا خاصہ معلوم ہوتی، جوان شوہروں کی بیویوں کو اُس کا گورا رنگ اُنھی کے شوہروں کی لائی ہوئی کریموں کا چمکارا دِکھائی دیتا اور اُس کی عمر اُس کے حسن کے لوازمات کو مختلف مردوں کے ناموں سے تعبیر کرتے ہوئے نفرت بھرے َہو کے بھرتیں۔

’’اچھو منیاری والے کی ِنکی بنیان ‘‘ جس میں وہ کس کس کر ساری کی ساری آپے سے باہر اُمڈ آتی کہ اُسے واپس خود اپنے ہی بدن میں دھکیلنا جیسے اُس کے اپنے بس میں نہ رہا ہو تبھی تو نمبردارنی اُس کی کجی میں لسّی ڈالتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگاتی۔

’’ارے بچے جوان ہو گئے پر جسم اپنی ہی کھال کے پردے میں چھپا رہا، اری تو تو اپنے ہی بدن سے دو گٹھ (بالشت) باہر نکل کرچلتی ہے۔‘‘

’’نمبرد ارنی جی! ٹوڈا ِکھر جائے تو کھوکھری میں تھوڑی سما پاتا ہے۔‘‘

وہ ہنستی تولگتا ماس میں بھرا آتشیں لاواسا، باہر اُمڈ کر بہہ نکلا ہے۔ اُس کے گالوں کی سرخی پھیری والے اَکو کے مالٹوں اور سیبوں میں سے نکلتی تھی، جنھیں سبھی لڑکیوں نے خود اپنی آنکھوں سے اُس کے سینے پہ تنی بکل میں ڈالتے ہوئے اکو کو کئی بار دیکھا تھا۔

اُس کی چال مورنی کی نہیں اُس چپلی کی محتاج تھی، جو گلو آرائیں میاں خیرے کے میلے سے بڑی مہنگی خرید کر لایا تھا اور جوں جوں وہ پرانی ہوتی جا رہی تھی۔ اُس کی قیمت کا تخمینہ بھی بڑھتا جا رہا تھا، تو گلو کی بیوی اُسے واپس لانے کو روز صبح شام سر باندھ کر گالیوں کا لٹھ اُٹھا کر اُس سے لڑنے جاتی، جواباً وہ ہنس ہنس سنی کے پھولوں جڑی لخروں سابدن لہراتی اور زرد زرد پنکھڑیاں بکھیرتی چلی جاتی۔ گلو کی بیوی لڑ لڑ پسینو پسین لوٹتی تو جیسے بے لچک لٹھ سی کڑک کر کے جا جا ٹوٹ چکی ہوتی۔

بالآخر جوان شوہروں کی بیویوں، جوان بیٹوں کی ماؤں اور اُس کی ہم عمر لڑکیوں نے مل کر یہ فتویٰ دیا کہ لچی رَن اس لیے خوبصورت دِکھتی ہے کہ وہ رنگ رنگ کا کھاتی ہنڈاتی اور وَن وَن کا مردور تتی ہے، بوڑھے مردوں کی بیویاں نسبتاً زیادہ خطرے کا شکار تھیں، کہ نہ رنگ رنگ کا کھانا اُنھیں پچتا، نہ ہنڈانا سجتا، اور نہ ہی مرد برتنے کی سکت بچی تھی، جب کہ وہ کناروں اُمڈتی ڈھلانوں چڑھتی سیلابی ندی اوربوڑھے مردوں کے جسم و جاں تو ویسے بھی نشیب میں دھرے ہوتے ہیں، ذرا سی چھل سے بھی پایاب اور پھر جب بادل کا پیٹ پھٹنے کو آئے تو وہ دریا، سمندر، تھل، بیلے کچھ تمیز تھوڑی رکھتا ہے، بس برس بڑتا ہے کہ اُس کا بوجھ اُس کے وجود میں سما نہیں پا رہا ہوتا، ریشو کے اندر بھرا سب کچھ اُس کی ہڈیوں کے پنجرے، گوشت کی دبازت اور کھال کے استرسے کہیں زیادہ منہ زور تھا۔ پھٹتی ، ادھڑتی، مسکتی، برستی بہتی چلی جاتی۔ اسی لیے تو جب وہ نمبرداروں کے گھر سے لسی لینے جاتی تو نمبردارنی کو رولاسا پڑ جاتا۔ نمبردارنی کے بالوں کی لٹیں چادر سے نکل کر بانس کے جھاڑو کی طرح بکھر جاتیں ، ماتھے پہ بچھی لکیریں اور ٹھوڑی کا ڈھلکا ہوا ماس گچھا مچھا ہو جاتا۔ نوکرانی کو ڈانٹتے ہوئے حلق میں سے جو آواز نکلتی وہ زنانہ ہوتے ہوئے بھی ہیجڑا سی معلوم ہوتی۔

’’نی جلدی ورتا نی ّلسی۔ نری آلسی، ّلسی ور تار ہی ہے کہ ہائے گلا رہی ہے۔ تو ہٹ پرے۔ میں آپ نبیڑوں۔‘‘

ون کا دُھواں نگلتی خود چولہے سے اُٹھتی تو گھٹنے کا کڑا کانو کرانی کو پڑھنے والے دھپے میں کھڑک کی آواز دیتا، کمان بنی کھڑی ریشو کے کولہے پر چڑھی کجی کے منہ میں ہاتھ ڈال کھینچتی جیسے ہاتھ اُس کی کھال پر پڑا ہو اور ادھیڑتا چلا گیا ہو۔

’’ َپلا (کپڑا)کر ِنی آگے، کیوں اکڑا کے رکھتی ہے۔ ڈھیلا چھوڑا نہیں ۔۔۔ یہ دیکھ۔۔۔‘‘ نمبردارنی چھلکیں مارتے سینے پر سے چادر ہٹاتی۔

’’یہ دیکھ آج تک کبھی نہ پہنی۔ کوئی شرم حیا بھی ہوتا ہے زنانی کا۔۔۔ کنجریاں کرتی ہیں ایسے چالے۔۔۔ یہ پہنیں تو گاڑ کے نہ رکھ دُوں انھیں اڑوڑی میں ۔۔۔‘‘وہ نوکرانیوں کی سمت اشارہ کرتی۔ لسی کجی کے منہ سے چھلک جاتی، نمبردارنی کا حلق غوطا جاتا جیسے اندر کہیں کوئی منہ کے بل ڈوب گیا ہو۔ وہ بکل کھول کر دوبارہ کستی تو نمبردارنی کو لگتا۔ اُس کے جسم کا بے شرم اکڑاؤ اُس کے اپنے جسم کے ڈھلکاؤ پر ہنسی کے چھینٹے اُڑا رہا ہے اور برآمدے میں بیٹھے ہوئے نمبردار کے پراٹھا مکھن کے ذائقے میں ا چاری چس بھر گیا ہے، جس کی سسکار وہ کانوں سنتی، ّلسی کی کجی بھر کر،یوں بڑھاتی جیسے پیر سے جوتا نکال کر پٹخا ہو، جو ہوا میں اڑنے لگا ہو، اور پتہ نہیں کون کون زد میں ہو، وہ لچی بھی ذرا سی کجی کو یوں جھٹکا مار کر سر تک لے جاتی کہ دائیں بائیں وکھیوں (پسلیوں) سے قمیض اُوپر تک چڑھ جاتی، جیسے یہ پاؤ بھر کجی نہ ہو کوئی منوں وزنی پنڈ ہو، جسے اُٹھانے کو کسی اور ہاتھ کا سہارا درکار ہو۔ تبھی تو اُس روز نمبردار کا اکلوتا بیٹا جبار اُسے مشکل میں دیکھ کر بے اختیار مدد کو بڑھا، اور کجی کے گلے میں ہاتھ ڈال اُس کے َسر دَھر دیا۔وہ  کجی کی بے وزنی پر ہنسی جس نے جبار کا سارا زور کھینچ لیا تھا اور وہ نڈھال ہو کر ہانپنے لگا تھا۔ ہنسی کا َبل جب مروڑے کھا کھا کر کمر تک آیا تو بڑے نمبردار کو دو مونہی نے ڈس لیا، جو ہر سال اسی موسم میں اُسے ڈسنے کو نجانے کتنا لمبا فاصلہ طے کرتی تھی اور جب تک ڈس نہ لیتی تھی۔ نمبردار کا بدن ڈنک کی وِس کے لیے ٹوٹتا رہتا تھا۔ نمبردار کے حلق میں پھنسنے والی مکھن چپڑی برکی، اُس نے کھنگورا مار کر نگلی، تو وہ دروازے سے باہر لپکی، جیسے خود ّلسی کی کجی میں لبالب بھر گئی ہو۔ چھلکتی ، امڈتی کبھی سر پر کبھی کولہے پر۔۔۔ جس جس گلی سے  گزرتی ، کچھ اُگلتی، تھوکتی، پھینکتی چلی جاتی۔ بھورے چننے والے اُس کے پیروں کی مٹی پھرولتے رہ جاتے، وہ بدمعاش بھی ایسی فسادی کہ بھونکنے، بھنبھورنے کو کئی نہ کوئی ہڈی ماس پھینک ہی جاتی، کبھی چیرویں آنکھ کی آب سے کچھ ڈھلک جاتا، کبھی بھیگے بھیگے لبوں کی تری سے کچھ ٹپک جاتا، کبھی کھال میں خود کو سموئے رکھنے کی کوشش میں کچھ اُبھر، اُمڈ آتا اور جب وہ گزر چکتی تو سارے ہونٹ چاٹتے ہوئے لکڑی بنے نرگٹوں میں خشک تھوک نگلتے۔

’’نری کنجری، لچی، بدمعاش ، غنڈی۔‘‘ جیسے وہ بنا کچھ کہے سنے سب دُکان داروں سے غنڈہ ٹیکس وصول کرتی گزر گئی ہو اور اس کا جھولا گزر جانے کے بعد اُنھیں اپنے قلاش ہو جانے کااحساس ہوا ہو۔ زبردست سے رُندھ جانے کے بعد زیردست کے اندر بھرا ہُسڑ گالیوں کی شکل میں باہر آتا ہے۔

یہ اطلاع آنے میں اگرچہ منطقی طور پر دیر ہوئی، لیکن جب خبر لگی تو چٹخارے کی طرح ہر زبان نے مزے لے لے کر چبائی۔ جوان شوہروں کی بیویاں اور جوان بیٹوں کی ماؤں نے اپنے ا پنے مردوں کے چہروں کی بھر بھری مٹی میں رمبی، درانتی چلا کوئی گرا پڑا سٹی دانہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔

کئی تو کھیڑے پڑ گئیں اور قسمیں اُٹھوانے تک آئیں اور ہڈیاں سنکوا کر روئیں۔

’’مرد کی ذات بڑی بے اعتباری شے اڑیو نہ بیٹا اعتباری، نہ شوہر، نہ سسر۔۔۔‘‘ اور پھر گم پھوڑے پر قیاس کے چوبھے لگانے لگیں، جیسے ہر ایک کو یقین تھا کہ یہ دوسری کی ہی سوتیلی اولاد پوتا پوتی ہے۔ جو اس ناجائز کو کھ میں پل رہی ہے۔ تب بیویوں کے سسر اور بیٹوں کے باپ بھی ڈھیری پھرولتے ہوئے معلوم ہوتے۔ گاؤں میں کسی کی چوری ہونے کی صورت میں وہ مٹی کی ڈھیری بنا کر سب کو باری باری اُس میں ہاتھ ڈالنے کی دعوت دیتا ہے۔ تب موقع سے فائدہ اٹھا کر اصل چور مدعا ڈھیری میں چھوڑ جاتا ہے۔ چوری کا مال تو پکڑا جاتا ہے لیکن اصل چور سامنے نہیں آ پاتا، گویا یہ چوری تھوڑی تھوڑی کر کے سبھی میں تقسیم ہو گئی ہو اور کفارے کے طور پر قبول کر لی گئی ہو۔ یہ چوری بھی سارے گاؤں کے مردوں میں ذرا ذرا تقسیم ہو گئی تھی اور اصل چور سامنے نہ آ رہا تھا۔ تبھی تو نمبردارنی نے چھونی (ڈھکنا) کی اوٹ میں سیر بھر مکھن کا پیڑا اُچھا ل اُچھال ّلسی لینے والیوں کی نظروں سے اُسے چھپایا۔ ّلسی کے آخری قطرے نچوڑے۔

’’اڑیو! اپنے اپنے خصموں کے توپے اُدھیڑو۔ چور تو اُنھی میں سے کوئی ہے نا بے غیر تو ہے کہ نہیں۔۔۔‘‘

مگر یہاں کوئی اقرار نہ کرتا تو اِنکار بھی تو نہ کرتا تھا، جیسے اقرار جرم ہے تو انکار ذلت، جیسے اس جرم کا اعزاز کسی اور کے نام کرنے والے پر خود نامردی کا طعنہ آ جاتا ہو۔ تب ہر عورت اندھیرے سویرے مُلّا کے پاس مٹھی بند کر کے گئی اور ڈھیری میں ہاتھ ڈال کر کھول آئی۔

’’ مُلّا جی! کتاب پھرول کر بتاؤ ، اصل چور کون ہے۔ قسم لگے آپ کو اس پاک کتاب کی چور کا نام بتا دو مُلّا جی! ورنہ بستی پر قہر ٹوٹے گا، نہروں میں بندیاں ہو جائیں گی۔ فصل کو تیلا کھا جائے گا۔۔۔‘‘

تب مُلّا درود شریف کا وِرد مکمل کر کے گریباں کے اندر پھونکتا، جیسے اپنے گرد حفاظتی قلعہ کھینچ رہا ہو۔

’’بی بیو! پچھ پر تیت عورت ذات سے ہوتی ہے، کیونکہ راز کی محرم وہی ہے ۔ اسی لیے تو حشر دیہاڑے ہر ایک کو ماں کے حوالے سے پکارا جائے گا۔ اس میں بڑی حکمت ہے۔ پردے کی حکمت۔ اس لیے بیبیو چشم پوشی کرو، مُتشبہات کے لیے شرع میں یہی حکم آیا ہے یا پھر اُسی سے جا کر سچ اُگلواؤ۔۔۔‘‘

لیکن جب نمبردارنی کا پیغام بھی یہی موصول ہو اکہ مُلّا جی کتاب نکال کر اصل چور کا نام سامنے لایا جائے۔ کیونکہ یہ شرع کا مسئلہ ہے تب گڑ اور گیہوں کی بوریاں مولوی کے گھر جاتے ہوئے عام دیکھی گئیں اور یہ بھی سنا گیا کہ نمبردار نے ریشماں کے باپ دِ ّتو نائی کو بلا کر حکم دیا کہ اوّل تو کمیوں کی بیٹیاں پیدا ہوتے ہی مر جائیں تو بہت اچھا اور اگر بدقسمتی سے جوان بھی ہو جائیں تو ان کی جڑی ہوئی لٹوں میں پہلا کنگھا پھرنے اور گرالیں  لبڑے منہ کو پہلی بار دھوتے ہی ساس کے بیلن میں ان کا گالا جھونک دینا چاہیے کہ ان کا دُھلا ہوا چہرہ اور سنورے ہوئے بال بستی کا فساد ہیں، کیونکہ مردوں کے جسم و جاں صاف چہرے اور سنورے ہوئے بالوں کی بھٹی میں بھس کی طرح جل اُٹھتے ہیں اور بھس غریب تو پھر آگ کے لانبے کے رحم و کرم پر ہی ہوتا ہے نا۔

تب سنانمبردار دِ تو نائی کے پیروں میں بیٹھ گیا اور اُس کا جوتا اُٹھا کر سر پر رکھا۔ خالی کھیسہ سامنے اُلٹ دیا، بولا: ’’مائی باپ! میں بھی یہی چاہتا ہوں، مگر جب غریب کے پاس بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کو رنگ نہ ہوتو پھر جس کاجی چاہے اُس کے چہرے پر لال کالا تھوکتا رہے۔‘‘ تب سنا نمبردار نے بند مٹھی اُس کی جیب میں کھولتے ہوئے کہا۔

’’دِتو نائی! جتنی دیر میں یہ بند مٹھی تیری جیب میں کھلی ہے۔ اتنی دیر میں گناہ کا چھپ جانا بہتر ہوتا ہے۔ گناہ کی نمائش بستی پر عذاب نازل کر دیتی ہے اور گناہ کا جلد سے جلد چھپ جانا ہی اُس کا کفارہ ہوتا ہے۔ ایسی عورت جو توری کی بیل کی طرح بڑھتی اور ہر شے سے لپٹی چلی جائے اور بھرے گھڑے کی طرح چھلک چھلک پڑتی ہو۔ بزرگوں نے یہی فرمایا ہے کہ اُسے فوراً نکاح میں دے دو۔۔۔‘‘ اگلے روز گاؤں کی ہٹی ، گاؤں کی گلیوں کی طرح ویران تھی اور گلیوں کی مٹی کی طرح فلمی گانوں کا گلا بیٹھ گیا تھا کیونکہ مردوں کو بھولے بسرے کام یاد آرہے تھے، جو پچھلے ہنگامی و ہیجانی دور میں تعطل کا شکار رہے تھے۔

’’کل رات سے ریشماں گاؤں میں موجود نہ تھی۔‘‘ عورتیں سکون کا گہر ا سانس کھینچ کر آلوں کی دُھول میں لتھڑے ادھورے چنگیر اور رومال اُٹھا ٹاہلی کی چھاؤں میں آبیٹھیں ، جیسے آوارہ کتی کے سامنے کلچے ڈال کر بے فکر ہو گئی ہوں، کہ اب چوکے کی راکھی کی مصیبت ختم ہوئی، لیکن شام پڑتے پڑتے چنگیریں اور رومال پھر اُدھورے چھٹ گئے۔ مردوں کے بھولے بسرے کام بھی مکمل نہ ہوسکے، گاؤں کی ہٹی، گاؤں کی گلیوں کی طرح پھر بھر گئی، جس میں فلمی گانوں کی بجائے چہ میگوئیوں کا تال گلیوں کی سوئی ہوئی مٹی کو اُڑانے لگا۔ خبر کانوں کان طویل سفر طے کر گئی۔

ریشماں کسی نائی موچی سے نکاح کر نہ گئی تھی بلکہ چھوٹا نمبردار اُسے بھگا کر لے گیا تھا۔ اس خبر کی تصدیق اُس ٹیکسی ڈرائیور نے بھی کر دی ، جس نے جبار کو ریلوے اسٹیشن تک چھوڑا تھا کہ اُس کے ساتھ سیاہ برقعے میں لپٹی ایک لمبے قد والی عورت تھی جس کی نقاب میں سے روشنی سی جھلکتی تھی۔

ہٹی پر بیٹھے مرد بڑی دیر مکھیوں لپی دیواروں پہ نظریں جمائے سگریٹ کے دھوئیں سے اُنھیں مزید لبیڑتے رہے، جیسے ایک دوسرے کے پہلو میں بیٹھے دوسرے کی پہل کے تذبذب میں ہوں۔

آخر اچھو منیاری والے نے پہلا اخروٹ کھتی کی سمت لڑھکایا۔

’’پہلے میرے پاس آئی تھی۔ کہنے لگی قسم رب سوہنے دی یہ تیرا ہے۔ چل مجھے ساتھ لے چل، ورنہ مولوی کو جا کر بتا دوں گی، مولوی دوسرے مولویوں کو بتائے گا، دوسرے مولوی سرکار کو بتائیں گے اور سرکار تجھے مٹی میں گاڑ کر پتھر مار مار۔۔۔ مکا دے گی۔‘‘

سارے مرد مل کر ہنسے، جیسے اُن کی ہنسی کے چھینٹے گزر چکے سانپ کی لکیر پر برس رہے ہوں۔ اب اَکو نے کھتی کے منہ پر پڑے اخروٹ پر چوٹ ماری۔

’’مجھے بھی یہی کہا، مجھے بھی تو۔۔۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’اری تیرے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ میرا ہے۔ مولوی تین گواہ مانگے گا اور تیری تو اپنی گواہی آدھی ہے۔‘‘

تب سارے مردوں نے اِک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارے اور اپنا اپنا بیان دینے کو یکبارگی منہ کھولے، خانو جٹ کی دبنگ آواز نے باقی آوازوں کو دبا لیا اور گڑ کی بوری پہ لپٹی مکھیوں میں، کابلی بھڑ گھس کر بھنبھنانے لگا۔

’’جب میرے پاس قرآن پاک سر پر اٹھا کر لائی کہ قسم پیر دستگیر کی بس تو ہی تو تھا تو میں نے کہا۔ تو معشوق ہے اور معشوق بیوی بن جائے تو زندگی اُداس ہو جاتی ہے۔‘‘

تب مردوں کے حلق کے کنویں میں غٹر غٹر ہنسی کے بوکے اُلٹے۔ ’’یہی قرآن سر پر رکھے رکھے نمبرداروں کی حویلی کارستہ پکڑ اور جبار کے پاس جا کر یہی قسم کھا اور اُسے کہہ کہ اپنی نسل بچا لے، ورنہ کسی موچی نائی کے نام لگ کر پلے گی اور کمی کمین کہلائے گی۔ مردوں کے حلق میں گھڑگھڑاتے ہوئے قہقہے یکبارگی باہر اُلٹے۔ تو ہٹی کی دیواروں پر لپی اَدھ مری سی مکھیاں ذرا ذرا رینگیں جیسے اپنے زندہ ہونے کا احساس خود کو کروا رہی ہوں اور پھر اپنی ہی گندگی میں منہ مارنے لگیں اور اُن میں گھسا ہوا بھیڑ اُلٹا ہو کر چکرانے لگا۔ گلو کو ہنستے ہنستے اَچھو آ گیا۔

’’مَیں نے بھی۔۔۔ مَیں بھی کبھی تو۔۔۔ یہی مشورہ دیا۔ کہا اِک بندہ پنڈ میں ایسا ہے کہ جس کا نام اگر تو لے گی تو تیرے سے کوئی گواہ نہ مانگے گا۔۔ ۔ اور جبار جسے باپ نے گھر میں ماسٹر رکھ کر پڑھوایا کہ سکول میں لڑکے اُسے کہیں خراب نہ کر دیں، نوکرانیوں کی صحبت میں رکھ پالا کہ نوکروں کی بیٹھک میں کہیں بگڑ نہ جائے وہ غریب پھول کے زردانوں میں پوریں ڈبو کر ہی سمجھا کہ شہد کی مکھی وہی ہے اور گوڈے گوڈے دھنسے ہوئے صاف بچ نکلے۔‘‘

ہٹی کے حجم کی نسبت کہیں بڑے قہقہے ہٹی کے کچے بدن کو پھاڑ کر گولوں کی طرح باہر نکلے، اور اندھیرے سایوں کو روندتے ساتھ والے باڑے کی امس میں اُترے، تو مویشی کھونٹوں کے گرد چکرانے لگے۔ چاچے حکم داد نے ٹھنڈے چلم کا سوٹا گھڑ گھڑایا۔

’’تمیز سے بھئی تمیز سے۔ اب وہ ریشماں نہیں رہی۔ نمبردارنی ہے اور بڑے لوگوں کی بہو بیٹیوں کا نام ہم چھوٹے لوگوں کی زبانوں پر آئے تو زبان پر چھالا پڑ جاتا ہے۔ ریشو کی کہانی مک گئی۔ نمبردارنی کا قصہ شروع ہوا، بڑے لوگوں کا ذِکر بھی زبان دانتوں تلے دبا کر سنتے ہیں، ہنکار ا بھی بھرو تو سوچ سمجھ کر بھرو، جس کے برابر آسکو نہ آگے بڑھ سکو اُس کے پیچھے پیچھے آنکھ منہ بند کر کے چلا کرتے ہیں بھئی۔۔۔‘‘

سارے مرد زبانیں دانتوں تلے دبا کر اپنے اپنے گھروں کو چلے، پیروں سے اُٹھتی سوئی ہوئی دھول دھکا کھا کر ذرا سا آگے جا کر منہ کے بل گرتی تو اندھیرا بھری گلیوں میں اڑوڑی کے ڈھیروں پر گند پھرولتے کتوں کے غول بھونکنے لگتے۔

باڑوں میں بھری تاریکی میں مویشیوں کے مہیب سایوں میں سوئے راکھے ہنکارتے، کھانستے اور حقے گھڑ گھڑاتے تو کماد کی کٹی ہوئی پوریوں کی باسی مہک کڑوے تمباکو میں گھل مل جاتی تھی۔ تبھی مسجد کے لاؤڈ سپیکر کی آواز نے سوئی ہوئی فضا کو ہڑ بڑا کر جگا دیا، جہاں انتہائی افسوس کے ساتھ اعلان کیا جا رہا تھا کہ نمبردار صاحب قضائے الٰہی سے فوت ہو گئے ہیں۔ گاؤں کے ہر گھر سے نکلتا ماتمی جلوس حویلی کو جانے والی گلیوں میں بھر گیا، جیسے پہلے سے ہی تیار بیٹھے تھے، سفید چادریں اور چار خانے صافے اوڑھ کر۔۔۔ جب مردوں کا بھرواں ریلا میرو میراثی کی جھگی کے سامنے سے گزرا، تو وہ دو ہتھڑ مارتے ہوئے مجمع کے سینے میں آن کھبا، تب تک کیکروں کی ٹیشیوں سے اُترتا چاند گلی میں بھرے چہروں کو پہچان دے گیا تھا۔

’’ہائے ہائے نمبردار صاحب مر گئے۔۔۔ جنت ملے تے بھانویں دوزخ دونوں تھاں سرداریاں قائم رہن، ڈاہڈے بیبے بندے تھے۔۔۔ پر مر گئے۔۔۔ اپنی اعلیٰ نسل میں نیچ رلا تو قبول کر ہی لیتے پر ہائے ہائے۔۔۔ ہائے۔۔۔ مرنا ہی تھا۔۔۔ مرتے نہ تو کیا کرتے آنے والے کو۔۔۔ ہائے ہائے آنے والے کو۔۔۔‘‘

میراثی نے پوری قوت سے سینہ دھڑ دھڑ کوٹا۔۔۔ ’’ہائے آنے والے کو بیٹا کہتے کہ پوتا۔۔۔ ہائے پوتا کہ بیٹا۔۔۔ جنت ملے کہ دوزخ ، اللہ بہشتی کی سرداریاں قائم رکھے۔ اس گناہگار نے خود۔۔۔ ہائے خود۔۔۔ چھوٹی نمبردارنی اور بڑے نمبردار کی بیٹھک کا پہرہ کئی باردیا ۔ ہائے خود۔۔۔ دوزخ ملے کہ جنت سدا سرداریاں قائم رہیں ھائے مرگئے۔‘‘

ماتمی جلوس نے دانتوں تلے زبان دبا دبا ہنسی کاٹی۔ عورتوں نے تاریک فضاؤں میں بازو لہرا لہرا بین ڈالے۔ ’’ہائے نی آج سارا جگ رانڈ ہو گیا۔ ‘‘ اور اِک دوجی کے چٹکیاں لیں اور خانو کی دبنگ آواز نے درختوں سے چمگادڑوں کو اُڑا دیا اور پرندے قبل از و قت بولنے اور پھڑ پھڑانے لگے۔

’’کلمہ شہادت لااِلہٰ الا اللّٰہ‘‘سارا گاؤں قدموں کی چاپ ، سرگوشیوں اور آوازوں سے چھلکنے لگا۔ بڑی نمبردارنی پہلی غشی کے بعد ابھی ہوش میں آئی ہی تھی کہ مجمع میں شور اُٹھا۔

’’چھوٹا نمبردار واپس آ گیا۔‘‘

مجمع خبر کی شدت کے تیز بہاؤ، میں بے اختیار باہر کی سمت بہا، کئی بچے اور کمزور عورتیں پیروں تلے کچلے گئے۔ جبار کے پیچھے سیاہ بُرقع میں لپٹی ریشماں نے دو ہتڑ مار مار صحن کے بیچوں بیچ بین شروع کیے۔ تو حویلی کے کہنہ ستون لرز گئے اور دھریک پر سے چڑیاں اور لالیاں اُڑ گئیں۔ مجمع دائرہ بنا کر یوں ساکت ہو گیا جیسے موت کے کنویں کی کمزور دیواروں پر کوہ قاف کی حسینہ ایک پہیہ والا سائیکل چلاتی ہو۔

بڑی نمبردارنی چلائی تو جیسے موت کے کنویں کی نازک دیواروں کے اندر کی خوفناک گھڑ گھڑاہٹ باہر اُمڈی ہو۔

’’حرام خورو! کوئی تو میرے منہ میں بھی پانی کی بوند ٹپکا دے۔‘‘ اور پھر پیاسی ہی دانت میچ کر بے ہوش ہو گئی۔ تب چھوٹی نمبردارنی نے سارے انتظامات یوں سنبھال لیے جیسے مدتوں سے اس گھر کے اندر اور باہر کی ہر ہر تفصیل سے آگاہ ہو۔ اُس کی زبان سے صادر ہوتے احکامات محترم و مدبر تھے، جیسے بڑی نمبردارنی کے، جو اس وقت بے ہوش پڑی تھی۔ نوکرانیاں بجا آوری میں پسینو پسین ہو رہی تھیں ، جیسے وہ سدا سے ایسی ہی حکمرانی کی عادی رہی ہو اور اُس کی بجا آوری کی ، جیسے نمبردارنی کا نام نہ ملا ہو اعتبار اور احترام کے سارے سلسلے بھی دُور تک جڑ گئے ہوں۔

ّمیت کی چارپائی چھاؤں میں کرو۔ اُوپر پنکھا چلا دو، بیلی ہوئی روئی اطراف میں رکھو، کلمے شریف والی چادر اُوپر ڈالو، خوشبو چھڑکو نوکرانیاں زبان دانتوں تلے دبا بھاگی پھرتیں تھیں، جیسے اندر کا تذبذب اور باہر کی حیرت قدموں کی رفتار میں بھر گئی ہو۔

تبھی باہر سے آواز آئی۔ ’’پردہ، جنازہ اُٹھانے کو َمرد اَندر آتے ہیں۔‘‘

بے ہوش پڑی نمبردارنی کو نوکرانیوں نے وہیں چادر ڈال کر ڈھک دیا۔ البتہ وہ یہ فیصلہ نہ کر پائیں کہ چھوٹی نمبردارنی کو مطلع کیا جائے یا نہ۔۔۔ جب مردوں کی ایک ٹولی اندر داخل ہوئی تو سامنے چھوٹی نمبردارنی میت کے سرہانے کھڑی گلاب کی پتیاں میت پر بکھرتے ہوئے بین کرتی تھی۔۔۔ اباجی میرے سوہنے اباجی اپنے پوتے کی صورت تو دیکھ مرتے اپنی اکلوتی بہو کا تھوڑا سا انتظار تو کیا ہوتا، ہائے میرے پیارے ابا جی۔ مرد یوں اوندھے منہ واپس پلٹے جیسے جوتوں سمیت مسجد میں پیر رکھ دیا ہو، ایک دوسرے سے ٹکراتے دروازوں کی چوکھاٹوں سے بجتے گچھا مچھا ہو باہر گرے۔ البتہ دِ ّتو نائی نے صحن میں رُک کر ہانک لگائی۔

’’چھوٹی نمبردارنی جی! َپردہ ۔۔۔‘‘

ریشو نے چادر منہ سر پر لپیٹ کر پاس کھڑی نوکرانی کے دھپ مارا۔

’’اری زنان خانے میں داخل ہونے کی جرأت کیسے ہوئی انھیں ۔۔۔ اری پوچھ ان سے ۔۔۔ پوچھتی ہے کہ مَیں کہوں چھوٹے نمبردار صاحب سے۔۔۔ وہ خود پوچھیں ذرا سنوار کر۔۔۔‘‘

نوکرانی زبان دانتوں تلے سے نکال کر بدبدائی۔

’’لیکن یہ تو دِ ّتو نائی صیب ہیں جی۔‘‘

ریشو نے گھما کر دوسرا دھپ مارا۔

’’اری کم بخت کوئی بھی ہو تجھے پتہ نہیں، اس حویلی کا َپردہ پکا ہے۔‘‘

نوکرانیاں اپنے جرم پر سہمی کھڑی تھیں اور َمرد چہروں پر صافے لپیٹے زبان دانتوں تلے دبائے ہونکتے تھے۔

٭٭٭

 

 

شہ رگ

 

نہر کا پاٹ چوڑا تھا، اور پانی کا بہاؤ تیز تھا۔ کبھی مورنی سی پیلیں ڈالتا بھنور سا گھومتا، کبھی پنہاری سی گاگریں لڑھکاتا ،چھلیں اُڑاتا، نہر کے ان عنابی رنگ پانیوں میں عورتیں نہاتیں تو امو کو اپنی گابھن بکریوں کی طرح رس بھری معلوم ہوتیں۔ اُن بکریوں کی طرح جن کے تھن دودھ سے بھرے اور سلاخوں سے تنے ہوئے ہوتے، جیسے ابھی میٹھے شفاف چشمے پھوٹ پڑیں گے، تب وہ بے اختیار جھپٹا مار تھل تھل کرتا تھن منہ میں ڈال لیتا اور چپڑچسر چوس ڈالتا اور پھر خالی لٹکتے ہوئے سیاہ چھیچھڑے سے دیکھ کر اُسے عجب فتح مندی کا احساس ہوتا۔ نہر کنارے کھڑے بوڑھے وَنّ اور اوکاں کے مہیب جھاڑ خمیدہ قد لگتے، ریمونٹ کے اصطبلوں میں واہیات حد تک جوان نر گھوڑے خچر معلوم ہونے لگتے، کناروں چھلکتے نہر کے لال پانی پایاب ہوتے جن میں رابو اُترتی تو کریوں کے لالو لال ڈیلے جھڑنے لگتے۔ لسوڑیوں کا گودا ٹپکتا، اور وَن کی سلونی پھلیاں ٹوٹ ٹوٹ گرتیں۔ تب وہ اپنی کسی دودھل بکری کے تنے ہوئے تھن منہ میں ڈال ایک ہی سانس میں خالی کر دیتا، رابو کے گرداگرد لمبی گردنوں والے براق بگلے تیرتے گلابی عنابی پھولوں پر مدھو مکھیاں منڈلاتیں اور دریائی پانی نہر کے سینے میں سمٹنے لگتا جہاں رابو نہاتی تھی اور جہاں سے راجباہوں اور کھالوں کے سوتے نکلتے تھے۔ ایک روز بے اختیار وہ بھی نہر میں کود پڑا اور پانی میں تیرتے ہوئے اُن بوجھوں کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا، جو رابو کے بدن سے مَس ہوتے تھے تو پھولوں بھری لغریں بن جاتے تھے۔ سرسوں کی اِن گندلوں کو چھونے کی کوشش میں اُس کا ہاتھ رابو کی کمر پر جا پڑا۔ تو اِک دُھواں سا اس کے بدن کے بند مساموں میں سے چھٹا تو یکبارگی اُس کے چہرے پر مونچھ داڑھی اُگ آئے جو بیس برس کی عمر تک نہ اُگ سکے تھے۔

’’ابے امو تو‘‘

امو چرواہے کی جسارت پر رابو بے تحاشہ ہنسی، روپہلی مچھلی گلپھڑے کھولتی بند کرتی، دُور تیر گئی۔ مچھلیوں کے سنہرے پرت اور پھولوں کے زردانوں سے نہر کی سطح بھر گئی اور امو کی ہتھیلیوں پر لسوڑیوں کی لیس، ڈیلوں کا گودا، کیکروں کے پھولوں کی مٹھاس ،پکے ہوئے چبڑوں کی کھٹاس اور پتہ نہیں کس کس ذائقے کا آمیزہ لتھڑا رہ گیا۔ چاٹتے چاٹتے اُس کا جی چاہا کہ نہر کے پیٹ میں کہیں اُتر جائے ایسا نہ ہو کہ وہ باہر نکلے اور اُس کی سنہری ہتھیلیوں کے زردانے جھڑ جائیں۔ تب کپاس کے پودوں پر منہ جوڑے کھڑے ٹینڈوں کے تینوں جوڑ کھل گئے۔ سفید لیس دار ریشے باہر جھانکنے لگے، زمین کی کوکھ میں کرنڈ ہوئے سارے بیج پھوٹ پڑے اور کناروں چھلکتی، میلوں بہتی نہر کے میٹھے پانیوں میں سیراب ہو نے لگے۔ رابو نہر کنارے تھاپا مار مار کر کپڑے کوٹتی تھی تو اُس کی گیلی اوڑھنی کے اندر بھی جیسے اِک رِدھم سے کہیں تھاپے پڑ رہے ہوں، جن کی دھمک سے امو کا بدن بجتا تھا اور نہر کے پانیوں میں بھنور بنتے تھے جن میں لالیوں، گھگھیوں اور بگلوں کے ڈار گردنیں گھسیڑ گھسیڑ پر جھنکارتے اور جھن جھن پھواریں رابو کی اوڑھنی کو بھگوتیں، جس کے بدن میں نہری پانی کی رنگت گھلی تھی، نہ سرخ نہ پیلا نہ مٹیالا پتہ نہیں کیسا رنگ پکی ہوئی پیلوں جیسا ، رس بھری نمولی ایسا، دُودھ بھرے بکری کے تھنوں کی رنگت جیسا۔

عورتیں جب کپڑے دھو چکتیں تو گردن تک قمیصیں ہٹا کر اِک دُوجی کی کمر پر سے ناخن مار مار گرمی دانے پھوڑتیں تب امو کی بکریاں بھری فصلوں کو منہ مارنے لگتیں، لیکن وہ انھیں ہنکا نہ پاتا، کہ اُس کے پیر تو نہر کی سنہری ریتل میں دھنسے ہوتے، جہاں روپہلی مچھلیاں قلابازیاں لگاتیں، اور نازک نازک شاخوں پر لہراتے شوخ رنگ پھول سنہری پانیوں میں منہ دھوتے۔ تب دریائی پانیوں میں گچا گچ نہر کی مینڈھوں پر بیٹھ کر عورتیں ٹپے اور ماہیے گاتی ہیں تو اُسے باری دینے کو کہتیں کہ چرواہوں کے گیت راوی کے پانیوں جیسے بھیگے نتھرے اور میٹھے میٹھے ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کی عورتیں اُسے کمر پر صابن ملنے اور پت کے دانے پھوڑنے کی دعوت بھی دے دیتی تھیں۔ تب اُسے لگتا یہ مواد بھرے دانے نہیں ہیں بلکہ اُس کی دودھل بکریوں کے بھرے ہوئے تھن ہیں۔ وہ پٹک پٹک ناخن مارتا چلا جاتا۔ ان میں سے نکلنے والا زرد مواد جیسے کہیں اُس کے اپنے اندر بھرا پڑا تھا، جو ناخن لگنے سے پھوٹ پڑا ہو۔ اُس کا اپنا جسم ازخود پت کا اک بڑا سا دانہ بن جاتا جس کا منہ کھل گیا ہو اور جس میں سے زرد زرد پکا ہوا مواد پھوٹ پڑا ہو۔ وہ لذتِ درد میں کراہتا، تب کوئی مرد آتا دِکھائی دیتا تو عورتیں خود کو ڈھکنے لگتیں لیکن اُس سے کسی پردے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتیں جس کے چہرے پر بیس برس کی عمر تک کوئی بال تک نہ اُگا تھا اور قد کنڈیاری کے بوٹے جتنا تھا تب وہ کانٹوں بھرے کیکروں کی ٹہنیوں پر چڑھ جاتا اور ریمونٹ کے اصطبلوں میں بھرے اُن نر گھوڑوں پر حقارت سے تھوکتا جن کا کام صرف مربع پال گھوڑیوں کی نسل کشی تھا، جن کی نس نس میں کچھ اُبلتا کھولتا، جیسے ابھی پھٹ پڑیں گے۔ اُس کے اندر بھی ایسا ہی کچھ اُبلتا کھولتا ہوا باہر نکلنا چاہتا۔ نر گھوڑوں کی بے حیائی جیسا کہ پت کے مواد جیسا۔ تب وہ ان کورے کھیتوں میں لوٹنے لگتا، جن کی ابھی کور نہ ٹوٹی تھی، جو ابھی پچھلی رات دھرتی کو پھاڑ کر ذرا ذرا انگور سے باہر نکلے تھے اور جن کے سَروں پر ابھی بیج کے خول دھرے تھے۔

نہر کناروں کناروں چھلکتی سروے کی چوڑی سڑک کو پایاب کرتی اوکاں اور ون کے کھکھلوں میں نہری پانی اُچھال مارتا اور دونوں کناروں بچھے کھیتوں میں منہ زور ہو گھپ گھپ بھرتا، جس کی سطح پر مچھلیوں کے سنہرے پرت اور بگلے تیرتے تھے کہ یہ پانی رابو کو چھو کر کھیتوں میں بھر رہا تھا جس کے سنہرے کیچڑ سے اصغر کی پنڈلیاں لتھڑی تھیں۔ سفید لنگوٹ رانوں پر کسا تھا۔ دُھواں چھوڑتی، تڑپتی پھڑکتی پنڈلیاں اور رانیں جن سے لہو رنگ نہری پانی نچڑتا تھا اور تنومند بدن کے مساموں سے زرخیز بھل جھڑتی تھی، جو بنجر گلزار بناتی تھی اور گلزار پھلدار، یکبارگی وہ ریمونٹ کے گھوڑوں سے مضبوط سم اُٹھا کر پانی میں کودا اور ہنہناتا ہوا رابو تک گیا، رابو بدن کی نہر سے چھٹتی لہروں اور جھرتی ہوئی بھل میں منہ کے بل گری اور بھاپیں چھوڑنے لگی، اور فولاد چڑھے سموں سے چٹختی چنگاریوں میں بھسم ہو گئی تب گداز پھولوں کو چومتی ہوئی مدھو مکھیاں فضا میں بھڑ گئیں۔

امو کو لگا اُس کی سب سے رسیلی بکری کے دودھ بھرے تھن کسی جنگلی بلے نے دبوچ رکھے ہیں۔ اُس نے گلا پھاڑ پھاڑ ڈھولے اور ماہیے گائے جن میں ڈاروں وچھڑی کونج کی کُرلاہٹ بھری تھی۔ اپنی دودھل بکریوں کو چھمکیں مار مار اِدھر اُدھر بھری فصلوں میں بکھیرا، کیکروں کی ٹیشیوں پر چڑھ کر کوکیں اور واجیں ماریں، ٹہنوں سے لٹک کر لمبے لمبے جھونٹے لیے لیکن آج شاید ساری بستی کان لپیٹ کر سومَر رہی تھی۔ وہ دھریک کی ٹیشی سے جھولتا ہوا نیچے بھیگی ہوئی ریت میں آن ٹپکا، اور جھپٹا مار کر اپنی سب سے دُودھل بکری کی پچھلی ٹانگوں کو جکڑ لیا، جس کے جسم سے بھی بڑے حوا نے پر چڑھی بوجھی لیرولیر کر دی اور حلق کو کہیں پیٹ میں کھینچ کر اور زبان کو پھندہ بنا کر بھرے ہوئے تھن ایک ہی سانس میں خالی کر دیئے اور پھر دُودھ اور آنسوؤں کی میٹھی نمکین دھاریں باچھوں سے بہنے لگیں اور گیلی ریت میں وہ سارے کا سارا لتھڑ پتھڑ ہو گیا تب سرخ جھکر آسمانوں سے اُترے اور سیاہ سیلابی آندھیاں زمین سے اُمڈیں اور آسمان اور زمین کے درمیان بھری ہر شئے کو لتاڑ دیا۔ نہر کے کنارے ٹوٹ گئے۔ کھیتیاں غرقاب ہو گئیں۔ تیار فصلیں اپنے ہی گھٹنوں پر دُوہری ہو گئیں۔ ون اور اوکاں کے تنے تڑخ گئے جن میں بھرے جنگلی چوہے ، گلہریاں اور گوہ جھکڑوں میں اُڑنے لگے۔سیاہ چھال پانی کے بہاؤ میں تیرنے لگے اور گھونسلوں میں پناہ لیے ہوئے پرندے اور انڈے بچے روڑ گِیٹوں کی طرح ٹپکنے لگے۔ امو کی کئی بکریاں اندھی ہو کر نہر میں گریں اور بہہ گئیں۔ شوکریں مارتا لال آسمان زمین کے سیاہ داغدار چہرے سے ٹکریں مارنے اور لہولہان ہونے لگا۔تب نہر کے سارے پانی بے منہ سَر زمینوں میں جذب ہو گئے۔

اُس روز نہر میں پانی کی بندی ہو گئی کنارے پیندے میں اُتر گئے اور مَری ہوئی مچھلیاں کناروں پر چپکی رہ گئیں، سَر کے بل نہر میں غوطے لگانے والے لڑکوں کے بدن کیچڑ سے اَٹ گئے، پرندوں کے پَروں سے جھپٹتی پھواروں میں بھیگنے والی رابو کی اوڑھنی خشک ہو گئی، جس پر کالے پیلے میل کے چٹاک اُبھر آئے۔ ایسے ہی داغ جیسے زرد پتوں میں لپٹی لسوڑیاں سوکھ کر پیپ بھرے پھوڑے معلوم ہونے لگی تھیں۔ لال ڈیلے سیاہ چویاں بن کر جھڑ گئے۔ چراگاہیں پھونس ہو گئیں نہر سے نکلتے راجباہ اور کھالوں کے سوتے خشک ریت پھانکنے لگے اور بکریوں کے تھن سُوکھ کر جنڈ کی جڑیں بن گئے، سروے کی چوڑی سڑک جس پر کبھی نہر کی اُچھال چھڑکاؤ کرتی، ڈکھن کی ہَوائیں جھنڈوں میں سے ساڑ ساڑگزرتی ہوئی جسموں پر پھولوں بھری چھمکیں برساتی تھیں۔ اب مویشیوں اور انسانوں کے ریوڑ اس ٹھنڈی سڑک سے گزرتے تو معلوم ہوتا، بگولے سٹاپو کھیل رہے ہیں۔ کپاس کے ٹینڈے ان کھلے ہی کرنڈ ہو گئے، جن کے سفید ریشے سنڈیاں بن گئے۔ خشک نہر کی قبر پر بیٹھی عورتیں بین اُلارنے لگیں، کماد اور نرمے کی اُن فصلوں کا ماتم جو آسمانوں چڑھی سیاہ آندھی معلوم ہوتے تھے۔ اُن درختوں کا ماتم جن کی شاخیں اِک دُوجے میں منہ دھنسائے چھتریاں تان گئے تھے، جن کی گھپاؤں میں عورتیں بھٹک جاتیں تو کھیتوں کو پانی باندھتے مرد اُنھیں ڈھونڈنے کو نکلتے تو وہ بھی رستہ بھول جاتے تب نہری پانی پی پی کر ساوے کچر ہوئے جھنڈوں میں نرمادہ چونچیں لڑاتے۔ بند پپوٹوں اور زرد باچھوں والے بوٹ نہری پانی کے بلبلوں کے سے انڈے پھوڑتے۔ لال لال حلق چیر چیر چوگا لیتے۔

سورج ان جھنڈوں میں سو ا نیزہ اُترتا چلا گیا۔جامنی دھاریوں والے آک کے سفید پھولوں کے گچھے اور آموں کے ہم شکل سبز کڑوے پھل، دھول کی موٹی تہ میں لپٹ گئے۔ تھور اور کنڈیاریاں کھیتوں کی زرخیزی چاٹ گئیں۔ پرندے سوکھی نہر میں منہ کے بل غوطہ کھا کر گرتے اور سلگتی ریت میں چونچیں پھنسا دوبارہ اُڑان نہ بھر پاتے۔چرندپرند روڑ گیٹے کھا کھا مرنے لگے۔ اب انسان کیا کھائیں گے، اوندھی موندھی آندھیوں چڑھی فصلیں سوکھی نہر کی سولی چڑھ گئی تھیں۔بکھرا، کنڈیاریاں اور آک پھل پھول گئے، زرخیز مٹی، روڑ اور ڈھیمیں بن کر بھاپ چھوڑنے لگے۔ دائی کی بھٹی اور تنور ٹھنڈے ہو گئے جہاں کچے سٹے مچھ کر اور دودھی بھٹے گھیر کر آبھو بھنوائے جاتے تھے اور مٹھ مٹھ بھر پیڑوں کی روٹیاں وارو وار لگتی تھیں۔ گیہوں کی ہم رنگ عورتیں سوکھ کر بھوسہ ہو گئیں اور مردوں کی کمریں کھجور کے سیلے پتوں سی دوہری ہو گئیں، پانی پانی پکارتی ٹٹیریاں پیاسی ہی سو گئیں۔ نہر کے پیندے میں چُلّو بھر پانی تعفن چھوڑ گیا، جس میں مرے ہوئے مچھلیاں پرندے اور مویشی راتوں رات کہیں غائب ہونے لگے۔ تب خبر آئی اُوپر کہیں پانی کی تقسیم پر جھگڑا ہے، جب تک زمینوں کی سیرابی کا سمجھوتہ نہیں ہو پاتا تب تک سارے پانی سمندروں میں غرق ہوتے رہیں گے۔ نہریں خشک ریت اُڑاتی رہیں گی۔ زمینیں بنجر ہو کر بھکھرا اُگائیں گی،جنھیں کھا کر جاندار مرتے رہیں گے، جس میں مرغابیاں، مچھلیاں، بگلے، لومڑ منہ کے بل ریت میں دفن ہوتے رہیں گے۔ اَمُّو کو بڑوں کی اس سوچ پر بڑی ہنسی آئی اور وہ سوکھی ہوئی نہر کی قبر پر جس کے سارے پانی سمندر برد ہو رہے تھے اور جس کی زمینیں پیاسے حلق کھولے مَر رہی تھیں،تا دیر بیٹھا ہنستا رہا ۔ زیادہ ہنسی تو اُسے ریمونٹ کے اصطبلوں میں بندھے نہر کے پانیوں کی طرح چھلکتے اُمڈتے بھاپ چھوڑتے اُن نر گھوڑوں پر آئی جو اپنے اندر ہی کہیں نہر کے پانیوں کی طرح اُتر گئے تھے۔ اس سے زیادہ ہنسی تو اُسے اصغر کو دیکھ کر آئی کہ یہ نر گھوڑا بھی خشک نہر میں بنے گھوروں اور غاروں کی طرح اپنی ہی گہرائیوں اور کھائیوں میں کہیںسمٹ گیا تھا اور پھر اُسی روز اُس نے نجانے کونسا بھکرا نگلا کہ ایک دن اور ایک رات جلاب نچوڑتا ہوا ایسے مَر گیا جیسے کوئی چڑی گھگھی خشک نہر کی سوکھی ریت میں پر دھنسااور چونچ گھسیڑ پیاس کی سولی پر چڑھ جاتی ہے تب امو نے اپنی سب سے دودھل بکری کے تھن منہ میں چوڈالے حلق ریتلا غار بن گیا اور زبان پر تھور اُگ آیا لیکن دودھ کا قطرہ بھی نہ ٹپکا، جیسے وہ آک کی سوکھی جڑ چوستا ہو جس میں سے دودھ رنگ زہر نچڑتا ہو۔ تب نہر کی خشک پھوڑی پر عورتوں نے بین اُلارے، جن کے جسموں پر بچھے گرمی دانے پھس گئے تھے اور جلد کی اُوپر لی سیاہ پرت اُدھڑ گئی تھی، جن کی قمیصوں میں چوسی ہوئی لسوڑیوں کی بوسیدہ کھالیں لٹکتی تھیں، پھولے ہوئے پیٹوں والے بچوں کے سَروں پر کوّے آن بیٹھتے، ٹھونگتے مگر سوکھا ہوا چمڑا نہ اُدھیڑ پاتے۔ گدھوں کی کر لاہٹیں،ٹٹیریوں کی پکاریں۔ عورتوں کے بین، بچوں کے حلق میں کھڑکھڑاتی چیخیں جنھیں باہر اُنڈیلنے کی طاقت تانت سے جسموں میں نہ رہی تھی۔ سامنے نہر کے خشک ملبے میں گدھ اور ڈھوڈر لمبے پَر پھیلا سَر کے بل دبے تھے اور سروے کی سڑک پر ریت اور دھول کے پہاڑی سلسلے رواں رہتے تھے۔ سرمہ سی مٹی ڈھیمیں اور روڑے بن کر تڑخ گئی اور کور تمّے اور تھور اُگلنے لگی۔ رابو تعفن بھری نہر کی بھاپ چھوڑتی بھوبھل میں پیر ڈال کر روتی تھی۔ اُس کے گرد نہاتے سارے پھول راکھ ہو چکے تھے ۔مچھلیاں مر گئی تھیںاور بگلے کہیں ہجرت کر گئے تھے۔ امو اپنی مرتی ہوئی بکری کو اُٹھا کر نہر پہ لایا، جس کا بدن دھونکنی کی طرح پھڑکتا تھا لیکن نہر سوکھ کر ہموار ہو چکی تھی، جس کی مینڈھوں پر سبزہ تھا، نہ پیندے میں پانی، بکری کے تھن تانت کی طرح بجتے تھے اور امو کا منہ گرد اور آنسوؤں سے اٹا تھا۔ رابو نے بانہیں پھیلا کر اُسے سینے سے چمٹا لیا اور سوکھی نہر کی پھوڑی پر بین الارا۔

’’امو نہر سوکھ گئی۔ تیری بکریاں مَر گئیں میرا اصغر مر گیا۔ تو اپنی بکریوں کے بغیر نہ جی سکے گا مَیں اصغر بنا نہ جی پاؤں گی۔‘‘

امو کو لگا وہ اپنی مَری ہوئی بکری کی ٹھنڈی لاش سے لپٹا ہے۔ سوکھی ہوئی نہر کی بھوبھل میں پڑنے والے کسی پیاسے گھورے میں اُتر گیا ہے۔ اُس نے اپنی ہتھیلیوں کو چاٹا لیکن اُن پر کچھ تمّے اور تھور کی سی کڑواہٹ ملی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹے تھے لیکن بدن کی ریت کہیں رُوح کے گھوروں میں اُڑ رہی تھی۔ لہروں سی اُچھال مارنے والے ریمونٹ کے گھوڑے کہیں اندر ہی سمٹ گئے تھے اور بدن پر بچھے سارے گرمی دانے بنا ناخن مارے ہی پھٹ گئے تھے۔ امو نے منہ پر ہاتھ پھیرا اُس کے چہرے پر اُگنے والے دو چار بال بھی مسمار ہو چکے تھے۔ رابو کی نحیف گرفت میں وہ سوکھے ہوئے گوکھڑے کی طرح کُرنڈ پڑا تھا، جس کی پھوٹیں، اُس کے سیاہ ریشوں میں دھنس چکی تھیں۔ سارے آبی پرندے خشک نہر کی قبر کُرید کُرید کہیں اُڑان بھر گئے تھے اور اُوپر کہیں پانی کی سیرابی کیتقسیم پر فیصلہ ابھی بھی نہ ہو پایا تھا۔ سارے دریا سمندروں میں غرق ہو رہے تھے اور سامنے پڑی نہر کی شہ رگ کٹ چکی تھی۔

یا شاعر

 

 

’’پیاری طالب علمو!میرے اس کتاب گھر میں بجز کتابوں کے کوئی ساماں نہیں یہاں ہر علم کی ہر شاخ حرف، حرف پھولوں سے لدی ہے۔ ہر نوع ہر رنگ و باس کے کتب پھول کھلے ہیں۔ اپنی پسند کے شگوفے چن لیجیے اور اُن پر تشریف رکھیے۔ انہیں اپنے لمس مشکبار سے محروم مت کیجیے۔‘‘

طالب علم لڑکیاں مرعوبیت و ممنونیت کے بحر بے کراں میں ڈوب چلیں، کنارے کنارے بیچ منجدھار اتھاہ ساگر۔

کتابوں کے بندھے بنڈل جن کی بوباس مثل بند کلی اُنہی کا مقدر تھی۔ چہار جانب نشستوں کی مانند بکھرے تھے۔ لڑکیاں ایک ایک بنڈل پر سمٹ گئیں۔ یہ حرف پھول جن میں بدن پھول مہکتے ہیں۔ بدن پھول جو اپنی بوباس لٹا مرجھاجاتے ہیں۔ حرف پھول جو بدن مہک جذب کرسدامشکبار رہتے ہیں۔ شاعر باکمال حرفوں کی تھالی تھامے عطرلوبان دھنکائے مشک مہکائے، مورتیوں کے چرنوں میں دو زانو ہو بیٹھا۔ حرفوں کی تھالی ہولے ہولے گردش کرنے لگی۔

عزیز از جاں متعلّم مہر لقا لال جلد والی افسانوی ادب کی کتاب تیرے تخیل کے رومان پرور جزیروں کی مدہوش کن فضاؤں کی غماز ہے۔ نغمۂ جان ترنم، تیرا حسن انتخاب تیرے خدوخال متوازن کا عجب سنگم ہے۔تو سراپاگیت ہے مجسم نغمہ ہے۔ راگ راگنیوں کے علم پر محیط یہ کتاب تیرے ذوق ترنم آفریں کی غماز ہے۔ ماہ طلعت تیری نگہ شیرانی و مجاز کے کلیات کو شرف انتخاب بخش گئی۔ تجھ میں عذراوسلمیٰ کی ساری دلربائیاں مجسم ہیں تو شاعر کے تخیل کی تجسیم ہے۔ شاعر با کمال کی نیم وا آنکھوں میں نظاروں کی حشرسامانیاں گندھ گئی تھیں۔ چور چور چھلکتی اُمڈتی۔

دھند کے غباروں میں کہسار کے چناروں میں

برق کوندتی ہے حسن کے نظاروں میں!

اے حسینہ غنچہ دہن میری اگلی کتاب کا انتساب تیرے نام کہ تو اس کتاب کے ہر ہر حرف میں ہر خیال میں لہو کی گردش تیز ہے۔ تو کہ شاعر حرماں نصیب کے تخیل کی مہمیز ہے۔ لڑکیاں مرعوبیت کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن سطح آب پر اُبھرتی ڈوبتی رہیں، سورج دن اور رات کی درمیانی فصیل پہ بچھا حاضر غائب نہ پورا اُجالا نہ پورا اندھیرا۔ شاعر باکمال کا کتاب گھر ڈوبتے سورج کی شفق میں ملگجا، نکھرا کچھ واضح، کچھ دھندلا، کچھ ظاہر، کچھ پوشیدہ عارضوں کی شفق لبوں کی دھنک، گیسوئے تابدار کی ملگجاہٹ، حرفوں کی مدھرتا، لہجوں کا ترنم شعروں کا رسیلا سحر۔

پیاری طالب علمو! ہر غزل کا ہر شعر ہر اقتباس کا ہر لفظ ابلاغ معنی میں کمال ایمائیت رکھتا ہے۔

’’یا شاعر وضاحت ہو۔‘‘

گدرائی ہوئی شفق کی کرنیں کتری ہوئی دھنک پھولا پھروا۔ شاعر باکمال کے وجود میں جھرجھری بڑھ کر پھیل گئی اور پھیل کر سمٹ گئی۔

اچھی طالب علمو! ایک ہی شعر کی شرح ایک مرد ثقیل کے لیے، نوجوان پر جوش کے لیے یا دوشیزہ ہو شربا کے لیے معنی کی مختلف پرتیں کھولتی ہے۔

’’یا شاعر مثال دی جائے۔‘‘

پیاری طالب علمو تشریح وہ جواز خود دل کے نہاں خانوں میں شرح ہو جائے غالب خرابات کا مصرع ہے۔

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

نوجوان، ناشکیب کے جذب و کیف پر یہ کچھ یوں عیاں ہوتا ہے کہ جذبے کی تڑپ اور نگہ کی حدت پیرہن کے تار و پود کو جھلسا کر بھسم کر دیتی ہے۔سراپا غزل شعر مجسم دوشیزہ خوش جمال کا پیرہن مانند ورق مہین ہے کہ شباب ہو شربا مانند سوزبرق سنگین ہے۔

لڑکیاں اپنے اپنے وجود میں کسمسائیں، دہکتے انگاروں پر ہلکے ہلکے سرد چھینٹے۔ ترمرا اٹھے اور بجھے۔ پور پور ٹھنڈک پور پور حدت۔ منتر دم حرف جل کی ست رنگی پھوار میں اشنان لیتی ہوئیں۔

یا شاعر ہم طبیعت موزوں رکھتی ہیں، چند اشعار موزوں نگہ اصلاح کے طلب گار ہیں۔

اے دوشیزہ خوش جمال تو خود شعر موزوں کی مثال بے مثال ہے۔ شعرحسن تخیل ہے۔ تو منبع تخیل۔ شعر موزوں کو زبان شیریں کی شیرینی سے تر کر کے سماعتوں میں قند گھل جائے۔ نو آموز شاعرہ نے شعر پڑھا۔

تیری یاد جی کو گدگداتی ہے

کہ چشم نم ڈبڈباتی ہے!!

آہ۔ واہ۔ کراہ شاعر باکمال کی نگاہ سحر ناک دوشیزہ خوش جمال کو شعر کے نازک نشیب و فراز سمجھانے لگی۔ شعری محاکات کی بلاغت واہ! داستان ہجر و فراق آہ کراہ عجب تمثیل ہے! کوزے میں دریا بند ہے۔

چشم آہو میں اشک تابدار، لرزتاا ُمڈتا۔ واہ! آہ! کراہ! تیرا تکلم خوش ادا تیرا تغزل سحرالبیان، تو خوبصورت شاعرہ نہیں ساحرہ ہے، خوبصورت شاعرہ گلنار ہو گئی۔ سارے دھنک رنگ روم روم گل رنگ ہو بکھر گئے۔

اے دوشیزہ گل بدن! جہاں میں تجھے دیکھتا ہوں تیری پرواز شوخ کے پر جلتے ہیں۔ اقلیم شاعری میں تیرا ورود کسی تاجدار شہزادی کی مثل ہے۔ ناقدان ادب اپنی ہیچ مقدار انگلیاں قلم کر ڈالیں گے لیکن تیرے فن کی اتھاہ آنے والے ناقدین کی غواصی کے واسطے چھوڑنے پر مجبور ہوں گے۔ میری زیر طبع کتاب کا انتساب تیرے نام۔ حرف جل میں ڈوبتی اُبھرتی جل پریاں ہفت رنگ پر پھڑپھڑاتی سمٹتی،رنگ پہنتی خوشبو اوڑھتی، منتر جل پھوار میں اشنان لیتیں۔

یا شاعر! ایم۔ اے کے تھیسس کے چند صفحات قلم بند کیے ہیں۔ شام ملگجے دھندلکے میں پناہ لے چکی ہے۔ کل کلاس میں پیش نظر کر دیا جائے گا۔ اے متعلم ارسطو صفت کلاس میں نوجوانان نازیبا اور ناموزوں طبع ایسے کار معقول میں دخل درمعقولات کرتے ہیں۔ اسی کاروبار شوق کے واسطے یہ گوشہ علمی یہ گوشہ جمال مختص ہے۔

اے حسینہ خوش اندام تیرا پنجہ نازک بار قلم کا متحمل نہ ہو پائے گا یہ بار گراں تو میرے دست ناتواں پر چھوڑ دے۔ غالب عیش پسند نے ایسے ہی کسی موقع پر کہا تھا۔

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں

مَیں کہاں اور یہ وبال کہاں

یا شاعر غالب کی زمیں میں طبع آزمائی کی ہے۔ لبوں کی بجلیاں تڑپیں رنگوں کی برکھا رت گھنگھور برسی۔

یونہی زور قلم آزماتی ہوں

میں کہاں اور یہ کمال کہاں

تجھ سے طالب جواب ہوتی ہوں

میں کہاں اور یہ سوال کہاں

واہ! آہ!کراہ! ہر ہر حرف شاعر باکمال پر ایک وجد انگیز کرب طاری کرتا چلا گیا۔

قسمت نے کس سے واسطہ بنا دیا

میں کہاں اور یہ جمال کہاں!!

تیری آنکھوں سے سیر ہو جاتا ہوتا

میں کہاں اور یہ کلال کہاں

گریز میں عجب قربت ہے

میں کہاں اور یہ غزال کہاں

شاعر باکمال دو زانو ہو بیٹھے۔ حرفوں کی تھالی تھامے جوں پجاری بیٹھا ہو دائرے میں بچھی کتابی نشستیں تھالی کی گردش میں گھومتی تھیں۔ گول گول اڑن طشتری۔

پیاری طالب علمو! حسن مطلق نے اظہار چاہا تو انسان کامل کو اپنا عاشق بنا خود کو جہاں تہاں کچھ پوشیدہ کچھ ظاہر کر دیا۔ دھرتی کی کوکھ میں دفن بیج کو ظاہر کی بے قراری نمو بخش گئی۔ کلی کی چٹک پھول کی بیداری ہے۔ شاعر بے قرار کی طلب حسن کی آبیاری ہے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

حسن سے تکمیل عشق عشق سے تکمیل حسن

اک کمی تیرے بغیر اک کمی میرے بغیر!!!

نیلگوں اندھیرا آفتاب کی نقاب ہو گیا برکھا رت کا سینہ بوجھل تھا کھل کر برسا، رتیں بدلتی رہیں، کتاب گھر کی کتابیں بڑھتی رہیں۔ نشستیں جامد تھیں نشستگاں تبدیل ہوتے رہے۔ پارسل گیم کا کھیل، میوزک بجتا رہا، سازندہ ایک تھا۔ پیک فرین جادوگرسا! یہ نشستیں اپنی خوش طلعی پر کیوں نہ ناز کریں۔ پچھلے کتنے عشروں سے اَن گنت مہر لقائیں، ماہ طلعتیں، اپنے لمس مشکبار سے انہیں مہکاتی رہیں ہیں۔ کسی دھائی کی سیاہ نقابوں میں چھپی، کبھی سفید چادروں میں ڈھکی، ڈھیلے ڈھالے ملبوسات چست لباسوں میں بدلتے۔ چست لباس ڈھیلے ڈھالے ملبوسات میں تبدیل ہوتے ہے۔ سحرالبیان کے بحر رواں میں بے سمت بے مقام تیرتی ہوئیں۔ حرف جل کی ہفت رنگ پھوار میں بھیگ جاتیں۔ سمندری جھاگ کے کہرے میں نظر دھند لاتی ہوئی۔ ڈولتا ہوا بحرا کچھ تہہ آب کچھ سطح آب، حرف جل میں تیرتی جل پریاں۔

باہر صدائے نامانوس و ناگوار سحر زدہ ماحول میں سنگ ریزے برساتی۔ کتب گھرکے دَر سے چند سراَندر برساگئی لپکے۔ جن کے روئے سیاہ پر نظر پڑتے ہی شاعر باکمال کے چہرے پر ناگواری لیپ ہو گئی۔

شاعر صاحب ذرا مردانے میں تشریف لائیے۔ طنز کے سارے تیر حرف جل کو ہدف کر گئے۔ لفظوں کی گردش کرتی تھالی ٹھہرگئی۔

دوشیزگان خوش جمال! اگر طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو مردان نا تراشیدہ کے تکلم ناموزوں سے سمع خراشی کر لوں۔ باہر شور بڑھتا جا رہا تھا۔ جھوٹا، مکار، فریبی، دھوکے باز، لڑکیاں اپنے اپنے وجودوں میں کسمسائیں۔ جیسے پہلوؤں میں چیونٹیاں سی رینگ جائیں۔ دوشیزگان خوش جمال یہ آدم زاد نہیں تصور و تخیل کے تازیانے ہیں۔ تربیت ناموزوں انہیں درثت خصلت بنا گئی ہے۔ ان کے نامناسب رویے کے لیے حضورِ حسن منت خواہ ہوں کہ لاعلمی کا جہل انہیں گناہ کبیرہ کا مرتکب بنا رہا ہے۔

’’تم ان احمق لڑکیوں کو بے وقوف بناس کتے ہو۔ ہمیں نہیں، باہر نکلو ورنہ باہر نکال لیے جاؤ گے۔‘‘ حرفوں کی سنگ باری بڑی شدید تھی۔

شاعر باکمال لڑھکتے پتھر کی مانند دَر سے باہر پھسلے۔

اے مردان نا تراشیدہ! مجھ شاعر ناچیز سے کس شئے کی طلب ہے جس کی سلطنت تخیلات کا گہوارہ ہے، جس کا سرمایہ الفاظ کا گنجینہ ہے۔

’’تو پھر یہ اَندر سبھاکیوں سجارکھی ہے۔‘‘ زبانوں کے لٹھ اوپر تلے برستے۔

اے احمقو یہی تو تخیلات کے گہوارے کی پریاں ہیں۔ یہی گنجینہ الفاظ کی معانی ہیں۔ یہی تو اقلیم شاعری کے عمال ہیں۔

لڑکیو! گھروں کو چلی جاؤ۔ ورنہ آگ لگا دی جائے گی۔ تم سمیت سب کچھ بھسم ہو جائے گا۔

مارو۔۔۔ مارو۔۔۔ بھسم کر دو۔۔۔ آگ لگا دو شور سماعتوں کو کند کرنے لگا۔

’’یہ قحبہ خانہ ہے اسے ڈھا دو۔ یہ کار ثواب ہے۔ بدعت کا خاتمہ کر دو۔‘‘

شور گراں سماعت تھا۔

اے کم ظرفو مجھے سولی پر لٹکا دو۔ فتویٰ لگا دو لیکن اپنی زبانوں کو غلیظ مت کرو۔ زبان کہ غلیظ ہو جائے تو کوئی آب مطاہر اسے با وضو نہیں کرتا۔ نطق کی غلاظت زبان کی دبازت میں رَچ رَچ رستی ہے۔ انگ انگ نجس کر دیتی ہے۔ جیسے زمین کے سینے سے سیم رس رس اُسے بنجر بنا دیتی ہے۔

لڑکیاں ایک دوسرے میں چھپتی۔ جسموں کی گھڑیوں میں بندھی زینوں سے یکبارگی لڑکھیں۔ حرف جل کر جل پریاں، حرف پاتال میں غرق ہو گئیں۔

اے مردان ناتراشیدہ! مانو کہ تمہاری جس لطافت عالم گراں خوابی میں ہے۔ مانو کہ اس گراں خوابی کی سزا جمالی بے حسی کی صورت میں تمہیں ملنے والی ہے۔ جب حسن روٹھ جاتا ہے تو بدصورتیوں کا دیو روح و نظر کو نگل جاتا ہے۔ سڑک پر ٹائر جلتے تھے۔ جلے رَبڑ کی بوسارے بازار میں پھیلی تھی۔ دکانوں کے شٹر گرا دئیے گئے تھے۔ جلوس منتشر ہو چکا تھا لیکن چند نوجوان طالب علم ابھی جلتے ٹائر فوں پر ایندھن پھینک رہے تھے اور ٹائروں بازی کر رہے تھے۔

’’اندر سبھا کو بند کرو بہروپیئے شاعر کو سنگسار کرو۔ یہ عالم نہیں علم کی بے حرمتی ہے۔‘‘

نعرے کتاب گھر کی خاموش جلدوں سے ٹکراتے تھے اور پلٹتے تھے۔

کتابوں کے منتشر بنڈل کتنے خالی خالی تھے۔ سارے حرف سارے معنی گم روشنائی کے دھبے خندہ زن۔

مفاہیم کے چراغ گل۔ شاعر باکمال دو زانو بیٹھا تھا۔ گل چراغوں کی راکھ پورے کتاب گھر میں اڑتی اور سانسوں میں جمتی تھی۔

اس پر مہر لقا بیٹھی تھی۔ آہ پیاری مہر لقا۔ کیا تو اب کبھی نہ آئے گی! تیرا لمس مشکبار بے خبر حرفوں کو کیا کبھی خودشناسی نہ بخشے گا۔ کیا یہ حرف بے معنی بے ہیئت ہو جائیں گے۔ اس پر نغمہ نفر گو جلوہ افروز ہوتی تھی۔ اے نغمہ جاں تمہاری صدا میری گویائی ہے۔ تمہارے لفظ میری سماعت، بولو کہ میری گویائی، میری سماعت میری حسیات سب پتھر ہیں۔

میرے حرف کہ منجمد برف

تیرا لمس چنگاری کی حدت

برف کے گھور سینے کو کریدتی

چراغ انگلیاں دہکتی ہوئیں

میرے حرفوں کو موم ساخت بنائیں

تیری سانسوں کی دھوپ تمازت

بول کہ جامد گنگ اندھیرے

دفن کر دیں گے سرد سخت

زمینوں میں حرف جزیرے

گلاب حرف اپنی بو خود نگل جائیں گے

آدم خور

خون آشام

حرف

شاعر باکمال گھٹنے زمین پہ ٹیکے ناراض دیویوں کے چرنوں میں جھکا تھا۔ آخر وہ کیا دان کر ڈالے کہ روٹھی دیویاں مان جائیں۔ حرفوں کے چراغ گل تھے۔ معانی کے جزیرے برفیاب۔ حرفوں کی تھالی خاموش۔

گل رُخ تو ہی بول۔ نغمہ نفرگو تو کیوں چپ ہے تیری خاموشی اقلیمِ حرف کی توہین ہے۔ تمہارے لب۔

٭٭٭

 

 

 

 

روشندان

 

 

صغریٰ حیران رہ گئی۔ اپنوں کے رویے حالات کے چاک پر ایسی گھڑتیں بھی تبدیل کر لیتے ہیں کیا؟ابھی ابھی جو اُس کے گرد بیں ڈالتی اور اُسے پلوتے دیتی ہوئی باہر نکلی تھی وہ اُس کی اپنی ماں تھی جو اُسے بیٹوں کی طرح باسی روٹی کے ساتھ کھانے کو دہی کا پاؤ بھر دیتی اور چپڑی ہوئی روٹیوں کے چھابے میں سے سب سے نچلی روٹی نکال کر اُس کی چنگیر میں رکھتی۔ کئی بار تو لیری کا پچھلا تھن بھرا چھوڑ آتی اور بھابیوں سے آنکھ بچا کر اُسے اشارہ کرتی ’’جادھاریں لے لے‘‘ اسی لیے تو اُس کے گالوں سے مکھن کے تار چھٹتے۔ آنکھوں سے چکنی چکنی لو پھوٹتی جیسے دیسی گھی کے چراغ جلتے ہوں، کلائیوں پر ملائی سی ملی ہوتی جس میں شہد گھلا ہو اور بالوں کی چمک میں دِیئے جھلملاتے۔ اڑوس پڑوس والیاں ناک کی پھنک پر شہادت کی پور رکھ کرم خوردہ دانتوں پر چادر کا پلّو کھینچتیں۔

’’ہائے نی بیٹوں کی طرح پال رہی ہے، جیسے اسی نے ہل پنجالی اُٹھانی ہو۔‘‘

آج یہی ماں ابھی ابھی اُس پر ایسے جھپٹی تھی جیسے پرانے شمشان گھاٹ پر تاریک راتوں میں گھومتی خوبصورت عورتیں بھولے بھٹکے راہی کو دیکھ کر یکدم چڑیل بن جاتی ہیں۔ صغریٰ کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ اپنی سیاہ چادر کی بکل میں سمٹ کر کس بل میں اُتر جائے۔ کوئی تو گوکھڑا ہو جس میں وہ تیلا کھائے پھٹی جیسے وجود کو بند کر دے اور جسے ریوڑ چر جائے۔

گاؤں کی تاریخ میں ایسی دوچار مٹیاریں ہی ہوئی ہوں گی جو سنی کے بوٹے کی کیسری چھمکوں کی طرح ساری فصلوں میں الگ لہراتی نظر آتیں اور نرمے کی عنابی گڈی جیسے لب جب وا ہوتے تو لوسن برسیم اور سبھی پھولوں کی کٹوریوں میں سے مدھو مکھیاں گھونٹ بھرتیں کڑیالے سانپ قدموں کے نشانات پر لہریئے بناتے اور سپیرے راہوں میں بین بجاتے پھرتے۔

وہ سیانے جو ہوا کی تاثیر سے موسم کا پتہ بتاتے ہیں ستاروں کے طلوع سے پانی کی باریوں کا تعین کرتے ہیں اور فصل کی اُٹھان سے باردانے کا تخمینہ لگاتے ہیں وہ کانوں کان خبر دیتے پھر رہے تھے کہ بہت جلد اس ڈھوک کی مٹی انسانی خون سے سیراب ہونے والی ہے۔

صغریٰ کسی وٹ، بنے سے گزرتی تو پیاسی گرد مورنی سی پیلیں ڈالتی۔ نرمے کماد کے اُونچے لمبے بوٹے جھن جھن جھانجھریں بجاتے۔ مکئی کے بھٹے پردوں میں سے چھپ چھپ جھانکتے اور بال بکھیرے دھمالیں ڈالتے، جیسے اُس کے وجود سے ہنگامے پھوٹ پڑے ہوں۔ صغریٰ اور محتاط ہو گئی۔ یوں چلتی کہ چاپ پیاسی مٹی چوس لے جائے لیکن پیر جتنا پولا پڑتا مٹی کا سانس اُتنا ہی گھٹتا، نگاہیں جس قدر جھکاتی آنکھ اُتنی ہی چیرویں ہو جاتی۔ آنچل جتنا کستی خطوط اُتنے ہی تیکھے ہو جاتے۔ اب صغریٰ بیچاری خود کو کہاں چھپا لے جائے کہ اُس کے وجود سے کوئی حادثہ نہ پھوٹ سکے، لیکن سیانو کا خیال تھا کہ وہ کئی حادثات اپنے وجود کے اندر اُٹھائے پھرتی ہے۔ بس ذرا ٹکرانے کو کوئی آسمان درکار ہے۔ یہ پیشین گوئیاں کرنے والے بزرگ ایسی کالی زبان والے تھے کہ آج ایک قتل صغریٰ کے نام آخر لگ ہی گیا۔ اب اس چبڑ کے منہ والے اکرمو کو اس کے وجود میں پلنے والے کسی حادثے نے تو نہیں کہلا بھیجا تھا کہ وہ ریڈیو ہاتھ میں پکڑے ’’ذرا رُخ نوں ایدھر موڑ‘‘ گانا بجاتا ہوا اُس کے پیچھے پیچھے دو مربعے کے پند تک کھرے پہ کھرا دھرتا چلا آئے۔ اُس نے بہتیرا اپنی رفتار کبھی بڑھائی کبھی کم کی کہ کم بخت آگے نکل جائے یا پھر پیچھے رہ جائے لیکن وہ جو مہینوں سے اُس کی راہ میں بیٹھا ٹھنڈی آہوں کی بین بجایا کرتا آج اس جوگن کے پیچھے پیچھے لہریا ناگ سا لہرانے لگا، جب صغریٰ غصے سے مڑ کر کھڑی ہوئی تو اُس نے ایسا فحش مذاق کیا کہ صغریٰ کی چیخ نکل گئی۔ اس نسوانی چیخ کے منتظر بہت سے کان اردگرد کی پیلیوں میں بہت دِنوں سے پورے قد کے ساتھ کھڑے تھے۔ سب یوں لپکے کہ پل بھر میں قتل کے سارے سامان اکٹھے ہو گئے۔

چار مربعوں کے فاصلے پر کھیتوں کو پانی باندھے ہوئے صغریٰ کے بھائی حمید تک کانوں کان اُڑتی ہوئی جب خبر پہنچی تو یوں پہنچی کہ جٹوں کے لڑکے نے صغریٰ کی بانہہ پکڑی اور قریبی کماد میں گھسیٹ کر لے گیا۔ حمید قدآدم فصلوں کو جھکڑ سا چیرتا ہوا جھولا سا جب جائے وقوعہ پر پہنچا تو اکرما بھاگ چکا تھا اوراس کا چھوٹا بھائی اصغر صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش میں ہونق سا صغریٰ کے سامنے کھڑا تھا۔ حمید کا درانتی والا ہاتھ اِک ہیجانی نعرے کے ساتھ فضا میں بلند ہوا اور اصغرے کا سر گردان سے اُڑ کر قریبی کھال میں یوں جا گرا جیسے نرمے کی ٹہنی سے گوکھڑا ٹوٹ کر گرتا ہے۔ جیسے کماد کی پوری ٹوکے سے ٹکراتی ہے۔ کھال کے پانی میں لہو کی کئی دھاریاں چل نکلیں جو بناسر والے گردن کے نرگٹ میں سے اُبلتی تھیں، جیسے کوئی موگھا ٹوٹ گیا ہو کہ نہر کا بند کھل گیا ہو۔

اس وقت اصغرے کی لاش نمبردار کے ڈیرے پر رکھی تھی۔ سرگردن سے جوڑ دیا گیا تھا لیکن تڑپتی ہوئی نسیں ابھی تازہ خون کے گرم گرم گھونٹ اُگل رہی تھیں اور چارپائی کے نیچے نسواری مٹی کیچڑ بن رہی تھی اور جٹوں کی عورتیں میّت کے گرداگرد چادریں سروں سے باندھے شہادت کی اُنگلیاں فضا میں لہراتی ماتم کرتے ہوئے قاتل کو نہیں قتل کی وجہ کو بینوں کے تکلوں میں پرو رہی تھیں۔

’’ہائے نی یہ گوری چڑیل ہمارے ویرے کا لہو پینے کے لیے کیا جنی تھی۔ ہائے نی تیری نشیلی آنکھوں کے پیالوں میں مرچیں گھوٹ دوں، ہائے نی تیرے لمبے قد کو ٹاہلی سے لٹکا کر پھانسی دوں۔‘‘

قاتل و مقتول کی لواحقین عورتیں کم از کم اس نکتے پر متفق تھیں کہ قتل کی اصل جڑ دراصل صغریٰ ہے۔

مقتول کی بہن بین اُٹھاتی ’’ہائے نی تو نے گورے رنگ سے پنڈ کی گلیوں میں فساد مچایا اور میرے وِیرے کا قتل کروایا۔۔۔‘‘

قاتل کی بہن جوابی بین دیتی۔

’’ہائے نی! میں نے تیرے گورے بوتھے پر تیزاب کیوں نہ پھینک دیا۔۔۔‘‘

گاؤں کے دیگر آنگنوں سے اُٹھنے والے بینوں کا ہدف بھی موئی صغریٰ کی ٹٹ پینی حسین جوانی تھی۔

مقتول کی رشتہ دار فضا میں دونوں ہاتھ لہراتیں ’’ہائے نی لچیاں پہلے یار بناتی ہیں پھر قتل کرواتی ہیں۔۔۔‘‘

قاتل کی ماں جوابی بین میں اپنا سینہ دو ہتڑوں سے کوٹ ڈالتی۔

’’ مجھے پتہ ہوتا ہائے پتہ ہوتا میں پیدا ہوتی کا گلا گھونٹ دیتی ہائے سپنی کو اپنی چھاتیوں سے دودھ کبھی نہ پلاتی۔ ہائے دودھ مکھن کھلا کبھی نہ پالتی۔‘‘ مقتول کی بہن ماتھا پیٹتی۔

’’ہائے پتہ ہوتا،ہائی مجھے   پتہ ہوتا، اس کا حسن میرے وِیرے پر موت بن کر گرنا ہے تو میں اس کا منہ لیدپھوسی سے لیپ دیتی۔۔۔‘‘

قاتل کی بیوی اپنی دونوں رانوں پر تاڑ تاڑ چانٹے مارتی۔

’’ہائے نی میں تیرا کلیجہ چبا جاؤں۔ تیرے زہری ہونٹوں میں نمک کھور ڈالوں ہائے نی میں تیرے۔۔۔‘‘

صغریٰ اگلی کوٹھری میں سیاہ چادر میں خود کو یوں لپیٹے ہوئے تھی جیسے اپنے حسن و جوانی کی لعنت کو پنڈ میں باندھ کر دُور کسی ویرانے میں پھینکنے کو پوٹلی بنا رکھا ہو۔ بس میں نہیں ورنہ اپنی پور پور کاٹ پھانٹ کر کسی گھڑے میں ڈال راوی میں بہا آتی۔ وہ خود بھی اپنے حسن و جوانی کی اِتنی ہی دُشمن تھی جتنی کہ باہر گاؤں بھرمیں اُسے کوستی ہوئی عورتیں، جو مقتول کے گھر اس کا سیاپا کرنے کے بعد اسے یوں دیکھنے چلی آتیں۔گویا اب تک اُس کی جون بدل گئی ہو گی۔ کوٹھا بھڑولوں، مکئی جوار کی بوریوں کی اُمس سے بھرا تھا۔ کوٹھے کی ایک نکڑ میں چکی کے پڑوں میں مرچوں کے بیج دھنسے تھے، جن کی کڑواہٹ ناک گلے کو چڑھ رہی تھی۔

صغریٰ اس کوٹھڑی کے پنجرے میں لہو لہو بہتی تھی، جب بغلی روشندان پر اُنگلی کی دستک ہوئی اور طاقی کھل گئی۔ اندھیری کوٹھری میں سورج کی کرنوں کا جالا سا اُبھرا اور ترچھا ہو کر چکی کے پڑوں سے جڑ گیا جس کے پتھریلے دندانوں میں مرچوں کا سفوف جما تھا۔۔۔ وہ میر حسن تھا۔

’’اُٹھ صغریٰ نکل چل، ٹیکسی پچھواڑے کھڑی ہے۔‘‘

صغریٰ اُٹھی اُسے اس موئے حسن و جوانی کی پنڈ کو کہیں تو پھینکنا تھا کیوں نہ میرحسن کے کندھوں پر لاد دے کہ لے جا جس کوڑے دان میں چاہے جا پھینک دے۔ لیکن کوٹھڑی جس قدر تاریک اور راز داں تھی۔ سورج اِتنا ہی روشن اور ننگا ننگا تھا۔ روشن دان میں رکھا ہوا پیر کھسک گیا۔ اپنے وجود کے اس فتنے کو ٹھکانے لگانے کا حق بھی اُسے حاصل نہیں تھا۔ سزا کے انتخاب میں مجرم کی پسندیدگی کا کوئی اختیار نہیں ہوا کرتا۔

’’اُٹھ صغریٰ میں تجھے بتا رہا ہوں تو ماری جائے گی تیرے گھر والے خود تیری موت کا سودا کریں گے۔‘‘

موت کا خوف صغریٰ کی ہڈیوں میں سینک سا بن کر اُٹھا، کھسکا ہوا پیر پھر طاقی میں پڑا سورج کے پھکے آنکھوں کو چندھیا گئے۔ سورج زمین نہیں ہے کہ اپنے سینے میں را زکو چھپا رکھے۔

’’ چل ہمت کر دیر نہ کرآج اپنا پرایا سب تیرے ویری ہیں اُٹھ صغریٰ اُٹھ۔۔۔‘‘ آج ساری دُنیا اُس کے سراپے کی ویری تھی۔ اب اُس نے تو رب سے نہیں کہا تھا کہ اُس کا قد پھلاہی کی پھنکوں سے مِلا دے اور گالوں میں زردانے بھردے کہ آج اس ناکر دہ جرم میں وہ اپنے وجود کی پنڈ کو بابل کے ویڑھے سے چوری کے سائے میں خود رخصت کرے پھر طاقی سے نیچے کھسکا۔

’’مائے نی میں کہنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی‘‘

” ’’ماواں دھیاں انج ملیاں چارے کندھاں نے چوبارے دیاں ہلیاں۔‘‘ ہائے کیا وہ اس سیاہ چادر میں گناہوں کی پوٹ لپیٹ رُخصت ہو جائے گی اور وہ لال جوڑے کا چاہ۔۔۔ بابل کے ویڑھے کے وچھوڑے کے گیت اُس کے کلیچے میں سولیں چبھو گئے۔ پیر اِتنے وزنی ہو گئے کہ روشن دان کا سوراخ چھوٹا پڑ گیا۔

’’صغریٰ دیر نہ کر ٹائم تھوڑا ہے۔‘‘

میرحسن اُس کا حوصلہ بڑھاتا رہا لیکن سورج کی چندھیا دینے والی روشنی اُسے پسپا کر گئی۔ یہ سورج اِتنا ننگا اِتنا اتھلا کیوں ہے۔ پل بھر میں ہر کسی کی مٹھی میں اُتر آتا ہے۔ باہر ہوہوکار مچی پولیس ملزموں کو ہتھکڑیاں لگا کر لے جا رہی تھی۔ مقتول کی رِشتہ دار عورتوں کی نسبت کہیں شدت کے ساتھ خود صغریٰ کے خاندان کی عورتیں دو ہتڑوں سے سینہ اور رانیں کوٹتی اُس کی چارپائی کے گرداگرد ماتم کرتی تھیں۔ کھلی طاقی بند ہو گئی تھی اور میرحسن باہر ہی کہیں ننگے سورج میں لپٹ گیا تھا۔ تبھی گاؤں کی خونی فضاؤں میں سے صغریٰ اور میرحسن کے عشق کا قصہ یوں اُٹھا، جیسے شام پڑے تنوروں کے سینے سے دھواں اُٹھتا ہے جیسے چرواہوں کی واپسی پر کچی سڑکوں پر دھول اُٹھ دھمال ڈالتی ہے۔ حالانکہ صغریٰ کا میرحسن سے اِتنا سا ہی تعلق تھا کہ اُسے دیکھ کر جب پورے گاؤں کے مرد ڈیلے نکال کر پپوٹوں کے اُوپر دھر لیتے تو صغریٰ کا جی چاہتا کہ اِن میں تکلے پرو کر اُوپر سوت کی اٹیاں لپیٹ دے ایک میرحسن ہی تھا کہ جس کی آنکھوں میں سے چھٹتا سنہری تار سا صغریٰ کے دِل کی چرخی سے جڑ جاتا۔ اُس کا جی کرتا کہ وہ پونی پونی لمبے لمبے دھاگے کاتتی چلی جائے۔ پیروں تلے زمین بھربھری ہو جاتی وہ قدم اُٹھانا چاہتی تو اُسے زور لگانا پڑتا،جیسے اُس کی چال اپنے ہی ارادے سے بغاوت کر گئی ہو۔

صغریٰ نے اناج کی امس بھری اندھی کوٹھڑی یوں خود پر لپیٹ لی جیسے وہ میرحسن کے بچے کی ماں بننے والی ہو، اور ناجائز پیٹ چھپائے نہ چھپتا ہو۔ وہ طعنوں مہنوں کے تکلوں اور سولوں میں پروئی گاؤں بھر کی سرگرمی کا مرکز تھی۔ جیسے گاؤں کی خشک اُجاڑ زندگی میں اصغرے کے خون نے گرم گرم آبیاری کر دی ہو، جس میں میرحسن اور صغریٰ کے عشق کی فصل لہلہاتی ہو۔ بہکوں نے کتھا کہی، چوپالوں میں مقال آئی چرواہوں نے گیت الاپے عورتوں نے قصے گھڑے۔

اگلی تفتیش کے لیے جب پولیس گاؤں پہنچی تو اے ایس پی خود ہمراہ تھا۔ جس نے آتے ہی مدعا پیش کرنے کا حکم دیا۔ یعنی وہ عورت جو قتل کا باعث بنی تفتیش کا آغاز اُسی سے ہونا تھا۔

اُن دِنوں ماگھ کا پالا ہر شے کو سکیڑ رہا تھا۔ درختوں کے پتے زرد تھے۔ کیکروں کے تنوں کے سیاہ چھال اُکھڑ رہے تھے۔ ٹیڑھے میڑھے ون اوکاں کے کھکھلوں میں گوہ لومڑ سردی سے مچڑے پڑے تھے اور گندم کے انگوری پودے کہرے کی برف میں کملا گئے تھے۔ صغریٰ ساری ریزگیوں میں لپٹی جب نمبردار کے ڈیرے پر پہنچی تو عورتوں نے ماتھے پیٹے اور بکلوں میں منہ چھپا بین کھینچے۔

’’ہائے ایسی کالکیں مائیں جنتے ہی گل گھوٹو کیوں نہیں دے دیتیں۔ ہائے بستیوں میں فساد مچانے اور بیٹے قتل کروانے کو کیوں پال لیتی ہیں۔‘‘

مردوں نے پگڑیوں کے لڑ سے آنکھیں ڈھانپ لیں جیسے اس گناہ کی پوٹ پر نظر پڑ گئی تو نگاہیں گنہگار ہو جائیں گی۔چرواہوں نے گیت الاپے۔

صغراں چڑھی کچہری تے مرداں نے منہ ڈھک لے

صغراں دِتیاں گواہیاں تے وکیلاں دے منہ پھر گئے

جب پولیس افسر نے صغریٰ سے ننگے ننگے سوال پوچھنے شروع کیے تو صغریٰ کے باپ اور دیگر رِشتہ دار مردوں کی کھردری ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئیں، جیسے صغریٰ کاپھلاہی سا قد کپڑوں سے باہر نکل آیا ہو اور گالوں کے زردانے پولیس والوں کی ہتھیلیوں پر جھڑ گئے ہوں۔ ہر ایک نے یوں ہتھیلیاں آپس میں رگڑیں جیسے اُس کے زہری حسن کو مسل مسل میل بنا کر پھینک رہے ہوں۔

نمبردار صغریٰ کے باپ کو ایک طرف لے گیا اور کان میں کہا ’’جب تک لڑکی یہ بیان نہیں دیتی کہ اصغرے نے اُس کی عزت پر ہاتھ ڈالا ، کیس ہمارے حق میں نہ جائے گا۔‘‘

یہ دس ایکڑ کا جٹ زمیندار پہلے تھرایا، زہری ناگ سا پھنکارا جس کے زہروالی تھیلی سپیرے کے ہاتھ میں تھی۔ کنڈل کھا کر نرخرے سے جو آواز نکلی وہ شوکار جیسی لرزہ خیز تھی۔

’’لیکن چودھری جی! ایسا نہیں ہوا ،اور پھر پولیس ڈاکٹری رپورٹ بھی تو مانگے گی جب کہ لڑکی اللہ کے فضل سے کنج کنواری ہے۔‘‘

’’رپورٹ کی تم فکر نہ کروMSسے اپنی دوستی پرانی ہے بس تم بیان دِلاؤ۔‘‘

ٹالیوں کی خشک پھلیاں کھن کھن شاخوں سے اُڑ کر کسانوں کی سفید پگڑیوں میں کھلکھلانے لگیں۔ چرواہوں کی سانگلوں نے سارے درخت مچھ دیئے تھے۔ گندم کے پودوں کی نوکیلی زبانیں تیز ہواؤں میں لہرانے لگیں۔

صغریٰ کے دادا نے صغریٰ کے باپ کے چہرے سے جھڑتے تیلے کو اپنی بوڑھی آنکھوں میں بھگویا اور سفید پگڑی کے لڑ میں کھانسا ۔

’’چودھری جی! یہ بے عزتی ہم سے برداشت نہ ہو گی۔ چاہے لڑکا پھاہے لگ جائے۔۔۔ ہاں تم ان سے صلح کی بات کرو۔ دس ایکڑ میں سے دو ایکڑ ہم عزت کی میل سمجھ کر انھیں دے دیں گے۔ بک کر بھی تو مقدمے پر لگ ہی جانے ہیں نا۔۔۔‘‘

پھاگن چیت کے جھولے پورے گاؤں کا چہرہ گرد کی تہوں سے ڈھک گئے تھے۔ مرد پنچائیت میں بیٹھے تھے۔ ہل خاموش تھے اور ٹیوب ویل بند، کماند کے پاندوں سے زہری ناگ لپیٹتے تھے اور سوّر مکئی کے دودھی بھٹے چباتے تھے۔تندور ٹھنڈے پڑے تھے۔ عورتیں میلوٹی بکلوں میں ایک دوجی کے کانوں سے چپکی تھیں۔ چودھری نے تھانیدار کے حضور انتہائی ادب سے درخواست گزاری۔

’’جنابِ والا! فریقین صلح کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس لیے لڑکی کو گھر جانے کی اجازت دی جائے۔‘‘

سپاہیوں کی فورس سمیت اے ایس آئی نے صغریٰ پر یکبارگی تفتیشی نگاہیں ڈالیں جو ملی دلی چادر کی بکل میں سے سورج سی پھوٹی پڑتی تھی اور پھولوں بھری بیل کی طرح کسی سہارے سے لپٹنے کو ڈھے چلی جا رہی تھی۔ اے ایس پی کا جی چاہا اسے ابھی نقصِ امن کی شق کے تحت تھانہ صدر کی حوالات میں بند کرنے کے آرڈر جاری کر دے کیونکہ مقامی حوالات اس کی شاخوں اور پھولوں کے پھیلاؤ کے سامنے کم پڑ جائے گی۔

بھوکے مویشی منہ اُٹھا کر ڈکرانے لگے تھے، جنھیں آج چارہ ڈالنے کی بھی کسی کو فرصت نہ ملی تھی۔ بچے ماؤں کی خشک چھاتیاں چوستے جنھیں صبح سے اب تک تنور تپا کر روٹیاں لگانے کی ہوش بھی نہ پھری تھی۔

مرغیاں گند پھرولتی تھیں اُنھیں کسی نے بھورے نہ ڈالے تھے۔ پورا گاؤں کسی اَن دیکھے طوفان کے انتظار میں دم سادھے تھا۔

مقتول کا باپ بان کی چارپائی سے اُٹھا تو تماشائیوں کی فصل چار قدم مزید آگے بڑھ آئی۔

’’تھانیدار صاحب! یہ اپنی پوری زمین بھی ہمارے نام کر دیں تو بھی میں اپنے بچے کے سر کی قیمت وصول نہ کروں گا۔۔۔‘‘

اکرما یکبارگی ٹاپیں جھاڑتا ہوا اُٹھا اور لگامیں تڑا منہ زور گھوڑا سا بھیڑ میں گھسا۔

’’جاؤ جاؤ اپنے اپنے گھروں کو جاؤ یہاں کیا مداری لگا ہے۔۔۔‘‘

وہ دبکے مار مار لوگوں کو بھگانے اور اُن کے پیچھے دوڑنے بھاگنے لگا۔

’’تھانیدار جی! ہم صلح کے لیے تیار ہیں لیکن ہماری شرطیں کچھ اور ہیں۔‘‘

پیچھے ہٹنے والے پھر دیوار بنا کر جم گئے۔

صغریٰ نے اکرمے کے عزائم کو چادر کی اوٹ میں سے بھانپا۔

’’یہ آج میرا ہمدرد کیسے بن گیا۔۔۔‘‘

کتے روڑیوں پر گند سونگھتے تھے۔ گدھ رات کے مرے ہوئے ڈھور پر نیچی اُڑانین بھرتے تھے جن کے وحشی پروں سے سورج بھرا آسمان سیاہ پڑ گیا تھا۔

چودھری نے صغریٰ کو گھر لے جانے کا اشارہ دیا۔ اُس کے خاندان کی عورتیں صغریٰ کی پنڈ کو میلی چادر میں پوٹلی سی لپیٹ واپس سمیٹ لائیں اور کسی اطلاع کے انتظار میں بیٹھ دھک دھک بجنے لگیں۔ صغریٰ اناج کی اُمس بھری کوٹھڑی میں پھر اکیلی تھی۔ باہر صحن میں عورتوں کی ٹولیاں بکلوں میں سرگوشیاں لپیٹے اِک دُوجی میں گھس رہی تھیں۔ صغریٰ کی بھابھی کوٹھڑی میں آئی تو اُسے حیرت ہوئی کہ نہ اُس نے صغریٰ کو بینوں میں بلویا نہ ہی اُس کے گرد ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر دو ہتڑوں سے سینہ کوٹا۔ گڑ کی بھیلیاں پلّو میں بھر تیزی سے باہر نکل گئی۔ اُس کی رفتار میں کامیابی کا جوش بھرا تھا۔اب اُس کی چھوٹی بہن چودہ پندرہ برس کی زرینہ کوٹھڑی میں آئی اور ڈھیر سے چائے کے کپ پرچھتی سے اُتار کر لے گئی۔ یعنی گھر آنے والی عورتوں کو چائے پلائی جا رہی تھی لیکن صغریٰ کو اس ضیافت میں شامل کرنا مناسب نہ سمجھا گیا تھا اور نہ ہی وہ زرینہ سے کچھ پوچھ سکی تھی کیونکہ اصغرے کے قتل کے بعد سے آج تک اُس کے گھر کی عورتوں نے اُس سے بات چیت بند کر رکھی تھی۔ وہیں کوٹھڑی میں صبح و شام اُس کے سامنے روٹی کا چھابا پھینک جاتیں، جیسے اُس کی زنجیر کھل گئی تو وہ اُنھیں کاٹ کھائے گی۔ باہر عورتوں کی سرگوشیوں میں لڑکیوں کی ہنسی کی کھنک تھی، جیسے کوری جھجھریاں بھرتی ہوں کہ رنگ بدلتے سٹوں کے آبو بھنتے ہوں۔ صغریٰ محسوس کر رہی تھی کہ گھر کی فضا میں اِک خوشگوار تبدیلی آ رہی ہے۔ اُس کا جی چاہا اس تبدیلی میں اُسے بھی قبول کر لیا جائے وہ بھی دِنوں کی تنہائی، دھتکار،نفرت اور لعنت ملامت اور جرم کے احساس کو سب میں گھل مِل کر اُتار پھینکے منوں منہ بوجھ تلے سے نکل کر ہلکی سی ہو جائے وہ بھی کورے گھڑے کا پانی پیئے اور اَدھ بھنے آبو کھائے۔ تبھی کوٹھڑی کی پچھلی طاقی پر بجنے والی اُنگلی کی دستک میں اِک عجب ہیجانیت تھی۔

’’اُٹھ صغریٰ اُٹھ۔ آج دیر نہ کرنا ورنہ یک لنگھ جائیں گے۔‘‘

میر حسن ایک بد رنگ سی چادر اُٹھائے صغریٰ کی پوٹ کو سمیٹنے آیا تھا۔ صغریٰ کے وجود کا کھلیان جھکڑوں کی زد میں بکھرنے لگا۔ وہ حوصلے کی گرہ لگا اُسے باندھتی تو روشندان سے ساڑ ساڑ کرتا لوکیت کا چابک سا برستا۔’’ لوگ کیا کہیں گے۔‘‘

’’تھی ہی بدکار اسی لیے تو قتل کروایا اور خود منہ کالا کر گئی۔‘‘

میر حسن اُسے اُکساتا رہا۔ کوٹھڑی سے باہر نکلنے کے واحد راستے روشن دان پر اُس نے بارہا پیر رکھا ہر بار سورج کا لال بھبھوکا چہرہ واپس پلٹا دیتا۔ میر حسن کا ہاتھ اُسے باہر کھینچنے کو روشن دان سے لٹکا رہ گیا۔ اُس سے پھر دیر ہو گئی۔ عورتیں لال گوٹے والا دوپٹہ اُٹھائے بین کی لے میں سہاگ کے گیت گاتی ہوئیں کوٹھڑی میں بھر آئیں۔

ہو سانولی تیرے مضر پراندا

بھلا ہو سانولی رب رانجھے نوں آندا

ہو سانولی تیرے بوہے تے جنڈ اے

بھلا ہو سانولی رانجھا مست ملنگ اے

لال عروسی دوپٹے میں لپٹی صغریٰ کی پوٹ جب پنچائت کے رُو برو پیش ہوئی تو نکاح خواں کئی آیتیں پڑھ چکا تھا اور گاؤں بھر کے مرد دُعائے خیر کے لیے ہاتھ اُٹھائے ہوئے تھے۔ دھول بھری گلیوں کو رولیٹ کتوں نے پنجوں سے کرید دیا تھا، جو کت پر آئی کتیا کے پیچھے لگے تھے۔ کتیا کھالے، بنے، دیواریں، کوٹھے، ٹاپتی اپنے وجود میں اُگ آئی نمو کی آگ سے خود کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ مولوی نے آیاتِ قرآنی مکمل کرنے کے بعد چودھری سے سوال کیا۔

’’چودھری جی! صغریٰ دختر اللہ داد جٹ کس کے عقد میں دی جائے گی۔‘‘ اس سوال کا جواب صرف پنجائیت کے مدعیان کے پاس تھا۔ تاوان میں بھری گئی عورت کے لواحقین کا اب اُس کے مستقبل سے کوئی سروکار نہ تھا۔

پتھر ڈھیلے مارنے والے بچوں سے بچنے کے لیے کتیا تنور کے گھورے میں کود گئی تھی۔ بدن راکھ میں دھنسائے اپنے ہی وجود میں سے نکلتی آتش میں بھسم ہوتی تھی اور زہریلے مواد کو ہانپتی ہوئی اپنی ہی زبان سے چاٹتی تھی۔

مقتول کے باپ نے بڑھ کر نکاح خواں کی داڑھی چھوئی۔ ایک بالشت اور ایک مٹھی لمبی داڑھی میں سفید اور سیاہ بالوں کے لہریے بنے تھے۔ سیاہ اور سفید دھاریوں والا صافہ پٹوں کو سمیٹے تھا۔ مکہ مدینے والے سرمے کی دھاریوں نے لال ڈوروں والی آنکھوں کا جلالی رنگ تیز کر دیا تھا اور صفا چٹ مونچھوں والے لبوں سے آیاتِ قرآنی کا وِرد جاری تھا۔

’’مولبی جی! آپ کو تو پتہ ہے میں پچھلے آٹھ مہینے سے رنڈوا مجرد ہوں اور دوسرے نکاح کی خواہش رکھتا ہوں اور نکاح سنتِ نبویﷺ ہے۔‘‘

تنور کے گھورے میں پناہ لینے والی کتیا کے پیچھے کئی کتوں نے چھلانگیں لگا دی تھیں اور اب باہر نہ نکل پا رہے تھے بچوں نے ڈھیلوں پتھروں سے تنور بھر دیا تھا۔ تنور کی مالکن نے گالیاں بکتے جھکتے ہوئے کڈنیاں مار مار اُنھیں باہر نکالا تنور پلید ہو گیا تھا۔ لوسن کی مٹھ بھر تنور کی اندرونی سطح پر مارنے لگی اور کلمے پڑھ پڑھ پھونکنے لگی۔

ابھی ابھی اکرما گھر سے تلے والا کُھسّہ اور کلف لگا کرتا پہن کر پنچائیت میں پہنچا تھا اور پھنکارتا ہوا غیر متعلقہ افراد پر شو کرانے لگا، وہ دس پندرہ قدم چاروں اطراف تماشائیوں کے پیچھے بھاگا اور اُنھیں دُور دھکیل آیا۔ کت والی کتیا کے پیچھے لگے کتوں کے جھرمٹ بھاگتے ہانپتے پنچائیت میں گھسے چارپائیوں کے نیچے کمریں گھسیڑ گھسیڑ پنجوں سے مٹی اُڑانے لگے۔

’’در در دفع۔‘‘

لوگوں نے ڈھیلے روڑے اُٹھا اُٹھا کر پٹخے بچوں نے قہقہے لگائے۔ سب سے برق رفتار کتے نے اپنے ہی بدن کی مجبوری سے بے بس کتیا کو جکڑ لیا وہ اُسے گھسیٹ رہا تھا اور گاؤں بھر کے بچے اُنھیں پتھر ،لاتیں ،مُکّے مارتے تھے اور محظوظ ہوتے تھے لیکن تمامتر دھتکار اور مار کوٹ کے باوجود ایک دوجے سے الگ ہونا اب اُن دونوں کے بس میں نہ رہا تھا۔

اکرما ہنکارنے اور تھوکنے لگا، آواز نرگٹ سے ٹکراتی مونچھوں سے اُلجھی۔

’’مولبی جی! آپ خود سمجھدار ہو جوڑ میرا ہے۔ نکاح میرا ہو گا۔ ایک پچاس سال کے بوڑھے کا اِک اٹھارہ سال کی صحت مند لڑکی سے نکاح دونوں کے ساتھ زیادتی ہے۔۔۔ شرع اس کی اجازت نہیں دیتی آپ خود دینِ اسلام کی باتیں جانتے ہو، مولبی جی۔۔۔‘‘

نکاح خواں نے ٹخنوں تک چڑھے پائنچے مزید اُوپر کھینچے جو کتوں کی اُڑائی دھول سے ناپاک ہو رہے تھے۔

اکرمے نے اپنی ہمدردانہ منطق کی پنچائیت کے اراکین سے داد چاہی، جو معاملے کو بگڑتے ہوئے دیکھ کر گھبرا گئے تھے اور کسی بھی صورت اپنی کئی روز کی محنت کو ضائع نہ کرنا چاہتے تھے۔مسئلہ تو جھگڑے کا پرامن تصفیہ تھا۔تاوان میں بھری گئی بانہہ کے حقوق کا مسئلہ نہ تھا۔

چودھری نے باپ بیٹے دونوں کو ایک طرف لے جا کر سمجھایا بجھایا لیکن باپ بیٹے کے درمیان تیکھی نگاہوں چڑھی تیوریوں، گھرکیوں اور گرم جملوں میں ملکیت کا جھگڑا برپا ہو گیا۔

جھکڑ دھول کے ترنگل بھر بھر سفید صافوں اور اکڑی ہوئی مونچھوں پر بچھانے لگے، کتے روڑیوں پر لوٹتے رہے اور بھوکے مویشی اپنے ہی فضلے کو سونگھنے اور چاٹنے لگے اور کاگے کھیہ پھرولتے رہے۔

چودھری کی چارپائی کی بغل میں کچی زمین پر بیٹھی صغریٰ کو دھرتی کے اندر موجزن سارے پانیوں ساری یخ بستگیوں، تاریکیوں نے کسی گہرے کھوہ میں منجمد کر دیا تھا۔ جوڑ جوڑ کو کافور چڑھ رہا تھا۔ برف کی سیلیں پگھل رہی تھیں جو اَب پور پور لہو میں جم گئی تھیں۔

چودھری نے پنچایت کی ناکامی کے تصور سے گلا کھنگار کر گھرکا۔

’’جس طرح مردے کو مٹی کے حوالے کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح جھگڑے والی عورت کے نکاح میں بھی دیر نہیں ہونی چاہیے۔۔۔‘‘

تبھی اکرمے کے باپ نے پگڑی اُتار کر جھاڑی کئی زرد، ہرے پتے اُڑے اور مویشیوں کی کھرلیوں میں ٹپک گئے۔ رات کے مردہ ڈھور سے گدھ حرام چونچیں بھر دیوانہ وار گاؤں کی فضاؤں میں منڈلانے لگے۔ سورج دُھندلا گیا۔

’’سرکار اصغرے کا خون اِتنا سستا نہیں ہے کہ ہم اسے اتنا سولا معاف کر دیں ہمیں ایک نہیں دو بانہیں چاہئیں۔‘‘ جھکڑوں کے چابک ساڑ ساڑ گلیوں میں برسے اور روڑگیٹے۔ مویشیوں کے بالوں میں اُلجھ گئے، جن کی خشک جلد کو کوّے ٹھونگتے تھے۔تماشائیوں کا دائرہ ایک دو قدم اور آگے کھسک آیا نوعمر لڑکے بھیڑ کا دھکا کھا کر منہ کے بل گرے اکرمے نے اُٹھ کر اُن پر ٹھڈوں کی بارش کر دی۔

صغریٰ کے خاندان کے مردوں میں اس ناانصافی پر شور مچا اور پنچائیت چھوڑ کر اُٹھنے لگے۔ ثالث اس نئے تقاضے پر ہڑبڑا گئے۔ تماش بین مزید قتل و غارت کے تصور سے پر جوش ہو ڈھوکوں بہنیوں پر خبر سنانے کو چلے۔ صغریٰ کی نسوں رگوں میں برف کا کانچ تیز دھار ہو گیا۔ سر پر دھری گنہگار وجود کی پنڈ اِتنی وزنی ہو گئی کہ زمین دھنستی چلی گئی۔

صغریٰ کی ماں نے بین الاپا۔

’’مائیں بیٹیاں بیٹوں پر وارنے کے لیے جنتی ہیں، جہاں ایک گئی وہاں دوسری بھی واری۔۔۔ ہائے میرا حمید۔۔۔ ہائے حمید چھٹ کر نہ آئے تو میں مرتی ہوں۔۔۔‘‘

صغریٰ کی بھابھی نے بین کا سرا جوڑا۔

’’شام پڑنے سے پہلے حمید چھٹ کر گھر نہ پہنچے تو میں تیل چھڑک جل مروں۔۔۔ ہائے اس موئی کے کرنوں کی میں کیوں بھگتوں۔۔۔‘‘

مجمع چھٹتے چھٹتے پھر اکٹھا ہو گیا۔ مردوں کے بیچ جھگڑا ابھی جاری تھا کہ صغریٰ کی ماں اپنی چھوٹی بیٹی زرینہ کو لال دوپٹہ اُڑھا پنچائیت میں لے آئی۔ پنچائیت پھر سج گئی، فیصلے کی سانگل مردوں کے ہاتھ سے نکل کر عورتوں کی بکل میں چلی گئی تھی۔

گاؤں کے بزرگ اپنی کامیابی پرخوش تھے کہ گاؤں کی پیاسی مٹی خون کی سیرابی سے بچ گئی اور صغریٰ کا فتنہ بھی ٹھکانے لگا۔زرینہ کے ساتھ تھوڑی زیادتی ضرور ہوئی لیکن خون کا جھگڑا مٹانے کو اگر اُس کی کم عمری کام آ گئی تو کیا برا۔

گاؤں بھر کی عورتوں نے سکون کا ہوکارا بھرا اب اُن کے مرد محفوظ ہوں گے اور اپنی توانائیاں گلیوں کی نکڑوں میں انتظار کی آنکھیں بن کر ضائع کرنے کی بجائے کھیتوں میں پسینہ بنا کر بہائیں گے۔

بچوں نے پتھر ڈھیلے مار مار کر کتیا کو کتے کی گرفت سے چھڑا دیا تھا۔ اب وہ اپنے زخمی وجود کو بھٹی کے گھورے میں سینک رہی تھی اور ناکام کتے ایک دوسرے پر بھونک بھونک تھک گئے تھے اڑوڑی میں تھوتھنیاں دھنسائے اُونگھ رہے تھے۔ گیہوں کا ناڑ خشک ہو گیا تھا اور اس میں درانتی پڑنے والی تھی۔

وہی رات صغریٰ پر ایسے پڑی جیسے اصغرے کی گردن کٹنے کے بعد تادیر اُس کے بدن کی پور پور تڑپتی پھڑکتی رہی تھی۔ ہر عضو باری باری مرا تھا۔ پہلے پیر زرد ہوئے پھر ٹانگیں بے جان ہوئیں، پھر دھڑ کی جان نکلی۔ آخر کٹے ہوئے نرگٹ سے لہو کے فوارے کے ساتھ آخری تڑپ پھڑک گھگھک کی آواز کے ساتھ بے حس ہو گئی تھی وہ بھی رات بھر اَدھ کٹی گردن کے ساتھ اکرمے کے تیر بھالوں کی زد میں رہی۔ وہ اپنے بھائی کے خون کا بدلہ اپنی بے عزتی اور نفرت کا انتقام اُس کے بدن کی نوچ کھسوٹ سے چکا رہا تھا۔ ہر ہر عضو پر پل پل حملہ آور ہوتا تھا۔

’’یہ آنکھیں یہی شربت کے پیالے آنکھیں مجھے پیاسا رکھتے اور میرحسن پر چھلک چھلک پڑتے، آج یہ میرے اختیار میں ہیں۔ چاہے ان میں ہونٹوں کے تکلے پرو دُوں کہ ہاتھ ڈال ڈیلے باہر کھینچ نکالوں۔‘‘

’’یہ ہونٹ جو مجھ پر تھوکتے اور میر حسن پر کلیاں بن بن کر کھلتے آج چاہوں تو انھیں گھسوٹ کر مسل پھینکوں یہ ناگن گت جو مجھے زہر بن بن ڈستی اور میر حسن کی بین پرمست ہو لہراتی۔ چاہوں تو کھتی سے پکڑ کر چک پھیریاں دوں اور زہر کی تھیلیاں کاٹ پھینکوں۔‘‘

اصغرے کی بہنیں بھابیاں انتقام کی اس آسودگی کی منتظر تھیں۔ جب صغریٰ کے حسن کے سنہری ناگ کی کینچلی اُدھڑ جائے گی، جب آنکھوں کے روغنی پیالے نیر بہا بہا کر بے نور گڑھے ہو جائیں گے،جب بدن کے شاداب نشیب و فراز تپ دق کی سولی پر چڑھ کر مسمار ہو جائیں گے تو پھر اصغرے کا خون بہا وصول ہو جائے گا۔

گیہوں کے کھیتوں میں بھریاں جم رہی تھیں۔ چھولیا رنگ بدل رہا تھا۔ عورتیں تنوروں کو نئے مٹھ لگاتی تھیں اور کورے تنوروں میں لوسن کی ساول مَل مَل کر اُن کی سطح ہموار اور پکی بنا رہی تھیں۔ راجباہ کے پانیوں کے سینے سے گرم آہوں جیسی بھاپ اُٹھنے لگی تھی اور واڈی بیٹھے کسان درانتوں کی دھاریں تیز کروا رہے تھے۔ انھی بدلتے موسموں کی حدت میں صغریٰ شب بھر اکرمے کی کتلیوں سے زخمی ہوتی تو دِن بھر زرینہ کی نوچ کھسوٹ میں رہتی یہ پندرہ برس کی لڑکی لپک جھپک اُس کی ساس کی عمر کو پہنچ گئی تھی۔ وہ بوڑھے شوہر کی تو خدمت گزار بیوی بن گئی لیکن اس زیادتی کا بدلہ صغریٰ سے چکانے لگی۔اُسے چولہے چوکے دُودھ سالن کو ہاتھ نہ لگانے دیتی گڑ کی بھیلی بھی نکالتی تو دونوں بازو لہراتی زبان کالٹھ ساڑ ساڑ برساتی۔

’’اری پلید گندی، ہر ویلے ایک ہی کام اور نہانا کہیں مہینے بعد، کم ذات، خبردار جو کسی کھانے کی شے کو پلید کیا۔۔۔‘‘

اُس کے حلق میں سے نکلتی دھاڑ میں جیسے اُس کی کم سنی کے ارمانوں کا چھید چھید لہو ٹپکتا ہو، جیسے زرینہ کے نہانے کی باریاں بھی صغریٰ نے اُچک لی ہوں۔

ڈھارے میں لیٹا سسرا نوعمر بیوی سے نئی توانائی کشید کرتا اور وجود کی بوسیدگی میں کھانستا۔

’’زرینہ میری جان! کیوں سرکھپاتی ہے اس گدھی سے۔۔۔ ٹوکری دے کر بھیج اسے باڑے میں گوہا پھوسی ہونجے اسی قابل ہے۔ روٹی آٹے کو ہاتھ نہ لگانے دینا،پلید کو۔‘‘

جیسے اُس کے بھربھرے بدن میں صغریٰ نے ہی خمیر مِلا دیا ہو اور اب وہ نوعمر بیوی کے امتحان میں ناکامی کی ذمہ داری صغریٰ کی نفرت میں کھوج رہا ہو۔

پرلے اوٹے سے بڑی نند ہراہرا پھنکارتی۔

’’اوٹے میں پیر نہ رکھنے دیا کر ناپاک کو گھر سے رِزق کی برکت اُٹھ جائے گی۔‘‘زرینہ اپنے ہنسنے کھیلنے کے دِن ایک چھلانگ میں ٹاپتی، اٹھارہ ایکڑ کی زمیندارنی بن گئی تھی اور گاؤں کی عورتیں اُسے چھوٹی چودھرانی کہنے لگی تھیں۔

اناج پھٹی دودھ گھی کی مالک شوہر کی لاڈلی۔اپنی سوتیلی بیٹیوں کی چھوٹی بہن اکرمے کا چھوٹا بھائی زرینہ سے سال دو سال بڑا ہونے کے باوجود اُسے ماں جی کہنے لگا تھا اور صغریٰ کو صغریٰ کہہ کر بلاتا تھا۔ خود اُس کے وجود میں سوئی عمر کو پختگی اور سنجیدگی نے ایڑ لگا دی تھی۔ وہ چادر کی بکل مارے ریڑکے کی دستیاں ہلاتی وڈوڈیری پچاس سالہ شوہر سے بس ایک قدم ہی پیچھے رہ گئی تھی۔ اپنے ماں بننے کی خبر گاؤں بھر میں یوں نشر کی جیسے پچاس سالہ لا ولد شوہر کو منتوں مرادوں کے بعد صاحبِ اولاد ہونے کی خوشخبری دی ہو۔ یہ اٹھارہ ایکڑ کا پچاس سالہ زمیندار اپنی پندرہ سولہ برس کی دُلہن کے سامنے یوں دھنسا پھنسا رہتا، جیسے بیٹے کے خون کے عوض اُسے نہ خریدا ہو بلکہ خود فروخت ہو گیا ہو۔ وہ جتنی بھرپور ہوتی چلی جا رہی تھی۔ وہ اُتنا ہی کمزور اور بوڑھا جیسے وہ اُسی کے خون سے پھل پھول رہی ہو۔ شہر کے بڑے ہسپتال میں اٹھارہ ایکڑ کا وارث پیدا کیا تو چالیس ہزار کا خرچہ ہوا اور دس ہزار کی پورے شریکے برادری کی دعوت کی گئی۔ لڑکے کی شباہت بالکل باپ پر گئی تھی۔ زرینہ اُسے صغریٰ سے چھپا چھپا کر رکھتی جیسے اُس کی نظر پڑ گئی تو اٹھارہ ایکڑ کی زمینداری لا وارث رہ جائے گی۔ بچے کو گود میں چھپائے حکموں، گھرکیوں اور طعنوں کے لٹھ سے اُسے رگیدتی رہتی۔

’’کم ذات پتیلے کے تلے پر کالک چھوڑ دی تیرے اپنے منہ پر جو ملی ہے یہ کالک۔۔۔ سارا گھٹا اُڑا کر چو دھری عبداللہ پر ڈال دیا۔ غریب سوتے میں بلک بلک کر رویا۔ اری تجھے کیا پورے خاندان کی عزت پر جو گھٹا ڈال آئی ہے۔۔۔‘‘

صغریٰ طنبورہ سا بڑھتا ہوا پیٹ چھپائے زرینہ کے احکامات کی بجا آوری میں ہانپتی، جیسے یہ پیٹ بھی اکرمے کا نہ ہو میرحسن کا بھلیکھا پڑ گیا ہو۔ جس نے اُس کا سارا وجود ناجائز کر دیا ہو جسے اس گاؤں کی مٹی قبولنے کو تیار ہی نہ تھی۔ وہ میرحسن کے طعنوں میں پور پور پروئی گئی تھی۔ وہ اُس کے ساتھ بھاگ جاتی تو شاید یوں اس میں رچ بس نہ پاتی۔ جتنا گاؤں والوں نے میرحسن کے نام کو اُس کی نس نس میں طعنہ و طنز کے نشتر لگا لگا گھول دیا تھا۔ بعض اوقات تو اُسے اکرما بھی میرحسن لگنے لگتا وہ آنکھیں کھول کر دیکھتی تو ہڑبڑا کر اکرمے کو پرے دھکیل دیتی تو وہ زیادہ شدت سے اُس پر حملہ آور ہوتا۔

’’کیوں یار کا بھُلیکھا پڑا تھا جو تجھے روشندان سے نکالنے آیا تھا۔‘‘ وہ ایک ایک اعضا پر یوں ٹوٹ ٹوٹ کر پڑتا جیسے اُس کے وجود کے نشیب و فراز میں میرحسن گھسا بیٹھا ہو اور وہ اُس کے قدموں کے نشانات کو چن چن کے کوٹ پھانٹ رہا ہو، لیکن جن دھاڑتا رہتا’’ نہیں جاؤں گا نہیں جاؤں گا۔‘‘جن والی عورت عامل کی مار کھا کھا کر ادھ موئی ہو جاتی۔لیکن جن نہ نکل پاتا۔

صغریٰ کے سروٹے جیسے بال جنڈ کی جٹائیں بن بکھر گئے۔ نرمے کی گڈی جیسے لب خشک کھوکھریوں سے بد رنگ ہو گئے، جن کے سینے میں پھٹی کرنڈ ہو جاتی ہے۔

گاؤں کی عورتوں کو عجب آسودگی کا جھولا سا ملتا۔

’’ہائے نی میرا عبدالرحمن جیون جوگا، راتوں کو اُٹھ اُٹھ دُہائی دیتا۔اس کے سروٹے جیسے بال مجھے پھاہی دیتے ہیں، آٹھوں پہر اسی کا چہرہ نظروں میں رہتا ہے۔ لگتا ہے دانتوں کی لڑیاں زہر کے قطرے بن بن مجھ پر ٹپکتے ہیں۔‘‘

’’ہائے سوداں بی بی! میرے اسلم کو تو مالیخولیا ہو گیا۔ سوتے میں بھی صغراں صغراں پکارتا نرا سودائی۔۔۔‘‘

’’ہائے نی میرا بندہ۔۔۔ نکھتری نے ایسا جادو ڈالا شام پڑے منہ سر لپیٹ سوتا بن جاتا نہ مجھے دیکھے نہ بلائے ہائے نی نرا جوگی۔۔۔‘‘ اللہ نے سنی ہائے اللہ پاک نے انصاف کیا گھل گھل کے مر رہی ہے۔‘‘

’’اڑیو کہاں گئے وہ سونا رنگے گال اور ہیرے کی کنی سے نین۔۔۔‘‘

’’ہائے نی اپنے لشکاروں سے ساڑ ساڑ ہمیں سواہ کرتی آج آپ سواہ ہو گلیوں میں اُڑتی ہے۔۔۔ ہائے چندری۔۔۔ ہائے چندری۔۔۔‘‘

عورتوں نے گھٹنوں پر تاڑ تاڑ ہتھیلیاں ماریں۔

صغریٰ نے بیٹی کو یوں جنم دیا جیسے دِن پورے ہونے کا بس انتظار ہی کر رہی تھی۔ دائی ابھی چوکھٹ پر پہنچی تھی کہ رونے کی آواز اُس نے باہر ہی سن لی۔ ناڑاکاٹنے کو درانتی لینے ڈھارے کو پلٹی کہ صغریٰ پر جن آ گیا۔ وہ بچی پریوں حملہ آور ہوئی جیسے اکرما اُس پر پل پل کے پڑتا تھا۔

بچی کی ناف کھینچتے ہوئے چڑیل سی چیختی تھی۔

’’نہ تجھے اس گندی دُنیا میں آنے کی اِتنی جلدی کیا تھی۔ پیٹ میں نہ مری تو پیدا ہوتے تو مر جاتی۔ اس نکھتی دُنیا کا تجھے کیا دیکھنا جو میں نے نہ دیکھا۔۔۔‘‘

دائی نے صغریٰ کے جن کو چارپائی سے نیچے دھکیلا۔ اَدھ موئی بچی کو پرانے کپڑے کی دھجی میں لپیٹا۔ بچی صغریٰ کا کوئی نقش بھی چھوڑ کر نہ آئی تھی۔ پورے گاؤں میں ہوک سی پڑی۔ عورتوں نے اِک دُوجی کے چپے دِیئے۔

’’اڑیو دیہاڑے گنو اِک اور قتل کے، بچا کے رکھونی اپنے لال سپنی ڈنک مارنے کو پیدا ہوئی۔۔۔‘‘

زرینہ چادر میں ڈھک ڈھک بیٹے کو دودھ پلاتی۔

’’ہائے نی کہیں چڑیل کی نظر ہی نہ لگ جائے۔ بدبخت کے دُودھ بھی نہ اُترا۔ اڑیو میرے تو پوری مہنیں جتنا حوانا ہے۔۔۔‘‘

وہ دودھ کی دھاریں گیہوں رنگے،پیٹ پر نچوڑتی، عورتیں بکلوں میں کریڑی زرہ دانت چھپا کھڑکھڑ ہنستیں۔

’’اڑیو دودھ کہاں زہر ہو گا قاتلی کے تھنوں میں پرسنپولی کہاں مرے۔‘‘

اکرمے نے لڑکی کو ایک نظر دیکھا اور کہیں کو نکل گیا۔ نری صغریٰ جیسے اکرمے کا تو کوئی حصہ ہی نہ ڈلا ہو جیسے ماں کی طرح بیٹی نے بھی اُسے دھتکار دیا ہو۔ وہ دِنوں میر حسن کی شبیہ گلیوں ، بہکوں میں ڈھونڈتا پھرا اور اُس روز لوٹ کے آیاجس روز لڑکی کی موت کی خبر ملی۔

بچی صغریٰ کی نفرتوں اور اکرمے کے شبے کے بوجھ کو نہ جھیل سکی چوتھے پانچویں روز نرمے کی گڈی سی مرجھا گئی۔ ماؤں نے نومولود بیٹوں کو سینے سے چمٹا سکھ کا سانس لیا۔

’’ہائے نی اللہ نے انصاف کیا نر بچے سپنی سے بچائے۔‘‘

صغریٰ بچی کی میّت سے لپٹ کر یوں ٹوٹ کر روئی کہ سارے گاؤں کی عورتوں کے جگر پھٹ گئے۔ برس بھر کے جمع سارے آنسو، سارے بین ،دُکھ کرودھ، دھتکار، نفرتیں جیسے حلق پھاڑ یکبارگی باہر اُبل پڑے ہوں۔ عورتوں نے بین اُٹھایا۔

’’ہائے نی آپ لیکھوں سڑی کو ڈولی چڑھنا نصیب نہ ہوا بیٹی کی ڈولی سجا رہی ہے۔ آپ دُلہن بننا منظور نہ ہوا بیٹی کو گوٹے تلے میں سجا دُلہن بنا رہی ہے۔ ہائے نی اپنی ریجھاں اُتار رہی ہے۔‘‘

بچی کا میّت بینوں ،دھاڑوں، آہوں،کراہوں میں سجا یوں اُٹھوایا کہ اصغرے کا جنازہ بھی ایسے شاندار ماتم کے جلو میں نہ اُٹھا تھا۔ اصغرے کی تو ماں نہ تھی کہ جوان بیٹے کے ماتم کی دھول گلیوں میں پھرولتی پھرتی لیکن صغریٰ بیٹی کے غم میں گھلتے گھلتے تانت سی رہ گئی جیسے سنی کی خشک چھمک سے ریشہ اُدھیڑ لیا گیا ہو، جو زرد پھولوں کے گچھوں سے کبھی لدی کھنکتی تھی۔ لیکن اب جلانے کے قابل بھی نہ رہی تھی۔ تنور میں جھونکو تو دھواں چھوڑ دے، چولہے میں ڈالو تو بھڑک مچا دے۔

یہ صغریٰ کی نحوست تھی کہ زرینہ کی بددُعا اس کے بعد گاؤں میں پیدا ہونے والی ہر لڑکی، دوسرے چوتھے روز مر جاتی لیکن لڑکے جیتے رہتے، ملانے چلے کاٹے۔ پیروں نے تعویذ لکھے، عاملوں نے حساب لگایا۔ بزرگوں نے دُعائیں مانگیں۔لیکن کوئی شیطانی نقش تھا جو بڑا سخت تھا۔ ہر بچی کی میّت پر صغریٰ بینوں کے سوز پر یوں پورے گاؤں کو رُلا رُلا آنسوؤں میں بہا دیتی کہ ایسا تو جوان بیٹوں کی موت پر مائیں بھی کبھی نہ رو پائی تھیں۔ دنوں ان ننھی منی قبروں کو جنگلی پھولوں اور سبز کونپلوں سے سجاتی اور پانی کا چھڑکاؤ کرتی رہتی جیسے ان ذرا ذرا قبروں کی مجاور ہو۔

یہ تو لوگوں کو بہت بعد میں احساس ہوا کہ صغریٰ ہر اُس گھر میں جاتی ہے، جہاں کوئی لڑکی جنم لیتی ہے لیکن لڑکوں والے گھر چھوڑ جاتی ہے اور جہاں جاتی ہے منحوس کے واپس آتے ہی لڑکی کی حالت بگڑنے لگتی ہے۔ پچھل پیری کا سایہ ہے کہ کوئی زہر کی چٹکی چکھا آتی ہے۔

لوگ زچہ بچہ کو اُس کے سائے سے بچانے لگے۔ پیٹھ پیچھے چاہے وہ چڑیل جادوگرنی، ڈائن سہی لیکن جس گلی سے گزر جاتی عورتیں راہ چھوڑ دیتیں اور کلمہ شریف کا وِرد کرتیں اور یوں ڈرتیں جیسے یہ صغریٰ نہ ہو اِس گاؤں پر کوئی بھاری وقت آیا ہو پتہ نہیں کب پتھروں کی بارش شروع ہو جائے اور اُن کے بچے مرنے لگیں۔

میرحسن کے ہاں بیٹی ہوئی تو اُس کی بیوی نے خاص خیال رکھا کہ کہیں عورتوں میں مِل کر صغریٰ بچی دیکھنے کے بہانے چلی نہ آئے۔ رات بار بار ٹٹول کر کنڈی دیکھتی کہیں کھلی تو نہیں رہ گئی۔ سینے سے چمٹا بچی کی سانسیں محسوس کرتی۔ دِن بھر آنکھ نہ جھپکتی کہیں ہونی نہ آ جائے۔

لیکن ایک اندھیری رات جب سوکھا سڑا ہاتھ روشندان کی جھیت میں سے اندر لہرایا تو میر حسن کی بیوی بے خبر سو رہی تھی۔ اُسے تو احساس ہی نہ ہوا کہ کب سوئی ہوئی بچی کے نرگٹ میں بھاری انگوٹھا دھنسا اور میرحسن نے تاریکی کی اوٹ میں سے اِتنی طاقت سے کلائی پکڑی کہ ہاتھ کی حرکت ڈھیلی پڑ گئی۔ صغریٰ کا جن میرحسن سے بھڑ گیا۔

’’اسے مر جانے دے کیا لینا اس نے جی کر اس گندی دُنیا سے جو میں نے نہ لیا۔۔۔ مر جانے دے اسے۔۔۔‘‘

میرحسن نے دونوں ہاتھوں کی گرفت سے صغریٰ کے جن کو بوتل میں بند کر دیا وہ بھڑتے بھڑتے ڈھیلی پڑ گئی۔

’’میں جانتا تھا تو ضرور آئے گی۔۔۔

میں جانتا تھا تو چڑیل بھی ہے تیرے اندر جن بھی آتا ہے تجھ پر بد رُوحوں کا سایہ بھی ہے اور تو گاؤں میں کسی بچی کو جیتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی۔ میں کئی روز سے تیرے انتظار میں جاگ رہا تھا۔۔۔‘‘

صغریٰ پس بھرے پھوڑے کی طرح پھٹ گئی۔ کھرنڈ اینٹوں کے فرش پر آنسوؤں کا لہو اور پیپ درد چھوڑتے لوتھڑوں کی طرح بہنے لگا۔

میرحسن نے کمرے کی طاقی کھول دی۔یخ ہوا کا جھونکا صغریٰ کے مواد بھرے وجود پر تلوار سا برسا۔

’’صغریٰ جس ہاتھ بھر کے روشندان کو تونہ ٹاپ سکی اس اُمید پر اسے جینے دے کہ وہ روشن دان اس کے لیے پورا کھلا ہو گا۔ ورنہ اپنے ہی وجود میں کھولتے پس بھرے مواد کے زہر سے تو مر جائے گی۔۔۔‘‘

صغریٰ تاریک روشندان کے قدموں میں اوندھی پڑی تھی۔ اُس کے اندر پس بھرے مواد کا سیلابی ریلا آنکھوں اور حلق کے سارے بند توڑتا بہہ نکلا تھا اور خالی خولی وجود کھرنڈ اینٹوں کے فرش پر پڑا رہ گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

بوڑھی گنگا

 

 

اسٹیمر کے دائیں بائیں چھٹتے جھاگ دار بلبلے دولی کے خیالات کی طرح بوڑھی گنگا کے سینے میں ڈوبتے اُبھرتے تھے۔ دولی کے پراگندہ دِل و دماغ کی طرح چنگھاڑتے کراہتے احتجاج کرتے اور پھر مقدر کی طرح بے بس ہو جاتے۔پرانا روغن اُترا اسٹیمرکنارے چھوڑ رہا تھا۔ جس کے دروازوں کے قبضے، کھڑکیوں کے شیشے، فرش کے پھٹے اور کیبنوں کی دیواریں دولی کے وجود کی طرح چٹختی حال دُھائی مچاتی گنگا کی کثافتوں میں غرق ہو جاتی تھیں۔ کیلوں کے ٹہنے، پتے، ناریل کے خول، باسی گلی سڑی سبزیاں اک پوری تہہ تھی جو فرشِ آب پر بچھی تھی اور کشتیوں اور اسٹیمروں کے سنگ تیر رہی تھی۔ جیسے پانی کے اُوپر اِک شہر آباد ہو گیا ہو۔ اتنا ہی آلودہ جتنا کہ خود ڈھاکہ شہر اِتنا ہی گنجان جتنا بنگلہ دیش، جیسے یہ اسٹیمر نہ ہو ڈاؤن ڈھاکہ کی کھولیاں ہوں جن میں آدھا بنگال بند ہو گیا ہو۔ بوڑھی گنگا کے اس چھور پر کئی خالی اسٹیمر لنگر ڈالے کھڑے تھے جن کے کیبن صرف سے مَل مَل کے دھوئے جا رہے تھے۔ زنجیروں سے بندھی بالٹیاں بھر بھر ملاح عشرے پر کھینچتے سیاہ کیچڑ پانی سے نہاتے ایک دوسرے پر اُلٹاتے بنگلہ گیت گاتے ننگے بھوکے موج مستی کرتے۔ دولی نے سوچا پتہ نہیں یہ ملاح اِتنے خوش خوش کیوں رہتے ہیں۔ شاید پانی کی سنگت میں کوئی خوشی والا تعویذ گھلا ہے یا شاید مہینوں بعد ہم جنسوں کی صحبت دیوانہ بنا دیتی ہے۔

مخالف سمت سے ٹکراتی ہوا کا تھپیڑا ناریل کی گھاس جیسی جھلسی ہوئی خشک جلد پر اُس نے سہارا۔

’’یہ مرد جات تو سدا کا لاپروا بے ایمان۔۔۔مہیلا کا شریرجیسے چاہے نوچے ہڈیاں بچ رہیں تو کسی نوکا میں کسی جھونپڑے میں چھوڑ خود ناریل کے پیڑوں کی گودی میں بھرے ڈاب لیے بندر سا چڑھ جائے۔سارے دُکھ تو ناری جات کے لیے، بوڑھی گنگا جیسے پرانے اور تعفن چھوڑتے ہوئے۔‘‘

دولی کا کھرنڈ بھرا ماضی پیپ سا رِسا۔

آلودہ پانیوں پر تیرتا یہ گنجان آباد شہر ایسی ہی دُکھن بھری عورتوں کی ٹیسوں سے کراہتا تھا۔ بانس کی تیلیوں جیسی پسلیوں اور بھات سے خالی تھالی جیسے چپکے ہوئے پیٹ والی زیادہ تر اِن عورتوں کو دولی جانتی تھی۔ یہ سب وہی تھیں جو ڈھاکہ کے پاش علاقوں کے جدید فلیٹوں میں دو تین ہزار ٹکا کے عوض بوا کا کام کرتی تھیں۔

شام ڈھلے جب سورج کی ٹکیا بوڑھی گنگا کے کثیف پانیوں میں منہ چھپا رہی ہوتی ہے تو گلشن ون گلشن ٹو کی بالکونیوں میں بوائیں اُن بچوں کے یونیفارم استری کر رہی ہوتی ہیں، جنھیں کل صبح انگریزی طرز کے مہنگے سکولوں میں پڑھنے جانا ہے۔ ان پاش علاقوں میں ناریل کے اُونچے لمبے پیڑوں کی گودیوں میں بھرے کچے ڈاب اور کیلوں کے بڑے بڑے پتوں کی بغلوں میں رنگ بدلتے چتری والے گچھے دیکھ کر اُنھیں اپنے بچوں کا دھیان بار بار ستاتا ہے جو دُور کسی برساتی جھیل کے پانیوں میں گھری بانسوں کی جھونپڑی میں نانی کے گرد جمع بھات پکنے کا انتظار کرتے ہیں جن کے خالی پیٹوں کے مقابلے میں بھات کی یہ مقدار بہت کم ہو گی، جس سے ان کا آدھا پیٹ بھرے گا آدھا خالی رہ جائے گا۔ جب کہ اُن کی ماں اُن سے بہت دُور کسی بڑے گھر کے صحت مند بچوں کے لیے اس وقت بریانی ماچھ پکا رہی ہوتی ہے اور باپ نجانے ڈھاکہ چٹاگانگ راج شاہی کس بڑے شہر کی کس سڑک پر سائیکل رکشہ چلا رہا ہو گا اور روز کا جو سو ٹکا کمائے گا تو پچاس دوسرے شوہر کے بچوں کی ماں اپنی تیسری بیوی کی ہتھیلی پر رکھے گا تو پچاس ٹکہ دارو میں اُڑا دے گا۔

اسٹیمرلکڑی کے جھولتے ہوئے پل کی بغل سے گزرا جس کی ریلنگ سے کتنے نشئی مدہوش لٹک رہے تھے۔ اکڑے ہوئے جسم ٹھہری ہوئی پتلیاں، ساکن جلد نیلے کچر ہونٹ جیسے موت کا عمل گزرے کئی گھنٹے بیت چکے ہوں۔ دولی نے ہڈیوں کی مٹھ بنے ریلنگ سے آدھے لٹکتے ہوئے مکھیوں بھرے چہرے والے نشئی کو دیکھا تو دُکھ سے سوچا شاید اُس کے دونوں بڑے بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ دولی کو جب کبھی کچھ یاد کرنے کی فرصت ملتی تو اُسے اپنے تین شوہروں کی یادگار چار بچوں میں اپنے پہلے شوہر کی شبیہہ رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ پہلا شخص تھا جس نے بانسوں پر کھڑے پھونس کی چھت والے جھونپڑے میں پہلی بار اُس کی گہری گلابی رنگ ساڑھی کا پلّو اُس کے سیاہ چکنے بالوں سے سرکایا، تب بلاؤز میں سے جھانکتے پیٹ کی پلیٹ میں جیسے بنگالی چیرویں آنکھ دھری تھی چکنے گالوں سے ناریل کا تیل ٹپکتا تھا اور اُس کے بدن کی رنگت اور ملائمت پر راہو مچھلی کا گمان ہوتا تھا اور اُس کے لبوں کی ساخت میں عنابی شلپا کھلے تھے۔ بنگالی آنکھوں کے جادو میں امراکارس بھرا تھا۔ ان تمام ملائمیتوں، رنگتوں، چکناہٹوں اور رسوں کو پہلی بار چکھنے والا یہ متوا تھا جس کا وجود تالکا(Storeapple) جیسا سخت لیکن اندر سے ایسا ہی نرم اور میٹھا جیسا تالکا کا اندرونی گودا، آم جیسا نرم پیلا اور مزے دار جس کا شربت بنا کر پینا اُن کی بڑی عیاشی تھی لیکن متوا کے بدن کا یہ شربت نشے کی کرواہٹ میں یوں زہر ہوا کہ تلچھٹ کی طرح وجود کے پیندے میں بیٹھتا چلا گیا کہ دولی کو لگتا کہ اگر کبھی اس کی کوئی نس کہیں سے پھٹ گئی تو خون کی بجائے پاؤڈر باہر چھلکنے لگے گا۔

اک رات وہ اُسے جھونپڑے میں مدہوش پڑا چھوڑ کر ڈھاکہ جانے والے اسٹیمر میں سوار ہوئی بلبلے اُڑاتے دھواں مارتے غلیظ کیبنوں والے اِسی اسٹیمر میں اُسے اپنا دوسرا شوہر ہمیش ملا جس نے اُس کے سنگ اگنی کے پھیرے لیے تھے اور ایک لڑکی کی سوترمالا پہنا کر اِک رات کھولی میں سوتے ہوئے اُسے یوں چھوڑ گیا جیسے وہ کبھی جھونپڑے میں متوا کو سوتاچھوڑ آئی تھی۔ اُسے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کھولی کا چھ ماہ کا کرایہ بھی اب اُسے اپنے بدن کے رس میں سے چکانا ہے، کرایہ تو رابرٹ نے یکمشت ادا کر دیا لیکن اُسے چرچ لے کر کبھی نہ گیا۔ البتہ چھ مہینے کے کرائے کے عوض اُسے اِک لڑکا دیا۔ دو سال بعد دولی کو بڑے شہروں کی ہوشیاری سمجھ آنے لگی تواحساس ہوا کہ روز روز آنے والے یہ مہمان جو کچھ دے جاتے ہیں وہ اس کھولی کے کرائے اور اُس کے حصے کے بھات سے کہیں زیادہ ہے تو بس اُس نے اس درمیانی واسطے سے نجات کا سوچا اور بوڑھی گنگا کے برساتی دریا کو پرانے اسٹیمر کے غلیظ ترین غسل خانوں والے تھرڈ کلاس کیبن میں چاروں بچوں کو بھرکر دھان کے کھیتوں میں گھرے اپنے گاؤں میں واپس لوٹی لمبے بانسوں پر ٹنگی جھونپڑی میں ماں کے پاس انھیں چھوڑا جہاں کیلے کے باغات بانسوں کے جنگل، ناریل کے پیڑ جھیلوں میں تیرتے تھے لیکن یہ دھان، کیلے اور ناریل ان کھیت مزدوروں سے ایسے ہی اُچک لیے جاتے ہیں جیسے باڑھ ان کے جھونپڑے پل بھر میں کہیں بہا لے جاتی ہے۔چند جھونپڑوں پر مشتمل اس کے گاؤں میں داخلے والی جس جھیل پر دو بانس باندھ کر پل بنایا گیا تھا یہی جھیل جب بارشوں میں بپھرتی تھی تو سارے کھیت سارے باغ، جنھیں سیراب کرتی اُنھیں خود ہی نگل جاتی ہے اور جب باڑھ اُترتی تو بانسوں پر ٹنگے گاؤں بھر کے جھونپڑے جھیل میں بچھے ہوتے، جہاں کبھی کوئی نو کا زندہ یا مردہ لاشوں کو نکالنے نہ پہنچ پاتی۔ کئی بار تو الائچی کے پیڑوں کی شاخوں سے لپٹے ڈھانچے وہیں لٹکے رہتے اور بھوکے گدھ کوّے اپنا پیٹ بھرتے۔

اب کی بار باڑھ گزر چکی تھی۔ جھیل کے گدلے پانیوں میں گلابی شلپا لمبی ٹہنیوں کی گردن پر کھلے تھے۔ چوڑے پات جھیل کے پانیوں کو ڈھکے تھے جن کا کاہی زدہ سکوت اب تک ریسیکیو کی کسی نوکا نے نہ چھڑا تھا اُس کی ماں کی آنکھوں میں بنا آنسوؤں کے ماتم تھا۔ اُن کا نہیں جنھیں باڑھ اپنے ہمراہ لے گئی اُن کا جن کے پیٹ پسلیوں سے نیچے اُتر کر ریڑھ کی ہڈی میں دھنس گئے تھے۔ بنا بلاؤز کے چار گز کی سوتی دھوتی کا پلّو کمر کو ڈھکتا تو سینہ ننگا ہو جاتا۔ سینہ ڈھکتا تو کمر کی ٹیڑھی میڑھی ہڈیاں کھل جاتیں چڑ مڑ جھڑیوں کا گچھا شاید اب ستر پہننے کی ضرورت سے ہی عاری تھا۔ وہ پانی سے بھرے کھیتوں جیسی آنکھیں جن کی ساری فصلیں باڑھ نگل گئی تھی۔ پلّو میں نچوڑتی گلے ہوئے ناریل کے بالوں جیسی جٹائیں کھجاتی، پسلیوں میں دھنسا پیٹ منہدم سینہ اور کمر کا بوسیدہ چمڑا کھلا رہ جاتا جیسے بھوکے گدھ کوّوں کے لیے دعوتِ عام ہو۔

اُس نے ماں کو وچن دیا وہ اس کے لیے بلاؤز والی ساڑھی لائے گی۔ وہ اپنے ان چار بچوں کے لیے جو اُس کے پاس چھوڑے جا رہی ہے۔ اتنا بھات کما کر بھیجے گی کہ اُن کا پیٹ بھر جایا کرے گا لیکن تھالی میں ابھی بھات بچا رہے گا اُن کے گالوں پر شلپا کھلیں گے اور بالوں سے ناریل کا تیل چوائے گا۔

دولی نے مٹھی بھر اُبلے ہوئے چاولوں سے پیندا ڈھکی سلولائڈ کی تھالی کی سمت ہاتھ بڑھایا ہی نہیں ماں بھی بھوکی ہی رہ گئی۔ چاروں بچے سنے ہوئے پنجے چاٹتے رہے۔ان انگوری سنہری کھیتوں کی بھوک سے تیورا کر وہ واپس پلٹی اگلے روز وہ پھر ڈھاکہ میں تھی۔ ڈھاکہ جہاں سٹیچنگ یونٹ بھرے ہیں،اور روئی کے برادے آلودگی بن کر پورے شہر میں اُڑتے پھرتے ہیں جہاں کی جدید تعمیرات کے لیے مزدوروں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ جہاں مغربی طرز کے بنگلے اور فلیٹ ہواؤں کو چھو رہے ہیں، جن کی چھتوں پر پھول پھلواری کھل رہی ہیں جن میں بڑے بڑے پنجروں میں پالتو شیر،ریچھ اور کتے بند ہیں،جن کے گیٹ کھولنے کو با وردی گارڈ تعینات ہیں، جنھیں لمحہ بھر کو ٹک کے بیٹھنا نصیب نہیں کبھی لیموزین، فراری،کبھی مرسڈیز جتنا بڑا گیٹ کھولنا ہوتا ہے اُتنا ہی بڑا سیلوٹ بھی مارنا ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد بنگال نے بہت ترقی کی ہے۔ بڑے محلات کی تعمیر میں بڑی گاڑیوں کی درآمد میں لیکن ان کے سامنے بچھی سڑکیں وہی ٹوٹی پھوٹی، کھڈوں بھری، تنگ موڑ کاٹتی کھولیوں اور ڈھابوں میں گھستی ہوئیں، جہاں گھنٹوں ٹریفک جیم رہتا ہے جو مچھروں اور فقیروں کی تھوک منڈی معلوم ہوتا ہے۔ دھان منڈی اور ڈاؤن ڈھاکہ کی چار چار ہاتھ کی گنجان گلیوں میں ٹھُنسے ہوئے کھوکھے، جیسے شہد کے چھتے کے بے شمار سوراخ پتہ نہیں کتنی مکھیاں اندر بھری ہوں، ہزاروں انسانوں کی کترنیں بکھری ہوئی کہیں مانگنے کو بڑھے ہوئے ہاتھ،معذور ٹانگیں کہیں بسورتے چہرے، کہیں محض بالوں کی اُلجھی چوٹیاں، سائیکل رِکشہ ،ہتھ ریڑھیاں،جھومتے جھامتے نشئی۔سنارگاؤں میں کھڈیوں پر کپڑا بنتی ہوئی ڈھانچہ عورتیں، اردگرد پھیلے پانیوں میں اُترتے دھان کے کھیت، ناریل، الائچی کے پیڑ، جن پر بھوک بھوت کی طرح سوار ہے اور ایک یہ گلشن ون گلشن ٹو کے محلات ایک ہی شہر میں کتنی دُنیائیں آباد ہیں۔ نیچے اور اُوپر بچھی اس اسٹیمر کی منزلوں کی طرح دولی کو لگتا اُوپر والوں کا سارابوجھ ساری غلاظتیں ان نیچے والوں پر لدی ہیں۔

دولی نے انھی محلات میں پناہ لینا مناسب سمجھا۔ وہ کہیں بھی باہر کھولی آباد کرتی تو خرچ وہ ہوتی کھاتا کوئی اُوپر والا، عورت کی کمائی کے دعویٰ دار کتنے پیدا ہو جاتے ہیں۔ نکھٹو شوہر، کانسٹیبل، ٹھیکیدار، کرایہ دار، اگرچہ ابھی دولی کے گالوں، بالوں اور آنکھوں سے ناریل کی چکنی آب چھٹی نہ تھی لیکن اُس نے ان صحت مند سیٹھ بچوں کے لیے ماچھ بھات پکانے اور تالکا کا شربت بنانے کو ترجیح دی، جو اس ملک کی مخلوق معلوم ہی نہ ہوتے تھے۔اور یہ مچھروں کی ہم شکل مخلوق بھی یہی کی باسی تھی۔ چار خانہ بوسیدہ دھوتیوں پر ذرا ذرا ٹی شرٹیں پہنے شاید کپڑے کی کمی نے جسامتوں کی کوتاہی کا ناپ لیا تھا۔ اسی لیے لمبا ڈک بھرنا تیز چلنا، دوبھر لگتا، بھات کے پھکوں کی چپچپاہٹ موسموں کی سیلن، پانیوں کی ٹھہری ہوئی امس شاید حرکات و سکنات کی کاہلی بن گئی تھی۔ جھیلوں، دریاؤں میں بھرا پانی آسمانوں سے برستا پانی ندی نالوں میں اُترتا پانی اور بوڑھی گنگا کے پر آلائش سینے میں زہر بنتا اور ماچھ کی فصل قتل کرتا ہوا پانی، ارے بنگال میں تو پانی بھی عذاب کی شکل ہے۔ خارج بھی اور بھیتر بھی فساد برپا کر دیتا ہے۔

انھی نم موسموں کی کسمساہٹ اور بدن کی سیلن کی سستی بعض اوقات دولی کو بھی پچھاڑ دیتی وہ ہفتے میں ایک دو بار ڈیٹ پر چلی ہی جاتی۔ میکسی کی جیب میں جو اضافی روپے چھپا کر لاتی وہ مختلف شوہروں کے چاروں بچوں کے لیے لنڈا بازار سے کپڑے خریدنے میں صرف ہوتے۔ دولی کے لیے ہر شوہر سے نفرت اور دوری کی اپنی اپنی حدیں تھیں لیکن یہ چاروں بچے اپنے اپنے باپوں کی شبیہوں کے باوجود اُسے یکساں ہی پیارے تھے۔ ان کے لیے کپڑے، جوتے خریدتے ہوئے دولی کو کبھی احساس نہ ہوا کہ چاروں کس کس ہتیہ چار کی پیداوار ہیں اور جن کے نطفے ہیں وہ نجانے کتنے مزید کس کس کی کوکھ میں بھر چکے ہیں۔ بھلا کوکھ کو محافظت کا دُکھ کیوں عطا ہو گیا۔ کینگرو کی تھیلی جیسی یہ مہیلا جات سب سمیٹ لیتی ہے کسی کو بھی زشت ترش کہہ کر پھینکتی کیوں نہیں۔ حالانکہ انتقام لینے کو ہی تو وہ ظالم اپنی اولاد گروی رکھ جاتے ہیں لیکن یہ ناری جس نام پر تھوکتی ہے اُسی کا تھوکا ہوا چاٹ چاٹ کر پالتی ہے۔

آج بھی وہ ایک بڑا بیگ بھر کر ہمراہ لا رہی تھی۔ اُسے علم تھا کہ ان تین چار مہینوں میں اُس کے چاروں بچے کتنے پھل پھول چکے ہوں گے۔ جب تھالی میں بھات ختم ہونے کے بعد چپچپاتی ہوئی اُنگلیاں چاٹتے چاٹتے بوسیدہ چٹائی پر سو جائیں اور گٹھڑی بنے بدن رات بھر پھیلتے نہیں سکڑتے ہوں اس خوف سے کہ اس مٹھی بھر جھونپڑے میں اگر ٹانگ کی سلاخ دوسرے کی پسلی کے چھاج سے ٹکرا گئی تو نجانے کتنی تیلیاں چٹخ جائیں گی۔ جھیلوں، جوہڑوں، تالابوں کی گدلی سطح پر پھسر کر سوتے مچھر اِن جھونپڑوں میں اُگتی بھوک میں سے بھی اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔ سوکھی ٹانگیں، موٹے سر اور باہر کو اُلٹے ہوئے پیٹ، مچھروں کی ہم شکل یہ مخلوق اپنا پیٹ کہاں سے بھریں کے دھان تو باڑھ میں بہہ جاتے ہیں اور باپ نشے میں نجانے کن اجنبی سڑکوں کے ہجوم میں گم ہو جاتے ہیں۔ اسٹیمر اب رفتار پکڑ چکا تھا۔ بیچ دریا پانی بتدریج شفاف ہو رہے تھے جھاگ برف سا گاڑھا اور سفید تھا۔ جس کی اچھال کے پیچھے نواب سلیم اللہ خان کے محل کی بلند محرابیں دُھندلا رہی تھیں، جس کے سبزہ زاروں پر گھومتے ہوئے سیاح بنگلہ دیش کی آزادی کی داستان اُس اسپیکر سے سن رہے تھے جو مائیک ہاتھ میں پکڑے ایک رٹی رٹائی تقریر بار بار دُہرا رہا تھا، جس کے سامنے لگے ٹینٹ میں بچھی ساری کرسیاں خالی تھیں۔ بوڑھی گنگا پر تنے طویل پل کے نیچے مدہوش نشئی کچھ بھی سننے سے قاصر تھے اور موٹے موٹے ہندو سیٹھ ناریل اور کیلوں کے ڈھیروں پر بیٹھے بانس کی تیلیوں جیسی پسلیوں والے اورچارخانہ لنگوٹوں والے کالے بھجنگ بنگالیوں کی پشت پر بوریاں لدوا رہے تھے۔ مقرر کہہ رہا تھا۔ آج کے دِن بنگال آزاد ہے۔ بنگالیوں نے یہ آزادی بہت قربانیوں کے بعد حاصل کی ہے۔ کتنے برسوں ہمارا لہو پاکستانیوں نے چوسا ہے۔ ہمارے بھائیوں کا خون بہایا ہے۔ ہمارا ہتیہ چار کیا ہے لیکن اب ہم آزاد ہیں اور ترقی کر رہے ہیں۔۔۔ دولی نے سوچا : یہ کیا کم ترقی کی ہے کہ آزادی کے بعد یہاں ابارشن لیگل ہے۔ یہ اعزاز تو یورپ کو بھی حاصل نہیں ہے۔ کنڈوم کی مشینیں مفت لگی ہیں جتنے چاہو بیگ میں بھر لو اگر پھر بھی پھنس جاؤ تو این جی اوز پیریڈ ریگولر کرنے کو جگہ جگہ کیمپ لگائے بیٹھی ہیں۔

ملک کی آزادی کے بعد عورت کو بھی آزادی ملی ہے کہ وہ مرد کی غلامی سے نجات پا گئی لیکن یہ کیا کہ پیٹ کی غلامی میں جکڑی گئی۔ بے باپ کے بچوں کی زنجیروں میں بندھ گئی، جن کے پیٹ کی آگ بچوں کی جدائی کی سلگن نے اور بڑھکا دی ہے جسے مہیلا نجاۃ این جی اوز بھی سرد نہیں کر پاتیں۔یہ مہیلا تو جیسے دِل کے ریشے چھیل چھیل پٹ سن کی رسن سی گوندھ دی ہو اور پھراسے گنگا کے آلودہ پانیوں میں پھینک دیا گیا ہو گلنے، سڑنے، ٹوٹنے اور راکھ ہو جانے کے لیے۔ نجانے یہ کوکھ کیوں سمیٹ لیتی ہے۔ اپنے اندر ہر زیادتی، ناپسندیدگی، زبردستی، مجبوری کو تخلیق بنا ڈالتی ہے۔ اسے پسند، ضرورت یا خواہش کا اختیار کیوں نہیں ہے۔ یہ فطرت بھی عورت کے ساتھ زیادتی کر جاتی ہے۔ وہ ڈھاکہ کی سڑکوں پر چار خانہ دھوتیوں میں ستر لپیٹے سائیکل رکشہ کھینچتے سوکھے سڑے بنگالیوں کو دیکھتی تو سوچتی پتہ نہیں کہاں کہاں چھوڑ آئے ہوں گے اپنی اپنی غلاظت کس کس کوکھ کو پابند کر کے خود آزاد اور لاپروا ظلمی کوکھ والی نہ نگل پائے نہ اُگل کہ اپنا ہی ماس لہو پھینکنے خود کی ہی کانٹ چھانٹ کرنے کی آزادی تو ملی لیکن اس دل کی تیلیاں وجود کے پٹ سن کو سلگاتی کیوں رہتی ہیں۔۔۔

اسٹیمر یک دم ہچکولے کھانے لگا۔شاید کیلوں یا پٹ سن کی گلی سڑی گانٹھیں تہ سے اُبھر کر پہیوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ اسٹیمر کے نچلے حصے میں ناریل بھرے تھے۔ دوسری منزل میں انسان ٹھُنسے تھے اُوپرلی منزل میں بنے چھوٹے چھوٹے کیبنوں کو تالے لگے تھے۔ پتہ نہیں کس میں کیا بھرا تھا یا پھر بھرنے کو ابھی خالی تھے۔ اُسے خود سے ان کی مماثلت لگی۔ منہ بند پھوڑے جیسے نجانے کتنا مواد بھرا ہو اندر بظاہر خالی خالی دماغ جیسے۔ بنا بازوؤں کے ذرا سی صدری پہنے گھٹنوں سے ذرا نیچے چار خانہ دھوتی باندھے ملاح کشتیاں اور کینو کھے رہے تھے سطح دریا اسٹیمروں اور بوٹس سے چھٹتے خالی پیٹ بلبلوںسے اٹی تھی، جن میں مچھلیاں اوندھے منہ غوطے لگاتیں۔ ملاح گیت گاتے اور مسافر عشرے پر رقص کرتے تھے۔ اسٹیمروں کی نالیوں سے غلیظ سیاہ پانیوں کی جھاگ چھٹتی، جیسے خوفناک تاریک جبڑوں میں سارے اسٹیمر بوٹس کینو کشتیاں اور نوکائیں نگل جائیں گے۔دولی کو لگا اُس کی سوچیں بھی ویسی ہی پراگندہ ہو کر جھاگ اُڑانے لگی ہیں۔ اُس نے بغل میں پڑی اپنی پوٹلی کو ٹٹولا، سیلے بسکٹ،ہواڑ چھوڑتے رس، کچے امرا اور سیاہ تالکے، جن کی ہمک سیاہ کیچڑ پانیوں میں رچتی فلائی اوور کے نیچے لمبی سرنگ میں بھرے نشئیوؤں کے نیم مردہ جسموں کو چار خانہ دھوتیوں اور ٹی شرٹوں والے نحیف نزار مزور پھلانگ رہے تھے۔ کیلوں اور ڈاب کی گانٹھیں خشک ناریل کے ڈھیروں سے ٹیک لگائے بیٹھے موٹے موٹے سیٹھ انھی پھولے ہوئے پیٹوں میں اُسے اپنا تیسرا شوہر رابرٹ نظر پڑا۔ اُس نے حقارت سے تھوکا جو بلبلے بھری پانی کی کثیف تہہ میں کہیں جذب ہو گیا اور رابرٹ کے ہم شکل بیٹے کی یاد میں وہ کراہی وہ چاروں بچوں میں سے زیادہ تنومند گردن اور کھلے ہاتھ پیر والا تھا۔ رابرٹ کی نفرت اس تیسرے بچے کی شباہت میں دولی پر کھلکھلائی تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دی۔منظر بدلتے رہے ٹیرسنگ کھیتوں کو جھیلوں سے پمپ کر کے پانی دینے والے کسانوں میں اسے اپنے پہلے شوہر کی شبیہ دِکھائی دی۔ نشے کی لت سے پہلے وہ ایسے ہی بنا آستینوں کے صدری پہنے اور چار خانہ دھوتی گھٹنوں سے اُوپر کسے دو بیگھ کاشت کرتا اور اُس کے جھونپڑے میں باڑھ کے دِنوں میں دھان بچا رہتا۔اُس نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی شکنتلا کی میکسی کے گھیر کو شلپا کی قے سے ذرا پرے کھسکایا۔ شلپا کی اپنے دوسرے شوہر سے علیحدگی کو سال سے اُوپر ہو چلا تھا لیکن یہ آج متلا رہی تھی۔ دولی نے شکنتلا کی ریشمی میلسی کو پوروں میں مسلا’’ایٹا کوتو کورے۔‘‘

’’اری خود کہاں جڑا مالکن نے دیا۔‘‘

شکنتلا نے بوڑھی گنگا کے کثیف پانیوں میں بنتے بھنوروں میں کیلوں اور گلے ہوئے ناریل کو گھومتے ہوئے دیکھا، جیسے انھی پر سوار ہو۔ ’’اس بار کتنے جڑے۔‘‘

’’اری کیا جڑنا، دو ہزار بنگلے سے ملتا ہے، ڈیٹ پر جانے کی چھٹی بھی مالکن ہفتہ بھر میں ایک بار ہی دیتی ہے۔ اُس میں کتنا کما لو یہی دو چار سو ٹکا۔ اُس میں سے بھی سنتری سے چوکیدار تک کتنوں کے منہ بند کرنا ہوتے ہیں۔‘‘

’’جب مال زیادہ ہو گا تو دام ایسا ہی لگے گا، سبھی تو اُٹھ کر ڈھاکہ چلی آئی ہیں، جیسے باقی سارے بنگال میں تو ہیجڑے بستے ہوں۔‘‘

درگا دیوی نے اپنے موٹے موٹے ہونٹوں کو چبا ڈالا جیسے اُن نوچیوں کو چبا رہی ہو جنھوں نے ڈھاکہ کا منہ ہی دیکھ لیا تھا۔ کتنی کسادبازاری تھی کہ وہ جو خود اپنا اڈا چلاتی تھی۔ آج کسی بنگلے میں برتن مانجتی تھی۔

’’اچھی آزادی ملی بنگال کو ساری ہی دھندے پر لگ گئیں۔ بھوک کی برداشت ہی ختم ہو گئی۔ پابندی تھی تو بھوک بھی کم ستاتی تھی۔ آزادی کیا ملی ہر ایک پیٹ کے بدلے بکنے لگی پر مول تو مال دیکھ کر ہی لگتا ہے نا۔‘‘

تلسی نے گلابی بلاؤز پر سنہری بارڈر والا پلّو جھلا کر کندھے پر پھینکا، سخت گندھے آٹے کی سی رنگت والی پیٹ کی پلیٹ میں دھری ناف کی نشیلی آنکھ کا کونا دبایا۔اسٹیمر میں موجود مردوں نے آنکھیں جھپکائیں اور چلائے۔

’’آ ماتا آ کہ بھالو باشی۔‘‘

دولی کی ملاقات ہر چار چھ مہینے بعد ان سبھی عورتوں سے اسی اسٹیمر میں ہو جاتی تھی۔ سب کی رام لیلا ایک۔ دو تین شوہر چھوڑ چکے ہیں۔ اگلے کی تلاش ہے۔تو کئی ایک یہ تلاش اب چھوڑ چکی ہیں۔ کئی شوہروں کی نشانیاں دُور کسی گاؤں میں پٹ سن کے گھاس پھونس سے بنے جھونپڑے میں نانی کے پاس پل رہے ہیں کہ نانی کو نانا چھوڑ گیا ہے۔ چھ شوہروں کی نشانیاں رکھنے والی سروجنی نے اپنی دھوتی نما ملی دلی بکھری بکھری ساڑھی کے پیٹی کوٹ کے اندر لٹکتی تھیلی کو باہر نکالا۔ ’’یہ ٹکے آخر چار چھ مہینے اُن چھ کا پیٹ کیسے بھریں گے۔ اب تو ڈیٹ بھی نہیں ملتی۔‘‘

اُس نے ماتھے کو دونوں ہاتھوں سے دھپ دھپ پیٹا۔ اری لگتا ہے اب تو بھیک ہی مانگنا ہو گی۔ یہ بنگالی سیٹھ تو اِتنے کنجوس ایک ٹکا بھی تین بار ناخن پر بجا کر دیں ۔‘‘سروجنی کی بنگالی آنکھوں کی بجھی جوت سے آنسوؤں کے کتنے دِیپ جلے۔ کبھی یہی شلپا کے ہم شکل ہونٹ اور ناریل کے پیالوں سے رسیلے لب بازار میں پوری قیمت پاتے تھے۔ شاید زیادہ کے لالچ میں اچھا مال جلدی جلدی میں اُٹھ گیا اور اب وہ گلشن ٹو کے ایک جدید فلیٹ کے باتھ رُوم صاف کرتے ہوئے کتنی بار پھسلتی دیوار کا سہارا لے کر کمر کے درد سے کراہتی اور اپنے چھ شوہروں کو گٹر سے بھی زیادہ غلیظ گالیاں بکتی جو اُس کی ہڈیوں کا سارا گودا چاٹ گئے تھے۔ اب یہ بے رس درد بھری ٹیڑھی ہڈیاں کسی فٹ پاتھ پر بھیک مانگنے کو ڈال دی جائیں گی۔

اسٹیمر کی گھرگھراہٹ میں سروجنی کی کراہیں دب گئیں۔ یہ آج اسٹیمر میں ہنگامہ سا کیوں ہے۔

کسی مرد نے جواب دیا۔’’ سوراج ڈے ہے آج۔‘‘

آج بنگال نے پاکستان کے مظالم سے نجات حاصل کی تھی کیونکہ وہ بنگال کے پٹ سن کا سارا سونا ،ناریل کا سارا تیل، سارادھان بھات چھین کر لے جاتے تھے اور ہمیں پٹ سن کی رسیاں بٹنے، کیلوں کے گچھے توڑنے اور باڑھ میں ڈوبنے کو چھوڑ جاتے۔ لیکن اب یہ سب کون لے جاتا ہے۔ گھاس پھونس کے جھونپڑوں کے تنکے باڑھ کے سامنے اتنے ہی بے بس ہیں جتنے پاکستان کے راج میں تھے۔ بھات کی تھالی اتنی ہی خالی ہے جس میں کتنے ہاتھوں کی اُنگلیاں یکبارگی ڈوبتی ہیں اور ہتھیلی کے پیالے میں چند چاول ہی بھر پاتے ہیں۔

دھچکا کھا کر اسٹیمر کی سپیڈ بڑھی۔ سروجنی نے اسٹیمر کو کئی گالیاں بکیں دھچکے سے دوہری ہوئی کمر کی ہڈی کو سیدھا کیا۔

’’ارے کیسا سوراج ڈے کتنی اُمیدیں تھیں بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔ ادھر سولہواں سال لگا اُدھر سمگل ہو گئی پاکستان یہ بھی حیا نہ آئی وردھیوں کے دیش میں تو نہ جاتی۔‘‘

تلسی ہنسی تو سارے مرد اُس کے قہقہے میں شامل ہو گئے۔

تھی جو پاکستانی کا نطفہ وہ بھی پاک سرزمین کا محافظ۔

’’وہی ایک پاک سرزمین والوں کی تھی کیا ہزاروں نے اور نہیں جنے جو آج سوراج ڈے منا رہے ہیں۔ یہاں کوئی منڈی نہیں تھی کم بخت کے بکنے کو۔‘‘ سروجنی بنا بلاؤز کے ساڑھی کا کثیف پلّو منہ سر پر لپیٹ کر سسکیاں لینے لگی اور سولہ سالہ بیٹی کو کوسنے دیتی رہی۔

بوڑھی گنگا کے چھوڑ بہت دُور رہ گئے تھے نواب سلیم اللہ کلے محل کے بلند و بالا ستون اور چو برجیاں دُھندلاہٹ میں گم ہو چکی تھیں۔ جہاں کبھی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی،جس نے پاکستان بنایا تھا اور جہاں موجود بنگالی مقرر سامعین کو بتا رہا تھا کہ بنگال کی آزادی کی پہلی اینٹ پاکستان بنا کر رکھی گئی لیکن یہ پاکستان بھی ہم پر انگریزوں کی طرح مسلط ہو گیا جس سے آزادی کے لیے ہم نے دو لاکھ بھائیوں کی قربانی دی، جن کے خون سے رنگین یہ دھرتی آزاد ہوئی۔ اسٹیمر کے عشرے پردیش بھگتی کے گیت گائے جا رہے تھے رقص کرتے ہوئے نوجوان آزادی کا جشن منا رہے تھے جن کے بڑوں کی اجتماعی قبریں شہید مینار میں پھیلی تھیں۔ اسٹیمر کے عشرے سے شہید مینار کی بلند تکون دکھائی دے رہی تھی جو بنگلہ دیش کی آزادی کی علامت تھا جس کے گرد گھاس سے ڈھکے بڑے بڑے قطعات پر Grave Yardکی تختیاں لگی تھیں یعنی یہ بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی میں شہید ہونے والوں کی اجتماعی قبریں تھیں۔ شہید مینار کے گرداگرد چوکور پختہ جھیلیں بہتی تھیں جن کے گدلے پانیوں میں عنابی شلپا کھلے تھے۔

شہید مینار کے تکونے ستون نظر آتے ہی آزادی کے نعرے پر جوش ہو گئے۔ شراب کی بوتلوں کے ڈاٹ کھل گئے۔ گنگا کی سطح پر بھرے اسٹیمر اور نوکاؤں پر برقی قمقموں میں کتنے رنگ جھلملاتے تھے جیسے پانی کے اندر آگ سی لگی ہو اب ملاح اور مسافر خالی بوتلیں دریا میں پھینکنے آزادی کے نعرے لگاتے لگاتے لڑھکنے لگے۔ کئی وہیں اوندھا گئے۔آج آزادی کی رات ہے۔ سروجنی نے تیل ٹپکاتے گال اور سیاہ چکنے بالوں کے جوڑے بنارسی پٹی والی ساڑھیوں میں ملبوس عورتوں پر نگاہ کی۔ آج پانچ سو ہزار ٹکا ضرور بن جائے گا۔ ابھی گماشتے آئیں گے ایک ایک کے کان میں کچھ کہیں گے کبھی انکار میں سر ہلائیں گی کبھی اقرار میں اور پھر پلو ہلاتی پیچھے پیچھے چل پڑیں گے۔

رات گنگا کے پانیوں جیسی سیاہ پڑ رہی تھی۔ اسٹیمروں کی روشنیاں تیز تھیں جیسے ستاروں بھرا آسمان پانی پر اُتر آیا ہو۔

اب عرشے پر دھما چوکڑی کرنے والے نچلی منزل میں بیٹھی عورتوں کے کانوں کان گزرنے لگے سب سے پہلے سروجنی اُٹھ کے گئی اور فسٹ کلاس والے کیبن میں گم ہو گئی جوان عورتیں تو بس ایک ہلے میں ہی اپنی جگہیں خالی کر گئیں جیسے باڑھ کا ایک ہی ریلا پکی فصل بہا لے گیا ہو اور پھر یک دم ریٹ گر گئے اس تھرڈ کلاس کے کیبن میں عورتیں تاکنے والوں کی مسلی مسلی جیبیں مندے کی خبر دے رہی تھیں۔ اسٹیمر میں بیٹھی رہ جانے والی عورتیں اپنے گھروں کو جا رہی تھیں اور اپنی جمع پونجی میں جو اضافہ بھی ہو سکے اُسے چھوڑنا نہ چاہتی تھیں۔اس لیے ریٹ مزید گر گیا۔ سو سودا طے کیے بنا ہی اشارہ پا کر چلنے لگیں۔ دولی جس ناٹے قد کے آدمی کے پیچھے پیچھے چلی وہ اس کے دوسرے شوہر سے مشابہت رکھتا تھا وہ اُس کے ساتھ کبھی نہ اُٹھتی لیکن یہ آخری پیشکش تھی ورنہ اُسے رات بھر کیبن میں رہ جانے والی بوڑھی عورتوں کے خراٹے سن کر گزارنی پڑتی۔ نقصان صرف پیسے ہی کا نہ تھا اپنی ناقدری کا دُکھ اس ایک رات میں اُس کا کتنا رس نچوڑ کر ناریل کے گھاس کی طرح کتنا خشک اور بد رنگ بنا جاتا۔لیکن تالے والے کیبن میں موجود شخص کو پہچان کے شعلے کی لپک نے اس خشک گھاس کو پکڑ لیا۔ وہ اس کا دوسرا شوہر ہی تھا جو اُسے ڈاؤن ڈھاکہ کی ایک مچھروں بھری کھولی میں سوتا چھوڑکر چلا گیا تھا کیونکہ اگلے مہینے وہ اُس کی بیٹی کو جنم دینے والی تھی اور کچھ وقت کے لیے بے کار ہو جانے والی تھی۔

اسٹیمر نے زور سے دھکا کھایا۔ شاید ناریل کے کئی بورے غرقِ دریا تھے جو یکدم سطحِ دریا پر اُبھر آئے تھے۔ ہمیش اُس سے یوں لپٹا جیسے برسوں کے بچھڑے پریمی اچانک کسی ایسے جزیرے میں مِل گئے ہوں جہاں کی تمام آبادی کو کسی آفت نے نگل لیا ہو اور بس وہ دونوں ہی بچے ہوں۔ نفرت کی پوری طاقت سے دولی نے اُسے پرے رگیدا۔ وہ اس اچانک اُفتاد سے لڑکھڑا کر کیبن کے بند دروازے سے بجا۔ اسٹیمر کے انجن کا شور شب کی تاریکی میں خوفناک ہو کر گرجنے لگا اور ایک برتھ والے کیبن کے سارے جوڑ جیسے کھل گئے۔ اُس نے کیبن کی بند کھڑکی کے شیشے سے سر ٹکا کر جیسے خود کو ناگہانی خوف کے حملے سے سنبھالا۔

’’ویسے تو میں پانچ سو ٹکا مول کرتی ہوں لیکن آج سوراج کی رات ہے اس لیے ہزار ٹکا ہو گا۔۔۔ بول قبول کہ نہیں۔‘‘

ہمیش زور سے ہنسا اُوپر عرشے پر بجتے انڈین گانے تیز چیخ سی بن گئے تھے، جس میں اسٹیمر کے انجن کی آواز جیسے دھاریں مارتی گلے مِل رہی ہو۔قطار در قطار سارے کیبنوں کے بند دروازوں سے نسوانی اور مردانہ قہقہوں کی آوازیں شہوت میں گھلیں باہر ٹپکیں۔ ہمیش پھر دیوانہ وار آگے بڑھا۔ ’’اری دولی تو۔ قسم بھگوان کی کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تجھے۔ ہم آج بھی پتی پتنی ہیں۔ ہمارے درمیان طلاق تھوڑی ہوئی تھی۔ دولی تو آج بھی میری۔۔۔‘‘

’’تیری پتنی ہو گی تیری ماں، سودے کی بات کر ہزار ٹکا یا پھر دروازہ کھول کیبن کا۔۔۔‘‘

ہمیش برتھ پر ڈھ سا گیا۔ کیبنوں سے نکلتی مرد و زن کی دھیمی دھیمی شہوت بھریں آوازیں جیسے اُسے نڈھال کر گئیں۔

’’دیکھ کیسا اتفاق ہے آج یہاں کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جو اپنی ہی پتنی کو ٹکے بھر کے لایا ہو۔ پر چل تیری مرضی۔۔۔‘‘

ہمیش نے سستی برانڈی کا گھونٹ بھرا ’’لے تو بھی پی۔‘‘

’’دولی نے بوتل پر ہاتھ مارا، مجھے مت بہکا، مطلب کی بات کر ورنہ دروازہ کھول۔۔۔‘‘

 

بوتل گری تو فرش پر سرسر جھاگ سی اُبلنے لگی۔

ہمیش کھڑا ہوا ٹوٹی ہوئی بوتل کو پیر مار کر اُوپر اُچھالا جھاگ بھرا پانی دولی کو بھگو گیا اس کے چکنے گال لاٹیں مارنے لگے۔

’’اری تو تو بڑی ظلمی ہو گئی ری۔۔۔ یہ پکڑ گن لے پورے دس نوٹ ہیں۔۔۔ اب میرے بچے کا بول۔ یہ تو مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ لڑکی ہوئی ہے۔ اب اتنی سی تو ہو گئی ہو گی۔‘‘

ہمیش نے دونوں بالشت جوڑیں اور پھر۔ بوتل کا ڈاٹ بک کر کے اُٹھایا۔ جھاگ کا قطرہ اُچھل کر دولی کی آنکھ میں آنسو سا اٹک گیا اُس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ بنگالی رس گلے سے ہونٹ رسنے لگے۔

بچے کا نام زبان پر مت لا تیرا کیا لگا ہے رے اُس پر دولی نے دس نوٹ اُچک کر بیگ میں رکھ کر تالا لگایا۔۔۔

’’چپ کر کے گاہک بن اور اپنے پیسے پورے کر باپ کا ناٹک نہ کر مجھے اور بھی کئی کام ہیں۔‘‘ ہمیش کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں سب بند ہو گیا نوٹ بھی اور لڑکی بھی بس دولی سامنے تھی۔ اُس نے بوتل دولی کے منہ سے لگائی۔

’’یہ تو پی مجھے یاد ہے۔ تو پی کر ہی مست ہوتی ہے ورنہ کھانے کو دوڑتی ہے۔‘‘ ہمیش نے سینہ کھول کر قمیض اُچھالی جو کیبن کے دُودھیا بلب کو ڈھک گئی۔

’’لے اب لڑ مجھ سے کاٹ لے مجھے۔۔۔‘‘

برانڈی کے کئی گھونٹ دولی کے خشک حلق میں اُتر گئے تھے اور اُس کے بوسیدہ تھکے ہوئے جسم میں اک تازگی اور قوت آ گئی تھی۔

رات کالی تھی لیکن جشنِ آزادی کے قمقمے پورے اسٹیمر کو شہر چراغاں بنائے ہوئے تھے۔ تھرڈ کلاس کے کیبن میں رہ جانے والی عورتیں اُونگھ گئی تھیں اور اُنھیں دیکھنے کو اب وہاں کوئی گاہک نہ بچا تھا۔ تلسی بڑبڑا رہی تھی۔

’’کیسی آزادی ہے کہ مہیلا کا ادھمان ہو رہا ہے ارے ہم ناکارہ ہو گئیں جو کل تک۔۔۔پاکستانی فوجیوں سے بھی ٹکے طے کرتی تھیں یہ کیسی سوراج ہے کہ اپنے ہی دھتکار رہے ہیں۔‘‘ وہ منہ پر ساڑھیوں کے پلّو ڈالے کبھی روتیں کبھی بین ڈالتیں تو کبھی خراٹے لینے لگتیں۔ جو سب اسٹیمر کی گھرگھراہٹ میں کہیں لپیٹ جاتا۔

بوڑھی گنگا کے پانیوں میں رات گھل گھل کر دھل گئی تھی۔کثیف پانیوں کی ساری آلائشیں تہہ میں اُتر چکی تھیں۔ سطحِ آب پرسکون تھی۔ سورج سنہری گلابی عنابی رنگ لہروں پر بکھیر رہا تھا۔ جس کی پہلی پہلی گلابی کرنیں پیالوں سے بھنوروں میں بھر رہی تھیں۔ دریا کے کنارے کیلوں کے ڈنٹھلوں ناریل کے چھلکوں اور سیاہ کیچڑوں سے بھرے تھے۔

اسٹیمر لنگر ڈال چکا تھا۔ کشتیوں کا جھولتا ہوا پُل نشئیوں اور مکھیوں سے اٹا تھا۔۔۔ جس سے مسافر بچ بچ کر گزر رہے تھے۔

اب اسٹیمر کو صرف مَل مَل کر رات بھر کے جشنِ آزادی کی کثافتیں دھوئی جا رہی تھیں۔ دولی پر صرف ملے پانی کی بوچھاڑ پڑی تو وہ ہڑبڑا کر جاگی۔ اسٹیمر دھونے والے ہنسے۔

’’اری تو ابھی آزادی کا جشن ہی منا رہی ہے۔ دُنیا اپنے گھروں کو بھی پہنچ گئی۔‘‘ اُس نے ہڑبڑا کر اِدھر اُدھر ہاتھ مارا۔ بچوں کے کپڑوں اور پیسوں والا بیگ کھانے کی اشیاء ر والی پوٹلی، دونوں چیزیں کدھر تھیں۔

’’ہمیش‘‘

اُس کے حلق سے نکلنے والی چیخ بوڑھی گنگا کے آلودہ پانیوں میں آلائش بن کر کہیں تہ میں اُتر گئی۔ جہاں آزادی کے دِن کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

اوکاں والا سکول

 

 

کھلونوں کا دور تو بے خبری میں گزر گیا لیکن گھڑیاں پن پینسلیں، سائیکلیں اور کھانے پینے کی اشیاء کے شعور نے خواہشات کے جن کو ہلہلا کر بیدار کر دیا تھا۔

اوکاں والا سکول پل کے دونوں اطراف سجی دُکانوں کے بیچ یوں مہکتا جیسے پانیوں میں گھرا کوئی خشک ٹیلہ، جس کے قدموں میں سیرابی بچھی ہو لیکن چوٹی خشک تر ہو۔ آدھی یا پوری چھٹی کے وقت طالبِ علم مکھانے پر مکھیوں کی طرح سجی سنوری دُکانوں پر جھپٹتے۔ دُکانوں کے چھجوں کے ساتھ ٹکرا کر بار بار گزرتے اور ہتھیلیوں پر رالیں ٹپکاٹپکا کر چاٹتے تو دُکان دار اُنھیں یوں گھرکتے جیسے کتے بلی کو قصائی دھمکاتے ہیں۔ ان لڑکوں کی گھسی پھسی وردیوں میں سے کُہنیوں اور گھٹنوں کی سوکھی سڑی سیاہ مسوں والی جلد جھلملا جاتی۔ کف اور کالروں کی کریزوں سے بوسیدہ ریشے جھڑتے اور وہ طالبِ علم جن کی وردیوں کی اکڑ برقرار ہوتی جن کے نام کے ساتھ چودھری یا ملک لگا ہوتا، وہ برف کے گولے، کلفیاں، جلیبیاں ہاتھ میں پکڑ کر چلتے تو پیچھے،گانڈوں والی چپلیوں اور اُدھڑی ہوئی سلائیوں والے پائنچوں کا جلوس گھسٹتا کبھی کسی کو وہ برف والا گولا چٹا دیتے یا کلفی والی تیلی چسوا دیتے۔ تب باقی ماندہ حلقوم کی پیاس نہر کے پانیوں کے مقابل زیادہ گہری زیادہ بسیط ہو جاتی ۔

نیازنہر کے پرلے کنارے درختوں کے سائے تلے کتابوں والا جھولا سامنے کھولے بظاہر پڑھ رہا ہوتا لیکن اُس کا خشک حلق اور خالی پیٹ نہر کے دونوں اطراف بوتلیں پیتے گول گپے اور آلو چھولے کھانے والوں کے پیچھے پیچھے رالیں ٹپکاتے ہجوم میں سب سے آگے ہوتا۔ تب مٹی کا تھوبا سا حلق میں لیپ ہو جاتا۔ لال ہرے پونے میں بندھی خشک روٹی کچا آٹا ہو جاتی پیاز یا اچار کی پھانک مرجھا جاتی اور بھوک کا ننگا سورج سوا نیزے پر لٹکنے لگتا۔ نہر کا پانی جھر جھر کنارے توڑتا۔ قلقل راجباہ میں گرتا۔ راجباہ کھالوں میں اپنا دھانہ اُلٹ دیتے جیسے خالی پیٹ میں بھوک دوڑتی ہانپتی بڑی انتڑیوں سے چھوٹی آنتوں میں چھوٹی آنتوں سے نازک نازک وریدوں میں سرپٹکتی ہو۔ خالی پیٹ میں بھوک کی کوکاریں یوں بجتیں جیسے موگھے راجباہ میں گرتے ہیں تو وحشی پھنکاریں اُڑتی ہیں۔

پل کے دونوں اطراف کھیتوں کو مہکاتے کڑاہی گوشت اور بریانی پلاؤ کا تصور تو نیاز کے دماغ کی ساری نسوں، وریدوں اور اُن کی وسعتوں سے کہیں بڑا تھا لیکن نان ٹکی، کلفی، برف کا گولا حلق کی سرنگ میں خفیہ خفیہ کئی ذائقے دار رطوبتیں پیدا کر دیتا اور دو سے پانچ روپے تک کی خواہش نس نس میں رالیں ٹپکاتی پھرتی۔

اوکاں والا بنگلہ میں ریمونٹ کے گھوڑوں کی کھرلیاں تازہ بہ تازہ لوسن برسیم سے بھری رہتیں۔ سیاہ چنوں کے دلیے کی مشک بار سلونی لپیٹیں اُٹھتیں۔ سنگی چٹانوں سے گھوڑوں کو بنگلے کے ملازم کھپریل اور مالش کرتے پسینہ پسینہ ہو کر بہتے سم کاٹتے ایال اور یونی ٹیل میں کنگھے پھیرتے۔ مضبوط پھڑکتے تڑپتے ہوئے مسلز آہنی پشت اور دراز ٹانگوں پر تیل جھستے اور مربعے پال گھوڑیوں کو حاملہ بنانے کو انھیں ہر وقت تیار رکھتے۔ بنگلے میں بھرے ست برگے اور گلِ داؤدی کے زرد رو پھولوں پر مدھو مکھیاں منڈلاتیں اور شہد کے مخروطی چھتے بناتیں، جو شیشم اور کیکروں کے جھنڈ میں بادبان سے تنے رہتے۔ اندھیری راتوں میں جن کا شہد تو وہ لڑکے چواتے جو پنجاب کی مٹی جیسے دھیمے اور لا غرض مزاج ہوتے، جن کے خمیر میں تخم پالن ھار کی مشقیں گندھی ہوتیں لیکن باردانہ وہ اُٹھا لے جاتے۔جو ریمونٹ کے گھوڑوں کی طرح سم مارتے تو دھرتی میں سے دھمک پھوٹتی، ہنہناتے تو فضا تھراتی۔ جو بھری ہوئی کھرلیوں میں سے تازہ بہ تازہ چارہ چرتے اور نسل کشی کے لیے تیار رہتے، جن کے نام کے ساتھ ریمونٹ کے گھوڑوں کی طرح خاندانی سلسلے جڑے ہوتے۔ تازی مشکی، تھاروبریٹ کتنے نسلی تفاخر لگے ہوتے جن کے کتوں اور مویشیوں کے بھی نسلی شجرے محفوظ ہوتے۔اسی لیے اوکاں والا سکول کے نیاز جیسے طالبِ علموں کو وہ رولٹ کتوں کی طرح دھتکارتے لیکن اُن سے مقابلے، حسد یا نفرت کا بھکرہ بھی ان غبی دماغوں کی بنجر زمینوں میں کبھی نہ پنپتا۔ البتہ نیاز ان لڑکوں کو حسد اور نفرت سے ضرور دیکھتا جو خود تو چھلنی کی سی وردیوں میں سے آرپار نظر آتے لیکن اُن کے دوست ہوتے جو اپنے لفافے میں سے اُنھیں کھلاتے۔ اپنے سائیکل کے کیرئیر پر اُنھیں سوار کرواتے اور ریمونٹ کے گھوڑوں کی طرح اُن پر حاوی رہتے جیسے وہ کوئی مربع پال گھوڑیاں ہوں۔ نیاز ان کھلانے والے سائیکل سواروں کو ایسے دیکھتا جیسے وہ بھری کھرلیوں پر ٹاپیں جھاڑتے مضبوط جسموں والے نر گھوڑوں کو دیکھتا تو خوف اور رُعب کی تھرتھراہٹ سی بدن میں دوڑ جاتی۔ جب وہ اپنے گاؤں سے آٹھ مربعوں کے پندھ پر واقع اوکاں والا اسکول کی طرف منہ اندھیرے نکلتا تو سائیکل سوار لڑکے گھنٹیاں بجا بجا کر ان پیادوں سے راستہ لیتے۔ اُس وقت گندم کے انگوری کھیتوں کو کہرا برف پوش بنا چکا ہوتا جیسے بلور کی زبانیں کھلے حلقوم سے باہر لٹکتی ہوں پالا کھائی بھربھری مٹی روڑ بن سکڑتی جس طور گھنٹی کی آواز پر یہ پیدلیے بنوں مینڈھوں پر سمٹ جاتے اور کھلی سڑک ان سائیکل سواروں کی جاگیر ہوتی۔

سائیکل کا حصول تو اُس کے دماغ کی وسعتوں میں کہیں سمانہ سکتا تھا لیکن کیریئر یا  مڈگارڈ پر بیٹھنے کی خواہش اُسے اکثر لتاڑ دیتی کہ جن لڑکوں کو یہ اعزاز ملتا وہ اُس کے پاس سے گزرتے تو ٹھینگے دکھاتے چٹکیاں اور تالیاں بجاتے ڈھولے گاتے جیسے وہ ان پیدلیوں کے مقابل اُڑن طشتریوں پر سوار آسمانی سڑکوں کو پایاب کر رہے ہوں۔سائیکل،کچی دھول کے طوفان اُڑاتے نہر کے کنارے کنارے دریائی پانیوں سے مہکتی سروے کی چوڑی سڑک پر ریمونٹ کے گھوڑوں کو سائیس سیر کروانے سویرے سویرے نکلتے تو ان کی ٹاپوں سے جھڑتی دھول میں سارا ماحول غبار آلود ہو جاتا جس میں مضبوط ٹاپوں کی ٹک ڈھک ڈھک ٹک سہما دیتی۔ اوکاں والا سکول کے پیدل چلنے والے لڑکوں کی بوسیدہ وردیاں،پلکیں، بال سب گھٹے میں لتھڑ جاتے جیسے دھول کی اندھی سرنگوں میں لوٹتے ٹکراتے باہر نکلے ہوں کبھی کوئی لڑکا نیاز کے قریب سائیکل لاکر بریک لگاتا۔

’’نیازوآ بیٹھ جا کیریرپر‘‘

نیاز دھول میں گوہ کی طرح رینگتا ہوا کیریر پر پشت ٹکانے ہی لگتا کہ وہ سائیکل بڑھا لے جاتا اور نیاز دھول کی سرنگوں میں اوندھے منہ لتھڑ پتھڑ ہو جاتا اور پیچھے سے آنے والے سائیکل سوار ریمونٹ کے گھوڑوں کی طرح ہنہناتے سائیکلوں کے سم جھاڑتے اُسے لتاڑتے گزر جاتے تب گھنٹیوں کی آوازیں دماغ کو چھیدتیں اور بدن ٹائروں تلے گتاوہ ہو جاتا اور کیریئر پر بیٹھے ہوئے اُسے درانیتوں کے قابل معلوم ہوتے۔ اُس کے بس میں ہوتا تو وہ ان کا گالا بنا چارے والی مشین میں لگا دیتا اور پھر ان کا کترا ہوتے ہوئے دیکھتا۔

نیاز اوکاں کے جھنڈ میں گھسا گھر کا کام مکمل کرتا اور کتابوں والا جھولا باغ کے راکھے کے پاس امانتاً رکھوا جاتا کہ اُس کی جھگی میں تو جھولا اٹکانے کی گنجائش ہی نہ تھی کہ جھگی کے بل میں تو اُس کے بہن بھائی اور کیڑے مکوڑے کلبلاتے رہتے ۔نرمے کی قد آدم فصلوں کے ساتھ ساتھ ریمونٹ کے نر گھوڑوں کی طرح چودھری طالب ہاتھ میں برف کا گولا پکڑے پل سے اُترا اور بنے بنے نیاز کے پاس آ کر بریک لگایا اور گولا نیاز کی سمت بڑھا دیا۔ نیاز کو لگا اُس کے اندر سے پسینے کا موگھا سا کھل نکلا ہے۔ اُسے یقین تھا کہ وہ گولے کی سمت پیاسے لب بڑھائے گا تو گولا چودھری طالب اپنے منہ میں رکھ لے گا اور اُسے ٹھینگا دِکھا پیڈل مارنے لگے گا۔ اُس جیسے لڑکوں کے ساتھ ایسا روز ہوتا ہے۔ چودھری طالب نے قطرہ قطرہ ٹپکتا شیرہ چوسا اور ہری لال میٹھی برف کا گولا نیا ز کے لبوں سے چھوا دیا۔ اُس کے پپڑی جمے خشک لبوں سے میٹھا رس چھوا تو سوکھے لعاب میں چپکے ہوئے لب پٹ سے کھل گئے نیاز کا جی چاہا ایک ہی ڈیک میں پورا گولا گھول کر حلقوم سے نیچے اُتار لے۔ لیکن اُس نے اس خوف سے گولا باہر اُگل دیا کہ کہیں وہ اُس کے پیٹ میں لات نہ دے مارے اور اُس کا چوسا ہوا رس منہ ناک سے اُبل نہ پڑے، جیسے ریمونٹ کے گھوڑے سم مار مالشیے کو اَدھ موا کر ڈالتے ہیں اور وہ کھایا پیا باہر اُلٹے لگتا ہے۔

چودھری طالب ایک بار گولا خود چاٹتا پھر اُس کے لبوں سے لگا دیتا۔ طالب کے لبوں والا گولا چوستے ہوئے نیاز کو لگا یہ ایک روپے کی عیاشی کروانے والا چودھری طالب ریمورنٹ کے سب سے قد آور مضبوط گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہے۔

اُس نے دونوں ہتھیلیاں نیچے بچھا دیں اور تیلی سے برف کے ٹپکتے قطرے اوک میں جمع کر چاٹنے لگا۔ اُس کا جی چاہا کہ نیچے گرنے والے قطروں کی میٹھی مٹی کو بھی زبان کا پھندہ بنا کر حلق میں لپیٹ لے جائے کہ پھر کبھی یہ ذائقہ ملے کہ نہ ’’آؤ بیٹھوں تمھیں گھر چھوڑ دوں۔‘‘

چودھری طالب نے سائیکل کی گھنٹی بجائی۔ جیسے راوی کے پانیوں کی قلقلاہٹ جیسے کڑاہے میں پکتے گڑ کے شیرے کی پھڑپھڑاہٹ جیسے دھوپ کی دھواں رنگ تمازت میں گنے کی ٹھنڈی پوریوں کا رس جوہاڑ جیٹھ میں قلمیں بنا کر سرمئی مٹی میں بوئی جاتی ہیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز تھا کہ نیاز کے لیے کتابیں جھولے میں ڈالنا مشکل ہو گیا۔ چودھری طالب نے دوبارہ گھنٹی بجائی تو اُسے وہم ہوا کہ وہ اپنی پیشکش کہیں واپس نہ لے لے۔ کیونکہ پہلے بھی کئی بار ایسا ہو چکا تھا کہ کوئی لڑکا اُسے سواری کی پیشکش کرتا وہ اُچک کریر پر بیٹھنے لگتا تو وہ سائیکل بڑھا لے جاتا اور نیاز سروے کی سڑک پر یوں اوندھے منہ گرتا کہ کئی روز کُہنیاں گھٹنے چھلے رہتے۔لیکن چودھری طالب نے سائیکل نہیں بڑھایا۔ مڈگارڈ پر سوار ہو کر نیاز کو احساس ہوا کہ سائیکل کی بلندی سے اشیا کی ہیئت و صورت ہی بدل جاتی ہے۔ رینگنے والے کیڑوں اور بلند قامت گھوڑے ہاتھی کی بینائی میں کتنا فرق ہوتا ہو گا۔ ریمونٹ کے اصطبلوں میں کھڑے قد آور گھوڑے زیادہ واضح نظر آنے لگے تھے۔ ورنہ نیاز کی نگاہیں تو اُن کے سموں سے اُوپر کبھی اُٹھی نہ تھیں۔ چودھری طالب ان نر گھوڑوں کی بے حیائی کو دیکھ کر بے تحاشا ہنسا۔ نیاز کو پہلی بار اُن کے اُمڈتے چھلکتے وجود کا احساس ہوا۔ ورنہ اُسے تو ان کے کھروں کی بناوٹ میں بھی برف کے گولوں اور نان ٹکی کی شبیہ کے سوا اوکاں والا بنگلے میں کچھ کبھی سجھائی نہ دیا تھا۔

چودھری طالب کے قہقہوں کے ساتھ سائیکل لڑکھڑا کر ایک کھڈ میں جا گرا جس کی مٹی کو نہر سے رستا ہوا پانی نم کر رہا تھا۔ نیاز کی بوسیدہ وردی جسم سے چپک گئی اور گھسے پھسے ریشوں کے آرپار بدن کی پوشیدہ شبیہیں جھانکنے لگیں۔طالب نے اس کے چٹکیاں بھریں اور گھوڑوں کو ننگی ننگی گالیاں بکنے لگا۔

’’بس کھاتے تنتے ہیں اور مربع پال گھوڑیوں کو حاملہ کرنے کو ہر لمحہ تیار حالت میں یہ چنگا چوکھا کھانا بھی نابڑافساد ہے یار۔۔۔‘‘ نیاز اُس کے بوجھ تلے کراہنے لگا جیسے اُس کا کھایا پیا کہیں وزنی ہو کر نیاز پر اُمڈا پڑ رہا ہو۔

’’تمھیں کبھی مِلا نہیں نا۔۔۔ اس لیے اندازہ بھی نہیں۔۔۔ ہو جائے گا جلد ہو جائے گا کہ یہ کھایا پیا اپنے ہی بدن سے بغاوت کیسے کر دیتا ہے۔‘‘

وہ بے تحاشا ہنستارہا جیسے اُس کے گدگدی ہوتی ہو اور نیاز اُس کے بوجھ تلے حلق میں اُمڈ آئے شیرے کو واپس سینے کی طرف دھکیل رہا تھا کہ کہیں بند نہ ٹوٹ پڑے۔

سائیکل سوار لڑکے گھنٹیاں بجاتے اور قہقہے لگاتے گزرتے چلے جا رہے تھے اور نم مٹی والا کھڈا زمین کی تہہ میں کہیں اُترتا چلا گیا تھا۔ نیاز کے حلق میں آن اٹکا میٹھا شیرہ اُبکائی کے زہریلے مواد نے کڑوا بنا دیا تھا جو اب ناک اور منہ سے قے بن کر اُمڈ پڑا تھا۔

نہر کے پرسکون پانیوں میں کوئی سرکٹی لاش سروٹے کے قلب میں آن اَٹکی تھی۔ پانی بھنور بناتا اُچھال مارنے لگا، نہر کا کنارہ بغل سے ٹوٹا اور گیلی مٹی کی ڈھمیں کیچڑ تھوبے لینڈسلائیڈ کی طرح کھڈ میں گرے ۔ چودھری طالب ریمونٹ کے گھوڑوں کی طرح ہونک رہا تھا اور اب سم جھاڑتا سروے کی پر آب سڑک پر پیڈل مارتا سیٹی بجاتا چلا جا رہا تھا۔

جب ایک کسان نیاز کو مردہ جان کر بیل گاڑی پر ڈال کر گاؤں لایا تو نہر کا ٹوٹا ہوا بند اِردگرد کے کئی کھیتوں کی فصلوں کو بہا لے جا چکا تھا۔ سڑے ہوئے کرنڈ بوٹے مٹی میں منہ سر لتھیڑے سسکتے تھے۔ شہد کے چھتے والا ڈال تڑخ کر دوہرا ہو گیا تھا اور شیرہ لال مٹی گھلے پانیوں میں ٹپکتا تھا جس میں زہری ناگ تیرتے تھے اور راہو مچھلیاں دم توڑتی تھیں۔ گھپ گھپ بھرتے پانی کا اُمس درختوں کے چٹختے ٹہنے۔ جڑ سے اکھڑتے سروٹے بروٹے تیز بہاؤ میں موجیں مارتے ٹاننڈے پوریاں چھاپے ٹوٹیاں کنڈیاریاں کیچڑ میں دھنتے نازک پھول اور لغریں نیاز سرکٹی لاش سی تڑپتا تھا۔

’’میں اُسے مار ڈالوں گاماں! تم دیکھنا میں اُسے وڈ دوں گا۔‘‘

ماں اُس کے بدن کی چوٹوں، نیلوں اور سوجنوں پر کچے وٹے کی ٹکوریں کرتے ہوئے دھپے مارتی جاتی۔

’’زبان بند کر لے چڑی کے بوٹ تیرا اُس کا کیا مقابلہ تیرا لانگا ٹاپا روک دے تو پیر رکھنے کو دھرتی نہیں۔ حقہ پانی بند کر دے تو دفنانے کو گور نہیں۔‘‘

وہ گرم وٹے کی سنکائی پر پچھاڑیں کھاتا جیسے نہر کا بند زخموں کے دھانے پر ٹوٹا ہو اور تیز روپانی بدن کی مشک میں بھر بھر چھٹتا ہو۔

’’ماں میری ماں تو تو میری منصفی کر۔۔۔ سارا جگ ڈھڈے کا سنگی تو تو میری ماں ہے۔‘‘

وجود میں بھرا سب کچھ وہیں کہیں بند ٹوٹے پانیوں میں گرا پڑا رہ گیا تھا جو بچا تھا وہ دماغ تھا جو پچھاڑیں کھاتا۔

ماں مہینوں کی اَن دُھلی بو مارتی چادر میں آنکھوں کے کنوؤں سے بو کے بھر بھر سوکھا کھائے چہرے پر کھدے گڈھوں کھالوں میں اُنڈیلتی جاتی مدتوں کی سیرابی سے کلراٹھا نمکین پانی دِل کی بنجر زمین کو تھور بنا گیا تھا۔ اُس کے پاس اتنی فراغت کہاں تھی کہ وہ گھونسلے کے بوٹ کو جنگل کے قانون سمجھاتی اور درندوں وحشیوں سے بچ نکلنے کے سبق پڑھاتی۔

’’ارے سواہ کی چونڈی تو جھکڑوں میں اُڑنے سے باز کیوں نہیں آتا۔‘‘

وہ اندھے گہرے کنوؤں میں سے جتنے بوکے بھر بھر گراتی اتنے ہی دوہتڑ اُس کے زخمی بدن پر بھی جماتی جاتی۔

’’کتنی بار سمجھاؤں گھول کے پی جا سٹ کی پیڑ کو۔۔۔ غریب کی سٹ ہنسی مخول ،نمانے کی موت آلنے کے بوٹ جیسی۔ سب نہیں پلتے، زیادہ پیروں تلے کچلے جاتے ہیں۔۔۔ جس کیڑے مکوڑے جڑی بوٹی کو چاہے وہ مسل ڈالے، کون روکے ہیں کسی کے پاس اُس جیسے بھاری بوٹ۔۔۔ چل کھپ نہ ڈال سو مر۔۔۔ سونے دے کل پہاڑ جیسے بھورے اُڈیک میں بیٹھے ہیں۔کوٹھری کی چھت کی ان گھڑکڑیوں میں ٹھنسی چادروں، چارہ باندھنے والے چرنوں گھسی پھسی کالے صابن کی ٹکیا اور تیز دھار درانتی کی نوک چھت کے ٹوٹے سرکنڈوں کے پردوں میں سے جھلملاتے تھے۔ نیاز نے درد کی گانٹھیں کھاتی لوتھ کو انتقام کی بکل میں لپیٹ کر اُٹھایا اور درانتی کے شرارے چھوڑتے دندانوں کو مٹھی میں دبا لیا۔ مقدر کی ریکھاؤں سے خالی سیاہ پتھر سی سپاٹ ہتھیلی پر کئی بناوٹوں کی لکیریں کھد گئیں جو دِیئے کی بجھتی لاٹ میں نیاز کی لال بوٹی آنکھوں کی طرح جھلملاتی تھیں۔ پیڑا کے تکلے میں پرویا وجود قطرہ قطرہ بوٹی بوٹی درانتی کی تیز دھار پر چڑھ گیا۔جب وہ واپس اسکول گیا تب تک ہاتھ میں کھدی درانتی کی آڑی ترچھی لکیروں کی طرح اُس کے مقدر کا فیصلہ بھی لکھا جا چکا تھا۔ سکول پہنچنے سے پہلے ہی اُس کے نام کی شہرت ہر سو پہنچ چکی تھی، جو نیازو سے نازو میں بدل گئی تھی۔ اب وہ کُلفیوں، برف کے گولوں، آلو چھولوں اور جلیبیوں کے بیچ یوں سجا رہتا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ ذائقے اُس کے حلق میں ٹپکتے رہتے۔ کڑاہی گوشت، روسٹ بروسٹ، حلوہ پوری اُس کے دماغ کی وسعتوں کے بند تالے کھلتے چلے گئے جیسے کسی خفیہ خزانے کی چابیاں اچانک ہاتھ لگ گئی تھیں۔

ریمونٹ کے گھوڑے جب بھرے پیٹوں کھرلیوں سے منہ موڑ لیتے تو گدھوں، خچروں کو ان کھرلیوں بھری واشنائیں اور ذائقے بے بس کر ڈالتے۔ نیاز نہ نہ کرتا لیکن منہ سر لتھڑی کھرلیوں کی خوشبوئیں اُس کے پیٹ میں دراز دراز خالی خولی غاریں بنا دیتیں جس میں نازو نازو کی کوکاریں پڑتی تھیں۔

آخر اُس نے سوچانیازتو وہ بس اسکول کے رجسٹر میں ہی درج تھا۔ اُس کی ماں جس نے اُس کا یہ نام رکھا تھا خود بھی اس نام کا اصل تلفظ بھول چکی تھی۔ اوکاں والاسکول کے پرانے بوسیدہ قلعی اُترے کمروں کی وسعتوں میں نیازوکی بازگشت گونجتی تھی۔ گاؤں کی دھول اُڑاتی سڑکوں اور قد آدم فصلوں میں نیازو نیازو کی پکار پڑتی رہتی تھی۔

جو نام اُس کا تھا ہی نہیں اُس کی حفاظت کیسے ممکن تھی۔

نیازو سے نازو میں تبدیل ہونے کے کئی فائدے تھے۔ کھلانے والے بہت تھے۔ مفت ٹیوشن پڑھانے کو اُستاد بہت اسکول آنے جانے کے لیے سائیکل بہت اب یہ نازو کی مرضی کہ کسے شرفِ قبولیت بخشے۔ اُس تک پہنچنے کے لیے ریس میں لگے سائیکل ایک دوسرے سے ٹکراتے ایکسیڈنٹ ہوتے، کھانے پڑے بس جاتے نیاز کو اب معلوم ہوا تھا کہ آنکھوں سے کہیں پہلے پیٹ بھر جاتے ہیں۔وہ حیران ہوتا یہ کھلانے والے یہ سوار کروانے والے اتنی تعداد میں کہاں چھپے تھے۔ نیاز کی سمجھ میں نہ آتا وہ کس کی قلفی کھائے اور کس کے سائیکل پر بیٹھے۔ پیشکش بے شمار اور کھانے والا پیٹ ایک۔ وہ ہر کھرلی سے جلد ہی منہ موڑ لیتا لیکن ہنہناتے ہوئے گھوڑے ایک دوجے پر ٹاپیں جھاڑتے مربع پال گھوڑی کی دُم سونگھتے اور اگلے کھر اُٹھا لمبا لمبا ہنہناتے، جن کے درمیان اوکاں والا پل پر کئی خون ریز لڑائیاں ہوئیں تھیں۔

اسی لیے کلاس ٹیچر علاؤالدین نے نیاز کو اپنی تحویل میں لے لیا جب بورڈ کے امتحان میں پوزیشن دلوانے اور سکول کا نام روشن کرنے کے لیے مجرد کلاس ٹیچر نے نیاز کو اپنی رہائش گاہ میں منتقل کر لیا تو ایک رات اوکاں والے پل پرماسٹر علاؤالدین کاسرپھٹ گیا تو ان ڈھڈوں والوں پر بھی انھی سائیکلوں اور کلفیوں والوں کا گمان کیا گیا لیکن لڑکوں کے بااثر والدین کی وجہ سے بات دبا دی گئی البتہ نیاز ماسٹر کی بیٹھک سے رہا ہو گیا کہ چراگاہ پر ریوڑ کا حق تسلیم کر لیا گیا تھا۔

نیاز میٹرک کے بعد جب قریبی قصبے کے کالج میں پہنچا تو اُس کی شہرت اُس سے کئی قدم آگے بڑھ کر وہاں پہنچ چکی تھی۔ اُسے ہاتھوں ہاتھ یوں وصول کیا گیا جیسے کالج میں کوئی بڑی گرانٹ پہنچی ہو اور اُس کا ٹینڈر بہت سوں نے بھر رکھا ہو۔

یہاں آ کر اُس پر انکشاف ہوا کہ برف کے گولوں، کلفیوں اور سائیکل سواری میں اُس کا بڑا استحصال ہوتا رہا اور یہ احساس اُسے ادا نے دلایا جو کالج میں تو اُس سے صرف دو درجے آگے تھا لیکن سمجھ اور اعتماد میں کئی درجے آگے اُسی نے اُسے بتایا تھا۔

اس پروفیشن کے بھی کچھ اصول اور حدود ہیں اوّل یہ کہ ہمیں اپنی اہمیت کا خود احساس ہونا لازم ہے۔ کیونکہ ہم ایک منفرد ذائقے کے مالک ہیں جو نہ تو گھروں میں میسر ہے نہ بازاروں میں۔گھریلو اور بازاری مال بہت عام اور پرانا ہو چکا۔ ہمارا ذائقہ نیا اور عجب اشتہا انگیز ہے۔ ایسا وحشی جیسے سیخوں پر چڑھا شکار جیسے کوئلوں پر چربی پگھلتا سالم دُنبہ، جیسے زندہ جانور کی ران سے کٹا لہو ٹپکاتا پھڑکتا تڑپتا گوشت ہم عام نہیں منفرد ہیں۔

ناز و ادا سے اپنے پروفیشن کے اصول سیکھنے لگا اور کالج بھر میں دونوں ناز و ادا کے نام سے معروف ہو گئے اور ان کے پروفیشن سے متعلق کئی دیگر لڑکے بھی اس ٹولی میں شامل ہونے لگے جوں جوں اُن کی تعداد بڑھ رہی تھی ان کا استحصال اور تضحیک کم ہونے لگا تھا۔ ادا نے انھیں کچھ اصولوں کا پابند کر دیا۔سینما جانے کے ریٹ الگ تھے۔ ریستوران میں کھانا کھانے، پارک کے سنسان گوشے میں ملنے یا پھر ہوٹل کے کمرے میں رات گزارنا سب کے اپنے اپنے نرخ نامے تھے۔ اس کمائی میںسے ایک خاص مد بناؤ سنگار کے لیے مقرر تھی۔ بیوٹی پارلر جانا، ترشی ہوئی بھنویں چڑھانے، کولہے مٹکانے، لچکیلی اُنگلیاں ،کلائیاں لہرانے ،سرخی جمے لبوں پر ہاتھ رکھ ہنسنے۔ اُردو ،انگریزی، پنجابی مِلا کر نسوانی فرمانی لہجے میں بولنے کی اُنھیں خاص تربیت دی جاتی تھی۔ کولہے مٹکا کر چلنے، اُنگلیاں لہرا کر بولنے اور لہجے کے اُتار چڑھاؤ میں خاص احتیاط برتی جاتی نہ مردانہ کرختگی نہ زنانہ ملائمت ایک نیم متمدن چھب نیم پخت ذائقہ، وحشی نسوانیت کہ سولائزڈ مردانیت جو لتاڑ ڈالتی۔اب تماش بینوں کو چٹکیاں اور آہیں بھرنے والوں، ٹھٹھے اور آوازے کسنے والوں کو اِک منظم گروہ سے واسطہ پڑا تھا۔ اب وہ مفت خوروں کا دسترخوان نہ تھے۔ ایک پروفیشنل تنظیم تھے۔ مفت میں بٹنے سے خود کو بچانے کے لیے ادا نے اُسے ایک لوڈ ٹی ٹی پستول دیا تھا اور ہدایت کی تھی۔ ’’اسے پرس میں محفوظ کر لو۔ یہ چلانے کے لیے نہیں دھمکانے کے لیے ہے۔ لیکن اس سے تمہارا اعتماد ایسے ہی بڑھ جائے گا جیسے چودھری طالب کا اپنی جاگیر کی ملکیت کی بنا پر جو ہر شے پر گھونسے تانتا پھرتا ہے۔‘‘

بیوٹی پارلر، ٹیلرنگ، کٹنگ، مساج وغیرہ کے بعد بھی اتنا بچ جاتا کہ نیاز ہر مہینے اپنے باپ کو اِک معقول رقم بھجوا دیتا۔ کبھی کبھی خط بھی لکھتا۔

’’شہر واقعی انسان کی چھپی صلاحیتوں کو کھوج نکالتے ہیں اور اُجاگر کر دیتے ہیں مجھے تو اپنے وجود کی قیمت کا احساس ہی نہ تھا یہ شہر ہی ہے جس نے میری صلاحیتوں کو کیش کر کے اِک بھاری رقم میرے ہاتھ میں تھما دی ہے۔’’ ابا! اب تم ایک کماؤ بیٹے کے باپ ہو اب چودھریوں سے ڈرنے یا مانگنے کی ضرورت نہیں ہے میرا ہر منی آرڈر چودھری طالب کو ضرور جا کر دِکھا دیا کرو اور اُسے کہا کرو نیا ز تمہارا نیازمند ہے کسی روز اس احسان کا بدلہ ضرور چکا دے گا۔‘‘

نیاز کا باپ بہکوں بیٹھکوں میں بیٹھ کر پشاوری تمباکو کے کش لگاتا اور بیٹے کی نوکری سے متعلق تخمینے لگاتا رہتا۔

’’لگتا ہے نیازو نے کوئی کاروبار جما لیا ہے شہر میں جو اتنا پیسہ آ رہا ہے۔

’’نہ یہ کیسا کاروبار ہے جو سرمائے کے ہو رہا ہے۔‘‘

سننے والوں میں سے کوئی صبر کی سیل کو تڑخا دیتا۔

’’اچھا‘‘ کئی کش لے کر وہ دھوئیں میں سوچ کے لہریئے بناتا۔

’’تو پھر نوکری کر لی ہو گی۔ کوئی افسری مِل گئی ہو گی۔ شہر میں کیا نہیں ہو سکتا۔ آخر پڑھا لکھا ہے۔ میرے بوہے پر تو مہنیں بندھ گئی نا لڑکیاں وداع ہو گئیں کوٹھے کے ڈھے چنے کی پکی دیوار بن گئی۔۔۔ میری کمر میں تو اَب طاقت ہی نہیں رہی کماؤ پت نے عادتیں ہی بیگاڑ دی ہیں۔۔۔‘‘

’’پر کیا فائدہ پتر توہردے سے دُور ہو گیا نا خود کبھی نہیں آتا تو تمہیں ہی شہر بلا لے تیرا یہاں ہے کیا۔۔۔‘‘

کوئی بزرگ جذبات کی بھاپ میں سے حقیقت کے کوئلے پھرول بجھتی چلم میں رکھتا اور سوٹے مار مار اُنھیں بھڑکاتا۔

نیاز کا باپ اُس کے ہاتھ سے نئے اُچک کر منہ میں دبانے کی بجائے مٹھی میں بھینچ لیتا،جیسے بھڑکتے انگاروں کو ہتھیلی کے پتھر سے بجھانا چاہتا ہو لیکن وہ چقماق کی رگڑ سے مزید بھڑک گئے ہوں۔

’’یہ بھی وہ سوچ رہا ہے۔ اُس کی سوچیں بڑی لمبی تے ڈونگی، ہمیں بھولا ہوتا تو ہر مہینے منی آرڈر بن کر بوہے پر نہ کھڑا ہوتا، وہ تو دِل کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور من کی بیٹھک میں روز ملتا ہے۔‘‘

پیڑوں کے جھنڈ میں بھرے کوّے چریاں لالیاں فاختائیں مل کر کھپ ڈال دیتیں وہ روڑے اُٹھا اُٹھا کر پھینکنے لگتا۔

’’دفع ہو جاؤ، اُر جاؤ ہر وقت کوکاں کاں ہر وقت چوں چاں۔۔۔ کوئی پروہنا نہیں آنے والا میرے دوارے جاؤ اُڑ جاؤ۔ چودھریوں کے بنیرے پر جا بیٹھو جہاں روز تھانے اور پٹواریوں کے ڈیرے اُترتے ہیں اور کھانے دانے پکتے ہیں۔۔۔ میرا کھانے والا تو آپ کماؤ ہے۔۔۔‘‘

ملک کی گرتی ہوئی معیشت نے جو کسادبازاری پیدا کی تھی اس کی زد میں ناز و ادا ٹولی بھی آ گئی۔ اُن کے کسٹمر نئے نئے جوان ہوتے اور نئے ذائقوں کے تجربات میں بدکتے جیب خرچ کے محتاج طالبِ علم، گھروں سے دُور چھوٹے موٹے ملازم ٹرک ڈرائیور چوکیدار اور مزدور بے روزگار ہونے لگے تھے۔ شوقین لونڈوں کی افراط نے بھی پیشہ وروں کے رزق میں بے برکتی ڈال دی تھی۔

اسی لیے ناز و ادا ٹولی کے لیے بھی جدید طرز کے ملبوسات بنوانے نئی تراش کے بال ترشوانے اور ہوٹلنگ وغیرہ کی فراغت کم پڑنے لگی تھی۔ ٹولی کے لیڈر ادا نے ایک روز اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں کو کلیجی رنگ میں رنگتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اُنھیں سیزن لگانے کو کسی تفریحی مقام پر چلے جانا چاہیے، جہاں من چلے اپنی دولت اور حماقتیں لٹانے پر اُتارو ہوتے ہیں۔ جہاں موسم اور مناظر کی رنگینیاں مزاجوں میں ست رنگ پھلجھڑیاں بھر دیتی ہیں اور سیاہ و سفید سطح بینائی کے رنگوں کی آمیزش میں اپنی تمیز گم کر دیتی ہے ایک شب جب وہ یہاں اُترے تو یہاں کی زر خیزیوں نے سبزے اور پھولوں کو اس طرح لیپ کر دیا تھا کہ زمین فرش گل تھی اور بل کھاتی سڑکوں پر انسانی مخلوق تارکول کی سیاہ رنگت کو گل رنگ پیراہنوں سے ڈھک چکی تھی۔ ناز و ادا ٹولی بھی پیوند بھیڑ ہو گی جو اپنی منفرد وضع قطع سے خوش مزاجوں کی توجہ اور تفنن طبع کا باعث تھی جہاں سے گزر جاتے تالیوں، سیٹیوں، فقروں کا ایک ہنگامہ ہمراہ ہو لیتا۔ اس طوفانِ بدتمیزی میں وہ چاروں اتنے ہی سنجیدہ اور پر وقار نظر آتے جیسے امیرانہ وضع قطع کی ماڈرن اور خوداعتماد لڑکیاں جو اس رزیل و کمین طرزِ عمل میں سے اِک شاہانہ ٹھاٹ اور لاپروا، سنجیدگی کے ساتھ گزر جاتی ہیں۔ ان رالیں ٹپکاتے چہروں پر لمبی ہیل کی نوکیں جماتے سرکس کی شہزادیوں کی سی ہنر مندی سے پار اُتر جاتے ہوں۔ صاف شفاف چمکیلی پنڈلیوں پر چڑھی ہئی کیپریز، گہرے گلے والی چست شرٹس جن کی بنا آستینوں سے مسلز والی کلائیاں عنابی ٹیوبوں کی طرح لشکیں مارتیں۔ جدید طرز کے چشمے، ریشمی رنگ دار بالوں کی پونیاں۔کندھوں پر شوخ رنگ بیگ جھلاتے جیسے کسی فیشن شو میں کیٹ واک کرتی دراز قد پر غرور ماڈلز۔

کتنی محنت اور روپیہ صرف ہوا تھا یہ نزاکت شفافیت اور دلبریت حاصل کرنے میں۔ جسے وہ ترسے ہوئے ڈرائیوروں، تھڑے ہوئے مزدوروں اور کنگلے طالبِ علموں پر ہرگز ضائع نہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ اندھیرا پڑے مال روڈ کے گل گشت پر نکلتے بھیڑ کی حیرت، ہنسی مذاق، فقروں اشاروں میں لپٹے دوسرے تیسرے چکر میں آنکھوں ہی آنکھوں میں من پسند قدر میں تل جاتے، اُن کے اپنے قصبے کی نسبت یہاں مندی کا رجحان کم تھا۔ سرِشام ہی یہ پھڑپھڑاتی ہوئی تیتریاں اُڈاریاں مار جاتیں۔

اُس روز مال روڈ پر دو تماشے سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھے۔ ایک تو وہ جو کولہے مٹکاتے گانے گاتے ہر اِک کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے تھے اور ردّی بوریے کی طرح پھڑکے پیروں تلے گھسیٹے جا رہے تھے جن پر ہنسنے اور فقرے کسنے والے جیبوں میں سکے کھنکھناتے آ آ دانہ ڈالتے اور ذرا سے لاسے کے ساتھ گرفت میں کر لیتے۔

دوسرے ناز و ادا ٹولی تھی جو کوئی نایاب سی جنس معلوم ہوتے جیسے اِک محنت اور سرمایہ صرف کر کے گھڑی گئی ہو۔ یہ بہروپیے تھے کہ اداکار خطرناک کھیل سے تماشہ بینوں کا دِل پرچا کر روزی کمانے والے جسم کو آگ دِکھا کر رقص کرنے والے کہ موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے والے۔ مال روڈ کے دھڑکتے پھڑکتے دِلوں کے تاروں پر سہج سہج قدم رکھتے توازن کو برقرار رکھ رہے تھے اورطنز،حقارت اور تمسخر کی آگ بدن پر لپیٹے مال روڈ کے اسٹیج پر رقص کناں تھے کہ اچانک نازو کی نگاہ جس بارُود پر پڑی اُس نے بدن سے لپٹی حقارت، نفرت تمسخر کی آگ میں زبردست دھماکے پیدا کر دیئے۔ اوکاں والا اسکول کے برف کے گولے کا شیرہ سینے کے زہر میں گندھ کر نتھنوں اور حلق میں بھر آیا۔ سائیکل کے مڈگارڈ پر سوار ہونے سے کھڈ میں گرنے اور واپس اوکاں والا اسکول پہنچنے تک موت کے کنویں میں گھوں گھوں چلتے موٹرسائیکل کے پہیے میں کتنی سرعت سے سب کچھ گھوم گیا۔

یہ چودھری طالب تھا جو اپنی نئی نویلی دُلہن کے ہمراہ ہنی مون کی شیرینیوں میں چور ابھی ابھی فورسٹار ہوٹل کے حجلہ عروسی سے نکلا تھا کہ ابھی سونے کی پھانک سی دُلہن کی آنکھوں میں شب بسری کے چاند تاروں کا ست رنگا چورا جھلملاتا تھا۔ حجلہ عروسی کی ساری شرارت ساری لذت سیاہ گچ آنکھوں میں قوس و قزح کے رنگ بھر رہی تھی۔ اوکاں والا پل کے نیچے بہتے پانیوں کی قلقلاہٹ سرگوشیوں میں گھلی تھی، جو وہ چودھری طالب کے کانوں کی لو پر زبان کی نوک سے ٹپکا رہی تھی۔ چودھری طالب کے کرکراتے شلوار سوٹ میں ریمونٹ کے گھوڑوں کے مسلز جیسی پھڑپھڑاہٹ تھی جیسے اوکاں والا بنگلے میں ہنہناتا مشکی تازی گھوڑا جوا بھی سارے گھاس پھونس کو روند ڈالے گا۔

نازو کیٹ واک کرتا پرس جھلاتا لچکیلی کلائیاں لہراتا جھونکا سا گزر گیا تھا۔ چودھری طالب کو اُسے پہچاننے میں اِک عمر درکار تھی۔

تبھی بھیڑ کے قلب میں سے فائر کی آواز اُبھری جب تک ریسکیو ون فائیو کی ٹیم بھیڑ کو چھڑا موقع واردات پر پہنچی زخمی دم توڑ چکا تھا اور مرنے والے کی نوبیاہتا دُلہن کی آنکھوں میں چور قوس و قزح عنابی رنگ میں ڈھل چکا تھا۔ بھگدڑ اور اژدھام میں ہر شخص دہشت گردی کی لہر کو کوس رہا تھا جس سے اب یہ پر فضا سیرگاہ بھی محفوظ نہ رہی تھی اور وہ زننخا جو فائر کی آواز کے وقت قریب سے گزرا تھا۔ وہ تو آواز کے خوف سے دس قدم دُور جا گرا تھا اور اب لچکتامٹکتا پنڈلیوں تک کیپری چڑھائے بنا آستینوں کی شرٹ سے شفاف کلائیاں لہراتا کسٹمرز میں گھرا کاروباری سنجیدگی کے ساتھ شاید کوئی

٭٭٭

ماخذ: اردو منزل، عالمی اخبار، اردو ڈائجسٹ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید