FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

پریوں کی تلاش

وارث اقبال

نوٹ: یہی کتاب ادھوری شکل میں، جس شکل میں مصنف نے خود اپنے بلاگ میں پوسٹ کی تھی، شائع ہو چکی تھی۔ اب مصنف نے خود مکمل فائل فراہم کی ہے۔ کتاب کی ضخامت کی وجہ سے محض ۱۸ ابواب یہاں دیے جا رہے ہیں۔ مکمل کتاب صاؤﷺن لوڈ کر کے پڑھی جا سکتی ہے۔

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

یہی جستجو کا کمال ہے یہی آگہی کی تلاش ہے

اسے سمجھو اپنی تلاش تم جو تمہیں کسی کی تلاش ہے

متین نیازی

میرا تعارف

تعارف رسم دنیا ہے اس لئے نبھا رہا ہوں ورنہ خوشبو کو تعارفوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔

خوب صورت ہوں نہ بد زیب ہوں بس واجبی سا ہوں

سانولا سا رنگ ہے اور روپ سلونا میرا

کسی کا کہا ہوا درجِ بالا شعر کافی حد تک اپنا اپنا سا لگتا ہے۔

نام غلام وارث اقبال ہے۔ پاکستان کے کئی شہروں کی درس گاہوں کی سیڑھیوں، کمروں، بالکونیوںي، میدانوں اور کتب خانوں سے کسبِ فیض کرتے ہوئے ایم اے کی حتمی ڈگری حاصل کی۔

قانون کی تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر ایک نجی تعلیمی ادارے کے ذریعے درس و تدریس شروع کی۔ ادب سے لگاؤ اور شوق کی وجہ سے تدریسِ اردو کو اپنایا ہی نہیں بلکہ اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بھی بنا لیا۔

بریڈ فرڈ یونیورسٹی انگلستان سے Certificate in Professional Education حاصل کرنے کے بعد کیمرج یونیورسٹی انگلستان سے Diploma in Teaching with ICT میں سندِ امتیاز حاصل کی۔

اپنے تعلیمی ادارے میں اپنے گروپ کے ساتھ مل کر نرسری سے جماعت پنجم تک بین الاقوامی معیار کا حامل مکمل کریکولم تیار کیا۔ اسی کریکولم کے لئے 44 ریڈرز بھی تیار کئیے۔

اس دوران تقریباً آٹھ سال کی عرق ریزی کے بعد جماعت ششم، جماعت ہفتم اور جماعت ہشتم کے لئے بین الاقوامی معیار کی حامل اپنی نوعیت کی شاید پہلی اردو لسانیات کی تین کتابیں ’کاوش‘ کے نام سے رقم کیں۔

اردو مضمون میں بین الاقوامی معیار کی حامل تدریس کے لئے اردو اساتذہ کی تربیت کے ایک مشکل میدان میں قدم رکھا۔

انگریزی زبان کے اساتذہ کے ایک بین الاقوامی فورم SPELT کے پروگرامز میں اردو کے لئے کام کرتے ہوئے گزشتہ دس سالوں میں اردو ساتذہ کے لئے کئی تربیتی نشستوں کے اہتمام کا شرف حاصل کیا، اس کے علاوہ آرمی پبلک اسکول جیسے کئی اداروں کے اردو اساتذہ کی تربیت کے مواقع اور اسنادِ ستائش حاصل کئے۔

افسانوں کا ایک مجموعہ ’’خوابوں کی پرورش‘‘ لکھا۔

سفر نامہ ’’پریوں کی تلاش‘‘ آپ کے ہاتھوں کی زینت بن چکا ہے۔

ایک سفر نامے پر کام جاری ہے۔

اردو ادب میں ترقی پسند ادب کا معتقد ہوں۔ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی پسندیدہ شاعر اور احمد ندیم قاسمی پسندیدہ افسانہ نگار ہیں۔

جب کسی کی آہ کونج کی کوک بن کر دل میں اترتی ہے تو آنکھوں کی جھیل سمندر بن جاتی ہے۔ وطنِ عزیز کی اکثریت کا استحصال دیکھا نہیں جاتا۔ اپنے ادب میں اکثریت کا ہی دکھ دکھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

اللہ کریم سے یہی دعا ہے کہ اللہ ہماری نوکِ قلم میں اتنی قوت پیدا کر دے کہ یہ مظلوم اور ظالم دونوں کو اس طرح متاثر کرے کہ کسی کا کوئی پیارا چند سکوں کی کمی کی وجہ سے تعلیم کا سفر ادھورا نہ چھوڑ سکے، حیات کی سانسیں کسی کے پیارے پر پیسوں کی کمی کی وجہ سے اپنی کھڑکیاں نہ بند کر سکے، کسی کی بیٹی اپنی ہتھیلیوں پر حنا کی خوشبو کا خواب لئے سنِ زوال نہ دیکھے، بارش میں کوئی چھت نہ ٹپکے، کسی گلی کا گٹر اپنے کناروں سے باہر نہ آئے اور راستوں کے تمام گٹروں کو ڈھکن مل جائیں۔

اللہ ہم سب کو احساسِ کامل کی نعمت سے فیض یاب فرما دے۔

٭٭٭

میری باتیں

اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے

دشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گِرانِ خواب تھے

خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے

پھولوں کے ہاتھ جل گئے، کیسے یہ آفتاب تھے

ربط کی بات اور ہے، ضبط کی بات اور ہے

یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے

درد کی رہگزار میں، چلتے تو کِس خمار میں

چشم کہ بے نگاہ تھی، ہونٹ کہ بے خطاب تھے

(امجد اسلام امجد)

زندگی ایک سفر ہے اور سفر سے ہی مربوط ہے۔ لیکن کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جو روح میں اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ اُن کی یادیں سرمایۂحیات کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سفر نہیں ہوتا بلکہ حاصل سفر ہوتا ہے۔ جسے حاصل کرنے کے لئے سفر کرنے والے کتنے ہی خواب دیکھتے ہیں اور کتنی ہی تدبیریں کرتے ہیں، تب جا کر وہ حاصلِ سفر نصیب ہوتا ہے۔

میں جس سفر کی داستان رقم کرنے جا رہا ہوں وہ ایک ایسا سفر ہے جس کی یادیں حاصلِ سفر سے کہیں زیادہ سفر کی وجہ سے میرا سرمایۂ حیات بن گئیں۔ کیونکہ اس سفر کا حاصل سفر کوئی تھا ہی نہیں۔۔ ۔ یہ تو چلتا جاتا تھا۔۔ جہاں رُکے و ہی حاصلِ سفر، جس پر آنکھ رک گئی وہی منزل۔ بس جستجو تھی کچھ پانے کی۔ یہ جستجوکسی سوغات کے حصول کے لئے نہیں تھی بلکہ ہر اس شے کو پانے کے لئے تھی جو اچھوتی ہویا عجیب۔ چاہے تاریخ کے بوسیدہ اوراق ہوں یا لوگوں کے روئیے ؛ اجناس اور کھانے کی اشیا ہوں یا طرزِ رہائش و زیبائش،  داستانیں ہوں یا کہانیاں ؛ ٹوٹی پھوٹی خستہ حال دیواریں ہوں یا جدید عمارات، صوفیوں اور مریدوں کے عقیدت بھرے قصے ہوں یا شاعروں ادیبوں کی باتیں۔ بس جو ملا جھولی میں ڈال لیا۔ یوں میں اسے آگہی کا سفر کہہ سکتا ہوں۔

میرے اس سفر میں نہ وقت کی قید تھی اور نہ منزلوں کا کوئی واضح تعین۔ سفر کے دوران جہاں ضرورت پڑی فیصلہ کیا اور راہِ سفر بدل لی۔ اس سفر کے یادگار ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر اس سفر کے خواب دیکھے تھے اور ان خوابوں کی تعبیر پانے کے لئے کتنا ہی انتظار کیا تھا۔ یوں اس سفر کے یادگار ہونے کی ایک وجہ میرے ہم سفر بھی تھے۔

اس سفر کو قلمبند کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ جب میں نے بے گھری اور سفر کی صعوبتیں اٹھائی تھیں اور انواع و اقسام کی معلومات سے جھولی بھری تھی تو پھر ان صعوبتوں کی کسک، اُن کی شادمانی اور اُن معلومات کی رسائی سے دوسروں کو محروم کیوں رکھا جائے۔ دوسری وجہ ایک واقعہ تھا جو جھیل سیف الملوک پر پیش آیا جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ یہ وہ سفر ہے جس نے مجھے پنجابی ادب کے مطالعہ کی جستجو کی نعمت عطا کی اور میں نے داستان ’سیف الملوک‘ کا خصوصی مطالعہ کیا۔

میرا یہ سفر نامہ ’سفر نامہ‘ کے اسلوبی معیار پر پورا اُترتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو قاری اور نقاد ہی کرے گا لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ میں نے اَنجانی راہوں سے مواد اُٹھایا ہے اور اُسے لفظوں کا روپ دے کر اور بنا سنوار کر اپنے قاری کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اُس سے معنی اخذ کرنا قاری کا کام ہے۔ تاہم میں نے کوشش کی ہے کہ میں اپنے قاری کو سوچ کی بھی دعوت دوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارا معاشرہ سوچنا شروع کر دے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ شاید مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔

میں کوئی پیشہ ور لکھاری نہیں ہوں لیکن اندر کسی گزری صدی کا کوئی لکھاری موجود ضرور ہے جو وادیوں اور جھرنوں کے مناظر اپنے قاری کی خدمت میں پیش کر کے ایک خاص قسم کا سرور اور اطمینان حاصل کرتا ہے۔ روایت شکنی میری عادت ہے اور یہ گستاخی میں کرتا رہتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ میرے خیال میں یہی ادب کی خدمت ہے کہ اسے یکسانیت اور ٹھہراؤ سے نکالا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے افسانوں کو بھی ادبی قید و بند سے آزاد کروایا ہے۔ اسی طرح سفر نامہ کو بھی ایک آزاد جہت اور زبان دی ہے۔ کہیں کہیں اشعار کا تڑکا شاید کچھ زیادہ ہو گا۔ کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں فلسفیانہ، دنیاوی اور روحانی نثری باتیں سفر نامہ کا حصہ ہیں وہیں شعر بھی۔ کیوں کہ شعر بھی تو باتیں ہی ہیں فرق فقط یہ ہے کہ یہ باتیں پا بند ہیں۔

میری اس سوچ سے اختلاف کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ اس لئے اختلافِ رائے کا استقبال کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔

میری بد قسمتی ہے کہ میں کتب بینی کے عہد قحط میں پیدا ہوا ہوں۔ آج ادبی کاوش محض چند سطروں تک سکڑ کر رہ گئی ہے۔ لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا کہ میں ایک ادھورا اور معذور سفر نامہ لکھ کر کتب بینی کے زوال میں اپنا حصہ ڈال دوں۔

ہم اگر دل نہ جلائیں تو ضیا کیسے ہو

میں علی گڑھ پبلشرز کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے نہ صرف نے مجھے ان سنگلاخ وادیوں کا راستہ دکھایا بلکہ یہ کہہ کر مجھے اپنے الفاظ کی قدر بھی سکھائی کہ خوشبو کو بکھرنے کے لئے کسی سند کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتی پھرتی ہے۔ وہ پھیلنے کے لئے ہوتی ہے اور پھیل جاتی ہے۔

فیس بک پر اپنے پڑھنے والوں کا شکریہ کہ جنہوں نے میرے سفرنامہ کے مختلف حصوں کا حوالہ دے کر میری حوصلہ افزائی کی اور ان کا بھی کہ جنہوں نے بغیر پڑھے ’لائک‘ کر کے میری حوصلہ افزائی کی۔

’اردو نامہ‘  ویب سائٹ کا بھی شکریہ کہ جنہوں نے میرے سفرنامے کو اس کہ باوجود اپنی ویب سائیٹ کی زینت بنایا کہ میں نے اس ویب سائیٹ پر بے وزن شاعری کے علاوہ کبھی کچھ بھی عطیہ نہیں کیا۔

اس ویب سائیٹ کے منتظم اشفاق صاحب کا ذکر تو ضرور کروں گا جو ہمیشہ یہ شعر لکھ کر اپنی رائے سے نوازتے رہے۔

ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ منافقت

دنیا ترے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں

ایک اور احسان وہ یہ کیا کرتے کہ جب میں کچھ نہ لکھتا تو ’پیارے وارث‘ کہہ کر میری توجہ اس کام کی طرف مبذول کروا دیا کرتے۔

میں اپنی زوجہ اور اپنے دو عدد صاحبزادوں کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے میرے ساتھ اردو اور انگریزی دونوں کا سفر کیا، جہاں میں لے جاتا چلے جاتے، مجھے مشورے بھی دیتے اور کم خرچ بالا نشیں کے فلسفہ پر بھر پور عمل بھی کرتے، میرے کام کو سراہتے بھی رہتے اور کبھی مجھے تھما دیکھ کر لکھنے کے لئے اُکساتے بھی رہتے۔

یہاں میں اپنی گاڑی کے کھیون ہار عابد کا شکریہ ضرور ادا کروں گا جو مجھے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں۔ انہیں میری ہر کاوش کا رضاکارانہ طور پر اولین تختہ مشق بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

لگن، فکر اور جستجو ان کا خاصا ہے۔ بیشتر سفروں میں ہمارے ساتھ رہے۔ ان کی پنجابی شاعری اور ان کے علم کا میں ہمیشہ معتقد رہا ہوں۔

اگرچہ کتب بینی کے قحط کا عہد ہے لیکن پھر بھی ہم اردو ادب کے ماتھے سے گرد صاف کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے رہیں گے۔

اس سفر نامہ کے بعد انشا اللہ جلد ہی اگلا سفر نامہ بھی کتابی شکل میں سامنے آنے والا ہے۔

مجھے یقینِ کامل ہے کہ آپ اس سفرنامہ کو پڑھتے ہوئے مایوس نہیں ہوں گے۔ انشاء اللہ آنے والے دور کا نقاد اسے ضرور سرا ہے گا اور تاریخ کا طالب علم داد دئیے بغیر نہیں رہے گا۔

٭٭٭

پہلی اور آخری درس گاہ۔۔ ۔ نانی یا ایک پری

خبرِ تحیرِ عشق سُن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی

نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

بات بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ کبھی ہوتی ہی نہیں مگر جب ہو جائے تو پہاڑوں سے گرتا جھرنا بن جاتی ہے۔۔ ۔ چیختا، دھاڑتا جھرنا، نہ ختم ہونے والا جھرنا۔ ختم ہو کر بھی کسی دریا یا کسی سمندر کے اندر اتر جانے والا جھرنا۔ سمندر میں اُتر کر بھی چین نہیں پاتا تو بارش بن جاتا ہے۔۔ ۔۔ ۔ بارش بن کر بھی کہیں پڑاؤ نہیں کرتا تو دھرتی میں اُتر جاتا ہے۔۔ ۔۔ ۔ دھرتی میں بھی سکون نہیں پاتا۔۔ ۔۔ ۔ کوئی نیا روپ دھار کر سامنے آ جاتا ہے۔۔ ۔۔ ۔ کبھی کلی۔۔ ۔۔ کبھی کانٹا۔۔ ۔۔

بات بڑی عجیب ہوتی ہے۔۔ ۔ کبھی کسی سینے پر یوں گرتی ہے جیسے زمین پر کیمیائی بارش اور کبھی کسی حسینہ کے لبوں کی مسکراہٹ بن کر طوفان برپا کر دیتی ہے۔ یقین مانئے بات بڑی ہی عجیب ہوتی ہے۔۔ ۔ کبھی نئے گھر بسانے کا سبب بن جاتی ہے اور کبھی بسے بسائے گھر اُجاڑ نے کی وجہ بن جاتی ہے۔

بات جب ترنم کی خوشبو بکھیرتی ہے تو گیت میں ڈھل جاتی ہے، بحر میں قید ہوتی ہے تو غزل کا قالب اختیار کر لیتی ہے، زمان و مکان کی لونڈی بنتی ہے تو کہانی کا روپ دھار لیتی ہے اور جب چشم بینا بنتی ہے تو سفرنامہ کا وجود پاتی ہے۔

میں جب بھی کسی بات کی بات کرنا چاہتا ہوں تو اُس کی کوئی نہ کوئی کڑی میری نانی اماں کی باتوں سے ضرور جا ملتی ہے۔ سرِ شام ہی ہمارے گھر کے درو دیوار میں ان کی دیوتاؤں جیسی بھاری اور سحر انگیز آواز گونج اُٹھتی،

’’بچو! جلدی کرو کھانا کھا لو، بستر میں آ جاؤ پھر میں تمہیں ایک نئے دیس کی بات سناؤں گی۔‘‘

بات کی اس تحریک کا سب سے زیادہ فائدہ ہماری ماں کو ہوتا جو ہمیں کھانا کھلانے اور دودھ پلانے کی زحمت سے بچ جاتیں ہم بات کے چکر میں خود ہی کھانا بھی کھا لیتے اور دودھ بھی پی لیتے۔

نانی انبالہ کی تھیں چنانچہ انبالہ اُن کی باتوں، لباس، مسکراہٹوں اور آہوں میں یوں رچا بسا تھا جیسے دودھ میں شکر۔ کبھی ہم دودھ کے لالچ میں شکر کھا لیتے اور کبھی شکر کے لالچ میں دودھ پی لیتے۔

اُن کی باتوں میں ایک نہر ضرور ہوتی تھی جسے وہ ندی کہتی تھیں۔ وہ اکثر بتایا کرتی تھیں کہ اُن کے انبالہ والے گھر کے قریب سے ایک ندی گذرتی تھی جسے لوگ بڈھی کہتے تھے۔ ہم ان سے سوال کرتے،

’’اماں یہ بڈھی کیا ہوتی ہے۔‘‘

وہ جواب دیتیں،

’’جیسے تمہاری اماں بڈھی، جیسے تمہارے ابا بڈھے۔‘‘

ہم سب بیک زبان بولتے،

’’نہیں اماں۔‘‘

ایک دن ہمارے ابا جی نے یہ بتا کر اس جھگڑے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا کہ لاہور میں بھی ایک بڈھا دریا ہے۔ جو دریا سوکھ جاتا ہے اُسے بڈھا دریا کہا جاتا ہے۔ گویا جو نہر سوکھ گئی وہ بڈھی ہو گئی۔

اُس دن سے ہم ہر کمزور اور نحیف شے کو بڈھا سمجھنے لگے۔

یہ تو ہمیں بہت بعد میں پتہ چلا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ بقول واصف علی واصف

’’جوانی سولہ سال کی عمر کا نام نہیں، ایک اندازِ فکر کا نام ہے، ایک اندازِ زندگی کا نام ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص سولہ سال میں بوڑھا ہو اور ایک شخص ساٹھ سال میں جوان ہو۔‘‘

نانی اماں جب پریوں کی کہانیاں سناتیں تو مجھے اُن پر ایک پری ہونے کا گمان ہوتا اور میں سوچتا کہ نانی اماں ضرور کسی دیس کی پری ہوں گی جنہیں کسی جن نے نانی اماں بنا دیا ہو گا۔ بھلا اتنی کہانیاں کوئی نانی اماں کیسے یاد رکھ سکتی ہیں اور تو اور انہیں ہماری ہر شرارت اور مستی کا پہلے ہی سے علم ہوتا ہے۔ بھلا ایک نانی اماں ایسا کیسے کر سکتی ہیں۔

نہ جانے اللہ کے ہاں کیا مصلحت تھی کہ عین جوانی میں ہماری چاند جیسی نانی اماں کی دودھ جیسی چادر پربیو گی کا ایسا داغ لگا کہ زندگی کی ساری رعنائیاں ان کے خلاف محاذ بنا کر بیٹھ گئیں۔ آنسوؤں کے گلیشیئرز اُن کی بینائی پر یوں گرے کہ وہ اپنی ہی ہتھیلی پر بنے تانے بانے کو دیکھنے تک کی صلاحیت سے محروم ہو گئیں۔ لیکن بیوگی اور اندھیرے اُن کی علم سے محبت کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔

نانی ہمارے ماموں کے پاس شور کوٹ میں رہتی تھیں لیکن ان کا زیادہ وقت ہمارے ساتھ گزرتا۔ ہم ابا جی کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے شہر شہر پھرتے رہتے۔ ہم جہاں بھی جاتے، جہاں بھی رہتے نانی ہمارے پاس ضرور پہنچ جایا کرتیں۔ یہاں تک کہ وہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں، لورالائی، خضدار اور مستونگ تک بغیر کسی خوف و خطر سفر کر لیتیں۔

میرے ابا جی کہا کرتے تھے کہ ریل تو ان کے حکم پر چلتی ہے۔ اُس کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ اماں جی کو ہمارے گھر کے دروازے پر چھوڑ کر جائے۔

سفر کی تھکن کچھ ماند پڑتی تو وہ ہماری انگلی پکڑ کر کسی نہ کسی مزار کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتیں۔ پھر چٹانیں ہوں یا پہاڑیاں، کھیت ہوں یا رواں سڑکیں سب ان کے حوصلوں کے سامنے سر جھکا کر بیٹھ جاتیں۔ یہ اُن کا حوصلہ تھا کہ جس کے سامنے اُن کی آنکھوں کے سارے اندھیرے شکست کھا جاتے یا پھر ہماری محبت تھی جو اُن کی انگلی پکڑ کر اندھیری راہوں پر اُن کی رہنمائی کرتی رہتی۔

اس نا بینا عورت کے ہمراہ دو چیزیں شہر شہر گھومتی رہتیں۔ ایک تھی ایک بوری اور دوسری ایک سوٹ کیس۔

بوری جس میں ان کی کتابیں اور بڑی بڑی تسبیحاں ہوا کرتی تھیں اور سوٹ کیس میں ان کا کفن۔ اس کے علاوہ ضرورت کی کوئی شے ان کے ہمراہ نہ ہوتی۔ حتی ٰ کہ لباس بھی نہیں۔ وہ اپنا لباس اپنے ساتھ نہیں رکھتی تھیں، جہاں جاتیں وہیں کا لباس زیبِ تن کر لیتیں۔ جب وہ شورکوٹ ہوتیں تو اپنا آبائی لباس گھاگرا اور کُرتی پہنا کرتیں اور جب ہمارے پاس آتیں تو شلوار قمیض زیبِ تن کر لیتیں۔

نانی ہمارے لئے پہلی اور آخری درس گاہ تھیں۔ آخری اس لئے کہ اُن کے علاوہ نہ ہمیں کہیں تربیت کے وہ اوراق ملے جو ان کے پاس تھے، نہ شفقت، نہ اخلاص اور نہ ہی علم ملا جو وہ بانٹتی پھرتی تھیں۔

اُن کی قربت نے ہمیں سب سے پہلے تیسویں سپارے کی تمام سورتوں، سورۃ الرحمٰن، سورۃ یاسین کے پہلے رکوع اور درود شریف کے حفظ کا تحفہ دیا۔ پھر ہمارے اندر کتابوں سے محبت کا اُنس ایسے کوٹ کوٹ کر بھرا کہ کتابیں ہماری زندگی کا اہم جُز بن گئیں۔

کتابوں سے بھری بوری ہمارے لئے پہلا کُتب خانہ تھی جس سے ہم نے دین اور دنیا دونوں کی تعلیم کا آغاز کیا۔ اُن کا سوُٹ کیس ہمارے لئے روحانی تعلیم کے کسی مدرسہ سے کم نہ تھا۔ جس میں رکھے چھ گز کپڑے نے ہمیں یہ سمجھا دیا کہ دنیا فانی ہے، انسان کی بساط کیا ہے، انسان کتنا بیچارہ ہے کہ اُسے یہ تک پتہ نہیں کہ وقت آخراُس کے تن پر یہ چند گز لباس ہو گا بھی یا نہیں۔ اُس کی قبر کو اپنوں کی آشنا قبروں کی قربت ملے گی یا دیار غیر کا کوئی انجانا شہرِ خموشاں اُس کا آخری مسکن ٹھہرے گا۔ یا پھر یہ بھی نہیں۔

انبالہ کے ایک گاؤں سے ڈولی میں بیٹھ کر شورکوٹ پہنچنے والی ہماری نانی پاکستان کے نگر نگر پھرتے پھراتے آخری دفعہ 1983 میں ہمارے پاس شیخوپورہ پہنچیں۔ جہاں ان کے حوصلے ماند پڑ گئے اور انہوں نے وہاں کے ایک نگرِ خموشاں کو ہمیشہ کے لئے اپنا آخری مسکن بنا لیا۔ ٹین کے صندوق میں بند کافور لگا کپڑے کا ٹکڑا جسے وہ ہمیشہ ساتھ رکھتی تھیں بالآخر ان کے تن کا آخری لباس بن گیا۔

دنیا کے لئے تو ایک عورت اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں لیکن ہمارے لئے محبت و شفقت سے بھرا علم و عرفان کا اک دبستان، ہماری پہلی اور آخری درسگاہ دو گز زمین کی گود میں چلی گئی۔

٭٭٭

صدائے سیف الملوک

ہماری نانی کی کتابوں میں میاں محمد بخش کی لکھی ہوئی ایک کہانی ’سفر العشق‘ بھی تھی۔ عرف عام میں جسے ’سیف الملوک‘ بھی کہا جاتا ہے۔ نانی اماں کو اس کتاب کا کافی حصہ زبانی یاد تھا۔ مجھے ان کا سنا ہوا کافی عرصے تک یاد رہا مگر آہستہ آہستہ ذہن کی دہلیز سے نکل کر کہیں گم ہو گیا البتہ کچھ آثار چھوڑ گیا۔ جن میں یہ شعر بھی شامل تھے۔

دنیا تے جو کم نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے

اس بے فیضی سنگی نالوں بہتر یار اکیلے

باغ بہاراں تے گلزاراں، بن یاراں کس کاری

یار ملن دکھ جان ہزاراں شکر کراں لکھ واری

ترجمہ: دنیا میں جو دکھ سکھ میں کام نہ آئے، اس بے فیضی دوست سے بہتر ہے کہ ہم اکیلے ہی رہیں۔ دوستوں کے بغیر باغ بہار اور گلزار کا کوئی فائدہ نہیں۔ یار مل جائے تو دکھ درد دور ہو جاتے ہیں اور میں ہزارہا شکر ادا کرتا ہوں۔

میرے لئے اس کہانی میں دو باتیں باعث کشش تھیں کہ سیف الملوک نے ملکہ خاتون کو اپنی جان پر کھیل کر ایک زور آور جن کی قید سے نجات دلائی تھی۔

دوسری وجہ کشش تھی جھیل سیف الملوک۔ جس پر پریاں اترتی ہیں۔

زندگی خود سکھاتی ہے اور خود ہی رہنمائی کرتی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ جوں جوں زندگی کا پودا پھلتا پھولتا گیا۔ جھیل سیف الملوک کے بارے میں معلومات اور کہانیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ یوں ہمارے اندر جھیل سیف الملوک ہی نہیں اُس پر اُترنے والی پریوں کو دیکھنے کا مقصد بھی تقویت پکڑتا چلا گیا۔ جب بھی کوئی دوست یا آشنا جھیل سیف الملوک کی سیر کر کے آتا تو میں اُس سے اس جھیل سے متعلق کہانیاں اور باتیں ضرور سنتا تھا۔ یوں میرے دماغ کی تجوری میں جھیل سیف الملوک کی شبیہوں کا ایک خزانہ جمع ہو گیا۔ خزانہ موجود ہو تو صاحبِ خزانہ کیسے پرسکون رہ سکتا ہے، اُسے کیسے قرار نصیب ہو سکتا ہے۔ یہ خزانہ خود تازیانہ بن گیا اور میرے شوق کا گھوڑا آگے بڑھتا چلا گیا لیکن افسوس منزل نصیب نہ ہوئی۔ جھیل سیف الملوک کی پریوں سے ملاقات تو دور کی بات تھی وہاں جانے کا خواب تک حقیقت نہ بن سکا۔ کبھی تعلیمی مصروفیات، کبھی روزگارِ حیات، کبھی صحت اور کبھی کوئی اور مسئلہ میرے اس خواب کی تعبیر کے راستے میں رکاوٹ بنتا رہا۔ بہر حال یہ بھی حقیقت ہے کہ شوق، جذبہ اور ولولہ موجود ہو تو اسباب پیدا ہو ہی جاتے ہیں۔ جب چاہت حیات کے پیمانہ پر ایک خاص نقطہ عبور کرتی ہے تو خواہش، چاہت یا خیال وجود کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی شاید یہی کچھ ہوا۔ ایک دن میں نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ اس سال ہم موسمِ گرما کی چھٹیوں میں جھیل سیف الملوک ضرور جائیں گے۔ بس پھر کیا تھا حالات بنتے گئے اور وہ دن بھی آ گیا جس دن ہم اپنی گاڑی پر اسبابِ ضروری لاد کر گھر سے نکل پڑے۔ منزل تھی جھیل سیف الملوک اور اس کے اردگرد پریوں کی تلاش۔ پھر قدم جھیل سیف الملوک تک نہ رکے آگے بڑھتے چلے گئے۔ کبھی دریائے سندھ کے دشوار راستوں پر، کبھی کشمیر کی وادیوں میں کبھی ہنزہ اور گلگت کے دریاؤں پر اور کبھی دیوسائی کے میدانوں میں۔ ہر پری نئی منزلوں کا پتہ دیتی رہی اور ہمارا سفر ختم نہ ہوا۔

٭٭٭

شہزادی

جماعت ہشتم میں میرا ایک دوست اشتیاق ہوا کرتا تھا۔ ایسا پیارا کہ اُسے ایک بار ملنے کے بعد دوبارہ بھی ملنے کا اشتیاق ہوتا۔ سر تا پا پورے کا پورا سرخ و سفید اور گلابی کشمیری انار۔

اللہ اُسے زندگی دے، اُس کے ابا کا موٹر سائیکلوں کا شو روم تھا۔ جب بھی ان کے شوروم میں کوئی نئی گاڑی آتی تو وہ ہمیں گاڑی کے اوصافِ حمیدہ اس طرح بتاتا تھا کہ ہم اُس گاڑی کو آسمانی گاڑی سمجھ لیتے۔

’’کل میں نے اسپورٹس چلائی، کیا شہزادی گاڑی ہے۔ کل میں نے نسان چلائی کیا شہزادی گاڑی ہے۔‘‘

اشتیاق گاڑی چلاتا تھا یا نہیں و اللہ اعلم لیکن وہ ہمیں اُس سانپ دکھانے والے کی طرح الجھا ضرور دیا کرتا تھا۔ جو سانپ کا تماشا دکھاتے ہوئے ہر پانچ منٹ بعد لوگوں کو یہ نوید سناتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں ہمیں سنہری سانپ کی دید کا موقع ملے گا۔ اس دوران وہ اپنی ادویات کے فائدے گنواتا رہتا۔ اُس وقت ہمیں ان ادویات کی اہمیت و افادیت کا کچھ خاص اندازہ نہ تھا تاہم بہت سے سوالات ہمارے مُنے سے دماغ میں کھلبلی مچاتے رہتے اور اُن سولات کے جو بات نہ پا کر ہم ماہیِ بے آب کی طرح تڑپتے تھے۔ جن کے ہمیں جواب نہیں ملتے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اب جا کر جب اُن سوالات کے جوابات ملے مگر اب وہ سانپ والا نہیں رہا۔ پتہ نہیں بڑی بڑی سڑکیں اُسے کھا گئیں یا پھر وہ ٹیکنالوجی کی بھینٹ چڑھ گیا۔

اشتیاق سچ کہتا تھا یا جھوٹ لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ اُس نے ہمیں خیالوں ہی خیالوں میں گاڑی چلانا سکھا دیا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمیں پریوں اور شہزادیوں کو دیکھنے کے شوق کا ٹیکا بھی لگا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کالج کے پہلے ہی سال ہمیں اپنے انگریزی کے سر سے یہ لیکچر سننے کو ملا۔

’’ان شہزادیوں کے پیچھے مت بھاگا کرو اپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ یہ خود تمہارے پیچھے آئیں۔‘‘

سر نے تو ٹھیک ہی کہا ہو گا لیکن نہ ہم کسی قابل ہوئے نہ شہزادیاں ہمارے پیچھے آئیں۔

میں جب بھی موٹر وے پر پہنچتا ہوں تو مجھے اشتیاق ضرور یاد آ جاتا ہے۔ اس سڑک پر آ کر میرے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے،

’’واہ! کیا شہزادی سڑک ہے۔‘‘

اس شہزادی سڑک پر آ کر اشتیاق کے علاوہ مجھے دو اور شخص یاد آتے ہیں، ایک ہمارے مہربان نواز شریف صاحب اور دوسرا شیر شاہ سوری۔ کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ سوری نے جب جی ٹی روڈ بنائی تو سب سے پہلے اُسے محفوظ بنانے کے انتظامات کئے، پھراُس نے مسافروں کے لئے جائے قیام و طعام وغیرہ کو ممکن بنایا۔ یہی خصوصیات ہمیں موٹر وے میں ملتی ہیں۔ مجھے وہ بڑھیا بھی یاد آتی ہے جو زیورات کی گٹھڑی لے کر ہند کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرتی اور کوئی اُس کی طرف آنکھ تک اُٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔ نہ اب وہ بڑھیا رہی نہ زیورات کی گٹھڑی۔ ہاں ہیں تو تجوریاں۔۔ وہ بھی یہاں نہیں دیارِ غیر کے بنکوں میں۔

جب گاڑی کے ٹائر اپنی اس میزبان سڑک کے لبوں کو چومتے ہیں تومسافر کو تحفظ، امن، قانون کی حکمرانی اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سے اطمینان کا بھی احساس ہونے لگتا ہے۔ مجھ جیسوں کو یہ احساس کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے جو اپنی روزمرہ استعمال کی سڑکوں سے اُکتائے اور بیزار ہوتے ہیں۔ چلیں پورے ملک تک نہ سہی موٹر وے کی حد تک سہی۔ کہیں تو سکون، امن اور تحفظ ہے۔

بقول محترم نواز شریف موٹر وے اُس جی ٹی روڑ پر بنائی گئی ہے جو شیر شاہ سوری نے بنوائی تھی۔

(’غدار کون ‘ از سہیل وڑائچ)

گویا کہ ایک بے حال موٹر وے کو بحال کیا گیا ہے۔ میری تحقیق بھی یہی کہتی ہے کہ اصل ’گرینڈ ٹرنک روڈ‘ یہیں کہیں تھی۔ جہاں اب موجودہ موٹر وے ہے۔

اندرون ملک سڑکوں اور گلیوں کاڈسا جب اس سڑک پر آتا ہے تو اُسے کچھ دیر کے لئے یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے وطنِ عزیز کی سرزمین پاک پر موجود ہے۔ در اصل اُسے پاکستان میں رہتے ہوئے کسی

بین الاقوامی معیار کے حامل اور کرپشن فری ادارے کا تجربہ ہی نہیں ہوتا۔ جب تجربہ ہوتا ہے تو یقین بھی آ جاتا ہے اور جب یقین آتا ہے تو پھر واہ واہ کر اُٹھتا ہے،

’’واہ کیا پاکستانی ہیں۔۔ ۔۔ چاہیں تو کیمیائی مواد ملا کر دودھ بڑھا لیں اور چاہیں تو سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چیر کر موٹر وے بنا دیں۔‘‘

جہاں تک اس سڑک پر آنے والے مسافروں کا تعلق ہے تو انہیں دیکھ کر تو شانِ قدرت یاد آ جاتی ہے۔ جس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی قانون کی پاسداری نہ کی ہو وہ بھی یہاں آ کر ایسا پاسدارِ قانون بن جاتا ہے جیسے ابھی دودھ سے دھُل کر آیا ہو۔

میں تو خواب دیکھنے والا شخص ہوں۔ اگر ایسا ہو جائے کہ مالک کائنات اس پاک دھرتی پر کسی ایسے ماں کے لعل کو اختیار کُل کا مالک بنا دے کہ جو یا تو اس دھرتی پر بسنے والے ہر فرد کو گاڑی دے دے یا پھر گاڑیوں پر پابندی لگا دے اور موٹر وے پر تو بس سائیکل کو ہی آنے کی اجازت ہو۔ کیسے کیسے سائیکل وجود میں آئیں۔ بتیاں اشارے، ہارن سب صحت مند اور اعلیٰ تہذیب یافتہ۔ سائیکل سوار ہیلمٹ پہنے پیٹی کسے سائیکل پر بیٹھا ہو۔ شہروں میں وہ لوگ جو سائیکل کی استطاعت نہ رکھتے ہوں لیکن سائیکل کی سواری کے خواہش مند ہوں ایک خصوصی ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے سائیکل ٹیکسی منگوائیں اور مزے اُڑائیں۔ نہ دھواں نہ دھول، نہ غلاظت نہ شور۔ ہاں قانون کے رکھوالے پھر بھی چالان کرتے نظر آئیں گے۔ کسی کی سائیکل کا سب کچھ ٹھیک ہے تو چین ڈھیلی کیوں ہے؟ اور نہیں تو پیچھے بیٹھی بیگم کو ہیلمٹ کیوں نہیں پہنایا۔ اور شاید سائیکل پرور حکمران سائیکل ہوتا ہے یا ہوتی کا لسانی مسئلہ بھی حل کر دے۔

میں سڑک پر نظریں جمائے اپنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ لگتا تھا جیسے ہماری گاڑی سلیٹی رنگ کے ایک دریا میں تیرتی جا رہی تھی۔ اس دریا کے کناروں پر اُگے ہوئے درخت ہر ساعت ایک نیا رنگ اور نیا روپ اختیار کر رہے تھے۔ کھیت ہر موڑ پر نیا لباس زیبِ تن کر رہے تھے۔

بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس سٹرک کی لمبائی چھ سو انہتر کلو میٹر ہے اور یہ ایشیا کی پہلی موٹر وے ہے۔ اس سڑک کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ہنگامی حالات میں اسے جنگجو طیاروں کے رن وے کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

چپس کی چر چر

میرے دو عدد برخورداروں، شاہ زیب اور زین نے حسبِ عادت ٹول پلازہ عبور کرتے ہی اپنی پسند کا میوزک ’آن‘ کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے شک ہونے لگا کہ انہوں نے اس دفعہ بھی ہم میاں بیوی کے ساتھ ہاتھ کر دیا ہے۔ میوزک کی تیاری کا کام اپنے ذمہ لے کر ’یو ایس پی ڈرائیو‘ میں صرف اپنی ہی پسند کا سارا میوزک بھر رکھا ہے۔ اس نا انصافی کے باوجود نہ جانے کیوں مجھے یقین تھا کہ انہوں نے ہمارا حصہ ضرور رکھا ہو گا چاہے آٹے میں نمک کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ جس ملک میں انصاف نام کی شے دیکھنے کو نہ ملے وہاں اگر بچوں کے ہاتھوں آٹے میں نمک کے برابر ہی انصاف مل جائے تو شکر الحمد للہ۔ اس لئے میں اُس لمحے کا انتظار کرنے لگا جب آٹے میں سے نمک برآمد ہو گا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح مجھے اُس لمحے کا بس انتظار ہی رہا۔ بھلا کبھی آٹے کے نشیمن میں جا کر نمک واپس لوٹا ہے جو اس دفعہ لوٹ آتا۔ چنانچہ میں بے میوزک ہی سڑک کے کنارے درختوں کے بدلتے رنگوں کی ہیئت اور ترتیب پر غور کرتا رہا۔

موٹر وے کے ارد گرد بسے دیہات، اُن کے گھر، گھروں میں بندھے جانور، جانوروں کی گردنوں میں لٹکے لوہے کے زیورات، گھروں کے باہر پھیلے سر سبز کھیت اور ان کی شادابی سب کسی جادوگر کی طرح مسافر کو اپنے سحر میں قید کر لیتے ہیں۔ یوں موٹر وے ایک ایسی میزبان سڑک کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے جو اپنے رنگ بدل بدل کر اپنے مہمان کو اُکتاہٹ اور بیزاری سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ یہ چلتے چلتے کہیں سے اونچی ہو جاتی ہے تو کہیں سے نیچی، کہیں سے چھوٹی سڑکوں پر چڑھائی کرتی ہے تو کہیں نہروں دریاؤں کو مسخر کرتی ہے، کہیں ٹھہرے پانی کی طرح ہو جاتی ہے تو کہیں بپھرے دریا کی طرح چھلانگیں لگاتی محسوس ہوتی ہے۔ اگر اس کا مہمان ذرا سی بھی جمالیاتی حسں رکھتا ہو تو وہ اپنے دماغ کو اس سڑک کے ارد گرد بدلتے رنگوں اور مناظر سے ترو تازہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میری مسز فیس بک پر مصروف تھیں۔ آج انہوں نے فیس بک کے استعمال کے تمام ریکارڈ توڑنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ وہ اپنے اُن اُن دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی پوسٹس بھیج رہی تھیں جنہیں انہوں نے ہمیشہ اپنی پوسٹس سے محروم رکھا تھا۔ ہماری گاڑی میں پانچویں سوار تھے عابد جنہیں گاڑی چلانے کا اعزاز حاصل تھا۔ یعنی وہ ہاٹ سیٹ پر براجمان تھے۔

سورج انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ہم پر اپنی نامہربانیاں نچھاور کر رہا تھا۔۔ عابد اے سی سے مسلسل اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ گاڑی میں بیٹھا ہر شخص اس اے سی کے بچے سے بھرپور اور یکساں فائدہ اُٹھا سکے۔ ٹشو پیپر زسے اپنے گالوں کو بار بار صاف کرنا اور دھوپ کی عینک کو ناک کی نوک سے اٹھا کر ناک کے ستواں حصے پر ٹکانے کی کوشش کرنا ان کے محبوب مشاغل تھے۔ اس دوران ٹشو پیپر کی مکار رگڑ کی وجہ سے ان کے گالوں پر سورج کی چٹکیوں کے گلابی نشان مزید نمایاں ہو جاتے۔ کبھی کبھی اپنی نشست کی ایڈجسمنٹ بھی کرتے تاکہ بھائی جان سے سنیں،

’’عابد میرا خیال ہے کہیں رک جائیں۔‘‘

میرا جواب نہ پا کر وہ سر پر ہاتھ پھیرتے اور اپنے بے بال سر کی ملائمت سے لطف اٹھاتے۔

شاہ زیب اور زین اپنی خوراک چٹ کرنے کے بعد اس خوراک پر بھی ہاتھ صاف کرنے میں مصروف تھے جو انہوں نے ہمارے نام سے خریدی تھی۔ پیپسی کے کھلنے کی آوازوں اور چپس کے چرنے کی آوازیں بے مزا اور بے کیف موسیقی میں اپنا ہی رنگ گھول رہی تھیں۔

میں نے کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کیں تو مجھے یوں لگا جیسے میں افریقہ کے کسی خاندان کے رئیس کی بیٹی کی تقریبِ حنا میں موجود ہوں جہاں نہ بولیاں سمجھ آتی تھیں نہ موسیقی، اور سچ پوچھیں تو حرکات بھی۔ پرفیومز، کار فریشنرز کی خوشبو میں چپس اور پیپسی کی خوشبوئیں تقریبِ رسمِ حنا میں افریقنوں کے بدنوں سے اُٹھنے والی بُو یا پھر مقامی پرمیومز کی بُو میں بدل گئی تھیں۔ میں آنکھیں بند کئے اس رسمِ حنا کے مزے لُوٹ رہا تھا کہ اچانک دھوپ کا ایک گولہ میری آنکھوں کے بیرونی پردوں کو چیرتے ہوئے میری آنکھوں کی گہرائیوں تک اُتر گیا۔ میں نے ایک آنکھ کھول کر دیکھا تو میری مسز اپنی طرف والی کھڑکی کی بلائینڈ کو درست کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ یوں وہ نادانستہ طور پر مجھے اس تقریبِ حنا سے باہر لے آئیں۔ ویسے بھی وہ دل میں بستی ہیں شاید دل کا حال جان لیا ہو اور بلائینڈ ہٹانے کے بہانے مجھے اُس تقریب سے باہر نکالنا مقصود ہو۔ میں نے اپنی دو کی دو آنکھیں وا کیں اور ایک معصوم سی انگڑائی لیتے ہوئے کہا،

’’اُف کیا خوبصورت خواب تھا۔۔ ۔ بیڑا غرق کر کے رکھ دیا۔‘‘

’’تو کس نے روکا ہے دوبارہ دیکھ لیں۔ وہ نہیں تو اُس جیسا کوئی اور سہی۔‘‘

انہوں نے اپنے ہاتھ میں لئے ایک ادھورے چپس کے ٹکڑے کو اپنے دانتوں کی نذر کرتے ہوئے کہا۔ مجھے لگا جیسے اس حملے کا اصل ہدف میں تھا لیکن راستے میں وہ نالائق چپس کا ٹکڑا آ گیا اور مارا گیا۔

ایک نایاب تصویر ہو تم

میرے خوابوں کی تعبیر ہو تم

اس سفر کی منزل ہو تم

میرے نظر میں میری دیوانی ہو تم

٭٭٭

پنجابی روبن ہڈ

ہمارا پہلا عارضی پڑاؤ پنڈی بھٹیاں جا کر پڑا۔ جونہی ہم گاڑی سے باہر آئے تو ہمیں موسم گرما کی محبتوں کا اندازہ ہو گیا۔ کیا خوبصورت اور خوب سیرت گرمی تھی۔ کسی ظالم حکومت کی طرح ہر کسی پر ٹوٹ ٹوٹ پڑ رہی تھی۔ انٹر چینج کی جائے طعام و قیام دھوپ نے جھلسا کر رکھ دیا تھا۔ ہر چہرہ مرجھایا اور کملایا ہوا تھا۔ ہم نے باہر بیٹھنے کی بجائے ریسٹوران کے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ اندر بہت سکون تھا، اے سی نے موسم کو تو خوشگوار بنایا ہی تھا، ریستوران کی انتظامیہ کو بھی خوش مزاج بنا دیا تھا۔ چونکہ صرف ہم ہی ہم تھے اس لئے ویٹرز نے اپنی ساری قابلیت اور مہارتِ کاروبار ہم پر صرف کرنا شروع کر دیں۔ ہم انہیں اپنی اپنی مرضی کی ضروریات بتا کر اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے۔ میرے پیچھے دروازہ تھا اور سامنے ریستوران کا استقبالیہ ڈیسک۔ جہاں دو خوش شکل لڑکے چابکدستی سے ہمارے لئے اشیائے خور و نوش تیار کر رہے تھے۔ انہیں تکتے رہنا مجھے کچھ مناسب نہ لگا۔ لہذا میں کرسی کو پیچھے موڑ کر دروازے کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ جہاں سے انٹر چینج کی پارکنگ پٹرول پمپ اور اس کے پیچھے موٹر وے کا ایک حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں بیٹھے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے باہر کا ہر منظر سورج کی حشر سامانی سے محفوظ ہے لیکن اندر کی کہانی اور تھی اور باہر کی اور۔ میری نظریں سڑک پر چلنے والے ٹریفک پر جمی ہوئی تھیں اور دماغ اپنے نہاں خانوں میں سے کچھ تلاش کرنے میں مگن تھا۔ وہ کچھ اوراق کو رد کرتے ہوئے اور کچھ کو قبول کرتے ہوئے اپنے فعال حصے پر منتقل کر رہا تھا۔

کچھ ہی لمحوں میں یہ عمل تیز ہو گیا۔ اب تصویروں سے سجے تاریخ کے اوراق سیلابی پانی میں پتوں کی طرح بہے چلے آ رہے تھے۔ داستانیں، کہانیاں، ہیروز، دشمن، شہزادے شہزادیاں اور لہلہاتے کھیتوں کو روندتے، پاگلوں کی طرح بھاگے پھرتے بیرونی افواج کے لشکر در لشکر۔

ہائے میری دھرتی! ہمیشہ بیرونی لشکروں کے لئے کھیل کا میدان بنی رہی۔ اگر اُن کے راستہ میں کوئی بچہ آ گیا تو زندگی ہار گیا، اگر کوئی عورت آ گئی تو حیوانیت کا شکار ہو گئی اور اگر کوئی مرد تو درندگی کی نئی تاریخ رقم ہو گئی۔

ایک نہیں دو نہیں، لشکروں کے لشکر اپنی اغراض کے لئے اس زمین کو روندتے رہے، لوٹتے رہے اور بھنبھوڑتے رہے۔ یہاں کے لوگ آئے دن بیرونی حکومتوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر کے اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہتے۔ بیرونی حملہ آور خود تو چلے جاتے لیکن اپنے امیر کے نام پر ایک اور مصیبت یہاں چھوڑ جاتے اور پھر یہاں ایک اور ہی سلسلہ شروع ہو جاتا، کبھی یہ علاقہ کسی کی امارت کا حصہ بن جاتا اور کبھی کسی کی جاگیر۔ ہر فاتح اسے نہ صرف لوٹتا بلکہ یہاں سازشوں کا جال بھی پھیلا دیتا۔

سلطنتِ دہلی پر اکبرِ اعظم کی قیادت میں مغل اپنی حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں جُتے ہوئے تھے۔ دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان سرسبز اور زرخیز زمینوں کے مالک اور آئے دن کی لوٹ مار سے اُکتائے بھٹی، راجپوت اور جاٹ یہاں کی آزادی کے متوالے ساندل بھٹی کی قیادت میں سلطنتِ دہلی سے آزادی کا اعلان کر چکے تھے۔ یوں یہ علاقہ ساندل بار کے نام سے مشہور ہو چکا تھا۔ یہ علاقہ موجودہ شیخوپورہ اور حافظ آباد سے لے کر ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ تک پھیلا ہوا تھا۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اکبر جیسے حاکم مطلق کا ایک علاقہ اُس کی حاکمیت کا طوق اُتار کر آزادی کا اعلان کرتا۔ اُس جیسے حکمرانوں کے ہاں تو آزادی کی طلب کا مطلب فقط بغاوت ہوتا ہے۔ اس نے تو اپنی آنکھ کے تارے، کلیجہ کی ٹھنڈک اور لختِ جگر جہانگیر تک کو کتابِ بغاوت کا پہلا باب تک رقم کرنے کی اجازت نہیں دی تھی اور بغاوت کی کتاب کا ایک ایک حرف اُس کے ہی جاں نثاروں کے لہو سے دھو دھو کر مٹا دیا تھا۔ وہ ظلِ سبحانی، جلال الدین اکبر بھٹیوں کی بغاوت کیسے برداشت کرتا۔ بس اپنی تمام تر قوتوں کو استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا، رگیدا، کچلا اور پھر ختم۔

قیدیوں کے ہجوم میں ساندل بھٹی کی بہو اور فرید بھٹی کی بیوی گود میں ایک چھوٹے سے بچے کو اُٹھائے اکبر کے دربار میں پیش کی گئی۔ اکبر اس بچہ کے خوبصورت چہرے پر موجود دو معصوم آنکھوں میں جھانکتے ہی کانپ اُٹھا۔ اُسے اُس کی آنکھوں میں اُس کے دادا اور باپ کی لاشیں سولی سے لٹکی دکھائی دیں۔ اپنے وقت کا ذہین ترین اور مردم شناس حکمران اکبر اُس بچہ کی معصوم آنکھوں کے لال ڈوروں میں تیرتی مستقبل کی ساری کہانی پڑھ چکا تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ اگر بچہ کو مار دیا گیا تو اس علاقہ میں بسنے والے اطاعت گزار راجپوت، بھٹی اور جاٹ بھی مغلوں کی اطاعت چھوڑ دیں گے اور اگر اس بچہ کو چھوڑ دیا گیا تو یہ بچہ بھٹیوں میں بغاوت کی بھٹی کبھی بجھنے نہ دے گا، نہ خود چین لے گا اور نہ سلطنتِ مغلیہ کو چین لینے دے گا۔ اس لئے اُس نے بھٹیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور انہیں یہ احساس دلانے کے لئے کہ اکبر ان کا خیر خواہ ہے اس بچے کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔

یوں اپنے وقت کا چالاک ترین بادشاہ قدرت کے ہاتھوں مات کھاتے ہوئے دُلا بھٹی کو اپنے ساتھ محل میں لے آیا۔ حکم دیا کہ اس بچے کی اس طرح پرورش کی جائے کہ وہ اکبر کو ہی اپنا باپ اور بھٹیوں کو سلطنتِ مغلیہ کا باغی سمجھتے ہوئے جوان ہو۔ یوں عبد اللہ بھٹی عرف دُلا اکبر کے زیرِ سایہ پرورش پانے لگا۔ جو تعلیم اکبر کے بیٹے کو دی جا رہی تھی وہی دُلا بھٹی کو بھی مل رہی تھی۔ جوجو آسائشیں اُس کے اپنے بیٹے کو حاصل تھیں وہی دُلا بھٹی کو بھی حاصل تھیں۔ اکبر جانتا تھا کہ راجپوت اور بھٹی کبھی بھی سر اٹھا سکتے ہیں اس لئے اُن کا مستقل بندوبست کرنے کے لئے شیخوپورہ کے قلعہ کی مضبوطی کی طرف دھیان دیا گیا، علاقہ میں لوگوں کو انعام و اکرام اور مراتب سے نوازہ گیا۔ اپنے اپنے علاقوں میں امن و امان اور مغلیہ وفاداری کو یقینی بنانے کی شرط پر علاقہ کی زمینیں امرا اور جا گیر داروں میں بانٹ دی گئیں۔

سالہا سال گذر گئے اور بھٹیوں کے دماغ سے بغاوتوں کے آثار اور خیالات بھی ماند پڑ گئے۔ دُلا جب جوان ہوا تو اُس کی خوبصورتی، جوانی اور جسم کی مضبوطی دیکھ کر لوگ اش اش کر اُٹھتے۔ علم کا میدان ہوتا تو دُلا ایسے دلائل دیتا کہ لوگوں کی زبانیں بند ہو جاتیں، تلوار چلاتا تو لوگ سکتے میں آ جاتے اور نیزہ پھینکتا تو نشانہ دیکھ کر لوگ گنگ ہو جاتے۔

پھر وہ وقت بھی آ گیا جب دلا بھٹی پہلی دفعہ اپنے گاؤں گیا۔ قبیلہ کے لوگ اُسے دیکھ کر خود پر فخر کرنے لگے، بڑے بزرگ اُس میں اُس کے باپ دادا کو تلاش کرنے لگے، چنچل مٹیاریں اُسی کو اپنے خوابوں کا شہزادہ سمجھنے لگیں، بڑی بوڑھیاں دیکھتیں تو بے ساختہ بین ڈالنے لگتیں،

’’ہائے ! ساندل بھٹی کا پوتا اور فرید بھٹی کا بیٹا اپنے باپ پر گیا ہے شین جوان۔۔ ۔ کیسا اندھیر ہے سامنے ہوتے ہوئے بھی باپ کے قاتلوں کو نہیں پہچانتا۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ نشانہ بازی کرتے ہوئے ایک لڑکی کا گھڑا ٹوٹ گیا تو اُس نے طنزاً کہا،

’’اگر تمہیں اپنے نشانہ پر اتنا ہی مان ہے تو اپنا نشانہ اپنے باپ دادا کے قاتلوں پر کیوں نہیں آزماتے۔ اتنے بڑے سو رما ہو تو جا، جا کر اپنے باپ دادا کے قاتل کا سر کاٹ۔‘‘ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ دُلے پر کس کا اثر ہوا اُس لڑکی کی طنز کا یا کسی بوڑھی اماں کی ہمدردی کا یا پھر دُلے کی ماں کے سینے میں برسہا برس کی دبی انتقام کی آگ کا جو اُس نے اپنے بیٹے کے اندر یہ کہہ کر منتقل کر دی۔

تیرا ساندل دادا ماریا، دتا بھورے وچ پا مغلاں

پُٹھیاں کھلاں لاہ کے بھریاں نال ہوامغلاں

ترجمہ: مغلوں نے تمہارے دادا ساندل کو قتل کرنے کے بعد لاش تہہ خانے میں ڈال دی اور تمہارے عزیزوں کی لاشوں کی کھالیں اتار کر ان میں ہوا بھر دی۔

ماں کی یہ ایک ہوک ہی غیرت مند دُلے کے لئے کافی تھی۔

بہر حال وجہ جو بھی بنی عبد اللہ بھٹی عرف دُلا نے اپنے باپ دادا کے راستے پر چلتے ہوئے اکبر کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا۔

دُلا بھٹی کے نام کی دو وجہیں بتائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ عبد اللہ نام بگڑ کر دلا بن گیا، دوسری یہ کہ بھٹیوں نے اُسے بھٹیوں کا دولہا کہا جو وقت کے ساتھ ساتھ بگڑ کر دُلا بن گیا۔

بہر حال علاقے کے راجپوت اور جاٹ قبائل تو اس دن کے انتظار میں تھے جب انہیں کوئی بہادر رہنما ملے، فوراً دُلے کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ دُلا بھٹی اور اس کے ساتھی مغل امرا سے دولت لوٹ کر غریبوں میں بانٹتے، بے سہاراجوان بچیوں کی شادیاں کرواتے، جہاں کہیں کسی عورت پر ظلم زیادتی کی اطلاع پاتے وہیں پہنچ جاتے اور ظالم کی گردن مار کر مظلوم کی دادا رسی کرتے۔ یوں ایک باغی ابنِ باغی، ایک جنگجو اور آزادی کا متوالا اپنے عہد کی عوام الناس کا ہیرو بن گیا۔

کہا جاتا ہے کہ اُس نے پہلی اور آخری بار پنجاب میں ’لوک راج‘ قائم کیا۔ پنجاب میں اُسے وہی حیثیت حاصل تھی جو یورپ میں روبن ہوڈ کو حاصل تھی۔ سلطنتِ دہلی کا باغی اور پنجاب کے ایک بڑے حصے کا مسیحا دُلا بھٹی مقامی لوگوں کے گیتوں اور ماؤں کی لوریوں میں چپکے سے سرایت کر گیا۔ اس کے نعرے اور جنگی گیت جنہیں ‘وار‘ کہا جاتا تھا پنجاب کی پگڈنڈیوں اور کھیتوں میں سنائی دینے لگے۔ شاعروں نے اس کے کارناموں کو شاعری کی زینت بنانا شروع کر دیا اور یہ گیت پنجاب کی گلی گلی میں گائے جانے لگے۔ علما اور صوفیا نے بھی دُلا بھٹی کی پذیرائی اور حمایت شروع کر دی۔ لاہور کے مشہور صوفی بزرگ مادھو لعل حسین شاہ بھی اُس کے بہی خواہوں میں شامل تھے۔

ایک طرف عظیم ہندوستان کا عظیم مغل شہنشاہ اکبرِ اعظم اور دوسری طرف یہ چھوٹا سا باغی۔ لیکن اس باغی نے تقریباً بیس سال تک اس عظیم شہنشاہ کو ناکوں چنے چبوائے رکھے۔ پنجاب کے اس سپوت نے اکبر جیسے طاقتور بادشاہ کو مجبور کر دیا کہ وہ دہلی چھوڑ کر لاہور آبسے اور اس بغاوت کا قلع قمع کرے۔ اکبر نے اپنی تمام طاقتیں اور قوتیں اس باغی کا سر کچلنے میں لگا دیں لیکن ناکام رہا۔ بادشاہ لوگ جب ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی سازشیں کام آتی ہیں، جھوٹ اور مکاری کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک جال بُنا جاتا ہے جس میں باغی پھنس جاتا ہے، شرائط سے انکار پر اُس باغی کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ یہی کچھ اس باغی کے ساتھ بھی ہوا۔ لاہور میں دہلی دروازے کے باہر دُلا بھٹی کوپھانسی دے دی گئی۔ شاہ حسین نے دُلے کی نماز جنازہ پڑھائی اور دلا بھٹی کی موت پر کہا،

یا دلبر یا مر کر پیارا

دُلے دے لعل لباں دے لارے

سُولی پر چڑھ، لے ہلارے

آن ملیسی دلبر یارا

یا دلبر یا سر کر پیارا

ترجمہ: اے دلبر اور پیارے۔ تیرے سامنے دُلے کے لبوں کی سُرخی جلوہ دکھا رہی ہے۔ وہ سُولی پر جھول گیا۔ یار خود بخود مل جائے گا۔

بادشاہ اور اُس کے حواریوں نے دلا بھٹی کو لاہور کے اُس وقت کے ایک نامانوس اور شہر سے دور دراز علاقے کے ایک قبرستان میانی صاحب میں دفن کر دیا۔ شہر سے دور دفن کرنے کی وجہ بھی شاہ اور اس کے حواریوں کا یہی ڈر تھا کہ کہیں دلا بھٹی کی قبر اس سے زیادہ مضبوط نہ بن جائے۔ کہیں مرا ہوا دُلا زندہ دُلے سے بھی مضبوط بن کر کھڑا نہ ہو جائے اور کہیں مستقبل کی باغی تحریکیں دُلے کی قبر سے

جذبۂ حریت حاصل کرنا نہ شروع کر دیں۔

وقت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کچھ وقت کے بعد میانی صاحب کا قبرستان ایک مشہور قبرستان بن گیا۔ افسوس کہ دلا بھٹی کی شکستہ حال قبر کی وجہ سے نہیں بلکہ برینڈ کی وجہ سے۔ امرا اپنی زندگی میں ہی قبرستانوں کے اس ’ڈیفینس‘ میں اپنے لئے دو گز زمین خرید لیتے۔ یوں یہ ایک وی آئی پی قبرستان بن گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

میں نے تاریخ میں کئی دفعہ دلا بھٹی کی داستان پڑھی تھی۔ مجھے وہ ہمیشہ ایک باغی ہی دکھائی دیا لیکن جب میں نے پنڈی بھٹیاں کے انٹر چینج کے اس ریستوران میں بیٹھ کر تاریخ کے اوراق سے گرد اُتاری تو مجھے دُلا بھٹی آزادی کا ا یک متوالا دکھائی دیا۔ جس نے پہلی اور اب تک آخری دفعہ ایک منظم لوک راج قائم کیا۔ جس نے ساندل بار کی زرخیز زمینوں اور محنتی لوگوں کو غلامی سے نجات دلوانے کے لئے جد و جہد کی اور پھر اپنے لہو سے اس خطے کی زمینوں کو سیراب کر دیا۔

کہا جاتا ہے کہ لہو زمین کی زرخیزی کا باعث بنتا ہے۔ شاید اس علاقے کی زمینوں کی زرخیزی دُلے بھٹی اور اس کے ساتھیوں کے لہو ہی کی وجہ سے ہے۔

یہیں سے میرے عدو کا خمیر اُٹھا تھا

زمین دیکھ کے میں تیغ بے نیام ہوا تھا

خبر نہیں ہے میرے بادشاہ کو شاید

ہزار مرتبہ آزاد یہ غلام ہوا ہے

(احمد جاوید)

میرے بیٹے نے میری توجہ میز پر رکھے برگر کی طرف دلائی تو مجھے میز پر ایک پلیٹ میں ایک چھوٹے سے لشکر جیسے فرنچ فرائز، جری سپہ سالار نما برگر اور خلقِ خدا جیسی، سیاہ نصیبوں جلی پیپسی کی ایک بوتل دکھائی دی۔ میں نے فرنچ فرائز کے تین ٹکڑوں کا ایک نوالہ بنایا اور دانتوں کے سپرد کر دیا۔ جونہی میری زبان اور دانتوں نے فرنچ فرائز کا مزا چکھا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے میں کسی لشکر میں موجود ہوں اور دن بھر کی تھکن کے بعد کھانا کھا رہا ہوں۔ لیکن ایک خوف نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔ خوف اس امر کا نہیں تھا کہ آج کی جنگ میں میری جان جائے گی یا میں کسی اور معرکہ میں جان دینے کے لئے بچوں گا یا نہیں۔ خوف اس امر کا تھا کہ تاریخ لکھنے والا میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ مجھے دُلا بھٹی کے لشکر میں بٹھائے گا یا اکبرِ اعظم کے۔

٭٭٭

شہر کے اندر ایک شہر

بچے کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا ہی ان کی تفریح ہوتی ہے۔ کھانے پینے اور فرصت پانے کے بعد ہم ایک بار پھر گاڑی کی طرف لوٹے۔ گاڑی میں بیٹھ کر یوں لگا جیسے ہم اپنے گھر پہنچ گئے ہوں۔

کچھ ہی دیر میں پیٹ نے بھی احساس دلانا شروع کر دیا کہ ظلِ سبحانی اکبرِ اعظم کے نین نقش والا جابر برگر اپنا کام دکھا کر طبیعت کے بوجھل پنے کا باعث بن رہا تھا۔ کیا کر سکتا تھا، پیٹ پر ہاتھ رکھا، دھوپ کی عینک کو ناک پر بٹھا کر آنکھیں بند کیں اور کچھ دیر سستانے کی کوشش شروع کر دی۔

مگر بے وطنی میں آرام کہاں۔ بس کسی کے اس کہے کو سچ مان کر خود کو سمجھا لیا۔ ہمیں اپنے سفر کی تمام تر تکالیف یہ سمجھتے ہوئے برداشت کر لینی چاہئیں کہ یہ ہمارے سفر کا ایندھن ہے۔

عابد صاحب پٹرول پمپ پہ لے آئے۔ دوسری طرف متاثرِ برگر پیٹ نے سیون اپ کا تقاضا شروع کر دیا جو اس کی عادت ہے۔ اس لئے میں سیون اپ کی تلاش میں ٹک شاپ پر چلا گیا۔ سیون اپ لی اور پیسے دینے کے لئے کاؤنٹر پر گیا ہی تھا کہ اچانک میری نظر کاؤنٹر پر رکھے ایک اخبار پر جا ٹھہری۔ اخبار تو روز ہی دیکھتے ہیں لیکن یہ اخبار اس لئے اہم تھا کہ اس میں ایک فیکٹری ’کریسنٹ باہو مان‘ کا اشتہار تھا۔ اس فیکٹری کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک دوست نے بہت کچھ بتایا تھا۔ اس اشتہار نے وہ سب کچھ یاد دلا دیا۔ یہاں اگر اس فیکٹری کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ فیکٹری بنانے والوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ ’کریسنٹ باہو مان‘ پنڈی بھٹیاں میں کریسنٹ والوں کا اسٹیچنگ پلانٹ ہے۔ یہ ایک فیکٹری ہی نہیں بلکہ آٹھ سے دس ہزار آبادی پر مشتمل ایک مکمل، آزاد اور جدید شہر ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں بجلی کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکٹری کا اپنا بجلی کا پلانٹ موجود ہے، یہاں تعلیم کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکٹری کے اندر ہی ایک جدید اسکول قائم ہے۔ یہاں رہائش کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکٹری کے اندر ہی رہائش کا بھی انتظام ہے۔ یہاں کھیلنے کی جگہ کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکٹری کے اندر ہی تمام کھیلوں کے وسیع میدان موجود ہیں، جن میں گولف تک شامل ہے۔ مختصر یہ کہ اس شہر میں نہ سکیورٹی کا مسئلہ، نہ طبی سہولیات کا فقدان۔ بس لوگ فیکٹری میں کام کرتے ہیں اور سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔

اس فیکٹری میں ڈینم جینز بنتی ہیں۔ دھاگہ سے لے کر حتمی استری تک یہاں مکمل جین تیار ہوتی ہے جو نہ صرف ملکی ضرورت پورا کرتی ہے بلکہ باہر کے ملکوں میں بھی بھیجی جاتی ہے۔ یوں پنڈی بھٹیاں کا نام باہر کی دنیا میں اس فیکٹری کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ گویا پنڈی بھٹیاں پوری دنیا میں پاکستان کی شہرت کا باعث ہے۔

کاش! مادرِ وطن کا ہر شہر اس طرح کا بن جائے کہ لوگ صرف کام کریں باقی تمام تر ذمہ داریاں حکومتی نظام ادا کرے۔ کاش! ہر فیکٹری، ہر کارخانہ، ہر مل، ہر دکان اپنے مزدور کے ساتھ یہ معاہدہ کرے،

’’تم صرف کام کرو تمہاری ذمہ داریاں ہم اُٹھائیں گے۔ تمہاری اور تمہارے بچوں کو صحت اور صاف خوراک کی فراہمی کو ہم ممکن بنائیں گے۔ ہم تمہارے بچوں کو اُن تعلیمی اداروں سے تعلیم دلوائیں گے جہاں سے ہمارے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔‘‘

کاش ایسا ہو۔۔

کبھی، اے کاش، میں یہ معجزۂ ہُنر دیکھوں

تیرے مزاج پہ اپنے لہجے کا اثر دیکھوں

ترک خواہش ہی ہوئی تکمیل حسرت نہیں دیکھی

خواہش ہے کہ عُمر تیرے ساتھ کر کے بسر دیکھوں

ہم سب اپنی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد دوبارہ گامزنِ سفر ہوئے کیونکہ اگلا پڑاؤ ہمارا منتظر تھا۔

سڑک پر آتے ہی عابد نے رفتار کے آلۂ رفتار پر اپنے پیر کی گرفت کچھ زیادہ ہی مضبوط کر لی اور خاصے جارحانہ انداز میں گاڑی سے سڑک پر حملے شروع کر دیئے۔ جب پیمانۂ رفتار میری بتائی ہوئی حد پار کرنے لگا تو میں نے عابد سے کہا، ’’عابد آپ نے چائے پی ہے۔‘‘

عابد نے شیشے میں دیکھتے ہوئے انتہائی مختصر جواب سے نوازا، ’’جی بھائی جان۔‘‘ ’’کیسی تھی چائے؟ سنا ہے مرچیں کچھ زیادہ تھیں۔ ‘ ‘

’’نہیں بھائی جان ایسی تو کوئی بات نہیں تھی، اچھی تھی چائے۔‘‘

’’تو پھر خیریت ہے، کیا پریوں کی بجائے فرشتوں سے ملاقات کا ارادہ ہے۔‘‘ عابد نے ’نئی بھائی جان ‘ کہہ کر رفتار کو سنبھالا دیا۔ سب اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ مسز اپنی نیند پوری کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا تھیں اور میں حیات کے بدلتے رنگوں میں گم تھا کہ اچانک مجھے گاڑی سے کچھ ناگوار سی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ عابد کچھ فرمائیں اور شاید عابد کو یہ انتظار تھا کہ بھائی جان حسبِ عادت آوازوں کو سمجھیں اور مشورہ دیں۔ جب میرے صبر کا پیمانہ اپنا نقطۂ عروج چھونے لگا تو میں نے عابد سے پوچھا،

’’عابد یہ آوازیں کیسی ہیں۔‘‘

’’اگلے ویل سے آ رہی ہیں جی۔‘‘

جو میرے لئے مسئلہ تھا وہ عابد کے لئے روزمرہ کا کھیل۔

’’یار! کوئی خطرہ تو نہیں‘‘

’’نہیں جی خیر ہے۔ بھیرا جا کر چیک کرواتے ہیں۔‘‘ وقفہ وقفہ سے آنے والے نازک خراٹوں، پارٹی سونگز، میرے پیٹ کی غٹر غوں اور گاڑی کے پہئے کی انجانی اور بے کیف سی آوازوں کے ساتھ ہم اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔

٭٭٭

فطرت کا دبستان

میں اپنی عادت کے مطابق سڑک کے دائیں بائیں سنگتروں کے باغات، دیہاتی گھروں اور درختوں کے بدلتے رنگوں کی خوبصورتی اور اصلیت کو اپنے اندر اُتارنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔ سنگترے تو موجود نہیں تھے لیکن پودے اپنے حسن کا بھرپور اظہار کر رہے تھے۔ اور میں اپنے تخیل کے پردے پر سنگتروں بھرے ہوئے پیڑ دیکھ رہا تھا۔ سنگتروں کے اتنے باغات دیکھ کر میرے تو دماغ میں فوراً یہ سوال اٹھا کہ یہاں سنگترہ تو بہت ارزاں ہو گا۔ لیکن یہ محض وہم تھا کیونکہ لاہور ان باغات سے اتنا دور نہیں کہ ان کی قیمت دس گنا بڑھ جائے۔ ایک سو روپے کے ایک درجن سنگتروں کاسوچ کر مجھے ان پودوں پر ترس آنے لگا جو چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار تھے۔ فطرت معصوم ہوتی ہے وہ ذخیرہ اندوزی نہیں کرتی، نہ استحصال کرتی ہے اور نہ ہی افراطِ زر پیدا کرتی ہے۔ اُس کے لئے سب ایک جیسے ہیں لیکن وہ سب کے لئے ایک جیسی نہیں۔ کچھ اُس کی خوبصورتی میں ڈوب جاتے ہیں، کچھ اُسے نظر انداز کر دیتے ہیں اور کچھ بد بخت ایسے ہوتے ہیں جو اُسے لوٹتے ہیں اور اس کا چہرہ بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فطرت محض خوبصورت ہی نہیں ہوتی پُرسکون بھی ہوتی ہے، یہ ایسا حُسن ہوتا ہے جسے چھُونے کی نہیں دیکھنے کی اور محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی پاکی اور لطافت انسان کے اندر ہی نہیں اُترتی بلکہ اندر کو اپنے اندر سموکر اپنی طرح پاک صاف اور لطیف بنا دیتی ہے۔ اس کی ان گنت تہیں ہیں، ان گنت جہتیں اور ان گنت روپ ہیں۔ مشہور فلسفی جارج سانٹایانا( George Santayana) نے بہت خوبصورت بات کی ہے۔ ’’زمین میں موسیقی ہے مگر اُن کے لئے جو اسے سننا چاہتے ہیں۔‘‘ اگر کسی کو فطرت بھا جائے تو وہ سمجھ لے کہ وہ خدا کے قریب ہے اور گناہوں سے دور ہے۔ کیونکہ فطرت کے چاہنے والے فطرت کی لطافت و پاکیزگی، فطرت کے جلال و کمال اور فطرت کے جمال میں اپنے رب کو بہت آسانی سے محسوس کر لیتے ہیں۔

موٹر وے بنانے والوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ اُن کا مسافر کہیں بھی اکتاہٹ، تناؤ یا بے زاری کا شکار نہ ہو۔ چاہے میدانوں سے گذر رہا ہو، یا جنگلوں سے، بیابانوں سے یا بستیوں سے، سبزے سے لدی وادیوں سے یاسنگلاخ چٹانوں سے۔ جہاں بھی اُکتاہٹ کا جھونکا آتا ہے وہاں کوئی نہ کوئی منظر دھیمے سے چٹکی کاٹ کر بیدار کر دیتا ہے۔ جوں ہی تھکن کی گرم ہوا چلتی ہے تو کسی انٹر چینج پر بنے قیام و طعام کے مقامات اُسے فوراً سیدھا ہو کر بیٹھنے اور تھکن مٹانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک انٹر چینج ہمارے سامنے بھی تھا۔ ’بھیرہ انٹر چینج ‘ بھیرہ انٹر چینج پہنچ کر ہم اپنی گاڑی کے مکمل چیک اپ کے لئے مکینک کے پاس پہنچے تو جناب مکینک نے اگلے دونوں ویل کھول دئیے۔ موٹر وے کے مکینک بھی موٹر وے کی طرح کچھ مختلف ہیں۔ کم بول کر اور مسکراہٹ کو زبردستی دبا کر اپنے پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ویسے بھی جب مقابلہ میں کوئی نہ ہو تو مزاج میں سختی آ ہی جاتی ہے۔

خیر گاڑی کو اس مکینک کے پاس چھوڑ کر ہم خود بھیرہ انٹر چینج کے طعام کے لوازمات اور یہاں بنے قیام کے مقامات کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے میں مصروف ہو گئے۔ اس انٹر چینج کی عمارت نہ صرف بہت خوبصورت ہے بلکہ کھلی اور ہوا دار بھی ہے۔ اس کا جدید طرز تعمیر اور کھلا پن ہر کسی کو متوجہ کرتا ہے۔

یہاں ہم نے ایک گھنٹہ قیام کیا۔ اس دوران بے شمار گاڑیاں مسافروں کو لے کر آتی اور جاتی رہیں لیکن مجھے کسی بھی لمحے ہجوم یا بد نظمی کا احساس تک نہ ہوا۔ یہاں ہر عمر کے افراد کے لئے لطف اندوزی کے شرعی لوازمات موجود ہیں۔

بھیرہ انٹر چینج پر پہنچے ہیں تو بھیرہ کا ذکر بہت ضروری ہے۔ اس انٹر چینج سے کچھ ہی فاصلے پر بھیرہ شہر موجود ہے۔ جو ہمارا اگلا پڑاؤ تھا۔

٭٭٭

تاریخ کا ابدی مکالمہ

مجھے دشمن سے بھی خود داری کی امید رہتی ہے

کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا

دریائے جہلم کے کنارے بسابھیرہ شہرسرگودھا کی ایک مشہور تحصیل اور اس علاقے کا انتہائی مشہور تاریخی شہر ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہ شہر تاریخ کے صفحات میں غبارِ راہ کی طرح دبا ہوا تھا لیکن موٹر وے بننے کے بعد یہ شہر ہر خاص و عام کی نظروں میں اس طرح آ گیا کہ موٹر وے اور بھیرہ لازم و ملزوم ہو گئے۔ قدیم ادوار میں جب دریائے جہلم اپنے کناروں سے باہر آنے کو ہوتا تو مسافر اس شہر کو جائے پناہ بناتے اور اُس وقت تک رکتے جب تک جہلم انہیں پار جانے کی اجازت نہ دیتا۔ اسکندرِ اعظم یونان سے چلا اور کامیابیوں پہ کامیابیاں حاصل کرتا ہوا دریائے جہلم پہنچا تو یہ دریا اپنی تمام تر طاقتیں لے کر اس عظیم جنگجو کے سامنے سینہ سپر ہو گیا۔ اسکندر کو اپنا خواب پورا کرنے کے لئے ہر صورت آگے بڑھنا تھا۔ لیکن اس کے سامنے دو دشمن کھڑے تھے۔ ایک ٹھاٹھیں مارتا دریا اور دوسرا اُس دریا کے پار ہاتھیوں اور گھوڑوں کی ہمراہی میں، اپنے پورے شباب اور وجاہت کے ساتھ ہند کا مضبوط اور جری بادشاہ پورس۔ دریائے جہلم کے کنارے پڑاؤ کئے ہوئے اسکندر کئی دن صبح سویرے اُٹھ کر دریا کو دیکھتا رہا اور دریا کو مات دینے کی حکمت عملی بناتا رہا۔ جولائی کا مہینہ تھا، بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ دریا کی طغیانی بڑھتی جا رہی تھی۔ سکندر کے ہمراہی سوچ رہے تھے کہ یہ وہ مقام ہے جس سے آگے اسکندر کا بڑھنا نا ممکن ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ مہمات کا شوقین یہ فوجی محض اس علاقہ کے حکمران پورس پر قابو پانے کے بارے میں نہیں سوچ رہا تھا وہ تو یہ سوچ رہا تھا کہ پورس پر قابو پانے کے بعد آگے کہاں تک جانا ہے اور کیسے جانا ہے۔ بقول ہنری فورڈ

’’مقصد کی راہ میں حائل رکاوٹیں اُسے دکھائی دیتی ہیں جن کی نظر اپنے مقصد سے ہٹ جاتی ہے۔‘‘

ایک رات جب بادلوں نے روشنی کے تمام در بند کر دئیے اور آسمان نے اپنے سارے دریاؤں کے منہ کھول دئیے۔ جب زمیں کے دریاؤں کی قوت برداشت جواب دے گئی اور وہ بھی اپنا پانی باہر اُگلنے لگے۔ ندی نالے اور جہلم کے رفیق دریاؤں نے اپنا سارا بوجھ جہلم پر ڈال دیا۔ پھر جہلم بھی جلال میں آ گیا۔ جلال ایسا کہ میلوں تک کا رقبہ ہڑپ کر لیا۔ بڑے بڑے نامی گرامی تیراک بھی جب دریا کا یہ روپ دیکھتے تو انہیں پسینہ آ جاتا لیکن سکندر دریا کے جلال کو شکست دے کر اُس کے جلال سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔

اُس نے لشکر کو بڑھنے کا سندیسہ دیا لیکن لشکر نے لیت و لعل سے کام لیا۔ مگر وہ کہاں رکنے والا تھا اپنے جیسے دیوانوں کا ایک دستہ لیا اور دریا کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ کوئی بیس میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ اس مقام پر پہنچا جسے اُس کے دل اور دماغ نے قبول کر لیا۔ یا شاید یہاں دریا کو غفلت میں پایا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ گھوڑا دریا میں ڈالا ہی تھا کہ دیکھا دیکھی شہر نما لشکر بھی پیچھے چل پڑا۔

راوی لکھتا ہے کہ پانی اُن کے سینوں سے اونچا تھا۔ لیکن وہ چلتے جا رہے تھے۔ عزم اور حوصلہ کے سامنے دریا کہاں ٹھہرتے ہیں۔ دریائے جہلم نے بھی سرِ تسلیم خم کر کے یہ ثابت کر دیا کہ طاقت کا سرچشمہ طاقت نہیں جوش، ولولہ اور مستقل مزاجی ہے۔

صبح کا سورج طلوع ہونے کے لئے بیتاب تھا کہ اسکندر اپنے دشمن پر آسمانی بجلی بن کر ٹوٹ پڑا۔ ایسی تیر اندازی کی کہ دشمن کے ہاتھی اور گھوڑے بوکھلاہٹ میں اپنے ہی ساتھیوں کو روندنے لگے، سپاہی اپنی ہی بنائی ہوئی خندقوں اور دلدلوں میں دھنسنے لگے۔ دونوں اطراف کی افواج کے دستے بکھر بکھر کر جمع ہوتے رہے اور سمٹ سمٹ کر پھیلتے رہے۔

بڑے بڑے سورما تھکن سے چُور ہو گئے، اُن کے دماغ اور جسم میں ہم آہنگی نہ رہی۔ گھوڑے اور ہاتھیوں کے پیروں نے دھرتی کا سینہ زخمی زخمی کر دیا، انسان اور جانور مولی گاجر کی طرح کٹنے لگے۔ ایک طاقت کا امیر جنگوں کے ماہر گھوڑے پر سوار تھا اور دوسری طاقت کا امیر تجربہ کار وفادار اور بہادر ہاتھی پر۔ مگر کبھی کبھی انسان کی طاقت اور اعتماد ہی اُس کا دشمن بن جاتا ہے۔۔ ۔۔ پورس جسے اپنے ہاتھیوں کی طاقت پر ناز تھا وہ طاقت یعنی ہاتھی ہی اُس کی کمزوری بن گئے۔ ماہر تیر انداز اُنہیں دور سے ہی دیکھ سکتے تھے اس لئے وہ کچھ ہی دیر میں یونانی تیر اندازوں کے تیروں سے چھلنی ہو گئے۔

آسمانِ لازوال نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ پورس کا سدھایا ہوا ہاتھی اپنے مالک کا برچھیوں اور تیروں سے لدا جسم دیکھ کر بیٹھ گیا۔ اس کہانی کے مصنف لکھتے ہیں کہ وہ اپنے مالک کے جسم میں پیوستہ برچھیاں بھی اپنی سونڈ سے پکڑ پکڑ کر نکالتا رہا۔ لیکن اس کی تمام تر وفا داری بھی کام نہ آئی۔

طاقت ور حکمران پہاڑوں کی طرح ہوتے ہیں جب گرتے ہیں تو ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ یہ عظیم حکمران خود تو چکنا چور نہ ہوا لیکن اُسے گرا دیکھ کر اُس کی فوج کے حوصلے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ لہو پانی کی طرح بہنے لگا اور لاشوں کے انبار لگ گئے۔ پھر وہ گھڑی بھی آ گئی جب ایک طاقت زیر ہوئی اور دوسری کو فتح نصیب ہوئی۔ یہی وہ موقع ہے جب تاریخ کا ابدی مکالمہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔

ہند کا چھ فٹ سے زیادہ قد و قامت کا حامل سپوت لوہے سے جکڑا، برچھیوں اور تیروں سے کٹا پھٹا، سینہ تانے، چہرے پر سورماؤں کی مخصوص مسکراہٹ کی لڑیاں سجائے اپنے وطن پر حملہ آور دشمن اسکندر کے دربار میں لایا گیا۔ فتوحات، دولت اور زمین کا شوقین، متکبر اور اور فتح کے نشہ میں چُور اسکندر اپنے عارضی تخت پر بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔ آج اُسے سب سے اہم اور مشکل ترین فتح حاصل ہوئی تھی۔

اُس نے سینہ تان کر لبوں پر فتح کی مسکراہٹ سجا کر اپنے قیدی سے پوچھا، ’’بول تیرے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔‘‘ زنجیروں میں جکڑا، زخموں سے چُور، کئی دن کا بھوکاپیاسا پورس کوئی عام شخص تو تھا نہیں جو کہہ دیتا، سائیں معاف کر دیں۔ وہ تو ایک ایسا جنگجو تھا جو اپنا سب کچھ جنگ کی آگ میں جھونک آیا تھا۔ اُس نے اپنے زخمی سینہ کو پھلانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اور لبوں پر نقلی سی مسکراہٹ لا تے ہوئے جواب دیا، ’’وہی سلوک جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے۔‘‘

یہ سنتے ہی اس عظیم جنگجو کی پلکیں جھک گئیں۔ شاید وہ شرم سے زمین میں گڑ گیا ہو گا۔ میں نے بہت کوشش کی تھی کہ میں یہ واقعہ نہ لکھوں لیکن جب میں بھیرہ کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجبور ہو جاتا ہوں۔ یہاں اسکندر کا قیام اس شہر کے قیام کی وجہ بنا یا اسکندر کا باقاعدہ حکم۔ بھیرہ شہر وجود میں آ گیا۔ اگر پہلے سے موجود تھا تو تاریخ کے کم از کم ایک صفحہ کا تو حقدار ہو گیا۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اسکندر سے بہت پہلے یہاں کوئی چھوٹا سا شہر موجود ہو۔ کیونکہ ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ 447 قبل مسیح میں کیدر نام کے ایک راجہ نے حملہ کر کے یہاں قبضہ کیا تھا۔ اسی طرح اس شہر کا ذکر آریاؤں کی ویدوں اور یونانی تاریخ میں بھی موجود ہے۔

یونانی تاریخ دانوں نے بھی بھیرہ کو ہی وہ مقام قرار دیا ہے جہاں سے اسکندر نے 326 قبل از مسیح میں دریائے جہلم کو پار کیا تھا۔

چینی سیاح فیکسین (Faxian) کے بھی یہاں رکنے کے آثار ملتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وہ مقام نہیں جہاں سے اسکندر نے دریا عبور کیا تھا۔ میں تو اپنی عقل کے مطابق اتنا ہی کہوں گا کہ اسکندر سے مراد ایک فرد نہیں اسکندر سے مراد ایک لشکر ہے اور ایک لشکر فلموں میں دکھایا جانے ولا چند ہزار افراد کا لشکر نہیں بلکہ ایسا لشکر ہے جس میں کئی شہر شامل ہوتے تھے، جس میں آٹا پیسنے والی چکی سے لے کر سوئی تک موجود ہوتی تھی۔ جب یہ لشکر چلتا ہو گا تو کہاں اس کا منہ ہوتا ہو گا اور کہاں دُم۔ کس بستی میں یہ طبل جنگ بجاتا ہو گا اور کس بستی میں صفِ ماتم بچھتی ہو گی۔ اس لئے چند میل کا فاصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اسی جگہ سے کچھ میل دور اسکندر کا ہر دلعزیز گھوڑا بیو سیپھالس موت کی آغوش میں چلا گیا تو اُس نے اس کی یاد میں یہاں ایک شہربسانے کا حکم دیا۔ کہا جاتا ہے کہ آج کا پھالیہ ہی وہ مذکورہ شہر ہے۔ اسکندر کے یونانی سوانح نگار اسکندر کے ایک وفا دار کتے کا بھی ذکر کرتے ہیں جس کی موت اسی کسی علاقہ میں ہوئی وہاں بھی اسکندر نے شہر بسانے کا حکم دیا۔ بادشاہ لوگ بھی بڑے بادشاہ ہوتے ہیں۔ جو ان کی اطاعت میں چلا جاتا ہے بس امر ہو جاتا ہے۔ چاہے جہانگیر کا ہرن ہو یا سکندر کا گھوڑا، کسی کی ملکہ ہو یا وزیر۔۔ اور جس نے اطاعت نامہ ماننے سے انکار کر دیا وہ باغی بنا کر تہہ تیغ کر دیا جاتا ہے۔۔ ۔ کہیں بستے شہر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دئیے جاتے ہیں اور کہیں راکھ کے ڈھیر پر نئے شہر بسا دئیے جاتے ہیں۔ کون سا باپ کا مال ہے جس طرح دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے اُسی طرح دونوں ہاتھوں سے لٹایا جاتا ہے۔ یہ کسی ایک دور کی بات نہیں یہ قصہ توہر دور میں دہرایا جاتا ہے۔

٭٭٭

بے خوف شہر

کتنا وہ قاتل ہے بے خوف و خطر

تیغ خون آلودہ دھوتا ہی نہیں

اس گلی میں جس طرح روتا ہوں میں

اس طرح تو کوئی روتا ہی نہیں

(جوش عظیم آبادی)

گاڑی کی خامی دور کر دی گئی تھی ہم بھیرہ کی طرف گامزن تھے۔ گاڑی کے درو بام میں یہ گیت گونج رہا تھا۔

میں تینوں سمجھواں کی، نہ تیرے باجھوں لگدا جی

میں تینوں سمجھواں کی، نہ تیرے باجھوں لگدا جی

ہم انٹر چینج کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی سڑک پر مُڑ گئے تھے جو ہمیں بھیرہ شہر لے جانے والی تھی۔ میں نے بھیرہ کے بارے میں تحقیق سے جتنا علم حاصل کیا تھا وہ سارے کا ساراعلم مجھے شدید بے چین کئے ہوئے تھا۔ لگتا تھا جیسے غبارے میں کچھ زیادہ ہی ہوا بھر دی گئی ہو۔ ایک عجیب سا تاثر تھا۔۔ ۔۔ ۔ ایک عجیب سا خواب تھا۔ ایک شہر جس کے دروازوں کے باہر چوبدار نیزے لئے کھڑے ہوں گے۔ مرکزی دروازے کے اندر سے خوبصورت کنیزیں زرق برق لباس پہنے برآمد ہوں گی اور ہمارے ہاتھوں کو بوسہ دیں گی۔ عطر میں رچے بسے ان کے جسموں کی خوشبو ہماری تھکن اُتارنے کا باعث ہو گی۔ وہ آنکھوں اور ابروؤں کے اشاروں سے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ہمیں بادشاہ کی خدمت میں پیش کریں گی۔ ہم بادشاہ کو اتناپسند آ جائیں گے کہ روسائے شہر سے ہمارا تعارف کروایا جائے گا۔ ہمیں خلعتِ شاہی عطا کی جائے گی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اگر۔۔ ۔۔ ۔۔ ہم بادشاہ کو پسند نہ آئے تو پھر شہر کے مرکزی دروازے کی چھت ہماری آخری منزل ہو گی۔ اپنے ارد گرد نیزہ بردار، توانا نوجوانوں کا سوچ کر میری تو جان ہی نکل گئی۔ شکر ہے میں اُس دور کا مسافر نہیں۔ مسافر بیچارے کو تو سفر کی صعوبت نے ہی بیچارہ بنا دیا ہوتا ہے اوپر سے اُس کی جان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جائیں تو کون کرے ایسا سفر۔

ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے

جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے

فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے

(فیض احمد فیض)

میں اگرچہ حقیقت کی دنیا میں واپس آ گیا تھا لیکن پھر بھی میرا اندر کاغذی معلومات کو حقیقت کے روپ میں دیکھنے کے لئے بیتاب تھا۔

تاریخ نے بھیرہ کو کئی نام دئیے۔ کسی نے اسے جوبناتھ نگر کہا جاتا تھا۔ بعضے نے اسے بے راہ کہا، یعنی جہاں لوگ بھٹک جائیں۔ اور پھر حتمی طور پر اس شہر کا نام بھیرہ مشہور ہو گیا۔ موجودہ نام بھیرہ سنسکرت زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے، ایک ’بھے‘ اور دوسرا ’ہرا ‘۔ جس کا مطلب ہے، ’’ایسا مقام جہاں خوف کی کوئی گنجائش نہ ہو۔‘‘ اس نام کی وجہ اس شہر کی جغرافیائی حیثیت بھی تھی۔ ایک طرف دریا اور دوسری طرف گھنے جنگلات اس کے قدرتی حصار تھے۔ لیکن اس کے باوجود یہ شہر لُٹتا رہا۔ اسکندر کے زمانے کا شہر دریائے جہلم کی دائیں جانب تھا۔ یہ شہر وقت کی بے قدری کا ساتھ نہ دے سکا، جھگڑوں اور لشکروں کے حملوں کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا۔ چونکہ ہر حملہ آور جہلم پر آتے ہی لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتا۔ اس لئے مکینِ شہر شہر خالی کر کے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے۔ جو گھروں کے پیار میں وہاں سے نہ جاتے قتل کر دئیے جاتے۔ یوں برس ہا برس گزرتے گئے اور یہ شہر لُٹتا رہا، بستا رہا اور مٹتا رہا۔

مسلمانوں کی آمد کے وقت یہ شہر سرزمین نمک کا حصہ سمجھا جاتا تھا جو کشمیر کے پاس تھی۔ بابر جب اس علاقہ میں آیا تو یہ شہر مغلائی تسلط میں چلا گیا۔ 1540 میں شیر شاہ سُوری نے اس مقام کی افادیت اور بھیرہ کی کسمپرسی کا ادراک کرتے ہوئے یہاں ایک نیا شہر تعمیر کرنے کا حکم دیا لیکن دریا کے دوسری طرف تاکہ بیرونی حملہ آوروں کو شہر پہنچنے سے پہلے دریا کی تُند و تیز لہروں کا مقابلہ کرنا پڑے۔ یاد رہے کہ اُس وقت کے دریا اس طرح خشک اور بے زار نہیں ہوا کرتے تھے۔ جس طرح کے آج ہیں۔ نہ ہی اُن کا پانی ڈیموں اور بندوں کی قید میں پڑا بلکتا تھا۔ اس لئے اُن آزاد اور جوشیلے دریاؤں کا سامنا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ چونکہ شیر شاہ سوری نے اس شہر کی تعمیر و آرائش میں بذاتِ خود دلچسپی لی تھی اس لئے ایک شاہکار شہر وجود میں آ گیا۔ اسی شاہکار شہر میں جامع مسجد کی صورت میں ایک اور شاہکار بنایا گیا جسے دیکھنے کی چاہ میں ہم رواں دواں تھے۔

سڑک کی دونوں طرف گرمی سے نڈھال کھیت ماضی کی داستانیں سنانے کے لئے بے چین و بے قرار تھے۔

ہم اپنی گاڑی میں دبکے بیٹھے سڑک پر نظریں جمائے ہوئے تھے کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ سب سے پہلے آپ کو شیر شاہ سُوری کی بنائی مسجد دکھائی دے گی۔

کچھ کھیتوں اور کچھ اینٹوں کے بھٹوں کی یادیں سمیٹتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہے۔

منزل پر پہنچ کر بھی ہم بے منزل تھے۔ منزل سامنے تھی لیکن راہ گذر دھندلی تھی۔ بلکہ ہماری راہگزر پر کئی اور راستے چڑھ دوڑے تھے ہم اُس کے قریب ہوتے ہوئے بھی اُس سے دور تھے۔

ایک سڑک دائیں مڑ رہی تھی اور ایک بائیں اور سامنے اسکول تھا۔ بائیں طرف کھیتوں کے پار شیر شاہ سُوری کی مسجد کی دیوار دکھائی دے رہی تھی لیکن راستہ موجود نہ تھا۔

ہماری بائیں جانب جو سڑک جا رہی تھی وہ اتنی تنگ تھی کہ لگتا تھا کہ وہ کسی محلہ میں جا رہی ہو۔ اتنی مشہور اور اہم مسجد کی مرکزی سڑک اتنی تنگ نہیں ہو سکتی۔ یہی وہ بھول تھی جس کی وجہ سے ہم مسجد کے مینار اور پچھلا حصہ واضح طور پر دیکھنے کے باوجود اس کے مرکزی دروازے تک نہیں پہنچ پا رہے تھے۔

خیر! ہم مجبور تھے اس لئے بائیں جانب ہی مڑ گئے۔ اصولی طور پر مسجد کا مرکزی دروازہ ہمارے بائیں جانب ہی آنا چاہئے تھا لیکن جوں ہی ہم آگے بڑھے تو تنگ سی گلیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

بڑے بزرگ کہتے ہیں جب راستے آپس میں ملنے لگیں تو ایسے موقع پر کسی سے مشورہ کر لینا چاہئے۔ چنانچہ میں بھی گاڑی سے اُتر کر کچھ ہی دور پکوڑوں کی ایک ریڑھی پر چلا گیا۔ جہاں گرمی کا مارا ایک شخص اپنی ساری محرومیوں کا غصہ سگریٹ پر اُتار رہا تھا۔ اس کا کش اتنا لمبا تھا کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سگریٹ کا دھواں اُس کے پیروں کی ایڑیوں کو چھو رہا ہو گا۔ وہ شریف اور مہمان نواز مجھے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا اور میری بات اطمینان سے سننے کے بعد تیل اور بیسن کے نقش و نگار سے مزین کپڑے کے ایک ٹکڑے پر اپنے چہرے کا سارا پسینہ منتقل کرتے ہوئے سرگودھا کی مخصوص پنجابی میں گویا ہوا۔ جس کا مطلب تھا، ’’آپ بہت آ گے آ گئے ہیں مسجد پیچھے رہ گئی ہے، جہاں سے سڑک کی پہلی گلی اندر جاتی ہے وہاں سے اندر جائیں تو مسجد کا دروازہ ملے گا۔‘‘

وہ بھی بھانپ گیا تھا کہ میں اجنبی ہوں اور اس کی زبان اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے وہ اپنی طرف سے اپنی زبان کو بہت آسان کر کے بول رہا تھا۔ مجھے اتنی سی معلومات کی منتقلی کے دوران وہ جسم کے ہر حصہ کو کھ  جا چکا تھایاپسینہ صاف کر چکا تھا۔ پتہ نہیں اُس کے پکوڑے دن میں کتنے لٹر پسینہ پی کر وجود میں آتے ہوں گے۔ ان پکوڑوں کے عشاق یہی کہتے ہوں گے، ’’بھئی پتہ نہیں کیا ڈالتا ہے جو یہ پکوڑے اتنے مزے کے ہوتے ہیں۔‘‘ اور کچھ ہم جیسے ہوں گے جو ان پکوڑوں کی ’خوش مزگی ‘ کے پیچھے تاریخی ہاتھ تلاش کرنے میں لگ جاتے ہوں گے۔

’’باپ داداؤں کی ترکیب ہے۔۔ ۔۔ اس لئے تو بتاتا نہیں کہ ان میں کون کون سے مصالحے ڈالتا ہے۔‘‘ پکوڑوں کی خوشبو اندر اُتری تو میں نے اس واضح تضاد کی وجہ سے پکوڑوں کی طرف اس طرح دیکھا جیسے کوئی نوجوان پہلی دفعہ کسی ایسی دوشیزہ کو دیکھتا ہے جو اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی ہو۔ میں نوجوان تو تھا نہیں جو اس دوشیزہ کی پیش کش قبول کر لیتا۔ مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور اچھوں کی طرح اُس کے پکوڑوں کی پیش کش رد کرتے ہوئے گاڑی کو واپس مڑنے کا اشارہ کرنے لگا۔ میں خود پیدل ہی مذکورہ گلی کی طرف چل پڑا۔ گلی میں پہنچا تو لگا کہ جیسے لاہور کے اندرون شہر کی آج سے کوئی تیس سال پرانی گلی میں آ گیا ہوں۔ گلی اتنی ہی چوڑی تھی کہ ایک وقت میں ایک ہی گاڑی اندر جا سکتی تھی۔ ایک طرف سیمنٹ سے بنی دیوار اور لوہے کا گیٹ۔ دوسری طرف پرانی اینٹوں کی دیوار جس کے پیچھے ایک سے زیادہ نیم اور کیکر کے درخت تھے جو آسمان کی حشر سامانی اور زمین کی بے بسی کے درمیان چھتری بن کر کھڑے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس گلی میں داخل ہوتے ہی ہمیں اطمینان کا ایک خوش گوار سا احساس ہونے لگا۔

سڑک چھوٹی اور بڑی دونوں قسم کی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی اور درمیان میں موہنجوداڑو طرز کی ایک لمبی مگر صاف نالی کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہاں صفائی کا معقول انتظام موجود ہے۔

ہم پیدل چلتے ہوئے اپنی منزل کے مرکزی دروازے کی جانب بڑھنے لگے جو یہیں کہیں کسی کونے یا موڑ میں چھپا ہوا تھا۔

٭٭٭

شاہکار شہر میں شاہکار

مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ

سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ

کاغذ کی کترنوں کو بھی کہتے ہیں لوگ پھول

رنگوں کا اعتبار ہی کیا سونگھ کے بھی دیکھ

عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر

دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

(شکیب جلالی)

ہم گلی میں کوئی ایک منٹ کی مسافت تک گئے ہوں گے کہ ہمیں بائیں طرف ایک چھوٹا سا صحن اور دائیں طرف مسجد کا مرکزی دروازہ دکھائی دیا۔ صحن کی بائیں جانب کچی دیوار کے ساتھ نیم اور کیکر کے سایہ تلے دو چارپائیوں پر تین مولانا لیٹے باتوں میں مصروف تھے۔ ہمیں دیکھ کر کچھ سُکڑ گئے۔ اُن کا سکڑنا ہی ہمارا استقبال تھا۔

انہیں دیکھ کر مجھے فوراً یہ احساس ہوا کہ پتہ نہیں یہاں عورتوں کو جانے اور فوٹو گرافی کی اجازت ہو گی یا نہیں۔ لیکن میرا وہم محض خدشہ نکلا جب ہم مرکزی دروازے کے اندر داخل ہوئے تو ہمیں دیواروں پر آراستہ کچھ تصاویر نے خوش آ مدید کہا۔ مسجد کے اندر داخل ہوئے تو سرنگ نما کھلی اور ٹھنڈی ڈیوڑھی ملی جس میں چار دروازے تھے۔ ایک میں دفتر دوسرے میں عجائب گھر اور باقیوں پر تالا پڑا تھا۔ ہم عجائب گھر میں داخل ہوئے تو ہم نے اپنے ذوق کی تسکین کا کافی سامان موجود پایا۔ ا یک دیوار پر ایک بڑا سا فریم آویزاں تھا جس میں بھیرہ کی مختصر تاریخ درج تھی۔ یہاں بھیرا کے بارے میں انگریزی میں لکھا ہوا ایک بہت بڑا پوسٹر بھی موجود تھا۔ جو اس شہر کی نمایاں خصوصیات کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا تھا۔ ایک الماری تھی جس میں پرانے برتن اور کپڑے رکھے گئے تھے جن پر رہنمائی کے لئے اشارات بھی رقم تھے۔ لیکن یہ اشیا اپنے دور کے بارے میں بتانے سے گریزاں تھیں۔ ایک الماری کے اوپر موجود ایک نقارہ اپنی بے چارگی اور کسمپرسی کا اظہار کر رہا تھا۔ جب میں بچوں کو نقارہ کے استعمال کے مواقع کے بارے میں بتا رہا تھا تو مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے نقارہ مجھ سے کہہ رہا ہو کہ بس یہ آخری نسل ہو گی جو مجھے دیکھ رہی ہے باقی تو میری تصاویر ہی دیکھ کر گذارا کیا کریں گے۔ دوسری طرف میں اپنے قرطاس ذہن پر وہ منظر بھی دیکھ رہا تھا کہ ایک شخص نقارہ بجا رہا ہے اور شہر کے لوگ بھاگتے ہوئے مسجد کی طرف آ رہے ہیں۔ روزہ کھلنے کا وقت ہو گیا ہے۔ آج بادشاہ کا اہم فرمان بھی سنایا جانا ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے سارا شہر مسجد کی طرف بھاگا چلا آ رہا ہے۔ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر یہ نقارہ ختم ہو گیا تو آنے والی نسلوں کو اس شعر کی کس طرح سمجھ آئے گی۔

عزیزو! اس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو

یہ عمرِ رفتہ کی اپنی صدائے پا سمجھو

بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو

زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

پھر میرے دماغ نے خود ہی جواب دیا کہ آج کی نسل کو کون سا اس شعر کا مطلب سمجھ آیا ہے جو آنے والی نسل کو سمجھ آ جائے گا۔ آج کی نسل نے اس شعر سے کیا سیکھ لیا ہے جو آنے والی نسل نہ سیکھ سکے گی۔

ایک اور چیز قابلِ توجہ تھی، چھت پر ٹنگا ہوا ہاتھ سے چلانے والا بڑا سا پنکھا۔۔ ۔۔ پنکھیا نما۔ اس پنکھے نے چوڑائی میں کمرے کی چھت کو گھیر رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ایک رسی بندھی تھی اس رسی کو کھینچ کر اس پنکھے کو ہلاتے تو ہوا پورے کمرے میں پہنچتی تھی۔ یہ پنکھا اپنے دور کا عکاس تو تھا ہی ساتھ ساتھ یہ بھی بتا رہا تھا کہ کل بھی اسی طرح گرمی پڑا کرتی تھی جس طرح آج حشر برپا کرتی ہے۔ قفل بند ایک الماری میں کچھ کتابوں کے مخطوطات تھے۔ جو غیر معروف بھی تھے اور جنہیں پڑھنا بھی خاصا مشکل تھا۔ کل کے کسی عہد کا ایک صندوق بھی ایک کونے میں رکھا گیا تھا جس کی ترکیب اور بناوٹ کمال تھی۔ لکڑی کے ٹکڑوں کو کاٹ کر ڈیزائن بنایا گیا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ یہ تھا تو ایک صندوق لیکن بوقتِ ضرورت میز کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔

مسجد کے اندر داخل ہوئے توسامنے سفید رنگ کی پُر وجاہت مسجد سفید گلاب کی طرح مسکرا رہی تھی۔ جس میں پاکیزگی، مسکراہٹ، شگفتگی، جمال، کمال اور شان سب کچھ واضح تھا۔ عمارتیں اپنے بنانے والوں کے مزاج، فطرت، کردار اور طبیعت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ یہ مسجد اُس کے بنانے والے کے شگفتہ مزاج، عوام کے لئے ہمدردو مونس طبیعت اور محنتی کردار کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ اس کا وسیع صحن اس کے بنانے والے کی وسعت نظر کا غماز ہے۔ اس کے چاروں اطراف متوازن اونچائی کے حامل، اسلامی فنِ تعمیر کے عین مطابق بنائے گئے چاروں مینار اس کا تصور دیکھنے والے کے کردار کی بلندی اور پاکیزگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسجد کے سامنے صحن کے وسط میں وضو کے لئے ایک تالاب بنا یا گیا ہے جس کی دونوں جانب ایک ایک بارہ دری بھی بنائی گئی ہے۔ مسجد کے اندر نماز کے لئے ایک وسیع و عریض اور لمبا ہال موجود ہے۔ جس میں تین گنبد ہیں جن کی اندرونی چھت پر خوبصورت گُل کاری اور نقاشی کے آثار موجود ہیں۔ ان آثار کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُس دور کے مزدور اپنے کام میں کتنے ماہر، مشاق اور محنتی تھے۔ لیکن افسوس کہ اُس شاہ کا نام تو اس مسجد میں جگہ جگہ لکھا ہوا تھا۔ جس نے عوام کے پیسے کو استعمال کر کے مسجد بنانے کا حکم دیا لیکن کسی مزدور کے نام کا نام و نشان نہ تھا۔ مزدور چاہے میرے دور کا ہو یا اُس دور کا پیدا ہی اپنا پسینہ بیچنے کے لئے ہوتا ہے۔

اس گنبد کی بے چارگی، شکستگی اور بدحالی کو دیکھ کر اربابِ اختیار کی بے حسی سامنے آتی ہے۔ جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا پلستر یہاں آنے والے صاحبانِ ثروت کی روحوں میں رچی بسی بے حسی کی گواہی دیتا ہے۔ بقول امجد اسلام امجد

کچھ ایسی بے حسی کی دھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں

ہماری صورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں

اور بقول زیب غوری

بے حسی پہ مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے

میں بھی چُپ تھا کہ چلوسینے میں خنجر ہی تو ہے

بات گنبد کی ہو رہی تھی جس کے نیچے کئی دروازوں کا حامل ایک وسیع ہال ہے جس کے کئی دروازے ہیں۔ اس ہال کی دیواروں کو بھی دو نمبر پینٹ سے ڈھکا ہوا تھا۔ دکھ تو یہ تھا کہ یہ

پینٹ بھی اکھڑا ہوا تھا۔ ہوا کے لئے حد سے زیادہ چوڑے دریچے ہیں جن کی صفائی شاید گزشتہ کسی عید پر ہی کی گئی تھی۔ شیر شاہ سُوری نے یہ مسجد بنانے کے لئے شاید اسی علاقہ کے لوگوں کا زر اور محنت ہی استعمال کی ہو گی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُس نے اس مسجد کی صورت میں اس زمین پر بسنے والوں کی خدمت میں ایک عظیم شاہکار پیش کیا تھا۔ اس مسجد کا کونہ کونہ اُس بادشاہ کی لگن اور شوق کا گواہ ہے۔ لیکن افسوس کہ اس کا شوق اس مسجد کی حالتِ زار کو دیکھ کر روز جیتا اور روز مرتا ہو گا۔ ہم نے شیر شاہ سُوری کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ تو لگا دیا لیکن اس مسجد پر وہ توجہ نہ دے سکے جس کی وہ مستحق تھی۔ مسجد کے صحن سے باہر آئیں تو صحن کے کناروں پر سرخ و سفید لبادہ اوڑھے انتہائی خوبصورت محرابوں کے لمبے سلسلوں کے پیچھے لاتعداد کمرے ہیں جو علمائے کرام و طلبا کے ٹھہرنے اور ترسیل و حصولِ علم کی جگہ ہے۔ مسجد کے اندرونی ہال کی حالت کو دیکھیں اور اس عمارت کو تو یوں لگتا ہے جیسے یہاں کے مکینوں کا واضح ایمان ہے کہ اللہ کے گھر کی حفاظت و تزئین و آرائش کی ذمہ داری اللہ کی اور ہمارے گھروں کی حفاظت اور سجاوٹ کی ذمہ داری ہماری۔ شیر شاہ سُوری کے اس شاہکار کو میلا کرنے میں سب سے زیادہ کردار سکھوں کا ہے۔ جن سے حسِ جمالیات اُسی طرح دور تھی جس طرح چنگیز خان سے حسِ تعمیر۔ خوبصورتی، حُسن کی پذیرائی اور تعمیری و تعمیراتی خوبیاں انہیں چھُو کر بھی نہیں گزری تھیں۔ اگر سکھوں کا دور ہماری دھرتی کے بطن سے جنم نہ لیتا تو یہ اور اس طرح کے دیگر شاہکار انمول ہیروں کی مانند بیرونی لوگوں کو اپنے دیدار کے لئے آنے پر مجبور کر دیتے۔ سکھوں نے اگر کوئی اچھے کام کئے تھے تو وہ اپنی جگہ لیکن جو سلوک انہوں نے یہاں کی مسجدوں کے ساتھ کیا شاید ہی کسی اور قوم نے کسی عبادت گاہ کے ساتھ کیا ہو گا، اور شاید ہی یہ دھرتی ان کا یہ جرم کبھی معاف کر سکے۔ مسجد سے نکل کا ہم گاڑی میں بیٹھے اور دوبارہ اسی گلی کی نکڑ پر آ گئے جہاں سے چند گلیاں آگے پکوڑوں والا موجود تھا۔ وہ ہمیں وہاں سے گذرتے ہوئے دیکھ کر انتہائی والہانہ انداز میں بھاگتے ہوئے ہماری طرف آیا ا اور ٹوٹی پھوٹی اردو زبان میں ہم سے پوچھنے لگا کہ ہمیں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور اپنی اگلی منزلوں کی طرف بڑھ گیا۔

یہاں مجھے اردو زبان پر رشک آ رہا تھا کہ پاکستان میں رابطہ کی واحد زبان اردو ہے۔ اگرچہ حکومتوں اور اشرافیہ نے ہندوؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر یہ زبان آج بھی اپنی افادیت کے ساتھ موجود ہے۔ اگرچہ بانی ٔ پاکستان قائد اعظم نے مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں ہونے والے جلسے میں بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا۔ ’’اس صوبے کے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی۔ لیکن میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی، صرف اردو اور اردو کے سوا کوئی زبان نہیں۔ ”

٭٭٭

سکھوں کے امین

اسی اُداس کھنڈر کے اُداس ٹیلے پر

جہاں پڑے ہیں نوکیلے سے سرمئی کنکر

جہاں کی خاک پہ شبنم کے ہار بکھرے ہیں

شفق کی نرم کرن جس پہ جھلملاتی ہے

شکستہ اینٹوں پہ مکڑی کے جال ہیں جس جا

یہیں پہ دل کو نئے درد سے دو چار کیا

(شمیم کرہانی)

وہاں سے کچھ ہی دور ہمارے سامنے بھیرہ شہر کے آٹھ دروازوں میں سے ایک کے آثار دکھائی دے رہے تھے لیکن اس دروازے کو اشتہاروں اور بینروں نے آکٹوپس کی طرح یوں جکڑ رکھا تھا کہ نہ تو وہ اپنی شناخت بتانے کے قابل تھے نہ حیثیت۔ وقت کے بے رحم ہاتھوں نے اس کی کچھ اس طرح عصمت دری کی تھی کہ نہ جمال رہا اور نہ ہی کمال۔ رہی سہی کسر دکانوں، ٹھیلوں اور دورِ جدید کی ایجاد چنکچی نے پوری کر دی تھی۔ یہ چنکچی رکشہ دروازے کے ارد گرد پھیلے ہوئے تھے۔ لگتا تھا کہ اس دروازے کی حفاظت کی ذمہ داری انہی کو سونپی گئی تھی۔ ان میں سے دو چار تو انتہائی جارحانہ انداز میں حملے کے لئے تیار کھڑے تھے۔

میں نے گاڑی سے اُتر کر جونہی دروازے کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو یہ منحوس گھاں گھاں کرتے اس طرح میرے اوپر چڑھ دوڑے جس طرح بسنت کے آزاد دنوں میں ڈھانگے لئے لڑکے کٹی پتنگ پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ اور وہ بیچاری، دکھی، ہواؤں اور مانجے لگی ڈوروں کی ماری اپنا کوئی انگ تڑوانے کے بعد کسی نہ کسی کے ڈھانگے میں اٹکنے میں ہی عافیت جانتی۔

اس دروازے کو دیکھ کر مجھے سکھ یاد آ گئے جنہوں نے ہماری مسجدوں کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کیا تھا کہ فطرت بھی خون کے آنسو روتی رہی۔ لیکن ہم خود اپنی آثارِ قدیمہ کے ساتھ ان سے بھی بدتر رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ گویا ہم سکھوں کے امین ہونے کی ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں۔ جو کام سکھ ادھورا چھوڑ گئے تھے ہم اُسے اُس کے منطقی انجام تک پہچانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ پتہ نہیں ہمارا محکمہ آثارِ قدیمہ کس تہہ خانے میں خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہے یا این جی اوز سے ملنے والی امداد ہضم کرنے کے لئے ہاجمولا چاٹ کر سویا ہوا ہے۔

جب سے پاکستان بنا ہے اگر ذمہ دار افسران اور ادارے چند سو روپے بھی صرف کرتے رہتے تو ہمارے یہ آثارِ قدیمہ اپنی اصل شکل میں موجود ہوتے۔ لیکن شہروں سے حاصل ہونے والی کمائی اور این جی اوز کی طرف سے ملنے والی امداد چند بدکردار افسروں کے پیٹ میں جاتی رہی اور جا رہی ہے۔ میرے ایک دوست نے ان بدکردار لوگوں کے لئے ایک بڑی خوبصورت سزا تجویز کی ہے وہ کہتا ہے کہ ان سب کو پکڑ کر ایک بہت ہی خوبصورت دعوت میں لایا جائے اور خوب کھانا کھلایا جائے۔ جب وہ کھا لیں تو انہیں جلو گھوٹا کھلا دیا جائے۔ اور یہ عمل اس وقت تک دہرایا جائے جب تک یہ کسی فلش میں اوندھے گرے اور مرے ہوئے نہ ملیں۔

ابلیس بے چارے ہی کو بے کار نہ کوسو

انسان کے اندر بھی شیاطین بہت ہیں

بخشش کی صورت انہیں دیتے رہو رشوت

سرکار کے دفتر میں مساکین بہت ہیں

( محشر بدایونی)

خیر اللہ کا احسان تھا کہ مجھے اس دروازے میں جھانکنے کا موقع مل ہی گیا۔ اندر ایک لمبا بازار دکھائی دیا۔ جس کے اندر جا کر واپس آنا جُوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ چنانچہ ہم اس دروازے کے اندر ایک عدد گنجان بازار، ایک ٹرانسفارمر اور دروازے کے ’ادھ پچدھے‘ حصہ کا دیدار کر کے آگے بڑھ گئے۔ انگریز بادشاہ نے ساری مسجدیں اور حویلیاں سکھوں سے واگزار کروا نے کے بعد مسلمانوں کے حوالے کر دی تھیں۔ ان عمارات کی مرمت اور تزئین و آرائش کی خاطر باقاعدہ انجنئیرز بھی لگائے گئے تھے۔ لیکن افسوس کہ جن امرا اور نوابوں کی انگریز صاحبوں کے درباروں تک رسائی تھی انہوں نے اپنی حویلیاں اور محل توسنوار لئے اور عوامی ملکیتیں عوام کی ملکیت میں چھوڑ دیں۔ تم جانو اور تمہارا کام۔

رہی قیامِ پاکستان کے بعد کی صورتِ حال تو وہ تو انگریزی دور سے بھی بدتر رہی ہے۔ اس شہر میں مجھے شیر شاہ سُوری بہت یاد آ رہا تھا۔ اُس نے کسی مینار کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے آنے والے کل کے خواب تو ضرور دیکھے ہوں گے۔ اس نے مینار کے جھروکے سے جھانک کر اچھلتے کودتے، اٹکھیلیاں کرتے کتنے ہی ہرن دیکھے ہوں گے، اس نے مسجد کی طرف آتی نمازیوں کی قطاریں دیکھی تو ہوں گی، اس نے وہ بڑھیا بھی دیکھی ہو گی جو سر پر سونا لاد کر دہلی سے یہاں آئی اور اُسے کسی نے آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا۔ اُس نے سوچا تو ہو گا کہ میں نے یہاں کے رہنے والوں کے لئے اتنا کچھ کر دیا ہے

کہ ان کی نسلیں بھی سکون سے زندگی گزاریں گی۔ جو نہیں کر سکا وہ آنے والی نسلیں کریں گی۔ اُس نے مسجد کے باہر جنگل میں لہلہاتے کھیت اور ان میں ہل چلاتے ہوئے امن پسند لوگ بھی دیکھے ہوں گے۔ وہ یہ سوچ کر سینہ تانے مینار سے نیچے مسجد کے صحن میں آیا ہو گا کہ میرے اس وطن کا مسقبل کتنا تابناک ہے۔ لیکن لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ڈھنڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

انگریزی سرکار نے اس شہر کی حفاظت کی غرض سے اس کی فصیل کے باہر ایک سڑک بنوائی تھی جسے سرکلر روڈ کہا جاتا ہے۔ یہ سڑک کیا ایک گول یا بیضوی دائرہ ہے جس کے اندر شہر موجود ہے۔ ایک طرح سے یہ سڑک شہر کی حدبندی کا کام بھی کرتی ہے۔ آج بھی اس سڑک کی ایک طرف بھیرہ شہر کی پُر شکوہ عمارات اور دوسری طرف لہلہاتے کھیت ایک شاندار منظر پیش کرتے ہیں۔

٭٭٭

سو ملین کی ڈکیتی

فکر دلداریِ گلزار کروں یا نہ کروں

ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں

قصۂ سازشِ اغیار کہوں یا نہ کہوں

شکوۂ یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں

جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہلِ ہوس

مدحِ زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں

ہے فقط مرغِ غزلخواں کہ جسے فکر نہیں

معتدل گرمیِ گفتار کروں یا نہ کروں

(فیض احمد فیض)

میں جب یہ سطریں رقم کر رہا ہوں تو میں فیض احمد فیض سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور سہما ہوا ہوں پتہ نہیں میرے اس احساس اور درد کی دوسرے کیا تعبیر کریں۔ میرے لفظوں کے پیراہن میں سے کون سا باطل یا شیطانی بدن تلاش کر لیں۔ لیکن میں پھر بھی لکھ رہا ہوں کہ شاید کوئی بندۂ خدا میرے اس درد کو محسوس کرے اور کچھ ایسا کر دے کہ ہمارے بڑوں کا سرمایہ بچ جائے اور اُسی شان میں لوٹ آئے جس میں اُس کے معمار نے قائم کیا تھا۔

ہم ایک دروازے کا دیدار کرنے کے بعد سرکلر روڈ پر ہی دوسرے دروازے کی طرف بڑھے تو اس دروازے کو کچھ بہتر حالت میں پایا۔ محکمہ آثارِ قدیمہ نے یہاں کے کسی با اثر شخص کے کہنے پر اسے مرمت کر کے اس کی کچھ شکل و صورت تو نکالی تھی لیکن لوگوں نے اس پر اشتہارات کی بھرمار کر کے اس کی مت مار دی تھی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام اشتہارات عرس، مذہبی محافل اور اکیڈمیز کے تھے۔ یعنی اس دروازے کو جاہلوں یا ان پڑھوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا پڑھے لکھوں سے ہے۔ کچھ پڑھے لکھے ہیں جو ان مقامات کی مرمت و تزئین کے لئے دئیے گئے پیسے کھا جاتے ہیں اور کچھ ان کا چہرہ بگاڑ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک بینک میں ڈاکوؤں نے ڈاکہ ڈال کر رفو چکر ہو گئے۔ ڈاکوؤں کے جانے کے بعد بینک مینجر نے بینک سپروائزر سے پوچھا، ’’حساب لگا کر دیکھو کتنا لے گئے۔‘‘

تھوڑی ہی دیر میں بینک سپروائزر نے بتایا کہ ڈاکو بنک سے دس ملین لوٹ کر لے گئے ہیں۔

بینک مینیجر کو حکم دیا، ’’اس سے پہلے کہ پولیس آ جائے پہلے اپنے 10 ملین نکال لیں۔‘‘ سپر وائزر نے پوچھا، ’’سر آپ پر جو ستر ملین کے غبن کا سچا الزام ہے اگر کہیں تو وہ بھیا سی میں ڈال لوں۔‘‘ مینیجر نے ہاں میں گردن ہلا تے ہوئے جواب دیا، ’’ہاں ہاں ڈال لو جو ڈالنا ہے۔‘‘ شام کو ڈاکو خبر سن رہے تھے کہ بینک میں سو ملین کی ڈکیتی ہو گئی۔ تو بڑے ڈاکو نے سر پیٹتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے آہوں اور ہچکیوں میں کہا،

’’اسی لئے میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیتا ہوں تم میری ایک نہیں سنتے اگر اپنے بڑوں کا پیشہ زندہ رکھنا ہے تو کمبختو اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دلاؤ تاکہ وہ دس ملین کی نہیں سو ملین کی ڈکیتی کریں۔‘‘

گلہ تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا

کہاں سے آئے صدا لا إِلَہَ إِلاَّ اللَہ

٭٭٭

کبھی آتش جوان تھا

ہم نے شہر کے اس دروازے کی تنہائی کو دیکھتے ہوئے اس کے اندر جانے کا فیصلہ کیا تو ہو کا عالم ملا۔ ہمیں لگا کہ اس شہرِ پر اسرار میں گھر تو ہیں مکین نہیں۔ لیکن ان بوسیدہ عمارتوں میں انسانی رہائش کے اثرات اور شواہد کافی واضح تھے۔ شاید یہاں کے لوگ ضرورت کے وقت ہی گھروں سے باہر نکلتے ہوں یا اس وقت اپنے روز مرہ امور کی انجام دہی کے لئے گھروں سے باہر تھے۔ یہاں گھروں کا اندازِ تعمیر مغلوں اور سکھوں کے ادوار کی عمارات سے ملتا جلتا تھا۔ ایک سے زیادہ منازل پر مشتمل یہ گھر اگرچہ مخدوش ہو چکے تھے لیکن ان کا اندازِ تعمیر بتا رہا تھا کہ کبھی آتش جوان تھا۔ ہر گھر کا مرکزی دروازہ آج کل کے جدید کمروں کے دروازوں کے قد کاٹھ جیسا تھا۔ ہر دروازہ سے پہلے ایک چبوترہ بنایا گیا تھا، چبوترہ کے درمیان تین چار سیڑھیاں تھی اور پھر آگے لکڑی سے بنا دروازہ تھا۔ یہ دروازہ ایک محراب میں بنا یا گیا تھا اور دروازہ کے ٹھیک اوپر ایک روشن دان تھا۔ کچھ اسی طرح کا انداز کھڑکیوں کا بھی تھا۔ عمارات چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی تھیں جن پر لکڑی کی چھت بنائی گئی تھی۔ جس طرح آج کل ٹیرس بنائے جاتے ہیں ان گھروں میں بھی لکڑی کے ٹیرس بنائے گئے تھے۔ لکڑی پر انتہائی عمدہ گلکاری ان کی فطرت سے محبت کی عکاس تھی۔ زیادہ تر عمارتوں کو پیلا رنگ کیا گیا تھا۔ عمارتوں کو پیلا رنگ کرنے کی روایت شاید سکھوں کے دور سے چلی آ رہی تھی۔ تین تین تہوں کے اندر بنی ہوئی محرابوں میں کھڑکیاں بنائی گئی تھیں۔ جن پر لکڑی کا خوبصورت کام موجود تھا۔ دیواروں پر رنگین اور دیدہ زیب گُل کاری کے آثار ابھی بھی بہت سی عمارات پر موجود تھے۔ شہر کی سبھی عمارتوں کا اندازِ تعمیر کافی حد تک ایک جیسا تھا۔ لگتا تھا جیسے یہ ساری عمارات ایک ہی وقت میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی تھیں۔ ان عمارات میں سے بہت سی عمارات قیامِ پاکستان کے وقت کی نقل مکانی کی داستانیں بھی بیان کرتی ہیں۔ ہندوؤں اور سکھوں کی بنائی گئی بڑی بڑی حویلیاں جو یہاں کے باسیوں کے ہاتھ لگیں آج بھی رو رو کر اپنے بنانے والوں کے جذبہ اور شوق کو بیان کر رہی تھیں۔ سننے والے کان موجود ہوں تو ان حویلیوں میں قید کہانیاں سنی جا سکتی ہیں۔ میں جب ان عمارتوں کے اصل مکینوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو میری روح تک کانپ اُٹھتی ہے۔

یہاں کہ مکینوں نے اپنے قدم گھر سے باہر کیسے نکالے ہوں گے، نکالے بھی ہوں گے یا وہیں کہیں دفن کر دئیے گئے ہوں گے۔ کتنے ہوں گے جو اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ان سپنوں کے محلات کی درو دیوار کے ساتھ لگ کر روتے رہے ہوں گے، کتنے ہوں گے جنہیں رونے کی بھی مہلت نہ ملی ہو گی اور کتنے ہوں گے جو کسی صحن، کسی دالان یا کسی اندھیرے کنویں میں ابدی نیند سو گئے ہوں گے۔

اُف! جب شہروں پر مصیبت کا آسمان ٹوٹ پڑتا ہے تو دیواریں پناہ نہیں دیتیں، چھتیں سایہ فراہم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہیں اور دالان قبرستان بن جاتے ہیں۔ کنویں عصمتوں کے رکھوالے بن جاتے ہیں۔ ان حویلیوں کو بٹنے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ آج یہ بٹتے بٹتے کمروں کی حد تک رہ گئی ہیں لیکن ابھی بھی ان کا جی نہیں بھرا مزید بٹ رہی ہیں۔ لوگوں نے اپنی ضرورت کے مطابق ان میں تبدیلیاں کر لی ہے۔ لیکن ان کی مرمت آرائش اور زیبائش کی طرف توجہ نہیں دی۔

بھیرہ کے اندرون شہر کی جتنی عمارات میں نے دیکھیں ان سب کے رکھ رکھاؤ سے یہ واضح ہو رہا تھا کہ ان میں سے بہت سی ان کے مکینوں نے تعمیر نہیں کیں ورنہ وہ انہیں اپنی وراثت سمجھتے ہوئے ان کی قدر کرتے اور اس ورثہ کو سنبھال کر رکھتے۔ بے قدری اس قدر ہے کہ اگر کسی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا تو وہاں گتہ لگا لیا گیا اور اگر گتہ ٹوٹ گیا تو دوسرا گتہ بھی لگانے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔ گتوں کے بوسیدہ ٹکڑے مکینوں کی کاہلی اور سستی یا حد سے بڑھی مصروفیت کا رونا رو رہے ہیں۔ دنیا کا اعلیٰ ترین لکڑی کا کام اس بے دردی سے خراب ہو رہا ہے کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔

میں ایک عمارت کے قریب رک کر اس کی بربادی کی وجوہات تلاش کرتا رہا، غربت، جہالت یا کم علمی۔ لیکن مجھے اس کی وجہ سوائے سستی اور کاہلی کے کچھ بھی سمجھ نہ آئی۔

٭٭٭

مندر جو بستا ہے۔

میں تجھے ڈھونڈنے نکلا گھر سے

اور اپنا ہی پتہ بھول گیا

اب نہ وہ تو ہے نہ میں

نہ وہ راستہ ہے نہ پیڑ

نہ وہ مندر ہے

نہ کٹیا

نہ چراغ

اب نہ وہ تُو ہے نہ میں

اور وہ لوگ کہاں کیسے ہیں

میں جنہیں بھول کے خوش ہوں

جو مجھے یاد بھی آئیں

کیسی دیوار ہے یہ نیم فراموشی کی

آؤ دیوار گرائیں

(مصحف اقبال توصیفی)

یہاں ایک مندر کا ذکر ضرور کروں گا۔ جسے اپنے زمانے میں بنانے والوں نے بہت دل لگا کر بنایا ہو گا، قیمتی پتھر، قیمتی اور اعلیٰ طرزِ تعمیر، اور اعلیٰ آرائش و زیبائش۔ لیکن یہ مندر نہ صرف بند پڑا ہے بلکہ گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ مانا کہ یہ اب عبادت گاہ نہیں، مانا کہ اس کے مکین یہاں نہیں رہے لیکن کیا یہ عمارت عہدِ رفتہ کی ایک بوسیدہ کہانی سے بھی کم حیثیت نہیں رکھتی۔ کیا یہ عمارت ہمیں یہاں کے رہنے والوں کے علم، ذوق اور ہنر کی بابت کچھ بھی علم مہیا نہیں کرتی۔ کیا یہ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ ہمارے گزرے کل کے لوگ کتنے ہنر مند اور خوبصورتی سے پیار کرنے والے تھے۔

اس مندر کی گھنٹیاں خاموش تھیں۔ سننے والوں کو سسکیاں سنائی دیتی تھیں۔ یہ سسکیاں اس وجہ سے نہیں تھیں کہ اس عمارت کی گھنٹیاں خاموش تھیں۔ اس کی وجہ کچھ اور تھی۔ کوئی بھی عمارت بس عمارت ہوتی ہے۔ وہاں جو آ گیا وہ اُسی کی ہو گئی۔ آنے والے کا جو نظریہ یا فکر ہوئی اُس نے وہ اختیار کر لی۔ کیا اس مندر کو عمارت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔۔ کیا اس مندر کو ایک لائبریری بھی نہیں بنایا جا سکتا۔۔ کیا اس ’مرکز کفر‘ کو دھو دھا کر، پاک صاف کر کے اس میں اسکول نہیں بنا یا جا سکتا۔ کیا یہ کسی بے گھر کے سر چھپانے کی جگہ بننے کی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔۔ ۔۔

ہاں شاید نہیں رکھتا تھا جبھی تو اس کی بے قفل جگہ اور اس سے ملحقہ باغ نشہ کرنے والوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔

میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ میری نظریں مندر کے اوپر بنے تاج کی سنہری پتیوں، مٹیالے رنگ کے پتھر پر بنائی گئی سبز پتیوں اور سرخ پھولوں پر جا کر جم گئیں۔ مجھے اپنے قرطاسِ ذہن پر اس مندر کی عمارت کے اندر بیٹھے ہوئے بچے کتب بینی میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔ ایک شخص سیڑھی لگا کر اس تاج کو صاف کر رہا تھا۔ پانچ چھ بچے اس لائبریری سے ملحقہ باغ میں کھیل رہے تھے، کچھ ایک کونے میں بیٹھے اسکول کا کام کر رہے تھے۔ ایک بابا جی بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ ایک شخص ہنس ہنس کر فون پر باتیں کر رہا تھا۔

لیکن اچانک اس مندر کے قفل شدہ دروازہ کے بالکل سامنے نسل در نسل سنبھال کر رکھے گندگی کے ڈھیر سے اُٹھنے والے تعفن نے مجھے مستقبل کے خوبصورت خواب سے باہر آنے پر مجبور کر دیا۔ میں یہ سوچتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا کہ ہمارے صاحبانِ اقتدار و اختیار کو ایسے خواب کیوں نہیں آتے۔ کیا ایسی سوچیں میرے حاکم اور میرے منتظم شہر کے اذہان پرکیوں دستک نہیں دیتیں۔ جہاں تک اس شہر کا تعلق ہے تو کیا اس شہر کے باسیوں کو کسی نئے شہر میں منتقل کر کے اس شہر کو محفوظ نہیں کیا جا سکتا۔ یوں یہ شہر اس کے باسیوں کے لئے آمدن کا ایک معقول ذریعہ بھی بن سکتا ہے اور عہدِ رفتہ کی ایک خوبصورت یاد گار بھی۔

اس شہر کہ آٹھ دروازوں میں سے کچھ کو وقت کا اژدہا چاٹ چکا ہے۔ جو موجود تھے ان میں سے چند ہم نے دیکھے، ایک دو جگہ اس شہر کی فصیل بھی دیکھی اور اس قیمتی وراثت کی حالتِ زار پر خون کے آنسو بہاتے ہوئے اس شہر پارینہ سے باہر آ گئے۔

کھانا کھانے کی غرض سے ایک ہوٹل کو عارضی قیام گاہ بنا کر وہاں بیٹھ گئے۔ میری مسز پسینہ پونچھنے لگیں اور بچے ٹیب اور سیل فون سے کھیلنے لگے۔ عابد کو ایک کونے میں رکھا چھوٹا ساٹی وی مل گیا اور وہ خبریں سن کر اپنی تھکان اُتارنے لگا۔ اس چھوٹے سے ہوٹل کا مالک سانوالا ساجوان لڑکا تھا جو اپنے صاف ستھرے بھورے کڑھائی والے کرتا شلوار، اُٹھنے بیٹھنے اور بول چال سے پڑھا لکھا لگ رہا تھا۔ میں نے اُس سے اِس شہر کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس نے یکسر لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد میرے پاس آ کر اپنی چھوٹی سی سیاہ داڑھی کو کان کے پاس سے کھجاتے ہوئے بولا، ’’سر جی ! یہاں ایک مسجد ہے جس میں ایک ایسی سرنگ ہے جو دریائے جہلم کے پار جاتی ہے۔ ادھر سر جی ایک گھر بھی ہے جس پر پہرا ہے۔ لوگوں نے وہاں رونے کی اور ہنسنے کی آوازیں بھی سنی ہیں۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ وہاں چڑیلیں رہتی ہیں۔‘‘

میں نے سوچا یار ہم تو پریوں سے ملاقات کا ہدف لے کر نکلے تھے اور یہ صاحب ہمیں چڑیلیں دکھا رہے ہیں۔ میں حیران تھا کہ یہ وہ شہر ہے جس کے فن کار باقاعدہ ایک امتحان پاس کرنے کے بعد برمنگھم پیلس پر کام کرنے کے لئے گئے اور ایسا کام کیا کہ آج بھی لوگ ان کے ہنر کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ لیکن آج اُن کا کوئی وارث موجود نہیں۔

دکھ تو یہ تھا کہ یہاں کے لوگوں کو شیعہ سنی مسئلوں کا بہت پتہ تھا۔ جب میں نے پرانے اخبارات دیکھے تو پتہ چلا کہ یہاں یہ مسئلہ کافی شدت سے موجود تھا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ یہ شہر ہمیشہ حملہ آوروں کے زیرِ عتاب رہا۔ اپنوں کے ہاتھوں بھی یہ شہر تاراج ہوتا رہا۔ اس لحاظ سے اس شہر کے لوگوں کو تو آزادی کی زیادہ قدر ہونی چاہئے۔ اس چھوٹے سے شہر کو ایک مثالی شہر ہونا چاہئے۔ ہمارے نصاب میں اس شہر کی تاریخ کا مطالعہ شامل ہونا چاہئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم ادوار سے عمومی طور پر اور اسلامی ادوار میں خصوصی طور پر یہ شہر علم و ادب کی آماجگاہ رہا ہے۔ لوگ دور دور سے یہاں علم کے حصول کے لئے آتے۔ اس شہر سے جسٹس پیر کرم شاہ، جے سی آنند، احسان الحق پراچہ جیسی کئی اہم شخصیات نے جنم لیا۔ آج بھی یہاں کئی اسکول کالجز موجود ہیں۔ یہاں کے لوگ بزرگوں اور اولیائے کرام سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ جن کے گدی نشینوں کے آستانے جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اس علاقہ کے لوگوں کا رہن سہن، خوراک اور لباس ویسا ہی ہے جو پنجاب کے دیگر شہروں کے لوگوں کا ہے۔ البتہ یہاں جو زبان بولی جاتی ہے وہ پنجابی اور پوٹھواری کا خوبصورت ملاپ ہے۔

شیکسپئیر نے کہیں کسی جگہ کے حوالے سے کہا تھا۔

I like this place and could willingly waste my time in it.

میں نے اس شہر سے بہت کچھ سیکھا۔ اگر مجھے یہاں دوبارہ آنے کا موقع ملا تو میں یہاں رہ کر اس کے بارے میں مزید بہت کچھ لکھ سکوں گا۔ میں یہ بھی چاہوں گا کہ لوگ بھیرہ انٹر چینج تک ہی محدود نہ رہیں۔ اندر شہر میں بھی جائیں، خاص طور پر بچوں کو تو یہاں ضرور لے کر جانا چاہئے۔ شاید اس طرح کبھی کسی شاہ کو اس عظیم اور قیمتی شہر کو محفوظ کرنے کا خیال بھی آ جائے۔

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر

دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

(شاد عظیم آبادی)

٭٭٭

محبت کی غلامی

میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی

میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری

روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو

کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری

(محسن بھوپالی)

ہم اس ہوٹل سے تھوڑا سا کھانا کھا کر نکلے، یہاں کی سوغات پھینیونیاں، مہندی اور پتیسہ خرید کر اپنی اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہو گئے۔ چونکہ بچوں نے موسیقی کے تمام لوازمات پر قبضہ کیا ہوا تھا اس لئے میں اپنا لیپ ٹاپ کھول کر غزلیں سننے لگا۔ پہلی غزل جس نے میرے کانوں کو چھوا وہ یہ تھی۔

پیار میں کیسی مجبوری۔ اس غزل کا ہر شعر مثالی ہے اور قابلِ ذکر ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں منتخب اشعار ہی بیان کروں لیکن اس غزل کے ہر شعر کی اہمیت کے پیش نظر پوری غزل لکھنے پر مجبور ہوں۔

چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری

لوگوں کا کیا سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے، سب اپنے ہیں

وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری

مدت گذری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسن

ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری

(محسن بھوپالی)

ہم اپنی مجبوریوں کے قیدی ہیں، آزاد ہوتے ہوئے بھی مقید ہیں۔ کبھی مصلحتیں ہمیں غلام بنا لیتی ہیں، کبھی سماج، کبھی رکھ کھاؤ اور کبھی دین برادری۔

انسان تو آزاد پیدا ہوا تھا اُسے غلام بنا لیا گیا۔ لیکن یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ جہاں وہ زبردستی غلام بنایا جاتا ہے، نا چاہتے ہوئے غلامی کو قبول کرتا ہے وہاں خوشی سے بھی غلامی کو قبول کر لیتا ہے۔ اپنی مرضی سے غلامی کا طوق پہن لیتا ہے اور کبھی کبھی تو غلامی کے سپنے دیکھتے اس کی عمر گذر جاتی ہے۔

یہ غلامی محبت اور خواہشوں کی غلامی ہے۔ محبت کا لفظ اپنے اندر کئی معانی سموئے ہوئے ہے۔ محبت کسی عام سی شے سے بھی ہو سکتی ہے اور کسی خاص ہستی، شخص یا رشتے سے بھی۔ یہ معمولی بھی ہو سکتی ہے اور شدید بھی۔ انگریزی میں محبت کے لئے لفظ Love استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے معنی اسی کے حروف میں قید ہے۔

Land of Sorrow, Ocean of Tears, Valley of Death and End of Life.

لیکن یہ غارت گر اتنی خطر ناک نہیں جتنا کہ اسے پیش کیا گیا ہے۔ آ سکر وائیلڈ تو یہ نصیحت کرتا ہے،

’’محبت کو اپنے دل میں سنبھال کر رکھو۔ ایک زندگی جو اس کے بغیر گذرے وہ ایک ایسے باغ کی مانند ہے جس نے سورج کی ایک بھی کرن نہ دیکھی ہو اور اس اندھیرے نے پھولوں کے نصیب میں موت لکھ دی ہو۔‘‘

میکس مولر نے تو یہ کہہ کر محبت کو اور بھی ضروری قرار دے دیا ہے کہ جس طرح پھولوں کے کھِلنے کے لئے روشنی لازم ہے اُسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے محبت کی ضرورت ہے۔ یعنی انسان محبت کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ گویا محبت کسی ایک جذبہ کا نام نہیں ہے۔ یہ تو بہت سے جذبوں کا مجموعہ ہے جو انسان کے لئے حیات کی رمق کا باعث بنتے ہیں۔

خلیل جبران کی بات کئے بغیر اس موضوع سے نا انصافی ہے۔ وہ مشورہ دیتے ہیں۔ ’’جب محبت تمہیں اشارہ کرے اس کے پیچھے چلے جاؤ، چاہے اُس کے راستے کتنے ہی مشکل اور دشوار گزار کیوں نہ ہوں اور جب وہ تمہیں اپنے پروں میں لپیٹ لے تو خوشی سے لپٹ جاؤ اور جب وہ تم سے بات کرے تو اس کا یقین کر لو، خواہ اُس کی آواز تمہارے تمام مرغوب خوابوں کو منتشر کر دے۔۔ ۔ جس طرح نسیمِ شمالی باغیچہ کو ویران کر ڈالتی ہے، یاد رکھو کہ محبت تمہارے سر پر تاج رکھتی ہے تو ساتھ ہی تمہیں سولی پر بھی چڑھا دیتی ہے -‘‘ یہ محبت ہی تھی جس میں ہم جکڑے ہوئے تھے اور پریوں کی تلاش میں ہر اس مقام تک پہنچنے کا قصد کئے ہوئے تھے جس پر پریوں کے ہونے کا ذرا سا بھی شائبہ ہوتا۔

٭٭٭

کن پھٹے جوگیوں کی کہانی

جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا

شیشہ پیمانہ کیا بننا، مے بن جا، مے خانہ بن جا

مے بن کر، مے خانہ بن کر، مستی کا افسانہ بن جا

مستی کا افسانہ بن کر، ہستی سے بیگانہ بن جا

ہستی سے بیگانہ ہونا مستی کا افسانہ بننا

اس ہونے سے، اس بننے سے، اچھا ہے دیوانہ بن جا

دیوانہ بن جانے سے بھی، دیوانہ ہونا اچھا ہے

دیوانہ ہونے سے اچھا، خاک در جاناناں بن جا

خاک درِ جاناناں کیا ہے، اہل دل کی آنکھ کا سرمہ

شمع کے دل کی ٹھنڈک بن جا، نور دل پروانہ بن جا

سیکھ ذہین کے دل سے جلنا، کا ہے کو ہر شمع پہ جلنا

اپنی آگ میں خود جل جائے، تو ایسا پروانہ بن جا

(ذہین شاہ تاجی)

ہم جہلم کے علاقے سے گزر رہے تھے۔ سڑک پر کئی بورڈ ہماری پیچھے کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔ جیسے وہ بھی وہ سب کچھ سمیٹنا چاہ رہے ہوں جو ہم سمیٹ آئے تھے۔ ان میں ایک بورڈ نے مجھے اپنی نوجوانی کا دور یاد دلا دیا۔ یہ بورڈ اس علاقہ کی ایک مشہور اور تاریخی جگہ ٹلہ جو گیاں کے بارے میں تھا۔

جہلم شہر سے جی ٹی روڈ پر دریائے جہلم کے سنگ پچیس کلومیٹر کی مسافت پر ایک سرسبز پہاڑی کے سرے پر شکستہ حال دو گنبد دعوتِ نظارہ دیتے تھے۔ اردو کا ٹیلا اور پنجابی کا یہ ٹلہ انسانی تہذیب کے کئی ادوار دیکھ چکا ہے۔ اس جگہ پہنچنے کے لئے ٹانگوں اور ٹخنوں کا کافی حد تک بہتر ہونا ضروری ہے۔ آتش چونکہ جوان تھا اس لئے سفر کی دشواری اور راستے کی تنگی محسوس ہی نہیں ہوئی۔

راستہ ایسا تھا کہ شیطان بھی پناہ مانگے۔ لگتا تھا جیسے کسی نے جھاڑیوں اور درختوں کے درمیان مٹی اور پتھر ڈال کر یک لکیر کھینچ دی ہو۔ راستے کی لمبائی تو دل جلاتی ہی تھی اصل خوف سانپوں اور بلاؤں کا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں بسنے والے جوگی جنوں اور بلاؤں کا رد بھی کرتے تھے۔ اس زمانے میں لوگ دور دور سے اپنے یا اپنے پیاروں کے جنوں اور بلاؤں کو نکالنے کے لئے یہاں آتے تھے۔ تو اغلب امکان ہے کہ وہ سب بلائیں اور جن انسانی اجسام سے نکل کر یہیں بس گئے ہوں گے۔ یہاں پر پھیلے خوف کے سائے بتاتے تھے کہ یہاں درختوں کی شاخوں پر اور جھاڑیوں میں جن اور چڑیلیں بیٹھیں اپنے سہانے دنوں کا رونا رو رہی ہوں گی۔ ایک جن نے اپنے دوست کو بتایا ہو گا،

’’کیا دن تھے وہ جب یہ ٹلہ بسا تھا۔۔ ۔‘‘

دوسرے جن نے اپنے گندے دانتوں میں کسی درخت کا ایک سخت سا تنا پھیرتے ہوئے کہا ہو گا۔

’’ہاں یاد ہے کوئی دو ہزار سال سے بھی اوپر کی بات ہے۔‘‘

دوسرا جن رہتاس قلعہ سے چھلانگ لگا کر اس کے قریب آ گیا تھا۔

’’میں ایک جوان کے اندر گھس گیا۔۔ ۔ بڑے بڑے فقیر آئے بڑے بڑے حکیم آئے میں کہاں نکلنے والا تھا۔۔ پھر لوگ اس جوان کو یہاں لے آئے اور مہاتما بدھ کے ایک شاگرد نے کوئی ایسا منتر پھونکا کہ میرے تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔ ۔‘‘

جہلم کے پُل پر بیٹھی ایک چڑیل نے بھی اس گفتگو میں شرکت کرتے ہوئے کہا۔

’’ہاں ہاں یہی کرتے تھے۔۔ وہ تمہیں یاد ہو گا ادھر جنگل میں شیر کے سات بیمار بچے تھے، بس مرنے والے تھے۔ ان بچوں کو مہاتما بدھ نے بچایا تھا۔‘‘

’’یاد ہے مجھے سب یاد ہے وہ شیر ادھر آیا بھی کرتے تھے جب راجہ کنشک نے ایک اسٹوپا بنایا تھا۔ مگر بدھ ختم ہی ہو گئے جی۔۔‘‘

ایک بزرگ جن نے اپنی نیلی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔

’’او یار کھا گیا انہیں ہندو مذہب کھا گیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘

’’اس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

’’ہے نہ جی۔۔ ۔ وہ جوگی نہیں دیکھے تھے جو کان چھدوا کر بالا پہن لیتے تھے۔‘‘

ایک دوشیزہ چڑیل جو کافی دیر سے یہ باتیں سن رہی تھی اُس نے بھی شرکت ضروری سمجھی۔

’’ہاں وہ کن پھٹے جوگی۔۔ ۔ صبح صبح اٹھ کر سورج کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے۔۔ ۔‘‘

’’پتہ ہے میرا چاچا بتاتا ہے کہ یہ جوگی نیپال تک پھیلے ہوئے تھے۔‘‘

’’ہائے تم رانجھے کو نہیں بھول گئے۔۔‘‘

وہ دوشیزہ شرما کر بولی تو اس کے سیاہ گال سرمئی ہو گئے۔

مجھے میرے دوست نے ایسا تھپڑ مارا تھا کہ اس کا درد ابھی تک میری کمر سے نہیں گیا۔ مجھے درد کا تو درد نہیں تھا مگر درد رانجھے کا تھا۔ کیسا عاشق تھا۔

عشق کے سنگلاخ راستوں کو پاٹتا ہوا یہاں آیا، ایک جوگی گورو گورکھ ناتھ کی صحبت اختیار کی اور اسی کے ایک شاگرد بال ناتھ کے ہاتھوں کان میں بالا ڈلوا لیا۔ یعنی اگر بندے کی قسمت میں ازدواجی قید سے آزادی لکھی ہو تو کان پھڑوا لے۔ یہ ٹرینڈ کچھ پریکٹیکل نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ آگے نہیں بڑھا اور مٹ گیا۔ شکر ہے ورنہ آدھے سے زیادہ شہر کن پھٹا ہوتا۔ باقی کن ٹٹا۔

خیر جی یہ مقام سکھوں کے لیے بھی مقدس تھا، روایت کے مطابق بابا گورو نانک جی نے یہاں چلہ کاٹا تھا، مہاراجا رنجیت سنگھ نے ان کی یاد میں یہاں ایک سنگھی حوض بنوایا تھا۔ یہاں مسلمان جوگی بھی جوگ کے لئے آیا کرتے تھے۔ شہنشاہ جہانگیر کو بھی یہ مقام خاصا بھایا تھا اس لئے اُس کا بھی یہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ غرض کیا تھی معلوم نہیں۔

جب انگریز یہاں آئے تو وہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور یہاں ایک تالاب بنا کر اس جگہ کی اہمیت میں اضافہ کیا۔ تقریباً 3200 فٹ بلند اس مقام پر کئی ادوار کی عمارات موجود ہیں۔ یہ عمارات اور ان کا محلِ وقوع اس مقام کو قابلِ دید بناتے ہیں۔

Gorakhnath and Kanphata Yogi by George Weston Brigges

یہاں تالاب دیکھنے کے لائق ہیں ہر تالاب پر راستے، سیڑھیاں اور برج بنے ہیں۔ ان تالابوں میں اترتے کچھ راستے ایسے ہیں جو یہاں گھوڑوں اور ہاتھیوں کا ہونا بھی ظاہر کرتے ہیں۔ جن میں بیٹھ کر انسان وہیں کا ہو رہتا ہے۔ اُسی دور میں جا بستا ہے جب یہاں چہل پہل تھی۔

ہم سے کچھ ہی دور قلعہ رہتاس واقع تھا۔ شیر شاہ سُوری نے اپنی جرنیلی سڑک کو محفوظ بنانے اور ہمایوں کا راستہ روکنے کیلئے رہتاس کی صورت میں مضبوط قلعہ تعمیر کروایا۔ شیر شاہ سُوری کی فوج میں افغانی، ایرانی، ترکستانی اور ہندوستانی سبھی اقوام کے لوگ شامل تھے چنانچہ تین سو فٹ بلند ٹیلہ پر موجود اس قلعہ کے طرز تعمیر میں بھی ان اقوام کے طرز تعمیر کی جھلک ملتی ہے۔ یہ اپنے دور کا ایسا جدیدعسکری مقام تھا جہاں سے دشمن کی فوج پر پگھلا ہوا سکہ انڈیلا جا سکتا تھا اور گولے بھی برسائے جا سکتے تھے۔

دین و مذہب عاشقوں کے قابلِ پُرسش نہیں

یہ ادھر سجدہ کریں ابرو جدھر اس کی ہلے

(میر تقی میر)

٭٭٭

پربتوں کا بطن

گھڑی کی چھوٹی سوئی چھ کے ہندسہ کی رفیق بننے کے لئے بے قرار تھی اور بڑی دو کے قریب۔ جہلم میں دفن داستانوں کو خیر باد کہہ کر ہم کوہِ نمک کے دشوار گذار پہاڑوں میں سفر کر رہے تھے۔

میں کھڑکی سے باہر قلعہ کی فصیل نما پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا۔ تاریخ کے اوراق کھل رہے تھے۔ اونچے نیچے پہاڑوں پر چڑھتے اترتے لشکر دکھائی دے رہے تھے۔ کبھی دارا و اسکندر کے پیادے اور سوار لشکر پہاڑوں کے اوپر نمایاں ہوتے اور پھر انہی پہاڑوں میں چھپ جاتے۔ کبھی تیمورو ابدالی کے لشکر کا جنون ان پہاڑوں کی خوبصورتی کو روندتا چلا جاتا۔ کبھی منگولوں کے لشکر کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی وحشت ناک آوازیں ان وادیوں میں گونجتیں۔ کبھی یہاں کے قبیلوں کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے بچوں اور عورتوں کی چیخیں فضا میں وحشت پھیلا دیتیں۔

آہ! کہاں گئے وہ جاہ و جلال اور کہاں گئے وہ میلوں تک پھیلے ہوئے لشکر، کہاں گئیں وہ رعنائیاں اور کہاں گئیں وہ قوتیں۔ سب کو وقت کا ڈریگن نگل گیا۔ اس زمین کا دہن بہت کشادہ ہے۔ یہ لشکروں کے لشکر نگل جاتی ہے اور اس کا بطن اتنا گہرا ہے کہ صدیاں بھی اس میں کھو کر رہ جاتی ہیں۔ یہی اس دنیا، اس جہاں اور اس مکاں کی حقیقت ہے۔ مجھے عالم ادراک میں وہ کسان بھی دکھائی دے رہا تھا جس کی کٹیا کسی حملہ آور نے گرائی ہو گی اور مجھے وہ شہنشاہ بھی یاد آ رہا تھا جو اپنے جیسے کسی شاہ کے کٹے سر کو دیکھ کر خوش ہو کر کہہ رہا ہو گا، ’’کہاں گئی تمہاری اکڑ، کہاں گئی تمہاری وہ طاقت جس پر تمہیں ناز تھا، آج میرے سامنے تن کے بغیر پڑے ہو۔‘‘

لیکن افسوس تو یہ کہ نہ شاہ رہا نہ شہنشاہ، نہ لٹنے والاکسان رہا نہ لوٹنے والا شاہ۔ سب کچھ یوں ختم ہو گیا جیسے چند سال۔

قرطاس ارضی نے کئی بار یہ سب کچھ دیکھا مگر حیران ہے کہ یہ سلسلہ ویسے ہی موجود ہے آج بھی کسان کی کٹیا حملہ آور کی زد میں ہے اور آج بھی ایک شاہ دوسرے شاہ کے دربار میں مصلحتوں کی زنجیریں پہنے کھڑا ہے۔ کیا بدلا نہ سورج نہ چاند، نہ سمندر نہ پہاڑ۔

ہاں بدل گیا تو زمین کا حُسن جسے عمارتوں کے بوجھ اور غلاظتوں کے ڈھیر نے متغیر کر دیا۔ کل بھی میر نے یہ دیکھا تھا اور آج بھی یہی دیکھ رہا ہے۔

کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا

یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا

٭٭٭

امتحانی مرکز

بانوری چکوری کرے دنیا سے چوری چوری چندا سے پیار

ایسے میں آ کے صنم دل میں سما جا اب تو آ جا

یہ گیت کانوں کے لبوں کو چھو رہا تھا اور ہماری گاڑی کلر کہار کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔ نمک کی کانوں کی قربتوں میں بسنے والا چھوٹا سا خوبصورت اور تاریخی قصبہ کلر کہار۔

سورج نے آسمان کی بلندیاں چھوڑ کر زمین کے دامن میں سونے کی تیاری کر لی تھی۔ اُس کا تابناک چہرہ دن بھر کی تھکن کی وجہ سے پہلے مرجھایا اور پھر ماند پڑ گیا۔ اب اُس کی آنکھوں میں جھانکا جا سکتا تھا، اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا جا سکتا تھا، اس کی تابناکی گم ہو چکی تھی اور تھکن کی وجہ سے اُس کے چہرہ پر کئی رنگ پھیل رہے تھے۔ زمین کی گود میں چھپنے کا شوق اُس کی آنکھوں سے عیاں تھا۔ اُس نے اپنے سارے رنگ آسمان پر بکھیر دئیے تھے، میں نے وہ رنگ سمیٹنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ یہ وہ رنگ تھے جنہیں نہ چُنا جا سکتا تھا، نہ سمیٹا جا سکتا ہے اور نہ ہی گنا جا سکتا تھا۔ انسانی علوم کی کتابوں میں نہ تو انہیں کوئی نام دیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی بیان ان کی خوبصورتی کا حق ادا کر سکتا ہے۔ جونہی میں ان رنگوں میں سے کسی رنگ کو کوئی نام دینے کی کوشش کرتا تو یہ کسی ایسے رنگ میں بدل جاتا جو میرے علم کی حدود سے باہر تھا۔ یوں میں ایک مرتبہ پھر ان رنگوں کو نام دینے میں ناکام رہا۔ میرے ہم رکاب اونچی نیچی بل کھاتی سڑک کو دیکھ دیکھ کر بے زار ہو گئے تھے۔ اُن کے پاس کھانے پینے کی تمام اشیا بھی ختم ہو چکی تھیں۔ چپڑ چپڑ اور موسیقی کی آوازوں کی جگہ خاموشی نے لے لی تھی۔ میں انہیں کلر کہار انٹر چینج کے آنے کی اُمیدیں دلا دلا کر جاگنے پر مجبور کر رہا تھا۔ موسم ابھی تک گرم تھا۔ میں نے گاڑی کے بند شیشوں سے باہر پہاڑوں کو دیکھا تو مجھے خوف کا شدید احساس ہونے لگا۔ وہی پہاڑ جو کچھ دیر پہلے میرے لئے زندگی، حسن اور خوبصورتی کا مجموعہ تھے اب خوف سے لپٹی دیواروں کی مانند تھے جن کی کھائیوں اور غاروں میں سوئے ہوئے جنوں اور چڑیلوں نے دن بھر آرام کے بعد اپنے نئے دن کی مصروفیات کا آغاز کر دیا تھا۔ میرے پاس اس خوف اور وحشت سے نکلنے کا یک ہی سہارا تھا ہیڈ فون جسے میں کانوں کو لگا کرموسیقی سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن مجھے یہ جن، بھوت اور چڑیلیں اس موسیقی پر رقص کرتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ وہ میرے ساتھ مکالمہ کرنا چاہتے تھے لیکن میں اس موڈ میں نہیں تھا۔ وہ یہی شکوہ کر رہے تھے کہ برسوں سے کسی انسان نے ان کے ساتھ مکالمہ نہیں کیا۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا جس انسان نے خود کو بھلا دیا وہ ہم سے کیا بات چیت کرے گا۔

ہماری گاڑی سسک سسک کر کلر کہار کا وہ موڑ کاٹ رہی تھی جو اس سڑک پر آنے والی ہر گاڑی کا امتحانی مرکز ہے۔ جو گاڑی یہاں سے کامیاب ہو گئی وہ آگے جا کر سب پہاڑوں کو زیر کر سکتی ہے۔ یہ موڑ گاڑی کے ہوش اُڑا تا ہے، اُسے پسینے سے نہلاتا ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کانوں کو ہاتھ لگوا دیتا ہے اور آئندہ تیار ہو کر آنے کا سبق پڑھا کر جان چھوڑتا ہے۔ کچھ گاڑیاں تو ریں ریں کرتی ہیں، کچھ گھاں گھاں اور کچھ تو ایسی آوازیں نکالتی ہیں جن پر کوئی اسمِ صوت صادر ہی نہیں آتا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ کھانا پینا تک بھول جاتے ہیں۔ چپس ہاتھ میں دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور پیپسی اس امتحان سے سرخروئی کے بعد ہی مکمل ہوتی ہے۔ ٹرکوں کے ڈرائیور جن کا عطا اللہ کے گیتوں اور غزلوں کے بغیر سفر کا ایک لمحہ بھی نہیں گذرتا وہ بھی میوزک بند کئے گاڑی کی چال میں کھو جاتے ہیں۔ بسوں میں بیٹھے ہوئے مسافروں کو پہلی دفعہ یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ان کا بھی بوجھ ہے جسے اٹھانے سے یہ بس قاصر ہے۔ بس بیچاری اس طرح کُرلاتی ہے جیسے فائر لگی مرغابی۔ ہر پل یہی لگتا ہے کہ اب بند ہوئی کہ اب بند۔

کچھ چالاک اور تجربہ کار گاڑیاں جن میں زیادہ تر ٹرک ہوتے ہیں۔ ڈرائیور سے آرام کا وقت مانگ کر رک جاتی ہیں اور ڈرائیور سے خوب خدمت کرواتی ہیں۔ ہمارے سامنے ایک ٹرک رکا سستا رہا تھا۔ کچھ ہی فاصلہ پرا یک کوچ دھواں بکھیرتے ہوئے اس امتحان میں سرخروئی کی اپنی آخری کوششیں کر رہی تھی۔

٭٭٭

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل