FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ناف کے نیچے

 

 

                   صغیر رحمانی

(ادب سلسلہ شمارہ ایک سے مواد حاصل ہوا)

 

 

 

 

 

مقام۔ ۔ ۔ شمالی ٹولے کا ایک تاریک کمرہ

 

 

۔ ۔ ۔ اس سے قبل کہ اژدہا اسے اپنے دہانہ میں بھر لیتا اس کی نیند ٹوٹ گئی اور اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تو اس کے منہ سے کراہ نکل گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جسم کا ایک ایک عضو پھوڑے کی شکل میں ٹیس رہا ہے۔ وہ پسینے سے تر بہ تر ہو گیا تھا اور پیاس کی شدت سے اس کا حلق سوکھنے لگا تھا۔ کمرے میں گہری تاریکی تھی اور ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دے رہا تھا۔

آج پھر اس نے وہی خواب دیکھا تھا۔ ایک طویل و عریض بد ہیئت اژدہا اسے چاروں جانب سے اپنے حصار میں جکڑے ہوئے ہے اور اپنے دہانہ کو پھیلا کر اسے ثا بت نگلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے جسم کی ہڈیاں چٹک رہی ہیں اور روح گھٹتی جا رہی ہے۔ اس سے قبل کہ اس کی روح فنا ہو جاتی اور وہ ہیبت ناک اژدہا اسے اپنے سخت دہانہ کی گرفت میں لے لیتا۔ ۔ ۔ اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ یہ خواب وہ مسلسل کئی راتوں سے دیکھ رہا تھا۔ خواب اس قدر ڈراؤنا تھا کہ اس کا اثر اس کے ہوش و حواس پر کئی کئی دنوں تک مسلط رہتا تھا۔ اور آج تو اس کا پورا جسم گھاؤ ہی بنا ہوا تھا۔

اس کا ذہن ماؤف ہونے لگا۔ اسی کیفیت میں اس نے بمشکل گردن گھما کر بغل میں سو رہی اپنی بیوی اور بچے کو دیکھا۔ تاریکی میں ان کی ناک سے نکلنے والی گھر گھراہٹ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اٹھا اور چارپائی سے پیر نیچے لٹکا کر بیٹھ گیا۔ پیاس کی شدت کے باوجود اندھیرے میں پانی کے مٹکے تک جانے کی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ چارپائی سے پیر لٹکائے وہ گہری سانسیں لیتا رہا۔

اس کی عمر کوئی ایک پینتیس سال تھی۔ اکہرا جسم اور درمیانہ قد ہونے کی وجہ سے ڈنڈوں کی مار اس سے اندر اندر تک حائل کر گئی تھی۔ بیوی نے ہلدی اور چونے کا مرکب پورے جسم پر مل تو دیا تھا لیکن اس نے تنبیہ بھی کی تھی، ’جب جب پروا چلے گی، انگ انگ ٹیسے گا ‘ اور اس کا انگ انگ ٹیس رہا تھا۔

دفعتاً اس کے کانوں میں ایک مترنم اور قدرے مانوس سی آواز ٹکرانے لگی۔ یہ گاؤں کی گول گنبد والی عبادت گاہ سے آنے والی آواز تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ رات ڈھل چکی ہے اور اب نور کا تڑکا پھیلنے ہی والا ہے۔ پورے دن میں کل پانچ دفعہ عبادت کے لیے اس آواز کے ذریعہ لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ بلا تفریق سب لوگ ایک ساتھ اپنے معبود کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے حواس ذرا بحال ہونے لگے۔ ایک ایک منظر یاد آنے لگا۔ نکیلے گنبد والی عبادت گاہ۔ ۔ ۔ چارپائی۔ ۔ ۔ چپل۔ ۔ ۔ ڈنڈے۔ ۔ ۔

اس کے باپ کی ایسی ہی ٹیس سے موت واقع ہوئی تھی۔ ٹولے کی سامنے والی سڑک سے بڑے گھر کی سواری نکل رہی تھی۔ شراب کے نشے میں اس کا باپ اپنے گھر کے سامنے چارپائی پر بیٹھا رہ گیا تھا۔ اس وقت تو سواری نکل گئی تھی مگر شام کو بلاوا آ گیا تھا۔ بڑے گھر کے دالان کے ستون سے باندھ کر اس پر اتنے ڈنڈے برسائے گئے تھے کہ اس کا باپ نیم مردہ ہو گیا تھا۔

کسی کم ذ ات کی یہ مجال کہ سامنے سے اشراف گزریں اور وہ چارپائی پر بیٹھا رہ جائے۔ یہ تو خوش آئند بات نہیں ہے۔ یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ بڑے گھر کے لوگوں کا خیال ہے کہ۔ ۔ ۔ اس طرح مذہب کا خطرے میں پڑنا لازم ہے اور جب مذہب خطرے میں پڑے گا تو معاشرتی نظام کو درہم برہم ہونے سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔ ہر کسی کے لیے حد مقر ر ہے۔ ۔ ۔ آج معاشرے میں سکون اور امن و امان کا فقدان اس لیے ہے کہ طے شدہ کام طے شدہ حدوں کے اندر نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ایسی حالت میں افراتفری مچنا فطری ہے۔ مذہب کا پیما نہ ٹوٹنا لازمی ہے۔ اور جب یہ پیمانہ ٹوٹے گا تو معاشرے کا تانا بانا بکھر جائے گا۔ ۔ ۔

اس کے باپ نے مذہب کو خطرے میں ڈالا تھا۔ معاشرتی نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ مجرم تھا۔

وہ اپنے باپ کے نیم جاں جسم کو اٹھا کر گھر لے آیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو اس کا لاغر باپ بستر پر پڑا کھو۔ ۔ ۔ کھو۔ ۔ ۔ کرتا رہا پھر ایک دن اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس کے سینے میں اتنی شدید چوٹ تھی کہ وہ زیادہ دنوں تک نہ جی سکا۔ لیکن مرنے سے قبل اس کے پاس ایک امانت تھی جسے اس نے اس کے حوالے کیا تھا۔ اور وہ تھی پشتینی نصیحت۔ ۔ ۔

’ ہم ناف کے نیچے والے ہیں، ناف کے اوپر والوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہی ہمارا فرض ہے۔ مجھ سے بھول ہوئی۔ تم ایسی بھول نہ کرنا۔ اپنی حد کو عبور نہ کرنا۔ ‘

اس کے باپ نے اسے نصیحت کی تھی۔ اس کے باپ کو اس کے باپ یعنی اس کے دادا نے یہ نصیحت کی تھی اور اس کے دادا کو اس کے پر دادا نے۔ اسی طرح یہ نصیحت نسل در نسل ان کے درمیان چلی آ رہی تھی۔ اب یہ نصیحت اس کے معرفت اس کے بیٹے تک پہنچے گی۔ اس کے باپ تک اس نصیحت کی خوب پاسداری ہوئی لیکن اس سے بھول ہو گئی۔ وہ بھول گیا۔ اپنے باپ کی نصیحت بھول گیا۔ پشتینی نصیحت کو بھول گیا۔

کل کی بات ہے ـ۔ ۔ ۔

بڑے گھروں کے یہاں سے خدمت گزار کر واپس لوٹ رہا تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔ بھیگنے سے بچنے کے لیے نکے لیے گنبد والی عبادت گاہ کے چبوترے پر چڑھ گیا۔ ناپاک کر دیا اس نے عبادت گاہ کو۔ پھر کیا تھا، اس کا بھی بلاوا آ گیا۔ اس نے بہت معافی مانگی، زمین پر ناک رگڑی۔ بیوی نے جان بخش دینے کی منّت کی۔ اسے بھی ذلیل کیا گیا کہ اپنے مرد کی خبر پا کر وہ بد حواس چپل پہنے گاؤں میں بھاگتی آ گئی تھی۔ اس کی جان تو بخش دی گئی لیکن پورا جسم ڈنڈوں سے چور کر دیا گیا۔

اسے اپنے سر میں شدید درد کا احساس ہوا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے گردن گھما کر ایک بار پھر اندھیرے میں سو رہی اپنی بیوی اور بچے کو دیکھا۔ ان کو دیکھتے ہوئے اس کے اندرون میں تلاطم سا برپا ہوا۔ ’نہیں، ہرگز نہیں۔ ۔ ۔ وہ اپنے بیٹے تک اس پشتینی نصیحت کو منتقل نہیں کرے گا۔ ‘

کچھ لمحوں تک ان کی جانب دیکھتے رہنے کے بعد وہ آہستگی کے ساتھ چارپائی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ تاریکی کے باوجود اسے اندازہ تھا کہ دروازہ کس جانب ہے۔ وہ دھیرے دھیرے دروازے کی جانب بڑھا۔ اس نے دروازہ کھولا تو ایک خوش گوار احساس سے بھر اٹھا۔ کیا ہی خوب منظر تھا۔ تاریکی رخصت ہو رہی تھی اور نسیم سحر میں لپٹی ہوئی نرم روشنی اس کا استقبال کر رہی تھی۔ اس کے انگ انگ میں پیوست درد کو سہلا رہی تھی۔ لمحہ بھر کے لیے وہ سب کچھ فراموش کر بیٹھا۔ وہ کھڑا روشنی کو پیتا رہا۔ دفعتاً اس کے اندرون میں عجیب سی ہلچل ہوئی اور بیک وقت خیال گزرا کہ اندر واپس لوٹ جائے اور بستر پر جا کر سو جائے۔ اس نے گردن گھما کر اندر دیکھا۔ اس نے دیکھا اس کے بستر پر، جہاں وہ لیٹا ہوا تھا، وہاں ایک بڑا سا اژدہا بیٹھا ہوا تھا اور جو اس کے بیٹے کو خوں بار آنکھوں سے گھورے جا رہا تھا۔ ایک بار پھر اس کے ہوش و حواس اڑ گئے۔ اس نے گھبرا کر نگاہیں ہٹا لیں۔ دروازے پر کھڑا وہ گہری گہری سانسیں لیتا رہا۔ کچھ لمحہ بعد اس نے دل کو مضبوط کیا اور لرزتے قدموں سے باہر آ گیا۔

تقریباً پچیس تیس گری پڑی، ٹوٹی بکھری جھونپڑیوں اور کچے مکانوں والا اس کا ٹولہ شمن پورہ گاؤں کے شمالی حصے میں واقع تھا۔ وہ اپنے ٹولے سے نکل کر گاؤں میں داخل ہونے والی سڑک پر آ گیا۔ وہ دورا ہے پر کھڑا ہو گیا تھا جہاں سے گاؤں کے مکانوں کی شروعات ہوتی تھی۔ سیدھی سڑک گاؤں کی گول گنبد والی عبادت گاہ کی طرف جاتی تھی اور سیدھے ہاتھ کی سڑک نوکیلے گنبد والی عبادتگاہ کی طرف۔

نوکیلے گنبد والی عبادتگاہ سے بھی آواز گونجنے لگی تھی۔ وہاں بھی عبادت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس کے جسم کا ایک ایک حصہ چیخ اٹھا اور اس کے اندرون میں ایک بار پھر تلاطم سا برپا ہو گیا۔ اس نے یاس و حسرت بھری نگاہوں سے نوکیلے گنبد والی عبادتگاہ کی طرف دیکھا اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔ چند ثانیہ وہ بے حس بنا کھڑا رہا پھر سیدھے رستے پر بڑھ گیا۔ وہ جوں جوں گول گنبد والی عبادتگاہ کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے قدموں میں تیزی آتی جا رہی تھی۔ اس کے دروازے کے پاس پہنچ کر وہ ایک کنارے کھڑا ہو گیا تھا۔ گاؤں کے اکا دکا لوگ صبح کی عبادت سے فارغ ہو کر واپس جا رہے تھے۔ ذرا دیر بعد ان میں سے معتبر اور نمایاں سا دکھنے والا ایک شخص باہر نکلا تو وہ قدرے لپکتے ہوئے اس کے پاس پہنچا۔

’سنیے، سنیے۔ ۔ ۔ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ ر کیے ما لک۔ ۔ ۔ ‘ وہ سرگوشی میں چلایا۔

اس شخص نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ ’کون ہو بھائی، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘

’میں۔ ۔ ۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ۔ ۔ ۔ کہ کیا میں بھی آپ کی اس عبادتگاہ میں۔ ۔ ۔ ‘ اس نے عبادتگاہ کی طرف انگلی اٹھائی۔ ’۔ ۔ ۔ عبادت کر سکتا ہوں ؟ کوئی روک ٹوک تو نہیں ہو گی نا؟‘

’یہ عبادتگاہ میری نہیں ہے بھائی۔ یہ تو اس کی ہے جو ایک ہے اور جو سب کا مالک ہے۔ اس ایک کو ماننے والا کوئی بھی اس میں عبادت کر سکتا ہے۔ ‘

’اگر میں اس کو ماننے لگوں تو کیا میں بھی اس میں عبادت کر سکتا ہوں۔ ۔ ۔ ؟‘

’ہاں ۔ ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ کر سکتے ہو۔ ۔ ۔ پر تم ہو کون؟‘

’میں۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ اسی گاؤں کے ’شمالی ٹولہ ‘پر رہتا ہوں مالک۔ ۔ ۔ ‘ اس کی آواز میں قدرے لکنت کی آمیزش تھی۔

مطلع صاف ہو چکا تھا۔

صاف روشنی میں وہ شخص اسے بغور دیکھے جا رہا تھا۔

 

 

 

 

 

مقام۔ گول گنبد والی عبادتگاہ کا صحن

 

شام کی عبادت کے بعد وہ سب وہاں یکجا ہوئے تھے۔ سب خاموش تھے اور غور و خوض میں غرق تھے۔ بظاہر تو یہ محض ایک تجویز تھی لیکن اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا لازمی تھا۔

’مجھے لگتا ہے، ہمیں اسے اپنی جماعت میں شامل کر لینا چاہیے۔ ‘ کچھ لمحہ کے بعد ان میں سے ایک شخص نے گردن کو جنبش دیتے ہوئے کہا۔

’لیکن جناب یہ بھی تو سوچیے کہ اس کا اثر کیا ہو گا؟‘ ایک دوسرے شخص نے اندیشے کا اظہار کیا۔

پہلے والے شخص نے اپنی گردن کو پھر جنبش دی۔ ’اثر کیا ہو گا بھئی، ہم تو اس کے پاس گئے نہیں ہیں۔ اس تجویز کو لے کروہ خود آیا ہے۔ اس نے خود سے اپنا منشا ظاہر کیا ہے اور یہ تو اچھی بات ہے کہ اس طرح ہمارا حلقہ وسیع ہو گا۔ ہماری مقدس کتاب بھی تو یہی کہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تبلیغ کرو اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے میں شامل کرو۔ یہ شخص تو خود سے چل کر ہمارے پاس آیا ہے۔ اور پھر ہمارے ملک کے آئین میں بھی درج ہے کہ کوئی بھی بالغ فرد ان تمام معاملات میں اپنا فیصلہ کرنے کے لیے خود مختار ہے۔ ‘اس شخص نے اپنی بات کو واضح کرنے کی کوشش کی۔

’لیکن حضور ہمیں یہ بھی تو دیکھنا ہو گا کہ اس کا اصل منشا کیا ہے ؟ کہیں اس طرح ہمیں فائدہ کے بجائے نقصان نہ پہنچ جائے ؟‘ ایک دوسرے نے پہلے والے شخص سے سوال کیا۔

’ارے بھائی، ظاہر سی بات ہے وہ ہمارے یہاں کی خوبیوں اور اچھائیوں سے متاثر ہو کر ہی ہم میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ آخر ہماری مثل۔ ۔ ۔ ہماری نظیر کہیں اور ہے کیا ؟‘ ایک شخص نے فخریہ لہجے میں کہا۔ ’ہمارے یہاں کی مساوات دیکھو۔ ہمارے یہاں کی اخوت دیکھو۔ ہمارے یہاں کا عدل دیکھو۔ ہمارے یہاں کی یکجہتی دیکھو۔ کیا کیا دیکھو گے۔ ہم بلا تفریق شانہ بشانہ ہو کر عبادت کرتے ہیں۔ ہمارا امام کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے مقدس صحیفے کوئی بھی پڑھ سن سکتا ہے۔ ہمارے ما بین کوئی امتیاز نہیں۔ کوئی بندش نہیں۔ ہم سب ایک رب کو ماننے والے ہیں۔ ‘ ایک سانس میں بولنے کے بعد اس شخص نے ذرا تحمل سے کام لیا اور پھر آگے کی بات پوری کی۔ ’کیا یہ سب کہیں اور ملے گا؟‘

وہاں خاموشی مسلط ہو گئی تھی۔ وہ شخص اپنی تقریر کا اثر جاننے کے لیے وہاں موجود ایک ایک فرد کا چہرہ بغور دیکھ رہا تھا۔

’آپ کی بات سو فیصد درست ہے۔ یقیناً وہ ہماری ان منفرد اور اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر ہی ہماری جانب راغب ہوا ہے۔ ‘ ایک شخص نے پہلے والے شخص کی حمایت میں دھیرے سے کہا۔

’چلیے مان لیتے ہیں کہ وہ ہماری اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر ہم میں شامل ہونا چاہتا ہے لیکن اس کی طرز زندگی تو الگ رہی ہے ؟ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہمارا طریقۂ کار اپنا سکے گا؟‘ بولنے والے نے اپنی دانست میں دور کی کوڑی پیش کی۔

’دیکھئے حضرات، ایک محاورہ ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے۔ ۔ ۔ صحبت میں رہے گا تو کیا کچھ نہیں سیکھ جائے گا۔ ہم لوگ یہ نہ بھولیں کہ ہم کوئی براہ راست کھجوروں کے دیس سے نہیں آئے ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد یہیں کے تھے اور دوسرے حلقے سے ہی اس میں منتقل ہوئے ہیں لیکن کیا کوئی ہمیں دیکھ کر آج یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم پہلے کچھ اور تھے ؟‘

شاید بولنے والے نے کچھ تلخ مثال پیش کر دی تھی۔ کئی لوگوں نے اسے اضطراب میں دیکھنا شروع کر دیا تھا۔

اس شخص کے بولنے کے بعد کافی دیر تک سکوت کا عالم طاری رہا۔

رات کی عبادت کا وقت ہو چلا تھا۔

’حاضرین، ایک شخص جو خود چل کر ہمارے پاس آیا ہے، اگر ہم اس کا خیر مقدم نہیں کریں گے تو ہم گنہگار ہوں گے۔ کل وہ ہمارا دامنگیر ہو گا۔ وہ ہم سے سوال کرے گا اور ہم اپنے معبود کے سامنے مجرم ٹھہرائے جائیں گے۔ کیا اس عدالت میں اس کے سوالوں کا کوئی جواب ہو گا ہمارے پاس؟‘ اس عمر دراز شخص نے بولتے ہوئے اپنے بدن میں لرزش سی محسوس کی۔

لوگ خاموش تھے اور غور و فکر میں مبتلا تھے۔

’ویسے بھی اس گاؤں میں ہم لوگ تعداد کے اعتبار سے کافی کم ہیں۔ ہماری تعداد کچھ تو بڑھے گی۔ ہم کچھ تو مستحکم ہوں گے ؟‘ ایک نئی عمر کے شخص نے ذرا طیش میں آ کر کہا تو یک لخت موجود سبھی کی عقل و فہم کے دروازے گویا واہو گئے۔ نہ جانے کیوں اس کی دلیل سب کو پسند آئی۔ لیکن کچھ لوگوں نے اسے نا پسندیدگی سے بھی دیکھا۔ انہیں اس کی بات گراں گزری تھی۔ نئی عمر کا شخص سٹپٹا گیا۔ اس کو گھور کر دیکھنے والوں میں سے ایک نے، جس کو ان سبھی میں شاید معتبر مقام حاصل تھا، حتمی طور پر بولا۔ ’ہمیں بہر حال یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہماری نمایاں اور اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر ہم میں داخل ہو رہا ہے۔ ‘

اس فیصلے پر سبھی کا اجماع ہوا اور سب نے ایک آواز میں کہا۔ ’خوش آمدید۔ ۔ ۔ خوش آمدید۔ ۔ ۔ مبارک۔ ۔ ۔ مبارک۔ ۔ ۔ ‘

 

 

 

 

 

مقام۔ نوکیلے گنبد والی عبادت گاہ کا چبوترہ

 

ماحول میں اگر بتی، چندن اور ناریل کے جلنے کی بھینی بھینی خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ وہاں موجود سبھی لوگ یوں تو چپ تھے لیکن ان کے چہرے کی طنابیں کسی ہوئی تھیں۔ بتانے والے نے جو بتایا تھا اس پر یقین کرنا ویسے تو مشکل تھا لیکن یقین نہیں کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں سمجھ میں آ رہی تھی۔ یقینی اور بے یقینی کے بھنور میں غوطے لگاتے جاننے والے نے پھر تسلی کرنی چاہی۔

’کیا تمہیں پکا یقین ہے کہ وہی تھا؟‘

’ہاں میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہی تھا۔ ‘

’آخر وہ ان کے پاس کیوں گیا ہو گا؟‘

’ہو سکتا ہے اس دن جو کچھ اس کے ساتھ ہوا اس کی وجہ سے۔ ‘

’ارے نہیں، یہ وجہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے تو وہ عادی ہو چکے ہیں۔ اس کو اس کی بھول کی جو سزا ملی وہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں ؟ وہ بھول کرتے آ رہے ہیں اور انھیں سزا ملتی رہی ہے۔ یہ تو زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ ‘ بولنے والے شخص کی آواز کے پیمانے سے اعتماد چھلک چھلک کر باہر آ رہا تھا۔

’میرے خیال سے وہ ان کے پاس کام مانگنے کی غرض سے گیا ہو گا؟ آخر ایسے لوگوں کو معاش کا مسئلہ بھی تو درپیش ہوتا ہے ؟ یا پھر علاج کرانے کے لیے قرض ورض لینے گیا ہو گا؟ ان لوگوں سے انھیں بنا بیاج کا قرض بھی تو مہیا ہوتا ہے۔ ‘ ایک شخص نے اپنا جواز پیش کیا۔

’میں سمجھتا ہوں۔ ۔ ۔ ‘ ایک شخص ذرا سا رکا پھر بولا۔ ’وہ ان سے اپنا دکھڑا سنانے گیا ہو گا، مدد مانگنے گیا ہو گا ؟‘

’ارے نہیں۔ ان سے بھلا اسے کیا مدد ملے گی۔ ؟اسے دکھڑا سنانا ہوتا اور مدد لینی ہوتی تو’ لال جھنڈین ‘کے پاس جاتا۔ جا کر ان میں شامل ہو جاتا۔ ‘ پہلے والے شخص نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔

’ان کے پاس وہ کیا جائے اور کیوں جائے ؟‘ ایک شخص مضحکہ خیز انداز میں بولا۔ ’اب ان سے ان کے توقعات وابستہ ہی کہاں رہ گئی ہیں۔ ؟ ان کے خواب خواب ہی رہ گئے۔ اب تو ان خوابوں پر گرد و غبار جم چکا ہے۔ جو اندھیرے میں اپنا وجود تلاش کر رہا ہو، اپنے ہونے کا جواز ڈھونڈ رہا ہو، جو خود راستے سے بھٹک گیا ہو وہ دوسرے کو کیا راستہ دکھائے گا؟ اچھا ہی ہے، ایک دم جینا محال ہو گیا تھا۔ ‘

’لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ ہنوز استادہ ہے کہ وہ گول گنبد والوں کے پاس کیوں کر گیا تھا؟‘ وہاں بیٹھے سب سے بزرگ شخص نے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرا۔

’وہ ان میں شامل ہونے کے لیے گیا تھا۔ اتنا ہی نہیں اطلاع کے مطابق پورا کا پورا شمالی ٹولہ ان میں شامل ہونے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ ‘ نووارد شخص کے اس انکشاف سے وہاں کھلبلی مچ گئی۔ کچھ لوگ مشتعل ہو اٹھے اور طیش میں کھڑے ہو گئے، کچھ زور زور سے بولنے لگے۔ کچھ وقفہ تک وہاں کا ماحول افرا تفری کا شکار رہا پھر معتبر دکھنے والے شخص نے کسی طور سب کو شانت کرا یا۔

سکوت ایسا کہ سوئی بھی گرے تو کان کے پردے پھٹ جائیں۔ سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے ؟ سبھی کے چہرے پر ایک ہی سوال پتا ہوا تھا۔

’سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر اس نے ان میں ایسی کیا خاص بات دیکھی جو ان میں شامل ہونے چلا گیا؟ کیا اسے علم نہیں کہ ہم سے بہتر کوئی نہیں۔ ہم سب سے پرانے ہیں۔ ہمارے ریتی رواج دنیا کے سب سے پرانی ریتی رواج ہیں۔ ہمارے یہاں ہر کسی کے لیے اور ہر کام کا ایک منظم طریقہ ہے۔ ہمارے بزرگوں نے زندگی گزارنے اور اپنی دوسری دنیا کو سنوارنے کے لیے جو آئین بنایا ہے اس کے مطابق ہر کسی کی حیثیت، اس کا مقام اور اس کے کام مقر ر کر دیے گئے ہیں۔ کسی کے معاملے میں کسی کا کوئی دخل نہیں۔ یہ دنیا کی سب سے قدیم تہذیب اور سب سے بہتر نظام زندگی ہے۔ اتنے بہتر نظام کو چھوڑ کر وہ کس گڈھے میں گرنے جا رہا ہے۔ کیا اس کی عقل و دانش پر پردہ پڑ گیا ہے ؟ ہمارا متبادل کوئی ہے کیا؟‘ ایک بزرگ شخص نے درمیان میں گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے اپنی بات پوری کی۔

’میں تو کہتا ہوں، اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ وہ ہم لوگوں کو صرف نیچا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے کسی قدر یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ ہم سے بہتر بھی کوئی ہے اور اس کی جب کبھی بھی خواہش ہو گی وہ ہمیں ٹھینگا دکھا سکتا ہے۔ ‘ ایک شخص نے اپنی کھیج نکالی۔

’آپ لوگ خواہ مخواہ اس پر اپنی ناراضگی ظاہر کر رہے ہیں۔ مسئلے کی اصل جڑ تو کہیں اور ہے۔ ہمارے لوگ تو بڑے معصوم ہوتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں اسے ضرور گمراہ کیا گیا ہے۔ اسے ہمارے خلاف بد ظن کیا گیا ہے۔ ‘ ایک نئی عمر کے شخص نے اپنی بات رکھی۔ ایک دوسرے شخص نے اس کی تائید کی۔

’بلکہ میری سمجھ میں تو یہ آ رہا ہے کہ اسے ضرور کسی نہ کسی طرح کا لالچ دیا گیا ہو گا۔ یہ بڑے عیار قسم کے لوگ ہیں۔ ان کی ہر کوشش میں یہی مقصد پنہاں ہوتا ہے کہ۔ ۔ ۔ ایک دن پوری سرزمین پر ان کا ہی پرچم لہرائے، پوری دنیا پر ان کی ہی حکومت ہو۔ ‘

’ہاں، ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ ۔ ۔ ایسا ہی ہے۔ ‘ تقریباً سبھی نے بولنے والے سے اتفاق کیا اور اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہرانے لگے۔

 

 

 

 

مقام۔ گاؤں کا فٹ بال میدان

 

بچے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ میدان کے کنارے قطاروں میں گل موہر کے پیڑ لگے ہوئے تھے۔ ایک گل موہر کے نیچے دری بچھی ہوئی تھی اور فریقین آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ کشیدگی دونوں اطراف حائل تھی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ایک جانب سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔

’ ہم لوگ اتنے دنوں سے ساتھ رہتے آ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ‘

’ ہمیں بھی اس کا پاس ہے۔ ۔ ۔ ‘

’ آپ لوگوں نے ایسا کیوں کیا۔ ۔ ۔ ؟‘

’ ہم لوگوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ ۔ ۔ ‘

’ کیا آپ لوگوں نے اسے گمراہ نہیں کیا۔ ۔ ۔ کیا آپ لوگوں نے اسے ہمارے خلاف نہیں بھڑکایا۔ ۔ ۔ کیا آپ لوگوں نے اسے لالچ نہیں دیا۔ ۔ ۔ ؟‘

’ ہم لوگوں نے اسے قطعی گمراہ نہیں کیا۔ ۔ ۔ ہم نے اسے قطعی نہیں بھڑکایا۔ ۔ ۔ اور ہم نے اسے کوئی لالچ بھی نہیں دیا۔ ۔ ۔ ‘

’ کیا یہ بھی غلط ہے کہ آپ لوگ اس کے پاس گئے تھے۔ ۔ ۔ ؟‘

’ بالکل غلط ہے۔ ۔ ۔ وہ خود چل کر ہمارے پاس آیا تھا۔ ۔ ۔ ‘

’ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ۔ ۔ ‘

’ ایسا ہی ہوا ہے۔ ۔ ۔ ‘

’ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟‘

’ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ ۔ ۔ ؟‘

’ اس کی تصدیق کون کرے گا۔ ۔ ۔ ؟‘

’ اس کی تصدیق وہی کرے گا۔ ۔ ۔ ‘

’ اگر وہ منع کر دے تو۔ ۔ ۔ ؟‘

’ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ۔ ۔ ‘

’ اگر وہ منع نہیں کرے تو۔ ۔ ۔ ؟‘

’ تو ہمارا دروازہ کھلا ہے۔ ۔ ۔ ‘

’ اس کا فیصلہ آپ کو منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ؟‘

’ کیا آپ کو منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ؟‘

’ ہاں ہمیں منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ‘

’ ہمیں بھی منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ‘

طے پایا کہ اگلی نشست میں اسے بلا کر اس کا حل نکالا جائے۔ فٹ بال کا کھیل بھی ختم ہو گیا تھا۔ نہ کوئی جیتا نہ کوئی ہارا۔ بچے تالیاں بجا رہے تھے۔

 

 

 

 

 

مقام۔ سیاسی پارٹی کا دفتر

 

رہنما کے تشریف رکھتے ہی کارکن بھی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور میٹنگ کی کار روائی شروع ہو گئی۔

’جیسا کہ آپ سبھی کو علم ہے کہ انتخاب سر پر آن پہنچا ہے۔ ‘ رہنما نے بات شروع کی۔ ’اور جب سے آپ سب نے مجھے اپنا رہنما منتخب کیا ہے تب سے مخالف پارٹیوں کے درمیان کھلبلی مچی ہوئی ہے اور ان لوگوں نے اپنی تیاریاں زور و شور سے شروع کر دی ہیں۔ ہمیں بھی کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا ہے اور ہر طرح سے اپنی تیاری مکمل کرنی ہے۔ اگر ہمیں حکومت حاصل کرنی ہے تو اس انتخاب میں ہمیں اپنا دھیان ان علاقوں پر مرکوز کرنا ہو گا جہاں سے ہمیں گزشتہ انتخابات میں یا تو کم ووٹ ملے ہیں یا پھر بالکل صفر ملے ہیں۔ ا یسے علاقوں کے لیے ہمیں کچھ خاص منصوبے تیار کرنے ہوں گے۔ ‘

’ایسے علاقوں میں ہم جلسے جلوس زیادہ منعقد کریں گے اور اشتہار پر زیادہ زور دیں گے۔ ۔ ۔ ‘ ایک کارکن نے جوش و ولولوں سے لبریز ہو کر کہا۔

’ان علاقوں میں ہم موجودہ حکومت کی ناکامیوں کو بھی مشتہر کریں گے تاکہ لوگوں کو ہم میں امید کی نئی کرن نظر آئے۔ ۔ ۔ ‘ ایک دوسرے کارکن نے بھی اسی لہجے میں کہا۔

’ان علاقوں میں ہم اپنے ترقیاتی منصوبوں کو بیان کریں گے اور ترقی کی نہر بہا دینے کا وعدہ کریں گے تاکہ برسوں سے زبوں حالی کے شکار وہ لوگ دوسرے کو اپنا مسیحا بنانے کے اپنے سابقہ فیصلے کو مسترد کر دیں۔ ۔ ۔ ‘ ایک کی، دوسرے کی پھر تیسرے کارکن کی بات بھی رہنما نے بغور سنی، ذرا تو قف کیا پھر بولنا شروع کیا۔

’دوستو۔ ۔ ۔ آپ لوگ جن حربوں کی بات کر رہے ہیں، اب ان کا زمانہ نہیں رہا۔ جنتا بخوبی سمجھ چکی ہے کہ یہ سب محض سیاسی نعروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ ان کی ترقی، ان کے مسئلوں سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ جو بھی آتا ہے وہ صرف انہیں چھلنے کے لیے آتا ہے۔ ۔ ۔ ایسی حالت میں، جب ترکش کے سارے تیر ناکام ہو جائیں، کیا بچتا ہے ؟‘ رہنما نے گہری نظر کارکنوں پر ڈالی۔ ’ تب بچتا ہے اموشن۔ ۔ ۔ جذبات۔ ۔ ۔ عقائد۔ ۔ ۔ یہ ایک ایسا آزمودہ ہتھیار ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ نشانے پر لگتا ہی لگتا ہے۔ اور اپنے ملک میں تو لوگ اموشن کے اس قدر غلام ہیں کہ صبح کی اپنی ٹٹی سے بھی ان کا اموشن جڑا ہوتا ہے۔ یہی کمزور رگ ہے یہاں کے عوام الناس کی۔ اسے پکڑنے کی کوشش کیجئے۔ ۔ ۔ ‘ رہنما اپنی بات آگے جاری رکھتا کہ ایک شخص نے آ کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔ رہنما کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک ابھر آئی، اس نے آگے کہا۔

’جیسا کہ میں کہہ رہا تھا کہ ہمیں ان علاقوں پر اپنا دھیان مرکوز کرنا ہو گا جہاں کے ووٹر مخالف کے زیر اثر ہیں اور انہیں اپنا ووٹ دیتے رہے ہیں۔ جیسے کہ شمن پورہ۔ تاریخ گواہ ہے، آزادی کے بعد سے اب تک ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود وہاں سے ہمیں ایک بھی ووٹ نہیں ملا ہے جبکہ وہاں اکثریت ہمارے لوگوں کی ہی ہے۔ ‘ کچھ لمحہ رک کر سانس لینے کے بعد اس نے کہا۔ ’۔ ۔ ۔ آپ لوگ اپنے پورے جسم کو کان بنا کر میری بات سن لیں، اگر اس بار بھی وہاں کے لوگ آپکی طرف نہیں جھکے اور آپ کو اپنا ووٹ نہیں دیا تو سمجھ لیجئے حکومت کرنے کا ہمارا خواب، خواب ہی رہ جائے گا۔ ۔ ۔ ‘ کہہ چکنے کے بعد رہنما اپنے کارکنوں کے چہرے کے تاثرات پڑھنے لگا۔

’وہاں تو کامیابی ملنا مشکوک ہے۔ بالکل مشکوک ہے۔ ۔ ۔ ‘ کارکنوں کے درمیان سرگوشی جاری ہو گئی تھی۔

’کچھ بھی مشکوک نہیں۔ ۔ ۔ کچھ بھی ناممکن نہیں۔ آپ سب میری بات سنیں۔ ۔ ۔ ‘ رہنما نے انہیں شانت کرایا، ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور پھر سرگوشیوں میں انہیں کچھ سمجھانے لگا۔ ا سکی بات جوں جوں پوری ہو رہی تھی، کارکنوں کے چہرے کھلتے جا رہے تھے۔

’اس سے قبل کے وہاں کا معاملہ رفع دفع ہو جائے آپ۔ ۔ ۔ ‘ آخری بات ادھوری بول کر رہنما چپ ہو گیا تھا۔

’آپ اطمینان رکھیں۔ ۔ ۔ آپ اطمینان رکھیں۔ ۔ ۔ ‘ کارکنوں کا جوش ٹھاٹھیں مارنے لگا تھا۔ رہنما کچھ لمحوں تک ان کے جوش اور ولولوں کو محسوس کرتا رہا پھر اپنے دو مخصوص کارکنوں کی جانب مخاطب ہو کر بولا۔

’وہاں کے لیے پارٹی نے جو لائحۂ عمل تیار کیا ہے اس کے متعلق آپ لوگوں کو کچھ کہنا تو نہیں ہے ؟‘

’نہیں، بالکل نہیں۔ آپ بجا فرماتے ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم آپ کے وفادار ہیں، ہم آپ کے وفادار ہیں۔ ‘ بولتے ہوئے دونوں مخصوص کارکنوں کو محسوس ہوا گویا ان کے جسم کے عقبی حصے میں کوئی زائد عضو نمودار ہو آیا ہے اور تیزی سے ہلنے لگا ہے۔

رہنما کے ہونٹ مسکراہٹ میں پھیل گئے تھے۔

 

 

 

 

مقام۔ شمن پورہ گاؤں

 

وہ غائب ہو گیا تھا۔ اس کی تلاش شدت کے ساتھ کی جا رہی تھی لیکن وہ اپنی بیوی بچے کے ساتھ غائب ہو چکا تھا۔ اس کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور گھر کے اندر اس کے اثاثے جوں کے توں پڑے ہوئے تھے لیکن وہاں اس کی یا اس کی بیوی اور بچے کی موجودگی کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔

گاؤں کی فضا مکدر ہو گئی تھی۔ ماحول میں افواہ، شک و شبہات، غصہ، نفرت کسی وبائی مرض کی طرح پھیلنے لگی تھی۔

’بھاگ گیا سا۔ ۔ ۔ لا۔ ۔ ۔ ‘ ایک جماعت کا خیال تھا۔

’ڈر کی وجہ سے بھاگ گیا۔ ‘

دوسری جماعت کا خیال تھا۔

’بھاگ گیا یا بھگا دیا گیا؟‘ دونوں جماعتیں سوچ رہی تھیں۔

’ضرور ان لوگوں نے اسے بھگا دیا ہے ؟‘ ایک جماعت نے نتیجہ اخذ کیا۔

’ضرور انہوں نے ہی اسے خوف زدہ کر کے بھگایا ہے۔ ۔ ۔ ‘ دوسری جماعت نے بھی فیصلہ کن طریقے سے سوچا۔

دونوں جماعتوں میں غلط فہمی بھی خوش فہمی بھی۔ دونوں جماعتیں اسے اپنی اپنی میراث سمجھ رہی تھیں اور اس کو لے کر دونوں جماعتوں کے مابین صف آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔

’آپ لوگوں کو اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ ۔ ۔ ‘

’آپ لوگوں کو بھی اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ ۔ ۔ ‘

’ہم دکھا دیں گے۔ ۔ ۔ ‘

’ہم بھی دکھا دیں گے۔ ۔ ۔ ‘

وہ رات دونوں جماعتوں نے رتجگا کر کے گزاری۔

صبح صبح سب کی ناک تیز خوشبو سے پھڑکنے لگی۔ گاؤں کی گلی گلی خوشبو سے معطر ہو اٹھی۔ اس نے عطر کی پوری شیشی شاید بدن پر انڈیل رکھی تھی۔ چار خانے کی لنگی، سفید کرتا اور کندھے پر چار خانے کا ہی ہرے رنگ کا صافہ۔ آنکھوں میں گہرا سر مہ لگائے وہ جدھر سے گزر رہا تھا سب کی آنکھیں برساتی ندی کی طرح چوڑی ہوئی جا رہی تھیں۔

وہ لوٹ آیا تھا۔

پورا دن گرم اور اجنبی ہوائیں گاؤں کا محاصرہ کرتی رہیں۔ رات ہوئی تو شعلہ بار ہو اٹھیں۔ مکانات دھو دھو کر جلنے لگے۔ چیخ و پکار، کہرام۔ ۔ ۔ نوحہ۔ ۔ ۔ بین۔ ۔ ۔

نقصان دونوں طرف ہوا۔ لوگ دونوں طرف کے مارے گئے۔ وہ اور اس کی بیوی بچہ بھی مارے گئے۔ لیکن ان کا مارا جانا کس کا نقصان تھا، نقصان تھا بھی یا نہیں، اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہ تھا۔

 

 

 

 

مقام۔ گاؤں کا قبرستان

 

 

جو زندہ بچ گئے تھے وہ مرنے والوں کو دفنا رہے تھے۔ بچوں کے۔ ۔ ۔ بوڑھوں کے۔ ۔ ۔ عورت اور مردوں کے۔ ۔ ۔ ایک ایک کر سارے جنازے دفنائے جاتے رہے۔ اس کا اور اس کی بیوی بچے کا جنازہ بھی اپنے دفنائے جانے کا منتظر رہا۔ وقت گزرتا رہا، گزرتا رہا، کافی گزر گیا۔ ان کے جنازے پڑے رہے۔

مسئلہ درپیش تھا۔ ۔ ۔

’ان کے جنازے ہمارے قبرستان میں کیسے دفنائے جا سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ؟‘

’کیوں، اب تو وہ ہماری جماعت کا حصہ تھے۔ ۔ ۔ ‘

’ہاں۔ ۔ ۔ لیکن انہوں نے تبدل اختیار کیا تھا۔ ۔ ۔ ‘

’ہم لوگوں نے بھی تو تبدل ہی اختیار کیا ہے۔ ۔ ۔ ‘

’ہماری بات کچھ اور ہے۔ ۔ ۔ ہم لوگ وہاں ناف سے اوپر والے تھے اور یہ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے۔ ۔ ۔ ۔ ‘

جنازوں کے اپنے دفنائے جانے کا انتظار طویل سے طویل ہوتا گیا یہاں تک کہ ان میں تعفن پیدا ہونے لگا۔

 

 

 

 

مقام۔ عالم ارواح

 

 

وہ، اس کی بیوی اور اس کا بیٹا ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہیں۔

وہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر مسکرایا۔ بیٹا سمجھ نہ سکا، ماجرا کیا ہے۔ اس کا باپ کیوں مسکرا رہا ہے۔ وہ اس کے مسکرانے کا سبب جاننا چاہتا تھا۔

وہ بھی سمجھ رہا تھا کہ اس کا بیٹا اس کی مسکراہٹ کی وجہ سے تذبذب میں مبتلا ہے۔

عفونت سے اس کی ناک بجبجا اٹھی۔ ـ

’میرے پاس تمہارے لئے ایک امانت ہے۔ ۔ ۔ ‘

اس نے پشتینی امانت اپنے بیٹے کو سونپ دی۔

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، ادب سلسلہ،  شمارہ ایک ۔ جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی جس سے اس برقی کتاب کا متن حاصل ہوا۔

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید