FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

میں پناہ تلاش کرتی ہوں

(نظمیں )

               تبسم فاطمہ

 

 

انتساب

اپنے بہت پیارے دوست،

مشرف عالم ذوقی کے نام

جنہوں نے میرے اندر کی باغی عورت کو

زندہ رکھنے میں ہر لمحہ میرا ساتھ دیا

 

 

مگر یہ راز فقط تتلیاں سمجھتی ہیں

چمکتے رنگ بھی جینا محال کرتے ہیں

                                    —نعمان شوق

 

 

دو لفظ میرے

نسائیت سے گزرتی تحریروں کا کولاژ

میں کیوں لکھتی ہوں ، یا کوئی بھی تخلیق کار کیوں لکھتا ہے—؟ یہ ایسے سوال ہیں ، جس کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا کسی بھی تخلیق کار کے لیے آسان نہیں ہے۔ لکھنا ایک گہرے درد یا سلگتی آگ سے گزرنے جیسا ہے۔ کسی کے لیے لکھنا روحانی سکون کا ذریعہ ہے۔ میں  نہیں جانتی، میرے لیے لکھنا کیا ہے۔ کہانی ہو یا نظمیں ، احساس کی لہریں ہوتی ہیں ، جو مجھے دور تک بھگوتی ہوئی لے جاتی ہیں ۔ پھر ایک سناٹا سا چھا جاتا ہے۔ فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، سارا شگفتہ، امرتا پریتم، پروین شاکر کتنے ہی نام ہیں ، جو ہونٹوں پرآ کر مچل جاتے ہیں — ان میں کسی کی بھی نظمیں اٹھا لیجئے۔ ہر جگہ ایک عورت موجود ہے۔ ہر بار ایک عورت گہری دھند یا کشمکش سے گزرتی ہوئی جیسے اپنی ہی کہانی کو لکھ رہی ہے۔ نظموں کے اس کولاژ میں عورت اور استحصال سے گزرتی کہانیوں کا درد محسوس کیا جا سکتا ہے۔ زاہدہ حنا کی کہانیاں ہوں یا ہم حشمت والی کرشنا سوبتی— شہناز نبی ہوں یا عذرا پروین کی نظمیں ۔ ہر جگہ ایک عورت ہے۔ ایسا لگتا ہے زندگی کی الجھنوں ، جدوجہد سے رشتوں تک یہ عورتیں ہر جگہ ایک چھاؤں تلاش کر رہی ہیں ۔ شاید اپنے حصے کی ایسی ہی ایک چھاؤں میں بھی تلاش کرتی رہی— افغانی عورتوں والی نظمیں ہوں ، بنگلہ دیش یا پاکستانی یا پھر اپنے ملک کی عورتوں کو خطاب کرتی ہوئی نظمیں ۔ یہاں ہر جگہ میں ہوں ۔ فکر کی ریت گھڑی سے الجھتے ہوئے۔ دھوپ میں جھلستے ہوئے۔ پھر یہی غور و فکر کہانیوں سے نظموں تک کا سفر طے کرتی جاتی ہے۔

پروین شاکر کی یاد آتی ہے، جہاں ایک انجانی محبت دکھ کی وجہ بن گئی تھی۔ عورت کے اندر چھپ گئی ہے، بغاوت— غور و فکر کا کولاژ ہر بار اس کے اندر کی کہانی کو ہی بیان کرتا ہے… قرۃ العین حیدر کی یاد آتی ہے،جن کی کہانیوں میں عورت، مردوں کی طرح ہوتی تھی۔ مردوں کی طرح مضبوط۔ اپنا فیصلہ خود لینے والی— لیکن ایک عمر میں انہیں کہنا پڑا۔ میں ناری ایسی جلی ، کوئلہ بھئی نہ راکھ۔

نظمیں کیسی لگیں ، آپ کے خط کا انتظار رہے گا۔

                                    تبسم فاطمہ

E-mail : tabassumfatima2020@gmail.com

 

 

بابِ اول

میں پناہ تلاش کرتی ہوں

میں ہنسنے کے لیے روئی

               (۱)

میں ہنسنے کے لیے روئی

آسمان پر روئی کے بادل چلتے تھے

تاروں کی راتوں میں چاند تیرتا تھا

لہروں کی کروٹوں میں کشتی ہلکوریں لیتی تھی

کھیتوں کی فصلوں میں خواہشیں بہتی تھیں

میں نے ہاتھ پھیلائے

تو تاروں کی راتیں خالی تھیں

نظر اٹھائی

تو روئی کی جگہ لاشوں کو کندھے دیتے بادل کے ٹکڑے تھے

لہروں کی طرف دیکھا

تو کشتی کے بادبان ٹوٹ چکے تھے

کسانوں کی موت کی خبر ملنے تک

کھیت ہوتے ہوئے بھی پہنچ سے دور تھے

میں ہنسنے کے لیے روئی

یا رونے کے لیے ہنسی

کہ جذبات پر

پہلے سے ہی دھند نے اپنی جگہ بنا لی تھی

٭٭٭

 

 

               (۲)

میں دکھ جاتی ہوں

ہر بار زندگی کو سمجھنے

اور خوابوں میں پت جھڑ چنتی ہوئی

دکھ جاتی ہوں میں

ہر بار رشتوں کو بکھرتا دیکھ کر

سیپیوں میں بند، گہری اداسی کا تجزیہ کرتے ہوئے

دکھ جاتی ہوں میں

بچپن میں بنائے ننھے منے گھروندے

اور ان کے توڑے جانے کی صورت حال کو

آج کے وقت سے جوڑتی ہوئی

جب خود کو

اکیورم کے باسی پانی میں

رکھی مردہ مچھلی کی طرح پاتی ہوں

دکھ جاتی ہوں میں

٭٭٭

 

 

               (۳)

میں شرمندہ ہوئی…

میں رونے سے پہلے شرمندہ ہوئی

کہ آنسوؤں کے ہزار راستے

دوسرے دروازے سے بھی ہو کر جاتے تھے

میں ہنسنے سے پہلے شرمندہ ہوئی

کہ درد کی طرف جانے والے راستوں کی

ہزار شاخیں بن چکی تھیں

میں ایمان لانے سے پہلے شرمندہ ہوئی

کہ میں خدا کو اپنے جوڑے میں ٹانکتے ہوئے

بہتوں سے الگ کر رہی تھی

میں پیار کرنے سے پہلے شرمندہ ہوئی

کہ ا پنے لیے ایک حق کو مانگ کر

پیار کے ہزاروں حقداروں کا حق چھین رہی تھی

زینے کی ہر سیڑھی پر

شرمندگی کے پھول پڑے تھے

انہیں چنتے ہوئے ہی

مجھے جینا سیکھنا تھا

اپنے لیے

٭٭٭

 

 

               (۴)

رونا… ایک رہگزر

ماں بتاتی تھی،

پیدا ہوتے ہی اتنا روئی تھی

کہ آسمان نیلا پڑ گیا

میری آمد سے چہکنے والے چہرے

خزاؤں کا حساب لگاتے ہوئے

برآمدے میں امرود سے گرنے والے سوکھے

پتوں کو دیکھ رہے تھے

تب کی بات ہے

جب آنگن میں گوریا آتی تھی

منڈیر پر بیٹھ ہوتے تھے کوے

اور کبھی کبھی امرود کے پیڑوں سے

چھپی کویل کی کوک بھی سنائی دے جاتی تھی…

تب پہلی بار

گھر میں ہوئی پہلی موت کی دستک سنی تھی میں نے

آنگن میں گوریے، کوے اور چڑیوں کو

ہکانے والے ددا کے ہاتھ بے جان تھے

بے روح اور بے جان ہوتے جسم سے پہلے

روح میں امڑنے گھمڑنے والی

درد کی آواز سنی تھی میں نے

عمر کے خزاں ہوتے احساس کو دیکھ کر

اچانک میں ٹھہر گئی ہوں

پیدائش سے موت تک

درد میں پھیلے کہرے میں

سمٹی ہوتی ہے زندگی

راز کا جال بنتی

مکڑے کی طرح

ایک دن

جال رہ جاتا ہے

دور کھو جاتی ہے ایک رہگزر

اور جسم غائب ہو جاتا ہے

٭٭٭

 

 

               (۵)

ہنسنا

میں تب ہنسنا چاہتی ہوں

جب منظر غائب ہوتے ہیں

اور ایک صفر میں

تیر رہی ہوتی ہو ں میں

میں تب ہنسنا چاہتی ہوں

جب کوئی نہیں ہوتا میرے پاس

میں ہنسنا چاہتی ہوں

خود میں چھپی گہری تاریکی کو

اوڑھ کر

آج کے وقت کو گواہ بنا کر

وقت سے پہلے ہی

اپنی موت کا جشن مناتے ہوئے

ہنسنا چاہتی ہوں میں

٭٭٭

 

 

دامنی کے لیے

               (۱)

تم سے سیکھا…

تم سے سیکھا

تم سے ان چند دنوں میں

جو کچھ سیکھا، وہ تمہیں ہی وقف ہے

تم سے سیکھا،

کہ بہتے جھرنوں کے لہجے میں کہیں

ایک سنگیت چھپا ہوتا ہے

جس کا راستہ دل کے غیر مناظر سے ہو کر جاتا ہے

تم سے سیکھا،

کہ خاموشی کے کولاہل کو بھی

نظم کے احساس سے جیا جا سکتا ہے

تم سے سیکھا کہ

پت جھڑوں میں بھی چھپی ہوتی ہے بہار

سوکھے پتوں میں بھی ہریالی کے ہوتے ہیں اقتباس

تم سے سیکھا

کہ دل کا اپنا پہناوا ہوتا ہے

بند آنکھوں میں بھی رابطہ سانس لیتا ہے

ہونٹوں کے اپنے نغمے ہوتے ہیں

بے جان ہوتے احساس کے باوجود

روح کے اندر گھنگھروؤں کا رقص ہوتا ہے

جو جینے کی امید کو مدھم نہیں ہونے دیتا

تم سے سیکھا

کہ پیار کی شاخوں پر چڑھتی گلہریوں کے بھی نام ہوتے ہیں

روح کا سنگیت ان ناموں کو ہونٹوں تک لانے سے روک دیتا ہے

تم سے سیکھا

کہ یادوں سے باہر بھی بسر کی جاتی سکتی ہے زندگی

کہیں زیادہ یقین اور توانائی کے ساتھ

٭٭٭

 

 

دامنی کے لیے

               (۲)

وہ زانی تھے

زانیوں کا نہیں ہوتا ہے کوئی مذہب

نہیں ہوتی ہے رشتوں کی کوئی سی بھی دنیا

وہ زانی تھے

جیسے ہوتے ہیں پیدائشی بھیڑیے

 خون پینے والے ویمپائر

وقت کی فصیل پر

کسی کی روح اور بدن کو چھلنی کرتے ہوئے

وہ بن جاتے ہیں آدم خور

سیاست، اور قانون کی کتابوں کے عالم

ابھی بھی نہیں جانتے

کہ آدم خوروں کا

انسانی بستیوں میں ہونا

کتنا بڑا گناہ ہے

٭٭٭

 

 

دامنی کے لیے

               (۳)

بدن سے روح تک

تب کوئی تاریخ نہیں تھی

ہو بھی نہیں سکتی تھی

کوئی وقت نہیں تھا

ہو بھی نہیں سکتا تھا

تم اپنی ہی پرچھائیوں سے کھیل رہی تھی

ایک رکے ہوئے وقت میں

ایک غیر منظر، منظر میں

تمہاری آنکھیں کسی ننھی بچی جیسی تھیں

اور پیٹھ پر اگے تھے پریوں جیسے ڈینے

آسمان پر چھائے تھے بادل اور دھوپ بھی تھی ساتھ

بارش کے گیتوں میں

اپنی ہی پرچھائیوں سے کھیلتی

ونڈر لینڈ کی ایلس سے بھی کتنی الگ تھی تم

تب کوئی تاریخ نہیں تھی

وقت نہیں تھا

ہلتے ڈولتے ، ہاتھوں میں کوئی ربط نہیں تھا،

رقص کرتے پاؤں ، نیلے چاندنی کے سنگیت پر تھرکتے

آلنگن کر رہے تھے کسی اپنے ہی بدن کا

ایک غیر حقیقی ، منظر میں

ایک روکے ہوئے وقت میں

آسمانوں کا سنگیت جاری تھا

اور تنہائی، اپنی پریوں والی کتاب میں

اسے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی تھی

٭٭٭

وہ جاتا رہتا ہے دوسروں کے پاس

جیسے ہوائیں ریزوں کو بہا کر لے جاتی ہیں

جیسے سمندر کی لہروں کی اچھال

ساحل کی بھربھری مٹی کاٹتی ہوئی نکل جاتی ہے

جیسے ہوائیں ریزوں کے پاس جاتی ہیں

یا لہریں ساحل یا مٹی کی طرف

ویسے ہی وہ بھی جاتا رہتا ہے

اور سچ تو یہ ہے بی بی

کہ ایسے لمحے، میں اپنے قد اور لباس میں

کہیں زیادہ بڑی ہو جاتی ہے اس سے

ممکن ہے آپ کے لیے یہ صرف ایک مکالمہ ہو

لیکن اس کام والی بائی سے پوچھیے، جو زمین پر پوچھا

لگاتے ہوئے

ایک نیا سبق دے گئی تھی

یا تجزیہ کر گئی تھی

کنزیومر کلچر سے پیدا ہونے والے نئے رشتوں کا

وہ مطمئن تھی

وہ جاتا رہتا ہے دوسروں کے پاس

کبھی چھپا لے جاتا ہے مسلسل غائب رہنے کے واقعات کو

جیسے ایک خوفناک رات بہتے رشتوں کے سنگیت کو چھپا لیتی ہے

تھکے ہوئے بستر پر، لیٹے ہوئے اس کے بدن سے آتی گندھ

اسے بتا دیتی ہے کہ اس کی اپنی بھوک

وہ کہیں اور بانٹ کر آیا ہے

ایک خوفناک رات بدن کی تپتی جلن

سے الگ بھی

ایک خوشگوار نیند ہوتی ہے اس کے پاس

یقینی طور پر

صرف وہ بانٹ کر آیا ہے اپنا بدن

صرف ایک بدن

یا پسینے کا سیل رواں ایک دوسرے جسم کے

حوالے کر آیا ہے

جسم کی تقسیم کوئی معنی نہیں رکھتی اس کے لیے

 اس کے گہرے خراٹوں میں

نہ کوئی محبت باقی ہے اور نہ تاریخ

وہ صرف جسم بانٹ سکتا ہے وہاں

بی بی کہتے ہوئے لہجے میں خود داری اور وقار

کی ایک مشعل تھام لی ہے اس نے

اپنے ہاتھوں میں

وہ مجھ سے رسیاں باچتا ہے

جب گھسی رسی سے بیٹھ جاتی ہے پلنگڑی

سانجھ کے وقت لالٹین کی مدھم روشنی بانٹا کرتا ہے

جب وہ سر پہ گوبر اور بھیگے جلاون لیے

چولہے جلا رہی ہوتی ہے

تیوہاروں پر چمکیلے ساٹن کے کپڑے بانٹتا ہے وہ

جب وہ ہولی یا دیوالی کے آنے کی خبر دیتی ہے

وہ پانی بھی بانٹتا ہے

کہ جینے کے لیے پانی بھی تو ضروری ہے بی بی

وہ ساون اور موسم کے ساتھ

اپنے جوڑوں کے درد بھی بانٹتا ہے

وہ اکثر آسمان میں رقص کرتے

تارے گنتا ہے میرے ساتھ

اور چاندنی راتیں بانٹتا ہے

کبھی وہ جوڑ گھٹاؤ اور حساب کے ساتھ

اپنے بچوں کے جذبات بھی بانٹتا ہے

اور کبھی کبھی تو کچھ بھی نہیں ہوتا

مگر وہ تب بھی بانٹ رہا ہوتا ہے

اپنے وجود، اپنے ہونے کا ایک ایک حصہ

وہ ایسا بہت کچھ تقسیم کرتا ہے بی بی

جو وہ کہیں اور نہیں تقسیم کرتا

ایک چھوٹی تقسیم کہیں اور ہو جاتی ہے بی بی

ایک بڑی تقسیم کے لیے

وہ صرف مجھ میں ہی ڈھونڈتا ہے

اپنا سہارا

٭٭٭

قبر گاہوں کی ویران سلطنت

میں نہیں جانتی

مجھے یہ جگہ کیوں پسند ہے

یہاں چھوٹی بڑی کھلی ہوئی قبروں کی ایک قطار ہے

لیکن یہاں بھی

غریبی اور امیری کی جنگ ایک جیسی ہے

پکی اور شاندار قبروں کے درمیان

کچی قبریں بھی ہیں

بارش کے پانی میں ڈھ جانے والی قبریں

ایسی بھی ہیں جہاں سنگ مرمر لگے ہیں

ناموں کے کتبے سجے ہیں

اور ایسی دھنسی ہوئی قبریں بھی

جن کی یادیں ایک بھی برسات نہیں جھیل پاتیں

پتہ نہیں

اب ان کے عزیز

شہرِ خموشا میں ان سے ملنے آتے بھی ہیں یا نہیں

پیڑوں کے پتے سے

قطار میں بنی قبروں تک

پھیلا ہوا گہرا سناٹا ہے

میں اس سناٹے میں چنتی ہوں یادوں کے پھول

میں اس خاموشی میں تلاش کرتی ہوں پاؤں کے شول

ہوا میں پاتی ہوں گرد اور دھول

شاید یہی ہے زندگی کا معمول

قبر گاہوں کی یہ ویران سلطنت

مجھے پسند ہے

یہاں دامنیوں  ۱ ؎ کے قاتل بھی نہیں بولتے

اس سناٹے میں

انسانی کھال کے بھیڑیے بھی نہیں ہوتے

یہاں وہ لٹیرے بھی نہیں ہوتے

جو بدن سے آگے کا حساب نہیں جانتے

اس سلطنت میں کہیں

میری ایک چھوٹی سی بیٹی بھی ہے

آرام کرتی ہوئی

جسے زندگی کے دو سال اور کچھ مہینے ملے

شاید مجھ سے زیادہ

اس نے اس سلطنت سے باہر کی

دنیا کو دیکھ لیا تھا

آج وہ ہوتی

تو نازک جسم پر

چبھنے والی آنکھیں لیے بڑی ہوتی

اور میں ہر پل دہشت زدہ رہتی

گھٹتی رہتی اپنی دنیا میں

لرزتی رہتی اسے گھر سے باہر بھیجتے ہوئے

اس وقت تک سہمی رہتی

جب تک

وہ لوٹ کر نہیں آ جاتی اپنے گھر

جسم اور دہشت کے رشتے میں

کہیں گروی پڑی ہوتی

میری آزادی کی زبان

یا وہ آزادی

جسے فرنگیوں سے چھینتے ہوئے

ہمارے فوجیوں نے کب سوچا تھا

دامنیوں کے ان لٹیروں کے بارے میں

یا اس سیاست کے بارے میں

جو سر عام اپنی عزت گنواتی گئی

اور

بھیانک ہوتی گئی پہلے سے کہیں زیادہ

قبر گاہوں کی اس ویران سلطنت میں

کئی اور بھی ہیں  جنہیں میں جانتی تھی

جن کے ہاتھوں پر کھیلی تھی

جن کے پاؤں پر چلتی ہوئی بڑی ہوئی تھی

یہاں وہ سب ہیں

جو اس سلطنت سے باہر کی دنیا سے

گھبرا گئے تھے

پھر ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند کر

اس سلطنت کے ہو کر رہ گئے

یہاں اچھا لگتا ہے مجھے

بھٹکتی ہوئی روحوں کی تلاش

ہوا سے ہلتے ہوئے پیڑ

خزاں سے گرتے ہوئے سوکھے پتے

اورپر اسرار گہری خاموشی

میں اس خاموشی میں چھٹک گئی ہوں

انہی راستوں میں کہیں بھٹک گئی ہوں

میرے چاروں طرف

ایک نہ ختم ہونے والی دھند ہے

یقین نہیں ہوتا

میں اس کہرے میں ہی کہیں

اٹک گئی ہوں

٭٭٭

 

 

زیورات  گہنے

عورت کی پیشانی پر

چمکتی ہوئی بندی سے ہو کر ایک سڑک

مرد کے غرور تک جاتی ہے

پاؤں کے چھلوں اور چاندی کے پائلوں

سے ہو کر ایک راستہ

مردوں کو کو راغب کرنے والی کشش کی طرف جاتا ہے

گلے کے ہار اور زیورات سے ہوتی گلی

مرد دروازہ پر کھلتی ہے

بچپن سے ہی

نہ مجھے بندی راس آئی

نہ میں نے اپنے لیے

زیورات کا راستہ چنا

مجھے پائل بھی پسند نہیں تھے

ان سب میں کہیں نہ کہیں

مجھے مردوں کا پاکھنڈ

یا سازش نظر آتی تھی

جہاں سے خود کو کاٹ کر

عورت کو

مرد اپنا انمول خزانہ

اور اپناتے تھے

استحصال کے نئے راستے

نوابوں ، بادشاہوں اور مہاراجاؤں کی

پرانی داستانوں میں

عورتوں کی وہی ایک شکل ملتی ہے

آغاز سے اب تک

زیورات میں لدی عورت

صرف مرد ذات کے بھوگ

کے کام آتی رہی ہے

عورت کو زیورات سے سجا کر

خریدی جاتی رہی ہے اس کی آزادی

کھڑا کیا جاتا ہے

 نمائش کے لیے

کمزور کیا جاتا ہے

دولت اور طاقت کے نام پر

تاکہ جاری رہ سکے

مردوں کی حکومت

اندھی کشش اور جمالیات کا اظہار کرتے ہوئے

توڑا جا سکے اسے

اپنی سلطنت کو بنائے رکھنے

اور طاقت کے استعمال کے لیے

المیہ،

صدیوں کا ظلم سہنے کے باوجود

عورت وہیں کھڑی ہے

زیورات اور گہنوں کی دنیا میں

وہ تیار ہے

اپنی شناخت مٹانے کے لیے

اور مرد ذات پر نچھاور ہونے کے لیے

المیہ،

کہ وہ نہیں جانتی

صدیوں سے سے، زیورات کے درمیان سے ایک راستہ

اس غلامی کی طرف جاتا ہے،

جس نے ابھی بھی اس کی آزادی اور فکر کو

بندھک بنا کے رکھا ہوا ہے

المیہ،

کہ تہذیب کے اس موڑ پر بھی

وہ تیار نہیں ہے

زیورات سے باہر نکلنے کے لیے

وہ نئے استعمالوں میں

ماری جا رہی ہے

گھر کی دہلیز سے سیاست تک

وہ سجی ہوئی موم کی گڑیا جیسی ہے

جن پر قبضہ کے لیے

à

٭٭٭

 

 

میں پناہ تلاش کرتی ہوں

               (۱)

تھک جاتی ہوں

زندگی کی بھیڑ میں

الجھنوں کے بھنور میں

لمبی زندگی کی ریس میں

چلتے چلتے

دوڑتے دوڑتے

تھک جاتی ہوں میں

پناہ تلاش کرتی ہوں

تو سامنے

اماوس سی کالی رات ہوتی ہے

قبرستان سا سناٹا

اور بے نام الجھنوں کے کورے صفحے

جو پناہ دینے سے پہلے

میری موت کا اعلان کر چکے ہوتے ہیں

٭٭٭

 

 

میں پناہ تلاش کرتی ہوں

               (۲)

میں پناہ تلاش کرتی ہوں

بے رحم زندگی کا ہر صفحہ

سوگ میں ڈوبا ہے

وحشت سے دہشت

سیاست سے فرقہ واریت

تعلقات سے زہر بننے تک

کھو چکے ہوتے ہیں راستے

سمندر منتھن کی کہانیاں بھی

پناہ کا احساس لے کر نہیں آتیں

تپتا ہوا ریگستان

اٹھتی ہوئی ریت کی آندھی ہوتی ہے

جیسے میں ڈری ہوئی بھاگ رہی ہوتی ہوں

ان کے درمیان

ڈراؤنے خواب ہوتے ہیں

اور

پناہ کسی پھٹی ہوئی چادر کی طرح ہوتی ہے

جو ریت کی، اٹھتی ہوئی آندھی سے

بچا نہیں پاتی

کسی صورت

اور ہمیں جھلسنے ، مرنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے

٭٭٭

 

 

میں پناہ تلاش کرتی ہوں

               (۳)

گلزار کے لفظوں میں کہوں

تو میں پناہ تلاش کرتی ہوں

بے جان سے لفظوں میں

شیلف میں سجی کتابوں میں ،

انگلیوں سے چھوتے ہی

جیسے جاگ جاتے ہیں

نئے رخ

الفاظ پر دوڑتی آنکھوں کے

سنگ ہوتی ہیں

پناہ دیتی ہوئی ہوائیں

 کھلکھلا کے ہنس دیتی ہیں

فضائیں

پناہ کی تلاش میں

ہر بار کتابوں تک آتی ہوں

کوئی بھی نیا باب

شروعات کر دیتا ہے

میری زندگی کے نئے باب کا

اندھیری سرنگ سے

روشنی میں آتی ہوں

فیض احمد فیض کی طرح

نئی زندگی کے گیت گاتی ہوں

٭٭٭

 

 

بغاوت کے نام کچھ نظمیں

               (۱)

کتنے فخر کی بات ہے

بغاوت،

اصل میں یہ لفظ

صرف ہمارے لیے پیدا ہوا ہے

پیدا ہوتے ہی

ہماری سانسوں کے تیز چلنے کو بھی

بغاوت کے نام سے پکارا گیا

اڑنے کو آئی

تو گھر والوں نے

اڑان میں بھی بغاوت کے سر پائے

دنیا دیکھنے نکلی تو

بغاوت کی مجرم ٹھہرائی گئی

جسم کے سنگیت سے

باہر سے ٹیڑھے میڑھے راستوں تک

اگر ہم میں کچھ تلاش کیا گیا

تو وہ بغاوت سے الگ کچھ نہیں تھا،

ہم باغی تھے

اس لیے کہ ہم مرد نہیں تھے

٭٭٭

 

 

بغاوت کے نام

               (۲)

باغی ہوتے ہوئے

بیٹیوں کے نام پر

یہ بغاوت کیوں سو جاتی ہے

کیوں ڈر لگتا ہے

انہیں باہر بھیجتے ہوئے

کیوں ان کے ساتھ

ڈستی ہوئی رات

مثال کے طور پر جڑ جاتی ہے

اپنے وقت میں

باغی ہوتے ہیں ہم

بیٹیاں کیوں نہیں ہو سکتیں

باغی

٭٭٭

 

 

بغاوت کے نام

               (۳)

زندگی کے فیصلہ کن موڑ پر

بغاوت

میرے لیے ایک تسلی کا نام ہے

میں ہارتے ہوئے بھی

ہر مورچے پر

یہاں دیکھتی ہوں —جیت

مجھے اپنی بغاوت پر

ہار بھی منظور ہے

یہاں میں ہوتی ہوں اپنے ساتھ

ہارتے ہوتے ہوئے بھی

بغاوت کا فیصلہ

میرا اپنا فیصلہ ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

بغاوت کے نام

               (۴)

ہر بار سوچتی ہوں

معاشرہ اپنے سخت اصولوں میں

ہر بار ہمیں ہی

باغی کیوں قرار دیتا ہے

ہر بار ہماری ہی بغاوت پر

کہانیاں کیوں جنم لیتی ہیں

ہمارا منفی رویہ

ایک پورے سماج کے لیے

بغاوت کیوں بن جاتا ہے

٭٭٭

 

 

بغاوت کے نام

               (۵)

خطرہ صرف

ہمارے لیے کیوں ہوتا ہے

گھر کی چہاردیواری اور منڈیر سے

باہر کی سڑکوں اور گلیاروں تک

لباس سے جسم کی جیومیٹری تک

ہم جیسے کسی لیب میں ہوتے ہیں

مرد کی آزمائش کے لیے

اور لیب کے باہر

خطرہ ہے کا سائن بورڈ لٹکا رہتا ہے

ہمارے لیے

گھر نہیں ،

بچپن سے ہی ہم

امتحان ہال میں ہوتے ہیں

اور بغاوت کے گھنگھرو

پیدا ہوتے رہتے ہیں ہمارے اندر

پھر بڑے ہوتے ہوئے

چاندنی کے پل پر کھڑے

ہم اتنے کمزور ہوتے ہیں

کہ ڈر جاتے ہیں …

اس ایک لفظ کے احساس سے بھی

پھر ڈرتے رہتے ہیں

بڑا کرتے رہتے ہیں

ڈر کے نہ ختم ہونے والے اس سلسلے کو

٭٭٭

 

 

سسکتی ہوئی روحوں کے درمیان

میں وہیں کہیں رہ گئی ہوں

شہر خموشاں میں

سسکتی ہوئی روحوں کے درمیان

گھپ سناٹے کے شور کو سنتے ہوئے

بھیڑیوں کی دل دہلا دینے والی آوازوں کے درمیان

سہمی ہوئی

ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح

بکھرتی ہوئی

میں وہیں کہیں رہ گئی ہوں

شہر خموشاں میں

یہ بیحد افسوسناک خبر ہے

آج کی تاریخ میں

اس زمین کے سارے باسیوں کے لیے

کہ مار دی گئی ہیں ساری عورتیں

عورتیں

بیٹیاں

اور اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے

کہ وہ کیسے دکھائی دے رہی ہیں

زندہ

آہستہ آہستہ آپ بھی سمجھ جائیں گے

وہ ہو کر بھی نہیں ہیں آپ کے درمیان

صرف سسکتی ہوئی روحیں ہیں

جنہیں دیکھ سکتے ہیں آپ اپنے گھروں میں

یا نظر انداز کر سکتے ہیں

٭٭٭

 

 

تین نظمیں

                میں خواہشوں کے پھول چن رہی تھی

               (۱)

میرے پاؤں زخمی تھے

مگر میں اڑ رہی تھی

اپنے ہی بنائے گئے آسمان میں

زندگی جب جب اپنا دامن تنگ کرتی ہے

اکیلے گھٹن بھرے کمرے میں

اڑان بھرتی ہوں

بنا لیتی ہوں ایک نیا آسمان

میں درد کے کانٹے بکھیر رہی تھی

اور خواہشوں کے پھول چن رہی تھی

تنہائی میں

صرف آباد کرتی ہوں اپنی دنیا

اور یہاں کوئی نہیں ہوتا میرے سوا

پہلے میں انگارے جمع کرتی تھی

اور چاروں قل پڑھ کر

دکھ کے چنے ایک ایک کر کے

تھالی میں رکھتی جاتی تھی

اب میں نئے رنگوں میں

اپنی زمین بناتی ہوں

زمین پر گل بوٹے اگاتی ہوں

خواہشوں کے پھول چنتی ہوں

رسم ہی سہی، اسی طرح

اپنی زندگی گزارتی ہوں

٭٭٭

 

 

               میں خواہشوں کے پھول چن رہی تھی

               (۲)

ایک عرصہ سے

 چھاؤں نہیں دیکھی

دھوپ جیسے آ کر ٹھہر گئی ہے

میرے آنگن میں

چھت پر بکھرے ہوئے چاول کو

سہمی ہوئی نگاہوں سے

منہ میں بھرنے والی

گوریوں نے آنا بند کردیا ہے

گھر میں بلیاں بھی نہیں ہیں

کتے اب صرف گھروں کے باہر نظر آتے ہیں

یا ایلیٹ کلاس والوں کے ریشمی بستر پر دبکے ہوئے

اور وہ انہیں پیار سے ڈوگی کہہ کر بلاتے ہیں

وقت زینہ لگا کر اڑ گیا ہے

بڑے ہوتے بچوں نے

گھر سے باہر دوست بنا لیے ہیں

اور اب گوریوں سے

بلی اور کتوں سے دوستی کی

ایک انجانی خواہش

چپکے چپکے جنم لے رہی ہے میرے اندر

ایک عرصہ سے خود کو نہیں دیکھا

ایک عرصہ سے چھاؤں بھی نہیں دیکھی

تحلیل ہو رہی ہوں

دھوپ اور چھاؤں کے ملے جلے رنگوں میں

٭٭٭

 

 

               پرانے گھر کو یاد کرتے ہوئے

               (۳)

تتلی تھی میں

پنکھ نہیں تھے

پھر بھی تیز اڑتی تھی

کسی پکڑ میں نہیں آتی تھی

کئی کی کمروں والے گھر میں

بے نیازی سے دوڑتی رہتی تھی

طعنے سنتی رہتی تھی

بڑے بوڑھوں کے

مگر اڑتے پنکھوں کو کب کس نے روکا ہے

سناٹے میں سنائے جاتے تھے

انجانے لفظوں کی کہانیاں

جہاں سہمی ہوئی شہزادی ہوتی تھی

اور شہزادی کو قبضے میں لینے والا دیو

پھر بھی دوڑتی کہا ں تھی

اڑتی جاتی تھی،

ننگے پاؤں

چبھتی ہوئی آنکھوں سے الگ

کہ ٹھہر گئی

تو زندگی کی رفتار بھی رک جائے گی

گھر میں منڈیریں تھیں

ایک چھت تھی ویران

سناٹے میں ڈوبی ہوئی

جہاں شام کو لڑکیوں کا جانا منع تھا

سولہ کمروں والے گھر میں

ایک کمرہ میرا کمرہ تھا،

جہاں دوپہر آئس کریم کھاتی تھی

اور

ڈائجسٹ بڑھتی تھی

پرانے گھر سے وابستہ لوگ

اب شہر خموشاں میں ملتے ہیں

پرانا گھر اب صرف یادوں کا حصہ ہے

ہاں ، پرانے گھر کو یاد کرتے ہوئے

خود کو بھول جانے کا احساس

مجھے پھر سے اس لڑکی میں تبدیل کر دیتا ہے

جو دوڑ رہی ہوتی ہے

بے پرواہ

سارے گھر میں

کود رہی ہوتی ہے

چھت پر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ

حصہ لے رہی ہوتی ہے

انجانے کھیلوں میں

اور ان سے آگے بڑھ کر،

ہنس رہی ہوتی ہے

کھلکھلا کر

زندگی آگے بڑھ گئی ہے

ہنسی کہیں پیچھے چھوٹ گئی ہے

٭٭٭

 

 

رسم و رواج، بیڑیوں کے حوالے سے کچھ نظمیں

               (۱)

آنسوؤں سے پیدا ہوتے ہیں رسم و رواج

پرتھائیں ختم ہونے کے باوجود

زندہ رہ جاتی ہیں

اپنی پرانی شکل میں

دروازے کے باہر پھن کاڑھے سانپ رہتے ہیں

ان کے زہر سے

ڈرایا جاتا رہا ہے

روایات کے نام پر

کبھی کبھی

یہ زہر پلایا بھی جاتا رہا ہے ہمیں

ایک چیتھڑا آسمان

ایک لرزتی ہوئی زمین

ایک ٹوٹا ہوا خواب

تحفہ میں دیکر

کہا جاتا ہے ہم سے

بیڑیوں سے محفوظ ہیں ہم

اصل زندگی بندشوں میں ہی ہے

باڑ کے اس پار بھیڑیے ہیں

مگر کہاں نہیں ہیں بھیڑیے

ایک ٹھٹھری رات میں

بکھرے خوابوں کی طرف ہاتھ بڑھانا

تقدیریں ہے ہماری

کھل کے

مٹھی کا بند ہو جانا

قسمت ہے ہماری

٭٭٭

 

 

رسم و رواج، بیڑیوں کے حوالے سے کچھ نظمیں

               (۲)

ننھی عمر میں

ایک چھوٹے ٹوٹے غالیچہ پر بیٹھا کر

اڑنے کو کہا گیا ہمیں

موسم خزاں کا تھا

اور ہمیں کہا گیا

پھول چننے کے لیے

آسمان سے اتاری گئی بارش

ہمیں زخمی کرنے کے لیے

بیڑیوں کا تحفہ بھیجا گیا

ہماری ذات کو سنوارنے کے لیے

ہوا میں لہراتا ہوا ایک دوپٹا تھا

اس کے باہر تھی لکشمن ریکھا

کمرے کی کھڑکیاں بند رکھی گئیں

باہر پیڑوں کی قطار تھی

پرندوں کی چہچہاہٹ

نیلے آسمان چاند تارے

لیکن یہ سب ہمارے لیے نہیں تھے

ہمارے لیے صرف ہم تھے

اور دوپٹوں کی دنیائیں تھیں

٭٭٭

 

 

گڑیا کے نام کچھ نظمیں

               (۱)

ان آنکھوں کے پار

میں ان آنکھوں کے پار گئی تھی

جہاں نیلے آسمان کے سائے تھے

برہنہ جسم

دھوپ کی آگ سے تلے جا رہے تھے

جہاں ہزاروں گڑیائیں تھیں

کھلونے کی طرح

کسی کھلونے کا سر نہیں تھا

کسی کا دھڑ غائب

اور کھلونے کے مردہ جسم سے

اٹھتی ہوئی آہیں

سمندر کے نیلے پانی میں

غسل کر رہی تھیں

میں ان آنکھوں کے پار گئی تھی

جہاں انصاف کے بت کھڑے تھے

اور ان کی بنیاد

مردانہ ہاتھوں نے تھام رکھی تھی

وہ عورت جو ان عمارتوں میں

آنکھوں میں پٹی باندھے ہوئے نظر آتی تھی

وہ غائب تھی

اور عمارت سے نکلے وحشی قہقہے

ایک تیزاب کی سرنگ سے ہو کر

گزر رہے تھے

میں ان آنکھوں کے پار گئی تھی

جہاں برہنہ جسم

انہی قہقہوں کے نیزے پر تھے

اور سرنگ سے آنے والی تیزاب کی دھار

برہنہ جسموں سے ہو کر گزرتی تھی

تو شہنائیاں بجتی تھیں

ڈھول پیٹے جاتے تھے

اور فتح کے کلمے پڑھے جاتے تھے

٭٭٭

 

 

گڑیا کے لئے

               (۲)

فلم کے ایک منظر میں

چابی بھرنے والی گڑیا کی آنکھیں

رات کے اندھیرے میں

قمقمے کی طرح جل اٹھتی ہیں

وہ سارے گھر میں گھومتی ہے

کنارے سے ڈراؤنا سنگیت گونجتا ہے

سنگیت اب بھی گونج رہا ہے

گڑیائیں ماری جا رہی ہیں

بے بس  لاچار

معصوم ننھے جسموں کو روندا جا رہا ہے

چابی بھرنے والی گڑیا کی آنکھیں

یہاں رات کے اندھیرے میں نہیں کھلتیں

بچپن بچپن کھیلنے والے پاؤں

اب گدھ کی نگاہوں پر ہیں

میں ڈری ہوئی ماؤں کو دیکھ رہی ہوں

جو اپنی اپنی گڑیاؤں کو

بدن سے لپٹائے ہوئے

قدموں کی چاپ سن رہی ہیں

وہ خوفزدہ ہیں

کہ بھیڑیے کہیں سے بھی نکل کر

آ سکتے ہیں

اپنے ہی گھر سے

نازک رشتوں کے لباس میں بھی

وہ خوفزدہ ہیں

شناخت کے المیہ سے

جہاں ایک ہی ماسک میں

بھیڑیے اور انسان دونوں سما گئے ہیں

تہذیب کے نرمبھ پڑاؤ پر

سڑکوں پر

انسانی قدموں کی جگہ

درندے آ گئے ہیں

یا اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں

درندوں کی جگہ

انسان آ گئے ہیں

یہاں کتابیں جل رہی ہیں

تہذیبیں خراہاں ہو رہی ہیں

رشتے تندور میں بھونے جا رہے ہیں

ایک مرتی ہوئی دنیا

ایک ولاپ کرتی تہذیب

ان کے درمیان کہیں میں ہوں

یہاں پودے سوکھ گئے ہیں

دریاؤں کا پانی جم چکا ہے

یہاں سورج کی شعاعیں نہیں آتیں

یہاں چاندنی اپنے پاؤں نہیں پھیلاتی

یہاں گم سم

اپنے ہی جنازے کے ساتھ چلنا ہے

چلتے جانا ہے…

٭٭٭

 

 

گڑیا کے لئے

               (۳)

یہ صفحہ کورا ہے

اس صفحہ پر

نہیں لکھی جا سکتی کوئی نظم

نہیں اکیری جاسکتی کوئی تصویر

یہ خالی صفحہ

ان گڑیاؤں کے لیے ہے

جہاں صبح بے نور ہوتی ہے

اور کاغذ کے کورے پنے پر

رات

اپنا سایہ کر دیتی ہے۔

٭٭٭

 

 

گڑیا کے لئے

               (۴)

اس مردانہ دور یا مردانہ تہذیب میں

ماری جائیں گی عورتیں

بار بار پیدا ہونے کے لیے

حاملہ ہونے

نو مہینے کی پیڑا کی کے بعد

ایک مرد سر دیکھنے کے

تکلیف دہ انتظار سے گزرتے ہوئے

وہ بار بار روندی

اور ماری جاتی رہیں گی

یہاں کوئی بھی مزاحمت بیکار ہے

تبدیلی کو کندھا دیتے مرد

اسی مردانہ حکومت سماج اور بدن کا

حصہ ہیں

ماری جائیں گی عورتیں

ہر موڑ، ہر مورچے

انقلاب کی ہر سڑک پر

وہ تبدیلی کے راستے مردانہ لباس میں ہی آئیں گے

وہ اپنے بن کر آئیں گے

اور روندی جاتی رہیں گی عورتیں

ماری جاتی رہیں گی

٭٭٭

 

 

آخر میں

اس رات کی کوئی سحر نہیں

یہاں پیدا ہوتے ہی

عیسیٰ کی طرح

صلیب پر لٹکنا ہوتا ہے ہمیں

مردوں کے بیچ ہی

چلنا اور جلنا ہوتا ہے ہمیں

یہاں ایک قصائی واڑہ ہے

کاٹا جا رہا ہے ہمیں

بھونا جا رہا ہے

تندور کے اگنی کنڈ میں

یہاں عمر گوشت کا لذیذ ٹکڑا ہے

ہم چوراہے پر

گوشت کی دکانوں میں

بیڑیوں سے لٹکائے گئے ہیں

بھروسے اور رشتوں سے الگ

صرف قصائی واڑہ باقی ہے

ہماری کہانی لکھنے کے لیے

٭٭٭

محبت کے نام کچھ نظمیں

               (۱)

محبت میں

صرف ایک ہی جذبہ ہوتا ہے

محبت

محبت میں صرف ایک ہی رنگ ہوتا ہے

محبت

محبت میں صرف ایک رس ہوتا ہے

محبت

تمام اختیارات رنگوں  رسوں

ملن ہجر

کے باوجود

محبت میں صرف ایک ہی ذائقہ ہوتا ہے

محبت

٭٭٭

 

 

محبت کے نام

               (۲)

یہ اس وقت نہیں جانا تھا

کہ دنیا کی تعمیر و تشکیل کے وقت

خدا نے

محبت سے پہلے نفرت بنائی تھی

جیسے اجالے سے پہلے رات

یا جیسے روشن دھوپ سے پہلے

کالی گھنی بدلیاں بنائی تھیں

یا جیسے بھوک سے پہلے

بھوک کا احساس بھی رکھا تھا

تسکین کی صورت میں

گہری تاریکی،گھنی بدلیاں

اور نہ ختم ہونے والی نفرت کے باوجود

محبت ہر بار

ضروری ہو جاتی ہے

ایک خاندانی توازن کے لیے

ہاں ، بھوک کبھی کبھی اس توازن میں

محبت کی جگہ

نفرت لکھ دیتی ہے۔

٭٭٭

 

 

محبت کے نام

               (۳)

محبت میں

قربانی کا جذبہ، چھل کپٹ

یا بیوفائی جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی

محبت

وقت کے لامتناہی صفحوں میں

لامتناہی مدت تک

رہ جانے والا ایک

روحانی سفر ہے…

محبت ایک دیوی گاتھا ہے

جس کے لیے سرشتی کا نرمان ہوا

محبت گھپ اندھیرے میں ایک روشنی ہے

جہاں اس کے مسافر کبھی راستہ نہیں بھولتے

باقی الفاظ ہیں

جنہیں اقتدار جسم کے مسافروں نے

کئی نام دے دیے

چھل کپٹ سے بیوفائی تک

ان کے لیے یہ جاننا ضروری بھی نہیں ہے

کہ محبت جب پہلی سانس سے

آخری سانس کا سفر پورا کرتی ہے

تب بھی وہ اوجھل نہیں ہوتی

پھیلتی ہے

ہوا سے توانائی توانائی سے طاقت

اور طاقت سے

ذرہ ذرہ میں

وہ پھیلتی چلی جاتی ہے

٭٭٭

 

 

محبت کے نام

               (۴)

محبت

راز نہیں ہے

کھوکھلے لوگ محبت کو

راز بناتے ہیں

اس لیے کہ وہ

محبت کرنا جانتے ہی نہیں

٭٭٭

 

 

محبت کے نام

               (۵)

محبت کئی بار تقسیم ہوتی ہے

تقسیم ہوتی ہوئی محبت میں

تمہیں الگ الگ ناموں اور چہروں سے

جوڑتے ہوئے بھی

میں مطمئن تھی

میری محبت میرے ہی پاس ہے

وہ تمہاری محبت تھی

جو قلب یا بدن کی مانگوں میں گم ہو کر

تقسیم ہوتی گئی

میرے پاس میرا بدن سلامت تھا

اور قلب کے لیے

میں مطمئن تھی

وہ ہمیشہ سے میرے پاس تھا

تمہارے لیے

٭٭٭

 

 

حصہ دوم

عورتوں کے نام

دشمنوں سے وہی کرتا ہے حفاظت میری

جس کو آواز لگاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں

                                    —نعمان شوق

 

 

افغانی عورتوں کے نام

               (۱)

میں معصومہ آفریدی

عمر ۲۲ سال

مجھے دیکھنے یا تلاش کرنے کی ضرورت نہیں

ان وادیوں

اب میں نہیں ملوں گی

دور تک پھیلی پہاڑوں ، سر سبز وادیوں

سڑکوں ، بازاروں

یا اسکولوں میں

کہیں ، نہیں ملوں گی میں

توپ اور ٹینکر ملیں گے سڑکوں پر

دور تک ایک قطار سے جاتے ہوئے

اسلحوں سے لدے وہ جادوگر مل جائیں گے

جن کی گھنی داڑھیوں ، چہرے کی سختی اور

کھردرے ہاتھوں میں

ہمیں غائب کرنے کا ہنر بچپن سے سکھایا

گیا ہے

ٹھیک اس جادوگر کی طرح

جو ایک دن گاؤں کے تمام چوہوں کو بانسری بجاتا ہوا

پہاڑی کی تلہٹی میں لے کر اتر گیا تھا

میں معصومہ آفریدی

عمر ۲۲ سال

اب کہیں نہیں ملوں گی ان وادیوں میں

کہتے ہیں اس مدرسے کو بھی توڑ دیا گیا

جہاں ایک بار بھولے سے تعلیم کے لیے

لے گئی تھی میری ماں

مجھے بچپن میں

اور اس کے عوض اس کی پیٹھ پر کیکٹس

بو دیئے گئے تھے۔

خوش قسمت تھی میری ماں ،

وہ مسکراتی ہوئی پیٹھ پر آگے کیکٹس

کو لے کر اڑ گئی تھی ہمیشہ کے لیے

میں معصومہ آفریدی

کالے کفن میں لپٹی سرسے پاؤں تک

اپنے ہی گھر کی چہار دیواری میں چن دی گئی

یہاں بارودی ٹینک یا میزائلوں کی دھمک میں

اذانوں کی آوازیں بھی کانوں تک نہیں پہنچتیں ۔

میرے بے جان پاؤں گھٹن بھرے اندھیرے کمرے میں

نماز اور سجدے کے لیے جاگتے ہیں

تو دعائیں گڑگڑاتی گولیوں میں جنم لینے

سے پہلے ہی

مر جاتی ہیں

میں معصومہ آفریدی

عمر ۲۲ سال

مدتوں سے اپنے گھر کی چہار دیواری میں بند

اس چھوٹے سے روشن دان کی تلاش میں

جو باہری دنیا کو، سورج کی ایک باریک لکیر کے ساتھ

میری دنیا سے جوڑ سکے

ایک اندھیرے سے طلوع ہوتی صبح

ایک اندھیرے سے ختم ہوتی شام

گھنے کہرے میں گم ہوتی ہوئی

میں بے نام و نشان

٭٭٭

 

 

افغانی عورتوں کے نام

               (۲)

وہ پیدا نہیں ہوئی تھی۔

اس لیے وہ پیار بھی نہیں کرسکتی تھی

سنگیت کے ساتوں سر تھے اس کے پاس

مگر وہ تو سنگیت نہیں سن سکتی تھی

پہلے پہل اس سنگیت کو اس کے ہونٹوں نے خاموش کیا

پھر چپکے سے دفن کرتی گئی وہ

اسے اپنی دھجی دھجی سانسوں میں

وہ پیدا ہوئی ہی نہیں تھی

اس لیے آپ اسے رقیہ جہانگیر بلائیں

ساجدہ طاہر، سنجیدہ عبداللہ

یا کوئی بھی نام دینا چاہیں آپ

دے سکتے ہیں

پیدا ہوتے ہی

جسم کے اندر دبی موسیقی نے اسے پیار

کرنا سکھایا

تو سامنے پتھروں کی دیواریں تھیں

گھر میں اپنے کہے جانے والے بھائی یا باپ

اسلحوں سے لدے تھے جن کی طرف

نظر اٹھا کر دیکھنے

کی ہمت بھی نہیں کرسکتی تھی وہ

وہ عشق نہیں کرسکتی تھی

پھر بھی وہ عشق کرنا چاہتی تھی

کہ پیار گھٹن بھرے

ماحول  اور زندہ قید خانے میں بھی

تلاش کر  لیتا ہے ایک راستہ

ویسا ہی راستہ تلاش کیا تھا اس لڑکی نے

جسے آپ ساجدہ طاہر کہیں ، رقیہ جہانگیر

یا سنجیدہ عبداللہ

گھرکے ایک واحد چھوٹے سے روشندان سے وہ

لگاتار دیکھ رہی تھی

ٹینکر، توپوں کے ساتھ گزرتی بٹالین کو

سفید گندمی میلے کپڑوں والے

سر کو موٹی پگڑیوں سے باندھے

ہاتھوں میں اسلحہ لیے

ایک دم پاس سے گزرتے ہوئے

کچھ کچھ ویسے ہی جیسے اس کے گھر کے بھائی

تھے یا ابو جان

اور جن کے آگے نظریں اٹھانے کی ہمت

بھی نہیں کرسکتی تھی وہ

لیکن وہ ابو یا بھائی نہیں تھے

اور کمرے کے ایک واحد روشندان سے

وہ نظارہ کرسکتی تھی اس جماعت کا

یا شور کا

یا پھر انتظار کرسکتی تھی، ان میں سے ایک

اس چہرے کا جو ٹینکر یا توپ کے

دہانے پر بیٹھا

ابھی کچھ دن پہلے گزرا تھا۔

اس کے چھوٹے سے روشندان کے سامنے سے

انتظار میں گزر گئے تھے کتنے دن

پھر وہ نہیں آیا

لیکن اس کے آنے کا انتظار بار بار اسے

روشندان تک کھینچ لاتا ہے

 جبکہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکی تھی تھی وہ…

پھر بھی ایک چہرہ بنا لیا ہے

اس نے ذہن و دل میں

جبکہ اس کا نام نہیں جانتی وہ

پھر بھی ایک نام رکھ لیا ہے اس نے

جسے وہ لبوں تک نہیں لاسکتی

وہ لوٹے گا یا نہیں

وہ یہ نہیں جانتی

مگر وہ بار بار انتظار کرتی ہے اس کا۔

بارودی دھوئیں اور ٹینکر ۔ توپوں کی آوازیں

اب ایک رومانیت جگاتی ہے اس کے دل میں

بے حد گھنے کہرے میں جاگ جاتے ہیں

اچانک جسم میں دفن سنگیت کے ساتوں سر

وہ پیدا ہوئی تھی…

اس لیے وہ پیار بھی کرسکتی تھی…

بنگلہ دیش کی عورتوں کے نام

وہاں دو طرح کی عورتیں بستی ہیں

ایک جن کا تعلق حکومت کے گلیاروں سے ہوتا ہے

وہ حکومت کے تخت پر بیٹھی

بیچ رہی ہوتی ہیں عقیدے اور مذہب کو

اور دوسری

تسلیمہ جیسی عورتیں ہیں

جو مذہب کی آڑ میں ادب کا سودا کرتی ہیں

سارے عالم میں گھومتی ہیں

اور اپنی ہجرت کے پیسے وصول کرتی ہیں

تیسری طرح کی عورت یہاں نہیں ہے

وہ یا تو مار دی گئی ہے

یا چھپ گئی ہے

گھر کی کال کوٹھری میں

مذہب کی بندشوں اور گھٹن میں

اسے بچے پیدا کرنے کی آزادی تو ہے

مگر بولنے کی نہیں

پیدا ہوتے ہی

سیاہ پڑی دیواروں کے درمیان

گھونٹ دیا گیا ہے اس کا گلہ

وہ سچ مچ کہیں نہیں ہے

اس سیاسی، سماجی اور تہذیبی

منظرنامہ میں

اور عورت ہونے کے حلف ناموں کے ساتھ کہہ سکتی ہوں

مذہب بیچنے والی اور مذہب کا سودا کرنے والیوں

کے درمیان

اپنے ہی ملک کا، کبھی ایک حصہ رہنے والی یہ زمین

اب ان کی ہلاکتوں پر ماتم کر رہی ہے

٭٭٭

 

 

پاکستانی عورتوں کے نام

               (1)

وہ فخر کرنے کے لیے نہیں بنی ہیں

اس زمین پر

جہاں سیمون کے لفظوں میں

ملاؤں کے فتوے اور مذہب کی آیتوں سے

انہیں گڑھنے اور بنانے کی تیاری چلتی ہے

آنکھیں کھولتے ہی

ان کے پاس نہیں ہوتی ہیں ، اپنی آنکھیں

پاؤں پاؤں چلنا شروع کرتے ہی

وہ مذہبی ملاؤں کی بیساکھی

لگا لیتی ہیں اپنے پاؤں میں

بولنا شروع کرتے ہی

ان کے منہ میں ڈال دیئے جاتے ہیں

مذہبی ملاؤں کے الفاظ

کہ آگے خطرہ ہے

سرخ سرزمین پر ناچتے گدھ

 حجاب، شلوار اور ان کے کرتے کی طرف دیکھ رہے ہیں

کہ آگے خطرہ ہے

آگے بارود بچھی ہے

کسی اور کے آنکھوں سے دیکھتے

کسی اور کے ہونٹوں سے بولتے

 کسی اور کے پاؤں سے چلتے ہوئے بھی

وہ شکار ہو سکتی ہیں

یا ماری جاسکتی ہیں

اور مارے جانے کے لیے

کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی

اس لیے تعلیم دی جاتی ہے انہیں

کہ وہ نہیں نکلیں اپنے گھروں سے

اپنی آنکھیں

اپنے ہونٹ

اپنے پاؤں کی جگہ

مذہب کی بیساکھیاں لے آئیں

بہتر ہے

بند کر دیں  پیدا ہوتے ہی گھٹن بھرے اپنے کمرے کو

جہاں کوئی کھڑکی یا روشنی نہیں ہے

وقت آئے گا

جب کوئی دروازہ پر ہاتھ رکھے گا

باہر شہنائیاں گونجیں گی

اور مذہبی لباس میں ایک ہاتھ

انہیں ایک بند کمرے سے

دوسرے بند کمرے کی طرف لے جائے گا

آخر

مہذب ملک میں ہی

مرغیوں کے لیے دربے بھی تو ہوتے ہیں

کبوتروں کے لیے شکبے اور چھجے بھی تو ہوتے ہیں

ایک قصاب باڑا بھی تو ہوتا ہے

ان سے باہر روشنی میں آئیے

تو دربے، شکبے، باڑے کی

کوئی چیخ کہاں سنتے ہیں آپ؟

وہ فخر کرنے کے لیے نہیں بنی ہے

ابھی وہ اسی اندھیرے بند کمرے میں ہیں

پیدا ہوتے ہی ایک دربے میں

وہ اچھل اچھل کر

کمرے میں تلاش کر رہی ہے

سوراخ

یقینی طور پر کہ سکتے ہیں

پیڑوں پر تاک لگائے گدھ بیٹھے ہیں

اور باہر شکاری کتے

کمرے کی دیواریں مضبوط ہیں

شاید ہی وہ کامیاب ہو سکیں

اپنی تلاش میں

ان بے نام اور سینکڑوں پہروں کے درمیان

وہ فخر کرنے کے لیے نہیں بنی ہیں

٭٭٭

 

 

پاکستانی عورتوں کے نام

               (2)

دین کی بیٹیاں

انہیں دین کی بیٹیاں کہا گیا

اور دنیا کے لیے

بند کیے گئے ان کے دروازے

انہیں سات پردوں میں چھپایا گیا

اور دکھایا گیا

ہمیشہ قائم رہنے والی جنت کا راستہ

وہ پاک سرزمین میں

موت کے بعد حاصل ہونے والی

نامعلوم جنت کا حصہ بنا دی گئی ہیں

وہ سجدے میں ہیں

آنکھیں کھولتے ہی

انہیں مقدس بنانے کی تیاری

شروع ہوچکی ہوتی ہے

جنت کو جانے والا راستہ تو ہوتا ہے

دنیا کو جانے والے دروازے

بند رہتے ہیں ان کے لیے

٭٭٭

 

 

پاکستانی عورتوں کے نام

               (3)

تمہیں اللہ کا کلمہ تو سنایا گیا

لیکن پیار کرنے سے منع کیا گیا

تم کوئل کی کوک تو سن سکتی تھی

لیکن تمہارے فریادی ہونٹوں سے

سنگیت کو دور رکھا گیا

تم پرندوں کی اڑان تو دیکھ سکتی تھی

لیکن تمہارے پاؤں کو

گھر اور چہار دیواری تک محدود رکھا گیا

تمہاری خواہشیں بھی کہاں تمہاری تھیں

تمہاری اڑان بھی تمہاری نہیں تھی

تم بہت زیادہ شو کیس میں سجی ہوئی ایک گڑیا تھی

اور نمائش سے باہر

دین کے جانماز تو بچھے تھے

لیکن تمہاری کہیں کوئی جگہ نہیں تھی

٭٭٭

 

 

پاکستانی عورتوں کے نام

               (4)

سوچنامشکل ہے میرے لیے

دکھ میں پیدا ہوئی

تو آسمان کیوں تھا، اتنا خوابیدہ تمہارے لیے؟

حجاب پہنتے ہوئے

نمائش کے دروازے

کیوں کھولے گئے تمہارے لیے

اونچی دیواروں کے اس پار کبوتر تھے… نا…؟

خواہشوں کے پار سمندر … تھے… نا…؟

سناٹے میں ڈسنے والے منظر … تھے… نا… ؟

جسم کے اندر ویرانی کے کھنڈر… تھے… نا…؟

مشکل ہے میرے لیے

اس وقت دنیا میں

ایسا تصور کر پانا

جہاں عورت کے اندر

خواہشوں سے پرے رہتی ہو عورت

ایک بیجان مورت بنا دی گئی ہو

عقیدے اور مذہب کے نام پر

٭٭٭

 

 

پاکستانی عورتوں کے نام

               آخر میں

میں اداس نہیں ہوں

یقینا لوٹ آئیں گے تمہارے سُر سنگیت

کھویا ہوا آبشار اور گیت

تم اپنی خواہشوں میں

نظر آؤ گی سب سے الگ

ایک دن

یقینی طور پر

سیکھ لو گی تم زہر اگلنا کاٹ کھانا

بلی اور چیتے کی اپنے اندر پرورش کرتے ہوئے

سیکھ لو گی تم پنجے مارنا

میں اداس نہیں ہوں

زندگی کے افسانے کے آخری صفحوں پر

تمہاری لرزتی آواز کے پیچھے

دیکھی ہے ایک جلتی ہوئی مشعل

تم اپنے اپنے قبرستان سے

نکلو گی

مورچوں پر پوری طاقت سے

قبرستان کے پاس گھومتے سور تو

ویسے بھی ڈر جاتے ہیں

انسانی آوازوں اور آہٹوں سے

تم پورے یقین کے ساتھ نکلو گی

ہم تیار ہیں اس ایک چیخ کے لیے

جو ایک نئی تہذیب کی بنیاد ڈالتی ہے

اور انقلاب کے لیے

کسی تحریر چوک یا انڈیا گیٹ کی

ضرورت نہیں ہوتی

٭٭٭

 

 

ہندستانی عورتوں کے نام

ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی

کہاں آزاد تھے

صدیوں سے ہمارے بنائے جانے کے

رسم و رواج کا خاتمہ ہی نہیں ہوتا

صدیوں میں ایک رسم و رواج کے خاتمے کے بعد

دوسری رسم و رواج کا چلن شروع ہو جاتا

اور ہر رسم و رواج

اس مردانہ سماج میں

ہماری ہی قربانی دینے کو موجود ہوتے

داسی پرتھا اور ستی پرتھا کے

قصے پرانے کہاں ہوئے

بس شکلیں بدل جاتی رہیں

ہم تب بھی مر رہے تھے

ہم اب بھی مر رہے ہیں

مٹی کے تیل، تیزاب سے گیس سلنڈر تک

جلائے جانے کا ڈھونگ اب بھی جاری ہے

اب بھی روندا جا رہا ہے ہمیں

سڑکوں پر دفتروں میں  بسوں میں

اب بھی ہر موڑ پر رسوا ہو رہی ہیں

ہزاروں دامنی

قانون کی کتابوں میں ہونے والی

ترمیم کے باوجود

رادھا، مریم اور سیتا وہی کھڑی ہیں

ہر بار جاگ جاتا ہے بدن کا رقص

ہر بار پیدا ہو جاتے ہیں نئے کنس اور راون

ہر بار سجنے کے لیے ہوتی ہے

ہماری ہی چتا

وہ کہانیاں مکالموں سے زیادہ نہیں ہیں

جہاں سنائی جاتی ہیں

بڑی بڑی مجلسوں میں

ہماری کامیابی کہانیاں

فخر سے بیان کیا جاتا ہے

ایوریسٹ پر چڑھنے والی ہماری اڑان کو

بتایا جاتا ہے کہ

اقتدار کے گلیاروں سے ہوائی جہاز

فلم، میڈیا سے انتظامیہ کے سب سے اونچے عہدے پر

اب کی جا رہی ہے ہماری تاجپوشی

آرام سے سنی جاسکتی ہے

حیوانیت میں نہائے بھیڑیوں کی

کرخت، دل دہلا دینے والی آوازیں

چمک محسوس کی جاسکتی ہے

گدھ آنکھوں کی

کسی سیاست داں کے بیڈروم سے

کیمرے کی ننگی آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہیں ہماری طرف

کسی اسٹنگ آپریشن میں

ننگے ہو رہے ہوتے ہیں ہم

لذیذ قیمے اور کباب کی طرح

شراب کی محفلوں میں

لیا جا رہا ہو تا ہے ہمارا ذائقہ

ماں ، بہن اور بیٹی کے رشتے بھی

نیلام ہو رہے ہوتے ہیں

صدیوں میں

کچھ بھی نہیں بدلا

بدلتی ہوئی ہر تہذیب کے بعد بھی

ہمارے لیے

وہی ہڑپا اور موہن جداڑو کی

تہذیب ہی باقی رہ جاتی ہے

٭٭٭

 

 

ملالہ کے لیے کچھ نظمیں

               (۱)

ملالہ

پیاری ملالہ

یہاں سب کچھ ناقابل یقین ہے تمہاری طرح

کہوں  کہ تمہارے خواب آتے ہیں

تو شاید تم بھی یقین نہیں کرو گی

کہوں  کہ ایک نوجوان بیٹے کی ماں ہوتے ہوئے بھی

ان دنوں میں پریوں کی دنیا میں ہوں

تو شاید میری طرف تم تعجب سے دیکھو

ملالہ، پیاری ملالہ

لیکن مجھے

ایسے خوشگوار اورمسلسل آنے والے خوابوں پر

کوئی ملال نہیں ہے۔

جیسے طلسمی افسانوں میں

ایک شہزادی دیو کو مار گراتی تھی…

یا ایک ننھی منی راجکماری

منہ سے شعلے اگلتے راکشس کو

موت کی نیند سلادیتی تھی

ملالہ، پیاری ملالہ

تم ان شہزادیوں اور راجکماریوں سے بھی

کمسن ہو

خونخوار طالبانیوں کی سلطنت میں تمہاری موجودگی

اب بھی میرے لیے کسی پری کتھا جیسی ہے

آسمان پر بدلیوں کے درمیان چاند کو

کبھی اس سے پہلے اتنا چمکدار نہیں دیکھا تھا میں نے

٭٭٭

 

 

               ملالہ کے لیے

               (۲)

ملالہ

جان ملالہ،

تمہیں گلِ مکئی  ۱ ؎  کہوں یا کس نام سے پکاروں

ملال سے پیدا ہوئی تم

آج کے خوفناک منظرنامہ میں

کب کیسے بن گئی

ساری دنیا میں خوشبو بکھیرتی

پھول کی علامت

شاید یہ تم بھی نہیں جانتی تھی

اس غیر مہذب دنیا میں

تیزی سے

تمہاری خوشبو کو پھیلتے دیکھ رہی ہوں

میں

٭٭٭

 

 

               ملالہ کے لیے

               (۳)

ملالہ،

میری پیاری ملالہ،

سوچتی ہوں تو تعجب ہوتا ہے

جمپر اور شلوار میں

ایک پیاری سی چنری سے منہ ڈھکے

اسکولی بستے کو کندھے سے لگائے

جب آخری بار

پلٹ کر دیکھا ہوگا تم نے اپنے اسکول کو

دیکھا ہوگا۔

گھنی داڑھیوں والے ہاتھوں کو آر ڈی ایکس

اور زہریلے ہتھیاروں سے کھیلتے

سنے ہوں گے،

کان کی پرتیں پھاڑنے والے خوفناک دھماکے

اور کیسی معصوم سی تم

گھر آ کر بن گئی ہوگی۔

ملالہ سے گلِ مکئی

میں اس پرندے کے قصے کو جانتی ہوں

جو آگ میں جل کر ایک نئے جسم کو پا لیتا تھا

بندوق سے نکلی

بے رحم گولی کی تپش کو لے کر

ملالہ،

پیاری ملالہ

تم بھی ایک نئے جسم میں داخل ہو گئی ہو

سورج طلوع ہونے والا ہے

بد عنوان،غیر مہذب اور دہشت سے لرزتی دنیا میں

تمہاری ننھی سی اور معصوم سی عمر کی قسم

ملالہ

پیاری ملالہ

اس بے رحم اور سنگدل دنیا میں

تمہارے اندر

ایک بدلتی ہوئی تقدیر دیکھ لی ہے میں نے

٭٭٭

 

 

               ملالہ کے لیے

               (۴)

میں اس پاکستان کو جانتی تھی

جہاں پچھلے ۶۷ برسوں میں سیاست اور مذہب کے تعلق سے

ایک کہرام مچا تھا

جہاں جلتا ہوا تخت تھا

مرتے ہوئے راج نیتا تھے

جھلستی ہوئی جنتا تھی

جہاں دہشت کے سائے میں مرجھائے ہوئے گلاب تھے

جہاں مسجدوں سے چلتی تھیں گولیاں

جہاں سوات کی اندھی گھاٹیوں میں

آزادی کی سزا کے طور پر

کوڑے پڑتے تھے دین کی بیٹیوں پر

جہاں ٹوپی، داڑھی اور فوج کے سائے میں

عام آدمی بھول چکا تھا، جینا

ملک کی اب تک کی تاریخ میں

جہاں ایک نام

صرف نفرت کا باب لکھنے کے نام سے

جانا جاتا تھا

ملالہ،

خوش آمدید

غضب کیا تم نے ملالہ

عمر کے ۱۵ برسوں کی خوشبو دے کر

دھو ڈالے داغ کے دھبے

اور بن گئی

اپنے چمکتے چہرے کے ساتھ

نئی دنیا کی آبرو

خوش آمدید

٭٭٭

 

 

یادوں کا گھروندا کچھ نظمیں

               (دہلی مہانگری کے نام، جہاں وہ چیزیں پھر کبھی دوبارہ نہیں دیکھ پائی)

               (۱)

یادوں کا گھروندا

یہ نظم نہیں

یادوں کے گھروندے کا ڈیرا ہے

وہ سب کہیں کھو گئیں

جن سے کبھی صبح سے شام تک کا تعلق تھا

جن کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن تھا

اب تو صرف اندھیرے کا گھیرا ہے

نئے وقت میں نیا رین بسیرا ہے

گزرا ہوا ماضی

میرے بچوں کے لیے ایک غیر حقیقی درد ہے

مگر میرے لیے

یہ یادوں کا گھروندا کوہ نور جیسا ہیرا ہے

٭٭٭

 

 

               یادوں کا گھروندا

               (۲)

روشنائی

یوز اینڈ تھرو

بچے پڑھائی کے لیے پین لاتے ہیں

بے دردی سے بال پین

ختم ہوتے ہی ڈسٹبین میں پھینک دی جاتی ہے

تب ہمارے زمانے میں

بے ڈھب سی ایک قلم ہوا کرتی تھی

تب قلم کے لیے خریدی جاتی تھی

روشنائی

نیلی روشنائی

جسے رکھنے کے لیے ایک دوات ہوتی تھی

اکثر قلم میں روشنائی بھرتے وقت

انگلیاں روشنائی پہن لیا کرتی تھیں

تب ڈسٹ بین نہیں ہوا کرتے تھے

تب یوز اینڈ تھرو کا رواج نہیں تھا

سہولت سے

پرانی قلم کے لیے بھی

جاگ اٹھتی تھی ایک محبت

گھر کی ڈیسک سے اسکول کی بینچ تک

انگلیوں کے روشنائی پہننے کا

چلتا رہا سلسلہ

دہلی کی بھیڑ میں کھونے تک

روشنائی جیسے ایک پرانی یاد بن گئی تھی

جس کے لیے بچے ہنس سکتے ہیں

لیکن وہ کتنا سمجھ سکتے ہیں

روشنائی اور دوات کے پیچھے چھپے

جذبات کو

جہاں اسی روشنائی سے

محبت بھرے خط لکھتے ہوئے بھی ایک سلسلہ

قلم سے عبادت تک جاتا تھا

٭٭٭

 

 

               یادوں کا گھروندا

               (۳)

بورسی انگیٹھی

نئی تہذیب میں

گھر میں ٹھنڈک کا احساس نہیں ہے

روم ہیٹر سے کمرہ گرم کرنے والے بچے

نہیں جانتے کہ کبھی

بورسی یا انگیٹھی بھی ہوا کرتی تھی

بدن کے درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے

اور بورسی سے ہاتھ تاپتے، کئی ہاتھوں سے

ایک تہذیب بھی پیدا ہوتی تھی

مٹی کی ہنڈیاں میں سلگتے کوئلے

آنکھوں میں جلتے کوئلے کے ساتھ پڑپڑانے والا دھواں

پھر جلتی بورسی میں

سرخ چمکتے ہیروں کی طرح کوئلے

اور ان پر جھکے دسیوں ہاتھ

تب سردی کا اپنا رنگ

اور ذائقہ ہوتا تھا

تب سناٹے میں جاگتے تھے لفظ

نکلتی تھی کہانیاں

بورسی کو گھیرے بیٹھے ہوئے بزرگ اور بچے

اس خلوص اور محبت سے طے کرتے تھے

اپنا راستہ

بچوں کے بڑے ہونے تک

ایک بار پھر سلگی تھی بورسی

بنی تھی کہانیاں

جاگی تھی گفتگو

تب وقت کے گھنے کہرے میں

روم ہیٹر جیسی مثالیں نہیں ہوا کرتی تھیں

کمرے کے گرم ہونے تک

اب یہاں کسی تہذیب کا

کوئی گزر نہیں ہے

بورسی اور کوئلے کے بغیر

زندگی تو ہے

مگر اتنا اجالا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

               یادوں کا گھروندا

               (۴)

چھو: تی: تی: رسی کا کھیل

بیٹیاں موبائل سے کھیلتی ہیں

کھیلنے کے لیے لیپ ٹاپ ہے ان کے پاس

کل یہ دونوں نہیں تھے میرے پاس

اسکول سے بچے خالی وقت میں

مٹی کی گوٹ، زمین پر پاری ہوئی لائن پر

سجتی تھی

الہڑ پیر گوٹیوں کو آگے لیے

بھاگتے تھے

پاؤں کے ناخنوں سے

التا کی سرخی لال لال گوٹ میں

مل جایا کرتی تھی

تھوڑا سا وقت ملتے ہی

رسی کے دونوں سرے ہاتھوں میں آ جاتے

گھیرے میں ہنستی سہیلیاں

گنتی بھول جانے پر لگاتی تھیں

قہقہہ

اور دونوں پاؤں

رسیاں پھاندتے، الجھنے سے بچاؤ کا

پورا خیال رکھتے تھے

دہلی کی نئی تہذیب میں

رسیاں کافی پیچھے چھوٹ چکی یاد بن چکی ہیں

مٹی کی لال لال گوٹ بھی نہیں ہے

آگے چڑھائی ہے یا گڈھا

یہ ہمیں نہیں پتہ

زندگی کی دوڑ میں بھاگتے ہوئے

تھکن کا احساس ہوتے ہی

یادوں سے رسی کو نکال کر

بچاؤ کرنا چاہتی ہوں خود کا

کہ پاؤں نہ الجھیں

گر جانے کا خطرہ نہ ہو

لال گوٹ کو لیے

آگے ہی آگے دوڑتے رہیں پاؤں

٭٭٭

 

 

               یادوں کا گھروندا

               (۵)

کوئلہ۔ کوئلہ باڑی

تب مٹی کے چولہے ہوتے تھے

صبح سورج نکلتے ہی

گھروں سے نکلتا تھا دھواں

 اشارہ دیتے تھے

مٹی چولہے کے سلگنے کا

چولہوں کے سلگتے ہی

جاگ جاتی تھی زندگی

تب چولہوں کو سلگانے کے لیے

نام کے مطابق کالے، ٹیڑھے میڑھے پتھر جیسے

کوئلے ہوتے تھے

اور انہیں رکھنے کے لیے ہوتی تھی

ایک کوئلہ باڑی

تب دھوئیں میں ڈوبی دیواریں تھیں

دوپہر کھانا بننے تک

بجھا دی جاتی تھی چولہے کی راکھ

اور شروع ہوتا تھا

پرسکون لمحوں کا سفر

شام تک کے لیے

تب ایک بار پھر کوئلہ جلتا تھا

اور سلگ اٹھتا تھا چولہا

سب کل کی بات لگتی ہے

نئے گھروں میں

اب مٹی کے چولہوں کا وجود نہیں ہے

اب کوئلے نہیں آتے

دو یا تین کمرے والے فلیٹ میں

کہیں کسی کوئلہ باڑی کے لیے

کوئی جگہ نہیں ہے

اب دیواریں سفید ہیں

چمچماتی

اب کوئلے نہیں آتے

دھوئیں سے بیمار نہیں ہوتی دیواریں

نئی تہذیب میں

کوئلہ نہیں ہے

کالکھ باقی ہے

جو چہروں پر اگتی ہے

چھپانے کے باوجود بھی

نظر آ جاتی ہے

٭٭٭

 

 

               یادوں کا گھروندا

               (۶)

سلہٹ۔ (سلہٹ بٹا)

پتھر کی سلیٹ سے بڑی سائز کی

ایک سلی

اور لوہے کا

بیلن کے سائز کا

لوڑھا

ان دونوں کا سنگیت ابھی بھی

گونجتا ہے دل میں

دل کی بات

جیسے بن گئی ہے

برسوں پیچھے چھوٹی ہوئی ایک کہانی

مصالحہ پیستے بوا کے ہاتھ

دروازہ کے پیچھے سے کبھی کبھی

بلند ہوتی تھی

ایک شناسا آواز

سلہٹ کٹوا لو

کٹے ہوئے سلہٹ پر

پیاز لہسن ادرک کا

مصالحہ پیستی بوا

آنگن میں بیٹھی اماں سے باتیں بھی

کرتی جاتی تھی

مصالحے میں سمٹ آتا تھا

سات جنموں کا سارا پیار

نئے کچن میں

مکسر کی چیخ کبھی کبھی

یادوں سے کھینچ لاتی ہے

سلہٹ اور سلہٹ پر مصالحہ پیستی

بوا کو

نم آنکھیں

ممتا اور محبت کی تلاش میں

دور تک نکلتی تو ہیں

لوٹ آتی ہیں ناکام

جیسے زندگی نہ ہو

ہو کوئی دلدل

٭٭٭

 

 

               یادوں کا گھروندا

               (۷)

باقیات

لالٹین، ڈھبری، دیا

نعمت خانہ کی جگہ فریز

چھت سے جھولتا ہوا سکھر

شیشے کے بڑے بڑے مرتبان میں

دھوپ کھاتے اچار

یادوں کے گھنے جنگل میں

میں ابھی بھی ہوں

تیرتی ہوں  گھومتی ہوں

اپنی آسانی سے

رات میں خالی چھت سے جھانکتا پورا پورا چاند

تب ایک کھلکھلاہٹ بھی ہوتی تھی

تب خواب بھی ہوا کرتے تھے

تب خواہشوں کے پورا ہونے کے لیے دعائیں بھی ہوتی تھیں

تب گھر کے آنگن میں

امرود کے پیڑ بھی ہوتے تھے

اس پر چڑیا آ کر بیٹھتی تھی

کوئی کوئی چڑیا گھونسلہ بھی بنا لیتی تھی

شہد کی مکھیاں بھی ہوتی تھیں

جو امرود کی شاخوں میں

آرام سے بنا لیتی تھیں چھتہ

پرندے اڑ گئے

دلی کی بھیڑ میں

پرانی یادوں کا گھونسلہ

اب بھی کہیں ہے میرے آس پاس

بچوں کے پاس ایسی کوئی یادیں نہیں

گھونسلہ بھی نہیں

خواب بھی نہیں

زندگی کی ٹھٹھری ہوئی سڑک پر چلتے ہوئے

وہ عمر سے بڑے لگتے ہیں

اور خوابوں سے کم

نیلے آسمان سے چاند

اور ٹھنڈی ہواؤں تک

سب کچھ مل جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی

وہ جانتے ہیں کتنا ہے دم

کیونکہ ان کے پاس ہوا ہے کم

خواب ہیں نم

٭٭٭

 

 

منٹو کے نام دو نظمیں

               (۱)

سعادت حسن اور منٹو—

سعادت حسن اور منٹو

دو نام اور دو کردار تھے

حادثہ ہی کہا جائے گا کہ یہ دونوں نام

ایک ہی جسم میں رکھے گئے تھے

جو خوبی سعادت حسن میں تھی وہ منٹو میں نہیں تھی

سعادت سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی چپ رہنا جانتا تھا

اور منٹو اپنی چیخ میں گم ہونا نہیں جانتا تھا

سعادت حسن میں سیاست کے لیے اداسی تھی

منٹو غصہ کو دبائے ہوئے نہیں جی سکتا تھا

پھر ایک دن منٹو نے

سعادت حسن کا کتبہ لکھا

اور سعادت حسن کو دفن کر دیا ہمیشہ کے لیے

تب سے منٹو آزاد ہے

اور زندہ بھی

آپ اسے ہر جگہ تلاش کر سکتے ہیں

خاص کر اس جگہ

جہاں ابھی بھی گھر جل رہے ہیں

یا چیخیں بلند ہو رہی ہیں

٭٭٭

 

 

               (۲)

جب ندیاں سرخ ہو جاتی ہیں

پہاڑ تپنے لگتے ہیں

جب پگھلتے ہیں گلیشیئر

جب تیز آندھیاں وقت کا مرثیہ لکھتی ہیں

جب تپش کے بغیر بھی

چہرے گودھرا بن جاتے ہیں

جب خالی ہو جاتے ہیں گنبد

کبوتروں کی گھوما چوکڑی سے

جب جل رہی ہوتی ہے ممبئی کی ایک بڑی عمارت

یا جب دیگر ممالک میں

نفرت کی فصلیں بوئی جا رہی ہوتی ہیں

جب کہیں گونجتی ہے

کوئی چیخ

جب عقاب جیسی نگاہوں میں ہوتا ہے

کوئی جسم

جب کارٹونوں میں مذہب کا الاپ درج ہوتا ہے

اور بلوائی جانوروں کی فطرت میں لوٹ آتے ہیں

جب سیاست تانڈو کرتی ہے

ملک کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھے شخص کی

بھیگی ہوتی ہیں آستینیں

منٹو

تب یاد آتے ہو تم

تب بہت یاد آتے ہو

٭٭٭

 

 

زندگی کے نام کچھ نظمیں

               (۱)

زندگی —پہلا رنگ

غالب اور اقبال کے آشیانے میں

تلسی اور کبیر کے آستانے میں

شمشیر، فیض اور نرالا کی بزم

آنکھیں کھولیں

تو زندگی کے بدلے ہوئے معنی تھے

الجھنیں ۔ آگے بڑھنے کا راستہ تھیں

خواہشیں — خوشبو کے باغ جیسی

اور دکھ بارش کا موسم

زندگی سے سیکھا

کہ آبشار اور لہروں کی اپنی نظم ہوتی ہے

روح میں سنگیت کے گھنگھرو ہوتے ہیں

جینا آ جائے دوستو،

تو زندگی کی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

زندگی کے نام

               (۲)

زندگی— دوسرا رنگ

میں ہر بار بولی… اہا زندگی

تب اڑنا بھی نہیں آیا تھا

کھپڑے کی گوٹ سے چھو: تی: تی کھیلتے ہوئے

لڑکھڑا کر گرتی …

تو ہنستے ہوئے کہتی… اہا زندگی

آسمان میں اڑتی پتنگوں میں

کوئی پتنگ میری نہیں تھی

پھر بھی ہر بار کٹی ہوئی پتنگ کے لیے دوڑ پڑتی تھی…

پتنگوں اور پیچ میں تعلق کیا ہے؟

اور کمزور دھاگوں کے ساتھ

بجلی کے تاروں میں الجھنے والی

کٹی ہوئی پتنگ کے معنی کیا ہوتے ہیں …

تب پتنگ کے کٹنے پر بھی

سب سے اونچی چیخ میری ہوتی تھی… اہا زندگی

میں غیر یقینی سے یقین کی وادیوں میں لہرائی

میں ٹوٹنے سے زندگی میں آئی

میں نے بے دلی سے خواہشوں کے پھول اگائے

بالکنی کے باہر

رنگ برنگے پھولوں کے گملے سجائے

اڑنے والی پتنگ سے زیادہ

کٹی ہوئی پتنگ بھائی

میں نے دھوپ سے زیادہ چھاؤں چرائی

مجھے ٹوٹنا نہیں منظور تھا

اس لیے ہر بار چلائی

اہا… زندگی…

٭٭٭

 

 

زندگی کے نام

               (۳)

زندگی… تیسرا رنگ

جانتی ہوں

دامنی کی موت کے بعد بھی

قتل کے واقعات کم نہیں ہوئے

عصمت دری کے کھیل

شیش محلوں کے اندر جاری ہیں

عصمت دری کے وہی گھنونے کھیل

جہاں بلند نہیں کی جاتی کوئی آواز

مجبوریاں ہیں

بے چینی کے گھنے سائے ہیں

اس کے بعد بھی

اٹھنے اور سنبھلنے کی

ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد ہے

ایک زندگی ہے، اس کے مخالف سفر کا پہیہ ہے

ڈھلتی شام کا احساس میرے لیے

جرم کی طرح ہے

سردی کی دھوپ پسند ہے

لیکن دھوپ کی گانٹھوں سے بندھی چھاؤں

زیادہ عزیز ہے مجھے…

اس لیے جہنم کے بعد بھی

ایک راستہ بچتا ہے جنت کا

موت سے گزرتے ہوئے بھی

کہیں باقی رہتی ہے زندگی…

اور کہنا پڑتا ہے ہر بار…

اہا زندگی…

٭٭٭

 

 

ہولی کے نام کچھ نظمیں

               (۱)

بڑے شہروں میں

رنگ غائب ہیں

ہولی صرف رسم بھر رہ گئی ہے

یہاں جینا بھی کہاں رہ گیا ہے

مشین بنتے ہوئے

مسلسل دوڑتے ہوئے

رشتے بھی رسم بھر رہ گئے ہیں

اور زندگی بھی

بازار میں نئی پچکاریاں آ گئی ہیں

لیکن محبت والا رنگ غائب ہو گیا ہے

بڑے بوڑھے ابیر اور گلاب تو لے آتے ہیں

مگر وہ وقت بازار میں نہیں ملتا

جس سے رشتے

اور رشتوں سے تہذیب بنتی تھی

جس کے رنگوں سے وحدانیت کے سر جنم لیتے ہیں

جس سے محبت کی تصویر نکلتی تھی

جہاں رنگوں کے سائبان میں

تمام مذاہب کا بسیرا ہوتا تھا

٭٭٭

 

 

ہولی کے نام

               (۲)

رنگ

صرف رنگ نہیں ہے میرے لیے

میں یہاں ایک زندگی دیکھتی ہوں ۔ ہری بھری

ایک تصویر دیکھتی ہوں ۔ گھنی

ایک خاندان دیکھتی ہوں ۔ بڑا

ایک رنگ دیکھتی ہوں ۔ سارے رنگوں سے ملا ہوا

دیکھتی ہوں ایک امید

دیکھتی ہوں ایک خواب

بے حد، سخت دھوپ میں

رنگ

میرے لیے فیض یا ساحر کی نظم نہیں ہے

یہاں اداسی کے دانے بکھرے ہیں

امید لگائے چھجے پر بیٹھے خوفزدہ

کبوتروں کے لیے

رنگ میرے لیے،

آزادی سے کیا جانے والا ایک کھلا مکالمہ ہے

جہاں آسمان میں

اڑتی چڑیا دیکھتی ہوں

غول میں ایک دوسرے کے ساتھ

اونچائیوں پر جاتے ہوئے

قلا بازیاں کھاتے…

لہراتے، جھومتے اور ایک دوسرے کے ساتھ…

اڑتے ہوئے

ہولی کے بہانے

نظیر اکبر آبادی کو یاد کرتے ہوئے

(۱)

نظیر کی ہولی

تصور کرسکتی ہوں

کہ اکبر آباد کے گلی کوچوں میں

ننگے پاؤں ، آواروں کی طرح گھومتے ہوئے

رنگ اور گلال سے کھیلتے ہوئے

آباد کر لیتے ہوں گے

تم نظیر

اپنے لیے ایک نئی دنیا

ہولی ہے کے شور میں

تمہیں اپنی بھی فکر کہاں رہتی ہوگی نظیر

محبت کا ایک ہی ہوتا ہے رشتہ،

ایک ہی ہوتی ہے تقدیر

اکبر آباد کی گلیوں میں تم

اڑاتے ہو گے گلال اور ابیر

پھر سے کھینچ دو ایسی ایک لکیر

جہاں کوئی بھید نہ ہو نظیر

٭٭٭

 

 

ہولی کے بہانے

               (۲)

نظیر

ہولی میں تم ہڑدنگ کرتے تھے

اور اس ہڑ دنگ میں محبت ہوتی تھی

اکبر آباد کی گلیاں

تب ویرانیوں کے نوحے کہاں لکھتی تھیں

رنگ بھری پچکاریاں

تب سیاست اور مذہب کہاں دیکھتی تھیں

نظیر،

وقت کے سفید صفحے

امن کا ظہور کہے جانے والے

کبوتروں کے سرخ رنگ سے بھیگے ہوئے ہیں

اوپر سیاہ آسمان ہے

اڑتی ہیں ابابیلیں

پچکاریوں سے رنگ غائب

مندروں سے پجاری

اور مسجدوں سے اذان غائب

مذہب کی پناہ گاہوں سے انسان غائب

ہولی نے نئی تاریخ کا احساس پہن لیا ہے

تقسیم سے اب تک کے المیہ میں

رنگوں کی ہولی،

محبت کے قلعے کو تقسیم کرتی ہوئی

خون کی ہولی میں تبدیل ہو گئی ہے

آؤ کبیر

چلے آؤ میر

ہولی کو پھر سے اس کے پرانے رنگوں والا نام

لوٹانے کی ضرورت ہے نظیر

٭٭٭

 

 

ہولی کے بہانے

               (۳)

نظیر

تمہاری شان ہی اور تھی،

بسنت آتا تو بسنتی بن جاتے تم

دسہرہ میں بھی ننگے پاؤں

وجے پرو کے رتھ کو تھام لیتے تم

دیپاولی میں

جشن چراغاں کے سنگیت کو آواز دیتے

اور ہولی میں

رنگوں سے شرابور ہو کر

تم ہمیشہ رچتے تھے

وقت کے صفحے پر ایک ایسی نظم

جہاں خردسے پہلے محبت ہوتی تھی

جھرنے سے پہلے سنگیت ہوتا تھا

جینے سے پہلے جینے کی خواہش ہوتی تھی

مذہب سے پہلے ہوتی تھی انسانیت

جیسے پھول سے پہلے ہوتی تھی خوشبو

نظیر

اکبر آباد کی گلیوں سے

رنگوں کی پچکاریاں لے کر آؤ

پھر لکھو

زندگی کے نئے ادھیائے کی نئی نظم

برا نہ مانو ہولی ہے

رنگوں کی ٹولی ہے

ہوا میں ہے ابیر اور گلال کی مہک

پرو تیوہاروں کو مذہب سے جوڑنے والی جنتا

سچ مچ بھولی ہے۔

٭٭٭

 

 

میں …

میں نہیں جانتی

کہ میں کہیں ہوں بھی یا نہیں

یا جیتے جیتے ایک ہی زندگی میں

اتنی تقسیم ہوئی

کہ میرا اپنا چہرہ ہی اوجھل ہوگیا

اکثر آئینہ میں یا پانی کی سطح پر

بھیگا بھیگا سا اک چہرہ دیکھتی ہوں

لیکن پہچان نہیں پاتی…

اکثر ٹوٹتے ہوئے لمحوں کی گرفت سے

ایک لمحہ بچا کر

خود کی شناخت کرنا چاہتی ہوں

مگر ایسا ممکن نہیں ہو پاتا…

میں وہاں بھی نہیں ہوتی

جہاں مجھے ہونا چاہئے…

جیسے اپنے گھر میں یا اپنے بیڈ پر

جیسے شوہر سے باتیں کرتے ہوئے بھی

میں نکل کر کہیں گم ہو جاتی ہوں

اور وہاں صرف ایک سایہ رہ جاتا ہے

جیسے بچوں میں تقسیم ہوتے ہوئے

اپنے رنگ چھوڑ جاتی ہوں …

خود میں ہوتی ہے ایک تتلی بے رنگ…

ان دنوں بہت کچھ بدل رہا ہے…

جیسے کہاسے کی گھنی چادر میں گم ہونا اچھا لگتا ہے

جیسے اپنے نام کا ایک سناٹا بننا مجھے پسند ہے

جیسے اندھیرے میں دبے پاؤں چلتے ہوئے

اپنی ہی آہٹ کو سننا چاہتی ہوں …

اندھیرے سے… سناٹے سے… دھند سے

باہر نکلتے ہوئے

ابھی تھوڑا تھوڑا اڑنا سیکھنا ہے مجھے

تقسیم ہوتے ہوئے بھی

ابھی تھوڑا تھوڑا جینا سیکھنا ہے مجھے

٭٭٭

تشکر: مشرف عالم ذوقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید