FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نئی نظم کے معمار ۳: علی محمد فرشی

 

فیس بک کے گروہ ’حاشیہ‘ کا ایک آن لائن مباحثہ

 

               محرک: ظفر سید

جمع و ترتیب: اعجاز عبید


‎‎‎

نظم کے نئے معمار سلسلے کے تیسرے اجلاس کے لیے جناب علی محمد فرشی کی نظم "نیند میں چلتی موت” (مطبوعہ "سمبل” جنوری تا جون2007) منتخب کی گئی ہے۔ اس اجلاس کے صدر جناب محمد یامین ہوں گے، جب کہ ابتدائیہ محترم حمید شاہد پیش کریں گے۔

نیند اور موت کے درمیاں

میں نے دیکھی نہیں

خواب بُنتی ہوئی مخملیں انگلیاں

 (جن کا لمسِ گداز ایک دن

 وقت کے سرد گالوں سے بہتا ہوا

میرے ہونٹوں پہ آیا

تو صدیوں کی نمکینیاں

سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں

ابھرے پہاڑوں کا اک سلسلہ بن چکی تھیں)

وہ کیا سلسلہ تھا

جو اک گود سے گور تک (ریشمی تار سا) تن گیا

جس پہ چلتے زمانے

خداوندِ اعلیٰ کے احکامِ رحمت اٹھائے ہوئے

 رقص کرتے گزرتے

تو مٹی پہ نقش و نگارانِ غم مسکراتے

تجھے یاد آتے

تجھے یاد کرتے ہوئے

یوں گزرتے

کہ جیسے کسی بھید بھاؤ بھری چاندنی رات سے

چاند کا بانکپن

بادلوں کے لڑکپن کے گالے اڑاتے ہوئے

خواب لب ریز پریوں سے

چھُپ چھُپ کے گزرے !۔

یہ دکھنے دکھانے کی ساری مشیّت

یہ چھپنے چھپانے کی ساری اذیّت

کوئی جھیلتا ہے ؟

جو تُو نے اکیلے میں جھیلی

میں کتنے دنوں بعد آیا ترے پاؤں چھُونے ؟

حساب اِس خجالت کا کرتے ہوئے

کتنے آنسو گرے ؟

!۔ میں نہیں گن سکا

بھیگتے، پھیلتے لفظ، اعدادجب بھی سمندر بناتے

ترے نام کی ناؤ مجھ کو کنارے لگاتی

مگر یہ کنارہ کوئی کہکشاں تو نہیں تھا

کہ میں تیرے لا وقت ساحل پہ

خود اپنے پاؤں کے مٹتے نشاں دیکھ کر مسکراتا

وہ گنتی کا معکوسی زینہ تھا

تخت الثریٰ تک رواں (رینگتی) آب نائے تھی

آنکھوں کی کاریز تھی

جو مرے دل کے پاتال تک مجھ کو لاتی

 رُلاتی!۔

رلاتی رہی بات بے بات

تیری محبت کی وہ داستاں

جس کو لکھنے کی کوشش میں لاکھوں ورق

میں نے کالے کیے

مگر ایک لمحہ بھی میرے قلم پر

وہ خوش رنگ الہام بن کر نہ اترا

جسے تیرے ہونٹوں کی تصدیق ملتی!۔

بڑی سے بڑی بات کو

ایک بھیگی ہوئی مسکراہٹ میں کہنے کا تجھ کو سلیقہ تھا

اعداد و الفاظ کی بھیڑ میں

کس قدر میں اکیلا ہوں؟

تجھ کو خبر ہے !۔

بتا دے مجھے بھی کوئی اسمِ اسرار

(جس کی تمنا لیے سب پرندے گئے ساتویں سمت

لیکن کوئی آج تک مڑ کے آیا نہیں!)

پھول ہونٹوں کے

مردہ زمانے پہ رکھوں تو

خوش بُو تری

گُل بدن بن کے جا گے

ترے سانس میں سانس لینے کی راحت

مری یاد کے باغ میں

ایک جادو زدہ، نیم خوابیدہ

شہزادیِ زندگی کی طرح منتظر ہے

یہاں اپنے ہونے سے کِس کو مفر ہے

کوئی نیند میں جاگنے کی اذیّت نہیں جانتا

اپنی جنت کا منظر مرے ملگجے خواب پر کھول دے

کوئی شیریں تکلم مرے زہر میں گھول دے

فاصلہ نیند اور موت کے درمیاں

اپنی موجودگی سے بنا

کر عطا معجزاتی ہنر

میں تو نوٹوں کی گنتی میں مصروف

 اندھے زمانے کے ہاتھوں کی

وہ مَیل ہوں

جس پہ مکھی بھی آ کر نہیں بیٹھتی!۔

٭٭٭

 

محمد حمید شاہد: نیند میں چلتی موت : ایک ابتدائیہ

محمد حمید شاہد

مجھے خوشی ہے کہ میں علی محمد فرشی کی نظم "نیند میں چلتی موت” پر بات کرنے جا رہا ہوں۔ علی کا ذکر آئے اوراس کی "علینہ” جیسی طویل شاہکار نظم کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ جی، جس کا میں ذکر کر رہا ہوں، یہ وہی نظم ہے جس کی بابت، میں نے کہہ رکھا ہے کہ اس میں”علینہ”کا امیج حیرت انگیز طور پر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ کبھی مکاں کی قید میں کبھی لامکاں پر۔ زمانہ اس کی مرمریں برجیوں تلے کاغذی پیرہن سنبھالے دست بستہ کھڑا ہوتا، اوراس کے سفینے کا اس خواب نائے سے گزر بھی ہوتا، جس میں شہر بھر کی کالک گدلا رہی ہوتی ہے۔ میں نے اس نظم کی بابت یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ اس میں ایک امیج مابعد الطبیعیاتی روشن چولا پہنتا اورکسی اور مقام پرحسیات کی گرفت میں آنے والے وجود میں ڈھل جاتا ہے۔ تاہم یہ سب کچھ اس نظم میں اتنی تیزی سے ہوتا رہا اور تخلیق کار نے اتنی مہارت سے اسے کر دکھایا کہ نور، خوشبو اور ماورائیت کے جھپاکوں میں منظر بدلنے کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔ میری تفہیم یہ ہے کہ فرشی کے ہاں مناظر سہ ابعادی ہو جاتے ہیں۔ ن۔ م۔ راشد نے شبیہ سازی کو عیاشی قرار دیا تھا اور قصداً حسیاتی تصویروں سے گریز کیا مگر فرشی کے ہاں گریز کا یہی سامان تخلیقی جوہر کی صورت ظاہر ہوتا رہا ہے اور اس نے ’’علینہ‘‘ میں بھی انہی وسیلوں سے سارے منظر نامے کو تازہ جمالیات اور دبیز معنیات سے چھلکا دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ فرشی کا یہ اختصاص بھی بنتا ہے کہ وہ مفاہیم میں توسیع کے لیے نئی بوطیقا تشکیل دیے چلا جاتا ہے۔ اسی تلاش پراس کی طویل نظم "علینہ”مکمل ہوئی، یوں کہ امیجز اور سمبلز کا ایک روشن سلسلہ لطف و آگہی سے سرشارکرگیا۔ مرمریں برجیاں‘ نقرئی اسم، سرخ بوسے، سرداقرار، درد کی نیلگوں راکھ، دیدار کی شربتی دھوپ،شش دری ممٹیاں، سونے چاندی کی دو روٹیاں، بھوک کے بگولے،زیر آب تیرتی مرگ مچھلیاں،گردسے گل میں تبدیل ہونے کی تمنا، گھنی گاڑھی سیاہی، کم خواب گھاٹیاں، لفظوں کی صندل خوشبو، سوت کی انٹی میں تلنا، دردیلے دن، الو ہی الاؤ، گلابی تجلی، نیندوں بھری ساعتیں …….. آپ پڑھتے جاتے ہیں اور فرشی کی نئی بوطیقا ’’علینہ‘‘ کے بھید آپ پر کھولتی چلی جاتی ہے۔ ’’تیز ہوا میں جنگل کسے بلاتا ہے ‘‘ کی نظمیں ہوں یا ’’زندگی خود کشی کا مقدمہ نہیں‘‘ اور مابعد کی نظمیں، فرشی اپنے تخلیق عمل میں ایک گہرے جمالیاتی اور تہذیبی اسرار کو ساتھ لے کر چلتا ہوا نظر آتا ہے، ایسے اسرار کو کہ نظم کی لغات اپنا باسی پن جھاڑتی چلی جاتی ہے۔

"نیند میں چلتی موت” کو بھی میں اسی تخلیقی قرینے کی عطاسمجھتا ہوں۔ یوں نہیں ہے کہ اس تخلیق پارے کا الگ سے وجود نہیں ہے، آپ چاہیں تو اسے الگ فن پارے اور اس کے معنیاتی انسلاکات، جمالیات اور فنی قرینوں کے اعتبار سے، اسے ایک خود مکتفی ’’متن ‘‘کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم مجھے اچھا لگ رہا ہے کہ میں اسے علی محمد فرشی کے تخلیقی مزاج کے ساتھ جوڑ کر دیکھوں۔ "خواب بنتی ریشمی انگلیاں”، "لمسِ گداز”، "وقت کے سرد گال”، "صدیوں کی نمکینیاں”، "سنگ بستہ دلوں کا سمندر”، "گود سے گور تک ریشمی تار کا  تننا”، "احکامِ رحمت”، "رقص کرتے گزرنا”، "مٹی پہ نقش و نگارانِ غم کا مسکرانا”، "بھید بھاؤ بھری چاندنی رات”، "بادلوں کے لڑکپن کے گالے "، خواب لب ریز پریوں سے چھپ چھپ کے گزرنا”، "دکھنے دکھانے کی مشیّت”، "چھپنے چھپانے کی اذیّت”، "بھیگتے، پھیلتے لفظ اور اعداد کا سمندر”، "ترے نام کی ناؤ”، "لا وقت ساحل”، "گنتی کا معکوسی زینہ”، "تخت الثریٰ تک رینگتی آب نائے "، ” قلم پر خوش رنگ الہام” بن کر اترنے والے لمحہ کی شناخت اور "تصدیق”، "بھیگی ہوئی مسکراہٹ”، "اعداد اور الفاظ کی بھیڑ”، "اسمِ اسرارکی طلب”، ” ساتویں سمت”، ’’ ہونٹوں کے پھول مردہ زمانے پہ رکھنا‘‘، ’’ تیری خوش بو کا گل بدن بن کے جاگنا‘‘، ’’سانس میں سانس لینے کی راحت‘‘، ’’یاد کے باغ میں جادو زدہ، نیم خوابیدہ شہزادی کا زندگی کی طرح منتظر ہونا‘‘، ’’اپنے ہونے سے مفر کا سوال‘‘، ’’شیریں تکلم‘‘، ’’نیند اور موت کے درمیاں فاصلہ‘‘، ’’معجزاتی ہنر‘‘ اور اس سارے منظر نامے سے گزر کر آتی نظم جب اذیت کا وہ باب کھولتی ہے جس میں ’’نوٹوں کی گنتی میں مصروف ‘‘آدمی ہے۔ جی، ’’اندھے زمانے کے ہاتھوں کی مَیل‘‘ ہو جانے والا آدمی۔ تو یوں ہے صاحب، کہ کہاں آدمی کا زمینوں اور زمانوں کو روند کر آگے گزرتے چلے جانے کا چلن اور ایک حقیقت کا حصہ ہو کر مکمل ہو جانے کی جستجومیں محو خرام رہنے کاوتیرہ اور کہاں ایسی غلاظت سے جڑی ہوا زندگی ’’جس پہ مکھی بھی آ کر نہیں بیٹھتی!‘‘واقعہ یہ ہے جناب کہ نظم کی تفہیم کو وہاں سے شروع کیا ہی نہیں جا سکتا جہاں آدمی غلاظت کے ڈھیر پر بیٹھا خود بھی غلاظت ہو جاتا ہے۔

مشہد سے شمال کی طرف بیس کلومیٹر کی مسافت پر توس شہر واقع ہے۔ یہ شہر329 ہجری میں پیدا ہونے، اور چالیس سال کی عمر میں ساٹھ ہزار ابیات پر مشتمل شاہنامہ فردوسی لکھنے والے ابولقاسم فردوسی کی آخری آرام گاہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ کہتے ہیں، جب فردوسی کی ہزارویں سالگرہ کا موقع آیا تو اس مقام پر ایک یاد گار تعمیر ہوئی۔ فردوسی کی ابدی آرام گاہ کے زیر زمین ہال کی مشرقی اور جنوبی دیواروں پر شاہنامہ میں سے چھ کہانیوں کے علامتی نقوش ہیں۔ کاوہ آہن گر کی جنگ، رستم کی اژدھے سے لڑائی، سفید دیو سے رستم کی جنگ، جادوگر عورت کا جال میں پھنس جانا، رستم اور سہراب کا معرکہ اور اسفندیار کو شکست دینے کے لیے رستم کا سیمرغ سے مشورہ۔ فرشی نے اسی سیمرغ سے

محمد حمید شاہد: جناب صدر، آپ کا ایس ایم ایس آیا، کہ آپ سفر میں ہیں، مگر کرسی صدارت سنبھال چکے ہیں، اور یہ کہ میں اپنا ابتدائیہ فوراً پیش کر دوں، لیجئے صدر محترم، آپ کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔

احباب گرامی، ہمارے صدر صاحب، یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ موبائل سے اردو ٹیکسٹ میں لکھنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے لہذا شام تک وہ اپنا ایسا صدارتی کردار شروع کر پائیں گے، جو نظر بھی آئے۔

ادھر ڈاکٹر ابرار احمد بھی اسی الجھن کا شکار ہیں۔ وہ جاوید انور کی نظم پر بھی بات کرنا چاہتے تھے مگر اردو ٹیکسٹ نہ لکھ سکنے کی وجہ سے کچھ کہہ نہ پائے۔ ان کا فون آیا ہے کہ وہ رومن میں لکھ کر ظفر سید کو بھیج دیں گے کہ وہ اسے اردو ٹیکسٹ میں ڈھال کر اپ لوڈ کر لیں۔ میرے ذمہ ان دونوں کی طرف سے "حاضر جناب ” کہنا لگایا گیا تھا، سو ان کی "حاضری” لگا لیجئے

محمد یامین: معزز اراکین! ابھی ابھی سفر تمام کیا ہے اور حاضر ہو کر تاخیر کی معذرت چاہتا ہوں۔ بہت شکریہ کہ فورم نے مجھے اس اہم اجلاس کی صدارت کے لیے منتخب کیا۔ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہے لیکن میں اس انتخاب کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ حاشیہ کا یہ تیسرا اجلاس بھی کام یابی سے ہم کنار ہو گا۔ مجھے یہ امید بھی ہے کہ اراکین نے گزشتہ دو نشستوں سے بہت کچھ سیکھا ہو گا کہ سیکھنے کا عمل ہر دم جاری رہتا ہے۔ آپ سے توقع ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت ان تمام جمہوری اصولوں کو مد نظر رکھیں گے جو ہم سب کا مطمحِ نظر ہیں، ایک دوسرے کا احترام بھی ہماری تہذیب کا خاصہ ہے جسے اپنے شعور میں جگا کر رکھنا ہو گا۔ محترم حمید شاہد آپ کا شکریہ کہ آپ نے (میرے سفر کے دوران) میرا پیغام ساتھیوں تک پہنچایا اور مہمان شاعر جناب علی محمد فرشی کی نظم "نیند میں چلتی موت” کی تعبیر کے لیے ابتدائیہ لکھا۔ اس ابتدائیے کی روشنی نظم کے بہت سے گوشوں تک رسائی فراہم کرتی ہے۔ آپ تمام اہل حاشیہ سے گزارش ہے کہ نظم پر بحث کا آغاز فرمائیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اس گرہ کشائی کا آغاز کل وقتی اور خالص ناقدین سے ہو۔

علی ارمان: کیا ہی اچھا ہو اگر اس گرہ کشائی کا آغاز کل وقتی اور خالص ناقدین سے ہو۔۔۔ صاحب صدر آپ کی یہ گزارش اسی پیرا میں آپ کے اس فرمان کے خلاف جاتی ہے جہاں آپ نے فرمایا کہ۔۔۔ آپ سے توقع ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت ان تمام جمہوری اصولوں کو مد نظر رکھیں گے جو ہم سب کا مطمحِ نظر ہیں۔۔۔۔ اگر آپ یہ شرط ہٹا دیں تو شاید نظم پر گفتگو کا آغاز جلد ہو جائے۔ باقی آپ صدر ہیں۔!

محمد یامین: علی ارمان صاحب میں نے شرط نہیں لگائی اپنی رائے دی ہے۔ آپ اپنی رائے کا استعمال جیسے چاہیں کریں۔ یہی جمہوریت ہے۔ لگتا ہے آپ نے آغاز کر دیا ہے تو بسم اللہ

علی ارمان: جناب صدر اور محترم دوستو نیند میں چلتی موت پر جناب حمید شاہد کے پر مغز اور مفصل ابتدائیے کے بعد میں اپنی چند معروضات اس نظم پر بحث کی ابتدا کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ نظم کو میں نے کئی بار پڑھا اور اس کے ساتھ بہت سے آفاق و اعماق کی سیر کا لطف اٹھایا۔

مجھ ناچیز کی رائے میں ہر کامیاب نظم کا ایک بنیادی قضیہ ہوتا ہے۔ ایک بنیادی خیال۔ چاہے آپ اسے گھسی پٹی تدریسی زبان میں نظم کا مرکزی خیال کہہ لیں۔ نظم کا مرکزی خیال سادہ اور یک سطحی ہوا کرتا تھا جب انیسویں صدی میں زندگی نیوٹن کے سادہ قوانین کے مطابق ایک فریم آف ریفرنس میں خراماں خراماں عمل اور رد عمل کی یونی ردمک دھنوں پر سر دھنتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ دائرے کو ابھی شکست نہیں ہوئی تھی اور نہر ابھی تک پرانے پہرے میں چل رہی تھی۔ برسات یا ہولی دیوالی اور عید کے موضوع پر لکھی گئی اردو کی ابتدائی نظموں سے دو ہزار گیارہ میں لکھی جانے والی اردو نظم تک کا سفر بنیادی طور پر اس عفیفہ جسے ہم زندگی کہتے ہیں کی سادگی اور معصومیت کے لٹ جانے کا سفر ہے۔ اب ہم دو چار یا چھ نہیں کروڑوں سمتوں کی چلترتا سے بھری ہوئی کائنات میں زندہ ہیں۔ اپنے باطن میں بھی اور اپنے خارج میں بھی۔ نظم کی تخلیق اور تفہیم کی کہانی متن کی کونٹم اور سٹرنگ لامتناہیت سے پیچیدہ ہو چکی ہے۔ ایسے میں خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کا سوال اپنے نئے سیاق و سباق میں ہم پر ایک زہر خند طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ پھبتی کستا ہوا دھیان پڑتا ہے کہ لو اور پڑھو علی محمد فرشی کی نظم۔

علی محمد فرشی اسلوب اور موضوع دونوں اعتبار سے جدید زندگی کی اسی لامتناہیت اور پیچیدگی کو اپنی نظم کے کوزے میں بند کرنے کا جتن کرتا ہے اور اس کی یہ نظم بھی اس کے اسی تہیے اور رویے کی عکاس ہے۔

وہ اپنی نظم میں مرئی غیر مرئی، شے لا شے، شبیہ احساس، وقت لا وقت، ماضی و حال و مستقبل، کنکریٹ اور ایبسٹریکٹ، مائیکرو کوزم اور میکرو کوزم کے حدیں اور سرحدیں توڑنے کا جتن کرتا ہے۔ اسی لیے بعض اوقات اس کی نظم اتنی پیچیدہ اور گنجھلدار ہو جاتی ہے کہ ہم سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ابتدا کہاں سے کریں اس کی مثال یونہی ہے جیسے کوئی نظم کو ویسا بنانا چاہے جیسی یہ کائنات بگ بینگ سے ایک لمحہ پہلے تک تھی۔ جس میں سب کچھ تھا اور کچھ بھی نہیں تھا۔۔ مگر اس پیچیدگی اور سپر ڈینس اسلوب نظم پر ہم علی محمد فرشی کو قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے۔ اپنی نظموں میں جب وہ پوری طرح کامیاب ہوتا ہے تو ہمیں اپنی نظم کی بگ بینگ سے ایک لمحے پہلے کی کائنات سے بگ بینگ کے بعد ان کروڑوں اربوں کہکشاؤں کی تخلیق تک کا سارا منظر نامہ دکھا دیتا ہے۔

اب اس نظم کا صرف پہلا بند ملاحظہ کر لیں

میں نے دیکھی نہیں۔۔۔ بیان

خواب۔۔۔۔ ایبسٹریکٹ۔۔۔۔۔۔ بُنتی ہوئی۔۔۔۔۔ کنکریٹ۔۔۔۔۔۔۔ ریشمی انگلیاں۔۔۔۔ کنکریٹ

جن کا لمسِ گداز ایک دن۔۔۔۔۔ ایبسٹریکٹ)

۔۔۔۔۔ کنکریٹ وقت۔۔۔۔ ایبسٹریکٹ۔۔۔ کے سرد گالوں۔۔۔۔۔ کنکریٹ۔۔۔۔ سے بہتا ہوا

میرے ہونٹوں پہ آیا۔۔۔۔ بیان

تو صدیوں۔۔۔۔ ایبسٹریکٹ۔۔ کی نمکینیاں۔۔۔ کنکریٹ

سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں۔۔۔ ایبسٹریکٹ کنکریٹ امیج

۔۔۔۔۔۔ (ابھرے پہاڑوں کا اک سلسلہ بن چکی تھیں

آپ نے دیکھا جیسے پہلے ہی بند میں شاعر ایبسٹریکٹ اور کنکریٹ امیجز کے ملغوبے سے شے لاشے اور مرئی غیر مرئی کی دیوار توڑ دیتا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ غیر محسوس طور پر ہم اس کے ساتھ صدیوں اور زمانوں کے پہاڑوں کو بھی پھاند جاتے ہیں۔ وُہ صدیاں اور وُہ زمانے جو ریشمی انگلیوں کے کسی لمس گداز کے وقت کے سرد گالوں پر بہاؤ سے تشکیل پاتے ہیں۔

آپ نے یہ اسلوب دیکھا کہ یہ کتنا ریلیونٹ اسلوب ہے اس کی شاعری کی موضوعی کائنات کے ساتھ۔ ہم آہنگ و ہم قدم و ہم زبان۔

اب آتے ہیں اس نظم کے بنیادی قضیے کی طرف۔ میرے نزدیک وجود کے جبر اور آزار اور جوہر کے اختیار اور آزادی کی تمنا میں کشمکش اس نظم کو بنیادی موضوع ہے۔ شاعر خود آگاہی کی اس منزل پر ہے جہاں وُہ اپنے وجود اور جوہر دونوں سے الگ ہو کر کھڑا ہے اور اس نظم کے ذریعے اپنے اندر ہونے والی اس لڑائی کی ہمیں خبر دے رہا ہے جس کو وُہ اپنے باطن سے لے کر خارج تک کائنات کے ایک ذرے پر محیط دیکھتا ہے۔ خود آگاہی کا وُہ لمحہ جس میں شاعر کو یہ زندگی نیند میں چلتی موت نظر آنے لگتی ہے۔

علی محمد فرشی کی خود آگاہی کا اگلا پڑاؤ بلاشبہ مجھے روشنی کا وُہ ریلا لگ رہا ہے جس میں فرشی سارتر کے اس بیوقوفانہ ویسٹرن ڈوئلٹی(Foolish Western Duality) سے نکل کر جہاں وُہ یہ کہتا ہے وجود جوہر پر مقدم ہے اس مقام پر پہنچ جائے گا جہاں وجود بھی جوہر ہے اور جوہر بھی وجود۔ بگ کرنچ کے بعد کا وُہ لمحہ جہاں سب ست ہے۔ جہاں کوئی دوئی نہیں۔ ایکتا ہی ایکتا ہے۔ شکریہ

اشعر نجمی: جناب صدر، میں یہاں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ علی ارمان نے اس نظم کا تجزیہ بہت اچھا کیا ہے۔ اگرچہ کوئی تحریر حرف آخر نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود میں کہوں گا کہ علی نے ایک خوب صورت شروعات کی ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ نظم سے بڑی اس کی تعبیر سامنے آئی ہے تو کچھ اتنا برا نہ ہو گا۔ مبارک باد۔ فرشی صاحب کی اس نظم پر فی الحال میری رائے محفوظ ہے۔ انشا اللہ جلد ہی اپنی رائے مناسب موقع پر پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ شکریہ۔

محمد یامین: علی ارمان صاحب نے نظم کی تعبیر کی ایک کوشش کی ہے۔ انہوں نے پہلے بند کے کنکریٹ اور ایبسٹریکٹ امیج الگ الگ کر کے دکھائے ہیں۔ میرے خیال میں امیج ایبسٹریکٹ نہیں ہوتا بل کہ امیج وہی ہوتا ہے جو کنکریٹ ہو۔ علی ارمان نے جس امیج کو ایبسٹریکٹ کہا ہے وہ دراصل سمبل ہے۔ اس نظم میں امیجز اور سمبلز کا کھیل خاصا دل چسپ ہے۔ اگر کوئی اس پر روشنی ڈالے تو نظم کی تعبیر زیادہ دل چسپ ہو جائے گی۔

ظفر سید: جنابِ صدر: حمید شاہد صاحب اور علی ارمان نے نظم پر سے پردے ہٹائے ہیں، لیکن یہ وہ نٹ کھٹ نار ہے جو ہر بار ہلکی سی چھب دکھلا کر پھر دھندلکوں میں چھپ جاتی ہے۔ اسی لیے تو علی ارمان نے کہا ہے کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ ابتدا کہاں سے کرے !!

واقعی نظم اتنی تہہ داری اور پیچیدگی سے مملو ہے اور اس کی ہر ہر سطر میں اس قدر "مسالہ” موجود ہے کہ اس پر صفحے کالے کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر صرف عنوان ہی کو لے لیں: "نیند میں چلتی موت۔ ” اس کے کم از کم دو مطالب لیے جا سکتے ہیں، پہلا تو وہ ہے جس کی طرف علی ارمان نے اشارہ کیا ہے : ” خود آگاہی کا وُہ لمحہ جس میں شاعر کو یہ زندگی نیند میں چلتی موت نظر آنے لگتی ہے۔ ” لیکن اس کا ایک اور مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ دراصل موت ہے جو نیند میں چلنے کی بیماری (sleepwalking) مبتلا ہے۔ جیسے انسان کی زندگی کے ساتھ ہر لمحہ موت کا سایہ لگا رہتا ہے، ویسے ہی نظم کے کی بنت میں نظم میں موت کے تار جا بجا چلتے نظر آتے ہیں: گور سے گود تک تنا ریشمی تار، لا وقت ساحل پر قدموں کے مٹتے نشان، تحت الثریٰ تک رینگتی آبنائے، ساتویں سمت کو سدھارے ہوئے پرندے جو کبھی لوٹ کر نہیں آتے، مردہ زمانہ، موت اور نیند کے درمیان فاصلے کا ذکر، وغیرہ۔

نظم کے "مرکزی خیال” پر بات کرنے سے پہلے ایک دو باتیں نظم کے متکلم کے بارے میں بھی عرض کرتا چلوں۔ میرے خیال سے یہ متکلم آدم کا قائم مقام ہے اور آدمیت کی نمائندگی کر رہا ہے۔ ہر چند کہ یہ عام "آدمی” نہیں بلکہ تخلیقی "انسان” ہے، لیکن نظم کے مطابق آدمی کا منصب یہی ہے کہ وہ انسان بننے کی کوشش نہیں تو خواہش میں ضرور سرگرداں ہے۔

لیکن یہ متکلم زمین و آسمان کی قدیمی چکی کے دو پاٹن کے بیچ بری طرح سے کچلا جا رہا ہے۔ اس کی سوچ اور عمل میں گہری خلیج حائل ہے، وہ چاہتا تو یہ ہے کہ مردہ زمانے کو بوسہ دے کر زندہ کر دے۔ ہر فن کار کی طرح وہ بھی موت اور زندگی کی چنگل سے آزاد ہو کر امر ہو جانے کا متمنی ہے اور اس مقصد کے لیے وہ خالق کے تخلیقی الاؤ سے ایک چنگاری حاصل کر اپنے قلم سے ایک ایسا فن پارہ تخلیق کرنا چاہتا ہے جس کی تصدیق خود خالق بھی کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے خود بھی احساس ہے کہ اس فن پارے کی حسرت دل میں لے کر ان گنت تخلیق کار موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ لیکن تمام تر دلی حسرتوں اور تمناؤں کے باوجود عملی طور پر نظم کا متکلم زندگی کی لایعنی "چوہا دوڑ” میں شریک ہو کر دونوں ہاتھوں سے دولت بٹورنے میں مصروف یا مجبور ہے۔ اسے بڑی شدت سے اس کا احساس بھی ہے، اور وہ اپنے وجود سے بھی گھن کھاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس چوہا دوڑ کی کشش اتنی ہے کہ وہ اس سے دامن نہیں چھڑا سکتا، اور اندر ہی اندر جلتا بھنتا رہتا ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جو نظم کے متکلم کا المیہ اور نظم کا بنیادی قضیہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں (بلکہ شاید دنیا بھر میں) ہر تخلیقی فنکار کو یہی دو طاقت ور زمینی و آسمانی جبلتیں مخالف سمتوں سے کھینچتی رہتی ہیں۔

لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے نظم کو بہت لمبا سفر طے کرنا پڑا ہے۔ اتنا ہی سفر جتنا اس کائنات کو "آج” تک پہنچنے میں لگا ہے۔ بلکہ نظم تو کائنات اور وقت کی تشکیل سے بھی پہلے تک جاتی ہے جب "ریشمی انگلیاں” ابھی خواب کا تانا بانا بن رہی تھیں۔ لیکن یہاں بات صرف سائنسی نہیں ہے، کیوں کہ سائنس اپنے آپ کو صرف "کیا” تک محدود رکھتی ہے، اس کے پاس "کیوں” کا جواب نہیں ہے۔ نظم ایک قدم آگے بڑھ کر مذہب کا سہارا لیتے ہوئے حدیثِ قدسی کا حوالہ دے کر کائنات کی تشکیل کی وجوہات کو بھی نشان زد کرتی ہے : "میں ایک مخفی خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے کائنات کو پیدا کیا۔ "

حمید شاہد صاحب نے ابتدائیے میں بڑی عمدہ بات کی ہے : ” تخلیق یہاں اپنی کل کے ساتھ موجود ہے مگر اس ووکیشن کے انتظار میں کہ جس نے اسے منکشف کرنا ہے۔ ” یہی ووکیشن یا وظیفہ تخلیقی فن کار اور خالقِ کائنات کے درمیان مشابہت کو بھی نشان زد کرتا ہے۔ انسان کی آمد سے پہلے خالق کہکشاؤں یا کائناتوں کی بھیڑ بھاڑ میں بے حد اکیلا تھا، کوئی اسے جانتا نہیں تھا، اس نے انسان کو پیدا کیا تاکہ وہ اسے پہچانے۔ لیکن انسان بھی دنیا میں اعداد و الفاظ کی بھیڑ میں گھر کر اسی طرح کی تنہائی محسوس کر رہا ہے جو خالق کو درپیش تھی۔

اعداد و الفاظ کی بھیڑ میں

کس قدر میں اکیلا ہوں؟

تجھ کو خبر ہے !

علی ارمان نے نظم کے "سپرڈینس” ہونے کی بات کی ہے، جو اوپر دی گئی ہوئی آخری سطر سے بھی ظاہر ہے۔ "تجھ کو خبر ہے ” کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ ظاہر ہے خالق دلوں کے حال جانتا ہے اس لیے اسے سب خبر ہے۔ لیکن سطر کے آخر میں لائی گئی ندائیہ علامت کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ اب "تجھ کو خبر ہے !” کا مطلب یہ بنتا ہے کہ تجھے اس لیے خبر ہے کہ یہ سب تجھ پر بیت چکی ہے۔ یہاں خالق سے مکالمہ وہ شکل اختیار کرتا ہے جیسے دو حال آشنا راز شریک ایک دوسرے سے محوِ کلام ہوں۔

فی الحال اتنا ہی۔ ابھی بہت کچھ کہنے کی گنجائش موجود ہے جو اگلی نشست میں۔

محمد یامین: زیف صاحب آپ نے کمال خوب صورتی سے نظم کا ایک اور پردہ سرکا دیا ہے۔ میرا خیال ہے اب اتنی روشنی ہو گئی ہے کہ کوئی سو نہیں سکتا۔۔۔

محمد یامین: معزز اراکین حاشیہ!زیف صاحب نے نظم کے عنوان پر گفت گو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نظم کتنی تہہ داری اور پیچیدگی سے مملو ہے۔ انہوں نے عنوان کے دو معنی دریافت کیے ہیں۔ واقعی اگر صرف عنوان کے چھلکے اتارتے چلے جائیں تو ایک ڈھیر لگ سکتا ہے۔ جیسے علی ارمان صاحب نے عنوان سے خود آگاہی کا ایک نکتہ نکالا اور زیف سید صاحب نے کہا کہ یہ دراصل موت ہے جو نیند میں چلنے کی بیماری میں مبتلا ہے۔ اسی طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نیند بھی موت کی ایک شکل ہے۔ نیند کو غفلت کے معنوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں ہم بے خبر ہوتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ موت بے خبر نہیں ہے۔۔۔ پھر اس نیند کا اصحابِ کہف کی نیند سے بھی موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ ان محترم اصحاب سے پہلے حمید شاہد صاحب نے ابتدائیے میں جن اہم نشانات کو نظم کی تعبیر کے لیے اجاگر کیا ہے ان میں تخلیق کی ما بعد الطبیعات، تخلیقی تنہائی، نظم کی متھ اہم نشانات ہیں جن کی مدد سے نظم کے مرکزے تک جھانکا جا سکتا ہے۔۔ اس تعبیر سے ہمیں یہ جاننے میں سہولت ہوئی ہے کہ نظم کا مخاطب ما بعد الطبیعاتی کردار ہے۔ لیکن اس کردار میں کبھی کبھی تانیثی کریکٹر کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے دیکھتے ہیں کہ ہمارے فاضل دوست کیا تعبیر کرتے ہیں۔۔۔۔۔

علی ارمان: صاحب صدر آپ نے بجا فرمایا کہ امیج کنکریٹ ہی ہوتا ہے۔ امیجزم کی تحریک بنیادی طور زبان کے ایبسٹریکٹ اور ڈھیلے ڈھالے اور دھندلے استعمال کے خلاف پیدا ہوئی تھی۔ شاید میں اپنی بات کی وضاحت نہیں کر سکا نظم کے پہلے بند کے حوالے سے۔ خواب ایک ایبسٹریکٹ کیفیت ہے یا لفظ ہے بننا یا بنتی ہوئی ایک کنکریٹ عمل اور ریشمی انگلیاں بھی ایک کنکریٹ چیز۔ مگر خواب بنتی ہوئی ریشمی انگلیاں جب مل کر ایک تصویر یا امیج بناتے ہیں تو یہ ایبسٹریکٹ اور کنکریٹ کا ایک امتزاج ہے۔ خواب اس میں پرسانی فائی ہو جاتے ہیں۔ میں نے اس طرف اشارہ کیا تھا۔ سمبل بھی پہلی سطح پر ایک امیج ہی ہوتا ہے بہرحال۔

نظم پر کچھ اور دوستوں کے بات کرنے سے نظم کی دھند کچھ چھٹنی شروع ہوئی ہے۔ مزید بات ہو گی تو نظم کے کئی اور پہلو سامنے آئیں گے۔

میں نے نظم کے مجموعی تاثر پر بات کی تھی اور اس کا ایک مرکزہ دریافت کرنے کی کوشش کی تھی

Like we say in English at the end of a story "so The moral of the story is”

مگر میں نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ یہ اتنا آسان نہیں۔ جیسے راشد کی نظم ہوتی ہے کہ وُہ ایک بنیادی بات اور استعارے کو اپنی پوری نظم میں

پھیلاتا چلا جاتا ہے۔

In Rashid’s poetry the random shifts are blinds turns are rare but even if they are , they are predictable.

فرشی صاحب کی نظم کا جو رویہ ملتا ہے وُہ ایک عجیب بلینڈ بناتا ہے۔ ان کے ہاں آہنگ راشد مجھے راشد سے قریب اور نظم کی دیگر بنت کا رویہ میرا جی کے قریب لگتا ہے۔

اس نظم کا پہلا بند پڑھ کر میرے ذہن میں ایک عورت کا ہیولا ابھرا تھا۔ جو ماں کے تصور کے قریب ہے۔

میں نے دیکھی نہیں

خواب بُنتی ہوئی ریشمی انگلیاں

جن کا لمسِ گداز ایک دن)

وقت کے سرد گالوں سے بہتا ہوا

میرے ہونٹوں پہ آیا

تو صدیوں کی نمکینیاں

سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں

(ابھرے پہاڑوں کا اک سلسلہ بن چکی تھیں

مگر تیسرے بند میں جا کر ماں کا یہ تصور الوہیت کی چادر اوڑھتا دکھائی دیتا ہے

مگر یہ کنارہ کوئی کہکشاں تو نہیں تھا

کہ میں تیرے لا وقت ساحل پہ

خود اپنے پاؤں کے مٹتے نشاں دیکھ کر مسکراتا

وہ گنتی کا معکوسی زینہ تھا

تخت الثریٰ تک رواں (رینگتی) آب نائے تھی

خدا اور ماں کا تصور مدغم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

گود سے گور کی علامت پھیل کر انسان کی تخلیق پر محیط ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور انسان ایک ماں یا خدا یا خدا یا ماں سے بچھڑا ہوا ایک ایسا بچہ جو ساری زندگی کو نیند میں چلتی موت سمجھتا ہے۔

میں پوری نظم میں نظم کی پیدائش کا تخلیق کا لمحہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وُہ کون سا جذباتی یا فکری بحران کا لمحہ تھا جس نے یہ نظم تخلیق کروائی تو مجھے سراغ ان لائنوں سے ملا کہ دراصل یہ اس نظم کی ابتدا کا سبب ہیں

میں کتنے دنوں بعد آیا ترے درد کو چومنے ؟

حساب اِس خجالت کا کرتے ہوئے

کتنے آنسو گرے ؟

میں نہیں گن سکا

شاعر کی یہ مراجعت ہی اس نظم کی تخلیقی کا باعث بنتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ مراجعت اسے ایک ایسی زندگی یا زندگی کے تصور کی طرف لے جاتی ہے جہاں اپنی ماں یا خدا یا خدا یا ماں سے بچھڑا ہوا یہ بچہ زندگی کو حقیقی جانتا ہے۔

زندگی میں اگر جوہر زندگی نہ ہو تو وُہ نیند میں چلتی موت ہی ہوتی ہے۔

جگر کا ایک شعر یاد آ گیا

وہی ہے زندگی لیکن جگر یہ حال ہے اپنا

کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

نظم آخری بند تک آتے آتے ایک گزارش یا دعا میں ڈھل جاتی ہے

فاصلہ نیند اور موت کے درمیاں

اپنی موجودگی سے بنا

کر عطا معجزاتی ہنر

میں تو نوٹوں کی گنتی میں مصروف

اندھے زمانے کے ہاتھوں کی

وہ مَیل ہوں

جس پہ مکھی بھی آ کر نہیں بیٹھتی!۔

آخری چار لائنیں شاعر کی کرب انگیز مجبوری کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں جہاں وُہ اپنی آئیڈیل زندگی کے تصور سے دوبارہ اپنی وجودی حقیقت کی طرف آتا ہے تو اپنے آپ کو مادی دھوڑ دھوپ میں مصروف ایک رائیگاں اور بے مایہ فرد پاتا ہے جو دن رات نوٹوں کی گنتی میں مشغول ہے۔ نوٹوں کی گنتی میں مشغولیت کو ہم میٹیریلزم کا علامت گردان سکتے ہیں۔ یوں یہ پوری نظم زندگی میں جوہر زندگی تلاش کا سفر دکھائی دیتی ہے۔ اس نظم سے میرے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات میری رفتار تحریر سے کہیں زیادہ تیز ہیں سو شاید بات کہیں کہیں الجھ گئی ہو۔ یا میں پوری طرح وضاحت نہ کر سکا ہوں۔ اس کے لیے دوستوں سے معذرت۔

ظفر سید: صاحبِ صدر: ابرار احمد صاحب نے نظم پر اپنے تاثرات رومن اردو میں لکھ کر بھیجے ہیں جو اردو رسم الخط میں حاضرِ خدمت ہیں۔۔۔

نظم دراصل وہاں سے آغاز ہوتی ہے جہاں یہ ختم ہو رہی ہے۔ یعنی یہ نظم اختتام سے آغاز کی جانب سفر کرتی ہے۔ ایک وجودی صورتِ حال، ایک خارجی حقیقت جو ہونے کی ذلت سے عبارت ہے، شاعر کو نامعلوم کے سفر پر روانہ ہونے پر مجبور کرتی ہے جسے "فنتاسی” بھی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اذیت ناک احساس اس تخلیق کا محرک ہے۔ شاعر اپنی ذلت آمیز موجودگی کو کوئی ارفع معنی دینا چاہتا ہے اور اس جہاں میں جا نکلتا ہے جو مجرد، غیر حقیقی اور تصوراتی ہے۔ اس کی حدود واضح نہیں ہیں۔ یہ کوئی الوہی طاقت، کسی غیبی دانش کا معاملہ ہے۔ لیکن پھر اس میں سے ایک انسانی محبت بھی ظاہر ہوتی ہے، جسے Eternal She بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان دونوں کا باہم آمیز ہونا نظم کو جہاں مختلف ابعاد عطا کرتا ہے، وہیں اس کی تفہیم کو مشکل بھی بنا دیتا ہے۔ یہ میرے نزدیک اس نظم کا مرکزی خیال یا کشمکش ہے۔

ظفر سید: جنابِ صدر: حاشیہ میں پیش کی جانے والی گذشتہ نظموں پر بحث کے دوران نظم کے اندر موجود کہانی، ماجرے یا واقعے کا ذکر آیا تھا (خاص طور مجید امجد کی نظم "جن لفظوں میں” ملاحظہ ہو)۔ میں بھی کوشش کرتا ہوں کہ "نیند میں چلتی موت” کی "کہانی” کو سامنے لا سکوں۔

میرے خیال سے "نیند میں چلتی موت” ایک ایسی نظم ہے جس نے علی محمد فرشی کی شاعری کے تمام نہیں تو اکثر بنیادی موضوعات اپنے دامن میں سمیٹ لیے ہیں۔ مثال کے طور پر فرشی صاحب کی بقیہ شاعری میں عموماً اور "علینہ” میں خصوصاً ذاتِ مطلق کو نسوانی روپ میں دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔ یہ بات کم از کم میری معلومات کی حد تک اردو شاعری میں انوکھی ہے۔ (برصغیر کی بھکتی شاعری میں اس کے الٹ ہے، کہ وہاں شاعر اپنے آپ کو محبوبہ کے روپ میں اور کرشن کو محبوب کے روپ میں دکھاتا ہے۔ )

لیکن زیرِ بحث کا نسوانی کردار علینہ سے مختلف ہے، کیوں کہ یہاں یہ کردار ماں کے روپ میں آیا ہے۔ یہ بات نظم کی ابتدائی دو سطروں سے واضح ہو جاتی ہے :

میں نے دیکھی نہیں

خواب بُنتی ہوئی ریشمی انگلیاں

ماں بننے والی عورت اپنے نا مولود بچے کے لیے موزے یا سویٹر بنتی ہے اور اس دوران آنے والے بچے کے بارے میں سوچ سوچ کر اس کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھر جاتی ہیں۔ ایسے ہی حقیقتِ مطلق کائنات کا تانا بانا بن رہی ہے اور آنے والا بچہ انسان ہے (حدیث ملاحظہ ہو کہ خدا انسان سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے )۔ یہ بچہ کیوں تخلیق کیا گیا، اس کی وجہ خالق کی ازلی تنہائی کو دور کرنا تھا۔ یا شیخ الاکبر ابنِ العربی کے الفاظ میں انسان کے وجود کا جواز یہی ہے کہ خالق اس کے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھے (یہ دکھنے دکھانے کی ساری مشیت)۔ اس نقطۂ نظر سے انسان بے حد اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ وہ خالق کی "ضرورت” بن گیا ہے، حالاں کہ خالق ہر ضرورت سے بے نیاز اور "صمد” ہے۔

نظم کی کہانی کی طرف واپس آتے ہیں۔ انسان کی تخلیق کے بعد کا کچھ زمانہ تو بڑے چین آرام سے گزرا، جب نہ صرف انسان بلکہ زمانے تک "خداوندِ اعلیٰ کے احکامِ رحمت اٹھائے ہوئے۔۔۔ رقص کرتے گزرتے ” تھے۔ آدم نے جنت میں اسی طرح کی عافیت کا زمانہ گزارا تھا۔

تجھے یاد آتے

تجھے یاد کرتے ہوئے

یوں گزرتے

کہ جیسے کسی بھید بھاؤ بھری چاندنی رات سے

چاند کا بانکپن

بادلوں کے لڑکپن کے گالے اڑاتے ہوئے

خواب لب ریز پریوں سے

چھُپ چھُپ کے گزرے

علی محمد فرشی کا ایک اور مرغوب موضوع Dystopia کا تصور ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ انیسویں صدی اور اسے قبل کے ادیب اکثر ایک ایسی خیالی دنیا (Utopia) کے خواب دیکھتے تھے جہاں انسان ہر فکر سے آزاد ہو کر سکون کی زندگی بتایا کرتا تھا۔ سائنس کی ترقی کے بعد یہ محسوس ہوا کہ شاید اسے استعمال کر کے انسان کی ضرورت سے زیادہ آسائشیں فراہم کر دی جائیں، جس کے بعد کسی ایک انسان کو کسی دوسرے انسان سے نزاع کی کوئی وجہ ہی باقی نہ رہے۔ لیکن بیسویں صدی کے آتے آتے انسان کے تمام آدرش چکنا چور ہو گئے۔ خاص طور پر پہلی جنگِ عظیم نے یہ ثابت کر دیا کہ سائنس بھی انسان کے استحصال کا ایک اور آلہ ہے۔ بہت سے ادیبوں نے اس کے ردِ عمل میں Dystopia لکھے۔ یہ سلسلہ ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ سے لے کر Brave New World, 1984, Animal Farm, A Clockwork Orange وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔ فرشی صاحب نے بھی اس موضوع پر کئی نظمیں تحریر کی ہیں، اور اس سلسلے کی نمائندہ نظم "سائبیریا” ہے۔

"نیند میں چلتی موت” کا Dystopia وہیں سے شروع ہوتا ہے، جہاں خالق و مخلوق کے درمیان "یاد کرنے ” اور "یاد آنے ” کا تعلق ٹوٹ گیا۔ (اس کا تقابل مذہبی روایت سے کریں جہاں انسان کے مسائل وہاں سے شروع ہوتے ہیں جب ممنوعہ پھل کھانے کی پاداش میں آدم و حوا کو جنت سے نکال کر دنیا کے قعرِ مذلت میں پھینک دیا گیا تھا۔ )

انسان کے دنیا میں آنے کے بعد نظم ایک اور کروٹ لیتی ہے۔ میں نے گذشتہ تحریر میں عرض کیا تھا کہ یہ انسان کوئی عام آدمی نہیں بلکہ تخلیق کار ہے۔ خالق سے رابطہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے یہ بھی "اعداد و الفاظ کی بھیڑ” میں اکیلا رہ گیا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے خالق کائنات کی تخلیق سے پہلے اکیلا تھا۔ (میں کائنات کی تخلیق کو بگ بینگ اس لیے نہیں کہہ رہا کہ بات اب آگے بڑھ کر "ملٹی ورس” تھیوری تک جا پہنچی ہے، جہاں بگ بینگ واقعات کے لامتناہی سلسلے میں محض ایک اور واقعہ ہے )۔ خالق نے تخلیق کے ذریعے اپنی تنہائی دور کرنے اور اپنے ہونے کا احساس حاصل کرنے کے لیے انسان کو تخلیق کیا۔ اب انسان خالق کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ایسی تخلیق چاہتا ہے جس پر خالق اپنی مہر ثبت کر کے انسان کو اس کے وجود کا احساس دلائے :

۔۔۔ لاکھوں ورق

میں نے کالے کیے

مگر ایک لمحہ بھی میرے قلم پر

وہ خوش رنگ الہام بن کر نہ اترا

جسے تیرے ہونٹوں کی تصدیق ملتی

یہاں دل چسپ گھمرگھمیری ملاحظہ ہو کہ خالق اپنے ہونے کی تصدیق اپنی تخلیق کی وساطت سے چاہتا تھا، اب اس کی تخلیق اپنے خالق سے اپنے ہونے کی تصدیق اپنی تخلیق کی وساطت سے چاہتی ہے !!!

لیکن افسوس کہ انسان مادیت کے شکنجے میں اس قدر جکڑا گیا ہے کہ اس کے اندر وہ تخلیقی صلاحیت ہی نہیں رہی کہ وہ کوئی ایسی تخلیق سامنے لا سکے۔ نظم کا آخری حصہ دعائیہ ہے جس میں متکلم خالق کے تخلیقی جوہر سے کوئی کرن مانگنے کی استدعا کر رہا ہے۔ لیکن یہ استدعا مایوسی کے پردے میں لپٹی ہوئی ہے، کیوں کہ متکلم جانتا ہے کہ وہ اس حالت کو پہنچ گیا ہے جہاں اس کے وجود پر تخلیق کی تتلی تو درکنار، میل پر پلنے والی مکھی تک بیٹھنے کی روادار نہیں۔ یہ Dystopia کی انتہائی صورت ہے۔

ظفر سید: جناب ابرار احمد کا ایک اور مراسلہ پیشِ خدمت ہے

میں واضح کر دوں کہ یہ پہلی نظم ہے جسے سمجھنے کی اس طرح کی مربوط گفتگو کی کوشش کر رہا ہوں۔ اور یقیناً میں ایک تربیت یافتہ قاری ہوں، نقاد نہیں ہوں، اس لیے سیدھی بات کروں گا۔

نظم کے متن سے رجوع کریں تو حوالہ دیے بغیر یہ کہنا دشوار نہیں کہ اس نظم کا اصل اور کلیدی سوال "تو” ہے۔ یہ "تو” کو ہے ؟ یہ کوئی محبوب وجود ہے جس کی طلب ہے شاعر کو؟ کوئی مجرد تصور ہے جس سے ملاقات ناممکن ہے ؟ یہ کوئی اپنا ہی عکس ہے جو کسی متوازی سفر پر رواں ہے ؟ یا پھر یہ خدا ہے ؟ اس کا حتمی طور پر تعین ممکن نہیں۔

نظم کی آخری لائنز ہیں

فاصلہ نیند اور موت کے درمیاں

اپنی موجودگی سے بنا

یہ موجودگی اس کی ضرورت ہے۔ گویا نیند اس کی وہ زندگی ہے جو غفلت کا شکار ہے، اپنے مفہوم سے عاری ہے اور موت اس کا منطقی انجام۔ اس دورانیے کو پاٹنے کے لیے اسے کسی "شیریں تکلم” اور "معجزاتی ہنر” کی ضرورت ہے جو واضح نہیں ہوتا کدھر سے آئے گا۔ لیکن بات اتنی سادہ بھی نہیں۔ مجھے موت انسان کی اجتماعیہ دانش بھی معلوم پڑتی ہے اور شاعر کے ہاں اس آگاہی اکتسابی نہیں، وجدانی ہوا کرتی ہے۔

ایک بار اور کہ سائنسی ترقی کائنات کے آغاز و انجام کے مباحث نئے نہیں اور ان کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم شاعری کی تفہیم و تنقید کے بنیادی اصولوں سے دست بردار ہو جائیں۔ دنیا بھر کی شاعری کی ادبی یا شعری اقدار میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی، اس لیے اس نظ کو بھی ہمیں اردو نظم کی عظیم تر روایت کے تسلسل ہی میں سمجھنا ہو گا۔

تصنیف حیدر: صاحب صدر! آپ کے حکم نامے کے باوجود شمولیت میں تاخیر ہوئی، اس لیے معافی چاہتا ہوں-میں نے فرشی صاحب کی نظم پڑھی، اور اس پر شاہد صاحب کا مبسوط ابتدائیہ اور علی ارمان، ظفر سید اور ابرار احمد صاحبان کی آرا کو بھی توجہ سے پڑھا-ظفر صاحب کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ "میرے خیال سے یہ متکلم آدم کا قائم مقام ہے اور آدمیت کی نمائندگی کر رہا ہے -مگر اس میں اک ذرا اضافہ کر کے متن کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ آدمی کس دور کا ہے ؟ کون سے زمانے کا ہے ؟ ابرار صاحب نے کہا ہے کہ نظم کا سب سے بڑا مسئلہ مخاطب کا تعین ہے مگر میرے نزدیک متکلم کی صحیح شناخت بھی نظم کی تفہیم کے در وا کر سکتی ہے – فرشی صاحب کی اس نظم کے حوالے سے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کا شمار ان نظموں میں ہوتا ہے جن پر سیاق کی تبدیلی بہت زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی- اچھا یہ بھی کہ نظم اپنی بنت میں محض ایک تصور کی حاکمیت کی دعویدار نہیں ہے بلکہ اسے مختلف تصورات کی خورد بینوں سے آنکا جا سکتا ہے لیکن میرے خیال میں تصورات کے آلوں سے زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ نظم کو آفاقیت کے تناظر میں ڈی کوڈ کیا جائے – آفاقیت کا یہ لفظ یہاں تصور محض کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس ہمہ گیریت کے احساس سے پیدا ہوتا ہے جو نظم کو مختلف زمانی سیاق کے تبدل کے باوجود اک سدرۃ المنتہا کے آگے جانے سے روک دیتا ہے – نظم کی پہلی سطر میں دو سوال پوشیدہ ہیں-

میں نے دیکھی نہیں (کیا/کیوں)

کیا کا تو جواب مل گیا، مگر کیوں کا جواب نہیں ملا- یعنی خواب بنتی ہوئی ریشمی انگلیاں کیوں نہیں دیکھیں؟ یہیں سے متکلم اور قاری دونوں کی پریشانی شروع ہوئی- مگر ان دونوں کے اضطراب میں فرق ہے، متکلم اسی جواب کی تلاش میں جو خود کلامی کر رہا ہے وہ "نظم” ہے – مگر قاری کی بے چینی یہ ہے کہ وہ شاعر/متکلم کے اس سوال کو کس خانے میں رکھے ؟ یعنی خواب بنتی ہوئی ریشمی انگلیاں کس کی وجہ سے نہیں دیکھنے کو ملیں؟ اس میں خود متکلم کی کوتاہی تھی جس کا اعتراف وہ نظم میں کر بھی رہا ہے یا اس دور، ماحول، سماج کی جس نے اسے یہ انگلیاں دیکھنے کی مہلت ہی نہیں دی- غالب یاد آئے

محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا

یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

ابرار صاحب اس طرف اشارہ کر چکے ہیں پھر بھی یہاں یہ سوچے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ نظم اس پر بھی اصرار کرتی ہے کہ مخاطب متکلم کی خود نا شناسی، خود محرومی یا فطرت ہی ہے – اتنی دور تک نکل آنے کے بعد مجھے عنوان یاد آیا تو صاحب نیند میں چلتی موت اور خواب دو متضاد اور باہم متصادم استعارے ہیں بلکہ نظم کے کلیدی استعارے ہیں- نیند یوں تو بجائے خود موت کی علامت ہے مگر آج کا قاری (میرے الفاظ پر غور کیا جائے ) اس عنوان کی ترکیب سے مادیت کی انہی گلیوں میں بھٹکنے لگتا ہے جن میں ہوڑ، ہوس، بھگدڑ، چھینا جھپٹی جیسے الفاظ نے بزنس کا لبادہ اوڑھ لیا ہے، صارفیت نے اصول پرستی کے معنی ہی بدل کر رکھ دیے ہیں، نطشے کا نظریہ ملکیت و قوت یہاں بالکل نئے ملبوس میں نظر آتا ہے، خواہشیں ضرورت میں بدل چکی ہیں- اب ذرا پہلے بند کے اس حصے کی طرف آئیے

خواب بُنتی ہوئی ریشمی انگلیاں

جن کا لمسِ گداز ایک دن)

وقت کے سرد گالوں سے بہتا ہوا

میرے ہونٹوں پہ آیا

تو صدیوں کی نمکینیاں

سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں

(ابھرے پہاڑوں کا اک سلسلہ بن چکی تھیں

یہاں علم الحساب کا یہ اصول سامنے رکھیے

(+ + – = – )

لمس گداز زندگی کی حرارت اور وقت کے سرد گال نے سخت نمک کے ان پہاڑوں کو تعمیر کیا جن کا سلسلہ سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں قائم ہوا تھا- یعنی اک مثبت کیفیت نے جب منفی تسلسل کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی تو نتیجے میں اک شعوری بے حسی نے جنم لیا جس نے جذبات کو تعیش کے راستے کی اک دیوار سمجھا- اور صرف جذبات کیوں؟ ادراک، فہم، مشاہدہ، مطالعہ، تعلق، تہذیب، تاریخ جیسی تمام چیزوں کے فطری رابطے پر بھی اثر ڈالا- لیکن میں اس توضیح کے درمیان پھر ایک بار زور ڈال کر کہہ دوں کہ میں نے ابھی صرف آج کے دور کی بات کہی ہے اور فی الحال میں اسی ایک سیاق میں بات کروں گا مگر اس نظم کو گزرے ہوئے کل کے فرعونوں کی آمریت کے دور میں لے جائیے یا آج کی اسرائیلیت کے دور میں، یہ نظم اپنے وجود سے کہیں انکاری نظر نہیں آئے گی- نظم کے متکلم نے سلسلہ کا لفظ نئے بند کے آغاز میں بھی استعمال کیا ہے مگر گزشتہ سلسلہ اس سے مختلف ہے، یہاں پھر بات سوال سے شروع ہوتی ہے -اور پھر اس بند کے تمام مصرعے اس سوال کی وضاحت میں جٹے ہوئے ہیں-

وہ کیا سلسلہ تھا

جو اک گود سے گور تک (ریشمی تار سا) تن گیا

یہاں گود (ازل) اور گور (ابد) دو ایسے انکشافی استعارے ہیں جو خدا کی تمام مخلوقات میں انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے دعوے پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں اور وہ تمام ابعاد جو انسان اور دیگر مخلوقات کے درمیان موجود ہیں ان کی شماریات کا عمل انجام دینے لگتے ہیں- پھر ذہن عنوان کی جانب پلٹتا ہے کہ شاعر نے زندگی کو نیند میں چلتی موت اسی سبب سے کہا ہے کہ ہماری زندگی میں تحرک ہی اک ایسا عمل ہے جو دیگر جانداروں کی طرح ہم میں بھی زندگی کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ تمام جاندار اشیا دنیا کو اپنے حقیر سے حقیر ترین وجود سے بھی کچھ ایسا دے جاتی ہیں جس سے فطرت کا سانسیں چلتی رہیں، مگر میں (ہم؟ انسان؟ آدمیت؟) فرشی صاحب کا مصرع بول اٹھا

"ترے سانس میں سانس لینے کی راحت”

کچھ سوال نظم کے ہالے میں موجود ہیں، جیسے وہ اندھا زمانہ کیا آگے کا ہے اور خاص طور پر آخری مصرع ذہن کو ا؟

ظفر سید: ابرار احمد صاحب کی ایک اور تحریر پیشِ خدمت ہے

خدا کے ساتھ ساتھ ماں کی موجودگی پر ظفر صاحب نے بات کی ہے اور علی ارمان صاحب نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے، لیکن اسے تھوڑا اور کھولنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ماں کی بجائے خالق کی انگلیاں ہوں۔ نسوانی کردار کیا ایک parallel ہے ؟ یا دونوں ایک مظہر کے نشان؟ دوست رہنمائی کریں کہ نظم کا organic whole کس سطح پر مکمل ہے۔ کہیں یہ نظم ایک آدھ جگہ پر گاڑھی (dense) تو نہیں؟ اور اس کے جمالیاتی رخ پر بھی روشنی ڈالنی ضروری ہے۔ خود شاعر کی گذشتہ نظموں کے حوالوں کے ساتھ اسے ایک الگ اکائی کے طور پر دیکھنا زیادہ ضروری ہے۔ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں اور ممکن ہے بات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے دوستوں کی آرا میری بہتر رہنمائی کر سکیں۔

محمد یامین: جناب ابرار حیدر، تصنیف حیدر، اور زیف سید نے قابلِ غور نکات سامنے لائے ہیں۔ خاص طور پر زیف سید نے علی محمد فرشی کی شاعری کو اس نظم کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ کہنا قابلِ غور ہے کہ فرشی صاحب کی بقیہ شاعری میں عموماً اور "علینہ” میں خصوصاً ذاتِ مطلق کو” نسوانی روپ میں دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔ یہ” بات کم از کم میری معلومات کی حد تک اردو شاعری میں انوکھی ہے۔ (برصغیر کی بھکتی شاعری میں اس کے الٹ ہے، کہ وہاں شاعر اپنے آپ کو محبوبہ کے روپ میں اور کرشن کو محبوب کے روپ میں دکھاتا ہے۔۔ )

اس مقام پر بحث نہایت اہم موڑ پر آ گئی ہے۔ یہ سوال قابلِ غور ہے کہ کیا ذات حقیقی کو جس طرح اپنی شاعری کے آئینے میں فرشی صاحب نے دیکھا اور دکھایا ہے اس کی مثال اردو شاعری میں موجود ہے کہ نہیں ہے ؟ میں تمام صاحبان سے امید رکھتا ہوں کہ اس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جناب ستیہ پال آنند، جناب جلیل عالی، جناب عمران شاہد بھنڈر، جناب ناصر عباس نئیر، آپ ابھی تک شاید حاشیہ کے لیے وقت نہیں نکال سکے۔ ملتمس ہوں کہ وقت نکالیں اور اس اہم نکتے پر اپنی رائے سے نوازیں۔ تصنیف حیدر آپ نے اہم باتیں کی ہیں سوالات بھی اٹھائے ہیں، اب ذرا مذکورہ بالا نکتے پر بھی غور کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد دیگر زاویوں سے بھی نظم پر غور کیا جائے گا۔

محمد یامین: معذرت۔۔۔۔۔۔ ابرار احمد

ظفر سید: جناب ابرار احمد کا مراسلہ:

لیجئیے جناب، میں بن بلائے مہمان کی طرح پھر حاضر ہوں! میں نے نظم کے "مخاطب” کے حوالے سے سوال اٹھایا تو تصنیف صاحب نے کہا کہ نظم کا متکلم بھی واضح نہیں ہے۔ گویا دونوں حوالوں سے سوالیہ نشان موجود ہے۔ تو حضور یہ لازمی ٹھہرا ہے کہ پہلے ان بنیادی سوالوں کا جواب تلاش کیا جائے۔ یہ درخواست نہ جانے کیوں ملتوی رکھی جا رہی ہے۔ اگر نظم کی تفہیم ہی نہیں ہو گی تو پھر یہ حکم لگانا بھی غیر متعلق ہو جاتا ہے کہ اس میں قادرِ مطلق کو مؤنث کیا گیا ہے، تو کس طرح؟ بار بار کی قرأت کے باوجود مجھ پر یہ اسرار نہیں کھل رہا کہ نظم کا مخاطب دراصل ہے کون؟ پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ذاتِ مطلق یا حقیقی کے جس تصور کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے وہ vertical مذہب سے وابستہ ہے horizontal مذہب سے نہیں۔ اس پس منظر میں یہ کہنا کہ "ذاتِ حقیقی کو جس طرح اپنی شاعری کے آئینے میں فرشی صاحب نے دیکھا اور دکھایا ہے اس کی مثال اردو شاعری میں موجود ہے کہ نہیں” ذرا جلد بازی کا مظاہرہ دکھائی دیتا ہے۔

میری ایک الجھن اور بھی ہے۔ نظم کے ابتدائیے میں برادر حمید شاہد نے اس نظم کو شاعر کے مجموعی کام کے تناظر میں دیکھا اور دکھایا ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں کہ یہ ایک عمدہ شاعر کو سمجھنے کا صائب قرینہ ہے۔ ہمارے دیگر دوست بھی اسی حوالے سے بات آگے چلانے کی کوشش میں ہیں۔ اب آپ اگر ذرا جاوید انور کی نظم پر ہونے والی گفتگو کو دیکھیں۔ بات نظم تک محدود رہی اور ادھر ادھر ہوئی بھی تو وہ اور طرح سے۔ جاوید انور اہم شاعر ہے اوراس کی اپنی ڈکشن اور poetic ambience ہے۔ اس کی نظم کو اس کے مجموعی کام کے تناظر میں نہیں دیکھا گیا تو یہ اس فورم کے فارمیٹ کا تقاضا قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی حلقے کی روایت بھی ہے۔ لیکن یہاں اس فرق کی سمجھ بھی نہیں آ رہی مجھے۔ اس نوع کے کام کی ہمیں یقیناً ضرورت ہے لیکن اس کے لیے باقاعدہ آگاہ کیا جانا ضروری ہے، یا تھا

ظفر سید: صاحبِ صدر: ابرار احمد صاحب نے نظم اور اس کی تفہیم پر کچھ سوال اٹھائے ہیں۔ آپ کی اجازت سے میں ان میں سے کچھ کے جواب دینا چاہتا ہوں۔

متکلم

اس سوال کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے۔ میرے خیال سے متکلم آدم کا قائم مقام ہے اور آدمیت کی نمائندگی کر رہا ہے۔ نظم میں آگے چل کر پتا چلتا ہے کہ یہ متکلم عام آدمی نہیں بلکہ تخلیقی انسان ہے کیوں کہ وہ محبت کی داستان لکھتے لکھتے لاکھوں ورق کالے کر چکا ہے اور اپنے آپ کو اعداد و الفاظ کی بھیڑ میں اکیلا سمجھتا ہے۔ نظم کے آخر میں متکلم تخلیق اور روزگار کے پاٹوں میں پستے ہوئے انسان کے روپ میں سامنے آتا ہے۔

تصنیف حیدر نے پوچھا ہے کہ یہ آدمی کس دور کا ہے ؟ کون سے زمانے کا ہے ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ انسان ہر دور کا ہے، کیوں کہ نظم ابتدائے آفرینش سے لے کر انسان کی تخلیق اور انسان کی تخلیق سے لے کر "آج” تک محیط ہے۔

مخاطب

دکھنے دکھانے کی ساری مشیت، ترے نام کی ناؤ مجھ کو کنارے لگاتی، ترے لا وقت ساحل، وغیرہ سے تو یہی قرینہ بنتا ہے کہ مخاطب خالق ہے۔

ظاہر ہے کہ تنقید میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اس تعبیر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، جو کہ ہر قاری کا بنیادی حق ہے۔ اس سلسلے میں دوسرے دوستوں کی آرا کا انتظار رہے گا۔

جناب ابرار احمد نے ایک اور سوال اٹھایا ہے کہ فرشی صاحب کی نظم پر بات کرتے وقت ان کی شاعری کے مجموعی تناظر کو مدِ نظر رکھا گیا ہے جب کہ جاوید انور صاحب کی نظم پر بات کرتے ہوئے بات اسی نظم تک محدود رہی۔ میں اس ضمن میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ کسی نظم پر کس نقطۂ نظر سے بحث کی جائے، اس کے لیے کون سے تنقیدی آلات استعمال کیے جائیں، یہ کلی طور پر تبصرہ نگاروں کے ہاتھوں میں ہے، اس کا "حاشیہ” کی کسی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ "حاشیہ” کے قواعد میں صرف اتنا لکھا ہوا ہے کہ

5تمام شرکائے بحث صدرِ جلسہ کو مخاطب کر کے اپنی گفتگو کا آغاز کریں گے، براہِ راست دوسرے اراکین سے گفتگو اور ذاتی حملوں سے گریز کریں گے اور اپنے مکالمے کو حتی الوسع زیرِ بحث تخلیق تک محدود رکھنے کی کوشش کریں گے۔

اگرچہ جاوید انور کی نظم پر بحث بند ہو چکی ہے، لیکن اگر ان کی کسی اور نظم کے ذکر سے "ہزارے کا مہمان کیا بولتا” کی تفہیم و تعبیر میں مدد مل سکتی ہے تو حاشیہ کے قواعد میں اب بھی اس کی گنجائش موجود ہے۔

اگر نظم پر بحث کے لیے دستیاب وقت کے بعد کوئی رائے نئے صدر کو موصول ہو جائے تو وہ شرکائے بحث میں سے دو اراکین کی تائید سے اسے جلسے کی کارروائی کا حصہ بنا دے گا۔

ظفر سید: جناب جاوید انور کا مراسلہ … پہلا حصہ

صدر محترم، میں سمجھتا ہوں کہ ایک نظم اپنے تئیں ایک اکائی ہوتی ہے اور اسے ایسا ہونا چاہئے – اُسے اپنے آپ کو اس شخص پر بھی کھولنا چاہئے، جو شاعر کے باقی کام سے ناواقف ہے – ہاں، اگر شاعر کا باقی کام کسی سطح پر ایک بڑی اکائی بنتا ہے تو استعاروں، علامتوں وغیرہ کی اس پس منظر میں کسی ایک نظم کی تفہیم اس کی ایک اضافی خوبی بنتی ہے، اگر یہ نظم اس بڑے منظر نامے میں کوئی اضافہ کرے تو——، لیکن اگر کوئی نظم اس پس منظر کے بغیر اپنا ابلاغ نہیں کرتی اور اس کی اوپری سطح کو گرفت میں لینے کے لئے بھی ہمیں شاعر یا اس باقی کام کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے تو کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہے –

اب آتے ہیں ہم زیر مطالعہ نظم کی طرف: نظم پیش کرتے ہوئے ہمیں بتایا گیا کہ یہ سمبل جنوری تا جُون میں چھپی ہوئی نظم ہے – جی، یہ سچ ہے، لیکن یہ سچ نہیں ہے، چونکہ درج بالا شمارے میں چھپی ہوئی علی محمد فرشی کی نظم کا عنوان’’ نیند میں چلتی ہوئی موت‘‘ نہیں، بلکہ’’ نیند اور موت کے درمیان‘‘ ہے -یہ بات تین سطحوں پر اہم ہے :

1- نظم کی شائع شدہ صورت سے پیش کردہ صورت تک آتے ہوئے شاعر بیچ میں آیا ہے – جب کہ کہا یہ گیا تھا کہ شائع شدہ نظموں پر ہی گفتگو کی جائے گی، کہ گفتگو کے لئے نظم شاعر خود پیش نہیں کر رہا، بلکہ وہ یعنی شائع شدہ نظم گفتگو کے لئے منتخب کی گئی ہے –

2- نئی نظم میں نظم کے عنوان کی حیثیت صرف اُسے ایک پہچان دینے کی ہی نہیں رہی، بلکہ اکثر اوقات یہ نظم کی معنویت میں بھی ایک یا ایک اہم کردار ادا کرتا ہے –

3- زیرِ گفتگو نظم میں اس کا عنوان اسے ڈیکوڈ کرنے میں میرا خصوصی معاون ثابت ہوا، جس پر میں بات کرنے جا رہا ہوں-

جی، صاحبِ صدر، اس نظم کے مفہوم تک پہنچنے کے لئے، یہ جاننے کے لئے کہ نظم کیا کہتی ہے یا بہتر لفظوں میں یہ کہ شاعر کیا کہنا چاہتا ہے، کیں کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ اسے پیچیدہ بنایا گیا ہے اور عنوان کی تبدیلی اس کا ایک ثبوت ہے، مجھے قریب قریب پورا ہفتہ اس نظم سے کشتی کرنا پڑی- میں نظم اور فن میں بنیادی طور پر معنوی گہرائی کا قائل ہوں، لفظی پیچیدگی کا نہیں- اور معنوی گہرائی تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ نظم اپنی اوپر والی سطح پر قاری کو نہ صرف اپنی طرف متوجہ کرے بلکہ اپنی گرفت میں بھی لے – اس نکتے پر مجھے فرشی صاحب کا’’ ہزارے کا مہمان کیا بولتا‘‘کا ابتدائیہ بھی یاد آتا ہے، جس میں انہوں نے اوراق اور فنون پر گفتگو کرتے ہوئے نظم کی گہرئی پر بھی بات کی اور نئی نظم کی تفہیم میں قاری کے پڑھا لکھا ہونے کی طرف اشارہ فرمایا- میں اس بات کو، یعنی صرف پڑھے لکھے قاری پر خود کو کھولنے کو نظم کی بنیادی خوبی نہیں سمجھتا- میرا نظریہ اس بارے میں یہ ہے کہ نظم یا کسی بھی فن پارے کی بڑائی یہ ہے کہ اپنی سطحی تفہیم کے بعد اور ساتھ ساتھ وہ زمان و مکان کی تبدیلی اور قاری کی علمی استعداد کے مطابق بھی اس پر نئی نئی جہات آشکار کرے –

صدرِ مکرم، اس نظم پر غور و خوض کرتے ہوئے پچھلے دنوں مجھے شدت سے ایک شعر

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجے

کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

کیوں؟

اس لئے کہ اس شعر میں معنوی گہرائی کی بجائے ایک پہیلی بیان کی گئی ہے – اور یہ کام اس نظم میں بھی موجود ہے (بارِ دگر سوری !!)- اور یہاں نظم کا وہ عنوان جو کہ سمبل میں چھپا ہے، ایک کی ورڈ کی طرح میرے کام آیا- ابتدائی قرأتوں نے مجھے بھی مخاطب اور متکلم، خدا اور ماں وغیرہ جیسے سوالوں میں الجھائے رکھا- خدا(مؤنث یا مذکر کی بحث میں پڑے بغیر) اور ماں پوری نظم کا ساتھ نہیں دے پاتے – اگر خدا مخاطب ہے تو غائب خدا (جس پہ چلتے زمانے — خداوندِ اعلی کے احکامِ رحمت اٹھائے ہوئے —) کیا بلا ہے ؟ اور اگر مخاطب ماں ہے تو ‘‘یہ دکھنے دکھانے کی ساری مشیت–یہ چھپنے چھپانے کی ساری اذیت——‘‘ کو کہاں فٹ کیا جائے ؟ یہ کیسی ماں ہے جو اپنے بچے سے لُکن میٹی کھیلنے میں لگی ہوئی ہے ؟

یہیں آتے ہیں صاحبِ صدر سمبل میں مطبوعہ عنوان (نیند اور موت کے درمیان) اور دوسرے بند کی دوسری سطر (اک گود سے گور تک) میری یا ہماری مدد کو–! اگر ہم نیند سے ازلی نیند یا ازل اور موت سے ابد ( اگرچہ یہ بھی ایک نیند ہی ہے، ابدی نیند !) مراد لیں تو ازل، ازلی نیند ( اور گود!) اور ابد، موت ( گور ! ) ہمیں بتاتے ہیں کہ مخاطب نہ خدا ہے اور نہ ماں، بلکہ زندگی ہے، ازل اور ابد درمیان ‘‘سمندر میں ابھرے پہاڑوں کا اک سلسلہ‘‘! اور

میں نے دیکھی نہیں

خواب بُنتی ہوئی مخملیں انگلیاں

سے مراد تخلیقی وفُور ہے – لفظ تخلیقی وفور میں شعوری طور پر استعمال کر رہا ہوں کہ یہ نا ہونے سے ہونے تک آنے یا لانے کا مرحلہ ہے اور کُچھ دہائیوں سے ہم اس مرحلے کو بگ بینگ کہنے کی عادت میں مبتلا ہیں- فرشی نے یہاں اس کے بالکل الٹ یعنی اچانک اور دھماکے کی بجائے لگاتار اور پیار کے لمس کے رُوپ میں دیکھا ہے – کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکوں !!! یا ‘‘یہ صہبائے امروز، جو صبح کی شاہزادی کی مست انکھڑیوں سے ٹپک کر بدورِ حیات آ گئی ہے !‘‘ (امروز از مجید امجد) کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ آفرینش کا یہ تصور بھی کوئی نیا نہیں ہے –

ظفر سید: جناب جاوید انور کا مراسلہ۔۔۔ دوسرا حصہ

اگر ہم نظم کی ‘‘فرشیانہ‘‘ تشریح کریں تو ہمیں اس کا آغاز اس نظم کے آخری بند کی دوسری سطر یعنی ‘‘کوئی نیند میں جاگنے کی اذیت نہیں جانتا‘‘ سے کرنا ہو گا-

سو، جنابِ  صدر، یہ نیند میں چلنا نہیں بلکہ نیند میں جاگنا ہے اور اس اذیت سے ہم میں سے وہ لوگ واقف ہیں جو اس حالت سے گزرے ہیں-

تاروں کا گو شمار میں آنا محال ہے

لیکن کسی کو نیند نہ آئے تو کیا کرے

جی، یہ ایک ظالم کیفیت کا نام ہے اور ہمارا شاعر (ایک فرد اور ایک انسان) اس کیفیت میں ہے – اپنی زندگی (یا نا زندگی ! ————- میں تو نوٹوں کی گنتی میں مصروف اندھے زمانے کی وہ میل ہوں جس پہ مکھی بھی آ کر نہیں بیٹھتی!) پر کُڑھتا ہوا! صاحبِ صدر، یہاں اپنے بزرگ مجید امجد پھر میرے کان میں کُچھ کھسر پھُسر کر رہے ہیں-

ان سونی تنہا راتوں میں

دل ڈُوب کے گزری باتوں میں

جب سوچتا ہے، کیا دیکھتا ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور

اور آج کسے معلوم، ضمیرِ  ہستی کا آہنگِ  تپاں

کس دور کے دیس کے کہروں میں لرزاں لرزاں رقصاں رقصاں

اس سانس کی رو تک پہنچا ہے

اس میرے میز پہ جلتی ہوئی قندیل کی لو تک پہنچا ہے

اور نظم کا یہ میں، یہ متکلم، یہ انسان یہ کہانی ( بیانیہ !!) سوچ اور بیان کر رہا ہے -اور جو اس سُونی تنہا رات میں، ایک شاعر سے اوپر اُٹھ کر نسلِ انسانی کی ایک علامت بن جاتا ہے

سو یہ تخلیقی وفور ہے، ایک دن جس کی خواب بنتی ہوئی انگلیوں کا لمس ِ گداز آدم تک بھی پہنچتا ہے، جب پہاڑوں کے سلسلے پہلے ہی بن چکے ہیں- گود سے گور تک تنے ہوئے اس سلسلہءحیات میں حیات یا زندگی ہی ہے جو شاعر سے، انسان سے، ہم سے آنکھ مچولی کھیل رہی ہے – زندگی، جسے یاد کرتے، جسے یاد کرتے ہوئے خداوندِ اعلی کے احکام اٹھائے ہوئے زمانے گزر رہے ہیں- ‘‘مگر ایک لمحہ بھی میرے قلم پر وہ خوش رنگ الہام بن کر نہ اترا جسے تیرے ہونٹوں کی تصدیق ملتی!‘‘ (بھائی، تو یہ کس سے مخاطب ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کب زندہ ہیں————- مجید امجد!——– بھائی مجید امجد آپ مجھے آج اس نظم پر بات کرتے ہوئے اس قدر یاد کیوں آ رہے ہیں اگرچہ نظم اور بہت سارے مصرعوں کی بناوٹ تو ن م راشد کی یاد میں سر دھن رہی ہے ؟؟؟؟؟)

اب جنابِ صدر، ہم آتے ہیں ایبسٹریکٹ اور کنکریٹ کی طرف! شاعری دراصل ایبسٹریکٹ کو کنکریٹ میں بیان کرنے کا نام ہے – اور اسی کو میں معنوی گہرائی بھی گردانتا ہے – گہری باتیں اگر ہمیشہ نہیں تو زیادہ تر آسان لفظوں میں کہی ہوئی ہوتی ہیں- مثال آپ الہامی کتابوں سے لے کر ہماری صوفیانہ شاعری تک سے لے سکتے ہیں- میری بُکل دے وچ شور!! جدید اور خصوصی طور پر مغربی زبانوں کی جدید شاعری میں کنکریٹ کو ایبسٹریکٹ کرنے کا رواج بھی چل نکلا ہے، بڑی مثالوں میں ایک مثال اوکتاویو پاز کی شاعری ہے – ایسا کرنے سے یعنی کنکریٹ کو ایبسٹریکٹ میں بیان کرنے سے نظم میں ایک سنسنی اور لفظی گہرائی تو آ جاتی ہے لیکن لفظوں سے گتھم گتھا ہو کر جب آپ معنی تک آتے ہیں تو آپ کا کیا حال ہوتا ہے، اس بحث میں پڑنے سے پہلے ہی میں سرا آپ کے ہاتھ میں تھما رہا ہوں-!

بہرحال اس موضوع پر بھی یعنی اس نظم کے فن پر بھی میں بات کرنا چاہوں گا، لیکن کچھ وقفے کے بعد- کیا یہ ایک اہم نظم ہے، کیا یہ ایک بڑی نظم ہے ؟ ایسا ہے تو کیوں اور ایسا نہیں ہے تو کیوں؟

محمد یامین: جناب جاوید انور۔ آپ کی رائے قابلِ احترام ہے۔ احباب اور انتظامیہ اس پر ضرور اپنے خیالات سے نوازیں گے تاہم آپ نے "فرشیانہ ” تشریح کی جو اصطلاح ایجاد کی ہے اس کے پیچھے کوئی ایسا خیال ضرور کارفرما ہے جو غیر جمہوری ہے کیوں کہ اس لفظ سے طنز کی بو آ رہی ہے۔ ایسے الفاظ سے اجتناب کی درخواست ہے۔

ظفر سیّد: : جناب جلیل عالی کا مراسلہ (بظاہر یہ نامکمل لگتا ہے۔ عالی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اس کا بقیہ حصہ بھی بھیج دیں)

 صدرِ محترم تاخیر سے شریکِ بحث ہونے پر معذرت!احباب نے نظم کے حوالے سے بہت وقیع باتیں کی ہیں۔ مگر میرا تاثر یہ ہے کہ ابھی تک کوئی ایسی جامع تفہیم سامنے نہیں آ سکی جو متن کے کسی بھی حصے اور حوالے کو تعبیر بدر کئے بغیر پوری نظم کا احاطہ کرسکے۔ مثال کے طور پر احباب کی تعبیر کے مطابق اگر خدا یا حقیقتِ مطلقہ کو نظم کی ضمیر مخاطب قرار دیا جائے تو اس مشکل کا کیا بنے گا کہ شاعر ضمیرِ مخاطَب سے مخاطِب ہو کر ہی تو سارا ماجرا کہہ رہا ہے۔ جس میں وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ "جس میں چلتے زمانے /خداوندِ اعلا کے احکامِ رحمت اٹھائے ہوئے / رقص کرتے گزرتے ” یوں معلوم ہوا کہ ضمیرِ مخاطب خدا تو بہر حال نہیں ہے۔ اس پر آگے چل کر بات ہو گی۔ مجھ پر یہ نظم ذرا اور طرح سے کھلی ہے۔

 میری حقیر رائے میں یہ نظم اپنے بنیادی معنوی ساختئے میں ایک مخصوص تہذیب/ملتِ اسلامیہ کی علمی و فکری اور ادبی و جمالیاتی روایت کے آغاز و ارتقا اور اس کے وابستگان کے عروج و زوال کو مرکزی موضوع بناتی ہے۔ (بے شک دوسری معنوی پرت میں مجموعی انسانی تہذیب کے عکس انداز ہونے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ )مرے اس خیال کو متن میں موجود (گود سے گور تک، خداوندِ اعلا کے احکامِ رحمت، دکھنے دکھانے کی مشیت، چھپنے چھپانے کی بھاری اذیت، تحت ا لثریٰ تک رواں آبنائے، خوش رنگ الہام، معجزاتی ہنر اور اندھے زمانے کے ہاتھوں کی میل جیسے استعاراتی اور تمثالی حوالے تقویت دیتے ہیں۔ مزید تقویت ایک ہم آہنگ تعبیر سے ملے گی۔

 نظم کی جامع تفہیم کی سعی میں اس کے درجِ ذیل اجزائے ترکیبی کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔

 (۱) واحد متکلم(خود شاعر اور علامتی طور پر عظیم تہذیبی روایت سے وابستہ زوال و انحطاط کا شکار تمام تخلیق کار)

 (۲) خواب بنتی ریشمی انگلیاں(عظیم تہذیب کا بنیاد گزار زمانہ /قرونِ اولیٰ/خیر ا لقرون جس کی تجسیم حضورِ اکرم کی ذاتِ گرامی ہے۔

 (۳) خداوندِ اعلا(ابدی و دوامی احکامِ رحمت عطا کرنے والی وحدہٗ لا شریک ہستی

 (۴) سنگ بستہ دلوں کا سمندر(صدیوں کی دوری پر عظیم تہذیب کی اعلا اقدار سے بے رشتہ افرادِ ملت)

 (۵) تاریخی و ارتقائی وقت

 (۶)زمانِ مطلق

 (۷) ضمیر مخاطَب(عظیم تہذیب کاسرمدی جوہر/روحِ روایت/ حقیقتِ محمدیؐ)

 یہ نظم چار حصوں پر مشتمل ہے۔

 پہلا حصہ”میں نے دیکھی نہیں۔۔ "سے "اندھے پہاڑوں کا اک سلسلہ بن چکی تھیں”تک کی سطروں پر محیط ہے۔

 اس حصے میں تہذیب اسلامی کے اولین زمانے (خیرا لقرون )کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے جب آں حضورؐ کی روحانی رہنمائی میں ایک عظیم تہذیب اور مثالی روایت کی بنیاد رکھی جا رہی تھی، واحد متکلم (شاعر)اس زمانے میں موجود نہیں تھا۔ اور شاعر کے عہد تک آتے آتے ملتِ اسلامیہ اپنے دورِ عروج سے گزر کر زوال و انحطاط کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ جس میں عام لوگ تو کیا تخلیق کاروں کے دل بھی سنگ بستہ ہو چکے ہیں۔

 دوسراحصہ”وہ کیا سلسلہ تھا”سے آغاز ہو کر”خواب لبریز پریوں سے چھپ چھپ کے گزرے "تک جاتا ہے۔

 اس حصے میں تہذیب اسلامی کے دورِ عروج کا ذکر ہے۔ جس میں حضورؐ کی یاد اور سیرت بنیادی حوالہ بنتی اور امت پر ان کی نگاہِ کرم اور امت کی ان سے سر مستانہ وابستگی کے دو طرفہ تعلق کی برکتیں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔

 تو مٹی پہ نقش و نگارانِ غم مسکراتے /تجھے یاد آتے /تجھے یاد کرتے ہوئے یوں گزرتے /۔۔۔۔

 (نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر)

 تیسرا حصہ”یہ دکھنے دکھانے کی ساری مشیت” سے شروع ہوتا اور "جسے تیرے ہونٹوں کی تصدیق ملتی”تک چلتا ہے۔

 اس حصے کی شروع کی سطریں غارِ حرا کی تنہائی اور نیابتِ الٰہی کی جاں گسل ذمہ داریوں اور بے قراریوں کو نمایاں کرتی ہیں۔ او ر تسلسلِ ابلاغ سے قاری کے

ظفر سیّد: : جلیل عالی کے مراسلے کا دوسرا حصہ

 ذہن میں آپ کی انقلابی جد و جہد کے مختلف نقوش ابھارتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے بعد شاعر صدیوں کے فاصلے پر آپ کی ذاتِ گرامی کے رُوبرو ہوتے ہوئے اپنی اور ملت کی موجودہ بے کرداری کے پیشِ نظر خجالت کا اظہار کرتا ہے اور رنج و الم میں آپ ہی کے دامنِ رحمت میں سکون و حوصلہ پانے کا ذکر کرتا ہے۔ مگر یہاں ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ وہ اور اس جیسے تمام دوسرے تخلیق کار آپ کے ’’لا وقت ساحل‘‘(حقیقتِ محمدی دوامی معیارِ سیرت) سے ہم آہنگ ہو کر اپنے کردار میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں لاتے کہ جس سے ان کے تخلیقی عمل کو ایسا اعجاز نصیب ہو جائے کہ ان کا اظہار آپ کی تعلیمات کی آئینہ داری کرنے لگے۔

 ’’مگر ایک لمحہ بھی میرے قلم پروہ خوش رنگ الہام بن کر نہ اتراجسے تیرے ہونٹوں کی تصدیق ملتی‘‘

 (’’لا وقت کا ساحل ‘‘رسولِ خدا کا یہ ارشاد بھی یاد دلاتا ہے کہ ’’میرے کچھ اوقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ‘‘)

 چوتھے اور آخری حصے کی ابتدا ’’بڑی سے بڑ ی بات کو‘‘سے ہوتی ہے اور یہ نظم کے اختتام تک پہنچتا ہے۔

 یہاں آغاز میں شاعر آپ کے کوزے میں دریا بند کرتے ہوئے اقوالِ فیصل کی شان کے حامل طرزِ کلام کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔

 بڑی سے بڑی بات کو

 ایک بھیگی ہوئی مسکراہٹ میں کہنے کا تجھ کو سلیقہ تھا

 اور پھر اپنے مثالئے (تری سانس میں سانس لینے کی راحت)اور اپنی اسفل اور واقعی صورتِ احوال (نوٹوں کی گنتی میں مصروف اندھے زمانے کے ہاتھوں کی وہ میل ہوں جس پہ مکھی بھی آ کر نہیں بیٹھتی) کے مابین قطبینی فاصلے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے لئے ایسے اسمِ اسرار کی درخواست کرتا ہے کہ جس سے آپ کے فیض و برکت کے طفیل اس کے رنگِ سخن میں زمانے کو بیدار کر دینے کی تاثیر پیدا ہو جائے۔ اور نیند جو موت کی سی کیفیت میں ڈھل چکی ہے زیست آثار ہو سکے۔

 پھول ہونٹوں کے مردہ زمانے پہ رکھوں تو خوشبو تری گل بدن بن کے جاگے۔۔۔ کوئی شیریں تکلم مرے زہر میں گھول دے فاصلہ نیند اور

 موت کے درمیاں اپنی موجودگی سے بنا کر عطا معجزاتی ہنر

 پوری نظم اپنے خوب صورت اظہار، تخلیقی بہاؤ اور استعارہ و تمثال کے تازہ کار سلسلوں کے حوالے سے احساس و شعور کی ایک ارتفاعی سطح کی آئینہ دار ہے اور کئی مقامات پر ایک نعتیہ آہنگ میں ڈھلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ تاہم ایک آدھ مقام پر اشاراتی نظام میں مزید توجہ کی گنجائش ہے تاکہ تفہیمی سمت نمائی زیادہ بہتر ہو سکے۔

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جلیل عالی

ظفر سیّد: : جنابِ صدر، فیس بک میں کسی خرابی کی وجہ سے طویل تحریریں کٹ گئی ہیں۔ حالیہ بحث میں اس مسئلے کی زد میں حمید شاہد کا لکھا ہوا ابتدائیہ بھی آ گیا ہے۔ میں ریکارڈ کے لیے اس ابتدائیے کا حذف شدہ حصہ پوسٹ کر رہا ہوں

 حصہ دوم

 فرشی نے اسی سیمرغ سے مشورہ کر کے ساتویں سمت کی کہانی کو اپنی نظم کی جستجو کا حصہ بنا لیا ہے۔ ’

  ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بتا دے مجھے بھی کوئی اسمِ اسرار

 (جس کی تمنا لیے سب پرندے گئے ساتویں سمت

 لیکن کوئی آج تک مڑ کے آیا نہیں !)

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

 ایران کا ذکر آیا تو میرے ذہن میں تشی از ہیکو از تسو کا مضمون ’’وجودیت،مشرق و مغرب‘‘ آ گیا ہے، جسے محمد عمر میمن نے اردو میں ڈھالا اور ’’دنیا زاد‘‘ نے اپنی اکیسویں اشاعت میں چھاپا تھا۔ اسی میں ایک مثال سارتر کے وجودی تجربے سے دی گئی ہے۔ لیجئے ہو بہ ہو نقل کیے دیتا ہوں’’ ایک دن ناول کا ہیرو روکواں تیں خود کو پارک میں ایک بینچ پر بیٹھا ہوا پاتا ہے۔ شاہ بلوط کا ایک لحیم شحیم درخت اس کے بالکل سامنے ہے۔ جس کی گرہ دار جڑ بینچ کے نیچے کی زمین میں پیوست ہے۔ وہ ایک غیر معمولی روحانی تناؤ کے عالم میں، جس کا مقابلہ اس کیفیت سے کیا جا سکتا ہے جو مختلف عارفانہ روایتوں میں استغراق کے طویل دورانیوں کے بعد اکثر محسوس ہوتی ہے۔ ناگہانی اسے ایک مکاشفہ ہوتا ہے۔ ٹھوس، معروضی، انفرادی اشیا کا عام شعور غائب ہو جاتا ہے۔ روزمرہ کی مانوس دنیا اپنی تمام مضبوطی سے قائم بالذات اشیاءسمیت اس کی نظروں کے سامنے بکھر جاتی ہے۔ "۔۔۔۔۔ تشی از ہیکو از تسوکا کہنا تھا کہ "اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ ’’جوہر/ ماہئیتیں اس کے سامنے اپنا بہ ظاہر ٹھوس پن (صلابت) یا حقیقت کھو بیٹھتی ہیں” اسی کے الفاظ میں "جس وقت یہ رکاوٹیں دور کر دی جاتی ہیں وجود کی حقیقت چشم انسان کو صاف نظر آنے لگتی ہے۔ ” فرشی کی نظم وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں روکواں تیں استغراق کے طویل دورانیوں کے بعد پہنچا تھا۔ تاہم اس نظم کا جمالیاتی بیاں بہ جائے خود بہت اہم ہو جاتا ہے۔ سامنے کا سارا ٹھوس پن تحلیل ہو چکا ہے۔ نظم کا بیانیہ اپنے روایتی تصور کو توڑتا ہے، اس میں زمان اور مکان بھی نشان زد ہو رہے ہیں مگر وقت، لا وقت میں تحلیل ہو رہا اور مکان، لامکان میں۔ اس میں راوی ہے اور مکالمہ بھی مگر جس سے مکالمہ ہو رہا ہے وہی کائناتی بھید ہے اور جو مکالمہ کر رہا ہے وہ اس بھید سے الگ ایک مسلسل اضطراب اور اذیت ہو گیا ہے۔ یوں توازن دونوں طرف ہے اِدھر اپنے نامکمل وجود کے مقابل ہوتے ہوئے اور ادھر کڑھتے ہوئے اکلاپے کی صورت میں۔

 ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 یہ دکھنے دکھانے کی ساری مشیّت

 یہ چھپنے چھپانے کی بھاری اذیّت

 کوئی جھیلتا ہے ؟

 جو تو نے اکیلے ہی جھیلی

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "

 صاحب، اپنی کل سے کاٹ کر یوں بیچ میں سے کچھ سطروں کو الگ کرنے سے نظم کی بہتر تفہیم ممکن نہیں ہے۔ فرشی کے ہاں یہی چلن تخلیقی کمال ہو گیا ہے کہ وہ اپنے فن پارے کو نہ تو سطر سطر الگ کر کے دیکھنے دیتا ہے اور نہ ہی ٹکڑوں میں پرکھنے اور تجزیہ کرنے کی۔ اس کے ہاں فن پارہ ایک نامیاتی وحدت میں ڈھلتا ہے اور اسی قرینے سے اسے کھولا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ بالکل یوں، جیسے اس کائنات کواس کے مکمل وجود اوراس کے باہمی انسلاکات کے بغیر ڈھنگ سے سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ اچھا، اتنا کافی نہیں ہے فرشی کی نظم اپنی ایک الگ اور گمبھیر مگر شفاف فضا بناتی ہے۔ جمالیاتی چھینٹے اڑاتے ہوئے۔ میں فرشی کے تخلیقی چلن کے بارے میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں کہ اس نے اپنے اسلوب کی اساس دانشورانہ جدوجہد کے بجائے داخلی تجربے سے حقیقت کی تخلیق اورتوسیع پر رکھی ہے۔ اس کے ہاں وقت کے حوالے سے ایک پیچیدہ لیکن واضح اور لائق اعتنا تصور موجود ہے۔ اسی سے وہ اپنے تخلیقی سوالات کو آنکتا اور انہیں متحرک کرتا ہے۔ رولومے والی یہ بات بھی مجھے فرشی کے ہاں وقت کے حوالے سے اضطراب اور اس اضطراب کے تخلیقی برتاوے کو دیکھتے ہوئے یاد آئی تھی کہ ’’ایک کتے کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ایک اور مہینہ یا ایک اورسال بیت گیا لیکن ایک انسان تو یہ سوچ کر گھبرا جاتا ہے۔ ‘‘ انسان زمان اور مکان سے معاملہ کرتا ہے، کہ اسے کرنا پڑتا ہے، چاہے نظم لامکاں اور لازماں سے آغاز کیوں نہ پا رہی ہو۔

 کائنات فرشی کے ہاں ایک سانحہ نہیں ایک تخلیقی عمل ہے۔ خواب کی طرح کا حسین عمل، جو اپنے آغاز میں اگرچہ ان دیکھا ہے مگر اس تخلیقی عمل کی جو تصویر نظم کا حصہ ہو گئی ہے اس میں اس عظیم تخلیق کے ایک ایسے خالق کا تصور ابھرتا ہے جس کی ریشمی انگلیاں خواب بن سکتی ہے۔ یہی خواب صدیوں کی مسافت طے کرتا انسانی وجود پر اترا توساتھ اس وقت کو بھی اجال گیا جس میں شدید طرح کی نمکین سنگ بستہ تنہائی پہاڑوں جیسی اوٹ ہو گئی تھی۔

ظفر سیّد: : ابتدائیہ: حصہ سوم

 نظم کے دوسرے بند میں یہی بے پناہ تنہائی انسان کے تخلیقی وجود کی گود گہوارہ ہو گئی ہے۔ اب اپنی گور تک کا سفر موت کی جانب لپکنے کا سفر نہیں رہا بلکہ پل صراط کے سے ایک ریشمی تار پر چلنے کا عمل ہے۔ فرشی کی نظم میں یہاں جو خداوند اعلیٰ آیا ہے وہ اس سے بالکل ہی مختلف ہے، جس کے پاس راشد ناشتہ کرنے پہنچا اور ادبدا کر بریف کیس وہیں بھول آیا تھا کہ یہاں اس کے احکام رحمت اٹھا کر چلنے والا، ھر دم می سرائی نغمہ و ھر بار می رقصم، کی صورت رقص کرتے ہوئے اس پل صراط کو عبور کر رہا ہے۔ بدن کی مٹی پر مسکراتے ہوئے نقش و نگار غم لیے، اسے یاد آتے اور اسے یاد کرتے ہوئے اور وہ بھی یوں جیسے کسی بھیدوں بھری چاندنی رات میں بادلوں سے اٹکھیلیاں کرتا چاند گزرتا ہے۔ خواب لب ریز پریوں سے چھپ چھپ کے گزرنے اور لڑکپن کے گالے اڑانے، نے اس سارے عمل پیالے سے ایک عجب نوع کی وارفتگی، نیا پن اور بے ساختگی چھلکا دی ہے۔

 نظم کے تیسرے بند میں وہ مرحلہ آ جاتا ہے جہاں سے آئینے کا رخ بدلتا ہے۔ اس رخ سے اس الہڑ وارفتگی کے مقابل اس شدید خواہش کو رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے جو پہچانے جانے والی اذیت ہو گئی ہے۔ ’’دکھنے دکھانے کی مشیت‘‘ میں اندر گہرائی تک سرایت کر جانے والی ’’چھپنے چھپانے کی اذیت‘‘ کو جھیلنے کا مرحلہ گزر چکا کہ یہاں اس فیصلے کے بعد کی منزل ہے، "کنت کنزاً مخفیاً فاحببت ان اعرف”۔ اور نظم بتا چکی ہے کہ "فخلقت الخلق” کا مرحلہ بھی کب کا گزر چکا ہے۔ اب تو اس درد کے سنگ اسود کو چومنے والا اس پورے منظر نامے کا عنوان ہو گیا ہے۔ فرشی کے ہاں کائنات کے مرکز والے اس آدمی کی اپنے منصب سے معزولی، موت کے مترادف ہو گئی ہے۔ جی، معافی چاہوں گا کہ میں نے یہ بات ذرا عجلت میں کہہ دی ہے جب کہ فرشی کی نظم یہ بات ذرا آگے چل کر کہتی ہے۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جس درد پتھر کو چومنے کے لیے ایک وارفتہ طواف کا ذکر ہو رہا ہے، اس میں خجالت کی گنتی اورآنسوؤں کا حساب کتاب ممکن نہیں ہے۔ یہیں نظم کی مذہبی متھ، ادبی متھ میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ تخلیق یہاں اپنی کل کے ساتھ موجود ہے مگر اس ووکیشن کے انتظار میں کہ جس نے اسے منکشف کرنا ہے، غالب کی تمنا والے دوسرے قدم کے نقش پا سے، کہ دشت امکان اس اکتشافی عمل کے بغیر وہ "مخفی” خزانہ ہے جومسلسل "اعرف” کی طلب میں ہے۔ نظم یہاں تک کے سفر میں تشکیک کی بہ جائے تیقن کی صورتیں اجالتی اور اپنی بات کہنے کی دھج سے عجب وضع کے جلال کے نور میں نہاں صراحت کو قرینے سے اچھالتی ہے۔ یہیں مکان لامکان سے اور وقت لا وقت سے اپنے معنی کشید کرتا ہے۔ لا وقت کا ساحلی علاقہ انسانی سرشت کے لیے ان چھوا علاقہ نہیں ہے تاہم وہاں اب انسان کے اپنے قدموں کے نشان دھندلا رہے ہیں۔ اپنی اصل سے کٹنا دراصل اپنی ناف سے کٹ کر اہلے گہلے پھرنے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ تو یوں ہے کہ یہ معکوسی زینہ تحت الثریٰ تک رواں، رینگتی آب نائے تک لے جاتا ہے۔ ایک تخلیق کار، اس میں گر کر کہاں اس تخلیقی عمل سے وصل کی لذت پا سکتا ہے، جس میں خوش رنگ الہام قلم پر اترسکتاہو، ایسا خوش رنگ الہام کہ خود تخلیق کی دیوی کے ہونٹوں سے اس کی تصدیق ہو رہی ہو۔ ایکہارٹ نے کہا تھا ’’خود کو بھول جاؤ اور خدا کو وہ کچھ کرنے دو جو تمہیں کرنا ہے۔ ‘‘

 شاعر اپنی نظم کے آخری بند میں جہاں اپنے تخلیقی تجربے کی تکمیل کے نقوش ابھار رہا ہے وہیں یہ احساس بھی دلا رہا ہے کہ اس کے ہاں تخلیقی واردات محض اور صرف حسی تجربے کی نئی تشکیل نہیں ہے۔ تخلیق کی ما بعد الطبیعیات دسترس میں ہو تو اس میں ایک بھیگی ہو ئی مسکراہٹ یا سہولت سے بڑی سے بڑی سے بڑی بات کہی جا سکتی ہے۔ یہیں وہ سانحہ بھی نشان زد ہو رہا ہے جس کے مطابق ادبی ووکیشن کی عدم موجودگی میں شاعر اعداد و الفاظ کی بھیڑ میں گم ہو کر اکیلا رہ جاتا ہے۔ یہ اکیلا ہونا اور طرح کا ہے۔ تباہی اور موت سا۔ اپنے وجود سے بے دخل ہونے کا سا۔ جب کہ تخلیقی عمل وہ اسمِ اسرار ہے جس کی تمنا لیے ساتویں سمت کی اور نکلنا ہوتا ہے اپنی اس تخلیقی بصیرت سے جو تخلیق کار کو اس کے باطن کا مطلق عطا کرتا ہے۔ یہ بصیرت متحرک ہو تو مردہ زمانے بھی تخلیق پارے کے اندر جی اٹھتے ہیں۔ نظم نے تخلیق کی اس کرامت اور تخلیق کار کی توفیقات کے اس اتصال کوسانس میں سانس لینے کی راحت سے تعبیر دی ہے۔ آڈن نے کہا تھا کہ اس عہد میں اس مادی کائنات کے دوام کا ایقان بھی کافور ہو چکا ہے۔ حسوں پر یلغار کرتے اس عہد میں تخلیقی عمل، نوٹوں کی گنتی میں مصروف اس اندھے زمانے کے ہاتھوں کی میل کیسے ہو سکتا ہے "جس پر مکھی بھی آ کر نہیں بیٹھتی۔ "

ظفر سیّد: : ابتدائیہ: حصہ چہارم

 اپنی نظم، "نیند میں چلتی موت” میں فرشی نے تخلیقی عمل کے جن بھید بھنوروں کو اکتشاف سے ہم کنار کیا ہے ان میں وہ جمالیاتی ادراک بھی نشان زد ہو رہا ہے، جو ایک طرف روح کے لافانی سمندر سے اٹھنے والے بادلوں سے بھیگتا اور تازگی پاتا رہتا ہے تو دوسری طرف فکریات کی مظہر ہو جانے والی علامتوں اور تہذیبی ادراک کو مہمیز لگانے والی اساطیر اور شبیہوں سے معاملہ کر کے انہیں ابدی صداقت کے مقابل کر دیتا ہے۔ موت فرشی کی نظموں کا معروف اور مانوس امیج ہے اور شاعر کے مخصوص تخلیقی چلن میں یہ امیج بھی ہر بار نیا چولا پہن کر آتا ہے تاہم لطف یہ ہے کہ یہ ہر بار جسم کی موت سے ماورا سطحوح سے معنی اخذ کرتا ہے۔ نظم ’’نیند میں چلتی موت‘‘ میں بھی اس امیج نے نیا ملبوس لیا ہے مگر میں یہاں بہ اصرار کہوں گا کہ فرشی کے ہاں چاہے کوئی امیج خواہ کتنے ہی پیرہن بدلے، اسے نظم کے اندر ایک وحدت میں ڈھلتے ہوئے شناخت کیا جا سکتا ہے، بالکل یوں، جیسا کہ اس نظم میں شناخت کیا جا رہا ہے۔

جاوید انور: صاحب صدر، میں لفظ فرشیانہ کے استعمال پر معذرت خواہ ہوں، اگرچہ میں نے یہ لفظ طنزیہ استعمال نہیں کیا تھا- علی محمد فرشی نظم کو کھولنے کے لئے جو تکنیک استعمال کرتے ہیں، یقین کریں وہ مجھے بہت بھاتی ہے اور میرا خیال تھا کہ میں اسی طرح اس نظم کو کھولنے کی کوشش کروں گا اور اس کے لئے میں نے یہ ترکیب گھڑی، لیکن میں دونوں کاموں میں ناکام ہوا، یعنی اس انداز میں نظم کی کہانی بھی بیان نہیں کر پایا اور لگتا ہے یہ ترکیب بھی دل آزاری کا سبب بنی- سوری، تیسری مرتبہ-..

ظفر سیّد: : محترم صدر

 جناب جاوید انور نے فرشی صاحب کی نظم کے متن پر سوال اٹھایا ہے۔ بار بار کی نقلِ مکانی اور "ملک بدریوں” کے بعد میرے پاس اردو کتابوں کی بڑی قلت ہے اس لیے میں نے "حاشیہ” کے اجرا کے بعد فرشی صاحب سے ان کی اور دوسرے جدید شعرا کی نظموں کے انتخاب کی سافٹ کاپیاں منگوائی تھیں۔ میرے خیال میں یہ واقعی اعلیٰ انتخاب تھا، جس کا ثبوت اس سے پہلے پیش ہونے والی دونوں نظموں پر ہونے والی بھرپور بحث کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ تاہم جیسا کہ تقریباً ہر شاعر کرتا ہے، فرشی صاحب نے بھی مطبوعہ نظم کے متن میں چند تبدیلیاں کی تھیں، جو نادانستہ طور پر حالیہ اجلاس میں شامل نظم میں بھی در آئیں۔ نظمِ زیرِ بحث پر جاوید انور کا اعتراض بالکل بجا ہے۔ "حاشیہ” کے قواعد کے مطابق صرف مطبوعہ نظموں ہی پر بحث کی جا سکتی ہے۔ اس لیے میں نظم کے متن میں تبدیلی کر کے اسے بہ مطابق مطبوعہ شکل کر رہا ہوں۔ احباب سے گذارش ہے کہ وہ اسی کو مدِ نظر رکھ کر بحث کو آگے بڑھائیں۔

جاوید انور: صاحب صدر، نظم کے لئے پہلی شرط شاعری اور نظم ہونا ہے اور پھر اس کا اوریجنل ہونا- ہماری نسل میں ایسے لوگ ابرار احمد، انوار فطرت، نصیر احمد ناصر، علی محمد فرشی، ذیشان ساحل ( مرحوم ) بنتے ہیں اور شائد ایک آدھ نام اور- اور یہ نام ہی نظم کے نئے معمار ہیں، میری نظر میں- یہ سارے نام اپنا اپنا تشخص بنا چکے ہیں- میں نے اپنی پچھلی گفتگو میں نظم میں کہی گئی بات کو موضوع بنایا ہے – کیونکہ پچھلی دو نظموں پر زیادہ زور نظم کے اسی پہلو پر رہا- نظم کا یہ پہلو قطعی طور پر غیر اہم نہیں، (پیغام—– ترقی پسند نظم میں عوام اور جدید یا نئی نظم میں خواص کے لئے ) کہ نظم (شاعری— کہ ایک شعر بھی تو ایک نظم ہی ہے !) کی بنیاد لفظ ہے، اپنی کنکریٹ اور ابسٹریکٹ، اپنی مادی اور غیر مادی، اپنے آہنگ اور معنی کی یکتائی میں (اور بقول ایذرا پاؤنڈ– ؟ — لفظوں کے سائے )- یہ یکتائی فلسفیانہ، سائینسی اور دوسرے علوم میں، جہاں ابلاغ کا یک پہلو ہونا ضروری ہے، سراسر نقصان دہ، افسانے اور ناول میں یہاں اور وہاں اضافی تاثر دیتی ہوئی اور شاعری میں شرط ہے – شاعری میں پیغام دل کے رستے دماغ تک پہنچتا ہے – سو دیکھنا یہ ہے کہ علی محمد فرشی کی نظم نیند اور موت کے درمیان یہ تقاضے کس حد تک پورے کرتی ہے ؟

 سو صاحب صدر، بات یہاں سے آغاز کریں تو میرے خیال میں اس نظم کو پورے فخر سے قرطاس پر آنے کا مکمل حق حاصل ہے – اس نظم کی پہلی سطر سے لے کر آخری سطر تک کوئی لفظ اور کوئی مصرع یک جہتی نہیں-

 وہ کیا سلسلہ تھا

 جو اک گود سے گور تک(ریشمی تار سا)تن گیا

 جس پہ چلتے زمانے

 خداوندِ اعلی کے احکامِ رحمت اٹھائے ہوئے

 رقص کرتے گزرتے

 تو مٹی پہ نقش و نگارانِ غم مسکراتے

 یہاں مجھے اپنے نوجوان دوست معید رشیدی، توصیف حیدر اور فیاض احمد وجیہ بہت یاد آ رہے ہیں- کہ اس راستے سے نظم کی گہرائیوں میں اترنے کے بھید وہ جانتے ہیں-

 ..

محمد حمید شاید: صاحب صدر، مجھے اچھا لگ رہا ہے کہ اس عرصہ میں کہ جب میں بہ وجوہ حاشیہ پر اپنی حاضری نہ دے پایا، جلیل عالی، جاوید انور، ابرار احمد، علی ارمان، تصنیف حیدر، ظفر سید اور آپ نے خوب خوب رونق بڑھائے رکھی۔ مجھے یہ بھی اچھا لگا کہ نظم کے اس متن کو ہی زیر بحث لایا جا رہا ہے جو اپنی اشاعت کے وقت تھا۔ یہ اصول میرا ہی مجوزہ تھا۔ تاہم مجھے افسوس ہے کہ نادانستہ میں خود اس کی پاسداری نہ کر پایا۔ مجھے انتظامیہ کی طرف سے جو سوفٹ کاپی ملی تھی، وہی میرے مقابل رہی۔

 خیر اب میرا معاملہ ’’ نیند اور موت کے درمیاں‘‘ سے ہے ’’نیند میں چلتی موت‘‘ سے نہیں۔ جی، اپنے وجود سے غافل کر دینے والی نیند اور اس کے اندر چپکے چپکے دیمک کی طرح چل کر آتی موت سے نہیں، معاملہ اس موت اور نیند سے ہے جس نے انسان کے تخلیقی وجود کو آدھا آدھا بانٹ رکھا ہے۔ یہ دیمک والا خیال بھی مجھے فرشی کی ایک نظم ’’دیمک روحیں کھاتی ہے ‘‘ نے عطا کیا ہے۔ اچھا ایک قاری، تو جیسے چاہے ایک فن پارہ پڑھے، ایسے میں اگر وہ بیوی سے لڑ جھگڑ کر آیا ہو گا تو ہو سکتا ہے جس فن پارے کو وہ پڑھ رہا ہے اس کے اندر سے بیزاری نکال لائے اور اگر محبوبہ سے مل کر آیا ہو تو اسی میں سے زندگی کا چہچہا برآمد کر لے۔ مگر وہ شخص جو کسی فن پارے کی تخلیقی فضا سے کٹ کر اس کی تعبیر کرنا چاہے گا، وہ اس کی محض اور صرف سامنے کی جہت یا حد سے حد اس جہت سے چپکی معنویت تک ہی پہنچ پائے گا۔ ایسے میں اگر میں اصرار سے کہتا ہوں کہ کسی بھی فن پارے کو ایک کلیت کے ساتھ دیکھیے، ضرور دیکھیے تاہم اسی شاعر کے تخلیقی قرینوں کو دریافت کر لینا اور ان کے اندر سے معنیاتی اور جمالیاتی انسلاکات کو تلاش کر کے کسی تعبیر تک پہنچنا ایسااتھلا کام نہیں ہے کہ نظم پر بات کرتے ہوئے اسے اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا جائے۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ چپکے چپکے دیمک کی طرح چل کر آتی موت کی طرف میرا دھیان، فرشی کی ایک اور نظم لے گئی تھی۔ وہ نظم نہیں بل کہ اس کا ابتدائیہ

 دیمک چلتی ہے

 دھیرے دھیرے اندھی دیمک چلتی ہے

 سنسان رگوں کے اندر۔۔۔ سر سر سرخ لہو میں

 دیمک چلتی ہے۔

 لیکن میں نے کہا نا، مطبوعہ عنوان کی طرف رخ پھیرنے کے بعد ہمارا معاملہ اس موت سے نہیں رہا، جو غفلت میں چپکے سے تخلیقی بدن چاٹ لیتی ہے بل کہ غفلت والی نیند اور اس موت سے ہے، جس نے انسان کے تخلیقی وجود کو آدھا آدھا بانٹ رکھا ہے۔ گویا اس عنوان میں الگ سے نیند کی تجسیم ہو گئی اور موت بھی اس سے جدا ایک زندہ وجود رکھنے لگی ہے۔ ایک دفعہ پھر میں شاعر کی ایک اور نظم کا حوالہ دینے پر خود کو مجبور پاتا ہوں اور وہ نظم ہے ـ زندہ موت کو دیمک نہیں کھاتی

  ۔۔۔۔۔۔

 اور بہت سی موت کو دیمک نہیں کھاتی

 کبھی دیمک نہیں کھاتی

 اچھا اس سارے عرصے میں، نظم کے اندر بیان ہونے والے ماجرے کے وسیلے سے معنی کی دریافت کا بھی خوب خوب چرچا رہا، جو میں نے آغاز میں کہا نہ وہ لائق اعتنا ہوا نہ ظفر سید کی بالکل سارا معاملہ کھول دینے کا حیلہ توجہ پا سکا۔ خیر ایسا ہو جایا کرتا ہے، بہ طور خاص جب ہم اپنے لیے مختص تخلیقی فضا سے جڑے رہنے پر اصرار کر رہے ہوں تو ایسا اکثر ہو جاتا ہے۔ میرا جی چاہنے لگا ہے کہ شہزاد نیر کی وہ بات یہاں دہرا دوں جو اس نے جاوید انور کی نظم پر بات کرتے ہوئے کہی تھی

 سچ تو یہ ہے کہ نئی نظم اپنے ساتھ اظہار و تنظیم کے اتنے قرینے لائی ہے کہ ہر نظم اپنی قرأت کا اپنا ضابطہ مانگتی ہے۔ امیجری کی قاشوں سے نظم کی بنت، خودمختار مصرعوں سے نظم کی یک موضوعی تشکیل، سطروں کی مسلسل جڑت سے وجدانی تاثر والی نظم، ایک سے زیادہ معنیاتی ابعاد والی نظم، مرکب امیجری، تمثال سازی، سمبلز کا استعمال۔۔۔ اور زبان کا نیا تخلیقی استعمال۔ یہی چیزیں ہیں جو نئی نظم کو اس عہد سے مربوط کرتی ہیں۔

 آپ نے خود ملاحظہ کیا ہو گا کہ جن ٹولز سے ہم یامین کی نظم کو کھول رہے تھے وہ جاوید انور کی نٹ کھٹ نظم کے لیے کچھ زیادہ کار آمد نہ رہے تھے اور اب فرشی کی نظم کو سمجھنے کے لیے ہمیں کچھ الگ سے جتن کرنے پڑ رہے ہیں اور اس کا سبب وہ تخلیقی فضا ہے جو ان تینوں نظموں میں بالکل جدا رہی ہے۔

 خیر، یہ تنقید کی مجبوری بھی ہے کہ وہ نظم کے مواد کو اس کی ہئیتی کل اور اسلوب سے الگ کر کے دیکھنا چاہتی ہے، اور یہ اس باب میں کوئی لائق مذمت فعل نہیں ہے۔ ہاں، یہ مانتے ہوئے بھی کہ نظم کی افادیت اور معنویت کو ’’ناقدانہ جسارت‘‘ سے آنکنے کے دوران تخلیق کا وہ ساراباریک کام دم سادھے الگ پڑا رہ جاتا ہے، جو متن کو فی الاصل فن پارہ بنا رہا ہوتا ہے )۔ اچھا یہ قرینہ بھی بہ جا ہے کہ نظم کو لفظ لفظ پڑھا جائے اور لفظوں سے، اور بیچ کے وقفوں سے ( اور سطروں کے درمیان خالی جگہوں سے ) چپکے ہوئے معنیاتی دھاگوں کے سرے ایک دوسرے سے باندھ کر خیال، موضوع یا نظم کا ماجرا بن لیا جائے۔ یہ بھی ایک چلن ہے مگر پہلے تخلیقی کل کو دیکھنا، اور اس کے اندر کی فضا میں خود کو بسا کر اس کے معنیاتی اور جمالیاتی انسلاکات کی طرف بڑھنا مجھے ہمیشہ لطف دیتا رہا ہے۔ شعر شور انگیز( جلد دوم) میں شمس الرحمن فاروقی نے بہ جا طور پر نشان دہی کی تھی کہ مصنف خود معنی نہیں پیدا کرتا بلکہ ایسے سیاق و سباق بناتا ہے اور ایسی ترتیب پیش کرتا اور امکانات کو بروئے کار لاتا ہے کہ فن پارہ بامعنی ہو جائے۔ وہی کولرج والی بات کہ نظم وہ نامیاتی وحدت ہے جس کے اجزاء باہمی طور پر ایک دوسرے کی معاونت اور توضیح کرتے ہیں۔

 (جاری)

محمد حمید شاید: اب آئیے ان سوالات کی جانب جو نظم کے باب میں اسی تنقیدی مجبوری نے اٹھائے ہیں۔ مجھے یہیں وضاحت کر لینے دیجئے کہ فرشی کی اس نظم کا اسلوب ایمائی ہے۔ ایسے اسلوب میں بیانیہ، اظہاریہ نہیں بنتا تصور اور تصویروں کے امکانات پیدا کرتا ہے۔ یہاں معاملہ حسیاتی تجربوں کے وسیلے سے ڈھلنے والی فکریات اور رویوں جنہیں ہم رواجی علائم یا نشانات بھی کہہ سکتے ہیں، سے مختلف ہو جاتا ہے۔ جی ہاں، یہی سبب ہے کہ جس مرتبہ وجود سے کلام ہو رہا ہے، اور جو مرتبہ وجود کلام کر رہا ہے، عین اس منزل میں کہ جہاں، یہ کلام ہو رہا ہو، اس کی درست درست نشاندہی، فن پارے کی فضا سے مانوس ہوئے بغیر ممکن نہیں رہتی۔

 زماں :

 اس نظم کا وقت ایک تسلسل میں بہنے والا وہ وقت نہیں ہے جسے ہمارا حسیاتی نظام حقیقی وقت تسلیم کرتا ہے، یہ تخلیقی وقت ہے، ایسا وقت جس میں صدیاں لمحے بن سکتے ہیں اور لمحے صدیاں۔ ایسے میں معروضی وجود رکھنے والا وقت، نظم کی سطروں میں رواں وقت سے مات نہیں کھاتا بلکہ اس کے اندر سمٹ سمٹا کر رہ جاتا ہے۔ وقت کی اس ٹریٹمنٹ نے نظم کے سروکار بڑھا دئیے ہیں۔ اس باب کی مثالوں میں اس دن تک کے وقت کو نگاہ میں رکھئیے کہ جس کے آتے آتے صدیوں کی نمکینیاںسنگ بستہ دلوں کے سمندر میں ابھرے پہاڑوں کاسلسلہ بن گئی تھیں۔ اس میں ان دنوں کو بھی شامل کر لیجئے کہ جن کی بابت نظم کہہ رہی ہے ’’میں کتنے دنوں بعد آیا ترے پاؤں چھُونے ؟‘‘ تو یوں ہے کہ اس وقت کا سرا ازل سے ابد تک کا ایک پھیلاؤ رکھتا ہے اور اسے زمانی عرصہ سے نظم کی کہانی پھوٹتی ہے۔

 مکاں:

 نظم کی کہانی جس مکاں پر متشکل ہو رہی ہے اسے بھی نشان زد کر لیا جانا چاہیے۔ گود سے گور تک کا تنا ہوا ریشمی تار، جسے میں نے پل صراط کا سا قرار دیا تھا، وہ علاقہ بنتا ہے جس پہ چلتے زمانے خداوندِ اعلیٰ کے احکامِ رحمت اٹھائے ہوئے، رقص کرتے گزرتے ہیں تو نظم کی کہانی کے نقش و نگار مسکرانے لگتے ہیں۔ یہی ریشمی تار مکان کی محدودیت کو ڈھا کر اس پر خداوند اعلی کی جنت کا منظر کھول دیتا ہے۔ اسی ریشمی تار پر چلنے والا نظم کی کہانی کو تخلیقی سطح پر بیان کرنے کے شیریں تکلم کی دعا مانگتا ہے۔

 راوی کردار /متکلم :

 اس نظم کہانی کا راوی اور متکلم ہی اس کا مرکزی کردار ہے۔ یہ بجا طور پر نشان زد ہو چکا کہ نظم کے ماجرے کا راوی کوئی اور نہیں ’’آدم کا قائم مقام‘‘ ہے۔ جی، وہی جسے حسن عسکری نے انیس چوہتر میں ’’انسان اور آدمی‘‘ کی صورت میں دیکھا اور لگ بھگ آٹھ سال بعد یعنی انیس سو چھپن میں ’’آدمی اور انسان ‘‘ لکھ کر پرکھا۔ یہاں آدمی اور انسان والی بحث مجھے یوں یاد آ گئی کہ اس نظم میں آدمی کی نفی کیے بغیر تخلیقی سطح پر زندہ رہنے والے انسان کا تصور تشکیل دیا گیا ہے۔ یہی وہ تصور ہے جس میں انسان ماقبل زندگی کے اس زمانے کو بھی آنک سکتا ہے جو اس نے نہیں دیکھا، عین وہاں سے کہ جہاں سے تخلیق کرنے والے نے اسے ایک خواب کی صورت دیکھا اور وہاں تک کہ، صدیوں کی نمکینیوں کے سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں ابھرے پہاڑوں کا سلسلہ بن گیا تھا۔ حتی کہ مابعد زندگی کا وہ زمانہ بھی جو جسم کی موت کے بعد بھی تخلیقی وجود کو زندہ زمانے کی صورت سنبھالے رکھتا ہے۔

 (جاری)

محمد حمید شاہد:

 مخاطب کردار :

 پہلی صورت۔ اس نظم کہانی کا مخاطب کردار کہانی کے حاشیے پر نہیں بلکہ وہ بھی اس کے راوی کردار کی طرح مرکز میں ہے۔ مجھے یاد ہے فرشی نے اپنی ماں کے بچھڑنے پر ایک نظم لکھی تھی ’’ستر ماؤں کا پیار‘‘ اور اس خدا کو یاد کیا تھا جو ’’ نیند اور موت کے درمیاں‘‘ میں بھی مخاطب ہو گیا ہے۔ ’’ستر ماؤں کا پیار‘‘ والی نظم یوں ختم ہوئی تھی ’’ کہاں ہے ؟/ تو خود اپنی شیریں صدا سے / مری تیرہ بختی میں/ شبھ رات کی مصریاں گھول دے /ماں تو ناراض ہے /اب کئی روز سے بولتی بھی نہیں۔ ‘‘ اچھا اس خداوند اعلی کو، کہ جس کا پیار ستر ماؤں کے پیار کا سا ہے، جو ایک مخفی خزانہ تھا، اور جس نے چاہا تھا کہ اسے پہچانا جائے تو اس نے کائنات کو پیدا کیا۔ جسے نظم کی کہانی میں ’یہ دکھنے دکھانے کی مشیّت‘ اور’ چھپنے چھپانے کی اذیّت ‘سے تعبیر دی گئی ہے۔

 دوسری صورت۔ نظم کہانی کا یہی مخاطب کردار آگے چل کر تخلیق کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ تخلیقی عمل میں اس تخلیق کا وجود ہی حقیقی اور مطلق ہے، کہ اس کے نام کی ناؤ میں بیٹھ کر ہی لا وقت ساحل پر اترا جا سکتا ہے۔ اسی کی موجودگی اور بقا سے نیند اور موت کے درمیاں فاصلہ قائم ہوتا ہے۔ ورنہ آدمی نوٹوں کی گنتی میں مصروف اندھے زمانے کے ہاتھوں کی ایسی بدبو دار مَیل ہو جاتا ہے جس پر مکھی بھی آ کر نہیں بیٹھتی۔

 موضوع:

 میرا خیال ہے کہ اب مجھے یہ بھی کھول کھول کر بیان کر دینا چاہیے کہ تخلیق اور تخلیقی انسان کے بیچ تعلق کو اس نظم کہانی میں موضوع بنایا گیا ہے۔ تخلیق کہ جسے نظم کے آغاز میں مطلق حقیقت اور خداوند اعلیٰ کی صورت دکھایا گیا، اس کے اور تخلیقی انسان کے رشتے کو صوفیا کی نظر سے بہ طریق احسن دیکھا جا سکتا ہے۔ خدا ایسی وحدت جس کا ادراک ممکن نہیں۔ وہ عین حسن اور کمال ہے۔ ابن عربی کے مطابق، خداوند اعلی کی صفات اس کے عین سے الگ ہیں۔ کہہ لیجئے، سب مظاہراس کی ذات کے جلوے ہیں۔ روح انسانی بھی خداوند اعلی کا صدور ہے بالکل یوں جس طرح شعاع، عمل اشعاع سے پہلے آفتاب کے ساتھ ایک تھی۔ مادے کے ساتھ خلاف طبع اتصال نے ذرات گردو غبار کے ساتھ مل کر اسے جو الگ شناخت دی ہے، وہ فی الاصل اس کی شناخت نہیں ہے سو اصل سے دوبارہ ملنے کی للک اس کے وجود کا حصہ ہو گئی ہے۔ تخلیق، اس نظم میں عین حسن اور کمال ہے اور تخلیقی عمل کے دوران جتنی جست اپنی اصل کی سمت لگائی جائے گی اتنا ہی وہ حسن اور کمال کے قریب پہنچے گی بہ صورت دیگر تخلیقی عمل ناقص رہے گا ایسے ہاتھوں کی میل جس پر مکھی بھی آ کر نہیں بیٹھتی۔

 احباب گرامی، مجھے اب صاف صاف یہ بھی کہہ دینا ہے کہ:

 ۱۔ نظم کی زبان نہایت سادہ ہے۔ جب کسی لفظ کے معنی تک پہنچنے کے لیے کسی لغات کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی، تو یہ اعتراض کیوں کر اٹھایا جا سکتا ہے کہ نظم کو اس کی زبان پیچیدہ بنا رہی ہے۔

 ۲۔ نظم کی فنی وحدت مضبوط ہے۔ اس کے اسلوب میں داخلی منطقی ربط موجود ہے۔ نظم مصرع، مصرع ارتقا کرتے ہوئے ارتفاع پذیر ہو رہی ہے اور اس کے لیے فکشن کی فلیش بیک تکنیک کو برمحل اور بڑی خوبی سے برتا گیا ہے۔

 اور کیا میں آپ کی توجہ کچھ وقت کے لیے مستعار لے سکتا ہوں کہ آپ :

 ۱۔ نظم کے ایک ایک مصرع سے امنڈتے جمالیاتی دھارے پر غور کریں کہ میں اگر مثالوں سے واضح کروں گا تو پوری نظم ہی مقتبس ہو جائے گی۔

 ۲۔ نظم کے اندر متشکل ہوتے تمثالوں کے مربوط نظام کو دیکھیں چند سامنے مثالیں میں دے دیتا ہوں :

 ۲( الف) بصری تمثالیں : ’خواب بُنتی ہوئی مخملیں انگلیاں ‘، ’سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں ابھرے پہاڑوں کاسلسلہ ‘، ’ گود سے گور تک ریشمی تار ساتننا‘، ’زمانوں کا اس پہ چلتے ہوئے خداوندِ اعلیٰ کے احکامِ رحمت اٹھائے رقص کرنا‘، ’مٹی پہ نقش و نگارانِ غم کا مسکرانا‘، ’ بھید بھاؤ بھری چاندنی رات سے، چاند کا بانکپن، بادلوں کے لڑکپن کے گالے اڑاتے ہوئے گزرنا‘، ’ خواب لب ریز پریوں سے، چھُپ چھُپ کے گزرنا” دکھنے دکھانے کی مشیّت‘، چھپنے چھپانے کی اذیّت‘، ’ بھیگتے، پھیلتے لفظ اور اعداد کا سمندر بننا‘، ’ اس سمندر سے ترے نام کی ناؤ کا کنارے لگانا ‘، ’ لا وقت ساحل پہ، خود اپنے پاؤں کے مٹتے نشاں دیکھ کر مسکرانا‘، ’ گنتی کا معکوسی زینہ‘، ’ تحت الثریٰ تک رواں(رینگتی) آب نائے ‘، ’ آنکھوں کی کاریز کا دل کے پاتال تک لے جانا‘، ’ قلم پر خوش رنگ الہام بن کر اترنے کی خواہش ‘، ’ساتویں سمت‘، ’ یاد کے باغ میں جادو زدہ نیم خوابیدہ شہزادی‘، ’ اپنی جنت کا منظر ملگجے خواب پر کھول دینے کی استدعا‘، ’ نیند اور موت کے درمیاں فاصلہ رکھ دینے کی دعا ‘، ’نوٹوں کی گنتی میں مصروف، اندھے زمانے کے ہاتھوں کی مَیل آدمی۔ تو صاحب دیکھتے جائیے کہ نظم پڑھتے ہوئے یہ سب تمثالیں نظروں کے سامنے متحرک رہتی ہیں۔ (جاری)

محمد حمید شاید: (ب)لامسی تمثالیں:’لمس گداز ایک دن، وقت کے سرد گال، ’پھول ہونٹوں کو مردہ زمانے پہ رکھنا، بادلوں کا لڑکپن کے گالے اڑانا، خواب لب ریز پریوں سے چھپ چھپ کے گزرنا‘، ’ تحت الثریٰ تک رواں رینگتی آب نائے، آنکھوں کی کار یز کا دل کے پاتال تک لانا ‘پھول ہونٹوں کا، مردہ زمانے پہ رکھنا‘ سانس میں سانس لینے کی راحت”آدمی کا نوٹوں کی گنتی میں مصروف ہونا، ’ اندھے زمانے کے ہاتھوں کی مَیل ہونا، میل پر مکھی کا بھی آ کر نہ بیٹھنا۔

 ۲(ج) شامہ جاتی تمثالیں: ’خوش بو تری، گل بدن بن کے جا گے اندھے زمانے کے ہاتھوں کی مَیل پر مکھی کا نہ بیٹھنا جس میں میل کے ساتھ بد بو کا تلازمہ چپکا ہوا ہے۔

 ۲(د)سمعی تمثالیں: ’(شیریں) تکلم‘، (اعداد و الفاظ کی) بھیڑ جس سے ہجوم کا شور شرابا منسلک ہے۔ ’ تیرے ہونٹوں کی تصدیق‘۔ ’بتا دے مجھے بھی کوئی اسمِ اسرار۔

 ۲(ہ) ذائقہ جاتی تمثالیں: ’ صدیوں کی نمکینیاں‘، ’ شیریں تکلم مرے زہر میں گھول دے ” ترے سانس میں سانس لینے کی راحت کا ذائقہ‘۔

 ۲(و) مرکب تمثالیں: ان مفرد تمثالوں کے علاوہ کئی مرکب تمثالیں بھی نظم کا جزو ہیں جنہیں اہل نظر آسانی سے شناخت کر سکتے ہیں، طوالت سے بچنے کے لیے چند مثالوں پر اکتفا کروں گا۔ پہلے بند میں ’’انگلیاں‘‘ بصری تمثال بھی ہیں اور لامسی بھی، جو وقت کی تجسیم قائم کر کے سرد گالوں کی بصری و لامسی تمثال کو ہونٹوں تک لاتا ہے تو ذائقے کی تمثال پرمنتج ہوتا ہے۔ ایک اور مثال دیکھیے جس میں بصری، لامسی اور شامی تمثالیں نہایت فنکاری سے باہم آمیز ہو گئی ہیں:’ پھول ہونٹوں کے مردہ زمانے پہ رکھوں تو، خوش بو تری، گل بدن بن کے جا گے، ترے سانس میں سانس لینے کی راحت، مری یاد کے باغ میں، ایک جادو زدہ، نیم خوابیدہ، شہزادیِ زندگی کی طرح منتظر ہے وغیرہ وغیرہ۔

 لیجئے صاحب ہم تو شاعری اسی کو کہتے ہیں جس میں خیال رفعت پائے، زماں و مکان سے یوں معاملہ ہو کہ لا زماں اور لامکان تک خیال کی دھمک جائے مصرعے بہتی ندی کا سا بہاؤ رکھیں، تصویریں تمام حسوں پر اپنا نقش ثبت کر کے چلیں، جمال کا دھارا پھوٹے اور ہم روح تک کو اس میں بھگوتے دور تک چلتے چلے جائیں۔ تو ذرا کوشش کیجئے صاحب، کہ نظم کی فضا سے اپنا ربط قائم ہو جائے، ایسا ہو گیا تو آپ بھی میرے ساتھ بھیگتے دور تک چلے چلیں گے۔

ظفر سیّد: : ابرار احمد صاحب کا مراسلہ

 جنابِ صدر، نظم پر گفتگو میں ہمارے کچھ ذہین اور عزیز دوست معید رشیدی، تصنیف حیدر اور وجیہ صاحبان دکھائی نہیں دے رہے۔ اس نظم کو کھولنے کے لیے خالص تنقید کی ضرورت ہے کہ مجھ جیسے شاعر محض ایک حد تک ہی بات کر سکتے ہیں۔ نظم نہایت عمدہ اور خوب صورت ہے اور اس پر بات آگے بڑھانی چاہئیے۔ میں ذاتی طور پر درخواست کر رہا ہوں ان دوستوں کو کہ وہ حسبِ سابق شرکت فرمائیں، تاکہ اس فن پارے سے انصاف کیا جا سکے۔

 نظم کے عنوان "نیند اور موت کے درمیاں” کی بحالی نے اس کی تفہیم میں آسانی پیدا کر دی ہے۔ مخاطب تا حال واضح نہیں، تاہم اس کا تعین نظم پر گفتگو کا محض ایک پہلو ہے۔ عنوان بتاتا ہے کہ نیند یعنی ایک خوابیدہ بے معنی موجودگی اور موت کے درمیان شاعر کیا محسوس کر رہا ہے اور کن منطقوں کی جانب محوِ سفر ہے۔ یہ اس کی تخلیقی ضرورت اور باطنی جد و جہد کا لازمی حصہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ مخاطب کے تعین کی بحث فی الحال ایک طرف رکھ کر آگے بڑھنا ضروری ہے۔ نظم ایک ایسی تخلیق ہے جس سے ملاقات خوشی فراہم کرتی ہے اور ایک جمالیاتی رخ رکھتی ہے۔ تلازمات مکمل ہیں اپنے اپنے مقام پر اور اس میں وہ روانی ہے جو لمبی سانس کی نظم میں مشکل ہوا کرتی ہے۔

 محمد یامین: معزز اراکینِ  حاشیہ !جناب حمید شاہد نے اپنے ابتدائیے میں جن تعبیرات کو کوزے میں بند کر کے پیش کیا تھا، اب ذرا کھول کر بیان کر دیا ہے۔ اس سے پہلے جناب علی ارمان، جناب جاوید انور، جناب تصنیف حیدر، جناب ابرار احمد، جناب جلیل عالی نے نظم پر گہری نظر سے حاشیہ آرائی کی ہے۔ جناب جلیل عالی نے نظم میں ایک نئی کھڑکی کھول کر دعوتِ نظارہ دی ہے جہاں سے مکہ اور مدینہ صاف نظر آنے لگے ہیں۔ جناب حمید شاہد نے درست کہا ہے کہ "نظم کی زبان سادہ ہے "۔ لیکن نظم کے استعاراتی نظام کے نیچے تصورات کا جو جال بچھا ہوا ہے وہ بڑا پیچیدہ ہے۔ انھوں نے نظم کے جمالیاتی دھارے سے چند تمثالیں نکال کر دکھائی ہیں۔ امید ہے امیج، استعارے اور سمبل کے اس کھیل کو معید رشیدی مزید وضاحت کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کریں گے۔ اب تک کی بحث سے لگتا ہے کہ نظم کے متکلم اور مخاطب کو احباب نے کافی حد تک پہچان لیا ہے۔ اور یوں مرکزے تک رسائی ہو چکی ہے۔ تاہم جناب زیف سید نے نظم کے مخاطب کا جو روپ دیکھا ہے اور شاعر کے ایک اختصاص کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی مثال اردو شاعری میں ابھی تک نظر نہیں آئی۔ اس پر ابھی تک کھل کر کوئی اور رائے پیش نہیں کی گئی۔ امید ہے احباب ان تمام زاویوں پر نگاہ دوڑاتے ہوئے اظہار خیال کریں گے۔ تصنیف حیدر سفر میں ہیں، فرصت پاتے ہی شامل ہو جائیں گے۔ معید رشیدی آج کلکتہ سے دہلی پہنچ گئے ہوں گے۔ جہاں سے وہ اپنی رائے سے نوازیں گے۔ فیاض احمد وجیہ، نعمان شوق، یاسین آفاقی سے گزارش ہے کہ اپنی رائے کو اب سامنے لائیں تاکہ بحث آگے بڑھ سکے۔

معید رشیدی: جناب صدر

 لیجیے میں حاضر ہو گیا، لیکن اسے فی الحال محض حاضری جانیے کیوں کہ کل میں اودے پور روانہ ہو رہا ہوں۔ آج ہی دہلی پہنچا ہوں۔ اودے پور سے دو تین روز میں واپس ہو جاؤں گا۔ پھر ہمیشہ مجھے آپ تمام احباب اس بحث میں اپنے قریب پائیں گے۔

Abrar Ahmad: saheb e sadarat!the above posted comments by me were sent to mr Zafar Syed about 12 hours prior to what hameed shahid has posted. There is an order in all such discussions so it must b known that my submissions in no way are related to what mr.hameed shahid has written..this is for your attention only.than.

Abrar Ahmad: n of course zafar sb couldnt have found time to post it as i cant write in urdu n he is kind enough to do the job for me.

 ‎12 ‎September‎, 2011 at 8:53 ‎AM‎‎ via mobile · Like · 2

ظفر سیّد: : جناب ابرار احمد کا مراسلہ

 لیجئیے صاحب، حمید شاہد صاحب نے سارا معاملہ ہی نمٹا دیا اور ایک سانس میں ہی تمام گتھیوں کو سلجھا دیا۔ گویا کہنے، سننے کو کچھ رہا ہی نہیں۔ انہوں نے گلہ کیا کہ ان کے اور ظفر سید کی تعبیر کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا گیا تو پھر وہ کسی کی بھی پروا کیوں کریں۔ اس پر مجھے پنجابی کا ایک لطیفہ یاد آ گیا جو بوجوہ درج کرنے سے قاصر ہوں۔ انہوں نے اختلاف کرنے والوں کے لیے براہِ راست اور بین السطور بہت کچھ کہہ دیا جس کی چند باتوں کا خلاصہ کچھ یوں ہے :

 1 جو اس تعبیر سے متفق نہیں وہ گویا اپنی بیگمات سے لڑ کر آئے ہیں

 2 وہ تخلیق عمل کو چوں کہ جانتے نہیں اور اس سے کٹے ہوئے ہیں، اس لیے ایسی باتیں کر رہے ہیں

 3 وہ ایک "اتھلا” کام کر رہے ہیں

 4 وہ اپنی اپنی مخصوص تخلیقی فضا سے یعنی تعصب سے باہر نکلنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، وغیرہ وغیرہ

 میری مشکل یہ ہے کہ میں اپنی تحریر ظفر صاحب کے ذریعے ہی بھیج سکتا ہوں اور وہ گواہی دیں گے کہ آج یعنی حمید شاہد کی تحریر سے 12 گھنٹے پہلے میں دو باتیں لکھ چکا تھا [میں یہ وضاحت کر دوں کہ میرے اور ابرار صاحب کے وقت میں 10 گھنٹے کا فرق ہے۔ جب انہوں نے تحریر بھیجی اس وقت ہمارے ہاں رات کے تین بج رہے تھے !!! ظ س] ایک تو یہ کہ ہمارے نقاد دوست معید رشیدی، تصنیف حیدر اور فیاض وجیہ صاحبان ضرور گفتگو میں شامل ہوں۔ دوسری بات نظم کی تعریف میں لکھی، جسے دہرانا مناسب نہیں لگ رہا۔ "کوئی بات کیوں کرے، ساری باتیں تو لوگ کرتے ہیں!” میرا ایک بڑا اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس نظم اور اس کے شاعر علی محمد فرشی سے میری بطور شاعر اور ہم عصر ذاتی سطح کی دوستی ہے۔ ورنہ "ہم بھی منھ میں زبان رکھتے ہیں۔ ” میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جن کا ایمان ہے کہ جملہ ضائع نہ ہو، بندہ بے شک ضائع ہو جائے۔ میں اس وقت تک اس بحث میں شرکت سے معذرت کرتا ہوں جب تک مجھے اردو ٹیکسٹ لکھنا نہ آ جائے۔ ہاں اگر اس نظم سے ہٹ کر کچھ جواب طلب ہوا تو ضرور حاضری دوں گا۔ خوش رہئیے، چہکتے رہئیے برادرم!

 محمد یامین: احباب گرامی قدر! جناب ابرار احمد نے حمید شاہد صاحب کے حوالے سے جو اظہارِ خیال کیا ہے اس پر فورم کی رائے بھی سامنے آنی چاہیے۔ تاہم میرا خیال ہے جناب ابرار احمد کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ حمید شاہد کے لفظوں سے نہیں لگتا کہ وہ کسی پر طنز تھے یا کسی تعصب سے لتھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے جنرل بات کی ہے کہ عام قاری ادب پارے سے یک پرتی ریڈنگ سے حظ اٹھا لیتا ہے لیکن خواص یا ناقدین کا مقصد محض ایک سطح سے لطف اٹھانا نہیں ہوتا بل کہ وہ سنجیدگی سے مطالعہ کرتے ہوئے گہری تہوں کی جستجو میں رہتا ہے۔ یہ باتیں شاید انھوں نے اس لیے کی ہیں تاکہ ان کی بقیہ تحریر کے معنی نکل سکیں۔ جناب ابرار احمد نے اردو سکرپٹ پر دسترس حاصل کرنے تک اپنے آپ کو بحث سے الگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور ادھر جناب حمید شاہد نے بھی فرمایا ہے کہ وہ بھی خاموشی اختیار کریں گے کیوں کہ معاصر نظم نگار نہیں چاہتے کہ نظم پر ایسا بھرپور مکالمہ جاری رہ سکے۔ یہ دونوں باتیں فورم کی بقا کے لیے قابلِ تشویش ہیں۔ جب کہ نظم پر بحث کی صورت حال یہ ہے کہ ابھی تک متکلم اور مخاطب سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس مقام پر میری گزارش ہے کہ نظم کے متکلم اور مخاطب کا تعین ہو چکا ہے۔ اب بحث کو آگے بڑھنا ہے۔ جناب ابرار احمد بھی شروع میں مخاطب کی نشان دہی غیبی دانش اور اٹرنل شی کے طور پر کر چکے ہیں۔ درمیان میں کہیں انھوں نے دوبارہ اس کی شناخت کو کلیدی سوال کہا ہے۔ پھر خالق کے ساتھ ماں کی موجودگی کو کھولنے کی بات کی ہے۔ آخر میں ایک بار پھر انھوں نے کہا ہے کہ مخاطب کے تعین کو فی الحال ایک طرف رکھ کر بحث کو آگے بڑھایا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ بار بار یہ سوال اٹھا کر احباب کو بھرپور شرکت پر اکسا رہے تھے۔ لیکن اب جو انھوں نے حمید شاہد صاحب کی تحریر سے ذاتی معنی برآمد کیے ہیں وہ میرے نزدیک صرف غلط فہمی کا نتیجہ ہیں۔ میری گزارش ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور بحث میں اسی طریقے سے شریک ہو جائیں جیسے پہلے تھے۔ حمید شاہد صاحب ایک افسانہ نویس ہیں ان کی نظم کے اس فورم میں شرکت ایک مہمان کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ ان کی شمولیت نظم نگاروں کی ضرورت ہے اس لیے فورم پر ان کی عزت افزائی واجب ہے۔ مجھے امید ہے ان کی خاموشی بھی طویل نہیں ہو گی۔ ہم سب کو ایک دوسرے کے ہم راہ ہو کر چلنا ہے۔ یہ طے ہے کہ اس دورِ ابتلا میں ادب پر اتنی سنجیدگی سے بات کرنے والے ہم معدودے چند سر پھرے ایک دوسرے سے کٹ کر نہیں جی سکیں گے۔۔۔۔۔۔ تو احباب گرامی۔ اب نظم کے بنیادی تھیم پر بات کریں اور جو نکات اس سلسلے میں آپ نے (حمید شاہد کے ابتدائیے سے لے کر، علی ارمان، ظفر سید، تصنیف حیدر، اور جناب جلیل عالی تک)ملاحظہ کیے ہیں ان پر تبصرہ کریں۔ (میں نکات کو دھرانے کی ضرورت نہیں سمجھتا)۔ پھر اگلا مرحلہ نظم کی فنی صورت گری کا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ سب کی توجہ کا طلب گار ہوں۔

جاوید انور: صاحب صدر، آپ کی وساطت سے میں سب دوستوں، لیکن خصوصی طور پر جناب ابرار احمد اور محمد حمید شاہد صاحب سے مخاطب ہو رہا ہوں- مجھے نہیں سمجھ آ رہی یہ غلط فہمیاں کیوں پیدا ہو رہی ہیں- میں نے ابھی ابھی شاہد صاحب کی تحریر دوبارہ دیکھی ہے – وہ کہتے ہیں :‘‘ اچھا ایک قاری، تو جیسے چاہے ایک فن پارہ پڑھے، ایسے میں اگر وہ بیوی سے لڑ جھگڑ کر آیا ہو گا تو ہو سکتا ہے جس فن پارے کو وہ پڑھ رہا ہے اس کے اندر سے بیزاری نکال لائے اور اگر محبوبہ سے مل کر آیا ہو تو اسی میں سے زندگی کا چہچہا برآمد کر لے۔ مگر وہ شخص جو کسی فن پارے کی تخلیقی فضا سے کٹ کر اس کی تعبیر کرنا چاہے گا، وہ اس کی محض اور صرف سامنے کی جہت یا حد سے حد اس جہت سے چپکی معنویت تک ہی پہنچ پائے گا۔ ‘‘ مجھے تو یہ الفاظ سراسر مثبت لگے ہیں- شاہد صاحب نے یہاں ایک جیتے جاگتے قاری کی بات کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب اور ہماری بینائی ہمارے اندر کے موسموں سے اثر انداز ہوتی ہے اور ایسا ہونا ہمارے’’ پورا آدمی‘‘ (شاہد صاحب میں بھی اب حسن عسکری کے حوالے سے یہ لفظ استعمال کر رہا ہوں) ہونے کا ثبوت ہے – میرے ساتھ تو صدر محترم ایسا ہوتا ہے کہ میری قرات پر (اور تخلیق پر بھی) میرے جذبات اثر انداز ہوتے ہیں- اور پھر یہ کہ مجھے اس جملے کا مخاطب قطعاً کوئی ایک شخص نہیں لگا- مجھے شدید دکھ ہو گا اگر ابرار احمد یا محمد حمید شاہد میں سے کوئی ایک بھی یہاں دکھائی نہ دیا تو-

 اور مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں چلا، (میں نے ابھی ابھی شاہد صاحب کی تحریر دوبارہ دیکھی ہے ) کہ شاہد صاحب نے کہاں اپنی اور ظفر صاحب رائے کو مطلق کہا ہے –

 صاحب صدر اگر میں پاکستان میں ہوتا تو شائد بنفس نفیس دونوں دروازوں پر جاتا، دونوں جگہ پراٹھے کھاتا اور دونوں کو منا کر یہاں لاتا- ایسی باتیں کرنے والے دیوانے ہم رہ ہی کتنے گئے ہیں-

 میں چونکہ سنجیدہ ہو کر باتوں کو ذرا غیر سنجیدہ انداز میں لیتا اور کہتا ہوں ( فرشیانہ کا استعمال گواہ ہے ) سو آخر میں، صاحب صدر، مجھے اپنے ان دونوں پیارے دوستوں سے کہنے دیجئے ‘‘ نہ جاؤ سیاں، چھڑا کے بیاں، قسم تمہاری میں رو پڑوں گی—-‘‘..

جاوید انور: صاحب صدر، آخری جملے میں لفظ” بھی” لکھنا بھول گیا تھا سوجملہ یوں ہے” میں چونکہ سنجیدہ ہو کر بھی باتوں کو ذرا غیر سنجیدہ انداز میں لیتا اور کہتا ہوں” ..

ظفر سیّد: : جناب ابرار احمد کا مراسلہ

 صاحبِ صدر:

 آپ اور جاوید انور دونوں میرے لیے لائقِ عزت دوست ہیں، جن کے خلوص کے ساتھ ساتھ ان کی ذہانت پر بھی مجھے کامل یقین ہے۔ میں حمید شاہد کو ایک عزیز دوست اور عمدہ انسان سمجھتا ہوں اور اس پر یقین بھی رکھتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ میں ہی ان کی تحریر سمجھنے میں غلطی کر گیا ہوں۔ اس لیے آپ میری رائے کو کسی غلط فہمی یا خود میری باطنی حسیات کا نتیجہ سمجھ کر نظر انداز کر دیں۔ مجھے کوئی گلہ نہیں حمید شاہد سے اور اس صورتِ حال پر تمام دوستوں سے معذرت۔

 میں آپ کے ساتھ ہوں اور مقدور بھر شرکت بھی کرتا رہوں گا۔ بہت محبت آپ دونوں کی اور حمید شاہد بھائی، معذرت۔ لوٹ آؤ یار!

محمد حمید شاید: جاوید انور، ابرار احمد تم دونوں جب اتنی محبت سے بلاؤ گے، تو بھلا میں کیوں منہ پھلائے بیٹھا رہوں گا۔ خوش رہو مجھے اپنے ساتھ پاؤ گے۔

 محمد یامین: جناب حمید شاہد اور جناب ابرار احمد خدا کرے اسی طرح محبتیں سمیٹتے رہو۔ اور رنجشیں مٹاتے رہو۔ اور جاوید انور آپ کا شکریہ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

ظفر سیّد: : جناب ابرار احمد کا مراسلہ:

 جنابِ صدر، آپ نے درست فرمایا۔ میں نے آغاز میں اپنی فہم کے مطابق مخاطب کا تعین کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں سوال اس لیے اٹھایا کہ کسی دوست کی جانب سے تائید نہیں آئی۔ تصنیف حیدر صاحب متکلم کے حوالے سے ایک نکتہ سامنے لائے تو یہ اور بھی ضروری لگا کہ اس معاملے پر واضح ہوا جائے، لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا اور لگا کہ نظم پر گفتگو کہیں رک سی گئی ہے تو پھر یہ مناسب لگا کہ آگے بڑھا جائے۔

 کسی ذاتِ مطلق کے ساتھ ساتھ جس Eternal She کی جھلک دکھائی دیتی ہے نظم میں اس زمین پر ہونے کے مفہوم کے حوالے سے وہ مجھے بطورِ شاعر بہت عزیز ہے۔ نظم کے تمام پہلو توجہ طلب ہیں اور بات ہم سب کو کرنی چاہئیے، خصوصاً وہ دوست جو خاموش ہیں۔ جاوید انور کی ابسٹریکٹ اور کنکریٹ والی بات سے بہت لطف آیا، لیکن اس پر بات کرنے کی بجائے میں تجویز کروں گا کہ اس نظم کو عصری تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ کہاں تک یہ اس عہد سے مکالمہ کرتی ہے جس میں ہم زندہ ہیں اور کن حوالوں سے۔

 یہ بھی کہتا چلوں کہ جاوید انور کی بات سے مجھے اتفاق ہے۔ ہم جب کسی تخلیقی تجربے کو نظم کر دیتے ہں تو یہ بذاتِ خود ایک کنکریٹ عمل ہے۔ لیکن بہت پہلو ہیں جن پر پھر عرض کروں گا۔

ظفر سیّد: : جنابِ صدر: میں آج شام پاکستان کے سفر پر روانہ ہو رہا ہوں۔ اگلے چند ہفتے میں گاؤں میں رہوں گا جہاں انٹرنیٹ کی سہولت نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ اس لیے ممکن ہے اس دوران میرا حاشیہ سے رابطہ گنڈے دار رہے۔ سو اس وقت تک۔۔۔ خدا حافظ

محمد یامین: جناب ابرار حیدر آپ نے بالکل درست کہا ہے اب ان احباب کو بھی اظہار خیال کرنا چاہیے جو ابھی تک خاموش ہیں۔ جناب نصیر احمد ناصر، جناب رفیق سندیلوی، جناب عمران شاہد بھنڈر، جناب ناصر عباس نئیر، اور وہ احباب جنھوں نے اظہار کی حامی بھر رکھی ہے۔ آپ سب کو ابرار صاحب کے یا کسی اور محترم کے اٹھائے گئے سوالات پر کیا کہنا ہے ؟ ہم منتظر ہیں۔

محمد یامین: زیف صاحب! دور تھے تو قریب بھی تھے۔۔۔۔۔ قریب آ کر دوری کی خبر سنا دی!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سے رابطہ ضروری ہے۔

 جاوید انور: صاحب صدر، آپ نے پھر ابرار احمد سے ابرار اور توصیف حیدر حیدر لے لیا اور ایک نام میں دو شخصیات کو نبھا دیا، اسے کہتے ہیں کفایتِ لفظی–!..

محمد یامین: از حد معذرت

تصنیف حیدر: اس فورم پر ایسے ایسے پڑھے لکھے افراد کی میرے نام میں فاش غلطی مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ میں اخبار میں اشتہار دے کر اپنا نام تصنیف سے بدل کر توصیف رکھ لوں- کیا کہتے ہیں جاوید انور صاحب؟

محمد یامین: جناب ابرار احمد کا مراسلہ

 جناب صدر! نظم کے متکلم پر ظفر سید نے جو کہا کہ یہ آدم کا قائم مقام ہے اور یہ تخلیقی انسان ہے لیکن اس کی سوچ اور عمل میں گہری خلیج حائل ہے، تو یہ درست ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس انسان کی موجودہ صورت حال کیا ہے آج کے تناظر میں۔

 یعنی یہ آدمی اپنی موجود صورت حال میں کسی اور حیثیت کا مالک بھی ہے ؟ تو ہم جس عہد میں زندہ ہیں وہاں انسان شدید مغائرت کا شکار ہے۔ اس کا وجودی مفہوم بھی ہے لیکن یہ علاحدگی در اصل فلسفیانہ سے زیادہ سماجی اور معاشی پہلو رکھتی ہے۔ ایک عمر ضائع گئی یعنی یہ جنم تو اکارت گیا ہماری نسل کا، جسے پہلے اپنی انفرادیت اور آزادی سے محروم کیا گیا پھر مارکیٹ اکانومی کی ایک ادنیٰ جنس بنا دیا گیا۔ میرے ایک مرحوم دوست انوار احمد کا شعر ہے۔۔۔

 جہاں مجھے ہونا چاہیے تھا وہاں نہیں ہوں

 مجھے خبر ہے کہاں ہوں میں اور کہاں نہیں ہوں۔

 مجھے فرشی کا مسئلہ، اس نظم کے حوالے سے، یہی لگتا ہے۔ اور یہی آج کا انسان اس eternal sheکا متلاشی ہے جو اپنی لا متناہی محبت سے سرشار کر کے اسے جینے کی ذلت سے اٹھا کر ایک sublime صورت حال میں گم کر دے۔ گویا متکلم دو طرح اپنا سراغ دیتا ہے۔ ایک وہ جس کی نشان دہی زیف صاحب نے کی اور ایک عام زندگی میں مبتلا عام آدمی جو تخلیقی انسان بھی ہے۔ نظم کے اندر سے جو آدمی یعنی انسان برآمد ہوتا ہے وہ محض آدم کا قائم مقام نہیں۔

محمد حمید شاید: صدر محترم، خوب کہا جناب ابرار احمد نے، واقعی اس نظم کا یہ مسئلہ بن رہا ہے کہ آج کا تخلیقی انسان ذلت اور اذیت کی سطح پر نہیں بلکہ سرشاری کی سطح پر جینا چاہتا ہے وہ اس ” اٹرنل شی” سے جڑنا چاہتا ہے جو اسے اپنی لامتناہی محبت سے سرشار کر دے۔ اب جہاں بھی آدمی محض بے مصرف جینے کی اذیت میں مبتلا ہے یا وہ آدمی جو سب لائم صورت حال میں اترے بغیر "تخلیقی التباس” کو ہی زندگی سمجھ لے، اس کے وجود میں زندگی نہیں موت زندہ ہوتی ہے۔ مجید امجد کی نظم "دنیا مرے لیے تھی” کا ایک ٹکڑا یاد آتا ہے۔

 "دنیا مرے لیے تھی اک بے مصرف مصروفیت

 جیسے تھا ہی نہیں میں اس دنیا میں

 جیسے موت مرے جی میں جینے آئی ہو”

 محض نوٹوں کی گنتی میں مصروفیت اور ہوس تو آدمی کو اندر سے مار دیتی ہے۔ غیر تخلیقی سطح پر جینا دراصل موت سے دوچار ہونا اور رائگانی سے بغل گیر ہونا ہے، مجید امجد ایک بار پھر، ” ہوس ” نظم کے اس ٹکڑے کے ساتھ۔

 "جہت، جہت میں الجھ گئی تھی

 زمین۔۔ اک بے وجود نقطہ

 جہان،۔۔۔ اک رائیگاں صداقت

 حیات،۔۔۔ اک بے وفا حقیقت”

 ’’ نیند اور موت کے درمیاں‘‘ میں جس بڑی سے بڑی بات کو ایک بھیگی ہوئی مسکراہٹ میں کہنے والے سلیقے کا حوالہ آیا ہے ایک تخلیقی انسان اس قرینے کا متمنی ہے اعداد و الفاظ کی بھیڑ میں رہ کر اکیلا ہونے والا آدمی تو کافکا کے "گریگر سمسا” سے "کاکروچ” بن جاتا ہے لہذا نظم کے آخر کا دعائیہ حصہ اس اسم اسرار کی طلب سے بامعنی ہوا ہے جس کی تمنا لیے سب پرندے ساتویں سمت گئے تھے، جی اس ساتویں سمت کو جہاں سے آج تک کوئی مڑ کر نہیں آیا مگر تخلیقی کار کو آنا ہو تا ہے، اس نظم کا تخلیق کار اس جہت کا سراغ لے کر آیا ہے۔ یہی وہ اسم اسرار ہے جس سے مردہ زمانوں کا متعفن وجود زندہ ہو سکتا ہے۔ ورنہ یہ زندگی اور یہ جہاں ایک رائیگاں صداقت سے زیادہ کی حقیقت نہیں رکھے گا۔

 "۔۔۔۔۔۔

 اپنی جنت کا منظر مرے ملگجے خواب پر کھول دے

 کوئی شیریں تکلم مرے زہر میں گھول دے

 فاصلہ نیند اور موت کے درمیاں

 اپنی موجودگی سے بنا

 کر عطا معجزاتی ہنر

 میں تو نوٹوں کی گنتی میں مصروف

 اندھے زمانے کے ہاتھوں کی

 وہ مَیل ہوں

 جس پہ مکھی بھی آ کر نہیں بیٹھتی!۔ "

جاوید انور: ابرار احمد کی رائے :

 صاحبِ  صدارت

 تو جو دوست میری اور دوسرے دوستوں کی درخواست کے باوجود تشریف نہیں لا رہے اُن سے معذرت کہ میں پھر اپنی معروضات لے کر آن دھمکا ہوں- نظم کے مخاطب کو ‘‘خدا‘‘ یا ‘‘ذاتِ مطلق‘‘ کہا گیا یا پھر کوئی ایسا نسوانی کردار جو ذاتِ مطلق سے وابستہ بھی ہے اور الگ بھی- اسی تعبیر نے میرے لئے مشکلات پیدا کی ہیں- حمید شاہد نے درست کہا ہے کہ نظم کو ہئیتی کُل میں دیکھنا ضروری ہے اور یہ کہ اس سے الگ ہو کر دیکھنے سے تخلیق کا باریک کام دم سادھے الگ پڑا رہ جاتا ہے – جو متن کو فی ا لاصل فن پارہ بنا رہا ہوتا ہے – لیکن متن تو بہرحال بیچ میں آ گیا ناں- یہاں جتنے بھی دوست ہیں اُن میں کوئی ایسا نہیں جو ان بنیادی اصولوں سے بہت اچھی طرح واقف نہ ہو- یقیناً ان قدروں کی پاسداری کی گئی ہے – ہاں آرا کا مختلف ہونا الگ بات ہے – (جاری)..

جاوید انور: ابرار احمد، بقیہ:

 ذاتِ مطلق کی کھوج میں ہم نظم سے رجوع کرتے ہیں-‘‘خداوندِ اعلی کے احکامِ رحمت اُٹھائے ہوئے۔۔۔۔ تجھے یاد کرتے ہوئے یوں گزرتے ‘‘ تو یہ خداوند نے اس کے احکامات اٹھا کر گزرنے والوں کی بات ہے لیکن یہ ‘‘تجھے ‘‘یاد کر رہے ہیں- یہ تجھے کون ہے ؟ ‘‘ یہ دکھنے دکھانے کی ساری مشیّت‘‘۔۔ لفظ مشیت خدا سے منسوب ہے گو شعری رعایت سے اسے انسان پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے – لیکن اذیت تو سراسر انسانی حوالہ ہے – پھر جھیل کون رہا ہے ؟ اکیلا تو خدا بھی ہے اور آدمی بھی ہو سکتا ہے -آگے چلئے، ‘‘ترے نام کی ناؤ مجھ کو کنارے لگاتی۔۔۔۔۔۔ اگر یہ خدا کی ناؤ ہے تو کنارہ تو ‘‘کہکشاں‘‘ ہونا چاہئے تھا- پھر ‘‘لاوقت ساحل‘‘ وہ مقام بھی ہو سکتا ہے جہاں خود شاعر زمان و مکاں کی قید سے آزاد کچھ دیر کو خود سے محوِ کلام ہے – ‘‘بڑی سے بڑی بات کو ایک۔۔۔۔ کہنے کا تجھ کو سلیقہ تھا‘‘ یہ سلیقہ کس کو تھا؟ یہ کہیں اسرار کی دھند میں لپٹا شاعر کا ہمزاد تو نہیں؟ جس ‘‘معجزاتی ہنر‘‘ کے الوہی ہونے کا خود میں نے تذکرہ کیا تو اب خیال آ رہا ہے کہ محبت بھی تو ایک معجزہ ہی ہے –

 ..

جاوید انور: ابرار احمد (بقیہ):

 اس نظم میں کسی بھی نسوانی کردار کے خد و خال واضح نہیں گو اس کی موجودگی بھی ہر حال شدت سے محسوس ہوتی ہے — مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ ایک خوابِ محبت کی کھوج میں نکلے ہوئے ایک عمدہ شخص اور شاعر کی خود کلامی ہے – شدید جذبے اور احساس سے شرابور اور مدار سے باہر نکل کر کے جانے والی خود کلامی-نظم کی ابتدائی لائنیں جو قاری کو کنفیوز کر رہی ہیں خود کلامی کا حصہ بن کر بامعنی ہو جاتی ہیں- یہ ایک طرح سے "return from him to him” والی صورتِ حال ہے جسے جاوید انور نے تخلیقی وفور کہا ہے – یہ اس حوالے سے ایک نہایت عمدہ اور کامیاب نظم ہے ——— ابرار احمد..

جاوید انور: تصنیف حیدر صاحب، معذرت خواہ ہوں، اگرچہ حروف تہجی کے حساب سے نون کی بجائے واؤ ہی آیا ہے -ت ص ی اور ف کو میں نہیں چھیڑا- بہرحال دلی معذرت کہ آپ مجھے بھی پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کرتے ہیں، ذرہ نوازی ہے حضور کی!

 اخبار میں اشتہار دے کر نام تبدیل کرنے کی بابت میں کیا کہوں گا، یہاں تو پاکستانی یا انڈین اخبار آتے ہی نہیں!….

محمد یامین: محترم احباب ! جناب ابرار احمد نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان پر اپنے ادراک اور آپ احباب کی گفت گو سے میں نے جو اخذ کیا ہے اسے آسان لفظوں میں بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ نظم کا واحد متکلم واضح ہو چکا ہے جو ایک تخلیقی انسان یا شاعر خود ہے۔ نظم کا مخاطب کردار "تخلیق ” ہے جسے personify کر کے شاعر نے تانیثی وجود بنا دیا ہے۔ اس تانیثی وجود کا اظہار خواب بنتی ہوئی ریشمی انگلیوں، محبت کی داستاں، ہونٹوں کی تصدیق، بھیگی ہوئی مسکراہٹ، سانس میں سانس لینے کی راحت اور شیریں تکلم سے بہ خوبی ہوتا ہے۔ یہ نظم دراصل اس المیے کو بیان کر رہی ہے جب شاعر تخلیق سے دوری کی وجہ سے اذیت کا شکار ہوا۔ یہ مکالمہ نہ خدا سے ہے اور نہ ہی شاعر کا خود اپنے آپ سے بل کہ ساری باتیں تخلیق سے ہو رہی ہیں۔ یہاں تخلیق تجریدی شکل میں ہے اور تنہائی کا شکار ہے یعنی نظم کے لفظوں میں” دکھنے دکھانے کی مشیت اور چھپنے چھپانے کی اذیت "میں مبتلا ہے۔ تخلیق بھی ظہور میں آ کر اپنی تنہائی دور کرنا چاہتی ہے اور شاعر بھی تخلیق کر کے اپنی اذیت دور کرنا چاہتا ہے۔ نظم یہ بتاتی ہے کہ انسان تخلیق کرتا ہے تاکہ اپنے مادی وجود (جسے نوٹوں کی گنتی سے واضح کیا گیا ہے ) سے نجات حاصل کر کے تخلیق سے جُڑ جائے۔ پوری نظم شاعر کے تخلیق سے دور رہنے کے المیے کو بیان کرتی ہے مگر بھی بتاتی ہے کہ شاعر کا تخلیق سے رابطہ کسی نہ کسی سطح پر موجود رہا ہے لیکن اس رابطے اور وابستگی کو معراج اس وقت ملتی ہے جب انسان تخلیق کی اعلیٰ سطح تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ ہر فن کار موت سے برسرِ پیکار رہتا ہے۔ اس عمل سے نجات تخلیق سے ہی ممکن ہے کہ مادی وجود کے فنا ہو جانے کے بعد تخلیق ہی اسے زندہ رکھتی ہے۔ گود سے گور (یعنی دھرتی ماں کی گود) تک جو ریشمی تار دکھایا گیا ہے وہ دراصل زندگی ہے (جو ظاہر ہے شاعر کی زندگی بھی ہے اور تمام نوعِ انسانی کی بھی) جس پر وقت خدا کے احکامات اٹھائے ہوئے گزر رہا ہے اور جو رحمتِ خداوندی کی بہ دولت ایک خوش گوار منظر بن گئی ہے۔ اسی رحمت کے سائے میں نقش و نگارانِ غم (انسان) مسکرا کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ یہاں شاعر نے زندگی کو ایک خوشگوار عمل بتا کر مثبت رویے کی عکاسی کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ شاعر تخلیق کو یاد کرتا ہے اور اس کے دکھ کو  ناوخاطب قطعنتوtention only.thanدور کرنے کے جتن کرتا ہے۔ یہ سارا عمل شاعر نے نظم کے مصرعے ” میں کتنے دنوں بعد آیا۔۔۔۔۔۔ سے لے کر "کس قدر میں اکیلا ہوں” تک اپنے پورے جمالیاتی ہنر سے بیان کیا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک لمحہ بھی اس کے قلم پر خوش رنگ الہام بن کر نہیں اترتا حالاں کہ تخلیق اپنے آپ کو بڑی آسانی سے ظہور میں لا سکتی ہے۔ اور بڑی سے بڑی بات کو سلیقے سے بیان کر سکتی ہے۔ یعنی تخلیق ایک خود مختار عمل ہے جیسے ویرانے میں پھول کھل اٹھتے ہیں جہاں ان کی آبیاری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اگراس اظہار کے پھولوں کو مردہ زمانے پر رکھا جائے تو زمانہ تخلیق کی خوش بو سے مہک اٹھے۔ ترے سانس میں سانس لینے کی راحت دراصل تخلیق کی اعلیٰ ترین سطح ہے۔ جس کی آرزو کے لیے شاعر معجزاتی ہنر کی دعا کرتا ہے اور تخلیق سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میں ایک مادیت سے لتھڑا ہوا انسان ہوں جسے ترے بتائے ہوئے اسم اسرار سے ہی نجات مل سکتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ نظم تخلیق کی قدر و قیمت اور تخلیق کار کے مرتبے کا اظہار ہے جس کے ذریعے وہ مادی وجود سے آزاد ہو کر بقا کی منزل حاصل کر لیتا ہے۔

 احباب گرامی!نظم کی فنی جمالیات پر گفت گو جو حمید شاہد صاحب نے کی ہے اس پر بھی اپنی رائے کا اظہار کریں اور اس کے مرکزی تھیم پر بھی مزید گفت گو فرمائیں۔ اگرچہ وقت کم رہ گیا ہے لیکن اسے آپ کے مشورے سے بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔

محمد یامین: جناب معید رشیدی نے اپنی رائے بھیجنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔ اگر وہ کل تک بھیج سکے تو بہتر ورنہ بعد میں موصول ہو جائے گی۔ اب نظم نگار جناب علی محمد فرشی سے گزارش ہے کہ وہ اپنے تاثرات منگل کی شام تک بھیج دیں۔

محمد حمید شاید: ابرار احمد اور جاوید انور نے اپنی میلز میں میری خاموشی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ یہ خامشی انہیں کھل رہی ہے۔ ہاں یہ خامشی مجھے بھی اچھی نہیں لگ رہی اور یہ بھی بہ جا کہ جو اس نظم کو بھاری پتھر جان کر کنی کاٹ کر گزر رہے ہیں یا وہ جو نظم نگاروں کے اندر ایک ہم عصریت کا سہم ہے جو اپنے ہی ساتھی کی نظم پر بات کرنے کی راہ میں حائل ہے، ان کے چپ رہنے سے اور زیادہ سمجھ آنے لگا ہے۔ مگر میری طرح جو بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے ان کا چپ رہنا اور بہ قول جاوید انور قیامت کے سکتے میں آ جانا، دونوں دوستوں کو بھی میری طرح اچھا نہیں لگا۔ اسی فورم پر ناقدین بولے، اب چپ پیں، نظم نگار بولے ان میں سے بھی کچھ چپ ہیں، بھارتی توپیں تو مکمل سکتے میں ہیں۔ ان سب کے پاس اپنا اپنا جواز ہو گا مگر میرے چپ ہو جانے کا قصہ یہ ہے کہ مجھے جو لگن اور جوش نظم والوں کے ہاں درکار تھا، اس کی بہ جائے کچھ عجب سے تحفظات اور اکتا ڈالنے والی لکنت اور رکاوٹ پاکر ایک دھچکا سا لگا ہے۔ خیر ایسا ہونا عجب نہیں ہے۔ راشد کی نظم گمان کا ممکن پر بات، اسی فورم پر آغاز ہوئی اور کوئی اسے آگے بڑھانے پر مائل نہیں ہو رہا تھا تب بھی میری یہی کیفیت تھی۔ میں نے اس عرصہ میں یوں کیا ہے کہ کچھ فکشن کے نامکمل کاموں کی طرف نکل گیا اور اب تازہ دم ہو گیا ہوں۔

جاوید انور: صاحب صدر، آپ کی وساطت سے میں حمید شاہد صاحب سے مخاطب ہوں- نہیں حمید بھائی، کم از کم میری طرف سے ایسے کوئی تحفظات نہیں ہیں- ہمعصریت والے – آپ نے دیکھا، میں نے اپنی بات کا اظہار کھل کے کیا ہے اور اپنا سچ بیان کیا ہے اور تفصیل سے – یہ ہمعصریت والی بات آپ، یعنی محمد حمید شاہد صاحب کی فانتسی بھی تو ہو سکتی ہے – اور” بھارتی توپیں” کی اصطلاح بھی مجھے غیر پارلیمانی لگی ہے – فرشیانہ سے زیادہ- یہ بھی تو ممکن ہے کہ نظم لوگوں سے بات ہی نہ کروا پا رہی ہو!!!!!!!!!!! اور صاحب صدر اگر کسی بھی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ رہی اور دورانیہ دو ہفتے سے بہت زیادہ ہو چکا ہے اور دورانیہ بڑھانے کے لئے آپ نے دو ممبران کی تائید بھی حاصل نہیں کی تو اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ میں کوشش کروں گا کہ آج کسی وقت میں ایک بار پھر حاضر ہوں، پچھلی آرا کو بارِ دگر پڑھنے کے بعد——————————–..

محمد حمید شاید: پیارے جاوید انور، آپ نے ایک پرلطف جملے کو غیر پارلیمانی سمجھا۔ اگر واقعی جیسا آپ نے سمجھا میری نیت ایسی ہی ہو تو مجھے اس پر معذرت طلب کرنے میں کوئی قباحت محسوس نپ ہو گی۔ میں تو اس گرما گرمی کے حوالے سے بات کر رہا تھا جو پہلے تھی اور اب عنقا تھی۔ ادب میں اختلاف ہونا کوئی عیب نہیں ہے، عیب اس میں ہے کہ ہم اپنی رائے دبا جائیں، چھپا لیں اور اسے ظاہر نہ ہونے دیں۔ اچھا جاوید انور آپ تو بولے اور خوب بولے، ابرار نے بھی حق ادا کیا، کچھ اور نظم نگار بھی تو اس فورم پر ہیں، اور اس سے پہلے بولے بھی ہیں، یہ ہم عصریت کی لکنت ادھر سے کھل رہی ہے۔ اچھا یہ ہم افسانہ نگاروں میں بھی ہے۔ مجھے اپنی بات نہیں کرنا چاہئیے مگر ذرا نظر دوڑا کر دیکھو تو کتنے ہیں جو میری طرح اپنے ساتھ والوں پر مکالمہ کر کے لطف محسوس کرتے ہیں۔ میں افسانے پر مکالمہ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو ادھر نظم پر میرا یہ خواب پورا ہو رہا تھا ایسے میں جب تک سب ہم عصر نظم نگار کھل کر بات نہ کریں گے مزا نہیں آئے گا،

علی محمد فرشی: جناب صدر! تاخیر سے پیش ہونے پر میں آپ سے اور اراکینِ فورم سے از حد معذرت خواہ ہوں۔ وجہ صرف یہ تھی کہ انٹر نیٹ کونیکشن کی جو ڈیوائس میرے استعمال میں ہے، کئی روز سے، اس کے سگنلز صرف 20 فی صد موصول ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔ مجھے چند گھنٹوں کی مہلت دیجیے، متبادل حل نکال کر جلد حاضر ہوتا ہوں۔

علی محمد فرشی: جنابِ صدر! یہ مرحلہ کہ جہاں مجھے اپنی معروضات پیش کرنے کا حکم ملا ہے میرے لیے اس نظم سے بھی زیادہ مشکل لگ رہا ہے۔ مجھے تو حاشیہ کے میزبان جناب زیف سید، ابتدائیہ نگارجناب محمد حمیدشاہد، نظم پر بحث کے شرکا جناب جلیل عالی، جناب ابرار احمد، جناب جاوید انور، جناب علی ارمان، جناب تصنیف حیدر کا شکریہ ادا کرنے کے لیے بھی اتنے الفاظ لکھنا ہوں گے جتنے اب تک حاشیہ کے تمام موضوعات پر لکھے گئے ہیں، ان احباب نے جس طرح موجودہ نظم کے مختلف گوشوں تک رسائی دی وہ اس نظم کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

 جنابِ محمد حمید شاہد کا قرض تو میری شاعری پر پہلے ہی بہت زیادہ تھا، اس میں مزید اضافہ دیکھ کر میں اپنی جگہ شرمندہ ہوں۔ اس نظم کی تفہیم میں انھوں نے جس طریقہ کار کا انتخاب کیا وہ آسان نہیں تھا۔ تخلیق کے طبیعیاتی ابعاد سے مابعد الطبیعیاتی افلاک تک اپنے تھیسس کو جس کام یابی سے انھوں نے نبھایا، اس پر نظم کی مخاطب کو فخر کرنا چاہیے۔

 جنابِ صدر!

 اور قابلِ قدر اربابِ حاشیہ!

 میں از حد معذرت خواہ ہوں کہ نظم کا جو متن میں نے زیف صاحب کو فراہم کیا وہ ذاتی فولڈر سے لے لیا، اگر میں، دیگر نظموں کی طرح، اسے بھی "سمبل” کے متعلقہ شمارے کی فائل سے بھیجتا تو احباب کو زحمت نہ ہوتی۔ ( جاری)

جاوید انور: برادرم حمید شاہد، بواسطت صاحب صدر، آپ جان چکے ہوں گے کہ ایسے جملوں سے میری دل آزاری نہیں ہوتی کہ میں تو خود عادی ہوں اس طرح سے باتیں کرنے کا——— لیکن مجھے یہ احساس شدید ہے کہ ہمارے یہ دوست اس بار کیوں غیر حاضر ہیں اور مجھے در تھا کہ ان کی دل آزاری نہ ہو- ہمارے نظم نگار————– میں خود حیران ہوں کہ سب کہاں ہیں- بہرحال اگر کبھی میں اس فورم کا غلام اسحاق خان بنا تو میں پوری کوشش کروں گا کہ وہ یہاں تشریف لائیں-

 اب ہمارے فرشی صاحب محوِ گفتگو ہیں سو اب میں ان کی بات سننے جا رہا ہوں————-.

علی محمد فرشی: جنابِ صدر!اس نظم نے مجھے کئی بار حیرت سے دوچار کیا۔ پہلی بار اُس وقت، جب یہ ضبطِ تحریر میں آ ئی۔ نظم میں "مخاطب” خود میرے لیے ایک پہیلی تھی، آخر کون ہے یہ؟ میں نے کئی بار اپنے لاشعور کو پکارا، لیکن اُس کا تو بس اتنا ہی کام تھا جو اُس نے کر دکھایا، وہ تو سرشاری و سرمستی میں "رقص” ہی کر سکتا ہے ! یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ ایسا "رقص” کر کیسے لیتا ہے ؟ لہٰذا اس کی جانب سے شافی جواب نہ ملنے پر مجھے مایوسی نہیں ہوئی۔ سوچاکچھ ذمہ داری تخلیقی شعور کی بھی ہوتی ہے، دس بیس فی صد ہی سہی!

 اس کا تخلیقی فریم تو ہر اعتبار سے درست معلوم ہوتا تھا، تمثالوں کے نظام میں ربط و ضبط بھی ٹھیک تھا، سمبلز بھی اپنی جگہ مکمل تھے، مصرعوں کے بہاؤ چڑھاؤ میں بھی کوئی کمی نظر نہ آئی، موضوع کا نبھاؤ بھی غیر فنکارانہ نہیں تھا۔ تو پھر وہ کیا شے تھی جو میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ مجھے کیرکے گور کا قول یاد آیا کہ”عقل خاص چیزوں کے سمجھنے میں ہماری مدد کر ہی نہیں سکتی۔ ” اس سے کچھ سہارا ملا لیکن پھر فوراً یاد آیا کہ اس نے اسی سانس میں یہ بھی تو کہا تھا، "اور خاص چیزیں ہی جاننے کے قابل ہوتی ہیں۔ "اب آپ خود ہی میری بے بسی کا اندازہ لگا لیجیے ! ان دنوں میں بھی برادرم علی ارمان کی طرح سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ارمان صاحب نے تو نظم سے فاصلے کاسو فی صد فائدہ اٹھا کر تنقیدی حربے سے اسے قابو کر لیا، لیکن میری استطاعت ان کے عشرِ عشیر بھی نہ تھی!

 ہر چند فن کار کے لیے ضروری نہیں کہ وہ جس فن پارے کو وجود میں لایا ہے اس کے بارے شعوری سطح پر بھی پوری طرح آگاہ ہو، لیکن بہ طور پہلے قاری کے میری ذمہ داری تھی کہ میں اس نظم کے مخاطب کو ضرور شناخت کروں، ورنہ نظم فن پارہ نہیں چیستان بن کر رہ جائے گی، (جیساکہ برادرم جاوید انور کو اشتباہ ہوا، مجھے ان کے الجھاوے پر کامل یقین ہے کیوں کہ میں خود اس کیفیت کا اسیر رہ چکا ہوں۔ ) چند بار گی کاوشیں ناکام ہوئیں تو میں نے اسے "ادھوری” نظموں والی فائل میں چھپا دیا، اور خوداس گمان میں جا پناہ لی کہ شاید "علینہ” کی طرح یہ کسی اور طویل نظم کا کوئی جز ہے، یا پھر اسی کا کوئی اگلا سفر! جناب حمید شاہد نے ابتدائیے میں اس نظم کی تفہیم کے لیے "علینہ ” میں استعمال ہونے والے جس قرینے کو منہاج مان کر اسے کھولنے کی کام یاب کوشش کی ہے، وہی میرے راستے میں پہاڑوں کا اک سلسلہ بنا رہا! مجھ سے غلطی یہ ہوتی رہی کہ میں اسے "علینہ” کا جز جان کر زیرِ نقاب مخاطب کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا اور انھوں نے اسے مثل مان کر متشابہات کی گرہیں کھول دیں۔

 گاہے اس پر ’ماں ‘کا گماں ہوتا اور کسی حد تک ٹھیک ہی ہوتا کہ زیف سید صاحب نے اس میں ممتا کا جو پہلو دریافت کیا ہے وہ کسی طور نظم کی نامیاتی وحدت سے باہر نہیں رہتا۔ جناب جلیل عالی نے مخاطب کو تہذیب کا سمبل مان کر جس طرح نظم کو ری کوڈ کیا ہے اس سے ایک مکمل متوازی متن وجود میں آ گیا ہے، اس پہلو کی جانب میرا کبھی دھیان ہی نہیں گیا تھا، اس لیے بھی کہ میں تو اُس وقت تک اس کے ظاہری متن کے مرکز میں موجود مخاطب کو پہچاننے میں ناکام ہو رہا تھا۔ تصنیف حیدر صاحب نے جس انداز میں نظم پر سوالات قائم کیے وہ بھی نظم کی دریافت میں معاون ثابت ہوئے۔ متکلم کے حوالے سے تو مجھے کبھی کوئی تذبذب تھا ہی نہیں، اس کا معلوم /نا معلوم ہونا، کم از کم میرے لیے زیادہ اہم بات نہیں تھی۔ (اگرچہ زیف سید صاحب نے اس کی شناخت کو خاصی صراحت سے واضح کر دیا۔ )علی ارمان صاحب نے نظم کی تعقید کونئے عہد کی پیچید گی کے مقابل رکھ کر متن کا جس تناظر میں مطالعہ کیا ہے اس سے نظم کے عقب میں تاریخ کی کارکردگی آئینہ ہو گئی ہے، تاہم میرے لیے یہ اُس سمے کا مسئلہ نہیں تھا، البتہ جب انھوں نے اسے "جوہر زندگی” کا نشان کہا تو مجھے یاد آیا کہ اول اول اس کردار نے یہیں سے اپنا نقاب سرکایا تھا۔ جناب ابرار احمد نے اسے "غیبی دانش”، ” اٹرنل شی” اور”انسانی محبت” کے نشانات سے واضح کرنے کی جو کوشش کی اس نے مجھے جھنجوڑا کہ میں خود بھی ایک عرصہ تک اِسے کچھ ایسے ہی ملتے جلتے ناموں سے پہچاننے کی کوشش کر تا رہا ہوں۔ (جاری)

علی محمد فرشی: جناب صدر!

 یہاں میں جنابِ زیف کی اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس پر ہنگامہ برپا ہوا حالانکہ فسانے اس کا کہیں بھی ذکر نہیں تھا بلکہ اس کی نفی کی گئی تھی، اقتباس ملاحظہ فرمائیے : "۔۔۔۔۔ فرشی صاحب کی بقیہ شاعری میں عموماً اور "علینہ” میں خصوصاً ذاتِ مطلق کو نسوانی روپ میں دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔ یہ بات کم از کم میری معلومات کی حد تک اردو شاعری میں انوکھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن زیرِ بحث کا نسوانی کردار علینہ سے مختلف ہے، کیوں کہ یہاں یہ کردار ماں کے روپ میں آیا ہے۔ ” زیف صاحب نے یہاں مطلق اور ماں میں جو واضح خط کھینچا تھا، نہ جانے معترضین کی نظر اس پر کیوں نہ پڑی؟ خود مجھے اس میں وجودِ مطلق کے حوالے سے کبھی کوئی مشابہت نظر نہیں آئی کیوں کہ "علینہ” کی تخلیق کے دورانیے میں، میں "اُس” کی کچھ جھلکیاں دیکھ چکا تھا۔ خیال رہے کہ نظم "علینہ” میں مراتبِ وجود کی مختلف صورتیں موجود ہیں، صرف مطلق ہی موضوع نہیں بنا۔

 مخاطب کے امیج پر پڑے ہوئے سمبلز کے پردے اٹھا اٹھا کر میں نے ا سے شناخت کرنے کی جو کوششیں کی تھیں ان سب کی ناقدین نے بھی تصدیق کی ہے۔ یہ امیج، ’ماں‘، ’دھرتی‘، ’تہذیب‘، ’جوہر زندگی ‘، ’غیبی دانش‘، ’اٹرنل شی‘اور’انسانی محبت‘ کے نشانات سے شناخت ہوا، یقیناً سبھی ناقدین نے ان الگ الگ شناختوں کو نظم کے چوکھٹے ہی میں رکھ کر پرکھا ہو گا اور "تصویر” کے اس میں فٹ آنے پر ہی حکم لگایا ہو گا، لہٰذا ان کی صحت سے عذر ممکن نہیں۔ شاید یہ "سمبل” کی ساحری ہے کہ معانی کی ہر پرت ہر زاویے سے کامل و سالم ہوتی ہے۔ لیکن جیسا کہ ایذا پونڈ نے کہا ہے کہ کوئی امیج معانی کی خواہ کتنی ہی تہیں رکھتا ہو اس کی ظاہری صورت پر حرف نہیں آنا چاہیے۔ تو جنابِ والا! اس امیج کی پہلی شناخت کیا ہے ؟ بالکل سامنے کی بات تھی! میں نے سوچا آئینے کے مقابل آئینہ آ جائے تو دوئی کے باوجود "الگ الگ” شناخت ممکن نہیں! اس سوال کا حل زیف صاحب کے پاس تھا:” یہاں دل چسپ گھمرگھمیری ملاحظہ ہو کہ خالق اپنے ہونے کی تصدیق اپنی تخلیق کی وساطت سے چاہتا تھا، اب اس کی تخلیق اپنے خالق سے اپنے ہونے کی تصدیق اپنی تخلیق کی وساطت سے چاہتی ہے۔ "

 پہلے پہل جب "مخاطب” نے پورا نقاب الٹا تو شاعری کی”میوز”کے جمال نے میرے حواس سلب کر لیے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یونانی اسطورہ نے مخاطب کی شناخت میں میری مدد ضرور کی لیکن کسی بھی ادب پارے کی مکمل تفہیم و تحکیم اس زبان کے اپنے تہذیبی تناظر ہی میں ممکن ہو سکتی ہے۔ یہ تناظر زیف صاحب نے دریافت کیا اور میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ میں شکر گزار ہوں کہ تخلیقی لاشعور کی کارکردگی پر میرا یقین مزید پختہ ہو گیا، جو کہ اس نظم پر ہونے والی بحث کا حاصل ہے۔۔۔۔۔۔

 صاحبِ صدر!

 میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے بڑے صبر کے ساتھ صدارت کی ذمہ داری نبھائی۔ میں اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ "حاشیہ” کا آئندہ اجلاس اس سے بھی زیادہ کام یاب ہو۔

محمد یامین: محترم اراکینِ حاشیہ! میں آپ سب کا انتہائی ممنون ہوں کہ آپ نے اس اہم فورم کے تیسرے اجلاس میں شرکت کی اور جناب علی محمد فرشی کی نظم "نیند میں چلتی موت "( میں سمجھتا ہوں کہ یہی عنوان نظم کے زیادہ قریب ہے )پر بحث میں حصہ لے کر اپنی علمی و ادبی استعداد کا مظاہرہ کیا اور یوں اعلیٰ ادب کے فروغ اور ترقی کے کارِ خیر میں شامل ہو کر اس کی پہچان کا ذریعہ بنے۔ نظم پر بحث کے دوران میں نے اپنی استعداد کے مطابق جو تعبیری نکات نشان زد کیے تھے ان کی مدد سے ایک اظہاریہ میں نے ترتیب دے کر آپ معزز اراکین کے سامنے اس وقت پیش کیا تھا جب بحث نظم کے مرکزے سے باہر نکلنے میں ناکام نظر آنے لگی تھی۔ میرا خیال تھا کہ اس اظہاریے کے بعد نظم پر بحث کا رخ دوسرے ابعاد کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ لیکن اس کے بعد بحث کو نہ جانے کیوں روک دیا گیا حالاں کہ میں آپ ہی کے خیالات سے یہ نتیجہ سامنے لایا تھا کہ نظم کا مخاطب "تخلیق” ہے جسے شاعر نے پرسونی فائی کر کے تانیثی وجود عطا کر دیا ہے۔ ذرا یہ جملے ملاحظہ فرمائیں :

 یہ پوری نظم زندگی میں جوہر زندگی کی تلاش کا سفر دکھائی دیتی ہے (علی ارمان)

 یہ کوئی الوہی طاقت، کسی غیبی دانش کا معاملہ ہے لیکن پھر اس میں سے ایک انسانی محبت بھی ظاہر ہوتی ہے جسے اٹرنل شی کہا جا سکتا ہے (ابرار احمد)

 خالق نے تخلیق کے ذریعے اپنی تنہائی دور کرنے اور اپنے ہونے کا احساس حاصل کرنے کے لیے انسان کو تخلیق کیا۔ اب انسان خالق کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ایسی تخلیق چاہتا ہے جس پر خالق اپنی مہر ثبت کر کے انسان کو اس کے وجود کا احساس دلائے (زیف سید)

 نظم کا آخری حصہ دعائیہ ہے جس میں متکلم تخلیقی جوہر سے کوئی کرن مانگنے کی استدعا کر رہا ہے (زیف سید)

 تخلیق اور تخلیقی انسان کے بیچ تعلق کو اس نظم کہانی میں موضوع بنایا گیا ہے (حمید شاہد)

 اس نظم میں آدمی کی نفی کیے بغیر تخلیقی سطح پر زندہ رہنے والے انسان کا تصور تشکیل دیا گیا ہے۔ یہی وہ تصور ہے جس میں انسان ماقبل زندگی کے اس زمانے کو بھی آنک سکتا ہے جو اس نے نہیں دیکھا، عین وہاں سے کہ جہاں سے تخلیق کرنے والے نے اسے ایک خواب کی صورت دیکھا اور وہاں تک کہ، صدیوں کی نمکینیوں کے سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں ابھرے پہاڑوں کا سلسلہ بن گیا تھا۔ حتی کہ مابعد زندگی کا وہ زمانہ بھی جو جسم کی موت کے بعد بھی تخلیقی وجود کو زندہ زمانے کی صورت سنبھالے رکھتا ہے۔ (حمید شاہد)

 اس کے علاوہ نظم کو جناب جلیل عالی نے ایک اور زاویے سے دیکھنے کی سعی بھی کی لیکن اس پر کسی صاحبِ  نظر نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ جناب تصنیف حیدر اور جناب جاوید انور نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود نظم پر بحث آگے نہیں بڑھ رہی تھی اور میری آرزو تھی کہ نظم کے دیگر ابعاد پر بھی بات کی جائے۔ جیسے نظم کے اندر امیجز اور سمبلز کے سلسلوں کی جمالیات کو اور اس کے اسلوب کو دیکھنے کی ضرورت تھی۔ جناب معید رشیدی نے اس پر بات کرنی تھی لیکن کسی وجہ سے وہ بھی حصہ نہ لے سکے۔ اس کے علاوہ نظم میں وقت کے تصور کو بھی کھولنے کی ضرورت تھی، زبان، بحر، نغمہ اور صوتیات کے حوالے سے اظہارِ خیال بھی نظم کا تقاضا تھا۔ اس ساری صورت حال کے بعد میں نے مذکورہ بالا نوٹ آپ دوستوں کے سامنے رکھا تاکہ اس کو رد یا قبول کرتے ہوئے بحث دیگر زاویوں کی طرف رجوع کرے لیکن افسوس کہ اس کے برعکس تمام احباب نے بحث سے کنارہ کشی اختیار کر لی جس کی بہ ظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ بہ ہر حال جن اصحاب نے نظم کی بحث میں شرکت کی ان کا شکریہ واجب ہے۔ اچھا ہوتا اگر جناب ستیہ پال آنند، جناب نصیر احمد ناصر، جناب رفیق سندیلوی، ناصر عباس نیّر، عمران شاہد بھنڈر، فیاض احمد وجیہ، اور دیگر احباب کے خیالات بھی جاننے کا موقعہ ملتا۔

 میں جناب علی محمد فرشی کا ممنون ہوں کہ وہ بحث کے دوران میں حاشیے پر اپنی حاضری مسلسل لگواتے رہے۔ فرشی صاحب! آپ نے نظم کے مخاطب کردار کے بارے میں نا معلوم سے معلوم تک جو سفر کیا ہے اس میں ہمارے لیے بھی بہت سی نشانیاں ہیں اور آپ کا یہ کہنا کہ تخلیقی لاشعور کی کارکردگی پر میرا یقین مزید پختہ ہو گیا، جو کہ اس نظم پر ہونے والی بحث کا حاصل ہے، بالکل درست ہے۔

 جناب زیف سید کا بھی شکریہ کہ انھوں نے مجھے اس اہم اجلاس کی صدارت کے لیے نام زد کیا۔

 معزز اراکین! اگلے اجلاس اور صاحب صدر کے نام کا اعلان چند روز میں انتظامیہ کی جانب سے کیا جائے گا۔ والسلام

محمد یامین: پسِ تحریر، جناب ابرار احمد کی طرف سے جس پر آئندہ صدر ہی کاروائی کر سکتے ہیں۔ (یامین)

 صاحب صدارت! اصولی طور پر صدارتی کلمات کے بعد کچھ کہنا روایت کا حصہ نہیں پھر بھی دو ایک باتیں کہوں گا۔ آپ نے جو تعبیر کی اسے شامل کر لیں تو خاصی مختلف آرا جمع ہو جاتی ہیں۔ میرا اپنا جی چاہا کہ اس حوالے سے بات کروں پھر یہ سوچ کے چپ ہو رہا کہ ایک تو مقرر وقت گزر چکا تھا دوسرے یہ کہ میری حاضری کچھ زیادہ ہی ہو جاتی۔ برادرم حمید شاہد نے جس جذبے اور تیاری کے ساتھ بات کی تو ان کا مایوس ہونا قابل فہم ہے لیکن میرا خیال ہے اس کی وجہ وہ نہیں صرف جو انہوں نے بیان کی۔ ہاں ان دوستوں کی بابت سوال ضرور اٹھتا ہے جنھوں نے ایک جملہ لکھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ کیا اس طرز عمل کی وجوہات پر غور کرنا ضروری نہیں؟۔ میں نے اختلاف کیا، جاوید انور نے اپنا اختلاف لکھ دیا لیکن کہیں اس منفی طرز عمل کا شائبہ تک نہیں ہوا۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ دوست اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں کہ وہ یہاں بات کرتے۔ جہاں تک ہمارے انڈین دوستوں کا تعلق ہے میرا خیال ہے ان سے تجاویز طلب کی جانی چاہییں کہ ان کا نقطہ نظر کیا ہے اور وہ کس طرح سے اپنی عمدہ اور ذہین آرا سمیت آئندہ اس فورم پر ضرور آئیں گے۔ مکالمہ ایک اعلیٰ ظرف کا متقاضی ہے اور ہم سب کو بھی غور سے دیکھنا ہو گا کہ غلطی اگر ہے تو کہاں ہے اور اسے دور کیسے کیا جا سکتا ہے۔ میں اگلے اجلاس کی صدارت کے لیے جاوید انور کا نام تجویز کرتا ہوں جس کا فیصلہ ظاہر ہے تمام دوستوں کی مشاورت سے ہو گا۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید