FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ہمارے اسلاف کی دانشمندانہ تحریریں

 

 

 

                مخزنِ اخلاق از سرفراز احمد راہی سے انتخاب از ذو القرنین

 

 

 

 

                   حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اپنے بیٹے کو چند نصیحتیں

 

شاہ ولی اللہ دہلوی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مکتوب ان کے فرزند عبداللہ رضی اللہ عنہ کے نام نقل کیا ہے جو بہت جامع ہیں۔ فرماتے ہیں۔

"میں تمہیں پرہیز گاری کی وصیت کرتا ہوں۔ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اسے بدلہ دیتا ہے۔ جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، اللہ اسے زیادہ نعمت عطا کرتا ہے۔ تمہیں چاہیے کہ پرہیز گاری کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی روشنی بناؤ۔ جان لو کہ جب تک نیت نہ ہو، عمل کا کوئی ثمرہ نہیں۔ جس کی نیکی نہیں، اس کے پاس اجر نہیں۔ جو شخص نرمی نہیں کرتا، وہ مفلس ہے اور جس کے پاس اخلاق نہیں، وہ بے نصیب ہے۔”

 

                حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امام حسن رضی اللہ عنہ کو ایک طویل مکتوب میں وصیتیں

 

اسلام کے بنیادی عقائد پر مبنی اخلاق و عادات کا جو خاکہ اس مکتوب میں پیش کیا گیا ہے، اس میں اصلاح اعمال و تعمیر کردار کا کوئی گوشہ باقی نہیں چھوڑا گیا۔ فرماتے ہیں۔

"دل شکستہ، بے بس، بیزار دنیا، مسافر عدم آباد، کہن سال پدر کی وصیت۔۔۔۔۔

کم سن آرزو، راہرو راہ مرگ، ہدف امراض، اسیر دنیا، تاجر غرور، مقروض اجل، قیدی موت، حلیف تردد، نشانہ آفات، مغلوب نفس، جانشین اموات، نوخیز فرزند کے نام!

فرزند! زمانہ کی گردش، دنیا کی بے وفائی، آخرت کی نزدیکی نے مجھے ہر طرف سے غافل کرکے صرف آنے والی زندگی کے اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب مجھے صرف اپنی فکر ہے۔ تمام نشیب و فراز پیش نظر ہیں، بے نقاب حقیقت آنکھوں کے سامنے ہے۔ سچا معاملہ روبرو ہے۔ اسی لیے میں نے یہ وصیت تیرے لیے لکھی ہے۔ خواہ تیرے لیے زندہ رہوں یا فنا ہو جاؤں، کیونکہ مجھ میں اور تجھ میں کوئی فرق نہیں۔ تو میری جان ہے، میری روح ہے، تجھ پر آفت آئے گی تو مجھ پر پہلے آئے گی۔ تیری موت میری موت ہوگی۔

فرزند! (میں تجھے وصیت کرتا ہوں) خدا سے خوف کر، اس کے حکم پر کاربند ہو، اس کے ذکر سے قلب کو آباد کر، اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام، کیونکہ اس رشتے سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ نہیں جو تجھ میں اور تیرے خدا میں موجود ہے، بشرطیکہ تو خیال کرے۔

فرزند! دل کو موعظت سے زندہ کر، زہد سے مار، یقین سے قوت دے، حکمت سے روشن کر، موت کی یاد سے اس پر قابو پا، فانی ہونے کا اس سے اقرار لے، مصائب یاد دلا کے اسے ہوشیار بنا، زمانے کی نیرنگیوں سے اسے ڈرا، بچھڑ جانے والی حکایتیں اسے سنا، گزرے ہوؤں کی تباہی سے اسے عبرت دلا۔ ان کی اجڑی ہوئی بستیوں میں گشت کر۔ ان کی عمارتوں کے کھنڈر دیکھ اور دل سے سوال کر کہ ان لوگوں نے کیا کیا؟ کہاں چلے گئے؟ کدھر رخصت ہو گئے؟ کہاں جا کے آباد ہوئے؟

ایسا کرنے سے تجھے معلوم ہو جائے گا کہ وہ اپنے دوست احباب سے جدا ہو گئے، ویرانوں میں جا بسے اور تو بھی بس دیکھتے دیکھتے انہیں جیسا ہو جائے گا، لہذا اپنی جگہ درست کر لے۔ آخرت کو دنیا کے بدلے نہ بیچ، بے علمی کی حالت میں بولنا چھوڑ دے، بے ضرورت گفتگو سے پرہیز کر، جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس سے باز رہ، کیونکہ قدم کا روک لینا، ہولناکیوں میں پھنسنے سے بہتر ہے۔

تو نیکی کی تبلیغ کرے گا تو نیکوں میں سے ہو جائے گا۔ برائی کو اپنے ہاتھ سے اور اپنی زبان سے برا ثابت کر۔ بروں سے الگ رہ، خدا کی راہ میں جہاد کر، جیسا حق ہے جہاد کرنے کا، خدا کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈر، حق کے لیے مصائب کے طوفان میں پھاند پڑ، دین میں تفقہ حاصل کر، مکروہات کی برداشت کا عادی بن، کیونکہ برداشت کی قوت بہترین قوت ہے۔ سب کاموں میں اپنے لیے خدا کی پناہ تلاش کر، اس طرح تو مضبوط جائے پناہ اور غیر مسخر قلعہ میں پہنچ جائے گا۔

خدا سے دعا کرنے میں کسی کو شریک نہ کر، کیونکہ بخشش و عطا سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ استخارہ زیادہ کر، میری یہ وصیت خوب سمجھ لے۔ اس سے روگردانی نہ کرنا۔ وہی بات ٹھیک ہوتی ہے جو مفید ہوتی ہے۔ بے فائدہ علم بے کار اور اس کی طلب ناروا ہے۔

فرزند! جب میں نے دیکھا کہ آخر عمر کو پہنچ گیا ہوں اور ضعف بڑھتا جاتا ہے تو یہ وصیت لکھنے میں مجھے جلدی کرنی پڑی۔ میں ڈرا کہ کہیں وصیت سے پہلے ہی مجھے موت نہ آ جائے یا جسم کی طرح عقل بھی کمزور پڑ جائے یا تجھ پر نفس کا غلبہ ہو جائے یا دنیاوی فکریں تجھے گھیر لیں اور تو سرکش گھوڑے کی طرح قابو سے باہر ہو جائے۔ نو عمروں کا دل زمین کی طرح ہوتا ہے جو ہر بیج کو قبول کر لیتی ہے۔

اسی خیال سے میں نے وصیت لکھنے میں جلدی کی تاکہ دل کے سخت ہونے اور ذہن کے دوسری طرف لگ جانے سے پہلے ہی تو اس معاملے کو سمجھ لے جس کے تجربے اور تحقیق سے اگلوں نے تجھے بے نیاز کر دیا ہے اور اس کی راہ کی تگ و دو اور تجربے کی تلخیوں سے تجھے بچا لیا ہے۔ وہ چیز تیرے پاس بلا کلفت پہنچ رہی ہے جس کی جستجو میں ہمیں خود نکلنا پڑا تھا، اب وہ سب تیرے سامنے آ رہا ہے جو شاید ہماری نگاہوں سے بھی اوجھل رہ گیا ہو۔

فرزند! میری عمر تو اتنی دراز نہیں جتنی اگلوں کی ہوا کرتی تھی تاہم میں نے ان کی زندگی پر غور، ان کے حالات پر تفکر کیا ہے۔ ان کے پیچھے بحث و جستجو میں نکلا ہوں، حتیٰ کہ اب میں انہیں میں سے ایک فرد ہو چکا ہوں بلکہ ان کے حالات سے حد درجہ واقف ہونے کی وجہ سے گویا ان کا اور ان کے بزرگوں کا ہم سن بن گیا ہوں۔ اسی طرح یہاں کا شیریں و تلخ، سفید و سیاہ، سود و زیاں، سب مجھ پر کھل گیا ہے۔ ان سب میں سے میں نے تیرے لیے ہر اچھی بات چن لی ہے۔ ہر خوشنما چیز منتخب کر لی ہے، ہر بری اور غیر ضروری بات تجھ سے دور رکھی ہے اور چونکہ مجھے تیرا ویسا ہی خیال ہے جیسا کے شفیق باپ کو بیٹے کا ہوتا ہے اس لیے میں نے چاہا ہے یہ وصیت ایسی حالت میں ہو کہ تو ابھی کم عمر ہے، دنیا میں نووارد ہے، تیرا دل سلیم ہے، نفس پاک ہے۔

پہلے میں نے ارادہ کیا تھا کہ تجھے صرف کتاب اللہ اور اس کی تفسیر کی شریعت اور اس کے احکام حلال و حرام کی تعلیم دوں گا۔ پھر خوف ہوا مبادا تجھے بھی اسی طرح شکوک و شبہات گھیر لیں، جس طرح لوگوں کو نفس پروری کی وجہ سے گھیر چکے ہیں۔ لہذا میں نے یہ وصیت ضروری سمجھی۔ یہ تجھ پر شاق ہو سکتی ہے لیکن میں نے اسے پسند کر لیا اور گوارہ نہ کیا کہ ایسی راہ میں تجھے تنہا چھوڑ دوں جس میں ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ امید ہے خدا میری وصیت کے ذریعے تجھے ہدایت دے گا اور سیدھی راہ کی طرف تیری رہنمائی فرمائے گا۔

فرزند! تیری جس بات سے میں خوش ہوں گا، وہ یہ ہے کہ تو خدا سے خوف کرے، اس کی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی نہ کرے، اپنے اسلاف اور خاندان کے پاک بزرگوں کی راہ پر گامزن ہو، کیونکہ جس طرح آج تو اپنے آپ کو دیکھتا ہے، اسی طرح کل وہ بھی اپنے آپ کو دیکھتے تھے اور جس طرح تو غور کرتا ہے، وہ بھی غور کرتے تھے۔ آخر تجربوں نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ سیدھی راہ پر آ جائیں اور فضول باتوں سے پرہیز کریں لیکن اگر تیری طبیعت یہ قبول نہ کرے اور انہی کی طرح بذاتِ خود تجربہ کرنے پر مصر ہو تو بسم اللہ۔ تجربہ شروع کر، مگر عقل و دانائی کے ساتھ، شبہوں اور بحث میں بے عقلی سے الجھ کر نہیں اور اس سے پہلے کہ یہ کام تو شروع کرے، اپنے خدا سے مدد کا خواستگار ہو، اس کی توفیق کا طالب ہو اور ہر قسم کے شبہات سے پرہیز کر، کیونکہ شبہات تجھے حیرت و گمراہی میں ڈال دیں گے اور جب تجھے یقین ہو جائے کہ قلب صاف ہو کر قبضے میں آ گیا ہے، عقل پختہ ہو کر جم گئی ہے اور ذہن میں یکسوئی پیدا ہو چکی ہے تو اس وقت اس وادی میں قدم رکھ، ورنہ تیرے لیے یہ راہ تاریک ہوگی اور تو اس میں بھٹکتا پھرے گا، حالانکہ طالب دین کو نہ بھٹکنا چاہیے نہ حیرت میں پڑنا چاہیے، ایسی حالت میں طالب دین کے لیے اس راہ سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

فرزند! میری وصیت خوب سمجھ اور جان لے کہ جس کے ہاتھ میں موت ہے اسی کے ہاتھ میں زندگی بھی ہے۔ جو پیدا کرنے والا ہے، وہی مارنے والا بھی ہے، جو فنا کرتا ہے وہی حیات نو بھی بخشتا ہے اور جو مصیبت میں ڈال کر امتحان لیتا ہے وہی نجات بھی دیتا ہے۔ یقین کر، دنیا کا قیام اللہ کے اس ٹھہرائے ہوئے قانون پر ہے کہ انسان کو نعمتیں بھی ملتی ہیں اور ابتلا و آزمائش بھی پیش آتی ہے، پھر آخرت میں آخری جزا دی جاتی ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔ اگر کوئی بات تیری سمجھ میں نہ آئے تو انکار نہ کر بلکہ اسے اپنے کم سمجھی پر محمول کر کے غور کر، کیونکہ اول اول تو نہ جاننے والا ہی پیدا ہوا تھا۔ پھر بتدریج علم حاصل ہوا اور ابھی نہیں معلوم کتنی باتیں ہیں جن سے تو لاعلم ہے، ان میں تیری عقل حیران رہ جاتی ہے اور بصیرت کام نہیں دیتی، لیکن بعد چندے ان کا علم تجھے ہو جاتا ہے، پس تیری وابستگی اسی ذات سے ہو جس نے تجھے پیدا کیا، رزق دیا ہے اور تیری خلقت پوری کی ہے۔ اسی کے لیے تیری عبادت ہو، اسی کے روبرو تیرا سر جھکے، اسی سے تیری خشیت ہو۔

فرزند! خدا کی بابت کسی نے ایسی تعلیم نہیں دی جیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا رہنما بنا اور نجات کے لیے انہیں کو رہبر تصور کر۔ میں نے تجھے نصیحت کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور یقین کر کہ اپنی بھلائی کے لیے تو کتنا ہی غور کرے، میرے برابر غور نہ کر سکے گا۔

فرزند! اگر تیرے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے، اس کی سلطنت و حکومت کے بھی آثار دکھائی دیتے، اس کے افعال و اعمال بھی ظاہر ہوتے، مگر نہیں وہ اللہ تو ایک ہی ہے جیسا کہ خود اس نے اپنے بارے میں فرما دیا ہے۔ اس کی حکومت میں کوئی شریک نہیں، ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا، سب سے اول ہے مگر خود اس کی ابتداء نہیں، سب سے آخر ہے مگر خود اس کی انتہا نہیں، اس کی شان اس سے کہیں زیادہ بلند ہے کہ قلب کے تصور اور اجر کے ادراک پر اس کی ربوبیت موقوف ہو۔

پس تیرا عمل ویسا ہو جیسا اس شخص کا ہوتا ہے جس کی حیثیت چھوٹی ہے، مقدرت کم ہے اور اپنے پروردگار کی طرف اس کی اطاعت کی جستجو میں ، اس کی عقوبت کی دہشت میں اور اس کے غضب کے خوف میں، جس کی محتاجی بہت بڑی ہے۔ یاد رکھ، تیرے پروردگار نے تجھے اچھی باتوں کا حکم دیا ہے اور صرف برائیوں سے منع کیا ہے۔

فرزند! میں نے تجھے دنیا کا نقشہ دکھا دیا ہے۔ اس کی حالت بتا دی ہے، اس کے نا پائیدار اور ہرجائی ہونے کی خبر سنا دی ہے۔ آخرت کی حالت بھی تیرے پیش نظر کر دی ہے اور اس کی لذت و نعم کی خبر بھی دے دی ہے۔ میں نے مثالیں دے کر سمجھایا ہے تاکہ تو عبرت حاصل کرے اور ان پر عمل پیرا ہو۔ جن لوگوں نے دنیا کو پرکھ لیا ہے، اس کی جدائی سے گھبراتے نہیں، ان کی مثال ایسے مسافروں کی ہے جو ناموافق اور قحط زدہ علاقے کو چھوڑ کر سرسبز اور زرخیز علاقے کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ یہ مسافر راہ کی تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، احباب کی جدائی گوارہ کرتے ہیں، سفر کی مشقتیں اٹھاتے ہیں، خوراک کی خرابی سہتے ہیں تاکہ کشادہ اور آرام دہ مقام تک جائیں، کسی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے، کسی خرچ سے جی نہیں چراتے، ان کے لیے ہر وہ قدم جو منزل مقصود کی طرف بڑھتا ہے، سب سے زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے لیکن جو لوگ دنیا سے چمٹے ہوئے ہیں، اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتے، ان کی مثال اس مسافر جیسی ہے جو سرسبز و شاداب زمین چھوڑ کر قحط زدہ زمین کی طرف چلا ہے۔ اس کے لیے یہ سفر بدترین اور خوفناک سفر ہوگا، اصلی مقام کی جدائی اور نئے مقام پر آمد کو بھیانک مصیبت سمجھے گا۔

فرزند! اپنے اور دوسرے کے درمیان خود اپنی ذات کو میزان بنا۔ جو بات تجھے اپنے لیے پسند ہے، وہی ان کے لیے بھی پسند کر اور جو بات خود اپنے لیے نا پسند کرتا ہے، وہ ان کے حق میں بھی نا پسند کر، کسی پر ظلم نہ کر، کیونکہ دوسرے کا ظلم تو اپنے آپ پر نہیں چاہتا۔ سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آ، جس طرح تیری خواہش ہے کہ وہ تجھ سے پیش آئیں۔ لوگوں کی جو باتیں ناپسند ہوں وہ اپنے لیے بھی نا پسند کر، اگر لوگ تجھ سے وہی برتاؤ کریں جو تو ان سے کرتا ہے، تو اسے ٹھیک سمجھ، بغیر علم کے کچھ نہ کہہ، اگرچہ تیرا علم کتنا ہی کم ہو اور ایسی بات کسی کے حق میں ہرگز نہ کہہ جو خود تو اپنے لیے سننا نہیں چاہتا، خود پسندی حماقت ہے اور نفس کے لیے ہلاکت لہذا سلامت روی سے اپنی راہ طے کر۔ دوسروں کے لیے خزانچی (بخیل) نہ بن اور جب تجھے خدا سے روشنی مل جائے تو تیرا تمام تر خوف صرف اپنے پروردگار سے ہو۔

فرزند! تیرے سامنے ایک دور دراز، دشوار گزار سفر درپیش ہے، اس سفر میں حسن طلب کی بڑی ضرورت ہے، اس سفر میں تیرا زاد راہ ضرورت سے زیادہ نہ ہونے پائے کیونکہ اگر تو طاقت سے زیادہ بوجھ اپنی پیٹھ پر اٹھا کے چلے گا تو تیرے لیے وبال جان بن جائے گا، لہذا اگر بھوکے مزدور تیرا زاد راہ قیامت تک کے لیے اٹھانے کو مل رہے ہوں تو انہیں غنیمت جان اور اپنا بوجھ ان پر رکھ دے تاکہ کل ضرورت پر یہ توشہ تجھے کام دے۔ مقدرت کی حالت میں تیرا توشہ بار ہو جانا چاہیے کہ مبادا ضرورت آ گھیرے اور تو کچھ نہ پائے۔ دولت مندی کے زمانہ میں اگر کوئی قرض مانگے تو فوراً دے دے تاکہ ناداری کے زمانے میں وہ تجھے واپس مل جائے۔

فرزند! میرے سامنے ایک کٹھن گھاٹی ہے، اس گھاٹی میں ایک ہلکا پھلکا آدمی بوجھل آدمی سے بہتر ہے اور سست رفتار تیز رفتار سے بدتر ہے۔ تیرا اس گھاٹی سے گزرنا لازمی ہے، اس کے بعد جنت ہے یا دوزخ، لہذا آخری منزل پر پہنچنے سے پہلے اپنا پیش خیمہ بھیج دے اور قیام سے پہلے ہی جگہ ٹھیک کر لے، کیونکہ مر جانے کے بعد نہ معذرت ممکن ہوگی نہ دنیا کی طرف واپسی۔

یقین کر، جس کے تصرف میں زمین و آسمان کے خزانے ہیں اس نے مانگنے کی اجازت دے دی ہے اور قبول کرنے کا وعدہ فرما لیا ہے۔ اس نے کہا "مانگ” مل جائے گا، رحم کی التجا کر، رحم کیا جائے گا، اس نے اپنے اور تیرے درمیان حاجب کھڑے نہیں کئے جو تجھے اس کے حضور پہنچنے سے روکیں، نہ سفارش ہی کا تجھے محتاج بنایا ہے جو اس کے سامنے تیری سفارش کریں، تیری توبہ ٹوٹ جاتی ہے تو بھی تجھے محروم نہ کرتا ہے، نہ تجھ سے انتقام لیتا ہے اور جب تو دوبارہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ نہ تجھ پر طعنہ زن ہوتا ہے، نہ تیری پردہ داری کرتا ہے حالانکہ تو اس کا مستحق ہوتا ہے، وہ توبہ کے قبول کرنے میں حجت نہیں کرتا۔ اپنی رحمت سے مایوس ہونے نہیں دیتا بلکہ اس نے توبہ کو نیکی قرار دیا ہے۔ ایک بدی کو وہ بزرگ و برتر ایک ہی گنتا ہے مگر ایک نیکی کو دس شمار کرتا ہے۔ اس نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ وہ تیری پکار سنتا ہے، تیری مناجات پر کان دھرتا ہے، تو اس سے مرادیں مانگتا ہے، دل کی حالت بیان کرتا ہے، اپنی بپتا سناتا ہے، اپنی مصیبتوں کی فریاد کرتا ہے، اپنی مشکلوں میں مدد مانگتا ہے تو اس کی عمر کی درازی، جسم کی تندرستی، رزق کی کشادگی چاہتا ہے اور اس کی رحمت کے ایسے ایسے خزانے طلب کرتا ہے جو اس کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ غور کر اس نے طلب کی اجازت دے کر اپنی رحمت کے خزانوں کی کنجیاں تیرے حوالے کر دی ہیں۔ تو جب چاہے دعا کر کے اس کی نعمتوں کے دروازے کھلوا لے، رحمتوں کا مینہ، برسوا لے لیکن اگر اجابت دعا میں اس لیے دیر ہوتی ہے کہ سائل کو زیادہ ثواب ملے، امیدوار کو زیادہ بخشش دی جائے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی مانگتا ہے اور محروم رہتا ہے مگر جلد یا بدیر طلب سے زیادہ اسے دے دیا جاتا ہے یا پھر محرومی ہی اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے۔ نہیں معلوم کتنی مرادیں ایسی ہیں کہ اگر پوری ہو جائیں تو انسان کی عاقبت ہی برباد ہو جائے پس تیری دعا انہی باتوں کے لیے ہو جو تیرے لیے سود مند ہیں اور جو نقصان دہ ہیں، وہ دور رہیں، سن لے، مال و دولت بڑی چیز ہیں، مال تیرے لیے ہے، تو مال کے لیے نہیں ہے۔

فرزند! تو آخرت کے لیے پیدا ہوا ہے نہ کہ دنیا کے لیے، فنا کے لیے بنا ہے نہ کہ بقا کے لیے، تو ایک ایسے مقام میں ہے جو ڈانواں ڈول ہے اور تیاری کرنے کی جگہ یہ محض آخرت کا راستہ ہے۔ موت تیرے تعاقب میں لگی ہوئی ہے، تو لاکھ بھاگے بچ نہیں سکتا۔ ایک نہ ایک دن تجھے شکار ہو جانا ہی ہے لہذا ہوشیار رہ کہ موت ایسی حالت میں نہ آجائے کہ تو ابھی توبہ و انابت کی فکر ہی میں ہو اور وہ درمیان میں حائل ہو جائے، ایسا ہوا تو بس تونے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا۔

فرزند! موت پر، اپنے عمل پر، اور موت کے بعد کی حالت پر ہمیشہ تیرا دھیان رہے تاکہ جب اس کا پیام پہنچے تو تیرا سب کچھ پہلے سے ٹھیک ٹھاک ہو اور تجھے اچانک اس پیام کو نہ سننا پڑے۔

فرزند! دنیا میں دنیا داروں کی محویت اور اس کی طلب میں ان کی مسابقت تجھے فریب نہ دے کیونکہ خدا نے دنیا کی حقیقت کھول دی ہے، خدا ہی نے نہیں خود دنیا ہی نے بھی اپنی فانی ہونے کا اعلان کر دیا ہے، اپنی برائیوں سے نقاب اٹھا دیا ہے۔ دنیا دار تو بھونکنے والے کتے اور پھاڑ کھانے والے درندے ہیں جو ایک دوسرے پر غراتے ہیں، طاقت ور کمزوروں کو کھاتے ہیں، بڑے چھوٹوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں، ان میں کچھ تو بندھے ہوئے اونٹ ہیں جو نقصان کرنے سے مجبور ہیں اور کچھ چھٹے ہوئے اونٹ میں جو ہر طرح کا نقصان کرتے پھرتے ہیں۔ ان کی عقل گم ہے، انجان راستوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ مصائب کی نا ہموار وادیوں میں بلائیں اور آفتیں چرنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے ہیں، نہ کوئی ان کا گلہ بان ہے نہ رکھوالا، دنیا انہیں تاریک گزر گاہوں میں لے گئی ہے۔ روشنی کے مینار ان کی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں۔ دنیا کی بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہیں، ان کی لذتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، انہوں نے اسی کو اپنا رب بنا لیا ہے، وہ ان کے ساتھ کھیل رہی ہے اور وہ اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ افسوس انہوں نے آنے والی زندگی بالکل فراموش کر دی ہے۔ عنقریب تاریکی چھٹ جائے گی اور قافلہ منزل پر پہنچ جائے گا۔ لیل و نہار کے مرکب پر جو سوار ہے وہ تو برابر رواں دواں ہی ہے، چاہے کسی جگہ کھڑا ہی کیوں نہ ہو، مسافر ہے، گو بآرام کہیں مقیم ہی کیوں نہ ہو۔

فرزند! تو اپنی سب امیدوں میں کامیاب ہو نہیں سکتا۔ زندگی سے زیادہ جی نہیں سکتا۔ تو بھی اسی راستے پر چلا جا رہا ہے جس پر تجھ سے پہلے لوگ جا چکے ہیں، لہذا اپنی طلب میں اعتدال مد نظر رکھ، کمائی میں سلامت روی سے تجاوز نہ کر، یاد رکھ کوئی طلب ایسی ہوتی ہے جو حرماں نصیبی کی طرف لے جاتی ہے، نہ ہر مانگنے والے کو ملتا ہے، نہ ہر خوددار محروم رہتا ہے۔ ہر قسم کی ذلت سے بچنا چاہیے وہ کیسی ہی مرغوبات کی طرف لے جانے والی ہو، کیونکہ عزت کا معاوضہ تجھے کبھی مل ہی نہیں سکتا۔ دوسروں کا غلام نہ بن کیونکہ خدا نے تجھے آزاد پیدا کیا ہے وہ بھلائی، بھلائی نہیں جو برائی سے آئے، وہ دولت، دولت نہیں جو ذلت کی راہ سے حاصل ہو۔

خبردار، خبردار! تجھے حرص و ہوس ہلاکت کے گھاٹ پر لے جائے، جہاں تک ممکن ہو اپنے اور خدا کے درمیان کسی کا احسان نہ آنے دے کیونکہ تجھے تیرا حصہ بہرحال مل کر رہے گا۔ خدا کا دیا ہوا تھوڑا، مخلوق کے دئیے ہوئے بہت سے کہیں زیادہ ہے اور شریفانہ بھی، اگرچہ مخلوق کے پاس بھی جو کچھ ہے خدا ہی کا دیا ہوا ہے۔ خاموشی کی وجہ سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے اس کا تدارک آسان ہے، مگر گفتگو سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے، اس کا تدارک مشکل ہے، کیا تونے نہیں دیکھا کہ مشک کا منہ باندھ کر ہی پانی روکا جاتا ہے؟ اپنا مال خرچ نہ کرنا، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے کہیں اچھا ہے۔ مایوسی کی تلخی، سوال کرنے سے بہتر ہے اور آبرو کے ساتھ محنت مزدوری، بدکاری کی دولت سے بہتر ہے، آدمی اپنا راز خود ہی خوب چھپا سکتا ہے۔ کبھی آدمی اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لیتا ہے، جو زیادہ بولتا ہے، زیادہ غلطی کرتا ہے۔

نیکوں کی صحبت اختیار کرو، نیک ہو جاؤ گے، بدوں کی صحبت سے پرہیز کرو، بدی سے دور ہو جاؤ گے، حرام کھانا بدترین کھانا ہے۔ کمزور پر ظلم کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ جب نرمی سختی بن جائے تو سختی نرمی بن جاتی ہے، کبھی دوا بیماری ہو جاتی ہے اور بیماری دوا۔ کبھی بدخواہ خیر خواہی کر جاتا ہے اور خیر خواہ بد خواہی، موہوم امیدوں پر تکیہ نہ کرو، کیونکہ یہ مردوں کا سرمایہ ہیں، تجربے یاد رکھنے کا نام عقل ہے۔ بہترین تجربہ وہ ہے جو نصیحت آموز ہو، موقع سے فائدہ اٹھاؤ اس سے پہلے کہ وہ تمہارے خلاف ہو جائے، ہر کوشش کرنے والا کامیاب نہیں ہوتا۔ ہر جانے والا واپس نہیں آیا، مال کا ضائع کرنا اور عاقبت کا بگاڑنا فساد عظیم ہے، انسان کی قسمت مقدر ہو چکی ہے جو کچھ تیرے نوشہت تقدیر میں ہے، جلد یا بدیر سامنے آ جائے گا۔ تاجر ایک لحاظ سے قمار باز ہوتا ہے، کبھی قلت میں کثرت سے زیادہ برکت ہوتی ہے۔

توہین کرنے والے مددگار اور سوء ظن رکھنے والے دوست میں ذرا بھلائی نہیں۔ جب تک زمانہ ساتھ دے زمانے کا ساتھ دو، حرص تجھے اندھا نہ کر دے اور عداوت تجھے بے عقل نہ بنانے پائے۔ دوست دوستی توڑے تو تم اسے جوڑ دو، وہ دوری اختیار کرے تو تم نزدیک ہو جاؤ، وہ سختی کرے تو تم نرمی کرو، وہ غلطی کرے تو تم اس کے لیے عذر تلاش کرو، دوست کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو، گویا تم غلام ہو اور وہ آقا لیکن خبردار یہ برتاؤ اپنے محل نہ ہو، نا اہل کے ساتھ نہ رہو، دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ ورنہ دوست بھی دشمن ہو جائے گا، دوست کو بے لاگ نصیحت کرو، اچھی لگے یا بری لگے، غصہ پی جایا کرو، میں نے غصے کے جام سے زیادہ میٹھا جام نہیں دیکھا۔ جو تم سے سختی کرے تم اس سے نرمی کرو، خود بخود نرم پڑ جائے گا۔ دوستی کاٹنا ضروری ہی ہو تو بھی کچھ نہ کچھ لگاؤ باقی رکھو، تاکہ جب چاہو دوستی کو جوڑ سکو۔ جو تم سے حسن ظن رکھے اس کے حسن ظن کو جھوٹا نہ ہونے دو۔ دوست کے حقوق اس گھمنڈ میں تلف نہ کرو کہ دوست ہے کیونکہ جس کے حقوق تلف کر دئیے جاتے ہیں وہ دوست نہیں رہتا۔ ایسے نہ ہو جاؤ کہ تمہارا خاندان ہی تمہارے ہاتھوں سب سے زیادہ بدبخت بن جائے۔ جو کوئی بے پروائی ظاہر کرے، اس کی طرف نہ جھکو، دوست دوستی توڑنے میں اور تم دوستی جوڑنے میں برابر ہو، تمہارا پلا ہمیشہ بھاری رہے۔ نیکی سے زیادہ بدی میں تیز نہ ہو۔

فرزند! ظالم کے ظلم سے تنگ دل نہ ہو، کیونکہ وہ خود اپنا نقصان اور تمہارا نفع کر رہا ہے۔ جو تمہیں خوش کرے اس کا صلہ یہ نہیں کہ تم اسے رنج پہنچاؤ۔

فرزند! رزق دو قسم کا ہوتا ہے، ایک وہ جس کی تو جستجو کرتا ہے، دوسرا وہ جو تیری جستجو کرتا ہے، پس اگر تو جستجو چھوڑ دے تو رزق خود ہی تیرے پاس آ جائے گا۔ دنیا میں تیرا حصہ بس اتنا ہے، جتنے سے تو عاقبت درست کر سکے۔ اگر تو اس چیز پر رنج کرتا ہے جو تیرے ہاتھ سے نکل گئی ہے تو ہر اس چیز پر رنج کر جو تیرے ہاتھ میں نہیں آئی۔ آئندہ کو گزشتہ سے غیر سمجھ۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا جن پر نصیحت نہیں، ملامت اثر کرتی ہے، دانا آدمی معمولی تادیب سے مان جاتا ہے مگر چوپایہ مار سے باز آتا ہے۔

خواہشوں اور دل کے وسوسوں کو صبر و یقین کی عزیمتوں سے زائل کرو، جو کوئی راہِ اعتدال سے تجاویز کرتا ہے، بد راہ ہو جاتا ہے، دوست رشتہ دار کی طرح ہے، سچا دوست وہی ہے جو پیٹھ پیچھے حق دوستی ادا کرے۔ نفس کی خواہشوں اور بد بختیوں میں ساجھا ہے۔ کتنے اپنے ہیں جو غیروں سے زیادہ غیر ہیں اور کتنے غیر ہیں جو اپنوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔

جس نے راہ حق چھوڑ دی اس کا راستہ تنگ ہے۔ جو اپنی حیثیت پر رہتا ہے اس کی عزت باقی رہتی ہے۔ سب سے زیادہ مضبوط تعلق وہ ہے جو آدمی اور خدا کے مابین ہے جو کوئی تیری پرواہ نہیں کرتا وہ تیرا دشمن ہے، جب امید میں موت ہو تو نا امیدی زندگی بن جاتی ہے۔ نہ ہر عیب ظاہر ہوتا ہے، نہ ہر موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، کبھی آنکھوں والا ٹھوکر کھا جاتا ہے اور اندھا سیدھی راہ چلا جاتا ہے، بدی کو خود سے دور رکھو کیونکہ جب چاہو گے لوٹ آئے گی، احمق سے دوستی گانٹھنا عقلمند سے دوستی جوڑنے کے برابر نہیں ہے۔

جو دنیا پر بھروسا کرتا ہے، دنیا اس سے بے وفائی کر جاتی ہے اور جو دنیا کو بڑھاتا ہے، دنیا اسے گرا دیتی ہے۔ ہر تیر نشانے پر نہیں بیٹھتا۔ جب حاکم بدلتا ہے تو زمانہ بھی بدل جاتا ہے۔ سفر سے پہلے سفر کے ساتھیوں کو دیکھ لو۔ ٹھہرنے سے پہلے پڑوسیوں کی جانچ کر لو۔

خبردار! تمہاری گفتگو میں ہنسانے والی کوئی بات نہ ہو، اگرچہ کسی دوسرے کا مقولہ ہی کیوں نہ ہو۔ خبردار! عورتوں سے مشورہ نہ کرنا کیونکہ ان کی عقل کمزور ہوتی ہے اور ارادہ ضعیف، پردے میں بٹھا کر ان کی نگاہوں کی حفاظت کرو۔ بداطوار لوگوں کی ان میں آمدورفت ان کے بے پردہ رہنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ حتی الوسیع اپنے سوا کسی سے انہیں مطلب نہ رکھنے دو۔ عورت کو اس کی ذات کے سوا کسی بات میں خودمختار نہ ہونے دو کیونکہ عورت پھول ہے، جلاد نہیں۔ عورت کو لوگوں کی سفارش کرنے کا عادی نہ بناؤ۔ بے جا رقابت ظاہر نہ کر کیونکہ اس سے پاکباز اور بے لاگ عورت کی بھی رہنمائی برائی کی طرف ہوتی ہے۔

اپنے نوکروں میں سے ہر ایک کے ذمہ کوئی نہ کوئی کام رکھو تاکہ وہ تمہاری خدمت کو ایک دوسرے پر نہ ٹالیں۔ اپنے کنبے کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارا بازو ہے، جس سے اڑتے ہو، بنیاد ہے جس پر ٹھہرتے ہو، ہاتھ ہے جسے لڑتے ہو۔

فرزند! میں تیری دنیا و عقبیٰ خدا کے سپرد کرتا ہوں اور دونوں جہاں میں اس ذات برتر سے تیرے لیے فلاح و بہبود کی دعا کرتا ہوں۔

 

                   علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کا بیٹے کی رہنمائی کے لیے اپنی مثال پیش کرنا

 

"لخت جگر! زندگی کی سانسیں بہت تھوڑی اور قبر کی مدت طویل ہے۔ نیکی کی برکتیں اسی کے حصے میں آتی ہیں، جس نے اپنی خواہشوں پر قابو پا لیا۔ محروم وہی ہے جس نے دنیا کے لیے آخرت سے روگردانی کی۔ اصل کمال علم و عمل کو جمع کرنے میں ہے۔ جس کو یہ نعمتیں حاصل ہو گئیں، اس کا مرتبہ دین و دنیا میں بلند ہوا۔ قرآن مجید، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ، اصحاب کرام رضی اللہ عنہما اور علمائے حق کی مبارک سیرتیں پیش نظر رکھو تاکہ درجات عالی نصیب ہوں۔

عزیزم! طالب علم کو تحصیل علم کے دوران ہمت و حوصلہ سے کام لینا چاہیے۔ اس سلسلہ میں تحدیث بالنعمتہ کے طور پر اپنے کچھ حالات تمہیں سناتا ہوں۔ میں جب مدرسہ میں داخل کیا گیا اس وقت چھ سال کا تھا۔ میرے ہم سبق مجھ سے زیادہ عمر کے تھے میں بچوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ نہ لیتا، نہ لہو و لعب میں اپنا وقت ضائع کرتا، کبھی اپنے فرائض اور متعلقہ کاموں سے غافل نہیں ہوا، جو کچھ استاد سے سنتا اسے یاد کر لیتا۔ میں ہر فن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ مشائخ کے حلقوں میں جلد سے جلد پہنچنے کی امکانی سعی کرتا، تیز روی سے میری سانس پھولنے لگتی، میرے صبح و شام اسی طرح گزرتے کہ کھانے کا انتظام نہ ہوتا مگر پیدا کرنے والے کا احسان ہے کہ اس نے مجھے مخلوق کے احسان سے بچایا۔

برخوردار! فخر کے طور پر نہیں شکر کی راہ سے کہتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے میرے کلام میں تاثیر بخشی کہ تقریباً دو سو ذمی میرے ہاتھ پر (بہ رضا و رغبت) مسلمان ہوئے اور ایک لاکھ سے زیادہ آدمیوں نے میری مجلس میں توجہ کی۔

میرے بیٹے! غفلت کی نیند سے جاگو، موت سر پر کھڑی ہے ان گھڑیوں پر جو رائیگاں گئیں نادم اور پشیمان ہو اور ہمہ تن تلافی مافات کے لیے سرگرم عمل ہو جاؤ۔

برے ساتھیوں سے بچو، کتابیں تمہاری حقیقی ساتھی ہیں جب تک ایک فن میں مہارت نہ ہو جائے، آگے نہ بڑھو، جو لوگ علم و عمل میں درجہ کمال کو پہنچے، ان کے حالات پر نظر رکھو اور کسی چیز میں ان سے کم رہنے پر قناعت نہ کرو، خوب سمجھ لو کہ علم ہی وہ چیز ہے، جس کی وجہ سے وہ لوگ بھی بہت کچھ ہو جاتے ہیں، جو کچھ نہیں ہوتے۔

اے لخت جگر! دنیا حاصل کرنے کے لیے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا، جو شخص قناعت اختیار کر لیتا ہے وہ عزت پاتا ہے۔ ایک شخص بصرہ آیا اور پوچھا شہر کا سردار کون ہے؟ کسی نے کہا حسن بصری۔ اس نے کہا انہیں سرداری کیوں کر مل گئی؟ جواب ملا۔ حسن بصری لوگوں کو دنیا سے بے نیاز ہیں مگر لوگ ان کے علم کے محتاج ہیں۔

میرے والد اچھے کھاتے پیتے تھے، ہزاروں روپے چھوڑ کر انتقال فرمایا۔ میں جوان ہوا تو لوگوں نے مجھے گھر اور بیس دینار دئیے اور کہا یہ تمہارے مال کا ترکہ ہے۔ دیناروں کی میں نے کتابیں خرید لیں۔ گھر بیچ کر علم حاصل کیا، اب میرے پاس کچھ نہیں، خدا کا شکر ہے کہ سب کام ٹھیک ٹھیک انجام پاتے ہیں۔

خوب یاد رکھو، جب تقویٰ حاصل ہوتا ہے تو نیکیاں ابھر آتی ہیں۔ متقی کوئی کام نمود و نمائش کے لیے نہیں کرتا اور نہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے دین کو نقصان پہنچے۔ جو شخص اللہ کے حدود کا لحاظ رکھتا ہے، اللہ اس کا لحاظ رکھتا ہے۔ سب سے بہتر خزانہ یہ ہے کہ اپنی نگاہوں کو حرام چیزوں سے بچاؤ، زبان کو بد گوئی سے روکو، نفس کو قابو میں رکھو۔

تمہیں چاہیے کہ بہت بلند رہو، کچھ لوگ صرف زاہد بن کر رہ گئے اور کچھ عالم بن کر۔ ایسے لوگ تھوڑے ہیں جنہوں نے علم و عمل دونوں میں درجہ کمال حاصل کیا۔ میں نے تابعین اور بعد کے لوگوں کے حالات خوب غور سے پڑھے۔ چار آدمی واقعی صاحب کمال نظر آئے۔ سعید بن مسیب، حسن بصری، سفیان ثوری اور احمد بن حنبل، میں نے ان چاروں کے حالات پر الگ الگ مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ آدمی وہ بھی تھے اور ہم بھی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ان کی ہمتیں بلند تھیں، ہماری ہمتیں پست ہیں۔ سلف میں عالی ہمت لوگوں کی ایک بڑی جماعت گزری ہے۔ ان کے حالات پڑھنا چاہو تو صفوۃ الصفوۃ پڑھو۔

ہمیشہ خیال رکھو کہ علم کے ساتھ عمل ضروری ہے۔ جو لوگ اہل دنیا کے پاس آتے رہتے ہیں، وہ عمل میں کوتاہی کرتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ علم کی برکت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

ہمیشہ نفس کا محاسبہ کرتے رہو تم اپنے علم سے جتنا نفع خود اٹھاؤ گے، اسی اعتبار سے سننے والے نفع اٹھائیں گے، اگر واعظ خود عمل نہیں کرتا تو دلوں پر اس کے وعظ کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔

تمہارے ذمے لوگوں کے حقوق ہیں مثلاً بیوی، اولاد، اعزہ۔ ان سب کے حقوق پورے کرو، اپنے کو بیکار نہ رکھو، نفس کو اچھے اعمال کا عادی بناؤ اور قبر میں وہ سامان بھیجتے رہو کہ جب تم وہاں پہنچو تو درخت بنے۔ اگر کبھی غفلت طاری ہونے لگے تو قبرستان چلے جایا کرو اور موت کو یاد کر لیا کرو۔”

 

                   مولانا روم کی بیٹے کو اپنے شاگرد رشید کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت

 

فرزند عزیز، مظفر الدین، خدا تمہیں انسانوں اور جنوں میں سے ہر دشمن پر ظفر مند کرے اور تمہاری مدد اور ہدایت فرمائے اور جس شے کو خدا دوست رکھتا ہے اور پسند کرتا ہے اس کی توفیق عنایت فرمائے، میری طرف سے سلام و تحیۃ پڑھو اور یہ جانو کہ میں تمہارا مشتاق ہوں۔

اس کے بعد یہ معلوم کرو کہ فرزند عزیز حسام الدین، جو بڑا وفا شعار ہے، مجھ پر اور تم پر خدمت اور دوستی کا حق رکھتا ہے۔ (نیکی کی ابتدا کرنے والے کو کوئی عوض نہیں دیا جا سکتا) سنا گیا ہے کہ خود غرض لوگوں کے کہنے سننے سے تم اس کے ساتھ جھگڑا کرتے ہو اور بعض امور کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ حسام الدین بڑا امانت دار اور معتمد ہے اور ہمارا بیٹا ہے۔ (امانت دار کا قول، قسم کے ساتھ، معتبر ہے) باپ کی خوشی کے لیے اس کی دلجوئی اور عزت افزائی کرو اور اسے اطمینان دلاؤ۔ تم یہ مہربانی اپنے باپ پر کرو گے۔

تمہیں پتا ہے کہ حسام الدین ہماری گود میں پل کر بڑا ہوا ہے، وہ اپنے اچھے برے کو بہتر جانتا ہے، خواہ یہ بدگمانی تمہاری طرف سے ہے یا کسی دوسرے نے تم سے کہا ہے، ہر صورت میں یہ بات اس سے قطعاً بعید ہے کہ اس نے تمہاری نصیحت اور خیر خواہی میں کوئی دریغ کیا ہو۔ ایسا خیال بھی نہ کرو اور اس گمان کو دل میں بھی نہ لاؤ کیونکہ (بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں) اور یہ گمان اس قسم کا ظن ہے جس سے تم بعد میں پشیمان اور گناہ گار ہونگے۔ شعر(ترجمہ)

"میرے سوا کسی اور سے تمہیں سابقہ پڑے گا تو مجھے پہچانو گے ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ سمجھ لو کہ میں سختی کے ساتھ نصیحت کرنے والا تھا۔”

واللہ باللہ اس کے بارے میں ان نصیحتوں کو تم تکلف اور مبالغہ کی قسم سے نہ سمجھنا بلکہ جو کچھ کہا ہے وہ بہت میں سے تھوڑا اور ہزار میں سے ایک ہے۔ بیٹا اس مطالبے اور مناقشے سے جو نفع تمہیں مطلوب ہے یا جس کا لالچ تمہیں ہو رہا ہے، وہ حقیقتاً تمہارا نقصان ہے، یہ بات تم اچھی طرح ذہن نشین کر لو۔

کہتے ہیں کہ کسی جنگجو سپاہی کا گھوڑا زخمی ہو گیا۔ بادشاہ نے اپنا گھوڑا، جو اصطبل کے عربی النسل گھوڑوں میں سے سب سے اعلیٰ درجہ کا تھا، اسے دے دیا اور اس پر اسے سوار کرا دیا۔ ناگہاں یہ گھوڑا بھی زخمی ہو گیا۔ دفعتاً بادشاہ کی زبان سے بے اختیار نکلا کہ افسوس! اسی وقت وہ بہادر جنگجو گھوڑے سے نیچے اتر پڑا۔ بادشاہ نے دوسرا گھوڑا بہتیرا پیش کیا مگر اس نے قبول نہ کیا اور کہا کہ میں نے تیری فتح کی خواہش میں اپنی جان عزیز سے دریغ نہیں کیا اور کبھی یہ نہیں کہا کہ افسوس! مگر تو نے مجھے جو ایک چوپایہ دیا تھا اس کے لیے افسوس کا نعرہ بلند کیا۔ اب میں جاتا ہوں کسی اور بادشاہ کی خدمت کروں گا جو میری جان کی قدر جانتا ہوگا۔

بہرحال اب خیر و سعادت کی دعائیں لو۔ خدا تمہارے کام ایسی جگہ سے پورے کرے کہ جہاں سے تمہیں امید نہ ہو ( خدا اس جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا) یہ دعا ہماری جانب سے ہے اور اس کا قبول کرنا خدا کے اختیار میں ہے۔

ترجمہ اشعار:

"خدا نے جو کچھ میرے لیے مقرر کر دیا ہے میں اس پر راضی ہوں۔ اور میں نے اپنا کام اپنے خالق کے سپرد کر دیا ہے۔ جس طرح اس نے گزشتہ زندگی میں احسان کیا۔ اسی طرح باقی زندگی میں بھی احسان کرے گا۔ تجھے جو کچھ مشکل درپیش ہے وہ تیرے طرز زندگی کی وجہ سے ہے، ورنہ جو لوگ آسان زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں وہ آسانی سے زندگی گزار دیتے ہیں۔”

(تم لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو خدا تمہارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے گا۔)​

والسلام​

 

                   امیر خسرو کا بیٹی کو عصمت و عفت کا درس

 

یہ مکتوب اشعار کی شکل میں ہے جن کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

"اے بیٹی تیرا وجود میرے دل کا چشم و چراغ ہے اور میرے دل کے باغ میں کوئی اور میوہ تجھ سے بہتر نہیں۔ اگرچہ تیرے بھائی بھی تیری طرح خوش بخت ہیں مگر جہاں تک میری نظر کا تعلق ہے وہ تجھ سے بہتر نہیں۔

باغبان جب باغ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہے تو اس کے نزدیک سرو کی بھی وہی قدر ہوتی ہے جو سوسن کی ہوتی ہے۔ تیرا نصیب جس نے تجھے نیک فال بتایا، اسی نے تیرا نام مستورہ میمون (نیک بخت و عصمت مآب خاتون) رکھ دیا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس نے تیرے انداز طبیعت کو پہلے سے دیکھا تو میری شرم و حیا اور پاکدامنی کو زیادہ سے زیادہ پایا۔ مجھے امید ہے کہ اس خوش بختی و نیک فالی کے باعث تیرے نام کو تیرے کردار سے چار چاند لگ جائیں گے۔

لیکن تجھے بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے نیک انجام سے اپنے اس نام کی بنیاد کو صحیح ثابت کرے۔ عمر کے اعتبار سے تیرا یہ ساتواں سال ہے جب تو سترہ سال کی ہو جائے گی تو ان باتوں کو سمجھ سکے گی۔

جب تو اس عمر کو پہنچے گی تو میری ان نصیحتوں پر عمل کر کے اپنی نیک نامی سے مجھے بھی سر بلند کرے گی۔ اس طرح زندگی بسر کر کہ تیرے شاندار کارناموں سے تیرے قرابت داروں کا نام بھی روشن ہو۔

جس موتی کی طرف بزرگ توجہ مبذول کرتے ہیں، اس کے طفیل میں اس کے والدین یعنی سیپی کو بھی یاد کر لیتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے تو اپنی نقل و حرکت کو اپنے دامن کی حدود میں منحصر کر دے۔

تاکہ تیرا دامن شکوہ و وقار بھی جگہ سے اسی طرح نہ ہلے جس طرح دامن کوہ پتھر سے جدا نہیں ہوتا۔ اگر تیرا وقار ایک بھاری پتھر کی طرح تیرے دامن کا لنگر ہے تو یقیناً تیرا دامن تیری عصمت کا محافظ ہے۔

وہ عورت جس کا گھر سے نکلنا آسان ہو جاتا ہے وہ گھر کے اندر سب سے خوف زدہ رہتی ہے۔ جو عورت گلستان و لالہ زار میں ٹہلتی پھرتی ہے وہ اپنا گریبان گل کی نذر کر دیتی ہے اور دامن خار کو بخش دیتی ہے۔

جب اس کی نظر گل سرخ پر پڑتی ہے تو پھول کی ہنسی یہ تقاضا کرتی ہے کہ شراب پینی چاہیے۔ تو اپنے چہرہ سے نمائش باطل کا غازہ دھو ڈال اور یہ کوشش کر کہ تو غازہ ہی کے بغیر سرخرو ہو جائے۔

تاکہ صدق و صواب کی شہرت عامہ، تیری اس سرخروہی کی وجہ سے، تجھے حمیرا (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لقب کا مخفف) کا خطاب عطا کر دے۔ جو عورت راحت و آرام سے بے پروا رہی اس کا ویران گھر آباد ہو گیا۔

جو عورت لذت شراب کی رو میں بہہ کر پستی کے اندر چلی گئی، اس کا گھر خرابات بن گیا اور وہ خود بھی خراب ہوئی۔ جب اس کی شریف ذات شراب سے آلودہ ہو گئی تو در و دیوار سے دشمن اندر گھس آئے گا۔

اگر بند کمرے میں بھی شراب کا دور چلے تو اس کی بو پڑوسیوں کو یہ پیغام پہنچا دیتی ہے کہ یہاں شراب پی جا رہی ہے۔ کسی عورت کا ایک چھوٹا سا آنچل جو وہ اپنی نشست گاہ میں بیٹھ کر بطور نقاب ڈال دیتی ہے ان فقیہوں کی پوری دو پگڑیوں سے بہتر ہے جو فسق و فجور میں مست ہیں۔

جلوہ گری یہ نہیں کہ ایک پری چہرہ حسینہ زن و شوہر کے تعلقات میں جلوہ گر ہو۔ جلوہ گری اس عورت کا حصہ ہے جو شرم و حیا اور خوف خدا کے باعث لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہونے کے باوجود اپنے اعلیٰ کردار کے لیے مشہور ہے۔

تو سورج کی طرح اپنے آپ کو اجالوں میں چھپا لے اور شرم و حیا کو رخسار کا پردہ بنا۔ جس نے حیا کا نقاب اتار کر پھینک دیا اس سے کوئی امید نہ رکھو کیونکہ اس کی عزت و آبرو پر پانی پھر گیا۔

جو مرد اس کی عریانی کے لیے کوشش کرتا ہے، وہ اس کو برہنہ کرنے کے بعد پھر اس کی پردہ پوشی کیا کرے گا؟ وہ آوارہ گرد جو بغیر کچھ کیے ہوئے ڈینگیں مارتا ہے، جب کوئی گناہ کر لے گا تو اسے کس طرح ظاہر نہ کرے گا۔

برے لوگوں کی یہ رسم ہے کہ جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو اس کی شہرت کو اپنے لیے بڑائی سمجھتے ہیں۔ ہر بننے ٹھننے والی عورت جو نمائش حسن کے درپے ہوتی ہے، دس پردوں کے اندر بھی اپنی رسوائی کا سامان مہیا کر لیتی ہے۔

جب کوئی بری عورت تباہی کی طرف رخ ملتی ہے تو اس کی صورت اس کے فسق و فجور کی گواہی دینے لگتی ہے۔ عورت کے لیے فراخ حوصلگی و سخاوت زیب نہیں دیتی، البتہ اگر مرد میں یہ اوصاف نہ ہوں تو وہ عورت بن جاتا ہے۔

لیکن اتنی بد مزاج بھی نہ بن کہ تیری خادمائیں تجھ سے بھاگ کر باہر گلی میں چلی جائیں۔ ایسا گھر جس میں آرام و آسائش کم میسر ہو اگر اپنے ساز و سامان کے اعتبار سے بہشت بھی ہو تو جہنم کے مترادف ہو جاتا ہے۔

اس شوہر کو جس کی بیوی دراز ہو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک وحشی کتے کے ساتھ بند کر دیا گیا ہے۔ جو شوہر دولت و ثروت رکھتا ہے، اس کی بیوی خود گھر کے اندر سونے میں پیلی ہوتی ہے۔

لیکن جب کسی شوہر کے پاس پونجی نہ ہو تو اس کی بیوی کے لیے قناعت سے بہتر کوئی زیور نہیں ہے۔ نفس، جو انسان کے قالب میں سرایت کیے ہوئے ہے، انسان دشمن ہونے کے باوجود اس کے تن بدن میں موجود ہے۔

یہ نفس نہیں چاہتا کہ جس دل کو دنیا کا عیش حاصل ہے، وہ عقبیٰ کی فکر میں پڑ جائے اس لیے جہاں تک ہو سکے اس نفس کی رسی دراز نہ ہونے دے۔ یہ ساری مصیبت جو تن پر آتی ہے اس نظر کی بدولت آتی ہے جو توبہ کو توڑ کر گناہ پر مائل کرتی ہے۔

جس طرح موتی سیپ کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے اسی طرح اپنی آنکھ کو شرم و حیا میں چھپا لے تاکہ تو تیر بلا کا نشانہ نہ بنے۔ جب آنکھ مائل ہوتی ہے تو دل قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور نظر کا ہاتھ دل کے ڈورے کھینچنے لگتا ہے۔

وہ عورت، جسے حق تعالیٰ نے خود داری کا جذبہ دیا ہے، جان دے دیتی ہے مگر تن کو فسق و فجور میں مبتلا نہیں ہونے دیتی۔

ایک بادشاہ اپنے اونچے محل کی چھت پر کھڑا ہوا، ادھر ادھر نظر ڈال رہا تھا۔ اس نے محل کے دیوار کے پیچھے ایک حسینہ کو دیکھا جو اپنے حسن سے اس زمانہ کے تمام حسینوں کو مات کرتی تھی۔

جیسے ہی بادشاہ نے اسے دیکھا، بے چین ہو گیا اور اس کے صبر و قرار کی بنیاد اپنی جگہ سے مل گئی۔ فوراً ایک پیغامبر کو اس کے پاس بھیجا تاکہ اسے بلا کر اس پر دست درازی کرے۔

اس حسینہ نے اپنی پاک دامنی کی بنا پر اپنے وقار کو عصمت کا پردہ بنا لیا اور چھپ گئی۔ پہلے تو ایک عرصہ تک در پردہ گفتگو ہوتی رہی مگر چاہنے والے کی مقصد براری نہ ہوئی۔

جب بادشاہ کا دل ہوس سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تو اس نے کھل کر بات کی اور یہ خوف دلایا کہ میں جان سے مار ڈالوں گا۔ خادم کو حکم دیا کہ اسے اپنے گھر سے باہر گھسیٹ کر، بالوں سے کھینچتا ہوا، بادشاہ کی خواب گاہ میں لے آئے۔

(جب وہ حسینہ آئی تو) اس نے کہا کہ ” اے فرمانروائے وقت، بادشاہوں کو فقیروں سے کیا واسطہ ہے۔ میرے جسم میں ایسی کون سی چیز ہے جو تیری آنکھوں کو بھا گئی ہے اور جسے تو نے اپنے جذبہ دل سے مجبور ہو کر عزیز بنا لیا ہے۔

بادشاہ نے اپنی آرزو مند آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔” تیری دونوں آنکھوں نے مجھ سے میری نیند چھین لی ہے۔”

وہ خوش جمال حسینہ اندر کی طرف ایک کونے میں چلی گئی اور انگلی سے اپنی دونوں آنکھیں باہر نکال لیں۔ اور خادم کو وہ دونوں آنکھیں دے کر کہا۔” جا انہیں لے جا اور امیر سے کہہ دے کہ میری جو چیز تجھے عزیز تھی اسے تھام۔”

خادم نے جو یہ کیفیت بادشاہ پر ظاہر کی تو اس کے دل میں آگ لگ گئی اور اس کی سوزش سے دھواں بھر گیا۔ اپنے کرتوت پر شرمندہ ہو کر بیٹھ رہا اور اس حسینہ کا پاک دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا۔

اے بیٹی تو خسرو کی آنکھ کا نور ہے تو بھی اسی طرح اپنی عصمت پر صابر و مستقیم رہ۔

 

                   حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا جہانگیر (بادشاہ) کے عقائد و اعمال کی اصلاح کرنا

 

الحمد للہ و سلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ۔ اس طرف کے احوال و واقعات حمد کے لائق ہیں (بادشاہ کے ساتھ) عجیب و غریب صحبتیں گزر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ان گفتگوؤں سے امور دینیہ اور اصول اسلامیہ میں سرمو سستی اور مداہنت دخل نہیں پاتی۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان محفلوں میں وہی باتیں ہوتی ہیں جو خاص خلوتوں اور مجلسوں میں بیان ہوا کرتی ہیں۔ اگر ایک مجلس کا حال لکھا جائے تو دفتر ہو جائے، خاص کر آج ماہِ رمضان کی سترھویں رات کو انبیاء علیہم الصلوٰۃ کی بعثت اور عقل کے عدم استقلال اور آخرت کے ایمان اور اس کے عذاب و ثواب اور رویت و دیدار کے اثبات اور حضرت خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خاتمیت اور ہر صدی کے مجدد اور خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ عنہم کی استداء اور تراویح کے سنت اور تناسخ کے باطل ہونے اور جن اور جنیوں کے احوال اور ان کے عذاب و ثواب کی نسبت بہت کچھ مذکور ہوا، اور (بادشاہ) بڑی خوشی سے سنتے رہے، اس اثنا میں اور بھی بہت سی چیزوں کا ذکر ہوا اور اقطاب، اوتاد، ابدال کے احوال اور ان کی خصوصیتوں وغیرہ کا بیان ہوا، اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ (بادشاہ) سب کچھ قبول کرتے رہے اور کوئی ایسا تغیر ظاہر نہ ہوا جو برہمی پر دلالت کرے۔ ان واقعات اور ملاقاتوں میں شاید اللہ تعالیٰ کی پوشیدہ حکمت اور راز خفیہ ہوگا۔ دوسرے یہ کہ قرآن مجید کو (بادشاہ سے ) سورہ عنکبوت تک ختم کرا چکا ہوں۔ جب رات کو اس (شاہی) مجلس سے اٹھ کر آتا ہوں تراویح میں مشغول ہوتا ہوں، فقط قرآن مجید کی یہ اعلیٰ دولت، اس پراگندہ حالی میں جو عین جمعیت ہے، حاصل ہوتی ہے۔ الحمدللہ اولاً و آخراً۔

 

                   حضرت محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ کا اورنگ زیب عالمگیر کے رتبہ بلند کی تصدیق کرنا

 

جو کچھ بادشاہ دیں پناہ سلمہ، (اورنگزیب عالمگیر) کے بارے میں مرقوم تھا یعنی "اثرات ذکر در لطائف” حصول سلطان ذکر و رابطہ "قلت خطرات” قبول کلمہ حق” رفع منکرات” اور ” ظہور لوازم طلب” یہ سب باتیں واضح ہوئیں۔ شکر خدا بجا لاؤ۔ طبقہ سلاطین میں اس قسم کے امور حکم عنقا رکھتے ہیں۔ حدیث شریف صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ہے (جس نے میری سنت کو اس کے مردہ ہونے کی صورت میں زندہ کیا، اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا) فقیر دعا و توجہ سے فارغ نہیں۔ بادشاہ کی ظاہری و باطنی صلاحیت کا خواستگار ہوں۔ ان کے باطن کو نسبت اکابر سے معمور پاتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ وہ جلد ہی فنائے قلب کی دولت سے مشرف ہو جائیں گے۔ یہ فنائے قلب درجات ولایت میں درجہ اولیٰ ہے۔

باکریماں کار ہا دشوار نیست​

والسلام اولاً و آخراً​

 

                   علامہ اقبال کی موجودہ نسل کو دعوت ایمان و عمل

 

خطاب بہ جاوید!

اس مضمون کو نظم کرنے سے کوئی فائدہ تو نہیں، کیونکہ جو کچھ میرے دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے وہ الفاظ کے ذریعہ باہر نہیں آتا۔ اگرچہ میں نے سینکڑوں نکتے بغیر کوئی پردہ رکھے ہوئے صاف صاف بیان کر دئیے ہیں مگر ایک نکتہ میرے ذہن میں ایسا ہے جو اس کتاب میں نہیں سماتا۔ اگر میں اسے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اور زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے، الفاظ و آواز کا پیرایہ اختیار کرنے سے مفہوم پر اور زیادہ پردے پڑ جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ تو میری نگاہ سے اس کے سوز کی حقیقت معلوم کرے یا جو آہیں میں صبح کے وقت بھرتا ہوں ان میں اس حقیقت کا سراغ تلاش کرے۔

××××××​

سب سے پہلا سبق تجھے تیری ماں نے پڑھایا تھا، اسی کی خوشگوار ہواؤں سے تیرے فہم و شعور کا غنچہ کھل کر پھول بنا تھا۔ تیری یہ کیفیات قلب اسی کی نسیم تربیت سے فیض یافتہ ہیں، تیرا وجود ہم دونوں کی متاع گراں مایہ ہے مگر تیری قدر و قیمت جو کچھ ہے وہ ماں کی وجہ سے ہے۔ تو نے اسی کی زبان سے لا الہ الا اللہ کا سبق پڑھا ہے۔ یہ دولت جاوید تو نے اسی سے حاصل کی ہے (اب حصول علم کے بعد) بیٹے! ذوق نظر مجھ سے حاصل کر، لا الہ الا اللہ کی آگ میں جلنا مجھ سے سیکھ۔ لا الہ الا اللہ کو صرف زبان سے ادا کرنا کافی نہیں، تو اپنے دل و جان سے اس کا اعلان کر (کہ سوائے اللہ کے کوئی دوسرا معبود نہیں) تاکہ تیرے جسم سے تیرے قلب کی آواز آنے لگے (اور تیرا ظاہر و باطن ایک ہو جائے)۔ یہ لا الہ الا اللہ کا عشق ایسا ہے کہ چاند اور سورج اسی کی وجہ سے گردش کر رہے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ سوزِ عشق بڑے بڑے پہاڑوں سے لے کر چھوٹے چھوٹے گھاس کے تنکوں میں موجود ہے، یہ لا الہ الا اللہ کا دو حرفی کلمہ صرف زبان سے ادا کیا ہوا بول نہیں بلکہ ایک بے پناہ تلوار ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں، جس کسی نے لا الہ الا اللہ کے عشق میں زندگی بسر کرنی شروع کر دی، اس کی زندگی (کمزور انسانوں جیسی زندگی نہیں رہتی بلکہ) قہاری کی زندگی ہو جاتی ہے، کیونکہ لا الہ الا اللہ کی چوٹ ضرب کاری ہوتی ہے۔

(یہ عجیب بات ہے کہ) مومن اور دوسروں کے سامنے پٹکا باندھ کر کھڑا ہو، (ان کی غلامی کرے)، (خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آخرت پر) ایمان رکھنے والا اور قوم کا غدار ہو۔ افلاس اور نفاق کی زندگی گزارے (یہ کس طرح ممکن ہے؟) (اس کی حالت تو آج یہ ہے کہ) اس نے دین و ملت کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا ہے، اپنے گھر کی ساری پونجی جلا دی ہے اور خود گھر کو بھی آگ لگا چکا ہے۔ پہلے اس کی نماز میں لا الہ الا اللہ کا عشق ہوتا تھا مگر اب نہیں، پہلے اس کے نیاز عبودیت میں خودی کے ناز بھی ہوا کرتے تھے مگر اب موجود نہیں، اس کے روزے نماز میں وہ پہلے کا سا نور، وہ عشق کی روشنی، اب باقی نہیں رہی، اس کی کائنات میں اب حقیقت کا کوئی جلوہ نظر نہیں آتا۔ یہ وہ مسلمان تھا جس کے لیے زندگی کا سارا ساز و سامان صرف اللہ کی ذات تھی (اب اس کی یہ حالت ہے کہ) مال کی محبت اور موت کا خوف اس کے لیے فتنہ بنا ہوا ہے۔ عشق کی وہ سرمستی اور عمل کا وہ ذوق و سرور، جو اس کی خصوصیات تھیں، اب ختم ہو چکی ہیں، اس کا دین بس کتاب کے اندر رہ گیا ہے اور وہ خود مردوں کی طرح قبر میں دفن ہے۔ موجودہ زمانے کے ساتھ اس کی صحبت رنگ لائی ہے، اب اس نے دو نئی پیغمبروں کی شریعتیں اپنا لی ہیں۔ ان دو پیغمبروں میں سے ایک ایرانی تھا (بہاء اللہ) اور دوسرا ہندوستانی نسل سے تھا (مرزا احمد قادیانی)۔ پہلا حج سے بیگانہ تھا اور دوسرے کو جہاد سے کوئی سروکار نہ تھا۔ جب جہاد اور حج جیسے فرائض واجبات دین میں شامل نہ رہے تو روزے اور نماز کی روح تو سلب ہی ہو گئی۔ جب نماز اور روزے میں کوئی روح باقی نہ رہی تو فرد کی بے راہ روی اور ملت کا انتشار لازمی تھا۔ جب لوگوں کے سینوں میں تعلیمات قرآنی کی گرمی باقی نہ رہی ہو (اور ان کے دل سرد پڑ گئے ہوں) تو ان سے فلاح و بہبود کی امید کیا ہو سکتی ہے؟ مسلمان اپنی شخصیت کی نشوونما سے غافل ہو چکا ہے، اب ایک رہبر کامل کی ضرورت ہے۔ اے خضر مدد کے لیے ہاتھ بڑھا کہ پانی سر سے گزر گیا۔

××××××​

 

مومن کا سجدہ وہ سجدہ تھا جس سے زمین لرز لرز گئی اور جس کی مراد پر چاند اور سورج گردش کرتے رہے ہیں، اگر اس سجدہ کا نشان پتھر پر پڑ جائے تو وہ بھی دھواں بن کر ہوا میں اڑنے لگے مگر اس زمانے میں (جو سجدہ کیا جا رہا ہے) اس کی حیثیت ماتھا ٹیکنے کے سوا اور کچھ نہیں، اس کے اندر بڑھاپے کی کمزوری ہی کمزوری نظر آتی ہے (نماز کے) سجدہ میں جو ربی الا علیٰ (میرا رب سب سے بلند ہے) کہا جاتا ہے اس کا دبدبہ کہاں باقی رہ گیا ہے؟ یہ سجدہ کی خطا ہے یا خود ہمارا قصور ہے؟ (غیروں کو دیکھئے تو ان کا) ہر فرد اپنے مقررہ راستے پر اڑا چلا جا رہا ہے مگر ہماری سانڈنی ہے کہ بے لگام ہو چکی ہے اور فضول ادھر ادھر دوڑ رہی ہے۔ وہ مسلمان جس کی ہدایت کے لیے قرآن اترا تھا، ذوق طلب سے محروم ہو گیا ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے! اس پر جتنا تعجب کیا جائے کم ہے۔

××××××​

 

اگر خدا تجھے صاحب نظر بنا دے تو اس زمانے کی طرف دیکھ جو چلا آ رہا ہے۔ عقلیں خدا کے خوف سے آزاد ہو گئی ہیں اور دل سوز و گداز سے خالی ہیں، آنکھوں میں شرم و حیا باقی نہیں رہی اور نگاہیں حقیقت کو چھوڑ کر مجاز میں ڈوب گئی ہیں۔ علم اور فن، دین اور سیاست، عقل اور دل، یہ سب کے سب پانی اور مٹی کے ارد گرد چکر کاٹ رہے ہیں (صرف مادہ کو مرکز فکر و عمل بنائے ہوئے ہیں) وہ ایشیا جسے سورج کا وطن پیدائش کہا جاتا ہے، آج دوسروں کی طرف نظریں لگائے ہوئے ہیں اور اپنے آپ سے پردہ کیے ہوئے ہیں۔ اس کے دل و دماغ میں اب تازہ بہ تازہ خیالات و جذبات پیدا ہی نہیں ہوتے، اب اس فرسودہ پونجی کو جَو کے دو دانوں کے عوض خریدنے کے لیے کوئی تیار نہیں، اس پرانی دنیا میں اس کی زندگی غیر متحرک، خاموش اور برف کی طرح جمی ہوئی ہے اور چلنے پھرنے یا سفر کرنے کا ذوق اس میں مطلق نہیں، اس کی قوت فکر کو اگر ہرن سے تشبیہ دی جائے تو وہ ایک ایسا ہرن ہے جو لنگڑا اور اپاہج ہو چکا ہے اور جسے ملاؤں اور بادشاہوں نے اپنا شکار بنا لیا ہے۔ اس کی عقل، اس کا مذہب، اس کی حکمت و دانش اور اس کے ننگ و ناموس فرنگی حکمرانوں کے شکار بند میں بندھے ہوئے ہیں (وہ جس طرح چاہیں انہیں استعمال کر سکتے ہیں) میں نے اس کے افکار کی دنیا پر ہلہ بول دیا ہے اور اس کے تمام رازوں کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اپنے سینہ کے اندر میں نے دل کا خون کر لیا ہے (فکر و نظر کی راہ میں سعی و کاوش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا)، تب کہیں جا کر اس کی دنیا کو دگرگوں کر سکا ہوں۔

××××××​

 

عہد حاضر کے لوگوں کا انداز طبیعت دیکھ کر، میں نے دو طرح کی تصنیفات کی ہیں (جنہیں یہ سمجھنا چاہیے) دو کوزوں میں دو سمندر بن کیے ہیں۔ ایک وہ ہے جو نثر میں منطقیہ دلائل کے ساتھ لکھی گئی ہے اور جس میں فلسفیانہ و متکلمانہ انداز تحریر اختیار کیا گیا ہے (اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل جدید) تاکہ لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ جما سکوں۔ دوسری قسم وہ ہے جس میں فرنگیوں کے انداز پر تشبیہ و استعارہ اور رمز و کنایہ سے کام لیا گیا ہے، اسے چنگ و رباب کے تاروں سے نکلا ہوا ایک نالہ مستانہ سمجھنا چاہیے۔ پہلی قسم فکر پر اور دوسری ذکر پر مبنی ہے، (اے بیٹے) خدا ایسا کرے کہ تو ان دونوں کا وارث بن جائے، میں ایک نہر ہوں جو ان دونوں سمندروں سے مل کر نکلتی ہے۔ میں نے ان دونوں کو الگ الگ بھی کیا ہے پھر خود ہی ان سمندروں کو ملا بھی دیا ہے (میرا فلسفہ اور میری شاعری دونوں میری شخصیت میں مدغم ہو گئی ہیں) چونکہ میرے زمانہ کا مزاج دوسری طرح کا تھا اس لیے میری طبیعت نے بھی دوسرے ہی انداز میں ہنگامہ برپا کیا ہے۔

××××××​

 

آج کے نوجوان تشنہ لب ہیں، ان کے دل کا پیالہ شراب عشق سے خالی ہے، چہرے دھلے دھلائے، صاف ستھرے (فیشن کے دل دادہ) مگر جان اندھیروں میں گھری ہوئی ہے، (ایمان کی شمع فروزاں گل ہو چکی ہے)، (بس علوم مغربی سے) دماغ روشن ہیں، نہ (زندگی کے مسائل پر) ان کی نظر ہے، نہ (حقائق کے متعلق انہیں) یقین حاصل ہے، نہ (مستقبل کے بارے میں انہیں کچھ) امید ہے، انہوں نے دنیا میں آنکھ کھول کر کسی چیز کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ ان نا اہلوں کی حالت یہ ہے کہ اپنی خودی سے تو انکار کرتے ہیں اور غیروں پر ایمان لائے ہوئے ہیں (جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ) بت خانہ تعمیر کرنے والا معمار ان کی مٹی سے بنی ہوئی اینٹوں کو اپنی عمارت میں لگا رہا ہے (اغیار اپنی ترقی کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں) ہماری درسگاہوں کو (جن میں یہ نوجوان تعلیم پاتے ہیں) اپنی منزل مقصود ہی کا پتا نہیں اور ان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچنے (اور حقیقی مقصد کی طرف انہیں) متوجہ کرنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا۔ ان درسگاہوں نے نوجوانوں کے دلوں سے فطرت کے نور کو بالکل دھو دیا ہے، ان میں سے ایک طالبعلم بھی ایسا نہیں نکلا جسے (گلشن اسلام کا) گل رعنا کہا جا سکے۔ ہمارا معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دیتا ہے، ہمارے معلمین ابتدا ہی سے شاہین کے بچوں میں بطخوں کی عادتیں پیدا کرتے ہیں۔ علم جب تک زندگی سے سوز و ساز حاصل نہ کرے، اس وقت تک طالب علم کا دل اپنے افکار سے لذت اندوز نہیں ہو سکتا۔ تجھے اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے جو مدارج عالیہ عطا کیے گئے ہیں ان کی تشریح و تفصیل ہی کا نام علم ہے، فطرت کی جو نشانیاں تجھے دی گئی ہیں علم ان کی تفسیر کے سوا اور کیا ہے؟ تجھے پہلے اپنے وجود کو محسوسات کی آگ میں تپانا چاہیے اس کے بعد کہیں تو یہ سمجھ سکے گا کہ تیری چاندی (اسلامی تہذیب) اور غیروں کے تانبے (مغربی تہذیب) میں کیا فرق ہے۔ حقیقت کا علم سب سے پہلے حواس ظاہری کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے اور اس کا آخری درجہ حضور قلب سے میسر آتا ہے، معرفت حق کا یہ اعلیٰ مقام شعور میں نہیں سما سکتا، اس سے ماورا ہوتا ہے۔

××××××​

 

سو کتابیں ماہرین علوم و فنون سے پڑھنے کے بعد تجھے جو علم حاصل ہوگا، اس سے وہ سبق بہتر ہے جو کسی بزرگ کے فیضان صحبت سے لیا جائے، بزرگوں کی نظر سے جو شراب ٹپکتی ہے اس سے ہر شخص اپنے مخصوص انداز میں مست و سرشار ہوتا ہے۔ صبح کی ہوا جب چلتی ہے تو چراغ گل ہو جاتا ہے مگر اسی ہوا سے لالہ اپنے پیالے میں شراب انڈیل دیتا ہے۔ (سرخ ہو کر دمکنے لگتا ہے)،(اگر اہل نظر کی ہدایت چاہتا ہے تو) کم کھا، کم سو اور بولنا بھی کم کر دے، پرکار کی طرح خود اپنی شخصیت کے گرد چکر کاٹتا رہ (تمام تر توجہ اپنی خودی پر مبذول کر دے) ملا کے نزدیک خدا کا منکر کافر ہے اور میرے نزدیک جو اپنی خودی کا منکر ہو زیادہ بڑا کافر ہے۔ خدا کے وجود سے انکار کرنے والا تو صرف حد درجہ جلد بازی کا مجرم ٹھہرے گا مگر جس نے خودی سے انکار کر دیا وہ تو حد درجہ جلد باز بھی ہے اور بڑا ظالم اور بڑا جاہل بھی۔ اخلاص کا طریقہ بڑی مضبوطی سے اختیار کر، بادشاہوں اور امیروں کا خوف دل سے نکال دے، قہر ہو یا رضا، دونوں صورتوں میں عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ مفلسی اور امیری، دونوں حالتوں میں اعتدال پر قائم رہ۔ اگر کسی حکم کی تعمیل مشکل ہے تو اس کے لیے تاویلیں تلاش نہ کر، اپنے ضمیر کی روشنی کے سوا کسی اور قندیل کی روشنی کا جویا نہ ہو، جانوں کا تحفظ مسلسل و بے حساب ذکر و فکر سے کام لیا جائے، زمین و آسمان پر حکومت کرنے کی بس یہی صورت ہے کہ جان اور جسم کی حفاظت مذکورہ بالا اصول پر کی جائے۔ سفر کا مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ گھومنے پھرنے کی لذت حاصل ہو، اگر تیری نظر اڑتے وقت بھی اپنے آشیانہ پر لگی ہوئی ہے تو پرواز ہی کیوں کرتا ہے؟ (سکون چاہتا ہے تو ترقی کا نام نہ لے) چاند اس لیے گردش میں ہے کہ اپنا مقام حاصل کر لے (ہلال سے بدر ہو جائے) مگر آدمی کے سفر کی منزل مقصود تو یہی ہے کہ وہ برابر چلتا رہے (ایک مقام سے دوسرے مقام کا سلسلہ لامتناہی جاری رہے) پرواز میں جو لذت ہے اسی کا نام زندگی ہے، کسی آشیانے میں قیام کرکے بیٹھ جانا انسان کی فطرت کے لیے سازگار نہیں، کووں اور گدھوں کا رزق قبروں کے اندر ہوتا ہے مگر بازوں کا رزق چاند اور سورج کی فضاؤں میں ہے۔

××××××

دین کا راز اسی میں ہے کہ آدمی سچ بولے، حلال روزی کھائے اور خلوت میں ہو یا جلوت میں ہر وقت جمال حقیقی کا نظارہ کرتا رہے۔ (اے بیٹے) دین کے راستہ میں ہیرے کی طرح سخت ہو کر زندگی بسر کر، دل کا رشتہ خدا کے ساتھ باندھ لے، پھر بے خوف و خطر جیے جا، دین کے رازوں میں سے ایک راز تجھے بتاتا ہوں (گجرات کے بادشاہ سلطان) مظفر کی داستان سن۔ وہ پرہیز گاری میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا، ایسا بادشاہ تھا کہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے مرتبہ پر پہنچا ہوا تھا۔ اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو اسے بیٹوں کی طرح عزیز تھا اور لڑائی میں مالک کی طرح سختی اور محنت برداشت کرنے کا عادی تھا۔ یہ گھوڑا عربی نسل سے تھا۔ اصیل اور سبزہ رنگ، وفادار اور بے عیب، اس کے حسب نسب میں کہیں کھوٹ نہیں تھی۔ اے نکتہ رس! مومن کے لیے قرآن، تلوار اور گھوڑے کے سوا دوسری کیا چیز عزیز ہو سکتی ہے؟ وہ گھوڑا جو اچھے اور اصیل گھوڑوں میں بہترین تھا، اس کی تعریف میں کیا بیان کروں، وہ پہاڑوں اور دریاؤں پر اڑا چلا جاتا تھا۔ لڑائی کے وقت وہ گھوڑا تیز و تند ہوا کی طرح، نظر سے بھی زیادہ مستعدی کے ساتھ، پہاڑوں کی بلندی اور اطراف و جوانب میں چکر کاٹتا تھا، اس کے قدموں میں قیامت کے فتنے پوشیدہ تھے اور اس کے سموں کی چوٹ سے پتھر پاش پاش ہو جاتے تھے۔ وہ چوپایہ جو انسانوں کی طرح ذی عزت تھا، اس کے پیٹ میں ایک دن درد اٹھا جس کی وجہ سے وہ کمزور و غمگین ہو گیا، ایک سلوتری نے اس کا علاج شراب سے کیا اور بادشاہ کے گھوڑے کو تکلیف سے نجات دلا دی۔ اس کے بعد بادشاہ نے اس اصیل گھوڑے کو کبھی اپنی سواری کے لیے طلب نہ کیا، متقی و پرہیزگار لوگوں کی شریعت ہم جیسے عام لوگوں کی شریعت سے مختلف ہوتی ہے (بیٹے!) خدا تجھے قلب و جگر کی باطنی کیفیتیں عطا کرے! دیکھ ایک مرد مسلمان نے خدا کی اطاعت کا حق کس طرح ادا کیا۔

××××××​

 

دین یہی ہے کہ حق کی طلب و جستجو کے لیے اپنے وجود کو جدوجہد کی آگ میں جھونک دیا جائے، دین کا آغاز ادب سے ہوتا ہے اور اس کی انتہا عشق ہے، پھول کی عزت و آبرو اس کے رنگ اور اس کی خوشبو کے باعث ہے۔ جس کسی میں ادب نہیں وہ بے رنگ و بو ہے، اس لیے اس کی کوئی آبرو نہیں، جب کسی نوجوان کو بے ادب دیکھتا ہوں تو میری یہ حالت ہو جاتی ہے جیسے میرا دن، رات کی طرح تاریک ہو گیا ہو، میرے سینہ میں تپش بڑھ جاتی ہے اور میرے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ میں اپنے زمانے میں پشیمان ہو کر گزرے ہوئے زمانوں میں روپوش ہو جاتا ہوں (اسلام کا معیار ادب یہ تھا کہ) عورت کا ستر اس کا شوہر ہے یا قبر کی مٹی اسے چھپا سکتی ہے اور مرد کا ستر یہ ہے کہ وہ برے دوست کی صحبت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ کافر اور مومن دونوں خدا کی مخلوق ہیں، کسی کے لیے بری بات زبان سے نکالنا گناہ ہے۔ آدمیت یہی ہے کہ ہر آدمی کا احترام بحیثیت آدمی ہونے کے کیا جائے، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ آدمی کا مقام کس قدر بلند ہے (تمام مخلوقات سے اشرف ہے) آدمیت کا دارومدار اسی پر ہے کہ ہر فرد کا ربط و ضبط قائم رہے۔ اس لیے تجھے چاہیے کہ دوستی کا طریقہ اختیار کرے، جو شخص عشق کا بندہ ہو جاتا ہے وہ اپنا راستہ خدا کے احکام سے حاصل کرتا ہے اور خدا کے پیدا کیے ہوئے مومنوں اور کافروں کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے۔ تو کفر اور دین دونوں کو اپنے دل کی پنہائی میں سمیٹ لے، دل اگر دل ہی سے گریز کرنے لگے تو اس کی حالت قابل افسوس ہے، اگرچہ دل مٹی اور پانی کے قید خانہ میں بند ہے، (جسم کے اندر محدود ہے) مگر ساری کائنات دل ہی کی کائنات ہے۔

××××××​

 

اگرچہ تو گاؤں کے مالکوں میں سے ہو جائے لیکن فقر (قناعت و رضا جوئی) کی زندگی اختیار کر اور اسے کبھی ہاتھ سے نہ دے۔ خدا کا عشق، تیری جان کے اندر خوابیدہ ہے، یہ پرانی شراب تجھے آباء و اجداد سے ورثہ میں ملی ہے۔ دنیا میں درد دل (عشق حقیقی) کے سوا اور کوئی ساز و سامان طلب نہ کر، جو نعمت تجھے چاہیے وہ خدا سے مانگ، حکمرانوں سے نہ مانگ، بہت سے حق شناس اور بصیرت رکھنے والے لوگ نعمتوں کی کثرت یعنی دولت و ثروت کی بہتات کے باعث اندھے ہو جاتے ہیں۔ دولست کی کثرت دل کا سوز و گداز اڑا لیتی ہے، غرور پیدا کرتی ہے اور نیاز مندی کا جذبہ مٹا دیتی ہے۔ میں نے سالہا سال دنیا کی سیر کی ہے مگر مجھے امیروں کی آنکھوں میں آنسو بہت کم نظر آئے ہیں (دولت مند اکثر رقت قلب سے محروم ہوتے ہیں) میں اس کے قربان جس نے اپنی زندگی درویش صفت گزاری، جو شخص خدا سے بیگانہ ہو کر جیا اس کے جینے پر ہزار افسوس ہے۔

××××××​

 

اب مسلمانوں میں بھی وہ پہلے کا سا ذوق و شوق، وہ یقین اور ادب و عشق تلاش نہ کر۔ اب جو لوگ عالمان دین کہلاتے ہیں وہ قرآن کی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں اور جنہیں صوفی سمجھا جاتا ہے وہ پھاڑ کھانے والے بھیڑئیے ہیں جن کے بال بڑھے ہوئے ہیں، اگرچہ خانقاہوں کے اندر ہائے و ہو کا شور بہت مچا ہوا ہے مگر وہ کون سا جواں مرد ہے جس کے تونبے میں شراب معرفت نظر آتی ہو۔ وہ مغرب زدہ مسلمان بھی، جو ہر مسئلہ میں یورپ کی طرف رجوع کرتے ہیں، سراب میں چشمہ کوثر تلاش کرتے ہیں۔ یہ سب کے سب دین کے رازوں سے بے خبر ہیں اور کینہ پروری کے سوا انہیں کوئی اور کام نہیں۔ مسلمانوں کے طبقہ خواص (مقتدر و تعلیم یافتہ حضرات) پر خیر و خوبی حرام ہو چکی ہے، صدق و صفا اگر کہیں باقی ہے تو وہ صرف عوام میں ہے۔ تو دین داروں اور کینہ پروروں کی امتیازی خصوصیات کو دیکھ اور جو کوئی حق پر چلنے والا ہو اسے تلاش کر، اسی کی صحبت اختیار کر، گِدھوں کے اڑنے جھپٹنے کے طور طریقے کچھ اور ہوتے ہیں اور شاہین کی سطوت پرواز کا عالم کچھ اور ہوتا ہے (گِدھ اہل کین سے مشابہ ہے اور شاہین اہل دین سے)۔

××××××​

 

مرد حق آسمان سے بجلی کی طرح گرتا ہے اور مشرق و مغرب کے شہروں اور جنگلوں میں باطل کا جو طومار ہوتا ہے وہ سب اس کی آگ کا ایندھن بن جاتا ہے۔ ہم ابھی تک کائنات کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور "مرد حق” کائنات کے انتظام و اہتمام میں شریک کار بنا ہوا ہے۔ مرد حق کلیم (حضرت موسیٰ علیہ السلام)، مسیح (حضرت عیسیٰ علیہ السلام)، خلیل (حضرت ابراہیم علیہ السلام)، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)، قرآن اور جبرائیل کا وظیفہ ادا کرتا ہے۔ مرد حق، اہل دل کی کائنات کا آفتاب ہوتا ہے، اسی کی تنویر سے ان کی زندگی قائم رہتی ہے۔ ( اس کا طریق کار یہ ہے کہ) وہ پہلے تجھے اپنی آگ میں تپاتا ہے (تیرے کردار کو فطرت کے سانچے میں ڈھالتا ہے) پھر تجھے حکمرانی کے طریقے سکھاتا ہے۔ ہم سب اسی کے دئیے ہوئے سوز عشق سے اہل دل بن گئے ہیں ورنہ (ہماری کیا حقیقت ہے) ہم سب مٹی اور پانی سے بنے ہوئے نقوش باطل ہیں (بیٹے) میں اس زمانے سے ڈرتا ہوں جس میں تو پیدا ہوا ہے، (اس زمانے کے لوگ) جسم (کے عادی احساسات) میں غرق ہیں اور جان (کیفیات عشق) سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں، جب جانوں کا قحط پڑ جاتا ہے (روحانیت کم ہو جاتی ہے) اور بدن ارزاں ہو جاتے ہیں (مادیت بڑھ جاتی ہے) تو "مرد حق” خود اپنے اندر چھپ جاتا ہے۔ پھر جستجو سے بھی وہ "مرد حق” نہیں ملتا۔ نظر کے سامنے ہوتا ہے مگر دکھائی نہیں دیتا۔ (قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر معانی سے ذہن نا آشنا رہتا ہے) مگر تو ذوق طلب ہاتھ سے نہ دے خواہ تیرے کام میں سینکڑوں دشواریاں کیوں نہ پیش آئیں۔ اگر تجھے کسی مرد باخبر کی صحبت نصیب نہ ہو تو میرے پاس آباء اجداد کے ورثہ میں سے جو کچھ ہے اسی کو حاصل کر لے۔ اس راہ میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا رفیق سفر بنا لے تاکہ ان کے وسیلے سے خدا تجھے سوز و گداز کی نعمت عطا کر دے، (مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ کر) کیونکہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ مغز اور چھلکے میں امتیاز کر سکتے ہیں، راہ حق میں ان کا جو قدم پڑتا ہے بڑا محکم پڑتا ہے (وہ اس کوچہ سے خوب واقف ہیں) مثنوی کی شرح کرنے والے تو بہت سے ہیں مگر اس کے حقیقی معنی ہماری گرفت سے نکل گئے۔ مولانا کی مثنوی سے (ان کے مریدوں نے) جسمانی رقص سیکھ لیا، رقص جاں (سرور عشق) کی طرف سے انہوں نے آنکھیں بند کرلیں۔ بدن کا رقص تو صرف مٹی کو گردش میں لاتا ہے مگر جان کا رقص افلاک کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ علم و حکمت کے خزانے اور دنیا پر حکمرانی کے طریقے رقص جاں ہی سے حاصل ہوتے ہیں، اسی سے زمین و آسمان ہاتھ آتے ہیں، رقص جاں کے ذریعہ، فرد، جذب کلیم اللہ حاصل کر لیتا ہے اور قوم، ایک عظیم ملک کی وارث بن جاتی ہے۔ مگر رقص جاں کو سیکھنا بڑا کٹھن کام ہے، حق کے سوا جو کچھ ہے، اسے جا کر پھونک دینا (خواہشات باطل کو ترک کر دینا)، کوئی آسان بات نہیں۔ اے بیٹے! جب تک تیرا جگر حرص دنیا اور غم ماسوا کی آگ میں جلتا رہے گا اس وقت تک جان رقص میں نہیں آئے گی، دنیا کی فکر میں ہر وقت لگے رہنا اور اسی کا غم کرنا، ایمان کی کمزوری اور دل کی بیماری کا باعث ہوتا ہے، اے نوجوان! غم آدھا بڑھاپا ہے، کیا تو یہ جانتا ہے کہ حرص ایک ایسا افلاس ہے جو ہر وقت موجود رہتا ہے؟ (حریص کبھی مطمئن نہیں ہوتا) میں تو اس کا غلام ہوں جو اپنی خواہشات پر قابو رکھتا ہے۔ (بیٹا) تیرا وجود میری جان بے قرار کے لیے موجب تسکین ہے، کاش تجھے بھی رقص جاں سے کوئی حصہ مل جائے تو میں تجھے دین مصطفٰی ﷺ کا راز بتا دوں گا اور قبر کے اندر بھی تیرے لیے دعا کروں گا۔​

 

                   شاہجہاں کا اورنگ زیب کو ملاقات کے لیے قلعے میں طلب کرنا

 

فرزند برخوردار و خوش نصیب!

وہ مالک الملک، جس کی شان بہت بلند ہے اور جس کی مملکت تغیر و زوال سے محفوظ ہے تمہارے کوکب اقبال کو اسی طرح درخشاں رکھے، جیسے کہ شبستان دولت کو فروغ بخشنے والا اور سارے جہان کی تابانی کو چار چاند لگانے والا ستارہ روشن ہے۔

آسمان عجوبہ کار کی کج روی اور زمانہ شعبدہ باز کی ناسازگاری نے ہمیں خود اپنی آنکھوں سے ایک ایسی بات دکھائی ہے جو نہ تصور میں آتی ہے اور نہ عقل اسے کسی طرح قبول کرتی ہے۔ اے فرزند اقبال مند و بلند بخت! تم نے فرزندی کے رشتہ الفت کو دفعتاً کاٹ دیا ہے اور سینہ اقدس میں جو آتش شوق بھڑک کر شعلہ بن رہی ہے، اسے نظر انداز کر دیا ہے، پدرانہ حقوق اور عمر بھر کی تربیت سے آنکھیں بند کر لی ہیں اور ہمیں اپنا دشمن قرار دے کر اذیت و تکلیف پہنچانا سہل اور آسان سمجھ لیا ہے۔ قیامت کے دن کی باز پرس سے غافل و بے خبر ہو گئے ہو، لیکن اس دن، جب تمام اعمال کا حساب ہوگا، تو تم اس کا کیا جواب دو گے، کہ تمہیں ارتکاب حق شکنی کی جرات کیسے ہوئی؟

فرزند! تم جو دولت و بادشاہی کی آنکھ کا تارا ہو، تمہارے لیے مناسب یہی ہے کہ اپنی بہادری و فتح مندی پر مغرور نہ ہو اور سازگاری زمانہ و رفاقت روزگار پر بھروسا نہ کرو۔ یہ رنگا رنگ آسمان اور یہ دو رخی دنیا قطعاً لائق اعتماد نہیں اور اس بد عہد و پیمان زمانے سے کبھی وفا کی امید نہ رکھنی چاہیے۔

اس صورت میں عقل کا تقاضا یہ ہے کہ جو کام اس عالی شان خاندان کے اضمحلال و پراگندگی کا باعث ہو، اس کے ارتکاب سے پرہیز واجب سمجھا جائے اور ہماری اتنے سال کی سلطنت جس کی عظمت و شوکت اور تونگری و اقتدار کا ڈنکا چار دانگ عالم بج رہا تھا اور جس سے روئے زمین کے سارے فرمانروا دوستی کے خواہاں ہوتے تھے، اس کے ناموس کی حفاظت کے لیے کوشش کی جائے، تمہیں چاہیے کہ ان امیدوں کے مطابق عمل کرو جو لائق بیٹوں سے وابستہ کی جاتی ہیں تاکہ گلشن جاہ و جلال کے ایک ثمر نورستہ (نوجوان شاہزادے) کی نیک نامی اور قابلیت کا چرچا تمام دنیا میں قائم و دائم رہے۔

 

 

                مرزا غالب کا اپنے متبنیٰ اور اس کے بیٹوں سے اظہار شفقت و محبت

 

ذیل کا قطعہ کلیات غالب فارسی سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

"وہ اچھی خصلت والا جس کا نام عارف ہے، اس کا چہرہ میرے گھرانے کی شمع ہے۔ قلم، اس کا نام لکھنے کی مسرت سے میری انگلیوں کی پوروں میں رقص کرنے لگتا ہے۔

جو قرب کی مجلس اور انس کی خلوت میں میرا غم گسار اور مزاج داں ہے۔ میری کامرانی کے بازو میں زور اسی کے دم سے ہے اور وہی میری ناتواں روح کے لیے موجب راحت ہے۔

الفت و محبت میں علی پر جان و دل سے قربان ہے ایسا کیوں نہ ہو؟ کہ وہ تو میری جان ہے۔ میں تیرے رخ زیبا کا بہت زیادہ مشتاق ہوں کیونکہ یہ میرے باغ کا پھول ہے۔

میں تیرے قلم سے بھی خوش ہوں، بہت خوش کیونکہ یہ میرا پھل دینے والا پودا ہے۔ تو میرے کمال فن کے سرمایہ (کی اصل) کا نفع ہے تیرا کلام میرا بیش بہا خزانہ ہے۔

بجا ہے کہ تو اپنی ذات پر ناز کرے، کیونکہ تیرا ظہور میرے عہد میں ہوا۔ بجا ہے کہ میں اپنے اوپر ناز کروں، کیونکہ فلاں (عارف) شعر و ادب میں میرے نقش و قدم پر چلنے والوں میں ہے۔

یقین رکھ اگر تیرا کوئی مثل میرے گمان میں ہے تو وہ خود میرے سوا کوئی نہیں۔ تو ہمیشہ نامور رہ کہ دنیا میں تیرا کلام میری عمر جاوداں ہے۔

اردو جو میری زبان ہے اس تو ہی میرا وارث بنے گا۔ خالق موجودات کے عطا کر دو علم و حکمت میں سے جو کچھ میری ملک ہے وہ خدا کرے تیری ملک ہو جائے۔”

غالب کو عارف سے غایت درجہ محبت تھی مگر افسوس کہ اس کی عمر نے وفا نہ کی اور 1852ء میں عالم جوانی میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اس کا نوحہ غالب کے اردو دیوان میں موجود ہے۔

 

   مولانا حالی کی بیوی کی وفات پر بیٹے کو تلقین صبر

 

"برخوردار، سعادت آثار، طول عمرہٗ

بعد دعا کے واضح ہو کہ یہاں پندرہ بیس روز سے ہیضہ کی وبا پھیلی ہوئی ہے اور روز بروز زیادہ ہوتی جا رہی ہے چنانچہ پرسوں تمہاری والدہ کو دس بجے رات کے اس کا اثر ہوا اور کل نو بجے رات کے انتقال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اگرچہ اس حادثہ نا گہانی سے جو صدمہ سب عزیزوں، متعلقین، ہمسایوں اور راہ چلتوں کو ہوا ہے، اس کا بیان کرنا مشکل ہے اور میں سمجھتا ہوں ان کی اولاد کو سب سے زیادہ صدمہ ہوا ہے اور ہوگا مگر میری جان! والدین کا اولاد کے سامنے گزر جانا، والدین کی خوش نصیبی اور اولاد کا قدیم ورثہ ہے، خدا کا شکر ہے کہ تمہاری والدہ کی جیسی عمدہ زندگی اور عمدہ موت ہوئی ہے، اس کی ہر شخص کو تمنا ہونی چاہیے، انہوں نے سعادت مند اولاد چھوڑی ہے اور ان کو بفضلہ تعالیٰ اچھی حالت میں چھوڑا ہے۔ ایک زمانہ کو اپنا مدح و ثنا خواں اور شکر گزار چھوڑا ہے۔ وہ اپنی اصلی اور حقیقی نیکیوں کی ایک عمدہ مثال تھیں۔ انہوں نے ہر ادنیٰ و اعلیٰ کی خدمت گزاری سے مخدومیت کا درجہ حاصل کیا اور آخر وقت میں جب تک ان کو ہوش رہا برابر خدا کی یاد ان کے ورد زبان رہی، جس شخص کی ایسی عمدہ زندگی اور ایسی عمدہ موت ہے اس سے زیادہ اور کون خوش نصیب ہو سکتا ہے اور اس کی اولاد کے لیے اس سے زیادہ اور کیا فخر کی بات ہو سکتی ہے؟ پس ان تمام باتوں پر نظر کر کے، امید ہے کہ تم صبر اختیار کرو گے۔ زیادہ سوائے دعا اور صبر و شکر کی تاکید کے اور کیا لکھوں۔

راقم الطاف حسین از پانی پت​

 

                   دہلی کے ایک فلسفی ادیب کی بیٹے پر اپنی آخری تمنا کا اظہار

 

بیٹا!

میری ایک آرزو یہ ہے کہ کتب خانہ والا مکان تکلف سے آراستہ ہو جائے اور میں دن رات وہیں پڑا رہوں، تم اگر ساتھ چائے پینے آ جاؤ تو کیا کہنا مگر کوئی معمولی ذکر کسی کا نہ ہو۔ کھانا، جب بھوک لگے، پکا پکایا مل جائے اور کوئی لڑکی آ کر کھلا جائے، کوئی نایاب کتاب یا چیز نظر آئے تو مجھے اتنا مقدور ہو کہ فوراً خرید لوں، رات کو بے فکر سوؤں اور صبح کو خوش اٹھوں، کوئی مسئلہ فلاسفی کا جو سمجھ میں نہ آتا ہو اسے سمجھ لوں اور دوسروں کو سمجھا سکوں۔ دنیا کی جتنی کتابیں دل و دماغ کو خوش کر سکیں، سب میرے پاس ہوں، جاڑے میں انگیٹھی ہو اور گرمیوں میں برف، برسات میں کمرے کے اندر بیٹھا ہوں اور وہ ٹپکتا نہ ہو، رات کو جلانے کے واسطے خوب صورت موم بتی کی روشنی ہو اور جو کتاب مجھے پسند ہو وہ میرے سامنے ہو، تم اتنا سامان میرے لیے کر دو تو میں خوش مروں گا۔

 

                   طاہر بن حسین کا اپنے بیٹے عبداللہ کو ایک تاریخی مکتوب

 

میرے عزیز بیٹے!

میں سب سے اول تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہمیشہ خدا سے ڈرو، تم کو رات دن اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی مرضی پر چلو اور اس کے غصے سے ڈرتے اور کانپتے رہو، تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی رعیت کی نگہبانی اور حفاظت میں شب و روز سرگرم رہو، جو صحت اور تندرستی خدا نے تم کو عنایت کی ہے اس کو غنیمت سمجھو اور آخرت کو پیش نظر رکھو، یاد رکھو کہ ایک دن خدا کے حضور میں جاؤ گے اور تم سے تمہارے افعال کی نسبت سوال کیا جائے گا۔ اس لیے جو کام تم شروع کرو اسے اس طرح انجام دو کہ قیامت کے دن تم کو عذاب الہٰی میں مبتلا نہ ہونا پڑے۔

یاد رکھو کہ خدا نے تم پر احسان کیا ہے اور رعیت کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا تم پر واجب کیا ہے۔ تم خدا کے بندوں پر حکومت کرتے ہو، تم پر لازم ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کرو اور اس کا پورا پورا حق ادا کرو اور اس کی حدود سے سر مو تجاوز نہ کرو، ان کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرو، ملک میں امن و امان قائم رکھو اور اہل ملک میں عام راحت و آسودگی پھیلاؤ۔ خدا نے جو فرائض تمہارے ذمہ واجب کیے ہیں ان کے انجام دینے یا نہ دینے کی نسبت تم سے ایک ضرور باز پرس کی جائے گی اور تمہاری نیکیوں اور بدیوں کا موازنہ کیا جائے گا اور ان کا بدلہ دیا جائے گا، پس تم پر لازم ہے کہ اس بات کے سوچنے اور سمجھنے کے لیے اپنے دماغ پر زور دو اور عقل و فہم سے اچھی طرح کام لو، یہ وہ اصول ہے جس پر تمہاری زندگی کا دار و مدار ہونا چاہیے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تم کو اس اصول پر عمل کرنے کی توفیق دے اور تم اس پر عمل کرنا لازم جانو اور اپنے تمام کاموں کی بنیاد اس اصول پر رکھو۔

پانچ نمازیں جو خدا نے تم پر فرض کی ہیں، ان کو ٹھیک وقت پر اور جماعت کے ساتھ ادا کرو، وضو اور طہارت کے جو شرائط ہیں ان سب کو لحاظ رکھو، نماز میں جو سورتیں پڑھو، ان کو آہستگی اور ترتیل کے ساتھ ادا کرو، رکوع اور سجدہ کرنے میں کوئی گھبراہٹ نہیں ہونا چاہیے، غرض کہ نماز کے جتنے ارکان ہیں ان سب کو نہایت اطمینان سے انجام دو، جو لوگ تمہارے مصاحبوں اور ندیموں میں داخل ہوں، ان کو بھی اس بات کی ترغیب دو کہ وہ نماز با جماعت پڑھا کریں، نماز سے، جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے، نیکیوں کی تحریک ہوتی ہے اور انسان بدیوں اور گناہوں سے محفوظ رہتا ہے، تم پر بھی لازم ہے کہ رسول خدا ﷺ کی سنت کی پیروی کرو اور خلفائے راشدین و سلف صالحین کے طریقہ زندگی کو اختیار کرو۔ جب کوئی مشکل پیش آئے تو خدا سے دعا کرو وہ تمہیں اس کے حل کرنے کی توفیق دے اور وہ پہلو سمجھائے جو سراسر نیک ہو۔ پھر اس بات کو کوشش کرو کہ وہ کام ایسے طریقہ سے انجام دیا جائے جو خدا کے احکام اور رسول اللہ کی ہدایتوں اور نصیحتوں کے خلاف نہ ہو، اس کے بعد اس کام پر ہاتھ ڈالو اور انصاف کو کبھی اور کسی معاملہ میں ہاتھ سے نہ دو۔ ہر معاملہ کا جو تمہارے عزیزوں اور دوستوں سے تعلق رکھتا ہو، یا اجنبی لوگوں کے متعلق ہو، انصاف کے موافق فیصلہ کرو، اس کا بالکل خیال نہ کرو کہ تم اس فیصلے کو پسند کرتے ہو یا ناپسند کرتے ہو۔​

شریعت کے عالموں اور قرآن مجید پر عمل کرنے والوں کو سب لوگوں پر ترجیح دو اور ان کو اپنی صحبت میں شریک کرو، کیونکہ ایک انسان کے لیے جو چیز سب سے بڑھ کر مایہ ناز ہو سکتی ہے وہ دین داری اور خدا شناسی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو نیکیوں اور بھلائیوں کی ہدایت کرتی ہے اور مہلک برائیوں اور بدیوں سے باز رکھتی ہے۔ جب خدا کسی انسان کو نیکی کی توفیق دیتا ہے تو وہ خدا کی عظمت اور جلال کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہے اور آخر میں بلند ترین درجات پر پہنچنے کی تمنا کرتا ہے، اگر تم بھی اس ہدایت پر عمل کرو تو آخرت میں روحانی ترقی تم کو نصیب ہوگی۔ دنیا میں ہر شخص تمہارے ساتھ عزت و توقیر سے پیش آئے گا، تمہارا رعب اہل دنیا پر طاری ہوگا، وہ تمہارے ساتھ محبت و الفت سے پیش آئیں گے اور تمہارے انصاف پر بھروسہ کریں گے۔​

ہر ایک کام میں جس کو تم نے شروع کر دیا انجام دو، اعتدال کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دو اور ہمیشہ خیر الامور اوسطہا پر عمل کرو۔ افراط و تفریط سے بچنا اور ہر کام میں توسط اختیار کرنا ایسا عمدہ طریقہ ہے کہ اس سے زیادہ مفید اور عمدہ اور اطمینان بخش کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اعتدال ہدایت کی طرف رہبری کرتا ہے اور ہدایت اس بات کی دلیل ہے کہ خدا نے خوش قسمتی اور کامیابی کا منظر اس شخص کی آنکھوں کے سامنے پیش کیا ہے جو ہدایت کے طریقے پر چلتا ہے۔ اعتدال پر ہی مذہب کا دار و مدار ہے اور شریعت بار بار اسی کی تاکید کرتی ہے، تم بھی دنیا میں اعتدال و توسط اختیار کرو۔​

عزیز بیٹے! تم ہمیشہ آخرت کی طلب میں رہو اور نیک کام کرنے میں ہمیشہ آمادگی ظاہر کرو اور یاد رکھو کہ نیکی میں کوشش کرنے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ نیکی کرنے سے کوئی مقصد اس کے سوا نہیں ہے کہ تم خدا کی خوشنودی حاصل کرو اور آخرت میں خدا کے دوستوں اور ا س کے نیک اور مقبول بندوں کا قرب تم کو حاصل ہو۔ اگر تم اعتدال اور توسط اختیار کرو گے تو دنیا میں تمہاری عزت ہوگی اور تم گناہوں اور بدیوں سے بچو گے، اس سے بہتر کوئی اور طریقہ ایسا نہیں ہے جس سے انسان کے تمام کام درست ہوں، پس تم کو بھی اسی طریقہ پر چلنا چاہیے تاکہ تمہارے سب کام درست ہوں اور تمہاری عزت و وقعت لوگوں کی نگاہوں میں زیادہ ہو۔​

خدا کی نسبت تم ہمیشہ نیک گمان رکھو، تمہاری رعیت بھی ہمیشہ تمہاری نسبت نیک گمان رکھے گی۔ ہر کام میں خدا سے عجز و نیاز کے ساتھ التجا کرنے کو اپنی کامیابی کا ذریعہ تصور کرو تاکہ ہمیشہ اس کی نعمتیں اور برکتیں تم پر نازل ہوں، ہر شخص کی نسبت جس کو تم کوئی کام سپرد کرو، نیک گمان کرو اور بغیر کسی معقول وجہ کے اس کے کام کی نسبت بدگمانی نہ کرو، تمہارا فرض یہ ہے کہ الزام لگانے سے پہلے ہر کام کا امتحان کرو اور اس کی حقیقت معلوم کرو، یہ میں نے اس لیے کہا کہ لوگوں کے متعلق بدگمانی کرنا اور اس پر بے جا طور سے الزام لگانا شریعت میں سخت گناہ ہے، پس تم اپنے دوستوں اور ملازموں کے ساتھ ہمیشہ حسن ظن سے پیش آؤ۔ بغیر تحقیق کے کبھی ان کے کاموں کی نسبت بدگمانی نہ کرو اور ان پر الزام نہ لگاؤ۔ دیکھنا شیطان تمہارے طریق زندگی میں کوئی رخنہ پائے، ورنہ وہ تمہاری ادنیٰ کمزوری کو بھی کافی سمجھے گا اور تم کو بدگمانی میں ڈال کر غم میں مبتلا کر دے گا اور تمہارے عیش کو مکدر اور تمہاری زندگی کو تیرہ تار کر ڈالے گا۔ خوب سمجھ لو کہ حسن ظن سے ایک عجیب طاقت و راحت انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر تم لوگوں کی نسبت نیک گمان رکھو گے تو تمہاری تمام خواہشیں پوری ہوں گی اور سب کام درست رہیں گے اور لوگ تم سے محبت کریں گے مگر یہ بھی خیال رہے کہ اگر محض حسن ظن پر بھروسا کرو گے اور اپنے ملازموں کے ساتھ حد سے زیادہ مروت اور مہربانی سے پیش آؤ گے اور ان سے باز پرس نہیں کرو گے اور اپنے کاموں پر نظر نہیں رکھو گے تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ تمہارے ہر انتظام میں خلل آ جائے گا اور تمہارا ہر کام درست نہیں ہوگا، تمہارا فرض ہے کہ اپنے ماتحتوں اور ملازموں کے کاموں پر نظر رکھنے اور رعیت کے باب میں احتیاط کرنے اور ان کی اصلاح و بہبود پر متوجہ ہونے اور ان کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پیش نظر رکھنے کو سب کاموں سے زیادہ مقدم سمجھو، یہ وہ طریق ہے جس سے دین قائم رہتا ہے اور سنت نبوی ﷺ زندہ ہوتی ہے، جب تم اس طریقہ پر عمل کرو تو اپنی نیت کو ہر حال میں خالص رکھنا۔​

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%DB%81%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%AF%D8%A7%D9%86%D8%B4%D9%85%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%D8%B1%DB%8C%DA%BA.51210/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید