FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

پوکے مان کی دنیا

 

ناول

حصہ اول

 

               مشرف عالم ذوقی

 

E-mail : zauqui2005@gmail.com

 

 

 

 

 

 

ایک سو اکیانواں پوکے مان

 

 

 

 

 

’’پتھر کے نیچے پتھر، مگر آدمی۔۔۔۔  کہاں تھا وہ ؟

ہوا کے نیچے ہوا، مگر آدمی۔۔۔۔  کہاں تھا وہ؟

وقت کے نیچے وقت، مگر آدمی۔۔۔۔  کہاں تھا وہ؟

نا مکمل رہا۔۔۔۔  کسی پر کٹے ہوئے پرندے کی طرح

آج کی سڑکوں پر۔۔۔۔ مگر پرانے انداز میں

پت جھڑ کے پتوں سے ہو کر

قبر کے سنّاٹے میں

کمزور، بیحد کمزور ہاتھ اور پاؤں

مگر آدمی۔۔۔۔ کہاں تھا وہ؟

ختم ہو گئے تھے، اُتسو منانے کے دن

وہ باقی تھا،

پت جھڑ کی پتیوں کو گنّے کے لئے

 

۔۔۔۔  پابلو نرودا

 

 

(۱)

 

 

آنکھیں بند کرتے ہی ایک چمکیلی سی دھند آ جاتی ہے۔ دھند کے اس پار سے کوئی منظر، مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ مگر آنکھیں تو بند ہیں۔ منظروں کے آنے کا راستہ بند۔۔۔  وہی بار بار دہرائے جانے والے لفظ۔۔۔   وہی، بار بار بدلنے کے بعد بھی وہی دنیا۔۔۔   وہی بوسیدہ سے لفظ۔۔۔  شکریہ کے لئے، محبت کے لئے، گفتگو کے لئے۔۔۔

٭٭

 

آنکھیں بند کرتے ہی ایک چمکیلی سی دھند آ جاتی ہے۔۔۔

’شہوت کی ڈالیوں میں لفظ ہیں۔‘

لفظ کی ڈالیوں میں شہوت۔۔۔   جاپان کی ڈیزائننگ کمپنیوں نے اب پوکے مان جیسے نئے نئے’ لفظوں ‘کو ذیزائن کرنا شروع کر دیا ہے۔

پوکے مان  مون۔۔۔  یعنی شکریہ۔۔۔

باربی سن ۔۔۔  ہم محبت کرتے ہیں

جگلی پف، آبرا، کاڈابرا۔۔۔  ہم ایک خوبصورت جنگل میں رہ رہے ہیں۔

باربی ڈالس ورلڈ ۔۔۔  ہماری دنیا میں خوش آمدید ۔۔۔

پوکے مان کارڈس ہم نے نئے دوست بنائے ہیں۔

سائیڈک ۔۔۔   اسکیورٹل ۔۔۔  ہم ایک نئی لو ک کتھا میں داخل ہو گئے ہیں۔ خوش آمدید ۔۔۔  ہم ایک خوبصورت جنگل میں رہ رہے ہیں۔

 

مجھے جاننا ضروری نہیں ہے۔ یہ بھی جاننا ضروری نہیں ہے کہ میں کیا ہوں اور کیا سوچ رہا ہوں۔ میں ایک جج ہوں۔۔۔  جوڈیشل مجسٹریٹ۔  یہ صرف اس لئے بتا رہا ہوں کہ اس کے بغیر، شاید میں آپ کو وہ سب کچھ نہ سمجھا پاؤں، جو بتانا چاہتا ہوں۔۔۔

اور ہر جج کی طرح میرا ایک نام ہے ۔۔۔ سنیل کمار رائے۔۔۔

ایک چھوٹا سا خاندان ہے۔ بیوی اسنیہہ لتا رائے۔۔۔  اور دو بچے۔۔۔  نتن اور ریا ۔۔۔  نتن کمپیوٹر انجینئرنگ کر رہا ہے۔ ریا کالج میں ہے۔۔۔

میں شاید یہ سب تھوڑا تھوڑا اس لئے بتانا چاہتا ہوں، کہ آج صبح میرے سامنے ایک کیس آیا ہے۔۔۔  ابھی میرے ریٹائر ہونے میں کئی برس باقی ہیں مگر۔۔۔  میں جانتا ہوں۔ دوسرے ججوں کی طرح میرے حصے میں کچھ نہیں آئے گا۔ سوائے ایک ایسی زندگی کے، جو میں جینا بھی نہیں چاہتا۔۔۔  یعنی ایک ایسی زندگی، کہ آپ کے پیشے سے لوگ آپ کے صوفی،  سنت ہونے کا بھرم پال لیتے ہیں۔۔۔  جج۔۔۔  انصاف کا مندر۔۔۔  انصاف پسند۔۔۔  انصاف کرنے والا۔۔۔  اور ریٹائر ہونے کے بعد اپنے آپ میں کھویا ایک درویش، سنت اور بے چارہ آدمی۔۔۔

مجھے بتانے دیجئے، کہ میری زندگی میں، اس سے قبل پتہ نہیں میرے پاس کتنے کتنے کیس آئے ہوں گے۔ اور میں نے کتنے کتنے مقدمے سنائے ہوں گے۔ سچ اور جھوٹ کے لئے اب مجھے بیان نہیں سننے پڑتے۔۔۔  بس چہرے پڑھنے پڑتے ہیں۔ کتنی ہی بار میری قلم سے غلط فیصلہ بھی نکلا ہو گا۔ جانتا ہوں۔ یہ قانون کی مجبوری ہوتی ہے۔

مگر ابھی میرے پاس کچھ سال باقی ہیں۔۔۔

کچھ، بہترین سال۔۔۔

اور ان کچھ برسوں میں اپنے اندر بچی ہوئی غیرت خریدنا چاہتا ہوں۔ وہ غیرت جو آج میں نے اس بچے کی آنکھوں میں دیکھی ہے۔۔۔  نہیں۔۔۔  دیکھی نہیں۔

جو اس کے حالات سے،  ادھار لے کر آیا ہوں میں۔۔۔

٭٭

 

نہیں۔ میری پچھلی زندگی کے بارے میں بہت زیادہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔   صرف اتنا سمجھ لیجئے کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں، جن کے بارے میں شاید آپ نے کبھی سن رکھا ہو کہ فلاں جج تو لالٹین میں اپنی پڑھائی کیا کرتا تھا۔ گھر کا بہت غریب تھا۔

کچھ بڑوں یا کافی بڑوں کے بارے میں اس طرح کی بہت سی باتیں میں نے بھی سنی تھیں۔۔۔  لیکن میں اپنے بار ے میں اتنا کہہ سکتا ہوں، کہ ہاں میں نے دکھ کے دن کافی دیکھے۔۔۔  پڑھنے میں ہوشیار تھا۔۔۔  اسکول کالج میں اچھے نمبر ملے۔۔۔  ترقی کرتا ہوا اس مقام تک پہنچا۔۔۔  اور جج کی کرسی پر بیٹھنے تک میرے گھر کا پورا نظام بدل چکا تھا۔۔۔  کانونٹ سے نکلے بچے، اپنی اپنی دنیا جی رہے تھے۔۔۔

اسنیہہ، نئی چمک دمک سے متاثر تھی۔ آخر کو تھی جج کی بیوی۔ اور میں۔ اپنے پیشے سے مجبور۔۔۔  چپ، گم سم اور اپنی دنیا میں رہنے والا۔۔۔  اور جیسا کہ میرے جیسے رتبے والوں کے بارے میں عام طور پر سوچا جاتا ہے۔ یعنی ایک صوفی سنت۔۔۔  بیچارا، باسٹرڈ۔۔۔

لیکن ٹھہر جائیے۔۔۔

ابھی ابھی میں اپنی اب تک کی دنیا سے باہر نکلا ہوں۔ اور میں پوکے مان کی اسٹڈی کر رہا ہوں۔۔۔  سنا ہے جاپانی کمپنی نے ۱۵۰ طرح کے، پوکے مان کے ماڈل تیار کئے ہیں۔ ہر طرح کے پوکے مان، کارڈس، گیم، لوڈو، ٹریڈ اور چھوٹی چھوٹی شیشہ کی سفید گولیوں میں قید پوکے مان۔۔۔

میرا نمبر ۱۵۱ ہے۔۔۔

میں ایک سو اکیانواں پوکے مان ہوں۔۔۔   جسے جاپانی کمپنی نے اب تک ڈیزائن نہیں کیا ہے۔۔۔

تو میری کہانی شروع ہوتی ہے اب۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۲)

 

اسنیہہ۔۔۔   اسنیہہ، کہاں ہو تم۔۔۔

آواز باز گشت کے بعد لوٹ آئی تھی۔۔۔

یہ میرا بڑا سا سرکاری کوارٹر تھا جو مجھے پرموشن کے بعد الاٹ ہوا تھا۔ سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہی میری نظر اس پر ٹھہر کر رہ گئی تھی۔

وہ زمانے سے بے نیاز تھی۔ بے حد تنگ کپڑوں میں۔ سیلولیس شرٹ اور شارٹ جینس۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نہ اس کے کپڑوں کا جائزہ لے سکتا تھا، نہ ہی اس کے جسم کا۔۔۔

وہ میری بیٹی تھی۔۔۔   ریا ۔۔۔

’ممی  چلی گئیں۔۔۔  !‘

’کب۔۔۔  ؟‘

’بس ابھی۔۔۔،

کہتے کہتے وہ ٹھہری ۔۔۔  کچھ کام تھا کیا ؟

’ہاں۔۔۔ ‘  میرے لہجے میں افسردگی سمٹ آئی تھی ۔۔۔ ’کورٹ جا رہا ہوں۔ جیب خالی ہے۔۔۔،

’میرے پاس کچھ پیسے ہیں۔ چلیں گے۔۔۔،

پرس میں ہاتھ ڈال کر ریا نے پانچ سو کے دو نوٹ میری طرف بڑھا دئے۔

’شام میں دیر ہو جائے گی ڈیڈ۔۔۔،

’کوئی بات نہیں۔۔۔،

’بائے۔‘

میری نظر نے ایک بار پھر اس کا تعاقب کرنا چاہا۔ مگر ہر بار بیٹی کی جگہ جسم آڑے آتا رہا۔۔۔  وہی، تنگ کپڑوں میں سمٹا ہوا، ایک کھلا جسم۔۔۔  جسے دیکھتے ہوئے باپ اپنی ہی نظر میں ننگا ہو جاتا ہے۔۔۔

میرے لئے یہ بات کچھ زیادہ ہی اداس کرنے والی تھی۔۔۔  یہ بیٹیوں میں لڑکی والا جسم کیوں آ جاتا ہے۔۔۔

٭٭

 

تنہائیوں کے اپنے قصے، اپنی کہانیاں ہوتی ہیں۔۔۔

شاید کچھ روایتیں بچپن سے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ آپ بہت بڑے بننے کے بعد بھی جن سے چپکے ہوتے ہیں۔ مجھے ماضی سے ہول آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

یہ ماضی بار بار میرے سامنے کیوں آتا ہے ؟

مجھے پریشان کیوں کرتا ہے ؟

مجھے میرا پچھلا چہرہ کیوں دکھاتا ہے۔

٭٭

 

 

سنیل کمار  رائے ۔۔۔  یعنی بہار کے ایک چھوٹے سے شہر گوپال گنج کا نواسی۔۔۔  اور اب دلی کے ریگل اسٹریٹ میں ملا ہوا ایک خوبصورت کوارٹر۔۔۔  لیکن یہ کوارٹر مجھے اداس کرتا ہے۔ اس کے چپّے چپّے سے اداسی کی بو آتی ہے۔ میں جیسا اندر سے ہوں، وہ سنیل کمار رائے شاید میرے ساتھ گوپال گنج میں چھوٹ چکا ہے۔ یہاں جو سنیل کمار رائے بستا ہے۔ وہ ایک جج ہے۔جوڈیشل مجسٹریٹ۔ مجھے چپ رہنا ہے۔ اپنے پورے وجود، رہن سہن کے ساتھ۔۔۔  اپنے رتبے، اپنے عہدے کی گواہی دینی ہے۔

اس گھر میں، میرا بھی ایک چیمبر ہے۔ چیمبر میں قانون کی موٹی موٹی کتابیں اور ہر روز ڈاک سے آنے والے قانونی نُکتوں پر مبنی رسائل کی بھیڑ جمع ہے۔ اپنی موونگ کرسی کے پاس ہی، دیوار پر میں نے ایک بڑا سا آئینہ لگا رکھا ہے۔

مگر کیوں۔۔۔ ؟

اس میں ایک چہرہ ڈھونڈتا ہوں۔ یہ چہرہ میرا جانا پہچانا ہے۔ یہ چہرہ میرا دوست ہے۔ قانون کی وزنی کتابوں سے فرصت پاتے ہی میں ذرا سا مڑتا ہوں۔

اور آئینہ میں ایک شہر جھلملا اٹھتا ہے۔۔۔

آئینہ میں ایک پرانا چہرہ زندہ ہو جاتا ہے۔۔۔

آئینہ میں ایک پرانا دوست آ جاتا ہے۔۔۔

’’تم۔۔۔  ‘‘

’’پہچانا۔۔۔ ‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’بال سفید ہو گئے تمہارے۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’عمر کے ایش ٹرے میں کتنا کچھ جھاڑ چکے ہو تم ؟‘‘

’’مطلب۔۔۔ ‘‘

’’اب تمہیں مطلب سمجھانا پڑے گا جج صاحب۔۔۔ ‘‘

’’میں پریشان ہوں۔۔۔ ‘‘

’’وہ تو تم ہمیشہ سے ہو۔۔۔ ‘‘

’’پھر مجھے پریشان کیوں کر رہے ہو۔۔۔ ‘‘

’’آئینہ ہوں۔۔۔  آئینہ دکھا رہا ہوں۔۔۔  ہنسنے کی آواز۔۔۔  کیا تمہیں کبھی خود پر رحم نہیں آتا۔۔۔ ‘‘

’’آتا ہے۔۔۔ ‘‘

’’پھر۔۔۔ ‘‘

’’رات ڈھلنے کا انتظار کرتا ہوں !‘‘

’’یا رات ہونے کا۔۔۔ ‘‘

’’ایک ہی بات ہے۔۔۔ ‘‘

’’نہیں۔۔۔  ایک ہی بات نہیں۔۔۔  ایک ڈائننگ میز ہے تمہارے پاس۔ جہاں رات کے وقت تم سب ایک ہو جاتے ہو۔۔۔ ‘‘

’’ہاں تھوڑی دیر کے لئے۔‘‘

’’نتن آ جاتا ہے۔‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’ریا آ جاتی ہے۔۔۔ ‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

یعنی بس تھوڑے سے لمحے۔ جب رات میں ایک میز کے اردگرد۔۔۔  تھوڑی دیر کیلئے تم لوگ سمٹ جاتے ہو۔ ایک بیوی ہوتی ہے۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔۔۔   اور۔۔۔  تنہائیوں کا مرثیہ ہوتا ہے۔۔۔ ‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’تم اس زندگی کو بدلتے کیوں نہیں ؟ ‘‘

’’نہیں بدل سکتا۔۔۔ ‘‘

’’کوئی ساز چھیڑو۔۔۔  کوئی نغمہ۔۔۔  یہ اداسی تمہیں کھا جائیں گی۔۔۔ ‘‘

’’مجھے احساس ہے۔۔۔  یہ اداسیاں مجھے کھا رہی ہیں۔ مسلسل کھائے جا رہی ہیں۔۔۔ ‘‘

’’مجھے تم سے وحشت ہونے لگی ہے۔ میں آئینہ سے ہٹ جاتا ہوں۔۔۔ ‘‘

نہیں ابھی ٹھہرو۔۔۔  ٹھہرو۔۔۔  پلیز۔۔۔

’’۔۔۔ ‘‘

اب آئینہ میں کوئی عکس نہیں ہے۔ میرا  اپنا عکس۔۔۔  مگر مسلسل دیکھے جا رہا ہوں۔ میرا عکس مٹ گیا ہے۔۔۔

کرسی گھماتا ہوں۔

آنکھوں پر ہاتھ رکھتا ہوں۔۔۔

آنکھیں بند کرتے ہی ایک چمکتی سی دھند آ جاتی ہے۔

رامو سر جھکائے میرے سامنے کھڑا ہے۔ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈائننگ ٹیبل پرکھانا میرا انتظار کر رہا ہے۔

٭٭

 

 

’’کھانے میں آج پھر نمک نہیں ہے۔‘‘

دوسرے نوالے پر میرے ہاتھ ٹھہر گئے ہیں۔۔۔

’’تمہیں بلڈ پریشر ہے۔۔۔۔۔ تیل اور نمک کے لئے میں رامو کو منع کر چکی ہوں۔‘‘

نتن کے ایک ہاتھ میں اخبار اور ایک ہاتھ میں نوالا ہے۔ وہ ہنستا ہے۔ ہنسنے سے میز کی خاموشی ٹوٹتی ہے۔

ریا چونکی ہے۔’ ’کیا ہوا۔‘‘

’’ڈیڈ کے لئے ایک خبر ہے۔‘‘

’’کیا۔۔۔ ؟‘‘

’’سائبر کرائم۔۔۔  آپ نے پڑھا ڈیڈ۔۔۔ ؟‘‘

’’نہیں۔۔۔ ‘‘

آپ کو پڑھنا چاہئے۔ کرائم رپورٹ تو آپ کو ضرور پڑھنا چاہئے ڈیڈ‘‘

’’ڈیڈ آجکل اپنے آپ کو پڑھ رہے ہیں۔‘‘ ریا دوسری طرف دیکھ رہی ہے۔

’’تمہارے ڈیڈ کی غلطی یہی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ہی پڑھتے رہے۔‘‘ یہ اسنیہہ تھی۔

’’تم لوگ پھر سے جھگڑنے لگے۔ اسی لئے میں ڈائننگ سسٹم ہی توڑ دینا چاہتا ہوں۔‘‘

نتن نے اخبار ایک طرف رکھ دیا۔۔۔ ’’ کرائم کا بھی پرموشن ہوا ہے ڈیڈ۔۔۔ گھر سے باہر۔۔۔  چاقو چھری سے سائبر کیفے تک۔۔۔  آپ کے وقت میں یہ سائبر کیفے تھا؟‘‘

’’نہیں۔۔۔ ‘‘

’’ڈیڈ کے وقت میں تو ٹی۔وی  بھی نہیں ہو گا۔۔۔ ‘‘ یہ ریا تھی۔

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’کمپیوٹر۔۔۔  ؟ ‘‘

’’نہیں۔۔۔ ‘‘

’’فریج، ٹی۔وی تو۔۔۔ ‘‘

میں واپس گوپال گنج والا سنیل کمار رائے بننا چاہتا ہوں۔ برسوں گزر گئے۔ آج بچّے بول رہے ہیں۔ بات کر رہے ہیں۔ وجہہ چاہئے کرائم کیوں نہیں ہو۔ لیکن بچے گفتگو تو کر رہے ہیں۔ ایک جج سے وہ اور کیا باتیں کریں گے۔ کرائم پر ہی بات ہو گی نا۔۔۔ !

’’تم نے بتایا نہیں ڈیڈ۔۔۔ ‘‘

میرے اندر شاید کوئی دھیرے سے ہنسا۔۔۔ ’’ میرے وقت میں کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ تمہارا گیس سلینڈر بھی نہیں تھا۔ گاڑی، ٹی۔وی، فریج، کمپیوٹر یہ سب تو بہت بعد کی چیز ہے ‘‘

’’کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’یعنی کچھ بھی نہیں۔۔۔ ‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’یعنی کہ۔۔۔ ‘‘

’’یہ۔۔۔  کمرے کو چکا چوند کرنے والی خوبصورت مرکری بھی نہیں۔۔۔  ساٹھ پاور کے بلب جلتے تھے کمرے میں۔ رات سے ہول آتا تھا۔ اتنی کم روشنی ہوتی تھی کہ۔۔۔  لیکن۔۔۔

’’کلب۔۔۔  ہیلتھ کلب۔۔۔ ڈسکو تھے۔۔۔ ؟‘‘

’’تب ان کے بار ے میں سوچنا بھی محال تھا۔ شاید تصور بھی پیدا نہیں ہوا تھا۔۔۔‘‘

’’پھر انٹرٹینمنٹ کے لئے۔۔۔  ‘‘ریا بولتے بولتے ٹھہر گئی  ہے۔

’’تم نے اسٹرگل کیا ہے ڈیڈ۔ آئی سیلیوٹ یو پاپا۔  یو آر گریٹ۔۔۔ ‘‘

نتن کے چہرے پر مسکراہٹ ہے۔

ریا دکھ گئی۔۔۔

نو۔۔۔  نو۔۔۔  آئی کانٹ امیجن۔۔۔ تب۔۔۔ ‘‘

وہ بولتے بولتے ٹھہر گئی ہے۔۔۔

مجھے یقیناً اس کے لفظوں کا انتظا ر ہے۔

وہ لفظ جو دھماکہ کریں گے۔۔۔  چپکے سے کسی ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی عمارت میں گھس جائیں گے۔۔۔  پھر دیکھتے دیکھتے آسمان کی بلندیوں سے باتیں کرنے والی عمارت ’زیرو گراؤنڈ‘ میں تبدیل ہو جائے گی۔

ریا ہنس رہی ہے۔۔۔

’’تب۔۔۔  تب تم لوگ جیتے کیسے تھے پاپا ؟‘‘

وہی تانڈو نرتیہ۔۔۔  جو ایسے موقع پر میرے اندر ہمیشہ ہوتا ہے۔۔۔  میرے اندر کوئی ہنس رہا ہے۔۔۔

ڈھول بج رہے ہیں۔۔۔ تب۔۔۔  تم جیتے کیسے تھے پایا۔۔۔

٭٭

 

 

تانڈو نرتیہ عروج پر ہے۔

ہر شئے گھوم رہی ہے۔

ہر شئے رقص میں ہے۔۔۔  تب تم جیتے کیسے تھے پاپا۔۔۔ ؟؟

نہ گاڑی  بنگلہ۔۔۔  نہ دلّی۔۔۔  نہ اونچے محلاں نہ ودیسی بلی۔۔۔  نہ سائبر کیفے، نہ ڈسکو تھے۔۔۔  ساٹھ پاور کے بلب میں جلنے والی زندگی کیسی تھی۔۔۔ ؟

کیا کہوں بچوں کو۔۔۔  تب ہم زیادہ جیتے تھے۔ تم سے زیادہ۔ تم سے زیادہ بے باکی اور جوش کے ساتھ ہنس سکتے تھے۔ کھانے کی میز پر یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ کسی شوک سبھا میں آ گئے ہوں۔ تب ہم جیتے تھے۔

چاندنی راتوں کا رس پیتے تھے۔۔۔

جھوم جھوم۔۔۔  جھیّا

تا تا۔۔۔  تھیّا۔۔۔

ہا۔۔۔ ہا۔۔۔  ہیّا۔۔۔

بڑے ہونے پر بھی، چھوٹی عمر ہوتی تھی ہماری۔۔۔  اس عمر میں بڑوں کا آدر اور ڈر ہوتا تھا ہمارے پاس۔

تب چاندنی راتیں ہوتی تھیں۔۔۔  آسمان کے نیچے، ستاروں کی چھاؤں میں، کھلے چھت پر ہمارا بستر ہوتا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں ہوتی تھیں۔۔۔

تب ہم کہانیاں دیکھتے نہیں تھے۔ سنتے تھے۔۔۔  پتاجی اور بڑے بوڑھوں کے منھ سے۔۔۔

تب ہم زیادہ جیتے تھے۔۔۔  تم سے زیادہ۔۔۔  تمہارے آج سے زیادہ۔

٭٭

 

تانڈو نرتیہ تھم گیا ہے۔

’’تم نے جواب نہیں دیا ڈیڈ۔۔۔ ؟‘‘ یہ نتن ہے۔۔۔

’’ڈیڈ کیا بولیں گے۔ خاموشی ہی جواب ہے۔۔۔   یو۔۔۔  نو۔۔۔  نتن۔۔۔ ‘‘

ریا کچھ کہہ رہی ہے۔۔۔

اندھیرے میں ڈوبے ہوئے لفظ، جیسے ایک بیمار ندی کی ٹھہری ہوئی لہروں میں کھو گئے ہوں۔۔۔

’’یو۔۔۔ نو۔۔۔ نتن۔۔۔  اس وقت کے لوگ۔۔۔  وہ جانتے ہی نہیں تھے  کہ جینا کیا ہوتا ہے۔ زندگی کیا ہوتی ہے۔۔۔ ‘‘

’’باتیں ہو گئیں۔۔۔ ‘‘  اسنیہہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔ ’’تم کچھ بولتے کیوں نہیں۔ بچے بات کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ ‘‘

’’اوہ۔۔۔  ہاں۔۔۔ ‘‘ ہنسنے کی ایک بیکار سی کوشش۔

’’تم سچ کہہ رہی ہو ریا۔ پتہ نہیں۔ شاید ہم نہیں جیتے تھے۔ جینے کے لئے تھا ہی کیا ہمارے پاس۔ مگر۔۔۔  ہم ہنس لیتے تھے کبھی کبھی۔ جو تم نہیں کر پاتے ہو۔‘‘

مطلب۔۔۔   وہاٹ۔۔۔ ‘‘  ریا زور سے چونکی۔

’’ہم ہنس لیتے تھے۔ بغیر بات کے بھی۔ کسی مکالمے کے بغیر۔ کیوں اسنیہہ۔۔۔‘‘

’’ہم  سمجھے نہیں ڈیڈ۔‘‘  نتن نے سرکو جھٹکا دیا۔

ریا نے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ’’مطلب، آپ لوگوں کے پاس کچھ زیادہ کام نہیں تھا۔۔۔ ‘‘

’’شاید۔۔۔ ‘‘

’’ا س لئے آپ ہنس لیتے تھے۔۔۔ !‘‘

’’شاید۔۔۔ ‘‘ میں کہتے ہوئے ٹھہرا ہوں۔ شاید  ہمارے پاس Reality  تھی۔  Fantasy  نہیں۔ شاید اس لئے۔۔۔  ہم بے وجہہ بھی ہنس لیتے تھے۔۔۔ ‘‘

’’نو۔۔۔ نو۔۔۔، نتن چونک گیا ہے۔’ ہم کیا رئیلیٹی سے باہر ہیں۔۔۔   ایک فنٹاسی کی دنیا میں۔۔۔ نو۔۔۔ نو۔۔۔ یو آرٹ جسٹ جوکنگ پاپا۔ رئیلیٹی۔۔۔  یہ رئیلیٹی کیا ہے۔۔۔  ؟ یہ ہم ہیں۔ ہمارا یہ دور ہے۔ ہماری محبت ہے۔ ٹوپلس ٹو از اکول ٹو فار۔ آپ کی طرح نہیں کہ محبت اندھی ہوتی تھی۔ ایک بلیک ہول میں۔۔۔  دیکھا اور محبت ہو گئی۔ رئیلیٹی ہماری ہے۔ ہم سچ دیکھ رہے ہیں۔ یہ رئیلیٹی ہے۔۔۔ ‘‘

ــ’’سچ۔۔۔ !‘‘

وہ بولتے بولتے پھر ٹھہر گیا ۔۔۔  ’’کون سا سچ۔ ورلڈ ٹریڈ ٹاور سے افغانستان اور عراق تک۔۔۔  کون سا سچ۔۔۔  دنیا کی سب سے اونچی عمارت کو ایک ہوائی جہاز اپنے طاقتور بم سے مسمار کرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ یہ بھی فنٹاسی ہے۔۔۔  ایک حیرت انگیز فنٹاسی۔۔۔  ایک آدمی، امریکہ میں بیٹھا رموٹ کنٹرول سے تم پر حکومت کرتا ہے۔ یہ ہے فنٹاسی۔ تمہارے اسپائیڈر مین، مانچو، اور فنیٹم سے زیادہ طاقتور۔۔۔  تم لوگ ہیری پورٹر کے دور میں جی رہے ہو۔۔۔  اور بقول تمہارے، تمہارا سوپر کمپیوٹر، کرائم کرتا ہے۔۔۔  یہ ہے فنٹاسی۔ تمہارے عہد کی۔۔۔  تمہارے خوابوں کی فنٹاسی۔ تیر، بھالوں کی جگہ لڑائیوں اور جنگ کے انداز بدل گئے ہیں۔ کوئی ایک بھیانک ایٹم بم۔۔۔  ہیروشیما اور ناگاساکی بھی اسی فنٹاسی کا حصہ تھے۔ اور اس کے بعد۔۔۔ ؟ اس فنٹاسی نے، اپنی ترقی کی منزلوں کو، بھیانک سے بھیانک ہتھیار کو بھی۔۔۔  ایک معمولی سا کھلونا بنا دیا ہے۔۔۔  یہ ہے فنٹاسی۔۔۔  تمہارے رئیل ہیروز کھو گئے ہیں۔ رامائن، مہابھارت اور مہابلی ہنومان کی کہانیوں میں تمہاری دلچسپی اس لئے ختم ہو گئی ہے کہ اس سے بڑی بڑی فنٹاسی تمہارے درمیان آ گئی ہے۔۔۔ ‘‘

’’گریٹ۔۔۔ ‘‘ ریا تالیاں بجا رہی ہے۔۔۔  رئیلی۔۔۔  یو آر گریٹ پاپا۔۔۔ اس کے لہجے میں تلخی ہے۔۔۔   ’’رئیل صرف تم ہو۔ رئیلیٹی تمہارے عہد میں ختم ہو گئی جب  ۶۰ پاور کا بلب جلتا تھا تمہارے گھر میں۔ بقول تمہارے اور اس کی مدھم روشنیوں میں، کھلی چھت پر بستر بچھائے تم اولڈ گرینڈ پاپا سے کہانیاں سنتے تھے۔۔۔  ہے نا۔۔۔ ؟‘‘

تالیاں رک گئیں ہیں۔۔۔

ریا زور سے چیختی ہے۔۔۔  ’’یہ ہے جنریشن گیپ۔۔۔  آپ کے اور ہمارے بیچ کا ڈیڈ۔ اونلی جنریشن گیپ۔ آپ صرف ہماری جنریشن میں بیکٹریا ڈھونڈھو گے۔۔۔  غلط باتوں کا بیکٹیریا۔۔۔  یو آر سو کنزرویٹو اینڈ سو اولڈ فیشنڈ۔۔۔  بدلے ہوئے زمانے میں   آپ کبھی ہمیں   Acceptکرو گے ہی نہیں۔۔۔ ‘‘

’’اور اسی لئے۔۔۔ ‘‘

نتن کی پلیٹ خالی ہے۔۔۔  ’’آپ اپنی غلط عینک سے ہماری رئیلیٹی کو فنٹاسی کا نام دے رہے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے ڈیڈ۔۔۔  آپ تو جج ہیں۔ دوسروں سے الگ۔۔۔ ‘‘

’’گوپال گنج میں رہنے والے۔۔۔ ‘‘

اسنیہہ لتا نے کچھ خفگی اور کچھ تلخی سے اس کی طرف دیکھا ہے۔۔۔

’’کیا ملا بچوں کا دل دکھا کر۔۔۔ ‘‘

’’ساری ۔۔۔ (Sorry)  ساری بیٹا۔۔۔ ‘‘

میں جیسے ایک گہرے اندیشہ کے پُل سے گزر رہا ہوں۔’’ مجھے لگا، پتہ نہیں کیوں لگا۔۔۔  اس ڈائننگ ٹیبل پر، اپنے بچوں کے سامنے، کم از کم میں اپنی بات کہنے کے لئے آزاد ہوں۔۔۔  کورٹ میں تو فائلوں اور منسٹرس کے دباؤ ہوتے ہیں۔۔۔  ساری۔۔۔  ساری بیٹا۔۔۔ ‘‘

میں نے کرسی سے اٹھنے میں ہی عافیت سمجھی۔ ’’دراصل ایک کیس نے مجھے پریشان کر دیا ہے۔ ایک فائیل دیکھ رہا تھا۔۔۔  ایک چھوٹا سا بچہ۔۔۔  بارہ سال کا۔۔۔  صر ف بارہ سال کا۔۔۔ ‘‘

میں کہتے کہتے ٹھہر گیا ہوں۔۔۔  ’’دراصل اس بچے کی نفسیات جاننے اور سمجھنے کے لئے، میں تم دونوں کے اندر اترنے کی غلطی کر رہا تھا۔ بھول گیا تھا کہ وہ بچہ بارہ سال کاہے اور تم دونوں۔۔۔ خیر چھوڑو  آئی ایم رئیلی ساری بٹیا۔ ‘‘

’’کوئی۔۔۔ کوئی نیا کیس ہے ؟‘‘

’’ہاں، انٹرسٹنگ اور تکلیف دہ۔۔۔ ‘‘

’’میں سن سکتا ہوں۔۔۔ ‘‘

’’ابھی نہیں۔۔۔ ‘‘

میں کہتے کہتے رک گیا ہوں۔’’ دراصل صبح سے میں انٹرنیٹ میں الجھا ہوا تھا۔ پیرنٹس ڈاٹ کام۔ انڈیا پیرنٹس ڈاٹ کام۔۔۔  چلڈرن ورلڈ ڈاٹ کام۔۔۔  پتہ نہیں، تمہارے اس سائبر کیفے میں بچوں اور باپ کے تعلقات جاننے اور سمجھنے کے لئے کہاں کہاں نہیں گیا۔۔۔  مگر نہیں سمجھ سکا تو ذہن پریشان ہو گیا۔ پھر سوچا۔ شاید تم لوگ۔۔۔  نتن !  تم ابھی سائبر کرائم کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے۔ میں لاک اَپ میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘

میں نتن کی بات سننے کے لئے ٹھہرا نہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھ سکاکہ اسنیہہ کچھ الجھی الجھی سی میری طرف دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔

نتن اپنی ماں کی طرف مڑا تھا۔۔۔  ڈیڈ کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ ڈیڈ  اموشنل ہیں۔ پریکٹس، بزنس اور ٹریڈ کو ہیومین اموشنس سے دور رکھنا چاہئے۔ اس لئے ڈیڈ کبھی کامیاب نہیں ہوسکے۔

’’چلے جاؤ گے۔ ڈیڈ نے بلایا ہے۔‘‘ اسنیہہ آہستہ سے بولی۔

’’انٹرسٹنگ سبجکٹ۔۔۔  ڈسکشن میں مزہ آئے گا۔ ‘‘

نتن کے ساتھ کرسیوں سے اسنیہہ اور ریا بھی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

(۳)

 

 

لاک اپ۔۔۔  یعنی میرا کمرہ۔ بچے اس کمرے کو لاک اَپ کہتے ہیں۔ لاک اَپ جہاں قیدی رہتے ہیں۔ قیدی کون ہے؟  میں ہوں قیدی۔ اپنے گھر کے اس لاک اَپ میں بند۔۔۔  پتہ نہیں کب کیسے میرے اس کمرے کا نام لاک اَپ پڑ گیا۔ قانون، قانون کی کتابوں اور مجرم کو دی جانے والی سزاؤں سے نکلے بہت سارے ناموں کی جگہ، میرے کمرے کے لئے، بچوں نے بس اسی نام کو پسند کیا تھا۔۔۔

یعنی لاک اپ۔۔۔

ڈیڈ کہاں ہیں۔۔۔ ؟

۔۔۔  لاک اَپ میں۔۔۔

لاک اَپ میں کیا کر رہے ہوں گے ؟

۔۔۔  کتابیں فیصلہ سنا رہی ہوں گی۔ اپنے آپ کو سزا دے رہے ہوں گے۔

کبھی کبھی واقعی اپنے آپ کو سزا دینے کا خیال آتا ہے۔ پھر سوچتا ہوں کیوں ؟ اندر چلنے والی اس کشمکش کو کوئی نام نہیں دے پاتا۔ سوچتا ہوں۔ مجھے برا کیا لگتا ہے۔ کیا یہ کہ بچے اپنے اپنے سنکساروں سے کٹ گئے ہیں۔۔۔  کیا یہ کہ۔۔۔  دلی کے ہنگاموں میں گوپال گنج برسوں پیچھے چھوٹ گیا ہے۔ کیا یہ کہ دونوں شہروں کی تہذیبوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اور دلی کی تہذیب مجھ سے ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ یعنی اگر بچے، کبھی کبھی مجھے دقیانوسی یا اولڈ فیشنڈ سمجھتے ہیں تو۔۔۔ سمجھا کریں۔۔۔

میری بیٹی اگر چھوٹے چھوٹے کپڑے پہنتی ہے تو پہنا کرے۔۔۔

اس کے دوست اس کے کمرے میں ’بے کھٹک‘ داخل ہو کر دروازہ بند کر لیتے ہوں۔۔۔  تو بند کر لیا کریں۔۔۔

نتن، اپنی گرل فرینڈ کو آزادانہ سب کے سامنے چوم سکتا ہے، تو۔۔۔

بڑے بننے کے طفیل میں آنکھوں کا بند رکھنا ضروری ہے۔ لیکن سنیل کمار رائے سے یہی نہ ہوسکا۔۔۔  وہ گوپال گنج کے’ چھوٹے آدمی‘ ہی بنے رہے۔ شاید۔۔۔ پرانے سنسکاروں سے لپٹے ہوئے  اور بچے اڑتے رہے۔۔۔

اسنیہہ نئی باتوں سے سمجھوتہ کرتی رہی۔۔۔

اور میں اندر ہی اندر ذبح ہوتا رہا۔۔۔

مگر کیوں۔۔۔ ؟

سوچتا ہوں تو جواب نہیں ملتا۔ شاید اس لئے کہ میں بچوں میں ’ بچھ بچھ ‘جانا چاہتا تھا۔۔۔  مگر بڑے ہوتے بچوں نے مجھے صرف ایک ڈیڈ رہنے دیا تھا۔ Dead۔۔۔   میں ایک مرا ہوا آدمی تھا۔ جس سے وہ بے تکلف نہیں ہوسکتے تھے۔۔۔

جن سے وہ ایک لمبی دوری بنا کر رکھنا چاہتے تھے۔۔۔

جس کے پاس بس پرانی باتیں تھیں۔۔۔  پرانی باتیں، جس کے ساتھ وہ اپنے نئے زمانے کو adjustنہیں کر پاتے تھے۔۔۔

٭٭

 

میں نے نظر گھمائی تو لاک اَپ میں موونگ چیئر کے پاس والے آئینہ میں میرا ہی عکس تھرّا رہا تھا۔۔۔۔

’’یقین~ا، تم کانپ رہے ہو سنیل کمار  رائے‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’تمہارے پاس جو کیس آیا ہے، اس کولے کر۔۔۔ ؟‘‘

’’پتہ نہیں۔۔۔ ‘‘

’’پتہ کرو (ہنسنے کی آواز) تم ایک بار پھر سے اپنے سنسکاروں میں گھر گئے ہو۔۔‘‘

٭٭

 

نتن اب تک نہیں آیا۔۔۔۔۔ پتہ نہیں آئے گا بھی یا نہیں۔۔۔۔۔میز سے یونہی آج کا اخبار اٹھالیا۔ سرسری طور پر نظریں ادھر ادھر کی خبروں پر گزرتی رہیں۔ جج ہوں نا، اپنے حساب سے نظریں انہیں خبروں پر چپک کر رہ جاتی ہیں، جہاں آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے انصاف کی عورت کوکانپتے،  تھرّاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔۔۔

۲۶ جنوری ۲۰۰۴، ہندوستان ٹائمس کا اداریہ تھا۔

Justice prevails

The Nerendra Modi government’s attempts to derail the process of justice have failed in at least one case relating to the riots in Gujrat in 2002

میں نے آہستہ آہستہ پڑھنا شروع کیا۔

’’ مسلمان عورت کے ساتھ گجرات میں عصمت دری کرنے والے وشو ہندو پریشد کے پندرہ لوگوں کو سی۔بی۔آئی نے حراست میں لے لیا۔ یہ امید کی جا رہی ہے کہ گجرات نسل کشی کے شکار لوگوں کو انصاف ملے گا۔۔۔ ‘‘

’’انصاف۔۔۔  میں نے چشمے کو ناک پر برابر کیا۔۔۔ ‘‘

’’مودی سرکار نے اب تک دنگائیوں کو بچانے کی ہی کوشش کی ہے اسی طرح، جس طرح مودی سرکار دنگوں کے دوران، دنگوں کو روک پانے میں پوری طرح ناکام رہی ہے۔‘‘

’’  ’داہود‘ میں ہوئی واردات کے سلسلے میں جب یہاں کی مقامی پولس نے اپنی تحقیقات بند کر دی تب سپریم کورٹ کو حکم صادر کرنا پڑا، کہ اس کیس کو دوبارہ سے کھولا جائے تاکہ مظلوموں کو انصاف مل سکے۔ یہاں تک کہ کیس سی۔بی۔آئی کو سونپا گیا۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کو گجرات کی مقامی پولس پر بھروسہ نہیں رہا۔اور وہ ان کے منصوبوں سے بھی واقف ہے۔

صرف داہود نہیں، گجرات میں فساد سے وابستہ چار ہزار سے زائد ایسے واقعات ہیں جنہیں سرکار نے مقامی پولس پر دباؤ بنا کر، بند کرا دیا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ نتیجہ میں، دنگائی آرام سے گھومتے رہے۔ اور مظلوم انصاف کے لئے ترستے رہے۔ گواہوں کو ڈرایا گیا، دھمکایا گیا۔۔۔۔۔۔‘‘

ایسے واقعات مجھے چوٹ پہنچاتے ہیں۔ پریشان کر دیتے ہیں۔ اپنے جج ہونے پر شرم آتی ہے۔ لیکن خوشی ہوتی ہے جب ایسے معاملوں میں سپریم کورٹ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ اور بند کیس دوبارہ کھل جاتے ہیں۔ اور ان کی سنوائی گجرات سے باہر ہونے لگتی ہے۔۔۔  یہی گجرات کی بیسٹ بیکری سانحہ کے ساتھ ہوا۔ نینشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی پکار کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ کیونکہ مودی سرکار ان حادثوں کو سی۔بی۔آئی کے سپرد نہیں کرنا چاہتی تی۔

سچ یہ ہے کہ میں ایسے تمام واقعات سے جڑنا چاہتا ہوں۔ زندگی، اخبار اور واقعات مجھے’ سچ‘  کا چہرہ دیکھنے کیلئے مجبور کرتے ہیں۔۔۔

مگر کتنا دیکھ پاتا ہوں۔ ایک بار پھر اخبار ہاتھوں میں ہے۔ اس کے ٹھیک نیچے منگل گرہ کے بارے میں ایک خبر چھپی تھی۔۔۔

Mars on the rocks

The Quest to find evidence of water on mars has long been linked to the other question: Is there life on the red planet?

مجھے ہنسی آتی ہے۔ مارس پر پانی ہے تو سائنسداں، وہاں پائی جانے والی زندگی کے بارے میں مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اور یہاں زمین پر۔۔۔  یہ اجلا شفاف پانی۔۔۔  جو ہر دن گزرنے کے ساتھ، سرخ پانی میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ وہ۔۔۔ !

زمین اور آسمان کی فنٹاسیوں میں کیا فرق ہے۔ ایک طرف تشدد کے واقعات کو Justifyکرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سائنسداں منگل پر پانی تلاش کر رہے ہیں۔۔۔  نتن اب تک نہیں آیا۔ میں نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی۔۔۔  آ جائے گا۔ اور نہیں آیا تو۔۔۔ ؟

مجھے پریشانی اسی بات کی تھی کہ فنٹاسیوں کے رویے بدل رہے ہیں۔۔۔  اخبار کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک خبر مجھے پھر سے پریشان کر گئی۔۔۔

’’احمد آباد، جیل میں نماز پڑھتے وقت قیدیوں پر لاٹھی چارج۔

یہ بھی ۲۶ جنوری کی خبر تھی۔ ۲۶ جنوری یعنی یوم جمہوریہ۔چشمہ اتار کر آنکھوں پر ہاتھ رکھتا ہوں تو وہی ایک چمکیلی سی دھند میرا راستہ روک لیتی ہے۔چشمہ دوبارہ آنکھوں پر برابر کرتا ہوں۔

’’گجرات میں مودی سرکار جیل میں بند مسلم قیدیوں پر قہر ڈھا رہی ہے۔ حال ہی میں ایک واقعہ سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے۔ الزام ہے کہ ۸ جنوری کو سابرمتی جیل میں نماز عصر میں مصروف قیدیوں پر پولس نے وحشیانہ لاٹھی چارج کیا۔ جس میں چھ قیدیوں کو چوٹیں آئیں۔ واضح ہو کہ ان پر ہرین پانڈیا کے قتل اور گودھرا سانحہ کے مقدمات درج ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سابرمتی جیل کی بیرک نمبر ۳ میں ظہیر رانا نامی ملزم کو رکھا گیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ناصر پٹھان نام کا قیدی ۸ جنوری کو بیرک میں گھس آیا۔ اور ایک لڑکے سے میرے بارے میں پوچھنے لگا۔ اس کا اشارہ ہونے پر ناصر نے جیب سے کنگھی نکالی۔ جس پر بلیٹ لگے تھے۔ اور مجھ پر حملہ کر دیا۔ جس سے جبڑوں میں سنگین چوٹیں آئیں۔ پولس نے کاروائی کرنے کے بجائے دونوں کو پکڑ لیا اور بیرک کی آڑ میں لے جا کر بے گناہوں پر ڈنڈے برسائے۔ جہاں پر ہرین پانڈیا اور گودھرا سانحہ کے مبینہ ملزموں کو رکھا گیا ہے۔ جن لوگوں پر لاٹھیاں برسائی گئیں، وہ اسوقت نماز پڑھ رہے تھے۔۔۔ ‘‘

میں نے اخبار رکھ دیا۔۔۔

دراصل فنٹاسیوں کی شکلیں بدل رہی ہیں۔۔۔  یہ اچھا نہیں ہے۔ یہ حکومت ایک عام ہندو کی شکل تبدیل کرنے پر آمادہ ہے۔ جسے کچھ بھی نہیں چاہئے۔ جو حکومت، پاور اور سیاست سے بے نیاز ہے۔ دو جون کی روٹی کمانے، بچوں کی پرورش کرنے اور مندر میں ما تھا ٹیکنے تک، جو اپنے اصول، سنسکار اور آدرشوں میں بندھا ہے۔۔۔   یہ حکومت اس عام سے لگنے والے ہندو کی شکل بدلنا چاہتی ہے۔ وہ اس ہندو کو ایک ظالم، جابر، تانا شاہ اور راکچھس کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے۔۔۔  مگر۔۔  تم کیا کر سکتے ہو سنیل رائے۔۔۔ ؟

رئیلیٹی اور فنٹاسی۔۔۔

کہیں نہ کہیں  یہ دونوں آپس میں مل رہے ہیں۔۔۔

اور شاید اسی لئے وہ بچہ۔۔۔  وہ بارہ سال کا بچہ۔۔۔  میں دراصل اس کیس میں الجھ کر رہ گیا ہوں۔۔۔

بچے کی عمر صرف بارہ سال ہے۔۔۔

بارہ سال کے نتن کی تصویر آنکھوں میں گھومتی ہے۔۔۔

بارہ سال کی ریا کا چہرہ آنکھوں کے پردے پر لہراتا ہے۔۔۔

صرف بارہ سال۔۔۔

دروازے پر نتن کھڑا ہے۔ ہاتھ میں کافی کا مگ لیے۔۔۔

’’آپ کسی کیس کے بارے میں بتا رہے تھے ڈیڈ؟‘‘

’’ہاں۔۔۔   بیٹھو۔۔۔ ‘‘

مجھے خوشی ہوئی۔۔، سچ، اس وقت میں نتن کو ہی یاد کر رہا تھا۔میں میز سے اٹھا۔

’’اب آپ زیادہ تر کیس ہسٹری کے لئے انٹرنیٹ کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیا یہ فنٹاسی نہیں ہے؟‘‘

نتن ابھی بھی وہیں ’اٹکا ‘ہوا تھا۔۔۔

’ہاں۔‘ میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔ دراصل قصور وقت کا ہے۔ جس نے ہمیں فنٹاسی اور سچائی کے بیچ پھنسا دیا ہے۔۔۔  کیا نہیں ؟ میں زیادہ سے زیادہ اس نکتہ پر تم جیسے ینگ مین اور بچوں سے استفادہ حاصل کرنا چاہتا ہوں۔

’’یس ڈیڈ۔‘‘

’’شاید۔ Law   اینڈ جسٹس سے، اتنی مدت سے جڑے رہنے کے باوجود، ابھی تک ہم نہ جرائم کو دور کر پائے ہیں، نہ ڈھنگ سے اس کی نفسیات کو سمجھ پائے ہیں۔ ہمارے وقت سے اب تک، یہ نئے بچے تو بالکل بدل گئے ہیں۔۔۔  انہیں پڑھنا ہو گا۔ پڑھنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ نہیں پڑھا۔۔۔  تو دیر ہو جائے گی۔ کیوں کہ جانے انجانے ان بچوں نے، اپنے لئے نئے وقت کے حساب سے دلیلیں گڑھ لی ہیں۔۔۔  اور یہ دلیلیں انہیں مطمئن بھی کر رہی ہیں۔۔۔  کیا نہیں ؟ شاید اس لئے جب تم نے سائبر کرائم کی بات کی تو۔۔۔۔۔۔ دراصل میں اس بارہ سال کے بچے کو سمجھنے کے لئے۔۔۔۔‘‘

’’بارہ سال کا بچہ۔۔۔ ‘‘  نتن چونک گیا تھا۔

’’Yah۔  صرف بارہ سال۔ میں بچہ، بچپن، لڑکپن اور نفسیات کی اک ایک باریکی تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یہ بھی کہ بہت سے ماں باپ اپنے بچے کی پرورش کیسے کرتے ہیں۔۔۔۔‘‘

’’اوہ۔۔۔۔ انٹرسٹنگ‘‘  نتن چیخا۔ I am proud of you, Dad  اتنا کام تو وہ جج بھی نہیں کرتے ہوں گے جو کسی بھی ملزم کو پھانسی یا عمر قید کی سزا سناتے ہیں۔‘‘

میں خوش نہیں ہوا۔

’’جانتا ہوں۔۔۔  یہ ایک Practical approachہے۔ اور یہی میرا عہد ہے‘‘

’’تمہارا عہد۔۔۔  جو سوپر کمپیوٹر سے بھی فاسٹ جا رہا ہے۔‘‘

’’مارس پر‘‘

’’ابھی وہاں پانی کی تلاش کی جا رہی ہے۔ ‘‘

’’مل جائے گا۔ وہاں زندگی ہے۔‘‘

’’زندگی ہے تو کون سا تیر مار لیں گے۔ وہاں بھی اگر انسان ہوا تو ؟ وہ لوگ بھی یہی کرہے ہوں گے۔۔۔ ‘‘

’’یہی کر رہے ہوں گے، مطلب۔۔۔ ؟‘‘

’’مطلب جو ہم نے گجرات میں کیا۔۔۔  جو ہم نے۔۔۔ ‘‘

’’گجرات۔۔۔ نتن چیخا۔۔۔ ’’ وہاٹس رانگ ان گجرات ڈیڈ۔انہوں نے گودھرا کیا، ہم نے گجرات‘‘

’’کس نے گودھرا کیا؟‘‘

’’انہوں نے۔۔۔ ‘‘

’’انہوں نے۔۔۔ کون ؟‘‘

’’مسلمان۔۔۔ ‘‘

’’کیا، انہیں مسلمانوں نے کیا، جن کو تم نے گجرات میں زندہ جلا دیا۔

’’بی پریکٹیکل پایا۔ وہ رئیکشن تھا۔ رئیکشن میں دوچار گھر جلتے ہیں۔۔۔  آپ کے Freedom movementپر ایسے خون خرابے نہیں ہوئے تھے۔۔۔ ؟‘‘

’’ہوئے تھے۔ تب معاملہ دوسرا تھا۔‘‘

’’معاملہ دوسرا نہیں۔ وہ گودھرا کریں گے تو گجرات ہو گا۔بار بار ہو گا۔ یہی نیوٹنس لاء  بھی ہے۔‘‘

’’تم ایک کرائم کی وکالت کر رہے ہو۔ وہ بھی غلط ڈھنگ سے۔‘‘

’’نہیں۔۔۔  کرائم نہیں۔۔۔  ہر رئیکشن کو کرائم سے جوڑنا ٹھیک نہیں۔۔۔  آپ کسی کے گال پر ایک تھپڑ مارتے ہیں تو اس سے یہ امید کیوں کرتے ہیں کہ وہ دوسرا گال بھی  بڑھا دے گا۔ مہاتما بدھ اور گاندھی کے زمانے چلے گئے ڈیڈ۔

نتن زور زور سے بول رہا تھا۔۔۔۔۔ ہمارے لوگ بولتے ہیں تو آپ چلاتے ہیں۔ آپ کا سپریم کورٹ تن کر سامنے آ جاتا ہے۔ کیوں پایا؟ تب، جب مولانا بخاری چلایا کرتے تھے۔ ان کے شہاب الدین اور دوسرے مسلمان لیڈر بار بار اپنی بات منوانے کے لئے کچھ بھی بولتے رہتے تھے۔۔۔  میں ان دنوں اتہاس پڑھ رہا ہوں۔ یہ انہیں لوگوں کا ہینگ اوور ہے۔

’’کس کا اتہاس پڑھ رہے ہو؟ ’پانچ جینہ‘ والوں کا یا وی۔اچ۔پی کا۔۔۔

’’اتہاس تو اتہاس ہوتا ہے‘‘

’’اتہاس بدلا جا رہا ہے۔ جو تم پڑھ رہے ہو، وہ اتہاس نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ اتہاس کا ایک بدلا ہوا سنسکرن ہے۔ تمہیں جھوٹ پڑھایا جا رہا ہے۔‘‘

’’جج بنتے ہی،  یا انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہی آپ لوگوں کو کیا ہو جاتا ہے۔ اب لنگدوہ کو دیکھئے۔۔۔  ہر شخص ہماری ہی ’بجانے ‘لگاتا ہے۔‘‘

’’مائنڈ  یور لینگویج۔۔۔  یہ بجانے لگتا ہے۔۔۔  یہ کیا ہے‘‘

’’ساری ڈیڈ۔۔۔  نتن لفظ چبا رہا ہے۔۔۔  آپ کی ساری چڑھ بی۔جے۔پی ہے۔ بی۔جے۔پی کیوں ہے ؟ پی۔جے۔پی کیوں آ رہی ہے۔۔۔ ؟ آپ ابھی تک سیوڈو سیکولر پارٹیوں کی باسی تقریریں ہی چبا رہے ہیں۔۔۔  کیوں ؟ وہ ختم ہو چکے ہیں۔ کانگریس کا     Existence  ختم ہو چکا ہے۔ دلی چھوڑ کر کانگریس سبھی جگہوں سے جاچکی ہے۔ اب چاہے وہ پرینکا کو لائیں یا راہل کو۔۔۔  اب سچے طور پر ہمیں سوراجیہ مل رہا ہے۔

’’سوراجیہ۔۔۔ ؟‘‘

’’یس ڈیڈ۔ ۱۹۴۷ میں ہم آزاد نہیں ہوئے تھے۔۔۔  آزاد ہوئے تھے مسلمان۔ کیوں کہ انہیں پاکستان مل گیا۔ ہم ابھی تک اپنی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اور اس لڑائی میں ہمارے سب سے بڑے دشمن، ہمارے ہی درمیان کے سیوڈو اور سیکولر سوچ والے لوگ ہیں۔۔۔  Remember ڈیدڈ۔۔۔  پہلی بار، پچھلے الیکشن میں بی۔جے۔پی نے صاف طور پر کہا۔۔۔  مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہئے۔ کیا ہوا۔ سب کو پتہ چل گیا۔۔۔  وہ کتنے   united  ہیں۔ اور کتنا تگڑا ان کا ووٹ بینک ہے۔ بی۔جے۔پی اپنے بل پر جس دن حکومت بنا لے گی۔ اس ملک کا ہندو اس دن پہلی بار آزاد ہو گا۔۔۔ ‘‘

’’  نتن۔۔۔  نتن۔۔۔ ‘‘

میرے لفظ گم ہو گئے ہیں۔ کان سن نہیں پا ناور گودھرا سانحہ کے مبنرہے ہیں۔ سر گھوم رہا ہے۔ میں یہ سب کیا سن رہا ہوں۔ یہ سب تو میں نے کبھی پڑھایا ہی نہیں۔ پھر نتن نے یہ سب کہاں پڑھا۔ کہاں سیکھا۔۔۔

آنکھوں کے آگے چمکیلی چمکیلی سی دھند چھا گئی ہے۔

آنکھیں بند کرتا ہوں۔۔۔  باہر کے منظر، باہر کے دھند میں بے گھرے رہ گئے ہیں۔۔۔

’’غلطی کس کی تھی سنیل رائے؟‘‘

۔۔۔  شاید میری۔ ہمیشہ سے میری۔۔۔

بچے بڑے ہو رہے تھے۔ اور میں جوڈیشری کی موٹی موٹی کتابوں میں الجھا ہوا تھا۔۔۔

’’کہاں کھو گئے ڈیڈ !‘‘

نتن پوچھ رہا ہے۔۔۔

ہاں، وہ۔۔۔ مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔ ’’ تم لوگ بڑے ہو گئے ہو۔ تمہارے پاس اپنی آئیڈیالوجی آ گئی ہے۔ ‘‘

’’ہاں۔۔۔   وہ تو آ گئی ہے۔‘‘

’’میرا مطلب تم اب کافی بڑے ہو گئے ہو۔‘‘

نتن عجیب نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہے۔۔۔

’’وہ سائبر کرائم۔۔۔ ‘‘

’’سائبر نے کرائم کر دیا ہے بیٹے۔‘‘

’’وہاٹ۔۔۔ ‘‘  نتن اچھلا۔۔۔

’’تم نہیں سمجھوگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔سائبر کرائم کر چکا ہے۔اور شاید مرڈر بھی۔۔۔   جاؤ۔۔۔   تم سے صبح میں بات ہو گی۔

موونگ کرسی گھماتا ہوں۔

یہ آئینہ پر میری جگہ کون آ گیا ہے۔۔۔

میں ہی ہوں۔۔۔  لیکن میں کتنا بدلا بدلا لگ رہا ہوں۔۔۔ !

بدلا بدلا نہیں۔۔۔ ہار اہوا۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۴)

 

 

میری یہ پرانی عادت ہے۔ تھک جاتا ہوں، ہار جاتا ہوں تو انٹرنیٹ پر بیٹھ جاتا ہوں۔ زیادہ تر لیگل ڈاٹ کام آن کر کے قانون کے بارے میں نئی نئی جانکاریاں حاصل کرتا رہتا ہوں۔ تھک جاتا ہوں تو کچھ ادھر کے، کچھ ادھر کے، کبھی بہلنے کے لئے سیکس پر مبنی پروگرام پر بھی نظر دوڑا لیتا ہوں۔۔۔

چالیس کے بعد سیکس کچھ زیادہ ہی پریشان کرنے لگتا ہے۔

نتن کی باتوں نے الجھا دیا تھا۔

یا ہو پر انٹرنیشنل فلم فسٹیول کی رپورٹ آ رہی تھی۔ میں نے ایک لمحے کے لئے ماؤس کو روک دیا۔ یہ فلم میری دیکھی ہوئی تھی۔ مائی مدرس اسمائیل (My mother’s smile)۔ اطالوی فلم پروڈیوسر مارکو بلّوکھیو کی فلم۔۔۔  اس فلم کی رپورٹ دکھائی جا رہی تھی۔ بیچ بیچ میں فلم کے ٹریلر بھی دکھائے جا رہے تھے۔ اس فلم میں خدا کے وجود سے انکار کرنے والے ایک آرٹسٹ ارنیسٹو، کی نفسیاتی الجھنوں کو پیش کیا گیا تھا۔ دھرم اور ادھرم کے بارے میں کھل کر بحث کی گئی تھی۔ ارنیسٹو کی ماں کا قتل ہو جاتا ہے۔ اور قتل کیا تھا، خود اس کے بیٹے نے جو ایک نفسیاتی مریض تھا۔ مینٹلی ریٹائرڈ۔۔۔  لیکن ویٹیکن، اس کی ماں کو، اس کے معجزوں کی وجہ سے سینٹ  (Saint)  بنانے جا رہی ہے۔ دھرم اور ماں میں یقین نہ کرنے والے، ارنیسٹو کے تمام رشتہ دار چاہتے ہیں کہ گھر کا کوئی بھی فرد،  Saint  بن جائے گا تو فائدہ ہی فائدہ ہو گا۔ ارنیسٹوکو اپنے بیٹے سے بہت پیار ہے۔ لیکن رشتہ داروں کی وجہہ سے وہ پریشان ہے۔

دھرم اور ادھرم۔۔۔  بالی وڈ سے ہالی وڈ، ہندوستان سے امریکہ تک سب ہی اس سے لڑ رہے ہیں۔۔۔    یا شکا ر ہو رہے ہیں۔

میری نظر اس ٹریلر پر جم کر رہ گئی ہے۔ بیٹا کسی Invisible چیز کو بھگانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ماں پوچھتی ہے۔۔۔  آخر تم کس کو بھگا رہے ہو۔

بیٹا جواب دیتا ہے۔۔۔  ’’مجھے کہا گیا ہے کہ خدا سب جگہ ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ خدا سب جگہ رہے۔ کوئی جگہ تو ایسی ہونی چاہئے، جہاں اس کا وجود نہ ہو۔‘‘

٭٭

 

لاک اَپ۔ کیا یہاں خدا کا جود ہے؟  نہیں ہونا چاہئے۔ کیا اپنے مذہب پر سختی سے عمل کرنے والا ایک جج۔۔۔  قانون کے بہت سارے معاملوں میں دوسرے مذاہب کے لئے کیا ایماندار ہوسکتا ہے ؟

اور جیسا کہ نتن کہہ کر گیا ہے۔۔۔

آنکھوں کے آگے چمکیلی دھند ایک بار پھر چھا گئی ہے۔ ماؤس گھما رہا ہوں۔ کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اخلاقیات اور سیکس کے بیچ کوئی ہڈی ہے جو تمام بھارتیوں سے نگلتے نہیں بن رہی ہے۔ اور تبھی وہ حادثہ ہو جاتا ہے جب بارہ سال کا ایک بچہ۔۔۔

میرا دایاں ہاتھ ماؤس پر جم گیا ہے۔ فیشن ٹی۔وی کام پر Gladrags Mrs. Indiaکنٹسٹ کی کچھ جھلکیاں دکھائی جا رہی ہیں۔۔۔  مسز انڈیا۔۔۔  شامل ہونے والی ۲۳ خوبصورت عورتیں۔۔۔

میں اسنیہہ کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔۔۔

مجھ سے کم از کم سات آٹھ سال چھوٹی ہے۔ لیکن اس عمر میں بھی سیکس کے لئے کتنی بیتاب۔ کبھی کبھی مجھے بھی پاگل کر دیتی ہے۔ دو بچوں کی ماں۔ لیکن آج بھی غضب کا جوش۔ کپڑے پہن کر چاہے عمر کی چادر تن جاتی ہو۔۔۔  مگر کپڑے اتارنے کے بعد۔۔۔   ۴۲۔۴۰ سال کی عورت بھی اپنے چکنے، پھسلتے بدن سے ۲۰ سال کی بن جاتی ہے۔۔۔  ایک تر و تازہ مچھلی۔ پانی پر پھسلنے والی۔سون مچھریا۔۔۔

 

اینکر بتا رہی ہے کہ صرف تین سال پہلے سے یہ  Contest  شروع ہوا ہے۔ شاید مس انڈیا، مس ورلڈ یا مس یونیورس کی ’بھیانک ‘مقبولیت کے بعد۔۔۔  ہندوستانی شادی شدہ عورتیں کون سی کم ہیں۔۔۔  وہ بھی اپنی سدابہار خوبصورتی کا پیمانہ لے کر اسٹیج پر کیٹ واک کرنا چاہتی ہیں۔۔۔  اینکر بتا تی ہے کہ گوا کی ۳۵ سالہ کرن فرنانڈیس اپنے ۴ بچوں کو شوہر کے پاس چھوڑ کر اس  Contest   میں حصہ لینے پہنچی ہیں۔

کمپیوٹر کے چھوٹے سے اسکرین پر کرن موریا کا چہرہ جھلملاتا ہے۔ جو ایک سوال کے جواب میں کہتی ہیں۔

’’ہم اپنے شوہروں کو اس بات کا احساس کرانا چاہتے ہیں کہ ایک بیوی اور ماں کا رول کتنا اہم ہوتا ہے۔‘‘

گلیڈریگس مسز انڈیا پروگرام کی اسپانسر مشہور انڈسٹریلیسٹ نِسلی واڈیا کی بیوی مورین واڈیا بتاتی ہیں کہ تمام    Contestant  نے اس   contest  کے لئے کتنی محنت کی تھی۔ شوہر اور بچوں کے رہتے ہوئے۔۔۔  ان کی ساس اور سسر نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی۔ دراصل ایسے Contestسے کسی میگا ماڈل کی کھوج نہیں کی جاتی۔ بلکہ ایک ایسی مکمل عورت کی تلاش کی جاتی ہے، جس پر ایک شوہر، ایک بیوی کے روپ میں اور بچے ایک ماں کے روپ میں فخر کر سکیں۔ دیکھا جائے تو اس طرح کے  Contestاچھی گھریلو عورت کا ایک رول ماڈل تیار کرتے ہیں۔ دراصل اس طرح کے contestاس ہندوستانی عورت کے لئے جشن کی طرح ہے، جو ایک بیوی، ماں اور ایک خوبصورت عورت کا تاج جیتنے والی عورت کے درمیان ایک غضب کا توازن قائم رکھتی ہے۔۔۔   شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ زندگی کی اصل شروعات تو شادی کے بعد ہوتی ہے۔۔۔

٭٭

 

یہ عورتیں۔۔۔

سنیل کمار رائے، یہ عورتیں تمہارے شہر گوپال گنج میں تو نہیں پائی جاتیں۔۔ ؟؟

تم اس عورت کو گوپال گنج میں نہیں ڈھونڈ سکتے۔۔۔

عورت ایک رول ماڈل بننے جا رہی ہے۔ بیوی، ماں سے لے کر بیوٹی کنٹیسٹ تک۔

تم ابھی تک گوپال گنج میں ہو۔۔۔  دی اولڈ فیشنڈ باسٹرڈ۔ تم اس عورت کو کبھی اپنے یہاں دریافت بھی نہیں کر سکتے۔۔۔

’’سنیل۔۔۔ کہاں ہو۔۔۔  کتنی دیر لگے گی۔۔۔ ؟‘‘

یہ اسنیہہ کی آواز ہے۔

کمپیوٹر اسکرین پر کیٹ واک کرتی عورتیں اپنے جلوے بکھیر رہی ہیں۔۔۔  مجھے کچھ کچھ ہوتا ہے۔

بدن میں ہزاروں چیونٹیاں داخل ہو رہی ہیں۔ دوسری عورتیں تو بس دوسری عورتیں ہیں۔۔۔  کمال کی عورتیں۔ باہر کی ہر عورت کمال کی لگتی ہے۔کولہے، شانے، خوبصورت تراشے ہوئے چکنے سڈول پاؤں۔ مصفیٰ سینہ کی خوبصورت گولائیاں۔ جسم سے جیسے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔۔۔

سر تا پا سلگ رہا ہوں۔۔۔

شریانوں میں گرم گرم خون کے لاوے دوڑ گئے ہیں۔

شاید میں نے اب تک اپنے آپ کو سنبھال کر رکھا ہے۔۔۔  سیکس۔۔۔  آپ دور بھاگ ہی نہیں سکتے۔۔۔  ایک آگ ہے، جو چپکے سے آپ کو منہ سے آگ پھینکنے والی اجگر کی طرح نگل جاتی ہے۔ جج سوجاتا ہے۔ ایک انتہائی ’کامک‘ آدمی زندہ ہو جاتا ہے۔

’’سنیل۔۔۔  کہاں ہو تم۔۔۔  کب تک چپکے رہو گے کمپیوٹر سے۔ مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔ ‘‘

ہاتھ، آنکھوں پر لے جاتا ہوں۔۔۔

چمکیلی سی دھند ہٹ چکی ہے۔۔۔  وہاں، آنکھوں کی  Retina  پر وہی عورتیں ہیں، جو کیٹ واک کر رہی تھیں۔۔۔   ان میں سے ایک۔۔۔ نہیں۔ سب کی سب۔۔۔ باری باری سے کیٹ واک کرتی ہوئی مجھ میں ہمہ آغوش ہوتی ہوئی۔۔۔

پینٹ میں چھپکلی رینگنے کی صدا سن لی ہے میں نے۔۔۔

آواز دیتا ہوں۔۔۔

’’اسنیہہ آ رہا ہوں۔۔۔ ‘‘

ماؤس سے ہاتھ ہٹا لیا ہے۔ U.P.S.کا بٹن بند کرتا ہوں۔ کمپیوٹر آف کرنے کے بعد اپنے اندر کی تمام آگ لئے اسنیہہ کے کمرے کی طرف بڑھ جاتا ہوں۔

٭٭

 

اسٹوو  پر چیختی راتوں کے شور سنے ہیں آپ نے ؟ میں سن رہا ہوں۔پِن مار کر جلتے اور دھدھکتے اسٹوو کے شعلوں میں رات پگھل رہی ہے۔۔۔

سردی کی راتیں کیسی ہوتی ہیں۔۔۔

’’اتنی دیر کیوں ہو گئی؟‘‘

اسنیہہ مرے سامنے کھڑی ہے۔ ایک خوبصورت سی نائیٹی نے اس کا بدن ’پہن‘ لیا ہے۔۔۔  اس نے ایک ہلکی سی انگڑائی لی ہے۔

میرے ہونٹوں پر ایک دلکش سی مسکراہٹ تیر گئی ہے۔

’’تم مسکرائے کیوں ؟‘‘

’’بس۔‘‘

’’بس کیا۔۔۔ ؟‘‘

’’کبھی کبھی مسکرانے کے پیچھے کوئی وجہ نہیں ہوتی۔‘‘

’’نائیٹی بری لگی ؟‘‘

’’نہیں ‘‘

’’پھر ‘‘

’’دیکھ رہا تھا کہ نائیٹی نے تمہارے کئی برس چھین لئے ہیں۔‘‘

’’مطلب‘‘

’’اپنی عمر سے برسوں پیچھے چلی گئی ہو‘‘

’’ہے نا۔۔۔۔۔۔؟‘‘

اسنیہہ، ریا بننے کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔  نہیں ریا نہیں۔۔۔  ریا میری بیٹی ہے۔۔۔  رات میں اکثر ہم اپنی عمر کی ’بھیڑوں ‘ کو کسی سردی سے ٹھٹھرتے، پہاڑ کی ترائی میں رکھ کر بھول جاتے ہیں۔۔۔

’’اچھا، بتاؤ، کیا مجھ پر عمر سوار ہے ؟‘‘

’’کہیں سے نہیں ‘‘

’’سب یہی کہتے ہیں۔ میں کہیں سے دو جوان بچوں کی ماں نہیں لگتی۔‘‘

’’ٹھیک کہتے ہیں مگر۔۔۔ ‘‘

’’مگر کیا۔۔۔ ‘‘

’’دن میں تم اتنی جوان نہیں لگتی، جتنی۔۔۔ ‘‘

’’جتنی۔۔۔ ‘‘

’’رات میں تمہاری آدھی عمر کہیں کھو جاتی ہے۔۔۔  میرا یہ یقین پختہ ہو جاتا ہے۔ کہ ہیلتھ کلب کی محنت، بدن سے کپڑا الگ کرتے ہی ایک ۴۰ سال کی عورت کو بھی چھوئی موئی سا بنا سکتی ہے۔ جس کے بدن سے آگ کی لمبی لمبی ’جھاس‘ اٹھ رہی ہوتی ہے۔

اسنیہہ نے منہ سکوڑ کر کہا۔۔۔  ’’یہ عمر کیوں یاد دلاتے ہو ؟‘‘

’’رات اکثر عمر کا تقاضہ کرتی ہے‘‘

’’اور سیکس۔۔۔ ؟‘‘

’’سیکس، ’ برف جمی رات‘ کی برف، چنگاریوں سے پگھلانے کے لئے ہوتی ہے‘‘

’’تو پھر دیر کیوں کر رہے ہو۔۔۔  اسنیہہ نے پھر انگڑائی لی۔

’سوچ رہا تھا۔ اس عمر میں تمہاری بیقراری دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔۔۔  سچ ہے، دن میں جتنا بھی بوڑھا نظر آؤں، یا تمہاری الٹی سیدھی باتیں گوارہ کروں۔۔۔  لیکن رات کا انتظار کرتا ہوں۔ رات ہوتے ہی تمہارا بولتا بدن مجھے میرے نتن میں لوٹا دیتا ہے۔‘‘

’’سیکس کا سارا مزہ کرکرا کر دیتے ہو۔ نتن بیٹا ہے۔ میں تم میں نتن نہیں دیکھ سکتی۔‘‘

اسنیہہ مسکرائی۔۔۔ ’’ نائیٹی اچھی ہے نا۔ پیرس سے منگوائی ہے۔ وہ ہماری دوست ہے نا، مسز امراڈکر۔ ان سے منگوائی ہے۔ یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔‘‘

وہ ذرا سی جھکی۔۔۔ پھر سر اٹھایا۔۔۔  نائیٹی آپ ہی آپ سینے سے نیچے تک کھلتی چلی گئی تھی۔۔۔  جیسے وہ بہت دیر سے میرے انتظار میں تھی۔۔۔  جیسے وہ بہت دیر سے سیکس کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ میں نے غور کیا۔ اسنیہہ کا جسم آج بھی پرکشش ہے۔ سینہ کی حسین گولائیاں، گولائیوں کے آس پاس کی چکنی پہاڑیاں۔۔۔  مجھے کسی گلیشئر کی طرح للچا رہے تھے۔۔۔

’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو ؟‘‘

’’سوچ رہا تھا۔‘‘

’’سوچتے بہت ہو۔ بائی د وے۔۔۔ ‘‘

’’سنڈے ٹائمس کے فیشن کرٹیک کالن میکڈاول کا ایک بیان پڑھا تھا۔‘‘

’’کیا۔۔۔ ؟‘‘

’’جو لباس بولتا نہیں ہو، وہ فیشن نہیں بن سکتا۔۔۔  لباس کو بولنا چاہئے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں،  چیخنا چاہئے۔‘‘

’’اور  کیا لکھا تھا لباس کے بارے میں۔۔۔ ؟‘‘

’’اسنیہہ میرے قریب آ گئی ہے۔۔۔۔ میرے شرٹ کے سارے بٹن کھل گئے ہیں۔ شرٹ جسم سے الگ ہو گیا ہے۔ میں اپنی ننگی پیٹھ پر اس کی تھرتھراتی کانپتی ہتھیلیوں کی گرماہٹ محسوس کر رہا ہوں۔ ’پیرس‘ اب بستر پر بے نیازی سے پڑا ہے۔۔۔  اسنیہہ سینے کے بالوں میں کسی ویمپائر کی طرح اپنے نوکیلے دانتوں کو گڑا  گڑا کرجیسے میرا سارا خون پی جانا چاہتی ہے۔۔۔

’’پاگل ہو۔۔۔ ‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’ایکدم سے جانور بن جاتی ہو۔۔۔ ‘‘

اس کے ہونٹ، پاگلوں کی طرح، رم جھم تیز برسات کی طرح ہر جگہ مجھے چوم رہے ہیں

’’ایک لمحے کو وہ ٹھہری۔’’ کالن میکڈاول نے اور کیا کیا لکھا ہے۔۔۔ ؟‘‘

’’اور۔۔۔ ‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’سنوگی۔۔۔ ‘‘

’’اس نے لکھا ہے، لباس اگر پیرس کی نائیٹی ہے تو عورت کبھی گوپال گنج کی نہیں ہوسکتی۔۔۔ ‘‘

’’وہی گوپال گنج۔۔۔، اسنیہہ کی آنکھوں میں خفگی ہے۔۔۔ گوپال گنج سے دلی نکل آئے ہو تم۔۔۔

’’لیکن ہمارا پہلا  ہنی مون تو گوپال گنج میں ہوا تھا۔۔۔ ‘‘

’’چھوڑو بھی۔۔۔ میں پاگل ہو رہی ہوں۔۔۔ ‘‘

’’میکڈاول بھی یہی کہتا ہے۔۔۔ لباس صرف ایک لباس نہیں ہے۔۔۔  ایک وچار دھارا ہے۔ آئیڈیالوجی ہے۔ جو آپ کو پاگل کرتا ہے۔ لباس کے لئے صرف Attractionکافی نہیں ہے۔ لباس کو کسی معمہ یا پہیلی کی طرح ہونا چاہئے۔ چاہے وہ بیوٹی کنٹسٹ میں پہنے جانے والی کالی ڈریس ہو۔۔۔   یا وائی۔اس۔ال کا پاور سوٹ۔۔۔  فیشن کو چاہئے، نیا پن۔۔۔  ایک خوبصورت خیال اور دیکھنے والے کو ایک جنگلی، درندہ بنا دینے کی کشش۔۔۔  اور سنو۔۔۔  اب میں درندہ بننے جا رہا ہوں۔۔۔

میں نے اسنیہہ کے ننگے بدن پر اپنے ہاتھوں کی گرفت سخت کر دی۔ اس کاپر کشش سینہ میرے ہاتھوں میں تھا۔

باہر برف گر رہی تھی۔۔۔

نہیں۔۔۔  برف سی ٹھنڈی ہوئی گئی تھی رات

اور اسٹوو کے شعلے چیخنے لگے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۵)

 

اسنیہہ بستر پر ٹھنڈی رات جیسی پسر گئی ہے۔۔۔  مجھے لگتا ہے، یہی وقت ہے، جب اس سے بہت کچھ کہنا چاہئے مجھے۔ یہ بدلتے ہوئے بچے۔۔۔  یہ بدلا بدلا سا نتن۔۔۔  یہ بدلی سی ریا۔۔۔  ایک لمحے کو میں اٹھ کر نتن کے کمرے کی طرف گیا۔۔۔  میں نے لانگ گاؤن پہن لیا تھا۔ باہر کہرا چھایا تھا۔ ریا کے کمرے میں لائٹ جل رہی تھی۔ دروازہ ادھ کھلا تھا۔ میری آنکھوں نے اس کے بستر کا تعاقب کیا۔ اور یکایک میں چونک گیا۔

ریا اوندھی پڑی تھی۔۔۔

چھوٹی سی باریک جھل جھل کرنے والی نائیٹی، اس کے بدن سے ہٹ گئی تھی۔ اور۔۔۔

میرے اندر جیسے جھناکا ہوا تھا۔۔۔  سوچا، تیزی سے کمرے میں بھاگ جاؤں۔ بس مجھے یہی وقت ملتا ہے، اس بھوکی عورت سے باتیں کرنے کا۔ یہی وقت ہوتا ہے، جب اسے میری ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وقت ہے، جب میں اس سے پوچھ سکتا ہوں۔

ریا اڑ رہی ہے۔۔۔  تم نے اسکی اڑان دیکھی ہے۔۔۔ ؟

یہی وقت ہے جب میں اس سے کہہ سکتا ہوں۔۔۔  اسے روکو۔۔۔  زیادہ اڑنے سے روکو اسنیہہ۔۔۔  ورنہ وہ جوناتھن سے گل کی طرح آؤٹ کاسٹ کر دی جائے گی۔۔۔

کمرے کا پٹ کھول کر میں دوبارہ کمرے میں داخل ہو گیا۔۔۔  اسنیہہ ویسی ہی تھکی تھکی پڑی تھی اور میری طرف محبت سے دیکھ رہی تھی۔

میں نے گاؤن اتار کر ہینگ میں ٹانگ دیا۔ اس کے قریب لیٹ گیا۔ وہ ہولے ہولے ایک بار پھر سے میرے سینے کے بالوں کو سہلانے لگی۔ عورت ’ترپت‘ ہونے کے بعد کچھ دیر کے لئے آپ کی شکر گزار ہوتی ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے جب وہ آپ کے اندر کے مرد کو پورا پورا احساس کرتی ہے۔ اور اس مرد سے اپنے آپ کو مطمئن پا کر، آپ کی شکر گزار ہو اٹھتی ہے۔۔۔ اور یہی تھوڑے سے لمحے ہوتے ہیں، جب آپ اس سے کچھ شیئر کر سکتے ہیں۔۔۔

میں نے اس کے بالوں کو سہلایا۔۔۔  گال چومے اور ایک بار پھر اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیا۔۔۔

وہ ابھی تک ننگی تھی۔ لیکن میری اس حرکت پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔

’’کیا بات ہے۔۔۔ ؟‘‘

’’نہیں۔ کچھ نہیں ‘‘

’’دوبارہ چارج نہیں ہوسکتے۔ جانتی ہوں۔ پھر ؟‘‘

’’پھر کیا۔۔۔ ‘‘

’’مجھے  Kiss  کیا ‘‘

’’یہ سیکس کے بعد کا Kiss   ہے۔ جو کہتا ہے۔ تمہارا شکریہ۔

وہ دھڑ سے، اپنے ننگے جسم کے ساتھ میرے اوپر آ گئی۔ اور اپنے ہونٹوں سے میرا چہرہ چومنے لگی۔ ہونٹ میں اپنے دانت گڑا دئیے۔ پھر ایک جھٹکے سے الگ ہو گئی۔

’’یہ کیا تھا۔۔۔ ‘‘

وہ ہنسی۔۔۔  ’’یہ سیکس کے بعد کا Kiss   تھا۔ جس نے کہا، تمہارا بھی شکریہ۔‘‘

’’اوہ۔۔۔ ‘‘

میں زور سے ہنسا۔

’’سنو۔۔۔ ‘‘ اس نے دھیرے سے پوچھا۔ ابھی تم نے پوچھا۔ لباس میں بھی ایک آئیڈیالوجی چھپی ہوتی ہے۔ میں اس وقت جل رہی تھی۔ اس لیے۔۔۔ ‘‘

تم مجسم ایک برفیلی رات ہو۔ جسکی ٹھنڈک ایک نشیلی کسک دے جاتی ہے۔ سو تو نہیں جاؤ گی ابھی۔۔۔ ‘‘

’’نہیں۔۔۔ ‘‘

’’تم سے کچھ باتیں کروں تو۔۔۔ ‘‘

’’مجھے اچھا لگے گا۔۔۔ ‘‘ اسنیہہ کی آنکھوں میں ممنونیت کا اظہار تھا۔

مجھے لگا، نتن اور ریا میں آنے سے پہلے لباس کا سہارا لینا ہو گا۔ لباس۔۔۔  ایک چھوٹے سے لباس نے صبح والی اسنیہہ کو بدل دیا تھا۔ عمر کے پاؤں پاؤں، تیزی سے دن میں اڑتی اسنیہہ کو رات میں ایک کم عمر عورت میں تبدیل کر دیا تھا۔۔۔

’’لباس۔۔۔  آئیڈیالوجی۔۔۔  کبھی کبھی تمہاری باتوں سے وحشت ہوتی ہے۔ لگتا ہے تم بہت پرانے ہو۔ کسی آرکایٹو میں رکھے ہوئے۔ لیکن جب تمہاری باتیں سنتی ہوں تو۔۔۔

’’باتیں اپنا موسم ڈھونڈھتی رہتی ہیں۔ نیا بنے رہنے کے لئے۔ باتوں کا موسم پرانا ہو، تو آدمی بوجھل اور ’اوباؤ‘ بن جاتا ہے۔۔۔  پھر ایسے آدمی کی اپنی دنیا بن جاتی ہے۔ آئیڈیا لوجی کسی ضروری’ پیچ کش‘ کی طرح ہے، جس سے نٹ بول ٹائٹ کیے جاتے ہیں۔۔۔   یہ جسم سے زیادہ ذہن کی خوراک ہے۔۔۔ دماغ صحت مند تو جسم بھی صحت مند۔ اسی طرح۔۔۔   لباس کی بھی آئیڈیا لوجی ہوتی ہے۔۔۔

میں نے ہاتھ بڑھایا۔ بستر پر کنارے پڑے، پیرس کے ریشمی کپڑے کو ہاتھوں میں اٹھایا۔۔۔  وہ  معمولی سا کپڑا ہے۔ لیکن اس میں ایک ’وچار‘ تھا۔ ایک نئی آئیڈیالوجی تھی۔۔۔    یہ تمہارے جھکتے ہی کھل گئی۔۔۔  اس نے بتایا کہ جھکنے میں انکساری ہے۔ جھکنے میں زندگی کا سچا مزہ ہے۔۔۔  مگر سب جگہ نہیں۔ تمہاری نائیٹی جھکی۔ اور آسمان کے چاند روشن ہو گئے۔۔۔  روشن ہو کر تمہارے بدن میں سما گئے۔۔۔  اور تمہارے پور پور سے روشنی پھوٹ پڑی۔ میں چاہتا ہوں۔۔۔  اسی طرح تمہارے پاس بھی ایک آئیڈیالوجی ہو۔ زندگی کے لئے۔۔۔  فیوچر کے لئے۔۔۔  بچوں کے لئے۔۔۔  ایک آئیڈیالوجی، جو تمہارے ڈھیلے تن من کے نٹ بولٹ کس دیتی ہے۔ تمہیں پھر سے ٹائٹ، صحت مند اور خوبصورت بنا دیتی ہے۔آئیڈیالوجی، ’ڈورین گمرے‘ کے پورٹریٹ کی طرح ہوتی ہے۔ جس میں آپ صاف صاف اپنے اندر کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔

’’تم جانتے ہو یہ لباس کس نے تیار کیا ہے ؟‘‘

’’اسنیہہ ننگے جسم کے ساتھ بستر سے کودی۔ اور پیرس کی نائیٹی ایک جھٹکے سے پہن کر میرے جسم پر تن گئی۔۔۔

’’کلب میں، دوستوں میں فیشن ڈیزائینرس کے قصے سنتی ہوں۔ لیکن جو تم سے سنا۔ وہ پہلی بار سنا۔‘‘

’’تمہارے بہت سارے فیشن ڈیزائنرس کبھی میرے کلائنٹ رہے تھے۔ یو نو، جب میں سینئر ایڈوکیٹ تھا۔ تمہیں وہ یاد ہے۔ رتیش اروڑہ۔۔۔  سب سے پہلے مجھے اسی نے بتایا کہ لباس میں بھی ایک آئیڈیالوجی چھپی ہوتی ہے اصل میں۔۔۔ ‘‘

اسنیہہ میری گود میں سمٹ آئی تھی۔۔۔

میں ہنسا۔۔۔  تمہارے پاس جوان رہنے کے لئے پانچ سال اور چار مہینے باقی ہیں۔ پھر تم میرے بدن پر اچھلنا کودنا بند کر دو گی۔

اسنیہہ چڑھ گئی۔

’’رات کو رات کی طرح جیا کرو‘‘

’’وہی کر رہا ہوں۔‘‘

وہ میری گود سے اتر کر دوبارہ بستر پر لیٹ گئی۔۔۔  کمبل بدن پر کھینچ لیا۔۔۔  بولو۔۔۔

فیشن کا سارا مزہ نزاکت میں ہے۔ اس لئے کہ لباس بولتا ہے۔ ترون تاہیلیانی اور روہت بل جیسے ڈئزائنرس کے لباس دیکھو۔ لباس کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں سُر تال ہونا چاہئے۔ منیش اروڑہ، سونم دبل اورا نامیکا کھنہ کے ڈیزائن کیے گئے کپڑے دیکھ لو۔ کبھی تم نے ان کے سر تال سنے ہیں۔۔۔ ؟

’’نا‘‘

’’تھا۔۔۔ تھا۔۔۔ تھیا۔۔۔  سا۔۔۔  رے۔۔۔  گا۔۔۔  ما۔۔۔  پا۔۔۔  مغربی ہندوستانی انداز میں پیش کرنے کی کلا۔۔۔ روہت بل نے کام سوترچولی کھوج نکالی۔ برا، ٹاپ کا مکسچر ملا دیا۔۔۔  بن گئی ہندوستانی کُرتی۔ جسے پہن کر ملیکہ اروڑہ، شاہ رخ کے ساتھ جھومتی ہوئی ٹرین کے اوپر گانا گاتی ہیں۔۔۔ چل چھیّاں چھیّاں۔۔۔  کون جھومتا ہے۔۔۔  ملئیکہ بھی، اس کا لباس بھی۔۔۔ اور بدن بھی۔۔۔

’’پھر ریا پہنتی ہے تو چلاتے کیوں ہو۔۔۔ جھلاتے کیوں ہو۔۔۔ ؟‘‘

اسنیہہ نے بالکل گرم لوہے پر چوٹ کی تھی۔

’’کیا۔۔۔ ؟‘‘

’’اس کی عمر ہے۔۔۔ ملئیکہ کا بدن گا سکتا ہے۔ ریا کا کیوں نہیں ؟ ریا تمہاری بیٹی ہے اس لئے۔۔۔ ؟ تمہارے یہ فیشن  ڈیزائنر ریاکے لئے ایسے ڈریس بنانے چاہیں تو۔۔۔ ؟  لباس چھوڑو، تب تمہاری اپنی آئیڈیا لوجی کہاں کھو جاتی ہے۔

٭٭

 

ریا کا بدن آنکھوں میں لہراتا ہے۔’’ افّ مجھ سے کہاں غلطی ہو گئی۔۔۔ اب میں پھنس چکا ہوں۔۔۔ اب میں خود شکار ہوں۔ اسنیہہ مجھے کسی شکاری کی طرح دیکھ رہی تھی۔ دراصل میں ایک ایسا بے قصور ملزم ہوں، جو اپنے ہی بیان میں پھنس گیا ہے۔۔۔  میں اسنیہہ کو اس مدعے پر لانا چاہتا ہوں۔۔۔  لباس ’ولگر‘ نہیں ہوتا۔۔۔  انداز ہوتے ہیں۔۔۔  آپ اپنی حرکتوں سے اپنے اچھے بھلے لباس کو بھی ’ولگر‘ بنا دیتے ہیں۔۔۔  مگر اب۔۔۔  کتنا سمجھے گی اسنیہہ میری بات کو۔

’’تمہیں صرف اپنے بچوں میں مین میخ نکالنے آتا ہے۔۔۔ ‘‘

’’نہیں ایسی بات نہیں ‘‘

’’ایسی ہی بات ہے‘‘

اسنیہہ کو نیند آ رہی ہے۔

’ترپت‘ ہونے اور طمانیت بھر ے احساس کو’ ڈھیر سارے لمحے‘ گزر چکے ہیں۔ میرا تیر بیکار جاچکا ہے۔۔۔  کمان خالی ہے۔ اور اسنیہہ کی آنکھیں نیند سے بوجھل۔

’’سچ،  میں ایک ناکام جج ہوں۔‘‘

’’کیا۔۔۔ ؟‘‘

اسنیہہ نے آنکھیں کھول دیں۔۔۔

’’نہیں۔۔۔   کچھ نہیں۔۔۔ ‘‘

’’ابھی تم نے کچھ کہا۔۔۔ ؟‘‘

’’میں خود سے کہہ رہا تھا ‘‘

’’تو اب یہ بیماری بھی ہو گئی تمہیں۔ خود سے بات کر چکو تو لائٹ بند کر دینا۔‘‘

وہ کروٹ بدل کر سوگئی۔

کچھ ہی دیر میں کمرے میں اس کے خطرناک خرّاٹے بھی گونجنے لگے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۶)

 

 

صبح ہی صبح نکھل اڈوانی آ گیا۔۔۔  سپریم کورٹ کا سنئیر لائیر۔۔۔  کورٹ میں اچھے اچھوں کی بحث کے دوران’ کھاٹ‘ کھڑی کر دینے والا۔ میرے کوارٹر سے کچھ ہی دور پر اس نے ایک خوبصورت سی کوٹھی کھڑی کی ہے۔ زندگی میں میرے بہت کم دوست ہیں۔ ہیں ہی نہیں۔ برائے نام۔ کچھ کے بارے میں آپ کو آگے پتہ چلے گا۔ نکھل ان لوگوں میں سے ہے جسے میں اپنا دوست مانتا ہوں۔ لیکن مجھ میں اور نکھل میں فرق ہے۔ زمانہ اور اخلاقیات کے درمیان نکھل نے کوئی حدِّ فاصل نہیں کھینچی ہے۔ صبح صبح ہم جوگنگ کے لئے جاتے ہیں۔ اس کے لئے بھی مجھے نکھل نے ہی تیار کیا ہے۔

’’۵۰ سال میں مرنے کا ارادہ ہے کیا ؟‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’الٹے سیدھے فیصلوں میں کیریر اور صحت دونوں برباد کر لو گے۔‘

’’پھر کیا کیا جائے۔۔۔ ؟ ‘‘

’’صبح اٹھو۔ جاگنگ کرو۔ ڈونٹ وری۔ میں اٹھا دیا کروں گا۔ پھر رفتہ رفتہ عادت پڑ جائے گی۔‘‘

’’مجھے نہیں لگتا۔‘‘

’’شروع شروع میں سب کو یہی لگتا ہے۔ پھر صبح کے، جوگنگ کا رات سے ہی انتظار رہنے لگتا ہے۔‘‘

’’ایسا کیا۔۔۔ ؟‘‘

’’کبھی نکل کر دیکھو۔‘‘

’’لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی نکل بھی پاؤں گا۔‘‘

’’تمہارے باپ بھی نکلیں گے۔۔۔۔۔ ساری۔۔۔۔ساری ڈیر۔۔۔ ‘‘ یہ نکھل کی پرانی عادت تھی۔ بات بات میں باپ دادا ؤں پر آ جانا۔۔۔

’’لیکن تم جو یہ کہتے ہو کہ۔۔۔ ‘‘

’’انتظار رہنے لگے گا۔۔۔ ‘‘

’’ہاں۔۔۔ ‘‘

’’خود دیکھنا۔۔۔  آنکھوں میں ٹھنڈک پہنچانے والی عورتیں۔ اس عمر میں لڑکیاں کہاں اچھی لگتی ہیں۔ گوشت چاہئے۔ گوشت کی سبزی مندی۔ کیوں کبھی سنا ہے یہ محاورہ۔ گوشت کی سبزی منڈی۔۔۔ ہا۔۔۔ ہہ۔۔۔ ہہ۔۔۔

نکھل زور زو رسے ہنسا۔۔۔  ہر عورت بس آپ کے لئے ہے۔۔۔ تھوڑا ٹہلو۔ پھر رک جاؤ۔ ہیلو مسز کھرانہ۔۔۔  ھیلو مسز بھاٹیہ۔۔۔  ھیلو مسز۔۔۔  برا کیا ہے یار۔۔۔  صبح صبح آنکھوں میں ٹھنڈک آ جاتی ہے۔ میں تو کہتا ہوں، جاگنگ کرنے سے آنکھیں کبھی خراب ہو ہی نہیں سکتیں۔ اس لئے کیا ارادہ ہے ڈیر۔

یہاں کوئی جوگرس پارک نہیں تھا۔ لیکن صبح صبح جوگنگ کی عادت پڑ گئی۔۔۔  جیسا نکھل نے کہا تھا۔ سچ مچ آنکھوں کو ٹھنڈک اور بدن کو تر و تازہ رکھنے کے لئے مجھے بھی ہر رات، آنے والی صبح کا انتظار رہنے لگا۔

 

میں نے گاؤن پہنا۔ ’رین ڈے‘ کے جوتے ڈالے۔۔۔  اور نیچے آ گیا۔ نکھل اور ہم کچھ دور ساتھ چلے کہ وہ مدعے پر آ گیا۔۔۔

’’کیا ہوا پارٹنر۔۔۔ !‘‘

’’کس بات کا ‘‘

’’وہ تمہارے کیس کا۔۔۔ !‘‘

’’الجھ کر رہ گیا ہوں ‘‘

’’اس میں الجھنے کی کیا بات ہے‘‘

’’وہ اتنا آسان مسئلہ نہیں ہے۔۔۔  جتنا ہم سمجھ رہے ہیں۔ اس کیس کی ایک ایک باریکی الجھنیں پیدا کر رہی ہے۔

’’جب کہ میرے خیال میں سب کچھ صاف ہے۔ کرائم کا واسطہ عمر سے نہیں ہوتا۔ عمر کچھ چھوٹ دیتی ہے تو چھوٹ لیتی بھی ہے۔‘‘

’’چھوٹی عمر کے ساتھ کورٹ کی اپنی رعایت ہے مگر۔۔۔  یہ معاملہ پولیٹیکل بھی بن سکتا ہے۔ اور تم پھنس سکتے ہو۔جبکہ تم نے مجھے بھی پھنسوانے کا پورا انتظام کر رکھا ہے۔۔۔ ‘‘

’’مجھے ڈر نہیں۔۔۔ ‘‘

’’سوچ لو۔۔۔  مسٹر رائے‘‘

چلتے چلتے نکھل نے مسٹر چندانی سے ٹھہر کر بات کی۔۔۔ پھر میری طرف مڑا۔۔۔  ظالم کے ایک ایک انگ سے آگ کے شعلے پھوٹتے ہیں۔ تم کچھ کرو رائے۔۔۔  یہ معاملہ بہت سیرئیس ہے۔

’’ہاں۔ اسی لئے یہ معاملہ پوری طرح سے اخلاقیات کا ہے۔‘‘

’’اخلاقیات کی بحث میں الجھو گے تو پھنس جاؤ گے۔۔۔  تمہیں صرف ایک فیصلہ سنانا ہے۔ تم جانتے ہو، نا۔۔۔  اس کیس میں دوسری پارٹی کون ہے۔۔۔ ‘‘

’’سب جانتا ہوں۔‘‘

’’ان کی پرمود مہاجن سے جان پہچان ہے۔ بی جے پی ورکر ہے۔ وشو ہندو پریشد میں آنا جانا ہے۔ پتہ ہے وہ لوگ کتنی موٹی حیثیت کے لوگ ہیں۔ یہ پارٹی کا ایشو بن جائے گا۔ مسٹر رائے۔۔۔  اس اخلاقیات وغیرہ کے چکر میں اپنا پرموشن مت رکواؤ۔‘‘

’’میں سب جانتا ہوں۔ لیکن اگر سب لوگ اسی طرح سوچنے لگے تو۔ بی جے پی۔ اور وشو ہندو پریشد کے دباؤ مجھ پر پڑنے لگے ہیں۔ ایک اچھی بات ہے کہ میں موبائل نہیں رکھتا۔

’’وہ لوگ تمہارے یہاں دھمک جائیں گے۔‘‘

’’اس بارے میں سوچا نہیں۔‘‘

’’کیوں اپنے بچوں کے کیریر سے کھیل رہے ہو۔۔۔ ‘‘

نکھل اس بار مسز اروڑہ کے ہاتھوں کو سہلاتا ہوا، انہیں فیشن کلب کی ضروریات سمجھا رہا تھا۔۔۔  اور بتا رہا تھا کہ وہ اس عمر میں بھی مادھوری دکشت سے کم نہیں ہیں۔۔۔

’’لو۔ چلی گئیں۔ عورتیں تم سے ڈر جاتی ہیں رائے۔ بائی دے وے۔ میں کہہ رہا تھا۔۔۔  تم جانتے ہو نا وہ لوگ کیا کیا کر سکتے ہیں۔ یہ شیو سینک، وی۔اچ۔پی کے لوگ۔ تمہارے گھر آ جائیں گے۔ آگ لگا دیں گے۔ توڑ پھوڑ کریں گے۔ کہیں تم نے کوئی لمبی یوجنا تو نہیں بنائی ہے۔‘‘

’’جیسے۔۔۔ ؟‘‘

’’کانگریس یا دوسری پارٹی میں جانے کا خیال ہو۔ ایک پولیٹیکل سچویشن سے فائدہ اٹھانے کی چال تمہارے اندر چل رہی ہو۔ لیکن میں جانتا ہوں مسٹر رائے۔۔۔  تم ایسے ہوہی نہیں۔ تم کوئی بڑا گیم کھیل ہی نہیں سکتے۔ پھر ؟

’’پھر۔۔۔  وہی اخلاقیات۔۔۔  اخلاقیات کا مجھ پر زبردست دباؤ ہے اور پھر لڑکے کی عمر۔۔۔ ‘‘

’’لڑکا مت کہو۔۔۔ ‘‘

’’ ملزم بھی نہیں کہہ سکتا۔‘‘

’’کیوں نہیں۔ معاملہ سیدھا اور صاف ہے۔ کسی evidenceکی ضرورت نہیں۔ تمہیں تو صرف چند رعایتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا دینا ہے۔ بس‘‘

’’بس نہیں۔۔۔  ویسا ایک بیٹا تمہارے گھر بھی ہے۔‘‘

’’نہیں ! ‘‘

’’میرے گھر بھی ہے۔‘‘

’’بالکل نہیں۔۔۔  نتن اس بچے سے بڑا ہے۔‘‘

’’ہو گا۔۔۔  لیکن پہلی بار نکھل۔ اتنے برسوں کی زندگی میں پہلی بار میں اخلاقیات کی ایک بوسیدہ کتاب ادھیڑ رہا ہوں۔ جانتے ہو۔ آجکل سارا سارا دن، ساری ساری رات انٹرنیٹ میں الجھا رہتا ہوں۔ سوچتا ہوں۔ وہ کیا چیز ہے۔ جو بچوں کو تباہ کر رہی ہے۔ ٹی۔وی۔ سوپر کمپیوٹر۔ یا گلوبلائیزیشن۔ ترقی ہوتی ہے اور ترقی اچھی چیز ہے۔ مگر کیا ہوتا ہے۔ دھماکہ کے ساتھ ایک نئی چیز ہمارے بیچ آ جاتی ہے۔ گلوبلائزیشن۔ تمام فاصلوں کو، ایک چھوٹے سے ویلج میں قریب کرنے والے کنجی ایک زور دار دھماکہ کر جاتی ہے۔ اور۔۔۔    وہ نتن بھی ہے۔۔۔ ریا بھی اور وہ بارہ سال کا بچہ بھی۔۔۔ ‘‘

’’میں اب تک صرف انٹرنیٹ پر قانون اور لیگل ایڈوائز کے چینل ہی دیکھتا تھا۔ مگر اب مجھے لگتا ہے  people & ethicsپر زیادہ سے زیادہ باتیں ہونی چاہئے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ باخبر ہونا چاہئے۔ اور اپنے بچوں کے لئے۔۔۔ ‘‘

’’تم نہیں سدھروگے۔۔۔ اس بار بھی فیصلہ کے لئے کوئی لمبی چوڑی تقریر تیار کر رہے ہو گے۔ تاکہ وہ امریکہ کی جوڈیشری گزٹ میں تمہاری بری بڑی تصویروں کے ساتھ چھپ جائے۔۔۔  تمہاری رپورٹ پر بڑے بڑے لوگوں کے تاثرات آئیں۔ امریکہ کی بڑی بڑی سیاسی پر سنالٹی بھی تمہیں ایک ہندوستانی آدرش تصور کریں۔۔۔  امرتیہ سین کی طرح۔۔۔  پیسہ۔۔۔  پیسے کے بار ے میں سوچو مسٹر رائے۔ چند دنوں کی نوکری ہے۔ اخلاقیات کی آڑ میں اس کا کباڑا مت کرو۔

’’نہیں کروں گا نکھل۔۔۔  لیکن۔۔۔ وہ بچہ۔۔۔  اٹھتے بیٹھتے وہ میرے اندر دھنی مار کر بیٹھ گیا ہے۔ میں یہ فیصلہ منٹوں میں نہیں لے سکتا۔ میں کافی پریشان ہوں نکھل۔ میں خود تم سے شئیر کرنا چاہتا تھا۔ مجھ سے ملو۔۔۔  چھوٹے بچوں میں دیوانگی۔۔۔ پاگل پن کی حد تک کی دیوانگی کیوں آ جاتی ہے۔۔۔  یہ دیوانگی کتنی خطرناک ہے۔ وقت اتنی تیزی سے بدلا ہے کہ ہم بچوں کو سمجھ ہی نہیں پائے۔۔۔ ‘‘

’’وقت کو گالی مت دو۔۔۔ ‘‘

’’نہیں نکھل۔ وقت کو گالی نہیں دے رہا ہوں۔ دے بھی نہیں سکتا۔ مگر یقین جانو۔ چاہو تو کسی خالی لمحے اس بارے میں غور کر کے دیکھو۔۔۔  میرے پتاجی  یا ان کے پتاجی کے وقت میں یہ وقت اس طرح، اتنی جلدی تیزی سے نہیں اڑتا تھا۔ تھم تھم کر چلتا تھا۔ سب کے سب اس وقت کی آواز سمجھتے تھے۔۔۔  وقت کو دیکھتے تھے۔۔۔  وقت کے بارے میں بتایا جاتا تھا۔۔۔  وقت کی رفتار سست تھی۔۔۔  اور اسی’ سست روی‘ میں دوسری پارٹی یا دوسری جنریشن اپنے بچوں کی شادی اور دوسری ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر مست ہو جاتی تھی۔ مگر اچانک ان کچھ برسوں میں ٹکنالوجی، سوپر کرائم اور گلوبلائزیشن کا جو حملہ ہوا ہے، اس نے ہمیں حیرت زدہ ہی نہیں بلکہ سڑک پر ننگا کر دیا ہے۔۔۔  سکنڈ میں ہماری تہذیب ہزاروں سال آگے پہنچ گئی۔۔۔  ٹائم مشین کے بارے میں سنتے تھے نا۔۔۔  بس دیکھتے ہی دیکھتے ہماری نظر کے سامنے ایک دو برس میں ہمارے بچے فیوچر کی ٹائم مشین میں داخل ہو گئے۔۔۔  یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ ہم سمجھ ہی نہیں سکے۔ نہ بچے سمجھ سکے۔ نہ بچوں کو ہمیں جاننے یا پڑھنے کی فرصت ملی۔ نہ ہم بچوں کی نفسیات اور ان کے ذہنی افق تک پہنچ سکے۔ اس لئے مائی ڈیر نکھل۔۔۔  میں کوئی عجوبہ یا کوئی نیا کام نہیں کر رہا ہوں۔۔۔  اس بارہ سال کے بچے کی بدولت مجھے ایک بڑا کام مل گیا ہے۔ میں تمہارے اس عہد کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’میرے نہیں ‘‘  نکھل ہنسا۔ نتن اور ریا کا عہد۔

’’ہاں۔ میں اس اڑان کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ یہ بچے۔ جب سب کچھ اپنی چھوٹی سی عمر میں ہی کر لیں گے تو۔۔۔  اپنے آگے پڑی، ڈھیر ساری لمبی عمر کا کیا کریں گے یہ؟  اور دوست یہاں آتے آتے مجھے ایک بھیانک تاریکی دکھائی دیتی ہے۔

’’تم گھر جاؤ۔ تم مجھے پاگل کر دو گے۔ بریک فاسٹ کے بعد میں تمہارے گھر آ جاؤں گا۔ وہ مسز مینن آ رہی ہیں۔ ویسے بھی چار دنوں سے یہ میرے رومانس میں پڑی ہیں۔ تم ہڈی بن کر رہو گے تو یہ ہاتھ سے نکل جائیں گی۔

’’نکھل ـــ۔۔۔ ‘‘

میں زور سے چیخا۔ مجھے کبھی کبھی اس پر اسی لئے زور سے غصہ آتا تھا۔ میری بیحد سنجیدہ بات پر، وہ ایکدم سے چپ ہو کر کسی نئی دھن میں الاپ کرنے لگتا۔۔۔  دیکھتے دیکھتے وہ مسز مینن کے پاس لپک گیا۔۔۔  میں نے دیکھا، وہ مسز مینن کو گلے لگا رہا تھا۔۔۔

’’اخلاقیات۔۔۔ ‘‘

میں زور سے ہنسا۔۔۔  ہرمن ہیسے نے ٹھیک کہا ہے۔

’’ایک نئی تہذیب جنم لینے والی ہے۔ ایک انڈا ٹوٹنے والا ہے۔ اس سے ایک بھیانک پرندہ نکلے گا۔ نئی پیڑھی کو لذّت اور چٹخارے چاہئے۔ وہ سیکس سے آئے یا دہشت گردی سے۔۔۔۔۔ لیکن مسٹر رائے۔۔۔۔۔۔!‘‘

میں نے دھیمے سر میں اپنے آپ کو آواز دی۔۔۔  جو وقت بدل رہا ہے۔ اس کی آواز بھیانک ہے۔۔۔  ایک بھیانک طوفان ہے۔ جس کی صدا کم لوگ سن رہے ہیں۔ لیکن یہ طوفان آچکا ہے۔ مختلف شکلوں میں۔۔۔  نئی ٹکنالوجی اور نئے ’سیمو گراف‘ کے طور پر۔۔۔  طوفان آچکا ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ یہ طوفان سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔۔۔

نکھل مسز مینن کے کمر میں ہاتھ ڈالے آہستہ آہستہ درخت کی چھاؤں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میں نے غصہ میں دیکھا۔۔۔ اور اپنے پاؤں اپنے گھر کی طرف موڑ لیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۷)

 

میں نے بریک فاسٹ لاک اَپ میں لیا۔ چار بریڈ، ایک آملیٹ اور ایک گلاس دودھ۔ پھر کمپیوٹر کھول کر بیٹھ گیا۔ People & Ethicsکے کالم میں، میں کچھ لوگوں کی رائے جاننا چاہتا تھا۔ کچھ دیر تک ماؤس کو ادھر ادھر گھماتا رہا۔ پھر روک دیا۔ نکھل اڈوانی بارہ سے پہلے نہیں آئے گا۔ ویسے بھی آج سنڈے ہے۔ گھر پہنچ کر تھوڑا سا ہوم ورک کرے گا۔ پھر اپنے اس کیس کی پوٹلی لے کر، اپنی واہ واہی سنانے کو میرے پاس آ جائے گا۔

لیکن آج صبح ہی صبح کم بخت نے موڈ خراب کر دیا۔

رات کا نشہ گہرا تھا۔ پرانی شراب کبھی کبھی وہ ذائقہ دے جاتی ہے جو نئی شراب نہیں دے سکتی۔

انٹرنیٹ میں کچھ الگ الگ تحریریں آ رہی تھیں۔۔۔

میں پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔  آپ اورسیکس میں نفسیاتی الجھنیں کب پیدا ہوتی ہیں۔۔۔ ؟  زیادہ مقبولیت اور شہرت کی کوکھ سے خوف کیوں جنم لیتا ہے۔۔۔ ؟ میں باکس میں جاتا ہوں۔ کلک کرتا ہوں۔ کچھ نام چمکتے ہیں۔

سلمان کا نام میری زندگی میں ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا۔

ایشوریہ رائے

صرف عورتیں ہی خوفزدہ نہیں ہوتیں۔ عورت بھی اپنی حرکتوں سے مرد کو خوفزدہ کرتی ہے۔

سہیل سیٹھ  (رنگ منچ کی بڑی شخصیت)

کوئی اجنبی گندے اس ام اس بھیجتا رہتا ہے۔

جے۔سی۔رندھاوا (ماڈل)

میں دوبارہ  رپورٹ پر کلک کرتا ہوں۔ مجھے اسے پڑھنے اور جاننے میں دلچسپی ہے۔ آخر اس دیوانگی بھرے Behaviourکے پیچھے کیا ہے۔ اس ملک کا عام آدمی بھی نفسیاتی الجھنوں میں گھر کر رہ گیا ہے۔ نئی ٹکنالوجی آپ پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ کبھی کبھی غصے میں آپ اپنا بلڈ پریشر بڑھا لیتے ہیں۔ دنیا پھر کی بیماریوں اور ہائیر ٹینشن کے شکار ہو جاتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا۔ نئی ٹکنالوجی نے آپ کو کیا دیا ہے ؟ جواب تھا۔ بھیانک اور نئی نئی بیماری۔

مجھے بار بار لگتا تھا، کچھ مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں قانون، قانون کی کتابوں، قانون کے نکتوں اور قانون کے بھاری بھرکم الفاظ سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ شاید اسی لئے میں اس کیس کو قانون کے’ لفظی ہاتھوں ‘ سے دور رکھنا چاہتا تھا۔

میں نے ماؤس کو پھر حرکت دی۔۔۔

مجھے یاد آیا۔ اس دن رات میں کھانے کی میز پر ریا نے شکایت کی تھی۔ کچھ لوگ گندے گندے اس ام اس بھیجتے رہتے ہیں۔ وہ پریشان ہو جاتی ہے۔

آخر یہ سب کیا ہے  ؟

ارتقاء کے ریس میں کیا یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔۔  یا اب ہو رہا ہے۔

یا، اب کے بچے اتنا تیز اڑ رہے ہیں کہ ہماری پکڑ میں ہی نہیں آ سکتے ہیں۔ نئی ٹکنالوجی صرف نئی اور بھیانک بیماریاں ہی دے سکتی ہے۔ اور ہمیں ایک ایسی نفسیات میں مبتلا کر سکتی ہے۔ جسکا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔

میری آنکھیں کمپیوٹر کے چھوٹے اسکرین پر جم کر رہ گئی ہیں۔ اپنی دنیا سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر وہ بچہ۔ وہ بارہ سال کا بچہ بار بار آنکھوں کے Retinaپر آ کر اپنے قدم جما لیتا ہے۔

میں اسے غور سے دیکھتا ہوں۔

’’کیا دیکھ رہے ہو ؟‘‘

’’تمہیں پڑھ رہا ہوں۔‘‘

’’آپ مجھے نہیں پڑھ پاؤ گے؟‘‘

’’کوشش تو کر سکتا ہوں۔‘‘

یاد آیا۔۔۔  ریا نے کہا تھا۔۔۔  ڈیڈ، آپ ہماری جنریشن کو نہیں سمجھ پاؤ گے۔ جبکہ ہم تم سے زیادہ آسان لوگ ہیں۔۔۔  کہیں کچھ بھی زیادہ  complication  نہیں۔ جبکہ آپ زیادہ الجھے ہوئے ہو۔

مجھے یاد آیا، نتن بھی ہنستے ہوئے یہی کہتا ہے۔ ہمیں سمجھنا کوئی بہت زیادہ مشکل نہیں ہے ڈیڈ۔ کیونکہ ہم جو اندر دکھتے ہیں۔ وہی باہر بھی نظر آتے ہیں۔

 

میں رپورٹ پڑھ رہا ہوں۔ ایشوریہ رائے، وپاشا بسو، سہیل سیٹھ۔۔۔  عورت اور مرد کا رشتہ کیسا ہے؟ کیا ایک بارہ سال کا لڑکا اپنی ہم عمر کسی لڑکی کے ساتھ sexual relation  بنا سکتا ہے؟ کیا اس عمر میں بچے کے اندر وہ   sensationاور اِریکشن   جمع ہوسکتا ہے کہ وہ ایک مکمل مرد کی طرح اپنی ہم عمر لڑکی سے پیش آئے۔ اپنی مردانگی سے اسے چت کر دے۔۔۔  دیوانگی یا نفسیاتی پاگل پن کن حالتوں میں ایک بچے کو ایک مکمل مرد میں تبدیل کر دیتا ہے۔۔۔ ؟

رپورٹس میں میرے لئے کئی دلچسپ باتیں تھیں۔ فلمی ہیرو سلمان کا پاگل پن ایشوریہ کے لئے۔۔۔  اس کا ایک نفسیاتی مریض کی طرح پیش آنا۔۔۔  ایک آدمی موبائل پر گندے گندے ایس ایم ایس بھیجتا ہے۔۔۔  کچھ پریشان حال لوگ فون پر گندی گندی باتیں کر کے اپنا دل بہلاتے ہیں۔۔۔  لیکن دوسرے کے لئے الجھنیں کھڑی کر دیتے ہیں۔۔۔  محبت اور سیکس سے جڑے کتنے ہی قصے جو ایک نہ ختم ہونے والا درد پیدا کرتے ہیں، اور اشتعال کی حد تک غصے کو جنم دے جاتے ہیں۔۔۔  جیسے مشہور فلمی ہیروئن وپاشا نے ایک موقع پر بتایا، ممبئی کے ایک مشہور ریستوراں میں ایک شخص اس کے قریب آ کر دیوانگی اور جوش میں اس کی چھاتی مسلنے لگا۔ ایسے واقعات وپاشا کو پہلے بھی پیش آئے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دراصل ایسے واقعات کسی شخص پر اپنا حق سمجھنے کی انتہا ہے۔ کچھ نفسیاتی معالج اس طرح کے واقعات کو یوں لیتے ہیں۔۔۔  کہ بہت دھیان سے جانچے پرکھے بغیر ایسے کسی بھی شخص کو آپ نفسیاتی مریض نہیں ٹھہرا سکتے۔۔۔  ایسے رشتوں میں سب سے اہم چیز، جذباتی ہونا ہے۔۔۔  جبکہ نفسیاتی مرض کا تعلق صرف آپ کی سوچ سے ہے۔

پچھلے بیس برسوں سے  Obsessive compulsive disorder  پر تحقیق کرنے والے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے۔۔۔  جلد بازی میں کسی کو بھی نفسیاتی بیمار ٹھہرانا، دراصل ہمارے سماج کی وہ بیماری ہے جس سے ایک ضروری بحث مزے اور ذائقے میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔

نفسیاتی بیماریوں کے شکار صر ف بڑے لوگ نہیں ہوتے۔ عام لوگ بھی اس کے شکار ہوتے ہیں۔ ہاں، شہرت بھی کبھی نفسیاتی الجھن کی وجہ بن جاتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ورلڈ ہیلتھ اور گنائزیشن ابھی تک اس معاملے میں خاموش ہے۔ دراصل نفسیات کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے۔۔۔   جسکو لے کر اس گلوبل ورلڈ میں بہت شدت کے ساتھ دخل دینے کی ضرورت ہے۔

میں ماؤس آگے بڑھاتا ہوں۔۔۔  تحریریں جھلمل جھلمل کرتی ہیں۔۔۔  کبھی کبھی کچھ عجیب سی باتیں بھی ہوتی ہیں۔۔۔  آپ جنہیں کوئی نام نہیں دے پاتے۔۔۔  جیسا کہ تیس برس کے راکیش شریواستو کے ساتھ ہوا۔ دفتر میں کام کرنے والی ایک لڑکی ریچا ملہوترہ کے ساتھ اس کا لوافیئر شروع ہوا۔۔۔  دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔۔۔  مگر جانے کیا ہوا کہ راکیش پر نفسیاتی مرض کا حملہ ہوا۔ رچا کو فون پر بلیک کالس کرنے لگا۔ الٹی سیدھی گندی گندی باتیں کرنے لگا۔ جبکہ رچا اس کے اختیار میں تھی۔ فون پر وہ رچا کو الٹی سیدھی دھمکیاں بھی دیتا تھا۔ پریشان ہو کر رچا نے پولس کو شکایت کی۔ اور اس طرح پولس راکیش کے گھر پہنچ گئی۔ رچا یہ جان کر کہ یہ سب کچھ اس کا محبوب کر رہا تھا، سکتے میں ڈوب گئی۔۔۔  اس طرح ان کے رشتے وہیں ختم ہو گئے۔

مشہور رنگ کرمی سہیل سیٹھ کو ایک لڑکی بار بار فون کر کے پریشان کرتی تھی۔ ڈاکٹر کہتے ہیں۔۔۔  جسم کے خفیہ حصوں کو دیکھنے اور چھونے کا تجسس عورتوں سے زیادہ مرد میں ہوتا ہے۔

ــ’I know you really love me’  کی مصنفہ دورین آر اوررین اس پورے معاملے کا تجزیہ اس طرح کرتی ہیں کہ نئی ٹکنالوجی کے زیر اثر بھی بہت سی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ شکاری اپنے شکار پر کس طرح جھپٹتے ہیں۔۔۔  کیسے وہ ان میں جرم کا احساس، ہمدردی، خوف جگانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔۔۔  لیکن بہتر ہو گا کہ ان کے سامنے چلانے، منتیں کرنے، دھمکانے، یا دلیلیں دینے سے بچا جائے۔۔۔

ایسے معاملوں کے زیادہ تر شکار لوگ مانتے ہیں کہ اس سے ان کی، دلیلوں کی قوت کم ہوتی ہے۔۔۔  وہ خوف اور شک کی اندھیری سرنگ میں گھٹن محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن عجیب بات ہے، ہندوستان میں ایسے معاملوں سے نمٹنے کے لئے کوئی قانون نہیں ہے۔ کسی کے پیچھے پڑے رہنے کی قیمت اور اس کی سزا کا معاملہ بھی ایک طرفہ اور نجی ہوتا ہے۔ نفسیاتی بیماریاں لمبی ہوسکتی ہیں۔ لیکن جن رشتوں سے وہ پیدا ہوتی ہیں۔ ان رشتوں کا انت ہو جاتا ہے۔

رپورٹ میں ایک باکس بنا ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر آپ کبھی شکار بن جائیں تو کیا کیجئے۔

۱۔        فوراً پولس کو خبر کیجئے۔ چوری چھپے آپ کو ڈرانے والے سے آپ خود نہ الجھیں۔

۲۔       ایسے آدمی سے کوئی بات چیت نہ کریں۔ اس سے ایک بھی ملاقات خطرناک             ہوسکتی ہے۔

۳۔       جذباتی ہو کر بلیک میل ہونے کی کمزوری کبھی مت دکھائیں۔ اس کی دھمکیوں سے مت ڈریں۔ اگر نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہے ہوں تو کسی قریبی دوست سے صلاح لیں۔

باہر سے تیز  تیز نکھل اڈوانی کے بولنے کی آواز آ رہی تھی۔ میرے لئے اب اس رپورٹ میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں بچی تھی۔ میں جانتا تھا مجھے باہر گارڈن میں نہیں دیکھ کر وہ خود ہی دوڑا  دوڑا  لاک اَپ میں آ جائے گا۔ میں نکھل اڈوانی کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۸)

 

’’میں زیادہ نہیں رکوں گا۔‘‘

نکھل نے آنے کے بعد ہی اپنا مدعا بیان کر دیا۔۔۔ ’’ وہ میٹنی شو، مسز مینن کے ساتھ پی وی آر میں فلم دیکھنے جا رہا ہے۔‘‘

’’تو بات بن گئی۔۔۔  ‘‘

’’ہاں ‘‘

’’تم یہ سب کیسے کر لیتے ہو ؟‘‘

’’بہت آسان ہے، نکھل ہنسا، پہلے کافی پلاؤ۔ پھربتاتا ہوں۔ صرف عورتوں کے سامنے اپنی تھوپی ہوئی سنجیدگی کو خود سے دور کر دو۔۔۔  ایک جج کو ہٹا دو۔ سنیل کمار رائے کو پیش کرو۔‘‘

’’مجھ سے نہیں ہو گا۔‘‘

’’تو کافی پلاؤ‘‘

نکھل کمپیوٹر پر کئے گئے میرے ہوم ورک کو دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کو وہ ٹھٹھکا۔ زور سے چونکا۔

’’یہ باکس میں تصویر یں کیسی ہیں۔ کیا کارٹون شو دیکھنے لگے ہو۔۔۔ ؟‘‘

’’نہیں ‘‘

’’پھر یہ تصویریں۔۔۔ ‘‘

’’خود ہی دیکھ لو، ‘‘  میں کرسی سے ہٹ گیا۔

نکھل عجیب نظروں سے دیکھتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا۔ ماؤس پر ہاتھ رکھتے ہی باکس کی تصویریں اپنے فٹ نوٹس کے ساتھ ابھرنے لگیں۔

’’یہ سب کیا ہے؟‘‘

’’سوال مت کرو، پہلے دیکھو۔‘‘

’’او۔کے۔۔۔  ٹھیک ہے۔‘‘

نکھل نے اس بار پھر منہ بنایا۔ عجیب نظروں سے میرے نوٹس کو دیکھا۔

’’اسپائیڈر مین۔۔۔  آج بھی بچوں کا چہیتا۔‘‘

فینٹم۔۔۔  بچوں کے لئے اب کوئی کشش نہیں۔ ایک بھوت جو ظلم کے خلاف لڑتا تھا۔

۔۔۔  WWFبچے یا توفنٹاسی پسند کرتے ہیں، یا ایسی رئیلیٹی، جس میں اذیت ہو۔ تکلیف ہو۔ یہاں مرنا بھی بچوں کے لئے کسی ایڈونچر سے کم نہیں۔

ہیری پورٹر۔۔۔  جے۔کے۔رولنگ کی کتابوں کا وہ کردار جو اپنے طلسمی ہتھیار سے، بدمعاشوں سے لڑتا ہے اور فاتح ہوتا ہے۔

حلک۔۔۔  ڈاکٹر بروس بنیر کا ایک فرضی کردار ہے جو اپنے غصے پر قابو نہیں رکھتا۔ اور سب کچھ تباہ و برباد کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

ٹامب ریڈر۔۔۔  لارا کرافٹ خفیہ جگہوں اور پراسرار چیزوں کی تلاش میں نکلتی ہے۔

نی یو۔۔۔  میٹرکس کا یہ اہم کردار خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ اور اس فیصلہ پر پہنچتا ہے کہ یہ دنیا بدمعاشوں سے بھری ہوئی ہے۔۔۔  اور ایک وہی ہے جو اس دنیا کو بچا سکتا ہے۔

بلائنڈ دیتھ۔۔۔  ہزاروں فٹ اونچی چٹان پر رسیوں سے پھسلنا۔۔۔ نئے بچوں کا تازہ ترین شوق۔ جس میں اکثر جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔۔۔

نکھل نے ماؤس روک دیا۔۔۔

حیرت سے میری طرف دیکھا۔ ’’یہ سب کیا ہے۔۔۔ ؟‘‘

’’تم بتاؤ‘‘

’’میری کھوپڑی میں صرف قانون کے نکتے گھسے ہوئے ہیں۔‘‘

’’ان کے بارے میں تمہارا قانون کیا کہتا ہے۔‘‘

’’کچھ نہیں۔ ‘‘وہ کچھ کچھ’ ہتاشا ‘بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔

یعنی کوئی بچہ اپنے شوق کے لئے ہزاروں فٹ اونچی چٹان سے پھسلنا چاہے تو۔۔۔ ؟

’’کچھ نہیں ‘‘

’’کچھ باتیں قانون سے بلند ہوتی ہیں۔ مائی ڈیر اڈوانی۔ دراصل مجھے پتہ بھی نہیں چلا اور بچے بڑے ہو گئے۔ میں بچوں کی پسند، نا پسند اور شوق کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان سکا۔۔۔  بچے اڑتے رہے۔۔۔  زمانہ بدلتا رہا۔۔۔  پرموشن کی فکر اور قانون کی موٹی موٹی کتابوں میں الجھا رہا۔ سوچتا ہوں کتنی دیر ہو گئی۔ بچے مجھ سے کتنی دور چلے گئی۔ اس عمر میں کتنی خواہش ہوتی ہے نکھل۔ بچوں کے ساتھ بیٹھنے کی۔ باتیں کرنے کی۔ لیکن میں نے بچوں کو اپنے آپ سے لگایا کب تھا۔۔۔ ؟  اور اب۔۔۔

’’ہم بڑے ہوتے ہیں تو اپنی اصل’ جین‘ میں لوٹ جاتے ہیں۔ریلیکس

’’۔۔۔ جو ہو رہا ہے۔ دیکھتے رہو بس۔‘‘

’’نہیں نکھل۔ جو ہو رہا ہے صرف ہم دیکھ نہیں سکتے۔اب ہمیں انٹرفئیر کرنا ہو گا۔۔۔  کرنا پڑے گا۔۔۔  ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے۔ شاید اسی لئے۔۔۔ ‘‘

’’تم اپنے نئے کیس کو لے کر الجھ گئے ہو۔‘‘

’’شاید ہاں۔‘‘

’’لیکن یہ سب کیا ہے۔۔۔ ؟‘‘

’’تم بتا سکتے ہو۔ آج کے بچے کیا پسند کرتے ہیں۔۔۔ ؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’میرے لئے سب سے زیادہ یہی جاننا ضروری تھا کہ بچے سب سے زیادہ کیا پسند کرتے ہیں۔ اور کیوں۔۔۔ ؟ بچے ہر اس ہیرو کو رئیل ہیرو تسلیم کرتے ہیں جو ظلم کے خلاف لڑتا ہے۔۔۔  آواز اٹھاتا ہے۔۔۔  اب ہیری پورٹر کو لو۔۔۔  جے کے رولنگ نے لکھتے ہوئے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ ایک دن اس کی کتابوں کی بکری ایک نیا دھماکہ کرے گی۔ ساری دنیا میں اس کی کتابوں کا ترجمہ ہو گا۔۔۔ فلم بنے گی۔۔۔  بچے اس کی نئی کتابوں کے ایڈیشن کے لئے موسم سرما کی سرد ترین راتوں میں بھی رات سے ہی ایک لمبی قطار میں کھڑے ہوں گے۔ کیوں ؟  میرے دوست نکھل اڈوانی۔۔۔  بچے فنٹاسی کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ بچے خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ بجے  NEO بن گئے ہیں۔ جو خوابوں میں رہتا ہے۔ خوابوں کے درمیان ہی اٹھتا بیٹھا ہے۔۔۔  ذرا سوچو۔ ہندوستانی بچوں کو یہ خواب کون دے رہا ہے۔۔۔  امریکی کہانیاں۔۔۔  جاپانی کہانیاں۔۔۔  چینی کہانیاں۔۔۔  لیکن بچوں کو پسند کیا ہے۔۔۔ ۔۔۔  WWFبچوں کو ایک آدمی کا جیتنا پسند ہے۔ اس فتح یا جیت کے بیچ کس کی جان جاتی ہے۔ بچے جاننا نہیں چاہتے۔۔۔  قانون کیا کہتا ہے۔ انصاف کیا ہے۔ بچے اس بحث سے بلند ہو گئے ہیں۔۔۔  وہ ظالم کا انت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسپائڈر مین سے حلک تک۔۔۔ فینٹم سے ہیری پورٹر تک۔ اور اسی فنٹاسی کی دنیا میں جیتے، رہتے ہوئے جانے انجانے طور پر ان بچوں نے اپنے لئے بلائنڈ ڈیتھ کو پسند کر لیا ہے۔۔۔  ہم تم تو محض ایک چھوٹے سے کیس میں الجھے ہوئے ہیں نکھل اڈوانی۔۔۔  اسی لئے میں نے کہا۔ اس وقت مجھے قانون کی کتابوں سے زیادہ ضرورت اخلاقیات کی ہے۔ میں قانون سے الگ ہٹ کر، اس اخلاقیات اور بچوں کی تعمیر کردہ نئی اخلاقیات کو پڑھنا چاہتا ہوں۔۔۔  سمجھنا چاہتا ہوں۔ لیکن یہیں پر مجھے ایک خیال اور بھی آتا ہے۔ بچے ظلم کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ بدمعاشوں کا زوال دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لئے بڑی سے بڑی اذیت بھی اُن کی آنکھوں میں چمک بھر دیتی ہے۔ میں ذرا ا سوقت  کی سیاست کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔

میری آنکھوں میں کچھ صورتیں گھوم رہی تھیں۔

’’کیا یہ بچے مودی کو تسلیم کریں گے۔۔۔ بش کو تسلیم کریں گے۔۔۔  صدام یا اسامہ بن لادین کو۔۔۔ ؟  گھناؤنی سیاست کا ہر مہرہ اُن کے لئے ظالم چہرہ بن جائے گا۔ اور وہ اس ظالم چہرے کا انت دیکھنا چاہیں گے۔ میری الجھنیں یہی ہیں۔ کہ ان بچوں کے پاس اپنے  real  ہیروز نہیں ہیں۔۔۔  اپنی لوک کتھائیں نہیں ہیں۔۔۔  اسکول باہر۔۔۔ کا سنسکار، باہر کے۔۔۔  اور باقی کسر۔۔۔ باہر کی دنیا اور باہر کی کہانیاں پوری کر دیں گی۔۔۔  پھر یہ کہاں رہیں گے نکھل اڈوانی۔۔۔ ان کا کیا ہو گا۔۔۔  مجھے لگتا ہے۔ چھوٹی عمر کے یہ بچے اچانک ایک دن فنٹاسی اور رئیلیٹی کے بیچ پھنس جائیں گے اور وہ حادثہ ہو جائے گا۔ جیسا کہ اس بارہ سال کے بچے نے کیا۔۔۔

’’مائی گاڈ۔‘‘  نکھل نے چونک کر دیکھا

’’آؤ، تم کو کچھ ریکارڈ دکھاتا ہوں ‘‘

’’کافی۔۔۔   میرے گلے میں کچھ اٹک گیا ہے۔‘‘

’’جو اٹک گیا ہے۔ وہ سیاست ہے۔‘‘

’’نہیں۔۔۔ ‘‘  نکھل ٹھٹھا کر ہنسا۔۔۔ سیاست نہیں سیاسی چہرے۔ کبھی کبھی ان تمام سالوں کو اڑا دینے کی خواہش ہوتی ہے۔ لیکن قانون میں رہنے کی اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔‘‘

میں نے انٹرکام سے رامو کو کافی لانے کو کہا۔ نکھل میرے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ میرے ہاتھ ماؤس پر جمے ہوئے تھے۔ کمپیوٹر کے اسکرین پر کچھ فیگرس ابھر رہے تھے۔

’’مائی گاڈ ‘‘           نکھل کے چہرے پر خاموشی سے ایک رنگ آیا اور آ کر نہ جانے والے موسم کی طرح ٹھہر گیا۔۔۔

’’یعنی تم کیا چاہتے ہو کہ۔۔۔ ‘‘  وہ میری آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔

’’مجھے پتہ ہے۔ ممکن ہے اخلاقیات کی باتیں ہم میں سے کسی کو ہضم نہیں ہوں۔۔۔  اور شاید اکیسوی صدی کا سب سے پٹاپٹایا واہیات موضوع ہے۔۔۔  اخلاقیات اور ہم۔۔۔  قانون میں اس اخلاقیات کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ ہونی بھی چاہئے۔ کیونکہ قانون کی اخلاقیات اے وی ڈینس ہوتی ہے۔۔۔  ثبوت۔۔۔ دلیل کے ساتھ کی جانے والی بحث ہوتی ہے۔۔۔  صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ثابت کرنے کے لئے، قانون کے موٹے موٹے نکتے ہوتے ہیں۔ اس لئے ایک قانون داں کی حیثیت سے میں نے اس معاملے کو نہیں دیکھا۔۔۔  نہیں پرکھا۔۔۔  نہیں جانا۔۔۔  میں نے سماج کے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے دیکھنے کی۔۔۔ اور جاننے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے بھی کہ۔۔۔  ایک خاندان ہوتے ہوئے بھی میں اپنے خاندان سے کٹ گیا تھا۔ اپنے بچوں سے۔۔۔  اپنی ملی ہوئی زندگی سے۔۔۔  مجھے احساس ہے۔۔۔  بہت دیر ہو چکی ہے۔۔۔ اور مجھے سوچنے کا حق حاصل ہے۔۔۔ کہ کیا بارہ سال کا ؟ بارہ سال کا روی کنچن، اپنی ہم عمر کسی لڑکی کا بلاتکار کر سکتا ہے۔۔۔  ؟

٭٭٭

 

 

 

 

پوکے مان ٹرینر

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اِدھر اُدھر

آگے پیچھے/دائیں بائیں

چاروں جانب ہیں

پوکے مان/

پوکے مان

اچھے برے، جانوروں کی شکلوں والے

تیز ذہین، چالاک اور شاطر

ان میں پوکے مان ٹرینر بھی ہیں

جن کی شکلیں انسانوں جیسی ہیں

اور وہ گھومتے ہیں / چلتے ہیں /

پوکے مان کے ارد گرد

کھیلتے رہتے ہیں نئے نئے کھیل/

ہوتے رہتے ہیں نئے نئے تماشے

٭٭

 

 

 

 

(۱)

 

میں اس سے سونی پت کے ریفارم ہاؤس میں ملا تھا۔ اس سے ملنا میر ے لئے کسی فرض یا ذمہ داری کے تحت نہیں آتا ہے۔ لیکن اس سے ملنا ضروری تھا۔ سونی پت۔۔۔  دلی کے مہرولی علاقے سے قریب دس پندرہ کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔۔۔  ایک عام سا ریفارم ہاؤس۔ مین گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی ریفارم ہاؤس کی خستہ حالی، کمزوریاں مری نظر میں آ چکی تھیں۔ اسٹاف میری موجودگی سے پریشان بھی تھے۔ کچھ بچے سہمے ہوئے سے تھے۔کچھ اپنی شرارتوں میں مست۔ ان بچوں کے لئے نفسیاتی سطح پر، اندر کے انسان کو جگا کر، کبھی کچھ کیا گیا ہو۔ میرے لئے سوچنا مشکل تھا۔

’’روی کنچن کہاں ہے۔‘‘

’’وہ اس طرف۔ اس طرف آئیے۔۔۔ ‘‘

٭٭

 

یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ دیواروں سے رنگ و روغن غائب تھا۔ ایک عورت لکڑی کی کرسی پر بیٹھی ہوئی اسے زور زور سے کسی بات پر ڈانٹ رہی تھی۔

میں نے روم آفیسر کو کمرے سے باہر جانے کا اشارہ کیا۔۔۔

آفیسر نے عورت کو آنکھوں، آنکھوں میں کچھ کہا۔۔۔

عورت اشارہ سمجھ چکی تھی۔ اب وہ بھی کمرے سے باہر تھی۔ جہاں میں کھڑا تھا، وہاں سے کچھ ہی فاصلے پر روی کنچن کھڑا تھا۔

وہ جیسے اندر ہی اندر اپنے غصے میں سلگ رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی میری طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ نہ مجھے جاننے، پہچاننے کی کوشش کی۔ وہ اپنی عمر سے دو تین سال زیادہ کا نظر آتا تھا۔ بدن پر کافی گوشت تھا۔ یعنی اپنی عمر سے زیادہ ایک بھاری بھرکم جسم والا۔۔۔۔۔ مضبوط لکڑی کی چوکی پر ایک صاف سی چادر بچھی ہوئی تھی۔ سفر میں کام آنے والا تکیہ تھا۔جسے عام طور پر ریلوے میں سفرکرنے والے مسافر ہوا بھرا کر، رات مزے کی نیند سونے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بچے نے تکیے کو دونوں ہاتھوں میں پھنسا رکھا تھا۔ اور اس وقت اس کے چہرے سے یہی لگ رہا تھا۔ جیسے اس وقت یہاں، وہ میری موجودگی سے بالکل بھی خوش نہیں ہے۔

میں نے آہستہ سے جوتے بجائے۔۔۔

بچہ اسی حالت میں تھا۔۔۔   خاموش، گم سم اور لپکتے شعلوں کی آنچ میں۔۔۔

میں نے اپنی نظریں اس پر جما رکھی تھیں۔۔۔  شاید وہ میری طرف مڑے۔ غصے میں ہی سہی۔۔۔

شاید اس طرح مجھے اسے دیکھتے ہوئے پانچ دس منٹ گزر گئے تھے۔۔۔۔

آگے بڑھ کر میں اُس لکڑی کی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔  جہاں کچھ دیر پہلے وہ عورت بیٹھی تھی۔۔۔

پندرہ، بیس منٹ گذر چکے تھے۔ اس بیچ صرف اتنا ہوا کہ روم آفیسر، چپراسی کے ساتھ چائے کا کپ لے کر خود ہی حاضر ہو گیا تھا۔ میں نے اشارہ سے چائے واپس لے جانے کو کہا۔۔۔

کچھ نہ سمجھتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔

ایک لمحے کو میں سوچ رہا تھا۔ میرے دائرہ اختیار میں کیا کیا آتا ہے۔ اور کیا کیا نہیں۔۔۔   شاید مجھے ایک کھلونا مل گیا تھا۔۔۔

شاید نہیں۔۔۔

میں اس بچے کو، کسی بھی طرح محض ایک کھلونا نہیں سمجھ سکتا تھا۔ کیونکہ اس چھوٹے سے بچے سے جو جُرم سرزد ہوا تھا، اس نے بچے کی معصومیت کا قتل کر دیا تھا۔

میں نے گلہ کھکھارا۔۔۔  دو ایک بار کھانسنے کی ناکام سی کوشش کی، ا ور اس درمیان میں اس بچے کو، اس بچے کی ضد کو مکمل طور پر پڑھ لینا چاہتا تھا۔ جہاں میں لکڑی کی کرسی پر بیٹھا تھا، وہاں سے دو قدم آگے سیڑھیوں کے دائیں اور بائیں طرف پھولوں کے گملے رکھے ہوئے تھے۔ لیکن ان پودوں میں کہیں کوئی تبسم نہ تھا۔ سب کے سب اداس اور مرجھائے ہوئے۔۔۔

عام طور پرمیرا اس جانب اکثر آنا ہوا ہے۔۔۔  مہرولی اپنے لق و دق اور عالیشان فارم ہاؤسیز کی وجہ سے مشہور ہے۔ پتہ نہیں کتنے کتنے فلم اسٹاروں کے فارم ہاؤس  یہاں ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ اور ان میں ہمیشہ فلموں اور سیرئیلس کی شوٹنگس چلتی رہتی ہیں۔ میرے کچھ کلائنٹ بھی ہیں۔ جن کے بارے میں، میں جانتا ہوں۔انہوں نے اس طرف اپنے کچھ خوبصورت فارم ہاؤس یا ریزارٹ سنٹر اپنی عیاشیوں کے لئے رکھ چھوڑے ہیں۔مگر فارم ہاؤس کی چار دیواریوں کے بیچ۔۔۔ ایک خزاں رسیدہ، رنگ و روغن سے محروم ایک اداس جیل خانہ کو کچھ لوگوں نے ریفارم ہاؤس کا نام دے دیا ہے۔

میں نے ایک نظر بچے پر ڈالی۔۔۔

یقیناً بیس منٹ گزر گئے۔ اور وہ ابھی اسی انداز میں تھا۔ غصے میں ویسے ہی تکیہ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں کس کر تھامے کسی کی ناگوار موجودگی کا احساس لیے شدید غصے میں۔۔۔

تو مرجھائے ہوئے گملے تھے۔۔۔

کیاریوں میں شاید عرصے سے پانی نہیں ڈالا گیا تھا۔ آس پاس کی گھاس بھی، مہینوں سے کاٹی گئی نہیں لگ رہی تھی۔ اس درمیان دو ایک ادھیڑ عمر کی، سخت چہرے والی عورتیں  کسی کسی بچے کے ساتھ آئیں اور گزر گئیں۔۔۔۔۔

میں نے ایک بار پھر بچے کا جائزہ لیا۔ وہ اچھا خاصہ فربہ تھا۔۔۔  بارہ سال کا بچہ۔۔۔   لیکن ویٹ۔ ۶۵۔۶۲ کے۔جی سے کم نہیں ہو گا۔۔۔  یعنی اپنی عمر سے دوگنا وزن۔۔۔  میں نے دھیرے سے اس کے کپڑے پر نظر ڈالی۔ اس نے جینس پہن رکھی تھی۔ نیلے رنگ کی ڈھیلی ڈھالی جینس۔ پاؤں میں ریمنڈ کے جوتے تھے۔۔۔  بھیڑ کے اون والی آسمانی رنگ کی جرسی اس نے شرٹ کے اوپر پہن رکھی تھی۔۔۔  ہلکی ہلکی ٹھنڈی ابھی بھی موجود تھی۔۔۔  اس لباس میں وہ کیسا لگ رہا ہے، میں نے خود سے سوال کیا۔

میں نے ایک بار کھانسے کی کوشش کی۔۔۔  اس کی طرف دیکھا نہیں۔ وہ ایک بچہ ہی تھا۔۔۔

جس کے ’بال‘ کسی نا پسندیدہ آدمی نے اپنے قبضے میں کر رکھی ہو۔۔۔

نہیں۔۔۔  بچہ کہیں سے بھی نہیں۔۔۔

۔۔۔  ایک روٹھا ہوا مغرور بچہ۔۔۔

آدھا گھنٹہ ہونے کو تھا۔۔۔

یہ میرے صبر کی انتہا تھی۔۔۔

میں کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور جوتے بجائے۔۔۔

دو قدم آگے چلا۔ اس کے سامنے رکا۔ رک کر مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔

’’ہیلو فرینڈ۔۔۔ ‘‘

وہ اسی طرح رہا۔۔۔  غصے میں۔۔۔

’’دیکھو میں تم سے ملنے آیا ہوں۔‘‘

’’لیکن اس پر میری بات سے بھی کوئی بھی رنگ نہیں چڑھا۔۔۔ ‘‘

’’دیکھو۔۔۔  دیکھو۔۔۔  میں تمہیں یہاں سے لے جانے آیا ہوں۔ تم نے سنا نہیں۔۔ میں نے کیا کہا۔۔  فرینڈ۔۔  فرینڈ  کا مطلب تو جانتے ہو نا۔۔ ‘‘

بچہ نہیں مڑا۔۔۔  آخر تک نہیں مڑا۔۔۔  میرے کسی بھی لفظ کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑا۔۔۔

’’فرینڈ۔۔۔ ‘‘

اس بار میری آواز سخت تھی۔۔۔

مجھے خود اپنے لہجے کی’ ناگوار فضا‘ کا احساس ہو گیا تھا۔۔۔

مجھے لگا، شاید پگھلتے پگھلتے وہ بچہ واپس اپنی دنیا میں چلا گیا تھا۔۔۔

تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

میں کوئی سائیکرٹیس نہیں تھا۔ میں کسی اصلاح۔۔۔  یا نفسیاتی معالج کی حیثیت سے نہیں آیا تھا۔ اور پھر بچے کے لئے ابھی ابھی،  میرا رد عمل بھی ٹھیک نہیں تھا۔۔۔

اس درمیان وہ عورت آ گئی۔ جسے ابھی کچھ دیر پہلے میں نے ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔

وہ ٹھہری۔۔۔۔۔ ایک لمحے کو اس نے میری طرف دیکھا۔۔۔  سخت چہرہ، ایک لمبا سا سفید گاؤن جسم پر ڈالے ہوئے۔۔۔

اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔

’’میری فرنانڈیس۔‘‘

’’اوہ۔۔۔‘‘

میں جواباً مسکرایا۔۔۔

’’بڑے صاحب نے آپ کے بارے میں بتایا۔ ہاف اینڈ آور ہو گیا۔ اس نے کچھ بولا کیا؟‘‘

’’نہیں۔۔۔ ‘‘

’’نہیں بولے گا۔۔۔  ضدی ہے۔‘‘ میری فرنانڈیس کے لہجے میں ناراضگی تھی۔

’’آپ نے چائے بھی نہیں لیا۔ واپس بھیج دیا۔ میں نے سنا۔ معلوم ہوا آپ اس بچے کا۔۔۔ ‘‘

’’شی۔۔۔ شی۔۔۔ ‘‘

میں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔۔۔

’’اوہ۔۔۔ ‘‘

میری فرنانڈیس کو جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔

’’یہ نہیں بولے گا۔ بولے گا ہی نہیں۔‘‘

٭٭

 

ہم سیڑھیوں سے اتر گئے تھے۔۔۔  اترتے ہوئے میں نے گملوں میں رکھے سوکھے پھول کا جائزہ لیا۔ بچے کو پلٹ کر ایک بار بھی نہیں دیکھا۔۔۔

’’اور بچے بھی آتے ہیں۔۔۔ غلطی کرتے ہیں۔ مان جاتے ہیں۔‘‘ میری فرمانڈیس کے چہرے پر کرختگی تھی۔۔۔  مگر ایسا بچہ۔ آپ نے دیکھا نا، سر۔ کتنا غصہ تھا چہرے پر۔ مجھے بتایا گیا۔۔۔  ریپ کیس۔ آپ بتائیے۔۔۔  اتنا چھوٹا بچہ۔۔۔  ریپ کیس۔۔۔  کیا کسی کو یقین آئے گا۔۔۔  یہاں سب ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔۔  ریپ کا معاملہ۔۔۔  بچے کی عمر۔۔۔  ٹو ویلو ائیرآنلی۔۔۔  کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔ مگر۔۔۔   میں کروں گی۔ میں اس بچے کو ریڈ کر رہی ہوں۔ اتنا غصہ۔۔۔ ‘‘

’’بس میری فرنانڈیس۔‘‘

’’میرے لہجے میں ٹھنڈک گھل گئی تھی۔۔۔

’’ابھی آپ لوگ اس معاملے میں بات نہ کریں تو۔۔۔ ‘‘

میری فرنانڈیس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔۔۔

’’سمجھ گیا میں۔۔۔ ‘‘

’’تھینکس۔۔۔  چلئے۔۔۔ آپ کے آفیسرس سے بھی مل لیتا ہوں۔‘‘

’’آئیے۔۔۔  آئیے نہ سر۔۔۔ ‘‘

راستہ بھر وہ اپنے اس ریفارم ہاؤس کی مشکلیں اور اپنی خوبیوں کا تذکرہ کرتی رہی۔

میں نے سوچ لیا تھا۔۔۔  اس بچے کو یہاں سے نکالنا ہو گا۔۔۔

کیونکہ یہاں کے خطرناک ماحول میں۔۔۔  اس کی گھٹن، اس کا غصہ، اس کے اندر کے چھپے ہوئے ملزم کو ٹانک دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔۔۔

میں نے انتہائی خاموشی سے کچھ پوائنٹس اپنی ڈائری میں نوٹ کر لئے۔۔۔

ڈرائیور پہلے سے ہی تیار تھا۔

گاڑی میں بیٹھنے تک میرے سر میں ہلکا ہلکا سا درد شروع ہو چکا تھا۔

 

(۲)

 

اس دن رات کھانے کی میز پر پھر ایک حادثہ ہو گیا۔۔۔  ایک ناخوشگوار حادثہ۔۔۔  کھانے کی میز پر ایک آدمی زیادہ تھا۔ یہ آدمی ماچومین ٹائپ کا آدمی تھا۔ نہیں ماچو مین نہیں۔۔۔  پلے بوائے۔۔۔  عام طور پر ایسے حونق چہرے آپ کو دلّی، ممبئی کی پارٹیوں میں مل جائیں گے۔ نہیں اگر آپ مجھے معاف کریں تو ایسے الٹے سیدھے لباس پہننے والے کو میں میل اسٹریپرس سے زیادہ دوسرا کوئی نام نہیں دے سکتا۔۔۔

الٹے، سیدھے رنگین بھدے لباس۔۔۔  آڑے ترچھے کٹے ہوئے بال۔۔۔  کانوں میں چھلے۔۔۔  اور فراٹے دار انگریزی کی اس گندے طریقے سے نمائش کرتے ہوئے، جیسے آپ نے کسی AIDSکے مریض کو دیکھ لیا ہو۔۔۔

عام طور پر رات، ڈائننگ ٹیبل پر، میں چپ ہی رہتا ہوں۔۔۔

اسنیہہ نے آنکھوں آنکھوں میں میرے تیور پڑھ لئے۔۔۔

ریا اپنے خطرناک حلیے والے پلے بوائے کے ساتھ خاموشی سے دو کرسیوں میں سما گئے۔۔۔

مجھے بتایا گیا۔۔۔ نتن نہیں آئے گا۔

’’کیوں ؟‘‘

’’نتن نے ایک جاب پکڑ لیا ہے۔‘‘

’’جاب  ؟ ‘‘

’’امریکن کمپنی کی ہرے پارٹی۔۔۔۔۔۔‘‘ ریا کے لہجے میں سردی تھی۔۔۔

سارے لڑکے کر رہے ہیں، اسنیہہ نے پھر میری آنکھوں کو ٹٹولا۔۔۔  جیسے ڈر رہی ہو کہ ماحول میں خطرے کا بگل نہ بجا دوں۔۔۔  میں نے دیکھا۔ دو ایک بار اس ماچو مین کے بچے نے مجھ سے ہلنے ملنے کی کافی کوشش کی۔ پھر میرے چہرے کی سنجیدگی دیکھ کر ڈر گیا۔۔۔  اب وہ ریا سے کچھ کچھ سوال کر رہا تھا۔ اور ریا اپنی دنیا میں گم تھی۔۔۔

میں نے ایک نوالہ منھ میں ڈالا۔۔۔

’’لیکن رات کے وقت۔۔۔ ‘‘

اسنیہہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔

’’اس کی جاب رات کی ہے۔ نائٹ شفٹ۔‘‘

’’رات کی ‘‘

’’ہاں، تب امریکہ میں دن ہوتا ہے۔‘‘ ریا پھر ہنسی۔

’’اس کی کمپنی کا نام ہے بلیو برڈ۔۔۔  ایسی امریکن کمپنیاں اب دنیا بھر میں کھل گئی ہیں۔‘‘

’’لیکن نتن نے مجھے کبھی بتایا نہیں۔‘‘

’’کیا بتاتا۔۔۔  بار بار تم سے مزدوروں کی طرح ڈیلی ویجس مانگتے ہوئے تھک جاتا تھا۔‘‘

’’ڈیلی ویجس‘‘

’’ہاں۔۔۔‘‘

اسنیہہ فرائی مرغ کی ٹانگ چبا رہی تھی۔۔۔

’’میں اسے ڈیلی ویجس دیتا تھا۔‘‘

’’بحث مت کرو۔۔۔  گھر میں مہمان ہیں۔‘‘

’’نہیں۔۔۔  میں نے کہا۔۔۔  میں اسے ڈیلی ویجس۔۔۔ ‘‘

’’بحث کو طول مت دو۔‘‘

’’اس۔۔۔  اسنیہہ۔۔۔  تم اسے پاکٹ منی بھی کہہ سکتی تھی۔ کچھ بھی۔ اس نے اچھا کیا۔ آجکل ہر نوجوان کرتے ہیں۔ مگر یہ تمہارا ڈیلی ویجس کہنا۔۔۔ ‘‘

’’وہ ماچو مین میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ ‘‘

اسنیہہ نے دھیرے سے کہا۔ گھر میں مہمان ہیں۔

ریا نے بتایا تھا۔۔۔ کمپنی کا نام ہے بلیو برڈ۔۔۔

میرا بلڈ پریشر بڑھتا جا رہا تھا۔

’’ریا۔ یہ کون ہے۔ کون سا برڈ۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ ‘‘

’’نو۔۔۔ ‘‘ ریا سکتے میں تھی۔

’’برڈ۔۔۔ ‘‘  اسنیہہ کے ہاتھ کھاتے کھاتے رک گئے۔۔۔

بر۔۔۔ ڈ۔۔۔  ماچو مین کے، ایڈز کے مریض جیسے نچوڑے گئے چہرے پر ایک رنگ آیا۔۔۔  ایک گیا۔۔۔

’’یہ۔۔۔۔یہ آپ نے کیا کہا ڈیڈ؟‘‘

’’یہ کون ہے۔‘‘  میرے لہجے میں سختی تھی۔

’’مائی فرینڈ۔‘‘

’’رات کے دس بج رہے ہیں۔‘‘

’’بجتے ہوں گے۔۔۔ ‘‘

’’آج رات یہ۔۔۔ ‘‘

’’یہ یہیں رہے گا۔ میں نے بلایا ہے اسے۔‘‘

’’کہاں رہے گا۔۔۔ ‘‘

’’آب ویسلی۔ میرے کمرے میں۔‘‘

’’سنو۔۔۔  سنو، ‘‘  اسنیہہ کی آواز کی برف تھوڑی پگھلی تھی۔۔۔  دوردرشن کے لئے سیرئل بناتا ہے۔

’’مجھے لگا۔۔۔  وہ کیا کہتے ہیں۔۔۔  وہ جو گروپ ڈانس ہوتا ہے۔۔۔ ‘‘

ریا، ماچو مین کا ہاتھ پکڑے غصے میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔  جانے سے پہلے وہ ایک لمحے کے لئے رکی۔۔۔

میں سمجھی تھی۔۔۔  میرے گھر میں ایٹی کیٹس ہے۔۔۔  شرافت ہے۔۔۔  مہمانوں کا کیسااستقبال کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہوں گے۔۔۔  لیکن آپ لوگ شاید یہ سب بھول گئے۔۔۔ آئی ڈونٹ کیر۔۔۔  آپ کس زمانے میں رہتے ہیں۔ اور ہمیں کیا بنانا چاہتے ہیں۔۔۔  ہم بن نہیں سکتے۔۔۔  ہمیں بنانے کی کوشش مت کیجئے۔۔۔  Remember  آپ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔۔۔  کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔  آپ نہیں پیدا کرتے۔۔۔  نہ کرتے۔۔۔  کوئی نہ کوئی    wombکہیں نہ کہیں ہمیں بنانے اور دنیا میں پھینکنے کے لئے تیار ملتی۔۔۔  ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو نہیں لیتے۔۔۔  لیکن ڈیڈ۔۔۔  گھر کے مہمان کی بے عزتی کر کے آپ نے اچھا نہیں کیا۔ یہ ویلسی ہے۔ ویلسی۔‘‘

’’وے۔۔۔۔ لیس۔۔۔۔۔۔‘‘

’’نام دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ڈیڈ۔ ویلسی گوا سے آئے ہیں۔۔۔  دلی میں تین سال گذ ر گئے۔۔۔  کوئی نہیں۔۔۔  دوردرشن کے لئے یہ پروگرام بناتے ہیں۔ ہم ایک میوزک پروگرام کرنے جا رہے ہیں۔ اس لئے میں نے ویلسی کو روک لیا ہے۔

’’اپنے کمرے میں، رات کو۔۔۔ ؟‘‘

’’یس ڈیڈ۔ آئی ڈونٹ کیر۔‘‘

اس نے جوتے بجائے۔ ماچو مین ہوا میں لہرایا۔۔۔  میں نے غور کیا وہ مسلسل ہل رہا تھا۔ ریا سیڑھیوں سے اوپر چلی گئی تھی۔ میں گہرے سنّاٹے میں تھا۔

اسنیہہ کی نظر نیچی تھی۔۔۔

’’تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ‘‘

’’مجھے لگتا ہے۔۔۔ مجھے ایسا ہی کچھ کرنا چاہئے تھا۔‘‘ میں نے چمچہ پلیٹ میں زور سے ڈالا۔۔۔  ’’تم لوگوں نے اس گھر میں مجھے اجنبی بنا دیا ہے۔ اسنیہہ!  وقت تم نے کھو دیا ہے۔  یہ ماچو مین ہوا میں ہلتا ہوا،  تمہاری ریا کو لے کر غائب ہو جائے گا۔۔۔ ۔ مجھے برے لفظوں کے لئے روکو مت۔۔۔  جج ہوں دو ٹوک فیصلہ سناتا ہوں۔۔۔  اس آدمی کا اس گھر میں آنا تمہارے لئے، ریا کے لئے، اور میرے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔۔۔ ‘‘

میں اٹھ کھڑا ہوا۔

اسنیہہ کی نظریں ابھی بھی جھکی ہوئی تھیں۔

٭٭

 

’’تم پاگل ہو۔ پورے پاگل۔‘‘

اسنیہہ خود ہی طشت میں دو کافی کے بڑ ے بڑ ے  مگ لے کر آ گئی تھی۔ میں کمپیوٹر پر جھکا ہوا تھا۔

میں نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔

’’کافی پیو۔‘‘

اس نے کافی کا ایک مگ کمپیوٹر میز پر رکھ دیا۔۔۔  اس کے بعد اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔

’’آج جو تم نے کیا،  وہ سب کیا تھا۔‘‘

’’میں نے۔۔۔۔۔ کیا؟‘‘

’’ہاں تم نے۔۔۔  ڈرامہ۔۔۔ ‘‘

’’وہ سب ڈرامہ تھا۔۔۔ ‘‘

’’اسی لئے کہتی ہوں پورے پاگل ہو۔ ارے کیا ضرورت تھی۔ کوئی مہینے دو مہینے  رہنے تو نہیں آیا وہ۔۔۔!‘‘

’’میں اسے ایک لمحہ برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔ ‘‘

’’مگر کیوں ؟‘‘

’’تم میری فطرت جانتی ہو۔‘‘

’’فطرت کو بدلنا سیکھو۔ ریا بڑی ہو رہی ہے۔۔۔  ریا عام لڑکیوں میں سے    نہیں ہے۔‘‘

’’۔۔۔  تو؟ ‘‘

’’اڑ جائے گی۔‘‘

’’اڑنے دو۔‘‘

’’اڑ گئی توـ؟ تمہیں کوئی خطرہ نہیں۔۔۔ ؟‘‘

’’نا‘‘

’’جھوٹ بول رہے ہو۔ تب یہ جھوٹے سنسکار تم کو زیادہ یاد آئیں گے۔۔۔  ارے دونوں بچے جوان ہیں۔ شہر کی آب و ہوا میں پلے بڑے ہیں۔‘‘

’’شہر کی آب و ہوا میں پلنے بڑھنے کا مطلب میں بھی جانتا ہوں۔ رات گئے وہ ایک لڑکے کو لے کر آ جاتی ہے۔ اور کہتی ہے، وہ اسی کے روم میں رہے گا۔‘‘

’’ہاں۔ اسی کو تم   easily   بھی ڈائجسٹ کر سکتے تھے۔‘‘

’’اس عمر میں ڈائیجیشن پاور ختم ہو چکا ہے۔‘‘

’’تو بحال کرو۔‘‘

اسنیہہ کا لہجہ تحکمانہ تھا۔ ’’بچے اڑ رہے ہیں۔۔۔  اور ان کے اڑنے کے لئے تمہارا یہ آسمان چھوٹا پڑ گیا ہے۔۔۔  انہیں ان کی مرضی پر چھوڑ دو۔۔۔  مجھے دیکھو۔ میں ماں ہوں تم سے زیادہ مجھے ٹھیس لگنی چاہئے۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں۔ اس اڑان کا اگلا لمحہ کیا ہوسکتا ہے۔۔۔۔ سنو۔۔۔۔۔۔۔ شاید میں بھی ڈر گئی ہوں۔ ہاں۔ کافی پی چلے۔ کپ لے جاؤں۔۔۔  ‘‘

’’ٹھہرو‘‘

جاتے جاتے وہ ٹھہر گئی۔

’’یاد ہے۔ میں کہتا تھا۔ ایک عمر آتی ہے۔ جب ہم اپنی پرانی جین میں لوٹ جاتے ہیں۔ پری ہسٹارک ڈائناسور۔ یاد ہے ؟ ‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’مجھے لگتا ہے۔ تم بھی لوٹ رہی ہو۔‘‘

میں نے دوبارہ کمپیوٹر پر نظر جمادی تھیں۔

٭٭

 

بارہ بج کر پانچ منٹ پر موبائل کی گھنٹی بجی۔

میں نے نمبر چیک کیا۔ مسکرایا۔۔۔  یہ نکھل تھا۔

’’سوئے نہیں۔۔۔ ؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’کیوں۔۔۔ ؟‘

’’تمہیں یاد کر رہا تھا۔۔۔  یار تم نے پاگل کر دیا ہے۔ یاد ہے تم نے میٹکرس کے بارے میں بتایا تھا۔ فی۔یو۔۔۔  جو خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔۔۔ مجھے لگتا ہے، ہم سب کے ساتھ ایسا ہی تھا۔۔۔  مگر، ہم اصل میں تھے کیا۔ سلیپ واکر۔۔۔  نیند میں چل کر کسی بجلی کے پول سے ٹکرا جانے والے۔

’’آ، جا۔۔۔ ‘‘

’’نہیں یار۔۔۔   سوچا۔ تمہیں ہی بور کروں۔‘‘ نکھل نے لمبی سانس لی۔ ’’پریشان ہوں۔ لگتا ہے سائیکریٹس کی ضرورت پڑے گی۔‘‘

’’تم اور پریشان۔۔۔ ؟‘‘

’’یہی تو۔۔۔۔۔۔۔‘‘ نکھل ہنس رہا تھا۔   Panic disorderکا شکار ہو رہا ہوں۔ زیادہ سوچتا ہوں تو سر پھٹنے لگتا ہے۔ بدن میں خون کا دوران اچانک ہی بند ہو جاتا ہے۔‘‘

’’پھر ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے۔ میرا مطلب سائیکرٹیس ؟ ‘‘

’’گیا تھا۔‘‘

’’پھر۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’پھر کیا۔ یہ سالے سنتے کہاں ہیں۔ بس ایک ہی طرح سب کو ٹھگنے والا رویہ ہوتا ہے۔ وہی تھوڑی بہت ’ناچھین‘، دوائیاں ہوتی ہیں۔۔۔  جسے کھلا کر یہ ہم جیسوں کو بیوقوف  بنا دیتے ہیں۔‘‘

مجھے ہنسی آئی۔ ’’نکھل، تیرا پینک ڈس آرڈر میں سمجھ رہا ہوں۔ بہت دنوں سے کوئی ’پٹی‘ نہیں شاید؟‘‘

وہ زور سے ہنسا۔۔۔ ’’ پٹی نہیں۔ سچ کہتا ہے۔ کم بخت۔ بڑھتی عمر کا سب سے بڑا روگ یہ ہے کہ عورتیں بھاگ جاتی ہیں۔‘‘

’’ سدھر جا۔ سدھر جا۔‘‘

’’اب کیا سدھروں گا۔ تو سدھر۔ ’کیس ‘کا کیا ہوا؟‘‘

’’ابھی فائل کی اسٹڈی کر رہا ہوں۔‘‘

’’وہ واگلے بتا رہا تھا۔ تو’ ملزم‘ سے ملنے گیا تھا؟‘‘

’’ملزم نہیں بچہ۔‘‘ مجھے غصہ آیا۔۔۔  ’’تو ڈیفنس لائر ہو کر۔۔۔ ‘‘

’’جو غلطی کرے ملزم ہے۔۔۔۔۔۔ اپرادھ ہوا ہے اس سے۔ خبر زیادہ لیک کر گئی تو پتہ ہے کیا ہو گا؟‘‘

’’اسی لئے۔‘‘

’’اچھا۔ چل۔۔۔  کل آؤں گا۔ تو بھی لاک اَپ سے نکل۔ بھابھی تیرا انتظار کر رہی ہوں گی۔‘‘

فون کٹ گیا تھا۔

مجھے لگا۔ ہم سب کو کسی نہ کسی  Panic نے جکڑ کر ڈس آرڈر کر رکھا ہے۔

دوسرے دن مجھے روی کنچن سے پھر ملنا تھا۔

میں نے کمپیوٹر آف کر دیا۔

٭٭

 

صبح ہو گئی تھی۔۔۔

باہر چڑیوں کی چہچہاہٹ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ نکھل کی آواز آئی۔ میں نے جلدی جلدی گاؤن پہنا۔ رین ڈے کے جوتے ڈالے۔۔۔ اور تیز تیز سیڑھیاں اترتا نیچے آ گیا۔

’’آئیے جج صاحب۔‘‘

نکھل کے چہرے پر ابھی بھی بوجھل بوجھل بادل منڈرا رہے تھے۔۔۔

ہم دونوں کافی دور تک ساتھ چلے۔ مگر نکھل خاموش ہی رہا۔ فرینڈس عورتوں کو دیکھ کر اس نے زبردستی کی مسکراہٹ لانے کی کوشش کی۔ مگر عام دنوں کی طرح اس کے چہرے پر کوئی خوشگوار تأثر نہیں تھا۔۔۔

میں نے بات بدلی۔

’’میرے گھر  ایک جانور آیا ہوا ہے۔‘‘

’’ویلسی۔۔۔۔۔۔‘‘

’’تم جانتے ہو۔‘‘

’’بٹیا نے فون پر بتایا ‘‘

’’اچھا ریا تم سے فون پر بات کرتی ہے۔‘‘

نکھل کا موڈ ذرا سا بہتر ہوا۔۔۔  انکل ہوں۔ کل تم نے کیا ناٹک کیا تھا۔ گھر پر۔

’’ناٹک نہیں یار۔‘‘

’’سب ناٹک ہے۔‘‘

نکھل ناراض تھا۔۔۔  پتہ ہے ریا کی عمر کتنی ہے۔۔۔  جج ہو۔ بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہی عمر بچوں کو باغی بناتی ہے۔ یو نو۔۔۔  وہ کافی غصے میں تھی۔ مگر۔۔۔ ‘‘

’’مگر کیا۔۔۔ ‘‘

’’ویلسی سمجھدار ہے۔‘‘

مجھے جھٹکا لگا تھا۔

’’یعنی تم کہہ رہے ہو کہ۔۔۔ ‘‘

’’تمہارا ماچو مین۔ تم کئی بار ایسے لوگوں کے لئے اس طرح کے بھدے کمنٹس پاس کر چکے ہو۔ بچے، بیس بال کی ٹوپی یا الٹی ٹوپی پہن کر الٹے نہیں ہو جاتے۔۔۔  تمہاری انگلیوں کی ایک ذرا سی جنبش اس الٹے پن کو سیدھا کر سکتی ہے۔۔۔  مگر تم لوگ۔۔۔ ‘‘

نکھل نے آگے بڑھتی ہوئی مسز ورما کے ہاتھوں کو تھاما۔۔۔  پیشانی پر لگایا۔ چوما۔ پھر آگے بڑھا۔۔۔

’’ممکن تھا کہ تمہاری ڈانٹ پھٹکار سن کر ویلسی چلا جاتا۔۔۔  مگر ویلسی تمہاری طرح اموشنل نہیں ہے۔۔۔ اسے ایک جاب ملا تھا۔۔۔  اسے اپنے جاب کو ذمہ داری سے انجام دینا تھا۔۔۔  اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے اسے ریا کا ساتھ چاہئے تھا۔ بس وہ ریا کو یہی سمجھا رہا تھا۔۔۔ ‘‘

’’تو تم ان دونوں سے مل بھی چکے ہو۔‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’کہاں۔‘‘

’’تمہارے آنے سے پہلے۔۔۔  وہ دونوں ابھی ابھی جوگنگ پر گئے ہیں۔‘‘

نکھل پھر ٹھہرا۔۔۔ ’’ کبھی کبھی سوچتا ہوں۔ باہر کی  ’ذمہ داریاں ‘ ہم کچھ زیادہ ہی دیکھتے ہیں۔۔۔  شاید اسی لئے اپنا آپ یا اپنا گھر نہیں دیکھ پاتے۔۔۔  اب تم خود کو ہی لے لو۔

اس کیس نے تمہیں کتنا پریشان کر دیا ہے۔ جب کہ قاعدے سے دیکھو تو تمہارے پاس اپنا بھی گھر ہے۔۔۔  اور تمہارے اپنے گھر میں بھی دیکھنے کے لئے دو،  دو۔ آئی مین۔ میرے جج دوست تم سجھ رہے ہو نا۔۔۔‘‘

’’ہاں میں سب سمجھ رہا ہوں۔ میں نے ٹھنڈی سانس بھری۔۔۔ ’’اور مائی ڈیر فرینڈ۔ جو نہیں سمجھ پاتا ہوں۔ وہ تم لوگ سمجھا دیتے ہو۔ کیوں میں ٹھیک ہوں نا۔‘‘

’’کہاں یار۔ تم نے دل پر لیا ہے۔‘‘

’’بالکل نہیں۔‘‘

’’لے لیا ہے یار۔‘‘  نکھل اس بار پورے وجود کے ساتھ مسکرایا تھا۔۔۔  تمہیں یاد دلاؤں۔ میرا بھی ایک گھر ہے۔ اور کبھی کبھی کیا۔۔۔ اکثر میں اپنے گھر سے آؤٹ کاسٹ کر دیا جاتا ہوں۔ جانتے ہو کیوں۔۔۔ ؟   وہی، نہیں سمجھ پانے کا پھیر۔۔۔  گھر میں ہم کتنے چھوٹے ہو جاتے ہیں سنیل۔ کیا نہیں۔۔۔ ؟  چھوٹے اور بے بس اور لاچار۔۔۔ کیا نہیں ؟ اور ظالم!  ہمارا مقدمہ لڑنے کو قانون کی کتابیں تک تیار نہیں ہوتیں۔ کہ سالے یہ تمہارا ذاتی معاملہ ہے۔۔۔  تمہیں سلجھاؤ۔

’’ڈالی کیسی ہے؟‘‘

’’اوہ ڈالی۔۔۔۔۔ مائی ڈیر لولی ڈالی۔۔۔۔۔ کیسی ہو گی۔ سوچ کر بتاؤں گا۔۔۔ ‘‘

نکھل نے کندھے جھٹکے۔ جاتی ہوئی عورت کو دیکھ کر چلایا۔’’ مسز اڈوانی۔ پرسوں آپ کی زندگی میں ایک شاندار دن آنے والا ہے۔ یہ میرا جیوتش کہتا ہے دیکھ لیجئے گا۔‘‘

’’پرسوں، پرسوں کیا ہے۔‘‘

’’پرسوں۔۔۔  پرسوں میں آپ کے گھر آ رہا ہوں۔  چائے پینے۔‘‘

وہ زور سے ہنسا۔۔۔  پھر میرے کندھے کو ہلایا۔

آہستہ سے بولا۔

اب گھر چلو۔ ورنہ مسز اڈوانی اس جوک کو سچ مان کر ابھی اپنے ساتھ ہمیں گھر لے جائیں گی۔ گو، فاسٹ ہوے۔۔۔

ہم تیز تیز گھر کی طرف بڑھنے لگے تھے۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۳)

 

ایک انتہائی بوجھل اور پاگل کر دینے والے ماحول میں بھی گجرات زندہ رہ سکتا ہے۔ مجھے پہلے سے علم میں نہ تھا۔۔۔  لیکن شاید نا انصافیوں کے اپنے تقاضے ہیں۔۔۔  دیکھنے والوں کی اپنی اپنی آنکھیں ہیں۔۔۔  تقسیم کا المیہ ہو۔ یا گجرات۔ گودھرا کا سچ ہو یا مہاجر پنڈتوں کا درد۔ کشمیر کا آتنک واد ہو۔ یالہولہان بے قصور معصوموں کی آہ۔ کون سا درد، کس کا دامن تھامے گا، کون کہہ سکتا ہے۔۔۔  سونی پت کے اس بیابان، اجاڑ ماحول میں یہ درد اس طرح بھی جاگے گا۔ اپنے ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے دوران میں نے بالکل ہی نہیں سوچا تھا۔ میں تو صرف اس بچے سے ملنے آیا تھا۔۔۔

ایک نئی کہانی۔۔۔

نئی اخلاقیات۔۔۔

لنگدوہ کو ریٹائرمنٹ کے بعد کتابیں لکھنے کیلئے پبلیشر مل گئے تھے۔۔۔  مجھے کھوجنے ہوں گے۔ فرق اتنا ہی تھا۔ لیکن میں قانونی نقطوں سے الگ کی منطق پر، اپنی اخلاقیات کا غلاف چڑھانا چاہتا تھا۔

 

یہ میری فرنانڈیس تھی۔۔۔  دور سے دیکھنے پر کسی چرچ کی سینئر نن کی طرح، اس کی گفتگو کا انداز چونکا دینے والا ہوتا۔۔۔  وہی حلیہ۔۔۔  ویسی ہی آنکھیں۔۔۔۔ مزاجاً سخت اور اکھڑ۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔

’’تم پھر آ گیا سر‘‘

وہ باہر گملوں میں پانی ڈال رہی تھی۔ ’’بیکار ہے سر کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ایسے ہی رہیں گے۔۔۔  سوکھے اور مرجھائے۔ جتنا بھی پانی ڈالو۔۔۔  آپ کو کیسا لگا پہلی بار۔ یہاں کوئی پانی بھی نہیں ڈالتا ہو گا۔ مگر کیاں بتاؤں سر۔ آپ دیکھ رہے ہیں نا۔۔۔  یہ کچھ جگہ کی فطرت ہے سر۔ پودوں کی نہیں۔۔۔  جگہ کی۔۔۔  کچھ بھی کر لو۔ کتنی بھی محنت۔ پودوں میں پھول نہیں آئیں گے۔ دیکھا سب بیکار۔‘‘

میری فرنانڈیس ہنس رہی تھی۔ ’’تم آیا اچھا لگا سر۔ جج کہاں آتا ہے۔ جج تو بس فیصلہ سنانے کو ہوتا ہے۔۔۔  ‘‘

’’سارے جج ایک طرح کے نہیں ہوتے‘‘

اس نے بات پلٹ دی۔’’ آپ ملے گا سر۔ ملنے آیا، نا۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں ‘‘

’’ابھی نہیں، ابھی ہم بات کرے گا۔‘‘ میری فرنانڈس مسکرایا۔ ’’میرے ساتھ ایک کپ چائے پیئے گا اچھا لگے گاسر۔‘‘

’’کیوں نہیں۔‘‘

’’اوہ‘‘

میری فرنانڈیس خوش ہو گئی۔ کسی کو آواز دے کر اس نے بالٹی مگ وغیرہ ہٹانے کا حکم دیا۔ پھر میرے ساتھ آفیسر چمبر کی طرف بڑھ گئی۔

٭٭

 

چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میری فرنانڈیس شروع ہو گئی۔

’’اب اس دنیا کا کچھ نہیں ہوسکتا سر۔ کوئی بھروسہ نہیں۔ اتّا سا بچہ۔ آپ دیکھئے اور سوچئے۔ کرائم کیا۔ کرائم بھی کیسا۔ ریپ۔ ساتھ پڑھنے والی ایک بچی کا۔ مائی گاڈ۔ ‘‘

اس نے صلیب کا نشان بنایا۔۔۔ ’’کیا انصاف ہو گا سر۔ اب کچھ انصاف ہو گا تو گاڈ کرے گا۔‘‘

میری فرنانڈیس نے دوبارہ صلیب بنایا۔’’ اس دنیا میں کیا کیا ہوتا ہے۔ سوچ کر جینا اچھا نہیں لگتا سر۔۔۔  اب گجرات دیکھئے۔  Enemy  ہو،   War  ہو یارائٹ  (Riot) آپ دیکھئے گا۔ سب سے پہلے جھونکا جاتا ہے یہ لیڈیز لوگ۔۔۔  سب سے پہلے جلتا ہے۔ سب سے پہلے اسی کا ریپ ہوتا ہے۔۔۔  وہ ظاہرہ شیاخ، صبوجی مرجا۔ آپ نے پڑھا۔۔۔  رائٹ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ چلتا رہا۔ کاہے کو ختم ہو گا ساب۔۔۔  اپنا لیڈیز ہے نا۔ جہاں رہے گا۔ وہاں ریپ ہو گا۔۔۔  لوٹو۔ کون ریلیجن یہ سب سکھاتا ہے سر۔۔۔  میں نے پڑھا صاحب۔۔۔  سب کچھ پیپر میں۔ ریپ ہوا۔ ایک ایک لیڈیز پر ’جئے شری رام‘ کرتے بھکت ٹوٹ پڑے۔ ایک ایک پر کئی کئی۔ میں نے پڑھا سر۔۔۔  آپ نے بھی پڑھا ہو گا۔ ریپ کیا۔۔۔  پھر زندہ جلایا۔۔۔  روڈ پر ننگا گھمایا۔ ان کے باڈی پارٹس کاٹ لیا۔۔۔  ای سب اچھا لگتا ہے سر۔ ایک سیویلائز کنٹری میں یہ سب ہوتا۔۔۔  کوئی ریکارڈ نہیں سر۔۔۔  کتنے مرے کتنا زندہ جلایا گیا۔

میری فرنانڈیس نے گہرا سانس لیا۔ آنکھیں بند کیں۔۔۔  صلیب کا نشان بنایا۔۔۔

’’جیسس سب کو دیکھتا سر۔ میں نے پڑھا۔ففٹی پرسنٹ سے زیادہ مسلم لیذیز کے ساتھ بلاتکار ہوا۔۔۔  جس پر ان کا جان گیا۔۔۔  اور جو زندہ ہے کون سا پرسٹیج پر دھبہ زیادہ ہے۔ آپ بولو۔ انصاف کیسے ہو گا۔۔۔ ؟ کون کرے گا۔۔۔ ؟  یہ بچہ۔۔۔ ! آپ اسے دیکھنے دوسری بار آیا۔ میں اسے دیکھتا تو ظاہرہ شاہ یاد آتا۔۔۔  اور وہ سب لیڈیز۔ جن کے ساتھ رلیجین کے نام پر، رلیجین کے لئے ریپ کیا گیا۔ مجھے لگتا یہ بچہ بھی ان میں سے ایک ہے۔۔۔  میں اسے کہاں لو (Love) دونگی صاحب۔۔۔  اس نے ریپ کیا ہے۔۔۔  میں اس سے لو نہیں کر سکتی۔۔۔ نا۔۔۔ ‘‘

’’مس میری فرنانڈیس۔۔۔ ‘‘

میں گہرے سکتے میں تھا۔۔۔  آپ یہ سب۔ نہیں۔۔۔ مجھے معاف کیجئے گا۔ یہاں کا ماحول۔ یہاں کے لوگ۔ مجھے دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہاں اخباروں کے اجالے بھی آتے ہوں گے۔ ‘‘

’’ہو۔۔۔  ہو۔۔۔ ‘‘میری فرنانڈیس نے ٹھہاکہ لگایا۔

آپ کیا باتیں کرتا سر۔ اخبار نہیں پڑھا۔ مطلب جیا نہیں۔۔۔  یہ جینا بھی کیسا جینا ہے للّو سر یہ ایک گانے میں پڑھا تھا۔

’’آپ گجرات پر کچھ کہہ رہی تھیں۔‘‘

ہاں۔ میری فرنانڈیس کا لہجہ ایک بار پھر اکھڑ گیا تھا۔۔۔  آپ نیائے کو آیا۔ نیائے کی مدد کرنے۔۔۔  پر نیائے کہاں سر ؟ گودھرا کے بعد ریٹ ہوئے۔۔۔  جانچ کتنی آگے بڑھا۔ کورٹ نے کیا سنوائی کیا۔۔۔  سب کوشچن مارک۔۔۔  بیسٹ بیکری کو دیکھو سر۔ وہ ظاہرہ شیاخ نے بیان دیا۔ کیا ہوا۔ مودی غصہ۔۔۔  پولس ناراض۔۔۔  گھر والے دشمن۔۔۔  اپنے سگے سب بیان بدلتے رہے۔۔۔  کیوں سر۔ جینا سب کو ہے۔۔۔  ایک رلیجین ہے۔ جس کے سر پر ترشول ہے۔۔۔  ظاہرہ شیاخ کیا بولا۔ پہلے جو کچھ کہا وہ جھوٹ۔۔۔  جان سے مارنے کو دھمکایا گیا۔۔۔  ہیومین رائٹس کمیشن نے ایک ٹیم بھیجا۔۔۔  بروڈرہ۔ بولا اب یہ معاملہ سی۔بی۔آئی جانچ کرے گا۔۔۔  یہ بھی بولا۔۔۔ ان معاملوں کی جانچ گجرات کے باہر ہو۔۔۔  لیکن کیا ہوا سر۔ کیا نیائے ملا۔ ٹائم گزرا۔ مسلمانوں کو دھمکی دیا گیا۔ رہنا گجرات میں ہے۔ زندہ رہنا ہے تو۔۔۔  کمیشن اور میڈیا سے بچیں۔۔۔  ہندوتو کا برانڈ مضبوط ہوا۔۔۔  کیوں صاحب، مسلمان چھوکرا، چھوکری، ڈرے گا نہیں توکہاں جائے گا۔۔۔ گجرات میں رہنا ہے تو ڈر کر رہنا ہو گا۔۔۔  مسلمان جانتا۔۔۔  ایڈمنسٹریشن، پولس، سب ان کا   Enemy  ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کاکوئی بھی ڈیفنس لائر بننے کو تیار نہیں۔۔۔   بولو سر کیسے ہو گا ٹرائیل۔۔۔   کورٹ میں کیا نیائے ہو گا۔۔۔  گواہوں کو دھمکی ملا۔۔۔  شکایت واپس لو۔ پہلے بیان دینے والے گواہ اپنی بات سے بدل جائیں۔۔۔ کئی سے بدلے گا سر۔۔۔  بدلنا پڑا۔۔۔  مجبوری۔۔۔  اس سے مائنریٹیز کو انصاف کیسے ملے گا صاحب۔۔۔  ہم تو اور بھی مائنریٹی میں ہے۔۔۔   یا د ہے سر۔۔۔  ظاہرہ کا ایک بہن بولا۔۔۔  وہ آدمی بھیجتا۔۔۔  پیسہ بھیجتا۔۔۔  بولتا کورٹ کا چکر نہیں لگنا چاہئے۔ کیوں سر۔

’’تم۔۔۔ تم ٹھیک کہتی ہو میری فرنانڈیس۔‘‘ مجھے اپنی آواز کسی گہرے کنویں سے اترکر محسوس ہوئی۔۔۔  لیکن ابھی انصاف کو مردہ مت سمجھو۔ انصاف ہو گا۔ قانون کی ایک ذرا سی روشنی۔۔۔۔ثبوت ملے گا۔ دھند چھٹے گی۔۔۔  مجھے احساس ہے۔ راجیہ سرکار نے گواہوں پر دباؤ ڈالا۔اور مظلوموں کو انصاف سے محروم رکھا۔ گواہوں کے بیان سے بھی ظاہر ہے کہ راجیہ سرکار نے اس سارے معاملہ میں ایمانداری نہیں برتی۔ لیکن اب سیدھا علاج یہ ہے کہ نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف راجیہ سرکار ہائی کورٹ میں اپیل کرے۔۔۔  یا پیٹریٹ پکچھ اپیل کرے۔۔۔  ہائی کورٹ اس معاملے میں کچھ سینئر ایڈوکیٹ کی مدد لے۔ اور انہیں victimکی طرف سے مقدمہ لڑنے کا حکم دے۔۔۔  قانوناً عدالتوں کا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپیل یاچیکا کی سنوائی کے دوران ستائے گئے لوگوں کے بیان کو ثبوت مان کر اپنی سنوائی کر سکتا ہے۔۔۔   یا پھر سیدھے سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سنوائی کے لئے عرضی ڈالی جا سکتی ہے۔۔۔  اس لئے میری فرنانڈس۔۔۔  قانون ہمارے ہاتھ میں بھی ہوتا ہے۔ اور ہاتھ سے باہر بھی۔۔۔  قانون ہماری حمایت میں بھی کھڑا ہے۔۔۔  مخالفت میں بھی دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اپرادھی کون ہے۔۔۔  بے قصور کون ہے۔۔۔   اور راجیہ سرکار کس کو حمایت یا مخالفت میں ہے۔۔۔  ’سرتال‘ کا تانڈو، زور پکڑتا ہے، تبھی راجیہ سرکار کے ہوش اڑتے ہیں۔ اس لئے۔۔۔  قانون ہے۔۔۔ کچھ لوگوں کے، اپنی جیب میں ڈالنے کے باوجود۔۔۔   نیائے ہے۔۔۔  بس نیائے دینے والے ہاتھ چاہئیں۔۔۔

میری فرنانڈس نے میری آنکھوں پر جھانکا۔۔۔  سر چھوٹی منھ بڑی بات۔ اس معاملے میں آپ کس کا پکچھ لے گا۔ لڑکی کا یا اس اپرادھی کا۔۔۔ ؟

’’اپرادھی نہیں۔ میری فرنانڈس۔‘‘

میں نے لفظوں کو چبایا۔۔۔  اپرادھی نہیں۔ آپ اخبار پڑھتے ہیں۔۔۔  اس دنیا کی پل پل کی خبر رکھتے ہیں۔۔  اس لئے آپ کو سمجھایا جا سکتا ہے۔۔  اپرادھی نہیں۔۔   ناٹ ایٹ آل۔ ایک چھوٹا سا بچہ  بس۔ دراصل میں اس بچے کو سمجھنا چاہتا ہوں۔

’’اوہ۔ میں تو بھول گیا۔‘‘

۔۔۔   میری فرنانڈس کو جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔ ’’ساری سر۔ گجرات کی باتوں میں، میں تو بھول ہی گیا۔ پر کیا بھول گیا۔۔  گجرات کچھ بھولنے کہاں دیتا ہے؟ ’’ہمارا بھی ایک دوست تھا۔ مسلمان۔ خیر چھوڑیے۔۔‘‘

وہ اپنی خشک آنکھوں پر، اپنے رکھڑے، بھدّے ہاتھوں کو لے گئی۔۔۔  کیا کوئی آنسو کا قطرہ تھا۔۔۔   پتہ نہیں۔۔۔  اس نے دھیرے سے دوبارہ آنکھوں کو ملا۔ پھر کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’چلیے۔‘‘

چلتے چلتے اس نے بتانا شروع کیا۔

’’آج اس نے ناشتے کی دال پھینک دی۔ روم  بوائے سے چادر کولے کر الجھ گیا۔۔۔   وارڈن سے دو دو ہاتھ ہوا۔ وہ پورا مینٹل ہے۔ کرمنل۔ چھوٹی عمر میں،  کوئی کوئی بچہ نکل جاتا سر۔۔۔   دیکھتا نہیں۔۔۔   آپ کو کیسے گھور کر دیکھتا ہے۔‘‘

’’میں نے غور نہیں کیا۔ آج غور کروں گا۔۔۔   مجھے دیر ہو رہی ہے  میری فرنانڈس۔‘‘

’’اوہ۔۔۔  یس۔۔۔ ‘‘

مجھے لے کر اس بار وہ بچے کے روم کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔

٭٭

 

جس وقت ہم اس کے کمرے کی طرف بڑھے،  وہ اپنی سے زیادہ عمر کے ایک بچے کو دھکا دے رہا تھا۔ بچہ ہماری آواز سن کر پلٹا۔۔۔   اور تیزی سے بھاگ کھڑا ہوا۔

دیکھا،  میری فرنانڈیس کے ہونٹوں پر تلخی تھی۔۔۔  کرمنل ٹنڈینسی۔۔۔   مار دھاڑ۔ یہی کرتا ہے۔۔۔

میں نے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔۔۔  ’’شی۔۔۔ ‘‘

اس نے غصے میں کرسی کھینچی۔۔۔    دوسری طرف منھ کر کے بیٹھ گیا۔۔۔

میری فرنانڈیس غصے میں بچے کی طرف بڑھی۔۔۔  اس بار اس نے میری موجودگی کی بھی پرواہ نہیں کی۔

’’رابن کو دھکا کیوں دیا۔۔۔ ؟ ‘‘

بچہ چپ تھا۔

’’کیوں دیا۔۔۔ ‘‘

بچہ اس بار بھی چپ تھا۔

’’کیوں دیا۔۔۔ ؟‘‘

اف۔۔۔   مائی گاڈ۔۔۔   اتنی سرد آواز۔۔۔   میں نے محسوس کیا۔۔۔   میری فرنانڈس اپنے غصے کو اچانک کسی برفیلے کمرے میں لے گئی تھی۔ انتہائی سردی سے ٹھٹھرتی آواز۔۔۔  مگر اس آواز میں بلا کی نفرت کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔۔۔

’’آگے ایسا نہیں چلے گا۔  معلوم،  تم نے کرائم کیا ہے۔ بچے کو دھکا دیا۔ یہاں یہ سب نہیں چلے گا۔‘‘

’’میری۔۔۔ مس میری فرنانڈیس‘‘

میں بچے کے پاس ٹہلتا ہوا چلا آیا۔

پتہ نہیں کیا بات تھی۔ بچہ مجھ سے چڑھا بیٹھا تھا۔۔۔  مجھے دیکھتے ہی اس کی بھنویں تن گئی تھیں۔۔۔

میں اس پر جھکا۔

’’مجھے دیکھا ہے۔‘‘

’’ہاں ‘‘

’’کہاں ‘‘

بچہ چپ رہا۔

’’کورٹ میں۔۔۔  ‘‘

بچہ پھر چپ رہا۔

’’میں ایک پولس والا ہوں۔۔۔ ؟‘‘

’’ہوں ‘‘

بچے نے اس بار بے رحمی سے میری طرف دیکھا۔

’’ پولس والے بدمعاش ہوتے ہیں۔‘‘

’’ہوں ‘‘

’’مارتے ہیں۔۔۔ ؟‘‘

’’ہوں ‘‘

’’سب کو مارتے ہیں۔۔۔ ؟‘‘

’’ہوں ‘‘

’’پیٹتے ہیں۔۔۔  ؟‘‘

’’ہوں ‘‘

’’تمہیں مارا ہے۔۔۔  ؟‘‘

’’ہوں ‘‘

’’اوہ‘‘

میں نے گردن سیدھی کی۔۔۔   میری فرنانڈس کی آنکھوں میں جھانکا۔ پھر بچے کی طرف مڑا۔۔۔

’’لیکن میں تو پولس والا نہیں ہوں۔‘‘

بچے نے اس بار اپنی آنکھوں کی نفرت کو کچھ کم کیا۔غور سے میری طرف دیکھا۔۔۔

’’مجھے کہاں دیکھا ہے۔۔۔ ؟‘‘

بچے کو اپنی یادداشت پر کچھ زیادہ ہی زور دینا پڑرہا تھا۔۔۔

’’خیر چھوڑو۔ میں پولس والا نہیں ہوں۔‘‘

’’ہوں ‘‘

بچہ مطمئن تھا۔

’’ دو دن پہلے بھی آیا تھا۔‘‘

’’ہوں۔‘‘

’’کیوں آیا، تم نے جاننے کی کوشش نہیں کی۔‘‘

’’ہوں ‘‘

’’میں بتاتا ہوں۔ مجھے تم اچھے لگے۔ کوئی کوئی پھول اچھا لگتا ہے۔ کوئی کوئی فلم۔۔۔  کوئی کوئی کارٹون شو۔۔۔ ‘‘

رومی کنچن نے چہرہ گھما لیا تھا۔ اب وہ میرے چہرے کی سختی پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔  اس کے چہرے پر تیزی سے ایک رنگ آ رہا تھا۔۔۔  جا رہا تھا۔۔۔  جیسے وہ اپنے آپ کو کسی بڑے شکاری کے درمیان پھنسا ہوا پا رہا ہو۔۔۔

میں نے پھر اپنی مہرے چلے۔

’’غصہ ہو۔‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’یہاں دل نہیں لگتا۔۔۔  ؟‘‘

’’ہوں ‘‘

’’ان سیـ۔۔۔  ؟ ‘‘  میں نے میری فرنانڈیس کی طرف اشارہ کیا۔

’’ہوں ‘‘

اس کی آنکھوں میں میری فرنانڈیس کے لئے بے پناہ نفرت موجود تھی۔

’’آخر کس بات سے غصہ ہو؟‘‘

اس نے منھ گھما لیا۔۔۔  اس نے میری گفتگو کو ابھی بھی ذہنی طور پر کوئی سازش تصور کر رہا ہو۔

’’بولو گے نہیں تو کوئی سمجھے گا کیسے۔‘‘

اس نے جواب نہیں دیا۔

میری فرنانڈس نے ہونٹ کھولنا چاہا۔۔۔  میں نے اشارہ سے منع کر دیا۔۔۔

’’سنو۔ تم جانتے ہو نا۔ تمہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے۔ میری جگہ اگر پولیس والے آ گئے تو۔۔۔۔۔۔؟‘‘

اب میں نے ترپ کا پتہ استعمال کیا۔۔۔  اور ایکدم سے چونک پڑا۔۔۔

بچہ پوری قوت سے چیخا تھا۔

’’کیا کروں۔‘‘

اس نے کرسی زور سے’ پٹکی‘۔۔۔   اٹھ کھڑا ہوا۔

میری فرنانڈیس چیخی۔۔۔ ’’ بی ہیویر یور سیلف۔‘‘

میں نے پھر میری کو روکا۔۔۔   ’’ یہ واپس آ رہا ہے۔‘‘

میری نے میری آنکھوں میں جھانکا۔۔۔    اوہ یس۔۔۔

’’یہ واپس آ رہا ہے۔‘‘

بچہ آگے کھڑکی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔    وہ ابھی غصے میں تھا۔

’’کیا کروں۔ یہاں کے لوگ پاگل ہیں۔۔۔۔ مجھے یہاں سے نکال لے چلو۔‘‘

’’ریلیکس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریلیکس روی۔‘‘

وہ میری طرف مڑا۔ لیکن مڑنے سے پہلے اس نے ایک بار، زور سے اپنی مضبوط ٹانگ دیوار کی طرف غصے میں چلائی ۔۔۔

’’مجھے سب پتہ ہے۔۔۔  اتنا چھوٹا نہیں ہوں۔ یہ جیل ہے۔ بچوں کا جیل۔‘‘

’’تم چھوٹے تو واقعی نہیں ہو۔‘‘  میری فرنانڈیس نے غصہ کا اظہار کیا۔

’’یہ تم سے کس نے کہا کہ یہ جیل ہے۔‘‘

’’سب کہتے ہیں۔‘‘

’’سب کون۔۔۔ ؟‘‘

’’وہ جو کھانا لے کر آتے ہیں۔ سوئپ کیپر۔ اور دین دیال۔ ‘‘

’’دین دیال  ؟ ‘‘ میں نے میری کی طرف مڑ کر دیکھا۔

’’کھانا بناتا ہے۔‘‘

’’اوہ‘‘

میں روی کی طرف مڑا۔۔۔

’’سب جھوٹ کہتے ہیں۔۔۔   دیکھو۔ کیا یہ جیل ہے۔ جیل میں تم آسانی سے گھوم سکتے تھے۔ چیخ سکتے تھے۔ ہوا پانی لے سکتے تھے۔ یہاں تو تم آزاد ہو۔ ‘‘

’’نہیں ‘‘

’’گھر جانا چاہتے ہو؟ ‘‘

اس بار وہ خاموش رہا۔ میں نے گھر کے معاملے پر زیادہ زور دینا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔

’’میں جانتا ہوں روی۔ تم نے۔۔۔   تم سمجھ رہے ہو نا۔۔۔    تم نے کچھ نہیں  کیا ہے۔ سب کچھ۔ نادانی میں۔۔۔ سمجھ رہے ہو نا۔ لیکن ایک گھٹنا گھٹ چکی ہے۔۔۔  سمجھ رہے ہو نا۔۔۔   لیکن۔ ڈونٹ وری۔۔۔  میں ہوں نا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔  اچھی باتیں سوچو۔ بری باتیں من سے سب جھٹک دو۔۔۔  کیا ہوا۔ اور کیا نہیں ہونا چاہئے۔۔۔  سب بھول جاؤ۔ فارگیٹ اٹ۔۔۔  جب اچھی باتیں سوچوگے تو بری باتوں کی دھند خود چھٹنے لگے گی۔ میرا مطلب ہے۔۔۔  تم سمجھ رہے ہو نا۔‘‘

میں ایک لمحے کو رکا۔۔۔

روی میری طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔

میں نے گلہ کھکھارا۔

’’تمہیں یہاں کیا برا لگتا ہے۔۔۔ ؟ ‘‘

وہ چپ رہا۔

’’بتاؤ گے نہیں تو معلوم کیسے ہو گا۔۔۔  ؟‘‘

وہ اس بار بھی چپ رہا۔ جیسے میری گفتگو سے کوئی نتیجہ نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

تمہیں کیا چاہئے۔بتاؤ نا۔

اس بار خلافِ توقع اس کی آواز پھر چیخ میں بدل گئی تھی

’’کیا بتاؤں۔ یہاں تو ٹی۔وی بھی نہیں ہے۔‘‘

’’ٹی۔ وی؟‘‘

’’ہاں۔ میں پاگل ہو جاؤں گا یہاں۔‘‘

’’تو تمہیں ٹی۔وی چاہئے۔‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’تمہیں سیریل اچھے لگتے ہیں۔‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’پھر ٹی۔وی میں کیا دیکھنا چاہتے ہو‘‘

وہ کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ میں نے جائزہ لیا۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی دونوں پاؤں چلاتا ہوا گہرے سناٹے میں ڈوب گیا تھا۔۔۔

’’تمہیں سیریل اچھے نہیں لگتے۔ تم پھر بھی ٹی۔وی دیکھنا چاہتے ہو۔۔۔ ؟‘‘

وہ چپ رہا۔

’’کیا دیکھو گے۔ کارٹون شو؟‘‘

وہ اس بار بھی چپ رہا۔۔۔

میں نے کیس فائل میں اس کی پسند کے بارے میں پڑھ رکھا تھا۔۔۔   پھر بھی میں جواب اس کے منھ سے سننا چاہتا تھا۔۔۔

’’آخر تم ٹی۔وی پر کیا دیکھنا چاہو گے۔‘‘

’’ارے وہی۔ پوکے مان‘‘

اس کے لہجے میں سدھے ہوئے تیر کی تیزی تھی۔۔۔

تیر چھوٹا۔۔   نشانے پر بیٹھا۔۔  اور چیخ Echoبن کر ماحول میں گونجتی چلی گئی۔

پو۔۔۔۔۔۔کے۔۔۔۔۔۔ما۔۔۔۔۔ما۔۔۔۔۔۔۔ن۔۔۔۔۔۔ن۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے میری فرنانڈیس کو اشارہ کیا۔۔۔   ’’جب تک روی یہاں ہے۔ اس کے کمرے میں ایک ٹی۔وی ہونا چاہئے۔ ‘‘

روی نے دھیرے سے میری طرف ہاتھ بڑھا یا۔

’’تھینکس۔۔۔۔‘‘

اس کی ہتھیلیاں بھری بھری اور جوان انسانوں کی طرح گرم تھیں۔ اور ان میں جذبات کی حدت اور نرمی آسانی سے  محسوس کی جا سکتی تھی۔

٭٭

 

اس دن کمپیوٹر میموری میں، میں نے اپنے احساس کو فیڈ کیا۔۔۔

میں اس بچے سے دوبارہ ملا۔

پہلی بار میں نے کسی بچے کو اپنے اندر اتارنا چاہا۔

سوچتا ہوں۔ ایسا کبھی ریا کے ساتھ کیوں نہیں کیا۔۔۔

اور نتن کے ساتھ۔

ہم بہت کچھ باہر کر لیتے ہیں۔

باہر۔۔۔۔۔۔۔

باہر اتنا کچھ کر لیتے ہیں کہ۔۔۔۔

پھر گھر کے لئے کچھ نہیں بچتا۔

بچتا ہے۔۔۔۔۔۔

صرف ایک   Guilt

لیکن کیا  Guilt  بچوں کو دکھایا جا سکتا ہے۔۔۔  ؟

اور پتنی کو۔۔۔ ؟

ہمیشہ کی طرح ڈائری کے آدھے ادھورے پنے میں نے ان سطور کو Save کیا اور کمپیوٹر آف کر دیا۔۔۔   آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔ وہی چمکیلی  سی دھند۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۴)

 

 

گھر واپس آتے ہی و یسلی ایک بار پھر ٹکرا گیا تھا۔۔۔   کم بخت بندر کہیں کا۔ وہ شاید ریا کو کوئی سین سمجھا رہا تھا۔ میں نے کھنکھیوں سے دیکھا۔۔۔   میری گاڑی کو دیکھ کر ایک لمحے کو ٹھٹھک گیا تھا۔ پھر میری ان دیکھی کرتے ہوئے دونوں گفتگو میں لگ گئے تھے۔۔۔

’’ابھی آیا‘‘

ویسلی تیز تیز چلتا ہوا میری طرف لپکا۔۔۔

’’گڈ آفٹر نون سر۔‘‘

’’گڈ آفٹر نون‘‘

’’ساری سر، آپ کو میری وجہ سے بُرا لگا۔۔۔   ‘‘

’’نو۔۔۔   ناٹ ایٹ آل۔۔۔   کس نے کہا‘‘

میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔

’’اوہ۔۔۔  تھینک یو سر۔۔۔    دراصل۔۔۔  ‘‘

میں نے پھر اس کے جوکر جیسے پہناوے کو بغور دیکھا۔۔۔    وہی گندی میلی ہو رہی بیس بال ٹوپی۔۔۔  نیلی جینس، جسے شاید ڈرا ئیکلینرس کا منھ دیکھے مدتوں ہو گئے۔ ریڈ کلر کی ٹی شرٹ۔۔۔    بال بڑے اور جھبرے قسم کے۔۔۔   اس طرح کے بال مجھے کبھی پسند نہیں آتے۔۔۔   وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ جوکر لگ رہا تھا۔ یہ جوکر یہ کیا فلم بنائے گا۔۔۔

’’دراصل۔۔۔   ہم ایک میوزیکل پروگرام کے لئے۔۔۔  ‘‘

’’آپ بتا چکے ہیں۔۔۔ ‘‘   میں نے اس کی بات کاٹی۔۔۔

’’اوہ۔۔۔   یس۔۔۔    یس۔۔۔   میں بتا چکا ہوں۔۔۔  ‘‘  وہ ہنسا۔ بڑے بھدے دانت تھے۔ جو اس کی مسکراہٹ کے ساتھ میرے لئے، بطور تحفہ کھل کر سامنے آ گئے تھے۔۔۔

’’آپ مائنڈ مت کریں  تو میں ریا کے ساتھ۔۔۔  ‘‘

’’میں ایسے معاملہ میں مائنڈ کو ترجیح نہیں دیتا۔۔۔  ‘‘ میں ہنسا۔ ’’ آپ اپنا کام کیجئے۔‘‘

’’تھینک یو سر۔۔۔  ‘‘

چھوٹے قد کے ویسلی نے ٹوپی کو سیدھا کیا۔۔۔   سرخم کیا۔۔۔  اور آگے بڑھ گیا۔ میں نے ترچھی نگاہ سے دیکھا۔۔۔

یقیناً ریا نے کہا ہو گا۔۔۔  ’’ ڈیڈ کے پاس کیوں گئے۔‘‘

ویسلی اپنی صفائی دے رہا ہو گا۔۔۔

دونوں ایک بار پھر باتیں کرنے لگے تھے۔

بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ تو ماں باپ اچانک ایک ساتھ بہت ساری اجنبیت اوڑھ لیتے ہیں۔

٭٭

 

کمپیوٹر والی چیئر پر بیٹھ گیا۔

آنکھوں کے آگے وہی چمکیلی سی دھند۔۔۔   ہتھیلیوں کا لمس آنکھوں کو بھلا لگتا ہے۔ پلکیں جھپکاتا ہوں۔ کیس فائل پر نظر ڈالتا ہوں۔ روی کا چہرہ بار بار نظر کے آگے آ جاتا ہے۔۔۔

اس معاملے میں ایک ریپ ہوا ہے۔۔۔

کوئی آواز گھنگھناتی ہے۔۔۔

بار بار ہوش، حواس پر شب خون مارتی ہے۔۔۔

اس معاملے میں ایک ریپ ہوا ہے۔۔۔

اور ریپسٹ ایک۔۔۔    ایک بچہ ہے۔۔۔

بارہ سال کا۔ بھرے بھرے بدن والا۔ دور سے دیکھنے پر جواں مرد۔ مگر عمر صرف بارہ سال۔۔۔

بچوں کے ساتھ ریپ کے قصے امریکہ سے ہندوستان تک عام ہیں۔ ہزاروں قصے ۔۔۔  مگر جب ریپ کرنے والا خود ایک بچہ ہو۔۔۔

میڈیکل سائنس کیا کہتا ہے۔۔۔

کیا بارہ سال کا ایک بچہ۔۔۔

بچے کا ڈی۔ان۔اے ٹیسٹ ہو چکا ہے۔ مگر کیوں ؟ ایک چھوٹے سے بچے کے لئے اتنے ’تام جھام ‘ کیوں ؟ گندی سیاست اور پولس کا دباؤ بھی بچے کو مجرم بنا دیتا ہے۔ پولس انوسٹیگیشن پورا ہو چکا ہے۔ چارج شیٹ تیا رہے۔ فائل بن چکی ہے۔۔۔   میڈیکل سائنس بارہ سال کے ایک بچے کو باپ بنانے پر کہیں سے کمزور نہیں ہے۔۔۔   سپر ہائی وے پر کھڑی اس دنیا میں۔۔۔    نیو ٹکنالوجی کے دور میں جی رہے لوگوں کے پاس کھل جا سم سم کی چابی آ گئی ہے۔ سائنس کلون بناتا ہے۔ آپ کا ہم شکل تیار کرتا ہے۔۔۔   جینو کی دریافت ایک حیرت انگیز دریافت ہے۔۔۔   آپ مر ہی نہیں سکتے۔۔۔   انسان ایک پیدائشی جنیٹیک روبوٹ ہے۔۔۔   اور سائنس تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ مگر بارہ سال کا بچہ۔۔۔ ؟

میں کیس فائیل کے پنے پلٹتا ہوں۔۔۔   بند کرتا ہوں۔ کمپیوٹر آن کرتا ہوں۔ میموی میں جاتا ہوں۔ اپنی پرسنل فائل کھولتا ہوں۔ پھر ٹائپ کرنے لگتا ہوں۔۔۔

’’ Men’s rea۔۔۔ ’کرائم ‘ایک کرمنل مائنڈ کے ساتھ کمٹ کیا جاتا ہے۔۔۔  مجرم کی، کرائم کی اپنی ایک ذہنیت ہوتی ہے۔ ایک کان شیس نیس ہوتی ہے۔ جہاں سے کرائم کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔۔۔    ایک  intension  ہوتا ہے۔ اور جہاں انٹینشن موجود نہ ہو۔ وہ کرائم نہیں ہے۔ یہی ہمارے کرمنل لاء کی بنیاد ہے۔۔۔

کیا اس بچے کے پا س ایک کرمنل مائنڈ ہو گا۔۔۔

کیا اس کی کرمنل انٹنٹ ہوسکتی ہے۔۔۔  ؟

کیا اس کے کان شیس نیس ہیں۔ کہیں ایک بڑے کرائم کے لئے جگہ بن چکی تھی۔۔۔ ؟

 

بچے کا چہر ہ بار بار Retinaپر جگہ گھیرتا ہے۔۔۔

اس میں ایسا کیا ہے جو عام بچوں میں نہیں ہے۔۔۔

ریا کے پاس ۔۔۔

نتن کے پاس ۔۔۔

یہ بھی تو بگڑے ہیں ۔۔۔  مگر کتنا بگڑے۔۔۔ ؟

پھر یہ روی کنچن ۔۔۔

 

اب بات آتی ہے نارمل رئیکشن کی۔۔۔  بچے کی ذاتی زندگی سے متعلق باتیں ۔۔۔ اس کا ماحول۔۔۔   گھر اور آس پاس کے ماحول کے  Perversion کا  influence۔۔۔   یہ ایک الگ ایشو ہے۔۔۔   کیونکہ بچے کی عمر ابھی بارہ سال ہے۔۔۔   اور اگر   Men’s rea نہیں ہے تو کرائم کمٹ نہیں ہوا ہے۔۔۔   اس دن ڈیفنس لائر نے یہی تو کہا تھا۔۔۔   کرائم کے لیے بچے کا کوئی انٹینشن نہیں تھا۔ اس لیے اگر جیل بھیجنا ہے تو معاشرے کو بھیجئے۔۔۔   سزا دینی ہے تو ہمارے سڑے گلے کلچر کو دیجئے۔ جرم کا طوق گلے میں ڈالنا ہے تو ٹی۔وی پر ڈالیے۔۔۔   تیزی سے اپرادھی بنانے  perversion کو موردِ الزام ٹھہرائیے۔ صرف   It has been executed کہنے سے معاملہ نہیں بنتا ہے۔۔۔

 

سوشل ویلفیر ڈیپارٹمنٹ کے چلڈرین ہوم اور ویلفیر ہوم کی شکلیں اس نے دیکھ لی تھیں۔ تو ۔۔۔ ؟

بچے کو وہاں سے ہٹانا ہو گا۔۔۔

کمپیوٹر پر میرے ہاتھ رک گئے تھے۔۔۔   ذہن کی رگیں ایک بار پھر سے تن گئی تھیں۔

یہ پوری طرح سے  Sexual perversion کا معاملہ ہے۔۔۔  بچے کا گروتھ زیادہ ہے تو کیا ہوا۔۔۔   ہے تو بچہ۔۔۔  اس حادثے کو بہت بہت Molestation   شکا نام دیا جا سکتا ہے۔

لین ڈی۔ان۔اے ٹیسٹ اور بہت سے تام جھام۔۔۔

وہ بھی ایک چھوٹے سے بچے کے معاملے کو لے کر۔۔۔

جہاں قانون کے ہاتھ میں بھی کرنے کو کچھ نہیں۔۔۔

مگر قانون کے اوپر بھی ایک چیز ہے۔۔۔

اور وہ ہے۔۔۔   راجنیتی۔۔۔

اوراس طرح کے ہونے والے حادثے کبھی کبھی قانون پر راجنیتی کو فوقیت دے دیتے ہیں۔۔۔

موبائل کی گھنٹی بجی تھی

قانون منترالیہ سے منتری جی کے پرسنل سکریٹری کا فون تھا۔

 

’’جی۔۔۔  ‘‘

’’بچے کے کیس کا کیا ہوا۔۔۔ ؟ ‘‘

’’  Investigation   چل رہا ہے۔‘‘

’’کب تک چلے گا۔۔۔  ؟‘‘

’’اصل میں بچہ۔۔۔  ‘‘

’’بچے کو ماریے گولی‘‘

’’جی۔۔۔  ‘‘

’’سنا  نا، بچے کو ماریے گولی آپ سمجھ رہے ہیں، نا۔ آپ جانتے ہیں نا۔۔۔ ‘‘

’’جی ۔۔۔ ‘‘

’’مطلب جانتے ہیں نا۔بوجھتے ہیں نا۔‘‘

’’جی۔ میں سمجھا نہیں۔‘‘

’’منتری جی آپ سے خوش نہیں ہیں ‘‘

’’کیوں۔۔۔  ؟ ‘‘

’’بتانا پڑے گا۔ ایک چھوٹا سا معاملہ آپ لوگ اٹکا کر رکھ دیتے ہیں۔‘‘

’’نہیں ایسا نہیں ہے‘‘

’’ہم سب بوجھتے ہیں۔‘‘

’’جی۔۔۔  ‘‘

’’اب ہماری سنئے۔ شبھ دن دیکھ کر دن کا مہورت نکال لیجئے۔۔۔   بچوا کو سزا دے دیجئے۔۔۔  بس۔ جانتے ہیں نا۔۔۔   پارٹی ورکر ہے ہمارا۔۔۔  الیکشن سر پر ہے۔۔۔   منتری جی کا خاص حکم ہے۔۔۔

میرے لہجے میں تلخی تھی۔۔۔   ’’سر آپ میری ایک بات سن سکتے ہیں۔ سن سکتے ہیں۔ تاریخ ٹالنے۔ بڑھانے کا شوق نہیں ہے مجھے۔ مگر جو دیکھ رہا ہوں وہ خطرناک ہے۔‘‘

’’کیا۔۔۔ ؟ ‘‘

معاملہ زیادہ لیک کرگیا تو بڑابکھیڑا بھی بن سکتا ہے۔ میں نے اسی کے لہجے میں چوٹ کی تھی۔

’’بڑا بکھیڑا مطلب؟‘‘

تیر کام کر گیا تھا۔ سکریٹری شش وپنج میں تھا۔

’’آپ اپوزیشن کے ہاتھ میں ہتھیار کیوں دیتے ہیں۔ ابھی تک میں نے ساودھانی سے اس معاملہ کو لیک ہونے، پریس تک جانے سے بچایا ہے۔ لیکن کتنے دن تک۔ پریس میں معاملہ جانے کا مطلب جانتے ہیں۔۔۔  بچے کا نام اسکول سے کٹ جائے گا۔۔۔   سماج والے اس کا جینا دوبھر کر دیں گے۔۔۔   میڈیا اس خبر کو  Cell کرے گی۔۔۔    بار بار دکھائے گی۔ بار بار اٹھائے گی۔۔۔   پھر کانگریس اور دوسری پارٹی کیااس اشو کو نہیں اٹھائے گا۔ ایک بچے کا ڈی۔ان اے ٹیسٹ۔۔۔   آپ مذاق سمجھتے ہیں۔ آپ اسے بلاتکاری گھوشت کر رہے ہیں۔ سزا دے رہے ہیں۔ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔۔۔   جتنا آپ لوگ سمجھ رہے ہیں۔‘‘

’’اوہ۔۔۔   سنئے۔۔۔   سنئے۔۔۔  ‘‘

سکریٹری کے ہوش اڑ گئے تھے۔۔۔  ’’ ایسا کرتا ہوں منتری جی سے آپ کی میٹنگ سیٹ کر دیتا ہوں۔۔۔   کل شام پانچ بجے۔۔۔   ابھی بات کر لیتا ہوں۔۔۔   آپ  انہیں کو سب بریف کر دیجئے۔۔۔   شام پانچ بجے۔۔۔   ٹھیک۔۔۔

’’ٹھیک ہے۔ مسٹر سنہا‘‘

دوسری طرف سے کنکشن کاٹ دیا گیا تھا۔۔۔

’’اوہ۔۔۔ ‘‘

میں نے اطمینان کی سانس لی۔ کم بخت۔ یہ منتری جی کا بہاری پرسنل    سکریٹری تھا۔۔۔

لیکن میں اچانک چونک گیا تھا۔۔۔   بولنے کو تو میں بہت کچھ بول گیا تھا۔۔۔   لیکن یہ سارا معاملہ سامنے آنے پر، میرا آگے کا پروموشن بھی خطرے میں پڑ سکتا تھا۔۔۔

یہ میرے لئے بڑے امتحان کی گھڑی تھی۔۔۔

کیونکہ اب تو میری مصیبتیں شروع ہوئی تھیں۔۔۔

٭٭

 

’’ریا کہاں گئی ہے  ؟‘‘

کمرے میں آنے کے بعد میں نے اسنیہہ سے دریافت کیا۔۔۔

’’اس کو آزاد چھوڑ دو۔‘‘

’’چھوڑ دیا مگر کہاں گئی۔۔۔ ؟ ‘‘

’’کہاں گئی ہے۔۔۔   کچھ دیر اس کو چھوڑ کر کچھ اور نہیں سوچ سکتے۔‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’وہ ویلسی کے ساتھ گئی ہے‘‘

’’شوٹنگ۔۔۔  ؟ ‘‘

’’نہیں ‘‘

’’پھر۔۔۔  ‘‘

’’کہہ گئی ہے۔ دیر ہوسکتی ہے۔‘‘

’’دیر ہوسکتی ہے۔۔۔   دیر ہو گئی ہے۔‘‘

میں ایک لمحہ کو ٹھہرا۔

’’اور نتن۔۔۔  ؟ ‘‘

’’اس کا فون آیا تھا۔‘‘

’’کیا کہا  نتن نے۔۔۔  ؟ ‘‘

’’کال سینٹر میں کچھ کلاسیز چل رہے ہیں۔۔۔   جو بچے باہر جانے میں انٹرسٹید ہیں۔ انہیں ایک موقع دیا جائے گا۔‘‘

’’کال سینٹر۔ بلیو برڈ۔۔۔  ‘‘

میں نے آہستہ سے دہرایا۔۔۔   کوئی بات نہیں۔اسنیہہ ہم ہیں نا۔۔۔   ایک دوسرے کے لئے۔ بچے ایک دن جوان ہو جاتے ہیں۔ اپنی آزادی کے آسمان میں اڑ جاتے ہیں ۔۔۔  شاید میرے بچوں نے کچھ زیادہ ہی جلدی کی۔ مگر ہم ہیں نا۔۔۔  !

’’اتنا مت سوچا کرو۔‘‘  اسنیہہ کی آواز گھبرا ئی ہوئی تھی۔۔۔   بس یہی سوچ کر تسلی کرو۔ کہ بچے ابھی بتا کر جاتے ہیں۔۔۔   ورنہ کئی جان پہچان والوں کے بچے تو یہ بھی نہیں کرتے۔

’’بچوں کا غم نہیں ہے۔‘‘  لیکن ذہن ’مارس‘ اور’ ارتھ‘ کے درمیان کہیں پھنس کر رہ    گیا ہے۔۔۔

میں بے دردی سے مسکرایا ۔۔۔   کوئی بات نہیں۔ پرندے شام ہوتے ہی اپنے گھونسلوں میں واپس آ جاتے ہیں۔ مگر کیا ہمارے بچے  ۔۔۔

اسنیہہ کے چہرے پر کوئی رنگ ایک ساتھ گزر گئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۵)

 

 

اس دن ریا روئی تھی۔۔۔   رونے کی کوئی وجہہ نہیں تھی۔ مگر وہ روئی تھی۔ گھر میں اسے ایک طرح سے آئیڈنٹیٹی کرائس سے گزرنا پڑا تھا۔۔۔

ویلسی نے آج کانوں میں چھلے پہنے تھے۔۔۔  گودنے گدوائے تھے۔۔۔   اس کی غلطی یہ تھی کہ وہ دوسروں سے    Indifferentنظر آنا چاہتا تھا۔۔۔    ویلسی نے بدن کو ’ لوچ ‘ دیا۔ مسکرایا۔۔۔

’’ ڈونٹ بھی سلی۔ آنسو پوچھو۔‘‘

ویلسی پھر جھکا ۔۔۔   اور اس کے جسم نے جیسے سات سروں کا راز جان لیا ہو۔۔۔ ’’   نو۔۔۔  ناٹ اگین۔۔۔   روتی کیوں ہو ریا۔۔۔   نہیں رونا چاہئے تمہیں۔۔۔   مجھے دیکھو۔۔۔   کوئی نہیں۔۔۔   میرے پاس کوئی پاسٹ نہیں۔۔۔   پاسٹ میں کیا ہوتا ہے۔۔۔  ؟  ایک ہسٹری ہوتی ہے۔ کڑوی۔ بھدی اور تکلیف دہ۔۔۔   مجھے گھن آتی ہے ان لوگوں سے جو پاسٹ سے چپکے ہوتے ہیں ۔۔۔  ارے کیوں بھائی۔۔۔   چپکنا ہے تو پریزنٹ سے چپکو نا۔۔۔    ابھی سے ۔۔۔   اپنی ابھی والی زندگی سے۔۔۔  جو تمہیں اب جینی ہے۔۔۔  کل کا سوچ کر ہم دکھ کے جزیرے میں کیوں رہیں۔۔۔  اس لئے میرا کوئی پاسٹ نہیں ہے۔ یہ ہسٹری کسی کو نہیں معلوم۔ معلوم بھی نہیں چلے گا۔ آخری بار گھر سے چلتے وقت۔۔۔    ایک چھوٹی سی ڈائری بنائی تھی۔ معلوم۔۔۔  ؟   اس میں سب لکھا تھا۔۔۔   چھوٹی سی ڈائری۔ اتیت کے سارے دن ۔۔۔   چلتے وقت، ایک چھوٹی سی ندی ملی۔۔۔  ایک لمحے کو بدن میں ٹھٹھرن ہوئی۔۔۔   ایسی ٹھٹھرن گھر چھوڑتے سمے بھی نہیں ہوئی۔۔۔   اتیت میری مٹھیوں میں تھا۔۔۔    میرے ہاتھوں میں۔۔۔  جبکہ میں گھر چھوڑ آیا تھا۔۔۔   ایک لمحے کو دل و دماغ میں جنگ ہوئی ۔۔۔   دل ہار گیا۔۔۔  دماغ جیت گیا۔۔۔   سر کو جھٹکا۔۔۔   ڈائری ندی میں پھینک دی ۔۔۔   اتیت کو جل سمادھی میں جگہ مل گئی۔۔۔   پس پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔ چلتے وقت صرف  Present کو پہچانا۔یو نو ایک   Body  ہے میرے پاس۔ جو گاتی ہے۔ جس میں لوچ ہے۔۔۔   ایک چہرہ ہے میرے پاس ۔۔۔  جس میں بہت کچھ عورتوں جیسا ہے۔۔۔ کسی سے پوچھا نہیں۔۔۔  کرنا کیا ہے۔۔۔  اچھا کیا ہے۔۔۔  جائز کیا ہے۔۔۔۔   غلط کیا ہے۔۔۔  کیوں پوچھوں ریا۔ یہ سامنے والا، دوسرا ہر آدمی دھوکہ ہے۔۔۔   illusion ہے۔۔۔   فریب ہے۔۔۔   کسی کے ہنسنے  پر کبھی دکھی نہیں ہوتا۔۔۔   ہم کس کے لئے جیتے ہیں۔۔۔   اپنے لئے ریا۔ کس کے لئے خوش ہوتے ہیں۔۔۔    اپنے لئے۔۔۔  کس کے لئے کھاتے پیتے ہیں۔۔۔   عمر کی گاڑی کو آگے بڑھاتے  ہیں۔۔۔   اپنے لئے۔۔۔   اس لئے جینے کا سارا فلسفہ اپنے لئے، صر ف اپنے لئے سے جڑا ہے۔۔۔   مجھے لگا میرے بدن میں، چہرے پر ایک غضب کا سرتال ہے۔۔۔   میں نے چھلے پہنے۔۔۔   گودے گدوائے۔۔۔   کبھی کبھی ہونٹ بھی رنگوا لیتا ہوں۔ تو؟ کس کے کہنے سے یہ سب چھوڑ دوں۔۔۔  کیا دنیا میرے کہنے سے میری’ لیک ‘ پر چلے گی۔۔۔   نہیں نا۔۔۔   تو میں دنیا کے لئے کیوں چلوں۔۔۔   اس لئے میرا کوئی اتیت نہیں۔۔۔   صرف ورتمان ہی ورتمان ہے۔ اور مجھے اس ورتمان کو جینے کا پورا ادھیکا ر ہے۔۔۔   ہے نا۔۔۔  ؟

وہ ایک بار پھر جھکا۔۔۔   ناز و اداسے۔۔۔   آنکھوں میں  نشہ پیدا کیا۔۔۔   چہرے پر اس نے ذرا سا فاؤنڈیشن کا استعمال کیا تھا۔۔۔   ناخنوں کو اسی کلر سے میچ نیل پالش سے چمکایا تھا۔۔۔   بھنویں بنائی تھیں۔۔۔  لیکن ویلسی، ویسلی تھا۔۔۔   کوئی نام والی چمک بھی نہیں۔۔۔  اتیت بھی نہیں۔۔۔   ریا نے مسکرا کر فخر سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔

’’تم پر پراؤڈ ہوتا ہے ویلسی۔۔۔  سچ۔۔۔   شاید جیتے وہی ہیں جو پاسٹ کی گرد جھاڑ چکے ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’یس۔۔۔  ‘‘  ویلسی کی کمر، پھر بل کھایا۔۔۔  میں نے  صرف اپنے بدن کے سات سروں کو پہچانا۔ تبھی سے سوچا۔۔۔   کچھ کرنا ہے میوزک کو لے کر۔۔۔  یو نو ۔۔۔   دوردرشن کے لئے جتنے بھی اسپاٹ، کوئی کیز۔۔۔   اور میوزک پروگرام بنائے۔ سب میوزک کو لے کر۔۔۔   کیونکہ۔۔۔

اس کی انگلیوں نے جھٹکے سے کانوں کے چھلے کو چھیڑا۔۔۔

’’بجتا ہے، نا ۔۔۔   سنگیت ایشور ہے۔۔۔  سنگیت خدا ہے۔ سنگیت میں بھگوان کا نواس ہے۔۔۔  سب بکواس۔۔۔  سنگیت میں  دراصل ہم  صرف اپنی آتما کو رکھ دیتے ہیں۔۔۔   اس ایک جھٹکے میں جو سنگیت ندیوں کی لہروں کی طرح ہمیں جگاتا ہے۔۔۔   سرکش گھوڑے کی طرح ریت کی دھول اُڑاتا ہے۔۔۔  ریگستان میں اونٹنیوں کے گلے میں باندھی گھنٹیوں سے سات سُر جھڑتے ہیں۔۔۔   جب آسمان پر  Rainbow  نکلتا ہے۔۔۔   جب سورج رات بھر کے مراقبے کے بعد، گہری دھند سے پہلی بار پیدا ہوتا ہے۔۔۔  جب پہلی بار شفق کی سرخیوں کے، بلاوے پر دھند میں چھپنے جاتا ہے۔۔۔  جب پہلی بار میری میوزک کے تاروں سے تم ٹکرائی تھی ریا ۔۔۔ تم۔۔۔   تب سنگیت کے سچ ہونے پر سجدہ کرنے کی خواہش ہوتی ہے ۔۔۔  تب سنگیت پر مر، مر جانے کی آرزو جنم لیتی ہے ۔۔۔  مجھے ایک نئے پروگرام کے لئے ایک دوست کی ضرورت تھی۔ Help counsil  میں تھا۔ کسی نے تمہارا نام لیا۔۔۔  بولا۔۔۔  تم فریشر ہو۔ تمہاری مدد لوں ۔۔۔  تم سے ملا۔۔۔  اچھا یہ لگا کہ تم ہمیں دیکھ کر دوسروں کی طرح چونکی نہیں۔۔   تمہیں میرے ساتھ باہر نکلتے ہوئے شرم نہیں آئی۔۔۔   تمہارے سُر۔ میرے سُر سے مل رہے تھے۔۔۔   دو سُرایک دوسرے کو پہچان رہے تھے۔۔۔  مجھے لگا، مجھے نئے کام کے لئے ایک آئیڈیل کی تلاش تھی۔ اور وہ۔۔۔  تم ۔۔۔  ثابت ہو رہی تھی ریا۔۔۔

’’تھینکس ۔۔۔  تھینکس ویسلی۔۔۔  ‘‘

’’تھینکس کس با ت کی۔۔۔   ؟ ‘‘

’’تم ۔۔۔  اتنا سمجھتے ہو مجھے۔‘‘

’’دوست نہیں۔ تمہارے سر اور تال کو سمجھا ہے ۔۔۔ ‘‘

’’یہی تو۔۔۔   یہ گھر والے۔۔۔  یہ سمجھتے ہیں، رات کا مطلب۔۔۔  دو اپازٹ سیکس کے لوگ، اگر رات میں ایک کمرے میں جمع ہوں تو۔۔۔  کوئی ایکسپلوزن۔ کوئی دھماکہ۔۔۔ ‘‘

’’زندگی کو سنگیت سے پہچانو۔ کوئی سر،  کوئی تال، ایک نئی ’لئے‘ دریافت کر سکتا ہے۔۔۔   اور نیا سنگیت۔۔۔  وہ ان کی سوچ ہے ریا۔۔۔  تمہاری نہیں ۔۔۔  تمہاری سوچ ان سے مختلف ہونی چاہئے۔۔۔   رات میں جادو ہے۔۔۔   رات میں سناٹا ہے۔۔۔  اس سناٹے میں غضب کی دھن ہے۔۔۔  غضب کی ’لئے‘ ہے۔ کبھی اٹھو۔۔۔   اچانک بند کمرے سے۔۔۔   کمرے میں اندھیرا ہونا چاہئے۔۔۔   ایک جھٹکے سے اٹھو۔۔۔   دروازہ کھولو۔۔۔   بالکنی پر جاؤ۔۔۔  یا ایکدم سے چھت پر نکل جاؤ۔۔۔  آنکھیں ہلکی ہلکی بند رکھو۔۔۔   پھر ایکدم سے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر آنکھیں کھول دو۔۔۔    دور تک نہ ختم ہونے والا آسمانی پردہ ۔۔۔  سنگیت کی ایک نہ ختم ہونے والی ’لَے‘۔۔۔

ہلکی ہلکی ہوا ۔۔۔  نیلے آسمان پر بچھے تارے۔۔۔   بدن کو گدگداتی۔ چاندنی کی کرنیں۔ روشنی کے ہالے میں۔۔۔  اندھیرے میں پڑا آپ کا جسم۔۔۔  اور پر اسرار رات۔۔۔   پر اسرار رات کا سناٹا۔۔۔  ٹھنڈی چاندنی کی بارش۔۔۔  اور ان سب سے پھوٹتا سنگیت ۔۔۔  دنیا بھول جاؤ ریا۔۔۔  میں بھول گیا۔۔۔  جو سچ ہے وہ  Nature  ہے۔۔۔   پراکرتی۔۔۔  ’نیچر‘ میں اپنے دکھ ڈال دو۔ نیچر سے بہتر کوئی علاج نہیں۔۔۔  میں نے نیچر میں آتما ڈال دی ہے۔۔۔  یو نو۔۔۔  میں اپنے ننگے بدن کے ساتھ بھی تمہارے ننگے بدن سے لپٹ گیا تو۔۔۔ ؟  مجھے ان الفاظ پر کوئی شرمندگی یا حیرت نہیں ہے۔ مگر مجھے دکھ نہیں ہو گا۔ سیکس، پرورجن، سنگیت کو ڈسنے والے اپوتر وچاروں سے میں نے اپنی آتما کو بہت دور کھینچ لیا ہے۔۔۔   مجھے دکھ نہیں ہے۔۔۔   اس بات کا بھی نہیں۔۔۔   کہ کوئی میرے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ اس بات کا بھی نہیں کہ میں تمہارے معاشرے میں کیسا سمجھا جاتا ہوں۔۔۔   اس بات کا بھی نہیں کہ میری ہنسی اڑائی جاتی ہے۔۔۔  بس تمہارے ڈیڈ سے۔۔۔  کیونکہ یہ تمہارے ہونے کا سنگیت ہے کہ چاہتا تھا۔۔۔  وہ بھی تمہارے اس سر تال کو سمجھیں۔۔۔  اور اس لئے اپنی بیٹی پر ٹرسٹ کریں۔۔۔ ‘‘

’’وہی تو۔۔۔ ‘‘

’’لیکن ریا۔ یہ ان کی غلطی نہیں ہے۔۔۔   یہ ان کے سنسکاروں کی غلطی ہے۔۔۔  سنسکار دھرم سے باندھے ہوتے ہیں۔ دھرم پرمپراؤں، رتی رواجوں کے پاکھنڈ سے۔۔۔  پاکھنڈ میں سنگیت نہیں ہوتا۔۔۔  سرتال نہیں ہوتے۔ لیکن پاپا بھی سمجھ جائیں گے۔۔۔   نہیں سمجھیں تو کوئی بات نہیں۔ سمجھنا ضروری نہیں ہوتا۔۔۔ ‘‘

ریا مسکرائی۔’’ ابھی تم نے ہیلپ کاؤنسل کی بات کہی۔۔۔ ‘‘

’’ہاں۔۔۔  پیلپ کاؤنسل۔۔۔  ایجنسیوں کی نئی شکلیں۔ سنگیت کے نئے دھارے۔ ایک دوسرے سے پہچان کے نئے طریقے۔۔۔  تم ان کے بارے میں نہیں جانتی۔‘‘

’’۔۔۔  شاید ‘‘

’’میٹرو پولٹین کیپٹل میں رہتی ہو۔ اور اپنے جیسوں سے دور رہتی ہو۔۔۔  ‘‘

’’مجھے کسی نے بتایا نہیں۔‘‘

’’تم اپنے دکھ میں جھر رہی تھی۔۔۔  ایک چھوٹے سے اتیت سے لڑ رہی تھی۔۔۔  تم نے سنگیت کھو دیا تھا۔۔۔  اس لئے دوست کہاں سے بناتی۔۔۔  اپنے کہاں سے ملتے۔۔۔  کاؤنسل میں بیٹھو۔۔۔  تمہارے جیسے دس لوگ ہوں گے۔۔۔  دس سے زیادہ۔۔   من کھولو۔۔۔  من کی گانٹھ کھولو۔۔۔ سب بھول جاؤ گی۔ ساری پریشانیاں۔۔   اس کاؤنسل پر ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ۲۴ گھنٹے کام کرنے والے ایکٹر، آرٹسٹ، ہیرو، ہیروئن، بزنس مین، رائٹر، انڈسٹریلسٹ، تھکے ہوئے لوگ۔۔۔  جنہوں نے سنگیت گم کر دیا ہے۔۔۔    یا جن کی زندگی سے سنگیت کے سرتال نکل گئے ہیں۔۔۔   اس لئے ہمارا بھی ایک کاؤنسل ہے۔۔۔ہیلپ میوزک۔۔۔ ‘‘

’’ ہیلپ میوزک۔۔۔  ؟‘‘

’’ہاں۔ یہ ایک کلب ہے۔ اور ایسے کلبوں کی تعداد اب بڑھتی جا رہی ہے۔ اپنے اپنے پیشہ اور زندگی کے مسائل کے نام پر۔۔۔  سیدھا سادھا نیئم۔ قائدہ۔۔۔   کھلا دماغ ۔۔۔   پیرستر ئیکا کی نئی ہوا۔۔۔  کمرے کی چہار دیواری کے باہر کوئی گپ بازی نہیں۔ ہیلپ کونسل کے باہر اس کے ممبر سے کوئی میل جول نہیں۔۔۔  کسی سے ملتے ہیں۔ تو برا بھی نہیں۔ لیکن آپ ایموشنل نہیں ہوں گے۔ کاؤنسل میں چاہے جتنے اموشنل ہوں لیں ایجنسی یا کاؤنسل آپ کو بتا تی ہے کہ یہاں آپ سے جڑے سب لوگ ایک ہیں۔۔۔ سب کے مسائل ایک ہیں۔۔۔ کوئی غیر نہیں۔۔۔   سب آپ کو سن رہے ہیں۔ اس لئے آپ کے دکھ سے اٹھنے والی سنگیت کی لہروں کو محسوس کر رہے ہیں۔‘‘

’’میوزک تھیراپی۔ اسی لئے ہمارا اس کاؤنسل کا نام ہے۔۔۔  ہیلپ میوزک۔۔  ایسی کئی ایجنسیز، کئی کاؤنسل، کئی مامس ہیں۔۔۔ سنگل مامس، ممبئی میں ہے۔ ۲۰ ممبر ہیں۔ ہر مہینے کی پہلی سنڈے بیٹھک ہوتی ہے۔ باصبے دوست میں  Gay  اور Lesbian  جمع ہوتے ہیں۔ آزادانہ اپنی باتیں رکھتے ہیں۔۔۔  وہ باتیں جنہیں دوسروں سے کہنے میں شرم آتی ہے۔۔۔  ۳۶۰ ڈگریز اینڈ بیک (Back)۔۔۔  آپ کو طلاق چاہئے۔ جہاں قانون کی پیچیدگیاں اور الجھنیں ہوں۔۔۔۔   وہاں 360 Degrees and backآپ کی ہیلپ کے لئے تیار ہے۔۔۔   ایسے کتنے کلب ہیں اور دوست ایجنسیاں۔ دراصل۔۔۔ ‘‘

ویلسی پھر جھکا۔ ریا کی ہتھیلیوں کو چھوا۔ ’’ ہمیں پتہ بھی نہیں لگتا۔ اور اندر کا سنگیت اداس اور بیمار ہونے لگتا ہے۔ پھر ایک دن تمہاری طرح ریا، وہ آنکھوں سے آنسو بن کر گر جاتا ہے۔۔۔  دراصل ہم اپنے اکیلے پن سے گھبرا جاتے ہیں۔۔۔  لیکن کیوں۔۔۔  ؟ اس لئے کہ سنگیت کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔  آپ اکیلے پن کو ڈپریشن اور کئی ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن سنو۔ یار ریا۔۔۔  سنو۔۔۔   اکیلے پن کا سنگیت۔۔۔  اکیلا  پن جو سمندر کی سرکش لہروں کی طرح آپ کو بھگو دیتا ہے۔۔۔   اس کی چیخ سنو۔۔۔  اس کا گرجنا دیکھو۔۔۔  اس کی طوفانی لہروں کو ہی لو۔۔۔   یہ آپ ہیں۔ اور یہ لہریں آخر میں کرتی کیا  ہیں۔۔۔  آپ کو۔۔۔  ریا ڈارلنگ یہ ایک سنگیت کی طرح بھگوتی ہوئی،  دور بہتی ہوئی نکل جاتی ہیں۔۔۔ ‘‘

’’ مائی گاڈ ویلسی، پہلی بار۔۔۔ ۔پہلی بار تم نے ایک نئے ویلسی کو پا رہی ہوں۔‘‘

’’ہم ہر بار نئے ہوتے ہیں۔ نئے سنگیت کی طرح۔۔۔  نہیں۔ فی الحال ان سر اور تال کی پہچان کرنی ہے۔۔۔   کسی کو بوجھ مت بناؤ۔۔۔  گھر بُرا ہے۔ تو نہیں رہنا۔۔۔   زندگی بری ہے۔ تو جسم کی کینچلی کو اتار دو۔۔۔ ‘‘

ویلسی ہنسا۔۔۔  ’’ مشکل ہے نا۔۔۔  اس لئے جسم میں ایک نئے سنگیت کو پیوست کر کے دیکھو۔ اور آج میں جیو۔ کیونکہ۔۔۔ کیونکہ ہم تو ہمیشہ سے ایسے ہیں۔۔۔  ہم ایسے ہی رہیں گے۔ پیچھے مڑ کر مت دیکھو۔ ہمیشہ ورتمان پر نظر رکھو۔۔۔  جو ہو رہا ہے۔ اچھا ہے۔۔۔ آگے جو ہو گا اچھا ہو گا۔۔۔  یہی اس پوسٹ ماڈرن ایج کا فلسفہ ہے۔ ہم جیسوں کے لئے۔۔۔  اس لئے۔۔۔  ا ب سنو۔۔۔ ‘‘

اس کے جسم نے پھر بل کھایا۔۔۔  اس کی نازک ہتھیلیوں نے پہلے اپنے گالوں کو سہلایا۔ پھر ریا کے گالوں کو چھوا۔۔۔۔۔۔ دھیرے سے۔

’’ اب کچھ کام کی باتیں ہو جائیں۔ ہمیں جلد ہی ایک گھنٹے کے اس پروگرام کو کر کے دینا ہے۔۔۔  یو نو۔ یہ پروگرام ہم Afro Asian Societyکے  contribution سے کر رہے ہیں۔ہم سب کا راستہ ایک ہے۔۔۔  ایک دوسرے کی ’دھنوں ‘ کو پہچاننا۔ دراصل سنگیت کے بہانے ہم دیس، ریلیجین، ہر طرح کی باؤنڈری، سرحد اور دیواروں کے پار نکل جانا چاہتے ہیں۔۔۔   ایک دیش، دوسرے دیش کے لئے پرایا اور دشمن ہو جاتا ہے۔۔۔  ایک سرحد، ایک باؤنڈری، ایک دیوار، ایک مذہب، دوسرے کے لئے۔۔۔  صرف سنگیت ہے، کلا ہے۔۔۔  جو ان سرحدوں کے پار ہے۔۔۔   ہم سب کچھ بھول کر ایک دوسرے سے جڑتے ہیں۔ اور اچھے ورتمان کو ’سب سندر ہے‘۔ کا سنگیت مئے نعرہ دیتے ہیں۔۔۔ ‘‘

’’تم مجھے کاؤنسل لے چلو گے۔۔۔ ؟‘‘

’’کیوں نہیں۔‘‘

’’کب‘‘

’’تمہیں ممبر بننا پڑے گا۔ ہم مہینے میں ایک بار ملیں گے۔ بس۔۔۔‘‘

’’مطلب۔۔۔  ؟‘‘

’’ہماری مہینے میں ایک بار مٹینگ ہوتی ہے۔ یوں کہو۔۔۔   مہینے بھر میں،  جیون سے جڑا جو سنگیت بے سرا ہوتا ہے۔ ہم اسے وہیں نکال دیتے ہیں۔ پھر سر میں لوٹ آتے ہیں۔‘‘

’’مجھے لے چلو۔‘‘

ویلسی نے اسے اپنے جسم کے ’سنگیت‘ میں باندھ لیا تھا۔۔۔

دونوں جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۶)

 

کافی دنوں بعد نتن سے ملاقات ہوئی تھی۔۔۔

میں نے اسنیہہ کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔  وہاں دھیمے دھیمے شعلوں کی آنچ تھی۔۔۔   شاید نہیں۔۔۔   دو گھوڑے تھے۔۔۔  جو ہوا میں اڑ رہے تھے۔۔۔   دو گھوڑے کون۔۔۔ ؟ مشہور آرٹسٹ سنکلر کے بنائے دو خوبصورت گھوڑے۔۔۔   ان گھوڑوں میں سنکلیر نے ایک عورت کی موجودگی کو محسوس کیا تھا۔۔۔ تبھی تو گردن کے نچلے والے حصے میں۔ ندی کی لہروں کی طرح ایک الہڑ اور مدہوش عورت کا جوبن آ گیا تھا۔

آدھے دھڑ سے گھوڑا غائب تھا۔۔۔

آدھے دھڑ میں عورت آ گئی تھی۔۔۔

آدھی اسنیہہ غائب تھی۔۔۔

آدھی اسنیہہ واپس آ گئی تھی۔۔۔

لیکن کیا میں اس اسنیہہ کو جانتا تھا۔۔۔ ؟

لینڈاسکیپ کے دونوں گھوڑے ہوا میں اڑ رہے تھے۔۔۔

اسنیہہ کی آنکھیں مجھ سے ملیں۔ پھر نتن کو دیکھنے لگیں۔۔۔

نتن کی آنکھیں بریڈ پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔

میں نے اسنیہہ کو دیکھا۔ دھیرے سے مسکرایا۔۔۔  ’’جانتی ہو کالج کے دنوں میں، میں کویتائیں بھی لکھتا تھا۔۔۔ ؟‘‘

’’جانتی ہوں۔‘‘

’’تم یہ کویتائیں سنتی بھی تھی۔۔۔ ‘‘

’’عرصہ گذر گیا۔‘‘

’’کتابیں پرانی ہو گئیں۔‘‘

’’اس لئے کے یہ کتابیں شک پیدا کر رہی تھیں۔ میں ہنسا۔۔۔  ’’انہیں دنوں کہی گئی کویتا کی چند لائنیں یاد آ رہی ہیں۔۔۔  ‘‘

نتن نے سراٹھایا۔۔۔

’’ہم لوٹ آتے ہیں ایک دن/

ایک دن اچانک/

کسی بھی پہاڑ، درّے

یا آتش فشاں کو پھلانگتے ہوئے۔

سرکش سمندر کی لہروں کو چیرتے ہوئے

ہم لوٹ آتے ہیں۔

ایک دن/

بے خوف /

نئے سورج کی ایک کرن کو

مور پنکھ کی طرح رکھ لیتے ہیں

جیب میں

اور پھر سے شروع کر دیتے ہیں لکھنا

روز نامچہ

نئی زندگی کا۔۔۔ ‘‘

اسینہہ نے دھیرے سے کہا۔۔۔ ’’ سن چکی تھی۔‘‘

نتن نے بریڈ خالی کر دیا۔۔۔  Compactنہیں ہے۔ آپ سب باتیں بتا کیوں دیتے ہیں۔۔۔  کتابیں اسی لیے شکر پیدا کرتی ہیں کہ آپ اپنے معنی، اپنے ’ارتھ‘ کے ہینگ اوور سے باہر نہیں نکلتے۔۔۔  اسے ہی سارے زمانے کا پرتیک۔ آئی مین Symbol  بنانا چاہتے ہیں۔۔۔  آخر کیوں ڈیڈ۔۔۔  کچھ لوگ تو نہیں لوٹتے۔۔۔  کبھی نہیں۔۔۔  کچھ لوگ سمندر کی لہروں سے لڑنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے۔۔۔  کچھ لوگ پہاڑ۔ درّے یا جوالا مکھی پھلانگنا تو دور۔۔۔  اس کی  feeling  سے ڈر جاتے ہیں۔۔۔   اسی لئے کتابیں بار بار شک پیدا کرتی ہیں۔۔۔  کیونکہ وہ نئے ارتھوں تک پہنچتے ہوئے لجلجی، گیلی اور لاش کی طرح سرد ہو جاتی ہیں۔ وہ ہم سے ہمارے ageسے، match   نہیں کر پاتیں۔۔۔   اسی لئے ہم تک آنے سے پہلے مر جاتی ہیں۔‘‘

اسنیہہ کی آنکھوں میں چمک تھی۔۔۔

میں نے تالی نہیں بجائی۔۔۔

صر ف غور سے چہرہ دیکھانتن کا۔۔۔  پھر بولا۔۔۔  ’’یہ کتابیں سچ مچ شک پیدا کرتی ہیں۔ سچ کہتے ہو تم۔ اس لئے کہ کتابیں ہمیشہ اچھا دیکھنے کے لئے تڑپتی رہتی ہے۔۔۔   کتابیں تم سے بار بار لڑتی رہتی ہیں۔۔۔  تمہیں ایک دکھد استتھی، سے باہر نکالنے کے لئے سنگھرش کرتی ہیں۔ وہ تمہیں ہارتے ہوئے نہیں دیکھ سکتیں۔۔۔  اس لئے وہ تمہارے بہانے پوری دنیا سے لڑنے لگتی ہیں۔۔۔  تمہارے جیسے۔۔۔  پوری دنیا کے بچوں سے۔۔۔  لوگوں سے۔۔۔ ‘‘

٭٭

 

لیکن مجھے اپنے ہی شبہ کمزور لگے تھے۔۔۔  کیونکہ تبھی مجھے خیال آیا تھا۔ ریا کا۔ ریا جو ویلسی کے ساتھ رات سے غائب تھی۔۔۔  تنن نے پوچھا۔۔۔  میں نے غور سے دیکھا۔ اسنیہہ نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔

’’زیادہ سوچا مت کرو۔۔۔ ‘‘

مجھے کیا سوچنا تھا۔۔۔  لیکن اس دن بریک فاسٹ لیتے ہوئے نتن سے مل کر اچھا لگا۔۔۔  نتن نے بتایا وہ ان دنوں رات کی ڈیوٹی کر رہا ہے۔ بلیو برڈ کال سنٹر۔۔۔  کال سنٹر۔۔۔  وہ امریکن نوعیت کے کال سنٹر کے بارے میں دیر تک اپنی معلومات کی توپ چھوڑتا رہا۔

بلیو برڈ۔۔۔

ایک اسپلٹ پر سنالٹی۔۔۔

وہ آدھا رہ گیا تھا۔۔۔

سنکیلر کا آدھا گھوڑا۔۔۔

ایک حصہ امریکہ تھا۔۔۔  اور ایک حصہ۔۔۔۔

میں نتن کو ٹکڑوں میں تقسیم دیکھ رہا تھا۔۔۔

’’ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ؟ُُ

نتن چونکا۔۔۔

’’تم نے نیلے پرندے دیکھے ہیں۔۔۔ ‘‘

’’۔۔۔  نہیں ‘‘

’’کبھی۔۔۔ سوچو۔۔۔  آسمان میں اڑتے ہوئے۔۔۔ ‘‘

’’۔۔۔  نہیں ‘‘

’’بچپن  میں۔۔۔ ‘‘

’’کبھی بھی ڈیڈ۔ آسمان میں اڑتے پرندے دیکھنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ کیوں۔۔۔ ؟‘‘

’’ہمارے بچپن میں تھے۔۔۔  میر صاحب کے تالاب پر۔۔۔  ہم اسکول سے لوٹتے ہوئے  جایا کرتے تھے۔۔۔  تالاب میں چاروں طرف جل کھمبیاں ہوتی تھیں۔۔۔  یہی دسمبر جنوری میں۔۔۔ کہتے ہیں سائبریا سے آتی تھیں۔۔۔  کئی برسوں تک آتی رہیں۔ پھر آنا بند کر دیا۔‘‘

اوہ۔۔۔ سیڈ۔۔۔،  نتن نے پوچھا۔۔۔ ’’ لیکن اچانک آپ کو ان پرندوں کا خیال کیسے آیا۔۔۔ ؟‘‘

’’ڈر لگتا ہے، کہ کہیں کوئی ہوا تمہیں بھی نہ لے جائے۔‘‘

نتن چپ تھا۔۔۔

’’بیلو برڈ۔  تم جانتے ہو۔۔   بلیو برڈ کی تلاش میں ہم سائبیریا نہیں جا سکتے؟‘‘

میں کرسی سے اٹھ کھڑا تھا۔۔۔

ان دنوں،  میں نے پوکے مان دیکھنا شروع کر دیا تھا۔۔۔  مجھے لگا۔ ہم سب پوکے مان ٹرینر ہیں۔جو ان چھوٹے چھوٹے پرندوں اور جانوروں کے درمیان اپنے لئے راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پوکے مان۔۔۔  اور ان کے بیچ کے ہم۔۔۔  یعنی پوکے مان ٹرینر۔۔۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

کھو گیا ہے ایش

 

 

 

پوکے مان ٹرینر،

جو ایک اچھاانسان ہے

 

 

 

 

’’ہنسی مجھے گمراہ کرتی ہے /

مسکراہٹ سے فریب کی بو آتی ہے /

میں الزاموں سے کم، دکھ سے زیادہ مرتا ہوں

کبھی کبھی گھنٹو، پورا پورا دن

 

میں ا چانک بہت چھوٹا ہو گیا/

کچھ لوگ اچانک بہت لمبے ہو گئے/

میں اپنی پہنچ سے باخبر تھا/

اور ان کی پہنچ سے خوفزدہ/

میں ان سے ایسے کٹ گیا۔۔۔

جیسے میرے ہاتھ سے ناخن /

دو معصوم آنکھیں مجھے ان سے کاٹ کے/

رکھنا چاہتی تھیں /

میں ایش ہوں

ایک معصوم پوکے مان ‘‘

 

 

 

 

 

(۱)

 

منتری جی گھر پر ہی مل گئے۔۔۔ گارڈن میں کرسیاں نکلی ہوئی تھی۔۔۔  باوردی گارڈس اِدھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔ کچھ پارٹی کاریہ کرتا بھی تھے۔ جو جھنڈ میں ایک طرف گفتگو میں مصروف تھے۔۔۔

زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔منتری جی کے آنے سے پہلے چائے میرے ہاتھ میں آچکی تھی۔ کچھ ہی دیر کے بعد منتری مہودے بھی آ گئے۔ میں نے دیکھ کر پرنام کیا۔۔

’’جی بیٹھئے، بیٹھئے ۔۔۔ ‘‘

انہوں نے پارٹی کاریہ کرتاؤں سے کچھ بات چیت کی۔پھر اٹھ کر میرے پاس آ گئے تھے۔۔۔

’’وہ سنہا بتا رہا تھا۔۔۔ ‘‘

’’جی۔۔۔ ‘‘

’’کا پڑھا رہے تھے۔۔۔ ‘‘

منتری جی ہنسے۔۔  ’’میں نے ڈانٹ لگائی سالے کو۔ جہاں سمجھنا چاہئے وہاں للو بن جاتا ہے۔۔  للو۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا۔۔  ایکدم للو ہے۔ لیکن آپ سمجھا رہے تھے۔۔ ‘‘

’’جی۔۔۔ ‘‘

’’وہ سنہا بتا رہا تھا۔۔  آپ اپازیشن، پریس، پتہ نہیں کیا کیا پڑھا رہے تھے۔

منتری جی کی آنکھیں جسم میں گھس گئی تھیں۔ آپ جانتے ہیں جئے چنگی رام۔۔۔  دلت ہیں۔۔۔  ہمارا دلت ووٹ۔۔۔  ہم ایک تیر سے کئی شکار کر سکتے ہیں۔ آپ وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں۔۔۔  دیکھئے۔۔۔  اتنا کچھ ہوا۔۔۔  بہن جی نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اتر پردیش۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا۔ مگر کیا ہوا۔ بہن جی کا ووٹ سولڈ ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں۔ منو وادی۔۔۔  منو وادیوں کے ورودھ میں۔ ایکدم سولڈ۔۔۔ اتنا سولڈ تو اپنی سماجوادی کا بھی نہیں ہے۔۔۔  مسلمان کا کیا ہے۔ کبھی ادھر تو کبھی ادھر۔ کبھی اس پی، کبھی کانگریس، کبھی بی ایسی پی۔۔۔ ڈگرے پر کا بیگن۔۔۔  مگرد لت۔۔۔  ایکد م سولڈ۔ ووٹ بینک۔ ہمارا کیا ہے کہ ہم کھبی دلت کو سمجھا نہیں پائے۔۔۔  سب ووٹ بینک بہن جی لے گئیں۔۔۔  لیکن اب دیکھنا۔۔۔  دلت پینتھر، رپبلکن پارٹی، دلت دستہ، کچھ دستہ تو امبیڈکر کے ورودھ میں بھی کھڑے ہو گئے۔ لیکن کرنا کیا ہے۔ ووٹ بینک ہے ایکدم سولڈ۔۔۔

منتری جی کی آنکھیں ایک بار پھر آنکھوں میں گھس رہی تھیں ۔۔۔  میڈیا میں آنے دیجئے۔۔۔  خبر  کو مت روکئے۔۔۔  پھیلنے دیجئے۔ ارے دس پریس والے کو ہم بھی بول دیں گے۔ جئے چنگی ہمارا آدمی ہے۔۔۔۔  دلت ہے۔۔۔  اب ریپ کرنے والا کوئی بھی ہو۔۔۔  ہم دلت کی Sympathy بٹوریں گے۔۔۔  وہ کیا ہے کہ الیکشن نزدیک ہے۔۔۔  آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں۔۔۔ ‘‘

منتری جی غصے میں تھے۔ جائیے۔ کیس کا تیا پانچہ کر دیجئے۔۔۔  بچہ ہے تو کیا۔۔۔  ہمارے ڈیپارٹمنٹ کو ہم بول دیں گے۔ بچہ ریپ کرے گا تو ملزم نہیں ہوا کیا۔۔۔  پھر جو سزا بلاتکاری کی وہ بچہ کی۔۔۔  اچھا ٹھیک ہے۔ سزا نہیں ہو۔۔۔  سزا کے ہم بھی خلاف ہیں۔۔۔  مگر اس بات کو لائٹ میں لائیے۔۔۔  آپ اپنا ادھیکا رسنائیے۔۔۔  فیصلہ۔۔۔  تاریخ مت بڑھائیے۔۔۔   ہم جانتے ہیں تاریخ بڑھا بڑھا کر کیس کو پینڈنگ میں ڈال دیتے ہیں آپ لوگ۔۔۔  ایسا نہیں چلے گا۔۔۔  ابھی ایک دلت لہر ہمارے فیور میں بھی ہے۔ اس لئے اس مدعے کو ابھیان بنانا ہے سمجھ رہے ہیں نا۔۔۔ ؟

’’جی۔میں سب سمجھ لیا۔۔۔  میری سانس ڈوب رہی تھی۔ اف یہاں کاماحول۔ پولیوشن۔ یہی ہے گڈ فیل فیکٹ رکا کمال۔ گڈ فیل۔ آپ کو ’کیش‘ کرتے ہیں۔ گڈ فیل۔ الیکشن کمشنر تک کی بات کو طاق پر رکھ کر بھارت اُدئے اور انڈیا شائننگ کے کروڑوں کے اشتہار بانٹ سکتے ہیں۔ عوام مرا کرے۔۔۔  بھوک سے۔۔۔  فاقے سے۔۔۔  گڈ فیل فیکٹر۔ ہم کو جنتا میں بنے رہنا ہے۔۔۔  گڈ فیل فیکٹر۔۔۔  ایشوز چائیں۔۔۔  گڈ فیل فیکٹر۔۔۔  وہ چاہے منووادیوں سے آئیں یا دلت دستہ سے۔۔۔

گڈ فیل فیکٹر۔ یس سر۔۔۔  میری انتراتما خوش ہے۔۔۔  اس سیکولر کنٹری میں آپ جیسے منتری سے مل کر۔۔۔  ہم خوش ہیں۔۔۔  ایک چھوٹے سے بچے کو بلی دینے کے لئے۔۔۔  آئی ایم ویری ویری ہیپی سر۔۔۔  مجھے کچھ نہیں سوچنا سر۔۔۔  بس ایک فیصلہ سنا دینا ہے۔۔۔  گڈ فیل فیکٹر کے حق میں۔

منتری جی چونکے۔۔۔ ’’ آپ کچھ کہہ رہے تھے۔۔۔ ‘‘

’’نہیں ‘‘

’’مجھے لگا۔۔۔ ‘‘

’’نہیں سر۔۔۔ ‘‘

میں کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔

منتری جی کی آواز نے کچھ دور تک میری پیچھا کیا۔۔۔ ’’دھیان رکھئے گا۔ بچے پر مت جائیے گا۔ یہ بہت امپورٹنٹ معاملہ ہے۔۔۔  یعنی۔۔۔ ‘‘

’’گڈ فیل فیکٹر۔‘‘

میں نے آہستہ سے مسکرادیا۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۲)

 

جئے چنگی رام۔۔۔

عمر ۴۷ سال۔۔۔

رہائش۔ اشوک نگر، دلی۔۔۔

پہلے بہار کے ضلع بھوجپور، آ رہ شہر میں رہتا تھا۔ بچپن وہیں گزرا۔۔۔  مگھیا ٹولی کے پاس۔ جہاں آنے جانے والے مسافروں کو ایک تنگ سی گلی ’پاٹتی‘ تھی۔ اور دونوں طرف سنڈاسوں کے منھ کھلے ہوتے تھے۔ ان سنڈاسوں کو کراس کرتے ہی چمار ٹولی شروع ہو جاتی تھی۔ چمار ٹولی سے ذرا آگے ریڈ لائٹ ایریا شروع ہو جاتا تھا۔ اسٹیشن سے سیدھے تانگہ یا رکشہ پکڑیے تو ناک کے سیدھ میں ’مہادیو آ جاتا ہے۔۔۔  بھگوان مہادیو کے نام کا مندر۔ اور ا سی کے بعد مگھیا ٹولی کی چمار بستی شروع ہو جاتی ہے۔

ایک قطار سے چمڑے کی پیٹیاں لئے بیٹھے چمار۔۔۔  چھوٹی چھوٹی دکانیں۔۔۔  مگر منگو رام کی جگہ تھی۔۔۔  چودھری صاحب کا فٹ پاتھ۔۔۔  ایک زمانے میں یہاں کافی آگے تک شیشم کی لکڑی کی ’بالکنی‘ بنی ہوئی تھی۔ سڑک چوڑی کرنے کی بات اٹھی تو بالکنی بھی ٹوٹ گئی۔۔۔  اندر جانے کے راستے میں تھوڑی سی فٹ پاتھ کی جگہ کو ’مکسن‘ بنا لیا  منگو رام نے۔۔۔  شام۔۔۔ کام ختم کرنے کے بعد سامان سمیٹا، چودھری صاحب کے بیٹھکے میں رکھا اور گھر روانہ۔۔۔

تب جوتے کی بڑی بڑی کمپنیاں اور دکانیں کہاں تھیں۔۔۔  بڑے بڑے لوگ بھی ان چمار چہار کو اپنے پاؤں کے ناپ کے کاغذ کا ٹکڑا بھجو ادیتے۔۔۔  اور مطمئن ہو جاتے۔۔۔

 

یہ وہی دور تھا جب جگجیون رام کی سیاسی شہرت کا ڈنکا پورے ہندوستان میں بجا تھا۔۔۔  جگجیون بابو یعنی ذات کے چمار۔۔۔  گھر تھا آ رہ کے چندواں میں۔۔۔  اب تو کوٹھی کھڑی ہے۔ مگھیا ٹولی کے کئی چمار جگجیون بابو سے اپنی رشتہ داری جوڑا کرتے تھے۔۔۔  اخبار میں فوٹو چھپتی تھی۔ ریڈیو میں نام آتا تھا۔۔۔  چماروں کے لئے اس سے زیادہ فخر کی بات دوسری کیا ہوتی۔ یعنی ان کا اپنا۔۔۔  ان کے پیچ کا ایک آدمی۔ ہندوستان کے دل میں حکومت کرتا ہے۔

تب وہ چھوٹا تھا۔ اتنا یاد ہے۔ جگجیون بابو محلے میں آئے تھے۔ کتنی بھیڑ لگ گئی تھی۔ دیکھنے والوں کی۔ بھینس کی طرح کالا پکا رنگ۔۔۔  بڑے بڑے گال باہر لٹکے ہوئے۔ کالے چہرے پر، اندر تک اتر جانے والی۔ ندی کی طرح گہری آنکھیں۔ ایک بار پلٹ کر جئے چنگی کو بھی دیکھا۔۔۔

چھوٹا سا جئے چنگی رام۔۔۔  بابوؤں کے پاس آتا تو۔۔۔  بابو دو ہاتھ ایسے بھاگتے جیسے وہ کوئی اچھوت ہو۔ اور یہ آدمی۔ ایک دم کالا بھینس کے رنگ والا۔آگے پیچھے دوڑ کر گھومتے ہوئے لوگ۔

’’بابوجی ! ‘‘

ہاں لوگ یہی تو کہ ر ہے تھے۔ چرنوں میں گر رہے تھے۔ بابا نے بتایا ہے۔۔۔  اپنے ہیں۔۔۔  اب تو بہت بڑے بن گئے ہیں۔۔۔  دلی میں ہیں۔۔۔  پڑھنے کو بولا ہے۔۔۔  بولے ہیں چمار جات کو پڑھنا چاہئے۔۔۔  آگے بڑنے کا ادھیکار سب کا ہے۔۔  بڑھو۔۔۔  برابری کرو۔

بابا کی بات اسے اچھی لگی۔ بابا نے اُسے ایک پاٹھ شالا میں ڈال دیا۔۔۔  نام لکھا گیا۔ لیکن لڑکوں کے بیچ بھی، یہ ’جاتی ‘ کا فرق موجود تھا۔۔۔

’’بیٹھنے مت دو، چمار ہے۔‘‘

’’چمڑے چھوٹا ہے۔۔۔ ‘‘

’’ہٹ۔۔۔  تیرا ہاتھ گندہ ہے ‘‘

’’تیرے ہاتھ سے کوئی کچھ نہیں لے گا۔‘‘

’’کیوں۔۔۔ ؟‘‘

’’گندہ  ہو جائے گا۔۔۔  اپوتر ‘‘

پاٹھ شالا کے ماسٹر جی نے بھی بتایا۔۔۔  اب دیکھ چمار کے لڑکے بھی پڑھنے لگے۔۔۔  دیش کاکیا ہو گا۔۔۔  ایک بابو جگجیون رام کیا بن گئے۔۔۔  سارے چمار جگجیون رام بننے لگے۔

تب تک اس  نے امبیڈکر کے بارے میں سنا تھا۔۔۔  نہ کسی دلت آندولن کے بارے میں۔۔۔  بس و ہ یہ سب سن سن کر کڑھتا رہا۔ لیکن کرتا کیا۔۔۔

لیکن جئے چنگی رام نے تب ہی سوچ لیا تھا۔۔۔  آ رہ نہیں رہنا۔۔۔  دلی جانا ہے۔ بسنا ہے دلی۔۔۔  وہیں کام کرنا ہے۔ تھوڑا پڑھ لکھ گئے تو دلی بسنے میں آسانی ہو گی۔۔۔

لیکن آسانی کیا ہوتی۔ دسویں میں تھا کہ زبردستی پکڑ کر اس کا گونا کر دیا گیا۔۔۔  اورسمترا اس کے حوالے کر دی گئی۔۔۔  اب اپنا کما کھا۔۔۔  گھر والی کو بھی۔۔۔  کھلا۔۔ ‘‘

بابا نے ہاتھ روک لیا۔۔۔  دمے کی بیماری تھی۔ چپل جوتا بناتے بناتے، کھانسنے لگتے۔۔۔  پھر ایسی کھانسی اٹھتی کہ رکنے کا نام نہیں لیتی۔ پھر ایک دن یہی دمے کی بیماری ان کی جان لے کر گئی۔۔۔

 

لیکن جئے چنگی رام کو، اپنے پشتینی کام میں دل نہیں لگا۔۔۔  لگتا بھی کیسے۔ بابو جی، یعنی جگجیون رام آنکھوں سے، سپنے کی طرح نکلتے، تب نا۔۔۔  ’سپنا سنیما‘ روڈ پر موٹر پارٹس کی دکان میں لگ گیا۔۔۔  کام سیکھنے۔۔۔  محنت بھرا کام تھا۔۔۔  شروع میں پیسہ کم تھا۔ لیکن اچھا میکنک بننے تک پھر پیسہ آنا شروع ہو گیا۔ جیب میں دو پیسے آنے لگے تو دلی جانے کے ارادے نے ایک بار پھر زور پکڑا۔۔۔  لیکن دلی جانے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی، سمترا۔۔۔

’’سمترا کا کیا کیا جائے۔۔۔ ؟‘‘

جئے چنگی رام نے اپائے بھی ڈھونڈ لیا تھا۔ وہ اپنی ٹولی کے بڑے بوڑھوں سے بات کرے گا۔۔۔  باقاعدہ سمترا کے لئے ہر ماہ پیسہ بھیج دیا کرے گا۔۔۔  جب سیٹل ہو جائے گا تو اسے دلی بلا لے گا۔۔۔  تجویز مناسب تھی۔۔۔  انکار کسے ہوتا۔۔۔  چمار ٹولی کے بڑے بوڑھوں نے رضا مندی دے دی۔۔۔

’’بابو جی بھی ایسے ہی بڑے بنے تھے۔ اپنی جمین کا موہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ جا ببوا۔۔۔  جا۔۔۔ ‘‘

 

ببوا دلی آیا تو آسمان کے تارے نظر آ گئے۔ ہاتھ میں ہنر تھا۔ ایک ہفتہ مشکل میں گزرا پھر راستہ بننے لگے۔۔۔  موتی نگر اسٹینڈ کے پاس، موٹر پارٹس کی ایک بڑی سی دکان تھی۔۔۔  کام مل گیا۔۔۔  لیکن یہاں بھی پوچھا گیا۔۔۔

’’کہاں سے آئے ہو۔۔۔ ؟‘‘

’’بہار۔۔۔ ‘‘

’’بہار میں کہاں۔۔۔ ؟‘‘

’’آ رہ جِلا‘‘

’’کون جات کے ہو۔۔۔ ؟‘‘

’’جی جھوٹ نہیں بولتا، چمار‘‘

’’چمار۔۔۔  کوئی بات نہیں۔ کون سا جوتا بنانا ہے۔۔۔  (ہنسی ) موٹر پارٹس ٹھیک کرنے ہیں۔۔۔  وہ آتا ہے نا۔۔۔ (ہنسی)۔۔۔

٭٭

 

بیچ بیچ میں،  کام کرتے ہوئے مالک اور دوسرے کاریگر پوچھ لیتے۔۔۔

’’کیوں رے جئے چنگی، بہار میں جوتا بننا بند ہو گیا کیا ؟‘‘

’’ہاں کیونکہ اب ہر بات میں جوتا چلتا ہے وہاں ‘‘

’’اسی لئے دلی آ گیا بیچارہ۔‘‘

جئے چنگی نے آگے بڑھنے کے راستے میں ان باتوں کو بہت معمولی طور پر لیا تھا۔۔۔  دلت۔۔۔  یہ ایک شبہ، شبہ نہیں۔ آندولن تھا۔۔۔  آزادی کے اتنے برس بعد بھی نام جانتے ہی سامنے والے کی آنکھوں میں سانپ جیسی ایک گہری چمک پیدا ہوتی۔۔۔  یہ چمک، اس ایک سکنڈ۔۔۔  اس کے بدن سے جیسے سارا لباس اتار لیتی۔۔۔  لیکن وہ اس طرح دلت بن کر جینا نہیں چاہتا تھا۔۔۔  وہ تو بابو جی کے راستہ پر چلنا چاہتا تھا۔ اور اس کے لئے اس نے راستے بھی سوچ رکھے تھے۔۔۔  لیکن سب سے ضروری چیز تھی۔۔۔  پیسہ۔۔۔ !

راتیں سپنا دیکھتے ہوئے گزرتیں۔۔۔  سپنوں کے اس راستے، اس نے راجنیتی میں جانے کا فیصلہ لے لیا تھا۔۔۔

کاریگر پوچھتے

’’تو راجنیتی میں جائے گا۔۔۔ ؟‘‘

’’۔۔۔  ہاں ‘‘

’’کا کرے گا۔۔۔ ؟‘‘

’۔۔۔ ’جو کہا جائے گا ‘‘

’’جا، کاشی رام سے مل لے۔۔۔ ‘‘

کوئی کہتا۔۔۔  بہن جی سے مل لے۔۔۔  منو وادیوں کے خلاف بولتی ہے۔ تجھ پر تو عاشق ہو جائے گی۔۔۔‘‘

دنیا بدلی تھی۔۔۔  جاتیے سمیکرن بدلے تھے۔۔۔  وہ دیکھ رہا تھا۔ تبدیلی تو آ رہی ہے۔۔۔  لیکن تبدلی کی رفتار سست ہے۔ شکچھا نے اتنا کیا ہے کہ و ہ اب پہلے سے کم ننگا ہوتا ہے۔۔۔  لیکن شکچھا نے یہ بھی کیا ہے کہ پڑھے لکھوں کے بیچ اب اس طرح کی باتیں جاتیے سنگھرش (Cast war) اور آندولن کا روپ لے چکی ہیں۔ شاید اسی لئے بہو جن سماج پارٹی کو دلتوں کی اپنی پارٹی کہا جاتا ہے۔ اور یہ دلتوں کا سب سے بڑا ووٹ بینک ہے۔۔۔

٭٭

 

انہی دنوں اشوک نگر میں اسے سستے داموں میں ایک چھوٹی سی زمین مل گئی۔۔۔  جو اس نے اپنی ٹولی کے جان پہچان والوں سے قرضہ لے کر خرید لی۔۔۔  اور یہاں موٹر پارٹس کا بورڈ لگا دیا۔ جگہ کشادہ تھی۔۔۔  دوسری بات مین روڈ کے پاس۔۔۔  قسمت کی لاٹری نکل آئی۔ دکان چل نکلی۔۔۔  دکان چل نکلی تو کچھ الٹے سیدھے شوق بھی پال لئے۔ سب پیسے کی کرامت ہے۔ اور اس بیچ مجنوں کے ٹیلے میں رہنے والی شوبھا سے اس کا ’ٹانکا‘ بھی پھر گیا۔۔۔

’’شادی شدہ ہے ؟‘‘

’’۔۔۔ ہاں ‘‘

’’اور۔۔۔ ؟‘‘

’’۔۔۔  جات کا چمار‘‘

’’تو کیا، پیسہ تو کمار ہا ہے نا ‘‘

’’۔۔۔  جورو کو یہاں لائے گا ؟‘‘

’’۔۔۔  نا‘‘

’’’سوچ لے ؟‘‘

’’سوچ لیا۔۔۔ ‘‘

’’پھر ٹھیک ہے ‘‘

شوبھا کون تھی ؟ کس جات کی تھی۔۔۔ ؟ اس نے پوچھا بھی نہیں۔۔۔  نین لڑے۔ دل لگا۔ اور شوبھا سب کچھ بھول کر اس کے گھر آ گئی۔ اور ایک ہی سال بعد شوبھا نے اسے سونالی کا تحفہ دے دیا۔۔۔

’’لے۔۔۔  چمارن ہوئی ہے۔۔۔ ‘‘

’’ایسا کیوں بولتی ہے۔۔۔ ‘‘

’’چمار کی بیٹی ہے ‘‘

’’میرا کمار بنے گی۔‘‘

٭٭

 

میرا کمار، بابو جی یعنی جگجیون بابو کی بیٹی تھی۔۔۔  ایک بار بڑے ارمان سے وہ ان سے ملنے گیا۔ ڈھیر سارے سپنے تھے۔ آ رہ ضلع۔۔۔  چندواں۔۔۔  بابو جی کا محلہ۔۔۔  جات برادری۔۔۔  میرا کمار کمرے سے نکلی تو وہ ایک لمحے کو ڈر گیا۔ ان کے چہرے پر کہیں سے بھی جات برادری نہیں لکھی ہوئی تھی۔ جیسا کہ بابو جی کے چہرے  پر لکھی ہوئی تھی۔۔۔

’’کا،  ہے ۔۔۔ ؟‘‘

وہ ایک لمحے کو ڈر گیا۔۔۔  پھر مسکرا کر جھینپ مٹانے کی کوشش کی۔۔۔

’’ہم آپ کے شہر کے ہیں۔ آپ ہی کی برادری۔

’’ابھی ہم بیزی ہیں۔۔۔  کوئی کام ہو گا تو ایک مہینے کے بعد ملنا۔۔۔  ‘‘ میرا جی کے سکریٹری نے بھی یہی کہا۔

’’ایک مہینہ بعد۔۔۔ ‘‘

یہ ایک مہینہ بعد اس کے جیون میں دوبارہ نہیں آیا۔۔۔  اس بیچ سیاست کی چاٹ تو اسے لگ ہی چکی تھی۔۔۔  اور وہ بار بار بہو جن سماج پارٹی کے دفتر کا چکر بھی لگانے لگا۔

اڑتے اڑتے آ رہ تک بات پہنچ گئی کہ یہاں اس نے دوسرا وواہ کر لیا ہے۔۔۔  پھر تو بھوکمپ آ گیا۔۔۔  ٹولی کے دو ایک لوگ غصہ میں اس سے ملنے آئے۔۔۔  مگر اس کا جما جمایا کاروبار اور رہن سہن دیکھ کر واپس لوٹ گئے۔ یہاں سمترا کا ٹوٹی پھوٹی ہندی میں ایک پتر آیا تھا۔۔۔

’’لوگ جو کہیں وشواش مت کرنا۔۔۔  مجھے کوئی دکھ نہیں ہے۔۔۔  پیسہ بھیجتے رہنا۔۔۔  یہاں تمہاری ایک بیٹی بھی ہے۔۔۔  اسی کے لئے۔۔۔  ہاں کبھی کبھی آ بھی جانا۔۔۔ بٹیا تمہیں رام رام کہتی ہے۔۔۔  ابھی پرنام بابو بولنا نہیں آتا ‘‘

سمترا

چھوٹے سے خط نے اسے اندر تک ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایک شوبھا تھی، اب جس کے نئے نئے تقاضہ سے وہ دکھی ہونے لگا تھا۔۔۔  اور ایک طرف سمترا تھی۔۔۔  اس بیچ دو ایک بار وہ وقت نکال کر آ رہ بھی گیا۔۔۔  بٹیا اور سمترا سے ملا۔۔۔  ایک کسک جاگی۔۔۔  کہیں اس نے غلطی  تو نہیں کی۔۔۔  لیکن جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔۔۔

اس بیچ بہو جن سماج پارٹی کے کاریہ کرتاؤں سے ایک جھڑپ کے بعد، اپنی پارٹی سے اس کا دل کھٹا ہو گیا۔۔۔  اب اس کی بیٹھکی کانگریس میں ہونے لگی۔۔۔  وہ کافی دنوں تک کانگریس سے چپکا رہا۔۔۔  کیونکہ وہ یہی دیکھ رہا تھا۔۔۔  لوگ دھیرج رکھ کر دل بدل لیتے ہیں۔ بابو جی ہوتے وہ بھی یہی کرتے۔ آخر کو بابو جی کانگریسی تھے۔ دلت اور مسلمانوں کی حمایت کرنے والی پارٹی۔۔۔  لیکن کانگریس میں کافی دھکے کھانے کے بعد بھی اسے دو کوڑی کا فائدہ نہیں ہوا تو وہ جھٹ پارٹی بدل کر بھاجپا میں آ گیا۔۔۔

 

سمئے نے کروٹ لی تھی۔۔۔  خانہ جنگی میں اضافہ ہوا تھا۔ شوبھا کے جائز ناجائز نے گھر میں اس کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔۔۔  ادھر بی جے پی سے اس کو کئی فائدہ ہوئے تھے۔۔۔  سونالی کا ایڈمیشن۔۔۔  گولڈن پی کاک اسکول۔۔۔  کبھی کبھی اسے  سنہرے مور جیسی نظر آتی تھی  سونالی۔۔۔  لیکن پھر اس مور کے پیچھے شوبھا کا خیال کرتے ہی وہ اداس ہو جاتا۔۔۔

بھاجپا کے منتریوں تک اس کی پہنچ ہونے لگی تھی۔ وہ چھٹ پٹ دوسروں کا کام بھی کرانے لگا تھا۔۔۔  اشوک نگر میں دوسو گز کے پلاٹ پر اپنا مکان بھی بنا لیا تھا۔۔۔  دکان میں کئی کاریگر آ گئے تھے۔۔۔  مگر وہ زیادہ تر وقت پارٹی کو دینا چاہتا تھا۔۔۔

اس بیچ صرف ایک بڑی بات ہوئی تھی۔۔۔

ایک زمانے میں جو نام دلت بن کر اسے پریشان کیا کرتا تھا، وہی نام راجنیتی میں ایک مضبوط پہچان بن کر ابھرا تھا، مطلب دلت ووٹ۔۔۔

’’آپ دلت ہیں ؟‘‘

مطلب۔۔۔  بھاجپا کے کھاتے میں آ جائیں گے کچھ دلت ووٹ۔۔۔  اس نے اپنا کارڈ بھی چھپوا لیا تھا۔۔۔  جس پرا س نے انگریزی کے موٹے موٹے اکچھر میں لکھوایا تھا۔۔۔  جئے چنگی رام۔ پارٹی ورکر، بھاجپا۔ اشوک نگر ہیڈ کوارٹر۔۔۔  اب وہ اشوک نگر بھاجپا کے  برانچ میں کسی اونچے پوسٹ کے ملنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔

ادھر شوبھا کے تقاضے بڑھتے جا رہے تھے۔ کبھی کبھی لگتا۔۔۔  وہ اس دباؤ میں راجنیتی نہیں کر سکتا۔ کبھی کھبی شوبھا کو جان سے مار دینے یا نیچا دکھانے کا خیال بھی آتا مگر کیسے۔۔۔

اس کے پاس کوئی جادو کا چراغ تو تھا نہیں۔۔۔

ہر روز گھر پہنچنے کے بعد اس کی شوبھا سے ’چکھ، چکھ‘ ہو جاتی۔۔۔  اس دن بھی یہی ہوا تھا۔۔۔

 

’’سارا پیسہ باہر لٹا کر چلے آئے ‘‘

’’تمہیں کیا پریشانی ہے۔‘‘

’’پریشان کیسے نہیں ہو گی۔ باہر راجنیتی کرتے ہو۔ میں نہیں جانتی کیا، راجنیتی میں کیا کیا ہوتا ہے۔۔۔ ؟‘‘

’کیا کیا ہوتا ہے۔۔۔ ؟‘‘

’’منھ مت کھلواؤ۔۔۔ ‘‘ شوبھا نے ہاتھ چمکائے۔۔۔ ’’میں کروں تو اپرادھی، تم کرو تو عیش ‘‘

’’میں کوئی عیش نہیں کرتا۔‘‘

’’مت کرو۔۔۔  پیسے لاؤ ‘‘

’’پیسے۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں، پیسے ‘‘

’’نہیں ہیں۔‘‘

’’کہیں سے بھی لاؤ۔۔۔  سونالی کی فیس بھری جانی ہے۔‘‘

’’سونالی کی فیس یا۔۔۔ ؟‘‘

’’جو بھی سمجھو۔‘‘

 

جئے چنگی رام نے غور سے اس ’جھڑتے‘ چہرے والی عورت کا جائزہ لیا۔ کبھی اسے کیسے ململ کی ’لوئیا‘ لگتی تھی۔۔۔  اور اب۔۔۔  شیشے کا بدن کہتا تھا۔۔۔  سمترا کا بدن اسے گندہ لگتا تھا۔۔۔  جس سے ہمیشہ چمڑے کی بدبو اٹھتی رہتی تھی۔۔۔  مگر اس بدن سے۔۔۔  کسی نے بتایا تھا۔۔۔  شوبھا کسی اور سے ملتی ہے۔ اس کے جانے کے بعد کوئی اس کے گھر میں آتا جاتا بھی ہے۔۔۔  پارٹی کے لوگوں سے بھی اس نے اپنے اس گھریلو جھگڑے کا اظہار کیا تھا۔۔۔

مگر لوگ کیا کرتے۔۔۔  یا کیا کہتے۔۔۔

اور اچانک ہی وہ قصہ ہو گیا۔ جس نے اسے شوبھا سے نجات دلانے کا راستہ دکھا دیا تھا۔

’’وہ سمترا اور بٹیا کو لے آئے گا !‘‘

سونالی بیٹی ہو کر بھی اس کے لئے پرائی تھی۔ کیوں کہ شوبھا اسے اپنے رنگ میں رنگ رہی تھی۔ اس لئے بچپن سے بارہ سال کی عمر میں پہنچنے تک کبھی وہ سونالی سے خود کو قریب نہیں پا سکا۔ اور ادھر بڑے کلاس میں جانے تک، سونالی کے رنگ ڈھنگ سب بدلنے لگے تھے۔ اسے ماں بیٹی دونوں سے چڑھ ہونے لگی تھی۔۔۔

سونالی بھی اس کی ہر بات کا جواب غصہ میں دیتی۔۔۔  کبھی اسے اپنا پن کا احساس ہوا بھی نہیں۔۔۔  کبھی کبھی اسے یہ بھی لگتا، سونالی اس کا اپنا خون نہیں ہے۔۔۔  شوبھا نے اسے ٹھگا ہے۔ اپنا خون ہوتا تو چاہت امڑتی۔ پیار آتا۔۔۔

وہ پیار سے پاس جانے کی کوشش کرتا مگر سونا لی چھٹک کر دور ہو جاتی ہے۔

’’تم اسکول مت آیا کرو۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’بس ممی کو بھیج دیا کرو۔‘‘

 

بیٹی کی بات سن کر ایک بار پھر ’دلت‘ ہو جاتا۔۔۔  فرق صرف اتنا تھا کہ کل ایسا بولنے یا کہنے والے پرائے ہوتے۔۔۔  آج چھوٹی سی عمر والی بچی ہوتی۔۔۔  جو گولڈن پی کاک اسکول میں پڑھ رہی تھی۔ وہ بھی انگریزی میں۔۔۔  اور وہ دسویں پاس، آ رہ ضلع میں رہنے والے چمار کومسٹریس اور بچوں کے سامنے ڈیڈ نہیں پکار سکتی تھی۔۔۔

’’لو، سب گیا مٹی میں۔۔۔ !‘‘

جئے چنگی رام کے دماغ میں چھناکے ہوتے رہے۔۔۔  کئی بار ان ماں بیٹی کو الگ کرنے کے اس نے کئی پلان بنائے۔۔۔  مگر سب بے سود۔

اب چناؤ سر پر تھا۔ پارٹی میں اس کی اپنی حیثیت کو لے کر وعدے ینارے بھی ہو رہے تھے کہ اچانک یہ قصہ ہو گیا تھا۔۔۔  اس وقت وہ گھر پر تھا۔ دو بجے تھے۔ جب سونالی روتی ہوئی آئی۔۔۔  اور روتے چیختے ہوئے اس نے سارا گھر آسمان پر اٹھا لیا۔۔۔

’’یہاں۔۔۔  یہاں۔۔۔  ‘‘ وہ بار بار فراک کے نیچے کچھ دکھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔

شوبھا چیختی ہوئی آئی۔۔۔

’’جئے چنگی چلا کر بولا۔۔۔

’’کیا کہہ رہی ہے یہ۔۔۔ ؟‘‘

’’ہٹو۔۔۔  تم ہٹو۔۔۔ ‘‘

’’ایسے کیوں رو رہی ہے ؟‘‘

’’تم ہٹو نا۔ پوچھتی ہوں۔‘‘

سونالی پوری طاقت لگا کر چیخی۔۔۔  اور اس نے فرک کا کونا الٹ دیا۔۔۔

جئے چنگی نے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔

پھر اسے شوبھا کی کانپتی آواز سنائی پڑی۔۔۔

’’ہے رام۔۔۔  کسی نے اس کی اجّت خراب کر دی۔۔۔ ‘‘

وہ بٹیا کو تابڑ توڑ لات گھونسوں سے مار رہی تھی۔۔۔  بول کہاں گئی تھی۔ کہاں گئی تھی بول ؟

جئے چنگی نے اسے روکا۔۔۔  اس کے سر پر بھی آسمان گر گیا تھا۔۔۔  اس چھوٹی سی عمر میں۔۔۔ !

’’بلاتکار۔۔۔ ‘‘ یہ لفظ اس کے ہونٹوں پر آیا اور ’کمان‘ کی طرح تن گیا۔۔۔

وہ جانے کے لئے اٹھا تو شوبھا نے راستہ روک دیا۔۔۔

’’کہاں جا رہے ہو ؟‘‘

’’تھانے ‘‘

’’پاگل ہو گئے ہو ؟‘‘

وہ غصے سے بولا۔۔۔  اس میں پاگل پن کی بات کیا ہے۔‘‘

’’ہے، کیسے نہیں۔ بیٹی کو سارے جمانے میں بدنام کرو گے۔۔۔ ‘‘

’’یہ پولس کا معاملہ ہے۔‘‘

’’گھر کی اجت کا معاملہ ہے۔‘‘

شوبھا دہاڑی۔۔۔ ’’مجھے پوچھنے دو۔ معاملہ کو رفع دفع کرنے دو۔ تمہیں کچھ سمجھ میں تو آتا نہیں ہے۔۔۔‘‘

اس نے فون کے نمبر ڈائل کرنا چاہا۔۔۔

’’کہاں فون کر رہے ہو۔۔۔ ؟‘‘

’’پارٹی دفتر ‘‘

’’دفتر والوں کو بولو گے کہ بیٹی کی اجت کھراب ہو گئی ہے۔‘‘

’’نہیں مشورہ کروں گا۔‘‘

’’مشورہ گیا بھاڑ میں۔ عقل سے کام لو جئے چنگی رام۔۔۔  جس کی اجت خراب ہوئی ہے وہ تمہاری بٹیا ہے۔۔۔  بٹیا کا نام مت اچھالو۔۔۔  دبا دو۔ اس خبر کو دبا دو۔۔۔ ‘‘

’’دبا دو۔۔۔ ؟‘‘

’’دبا دو۔۔۔ ‘‘

یہ شبہ بار بار جئے چنگی رام کے من میں اٹھتے رہے۔۔۔  لیکن سمترا اور بٹیا کو لانے کی اب اتنی جلدی تھی کہ وہ مستقبل کے خطرات کو ایک پل کے لئے بھول گیا تھا۔۔۔

اصل دھماکہ تو اب ہونا تھا۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۳)

 

 

نام۔۔۔  دیوورت

بیٹے کا نام۔۔۔  روی کنچن

ذات۔۔۔  بھومیار

عمر۔۔۔  ۴۵ برس

پیشہ۔۔۔  بلڈنگ کنٹریکٹر

اشوک نگر میں ہی جئے چنگی رام کے مکان سے چار فرلانگ پر دیوورت کا دو تلہ مکان تھا۔۔۔  دیوورت بلڈنگ کنٹریکٹر تھا۔۔۔  مست مولا آدمی۔۔۔  پینے پلانے کا شوقین۔۔۔  پتنی شالنی اور بیٹا روی کنچن۔۔۔  اس کے علاوہ گھر میں کام کرنے والی ایک بائی تھی۔۔۔  شنو بائی۔ جو کام سے فارغ ہو کر زیادہ تر اپنے چھوٹے سے کمرے میں آرام کرتی تھی۔۔۔

اس کا اتنا ہی کام ہوتا تھا۔۔۔

’’بابا کو بریک فاسٹ دیا۔۔۔ ؟

’’ہاں ‘‘

’’بابا کا لنچ بن گیا۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں ‘‘

’’بابا کا یونیفارم۔۔۔ ؟‘‘

’’مشین میں ہے۔۔۔  ابھی پریس ہو جائے گا۔‘‘

’’بابا کا شوز۔۔۔ ؟‘‘

’’تیار ہے !‘‘

 

دیوورت کو بلڈنگ کنٹریکٹر کے کام سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی کہ بیٹے کی صحیح دیکھ بھال اور خیریت دریافت کر سکے۔۔۔  بزی لائف ہے۔ ایک ایک کنٹریکٹ کے پیچھے مہینوں گھومنا، بھاگنا پڑتا ہے۔ منتری سے لے کر سنتری تک۔۔۔  پھر باری آتی ہے جیب بھرنے کی۔ ان کی بھرو، ان کی بھرو، سب کو خوش رکھو۔۔۔  اور ملتا کیا ہے۔۔۔  بچتا کیا ہے۔۔۔  ایک کنٹریکٹ کے بعد دوسرے کنٹریکٹ کے پیچھے بھاگتے پھرو۔۔۔

مگر دیوورت زیادہ چنتا نہیں کرتے تھے۔ شام میں دارو کی بوتل چاہئے۔ اے ون کلاس وہسکی۔۔۔  فرائی مچھلی اور چکن کے پیس۔۔۔ دوست یاری میں سب چلتا ہے۔۔۔  وہ بھی ایسے ہی پلے بڑھے ہیں۔ روی بھی بڑھ جائے گا۔۔۔

ہاں، کبھی کبھی پوچھ لیتے ہیں۔۔۔

’’سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں پاپا ‘‘

’’کوئی ضرورت۔۔۔ ؟‘‘

’’نو پاپا ‘‘

’’ٹھیک۔۔۔  ممی کو بولنا، بس، ٹھیک ‘‘

’’یس پاپا۔۔۔ ‘‘

 

یہ دلی میں زندگیاں بھی کتنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں پر سمٹ آتی ہیں۔ تبھی تو ہر آدمی وکرم سیٹھ کا ’سوئٹیبل بوائے‘ لگتا ہے۔ اور ملنے والی ہر چیز کے لئے ارندھتی رائے  کے ’چھوٹی چھوٹی چیزوں کے خدا ‘پر یقین کرنا پڑتا ہے۔۔۔  ایسے پروفیشن میں دھرم، آستھا سے جڑاؤ، خود بہ خود پیدا ہو جاتا ہے۔۔۔  مندر جانے، ماتھے ٹیکنے تک مگر بھگوان سے یاری تھی۔۔۔  دیوورت کسی پارٹی کے کھونٹ سے نہیں بندھا تھا۔۔۔  راجنیتی سے کوئی زیادہ مطلب بھی نہیں تھا۔۔۔  پیسے کی بھاشا سب جانتے ہیں۔۔۔  کھلانے پلانے سے ہی یہ کنٹریکٹر کا کام چلتا ہے۔۔۔  فکر تھی تو بس ایک۔۔۔  روی کنچن کا بدن پھیلتا جا رہا تھا۔۔۔  اپنی عمر سے زیادہ کا لگنے لگا تھا۔۔۔  شالنی سے دیوورت نے کہا تھا۔۔۔

’’روی کو دوڑایا کرو۔۔۔ ‘‘

’’کہتی تو ہوں۔‘‘

’’کہنے سے نہیں ہو گا۔ تم بھی ساتھ جاؤ۔جاگنگ کرو۔ سلم رہو گی۔‘‘

’’اب کیا سلم رہوں گی۔۔۔ ؟‘‘

’’اب، کیا مطلب۔۔۔ ؟‘‘

’’مطلب کہ۔۔۔ ‘‘

دیوورت نے اچھل کر اس کے بدن کو چوم لیا۔۔۔  سینے پر کچوٹی کا ٹ ڈالتا۔۔۔

’’تم ابھی بھی پاگل کر دیتی ہو۔ ‘‘

’’ہٹو جی۔ تم تو ہر وقت۔۔۔ ‘‘

شالنی دیوورت کی کمزوری تھی۔۔۔  شالنی کو بے حد مانتا تھا۔۔۔  فاؤنڈیشن، نئی ساڑیاں، ماڈرن ڈریسیز، سنیما لے جانا۔ خود بھی وہ دیکھنے میں ۴۵ سے کم کا لگتا تھا۔۔۔  رات میں پینے پلانے کے بعد ایسا بھی ہوتا جب دونوں پتی پتنی وی ڈیو پلییر پر بلیو فلم کی سی ڈی چلا کر چھوڑ دیتے۔۔۔  بابا کی فکر نہیں تھی۔۔۔  بابا کو بائی کے پاس بھیج کر دونوں مطمئن ہو جاتے۔۔۔

اس بیچ شالنی نے ساؤتھ ایکس میں بیوٹی پارلر جوائن کر لیا تھا۔ اس کا کہنا تھا۔۔۔  خالی وقت میں گھر میں بور ہو جاتی ہوں۔ دیورت نے کہا بھی۔

’’کہو تو بیوٹی پارلر کھول دوں۔

’’نہیں۔ مینج کرنا آسان نہیں۔۔۔  وہاں کئی عورتیں ہوتی ہیں۔ تفریح ہو جاتی ہے۔

’’نہیں اگر تم کرنا چاہو تو۔‘‘

شالنی نے صاف منع کر دیا۔۔۔  جاب میں وہ باؤنڈیڈ نہیں ہے کہ کرنا ہی کرنا ہے۔۔۔  جب مرضی چھوڑوں گی۔ اور اس طرح اپنے کام میں خود وہ پھنس کر رہ جائے گی۔۔۔  پھر بیٹے کی کیئر بھی نہیں کر سکے گی۔۔۔

’’کیا تم روی کی کئیر کر رہی ہو۔۔۔ ‘‘

’’تم سے زیادہ۔۔۔ ‘‘

’’تم سے زیادہ کیا، میں تو بالکل ہی نہیں کر پاتا۔‘‘

’’مجھے کرنا پڑتا ہے۔ ماں ہوں نا۔ شالنی کا دقیانوسی عورتوں جیسا جواب تھا۔

’’اور یہ جو بائی ہے۔‘‘

’’بائی بائی ہوتی ہے۔‘‘

ایک چھوٹی سی خوشحال میرج لائف کو دیوورت نے چھوٹی چھوٹی چیزوں کے خدا کے سپرد کر رکھا تھا۔ یعنی گھر میں ایک چھوٹا سا مندر بھی تھا۔ باہر جانے سے پہلے ما تھا ضرور ٹیکتا۔۔۔  اور دوسرا راز فینٹیسی  اور Debonair         جیسی میگزین اور بلیو فلموں کی سی ڈی میں چھپا ہوا تھا۔۔۔  کھاؤ گگن رہو مگن۔۔۔  عیش کرو۔۔۔  بچوں کا کیا ہے۔۔۔  بچے تو پل ہی جاتے ہیں۔ اور۔۔۔

’’بائی ہے نا۔۔۔ ‘‘

مگر بائی سے کیا ہوتا ہے۔۔۔

اس دن دھماکے کی پہلی چوٹ ان کے دروازے پر پڑی تھی۔۔۔

اور دونوں ایک دم حیرت زدہ رہ گئے تھے۔ آنکھیں ایسی پھٹی پھٹی تھیں۔ جیسی لاشوں کی ہوتی ہیں۔۔۔

مگر۔۔۔

نگاڑے بج گئے تھے۔۔۔

اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کے خدا نے، اس سوئیٹیبل بوائے سے ایک لمحے میں ساری خوشیاں جھٹک لی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۴)

 

 

’’ایک گہرا سناٹا ہے۔

ایک چھوٹی سی کنکری پھینکو

کیا تم نے اس سے پہلے کبھی دیکھا ہے

زلزلے کا منظر‘‘

 

سونالی ایک طرف ہے۔ غصے میں منھ پھلائے بیٹھی۔ رونا بند ہے۔۔۔

جئے چنگی اپنے ہی بنائے گئے  بھنور میں پھنس گیا ہے۔۔۔  سونا لی بٹیا ہے۔۔۔  بٹیا۔۔۔   دو ایکم دو۔۔۔  سونالی بٹیا ہے۔۔۔

سونالی کے ساتھ کوئی راجنیتی نہیں۔۔۔

کیونکہ سونالی۔۔۔

طوفان گزر چکا ہے۔ ذہن میں تیز تیز آندھیاں چلی رہی ہیں۔ آ رہ، آنکھوں کے اسکرین پر جاگتا ہے۔۔۔  پھر سوجاتا ہے۔۔۔  اس کے اپنے مگھہیا ٹولی کے لوگ ابھرتے ہیں۔۔۔

’’دلی میں جورو کو بچا کے رکھنا

اور وہ مسکرایا تھا۔

’’دلی خراب جگہ ہے ‘‘۔۔۔  ایک بوڑھے نے سمجھایا۔۔۔  بچے بگڑ جاتے ہیں۔ بچوں پر نظر کون رکھے۔ تو اچھا کر رہا ہے جو بیوی بٹیا کو نہیں لے جا رہا ہے۔۔۔ ‘‘

 

’’میں منع کرتا تھا۔ منع کرتا تھا ‘‘

جئے چنگی چلا یا  ۔۔۔

شوبھا کھڑکی کی طرف منھ  دیئے کھڑی ہے۔۔۔

’’پوچھو۔ پوچھو اس سے۔۔۔  کس کی حرکت ہے۔

شوبھا کے بدن میں کوئی ہلچل نہیں۔۔۔

’’پوچھو۔۔۔ ‘‘

جئے چنگی پھر چلایا۔۔۔

شوبھا اس کی طرف پلٹی۔۔۔  بتا بھی دیا تو کیا تیر مار لو گے۔ جئے چنگی رام۔۔۔  چما رکی ذات چھوٹی ہی ہوتی ہے۔ تم کیا کر لو گے۔۔۔  جا کر پٹائی کرو گے۔۔۔  مارو گے۔۔۔  کیا کہہ کر مارو گے۔ اس نے میری بیٹی کے ساتھ۔۔۔ ‘‘

’’لیکن اس نے۔۔۔  میں بھی تو جانوں۔۔۔  کہاں جا کر۔۔۔

’’جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

شوبھا کا دو ٹوک فیصلہ تھا۔۔۔  بس اتنا سوچو کہ یہ معاملہ آگے نہیں بڑھے۔۔۔  ورنہ تم تو ہر معاملے میں پارٹی کی مدد لو گے۔۔۔  پیدا بھی پارٹی سے پوچھ کر ہوئے تھے۔۔۔ ‘‘

اس بیچ اتنا ہوا کہ سونالی گلا پھاڑ کر چلائی۔۔۔ ‘‘

’’میرے بارے میں کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سنا تم نے ‘‘

یہ جملہ جئے چنگی کیلئے تھا۔۔۔  جئے چنگی دلی سے پھر آرہ پہنچ گیا تھا۔ نا، یہ اس کی بیٹی نہیں ہے۔ یہ ماں بیٹی کبھی بھی اس کی نہیں ہوسکتی۔۔۔

وہ غصے میں چلایا۔۔۔  ’’چپ‘‘

’’کیو چپ ؟‘‘

وہ غصے میں پلٹا۔۔۔  جی میں آیا کہ سونالی کے سر پکڑے اور دیوار پر دے مارے۔۔۔  مگر دوسرے ہی لمحے اپنے غصے پر قابو پا گیا۔۔۔

مما سمجھا دو اسے میرے معاملے میں بولا نہ کرے۔۔۔ ‘‘

’’اچھا نہیں بولوں گا، سرکوتھامے ہوئے وہ کرسی پر پسر گیا۔

آندھی گزر چکی تھی۔

جئے چنگی رام خاموشی سے کافی دیر تک، خلاء میں دیکھتا ہوا کرسی پر بیٹھا رہا۔

٭٭٭

 

 

 

(۵)

 

منتری جی نے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔۔۔  چائے کی لئے بھی آرڈر دے دیا تھا۔۔۔

’’آؤ، جے چنگی ‘‘

’’جی ‘‘

’’بیٹھو۔۔۔ ‘‘

وہ بیٹھ گیا۔۔۔

’’اس طرح سر جھکا کر مت بیٹھو۔ تم جانتے ہو تمہارا اس طرح سر جھکا کر بیٹھنا۔۔۔  ارے تم پارٹی ورکر ہو۔ پارٹی کی نیو ہو۔ ابھی تو تم سے بہت کام لینا ہے۔

’’جی ‘‘

’’اشوک نگر، بھاجپا کا ریالے کے لئے، ہم تمہارے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ جانتے ہو نا   Everything is fair in war and politics۔ دکھی مت ہو۔ ارے تم ہی تو ذکر کرتے تھے۔۔۔  چھٹکارا چاہئے۔۔۔  تمہارے پاس عمر ہے۔۔۔  ایمبیشن ہے۔۔۔  اور پھر تم دلت ہو۔۔۔  دلت تو شیر ہوتا ہے۔۔۔  بہن جی کو دیکھا۔۔۔  بھائی جی کوہی چبا گئیں۔۔۔  شیر بنو۔

اس نے گہرا سانس لیا۔۔۔  ’’جی ‘‘

’’کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔  سنا۔۔۔  سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔۔۔  دنیا میں بہت کچھ بھولنا پڑتا ہے۔۔۔  پرانی ’گوٹی ‘ پرانی پڑ جاتی ہے۔۔۔  نئی گوٹی سیٹ کرنی پڑتی ہے۔۔۔  Everything is fair ۔۔۔ ‘‘

منتری جی خوش لگ رہے تھے۔۔۔ رپورٹ اچھی ہے۔سنگھاسن کا فائنل اچھا رہے گا۔۔۔  ارے کوئی نہیں ہمارے سامنے۔۔۔  ہم ہی رہیں گے ہر بار۔۔۔  پانچ کیا دس سال۔۔۔  اب ہم ہی ہم ہیں۔۔۔  بس ساتھ دو۔۔۔  ہمیں ایشو چاہئے۔۔۔  ایشو کے لئے گھبراؤ مت۔۔۔  پرانی قبریں کھود ڈالو۔۔۔  وہاں بھی ملیں گے ایشو۔۔۔  اور جب ایشو ملیں گے تو چاروں ہاتھ سے لپک لو۔۔۔  کھرانہ جی گورنر بن کر گئے ہیں۔۔۔  مگر جب دلی میں تھے تو دیکھا کیسے  لپکتے تھے۔ا یشو کو۔۔۔  گجرات میں کتنی عورتیں جلی ہوں گی۔۔۔  جلی ہوں گی نا۔۔۔  پچھلے ودھان سبھا میں کیا ہوا۔۔۔  کھرانہ جی تندور ہتیا کانڈ کا، گڑا مردہ لے آئے۔۔۔  کانگریس کی قبر کھود دی۔۔۔  کہاں گجرات کہاں ایک تندور ہتیا کانڈ۔۔۔  جئے چنگی۔۔۔  کانگریس کیوں چپ ہے۔۔۔  وہ سہارا لے  سکتی تھی، گجرات کا۔۔۔  بتاؤ بتاؤ۔۔۔  تم کیا بتاؤ گے۔۔۔  ہم بتائیں گے۔۔۔

منتری جی ہنسے۔ چائے آ گئی تھی۔۔۔

’’لو۔۔۔  چائے پیو۔‘‘

’’جی‘‘

’’ارے چائے پیو۔ اور سنو ‘‘

منتری جی نے چائے کی چسکی لی۔۔۔  کانگریس کی تو بولتی بند ہے۔ مسلمانوں کا کتنا ووٹ لے گی بیچاری۔ گجرات بولے تو۔۔۔  ہندوؤں کا ووٹ بینک صفایا۔۔۔  ہا۔۔۔۔۔ ہا۔۔۔۔ کہ نہیں۔ بولو چنگی۔۔۔  ای پولیٹکس کھرانہ جانتے تھے۔۔۔  ہار گئے تو کیا۔۔۔  باقی سب جگہ ہم آئے کہ نہیں۔۔۔  کس کی مونچھ کٹی۔ کس کی اونچی ہوئی سب جانتے ہیں۔۔۔  مگر طئے ہے ایشو چاہئے۔ چنگی رام جی ایشو چاہئے۔ اور وہ ہے آپ کے پاس۔۔ ‘‘

’’جی ‘‘

’’جی جی مت کیجئے۔ سنئے۔ پارٹی میں آگے بڑھنا ہے کہ نہیں۔ آپ بابو جی کی بات دہراتے تھے۔ میرا جی نے کیا کر لیا۔۔  آپ کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہے۔ اس لئے ایک تو ہم فیصلہ کر چکے ہیں کہ اشوک نگر کی ذمہ داری آپ کو سونپیں گے۔۔  دوسرے دلتوں کو بھی اپنی طرف کھینچیں گے۔۔  دیکھئے۔ ناکر نوکر کا سمئے نہیں ہے۔۔  سب سوچ لیا ہے۔ دکھ ہوا سن کر۔ بارہ برس کی بیٹی۔۔۔  بلاتکاری کی عمر کیا ہو گی۔۔ ‘‘

’’جی۔۔۔ ‘‘

’’ہاں کیا ہو گی۔۔۔ ؟‘‘

’’بارہ برس۔۔۔ ‘‘

منتری جی کرسی سے ایسے اچھلے  جیسے ابھی ہوا میں معلق ہو جائیں گے۔۔۔  ان کے الفاظ اٹک رہے تھے۔۔۔

’’مطلب کیا۔۔۔  کہا۔۔۔ ہم سمجھے نہیں۔‘‘

’’بارہ برس۔ ساتھ پڑھتا تھا۔ پڑوس میں گھر ہے۔‘‘

’’اوہ۔۔۔ ‘‘

منتری جی کرسی سے اٹھ کر ٹہلنے لگے۔۔۔  بارہ برس تو بہت کم ہے۔۔۔  تھوڑا سا آگے ہو گا تو۔پندرہ، سولہ، سترہ، اٹھارہ۔۔۔  مطلب تھوڑا سا آگے۔۔۔  بارہ سال کا بچہ۔۔۔  دیکھئے۔۔۔  قانون بھی اس معاملے میں۔۔۔  مگر سوچئے۔۔۔  آپ اطمینان ہے نا کہ ریپ ہوا ہے۔۔۔ ؟‘‘

’’جی۔۔۔ ماں نے۔۔۔  ماں نے دیکھا ہے ‘‘

کیا۔۔۔ ؟‘‘

’’سونالی کو دوسرے کمرے میں لے جا کر۔۔۔ ‘‘

اوہ۔۔۔  بچی۔۔۔  پوٹرس میں سوجن آ گئی ہو گی۔۔۔ ‘‘

’’بچی۔۔۔  منتری جی ٹہلتے ہوئے بولتے جا رہے تھے۔۔۔  زمانہ خراب ہے۔ شیوسینا ٹھیک کہتی ہے۔۔۔  گندگی بڑھ رہی ہے۔۔۔  ویلن ٹائن ڈے پر پابندی لگاؤ۔۔۔  ہم پرانی سنسکرتی تو واپس لا رہے ہیں۔ اور یہ کانگریس والے۔۔۔  لاؤ۔ آدھونکتا۔۔۔  ماڈرن بنو۔۔۔ دیکھو کیا حشر۔۔۔ بارہ سال کا۔۔۔  منتری جی یکایک گھومے۔ لیکن۔۔۔  بارہ سال کا بچہ بلاتکار نہیں کر سکتا ہے کیا۔۔۔  جھوٹ نہیں بولتا ہے کیا۔۔۔  تھپڑ نہیں مارتا ہے کیا۔۔۔   گندی فلمیں نہیں دیکھتا ہے کیا۔۔۔  تو پھر بلاتکار کر سکتا ہے۔۔۔  نہیں کر سکتا تو ہم کرائیں گے  ایف آئی آر درج۔۔ ۔؟‘‘

’’ابھی تک نہیں ہوا ہے۔‘‘

’’تو جاؤ کراؤ جئے چنگی رام۔۔۔  کراؤ۔۔۔  ہم سمجھیں گے۔۔۔  معاملہ ۱۲ سال کے لڑکے کا نہیں ہے۔۔۔  ۱۲ سال کی لڑکی کا ہے۔۔۔  وہ بھی دلت لڑکی کا۔۔  کس نے کیا ہے۔۔  کیا عمر ہے۔۔۔  بھول جاؤ۔۔۔  ایک دلت لڑکی کے ساتھ ہونے والا  انیائے پارٹی کبھی بھی برداشت نہیں کرے گی۔ جاؤ ایف آئی آر درج کراؤ۔۔  پھر ہم دیکھتے ہیں۔۔۔  پارٹی کے ہو۔۔۔  راستہ تو نکالنا پڑے گا نا۔ ‘‘

’’جی ‘‘

اس بار جئے چنگی رام کسی ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح اٹھا تھا

٭٭

 

پوری کہانی سننے کے بعد بھی انسپکٹر نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا۔

’’امپاسبل۔ بچے کے معاملے میں قانون کے ہاتھ بھی لچیلے ہیں۔ آپ کیسے باپ ہیں۔ بدنامی ہو گی ؟‘‘

’’بدنامی ہو چکی ہے۔‘‘

’’کوئی گواہ ؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’میوچل انڈراسٹینڈنگ کا معاملہ بھی ہوسکتا ہے ‘‘ انسپکٹر نے جیسے توپ کا گولہ چھوڑا۔ عام طور پر آج کے بچے نہ جانتے ہوئے بھی ایسے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔۔۔  ریپ ہو جاتا ہے۔۔۔  بچے کو بلاتکاری نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ ‘‘

’’کیوں۔۔۔ ؟‘‘

’’آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ آپ اس وقت تھے۔ دیکھ رہے تھے؟‘‘

افسر کی آنکھیں اس پر گڑی ہوئی تھیں۔۔۔ ‘‘

جئے چنگی کو غصہ آ گیا۔۔۔  ’’میں ہوتا تو۔۔۔ ‘‘

’’چلائیے مت۔ ابھی چلائیں گے تو کورٹ میں کیا کریں گے۔۔۔  جب پبلک پروزیکیوٹر گندے گندے سوال کرے گا۔ یہ سب معاملے گھر میں سلجھایا کیجئے۔ بچوں کی اچھی پرورش کیجئے کہ بچے بہکے نہیں۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اس طرح کا ایف آئی آر درج کرنے کا مطلب جانتے ہیں۔۔۔  نوکری چلی جائے گی۔۔۔  جائیے، گھر جائیے۔۔۔  بچے کو میڈیکل ہیلپ دیجئے۔ اچھی جگہ گھمائیے۔ سیر کرائیے۔ ساتھ رہئے۔‘‘

’’مجھے آپ کا مشورہ نہیں چاہئے۔‘‘

’’پھر بیکار ہے۔ دونوں بچے ہیں۔ ساتھ پڑھتے ہیں۔ عمر دونوں کی بارہ سال۔۔۔   بارہ سال کے بچے نے بلاتکار کر دیا۔۔۔  آپ کی لڑکی دیکھتی رہ گئی۔ کیا کرنے گئی تھی خالی گھر میں۔۔۔  اکیلے بھیج دیتے ہیں۔۔۔  بلاتکار ہونے کے لئے۔

’’آپ لکھتے ہیں کہ نہیں۔ ‘‘ جئے چنگی زور سے چلایا۔

افسر مسکرایا۔۔۔ آپ لوگ۔۔۔  آپ لوگوں نے کنٹری کو برباد کیا ہے۔ روزانہ صبح شام ہر آدمی، کسی نہ کسی گھریلو بات کو لے کر ایف آئی آر درج کرانے آ جاتا ہے۔۔۔  ارے جائیے پہلے اپنا دماغ ٹھیک کرائیے۔ چلائیے مت۔‘‘

’’تو آپ نہیں لکھیں گے۔‘‘

’’نہیں ‘‘

’’تو ٹھیک ہے ‘‘

جئے چنگی نے آخری ہتھیار کا استعمال کیا۔۔۔  جیب سے موبائل نکالا۔۔۔  پارٹی کاریالے فون لگایا۔۔۔  فون سکریٹری نے اٹھایا۔۔۔  چنگی نے آہستہ آہستہ کچھ بات چیت کی۔۔۔  پھر موبائل انسپکٹر کی طرف بڑھا دیا۔۔۔

’’منتری جی کے پی اے سے بات کیجئے ‘‘

انسپکٹرنے بات کی۔ تسلی سے کئی سوال پوچھے۔ پھر موبائل بڑھادیا۔۔۔

’’آپ کی مرضی۔۔۔  مگر جان لیجئے۔ ایسے معاملے میں منتری جی اور منترالے بھی کام نہیں آئے گا۔ ایف آئی آر درج ہو گیا تو سمجھے کمان سے تیر نکل گیا۔

اس نے ایف آئی آر کی رپورٹ پوچھ پوچھ کر درج کی۔ نیچے سائن لیا۔

سائن کرتے وقت جئے چنگی کے ہاتھ تھر تھرا رہے تھے۔۔۔  مگر کیوں۔۔۔  وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۶)

 

 

آنکھیں بند کرتے ہی ایک چمکیلی سی دھند آ جاتی ہے۔۔۔  دھند کے اس پار سے ایک منظر مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔۔۔  مگر آنکھیں تو بند ہیں۔۔۔

’’نہیں۔ آنکھیں بند کہاں ہیں۔۔۔ ؟

چارج شیٹ پڑھ چکا ہوں۔سارا معاملہ آئینہ کی طرح صاف ہے۔

پولٹیکل پریشر۔۔۔  ایک چھوٹے سے میوچل انڈراسٹینڈنگ کے معاملے کو، جسے بچے کے ذریعہ کیا گیا  Molestation  بھی کہا جا سکتا  Sexual perversion   اور ریپ کا معاملہ بتایا گیا تھا۔۔۔  دونوں فریق آمنے سامنے تھے۔ دیوورت اور جئے چنگی رام۔

ایف آئی آر کے بعد لڑکی کو میڈیکل کے لئے بھیجا گیا۔۔۔  معاملے کو Legal Medico case میں ڈالا گیا۔۔۔  ڈاکٹر کی  Examination report   سامنے آئی۔۔۔  جس پر صاف طور پر بلاتکار کو   Justifyکرنے کی کوشش کی گئی تھی۔۔۔   ’حکومتیں کچھ بھی کرا سکتی ہیں ‘ کا ایک نیا پہلو سامنے آیا تھا۔۔۔  کیس اب جو وینائل کورٹ کے سپرد کیا گیا۔۔۔  لڑکے کی ڈی ان اے جانچ بھی ہوئی۔۔۔  کیوں۔۔۔ ؟ کس کے حکم پر۔۔۔  یہ سارے سوال اس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں۔ جب سرکار آپ کی ہو۔۔۔  ڈاکٹر اور لوگ آپ کے ہوں۔۔۔  پولس انوسٹی گیشن جو عام طور پر، کسی بھی معاملے کو مہینوں لٹکا کر رکھتا ہے، اس نے جھٹ جھٹ اپنی تیاریاں مکمل کر کے ایک رپورٹ سونپ دی۔۔۔  سارے evidence   موجود تھے جس کے بنا پر conviction ہوسکتا ہے۔۔۔  سائنٹیفک پروف موقع واردات پر پائے جانے والی چیزیں۔۔۔  فنگر پرنٹس۔۔۔  سہمے ہوئے بارہ سال کے بچے کے لئے، اس کی موجودگی کے علاوہ کوئی evidence  کافی نہیں تھے۔۔۔  مگر قانون اپنی پیچیدگیوں کے معاملے میں ابھی بھی بندھا ہوا ہے۔۔۔  پولس انوسٹی گیشن کے بعد عدالت میں چارج شیٹ داخل کر دی گئی۔۔۔  اب یہ معاملہ جو وینائل کورٹ میں تھا۔ پبلک پروزیکیوٹرسنگھ پریوار کا آدمی تھا۔  ڈیفنس کے لئے میری غائبانہ سفارش پر نکھل اڈوانی کا نام سامنے آیا تھا۔۔۔

چارج شیٹ بننے سے پہلے ہی پولس نے روی کنچن کو Accused   بنا کر حراست میں لے لیا تھا۔ پھر ضمانت پر اسے رہا تو کیا گیا۔ لیکن اوپر سے آنے والے لگاتار دباؤ کی وجہہ سے بچے کو ریفارم ہاؤس میں ڈالنے کی سفارش کی گئی۔ کیونکہ بچے میں ایک خطرناک مجرم پل رہا تھا۔۔۔

بچے سے ایک خطرناک جرم سرزد ہوا تھا۔۔۔

اب بال میری جیب میں تھی۔۔۔

مجھے ایک ایسے معاملے کا فیصلہ سنانا تھا۔ جس نے آزادی کے بعد کے ہندوستان کی ایک نئی شکل میرے سامنے رکھ دی تھی۔۔۔  جس نے برٹش راج کے قاعدے قانونوں کو برسوں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔۔۔

٭٭

 

آنکھیں  بند کرتے ہی ایک چمکیلی سی دھند آ جاتی ہے۔ میں اس دھند سے باہر نکلنا نہیں چاہتا۔ اس دھند سے باہر کچھ بھی دیکھنا نہیں چاہتا۔۔۔

مجھے دھمکیاں مل رہی تھیں۔۔۔  میں نے سخت لہجے میں، فیصلے سے قبل اس معاملے کو میڈیا میں دئے جانے کے خلاف اخلاقی دلیلیں دی تھیں۔۔۔  دو ایک پریس کے لوگ ملنے بھی آئے تھے۔ میں نے، ان کے گھر میں پلنے پڑھنے والے، ایسے چھوٹے بچوں کا حوالہ دے کر پوچھا تھا۔۔۔

آپ اپنے بچے کا مستقبل کیوں برباد کرنا چاہتے ہیں ؟ میڈیا، ایک خبر کو ’اسکوپ‘ بن کر Sell نہیں کرے گا تو کیا بگڑ جائے گا۔۔۔ ؟‘‘

اب تک یہ خبر رکی پڑی تھی۔۔ مگر لگاتار پڑنے والے پریشر میں۔۔۔  میں آنے والے لوک سبھا الیکشن میں۔۔  اس خبر کے دوررس نتائج کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

یہ خبر ایشو بن سکتی ہے۔

یہ خبر وسفوٹ کر سکتی ہے۔۔۔

فیل گڈ فیکٹر۔۔۔  ایک چھوٹی سے بچی کے لئے گھمسان۔۔۔  فیل گڈ فیکٹر۔۔۔  انیائے کے وردھ مورچہ۔۔۔  فیل گڈ فیکٹر۔۔۔  فیل گڈ فیکٹر کی کتنی ہی شاخیں اس ایک معاملہ سے نکل کر دور دور تک پھیلتی جاتی تھیں۔۔۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید