فہرست مضامین
مہر و وفا
حصہ دوم
سلیم خان
راہ و رسم
چرچ کی جانب رواں دواں گوپال بڑے شوق سے گاڑی چلاتے ہوئے بغل میں بیٹھی ہوئی کیتھرین کو عاقل کی کہانی سنا رہا تھا۔ لیکن جب اس دلچسپ داستانِ ہوشربا کو ختم کرنے کے بعد اس نے کیتھرین کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔ محترمہ گہری نیند میں سو رہی تھیں۔ گوپال کو بہت غصہ آیا۔ اُس نے اپنی گاڑی کو سنسان سڑک پر موڑ کر آئینہ میں پیچھے دیکھا اور اچانک زوردار بریک لگا دیا گاڑی ایک جھٹکے سے رُکی اور ڈھیلے پٹے سے بندھی کیتھرین سامنے کے شیشے سے بس ٹکرا ہی گئی۔ کیتھرین نے آنکھ کھول کر کہا۔ ’’یہ کیا ہو رہا ہے ؟ آپ پاگل تو نہیں ہو گئے ہیں ؟‘‘
گوپال بولا۔ ’’جی ہاں محترمہ … میں پاگل بھی ہوں اور بہرہ بھی۔‘‘
کیتھرین کو ہنسی آ گئی اور وہ بولی۔ ’’اچھا پاگل تو پہلے سے تھے یہ بہرے کب سے ہو گئے ؟‘‘
’’پاگل تو میں اُس وقت ہو گیا تھا جب آپ کو نظر بھر کر دیکھا، اور بہرہ آپ کے یہ کہنے کے بعد ہو گیا کہ میں تمہیں عاقل کی کہانی سناؤں۔ میں نے اسے شروع کیا اور پا گلوں کی طرح بولتا ہی رہا۔ یہاں تک کہ تم خراٹے لینے لگیں اور میں ان خراٹوں کو بھی سن سکا۔‘‘
کیتھرین بولی۔ ’’یہ غلط بات ہے۔ آپ زیادتی کر رہے ہیں۔ میں آپ کی طرح خراٹے نہیں لیتی۔‘‘
’’اچھا یہ تم کو کیسے پتہ چلا؟‘‘
’’اس لئے کہ سوتے میں تو انسان یہ نہیں جان سکتا کہ وہ خراٹے لیتا ہے یا نہیں ؟ اور جاگتے ہوے خراٹے لے نہیں سکتا۔‘‘
’’آپ کی بات صحیح ہے ، لیکن نیند کے وقفے میں کیا کچھ ہوا ہے ، یہ تو جان سکتا ہے۔ جب میری آنکھ لگی تو ہم لوگ مقطع کے پل پر تھے اور ابھی ٹی۔ٹی۔ نگر کے سامنے … تو گویا اس دوران یہ فاصلہ طے کیا گیا۔ یہ تو میں جان ہی نہیں سکتی ہوں۔‘‘
’’ہاں … تم تو سوتے ہوئے بھی سب کچھ جان سکتی ہو اور میں جاگتے ہوئے بھی یہ نہیں جان سکا کہ کوئی میرے پہلو میں بیٹھا سو رہا ہے۔ یہ میری غلطی ہے۔‘‘
’’بے شک غلطی ہے۔‘‘ کیتھرین نے تڑک کر جواب دیا۔ ’’آپ اپنے قرب و جوار کا خیال کب رکھتے ہیں ؟ اور اگر آس پاس میں ہوں تو آپ کی بے خیالی میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اگر میں مر بھی جاؤں تو آپ کو احساس ہی نہ ہو۔‘‘
گوپال حیران ہو رہا تھا کہ عجیب عورت ہے ، اسے اپنی غلطی کا نہ احساس ہے اور اس پر کوئی پشیمانی … اُلٹا مجھے کوس رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کی تیاریاں مکمل ہو گئیں۔ چرچ سے متصل وسیع عریض ہال میں شادی کی تقریب اس تام جھام کے ساتھ منعقد ہوئی کہ کرشنن کو ایک بار ایسا لگا جیسے وہ عیسائی ہو گیا ہے۔ کیرالا کے رہنے والے براہمن کے لئے یہ ایک مختلف تجربہ تھا۔ حالانکہ خود اپنے مذہب کے بارے میں وہ کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں تھا۔ مندر کبھی کبھار چلا جاتا تھا مگر بس یوں ہی۔
کرشنن کی تعلیم ایک مشنری اسکول میں ہوئی تھی۔ عیسائیت کے بارے میں وہ بہت کچھ جانتا تھا۔ اس کے عیسائی اساتذہ کا وہ بے حد احترام کرتا تھا اور اس کے کئی مسیحی دوست بھی تھے۔ لیکن اس کے باوجود عیسائیت کو قبول کرنے کا خیال اسے کبھی نہیں آیا تھا۔ ویسے آج بھی اس نے عیسائیت کو دل سے قبول نہیں کیا تھا، لیکن اسے کچھ کھونے کا احساس ہو رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے اپنے اندر دبی آستھا نے دم توڑ دیا ہے۔ لیکن جو چیز موجود ہی نہ ہو اُسے کیوں کر کھویا جا سکتا ہے ؟ یہ احساس زیاں کسی نامعلوم شہ کی موجودگی کا پتہ دیتا تھا۔ کوئی چنگاری موجود تو تھی لیکن اس قدر دبی دبی سی کہ محسوس نہ ہوتی تھی۔ لیکن اس کے بجھ جانے نے اس کی موجودگی کا احساس کروا دیا تھا۔ موجود ہونے کا عدم احساس اور معدوم ہو جانے کے شدید احساس محرومی نے کرشنن کو مغموم کر دیا۔ اس کا دل اداس ہو گیا۔
نکاح کے بعد سب سے پہلے پادری نے نوبیاہتا جوڑے کو مبارکباد دی۔ کرشنن نے مسکرانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد گوپال اور کیتھرین آگے بڑھے۔ انہوں نے آشیرواد دیا اور پھر سلسلہ چل پڑا۔ البرٹ اور سوژان … مسٹر اور مسز الزبیتھ … رضوان اور چمیلی … عاقل اور عشرت جہاں … اور آخر میں غضنفر اور شیام … شیام کے سینے سے لگ کر کرشنن پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ محفل میں موجود حاضرین کے لئے کرشنن کا ردّ عمل چونکا دینے والا تھا۔ رادھا کے لئے یہ سب بڑا عجیب تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس موقع پر یہ رونا دھونا کیا معنیٰ۔ ویسے وِداعی کے وقت دلہن کا رونا سمجھ میں آتا ہے ، لیکن نکاح کے وقت دولہے کا رونا چہ معنی دارد؟
کرشنن کی حالت اس دلہن کی مانند تھی جسے میکے سے جدائی کا احساس رُلاتا ہے۔ وہ بھول جاتی ہے کہ اسے اب نئی زندگی، ایک نیا ہمسفر مل گیا ہے۔ کرشنن کو اپنے دھرم کے دیہانت (موت) کا دُکھ تھا۔ اس کے سینے میں ہندو دھرم کی چتا جل رہی تھی۔ وہ اس کا انتم سنسکا ر(آخری رسومات ادا) کر رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ شادی کے تحفہ تحائف اس چتا میں گھی کا کام کر رہے ہیں اور ہر مبارکباد کی صدا ان شعلوں کو ہوا دے رہی ہے۔ وہ اپنے آنسوؤں سے اس آگ کو بجھانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ لیکن آنسوؤں سے آگ کہاں بجھتی ہے ؟ وہ تو اور زیادہ تیز ہو جاتی ہے۔
اس عجیب و غریب صورتحال میں کیتھرین نے سوالیہ نظروں سے گوپال کی جانب دیکھا تو وہ آگے بڑھے۔ انہوں نے پھر ایک بار کرشنن کو اپنے سینے سے لگایا اور کہا۔ ’’بیٹے … میں تمہارے احساسات و جذبات کو سمجھ سکتا ہوں۔ اس لئے کہ میں خود بھی اس تجربے سے گزر چکا ہوں۔ خوشی کے موقع پر اپنوں کی غیر موجودگی انسان کو غمگین کر دیتی ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ لیکن یاد رکھو، ان سب چیزوں کو پھر سے دوہرایا جانا ہے۔ اس وقت تمہارے اپنے سب کے سب موجود ہوں گے۔ تب ہو سکتا تمہیں ہماری کمی محسوس ہو … ہو سکتا نہ بھی ہو … لیکن بیٹے حوصلہ رکھو، یہی مردانگی کا تقاضہ ہے۔‘‘
کرشنن آنسوؤں کو پونچھ کر مسکرانے لگا۔ گوپال نے حاضرین مجلس کو کھانے کی دعوت دی او ر سارے لوگ طعام گاہ کی جانب بڑھے۔ شاندار بوفے کا اہتمام تھا۔ ہر آدمی اپنی مرضی کے کھانے کا انتخاب کر رہا تھا اور اس سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ محفل پھر ایک بار گل و گلزار ہو چکی تھی۔ روانگی سے قبل عاقل بہشتی نے مائک پر آ کر دولہا دلہن کو مبارکبادی اور اپنی جانب سے آئندہ جمعرات کے دن تمام حاضرین محفل کو کھا نے کی دعوت دی۔ یہ دعوت اُن کے گھر پر تھی۔ مسٹر اور مسز الزبیتھ نے جمعہ کی شب ہوٹل مریڈین میں دعوت کا اعلان کیا تھا۔
عاقل بہشتی کی دعوت میں ایک طرف ایرانی اور دوسری جانب عربی کھانوں کا اہتمام تھا۔ حالانکہ ان دونوں میں ظاہراً کافی مشابہت دِکھائی دیتی تھی، لیکن اس کے باوجود اپنی نفاست اور ذائقہ کے اعتبار سے خاصہ فرق تھا۔ اس دعوت کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ عاقل اور عشرت ایک ایک مہمان کا خیال کر رہے تھے۔ ہر ایک کی خیریت پوچھتے۔ بے حد اپنائیت تھی اُن میں۔ وہ اپنی مسرتوں میں ہر ایک کو شریک کر لینا چاہتے تھے۔ خاص طور پر رادھا کو، جسے وہ کبھی اپنی بہو بنانا چاہتے تھے۔ لیکن اب وہ اُن کی بیٹی بن چکی تھی۔
دعوت کے بعد رادھا اور عشرت پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو ایک بیٹی کے میکے سے جدائی کے وقت ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ رادھا کا میکہ نہ تھا، اس کے باوجود ایسا ہوا تھا۔ حالانکہ نکاح ایک ہفتہ قبل ہوا تھا، لیکن اس وقت ایسا شاید اس لئے نہیں ہوا کہ رادھا جہاں سے گئی تھی، وہیں آ رہی تھی۔ لیکن آج کی بات کچھ اور تھی۔ آج گھر نہیں بدل رہا تھا، رشتہ بدل رہا تھا۔ بہو کا رشتہ بیٹی کے رشتہ میں تبدیل ہو رہا تھا … بلکہ ہو چکا تھا۔ بہو کا آنا خوشی کا باعث ہوتا ہے ، لیکن بیٹی کا جانا؟ عاقل کی آنکھوں میں ستارے جگمگا رہے تھے۔ وہ بے حد خوش تھا لیکن غمگین بھی تھا۔ عشرت اور رادھا دیر تک لپٹ کر روتے رہے۔ پھر عاقل بولا۔ ’’عشرت بیٹی، کئی بار خوشی اور غم ایک ساتھ آتے ہیں۔ اس لئے غم کو بھول کر خوشی پر توجہ دینا چاہئے۔‘‘
عشرت بولی۔ ’’ایسا کرتے ہیں، ہم لوگ ان دونوں کے جذبات کو بانٹ لیتے ہیں۔ آپ خوش ہو لیں اور مجھے غمگین رہنے دیں … میں ایک ماں ہوں … ماں۔‘‘
رادھا اور کرشنن کی دعوت سے فارغ ہو کر عشرت جہاں نے عاقل بہشتی کو مہمان خانے میں بلایا اور پوچھا۔ ’’عاقل آج تمہیں کیسا لگا؟‘‘
عاقل نے کہا۔ ’’اچھا لگا۔‘‘
عشرت بولی۔ ’’یہ اچھا کیا ہوتا ہے ؟‘‘
عاقل بولا۔ ’’اچھا اچھا ہوتا ہے۔‘‘
عشرت نے کہا۔ ’’دیکھو عاقل! میں تم سے سنجیدگی سے پوچھ رہی ہوں۔ کیا تم آج خوش نہیں ہو؟‘‘
’’یہ تم سے کس نے کہا کہ میں خوش نہیں ہوں۔‘‘
’’اچھا تو بتاؤ کہ تم کتنے خوش ہو؟‘‘
’’بہت خوش ہوں۔‘‘
’’یہ ’بہت‘ کیا ہوتا ہے ؟‘‘
’’بہت … بہت ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے ؟‘‘
’’نہیں بابا … میرا مطلب ہے کہ کیا تم آج اتنے ہی خوش ہو جتنے ہابیل اور قابیل کی شادی کے وقت تھے ؟‘‘
عاقل سوچنے لگا اور پھر بولا۔ ’’بیٹی کی شادی بیٹوں سے زیادہ خوشی کا باعث ہوتی ہے ، اس لئے میں اس سے بھی زیادہ خوش ہوں۔‘‘
’’اچھا!! تو کیا تم اتنے خوش ہو جتنا کہ ہماری اپنی شادی کے وقت تھے ؟‘‘
عاقل نے دماغ پر زور ڈالا اور بولا۔ ’’جی نہیں، اس سے بھی زیادہ … اس لئے کہ اپنی خوشی میں ہر کوئی خوش ہوتا ہے۔‘‘
یادگار دعوت
غضنفر اور رضوان نے مریڈین ہوٹل کو باہر سے تو کئی بار دیکھا تھا، لیکن اندر قدم رکھنے کی جرأت انہوں نے کبھی نہیں کی تھی۔ وہ پہلی مرتبہ مسٹر اور مسز الزبیتھ کے بلاوے پر رادھا اور کرشنن کے طفیل مریڈین کی دعوت میں شریک ہو رہے تھے۔ اس قدر طویل عرصہ ابوظبی میں گزارنے کے باوجود وہ نہیں جانتے تھے کہ یہاں یہ سب بھی ہے۔ الزبیتھ فیملی نے تمام مہمانوں کے لئے شاہانہ اہتمام کیا تھا۔ اس کے بعد البرٹ اور سوژان نے سب کی دعوت دبئی کے پام جمیرا ہوٹل میں کی اور تمام مہمانوں کو ایک نئی دُنیا میں لے گئے۔ شاندار محل … دریا … کشتی اور ساحل پر ہونے والی اس دعوت میں ایسا لگ رہا تھا گویا کسی راجہ مہاراجہ کی شادی ہے۔
البرٹ اور سوژان کی شادی کی دعوت کا بھی اہتمام اس قدر زوردار نہیں ہوا تھا جس طرح سے کہ رادھا اور کرشنن کی شادی کا ہو رہا تھا۔ سوژان اپنی شادی کے وقت کافی محتاط تھی، لیکن اپنی سہیلی رادھا کی شادی وہ اسی طرح سے کر رہی تھی جیسے کہ اس کی چھوٹی بہن بیاہی جا رہی ہو۔ پام جمیرہ کی یادگار دعوت کے بعد اب شیام کی باری تھی۔ اس نے اپنی دعوت کا اعلان الابراہیمی ہوٹل میں کیا۔ یہ ہوٹل، جس کا نام تو عربی تھا لیکن مالک پاکستانی۔ اس کے باوجود شیام کا خیال تھا کہ شمالی ہندوستان کے کھانے یہیں پر سب سے زیادہ اچھے ملتے ہیں اور پھر یہاں جس قدر انواع و اقسام کے پکوان ہوتے ہیں، وہ تو کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے بوفے میں بھی نہیں ہوتے۔ اس لئے تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر شیام نے سبھی کو الابراہیمی کے شادی ہال میں بلا لیا۔
آخر میں رضوان اور غضنفر کی جانب سے دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ دعوت البرٹ کی اس کوٹھی کے لان میں تھی جہاں کرشنن اپنے اس پردیسی خاندان کے ساتھ رہتا رہا تھا۔ کھانا اسی کمرے میں بنایا گیا جہاں بیٹھ کر وہ اپنے مستقبل کے سپنے بنتا تھا۔ یہ گھریلو کھانا تھا … پٹھانی اور بنگلہ طرز کا کھانا … بنگالی کھانا چمیلی نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ سوژان نے اس میں ہاتھ بنٹایا تھا۔ کسی مالکن کا اپنے باورچی کی بیوی کے ساتھ کھانا بنانے کے عجیب و غریب منظر آسمان حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
غضنفر اپنی کچھ رشتہ داروں کو بلا کر لے آیا تھا۔ بکرا وہیں ذبح کیا گیا۔ وہ لوگ اپنے ساتھ ایک عارضی تنور بھی لے آئے تھے جسے ایک ڈرم میں بنایا گیا تھا۔ اس روز کوئلے پر بھونے جانے والے تازہ گوشت کی خوشبو کئی لوگوں کی ناک سے پہلی بار ٹکرائی تھی۔ اور ذائقہ تو کیا ذائقہ … بالکل حقیقی … ہر قسم کی مصنوعیت سے پاک اس دعوت میں کوئی وئیٹر نہیں تھا۔ رضوان، چمیلی، سوژان اور غضنفر مہمانوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ دعوت کے آخر میں چمیلی کے ہاتھوں کی مٹھائی نے رادھا اور کرشنن کے رشتہ میں وہ مٹھاس بھر دی جو شاید کبھی ختم ہونے والی نہیں تھی۔
رادھا اور کرشنن کی شادی نے اس خاندان کو اپنائیت کے ایک ایسے بندھن میں باندھ دیا تھا کہ کوئی کسی کا بھائی تو کوئی کسی کا بھتیجا بن گیا تھا۔ کوئی کسی کی بہن تو کوئی کسی کی بھابی بن گئی تھی۔ کوئی کسی کا چاچا تو کوئی ماموں تھا۔ یہ رشتے کیسے بنے ؟ کوئی نہ جانتا تھا۔ وہی جانتا تھا جو رشتوں کو بنانے والا ہے۔ بالآخر مستقبل کی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے سب لوگ روانہ ہو گئے
رادھا اور کرشنن بھی وہاں سے نکلے تو ٹی۔ٹی۔ نگر کے بجائے کارنیش چلے گئے۔ وہاں ساحل پر دیر تک دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ دونوں کے اندرون میں اٹھنے والی موجیں دُور سے آتی تھیں، ساحل کے قریب سر اُٹھاتی تھیں اور کنارے پر دم توڑ دیتی تھیں۔ موجوں کے اس کھیل کا مشاہدہ دونوں ایک ساتھ کر رہے تھے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ لہریں چاند کی گردش کے سبب پیدا ہوتی ہیں۔ کہاں چاند اور کہاں موج۔ کس قدر فاصلہ ہے دونوں میں۔ ہمیشہ سے قائم و دائم فاصلہ۔ جس میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ لیکن پھر بھی موج ہمت نہیں ہارتی۔ اُٹھتی جاتی ہے بکھرتی جاتی ہے۔ پھر سر اُٹھاتی ہے اس اُمید میں کہ شاید کبھی وصال ہو ہی جائے۔ ہو سکتا ہے کہ شاید کہ ایسا کبھی بھی نہ ہو؟ اور ہو سکتا کہ شاید ایسا کبھی ہو بھی جائے ؟ کون جانتا ہے کہ کیا کچھ ہونے والا ہے ؟ سوائے اس کے جو یہ سب کرنے والا ہے۔
موجوں کا اُتار چڑھاؤ اس لحاظ سے بھی عجیب ہے کہ چاند جس جانب غروب ہوتا ہے ، یہ اس کے مخالف سمت میں دوڑتی ہیں۔ شاید یہ ڈوبتے ہوتے چاند سے آنکھیں چراتی ہیں، وہ اُسے ڈوبتا ہوا نہیں دیکھ سکتیں۔ وہ طلوع ہونے والے چاند کی طرف بھی جست نہیں لگاتی۔ وہ چاہتی ہیں کہ چاند ان سے ملاقات کے لئے خود چل کر ساحل پر آئے۔ اپنی اس خواہش میں نہ جانے کب سے یہ موجیں ساحل سے ٹکراتی ہیں اور پاش پاش ہو جاتی ہیں۔ لیکن کسی ایک موج کے ختم ہونے سے سمندر کا تلاطم ختم نہیں ہوتا۔ یہ تو جاری و ساری رہنے والا کھیل ہے۔ لہریں اُٹھتی ہیں، مٹتی ہیں … مٹتی ہیں، اُٹھتی ہیں۔ ان کا اُٹھنا اور اُن کا مٹنا سمندر پر اثرانداز نہیں ہوتا اور نہ چاند اور نہ ساحل پر۔ لیکن ساحل پر بیٹھے ہوئے رادھا اور کرشنن پر ضرور اثرانداز ہو رہا تھا۔ وہ دیر تک یوں ہی بیٹھے رہے۔ رادھا ریت کے گھر بناتی رہی۔ مٹاتی رہی، مٹاتی رہی، بناتی رہی۔ بننے اور بگڑنے کا سلسلہ تا دیر جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ ریت کے اس کھیل سے تھک گئی۔ ریت پر بنے نشانات سے اُکتا گئی اور بولی۔ ’’کرشنن! چلو چلتے ہیں، بہت دیر ہو گئی ہے۔ گھر چلتے ہیں۔‘‘
کرشنن بولا۔ ’’ہاں رادھا … لیکن جانے سے پہلے چلو کچھ دیر پانی میں اپنے پیروں کو ٹھنڈا کر لیں۔‘‘
رادھا نے پوچھا۔ ’’پیروں کو پانی میں … ؟ یہ کیا کہہ رہے ہو؟ تمہارے جوتے اور موزے بھیگ جائیں گے ؟‘‘
کرشنن بولا۔ ’’کوئی بات نہیں۔‘‘
رادھا بولی۔ ’’کوئی بات کیسے نہیں ؟ پھر کیا بھیگے جوتوں کے ساتھ گھر جائیں گے ؟ ایسا کرو اِن جوتوں کو ساحل پر چھوڑ دو۔ ہم پانی سے واپس آئیں گے اور پہن کر چلے جائیں گے۔‘‘
دونوں اپنے جوتے ساحل پر چھوڑ کر پانی میں چلے گئے۔ نہ جانے کب تک وہ پانی میں کھڑے رہے ، لیکن جب واپس آئے تو کیا دیکھا کہ اس بیچ ساحل آگے بڑھ چکا تھا۔ لہریں ان حدود سے آگے نکل چکی تھیں جہاں وہ لوگ انہیں چھوڑ کر گئے تھے اور ان کے جوتے پانی میں تیر رہے تھے۔ کرشنن مسکرایا، رادھا ہنس پڑی، اس بیچ نہ جانے کہاں سے ہوا کے دوش پر ایک بادل کا ٹکڑا آیا اور کرۂ ارض کے اسی حصے پر برس پڑا جس پر یہ دیوانے دِل کھڑے تھے۔ اب نہ صرف جوتے بلکہ یہ دونوں سر تا پا بھیگ چکے تھے۔
بارش تھم گئی تھی، جوتے بہہ گئے تھے ، وہ دونوں بارش کی تازہ پھوار میں تر بتر جوتوں کے بغیر گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔
بھارت درشن
کرشنن اور رادھا نے اپنی دوبارہ شادی کے بعد ہندوستان میں ہنی مون منانے کا پروگرام بنایا۔ رادھا نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، وہ پردیس میں تھی۔ یہاں سے وِدیش تو وہ کئی مرتبہ گئی تھی لیکن سودیش جانے کا موقع کبھی نہیں آیا تھا۔ اس لئے ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیر کا منصوبہ بنایا گیا۔
ٹریول ایجنٹ نے بتایا … ’’اگر وہ سارے ہندوستان کی دائرہ نما سیر کرنا چاہتے ہیں تو جیٹ ائیرویز سے اچھی کوئی ائیرلائنز نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہندوستان بھر میں تو ان کے جہاز اُڑتے ہی ہیں اور ابھی حال ہی میں انہوں نے اپنے ملک سے باہر بھی پر پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ فی الحال وہ لندن، نیویارک اور دبئی بھی آنے لگے ہیں۔ یعنی پہلے انڈین ائیرلائنز کے لئے اندرون ملک مسائل کھڑے کئے تھے۔ اب ائیر انڈیا سے مسابقت کر رہے ہیں، بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ پہلے انڈین ائیرلائنز کو سدھارنے کا بیڑہ اُٹھایا تھا اور اب ائیرانڈیا کی اصلاح فرما رہے ہیں۔ چونکہ نئی ائیرلائنز ہے اور گاہک کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتی ہے ، اس لئے نئی نئی بیوی کی طرح خوب سجی سنوری رہتی ہے۔ خدمت بھی مسکرا مسکرا کرتی ہے اور خرچ بھی کم ہے۔‘‘
ٹریول ایجنٹ کی باتیں سن کر کرشنن نے رادھا کی جانب دیکھا، جس کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔ وہ بولی۔ ’’جناب! آپ باتیں زیادہ اور کام کم کرتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ اپنے کام کی جانب توجہ دیں اور ہمیں فارغ کریں۔‘‘
’’معاف کیجئے … دراصل ہمارے اس سیر سیاحت کے کاروبار میں بول بچن کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کام تو ہر ایک کو وہی کرنا ہوتا ہے ، نشست محفوظ کرو، ٹکٹ بناؤ، پیسے لو اور مع السلام … لیکن جو گاہک کے ساتھ اچھی اچھی باتیں کرتا ہے ، گاہک اس سے خوش ہوتا ہے اور اس کے پاس دوبارہ آتا ہے۔‘‘
رادھا بولی۔ ’’اگر آپ نے اپنی چونچ بند نہیں کی تو ہم دوبارہ آنا تو درکنار، ابھی اسی وقت لوٹ جائیں گے۔‘‘
’’اوہو … میڈم میں تو آپ کو خوش کرنا چاہتا تھا، لیکن آپ ناراض ہو گئیں۔ شاید آپ کو میری بات بُری لگی۔ میں آپ کے بارے میں نہیں نوبیاہتا دلہن کے بارے میں کہہ رہا تھا۔‘‘
رادھا آپے سے باہر ہو کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ ٹریول ایجنٹ کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا۔ وہ کرشنن سے بولا۔ ’’معاف کیجئے جناب … مجھ سے آپ کی اہلیہ کی دل آزادی ہو گئی۔ وہ اب بھی بہت تیز مزاج ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ کرشنن نے کہا۔
’’نہیں … دراصل بات یہ ہے کہ عمر کے ساتھ خواتین کا مزاج … ‘‘
کرشنن نے ٹوکا۔ ’’تند و تیز ہو جاتا ہے۔‘‘
’’جی؟ جی ہاں … جی ہاں۔‘‘ ٹریول ایجنٹ زور زور سے سر ہلانے لگا۔
کرشنن بولا۔ ’’دیکھئے … میرا خیال ہے اگر آپ یہ کام جلد ختم کریں تو بہتر ہو گا۔
’’اوہو … آپ بھی میری باتوں سے ناراض ہو رہے ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ میں بات بند کر دیتا ہوں۔ لیکن آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ میرے خاموش رہنے سے آپ کا کام جلد ختم ہو جائے گا۔ ہم لوگ آن لائن بکنگ کرتے ہیں اور کمپیوٹر اپنی رفتار سے چلتا ہے۔ میں بولتا رہوں یا خاموش رہوں، اس کی رفتار پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اور پھر کمپیوٹر کا کام میں انگلیوں سے کرتا ہوں، آنکھیں بھی کسی قدر مصروف ہوتی ہیں، لیکن اس دوران کان اور زبان بالکل فارغ رہتے ہیں … تو میں کوشش کرتا ہوں کہ انہیں بھی مصروف رکھوں۔‘‘
کرشنن کو اب اس کی باتوں میں مزہ آنے لگا تھا، وہ بولا۔ ’’ہمارے پانچ حواس ہیں۔ آپ چکھنے کا کام نہیں کرتے ؟‘‘
’’کیوں نہیں جناب … وہ دیکھئے ، آپ کے پیچھے ہمارا ملازم چائے لے کر آ رہا ہے۔ وہ بے چارہ ذرا سُست ہے ، جیٹ کی رفتار سے چائے نہیں بنا سکتا اور پھر اتنے سارے گاہکوں کی اور افسران کی خدمت کے لئے ایک اکیلا خادم … !‘‘
اس دوران ملازم نے چائے نہایت تمیز سے رکھی اور پوچھا۔ ’’جناب! شکر ایک یادو چمچ؟‘‘
’’کرشنن بولا۔ ’’دو۔‘‘
’’اور دودھ کا سفوف بھی موجود ہے ؟ کیا آپ اسے بھی ملانا پسند فرمائیں گے ؟‘‘
کرشنن بولا۔ ’’ضرور!‘‘
اس کے بعد اس نے ایجنٹ کی چائے بغیر پوچھے تیار کر دی اور سوال کیا۔ ’’آپ نے تو تین کے لئے کہا تھا؟‘‘
اُس کا جملہ پورا نہ ہوا تھا کہ کرشنن کے فون کی گھنٹی بجی سامنے سے آواز آئی۔ ’’وہ آدمی اب بھی بکواس کر رہا ہے یا اُس نے اپنا کام پورا بھی کیا؟‘‘
ایجنٹ بولا۔ ’’جناب آپ کی اہلیہ تو چائے سے بھی زیادہ گرم ہیں۔ اُن کو بلائیے ، اس سے پہلے کہ چائے ٹھنڈی ہو جائے۔ شاید کہ لوہا لوہے کو کاٹے۔‘‘
کرشنن بولا۔ ’’رادھا ہمیں کئی شہروں کے لئے مختلف تاریخوں میں نشستیں محفوظ کرنی ہیں۔ اس کام میں وقت تو لگے گا ہی۔‘‘
’’میں جانتی ہوں وقت لگے گا، لیکن آدمی کام کرے تب نہ وقت لگے گا! اگر صرف باتیں کرتا رہے تب تو کام پورا ہی نہیں ہو گا۔‘‘
’’نہیں رادھا … وہ کام روک کر باتیں نہیں کر رہا، بلکہ کام کرتے ہوئے باتیں کرتا ہے اور ایسا کرنے سے کوئی تاخیر نہیں ہوتی بلکہ وقت گزر جاتا ہے۔ آؤ … اندر آؤ، تمہاری چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔‘‘
رادھا بھی دھُوپ میں کھڑی کھڑی پریشان ہو رہی تھی۔ وہ اندر آ گئی۔ وئیٹر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اُس نے رادھا کے کپ میں چائے ڈالی اور پوچھا۔ ’’چینی؟‘‘
رادھا بولی۔ ’’چینی نہیں … ہندی؟‘‘
’’میں سمجھتا ہوں محترمہ … دراصل میں شکر کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ اِسے چینی بھی کہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا اچھا۔‘‘
’’ایک یا دو؟‘‘
رادھا بولی۔ ’’ایک کافی ہے۔‘‘
ملازم بولا۔ ’’یہ کافی نہیں، چائے ہے۔ آپ کے لئے کافی لاؤں ؟‘‘
’’جی نہیں۔ اس کی ضرورت نہیں۔ یہی ٹھیک ہے۔‘‘
اُس نے سوال کیا۔ ’’دودھ؟‘‘
رادھا نے تڑک کر کہا۔ ’’کیا بار بار سوال کرتے ہو؟ کہا نا کہ چائے ٹھیک ہے ؟‘‘
وہ بولا۔ ’’محترمہ … وہ تو ٹھیک ہے۔ کیا آپ چائے میں دُودھ ملانا پسند کریں گے ؟‘‘
رادھا بولی۔ ’’ہاں۔‘‘
اُس نے پڑیا کو نہایت تمیز سے کھولا۔ اُس میں موجود دُودھ کے سفوف کو چائے میں ڈالا اور چمچ سے دو مرتبہ ہلا کر اسے رادھا کی جانب بڑھا دیا۔ گویا کہہ رہا ہو … ’’اب اگر آپ مناسب سمجھیں تو مزید گھمائیں۔‘‘
رادھا نے کہا۔ ’’شکریہ!‘‘
اُس نے جواب میں مسکرا کر کہا ’’نوازش‘‘ اور مڑ گیا۔
رادھا بولی۔ ’’ایک یہ معمولی وئیٹر ہے جو اس قدر تہذیب یافتہ ہے اور ایک یہ جناب ٹائی لگا کر کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں بات کرنے کی تمیز نہیں۔‘‘
ایجنٹ بولا۔ ’’محترمہ معاف کیجئے … یہ کوئی معمولی وئیٹر نہیں ہے۔ یہ تو برٹش ائیرویز میں سینئر سٹورڈ تھا۔‘‘
’’اچھا؟‘‘ کرشنن نے حیرانی سے پوچھا۔ ’’تو اب یہ یہاں کیا کر رہا ہے ؟‘‘
’’جناب دراصل وہاں اس کا اپنے افسرسے جھگڑا ہو گیا۔ اس نے جواب میں نہ صرف اس کے ساتھ مار پیٹ کی بلکہ دوسرے اسٹاف کے ساتھ مل کر ہڑتال کروا دی۔ نتیجہ میں اسے ائیرلائنز والوں نے نکال باہر کیا اور یہ اس قدر بدنام ہو گیا کہ لوگ اس کے نام اور شکل سے واقف ہو گئے ہیں۔ اخبارات میں اس کی تصویریں اور بیانات شائع ہو چکے ہیں۔ ٹی۔وی پر اِسے دِکھلایا جا چکا ہے۔ اب کوئی اسے ملازمت پر رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
’’اچھا! تو آپ لوگوں نے کیوں رکھ لیا؟‘‘
’’بات دراصل یہ ہے کہ ہم برٹش ائیرویز کے امارات میں نمائندہ ہیں اور اس حوالے سے اس کے ہم سے پرانے تعلقات رہے ہیں۔ جب مشکل کی گھڑی میں یہ ہمارے مالک کے پاس آیا تو اسے ہم نے رحم کھا کر نوکری پر رکھ لیا۔‘‘
’’اوہو … بڑا احسان کیا آپ کے مالک نے اسے اپنے یہاں بیرا بنا دیا۔‘‘
’’تو اور کیا بناتا؟ افسر بنا دیتا۔ یہ شخص ہوائی جہاز میں یہی کام تو کرتا تھا، اور اب دفتر میں کام کرتا ہے۔‘‘
’’کام تو وہی ہے ، صرف دام بدل گئے۔‘‘ رادھا نے جملہ پورا کیا۔
’’جی ہاں محترمہ! آپ نے بجا فرمایا۔ کام اور دام کا دار و مدار وقت پر ہے۔ جب وقت اچھا ہوتا ہے ، کام کے اچھے دام ملتے ہیں اور جب بُرا وقت آتا ہے ، اس کے دام کم ہو جاتے ہیں۔‘‘
رادھا بولی۔ ’’باتیں تو آپ سمجھداری کی کرتے ہیں۔‘‘
کرشنن کو رادھا پر ہنسی آ گئی۔ جن باتوں سے چڑ کر کبھی باہر چلی گئی تھی، اب اُن ہی باتوں کی تعریف کر رہی تھی۔
وہ بو لا۔ ’’شکریہ محترمہ … ذرہ نوازی! ابھی آپ کی دہلی سے دبئی کی آخری بکنگ کا کام چل رہا ہے۔ باقی سب ختم ہو گیا۔ اس لئے میں دو چار منٹ اور اسی طرح آپ سے باتیں کرنے پر مجبور ہوں۔‘‘
کرشنن نے پوچھا۔ ’’مجبور ہیں ؟ کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ آپ کے بعد دوسرے گاہک بھی تو منتظر ہیں۔ مجھے اُن کا بھی تو کام کرنا ہے۔ اگر آپ لوگوں سے بات کرتا رہوں گا تو اُن کا کام کیسے ہو گا؟‘‘ ایجنٹ نے پرنٹ کا بٹن دبا دیا تھا۔ پرنٹرسے ’کر کر‘ کی آواز آنے لگی۔ کرشنن سمجھ گیا، اس کا ٹکٹ کٹ رہا ہے۔
ایجنٹ نے کاغذ کو پھاڑا اور کرشنن کے ہاتھوں میں تھما دیا اور بولا۔ ’’جناب آپ اسے ایک مرتبہ اچھی جانچ لیں۔ تاریخیں، مقامات وغیرہ وغیرہ … اور اگر کوئی ضروری تصحیح ہو تو مجھ سے رجوع فرمائیں، ورنہ وہاں کاؤنٹر پر جا کر رقم جمع کروا دیں۔‘‘
رادھا نے کہا۔ ’’کیوں … کیا ہم بعد میں کوئی ترمیم نہیں کروا سکتے۔‘‘
’’ترمیم؟ ترمیم تو ہو سکتی ہے لیکن آپ کو اس کی قیمت ادا کرنی ہو گی اور اس صورت میں آپ کی بچت ختم ہو جائے گی؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ رادھا نے پوچھا۔ کرشنن پرنٹ جانچ رہا تھا۔
وہ بولا۔ ’’محترمہ بات دراصل یہ ہے کہ یہ ایک خصوصی دائرہ نما ٹکٹ ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اگر آپ ایسا کرنا چاہتی ہیں کو آپ کو اس خصوصی ٹکٹ کو معمولی ٹکٹ میں تبدیل کروانا ہو گا اور ان دونوں کے فرق کو ادا کرنا ہو گا۔‘‘
’’خصوصی کو معمولی میں تبدیل کروانے کے لئے روپئے ادا کرنا سمجھ میں نہیں آیا؟‘‘
’’اوہو … آپ بنک میں تو کام نہیں کرتیں ؟ دراصل گاہک کو بہلانے کے لئے ہم اسے خصوصی کہتے ہیں۔ دراصل مختلف پابندیاں لگا کر اس ٹکٹ کو سستا کر دیا گیا ہے ، لیکن اگر ہم آپ سے یہ کہیں کہ اس میں پابندیاں ہیں تو آپ لوگ اسے خریدیں گے نہیں۔‘‘
’’لیکن یہ تو دھوکہ دہی ہے۔ آپ لوگ بات پوری نہیں بتاتے … کچھ غلط بتلاتے ہیں اور کچھ سرے سے بتلاتے ہیں نہیں۔ مثلاً خصوصی کہہ کر پابندیوں کو چھپا لینا۔‘‘
ایجنٹ پھنس چکا تھا، وہ بولا۔ ’’میڈم آ پ بجا فرماتی ہیں۔ دراصل ہمیں کہنا چاہیے کہ اس ٹکٹ پر مخصوص پابندیاں ہیں۔ لیکن ہمیں سکھلایا گیا ہے کہ پابندیوں کا ذکر کرنے کے بجائے صرف مخصوص کہنے پر اکتفا کیا جائے۔‘‘
کرشنن دُوسرے کاؤنٹر پر اپنے کارڈ سے ٹکٹ کی قیمت ادا کر رہا تھا۔ ایجنٹ پریشان ہو رہا تھا، وہ بولا۔ ’’محترمہ ہماری تو مجبوری ہے لیکن گاہکوں کی بھی تو غلطی ہے کہ وہ اتنا بھی نہیں سوچتے ایک خصوصی ٹکٹ معمولی ٹکٹ سے کم قیمت پر کیوں کر دستیاب ہو سکتا ہے ؟ یہ بات تو عام عقل سے پرے ہے۔ لیکن چونکہ اس میں اپنا فائدہ ہے ، اس لئے انسان اپنی عقل استعمال نہیں کرتا اور فائدے کے چکر میں اپنے آپ پر پابندیاں لگوا لیتا ہے۔‘‘
رادھا مسکرائی اور بولی۔ ’’تم نے پھر ایک سمجھداری کی بات کی۔ فائدے کے چکر میں عقل کو بالائے طاق رکھ کر اپنے آپ کو پابندیوں میں جکڑ لینا … کیا خوب۔‘‘
کرشنن نے ادائیگی کے بعد دیکھا تو رادھا اُسی ایجنٹ کے ساتھ مصروف گفتگو تھی۔ اسے تعجب ہوا۔ وہ واپس آیا اور بولا۔ ’’رادھا چلو … اَب تمہیں دیر نہیں ہو رہی؟‘‘
’’جی ہاں … ہو رہی ہے ، چلو چلتے ہیں۔ شکریہ جناب۔‘‘
’’نوازش میڈم۔‘‘
کرشنن نے رادھا سے کہا۔ ’’رادھا تم بھی عجیب عورت ہو۔ وہ جب ہمارا کام کر رہا تھا اور درمیان میں وقت گزاری کے لئے باتیں کر رہا تھا تو تم ناراض ہو گئیں، اور اب جبکہ وہ ہمارا کام ختم کر چکا ہے تو تم اس سے اُلجھ گئیں۔ تم نے نہ صرف اپنا، اُس کا، بلکہ ایک تیسرے گاہک کا بھی وقت خراب کیا ہے۔‘‘
رادھا بولی۔ ’’اس کی اور تیسرے آدمی کی بات تو صحیح ہے لیکن اپنا کیسے ؟ رقم کی ادائیگی کے دوران ویسے بھی میرے پاس کوئی کام نہیں تھا۔‘‘
’’ہاں ! تمہارے پاس کام نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مخاطب کے پاس بھی کام نہیں ہے۔ ہمیں دُوسروں کا بھی خیال کرنا چاہئے۔
رادھا ناراض ہو گئی۔ ’’آپ مردوں کی ذات ایسی ہے کہ نہ اپنا دیکھتی ہے نہ پرایا۔ وہ آپ کا کون لگتا ہے جو آپ میرے مقابلے اس کی حمایت کر رہے ہیں ؟ اور وہ تیسرا گاہک ہو سکتا ہے اس کے پاس کوئی کام ہی نہ ہو؟‘‘
’’دیکھو رادھا! سوال اپنے پرائے کا نہیں، اُصول کا ہے۔ جس طرح ہم اپنے وقت کی قدردانی کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں دُوسرے کی مصروفیت کا بھی احترام کرنا چاہئے ، اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تیسرا گاہک بے حد مصروف ہو؟‘‘
رادھا بولی۔ ’’اب بس بھی کرو۔ ایک چھوٹی سی بات کا آپ بلاوجہ بتنگڑ بنا رہے ہیں۔ میں اس سے کام کی بات کر رہی تھی۔ اس کا اور اپنا وقت ضائع نہیں کر رہی تھی۔ وہ لوگ ہمیں دھوکہ دیتے ہیں۔ میں اُسے بتلا رہی تھی کہ ایسا کرنا درست نہیں ہے۔‘‘
کرشنن سمجھ گیا رادھا کا اشارہ کس جانب ہے ، وہ بولا۔ ’’رادھا! آپ نے اُسے نصیحت کی، اِس کا بہت بہت شکریہ! لیکن ہم تو خود اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں۔ ہم نے تو خود حقائق سے آنکھیں موند لی ہیں۔ کسی اور کو کیا حاجت کہ آئے اور ہم کو فریب دینے کی خاطر اپنا وقت اور توانائی صرف کرے۔‘‘
رادھا بولی۔ ’’ٹھیک ہے بابا ٹھیک ہے … آپ کب ہماری بات ماننے والے ہیں۔ ہمیں مانے لیتے ہیں۔ ہم سے غلطی ہو گئی۔ اب آپ یہ تو نہیں چاہتے کہ میں واپس جا کر اس سے معذرت طلب کروں ؟‘‘
کرشنن نے مسکرا کر کہا۔ ’’نہیں رادھا، اس کی ضرورت نہیں۔ مگر آئندہ احتیاط کرو تو وہی کافی ہے۔‘‘
ہیرا پھیری
جیٹ ایئرویز کی ممبئی جانے والی فلائٹ اُس روز چونکہ دُبئی سے جاتی تھی، اس لئے کرشنن اور رادھا کو دُبئی جانا پڑا۔ وہاں پر کرشنن نے کاؤنٹر پر اپنا ٹکٹ دیا تو اس میں PNR نمبر ہی پڑھا نہیں جا رہا تھا۔ کاؤنٹر اسٹاف نے کہا۔ ’’جناب! یہ ٹکٹ آپ ٹھیک سے کیوں نہیں رکھتے ؟ اب آپ کا PNR ہی مٹ سا گیا ہے۔‘‘
کرشنن کو غصہ آ گیا، وہ بولا۔ ’’آپ لوگ ٹکٹ کا کاغذ اور سیاہی اچھے درجے کا استعمال کریں تو یہ دقت پیش نہیں آئے گی۔ اپنی غلطی کو دوسروں پر تھوپنا درست نہیں ہے۔‘‘
وہ بولا۔ ’’جناب ٹکٹ تو ہم لوگ سبھی تویکساں درجہ کا دیتے ہیں۔ اگر ٹکٹ کی سیاہی خراب ہو تو یہ شکایت سبھی کے ساتھ ہونی چاہئے۔‘‘
رادھا کو اس کے اصر ار پر غصہ آ رہا تھا، وہ بولی۔ ’’جی ہاں ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم نے آپ کی تھرڈ کلاس ائیرلائنز سے سفر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم اس پر شرمندہ ہیں اور آئندہ اس غلطی کو نہیں دوہرائیں گے۔‘‘
وہ آدمی چراغ پا ہو گیا اور بولا۔ ’’ہم دونوں کے درمیان آپ کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ میں آپ سے بات نہیں کر رہا ہوں۔‘‘
’’اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن میں آپ سے بات کر رہی ہوں۔ اس لئے کہ اس میں میرا ٹکٹ بھی ہے۔‘‘ رادھا نے سخت لہجے میں کہا۔
کرشنن نے رادھا کو سمجھایا۔ ’’رادھا غصہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم لوگ ہندوستان جا رہے ہیں بلکہ یہ سمجھ لو کہ ہندوستان پہنچ چکے ہیں۔ وہاں آئے دن اس طرح کے حادثات ہوتے رہیں گے ، اسی طرح کے لوگوں سے پالا پڑے گا جو اپنی کوتاہی کو ہمارے سر تھوپیں گے۔ اگر تم ان کی باتوں پر ناراض ہونے لگیں تو ساری چھٹیاں ناراضگی کی نذر ہو جائیں گی۔‘‘
اَب اُس آدمی کا پارہ اور چڑھ گیا، وہ بولا۔ ’’آپ دیش دروہی ہیں۔ آپ کے من اپنے دیش کا مان سمان کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ وِدیش کی دھرتی پر اس طرح اپنی ماتر بھومی کا اپمان کرتے ہیں۔ آپ کو شرم آنی چاہئے۔‘‘
’’مجھے … ؟‘‘ کرشنن ہنسا۔ ’’آپ جیسے دیش بھگتوں نے ساری دُنیا کے سامنے دیش کا نام بدنام کر رکھا ہے۔ ہم لوگوں کو کسی کے آگے سر اُٹھا کر بات کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔ اب کیسا مان سمان؟ ایک سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسرا کارنامہ کر گزرتے ہیں۔ بابری مسجد گرائی اور اس کا گرد و غبار ابھی بیٹھا نہ تھا کہ گجرات سے شعلے اُٹھنے لگے۔ کشمیر میں اینکاؤنٹر ہوتے ہی تھے کہ گجرات، مہاراشٹر بلکہ دہلی میں بھی حکومت کی سرپرستی میں یہ کھیل ہونے لگا ہے۔‘‘
’’آپ مجھے گالی دے ر ہے ہیں۔‘‘
’’میں گالی نہیں دے رہا، میں حقیقت بیان کر رہا ہوں۔‘‘
’’یہ ہمارے دشمنوں کا پروپگنڈا ہے جس میں آپ جیسے بے وقوف لوگ آ جاتے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں … ہم بے وقوف لوگ ہیں جو اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آپ کی پارٹی کا صدر دہلی میں رِشوت لے رہا ہے۔ آپ کی پارٹی کا لیڈر بھوپال میں عصمت دری کر رہا ہے۔ مسجد کو گرایا جا رہا ہے ، معصوم بچوں کو ترشول پر اُٹھایا جا رہا ہے۔‘‘
اب وہ اپنی کرسی سے کھڑا ہو چکا تھا۔ وہ بولا۔ ’’اگر میرے بس میں ہو تو میں ان سارے ٹی۔وی۔ چینلس کو آگ لگا دوں۔‘‘
’’اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو!‘‘ کرشنن بولا۔ ’’سبھی کو اندھا اور بہرہ کر دو تاکہ ان کے سامنے سچائی آئے تب بھی دِکھائی نہ دے۔‘‘
رادھا بولی۔ ’’آپ لوگ بلاوجہ لڑ رہے ہیں۔ فلائٹ کا وقت قریب ہے ، پیچھے قطار طویل سے طویل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
کرشنن بولا۔ ’’اس کو دیکھو جسے اندھا اور بہرہ کر دیا گیا ہے۔ اُس کے آقا چاہتے ہیں کہ ساری دُنیا اُس جیسی ہو جائے۔‘‘
رادھا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آج کرشنن کو کیا ہو گیا! وہ بولی۔ ’’کرشنن تم سیاست میں اس قدر دلچسپی رکھتے ہو، مجھے آپ پتہ چلا۔‘‘
کرشنن بولا۔ ’’ایک عام ہندوستانی کو سیاست میں دلچسپی لینی نہیں پڑتی۔ ہمارے لئے سیاست ویسی ہی ہے جیسے مچھلی کے لئے پانی۔ ہم اسی میں بستے ہیں، جیتے ہیں، مرتے ، کھاتے پیتے ہیں اور سوتے جاگتے ہیں۔‘‘
اِس دوران وہ شخص اندازے سے نمبر ٹائپ کر رہا تھا۔ جس میں کسی عرب کا نام آ گیا۔ اُس نے اوپر نیچے دیکھا تو اوپر لکھا تھا کرشنا اور اس کے ساتھ لکھا تھا میرا اور کانن۔‘‘
اس نے پوچھا۔ ’’آپ کا نام کرشنا ہے ؟‘‘
کرشنن بولا۔ ’’ہاں۔‘‘
’’اور آپ کا نام میرا ہے ؟‘‘
’’نہیں … رادھا۔‘‘
’’میرا اور رادھا ایک ہی بات ہے۔‘‘ اُس نے دو بورڈنگ کارڈ نکال کر اُن کو تھمائے اور کہا۔ ’’چلئے ہٹیے۔‘‘
کرشنن اور رادھا کو غصہ تو بہت آیا، لیکن وہ لوگ ہٹ گئے۔ ایک تو بدتمیزی اور دوسرے غلط نام۔ وہ دونوں ریسٹورنٹ میں آ کر پیپسی پینے لگے۔ دونوں کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اُدھر ایک اور کاؤنٹر پر کرشنا۔ میرا اور کانن کھڑے تھے اور کاؤنٹر کلرک اُن سے کہہ رہا تھا … ’’جناب! آپ کا اور میرا کے نام کا بورڈنگ کارڈ تو دیا جا چکا ہے۔ ہاں، صرف کانن کا باقی ہے ، سو وہ آپ لے لیں۔‘‘
’’کیا … ؟‘‘ کرشنا بولا۔ ’’میرا بورڈنگ کس نے لے لیا، میں نے تو نہیں لیا۔‘‘
’’آپ نے نہیں لیا تو ہم کیا کر سکتے ہیں جناب؟ کمپیوٹر کے مطابق آپ کا بورڈنگ کارڈ بیس منٹ پہلے دیا جا چکا ہے۔‘‘
’’کیا مذاق کرتے ہو؟ ذرا ٹھیک سے دیکھو … میں تو ابھی پانچ منٹ پہلے ائیر پورٹ پہنچا ہوں۔ بیس منٹ پہلے تو میں گاڑی میں تھا۔‘‘
’’جی جناب، آپ بجا فرماتے ہیں۔ میں نے تو یہ نہیں کہا کہ آپ کہاں تھے ؟ کیا کر رہے تھے ؟ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہمارے کمپیوٹر کے مطابق آپ کا بورڈنگ کارڈ دیا جا چکا ہے ، اس لئے میں مجبور ہوں۔‘‘
’’آپ مجبور ہیں ! کیا مطلب؟ آپ کے کمپیوٹر کا دماغ خراب ہے۔‘‘
’’جناب آپ کیسی بات کرتے ہیں ! کمپیوٹر میں دماغ کہاں ہوتا ہے ؟‘‘
’’ٹھیک ہے لیکن آپ کا کمپیوٹر غلط ہے ، جھوٹا ہے آپ کا کمپیوٹر!‘‘ کرشنا نے تاؤ میں آ کر کہا۔
اُس نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’جناب آپ صحیح کہتے ہیں۔ لیکن کمپیوٹر جھوٹ نہیں کہتا، وہ غلطی نہیں کرتا۔ یہ سب تو انسان کی خصلتیں ہیں۔‘‘
’’ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ اس کو دماغ نہیں ہوتا اور اب کہہ رہے ہو کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا، جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘‘
’’جی ہاں جناب … ‘‘ وہ بولا۔ ’’جھوٹ بولنے کے لئے دماغ چاہئے ، اب جس کے پاس دماغ ہی نہ ہو وہ بھلا جھوٹ کیسے بولے ؟‘‘
کرشنا اس کی منطق کے آگے زِچ ہو گیا۔ لیکن اس منطق سے اس کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس لیے کہ بورڈنگ کارڈ کے بغیر وہ جہاز میں سفر نہیں کر سکتا تھا۔ کرشنا نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا۔ ’’اچھا اب آپ میرے لئے کیا کر سکتے ہیں ؟‘‘
’’میں، میں آپ کو کانن کا بورڈنگ کارڈ دے سکتا ہوں۔ اس کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتا، اور اس کے لئے آپ سے معذرت چاہتا ہو ں۔‘‘
کرشنا کا مسئلہ پھر اُلجھ گیا۔ میرا کا بھی پارہ چڑھ گیا تھا، وہ بولی۔ ’’آپ کچھ نہیں کر سکتے تو ہماری مدد کون کر سکتا ہے … ؟ بتلائیے … ؟‘ ‘
وہ پھر مسکرایا اور بولا۔ ’’آپ بہت ذہین خاتون ہیں۔ بڑا اچھا سوال آپ نے پوچھا ہے۔ دراصل آ پ کی مدد ہمارے منیجر صاحب کر سکتے ہیں۔‘‘
’’اچھا … تو کہاں ہے تمہارا منیجر؟‘‘
’’ہمارے منیجر صاحب تو ممبئی میں ہیں ؟‘‘
’’منیجر ممبئی میں … ؟ کیا مذاق کرتے ہو۔ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے ؟ تمہارے منیجر ممبئی میں ہیں ؟‘‘ کرشنا نے چڑ کر کہا۔
وہ پھر مسکرا کر بولا۔ ’’جی نہیں۔ شاید آپ کا دماغی توازن بگڑ رہا ہے۔ میرے منیجر کو ممبئی ہی میں ہونا چاہئے۔‘‘
کرشنا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، وہ بولا۔ ’’اچھا، اب ہم کیا کریں ؟ ہمارے پاس ٹکٹ ہے۔ آپ کا کمپیوٹر بورڈنگ کارڈ نہیں دیتا ہے۔ اگر ہم نہ جا سکے تو کانن کے ٹکٹ کا کیا ہو گا؟‘‘
’’وہ ٹکٹ ڈوب جائے گا جناب! اس لئے کہ آپ کو چوبیس گھنٹے پہلے اطلاع دینا ضروری تھا، جو آپ نے نہیں دیا۔‘‘
’’لیکن مجھے تو جانا تھا، میں اطلاع کیوں دیتا؟‘‘
’’جی جناب! آپ صحیح فرماتے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو میں کیا کروں ؟ اب آپ بتائیں۔‘‘
اُس شخص نے ایک لمحہ غور کیا اور کہا۔ ’’آپ ایک کام کریں۔ نیا ٹکٹ خرید لیں اور اُس پر سفر کریں۔‘‘
’’لیکن پھر یہ ٹکٹ؟‘‘
’’اِس کے پیسے واپس لے لیں۔‘‘
’’واپس؟ یہ کیسے ممکن ہے ؟‘‘
’’کیوں نہیں ممکن؟ آپ نے ٹکٹ خریدا اور اس پر سفر نہیں کیا تو روپئے واپس ملنے ہی چاہئیں۔‘‘
’’پھر کانن کو کیوں نہیں ملیں گے ؟‘‘
’’اس لئے کہ وہ سفر نہیں کرے گا۔‘‘
’’پھر ہمیں کیسے ملیں گے ؟‘‘
’’اس لئے کہ آپ سفر کریں گے۔‘‘ وہ نہایت ٹھنڈے دماغ سے جواب دے رہا تھا۔
’’لیکن میں اِس ٹکٹ سے تو سفر نہیں کر رہا ہوں۔‘‘
’’اُس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ آپ سفر تو کر ہی رہے ہیں۔‘‘
’’تمہاری منطق میری سمجھ میں نہیں آتی۔ ایک ٹکٹ پر سفر نہ کرنے سے پیسے واپس اور دوسرے پر نہیں۔ یہ کیا چکر ہے ؟‘‘
’’صاحب … اِس میں کوئی چکر نہیں ہے۔ آپ نے سفر کیا، یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ آپ یہاں وقت پر آ گئے تھے۔ لیکن چونکہ کانن نے سفر نہیں کیا، اس لئے ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘‘
’’یہ قانونی ہیر پھیر میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا میں تمہارے منیجر سے مل سکتا ہوں ؟‘‘
’’جی ہاں ضرور … آپ اُن سے مل سکتے ہیں۔ لیکن اِس کے لئے بھی آپ کو ٹکٹ خریدنا پڑے گا۔ اس لئے کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ وہ ممبئی میں ہیں۔‘‘
کرشنا بالکل باؤلا ہو گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا، وہ بولا۔ ’’اچھا چلو مجھے نیا ٹکٹ دو۔‘‘
’’دیکھیں جناب … وہ جو آخری کھڑکی ہے ، اُس پر ٹکٹ بکتا ہے۔ آپ وہاں سے نیا ٹکٹ خریدیں اور میرے پاس آئیں۔ میں آپ کو بورڈنگ پاس دے دوں گا۔‘‘
’’جہاز میں جگہ تو ہے۔‘‘
’’جی ہاں جناب … آدھے سے زیادہ جہاز خالی ہے۔‘‘
کرشنا اب اُس کاؤنٹر کی طرف لپکا اور وہاں پہنچ کر بولا۔ ’’مجھے ممبئی جانے والی فلائٹ کے دو ٹکٹ چاہیں۔‘‘
وہاں بیٹھی خاتون مسکرائی اور بولی۔ ’’ہماری اگلی فلائٹ شام آٹھ بجے ہے۔ یہ وقت آپ کے لئے مناسب ہے ؟‘‘
’’رات آٹھ بجے … کیسی بات کرتی ہیں ؟ مجھے تو ابھی جانے والی فلائٹ کا ٹکٹ چاہیے۔‘‘
’’اوہو … وہ تو ممکن نہیں ہے۔‘‘
’’ابھی ابھی مجھے بتلایا گیا کہ جہاز نصف سے زیادہ خالی ہے اور آپ ٹکٹ نہیں دے رہی ہیں۔‘‘
’’جناب مجھے پتہ ہے کہ جہاز میں نصف نشستیں خالی ہیں۔ لیکن آپ نے آنے میں تاخیر کی، بکنگ بند ہو چکی ہے۔‘‘
’’کیسی بات کرتی ہیں ؟ ابھی ابھی تو لوگ بورڈنگ کارڈ لے کر گئے ہیں۔ ابھی تو وہ پہنچے بھی نہ ہوں گے۔‘‘
’’آپ صحیح کہتے ہیں۔ جہاز کا دروازہ نہیں کمپیوٹر کی بکنگ بند ہو چکی ہے۔ یہ ایک گھنٹہ قبل بند ہو جاتی ہے۔ ‘‘
’’بند ہو جاتی ہیں ؟ کیا مطلب؟ اُسے کھولئے۔‘‘
’’نہیں جناب … یہ کمپیوٹر کا معاملہ ہے۔ اپنے آپ کھلتا ہے اور اپنے آپ بند ہو جاتا ہے۔ ہم اس میں کوئی دخل اندازی نہیں کر سکتے۔‘‘
میرا بولی۔ ’’ہم منیجر سے بات کریں گے۔‘‘
کرشنا بولا۔ ’’وہ ممبئی میں ہے۔‘‘
کھڑکی کے اندر بیٹھی خاتون بولی۔ ’’منیجر ممبئی میں ہے تو کیا ہوا؟ ہمارا سپروائزر تو یہاں موجود ہے۔ آپ اُن سے بات کریں، وہ شاید آپ کی کوئی مدد کر سکے۔‘‘
ڈوبتے کو تنکے سہارا … کرشنا بولا۔ ’’جی ہاں جی ہاں، شکریہ! کہاں ہے آپ کا سپروائزر؟‘‘
’’وہ دوسرے کونے پر ایک کھڑکی ہے ، اُس میں ہمارے سپروائزر صاحب بیٹھے ہوں گے۔ آپ اُن سے بات کیجئے۔‘‘
کرشنا نے دُور کھڑکی پر نظر ڈالی اور میرا سے کہا۔ ’’میرا ایک کام کرو۔ تم کانن اور سامان کے ساتھ یہیں رُکو، میں وہاں جا کر آتا ہوں۔‘‘
کرشنا جب وہاں پہنچا تو اُس کھڑکی پر ہنگامہ برپا تھا۔ کرشنن سپروائزر سے لڑ رہا تھا۔
’’اِس میں میری کیا غلطی ہے ؟ اگر تمہارا اسٹاف اور تمہارا کمپیوٹر میرا نام کرشنن کے بجائے کرشنا لکھے اور میری بیوی کا نام رادھا کے بجائے میرا لکھے تو اس میں میری کیا غلطی ہے ؟‘‘
’’نہیں جناب … آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دوسرے کے نام پر سفر کرنا جرم ہے۔ آپ اِس جرم کی پاداش میں جیل جا سکتے تھے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ کرشنن بولا۔ ’’لیکن اِس ٹکٹ پر نام میں نے تو نہیں لکھا۔‘‘
’’مسئلہ نام لکھنے کا نہیں ہے۔ مسئلہ غلط نام کے ٹکٹ پر سفر کرنے کا ہے ، جو آپ کرنے جا رہے تھے ، جسے دبئی کے محکمہ خارجہ نے دیکھ لیا ہے۔ وہ تو خیر ہوئی جو انہوں نے تمہیں ہمارے پاس بھیج دیا۔ اگر پولیس کے حوالے کر دیتے تو مسئلہ پیچیدہ ہو جاتا۔‘‘
’’پولیس؟‘‘ کرشنن بولا۔ ’’ہماری کیا غلطی ہے ؟ ہم کیوں جیل جاتے ؟‘‘
سپروائزر بولا۔ ’’جناب میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ آپ کیوں جیل جاتے ؟ آپ غلط ٹکٹ سے سفر کر رہے تھے اور اُس کے باوجود آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کیوں جیل جاتے ؟‘‘
کرشنن کو غصہ آ گیا۔ اُس نے بورڈنگ کارڈ کو پھاڑ کر پھینک دیا۔
اُس کے پیچھے کھڑے کرشنا نے دیکھا کہ پھٹے ہوئے بورڈنگ کارڈ پر اُس کا نام لکھا ہوا ہے اور دوسرے پر اس کی بیوی میرا کا نام لکھا ہوا ہے۔
وہ بولا۔ ’’واہ واہ میرا کام ہو گیا۔ یہ میرا بورڈنگ کارڈ ہے۔ مجھے ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ اَب میں سفر کر سکتا ہوں۔‘‘ وہ پھٹے ہوئے بورڈنگ کارڈ کو اُٹھا کر پہلے والے کاؤنٹر کی جا نب بھاگا جہاں سے اُسے کانن کا بورڈنگ کارڈ لینا تھا۔ کرشنن کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ وہ بھی کرشنا کے پیچھے لگ گیا اور اندر کی طرف سے سپروائزر بھی اُسی کاؤنٹر پر پہنچ گیا۔ کاؤنٹر کلرک نے کہا۔ ’’لائیے جناب آپ کا نیا ٹکٹ لائیے۔‘‘
’’نیا ٹکٹ … کیسا نیا ٹکٹ؟ مجھے اس کی ضرورت نہیں ! یہ لو کانن کا ٹکٹ اور اس کا بورڈنگ کار ڈ دو۔ میرے پاس میرا اور میری بیوی میرا کا بورڈنگ کارڈ موجود ہے۔ میں تو چلا ممبئی۔‘‘ اَب کرشنن کی سمجھ میں کچھ کچھ آنے لگا تھا۔ اُس نے کہا جناب! اگر یہ بورڈنگ کارڈ آپ کا ہے تو میرا کہاں ہے ؟‘‘
کرشنا بولا۔ ’’میں نہیں جانتا۔ جب میں بورڈنگ کارڈ لینے کے لئے آیا تو اس نے کہا یہ پہلے ہی دیا جا چکا ہے۔‘‘
سپروائزر یہ باتیں سن رہا تھا۔ اُس نے کرشنا سے اُس کا اور میرا کا ٹکٹ مانگا۔ اُس میں دبئی ممبئی کا صفحہ محفوظ تھا اور اِس کے باوجود بورڈنگ کارڈ دیا جا چکا تھا۔ وہ سمجھ گیا۔ اس نے مسافروں کی فہرست طلب کی جس میں کرشنن اور رادھا غیر موجود مسافر کی حیثیت سے دِکھلائے گئے تھے ، جو اُس کی آنکھوں کے سامنے موجود تھے۔ اُس نے کرشنا کو میرا کے ٹکٹ سے وہ دو صفحات الگ کئے اور کاؤنٹر کلرک سے کہا۔
’’وہ پھٹے ہوے بورڈنگ کارڈ واپس لے کر اُس کے بدلے اوّل درجے کے نئے کارڈ پرنٹ کر کے اِنہیں دے دو۔‘‘ اور واکی ٹاکی پر جہاز میں بات کی اور کہا جہاز کم از کم آدھا گھنٹہ تاخیر سے جائے گا۔ پانچ نہایت ہی اہم فرسٹ کلاس کی سواریاں آ رہی ہیں، اُن کا خاص خیال رکھا جائے۔ اس کے بعد اس نے کرشنن سے اُس کا اور رادھا کا ٹکٹ لیا۔ کرشنا کے لئے نئے بورڈنگ کارڈ تیار کروائے اور ان کے حوالے کر دئیے۔ کرشنن کی جان میں جان آ گئی۔ سپروائزر نے اُن سے معذرت طلب کی اور بولا۔
’’غلطی ہو گئی۔ ہم اس کے لئے معافی چاہتے ہیں۔ ہماری وجہ سے آپ کو اور اِن کو … دونوں کو زحمت ہوئی۔ لیکن اس کے بدلے ہم نے آپ کے ٹکٹوں کو بلا معاوضہ اوّل درجہ میں تبدیل کر دیا ہے۔‘‘
سپروائزر کی اس خوشی خلقی سے چاروں لوگ خوش ہو گئے۔ لیکن جب وہ جہاز میں آئے تو پتہ چلا کہ پورا اوّل درجہ خالی تھا۔ سپروائزر نے سوچا اُسے خالی بھیجنے سے اچھا ہے اِن لوگوں کو اِس میں ڈال دیا جائے۔ جب خاطر مدارت ہو جائے گی تو شاید کچھ بدمزگی کم ہو جائے۔
اوّل درجہ کی بارہ نشستوں پر کل پانچ مسافر تھے جن میں سے چار بالغ اور ایک بچہ۔ جہاز کے اُڑنے سے قبل ہی رادھا اور میرا کی دوستی ہو گئی اور تھوڑی دیر بعد کرشنن اور کرشنا کے درمیان بھی شناسائی ہو گئی۔ کرشنا نے اُسے بتلایا کہ ائیرانڈیا کی اِن ہی حرکات کے باعث اُس نے گلف ائیر سے سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن اس کا خیال تھا کہ یہ نجی ہوائی کمپنی ہے ، اس لئے یہاں حالت بہتر ہو گی۔‘‘
کرشنن بولا۔ ’’میرا بھی یہ اوّلین تجربہ ہے۔ چونکہ مجھے ہندوستان درشن کرنا ہے ، اس لئے میں نے جیٹ کا دائرہ نما ٹکٹ خرید لیا۔ لیکن یہ لوگ اِس قدر بدتمیز اور غیر ذمہ دار ہوں گے ، یہ میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔‘‘
’’بدتمیز نہیں ! میرے ساتھ کوئی بدتمیزی تو نہیں ہوئی۔ ہر بات کا جواب نہایت نرمی سے دیا گیا۔ لیکن نتیجہ اس کے باوجود صفر کا صفر ہی رہا۔ وہ تو اچھا ہوا تمہیں دبئی کے افسران نے روک لیا ورنہ میری فلائٹ بھی جاتی اور کانن کا ٹکٹ بھی ڈوب جاتا۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ کرشنن بولا۔ ’’میں بھی یہی سوچتا اگر مجھے دبئی کے بجائے ممبئی میں پکڑ لیا جاتا تو کثیر رشوت کے بغیر رہائی نصیب نہ ہوتی۔‘‘
کرشنا نے تائید کی، وہ بولا۔ ’’نہ جانے ہمارے افسران غیر ممالک میں رہنے والے ہندوستانیوں کو کیا سمجھتے ہیں ؟ وہ سوچتے ہیں کہ یہاں کوئی روپیوں کا پیڑ ہے جن میں سے نوٹ توڑ توڑ کر ہم واپس لاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ خود اپنے ملک کے مقابلے کس قدر زیادہ کام یہاں کرنا پڑتا ہے ؟ کس قدر دقتوں کا سامنا یہاں کیا جاتا ہے ؟‘‘
’’مجھے تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہمارا اپنے ملک جانا گویا کوئی جرم ہے۔ ہر کوئی ہمیں مشکوک نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ جبکہ یہ معاملہ صرف ہم وطنوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ غیرملکیوں کے آگے ہمارے افسر بچھے جاتے ہیں اور اپنوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ عجیب مصیبت ہے۔‘‘
اُدھر رادھا اور میرا نے اس حادثے کو پوری طرح بھلا دیا تھا۔ رادھا اُسے اپنی شادی کے بارے میں، گھر والوں کے بارے میں، دعوتوں کے بارے میں بتلا رہی تھی، اور میرا اپنے گاؤں کے بارے میں اطلاعات فراہم کر رہی تھی۔ اس نے بتلایا کہ گزشتہ دنوں اُس کی ساس کا انتقال ہو گیا تھا، جس کا علاج وہ دبئی میں کروانا چاہتے تھے۔ اس کے لئے این۔ ایم۔ سی۔ کے مالک ڈاکٹر شیٹی تک سے کرشنا نے بات کر لی تھی۔
اُس نے رادھا کو اس کے سسر انجیا اور رحمٰن چاچا کی بے مثال دوستی کے بارے میں بتلایا، اصغر اور کرشنا کے تعلقات کے بارے میں بھی۔ کانن اور سلطان کی دوستی بھی گفتگو کا موضوع بن گئی۔ گویا سب کچھ بتلا دیا، میرا نے اپنی زندگی کی کتاب کا ایک ایک صفحہ اپنی سہیلی کے سامنے کھول دیا۔ اس نے بیگ سے فوٹو کی بڑی سی البم نکالی اور اپنے ایک ایک رشتہ دار کا تعارف کرانے لگی۔ میرا نے اس سے کہا کہ وہ بیجاپور ضرور آئے ، وہاں سے اُن کا گاؤں ٹمکور بہت قریب ہے۔ میرا نے اسے اپنے گاؤں میں آ کر چند دن گزارنے کی دعوت دی۔ رادھا نے بھی وعدہ کیا کہ وہ بنگلور آنے کے بعد اُس سے رابطہ قائم کرے گی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے فون نمبر لئے۔ رادھا کے لئے رحمٰن چاچا اور انجیا کی شخصیت میں خاصی دلچسپی پید ا ہو گئی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آج کل کے مادہ پرستانہ ماحول میں اس طرح کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ لیکن و ہ جانتی تھی کہ حقائق کا دائرہ تصور سے ماورا ہوتا ہے۔ تصورات کی اُڑان حقیقتوں کی و سعت کے بالمقابل ہمیشہ تنگ دامانی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس دُنیا میں وہ سب وقوع پذیر ہوتا رہتا ہے جو انسان سوچتا ہے ، لیکن جس کا انسان وہم و گمان نہیں کر سکتا، وہ سب ہو بھی جاتا ہے۔
میرا کی داستان سننے کے بعد پہلی مرتبہ رادھا کے دل میں کچھ لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اُس نے اِرادہ کیا کہ وہ ہندوستان میں قیام کے دوران رحمٰن چاچا اور انجیا سے ضرور ملاقات کرے گی اور کوشش کرے گی کہ اُن کی زندگی کا افسانہ قلمبند کرے۔ رادھا نے اپنی زندگی کے ایک ایسے مرحلے میں قدم رکھ دیا تھا جس کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتی تھی۔ کرشنا اور کرشنن کھا پی کر سوگئے تھے ، لیکن یہ دو عورتیں بولتی رہیں۔ کانن اسکرین پر کمپیوٹر کھیل کھیلتا رہا۔ یہاں تک کہ جہاز ممبئی پہنچ گیا۔ اس کے بعد کرشنن اور رادھا اپنی اگلی فلائٹ کے لئے اندرون ملک ہوائی اڈے پر آ گئے اور میرا، کرشنا اور کانن کے ساتھ اپنی بہن سمیرا کے گھر چلی گئی۔
گھرواپسی
گاؤں پہنچنے کے بعد کرشنن کا زبردست استقبال کیا گیا۔ اُس گاؤں کی روایت تو یہ تھی کہ مشرق وسطیٰ یا امریکہ و برطانیہ میں رہنے والے لوگ یہاں آتے اور اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کر کے اُسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ لیکن کرشنن اپنی دلہن اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس سے پہلے دوچار لوگ اپنی گوری دلہنوں کے ساتھ بھی آئے تھے ، لیکن شادی کے کئی سال بعد۔ کرشنن کا یہ کہنا کہ وہ اپنی منگیتر کے ساتھ آیا ہے اور یہاں گاؤں کے بڑے مندر میں اپنی ہونے والی بیوی کے ساتھ سات پھیرے لے کر اُسے اپنے نکاح میں لے گا، ایک چونکا دینے والی خبر تھی۔
دُلہن کا نام رادھا بالکل اُن کے اپنے گاؤں کی کسی لڑکی جیسا تھا۔ لوگوں کو بس پریشانی اِس بات پر تھی کہ دُلہن کی جانب سے کوئی بھی اُس کے ساتھ نہیں آیا تھا۔ ایسا اِس سے پہلے کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔ عوام کے اندر یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں تھیں کہ شاید یہ لڑکی اپنے والدین کی مرضی کے خلاف کرشنن کے ساتھ بھاگ آئی ہے۔ اس وجہ سے اُن میں سے کوئی نہیں آیا۔ لیکن اس طرح کی شادی میں خطرات بھی تھے۔ اگر وہ عین وقت پر پہنچ جائیں اور ہنگامہ کر دیں یا پولیس تھانے میں جا کر الزام لگا دیں کہ اُن کی لڑکی کا اغوا ہو گیا ہے تو گڑبڑ ہوسکتی ہے۔‘‘
رادھا اور کرشنن جانتے تھے کہ اصل حقیقت کچھ اور ہے۔ رادھا کے لئے یہ سارا ڈرامہ بے معنیٰ تھا۔ لیکن کرشنن کے لئے اِس کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ اُس کے وقار کا مسئلہ تھا۔ اس تقریب کے ذریعہ کرشنن رادھا کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ اُس کا اپنا منفرد وجود ہے ، اُس کی اپنی جداگانہ شخصیت ہے ، تہذیب تمدن اور مذہب ہے ، اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ رادھا کے نکاح میں نہیں گیا بلکہ رادھا اُس کے نکاح میں آئی ہے۔ مرد کی قوامیت کسی نہ کسی بہانے اپنا اعتراف کروانا چاہتی تھی۔ کرشنن کے لئے یہی موقع تھا۔
رادھا کو کرشنن کی قوامیت پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ وہ تو اس سے راضی اور خوش تھی۔ اس لئے اُسے کسی قسم کی اُلجھن نہیں تھی۔ وہ کرشنن کو خوش رکھنا اور خوش دیکھنا چاہتی تھی، اِس کے لئے بس یہ بات کافی تھی کہ اِس حماقت سے کرشنن کو خوشی ہو گی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اُسے اپنے لئے باعث سعادت سمجھ رہی تھی۔ ائیرپورٹ پر کرشنن کے کئی دوست اُسے لینے کے لئے آئے تھے ، جن میں سے ایک اُس کا لنگوٹیا یار احمد کٹی بھی تھا۔
کرشنن کے ابوظبی جانے سے قبل احمد کٹی اس کا یار غار تھا۔ وہ اپنی بیوی، بہن اور بھائی کے ساتھ آیا تھا۔ ایئرپورٹ سے ہی اُس کی بہن ثمینہ نے رادھا کو اپنے ساتھ کر لیا۔ سب سے پہلے منہ میٹھا کروایا اور پھر اپنی علیحدہ گاڑی میں لے گئی۔ اُس نے رادھا سے کہا۔
’’دیکھو، شادی تین دن بعد ہے۔ اب تم اِن تین دنوں میں کرشنن سے نہیں مل سکتیں۔ ہمارے گاؤں میں ویسے تو سبھی ایک دُوسرے کو جانتے پہچانتے ہیں، لیکن جب شادی طے ہو جاتی ہے تو اُن کا میل جول بند ہو جاتا ہے۔‘‘
رادھا کے لئے یہ اُلٹی منطق تھی۔ اُس کے خیال میں شادی کے طے ہو جانے کے بعد اُن کا ملنا جلنا شروع ہونا چاہئے۔ رادھا نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں میں ہے یا سبھی لوگ اِن روایات کی پاسداری کرتے ہیں۔ اُسے پتہ چلا تھا کہ گاؤں کے رسوم رواج عام طور پر سبھی کے لئے مشترک ہوتے ہیں۔ عبادت کا طریقہ ہر ایک کا مختلف ہوتا ہے۔ رادھا کے لئے یہ نیا تجربہ تھا۔ گاؤں میں کرشنن کی کئی رشتہ دار خواتین نے آ کر اُس سے ملاقات کی، اُسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور رادھا ثمینہ کے ساتھ اُن کے گھر آتی جاتی بھی رہی۔ لیکن قیام ثمینہ ہی کے مکان میں رہا۔
ایک طویل عرصے کے بعد رادھا اور کرشنن اِس طویل ہجر سے دوچار ہوئے تھے۔ تین دن اُن کے لئے تیس سال سے زیادہ تھے۔ فون پر وہ لوگ ایک دُوسرے سے باتیں کر کے اپنے آپ کو مطمئن کر لیا کرتے تھے۔ لیکن فون کی گفتگو کے دوران بھی اگر کوئی آ ٹپکتا تو رادھا کے اندر ایک احساسِ جرم پیدا ہو جاتا۔ یہاں آنے سے قبل رادھا اُس احساس کا تصوّر تک نہ کر سکتی تھی لیکن گاؤں کے ماحول میں اپنے آپ یہ سب ہو چکا تھا۔
کرشنن اپنے دوستوں کے ساتھ شادی کی تیاریوں میں لگا ہوا تھا۔ اُس کے قریبی رشتہ داروں میں بڑے بوڑھوں کے علاوہ کوئی بھی گاؤں میں نہیں تھا۔ اِس کے باوجود سارا گاؤں اس کا معاون بنا ہوا تھا۔ کئی کام تھے ، لوگوں کو دعوت دینا، نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ آس پاس کے گاؤں سے بھی رشتہ داروں کو بلانا، مندر کی تیاریاں، گھر کی تیاری۔ اس کے بڑے بھائی کا ایک ویران گھر عرصۂ دراز سے بھوت بنگلہ بنا ہوا تھا۔ اُسے قابلِ رہائش بنانا ایک مشکل ترین کام تھا۔ رادھا کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ گاؤں کی زندگی، سیر و تفریح، کھیت، باغ، ندی، سبزہ، یہ سب کس قدر خوشگوار تھا۔ اُسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ہر روز اس کی عمر کئی سال کم ہو جاتی ہے۔
شادی کے دن رادھا کے سامنے کیرالا کے براہمنوں کا روایتی لباس رکھا گیا، جس کو پہننا رادھا کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا۔ ثمینہ نے اس کی مدد کی۔ ہلدی، مہندی اور عجیب و غریب لباس ایک حیرت انگیز تجربہ تھا، جس سے رادھا گزر رہی تھی اور پھر جب وہ مندر پہنچی تو کرشنن بھی اُسے پہچان نہ سکا۔ دوسری طرف کرشنن بھی سر سے لے کر پیر تک بدلا ہوا تھا۔ عجیب و غریب بالوں کا انداز، کھلا سینہ، سفید دھوتی، ماتھے پر بڑا سا تلک، اور نہ جانے کیا کیا۔
ان دونوں کو ایک دُوسرے کے پاس پاس بٹھا دیا گیا۔ گاؤں کا پُجاری منتر پڑھتا جا رہا تھا جو رادھا کو تو کیا، کرشنن کی سمجھ میں بھی نہ آتے تھے۔ اُن کے سامنے آگ روشن تھی۔ رادھا کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ کرشنن کو دیکھے ، لیکن اُسے لوگوں کے سامنے ایسا کرتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی تھی۔ نہ جانے یہ جھجک اور حیا کہاں سے اس کے اندر سما گئی تھی۔ پُجاری کے کہنے پر وہ لوگ دیر تک آگ میں کچھ کچھ ڈالتے رہے۔ جیسے جیسے کرشنن کرتا جاتا، رادھا بھی اس کی نقالی کرتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ اُن دونوں کو کھڑے ہونے کا حکم ہوا رادھا کے کندھے پر پڑے دوپٹے کو کرشنن کے کاندھے پر پڑی چادر سے باندھ دیا گیا … اور پھر شروع ہو گئے پھیرے … پہلے کرشنن آگے اور رادھا پیچھے اور پھر رادھا آگے اور کرشنن پیچھے۔
گویا رسم نکاح ادا ہو گئی۔ جس میں شروع میں شوہر آگے ہوتا ہے ، لیکن چند پھیروں کے بعد پیچھے چلا جاتا ہے اور گرہستی کی باگ ڈور بیوی کے ہاتھ آ جاتی ہے۔ آخر میں دونوں نے ایک دوسرے کے گلے میں ہار پہنایا۔ سارے لوگوں نے متبرک سمجھے جانے والے چاول کے دانوں کو اُن پر برسایا۔ گویا چاول کے خوشوں کی طرح پھلنے پھولنے کی دُعا دی گئی ہو۔ اس کے بعد یہ دونوں آ کر دو کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
احمد کٹی نے پانی کی بالٹی، لوٹا اور چوڑا سا برتن لا کر کرشنن کے پیروں کے قریب رکھا اور احمد کا بڑا بھائی عبداللہ نے کرشنن کے پیر دھلوائے۔ رادھا نے پوچھا۔ ’’یہ کیا ہے ؟‘‘
کرشنن بولا۔ ’’یہ دراصل تمہارے والد کے کرنے کا کام ہے جو عبداللہ کر رہا ہے۔ فی الحال احمد کے گھر کی سب سے بزرگ شخصیت وہی تھا۔‘‘
رادھا سوچ رہی تھی کہ عبداللہ جو کچھ اُس کی خاطر کر رہا تھا، شاید اس کا باپ گوپال سوامی ناتھن بھی نہ کرتا۔ خیر، اس رسم کے بعد مبارک سلامت کا سلسلہ شروع ہوا۔ تحفہ تحائف، گانا بجانا، کھانا پینا، سب کچھ اُسی مندر کے برآمدے میں ہو رہا تھا۔ یہ مندر نہ صرف عبادت گاہ بلکہ تقریب گاہ اور طعام گاہ بھی تھا۔ لوگ ایک قطار میں بیٹھے کیلے کے پتوں پر کھا رہے تھے۔ نہ کوئی کیٹرنگ کمپنی تھی اور نہ کوئی ویٹر گاؤں کے نوجوان مہمانوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ ہنسی مذاق، شور شرابہ، کس قدر زندگی تھی اس دعوت میں ! ابوظبی کی تمام دعوتوں کو اس تقریب نے پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اس میں کسی قدر مشابہت اگر تھی تو رضوان اور غضنفر کی دعوت سے … لیکن کہاں چند افراد اور کہاں سارا گاؤں۔ بچے ، بوڑھے ، جوان، عورتیں، ہر کوئی موجود تھا۔
رادھا کو اس روز واقعی یہ محسوس ہو رہا تھا کہ آج اُس کی شادی ہو رہی ہے۔ آج وہ ایک نئے گھر، ایک نئی تہذیب اور ایک نئی زندگی میں داخل ہو گئی ہے۔ مندر سے کرشنن اور رادھا کو ساتھ میں لا کر اُس مکان میں چھوڑ دیا گیا جو اُن کے لئے گزشتہ تین دن کی سخت محنت سے تیار کیا گیا تھا۔
تین دن کی جدائی کے بعد جب رادھا اور کرشنن ملے تو رادھا نے پوچھا۔ ’’کرشنن … گزشتہ تین دن کیسے گزرے ؟‘‘
کرشنن بولا۔ ’’سچ بتلاؤں رادھا … مجھے تو پتہ ہی نہ چلا کہ تین دن کہاں گئے ! دراصل یہ تیس دن کا کام تھا جو میں نے گزشتہ تین دنوں میں کیا۔ دن بھر مسلسل دوڑتا بھاگتا رہا اور رات ہوتے ہوتے اس قدر تھک کر چوُر ہو جاتا اور پھر نہ جانے کب صبح ہو جاتی اور میرے دوست آ جاتے … اُٹھو اُٹھو کرشنن … یہ کام باقی ہے ، وہ کام باقی، اور نہ جانے کیا کیا باقی ہے … پھر اُس کے بعد شروع ہو جاتی کبھی نہ ختم ہونے والی دوڑ … بس یوں سمجھ لو کہ ہانپتے کانپتے گزر گئے یہ تین دن۔‘‘
کرشنن چپ ہو گیا۔ رادھا سوالیہ نظروں سے دیکھتی رہی۔ اس اُمید میں کہ اُس سے بھی یہ سوال کیا جائے۔ جب اُمید کا چراغ گل ہو گیا تو رادھا بولی۔ ’’کرشنن … کیا تم مجھ سے یہی سوال نہیں کرو گے ؟‘‘
’’تم سے … ! ہاں ہاں، ضرور ضرور … کیوں نہیں ! ضرور کروں گا تم سے یہ سوال۔‘‘
را دھا ہنس کر بولی۔ ’’کیا سوال؟‘‘
’’و ہی … وہی سوال جو تم نے ابھی ابھی مجھ سے کیا تھا … وہی سوال۔‘‘
’’کیا سوال تھا وہ؟‘‘ رادھا نے پھر پوچھا۔
’’وہ کیا سوال تھا؟ ہاں … کیا سوال تھا … !! نہ جانے کیا سوال تھا؟ جو بھی سوال تھا، تم تو جانتی ہی ہو۔ تم ہی نے تو پوچھا تھا وہ۔‘‘ کرشنن بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا تھا۔
رادھا نے پوچھا۔ ’’کرشنن … کیا بات ہے آج اس قدر بوکھلاہٹ؟‘‘
’’وہ … بس یونہی، بس یونہی۔ دیکھو … ایسا ہوتا ہے … آج ہماری پہلی پہلی ملاقات ہے۔‘‘
’’پہلی ملاقات! تمہارا دماغ تو درست ہے ؟‘‘ رادھا نے پھر سوال کیا۔
’’دماغ … ؟ ہاں ہاں … دماغ! ہمارے اِس گھر میں ہم آج پہلی مرتبہ ہی تو ملے ہیں۔ اِس میں کیا غلط ہے ؟‘‘
رادھا بولی۔ ’’ہاں بات پوری نہیں کہتے۔ اس گھر میں تو ہم پہلی مرتبہ ہی ملے ہیں اور ہاں شادی کے بعد … میرا مطلب ہے باقاعدہ شادی کے بعد یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔‘‘
کرشنن بولا۔ ’’دیکھو … ہماری اس اوّلین ملاقات کے پیش نظر میرے دوستوں نے اِس کمرے کو کس اہتمام سے سجایا ہے۔‘‘
رادھا نے کہا۔ ’’کرشنن بات دراصل یہ ہے کہ تم اور تمہارے دوست سب کے سب پرلے درجے کے بے وقوف ہیں۔‘‘
’’کیا … بے وقوف؟ دیکھو رادھا، تم مجھے جو چاہو کہہ لو، لیکن میرے دوستوں کے لئے یہ القاب استعمال نہ کرو۔ تم تو جانتی ہو اُن لوگوں نے ہمارا کس قدر انتظار کیا۔ کیسا زبردست استقبال کیا اور تین دن تک دن رات ایک کر دیا میرے دوستوں نے۔ تمہیں اُن لوگوں کو بے وقوف نہیں کہنا چاہیے۔ اُنہیں کتنا بُرا لگے گا اگر پتہ چلے گا؟‘‘
’’پتہ کیسے چلے گا؟‘‘ رادھا بولی۔ ’’میں تو بولوں گی نہیں، اور اگر تم بول دو گے تو وہی ثابت ہو جائے گا جو میں بول رہی ہوں۔‘‘
’’رادھا، تم مذاق کرتی ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تم بہت اچھا مذاق کرتی ہو۔‘‘
رادھا بولی۔ ’’کون بے وقوف یہ کہتا ہے کہ میں اچھا مذاق کرتی ہوں۔ میں کچھ بھی اچھا نہیں کرتی … مذاق بھی نہیں۔ لیکن تم، کرشنن! میں کیا کہوں تمہارے بارے میں کہ تم کتنے اچھے ہو۔‘‘
’’دیکھو رادھا … اچھا کہو یا نہ کہو … لیکن بے وقوف نہ کہو۔‘‘
’’اچھا بابا … بے وقوف نہیں کہتی، عقلمند کہتی ہوں۔ تم دُنیا کے سب سے عقلمند انسان ہو۔‘‘
’’جی شکریہ … ! اور میرے دوست؟‘‘
’’ہاں، تمہارے دوستوں کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔‘‘
’’کیا سوچنا پڑے گا؟‘‘
’’یہی کہ اُن میں عقل ہے یا نہیں ؟‘‘
’’تو سوچو اور بتاؤ کہ اُن میں عقل ہے یا نہیں۔‘‘
’’دراصل تمہارے دوست … وہ تو تم سے بھی زیادہ عقلمند لوگ ہیں۔
’’اچھا! وہ کیسے ؟ کیسے پتہ چل گیا تمہیں ؟‘‘ کرشنن نے پوچھا۔
’’دراصل اُنہوں نے ایک بڑی عقلمندی کا کام کیا۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’یہی کہ انہوں تم کو مجھ سے تین دنوں کے لئے جدا کر دیا، اور دُوسرا عقلمندی کا کام یہ کیا کہ تمہیں بُری طرح مصروف کر دیا۔‘‘
’’اور تیسرا … ‘‘ کرشنن نے بات کاٹ دی … ’’تمہیں تنہا کر دیا اور بور کر دیا۔‘‘
رادھا نے کہا۔ ’’نہیں، غلط! میں تنہا کب؟ تھی میں تم سے دُور ضرور تھی، لیکن ایک لمحہ بھی تم سے جدا نہیں تھی۔ ہر لمحہ ہر لحظہ میں تمہارے بارے میں سوچتی رہتی۔ کرشنن میں کیا بتاؤں اِن تین دنوں میں میں نے تمہارے بارے میں کس قدر سوچا؟ کیا کیا سوچ ڈالا میں نے تمہارے بارے میں ؟ وہ تو اچھا ہوا کہ ہم عارضی طور پر تھوڑے سے دُور ہو گئے ، ورنہ خُدا کی قسم اتنے قریب کبھی نہ ہوتے ، جتنے آج ہیں۔ تمہاری دُوری نے مجھے اپنے وجود کے اندر جس خلاء کا احساس پیدا کیا ہے ، وہ میری زندگی کا حاصل ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ میں تمہارے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں۔ بالکل بے معنیٰ سی … کوئی بے جان شئے … جس کا نہ کوئی مقصدِ وجود ہے اور نہ کوئی غرض و غایت۔ میں تمہارے بغیر ایک بے معنی صفر ہوں کرشنن! میں نے اِن تین دنوں میں اِس معرفت کو حاصل کیا ہے۔‘‘
کرشنن بولا۔ ’’رادھا … میں تو تمہیں ایک ماہرِ معاشیات سمجھتا تھا، لیکن یہ فلسفہ اور یہ ادب … یہ سب کیا ہے ؟‘‘
’’میں نہیں جانتی کرشنن کہ یہ کیا ہے ؟ لیکن میں صرف یہ جانتی ہوں کہ یہ جو کچھ بھی ہے ، صرف اور صرف تمہاری وجہ سے ہے۔‘‘
’’سچ رادھا؟‘‘
’’ہاں کرشنن۔‘‘
’’تم سچ سچ کہہ رہی ہو یا مجھے بے وقوف بنا رہی ہو؟ مجھ سے مذاق کر رہی ہو؟‘‘
رادھا بولی۔ ’’کرشنن … میں تم سے اِس قدر بھیانک مذاق نہیں کر سکتی اور اس بے وقوف دُنیا کا کوئی عقلمند تمہیں بے وقوف نہیں بنا سکتا۔‘‘
کرشنن اپنی بے پناہ تعریف سن کر جھوم اُٹھا اور اُس نے بتی بجھا دی۔
بازگشت
شادی کے بعد اپنے آبائی گاؤں میں رادھا اور کرشنن کے قیام کا عرصہ دیکھتے دیکھتے گزر گیا اور اب وہ دونوں اپنے بھارت درشن کی مہم پر منگلور کے لئے روانہ ہو گئے۔ اُوٹی میں اُن لوگوں نے اپنا ہنی مون منایا اور اُس کے بعد جب وہ بنگلور کے لئے نکلے تو رادھا نے میرا کو فون کر دیا۔
کرشنن نے منع کیا۔ ’’رادھا تم پاگل تو نہیں ہو گئیں ؟ بنگلور سے اُن کا گاؤں ٹمکور ڈھائی سو کلو میٹر دُور ہے۔ ہمیں بیجاپور پہنچ کر فون کرنا چاہئے تھا۔‘‘
’’ہاں تو بیجاپور پہنچ کر بھی فو ن کر دیں گے۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ؟‘‘
کرشنن بولا۔ ’’تمہاری بڑی گہری دوستی ہو گئی ہے میرا سے !کیوں ؟‘‘
’’کیوں نہیں ؟ ہم خواتین کی فوراً دوستی ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ ہمارے اندر نہ ہی جھوٹی انا ہوتی ہے اور نہ ہی بے جا راز داری۔ ہم تو ایک دوسرے کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہوتے ہیں۔ ہمیں نہ تو اپنے عیوب سے خوف محسوس ہوتا ہے اور نہ اپنی خوبیوں کے اظہار میں تکلّف!‘‘
رادھا خود پسندی میں مبتلا تھی کہ کرشنن بولا۔ ’’اب بس بھی کرو اپنی یہ منطق … دیکھو، کرشنا کا فون آ رہا ہے۔‘‘ کرشنا نے فون پر بتلایا کہ وہ بنگلور گاڑی لے کر آئے گا اور اُنہیں اپنے ساتھ بیجاپور لے جائے گا اور واپسی میں اپنے گاؤں لے آئے گا۔
کرشنن نے اُسے منع کیا۔ تکلّف کی ضرورت نہیں، وہ بیجاپور پہنچ کر فون کریں گے اور وہیں سے ساتھ ہو جائیں گے۔
کرشنا بولا۔ ’’دیکھو … اِس میں تکلیف کی کوئی بات نہیں۔ ویسے بھی ہم لوگ چھٹی منانے کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ اس بہانے بنگلور اور بیجاپور کی سیر ہو جائے گی۔ کچھ ساتھ رہے گا دل بہلے گا، ورنہ خلیج کی زندگی تو تم جانتے ہی ہو۔ وہاں تو انسان صر ف سوکر اُٹھتا ہے ، کھاتا ہے ، کام کرتا ہے ، کھانا کھاتا ہے ، سو جاتا ہے ، پھر اُٹھتا ہے ، چائے پیتا ہے ، کام کرتا ہے ، کھانا کھاتا ہے اور پھر سو جاتا ہے۔ سونا، اُٹھنا، کھانا، پینا، اور کام کرنا … اِس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہم کاروباری لوگوں کا تو یہی معمول ہے۔ نہ کوئی ویک اینڈ، نہ کوئی چھٹی … بس کام ہی کام … بلکہ چھٹی کے دن زیادہ کام۔‘‘
’’ہاں وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن میں آپ لوگوں کو زحمت دینا نہیں چاہتا تھا۔‘‘ کرشنن بولا۔
کرشنا نے کہا۔ ’’دیکھو، یہ وزارت داخلہ کا حکم ہے اور اس کی حکم عدولی کرنے والے کے لئے ٹاڈا اور پوٹا جیسے نہ جانے کون کون سے خوفناک قوانین ہیں۔‘‘
کرشنن بولا۔ ’’ٹھیک ہے ہم لوگ بنگلور میں ملتے ہیں اور پھر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔‘‘
رادھا نے کہا۔ ’’دیکھی میری عقلمندی … اب بنگلور سے بیجاپور تک کا سفر تو آسان ہو گیا، آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ؟‘‘
منگلور سے جب وہ لوگ بیجاپور کے لئے نکلے تو رادھا میرا سے اُس کے گھر والوں کی اور گاؤں والوں کی خیریت اِس طرح پوچھ رہی تھی جیسے قدیم شناسائی ہو۔‘‘
میرا نے کہا۔ ’’رادھا تمہاری یادداشت تو کسی سپرکمپیوٹر سے بھی تیز ہے۔ آخر اِس کا راز کیا ہے ؟ تم نے ایک ایک کے بارے میں پوچھ لیا۔‘‘
رادھا نے کہا۔ ’’بس یوں ہی۔‘‘
گول گنبد کے اندر صدائے بازگشت سنائی دیتی تھی۔ کرشنن نے کانن سے کہا۔ ’’کانن پُکارو … دیکھو تمہاری آواز لوٹ کر تمہارے پاس آئے گی۔‘‘
کانن بولا۔ ’’کیا پُکاروں ؟‘‘
’’جو من میں آئے ، پُکارو۔‘‘
کانن نے سوچا اور آواز دی ’’سلطان … !‘‘
آواز لوٹ کر آئی۔ ’’سلطان … !!‘‘
کانن کو بڑا مزہ آیا۔ اُس نے دوبارہ زور سے کہا۔ ’’سلطان … !‘‘
پھر اُسی زور سے آواز آئی ’’سلطان … ‘‘، کانن کو اور مزہ آیا۔
اُس نے چیخ کر کہا۔ ’’سلطان … ‘‘
جو آواز لوٹ کر آئی، اُس نے سب کو چونکا دیا۔ وہ آواز تھی … ’’کانن، کانن، کانن … ‘‘
رادھا بولی۔ ’’یہ سلطان کی آواز ہے ؟ یقیناً یہ سلطان کی آواز ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ رادھا یہ کیا بڑبڑا رہی ہے۔ سب نے اُسے حیرت سے دیکھا۔ اُس نے سب کو حیرت سے دیکھا اور منہ ہی منہ میں بولی۔ ’’یہ سلطان کی آواز ہے … یقیناً سلطان کی … ‘‘
یہ قافلہ رات کو ٹمکور پہنچا۔ رات کا کھانا اُن لوگوں نے اصغر کے گھر پر کھایا اور وہیں آرام کیا۔ رادھا نے اصغر کے علاوہ سلطان اور خیرالنساء سے ملاقات کی۔ اُس کی ملاقات اکبر اور شہر بانو سے بھی ہوئی۔ رحمٰن چاچا اور انجیا اپا سے ملاقات کا بھی اشتیاق تھا، لیکن گنجائش نہیں تھی۔ وہ صبح کے انتظار میں سو گئی۔
صبح ناشتہ کے بعد وہ لوگ جب گاؤں کے گھر میں پہنچے انجیا اور رحمٰن چائے کے انتظار میں گپ شپ کر رہے تھے تو کرشنا نے کرشنن اور رادھا کا تعارف کروایا۔ اِس بیچ رامو دو کپ چائے لے آیا۔ انجیا نے آنے والے مہمانوں کو چائے پیش کی تو رادھا بولی۔
’’آپ لیں، ہم بعد میں پی لیں گے۔‘‘
رحمن چاچا نے کہا۔ ’’نہیں بیٹی، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مہمان بیٹھے رہیں اور ہم چائے پئیں ؟‘‘
’’لیکن یہ بھی کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم آپ لوگوں کی چائے پی جائیں اور آپ لوگ یوں ہی بیٹھے رہیں ؟‘‘
’’ہاں … اِس کا ایک حل ہے۔‘‘ کرشنن بولا۔ ’’ایسا کرو، دو خالی کپ لے آؤ۔ ہم ایسا کرتے ہیں دو کو دو سے تقسیم کر دیتے ہیں۔ اِس طرح یہ ایک ہونے کے بجائے چار ہو جائیں گے۔ ہم لوگ اِسے ساتھ میں پی لیں گے۔‘‘
’’دو کو دو سے تقسیم کرنے پر علم ہندسہ کا جواب تو ایک آتا ہے۔ لیکن علم الاخلاق میں اس کا جواب چار آتا ہے۔ یہ بھی خوب ہے۔‘‘ رحمٰن چاچا نے تائید کی۔
دیکھتے دیکھتے وہ تمام لوگ ایک دُوسرے سے بے تکلّف ہو گئے ، بالکل گھر کے ارکان بن گئے۔ رادھا اپنے ہر کردار کا قریب سے مشاہدہ کر رہی تھی۔ اُن کا اُٹھنا، بیٹھنا، بولنا، سننا، ہنسنا، رونا، کھانا، پینا … ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ تین دن بعد اُس نے رحمٰن چاچا سے کہا۔
’’چاچا … میں آپ کی کہانی آپ کی زبانی سننا چاہتی ہوں۔ ویسے تو مجھے میرا نے بہت کچھ بتلا دیا ہے ، پھر بھی۔ ‘‘
’’بیٹی! میری کہانی تو بڑی لمبی ہے۔ تم سنتے سنتے بوڑھی ہو جاؤ گی اور میں مر کھپ جاؤں گا۔‘‘
’’نہیں چاچا … آپ مذاق کرتے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو میں ایسا کرتا ہوں کہ اپنی کہانی بڑھاپے سے آگے سناتا ہوں تاکہ مختصر ہو جائے۔‘‘
رادھا نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے ، جیسا آپ مناسب سمجھیں۔‘‘
رحمٰن چاچا نے ماضی کے دریچہ میں جھانک کر دیکھا۔ رادھا بھی اُن کے ہمراہ زندگی کی دھوپ چھاؤں کا مشاہدہ کر رہی تھی۔
دھوپ چھاؤں
ٹمکور پنچایت سمیتی کے دفتر میں جشن کا ماحول تھا۔ لیکن رحمٰن چاچا کے علاوہ ہر فرد غمگین تھا۔ آج رحمٰن چاچا کا اُس دفتر میں آخری دِن تھا۔ گو کہ وہ ایک ہیڈ کلرک کے طور پر ریٹائر ہو رہے تھے ، لیکن اُن کی الوداعیہ تقریب میں شرکت کرنے کی غرض سے سابق ڈسٹرکٹ کلکٹر اور حالیہ ریاستی چیف سکریٹری بذات خود تشریف لانے والے تھے۔ سبھی کو اُن کا انتظار تھا۔ ٹی۔ راماراؤ کی گاڑی جیسے ہی دفتر کے باہر رُکی، رحمٰن چاچا نے آگے بڑھ کر اُن کا استقبال کیا۔ ٹی۔ راماراؤ نے رحمٰن چاچا کو سینے سے لگایا اور ہاتھ پکڑ کر تقریب گاہ کی جانب چل دئیے۔ پیچھے پیچھے دفتر کے تمام ملازمین ہو لئے۔
گزشتہ ۳۶؍ سالوں سے برگد کی طرح جما ہوا یہ درخت آج جڑ سے اُکھڑنے والا تھا۔ آج سے ۳۶؍ سال قبل جس وقت گلبرگہ ضلع کلکٹر کے تحت یہ دفتر قائم ہوا تھا، اُسی وقت رحمٰن باشا کا اِس میں تقرر بھی ہوا تھا۔ رحمٰن نوجوان تھا، اس کی مسیں ابھی بھیگی نہیں تھیں۔ اِس دفتر میں صرف ایک آدمی کام کرتا تھا جو گلبرگہ میں بیٹھنے والے ضلع کلکٹر کو رپورٹ کرتا تھا۔ اُس وقت وہ چیراسی سے لے کر بڑے بابو تک کے تمام کام کرتا تھا۔ دھیرے دھیرے علاقے میں ترقی ہوتی رہی اور اِسی کے ساتھ پنچایت سمیتی کے دفتر میں بھی توسیع ہوتی رہی۔ شروع میں جن لوگوں کا تقرر ہوا، وہ رحمٰن کے تحت کام کرتے تھے اور رحمٰن اُن کا افسر ہوا کرتا تھا۔ لیکن پھر ایسا بھی وقت آیا جب اعلیٰ افسران کا تقرر ہونے لگا۔ تقریباً دس سال بعد جب ٹمکور کو علیحدہ ضلع بنایا گیا، اس وقت ٹی۔ راماراؤ پہلے کلکٹر کے طور پر یہاں مقرر ہوئے۔ یہ راماراؤ کی پہلی ملازمت تھی، لیکن اِس تبدیلی سے رحمٰن کے کام کاج پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اُسی جوش سے کام کرتا رہا جیساکہ پہلے کرتا تھا۔ اُسے اپنے کام سے کام تھا، بلکہ وہ اِس بات سے خوش تھا کہ اَب اُس کا ہاتھ بٹانے کے لئے اچھی خاصی ٹیم سرگرم عمل ہو گئی ہے۔
آئی۔ اے۔ ایس۔ کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد جب راماراؤ ٹمکور میں آئے تو اُس وقت تک رحمٰن اِس دفتر میں ہیڈ کلرک ہو چکے تھے۔ راماراؤ ضلع کلکٹر سے ترقی کرتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری ہو گئے ، لیکن رحمٰن چاچا ہیڈ کلرک کے ہیڈ کلرک ہی رہے۔ دراصل اُن جیسے معمولی تعلیم یافتہ شخص کے لئے اب کسی پرموشن کا امکان نہیں تھا۔ لیکن رحمٰن کو اس کا ذرّہ برابر افسوس نہیں تھا۔ وہ اپنی ملازمت سے مطمئن تھے۔ اُنہوں نے کبھی بھی کوئی اور ملازمت تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اپنی قناعت پسندی کے باعث انہوں نے کبھی کسی کا احسان نہیں اُٹھایا، کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ ہاں، لوگوں کی خدمت اِسی طرح بڑھ چڑھ کر کرتے رہے جیسے ۲۰؍ سال کی عمر میں کیا کرتے تھے۔
دیگر سرکاری دفاتر کی طرح ٹمکور پنچایت سمیتی میں بھی بدعنوانی کا بازار گرم تھا۔ لیکن رحمٰن چاچا کبھی بھی اس لعنت کے قریب نہیں پھٹکے۔ اُن کا تشخّص کچھ ایسا تھا کہ نہ صرف دفتر بلکہ پورے شہر میں کبھی بھی کسی کو خیال تک نہیں آیا کہ رحمٰن چاچا کو کچھ دے دلا کر کام چلا لیا جائے۔ وہ خود آگے بڑھ کر تمام قانونی کام کر دیا کرتے تھے اور کسی بھی قیمت پر کوئی غیر قانونی کام نہ کرتے تھے۔ اُن پر بے جا دباؤ ڈالنے والے افسران کا تبادلہ تو ہوا، لیکن رحمٰن چاچا کا بال کبھی بھی بانکا نہ ہوا۔
الوداعیہ تقریب میں سبھی نے رحمٰن چاچا سے عقیدت کا اظہار کیا اور اُن کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات اور واقعات کو یاد کیا۔ سبھی کی آنکھیں نم تھیں۔ یہ دیکھ کر رحمٰن چاچا کا دل بھی بھر آیا، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور مائک کے سامنے آ کر سب کا شکریہ ادا کیا۔ وہ پہلی بار مائک میں بول رہے تھے۔ انہوں نے حسب عادت قہقہہ لگا کر کہا۔
’’آپ لوگ اس طرح آنسو بہا رہے ہیں جیسے میں اِس دفتر کو نہیں، دُنیا کو خیرباد کہہ رہا ہوں۔‘‘
آج پہلی بار ایسا ہوا کہ اُن کے لطیفے پر کسی نے قہقہہ نہیں لگایا۔ اُنہوں نے اپنی بات آگے بڑھائی۔ ’’میں کل سے دفتر نہیں آؤں گا … میرا مطلب ہے کام کرنے کے لئے نہیں آؤں گا۔ لیکن آپ لوگ اپنے کسی بھی کام کے لئے میرے گھر آنے سے گریز نہ کریں۔ ویسے میں گھر بیٹھ کر آپ کے کس کام آسکوں گا، میں نہیں جانتا؟‘‘
وہ رُک گئے۔ اُنہوں نے پہلی بار آنے والے کل کے بارے میں سوچا تھا اور اُنہیں ایسا لگا جیسے وہ کل سے کسی کام کے قابل نہیں رہیں گے۔ یکایک بے چارگی کے احساس نے رحمٰن چاچا کو اپنی آغوش میں دبوچ لیا۔ وہ سنجیدہ بلکہ رنجیدہ ہو گئے۔ اُنہوں نے بات آگے بڑھائی۔ ’’میں آپ کی کمی کو بہت محسوس کروں گا۔ آپ لوگ تو صرف ایک آئینہ ٹوٹے گا مگر میرا آئینہ خانہ ٹوٹ جائیگا، میں بیک وقت اِتنے سارے لوگوں سے محروم ہو جاؤں گا۔ مجھ سے میرا جہاں چھن جائے گا۔ اس لئے کہ اس جہاں کے باہر میں کہاں ہوں ؟ آپ لوگوں کا غم مصنوعی نہیں، بلکہ حقیقی ہے۔ میں صرف دفتر کو نہیں، اپنی دُنیا کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔‘‘
وہ رُک گئے۔ ’’میں جا رہا ہوں … میں کہاں جا رہا ہوں، میں نہیں جانتا! میں جا رہا ہوں اور یہ جانتا ہوں کہ شاید میں اُس گھر میں لوٹ کر جا رہا ہوں جہاں سے ۳۶؍ سال قبل یہاں آیا تھا۔ یہاں آنے کے بعد بھی ہر روز میں اُس گھر میں جاتا رہا۔ لیکن وہاں ایسے گیا جیسے نہیں گیا۔ اب شاید ویسے جاؤں گا جیسے مجھے جانا چاہیے۔ لیکن اب وہاں کون ہے ؟‘‘
رحمٰن چاچا پھر رُک گئے۔ اپنی اہلیہ کا چہرہ اُن کی آنکھوں میں گھوم گیا۔ رحمٰن چاچا نے پھر اپنے آپ کو سنبھالا، مسکر ائے اور کہا۔ ’’میں تو چار سال پہلے ہی سٹھیا گیا اور جب کوئی سٹھیا جاتا ہے تو اِسی طرح اول فول بکنے لگتا ہے۔‘‘
اُن کے اس لطیفے پر پھر کوئی قہقہہ بلند نہ ہوا۔ اُنہوں نے چاروں طرف دیکھا، سبھی کا شکریہ ادا کیا اور الوداع کہہ کر دروازے کی جانب چل پڑے۔ چیف سکریٹری ٹی۔ راماراؤ اُن کے پیچھے تھے۔ دفتر سے باہر آنے کے بعد راماراؤ نے رحمٰن چاچا کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اُنہیں اپنی لال بتی والی گاڑی میں بیٹھنے کی درخواست کی۔ رحمٰن چاچا نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور کہا۔
’’اب مجھے آگے کا سفر پیدل طے کرنا ہے۔ میں خود اپنے پیروں سے چل کر اپنی منزل تک جانا چاہتا ہوں۔‘‘
راماراؤ اصرار نہ کر سکے۔ اُن کے قدم اپنی جگہ جمے رہے۔ رحمٰن چچا جستہ جستہ اُن سب سے دُور … بہت دُور نکل گئے۔
رحمٰن چاچا جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے ، اُن کا ننھا سا پوتا دوڑتا ہوا آیا اور اُن کے پیروں سے لپٹ گیا۔ اُنہوں نے فوراً اُسے اُٹھا کر سینے سے لگا لیا اور چومنے لگے۔ ننھا سلطان اپنے دادا کی داڑھی سے کھیلنے لگا اور اُن کی دن بھر کی تھکن دُور ہو گئی۔ وہ آنگن میں چارپائی پر بیٹھے ہی تھے کہ بہو مہرون چائے کا پیالہ لے کر آ پہنچی۔
’’ابا جی … چائے پیجئے۔‘‘
رحمن شفقت بھرے لہجے میں بولے۔ ’’بیٹی، تیرے پاس علاؤالدین کا جن تو نہیں ہے جو چٹکی بجاتے ہی چائے بنا دیتا ہے ؟‘‘
مہرون نے کہا۔ ’’آپ تو مذاق کرتے ہیں۔‘‘
چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے رحمٰن اپنے بڑی بہو خیرون کے بارے میں سوچنے لگے۔ ایک وہ ہے ، جو اُن کے بیٹے اکبر کو اپنے ساتھ میکے لے گئی۔ کتنے ارمانوں سے انہوں نے بیٹے کی شادی اپنے بچپن کے دوست جمن کی بیٹی سے کی تھی لیکن دیکھتے دیکھتے ساری توقعات پر اوس پڑ گئی اکبر اپنی اہلیہ کے ساتھ حیدرآباد میں جا بسا تھا۔
رحمٰن چاچا کا بڑا بیٹا اکبر زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکا تھا۔ جب وہ اسکول میں پے در پے ناکام ہوتا رہا تو رحمٰن نے اُسے کریم مکینک کے گیرج میں ڈال دیا۔ وہاں بھی وہ زیادہ دن ٹک نہ سکا اور آوارہ لڑکوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے لگا۔ رحمٰن کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اُنہوں نے اپنی بیوی شریفہ بی سے مشورہ کیا اور یہ طے کیا کہ اس کی شادی کر دی جائے ، ذمہ داریوں کا بوجھ سر پر آئے گا تو اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گا۔ ٹمکور کے لوگ اکبر کی عادت و اطوار سے واقف تھے ، اس لئے رحمٰن نے حیدرآباد میں مقیم اپنے دوست جمن سے رابطہ قائم کیا اور اس کی لڑکی کو بہو بنا لایا۔ خیرالنسا سے شادی کے باوجود اکبر کے شب روز میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ بالآخر خیرون اکبر کو اپنے ساتھ لے کر حیدرآباد روانہ ہو گئی اور وہاں جا کر اکبر آٹو رِکشا چلانے لگا۔ آٹو رِکشا کے لئے بینک سے قرض جمن نے دلوایا تھا۔ اکبر برسرروزگار تو ہو گیا لیکن نیا شہر، نیا گھر، نیا کاروبار، اور نیا قرض … اِن سب کے چلتے وہ کسی طرح اپنا گزارا کرنے لگا۔
رحمٰن کو اپنے بیٹے کے دُور ہو جانے کا غم نہ تھا، بلکہ اس کے خود کفیل ہو جانے کی خوشی تھی۔ اکبر کے بعد رحمٰن کی تین بیٹیاں تھیں۔ تینوں پڑھائی لکھائی میں تیز تھیں۔ رحمٰن نے ایک ایک کر کے سبھی کا نکاح کر دیا۔ اُن میں دو کے شوہر دو سرے شہروں میں سرکاری ملازم تھے۔ وہ خود بھی اسکول میں تعلیم و تدریس کا کام کرنے لگیں اور خوشحال ہو گئیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی گاؤں میں ہیڈماسٹر کے لڑکے سے بیاہی گئی تھی، جو چاول کی مِل میں معمولی ملازم تھا۔ رحمٰن کا یہ داماد ویسے تو غریب تھا لیکن نہایت خوددار۔ وہ نہ صرف اپنی اہلیہ کو نہایت احترام و تکریم کے ساتھ رکھتا بلکہ اپنے سسر کی بھی بڑی عزت کرتا تھا۔
رحمٰن کا چھوٹا بیٹا اصغر اِس گاؤں کے ہونہار ترین طلبہ میں سے ایک تھا۔ اُس نے بورڈ کے امتحان میں اوّل مقام حاصل کیا۔ اس کے بعد اس کا داخلہ ملک کے نامور تکنیکی ادارے آئی۔آئی۔ٹی میں ہو گیا، جہاں سے اُس نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ گزشتہ سال جب وہ کامیاب ہو کر واپس آیا تو رحمٰن نے اُس سے شادی کیلئے اصرار کرنے لگا۔ اصغر اِنکار کرتا رہا، اُس نے لاکھ سمجھایا کہ اباجی، میرے برسرروزگار ہو جانے کا انتظار کیجئے۔ لیکن رحمٰن نے اُس کی ایک نہ سنی اور گاؤں ہی میں اُس کی شادی کر دی۔
اصغر کی شادی تو ہو گئی لیکن ملازمت نہ ملی۔ چھوٹے موٹے کام کے لئے اصغر زیادہ تعلیم یافتہ تھا اور بڑے کام بغیر سفارش کے ملتے نہ تھے۔ کئی لوگوں نے رحمٰن کو سمجھایا بجھایا کہ اس کے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں، کسی سے سفارشی خط لکھوا لے۔ لیکن رحمٰن ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کا جواب تھا … ’’بے روزگاری منظور ہے ، لیکن کسی کی احسان مندی برداشت نہیں۔‘‘ رحمٰن چاچا کی اُصول پسندی اُن کے بیٹے کے مستقبل کا روڑا بن گئی تھی۔ لیکن رحمٰن کو یقین تھا کہ اُن کا ہونہار بیٹا خود اپنی کوششوں سے کامیابیوں کی عظیم منزلیں طے کرے گا۔
جب تک رحمٰن برسرروزگار تھے ، کسی کو اصغر کی بے روزگاری محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن رحمٰن کے سبکدوش ہو جانے کے بعد اچانک وہ رائی سے پہاڑ بن گئی۔ رحمٰن نے اپنے طویل ملازمت میں کچھ بھی نہ بچایا تھا۔ سارے روپئے اُس نے اپنے بچوں کی تعلیم اور شادیوں پر خرچ کر دیے تھے۔ لیکن اُسے اِس کا ذرّہ برابر بھی افسوس نہ تھا۔ وہ مطمئن تھا، اُس نے اپنی ساری ذمہ داری بحسن و خوبی ادا کی اور اس دوران پروردگار نے اُسے کسی انسان کا محتاج نہیں بنایا۔
ریٹائرمنٹ کا پہلا دن رحمٰن چاچا کے لئے نیا تجربہ تھا۔ تمام زندگی مصروف رہنے کے بعد اچانک ایک خالی دِن … بلکہ خالی خولی زندگی اُن کے سامنے منہ کھولے کھڑی تھی۔ وہ اِس نئے احساس سے اپنے آ پ کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اُن کے بچپن کا ساتھی انجیا آ پہنچا۔
انجیا بہت ہی باتونی آدمی تھا۔ دو سال قبل وہ اسکول کے صدر مدرس کی حیثیت سے ریٹائر ہوا تھا۔ وہ رحمٰن کو ملنے آتا تو اُسے اُلجھن ہونے لگتی۔ اس لئے کہ انجیا کی بے سروپا باتوں سے رحمٰن کو کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی بات کو کھینچ تان کر بہت لمبا کر دیتا تھا اور یہ رحمٰن کے مزاج کے خلاف تھا۔ اس کے باوجود اپنے دیرینہ دوست کو بے مروتی سے لوٹا دینا بھی رحمٰن کے لئے ممکن نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے اُسے برداشت کرنا پڑتا تھا۔ لیکن آج انجیا کے آنے سے رحمٰن کی وہ کیفیت نہیں ہوئی۔ اُسے انجیا کا آنا اچھا لگا۔
رحمٰن نے بہو سے دونوں کے لئے چائے بنانے کے لئے کہا اور دو ریٹائرڈ دوستوں میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
انجیا کی زبان قینچی کی طرح چلنے لگی۔ اُس نے پوچھا۔ ’’کیوں … کیسا لگ رہا ہے ؟ عجیب لگ رہا ہو گا! گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ مجھے بھی کبھی ایسا ہی لگا تھا۔ آہستہ آہستہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن دوست! تمہیں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ میں نے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا ہے۔ ساری زندگی پڑھاتے پڑھاتے عادت جو ہو گئی تھی۔ ویسے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا، لیکن وقت کٹ جاتا ہے۔ اِس عمر میں بچوں سے اچھا کوئی ساتھی نہیں، نوجوانو ں کے پاس مختلف قسم کی مصروفیات ہوتی ہیں۔ ہمارے لئے اُن کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ بچے ہماری طرح خالی ہوتے ہیں۔ اِس لئے اُن کے ساتھ وقت کٹ جاتا ہے۔ یہی اِس عمر میں سب سے بڑا فائدہ ہے۔‘‘
انجیا بے تکان بولے جا رہا تھا کہ مہرون چائے لے کر آ گئی اور اُس کی زبان کو لگام لگ گئی۔
رحمٰن نے پوچھا۔ ’’انجیا … تم تو زندگی بھر پڑھاتے تھے اور پھر پڑھانے میں لگ گئے۔ لیکن میں ؟‘‘
انجیا اب تک چائے کی دوچار چسکیاں لے چکا تھا۔ اُس نے کہا۔ ’’ہاں ہاں، سمجھ گیا۔ تمہارا مسئلہ ہے کہ تم نے تو پڑھایا نہیں ہے ، اس لئے پڑھا نہیں سکتے … تو لڑاؤ۔ تمہیں انتخاب لڑنا چاہئے۔ ویسے بھی تم کافی مقبول آدمی ہو۔ انتخاب لڑو گے تو بے شک جیت جاؤ گے اور پھر کیا؟ مزے ہی مزے ، کام ہی کام، دولت ہی دولت، شہرت ہی شہرت، کسی چیز کی کوئی کمی نہیں۔‘‘
رحمٰن کو غصہ آ گیا۔ اُس نے کہا کہ تم اپنی بکواس بند نہیں کر سکتے۔ میں نے لوگوں کی خدمت اپنا فرض سمجھ کر کی ہے۔ میں اُن سے اُس کی قیمت نہیں مانگ سکتا … اور پھر انتخابی سیاست تو چوروں کا بازار ہے۔ وہاں کسی شریف آدمی کا کیا کام … ؟ تم تو یار آخری عمر میں میری عاقبت برباد کرنے پر تلے ہوئے ہو۔‘‘
انجیا سنجیدہ ہو گیا۔ اُس نے کہا۔ ’’نہیں دوست، نہیں … میں تو یوں ہی مذاق کر رہا تھا۔ تمہاری ساری عمر کی بچت پراویڈینٹ فنڈ بھی اگر تم الیکشن میں جھونک دو گے ، تب بھی اس کا خرچ پورا نہ ہو گا اور پھر جو قرض لو گے ، اُسے پورا کرنے کے لئے ؟ نا بابا نا … وہ ہم جیسے لوگوں کا کام نہیں۔ اگر قرض ادا کرنے کے لئے لیا جائے اور پھر وہ اپنے گھر خرچ میں بھی آ جائے ، تب تو بیڑہ ہی غرق ہو جاتا ہے۔ جب ایک دروازے سے حرام کمائی داخل ہوتی ہے ، دُوسرے دروازے سے برکت نکل جاتی ہے اور باقی رہ جاتی ہے صرف اور صرف حرص و ہوس۔‘‘
رحمٰن، انجیا کی اس تقریر سے چونک پڑے۔ اُنہوں نے کہا۔ ’’انجیا … بہت خوب!! مجھے تو آج معلوم ہوا کہ تم اتنی اچھی باتیں بھی سوچتے اور بولتے ہو۔‘‘
انجیا پھر چہک کر اپنے رنگ میں آ گیا اور کہنے لگا۔ ’’دوست بات دراصل یہ ہے کہ میں سمجھداری کی بات کرتا ہوں سمجھداروں کے ساتھ … ہاں، اِس بار غلطی ہو گئی۔‘‘
دونوں دوستوں کا قہقہہ ایک ساتھ بلند ہوا۔ انجیا نے پوچھا۔ ’’فنڈ کے کاغذات جمع کرا دیے یا نہیں ؟‘‘
رحمٰن نے جواب دیا۔ ’’ایسی بھی کیا جلدی ہے ؟ فی الحال گھر خرچ کے لئے کچھ رقم موجود ہے۔ سوچتا ہوں یکمشت لینے کے بجائے پنشن لے لوں۔ باقی دن سکون سے گزر جائیں گے۔‘‘
انجیا نے کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر تم ساری رقم ایک ساتھ لے لیتے ہو تو اِس سے تمہارا بیٹا اصغر پاشا کوئی کاروبار شروع کر سکے گا، اس کی بے روزگاری بھی دُور ہو جائے گی اور تمہارا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔‘‘
’’تمہاری بات تو معقول ہے۔ لیکن تم تو جانتے ہو کہ ہمارے اِس چھوٹے سے قصبے میں کسی بڑے کاروبار کے مواقع نہیں ہیں، اور پھر بڑے کاروبار کے لئے جو سرمایہ درکار ہے ، وہ فنڈ سے پورا نہیں ہو گا۔‘‘
’’ارے بھائی … بینک کس لئے ہیں ؟ جو رقم مزید درکار ہے ، اُس کے لئے قرض لے لو۔ ویسے آجکل سود کی شرح بھی تو گر رہی ہے۔‘‘
’’سود کی شرح اس لئے گر رہی ہے کہ کاروبار کم ہو رہے ہیں۔ لوگ بینکوں سے قرض لیتے نہیں اور کاروبار اس لئے بند ہو رہیں کہ منافع گھٹ رہا ہے۔ ایسے میں تم مجھے کاروبار اور قرض کا مشورہ دے رہے ہو! انجیا، میں تو سود کے قرض کو حرام سمجھتا ہوں۔ جو شخص اس چنگل میں ایک بار پھنس جاتا ہے ، وہ پھر کبھی آزاد نہیں ہو پاتا۔ تم نہیں جانتے ، آئے دن ہماری ریاست میں خودکشی کرنے والے کسانوں کے پیچھے اصل وجہ بینک کا قرض ہے۔ کیا تم میرا بھی وہی حشر دیکھنا چاہتے ہو۔‘‘
انجیا ڈر گیا۔ اُس نے کہا۔ ’’یار رحمٰن … تم نے بات کہاں سے کہاں پہنچا دی۔ خودکشی کریں تمہارے دُشمن … ویسے تم جیسے محتاط لوگوں کے لئے تو یہی اچھا ہے کہ وہ اپنی رقم بینک کے فکسڈ ڈیپازٹ اسکیم میں جمع کرا دیں اور ہر ماہ اس کے سود پر اپنا گزارا کریں۔ اِس میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘
رحمٰن نے کہا۔ ’’انجیا … اب بس بھی کرو۔ میں نے ابھی کہا تھا کہ میں سود کے لین دین کو حرام سمجھتا ہوں۔ میں نے زندگی بھر حرام کا ایک دانہ اپنے جسم میں نہیں ڈالا۔ اب اِس عمر میں تم چاہتے ہو کہ میں حرام کمائی پر گزر بسر کروں ؟‘‘
’’بھئی کاروبار سے تم ڈرتے ہو۔ فکسڈ ڈیپازٹ تمہیں نہیں چاہئے ، اب اِس بڑھاپے میں تم اور کیا کرو گے ؟‘‘
رحمٰن نے کہا۔ ’’کاروبار میں چاہتا ہوں لیکن آجکل کا پڑھا لکھا نوجوان چھوٹا موٹا کاروبار نہیں کرنا چاہتا، اور شاید وہ ٹھیک بھی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ جلدی ہی اصغر کو ملازمت مل جائے گی۔ اس کی تنخواہ اور میری پنشن سے ہمارا گزارا ہو جائے گا۔‘‘
اُونچی اُڑان
بغل والے کمرے میں اصغر اپنے دونوں بزرگوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ وہ باہر آیا اور اُس نے دونوں کو سلام کیا۔ دونوں نے اُسے بیٹھنے کو کہا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو انجیا نے خیریت معلوم کی اور پوچھا۔ ’’بیٹے کیسے ہو؟‘‘
’’اچھا ہوں کاکا۔‘‘ اصغر کے جواب میں بلا کی سرد مہری تھی۔ اُس کا لہجہ گواہی دے رہا تھا کہ یہ الفاظ کھوکھلے ہیں۔
انجیا نے نہایت شفقت بھرے انداز میں سوال کیا۔ ’’بیٹے تم اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتے ہو؟ تمہارا اپنا کیا منصوبہ ہے ؟‘‘
اصغر نے جواب دیا۔ ’ ’میں آپ لوگوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ میں اس فکر مندی کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن ایک سال کی طویل بے روزگاری نے مجھے پوری طرح مایوس کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے میں والد محترم کی طرح پُر اُمید نہیں ہوں۔ بغیر سفارش کے ملازمت کا حصول محال ہے اور میں سفارش کی خاطر اپنے والد کو مجبور نہیں کر سکتا۔ وہ اُصول پسند آدمی ہیں۔ میں اُن کی تعظیم و تکریم کرتا ہوں۔‘‘
انجیا نے کہا۔ ’’بہت خوب … جیسا باپ ویسا بیٹا … لیکن پھر تمہارا منصوبہ کیان ہے ؟ ہمیں بھی تو معلوم ہو۔‘‘
’’چچا … میرا ایک دوست ہے جو تعلیم ختم کرنے کے بعد امریکہ چلا گیا۔ اب وہ وہاں بہت ہی خوشحال ہے۔ اُس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں کسی طرح امریکہ پہنچ جاؤں، وہاں علم و فن کی قدردانی کی جاتی ہے۔ تھوڑی سی جدوجہد کے بعد اچھی ملازمت مل جائے گی۔ مجھے تو اس کا مشورہ معقول معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہاں جانے کے لئے خطیر رقم درکار ہے۔‘‘
رحمٰن چاچا اصغر کی بات سمجھ گئے۔ انہوں نے کہا۔ ’’بیٹے ایسی بات ہے تو تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ میں نے تم لوگوں کی ہر خواہش پوری کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اب تو مجھے بڑی رقم فنڈ کے طور پر مل سکتی ہے۔ میں پنشن کے بجائے یکمشت یہ رقم حاصل کر کے تمہیں دوں گا، جس سے تمہارا، بلکہ میرا، بلکہ ہم سب کا کام ہو جائے گا۔‘‘
والد کے شفقت بھرے کلمات سے اصغر کی پلکیں نم ہو گئیں۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔ وہ شکریہ ادا کر کے وہاں سے چل دیا۔
اصغر کے چلے جانے کے بعد انجیا نے رحمٰن کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’رحمٰن … تم نے بہت بڑا فیصلہ بڑی آسانی سے کر دیا۔ تمہیں چاہیے تھا کہ تم اس کے نتائج پر ٹھہر کر غور کرتے۔‘‘
رحمٰن بولا۔ ’’یار انجیا … جب ساری عمر نتائج کی پرواہ کئے بغیر گزار دی تو اب آخری عمر میں کیا سوچنا؟ جو ہو گا ٹھیک ہی ہو گا۔ کیوں، کیا کہتے ہو؟‘‘
’’میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ جو بھی ہو، ٹھیک ہی ہو۔ لیکن پھر بھی احتیاط ضروری ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘
رحمٰن چاچا نے دیکھا، انجیا سنجیدہ ہو گیا تھا۔ انہیں ہنسی آ گئی اور ایک زوردار قہقہہ بلند کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔ ’’انجیا … میرے دوست … تمہیں پتہ ہے گبر سنگھ نے کیا کہا تھا … ’’جو ڈر گیا وہ مرگیا‘‘ … شعلہ کا یہ مکالمہ سن کر انجیا ہنسنے لگا۔ دراصل انجیا اور رحمٰن دونوں نے کالج کے زمانے میں یہ فلم ایک ساتھ دیکھی تھی۔
بڑے ارمانوں کے ساتھ رحمٰن، مہرون اور ننھے سلطان نے اصغر کو امریکہ کے لئے وداع کیا۔ ہوائی جہاز میں ساتھ بیٹھے مسافر سے اصغر کو پتہ چلا کہ یہ دُور کے ڈھول ہیں جو ہندوستان سے سہانے لگتے ہیں۔ امریکہ کی زندگی بھی ہندوستان ہی کی طرح نہایت دُشوار گزار ہے۔ معاشی بحران نے بہشت بروئے زمین امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کساد بازاری کا دَور دَورہ ہے ، ملازمتوں میں برابر کٹوتی ہو رہی ہے۔ جو لوگ برسوں سے اُونچی تنخواہوں پر کام کر رہے تھے ، خود وہ بھی مشکل میں ہیں۔ اُن کے سامنے واپس جانے یا کم تنخواہ پر راضی ہونے کے علاوہ کوئی اور متبادل موجود نہیں۔ امریکی معیشت عراق جنگ کے بوجھ تلے چرمرا رہی ہے۔
نیویارک ائیرپورٹ پر اصغر پاشا کو زبردست تلاشی سے گزرنا پڑا۔ ہر کوئی اُسے شک کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ اس تلاشی نے اصغر کے اندر شدید احساسِ جرم پیدا کر دیا۔ ایک لمحہ کے لئے تو اس کے دل میں آیا کہ اس تضحیک و تحقیر کو برداشت کرنے کے بجائے ہوائی اڈّے ہی سے لوٹ جائے ، لیکن پھر اہل خانہ کا خیال اس کے پیروں کی زنجیر بن گیا۔ وہ اپنے والد کی عمر بھرکی بچت کو داؤں پر لگا کر آیا تھا۔ بیوی بچے کی اپنی توقعات تھیں۔تفتیش سے فارغ ہونے کے بعد اصغر نے اپنے دوست مہیش کو فون کیا، جس نے اُسے نہ صرف امریکہ آنے کی دعوت دی تھی بلکہ خاصہ تعاون بھی کیا تھا۔
مہیش نے اُسے بتلایا کہ اس کا دفتر دو گھنٹے بعد بند ہو گا اور اس کے بعد اُسے ائیرپورٹ پہنچنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگے گا۔ اس لئے اُسے انتظار کرنا پڑے گا۔ اس توقف کے لئے مہیش نے معذرت تو چاہی لیکن یہ بات اصغر کے گلے سے نیچے نہیں اُتری۔ اِتنے دنوں کے بعد، اِتنے دُور دراز سے وہ اپنے دیرینہ دوست سے ملنے یہاں آیا تھا۔ اُسے اُمید تھی کہ ہندوستانی روایات کے مطابق اُس کا دوست ہوائی جہاز کے اُترنے سے پہلے ہی ائیرپورٹ پر پہنچ چکا ہو گا اور وہ خود اپنے دوست سے تاخیر کے لئے معافی مانگے گا۔ لیکن اس سے بالکل متضاد صورتِ حال سے اُس کا سابقہ پیش آیا۔ بہرحال اس کے پاس کوئی چارۂ کار نہ تھا۔
امریکہ میں قدم رکھتے ہی وہ جس طرح کی دہشت کا شکار ہوا تھا، اس کے چلتے اس میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ مہیش سے اس کا پتہ پوچھتا اور خود اُس تک پہنچنے کی جرأت کرتا۔ بیٹھے بیٹھے اُسے پیاس لگی تو اُس کے قدم اپنے آپ ایئرپورٹ کے انتظار گاہ میں بنے چائے خانہ کی طرف بڑھنے لگے۔ وہاں کسی مشروب کا آرڈر دینے سے قبل اس کی نظر قیمتوں کے بورڈ پر پڑ گئی۔ ایک پیپسی کی قیمت دو ڈالر تھی … دو ڈالر یعنی تقریباً سو روپئے … اِس حساب کے بعد اس کی پیاس اپنے آپ بجھ گئی۔ پانی کی بوتل ایک ڈالر کی تھی یعنی پچاس روپئے … وہ واپس آ کر بیٹھ گیا۔ قریب میں ایک ہندوستانی بیٹھا تھا۔ اصغر نے اس نے پوچھا۔ ’’یہ پیپسی یہاں ۲؍ ڈالر میں بکتی ہے ؟‘‘
اُس مسافر نے حامی بھری، پھر کہا۔ ’’دراصل بات یہ ہے کہ باہر اس کی قیمت ایک ڈالر ہے ، لیکن یہاں ایئرپورٹ ہونے کے باعث دو ڈالر۔‘‘
’’دو ڈالر یعنی سو روپئے۔‘‘ اصغر بدبدایا، اُس مسافر نے اصغر کو غور سے دیکھا اور پوچھا۔ ’’نئے آئے ہو کیا؟‘‘
اصغر نے کہا۔ ’’جی ہاں … ابھی ابھی وارد ہوا ہوں ؟‘‘
’’اوہو … اسی لئے روپیوں میں سوچتے ہو۔ دیکھو دوست، یہ امریکہ ہے۔ یہاں ڈالر چلتا ہے ، روپیہ نہیں چلتا۔ اگر یہاں خوش رہنا چاہتے ہو تو خرچ کرتے وقت روپیہ کو ہرگز یاد نہ کرنا۔ یہی سوچنا کہ ہندوستان میں پیپسی گیارہ روپیوں میں ملتی ہے اور یہاں صرف ایک ڈالر میں۔ ویسے اگر تم بُرا نہ مانو تو میں تمہیں خوش ہونے کا ایک اور گر بتاؤں ؟
اصغر کو یہ شخص دلچسپ معلوم ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’ضرور … اب آپ لوگ ہی تو میرے گائیڈ ہیں۔‘‘
’’اچھا … تو سنو، جب آمدنی ہو تو اُس کا حساب روپیوں میں کرنا۔ اگر ایک ہزار ڈالر ملیں تو سوچنا پچاس ہزار روپئے مل گئے ہیں، اور جب ہندوستان کے لوگ پانچ ہزار روپیوں کا مطالبہ کریں تو سوچنا یہ تو بہت کم ہے۔ ان کو صرف سو ڈالر کی ضرورت ہے ؟‘‘
’’لیکن محض سوچنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سو ڈالر سو ڈالر ہیں اور پانچ ہزار روپیہ پانچ ہزار ہے ؟‘‘
’’جی ہاں … یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ ویسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن انسان خوش رہتا ہے۔‘‘
اصغر اس اجنبی کے باتوں سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اس نے کہا۔ ’’آپ کافی دلچسپ آدمی معلوم ہوتے ہیں، آپ خوش رہنے کی بڑی ترکیبوں سے واقف ہیں۔‘‘
’’ہاں … تم نے سچ کہا۔ اس بات پر میں تمہیں امریکہ میں خوش رہنے کا ایک اور گر بتا دیتا ہوں۔ یہ امریکہ ہے یہاں ہر چیز اُدھار ملتی ہے … ہر چیز؟‘‘
اصغر نے جملہ دوہرایا۔ ’’ہر چیز؟‘‘
’’ہاں … ہر چیز۔‘‘ اجنبی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں ہاں ہر چیز … مثلاً بیوی بھی اُدھار مل جاتی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اصغر نے پوچھا۔
’’مطلب یہ کہ ہندوستان میں بیوی نکاح کے بعد ملتی ہے ، لیکن یہاں وہ پیشگی ہی مل جاتی ہے ، بعد میں شوہر اس کی قسطیں ادا کرتا رہتا ہے اور اگر نباہ نہ ہو تو بڑی آسانی سے واپس بھی ہو جاتی ہے۔‘‘
اصغر کی سمجھ میں اُس اجنبی کی باتیں نہیں آئیں۔ اِس لئے وہ اپنے پرانے سوال کی جانب لوٹ آیا۔ اصغر نے پوچھا۔ ’’جناب، مجھے تو آپ کا طرزِ فکر کچھ مصنوعی معلوم ہوتا ہے۔ میرے خیال سے قرض و سکون، یہ دونوں ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں۔‘‘
’’تم نے صحیح کہا، لیکن اس مصنوعی مایا نگری میں فریب ہی سب کچھ ہے ، حقیقت کچھ بھی نہیں۔ یہاں تم سکون کے چکر میں کبھی نہ پڑنا ورنہ تمہیں واپس اپنے ملک جانا پڑے گا۔ اطمینان و سکون وہ اشیاء ہیں جو امریکہ کے کھلی معیشت اور معاشرت میں نہیں پائی جاتیں۔‘‘
اصغر کافی اُلجھ چکا تھا۔ اُس نے مسئلہ کو آسان بنانے کی غرض سے پوچھا۔ ’’چلئے خوش رہنے کے فارمولہ نمبر ایک پر واپس چلتے ہیں۔ اگر آمدنی ڈالر میں ہو اور خرچ بھی ڈالر میں ہو تو بچے گا کیا؟‘‘
اجنبی نے قہقہہ بلند کیا اور کہا۔ ’’دیکھو، یہ امریکہ ہے امریکہ … یہاں بچانے کا خیال چھوڑ دو۔ یہاں اُدھار پر زندگی چلتی ہے۔ انسان اپنی آمدنی سے پہلے ہی سارا کچھ خرچ کر چکا ہوتا ہے۔ جو آتا ہے وہ قرض کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ یہاں بچنے بچانے کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔‘‘
’’کیا بات کرتے ہیں آپ؟ اگر کچھ بچے گا نہیں تو میں اپنے گھر والوں کو کیا بھیجوں گا؟‘‘
’’یہ بڑا مشکل سوال ہے۔ میں گزشتہ دس سالوں سے امریکہ میں اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں، لیکن ابھی تک کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اصغر نے چونک کر پوچھا۔ ’’آپ نے گزشتہ دس سال سے اپنے گھر کچھ بھی نہیں بھیجا؟‘‘
’’ہاں دوست … یہی وہ کرب ہے جسے بھلانے کے لئے میں خوش ہونے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتا ہوں اور جب سب ناکام ہو جاتے ہیں تو شراب کے نشے میں کھو جاتا ہوں۔ بھول جاتا ہوں کہ میں کسی کو چھوڑ کر آیا تھا … کوئی میرا انتظار کر رہا ہے۔ تم نے میرے زخموں کو ہرا کر دیا ہے۔ اب مجھے اِن زخموں پر شراب چھڑکنی پڑے گی۔ آؤ، تم بھی میرے ساتھ آؤ۔ اپنا کرب و الم شراب میں گھول کر پی جاؤ اور سب کچھ بھول جاؤ۔‘‘
اجنبی کی پیشکش سے اصغر بوکھلا گیا۔ اُس نے کہا۔ ’’شراب! شراب … ؟ کیا بات کرتے ہیں ؟ میں شراب نہیں پیتا، وہ تو حرام ہے۔‘‘
اجنبی نے کہا۔ ’’یہ امر یکہ ہے امریکہ … یہاں حرام و حلال کا معیار مختلف ہے۔ اس ملک میں زندہ رہنے کے لئے یہاں کی مقامی قدروں سے ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے ورنہ … … ‘‘ وہ رُک گیا۔
’’ورنہ کیا؟‘‘
’’ورنہ … … ورنہ کچھ نہیں۔ کوئی کچھ نہیں کرتا۔ بس خود گھٹ گھٹ کر مرنا پڑتا ہے ؟‘‘ اُس اجنبی نے پھر ایک بار اصغر کو شراب نوشی کی دعوت دی اور اصغر نے معذرت کی۔ اس کے بعد وہ تنہا اُٹھ کر شراب خانہ کی جانب چلا گیا۔ اَصغر کے لئے یہ تیسرا جھٹکا تھا جو تفتیش اور انتظار سے زیادہ شدید تھا۔ اُس کے ذہن و دِل میں ایک بھونچال بپا تھا۔ اُسے لگ رہا تھا گویا وہ کسی جہنم میں آ گیا ہے۔
تقریباً تین گھنٹے بعد حسب وعدہ مہیش ائیرپورٹ پر اصغر کو لینے کے لئے پہنچ گیا۔ مہیش سے ملتے ہی سارے شکوے گلے دُور ہو گئے اصغر کو اپنے ساتھ لے کر۔ مہیش سیدھا میکڈونالڈ میں پہنچا اور تین ہمبرگر کا آرڈر دے دیا۔ اصغر نے پوچھا۔ ’’ہم لوگ تو دو ہیں، تین ہمبرگر کا کیا کریں گے ؟‘‘
مہیش نے کہا۔ ’’دو تمہارے لئے اور ایک میرے لئے۔ ویسے میں تو یوں ہی تمہارا ساتھ دے رہا ہوں، چاہو تو تم تینوں کھا سکتے ہو۔‘‘
اصغر سوچنے لگا، یہ مہیش انتر یامی ہے کیا؟ اُسے کیسے پتہ چل گیا کہ وہ بہت بھوکا ہے۔ اصغر یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مہیش کوکا کولا کے دو بڑے بڑے گلاس لے آیا۔ اصغر نے کہا۔ ’’اِتنا سارا … اِسے تو ہم دونوں بھی ختم نہیں کر سکتے۔ یہ تو بہت زیادہ ہے۔‘‘
مہیش نے جواب دیا۔ ’’یار، یہ ختم کرنا ضروری تھوڑے ہی ہے ، اور پھر برگر کے ساتھ یہ مفت ہے۔ ویسے تین برگر کے ساتھ تین گلاس مفت میں ملتے ہیں، تم کہو تو تیسرا بھی لے آؤں۔‘‘ دونوں دوست ہنسنے لگے۔
گھر جاتے ہوئے مہیش نے بتلایا۔ ’’دیکھو اصغر … اس اجنبی ملک میں ابتدائی طور پر کچھ پریشانیاں ضرور ہوتی ہیں۔ مجھے بھی ہوئی تھیں، لیکن آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جاتا ہے اور مجھے یقین ہے تمہارے ساتھ بھی یہ ہو گا۔ لیکن اُس وقت تک صبر و تحمل لازمی ہے۔‘‘
اصغر نے اثبات میں سر ہلایا۔ ویسے اس کے پاس کوئی چارۂ کار بھی تو نہیں تھا۔ اصغر بولا۔ ’’یار مہیش … میں تمہارا احسان مند ہوں کہ تم نے میرے لئے اتنے سارے انتظامات کئے۔‘‘
’’دوستوں میں احسان نہیں، دوستی ہوتی ہے۔‘‘ مہیش نے جواب دیا۔
’’ہاں، تم ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن یہ تو بتلاؤ کہ میرے لئے کوئی ملازمت وغیرہ بھی تم نے دیکھی ہے یا نہیں ؟‘‘
’’ملازمت … !‘‘ مہیش نے اس لفظ پر کافی زور دے کر کہا۔ ’’تمہاری ملازمت تو تمہیں خود ہی دیکھنی پڑے گی۔ میں تو صرف کچھ رہنمائی کر سکتا ہوں۔ امریکی کلچر میں ہر آدمی کو اپنی مدد آپ کرنی پڑتی ہے۔‘‘
اصغر گھبرا گیا۔ اُسے اپنے عزیز دوست کے ذریعہ اِس جواب کی اُمید نہیں تھی۔ اُس نے کہا۔ ’’یار مہیش … امریکی کلچر جو بھی ہو، لیکن ہم تو ہندوستانی لوگ ہیں۔‘‘
مہیش نے بات کاٹ دی۔ ’’ہیں نہیں … تھے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اصغر نے پوچھا۔
’’بات نہایت صاف ہے۔ ہم ہندوستانی ضرور تھے ، لیکن یہاں آنے کے بعد ہم امریکی ہو گئے ہیں … جیسا دیس ویسا بھیس!‘‘
’’ایسا ہے ؟‘‘ اصغر نے پوچھا۔
’’ایسا ہی ہے۔‘‘ مہیش نے جواب دیا۔
گھر آنے کے بعد اصغر نے سوال کیا۔ ’’بھائی مہیش … یہ تو بتلاؤ کہ تم کرتے کیا ہو اور کیا مجھے تمہارے دفتر میں کوئی کام مل سکتا ہے ؟ اس لئے کہ میں جلد از جلد برسرروزگار ہو جانا چاہتا ہوں تاکہ اباجی اور بیوی بچے کے لئے کچھ کر سکوں۔ اُن لوگوں نے تو اپنا سب کچھ خرچ کر کے مجھے یہاں بھیج دیا، اب اُن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
مہیش بولا۔ ’’دوست، میں نے تجھے پہلے ہی کہا تھا، یہاں نئے آنے والوں کو سب سے زیادہ ضرورت صبر و تحمل کی ہوتی ہے۔ میں بھی یہاں آنے کے بعد تقریباً چھ ماہ بے روزگار دفتروں کی خاک چھانتا رہا اور اب جو ملازمت مجھے ملی ہے ، وہ تمہیں نہیں مل سکتی۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اصغر نے کہا۔ ’’ہم دونوں نے یکساں تعلیم حاصل کی ہے اور مجھے بہرحال تم سے زیادہ نمبر حاصل ہوئے تھے۔‘‘
’’تمہاری بات صحیح ہے ، لیکن دوست … یہاں بہت زیادہ پریشانیاں جھیلنے کے بعد مجھے امریکی فوج میں ملازمت مل گئی اور چونکہ تم مسلمان ہو، اس لئے موجودہ سیاسی صورتِ حال میں وہ تمہیں یہ ملازمت نہیں دیں گے۔‘‘
’’فوج میں ؟‘‘ اصغر نے جملہ دوہرایا۔ ’’یار امریکی فوج میں اگر مجھے ملازمت ملے بھی، تو میں نہیں کروں گا۔ لیکن یہ بتاؤ کہ دُنیا کی سب سے بڑی طاقت کو اپنی فوج میں غیرملکیوں کو شامل کرنے کی نوبت کیوں کر آ گئی؟‘‘
مہیش بولا۔ ’’بات دراصل یہ ہے امریکہ کی رائے عامہ سب سے زیادہ لاشوں کے بکسوں سے متاثر ہوتی ہے۔ اگر کسی جنگ میں امریکی مارے جائیں تو سربراہ بھی بے موت مارا جاتا ہے۔ عراق میں ہونے والے لگاتار حملوں سے امریکی بوکھلا گئے ہیں۔ اب اُنہیں یقین ہو گیا ہے کہ اپنے تمام لاؤ لشکر کے باوجود اُن کے فوجیوں کو مرنا ہی پڑے گا۔ اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ غیرملکیوں کو اپنی فوج میں شامل کریں تاکہ امریکہ کے فوجی تو مارے جائیں لیکن امریکی شہری نہیں مریں۔ کیا سمجھے ؟‘‘
’’یار یہ تو بڑا سنگین مسئلہ ہے۔‘‘ اصغر نے حیرت سے کہا۔ ’’تو کیا تم مرنے کے لئے امریکی فوجی میں شامل ہوئے ہو؟‘‘
’’نہیں !‘‘ مہیش بولا۔ ’’میں جینے کے لئے امریکی فوج میں شامل ہوا ہوں تاکہ جب تک جیوں، عیش کروں اور پھر ایک دن مرنا تو سبھی کو ہے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے … ‘‘ اصغر بولا۔ ’’مرنا تو ہے لیکن خودکشی کرنا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔‘‘
’’کیسی خودکشی؟‘‘ مہیش بولا۔ ’’میرا بڑا بھائی ہندوستانی فوج میں تھا۔ اُسے کشمیر بھیج دیا گیا اور وہ کام آ گیا۔ میرا چچازاد بھائی بارڈر سیکورٹی فورس میں تھا، اُسے میزورم میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ ہمارا آبائی پیشہ سپہ گری ہے۔ ہمارے یہاں کوئی نکسلیوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو کسی کو ویرپن کے آدمی موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ اب اگر میری موت عراق میں لکھی ہے تو وہیں ہو گی، اپنے ملک کی فوج اور غیرملکی فوج میں کوئی خاص فرق تو ہے نہیں۔ فوجی وردی آخر فوجی وردی ہوتی ہے ، وہ چاہے ہندوستانی ہو یا امریکی … پاکستانی ہویا چینی … ہر فوج نہتے عوام پر ظلم کرتی ہے اور بالآخر اُن کے غیض و غضب کا شکار ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ظلم کروانے والوں کا بال بھی بانکا نہیں ہوتا۔ پھر وہ بش ہو، مودی یا مشرف یا چین سیاؤپینگ۔‘‘
’’خیر … اَب میرا کیا ہو گا؟‘‘ اصغر نے پوچھا۔
’’کچھ نہ کچھ ہو جائے گا اور مجھے اُمید ہے اچھا ہی ہو گا۔ کل سے اپنا بایوڈاٹا بنا کر نوکری کی تلاش شروع کر دو۔ پہلے چھوٹی موٹی نوکری اور پھر آہستہ آہستہ اچھی خاصی نوکری مل ہی جائے گی۔‘‘
دُوسرے دن سے اصغر نوکری کی تلاش میں جٹ گیا۔ اِس دَوران اُس کی ملاقات طرح طرح کے لوگوں سے ہوتی رہی جس میں ہندو، عیسائی، یہودی اور مسلمان سب شامل تھے۔ اُن میں سے کچھ دین بے زار اور کچھ دین پسند لوگ تھے۔ ہر کسی نے اُسے اپنے تعاون کا یقین دلایا تھا۔ لیکن دن ہفتوں اور مہینوں میں بدلتے رہے ، بات جہاں تھی وہیں رُکی رہی، آگے نہ بڑھ سکی۔ ابتدا میں تو وہ اپنے گھر والوں کو فون پر اُمید بندھاتا رہا لیکن دھیرے دھیرے اس کی اپنی خوداعتمادی بھی ختم ہوتی چلی گئی اور اس نے گھر والوں کو دھوکہ دینا بند کر دیا۔
ایک دن وہ نوکری کے سلسلے میں کچھ لوگوں سے ملنے کے بعد واپس آیا تو مہیش نے اُسے ایک بُری خبر سنائی۔ بات دراصل یہ تھی کہ پنٹاگان نے مہیش کو عراق بھیجنے کا فیصلہ کر دیا تھا اور چوبیس گھنٹے کے اندر اُسے تیار ہو کر آنے کے لئے کہا گیا تھا۔ یہ چوبیس گھنٹے کی مدت مہیش کے لئے جس قدر کٹھن تھی، اصغر کے لئے اُس سے مشکل تر تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ مہیش امریکہ میں اس کا واحد سہارا ہے۔ اگر وہ چلا جائے گا تو اصغر کے سر کا سایہ اُٹھ جائے گا اور ایک بیروزگار کو پناہ دینے کی غلطی اس مادہ پرست سماج میں کون کرے گا ؟ اس نے سوچامہیش کے عراق جانے سے تو بہتر یہ ہے کہ اُسے عراق بھیج دیا جائے۔ اس لئے کہ وہاں موت ایک بار میں آئے گی، جو یہاں پر سسک سسک کر، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے سے یقیناً بہتر ہو گی۔
اصغر نے مہیش سے پوچھا۔ ’’یار تم چلے جاؤ گے تو میرا کیا ہو گا؟ میں کہاں رہوں گا؟‘‘
مہیش نے کہا۔ ’’فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم یہیں رہو گے۔ ہمارے مکان کی مالکن ایک نہایت ہی رحم دل سخی خاتون ہے۔ جب سے میں بے روزگار تھا، تب سے یہاں رہ رہا ہوں۔ ملازمت مل جانے تک اس نے مجھ سے کرایہ نہیں مانگا۔ فوج میں بھرتی ہونے کے بعد میں نے قسطوں میں آہستہ آہستہ اس کا قرض ادا کر دیا۔ یہی کچھ تمہارے ساتھ بھی ہو گا۔ میں تمہیں اس سے ملوا دوں گا، تم بالکل فکر نہ کرو۔‘‘
’’لیکن وہ ہے کون؟ اصغر نے پوچھا۔
’’اُس طلاق شدہ خاتون کا نام صبرینا ہے۔ اس کی شادی شہر کے ایک مشہور دولتمند شخص سے ہوئی تھی، لیکن بات بنی نہیں اور دونوں میں طلاق ہو گئی۔ عدالت نے ہرجانے کے طور پر اس کے سابقہ شوہر پر ایک خطیر رقم ادا کرنے کا تازیانہ لگا دیا۔ اُس شخص کو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اُس نے رقم ادا کی اور اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ اب یہ اُس کی دولت پر عیش کر رہی ہے۔ اُس کے پاس اپنے گزر بسر کے لئے دولت کافی ہے۔ میں اُس کے مکان میں رہتا ہوں، اس کی خدمت کرتا ہوں۔ تمہیں بھی ایسا کرنا پڑے گا۔ دراصل مجبوری میں تم تو جانتے ہی ہو، جب تک تمہیں نوکری نہ مل جائے ، اُس وقت تک یہ مجبوری سہنی پڑے گی۔ نوکری ملنے کے بعد تم آزاد ہو جاؤ گے۔ اُس کا کرایہ ادا کر کے جہاں چاہو جاؤ، جیسی چاہو زندگی گزارو، اس مہربان خاتون کو تم سے نہ کوئی شکوہ شکایت اور نہ سروکار ہو گا۔‘‘
صبرینا
اصغر کافی عرصہ مہیش کے ساتھ گزار چکا تھا، لیکن اس کی زندگی کے اس تاریک پہلو سے وہ نابلد تھا۔ اصغر کے لئے یہ سب کچھ بہت مشکل تھا لیکن مصالحت پر مصالحت کرتے کرتے وہ اب پوری طرح ٹوٹ چکا تھا۔ اس نے مہیش سے صبح تک کا وقت مانگا اور دوسری صبح اس کے سامنے دو راستے تھے … یا تو مہیش کی پیشکش قبول کر لے یا گھر سے نکل کر سڑک پر آ جائے۔ اصغر پہلے متبادل پر راضی ہو گیا۔ وہ سڑک پر آنا نہیں چاہتا تھا۔ مہیش بھی اُسے پریشانی میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ بھی خوش ہو گیا اور اُسے صبرینا کے پاس لے گیا۔ صبرینا سے تعارف کرانے کے بعد مہیش نے اجازت طلب کی اور عراق کے لئے روانہ ہو گیا۔
اصغر اور صبرینا کے درمیان گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ صبرینا نے اُسے بتلایا کہ مہیش بہت ہی اچھا آدمی تھا۔ ان دونوں کے تعلقات گزشتہ چند سالوں میں نہایت خوشگوار رہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کا بہت خیال رکھا اور اُمید ظاہر کی کہ اصغر چونکہ مہیش کا دوست ہے ، اس لئے اس سے بھی تعلقات خوشگوار رہی رہیں گے۔ اصغر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’محترمہ! میں پوری کوشش کروں گا کہ آپ کو شکایت کا کوئی موقع نہ ملے۔ لیکن میں چاہوں گا کہ اگر آپ مجھ سے شادی کر لیں تو یہ آپ کا احسان عظیم ہو گا۔‘‘
صبرینا اصغر سے عمر میں کم از کم بیس سال بڑی تھی۔ اُس نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہ سوچا تھا کہ اس سے نصف عمر کا کوئی نوجوان اُسے شادی کی پیشکش کرے گا۔ صبرینا نے اصغر کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’اصغر … تم اس بڑھیا سے مذاق تو نہیں کر رہے ہو؟‘‘
اصغر نے کہا۔ ’’نہیں ! میں ایسی جرأت کیسے کر سکتا ہوں ! میں سنجیدہ ہوں۔‘‘
’’لیکن تم تو مجھے جانتے بھی نہیں۔ آج ہماری پہلی ملاقات ہے۔ تم میرے مزاج، عادات و اطوار سے بھی واقف نہیں ہو اور پھر میں عمر میں تم سے … … ‘‘
اصغر نے بات کاٹ دی۔ ’’محترمہ … اِن سب کے باوجود میں اصرار کروں گا، اِس لئے کہ جن باتوں کا آپ نے ابھی ذکر کیا، اُن سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔‘‘
صبرینا نے کہا۔ ’’دیکھو، جلد بازی میں ایسے فیصلے نہیں کئے جاتے۔ تم سوچ لو، جتنا چاہو وقت لو، ایک ہفتہ یا مہینہ یا سال … !!‘‘
ا صغر نے کہا۔ ’’محترمہ میں نے تو سوچ لیا ہے۔ اب یہ آپ پر ہے ، آپ جتنا چاہیں، وقت لیں … ایک مہینہ … ایک ہفتہ … یا ایک دن! لیکن اب ہماری دوسری ملاقات آپ کے فیصلہ کے بعد ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر اصغر نے اجازت چاہی۔‘‘
صبرینا جہاندیدہ خاتون تھی۔ اس کو اصغر کی باتوں میں معصومیت کے سوا کچھ بھی دِکھائی نہیں دیا۔ اُس نے کہا۔ ’’اصغر … حالانکہ میں بھی تمہیں نہیں جانتی، تمہارے عادات و اطوار سے واقف نہیں ہوں۔ لیکن اس کے باوجود تمہاری پیشکش مجھے منظور ہے۔ ہم آج ہی شام عدالت میں جا کر اپنا نکاح رجسٹر کرا لیں گے۔‘‘ صبرینا نے کہا۔‘‘
’’اور آتے آتے قریب کے اسلامک سینٹر میں قاضی صاحب سے بھی نکاح پڑھوا لیں گے۔‘‘ اصغر بولا۔
صبرینا نے کہا۔ ’’ہاں بھئی! جب تمہاری بیوی بننا ہی ہے تو تمہاری دادا گیری بھی قبول کرنی ہی ہو گی۔‘‘ دونوں ہنسنے لگے۔
طویل عرصہ کے بعد صبرینا کے لئے پھر سے ازدواجی زندگی ایک نیا تجربہ بن گئی تھی۔ اصغر کے لئے بھی یہ ایک اچھا شگون ثابت ہوئی۔ جلد ہی اُسے نوکری مل گئی، لیکن یہ ملازمت اُس کے اپنے گھر سے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ اس کے لئے ہر روز تین سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے صبرینا سے دُوری لازمی ہو گئی تھی۔ ساتھ رہتے رہتے اسے صبرینا سے ایک عجیب قسم کی اُنسیت ہو گئی تھی۔ وہ نہیں سمجھ پایا تھا کہ اس کی مجبوری نے کب محبت کا رنگ اختیار کر لیا تھا۔ یہی کیفیت صبرینا کی بھی تھی۔ محبت جذبہ ہی کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ حبیب و محبی دونوں کو یکساں طور پر متاثر کرتا ہے۔ اس لئے اس خوشی کے موقع پر وہ دونوں لو گ کافی دیر تک گم سم بیٹھے رہے۔ حالانکہ یہ تجربہ دونوں کے لئے نیا نہیں تھا۔ صبرینا نے راضی خوشی اپنے شوہر کو چھوڑ دیا تھا اور اصغر نے مجبوراً اپنی بیوی کو بھلا دیا تھا۔ اُن دونوں کو اپنے ماضی کا ملال نہیں تھا۔ اس کے باوجود دونوں اپنے مستقبل کے بارے میں متفکر تھے۔ بالآخر صبرینا بولی۔
’’اصغر … تم اتنے فکرمند کیوں ہو؟ اگر ہر روز نہیں آسکتے تو کم از کم ہفتہ کے آخر میں تو آ ہی سکتے ہو۔ تم یہ موقع ہاتھ سے جانے نہ دو۔ ملازمت لے لو، ہر جمعہ کی شام یہاں آ جانا ہم لوگ ہفتہ اور اتوار ساتھ گزاریں گے ، پیر کی صبح تم واپس چلے جانا۔ میں تمہارا بے صبری سے انتظار کروں گی۔‘‘
’’صبرینا! مجھے تم سے یہی اُمید تھی۔ لیکن پھر بھی میرا دل ڈرتا ہے۔‘‘ اصغر بولا۔ ’’میں نے زندگی میں بہت کچھ گنوایا ہے۔ اب میں تمہیں گنوانا نہیں چاہتا۔ اگر تم بھی میری زندگی سے چلی گئیں تو میرا جہاں بالکل سوُناہو جائے گا … میں زندہ نہ رہ سکوں گا۔‘‘ اصغر روہانسا ہو گیا۔‘‘
صبرینا اُٹھ کر اس کے قریب آئی، ننھے بچے کی طرح اُس کو پچکارا اور بولی۔ ’’میں بھی اپنا سب کچھ گنوا کر گناہ کے دلدل میں جا پڑی تھی۔ ایک ایسے جانور کی طرح زندگی گزار رہی تھی، جس کی صرف مادی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ میرے اندر زندگی کے لطیف جذبات واحساسات نے کبھی جنم ہی نہیں لیا اور شاید میں اُن سے آشنا ہوئے بغیر ہی اِس دُنیا سے چلی جاتی۔ لیکن یہ خُدا کا شکر ہے کہ آخری وقت میں تم میری زندگی میں آ گئے اور میں زندہ ہو گئی۔ لوگ جوانی سے بڑھاپے میں قدم رکھتے ہیں، لیکن میں نے بڑھاپے سے جوانی میں قدم رکھا ہے اور یہ معجزہ تمہاری وجہ سے رونما ہوا ہے اصغر … صرف اور صرف تمہاری وجہ سے … تم نہیں جانتے کہ تم میرے لئے کیا ہو؟‘‘
اصغر کو اطمینان ہوا۔ اُس نے ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کی غرض سے کہا۔ ’’صبرینا میں جانتا ہوں … میں تو یوں ہی مذاق کر رہا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں کوئی نیا پیئنگ گیسٹ؟‘‘
صبرینا نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا۔ ’’اصغر پلیز … آئندہ پھر کبھی اس طرح کی بات ز بان پر نہیں لانا۔ یہ میری عزتِ نفس کے خلاف ہے۔ میں نہیں جانتی کہ میری عزت نفس ہے یا نہیں، لیکن یہ تمہاری عزتِ نفس کے خلاف بھی ہے اور چونکہ میں تمہاری بیوی ہوں، تمہارا نفس میرا نفس ہے اور میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ یہ ہماری عزتِ نفس کے خلاف ہے
اصغر بولا۔ ’’صبرینا … دلآزاری کے لئے میں تم سے معذرت چاہتا ہوں۔ مجھے تم سے ایسا مذاق بھی نہیں کرنا چاہئے تھا، لیکن یقین مانو … میں نے یہ بات مذاق میں کہی ہے۔‘‘
صبرینا نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے … میں تمہیں آخری بار معاف کرتی ہوں۔ اگر دوبارہ ایسی غلطی کی تو میں تمہارا قتل کر دوں گی۔‘‘
اصغر نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ابھی قتل کر دو … غلام کا سر تسلیمِ خم ہے۔‘‘
’’نہیں !‘‘ صبرینا بولی۔ ’’اب میں تمہیں اس سے بھی بڑی سزا دوں گی۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ اصغر نے چونک کر پوچھا۔
’’میں اپنے آپ کو ہلاک کر دوں گی۔‘‘
’’اوہ … یہ تو واقعی بہت بڑی سزا ہے۔ سب سے بڑی سزا!!‘‘
دونوں لوگ ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگے۔ یہ خوشی کا رونا تھا … یہ خوشی کے آنسو تھے۔ اصغر کو نہ صرف نوکری ملی تھی بلکہ بیوی بھی مل گئی تھی اور صبرینا کو اس کا سب کچھ مل گیا تھا۔ اس کی زندگی میں جو خلاء تھا، وہ پُر ہو گیا تھا۔ دُوسرے ہی دِن اَصغر دَفتر میں پہنچ گیا اور پھر پہلے ہی دِن سے جمعہ کا انتظار کرنے لگا۔ ہر روز دِن گنتا۔ منگل کا دن صبح اور شام کو اس نے دوبارہ شمار کر لیا اور پھر جب یہ پتہ چلتا کہ یہ بدھ نہیں بلکہ منگل ہی کی شام ہے … اور غم زدہ ہو گیا۔ خیر، جمعہ کا دِن اس نے جیسے تیسے گزارا اور وقت سے پہلے ہی ایک دوست کی گاڑی میں شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔
اُدھر صبرینا کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا تھا۔ وہ بھی بڑی بے چینی سے اصغر کا انتظار کر رہی تھی۔ کسی کام میں اُس کا دل نہ لگتا تھا۔ ٹیلی ویژن پر آنے والا کوئی پروگرام اسے اچھا نہ لگتا تھا۔ جب سے وہ زندگی کے سچ سے آشنا ہو گئی تھی، یہ جھوٹ اُسے بے مزہ لگنے لگا تھا۔ دوپہر کے بعد وہ خرید و فروخت کے لئے نکل پڑی اور بس یہی سوچتی رہی کہ اصغر کو کیا پسند ہے اور کیا نہیں ؟ ہر وہ چیز، جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ اصغر کو پسند ہے ، اس نے خرید لی اور وہ تمام چیزیں، جو اُسے پسند تھیں، لیکن اصغر کو پسند نہ تھیں، اُنہیں چھوڑ دیا۔ اب اس کی پسند و ناپسند اس کی اپنی نہیں تھی بلکہ اصغر کی تھی۔
اس روز صبرینا نے اپنے ہاتھوں سے اصغر کا پسندید کھانا بنایا۔ اصغر کا پسندیدہ لباس زیب تن کیا اور سراپا انتظار بن گئی۔ اُسے پتہ بھی نہ چلا کب اصغر دبے قدموں سے اس کی زندگی میں داخل ہو گیا اور اس کے وجود میں سما گیا۔ پہلا ویک اینڈ دونوں نے بڑے جوش و خروش سے منایا اور پھر یہ اُن کا معمول بن گیا تھا۔ ہر جمعہ کو صبرینا اور اصغر کی زندگی میں بہار آ جاتی اور پیر کی صبح تک وہی موسم رہتا۔ ہر ہفتہ چار راتیں اور پانچ دن خزاں کی نذر ہو جاتے اور دو دنوں کی تین راتیں بہار بن جاتیں۔ خزاؤں نے بہار کو بہار بنا دیا تھا۔ واقعی اگر پت جھڑ نہ ہو تو بسنت بے مزہ ہو جاتا ہے۔ اِس حقیقت کا ادراک دونوں کو ہو چکا تھا۔ غم فرقت نے اُن کے وِصال کی مسرّت میں چار چاند لگا دئیے تھے۔
اصغر کے دفتر میں ویسے تو ہر ملک کے باشندے کام کرتے تھے ، جن میں ایک عشرت جہاں بھی تھی۔ عشرت کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اس کے والد امریکہ میں ٹیکسی چلاتے تھے۔ کافی عرصہ اپنے خاندان سے دُور تنہا زندگی گزارنے کے بعد گزشتہ سال اُنہوں نے اپنے اہل خانہ کو امریکہ بلا لیا تھا۔ امریکہ میں جہاں عیش و عشرت کا بڑا سامان ہے ، وہیں ضروریات زندگی بہت مہنگی بھی ہیں۔ جب تک کہ وہ اکیلے رہتے تھے ، تھوڑا بہت بچا کر اپنے ملک بھیج دیا کرتے اور وہ رقم پاکستان میں بہت کچھ ہو جایا کرتی تھی۔ لیکن جب بیوی بچے امریکہ آ گئے تو حالات یکسر بدل گئے۔ بچانا تو درکنار … گھر چلانا بھی مشکل ہو گیا۔
عشرت جہاں تعلیم یا فتہ خاتون تھی۔ اُس کو اپنے والد کی تنگدستی کا احساس ہو گیا تھا۔ پاکستان میں وہ سو چتی تھی کہ امریکہ جیسے خوش حال ملک میں تو کوئی غریب نہیں ہوتا ہو گا۔ لیکن یہاں آ نے کے بعد اُسے پتہ چلا کہ غربت زمان و مکان کی پابند نہیں ہے۔ وہ ہر وقت ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امریکہ کا غریب بھی پاکستان میں امیر ہوتا ہے اور پاکستان کا امیر یہاں آ کر غریب کہلاتا ہے۔ اس امیر ملک کا کمال کہ یہ ہے کہ اچھے اچھوں کو غریب بنا دیتا ہے۔
عشرت جہاں کے لئے جب دُور کے سہانے ڈھول کی تھاپ بند ہوئی تو اس نے ملازمت کی تلاش شروع کر دی اور اُسے بہت جلد اِس کمپنی میں ملازمت مل گئی، جس میں اصغر کام کرتا تھا۔
عشرت جہاں بہت ہی ملنسار اور خوش مزاج دوشیزہ تھی، اس لئے دفتر میں کافی مقبول تھی۔ ویسے تو اس کی جان پہچان بہت سارے لوگوں سے تھی، لیکن اصغر اُسے کچھ زیادہ ہی اچھا لگتا تھا۔ اس لئے اس کی خصوصی توجہ اصغر کی جانب ہوتی تھی۔ کچھ دنوں میں اس کا اثر اصغر پر بھی ہونے لگا۔ وہ عشرت کے لئے اپنے اندر کشش محسوس کرنے لگا۔ اس کے باوجود اس کے معمول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہفتہ کے دَوران وہ عشرت سے نوک جھونک کرتا رہتا، لیکن جمعہ کی شام بڑی پابندی سے صبرینا کے پاس آ جاتا اور پھر پیر کو واپس لوٹتا۔ لیکن اِس بیچ ایک تبدیلی واقع ہونے لگی تھی۔ پہلے اُسے پیر سے جمعہ تک صبرینا کی یاد بار بار آتی تھی، اب وہ ہفتہ اتوار کے دن عشرت جہاں کو یاد کرنے لگا تھا۔ وہ انتظار کرتا کہ کب پیر آئے اور وہ واپس اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو جائے۔ رفتہ رفتہ اصغر اور عشرت کی دوستی بڑھتی گئی۔
ایک مرتبہ عشرت نے کہا۔ ’’اصغر … جمعہ ہوتے ہی تمہیں کیا ہو جاتا ہے کہ تم قیدی کی طرح یہاں سے نکل بھاگتے ہو۔‘‘
اصغر نے سوچا کہ وہ عشرت کو کیسے بتلائے کہ یہ صبرینا کی زلفِ گرہ گیر کی اسیری ہے ؟ لیکن اب عشرت کا نشہ اس سے برسرِ پیکار ہے۔
عشرت نے پھر پوچھا۔ ’’تم نے میرے سوال کو جواب نہیں دیا … کیوں ؟‘‘
اصغر چونکا … اُس نے کہا۔ ’’عشرت بات دراصل یہ ہے کہ اِس سوال کا جواب تفصیل طلب ہے۔ اس لئے میں یہاں دفتر میں اس کا جواب نہیں دے سکتا۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے … ‘‘ عشرت بولی۔ ’’اس جمعہ کو تم یہیں رُکنا اور تفصیل سے مجھے اِس سوال کا جواب دینا۔‘‘
اصغر نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے … ٹھیک ہے۔‘‘
’’اچھا تو یہ وعدہ ہے کہ اس جمعہ کو تم نہیں جاؤ گے اور میرے تمام سوالوں کے جواب دو گے۔‘‘
اصغر نے کہا۔ ’’نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ مجھے جانا ہی پڑے گا … یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’کیوں نہیں ہو سکتا اصغر؟ اگر ایک ہفتہ یہیں رُکے رہے تو کیا کوئی آسمان پھٹ پڑے گا؟ سمجھ لو کہ تمہاری طبیعت ناساز ہو جائے اور تم نہ جا سکو تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ اس ہفتہ تم نہیں جانا میری خاطر۔‘‘
’’اصغر شش و پنچ میں پڑ گیا۔ یہ تو بالکل گلے پڑ گئی تھی۔ اُس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے … ٹھیک ہے۔‘‘
’’بہت خوب!‘‘ عشرت بولی۔ ’’یہ تمہارا وعدہ ہے۔‘‘
یہ کہہ کر عشرت چلی گئی۔ اصغر سوچنے لگا … ہاں، آخر اس میں بُرا کیا ہے ؟ ہر ہفتے تو وہ جاتا ہی ہے اور پھر ہر ہفتے جائے گا۔ اگر ایک ہفتہ نہ جائے تو کیا فرق پڑتا ہے ؟ عشرت ٹھیک ہی کہتی ہے۔ اگر طبیعت ناساز ہو جائے … سمجھو کہ طبیعت خراب ہو ہی گئی۔
اصغر نے نہ جانے کا من بنا لیا۔ جمعہ کی شام میں وہ عشرت جہاں کے ساتھ قریب کے ایک ہوٹل میں کھانا کھانے کے لئے جا رہا تھا کہ صبرینا کا فون آ گیا۔ صبرینا کے لئے چونکہ یہ بات خلافِ معمول تھی، وہ طرح طرح کے اندیشوں کا شکار ہونے لگی تھی۔ کہیں اصغر کسی حادثے کا شکار تو نہیں ہو گیا؟ کہیں کسی مصیبت میں تو نہیں پھنس گیا؟ یہ سب دیر تک سوچتی رہی اور پھر اُس نے فون کر ڈالا۔ صبرینا کی آواز سنتے ہی اصغر بوکھلا گیا۔ صبرینا نے پوچھا۔ ’’اصغر … کیا بات ہے ؟ تم ٹھیک تو ہو؟‘‘
اصغر سٹپٹا گیا، اُس نے کہا۔ ’’ہاں ٹھیک ہوں۔ ویسے میری طبیعت کچھ ناساز ہے ، اِسی لئے میں نے آج یہیں رُکنے کا ارادہ کر لیا۔‘‘
’’طبیعت ناساز کب سے ہے ؟ کیا ہو گیا تمہیں ؟‘‘ صبرینا نے بے چینی سے پوچھا۔
’’گزشتہ دو دِنوں سے۔‘‘ اصغر بولا۔‘‘
صبرینا نے کہا۔ ’’کیا … دوپہر میں تو ہماری بات ہوئی تھی۔ اس وقت تو تم بھلے چنگے تھے۔ اب اچانک کیا ہو گیا اور دو دنوں سے تم نے مجھے بتلایا نہیں ؟‘‘
’’وہ … صبرینا بات دراصل یہ ہے کہ میں نے سوچا کہ تم بلاوجہ پریشان ہو جاؤ گی، اِس لئے میں نے تمہیں نہیں بتلایا۔‘‘
’’لیکن اگر ایسی ہی بات تھی تو چھٹی لے کر آ جاتے۔‘‘ صبرینا بولی۔
’’نہیں نہیں … طبیعت اتنی زیادہ بھی خراب نہیں ہے۔ بس یوں ہی نزلہ، زُکام، سر درد وغیرہ! میں نے سوچا کہ یہیں آرام کر لوں۔‘‘
صبرینا بولی۔ ’’اصغر … مجھے تم سے یہ اُمید نہیں تھی۔ میں تو سمجھتی تھی تمہیں میرے پاس سب سے زیادہ آرام ملتا ہے۔ تم اگر میرے پاس آتے تو میں تمہارا سر ہلکا کر دیتی۔ خیر … کوئی بات نہیں۔ میں تمہارے پاس آتی ہوں۔ اِس طرح بیماری کی حالت میں تمہیں میں تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘
اصغر گھبرا گیا۔ اُس نے کہا۔ ’’نہیں نہیں صبرینا! تم کیوں تکلیف کرتی ہو۔ اتنی رات گئے آنے میں تمہیں پریشانی ہو گی۔ تم آرام کر لو میں آئندہ ہفتہ اچھا ہو کر آ جاؤں گا۔‘‘
صبرینا بولی۔ ’’کیسی باتیں کرتے ہو اصغر؟ تم وہاں بیمار ہو اور میں یہاں آرام کروں ؟ یہ کیوں کر ممکن ہے ؟ مجھے نیند نہیں آئے گی … شاید میرا آنا میرے رُکنے سے بہتر ہے۔‘‘
’’نہیں صبرینا نہیں … اگر میری طبیعت زیادہ خراب ہوتی ہے تو میں خود ہی تمہیں بلا لوں گا۔ لیکن اَبھی اُس کی ضرورت نہیں۔ تم آرام کرو۔‘‘
صبرینا نے پوچھا۔ ’’اچھا، تو یہ وعدہ ہے کہ تم ضرور بلاؤ گے۔‘‘
اصغر بولا۔ ’’ضرور بلاؤں گا صبرینا … ضرور بلاؤں گا۔ اگر تمہیں نہیں بلاؤں گا تو کسے بلاؤں گا … اور اس دُنیا میں میرا ہے ہی کون تمہارے سوا۔‘‘
عشرت نے اس جملے پر چونک کر اصغر کو دیکھا۔
صبرینا نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے ، میں پھر بعد میں فون کروں گی … نہیں … صبح فون کروں گی۔ میں تمہاری نیند خراب کرنا نہیں چاہتی۔ اپنا خیال رکھنا۔‘‘
’’جی ہاں ! جی ہاں !! شکریہ … بہت بہت شکریہ۔‘‘
عشرت نے پوری گفتگو سن لی تھی۔ اُس کی سمجھ میں کچھ کچھ آ گیا، اِس کے باوجود اُس نے پوچھا۔ ’’کون ہے یہ ڈائن صبرینا … جس کے سامنے تم اِس طرح گھگیا رہے تھے ؟ یہ عورت ہے یا داروغہ؟ کہیں تم شادی شدہ تو نہیں ہو؟‘‘
اصغر نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’لیکن اگر شادی شدہ ہو بھی تو تم کسی کے زر خرید غلام تو نہیں ہو۔ ایک آدھ شام اگر آزادی سے گزار دی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟‘‘
اصغر بولا۔ ’’ویسے مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن صبرینا کو پڑتا ہے۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’عشرت … بات دراصل یہ ہے کہ وہ مجھے بے حد چاہتی ہے اس لئے … ‘‘
’’تمہیں فرق نہیں پڑتا؟‘‘ عشرت نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔‘‘
اصغر بولا۔ ’’ہاں شاید! پہلے مجھے بھی فرق پڑتا تھا، اَب نہیں پڑتا۔‘‘
عشرت خوش ہو گئی، اس نے پوچھا۔ ’’کیوں ؟‘‘
’’تم تو جانتی ہی ہو عشرت! میں جب تم سے دُور ہوتا ہوں تب بھی تمہارے ہی بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ شاید میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ عشرت یہ سن کر اور بھی خوش ہو گئی۔
اب وہ لوگ ریسٹورنٹ میں پہنچ چکے تھے۔ کھانا کھاتے ہوئے اصغر نے اپنی زندگی کی کتاب عشرت کے سامنے کھول دی۔ عشرت بڑے غور سے سب کچھ سنتی رہی۔ اصغر کا آخری جملہ تھا۔ ’’عشرت … اب تم ہی بتلاؤ کہ میں کیا کروں ؟‘‘
عشرت نے کہا۔ ’’اِس سوال کا جواب نہایت آسان ہے۔ میں، ہم دونوں کے درمیان کوئی تیسرا وجود برداشت نہیں کر سکتی۔ اب تمہیں صبرینا کے ساتھ وہی کرنا ہو گا جو کچھ تم نے مہرالنساء کے ساتھ کیا ہے ؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اصغر نے پوچھا۔
’’اِتنی آسان سی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی؟‘‘ عشرت نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ ’’یہی کہ صبرینا کو بھی مہرالنساء کی طرح بھول جاؤ۔‘‘
’’یہ نہیں ہو سکتا عشرت! صبرینا مجھے بہت چاہتی ہے۔ اگر میں ایسا کروں گا تو وہ اس صدمے کو برداشت نہیں کر سکے گی۔ وہ دم توڑ دے گی۔‘‘
عشرت نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولی۔ ’’اصغر، تم کس دُنیا میں رہتے ہو؟ اِس دُنیا میں کوئی کسی کے لئے نہیں مرتا۔ جس طرح صبرینا نے اپنے پہلے شوہر کو بھلا دیا، اُسی طرح تمہیں بھی بھلا دے گی اور کسی کو اپنے یہاں پیئنگ گیسٹ رکھ لے گی۔‘‘
’’نہیں عشرت نہیں … اب صبرینا وہ صبرینا نہیں ہے۔ اب وہ پوری طرح بدل گئی ہے۔ اب ایسا کبھی نہ ہو گا … کبھی نہیں … کبھی بھی نہیں !!‘‘
’’کیسے پتہ؟‘‘ عشرت نے پوچھا۔
’’مجھے پتہ ہے۔‘‘ اصغر بولا۔ ’’مجھے پتہ ہے۔ خود صبرینا نے مجھ سے یہ کہا تھا۔‘‘
’’اچھا!‘‘ عشرت بولی۔ ’’تمہیں یہ تو یاد ہے کہ صبرینا نے تم سے کیا کیا کہا، لیکن کیا تمہیں یہ بھی یاد ہے کہ تم نے اُس سے کیا کہا تھا؟ انسان دوسروں کے وعدے تو یاد رکھتا ہے ، لیکن اپنی قسمیں بھول جاتا ہے۔‘‘
’’نہیں عشرت نہیں !‘‘ تم صبرینا کو نہیں جانتیں، میں جانتا ہوں۔ وہ مر جائے گی۔‘‘
عشرت بولی۔ ’’ایک عورت کو دوسری عورت سے زیادہ کون جان سکتا ہے ؟ خیر … میرا موقف صاف ہے۔ اگر تم میری لئے صبرینا کو نہیں بھول سکتے تو مجھے بھول جاؤ۔‘‘
’’نہیں عشرت! تم میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ صبرینا بہت کشادہ دل ہے۔ وہ میرے ساتھ تمہیں بھی اپنی زندگی میں شامل کر لے گی۔ وہ مجھے تم سے شادی کرنے کی اجازت بخوشی دے دے گی، بشرط یہ کہ ہفتے میں پانچ دن تمہارے ساتھ اور دو دن اُس کے ساتھ نبھانے کا وعدہ کر لوں۔‘‘
’’یہ تمہاری خام خیالی ہے اصغر! لیکن اگر یہ صحیح بھی ہے تو جس بات پر صبرینا راضی ہو جائے ، تب بھی میں اُس پر اپنی رضامندی ظاہر نہ کروں گی۔ میں تمہیں بہ یک وقت دو کشتیوں میں سفر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی اور ایسی دو کشتیاں جو مخالف سمتوں میں چلتی ہوں اور جن کی رفتار بھی مختلف ہو۔‘‘
’’عشرت تم بلاوجہ کی ضد پر اَڑ گئی ہو۔ میں صبرینا کو غمزدہ کرنا نہیں چاہتا۔ ویسے بھی صبرینا عمر دراز خاتون ہے وہ اور کتنے دن زندہ رہے گی؟ لیکن میں جیتے جی اُسے نہیں چھوڑوں گا اور مجھے یقین ہے کہ وہ بھی میرے ساتھ یہی معاملہ کرے گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ عشرت بولی۔ ’’تم اگر اُسے دُکھ دینا نہیں چاہتے تو مجھے دُکھ دے دو۔ اس لئے کہ میں اُس کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔ اَب فیصلہ تمہیں کرنا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ کھانا بھی ختم ہو گیا اور بات بھی پوری ہو گئی۔ اب ایک ہفتہ غور کر کے تم مجھے جواب دے دو۔ اگر آئندہ جمعہ کو تم رُک گئے تو میں سمجھوں گی کہ تمہارا فیصلہ میرے حق میں ہے ، اور اگر چلے گئے تو میں سمجھوں گی کہ یہ صبرینا کے حق میں ہے۔‘‘
اصغر بولا۔ ’’عشرت! میں تو تم دونوں کی حق تلفی کرنا نہیں چاہتا، لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ انصاف کروں گا۔ بلکہ حالات ایسے ہیں کہ ترازو کا پلڑا صبرینا کے مقابلے تمہاری جانب جھکا ہوا ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ تمہیں اپنے حق سے زیادہ مل جائے۔ لیکن پلیز! تم اپنی ضد چھوڑ دو۔‘‘
عشرت بولی۔ ’’ضد میں کر رہی ہوں یا تم کر رہے ہو؟ تم صبرینا کو ساتھ رکھنے پر اَڑ گئے ہو۔ اگر واقعی تمہارے لئے اس کا ساتھ اتنا زیادہ ضروری ہے تو مجھے چھوڑ دو، بات ختم۔‘‘
وہ دونوں کھانے سے فارغ ہو کر خراماں خراماں اپنے دفتر کی رہائش گاہ تک پہنچ چکے تھے۔ اصغر اپنے کمرے میں آ گیا۔ اب اس کی طبیعت واقعی خراب ہو چکی تھی۔ سر بھاری ہو گیا تھا اور آنکھ بہہ رہی تھی۔‘‘
جہانِ عشرت
دُوسرے دِن صبح اصغر کی آنکھ کھلی تو اُسے رات کی گفتگو یاد آ گئی۔ عشرت کے رویہ سے اُسے تکلیف ہوئی تھی۔ لیکن اِس کے باوجود وہ عشرت کے خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پا رہا تھا۔ وہ اس کے بارے میں سوچنا نہ چاہتا تھا، لیکن اِسی کے بارے میں سوچتا چلا جاتا تھا۔ اُس نے کیا کہا؟ کیوں کہا؟ ایسے کیوں کہا؟ اُسے اِس طرح یہ بات نہیں کرنی چاہئے تھی … وغیرہ وغیرہ! اصغر اِسی اُدھیڑ بُن میں گرفتار تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ صبرینا کا فون تھا۔ وہ اس کے بارے میں فکرمند تھی۔ بڑی تفصیل سے صبرینا نے اصغر کی صحت کا حال پوچھا اور اس کے ہر جھوٹ پر اعتبار کرتی چلی گئی۔ پھر ایک بار اپنا خیال رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے اُس نے فون بند کیا۔ اصغر کا جی چاہا کہ وہ اِسی وقت صبرینا کے پاس چلا جائے ، اس کے ساتھ اپنے سب دُکھ دَرد بانٹ لے اور اپنا دل کا بوجھ ہلکا کر دے۔ لیکن ایسا سوچتے ہوئے اُس کے تصوّرِ خیال میں عشرت آ پہنچی جو اُس سے کہہ رہی تھی کہ اگر وہ چلا گیا تو … … چلا جائے گا … … اس کی زندگی سے … … ہمیشہ کے لئے … … وہ چلا جائے گا … … دل کا دروازہ … … اس کے لئے … … ہمیشہ کے لئے … … بند ہو جائے گا۔
اِس خیال سے وہ کانپ اُٹھا۔ پھر دِل میں ایک اور خیال آیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں سن کر صبرینا بھی اُسے اپنے دل سے نکال دے اور عشرت بھی … اور پھر وہ گھر کا رہے نہ گھاٹ کا۔ یہ خیال اور زیادہ خطرناک تھا۔ لیکن پھر اس کے دل نے کہا کہ ایسا نہ ہو گا۔ عشرت جو بھی کرے ، صبرینا ایسا کبھی نہ دُور کرے گی۔ نہ جانے کیوں اُسے صبرینا پر اپنے آپ سے زیادہ اعتماد تھا۔ شاید اِسی کو محبت کہتے ہیں۔ لیکن صبرینا کے دل میں جیسی محبت اصغر کے لئے کی تھی، اصغر کے دل میں وہی جذبات عشرت کی خاطر تھے۔ وہ عجیب کشمکش میں گرفتار تھا۔
کسی طرح اُس نے شام کی۔ پھر ایک بار صبرینا کا فون آیا۔ صبرینا نے پوچھا کہ اُس نے دوپہر میں کیا کھایا؟ اور یہ معلوم ہونے پر کہ وہ دوپہر سے بھوکا ہے ، بے چین ہو گئی اور بار بار اُسے کھانے کے لئے اصرار کرنے لگی۔ بلکہ یہ دھمکی بھی دے دی کہ وہ جلد ہی دوبارہ فون کرے گی اور اگر اُس وقت تک وہ بھوکا ہو گا تو کھانا کھلانے خود چلی آئے گی۔ اصغر کو صبرینا کی محبت سے خوف محسوس ہوتا تھا۔ کیا ایسے بھی ٹوٹ کر کوئی کسی کو چاہ سکتا ہے ؟ فون بند ہونے کے بعد وہ طعام گاہ میں چلا گیا۔ جو کچھ موجود تھا، اُسے زہر مار کر کے واپس اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا اور نہ جانے کب تک عشرت اور صبرینا کے بارے میں سوچتا رہا۔ یہاں تک کہ آنکھ لگ گئی۔
اصغر کی ذہنی کیفیت اس کے رکھ رکھاؤ سے عیاں تھی۔ وہ بجھا بجھا سا رہنے لگا تھا۔ عشرت خوش تھی، وہ محسوس کر رہی تھی کہ اس کا داؤں چل گیا ہے۔محبت کا اثر زہر دھیمے دھیمے سرائیت کرتا جا رہا ہے۔ وہ اصغر کو مسلسل دباؤ میں رکھنا چاہتی تھی تاکہ اس کا صبرینا سے تعلق ٹوٹ جائے۔ خواہش کے باوجود وہ اصغر سے دُور دُور رہی اور ناراضگی کی اداکاری کرتی رہی۔ اُسے یقین تھا کہ اِس جمعہ کو اصغر صبرینا کے پاس نہیں جائے گا اور پھر کبھی نہیں جائے گا۔ وہ اصغر کی فطرت سے واقف ہو چکی تھی۔ اُسے یقین تھا کہ صبرینا کا انجام بھی مہرانساء جیسا ہی ہو گا اور اصغر جلد ہی اس کا اور صرف اس کا ہو کر رہ جائے گا۔ ادھر صبرینا ہر روز اصغر سے بات کرتی، اُس کی خیریت دریافت کرتی۔ اصغر بھی فون پر اسے جھوٹ موٹ اپنی صحت یابی کی باتیں بتلاتا رہا۔ بالآخر ہفتہ گزر گیا اور جمعہ کا دن آ گیا۔ چھٹی سے قبل عشرت اِٹھلاتی ہوئی اصغر کے پاس آئی اور اس نے کہا۔ ’’میں صرف ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں۔‘‘
اصغر بولا۔ ’’میں جانتا ہوں اور میرا جواب ہے میں آج جا رہا ہوں۔‘‘
عشرت کو اِس جواب کی اور اِس انداز کی بالکل بھی اُمید نہیں تھی۔ اُس نے پوچھا۔ ’’اصغر تم مذاق تو نہیں کر رہے ہو۔‘‘
اصغر کا جواب تھا … ’’عشرت! یہ مذاق نہیں ہے۔ ویسے بھی تھوڑی دیر بعد تمہیں یقین ہو جائے گا۔‘‘
عشرت بڑی مشکل سے مسکرائی اور کہا۔ ’’جیسی تمہاری مرضی … آل دی بیسٹ۔‘‘
اَب عشرت اُسی کیفیت میں گرفتار ہو گئی تھی جس کا شکار اصغر گزشتہ ہفتہ بھر رہا تھا۔ بالکل اُسی طرح کی اُلجھن، اُسی طرح کے اندیشے ، وہی بے چینی، وہی کشمکش … وہ اصغر کی فوٹوکاپی بن گئی تھی اور اصغر صبرینا کی طرف رواں دواں تھا۔
اصغر کو دیکھتے ہی صبرینا کی باچھیں کھل گئیں۔ اُس کے سارے گلے شکوے دُور ہو گئے۔ صبرینا نے اصغر سے وعدہ لیا کہ آئندہ اگر طبیعت خراب ہونے لگے تو فوراً چھٹی لے کر آ جائے یا اُسے اپنے پاس بلا لے۔ اصغر نے نہایت سعادت مندی کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ صبرینا بولی۔ ’’اصغر تم میرے بڑھاپے کی لاٹھی ہو۔ اگر یہ ٹوٹ گئی تو میں ٹوٹ جاؤں گی۔‘‘
اصغر نے کہا۔ ’’نہیں … ایسا نہ کہو … ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ چاہے جو ہو جائے ، ہمارا یہ بندھن کبھی نہ ٹوٹے گا، ہمارا ساتھ کبھی نہ چھوٹے گا۔‘‘
جس وقت اصغر یہ کہہ رہا تھا، اُسے صبرینا کی جگہ عشرت کا چہرہ دِکھلائی دے رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اِس مشکل سے کیسے نکلا جائے ! عشرت صبرینا کی جگہ لینا تو چاہتی تھی لیکن عشرت کبھی بھی صبرینا کی جگہ نہیں لے پاتی تھی۔ صبرینا تھی ہی کچھ ایسی لیکن پھر بھی اصغر اپنی زندگی میں عشرت کے بغیر ایک خلا محسوس کر رہا تھا۔
عشرت نے اصغر کے جانے کو اپنی شکست پر محمول کیا، لیکن وہ با آسانی شکست تسلیم کرنے والوں میں سے نہیں تھی۔ اس کا ایک حربہ تو ناکام ہو چکا تھا، لیکن وہ دُوسرا حربہ استعمال کرنا چاہتی تھی۔ یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی تھی کہ اصغر سے دُوری اُسے صبرینا سے قریب کر دے گی۔ اس لئے اپنی قربت کے ذریعہ سے اصغر کو صبرینا سے دُور کرنا پڑے گا۔ اصغر کی زندگی سے صبرینا کو نکالنے کی خاطر عشرت نے حکمت عملی تبدیل کی اور اس تبدیلی سے اصغر فریب کھا گیا۔ اُسے ایسا لگا گویا عشرت کی سمجھ میں بات آ گئی اور اُس نے اصغر کی تجویز کو منظور کر لیا اور صبرینا کے ساتھ رہنے کے لئے تیار ہو گئی ہے۔ لیکن عشرت کا منصوبہ دوسرا تھا۔
ابتدا میں اصغر کے اندر ایک احساس جرم پیدا ہو گیا تھا۔ وہ عشرت سے نظریں چرا رہا تھا، لیکن عشرت کا رویہ یکسر بدلا ہوا تھا۔ عشرت اس پر بچھی جا رہی تھی۔ ایک دن خلاف توقع عشرت نے دفتر کے بعد اصغر کو چائے کی دعوت دی۔ اصغر ڈر رہا تھا کہ شاید شام میں عشرت اُس پر برس پڑے گی۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ عشرت نے کہا۔ ’’اصغر، مجھے خوشی ہوئی کہ تم صبرینا کو اس قدر چاہتے ہو اور ایک وفا شعار خاوند ہو۔‘‘
اصغر یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا، عشرت بولی۔ ’’مجھے یقین ہے کہ مجھے بھی تم سے اُسی طرح کی وفا داری میسر آئے گی جیسی کہ صبرینا کو حاصل ہے۔‘‘
اصغر یہ سن کر پھولا نہ سما رہا تھا۔ اُس نے کہا۔ ’’کیا بات کرتی ہو عشرت! تمہارے لئے تو میں صبرینا سے زیادہ وفا شعار ثابت ہوؤں گا۔ صبرینا تو میری مجبوری تھی اور پھر وہ مجھ سے کئی سال بڑی بھی ہے۔ لیکن تم مجھ سے زیادہ کمسن ہو، جوان ہو، خوبصورت ہو اور تم میری مجبوری نہیں بلکہ میری محبت ہو … میری ضرورت ہو۔‘‘
’’ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے۔ میں تمہاری مجبوری نہیں ہوں لیکن تم میری مجبوری ہو۔ اصغر، میں محبت کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی۔ مجھے صبر ینا کے ساتھ اشتراک منظور ہے ، لیکن یہ وعدہ کرو کہ کہیں تم ہم دونوں کو چھوڑ کر مہرالنساء کے پاس تو نہیں چلے جاؤ گے۔‘‘
’’کیسی باتیں کرتی ہو عشرت؟‘‘ اصغر بولا۔ ’’میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ تم میر ی منزل مقصود ہو۔ میں تمہیں چھوڑ کر کہاں جا سکتا ہوں ؟‘‘
عشرت نے کہا۔ ’’نہیں، میں سوچ رہی تھی کہ کہیں تم کل مجھے یہ سمجھانے نہ بیٹھ جاؤ کہ اسلام میں چونکہ چار کی اجازت ہے اس لئے میں ایک اور سے … ‘‘
اصغر نے بات کاٹ دی۔ ’’چپ بھی کرو عشرت! اب بہت ہو چکا۔ اب تم ہی میرے لئے سب کچھ ہو۔ اب میں یہاں سے آگے کہیں نہیں جاؤں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔‘‘
’’تب تو ٹھیک ہے۔‘‘ عشرت جہاں بولی۔
اصغر نے کہا۔ ’’عشرت، اب جبکہ ہم دونوں کے درمیان رضامندی ہو چکی ہے تو بات آگے بڑھائی جائے۔ میں نکاح سے قبل ایک مرتبہ صبرینا کو بھی اعتماد میں لے لینا چاہتا ہوں۔‘‘
عشرت نے ناراضگی سے کہا۔ ’’ہوں ! وہ کیوں ؟‘‘
’’بس یوں ہی۔‘‘ اصغر بولا۔ ’’لیکن اگر صبرینا نے منع کر دیا تو … ؟‘‘ عشرت نے پوچھا۔
’’نہیں … وہ ایسا نہیں کر سکتی؟‘‘
’’کیوں نہیں کر سکتی؟ اگر بالفرض محال کر ہی دیا تو؟‘‘
’’نہیں عشرت … وہ ایسا نہیں کر سکتی وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کر سکتی جس سے مجھے تکلیف ہو۔ اگر اُسے پتہ چل جائے گا کہ اس کے منع کرنے میں میری ناراضگی ہے ، تو وہ اپنی رائے فوراً بدل دے گی۔‘‘
’’اگر ایسا ہی ہے تو اُسے پہلے سے اعتماد میں کیوں لینا چاہتے ہو؟ بعد میں بتلا دینا۔‘‘ عشرت اس مرحلے میں کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتی تھی۔
’’نہیں عشرت … مجھے لگتا ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو اُسے دُکھ ہو گا اور میں نہیں چاہتا کہ میرے باعث اُسے کوئی رنج پہنچے۔ اس ہفتہ کے دن میں صبرینا سے بات کروں گا اور اُس کی رضامندی سے ہم دونوں نکاح کر لیں گے۔‘‘
عشرت بولی۔ ’’اب بہت ہو چکا یہ سب … تم مجھے اڑیل کہتے ہو لیکن خود کس قدر اڑیل ہو؟‘‘
’’نہیں عشرت، ایسی بات نہیں۔ میں جس قدر خیال صبرینا کا رکھتا ہوں، اُس سے زیادہ تمہارا خیال رکھتا ہوں۔ میں تمہاری وجہ سے اُسے یا اس کی وجہ سے تمہیں کوئی تکلیف نہ ہونے دوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ عشرت نے کہا۔ ’’اگر ایسا ہی ہے تو ایک ہفتہ اور انتظار کر لوں گی۔‘‘
عشرت اور اصغر کے تعلقات میں پھر پہلے جیسی گرم جوشی پیدا ہو چکی تھی۔ لیکن اصغر پورا ہفتہ سوچتا رہا کہ وہ صبرینا کو عشرت کے بارے میں کیسے بتلائے ؟ خیر، جمعہ کو جب وہ صبرینا کے پاس آیا تو کھانے کے بعد دونوں حسب معمول خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔ اس بیچ اصغر نے کہا۔ ’’صبرینا میں تم سے ایک ضروری مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
صبرینا بولی۔ ’’اس میں اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے ؟ بولو کیا بات ہے ؟‘‘
اصغر بولا۔ ’’اجازت ہی کا مسئلہ ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں صرف دو دن تمہارے ساتھ رہتا ہوں اور باقی پانچ دن تم سے دُور رہتا ہوں۔‘‘
’’ہاں ہاں … میں جانتی ہوں۔‘‘ صبرینا بولی
’’اگر یہ پانچ دن میں کسی اور کے ساتھ رہوں تو تمہیں اعتراض تو نہ ہو گا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘ ‘ صبرینا نے پوچھا۔‘‘
’’میرا مطلب ہے … … !‘‘ اصغر کی زبان لڑکھڑائی۔
’’اوہو … میں سمجھ گئی۔ میں سمجھتی ہوں، جوان آدمی ہو، مجھ جیسی بڑھیا کے ساتھ تمہارا گزارا کب تک چلے گا؟‘‘
’’نہیں صبرینا نہیں … ایسی بات نہیں۔ میں تمہیں چھوڑنے کی بات نہیں کر رہا۔ ہم دونوں کے تعلقات، ہمارا رشتہ، اسی طرح باقی رہے گا۔ میں اسی طرح ہر ہفتہ جمعہ کو بلا ناغہ تمہارے پاس آتا رہوں گا۔‘‘
صبرینا نے مصنوعی مسکراہٹ کو ہونٹوں پر لاتے ہوئے پوچھا ’’واقعی؟‘‘
اصغر بولا۔ ’’یقیناً صبرینا یقیناً … میں تمہارے بغیر جی نہیں سکتا۔‘‘
صبرینا بولی۔ ’’لیکن؟‘‘
’’لیکن ویکن کچھ نہیں !‘‘ اصغر بولا۔ ’’میں تم سے تمہاری مرضی پوچھ رہا ہوں۔ اگر تم اس سے ناراض ہو تو یہ خیال میں اپنے دل سے نکال دوں گا۔‘‘
’’مرضی بتلا رہے ہو یا مرضی جاننا چاہتے ہو؟ جو خیال تم نے اپنے دل میں بسا لیا ہے ، اُسے میری خاطر کیوں نکالتے ہو؟‘‘
اصغر گھبرا گیا۔ ’’نہیں صبرینا، ایسی بات نہیں ہے۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھاؤں گا جس سے تمہاری دل آزاری ہو۔‘‘
صبرینا بولی۔ ’’اصغر مجھے خوشی ہے کہ تم اِجازت مانگ رہے ہو۔ حالانکہ تمہیں اس کی چنداں ضرورت نہیں اور میں بھی تمہیں ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ میری طرف سے تمہیں اجازت ہے۔ جیسے چاہو، اپنے پانچ دن گزارو۔ مجھے اس سے نہ کوئی غرض ہے نہ گلہ۔‘‘
صبرینا کے ایک ایک لفظ میں کرب تھا … اندیشہ تھا … اندیشۂ محرومی … یہ کہہ کر صبرینا آگے بولی۔ ’’اور سنو، اگر تم بقیہ دو دن بھی میرے ساتھ گزارنا نہیں چاہتے ہو تو ایسا بھی کر سکتے ہو۔ لیکن میری ایک ادنیٰ سی گزارش یہ ہے کہ ایسا کرنے سے پہلے مجھے بتلا دینا … تاکہ میں توقع نہ باندھوں، انتظار نہ کروں۔‘‘ صبرینا سے صبر کا دامن چھوٹ گیا تھا۔ وہ رونے لگی۔ اصغر بھی رونے لگا۔ دونوں دیر تک روتے رہے۔ بالآخر اصغر نے صبرینا کے آنسو پونچھے اور بولا۔ ’’صبرینا، ایسا نہ ہو گا، ایسا کبھی نہ ہو گا۔‘‘
صبرینا بولی۔ ’’مجھے تم سے یہی اُمید ہے۔ لیکن میری ایک شرط ہے۔ تم مجھے ایک دن اُس پانچ دن والی سے ضرور ملاؤ گے۔‘‘
’’ضرور … ضرور۔‘‘ اصغر بولا۔
اگلی جمعہ کو اصغر کا نکاح عشرت سے اُسی قاضی نے پڑھایا جس نے صبرینا سے اس کا عقد کرایا تھا۔ قاضی صاحب نے پہلے سمجھاکہ اصغر پھر کسی عیسائی لڑکی کو پکڑ کر لے آیا ہے۔ اس لئے کہ عشرت جہاں رکھ رکھاؤ میں بالکل امریکی تھی۔ لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ و ہ مسلمان ہے اور اس کے ساتھ اس کے ماں باپ اور دوسرے اقربا بھی ہیں، تو اُنہیں بڑی خوشی ہوئی۔ عقد کے بعد شام میں سارے لوگ ایک ہوٹل میں کھانے کے لئے گئے۔ یہ گویا اصغر کا ولیمہ تھا۔ طعام سے فارغ ہونے کے بعد عشرت جہاں کے والد تمام اہل خانہ کو اپنی ٹیکسی میں لے کر روانہ ہو گئے اور اصغر عشرت کے ساتھ صبرینا کے گھر آ گیا۔ صبرینا حسب معمول اُن دونوں کا انتظار کر رہی تھی۔ صبرینا کی کو ٹھی کو دیکھ عشرت خوب مرعوب ہوئی اور اُس نے کہا۔ ’’یہ کوٹھی تو بڑی شاندار اور کافی کشا دہ ہے۔‘‘
اصغر بولا۔ ’’بالکل صبرینا کے دل کی طرح … وہ بڑی کشادہ دل خاتون ہے۔‘‘
عشرت ناراض ہو گئی۔ ’’تم تو ہر بات کو صبرینا سے جوڑ دیتے ہو۔‘‘
اصغر بولا۔ ’’نہیں ہر بات کو نہیں بلکہ ہر اچھی بات کو … اس لئے کہ وہ ہے ہی بڑی اچھی … اور پھر یہ کوٹھی تو صبرینا کی اپنی ملکیت ہے۔ اسے تو صبرینا سے نہ جوڑنا تو اِن دونوں پر ظلم ہو گا۔‘‘
’’ہاں ہاں ! بس بھی کرو۔ صبرینا صبرینا کا وِرد!‘‘ عشرت نے چڑ کر کہا۔ اب صبرینا کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے کر مہمان خانہ میں آ چکی تھی۔ تازہ پھلوں کے رس کے ساتھ دونوں نے ایک دوسرے کا تعارف حاصل کیا۔ دیکھتے دیکھتے گھڑی کی سوئیوں نے کئی چکر پورے کر دیئے۔ اچانک جب صبرینا کو اِس کا خیال آیا تو وہ بولی۔ ’’باتیں بہت ہو چکی ہیں اور کل پھر ہو سکتی ہیں۔ لیکن آج کی رات تم دونوں کے لئے بہت خاص ہے اور مجھے اس میں مخل نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
عشرت نے تکلّف میں کہا۔ ’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ طے شدہ معاہدے کے مطابق جمعہ اور ہفتہ پر آپ کا حق ہے۔‘‘
صبرینا بولی۔ ’’ہاں … میں جانتی ہوں۔ مگر آج میں اپنے اس حق سے برضا و رغبت تمہارے حق میں دستبردار ہوتی ہوں۔ گڈ نائٹ … شب بخیر!‘‘
یہ کہہ صبرینا اپنے کمرے میں چلی گئی اور اپنے ماضی میں کھو گئی۔ اُسے اچانک محسوس ہوا کہ اُس کی عمر میں کئی صدیوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ جب اصغر اُس کی زندگی میں آیا تھا تو گھڑی کا کانٹا اُلٹا گھومنے لگا تھا اور وہ ہر روز کچھ نہ کچھ جوان ہو جاتی تھی۔ لیکن اب عشرت نے گھڑی کے کانٹوں کو کئی مرتبہ گھما دیا تھا۔ وہ ایک دم سے بوڑھی ہو گئی تھی۔ اگر وہ بوڑھی نہ ہوتی تو عشرت نہ آتی۔ لیکن اگر اسی طرح جوان ہوتی رہتی تو پھر بچپن آ جاتا اور بچپن بھی تو بڑھاپے جیسا ہے۔ صبرینا کو لگا، عشرت نے گھڑی کی سوئیوں کو صحیح سمت موڑ دیا ہے۔ شاید اَب سب کچھ درست ہونے لگا ہے۔ لیکن آئندہ کیا کچھ ہو سکتا ہے ، اس کے اندیشے نے اُسے بے چین کر دیا۔ عشرت آخر کب تک اس کی دخل اندازی برداشت کرے گی؟ اور جب اس کی قوت برداشت ختم ہو جائے گی تو کیا ہو گا؟ صبرینا نے فوراً اِس سوال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ لیکن سوال نے پھر سر اُبھارا۔ صبرینا نے اسے پھر نکالا، وہ پھر اُبھر آیا رات بھر یہ ڈوبنا اور اُبھرنا چلتا رہا۔ صبرینا کی جب آنکھ لگی تو وہی خواب تھا … ایک خواب … جس کے پیچھے وہ دوڑ رہی تھی۔ وہ بگ ٹٹ دوڑتی رہی، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ رات کی نیند نے اس کی تھکن میں اضافہ کر دیا تھا۔ وہ خوابیدہ رہی تو دوڑتی رہی اور بیدار ہوئی تو تھک کر بیٹھ گئی۔ ایسا صبرینا کے ساتھ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس وقت بھی نہیں جب کروڑ پتی شوہر سے اس کی طلاق ہو گئی تھی۔ لیکن ابھی تو ایسا کچھ بھی نہ ہوا تھا۔ پھر ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟
ناشتہ کی میز پر سبھی لوگ بظاہر بہت خوش تھے۔ صبرینا نے اپنے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ کو سجا رکھا تھا۔ لیکن اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اچانک ناشتہ کرتے کرتے صبرینا کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ سر چکرانے لگا۔ اُس نے اصغر سے کہا۔ ’’اصغر میرا دل ڈوب رہا ہے … مجھے سنبھالو … مجھے … ‘‘
صبرینا کے ہونٹوں سے الفاظ گرنے لگے تھے۔ اصغر نے دوڑ کر اس کے کندھوں کو تھاما اور صوفے پر اُسے اپنے قریب بٹھا لیا۔ صبرینا کی دھڑکن تھمنے لگی، نبض ڈوبنے لگی، آنکھیں پتھرا گئیں۔ اصغر کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔ وہ صبرینا کا سر اپنی گود میں لئے خلا میں دیکھ رہا تھا۔ صبرینا نے الماری کی جانب اشارہ کیا۔ عشرت نے سمجھا کہ وہاں کوئی دوا ہے۔ وہ دَوڑی، لیکن الماری میں کوئی دوا نہ تھی، صرف دو کاغذات تھے۔ عشرت نے سوچا شاید یہ کوئی نسخہ ہو۔ لیکن یہ تو اسٹامپ پیپر تھا۔ عشرت ان کاغذات کو وہیں چھوڑ کر واپس آئی تو صبرینا دم توڑ چکی تھی۔ اصغر پتھر بنا بیٹھا تھا اور عشرت حواس باختہ کھڑی تھی۔ یہ سب کچھ اس تیزی سے ہوا تھا کہ کسی کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد عشرت نے اصغر کو سنبھالا اور کہا۔
’’اصغر! اپنے آپ کو سنبھالو … جو ہونا تھا سو ہو چکا مقدر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے ؟ موت کا وقت طے ہے۔ اُس میں ایک لمحہ کا بھی اضافہ یا کمی نہیں ہوتی۔‘‘
جب عشرت یہ کہہ رہی تھی تو اصغر کی آنکھوں سے آنسو کے بڑے بڑے قطرے صبرینا کی آنکھوں میں گرے اور ایسا لگا گویا پتھرائی ہوئی آنکھوں میں پھر چمک آ گئی ہو۔ لیکن یہ لمحاتی اثر تھا۔ عشرت نے صبرینا کی آنکھوں کو بند کر دیا، اس کی لاش کو سیدھا لٹا دیا اور کہا۔
’’اصغر اپنے آپ کو سنبھالو اور آگے کی کاروائی کرو۔ کسی ڈاکٹر کو بلاؤ۔ اگر ممکن ہو تو صبرینا کے معالج خاص کو، تاکہ وہ موت کا سرٹیفکیٹ دے اور آگے کے مراحل طے ہو سکیں۔‘‘
اصغر صبرینا کے ڈاکٹر سے واقف تھا۔ وہ اُنہیں فون کرنے کے لئے الماری کے قریب گیا۔ عشرت بھی اس کے ساتھ گئی۔ وہاں جانے کے بعد اُسے دوبارہ الماری کی اُس دراز کا خیال آیا جس کی جانب صبرینا نے اشارہ کیا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اُن دو کاغذات کو نکالا اور اُسے پڑھنے لگی۔ یہ دراصل صبرینا کی وصیت کے کاغذات تھے جس میں صبرینا نے اپنی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائداد کو اصغر کے نام منتقل کر دیا تھا اور یہ درخواست کی تھی کہ اُسے مسلم قبرستان میں دفن کیا جائے۔ عشرت عجیب بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا تھی۔ اسے صبرینا کی موت کا افسوس ضرور تھا لیکن اپنی سوتن کے موت کی خوشی تھی۔ اسی کے ساتھ نئی کوٹھی کے حاصل ہونے کی مسرت سے وہ پھولی نہیں سما رہی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اُس نے اپنے اُوپر قابو رکھا ہوا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس موقع پر خوشی کے اظہار سے اصغر بگڑ جائے گا۔
ہفتے کی شام تک صبرینا کی تدفین ہو گئی۔ اصغر نے بے حد غمگین تھا۔ اُس نے عشرت سے نہ بات کی اور نہ کھانا کھایا، بس یوں ہی بھوکا پیاسا سو گیا۔
اِتوار کے دن عشرت اور اصغر بیٹھے صبرینا کے بارے میں باتیں کر ہی رہے تھے کہ اچانک زور زور سے دروازہ پیٹنے کی آوازیں آنے لگیں۔ وہ لوگ گھبرا گئے۔ اصغر دروازہ کھولنے کے لئے دوڑا، لیکن اِس سے پہلے کہ وہ قریب پہنچتا، دروازہ ٹوٹ چکا تھا اور دھڑادھڑ پولیس کے اہلکار اُس کے گھر میں گھسے جا رہے تھے۔ انہوں نے اندر آتے ہی پوچھا۔ ’’اصغر کون ہے ؟‘‘
… اور فوراً اصغر کو اپنے قابو میں کر لیا۔ اس کو نہ صرف ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں بلکہ رسیوں سے جکڑ دیا گیا۔ عشرت سمجھ گئی معاملہ کافی تشویش ناک ہے۔ پولیس نے بتلایا کہ ایک خطرناک دہشت گرد اُن کے ہاتھ لگا ہے اور اس کی ڈائری میں اصغر کا بھی فون نمبر پایا گیا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ اصغر کا تعلق بھی القائدہ سے ہے۔
اصغر یہ سب سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ اُس نے پوچھا۔ ’’کیا میں جان سکتا ہوں کہ کس کی ڈائری میں میرا نمبر ملا ہے ؟‘‘
پولیس والوں نے قاضی صاحب کا نام بتا دیا، جن سے اُس نے اپنا نکاح پڑھایا تھا۔
اصغر کو قابو میں کرنے کے بعد پولیس نے عشرت جہاں سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیا کر رہی ہے ؟‘‘
عشرت بولی۔ ’’میں … میں دراصل اِن کے دفتر میں اِن کے ساتھ ملازمت کرتی ہوں۔ کل اِن کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا، اس لئے پرسہ دینے کی خاطر آ گئی تھی۔ بس اس کے علاوہ میں کچھ اور نہیں جانتی۔‘‘
وہ خوف سے کانپ رہی تھی۔ اصغر اُسے حیرت سے دیکھ رہا۔ اس نے سوچا یہ عشرت جہاں ہے ، امریکہ عیش و عشرت کی خاطر آئی ہے۔ اصغر کی خاطر وہ اپنا مستقبل کیوں کر داؤں پر لگا سکتی ہے ؟ ہاں، اگر صبرینا ہوتی تو اس کی بات اور تھی۔ وہ شاید اِن پولیس والوں سے اُلجھ جاتی۔ اصغر کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے اُن سے بحث کرتی، بلکہ لڑ جاتی اور شاید اس کے ساتھ ہندوستان جانے کے لئے تیار ہو جاتی۔ لیکن صبرینا … اَب وہ صبرینا اِس دُنیا میں نہیں تھی۔ اصغر عشرت کے ساتھ ہونے کے باوجود تنہا ہو گیا۔
عشرت جہاں نے اس کی جانب احساسِ جرم کے ساتھ دیکھا اور نکل گئی۔ باہر آنے کے بعد اُس نے ایک کافی ہاؤس تلاش کیا جہاں سکون سے دو گھڑی بیٹھ سکے۔کافی ہاؤس کے اندر بیٹھی عشرت اپنے ماضی کا جائزہ لے رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ گزشتہ دو دنوں میں اس کی زندگی کے اندر کس قدر انقلابات رو نما ہوئے۔ وہ سہاگن بنی، اس کو اصغر جیسا شوہر ملا، اسے اپنی سوتن صبرینا سے نجات ملی اور نہ صرف نجات ملی بلکہ وہ دیکھتے دیکھتے ایک وسیع و عریض کوٹھی اور لاکھوں کے بینک بیلنس کی اپنے شوہر کے توسط سے مالکن بھی بن گئی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اِس جہانِ عیش و طرب سے لطف اندوز ہوتی، یہ سب کچھ پلک جھپکتے ہی اُس سے چھن گیا اور وہ وہیں پہنچ گئی، جہاں پہلے تھی۔
اب نہ اس کے پاس کوٹھی تھی، نہ دولت تھی، اور نہ شوہر تھا۔ اُسے اپنی زندگی پر افسوس ہو رہا تھا۔ وہ واپس اپنے والد کے پاس جانے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ اس دوران اُسے ایک بار بھی اِس بات پر دُکھ نہیں ہوا کہ اصغر کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ اس نے ایک بار بھی یہ نہ سوچاکہ اب اس کا کیا ہو گا؟ اور وہ کیوں کر اس کی مدد کر سکتی ہے۔ وہ تو بس یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہی تھی کہ پولیس نے اُسے نہیں پہچانا اور رہا کر دیا۔ اگر وہ اصغر سے اس کے رشتے کی نوعیت جان جاتے اور انہیں پتہ چلتا کہ وہ پاکستانی ہے ، تب تو قیامت برپا ہو جاتی۔ ممکن ہے اُسے بھی جیل بجھوا دیا جاتا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو بہت بڑی مصیبت آ جاتی۔ اس خوشی نے اس کے سارے غم غلط کر دیے تھے اور اَب وہ اپنے والد کو فون کر رہی تھی۔
بے مثال دوستی
اصغر کے امریکہ جانے سے رحمٰن چاچا بہت خوش تھے۔ اُنہیں اُمید تھی کہ جلد ہی اصغر وہاں سے کوئی خوشخبری بھیجے گا اور وہ کم از کم امریکہ کی سیر ضرور کریں گے۔ لیکن امریکہ جانے سے پہلے حج کرنا چاہتے تھے۔ اگر اصغر کا معاملہ نہ آتا تو شاید وہ اپنے فنڈ کی بچت سے اُسی سال حج کے لئے روانہ ہو جاتے۔ لیکن انہیں ایسی امید تھی کہ اگر بیٹا برسرروزگار ہو جائے تو ایک کیا، کئی حج کروا دے گا۔ وہ امریکہ آنے جانے کا پروگرام اس طرح بنائیں گے کہ درمیان میں رُک کر حج یا عمرہ ادا کر لیا کریں۔
مہرالنساء بھی سوچتی تھی کہ جلد ہی اصغر اس کا ویزا بھیج دے گا اور وہ اپنے ننھے سلطان کے ساتھ امریکہ جائے گی۔ سلطان کی تعلیم و تربیت امریکہ ہی میں ہو گی، پھر اُسے اصغر کی طرح امریکہ جانے کے لئے پاپڑ نہیں بیلنے پڑیں گے۔ دو چار سال میں جب وہ اپنے میکے امریکہ سے آئے گی تو اس کی زبردست ٹھاٹ باٹ ہو گی۔ ننھا سلطان ان جھمیلوں سے ناواقف تھا، اس لئے اُسے تو بس اپنے والد کے بچھڑ جانے کا دُکھ تھا۔ دو چار دن وہ اُنہیں یاد کر کے روتا رہا اور پھر بھول گیا۔ لیکن رحمٰن اور مہرون، اصغر کو نہ بھول سکے۔ دن بہ دن اُن کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
وہ سوچتے رہتے تھے کہ نہ جانے اصغر کس مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔ لیکن اُنہیں غصہ اس بات پر آتا تھا کہ وہ انہیں اطلاع کیوں نہیں دیتا؟ اور پھر اگر کوئی بڑی پریشانی ہے تو لوٹ کر آ جائے۔ پردیس چلے جانے پر اپنا وطن یا اپنی رشتہ داری تھوڑے ہی ختم ہو جاتی ہے ! جب دن ہفتوں میں اور مہینے سال میں بدل گئے تو اُمید کے سارے دئیے بجھ گئے۔ رحمٰن کے بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹ گئی۔ مہرالنساء بیوگی کی کیفیت میں مبتلا ہو گئی اور سلطان یتیم سا ہو گیا۔ مہرالنساء کی یہ حالت بیوگی سے بھی ابتر تھی۔ اگر بیوہ ہو جاتی تو دوسرا نکاح ہو سکتا تھا، لیکن اب بس حزن و ملال تھا یا حسرت ویاس تھی۔
گھر کی پس انداز شدہ جمع پونجی جب ختم ہو گئی تو رحمٰن چاچا نے ملازمت کی تلاش شروع کر دی۔ حالانکہ اُن کو جاننے والے بہتیرے تھے ، لیکن ایک ریٹائرڈ آدمی کو کام پر رکھنا لوگوں کے گلے سے نہ اُترتا تھا۔ اس لئے کہ جہاں نوجوان کم تنخواہوں پر مل جاتے تھے ، وہاں بوڑھوں کو زیادہ تنخواہ پر کون رکھے ؟ بڑی مشکلوں سے اُنہیں ایک ملازمت تو ملی، لیکن دُور دراز ہائی وے پر …۔ دراصل گاؤں کے ریڈی سیٹھ نے وہاں پر ویرانے میں ایک نیا پٹرول پمپ کھولا تھا۔ انہیں اس کی نگرانی کے لئے ایک ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو قابل اعتماد اور ایماندار ہو۔ رحمٰن چاچا اِس کام کے لئے بالکل مناسب تھے۔ حالانکہ گھر میں جوان بہو اور ننھے سے سلطان کو چھوڑ کر جانا اُن کے لئے گراں بار تھا، لیکن مجبوری تھی اس لئے وقتاً فوقتاً آتے جاتے رہنے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔ مہرالنساء ڈر گئی۔ اگر رحمٰن چاچا بھی جانے کے بعد اصغر کی طرح اُنہیں بھو ل جائیں تو اُس کا اور اُس کے بیٹے کا کیا ہو گا؟ لیکن رحمٰن چاچا سے اُسے یہ توقع ہرگز نہیں تھی۔
پٹرول پمپ ۲۴؍ گھنٹے چلتا تھا۔ ملازمین کے لئے رہائش کا وہیں انتظام تھا۔ ایک ڈھابہ نما ہوٹل بھی تھا، جہاں سے اُن کے لئے کھانا آ جاتا۔ یہ انتظام ریڈی سیٹھ کی جانب سے تھا، لیکن اس کے پیسے تنخواہ میں سے کٹ جاتے تھے۔ بعد میں دوسرے ملازمین نے مل جل کر کھانا بنانا شروع کیا تاکہ تنخواہ میں چار پیسوں کا اضافہ ہوسکے۔ اِس ویران علاقے میں آنے کے بعد رحمٰن چاچا کی طبیعت پھر باغ و بہار ہو گئی۔ دن بھر مصروفیت رہتی تھی، اس سے دل لگا رہا تھا۔ اتوار اُن کے لئے چھٹی کا دن ہوتا تھا۔ اپنے شہر کے کسی ٹرک والے کے ساتھ وہ اپنی بہو اور پوتے کے پاس آ جاتے اور ایک دن گزار کر واپس ہو لیتے۔
سلطان آہستہ آہستہ بڑا ہو چلا تھا۔ گھر کے قریب سرکاری اسکول میں اس کا داخلہ کر دیا گیا تھا۔ رحمٰن چاچا نے سرکاری ملازمت کے چلتے جس ٹھاٹ باٹ سے اپنے بچوں کو پڑھوایا تھا، ویسی شان تو سلطان کی نہ تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اسکول جانے آنے لگا تھا۔ مہرالنساء نے گھر کے خرچ سے کچھ رقم بچا کر سلائی کی مشین خرید لی تھی۔ اب وہ اپنے سسر سے چھپ کر پاس پڑوس کے کپڑے سلنے لگی تھی، اس سے دوچار پیسے مل جاتے تھے۔
رحمٰن چاچا خورد و نوش کا خرچ فراہم کر دیتے تھے۔ گاڑی کسی نہ کسی طرح چل ہی رہی تھی کہ اچانک رحمٰن چاچا کو فالج کا جھٹکا لگا اور اُن کے جسم کا آدھا حصہ مفلوج ہو گیا۔ رحمٰن چاچا نے بستر پکڑ لیا۔ پٹرول پمپ کے نوجوان نوکر رحمٰن چاچا کا باپ جیسا احترام کرتے تھے۔ اُن لوگوں نے رحمٰن چاچا کی خوب خدمت کی، لیکن کب تک؟ جب ریڈی سیٹھ کو پتہ چلا تو اُس نے رحمٰن چچا کی جگہ نیا منیجر بھیج دیا اور اُس دن سے رحمٰن چاچا کی تنخواہ بند ہو گئی۔ پٹرول پمپ کے قریب ہی ڈاکٹر سرما کا ہسپتال تھا۔ ڈاکٹر صاحب رحمٰن چاچا کے اخلاق سے بہت متاثر تھے۔ جب بھی کوئی بیمار ہوتا، رحمٰن چاچا اُس کے لیے تڑپ اُٹھتے تھے اور اس کی خدمت میں لگ جاتے تھے۔ اُن کی اِس ہمدردی و غمخواری کے باعث ڈاکٹر سرما کی نظر میں رحمٰن چاچا کا بڑا احترام تھا۔ جب خود رحمٰن چاچا بیمار ہو گئے تو ڈاکٹر سرما نے اُنہیں اپنے ہسپتال میں داخل کر لیا اور تمام ملازمین کو ہدایت کر دی کہ اُن کا خاص خیال رکھا جائے۔
ایک دن رحمٰن چاچا نے ڈاکٹر صاحب سے کہا۔ ’’مجھے اپنے گھر بھیج دیجئے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب بولے۔ ’’کوئی تکلیف ہے کیا؟ ابھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی ہے۔ گھر جانے کے بعد بھی علاج جاری رکھنا پڑے گا اور ایسی حالت میں آپ کو گھر سے دوا خانہ کون لائے گا اور لے جائے گا؟‘‘
رحمٰن چاچا نے کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب! لیکن اب میں بے روزگار ہو گیا ہوں۔ ریڈی سیٹھ نے میری جگہ نیا ملازم رکھ لیا ہے اور ایسے میں آپ کی فیس میں کہاں سے ادا کروں گا؟‘‘
ڈاکٹر سرما بولے۔ ’’کس نے کہا ہے آپ کو فیس ادا کرنے کے لئے ؟ آپ میرے باپ جیسے ہیں۔ کیا میں اپنے باپ کا علاج کر کے اُن سے فیس لوں گا؟ آپ تو مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر سرما کی باتیں سن کر رحمٰن چاچا کی آنکھ بھر آئی۔ ایک اُن کے اپنے بیٹے اکبر اور اصغر تھے۔ اکبر کو پتہ چلنے پر وہ چند گھنٹوں کے لئے ملنے آیا تھا اور پھر دوبارہ آنے کا و عدہ کر کے ایسے گیا کہ پھر کبھی نہ آیا۔ اصغر تو جیسے اُن کے لئے مر ہی گیا تھا۔ اور ایک ڈ اکٹر سرما تھا۔ رحمٰن چاچا نے اُسے ڈھیروں دعائیں دیں۔
گاؤ ں میں جب رحمٰن چاچا کی بیماری کی خبر پہنچی تو بہت سارے لوگ غمگین ہو گئے۔ ان کی بہو اپنے سسر سے ملنا چاہتی تھی، لیکن اکیلے کیسے جاتی؟ اُس نے اپنے پڑوسی انجیا کاکا سے کہا۔ انجیا فوراً تیار ہو گیا اور وہ اپنی بیوی، اپنے پوتے کانن، مہرالنساء اور سلطان کے ساتھ رحمٰن چاچا کے پاس پہنچ گئے۔ رحمٰن چاچا کو اِس حالت میں دیکھ کر سبھی لوگ غمگین ہو گئے۔ لیکن رحمٰن چاچا اپنے غم کو پی گئے۔ انہوں نے انجیا سے کہا۔
’’کیوں انجیا تم تو یوں منہ لٹکائے کھڑے ہو جیسے میری میت میں آئے ہو؟‘‘
انجیا نے اُن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’ایسا نہ کہو یار۔‘‘
’’پھر کیا کہوں۔ میں بیمار ہوا ہوں، مرا نہیں ہوں۔ بیماری کا کیا ہے ؟ جیسے آتی ہے چلی بھی جاتی ہے۔‘‘
انجیا بولا۔ ’’ہاں، تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہمیں اُمید ہے کہ تم جلدی ہی اچھے ہو جاؤ گے۔‘‘
اِس کے بعد رحمٰن چاچا نے سلطان اور کانن کو قریب بلایا، دونوں کا بوسہ لیا، اُن سے خیریت دریافت کی، پڑھائی لکھائی کے بارے میں پوچھا اور خوب دل لگا کر پڑھنے کی تلقین کی۔ وہ اپنے ایک ایک دوست کے بارے میں دیر تک پوچھتے رہے۔
مہرالنساء نے کہا۔ ’’اباجی گھر چلئے ، اس حالت میں ہم آپ سے دُور کیسے رہ سکتے ہیں ؟‘ ‘
رحمٰن چاچا اپنی بہو کے الفاظ سن کر جذباتی ہو گئے ، وہ بولے۔ ’’ہاں بیٹی … میں نے ڈاکٹر سرما سے کہا تھا۔ لیکن انہوں نے منع کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب چلنے پھرنے کے لائق ہو جاؤ گے تو چلے جانا۔ تب تک میں علاج کرواؤ۔ گھبراؤ نہیں بیٹی، میں جلد ہی اچھا ہو جاؤں گا اور تم سب کے پاس آ جاؤں گا۔ کیوں انجیا تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘
انجیا نے کہا۔ ’’یقیناً … تم جلد ہی اچھے ہو کر ہمارے درمیان آ جاؤ گے۔ دیکھو، اپنا خیال رکھنا۔‘‘
رحمٰن چاچا نے اُن سے بھی یہی کہا اور الوداع کیا۔ گاؤں یہاں سے کافی دُور تھا اور سواریاں بھی مشکل سے ملتی تھیں۔ جب سب لوگ باہر آ گئے تو رحمٰن چاچا نے مہرالنساء کو آواز دے کر بلایا۔ انجیا سمجھ گیا کہ کوئی ذاتی بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
مہرالنساء واپس آئی تو رحمٰن چاچا نے پوچھا۔ ’’بیٹی، میں نے تو پوچھا ہی نہیں کہ گھر کا گزر بسر کیسے ہوتا ہے ؟‘‘
مہرالنساء روہانسی ہو گئی اور بولی۔ ’’اباجی … آپ اپنی صحت کا خیال کریں، ہمارے بارے میں نہ سوچیں۔‘‘
’’بیٹی یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ میرا تم دونوں کے سوا دُنیا میں اور کون ہے جن کے بارے میں سوچوں ؟ بولو بیٹی … تم تو بڑی مشکل میں ہوؤ گی۔‘‘
’’نہیں اباجی … مشین تو آپ نے دیکھی تھی، اُس سے پاس پڑوس کے کپڑے سل دیتی ہوں۔ اس سے کچھ نہ کچھ گزارا ہو جاتا ہے۔ اچھے وقتوں کی کچھ بچت تھی، جو میں اپنے ساتھ لائی تھی، تاکہ آپ کو ہاتھ خرچ کے لئے دے دوں۔‘‘
وہ بولے۔ ’’بیٹی، تم اُسے اپنے پاس رکھو۔ مجھے یہاں ہر طرح کا آرام ہے۔ ڈاکٹر سرما بہت خیال کرتے ہیں … اور دیکھو … گھبرانا نہیں۔ اچھا بُرا وقت آتا جاتا رہتا ہے۔‘‘ مہرالنساء خاموش رہی، اس لئے کہ وقت بُرا سے بُرا ہی ہوتا جا رہا تھا۔ یہ اچھا وقت کیا ہوتا ہے ، وہ بھول ہی گئی تھی۔
انجیا نے آواز دی۔ ’’بیٹی دیر ہو رہی ہے۔‘‘
رحمٰن چاچا نے کہا۔ ’’ہمت رکھو، جاؤ۔ دیکھو اُنہیں دیر ہو رہی ہے۔‘‘
مہرالنساء کے باہر نکل جانے کے بعد انجیا اندر آیا اور اُس سے کہا۔ ’’دیکھو دوست! تم بیمار ہو، لیکن تمہارا دوست ابھی اچھا ہے۔ جیسے میری بہو ہے ، ویسے ہی میرے لئے مہرون ہے اور جیسے میرا کانن ہے ، ویسے ہی سلطان ہے۔ اس لئے تم اُن کی فکر نہ کرو۔ میں تمہارا ہمسایہ ہوں۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ کبھی ایسا نہ ہو گا کہ ہم لوگ کھا پی کر سوئیں اور وہ لوگ فاقہ کشی کا شکار ہوں۔‘‘
انجیا کی یقین دہانی نے رحمٰن کی طبیعت بحال کر دی۔ اُس نے اپنے دوست سے ہاتھ ملایا اور اسے الوداع کہا۔
انجیا نے مہرالنساء کو ہر طرح کی مدد کا یقین دلایا، لیکن یہ اس کی خوددار طبیعت پر گراں تھا۔ سلائی کڑھائی سے گھر کا خرچ چلانا مشکل ہو رہا تھا۔ سلطان یہ سب دیکھتا تھا اور سوچتا تھا کہ وہ کیا کرے ؟ آخر ایک دن وہ اسکول سے آتے ہوئے اینٹوں کے بھٹے پر رُک گیا۔ وہاں اُس نے دیکھا کہ اُس جیسے کچھ اور بچے بھی کام کر رہے ہیں۔ اُس نے بچوں سے پوچھا۔
’’تم لو گوں کو کتنی مزدوری ملتی ہے ؟‘‘
اُن بچو ں نے بتلایا۔ ’’روزانہ پانچ روپئے۔‘‘
اُس نے پوچھا۔ ’’کیا مجھے کام مل سکتا ہے ؟‘‘
مزدور بچو ں نے بتایا۔ ’’کل آنا، ہم تمہیں پوچھ کر بتلائیں گے۔‘‘
رات بھر سلطان اینٹوں کے بھٹے کے بارے سوچتا رہا۔ اُس نے اپنا من بنا لیا۔ اگر اُسے نوکر ی مل جائے تو اسکول چھوڑ دے گا۔ دُوسرے دن اُسے اینٹوں کے بھٹے پر نوکری مل گئی۔ اُس نے اپنی ماں کو بتلایا۔ مہرالنساء نے اُسے ڈانٹا، ڈپٹا، لاکھ سمجھایا، لیکن اُس نے اپنا ارادہ نہیں بدلا۔ انجیا کو پتہ چلا تو اُس نے مہرون سے ناراضگی ظاہر کی۔ لیکن مہرون نے کہا کہ یہ سلطان کا اپنا فیصلہ ہے اور وہ اُسے بدلنے میں ناکام رہی ہے۔ اب سلطان صبح سویرے اسکول کے بجائے اینٹ بھٹے پر جاتا اور شام کو گرد آلود حالت میں واپس آتا۔ مہرون سے اس کی یہ درگت نہ دیکھی جاتی تھی، لیکن مجبوری نے یہ سب آسان بنا دیا تھا۔
اُدھر رحمٰن چاچا کی طبیعت اچھی ہو چلی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے چلنے پھرنے لگے تھے اور بار بار ڈاکٹر سے اجازت طلب کر رہے تھے۔ ایک دِن جب ڈاکٹر سرما کو اطمینان ہو گیا تو انہوں نے پوری طرح آرام کرنے کا مشورہ دے کر رحمٰن چاچا کو گھر جانے کی اجازت دے دی۔
پٹرول پمپ پر جب یہ خبر پہنچی تو وہاں کے ملازمین خوشی سے جھوم اُٹھے۔ اُنہوں نے رحمٰن چاچا کے لئے خاص دعوت کا اہتمام کیا اور ٹمکور جانے والے ایک جیپ ڈرائیور کو تیار کر لیا کہ دعوت میں شریک ہو اور اس کے بعد سنبھال کر اُنہیں اپنے گھر پہنچا دے۔ اُس کا دعوت کھانا تو معمولی تھا لیکن مشترکہ و شادمانی غیر معمولی تھی۔ محبت اور اخلاص کی اس محفل میں ہر کوئی بے حد خوش تھا۔ ایسا لگتا جیسے رحمٰن چاچا کا ان سب سے صدیوں پرانا کوئی رشتہ ہے۔ تمام ملازمین نے بشمول ڈاکٹر سرما رحمٰن چاچا کو نمناک آنکھوں کے ساتھ روانہ کیا۔
گھر پہنچتے ہی جیسے عید کا سماں ہو گیا۔ بہو مہر ون کے قدم زمین پر نہیں پڑتے تھے۔ انہوں نے فوراً پوچھا۔ ’’بیٹی سلطان کہاں ہے ؟‘‘
سسر کے اِس سوال نے مہرون کو لاجواب کر دیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا بولے۔ رحمٰن چاچا بگڑ کر بولے۔ ’’بہو خاموش کیوں ہو؟ کہیں کچھ اونچ نیچ تو نہیں … … ‘‘
’’نہیں۔‘‘ مہرون بولی۔ ’’ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘
’’ہاں !‘‘ رحمٰن چاچا نے کہا۔ ’’میں سمجھ گیا … اسکول! دراصل مجھے تو پوچھنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ خیر … کب آتا ہے وہ اسکول سے ؟‘‘
پھر مہرون چپ ہو گئی اور کہا۔ ’’شام چھ بجے۔‘‘
رحمٰن چاچا نے تعجب سے پوچھا۔ ’’شام چھ بجے ، یہ کون سا وقت ہے ؟ اسکول تو تین بجے بند ہو جاتے ہیں ؟‘‘
’’وہ بات دراصل یہ ہے کہ … … ‘‘
’’کیا بات ہے ؟‘‘ رحمٰن چاچا نے زور سے پوچھا۔
’’ یہی کہ اُس کا اسکول دیر تک چلتا ہے۔‘‘
’’ سمجھ گیا … سمجھ گیا۔ ایکسٹرا کلاس چلتی ہو گی ذہین طلباء کے لئے اضافی کلاس اگر سلطان کیلئے نہ ہوں گی تو کس کیلئے ہوں گی ؟ آخر رحمٰن کا پوتا ہے۔ انجینئر اصغر کا بیٹا ہے۔‘‘ رحمٰن چاچا کے یہ جملے مہرون پر بم کی طرح برس رہے تھے۔ لیکن وہ خاموش تھی اور سوچ رہی تھی کہ اب تو گھر میں ایک او ر آدمی کا خرچ بڑھ گیا ہے۔ اگر سلطان کام نہ کرے گا تو اُن کا گزارا کیسے ہو گا؟
رحمٰن کے گھر آنے کی خبر انجیا کو ملی تو وہ دوڑا دوڑا آیا اور خیریت پوچھنے لگا۔ مہرون جلدی سے چائے بنا کر لائی اور دونوں دوست پینے لگے۔ باتوں باتوں میں رحمٰن نے پوچھا۔ ’’بھابی کہاں ہے خیریت تو ہے ؟‘‘
انجیا بو لا۔ ’’وہ ہسپتال گئی ہوئی ہے۔‘‘
’’کیوں ؟ خیریت؟‘‘ رحمٰن نے پوچھا۔
انجیا بولا۔ ’’وہ تو خیریت سے ہے لیکن کانن کی طبیعت کچھ خراب ہے۔‘‘
’’کانن؟ کیا ہو گیا کانن کو؟ اُسے تو میں بھول ہی گیا تھا۔ میں نے سوچا اسکول سے نہیں آیا ہو گا۔ ہاں تو بتاؤ کانن کو کیا ہو گیا؟‘‘
’’کچھ نہیں، گزشتہ مہینہ سے اس کے سینے میں درد ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر کو دکھلایا تو اُس نے بھرتی کر لیا۔‘‘
’’اچھا! بیماری کے بارے میں کچھ بتایا؟ کیسی طبیعت ہے اس کی؟‘‘
’’طبیعت تو ٹھیک ہے ، تفتیش چل رہی ہے۔‘‘ انجیا نے جھوٹ کہا۔ وہ رحمٰن چاچا کو یہ بتلانا نہیں چاہتا تھا کہ کانن کے دل کا والو خراب ہے اور اس بڑی بیماری کا علاج کرنے کے لئے اُن کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
رحمٰن نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے ، تفتیش ہو جائے گی تو پتہ چل جائے گا کہ کوئی بیماری نہیں ہے اور میرا بیٹا گھر آ جائے گا۔‘‘
انجیا نے کہا۔ ’’خُدا کرے ایسا ہی ہو۔‘‘
انجیا کچھ دیر گپ شپ کرتا رہا اور اجازت لے کر چلا گیا۔ مہرون کے سامنے اب یہ مشکل تھی کہ وہ ر حمٰن چاچا سے یہ بات کیسے چھپائے کہ سلطان اسکول نہیں جاتا! لیکن آخر وہ اس حقیقت کو کب تک چھپا سکتی تھی؟ اَب اُس کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ اس کا کام چھڑا کر اُسے اسکول بھیجے۔ اُس نے سوچا کہ ٹھیک ہے ، جو بھی ہو، جس بات کا پتہ چلنا ہے ، آج ہی چل جائے۔
شام کے سائے جب لمبے ہو گئے تو گرد سے اَٹا سلطان گھر آیا اور سامنے ہی اُسے دادا نظر آ گئے۔ اُن کو دیکھتے ہی اُسے ایسے لگا جیسے کوئی چوری کرتا ہوا پکڑا گیا ہے۔ اُسے اپنے دادا کی پڑھائی لکھائی سے متعلق نصیحتیں یاد آنے لگیں۔ اُس کے قدم زمین میں دھنس گئے۔ رحمٰن چاچا نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہ سوچا تھا کہ اُن کا ننھا پوتا اس طرح بھٹے پر مزدوری کرے گا۔ لیکن وہ سب سمجھ گئے۔ آگے بڑھے اپنے پوتے کو گلے سے لگایا، اس کی پیشانی پر بوسہ لیا، اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ دونوں کی آنکھیں نمناک تھیں۔ اُسے اپنے پاس بٹھایا اور کہا۔
’’بیٹے … بیٹے تمہاری اس حالت کے لئے میں ذمہ دار ہوں۔ اگر میں بیمار نہ ہوتا تو شاید تمہیں یہ دِن دیکھنا نہ پڑتا۔‘‘
اُن کی بہو مہرون وہاں آ پہنچی۔ اُس نے کہا۔ ’’اباجی … کوئی بیمار جان بوجھ کر تھوڑے ہی ہوتا ہے۔ آپ نے ہمارے لئے کیا نہیں کیا؟ اِس عمر میں بھی آپ ہمارے لئے تکلیف اُٹھاتے رہے ، لیکن خیر جو ہونا ہوتا ہے ، وہ ہو کر رہتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک کہتی ہو بہو۔‘‘ رحمٰن چاچا نے ٹھنڈی سانس لی اور سلطان سے کہا۔ ’’جاؤ بیٹے ، منہ ہاتھ دھو لو۔ تمہیں بھوک لگی ہو گی۔ باتیں کھانے کے بعد بھی ہوتی رہیں گی۔‘‘
اُس روز کھانا تینوں نے ساتھ میں کھایا، لیکن رحمٰن چاچا کے گلے سے ایک نوالہ نہ اُترتا تھا۔ کھانے کے بعد اُنہوں نے کوئی بات نہیں کی اور فوراً اپنے بستر پر دراز ہو گئے۔ آنکھوں میں نیند کا نام و نشان نہ تھا۔ وہ رات بھر یہ سوچتے رہے کہ یہ کیسی زندگی ہے ؟ اب انہیں بہو اور پوتے کی کمائی پر دِن گزارنے ہوں گے ؟ بہو پاس پڑوس کے کپڑے سلے گی اور پوتا اینٹ کے بھٹے پر مزدوری کرے گا! اِس زندگی سے موت اچھی ہے۔ یہ جملہ دہراتے دہراتے وہ سوگئے۔ رات کے آخری پہر آنکھ کھلی تو سینے میں شدید درد ہو رہا تھا۔ بہو کو آواز دی۔ مہرون نے سلطان کو جگایا۔ اُن کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ سلطان دوڑا دوڑا پڑوس میں گیا اور انجیا کاکا کو بلا لایا۔
انجیا نے دوڑ کر ایمبولنس کا انتظام کیا اور یہ لوگ بے ہوش رحمٰن چاچا کو سرکاری ہسپتال میں لے گئے ، جہاں اُنہیں ICU میں داخل کر دیا گیا۔ سرکاری ہسپتال کے کئی ملازم رحمٰن چاچا سے واقف تھے۔ وہ فوراً اُن کی خدمت میں لگ گئے۔ جو دوائیاں موجود تھیں، مہیا کر دی گئیں اور جو نہیں تھیں، اُن کی فہرست انجیا کو تھما دی گئی۔
انجیا نے یہی دوائیاں ایک ہفتہ قبل اپنے پوتے کانن کے لئے بھی خریدی تھیں۔ وہ دوڑا دوڑا مہاجن کے پاس گیا، اپنی بیوی کے گہنے اس کے پاس رکھے اور قرض لے کر دوائیاں لے آیا۔ پوتے کے علاج نے اُسے پہلے ہی قلاش کر دیا تھا۔ دوست کی خاطر نوبت قرض تک پہنچ گئی۔ لیکن اسے اس کی فکر نہ تھی رحمٰن سے اُسے بلا کی اُنسیت تھی۔ رحمٰن چاچا کا علاج شروع ہو گیا۔ مہرون اور سلطان فکرمند تھے کہ علاج کے لئے روپیہ کہاں سے آئے گا؟ انجیا کا قرض کیسے ادا ہو گا؟ ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ رحمٰن چاچا کو دِل کا شدید دورہ پڑا ہے اور بائی پاس سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
رحمٰن چاچا جب ICU سے عام وارڈ میں آئے تو اُن کا بستر کانن کے بغل میں تھا۔ یہاں آنے کے بعد اُنہیں یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ کانن کو بھی دل کا عارضہ ہے۔ اس کے دل کے والو خراب ہیں اور اُنہیں بدلنے کے لئے لاکھوں روپیوں کا خرچ ہے۔ اُنہیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس تکلیف کے باوجود انجیا نے اپنی بیوی کے گہنے مہاجن کے پاس رکھ کر قرض لیا اور ان کے لئے دوائیاں مہیا کیں۔ کانن کا باپ کرشنا کاشتکار تھا۔ گزشتہ سال اس نے بینک سے قرض لے کر اچھے بیج خریدے اور کھاد وغیرہ کا انتظام کیا۔ لیکن بارش وقت پر آئی نہیں اور جب آئی تو سب کچھ برباد کر گئی۔ اس صدمے سے وہ اُبھرا نہ تھا کہ کانن کو دِل کا عارضہ ہو گیا اور وہ ابھی اس کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ اس کا باپ اپنے دوست کے علاج میں مصروف ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے مصیبتوں نے مل جل کر ایک ہی وقت ہلّہ بول دیا تھا۔ ہر کوئی پریشان تھا، فکرمند تھا، کسی کو کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ کیا کرے ؟ کہیں اُمید کی کوئی کرن نہیں تھی کہ اچانک سورج نکل آیا۔
نیا سویرا
اصغر کو جب جیل لایا گیا تو وہاں جم غفیر موجود تھا۔ قاضی صاحب ویسے ہی کافی میل جول والے آدمی تھے۔ بے شمار لوگوں سے اُن کی دُعا سلام تھی اور پھر بہت سارے ایسے بھی لوگ تھے جو صرف نکاح و طلاق کی خاطر اُن سے ملے تھے۔ اُن تمام لوگوں کے نمبر اُن کی ڈائری میں موجود تھے اور پولیس اُن سب کو گرفتار کر کے لے آئی تھی۔ بہت جلد پولیس والوں کو احساس ہو گیا کہ یہ بے ضرر و بیکار کی بھیڑ ہے۔ پولیس نے فہرست کا جائزہ لیا۔ اُن میں جو عرب نژاد یا پاکستانی تھے ، اُن کو علیحدہ کیا اور باقی لوگوں کو ملک بدر کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح رہا ہونے والوں میں سب سے پہلے ہندی مسکینوں کا نمبر تھا۔ اس لیے کہ اُن سے زیادہ بے ضرر مخلوق شاید کرۂ ارض پر پائی نہیں جاتی تھی۔ اصغر کو جیل سے ائیرپورٹ لاتے ہوئے پانچ منٹ کے لئے گھر لے جایا گیا اور کہا گیا کہ وہ کم سے کم ضرورت کا سامان اپنے ساتھ لے لے۔
گھر میں آنے کے بعد اصغر نے جلدی جلدی چند کپڑے اپنے بیگ میں بھرے اور باہر نکلتے ہوئے صبرینا کی تصویر کے سامنے ایک لمحہ کے لئے رُکا … آنسو کے دو قطرے اس کے قدموں پر نچھاور کر کے وہ دروازے کی جانب چل پڑا۔ اصغر عجیب بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا تھا۔ ایک طرف اُسے افسوس تھا کہ وہ اسی طرح خالی ہاتھ اپنے ملک میں واپس جا رہا ہے جیسا کہ چند سال قبل آیا تھا۔ لیکن اُسے خوشی تھی کہ وہ صحیح سلامت واپس جا رہا ہے۔ گونٹے ناموبے جیسی کسی جیل میں جانے سے بچ گیا ہے ، ورنہ اُسے نہ جانے کب تک بلاوجہ نا کر دہ گناہوں کی سزا بھگتنی پڑتی۔
اصغر جب ممبئی ائیرپورٹ پر اُترا تو اُسے دُوسرے مسافروں سے الگ کر کے ایک جگہ بٹھا دیا گیا۔ بدمعاش امریکیوں نے اُس کے پاسپورٹ پر نہ جانے کیا نشان لگا دیا تھا جو اس کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیا جا رہا تھا۔ جب تمام مسافر چلے گئے تو اس کی تفتیش کا آغاز ہوا۔ یہ تفتیش امریکہ میں ہونے والی پوچھ گچھ سے مختلف نہ تھی۔ وہاں بھی پولیس کا رویہ بالکل دہشت گردوں کا سا تھا اور یہاں بھی بالکل ہی ویسا۔ جب کافی جانچ پڑتال کے بعد کوئی مشکوک بات نہ نکلی تو سامان کی تلاشی شروع ہوئی۔
سامان تھا ہی کیا … ؟ ایک چھوٹا سا بیگ، جس میں چند جوڑے کپڑے تھے۔ جب وہ امریکہ گیا تھا، اس وقت بھی اِسی طرح چند جوڑوں کے ساتھ گیا تھا۔ لیکن فرق یہ تھا کہ اُس وقت یہ کپڑے صاف، شفاف اور بے داغ تھے۔ لیکن اِس بار یہ میلے کچلے ، شکن آلود اور داغ دار تھے۔ واپسی اِس قدر عجلت میں ہوئی تھی کہ اُسے دھونے اور سکھانے کا موقع ہی نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود پولیس اُن کپڑوں کو اس طرح جھٹک پھٹک رہی تھی، گویا اُس میں کوئی ایٹم بم چھپا ہو۔ اس دوران اچانک ایک پتلون کی جیب سے کوئی چیز گر پڑی۔ پولیس نے پوچھا۔ ’’یہ کیا ہے ؟‘‘
اصغر بولا۔ ’’کچھ نہیں صاحب! یہ بینک کا کریڈیٹ کارڈ ہے۔‘‘ … اور آگے بڑھ کر اسے اُٹھا لیا۔ لیکن اُسے یقین تھا کہ ایف۔ بی۔ آئی۔ نے اس کا بینک کھاتا مقفل کر دیا ہو گا۔ تفتیش کرنے والوں کو بھی اسکی شکستہ حالی پر ترس آ رہا تھا۔ اپنے کپڑوں کو دوبارہ بیگ میں بھرنے کے بعد جب وہ باہر کی کھلی فضا میں آیا، تب اُس کی جان میں جان آئی تھی۔ اب اُسے محسوس ہوا، گویا وہ آزاد ہو گیا ہے۔
اِس نئی صورتِ حال میں کچھ نئے سوال اُس کے سامنے منہ کھولے کھڑے تھے ، جن کے بارے میں سوچنے کی مہلت اُسے ابھی تک نہیں ملی تھی۔ سب سے پہلا اور اہم ترین سوال یہ تھا کہ یہاں سے اب کہاں جایا جائے ؟ وہ اہل خانہ، جنہیں وہ برسوں پہلے چھوڑ کر گیا تھا اور اِس بیچ اُن کو پوری طرح بھول گیا تھا، کبھی بھی اُن کی خبرگیری نہیں کی تھی، اُن کے پاس کیا منہ لے کر جائے ؟ اپنی مفلوک الحالی نے اُسے بہت زیادہ احساس ندامت کا شکار کر دیا تھا۔ ایک ایک کر کے بھولے بسرے چہرے اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے۔ والد رحمٰن پاشا، بیوی مہرالنساء، بیٹا سلطان، بھائی اکبر اور بھابی خیرالنساء و ہ ان میں سے کسی سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔ وہ اس قدر پتھر دل اور بے مروت ہو سکتا ہے ؟ ایسا خود اُس نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا۔ لیکن یہ ایک حقیقت تھی۔
اصغر چلّو سے پانی کے گھونٹ پیتے ہوئے یہ سب سوچ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر سٹی بینک کے ATM مشین پر پڑی۔ اُس کے دل میں ایک اُمید جاگی۔ ’’ہو سکتا ہے امریکی پولیس نے اس کا بینک کھاتا بند نہ کیا ہو؟ ہوسکتا ہے اُس کی پس انداز کی ہوئی رقم اس کے کھاتے میں موجود ہو؟ اس ادھیڑ بُن میں وہ ATM مشین کے پاس پہنچا۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اُس نے اپنا کارڈ مشین میں ڈالا، اپنا خفیہ کوڈ نمبر دبایا اور بیلنس چیک کیا تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ عشرت جہاں کے ساتھ عیش کرنے کی غرض سے جو چند ہزار ڈالر اس نے بچا کر کے رکھے تھے ، وہ پچاس سے ضرب ہونے کے بعد کئی لاکھ روپئے بن گئے تھے۔ اب وہ امریکہ سے لوٹنے والا ایک لکھ پتی شخص تھا۔ اس نعمت غیر مرتقبّہ کے حصول پر وہ رب کائنات کے آگے سر بسجود ہو گیا اور ریلوے اسٹیشن کی جانب چل پڑا تاکہ اپنے گاؤں ٹمکور جا سکے۔ وہ سوچ رہا تھا، جو بھی ہوا اچھا ہی ہوا۔ اگر پولیس اُسے گرفتار کر کے ملک بدر نہ کرتی تو وہ اِس دولت کو عیش و طرب میں اُڑا دیتا اور شاید کبھی بھی لوٹ کر وطن واپس نہ آتا۔
اصغر ٹمکور اسٹیشن سے آٹو رکشا میں اپنے گھر کی جانب رواں دواں تھا۔ برسوں بعد وہ گھر لوٹ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا، نہ جانے اس کے والد اس پر کس قدر برسیں گے ؟ اس کی بیوی اس سے کس قدر ناراض ہو گی اور بیٹا اس سے کیسے روٹھ جائے گا؟لیکن جب گھر پہنچا تو وہاں قفل لٹکا ہوا پایا۔ پڑوس میں انجیا کے یہاں دریافت کیا تو پتہ چلا کہ سب لوگ ہسپتال میں ہیں اور رحمٰن چاچا کا علاج چل رہا ہے۔ اُس نے اپنا پھٹا بیگ انجیا کے یہاں رکھا اور ہسپتال کی طرف دوڑ پڑا ہسپتال میں اُس نے جیسے ہی اپنے والد کو بستر پر پڑا دیکھا، ان کے قدموں میں بیٹھ گیا اور زار و قطار رونے لگا۔ وہ بھول گیا کہ پاس میں اس کی بیوی اور بیٹا بھی کھڑا ہے۔ رحمٰن نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر قریب بلایا اور سینے سے لگا لیا۔ دیر تک دونوں ایک دوسرے سے لپٹے رہے اور جب الگ ہوئے تو برسوں کے گلے شکوے دُور ہو چکے تھے۔ رحمٰن چاچا نے بس اتنا کہا۔
’’بڑے وقت سے آئے ہو بیٹا۔ مجھے تمہاری ضرورت آج سے زیادہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ تم نے میرا سینہ ٹھنڈا کر دیا۔ وہ دیکھ، تیری بیوی بیوہ کی طرح اور بیٹا یتیم صورت کھڑا ہے۔ جا، اُن کو اپنے ساتھ گھر لے جا اور اب کہیں نہ جانا۔‘‘
اصغر نے کہا۔ ’’اب کہیں نہیں جاؤں گا۔‘‘
مہرون اور سلطان کے چہرے کھل اُٹھے۔ وہ اُن لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر گھر آ گیا۔ آج کی رات مہرون کے لئے اوّلین شب وصال سے زیادہ عظیم تھی۔ وہ نہ صرف اصغر سے بلکہ اپنے آپ سے مایوس ہو چکی تھی۔ اُس نے اصغر سے ملنے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ملنے کی خوشی بڑی ہوتی ہے ، لیکن بچھڑ کے ملنے کی خوشی بے حد و حساب ہوتی ہے۔ مہرون اور اصغر آج اُسے محسوس کر رہے تھے۔
دوسرے دن علی الصبح اُٹھ کر مہرون نے سلطان کے اسکول کا یونیفارم نکالا جو اَب کافی تنگ ہو چکا تھا۔ مہرون نے سلطان کو یونیفارم دے کر کہا۔ ’’بیٹے ، اب ہماری خزاں بہار میں بدل چکی ہے۔ اب تمہیں بھٹے پر نہیں، اسکول جانا ہے۔ وہاں جا کر اپنی ریحانہ ٹیچر سے کہنا کہ تمہیں کلاس میں بیٹھنے دے۔ میں بعد میں آ کر فیس بھر دوں گی۔‘‘
سلطان خوشی سے پاگل ہو رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ اُسے لگ رہا تھا گویا وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔
اصغر دیر گئے بستر سے اُٹھا۔ برسوں کی تھکن تھی، جسے وہ آج اُتار رہا تھا۔ نہا دھوکر اُس نے ناشتہ کیا اور مہرون سے والد کا ناشتہ لے کر اسپتال چلا گیا۔ وہاں اُس نے ڈاکٹر سے بات کی اور کہا۔ ’’آپریشن کی تیاری کریں میں تمام خرچ دے دوں گا۔‘‘ اور پھر والد کے پاس آ کر کہا۔ ’’بابا، آپ جلد ہی اچھے ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر نے آپریشن کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ معمولی سا آپریشن ہے۔ آپ بالکل ٹھیک ٹھاک ہو جائیں گے۔‘‘
رحمٰن چاچا بولے۔ ’’بیٹے … کیوں مذاق کرتا ہے۔ دل کا آپریشن معمولی ہوتا ہے ؟ وہ بھی اِس عمر میں ؟ دیکھ، میں نہ آپریشن سے ڈرتا ہوں اور نہ مرنے سے ! لیکن کیا میری ایک بات تو مانے گا؟‘‘
اصغر بولا۔ ’’آپ حکم فرمائیں۔ ایک بات کیا، ہر بات مانوں گا۔‘‘
’’بہت اچھے … ہر بات نہیں، ایک بات مان لے۔ وعدہ کر کہ مجھ سے پہلے تو کانن کا آپریشن کروائے گا۔‘‘
’’کانن کا؟‘‘ اصغر نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں بیٹے … کانن کا … وہ ابھی بچہ ہے۔ ابھی اُسے بہت جینا ہے۔ ہم نے بہت ساری بہاریں دیکھ لیں۔ کیا فرق پڑتا ہے آج مریں یا کل؟‘‘
’’بابا … کانن کے آپریشن کے لئے تو بہت روپیہ لگے گا اور اس کے آپریشن کے بعد تو شاید میرے پاس آپ کے علاج کے لئے بھی روپیہ نہ بچے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ تُو میرا علاج کیوں کرنا چاہتا ہے ؟ اِسی لئے کہ میں خوش رہوں۔ یقین مان، مجھے اپنے علاج سے زیادہ خوشی کانن کے علاج سے ہو گی۔
’’آپ بیکار میں ضد کر ر ہے ہیں … بابا۔‘‘
’’بیٹے … مجھے ڈر تھا کہ تو میری یہ بات نہیں مانے گا۔ اِس لئے میں نے تجھ سے پہلے ہی عہد لیا تھا۔ اب تیری مرضی تو چاہے تو میری مان یا نہ مان، لیکن اِتنا سن لے کہ میں کانن سے پہلے آپریشن تھیئٹر میں نہیں جاؤں گا۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔‘‘
ا صغر تذبذب میں پڑ گیا۔ اُس نے کہا۔ ’’بابا جیسا آپ کہیں گے ، ویسا ہی ہو گا۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے۔ ڈاکٹر سے کانن کے آپریشن کی تیاری کے لئے کہہ دے۔‘‘
اصغر جب اسپتال سے باہر آیا تو عجیب پریشانی میں مبتلا تھا۔ وہ اپنے والد کا علاج کرانا چاہتا تھا اور والد اُس سے کسی اور کے علاج کے لئے ضد کر رہے تھے۔ اُس نے مہرون کی جانب دیکھا۔ مہرون نے کہا۔
’’ابا جی ارادے کے پکے ہیں۔ انہوں نے جو کہہ دیا، سو کہہ دیا۔ اَب وہی ہو گا۔ اِس لئے آپ اُن کی مرضی میں شامل ہو جائیں، اسی میں بھلائی ہے۔‘‘
اسپتال سے نکل کر وہ لوگ سلطان کے اسکول گئے۔ وہاں اُس کی فیس ادا کی، پھر اُسے ساتھ لے کر بازار گئے اور سلطان کے لئے یونیفارم خریدا، کتابیں خریدیں، کچھ اور جوڑے خریدے۔ مہرون نے بھی ’نا،نا‘ کہہ کر بہت کچھ خرید لیا اور سامان سے لدے پھندے یہ تینوں شام ڈھلے واپس لوٹے۔ اُن لوگوں نے دوپہر کا کھانا ایک ساتھ ٹمکور کے مشہور ہوٹل میں کھایا تھا۔ مہرون اور سلطان نے اُس کا نام تو سنا تھا، باہر سے دیکھا بھی تھا، لیکن کبھی اندر قدم رکھنے کی جرأت نہیں کی تھی۔ لیکن اب وقت بدل چکا تھا۔
انجیا کو جب رحمٰن کے فیصلے کا پتہ چلا تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ ایسی دوستی اور ایسی ہمسائیگی صرف قصہ کہانیوں میں پائی جاتی تھی۔ لیکن رحمٰن اُن کہانیوں کو حقیقت میں بدل رہا تھا۔ کانن کا باپ اور انجیا کا بیٹا کرشنا کاشتکاری کرتا تھا اور بیٹے کی بیماری نے اُسے بالکل توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اُس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کاشتکاری چھوڑ کر دبئی چلا جائے گا۔ دبئی سے اُس نے ویزے کا بندوبست بھی کر لیا تھا۔ اب اُسے انتظار تھا کسی گاہک کا، جو اُس کی زمین خریدے ، تاکہ وہ اُس سرمائے سے بینک کا قرض ادا کرے اور وہ اپنے پیارے بیٹے کانن کا علاج کرانے کے بعد دبئی روانہ ہو جائے۔ جب اُسے پتہ چلا کہ اصغر نے کانن کے علاج کی ذمہ داری لے لی ہے تو وہ خوشی سے باؤلا ہو گیا۔ اس مشکل کی گھڑی میں اس طرح غیب سے اس کی مدد ہو گی، یہ اس کے وہم و گمان تک میں نہ تھا۔ وہ اپنے دوست اصغر کا احسان مند تھا، اور تیزی سے زمین کا گاہک ڈھونڈ رہا تھا۔ کانن کا آپریشن کامیاب ہو گیا اور وہ تیزی کے ساتھ رو بہ صحت ہو رہا تھا۔
سارے شہر میں رحمٰن چاچا اور اصغر کے چرچے تھے۔ اخبارات نے کانن کے ساتھ اُن دونوں کی تصویریں، انجیا اور کرشنا کے احساسات، اور اس بے مثال دوستی کو نمونے کے طور پر شائع کیا تھا۔ کانن کو اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ وہ گھر آ گیا اور ایک ہفتے کے آرام کے بعد اسکول بھی جانے لگا۔ اسکول میں اس کی ملاقات سلطان سے ہوئی اور اسکول سے واپس گھر آتے ہوئے سلطان اور کانن رحمٰن چاچا سے ملنے اسپتال آئے۔
رحمٰن نے جب دونوں بچوں کو دیکھا تو اُن کا دل باغ باغ ہو گیا۔ ان کی نظروں میں سلطان کی اینٹ کے بھٹے سے واپسی کی تصویر گھوم گئی۔ انہیں اپنے پڑوس کے بستر پر پڑا کانن یاد آ گیا۔ لیکن اب سب کچھ بدل چکا تھا۔ دونوں بچے رحمٰن چاچا کے دونوں جانب بیٹھے چہک رہے تھے۔ اُنہیں بتا رہے تھے کہ اسکول میں کیا ہوا اور محلے میں کیا ہوا۔ بچے دیر تک اُن کے پاس بیٹھے رہے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر چیک اَپ کے لئے آ گیا۔
ڈاکٹر جوشی نے بچوں کو بستر پر بیٹھے دیکھا تو ناراضگی دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’رحمٰن چاچا … آپ کو کتنی مرتبہ منع کیا ہے کہ بچوں کو بستر پر نہ بٹھائیں۔‘‘
رحمٰن نے جھٹ پوچھا۔ ’’کیوں نہ بٹھاؤں ؟‘‘
’’چاچا یہ آپ کی صحت کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ آپ دل کے مریض ہیں۔‘‘
رحمٰن چاچا نے کہا۔ ’’کون کہتا ہے میں مریض ہوں ؟ مجھے کوئی مرض نہیں ہے۔ آپ ٹھیک سے میرا چیک اَپ کریں۔‘‘
ڈاکٹر نے کہا۔ ’’میں نے آپ جیسا خوش مزاج مریض نہیں دیکھا۔ لیکن پھر بھی احتیاط ضروری ہے۔‘‘
’’کیسی احتیاط؟‘‘ رحمٰن چاچا نے زور دے کر کہا۔ ’’میں آپ کو سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ آپ دوبارہ جانچ لیں۔ مجھے یقین ہے کہ میں شفا یاب ہو چکا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر کے اعتماد کو رحمٰن چاچا نے متزلزل کر دیا تھا اور وہ واقعی رحمٰن چاچا کا چیک اَپ کرنے لگا۔ نبض بالکل معتدل (نارمل) تھی۔ خون کا دباؤ بالکل صحیح تھا۔ ڈاکٹر کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس نے ECG مشین منگوائی اور فوراً کارڈیوگرام لیا۔ ڈاکٹر کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُس نے دیکھا کہ الیکڑو کارڈیو گرام بھی بالکل نارمل نکل آیا۔ یہ تو ایک معجزہ تھا۔ اپنی طویل معالجانہ زندگی میں ڈاکٹر جوشی کا یہ پہلا مشاہدہ تھا جس میں ایک مریض بغیر کسی علاج کے آناً فاناً اچھا ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر کو نہ اپنی مشینوں پر اعتماد ہو رہا تھا اور نہ دوائیوں پر۔ لیکن رحمٰن کی صحت ایک حقیقت تھی اور اس کا اعتراف کئے بغیر ڈاکٹر کے پاس کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ اس نے کہا۔
’’شاید آپ صحیح کہتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم چوبیس گھنٹے آپ کو مشاہدہ میں رکھیں گے اور کل بھی اِسی طرح کے نتائج آئے تو ڈسچارج کر دیں گے۔‘‘
رحمٰن چاچا کی صحتمندی سے دونوں خاندانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دوسرے دن واقعی رحمٰن چاچا اسپتال سے گھر آ گئے۔ اُن کی آمد کی خوشی میں انجیا نے اپنے گھر میں زبردست تقریب کا اہتمام کیا اور اپنے تمام دوستوں کو دعوت طعام پر بلایا۔
بندھن مٹی کا
دعوت میں سب لوگ بہت خوش تھے۔ ہر کوئی اپنی عمر کے لوگوں میں مصروف تھا۔ سلطان اور کانن اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ عورتیں آپس میں مشغول تھیں۔ انجیا اور رحمٰن چاچا کے بہت سارے احباب مدعو تھے اور دعوت کا لطف اُٹھا رہے تھے ، لیکن اِس شور غل سے الگ تھلگ اصغر اور کرشنا نہایت سنجیدہ گفتگو کر رہے تھے۔ اصغر نے جب کرشنا سے رسماً پوچھا کہ کام کاج کیسا چل رہا ہے ؟
کرشنا ایک دم سے پھٹ پڑا۔ اُس نے کہا۔ ’’مسلسل دو سال کی قحط سالی اور بینک کے قرض سے وہ کاشتکاری سے مکمل طور پر اُکتا چکا ہے اور اس نے کھیتوں کو بیچ کر دُبئی جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اُسے وہاں ملازمت بھی مل چکی ہے اور ویزا بھی آ چکا ہے۔ چونکہ کسانوں کے پاس روپیہ نہیں ہے ، اس لئے اُسے اچھی قیمت نہیں مل رہی۔ ویسے اگر اُسے آج گاہک مل جائے تو وہ کل اُس کی قیمت میں سے اصغر کو کانن کے آپریشن کا خرچ لوٹا دے ، بینک کا قرض ادا کر دے اور دُبئی چلا جائے۔
اپنی کتھا سنانے کے بعد کرشنا نے اصغر سے پوچھا۔ ’’تمہارا کیا ارادہ ہے ؟‘‘
اصغر کا جواب بالکل متضاد تھا۔ اُس نے کہا۔ ’’میں گھر سے دُور رہ کر اُکتا چکا ہوں۔ اب میں کہیں جانا نہیں چاہتا۔ یہیں کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
کرشنا نے پوچھا۔ ’’لیکن وہ تمہاری انجینئرنگ کی ڈگری؟‘‘
’’بھاڑ میں جائے وہ ڈگری۔‘‘ اصغر نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’مجھے بس یہاں اپنے بال بچوں کے ساتھ رہنا ہے اور سادگی کے ساتھ اپنا گزارا کرنا ہے۔‘‘
کرشنا بولا۔ ’’لیکن تم امریکہ میں رہ چکے ہو، تم یہاں اُکتا جاؤ گے۔‘‘
’’نہیں کرشنا … میں امریکہ سے اُکتا کر واپس آیا ہوں۔ مجھے واپس آنے کے بعد اس مقام کی قدر و قیمت کا احساس ہو گیا ہے۔ کرشنا میں ایک بات کہوں۔ اگر تم واقعی زمین بیچنا چاہتے ہو تو کیوں نہیں مجھے بیچ دیتے۔‘‘
کرشنا اصغر کی اس تجویز سے چونک پڑا۔ ’’کیا؟‘‘
اصغر نے کہا۔ ’’گھبرانے کی ضرورت نہیں، میں بازار بھاؤ پر خریدوں گا۔‘‘
کرشنا نے کہا۔ ’’اصغر اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے ؟ تم زمین کی قیمت میں سے کانن کے آپریشن کا خرچ لے لو اور بینک کا قرض ادا کر دو اور میں بے فکر ہو کر دُبئی چلا جاتا ہوں۔‘‘
دونوں میں سودہ طے ہو گیا۔ دُوسرے دِن زمین کے کاغذات بن گئے۔ اصغر کو زمین مل گئی اور کرشنا کا قرض ادا ہو گیا۔ ایک ہفتہ بعد کرشنا دُبئی روانہ ہو گیا۔
دُبئی میں کرشنا کا ایک قریبی دوست ہوٹلوں کا کاروبار کرتا تھا۔ اُسے بھروسے کے آدمی ضرورت تھی جو اِس کاروبار کی دیکھ ریکھ کر سکے تاکہ وہ اپنے دوسرے کاروبار کی توسیع پر توجہ دے سکے۔ کرشنا نہایت ایماندار اور محنتی فطرت کا حامل تھا۔ اُس نے بہت جلد اپنے مالک کا اعتماد حاصل کر لیا اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں میں اپنی ملنسار طبیعت کے سبب مقبول و معروف ہو گیا۔
اصغر کے لئے زراعت کا پیشہ نیا تھا، لیکن اس سال موسم باراں اس قدر مہربان ہوا کہ خوب زبردست فصل ہوئی۔ اصغر نے خود بھی خوب کمایا اور مزدوروں کو بھی جی کھول کر نوازا۔ انجیا اور رحمٰن دونوں کا خاندان خوشحالی کی ڈگر پر چل پڑا تھا۔
اس بیچ ایک دن کلکٹر کے دفتر سے اصغر کو بلاوا آ گیا اور اُسے بتایا گیا کہ اُن کے گاؤں سے ایک نئی قومی شاہراہ گزرنے والی ہے جو حیدرآباد اور بنگلور کو ملائے گی یہ شاہراہ اصغر کے کھیت کے کنارے سے گزرے گی بلکہ اس کے کھیت کا کچھ حصہ بھی اُس کی تعمیر میں استعمال ہو گا۔ حکومت جو زمین کا حصہ اس سے لے گی بازار بھاؤ کے لحاظ سے اس کا معاوضہ ادا کیا جائے گا۔
اس اہم شاہراہ نے زمین کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ کر دیا تھا اور اب اصغر وہاں پٹرول پمپ کھولنا چاہتا تھا۔ اس نے امریکہ میں ہائی وے پر پٹرول پمپ دیکھے تھے ، جن میں سپر مارکیٹ سے لے کر رہائشی ہوٹل تک، ساری سہولیت مہیا کی جاتی تھیں۔ اس وقت اصغر کے پاس فصل کی اچھی خاصی رقم موجود تھی لیکن پٹرول پمپ کا لائسنس ایک مسئلہ تھا۔ سرکاری پروانہ حاصل کرنے کے لئے وہ حیدرآباد آیا جہاں اس کا بھائی اکبر اپنی بیوی خیرالنسا کے ساتھ رہتا تھا۔ اکبر اس سے مل کر بہت خوش ہوا۔ اکبر کا خسرجمن اسے چند بچولیوں کی مدد سے وزیر تک لے گیا۔ سودہ طے ہو گیا اور اصغر کو لائسنس مل گیا۔
اصغر نے اکبر کو اپنے منصوبے کی تفصیل سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اس کے پٹرول پمپ پر گیرج بھی ہو گا، جہاں گاڑیوں کی مرمت کی جائے گی۔ اگر وہ مناسب سمجھے تو شہر میں رکشا چلانا چھوڑ گاؤں واپس لوٹ آئے اور اپنا ذاتی کاروبار کر کے خوش رہے۔ اکبر نے دوسرے دِن جواب دینے کا وعدہ کیا اور رات میں اپنی بیوی سے مشورہ کیا۔ بیوی نے پہلے تو مزاحمت کی لیکن پھر خوشحالی کے اس موقع کے آگے ریجھ گئی اور واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔ رحمٰن چاچا یہ سن کر بے حد خوش ہوئے کہ اکبر بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ واپس آ رہا ہے۔ وہ تو اکبر سے بالکل مایوس ہو چکے تھے ، لیکن اکبر کی واپسی کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ جو روپیہ اُسے شہر لے گیا تھا اسی دولت کی طلب اُسے واپس لا رہی تھی۔ رحمٰن چاچا کے گھر میں چہل پہل کافی بڑ ھ گئی تھی۔ بیٹے ، بہویں، پوتے ، گھر بالکل بھرا بھرا سا ہو گیا تھا۔
کرشنا ہر ہفتہ گھر پر فون کرتا۔ والدین سے بیوی سے اور بچے سے بات کرتا اور انہیں جلد ہی دبئی بلانے کا وعدہ کر کے فون بند کر دیتا۔ درمیان میں ایک مرتبہ جب انجیا سے بات کرنے کے بعد اس نے اپنی والدہ سے بات کرنے کی خواہش کی تو اسے بتلایا گیا کہ وہ فون پر نہیں آسکتی کیونکہ اس کی طبیعت بہت خراب ہے۔ کرشنا بے چین ہو گیا۔ اُس نے دوبارہ فون کیا۔ اس باراس کا ماں سے رابطہ ہو گیا۔ وہ پے در پے سوال کرنے لگا۔ ’’ماں، تم کو کیا ہو گیا ہے ؟ ڈاکٹر کیا کہتا ہے ؟ آپ کسی بڑے شہر میں کیوں نہیں چلی جاتیں ؟ میں آپ کو اپنے پاس علاج کے لئے بلاؤں گا؟ امریکہ میں اپنے ساتھ علاج کی غرض سے لے جاؤں گا؟‘‘
لیکن ان تمام باتوں کا اس کی ماں کے پاس صرف ایک مختصر سا جواب تھا۔ ’’بیٹے اب میرا وقت آ گیا۔ میں اِسی گاؤں کی مٹی سے بنی ہوں اور اِسی کی مٹی میں ملوں گی۔ اب مجھے کہیں نہیں جانا۔ تو میرے پاس آ، میں تجھے ایک بار دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
ماں کے یہ الفاظ سن کر کرشنا اور زیادہ بے چین ہو گیا۔ اس نے کہا۔ ’’آپ مایوسی کی بات نہ کریں۔ دُنیا میں ہر بیماری کا علاج ہے ، میں آپ کا علاج کراؤں گا۔‘‘
اس کی ماں نے کہا۔ ’’بیٹے بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں ہے اور موت تو کوئی بیماری ہی نہیں، جس کا علاج کرایا جا سکے۔‘‘
کرشنا نے کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ اپنی ماں کو کیسے سمجھائے جو بار بار صرف اور صرف موت کی بات کرتی جاتی تھی۔ اس نے اپنے والد سے کہا۔ ’’کاکا آپ فکر نہ کریں۔ میں آج ہی ویزا کی کوشش کرتا ہوں۔ یہاں دُبئی میں عالمی معیار کے دوا خانے ہیں۔ آپ فوراً ماں کو لے کر یہاں آ جائیں۔ میں یہاں اُن کا علاج کراؤں گا۔‘‘
انجیا نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے ؟‘‘
تین دن بعد کرشنا نے فون کر کے بتلایا کہ اس نے ویزا بھیج دیا ہے۔
لیکن اُس کی ماں نے کہا کہ اُسے ویزا کی ضرورت نہیں، اس کا ویزا نکل چکا ہے۔ اس کو تو کرشنا چاہئے … اس کا اپنا کرشنا۔ وہ جانے سے قبل ایک بار اُسے دیکھنا چاہتی ہے۔‘‘
ڈاکیہ ویزا کے کاغذات لے کر پہنچا تو انجیا کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔
کرشنا نے فون کر کے پوچھا۔ ’’کاکا ویزا مل گیا؟‘‘
انجیا نے جواب دیا۔ ’’بیٹے ویزا تو آیا، لیکن اُس سے پہلے ہی یم دوت آ چکا تھا۔ وہ تمہاری ماں کو اپنے ساتھ لے گیا۔ ہم سب دیکھتے رہ گئے اور کچھ نہ کر سکے۔‘‘
کرشنا کے ہاتھ سے فون گر گیا۔ اُسے اپنی ماں کے الفاظ یاد آ رہے تھے … ’’بیٹا مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ مجھے تو چاہئے میں تجھے دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ کرشنا زبردست احساس جرم کا شکار ہو گیا تھا۔ وہ اپنی ماں کی آخری خواہش بھی پوری نہ کر پایا تھا۔ کس قدر بدنصیب تھا وہ … کس قدر بدنصیب؟ کرشنا کی ماں اپنی موت سے پہلے اپنے بیٹے کی دید کی تڑپ میں راکھ ہو چکی تھی۔ انجیا تو بس راکھ کو جلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ رحمٰن انجیا کو سینے سے لگا کر سمجھا رہا تھا۔ ’’دوست میں بھی اس کرب سے گزر چکا ہوں۔ جیسے بھابی چلی گئیں، ویسے ہم سب کو ایک دن لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
انجیا نے کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن وہ پہلے کیوں گئی؟ وہ تو میرے بغیر زندہ رہ سکتی تھی۔ لیکن میں اس کے بغیر … ‘‘ الفاظ نے انجیا کا ساتھ چھوڑ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ تقریباً ایک ماہ بعد جب انجیا اپنی اہلیہ کے صدمے سے نکلا تو کرشنا نے اس سے کہا۔ ’’کاکا وہ ویزا آپ سب کا ہے۔ آپ اپنی بہو اور پوتے کے ساتھ یہاں آ جایئے اور دُبئی میں رہیے۔ یہ بہت اچھی جگہ ہے۔‘‘
انجیا نے کہا۔ ’’اس بابت میں کل جواب دوں گا۔‘‘
انجیا نے اپنی بہو سے مشورہ کیا۔ اس نے بھی انجیا کو دبئی ساتھ چلنے کا مشورہ دیا۔ انجیا رات بھر سوچتا رہا۔ عمر کے اس حصے میں وہ کہاں اجنبی مقام پر جائے ؟ جیسا بھی ہے ، اس کا اپنا گاؤں ہے۔ یہیں رہنے میں بھلائی ہے۔ اس نے من بنا لیا۔ وہ یہیں رہے گا۔ دُوسرے دن کرشنا کا فون آیا۔ انجیا نے اُسے بتایا
’’بیٹے میں بہو اور پوتے کو تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔ لیکن میں خود آنے سے معذور ہوں۔ زندگی کا کیا اعتبار؟ نہ جانے کب آنکھ لگ جائے ؟ میں نے جہاں زندگی گزاری ہے ، میں وہیں مرنا چاہتا ہوں۔‘‘
کرشنا نے لاکھ کوشش کی، لیکن انجیا نہ مانا۔ اُس نے کہا۔ ’’بیٹے میں تو تمہارے پاس نہیں آسکتا۔ ہاں، اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر کبھی ہماری یاد آئے اور ممکن ہو تو اپنے باپ سے ملنے ضرور آنا۔‘‘ یہ کہہ کر انجیا نے فون رکھ دیا۔
اصغر کا ہائی وے کامپلکس اپنی طرز کا منفرد پٹرول پمپ تھا، جو بہت جلد دُور دراز تک مشہور ہو گیا۔ کاروبار خوب زور شور سے چل پڑا تھا۔ مشکل صرف یہ تھی کہ اصغر کا کاروبار اس کے گھر سے تقریباً ۴۰ کلو میڑ کی دُوری پر تھا۔ ابتدا میں یہ فاصلہ موٹر سائیکل پر طے کیا جاتا تھا۔ اب وہ لوگ گاڑی سے آتے جاتے تھے۔ خوشحالی نے آ کر گھر کی تنگی کا بھی احساس دلا دیا تھا۔ اب اُن لوگوں کو اپنا آبائی مکان چھوٹا لگنے لگا تھا۔
ایک دن دونوں بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ ہائی وے کامپلکس کے پیچھے کھیتوں کی زمین پر دو حویلیاں تعمیر کی جائیں اور وہیں منتقل ہو جایا جائے۔ اس سے کشادہ مکان بھی دستیاب ہو جائیں گے اور کاروبار سے قربت بھی رہے گی۔ مسئلہ صرف خیرالنسا کا تھا جسے شہر کے بعد دیہات اور اب دیہات سے دُور سنسان علاقے میں رہنا تھا۔ لیکن بنگلے کے شاندار نقشے نے اُس کا من لبھا لیا اور وہ اُس ویران علاقے میں منتقل ہونے کے لئے تیار ہو گئی۔ حویلی کی تعمیر کا کام تیزی سے شروع ہو گیا۔
اس بیچ دونوں بھائیوں نے اپنے والد رحمٰن سے ایک مرتبہ بھی مشورہ نہیں کیا تھا۔ اس لئے کہ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ اس پر والد صاحب کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے ، وہ تو خوشی خوشی اُن کے پاس چلے آئیں گے۔جب مکان کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا تو اکبر اور اصغر نے اپنے نئے مکان میں اعزہ اور اقربا کی دعوت رکھی۔ کافی لوگ آئے ، خوب مبارک سلامت ہوئی۔ کھانے پینے سے فارغ ہو کر لوگ ایک ایک کر کے لوٹ گئے۔
جب سب جا چکے تو اصغر نے کہا۔ ’ ’بابا … ہم نے یہ دو بنگلے بنا لئے اور ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم یہیں رہیں گے۔‘‘
’’یہ تو بڑا اچھا فیصلہ ہے۔ بڑے شاندار مکان تعمیر کئے ہیں تم لوگوں نے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تمہیں خوش رکھے۔‘‘
اکبر نے کہا۔ ’’لیکن بابا … ہم نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ یہیں رہیں گے۔‘‘
اکبر کی بات سن کر رحمٰن چاچا چونک پڑے۔ ’’کیا کہا تم نے ؟‘‘ میرے بارے میں اِتنا بڑا فیصلہ کر لیا اور مجھ سے پوچھا تک نہیں ؟‘‘
دونوں بھائی سٹپٹا گئے۔ اصغر نے معاملہ سنبھالنے کی کوشش کی۔ ’’بابا … دراصل بھیا نے غلط الفاظ استعمال کر دئیے۔ ہم نے فیصلہ تو نہیں کیا، ہاں ہماری خواہش ضرور ہے۔‘‘
اکبر بیچ میں بو ل پڑا۔ ’’بلکہ ہماری التجا ہے ، گزارش ہے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ رہیں۔‘‘
رحمٰن چاچا نے جواب دیا۔ ’’دیکھو میں تمہاری خواہش کو پسند کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ لیکن میں مجبور ہوں … میں یہاں نہیں رہ سکتا۔‘‘
اصغر بولا۔ ’’آپ یہاں نہیں رہیں گے تو اِن مکانات میں ایک خلا باقی رہ جائے گا۔‘‘
رحمٰن بولے۔ ’’لیکن بیٹے ! اگر میں اپنا آبائی مکان چھوڑ کر یہاں آ جاؤں گا تو میری زندگی میں ایک خلاء واقع ہو جائے گا۔‘‘
اکبر زِچ ہو گیا۔ ’’اباجی آخر ایسا کیا ہے اُس گھر میں ؟‘‘
’’بیٹے میرا تو سب کچھ اُس گھر میں ہے۔ اِس عمر میں میرا سب سے بڑا سرمایہ تو بس ماضی کی یادیں ہیں۔ اس گھر کے چپہ چپہ میں تمہاری امی کا عکس ہے۔ میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔‘‘
دونوں بھائی جذباتی ہو گئے۔ پھر اصغر نے کہا۔ ’’بابا جی، آپ جیسا مناسب سمجھیں، ہم نے تو اپنے خاندان کے لئے ایک فیصلہ کیا تھا اور آپ بھی ہمارے خاندان کے فرد ہیں۔ اس لحاظ سے یہ آپ کے لئے بھی ہو گیا۔‘‘
رحمٰن بولے۔ ’’وہ ٹھیک ہے۔ ہم سب ایک خاندان کے فرد ضرور ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمارا اپنا انفرادی وجود بھی ہے ، ہماری اپنی شخصیت اور تشخص ہے … اور یہ خاندانی تعلقات اسی وقت تک استوار رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم ایک دوسرے کی پسند و ناپسند کا احترام کریں اور کوئی کسی دوسرے پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش نہ کرے۔‘‘
آپ نے بجا فرمایا۔ ’’اکبر بولا۔ ’’لیکن آپ بھی تو ہمارے بارے میں بہت کچھ فیصلے کرتے رہے ہیں ؟‘‘
رحمٰن بولے۔ ’’ہاں … جب تک تم لوگ ناسمجھ تھے ، تب تک میں ایسا کرتا رہا۔ لیکن جب سے تم لوگوں نے ہوش سنبھالا ہے ، میں نے اپنا فیصلہ تم پر تھوپنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ ہاں، اپنا مشورہ ضرور دیا۔ لیکن فیصلہ ہمیشہ میں نے تم پر چھوڑ دیا۔ اب اگر تم لوگ مجھے ناسمجھ سمجھتے ہو تو اپنا فیصلہ مجھ پر نافذ کر سکتے ہو جیساکہ میں کسی زمانے میں کیا کرتا تھا۔ ورنہ پھر تمہیں میری مرضی کا احترام کرنا ہو گا۔‘‘
دونوں بھائیوں نے والد کی تائید کی اور پوچھا۔ ’’اب ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟‘‘
’’حکم کیا ہے … تم لوگوں کے گھر سے میں بہت خوش ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ یہاں رہو، شاد رہو، آباد رہو، لیکن میں وہیں اپنے آبائی مکان میں رہوں گا اور اُمید کروں گا کہ تم میری خواہش کا احترام کرو گے۔‘‘
’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔‘‘ دونوں بھائیوں نے ایک زبان ہو کر کہا۔
کرشنا دبئی میں رہتا تھا،اکبر اور اصغر اپنے فارم ہاوس میں رہتے تھے مگر رحمٰن اور انجیا دو ایسے دوست تھے جو اب بھی ایک دُوسرے کے پڑوس میں قیام پذیر تھے۔ ایک نوکر بھی تھا … رامو … جو گھر کی صاف صفائی بھی کرتا اور اُن دونوں کے لئے کھانا بھی بنا دیا کرتا تھا۔ ایک دن حسب معمول صبح کی چہل قدمی سے دونوں دوست واپس لوٹے اور رامو کے چائے لانے کا انتظار کر رہے تھے کہ انجیا نے کہا۔
’’یار رحمٰن … ہم جس قدر اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ وہ ہمارے بارے میں بھی اسی طرح سوچتے ہوں گے ؟‘‘
رحمٰن سوال کو سن کر مسکرایا اور بولا۔ ’’یار … یہ تو فطری بات ہے۔ ہم اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں، وہ اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس میں عجیب کیا ہے ؟‘‘
انجیا اس جواب سے چونک پڑا۔ اس نے دوسرا سوال داغ دیا۔ ’’ہاں یار … یہ بات بھی صحیح ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے ؟‘‘
رحمٰن بولا۔ ’’بات دراصل یہ ہے کہ اولاد ماں باپ کے بڑھاپے کی لاٹھی ہوتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی لاٹھی کے بارے میں فکرمند ہوتا ہے۔‘‘
انجیا بیچ میں بولا پڑا۔ ’’ہاں لیکن ایسا کرتے وقت وہ اس بات کو بھول جاتا ہے کہ وہ بھی کسی کے بڑھاپے کی لاٹھی ہے۔‘‘
رحمٰن نے اثبات میں سر ہلایا اور بولا۔ ’’لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے باوجود ہم ان کے اسی طرح خیرخواہ ہیں، ان سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں۔‘‘
انجیا نے پوچھا۔ ’’ایسا کیوں ؟‘‘
’’شاید اسی لئے کہ یہ انسانی تہذیب و تمدن بنیادی پتھر ہے۔ ہمارے ماں باپ نے ہم سے محبت کی، اس لئے ہم اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے۔ اس طرح یہ محبت کا ورثہ نسل در نسل آگے بڑھتا جاتا ہے اور تمدن ارتقاء پذیر رہتی ہے۔‘‘
انجیا بولا۔ ’’تم صحیح کہہ رہے ہو۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے بچوں کو اپنے سے بہتر بنانا چاہتا تھا اور یہی کوشش انسانی سماج کو بہتر سے بہتر بنا تی جا رہی ہے۔‘‘
’’یقیناً!‘‘ بیچ میں رامو بول پڑا۔ ’’صاحب کب سے چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ آج آپ لوگ گفتگو میں کچھ اس طرح منہمک ہوئے کہ اس کی جانب نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’معاف کرنا رامو … لیکن یہ تو بالکل ہی ٹھنڈی ہو گئی۔ اب تو تمہیں تازہ چائے دوبارہ بنانی ہو گی۔
رامو نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے … آپ جب تک کرشنا کے اس خط کو دیکھیں جو ابھی کچھ دیر پہلے ڈاکیہ دے گیا ہے ، میں تب تک چائے لے کر آتا ہوں۔‘‘
انجیا نے جھٹ اس کے ہا تھ سے لفافہ لے لیا۔ خط کیا تھا صرف چند تصویریں تھیں کرشنا کی بہو کی اور بچوں کی۔ رحمٰن اور انجیا ایک ایک تصویر کو دیکھ رہے تھے۔ انجیا نے کہا۔
’’اتنی ساری تصویریں بھیجیں … دو الفاظ کی چھٹی نہیں بھیجی۔‘‘
رحمٰن بولا۔ ’’ہر ہفتہ فون پر بات چیت تو ہو جاتی ہے۔ پھر بھی چھٹی ہماری پرانی عادتیں نہیں جاتیں۔‘‘
’’ہاں رحمٰن … فون پر بات تو ہوتی ہے لیکن دل نہیں بھرتا۔‘‘
رحمٰن نے کہا۔ ’’ارے دیکھو … ہر تصویر کی پشت پر کچھ لکھا ہوا ہے۔‘‘
انجیا بولا۔ ’’ہاں ہاں !‘‘
لکھا ہوا تھا … ’’کاکا … آپ جلد ہی ان سب سے ملنے والے ہیں۔ میں اِن سب کو لے کر آپ کے پاس آنے والا ہوں۔ لیکن یہ نہیں بتاؤں گا کہ کب پہنچوں گا، ورنہ استعجاب کا سارہ مزہ ہی ختم ہو جائے گا۔‘‘
انجیا نے کہا۔ ’’دیکھا … شنکر بچوں کا باپ ہو گیا، پھر بھی بالکل بچہ ہے۔‘‘
رحمٰن بولا۔ ’’ارے بھائی اپنے باپ کے سامنے تو بچہ ہی رہے گا۔ بے چارہ چاہے دادا پردادا کیوں نہ ہو جائے ؟‘‘
دونوں دوست یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ دروازہ کھلا، سامنے اصغر کھڑا تھا۔
رحمٰن نے تعجب سے پوچھا۔ ’’ارے اصغر! آج اچانک … ؟‘‘
’’جی ہاں اباجی … اچانک آنا پڑا۔ اس لئے کہ کرشنا کو لانا جو تھا۔‘‘
’’کیا کرشنا؟‘‘ انجیا نے پوچھا۔
’’ہاں کاکا … کرشنا بیوی بچوں کے ساتھ آ دھمکا ہے۔ وہ لوگ گاڑی سے اُتر رہے ہیں۔‘‘
انجیا سب کچھ بھول کر دروازے کی جانب دوڑ پڑا۔ پیچھے پیچھے رحمٰن اور اصغر بھی تھے۔ کرشنا کو انجیا نے سینے سے لگا لیا اور کانن رحمٰن چاچا سے لپٹ گیا۔ سبھی کی آنکھیں نم تھیں۔ اِن آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ رحمٰن چاچا کی کہانی او ر ٹمکور میں قیام کی مدت جس دن ختم ہوئی، اُس روز گاؤں کے سرپنچ نجلنگپا نائیڈو نے گاؤں میں آنے والے مہمانوں کو دعوت دی۔ اس دعوت میں چونکہ انجیا اور رحمٰن کے گھر کی خواتین کو نہیں بلایا گیا تھا، اس لئے رادھا نے بھی اس میں شرکت کرنے سے معذرت کر دی۔ رادھا نے رحمٰن چاچا سے اس قیام کے دوران جو کچھ سنا تھا، وہ اُنہیں نکات کی شکل میں اپنی بیاض کے اندر محفوظ کر لینا چاہتی تھی۔ رادھا کے لئے چونکہ لکھنے کا یہ پہلا موقع تھا، اس لئے وہ کچھ زیادہ ہی پُر جوش تھی۔
پونر جنم
جب سب لوگ چلے گئے تو رامو نے آ کر پوچھا۔ ’’ارے بی بی جی … آپ نہیں گئیں ؟‘‘
رادھا نے کہا۔ ’’نہیں … مجھے کچھ کام ہے۔‘‘
’’کام ہے ؟‘‘ رامو نے حیرت سے پوچھا۔ ’’آپ تو سیر و تفریح کے لئے آئی ہیں، پھر بھی کام کرتی ہیں اور ہم لوگ کام پر بھی تفریح کرتے ہیں۔‘‘
اتفاق سے اُسی وقت رامو کے عقب سے آہٹ کی آواز آئی اور اس نے پیچھے مڑ کر رادھا کو دیکھا تو سراپاسوالیہ نشان بن گیا۔
رادھا نے ہنس کر کہا۔ ’’ جاؤ جاؤ تمہاری تفریح آ گئی ہے۔‘‘
’’نہیں میم صاحب … یہ بات نہیں۔ یہ میری دھرم پتنی ہے میری بیوی پارو۔‘‘
’ ’اچھا … یہ کہاں رہتی ہے ؟‘‘
’’یہیں گاؤں میں۔‘‘
’’لیکن تم کو تو میں دیکھ رہی ہوں کہ یہیں پڑے رہتے ہو اور اس کو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’جی میم صاحب … بات یہ ہے کہ یہ میرے ساتھ نہیں رہتی لیکن ہر روز اِس وقت آ کر کھانا دے جاتی ہے۔‘‘
پارو دروازے کے پاس کھڑی یہ بات چیت سن رہی تھی، وہ بولی۔ ’’رامو کیوں جھوٹ بولتے ہوں ؟‘‘
رامو چونک پڑا اور بولا۔ ’’چپ کر بدتمیز … میم صاحب کے سامنے زبان چلاتی ہے۔
پارو نے ہنس کر کہا۔ ’’اور تم جو میم صاحب کے آگے جھوٹ بولتے ہو، اُس کا کیا؟‘‘
رادھا کو یہ عورت دلچسپ لگی۔ اُس نے کہا۔ ’’یہاں آؤ بہن۔ کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
پارو کے لئے کیسی مالکن کی زبان سے بہن کا لفظ سننے کا یہ پہلا خوشگوار تجربہ تھا۔ اس کے قدم خود بخود رادھا کی طرف بڑھنے لگے۔ اس نے قریب آ کر سلام کیا اور رادھا کے پیروں میں بیٹھ گئی۔
رادھا نے کہا۔ ’’ارے نیچے کیوں بیٹھ رہی ہو؟ اِدھر بیٹھو سامنے چارپائی پر۔‘‘
’’چارپائی پر؟‘‘ یہ پارو کے لئے دوسرا جھٹکا تھا۔
’’’ہاں ! چارپائی پر بیٹھنے میں کوئی بُرائی ہے کیا؟‘‘
’’بُرائی … جی نہیں … کوئی بُرائی نہیں ہے۔ لیکن میں آپ کے سامنے کیسے بیٹھ سکتی ہوں ؟‘‘
رادھا بولی۔ ’’ویسے ہی، جیسے میں تمہارے سامنے بیٹھی ہوں۔‘‘
رادھا نے پارو کا ہاتھ پکڑا اور اُسے اُوپر اُٹھایا۔ پارو کھڑی ہو گئی۔ پھر اُس نے پیچھے دھکیلا۔ سامنے والی چارپائی کے قریب کیا اور کہا۔ ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘
وہ دبی سمٹی بیٹھ گئی۔ رامو کو یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔ رادھا نے رامو کی جانب دیکھا اور کہا۔
’’تم یہاں کھڑے کھڑے کیا دیکھ رہے ہو؟ جاؤ چائے لاؤ۔‘‘
رامو نے کہا ’’جی میم صاحب۔‘‘ اور پلٹنے لگا، تو رادھا نے پوچھا۔ ’’کتنے کپ؟‘‘
رامو بولا۔ ’’ایک کپ!‘‘
’’جی نہیں !‘‘ رادھا نے زور سے کہا۔
’’پھر؟ تین کپ؟‘‘
’’نہیں … صرف دو کپ۔ کیا سمجھے ؟‘‘
’’جی میم صاحب سمجھ گیا۔‘‘ کہتا ہوا رامو بھاگا۔
پارو ہنس رہی تھی، وہ بولی۔ ’’میم صاحب! یہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’وہ میرے لئے چائے کیسے بنا سکتا ہے ؟‘‘
رادھا بولی۔ ’’کیوں نہیں۔ اگر میرے لئے بنا سکتا ہے تو تمہارے لئے کیوں نہیں ؟‘‘
’’ایسی بات نہیں۔ آپ اس کی مالکن ہیں اور میں اس کی بیوی ہوں۔‘‘
’’تو کیا بیوی مالکن نہیں ہوتی؟‘‘
پارو نے دروازے کی طرف دیکھا اور بولی۔ ’’ویسے تو ہوتی ہے لیکن کہتی نہیں ہے۔‘‘
رادھا کو پارو کی یہ بات بہت پسند آئی، وہ بولی ’’اگر وہ اپنے آپ کو مالکن نہیں کہتی ؟ تو کہتی کیا ہے وہ اپنے آپ کو؟
’’وہ اپنے آپ کو داسی کہتی ہے۔ مثلاً یہ ہے رام اور میں ہوں رام داسی یعنی رام کی داسی پارو۔‘‘
’’کیوں ؟ تم ایسا کیوں کہتی ہو؟‘‘
’’تاکہ رامو خوش فہمی میں مبتلا رہے اور ہماری خدمت کرتا رہے۔‘‘
’’تم تو بڑی چالاک ہو؟‘‘
’’یہ چالاکی میرے لئے خاص نہیں ہے۔ ایسی چالاکی تو ہر عورت میں پائی جاتی ہے۔‘‘
رادھا نے سر ہلا کر تائید کی اور بولی۔ ’’جب رامو نے کہا کہ تم اس کی بیوی ہو تو تم نے کہا جھوٹ، اور پھر تم نے خود بھی یہی کہا کہ تم اس کی بیوی ہو، تو اس میں جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ہے ؟‘‘
پارو نے شروع کی بات کو یاد کرنے کی کوشش کی اور بولی۔ ’’نہیں میں نے اس بات پر اسے جھوٹا نہیں کہا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’جب رامو نے کہا کہ یہ میرے پاس نہیں آتی، تب میں نے کہا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے۔‘‘
’’اچھا تو کیا تم اس کے پاس آتی ہو؟‘‘
’’جی ہاں ! کیوں نہیں آتی۔ ہر روز صبح کھیت میں مزدوری کے لئے جاتے ہوئے میں اِدھر سے گزرتی ہوں۔ حالانکہ یہاں آنے کے لئے مجھے ایک کلومیٹر کا اضافی فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پھر بھی اِسے کھانا دینے کے لئے آتی ہوں۔ اور پھر بھی یہ کہتا ہے کہ میں نہیں آتی؟‘‘
’’لیکن تم صبح میں کیوں آتی ہو؟ شام میں کام سے فارغ ہو کر کیوں نہیں آتیں ؟‘‘
’’شام میں یہاں کیوں آؤں ؟ میں اپنے گھر جاتی ہوں۔‘‘
’’اچھا تو یہ تمہارے گھر کیوں نہیں آتا؟‘‘
’’میرے گھر؟ وہ تو اس کا اپنا گھر ہے۔ آپ پوچھئے کہ وہ اپنے گھر کیوں نہیں جاتا؟‘‘
رادھا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، وہ بولی۔ ’’ہاں بابا … چوک ہو گئی۔ یہ بتلاؤ کہ وہ اپنے گھر کیوں نہیں جاتا؟‘‘
’’وہ بات دراصل یہ ہے میم صاحب کہ … ‘‘ پارو خاموش ہو گئی۔
’’بولو … بولو!‘‘ رادھا نے کہا۔ ’’تم چپ کیوں ہو گئیں ؟‘‘
پارو دروازے کی جانب دیکھ رہی تھی۔ رادھا نے مڑ کر دیکھا، رامو ہاتھ میں چائے کی ٹرے لئے کھڑا تھا۔
رادھا نے کہا۔ ’’آؤ رامو، کھڑے کیوں ہو؟‘‘
رامو بولا۔ ’’میم صاحب … چائے !‘‘
’’یہ ’چائے ‘ کے ساتھ تم ’وائے ‘ بھی لے آئے … یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘
’’جی یوں ہی لے آیا۔ کیوں ! کیا آپ کو پکوڑے نہیں پسند ہیں ؟‘‘
’’پسند تو ہیں لیکن یہ اتنی جلدی تیار کیسے ہو گئے ؟ بازار سے لائے ہو کیا؟‘‘
’’نہیں میم صاحب! بازار سے نہیں، یہ تو گھر کے بنے ہیں … گرم گرم!!‘‘
’’اوہو … تو تم یہ اپنے لئے بنا رہے تھے۔ پارو کو دیکھ کر ہمارے لئے بھی لے آئے۔ کیوں ؟‘‘
’’نہیں میم صاحب … یہ دراصل پارو کے ہاتھ کے بنے ہیں۔ وہ میرے لئے لائی تھی، تو میں آپ لوگوں کے لئے لے آیا۔‘‘
’’اچھا … ! پارو … بڑا خیال رکھتی ہو اپنے رامو کا۔ کھانے کے ساتھ ساتھ ناشتہ بھی تیار کر کے لا تی ہو۔‘‘
پارو بولی۔ ’’دراصل میں اپنے لئے جو کچھ بھی بناتی ہوں، ان کے لئے بھی لے آتی ہوں۔‘‘
رامو بولا۔ ’’نہیں … جھوٹ بولتی ہے۔‘‘
’’اچھا؟‘‘
’’یہ اس کو پسند نہیں ہے ، مجھے پسند ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ میرے لئے جو کچھ بھی بناتی ہے ، اس میں سے خود بھی کھا لیتی ہے۔‘‘
رادھا بولی۔ ’’ایک ہی بات ہے … خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر … نتیجہ وہی نکلتا ہے۔ کھانا تو پارو ہی کو بنانا پڑتا ہے ‘‘۔
رامو بولا۔ ’’آپ ٹھیک کہتی ہیں، لیکن دونوں صورتیں یکساں نہیں ہیں۔ اُن میں بڑا فرق ہے۔‘‘
’’خیر … فرق کے بارے میں ہم بعد میں سوچیں گے۔ فی الحال ہم لوگ کچھ ضروری بات کر رہے ہیں، اس لئے تم جاؤ اور اپنا کام کرو۔‘‘
رامو کو رادھا کا رویہ خراب لگ رہا تھا۔ رادھا کو اس کا احساس تھا، لیکن وہ جانتی تھی کہ رامو کے سامنے پارو اپنے دل کی بات بولنے میں جھجک محسوس کرے گی۔
رامو اپنے کمرے میں آ گیا، لیکن وہاں بیٹھ نہ سکا۔ وہ سننا چاہتا تھا کہ پارو اس کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟ وہ دبے پاؤں ایڑیوں کے بل چلتا ہوا آیا اور بغل والے کمرے میں آ کر بیٹھ گیا، جہاں سے اُسے رادھا اور پارو کی آواز سنائی دیتی تھی۔
رادھا نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں پارو! تو یہ بتلاؤ کہ یہ رامو تمہارے بارے میں اس قدر اچھے جذبات رکھتا ہے ، پھر بھی تمہارے پاس نہیں آتا۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟‘‘
’’و ہ … میم صاحب بات یہ ہے کہ رامو مجھ سے زیادہ کسی اور کو پسند کرتا ہے ؟‘‘
پارو کے اس قدر سرداعتراف سے رادھا چونک پڑی۔
’’کسی اور کو؟ کیا مطلب؟ اُس نے دُوسری شادی کر لی ہے ؟‘‘
’’جی نہیں میم صاحب! یہ کیا دوسری شادی کرے گا؟‘‘
’’پھر؟‘‘
’’دراصل اس کو شراب کی لت ہے اور وہ دارو کو پارو پر ترجیح دیتا ہے۔‘‘
’’تو گویا شراب تمہاری سوتن بنی ہوئی ہے۔ لیکن اس میں کون سی بڑی بات ہے ؟ تم اس سے یہ عادت چھڑا کیوں نہیں دیتیں۔‘‘
پارو بولی میم صاحب یہ بات کہنا جس قدر آسان ہے کرنا اسی قدر مشکل ہے۔
’’اچھا! لیکن پھر بھی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے ؟‘‘ رادھا نے کہا۔
پارو بولی۔ ’’میں کوشش کر چکی ہوں۔‘‘
’’اچھا … تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’یہ اُس وقت کی بات ہے جب ہم لوگ ایک ساتھ انجیا کے کھیت میں کام کرتے تھے۔ ہمارے ماں باپ نے ہماری شادی کر دی۔ وہ لوگ بھی انجیا کے کھیت میں مزدوری کرتے تھے۔ ہم نسل در نسل انجیا کے خاندانی مزدور ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہمارے بچے بھی انجیا کے بچو ں کی کھیت میں مزدوری کریں، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔‘‘
’’کیو ں اس کی وجہ؟‘‘
’’ہوا یہ کہ رامو کو شراب کی لت پڑ گئی۔ ابتدا میں اُس نے تفریحاً شراب سے دوستی کی اور اُسے کبھی کبھار پینے لگا۔ لیکن آگے چل کر شراب ہماری ازدواجی زندگی کو پینے لگی۔ اس نے ہماری گھر میں ایک بدبو دار نشہ پھیلا دیا۔‘‘
’’لیکن تم خاموش کیوں رہیں ؟ تم نے کیوں اس کے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔‘‘
’’ دراصل میم صاحب میں خاموش نہیں رہی۔ اپنے گھر کو آگ اور شعلوں کی نذر ہوتا ہوا دیکھ کر کون خاموش رہ سکتا ہے ؟ میں نے خوب ہاتھ پیر مارے۔ دراصل ہوتا یہ تھا کہ ہر روز شام کو کھیت سے نکل کر رامو شراب کے اڈّے پر جاتا اور وہاں سے شراب کی بوتل خرید کر لے آتا … اور پھر گھر میں کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد شراب سے شغل فرماتا۔ میں اس سے لڑتی جھگڑتی۔ لیکن وہ چونکہ نشہ کی حالت میں ہوتا تھا، اس لئے وہ نہ میری باتوں کو سنتا سمجھتا تھا اور نہ اس پر کسی رد عمل کا اظہار کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے احساس ہو گیا کہ میری کوششیں رائیگاں جا رہی ہیں۔ میرے غم و غصہ کا اس پر تو کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے ، بلکہ خود میری صحت اور نفسیات اس سے متاثر ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’ہاں … میرے اندر اس کے خلاف منفی جذبات پیدا ہونے لگے تھے۔ میری طبیعت میں چڑچڑا پن آنے لگا تھا۔ اس لیے میں نے اُس کی اصلاح کا ارادہ بالائے طاق رکھ دیا اور اس کی مرضی پر راضی ہو گئی۔‘‘
’’تم ایسا کرنے میں کیوں کر کامیاب ہوئیں ؟ تم نے اپنے آپ کو کس طرح مطمئن کیا؟‘‘
’’بہت آسانی سے ! میں نے سوچ لیا کہ رامو نے پارو کے ساتھ ساتھ دارو سے بھی شادی کر لی ہے ، اور وہ اپنی نئی دلہن کو مجھ سے زیادہ چاہتا ہے۔ اس میں اس کا قصور نہیں، شاید وہ مجھ سے زیادہ پُر کشش ہے اور ممکن ہے میرے ہی اندر کوئی کمی ہو، جس کے باعث اس نے دوسری طرف کا رُخ کیا ہے۔‘‘
’’تو گویا تم نے اپنی شکست تسلیم کر لی۔‘‘
’’جی نہیں میم صاحب! اس کے باوجود میں پُر اُمید تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ کچھ دنوں کے بعد یہ اپنی نئی محبوبہ سے بھی اُوب جائے گا اور پھر میری جانب رُخ کرے گا۔ لیکن اِس بیچ ایک عجیب و غریب واقعہ رونما ہو گیا۔‘‘
’’اچھا … ! وہ کیا؟‘‘
’’دراصل یہ اُس وقت کی بات ہے جب انجیا نے رامو کو اپنے کھیت کے بجائے گھر پر ملازم رکھ لیا تھا۔ میں کھیت ہی پر جاتی تھی۔ ہر روز صبح ہم گھر سے نکلتے اور شام میں واپس گھر آ جاتے۔ رامو آتے ہوئے اپنے ساتھ شراب کی بوتل لے آتا۔ کھانا کھا تا، شراب پیتا اور سو جاتا۔ لیکن ایک دن ایسا ہوا کہ وہ شراب کی بوتل تپائی نما اسٹول پر رکھ کر حمام میں گیا۔ میں باورچی خانہ میں کھانا بنا رہی تھی کہ بوتل کے گرنے کی آواز آئی۔ ہم دونوں ایک ساتھ تپائی کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہماری بلّی ٹوٹی ہوئی بوتل کے قریب پھیلی ہوئی شراب چاٹ رہی ہے۔
رامو نے یہ منظر دیکھا تو آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے بلی کو لات سے مارا، لیکن اس کے باوجود بلّی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ وہ بدستور شراب کو چاٹ رہی تھی۔ رامو کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔ اس نے قریب پڑی تپائی کو اُٹھایا اور بلی پر دے مارا۔ بلی وہیں ڈھیر ہو گئی۔ اس کے منہ سے خون کی لکیر شراب میں مل کر بہنے لگی۔ یہ سب کچھ اس قدر جلدی ہو گیا کہ میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا۔ رامو حمام میں جانے سے پہلے شراب کے چند گھونٹ پی چکا تھا، اس پر نشے کا اثر تھا۔ اس نے جب اپنی بلی کی لاش کو دیکھا تو وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور ’’میری بلی … میری بلی‘‘ کہہ کر رونے لگا۔ میں نے اُسے کندھا پکڑ کر اُٹھایا اور چارپائی پر لے آئی۔ اس کے آنسو پونچھے ، منہ صاف کیا اور پانی کا گلاس دیا۔ رامو کی طبیعت سنبھلی تو وہ بولا۔ ’’پارو … میری پارو … چاروشیلا پاروتی۔‘‘
شادی کے بعد پہلی مرتبہ رامو نے میرا پورا نام لیا تھا۔ میں نے کہا بولو رامو … میرے رام داس۔‘‘
رامو خاموش ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ بوتل ٹوٹ چکی ہے ، میری سوتن مر چکی ہے ، اب میرا رامو میرے پاس لوٹ آئے گا۔
لیکن رامو بولا۔ ’’پارو تمہارے پاس کچھ پیسے ہیں۔ تم نے تو بُرے وقت کے لئے کچھ نہ کچھ بچا کر رکھا ہی ہو گا۔‘‘
میں بولی۔ ’’ہاں … کیوں نہیں ؟‘‘
اُس نے کہا۔ ’’تو ایسا کرو، اُس میں سے دس روپئے مجھے دے دو۔ میں شراب کی نئی بوتل لانا چاہتا ہوں۔‘‘
رامو کا یہ جملہ میرے اوپر بم کی طرح گرا۔
وہ بولا۔ ’’پارو تم تو جانتی ہو، میری تنخواہ اور شراب کی قیمت دونوں دس روپئے روزانہ ہیں۔ اسی لئے دُکان والا ایک دن میں دو بوتل اُدھار نہیں دیتا۔‘‘
میرے لئے رامو کے الفاظ بے معنی ہو چکے تھے۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھی اور ڈبے میں رکھے پس انداز روپیوں میں سے دس روپئے کا نوٹ لا کر رامو کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔
دس روپئے کا نوٹ لے کر وہ خوشی سے پاگل ہو گیا۔ نگاہوں سے میرا شکریہ ادا کیا اور شراب خانہ کی طرف دوڑ گیا۔ اُس روز رامو نے شراب خانے میں بیٹھ کر شراب پی۔ شاید میرا سامنا کرنے کی جرأت اس کے اندر نہیں تھی۔ وہ سونے کے لئے گھر آنے کے بجائے انجیا کے گھر چلا گیا اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔ صبح انجیا نے اُسے سامان کے کمرے میں سویا ہوا دیکھا تو سمجھا کہ میں نے اُسے گھر سے نکال دیا ہے اور پھر وہ یہیں رہنے لگا۔ اُس نے گھر آنا بند کر دیا۔‘‘
رادھا کی دلچسپی رامو میں نہیں، پارو میں تھی۔ وہ بولی۔ ’’اس نے کیا کیا، وہ چھوڑو۔ تم نے کیا کیا، یہ بتاؤ؟‘‘
’’میں نے … میں نے کچھ نہیں کیا۔ دیر تک اپنی جگہ بیٹھ کر سوچتی رہی اور پھر اپنی جگہ سے اُٹھی۔ بلی کی لا ش کو اٹھایا اور بستی سے دُور کھلے میدان میں پھینک آئی۔ واپس آنے کے بعد مجھے لگا کہ یہ بلّی کی نہیں رامو کی لاش تھی۔ رامو سے رشتۂ ازدواج کی لاش تھی جسے میں کھیت میں پھینک آئی ہوں۔ میں نے اس کی آخری رسومات ادا کر دی ہیں اور اب وہ رشتہ دم توڑ چکا ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘ رادھا نے حیرت سے پوچھا۔
’’پھر میں نے فرش کو خشک کیا۔ اُس پر پڑی شراب کو پونچھ کر خون کے دھبوں کو صاف کر دیا۔ اسی کے ساتھ میں نے اپنے دل سے رامو کے خلاف غم و غصہ اور نفرت کو نکال کر دریا برد کر دیا۔‘‘
’’وہ … … وہ کیوں ؟‘‘
’’اس لئے میم صاحب کہ مرنے والے کا سوگ آخر کتنے دنوں تک کیا جائے ؟ اُس پر غصہ کرنے اور اس سے نفرت کرنے سے کیا حاصل؟‘‘
’’اچھا … ! لیکن پھر بھی تم نے اس رشتہ کو قائم تو رکھا ہی ہے۔ تم ہر روز صبح آ کر اُسے کھانا پینا دے جاتی ہو۔‘‘
’’جی ہاں میم صاحب۔ آپ صحیح کہتی ہیں۔ میں نے آگ کو گواہ بنا کر اس کے ساتھ سات جنموں تک جینے مرنے کی قسم کھائی ہے۔ اس نے جو کیا سو کیا، لیکن میں … … میں اپنی قسم کیسے توڑ سکتی ہوں ؟‘‘
’’کیا سات جنم ہوتے ہیں ؟‘‘
’’میں نہیں جانتی کہ ہوتے ہیں یا نہیں ؟ لیکن لوگ کہتے ہیں تو شاید ہوتے ہی ہوں گے۔ اگر نہ بھی ہوتے ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن اگر ہوتے ہیں تو میں سات جنموں تک اس کا ساتھ نبھاؤں گی۔‘‘
’’لیکن اگر اگلے جنم میں تم نے اس کے ساتھ سات پھیرے لے لئے تو پھر سات جنم! اس طرح تو یہ سلسلہ کبھی ختم ہی نہ ہو گا۔‘‘
پارو کچھ دیر خاموش رہی اور پھر بولی۔ ’’نہیں میم صاحب! میں ہر جنم میں ایک پھیرا کم کرتی جاؤں گی اور ساتویں جنم میں صرف ایک پھیرا لوں گی۔‘‘
’’ صرف ایک پھیرا … … اور پھر اس کے بعد؟‘‘
’’میں نہیں جانتی۔‘‘ پارو بولی۔ ’’میں تو ایک جنم کی بات بھی نہیں جانتی۔ آپ سات جنموں کی بات پوچھ رہی ہیں میم صاحب!‘‘
پارو ایک بات بتاؤ؟ رامو کے یہاں آ جانے کے بعد تمہارا ہر روز یہاں آنا میری سمجھ میں نہیں آیا۔ آخر کب تک چلے گا یہ سلسلہ؟‘‘
’’یہ بھی میں نہیں جانتی میم صاحب! دراصل شادی کے وقت میں نے دُعا کی تھی کہ مجھے رامو سے پہلے موت آئے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ دُعا قبول ہو گئی ہے۔ اس لئے میں اپنی آخری سانس تک رامو کی اُس زندہ لاش کو ڈھوتی رہوں گی اور میری موت کے ساتھ یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔‘‘
رادھا کے لئے پارو کی شخصیت پُراسرار ہوتی جا رہی تھی۔ وہ بولی۔ ’’یہ دُعا جو تم نے اس جنم میں مانگی تھی، کیا اگلے جنم میں بھی مانگو گی؟‘‘
پارو بولی۔ ’’میم صاحب! آپ بہت دُور کی سوچتی ہیں۔ میں نہیں جانتی کہ اگلا جنم ہو گا یا نہیں ؟ میں نہیں جانتی کہ اگلے جنم میں یہ عہد کروں گی یا نہیں ؟ میں نہیں جانتی؟ میں کچھ بھی نہیں جانتی۔‘‘
رامو بغل والے کمرے میں پارو کی باتیں سن رہا تھا اور زار و قطار رو رہا تھا۔ وہ اپنے دل میں چبھی ہوئی شیشے کی کرچوں کو ایک ایک کر کے نکال رہا تھا … اُس کا وجود لہولہان ہو چکا تھا … اس کی نظروں کے سامنے وہ میدان تھا جہاں پارو نے بلی کی لاش کو پھینکا تھا … اس کی آنکھوں سے گرنے والے آنسوؤں سے بلی تتربتر ہو چکی تھی کہ اَچانک اُس نے دیکھا … بلی کے جسم میں حرکت ہو رہی ہے۔
بلی کی روح اس کے اندر لوٹ آئی ہے۔
وہ اپنی جگہ کھڑی ہو گئی ہے۔
وہ اپنے بدن کو جھٹک رہی ہے۔
سورج نصف النہار کو پہنچ چکا ہے۔
بلی اپنے گھر کی جا نب چل پڑی ہے۔
رادھا نے پوچھا۔ ’’پارو … دوپہر ہو چکی ہے ، کیا تم اب بھی کھیت پر کام کرنے کے لئے جاؤ گی۔‘‘
پارو بولی۔ ’’نہیں، میں گھر جاؤں گی۔‘‘
’’تو یہیں کھانا کھا لو۔ کھانا کھا کر جاؤ۔‘‘
پارو بولی۔ ’’نہیں میم صاحب … میں گھر جاؤں۔‘‘
رادھا بولی۔ ’’دیکھو پا رو، ضد نہ کرو۔ رامو نے جو کھانا میرے لئے بنایا ہے ، اُس میں سے دو نوالہ تم بھی کھا لو۔‘‘
اِس لمحہ رامو کمرے میں داخل ہوا۔ وہ بولا۔ ’’معاف کیجئے میم صاحب … میں نے آج کھانا نہیں بنایا۔ آپ اگر بُرا نہ مانیں تو وہ کھانا کھا لیں جو پارو میرے لئے بنا کر لائی تھی۔‘‘
ہم گھر جائیں گے۔
ہم گھر جائیں گے !!
یہ الفاظ پارو کے کان میں نقرئی گھنٹیوں کی طرح بجنے لگے۔
’’کیا؟‘‘ پارو نے بے ساختہ کہا۔
’’ہاں پارو!‘‘ رادھا بولی۔ ’’جاؤ تم اپنے رامو کے ساتھ اپنے گھر جاؤ۔‘‘
اُن دونوں کے چار قدم باہر نکلے اور دو قدم زمین میں دھنس گئے۔
لیکن ساتواں قدم آسمان پر تھا
ساتویں آسمان پر
ساتواں پھیرا
ساتواں جنم
ساتویں قسم!
رادھا کرشنن
کرشنا نے از راہِ تکلّف پھر ایک بار رادھا اور کرشنن کے ساتھ ٹمکور سے بنگلور کا سفر کیا اور ایئرپورٹ پر انہیں الوداع کیا۔ ہوائی جہاز میں رادھا اپنے آپ میں کھوئی ہوئی خود کلامی میں مبتلا تھی۔ اپنے آپ سے نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھی جو کرشنن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ بولا۔ ’’رادھا، یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم یہ کس سے گفتگو کر رہی ہو؟‘‘
’’میں ! میں … کسی سے نہیں۔ جی … جی شاید اپنے آپ سے۔‘‘
’’لیکن اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو مجھ جیسے شوہر نامدار کا کیا ہو گا؟ ہم لوگ کیسے بور ہوں گے ؟‘‘ کرشنن نے مذاق کیا۔
رادھا بولی۔ ’’کرشنن میں فی الحال ذرا سی سنجیدہ ہوں۔‘‘
’’ہاں ہاں، وہ تو میں جانتا ہوں۔ لیکن اِس کی وجہ بھی تو پتہ چلے۔‘‘
’’سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے اَب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میں ٹمکور میں ہوں اور اپنی جیتی جاگتی کہانی کو چشمِ تصور سے دیکھ رہی ہوں۔ میں کبھی اس کہانی کے کرداروں سے ملتی ہوں، کبھی اُن کی سنتی ہوں تو کبھی اُن کو سناتی ہوں۔ اُن لوگوں کے ساتھ میرا بڑا اچھا وقت گز ر رہا ہے۔ میں اپنے تصور کی حقیقت کو الفاظ کا جامہ پہنانا چاہتی ہوں۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں تاکہ میرا تصورِ خیال صفحۂ قرطاس پر اظہارِ حال سے کس قدر مشابہت رکھتا ہے۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ حقیقت افسانہ کیسے بنتی ہے ؟‘‘
’’لیکن یہ جان کر کیا کرو گی؟‘‘
’’میں اپنے تصور میں حقیقت کا رنگ بھروں گی رحمٰن چاچا اور انجیا کی کہانی کو شاہکار بنا دوں گی۔ میں اصغر اور کرشنا کی بے مثال دوستی کو الفاظ کے گلدستے میں سجا دوں گی۔ میں سلطان اور کانن کی محبت کو ابدیت عطا کر آفاقی لباس پہنا دوں گی۔‘‘
’’اچھا … یہ تم کرو گی؟‘‘
’ ’جی ہاں جناب کرشنن … ایسا میں کروں گی۔ آپ کی رادھا یہ کرے گی؟‘‘
’’ا چھا … تو کیا رحمٰن اور انجیا فی الحال شاہکار نہیں ہیں ؟‘‘
’’کو ن کہتا ہے کہ وہ شاہکار نہیں ہیں ؟ بے شک وہ شاہکار ہیں۔‘‘
’’اور اصغر سے کرشنا کی دوستی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘
’’وہ … وہ بھی بے مثال ہے۔‘‘
’’اور سلطان اور کانن کی محبت؟‘‘
’’وہ تو آفاقی و ابدی ہے ہی۔‘‘
’’اگر یہ سب پہلے ہی سے موجود ہے تو آپ کیا کریں گی محترمہ رادھا کرشنن صاحبہ؟‘‘
رادھا لاجواب ہو گئی۔ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر بولی۔ ’’میں … میں ایک حقیقت کی ترسیل کا وسیلہ بنوں گی۔ وہ لوگ جو رحمن اور انجیا سے نہیں ملے ، میں اُنہیں اُن دونوں سے ملاؤں گی۔ جو ٹمکور میں اُن کے گاؤں نہیں گئے ، میں اپنے قلم کے زور سے اُنہیں وہاں لے جاؤں گی۔ جو کچھ میں نے دیکھا ہے ، میں اُسے اُن لوگوں کو دِکھلاؤں گی، جنہوں نے اُسے نہیں دیکھا ہے۔ وہ جذبات و احساست … جنہیں لوگ محسوس تک نہیں کر سکتے … میں انہیں اُس کا احساس دلاؤں گی۔ وہ باتیں جنہیں خواب و خیالی کا نام دے کر ٹال دیا جاتا ہے ، میں اُن کی حقائق پر سے پردہ اُٹھاؤں گی اور لوگوں کو بتلاؤں گی کہ جسے اُنہوں نے حقیقت سمجھ کر اپنا لیا ہے ، وہ مجازی خام خیالی ہے اور جسے انہوں نے مجازی سمجھ کر چھوڑ دیا ہے ، وہی حقیقت کی غمازی ہے۔‘‘
رادھا جوش جنون میں بولے جا رہی تھی۔ کرشنن اس کی تقریر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ وہ اس کے خاموش ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ جب رادھا چپ ہو گئی تو وہ بولا۔
’’محترمہ رادھا کرشنن … میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر آپ کو اپنے اس عظیم مشن میں ہمارے کسی تعاون کی ضرورت پیش آئے تو تکلّف نہ فرمائیں۔‘‘
وہ دونوں بالکل اجنبیوں کی طرح ایک دُوسرے سے ہم کلام تھے۔ حقیقت کو افسانہ بناتے بناتے وہ خود افسانہ بن چکے تھے۔
٭٭٭
جس طرح
ہاتھ کی انگلیاں مختلف ہو نے کے باوجود
ایک دو سرے سے منسلک ہوتی ہیں
اسی طر ح
ناول گھر سنسا ر کا ہر حصہ
منفرد ہونے کے ساتھ سا تھ مکمل بھی ہے
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید