FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

پانچواں موسم

 

 

 

صائمہؔ کامران

ماخذ: کتاب ایپ

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

انتساب

 

 

معروف دانشور اور نقّاد

ڈاکٹر آغا سہیل

کے نام

 

 

 

 

 

 

تعارف

 

امجد اسلام امجد

 

پروین شاکر کی وفات کے بعد سے اب تک اُس کے پائے کی کوئی شاعرہ تو سامنے نہیں آئی مگر چند ایسے نام ضرور اُبھرے ہیں جن سے کم یا زیادہ توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ صائمہ کامران کا شمار اسی فہرست میں ہوتا ہے۔ اُس کی شاعری کا سب سے قابلِ توجہ پہلو اُس جذباتی شدّت اور چنچل پن کا تسلسل ہے جس میں ایک الہڑ لڑکی اور ایک حسّاس عورت بیک وقت اپنا اظہار کرتے ہیں۔ اُس کی بے باکی میں ایک خاص نوع کی معصومیت اور سادگی میں ایسی پُرکاری ہے کہ اگر وہ الفاظ اور استعاروں کے انتخاب میں کچھ اور محتاط ہو جائے تو اُس کی آواز اپنی ہم عمر شاعرات میں مزید واضح اور منفرد ہو جائے گی۔ وہ اس اعتبار سے بھی خوش قسمت ہے کہ اُسے ایک محبت کرنے والا سخن فہم اور سخن دوست شوہر ڈاکٹر محمد کامران کی شکل میں ملا ہے ورنہ عام طور پر خواتین لکھنے والوں کے لیے رکاوٹوں کا سفر اُن کے اپنے گھر سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔

صائمہ کامران ایک خوش گو اور خوش خیال شاعرہ ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ ہر اگلے شعری مجموعے کے ساتھ ساتھ اُس کا فنی قد بھی بلند سے بلند تر ہوتا جائے گا۔

امجد اسلام امجد

۳۰ مارچ ۲۰۱۵ء

 

 

 

 

 

تعارف

 

ڈاکٹر سلیم اختر

 

صائمہ کامران نے بہت اچھی شاعری کی ہے۔ ایسی شاعری جس میں جذبات کو خوب صورت اسلوب سے کیموفلاج کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر سلیم اختر

 

 

 

 

 

محبتوں کی سرمدی رُت

 

’’ساتویں در‘‘ اور ’’تیسرے کنارے ‘‘ کے بعد اب پانچویں موسم کی آمد آمد ہے۔ ضروری ہے کہ پانچویں موسم پر اجمالاً کچھ عرض کر دیا جائے۔ ’’پانچواں موسم‘‘ غزلیات کا مجموعہ ہے۔ غزل بھی ایک صنفِ نازک ہے اور یہ مجموعہ بھی ایک صنفِ نازک کی تخلیق ہے جس کا نام اور کلام ادبی حلقوں میں جانا پہچانا ہے۔ اس سے پہلے بھی اُس کی شاعری کا ایک مجموعہ صاحبانِ ذوق سے خاصی داد وصول کر چکا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ صائمہ کامران چار موسموں کے تسلسل سے اُکتا چکی ہے۔ پانچواں موسم اُس کے نزدیک محبتوں کی سرمدی رُت ہے جو دوسرے موسموں کی طرح بدلتی نہیں ہے۔ اس موسم کا ایک رُومانی اور مجازی رنگ بھی ہے جو زخم بھی ہے اور مرہم بھی اور ایسا خُمارِ غم بھی جس کی سونامی میں گھِر کر نکلنا مشکل ہوتا ہے ع

دُکھوں نے صائمہ شاعر بنا دیا ہے مجھے

پانچویں موسم کی یہ کیفیّت رشک و رقابت، شکوہ و شکایت اور فرقت و قربت کے سبھی ذائقوں سے عبارت ہے۔ پانچویں موسم میں ایک اُچانی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔

اِک یہی راہ ملی حُسنِ ازل کی جانب

ہم یونہی تو نہیں آئے ہیں غزل کی جانب

اس موسم میں بطحا کی مقدّس دھُول کی مہک بھی ہے۔

پانچویں موسم میں حُبِّ وطن کا رنگ بھی بہت نمایاں ہے۔ اس میں آشوب شہر کا احوال بھی ہے اور امیرِ شہر کا تذکرہ بھی جس کی چیرہ دستیوں، ضمیر فروشیوں اور ہوس کوشیوں نے اس آشوب کو جنم دیا ہے۔ صائمہ اُس کے یومِ احتساب کے لیے بے قرار ہے۔

صائمہ کی غزل ماں کی خالص محبت کے ذکر سے بھی خالی نہیں ہے۔ حال ہی میں پشاور شہر میں بچوں پر جو قیامت گزر گئی ہے صائمہ کی روح اِس دلگداز سانحے پر تڑپ تڑپ اُٹھی ہے۔

سنتے ہی یہ خبر ہمیں ایسا لگا کہ بس

نیزے کے نوک جیسے دلوں میں اُتر گئی

صائمہ کی غزل میں کئی شعر ایسے ملتے ہیں جن میں ایسی صداقتیں دکھائی دیتی ہیں جو اقوال کے ذیل میں آتی ہیں۔ اُن میں سے چند ایک کو نثری پیرائے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

____آدمی کردار سے اپنا نام و نسب بتاتا ہے

____صبر انسانی فطرت کو کمال بخشتا ہے

____اِختلافِ مزاج آسانی سے نہیں کھُلتا

____کنول کی صورت میں حُسن تو کیچڑ میں بھی دکھائی دیتا ہے

____بُننے بُننے میں کئی خواب اُدھڑ سکتے ہیں

____خوشی کا آسانی سے حاصل ہو جانا اُس کی دلکشی کو مٹا دیتا ہے

ان اقوال کی بدولت صائمہ کامران کا تذکرہ دانشوروں تک آ جائے تو کچھ عجب نہیں۔

صائمہ کے کلام میں بعض ایسے شعر ہیں جن کے مساموں سے نِسائی لہجے کی بھینی بھینی خوشبو پھُوٹ رہی ہے۔ مثال کے طور پر

غمِ جہاں مجھے اتنا تو یاد کرنے دے

کہاں پہ چھوٹ گئی تھیں سہیلیاں میری

____

کسی کی یاد کو آنکھوں میں صائمہ بھر کے

میں ڈھلتی شام کو کچھ اور سُرمئی کر دُوں

____

صائمہؔ وہ ہے سُلگتے ہوئے سورج کی کرن

لان میں سہمی ہوئی رات کی رانی میں ہوں

’’پانچواں موسم‘‘ کے کئی ایسے شعر ہیں جو میری وکیبلری میں اَن فراموش اِیبل ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:

دیکھوں تو ابھی پاس ہے، جاؤں تو ابھی دُور

دل کی یہ طلب صائمہؔ کہسار مری ہے

______

بلا کا صائمہؔ طوفان رات آیا تھا

تھکی تھکی سی ہیں شاخوں کی شوخ بانہیں بھی

______

رفتہ رفتہ آس کے جگنو ہوا میں اُڑ گئے

میں نے دیکھا ہی نہیں تھا اپنی مُٹھّی کھول کر

______

یہ بھی ممکن ہے خوشی باہر کھڑی ہو صائمہؔ

دیکھ لینا احتیاطاً ہر دریچہ کھول کر

______

تعبیر کے خیال سے ایسے ڈرے رہے

کتنے ہی خواب اپنے سرہانے دھرے رہے

______

بات کو بات سے اُلجھائے چلے جاتے ہو

تم مکمّل مرا مفہوم تو ہو لینے دو

______

جاں بلب ہم تھے، مگر حال جو پوچھا اُس نے

مُسکرا کر یہ کہا ’’درد ہے پر خاص نہیں‘‘

صائمہ کی غزلوں کے بعض مصرعے دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ خیالوں کو لفظوں کے کتنے موزوں پیکر ملے ہیں۔ یہ وہ مصرعے ہیں جو حافظے سے لپٹ جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

____محبت کے تعلق میں اداکاری نہیں ہوتی

____کسی کے ریشمی وعدوں میں پھر اُلجھی ہوئی ہوں

____ہونٹ خاموش رہیں بات بھی ساری ہو جائے

____راس آتی ہے کسے شاہی، فقیروں کے سوا

____تقدیر بدلنی ہے تو تدبیر بدل دے

____پاس رہتا ہے مرے وہ جو مِرے پاس نہیں

____ٹھہر ٹھہر کے اُسے دیکھتا تھا آئینہ

’’پانچواں موسم‘‘ کیسا ہے، میں نے اِجمالاً عرض کر دیا ہے۔ باقی وقت ہی سب سے بڑا صرآف اور پارکھ ہے اور وہ بے لاگ اپنا فیصلہ سناتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ صائمہ کامران کو لفظ سے زیادہ سے زیادہ شناسائی عطا فرمائے، اُسے محنت اور فنّی ریاضت کی توفیق فراواں بخشے اور اُس کی یہ آرزو اور پیشگوئی جلد پوری ہو۔

ڈھونڈ لے گا یہ زمانہ تُمہیں اِن میں آخر

میرے شعروں کی ذرا دھُوم تو ہو لینے دو

انور مسعود

٭٭٭

 

 

حمد

 

 

 

ازل سے لے کے ابد تک جمال ہے تیرا

وجودِ کون و مکاں میں کمال ہے تیرا

 

جواب ڈھونڈتا پھرتا ہے یہ جہاں جس کا

ورائے عقل ابھی تک سوال ہے تیرا

 

خزاں کی رُت میں بھی کلیاں چٹکتی دیکھی ہیں

کمالِ اوج سے آگے کمال ہے تیرا

 

جمالِ نور سے روشن ہیں انجم و مہتاب

شکوہِ دشت و جبل میں جلال ہے تیرا

 

یہی ہے عشقِ حقیقی کا معجزہ شاید

کہ بے خیالیِ دِل میں خیال ہے تیرا

 

مِرا ہے کیا، مری اوقات کیا ترے آگے

یہ جان تیری، یہ مال و منال ہے تیرا

 

دیا ہے صائمہؔ ایسا یقیں عقائد کو

تُو رُوبرو بھی نہیں پر وصال ہے تیرا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نعت

 

قافلۂ رنگ و بو ہے آپؐ کا نورِ مُبیں

آپؐ ہیں خیرالبشر اے رحمت اللعالمیںؐ

 

سیرت و کردار میں، اظہار میں، گفتار میں

آپؐ سا کوئی نہیں ہے آپؐ سا کوئی نہیں

 

با خدا بے مثل ہے سب آپؐ کا حسنِ عمل

کافروں نے بھی کہا ہے آپؐ کو صادق، امیں

 

کھُردری سی اک چٹائی کُل اثاثہ آپؐ کا

اور اُس پہ دو جہاں ہیں آپؐ کے زیرِ نگیں

 

آ گیا جینا مجھے بھی سر اُٹھا کے آخرش

جھُک گئی جب آپؐ کی دہلیز پہ میری جبیں

 

آپؐ کی نظرِ کرم ہو جائے مجھ پر یا نبیؐ

منتظر ہیں جانے کب سے چشمِ تر، قلبِ حزیں

 

دست بستہ ہیں ملائک آپؐ کے دربار میں

آپؐ کے فرمان کے تابع ہوئے روح الامیں

 

گنبدِ خضریٰ کا منظر ایستادہ ہے جہاں

مبتلائے رشک ہے اُس خاک پر خُلدِ بریں

 

لے کے آئی ہوں وہاں سے کھوکھلا اپنا وجود

رہ گیا، دل رہ گیا ہے صائمہؔ بے شک وہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

محوِ حیرت ہوں کہ ایسا حادثہ کیسے ہوا

میرا سایہ میرے پہلو سے جدا کیسے ہوا

 

کل تلک چلتا تھا جو تھامے ہوئے انگلی مری

اُس کی، میری سوچ میں یہ فاصلہ کیسے ہوا

 

تُو نے دیکھی ہے فقط میری جَبِیں جھُکتے ہوئے

میں ہی واقف ہوں کہ یہ سجدہ ادا کیسے ہو

 

خواب تک میرے تھے اُس کی دسترس میں رات دن

پھر بھی اُس کو نارسائی کا گِلہ کیسے ہوا

 

کیسا لگتا ہے جلانا پہلے خود سارا چمن

اور پھر یہ پوچھنا یہ سانحہ کیسے ہوا

 

ایک پل میں زندگی تقسیم ہو کے رہ گئی

کون بتلائے مجھے یہ کیوں ہوا کیسے ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ رختِ سفر باندھ کے تیار کھڑا تھا

میں حوصلے والی تھی مگر وقت کڑا تھا

 

وہ چاند تو تھا اونچی حویلی پہ فروزاں

پانی میں تو بس اُس کا فقط عکس پڑا تھا

 

اک لمحہ جسے خواب سمجھتی تھی کبھی میں

وہ بن کے نگیں میری انگوٹھی میں جڑا تھا

 

میں کہنہ روایات کی سُولی پہ چڑھی تھی

اور دل تھا کہ بس اپنی منانے پہ اڑا تھا

 

معلوم اُسے صائمہؔ ہر بات تھی لیکن

وہ شخص مرے عشق میں محتاط بڑا تھا

٭٭٭

 

 

زندگی زخم سے موسُوم تو ہو لینے دو

اُس کو میرے لیے مقسوم تو ہو لینے دو

 

بات کو بات سے اُلجھائے چلے جاتے ہو

تم مکمل مرا مفہوم تو ہو لینے دو

 

اُس کی نظروں میں شکایت ہے کہ پچھتاوا ہے

آج اس راز کو معلوم تو ہو لینے دو

 

ڈھونڈ لے گا یہ زمانہ تمہیں ان میں آخر

میرے شعروں کی ذرا دھُوم تو ہو لینے دو

 

ہاں چلے جانا بڑے شوق سے لیکن ٹھہرو

نقش بر آب ہوں معدوم تو ہو لینے دو

 

پھر کبھی بیٹھ کے طے کرنا شرائط مجھ سے

پیار کو لازم و ملزوم تو ہو لینے دو

 

صائمہؔ ہونا ہے پتھر ہی مجھے آخرِ کار

لذّتِ درد سے محروم تو ہو لینے دو

٭٭٭

 

 

رقصِ درویش میں ڈھلتا ہوا سرگم ہو تم

زندگی زخم ہے اور زخم کا مرہم ہو تم

 

کوئی تقصیر ہوئی ہو تو بتا دو مجھ کو!!!

جانے کس بات پہ کچھ روز سے برہم ہو تم

 

کتنے رنگوں سے مزیّن ہے تمہاری فطرت

ہجر میں شعلہ صفت، وصل میں شبنم ہو تم

 

چار موسم کا تسلسل تو بہت دیکھا ہے

میرے سرکار مرا پانچواں موسم ہو تم

 

مانا گھیرے ہوئے رکھتے ہیں مجھے کارِ جہاں

آج بھی میرے لیے سب سے مقدّم ہو تم

 

کوئی حسرت تو نہیں ہو کہ نکل جاؤ کبھی

مرے ہونٹوں پہ رُکی خواہشِ پیہم ہو تم

٭٭٭

 

 

 

 

 

بدن پہ بوجھ بنی جا رہی ہیں سانسیں بھی

سلگتی رہتی ہیں اشکِ رواں سے آنکھیں بھی

 

یہی نہیں کہ مرے ہونٹ سِی دیے اُس نے

اُٹھی ہوئی ہیں مرے چار سُو سلاخیں بھی

 

اُلٹ پلٹ کے انہیں دیکھنے ہی آ جاؤ

تمہارا پوچھتی رہتی ہیں یہ کتابیں بھی

 

نظر کا زاویہ تبدیل ہونا ممکن ہے

مگر یہ کیا کہ بدل دی ہیں اُس نے باتیں بھی

 

اُکھڑ رہے ہیں قدم یوں بساطِ ہستی پر

نکل گئی ہیں مرے ہاتھ سے طنابیں بھی

 

بَلا کا صائمہؔ طوفان رات آیا تھا!!!

تھکی تھکی سی ہیں شاخوں کی شوخ بانہیں بھی

٭٭٭

 

 

 

 

وفا کے سلسلوں میں تھوڑی گنجائش ضروری ہے

کبھی بوسیدہ لمحوں کی بھی آرائش ضروری ہے

 

رفاقت ریت بن کر انگلیوں سے نہ پھسل جائے

مسافرسے پلٹ آنے کی فرمائش ضروری ہے

 

امیرِ شہر نے دیپک دیا تحفے میں یہ کہہ کر

تمہاری جھونپڑی میں ایک آسائش ضروری ہے

 

ہمیں آباد کرنا ہے کئی بنجر زمینوں کو

محبت کے سبھی بیجوں کی افزائش ضروری ہے

 

جو منظر کھو گئے ہیں صائمہؔ اُن سے جدا ہو کر

نظر کے زاویوں کی پھر سے زیبائش ضروری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ابھی جو لمحۂ موجود ہے سنبھال کے رکھ

یہ فکرِ فردا ذرا دیر اور ٹال کے رکھ

 

چُرا نہ لے کہیں یادوں کو وقت کا رہزن

یہ سکّے ایسے ہواؤں میں نہ اُچھال کے رکھ

 

نہیں ہے تیرے لیے یہ ہجومِ خار و خَس

جو لازمی ہو تو پھر ہمنوا کمال کے رکھ

 

عجب سرُور ہے اس کنجِ لامکانی میں

ارادے مشرق و مغرب کے نہ شمال کے رکھ

 

کبھی ہے غم کا تلاطم۔۔ ۔ کبھی خوشی کا جنوں ؟

تُو اپنے دل سے مراسم تو اعتدال کے رکھ

 

لگے نہ ٹھَیس اسے تیری بے وفائی سے

یہ اعتماد کا رشتہ ہے دیکھ بھال کے رکھ

 

میں ہو نہ جاؤں تکبّرسے اے خدا! خود سر

مرے عروج میں خدشے ابھی زوال کے رکھ

بنانا سیکھ نئے دوست صائمہؔ لیکن

نظر میں تلخ تجربات پچھلے سال کے رکھ

٭٭٭

۵  جون  ۲۰۱۵

 

 

نمودِ صبح میں نِہاں ہے کوئی اشارہ سوچ!

یہ کس نے چاندنی کو چاند میں اتارا سوچ!

 

یہ دل تو اپنے ہی بس میں نہیں یقین کرو

جو میرا ہو نہ سکا، ہو گا کیا تمہارا سوچ!

 

جواز کوئی تو ہو گا مرے بدلنے کا

جو ایک بار نہ آئے سمجھ دوبارہ سوچ!

 

تُو میرے رُوبرو ہو کر کسی کے دھیان میں ہے

تجھے بھی کرنا پڑے گر یہی گوارا سوچ!

 

یہ واہموں کا سمندر ہے لوٹ جا۔۔ ۔ ناداں

ملا نہ تجھ کو اگر تیسرا کنارہ سوچ!

 

نکل کے دیکھ کبھی اپنی ذات سے باہر

کبھی تو میرے کسی درد کا بھی چارہ سوچ!

 

یہ خود فریبیاں تیری ہیں صائمہؔ تجھ تک

نہ کر سکا کوئی ایسے اگر گزارہ سوچ!

۶ جون ۲۰۱۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اپنا کردار کہانی میں نبھاتے ہوئے مَیں

جانے کب چوک گئی درد چھپاتے ہوئے مَیں

 

ڈھل گئی رات لیے آس ترے آنے کی

بُجھ گئی خود بھی دِیا آج بُجھاتے ہوئے مَیں

 

اس کو رکھّا تو مری آنکھ میں پچھتاوے تھے

کتنی شاداں تھی ترا فون اُٹھاتے ہوئے مَیں

 

تجھ سے ملتے ہوئے دن گزرے کہ صدیاں گزریں

سوچ میں پڑ گئی تخمینہ لگاتے ہوئے مَیں

 

مجھ پہ تھیں سارے زمانے کی نگاہیں لیکن

دیکھتی تجھ کو رہی شعر سناتے ہوئے مَیں

 

تُو نے اچھا ہی کیا زندگی مُنہ پھیر لیا

تھک گئی تھی ترا احسان اُٹھاتے ہوئے مَیں

 

صائمہؔ اشک نہ دے دیں مری پلکوں کو کوئی

سہمی سہمی تھی نئے خواب جگاتے ہوئے مَیں

٭٭٭

۸ جون ۲۰۱۵

 

 

 

 

 

گمشدہ یادوں کے اندر دَر بنا سکتی ہوں میں

اینٹ پتھّر کے بنا بھی گھر بنا سکتی ہوں میں

 

بات گر اشکِ رواں کی چھِڑ گئی تو یاد رکھ

وسعتِ صحرا تجھے ساگر بنا سکتی ہوں میں

 

کہہ اُٹھے جس کو زمانہ شاہکارِ بے بدل

کینوس پہ دل کے وہ منظر بناسکتی ہوں میں

 

عالمِ تنہائی میں اس نوکِ مژگاں کو لیے

تیرا چہرہ چاند میں شب بھر بناسکتی ہوں میں

 

پُرسشِ تاخیر میں رکھا ہے اب کیا صائمہؔ

یہ بہانے آپ سے بہتر بناسکتی ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

پہلی پہلی بار دل کا آئینہ ٹوٹا تھا جب

یاد ہے اب تک مجھے وہ دن تجھے کھویا تھا جب

 

روند ڈالا تھا مجھے ان خواہشوں کی بھِیڑ نے

واپسی کی راہ پر اُلٹا قدم رکھا تھا جب

 

چارسُو بجنے لگی تھیں نقرئی سی گھنٹیاں

حال میرا اُس نے آ کر کان میں پوچھا تھا جب

 

یاد کے صندوق میں رکھے دبستاں کھُل گئے

یوں اچانک راستے میں کل اُسے دیکھا تھا جب

 

کس قدر معصوم تھا وہ شخص اس سے پیشتر

ہر حسابِ دوستاں در دل ہی وہ رکھتا تھا جب

 

صائمہؔ پوچھو کہاں تھے اُس گھڑی یہ چارہ گر

میں نے سارا درد اپنے آپ سے بانٹا تھا جب

٭٭٭

 

 

زندگانی کی طرف دھڑکنیں مائل کر کے

وقت نے چھوڑ دیا کیوں مجھے گھائل کر کے

 

مرے دامن میں خوشی رکھ دی اور اس کے بدلے

سارے غم لے گیا بازو میں حمائل کر کے

 

تُو بھی چُپ چاپ تھا پتھر کی طرح دوسری سمت

میں بھی خاموش تھی نمبر ترا ڈائل کر کے

 

جڑ پکڑ لیتی ہے دل میں کسی برگد کی طرح

میں نے دیکھا ہے تری یاد کو زائل کر کے

 

بھول جانے کی قسم کھائی تھی دونوں نے ابھی

منحرف ہو گیا ظالم مجھے قائل کر کے

 

زندگی تُو نے تو حیرت میں مجھے ڈال دیا

تُو نے دَر ہی نہیں کھولا مجھے سائل کر کے

 

جَست بھرتے ہی پلٹ جائے گی بازی ساری

دیکھ لے سامنے دریا مرے حائل کر کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

جذبوں کے تقدّس کی تجارت نہیں کرتے

ہم لوگ دِکھاوے کی محبت نہیں کرتے

 

کچھ فیصلے بروقت ہی ہو جائیں تو اچھّا

ہم وعدۂ فردا کی سیاست نہیں کرتے

 

ہر بار دیا اک نئے انداز سے دھوکا

ہر بار مگر تجھ سے شکایت نہیں کرتے

 

چہرے پہ ندامت ترے دیکھی نہیں جاتی

ثابت ہو ترا جُرم یہ چاہت نہیں کرتے

 

ہوتے کسی دربار کے منصب پہ مقرّر

گر حرف معانی سے بغاوت نہیں کرتے

 

جو آپ سمجھتے ہیں سمجھ لیجئے مطلب

ہم اپنے اصولوں کی وضاحت نہیں کرتے

 

ہر شوخ ادا صائمہؔ اب بھول چکے ہیں

پنچھی ہوں قفس میں تو شرارت نہیں کرتے

۲۳ اپریل ۲۰۱۵

٭٭٭

 

 

 

 

 

موجِ ادراک میں ڈھلتا ہوا پانی ہوں میں

ایک کردار نہیں پوری کہانی ہوں میں

 

ڈھونڈنا مجھ کو کبھی دل کی نگاہیں لے کر

خشک پیڑوں پہ لکھی کوئی نشانی ہوں میں

 

تیری تکمیل کی بنیاد ہے میرے دم سے

تُو اگر شعر ہے تو مصرعۂ ثانی ہوں میں

 

زعم کیسا ہے تجھے کیسی رعونت تجھ میں

زندگی دیکھ فقط جادۂ فانی ہوں میں

 

تُو انا زاد کہاں اس کا ہُنر سمجھے گا

جانے کس کرب سے ہر فیصلہ مانی ہوں میں

 

صائمہؔ وہ ہے سُلگتے ہوئے سورج کی کرن

لان میں سہمی ہوئی رات کی رانی ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ حقیقت تھی کہ میرے پیار کی تاثیر تھی

آنکھ کی پُتلی میں آویزاں تری تصویر تھی

 

کھو چکی ہے جو غبارِ مصلحت کی بھیڑ میں

وہ تمنّا ہی تو میری آخری جاگیر تھی

 

کون ہے جو اک نظر میں کر گیا پامال سب

میرے دل کی سلطنت ناقابلِ تسخیر تھی

 

اک تلاطم شورشِ جذبات کا شب بھر رہا

صبح دم زنداں میں اک ٹوٹی ہوئی زنجیر تھی

 

وہ دمِ رخصت فقط خاموش تھا پر یاد ہے

اُس کے چہرے پر مری لاحاصلی تحریر تھی

 

لے گئی وارفتگی میں مجھ کو صحرا کی طرف

میرے شعروں میں چھُپی جو حسرتِ تعمیر تھی

 

صائمہؔ دیکھا ہے میں نے حالتِ سکرات میں

ماں کو اپنے لاڈلے کی فکر دامن گیر تھی

٭٭٭

 

 

 

 

کئی ایہام ہوتے ہیں، کئی ابہام ہوتے ہیں

محبت کے تعلق اب برائے نام ہوتے ہیں

 

کہاں تم اور کہاں گھر کا مرے خاموش کوریڈور

تمہاری آہٹوں کے بس یونہی اوہام ہوتے ہیں

 

تماشہ دیکھنا اس کا مگر حصّہ نہ بن جانا

زمانے کی پٹاری میں کئی الزام ہوتے ہیں

 

کبھی تو کھول کے دیکھو دلوں کی بند کھڑکی کو

ستاروں جگنوؤں کے پاس بھی پیغام ہوتے ہیں

 

ضیاع ہے وقت کا، یہ جستجو، اب مان بھی جاؤ

وفا تو معجزہ ہے، معجزے کب عام ہوتے ہیں

 

بھری ہیں صائمہؔ اشکوں سے آنکھیں تو تعجّب کیا

ارے ناداں یہاں پر ہر خوشی کے دام ہوتے ہیں

۹ اپریل ۲۰۱۵

٭٭٭

 

 

 

 

مدّت کے بعد آئینے کے روبرو تھے ہم

حیرت میں تھے کہ تیری طرح ہوبہو تھے ہم

 

کچھ دیر تیری بزم میں بیٹھے گریز پا

پھر دیکھتے ہی دیکھتے بس چارسُو تھے ہم

 

یوں اجنبی نگاہ سے نہ دیکھ تُو ہمیں

کل تک ترے لیے بھی سرِ جستجو تھے ہم

 

تُو ہم نوا خزاں کا رہا ورنہ بے خبر

تیرے لیے نوشتۂ بادِ نمو تھے ہم

 

کافی نہیں ہے کیا یہ گواہی ترے لیے

اقرارِ عشق کرتے ہوئے با وضو تھے ہم

 

مانا کہ صائمہؔ اسے اب یاد بھی نہیں

اے شہرِ باکمال تری آبرو تھے ہم

٭٭٭

 

 

 

اُسے پانے کی خواہش کو بس اک ارمان رہنے دو

مری مانو ابھی یہ زندگی آسان رہنے دو

 

فرشتوں کی طرح بے لوث ہونا بس سے باہر ہے

میں انساں ہوں تو پھر مجھ کو فقط انسان رہنے دو

 

تمہارا آخری خط آج تک کھولا نہیں میں نے

مجھے اپنے بدلنے پر سدا حیران رہنے دو

 

یہ ممکن ہے پشیماں ہو تم ان کو دیکھ کر اک دن

میں جاتی ہوں مگر دل میں مرا سامان رہنے دو

 

تمہارے ساحلوں کی رونقیں میرے لیے کب تھیں ؟

مری کشتی کو اب تم برسرِ طوفان رہنے دو

 

ابھی کھُرچو نہ بوڑھے پیڑ پر سے نام کو اپنے

مجھے خود تک پہنچنے کا کوئی امکان رہنے دو

 

مبارک ہوں تمہیں اب صائمہؔ یہ وصل کی گھڑیاں

میرے اندر بپا یہ ہجر کا ہیجان رہنے دو

٭٭٭

 

 

قصرِ شاہی بھی یہاں پل میں اُجڑ سکتے ہیں

یہ اَنا زاد شجر جڑ سے اُکھڑ سکتے ہیں

 

ایسے خاموش پھریں گے تو بنیں گی باتیں

آپ کس کس کی زبانوں کو پکڑ سکتے ہیں

 

ہاتھ میں ہاتھ اگر ہے تو زمانے بھر سے

ہم بنا تیغ و تبر شوق سے لڑ سکتے ہیں

 

کھینچنے میں ذرا محتاط رہو تارِ نفس

بُننے بُننے میں کئی خواب اُدھڑ سکتے ہیں

 

آ کے دورا ہے پہ حیراں ہُوں تو حیرت کیسی

کشمکش میں تو کبھی آپ بھی پَڑ سکتے ہیں

 

قربتیں صائمہؔ لازم تو نہیں رشتوں میں

ساتھ رہ کر بھی کئی لوگ بچھڑ سکتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سکوتِ شب میں خود سے بات کرنا اچھا لگتا ہے

خزاں میں زرد پتوں کا بکھرنا اچھا لگتا ہے

 

وہ خوئے سادگی میں انتہا کی سرحدوں پر ہے

مگر اس کو مرا سجنا سنورنا اچھا لگتا ہے

 

بھرا تھا بازوؤں میں برسوں پہلے جس طرح تم نے

تڑپتی بجلیوں سے تب سے ڈرنا اچھا لگتا ہے

 

میں جب بھی پوچھتی ہوں ’’کیا مجھے تم یاد کرتے ہو‘‘

شرارت سے مجھے اس کا مُکرنا اچھا لگتا ہے

 

نظر میں تِیرگی جب وحشتوں کے ساتھ طاری ہو

اُسی دَم دُور سورج کا اُبھرنا اچھا لگتا ہے

 

کبھی سایہ فلک کا صائمہؔ پورا نہیں پڑتا

کبھی پیپل کی چھاؤں میں ٹھہرنا اچھا لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ

 

 

تم بھروسہ جو کرو گے تو سُلجھ سکتا ہے

ورنہ یہ ریشمی بندھن ہے اُلجھ سکتا ہے

میں جو پانی پہ بناتی ہوں کسی کی آنکھیں

میری دیوانگی دیوانہ سمجھ سکتا ہے

۳ دسمبر۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

تمہارے زخم جو اس دل نے پال رکھے ہیں

ہیں کتنے درد جو اس غم نے ٹال رکھے ہیں

 

بندھے ہیں ہاتھ ہمارے سِتم ظریفی سے

سمندروں نے تو موتی اُچھال رکھے ہیں

 

کبھی ملے گا مقدّر تو اِتنا پوچھیں گے

یہ کس حساب میں اِتنے وبال لکھے ہیں

 

ہم اپنا عکس مکمل ہی کر نہیں پاتے

تمام آئینوں میں کس نے بال رکھے ہیں

 

کسی کی یاد کے تحفے تھے صائمہؔ جن میں

سمیٹ کے وہ کہاں ماہ و سال رکھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

حروفِ سادہ بھی پیشِ نظر نہیں کھُلتے

قفس کو توڑ کے بھی بال و پر نہیں کھُلتے

 

گھڑی میں روپ بدلتے ہیں موسموں کی طرح

یہ کیسے لوگ ہیں جو عمر بھر نہیں کھُلتے

 

نظر بھی چاہیے جوہر شناس میرے دوست

ہر اِک شعور پہ دستِ ہُنر نہیں کھُلتے

 

کئی سوال تعاقب میں چلتے رہتے ہیں

جوانیوں میں بھی بچپن کے ڈر نہیں کھُلتے

 

کسی کی چاپ میں کوئی تو اُنسیت ہو گی

کہ آہٹوں پہ سبھی بام و در نہیں کھُلتے

 

یوں مُشک لے کے سرِشام صائمہؔ آہُو

بھٹکتے پھرتے ہیں کیوں در بدر نہیں کھُلتے

۱۱ مارچ۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی میں معجزے یوں رُو نما ہونے لگے

دشمنِ جاں تھے کبھی جو ہم نوا ہونے لگے

 

اک ذرا سا کام ان کی ذات سے کیا آپڑا

دیکھتے ہی دیکھتے بُت بھی خدا ہونے لگے

 

دوست یہ اک واہمہ ہے، خوش گُمانی ہے تری

وہ کہاں میرے لیے وقفِ دعا ہونے لگے

 

ایک دوجے کو بتا دینا ہی تو کافی نہیں

جب جدا اک راستے سے راستہ ہونے لگے

 

کچھ اضافی لگنے لگتی ہے زباں سے گفتگو

جب نگاہوں سے ادائے مدعا ہونے لگے

 

صائمہؔ ان سے تکلّف اور لازم ہو گیا

کیا خبر اب سلسلہ یہ کیا سے کیا ہونے لگے

۲۲فروری۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

 

 

موسم کے رُوٹھ جانے کا دھڑکا نہیں گیا

ہونٹوں پہ جو سوال تھا پوچھا نہیں گیا

 

گھر تیرا سج رہا تھا کسی غیر کے لیے

پھر ہم سے اس دیار میں ٹھہرا نہیں گیا

 

رکھا ہے میری ڈائری کے درمیاں کہیں

خط بھیجنا تھا جو اسے بھیجا نہیں گیا

 

پہنا رہا تھا غیر کے کانوں میں بالیاں

پھر اس کے بعد کیا ہوا دیکھا نہیں گیا

 

ہم بھی خرید لاتے جہاں بھر کی راحتیں

بازار میں ضمیر کو بیچا نہیں گیا

 

تسخیر صائمہؔ ہمیں کرنے تھے دوجہاں

افسوس اس خیال پہ سوچا نہیں گیا

۱۶ دسمبر۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

کئی امکان لے کر دل میں یہ جوئندہ رہتی ہے

ادھوری سی محبت ہی ہمیشہ زندہ رہتی ہے

 

کوئی حرفِ دعا ممکن نہیں لرزیدہ ہونٹوں سے

مری ہستی مرے اعمال سے شرمندہ رہتی ہے

 

کسی نادیدہ بندھن سے کوئی وابستگی سی ہے

جبینِ شوق سجدوں سے ابھی تابندہ رہتی ہے

 

در  و دیوار سے میں پوچھتی رہتی ہوں یہ اکثر

تری تصویر گھر میں چار سُو کیوں کَندہ رہتی ہے

 

بڑھی ہے آس کی لَو صائمہؔ جب سے نگاہوں میں

رہِ دل ہلکی ہلکی سی ذرا رخشندہ رہتی ہے

۲۱ جون۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

حادثاتِ زندگی کی ترجمانی اور تھی

ہم جدا جس پر ہوئے وہ ناگہانی اور تھی

 

بے وفائی میری قسمت تھی، جفا اس کا شعار

اُس کا قصّہ اور تھا، میری کہانی اور تھی

 

ہم اُسے تعبیر سے تعبیر کرتے کس طرح

خواب میں اس شوخ چنچل کی نشانی اور تھی

 

گو مفصّل تھا بیاں لیکن حقیقت یہ بھی تھی

داستاں ہم نے اسے اپنی سُنانی اور تھی

 

صائمہؔ مانو نہ مانو کچھ نہ کچھ بدلا تو ہے

پہلے پہلے اس کے لہجے کی روانی اور تھی

۱۰ جون۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

اِک یہی راہ ملی حُسنِ ازل کی جانب

ہم یونہی تو نہیں آئے ہیں غزل کی جانب

 

اصل بھُولا تو نہیں ہے کہیں کوئی اپنی

دیکھنا ایک نظر فکر و عمل کی جانب

 

شہر میں اب ہیں کئی برف رُتوں کے خوگر

کوئی سسّی، کوئی پنّوں نہیں تھَل کی جانب

 

منزلیں لیتی ہیں بڑھ بڑھ کے بلائیں اُن کی

مسکراتے ہوئے جاتے ہیں جو کل کی جانب

 

حُسن مخصوص نہیں ہوتا ہے محلَوں کے لیے

دیکھتے کیوں نہیں کیچڑ میں کنول کی جانب

 

جب بھی پا مردیِ ایماں میں کمی آئی ہے

کھینچ لیتا ہے جہاں لات و ہَبل کی جانب

 

جب نئے عزمِ مسافت کے لیے پَر کھولو

سوچ لینا کبھی گُزرے ہوئے پَل کی جانب

 

دو اناؤں کے تصادم میں کسے یاد رہا

دیکھتا کون پلٹ کر کسی حَل کی جانب

 

صائمہؔ تیرے ہی انداز جُدا ہیں ورنہ

کون آتا ہے کبھی دشت و جَبل کی جانب

۱۸ مئی۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

عجیب رنگوں نے لکھی ہے داستاں میری

نہ یہ بہار مری ہے نہ یہ خزاں میری

 

اٹھایا حشر بُتوں نے چہار سُو ایسا

مجھے سنائی نہیں دے رہی اذاں میری

 

غمِ جہاں مجھے اِتنا تو یاد کرنے دے

کہاں پہ چھُوٹ گئی تھیں سہیلیاں میری

 

یہ کیسا موڑ محبت میں آ گیا کہ اُسے

اُداس کرنے لگیں ساری شوخیاں میری

 

میں مر کے بھی ترے قُرب و جوار میں ہی رہی

ترے ہی در پہ رہی خاکِ بے نشاں میری

 

مرے بغیر ادھورا ہے صائمہؔ وہ بھی

ہزار شکر کہ فطرت ہے خوش گماں میری

۱۲ مئی۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

مجھ سے کہیں ناراض مقدّر ہے ابھی تک

طوفان کے رستے میں مرا گھر ہے ابھی تک

 

اُس نے تو جزیروں میں بسالی نئی دنیا

اور میری نگاہوں میں سمندر ہے ابھی تک

 

کاری تھی تری ضرب مگر دیکھ پلٹ کر

دستار و عمامہ میں مرا سر ہے ابھی تک

 

وہ سانحہ گُزرے ہوئے مدّت ہوئی لیکن

کاجل بھری آنکھوں میں وہی ڈر ہے ابھی تک

 

سانسوں میں گھُٹن وہ ہے کہ جینا ہوا دوبھر

بر دوشِ تمنا کوئی پتّھر ہے ابھی تک

 

وہ صائمہؔ لمحوں میں بدل لیتا ہے لہجہ

جیسے کہ کوئی زہر سا اندر ہے ابھی تک

٭٭٭

 

 

 

 

نئے فریب کے سانچوں میں ڈھال دیتا ہے

وہ روز اِک نئی اُلجھن میں ڈال دیتا ہے

 

کبھی تو بُوند تلک بھی نہیں مقدّر میں

کبھی وہ سامنے دریا اُچھال دیتا ہے

 

بہت ہی سوچ سمجھ کے لو فیصلے دل کے

غلط قدم کئی دن تک مَلال دیتا ہے

 

کوئی گِلہ، کوئی شکوہ نہیں تو حیرت کیا

کہ صبر آدمیّت کو کمال دیتا ہے

 

اب اُس سے مانگ کے لانا جواب مشکل ہے

جو ہر سوال کو باتوں میں ٹال دیتا ہے

 

یہی تو بات ہے اُس کی جُدا زمانے سے

وہ ہر خیال سے آگے خیال دیتا ہے

 

کہاں تلاش کروں حُسنِ بے مثال یہاں

جسے بھی دیکھیے تیری مثال دیتا ہے

 

عجب نہیں کہ وہ کل صائمہؔ کو ڈھونڈے گا

جو آج اُس کو گُماں سے نکال دیتا ہے

۱۴ جون۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

 

 

منزل بھی اُس کی زادِ سفر بھی اُسی کا تھا

مانا تھا جس کو اپنا وہ گھر بھی اُسی کا تھا

 

تاراج کرنے آیا تھا مجھ کو جو طیش میں

میری نمو میں دستِ ہُنر بھی اُسی کا تھا

 

وہ جرم مجھ سے جو کبھی سرزد نہیں ہوا

الزام مجھ پہ بارِ دگر بھی اُسی کا تھا

 

اُس نے عَبث ہی مجھ سے رکھا عمر بھر عناد

وہ ہنس کے مانگتا تو یہ سر بھی اُسی کا تھا

 

دامن چھُڑا کے رات سے جاتے بھی تو کہاں

مہتاب اُس کا، رنگِ سَحر بھی اُسی کا تھا

 

پتھّر برس رہے تھے کسی کی زبان سے

دل کانچ کا تھا اور ہمیں ڈر بھی اُسی کا تھا

 

ہم دھوپ میں پگھلتے رہے موم کی طرح

سایہ بھی اُس کا سارا شجر بھی اُسی کا تھا

 

ساحر تھا صائمہؔ وہ بَلا کا یقین کر

ہر اِک کی گفتگو میں اثر بھی اُسی کا تھا

۹ اپریل ۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

 

 

دردِ زنداں کون جانے بس اسیروں کے سِوا

با خبر تھے سب بغاوت سے مشیروں کے سِوا

 

ڈھونڈتی رہتی ہوں ان میں جانے کیا مدّت سے میں

ہاتھ میں رکھا ہی کیا ہے کچھ لکیروں کے سِوا

 

ٹھوکریں کھاتے ہیں اب وہ کوچۂ و بازار میں

راس آئی ہے کسے شاہی، فقیروں کے سِوا

 

یوں تو زندہ ہیں یہاں انسان بھی، حیوان بھی

زندگی کس کو ملی ہے باضمیروں کے سِوا

 

لا بھی کیا سکتے تھے ہم مالِ غنیمت ساتھ میں

اب وہاں کچھ بھی نہیں ہے سُرخ تِیروں کے سِوا

 

دل کی چوری میں یقیناً ہاتھ ان آنکھوں کا ہے

یہ شرارت کون کرتا ان شریروں کے سِوا

 

ہم کو خوش آنے لگی ہیں اب تلاطم خیزیاں

ہے کناروں پر بھی کیا ویراں جزیروں کے سِوا

 

صائمہؔ جب آس ٹوٹی تو یہی عُقدہ کھُلا

کون گزرے گا گلی سے راہ گیروں کے سِوا

۴ جون ۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

تُو میرا دوست ہے کہ آشنا مرے دشمن!!

ذرا قریب سے چہرہ دِکھا مرے دشمن!!

 

بھُلا نہ دوں میں رواداریاں کہیں اپنی

اُٹھا یہ تیغ و سپر اور جا مرے دشمن!!

 

سُنا ہے ایک زمانے سے تُو بھی تنہا ہے

کچھ اپنا حال مجھے ہی سُنا مرے دشمن!!

 

مرے لبوں سے تو حرفِ دُعا ہی نکلے گا

تُو اپنے سارے ہُنر آزما مرے دشمن!!

 

وہی پرانی شکایت، وہی پرانے گِلے

نکال اور نیا سلسلہ مرے دشمن!!

 

تمہارے اور مرے خال و خد نہ ملنے لگیں

نہ اس قدر بھی گھٹا فاصلہ مرے دشمن!!

 

دُکھوں نے صائمہؔ شاعر بنا دیا مجھ کو

کچھ اور ڈھونڈتا میری سزا مرے دشمن!!

٭٭٭

 

 

 

 

قبائے شعر میں سچائیاں سموتے ہوئے

بیاض میری مکمل ہوئی ہے روتے ہوئے

 

میں بن کے موجِ تلاطم بپھر کے اُبھروں گی

اُسے خیال نہ گزرا مجھے ڈبوتے ہوئے

 

مری فگار زباں کو بھی کاٹ ڈالا گیا

ستم یہ مجھ پہ ہوا تھا تمہارے ہوتے ہوئے

 

لیے بہار نے بَوسے ادب سے ہاتھوں کے

خراش آئی تھی جن پر گلاب بوتے ہوئے

 

کوئی تو میری پشیمانیوں کو کم کر دے

کہ ایک عمر کٹی ہے یہ بوجھ ڈھوتے ہوئے

 

کسی بھی حلقۂ خامہ میں آ نہیں سکتا

اُٹھا ہے درد جو دل میں کسی کو کھوتے ہوئے

 

بچھڑ نہ جاؤں میں خوابوں میں بھی کہیں اس سے

میں اس کے ہاتھ پہ رکھتی ہوں ہاتھ سوتے ہوئے

 

وفا کا ریشمی آنچل تھا صائمہؔ سر پہ

تمہاری یاد کو تسبیح میں پروتے ہوئے

۲۹ مئی ۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ ایسا گردشِ دوراں پہ اختیار ملے

ملے وصال کا لمحہ تو بے کنار ملے

 

کوئی تو سمت مقرّر ہو میری منزل کی

کبھی تو انجمِ تقدیر کو مدار ملے

 

یہ کیسا دیس ہے، یہ کیسے لوگ ہیں یا رب

جسے بھی دیکھیے بے حال، بے قرار ملے

 

شمارِ دردِ نہاں پر یہی صدا نکلی

تجھے بھی درد ملے اور بے شمار ملے

 

بلا جواز سہی پھر بھی خواہشِ دل ہے

مرا مکاں ترے قدموں سے بار بار ملے

 

کمانِ یار سے نکلے تھے صائمہؔ سارے

وہ تِیر جو مرے پہلو کے آر پار ملے

٭٭٭

 

 

 

 

جگانے آئے وہی پھر سے خوابِ دیرینہ

کہاں چھُپا کے رکھوں سِسکیوں کا سازینہ

 

اُلجھ کے رہ گئے اعداد کے جھمیلوں میں

لگانے آئے تھے جو زخمِ دل کا تخمینہ

 

یہ راستے جو مرا احتساب کرتے ہیں

تمہیں بھی یاد دلائیں گے عہدِ پارینہ

 

غمِ جہاں نہ چُرا لے متاعِ شعر و سخن

بہت سنبھال کے رکھنا دُکھوں کا گنجینہ

 

جہاں بھی دیکھیں وضاحت طلب نگاہیں ہیں

کہ شہرِ زیست میں دشوار ہو گیا جینا

 

بُتانِ وہم و گماں بس گئے ہیں یوں دل میں

یہاں پہ آبِ رواں کو بھی دھیان سے پینا

 

خُمار آنکھ میں، چہرے پہ نُور، زُلف سیہ

ٹھہر ٹھہر کے اُسے دیکھتا تھا آئینہ

 

سحر کھڑی ہے حقائق کی تلخیاں لے کر

کہ ختم ہونے لگا دورِ ساغر و مینا

 

ابھی بھی صائمہؔ چالیس چور زندہ ہیں

کہاں سے ڈھونڈو کے لاؤں میں آج مرجینا

۴ اپریل ۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

 

 

سمندر دل میں رکھنے پر بھی آنکھیں نم نہیں رکھتے

شکستہ ہیں مگر گردن کو اپنی خم نہیں رکھتے

 

یہ کیسے لوگ ہیں جو زندگی کی آخری شب تک

محبت کے دِیے کی لَو کبھی مدھم نہیں رکھتے

 

مزاجِ یار میں تبدیلیوں کی سرسراہٹ ہے

کہ وہ کچھ روز سے زلفِ سیہ برہم نہیں رکھتے

 

کھڑے ہیں آندھیوں کے رُوبرو لے کر چراغِ دل

کہ ہم بھی آزمائش میں اِرادے کم نہیں رکھتے

 

چلو اب نوچ ڈالیں ذہن سے رِستی ہوئی یادیں

جو غم ناسور ہو جائیں تو پھر مرہم نہیں رکھتے

 

ہوا کے دَوش پر آتے تو ہیں وہ چند لمحوں کو

وہ بادل کی طرح رشتہ کبھی پیہم نہیں رکھتے

 

غزل ان کے لیے ہے قافیوں کی شعبدہ بازی

جو دل کے خالی ساغر میں خمارِ غم نہیں رکھتے

 

الاؤ ہجر کا حرفِ تسلّی سے نہیں بُجھتا

کسی پیاسے کے ہونٹوں پر کبھی شبنم نہیں رکھتے

 

ہمیں اے حُسنِ یوسف کھینچ لائی ہے طلب تیری

تہی داماں ہیں لیکن حوصلے ہم کم نہیں رکھتے

۴ جنوری ۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

چراغ بن کے تری رہ میں روشنی کر دوں

جو تُو کہے تو ترے نام زندگی کر دوں

 

میں اپنے دل کی عدالت میں ہار جاؤں گی

اگر میں تیرے بھروسے میں کچھ کمی کر دوں

 

حصارِ ظُلمتِ شب سے ہٹا کے نظروں کو

میں اپنی ذات کی کیسے بھلا نفی کر دوں

 

پکار لینا مجھے چاہتوں کی شدّت سے

میں لَوٹ آنے میں تاخیر گر کبھی کر دوں

 

مجھے عزیز ہے دنیا؟ کہ تیری ہمراہی

جو تیرا حکم ہو تو فیصلہ ابھی کر دوں

 

قسم خدا کی اگر اختیار ہو میرا!!

میں تیرے غم کے مقابل ہر اک خوشی کر دوں

 

کسی کی یاد کو آنکھوں میں صائمہؔ بھر کے

میں ڈھلتی شام کو کچھ اور سرمئی کر دوں

۳۰  جنوری ۲۰۱۲

٭٭٭

جب کسی طور ملاقات کی صورت نہ رہی

اِتنا تڑپے کہ مسیحا کی ضرورت نہ رہی

 

اُس گھڑی دیس کی گلیوں نے اُسے یاد کیا

جب مسافر کو پلٹنے کی سہولت نہ رہی

 

یہ بھی اک رُخ ہے محبت کی جنوں خیزی کا

دل میں چاہت نہ رہی آنکھ میں وحشت نہ رہی

 

طنز کے تِیر ہیں، لہجے میں چُبھن کے نشتر

اب تو رشتوں میں بھی پہلی سی مروّت نہ رہی

 

کس گھڑی صائمہؔ حالات کو بَس میں کرتے

ہم بھی کچھ ہار گئے تم کو بھی فرصت نہ رہی

۲۸ فروری۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

بے اِرادہ آنکھوں میں خواب سے جگا بیٹھے

وہ جو مُسکرائے تو ہم بھی مُسکرا بیٹھے

 

جب تمہارے پیکر کے نقش دھیان میں اُبھرے

کینوس کی کھڑکی میں کتنے رنگ آ بیٹھے

 

ڈوبتی ہوئی دھڑکن، پھیلتا ہوا کاجل

کس قدر خموشی سے داستاں سنا بیٹھے

 

پیشِ جاں تھا مقصد کیا، کون ان سے پوچھے جو

روشنی کی خواہش میں اپنا گھر جلا بیٹھے

 

شورِ حشر برپا ہے محفلِ شبستاں میں

دو گھڑی کو ہم تیرے در پہ آ کے کیا بیٹھے

 

ہو گئے تہی داماں تو خیال گُزرا ہے

جانے کس بھروسے پہ جان و دل لُٹا بیٹھے

 

زندگی اُبھرتی تھی جن کی شوخ نظروں میں

موت کے گلے لگ کر کس نگر میں جا بیٹھے

 

رقص میں ہے سناٹا شہر بھر کی گلیوں میں

جیسے بات کرنا ہی ہم نشیں بھُلا بیٹھے

 

صائمہؔ کیا جب بھی ظُلمتوں نے گھیراؤ

ہم ترے تصوّر کی روشنی میں آبیٹھے

۲۹ اکتوبر ۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

اے جبرِ مسلسل ذرا تصویر بدل دے

صیّاد مرے پاؤں کی زنجیر بدل دے

 

خوابوں پہ تو مرضی نہیں چلتی ہے کسی کی

ممکن ہو تو اس خواب کی تعبیر بدل دے

 

کب تک تُو مُکرتا چلا جائے گا زباں سے

آ۔۔ ۔ اپنے ہی ہاتھوں کی یہ تحریر بدل دے

 

ہمت ہو اگر ساتھ تو مشکل بھی نہیں ہے

یہ آخری کاوش مری تقدیر بدل دے

 

عادی ہوئے ہجرت کے تو دل ڈرنے لگا ہے

وہ پھر نہ کسی موڑ پہ تعزیر بدل دے

 

یا اپنے تکبّر کے تسلّط سے نکل جا

یا میری مناجات کی تاثیر بدل دے

 

یہ طرزِ کُہن ہے نئے افکار کی زد میں

بہتر ہے کہ اب سوچ کی تعمیر بدل دے

 

اے صائمہؔ یہ جنگ ہے انصاف کی خاطر

تقدیر بدلنی ہے تو تدبیر بدل دے

۲۲ جنوری ۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

 

کسی کے دھیان میں مجھ پر وہ مہربان کھُلا

جو ڈوبنے لگی کشتی تو بادبان کھُلا

 

نَفَس نَفَس میں لکھا تھا عجیب افسانہ

یہ راز دل پہ دمِ مرگ میری جان کھُلا

 

ٹھِٹھر کے رہ گئی خواہش اُڑان کی جس پل

مرے پروں کے لیے تب یہ آسمان کھُلا

 

ملے گی چارسُو تصویر اُس کی آویزاں

جو دل کے بند مکاں پر یہ لامکان کھُلا

 

سکوں سے رہتے ہیں دُنیا میں اور بھی لیکن

مرے ہی واسطے رہتا ہے امتحان کھُلا

 

جَتن کیے ہیں ہزاروں تو جا کے آخِرکار

بہت ہی سوچ سمجھ کر وہ بدگمان کھُلا

 

میں دَان کر چکی جب صائمہؔ اُسے جیون

تھا کتنا فرق خیالوں کے درمیان کھُلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

طے یہ کرنا ہے کہ اب دل کو سنبھالا جائے

روز اِک روگ نیا کس طرح پالا جائے

 

اُس کی ہمراہی مجھے ایسے ملی ہے جیسے

چاند کے ہاتھ کو تھامے ہوئے ہالہ جائے

 

وہ مرا ہے کہ زمانے کا؟ ذرا پوچھوں تو

امتحاں میں اُسے اک بار تو ڈالا جائے

 

حکم تو حکم ہے دستورِ محبت ہے یہی

اُس ستم گر کا اشارہ بھی نہ ٹالا جائے

 

پہلے دل کو کیا طوفاں کے حوالے خود ہی

اب یہ اُلجھن ہے اُسے کیسے نکالا جائے

 

تُو ہی بتلا دے مصوّر کو مرے پارہ صفت

کیسے تجھ کو کسی تصویر میں ڈھالا جائے

 

صائمہؔ یہ بڑا دلچسپ تماشہ ہو گا

روئے صحرا جو سمندر کو اُچھالا جائے

۱۸ جون ۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

 

سلسلہ دیمک کا پیڑوں کی جڑوں تک آ گیا

رنجشِ دل کا سفر اب فیصلوں تک آ گیا

 

چھوڑ دی پاؤں کی مٹّی ہم نے بھی تھک ہار کر

کر بھی کیا سکتے تھے جب پانی سروں تک آ گیا

 

سوچ لو شہکار بن سکتا ہے یہ پتھّر کبھی

ٹھوکریں کھاتا اگر وہ آزروں تک آ گیا

 

جب لبوں کو چھُو کے نکلے نغمہ ہائے نوبہار

بانس کا لمبا سفر آخر سُروں تک آ گیا

 

آسماں کی وسعتیں بھی سر بہ زانو ہو گئیں

عشق جب سے نام تیرا سرپھِروں تک آ گیا

 

اہلِ مسند اس گھڑی بیٹھے ہیں سر کو جوڑ کر

کارواں جب دُشمنوں کا سرحدوں تک آ گیا

 

خوف کیا تنقید کا، تکریم یہ کم تو نہیں

صائمہؔ کا تذکرہ دانشوروں تک آ گیا

٭٭٭

 

 

بدگمانی کی نظر آگ لگا دیتی ہے

ایک چنگاری نشیمن کو جلا دیتی ہے

 

فاصلہ بھی ذرا ملحوظِ نظر رکھیے گا

اِتنی قُربت بھی محبت کو گنوا دیتی ہے

 

لوگ بے چہرہ نظر آتے ہیں کیسے کیسے

جب حقیقت کسی پردے کو گرا دیتی ہے

 

ہم تو جاتے ہیں بڑے شوق سے ملنے تجھ سے

زندگی تُو ہمیں کیوں غم سے ملا دیتی ہے

 

کر کے بھی دیکھ لیا دل کی عدالت سے گِلہ

فیصلہ وہ بھی تو یک طرفہ سُنا دیتی ہے

 

شہرِ اخبار کی دیوی بھی تماشے کے لیے

عزتِ نفس کو داؤ پہ لگا دیتی ہے

 

عشق کا زادِ سفر ہے وہی انمول گھڑی

جب محبت اُسے یزداں سے ملا دیتی ہے

 

محوِ حیرت ہوں کہ ہر لحظہ بدلتی دنیا

کس قدر جلد گزشتہ کو بھُلا دیتی ہے

 

صائمہؔ جبرِ مسلسل کی کڑی دھوپ سے ڈر

سنگ ریزہ یہ پہاڑوں کو بنا دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کیوں حسین لگتا ہے، ڈوبتا ہوا سورج

کچھ نہ کچھ تو کہتا ہے، ڈوبتا ہوا سورج

 

سب کو روشنی دے کر خود اُداس رہتا ہے

تم سے کتنا ملتا ہے، ڈوبتا ہوا سورج

 

ڈالتا ہے کھڑکی سے آخری نظر مجھ پر

اور ڈوب جاتا ہے، ڈوبتا ہوا سورج

 

بے نشان چہروں میں، خالی خالی آنکھوں میں

کیا تلاش کرتا ہے، ڈوبتا ہوا سورج

 

دیکھ چشمِ بینا سے، جب شفق کے دامن میں

تھک کے جا اُترتا ہے، ڈوبتا ہوا سورج

 

میرے دُکھ خموشی سے سر جھُکا کے سُنتا ہے

کچھ تو میرا لگتا ہے، ڈوبتا ہوا سورج

 

شام کے دھُندلکے میں نیم وا نگاہوں سے

کس نگر اُترتا ہے، ڈوبتا ہوا سورج

 

کچھ چراغ یادوں کے رکھ کے اس ہتھیلی پر

دھیمے دھیمے بجھتا ہے، ڈوبتا ہوا سورج

 

صائمہؔ اُداسی کے مقبروں سے ٹکرا کر

بَین کرتا رہتا ہے، ڈوبتا ہوا سورج

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

آبروئے رُخِ جاناں کا جنہیں پاس نہیں

دل تو پہلو میں ہے اُن کے مگر احساس نہیں

 

جاں بلب ہم تھے، مگر حال جو پوچھا اُس نے

مُسکرا کر یہ کہا ’’درد ہے پر خاص نہیں‘‘

 

ہیں قناعت پہ نگوں سار سمندر اس کی

سُوکھے ہونٹوں سے جو کہتا ہے مجھے پیاس نہیں

 

کون دے پائے گا چھوڑو بھلا قیمت ان کی

اشک ہیں میرے کوئی ریزۂ الماس نہیں

 

کون اب جا کے ہو مِنّتِ کشِ پیمانۂ جاں

تیری محفل میری خود داریوں کو راس نہیں

 

کیوں نہ رکھوں میں در و بام کھُلے اُس کے لیے

دل ہی ٹوٹا ہے مِرے دوست ابھی آس نہیں

 

صائمہؔ دیکھ تو یادوں کی کرشمہ سازی

پاس رہتا ہے مرے وہ جو مرے پاس نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

وہ مِری خواہش و حسرت کا بھرم کیسے رکھے

وہ ستارہ ہے بیاباں میں قدم کیسے رکھے

 

اہلِ مسند کی ہتھیلی ہے جواہر سے بھری

اپنے ہاتھوں میں وہ غیرت کا عَلَم کیسے رکھے

 

شہرِ برباد میں خاموش رہوں ! نا ممکن

شاعرِ غم تِری حالت پہ قلم کیسے رکھے

 

شرک کرنا میری فطرت میں نہیں ہے شامل

دل مرا، تیرے علاوہ بھی صنم کیسے رکھے

 

آ ہی جاتی ہے ہنسی جبرِ مسلسل پہ کبھی

ہر گھڑی کوئی بھلا آنکھ کو نم کیسے رکھے

 

ایک دو پل جو تِری بزم سے ہو آیا ہو

اپنا معیارِ وفا۔۔ ۔ عشق سے کم کیسے رکھے

 

اس نے دیکھا تھا مِری آنکھ سے دنیا کا چَلن

وہ مِرے سامنے اب ساغرِ جم کیسے رکھے

 

صائمہؔ ہے تِری نسبت شہِ دو عالم سے

اہلِ ظلمت کے لیے سر کو تُو خم کیسے رکھے

٭٭٭

 

 

 

 

ایک ویرانہ مِرے دل کا مقدّر کر دیا

دیوتا!! تُو نے پجارن کو بھی پتھّر کر دیا

 

آزمائش ہے یہ میرے صبر کی یا پیاس کی؟

ہونٹ سی کر سامنے میرے سمندر کر دیا

 

پوچھتی رہتی ہوں میں دیوار و در سے راستے

اجنبی اُس شخص نے مجھ سے میرا گھر کر دیا

 

ہے مسلسل اک تلاشِ گوشۂ جائے اماں

کیا سے کیا سوچوں کا محور اے ستم گر کر دیا

 

زرد پتّوں کا لبادہ اوڑھ کر آئی بہار

بے وفائی نے تِری تبدیل منظر کر دیا

 

صائمہؔ پہ جب بھی ڈالی تُو نے رحمت کی نظر

یوں لگا پَل میں گداگر کو سکندر کر دیا

٭٭٭

 

 

 

 

دل دریچہ وا کئے کھڑکی میں یوں بیٹھی تھی وہ

اک مصوّر کی حسیں تصویر سی لگتی تھی وہ

 

اُس کی آنکھوں میں چھپے سارے ہی دُکھ خاموش تھے

ہاں مگر اب یاد آیا۔۔ ۔ مجھ سے کچھ بولی تھی وہ

 

ٹوٹ جانا ہی مقدّر ہے سبھی خوابوں کا پر

کرچیاں چُن چُن کے اُن کو جوڑتی رہتی تھی وہ

 

نہ خلش دل میں کوئی، نہ لب پہ شکوہ مضطرب

راز ہے کس کے لیے پھر شاعری کرتی تھی وہ

 

دور افتادہ خیالوں کی زمیں پر اِک محل

اور اس ویراں محل کی ایک شہزادی تھی وہ

 

سُن کے اک مخصوص آہٹ۔۔ ۔ شام ڈھلتے ہی سدا

رکھ کے سارے دُکھ کہیں پر بھول سی جاتی تھی وہ

 

بھولنے والا اُسے، پردیس میں اچھا تو ہے ؟

ہر مسافر سے یہی بس پوچھتی رہتی تھی وہ

 

صائمہؔ جب سارے خط اُس نے جلا ڈالے تھے خود

ادھ بجھی سی راکھ میں کیا ڈھونڈتی رہتی تھی وہ

٭٭٭

 

 

 

 

کاجل نہیں ہے، آنکھ میں ہے انتظار پھر

جی چاہتا ہے کر لوں تِرا اعتبار پھر

 

محور سے ہٹ رہے ہیں زمین آسمان کیوں

ہونے لگا ہے رازِ نہاں آشکار پھر

 

وہ مجھ سے ہم کلام تھا، اور یوں لگا مجھے

لُٹنے کو بے قرار ہے، صبر و قرار پھر

 

بازار کل تلک تھے جو ماتم کنانِ شہر

کرنے لگے ہیں آج نیا کاروبار پھر

 

کر کے ہزار کوششیں بھولی تھی میں جسے

ملنے لگے ہیں اُس سے یہ نقش و نگار پھر

 

دشوار ہم رکابیِ اہل جنون ہے

اے دوست! سوچ لینا ذرا ایک بار پھر

 

اُس نے تو لوٹ آنے کا وعدہ نہیں کیا

ہے کس کے انتظار میں یہ رہ گزار پھر

 

اب تک خزاں کی چاپ سے خالی نہیں چمن

آئی ہے کس خیال میں فصلِ بہار پھر

٭٭٭

 

 

 

 

وہی باتیں، وہی قصّے پرانے، کیا کہیں تم سے

پلٹ کر آئیں گے کب دن سہانے، کیا کہیں تم سے

 

وہ جس کی سادگی بے مثل تھی سارے زمانے میں

اُسے بھی آ گئے حِیلے بہانے، کیا کہیں تم سے

 

نہایت شوق سے آغاز جن کا ہم نے سوچا تھا

اُدھورے رہ گئے سارے فسانے، کیا کہیں تم سے

 

یونہی رکھا ہے دروازہ کھُلا دل کی تسلّی کو

کہاں آتے ہیں وہ ہم کو منانے، کیا کہیں تم سے

 

نہیں تھا اختلافِ رائے بس دوچار باتوں میں

ہمارے درمیاں تو تھے زمانے، کیا کہیں تم سے

 

چھُپا کر لائے تھے خنجر وہ اپنی آستینوں میں

جو آئے تھے مِرے غم کو بٹانے، کیا کہیں تم سے

 

ابھی تو آئینوں سے ہم کلامی کرتے رہتے ہیں

کہیں ہو جائیں نہ ہم بھی دوانے کیا کہیں تم سے

 

جنہیں تاریکیوں میں ہم نے قندیلیں تھمائی تھیں

ہمارا آ گئے وہ گھر جلانے، کیا کہیں تم سے

 

لکھا ہے دفترِ اعمال میں بس صائمہؔ اتنا

ہمیں مجرم بنایا اک خطا نے، کیا کہیں تم سے

٭٭٭

 

 

 

بے مہریوں کے ساتھ، تِری وحشتوں کے ساتھ

جیون گزارنا ہے اِنہی اُلجھنوں کے ساتھ

 

ہم بن گئے تماشہ ہمیں اس کا غم نہیں

لیکن تُو کیوں کھڑا تھا تماشائیوں کے ساتھ

 

آ کر وہ سطحِ آب پہ بے جان ہو گئے

مرنے کا خوف تھا جنہیں گہرائیوں کے ساتھ

 

کھو جائے دلکشی بھی رفاقت کی، دوستو

مل جائے ہر خوشی اگر آسانیوں کے ساتھ

 

مایوس کیوں ہو ایسے، ندامت کے بوجھ سے

زندہ ہیں کتنے لوگ غلط فیصلوں کے ساتھ

 

چہرے پہ آپ رنگِ ملامت نہ ڈھونڈئیے

ہم مانتے ہیں ہار مگر حوصلوں کے ساتھ

 

لوٹا کے چل دیئے ہیں متاعِ غمِ حیات

کیا واقعہ ہوا ہے مِرے رہزنوں کے ساتھ

 

ممکن ہو صائمہؔ تو کبھی سوچنا انہیں

جو قُربتوں میں جی رہے ہیں فاصلوں کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

 

مِرے محبوب تیری اک نہیں پر

بہت کچھ کھو گیا جیسے کہیں پر

 

خیال و خواب جو لگنے لگے ہیں

ابھی بیٹھے ہوئے تھے وہ یہیں پر

 

جہاں بوجھل سی ہو جائے کہانی

فسانہ ختم کر دینا وہیں پر

 

لبوں پر مُسکراہٹ رکھنے والے

شکایت اب بھی ہے تیری جبیں پر

 

جو اپنے آپ سے سہمی ہوئی ہے

تِرا دل آ گیا کس نازنیں پر

 

مِرے قاتل ذرا محتاط رہنا

لہو لگنے نہ پائے آستیں پر

 

اُسے مل کر نجانے کیوں لگا ہے

ابھی انسان بستے ہیں زمیں پر

 

بہت آرام سے بیٹھے ہیں جب سے

بھروسہ ہو گیا تیرے یقیں پر

 

زمانہ صائمہؔ توڑے گا کیسے

جو رشتہ بن گیا عرشِ بریں پر

٭٭٭

 

 

 

 

عکس میرا پانیوں کا ہمسفر رہ جائے گا

کیا مِرا شوقِ مسافت بے ثمر رہ جائے گا

 

روبرو بیٹھے گا جب وہ شاہکارِ قلب و جاں

یہ ترا دستِ ہنر بھی بے ہُنر رہ جائے گا

 

بام و در میں بے سروسامانیِ دل کے سوا

تیری یادوں کے ہی لُٹ جانے کا ڈر رہ جائے گا

 

خود فراموشی کی یہ دیوار گر ہو منہدم

کیا علاجِ ہجرِ جاناں ،۔۔ ۔ چارہ گر رہ جائے گا

 

اے امیرِ شہر جب اُٹھے گا طوفانِ بلا

دوش پہ تیرے کہاں، تیرا بھی سر رہ جائے گا

 

رفتہ رفتہ صائمہؔ اُٹھ جائیں گے اہلِ سُخن

تیری محفل میں مگر وہ دیدہ تر رہ جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

بساطِ زندگانی میں جسے شامل نہیں سمجھے

اُسے ترکِ مراسم کے بھی ہم قابل نہیں سمجھے

 

ترے ہاتھوں میں رکھی رہ گئی خیرات خوابوں کی

یہ کیسا فیض تھا جس کو ترے سائل نہیں سمجھے

 

مری پسپائی میرا فیصلہ تھی یا مقدّر تھی

یہ منظر دیکھنے والے مری مشکل نہیں سمجھے

 

مسافت اُن کی تشنہ کامیوں پہ محوِ حیرت ہے

جو منزل پر پہنچ کر بھی اُسے منزل نہیں سمجھے

 

اجازت مانگنے آئے ہیں میرے قتل کی مجھ سے

مجھے سمجھے مرے احباب میرا دل نہیں سمجھے

 

اُنہیں میں مُدَّعائے دل کی اب کتنی وضاحت دوں

جو دانستہ مِری تقریر کا حاصل نہیں سمجھے

 

مجھے ناموسِ آباء صائمہؔ ہے جان سے پیاری

مرا دُشمن مجھے دستار سے غافل نہیں سمجھے

۱۰ مئی ۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

یہ سکوتِ غمِ ہجراں کا اثر لگتا ہے

میری قسمت میں کوئی اور سفر لگتا ہے

 

آئینے نے کبھی ایسے نہیں دیکھا مجھ کو

آپ کا اس میں کوئی دستِ ہُنر لگتا ہے

 

محوِ حیرت ہوں کہ جذبوں کی جنوں خیزی میں

اِتنی وحشت تھی کہ اب سوچ کے ڈر لگتا ہے

 

کھینچ لیتے ہیں زمیں سے یہ محبت ساری

تب کہیں جا کے درختوں میں ثمر لگتا ہے

 

کس کی محفل سے ابھی آئے ہو اُٹھ کر جاناں

طور اطوار میں اندازِ دگر لگتا ہے

 

صائمہؔ ایک سے دُکھ سُکھ کے فسانے ہیں یہاں

ابنِ آدم ترا ہر گھر مرا گھر لگتا ہے

۲۱ جنوری ۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

 

 

ازل سے راہِ فنا اختیار کرتے ہوئے

بشر ہے محوِ سفر انتظار کرتے ہوئے

 

مَفَر نہیں ہے محبت کو وحشتِ غم سے

وہ مطمئن تھا مجھے بے قرار کرتے ہوئے

 

مِرے لبوں پہ تھی رقصاں دعائے ردِّ بلا

تمہاری ذات پہ اپنا حصار کرتے ہوئے

 

نہیں ہیں کشتیِ دوراں میں سب مسافر ایک

صدا سُنی تھی سمندر کو پار کرتے ہوئے

 

مِری وفاؤں کا بھی کچھ خیال کر لینا

مِری خطاؤں کا دل میں شمار کرتے ہوئے

 

اے چارہ گر! یہ بتا زخم دیکھ کر میرا

وہ ہچکچایا تو ہو گا یہ وار کرتے ہوئے

 

تمہاری بات الگ پھر بھی دل دھڑکتا ہے

جہاں پہ جانِ جہاں اعتبار کرتے ہوئے

 

تمہارے بس میں کہاں ہے قیاس بھی اس کا

جو ہم پہ گُزری خزاں کو بہار کرتے ہوئے

 

خَلِش تو ہو گی اُسے صائمہؔ کہیں نہ کہیں

مِرے وجود کو مُشتِ غبار کرتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

تِرا یقین مِرے حرفِ اعتبار میں ہو

کوئی تو فیصلہ میرے بھی اختیار میں ہو

 

میں منتظر ہوں کہ ہو جائے ایسی انہونی

ترا وجود سراپا مِرے حصار میں ہو

 

تِرے جمال سے جاگی ہے زندگی مجھ میں

کہ جیسے سوکھا شجر، جشنِ نو بہار میں ہو

 

دریچہ کھول کے آتی ہوئی صبا نے کہا

یہ کس خیال میں ہو، کس کے انتظار میں ہو

 

کسی سے گفتگو کرنا بھی ہو گیا مشکل

کہ جیسے دل ابھی اُس چشم کے خمار میں ہو

 

میں کہکشاؤں کو تسخیر کر دکھاؤں گی

اگر وہ ایک ستارہ میرے مدار میں ہو

 

ذرا سی دیر تو سُن صائمہؔ کا افسانہ

پھر اس کے بعد جو حُسنِ مزاجِ یار میں ہو

٭٭٭

 

 

 

دلوں پر یہ جنوں خیزی یونہی طاری نہیں ہوتی

محبت کے تعلق میں اداکاری نہیں ہوتی

 

وہی الزام دھرتے ہیں وہی تہمت لگاتے ہیں

کہ جن لوگوں کی فطرت میں وفاداری نہیں ہوتی

 

کوئی تو خاص ہستی ہر کسی کے دل میں بستی ہے

کسی کی زندگی بھی پیار سے عاری نہیں ہوتی

 

یہاں کوئی تو آیا تھا ابھی مجھ سے ذرا پہلے

مری آمد پہ تو اس طور تّیاری نہیں ہوتی

 

سُنا ہے وہ سکوں سے سو رہے ہیں بے خبر مجھ سے

وگرنہ چاندنی دل پہ کبھی بھاری نہیں ہوتی

 

سُنانا شاعری بے کار ہے خالی دماغوں کو

کبھی بنجر زمینوں پر شجر کاری نہیں ہوتی

 

چلو بازارِ دنیا سے الگ رستہ بناتے ہیں

تہی دامانیاں لے کر خریداری نہیں ہوتی

 

جگر کو چِیر دیتی ہے قلم کی کاٹ بھی اکثر

کہا کس نے کہ یہ تلوار دو دھاری نہیں ہوتی

 

دکھا سکتی تھی میں بھی آئینہ تجھ کو سرِ محفل

اگر میری طبیعت میں روا داری نہیں ہوتی

 

بہت کچھ صائمہؔ ہوتا مجھے حاصل مگر سچ ہے

کہ اُس کے بن مجھے وہ زندگی پیاری نہیں ہوتی

۲۲ جون  ۲۰۱۲

٭٭٭

 

 

 

 

خیالوں کے بھنوّر کو اب کنارا مل نہیں سکتا

جو کھویا ہے محبت میں دوبارہ مل نہیں سکتا

 

پلٹ کر دیکھنا اک بار یہ بجھتی ہوئی آنکھیں

تمہیں پھر زندگی میں یہ نظارا مل نہیں سکتا

 

زمیں سے آسماں ملتا نہیں جیسے کہیں پر بھی

تمہاری میری قسمت کا ستارہ مل نہیں سکتا

 

جو ارمانوں کی بستی جل گئی سو جل گئی جاناں

تمہیں اس راکھ میں کوئی شرارہ مل نہیں سکتا

 

امیرِ شہر سے کہہ دو مراسم دُور کے رکھے

فصیلِ قصر سے میرا چوبارہ مل نہیں سکتا

 

مرے جذبوں کی ٹھہری جھیل کے خاموش پانی میں

تمہاری بے کراں سوچوں کا دھارا مل نہیں سکتا

 

عجب قصّہ ہے ملنے کو تو مل جاتی ہے اک دنیا

مگر دل نے جسے برسوں پکارا مل نہیں سکتا

 

طلب کب صائمہؔ کو کہکشاں کی ہے مرے مالک

مگر کیا ایک چھوٹا سا ستارہ مل نہیں سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

نہیں ہوتا ہے کم یہ فاصلہ … میں کیا کہوں جاناں

اَزَل سے ہے یہی تو سلسلہ … میں کیا کہوں جاناں

 

مجھے اپنے مقدّر کے غموں میں تنہا رہنے دو

ابھی کم ہے تمہارا حوصلہ … میں کیا کہوں جاناں

 

بچھڑنا اور بچھڑ کر ساری تہمت اپنے سر لینا

سہل تو تھا نہیں یہ فیصلہ … میں کیا کہوں جاناں

 

یقیں مانو ابھی احباب سارے ساتھ تھے میرے

کہاں گم ہو گیا یہ قافلہ … میں کیا کہوں جاناں

 

نظر سے دیکھنا سچ کو مگر انکار کر دینا

یہی تھا ایک مشکل مرحلہ … میں کیا کہوں جاناں

 

تمہاری دوریوں نے دل کے موسم کو بدل ڈالا

فنا ہونے کو ہے سب ولولہ … میں کیا کہوں جاناں

 

غمِ دل پہ غمِ دوراں مسلّط ہو گیا آخر

تمہارے ہاتھ اب ہے فیصلہ … میں کیا کہوں جاناں

۲۳ اکتوبر ۲۰۰۹

٭٭٭

 

 

 

 

تعبیر کے خیال سے ایسے ڈرے رہے

کتنے ہی خواب اپنے سرہانے دھرے رہے

 

شہ رگ سے بھی قریب ہیں جس کی محبتیں

ہم اس کے ہی وجود سے کتنے پَرے رہے

 

ہم کیسے دیکھتے تجھے جاتے ہوئے بتا

تادیر اپنی آنکھ میں آنسو بھرے رہے

 

مانگی جو اس نے جان تو دے دی بلاجھجک

ہم اپنے قول و فعل میں ایسے کھرے رہے

 

وہ برملا سُنا گئے سب صائمہؔ ہمیں

اک ہم کہ اس جسارتِ دل سے ڈرے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

آتے جاتے ہوئے موسم کی خبر کیا رکھیں

ان بدلتے ہوئے لہجوں پہ نظر کیا رکھیں

 

جب کسی اور سے ملنا ہی نہیں تیرے سوا

کوئی روزن، کوئی دیوار میں در کیا رکھیں

 

رزق بن جائیں ہواؤں کا جو پل دو پل میں

ایسے افکار پہ آغازِ ہنر کیا رکھیں

 

اسی عالم میں ٹھہر جائے گی دھڑکن ناصح

اب ترے کہنے پہ اُمیدِ سحر کیا رکھیں

 

چارسُو جشنِ جنوں مانگے خراجِ محفل

ہم وضع دار بھلا دوش پہ سر کیا رکھیں

 

معتبر ہی نہ رہا صائمہؔ جب طرزِ فغاں

ہم ترے سامنے پھر دیدۂ تر کیا رکھیں

۳۰ جون  ۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

وہ خوش گمانی جو اس دل نے پال رکھی ہے

اسی نے زندگی میری بحال رکھی ہے

 

وصال و ہجر کے قصّے، حکایتِ فردا

ابھی تلک تری ہر شے سنبھال رکھی ہے

 

ترازو ایک طرف جھُک گیا ہے ہستی کا

کہ جب الگ تیری حسرت نکال رکھی ہے

 

میں اور تجھ سے کروں صائمہؔ گلے شکوے

سرشتِ دل نے کہاں یہ مجال رکھی ہے

۵ اپریل ۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

چشمِ رُخِ غزال کی وحشت بھی خوب تھی

خوابیدہ خواہشوں کی شرارت بھی خوب تھی

 

اپنی جگہ بجا سہی رسوائیوں کا خوف

پر اس کو روک لینے کی حسرت بھی خوب تھی

 

پہلو سے ہوکے جو ترے گزرے ہیں بے نیاز

ان پر گزر گئی جو قیامت بھی خوب تھی

 

تخلیق جب کیا اُسے پروردگار نے

لگتا ہے اس گھڑی اُسے فرصت بھی خوب تھی

 

کہنے کو لاکھ تیرے مخاطب نہیں تھے ہم

لیکن تری نظر کی شکایت بھی خوب تھی

 

مانا کہ لاعلاج سہی زخمِ دل مگر

رہ رہ کے چارہ گر کی وضاحت بھی خوب تھی

 

لمحوں میں کر کے رکھ گئے تسخیرِ کائنات

نو واردانِ عشق کی عجلت بھی خوب تھی

 

وہ جس کے تذکرے سے گریزاں تھی صائمہؔ

وہ ان کہی، انوکھی حکایت بھی خوب تھی

٭٭٭

 

 

 

 

ربط کیا رکھیں کسی سے، کیا ملیں ہنس بول کر

ہر کوئی ملتا ہے دل میں اپنا مقصد تول کر

 

رفتہ رفتہ آس کے جگنو ہوا میں اُڑ گئے

میں نے دیکھا ہی نہیں تھا اپنی مُٹھی کھول کر

 

ہیں طلب کی شدّتوں سے خشک سب کام و دہن

کس نے رکھ دی تشنگی، اس مے کشی میں گھول کر

 

اک ہجومِ بیکراں کی زد میں تھی میری اَنا

دل کا پنچھی رہ گیا طوفان میں پَر تول کر

 

جھوٹ کی بنیاد پر تعمیر ہے ہر شخص کی

اُٹھ گئی محفل سے میں بھی آخری سچ بول کر

 

چمپئی رنگت میں ڈھلتی ارغوانی شوخیاں

کس نے یہ مورت بنائی چاندنی میں گھول کر

 

ہیرے موتی سے سنور لینا نہیں کوئی ہُنر

اپنی صورت کی طرح سیرت کو بھی انمول کر

 

یہ بھی ممکن ہے خوشی باہر کھڑی ہو صائمہؔ

دیکھ لینا احتیاطاً ہر دریچہ کھول کر

٭٭٭

 

 

 

 

مدارِ وقت کے اندر کہیں ٹھہری ہوئی ہوں

تمہاری یاد کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی ہوں

 

ہوا احساس یہ ہنستے ہوئے اکثر اچانک

میں اپنے آپ سے اندر کہیں روٹھی ہوئی ہوں

 

کسی انجان بستی سے گزر کر یوں لگا ہے

انہی راہوں سے پہلے بھی کبھی گزری ہوئی ہوں

 

لگے گا پھر نیا زخمِ محبت بھی یقینا

کسی کے ریشمی وعدوں میں پھر اُلجھی ہوئی ہوں

 

سکوتِ بیکراں کو صائمہؔ توڑے کوئی تو

میں مدّت سے کسی کی چاپ کو ترسی ہوئی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

شام کا ڈھلکا ڈھلکا آنچل ڈول رہا ہے

لب خاموش ہیں لیکن کاجل بول رہا ہے

 

اپنے عیب بتاکر باتوں باتوں میں

وہ میرے مَن کی سچائی تول رہا ہے

 

اس کی قیمت، اس کے دام لگانا مت

غم کا رشتہ صدیوں سے انمول رہا ہے

 

توڑ کے مایوسی کا پنجرہ آخرِ کار

آس کا پنچھی اُڑنے کو پَر تول رہا ہے

 

اس کے لہجے میں شامل وہ دھیما پن

اب تک جیسے کانوں میں رس گھول رہا ہے

 

سودا کیسے کرتی میں خود داری کا

دل کے اندر اک خالی کشکول رہا ہے

 

صائمہ وقت کا منصف اپنے ہاتھوں سے

رفتہ رفتہ سب دروازے کھول رہا ہے

۲۰ اکتوبر ۲۰۱۰

٭٭٭

 

 

 

 

آج اپنے لیے مشقِ ستم ایجاد کروں

آ ذرا آس کے پنچھی تجھے آزاد کروں

 

چائے کی ایک پیالی لیے برگد کے تلے

زندگی تجھ کو تسلّی سے کبھی یاد کروں

 

آخری ہچکی دبائے میں اسی سوچ میں ہوں

یہ تماشہ میں تِرے سامنے یا بعد کروں

 

وہ بھلے کرتا رہے شہرِ دل و جاں تاراج

میں انا زاد ہوں کیسے کوئی فریاد کروں

 

جب کوئی حل ہی نہیں ہے مری اُلجھن کا کہیں

بات کو چھیڑ کے میں کیوں تجھے ناشاد کروں

 

صائمہؔ کاش کہ دنیا کے کسی گوشے میں

میں نگر اپنی تمناؤں کا آباد کروں

۴ اپریل ۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

وہی ہے غم کا اندھیرا، دیا جلا کر بھی

کہ ہم نے دیکھ لیا آج مسکرا کر بھی

 

اسے وصال کہوں یا کہ ہجر کا موسم

میں اس کو ڈھونڈتی رہتی ہوں اس کو پا کر بھی

 

شکستہ دل میں کوئی نقش بن نہیں سکتا

کہ ٹوٹا آئینہ دیکھا کبھی ملا کر بھی؟

 

حیا کے روپ کا یہ بھی کمال دیکھا ہے

میں اس کو دیکھ رہی تھی نظر جھکا کر بھی

 

فنا کے عکس سے لرزاں ہے قطرۂ شبنم

عجب ہے حرماں نصیبی چمن کھِلا کر بھی

 

تڑپتی پھرتی ہیں کچھ بجلیاں اُفق پہ ابھی

سکوں نہیں ہے انہیں آشیاں جلا کر بھی

 

کوئی خلش ہے لہو میں ابھی تلک رقصاں

کوئی کسک ہے ترے بازوؤں میں آ کر بھی

 

یہ اک ثبوت ہی کافی ہے بے گناہی کو

وہ بے سکوں ہے مجھے فیصلہ سنا کر بھی

 

ہمیشہ صائمہ احساسِ نارسائی رہا

کہ فاصلے ہی رہے فاصلے مٹا کر بھی

۸ نومبر  ۲۰۱۰

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

قریب آ کر وہ دوری کا نظارہ اور ہی نکلا

تمہاری میری قسمت کا ستارہ اور ہی نکلا

 

کہاں تک ساتھ چلنا تھا، کہاں آکے بچھڑنا تھا

تمہاری مصلحت کا ہر اشارہ اور ہی نکلا

 

قصور اس کا نہیں تھا ہم نے دھوکا آپ کھایا تھا

ہوئے تنہا تو پھر دشمن ہمارا اور ہی نکلا

 

وہی مانوس سرگوشی، وہی مانوس خوشبو تھی

تمہارے نام سے جس کو پکارا اور ہی نکلا

 

کبھی تم سے خفا تھی میں کبھی مجھ سے گریزاں تم

تمہاری، میری کشتی کا کنارا اور ہی نکلا

 

محبت کا اٹھا کر گوشوارہ جب بھی دیکھا ہے

منافع اور ہی نکلا خسارہ اور ہی نکلا

 

ہوا معلوم مجھ کو صائمہؔ اپنی غزل پڑھ کر

مرے اندر کے طوفانوں کا دھارا اور ہی نکلا

۳ نومبر  ۲۰۱۰

٭٭٭

 

 

 

نظم

محبت ہی محبت ہے

مرے چاروں طرف رقصاں

مگر میں جب کبھی اس کے ذرا

ہم رقص ہوتی ہوں

تو میرے پاؤں کی بیڑی

شکنجہ کسنے لگتی ہے

کوئی حسرت قفس میں بال کھولے

رونے لگتی ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کہانی ہجرِ یاراں کی نہایت سیدھی سادی ہے

تری تصویر آدھی ہے، مری تصویر آدھی ہے

 

کھُلی کھڑکی سے جو رستہ ترا تکتی رہی شب بھر

وہ شمع آس کی میں نے ہتھیلی سے بجھا دی ہے

 

خفا نہ ہو دکھا دوں میں اگر اب آئینہ تجھ کو

وضع داری کی یہ دیوار تُو نے خود گرا دی ہے

 

زمانے کو خبر کیسے بھلا اس کشمکش کی ہو

کہ میں نے اپنے شعروں میں تری اُلجھن چھُپا دی ہے

 

کہا اُس نے تو ہم نے بات کا رُخ ہی بدل ڈالا

کہ ناداں دل اسی کے فیصلوں کا اب بھی عادی ہے

 

مرے قاتل سے کیوں قصداً سبھی نے چشم پوشی کی

مرا اسباب لُٹنے کی مگر ہر سُو منادی ہے

 

کہاں سے لاؤں میں اب صائمہؔ نقشِ کہن اپنا

کسی کے دستِ عجلت نے مری ہستی مِٹا دی ہے

۲۱ جنوری ۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

اے کشفِ محبت یہ تری جادو گری ہے

یہ بزمِ جہاں میری ہتھیلی پہ دھری ہے

 

یہ تم جو نظر آنے لگے ہو مجھے ہرسُو

یہ خواہشِ برباد کی آشفتہ سری ہے

 

اے محرمِ غم تُو ہی بتا دے مجھے آ کر

کیوں میری نگاہوں میں اداسی سی بھری ہے

 

برسوں نہیں صدیوں سے تجھے مانگ رہے ہیں

کیا حسرت و ارمان کی دریوزہ گری ہے

 

دو پل کو غم دہر سے آزاد نہیں تُو

کڑوی ہے مگر جانِ جہاں بات کھری ہے

 

دیکھوں تو ابھی پاس ہے، جاؤں تو بہت دور

دل کی یہ طلب صائمہؔ کُہسارِ مری ہے

۲۱ جنوری ۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

ہو جائیں ہم بھی عشق سے انجان، پر نہیں

دل سے مٹا دیں حسرت و ارمان، پر نہیں

 

حدِّ نظر سے دور چلے جائیں ہم کہیں

اِک روز کر کے سب کو پریشان، پر نہیں

 

کاٹی تھیں ہم نے مشکلیں یہ سوچتے ہوئے

ہو جائے زندگی کبھی آسان، پر نہیں

 

سونپے تھے سارے فیصلے تجھ کو کچھ اس لیے

مل جائے ہم کو زیست کا امکان، پر نہیں

 

چاہا تو بارہا تری ہر خود سری کے بعد

جتلائیں ہم بھی کوئی تو احسان، پر نہیں

 

جس نے اُجاڑ دی ہیں مرے دل کی بستیاں

کر دے خدایا اس کو بھی ویران، پر نہیں

 

منزل پہ آ کے صائمہؔ میری طرح سے وہ

ہو جائے کاش بے سروسامان، پر نہیں

٭٭٭

 

 

سراپا طلب، بے طلب آدمی

مرے روبرو ہے عجب آدمی

 

ابھی ہے شناسا، ابھی اجنبی

بدلتا ہے چہرے غضب آدمی

 

امیرِ زماں جشنِ اغیار میں

کہے تجھ سے کیا جاں بہ لب آدمی

 

خداؤں کی خاطر کوئی مسئلہ

نہ تب آدمی تھا نہ اب آدمی

 

زمانے میں کچھ روز کر کے قیام

کہاں چل دیے ہیں یہ سب آدمی

 

غمِ دل، غمِ جاں، غمِ روزگار

بھنوّر میں ہے کیوں روز و شب آدمی

 

جھٹک دے کوئی آ کے منزل پہ ہاتھ

بہت چوٹ کھاتا ہے تب آدمی

 

مجھے صائمہؔ اپنے کردار سے

بتاتا ہے نام و نسب آدمی

٭٭٭

 

 

 

 

 

آخر ہے پیشِ جاں وہی برسات چارسُو

بکھرے ہوئے ہیں ڈھیروں سوالات چارسُو

 

اپنی پڑی ہوئی ہے جسے دیکھیے یہاں

بگڑے ہوئے ہیں شہر کے حالات چارسُو

 

یوں ہے اُداسی دل کے سمندر میں موجزن

جیسے کہ خیمہ زن ہو کوئی رات چارسُو

 

تم سے ہوئی تھی مدتوں پہلے یہیں کہیں

رقصاں ہے آج بھی وہ ملاقات چارسُو

 

بھولے سے کہہ دیا تھا جو محفل میں سچ ذرا

لہجوں میں آ گئے ہیں تضادات چارسُو

 

کچھ صائمہؔ وہ نام ہی ایسا عجیب تھا

یادوں کی جیسے آ گئی بارات چارسُو

٭٭٭

 

 

 

 

مرے سوال کو وقفِ عذاب رہنے دو

تمہارے بس میں نہیں ہے جواب رہنے دو

 

اُٹھیں گے پھر نئے قصّے بنیں گی باتیں پھر

فریبِ سود و زیاں کا حساب رہنے دو

 

کوئی بعید نہیں پھر سے جی اُٹھے محفل

نظر کے سامنے چنگ و رُباب رہنے دو

 

کسی کی یاد کا ہالہ، کسی خیال کا چاند

مرے وجود پہ کوئی سحاب رہنے دو

 

ابھی بھی اس کی بدولت ہے تازگی ہرسُو

مری کتاب میں سوکھا گلاب رہنے دو

 

تمام چہرے مرے خوب دیکھے بھالے ہیں

پڑے ہوئے ہیں جو ان پر نقاب رہنے دو

 

خوش آ گئی ہے مجھے بے خودی جہاں والو

تم اپنے پاس گناہ و ثواب رہنے دو

 

یہی تو صائمہؔ ٹھہرے گا آخرِ شب تک

پلک پہ کوئی ادھورا سا خواب رہنے دو

یکم نومبر  ۲۰۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

زخم کے بعد نیا زخم اُسے کھانا پڑا

اس فسانے میں مصنّف کو بھی مر جانا پڑا

 

ہاں زمانے کی روایات سے پسپا ہو کر

پھول رکھ کر تری دہلیز سے لوٹ آنا پڑا

 

یہ بھی شاید، کہیں شامل تھا سزاؤں میں مری

اُس نے جو کچھ بھی کیا اُس کا مجھے طعنہ پڑا

 

پوچھ مت ضبط کی کس راہ سے گزری آنکھیں

گیت ڈھولک پہ تری مہندی کا جو گانا پڑا

 

پوچھتا رہتا تھا ہر شخص ترے بارے میں

رفتہ رفتہ مجھے ہر بزم سے کترانا پڑا

 

صائمہؔ دیکھ کے اس شہرِ خرد کے تیّور

ایک گھر مجھ کو بیاباں میں بھی بنوانا پڑا

٭٭٭

 

 

 

 

میری سچی داستاں اپنی جگہ

کوئی ٹھہرا بدگماں اپنی جگہ

 

دم بخود ہیں زندگی کے روز و شب

گردشِ کون و مکاں اپنی جگہ

 

خواہشوں کے شور، دل کے ولولے

کون رہتا ہے کہاں اپنی جگہ

 

محفلیں، بزمِ جہاں کی رونقیں

ہے مگر تیرا دھیاں اپنی جگہ

 

ہیں کلیساؤں کی بڑھتی شورشیں

چارسُو ہوتی اذاں اپنی جگہ

 

ضبط کے سارے مراحل طے ہوئے

آنکھ میں بھرتا دھواں اپنی جگہ

 

ہے سیہ جوڑے میں دُلہن رات کی

چاند، تارے، کہکشاں اپنی جگہ

 

صائمہؔ دھیمے سُروں میں بات کر

ذات کا آتش فشاں اپنی جگہ

۲۰ فروری ۲۰۱۳

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

کسی سبب تو لبوں پر یہ خامشی ہے نا!

تُو سچ بتا یہ ملاقات آخری ہے نا!

 

یہی تو پہلی نشانی ہے عشق کی پاگل

کئی دنوں سے طبیعت بُجھی بُجھی ہے نا!

 

میں غم کو جلد بھلانے کی خود بھی قائل ہوں

مگر یہ بیچ میں کم بخت شاعری ہے نا!

 

ابھی ضمیر کی آواز دل پہ لگتی ہے

یہ بے وفائی کی عادت نئی نئی ہے نا!

 

یہ روز ایک دلاسہ، یہ روز ایک فریب

اسی کا نام حقیقت میں زندگی ہے نا!

 

تُو میرے حال سے واقف تو ہے ازل سے ماں

جو بات کہہ نہیں سکتی سمجھ رہی ہے نا!

 

جو روگ پال رہی ہوں میں صائمہؔ کب سے

وہ تیرے واسطے دو پل کی دل لگی ہے نا!

۱۵ مئی ۲۰۱۳

٭٭٭

 

 

 

سانحۂ پشاور

(16 دسمبر2014 کے سانحۂ پشاور کے نو عمر شہداء کے نام)

 

پل بھر میں زندگی کی کہانی بکھر گئی

معصومیت پہ آج قیامت گزر گئی

 

سنتے ہی یہ خبر ہمیں ایسا لگا کہ بس

نیزے کی نوک جیسے دلوں میں اُتر گئی

 

لیتا رہے گا سسکیاں صدیوں یہ سانحہ

ہستی نمودِ صبح کی بے موت مر گئی

 

فردا کے اِن سے وعدے کیے تھے ہزارہا

اے شوخیِ حیات تُو کیسے مُکر گئی

 

دہشت، درندگی پہ یہ مائیں ہیں نوحہ گر

انسانیت وجودِ بشر سے کدھر گئی

 

لاشے سے اپنے لال کے لپٹے جو والدین

دھڑکن بھی چلتے وقت کی جیسے ٹھہر گئی

 

کربل کی یاد صائمہؔ تازہ ہوئی ہے آج

مقتل ہے چارسُو کہ جہاں بھی نظر گئی

۱۶  دسمبر ۲۰۱۴

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

گر یہ وجدان خیالات پہ طاری ہو جائے

میرا افسانہ حقیقت پہ بھی بھاری ہو جائے

 

یہ بھی ممکن ہے محبت کی فسوں کاری میں

ہونٹ خاموش رہیں بات بھی ساری ہو جائے

 

اک تذبذب کی ہمہ گیر فضا رہتی ہے

جب زباں طرزِ وضاحت سے بھی عاری ہو جائے

 

اس جدائی کا سبب میں تھی کہ تیری فطرت

آج جذبات کی بھی رائے شماری ہو جائے

 

آپ بیتی ہی لکھی جب بھی اُٹھایا ہے قلم

کیوں نہ اس بار طلسمات نگاری ہو جائے

 

درگزر کر کے مظالم کو یہی سوچتی ہوں

اب کے دشمن پہ یہی وار ہی کاری ہو جائے

 

صائمہؔ شورشِ جذبات مقیّد ہے ابھی

کل لہو بن کے یہ آنکھوں سے نہ جاری ہو جائے

۴ جنوری ۲۰۱۵

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

پت جھڑ رُتوں کا یہ نیا انداز تو نہیں

یہ آپ کی جفاؤں کا آغاز تو نہیں

 

برسوں سے بھول بیٹھی ہوں میں خود کلامیاں

میں اپنے آپ سے کہیں ناراض تو نہیں

 

یہ کیسی بازگشت سی رہتی ہے چارسُو

اے زندگانی یہ تری آواز تو نہیں

 

موسم میں کوئی سوز گھُلا ہے نیا نیا

چھیڑا تھا جس کو میں نے یہ وہ ساز تو نہیں

 

یہ زندگی تو مہرباں اتنی کبھی نہ تھی

اتنی نوازشوں میں کوئی راز تو نہیں

 

پنجرے میں پھڑپھڑاتے رہیں گے تمام عمر

میرے پروں کے واسطے پرواز تو نہیں

 

رشتہ رکھے گا صائمہؔ وہ ’’ہیلو‘‘ ’’ہائے ‘‘ کا

ظالم ضرور ہے وہ دغا باز تو نہیں

۱۶  جنوری ۲۰۱۵

٭٭٭

 

 

 

 

ہر محبت کی کہانی کا یہ دستور ہے کیا

وہ بھی میری طرح حالات سے مجبور ہے کیا

 

ہم تو بس اپنی سی کوشش میں لگے رہتے ہیں

کیا خبر کاتبِ تقدیر کو منظور ہے کیا

 

شَل ہوئے جاتے ہیں پاؤں، پہ کہاں ہے منزل

جس کو نزدیک سمجھتے تھے ابھی دُور ہے کیا

 

جو بھی آئے اُسے تاراج کا حق حاصل ہے

مسندِ دل کی حکومت کا یہ منشور ہے کیا

 

مستقل صائمہؔ ہیجان بپا ہے کوئی

نافۂ عشق میں مضطر کوئی کستور ہے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

آرمی پبلک سکول کے بچوں کا گیت

 

اے ظالم!! ہم تری دہشت کو مٹی میں ملا دیں گے

قلم کی روشنائی سے تری ہستی مٹا دیں گے

 

بہادر قوم کے ہم سب نڈر ننھے سپاہی ہیں

جواں ہمت کی ہم اپنی بذاتِ خود گواہی ہیں

ذہانت کے دیے سارے زمانے میں جلا دیں گے

اے ظالم!! ہم تری دہشت کو مٹی میں ملا دیں گے

 

ہم اپنی سرزمینِ پاک ڈر سے پاک کر دیں گے

اُجالوں سے اندھیروں کا بھی سینہ چاک کر دیں گے

اُجاڑے جو چمن تم نے انہیں ہم پھر کھلا دیں گے

اے ظالم!! ہم تری دہشت کو مٹی میں ملا دیں گے

 

ہمیں غافل سمجھ کر اب نہ ہم پر وار کرنا تُم

ہمارے آہنی جذبوں کی شمشیروں سے ڈرنا تُم

جو تم نہ سوچ پاؤ گے تمہیں کر کے دکھا دیں گے

اے ظالم !! ہم تری دہشت کو مٹی میں ملا دیں گے

٭٭٭

 

متن کا ماخذ: کتاب انڈرائڈ ایپ

ای بک سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل