FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

نوجوان شاعر، اقبال (ایک تجزیہ)

 

 

               پروفیسر محمد عثمان

 

 

ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال

مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، وحید اختر عشرت

 

 

 

 

 

۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۵ء تک کا زمانہ اقبال کے شباب کا زمانہ تھا۔ شاعری کے اعتبار سے تو اسے عنفوان شباب بھی کہہ سکتے ہیں لیکن خود اقبال اپنی اس منزل سے گزر چکے تھے۔ ان کی پیدائش ۱۸۷۷ء میں ہوئی تھی۔ ۱۹۰۱ء میں ان کی عمر ۲۳برس کی ہو گی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔ اے کرنے کے بعد پہلے اورئینٹل کالج میں اور پھر گورنمنٹ کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے تھے اور ان کا زیادہ  وقت پڑھنے اور پڑھانے میں گزرتا تھا۔ بانگِ درا   کا پہلا حصہ اس کلام پر مشتمل ہے جو انھوں  نے اس عہد میں یعنی ۲۳، ۲۴برس سے ۳۲برس کی عمر تک لکھا۔ اس کم و بیش پانچ سال کی شاعری کو بعض نقادوں نے ’دورِ اول کی شاعری‘ کہا اور بعض نے اسے قومیت یا وطنیت کی شاعری سے تعبیر کیا ہے۔ بہر حال یہی وہ زمانہ ہے جس میں کہی ہوئی نظمیں اور غزلیں اور ان کا کہنے والا نوجوان اقبال اس مطالعہ کا موضوع ہے۔

 

۱۔ فلسفیانہ تفکرّ

 

فلسفہ کی طرف میلان اور کالج میں بطورِ مضمون کے اس کا انتخاب اس امر کا ثبوت ہے کہ طبعیت میں گہرے غور و فکر کا رنگ پایا جاتا تھا۔ یوں تو ہر تعلیم یافتہ اور علم و فن سے ذوق رکھنے والا شخص زندگی کے بعض پہلوؤں پر غور کرتا ہے مگر وہ لوگ جو فلسفہ کی طرف خاص طور پر بڑھتے ہیں ، ان کا فکر دوسرے لوگوں سے خاصا ممتاز ہوتا ہے۔ عام لوگ زندگی کے ظواہر مثلاً سیاسیات، معاشیات، اجتماعیات وغیرہ کے مسائل کے متعلق سوچتے سمجھتے ہیں۔ فلسفہ کا رسیا زندگی اور کائنات کی بنیاد پر غور کرتا ہے۔ اس کا ذہن مادہ اور زندگی کی ظاہری سطح سے گزر کر وراء مادہ سے پھوٹنے والی الجھنوں کو حل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ وہ صرف یہ نہیں دیکھتا ہے کہ موجودہ زندگی کیسی ہے اور کیا ہونی چاہیے بلکہ اس بات کی کھوج لگاتا ہے کہ زندگی ہے کیا؟ یہ کیا تھی؟ کیا ہو گی؟ اور یہ کیوں ہے؟ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ زندگی کی رفتار اور اس کی اصلاح پر ہی نظر رکھنا کافی نہیں سمجھتے بلکہ اس کی ماہیّت اور اس کی ابتدا اور انتہا کو سمجھنے کی جستجو بھی کرتے ہیں۔ بانگِ درا کے پہلے حصّے میں یہ رجحان اقبال کا سب سے نمایاں اور اہم رجحان ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں۔ اوّل یہ کہ روز مرہ کے واقعات کو وہ اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے عام لوگ انہیں دیکھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں اور انہیں قابلِ توجہ اور دَر خورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ پروانے ہر رات شمع پر آ آ کر گرتے ہیں اور جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ میرے اور شاید آپ کے لیے یہ واقعہ زندگی کے معمولات میں سے ہے، لیکن نوجوان اقبال کی نظر میں یہ، غیر معمولی، واقعہ ہے۔ جب اس کی نگاہ اس منظر پر پڑتی ہے تو وہ ٹھٹک جاتا ہے۔ اس کے دل میں بیسیوں سوال اٹھتے ہیں۔ اسے شمع کی روشنی پر پروانے کے جل مَرنے میں کوئی سربستہ راز، کوئی پر اسرار معنویّت دکھائی دیتی ہے اور اس کا استفسار ایک گہرے تحیّر میں ڈوب جاتا ہے:

 

پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں ؟

یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں ؟

 

سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے

آدابِ عشق تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟

 

کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا

پھونکا ہوا ہے کیا تری برقِ نگاہ کا؟

 

آزارِ موت میں اسے آرامِ جاں ہے کیا؟

شعلے میں تیرے زندگیِ جاوداں ہے کیا؟

 

پروانہ اور ذوقِ تماشائے روشنی!

کیڑا ذرا سا اور تمنّائے روشنی!

 

دوم یہ کہ چونکہ غور و فکر کی ابتدا ہے، جستجو کا آغاز ہے، اس لیے شاعر سراپا استفسار اور یکسر سوال بنا ہوا ہے اور اسے اپنی اس کیفیّت کا شدید احساس ہی گلِ رنگین، بانگِ درا کی دوسری نظم ہے۔ اس میں نوجوان شاعر اپنے آپ کو ’’سراپا سوز و سازِ آرزو‘‘ اور زخمی شمشیرِ ذوق جستجو، کہتا ہے ا ور اس کے بیان میں اتنا خلوص اور اتنا درد ہے کہ پڑھنے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا:

 

تو شناسائے خراشِ عقدۂ مشکل نہیں

اے گلِ رنگیں ! ترے پہلو میں شاید دل نہیں

 

زیبِ محفل ہے شریکِ شورشِ محفل نہیں

یہ فراغت بزمِ ہستی میں مجھے حاصل نہیں

 

اس چمن میں مَیں سراپا سوز و سازِ آرزو

اور تیری زندگانی بے گدازِ آرزو

 

سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے

راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے

 

میری صورت تو بھی اِک برگ ریاضِ طور ہے

میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دُور ہے

 

مطمئن ہے تو پریشاں مثلِ بو رہتا ہوں میں

زخمیِ شمشیر ذوقِ جستجو رہتا ہوں میں

 

سوم یہ کہ شاعر کی حیثیت سے اقبال زندگی یا فطرت کے جس مظہر کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے اس کا دل اس مظہر کی حقیقت کو پا لینے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے مچل جاتا ہے، بے قرار ہو جاتا ہے۔ اس جذبہ کے ماتحت وہ کبھی  ماہ نو، آفتابِ صُبح اور گُلِ پژمردہ سے مصروف گفتگو ہوتا ہے اور کبھی ’چاند‘ ، ’گلِ رنگین‘ اور ’شمع‘ سے۔ شاعران سے طرح طرح کے سوال کرتا۔ ان سے اپنے دل کی کہتا اور ان کے دل کی سننے کی خواہش کرتا ہے۔ نظم ’گلِ رنگین‘سے جو ٹکڑے ابھی آپ کی نظر سے گزرے ہیں ان سے میرے اس خیال کی تصدیق ہو سکتی ہے لیکن اس پہلو کی سب سے بہتر نمائندگی وہ نظم کرتی ہے جس کا عنوان ’خفتگانِ خاک سے استفسار‘۔ زندگی کی اصل کیا ہے؟اس مسئلہ کا حل بہت کچھ ’موت کیا ہے؟‘کے حل پر منحصر ہے۔ مابعد الطبیعات کے جس قدر نظامِ انسانی ذہن نے تعمیر کیے ہیں اس کی اساس موت کے کسی نہ کسی تصّور پر قائم ہوتی ہے۔ اگر ہماری سمجھ میں یہ بات صاف ہو جائے کہ موت کیا ہے تو زندگی کی گتھی اس کی روشنی میں خودبخود سلجھنے لگتی ہے۔ اقبال نے متذکرہ بالا نظم میں اوپر تلے کم و بیش تیس بتیس سوال خفتگانِ خاک سے کیے ہیں۔ سوالات کی نوعیّت اور ہمہ گیری اور اندازِ بیان کے جوش سے بآسانی اندازہ ہو سکتا ہے کہ شاعر فطرت کے اس مظہر کو تمام و کمال جان لینے کے لیے کس قدر بے قرار ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

 

اے مئے غفلت کے سرمستو! کہاں رہتے ہو تم؟

کچھ کہو اس دیس کی آخر جہاں رہتے ہو تم

 

وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی؟

اور پیکارِ عناصر کا تماشا ہے کوئی؟

 

آدمی واں بھی حصارِ غم میں ہے محصور کیا؟

اس ولایت میں بھی ہے اِنساں کا دل مجبور کیا؟

 

اس جہاں میں اک معیشت اور سو افتاد ہے

رُوح کیا اس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟

 

کیا وہاں بجلی بھی ہے، دہقاں بھی ہے خرمن بھی ہے؟

قافلے والے بھی ہیں ؟ اندیشۂ رہزن بھی ہے؟

 

واں بھی کیا فریادِ بلبل پر چمن روتا نہیں ؟

اس جہاں کی طرح واں بھی دردِ دلِ ہوتا نہیں ؟

 

جستجو میں ہے وہاں بھی رُوح کو آرام کیا؟

واں بھی انساں ہے قتیلِ ذوقِ استفہام کیا؟

 

آہ! وہ کشور بھی تاریکی سے کیا معمور ہے؟

یا محبت کی تجلّی سے سراپا نور ہے؟

 

تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے

موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے

 

لیکن نوجوان اقبال ۲۴، ۲۵برس کے اقبال، کے متعلق اس باب میں سب سے اہم بات بیان کے قابل یہ ہے کہ وہ اس غور و فکر، تلاش و جستجو اور سوز و ساز کی ابتدائی منزل میں بھی عجب طرح کا اعتماد اپنے اوپر اور انسان کی عظمت پر رکھتا ہے جس کی وجہ سے اس کا ذوقِ استفسار اور دردِ استفہام اسے تشکیک یا قنوطیت کی طرف نہیں لے جاتا بلکہ وہ اپنے نوخیز وجدان کے سہارے امیّد و یقین کی طرف بڑھتا ہے۔ پڑھنے والے کو بے تاب جستجو اور پختہ اعتماد کا یہ امتزاج دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ ’آفتابِ صبح‘ میں آفتاب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں :

 

آرزو نورِ حقیقت کی ہمارے دل میں ہے

لیلیِ ذوقِ طلب کا گھر اسی محمل میں ہے

 

کس قدر لذت کشودِ عقدۂ مشکل میں ہے

لطفِ صد حاصل ہماری سعیٔ بے حاصل میں ہے

 

دردِ استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں

جستجوئے رازِ قدرت کا شناسا تو نہیں

 

گلِ رنگیں ، ان اشعار پر ختم ہوتی ہے:

 

یہ پریشانی مری سامانِ جمعیت نہ ہو

یہ جگر سوزی چراغِ خانۂ حکمت نہ ہو

 

ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو

رشک جام جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو

 

یہ تلاشِ متصل شمعِ جہاں افروز ہے

تو سنِ ادراکِ انساں کو خرام آموز ہے

 

سورج کی طرح چاند بھی شاعر کی کئی ایک کیفیات میں شریک ہے۔ مگر اشتراکِ راہ میں جلد ایک موڑ آ جاتا ہے جس سے آگے صرف شاعر ہی جا سکتا ہے۔ چاند بے چارے کا وہاں گزر کہاں ؟ یہ وہ مقام ہے جہاں سے انسان کائنات کی دوسری تمام مخلوقات کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھتا ہے۔ اس راہِ عظمت میں اس کا کوئی ہم سفر نہیں ، کوئی شریک نہیں۔ یہ مرتبہ تنہا اسے حاصل ہے۔ کیوں ؟ اس کا جواب انسان کا وہ وصف ہے جو نوجوان اقبال کی سب سے نمایاں خصوصیّت ہے: ذوقِ آگہی۔ چنانچہ چاند سے خطاب ہوتا ہے:

 

پھر بھی اے ماہِ مبیں ! میں اور ہوں ، تو اور ہے

درد جس پہلو میں اٹھتا ہے وہ پہلو اور ہے

 

گرچہ میں ظلمت سراپا ہوں ، سراپا نور تو

سینکڑوں منزل ہے ذوقِ آگہی سے دُور تو

 

جو مری ہستی کا مقصد ہے مجھے معلوم ہے

یہ چمک وہ ہے جبیں جس سے تری محروم ہے

 

اس رُجحان کا آخری پہلو یہ ہے کہ اس دَور میں اقبال صرف استفسار اور استفہام پر ہی اکتفا نہیں کرتا  جیسا کہ ’خفتگانِ خاک‘ کے اشعار سے گمان ہو سکتا ہے بلکہ اس کی مابعد الطبعیاتی نظام کی بنیادیں جن پر بعد میں اس کے فکر کی فلک بوس عمارت کھڑی ہوئی اسی زمانے میں استوار ہوتی ہیں۔ یہ کائنات کیا ہے؟ یہ مادّہ ہی مادّہ ہے یا اس طبعی اور مادّی نظام کے پیچھے کوئی شعور، کوئی ذہن، کوئی مقصد کارفرما ہے؟ نوجوان اقبال کائنات کی مادّی تعبیر کرنے والے کو’ چشم غلط نگر ‘ کہتا ہے اور سلسلۂ کون و مکاں کی رومانی اور اخلاقی تعبیر پر زور دیتا ہے:

 

چشمِ غلط نگر کا یہ سارا قصور ہے

عالم ظہور جلوۂ ذوقِ شعور ہے

 

یہ سلسلہ زمان و مکاں کا کمند ہے

طوقِ گلوئے حسنِ تماشا پسند ہے

 

اسے کائنات کی ہر چیز میں ، ہر شے میں حسنِ مطلق کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اس کے نزدیک کائنات کی ’کثرت‘ وحدت ہی کا ایک کرشمہ ہے۔ اس متصوفانہ تصورِ کائنات کا اظہار پہلے دَور میں کئی ایک مقام پر ہوا ہے۔ ’بچّہ اور شمع‘ اور ’جگنو‘ میں نوجوان اقبال نے یہ خیال بڑی خوبی، وضاحت اور جوش کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ’جگنو‘ سے چار اشعار درج کیے جاتے ہیں :

 

حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے

انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے

 

یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا

واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے

 

اندازِ گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ

نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی چہک ہے

 

کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی

جگنو کی جو چمک ہے، وہ پھول کی مہک ہے

 

پہلے دَور کی ایک غزل کا ایک شعر ہے:

وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے

چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے

آگے چل کر اگرچہ اقبال وحدت الوجود کے نظریہ کے قائل نہیں رہتے، مگر حسنِ ازل کی پیدا  ہر چیز میں جھلک ہے، کی واقعّیت سے انہیں کبھی انکار ہوا اور نہ ہو سکتا تھا۔ کائنات کی روحانی تعبیر اور ’اکثریت‘ میں ’وحدت‘ کا راز پا لینے کے علاوہ اقبال نے انسانی جوہر کی ابدیّت کا خیال بھی پہلے دَور کے اواخر میں بڑے غیر مبہم الفاظ میں پیش کیا ہے۔ ’کنارِ راوی‘ پہلے حصے کی نہایت عمدہ نظموں میں شمار کیے جانے کے قابل ہے۔ غروبِ آفتاب کے وقت شاعر راوی کے کنارے کھڑا ڈُوبتے ہوئے سورج کا نظارہ کر رہا ہے اور منظر کی دلفریبی میں کھویا جا رہا ہے، گہرے سکوت اور تنہائی کا عالم ہے، دُور مقبرۂ جہانگیر کے مینارے عہدِ رفتہ کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ اتنے میں ایک کشتی شاعر کے قریب سے ہو کر گذرتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے  نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اقبال کے فلسفی ذہن کو زندگی کے لیے ایک نادر تشبیہ سوجھتی ہے:

 

رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂِ تیز

ہوا ہے موج سے ملاّح جس کا گرمِ ستیز

 

سبک روی میں ہے مثلِ نگاہ یہ کشتی

نِکل کے حلقۂ حدِ نظر سے دُور گئی

 

جہاز زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی

ابد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی

 

شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا

نظر سے چھپتا ہے، لیکن فنا نہیں ہوتا

 

انسانی جوہر کی ابدیّت کا یہ خیال بانگِ درا اور بعد کی کتابوں میں بیسیوں مرتبہ ادا ہوا مگر بیان کی وہ دل کشی جو اوپر کے اشعار کا حصّہ ہے غالباً کہیں اور پیدا نہ ہو سکی۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

 

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

(بانگِ درا، حصہّ سوم)

 

موت تجدیدِ مذاق زندگی کا نام ہے

خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

(بانگِ درا، حصہّ سوم)

 

جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں

آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں

(بانگِ درا۔ حصہ سوم)

 

فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے

(ضربِ کلیم۔ صفحہ ۶۳)

 

الغرض اقبال کا فلسفیانہ تفّکر جو ابتدا میں محض ایک بے تابی، ایک دردِ استفہام، ایک ذوقِ جستجو تھا۔ دورِ اوّل (۱۹۰۱۔ ۱۹۰۵ء) کے ختم ہونے سے پہلے اپنے لیے بعض مثبت بنیادیں تلاش کر لیتا ہے اور اس کا مضطرب دل کائنات میں خدا کے وجود، ہر شے میں اس ظہور اور انسانی جوہر کی ابدّیت کے تصّورات سے قدرے تسکین پاتا ہے۔

 

 

۲۔ وسیع انسانی ہمدردی

 

 

نوجوان شاعر کی شخصیت میں اس رجائی تفکر کے بعد جو رجحان ہمیں ملتا ہے اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک وسیع انسانی ہمدردی اور محبت جو پورے کرۂ ارض اور نسل آدم کو محیط ہے، دوسرے ہندوستانی قومیت اور جذبہ حب الوطنی۔ ہندوستانی قومیت کا جذبہ دراصل وسیع انسان دوستی ہی کی ایک شاخ تھی جس کا رنگ مقامی اثرات اور حالات نے اور گہرا کردیا بعض حضرات کا خیال ہے کہ اقبال کی شخصیت اور کلام کا یہ رجحان ولایت سے واپس آنے کے بعد رفتہ رفتہ اس قدر کم ہوتا گیا کہ آخر میں باقی ہی نہ رہا۔ یہ خیال صحیح نہیں اور اس بنیادی غلط فہمی سے پیدا ہوتا ہے کہ اقبال میں وسیع انسانی ہمدردی کا جذبہ حُبّ الوطنی سے پیدا ہو ا تھا۔ لہٰذا جب وہ ہندوستانی قومیت کے تصور سے دستبردار ہوئے تو یہ جذبہ بھی دب گیا۔ اگر اقبال کا از اول تا آخر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کا مقصود ہمیشہ اور ہر دور میں انسانیت اور انسانی فلاح و بہبود رہا۔ اسی کے پیش نظر انھوں نے پہلے قومیت کو اپنایا اور بڑے جوش و مستی سے اور اسی کی خاطر بعد میں قومیت کے خیال سے نہ صرف دستبردار ہوئے بلکہ اسے انتہائی خطرناک اور مہلک ٹھہرایا۔ جِن حضرات کو اقبال سے یہ شکایت ہے کہ ان کے کلام میں ہر جگہ مسلمان اور اسلام کا ذکر ملتا ہے انہیں اس بات کو بھی دیکھنا چاہیے کہ ان کے یہاں انسان، انسانی وحدت اور انسانی عظمت کا ذکر کہاں کہاں اور کس کس طرح جاری و ساری ہے۔ میرا خیال ہے بانگِ درا سے ارمغان تک مسلمان کا جتنی بار ذکر ہوا ہے انسان اور انسانی محبت و عظمت کا ذکر اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دورِ اول میں جو شعر نوجوان اقبال نے انسانی ہمدردی پر لکھے ہیں اردو شاعری کیا، دنیا کی کم ہی زبانوں میں اس کی نظیر ملے گی۔ یہ آواز اس کے دل کی گہرائیوں سے اٹھ رہی ہے کہ نوعِ انسانی اس کی قوم اور سارا جہاں اس کا وطن ہے اور زندگی کے تمام دکھ درد کا مداوا نوعِ انسان کی محبت میں ہے۔ ’’آفتابِ صبح‘‘ میں کہتے ہیں :

 

بستۂ رنگِ خصوصیت نہ ہو میری زباں

نوعِ انساں قوم ہو میری، وطن میرا جہاں

 

صدمہ آ جائے  ہوا سے گل کی پتی کو اگر

اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر

 

دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر

نور سے جس کے ملے رازِ حقیقت کی خبر

 

شاہد قدرت کا آئینہ ہو دل میرا نہ ہو

سر میں جز ہمدردیِ انساں کوئی سودا نہ ہو

 

’تصویرِ درد‘ میں ایک جگہ بڑی خوبی سے توحید کو وحدتِ انسانی کی ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ خدا کے بندوں میں تفریق کرنا اس کی شان مطلقیت سے انکار کے مترادف ہے:

 

زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل

بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے

 

کنویں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا

ارے غافل!جو مطلق تھا مقید کر دیا تو نے

 

اس درد سے لبریز نظم میں نوع انسان کی محبت کو شراب روح پرور کہا اور بتایا کہ بیمار قوموں کے لیے ’شفاء اور خفتہ بخت قوموں کے لیے بیدار بختی کے لیے کی راہ یہی محبت و اخوت ہے:

 

شرابِ روح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی

سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام وسبو رہنا

 

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے

کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے

 

بیابانِ محبت، دشتِ غربت بھی، وطن بھی ہے

یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی، چمن بھی ہے

 

محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے صحرا بھی

جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے

 

محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے

ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے

 

اس محبت نے ان کے دل کو فرقہ آرائی اور اس کے ’ثمر‘ تعصب سے پاک کر دیا اور وہ امتیازِ ملت و مذہب سے بہت اوپر اٹھ کرہندوستان کی آزادی اور اس میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے اتحاد کے زبردست علمبردار اور نقیب بن گئے۔ ان کی قومی شاعری اور جذبہ جب الوطنی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ اس سے اس حد تک واقف ہے کہ یہاں کچھ کہنا ضروری نہیں۔ اس جگہ صرف یہ کہہ دینا کافی ہو گا کہ جب انھوں نے دیکھا کہ قومیت یا وطن بہ حیثیت ایک سیاسی تصور کے نوعِ انسانی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے اور ان کے دلوں میں نفرت اور رقابت کی آگ بھڑکاتا ہے۔ تو وہ اس تصور کی اسی جوش و جذبہ سے مخالفت کرنے لگے جس جذبہ کے ساتھ انھوں نے اس سے پہلے اس کی حمایت کی تھی اور جب انھوں نے یہ دیکھا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو نسل، رنگ، زبان اور جغرافیائی حدود کے تمام امتیازات مٹا کر انسانی وحدت و اخوت و مساوت کا ایک ایسا نظام پیش کرتا ہے جس میں ہر فرد کو ترقی کے برابر کے مواقع حاصل ہیں اور جو اپنے اندر مادی اور روحانی اقدار کا ایک متوازن امتزاج رکھتا ہے تو ان میں اس نظام سے وہی والہانہ شیفتگی پیدا ہو گئی جس والہانہ پن کے ساتھ وہ اس سے پہلے قومیت کی طرف بڑھتے تھے۔ اقبال کے چند سالہ مطالعہ کے بعد جس نتیجے پر میں پہنچا ہوں یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک قومیت یا اسلام کبھی مقصود بالذات نہ تھے۔ ان کی نظر ہمیشہ پوری نوعِ انسانی اور اس کی فلاح و بہبود پر رہی۔ اسلام سے ان کو بے اندازہ رغبت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ اس نظام سے ان کی نظر و فکر کے زیادہ سے زیادہ انسانی تقاضے پورے ہوئے اور ان کی فطرت کی پیاس بُجھی۔

 

۳۔ عشق کی برتری

 

ابھی تک ہم نے نوجوان شاعر اقبال کی شخصیت کے دو رخ دیکھے ہیں۔ ان کی فلسفیانہ جستجواور اس کی وسیع انسانی ہمدردی یا انسان دوستی جو نسل، رنگ اور ملت و مذہب کی حدود توڑ کر پوری نوعِ انسانی کی وحدت کا نظارہ کرتی ہے۔ تیسرا رجحان عقل پر عشق کی فضلیت اور برتری کا ہے۔ عقل بڑی قیمتی چیز ہے اور ضروری بھی مگر حیات انسانی کی صحیح رہنمائی اس کے بس کی بات نہیں۔ یہ خیال اقبال کے نظامِ فکر میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس پر انھوں نے زندگی کے ہر دور میں نت نئے اسلوب میں روشنی ڈالی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں جو کچھ انھوں نے پہلے دور میں کہا ہے وہ بھی کچھ کم وقیع نہیں اور اس نازک اور لطیف موضوع پر بعد میں کہے گئے سینکڑوں بلند پایہ اشعار کے ابتدائیہ کے طور پر ہماری توجہ کا حق دار ہے۔ فلسفہ کی دنیا میں یہ سوال بڑا بنیادی ہے کہ صحیح علم کس ذریعہ سے حاصل ہو سکتا ہے۔ دوسرے مسائل کی طرح اس بارے میں بھی کافی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ حصول علم صرف حواس کے ذریعے ممکن ہے۔ دوسرا گروہ جو اس کی صلاحیت کو ناقص ٹھہرا کر کہ صرف عقل Logical Reason or Intellectکو واحد ذریعہ علم مانتا ہے تیسرا گروہ متشککین اور لاادریوں Agnosticsکا ہے جنہیں سرے سے اس بات میں شبہ ہے کہ فکر انسانی کی رسائی اصل تک ہو سکتی ہے لیکن ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اس یقین کے ساتھ بڑھتا ہے کہ انسان حقیقت کو جان تو سکتا ہے مگر عقل محض کے ذریعہ سے نہیں بلکہ وجدان کے ذریعہ سے، دوسرے لفظوں میں اصل کو تجزیاتی صورت میں یعنی اجزا کو علیٰحدہ علیٰحدہ سمجھ کر کل کی طرف قدم اٹھانے سے اصل کو جاننا ممکن نہیں بلکہ قدرت کی طرف سے انسان کو ایک خصوصی احساس یا جذبہ ایسا بھی عطا ہوا ہے جو کل کو مجموعی طور پر پا لینے یا اس کا ادراک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس خصوصی حس کو وجدانIntuition کہتے ہیں اور اس پر مبنی نظامِ فکر کو وجدانیت Intuitionismکہا جاتا ہے۔ فلاسفہ عالم میں غزالی اور برگساں اس گروہ کے ممتاز نمائندے تسلیم ہوتے ہیں۔ کانٹ بھی ایک حد تک اس زمرے میں شریک ہے۔

یہ فیصلہ کرنا تو مشکل ہے کہ اس خیال یا نتیجہ تک اقبال خود بخود پہنچے یا تاریخ فلسفہ کے اس باب کے بغور مطالعہ کے بعد انھوں نے اپنی افتاد طبع کو اس مدرسہ خیال سے ہم آہنگ اور متفق پایا۔ بہر حال یہ واقع ہے کہ ۲۴،۲۵برس کی عمر میں وہ اس خیال کے بہت بڑے حامی تھے اور اس کے بعد جب تک زندہ رہے ہزار رنگ میں نقطہ نظر کی تائید و حمایت کرتے رہے۔ یہ بات اس مضمون کے دائرہ سے خارج ہے کہ اقبال کے مقاصد فن میں اس خیال کو کیا اور کتنی اہمیت حاصل ہے اور ا مدردیٔ، یہ میمل نستعیق میں وصول ہوئی ہے۔ مبارک ہو

نھوں نے اس پر اتنی توجہ کیوں صرف کی؟یہاں تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ دور اول کی متعدد نظموں میں یہ خیال موجود ہے اور ایک نظم خاص طور پر اس خیال کو واضح کرنے کے لیے لکھی گئی۔ میری مراد اس نظم سے ہے جو ’’عقل و دل‘‘ کے عنوان سے بانگِ درا کے صفحہ ۲۸پر درج ہے اور بالکل ابتدائی نظموں میں سے ہے۔ یہ نظم خیال اور بیان کے اعتبار سے اس قدر مربوط اور حشو و زوائد سے اس حد تک پاک ہے کہ حوالہ دیتے وقت پوری نظم درج کیے بغیر چارۂ کار نہیں :

 

عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا

بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں

 

ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا

دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں

 

کام دنیا میں رہبری ہے مرا

مثلِ خضر خجستہ پاہوں میں

 

ہوں مفسر کتاب ہستی کی

مظہرِ شان کبریا ہوں میں

 

بوند اک خون کی ہے تو لیکن

غیرت لعل بے بہا ہوں میں

 

دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے

پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میں

 

رازِ ہستی کو تو سمجھتی ہے

اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں

 

ہے تجھے واسطہ مظاہر سے

اور باطن سے آشنا ہوں میں

 

علم تجھ سے، تو معرفت مجھ سے

تو خدا جُو، خدا نما ہوں میں

 

علم کی انتہا ہے بے تابی

اس مرض کی مگر دوا ہوں میں

 

شمع تو محفلِ صداقت کی

حسن کی بزم کا دیا ہوں میں

 

تو زمان و مکان سے رشتہ بپا

طائرِ سدرہ آشنا ہوں میں

 

کس بلندی پہ ہے مقام مرا

عرش ربِ جلیل کا ہوں میں

 

اس نظم کے اشعار :

علم کی انتہا ہے بے تابی

اس مرض کی مگر دوا ہوں میں

اور

علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے

و خدا جُو، خدا نما ہوں میں

کا مقابلہ پچیس تیس برس بعد لکھے گئے مندرجہ ذیل اشعار سے کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔

عقل گو آستاں سے دور نہیں

اس کی تقدیر میں حضور نہیں

 

علم میں بھی سردر ہے لیکن

یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

(بالِ جبریل)

 

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

(بالِ جبریل)

 

خرد سے راہرو روشن بصر ہے

خرد کیا ہے؟ چراغِ رہ گذر ہے

درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا

چراغ رہگذر کو کیا خبر ہے

(بالِ جبریل)

 

اس سلسلہ میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اگرچہ ذریعہ علم کے طور پر اقبال بھی وجدان اور اس کی سب سے اعلیٰ صورت وحی کا قائل ہے مگر اس کے یہاں دل اور عشق کا تصور برگساں کے وجدان، کے مجموعی تصور سے مختلف ہے۔ البتہ عقل کو ناقص ذریعہ علم ٹھہرانے میں غزالی، رومی، کانٹ، برگساں اور اقبال سب متفق ہیں۔

 

۴۔ پیغامبری

 

پیامبری یا پیغامبری کی شان چوتھا رجحان ہے جو ہمیں نوجوان اقبال میں نظر آتا ہے۔ جس شاعر کو آگے چل کر:

چہ باید مرد را؟ طبع بلندے، مشرب نابے

دل گرمے، نگاہ پاک بینے ، جان بے تابے

یا

دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا

مہ و ستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب!

اور

گذر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے

گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا

جیسے پیغام لیے ہوئے اشعار کہنا تھے وہ بھلا ابتدا میں اس میلان کو اظہار دیے بغیر کیوں کر رہ سکتا تھا۔ جب اس کی نظر نفسیاتِ انسانی اور زندگی کے حقائق پر بہت گہری ہو گئی تو اس کے پیام نے ان اشعار کی صورت اختیار کی جو آپ نے ابھی پڑھے ہیں۔ لیکن جب وہ ابھی اتنا پختہ نظر اور صاحب بصیرت نہ ہوا تھا تو اس نے کم و بیش اتنا ہی قیمتی پیغام نہایت پر خلوص مگر سیدھے سادے طریق سے دیا۔ جن لوگوں نے نظم سیّد کی لوح تربت، غور سے پڑھی ہے وہ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اس نظم کا لکھنے والا ابتدا ہی سے ایسی شاعری کا آب و رنگ لیے ہوئے تھا جسے ’’جز ویست پیغمبری‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ نظم بھی ابتدائی نظموں میں سے ہے اور بانگِ درا کے صفحہ ۴۲پر درج ہے۔ تاریخ مطالعہ کے اعتبار سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس نظم میں اقبال نے تکنیک بھی وہی استعمال کیا ہے جو انھوں نے بعد میں اکثر ایسی نظموں میں برتا جو خاص طور سے پیامی کہی جا سکتی ہیں۔ مثلاً ’شمع و شاعر‘ ’خضرِ راہ اور ’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘ وغیرہ یعنی وہ اپنا پیغام کسی دوسرے کی زبان سے کہلواتے ہیں اور مکالمہ کا انداز اختیار کرتے ہیں۔ سیّد کی لوحِ تربت سے آواز اٹھتی ہے :

 

مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں

ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں

 

وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں

چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں

 

وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے

دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے

 

محفلِ نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ

رنگ پر جواب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ

 

تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا

ہے دلیری دستِ ارباب سیاست کا عصا

 

عرضِ مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے

نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے

 

بندہ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے

قوتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے

 

ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامہ معجز رقم

شیشہ دل ہو اگر تیرا مثال جام جم

 

ایک رکھ اپنی زباں تلمیذِ رحمانی ہے تو

ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو

 

سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے

خرمنِ باطل جلا دے شعلۂ آواز سے

 

نوجوان اقبال نے عالم دین، سیاسی رہنما اور شاعر کو جو پیغام ان اشعار میں دیا ہے نہ صرف اس کی صحت اور صداقت میں کوئی شبہ نہیں بلکہ اس ملک میں اس پیغام کو عام کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اس سے پہلے کبھی تھی۔ اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ یہ پیغام اپنی سادگی کے باوجود فلسفی اقبال کے پیغام خودشناسی اور پیغام یزداں شناسی سے کم اہم نہیں۔

اس رجحان کے باب میں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ نری پند و موعظت کی شاعری سے بہت مختلف شاعری ہے اور اس میں اور مولانا حالی کی ’’کچھ کر لو نوجوانوں ،اٹھتی جوانیاں ہیں ‘‘میں بڑا فرق ہے۔ یہ ناصحانہ نہیں پیغامبرانہ شان کی حامل ہے۔ دور اوّل کی کئی اور نظمیں اور غزلیں اس رجحان کی نمائندگی کرتی ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو بچوں کے لے لکھی ہوئی وہ تمام نظمیں جو بانگِ درا کے حصہ اول میں درج ہیں دراصل اسی جذبے اور رجحان کا اظہار ہیں۔ اقبال جب جوان تھے تو انھوں نے بچوں کے لیے لکھا، ان کی رہبری کرنا چاہی۔ جب پختہ سن ہوئے تو جوانوں کے لیے کہنے لگے، ان کے خضرِ راہ بنے۔

 

۵۔ خود نگری

 

پانچویں چیز اقبال کا یہ رجحان ہے کہ وہ جس قدر وقت،توجہ اور توانائی خارج کے مسائل کو سمجھنے پر صرف کرتے ہیں ،اسی قدر ان کی نظر اپنی داخلی زندگی پر بھی رہتی ہے۔ ان کی شخصیت میں خارجیت اور داخلیت کا ایک ایسادل کش ملاپ ملتا ہے جو تاریخِ عالم میں بہت کم اشخاص کو نصیب ہوا ہو گا۔ برسوں بعد کے دو شعر ہیں۔

 

اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے

بری ہے مستی اندیشہ ہائے افلاکی

 

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

 

یہ اشعار ایک ایسی شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو تصویر کے دونوں رخ دیکھنے اور سمجھنے کی عادی ہو۔ اقبال انفس و آفاق دونوں کی اہمیت سے آگاہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں انھوں نے آفاق کے مسائل کو سمجھا اور بیان کیا وہاں وہ انفس کے اسرار بھی کھولتے رہے اور اسی کے ساتھ ہر دور میں اپنی ذات کی تصویر ایسے حسین رنگوں سے مصور کی کہ اس سے بہتر تصویر اچھے سے اچھے مصور کے بس کی بھی نہیں۔ میرا مطالعہ زیادہ نہیں لیکن میرا اندازہ ہے کہ جس اہتمام کے ساتھ اور جس دقتِ نظر، صحت بیان اور ندرت ادا کے ساتھ اقبال نے ہر دور میں اپنی ذات اور بدلتی ہوئی نفسی کیفیات کے متعلق لکھا ہے اس اہتمام اور دل کشی کے ساتھ شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے شاعر نے اپنے متعلق لکھا ہو۔ پچاس برس کے  بالغ نظر حکیم شخصیت کے خدوخال ہم میں سے اکثر کے ذہن میں ہوں گے۔ اگر نہیں تو تازہ کر لیجئے:۔

 

فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی

خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند

 

درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی

گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمر قند

 

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق

نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند

 

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی نا خوش

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکاقند

 

مشکل ہے کہ اک بندہ حق بین و حق اندیش

خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند

 

ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش

میں بندہ مومن ہوں نہیں دانۂ اسپند

 

پر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار

آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند

 

ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم

کیا چھینے گا غنچہ سے کوئی ذوق شکر خند

 

یہ تصور کس قدر دل کو لبھانے والی اور دِل میں گھر کرنے والی ہے مگر پچیس برس کے اقبال کی تصویر اس سے کم دلآویز اور کم جاذب نظر نہیں۔ ایک مولوی صاحب کی زبانی سنیے:

 

سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا

ہے ایسا عقیدہ اثرِ فلسفہ دانی

 

سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل

مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی

 

کچھ عار اُسے حسن فروشوں سے نہیں ہے

عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی

 

گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت

اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی

 

لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے

بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی

 

مجموعۂ اضداد ہے اقبال نہیں ہے

دل دفتر حکمت ہے، طبیعت خفقانی

 

رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف

پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی

 

اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی

ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی

(زہد و رندی۔ بانگِ درا)

 

نوجوان اقبال، مجموعہ اضداد اقبال کو سمجھنے میں ’مولوی‘ صاحب کو جو دقّت ہے خود اقبال بھی اس سے بالاتر نہیں۔ اقبال کا جواب ملاحظہ ہو:

 

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا

گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی

 

مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں

کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی

 

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے

کچھ اس میں تمسخر نہیں ، واللہ نہیں ہے

 

یہ تھی چوبیس پچیس برس کے اقبال کی تصویر، تئیس برس کے شاعر کے دل کا مرقع اور اس کے ارادوں اور آرزوؤں کا عکس وہ نظم ہے جو انھوں نے ۱۹۰۵ء میں ولایت جاتے ہوئے دہلی میں لکھی اور حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر پڑھی:

 

نظر ہے ابرِ کرم پر درخت صحرا ہوں

کیا خدا نے نہ محتاجِ باغباں مجھ کو

 

فلک نشین صفت مہر ہوں زمانے میں

تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو

 

مقام، ہمسفروں سے ہو اس قدر آگے

کہ سمجھے منزل مقصود کارواں مجھ کو

 

مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے

کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجھ کو

 

دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر

تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجھ کو

 

یہ ہیں وہ پانچ رجحانات جو ہمیں نوجوان شاعر میں واضح اور نمایاں طور پر ملتے ہیں اور یہی بنیادی رجحانات ہیں جو آخر تک ان کے فن اور ان کی شخصیت میں ممتاز رہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ پانچوں رجحانات پانچ سوتوں کی صورت میں خراماں خراماں بہتے، محبت اور اخوت کے نغمے دلنواز سروں میں گاتے، گنگناتے، شعر و سخن کی ایک رنگین وادی میں پہنچ کر باہم مل جاتے اور ایک جوئے نغمہ خواں کی تشکیل کیا کرتے۔ اس زمانے میں اس جوئے وادی کو لوگ شیخ محمد اقبال، نوجوان پروفیسر اقبال کے نام سے یاد کرتے تھے۔ آگے چل کر گردشِ ایام کے ساتھ یہ گاتے گنگناتے پانچ سوتے پانچ تند و تیز طوفانی دریاؤں میں بدل گئے۔ اپنے تیز بہاؤ میں انھوں نے ہزار فراز کو نشیب اور ہزار نشیب کو فراز کر دیا۔ اب گلستانوں اور وادیوں کی ندی میں ان کا سمٹنا، سمانا ناممکن تھا۔ ان کی امنگیں کسی سمندر، بے کراں سمندر کی تلاش میں نکلیں۔ جس سمندر کی آغوش میں ان کو آسودگی نصیب ہوئی اسے بعد میں ہم حکیم مشرق کہنے لگے۔

 

حیات اقبال کا ایک جذباتی دور، مکتبہ جدید لاہور،اپریل ۱۹۵۵ء

٭٭٭

تشکر: وسیع اللہ کھوکھر جن کےتوسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید