FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

پوکے مان کی دنیا

 

حصہ دوم

 

 

               مشرف عالم ذوقی

 

 

 

جگلی پف

 

 

 

 

 

 

 

 

 

’’تیار رہئے /

دھماکہ بس ہونے والا ہے /

ہوسکتا ہے کہ۔۔۔

آپ کے چیتھڑے اڑ جائیں /

ہوسکتا ہے کہ۔۔۔

 

ہونے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے

مگر، ساودھان/

وہ آ رہے ہیں /

وہ آچکے ہیں /

وہ گیسلی ہے، پوکے مان

بال کی طرح لڑھکے گا۔۔۔ حملہ کرے گا زہر کا

اور/

گانا گائے گا۔۔۔  جگلی پف

انتظار کرے گا لوگوں کے سوجانے کا /

 

شطرنج کی بساط پر پھیل گئے ہیں پوکے مان

آپ کو بس اتنا کرنا ہے

آپ کو ساودھان رہنا ہے /    ‘‘

 

 

 

 

(۱)

 

 

سونی پت کے ریفارم ہاؤس میں تیسری بار جانے کا موقع ملا تھا۔۔۔

میری فرنانڈیس مجھے دیکھ کر لپک کر آئی۔۔۔

’’یس سر‘‘

’’روی اب کیسا ہے ؟‘‘

وہی۔۔۔  ایبنارمل بیہویر ‘‘

’’کوئی بات نہیں۔۔۔ ‘‘

ہم دھیرے دھیرے باتیں کرتے ہوئے چل رہے تھے۔۔۔

’’میں اسے یہاں سے جلد ہی نکال لے جاؤ گا۔۔۔  میرا یہاں بار بار آنا بھی مناسب نہیں ہے مگر۔۔۔ ‘‘

میری نے میری طرف دیکھا۔۔۔

’’اس بچے میں کچھ ہے۔ جوا پنی طرف کھینچتا ہے۔ بات بڑھ چکی ہے۔ آپ سمجھ رہی ہیں نا۔۔۔ ‘‘

میں سب سمجھ رہی ہوں۔۔۔ ‘‘

’’یہ معاملہ ایک پولیٹیکل ایشو بن سکتا ہے۔۔۔  بن رہا ہے۔ کبھی ایک کتاب پڑھی تھی۔ جارج آرویل کی 1984۔۔۔  آپ نے پڑھی، مس میری فرنانڈیس۔۔۔ ؟‘‘

’’نو۔۔۔  نو سر۔‘‘

’’پڑھئے گا۔۔۔  اس میں ایک چہرہ تھا۔۔۔  بگ برادر کا۔۔۔  یہ بگ برادر سماج سے سیاست تک ہر مورچے پر ہمارے ساتھ ہے۔۔۔ موبائیل اٹھائیے۔۔۔  فون اٹھائیے۔۔۔  ایک آواز اچانک آپ کو چونکا دیتی ہے۔۔۔  ہم بول رہے ہیں۔۔۔  پردھان منتری بول رہے ہیں۔۔۔  کیوں بول رہے ہیں۔۔۔  اس لئے کہ الیکشن نزدیک ہے۔۔۔  الیکشن میں سارے اصول بیچے جائیں گے۔۔۔  وہ بگ برادر کی طرح آپ اور آپ کی سوچ پر ناگ کی طرح قبضہ جما کر بیٹھ جائیں گے۔۔۔  الیکشن میں سب جائز ہے۔۔۔  ایک چھوٹا  سا بچہ بھی پبلک ایشو بن سکتا ہے۔ ‘‘

’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں سر۔‘‘

میری فرنانڈیس نے سر جھکا لیا تھا۔۔۔  اب اس کا غصہ کرنا، مجھے برا نہیں لگتا۔ کیا کرے گا سر۔ بچے کو جیسا انوائرمنٹ دو گے، ویسے ہی تو کرے گا۔ لیکن اسے یہاں سے لے جاؤ سر۔

’’کوشش کر رہا ہوں ‘‘

میری فرنانڈس آہستہ سے بولی۔۔۔ ’’کل اس نے ایک فرمائش کی تھی۔‘‘

’’کیا۔۔۔ ؟‘‘

’’اس نے کچھ  پوکے مان کارڈس مانگے تھے۔ْ‘‘

’’پھر۔۔۔ ؟‘‘

میں نے دے دئے۔۔۔ ’’اس وقت بھی۔۔۔  وہ اسی کارڈ سے کھیل رہا ہو گا۔‘‘

پوکے مان۔۔۔

میں دھیرے سے ہنسا۔۔۔

سر۔ یہ پوکے مان کیا ہے۔۔۔  میری فرنانڈیس کی آنکھوں میں سوال تھا۔ میرے کو سمجھ میں نہیں آتاسر۔ ایک بچہ اگر پوکے مان کارڈس سے کھیل رہا ہے تو وہ۔۔۔  بہت بچہ ہے۔ ہے ناسر۔۔۔  پھر وہ ریپ کیسے کر سکتا ہے۔۔۔ ؟

میں گہری الجھن میں تھا۔۔۔

’’میں اس کے پاس گئی۔ بولا۔ مجھے بھی کھلاؤ۔۔۔  پیٹھ موڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔  بولا۔۔۔ نہیں کھلاتا۔۔۔  جب سوگیا تو میں نے اس کے کارڈس دیکھے۔۔۔  چھوٹے چھوٹے کارڈس۔۔۔  چھوٹا چھوٹا کارٹونس۔۔۔  وہ بالکل بچہ ہے۔۔۔  آئی مین سر۔۔۔ ‘‘

میری فرنانڈیس کہتے کہتے رک گئی تھی۔

’’یقیناً وہ بچہ ہے۔ پوکے مان پسند کرنے والا بچہ۔‘‘ میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔ ‘‘

’’تم اس کے بعد بھی ملی۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں۔۔۔  واچ کیا ‘‘

’’کیا پایا۔۔۔ ‘‘

’’بس پوکے مان کارڈس۔۔۔  سارا سارا دن۔۔۔ ‘‘

’’ٹی وی آ گیا۔۔۔ ؟‘‘  میں نے پوچھا۔۔۔  ’’میں رائے کو بول کر گیا تھا۔‘‘

’’نو  سر۔ فائیل چلی گئی ہے۔ آ جائے گا۔‘‘

’’اب ضرورت نہیں۔ میر کوشش ہو گی۔ اس سے پہلے بچے کو یہاں سے لے جایا جائے۔۔۔  مگر۔۔۔  میں کہتے کہتے ٹھہر گیا۔

’’مگر کیا سر۔۔۔ !‘‘

’’ایک پریشانی ہے۔ یہاں سے جانے کے بعد روی کے مسئلے اور بڑھ سکتے ہیں۔ مگر کیا کیا جائے۔۔۔  ابھی سوچتا ہوں۔ پہلے روی سے مل لوں۔‘‘

میری فرنانڈس نے اشارہ کیا۔۔۔  وہ دیکھئے۔

 

کرسی کے دوسری طرح منہ کئے روی کارڈس سے کھیل رہا تھا۔ میں نے میری کو کچھ دیر بعد آنے کا اشارہ کیا۔ میری دبے پاؤ لوٹ گئی تھی۔ بچہ اپنے کھیل میں اس طرح منہمک تھا کہ اسے کسی کی پرواہ ہی نہ تھی۔۔۔  میں نے جوتے بجائے۔ وہ اپنی دھن میں مست تھا۔۔۔

میں نے دوبارہ جوتے بجائے۔۔۔

اس بار اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ پھر اچانک ناگواری کی جگہ اس کے چہرے پر خوشی کی ایک لکیر نمودار ہوئی جیسے کسی میچیور بچے کی طرح اس نے فوراً چھپا لیا۔

’’اچھے ہو ؟‘‘

وہ چپ رہا۔۔۔

’’واپس گھر چلو گے ؟‘‘

اسے اس سوال پر بھی کوئی فرق نہیں آیا۔۔۔ ‘‘

’’پوکے مان کارڈس مل گئے۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں۔۔۔  ہاں۔۔۔ ‘‘ اس کی آنکھوں کی جھیل میں ہزاروں جل کمبھیاں تیرنے لگی تھیں۔۔۔

میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے پاس آ گیا۔

تم بھی پوکے مان ہو۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’مجھے کھلاؤ گے ؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

اس نے ایک کارڈ بڑھا دیا۔۔۔ ‘‘

میں چونکا۔۔۔  کارڈ کو غور سے دیکھا۔۔۔

’’یہ کیا ہے۔۔۔ ؟‘‘

’’جگلی پف۔۔۔ ‘‘

’’جگلی پف۔۔۔ ؟‘‘

اس نے کارڈ واپس لے لیا۔۔۔  وہ ہنس رہا تھا۔۔۔  زور سے ایسے نہیں جیسے بچتے ہنستے ہیں۔۔۔  ہنستے ہوئے وہ بڑا بن گیا تھا۔۔۔

’’ایسے کیوں ہنس رہے ہو۔۔۔ ؟‘‘

وہ ایکدم سے چپ ہو گیا۔۔۔

’’بتاؤ گے نہیں۔۔۔ ؟‘‘

’’کیونکہ یہ میں تھا۔۔۔  میں جگلی پف‘‘

’’تم جگلی پف ہو۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ !‘‘

اس بار اس نے پھر سے ہنسنے کی کوش کی۔۔۔

’’جگلی پف جانتے ہو کیا کرتا ہے ؟‘‘

’نہیں ! ‘‘

’’پہلے گاتا ہے۔ اس کے گانے سے سب سو جاتے ہیں۔۔۔  پھر وہ مائیک نکالتا ہے۔ وہ زور زور سے ہنس رہا تھا۔۔۔  اس کا موٹا جسم۔ غبارے کی ہوا کی طرح، بار بار پھول اور پچک رہا تھا  پھر مائک نکال کر۔۔۔  ہو۔۔۔  ہو۔۔۔ ہو۔۔۔

’’ارے ہنسنا بند بھی کرو۔۔۔ ‘‘

وہ۔۔۔  اس نے تیز تیز ہنستے ہوئے بتایا۔۔۔  ’’پھر وہ سب کے چہرے پینٹ کرنے لگتا۔۔۔  ایسے۔۔۔ ‘‘

اس نے اپنے چہرے پر انگلیوں سے نقاشی کرتے ہوئے بتایا۔۔۔

’’تو تم جگلی پف ہو۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

کیسے ؟ میں نے اس بار غور سے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔

’’وہ۔۔۔  وہ۔۔۔ ‘‘

اس بار اس کی آنکھیں ہرنی کی طرح چوکنی تھیں۔۔۔

’’پتہ نہیں۔ کیا ہوا۔۔۔  سب سوگئے۔۔۔  مام۔ ڈیڈ۔۔۔  اور میں یہاں آ گیا۔۔۔  اب ان کے چہرے پینٹ کر رہا ہوں۔۔۔ ‘‘

کس کے۔۔۔ ؟‘‘

اس کے چہرے پر ناگوار تاثر تھا۔۔۔  وہ چوکی سے اٹھ کر کھڑا ہوا تھا۔

تمہارے پاس اس طرح کے کتنے کارڈس ہیں۔۔۔ ؟ میں نے سوال بدل دیا۔

’’2000‘‘ اس نے انگریزی میں بتایا۔

’’مجھے کھلاؤ گے۔۔۔  ؟‘‘

’’نہیں ‘‘

اس کا، ٹکا سا جواب تھا۔۔۔

٭٭

 

واپس لوٹتے ہوئے اس نئے جگلی پف کا، نیا چہرہ بار بار میری آنکھوں کے آگے منڈرا رہا تھا۔ اور میری فرنانڈیس کی آواز مجھے گھیر رہی تھی۔۔۔

’’یہ بچے پوکے مان سے کھیلتا ہے۔ یہ بچہ ریپ کیسے کر سکتا ہے، سر ؟‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

(۲)

 

 

آنکھیں بند کرتے ہی ایک چمکیلی سی دھند آ جاتی ہے۔ واقعات چاروں طرف سے مجھے گھر لیتے ہیں۔میں ایک بار پھر لاک اپ میں ہوں۔۔۔  اپنی کمپیوٹر میز کے پاس۔۔۔  اسکرین پر بچوں کے ساتھ ہونے والے ریپ اور  Molestation کے اعداد و شمار جھلملا رہے ہیں۔۔۔  میں ان کی پوری تفصیل ڈائجسٹ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔  دراصل ابھی بھی، اس طرح کے معاملوں میں ہمارا یہ قانون بہت بے بس ہے۔

بچے کے ساتھ خاندان اور خاندان کے باہر ہونے والی اس طرح کی رپورٹ، شاید ملک میں ہونے والے کرائم کی دوسری رپورٹوں کے مقابلے سب سے کم تعداد میں درج کی جاتی ہے۔

سال ۱۹۹۰ میں، ۱۰۰۶۸ معاملوں میں ۲۱۰۵، دس سے سولہ سال کے بچے تھے۔۔۔  اور ۳۹۴ لڑکیاں، جن کی عمر دس سال سے کم تھیں۔۔۔  ملک کی راجدھانی میں بلاتکار کے واقعات میں بچوں کا پرسنٹیج بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اب ایسے جرائم میں دو تہائی نابالغ بچے ہوتے ہیں۔ ابھی حال میں ریپ کے ۱۶۲ معاملوں میں ۹۸ نابالغوں کے خلاف تھے۔

بچے، بچے نہیں رہے۔۔۔  گھر باہر کہیں محفوظ نہیں۔ بچوں میں ’ذائقہ‘ تلاش کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔۔۔  اور کون تلاش کر رہا ہے’ ذائقہ‘۔۔۔ کبھی بچے بھی، بچوں میں ذائقہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔۔۔

پولس کے بچوں کے ساتھ ہوئے، ایسے سو معاملات میں بس ایک کی ہی خبر مل پاتی ہے۔ بچوں سے متعلق کچھ اور خطرناک باتیں بھی کمپیوٹر اسکرین پر جھلملا رہی تھیں۔ دلی کے اسپتال میں ۱۳۶۲ ایسے مریض پائے گئے جو ’عضوتناسل‘ کے مرض میں گرفتار تھے۔ سروے میں پایا گیا کہ ان میں ۵۸ لڑکے چودہ سال سے کم کے تھے۔ سروے میں یہ جانچ پڑتال نہیں کی گئی کہ یہ چونکا دینے والے آنکڑے کیا اس بات کو بڑھاوا دیتے ہیں۔۔ کہ عضو تناسل کے مرض، بچی کے ساتھ سمبھوگ کرنے سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔۔۔  جو بھی ہو، ایسے مرض سے متاثر بچوں میں سے کسی نے اپنی طرف سے کوئی معاملہ درج نہیں کرایا تھا۔۔

٭٭

 

آنکھیں بند کرتے ہی ایک چمکیلی سی دھند آ جاتی ہے۔۔۔  روی کنچن نے کیا کیا ہو گا ؟ کیا یہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔۔۔  یعنی جیسا معاملہ اب کھل کر سامنے آ رہا ہے۔

صاف لفظوں میں کہا جائے تو بچپن سے ملے ماحول کی وجہ سے، بچوں کے لئے اگر کوئی کھلونا سب سے دلچسپ ہوتا ہے۔۔۔  تو وہ خود ’’فطرت‘‘ کا عطا کیا ہوا ہوتا ہے۔ چھوٹے بچے شروع شروع میں عضو تناسل کے پھیلنے بڑھنے اور سکڑنے کے عمل کو سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ ایسے میں کئی واقعات ان کے ذہن پر مسلسل شب خون مارتے ہیں۔ جیسے اپنے ماں باپ کو رات میں ایک دوسرے کی آغوش میں دیکھنا۔۔۔   بہت سے ماں باپ اپنے بڑے ہوتے ہوئے بچوں کو بھی اپنے ساتھ ہی سلاتے ہیں اور اس کے خطرناک نفسیاتی تجزیے سے ناواقف رہتے ہیں۔۔۔  وہ بھول جاتے ہیں کہ نہ سونے کی ایکٹنگ کرنے والا بچہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔۔۔  اور سمجھ رہا ہے۔۔۔

پھر اس بچے کو کئی کھلونے آسانی سے میسر آ جاتے ہیں۔۔۔  جیسے ٹی وی پر چلنے والے گندے پروگرام۔۔۔  جب گھر پر کوئی نہیں ہوتا، بچے جھٹ سے ایسے پروگرام دیکھنے میں لگ جاتے ہیں۔۔۔  شروع شروع میں شریانوں میں مچنے والی ہلچل، گرم خون کا اُبال۔۔۔  ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ پھر بچے انجانے میں ہی فطرت کے عطا کئے ہوئے، اپنے کھلونے سے کھیلنے لگتے ہیں۔۔۔  آہستہ آہستہ یہ ’شوق‘ مزہ دینے لگتا ہے۔۔۔  اور آگے کی کاروائی پر اکساتا ہے۔

فرائڈ کا نفسیاتی نقطہ یہ بتاتا ہے کہ لڑکیوں میں، لڑکوں کے اعضا ء کے بارے میں جاننے کا تجسس کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔۔۔  اور ایسے میں سونالی جیسی کوئی چھوٹی بچی، روی جیسے کسی بچے کے ساتھ، اس کے کھیل میں شریک ہونا چاہے تو۔۔۔

مثلاً وہ اس کے جسم پر اچھلنا کودنا شروع کر دے۔۔۔

لڑکے کے خفیہ نازک حصے کو دبانا چاہے۔۔۔

یا دونوں مل کر، تنہائی میں کسی بلیو کیسٹ یا سی ڈی کو ساتھ مل کر دیکھنے لگیں۔۔۔

میڈیکل سائنس نے بھی، ایسے بچوں کے لئے اس سچائی کو تسلیم کیا ہے۔۔۔  کہ ایسے بچوں میں بارہ سال کی عمر میں وہائٹ اسپرم، پوری طرح بن سکتا ہے۔۔۔  ایسے بچوں میں غصہ، جنگلی پن اور سیکس کی سطح پر اتنی زیادہ درندگی ہوتی ہے کہ وہ کچھ بھی کر گزر سکتے ہیں۔

لیکن اگر اس معاملے میں دونوں کی رضا مندی شامل ہے تو کیااسے ریپ کہنا مناسب ہو گا۔۔۔ ؟

شاید نہیں۔۔۔ !

چھوٹی عمر میں ایسے کھیلوں کے لئے بچوں کا تجسس اب بڑھتا جا رہا ہے۔۔۔  اور اب یہ ہمارے معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں رہی۔

٭٭

 

دل اور دماغ دو الگ چیزیں ہیں۔۔۔  دو الگ چیزوں کو ترازو کے ایک پلڑے پر نہیں رکھا جا سکتا۔۔۔

مان لیا، کوئی بچہ اچھا ہے۔ پڑھنے میں تیز ہے۔ مگر دوسری طرف۔۔۔  مان لیا کوئی آدمی شریف ہے۔۔۔  مگر دوسری طرف۔۔۔  دل اور دماغ دو مختلف چیزیں ہیں۔۔۔

ایک آدمی بڑی بڑی باتیں سوچتا ہے۔۔۔  زندگی کے بارے میں اس کا تصور حسین ہے۔۔۔  وہ سب سے ایک جیسا سلوک کرتا ہے۔ مگر دوسری طرف اس کا جسم ہے۔ اور جسم کی اٹھتی مانگوں کو لے کر وہ سپر ڈال دیتا ہے۔۔۔

وہ گجرات کے لئے آواز اٹھاتا ہے۔۔۔  اور دوسری طرف اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری عورت کے تعاقب میں کوٹھے تک جاتا ہے۔۔۔

آدمی میں بیک وقت دو کردار تو ہو ہی سکتے ہیں۔ ایک بہت اچھا آدمی اور ایک بہت بُرا آدمی۔۔۔

ایک بہت اچھا بچہ۔۔۔  ایک بہت برا۔۔۔

کسی ایک لمحے اچھا بچہ سو جاتا ہے۔ اور برا بچہ زندہ ہو جاتا ہے۔۔۔

کسی ایک لمحے اسکول میں پڑھنے والا روی سوجاتا ہے۔۔۔  اور شیطان باہر آ جاتا ہے۔۔۔

مگر۔۔۔ ؟

لاک اپ میں بار بار روی کا چہر نظروں کے آگے گھوم رہا ہے۔۔۔  میں اس چہرے سے بچنا چاہتا ہوں۔ پھر میری فرنانڈیس کا چہر نظر آتا ہے۔۔۔ یہ چہرہ بھی مجھ سے بہت کچھ پوچھتا اور بولتا نظر آتا ہے۔

کمپیوٹر آف کرتا ہوں۔۔۔

آنکھوں میں نیند ہے۔۔۔  اور دماغ میں طوفان۔۔۔  اسنیہہ کی آواز آ رہی ہے۔۔۔

’’سنیل۔۔۔ ‘‘

’’سنیل۔۔۔  کب آؤ گے ؟‘‘

آواز لگاتا  ہوں۔۔۔  ’’آ رہا ہوں۔‘‘

سیڑھیا چڑھتے ہی اچانک ٹھہر گیا ہوں۔ یہ نتن ہے۔۔۔  نتن مجھے دیکھ کر مسکرایا ہے۔۔۔

’’ڈیڈ۔۔۔  آپ ہی کو کھوج رہا تھا۔‘‘

’’مجھے ‘‘

’’ہاں۔ کئی دنوں سے آپ کو دیکھا نہیں۔‘‘

’’چلو۔ برسوں بعد میرا خیال تو آیا۔‘‘

’’نہیں ڈیاڈ۔ ایسا نہیں ہے۔ دراصل بلیو برڈ۔۔۔ ‘‘

’’بلیو برڈ۔۔۔  ہاں۔۔۔  مگر تم نے اس کے بارے میں بتایا ہی نہیں۔‘‘

’’بتاتا کیسے۔ آپ ملے ہی نہیں۔ میں آتا تو آپ غائب ہو جاتے۔ آپ ہوتے تو میں بلیو برڈ۔۔۔ ‘‘

میں مسکرایا۔۔۔ ’’آؤ بیٹھتے ہیں۔ تم نیلے آسمان کے پکچھی بن گئے۔ اب کہاں نظر آؤ گے۔ ‘‘

’’ایسی بات نہیں ڈیڈ۔ مگر اچھا لگتا ہے۔ زندگی سے ایڈونچر چراتے ہوئے۔۔۔  ہماری جنریشن یہی کرتی ہے۔۔۔ اسی لئے ہم کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔۔۔  اپنا راستہ خود تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

’’اچھی بات ہے۔ مگر یہ راستہ کیا ہے۔۔۔  ہمیں بھی تو سمجھ میں آنا چاہئے۔‘‘

میں مسکرایا۔۔۔  ہم وہیں بیٹھ گئے۔۔۔  سیڑھیوں کے پاس۔ دو۔ ایک چیئر نکلی ہوئی تھی۔۔۔

’’آپ کو نیند آ رہی ہے ڈیڈ۔۔۔ ‘‘

’’نہیں۔ بالکل نہیں۔‘‘

دراصل۔۔۔  نتن کہتے کہتے ٹھہرا۔۔۔  ابھی نئی نئی جاب ہے۔ اور کمپنی کو خوش رکھنا ہے۔‘‘

مجھے کچھ اس کے بارے میں بتاؤ۔۔۔ ‘‘

اس کے بارے میں۔ بلیو برڈ کے بارے میں۔۔۔  تنن زور سے ہنسا۔۔۔

’’آپ نہیں سمجھوگے ڈیڈ۔ اب آپ کو کیسے سمجھاؤ۔ کسی دن آؤ تو اپنے سر سے ملاؤں۔۔۔  انڈیا میں ہم نے امریکہ بنا رکھا ہے۔۔۔  بلیو برڈ امریکہ ہے۔۔۔  اندر جاتے ہی انڈیا سے ہما را رابطہ ختم ہو جاتا ہے۔ اور ہم امریکہ میں ہوتے ہیں۔۔۔  امریکی سسٹم کو بے وقوف بنانے کیلئے۔۔۔  ‘‘

’’میں سمجھا نہیں۔‘‘

’’ویری سمپل ڈیڈ۔ یہ دراصل ایک طرح کے کال سنٹر ہیں۔ اور ہم سب کال سنٹر کے ممبر۔۔۔  اگر اس طرح کے آفس کمپنی والے امریکہ میں کھولتے ہیں تو آفس کے خرچ سے لے کر، مینٹیننس اور ہم جیسے لوگوں کو رکھنے پر، انکو کروڑوں خرچ کرنے پڑ سکتے ہیں۔۔۔  اور یہاں یہ کام لاکھوں میں ہو جاتا ہے۔۔۔  اس سے بھی کم میں۔۔۔۔  وہ امریکن سسٹم کو۔ امریکہ میں اپنی سہولتیں، پروائڈ کرتے ہیں۔۔۔  مثلا ًکسی کا کمپیوٹر خراب ہے۔۔۔  وہ فون کرتا ہے۔۔۔  تو یہاں ہماری گھنٹی بج جاتی ہے۔ ہیڈ کوارٹر سے ڈائرکٹ یہاں کال ملا دی جاتی ہے۔۔۔  ہمیں امریکن انگلش سکھائی جاتی ہے۔۔۔  امریکن ایکنسٹ۔ کس علاقے میں کس طرح  کی انگلش بولی جاتی ہے۔۔۔  ہم امر یکی لب و لہجہ میں انہیں سلام کرتے ہیں۔۔۔  ہمارے پاس ایک قطار سے گھڑیاں سجی ہیں۔۔۔  ہم اس کے حساب سے ان کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔۔۔  کہتے ہیں۔۔۔  سات بج گئے۔۔۔  ویدر کتنا اچھا ہے۔۔۔  کوئی بات نہیں۔۔۔  ہم آپ کے کمپیوٹر کی خرابی ٹھیک کر رہے ہیں۔۔۔  ہم انہیں مطمئن کرتے ہیں کہ ہم انڈیا کے کسی حصے میں نہیں، ان کے دلوں میں۔۔۔  ان کے موسم کا حال جانتے ہیں۔۔۔  ان کی قسمت پر فخر کرتے ہوئے۔۔۔

’’دراصل تم انہیں فول بناتے ہو۔‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’جیسے بش ساری دنیا کو فول بنا رہا ہے۔‘‘

’’پتہ نہیں ‘‘

’’تو یہی تمہارا بلیو برڈ ہے۔‘‘

’’یہ تو کچھ نہیں۔ کیا دلچسپ نظارہ ہے ۔۔۔  یہ تو آپ کو آنے پر ہی معلوم چلے گا۔ مگر ہے دلچسپ۔ آپ اس کے بارے میں تفصیل سے تبھی جانیں گے۔ جب آپ خود یہاں آ کر دیکھیں گے۔ کیا آپ آئیں گے دیڈ۔۔۔ ؟‘‘

’’کہہ نہیں سکتا۔‘‘

’’مگر خیر۔ آپ آتے تو مجھے اچھا لگتا۔۔۔ ‘‘

’’کسی دن آؤں گا ضرور۔۔۔ مگر مجھے اچھا لگ رہا ہے، نتن کسی بہانے۔۔۔  بہانہ کوئی بھی ہو۔۔۔  مگر تم لوگ امریکہ کو بیوقوف تو بنا رہے ہو۔۔۔  اب یہ دیکھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا  کہ بیوقوف کون بنا ر ہا ہے۔ یا کون بن رہا ہے۔۔۔  ممکن ہے۔ وہ تم کو امید سے کم سیلری دے کر تمہیں فول بنا رے ہوں۔ مگر خیر۔۔۔  تم آگے بڑھو۔ ایک باپ اس سے زیادہ تمہیں کیا دعائیں دے سکتا ہے۔۔۔ ‘‘

اسنیہہ کی آواز پھر آئی تھی۔۔۔

’’سنیل کیا کرنے لگے ‘‘

’’نتن سے بات کر رہا ہوں۔‘‘

’’خود بھی سوؤ۔ اسے بھی سونے دو۔‘‘

’’آ رہا ہوں۔‘‘

نتن کی پیٹھ تھپ تھپا کر میں دوبارہ سیڑھیاں طئے کرنے لگا۔۔۔

٭٭

 

ریتا بھاوے اور پرماکر بندھو۔

ان کے بارے میں۔ میں آگے چل کر بتاؤں۔گا۔ لیکن یہ فی الحال میرے کیس کے ساتھی تھے۔ پرماکر شروع میں میری باتوں سے سخت اختلاف کرتا رہا۔۔۔  پھر آہستہ  آہستہ اس نے بھی سچ کو تسلیم کرنا شروع کر دیا۔۔۔  پرما یعنی ایک ضدی جرنلسٹ۔۔۔  صرف اپنی بات سمجھنے والا۔۔۔  جیونائل بینچ میں ہم ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔۔۔  پرماکر کا ایک پانچ سال کا بچہ تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اسے بھی پوکے مان پسند تھا۔۔۔  اور جب پرما کر نے میری باتوں پر غور کرنا شروع کیا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچ چکا تھا۔۔۔

’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ کلارٹونوں نے بچوں کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیا ہے۔ بچے اب پکاچو اور پوکے مان جیسے کرداروں کے ساتھ جیتے ہیں۔آپ اگر ان کے نام سے انجام ہیں، تو بچے آپ کے ماڈرن ہونے پر شک کر سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ آپ اپنے بچوں کو صحت مند، وطن دوست اور مہذب بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو انہیں کارٹونوں سے دور کرنا ہو گا‘‘

ریتا بھاوے نے ٹوکا۔۔۔ ’’کیا آسان ہے ؟کیا آپ کر سکتے ہیں ؟بچے بغاوت پر آمادہ ہو جائیں گے۔

’’لیکن روکنا تو ہو گا۔۔۔  پرماکر کی دلیل تھی ’’کارٹون میں کھوئے ہوئے  رہنے والے بچے اندر سے کھوکھلے ہو جائیں گے۔۔۔  بیمار بچے۔ کارٹون بچوں کی ذہنیت کو جرم کی طرف ڈھکیل رہا ہے۔۔۔  وہ بھی انجانے میں۔

ریتا بھاوے کو ناراضگی تھی۔۔۔  ’’کیا کیا روکیں گے۔۔۔ میزائلس۔۔۔  ہتھیار۔۔۔ ملک کی ترقی۔۔۔ ؟ ترقی ہو گی تو یہ سب بھی ہو گا۔‘‘

پرما کے لہجے میں بے بسی تھی۔۔۔  میرے بچے کو اس کوبی ڈو اچھا لگتا ہے۔۔۔  کیوں ؟ کیوں کہ وہ بھوت سے لڑتا ہے۔۔۔  بچے ’پیائے‘ پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ اسپنچ کھا کر آلیو کو پلوٹو سے بچا لیتا ہے۔۔۔  اسے پاورپف گرلس اچھی لگتی ہیں۔ کیونکہ وہ مونسٹر سے فائٹ کرتی ہیں۔۔۔  کیا آپ یا ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ بچوں کو پسند آنے والے کارٹون ہی دراصل ان کے سب سے بڑے دشمن بن گئے ہیں۔۔۔ یہ کارٹون ان کی معصومیت چھین رہے ہیں، انہیں ظالم وحشی اور یہاں تک کہ۔۔۔

ریتا بھاوے نے ناگوار ی کے لہجے میں کہا۔۔۔  Rapist  بنارہے ہیں ’I don’t believe‘۔۔۔  اس کا لہجہ تیکھا تھا۔۔۔  یہ بدلاؤ ہے۔ تبدیلی ہے۔ ایک حادثہ ہوتا ہے تو ہم آپ سب   Moralistہو جاتے ہیں۔۔۔  مبلغ۔۔۔  ہمیں پوری تہذیب کا ستیا ناس ہوتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔  سٹرانڈ۔۔۔  حادثے کو حادثے کی نظر سے کیوں نہیں دیکھتے۔۔۔  حادثہ، کسی ایک لمحے کا سچ ہے۔ حادثے کو Emotion سے کیوں جوڑ تے ہیں۔۔۔  یہ پاگل پن ہے۔Emotionکسی ایک ویکتی (شخص) سے خود کو جوڑ کر، انصاف کی رو سے کیا آپ کا فیصلہ صحیح ہوسکتا ہے ؟

آپ صرف روی کنچن کی باتیں کر رہے ہیں۔۔  اور وہ لڑکی۔۔۔  سونالی۔۔۔  جو دکھ گئی ہے۔۔۔  جس نے اس حادثے کو جھیلا ہے۔۔۔ جس کی آبرو لٹی ہے۔۔۔  وہ۔۔۔  ایک پارٹی، اگر اس معاملے کو دلت کہہ کر اٹھانا چاہتی ہے تو اس میں سونالی کا کیا قصور۔۔۔ ؟ اس کیس میں اگر کس نے کچھ کھویا ہے تو وہ سونالی ہے۔۔۔  اور اس پورے حادثے کو صرف کارٹون یا پوکے مان کی آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔۔۔ ‘‘

ریتا بھاوے کے چہرے پر گہری ناراضگی کے آثار صاف صاف دیکھے اور پڑھے جا سکتے تھے۔۔۔

’’پہلے میں بھی یہی سوچتا تھا۔۔۔  پر ماکر کا لہجہ نپا تلا تھا۔۔۔  لیکن ان کچھ دنوں میں، میں نے بچے کو واچ کیا ہے۔۔۔  اس کے انداز۔۔۔  اس  کے لب و لہجہ کو قریب سے دیکھا ہے۔

’’پھر۔۔۔ ؟‘‘

آپ نہیں سمجھیں گی۔ ریتا بھاوے۔۔۔  لیکن جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں شاید آپ نہیں دیکھ پائیں گی۔۔۔ ‘‘

’’آپ لوگ صرف بھاؤک ہو رہے ہیں۔۔۔  اور اس کا  کارن صرف ایک ہے۔۔۔  تمام بڑی سچائیوں سے منھ موڑ کر آپ نے اپنی ساری توجہ صرف ایک بچے پر صرف کی ہے۔۔۔  جس نے رییپ کیا ہے۔۔۔  آپ بچے کی معصومیت سے اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ وہ ریپ نہیں کر سکتا۔ ایک طرف آپ دنیا کی تبدیلی کی بات قبول کر رہے ہیں۔۔۔  سب سے بڑا پریورتن یہی آیا ہے کہ بچے کم عمری میں، اپنی عمر سے کافی آگے نکل گئے ہیں۔ اس لئے ایسے بچے مرڈر کر سکتے ہیں۔ ریپ کر سکتے ہیں۔۔۔ ‘‘

’’رائٹ۔۔۔  بالکل صحیح۔ ہم یہی کہہ رہے ہیں ریتا بھاوے۔‘‘ پرماکر کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں نے اس کا جائزہ لیا۔۔۔  اور اسی لئے ہمارے لئے یہ بات عجیب ہے کہ ایک طرف کارٹون سے کھیلنا۔۔۔  دوسری طرف ریپ کرنا۔ آپ سمجھ رہیں ہیں نا۔ دو الگ معاملے ہیں۔۔۔  آپ نے ان بچوں کی گفتگو سنی ہے۔۔۔  سنئے۔۔۔  کیوں بے فشوش۔۔۔  کیوں بے پوکے مان۔۔۔  کیوں بے اسکوبی ڈوبی۔۔۔  بچے چیپس خریدتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ کھانا ہے بلکہ انہیں TAZO چاہئے۔ پلاسٹک کا گول سا TAZO ۔۔۔  وہ ہا تھا پائی کرتے ہیں تو WWFکے انداز میں۔۔۔  جینے سے کھانے اور کھانے سے لڑائی تک۔۔۔  ان کے ذہن پر کارٹون اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ بچے اپنی پسندکا۔۔۔  کارٹون دیکھنے کیلئے  آپ سے لڑ سکتے ہیں۔۔۔  ایسے وقت، وہ خطرناک طرح کے جنون میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔۔۔  نہیں ریتا بھاوے۔۔۔  آپ نے ان سچائیوں کو بھی اسی طرح محسوس نہیں کیا تھا۔ مگر اب۔۔۔  اب لگتا ہے بچوں کی ایک الگ دنیا بن گئی ہے۔ کارٹونوں کی دنیا۔ وہ اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ جیتے ہیں۔ کھاتے، پیتے لڑتے ہیں۔۔۔  وہ اسی کارٹون کی بھاشا میں باتیں کرتے ہیں۔ اور ایک دن اسی بھاشا میں باتیں کرتے کرتے وہ ’مونسٹر‘ پکاچو بن جاتے ہیں۔ یعنی ایک بھیانک پوکے مان۔۔۔

ریتا بھاوے نے  گھڑی دیکھی۔۔۔

’’اب چلنا چاہئے مجھے ‘‘

’’نہیں ابھی نہیں ‘‘

’’مجھے یہ بیکار کی باتیں نہیں سننیں۔ ڈسکوری ہے۔ اپنی مل پانیٹ ہے۔ بچے یہ سب بھی تو دیکھتے ہیں۔۔۔ ‘‘

’’ہاں دیکھتے ہیں مگر کتنے بچے۔۔۔  سروے کیجئے۔ اپنے گھر کے آس پاس کا جائزہ لیجئے۔ کارٹون کا جادو بچوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔۔۔  ویڈیو اور کمپیوٹر گیم میں بھی بچے اپنے پسندیدہ ہیروز کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اسی کا نتیجہ ہے۔۔۔  بچے ہنسک بنتے جا رہے ہیں۔۔۔  ان میں ظلم کرنے کی حسرت جاگ رہی ہے۔۔۔  وہ حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ Power کی زبان جان چکے ہیں۔۔۔ ‘‘

’’یس مسز ریتا بھاوے۔۔۔  ‘‘میں نے کافی دیر کے بعد اس گفتگو میں حصہ لیا تھا۔۔۔  Power کی زبان۔۔۔  بچے کیا نہیں کر رہے۔۔۔  چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے۔ آپ دیکھیں تو سہی ہائیپر ایکٹی ویٹی۔۔۔  کانسینٹریشن اور ریسٹ لیس نیس جیسے مسائل سے یہ بچے جوجھ رہے ہیں ؟ کیوں یہ صرف کارٹونوں، بڑھتے ہوئے کارٹونوں  کا negative impact  ہے۔ اور مسز ریتا بھاوے۔۔۔  میری جنگ اسی بات پر ہے۔ دراصل باہرکے جو کارٹون ہمارے ملک میں آ رہے ہیں۔ وہ ہر طرح سے، ہمارے کلچر سے مختلف ہیں۔۔۔  ماحول، زبان اور تہذیب کا ایک بڑا فرق یہ بچے ڈائجسٹ نہیں کر پائیں گے۔۔۔  اس کے بعد۔۔۔ میں روی کنچن کا دفاع نہیں کر رہا ہوں۔ کر بھی نہیں سکتا۔۔۔  میرے لئے دونوں پارٹیاں برابر ہیں۔۔۔  مگر ایک سچ اور بھی ہے کہ دونوں بچے ہیں۔۔۔  اور دونوں بچے ہیں۔۔۔  اس لئے اس سوال کو کچھ زیادہ کریدنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے۔۔۔ ‘‘

’’ممکن ہے۔۔۔ ریتا بھاوے کی پتلیاں کچھ پھیلی تھیں۔۔۔  تہذیب کا کرائسس۔ کتنا   Adoptکرنا ہے اورکتنا نہیں۔ممکن ہے۔۔۔  میں سوچوں گی۔۔۔  انوائرمنٹ اور لینگوئج کا کرائسس۔ سوچوں گی۔۔۔ ‘‘

اس نے ایک بار پھر گھڑی دیکھی۔۔۔

پرما کر مطمئن تھا۔۔۔  ’’آپ سوچیں گی تو پھر ہماری طرح دیکھنے لگیں گی۔ ‘‘

ریتا بھاوے کی آنکھیں ابھی بھی گہری سوچ میں تھیں۔ ابھی نہیں کہہ سکتی۔ مگر میں اس پہلو پر غور کروں گی۔‘‘

اس کے بعد ہماری محفل برخاست ہو گئی۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

(۳)

 

ہیلپ میوزک کے بعد ریا ایک بار پھر۔ گھر کے بوجھل ماحول میں اپنے لئے پناہ ڈھونڈھ رہی تھی۔۔۔  آوازیں  نیچے بھی جاتی ہوں گی، مگر ریا، ان سب سے بے نیا ز تھی۔ پاپا سے، ممی سے اور نتن سے۔۔۔  نتن کی تو اپنی زندگی تھی اور دونوں ایک دوسرے کی زندگی میں انٹر فیر نہیں کرتے تھے۔۔۔

اب یہ کمرہ میوزک ہال تھا۔۔۔

ویلسی اب اس کمرے کام مہمان نہیں تھا۔۔۔  وہ آرام سے اوپر نیچے کرتا تھا۔۔۔  ویلسی نے اپنے کانوں کے چھلے بدلے تھے۔۔۔  جن پتھ کی دکانوں میں گھومتے ہوئے، اس نے اپنے لئے ہاتھی دانت کے بنے کچھ مخصوص چھلے پسند کئے تھے۔

’’میوزک۔۔۔  آہ۔۔۔  ‘‘

ویلسی کی آنکھیں بند تھیں۔ آنکھوں میں نشہ تھا۔۔۔

تم نے مجھے ایک نئی دنیا میں پہنچا دیا ہے، ویلسی !‘‘

یہ ریا تھی۔۔۔ ‘‘

’’ہم ہمیشہ خوابوں میں رہتے ہیں۔‘‘

’’کیونکہ دنیا ان خوابوں کی پناہ گاہ نہیں بن سکتی۔۔۔ ‘‘

’’اس لئے ہم اس دنیا میں سات سروں کی ندیاں لے کر آ جاتے ہیں۔ اور ہمارے خواب۔۔۔ ‘‘

ست رنگے دھنش بن جاتے ہیں۔۔۔ ‘‘

ریا آگے بڑھی۔۔۔

ویلسی آگے بڑھا۔۔۔

ریا کے ہونٹ تھر تھرا رہے تھے

ویلسی کی آنکھوں میں مدہوشی چھا رہی تھی۔۔۔  آہ خواب، سب کچھ  ایک خواب کے لئے۔۔۔ ‘‘

دونوں کے ہونٹ ایسے ملے جیسے دو اپھنتی ہوئی برساتی ندیاں ہوتی ہیں۔۔۔

ندیوں میں جوار نہیں آتے۔ بس لہریں تیز گانے لگتی ہیں۔

ویلسی نے ہونٹ پوچھے۔۔۔

ریا۔۔۔  وہ تیز آواز میں بولا۔۔۔

ریا پیچھے ہٹی۔۔۔  کیا ہوا۔۔۔

اس کے لہجے میں ناگن سی پھنکار تھی۔۔۔

’’بدن ہر وقت گانے کے لئے نہیں ہوتا۔۔۔ اس کے ہونٹ پھر انگارا  بننے کے لئے تیار تھے۔ اور ویلسی کے برف جیسے ہونٹ خوش آمدید کہنے کے لئے۔۔۔  مگر تبھی ایک حادثہ ہو گیا ۔۔۔  ویلسی پھر پیچھے ہٹا۔۔۔  اپنے آپ کو چھڑایا۔

’’تم پاگل کر دیتی ہو۔‘‘

’’خواب ہمیشہ پاگل کر دینے کے لئے ہی تو ہوتے ہیں ‘‘

’’اچھا، اب بیٹھو،  سنو۔۔۔  سنو، ریا۔۔۔  اس کے لہجے میں غصہ تھا۔۔۔  میوزک کی آتما سمجھو۔۔۔  تم ابھی بھی بھٹکی ہوئی لہر ہو۔ تم نے بدن میں صرف انگارے چنے ہیں۔ کھولتے ہوئے انگارے۔۔۔  یہ غلط سندیش ہے۔ جو ہماری جنریشن کی طرف سے ان پرانے لوگوں کو دیا جا رہا ہے۔۔۔  ایک پیڑھی، سیکس میں جلتی ہوئی پیڑھی۔۔۔  جبکہ ایسا نہیں ہے۔ سیکس ہمارے لئے میوزک کا صرف ایک سر ہے۔۔۔  جس میں امنگیں ہیں۔۔۔  جذباتی سیلاب ہے۔۔۔  مگر توازن کے ساتھ۔۔۔  سیکس صرف ایک سر ہے۔۔۔  جبکہ ہمیں ساتوں سر کا ذائقہ لینا ہے۔۔۔  بھٹکو مت۔۔۔  آتما کو اس نرک کے انگاروں سے مکتی دو۔۔۔  یہ تمہیں جلا دے گا۔۔۔ تمہارے ایمبیشن کو۔۔۔  اڑان کو اور تمہیں بھی۔۔۔  پھر تم اوشو کے ہزاروں ماننے والوں کے درمیان کسی آشرم کے ایک کونے میں چلم پیتی ہوئی نظر آؤ گی۔۔۔  ریا۔۔۔  شاید میں بھی وہیں ملتا۔۔۔  اگر جاگتا نہیں۔۔۔  نیند نہیں کھلتی۔۔۔  آؤ سنگیت کے ’ادھیاتم ‘ سے گزرتے ہیں۔۔۔

ویلسی آگے بڑھا۔ کمپیوٹر میں اس نے اوم فیڈ کر کے رکھا تھا۔۔۔  اوم کی ترنگیں کانوں میں گونجنے لگیں۔۔۔ آنکھیں بند کرو۔ محسوس کرو۔ تمہارے بدن کے سارے تار اس ایک ’اوم‘ میں سمانے کے لئے بے چین ہیں۔۔۔۔ ‘‘‘

او۔۔۔ ‘‘

’’او۔۔۔  م۔۔۔ ‘‘

’’اوم۔۔۔ ‘‘

’’او۔۔۔ م م م۔۔۔ ‘‘

’’اوم۔۔۔ ‘‘

ویلسی جھوم رہا تھا ’’۔۔۔ اوم۔۔۔  سنو،  ریا۔ انسانی جسم کے نشو و نما کے لئے غذا ضروری ہے۔۔۔  اور روح کی غذا ہے۔ موسیقی۔۔۔  او۔۔۔  م۔۔۔  ہم سنگیت سے دور ہیں تو ہماری روح ایک مردہ جسم کے مانند ہے۔۔۔  ایک  ایسا مردہ جسم جسکا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔۔۔  بھگوان نے سنسار کا نرمان کیا۔۔۔  اور نرمان کے ساتھ ہی وائلن کے باریک تاروں کو جھنجھوڑنے والا ساز دیا۔۔۔  جھن۔۔۔  جھنا۔۔۔  جھن۔۔۔  فضا میں سنگیت  گونج اٹھا۔۔۔  چاروں اور سنگیت۔۔۔  دریا۔۔۔  پہاڑ۔۔۔  چشمہ، آبشار۔ سنگیت ہی سنگیت۔ تیز بہتی ہوا۔ بہتے جھرنے۔ بہتا آبشار۔ ہلتے ہوئے درخت۔۔۔  او۔۔۔  م۔۔۔  سنگیت اچانک ہمیں سروں کے ابھیمنیو چکر میں لے جا کر،  ایک ایسی سرنگ میں پہنچا دیتا دیتا ہے۔ اور جہاں بس۔۔۔  او۔۔۔ م۔۔۔  رہ جاتا ہے۔۔۔

کمپیوٹر سے اوم آوازیں طرح طرح کے سر پیدا کر رہی تھیں۔۔۔

ویلسی جھوم رہا تھا۔

’’سنو۔۔۔  سنو۔۔۔  ریا۔ سب کچھ سنگیت ہے۔ سنگیت ہے تو ہم ہیں۔ اوتاروں کی بھاشا سنگیت۔۔۔  کرشن کی بنسری سنگیت۔۔۔ رادھا اور میرا کا ہونا، سنگیت۔۔۔  رام کی ادا میں سنگیت۔ سیتا کی سادھنا میں سنگیت۔ آسمان کی کتابوں میں سنگیت۔ چشمہ بہہ رہا ہے۔ آبشار گا رہے ہیں۔ لہریں تلاوت کر رہی ہیں۔۔۔۔  چرند، پرند، دریا، آبشار۔۔۔  اور ہم۔۔۔  تم۔۔۔  تمہارا جسم۔۔۔  تمہارا چہرہ۔۔۔  تمہارے ہونٹ۔۔۔  تمہارے نرم سفید سینے کی گولائیاں۔۔۔  گولائیوں کے درمیان سے گزرتی ایک نرم سڑک۔۔۔  تمہیں دیکھتے ہی جسم سنگیت بن جاتا ہے۔۔۔  آنکھیں بند کروں تو تم کوئل کا گیت، پپیہے کا نغمہ بن جاتی ہو۔۔۔  پی کہاں۔۔۔  پی کہاں۔۔۔  او۔۔۔  م۔۔۔ اوم۔۔۔  او۔۔۔ م۔۔۔ ‘‘

’’او۔۔۔ م۔۔۔

ریا نے آنکھیں بند کیں۔۔۔

’’کھولو۔۔۔  ریا۔۔۔  آنکھیں کھولو۔۔۔

ویلسی اُس  پر جھکا ہو ا تھا۔۔۔

’’آنکھیں کھولو۔۔۔  کھولو۔۔۔  وہ مسکرارہا تھا۔۔۔  دیکھو تم پر سنگیت سوار ہے۔ سوچا تھا آج تمہیں راگ درباری اور خیال راگ درباری کے کچھ نمونے دکھلاؤں گا۔  لیکن چھوڑو۔۔۔  سوچتا ہوں۔۔۔ ‘‘

’’کیا۔۔۔ ؟‘‘

’’سنگیت ایک پھیلا آکاش ہے۔ ایک جسم میں سنگیت کو بہت دنوں تک نواس نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ ویلسی کے سنگیت کا سر اچانک بدلا توریا چونک گئی۔۔۔

’’مطلب۔۔۔ ؟‘‘

’’تم نہیں سمجھوگی۔‘‘

ویلسی ہنسا۔۔۔  ’’بنجارے تو بنجارے ہوتے ہیں۔۔۔  ایک زمین انہیں کہاں بھاتی ہے !‘‘

’’کہیں تم مجھے چھوڑ کر جانے کے لئے تو نہیں کہہ رہے ہو۔‘‘

’’ہاں۔۔۔  ممکن ہے۔۔۔ ‘‘

ویلسی کھڑکی کے اس پار دیکھ رہا تھا۔۔۔  ’’کبھی تم نے آکاش دیکھا ہے۔ انت گہرائیاں۔۔۔ ‘‘

ریا جھٹکے سے اٹھ کر اس کے پاس آ گئی تھی۔ ’’شبدوں سے مجھے مت الجھاؤ ویلسی۔ بتاؤ تمہاری منشا کیا ہے۔‘‘

’’تمہارے ساتھ کافی دن جی لئے۔۔۔  سُر، سادھنا ہے۔ نئی نئی سادھنا۔۔ ‘‘

’’مطلب تم مجھ سے تھک گئے ہو۔۔  میرا جسم تمہارے لئے ایک بور چیز بن چکا ہے۔ یعنی تم اپنے ٹھنڈے جسم کے لئے، میرے انگاروں سے دور بھاگنا چاہتے ہو۔۔۔ ‘‘

’’شریر ایک سنگیت ہے۔۔۔ ‘‘

ریا نے ہاتھ بڑھا کر اسے ایک جھٹکے سے روک دیا۔۔۔

’’یو، سن آف بچ۔۔۔  شبدوں سے مت کھیلو۔۔۔  ہماری جنریشن  Love جیسی چیز پر بھروسہ نہیں رکھتی۔۔۔  یہاں سے جانا ہو، یا مجھ سے دور رہنا ہو تو۔۔۔  پھیکے، بوجھل شبدوں کا سہارا مت لو۔۔۔  ہم دل پر کوئی بات نہیں لیتے۔۔۔  رکھتے بھی نہیں۔۔۔  ویلسی۔ یہ میرا سنگیت ہے۔۔۔  میرا اپنا۔۔۔  ریا کا سنگیت۔۔۔  تم جاؤ گے۔ ایک دوسرا ویلسی آ جائے گا۔ کیونکہ اصلیت یہ ہے کہ ہم  بھی تھک چکے ہیں۔۔۔  ’یونیورس‘ میں دیکھنے والی ہماری آنکھیں تھک چکی ہیں۔ صرف ایک بلیک ہول بچتا ہے۔۔۔  جسمیں ہم اپنا جسم ڈال دیتے ہیں۔۔۔  تھک جاتے ہیں، اس لئے تم جیسوں کاسہارا مجبوری بن جاتا ہے۔۔۔

آئی نو۔۔۔  آئی نو۔۔۔  ریا۔۔۔  But

ویلسی مسکرانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

’’یہ گھر میرا بھی نہیں ہے۔ تمہارا بھی  نہیں۔۔۔  ہم جبراً اس گھر میں مہمان ہیں کیونکہ ہم آئیڈیالوجی اور آئیڈینٹیٹی کرائسس کے مارے ہوئے ہیں۔۔۔  جس دن اس گھرسے اوب جائیں گے۔ باہر نکل جائیں گے۔۔۔ ‘‘

’’تم نے برا مان لیا۔۔۔  ویلسی نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔  سنو، ریا۔ سنگیت سے الگ بھی ایک چیز ہے۔۔۔  زندگی۔۔۔  آج شام ایڈیٹنگ کرتے ہیں۔ فلم، منسٹری میں جمع کرنی ہے۔

ریا نے طنز بھری نظروں سے ویلسی کو دیکھا۔۔۔

’’ایک چھوٹے سے ککرمتّے۔ تم اس سے زیادہ نہیں ہو۔‘‘

آگے بڑھ کر دوبارہ اس نے اپنے ہونٹ کے انگارے اس کے سرد ہونٹوں پر رکھ دیے۔۔

اسی پل کوئی دروازے سے تیزی سے ہٹا تھا۔۔۔

یہ اسنیہہ تھی۔۔۔  دیوار کے سائے میں اپنی ہی  لمبی لمبی  سانسوں سے الجھی ہوئی۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 (۴)

 

وہ صبح کسی خزاں رسیدہ صبح سے کم نہیں تھی۔ باہر ٹوٹ ٹوٹ کر پتے گرے تھے۔ رات تیز تیز ہوا چلتی رہتی۔۔۔  جسم کے پور پور میں اتر جانے ولی ہوا۔۔۔

’’کتنی تیز ہوا ہے ‘‘

اسنیہہ کی آواز کسی گہرے کنویں سے آ رہی تھی۔۔۔

ہاں، موسم بدل رہا ہے

 

بریک فاسٹ ٹیبل پر اس وقت صرف دونوں تھے۔۔۔  کچھ ہی ماہ میں سب کچھ کتنا بدل گیا تھا۔ زندگی۔۔۔  زندگی کے شب و روز۔ نتن اور ریا۔۔۔  نتن صبح سویرے آنے کے بعد زیادہ تر سویا ہی ملتا۔۔۔  ریا، ویلسی کے ساتھ مست تھی۔۔۔

’’سنو۔۔۔ ‘‘

اسنیہہ کی آواز تھرّا رہی تھی۔۔۔

میں نے آہستہ سے کہا۔۔۔  بولو، جبکہ میں سب کچھ تمہاری آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں۔۔۔

’’وہ اڑ رہی ہے۔۔۔ ‘‘

’’وہ اڑ سکتی ہے۔۔۔ !‘‘

’’نہیں وہ ایسے نہیں اڑ رہی۔۔۔  جیسے کہ۔۔۔ ‘‘

’’اڑان سب کی ایک طرح کی ہوتی ہے۔‘‘

’’اب تمہیں میں کیسے سمجھاؤں۔‘‘

تم نے سمجھانے میں بہت دیر کر دی۔ میرا لہجہ بدستور برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔

نہیں  ایسا نہیں لگتا، جیسے ہم اس وقت بریک فاسٹ کی میز پر نہیں، کسی قبرستان میں ہوں۔۔۔ ‘‘

اسنیہہ کہتے کہتے ٹھہر گئی ہے۔۔۔

’’قبرستان۔۔۔ ‘‘

میں نے چونک کر اسنیہہ کو دیکھا۔۔۔  مجھے کچھ یاد آ گیا۔ میں نے ہلکے سے مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔  تم سچ کہتی ہو۔ قبرستان۔ ایک عمر آتی ہے۔ جب ہم قبرستان میں ہی ہوتے ہیں۔اپنی عمر کے قبرستان میں۔۔۔ جہاں بچے ہمیں اکیلا چھوڑ کر اڑ چکے ہوتے ہیں۔ اور بچتی ہے قبرستان جیسی خاموشی۔

مجھے لگتا ہے۔۔۔  میں غلط تھی۔۔۔ ‘‘

اسنیہہ بولتے بولتے رک گئی ہے۔۔۔  ’’کل میں نے دونوں کو دیکھا۔ ویلسی اور ریا۔۔۔  دونوں کو جس حالت میں دیکھا۔۔۔ ‘‘

’’تم نے کچھ نہیں دیکھا ہے۔‘‘

میں نے بریڈ کا ایک ٹکڑا اٹھا لیا۔۔۔ ’’تم نے کچھ نہیں دیکھا ہے۔ تم کچھ کیسے دیکھ سکتی ہو۔۔۔ ؟‘‘

’’وہ بڑی ہو گئی ہے۔۔۔  میرا مطلب ہے۔۔۔  اب اس میں بچوں جیسا۔۔۔ ‘‘

’’بچیاں۔۔۔  جن کی شادی ہوتی ہیں۔‘‘

بریڈ کریم آہستہ آہستہ میرے منھ میں پگھل رہی تھی۔۔۔

’’مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ ‘‘

’’سنو اسنیہہ۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔۔۔  پہلے اس میز پر دو اور لوگ ہوا کرتے تھے۔ اب بھی ہیں۔ اور نہیں بھی ہیں۔۔۔  وہ ہیں بھی اور نہیں بھی ہیں۔۔۔  مگر ہم تم دونوں ہیں۔ اور ہم دونوں ہی اس وقت کاسچ ہیں۔۔۔  تم بچوں میں اس سچ کو بھول گئی تھی۔ کوئی بات نہیں۔۔۔  تم اب واپس آئی ہو۔ دیر سے سہی۔ مگر کوئی بات نہیں۔۔۔  یہ بچے ’پر‘ رکھتے ہیں۔۔۔  اس لئے اڑ سکتے ہیں۔۔۔  تم نے کیا دیکھا  نہیں جانتا لیکن میں بہت پہلے اپنی سوچ کی عینک سے یہ سب دیکھتا رہا۔۔۔  حیرت یہ ہے کہ تم نے یہ سب دیکھنے کے لئے خود کو تیار نہیں کیا تھا۔۔۔  جبکہ میں تیاری کر چکا تھا۔

میں نے بریڈ کاا یک دوسراٹکڑا اٹھا لیا۔۔۔  سنسکرتی۔۔۔  پہلے ہنسی آتی تھی۔ اب سوچتا ہوں۔سنسکرتی۔۔۔  کیا ایک عمر آتی ہے۔ جب ہم سنسکرتی کے بارے میں سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتے ہیں۔ جب ہمیں اپنے کلچر، اپنی وراثت کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ کیا سچ مچ عمر کے کسی لمحے، یہ باتیں ہمیں پریشان کرتی ہیں کہ ایک کلچر ہم سے دور ہو رہا ہے۔۔۔  ایک سنسکرتی ہم سے روٹھ رہی ہے۔۔۔  امریکہ سے ہندوستان تک۔۔۔  ہر بار گھوم پھر کر ہم ایک سنسکرتی کو بچانے کے لالچ میں پڑ جاتے ہیں۔۔۔  اب سوچتا ہوں کہ بی جے پی کے ہندوتو نے اس سنسکرتی کا سوانگ کیوں رہا ہے۔۔۔  دراصل اسنیہہ، یہ ایک بہت سوچا سمجھا دور اندیش منصوبہ ہے۔۔۔  سنسکار۔۔۔  یہ لفظ سب کو پاگل بناتا ہے۔۔۔  ۴۰ پار کرتے ہی بچوں کے آکاش میں اڑتے ہی، ہم اس لفظ کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں۔۔۔  بی جے پی  بھی اس لفظ کے پیچھے بھاگی۔۔۔  اس کے لئے منصوبے بنائے۔۔۔  اس کے لئے عوام کو للچایا۔۔۔  ووٹ بینک کا سلوگن دیا۔۔۔  کتابیں بدلیں۔۔۔  نصاب  بدلے۔۔۔  سب کچھ ایک سنسکرتی کی رکچھا کے لئے۔۔۔  ابھی حال میں جھمپا لہری کی ایک کتاب پڑھی تھی۔۔۔  دنیمسیک۔ اس کا ایک کردار قبرستان میں جاتا ہے اور وہاں دفن لوگوں سے، خود کو کافی قریب محسوس کرتا ہے۔۔۔  یہی ہم ہیں اسنیہہ۔۔۔  اس عمر میں ایک قبرستان ہمیں آواز دیتا ہے۔  ہمیں اپنے قریب بلاتا ہے۔۔۔ ‘‘

 

اسنیہہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔   ’’پھر بھی ہمیں سوچنا تو ہو گا سنیل۔سوچنا تو ہو گا۔۔۔  یہ معاملہ ریا کا ہے۔ قبرستان کا نہیں۔ قدیم روحوں کا نہیں۔ ہماری ریا کا ہے۔ وہ بن مانس اسے۔۔۔ ‘‘

’’بن مانس۔۔۔ ‘‘

میں آہستہ سے ہنسا۔۔۔

’’ہاں بن مانس۔۔۔  مجھے لگتا ہے، وہ اسے تباہ کر رہا ہے۔‘‘

’’کوئی کسی کو تباہ نہیں کر رہا ہے اسنیہہ۔ ان دونوں نے اپنے لئے نئے راستے چنے ہیں۔۔۔  جو نئی تہذیب سے ہو کر گزرتا ہے۔‘‘

’’پھر بھی مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ سوچو، کتنا اندھیرا ہے۔ اتنا بڑا کوارٹر۔۔۔  اور صرف ہم دو۔۔۔  پہلے دو دو بچوں سے ایک ہرے بھرے گھر کے بارے میں سوچ کر مطمئن ہو جایا کرتی تھی۔ مگر اب۔۔۔  ہول آتا ہے۔

’’اپنے آپ کو پہلے کی طرح مصروف کر لو۔‘‘

’’اب نہیں ہوا جاتا۔ اب بچوں کی دیوانگی گھیرتی ہے۔ سنو۔ میں نے ریا اور ویلسی کی باتیں سنی ہیں۔ ان کی باتیں۔۔۔  اف۔۔۔  جیسے میرے کان میں کسی نے پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا ہو۔۔۔ ‘‘

میں نے آہستہ سے خالی پلیٹ کو گھورا۔۔۔  ’’تمہیں ان کی باتیں نہیں سننی چاہئے تھی، اسنیہہ۔۔۔ ‘‘

’’کیوں۔۔۔  وہ میری بیٹی ہے۔‘‘

’’لیکن تمہاری اڑان سے باہر۔‘‘

’’تو کیا ہوا۔ میری بیٹی ہے۔‘‘

’’بچوں نے اپنے آسمان چن لئے۔ اب کوئی دھماکہ نہیں ہو گا ریا۔۔۔  اپنے آپ کو ہر تبدیلی  کے لئے تیار رکھو۔‘‘

کرسی سے اٹھتے ہوئے میں صرف اتنا دیکھ سکا کہ اسنیہہ کی آنکھوں میں نمی آ گئی تھی۔۔۔  مگر کتنی مدت کے بعد۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

(۵)

 

اس دن کورٹ میں چار پانچ مقدمے مجھے دو پہر تک ’’نپٹانے ‘‘ تھے۔۔۔  ساڑھے بارہ بجے کا وقت روی کنچن کے لئے مقرر کیا ہوا تھا۔۔۔  ڈیفنس لائیر کے طور پر نکھل اڈوانی نے میرے کہنے پر یہ کیس ہاتھ میں لے لیا تھا۔۔۔  وہ خود ان دنوں بیحد پریشان چل رہا تھا۔

ان دنوں میرا شوگر بڑھا ہوا تھا۔۔۔  صبح سویرے ٹہلنے کے وقفے میں، میں نے اضافہ کر دیا تھا۔۔۔  شور و غل مجھے کافی پریشان کرتے تھے۔۔۔  میں نے اپنی طرف سے نکھل کو کیس بریف کر دیا تھا۔ اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ صرف روی کنچن کا معاملہ نہیں ہے۔

اس د ن صبح سے، دو ایک کیس ایسے بھی تھے جس نے منھ کا ذائقہ خراب کر دیا تھا۔ ایک کیس لکشمی نگر کا تھا۔ باپ نے بیٹی کے ساتھ ریپ کیا تھا۔۔۔  دو ایک مکان کے جھگڑے کے کیس بھی تھے۔ لیکن دبلی پتلی سی ۱۵، ۱۴ برس کی وہ لڑکی، سہمی ہوئی، بار بار میرا دھیان اپنی طرف کھینچتی رہی۔۔۔  ایک بار بھی اس نے باپ جیسے بھیڑیے سے نظر ملا  کر نہیں دیکھا تھا۔۔۔  شوگر کا فائدہ یا نقصان یہ تھا کہ آج میں تمام کیس کو آگے کی تاریخ میں منتقل کر رہا تھا۔۔۔  کیا کروں۔۔۔  سب ہی یہی کرتے ہیں۔۔۔  کسی کی پیشی نہیں ہوئی۔ کوئی نہیں آیا۔ کسی کی، طبیعت خرابی کی عرضی لگ گئی۔ مقدمہ کی تاریخیں تو بدلتی ہی رہتی ہیں۔۔۔  اور یہ سب میں نے اپنے دوست ججوں سے سیکھ لیا تھا۔ یہ آسان طریقہ بھی ہے۔۔۔  معاملہ جتنا آگے کھنچے گا، ججوں کی اپنی صحت کے لئے بہتر ہے۔

سنیل کمار ائے۔۔  میں کچھ بھی نہیں بھولا۔ اس اگنی پتھ پر چلتے ہوئے ایسانہیں، کہ میں نے شرافت کا چولا ہی اوڑھا ہو۔۔۔  پیسے سے عورت تک۔۔۔  ہزار مقدمے کی پیشیوں میں، آہستہ آہستہ آپ بس ایک پروفیشنل بن کر رہ جاتے ہیں۔۔

میز پر سسٹم اور پالیٹکس کو گالیاں دیتے رہئے۔۔۔  اور مقدمہ کی تاریخ پر تاریخ بڑھاتے رہئے۔۔۔  جیبوں میں پیسے بھرتے رہئے۔۔۔  دلال، غنڈے، موالی، جیب کترے، اور گینگسٹر، کیسے کیسے مجرم۔۔۔  انصاف سے نا انصافی تک سب کچھ کرسیوں، عہدوں اور پیسوں میں چھپا ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی میں تو اس نے ایک خبرپڑھی تھی۔۔۔  پنجاب کے کسی علاقے میں رہنے والا جج پیشہ ور لڑکیوں کے ساتھ پکڑا گیا۔۔۔  وہ یہ دھندہ بہت دنوں سے چلا رہا تھا۔۔۔

لیکن سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔  سارے چہرے ایک طرح کے نہیں ہوتے۔۔۔  پھر۔۔۔  ایک دن ہم بھی بدل جاتے ہیں۔ ایک دن سنسکار آڑے آ جاتا ہے۔۔۔

اور ایک دن اپنے بچے ڈگمگا جاتے ہیں۔۔۔

ایک دن۔۔۔  مذہب نام کا پرندہ آپ کی آنکھوں کی پُتلیوں پر بیٹھ کر پھڑ پھڑانے لگتا ہے۔۔۔

ایک دن۔۔۔

٭٭

 

بس، یہ ایک دن میری زندگی میں بھی آیا۔۔۔  راستے بدلے۔ انداز بدلے۔ اور۔ تبدیلیوں میں رنگے ہوئے بچوں کو دیکھ کر ڈر سا گیا۔۔۔  اور اس کے بعد یہ کیس۔۔۔  یہ معاملہ۔۔۔

مقدمے کی پیشی کے بیچ بیچ میں عدالت کی مٹیا میٹ دیواروں کو دیکھ کر سوچتا۔۔۔  تبدیلیوں کی ضرورت تو یہاں بھی ہے۔۔۔  یعنی ایک اچھا ماحول۔۔۔  فیصلے کے لئے خوشگوار ماحول کا ہونا کتنا ضروری ہے۔ اور کہاں یہ مخدوش عمارت۔۔۔

بارہ بج کر ۴۵ منٹ پر میں نے ایک لمبی جماہی لی۔۔۔ روی کنچن کا نام پکارا جا چکا تھا۔ کیس فائل، اہلکار نے لا کر مجھے سونپ دی تھی۔۔۔  میں نے کچھ دیر ٹھہر کر نکھل سے کانا پھونسی کی۔۔۔  اور آئے ہوئے گواہوں اور پیشیوں کی طرف غور سے دیکھا۔۔۔  روی چپ چاپ سر جھکائے کھڑا تھا۔۔۔  دیوورت اور شالنی پریشان لگ رہے تھے۔ نکھل نے آہستہ آہستہ ان دونوں سے کچھ باتیں کیں۔

پھر اپنی جگہ بیٹھ کر مقدمے کی سماعت کو دھیان لگا کر سننے کی کوشش کرنے لگا۔

پبلک پروزیوکیوٹر کے پاس اپنی دلیلیں تھیں۔۔۔  اور وہ ان دلیلوں کا استعمال بخوبی کر رہا تھا۔۔۔

’’یہ بچے ہماری عمر سے کافی آگے نکل گئے ہیں۔ یہ بچے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بچے جھوٹ بولتے ہیں۔ گالیاں بکتے ہیں۔ بدتمیزی کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور چیٹنگ نے بچوں کو برباد کر دیا ہے۔ اچھے اور تہذیب یافتہ گھروں کے بچے اچھے ہی ہوں گے، اب اس طرح کی منطقیں پرانی پڑ چکی ہیں۔۔۔ ‘‘

راجیودتہ نے کیس پر آنے سے پہلے اپنی دلیلیں سامنے رکھنی شروع کر دی تھیں۔

’’بچے کی دنیا، اب صرف گھر تک محدود نہیں ہے۔۔۔  وہ اپنے آس پاس کے ماحول اور چیزوں کا گہرا مشاہدہ رکھتے ہیں۔۔۔  ہم اور آپ اس عمر میں جن چھوٹی چھوٹی چیزوں پر غور نہیں کرتے، وہ ان بچوں کے ذہن میں پہلے سے تیار رہتی ہیں۔۔۔  یہ بچے دراصل  visually  بہت   rich  ہیں۔۔۔  وہ اپنی آنکھوں کے اسکرین پر چلتی ہوئی کسی بھی  Adult  پکچر کو من سے باہر  نہیں کرتے۔۔۔  بلکہ آہستہ آہستہ ایسی گندیاں انہیں عمل کی جانب اکسانے لگتی ہیں۔۔۔ ‘‘

راجودتہ نے مثال کے طور اپنے دوست رینو بھائی کی طرف اشارہ کیا جو ایک مشہور سائیکرٹیسٹ تھے۔ راجیو نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔

می لارڈ۔ اس لئے آج میں اپنے دوست اور مشہور سائیکریٹرس رینو بھاٹیہ کو یہاں لے کر آیا ہوں کہ ان سے اس کیس میں کچھ مدد مل سکے۔۔۔  سب سے ضروری یہ جاننا ہے کہ گھر کا ماحول کیسا ہے اور بچہ کیا سیکھ رہا ہے۔۔۔  بچے کو آزاد چھوڑ دیجئے تو سائبر اور انٹرنیٹ کی دنیا آہستہ آہستہ بچے پر اپنے پنجے مضبوط کر دیتی ہے۔۔۔

راجیو دتہ کا سارا زور، روی کو ایک بھیانک مجرم ثابت کرنے کے لئے تھا۔۔۔  وہ اس کے قد، جسامت اور اس کی عادتوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔۔۔  مثلا وہ باتیں جو دیوورت نے، نکھل کو بتائی تھیں۔۔۔  اکثر وہ اور شالنی رات گئے تک فلمیں دیکھتے تھے۔۔۔  کبھی کبھی وہ کیسٹ لگا کر بھول بھی جاتے تھے۔۔۔  ممکن ہے۔۔۔  ممکن ہے۔۔۔  ایک بار اس نے روی کو اچانک اس طرح کی فلمیں دیکھتے ہوئے پکڑا بھی تھا۔۔۔  راجیو دتہ کا زور اس بات پر تھا کہ یہ سب آج سے نہیں۔ بلکہ برسوں سے چل رہا تھا۔۔۔  اگر مان لیجئے کہ روی سات سال کی عمر سے ایسی فلمیں دیکھنے کا عادی ہے، تو باقی کے پانچ برسوں میں ریپ کرنے کی طاقت اس میں پیداہوسکتی ہے۔۔۔  سائیکریٹرس، میڈیکل سائنس، ثبوت۔۔۔  اس کے ہاتھوں میں سب کچھ تھا۔ اور وہ ایک سانس میں اخلاقیات سے مجرم بچے کی نفسیات تک ایک ایک پرت، ادھیڑنے میں لگا ہوا تھا۔۔۔۔

رینو بھاٹیہ نے بھی اپنی جانب سے کچھ پرانی باسی باتیں، عدالت کو بتائیں۔۔

’’بچے اب پہلے والے بچے نہیں ہیں۔ باہر کے ملکوں میں دیکھئے۔ اب ایسے بچوں کے لئے نئے نئے قانون بن رہے ہیں۔۔۔  اس نے امریکہ کے کئی شہروں میں ہونے والی ایسی واردات کو مثال بنا کر پیش کیا۔۔۔  جہاں ۱۳، ۱۲ برس کے بچے باضابطہ بلاتکار کے مجرم ثابت ہوئے تھے۔۔۔  یہاں تک کہ ایسے بچوں کے ڈی ان اے ٹیسٹ کے لئے بھی اب وہاں کا قانون بہت حد تک لچیلا ہو چکا ہے۔۔۔  اس لئے، بچے کو بہت زیادہ عمر کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ یہ دیکھئے کہ اس نے جو جرم کیا ہے، وہ کتنا بھیانک ہے۔۔۔  اس کے نتائج کیسے نکلتے ہیں۔۔۔  اس سے ایک بچی کا مستقبل کسی حد تک برباد ہوسکتا ہے۔۔۔  اور ایسے بچے خود کتنے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔۔۔

اس کے بعد راجیو دتہ نے دلت ادھیائے کا سہارا لیا تھا۔۔۔   ایک دلت لڑکی۔۔۔  دلت اونچے اٹھ رہے ہیں۔ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس طرح کی گھٹنائیں ان کا منوبل توڑتی ہیں۔ کب تک دلتوں کے ساتھ یہ سب ہوتا رہے گا۔۔۔

اس درمیان گواہوں سے الٹے سیدھے سوالوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔۔۔ نکھل اڈوانی نے بچوں اور کورٹ سے متعلق، تفصیل سے اپنے نکات پیش کئے۔۔۔  اور پبلک پروزیوکیوٹر کے تمام اندیشوں کو درکنار کرتے ہوئے اس نے ایسے بچوں کے لئے یہ لفظ مجرم کا استعمال نہ کرنے کی وکالت کی۔۔۔

 

اب تک دوسرے کیس کی پیشی کا وقت ہو چکا تھا۔ مجھے ایک مقدمہ اور ’نبٹانا‘ تھا اس کے بعد میں نے اسنیہہ سے وعدہ کیا تھا کہ لنچ اس کے ساتھ ہی کروں گا۔ ڈیفنس لائر کی مانگ پر میں نے اگلے مقدمے کی تاریخ ایک ماہ تک کے لئے بڑھا دی تھی۔ درمیان میں کچھ سرکاری چھٹیاں بھی آ گئی تھیں۔ لیکن تاریخ بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے میرے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ میں آنے والے طوفان کو بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ لیکن فی الوقت تاریخ بڑھانے کے علاوہ میرے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔

ہاں، روی کو ریفارم ہاؤس سے گھر بھیج دینے کی صلاح، ڈیفنس لائر کے دئے گئے بیان پر، میں نے منظور کر لی تھی۔۔۔  میں نے ایک لمحے کے لئے دیوورت کی آنکھوں میں تسلی کا سامان دیکھا تھا۔۔۔  لیکن دیوورت کو کیا پتہ تھا کہ ہوا تیز ہو گئی ہے۔۔۔  اور  سائیں سائیں چلتی ہوئی تیز ہوا، کسی بھی پل بھیانک آندھی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔۔۔

٭٭

 

صبح کی پہلی بیل بجتے ہی میں سمجھ گیا، نکھل ہو گا۔ گاؤن پہن کر میں تیزی سے نیچے گیا۔۔۔  حقیقت یہی تھی کہ نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ رات بھر نہیں سویا۔۔۔  بارہ بجے کے آس پاس ویلسی اور ریا آئے۔ نتن دس بجے ہی اپنے بلیو برڈ روانہ ہو گیا۔ میں کافی دیر تک لاک اپ میں انٹرنیٹ سے کھیلتا رہا۔ پھر اٹھ کر کمرے میں واپس آیا تو اسنیہہ سوچکی تھی۔۔۔

میں اس کی بغل میں لیٹا، دیر تک نیند سے آنکھ مچولی کھیلتا رہا۔۔۔  اس لئے صبح کی پہلی بیل پر اٹھنے میں مجھے دیر نہیں ہوئی۔ نکھل نے مجھے دیکھتے ہی ٹھہاکا لگایا۔۔۔

’’ساری رات سوئے نہیں۔؟‘‘

’’ہاں ‘‘

’’ساری رات خواب میں مقدمہ دیکھتے رہے ؟‘‘

’’ہاں یار‘‘

میں نے گیٹ کا پھاٹک بند کیا۔۔۔

سالے۔ نکھل نے طنزیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔۔۔  سماج اور تہذیب  کے محافظ۔۔۔  اب کیا سوچا ہے ؟‘‘

’’کس کے بارے میں۔۔۔ ؟‘‘

’’سالے تاریخ بڑھانے کے بارے میں۔۔۔  راجیودتہ کو دیکھا ؟‘‘

’’ہاں ‘‘

’’پیسہ بول رہا تھا اس کی آنکھوں میں ‘‘

’’آنکھوں میں نہیں، ہونٹوں پر !‘‘

’’ایک ہی بات ہے ! نکھل کے لفظوں میں سانپ کی سرسراہٹ تھی۔۔۔  یار، ایک بات بتا۔۔۔  ہائے مسز جیٹھ ملانی  کیسی ہیں آپ ؟ ہم چار دن کیا نہیں ملے آپ کا فیگر تو مس انڈیا کو مات دینے لگا ہے۔۔۔

’’ناٹی بوائے۔۔۔ ‘‘

مسز جیٹھ ملانی آگے بڑھ گئی تھیں ایک بار پھر اس نے ٹہلتے ہوئے میری آنکھوں میں جھانکا۔۔۔

’’کیا کل تمہیں ایسانہیں لگا کہ تمہارے تاریخ بڑھانے کے فیصلے سے کچھ آنکھیں ناراض ہو گئی تھیں۔۔۔ ‘‘

’’میں یہ سب نہیں دیکھتا۔‘‘

لیکن میں دیکھتا ہوں۔۔۔ اور ہم کیا ہیں۔ سنیل کمار رائے۔۔۔  تم کیوں اس بچے کو بچانے کے پیچھے پڑے ہو۔۔۔  کیا کچھ نہیں ہوتا ہمارے آس پاس۔۔۔  اور خود ہمارے گھر میں۔۔۔  سوچو مت۔۔۔  سمجھو مت۔۔۔  یہ ہو چکا ہے۔ ایک ڈائناسور ہے۔ جس نے ہماری تہذیبیں نگل لی ہیں۔ یہ سب۔۔۔  تمہارے کلچر، سویلائزیشن۔۔۔  اس نے گندی سی گالی بکی پھر اچانک ٹھہرا۔۔۔

’ہو۔۔۔  ہاؤ آر یو۔۔۔  مس مہرا۔۔۔  پاپا کیسے ہیں ؟ لندن گئے۔۔۔  تب آپ ہمیں ایک کپ چائے ضرور پلائیں گی۔۔۔  وہائی ناٹ۔۔۔  تو کل کا دن مقرر کر لیتے ہیں۔۔۔  کل شام ۷ بجے۔۔۔  یاد رکھیے گا۔۔۔ ‘‘

مس مہرا کو نظر انداز کرتے ہوئے، وہ پھر اپنے مدعے پر آ گیا تھا۔۔۔  یہ تمہارے بی جے پی نے کیا کیا بیچنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔  ایک چھوٹے سے بچے کو بھی ایشو بنا لیتے ہیں۔ یہ سالے حرامی نیتا۔۔۔  نہ آگے دیکھتے ہیں نہ پیچھے۔ اب یہ دیش تو دیش، قانون کو بھی اپنی پارٹی کے حساب سے چلائیں گے۔ اور تم۔۔۔  کیا کر لو گے سنیل کمار رائے۔۔۔  تمہارا گوپال گنج دلی میں نہیں آ سکتا۔ بھول جاؤ اپنا گوپال گنج۔۔۔  تمہیں بھی گوپال گنج سے دلی آئے ہوئے مدت ہو چکی ہے۔۔۔  چلو وہاں بیٹھتے ہیں۔ وہاں سکون ہے۔‘‘

اس نے ٹھہر کر پھر ہیلو کہا۔۔۔

’’ہائے مسز دپتی، منسٹری ٹھیک چل رہی ہے نا۔۔۔ ؟‘‘

دپتی کا پتی نارائن ہیلتھ منسٹری میں ڈپٹی سکریٹری تھا۔۔۔  اس لئے نکھل ہمیشہ اس سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتا تھا۔

ہم دونوں نے کنارے ایک بینچ پسند کر لیا۔۔۔  یہاں آنے جانے والوں کا شور غل  نہ تھا۔ شانتی تھی۔۔۔

’’لالی کا رومانس چل رہا ہے ‘‘

’’کیا۔۔۔ ؟‘‘

چھوٹی چھوٹی بہت ساری زبانوں کے درمیان ایک بڑی بات چپکے سے کہہ دینا نکھل کی عادت تھی۔۔۔  لالی اس کی بیوی تھی۔ کچھ دنوں سے ان کے آپسی رشتوں کے سُرتال میں گڑبڑی آ گئی تھی۔

میں زورسے چونکا۔۔۔

’’جانتا ہے، کیا بول رہا ہے۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں، ایک مسلمان لڑکے سے۔۔۔ ‘‘

’’لڑکے سے۔۔۔ ‘‘

’’کالج میں پڑھتا ہے۔‘‘

نکھل ہنسا۔۔۔  پہلے میں سمجھا رتو کا دوست ہے۔ آتا جاتا ہے۔ مگر پھر راز کھلا کہ لالی اس سے دلچسپی لے رہی ہے۔۔۔  اب وہ دیر تک لالی کے ساتھ گھومتا ہے۔ لالی دیر رات گئے اس کے ساتھ واپس آتی ہے۔ وہ لڑکا بھی جانتا ہے کہ میں یہ حقیقت جان چکا ہوں۔ مگر یہ آج کے لڑکے ہیں۔ اور یہ آج کا رومانس ہے۔ اور سن۔۔۔ ‘‘

نکھل نے قہقہہ لگایا۔۔۔  ’’رتو اب گھر میں نہیں رہتی۔‘‘

’’تو کہاں رہتی ہے۔۔۔ ؟‘‘

میرے ذہن میں دھماکے پر دھماکے ہو رہے تھے۔۔۔

’’ایک فرینچ ایمبسی کا لڑکا تھا۔۔۔  پٹایا۔۔۔  آج کل اسی کے گھر رہتی ہے۔ نو میرج، نو لپھڑا۔ میرا کیا ہے یار۔۔۔  اس سنسار کا سب سے دلچسپ اور خوش قسمت آدمی ہوں۔۔۔  کوئی جہیز نہیں۔ کوئی ٹٰنشن نہیں۔ بیٹی بغیر شادی، اپنے دولہے کے گھر چلی گئی۔۔۔  اور پتنی نے کالج کے ایک لڑکے سے رومانس شروع کر دیا۔۔۔  اور تو سالے۔۔۔  تیرا گھر کون سا الگ ہے۔ ویلسی اور ریا۔۔۔  نتن اور۔۔۔  خیر چھوڑ۔۔۔  ٹینشن مت لے۔ کس کس بات کی ٹینشن لے گا تو۔ اسی لئے تو پوچھ رہا ہوں۔۔۔  سالے تہذیب کے محافظ۔۔۔  اپنا گھر بچائے گا۔۔۔  میرا گھر بچائے گا۔۔۔  کس کس کا گھر بچائے گا۔۔۔  اور کیوں بچائے گا۔۔۔  مجھے لگا، دتہ ٹھیک کہتا ہے۔۔۔  یہ بچے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔  سارے گناہ، سارے غلط، ناجائز دھندے۔۔۔  یہ بچے اگر پیدا ہونے  کے ساتھ ہی ریپ کرنے لگیں تو مجھے حیرت نہیں ہو گی۔۔۔  وہی تمہارا نئے زمانے کا ڈائنا سور۔۔۔  یہ ڈائنا سور تمہارے جوراسک پارک کے ڈائنا سور سے زیادہ بھیانک ہے۔۔۔  وہ حملہ کرتے تھے تو پتہ چلتا تھا۔۔۔  یہ حملہ کرتے ہیں تو پتہ بھی نہیں چلتا۔۔۔  اور جب پتہ چلتا ہے تو کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اور بچ جاتے ہیں ہم۔ دوستو فسکی کا ایڈیٹ۔ اور بچ جاتی ہے ایک کہانی۔۔۔  The story of arediculous man اسی لئے کہتا ہوں۔۔۔  تماشا مت کر۔ مجھے بھی تماشا مت بنا۔ وقت سب کو  تماشا بنا رہا ہے۔۔۔  وہی کر۔ جو پہلے کرتا تھا۔ آ ہم بھی وہیں ریں، جو پہلے کرتے تھے۔ مگر سالا۔۔۔ ‘‘

نکھل رو رہا تھا۔۔۔

نکھل  کو پہلی بار پھپھک پھپھک کر، روتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔

نکھل، میں زور سے بولا۔۔۔

’’ٹھہر۔۔۔  ٹھہر۔۔۔ سالا۔ ‘‘ اس نے آنکھیں پوچھیں۔۔۔  مسکرانے کی کوشش کی۔ آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔ چہرہ شکن سے پر تھا۔۔۔

’’مگرسالا، عمر بھی کیا چیز ہوتی ہے سنیل رائے۔ کیا چیز ہوتی ہے۔۔۔  دوچار سال میں ہی آئیڈیالوجی بدل جاتی ہے۔۔۔  دیکھ سالا مجھے آ گئی تہذیب۔۔۔  سنسکار۔۔۔  وہ ہنس رہا تھا۔۔۔

’’جو ہمارے گھر ہوا، وہ دوسرے کے گھر نہیں ہونا چاہئے۔۔۔  ہم بچائیں گے اس بچے کو۔ اس لئے بچائیں گے۔۔۔  کہ اس بچے کو، اپنے بچوں جیسانہیں ہونے دینا ہے۔۔۔  کیوں جج صاحب۔ ہے نا۔۔۔ ؟‘‘

وہ ہنس رہا تھا۔۔۔  سالا کبھی ہم سسٹم کا حصہ تھے۔ اب ہم سسٹم سے لڑیں گے۔ کیوں لڑیں گے۔۔۔  اس لئے  کہ ہمرا اپنا گھر ہل رہا ہے۔۔۔  زلزلہ آ گیا ہے۔۔۔  عمارت ہل رہی ہے۔۔۔  بس اتنے سے سچ کے لئے لڑیں گے ہم۔ سالے چوتیا ہیں ہم۔۔۔  اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیا تیر مار لیں گے۔‘‘

اس نے لمبی سانس لی۔۔۔  ہاتھ میں اخبار کا بنڈل لے جاتے ہوئے بچے کو روکا۔۔۔ نیشنل ٹائمز کی ایک کاپی خریدی۔ دیر تک اپنے آپ سے لڑتا رہا۔۔۔  پھر یونہی اخبار کی ورق گردانی شروع کر دی۔۔۔

میں جیسے گہر ے سناٹے میں تھا۔۔۔

پن بھی گرے تو آواز سن لو۔۔۔

کیا یہ سب، سچ مچ عمر کا ہی حادثہ ہے کہ اچانک ہم ایک دن سسٹم کا حصہ بنتے بنتے اپنے سنسکاروں کے لئے، اس سے لڑنے پہنچ جاتے ہیں۔۔۔

لیکن۔۔۔  کتنا لڑ پاتے ہیں۔۔۔ ؟‘‘

کیا جیتنا ضروری ہوتا ہے۔۔۔ ؟‘‘

اتنے سارے مقدمے۔۔۔  پیرویاں۔۔۔  رشوت۔۔۔  انصاف کی دھجیاں۔ خود میرے اپنے قلم سے کتنی بار ہوئی ہوں گی۔۔۔  کیا کر لیا میں نے ؟ اور اب کیا کر لوں گا۔ کتنے ہی مجرم سزا سے صاف بچ نکلے ہوں گے۔۔۔  کتنے بے قصور سزائیں اور اذیت جھیلتے ہوئے مجھے بد  دعائیں دے گئے ہوں گے۔۔۔

لیکن یہ سچ۔۔۔

یہ سچ جو ابھی بھی نکھل کی زبان سے ادا ہوا ہے۔ وہ۔۔۔ ؟‘‘

غصہ تو آتا ہے۔۔۔  اس غصہ پر قابو بھی نہیں پایا جا سکتا۔۔۔

ارے۔۔۔  سنیل۔۔۔  سنیل۔۔۔ !

نکھل زور سے چیخا۔۔۔

میں ایک دم سے چونکا۔۔  نکھل کی نظریں اخبار پر چپک کر رہ گئی  تھیں۔۔

اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ کچھ نہیں ہوسکتا۔

’’ہوا کیا۔۔۔ ؟‘‘

’’دیکھ تیری رپورٹ۔۔۔ ‘‘

اس نے اخبار میری طرف بڑھا دیا۔۔۔

مجھے جیسے کاٹ مار گیا ہو۔۔۔

’’نابالغ لڑکی کے ساتھ بلاتکار ‘

نیشنل ٹائمز رپورٹر کی خبر نے ہمیں ایک دم چونکا دیا تھا۔۔۔  اب ظاہر تھا۔ یہ سارا معاملہ سامنے آ چکا ہے۔۔۔  میڈیا، جو ایسی خبریں فروخت کرتا ہے۔۔۔  میڈیا، سرخیوں کے اس خبر کو لپک لے گا۔۔۔  رپورٹر نے انتہائی بھدے اور غلط طریقے سے ایک غلط ہیڈنگ لگائی تھی۔۔۔  اس پورے معاملے کو دلت بھاؤنا سے جوڑ دیا گیا تھا۔

یعنی میں جس بھیانک طوفان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔  وہ طوفان آچکا تھا۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۶)

 

دیوورت اور شالنی کی مصیبتیں بڑھ چکی تھیں۔۔۔

روی کنچن سونی پت کے ریفارم ہاؤس سے گھر واپس بھیج دیا گیا تھا۔۔۔  اس درمیان بورڈ سے، اخبار دیکھنے کے  فوراً بعد ہی میں نے فون کھٹکھٹانے شروع کر دیے تھے۔

میرے ساتھ نکھل بھی تھا۔۔۔

’’بچے کا کیا ہو گا۔۔۔ ؟‘‘

’’وہی جو کسی کرمنل کا ہوتا ہے۔‘‘

مگر اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے کو تو کرمنل کہا ہی نہیں جاسکتا۔   Juvenile  یا  Child  کا مطلب ایسے بچے سے ہے، جس نے ۱۸ برس کی عمر پار نہیں کی ہے۔ اور ایسا بچہ قانون کی رو سے مجرم نہیں کہا جا سکتا۔

تم یہ ساری دلیلیں دے چکے ہو نکھل۔۔۔  کیا ملا۔۔۔ ؟  یہ معاملہ ہمارا، تمہارا کورٹ کا نہیں۔۔۔  الیکشن اور پارٹی کا ہے۔۔۔  پارٹی کے پاس دلت بینک نہیں ہے۔۔۔  پارٹی اس ایشو کودلت بینک بنانا چاہتی ہے۔۔۔

’’تو بچے کے ساتھ کھلواڑ کرے گی۔‘‘

’’کر رہی ہے۔‘‘

’’اب وہ بچہ تو گیا۔‘‘

’’مجھے بھی ایسا لگتا ہے۔ خبر پھیلتے ہی چینلس والے انٹرویو لینے پہنچ جائیں گے۔۔۔  لڑکی کا کیا ہو گا۔۔۔  بھگوان جانے۔۔۔  یہ جئے چنگی رام سے بہتر کون جانے گا۔ جو پارٹی کے لئے کام کر رہا ہے۔۔۔  لیکن لڑکے کو تو اب بھگوان بھی نہیں بچا سکتا۔۔۔  خبر لیک ہوتے ہی چینلس والے اسے چوبیس گھنٹے دکھایا جانے والا ایک بھیانک ایشو بنا دیں گے۔۔۔ نابالغ بچی کا بلاتکا ر بچے کے ہاتھوں۔۔۔  تہذیب گئی۔۔۔  سنسکار ختم۔۔۔  اسکول جانے والے بچوں پربھی بھروسہ مت کرو۔۔۔ یہ بھی ایک سویا ہوا راکچھس ہوسکتا ہے۔۔۔  آپ جانتے ہیں، یہ ساری باتیں کتنا غلط Convey, message کریں گے۔۔۔  کس طرح کا Terror اسکول اور گھروں میں چھا جائے گا۔۔۔  ماں باپ ایسے  co- education  والے اسکول میں اپنے بچوں کو بھیجتے ہوئے  بھی ڈر محسوس کریں گے۔۔۔ کہیں کوئی   Safe نہیں ہے۔۔۔  بچے سے بھی نہیں۔۔۔  ایک  Message  یہ بھی جائے گا۔۔۔  اپنے بچے سے ڈریے۔ آپ کا معصوم دیکھنے والا بچہ بھی بلاتکاری ہوسکتا ہے۔ معصوم شرارتوں والے بچے۔۔۔  لوگ ان بچوں میں ایک بلاتکاری مرد کو ڈھونڈنے لگیں گے۔۔۔  یہ خبر پورے عوام میں بجے گی۔۔۔  باہر بجے گی۔۔۔  اوراس کا        Impact۔۔۔  ؟‘‘

’’پھر کیا کیا جائے۔۔۔ ‘‘

’’مجھے بورڈ سے مشورہ کرنا ہو گا۔‘‘

’’کیا ا س کے لئے مشورہ کرنا ضروری ہے ؟‘‘

کبھی کبھی سدھانت ٹوٹتے بھی ہیں۔۔۔  لیکن پہلے بچے کو اس گھر سے نکالنا ہو گا۔۔۔  اس کے لئے تیاری کرنی ہو گی۔ شکر اس بات کا ہے کہ دلی میں دوسرکار یں ہیں۔ ہم کانگریس سے اپنی منشا پوری کریں گے۔ بچے کو پھر سے ریفارم ہاؤس بھیجنا ہو گا۔ اور وہاں پولس فورس کا بھی انتظام کرنا  ہو گا۔ کیونکہ آگے چل کر کئی وومین آرگنائزیشن بھی لڑکی کے فیور میں سامنے آئیں گی۔۔۔  بچہ خطرے میں ہے اور اس وقت پہلا کام بچے کو بچانا ہے۔

میرا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ میں نے جلدی جلدی اپنے عہدے اور رتبے کا سہارا لے کر ادھر ادھر فون کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی مجھے کامیابی بھی مل گئی۔۔۔

٭٭

 

چارج شیٹ بن جانے کے بعد  Juvenile Justiceکیلئے بورڈ کے تین آدمیوں کی گھوشنا پہلے ہی ہو چکی تھی۔ کیونکہ اس طرح کے انصاف کے معاملے میں جو نائل جسٹس ایکٹ 2000کے تحت، بورڈ میں ایسے تین لوگوں کا ہونا شرط ہے۔ جو بچوں کی نفسیات سے واقف ہوں۔ اور کم از کم ۷برسوں کا تجربہ ہو۔۔۔  جیوڈشیل مجسٹریٹ کے طور پر میرا ایسے بچوں سے نبٹنے کا کافی لمبا تجربہ تھا۔۔۔  اس لئے یہ معاملے میرے ہاتھ آیا تھا۔۔  بورڈ میں میرے علاوہ دو سوشل ورکر بھی تھے۔۔

ریتا بھاوے۔۔۔  جس نے ایسے بچوں کے، کرمنل ایکٹ کو لے کر کئی کئی کتابیں لکھی تھیں۔۔۔

دوسرے، پرماکر بندھو۔۔۔  جرنلسٹ اور سوشل ورکر۔ اپنے اخبار میں بچوں سے متعلق رپورٹ پر کام کرتا تھا۔۔۔  پھر بعد میں غریب بچوں کو تحفظ دئے جانے کے مہم میں شریک ہو گیا۔۔۔  یہ دونوں بھلے لوگ تھے۔ اور اس بُرے وقت میں میرے کام آ رہے تھے۔

ریتا بھاوے اور پرماکر بندھو نے بھی میری طرح صبح کے اخبار میں یہ خبر پڑھ لی تھی۔ اور ان کی بھی یہی رائے تھی ۔۔۔  بچے کو کسی حفاظت والی جگہ پہنچایا جائے۔ ورنہ بچے کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

۹ بجے تک دھماکے کی خبر بھی آ گئی۔۔۔  محلے کے آس پاس کے لوگوں نے مشتعل ہو کر دیوورت کے گھر کا گھیراؤ کیا۔۔۔  کھڑکی، دروازے کے کانچ اور شیشے توڑ ڈالے گئے۔۔   یہ اچھا ہوا کہ ٹھیک اسی وقت پولس وین بچے کی حفاظت کے لئے پہنچ گئی۔۔۔  دو تین فائر کئے گئے۔ آنسو گیس چھوڑی گئی۔۔۔  اور بچے کو کو پولس کسٹڈی میں ریفارم ہاؤس لے جایا گیا۔۔۔

نکھل اس بیچ ان سہمے ہوئے دونوں ’پرانی‘ سے ملنے آیا تھا۔ یعنی روی کے ماتا پتا۔۔۔

وہ ایکدم سے سہمے ہوئے تھے۔۔۔  گھر کے باہر پولس تھی۔۔۔  اندر بھی دو پولس کے سپاہی تھے۔ جو گھر کے ممبر کی طرح اندر باہر کر رہے تھے۔۔۔

دیوورت رو رہا تھا۔۔۔

’’بچے کی کیا غلطی تھی صاحب۔۔۔  ہماری غلطی تھی۔۔۔  ہمیں پھنسایا جا رہا ہے۔

اس کی پتنی شالنی کا بھی روتے روتے برا حال تھا۔۔۔  صاحب، روی کا کیا ہو گا۔بچہ ہے صاحب۔۔۔  کچھ کریے۔ میرا بچہ ایسا نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔

دیورت نے کہا۔۔۔  جئے چنگی رام اپنی دشمنی نکال رہا ہے۔ لیکن میری دشمنی کیا تھی۔ کیا بگاڑا تھا میں نے۔۔۔  اس کی لڑکی آتی تھی۔ گھنٹوں رہتی تھی۔۔۔  روی سے نوٹس لیتی تھی۔ مگر یہ سب۔۔۔  بہت بدنامی ہو رہی ہے صاحب۔۔۔

شالنی رو رہی تھی۔۔۔  میرے بچے کو یہ لوگ مار ڈالیں گے۔ دیکھئے۔ کھڑکی، دروازے۔۔۔  سب کے شیشے توڑ ڈالے گئے۔ یہ پھر آ جائیں گے۔۔۔  ہمیں مار ڈالیں گے۔ آپ کچھ کیجئے۔۔۔ ‘‘

نکھل نے اپنی طرف سے کچھ نوٹس تیار کئے۔ پولس سے کچھ بات چیت کی۔ پھر روانہ ہو گیا۔

٭٭

 

ریتا بھاوے اور پرماکر بندھو کو میں نے اپنے گھر بلوا لیا تھا۔ انہوں نے جو رپورٹ دی وہ میرے لئے نئی تھی۔۔۔

’’روی ریفارم ہاؤس نہیں جانا چاہتا تھا۔۔۔ ‘‘

’’مگر کیوں ؟‘‘

’’وہ کہتا تھا کہ مجھے جیل میں ڈال دو۔ مگر وہاں نہیں۔‘‘

ریتا بھاوے نے اشارہ کیا۔۔۔  شاید وہ ڈر گیا ہے۔ کہیں اس کے ماں باپ پر اتیاچار نہ ہو۔ کہیں اس کے ماں باپ کو وہ لوگ مار نہ ڈالیں۔۔۔ ‘‘

پرماکر بندھو نے جو رپورٹ دی، وہ کچھ دوسری تھی۔۔۔  وہ چھوٹے قد کا تھا۔ دبلا پتلا۔ قد پانچ فٹ دو انچ سے زیادہ نہیں۔۔۔  کرتا پائجامہ پہنچتا تھا۔۔۔  اوپر سے ایک صدری۔۔۔  اس کی آنکھیں چھوٹی اور گول تھی۔ پرماکر بندھو نے بتایا۔۔۔  ’’کیا  ایسا ممکن ہے کہ اسے سونی پت کے ریفارم ہاؤس سے نکال کر دوسرے ریفارمیٹری سینٹر میں ڈال دیا جائے۔ ‘‘

’’مگر کیوں ؟‘‘

’’وہ بچہ وہاں رہنے سے ڈر رہا ہے۔‘‘

’’نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ میں نے انہیں یقین دلایا۔ میں وہاں خود گیا تھا۔ اچھے پیارے لوگ ہیں۔ میری فرنانڈیس اور دوسرے آفیسرس سے مل چکا ہوں۔ دوسری بات، ریفارمیٹری سنٹر کا جو ماحول ہوتا ہے، وہاں سے سونی پت کا ماحول بہتر ہے۔‘‘

ریتا بھاوے نے پوچھا۔۔۔  اب کیا کرنا ہو گا۔۔۔

’’جئے چنگی رام کی پتنی اور بیٹی سے ملنے کی کوشش۔۔۔  آخر ایک باپ ایسی خبروں کو مشتہر کیوں کرنا چاہتا ہے۔۔۔  بہتر ہے کہ آپ لوگ بھی چینلس والوں کو اپنی بات بتایے۔۔۔  اس لئے کہ آپ کورٹ کے ممبر ہیں۔۔۔  مگر نہیں، ابھی نہیں۔۔۔  ابھی آپ اپنے ہونٹ بند رکھئے۔۔۔ کیونکہ آپ لوگوں کے منھ سے نکلی ہوئی کوئی بھی بات، جنگل کی آگ بن سکتی ہے۔۔۔

ہم کوئی انٹرویو نہیں دیں گے۔۔۔  پرماکر بندھو نے کہا۔۔۔  اسے غصہ تھا۔۔۔  میڈیا اپنا فرض بھول کر خبریں فروخت کرنا سیکھ گئی ہے۔ تہلکہ سے جوگی کے اسکینڈل تک۔۔۔  میڈیا کو کس حد تک اپنے control   میں رہنا چاہئے، اس پر قانون بنانا چاہئے۔۔۔  میڈیا اپنی حدیں بھول جاتا ہے۔۔۔  اور خبروں کو بھیانک بناتے ہوئے، وہ خبروں کا آگا پیچھا نہیں دیکھ پاتا۔۔۔  میڈیا کے پاس سے اخلاقیات کے سبق غائب ہو چکے ہیں۔۔۔

’’اخلاقیات کو بعد میں گالیاں دینا پرماکر۔ سوچو، اب کیا کرنا ہے۔۔۔  بورڈ پر بھی جسٹس کا دباؤ بڑھے گا۔۔۔  اور ادھر بی۔اس۔پی اور بی جے پی کے جھگڑے شروع ہو جائیں گے۔ بی۔اس۔پی اس دلت معاملے کو اکیلا اپنا ووٹ بینک سمجھ کر استعمال کرنا چاہے گی۔ سوچتا ہوں۔ کچھ دنوں کے لئے بیمار پڑ جاؤ  court is adjourned

میں آہستہ سے ہنسا۔۔۔

بچے کی  Safety   اور  Security   کو دھیان میں رکھتے ہوئے کچھ تو کرنا ہو گا۔۔۔

ہاں، تم کچھ کہہ رہے تھے پرماکر۔۔۔  میں پرما کر کی طرف مڑا۔ تم کسی زمانے میں جرنلسٹ تھے۔ تھے کیا اب بھی ہو۔۔۔  تم سونی پت کے ریفارم ہاؤس کے بارے میں بتا رہے تھے۔ وہ بچہ وہاں خوش نہیں ہے۔۔۔  کیوں ؟ میں چاہتا ہوں، ایک جرنلسٹ بن کر تم نئے سرے سے یہ معاملہ دیکھو۔ تب تک میں اپنے طور پر اس معاملے کو دیکھتا ہوں۔

میرے لئے حکم۔۔۔  ریتا بھاوے نے آنچل کندھے پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔ وہ چھری esseا۔Varmaل کے خطراطرے بدن کی دبلی پتلی عورت تھی۔ عام طور پر سفید کھادی کی ساڑی پہنتی تھی۔

’’تم ایسی کچھ وومین آرگنائزیشن کو سمجھانے کی کوشش کرو۔ میں نے نکھل سے کہا ہے۔۔۔  وہ آج پھر شالنی اور دیوورت سے ملنے کی کوشش کرے گا۔۔۔ ‘‘

میرے ذہن میں اس وقت صرف آندھیاں ہی آندھیاں چل رہی تھیں۔۔۔  نکھل کا جملہ بار بار ذہن پر شب خون مار رہا تھا۔۔۔  سالا، ہم پہلے سسٹم کا حصہ رہتے ہیں۔۔۔  پھر عمر بڑھتے ہی سنسکار کا سانڈ سامنے آ جاتا ہے۔۔۔   اور ہم، ہم سسٹم کو ٹھیک کرنے نکل پڑتے ہیں۔۔۔ ‘‘

’’سسٹم۔۔۔ ‘‘

آنکھیں بند کرتے ہی ایک چمکیلی سی دھند پلکوں پر حاوی ہو گئی تھی۔۔۔

اور اس دھند میں تیرتے چہروں کو، میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔۔۔  اور ان کی چیخیں سن رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۷)

 

اس دن۔۔۔  سارا دن، حادثوں کے نام رہا۔۔۔  کورٹ سے میں جلد ہی چلا آیا تھا۔ موبائل بار بار بجتا رہا تو میں نے آف کر دیا۔ اس لئے گھر میں ہونے والے ایک بڑے حادثے کی اطلاع مجھے نہیں مل سکی۔ تین بجے تک میں گھر لوٹ آیا تھا۔۔۔  گھر لوٹا تو اسنیہہ کمرے میں روتی ہوئی ملی۔۔۔  شاید وہ دیر سے رو رہی تھی۔ آنکھیں سرخ اور پھولی ہوئی تھیں۔۔۔  میرے پوچھنے پر اس نے وہ کہانی سنادی جس کے لئے میں خود کو تیار کر چکا تھا۔۔۔

’’ریا نے گھر چھوڑ دیا۔۔۔ ‘‘

’’ویلسی آیا تھا ؟‘‘

’’نہیں۔۔۔  ویلسی بھاگ گیا۔‘‘

’’پھر ریا۔۔۔ ‘‘

اسنیہہ رو رہی تھی۔۔۔ پتہ نہیں۔۔۔  یہ آجکل کے بچوں کو۔۔۔

رونا دھونا بند کرو۔ اسنیہہ۔۔۔  وہ اس گھر میں تھی ہی کب۔۔۔ پہلے بھی نہیں تھی۔ا ب بھی نہیں ہے۔ آ گئی تو ٹھیک۔ ورنہ۔۔۔

’’ورنہ کیا ۔۔۔ ‘‘

’’اس دور میں جینے والا ہر آدمی اپنے انجام کا خود ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ مجھے بہت سے کام ہیں۔‘‘

 

لاک اپ روم میں آ کر دیر تک، چھوٹی سی ننھی ننھی ریا کا چہرہ مجھے ڈستا رہا۔۔۔  ہم ابھی بھی کئی معاملوں میں امریکیوں کی طرح پریکٹیکل نہیں ہوئے ہیں۔۔۔  ایک قطرہ آنسوکا ڈھلکا تھا شاید۔۔۔  اسے پوچھ کر میں نے ریا کے احساس کو اپنے وجود سے کھرچ دیا تھا۔۔۔

اب میں صرف ایک جج تھا۔۔۔

اور لاک اپ میں کمپیوٹر اسکرین کی جگمگاہٹ بڑھ گئی تھی۔۔۔

میں انٹرنیٹ کے خطرے کے بارے میں غور کر رہا تھا۔۔۔  انٹرنیٹ۔۔۔  چیٹنگ دلچسپ ہے۔ مزیدار بھی۔۔۔   اور بچوں کے لئے خطرناک بھی۔۔۔  چیٹنگ روم کی محبت کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔۔۔  اس اسے متعلق ایک کہانی میں اس وقت پڑھ رہا تھا۔۔۔  ملیشیا میں کچھ دن پہلے یہ واقعہ یا حادثہ ہوا تھا۔ انٹرنیٹ پر محبت کی باتیں کافی دنوں سے چل رہی تھیں۔ لڑکی، لڑکے کو دیکھنے کے لئے پریشان تھی۔۔۔  لڑکے نے خوبصورت لفظوں میں  Message  بھیج بھیج کر اسے اپنا عادی بنا دیا تھا۔۔۔  دونوں گھنٹوں گھنٹوں ایک دوسرے کے لئے چیٹنگ کرتے رہتے تھے۔۔۔  بالآخر ایک دن طے پایا۔ لڑکی ملنے کے لئے گئی تو وہاں کمرے میں پہلے سے ہی اس کے پانچ دوست بیٹھے تھے۔۔  لڑکی نے بھاگنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی کمرہ بند ہو چکا تھا۔۔۔

 

بھارت میں بھی جیسے جیسے لوگ کمپیوٹر لٹریٹ ہوتے جا رہے ہیں، سائبر کرائم بڑھتا جا رہا ہے۔۔۔ فائنانشیل ٹریفیکنگ۔۔۔  پائریسی۔۔۔  ہیکنگ۔۔۔  سائبر  Terrorism ۔۔۔  پونو گرافی اور سائبراسٹاکنگ۔۔۔  یہ سب نئے نئے سائبر کرائم کی شکلیں ہیں۔۔۔

میں ایک چھوٹی سی رپورٹ پر آنکھیں گڑائے بیٹھا ہوں۔ عام طور پر اس طرح کے حادثوں کو انجام دینے والے لوگ، پڑھے لکھے سافٹ ویر پروفیشنل ہوتے ہیں۔ فائنانشیل ٹریفیکنگ کے کیس میں کرمنل، کسی کمپنی کے کمپیوٹر ورک میں ہیک کر، پراپرٹی کا ایک بڑا حصہ اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرا لیتا ہے۔ کریڈٹ کارڈ رکھنے والوں کی نجی تفصیلات کے ذریعہ ان کے اکاؤنٹ میں ہیرا پھیری آسانی سے ہو جاتی ہے۔ اسی طرح فلم ڈپارٹمنٹ کے لئے پائریسی ایک عام چیز بن چکی ہے۔۔۔

ہیکنگ ایک الگ طرح کا سائبر کرائم ہے۔ جسکے سہارے کسی بھی سائیٹ کو سکسیس (Success) کیا جاتا ہے۔ اور خفیہ معلومات چرائی جاتی ہے۔۔۔  ابھی حال میں ناسا کے آفیشئیل سائیٹ میں جا کر خفیہ راز حاصل کئے گئے۔۔  سائبر ٹیرورزم کے ذریعہ آپ دنیا کے کسی بھی گوشے میں خوف اور آتنک پیدا کر سکتے ہیں۔۔۔

لیکن

میں ٹھہر گیا ہوں۔۔  رک گیا ہوں۔۔۔  روی کنچن کا چہرہ جھلملاتا ہے۔۔

سائبر کرائم کی ہی ایک اور کڑی ہے۔۔۔  آن لائن پورنوگرافی۔ دنیا بھر میں ۶۰ ہزار سے بھی زیادہ ایسے سائٹس ہیں جو بچوں تک کو آن لائن پورنوگرافی سے تباہ کر رہے ہیں۔ ان کا سب سے بُرا اثر معصوم بچوں پر پڑتا ہے۔ جو جانے انجانے ایسے سائٹس کو کلک کر دیتے ہیں۔ پھر ان کا تجسس ایسے سائٹس کے لئے بڑھتا ہی جاتا ہے۔۔۔  ظاہر ہے ایسے سائٹس بچوں کو   Sexual  کرائم کی طرف اکساتے ہیں۔۔۔

آن لائن پورنوگرافی کے علاوہ سائبر اسٹاکنگ پر بھی عورتوں اور بچوں کا شکنجہ کستا جا رہا ہے۔ اس کا شکار وہ عورتیں بھی ہوتی ہیں جو اپنا دل بہلانے کے لئے چیٹنگ کا سہارا لیتی ہیں۔ یا پھر معلومات کی تہہ تک جانے والے بچے۔۔۔  ان کی کمزوریاں، پسند، ناپسند کا خاص دھیان رکھتے ہوئے پیشہ ور سائبر کرمنل انہیں طرح طرح کا لالچ دیتے ہیں۔۔۔  اور پھر انہیں گمراہ کر دیتے ہیں۔۔۔ جسکا نتیجہ کبھی مرڈر، کبھی ریپ جیسے گھناؤنے واقعات کے طور پر سامنے آتا ہے۔۔۔

پبلک پروزکیوٹر کی آواز دماغ کے پردے پر گونجتی ہے۔۔۔  یہ بچے، کل کے بچے نہیں ہیں۔ یہ بچے اپنی عمر سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ یہ بچے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔  ریپ سے مرڈر تک۔۔۔  آپ انہیں  juvenile   یا   child  تصور مت کیجئے۔۔۔  اس لئے قانون کو   juvenile Act  میں تبدیلی لانی ہو گی۔ کیونکہ یہ سائبر بچے ہیں۔۔۔

٭٭

 

سنیل۔۔۔ ‘‘

میں اسنیہہ کی آواز سن رہا ہوں۔۔۔

’’سنیل۔۔۔  سنیل۔۔۔  کب آؤ گے۔۔۔ ؟‘‘

برسوں بعد اس آواز نے مجھے ایک بار پھر تڑپا دیا ہے۔ نظریں گھماتا ہوں تو اسنیہہ سامنے کھڑی ہے۔ مگر یہ کیا۔۔۔  یہ وہ اسنیہہ نہیں ہے۔۔۔ بدلی بدلی ہوئی۔۔۔  ایک کمزور عورت۔۔۔  میں کمپیوٹر آف کرتا ہوں۔۔۔  اس کے کمر میں ہاتھ ڈالتا ہوں اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑتا ہوں۔

٭٭

 

’’وہ تمہاری پیرس والی نائیٹی کہاں ہے۔۔۔ ؟‘‘

میں نے اسے مِرر کے سامنے کھڑا کر دیا۔۔۔  آہستہ سے میری ہاتھوں کی انگلیاں اس کی ساڑی میں الجھتی ہیں۔

’’نو۔۔۔ نو۔۔۔  سنیل۔۔۔ ‘‘

اسنیہہ کے چہرے پر تناؤ ہے۔۔۔

میں بانہوں کے گھیرے میں لے کر اسے مرر کی طرف موڑتا ہوں۔۔۔  ’’خود کو آئینہ میں دیکھو اسنیہہ۔ کیا یہ تم ہو ؟ نہیں۔۔۔  تو کیوں نہیں ہو۔۔۔  تم کو کیا ہو گیا ہے۔۔۔  کیا صرف ریا کے چلے جانے سے۔۔۔  ریا کے چلے جانے سے کچھ نہیں بدلے گا۔۔۔  نہیں۔ کچھ بدلے گا۔۔۔  بدلے گا ضرور۔۔۔ ‘‘

میں اس کا ہاتھ تھامتا ہوں۔۔۔  تم سے کہا تھا نا۔۔۔  لباس میں بھی ایک آئیڈیالوجی چھپی ہوتی ہے۔۔۔  ریا کے غم میں، تم نے وہ آئیڈیالوجی بھی اتار پھیکی۔۔۔  آؤ سات پھیرے لیتے ہیں۔ میری طرف حیرت سے مت دیکھو۔ یاد ہے۔ گاندھی فلم میں بین کنگسلے نے کستوربا کے ساتھ سات پھیرے لئے تھے۔۔۔  بوڑھی عمر میں۔ مجھے لگتا ہے۔۔۔  ایک عمر کی فصل کاٹ دینے کے بعد ایک بار پھر مر داور عورت کو پھیرے ضرور لینے چاہئیں۔۔۔ یہ ہمارا بستر ہے۔ سمجھو یہ اگنی کنڈ ہے۔۔۔  اور ہم پھیرے لے رہے ہیں۔۔۔

یہ پہلا پھیرا ہے۔ میں تمہیں سو یکارتا ہوں۔۔۔  تمہیں تمہارے نام، تمہاری آئیڈینٹیٹی کے ساتھ۔۔۔‘‘

’’یہ دوسرا پھیرا ہے، ہم تا عمر دوست بنے رہیں گے۔‘‘

’’یہ تیسرا پھیرا ہے۔ ہم ایک دوست کی طرح ایک دوسرے کے دکھ اور سکھ میں ساتھ رہیں گے۔۔۔ ‘‘

’’یہ چوتھا پھیرا ہے۔۔۔  ہم اپنی آزادیوں کو، ایک دوسرے کے نام نہیں کریں گے۔۔۔  مگر آزادیوں کا غلط استعمال بھی نہیں کریں گے۔۔۔ ‘‘

’’یہ پانچواں پھیرا ہے۔ بچے ہمارے لئے، صرف ہماری ذمہ داری بھر ہوں گے۔ ہم ان سے زندگی بھر کی خوشی نہیں خرید لیں گے۔۔۔  بلکہ صرف ان خوشیوں پر بھروسہ کریں گے۔ جتنی خوشیاں، جتنی مدت میں وہ ہمیں دینے کی کوشش کریں گے۔۔۔

اور یہ چھٹا پھیرا۔بچوں میں، ہم ایک دوسرے کو بھولیں گے نہیں۔۔۔  کیونکہ بچوں کے علاوہ بھی ماں باپ کا اپنا ایک جیون ہوتا ہے۔۔۔  جسے کسی بچے کے بغیر بھی انہیں     Enjoy  کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

اور اسنیہہ ڈارلنگ۔ یہ ساتواں پھیرا ہے۔ بچوں کی ذمہ داریوں سے بری ہو جانے کے بعد، ہم ایک بار پھر جوان ہو جائیں گے۔۔۔  اور ایک نئی زندگی شروع کریں گے۔

سات پھیرے۔۔۔  سات اقرار نامے۔۔۔  کسی پھول کی طرح اسنیہہ میرے بازوؤں میں ہے۔۔۔  بغیر تھکے۔۔۔  سات پھیروں کے بعد بھی تھکی نہیں ہے۔۔۔  ہاں بستر ناچ رہا ہے۔ ایک لمحے کو آئینہ میں ہم دونوں کا عکس ابھرا تھا۔۔۔ لیکن کیا وہاں ہم تھے۔۔۔ ؟

نہیں کوئی اور تھا۔۔۔

کوئی اور۔۔۔

نتن یا ریا کی عمر جیسا۔۔۔

عمر بوڑھی نہیں ہوتی۔ بوڑھا تو احساس ہوتا ہے۔ اسنیہہ۔۔۔  ریٹائر ہونے دو۔ ہم اور جوان ہو جائیں گے۔۔۔ اس لئے کہ ہم دونوں کے پاس ایک دوسرے کے لئے وقت ہی وقت ہو گا۔۔  اور ٹینشن فری۔۔ ہم زمانے کا غم نہیں پالیں گے۔۔۔  پیسوں کی طرف نہیں دوڑیں گے۔۔۔  بس ایک دوسرے کا ساتھ ہو گا۔۔۔  بچوں کے بڑا کرنے تک، تم کہیں کھو گئی تھی۔۔۔ ‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’جیسے دھند میں ایک آواز گم ہو جاتی ہے۔‘‘

جیسے برف کے گلیشیر پگھلنے سے، خود بخود ایک آواز کا جنم ہوتا ہے۔‘‘

ہاں۔۔۔  ں۔۔۔ ‘‘

یہ اسنیہہ تھی۔۔۔  ’’میں گم ہو گئی تھی۔ لیکن کیوں سنیل۔۔۔  تم تو تھے۔۔۔  تم تھے تو میں گم کیوں ہوئی۔۔۔ ؟‘‘

یہاں میں نہیں تھا۔ ایک سینئر لائر تھا۔۔۔  ہا جیوڈیشیل مجسٹریٹ۔ تم میری نہیں۔ اس عہدے رتبہ والی کی پتنی تھی۔۔۔  اور میرے بچے اسی عہدے، رتبے والے کے بچے۔۔۔  گلیشئر پھر پگھلا۔ جیسے ذرا سی دھوپ نکلی ہو۔ ذرا سی تپش اور ہزاروں کی تعداد میں گلیشیر پگھلتے جا رہے ہوں۔۔۔

میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے۔۔۔  اسنیہہ، میں نے کہا تھا۔۔۔  رات میں تمہاری عمر کہیں کھو جاتی ہے۔۔۔  تمہارے بدن سے آگ کی لمبی لمبی ’جھاس‘ اٹھتی ہے۔۔۔

عمر کیوں یاد دلاتے ہو۔۔۔ ‘‘

’’ساری، غلطی ہو گئی۔۔۔  اب نہیں یاد دلاؤں گا۔ کیونکہ اب ہم نے پھر سے پیدا ہونا شروع کر دیا ہے۔۔۔  نتن اپنی ذمہ داری ہے۔۔۔  اور ریا نے اپنی ذمہ داری کا ریگستان خود ہی چن لیا۔۔۔   اب اپنے لئے ہم ہیں۔۔۔  اور چونکہ ہم ہیں اس لئے  ہمیں جینا ہے۔۔۔  اور شان سے جینا ہے۔۔۔

اسنیہہ کے چہرے پر ابھی بھی غم کے سائے تھے۔۔۔

’’اس طرح بچوں سے بچھڑ کر۔۔۔ ‘‘

’’بچے ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔۔۔ ‘‘

اس کے باوجود۔۔۔ ‘‘

’’لیکن وہ بڑے بھی ہیں۔۔۔  اس لئے وہ اپنے لئے الگ سے ایک زندگی منتخب کریں گے۔ اور جئیں گے۔‘‘

’’مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔ ‘‘

’’ڈرو مت اسنیہہ۔ بچوں کو اپنی زندگی جینے دو۔۔۔  ہم اپنی جئیں گے۔۔۔  نئی دنیا اسی طرح سے چلے گی۔۔۔ ‘‘

 

باہر رات گر رہی تھی

اسنیہہ ابھی بھی کہیں اور دیکھ رہی تھی۔۔۔

ایک لمحے کے لئے، اس نے اپنے آپ کو مجھ سے چھڑایا اور پھپھک پھپھک کر روپڑی۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۸)

 

 

جسیکا لال سے مدھومیتا ہتیا کانڈ تک میڈیا ایسی خبروں کے پیچھے پڑتا ہے۔ پھر صبح سے شام تک ہر نیوز چینل پر یہی بجتا رہتا ہے۔۔۔  بار بار دکھائی جانے والی ایک ہی رپورٹ جو خلاصہ کرتی ہے۔۔۔  اس سے عام نتائج کتنے خطرناک برآمد ہو رہے ہیں، یہ کوئی نہیں سوچتا۔۔۔

صبح کے اخبار نے سونالی ریپ کانڈ کو اچھال دیا تھا۔۔۔  ساتھ ہی منتری جی کا رٹا رٹایا ٹیپ بھی، بیان کی شکل میں موجود تھا۔۔۔  کرمنل کی عمر کیا ہے۔ یہ جاننا ضروری نہیں۔ ضروری یہ ہے کہ ایک دلت لڑکی کے ساتھ بلاتکار ہوا ہے۔۔۔  شوبھا اور جئے چنگی رام کی یورس بھی تھیں۔۔۔  جئے چنگی رام کا اپنا بیان بھی تھا۔

معاملہ بیٹی کا تھا۔ وہ بھی کم سن بیٹی کا۔۔۔ لیکن اس طرح ہر آدمی سچ کو چھپا کر بیٹھ جائے تو ظالم کے خلاف کون لڑے گا۔۔۔  مجھے بدنامی کا ڈر نہیں ہے۔۔۔  میں اپنی لڑکی کے لئے نیائے کی ہرسیما تک جاؤں گا۔۔۔ اور لڑوں گا۔

یہی بیان نیوز چینلس میں بھی بار بار فلیش کئے جا رہے تھے۔۔۔ ڈری سہی سونالی کے چہرے کو چینلس نے چھپا دیا تھا۔۔۔  مگر اخباروں میں سونالی کی تصویر چھپ گئی تھی۔۔۔

ایک ڈرا سہما چہرہ شوبھاکا بھی تھا

میں کیا بولوں۔۔۔  مجھے کچھ نہیں بولنا۔۔۔

اس کے روئے روئے چہرے میں ایسا بہت کچھ تھا، جسے پڑھا جا سکتا تھا۔۔۔

’ٹی نیوز ‘ اور’ اب تک‘ چینل  نے سماج کے بدلتے رویے کو لے کر کتنے ہی بڑے بڑے لوگوں سے انٹرویو کئے تھے۔۔۔

اس درمیان یہ خبر بھی آ گئی، کہ روی کنچن کا نام اس کے اسکول سے کاٹ دیا گیا ہے۔

اسکول پرنسپل کا بیان شامل تھا۔۔۔

’’گارجین کے دباؤ میں وہ ایسے کسی بھی بچے کو اپنے اسکول میں نہیں رکھ سکتے۔۔۔  اس لئے روی کنچن کو ہٹانے کا فیصلہ اسکول کمیٹی نے اپنی ایک اہم میٹنگ میں لے لیا ہے۔۔۔ ‘‘

سنگھ پریوار اور بی جے پی کے کچھ ’وکتا‘ اس بات کو بھی اٹھا رہے تھے۔۔۔  کہ اسکولوں میں بچوں کے یونیفارم بدلے جائیں۔۔۔  کیوں کہ لڑکیوں کے چھوٹے چھوٹے کپڑے بھی، ساتھ پڑھنے والے لڑکو کو ’جنسی جنون میں مبتلا کر سکتے ہیں۔۔۔  وہ بھی ایسے وقت، جب انٹرنیٹ چیٹنگ عام ہے۔۔۔  اور کمپیوٹر پر بچے آن لائن پورنا گرافی پر، کچھ بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔

’ٹی نیوز‘ ایک خوبصورت سروے دے رہا تھا۔۔۔  یہ سروے میرے لئے انٹرسٹنگ تھا۔۔۔

میں نے کمر سیدھی کی اور نظریں ٹی وی کی جانب مرکوز کر دیں۔۔۔  اس پروگرام میں ڈاکٹر بھی تھے۔ سوشل ورکر بھی۔۔۔  سائیکریٹرس بھی تھے اور منتری بھی۔۔۔ ساتھ ہی اینکر بدلتے ہوئے سماجی نظام پر اپنا تبصرہ بھی کرتی جاتی تھی۔۔۔

مہانگر میں ہر چھٹا بچہ / بچی موٹا پے کا شکار ہے۔۔۔

پانچ میں سے دو بچے کا لیسٹرول اور ڈائبٹیز کے بھی شکار ہیں۔۔۔

پانچ میں سے ایک بچہ سیکسول ٹینشن کے درمیان زندگی گزار رہا ہے۔۔۔

منتری جی فیگر اینڈ فیکٹ دیکھتے ہی چلا پڑے۔۔۔  دیکھئے۔۔۔ کیا کہتے تھے ہم۔۔۔  یہ وہی بچے ہیں کیا۔۔۔  ہماری عمر والے۔۔۔  نہیں ہیں نا۔۔۔  ہم بچے تھے تو کا ہم کوشو گر ہوتا تھا۔۔۔  کالیسٹرول ہوتا تھا۔۔۔  کاہم کو ٹینشن پریشان کرتا تھا۔۔۔  ارے یہ سب کا ہوتا ہے۔۔۔  ہم جانتے بھی نہیں تھے۔۔۔ اور یہ بچے۔۔۔  اور کانگریس کہتی ہے۔۔۔  ۱۲ سال کے بچے کو مجرم کہنا بند کیا جائے۔۔۔  کاہے بھائی۔۔۔ مرڈر کرنے والے کو ہم مرڈر نہیں کہیں گے۔۔۔   اور ریپ کرنے والے کو۔۔۔

 

اینکر بتا رہی ہے۔۔۔  اس کے پیچھے منظر بھی دکھائے جا رہے ہیں۔۔۔ ذرا ان کمسن لڑکے لڑکیوں کو دیکھئے۔۔۔  ملٹی پلیکس سنیما گھر سے کافی شاپ تک۔۔۔  لیوائس کی جینس، کھلی شرٹ۔ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے۔۔۔ موج مستی کے شوقین۔ لیکن کیا یہ صحت مند ہیں۔۔۔  بچے تیزی سے بھیانک موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں۔۔۔  چھوٹی عمر سے ہی ان میں شروع ہو جاتی ہے، بڑی عمر کی بیماریاں۔۔۔

سائیکریٹس کا چہرہ اسکرین پر روشن ہوتا ہے۔۔۔  ۲۰ فیصدی بچے گھبراہٹ کا شکار ہیں۔۔۔  زیادہ تر ڈرگس کے عادی۔۔۔  دوسری طرف غیر فطری طور پر ہارمونس کا ڈولوپمنٹ۔ بچوں کا جسم ایک نیا Shape لے رہا ہے۔۔۔  نتیجہ، ۸۰ فیصدی موٹے بچے۔ ہر معاملے میں جوانوں جیسے نظر آنے لگتے ہیں۔۔۔

کیمرہ اب ڈاکٹر کے چہرے کا کلوز اپ لیتا ہے۔۔۔ یہ بچے حال میں جیتے ہیں۔ برگر اور پیزا کی دنیا میں۔۔۔ انہوں نے اپنے لئے جوانوں جیسی تمام بیماریاں خرید لی ہیں۔۔۔ جنک فوڈ کھانے والے ان بچوں کو نہ صرف شوگر اور ہائپر ایکٹی ویٹی کی شکایت ہو رہی ہے۔ بلکہ ان کی آنکھیں بھی کمزور ہو رہی ہیں۔

’’نتیجہ۔۔۔ ‘‘

کیمرے میں اینکر مسکراتی ہوئی دخل ہو رہی ہے۔۔۔  ذرا سوچئے اس بھاوی پیڑھی کے بارے میں۔۔۔ اس نیو جنریشن کے بارے میں۔۔۔     سونالی ہتیا کانڈ نے پہلی بار سبھیتا بچاؤ کا بگل بجا دیا ہے۔۔۔ بھارت اُدے اور انڈیا شائننگ کے دور میں ایسی گھٹناؤں پر نظر ڈالیے، بھارت کے اڑنے کی ساری کہانی آپ ہی آپ نظر آ جاتی ہے۔۔۔  انڈیا شائننگ بچے چمک رہے ہیں۔ بھارت اُدے۔۔۔  بچے بیمار پڑ رہے ہیں۔۔۔

کیمرہ میں ڈاکٹر کا چہرہ چمکتا ہے۔۔۔  دیر رات تک ٹی وی۔۔۔  انٹرنیٹ چیٹنگ آن لائن پورنوگرافی کے پروگرامس۔۔۔  جنک فوڈ۔ اور آڈیو۔ ویڈیو آنے والے گندے پروگرامس نے بچوں کو اپنی عمر سے پہلے بڑا اور جوان کر دیا ہے۔۔۔  انٹرنیٹ پر بچوں کو سیکس کے متعلق تمام باتیں تفصیل سے مل جاتی ہیں۔

کیمرہ، میں اینکر کا چہرہ جھانکتا ہے۔۔۔  دراصل جوائنٹ فیملی کی ضرورت ایسے ہی وقت میں محسوس ہوتی ہے۔۔۔ اکیلا خاندان بچوں کی حفاظت نہیں کر سکتا۔۔۔ جوائنٹ فیملی چھوٹے بچوں پر نگاہیں رکھنے میں سہولت دیتی ہے۔ ایسے میں بچے بے خوف، نڈر اور جنونی بنتے جا رہے ہیں۔ اسی لئے کبھی کبھی وہ جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور  بہک جاتے ہیں۔ اور۔۔۔

اینکر مسکراتی ہوئی بتاتی ہے۔۔۔  آپ یقین نہ کریں لیکن یہ سچ ہے۔ زندگی کے پہلے سیکسوئل ریلیشن کی عمر ۲۰۔۱۸ سے کم ہو کر اب ۱۴۔۱۲ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ سچ اب صرف امریکہ کا نہیں ہے۔ بھارت کا بھی ہے۔۔۔

اس کے بعد بی جے پی اور کانگریس ورکر’ تو تو میں میں ‘ کا نظارہ بھی تھا۔۔۔  مگر میں نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔۔۔  ایشو، وسپھوٹ کر چکا تھا۔

دھماکہ ہو چکا تھا۔۔۔

دباؤ بڑھ رہے تھے۔ اب سارا معاملہ حکومتوں کی ’تکرار‘ میں آگے بڑے گا۔

الگ الگ چینلس پر بی اس پی اور دوسری پارٹیاں، اپنی مخالفت کے سُر الاپ رہی تھیں۔۔۔

سڑک، باہر، دفتر، چوراہے، گھر۔۔۔  ہر جگہ بس اسی معاملے کی گونج سنائی دے رہی تھی۔۔۔

لیکن ابھی ایک دھمسکہ اور انتظار کر رہا تھا۔۔۔

پرماکر بندھو، روی کنچن سے ملنے گیا تھا۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

MEOWTH

(راکٹ ٹیم کا پوکے مان)

 

 

 

 

راکٹ ٹیم چاہتی ہے

’ایش‘ کے پکاچو کو

اپنے قبضے میں کرنا

٭٭

 

Jussey، Jainks  اور میوتھ

راکٹ ٹیم کے خطرناک ممبر

سازش تیار کر رہے ہیں

ایش اور پکاچو کے لئے

٭٭

پوکے مان ٹرینرس نہیں رہیں گے

بچیں گے،

صرف پوکے مان

اپنے جیسے پوکے مانوں کے درمیان

 

 

 

 

 

(۱)

 

 

زندگی بھی کیسے کیسے امتحان لیتی ہے۔ دیوورت اور شالنی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وقت کبھی انہیں، اس طرح کے امتحان میں بھی ڈال سکتا ہے۔۔۔  حادثے کے بعد سے جیسے شب و روز بدل گئے تھے۔۔۔ گھر میں ایک سرد سی خاموشی نے ڈیرہ ڈال دیا تھا۔ فون کی گھنٹی بجتے ہی جیسے روح کانپنے لگتی۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف حیران پریشان نظروں سے دیکھتے۔۔۔ کس سے باتیں کریں۔ کیا باتیں کریں۔۔۔  ایک طرف ٹی وی خاموش پڑا تھا۔ ٹی وی چلتے ہی، جیسے بھیانک طوفان کمرے میں سمٹ آتا۔۔۔  نیوز چینلس پر رہ رہ کر اُن کی بدنامیوں کے قصّے دکھائے جا رہے تھے۔ کبھی کبھی آس پاس، محلے والوں کے چہرے بھی دکھائی دیتے۔۔۔

’میں نہیں سمجھتا تھا کہ ایسا لڑکا ہے۔‘

’باپ رے۔ اتنی سی عمر اور یہ کارنامہ۔‘

’میں نے اُسے کتنی ہی بار آتے جاتے دیکھا ہے۔ سوچ بھی نہیں سکتی کہ یہ بچہ۔ ۔  رام رام۔ ۔  کیسا زمانہ آ گیا ہے۔ ۔ ‘

’ایسے بچوں کے لئے آپ کیا کر رہے ہیں ؟‘

کسی سدھا ر گھر میں ڈال دیں گے۔ اس سے کیا بچے کا کرمنل مائنڈ بدل جائے گا۔۔۔ ؟‘

 

یہ اُس کے محلے والے ہوتے۔محلے والے، جن کے الگ الگ چینلس والوں نے انٹرویو لئے تھے۔ یہ محلہ اور اُن کا گھر اچانک انٹرنیشنل نیوز کا ایک حصہ بن گیا تھا۔۔۔  اور اُس پر سے یہ ٹی وی چینل والے۔ جب تب فون کر بیٹھتے۔۔۔  یا پھر کوئی نہ کوئی کیمرہ لے کر پہنچ جاتا۔۔۔  وہ کچھ بھی نہیں کہتے، تب بھی فوٹو کھینچ کر لے جاتے۔۔۔  ایک بار شالنی چلّا کر بولی تھی۔

’آپ کے بچے نہیں ہیں کیا۔ آپ کے بچے ٹی وی نہیں دیکھتے کیا۔ کیا آپ اپنے بچوں کو چھوڑ کر، گھر سے باہر نہیں جاتے۔ کیا ہر وقت مرغی کی طرح بچوں کو سبتے رہتے ہیں آپ لوگ۔۔۔  ؟جائیے ہمیں کچھ نہیں بولنا ہے۔۔۔  بچے سے غلطی ہو گئی۔ آپ لوگوں نے تل کا تاڑ بنا دیا ہے۔‘

شالنی کا یہ انٹرویو بار بار چینلس پر ریپیٹ کیا جا رہا تھا۔ دیوورت نے ناراضگی جتائی۔

’تمہیں یہ سب بولنے کی کیا ضرورت تھی؟‘

’کیا کرتی۔ میں بھی آدمی ہوں۔‘

’اُن لوگوں کا تو یہی کام رہ گیا ہے۔‘

’سارا دن یہی کرتے رہتے ہیں۔ ہم بازار نہیں جا سکتے۔ شاپنگ نہیں کر سکتے۔ پبلک فیگر بن گئے ہیں۔ ہر کوئی دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے۔ دیکھو۔ اُس کی ماں آ گئی ہے۔ کیا بچہ جنا ہے۔۔۔  فوراً ہی بھیڑ لگنی شروع ہو جاتی ہے۔۔۔  کہیں بھاگ چلیں۔‘

’کہاں بھاگو گی۔۔۔  سنا نہیں۔ پولیس والا کیا کہہ گیا ہے۔ ہم شہر چھوڑ کر جا بھی نہیں سکتے۔‘

’اچھی بلا گلے پڑ گئی ہے۔ کھڑکی سے دیکھو۔‘

شالنی نے ذرا سا پردہ ہٹایا۔ پھر پیچھے ہٹ گئی۔۔۔

’ابھی بھی کچھ چینل والے باہر ہی کھڑے ہیں۔ شاید ہم باہر نکلیں۔ کچھ پوچھیں۔ کیمرہ آن کریں۔ اور ہمارے غصّہ کو ’اسکوپ‘ بنا کر لوگوں تک پہنچائیں۔‘

’یہ اُن کی مجبوری ہے۔‘

’مجبوری نہیں ہے۔ یہ اب ’بچے‘ بھی بیچتے ہیں۔۔۔  پتہ نہیں میرا بیٹا کس حال میں ہے۔۔۔ ؟‘

دیوورت بیٹے کا نام سن کر دہاڑ اُٹھا۔۔۔  اُس کا نام مت لو۔ کم بخت نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ یہ عمر اور ایسے کام۔۔۔  ہمارے پاس کیا ہے اُس کو بچانے کے لئے۔ پولیس کے پاس تو کافی Evidence ہیں۔۔۔  سالے نے کیا ہے ایسا۔۔۔ پتہ نہیں شالنی۔تم نے کس وقت ایسے بچے کو جنم دیا۔‘

’گالی مت دو۔‘

’گالی نہیں شالنی۔۔۔  ایسا بچہ۔ ایک ہی بچہ ہے اپنا۔ لیکن کیا بچے ایسے ہوتے ہیں۔‘

’اب میرا کیا قصور۔‘

’ہمارا قصور ہے۔ لوگ کہتے ہیں۔ ہم نے بچے کو Neglect کیا۔۔۔  نہیں کرتے تو۔ ۔ ؟‘

’کیا Neglect کیا۔ کس گھر میں لوگ ٹی وی نہیں دیکھتے۔ بلیو فلم نہیں دیکھتے۔ ہر Coupleدیکھتا ہے۔‘

’لیکن سب کے بچے ریپ نہیں کرتے۔‘

 

’کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا  ہے۔ ۔ ‘

مت کھولنا۔ وہی ہوں گے۔ رہ رہ کر ہماری موجودگی کو کیمرے میں قید کرنے کے لئے دروازہ کھٹکھٹانے لگتے ہیں۔‘

دیوورت دوڑ کر گیا۔۔۔  غصّہ میں دروازہ کھولا۔۔۔  دہاڑا۔۔۔

’آپ لوگوں کا اور کوئی کام نہیں ہے کیا؟۔۔۔ ‘

سامنے چینل والے ہی تھے۔۔۔  دنادن۔۔۔  اندر گھسنے والے ہی تھے کہ دیوورت نے دھڑاک سے دروازہ بند کر دیا۔ پھر بھی فلیش چمک گئے۔ کچھ نے تصویریں کھینچ لیں۔ اور کچھ نے اپنے ڈیجیٹل کیمرے میں اُسے قید کر لیا۔۔۔

پردہ کھینچنے تک وہ روہانسا ہو چکا تھا۔۔۔

’کیا کروں۔ کبھی کبھی مر جانے کی خواہش ہوتی ہے۔ اب یہ، اس وقت۔ جو غلطی ہو گئی، وہ اسے بھی اپنے چینل پر چلائیں گے۔۔۔  چلاتے رہیں گے بار بار۔۔۔  لوگ ایک ہی سین بار بار دیکھتے رہیں گے۔‘

’سب طرف ہماری تھو تھو ہو رہی ہے۔‘

’ہونا ہی ہے۔‘

’کیوں نہ مجسٹریٹ صاحب سے مل لیں۔‘

’کیا ہو گا۔‘

’شاید وہ کوئی حل نکالیں۔‘

’کون کس کا آدمی ہے، کیا معلوم۔۔۔ ؟‘

’وہ اچھے آدمی ہیں۔‘

’چہرے سے بُرا کون لگتا ہے۔ مگر وہ  جے چنگی۔ سب سے بڑا فسادی وہی ہے۔ وہ اس پورے معاملے کا سودا کر رہا ہے۔‘

’کرنے دو۔ کوئی ایسے اپنی بچی کی بے عزتی کراتا ہے۔روی تو لڑکا ہے۔ مگر سونالی۔‘

’اُس کا نام مت لو۔‘

’مجسٹریٹ صاحب کے پاس چلو۔ صلاح، مشورہ کرو۔‘

شالنی کی آواز  رونے رونے کو ہو گئی۔

’سوچتے ہیں۔‘

’اب سوچنے کا وقت نہیں ہے دیوورت۔‘

’باہر کیسے چلیں۔ سالے یہ چینل والے جانے دیں گے تب نا، باہر نکلتے ہی ایسے گھیر لیتے ہیں جیسے مسالہ مل گیا ہو۔‘

’ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔‘

’پھر بھی سوچتے ہیں۔‘

 

اس بیچ باہر سے ایک بڑا سا پتھر دروازے کے پاس لگا تھا۔۔۔  وہ تو اچھا ہوا، شیشے کی جگہ اُس نے لوہے کے دروازے راتوں رات لگوا لئے تھے۔ دو ایک پتھر اور برسائے گئے۔۔۔

شالنی زور زور سے کانپ رہی تھی۔

دیوورت ٹیلی فون کے نمبر ڈائیل کر رہا تھا۔

’ہیلو۔ ۔ ہیلو۔ ۔ پولیس اسٹیشن۔ ۔ ‘

’کیا ہوا۔ ۔ ؟‘

شالنی ابھی تک کانپ رہی تھی۔۔۔

’فون بزی آ رہا ہے۔ ۔ ‘

دیوورت نے کافی دیر کوشش کرنے کے بعد فون واپس کریڈل پر رکھ دیا۔

’اب کیا کیا جائے؟۔۔۔ ‘

’سمجھ میں نہیں آتا۔‘

شالنی خوفزدہ تھی۔ ’مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔  یہ مکان چھوڑ دو۔ مجسٹریٹ صاحب سے بات کرو۔ یہاں ہم Safe نہیں ہیں۔ بچے کا جو ہو گا، سو ہو گا۔۔۔  اس خوف کے ماحول میں تو ہمارا جنازہ نکل جائے گا۔۔۔  ہر سمئے ڈر لگتا ہے۔ کچھ ہونے والا ہے۔ ۔ کچھ ہو جائے گا۔ لوگ دروازہ توڑ دیں گے۔ گھر میں گھُس آئیں گے۔‘

باہر سناّٹا تھا۔ پتھر پھینکنے والے اب واپس ہو گئے تھے۔۔۔  دیوورت نے ذرا سا پردہ ہٹا کر پھر دیکھا۔ ابھی شانتی تھی، لیکن کچھ دوری پر درخت کے سائے میں کچھ حرکت سی تھی۔ یقیناً کیمرے والے ہوں گے۔ اُس نے نمبر چیک کیا اور مجسٹریٹ صاحب کے گھر کے نمبر پر، فون لگانا شروع کیا۔ ۔

’ہیلو۔ ۔ ہیلو۔ ۔  میں دیوورت بول رہا ہوں ۔ ۔ ‘

’ہاں دیوورت۔ ۔ ‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔۔۔  ’بولو کیا پریشانی ہے‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۲)

 

 

 

دیوورت آہستہ آہستہ اس وقت ہوئے حادثے کی تفصیل بتا رہا تھا۔

چلنے سے پہلے، وہ اپنے بچے کو دیکھ کر تیز آواز میں چلاّیا تھا۔۔۔

’سنا تم نے۔۔۔  ٹی وی بند کرو۔‘

اس کے بعد وہ اُسی طرح گلا پھاڑ کر بیوی سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔  ’اور تم بھی سن لو۔۔۔  ہم ایک دن کارل مارکس کی قبر پر بیٹھ کر فاتحہ پڑھ رہے ہوں گے۔ مائی ڈیر کارل مارکس۔ سارے فرق، چھوٹے بڑے امیر غریب کے سب ختم ہو گئے۔ صرف ایک ہی Conceptرہ گیا ہے۔۔۔  کھلے پن کا۔ ہو۔ ۔  ہو۔ ۔  میخائل  گوربا چوف کے لفظوں میں کہیں تو اس پیرسترئیکا  اور گلوسنوست کے بعد کچھ بھی نہیں۔۔۔  سنا تم نے۔ میں جا رہا ہوں۔‘

بیوی نے کوئی چیز زور سے پٹکی تھی۔۔۔

’Go to hell‘

’وہیں جا رہا ہوں ‘

پرماکر بندھو کے چہرے پر غصّہ کے آثار تھے۔ چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔۔۔  جھولہ لٹکایا۔ صدری پہنی۔ اور نکل گیا۔۔۔

اُس کا پڑاؤ، سونی پت کا ریفارم ہاؤس تھا۔۔۔

’خوبصورت پہاڑیوں کو یہ جگہ اُداس کرتی ہے۔‘

پرماکر ہر چیز کو ’سوندریہ‘ سے دیکھنے کا عادی تھا۔ پراکرتی، یعنی قدرتی حسن اُسے اپنی جانب کھینچتا تھا۔۔۔  لوکل بس اُس نے مہرولی کے پاس چھوڑ دی۔ میل، دو میل صبح میں پیدل چلنا اُس کے لئے ایک خوشگوار احساس تھا۔ دراصل یہ بھی اُس کے جرنلسٹ ہونے کے معمول میں شامل تھا۔ ہر چیز پر غور کرنا۔ ہر چیز کو غور سے دیکھنا۔ ایک میل کے احاطے میں، کیا کیا چیزیں اس نے دیکھی ہیں، آپ اس کی تفصیل اُس سے جان سکتے تھے۔۔۔  اور اُس کے بعد جب آپ اُس مقام سے چلنا شروع کریں تو آپ کو ایسا لگتا، جیسے آپ پہلے بھی اُس مقام پر آ چکے ہیں۔ اور یہی پرماکر بندھو کا کمال تھا۔۔۔

لیکن پرماکر اس وقت ایک ضروری کام سے نکلا تھا۔ اس طرح کے ریفارم ہاؤس یا ریفارمیٹری سینٹر اُس نے پہلے بھی دیکھے تھے۔ اور اُس کا ماننا تھا، چھوٹے بچوں کو ایسی جگہوں پر رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔۔

’یہ بیویاں کبھی سیدھے منہ بات نہیں کر سکتیں۔‘

 

بار بار، چلتے ہوئے اُس کا ذہن بیوی کے غصّے کی طرف چلا جاتا۔۔۔  ’کبھی نہیں۔ ایک جرنلسٹ سے تو بالکل نہیں۔‘ وہ یہاں پہلے بھی ایک بار آ چکا تھا۔

لیکن اس بار اُس نے تہیہ کیا تھا، وہ اس ’ریفارم ہاؤس‘ کو اپنے اگلے مضمون کا حصہ بنائے گا۔۔۔

اندر داخل ہونے کے بعد جس چیز نے اُسے سب سے زیادہ چونکایا، وہ میری فرنانڈیس کا چہرہ تھا۔

’ارے، ارے یہ آپ کو کیا ہوا۔۔۔ ‘

’کچھ نہیں۔‘

میری فرنانڈیس کچھ روکھائی سے بولی۔ عجیب بات یہ تھی کہ اُن کا چہرہ سوجا ہوا تھا۔ آنکھ کے اوپر پیشانی کے پاس ایک موٹی سی پٹّی بندھی ہوئی تھی۔ دائیں طرف کی آنکھ میں بھی ’سوجن‘ کا احساس ہوتا تھا۔۔۔

’یہ سب۔۔۔ ؟‘

’ہوتا ہے۔‘

میری فرنانڈیس کے لہجے میں ناراضگی تھی۔

’لیکن آپ کو یہ چوٹ کیسے لگا۔۔۔ ؟‘

’بس، لگ گیا۔‘

’نہیں۔ بس نہیں۔ یہ تو کافی چوٹ ہے میری فرنانڈیس۔ ایسالگتا ہے۔ ۔ ‘

’آپ جرنلسٹ لوگ ہیں۔ ڈر لگتا ہے۔ تل کا تاڑ بنا لو گے آپ لوگ۔۔۔  میری کے لہجے میں روکھا پن برقرار تھا۔

’آپ بچے کو دیکھنے آیا، نا۔ ۔ ؟‘

’آیا تو ہوں مگر۔ ۔ ‘

’سپرنٹنڈنٹ صاحب کو معلوم۔ ۔ ؟‘

’مگر کیا معلوم ہے۔ ۔ ‘

’اب یہ آپ کو کیسے بتائے گا پرماکر۔ ہو گیا۔ آپ اپنا کام کرو۔‘

’نہیں۔ آپ نے ابھی کہا، نا۔ ۔  جرنلسٹ۔ ۔ ؟ بال کی کھال نکالنے والا۔ وہ تو ہم نکالیں گے میری فرمانڈیس۔ ۔ ‘

’اوہ بابا۔ ۔  آپ نیئں مانے گا۔‘

’لیکن کیا۔۔۔ ؟‘

میری ایک لمحے کو ٹھہری۔ پرماکر کی آنکھوں میں جھانکا۔ پھر اُس کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لئے تیزبجلی کی چمک پیدا ہوئی۔۔۔

’چھوڑو بھی۔ کیا کرنے کا ہے۔ بس چوٹ لگ گئی۔‘

’پٹّی میں ابھی بھی خون لگا ہے۔ آنکھیں سوجی ہوئی ہیں۔‘

’ہاں ۔ ۔  کسی نے مارا۔ پتھر پھینک کر۔ ۔ ‘

میری کہتے کہتے ٹھہر گئی۔۔۔

’پتھر پھینک کر؟۔۔۔ ‘

’ہاں۔ ایک موٹا سا بڑا سا پتھر۔ وہ تو اچھا ہوا، آنکھ بچ گئی۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے بھی دیکھا۔ وہ چلاّیا۔ میں  تو گرا اور گر کر۔ ۔ ‘

میری آہستہ سے بولی۔۔۔  جو ہونا تھا، ہو گیا۔۔۔  فارگیٹ اٹ۔۔۔  کیا کرنا ہے ایسا ہو جاتا ہے  اِدھر۔۔۔  بچہ لوگ ہے۔ بچہ لوگ ایسا  کرتا ہے۔ ماں باپ نہیں، نا۔۔۔  ماں باپ کو ڈھونڈھتا۔ اس لئے ایسا کرتا ہے۔‘

’اوہ مائی گاڈ۔‘ میں نے جھرجھری لی۔ کس نے کیا۔ روی نے۔۔۔ ؟‘

’ہاں۔‘

’یہ تو کرمنل ٹنڈنسی ہے۔‘

’نا۔ ۔ نہیں۔ وہ تو بچہ ہے۔ ۔ ‘ میری فرنانڈیس نے روی کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔

تب تک سپرنٹنڈنٹ صاحب بھی آ گئے تھے۔ آج اُن کے چہرے پر پہلے والی چمک نہیں تھی۔۔۔

’دیکھا۔ میری کو دیکھا۔۔۔ ؟‘

ہاں۔ یہ سب۔‘

’یہ سب بھی ہوتا ہے۔۔۔  آخر ہوتے تو یہ بھی ہیں۔۔۔  چھوٹے کرمنل۔۔۔  لیکن کل ہم سے بھی ایک غلطی ہو گئی۔

’کیا۔۔۔ ؟‘

’اس کے بعد ذرا مجھے غصّہ آ گیا۔ آپ تو جانتے ہیں۔۔۔  غصّہ میں آدمی اچھے بُرے کی تمیز بھول جاتا ہے۔ میری کے سر سے کافی خون نکالا۔ ہم نے کیمپس سے ڈاکٹر بلایا۔ اتنا ڈر گیا کہ سارا غصّہ روی پر اُترا۔۔۔  آپ ابھی نہیں ملیں تو۔ ۔ ؟‘

سپرنٹنڈنٹ روی کو آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔۔۔

’نہیں ملیں تو؟‘

’نہیں۔ ملنے سے مت روکئے۔‘

’روک نہیں رہا۔ وہ تو۔ ایسے ہی۔ ۔ ‘

’آپ نے کافی مارا۔ ۔ ؟‘

’ہاں۔ وہ کیا ہے کہ۔ ۔  آپ تو دیکھ ہی رہے ہیں میری کو۔۔۔  کیا حال بنا دیا ہے اس بے چاری کا۔ کوئی کیسے کنٹرول کرتا۔۔۔  آپ تو پترکار ہیں۔‘

’لیکن یہ تو۔ ۔  ریفارم ہاؤس ہے۔!‘

پرماکر نے سپرنٹنڈنٹ کی آنکھوں میں گھور کر دیکھا۔۔۔  اُس کی آنکھیں، چھوٹے چھوٹے کنچے کی گولیوں کی طرح لڑھک کر، سپرنٹنڈنٹ کی آنکھوں کی کشتیوں میں گر گئیں۔ وہ ’سکپکا‘ گیا۔۔۔

’نہیں۔ میرا مطلب تھا۔‘

’آپ کو مارنا نہیں چاہئے تھا۔ پھر بھی۔ ۔ ‘

میری فرنانڈیس بولی۔۔۔  میں بھی یہی بولا۔ بچہ ہے۔ ماں باپ نہیں۔ بچہ غلطی نہیں کرے گا تو۔ ۔ ‘

’اب دیکھئے نا۔ جب سے خبر اخبار میں چھپی ہے، لوگوں نے تنگ کر دیا۔ آپ نے باہر سیکوریٹی دیکھا ہو گا۔ ہم نے بابا کو کسی سے ملنے نہیں دیا۔ کسی بھی طرح کے انٹرویو پر پابندی لگا دی۔ اُس کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھا۔ مگر کل کی گھٹنا۔۔۔  اب  کیا کہا جائے بندھو جی۔ ہم بھی تو آدمی ہیں نا۔ اوتار نہیں ہیں نا۔ وہ کیا ہے۔ ۔  غلطی تو ہو جاتی ہے۔ خون دیکھ کر ہم کا بھی غصہ آ گیا۔خون نہیں نکلتا تو۔ ۔ ‘

’اب چھوڑئے بھی یہ بحث۔‘ میری فرنانڈیس معمول پر لوٹنے کی تیاری کر رہی تھی۔

’روی ٹھیک ہے نا۔ ۔ ‘

’ہاں، ٹھیک تو ہے۔ ۔  لیکن صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں۔ چپ ہے۔ بالکل چپ۔ ۔ ‘

پرماکربندھو نے چونک کر دیکھا۔۔۔

میری فرنانڈیس کی نظر ایک پل کے لئے سپرنٹنڈنٹ صاحب کی طرف اُٹھی۔۔۔  پھر جھک گئی۔۔۔

’چلئے۔ ہم چھوڑ آتے ہیں آپ کو‘

میری فرنانڈیس پرماکر کی طرف گھومی۔۔۔

’چلئے‘

 

کیاریوں کے پودے سوکھے ہوئے تھے۔ زمین سمیت تھی۔ پرماکر کو احساس ہوا، اس سے قبل وہ آیا تھا تو یہاں کی مٹی گیلی تھی۔ پھول کھلے ہوئے تھے۔ اور پودوں میں بھی تازگی تھی۔ دروازے کے قریب آ کر پرماکر نے جھولہ سیدھا کیا۔۔۔  تھوڑا سا ہلا۔۔۔  پھر میری فرنانڈیس کی طرف گھوما۔۔۔

’آپ جائیے۔ تھوڑا دیر بعد۔ ۔ ‘

میری ایک لمحے کو ٹھہری۔

لیکن آپ دیکھئے گا۔ وہ وائلنٹ ہو رہا ہے۔‘

’دیکھیں گے۔‘

 

پرماکر’سر سراتے‘ ہوئے اندر داخل ہو گیا۔۔۔  اس بیچ وہ صرف یہی دیکھ سکا کہ میری دو ایک لمحے پریشان سی وہاں کھڑی رہی۔۔۔  پھر آگے بڑھ گئی۔۔۔

چوکی پر صاف چادر بچھی تھی۔ تکیہ بھی پڑا تھا۔ مگر۔ روی کنچن دوسری طرف منہ کئے کھڑا تھا۔۔۔

پرماکر سیدھے دندناتا ہوا اُس کی طرف بڑھا۔ پھر عجلت کئے بغیر، ہاتھ کے جھٹکے سے روی کا چہرہ اپنی طرف موڑ لیا۔

’’ایک بات جان لو بچے۔ رکوں گا نہیں۔ چلا جاؤں گا۔ چلا گیا تو میرا جانا تمہیں بھاری پڑے گا۔ میرے لئے بھی۔۔۔  اور تمہارے لئے بھی۔۔۔  وقت کم ہے۔ اس لئے بہتر ہے، دیر کئے بغیر مجھے جو بھی بتانا چاہو، بتادو۔‘

روی کے چہرے پر شکن پڑ گئی تھی۔۔۔

’سنو۔ مدعے پر آتا ہوں۔۔۔  اپنا پیسہ خرچ کر کے یہاں آیا ہوں۔۔۔  خوش نصیب ہو۔۔۔  جو جوڈیشنل مجسٹریٹ کی پوری ٹیم اب تک تمہارے ساتھ ہے۔۔۔  ورنہ آج کے زمانے میں کسی کو کیا پڑی ہے، جو دلّی سے چل کر، یہاں مہرولی سے دور تمہارے پاس آئے گا۔۔۔  دو گھنٹے لوکل بس نے مہرولی تک لگائے۔۔۔  دو کیلو میرٹ تک پیدل چلا۔۔۔  پھر آٹو لے کر یہاں تک آیا۔۔۔  میری بات سمجھ رہے ہو نا۔۔۔  پاگل نہیں ہو تم ؟ جو میں دیکھنے یہاں تک آتا۔ پرائی منسٹر یا راشٹرپتی بھی نہیں ہو۔۔۔  کرمنل ہو۔ کرمنل سمجھ کر رکھا گیا ہے تمہیں۔۔۔ ہم چلے گئے تو پھر بُرے پھنسو گے۔ یہ لوگ ڈال دیں گے جیل میں۔۔۔  پھر ممّی پاپا کرتے رہ جاؤ گے۔ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔  اس لئے جو کہتا ہوں ۔ ۔ ‘

’پوچھو۔‘

روی کے چہرے پر ایک ساتھ کئی رنگ اُبھرے۔۔۔

’وہ عورت آ گئی تو پھر نہیں پوچھ سکوں گا۔ اس لئے۔ ۔ ‘

’وہ بدمعاش ہے۔ ۔ ‘

’تم یہاں خوش ہو۔ ۔ ‘

’مجھے یہاں سے نکال لے چلو۔ ۔ ‘

روی کا لہجہ تھّرایا ہوا تھا۔۔۔  پھر جیسے پٹاخے پھوٹتے چلے گئے۔۔۔  آتش بازیاں چھوٹتی چلی گئیں۔۔۔  پرماکر بندھو کے چہرے پر شکن تک نہ تھی۔۔۔  اچانک کھٹکا ہوا۔ اُس نے میری کے آنے کی آہٹ سن لی تھی۔ پرماکر ٹھٹھکا۔ جلدی سے بولا۔۔۔  ’دیکھو، وہ آ رہی ہے۔ چُپ ہو جاؤ۔ ناٹک کرنا۔۔۔  ہوسکتا ہے، میں تمہیں دو ایک ہاتھ جما بھی دوں۔‘

میری کے آنے تک وہ اپنے چہرے پر غصّے کی اَن گنت لکیریں پیدا کر چکا تھا۔

’نہیں  بولے گا تو مر۔۔۔  میرا کیا ہے۔ ۔  چپ رہ۔ جیل میں سڑے گا۔ تب سمجھ میں آئے گا۔‘

’کیا ہوا، سر۔۔۔ ؟‘

’کچھ نہیں۔‘

’میں نے کہا تھا نا، کوئی فائدہ نہیں۔‘

’ایسے لڑکوں کا کچھ نہیں ہوسکتا۔‘

’نہیں سر۔ ایسی بات نہیں ہے۔ کوئی گہرا صدمہ ہے، جو۔ ۔ ‘

میری فرنانڈیس غور سے پرماکر بندھو کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔

’سپرنٹنڈنٹ صاحب نے چائے منگوائی ہے۔ وہیں، اُن کے کیبن میں چلیں۔‘

’چلئے۔‘

’یہ لڑکا، آپ کو کیا لگتا ہے۔ ۔ ؟‘

چلتے چلتے میری فرنانڈیس نے پھر اُس کا امتحان لینے کی کوشش کی۔

پرماکر بندھو ایک لمحے کو ٹھہرا۔ پھر بولا۔

’ایسے بچوں کا بھگوان ہی رکچھک ہے۔‘

اُس نے دیکھا، میری آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔  جہاں کچھ بادلوں کے آوارہ ٹکڑے آ گئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۳)

 

ریتا بھاوے کچھ دنوں کے لئے باہر گئی تھی۔ اُس کے آنے کا انتظار تھا۔ کیس کی چوتھی پیشی کے دن قریب آ رہے تھے۔۔۔

نکھل نے مجھے اپنے نوٹس دکھائے تھے۔ مگر اُس کا چہرہ پتھروں کی طرح سرد تھا۔

’کوئی فائدہ نہیں۔ جب آپ کو دلیلوں کے بے اثر جانے کا نتیجہ معلوم ہو۔۔۔ ‘

’ہمیں اپنا کام کرنا چاہئے۔‘

’اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں۔‘

نکھل کی بھنویں تن گئی تھیں۔۔۔

’ ہم کسی فائدے کے لئے نہیں لڑتے ہیں۔ سدھانت۔ کچھ اصول ہوتے ہیں۔‘

’تمہارے ہوں گے۔‘

’اور تمہارے؟‘

’ٹوٹ رہے ہیں۔‘

٭٭

 

پرماکر بندھو نے جو رپورٹ دی تھی، وہ حیران کرنے والی تھی۔۔۔

’میں نے کہا تھا، نا۔۔۔  دل اور دماغ ہمیشہ سے دو چیز رہے ہیں۔‘

پرماکر بندھو نے سرجھکایا۔۔۔ ’دل اور دماغ۔ میں اس پر ایک رپورٹ لکھ رہا ہوں۔

’لکھو۔ لیکن جب تک، ہم، تم، ریتا بھاوے اس کیس سے بندھے ہیں، میں تمہیں اِسے شائع نہ کرنے کی  صلاح دوں گا۔‘

’وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن۔‘

پرماکر نے جھولے سے کچھ کاغذات نکالے۔۔۔

’اب کیا کرنا ہے۔‘

’کچھ نہیں۔‘

میں مسکرایا۔۔۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔بدلے ہوئے حالات میں کیس کی شکلیں بھی بدل جاتی ہیں۔۔۔

’پھر بھی۔‘

’ ریتا بھاوے کو آ جانے نے دو۔۔۔  نازک معاملہ ہے۔ پیشی کی تاریخ سے پہلے میں تم دونوں سے ایک میٹنگ کرنا چاہوں گا۔۔۔ ‘

٭٭

 

اُس رات جیساکہ پرماکر بندھو نے رپورٹ دی تھی۔۔۔  وہ رپورٹ کسی فلمی سین کی طرح آنکھوں کے پردے پر چلنے لگی تھی۔

میرے ذہن میں، کچھ پرانے ٹیپ ’چالو‘ ہو گئے تھے۔۔۔

’سر، جو گودھرا میں ہوا وہ بھی بُرا تھا۔ مگر سر، جو گجرات میں ہوا۔ ۔ ‘

’ہاں ‘

’ائیسا نہیں ہوتا سر۔۔۔  آپ صرف سچ کو چُپ کرنا چاہو تو۔ زبان بند کرنا چاہو تو، ائیسا کب تک چلے گا سر۔ کوئی تو ہو گا نا۔‘

دل اور دماغ۔۔۔

دماغ کچھ اور کہہ رہا تھا۔

دل کسی اور طرح کھینچ رہا تھا۔۔۔  ’دل‘ ایک اندھیری سرنگ میں اُتر گیا تھا۔

سارے منظر صاف تھے۔۔۔

میں ڈرے ڈرے سے روی کو دیکھ رہا تھا۔

کمرے میں کوئی دیوار گھڑی لگی ہے۔۔۔  خستہ دیواریں ہیں۔ سفیدی، سیاہی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ روی بستر پر لیٹا ہوا ہے۔۔۔  کھٹ سے دروازہ کھلنے کی آواز آتی ہے۔۔۔  کوئی ہے، جو تیزی سے کمرے میں داخل ہو گیا ہے اور یہ کیا۔۔۔

دروازے کی ’چھٹکلی‘ چڑھانے کی آواز۔۔۔

’کون۔۔۔ ؟‘

جیسے کوئی ڈراؤنی فلم ہوتی ہے۔ روی اچانک ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھتا ہے۔

عورت ہنستی ہے۔ زور زور سے۔۔۔

روی پیچھے ہٹتا ہے۔۔۔

’تم بلاتکار کیا نا۔۔۔  ہاں۔۔۔ بول۔۔۔ ‘

’نہیں۔‘

’بول کیا، نا۔۔۔ ؟‘

’نہیں۔‘

’نہیں۔ کیا۔ اے وی ڈینس ہیں۔ تیری تو ڈی۔این۔ اے رپورٹ بھی کرائی گئی۔ اب بول۔ میرے ساتھ بلاتکار کرے گا۔؟‘

ایک جھٹکے سے عورت اپنے کپڑے کھول دیتی ہے۔

روی پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ عورت زور سے گال پر ایک تھپڑ مارتی ہے۔

اُس کا کرتے ہوئے اچھا لگتا۔۔۔  ہم بولتی ہے۔۔۔  تو۔۔۔ ‘

عورت روی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے جسم کے قریب لانے کی کوشش کرتی ہے۔ سہما ہوا روی پیچھے ہٹتا ہے۔ عورت تابڑ توڑ کئی تھپڑ مارتی ہے۔

’میں بول دوں گا۔۔۔ بول دوں گا۔ ۔ ‘

روی ہکلا رہا ہے۔۔۔

’کس کو۔ بول کس کو۔۔۔ ؟‘

عورت روی کو دیوار کی طرف دھکا دیتی ہے۔۔۔ ’ سپرنٹنڈنٹ صاحب کو۔ بول۔ اُن سے بولے گا۔‘

روی ہانپ رہا ہے۔

عورت جبراً اُس کے کپڑے اُتارنے لگتی ہے۔۔۔  اور اُس کا ہاتھ روی کے ننگے جسم پر پاگلوں کی طرح مچل رہا ہے۔۔۔

روی سکتہ میں ہے۔۔۔  جسم میں ایک اُبال آتا ہے۔۔۔  پھر آنکھوں کا اندھیرا اُس اُبال کو چھپا لیتا ہے۔۔۔  عورت اُسے تھامے ہوئے بستر پر لیٹ گئی ہے۔۔۔

’تو سپرنٹنڈنٹ صاحب کو بولے گا نا۔۔۔  دیکھ وہ بھی آ گئے ہیں۔

دروازے پر دستک ہوئی ہے۔

دروازے پر سپرنٹنڈنٹ صاحب کھڑے ہیں۔۔۔

باہر گدھ اُڑ رہے ہیں۔۔۔

باہر، چلتی ہوئی تیز ہوائیں اچانک آندھیوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔۔۔  سونی پت  کے ریفارم ہاؤس کی دیواریں زور زور سے کانپ رہی ہیں۔۔۔

روی حیرت سے میری فرنانڈیس کے چہرے کو دیکھتا ہے۔ پھر اُس پر غصّے سے تھوک دیتا ہے۔۔۔  خود کو اُس کے چنگل سے چھڑانے کی کوشش کرتا ہے  اور ایک پتھر زور سے اُس کی طرف اُچھال دیتا ہے۔۔۔

زور سے۔۔۔

٭٭

 

’میں نے اس سے پہلے بھی ایسی کئی رپورٹیں اخبار والوں کو دی ہیں۔‘

پرماکر بندھو بتا رہا ہے۔۔۔  ایسا ہوتا ہے۔ ریفارم ہاؤس میں۔۔۔  اس لئے چھوٹے بچوں کو وہاں ڈالنے کے میں خلاف ہوں۔ یہاں یہ اچھے نہیں ہوسکتے۔ وارڈن، سپرنٹنڈنٹ، سب کے سب ملے ہوتے ہیں۔‘

’تعجب اسی بات پر ہوتا ہے۔ دن کے اُجالے میں بڑی بڑی لڑائیاں لڑنے والے۔۔۔ ‘

’یہ مسئلہ پیٹ کے نیچے کا ہے بندھو۔‘ پرماکر مسکرایاہے۔۔۔  اور آپ ہی نے کہا، دل اور دماغ دو الگ چیزیں ہیں۔‘

’اب کیا سوچا ہے؟‘

’سونی پت کے ریفارم ہاؤس سے بچے کو نکالنا ضروری ہے۔ اُسے پھر سے گھر بھیجنا ہو گا۔ اور ہاں، ابھی اس معاملے کو دبائے رکھو۔ اگلی پیشی کے بعد، روی کے بیان کے آدھار پر ہم اس معاملے کی کارروائی کریں گے۔‘

’ابھی کیوں نہیں۔‘

’کیونکہ روی کے معاملے میں مجھے اُس لیڈی کا فیور بھی چاہئے۔ وہ دماغ سے تو اچھا سوچتی ہے۔۔۔  اور جب ہمیں اس پورے معاملے کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے تو وہ ضرور ہمارا ساتھ دے گی۔‘

پرماکر بندھو نے گندی سی گالی بکی۔۔۔

’راجنیتی سے کہیں چھٹکارا نہیں۔ اچھا کام کرنے کے لئے بھی ہمیں، آپ کی راجنیتی کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔‘

’مجبوری ہے۔‘

 

اگلی پیشی کا ہم سب کو انتظار تھا۔ کیونکہ نکھل نے اپنی طرف سے کچھ خطرناک نوٹس تیار کئے تھے۔۔۔  اور اُس نے کہا بھی تھا۔

’دیکھئے گا۔۔۔  اس بار میں معاملہ کو ذرا طول دینا چاہوں گا۔ اُس پبلک پرازیوکیوٹر راجیو دتہّ کے بچے کی نیندیں نہیں اُر گئیں،  تو میرا نام بھی نکھل اڈوانی نہیں۔

میں نے سمجھایا تھا۔ زیادہ جذباتی ہونا اچھا نہیں۔ اس سے، اس پورے کیس پر بُرا اثر پڑے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۴)

 

 

آج پہلا کیس یہی تھا۔۔۔

میڈیا ایک دن پہلے سے اس پورے کیس کو لے کر سرخیوں میں تھا۔۔۔  شالنی اور روی سے متعلق رپورٹ بار بار دکھائی جا رہی تھی۔۔۔  یہ امید بھی ظاہر کی جا رہی تھی، کہ کل کے دن کوئی فیصلہ ہونے کی امید سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

اِن سب باتوں کے علاوہ پارٹی کے جو اپنے ’چینلس‘ تھے، انہوں نے اس پورے معاملے کو دلت ہت سے جوڑتے ہوئے کئی سوال اٹھائے تھے۔۔۔  مہیلا سنگٹھنوں کی رائے بھی شامل تھی۔۔۔

لیکن اس بار میں نے، وقت سے پہلے کوئی بھی بیان دینے سے صاف منع کر دیا تھا۔۔۔

کیا ہو گا۔۔۔ ؟

نوکمنٹس۔۔۔

کیا بال بلاتکار سے متعلق نئے ودھائک لائے جائیں گے؟

نوکمنٹس۔۔۔ !

کیا یہ معاملہ سی بی آئی کو سونپ دیا جائے گا

نوکمنٹس۔۔۔

 

صبح سویرے ہی ریتا بھاوے اور پرماکر بندھو بھی گھر پہنچ گئے تھے۔ ہم نے کچھ اہم نکات پر، بات چیت کی۔ اس میں  پولیٹیکل پر یشر بھی شامل تھا۔۔۔

’چناؤ کا سمئے ہے۔۔۔ ‘ ریتا بھاوے کے ماتھے پر شکن تھی۔

کیا سونی پت ریفارم ہاؤس  کے معاملے کو۔۔۔ ‘

میں نے صاف منع کر دیا تھا۔۔۔  یہ معاملہ بعد میں اٹھے گا۔ ابھی روی سونالی کانڈ سے اس کو جوڑ کر دیکھنا مناسب نہیں۔ اس سے غلط کھچڑی پکے گی۔۔۔ ‘

’لیکن اس سے تو۔۔۔ ‘

میں نے پرماکر کو سمجھایا تھا۔۔۔  ’پہلے روی کا معاملہ سلجھ جائے۔ پھر آرام سے اُس کا بیان ریکارڈ کر لو۔ ایسے  معاملات کو پبلک تک لانا اب ضروری ہو گیا ہے۔۔۔ ‘

پرماکر مطمئن تھا۔۔۔

 

وقت پر ہی سارے لوگ عدالت میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ دفتری کارروائیوں کے ختم ہونے کے بعد پوچھ تاچھ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سب کچھ ایک اوباؤ اور  بوجھل سے ماحول میں۔۔۔

پبلک پرازیوکیوٹر راجیو دتہ ّ کے پاس کئی خوبصورت دلیلیں تھیں۔۔۔

’بھارتیہ دنڈسہنیتا کی دھارا  375  کے مطابق، ایک خاص عمر سے کم عمر کی لڑکی، یا کنواری عورت کے ساتھ، اُس کی اجازت لے کر، سمبھوگ کرنا بھی بلاتکار کے ہی دائرے میں آتا ہے۔۔۔ ‘

راجیو دتہّ نے سنسکرت کا شلوک پڑھا

’جہاں عورتوں کی پوجا ہوتی ہے، وہاں دیوتاؤں کا نواس ہوتا ہے۔۔۔ ‘

اُس کی دلیل تھی۔۔۔  مگر ’بلاتکار کے بعد بھی عورت کہاں جی پاتی ہے۔۔۔  ایسی کئی مثالیں ہیں کہ بلاتکار کی شکار بچیاں یا تو خود کشی کر لیتی ہیں یا پھر رنڈی کے پیشہ میں پھینک دی جاتی ہیں۔ اُن کے من کے کسی گہرے کنویں میں کسی ڈراؤنے خواب کی طرح یہ حادثہ بیٹھ جاتا ہے۔۔۔  پھر باہر نہیں نکلتا۔۔۔  اور اگر باہر نکلتا بھی ہے، تو ڈراؤنے خواب کی شکل میں۔۔۔  ابھی حال میں ایک ایسا کیس بھی میرے پاس آیا تھا۔۔۔  جب ایک ستائس سال کی شادی شدہ عورت رات کو سوتے سوتے چیخ کر اُٹھ جاتی تھی اور کافی عرصہ تک گھبرائی گھبرائی رہتی تھی۔ وہ خواب میں ایک ڈرے ڈرے چوہے کو دیکھتی تھی، جسے ایک بدمعاش بلّی، جھپٹا مار کر کھا جانا چاہتی ہے۔۔۔  گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ جب چھوٹی سی بچی تھی تو ایک ٹیوٹر نے اُس کے ساتھ بلاتکار کیا تھا۔۔۔  اُس کے ماں باپ اُسے کسی ہل اسٹیشن میں لے گئے۔ مگر وہ عورت اُس ٹیوٹر کو جان سے مارنے کا ارادہ کر چکی تھی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ماں باپ کو لگا کہ وہ عورت اُس ٹیوٹر کو بھول گئی ہے۔ وہ اُسے لے کر اپنے شہر واپس لوٹ آئے۔۔۔  مگر  عورت نے ٹیوٹر کو تلاش کیا اور ایک بڑے سے چاقو سے، اُس کے جسم پر اتنے وار کئے کہ اُس کی جان نکل گئی۔۔۔ ‘

’سماج کو اپنی ذہنیت بدلنی ہو گی۔ بھول جانا ہو گا کہ بلاتکاری کی عمر کتنی ہے۔ کیونکہ جو ’میڈیاز‘ ہمارے پاس ہیں، اُس نے بلاتکاری سے اُس کی بڑی عمر چھین لی ہے۔ اس معاملے میں سارے اے ویڈنس، کسی خوبصورت صبح کی طرح صاف ہیں۔ کوئی الجھن نہیں۔ اگر کوئی الجھن ہے تو وہ بلاتکاری کی عمر ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ اب اس صورت حال میں، بلاتکاری کی عمر کے بارے میں زیادہ سوال جواب کرنا مناسب نہیں۔ شہادت موجود ہے۔ لڑکی خود بیان دے چکی ہے۔ سارے اے ویڈنس آپ کے پاس ہیں۔ سز دینے کے لئے اور کیا چاہئے۔۔۔ ‘

 

بوجھل بوجھل سا، نکھل اڈوانی اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔

’میں سونالی سے کچھ پوچھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔‘

ریتا بھاوے نے میری طرف دیکھا۔ میری آنکھیں نکھل اڈوانی پر جم کر رہ گئی تھیں۔ مجھے لگا تھا، کوئی حادثہ ہونے والا ہے۔۔۔  کیونکہ میں نے اس سے پہلے، اس نئے موڈ میں نکھل کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔

لڑکی گھبرائی سی کھڑی تھی۔

نکھل کسی دیوار کی طرف اُس کو گھیرے ہوئے کھڑا تھا۔

’تمہارے ساتھ بلاتکار ہوا ہے۔۔۔ ؟‘

جی۔۔۔

بلاتکار کے بارے میں جانتی ہو

’۔۔۔ ‘

کیسے ہوا تھا بلاتکار؟

’۔۔۔ ‘

’کپڑے اُتارے تھے۔ یا تم نے اپنی مرضی سے اتارے تھے۔‘

سونالی ڈری ڈری نکھل کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔۔۔

تم نے بلیو فلم کے بارے میں بتایا۔ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی!

’۔۔۔ ‘

روی نے بتایا کہ ایسے کیسٹس اُس کے پاس ہیں ؟

’۔۔۔ ‘

’تمہیں سورگ کی کنجی مل گئی ’۔۔۔ ہے نا؟‘

’۔۔۔ ‘

پھر روی نے وہ کیسٹ چلا دیا۔۔۔  جو کچھ پردے پر چل رہا تھا، وہی کچھ تم رئیل زندگی میں بھی کرتے جا رہے تھے۔۔۔

’۔۔۔ ‘

’مزہ آ رہا تھا، نا۔۔۔ ‘

 

راجیو دتّہ نے اس درمیان کئی بار اُسے روکنے کی کوشش کی۔مگر ہر بار نکھل کے جواب کے آگے، میں نے اس طرح کی پوچھ تاچھ کو ایک ضروری حصہ قرار دیا۔۔۔  اور اُسے کچھ بھی پوچھنے کی چھوٹ دے دی۔

نکھل اب ہمارے بنچ کی طرف مڑا تھا۔۔۔

’می لارڈ، یہ سب کچھ پوچھتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ بلکہ ایسا لگ رہا ہے۔ جیسے اپنے آپ کو گالی دے رہا ہوں۔ ذرا اِن بچوں کی عمر دیکھئے۔ یہ چھوٹی سی عمر، جب ہم۔ ان کے ہاتھوں میں فلموں کی میگزین دیکھ کر بھی چھین لیتے ہیں۔۔۔  ٹی وی پر گانے اور بولڈ فلمیں دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔۔۔  ہمارے آپ جیسے ہر گھر میں ایسے بچے مل جائیں گے۔۔۔  اور جن کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ بچے کچھ ایسا بھی کر سکتے ہیں ‘ جو تہذیب اور اخلاقیات کے نام پر ایک دھبّہ ہو۔۔۔

مجھے لگ رہا ہے، میں اپنے ہی بچوں سے پوچھ رہا ہوں۔ کہ تم نے کنڈوم کے بارے میں سنا ہے۔۔۔  اگر یہی کرنا تھا تو کنڈوم کا استعمال کیوں نہیں کیا۔۔۔ ؟ لیکن کس سے پوچھوں۔۔۔  ممکن ہے یہ بچہ کنڈوم کے بارے میں بھی جانتا ہو۔ ممکن ہے، یہ لڑکی بھی جانتی ہو۔۔۔  مگر یہ ایک ایسا معاملہ ہے، جو ہماری، اب تک کی تہذیب کے لئے ایک دھماکہ ہے۔۔۔

کیونکہ یہ حادثے اب ایسے تمام گھروں میں ہو رہے ہیں۔۔۔  کیونکہ وقت سے پہلے ہی ہم نے تمام بچوں کو بڑا بنا دیا ہے۔۔۔  اور یہ بڑے بچے شاید سب کچھ جان گئے ہیں۔ ٹھہرئیے۔۔۔ ‘

نکھل نے جب سے ایک چیز نکالی۔ اور اُسے سونالی کے آگے لا کر بولا۔۔۔

’اسے پہچانتی ہو۔‘

’نہیں ‘

دیکھا ہے؟

’نہیں ‘

یہ کنڈوم ہے۔ کنڈوم جانتی ہو۔۔۔ ؟‘

’ہاں ‘ سونالی نے سرہلایا۔

’کہاں نام سنا ہے۔‘

’ٹی وی پر‘

کیا ہوتا ہے اس سے۔‘

اُس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا تھا۔۔۔

’تم نے کہا نہیں، کہ نہیں کنڈوم کا استعمال کرنا چاہئے‘

پبلک پرویزکیوٹر نے چیخ کر کہا۔۔۔  یہ سب کیا ہو رہا ہے می لارڈ۔ ہمارے فاضل دوست، یہ کیسی حرکتیں کر رہے ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے کہ یہ دونوں۔۔۔ ‘

’بچے ہیں۔‘

نکھل کا لہجہ ٹھنڈا تھا۔۔۔  لیکن کہاں کے بچے۔ اِن دونوں نے آپ کی سکھائی گئی تہذیب کے نام پر وہی کیا ہے، جو یہ کر سکتے تھے۔۔۔  اور آپ اِن دونوں کے کھیل کے بدلے، صرف ایک بچے پر بلاتکار کا الزام لگا رہے ہیں۔۔۔  اگر یہ بچے ہوتے تو ان سے سیکس کے بارے میں نہیں پوچھتا۔۔۔  لیکن یہ پوچھنا بھی مجبوری ہے۔۔۔  اور میں اپنی زبان کے لئے مجبور ہوں۔

سونالی نے خوف کی جھرجھری لی۔ پلٹ کر نکھل کو کانپتی آنکھوں سے دیکھا۔

’تمہارے لئے یہ سیکس کا پہلا تجربہ تھا۔؟‘

راجیو دتّہ نے پھر چیخ کر کہا۔۔۔  بلاتکار کا۔ ایک بچی جس کے ساتھ بلاتکار ہوا ہے، آپ ایسے سوالوں سے اُسے اور پریشان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’بلاتکار نہیں۔ ایک کھیل می لارڈ۔۔۔  بچوں کے بہت سارے کھیلوں میں شامل ہوا ایک کھیل، جس کا تعلق جسم سے ہے۔۔۔  اور بچے دوسرے کھیلوں میں اب اس کھیل کو فوقیت دینے لگے ہیں۔ کیونکہ اب یہ کھیل وہ گھر کے کسی بھی گوشے، کونوں میں کھیل سکتے ہیں۔۔۔  اور اس کے لئے اُن میں کوئی پابندی نہیں ہے۔۔۔  پابندی اس لئے نہیں ہے کہ ماں باپ کو اپنے بچوں کی فکر ہی نہیں ہے۔ وہ کہاں ہیں ! کہاں جا رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ اس لئے مجھے سونالی سے کچھ سوال اور بھی کرنے کی اجازت دیجئے۔‘

اجازت ہے۔‘ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا۔۔۔

’تم نے کیسے سمجھا کہ وہ تمہارے ساتھ بلاتکار کرنے کی کوشش کر رہا ہے ‘

’۔۔۔ ‘

’مجھے جواب دو۔ تم جانتی ہو۔۔۔  بلاتکار میں مرد کے خفیہ حصہ کا، عورت کے خفیہ حصہ میں  کس حد تک جانا ضروری ہے۔۔۔  کیا اس سے پہلے تم۔۔۔ ؟‘

راجیو دتّہ نے ایک بار پھر اپنی پوزیشن لی۔

’لڑکی کی میڈیکل رپورٹ جمع ہے۔ میرے فاضل دوست میرے موکل کو تنگ کر رہے ہیں۔ اُنہیں سمجھنا چاہئے کہ بلاتکار کے لئے ’لنگ پرویش‘ یعنی عضو تناسل کا مخصوص مقام تک جانا ضروری نہیں ہے۔ اُنگلیوں اور منہسے کئے جانے والے کسی بھی تجربہ کو بلاتکار مانا جا سکتا ہے بچوں کی عمر کو دیکھتے ہوئے۔۔۔ ‘

نکھل کا لہجہ اس بار پھر برف کے جیسا سرد تھا۔

’کوئی گواہ ہے کہ میرے مؤکل نے زبردستی کی۔۔۔  کوئی گواہ کہ یہ صرف بچوں کی، موج مستی نہیں تھی۔۔۔  اگر یہ بچے تھے تو ان کے بیانات بھی گھر میں ہی ریکارڈ کئے جانے چاہئے تھے۔۔۔  اِن بچوں کو تھانہ یا کورٹ میں نہیں لانا چاہئے تھا۔۔۔  اس طرح کے مقدموں اور بیانات سننے کے بعد، بچوں کی نفسیات یقیناً خراب ہوتی ہے اور بگڑ سکتی ہے۔۔۔  مگر جب راجنیتی کے کھلاڑی ایسے نازک معاملوں کو بھی گھر کی چہار دیواری سے کھینچ کر کورٹ کی چہار دیواری میں لے آتے ہیں۔۔۔  تو اپنے ہی بچوں کو، می لارڈ۔۔۔  اپنے ہی بچوں کو گالیاں دینے جیسے بے رحم سوالوں سے گزارنا پڑتا ہے۔۔۔  جسم کے ویاپار میں بال ویشیاؤں کو سب سے اونچی قیمت ملتی ہے۔۔۔  ملک کے مختلف حصوں میں اس وقت 3لاکھ سے بھی زیادہ بال ویشائیں ہیں۔۔۔  کون بنا رہا ہے۔۔۔  ذمہ دار کون ہے۔۔۔ ؟ اور عام طور پر میرے جیسا ڈیفنس لائر  بھی یہ کہہ کر اپنا پلّہ جھٹک دیتا ہے۔۔۔  یہ بھیانک ہے مگر یہ ہو رہا ہے۔ اور ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ اور ہمارے پبلک پروزیوکیوٹر کس قانون کی بات کر رہے ہیں۔۔۔  بچوں کے ساتھ ہونے والے بلاتکار کو لے کر کوئی مخصوص قانون ہے ہی نہیں۔۔۔  بچوں اور نابالغوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے لئے ہمارے پاس ایک ہی دھارا ہے۔۔۔  دھارا 375۔۔۔ یعنی بچے اور نابالغ دونوں برابر ہیں۔۔۔  بھارتیہ قانون میں نابالغوں کے لئے ایک ہی تعریف ہے۔ 18سال سے کم عمر کا ہونا۔۔۔  قانون کہتی ہے کہ عورت اگر 16سال سے کم ہے، اور سمبھوگ کیا گیا ہے تو اپرادھ ہے۔۔۔  بھلے ہی یہ سمبھوگ رضامندی سے کیا گیا ہو۔۔۔  اور جب دونوں کی عمر ایک ہو تو۔ دونوں ہی نابالغ یا بچے ہوں تو۔۔۔ ؟ شادی بیاہ کے معاملے میں بھی دیکھ لیجئے۔ پتنی 15سال سے کم کی ہے تو معاملہ بلاتکار کا مانا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ نئی پیڑھی نے سیکس اور انجوائے کے لئے نئی نئی تعریفیں ڈھونڈھ لی ہیں۔۔۔  سماج اور معاشرے کا چہرہ بدلا ہے۔۔۔  قانون کو اسی چہرے کے مطابق بدلنا ہو گا۔۔۔  بلاتکار اور Enjoy میں  فرق کرنا ہو گا۔۔۔  بلاتکار ایک دوسری چیز ہے۔۔۔  میں پچھلے کچھ سالوں میں ہوئے بلاتکار کی ایک چھوٹی سی تصویر رکھنا چاہوں گا کیونکہ یہ بھی اِسی کیس کا حصہ ہے۔۔۔ ‘

’اجازت‘

’1986 میں چار سو بلاتکار کے معاملے سامنے آئے۔ 88 فیصد نزدیکی رشتہ دار تھے۔ جان پہچان والے۔ 1993 میں  چار ہزار بچیاں بلاتکار کو شکار ہوئیں۔

1994 میں یہ تعداد تھوڑی اور بڑھی۔۔۔

1998 میں یہ تعداد چار ہزار سے زیادہ کراس کر چکی تھی۔ اور سن دو ہزار 3تک یہ تعداد بہت بڑھ چکی ہے۔ یہاں تک کہ باپ بیٹی کے بلاتکار کے ہزاروں معاملات سامنے آ چکے ہیں۔ 60فیصد سے زیادہ معاملوں میں معصوم، دس سے پندرہ سال کی بچیاں ہوتی ہیں۔ ’’ٹونکل، ٹونکل لٹل اسٹار‘‘ گانے والی یہ بچیاں گھر سے باہر تک کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔۔۔  یقیناً بلاتکار کے لئے سخت قانون ہونے چاہئیں۔ ملزم کو سزا دینی چاہئے۔۔۔  مگر می لارڈ۔ یہاں یہ بھی دیکھنا ہے، کہ معاملہ ہے کیا۔۔۔  اس معاملے میں ہم سب شریک ہیں۔۔۔  ہم جو بچوں کی پرواہ کئے بغیر، بھی آدھی رات کو بلیو فلمیں دیکھتے ہیں۔۔۔  اور کیسٹس لگا چھوڑ کر دفتر نکل جاتے ہیں۔۔۔  بچے جو ٹی وی پر عام طور پر ریپس یا مکس میوزک دیکھتے ہوئے آناً فاناً جسم اور جسم کے نازک اعضاء کے بارے میں سب کچھ جان جاتے ہیں۔۔۔  اس لئے عدالت کو چاہئے کہ اِن بچوں کے لئے نفسیاتی معالج مقرر کرے۔۔۔  جو بچوں کے استھ اب سلوک کرے کہ اِن بچوں کے دماغ سے یہ بھیانک خوف باہر نکل جائے۔ یہ معاملہ یہیں ختم کر دیا جائے۔اور اِن بچوں کو گھر بھیج دیا جائے۔۔۔  چھوٹے بچے کے لئے لفظ مجرم کا سہارا نہ لیا جائے۔ اور انہیں ریفارمیڑی یا بال گرھ جیسی جگہوں پر نہ بھیجا جائے۔ جو کچھ ہوا، اُس کے لئے اُنہیں ہماری، آپ کی طرف سے، میڈیا کی طرف سے، ضرورت سے زیادہ سزا مل چکی ہے۔۔۔  ممکن ہے تو اِن جیسے بچوں کے سدھارنے کے لئے کچھ کیا کیا جائے۔۔۔  کہ زیادہ سے زیادہ بچے اپنی تہذیب کو سمجھ سکیں۔۔۔  زیادہ سے زیادہ کا م، ایسے بچوں کی صحیح نشوونما کے لئے،  کئے جانے چاہئیں۔۔۔ اور۔۔۔ ‘

٭٭

اس کے بعد راجیو دتّہ نے اپنی طرف سے ’کئی  چھوٹی موٹی باتیں اٹھائیں۔۔۔  اب وقت ہو چلا تھا۔۔۔  تاریخ کو آگے ٹالنے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہ تھا۔۔۔

باہر گاڑی میں بیٹھنے تک، نکھل اڈوانی مجھ سے دوبارہ ملا۔۔۔  مگر جانے کیوں، وہ برسوں کا تھکا ہوا نظر آ رہا تھا۔

میں نے صرف اتنا کہا۔

’تم اچھا بولے۔ مگر آج تم میں ایک ڈیفنس لائر کم، ایک ریفارمسٹ زیادہ نظر آ رہا تھا۔‘

’میں  تھک گیا ہوں۔‘

’ٹھیک ہے۔ تم گھر پہنچو۔میں وہیں ملتا ہوں۔‘

نکھل اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۵)

 

 

میری ڈائری کے کچھ سیاہ سفید پنّے

12.3.2004

پاس والے کوارٹر سے، اُن کا جھبری کتا ڈاگی میرے کوارٹر میں داخل ہو گیا تھا۔۔

اسنیہہ کو کتوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔

وہ کافی دیر  تک، کتے کے واپس جانے کے بعد بھی کمرے میں بند رہی۔۔۔

میں اکثر سوچتا ہوں، اسنیہہ کتوں سے کیوں ڈرتی ہے۔ کتے تو وفادار ہوتے ہیں۔

سات بجے شب

دیوورت کا فون آیا تھا۔ شالنی اور دیوورت دونوں نے باری باری سے فون کیا۔۔۔  عام طور پر، میں ایسے کال ریسیو نہیں کرتا۔ ان دونوں سے ہمدردی ہو گئی ہے۔۔۔

میں نے مشورہ دیا ہے۔۔۔  کچھ دنوں کے لئے وہ اپنا گھر بدل لیں۔ کسی ہل اسٹیشن یا گاؤں نکل جائیں۔۔۔

 

15.3.2004

’چناؤ گھمسان‘ کی خبریں آ رہی ہیں۔ کہیں رتھ یاترا کہیں روڈ شو۔۔۔

نکھل آج فون پر نہیں ملا۔

ریتا بھاوے سے کچھ دیر تک فون پر باتیں ہوئیں۔۔۔  وہ کچھ گھبرائی سی لگی۔۔۔  کہہ رہی تھی۔۔۔  یہ معاملہ زیادہ طول کھینچا، تو وہ خود کو جوڈیشری بینچ سے الگ کر لے گی

 

16.3.2004

دیوورت نے مجھے فون کر کے بتایا کہ روی گھر آ گیا ہے۔۔۔  لیکن انتہائی غصّے میں ہے۔ کسی بھی بات کا ٹھیک سے جواب نہیں دیتا ہے۔۔۔

میں نے تو یونہی کہہ دیا۔ میں روی سے ملنے آؤں گا۔

پھر سوچتاہوں۔ کیوں ؟

میں ایک جج ہوں۔ کسی کے لئے ذاتی ہمدردی میرے فیصلے کو کسی بھی لمحے ڈگمگا سکتی ہے۔۔۔

 

18.3.2004

منسٹر صاحب کے سکریٹری کا فون آیا تھا۔ سلجھا ہوا لب و لہجہ۔۔۔  بڑے پیار سے باتیں کیں۔ پھر پوچھا۔۔۔  آپ کو کسی چیز کی تکلیف تو نہیں۔منسٹر جی کہہ رہے تھے۔ کوئی تکلیف ہو تو بتایا جائے۔۔۔  پی اے نے روی کے معاملے اور کیس کے بارے میں، کچھ بھی نہیں پوچھا۔۔۔

 

18.3.2004

شام ساڑھے پانچ بجے

پرماکر بندھو آیا تھا۔ اُس نے ریفارمٹری پر لکھی ہوئی اپنی رپورٹ دکھائی۔۔۔  سونی پت ریفارم ہاؤس کے چیتھڑے بکھیر کر رکھ دیئے تھے۔ کوئی بھی ایک لفظ نہ کم نہ زیادہ تھا۔ کہیں بھی جذباتیت کا غیر ضروری مظاہرہ نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ اپنے پرانے تجربوں کی  روشنی میں یہ رپورٹ ایسے بچوں کے لئے نئے راستے کھول سکتی تھی، جہاں جیونائل کورٹ میں اُن پر مقدمہ درج ہوتے ہی اُنہیں ایسے سدھار گھروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔

لیکن میں ابھی بھی اپنی بات پر قائم ہوں۔ ایک بار فیصلہ ہو جائے تو وہ اپنی اس رپورٹ کو کہیں بھی بھیج سکتا ہے۔۔۔

 

1.4.2004

کل صبح میں روی سے ملنے گیا۔۔۔

کل کا دن میرے لئے چونکانے والا تھا۔۔۔  رات آیا تو دماغ پریشان تھا۔ ایک نئی آندھی تھی، جس نے دماغ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

رات ڈائری نہیں لکھ سکا۔۔۔

میں روی میں نئی نئی تبدیلی دیکھ رہا تھا۔۔۔  آج روی نے مجھ سے گھل مل کر باتیں بھی کیں۔ شاید اُسے اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ میں اُس کا بھلا چاہتا ہوں۔ میں اُس کا دشمن نہیں ہوں۔۔۔

بدلے بدلے سے روی کا یہ چہرہ میرے لئے بالکل نیا تھا۔۔۔

اُس نے اپنے ڈھیرسارے پوکے مان بھی دکھائے۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۶)

 

چھوٹے چھوٹے بہت سارے پوکے مانس۔۔۔  وہ اِن پوکے مانوں کو لے کر بیٹھ گیا ہے۔

تم اِن کے بارے میں جانتے ہو۔۔۔  ؟

’نہیں ‘

’میں جانتا ہوں۔‘

کچھ سوچتے ہوئے وہ ہنستا ہے۔۔۔

’ایک گیم کھیلوں۔‘

’کیا ؟‘

’رُکو۔  Follow me‘

دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے Boxمیں رکھے ہوئے سارے پوکے مانس خالی کر دیئے۔ ایک دو۔ ۔  تین۔ ۔ سو۔ پانچ سو۔ ہزار۔ ۔  ڈیڑھ ہزار۔ ۔  دو ہزار۔ ۔  دو ہزار ایک۔

اب زمین چھپ گئی ہے۔ ۔

چھوٹے چھوٹے کارڈس۔ ۔  اَن گنت کارڈس زمین پر پھیل گئے ہیں۔

جہاں نظر دوڑاؤ، وہاں پوکے مان۔ ۔

’دیکھو۔ ۔ ‘

’وہ ہنس رہا ہے۔ ۔  ’ٹھہرو۔ ۔  اب دیکھو۔ ۔  اِس کو نے سے اُس کونے تک۔ ۔ ‘

اُس نے جوتے پہلے ہی اُتار دیے تھے۔۔۔  میں دروازے کے گیٹ پر کھڑا تھا۔۔۔  کمرے کے اندر تک جاتے ہوئے زمین اِن چھوٹے چھوٹے پاکٹ مونسٹر یعنی پاکٹ بھوتوں سے بھر گئی تھی۔۔۔  زمین غائب تھی۔ ۔  اور غائب زمین پر چھوٹے چھوٹے بھوت مسکرارہے تھے۔ وہ شان سے آگے بڑھا۔۔۔  چھوٹے چھوٹے پوکے مانس کے درمیان ایک بڑا پوکے مان۔ ۔

وہ جھومتا ہوا شان بے نیازی سے آگے بڑھا۔۔۔  ایک کونے سے دوسرے کونے تک گیا۔ ۔  پہلے ٹھہر کر، فخریہ انداز میں اپنے پاکیمانوں کو دیکھا۔ پھر اِن کے درمیان، دائیں والی دیوار کے ایک گوشے میں پاکیمانوں کے درمیان بیٹھ گیا۔

’اب وہاں سے مجھے دیکھو۔‘

’دیکھ رہا ہوں ‘

’کیا لگ رہا ہوں میں ‘

’ایک بڑا پوکے مان۔ ۔ ‘

وہ ہنسا۔۔۔  ’بڑا پاکٹ مونسٹر۔ یہ سب میرے دوست ہیں۔۔۔  ایسا اکثر کرتا ہوں۔ سارے کمرے میں کارڈس بچھا دیتا ہوں، اور اِن کے بیچ، مڈل آرڈر میں، کبھی گلی میں۔۔۔  آپ کرکٹ کھیلتے ہو۔ ۔ ‘ وہ ہنس رہا تھا۔ کبھی پوکے مان بن کر دیکھو۔ مزہ آ جائے گا لائف کا۔‘

’تو اُس دن بھی تمہیں لائف کا مزہ آیا تھا!‘

’کب؟‘

’جب وہ لڑکی آئی تھی؟‘

’لڑکی؟‘

’ہاں، تمہاری دوست؟‘

’اوہ، موڈ خراب کر دیا۔۔۔  تم سونالی کی بات کر رہے ہو۔‘

’ہاں ‘

’میں نے کچھ نہیں کیا؟‘

’کیا کیسے نہیں ؟‘

’نہیں کیا۔‘

ویسے تم اُس وقت کر کیا رہے تھے۔ ۔

’ہم  کھیل رہے تھے۔‘

’کیا!‘

’ارے یہی، تمہارا پوکے مان۔‘

’میرا نہیں، تمہارا‘

’ہاں، وہی تو۔ کھیلتے کھیلتے۔‘

پوکے مانوں کے درمیان وہ اٹھا۔ وہ ناراض تھا۔۔۔

’کیا کیا میں نے۔ ۔  میری سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ چینل دیکھتے ہو۔ اچھا لگ رہا تھا۔ سونالی کو اچھا لگ رہا تھا۔ اور سب تو ٹی وی پر آتا ہی ہے۔ ۔ ‘

’آتا ہے۔۔۔ ؟‘

’ہاں ‘

وہ کارڈ سمیٹ رہا ہے۔ ۔  اُس کی نظریں کہیں اور دیکھ رہی ہیں۔۔۔  سونالی جھوٹ بولتی ہے۔ مجھے کوئی اچھا لگتا ہے۔ جیل میں رہنا۔۔۔  یار، میں ایک بچہ ہوں۔ بچہ۔۔۔  جو ہو گیا۔ سو ہو گیا۔ لیکن۔ ۔ ، وہ میری طرف مڑا ہے۔۔۔  ’کیا ہوا ہے مجھ سے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ تم لوگ کہتے ہو، ریپ کیا ہے میں نے۔۔۔  ریپ۔۔۔  ریپ کیا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے سونالی نے۔۔۔  وہ پھر کارڈ اٹھا رہا ہے۔۔۔  وہ بار بار میری پینٹ کے اندر۔۔۔  پاپا کو ایک بار دیکھا تھا۔ فلم دیکھتے ہوئے۔ میں کمرے میں اچانک گھس گیا تھا۔ پاپا اور ممی۔ پاپا نے ڈانٹ کر بھگا دیا تھا۔ شٹ اپ۔ بڑے ہو گئے ہو۔ کمرے میں ناک کر کے آنا چاہئے۔۔۔

اُس کا منہ، اب دروازے کے دوسری طرف ہے۔۔۔

’فلم دکھانے کو سونالی نے ہی کہا۔ میں کہاں دکھا رہا تھا۔اُس نے ضد کی۔ میں نہیں مانا تو میرا پینٹ کھول دیا۔ اور۔۔۔  اپنے کپڑے بھی اُتار لئے۔ میرا کیا تھا۔ میں نے فلم چلا دی۔ اور۔۔۔  ‘

وہ چیخ رہا تھا۔ ’کیوں پوچھ رہے ہو۔ پھر وہیں ڈال دو گے سونی پت‘‘

’نہیں ‘

’مجھے پتہ ہے۔ سب پتہ ہے۔ لیکن میں نے ریپ نہیں کیا ہے۔ ریپ تو۔ یار، تم لوگ Rapeکہتے کسے ہو۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ یہ سب تو پاپا، ممی بھی۔۔۔  فلم میں دیکھو، ہال مارس دیکھتے ہو۔۔۔  زید ام جی ام۔۔۔  فیشن ٹی وی۔۔۔  وہ بولے جا رہا تھا۔۔۔  پاپا کے کمرے میں کچھ میگزینس ہیں آپ نے Debonair پڑھا ہے۔۔۔  Fantasy۔۔۔  ہم تو پوکے مان سے کھیلتے تھے۔ بس ایک دن۔ ۔ ‘

 

میں گہرے سناٹے میں تھا۔ پوکے مان کے کارڈس ابھی بھی ہزاروں کی تعداد میں زمین پر گرے ہوئے تھے۔ ۔  چھوٹے چھوٹے پاکٹ مانسٹر۔۔۔  جیسے  اس وقت، وہ ہزاروں کی تعداد میں میری آنکھوں کے سامنے اُڑنے لگے تھے۔ ۔

ہا۔ ۔ sss

ہو۔ ۔  ہو sss

ہا۔ ۔ ہاssہا ss

چھوٹا روی کنچن غائب تھا۔ پہلے اُس کے پاؤں غائب ہوئے۔ پھر آدھا جسم۔ پھر چہرہ۔ اب ایک دوسرا پاکٹ مانسٹر سامنے تھا۔ روی کنچن دیکھتے ہی دیکھتے، پاکٹ مانسٹر میں تبدیل ہو گیا تھا۔

’آ۔ ۔ ئی ۔ ۔ ایم۔ ۔ سوری۔‘

روی نے اپنے آپ کو دوبارہ بحال کیا۔۔۔  میرے دوستوں سے ملو گے؟

’ہاں۔‘

’تو ملو، نا‘

ہوں۔۔۔

’بیٹھو۔ ۔  تمہارے ساتھ اچھا لگتا ہے۔ ۔ ‘ اب وہ دکھا رہا تھا۔۔۔  یہ دیکھو۔ ارے دھت۔ یہ تو Tazo ہے۔ Tazo۔ ’انکل چپس‘ کا پوکے مان۔ کھاتا کون ہے۔۔۔  صرف اس Tazo کے لئے۔ یہ سب میرے دوست ہیں۔ چلو تمہیں اِن کے بارے میں بتاتا ہوں۔

پھر جیسے۔ ہوا رُک گئی۔ موجیں ٹھہر گئیں۔ سناٹے کے نغمے کے مجھے اپنی زنجیروں میں جکڑ گیا۔ جیمس جوائز اپنی دنیا سے گھبرا  کر ڈبلن لوٹ گیا۔ ۔  اور میں، گوپال گنج کی پرانی شاہراہوں پر چلتا ہوا، برسوں پرانا سنیل کمار رائے بن گیا۔۔۔

 

نئی نئی آزادی کے سات آٹھ سال بعد جنمے سنیل کمار رائے کا گوپال گنج۔۔۔  اسٹیشن سے میرواں، نیچوا جلال پور، آتے ہوئے تب سڑکیں پکّی نہیں تھیں۔ کچھ تھیں۔۔۔  اِدھر کے علاقے میں، مکانات بھی کم کم تھے۔۔۔  65 کی ہند و پاک جنگ کی تھوڑی تھوڑی یادیں ذہن میں اب بھی محفوظ تھیں۔

 

گھر کی ’پالک کوٹھری‘ میں تب بابو جی سے ملنے آیا کرتے تھے۔ چودھری غفّار۔۔۔  بے دھڑک کوٹھی کے اندر آ کر آواز دیا کرتے تھے، بابو جی کو۔۔۔  بلیک آؤٹ کا زمانہ تھا۔ سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔۔۔  آسمان پر ہیلی کاپٹر گشت کیا کرتے تھے۔۔۔  وہ اتنا جان رہا تھا، اِن سب کے پیچھے مسلمان ہیں۔۔۔  پاکستان ہے۔ ایسے تو وہ چودھری غفار کو بابو جی کے کہنے سے غفار چا، کہا کرتا تھا۔ مگر اُس دن، پتہ نہیں کیا ہوا کہ۔ ۔  یا اُسے آسمان پر اُڑنے والے ہیلی کاپٹر کا غصہ تھا۔ ۔  یا اُسے لگتا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اُس میں چودھری غفار کا ہی ہاتھ ہے۔ ۔ شاید اس لئے۔ ۔

چودھری غفار یکایک ’پالک کوٹھری‘ میں آ گئے تھے۔۔۔  تب یکایک اُسے انہوں نے رنگوں ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔۔۔  اُس کے ہاتھوں میں ایک رنگین سی کتاب تھی۔ محلے کے دو مکان چھوڑ کر تیسرے مکان میں، دکان کے پاس ایک چھوٹی سی ’کولتاری‘ کو پستکالیہ کا نام دے دیا گیا تھا۔ وہیں سے لے کر آیا تھا وہ یہ کتاب۔ تب، دن کے دس پیسے لگتے تھے۔ پڑھا اور واپس کر دیا۔۔۔  کتاب کچھ مزیدار تھی۔ غفار چودھری نے اُسے دھر دبوچا۔ ایک دم کتاب کے سنگ۔۔۔ ‘

’چور۔۔۔  یہ کیا ہے۔ ۔ ‘

’یہ۔ ۔ ‘

’یہی سب پڑھتا ہے۔ ۔  ٹھہر تیرے بابو جی کو بتاتا ہوں ‘

غفار چودھری کی  پکڑ سخت تھی۔ بابو جی کے پاس پہنچتے پہنچتے ’بلیک آؤٹ‘ کے ڈرے سہمے خیال نے، غفار چودھری کے لئے اُن کے مسلمان ہونے کے احساس نے، مجھے سراپا نفرت میں تبدیل کر دیا تھا۔۔۔

’چھوڑ۔ ۔ ‘

’کیا۔ ۔ ‘

’چھوڑ۔ مسلمان کہیں کا۔ بڑا آیا مجھے مار کھلوانے والا۔ ۔ ‘

اور یہ کیا۔۔۔  غفار چودھری ’خف‘۔۔۔  چہرے پر گھڑوں پانی۔۔۔  اور اوپر سے لے کر  نیچے تک پتھر۔۔۔  بابو جی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔۔۔  ایسی مار شاید اُس نے زندگی میں پہلی بار کھائی تھی۔

’کیا بولا۔ یہ تو بولا۔ میرا بیٹا ہو کر۔۔۔  نہیں غفار بھائی۔ آپ جائیے۔ آپ اس وقت گھر جائیے۔‘

بابو جی کے ہاتھ اور پیر دونوں چل رہے تھے۔۔۔

’’آج اس کم بخت کو مار ڈالوں گا۔ ارے۔ تو یہ سب پڑھتا ہے۔ یہ سب۔۔۔  اور چچا کی یہ عزت کرتا ہے۔ ۔ ‘

باہر نگاڑے بج رہے تھے۔ ۔

آسمان پر ہیلی کاپٹر چیخنے لگے تھے۔

’مار ڈالو گے کیا؟‘

غفار چودھری چیخے۔۔۔  ’کوئی اپنے بچوں کو ایسے مارتا ہے کیا؟ بس ہو گیا۔ آج سے نہیں بولے گا۔ نہیں بولے گانا‘

وہ پتوں کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔

٭٭

 

میں گوپال گنج سے لوٹ آیا تھا۔ لیکن کتنا لوٹا تھا۔۔۔

جوائس تو ’ڈبلن‘ میں ہی رہ گیا تھا۔۔۔  تبھی ’تو اے پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ ایز اے ینگ مین‘ کا ایک کردار اسٹیفن، ’ڈبلن‘، چھوڑتے ہوئے ایک آہ بھرتا ہے۔

’’اے زندگی، خوش آمدید۔

تمہارا سواگت ہے۔

میں زندگی کی حقیقتوں کو جھیلنے کے لئے،

وقت کے اوبڑ کھابڑ راستوں پر نکل آیا ہوں

لیکن، تلاش کر رہا ہوں اپنی آتما

جو تمہاری دھرتی پر

تمہارے ہی لوگوں کے درمیان رہ گئی ہے‘

٭٭

 

وہ پھر میری طرف مڑا تھا۔

’کیا بات ہے۔ ۔ ‘ کہتے کہتے وہ ٹھہر گیا۔۔۔

’میرے ٹازو نہیں دیکھو گے۔۔۔ ؟‘

’دیکھوں گا۔‘

’یہ جاپانی پروڈکٹ ہے۔ سب سے پہلے جاپانی کامکس ’مینگا‘ کے ذریعہ سامنے آیا۔۔۔  آپ نے Nintedo ٹوائز کمپنی کا نام سنا ہے؟۔

’نہیں۔‘

’دلو کے مان اُسی کا دماغ ہے۔‘

وہ ابھی بھی اپنے پوکے مان اٹھا رہا تھا۔۔۔  ’مگر۔یہ پوکے مان ہیں ۔ ۔  انکل۔‘ اُس نے آہستہ سے لفظ انکل کو چبایا۔۔۔ یہ جھوٹ نہیں ہیں۔ رئیل ہیں۔ شاید  اِسی لئے ہم ایک رئیل پوکے مان بنانا چاہتے ہیں۔‘ وہ دو۔ ایک پوکے مان کو لے کر حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

’یو، نوانکل۔ پہلے میں ڈرپوک تھا۔ چھوٹا تھا۔ بہت ڈرپوک۔۔۔  ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ مگر اب نہیں۔۔۔  اب تو مجھے یہی سب چاہئے۔ دی لارڈ آف رنگس، چارلیزاینجل۔ اسپلنٹرسیل، بیٹ مین، اسپائیڈرمین، حلک۔۔۔  اب مجھے ڈر نہیں لگتا۔ میں بہادر بننا چاہتا ہوں۔۔۔  انہی جیسا۔ پوکے مان جیسا۔‘

’مائی گاڈ۔‘

مجھے اُس کے ’نالج‘ نے حیرت زدہ کر دیا تھا۔

’آپ پوکے مان دیکھتے ہیں ؟‘

’نہیں ۔ ۔ ‘

’دیکھئے۔ ۔  دیکھئے انکل‘۔۔۔  وہ جذبات کی رو میں بہہ رہا تھا۔۔۔ پھر آپ بہادر ہو جائیں گے۔ کوئی نہیں روکے گا آپ کو۔ آپ سب پر حملہ کریں گے۔ کیونکہ۔۔۔  اِن پوکے مانوں کو دیکھئے۔ چھوٹے چھوٹے۔ اِن کا ویٹ اور ہائٹ دیکھئے۔ اور ان کا Attack۔۔۔ سب ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں۔ مجھے اُن کے حملے پاگل کر دیتے ہیں۔ بس مجھے لگتا ہے۔ ۔  مجھے لگتا ہے۔ ۔  ‘

اُس کی سوئی پھنس گئی تھی۔۔۔  کئی دنوں بعد، جیسے پوکے مان کے چمتکار نے اُسے پاگلوں کی طرح اپنی بات کہنے کے لئے مجبور کر دیا تھا۔۔۔

’آپ Attackکرتے ہو؟‘

’کس پر؟‘

’کسی پر بھی۔‘

’نہیں۔‘

’نہیں  تو۔ ہمارے پوکے مان سے ملو۔ ابھی ملواتا ہوں۔‘

وہ میرے قریب آ گیا تھا۔ پوکے مان کارڈس اُس کے ہاتھوں میں مچل رہے تھے۔

 

یہ ہے Mankey ۔۔۔ یہ ایک بندر پوکے مان ہے۔ یہ اپنے ناخنوں سے اپنے دشمن کو ’کھرونچتا ہے۔‘ یہ پیڑ پر رہتا ہے۔ اس نے 147فائٹس لڑی ہیں اور 92فائٹس میں اس کی جیت ہوئی ہے۔

’یہ ہے جگلی پف۔ یہ اپنا گانا گا کر سب کو سلادیتا ہے۔ پھر جب سارے لوگ سو جاتے ہیں تو غصہ میں یہ اپنا منہپھلا کر   سب کے منہ پر اسکیچ پین سے تصویر بنا دیتا ہے۔ اس کی ہائٹ 0.5 میٹر ہے۔ اس کا ویٹ ہے۔ 5.5kg اور یہ جب بڑا ہوتا ہے تو wiggly taff میں تبدیل ہو جاتا ہے۔‘

’تم مینکی ہو یا جگلی پف۔‘

’’جگلی۔ ۔  دونوں۔ میں ماسٹرپوکے مان ہوں۔‘

وہ ہنس رہا تھا۔ ’میں سب ہوں۔ سارے کا سارا پوکے مان۔۔۔  اسی لئے تو مجھے ڈر نہیں لگتا۔ مگر وہ۔۔۔ ‘ ایک لمحے کو وہ کہتے کہتے رُکا۔ پھر اُس نے بات بدل دی۔‘ چھوڑو انکل۔۔۔  اپنے دوسرے پوکے مان دوستوں سے ملواتا ہوں۔۔۔

’یہ meowthہے۔‘

ایک بدمعاش پوکے مان۔ یہ اپنے پنجے سے سب کو کھروچتا ہے۔ یہ ایسا پوکے مان ہے جو انسانو ں کی زبان میں بول سکتا ہے۔ ۔  یہ راکٹ ٹیم کے پاس رہتا ہے۔اس نے 144فائٹس لڑی ہیں اور اُن میں 78میں، جیت حاصل کی ہے۔

’تم میوتھ ہو کہ نہیں۔‘

’ہوں ‘ اُس کا لہجہ سرد تھا۔ کیونکہ میں جیل میں رہا ہوں۔ لیکن میں ایش بننا چاہتا تھا۔

’ پھر میوتھ کیوں بنے؟‘

’میوتھ کہاں بننا چاہتا تھا۔ ۔  وہ تو۔ ۔ ‘

وہ کہتے کہتے ٹھہر گیا۔۔۔

’وہ ۔ ۔  تو۔ کیا؟‘

میری کوئی غلطی نہیں ہے۔‘ وہ زور سے چیخا۔۔۔  پھر فوراً ہی نارمل ہو گیا۔ اچھی باتیں کرو نا انکل۔۔۔  میرے پوکے مان دیکھو۔۔۔  سب بھول جاؤ۔ دنیا میں ایسے پوکے مان کیوں نہیں ہوتے۔‘

’ہوتے ہیں۔‘

’ہاں ہوتے ہیں۔۔۔ ‘ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا۔۔۔  اور یہ ہے Charizard۔۔۔ یہ ایک فائر پوکے مان ہے۔ اپنے منہ سے آگ پھینکتا ہے۔ جس سے اس کے دشمن بھاگ جاتے ہیں یا جل جاتے ہیں۔ اس کے پاس پنکھ بھی ہیں۔۔۔  اُڑنے کے لئے۔ اس کی ہائٹ 67  انچ ہے۔ اور اس کا وزن lbs  200  ہے۔ اور یہ ایک ڈریگن پوکے مان بھی مانا جاتا ہے۔۔۔

’ڈریگن، آپ سمجھتے ہیں نا!‘

وہ ہنس رہا تھا۔۔۔  کبھی کبھی میری بھی ڈریگن بننے کی خواہش ہوتی ہے۔ ڈریگن اچھا لگتا ہے نا۔ سب کو مار بھگاتا ہے۔ سب پر اٹیک کرتا ہے۔

’اٹیک کرنا اچھا ہوتا ہے۔۔۔ ؟‘

’کیوں نہیں۔‘

’تم کسی پر اٹیک کرنا چاہو گے؟‘

کیوں نہیں۔ ہر پوکے مان اٹیک کرتا ہے۔‘

’تم جانتے ہو، اٹیک کرنا کیا ہوتا ہے؟‘

’ہاں۔ سامنے والے کو مار دینا۔ Kill کرنا۔۔۔ ‘ وہ بڑے آرام سے کہہ رہا تھا۔ دشمنوں پر اٹیک تو کرنا پڑتا ہے نا۔‘

’نہیں۔‘

’کیوں نہیں۔ سامنے والا اگر آپ کو مار رہا ہے تو آپ دیکھتے رہو گے؟‘

ایک لمحے کو میری آنکھوں میں نتن کا چہرہ ابھرا۔۔۔ ’گودھرا ہو گا تو گجرات بھی ہو گا۔۔۔ ‘ نتن نے روی کا چہرہ پہن لیا تھا۔ یا روی، اچانک نتن بن گیا تھا۔۔۔  روی کا چہرہ اس وقت ایک برف کی سلّی جیسا سرد دکھ رہا تھا۔۔۔

’یہ ہے۔۔۔ Mrowak‘اُس کی آنکھوں میں تجسس کی چمک تھی۔۔۔

’یہ ایک گراؤنڈ پوکے مان ہے۔ یہ اپنی ہڈیوں سے سب پر حملہ کرتا ہے۔ اور ’ہرا‘ دیتا ہے۔ اس کی ہائٹ 39  انچ ہے۔ اس کا وزن Lbs 99ہے۔‘ وہ ہنس رہا تھا۔ یوں ۔ ۔  یوں ۔ ۔  یوں پھینکتا ہے ہڈی۔ دیکھئے کمزور سے کمزور پوکے مان حملہ کرتا ہے۔‘

’لیکن اچھے لوگ تو۔۔۔ ‘

’اچھے لوگ اب نہیں ہوتے ہیں انکل۔‘

اس بار پھر سے، میں پتھر ہو گیا تھا۔ پتھر میں  تبدیل۔۔۔  ’اچھے لوگ اب نہیں ہوتے ہیں انکل‘ لیکن میری اس تبدیلی سے الگ، وہ اپنے پوکے مان دکھا رہا تھا۔۔۔

’یہ Rattata ہے۔ ریٹ پوکے مان۔ ۔  اس کی لمبائی ہے 10  انچ اور وزن ہے Lbs 8۔ یہ سب کو جلدی جلدی کاٹنے دوڑتا ہے۔‘

’اچھے لوگ کیوں نہیں ہوتے۔‘

’وہ تمہارے زمانے میں ہوتے تھے۔۔۔ ‘ روی ہنس رہا ہے۔

’تمہارے زمانے میں بھی ہیں۔‘

’نہیں۔‘

’ممی پاپا۔۔۔ ؟‘

’وہ تو۔۔۔ ممی پاپا ہیں۔۔۔ ‘اُس نے ہنسنے کی کوشش کی۔۔۔  ممی پاپا بس ممی پاپا ہوتے ہیں۔‘

’کیوں ؟‘

’اس کے پاس ایک جواب پہلے سے موجود تھا۔۔۔ کیونکہ وہ کھلاتے ہیں۔ پلاتے ہیں۔ پڑھاتے ہیں، آپ کو جیب خرچ دیتے ہیں۔ یہ دیکھئے۔ دیکھئے نا۔ ۔  وہ لگاتار اپنے پوکے مان دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

’یہ فائرکیوب ہے۔ انرجی۔ یہ ٹرینر ہے۔ میگنی فائر۔ اور یہ ہے Krabby۔

یہ ایک کیکڑا پوکے مان ہے۔ یہ پانی میں رہتا ہے۔ یہ اپنی ’تھیلی‘ کی مدد سے سب کو کاٹ لیتا ہے۔ اس کی لمبائی 1.4  انچ ہے۔ اور اس کا وزن Lbs 14ہے۔ اس نے 62فائٹس لڑی ہے اور 51 میں جیت حاصل کی ہے۔

اور یہ ہے Light machoke

یہ scratch ہے۔

اور یہ ہے میرا فیورٹ۔۔۔  kadabra

کاڈابرا ایک جادوگر ہے۔۔۔  جادو کرنے والا، پوکے مان۔ کاڈابرا اپنے چمچہ سے طرح طرح کے جادو کا کھیل دکھاتا ہے اور سب کو ہرا دیتا ہے۔ اس کی لمبائی 51  انچ ہے اور اس کا وزن Lbs 125ہے۔

وہ ایک لمحے کو ٹھہرا۔

میں گہری سوچ میں تھا۔۔۔  اُف، مائی گاڈ۔ زندگی ’پنچ تتو‘ کے میل سے بنی ہے۔۔۔  اور جاپانی کمپنی والوں نے آگ، ہوا، اور پانی کو بھی نہیں چھوڑا۔چھوٹے چھوٹے کیکڑوں اور مچھروں کو بھی نہیں بخشا۔۔۔  یہ ہے دماغ۔ اس صدی کا بڑا دماغ۔۔۔  دھول سے آسمان تک، سب کے پوکے مان تخلیق کر دیئے اور اِن بچوں کے ذہن میں اپنا ایک الگ پوکے مان قائم کر دیا۔۔۔

’آپ   کیا سوچ رہے ہو انکل۔‘

’نہیں۔ کچھ نہیں۔‘

’ابھی بہت سے ہیں۔ ہزاروں۔لیکن یہ میرا پسندیدہ۔ تم بھی دیکھو دیکھو نا اور یہ ہے Abra

آبرا ایک دن میں 18گھنٹے سوتا ہے اور چھ گھنٹے دشمنوں سے لڑتا ہے۔ آبرا ایک درخت کی چھاؤں میں رہتا ہے اور آبرا پھیل کر کاڈابرا میں بدل جاتا ہے۔‘

ایک لمحے کو وہ ٹھہرا۔۔۔  ’ہم کیوں نہیں۔ آبرا سے کاڈابرا بن جاتے ہیں۔ ایک بار اندھیرے کمرے میں، میں نے کوشش کی۔۔۔ ‘

’کیا؟‘

’سونالی بن جاؤں۔‘ وہ ہنسا۔۔۔

’پھر کیا ہوا۔‘

’ہو گا کیا۔۔۔  لیکن میں بنوں گا۔ دیکھئے وہ اٹھارہ گھنٹے سوتا ہے اور چھ گھنٹے لڑتا ہے۔ پاپا تو زیادہ سونے ہی نہیں دیتے۔‘

’زیادہ سونا اچھی بات نہیں ہے۔‘

اُس نے بات ٹال دیا۔۔۔  اُس نے اگلا کارڈ اٹھا لیا۔۔۔

’اور یہ ہے Drowzee‘

یہ سب کو اپنے ’وش‘ میں کر لیتا ہے۔ یہ سب کو ہاتھ ہلا کر وش میں کرتا ہے۔۔۔  روی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔۔۔  یہ ہاتھی جیسا دکھتا ہے۔۔۔ اس کی ہائٹ 39  انچ ہے اور اس کا وزن Lbs 71 ہے۔

وہ ایک بار پھر اپنی دنیا میں لوٹ آیا تھا۔۔۔

’ہم کسی کو اپنے وش میں بھی نہیں کر سکتے۔۔۔ ‘

’ہاں یہ تو ہے۔‘

پوکے مان بن جاؤں تو یہ دنیا اپنے قبضے میں۔ کچھ بھی کر سکتا ہوں ‘

’کچھ بھی۔ مگر کیا۔۔۔ ‘

’کیا۔۔۔ ‘ ایک لمحے کو وہ سوچ میں گم ہوا۔۔۔  ’شہر میں سب سے اچھا مکان میرا ہو گا۔ سب سے زیادہ پیسہ میرے پاس ہو گا اور میرے سارے دشمن میرے نوکر ہوں گے۔

’تم سب کو نوکر بنا لو گے؟‘

’ہاں۔‘ اُس کی آنکھوں میں نفرت تھی۔ سب کو۔۔۔ ‘ وہ چیخا۔ باتیں مت کرو نا۔ میرے پوکے مان دیکھو۔۔۔  مجھے تمہارے ساتھ باتیں کرنا اچھا لگ رہا ہے۔ یہ ہے Blastoise

یہ ایک پانی پوکے مان ہے۔۔۔  یہ پانی میں تیز تیز تیرتا ہے۔ یہ اپنے پانی کے تالاب سے، پانی کا حملہ کرتا ہے اور اس سے اپنے دشمنوں کو ہرا دیتا ہے۔ کوئی بھی مصیبت آنے پر، یہ اپنے جسم کے اندر چھپ جاتا ہے۔۔۔  دیکھا انکل۔۔۔  اس کی ہائٹ 63  انچ ہے اور اس کا وزن Lbs 189 ہے۔‘

وہ اُداس تھا۔۔۔

’میں تیرنا نہیں جانتا؟‘

’کیوں۔ اسکول میں سکھایا نہیں گیا۔‘

’اُس کی الگ فیس تھی۔‘

’پھر۔‘

’پاپا نے منع کر دیا۔ ضرورت نہیں ہے۔ دیکھو ایک اور پانی پوکے مان سے ملواؤں۔

یہ ہے Squirtle

یہ بھی ایک پانی پوکے مان ہے۔ یہ اپنے منہ سے بلبلہ پھینکتا ہے۔ اور یہ پھیل کر Wartortle میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کی لمبائی 1.8  انچ ہے اور اس کا وزن Lbs 20ہے۔

اور۔۔۔

اور۔۔۔

وہ منہ سے بلبلے نکال رہا ہے۔

پوکے۔ ۔  پوکے مان۔۔۔

آواز یں چہار طرف سے مجھ پر شب خون مار رہی ہیں۔ آگ، ہوا، پانی، مٹی۔ ۔

آنکھوں کے آگے آہستہ آہستہ اندھیرا چھا رہا ہے۔ ساری چیزیں حرکت کر رہی ہیں۔ میں اُڑ رہا ہوں۔۔۔  نہیں۔ میں پوکے مان میں تبدیل ہو رہا ہوں۔۔۔  واٹر پوکے مان۔ فائر پوکے مان۔۔۔  یہی حال روی کا ہے۔ وہ چھوٹا ایش بن گیا ہے۔ نہیں۔ آبرا۔ آبرا بھی نہیں۔ کاڈابرا۔ یہ بھی نہیں۔ پورا پورا جگلی پف۔۔۔

میرا سر گھوم رہا ہے۔۔۔

ماں باپ اس کے لئے صرف ماں باپ ہیں۔

اس کے لئے نہیں۔ اس کے جیسے سارے پوکے مانوں کے لئے۔ یہ اٹیک کرنا چاہتا ہے۔ کسی پر بھی۔ جس کو دشمن سمجھتا ہے، اُسے غلام یا نوکر بنانا چاہتا ہے۔

اندھیرا بڑھتاجارہا ہے۔۔۔

پوکے مان۔ ۔ پوکے مان۔ ۔

پوکے مان۔ ۔

کمرے میں دور تک پوکے ہی مان پوکے مان۔ ۔

اور اِن پوکے مانوں کے درمیان روی بیٹھا ہے۔ ایک پوکے مان ٹرینر۔۔۔  انسان پوکے مان۔۔۔

لیکن نہیں۔ روی تو میرے پاس کھڑا ہے۔

پھر سارا منظر دھندلا، دھندلاسا کیوں ہو گیا ہے۔ ۔ ؟

’کہاں کھو گئے انکل۔۔۔ ؟‘

روی پوچھ رہا ہے۔ ۔

آنکھوں کے اندھیرے کم ہوئے ہیں۔ مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔ ایک ڈریم آیا تھا۔ ڈریم میں، میں پوکے مان بن گیا تھا۔

’تم تو ہو ہی پوکے مان۔ انکل۔‘

روی ہنس رہا ہے۔ زور زور سے۔ لیکن نہیں۔ یہ تو جگلی پف ہنس رہا ہے۔

جگلی پف۔ جس نے اپنے گانے سے سب کو بے ہوش کر دیا ہے۔ مجھے بھی۔ ’پارٹی‘ کو بھی۔۔۔  سب کو۔ دنیا کو۔۔۔  ایلٹ کلاس کو۔مڈل سوسائٹی کو۔ دلت ورگ کے لوگوں کو۔۔۔  سب کو سلادیا ہے۔ وہ ابھی اُٹھے گا۔ سب کے سونے کا جشن منائے گا۔ پھر پائپ لے گا اور سب کے چہرے پر اسکیچ اور کارٹون بنانا شروع کرے گا۔

نہیں کر دیا ہے۔۔۔

اخباروں سے چینلس تک۔۔۔

پرنٹ میڈیا سے الکٹرانک میڈیا تک۔۔۔

دیس سے بدیس تک۔۔۔

دلت ورگ بک رہا ہے۔ ہندستان میں ابھی تک دلت ورگ؟ دلت لڑکی کے ساتھ بلاتکار اور بلاتکار کیا، کس نے ہے۔۔۔  اس جگلی پف نے۔۔۔  جو اب اسکیچ بنا کر  پھولنا شروع کرے گا۔۔۔  اور پھولتے پھولتے Wiggly tuff میں تبدیل ہو جائے گا۔۔۔

جگلی پف سے سروگلی ٹف۔۔۔

بچہ سے بلاتکاری۔۔۔

انسان سے مونسٹر۔۔۔

مونسٹر سے پاکٹ مانسٹر۔۔۔

کوئی دھیرے سے کہتا ہے۔۔۔  یہ دنیا تمہارے سوچنے سے زیادہ پھیلتی جا رہی ہے۔۔۔  سوچ فکر، ایک بھیانک بیماری کی طرح ہے۔یہ تمہیں اندر ہی اندر جڑ سے کمزور کر دیتی ہے۔۔۔  تم میں ایک ایسا وائرس ڈال دیتی ہے، کہ جسم کے اندر کا خون تک تمہارا نہیں رہ جاتا۔۔۔

٭٭

 

واپسی میں، اسنیہہ نے پوچھا تھا۔۔۔

’سنو۔ ایک بات پوچھوں۔‘

’ہاں۔‘

’بہت دنوں سے ہم کہیں باہر نہیں گئے۔‘

میں  آہستہ سے مسکرایا۔۔۔

’بہت دنوں سے، ہم نے ایک دوسرے سے کھل کر باتیں نہیں کیں۔‘

میں نے اُسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیا۔۔۔

وہ میرے جسم میں پیوست ہو رہی تھی۔۔۔

’تم نے کہا تھا۔۔۔  ایک عمر جاتے ہی، ہم پھر سے جوان ہو جاتے ہیں۔‘

’ہاں۔‘

’اور زیادہ محبت کرنے والے۔ ۔ ‘

’ہاں ۔ ۔ ‘

’پریمی۔ پریمیکا۔‘

’ہاں۔‘

وہ مجھ پر بارش کی طرح برس رہی تھی۔ ۔  میں بارش کے تھپیڑوں کو محسوس کر رہا تھا۔

’سنو اسنیہسارا منظر دھندھلہ۔ ابھی ابھی کی اس عورت کا تمہیں کوئی احساس ہے یا نہیں۔۔۔  یہ عورت ایک شاعرہ بھی ہے اور عورت بھی۔۔۔  ذرا سوچو۔ بچوں میں، ہم نے اس عورت کو سلادیا تھا۔ تم میں، ایک بوڑھی، جھنجھلائی ہوئی ‘پتھر عورت‘ آ گئی تھی۔انتہائی سخت اور جذبات سے عاری عورت۔ بچوں کے جاتے ہی یہ عورت پھر سے نرم، ملائم، خوشبو بکھیرتی اور محبوبہ بن گئی۔۔۔ ‘

’مطلب۔۔۔ ‘

’نہیں۔ مجھے غلط مت سمجھو۔ بچوں کے جانے کا دُکھ ہے مجھے۔۔۔  بچے اپنا خون ہوتے ہیں۔ لیکن بچے ایک دن اُڑ جاتے ہیں۔۔۔  کیونکہ پنکھ لگتے ہی وہ اپنی آزادی کا احساس کرنے لگتے ہیں۔ اُنہیں اُڑنا ہوتا ہے۔ تم بچوں کی  اُڑان سے بے خبر تھی۔۔۔  جبکہ میں بچوں کی اس اُڑان کو سمجھ رہا تھا۔۔۔  تم نے بچوں میں، مجھے بھلا دیا تھا۔۔۔  جبکہ تم خود بھی بچوں میں نہیں رہ رہی تھی۔ اس لئے کہ تمہارے اور بچوں کے ’ڈینے‘ الگ الگ تھے۔۔۔  ماحول بھی۔۔۔  ہر ’ڈینا‘ (پنکھ) الگ الگ ماحول میں ہی اُڑنے کے لئے اپنے پنکھ اور بازو تولتا ہے۔۔۔  تم نے اُن کے درمیان، مجھے کاٹ دیا تھا اور بے رحم ہو گئی تھی۔۔۔ ‘

اسنیہہ ایک بار پھر میرے جسم سے الجھ گئی تھی۔

’اور اب۔ ۔ ؟‘

’تم سولہ سال کی۔ ۔ ‘

’ریا‘ کہتے ہوئے، میرے ہونٹ کانپ گئے تھے۔۔۔  کہاں ہو گی۔ کس حال میں ہو گی۔ اسنیہہ کو بھی ریا کے نام نے دُکھی کر دیا تھا۔۔۔

’پرواہ مت کرو۔ پرندے اپنے گھونسلے میں لوٹتے ہیں۔ مہاجر پرندے بھی ایک دن واپس آ جاتے ہیں۔۔۔  یہ گھر کھلا ہے۔۔۔  وہ آ گئے تو استقبال۔ اور نہیں آئے۔ تو پرواہ مت کرو۔۔۔ ‘

’کیسے نہیں کروں۔‘

’ماں ہو۔ ۔ ؟‘

’ہاں۔‘

’بچے یاد آتے ہیں۔ لیکن کیا بچے بھی ہمیں یاد کرتے ہوں گے؟ یاد کرتے تو اپنا گھونسلہ نہیں چھوڑتے۔ یاد کرتے تو ہم سے دور نہیں جاتے۔‘

’پھر بھی۔‘

’ہاں، ابھی تم نے کہا، بہت دنوں سے ہم کہیں باہر نہیں گئے۔ ہم باہر جائیں گے۔ کہاں بہتر رہے گا؟‘

’کہیں بھی۔‘

’کوئی ہل اسٹیشن۔۔۔ ؟‘

اسنیہہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔

’تمہارے ساتھ، کہیں بھی رہ لوں گی۔ جہاں رہوں گی، وہی ہل اسٹیشن بن جائے گا۔‘

میں نے اسنیہہ کو زور سے ایک بار پھر بانہوں میں بھر لیا۔۔۔

’سنو اسنیہ۔ اب اس نئی اسنیہہ کو غائب مت کرنا۔ یہ میری ہے۔۔۔  صرف میری۔ اس پر بچوں کا بھی حق نہیں۔۔۔ ‘

٭٭٭

 

 

 

(۷)

 

 

یہ ساری خبر ابھی بھی میڈیا کا حصہ بنی ہوئی تھی۔۔۔  میڈیا والے دو، ایک دن تک سوجاتے۔ پھر اچانک خبر اُچھل جاتی۔۔۔  پہلے صفحہ پر  سونالی کی تصویر چھپ جاتی۔۔۔

میڈیا نے بارہ برس کے بچے کو ایک ویلن کے طور پر پیش کیا تھا۔۔۔  دلت ومرش، ایک بار پھر چرچے میں تھا۔۔۔  دلت اتیاچار کو لے کر بڑے بڑے مدعے اٹھائے جا رہے تھے۔ جن سنگھرش چھیڑنے کی بات کہی جا رہی تھی۔ مگ ریہیں دو پارٹیوں کے بیچ وچار دھارا کا ایک ٹکراؤ بھی سامنے آیا تھا۔ اتر پردیش، اپوزیشن پارٹی کی لیڈر نے ستّہ کو منووادیوں کا قبضہ کہہ کر، اس پورے معاملے کو اپنے کیمپ میں ہڑپنے کی کوشش کی تھی۔۔۔  اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔۔۔  کریں یہ۔۔۔  اور پھر تالی بھی بجوائیں۔۔۔  دلت پر اتیاچار کے سوا، اس ستّہ پارٹی نے اور کیا، کیا ہے۔۔۔ ‘جے چنگی کو بی ایس پی میں شامل کرنے کا نیوتہ بھی بھیجا گیا، جسے جے چنگی رام نے ٹھکرا دیا تھا۔ کیونکہ وہ بی جے پی کی ’بڑہت‘ جانتا تھا۔یہ بھی کہ، اب آنے والے کئی برسوں تک، ستّہ پر اسی پارٹی کا اکیلا ادھیکار رہے گا۔۔۔

مگر۔ اِن سب کے باوجود جئے چنگی رام کے ارادوں پر اوس پڑ گئی تھی۔

آ رہ سے سمترا کا خط آیا تھا۔۔۔

’یہ سب کا ہو رہا ہے۔ بڑونام نکلت ہو۔ چاروں اور تھُو تھُو بھئیل ہے۔۔۔  یہ سب اچھا ناہی۔ تم کو ہم برابر یاد کرت ہیں۔‘

 

سمترا ایک بار پھر جے چنگی کے ہوش وحواس پر چھا گئی تھی۔۔۔  یہی تو چاہا تھا اُس نے۔۔۔  کیونکہ اس عورت شوبھا سے اب گھن آنے لگی تھی۔۔۔  شوبھا نے اُسے بہلا، پھسلا کر شادی تو کر لی، مگر اُس کے اندر کی خوفناک عورت کو وہ اچھی طرح پہچان گیا تھا۔ سونالی بھی ماں پر ہی گئی ہے۔ تبھی تو وہ ایک دن بھی سونالی کو اپنی بٹیا کی طرح گلے سے نہیں لگا سکا۔۔۔  اور اس حادثہ کے بعد وہ اندر ہی اندر سمترا کو دلّی لانے کا ارادہ کر چکا تھا۔۔۔  ایک طرح سے، اُس نے ایک تیر سے کئی شکار کئے تھے۔۔۔  شوبھا اور سونالی کو بدنام کیا تھا۔ ہاں، اس بدنامی میں۔۔۔  اُسے ان دونوں کی بدنامی سے بڑھ کر بدنامی ملی تھی۔ مگر اس بدنامی کا اُسے پہلے سے ہی اندازہ تھی۔ اور یہ بھی۔۔۔  کہ یہ سب تو راجنیتی میں چلتا ہی رہتا ہے۔۔۔  اُس نے سوچ لیا تھا، اس حادثے کو بنیاد بنا کر وہ اِن دونوں کو، گھر اور زندگی سے نکال باہر کرے گا۔۔۔  پھر سمترا اور بٹیا کو لے آئے گا۔ ایک نئی زندگی شروع کرے گا۔

کہاں شوبھا، کہاں سمترا۔۔۔

کہاں ہر وقت، جلی کٹی سنانے والی شوبھا اور کہاں پتی بھکت، بے مونہا گائے، سمترا۔

دونوں میں زمین، آسمان کا فرق تھا۔۔۔

 

سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہی چل رہا تھا کہ چناؤ نے منصوبوں کی پوری دھار ہی موڑ دی۔۔۔

شوبھا اور سونالی کو باہر کرنے  کی راجنیتی کا خیال اُسے نکالنا پرا۔۔۔

اشوک نگر، بھاجپا کی شاخ کھل جانے کے بعد اُس کی مصروفیت میں لگاتار اضافہ ہوتا رہا۔۔۔  کھیاتی بڑھی۔۔۔  کام بڑھا۔۔۔  لوگ بڑھے۔۔۔  دفتر میں اے سی لگ گیا۔ پارٹی کے جھنڈے لگ گئے۔ لاؤڈ اسپیکر پر گانے بجنے لگے۔ باہر بڑے بڑے پوسٹر اور بینر لگ گئے۔ دفتر کے باہر سڑک پر گاڑیاں لگنے لگیں۔ جے چنگی رام، صاحب تھے۔۔۔  پارٹی ورکر۔۔۔  دلت ووٹ بینک کے آسامی۔ مگر اوپر سے دباؤ تھا۔۔۔

’چنتا مت کرو۔ راجنیتی میں زیادہ سوچنے کی عادت مت ڈالو۔ صرف دیکھو۔ نظر رکھو۔ کیا ہو رہا ہے۔ زیادہ ایموشنل مت بنو۔ کیا ہے، کہ جیادہ ایموشن بنا بنایا کام بگاڑ دیتی ہے۔‘

’ٹھیک۔‘

’آدیش ہے۔ سونالی کو منچ پر لاؤ۔ اُسے بتاؤ۔۔۔  وہ اپنا دُکھڑا روئے گی۔ چلاّ چلاّ کر بتائے گی، کہ وہ نردوش ہے۔ اُس کا دوش کیول یہ ہے کہ وہ دلت ہے۔

’لیکن۔ ۔ ‘

’جانتے ہو نا جے چنگی۔ راجنیتی میں لیکن، کنتو، پرنتو کی گنجائش کہاں ہوتی ہے۔ سونالی کو اسٹیج پر لاؤ۔ وہ باہر بھی جائے گی۔ تم بھی اپنا بھاشن تیار رکھو۔ الپ سنکھیکوں اور دلتوں کے لئے اب پارٹی کھل کر سامنے آئے گی۔ کیونکہ پارٹی اِن کا ہت (فائدہ) چاہتی ہے۔

’جی۔ ۔ ‘

’پارٹی دفتر ٹھیک چل رہا ہے نا۔‘

’جی سرکار۔‘

’تو پھر چلائے۔ بٹیا اب ساتھ ساتھ گھومے گی۔ اور ہاں، ایموشن کو نکال دیجئے۔ بس یہی آخر میں کہنا تھا۔‘

٭٭

 

اوپر کے آئے آدیش کو ردّ کرنا جے چنگی رام کے بس میں نہیں تھا۔۔۔

آخر اوپر کا آدیش ہے۔ پارٹی نے ہی تو اُسے بنایا ہے۔ عزت دی ہے۔ لیکن سونالی کو اسٹیج پر لانے کی بات نے شوبھا کو پھر سے چیخنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔

’پاگل ہو۔‘

۔۔۔ ’ہاں ‘

یعنی پارٹی کے نام پر کچھ بھی کرو گے؟

مطلب  ؟

’یہ ٹھیک نہیں ہے۔ سونالی کی پہلے ہی بہت بدنامی ہو چکی ہے۔‘شوبھا زور زور سے چیخ مار کر رونے لگی تھی۔ کرم پھوٹے تھے جو تم سے شادی کی۔ ارے بیٹی تو مریادا ہوتی ہے۔ تم کیسے باپ ہو، جو اپنی بیٹی کو۔ ۔ ‘

’روؤ مت۔۔۔ ‘ جئے چنگی زور سے چلاّیا۔۔۔  ’ای سب تمہارے پاپ کا گھڑا ہے۔ زیادہ زبان مت کھلواؤ۔ جو پارٹی کہے گی۔ کرنا پڑے گا۔

’پارٹی۔۔۔  پارٹی نے تمہیں بیچ بازار ننگا کر دیا ہے۔‘

’نہیں۔ پارٹی نے مان سمّان دیا ہے۔‘

’بھرم ہے تمہارا۔ یہی مان سمّان ہے۔ ساری دنیا کو اپنی بارہ سال کی بچی دکھاؤ گے۔ اور بھیڑ تمہاری بچی میں کیا دیکھے گی۔۔۔  سوچا ہے۔‘

شوبھا کسی شیرنی کی طرح گرج رہی تھی۔۔۔  ’سونالی کا شریر۔ سب کسی بھیڑیئے کی طرح للچائی درشٹی سے تمہاری بیٹی کو دیکھیں گے۔ آپس میں بات کریں گے۔ اسی کے ساتھ۔ اسی کے ساتھ بلاتکار ہوا ہے۔ ۔ ‘

’تو۔ ۔  جیسی کرنی۔ ویسی بھرنی۔‘

کرنی مطلب؟‘ شوبھاچنی۔

’چیخو مت۔ سب جانتا ہوں۔ سب تم سے ہی تو لیا ہے۔‘

شوبھا نے گندی سی گالی بکی۔

جے چنگی ہنسا۔ ’فارسی میں گالی دینے سے فائدہ نہیں۔۔۔  ہم تو وہی کریں گے۔ جو پارٹی کہے گی۔ اور تم بھی کان کھول کر سن لو۔۔۔  زیادہ ناٹک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پارٹی کا معاملہ ہے۔ بڑے لوگ ہیں۔ یہ چاہیں تو تمہیں بن بات بھی جیل میں سڑا دیں۔

شوبھا دیر تک کمرے میں بین کرتی رہی۔ جے چنگی، سونالی کے کچھ نئے کپڑے لے آیا تھا۔ سونالی کو اُس نے سمجھا بجھا کر اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔۔۔

’یہ سب تو ہوتا رہتا ہے۔ ۔  تجھے بڑا آدمی بننا ہے کہ نہیں۔ مایاوتی کی طرح۔ جے للتا کی طرح۔ سونیا کی طرح۔ دیکھ۔ تو نیوز میں ہے۔ تیری فوٹو چھپتی ہے۔ ٹی وی میں بھی تیرا فوٹو آتی ہے۔ ماں تو جھوٹ موٹ کا بک بک کرتی ہے۔ ابھی سے ساتھ چلے گی تو چار پانچ برس بعد پوری طرح پولیٹکس میں آ جائے گی۔۔۔  ایسے ہی بڑے بڑوں کے بچے آتے ہیں۔۔۔ ‘

سونالی نے سدھے ہوئے گائے کی طرح ہامی بھر لی تھی۔ اور اس کے بعد سے ہی وہ جن سبھاؤں کا حصہ بننے لگی تھی۔ دلّی سے پنجاب اور جموں تک۔۔۔

کانگریس اور دوسری پارٹیوں نے کھل کر اس کا ’ورودھ‘ کیا تھا۔۔۔  لیکن یہ مخالفت بھی فیل گڈ فیکٹر کے درمیان دب کر رہ گئی  تھی۔۔۔

اس بیچ الیکشن ہائی کمشنر نے اس پورے معاملے کی خبر لی تھی۔ پارٹی کو نوٹس جاری ہوا تھا۔۔۔  کہ وہ لڑکی کو ساتھ لے جانے والا ناٹک بند کرے اور چناؤ کی مان مریادا کو سمجھے۔۔۔

بلاتکار سے متعلق جیوڈیشری کی بڑھتی تاریخوں کو لے کر بھی میڈیا اور لوگوں میں بے چینی تھی۔۔۔

مجھے اپنا ججمنٹ تیار کرنا تھا۔۔۔

اب اس کیس کو زیادہ لٹکائے رکھنے میں  میری دلچسپی ختم ہو چکی تھی۔ اس درمیان نتن کا امریکہ سے خط آیا تھا۔ بلیو برڈ نے ’پنچھی‘ کو امریکہ کی سیر کرا دی تھی۔ امریکہ میں نتن کو ایفریٹی ملی تھی۔۔۔  نتن نے لکھا تھا۔۔۔ وہ اور ایفریٹی، شادی کرنے جا رہے ہیں۔ شاید تنہائی سے گھبرا کر اُسے ہمارے آشیرواد کی ضرورت تھی۔

’رات لاک اَپ میں۔۔۔  میں نے میل پر اُسے اپنا آشیرواد بھیج دیا۔۔۔  اُس نے ریا کے بارے میں پوچھا تھا۔ میں نے مختصراً لکھا۔۔۔  نئی چڑیائیں اُڑ جاتی ہیں تو اپنے پرانے گھونسلوں کی زیادہ پرواہ نہیں کرتیں۔ وہ اپنا نیا گھونسلہ آباد کرنے میں زیادہ یقین رکھتی ہیں۔۔۔ ‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۸)

 

آنکھیں بند کرتے ہی ایک چمکتی سی دھند آنکھوں میں حاوی ہو جاتی ہے۔ کوئی منظر اُس پار سے مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ مگر کیسا منظر۔۔۔ ؟ اس منظر میں کوئی ہے۔۔۔  اپنا سا۔۔۔  کوئی اپنا سا چہرہ۔۔۔  کوئی اپنا سا خون۔۔۔  لیکن کوئی کہاں ہے۔۔۔  ایک عمر گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگ جاتی ہے اور پھر آپ جیسے کسی تپتے ریگستان میں کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔  اکیلے۔۔۔  سر پر دھوپ ہی دھوپ ہوتی ہے اور پاؤں کے نیچے آگ۔

لیکن میرے آگے تو زندگی پڑی ہے۔۔۔

ایک لمبی زندگی۔۔۔

اور اس لمبی پڑی زندگی میں، تپتے ریگستان سے مجھے کیا ڈر۔۔۔  کیسا گھبرانا۔ مگر شاید اُڑ جانے والے پرندے، اپنی یادوں سے زخمی کرتے رہتے ہیں۔ میں گوپال گنج کی یادوں سے باہر نکلنے کا فیصلہ کرتا ہوں، تو نتن اور ریا میرے قدموں سے لپٹ جاتے ہیں ۔ ۔

اور کوئی انجانی سی دھُن فضا میں پھیل جاتی ہے۔۔۔

کوئی نرتیہ شروع ہو جاتا ہے۔ ۔

ہلکی ہلکی، مدھم مدھم بارش کے گیت ہوتے ہیں۔

اور اُن گیتوں سے شرابور، کچھ بے حد میٹھے لمحے ہوتے ہیں۔۔۔

لیکن یہ لمحے کہاں کھو گئے۔۔۔ ؟

٭٭

 

کل پھر تاریخ پڑی ہے

اور میں ججمنٹ تیار کر چکا ہوں۔۔۔

مگر نیند۔ آنکھوں میں نیند کیوں نہیں۔ یہ نیند کہاں چلی گئی۔ بستر پر پلٹ کر دیکھتا ہوں۔ اسنیہہ گہری نیند میں ہے۔ دروازہ کھولتا ہوں۔ اٹھ کر بالکنی میں چلا آیا ہوں۔ سگریٹ کا ایک ہلکا سا کش۔۔۔

نتن، روی بن گیا ہے۔۔۔

ریا، سونالی بن گئی ہے۔۔۔

اور مجھے فیصلہ سنانا ہے۔۔۔

کل بھیڑ ہو گی۔۔۔  میڈیا کے لوگ ہوں گے۔کیمرے آن ہوں گے۔ تصویر یں کھینچی جا رہی ہوں گی۔ فلیش چمک رہے ہوں گے۔ ۔ اخبار کے نمائندے سوال پر سوال پوچھ رہے ہوں گے۔۔۔

سیاسی چہروں پر فیصلہ جاننے کے لئے غضب کی بے چینی ہو گی۔ سیاسی چہرے ہی کیوں۔۔۔

اس فیصلے پر تو سب کی نگاہیں لگی ہیں۔۔۔

میں بالکنی میں ٹہل رہا ہوں۔۔۔

نیند آ رہی ہے۔

نہیں، نیند تو مجھ سے کوسوں دور ہے

نہیں۔ نیند آ رہی ہے۔ ۔

سوجاؤ۔ سنیل کمار رائے، سو جاؤ۔۔۔  کہ آدھی رات گزر چکی ہے۔ ساری دنیا نیند کے مزے لے رہی ہے۔ ۔  سو جاؤ۔۔۔  سب کچھ بھول جاؤ۔۔۔  بھولنے کی کوشش کرو۔۔۔

٭٭

 

ہاں مجھے۔ ۔  مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔

بالکنی سے آ کر، دوبارہ اسنیہہ کے بغل میں لیٹ گیا ہوں۔۔۔  نیند مجھ پر حاوی ہو رہی ہے۔۔۔

لیکن ابھی تو بہت سے کام پڑے ہیں ۔ ۔

مجھے اپنا فیصلہ ٹائپ کرنا ہے۔۔۔

لاک اَپ میں۔۔۔

کچھ دیر کمپیوٹر کے آگے گزارتا ہوں۔ سوچتا ہوں۔ اپنے آپ کو تیار کرتا ہوں۔۔۔

نئے سرے سے۔۔۔

ایک نئی صبح کے لئے۔۔۔

٭٭

 

شور۔ ہنگامہ۔ چیخ پکار۔۔۔

نیند میں میری انگلیاں اپنا ججمنٹ ٹائپ کر رہی ہیں۔۔۔

دوستو۔ ساتھیو۔ ۔

لیکن آج تک کسی ججمنٹ کے دوران میں نے، اس طرح کا کبھی کوئی مکالمہ ادا نہیں کیا۔۔۔

یہ معاملہ دوسرا ہے۔۔۔

مکالمے بھی بدلے جائیں گے۔۔۔

پل میں منظر تبدیل ہوتا ہے۔۔۔

میں عدالت میں ہوں۔۔۔ بھیڑ، ہنگامہ شور کے درمیان، میں اپنا لکھا ہوا فیصلہ سنا رہا ہوں۔۔۔

اور۔۔۔

آنکھیں بندکرتے ہی ایک چمکیلی سی دھند، آنکھوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔

میں سورہا ہوں، شاید۔۔۔ !

مجھے ایک خوبصورت سی نیند آ گئی ہے۔۔۔ !

گوپال گنج کا ایک شرمیلا، شرمیلا آدمی۔۔۔ یہ شرمیلا آدمی ایسے فیصلے نیند میں ہی سنا سکتا ہے۔۔۔ !

٭٭٭

 

 

 

 

استعفیٰ نامہ

 

 

 

 

 

 

 

(۱)

 

فلیش چمک رہے ہیں۔۔۔

باہر، اندر۔۔۔  جہاں بھی نظر دوڑائیے۔ آدمی ہی آدمی۔۔۔

کیمرے آن ہیں۔۔۔

ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے لوگ۔۔۔  حیران پریشان۔۔۔  مقدمے کی کارروائی کا انتظار کرتے ہوئے۔۔۔  پبلک پروزیوکیوٹر اور ڈیفنس لائر اپنی اپنی جرح کے بعد واپس اپنی اپنی جگہ لے چکے ہیں۔۔۔  سب کی نگاہیں فیصلے پر ٹکی ہوئی ہیں۔۔۔  ایک تاریخی فیصلہ۔۔۔  مجھے بھی، اس فیصلے کا احترام کرنا ہے۔۔۔  اپنی طرف، ہزاروں چبھتی ہوئی آنکھوں سے الگ، کسی بھی فیصلے تک پہنچنے سے پہلے۔۔۔  میں اپنی رپورٹ پڑھ کر سنا رہا ہوں ۔ ۔  مگر یہ کیا۔۔۔ ؟

میرے الفاظ بدلے بدلے سے ہیں۔۔۔  مجھ پر جذبات حاوی ہو رہے ہیں۔۔۔  میری آنکھوں میں ایک گہری دھند پھیلتی جا رہی ہے۔۔۔  میں اس مقدمے میں سب کو شامل کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ موجود، نہ موجود کے ایک نہ ختم ہونے والے قافلے کو۔۔۔   ساری دنیا کو۔۔۔  میری آواز میں جوش ہے، لہر ہے، اور جنون ہے۔۔۔  تو Gentleman آپ میری آواز سن رہے ہیں ۔ ۔

There is nothing special in this case, This case does not hold water.

چونکہ کچھ بھی اسپیشل نہیں ہے۔کھلا ہوا کیس ہے۔۔۔  اس لئے جو اسپیشل ہے، وہ باہر کا ہے۔۔۔  اور وہی غور کرنے کے قابل ہے۔۔۔  عبرتناک ہے۔۔۔  اور اس دنیا کو نئے طرح سے دیکھنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔۔۔

تیزی سے آگے بڑھتی دنیا میں، قدرے پچھڑے اور دقیانوسی لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔۔۔  ایسے دقیانوسی لوگ اگر اپنی سوچ کی پتنگ ہزار کلو میٹرسے بھی آگے اُڑائیں تب بھی فرق نہیں پڑے گا۔اس لئے کہ دنیا اُن کی اُڑان سے اربوں کلو میٹر آگے بڑھ چکی ہو گی۔۔۔

یہاں جنگ برائے جنگ ہوتی ہے۔ آدمی کو بچانے کے لئے اربوں، کھربوں کے میزائل خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔۔۔  اور لاکھوں آدمیوں کو مار کر لاکھوں آدمیوں کے بچنے کا جشن منایا جاتا ہے۔۔۔

ایک انسانی ماڈل میکاؤف ’کلون‘ کے چیمبرمیں تیار ہوتا ہے۔ ایک بھیڑ ’’ڈولی‘‘ ممیاتی ہوئی آپ کے سامنے آ جاتی ہے۔۔۔  ایک ہوائی جہاز، ورلڈ ٹریڈ ٹاور کو چھیدتا ہوا گزر جاتا ہے۔۔۔  اور چند شیوسینک 14؍فروری، ویلنٹائن ڈے  یعنی محبت کے دن پر پابندی لگانے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔

Gentle man!

الجھاوا ہی الجھاوا ہے۔۔۔

انتہائی خطرناک ترقی، انتہائی ْخطرناک پچھڑا پن۔۔۔

سوپر ہائی وے۔۔۔  اور دوسری طرف زوال یا ’پتن‘ کی کھائی۔۔۔  ڈاکٹر ’جینوم‘ کے ذریعہ انسان کو مرنے سے روکنے کی تیاری کرتے ہیں اور ہم دلت وِمرش کے نام پر اپنی ساری Energyصرف کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔

To be and not to be, is the question

شیکسپیئر زندہ ہوتا تو کچھ اور کہتا۔۔۔ اور شاید نہیں کہتا۔ میری طرح کاغذ کا ایک بیکار سا ٹکرا اپنی جیب میں رکھتا۔۔۔  جس پر ریزائنیشن لکھا ہوتا۔۔۔  اور آپ کے سامنے ایک کھلے کیس پر اپنا ججمینٹ سنا رہا ہوتا۔۔۔

ہونے اور نہیں ہونے کے بیچ یہ دنیا پھنس گئی ہے۔۔۔  ہم مارس پر جا رہے ہیں اور دوسری طرف موہن جوداڑو کے ٹوٹے حصہ کو جوڑنے کے لئے مٹّیاں ڈھونڈھی جا رہی ہیں۔ میں نے اسی لئے کہا کہ جو نہیں۔ وہ اسپیشل ہے اور بہت خاص۔۔۔

ہم ایک بہت بڑے بازار میں الجھ کر بونے بن گئے ہیں۔ ایک بہت بڑا بازار جو ہماری سنسکرتی، ہماری جڑوں سے الگ ہے۔۔۔  ہم اس بازار کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔۔۔  مگر پری ہسٹارک ڈائنا سور بن کر۔۔۔  پانچ کروڑ سال پیچھے جا کر ہم اس بازار میں اپنی گھس پیٹھ جمانا چاہتے ہیں۔

متھ ٹوٹ رہے ہیں۔۔۔  نئے اصول بن رہے ہیں۔۔۔  اور ہیلپ لائنس کی تعداد بڑھ رہی ہے۔۔۔  ہمارے بچے میل اسٹریپرس بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔۔۔  یعنی نیاایڈونچر۔۔۔ یہ دور دراصل ہمارے لئے نہیں سگمنڈفرائیڈ کے لئے تھا۔۔۔  وہ دیکھتا کہ 40 پار، کے ایک باپ کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔۔۔  ایک باپ جو اپنے بچو ں کے آئینے میں خود کو، اُن کی اپنی آزادی کے ساتھ اُتار تو لیتا ہے۔ مگر اُس کا پچھڑاپن  برقرار رہتا ہے۔۔۔  اور وہ وہی رہتا ہے اندر سے۔ پری ہسٹرورک ڈائنا سور۔۔۔

شاید اسی لئے ہیلپ لائن کلچر ہمارے یہاں شروع ہوا۔۔۔  آپ لیسبٹئن ہیں۔ Gay ہیں ہیلپ لائن۔۔۔  طلاق چاہتے ہیں۔۔۔  ہیلپ لائن۔۔۔  میوزک پسند ہے۔۔۔  ہیلپ لائن۔ اُکتا چکے ہیں۔۔۔  ہیلپ لائن۔۔۔  ہیلتھ سے زندگی کے ہر نئے موڑ پر ہیلپ لائن آپ کا سواگت کرتا ہے۔

جینٹلمین۔ بدن کے ہامونس نے تیزی سے بدلنا شروع کر دیا ہے۔ یہ کسی کا قصور نہیں ہے۔ بچہ ماں کی کوکھ میں پل  رہا ہوتا ہے۔۔۔  اور ہارمونس اُسے ایک نئے نظام میں پھیکنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

نیا نظام۔۔۔ کون سا۔۔۔ ؟

نئی سیاست۔ کون سی۔۔۔ ؟

نیا بازار۔ کون سا۔۔۔ ؟

صدیوں کا سفر ہم منٹوں میں طئے کر رہے ہیں۔ ہم حیرت، میرا کل، چمتکار جیسے شبدوں سے آگے نکل آئے ہیں۔۔۔  بندر، انسان کا بچہ پیدا کر دے یا انسان بندر کا بچہ۔ کتا بولنے لگے۔ بلی دونوں پیروں پر کھڑی ہو کر چلنی لگے۔ چمگادڑ گیت گانے لگیں۔ خرگوش تیزی سے بھاگنے لگیں۔ چیتے شیر، معصوم بن جائیں۔ میمنا دہاڑنے لگے۔۔۔  کچھ بھی عجیب نہیں لگے گا۔۔۔  یعنی ایک تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا۔ بدلتا ہوا ہارمونس۔۔۔

انسان کا ارتقاء بھی شاید اسی طرح ہوا تھا۔۔۔

پہلے پورا ’جمبوجیٹ‘ یعنی بندر۔۔۔  جھکا ہوا۔ چار پاؤں سے چلتا ہوا۔ پھر رفتہ رفتہ چار پاؤں کی جگہ دو پاؤں رہ گئے۔۔۔  شکل بدل گئی۔ چہرہ بدل گیا۔۔۔  اور بندر سے انسان بننے تک اُس نے اپنے آپ کو ایک خطرناک لیبارٹری میں ڈال دیا۔۔۔

Gentleman

اس اندھی، کانی اور بہری ریس میں گھپلے ہوں گے۔۔۔  گھپلوں کی پرواہ مت کیجئے۔ چھوٹے شہر، چھوٹے لوگ، چھوٹی دنیائیں پسیں گی اور پسپا ہوں گی۔۔۔  پرواہ مت کیجئے۔۔۔  ایک Big پاور ہو گا۔۔۔  جس کی حکومت بڑھتی جائے گی اور جیسا کہ ارندھتی رائے نے اپنے ایک مضمون میں کہا۔۔۔  ہندستان، پاکستان زمینوں پر امریکی فوج گھوم رہی ہو گی۔ توگڑیا اور مودی اور اٹل، مشرف جیسے لوگ صدام کی طرح بڑھی ہوئی داڑھی میں، نظر بند ہوں گے۔۔۔  یہ سب ہوں گے، کیونکہ۔۔۔  زندہ رہنے اور فتح کے لئے کوئی دلیل نہیں ہو گی۔ ترقی اور اُڑان کے لئے کوئی جرح، کوئی سوال نہیں ہوں گے۔ تیزی سے بڑھتی دنیا میں ہم لغات سے Noاور Impossible کو خارج کر دیں گے۔ رہ جائے گا۔ صرف Yes ہاں۔۔۔

بندر انسان پیدا کرے گا۔۔۔ ہاں !

ہوائی جہاز کی جگہ انسان اُڑے گا۔۔۔  ہاں !

بارہ سال کا روی کنچن ریپ کر سکے گا۔۔۔ ہاں۔۔۔ !

وہ ریپ کر سکتا ہے۔۔۔ کرے گا اور کرتا رہے گا۔۔۔  اس لئے کہ ہارمونس ڈس بیلنس نے دنیا کے، چھوٹی عمر کے کتنے ہی بچوں کو ایک بڑا بالغ بنا دیا ہے۔۔۔  بڑا بالغ۔ چونکئے مت۔ وہ بڑے بالغ ہیں۔ ہمارے آپ سے زیادہ آگے دیکھنے والے۔۔۔  جاننے والے۔۔۔  اُڑنے والے۔۔۔  یہ بڑے بالغ ہائپرٹینشن اور بلڈرپریشر کے مریض بھی ہوسکتے ہیں۔ انہیں شوگر اور ڈائبیٹیز کا مرض بھی ہو رہا ہے۔۔۔  اور یہ دل کی بیماریوں میں بھی گرفتار ہیں۔۔۔  اس گلوبل ویلیج میں، انتہائی چھوٹی عمر میں انہوں نے اپنے لئے دلیلیں گڑھ لی ہیں۔

وہ ہیں۔ اس لئے کر رہے ہیں۔۔۔

وہ ہیں۔ اس لئے کریں گے۔۔۔

وہ ہیں۔ اس لئے جو کچھ کریں گے، وہ یہی بتائے گا کہ وہ انسان ہیں۔ اور انسان تو یہ سب کرتا ہی رہتا ہے۔

Gentleman

دیکھتے ہی دیکھتے تعریفیں بدل گئیں۔ سچ کی۔ جھوٹ کی۔ غلط کی۔ جائز کی ناجائز کی۔۔۔  تعریفیں بدل گئیں۔ تفریحوں کے سامان بدل گئے۔۔۔  چھوٹے کھلونے چلے گئے۔ ہتھیار آ گئے۔ بچوں نے میزائلس، راکٹ لانچرس اور بندوق پسند کر لئے۔۔۔  بچوں کو w.w.f پسند آنے لگا۔۔۔  بچے ایسی فائٹ دیکھنے لگے۔ جس میں اذیت تھی۔۔۔  ایڈونچر تھا۔۔۔  ایک خوبصورت موت تھی۔ بچوں کو ویپنس چاہئے۔۔۔  ویپنس۔ بچوں کو Warچاہئے۔۔۔

جنگ اور کھلونے۔۔۔

کیا آپ نے کبھی بچوں کے ویڈیو گیمس دیکھے ہیں۔۔۔  زیادہ تر بچے کیا دیکھتے ہیں۔ویپنس اور۔۔۔ war

داڑھی لگائے اسامہ پر امریکی گولہ باری ہو رہی ہے۔۔۔  بچے تالیاں بجارہے ہیں۔۔۔  ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنایا جا رہا ہے۔۔۔  نئی سنسکرتی کچھ بھی کر سکتی ہے۔ نئی سنسکرتی نے بچوں کی آنکھوں سے میرا کل، چمتکار اور حیرت کی چمک چھین لی۔ ہتھیار دے دیئے اور ایک نیا کھلونا۔۔۔

بچے ’کولا‘ پیتے ہیں۔ جنک فوڈ کھاتے ہیں۔ بار بری ڈالس پر لٹو ہوتے ہیں۔۔۔  اور پوکے مان دیکھتے ہیں۔۔۔  ہمیں ایسے بچے تحفہ میں ملے ہیں جن کے پاس اپنا کچھ نہیں۔۔۔

Gentlman

یہ مقدمہ اتنا سیدھا سادھا نہیں ہے۔ جس کا فیصلہ ایک منٹ میں سنادیا جائے۔ کہ یہ ہوا۔ یا ایسا ہو گیا۔۔۔  یہ ملزم ہے اور یہ سزا۔۔۔  دراصل ہم ایک مشکل ترین دنیا پر داخل ہو گئے ہیں۔۔۔  جہاں فیصلے آسان نہیں ہوں گے۔۔۔  قانون کو اپنے اب تک بنے بنائے اصولوں اور ضابطوں کو توڑنے کے بارے میں سوچنا ہو گا۔۔۔  آپ اب 2+2=4 پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔۔۔  الجبراکے فارمولوں سے لے کر بدن کا الجبرا اور دماغ کا جغرافیہ سب کچھ بدلنے لگا ہے۔۔۔ جسم کی ہسٹری اور تیزی سے اندر پیدا ہوتی بھوک کی بائیالوجی کسی بھی طرح کے Test یا D.N.Aسے بالاتر ہے۔۔۔  ڈی این اے میں آپ کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔  میڈیکل سروے رپورٹ میں پبلک پروزیکیوٹر کیا ثابت کرنا چاہتا ہے۔۔۔  بچے کا عضو تناسل، لڑکی کے خفیہ حصہ میں کتنی حد تک جا سکتا ہے۔۔۔  آئی ایم ساری۔ لیکن میں اپنے لفظوں کے لئے شرمندہ نہیں ہوں۔ وہائٹ لیکوئڈ اور وہائٹ اسپرم کے فرق کو بیان کر سکتا ہے پلک پروزیکیوٹر۔ مگر اُس سے کیا ہو گا۔۔۔  ایک کھیل دونوں اپنی مرضی سے کھیلتے ہیں اور معاشرہ اُس پر Rape کا قانونی لفظ کُندہ کر دیتا ہے۔۔۔  بچہ کنڈوم کلچر سے واقف نہیں۔۔۔  مگر اُسے اس کھیل میں لذت ملتی ہے۔۔۔  وہ اس کھیل کی ہسٹری، بایالوجی، جغرافیہ اور الجبرا سے واقف نہیں۔۔۔  مگر وہ کھیلتا ہے ٹھیک ایسے جیسے وہ کرکٹ کھیلتا ہے۔۔۔  یاباربی ڈال سے۔۔۔  یا پوکے مان دیکھتا ہے۔۔۔

نہیں میں الجھ کر رہ گیا ہوں

ایک طرف بھیانک Reality ہے، دوسری طرف Fantasy

بچہ ایک بھیانک Realityسے سے گزر چکا ہے۔ دوسری طرف وہ پوکے مان دیکھ رہا ہے۔۔۔

بچہ کچھ کر گزرا ہے۔ لیکن وہ اس اصول پر پابند ہے۔۔۔  کہ وہ ہے تو ہو گا۔ اس لئے اُسے Guiltتو ہے۔ لیکن ہمارے Behaviourسے پریشانی بھی۔ شاید ہم اُسے اس بات کا ضرورت سے زیادہ احساس کراچکے ہیں کہ اُس سے ایک بھیانک کرائم کمٹ ہو چکا ہے۔۔۔  ایک دن وہ فنٹاسی اور ریلیٹی کو آپس میں ملا دے گا۔ اور خطرناک سیریل کلر (Killer) بن جائے گا۔ امریکہ سے بھارت تک ایسے سیریل کلر کی کہانیاں دیکھیں، تو آپ کو اس سچ پر یقین آ جائے گا۔ یعنی Killingکے لئے نئی نئی فنتاسی کی کھوج۔۔۔

شاید اسی لئے مجھے روی کے من کی کھوج میں پوکے مان تک جانا پڑا۔۔۔  میں گیا اور مجھے دلچسپ تجربے ہوئے۔

میں یہ تجربے آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔

 

صرف میٹروپولیٹن شہروں میں نہیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے گاؤں قصبوں میں بھی پوکے مان کا جادو چل چکا ہے۔۔۔  شہری بچوں سے گاؤں کے بچوں تک۔۔۔  جاپان کے اس فرضی کارٹون چہروں نے اگر بچوں کے دلوں پر حکومت کی ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑی وجہ ضرور ہو گی۔۔۔  Gentleman، میں نے اس وجہ کی تہہ تک جانا چاہااور میں گیا۔۔۔

صرف دس سال پہلے۔ جاپان کی ڈیزائنگ کمپنی نے عجیب وغریب نام اور شکلوں والے 150کارٹونوں کی تخلیق کی ہو گی تو سوچا بھی نہیں ہو گا کہ بچوں کے آج کے Behaviour سے یہ شکلیں اتنی matchکریں گی کہ بچے اب تک کے تمام کارٹون چہروں کو اُس وقت تک بھول جائیں گے۔۔۔  جب تک کہ دوسرے چہرے، اپنے نئے ہتھیار کے ساتھ، بچے کے نئے مزاج میں  گھس پیٹھ نہیں کریں گے۔۔۔

جگلی پف سے لے کر آبرا کا ڈابرا تک، ان کرداروں کی مقبولیت یوں بڑھ گئی کہ بچے ان کے بارے میں گھنٹوں باتیں کر سکتے ہیں۔۔۔  ان کے نیچر، ہائٹ، بی ہیوئر۔ کون کیسے فائٹ کرتا ہے۔۔۔  اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کارٹون شو نے انقلاب تب برپا کیا، جب ان کے ’ہارس پاور‘، تاش کے پتے نما کارڈ بازار میں آ گئے۔۔۔  ایسے ہزاروں کارڈ میں نے روی کے پاس دیکھے۔ کتنے؟ پورے دو ہزار۔۔۔  دو ہزار پوکے مان۔ جنون اور دیوانگی کی حد تک۔۔۔  یہ کارڈ بچوں کے لئے اسٹیٹس سمبل بنتے جا رہے ہیں۔ کارڈ کی ادلا بدلی ہو رہی ہے۔۔۔  بچے پیسے دے کر اپنے پسندیدہ پوکے مان کو دوسرے بچے سے خرید لیتے ہیں۔۔۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ پوکے مان ہے کیا۔۔۔  پوکے مان دراصل اُن بچوں کے کارناموں کی کہانی ہے، جنہوں نے خرگوش، گلہری، یہاں تک کہ قینچی سے تعمیر کئے گئے ان کرداروں کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے۔ یہ سارے کردار پوکے مان کہلاتے ہیں۔۔۔  اور ان کے انسانی دوستوں کو پوکے مان ٹرینر کہا جاتا ہے۔۔۔  بچے اپنے اس یقین پر خوش ہیں کہ پوکے مان کا وجود ہے۔۔۔  وہ ہر جگہ ہے۔۔۔  دوست اور دشمن کی شکل میں۔۔۔ وہ لڑسکتا ہے۔فائٹ کر سکتا ہے۔ دھماکہ کر سکتا ہے۔ وہ برفیلے ملکوں میں رہتا ہے۔۔۔  بچے پوکے مان بننا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے پاس ڈیفنس ہے۔۔۔  پیشنس ہے۔۔۔  کنفیڈینس ہے۔۔۔

اب ان پوکے مان کرداروں کو دیکھئے۔۔۔ ایک پوکے مان پکا چوہے۔۔۔  دکھائی خرگوش کی طرح دیتا ہے۔لیکن اُس میں بجلی کا جھٹکا دینے کی طاقت ہے۔۔۔

جگلی پف۔ جس کا گانا سن کر سب لوگ سوجاتے ہیں۔ پھر یہ مخلوق لوگوں کے چہرے پر اسکیچ پین سے تصویر یں بنانے لگتا ہے۔

سائیڈک۔ دماغی پوکے مان۔ جس کا سب کچھ دماغ ہے۔ دماغ پر زور پڑتے ہی طاقتور بن جاتا ہے۔

کنگ سکھان۔۔۔  بھاری بھرکم پوکے مان۔ اُچھل کود کر اچھے اچھوں کی چھٹی کر دیتا ہے۔

اسکیٹی۔۔۔ اُڑنے والی پوکے مان۔۔۔  جس کی پونچھ پر غبارہ (بیلون) بندھا ہے۔ کود کر حملہ کرتی ہے۔

گیسلی۔۔۔  بال نما یہ مخلوق گیس کا حملہ کرتا ہے۔ زہر کا حملہ اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔۔۔

ایسے کتنے ہی پوکے مان ہیں۔۔۔  سب کے ساتھ ایک بات کامن ہے۔ اپنے اپنے طریقے سے حملہ کرنے کی اسٹریٹجی۔ اپنے کو طاقتور ثابت کرنے کی مہم۔۔۔ اپنے کو الگ دیکھنے کی مہم۔۔۔   اور اس مہم میں، ان انسانی بچوں نے اپنے کو شریک کر لیا ہے۔ پورے وجود کے ساتھ۔۔۔  بچے مارکیٹ میں، پوکے مان کے نئے نئے کھلونے ڈھونڈھنے جاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا بازار اور ہمارے بچے۔۔۔   باہر کی کمپنیوں کے لئے ہمارے بچے آج سب سے بڑا ٹارگیٹ ہیں۔۔۔  جن کی آڑ لے کر تمام بڑی کمپنیاں اپنے اپنے پروڈکٹ ہماری مارکیٹ میں اُتارنا چاہتی ہیں۔ مگر کس قیمت پر۔۔۔  !

Gentleman

ہم اس پر بھی باتیں کریں گے۔ مگر آگے۔۔۔   ابھی ہم پوکے مان پر اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔ کیوں کہ اس فیصلے کا بہت حد تک  تعلق اس پوکے مان سے بھی ہے۔ جو اسپائڈرمین، فینٹم اور ہیری پورٹر جیسے کرداروں کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔۔۔   پوکے مان کارڈس سے پوکے مان بریسلٹ تک۔۔۔  جسے بچے کلائی پر باندھتے ہیں اور شکتی مان بن جاتے ہیں۔ آپ بچوں سے ان کے کارڈ حاصل کیجئے۔ وہاں ہر پوکے مان کا نمبر، وزن، لمبائی اور ہارس پاور موجود ہوتا ہے۔۔۔   یہ کردار جاپانی لوک کتھاؤں سے نکلے ہیں اور بھارتیہ بچوں کے سرپرسوار ہیں۔۔۔

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مانیہ منتری مرلی منوہرجوشی جی کے شکچھا ایجنڈے میں جو بھی ہو، مگر وہ اپنی سنسکرتی کی رکچھا کیسے  کر پائیں گے۔۔۔   کیونکہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھارتیہ بازار میں اُتارنے کے پیچھے بھی ان کے گڈ فیل فیکٹر رہے  ہیں۔ منافع کماؤ۔۔۔  اور عیش کرو۔۔۔

Gentleman!

تباہ کچھ نہیں ہوتا۔ مگر ہر صدی میں ہم روتے رہے ہیں۔ اس صدی میں ہم کچھ زیادہ رو رہے ہیں۔ کیونکہ انجانے طور پر اس گلوبلائزیشن نے ہمارے 12سال کے ایک بچے سے بلاتکار کی گھٹنا کرا دی ہے۔

مجھے اِن لفظوں کے لئے ایک بار پھر، کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ بچوں نے پوکے مان کیوں اپنایا۔۔۔  ؟

اس لئے کہ بچے، آپ کے شکتی مان سے خوش نہیں ہوسکے۔ شکتی مان زیادہ دنوں تک بچوں کا رئیل ہیرو نہیں بن سکا۔ شکتی مان میں، بہت کچھ پھوہڑ تھا۔۔۔  جسے آہستہ آہستہ بچے کے دماغ نے ریجکٹ کرنا شروع کر دیا۔ ایک خوبصورت آدرش واد۔۔۔  حب الوطنی۔۔۔  دوستی، بھائی چارگی، سیوڈوسیوکلرزم۔۔۔

بچوں نے اپنے ننھے بھارتیہ کھلونے پھینک دئے۔۔۔  باربی ڈالس پسند کر لیا۔

آہستہ آہستہ باہر کی کمپنیوں کا دباؤ بڑھتا گیا۔ بچے اپنے رئیل ہیروز کو بھول گئے۔ اپنی لوک کتھاؤں کو۔۔۔   انتہائی خاموشی سے سوئیٹ پوائزن کی طرح بہوراشٹریہ کمپنیاں اپنی سازش میں  کامیاب ہو گئیں۔۔۔  باہر کا اسکول۔ باہر کی زبان۔ باہر کی لوک کتھائیں۔ باہر کی تہذیب۔۔۔   اور غلطی یہ تھی کہ زمین ہماری تھی۔۔۔  خون ہمارا تھا۔۔۔  شہر ہمارا تھا۔۔۔   نظارے ہمارے تھے۔۔۔   سڑکیں اور گلیاں ہماری تھیں۔وہی رشتے، وہی دادا نانا۔ دادی نانی۔ وہی پرانے قصے۔ وہی پرانی کہانی۔ انجانے طور پر بچے ان کمپنیوں کی اندھی سرنگ میں بڑھتے چلے گئے۔۔۔

We are like this only ہم تو ایسے ہی ہیں۔۔۔   اپنے اپنے ٹی وی سیٹ کے آگے خاموشی سے پوکے مان دیکھتے بچوں کو، ماں باپ بھی نہیں پڑھ سکے۔ کہ اُن کا بچپن کہاں جا رہا ہے۔۔۔  ؟

Gentleman

مجھے معاف کیجئے گا۔ میں  کوئی تقریر یا تبلیغ کرنے نہیں پہنچا ہوں۔۔۔  میں کوئی Reformist نہیں ہوں۔ ہونا بھی نہیں چاہئے۔ یہ صرف ایک فیصلے تک پہنچنے کا چھوٹا سا راستہ ہے۔۔۔   ایک رپورٹ جسے تیار کرتے ہوئے۔ مجھے کتنی تکلیف ہوئی ہے، میں ہی جانتا ہوں۔۔۔   مائیکروسوفٹ کے ڈائرکٹر بِل گیٹس نے کہا تھا۔۔۔  بھارتیہ بچے سب سے اچھے، سب سے ہوشیار ہیں۔۔۔   انہوں نے آدھا سچ کہا تھا۔۔۔   بھارتیہ بچے اُن کی مارکیٹ ااسٹریٹجی کا ایک بڑا سچ ہیں۔ جہاں وہ انجانے خطروں کو بھول گئے ہیں۔۔۔

رئیلیٹی اور فنتاسی۔۔۔  چھوٹی سی نازک عمر میں یہیں ایک جنگ شروع ہوتی ہے۔۔۔   پوکے مان نے بچوں کو فنتاسی کے وہ وہ کھیل دیئے ہیں کہ بچے اُنہیں حقیقت میں دُہرانا چاہتے ہیں۔۔۔   اور اسی درمیان،  تھوڑی سی بڑھتی عمر میں تیزی سے ایک چیز بچوں میں داخل ہو چکی ہوتی ہے۔۔۔  Sex۔۔۔  بچے بس اس آخری فنتاسی کو کر گزرنا چاہتے ہیں۔۔۔   ’سائیڈک‘ کی طرح دماغ پر دھکاّ لگتے ہی وہ طاقتور بن جاتے ہیں۔۔۔   کمرے میں ایک سی ڈی چلتی ہے۔۔۔  بچے کے دماغ پر دھکّا لگتا ہے۔۔۔   اور وہ گلہری پوکے مان، خرگوش پوکے مان سے اچانک سانپ پوکے مان بن جاتے ہیں۔۔۔   ایک لہر آتی ہے۔ گزر جاتی ہے۔۔۔

Gentleman

مجھے خود اپنی یہ بحث، بیکار، اوباؤ اور تکلیف دہ لگ رہی ہے۔۔۔  لیکن فیصلہ سنانے سے پہلے میں ایک بار آپ کو جوراسک پارک کی دنیا میں لے جانا چاہوں گا۔۔۔   سن 1983 میں اسٹیفن اسپیل برگ کو ایک دم سے یہ نادر خیال کیوں آیا۔۔۔  آپ سب نے جو راسک پارک دیکھی ہو گی۔۔۔  کروڑوں سال پہلے۔۔۔  قد آور۔ عظیم الشان ڈائناسور۔ ان کی دہاڑ سے سارا عالم خوف سے تھرتھرا رہا ہے۔۔۔  اتنے بھیانک کہ بچے اپنے آپ کو تھرلڈ محسوس کر رہے ہیں۔ اچانک ہی پتوں کے جھنڈ میں کھلبلی مچتی ہے۔ ایک آندھی مچتی ہے۔۔۔  ایک ’سوروپوڈس‘ ہے۔۔۔  جو اونچے پیڑوں کی پتیوں کو چبا رہا ہے۔ شاکاہاری۔۔۔  ویجیٹرین۔۔۔  پتوں کے درمیان سے آندھی میں اُڑتاہوا تین ٹن کا راجہ سورس نرمڈسینس اُس پر جھپٹتا ہے۔۔۔  ویسے ہی، جیسے جنگل میں ایک شیر دوسرے جانوروں پر۔۔۔   اُس کے مضبوط جبڑے شکار کی ہڈیوں تک کو چبا ڈالتے ہیں۔۔۔

یہاں کچھ دیر کے لئے ٹھہریئے۔۔۔   اس فنتاسی اور رئیلیٹی کے میل نے کچھ یہی گھال میل کیا ہے۔۔۔  جس کے نام پر کوئی سنسکرتی کا ڈھول پیٹ رہا ہے۔۔۔  کوئی نصاب کی کتابیں بدلوا رہا ہے۔۔۔   کوئی ویلنٹائن ڈے کو بند کرا کر، بھارت کی تہذیب کو بچانا چاہتا ہے۔

ڈائناسور، اور سوروپوڈس کا یہ کھیل چلتا رہے گا۔۔۔  جو پہلے حملہ کرے گا، اور جو زیادہ طاقتور ہو گا۔ وہی جیتے گا۔۔۔   اس کھیل میں بھی دو تھے۔ کون ہارا، کون جیتا، کہنا مشکل ہے کون ڈائناسور، کون سوروپوڈس۔ کہنا مشکل۔ فنتاسی نے اُکسایا۔۔۔   سچائی نے کر دکھایا۔ کھیل ختم۔۔۔

مگر نہیں۔ کھیل ختم ہونے میں  ابھی دیر ہے۔ڈائنا سور اور سوروپوڈس بھول جاتے ہیں کہ ان سے بھی ایک بڑی طاقت ہے۔ فطرت۔۔۔   سیلاب آیا۔ آتش فشاں پھٹے۔۔۔  اور ان کی نسل ختم ہو گئی۔ یہ ڈوب گئے یا آتش فشاں سے نکلے لاووں میں دفن ہو گئے۔۔۔

اس لئے۔۔۔

سزا کا اختیار مجھے نہیں ہے۔۔۔  مجھے یہ کہنے میں تکلیف ہو رہی ہے۔مگر یہ سچ ہے۔ ممکن ہے، آپ میرے اس فیصلے کو ایک پاگل جج کا فیصلہ یا کچھ بھی مان لیں، آپ کی مرضی۔۔۔   ممکن ہے آپ مجھے ایک دقیانوسی جج سمجھیں۔۔۔  ممکن ہے سیاست کے تاجر اس فیصلے پر اپنے بہی کھاتے کھول لیں۔ اس لئے میں اپنا ٹائپ کیا گیا استعفیٰ نامہ بھی اپنے ساتھ لے آیا ہوں اور مجھے اب یہ کہنے میں ذرا بھی پرہیز نہیں کہ ایسے واقعات کا کوئی فیصلہ ہوسکتا ہے تو وہ بہرطور کرنے کا حق صرف اور صرف قدرت یا فطرت کو ہے۔۔۔  جس نے ڈائناسورس کی نسلیں تباہ کیں، آدمیوں کی نسل تباہ کرنا اُس کے لئے زیادہ دشوار نہیں۔۔۔

تو میرا فیصلہ ہے۔۔۔

اور شاید یہ میرا آخری فیصلہ بھی۔ کہ اس فیصلے کے بعد میرا کیا ہو گا۔ میں نہیں جانتا۔۔۔   آج میں اس پورے معاملے کا ’سیربین‘ اور گواہ رہا ہوں۔۔۔  اس لئے ایک گواہ کی طرح میں یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوں کہ میں۔۔۔   اپنے پورے ہوش وحواس میں، قانون سے الگ، اخلاقیات کی بوسیدہ کتاب اٹھا کر یہ فیصلہ سناتا ہوں کہ۔۔۔

 

میں ایک لمحے کو ٹھہرا۔۔۔  کمرے میں بھاری اُمس ہے۔۔۔  زبردست بھیڑ۔ اور اُن پر کنٹرول رکھنے کے لئے پولیس کے سپاہی۔ بولتے بولتے میری سانس میرا ساتھ چھوڑ رہی ہے۔ ۔  مگر۔۔۔  لوگ دم سادھے سن رہے ہیں ۔ ۔  اس قدر سناٹا ہے کہ پِن گرے تو آواز سن لو۔۔۔  اور یہ میرا فیصلہ ہے۔ ۔

فیصلہ ہے۔ ۔

سب کی نگاہیں جیسے ایک ٹک مجھ پر مرکوز ہو گئی ہیں۔ مجرم۔۔۔  کون ہے مجرم؟ کیا روی کو سزا ملے گی۔۔۔  یا پتہ نہیں۔ میں کیا فیصلہ سنانے والا ہوں ۔ ۔  میں ایک لمحے کے لئے ٹھہرا۔۔۔  اوردوسرے ہی لمحہ میں نے فیصلہ سنا دیا۔۔۔

 

روی کنچن بے قصور ہے۔ اور اس پورے معاملہ کا اُس سے کوئی سروکار نہیں۔   ایک چھوٹے سے پوکے مان کی غلطی کو نظر انداز کرنے میں ہی ہم سب کی بھلائی ہے۔۔۔  لیکن اس کے باوجود کوئی نہ کوئی مجرم ضرور ہے اور جو مجرم ہے، اُسے سخت سے سخت سزا تو ملنی ہی چاہئے۔ اس لئے ۔ ۔

میں پورے ہوش وحواس میں یہ فیصلہ سناتا ہوں کہ تعزیرات ہند، دفعہ 302 کے تحت۔۔۔   میں اس نئی ٹکنالوجی، ملٹی نیشنل کمپنیز، کنزیومر ورلڈ اور گلوبلائزیشن کوسزائے موت کا حکم دیتا ہوں۔۔۔   ہینگ ٹل ڈیتھ۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۲)

 

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے، کہ میں طلسم ہوشربا کی وادیوں میں گم ہوں ۔ ۔  اور کوہ قاف سے، زور زور سے ہنسنے کی آوازیں میرا پیچھا کر رہی ہیں ۔ ۔

مجھے ایساکیوں لگ رہا ہے کہ میں اِن آوازوں کی جانب پلٹ کر دیکھوں گا۔۔۔  اور پتھر کا بنا دیا جاؤں گا۔ ۔

 

کیا میں نیند میں ہوں۔۔۔ ؟

کیا میں جاگ رہا ہوں۔۔۔ ؟

کیا میں عدالت میں ہوں۔۔۔ ؟

کیا میں فیصلہ سنا رہا ہوں۔۔۔

شرمیلے آدمیوں کی بستی کا ایک اور شرمیلا آدمی۔۔۔  ’ڈائناسور سسٹم‘ کا ایک شرمیلا پُرزہ۔۔۔

ایک شرمیلے آدمی کا بیان۔ ۔

ایک شرمیلے آدمی کا فیصلہ۔۔۔

وقت ٹھہر گیا ہے۔ نہیں۔ وقت غائب ہے۔۔۔   ایک بلیک ہول ہے۔۔۔  وقت اسی بلیک ہول میں گم ہے۔۔۔

آئن اسٹائن نے کہا۔۔  یہ بلیک ہول، وقت کے انت کا اصلی دروازہ ہے۔۔

بلیک ہول۔۔۔

اس بلیک ہول میں کوئی جرح کیسے کر سکتا ہے۔ قانونی نکتے کیسے اچھال سکتا ہے۔ استعفیٰ کیسے دے سکتا ہے۔۔۔  ؟؟

مجھے لگتا ہے۔ ایک Quantum time رہا ہو گا۔ جس میں انسان کے ساتھ، کچھ ڈائنا سور داخل ہوئے ہوں گے۔

ڈائنا سور کی نسل ختم ہوئی اور چھوٹے چھوٹے پوکے مان آ گئے۔۔۔

چھوٹے چھوٹے پاکیٹ مانسٹر۔۔۔   چھوٹا ڈائناسور

اس سے پہلے بھی برسوں پہلے ایسا ہی ایک ہی ایک مقدمہ آیا تھا۔ لولیتا کا مقدمہ۔۔۔   ایسے مقدمے آتے رہیں گے۔۔۔   بلادیمیر نووکوو۔۔۔  لولیتا۔ایک چھوٹی سی بچی۔ بارہ سال کی چھوٹی سی عمر میں ہی اُس کا باپ اُس سے جنسی رشتہ قائم کر لیتا ہے۔۔   باپ بار بار سوچتا ہے۔ لولیتا اُس کی کیا لگتی ہے۔۔۔  نوکوو نے تسلیم کیا کہ سیکس نہ تو جرم ہے، نہ تو گناہ۔۔  کیونکہ دنیا کی بنیاد ہی سیکس پر رکھی گئی ہے۔۔۔

نکھل اڈوانی، اسنیہ، روی کنچن، سونالی، جے چنگی رام، دیوورت۔ ۔  پرماکربندھو، ریتا بھاوے۔۔۔   میں سب کو سر جھکائے دیکھ رہا ہوں۔۔۔   سب کے سب مہاتما بدھ کے ’اننت دُکھ‘ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔۔۔

کمرے میں چھوٹے چھوٹے پاکٹ مانسٹر چل رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پوکے مان۔۔۔

یہ جگلی پف ہے۔Jigglypuf    ۔۔۔  روی کنچن

یہ Hitmonchan  ہے۔۔۔  دیورت

یہ   Light Machokہے۔۔۔  شالنی

یہ Switch   ہے۔۔۔  سونالی

یہ Mankey   ہے۔۔۔  جے چنگی رام

یہ Rhyhorn   ہے۔۔۔  شوبھا

یہ Girafrig   ہے۔۔۔  پرماکربندھو

یہ Goldeen   ہے۔۔۔  ریتا بھاوے

یہ Nidorina   ہے۔۔۔  میری فرنانڈیس

اور یہ جگلی پف کا برش ہے۔ جس سے وہ اسکیچ بناتا ہے۔ یہ میں ہوں۔۔۔   ایک شرمیلا وائرس۔۔۔

چھوٹے چھوٹے پوکٹ مانسٹرس کے بیچ کا ایک وائرس پوکے مان۔۔۔۔۔   دنیا ٹی وی کا ایک چھوٹا سا اسکرین بن گئی ہے۔ جس پر پوکے مان گھوم رہے ہیں۔ چل رہے ہیں۔۔۔   کیڑے مکوڑوں کی طرح۔۔۔   اور کیڑے مکوڑے تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

کیڑوں، مکوڑوں کے کچھ بھی کرنے پر پابندی نہیں ہے۔

چھوٹے اسکرین پر ایک کمزور ایش کا چہرہ ابھرتا ہے۔۔۔

’میں پوکے مان ماسٹر بننا چاہتا تھا۔۔۔  ‘

’پھر؟‘

’میں نے کارڈس جمع کئے۔‘

’پھر‘

پوکے مان میں جادو کی طاقت ہوتی ہے۔ میں سب سے طاقتور بننا چاہتا تھا۔

٭٭

 

باہر ہوا تیز ہو گئی ہے۔۔۔   کھڑی کے پٹ ڈول رہے ہیں۔۔۔   ہلکی ہلکی سپیدی چھانے لگی ہے اور۔۔۔

آنکھیں بند کرتے ہی ایک چمکیلی سی دھند مجھ پر حاوی ہو گئی ہے اور میں اس دھند میں ڈوبتا جاتا ہوں ۔ ۔  ڈوبتا جاتا ہوں ۔ ۔

٭٭

 

’سسٹم میں رہتے ہوئے ہم اُس سے جنگ نہیں لڑسکتے‘

لاک اپ میں نکھل میرے ساتھ بیٹھا ہے۔۔۔

میں اُس کا چہرہ دیکھتا ہوں۔۔۔

’ہزاروں کیس آتے ہیں تمہارے پاس‘

’ہاں ‘

’اور ہم کسی بھی معاملے کو لے کر جذباتی نہیں ہوتے۔‘

’ہاں۔‘

’فارگٹ اِٹ۔ ہمارے پاس اپنا بھی ایک گھر تھا۔‘

’تھا‘ کہتے ہوئے اُس نے اُداسی کی ایک گہری سانس لی ہے اور اپنا جملہ پھر دُہرایا۔ سسٹم میں رہتے ہوئے ہم اُس سے جنگ نہیں لڑسکتے۔

’ٹھیک۔‘

’سسٹم میں رہتے ہوئے، ہم گھر بھی نہیں چلا پائے‘

’ٹھیک‘

’سسٹم میں رہتے ہوئے، ہمارے بچے بھی، ہمارے بچے نہیں تھے‘

میں اس بار کچھ نہیں بولا۔۔۔   غور سے اُس کی آنکھوں کی ندی میں اپنی آنکھیں اُتار دیں ۔ ۔

’سسٹم میں رہتے ہوئے ہم ہار جاتے ہیں۔ ہم پچھلا سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ گھر۔۔۔   منطق اور اتہاس۔۔۔   پھر ہنسنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔‘

اس بار میں آہستہ سے پھر بولا۔ ’ٹھیک‘

’ٹھیک ہے تو پھر سسٹم کا ایک حصہ بن جاؤ۔ میرے پاس بھی آفر ہے۔ پارٹی میں ہو گے تو تمہارے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔۔۔  فک آف یار۔۔۔   دنیا سے ہمیں کیا لینا دینا ہے۔۔۔   جیو، مستی کرو۔ تھوڑا سا جیون بچا ہے۔۔۔   آرام سے گزر جائے گا۔۔۔  کیوں ؟‘

میں نے اُس کی آنکھوں کی ندی سے، اپنی آنکھیں واپس نکال لی ہیں، لیکن دیکھ رہا ہوں۔۔۔  نکھل میری آنکھوں کی ندی میں، اپنی آنکھیں رکھنے جا رہا ہے۔۔۔   اُس میں جواب جاننے کا تجسس ہے،

’کیوں یار۔ مجھے تو لگتا ہے کہ۔ ۔ دس از رائٹ چوائس بے بی۔ ۔  آہا، ہا۔ ۔ ‘

میں نے تکلیف سے مسکرانے کی کوشش کی ہے۔۔۔   مائی ڈیر نکھل اڈوانی۔ آج ایک خبر پڑھی۔‘

’کیا۔‘اُس نے چونک کر میری طرف دیکھا۔۔۔

’’عزرائیل میں بارہ ہزار سال پُرانی قبر سے ایک ممی برآمد ہوئی۔۔۔   ممی کے ہاتھ میں ۔ ۔ ، میں بولتے بولتے رُک گیا ہوں۔

’ہاتھ میں ۔ ۔ ، نکھل کے ماتھے پر سلوٹیں ہیں۔۔۔

’ممی‘ کے ہاتھ میں ایک پوکے مان تھا۔۔۔   یہ تم تھے۔‘

کہہ کر زور سے قہقہہ لگاتا ہوں۔۔۔

٭٭

 

’زیادہ کپڑے مت رکھنا اسنیہ۔ بس تھوڑے سے۔‘

میں مسکرا کر کہتا ہوں۔ سفر کو سفر کی طرح ہونا چاہئے۔ کچھ دنوں کی تو بات ہے۔ شادی کے بعد بڑھاپے میں پتی پتنی کو ہنی مون کے لئے ضرور جانا چاہئے۔ ۔

’ہٹو بھی۔‘اسنیہہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ اُداسی ہے۔

’اور ہاں، وہ پیرس والی نائٹی ضرور رکھنا۔‘

’تم بھی۔۔۔  ‘

اسنیہہ زور سے ہنسی ہے۔۔۔

’سوچا ہے۔ کچھ دن باہر رہوں گا تو ہماری طبیعت ٹھیک رہے گی۔۔۔   ویسے بھی بہت دن سے  ہم کسی ہل اسٹیشن پر نہیں گئے۔‘

’وہ۔ ۔  تمہارے اُس۔ ۔ ‘

اسنیہہ نے سامان۔۔۔   بیگ میں رکھتے ہوئے پوچھا۔ ۔  تمہارے اُس مقدمے کا کیا ہوا۔۔۔  ؟

میں نے دھیرے سے کہا۔۔۔

’وہ کیس مجھ سے لے لیا گیا۔۔۔  ‘

اسنیہہ نے مجھے پلٹ کر دیکھا ہو، میں یہ نہیں دیکھ سکا۔۔۔   کیونکہ تب تک میں  کھڑکی کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔

آسمان میں شام کی سیاہی پھیل چکی تھی۔ ۔

دھند غائب تھی۔۔۔   آسمان اپنے نیلے رنگ کے ساتھ کھکھلا رہا تھا۔۔۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید