FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

چُنیدہ

 

حصّہ ہفتم

 

                مظفرؔ حنفی

 

 

 

 

 

 

میاں یہی ہے نظامِ ہستی ، چلو یہاں سے

وگر نہ رونا پڑے گا حنفی ، چلو یہاں سے

 

یہی تو ہونا ہے ایک بے نور صبح ہو گی

پھر ایک بے کیف شام ہو گی ، چلو یہاں سے

 

اب اور کب تک منافقوں سے ، منافقت میں

بہت ہوا اب اُچٹ گیا جی ، چلو یہاں سے

 

نہیں تو کیوں بال و پر لرزتے ہیں بے ارادہ

گرایا جائے گا یہ شجر بھی ، چلو یہاں سے

 

ہَوا چلی ہے ہرے درختوں سے دُشمنی کی

ہمیں بھی آلے گی سُرخ آندھی ، چلو یہاں سے

 

نہ جانے کب آئے ، اُن کی راحت کا کیا بھروسا

گلے گلے آ چکا ہے پانی ، چلو یہاں سے

 

یہاں کسی سے چھپا نہیں جس طرح گزاری

وہاں کہیں گے کہ خوب گزری ، چلو یہاں سے

٭٭٭

 

 

 

 

میرے سچ کا تری خودرائی بُرا مانتی ہے

تجھ کو دُنیا بھی مرے بھائی بُرا مانتی ہے

 

کھڑکیاں کھولیں تو در آتا ہے سیلابِ صدا

بند کیسے کریں پُروائی بُرا مانتی ہے

 

لائقِ دید ہے حالت مرے غم خانے کی

چاندنی چھٹکے تو انگنائی بُرا مانتی ہے

 

یوں تو جلوے نظر آتے ہیں ترے ہر شے میں

آئینہ بندی کو یکتائی بُرا مانتی ہے

 

ماند پڑ جائیں گی یادیں جو بچا رکھّی ہیں

رونا ممکن نہیں ، تنہائی بُرا مانتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

راستے نکلے مگر مفقود ہونے کے لیے

ہم سفر کرتے رہے نابود ہونے کے لیے

 

اسمِ اعظم اُس کا لوحِ دل پہ کندہ ہے تو ٹھیک

ورنہ ساری کاوِشیں بے سُود ہونے کے لیے

 

ہم سبھی کو اُس نے بال و پر عطا فرمائے ہیں

آسمانوں کے تلے محدود ہونے کے لیے

 

چاہتا ہوں ان میں اپنے واسطے کچھ اِلتفات

اُس کی آنکھیں ہیں خمار آلود ہونے کے لیے

 

اور پھر اِک روز اس نے بھی کنارا کر لیا

میری ہر تنہائی میں موجود ہونے کے لیے

 

میرؔ کو پڑھیے اگر بنجر میں نم درکار ہو

میری غزلیں موم سے بارود ہونے کے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ چمک زخم سر سے آئی ہے

یا ترے سنگِ در سے آئی ہے

 

رنگ جتنے ہیں اس گلی کے ہیں

ساری خوشبُو ادھر سے آئی ہے

 

سانس لینے دو کچھ ہَوا کو بھی

تھکی ماندی سفر سے آئی ہے

 

دینا ہو گا خراجِ ظلمت کو

روشنی سب کے گھر سے آئی ہے

 

نیند کو لوٹ کر نہیں آنا

روٹھ کر چشمِ تر سے آئی ہے

 

آپ کو کیا خبر کہ شعروں میں

سادگی کس ہنر سے آئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب روز یہی ہونا ہے ماتم نہ کرو تم

مقتول سب اپنے ہیں میاں غم نہ کرو تم

 

مرنے کی دُعا مانگنے والوں سے تو پوچھو

جینے کا ابھی عزمِ مصمّم نہ کرو تم

 

نم آنکھوں سے کیا دیکھ رہے ہو مری حالت

از راہِ کرم آگ مری کم نہ کرو تم

 

جو پھول تر و تازہ ہیں نہلاؤ انھیں کو

کانٹوں کو عطا قطرۂ شبنم نہ کرو تم

 

دنیا سے جو ملنا تھا وہ سب مل ہی چکا ہے

کیوں دِین کو دنیا پہ مقدّم نہ کرو تم

 

سرتابہ قدم زرد نہیں ہو گے مظفرؔ

شعروں کو اگر خون فراہم نہ کرو تم

٭٭٭

 

 

 

 

 

گِرَہ باز جو تھا وہ پربند ہے

زمانے میں کارِ ہُنر بند ہے

 

لہو کے نشانے پہ ہوں اِن دِنوں

کئی دن سے میری شکر بند ہے

 

تمھارے سِوا کچھ نہیں سُوجھتا

کچھ ایسی مری چشمِ تربند ہے

 

عدو اپنے شہہ کو گھماتے رہیں

ہمارے پیادے کا گھر بند ہے

 

مہینوں سے اخبار دیکھا نہیں

کھلا ہے کہ توبہ کا دربند ہے

 

جُدائی کی شب اور اُس کا خیال

پیالی میں کہرا نظر بند ہے

 

مظفرؔ کئی شاعروں کے تئیں

غزل شاعری کا کمربند ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ ہٹتے تھے کنارے سے نہ دریا پار کرتے تھے

مگر ہر بلبلے ہر موج سے تکرار کرتے تھے

 

نہ جانے کیوں مرا گھر جل رہا ہے اور وہ خوش ہیں

یہی ہمسائے کل تک مجھ سے بے حد پیار کرتے تھے

 

دِلوں میں چور سا تھا کچھ کہ آدم خورسا تھا کچھ

نہ وہ اِظہار کرتے تھے نہ ہم اِظہار کرتے تھے

 

جھلستی ریت میں زندہ گڑے ہو کیا ہُوا تم کو

تمھارے ہاتھ پر بیعت کبھی منجدھار کرتے تھے

 

ہماری راہ میں دیوار کی مانند حائل ہیں

وہ جن کے واسطے ہم راستے ہموار کرتے تھے

 

گھنے چھتنار پیڑوں کے لیے مشہور جنگل میں

ذراسی چھاؤں پر پتیّ بہت پیکار کرتے تھے

 

مظفرؔ کیا ہوئے وہ لوگ ، دنیا اُن کے دم سے تھی

جنھیں حاصل نہ تھی قدرت مگر اِیثار کرتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

پیار شبنم کی بوندیں جتاتی رہیں

نیم کی پتّیاں تلملاتی رہیں

 

سچ کی آواز تو گھونٹ دی آپ نے

عمر بھر کان میں چیخیں آتی رہیں

 

ساری چھوٹی بڑی جھیلیں اپنی جگہ

آئنے سورجوں کو دکھاتی رہیں

 

لوگ جھوٹوں پہ موتی لٹاتے رہے

کھوکھلی سیپیاں غم مناتی رہیں

 

ایک لڑکی کے ارمان لُٹتے رہے

اور سب لڑکیاں گیت گاتی رہیں

 

شرم سے ڈوبنے والا کوئی نہ تھا

سب نے دیکھا انھیں ، وہ نہاتی رہیں

 

کیوں مظفرؔ نہیں سو سکے رات بھر

کس کی یادیں تمھیں گدگداتی رہیں

٭٭٭

 

 

 

 

وہ مہرباں ہوا تو فضا ہی بدل گئی

صحرائے جاں کی آب و ہوا ہی بدل گئی

 

دریا تو بہہ رہا ہے اُسی آن بان سے

کشتی میں آ کے موجِ بلا ہی بدل گئی

 

محسوس کیجیے تو بڑی بات ہے میاں

منزل ملی تو بانگِ درا ہی بدل گئی

 

محفل میں جاں نثار کوئی ایک بھی نہیں

تیری نگاہ و طرزِ ادا ہی بدل گئی

 

چٹکی کوئی کلی نہ کہیں تتلیاں اُڑیں

یہ رت کِھلے کِھلائے بِنا ہی بدل گئی

٭٭٭

 

 

 

 

زخموں کا عالم انگوری جیسا کچھ

اور نمک اپنی مجبوری جیسا کچھ

 

نافہ وافہ میرے اندر خاک نہیں

مہکا کرتا ہے کستوری جیسا کچھ

 

اب تو تم بھی یاد بہت کم آتے ہو

جینا لگتا ہے مزدوری جیسا کچھ

 

مرتے دم تک دوزخ اُس کے ساتھ رہی

اُس خاکی میں تھا تو نوری جیسا کچھ

 

سوزِش بڑھ جائے گی میرے چھالوں کی

رکھتے ہیں مرہم کافوری جیسا کچھ

 

یوں تو اُس نے عرضی کر لی ہے منظور

لہجے میں ہے نا منظوری جیسا کچھ

 

کہتی ہے اِس بھُوکے بچیّ کی مسکان

دھیان میں آیا حلوہ پوری جیسا کچھ

 

اچھا اب ہم آنکھیں مُوندے لیتے ہیں

لگتا ہے پیغام ضروری جیسا کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

چراغ اپنے سنبھالو ہوا کی زد پر ہیں

میاں کمال تمھارے اَنا کی زد پر ہیں

 

بتایا چاؤ سے ٹھنڈی ہَوا نے کلیوں کو

کہ آپ لوگ سنانِ قضا کی زد پر ہیں

 

اب اُن کا مال ہی کیا جان بھی نہیں بچتی

وہ رہزنوں کی نہیں رہنما کی زد پر ہیں

 

زمین تنگ پڑی میرے پائے وحشت کو

تو اب خلائیں مرے نقشِ پاکی زد پر ہیں

 

لطیفہ یہ ہے کہ بجلی جنھیں جلا نہ سکی

وہ آشیانے نسیم و صبا کی زد پر ہیں

 

مدد ، مدد ، کوئی طوفان ، کوئی موجِ بلا

ہمیں بچاؤ کہ ہم ناخدا کی زد پر ہیں

 

اس عہدِ نوَ میں مظفرؔ ہمیں تو لگتا ہے

کہ ارتقا نہیں ، تحت الثرّیٰ کی زد پر ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

غم سمندر بیچ ہوں ، رَستا نکالے

کوئی خضر آئے ، کوئی موسیٰؑ نکالے

 

چاند ، تارے ، پھول ، تتلی ، اوس ، جگنو

راستے اظہار نے کیا کیا نکالے

 

دل سے اُس کی یاد کیسے محو کر دوں

کیوں انگوٹھی سے کوئی ہیرا نکالے

 

اُس کو بھی اِک دن نگل جائے گی دھرتی

عمر بھر دھرتی سے جو سونا نکالے

 

پوچھیے ہم سے کہ خشک آنکھوں سے اپنی

کیسے ریگستان سے دریا نکالے

 

درد کے رِشتے عداوت سے بڑے ہیں

آئے ، کانٹے سے کوئی کانٹا نکالے

 

لاج رکھ لی اِس طرح مظلومیت کی

سرکٹے تو ہم نے دو بارا نکالے

٭٭٭

 

 

 

 

ہمیں پتہ ہے خزینہ نہیں نکلنے کا

ترے بدن سے پسینہ نہیں نکلنے کا

 

بیاضیں اور کتابیں ہیں کام آئیں تو

ہمارے گھر سے دفینہ نہیں نکلنے کا

 

انھیں نہ چھیڑیو ، خوشبو اگر نہیں درکار

گلوں سے کوئی نگینہ نہیں نکلنے کا

 

تری مریض اَنا پستیوں میں اُترے گی

بلندیوں پہ یہ زینہ نہیں نکلنے کا

 

کوئی بھی صنفِ ادب ہو کسی زبان کی ہو

کہیں غزل سا قرینہ نہیں نکلنے کا

 

کنارا ہے یہ مظفرؔ نہیں کوئی گرداب

یہاں سے بچ کے سفینہ نہیں نکلنے کا

٭٭٭

 

 

 

 

ریت آنکھوں میں اتنی ہے کہ رو بھی نہیں سکتا

رونے کا اثر آپ پہ ہو بھی نہیں سکتا

 

یہ کہہ کے ستم گر نے مرے کاٹ دیے پاؤں

کانٹے تری راہوں میں تو بو بھی نہیں سکتا

 

سینے میں لگی آگ عطا کردہ ہے دن کی

بارود بھری رات میں سو بھی نہیں سکتا

 

بہتی رہے گنگا مِرا انعام یہی ہے

جو ہاتھ نہیں ہیں اُنھیں دھو بھی نہیں سکتا

 

جلنے کی قسم کھائی ہے مِٹّی کے دیے نے

تیز آندھی کا محکوم وہ ہو بھی نہیں سکتا

 

دھرتی کو پسینے کی یہ بوندیں ہی بہت ہیں

کھیتوں میں ستارے کوئی بو بھی نہیں سکتا

 

پیچیدہ ہیں اِس دور میں مضمون غزل کے

موتی سے کوئی میرؔ پرو بھی نہیں سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

ہزاروں میں سے کچھ شمعیں بجھا دی جائیں تو کیا ہے

مِیاں جی ! روشنی کا اُس طرف سے بھی تقاضا ہے

 

کہا پھر فون پر ماں سے کہ راوی عیش لکھتا ہے

سمندر پار میرا حال کیا ہے کس نے دیکھا ہے

 

اُجالے کے نمائندے نئی تاریخ لکھتے ہیں

جَلائی ہیں کچھ اتنی بستیاں ہرسُو اُجالا ہے

 

کیا ہے جس قدر محسوس اتنی گھٹ گئیں سانسیں

پڑھا جتنا زیادہ بوجھ اُتنا سرپہ رکھا ہے

 

ستارے ڈھالتے ہیں چاند سورج ہم بناتے ہیں

ہمارے گھر میں صدیوں سے اندھیرا ہی اندھیرا ہے

 

ترے لب کے ستائش گر ہیں یہ جگنو بھی تتلی بھی

شرر جگنو کے جھُوٹے ، تتلیوں کا رنگ کچّا ہے

 

مظفرؔ رَوند کر آگے نکل جاؤں گا اُس کو بھی

ترا شہرِ تمنّا کیوں مرے رَستے میں آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہم غریبوں پہ جتنے ستم ڈھائیں گے

ایک دن آپ کے سامنے آئیں گے

 

سازشیں کرنے والے مرے قتل کی

راہ میں پھول بھی پھینکتے جائیں گے

 

خون اتنا بہایا گیا ہے یہاں

اب کے بادل بھی انگارے برسائیں گے

 

آسمانوں پہ یلغار ہو گی کبھی

لوگ اپنے پہ کب تک ترس کھائیں گے

 

پتھروں کو نہیں آئینوں سے خطر

آئِنے کیسے پتھر سے ٹکرائیں گے

 

دل میں اتنی کدورت نہ پالا کرو

اگلی نسلوں کو منہ کیسے دکھلائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

قطرے خوں کے دیدۂ تر میں کرتے کیا

یہ باغی واوَیلا گھر میں کرتے کیا

 

جس غنچے کو دیکھا اُس کا دامن چاک

ہم بھی رہ کر بال و پَر میں کرتے کیا

 

چھت کے نیچے سر کیسے اُٹھ سکتے تھے

قیدی تھے دیوار و دَر میں کرتے کیا

 

جس بستی میں سب خوابوں کے دُشمن ہوں

تارے بو کر اُس بنجر میں کرتے کیا

 

باغ اُجاڑے ، فصلیں رَوندیں ، گرد اُڑائی

کچھ کرنا تھا ، اور سفر میں کرتے کیا

 

کاغذ پر کچھ پھُول کھلائے شعروں کے

چھالے میرے دستِ ہُنر میں کرتے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُس کی دہلیز پہ فردوس بریں اپنی تھی

سر اٹھایا تو نہ آنکھیں نہ جبیں اپنی تھی

 

یہ فلک بوس عمارت ہمیں پہچانے کیا

انھیں اطراف میں بنیاد کہیں اپنی تھی

 

آسماں ٹوٹ گیا ہاتھ بڑھائے جو ذرا

ٹوٹ کر جس پہ گرا ہے وہ زمیں اپنی تھی

 

خوش گمانی جو ہوئی چُور تو کیا دیکھتے ہیں

تر بتر خون میں دیوارِ یقیں اپنی تھی

 

چین اس کو بھی نہ آتا تھا مظفرؔ کے بغیر

وہ بگولا تھا جہاں ، خاک وہیں اپنی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

آ لگی ہیں داستانیں خاتمے پر

گنگ لفظوں کی زبانیں خاتمے پر

 

اولاً پرچم تلے تیروں کی بارش

چار سُو ٹوٹی کمانیں خاتمے پر

 

راستے میں خون کا دریا پڑا تھا

اور لرزیدہ چٹانیں خاتمے پر

 

روزِ اوّل کان میں پھونکی گئی تھیں

پھر سنائی دیں اذانیں خاتمے پر

 

سربسر بے سُود لگتی ہیں مظفرؔ

آسمانوں کی اُڑانیں خاتمے پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمیں چست و نادر قوافی ملے

مضامینِ تازہ بھی کافی ملے

 

ِپرو لیجیے اس کو اشعار میں

جہاں کوئی جذبہ اضافی ملے

 

مزے سے بھٹکتے رہے راہرو

انھیں راستے اختلافی ملے

 

ملے حامدیؔ کاشمیری ، مگر

وہ تنقید میں اِکتشافی ملے

 

بھروسہ کسی پر تو کرنا ہی تھا

سبھی راز داں اِنحرافی ملے

 

مرے یار کیا چاق و چوبند ہیں

کوئی موقعۂ موشگافی ملے

 

مزا دے رہا ہے نیا قافیہ

یہ کرنل معمّر قذافی ملے

 

بہت ہو چکی شاعری واعری

مظفرؔ میاں اب معافی ملے

٭٭٭

 

 

 

 

پھول کانٹے بِنا تو نکلتا نہیں

وہ عدُو سے جدا تو نکلتا نہیں

 

ہم بھی کرتے نہیں اب شجر کاریاں

کوئی پودا ہَرا تو نکلتا نہیں

 

مٹھیاں کھول کر تم نے اچھا کیا

ورنہ دُزدِ حنا تو نکلتا نہیں

 

دشت میں دھُول اُڑانے سے کیا فائدہ

آپ سے راستا تو نکلتا نہیں

 

کھینچ لیتے اگر خار ہوتا کوئی

دل کا یہ آبلہ تو نکلتا نہیں

 

شہریاری کا گُر اُس کو معلوم ہے

شہر میں کچھ ہُوا تو نکلتا نہیں

 

پھر یہ آہ و بکا ہر طرف کس لیے

گھر سے وہ دل ربا تو نکلتا نہیں

 

عمر ہی کھپ گئی راستے میں ترے

اب مرا نقشِ پا تو نکلتا نہیں

 

تازہ پرچوں میں غزلیں پڑھیں سیکڑوں

شعر کوئی نیا تو نکلتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سُنا ہے اُس طرف اِک وادیِ پر خار آتی ہے

ہماری آبلہ پائی سبک رفتار آتی ہے

 

معلّق ہو اگر کانٹے پہ کوئی قطرۂ شبنم

تو دل دریا میں طغیانی ہزاروں بار آتی ہے

 

پڑا ہے امن کا لشکر مرے دروازے کے باہر

کھلی کھڑکی سے گھر میں خون کی بوچھار آتی ہے

 

ستارے آنکھوں میں ، زخموں میں جگنو ٹمٹماتے ہیں

مرے ماتم کدے میں چاندنی بیکار آتی ہے

 

ہمیں اِتنی زیادہ مل گئی پندار کی دولت

کہ قسمت کا گلہ کرتے ہوئے بھی عار آتی ہے

 

چلیں اب اِس خرابے میں ہمارا جی نہیں لگتا

یہاں سایہ چرانے کے لیے دیوار آتی ہے

 

مظفرؔ ہم غزل کہتے ہیں اِک مخصوص لہجے میں

پرت پڑتی ہے معنی میں ، زباں پر دھار آتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تخریب کی جانب انھیں مائل نہ کیا جائے

خود داروں کو سنگینوں سے قائل نہ کیا جائے

 

اِک ایسی گزر گاہ بنے آنکھ سے دل تک

جس بیچ سمندر کوئی حائل نہ کیا جائے

 

کانٹے تو شگوفوں کی حفاظت کے لیے ہیں

کانٹوں سے کسی پھول کو گھائل نہ کیا جائے

 

سونے کا ملمع تو اُتر جائے گا خود ہی

غم نشّہ ہی ایسا ہے کہ زائل نہ کیا جائے

 

سچ ہے کہ گواہی کی ضرورت نہیں سچ کو

پابندِ براہین و دلائل نہ کیا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

(صوتی قافیوں میں )

 

یہاں تو جتنے برس گزارے عذاب یا احتیاط کے تھے

جو ہم سے کٹ کر نکل گئے ہیں وہ چار دن انبساط کے تھے

 

وہ فرشِ گل پر خرام فرما، یہ راہرو پل صراط کے تھے

وصال کے لاکھ دن برابر فراق کی ایک رات کے تھے

 

نفس کو اپنے ضعیف کرتا ، اَنا کو اپنا حریف کرتا

مگر اسے فکر ہی نہیں تھی کئی وسیلے نجات کے تھے

 

رقابتوں نے نقابیں چہروں پہ ڈال رکھی تھیں مصلحت کی

بندھی تھی مٹھی منافقت کی معاہدے اختلاط کے تھے

 

ہزار لوگوں سے دوستی کی نہ ہوسکی خود سے آشنائی

عجب عناصر خمیر میں تھے عجیب اسرار ذات کے تھے

 

تمام بکھری ہوئی ہے زردی ہَوا نے حالت خراب کر دی

یہاں بھی فصلیں خلوص کی تھیں وہاں بھی موسم نشاط کے تھے

 

لہو کی اِک بوند اے مظفرؔ تھمی ہوئی نوکِ خار پر تھی

ادھر فنا گھات میں لگی تھی ادھر تقاضے حیات کے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

اتنی نوکیلی کرنوں سے ہر پودا جل جائے گا

لیکن نو، دس گھنٹوں ہی میں سورج بھی ڈھل جائے گا

 

اُمیدوں پر پھول آنے میں عمریں کھپ جاتی ہیں میاں

کیا سمجھے تھے نخلِ تمنّا دو دِن میں پھل جائے گا

 

بھونرا تک آزاد نہیں ہے پھولوں پر منڈلانے کو

ڈر ہے وہ پھولوں کے منہ پر رسوائی مَل جائے گا

 

آئے ہیں پُر زور تقاضے تُند مزاج سمندر کے

قرض ادا کرنے کو دریا سینے کے بَل جائے گا

 

کہتے ہیں اب رت بدلے گی ڈالی ڈالی مہکے گی

دھرتی کا رس پتیّ پتیّ کونپل کونپل جائے گا

 

جان بچانی ہے تو خود ہی ٹال مظفرؔ خطرے کو

پہرے دار بھی آ جائیں جب خطرہ ٹل جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

میں تو بن دیکھے بہل جاؤں گا لیکن تم لوگ

طُور کہتا ہے کہ جل جاؤں گا لیکن تم لوگ

 

خاک سے رابطہ رکھنا تمھیں منظور نہیں

میں تو مِٹّی میں بھی رَل جاؤں گا لیکن تم لوگ

 

ڈگمگاتا جو نہیں ہے وہ سنبھلتا بھی نہیں

ڈگمگاؤں گا سنبھل جاؤں گا لیکن تم لوگ

 

تم بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے

اِک پہر اور ہے، ڈھل جاؤں گا لیکن تم لوگ

 

خود ہی اِک شعلۂ جوّالہ ہوں میرا کیا ہے

بجھ کے اس پار نکل جاؤں گا لیکن تم لوگ

 

قاعدہ ہے کہ پگھل جاتا ہے جلنے والا

روشنی دے کے پگھل جاؤں گا لیکن تم لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

کاروبارِ شوق مندا چل رہا ہے

خون میں اِک تار نیلا چل رہا ہے

 

وقت سے پہلے ہی کھل جاتی ہیں کلیاں

تتلیوں کا کام اچھا چل رہا ہے

 

حاشیہ آرائیوں سے دوستوں کی

سُرخیوں میں نام اپنا چل رہا ہے

 

گرد اُڑنی چاہیے ،اُڑتی رہے گی

سوگئے راہی تو صحرا چل رہا ہے

 

اور تنکوں نے کہا چھاتی پھلا کر

جی ، ہمارے دَم سے دریا چل رہا ہے

 

اپنی راتیں بھی مزے میں کٹ رہی ہیں

آج کل مصرع پہ مصرع چل رہا ہے

 

تھام رکھّی ہے زمیں نے سانس اپنی

ایک بچّہ ڈگمگاتا چل رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سیکھنا ہم سے اُجالے کو دِیے میں روک لینا

اور پھر اس کا ہمیں ہی راستے میں روک لینا

 

صبح پیہم دستکیں دیتی رہی دروازہ کھولو

اس طرف ہم سب کا چیخوں کو گلے میں روک لینا

 

آندھیوں سے میرا ہم آغوش ہونا جنگلوں میں

پھر بھنور بن کر وہ دریا کو مزے میں روک لینا

 

نقشِ پا سے پوچھ سکتے ہو مرے وہ کارنامے

ریت کے طوفان وحشت کے نشے میں روک لینا

 

کاٹ دینا میرا نام آئے جو اس کے تذکرے میں

برسبیلِ تذکرہ کو تذکرے میں روک لینا

 

بتکدہ ویران ، مسجد بند ، کرفیو شہر میں ہے

غیر ممکن، بادہ نوشی میکدے میں روک لینا

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں چراغِ سحر ٹمٹماتا ہوا

بجھ گیا تو زیادہ اُجالا ہوا

 

دوسرے لوگ گھر پھُونکنے آئے تھے

میرا دروازہ سیلاب پر وا ہوا

 

قدر فردا کی کم ہو گئی حال میں

حال ماضی بنا تو سنہرا ہوا

 

میری آنکھوں میں بھی امن کا خواب ہے

سوختہ باپ دادا کا دیکھا ہوا

 

بلبلاتے تھے بچے وہاں بھوک سے

بستیاں جل گئیں تو بُرا کیا ہوا

 

حال پُوچھا نہیں ورنہ کیا کہتے ہم

اُس نے دیکھا نہیں اور اچھا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دُنیا میں خود کو سب سے اہم جانتے ہو تم

لیکن ہمارے بارے میں کم جانتے ہو تم

 

چلنے لگے تمھاری گلی میں اُٹھا کے سر

جب سے سنا ہے طرزِ ستم جانتے ہو تم

 

مشہور مت کرو کہ تمھیں سچ پسند ہے

کیوں سربریدہ ہیں یہ قلم جانتے ہو تم

 

گھاٹے میں آنہ جائے عبادت کا کاروبار

سجدوں کو اپنے دام و درم جانتے ہو تم

 

تم سے گلہ نہیں ہے کہ خود اپنی ذات سے

کس درجہ شرمسار ہیں ہم جانتے ہو تم

 

دامن سے جھٹکی جاتی ہے کیسے خوشی کی گرد

کیسے اٹھائے جاتے ہیں غم جانتے ہو تم

 

دُنیا کو جانتے ہو مظفرؔ میاں ولے

سب کچھ بقدرِ دیدۂ نم جانتے ہو تم

٭٭٭

 

 

 

 

اِک آبشار تھا مجھ کو بہانے والا تھا

میں گرد باد ، اسے سرچڑھانے والا تھا

 

جنھوں نے آگ لگائی وہ مہرباں تھے مرے

میں اِس خرابے کو خود ہی جلانے والا تھا

 

خبر ہے آج وہاں زندہ گڑ گیا کوئی

دُکان اپنی جہاں میں لگانے والا تھا

 

اُسی کو باندھ کے پھینک آئے لوگ دریا میں

وہی تو شہر میں کشتی بنانے والا تھا

 

ترے دَیار کی رونق سے کیا بہلتا جی

وہاں تو جو بھی مِلا جی دُکھانے والا تھا

 

پھر اُس کو یاد کیا اور میں نے موند لی آنکھ

کہ اُس کے بعد نظر کون آنے والا تھا

 

مجھے بکھرنا نہیں آیا پھول کی مانند

بس ایک کانٹا تھا اور ٹُوٹ جانے والا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

پیغامِ صبا دل سے غم دُور کرے ہے گا

غنچے کو چٹکنے پر مجبور کرے ہے گا

 

ہر بات کو شدّت سے محسوس جو کرتا ہے

پاگل ہے خراشوں کو ناسور کرے ہے گا

 

اُس کو بھی سمجھتے ہیں احباب سِیہ کاری

اِک شخص مری راتیں پُر نور کرے ہے گا

 

قرب اُس کا قیامت ہے ادنیٰ سی کرامت ہے

وہ اپنے تصوّر سے مخمور کرے ہے گا

 

رنجور تو کرتا ہے دل چُور تو کرتا ہے

لیکن وہ محبت بھی بھرپور کرے ہے گا

 

اُس کی تو ہر اِک مرضی ، مرضی ہے مظفرؔ کی

وہ میری ہر اِک عرضی منظور کرے ہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

جھلملاتے ہیں ستارے آسماں کے تھال میں

ہم ادھر اُلجھے ہوئے اپنی رگوں کے تھال میں

 

سولہ دلّی میں کٹے سترہ برس بھوپال میں

بارہ برساتیں گزاریں مغربی بنگال میں

 

آرزوئیں ہر قدم پر کہکشاں بوتی ہوئی

زندگی جکڑی ہوئی زنجیرِ ماہ و سال میں

 

سب کے اندر جاگزیں ہے اپنی رسوائی کا خوف

کس کو فرصت ہے کہ دیکھے کون ہے کس حال میں

 

دیکھنا سیلاب ہی چومے گا راحت کے قدم

موشگافی ہو رہی ہے پُرسشِ احوال میں

 

آگ ہے پیروں کے نیچے ، برگِ گل اُڑتے ہوئے

کچھ قلندر دیر سے مصروف ہیں دھمّال میں

 

اے مظفرؔ گرم ہیں اشعار تیری آنچ سے

ورنہ جل بجھتے ہیں شاعر آتشِ سیّال میں

٭٭٭

 

 

 

 

جب چاہا تلوار سمجھ کر مجھ کو استعمال کیا

حاکم ہی کیا دُنیا بھرنے میرا استحصال کیا

 

گلشن پر جو کچھ بیتی ہے کوئی پُوچھے تو بتلائیں

بادل نے کیا ہُن برسائے موسم نے کیا حال کیا

 

سورج نے پھیلا دیں کرنیں شبنم کی نا بودی کو

موقع پا کر شبنم نے بھی سبزے کو پامال کیا

 

آوارہ خوشبو سے اُس نے ہم تک پہنچایا پیغام

ہم نے بھی تتلی کے ہاتھوں اِک نامہ اِرسال کیا

 

جیون کے تانے بانے میں یوں ہی کیا کم اُلجھن تھی

پھر اپنا ہمزاد جگا کر کیوں جی کا جنجال کیا

 

ہم تو برزخ ہو یا جنت ، اس کی مرضی میں خوش ہیں

جس کو دوزخ میں رہنا ہے اس نے قیل و قال کیا

٭٭٭

 

 

 

 

ہَوا ناراض تھی ہم سے کنارا دُور تھا ہم سے

سمندر تھا کہ یاں سے واں تلک بھرپُور تھا ہم سے

 

خودی ، خود آگہی ، خودرائی جس میں رونما ہوتے

وہ آئینہ تو پہلے دن ہی چکنا چُور تھا ہم سے

 

ّمحبت اور جوانا مرگ ، رونا داستاں گو کا

گھنی راتوں کا جنگل رات بھر پر نُور تھا ہم سے

 

مزا بھی ہے سزا بھی ہے مسلسل رقص کرنے میں

مگر ہم رقص ہم تھے ، آسماں مجبور تھا ہم سے

 

خود اپنے کو بھی اِک پردے میں رہ کر دیکھنا ہو گا

یہی جو آئِنے میں ہے ، ابھی مستور تھا ہم سے

 

مظفرؔ ، اب یہی دنیا ہمیں نابُود کر دے گی

یہ پیمانہ لبالب تھا کبھی ، معمُور تھا ہم سے

٭٭٭

 

 

 

 

پاؤں تو مسندِ سلطانی پہ رکھّا ہوا ہے

سرمرا بے سرو سامانی پہ رکھّا ہوا ہے

 

عالم الغیب نمائش کو نہیں کرتا قبُول

آپ کا سجدہ تو پیشانی پہ رکھّا ہوا ہے

 

اے ہَوا خوش نہ ہو فانُوس اگر ہے بے نور

اِک دِیا اور ابھی پانی پہ رکھّا ہوا ہے

 

ہے تو ہو سامنے انبار پریشانی کا

حوصلہ بھی تو پریشانی پہ رکھّا ہوا ہے

 

کیا تعجب ہے اگر خاک بسر ہیں ہم لوگ

ہم نے تکیہ بھی تو نادانی پہ رکھّا ہوا ہے

 

ایک بھی پھُول کھلایا ہے جہاں قدرت نے

اَنگنت کانٹوں کو نگرانی پہ رکھّا ہوا ہے

 

ہم نے سوراخ بھی کشتی میں بہت رکھیّ ہیں

اُس نے دریا کو جو طغیانی پہ رکھّا ہوا ہے

 

شہر میں امن رہے گا کہ بپا ہو گا فساد

سارا قضیہ مری قربانی پہ رکھّا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

آگ پر چلنا پڑا ہے تو کبھی پانی پر

گولیاں کھائی ہیں فنکاروں نے پیشانی پر

 

کون تاریخ میں احوال ہمارے لکھے

ہم کہ ٹھوکر بھی لگاتے نہیں سلطانی پر

 

کیا سمجھتا ہے کہ مِل جائے گا ثانی اس کا

میں تو حیران ہوں آئینے کی حیرانی پر

 

گدگداتا ہے شگوفوں کو وہ پوشیدہ ہاتھ

جس نے کانٹوں کو لگایا ہے نگہبانی پر

 

وہ مجھے دولتِ کوَنین عطا کرتا ہے

اِس طرف ناز مجھے بے سروسامانی پر

 

عمر کے آٹھویں عشرے میں کرو سجدۂ شکر

آمدِ طبع مظفرؔ جو ہے طغیانی پر

٭٭٭

 

 

 

 

بادل ہو گا بِن موسم کا ، میں جو ہوں

آنکھوں سے برسات کروں گا میں جو ہوں

 

ریگستان میں کالی رات ، اکیلا مَیں

تارا جُگ جُگ کرتا بولا میں جو ہوں

 

نقشِ قدم سا کیا بیٹھا ہے آگے چل

سردھُنتا ہے ایک بگولا ، میں جو ہوں

 

میرا خُون رَوا ہے تیرے نیزے کو

بھُول گیا کیا تیر چلانا ، میں جو ہوں

 

تیرا ہی گن گان کروں گا چاروں اور

قریہ قریہ ، دریا دریا میں جو ہوں

 

دَوڑا آیا لُو کا جھونکا ، میں ہُوں نا

اِک ڈالی پر سُوکھا ساکھا میں جو ہوں

 

اب کیا سوچوں تھم کر اپنے بارے میں

تیز ہَوا میں اُڑتا پتّا میں جو ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

کھد بُدسی کچھ کائنات میں ہوتی رہتی ہے

اَور چھٹی حس دل میں کانٹے بوتی رہتی ہے

 

آسمان پر لاکھوں تارے چمکا کرتے ہیں

میری قسمت جب دیکھو تب ، سو تی رہتی ہے

 

رکتا ہوں تو چلنے لگتی ہے پُروائی سی

چلتا ہوں تو دُنیا آر چبھوتی رہتی ہے

 

اِک رِشتہ جو توڑ دیا تھا دُور اندیشی نے

آشا اُس دھاگے میں پھُول پروتی رہتی ہے

 

ساری بستی کی بدنامی ، اپنے گندے ہاتھ

میرے حِصّے کی گنگا میں دھوتی رہتی ہے

 

روک لیے ہیں ہم نے اپنے آنسُو پلکوں پر

ایک پیاسی چڑیا چونچ بھگوتی رہتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس روشنیِ طبع نے دھوکا دیا ہمیں

اپنے لہو کی آنچ نے جھلسا دیا ہمیں

 

کیوں اتنے چھوٹے خود کو نظر آرہے ہیں ہم

یارب یہ کس مقام پہ پہنچا دیا ہمیں

 

آئے تھے خالی ہاتھوں کو پھیلائے ہم یہاں

دُنیا نے خالی ہاتھ ہی لَوٹا دیا ہمیں

 

ٹھنڈی ہَوا نے توڑ دیا تھا درخت سے

پھر گرد باد آئے ، سہارا دیا ہمیں

 

زخمی ہوئے تھے جنگ میں دُشمن کے وار سے

احباب نے تو زِندہ ہی دفنا دیا ہمیں

 

کاغذ کی ناؤ پر تھے ، ہمیں ڈُوبنا ہی تھا

جو موج آئی ، ایک جھکولا دیا ہمیں

 

ہم تاکہ کائنات پہ قابُو نہ پا سکیں

اُس نے طلسمِ ذات میں اُلجھا دیا ہمیں

٭٭٭

 

 

 

 

بہانہ وفا کا نکالا گیا

بہت خُون میرا نکالا گیا

 

شرارے اُچھلتے رہے سنگ سے

چٹانوں سے دریا نکالا گیا

 

مرا زخم بڑھ جائے گا اور کچھ

اگر اب یہ نیزا نکالا گیا

 

بغاوت نہیں دَب سکے گی حضُور

جو کانٹے سے کانٹا نکالا گیا

 

تپکتی تھی دنیا مرے پاؤں میں

بمشکِل یہ چھالا نکالا گیا

 

ّمحبت سے وہ باز آئے نہیں

تو بستی سے کنبہ نکالا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اسی بِنا پہ سب احباب نے کنارا کیا

کہ ہم نے دھارے میں بہنا نہیں گوارا کیا

 

ندی کے بیچ ہے ناسور سا جو اِک منجدھار

وہاں سے کوئی مسلسل مجھے پکارا کیا

 

اندھیری رات کی سوغات جس نے بخشی ہے

اندھیری رات میں ہم نے اُسے سِتارا کیا

 

جہاں کسی نے قصیدے پڑھے بہاروں کے

خزاں نے دیر تلک تذکرہ ہمارا کیا

 

کھلے وہ پھول سے ، ہم اُڑ چلے کہ خوشبو ہیں

اُدھر کو ، بادِ سحر نے جدھر اشارا کیا

 

خطر پسند ہیں ، دو چار حادثوں کے لیے

نہ وَسوسے میں پڑے ہم نہ اِستخارا کیا

 

مظفرؔ آپ اگر محوِ خواب تھے کل رات

تو پھر یہ تودۂ شب کِس نے پارا پارا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مر جائے کوئی اُن کو غم نئیں ہونا

اُن دو قاتِل آنکھوں کو نم نئیں ہونا

 

َپٹتا ہے تو لاشوں سے پٹ جانے دو

دیکھو ، اُس کُوچے میں ماتم نئیں ہونا

 

کالا بادل گھور نراشا کا ہوں میں

پیارے تم بھی بجلی سے کم نئیں ہو نا

 

جنگل کا قانون چلے گا ، سُنتے ہیں

بستی میں اب آدم و وادَم نئیں ہونا

 

ہم بھی استقبال کو جانے والے تھے

وہ کہتا ہے کالا پرچم نئیں ہونا

 

قطرہ ہوں تو شبنم رہ کر جی لوں گا

لوگو ، مجھ کو دریا میں ضم نئیں ہونا

 

وہ مجھ کو بیشک ٹھنڈا کرسکتے ہیں

آگ مظفرؔ غزلوں میں کم نئیں ہونا

٭٭٭

 

 

 

 

اِک سِتارہ ہے جو بیدار کیا کرتا ہے

رات بھر تذکرۂ یار کیا کرتا ہے

 

بیٹھنے پاتے نہیں سایۂ دیوار میں ہم

کوئی گریہ پسِ دیوار کیا کرتا ہے

 

وہ بھڑکتا ہے مرے سینے میں شعلے جیسا

پھر اسی آگ کو گلزار کیا کرتا ہے

 

یہ جو ناسُور ہے احساس میں حق تلفی کا

مستقل ذات کو مسمار کیا کرتا ہے

 

بادباں کھول کے دیکھو تو سفینے والو

خشک دریا بہت اِصرار کیا کرتا ہے

 

کون خوشبو کی طرح نام ترا لے لے کر

پھُول کے کان میں گنجار کیا کرتا ہے

 

اُس کو ارمان تھا اُڑنے کا مظفرؔ لیکن

اب پرندوں کو گرفتار کیا کرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

درد نے دل کو گدگدایا تو

اِک شرارہ سا تلملایا تو

 

آپ دریا کے ساتھ جاتے ہیں

اور وہ لَوٹ کر نہ آیا تو

 

دیکھنا آسماں کی خیر نہیں

خاکساری نے سر اُٹھایا تو

 

شاخ کانٹوں بھری سہی لیکن

ہاتھ اُس نے اِدھر بڑھایا تو

 

کیوں اُٹھاتے ہو ریت کی دیوار

آ گیا کوئی زیرِ سایہ تو

 

دُور تک لہریں کھکھلانے لگیں

اِک دِیا نہر میں بہایا تو

٭٭٭

 

 

 

 

میں اُٹھ گیا تو شورِ فغاں بھی نہیں اُٹھا

لیکن کرائے پر وہ مکاں بھی نہیں اُٹھا

 

مذہب نہیں بتایا نہ اِمداد کی قبول

کشتی میں اِک حبابِ رواں بھی نہیں اُٹھا

 

بستی جلانے والو تمھیں کیا بتاؤں مَیں

مدّت سے میرے گھر میں دھُواں بھی نہیں اُٹھا

 

ہم دَم بہ خود تھے اور اُدھر لُٹ رہے تھے وہ

جب ہم کٹے تو شور وہاں بھی نہیں اُٹھا

 

بڑھتے ہوئے قدم کو نہیں روکتا کوئی

َبیٹھا تو پھر قدم کا نشاں بھی نہیں اُٹھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہَوا چراغ کا نقصان تو کرے گی میاں

تمھاری یاد پریشان تو کرے گی میاں

 

ندی کو باندھ سمندر سے دُور رکھتے ہیں

وہ اِنتقام کا سامان تو کرے گی میاں

 

بدن سے جھڑتی ہوئی ریت اور کچھ نہ کرے

تری شکست کا اعلان تو کرے گی میاں

 

تمام زخموں کو تازہ کرے گی جاتے ہوئے

بہار ہم پہ یہ احسان تو کرے گی میاں

 

یہ آگ ، آج نگہبان ہے جو فصلوں کی

کل اپنے کھیتوں کو میدان تو کرے گی میاں

 

یہی تو ہو گا مظفرؔ کہ دل تڑپ جائیں

غزل شریفوں کو ہلکان تو کرے گی میاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھر اِک چڑھا ہوا دریا بہانہ ہو گیا ہے

نئے سفر پہ وہ تنکا روانہ ہو گیا ہے

 

ہر ایک چاند میں دھبّے تلاش کرتے ہو

تمھاری آنکھ کا نمبر پُرانا ہو گیا ہے

 

ہَوا خود آ کے بڑھائے مرے چراغ کی لَو

اِسے بھڑکتے ہوئے اِک زمانہ ہو گیا ہے

 

پرندے اور کہیں جائیں ، سبز باغ میں تو

ہر ایک شاخ پہ ایک آشیانہ ہو گیا ہے

 

تمھارا ہم سے تعلّق نہ ٹُوٹ جائے کہیں

خدا کے گھر میں بہت آنا جانا ہو گیا ہے

 

غزل انھیں بھی پسند آئی ہے مظفرؔ کی

تعارف اُن سے مِرا غائبانہ ہو گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مہرباں ہوکے وہ اچھا نہیں رہنے دیتا

کیوں مرے زخموں کو تازہ نہیں رہنے دیتا

 

آدمی ڈھیر ہے مٹّی کا ، اگر بے حِس ہو

اور احساس کہ زِندہ نہیں رہنے دیتا

 

چند مخصوص درختوں سے محبت کا جنون

کچھ پرندوں کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا

 

باندھ کھا جاتا ہے کچھ کھیتوں کو بنتے بنتے

اور دریا کو بھی دریا نہیں رہنے دیتا

 

کتنی آنکھیں ہیں کہ دیواروں میں اُگ آئی ہیں

کوئی افلاس کا پردا نہیں رہنے دیتا

 

َخیر سے میرے مقدّر میں وہی موسم ہے

جو کِسی شاخ پہ پتّا نہیں رہنے دیتا

 

پُوچھ لیتا ہوں میں غزلوں میں زمانے کا مزاج

َچین سے مجھ کو زمانا نہیں رہنے دیتا

٭٭٭

 

 

 

 

پیچھے نہ پڑے راہ گزر ایسا کیا جائے

بے نقشِ کفِ پا ہو سفرایسا کیا جائے

 

خوشبو نہ چُرا پائے کوئی غنچہ و گل کی

اِک بار تو اظہارِ ہُنر ایسا کیا جائے

 

ترکیب سے دیتا ہے وہ ترتیبِ عناصر

طَے ہے کہ اِدھر ایسا اُدھر ایسا کیا جائے

 

بالکل نہ ہو محسوس کہ پردے میں نہیں وہ

اربابِ نظر ، صَرفِ نظر ایسا کیا جائے

 

جو شخص پڑھے اُن کو تڑپ جائے مظفرؔ

اشعار کو پابندِ اثر ایسا کیا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہت ہے میرے لیے ایک ہی اُڑان سہی

زمین ہاتھ نہ آئے تو آسمان سہی

 

مسافروں کو بھروسا ہے میری کشتی پر

یہاں دُرست ہے لنگر نہ بادبان سہی

 

اگر خلوص میں کوئی کمی نہ آتی ہو

ذراسی لاگ بھی یاروں کے درمیان سہی

 

ہَوا تھمی ہے تو سُورج کے سامنے رکھ دو

چراغِ صبح کا ایک اور امتحان سہی

 

بہار آئی ہے صدقہ اُتارنا ہو گا

چمن میں پھُول نہ ہوں تو ہماری جان سہی

 

طویل رات کسی طَور کٹ تو جاتی ہے

بَلا سے اب وہ مظفرؔ کی داستان سہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

مسکراتا ہے وہ گل چہرہ خفا ہو کر بھی

ایک ہم ہیں کہ نہ آسُودہ ہوئے روکر بھی

 

اب نہ عقبیٰ کی تمنّا ہے نہ دُنیا کی طلب

ہم منافع میں رہے ہوش و خِرد کھو کر بھی

 

تیرے ہاتھوں میں تو ہِیرا ہی کہا جائے گا

سنگ ریزہ تو نہیں ، دیکھ اسے دھوکر بھی

 

کہکشاں میں بھی کہیں راہ نکل آئے گی

دیکھ فٹ پاتھ پہ اِک رات کبھی سوکر بھی

 

سنگِ میل آپ ہیں اور خاک بسر ہیں ہم لوگ

آپ کے حصّے میں آئی نہیں اِک ٹھوکر بھی

٭٭٭

 

 

 

 

مُجرم ہے چپ رہنے والا

نا انصافی سہنے والا

 

بے گھر ہو جائیں گے لاکھوں

اِک معبد ہے ڈَہنے والا

 

ساحل اپنی ناؤ سنبھالے

میں تنکا ہوں بہنے والا

 

شبنم تھر تھر کانپ رہی ہے

غنچہ ہے کچھ کہنے والا

 

میرے شعر کہاں سمجھے گا

وہ لفظوں کے گہنے والا

 

دُنیا بھر کے چکّر میں ہے

اپنی دھُن میں رہنے والا

٭٭٭

 

 

 

 

مطلع اورنگِ سلیمانی پہ لکھا ہوا ہے

اور مقطع اسی نادانی پہ لکھا ہوا ہے

 

ڈُوبنے کے لیے کچھ وقت اُسے دُنیا ہو گا

نام سورج کا ابھی پانی پہ لکھّا ہوا ہے

 

آپ کے گھر پہ بھی لگ جائے گا اِک روز نشان

آپ کا جُرم تو پیشانی پہ لکھّا ہوا ہے

 

خُون معصوموں کا روشن ہے اُسے رہنے دو

اور کیا پرچمِ سلطانی پہ لکھّا ہوا ہے

 

ایک وحشی کے قدم سے تھی یہاں کی رونق

آج تک دشت کی ویرانی پہ لکھّا ہوا ہے

 

جانفشانی سے مظفرؔ نے کہے پانچ اشعار

آخری شعر تن آسانی پہ لکھّا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

فلک پیما یہ منظر دیکھ لیتے

مرے ٹُوٹے ہوئے پر دیکھ لیتے

 

تمھیں مُڑ مُڑ کے ہم نے خوب دیکھا

ذرا تم بھی پلٹ کر دیکھ لیتے

 

کوئی بھی اتنا بد صُورت نہیں تھا

اگر سب اپنے اندر دیکھ لیتے

 

میاں بھی پھُول بننا چاہتے ہیں

کوئی کانٹوں کا بستر دیکھ لیتے

 

تو پڑ جاتی تمھارے دل میں ٹھنڈک

مرا جلتا ہوا گھر دیکھ لیتے

 

اُنھیں دُنیا نے مہلت ہی کہاں دی

کہ دُنیا کو مظفرؔ دیکھ لیتے

٭٭٭

 

 

 

 

اِتنی دیواریں ہیں ویرانہ تو بَن جائے گا

عشقِ ناکام سے افسانہ تو بَن جائے گا

 

تُو نہ آیا تو کئی اور چلے آئیں گے

دل میں کعبہ نہیں بُت خانہ تو بَن جائے گا

 

میری مٹّی سے وہی پھُول کھلا سکتا ہے

ورنہ اس خاک سے پیمانہ تو بَن جائے گا

 

آگ بھی وادیِ سینا سے منگانی ہو گی

موم سے آپ کا پروانہ تو بَن جائے گا

 

کار خانے نہیں ہوسکتے ثقافت کا بدل

لکھنؤ خیر سے لدھیانہ تو بن جائے گا

 

فائدہ اور نہ کچھ ہو مری غزلیں پڑھ کر

پھر بھی لہجہ ترا مَردانہ تو بَن جائے گا

 

وہ بلاتے ہیں مظفرؔ تو چلے جاتے ہیں

کچھ بڑے لوگوں سے یارانہ تو بَن جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

کیا والہانہ کاٹی ہے ہم نے تمام عمر

چھوڑا نہ ہاتھ آپ کے غم نے تمام عمر

 

اپنی حدوں سے آگے نکلنے نہیں دیا

ہم کو ہمارے نقشِ قدم نے تمام عمر

 

بھرمار آنسوؤں کی رہی ، بُوند بھر سُرور

حیراں کیا زِیادہ و کم نے تمام عمر

 

میرے دل و دماغ پہ قابو نہ پا سکے

رکھّا اسیر ظلم و ستم نے تمام عمر

 

ایسا ہُوا کہ ہم سے نظر ہی نہیں ملائی

اُس مہرباں کے لطف و کرم نے تمام عمر

 

اُس نے رکھا ہے اپنے مظفرؔ کو سربلند

سجدے کیے ہیں میرے قلم نے تمام عمر

٭٭٭

 

 

 

 

میں اگر ردّ و کد میں رہتا نہیں

آسماں اپنی حد میں رہتا نہیں

 

اکثر ایسا بھی موقع آتا ہے

فرق کچھ نیک و بد میں رہتا نہیں

 

عِلم تو چیز ہے برتنے کی

وہ سمٹ کر سند میں رہتا نہیں

 

تانِیے کم ذرا نشانے کو

دیر تک کوئی زَد میں رہتا نہیں

 

اپنی گردن پہ ہو اگر تلوار

کیف قتلِ عمد میں رہتا نہیں

 

مسکرا کر جہاں ملے محسود

جوش باقی حسد میں رہتا نہیں

 

دُور رہتا ہے مجھ سے میرا یار

صحبت نابَلَد میں رہتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

بارش اگر نہ ہو گی ، ندی سُوکھ جائے گی

رویا نہیں تو آنکھ مری سُوکھ جائے گی

 

کب سے ہے انتظار ترا ملکۂ بہار

پھلواری انتظار میں ہی سُوکھ جائے گی

 

خود پر کچھ اعتراض بھی برداشت کیجیے

کانٹے نکالنے سے کلی سُوکھ جائے گی

 

تشنہ لبی بھی ساتھ ہمارے ہے خیمہ زن

جس نہر پر رکے ہیں ابھی سُوکھ جائے گی

 

ٹُوٹے پڑے ہیں لان پہ کچھ تتلیوں کے پر

ایک اور شاخ پھُولوں بھری سُوکھ جائے گی

 

پڑتی میں ڈالیے نہ مظفرؔ زمین کو

جس میں غزل نہ ہو وہ زمی سُوکھ جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

داغ سینے کے مرے یار کے دیکھے ہوئے ہیں

یہ چمن نرگسِ بیمار کے دیکھے ہوئے ہیں

 

ہم نے جھیلے ہیں زمانے کے نشیب اور فراز

پیچ و خم وادیِ پُر خار کے دیکھے ہوئے ہیں

 

یہ بھی جلتا ہے کسی اور علاقے میں چلیں

یہ مناظر تو کئی بار کے دیکھے ہوئے ہیں

 

بچ نکلنے کا ہُنر خُوب انھیں آتا ہے

راستے سب مری سرکارکے دیکھے ہوئے ہیں

 

جنسِ خالص کا وہاں کوئی خریدار نہیں

ہم بھی جلوے ترے بازار کے دیکھے ہوئے ہیں

 

دُوسرا عکس نہیں ان سے اُبھرنے والا

آئنے یارِ طرحدار کے دیکھے ہوئے ہیں

 

اتنی ہمدردی سے مت پوچھیے حالت میری

سارے زخم آپ کی تلوار کے دیکھے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جب تک دھرتی پر جیون ہے جذبے سرد نہیں ہوں گے

میرے شعر تر و تازہ ہیں یہ بھی زرد نہیں ہوں گے

 

عصمت بی بی جان بچانے اِس دھوکے میں آئی تھی

کوئی تو ہو گا بستی میں ، سب نا مرد نہیں ہوں گے

 

اوروں کے اِنعام خود اپنی جھولی میں رکھ لیتے ہیں

ایسا ہے تو آپ کسی بھی فن میں فرد نہیں ہوں گے

 

پیار اسی شدّت سے کرنا جب تک سانسیں چلتی ہیں

دل کی دھڑکن ٹھیک رہے گی چہرے گرد نہیں ہوں گے

 

اپنے جی کا حال مظفرؔ دُنیا سے کیوں کہتے ہو

غم خود ہی کم ہو جائے گا جب ہم درد نہیں ہوں گے

٭٭٭

 

 

 

 

ہونے لگی ہے اب تو غزل بات بات پر

غُصّہ اُتارتا ہے فقیر اپنی ذات پر

 

سَیراب ہو چکے ہوں اگر آپ تو چلیں

تشنہ لبی کا عُرس منائیں فرات پر

 

سب دُور بھاگتے تھے جلالی بزرگ سے

میلہ لگا ہوا ہے میاں کی وفات پر

 

بکھری ہوئی تھی گردِ تمنّا چہار سُو

ڈالی جو سرسری سی نظر کائنات پر

 

یوں ہے کہ ہم نے آپ کو رسوا نہیں کیا

ہاں خاک ڈالتے رہے اپنی صفات پر

 

خوش ہیں کہ غم زدہ ہیں مظفرؔ ، پتہ نہیں

جلسے جوکر رہے تھے ہماری نجات پر

٭٭٭

 

 

 

 

گھٹاتے کیوں ہو میرا قد ، مری آواز نقّادو

کبھی سچ بولنا سیکھو نظریہ ساز نقّادو

 

حقیقت بھی سر آنکھوں پر ہے جدّت بھی سر آنکھوں پر

مگر اِک شئے لطافت بھی ہے نعرے باز نقّادو

 

ہر اِک سچائی کو تقسیم کر دیتے ہو خانوں میں

ہر اِک ندرت کو کرتے ہو نظر انداز نقّادو

 

کئی صدیوں سے کِس کی گُونج ہے ہندوستاں بھر میں

سُنا تم نے ، غزل کے دُشمنو ، طنّاز نقّادو

 

مگر تازہ ہَوا سے واسطہ تم نے نہیں رکھّا

پَروں سے مصلحت کے مائلِ پرواز نقّادو

 

دیانت خُون بن کر دوڑتی ہے اس کی باتوں میں

اِسی میں ہے مظفرؔ کی غزل کا راز نقّادو

٭٭٭

 

 

 

 

یہاں سے واں تلک تنہائی ، ویرانی مسلسل ہے

میں اِک آتش فشاں ہوں جس میں افشانی مسلسل ہے

 

کوئی تسکین کا پہلو نہیں ہے سانسیں لینے میں

فنا ہونے کو ہوں ، جینے کی نادانی مسلسل ہے

 

مرے اطراف میں نافِذ ہے دستورِ زباں بندی

مری طبعِ رواں ایسی کہ طغیانی مسلسل ہے

 

مِیاں محفوظ رہنا ہے تو سچ کا نشّہ مت کرنا

تری تقدیر میں شہہ کی ثنا خوانی مسلسل ہے

 

اِدھر میں ہوں کہ اس کو زندگی بھر ٹُوٹ کر چاہا

اُدھر وہ ہے کہ میرا دشمنِ جانی مسلسل ہے

 

مظفرؔ چند سانسیں بچ رہی ہیں غم زدہ کیوں ہو

ہَوا کافی ہے ، خوشبُو کی فراوانی مسلسل ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہفت خواں طے کیے ہیں نام نہاد

حوض کے سِند باد ، زندہ باد

 

َخیر سے بال و پَر خرید لیے

جا نئے آسمان کر اِیجاد

 

دار پر چڑھ گئے کئی منصور

ایک الزام ، وہ بھی بے بنیاد

 

اب شہیدوں میں نام لکھّا جائے

خود سے ہم کر نہیں سکیں گے جہاد

 

ایک پاگل کے دم سے بستی میں

کئی ویرانے ہو گئے آباد

 

پھر کہا بحر نے مظفرؔ سے

آئیے ، ڈُوب جائیے اُستاد

٭٭٭

 

 

 

 

اُسے غم ہے کہ بیٹی کے لیے لڑکا نہیں ملتا

اِدھر ہم ہیں کہ گھر کیا فون پر بیٹا نہیں ملتا

 

َعجب سورج ہے ریگستان ہی میں ڈُوب جاتا ہے

اسے کیا ڈوبنے کے واسطے دریا نہیں ملتا

 

مگر بے مدّعا دل مانگنے سے مِل نہیں جاتے

بِنا مانگے دلِ بے مدّعا کو کیا نہیں ملتا

 

کوئی چلتا نظر آئے تو اُس کو رہنما کر لوں

کِسے چہرہ دِکھاؤں کوئی آئینہ نہیں ملتا

 

جِسے دیکھو سہارا چاہتا ہے کیا قیامت ہے

سہارا دوسروں کو دے کوئی ایسا نہیں ملتا

 

اب اتنا کام بچیّ لے کے ا سکولوں سے آتے ہیں

کہ ان سے بات کرنے کا ہمیں موقعہ نہیں ملتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

زخم باہر تھے ، طبیعت ٹھیک اندر سے ہوئی

زندگی کرنے کی پھر تحریک اندر سے ہوئی

 

تُو نے اتنی جالیاں کیوں کھڑکیوں پر تان دیں

ڈور سانسوں کی تری باریک اندر سے ہوئی

 

بھر لیا ہو گا پڑوسی کا اُجالا چھین کر

ورنہ یہ قندیل کیوں تاریک اندر سے ہوئی

 

میں جسے بیزار ہو کر چھوڑ آیا تھا کبھی

اب وہی بستی بہت نزدیک اندر سے ہوئی

 

ہم یہ سمجھے تھے معمہ زندگی کا حَل ہوا

اور پھر پیدا نئی تشکیک اندر سے ہوئی

 

کشمکش تھی اے مظفرؔ اس زمین و بحر میں

ڈُوب جانے کی مجھے تحریک اندر سے ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

لال پیلی ہے پُر غضب تتلی

پھُول کو نوچتی ہے اب تتلی

 

اوس ناراض ہے کئی دن سے

زرد سبزے پہ جاں بہ لب تتلی

 

کتنی شاخوں میں رنگ بھرتی ہے

ایک بے شرم بے ادب تتلی

 

عافیت سب نشیمنوں میں ہے

کیوں ہے لرزے میں بے سبب تتلی

 

رقص جاری ہے خار زاروں میں

َچین سے بیٹھتی ہے کب تتلی

 

کیسے کلیاں چٹخ کے کھلتی ہیں

اُن کے لب چومتی ہے جب تتلی

٭٭٭

 

 

 

 

رات پھر رکھ گیا سِرھانے کوئی

ایک منہ بند موگرے کی کلی

 

باس اس کی بسی ہے بستر میں

اب کہاں مجھ کو نیند آئے گی

 

واقعہ ہے کہ اس کے آنگن میں

دھُوپ کھلتی ہے چاندنی جیسی

 

اب نہیں آتا کوئی پروانہ

شمع بیچاری کب تلک جلتی

 

آپ کیوں اس قدر خفیف ہوئے

یوں ہی بھر آیا آنکھ میں پانی

 

ہو گی اس کی مثال دنیا میں

ہم نے تو آج تک نہیں دیکھی

 

زندگی جھونک دی جہنم میں

جستجو تھی ہمیں بھی جنت کی

٭٭٭

 

 

 

 

جو ہمارا خُون پینے آئے تھے

اُن کو بھی دانتوں پیسنے آئے تھے

 

پڑ گیا غیرت کا لنگر پاؤں میں

گود میں لینے سفینے آئے تھے

 

حسرتوں کے مقبرے میں دفن ہوں

میرے خوابوں میں خزینے آئے تھے

 

سر پہ اِتنا بوجھ کیسے آ گیا

ہم یہاں دو دن کو جینے آئے تھے

 

پھُول پر آئے تھے ہم جیسے ببول

چند ایسے بھی مہینے آئے تھے

 

دِل پشیماں تھا نہ آنسو آنکھ میں

شیخ جی مکّے مدینے آئے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مسلسل جھلملاتا ہے کہ اب ہونے ہی والا ہے

اس آئینے پہ چہرے کا غضب ہونے ہی والا ہے

 

ہر اِک تارا ہے تیرا انداز ہر جگنو ہے نیزہ باز

پلک جھپکے نہ کوئی قتلِ شب ہونے ہی والا ہے

 

یہاں حیران ہونے کے لیے کچھ بھی نہیں باقی

عجبَ پر کس کو حیَرت ہو گی جب ہونے ہی والا ہے

 

کئی دن سے مرَض لاحق ہے اس کو سربلندی کا

وہ سُولی پر چڑھانے کو طلب ہونے ہی والا ہے

 

جو ہونا چاہیے تھا وہ تو اب ہونے نہیں والا

نہیں ہونا تھا جو سب کچھ ، وہ سب ہونے ہی والا ہے

 

سُنا جاتا ہے وہ بچّہ جو کل تک بھولا بھالا تھا

ادب پڑھنے لگا ہے بے ادب ہونے ہی والا ہے

 

تو پھر حفظِ تقدّم میں ہی کچھ اشعار ہو جائیں

مظفرؔ سے خفا وہ بے سبب ہونے ہی والا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سوا نیزے پہ سورج آ گیا نا

جو چہرہ چاند تھا ، گہنا گیا نا

 

نہ آیا تھا زمانے کی نظر میں

وہ چور آئینے میں پکڑا گیا نا

 

اُسی کو سرچڑھا کر ناچتا ہے

بگُولا میری مٹّی پا گیا نا

 

سمجھتے تھے کہ جینا آ گیا ہے

اچانک آخری وقت آ گیا نا

 

کہا تھا اتنا دریا سے نہ گھل مِل

تری کھیتی کو ظالم کھا گیا نا

 

مرے سر میں غضب شوریدگی تھی

تری دیوار پر داغ آ گیا نا

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھُولوں کی آرزو میں اُگے ڈالی ڈالی ہاتھ

اس بار بھی بہار چلی آئی خالی ہاتھ

 

اِنعام لے کے ہاتھ مرے کام سے گئے

نیزہ گھماتے ہیں نہ بجاتے ہیں تالی ہاتھ

 

دامن جھٹکنے والے ذرا احتیاط سے

دامن کی دھجیاں نہ اُڑا دیں سوالی ہاتھ

 

لوگو ہمارے ہاتھ نیا ہی کریں گے کچھ

اوروں کے کام کی نہ کریں گے جُگالی ہاتھ

 

اب کیا اُمنگ کیجیے دل ہی جو سَرد ہو

ہم لاکھ سر اُٹھائیں مگر لا اُبالی ہاتھ

٭٭٭

 

 

 

 

دل پہ صیقل بھی نہیں گردِ کدُورت ہی نہیں

اِک صنم خانہ ہے جس میں کوئی مورت ہی نہیں

 

ادب آئینہ ہے اور ایسا عجیب آئینہ

جس میں سیرت بھی نظر آتی ہے صُورت ہی نہیں

 

شاعری راستہ سائنس کو دکھلاتی ہے

فلسفہ کہتا ہے شاعر کی ضرورت ہی نہیں

 

پیار کرنے کا شگُن آیا نہیں پچھلے برس

اور نئے سال میں بھی ایسی مہُورت ہی نہیں

 

آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ شعر کہا کرتے ہیں

اے مظفرؔ انھیں لفظوں کی ضرورت ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہر ایک نوکِ پلک پر شرر لگائے ہوئے

چلا کیا میں نظر چاند پر لگائے ہوئے

 

اِدھر بھی دیکھ کہ ہم مَوج مَوج بہتے ہیں

شکستہ کشتی کے تختے پہ سرلگائے ہوئے

 

تمام شہر کو لاحق ہے کِس سے خطرۂ جاں

یہاں تو جو بھی ملا وہ سِپر لگائے ہوئے

 

عجب نہیں ہے کہ دھُل جائیں اگلی بارش میں

یہ گھر کے نقشے پہ دیوارو در لگائے ہوئے

 

لطیفہ یہ ہے کہ اب دھوپ کو ترستے ہیں

َسروں تک آن لگے ہیں شجر لگائے ہوئے

 

پروں کو اپنے وہ پھیلائیں تو مزا آ جائے

َکٹی پتنگ پہ ہیں جو نظر لگائے ہوئے

 

پڑا ہوا ہے پچھتّر برس سے اِک ہمزاد

ہماری گور سے اپنی کمر لگائے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

بازار میں کچھ اَور ہے گھر میں ہے اَور کچھ

سر میں وہ اَور کچھ ہے نظر میں ہے اَور کچھ

 

پنجرے میں بند سر کو پروں میں چھپائے ہے

لیکن یہی پرندہ شجر میں ہے اَور کچھ

 

پچھلے سفر کے تو شے میں شامل تھے صبر و ضبط

اَب کے ہمارے رختِ سفر میں ہے اَور کچھ

 

ہوں گے تمھاری آنکھ میں تارے بھرے ہوئے

آنسُو ہمارے دیدۂ تر میں ہے اَور کچھ

 

ہم لوگ بیستوں سے اَجنتا تراشیں گے

رانی جو رات کی تھی ، سحر میں ہے اَور کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

دردِ دل گرد اُڑا کر نہیں آتا کوئی

ایک مدّت سے مرے گھر نہیں آتا کوئی

 

کیا قیامت ہے کہ پکّے ہوئے پھل سُوکھتے ہیں

بیر کے پیڑ پہ پتھر نہیں آتا کوئی

 

جِس کو دیکھو وہ سما جاتا ہے آئینے میں

کسی آئینے سے باہر نہیں آتا کوئی

 

ریت مدّت سے مرے سرپہ اُڑا کرتی ہے

میرے رستے میں سمندر نہیں آتا کوئی

 

ٹُوٹتے تارے بھی کترا کے نکل جاتے ہیں

چاند جب سے مری چھت پر نہیں آتا کوئی

 

یہ ہُنر آپ کو آتا ہے مظفرؔ صاحب

گھر میں سَیلاب تو لے کر نہیں آتا کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

چھالوں کے پھُول اپنے پروں پر سجائے گی

تِتلی ضرور میری ہتھیلی پہ آئے گی

 

منزل پہ آ کے گرد کو دیکھا تو سرپہ ہے

سوچا تھا راستے میں کہیں بیٹھ جائے گی

 

سارے نقوشِ پا میں دہکتے ہیں آبلے

آندھی مرے چراغوں کو کیسے بجھائے گی

 

اے آرزُو کوئی بھی مکمّل نہیں یہاں

ہم کو زمیں کے چاک پہ کب تک گھمائے گی

 

پھُوٹے پُرانی شاخوں پہ انکھوے نئے نئے

یہ جانتے ہوئے کہ خزاں پھر جلائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

رَوا اپنے پہ کیوں بیداد رکھّی

جفا گر کی جفا کیوں یاد رکھّی

 

وہاں دیکھیں کِسے کیا بھوگنا ہے

یہاں تو ہرچہ بادا باد رکھّی

 

سلوک اچھا نہیں ہے، لیکن اُس کے

تصوّر سے طبیعت شاد رکھّی

 

گرفتاروں کو شکوہ ہے کہ اُس نے

بہت کم قید کی میعاد رکھّی

 

جنھیں آوارہ کہتی ہے یہ دُنیا

اُنھیں دیوانوں نے آباد رکھّی

 

مزا آیا ہے جینے میں مظفرؔ

ہمیشہ ساتھ اِک اُفتاد رکھّی

٭٭٭

 

 

 

 

دل میں بنجر ہی بنجر ہے مِٹّی کو نم کرنا ہے

ایک غزل کہہ کر خود اپنا پوسٹ مارٹم کرنا ہے

 

بوڑھا برگد سانسیں روکے دو دن سے ہے سجدے میں

کالے بادل گرَج رہے ہیں کتنا ماتم کرنا ہے

 

صحرا صحرا باج رہا ہے نقّارہ پامالی کا

مجھ کو بھی وحشت کرنی ہے اس کو بھی رَم کرنا ہے

 

جس کُوچے میں دنیا والے انگارے دَہکاتے ہیں

ہم درویشوں کو اس میں ہی رقص دَمادَم کرنا ہے

 

سرکاٹیں یا پاؤں تراشیں لوگو کچھ تجویز کرو

اُوپر سے فرمان آیا ہے قد اپنا کم کرنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خوشبُو ہی خوشبُو تھی ، اس کی بستی میں کیا کرتی دھُول

رَین بسیرا کرنے میری آنکھوں میں آ بیٹھی دھُول

 

ساری جھیلیں سری نگر کی ، باغ بغیچے دلّی کے

بابا اپنے گاؤں میں کیوں ہے اِتنی کیچڑ ، اتنی دھُول

 

آخر ہم نے اپنی جھولی اس کے سرپر اُلٹا دی

کیا کرتے قانون یہی ہے اس کے پھُول ہماری دھُول

 

موتی دامن میں تھے پھُول کھلا رکھے تھے چہرے پر

اُس دن ہم نے بھی دُنیا کی آنکھوں میں جھونکی تھی دھُول

 

سوچوتو ، کیا چاند پہ دھبّے ایسے ہی پڑ جاتے ہیں

اور خلاؤں میں یہ کِس کے قدموں کی ہے بکھری دھُول

 

اب میں کِس پر تہمت رکھتا اپنی اپنی قسمت ہے

اُس نے گل افشانی کی تھی میرے سرپر آئی دھُول

٭٭٭

 

 

 

 

صحرا میں یہ کون آ گیا ، آشفتگی آشفتگی

آندھی چلی طوفان اُٹھا آشفتگی آشفتگی

 

میں نے کہا او بے عمل آئینے سے باہر نکل

مت پوچھیے پھر کیا ہوا آشفتگی آشفتگی

 

بہتا رہا دریا مگر ، تڑپا کیا دو ہاتھ پر

اِک بے نوا ، بے دست و پا آشفتگی آشفتگی

 

تھی جس کے دم سے روشنی افسوس اس کے جاتے ہی

منظر دھُواں دینے لگا آشفتگی آشفتگی

 

وہ چادرِ شب اوڑھ کر بیٹھا رہا منہ موڑ کر

میں راستا دیکھا کیا آشفتگی ، آشفتگی

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید