FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حصہ اول

               سلیم خان

 

 

اَلْمَالُ  وَ الْبَنُوْنَ  زِیْنَۃُ  الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا جوَالْبٰقِیٰتُ  الصّٰلِحٰتُ  خَیْر’‘  عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْر’‘  اَمَلاً ہ

مال اور اولاد دنیا کے حیات کی زینت ہیں۔ تمہارے رب کے نزدیک

باقی رہ جانے والی نیکیاں ثواب اور اچھی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں

 

 

انتساب

مہر و وفا کی پیکر

میری شریکِ حیات

انجم آراء

کے نام

جو میرا گھر سنسار بسا کر

کسی اور جہاں میں جابسی

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نئی دنیا نئے لوگ

            غضنفر کے لیے خلیج کی دنیا میں سب کچھ نیا تھا۔ ہم وطن اس کو نصیحت کرتے کہ دیکھو یہاں سنبھل کر رہنا۔ اس پر دیس میں ہماری حیثیت غلام مطلق کی سی ہے۔ یہاں ہمیں کسی قسم کی آزادی و خود مختاری حاصل نہیں ہے ، لیکن غضنفر کا احساس اس سے یکسر مختلف تھا۔ وہ اِس دُور دراز ملک میں اپنے آپ کو گاؤں کے مافیا کنگ دلاور کے شکنجے سے آزاد محسوس کرتا تھا۔ فاصلوں کی اِس کھائی نے نہ صرف اسے محفوظ و مامون کر دیا تھا بلکہ اس کی بہن رضیہ کو بھی دلاور کے چنگل سے بچا لیا تھا۔ ابوظبی آنے کے بہت جلد غضنفر کو بیلجیم کے سفارتخانے میں اعلی افسر کے ذاتی ڈرائیور کی ملازمت مل گئی۔ یہ کم اجرت کی نوکری تھی لیکن چونکہ وہ اب تک اپنی آمدو خرچ کا حساب درہم کے بجائے روپیوں  میں کرتا تھا اس لئے اسے اپنی آمد نی ٹھیک ٹھاک لگتی تھی۔ آمدنی کی حد تک یہ بہت ہی خوشگوار احساس تھا مگر درہم کو بیس سے ضرب کرنا اس وقت غضنفر کے لئے مسائل کھڑے کر دیتا جب وہ کوئی چیز خرید نے کے لئے دوکان میں جاتا۔ ویسے اسے یہاں ایک اور بات پسند تھی کہ دوکانوں میں سامان تو خوب ہوتا تھا لیکن بیچنے والے چند ہی ہوتے۔ ہر سامان کے ساتھ اس کی قیمت لکھی ہوتی۔ کسی شہ کو دیکھنے پرکھنے کے لئے کسی سے کہنا یا پوچھنا نہ پڑتا۔ وہ مختلف اشیا ء کو دیکھتا، اُن کا ایک دُوسرے سے موازنہ کرتا، قیمت کو بیس سے ضرب کرنے کے بعد روپیوں میں بدل کرپاکستانی قیمت سے اس کا موازنہ کرتا اور یہ سب کرتے کرتے اس کی ہمت جواب دے جاتی۔ وہ کچھ خریدے بغیر ہی حسرت ویاس کو دامن میں سمیٹے واپس آ جاتا۔ خلیج کی زندگی کا ایک نیا احساس  یہ بھی تھا کہ یہاں پانی بھی خرید کر پینا پڑتا تھا۔وہ پانی کی بوتل خریدنے کے لئے دوکان میں جاتا اور اسی قیمت میں کوئی ایسا مشروب خرید لاتا جس سے پیاس مٹنے کے بجائے بڑھ جاتی تھی۔ اس صحرا نشینی کی خصوصیت یہی تھی کہ یہاں پیاس لگتی تو بہت تھی لیکن بجھتی بہت کم تھی۔ آگے چل کر اسے پتہ چلا کہ یہ دنیا اپنے آپ میں ایک صحرائے عظیم ہے جس میں بھوکا پیاسا انسان بگ ٹٹ سراب کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے۔ زندگی کی یہ عملی معرفت غضنفر کے لئے پردیس کا سب سے بڑا تحفہ تھی۔یہ دنیا کیسی دنیا تھی کہ جہاں انسان اپنی پیاس بجھانے کی تگ و دو میں پیاس بڑھاتا جاتا تھا۔

            غضنفر نے ضرورتوں کی ایک مختصر سی فہرست کے ساتھ اپنا ملک چھوڑا تھا۔ جس میں سب سے اُوپر گھر کا قرض تھا اور اس کے بعد دو بہنوں کی شادی اور ایک بھائی کی تعلیم۔ اس کا اپنا کوئی وجود اس فہرست میں نہیں تھا۔ وقت گزرنے لگا فہرست کی طوالت کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگی۔ وہ ایک اندھے کنویں میں اترنے لگا۔جیسے جیسے اس کی مسافت طے ہوتی جاتی پانی سے اس کی دُوری بڑھتی جاتی تھی۔ دراصل یہ تیل کا کنواں تھا جو پیاس مٹاتا نہیں آگ لگاتا تھا۔مائیکرو اوون کی دکھائی نہ دینے والی آگ  جس میں انسان جھلستا تو  نہیں تھا لیکن راکھ کے ڈھیر میں ضرور تبدیل ہو جاتا تھا اور راکھ بھی ایسی کہ گنگا  میں بہانے کے کام بھی نہ آئے۔

 گھر کا قرض ادا ہوا تو رنگ و روغن کا مرحلہ آ پہنچا اور رنگ و روغن کے بعد اچانک مکان کشادگی اختیار کرنے کے بجائے تنگ ہو گیا۔ ماں نے جب سوچا کہ اس مختصر سے گھر میں اس کے دو بیٹوں کو اپنے بچوں کے ساتھ رہنا ہے تو دیواروں کے درمیان اس کا دم گھٹنے لگا۔غضنفر کی والدہ نے اسے بتائے بغیر ہی گاؤں کے پرلے کنارے پر ایک پلاٹ خرید لیا تاکہ دھیرے  دھیرے وہاں ایسا گھر تعمیر ہوسکے جس میں سارا کنبہ مزے سے رہ سکے۔ بیٹا باہر ہے ، چنتا کی کیا بات ہے ؟ اس علاقے میں اُن سب لوگوں نے قطعہ اراضی خریدے  تھے جن کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار باہر تھا لیکن تعمیر کے آغاز سے قبل ہی گھر والوں کو اس پلاٹ کا فاصلہ کھلنے لگا۔ اتنی دور کون رہے گا؟ نقل و حرکت کے مسائل کیسے حل ہوں گے ؟ اِن سوالات نے اس پلاٹ کو بے کار کر دیا اور قلب شہر میں کسی مناسب کو ٹھی کی تلاش شروع ہو گئی۔ ایک محاذ ابھی سر نہ ہوا تھا کہ نیا محاذ کھول دیا گیا۔

            غضنفر کی بہنوں کی حیثیت اب بدل گئی تھی۔ ان کے لئے اب متمول گھرانوں سے رشتے آنے لگے تھے۔ ان خاندانوں میں شادی کا خرچ بھی حسب حیثیت ہوتا تھا۔ غضنفر کے لئے اس کی ماں ایسے خاندان کی جانب نہ دیکھتی تھی جوان کے برابر کا ہو بلکہ کچھ اونچا ہی سوچتی تھی۔ بھائی کا داخلہ سرکاری مدرسہ سے منسوخ کروا کر مشنری کے ذریعہ چلائے جانے والے اسکول میں کر دیا گیا تھا جہاں فیس کے علاوہ دیگر اخراجات بھی اچھے خاصے ہوتے تھے ، گویا ایک لامتناہی سلسلہ تھا جو ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ اس چکی میں کولہو کے بیل کی طرح غضنفر اور اس جیسے لاکھوں لوگ جتے ہوئے تھے۔ اس چکی کا تلہن پردیس میں پڑتا اور تیل اپنے دیس میں جا کر نکلتا تھا۔

            غضنفر کو ان مطالبات سے کوئی شکایت نہیں تھی، بس کبھی کبھی اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ سے ملاقات کرے ، بھائی بہنوں کے ساتھ بیٹھے ، دوست و احباب کے ساتھ گپ شپ کرے۔ اپنا گھر، اپنا گاؤں، اپنے کھیت، اپنے کھلیان، ٹیلے ، پربت، ندی، نالے  …  …   سب اسے کبھی کبھار یوں یاد آتے کہ بس جی چاہتا اڑن کھٹولے پر سوار ہو کر یکلخت نکل جائے۔لیکن پھر دلاور خان کی دھمکی جس سے بدعہدی کر کے وہ اپنے گاؤں سے فرار ہو گیا تھا اسے یاد آتی اور اس  کے سارے  خواب پلک جھپکتے ریزہ ریزہ ہو کر بکھر  جاتے۔ ایسے میں اسے محسوس ہوتا گویا وہ کسی جیل میں بند ہے۔ ایک تو وہ جیل تھی جس میں وہ پاکستان میں بند تھا اور ایک یہ۔ غضنفر جب ان دونوں کا موازنہ کرتاتواسے غیر معمولی مشابہت نظر آتی۔ دونوں جگہ وہ کھاتا پیتا تو ضرور تھا۔ لیکن گھرکا پانی اور،اپنی ماں کے ہاتھ کا کھانا نہ وہاں نہ وہاں نصیب تھا نہ یہاں نصیب ہے۔جیل میں بھی لوگوں سے ملنا جلنا تو تھا لیکن جن سے وہ ملاقات کرنا چاہتا تھا  ان سے نہ وہاں مل پانا تھا اور نہ یہاں۔گویا جیل اور پردیس کی کیفیت میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔

غضنفر چونکہ نہایت خوش اخلاق اور ملنسار طبیعت کا حامل تھا اس لئے پردیس کے اندر بھی اس کے دوست و احباب کا وسیع حلقہ بن گیا تھا اور یہاں بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جو شروع ہوتا تو پھر تھمتا نہ تھا لیکن پھر بھی اسے ایسا لگتا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن سے ملنا اس کی مجبوری ہے۔جن لوگوں سے ملنے کی خواہش  اس کے دل میں دن رات انگڑائیاں لیتی تھی وہ ان سے صدیوں کی دور ی پر تھا اور یہی سب سے بڑی مجبوری تھی۔

قید با مشقت  جیل اور بدیس میں مشترک تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس جیل کی دیواریں نہیں تھیں یا یوں کہہ لیں کہ نظر نہیں آتی تھیں۔ پہرے دار جیسے وہاں پر تھے اسی طرح یہاں بھی تھے۔ یہ دَورِ جدید کے چڑیا گھر کی سی کیفیت تھی جہاں جانوروں کو یہ باور کروا دیا جا تا تھا کہ وہ آزاد ہیں، پنجرہ مسمار کر دیا گیا ہے لیکن حقیقت میں وہ آزاد ہو کر بھی آزاد نہ ہوتے تھے۔ ایک طرف جانوروں کے ناخنوں اور دانتوں کو اکھاڑنے کا اہتمام کر دیا جاتا ہے اور دوسری جانب سیاحوں اور شکاریوں کی خاطر بکتر بند گاڑیاں فراہم کر دی جاتیں جن کے اندر بیٹھ کر وہ وحشی جانوروں کے حملوں سے محفوظ و مامون بڑے آرام سے سیر و تفریح سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اور اگر جی چاہے تو شکار بھی کر سکتے تھے بشرطیکہ وہ صاحبِ رسوخ ہوں۔  گویا اس تفریح گاہِ ہست و بود میں جو آزاد نظر آتے ہیں وہ بھی پابند ہوتے ہیں  اور جو محصور دکھائی دیتے ہیں وہ  نہ صرف آزاد بلکہ محفوظ و مامون بھی تھے۔

ٍ            غضنفر جب  خلیج کی زندگی پر غور کرتا  تو اسے ایسا لگتا گویا وہ ایک گاڑی میں بند ہے جو وسیع و عریض قید خانے  میں آزادی کے ساتھ گھوم رہی ہے اور جب وہ اپنی موجودہ حالت کا موازنہ پاکستان کی صورتحال سے کرتا تواسے ایسا محسوس ہوتا گویا سرزمینِ ابوظبی ایک ایسی  بکتر بند گاڑی ہے جس کے اندر اس نے اپنے آپ کو جان لیوا خطرات سے محفوظ کر لیا ہے اور دنیا کے اس چڑیا گھر میں وحشی درندوں کے درمیان آزادی کے ساتھ بلا خوف و خطر گھوم رہا ہے۔

دنیا  نام کی اس تفریح گاہ میں جب اس کا گزر اپنے دیس سے ہوتا تو وہ  دلاور کی دہشت کے باعث گاڑی سے باہر آنے کی آزادی گنوا دیتا ہے اور جب پردیس میں داخل ہوتا ہے تو گاڑی کے اندر قدم رکھتے ہی آزادی مفقود ہو جاتی۔ حقیقی آزادی  آخر تھی کہاں ؟ وہ تو نہ اندر تھی نہ باہر، بس ایک گمان مطلق تھا جس کے ارد گرد اس کا طواف جاری تھا۔رہی حقیقتِ کامل تو اس کا کہیں دور دور تک اتا پتہ نہیں تھا۔

            ابوظبی میں آمد نے غضنفر کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا تھا۔ وہ اپنی ذات کے اندر نہایت منظم انسان بن چکا تھا۔  وہ اپنا ہر کام بڑی دلجمعی  اور محنت کے ساتھ کرتا تھا۔ اس لئے کہ اب اسے اپنا کام اچھا لگنے لگا تھا۔ وہ اس سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ وقت سے پہلے اس کی گاڑی صاحب کے انتظار میں تیار ہوتی۔ صاحب کے ساتھ جانے والا سامان گاڑی میں پہونچ چکا ہوتا اور گاڑی اس طرح چمک رہی ہوتی گویا ابھی شوروم سے آئی ہے۔

 بڑی خوش دلی کے ساتھ مسکرا کروہ اپنے صاحب البرٹ کا استقبال کرتا۔ ان کا پسندیدہ ریڈیو اسٹیشن چلا دیتا اور اُن کی خدمت میں اخبار پیش کر دیتا۔ اخبار کے اندر سے اشتہارات کے صفحات کو جن میں البرٹ کو کو ئی دلچسپی نہ ہوتی پہلے ہی الگ کر دیا جاتا۔ سب سے اوپر کھیل کود کا ضمیمہ رکھتا  اس لئے کہ مالک کو سب سے زیادہ دلچسپی اسی میں ہوتی تھی۔ وہ اپنے مالک کی ایک ایک پسند کا خیال رکھتا۔

گاڑی کی رفتار بالکل وہی ہوتی جس کی اسے ہدایت کی گئی تھی۔ راستے میں روکنے اور چلنے کا عمل۔ رفتار کم کرنے والے ابھاروں سے اچھلنے کا مرحلہ اس قدر نفاست سے طے ہوتا کہ البرٹ کو ان کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے اخبار میں کھویا ہوا کب دفتر پہونچ جاتا یہ صرف غضنفر ہی جانتا تھا۔ غضنفر کی ماہرانہ اور احتیاطی ڈرائیونگ کے باعث گاڑی میں رکھے پانی کے گلاس کی بھی مجال نہیں تھی کہ کوئی قطرہ چھلکا دے۔

             غضنفر کے ساتھ البرٹ کا رویہ بھی عام ملازمین سے مختلف تھا، اس لئے کہ اس نے غضنفر کو کبھی بھی عام ڈرائیورس کی طرح میلا کچیلا، تھکا ماندہ اور سوتاجاگتا نہ پایا تھا۔ دونوں کی عمر میں بھی کوئی خاص فرق نہیں تھا اور وہ ایک دُوسرے کو پسند کرتے تھے۔ اُن کے درمیان دوستانہ تعلقات بن گئے تھے۔ زبانوں کی خلیج کے باعث گفت  و شنید کم ہوتی تھی لیکن ترسیل کا مسئلہ کبھی بھی پیش نہ آیا تھا۔ البرٹ کو اگر کوئی چیز منگوانی ہوتی تو وہ اسے لکھ کر دے دیتا۔ اکثر اس چٹھی پر دوکان کا فون نمبر بھی ہوتا جو غضنفر کے لئے کافی ہوتا تھا۔

 وہ دُکان میں جا کر کسی ہندی یاپاکستانی سیلس مین کو چٹھی پکڑاتا، سامان ٹھونک بجا کر اس طرح لیتا گویا اپنے لئے خرید رہا ہو، قیمت ادا کرنے کے بعد اس کی رسید ضرور لیتا اور باقی ماندہ رقم رسید کے ساتھ لوٹا دیتا۔ وہ ان کاموں کو اپنا فرض سمجھتا تھا جس کے لئے اسے تنخواہ ملتی تھی۔ اس نے کبھی بھی کسی اضافی انعام کی توقع نہیں باندھی اور اسی لئے اپنے کام میں اسے کبھی ما یوسی کا شکار نہیں ہونا پڑا۔

 غضنفر کے پاس ویسے کام ہی کیا تھا؟ صبح صاحب کو دفتر لے جانا، دوپہر کو کھانے کے لئے واپس لانا اور پھر دوبارہ دفتر لے جا کر شام میں پھر لے آنا۔ کبھی کبھار صاحب کا موڈ ہوا تو ٹورسٹ کلب چلے گئے یا پھر شاپنگ کرنے کے لئے نکل گئے۔ اِن کاموں میں چند گھنٹے صرف ہوتے تھے۔ بقیہ وقت گاڑی کی صفائی ستھرائی،سروسنگ وغیرہ نیز اپنی صحت اور ورزش کے لئے مختص تھا۔ اس کے جان پہچان والے تو بہت تھے مگر دوست و احباب نہ کے برابر تھے۔ دوچار مہینوں میں ایک بار چھٹی کے دن وہ العین اپنے چچا سے ملاقات کے لئے چلا جاتا تھا۔

            غضنفر کا چچا پارہ چنار کی روایت کے مطابق ٹیکسی چلاتا تھا اور گاہے بہ گاہے غضنفر کو اس کی نوکری  پر آر دلاتا رہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا ہم پٹھان لوگ ہیں کسی کی غلامی کرنا ہمیں زیب نہیں دیتا۔ اس لئے آزاد پیشہ رہو ہماری طرح جب مرضی ہے گاڑی نکالا جب مرضی ہوئی بند کر دیا۔ جس سواری کو چاہا بٹھا یا اور جس کو چاہا انکار کر دیا۔ لیکن غضنفر کے  لئے یہ سب بے معنی باتیں تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا چچا اور ان کے ساتھی جب تک بیمار ہو کر بسترپر نہیں گرتے تب تک گاڑی بند نہیں کرتے تھے۔ علی الصبح سے رات گئے تک گاڑی کے اندر محصور رہتے تھے۔ ان کی نظریں سواریوں کی تلاش میں کسی شکاری کی طرح سرگرداں رہتیں۔

 سواریوں اور ٹیکسی چلانے والوں کی پریشانیوں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا کسی سواری کو اُٹھا لے وہ دور سے انہیں دیکھ کر لپکتے تھے۔ اپنی سواریوں کے بوجھ تلے گاڑی کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی کمر بھی خمیدہ خاطر ہو جاتی تھی۔غضنفر کا چچا اس سے کہتا یہ نوکری کی محدود تنخواہ سے کیا ہونے والا ہے ؟ ٹیکسی میں جتنی محنت اتنی آمدنی۔

 چچا جب اسے اپنی آمدنی کا حساب کتاب بتلاتا تو غضنفر اس کی طرز رہائش پر نظر ڈالتا۔ چھوٹے چھوٹے ،تنگ و تاریک کمرے  اور ان میں ٹھنسے ہوئے زیاد ہ سے زیادہ لوگ۔ان ڈیروں میں پیروں کو لمبا کرنا اور کروٹ لینا تک محال تھا۔ غضنفر سوچتا ایسی حالت میں رہ کر دینار و درہم جمع کرنے سے کیا حاصل؟ وہ اس کا موازنہ البرٹ کی حویلی میں بنے ملازمین کے کوارٹر سے کرتا تواسے وہ کمرے کافی کشادہ نظر  آتے۔ ایک کمرے میں ایک آدمی اور باہر کھلا صحن، شاندار قرب و جوار، صاف ستھرا  ماحول، بہترین ٹھاٹ باٹ۔ وہ سوچتا کیا یہ سب بے قیمت ہے۔ اور اگر رہائش کی اس قیمت کا اضافہ اس کی تنخواہ  میں کر دیا جائے تو اس کی آمدنی اپنے چچا سے کہیں زیادہ ہو جاتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ چچا دشواریوں کے عوض روپئے بچا لیتا تھا اور غضنفر  سے وہ خرچ ہو جاتے تھے۔لیکن یہ کوئی فضول خرچی تو نہ تھی۔اس کی اپنی ذات کا  بھی تو اس پر حق ہے اور اس حق کی ادائیگی اس پر فرض ہے۔

 اس نے اپنے رہن سہن پر زیادہ آمدنی کو ترجیح دے رکھی تھی۔ اس کی قناعت پسندی اُس کے لئے عافیت کا سامان بن گئی تھی۔ البرٹ ایک سال میں دو مرتبہ سالانہ چھٹیوں کے لئے اپنے وطن بیلجیم چلا جاتا۔ اس دوران غضنفر بالکل ہی بیکار ہو جاتا۔ ویسے اسے بھی اجازت تھی کہ وہ اپنے وطن جا کر آئے لیکن ہوائی جہاز کا کرایہ اور دلاور خان کا خوف غضنفر کے پیروں کی زنجیر بنا ہوا تھا۔

 

 

نیا پریوار نیا سنسار

            کرشنن البرٹ کی حویلی کا چوکیدار تھا۔وہ جنوبی ہندوستان کی ریاست کیرالا کا  رہنے والا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان تھا۔ اپنے وطن میں وہ کئی سالوں تک عارضی  ملازمتوں میں اپنا وقت برباد کر چکا تھا۔ کیرالا کی ریاستی حکومت اپنے باشندوں کو بیرون  ملک جانے کی ترغیب دینے کی غرض سے پانچ سال تک چھٹی دے دیتی ہے ، جس کے باعث سرکاری ملازم بلا خوف و خطر خلیج سے لے کر امریکہ تک کا رخت سفر باندھتے ہیں انہیں اس بات کا اندیشہ نہیں ہوتا کہ اگر باہر قدم نہ جم سکے تو  کیا ہو گا؟ان کی اپنی ملازمت وطن میں محفوظ ہوتی تھی۔ اس طرح بہت ساری اسامیا ں خالی ہو جاتیں اور بے روزگاروں کو ان پر عارضی ملازمت مل جاتی۔

پردیس جانے والے پنچھی اکثرسبکدوش ہونے سے قبل بلکہ اس کے بعد بھی اگر ممکن ہو تا تو واپس نہیں آتے لیکن کرشنن کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس کو ہمیشہ ہی ایسے بد قسمت آدمی کی جگہ ملازمت ملی جو سال دوسال میں لوٹ آتا۔ کرشنن نے محسوس کیا کہ دوسروں کی نا کامی کی سزا بھگتنے سے اچھا ہے کہ خود اپنی ناکامی کا خطرہ اُٹھا لیا جائے ، مبادا کامیابی ہی ہاتھ آ جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ کرشنن اندرون ملک اس قدر ناکامیاں جھیل چکا تھا کہ اس کے دل سے ناکامی کا خوف بالکل ہی جاتا رہا تھا۔

            کرشنن کا تعلق ایک ایسی ریاست سے تھا جہاں خواندگی کی شرح تقریباًسو فیصدی تھی۔ ہر کوئی بنیادی تعلیم کی دولت سے بہرہ مند تھا۔ خود اس نے بھی لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجوٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ کیرالہ کی عوام میں اپنے حقوق اور اپنے ماحول کی حفاظت کا  شعور کافی گہرا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہاں مزدوروں کی تحریکیں کافی طاقتور تھیں اور نتیجہ میں ہڑتالیں، بند، دھرنے ، جلسہ، جلوس کا بازار سال بھر گرم رہتا تھا۔ماحولیات کے تحفظ کے پیشِ نظر کئی صنعتوں کو اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ ان وجوہات کی باعث ریاستِ کیرالا میں تعلیم یافتہ بے روزگار بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے جو کسی زمانے میں ہندوستان بھر کی سیر کرتے  پھرتے تھے اور اب ان لوگوں نے سارے عالم کو تسخیر کرنا شروع کر دیا ہے۔ دنیا کے چپے چپے میں کیرالا کے باشندوں کے پائے جانے کی بنیادی وجہ یہی ہے۔

بازارِ  دنیا کا بنیادی اصول یہ ہے کہ  کسی شہ کی مانگ بڑھ جائے اور اس کی فراہمی کم ہو جائے تو اس کا لازمی نتیجہ ارزانی ہوتا ہے۔ کیرالا میں اسامیاں بکتی ہیں۔ ایک ٹیچر کو ملازمت حاصل کرنے کے لئے کئی لاکھ روپئے پیشگی رشوت کے طور پر ادا کرنے پڑتے ہیں۔ وقت کے ساتھ لوگوں نے ملازمت خریدنے کے بجائے آزاد ویزا خریدنا شروع کر دیا تھا۔وہ اپنے صوبے میں استحصال کا شکار ہونے کے بجائے خلیج کے ممالک کا سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے وطنِ عزیز ہندستا ن کے کسی علاقے میں ملیالی لوگوں کی ایسی بڑی آبادی موجود نہیں ہے جیسی کہ خلیجی ممالک میں ہے۔

 متحدہ عرب امارات میں کرشنن ایک سبزی فروش کے ویزا پر اس امید میں آ گیا تھا کہ بہت جلد اسے لائبریرین کی نوکری مل جائے گی لیکن یہاں آنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ عصرِ حاضر میں  مادیاتی فکر و نظریہ کا کچھ ایسا دو دورہ ہوا کہ اس نے  پڑھنے لکھنے کے رجحان کو بے  حد کم  کر دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی لائبریری برائے نام ہی ہوتی ہے۔ طلباء کتابیں پڑھنے کے  بجائے  پرانے امتحانی پرچوں کو حل کرنے بلکہ انہیں حفظ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، اس لئے نجی تعلیم گاہوں میں کتب خانہ اور لائبریرین دونوں ناپید ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے نہیں کے برابر ہیں۔ ان کے کتب خانے عربی کتابوں سے بھرے ہوئے ہیں اور وہاں مصری مافیا کا قبضہ ہے۔ ایسے میں کرشنن کو اپنی لائبریری سائنس کی ڈگری ایک ٹیشو پیپر کی طرح لگنے لگی تھی جس کا استعمال صرف تعارف کی حد تک  محدود ہو گیا تھا، اس سے آگے وہ بے فائدہ تھی۔

 فاسٹ فوڈ کے اس دور میں جہاں طلباء امتحانی پرچوں کو آنکھوں سے نگل کر ہاتھوں سے جوابی پرچے پر اُگل دیتے ہوں۔ کرشنن نے چوکیداری کے دوران بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کی بھی کوشش کی، لیکن دروازے دروازے جا کر تعلیم کی ہوم ڈلیوری سروس میں اور سبزی فروشی میں اسے کوئی خاص فرق نظر نہ آیا۔اس تجربے کے بعد وہ ایک البرٹ کی کوٹھی چوکیداری کی  پُرسکون زندگی قانع ہو گیا۔یہاں امارات میں  جسے ہر کس وناکس ’ناتور‘  کے خوبصورت نام سے یاد کرتا تھا۔

دربانی کی ملازمت بظاہر نہایت معمولی نوکری تھی لیکن اس میں خاصہ سکون تھا۔ دن میں پانچ چھ مرتبہ دروازہ کھولنا اور بند کرنا اس کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ کوٹھی کے عقب  میں جو رہائشی کمرہ تھا اس میں بیٹھے بیٹھے بیزار ہوئے تو دروازے کے قریب بنے چوکیدار کے کمرے میں آ کر بیٹھ جا نا اور جب یہاں سے طبیعت اوب جائے تو لوٹ کر اپنے کمرے میں چلے آنا یہ کرشنن کا معمول تھا۔ ویسے اپنے گاؤں والوں میں اس نے مشہور کر رکھا تھا کہ وہ  بیلجیم کے ثقافتی مرکز میں لائبریرین ہے اور بہت جلد اس کا تقرر ایک اعلیٰ ثقافتی افسر کی حیثیت سے ہونے والا ہے۔

 کرشنن کے کمرے میں اس کے اپنے علاوہ ایک ٹیلی ویژن اور ایک کمپیوٹر بھی تھا۔ٹیلی ویژن اس نے ایک ایسے شخص سے اونے پونے داموں پر خرید لیا تھا جو بحالت مجبوری ہندوستان لوٹ گیا تھا اور کمپیوٹر اسے اپنے  ایک امریکہ جانے وا لے  دوست نے بصد شوق تحفہ میں دے  دیا تھا۔ ویسے بھی یہ پرانا کمپیوٹر اب اس کے کسی کام کا نہ تھا۔ اس کو اپنے ساتھ لے جانے کا خرچ اس کی قیمت سے زیادہ تھا،اس لئے اس نے کرشنن پر احسان فرما کر اس مصیبت سے اپنا پیچھا چھڑا لیا تھا۔

            البرٹ کی وائر لیس انٹر نیٹ سروس کا پاس ورڈ کرشنن  جانتا تھا اور وہ اس ایک کمپیوٹر کے ذریعہ نہ صرف دنیا بھر سے رابطہ میں رہتا بلکہ سارے عالم کی معنوی سیر سے بھی لطف اندوز ہوتا۔اسی کے ساتھ اس کا کمپیوٹر مختلف قسم کے کھیلوں سے اٹا پڑا تھا۔ کبھی کبھار تو اپنے کمپیوٹر میں اس قدر مگن ہو جاتا کہ گویا ایک دم سے  بچہ بن جاتا۔ کمپیوٹر کے مانیٹر پر گاڑی دوڑاتے ہوئے سبھی خیالی حریفوں کو پیچھے چھوڑ دیتا اور کبھی چشم تصور میں اپنے سارے دشمنوں کو ایک ایک کر کے گولیوں سے بھون کر ان پر اپنی فتح درج کر لیتا۔ کبھی تاش کے کھیل میں کروڑوں جعلی روپئے جیت لیتا تو کبھی شطرنج کی بازی میں شہ اور مات دے کر اپنی فتح کا جشن مناتا مگر جب بازی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی تو کسی  بچے کی طرح منہ بسور کر اپنے آپ سے روٹھ جاتا۔

 ایک دن غضنفر نے اس سے پوچھا۔ ’’کرشنن یہ تم کیا کرتا ہے ؟ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کبھی ہنستا ہے کبھی روتا ہے ؟ ‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’ارے بے وقوف ہم کھیلتا  ہے۔ کھیل میں کبھی جیت کبھی ہار۔ کبھی ہنسنا کبھی رونا یہی تو ہوتا ہے۔‘‘

            ’’کھیلتا ہے !کس کے ساتھ کھیلتا ہے ؟کمپیوٹر بنانے والے کے ساتھ کھیلتا ہے ؟‘‘ غضنفر نے پوچھا۔

            کرشنن بولا۔ ’’نہیں، کمپیوٹر بنانے والے کے ساتھ نہیں بلکہ کمپیوٹر کے ساتھ کھیلتا ہے۔‘‘

            ’’کمپیوٹر کے ساتھ ؟ انسان تو انسان کے ساتھ کھیلتا ہے۔ مشین کے ساتھ انسان کیسے کھیل سکتا ہے ؟‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’اگر مشین انسان کے ساتھ کھیل سکتا ہے تو انسان مشین کے ساتھ کیوں نہیں کھیل سکتا؟‘‘

            ’’مشین انسان کے ساتھ کیسے کھیل سکتا ہے ؟ ‘‘

            ’’جیسے انسان مشین کے ساتھ کھیل سکتا ہے ؟‘‘

            غضنفر بولا۔ ’’بات تو وہیں پہونچ گیا۔ انسان انسان کے ساتھ کھیل سکتا ہے لیکن مشین  کے ساتھ نہیں کھیل سکتا؟ ‘‘

            کرشنن نے پوچھا۔ ’’کیوں ؟ انسان انسان کے ساتھ کیسے کھیلتا ہے ؟ ‘‘

            ’’کیا مطلب؟ ہم سمجھا نہیں ؟‘‘

            ’’میرا مطلب ہے انسان شطرنج کیسے کھیلتا ہے ؟‘‘

            غضنفر بولا۔ ’’وہ ایک چال چلتا ہے سامنے والا دوسرا چال چلتا ہے پھر وہ اس کے جواب میں چال چلتا ہے اور اس طرح کھیل چلتا رہتا ہے۔‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’یہی تو کمپیوٹر کرتا ہے۔ آپ ایک چال چلو وہ دوسرا چال چلتا ہے۔ آپ  پھر چال چلو وہ پھر چال چلتا ہے۔ اس طرح کھیل چلتا ہے۔ ہار ہوتا ہے  یا جیت ہوتا ہے۔‘‘

            غضنفر بولا۔ ’’یہ تو اچھا ہے لیکن ایک بات بتاؤ  …  انسان جب جیت جاتا ہے تو ہنستا ہے اور جب ہار جاتا ہے تو روتا ہے۔ کیا کمپیوٹر بھی  … ؟‘‘

            کرشنن نے جملہ کاٹ دیا اور بولا۔ ’’سمجھ گیا ہم تمہارا سوال سمجھ گیا۔ دیکھو کمپیوٹر صرف کھیلتا ہے وہ ہارتا ہے تو  روتا نہیں ہے اور نہ جیتنے پر ہنستا ہے۔ وہ انسان نہیں مشین ہے۔‘‘

            ’’اچھا اگر مشین ہے تو کمپیوٹر چال کیسا چلتا ہے ؟‘‘ غضنفر نے پو چھا۔

            کرشنن بولا۔ ’’اس کا بنانے والے نے اس کے اندر ہزاروں  چال ڈال رکھا ہے۔ آپ جب چال چلتا ہے تو وہ اس کے جواب میں اپنے پاس جو  چال ہے اس میں سے ایک چال چل دیتا ہے۔‘‘

            ’’ تو کیا بنانے والا چال نہیں  چلتا؟‘‘

            ’’نہیں، کمپیوٹر بنانے والا کی  مرضی سے چال چلتا رہتا ہے  اور کھیل چلتا رہتا ہے۔‘‘

            غضنفر کی سمجھ میں بات آ گئی لیکن پھر ایک نیاسوال بھی آ گیا۔ اس نے پوچھا۔ ’’یار کرشنن ایک بات بتاؤ کہ کمپیوٹر کا کھیل بنانے والے کے دماغ میں یہ آئیڈیا کہاں سے آیا؟ ‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’یہ تو بہت آسان ہے ، اس نے دنیا کو دیکھا یہ دنیا بھی تو ایک کھیل ہے۔ اس کے بنانے والے نے اس میں بہت ساری چالیں ڈال دی ہیں۔ انسان دنیا کے ساتھ بازی لگاتا ہے ، ایک چال چلتا ہے ، اس کے جواب میں مشیت الٰہی اپنے مالک کے پروگرام کے حساب سے جوابی چال چلتی ہے۔ اس طرح کھیل چلتا رہتا ہے۔ انسان کبھی جیت جاتا ہے تو خوش ہو جاتا ہے اور کبھی ہار جاتا ہے تو غم گین ہو جاتا ہے۔ یہی زندگی کا کھیل ہے اور یہی کمپیوٹر کا کھیل ہے۔‘‘

            غضنفر بولا۔ ’’کرشنن تم سچ  بولتا ہے ، دُنیا کا کھیل بھی کمپیوٹر کا کھیل ہے جو انسان تنہا کھیلتا رہتا ہے۔سچ بولوں تمہارا دماغ بھی کمپیوٹر کا موافق چلتا ہے۔‘‘

            ’’نہیں غضنفر! یہ بات صحیح نہیں ہے۔ انسان کا دماغ کمپیوٹر کے موافق نہیں کمپیوٹر انسانی دماغ کے موافق چلتا ہے۔ اس لئے کہ اس کو انسان نے اپنے دماغ سے بنایا ہے۔‘‘

            ’’یہ تو تم بڑا زبردست بات بولا کرشنن۔ آؤ اس بات پر ہم تم کو گرم گرم چائے پلائے گا جو تمہارا دماغ والا کمپیوٹر نہیں پلا سکتا ہے۔‘‘ کرشنن نے حیرت و محبت سے غضنفر کی جانب دیکھا۔ یہ کھیل نہیں تھا کھیل کے درمیان کا وقفہ تھا محبت کا وقفہ۔ جس میں نہ کسی کی ہار ہوتی ہے اور نہ کسی کو جیت حاصل ہوتی ہے۔ ہوتا  فقط یہ ہے کہ کھیل کے اگلے مرحلے کے لئے انسان پھر سے تازہ دم ہو جاتا ہے۔

            غضنفر چائے بنانے کے لئے اپنے کمرے میں گیا تو کرشنن نے کمپیوٹر بند کر کے ٹیلی ویژن چلا دیا۔ کمپیوٹر کا کھیل کرشنن کو ساری  دُنیا سے کاٹ کر الگ کر دیتا تھا، لیکن  ٹیلی ویژن کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ ٹیلی ویژن کی خبریں اسے ساری دنیا سے جوڑ دیتی تھیں اور اس پر نشر ہونے والے پروگرام وہ اکیلے نہیں دیکھتا تھا  بلکہ سب مل کر ایک ساتھ مستفید ہوتے تھے۔شروع کے دنوں میں ٹیلی ویژن کے پروگراموں کو لے کر ان میں اختلاف ہو جایا کرتا تھا۔ کرشنن کو ملیالم نغمے پسند تھے اور غضنفر کو پاکستانی ڈرا مے۔ ان کے علاوہ اس کوٹھی میں رہنے والے تیسرے شخص رضوان الحق کو جس کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا اپنے ملک کی خبروں میں دلچسپی تھی۔ ان میں ہر ایک اپنے پسندیدہ پروگرام کی تعریف و توصیف کرتا، اس کی اہمیت و ضرورت پر زور دیتا لیکن چونکہ یہ سب  ایک دوسرے کی زبان سے ناواقف تھے اس لئے وہ ایک دوسرے کے پروگراموں سے محظوظ نہ ہو پاتے تھے۔ بالآخر ان کے درمیان ایک مشترک زبان انگریزی سیکھنے پر مصالحت ہو گئی۔

 غضنفر کو انگریزی سیکھنے کا بہت  شوق تھا اور رضوان اپنی انگریزی کو بہتر بنانا چاہتا تھا اس لئے وہ تینوں مل کر انگریزی ڈرامے دیکھنے لگے جو اپنی کہانی کے باعث بڑی حد تک سب کی سمجھ میں آ جاتے۔ درمیان میں کچھ الفاظ کا مطلب رضوان اور غضنفر کرشنن سے پوچھ لیتے تھے اس طرح ان دونوں کا فائدہ ہوتا اور کرشنن کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو جاتا۔ اس لئے سبھی اس نئی صورتحال سے خوش تھے۔

انگریزی ڈراموں کے علاوہ ان تینوں کو فٹ بال کا کھیل دیکھنے میں بھی کافی دلچسپی تھی اور جب بھی کوئی فٹبال میچ ہوتا تینوں دوست بڑے ذوق و شوق  سے اس کا مزہ لیتے۔ اس روز مصر اور الجیریا کا میچ تھا، کرشنن اس میں محو ہو گیا تھا کہ غضنفر چائے اور رضوان بنگالی سویٹ ہاؤس کے رس گلے لے کر کمرے میں داخل ہوا۔

            ’’غضنفر نے کہا یار رضوان یہ مٹھا ئی کھانے کا بھی کوئی موقع ہے ؟‘‘

            ’’رضوان بولا اچھا تو مٹھائی کھانے کا بھی کوئی خاص موقع کی ضرورت  ہوتی ہے ؟‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’لیکن مٹھائی کے بعد چائے پھیکی لگتی ہے۔ ‘‘

            ’’تو پھر یہ چائے کا مسئلہ ہے۔‘‘ رضوان نے جواب دیا۔

            غضنفر بولا۔ ’’نہیں چائے کا مسئلہ نہیں ہے پینے والے کا مسئلہ ہے۔ ‘‘

            رضوان بولا۔ ’’تو پھر آپ لوگ مٹھائی کو کیوں مورد الزام ٹھہراتے ہو۔ یہ مٹھائی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کھانے والے کا مسئلہ ہے۔ ‘‘

            غضنفر بولا۔ ’’کھانے والے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کھلانے والے کا مسئلہ ہے۔ ‘‘

            مسئلہ ان تینوں کے درمیان فٹبال بن گیا تھا۔ ہر کوئی اُسے لات مارکر دُوسرے کی جانب اچھال رہا تھا اور مسئلہ کو بھی لات کھانے میں مزہ آ رہا تھا۔ وہ خوشی سے اُچھل کر دُوسرے کے قدموں پرجا گرتا تاکہ پھر اچھال دیا جائے۔ مسئلہ کا مسئلہ یہ تھا کہ اُسے زمین پر پڑے رہنا پسند نہیں تھا۔ اسے اُچھلنے میں لطف آتا تھا۔ لیکن اس لطف اندوزی کی خاطر اسے لوگوں کی لات کھانی پڑتی۔

مسئلے کو اپنی یہ رسوائی گوارہ تھی لیکن اس کادوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ٹھوکریں کھانے کے باوجوداس کے لطف میں دوام نہ تھا۔ وہ چند لمحات کے لئے اُچھلتا اور پھر زمین پر آ گرتا اور پھر اُچھال دیا جاتا۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر، یہ سلسلہ جاری رہتا، یہاں تک کہ کسی کے طفیل گول کے اندر داخل ہو جاتا اور ایک شور بپا  ہوتا۔ مسئلہ سوچتا کہ گویا اس کی پذیرائی ہو رہی ہے لیکن گول کے بعد بھی  مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جن کے خلاف گول کیا جاتا وہ زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اسے ہواؤں میں اُچھالنے لگتے تاکہ جوابی گول کر کے کہ اپنے حریف سے  بدلہ لے سکیں۔

 مقابلہ دو ٹیموں کے  درمیان ہوتا، ٹھوکریں تیسرے کو کھانی پڑتیں۔ یہاں تک کہ ریفری سیٹی بجا دیتا ہے اور کھیل کے خاتمہ کا اعلان ہو جاتا ہے۔ اکثر تماشائی تھک کر بیٹھ جاتے لیکن ان میں  کچھ جیت کا جشن مناتے تو کوئی ہار کا ماتم کرنے میں لگ جاتا ہے اس کے برعکس ایک طرف پڑا  ہو مسئلہ پھر ایک بار اگلے کھیل کا انتظار کرنے لگتا۔ ٹھوکروں کے کھیل کا انتظا ر!   بلندیوں کی سیر کا انتظار !!

             رضوان الحق نے بالآخر بحث کی سیٹی بجائی، وہ بولا۔ ’’اگر مسئلہ لانے والے کا ہے تو وہ اس مسئلہ کو حل کر دیتا ہے۔ آپ سے یہ کس نے کہا کہ مٹھائی چائے سے پہلے کھائیں ؟ آپ  ایسا کریں کہ پہلے گرم گرم چائے سے لطف اندوز ہوں اور اس کے بعد مٹھائی کا مزہ لیں۔ ایسا کرنے سے چائے کی مٹھاس تو کم نہ ہو گی لیکن مٹھائی کی مٹھاس ضرور بڑھ جائے گی۔‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’بہت خوب …  اِسے کہتے ہیں حکمت، چین  اور اس پر حجتِ بنگال۔‘‘

            رضوان بولا۔ ’’یہ حجت بنگال نہیں حکمت بنگال ہے۔‘‘ سب چائے پینے لگے۔ ٹیلی ویژن پر فٹبال کا مقابلہ ختم ہو چکا تھا۔ کرشنن نے ریموٹ پر انگلی رکھ کر انگریزی ڈرامہ لگایا تو دیکھتا ہے کہ ’’اٹ از میڈ میڈمیڈ ورلڈ‘‘ پاگلوں کی دنیا نام کا ڈرامہ نشر ہو رہا ہے۔ تینوں پاگل اپنی بحث کو بھول کر ڈرامے کے پاگلوں میں کھو گئے۔

            رضوان الحق کے ذمہ اس کوٹھی میں دو کام تھے ، ایک کھانا بنانا اور دوسرے باغبانی کرنا۔ رضوان  کے مطابق وہ یہاں آنے سے قبل چٹا گانگ کے پانچ ستارہ ہوٹل میں باورچیوں کی ٹیم کا سربراہ تھا۔ اس کے بیان پر کسی نے حیرت کا اظہار نہیں کیا اس لئے کہ یہ خلیج میں آنے جانے والوں کا معمول تھا۔ جب وہ اپنے ملک سے یہاں آتے تو اپنا رتبہ بڑھا چڑھا کر بتاتے ، اور جب یہاں سے واپس جاتے تب بھی یہی عمل دوہرایا جاتا۔

 یہ لوگ دراصل خوابوں کی دنیا میں جیتے ہیں، اور اپنے خوابوں کو حقیقت کے طور پر ان لوگوں کے سامنے بیان کر دیتے ہیں جو حقیقت سے واقف نہیں ہوتے۔ مثلاً کوئی شخص اگر مسجد کے باہر بیٹھ کر مسواک بیچتا ہے تو وہ اپنے ملک میں جا کر کہتا ہے کہ میں وہاں ٹمبر مرچنٹ ہوں یعنی لکڑی کا بیوپاری۔ ویسے اس کی بات صحیح بھی ہے اور نہیں بھی ہے۔رضوان کے بیان کا مطلب کرشنن اور غضنفر نے لگایا کہ اگر پانچ ستارہ نہیں تو کم از کم تین ستارہ ہوٹل میں باورچی رہا ہو گا اور اسے انگریزی۔اطالوی۔ اسپینی۔ ہندوستانی۔ پاکستانی۔ چینی و جاپانی نہ صحیح تو کم از کم بنگالی کھانا بنانے کی ترکیب تو آتی ہی ہو گی۔

 ایک مرتبہ کرشنن نے رضوان کو چھیڑنے کی خاطر پوچھ لیا کہ بندھو آپ پانچ ستارہ ہوٹل چھوڑ کر یہاں ایک گھر کا کھانا بنانے کیوں آ گیا؟ رضوان نے مسکرا کر جواب دیا اس لئے کہ تم ایک ایسی لائبریری کی نوکری چھوڑ کر یہاں آ گیا جس میں لاکھوں کتابیں تھیں۔ رضوان جانتا تھا کہ اس لائبریری میں چند ہزار کتابوں سے زیادہ کا ذخیرہ نہیں رہا ہو گا لیکن جو چھوٹ گیا سو چھوٹ گیا کیا فرق پڑتا ہے ؟ وہ ہزاروں ہوں یا لاکھوں۔

 کرشنن کھانا بنانے کے کام میں رضوان کا ہاتھ بٹاتا تھا اور غضنفر باغبانی کے کام میں اس کی مدد کرتا تھا۔ کرشنن غضنفر کو انگریزی سکھاتا تھا اور غضنفر کرشنن کو گاڑی میں بٹھا کر خریداری کے لئے  بازار کی سیر کروا تا تھا۔ اس طرح باہم انحصار و اشتراک کی بنیاد پر ایک خاندان بن گیا تھا۔ ملیالی۔ بنگالی اور پٹھان کا ایک مشترکہ خاندان، گویا ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش ایک چھت کے نیچے جمع ہو گئے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے اور ایک دوسرے کے سکھ دکھ بانٹتے تھے۔ اس کوٹھی میں چوتھا شخص البرٹ نہ صرف انگریز  تھا بلکہ ان کا مالک تھا اس لئے اس کے ساتھ ایک فاصلہ رکھا جاتا۔وہ ان کے ساتھ رہنے کے باوجود جدا جدا سا رہتا تھا۔

 

 

نئی زندگی کا تحفہ

            کرشنن ویسے رہتا تو رضوان اور غضنفر کے ساتھ تھا لیکن اس کا رہن سہن ان سے تھوڑا سامختلف تھا۔ تعلیم کا فرق تھا تہذیب کا فرق تھا۔ کرشنن کو خوشبو دار صابن، شامپو،  عطریات اور پاؤڈر جیسی چیزیں پسند تھیں حالانکہ نہ تو یہ صابن اس کے گہرے رنگ کو اجلا کر پاتے تھے اور نہ ہی شامپو اس کے تیزی سے گرنے والے بالوں کو روکنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ اسے اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی کہ اس کے پاؤڈر لگانے کو غضنفر نسوانیت سے گردانتا ہے اور اس کے عطریات کی بوتلوں کو رضوان فضول خرچی خیال کرتا ہے۔

ان تین دوستوں کے درمیان تقسیم کار کچھ اس طرح سے تھی کہ روز مرہ کی ضرورت کا سامان لانا غضنفر کی ذمہ داری تھی۔ خورد و نوش کے اشیاء رضوان کی مرضی سے آتی تھیں۔ اس لئے کہ کھانا بنانا اس کا کام تھا۔ لیکن اپنے رکھ رکھاؤ کا سامان کرشنن خود اپنی پسند سے لاتا تھا۔ وہ اس  کام کے  لئے بڑے شوق سے کافی فاصلے پر واقع  ایک بڑے ڈپارٹمنٹ اسٹور جاشنمال تک تنہا پیدل جاتا اور نہایت یکسوئی کے ساتھ اپنے اس کام کو انجام دیتا۔

 ابوظبی میں ویسے تو ہر نکڑ پر ایک زبردست ڈپارٹمنٹ اسٹور پایا جاتا ہے جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس زندگی گزارنے کا سارا سامان موجود ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے نزدیک زندگی کی ضروریات کا مطلب کھانا پہننا اور اوڑھنا بچھونا تک محدود تھا۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے آگے جا کر نہ دوکاندار سوچتے  تھے اور نہ گاہک لیکن جاشنمال کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کتابوں کا بھی ایک  بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ کرشنن جب بھی وہاں جاتا کتابوں کے شعبہ میں ضرور جاتا۔ مختلف  کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا، ان کی پشت پر لکھے تعارف اور تعریف و توصیف کو پڑھتا آخر میں قیمت دیکھ کر واپس رکھ دیتا۔ اس طویل عرصہ میں اس نے دوچار کتابیں خریدیں تھیں جنھیں بہت سنبھال کر اس طرح پڑھا گویا پڑھا ہی نہ ہو اور پھر اپنے کسی قریبی دوست کو تحفہ میں دے دی۔ ایسا کرنے کے بعد ہی اسے لگا گویا اس نے کتاب کی پوری قیمت وصول کر لی ہے۔

             ایک روزحسب معمول کرشنن اپنی خریداری ختم کرنے کے بعد جب دروازے کے قریب قیمت ادا کر کے باہر آیا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کی تھیلی کچھ  زیادہ ہی وزنی محسوس ہو رہی ہے۔ پہلے تو اس نے توجہ نہیں دی، لیکن پھر سوچا کہ  دیکھ تو لے ، سامان رکھنے والے نے کہیں کسی اور کا کوئی سامان تو اس کی تھیلی میں نہیں ڈال دیا؟ جب اس نے اندر ہاتھ ڈالا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اس میں اس کا خریدا ہوا کوئی سامان نہیں تھا بلکہ صرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ دراصل اس کی تھیلی قطار میں موجود کسی آگے یا پیچھے والے گاہک سے بدل گئی تھی۔

کرشنن کے پیچھے ایک مرد اپنی اہلیہ او ر بچے کے ساتھ پورے ہفتہ کا راشن خرید کر لایا تھا۔ اس لئے اس سے تو بدلنے کا سوا ل ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شاید اس کے آگے والی خاتون اس کی تھیلی اپنے ساتھ لے کر  نکل گئی تھی۔ یقیناً اسی کے ساتھ کرشنن کا سامان بدل گیا تھا۔اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا وہ خاتون ٹیکسی میں بیٹھ چکی ہے اور اس سے پہلے کہ وہ آواز دیتا ٹیکسی نکل چکی تھی۔ کرشنن کتابیں اپنے گھر لے آیا۔ گوناگوں موضوعات پر یہ کتابیں تھیں۔ ایک صنعتکار کی آپ بیتی تھی، دوسرا سال کا سب سے زیادہ بکنے والا سیاسی ناول اور اس کے ساتھ ہی قدیم فلسفہ کا ایک ضخیم صحیفہ بھی تھا۔

کرشنن سوچ میں پڑ گیا اس قدر متنوع پسند کیا کسی ایک شخص کی ہوسکتی ہے ؟ممکن ہے اس نے کسی لائبریری کے لئے یا اپنے خاندان کے مختلف افراد کے لئے یہ سب کتابیں خریدی ہوں ؟ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ خود اُسے اِن تمام موضوعات میں دلچسپی ہو؟کچھ بھی ہو سکتا ہے ؟ فی الحال کرشنن  کے پاس کوئی صورت ایسی نہیں تھی جس سے وہ کتابیں واپس کرتا۔ وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے آیا اور ہفتہ بھر میں اس نے ان تمام کو چاٹ ڈالا۔

ایک ہفتہ بعد دوبارہ جمعہ کی شام کو جب وہ اپنے آرائش و زیبائش کا سامان خریدنے کے لئے نکلا تو اس نے کتابیں اپنے ساتھ رکھ لیں۔ اس کے دل کے کسی کونے سے آواز آ رہی تھی کہ ان کتابوں کی مالکن دوبارہ انہیں خریدنے کے لئے ضرور آئے گی اور وہ ان کتابوں کو اسے واپس کر دے گا۔ ویسے بھی اب وہ اس کے کسی کام کی نہ تھیں۔ وہ دوسرے کی کتابیں دوسروں کو تحفہ میں نہیں دینا چاہتا تھا۔

جاشنمال پہنچ کر وہ پہلے تو اپنی ضرورت کا سامان خریدنے میں لگ گیا۔ بیس درہم کا سامان خریدنے کے لئے اس نے چالیس منٹ صرف کئے اور ڈسکاؤنٹ کی شکل میں چار درہم بچائے ، دس منٹ کا ایک درہم سودہ بُرا نہیں تھا۔ اس کے بعد وہ کتابوں  کے گوشہ میں داخل ہو گیا۔ وہاں سے وہی خاتون پھر کتابیں خرید کر واپس نکل رہی تھی۔ وہ اس کے پاس گیا اور بے ساختہ بولا۔ آپ یہ کتابیں واپس کر دیجئے۔‘‘

             خاتون چونک پڑی۔ ایک اجنبی اسے بغیر مانگے کا مشورہ دے رہا تھا۔ بن بلائے مہمان ہی کی طرح بے طلب مشورہ کی بھی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ اس نے جھڑک کر کہا۔ ’’آپ اپنا کام کریں۔‘‘

            کرشنن کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اس نے کہا۔ ’’نہیں، میں آپ کے کام میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتا لیکن آپ کی یہ کتابیں میرے پاس موجود ہیں اور میں اُنہیں واپس کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

            ’’واپس؟ کیا مطلب ؟ان میں سے کچھ کتابیں تو آج ہی بازار میں آئی ہیں، یہ آپ کے پاس کیسے پہنچ گئیں ؟‘‘

            کرشنن کو اپنی دوسری غلطی کا احساس ہوا۔ وہ سمجھ گیا کہ آج یہ محترمہ نئی کتابیں خرید رہی ہیں، وہ بولا۔ ’’نہیں میڈم بات دراصل یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے آپ کا اور میرا سامان بدل گیا تھا۔ میں آپ کی کتابیں غلطی سے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔‘‘

            ’’اوہو …  تو یہ بات ہے۔ گویا میرے پاس جو سامان تھا وہ آپ کا تھا۔‘‘

            ’’جی ہاں، آپ بجا فرماتی ہیں۔‘‘

            ’’لیکن میں تو وہ سب اپنے ساتھ نہیں لائی۔ اس لئے میں کتابوں کے بدلے وہ لوٹا نہیں سکتی اور ویسے بھی وہ کتابیں اب میرے کسی کام کی نہیں ہیں۔‘‘

            ’’کیوں ؟‘‘ کرشنن نے پوچھا۔

            ’’اِس لئے کہ گھر جانے کے بعد جب میں نے دیکھا کہ میں کتابوں کے بجائے کچھ اور لے آئی ہوں تو میں واپس آئی اور میں نے دوبارہ ان کتابوں کو خرید لیا بلکہ ہفتہ بھر میں پڑھ بھی ڈالا۔ اب آپ ایسا کریں کہ ان کتابوں کو اپنے ہی پاس رکھیں ؟‘‘

            ’’لیکن اب تو وہ میرے بھی کسی کام کی نہیں ہیں۔‘‘

            ’’کیوں ؟‘‘

            ’’اس لئے کہ میں نے بھی انہیں پڑھ ڈالا ہے۔‘‘

            ’’پڑھ لیا تو اس میں کیا بات ہے ؟کتابیں پڑھنے کے بعد بے فائدہ نہیں ہو جاتیں۔‘‘ اُس خاتون کے جواب میں تمسخر تھا۔

            ’’نہیں، میں نے ایسا نہیں کہا۔ میں کتابیں پڑھنے کے بعد اپنے دوستوں کو تحفہ میں دے دیتا ہوں۔‘‘

            کرشنن کی بات پر اسے ہنسی آ گئی، وہ بولی۔ ’’اگر تم یہی کرتے ہو تو بانٹ دو ان کو اپنے دوستوں میں ؟‘‘

            وہ بولا۔ ’’انسان اپنی چیز تو دوسرے کو تحفہ میں دے سکتا ہے لیکن کسی دوسرے کی چیز کو تحفہ میں دینا کچھ عجیب سا لگتا ہے ؟‘‘

            ’’ویسے مجھے تو اپنی کتابیں بھی تحفہ میں دینا عجیب ہی لگتا ہے ؟ خیر تم ایسا کرو کہ اسے اپنے پاس تحفہ سمجھ کر رکھ لو۔‘‘

            ’’تحفہ! آپ کی طرف سے تحفہ!‘‘ کرشنن نے پوچھا۔

            ’’جی ہاں یہی سمجھ لو۔ میں تو کتابیں تحفہ میں تقسیم کرنے کے لئے نہیں خریدتی، اس لئے میرے لئے پاس ایک سیٹ کافی ہے۔ میں دو نسخوں کا کیا کروں گی؟‘‘

            ’’نہیں ! ٹھیک ہے !! آپ کا بہت شکریہ!!! آپ کا تحفہ بہت ہی اچھا تحفہ ہے۔ آپ کا شکریہ! آپ ایسا کریں کہ میر اسامان بھی تحفہ سمجھ کر قبول فرما لیں۔‘‘

            ’’آپ کا سامان میرے کس کام کا ہے ؟‘‘

            ’’کیا؟‘‘ کرشنن نے پوچھا

            ’’ہاں  …  میں ان چیزوں کو استعمال نہیں کرتی؟‘‘

            کرشنن سوچنے لگا غضنفر تو کہتا تھا کہ یہ عورتوں کے استعمال کی چیز ہے اور یہ عورت کہہ رہی ہے کہ وہ اسے استعمال نہیں کرتی۔ عجیب تماشہ ہے۔ وہ بولا۔ ’’ٹھیک ہے اگر آپ استعمال نہیں کرتیں تو کوئی بات نہیں، آپ اسے کسی کو تحفہ میں دے دیں۔‘‘

            ’ ’دوسرے کا تحفہ دوسرے کو؟‘‘

             کرشنن جھینپ گیا۔ باتیں کرتے ہوئے وہ لوگ اسٹور کے دروازے تک پہنچ گئے تھے۔ اس خاتون نے کتابوں کی قیمت چکائی۔ کرشنن نے اپنا بل ادا کیا اور دروازے پر رکھی ہوئی اپنی پچھلے ہفتہ کی تھیلی واپس لی اور اس خاتون کے پاس واپس آ کر کہا۔

            ’’آپ اپنے تحفہ پر اپنے ہاتھوں سے اپنا نام لکھ دیں اور دستخط کر دیں تو عنایت ہو گی۔‘‘ کرشنن نے ایک کتاب آگے بڑھائی۔ وہ مسکرائی اور لکھا ’رادھا۔۔‘، پھر دستخط کر دیئے۔ کرشنن نے ناول آگے بڑھایا تو اس نے لکھا تحفہ اور دستخط کر دیے۔ اب صحیفۂ فلسفہ کی باری تھی۔ کرشنن نے اسے سامنے کیا تو رادھا نے زندگی لکھا اور دستخط کر دئیے۔ کرشنن نے جواب میں مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔ اس نے محسوس کر لیا کہ رادھا کتابیں صرف زبان اور آنکھوں سے نہیں بلکہ دل سے پڑھتی ہے۔ کرشنن نے تہیہ کر لیا کہ آئندہ ہفتہ وہ کتابیں خریدے گا۔ اپنے لئے نہیں رادھا کے لئے اور اسے وہ کتابیں تحفہ میں دے گا۔ پڑھے بغیر وہ انہیں تحفہ میں دے گا۔ شاید ایسا پہلی مرتبہ ہو گا !پہلی مرتبہ! کرشنن کی زندگی میں پہلی مرتبہ!!کسی اجنبی کے لئے اچھوتا تحفہ!! پہلی مرتبہ!!!

            اتفاق سے اگلا ہفتہ اس ماہ کا آخری ہفتہ یعنی تنخواہ سے پہلے والا ہفتہ تھا۔ یہ ہفتہ اکثر نوکری پیشہ لوگوں کی زندگی میں آزمائش کا ہفتہ ہوتا ہے اور کرشنن کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ اب کرشنن کے سامنے نئی خود ساختہ آزمائش کھڑی تھی۔اس مسئلہ کا نہایت آسان حل تو یہ تھا کہ وہ اپنا ارادہ ایک ہفتہ کے لئے ملتوی کر دیتا لیکن اس نے ان خطوط پر سوچنا بھی گوارا نہ کیا۔ وہ جلد از جلد رادھا کے قرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتا تھا۔

کرشنن کی جیب میں اس وقت پچاس درہم تھے۔ وہ اپنے سامان کو بیس پچیس کے بجائے پانچ سات تک محدود کر سکتا تھا۔ اس طرح پینتالیس درہم تحفہ کے لئے کافی رقم تھی۔ ہندوستان کے تقریباً پانچ سو روپئے لیکن پھر بھی کرشنن نے سوچا کچھ فاضل درہم اپنے پاس ہونے چاہئیں، ہوسکتا ہے اسے کوئی مہنگی کتاب پسند آ جائے اور وہ تو تین کتابیں تحفہ میں لایا تھا جن کی قیمت یقیناً پچاس درہم سے زیادہ تھی۔ کوئی تحفہ اگر زیادہ قیمت کا نہ ہو تو کم قیمت کا بھی نہ ہونا چاہئے۔

 غضنفر اور رضوان نے تو اس سے کئی مرتبہ ادھار لیا تھا لیکن کرشنن ایسی منضبط زندگی گزارتا تھا کہ اسے ادھار مانگنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہ آئی تھی۔ کرشنن نے ان دونوں کے بجائے البرٹ کی اہلیہ سوژان سے سو روپئے ادھار مانگے۔ غضنفر کو اس بات پر بہت غصہ آیا کہ کرشنن نے اس کے بجائے سوژان پر اعتماد کیا۔ وہ رضوان کے پاس گیا اور بپھر کر بولا۔ ’’آج سے ہمارا دوستی کرشنن سے ختم ہے ‘‘

            رضوان نے پوچھا۔ ’’کیوں ؟‘‘

            اس نے جواب دیا۔ ’’دیکھو ہم تو اس کو اپنا سمجھ کر اس سے ادھار مانگتا ہے لیکن وہ ہم کو پرایا سمجھتا ہے۔ وہ ہم سے نہیں سوژان سے قرضہ مانگتا ہے۔ وہ ہم پر بھروسہ نہیں کرتی تو ہم بھی اس سے دوستی نہیں کرتی!

            کرشنن نے غضنفر کی بات سن لی اور بولا۔ ’’غضنفر ایسی بات نہیں ہے ہم تم پر اپنے بھائی سے زیادہ بھروسہ کرتا ہے لیکن ہم جانتا ہے تم بھی ہماری طرح غریب آدمی ہے۔ مہینہ کا آخر ی ہفتہ میں جو تکلیف ہم کو آتا ہے وہی تم کو بھی آتا ہے۔ اس لئے ہم تم کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اگر مہینہ کی شروعات ہوتا تو ہم سوژان سے نہیں تم سے قرض مانگتا۔‘‘

            غضنفر بولا۔ ’’کرشنن تم مذاق کرتا ہے۔ مہینہ کے شروع میں ہم سب کے پاس پیسہ ہوتا ہے۔ ادھار مانگنے کا کسی کو ضرورت نہیں ہوتا؟ ادھار تو آخر میں ہی مانگا جاتا ہے۔

            ’’ہاں غضنفر تم صحیح بولتا ہے۔ ہم سے غلطی ہو،گیا ہم معافی مانگتا ہے۔‘‘

             رضوان نے کہا۔ ’’کرشنن سچ بولتا ہے ، اس نے غلطی نہیں کیا، پھر بھی معافی مانگتا ہے۔ تم اسے معاف کر دو، جھگڑا خلاص۔‘‘

            رضوان کی اہلیہ چمیلی نے جب دیوار کی اوٹ سے اس منظر کو دیکھا تو اس کی پلکیں نم ہو گئیں۔ اس نے سوچا ان لوگوں کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں ہے پھر بھی یہ لوگ ایک دوسرے پرکس طرح جان چھڑکتے ہیں۔

            کرشنن اس روز شا م ڈھلنے سے قبل ہی جاشنمال پہنچ گیا تھا۔ آج اُسے کتابیں جو پسند کرنی تھیں اور  پھر یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ کتابوں کا اشتہار صابن اور شیمپو کی طرح ٹی وی پر نہیں نشر ہوتا تھا کہ آدمی دُکان میں جاتے ہی خرید لے۔ کتاب تو آخر کتاب ہوتی ہے او ر پھر اگر کسی اور کو تحفہ میں دینا ہو تو یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ کرشنن نے رادھا کے لئے ایک تاریخ کی کتاب پسند کی۔ تاریخ …  داد عیش دینے والوں کی تاریخ۔ تاریخ …  مر مٹنے والوں کی تاریخ، جنھیں زندہ قومیں پڑھتی ہیں اور ان سے زندگی کا حوصلہ اور اُمنگ حاصل کرتی ہیں۔اس نے نفسیات کی ایک کتاب خریدی۔ انسانی نفسیات جو کبھی نفسانیت پر غالب آ جاتی ہے تو کبھی نفسانیت اس کو اپنے قابو میں کر لیتی ہے۔ اس نفس کے احوال  کوائف جسے خالق کائنات نے خود استوار کیا تھا، جس پر اس نے اس کی بھلائی اور برائی الہام کر دی تھی۔ نفس عمارہ کی فتنہ پردازیاں جو انسان کو بُرائی کی طرف اُکساتا ہے اور نفس لوامہ کو ضوفشانیاں جو گناہ کے سرزد ہو جانے پر لعنت و ملامت کرتا ہے نیز نفس مطمئنہ کا بیان جو اپنے رب سے راضی اور اس کا رب اس سے راضی ہوتا ہے۔ جسے دُنیا میں جنت کا سا اطمینان وسکون حاصل ہو جاتا ہے۔

 اِن دو کتابوں کے بعد وہ دیر تک کتابیں اُلٹ پلٹ کرتا رہا اور بالآخر شاعری کی کتاب پر اُس کی نظر مرکوز ہو گئی۔  شاعری اور اس کی اثر پذیری کا کیا کہنا کہ رب ذوالجلال جو پاکیزہ کلام اپنے برگزیدہ رسولوں کے دل پر الہام کرتا ہے ، وہ نغمۂ حیات جسے انبیاء کرام تمام تر سوزِ دل کے ساتھ اپنی قوم کو سناتے ہیں  اور وہ  نسخۂ کیمیا جسے اہلِ ایمان آنکھوں کے ذریعہ اپنے ذہن و دل پر ثبت کر لیتے ہیں، وہ شاعری یقیناً نہیں ہوتا لیکن اس کا اسلوب شاعرانہ ضرور ہوتا ہے۔ اسی لئے کلام الٰہی کی حیثیت سے اس کا اِنکار کرنے والوں کے لئے بھی اس کی فصاحت و بلاغت کا اعتراف کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔  اس کی نغمگی کا سحر سب کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ منکرینِ حق تا زمانہ اپنی تمام تر انفرادی و اجتماعی کوشش کے باوجوداس درجہ کا کلام تو کجا، ایک فقرہ بھی پیش کرنے میں اپنے آپ کو قاصر پاتے ہیں اور تا قیامت یہی کیفیت رہے گی اس لئے کہ انسانی کلام اور کلام الٰہی میں وہی فرق ہے جو انسان اور خالقِ کائنات کے اندر ہے۔

            اِن کتابوں کو خریدتے وقت کرشنن بھول گیا تھا کہ رادھا نے اُن میں سے کسی بھی موضوع پر کتاب نہیں خریدی تھی۔ رادھا کی پسند پر کرشنن کی پسند نے غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ وہ دُوسروں کے لئے وہی پسند کرتا ہے جو خود اسے پسند ہوتا ہے۔ چاہے وہ شہ دوسرے کو پسند ہو یا نہ ہو؟ لیکن انسان اپنے لئے یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی مرضی کے خلاف کوئی چیز اُس پر تھوپ دی جائے۔ ہاں اوروں پر اپنی مرضی تھوپنا اُس کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔ حقیقت میں انسان جو اپنے لئے جو پسند کرتا ہے ، دُوسروں کے لئے وہ پسند نہیں کرتا بلکہ جو اپنے لئے پسند نہیں کرتا، وہ دوسروں کے لئے پسند کرتا ہے۔

            تینوں کتابیں لے کر وہ کاؤنٹر کی جانب بڑھا تو رادھا اسٹور میں داخل ہوتی ہوئی نظر آئی۔ آداب وتسلیم کے بعد رادھا کتابوں کے سیکشن میں اور کرشنن شیمپو اور پاؤڈر کے سیکشن میں آ گیا۔ وہ رادھا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ رادھا ان چیزوں کو کیوں پسند نہیں کرتی؟ شاید اسے ان کی ضرورت ہی نہ ہو؟ اور ہاں، یہ پاؤڈر تو اس کے اُجلے رنگ کو خراب کر دے گا اور اس کی گھنی زُلفیں  …  اگر وہ شامپو لگائے گی، تو بپھر جائیں گی۔ اُس نے سوچا یہ چیزیں تو اُس جیسے کالے کلوٹے گنجے آدمی کے لئے ہے۔ کرشنن کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا۔ اس نے اور زیادہ قیمتی سامان خریدا۔ خوشبو کی دو بوتلیں خرید لیں اور باہر کاؤنٹر کے پاس کتابوں کی گفٹ پیکنگ کرانے لگا۔ رادھا کچھ دیر میں اپنی کتابیں لے کر آ گئی۔ کرشنن نے اُس کے قریب جا کر کہا۔ ’’رادھا، اِس ہفتے آپ کو میرا تحفہ قبول کرنا ہو گا۔‘‘

            ’’کیا؟‘‘ رادھا مسکرائی۔ ’’تحفوں کی ادلا بدلی تو پچھلی مرتبہ ہو گئی۔

 میں نے تمہارا سامان نہیں لوٹایا اور تم میرا سامان لے گئے۔‘‘

            ’’ہاں  …  وہ تو ٹھیک ہے لیکن کتابوں کا بدل تو کتابیں ہی ہوسکتی ہیں۔‘‘

            ’’اچھا …  تو تمہارے سامان کا بدل کتابیں کیسے ہو گئیں ؟‘‘

            ’’میرے خیال میں دیگر اشیاء کا بدل کتابیں ہوسکتی ہیں لیکن دوسرا سامان کتابوں کا بدل نہیں ہو سکتا؟‘‘ کرشنن نے کہا۔

            ’’تمہاری بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘رادھا نے جواب دیا۔

            کرشنن بولا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ آپ یہ کتا بیں پڑھیں، سب کچھ آپ کو سمجھ میں آ جائے گا۔‘‘

            ’’اچھا؟‘‘

            ’’جی ہاں  …  یقیناً؟‘‘

            ’’آپ کو یقین ہے کہ ایسا ہو گا؟‘‘

            ’’جی ہاں  …  مجھے صد فیصد یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا؟‘‘

            ’’ٹھیک ہے  …  اگر اِتنا یقین ہے تو آزما کر دیکھ لیتے ہیں۔‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’شکریہ!‘‘

            رادھا نے کتا بیں اُس کے ہاتھ سے لے کر اپنی زنبیل میں رکھ لیں۔

            کرشنن یہ توقع کر رہا تھا کہ وہ اس گفٹ پیکنگ کو کھولے گی اور اس سے درخواست کرے گی کہ وہ اس پر اپنا نام لکھے اور دستخط کرے۔ وہ ہفتہ بھر جملہ بندی کرتا رہا۔ پہلی کتاب پر یہ لکھے گا، پھر دوسرے پر وہ اور تیسری پر فلاں فلاں جملہ  …  …   اِس دوران سیکڑوں جملے اس نے لکھے اور مسترد کر دیئے۔ لیکن رادھا نے اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ کرشنن نے اپنے آپ سے ہم کلام ہو گیا تھا۔

            ’’اگر وہ کچھ اور نہ لکھتا تو کم از کم نام!‘‘

            ’’انسان کو کم از کم اتنا تو پتہ ہونا چاہئے کہ اس کو تحفہ کون دے رہا ہے ؟‘‘

            ’’لیکن رادھا کو پتہ تھا کہ اس کو تحفہ کرشنن دے رہا ہے۔‘‘

            ’’لیکن وہ کرشنن ہی ہے یہ اسے کب پتہ تھا؟ اُس کے لئے تو یہ ایک گمنام شخص کا تحفہ تھا۔

            ’’اِس دُنیا میں کون گمنام رہنا چاہتا ہے ؟‘‘

            ’’کوئی نہیں چاہتا۔ کرشنن بھی نہیں چاہتا تھا۔‘‘

            ’’لیکن اس کے اپنے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ؟‘‘

            ’’اِس وسیع و عریض کائنات میں ہزاروں کروڑ لوگ آباد تھے ، اس کے اپنے ملک کی آبادی سو کروڑ سے زیادہ تھی۔‘‘

            ’’اُس کی اپنی ریاست میں لاکھوں لوگ اور محلے میں ہزاروں لوگ رہتے تھے۔‘‘

            ’’لیکن اس سے کیا ہوتا ہے ؟‘‘

            ’’کتنے لوگ تھے جو اس کو جانتے تھے ؟‘‘

            ’’لیکن پھر بھی کرشنن کو کسی دُوسرے کے نہ جاننے کا افسوس نہیں تھا۔ وہ تو بس یہ چاہتا تھا کہ رادھا اُس کے نام کو جانے۔‘‘

            ’’وہ اایسا کیوں چاہتا تھا؟‘‘

            ’’وہ نہیں جانتا تھا؟‘‘

             رادھا شکریہ ادا کر کے چلی گئی۔ کرشنن کے ارمان مرجھا گئے۔ واپس آ کر کرشنن نے سوژان کے سو روپئے واپس کر دیے ، اس لئے کہ خرچ ہی نہیں ہوئے تھے۔ اگلے ہفتہ کرشنن کی جیب میں تنخواہ تھی لیکن جاشنمال جانے کی خواہش نہیں تھی۔ اُس نے سوچا کیا فائدہ ہے اتنی دُور جانے کا اور زحمت اُٹھانے کا؟ وہ اپنے قریب کی سُپر مارکیٹ سے اپنی ضرورت کا سامان لے آیا۔

             رادھا کا معاملہ کرشنن سے مختلف تھا۔ وہ حسب معمول دُکان پر آئی، لیکن اس نے کچھ نئے موضوعات پر بھی کتابیں خریدیں۔ اُن موضوعات پر جو پہلے اُس کو پسند نہیں،تھے لیکن اب پسند آنے لگے تھے۔ اُن موضوعات پر جن کی جانب کرشنن نے اس کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ اس بار رادھا نے شاعری کی تین کتابیں خریدی تھیں۔ بے معنی زندگی کو بامعنی کرنے کا نسخۂ کیمیا شاعری کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟

رادھا کے اندر زندگی کا معنی تلاش کرنے کی تڑپ کرشنن کی کتابوں کے ذریعہ پیدا ہوئی تھی۔

 اپنی کتابوں کے ساتھ جب وہ کاؤنٹر پر پہنچی تو اُس نے ایک اُچٹتی ہوئی نگاہ چاروں طرف دوڑائی۔ اس کی نگاہیں کسی کو ڈھونڈ رہی تھی …  کوئی کھو گیا  تھا …  اُس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ کون تھا وہ اجنبی؟ نہ تو رادھا کو اُس اجنبی کا نام پتہ تھا اور نہ پتہ معلوم تھا۔

            رادھا اپنے آپ سے باتیں کر رہی تھی

            ویسے معلوم بھی ہوتا تو کیا فرق پڑتا ؟

            وہ اُس کے پتہ پر جا تو نہ سکتی تھی! وہ ایک عورت تھی، اُس کا وقار و خود داری اُسے اِس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ از خود!

            وہ اپنے آپ سے شرما رہی تھی۔

            وہ اپنی کتابیں سینے سے لگائے اپنے گھر آ گئی …  تنہا …  بالکل تنہا۔

             پہلی بار اُسے اپنی تنہائی کا احساس ہوا تھا …  پہلی مرتبہ! پہلی مرتبہ اُسے تنہائی نے اپنا دوست بنایا تھا …  یہ نئی دوستی کوئی سوچا سمجھا فیصلہ نہ تھا۔ اس کے باوجود اُسے اُس کا کوئی قلق نہ تھا!!!

 

 

لا تحزن

            رادھا کی پیدائش سے قبل ہی اُس کے والدین امارات آ گئے تھے۔ اُس کی تعلیم یہیں ابوظبی میں ہوئی۔ اُس کے  والدین نہایت روشن خیال تھے اور اپنی بڑی بیٹی رادھا کی ہر ضرورت کا خیال کرتے  تھے۔ یہاں کالج کی تعلیم حاصل کرتے وقت اُس کی ملاقات ہابیل سے ہو گئی اور وہ دونوں دوست بن گئے۔ گو کہ ہابیل اماراتی تھا، اس کے باوجود دونوں کی پسند اور دلچسپی یکساں تھی۔ ہابیل کے والدہ لبنانی اور والد ایران سے یہاں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ وہ بھی آزاد خیال لوگ تھے۔ ہابیل نے جا کر اپنے والدین کو بتلایا کہ وہ رادھا سوامی ناتھن نام کی اپنی ہم جماعت لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ لوگ پریشان ہو گئے۔

            اُن لوگوں کہا۔ ’’یہ ہندو لڑکی ہمارے گھر میں کیسے رہے گی؟ کیا وہ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہے ؟‘‘

            ہابیل نے اُنہیں بتایا کہ اُس کا نام ہندوؤں جیسا ضرور ہے لیکن وہ عقیدہ کے اعتبار سے عیسائی ہے۔ گویا اہلِ کتاب میں سے ہے۔

            ’’وہ کیسے ؟‘‘ اس کی ماں نے سوال کیا

             دراصل اُس کی ماں کیتھرین پیدائشی طور پر عیسائی ہے ، لیکن باپ گوپال سوامی ناتھن ہندو تھا۔ وہ دونوں بھی کالج میں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے اور اُن لوگوں نے آپس میں شادی کا فیصلہ کر لیا۔ پہلے تو دونوں کے اہل خاندان نے شادی پر اعتراض کیا، لیکن بالآخر اُن لوگوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ کیتھرین اور گوپال کی شادی دو مرتبہ ہوئی۔ ایک بار ہندوانہ رسم و رواج کے مطابق اور دوسری مرتبہ چرچ کے اندر عیسائی طریقے سے۔ ابتداء میں دونوں اپنے اپنے مذاہب پر قائم رہے۔ ان لوگوں نے آپس میں ایک معاہدہ کر رکھا تھا کہ اگر لڑکی ہو گی تو باپ کے دین پر اور لڑکا ہو گا تو ماں کے دین پر ہو گا۔ سب سے پہلے اُن کے گھر میں رادھا کا جنم ہوا، جس کا نام ہندوانہ رکھ لیا گیا۔ لیکن وقت کے ساتھ گوپال سوامی اپنے عقیدہ پر قائم نہ رہ سکا اور دوسرے بیٹے کی پیدائش سے قبل اُس نے عیسائی مذہب قبول کر لیا، لیکن نام نہیں بدلا۔ ہاں، رادھا کے بعد تمام بچوں کے نام عیسائی طرز پر رکھے گئے۔ جیسے جوزف، سولومن، میری اور نانسی۔ اس طرح یہ پانچ بھائی بہن تھے۔

            ہابیل کے والدین تو کسی طرح رادھا کو اپنی بہو بنانے پر راضی ہو گئے ، لیکن رادھا کی ماں نے پنگا کھڑا کر دیا۔ وہ اس بات پر اَڑ گئی کہ رادھا کی شادی کسی صورت ہابیل سے نہیں ہو سکتی۔ گوپال سوامی نے اپنی بیوی کو سمجھایا اور خود اپنی مثال دی تو کیتھرین نے کہا۔ ’’آپ کی بات اور ہے۔ ہابیل مسلمان ہے۔ وہ کبھی بھی اپنا مذہب تبدیل نہیں کرے گا، بلکہ رادھا کا مذہب تبدیل کروا دے گا۔ اس لئے اُس کی شادی کسی صورت ہابیل سے نہیں ہوسکتی۔ گوپال سوامی مشکل میں پھنس گیا۔ ایک طرف بیوی کا غصہ تھا اور دو سری طرف بیٹی کی ضد۔ اُس نے درمیان کا راستہ نکالا اور رادھا سے کہا۔

            ’’دیکھو بیٹی  …  میں تمہاری ماں کی مرضی کے خلاف تمہیں شادی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ لیکن اگر میری اجازت کے بغیر تم شادی کر لو تو اِس پر مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔‘‘

            رادھا بولی۔ ’’نہیں ! میں اگر شادی کروں گی تو آپ دونوں کی اجازت سے کروں گی، ورنہ نہیں کروں گی۔ لیکن اگر آپ نے مجھے اپنی پسند سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دی تو میں بھی آپ لوگوں کی مرضی سے شادی نہیں کروں گی۔‘‘

            گوپال سوامی اپنی بیٹی کے فیصلے سے ڈر گیا۔ لیکن کیتھرین نے سمجھایا کہ یہ عارضی جوش ہے جو وقت کے ساتھ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ آگے چل کر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا۔ ہم اس کی شادی اپنی پسند سے یا اُس کی اپنی پسند سے کر دیں گے۔

             گوپال سوامی بولا۔ ’’اگر اُس کی ہی پسند سے کرنا ہے تو ہابیل سے کیوں نہیں کر دیتیں ؟‘‘

            کیتھرین بولی۔ ’’نہیں ! اُس کی اپنی پسند ہماری پسند کی تابع ہونی چاہئے۔ یعنی عیسائی یا کم از کم ہندو۔ لیکن مسلمان ہرگز نہیں۔‘‘

            کیتھرین اڑ گئی اور رادھا بھی اپنے فیصلہ پر جم گئی۔ اُس روز سے ازدواجی زندگی کا خیال رادھا نے اپنے دل سے نکال دیا اور بینک کے امتحان کی تیاری میں جٹ گئی۔ حسب توقع رادھا نے شاندار کامیابی درج کرائی اور امتیازی پوزیشن حاصل کی۔ اُسے تعلیم کے دوران ہی کئی بینکوں کے جانب سے پیش کش آئی اور بہت سوچ سمجھ کر اُس نے اے۔ ڈی۔ سی۔ بی۔ کی ملازمت قبول کر لی۔

 اُس کا معمول صبح سے دوپہر بینک میں کام اور شام کتابوں کے نام  ہو گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا گویا وہ آدم بیزار ہو گئی ہے۔ لوگوں سے ملنا جلنا اُس نے کم کر دیا تھا اور  کتابوں کو اپنا رفیق بنا لیا تھا۔ ایک ایک کر کے اس کی تمام بہنوں کی شادی ہو گئی اور وہ اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔ بھائیوں کا بھی بیاہ ہوا تو اُن لوگوں نے بھی اپنے اپنے گھر بسالئے اور اپنی بیویوں کے ساتھ الگ رہنے لگے۔ بس ایک وہ تھی جو اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی رہی۔

رادھا کی زندگی میں اس  قدر طویل دورِ تنہائی کے بعد اس کے ماں باپ بھی مایوس ہو چکے تھے۔ کبھی کبھار گوپال سوامی کو اپنے فیصلہ پر افسوس ہوتا تھا لیکن کیتھرین کو ہنوز اِس بات سے اطمینان تھا کہ اس نے اپنی لڑکی کے سُلب سے پیدا ہونے والی مسلم قوم کو عالم وجود میں آنے سے روک دیا۔ جن لوگوں کو دُوسروں کے خسارے میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے وہ  اپنے نفع نقصان سے غافل ہو جاتے ہیں۔ کیتھرین بھی اُن ہی میں سے ایک تھی۔

            رادھا سوامی ناتھن کا مشغلہ بینک میں روپئے گن گن کر تقسیم کرنا اور وصول کرنا تھا۔ گھر میں وہ کتابوں کے اوراق گنتی رہتی تھی، لیکن اُس نے نہ تو کتابوں کا حساب رکھا تھا اور نہ روپیوں کا! اِس لئے کہ وہ جانتی تھی یہ کتابیں اس کی اپنی نہیں، کسی اور کی ہیں۔ اِس دُنیا میں کتاب ہی ایک ایسی منفرد شہ ہے کہ جس کا خریدار صاحب کتاب نہیں ہوتا …  ورنہ کسی اور شہ کو اگر کوئی شخص خرید لے تو وہ اس کا مالک بن جاتا ہے۔ لیکن تصنیف و تالیف کے باب میں صاحبِ کتاب تو وہی ہوتا ہے جو اسے رقم کرتا ہے  …  بالکل اُسی طرح جس طرح بینک میں بڑی رقمیں لینے دینے سے کوئی اس کا مالک نہیں ہو جاتا، وہ تو بس امانتدار ہوتا ہے۔

رادھا سوچاکرتی تھی ویسے بھی روپیوں کا مالک ہوتا کون ہے ؟ یہ ایک نہایت پیچیدہ سوال ہے ، جس کا جواب دینے میں بڑے بڑے ماہرین معاشیات ناکام ہو چکے ہیں۔ اکثر روپیہ اُن لوگوں کے پاس ہوتا ہے جو اُس کے مالک نہیں ہوتے۔ مثلاً رادھا سوامی ناتھن دن بھر میں لاکھوں روپیوں کا لین دین کرتی تھی، لیکن یہ درہم و دینار یا تو اُن کے ہوتے جن کو دیئے جاتے یا اُن کے ہوتے تھے جن سے لئے جاتے۔ بینکوں میں ساری دولت جمع ہوتی ہے لیکن بینک ان روپیوں کا مالک تو نہیں ہو جاتا؟ یہ روپئے وہاں امانت کے طور رکھے جاتے تھے۔ اگر کوئی بینک کا معمولی ملازم اس امانت میں خیانت کرے تو اُس فرد کو سزا دی جاتی ہے لیکن اگر بینک کے اعلیٰ افسران منصوبہ بند طریقے پر خیانت کا ارتکاب کریں تو اس کو دیوالیہ قرار دے کر بند کر دیا جاتا ہے ، اس صورت میں بنک کے دیوالیہ پن کی حالت ایک اجتماعی عذاب کی سی ہو جاتی ہے جس کی لپیٹ میں گناہگار کے ساتھ بے گناہ بھی آ جاتے ہیں۔

            دولت میں اضافہ کی غرض سے سرمایہ کار بینک کو اپنی دولت استعمال کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں، لیکن یہ اجازت بھی اُسے روپیوں کا مالک نہیں بناتی۔ ویسے   دَورِ حاضر کا یہ ایک المیہ ہے کہ دوسروں کے مال کی دیکھ ریکھ کرنے والے اُن لوگوں  سے زیادہ عیش کرتے تھے جو اُس روپے کے اصل مالک ہوتے ہیں۔ بینک میں کام  کرنے والے ملازمین کی ٹھاٹ باٹ ان ملازمین سے زیادہ ہوتی تھی، جن کی تنخواہ  بینک کے ذریعہ سے تقسیم ہوتی ہے۔ کاروبار کرنے والے لوگ، جو بینکوں میں اپنا  سرمایہ رکھتے تھے ، دیوالیہ ہو جایا کرتے ہیں۔ لیکن بینکوں کے ساتھ یہ شاذ و نادر ہی  ہوتا تھا اور اگر بینک دیوالیہ بھی ہو جاتا تو اس کو چلانے والے قلاش نہیں ہوتے۔ وہ اپنے تحفظ کا بندوبست قبل از وقت کر لیتے ہیں اور اپنا سرمایہ پہلے ہی سے نکال کر دوسرے بینکوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔ بلکہ نئی ملازمت بھی پکی کر لی جاتی۔

بینک  کے ساتھ ڈوبنے والے وہ سیدھے سادے لوگ ہوتے تھے جنہوں نے اِس اُمید  میں کہ اس کی افزائش ہو گی، بینک پر اعتماد کر کے اُس میں اپنا سرمایہ رکھا ہوتا ہے۔  یہ بے چارے اِس بات سے خوف کھاتے ہیں کہ اگر روپیہ جیب میں ہو گا تو خرچ  ہو جائے گا۔ حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ روپیہ خرچ کرنے کے لئے ہی کمایا جاتا  ہے۔ انسان دن بھر کی کمائی چند منٹوں میں، مہینے بھر کی کمائی چند دنوں میں اور سالہا سال کی کمائی چند مہینوں میں ٹھکانے لگا دیتا تھا۔ انسان واقعی جلد باز مخلوق ہے۔ اُسے روپیہ کمانے کی جس قدر عجلت ہوتی ہے ، خرچ کرنے کی اُس سے زیادہ جلدی ہوتی ہے۔ یہی کمانے اور خرچ کرنے کے کھیل میں اُس کی زندگی گزر جاتی ہے اور وہ اس مرحلہ میں پہنچ جاتا ہے جہاں اُس سے نہ کمایا جاتا ہے اور نہ خرچ کیا جاتا ہے۔ وہ اِس قدر کمزور اور نحیف ہو جاتا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے درکار کم از کم توانائی سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ انسان جن  دنوں کے لئے بچانا چاہتا ہے اس عمر میں اسے استعمال نہیں کر پاتا انسان بے شمار دولت کمانا چاہتا ہے ، لیکن کما نہیں پاتا۔ گنوانا نہیں چاہتا، لیکن گنوانا پڑتا ہے۔ وہ اس کے لئے مجبور ہوتا ہے۔

            رادھا کو دھن دولت کے ضیاء کا نہیں، بلکہ اپنی عمر عزیز کے ایک بہت بڑے حصے کو بس یوں ہی گنوا دینے کا احساس ہونے لگا تھا۔وہ اپنے آپ سے پوچھ رہی تھی کہ آخر کیوں اُس نے اِس قیمتی سرمایہ کو تنہائی کی آگ میں جھونک دیا ہے ؟ لیکن یہ آگ اب دن بہ دن سرد ہونے لگی تھی۔

            اُسے ڈر لگنے لگا کہ شاید آئندہ کے لمحات کا سفر اِس آسانی سے نہ گزر سکے گا۔

وہ سوچ رہی تھی کہیں آنے والا وقت اس کے سامنے پہاڑ بن کر تو نہیں کھڑا ہو جائے گا …  سرد برفیلا پہاڑ …  جسے عبور کرنا  نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے !

            لیکن ہر دریا کی طرح اُسے بھی پار تو کرنا ہی ہو گا۔ ’’دریا ابھی دُور ہے ‘‘ …  یہ سوچ کر رادھا نے اِن خیالات کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ جب پاس آ جائے گا تو وہ تو سوچے گی کیا کیا جائے ؟ ابھی سے پریشان ہونے سے کیا فائدہ ؟

            ہوسکتا ہے دریا پاس ہی نہ آئے ! درمیان ہی سے راستہ بدل کر کسی اور جانب نکل جائے ؟ ہوسکتا ہے اُس تک آنے سے پہلے یہ ندی خشک ہو جائے ؟ اُس دوات کی طرح …  جس کے خشک ہو جانے کے بعد زندگی کی ادھوری کتاب بند ہو جاتی ہے۔ اس کارٹرج کی طرح …  جس کے ختم ہو جانے کے بعد پرنٹر کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ رادھا سوچتے سوچتے بہت دُور نکل گئی تھی …  بالکل موت کے دہانے تک!! وہاں  پہنچ کر وہ گھبرا گئی۔ اُس نے اِن بھاری بھرکم افکار کو اپنے ذہن سے نکال کر وقت کے منجدھار میں جھونک دیا اور خود ہلکی پھلکی ہو گئی۔

  …  …    …  …

            ایک دن رضوان کرشنن کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ’’یار کرشنن …  بڑا عرصہ ہو گیا، تُو چھٹی پر نہیں گیا۔‘‘

            کرشنن نے کہا۔ ’’ہاں، لیکن تو یہ سوال کیوں پوچھ رہا ہے ؟‘‘

            ’’بس یوں ہی!‘‘ رضوان بولا۔

             کرشنن نے کہا۔ ’’یار میں تو تجھے اور چمیلی بھابی کو بالکل بھی ڈسٹرب نہیں کرتا، پھر بھی تو مجھے چھٹی پر بھیجنا چاہتا ہے۔ تجھے تو چاہئے کہ تو اُس پٹھان کو چھٹی پر بھیجے جسے اِس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ اب تیرا وقت، ہمارا نہیں کسی اور کا ہے۔‘‘

            رضوان موضوع بدلتے ہوئے بولا۔ ’’کرشنن! آج کل تو کچھ بدلا بدلا سا، کھویا کھویا سا رہتا ہے۔ تیرے رکھ رکھاؤ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تجھے گھر والوں کی یاد ستا رہی ہے۔ ایسے میں تجھے اپنے گھر جانا چاہئے ، اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں سے مل کر آنا چاہئے۔ نوکری دھندہ تو چلتا ہی رہتا ہے۔‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’یار …  تیری بات صحیح ہے۔ یاد تو آتی ہے لیکن گھر جا کر کیا کروں گا؟ وہاں تو بوڑھے نانا نانی کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں ہے۔ میری ماں قطر میں میرے بھائی کے پاس ہے اور میرے والد کنیڈا میں میری بہن کے گھرسسُر ہیں  …  بالکل گھر داماد کی طرح۔ دُوسرے بھائی بہن بھی کوئی دہلی میں ہے تو کوئی چنئی میں۔ گاؤں میں کوئی رہتا ہی نہیں ہے۔ اب اگر اُن سب سے ملنا ہے تو ساری دُنیا کی سیر کرنی پڑے گی۔‘‘

            کرشنن نے مذاق کیا تھا، مگر رضوان کی سنجیدگی برقرار رہی، وہ بولا۔ ’’تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اپنے بھائی بہنوں کی طرح گھر بسا لیتے ؟‘‘

            رضوان کے سوال نے کرشنن کو چونکا دیا، وہ بولا۔ ’’آج کل  ایسا لگتا ہے کہ  پروسسر اور اسپیکر الگ الگ ہو گئے ہیں۔ سوچتا کوئی اور ہے بولتا کوئی اور ہے۔ یار  بھابی کے آنے سے پہلے تو تم اس طرح کی بہکی بہکی باتیں نہیں کرتے تھے۔ اب  تمہیں یہ کیا ہو گیا؟ بہت سوچنے لگے ہو؟‘‘

            رضوان بولا۔ ’’ہاں دوست! تم صحیح کہتے ہو۔ جب میری فیملی یہاں نہیں تھی، تو  میں اپنی اہلیہ کو یہاں لانے کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ کسی اور کا خیال مجھے نہیں  آتا تھا …  تم لوگوں کا بھی نہیں، جن کے ساتھ میں دِن رات رہتا تھا۔ لیکن اب یہ آ گئی ہے تو اب ہم دونوں مل کر دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں  …  اپنوں کے بارے میں  …  غیروں کے بارے میں !‘‘

            ’’اچھا تو اب ہم غیر ہو گئے ؟‘‘ کرشنن نے بات بدلنے کی کوشش کی۔

            ’’نہیں دوست … ویسے بھی اس پردیس میں ہمارا اپنا ہے بھی کون؟ سوائے تمہارے ، غضنفر کے ، اس کے علاوہ سوژان اور البرٹ یہی تو ہمارا خاندان ہے۔‘‘

            ’’اوہو تم تقریر کے جوش میں چمیلی بیگم کا نام لینا بھول ہی گئے۔‘‘

            ’’چمیلی … !! چمیلی میری اپنی ہستی کا اٹوٹ حصہ ہے ، بلکہ میرا اپنا وجود ہے۔ میں جب اپنا ذکر کرتا ہوں تو اُس میں اپنے آپ چمیلی کا ذکر شامل ہوتا ہے۔‘‘

            غضنفر نے کسی کام سے رضوان کو آواز دی۔ وہ اجازت لے کر چلا گیا۔ لیکن کرشنن سوچنے لگا اس کی اپنی دُنیا میں ویسے تو بہت سارے لوگ ہیں، لیکن کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کی اپنی ذات کا حصہ ہو۔ کرشنن کو اس کی زندگی میں پائے جانے والے خلاء کا خیال تو آیا لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی تھی۔اس نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا اور سوچنے لگا …  ’’کاش یہ مشورہ بہت پہلے دیا گیا ہوتا۔ لیکن انسان دوسروں کے مشورہ کا اس قدر محتاج کیوں ہوتا ہے ؟ کیوں نہیں وہ اپنے فیصلے خود کرتا ہے ؟‘‘ کرشنن آئینے سے باتیں کر رہا تھا …  بے جان آئینے سے!!

            آئینہ بولا۔ ’’بات دراصل یہ ہے دوست! کہ دُوسروں سے تخاطب جس قدر آسان ہے ، اپنے آپ سے مخاطب ہونا اُسی قدر مشکل کام ہے۔‘‘

            اُس نے تردید کی۔ ’’جی نہیں ! شاید اِس لئے کہ انسان دوسروں کے بارے میں اس قدر نہیں جانتا، جتنا اپنے آپ کے بارے میں جانتا ہے۔‘‘

            ’’لیکن یہ جاننا کس کام کا؟ محض جاننے  سے کیا ہوتا ہے  … ؟ اگر انسان جانے ، لیکن مانے نا تو اس سے کیا حاصل؟ …  اور اگر مان بھی لے پر چاہے نا! اور چاہے بھی مگر اقدام کرنے کا حوصلہ نہ ہو تو کیا فائدہ ؟‘‘ آئینہ پے درپے سوال کر رہا تھا۔

             کرشنن نے ہتھیار ڈال دئیے اور اپنے عکس سے مسکرا کر بولا۔ ’’دوست! مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے  اسی کرنے نہ کرنے کے تذبذب میں اپنی عمر عزیز کا بڑا حصہ گزار دیا ہے۔‘‘

             آئینہ مسکرا کر بولا۔ ’’دیکھو اب تمہارے سروں سے غائب ہونے والے بالوں کی تعداد موجود سے تجاوز کر گئی ہے۔ بلکہ اب سر کے بال اپنی ہیئت بدل چہرے پر جھریوں کی شکل میں نمودار ہونے لگے ہیں۔‘‘

            کرشنن نے آئینے میں غور سے دیکھا۔ بال کی طرح باریک جھریاں  …  جنہیں صرف وہ دیکھ سکتا تھا …  اِس لئے کہ وہ اپنے آپ سے نہایت قریب تھا۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ جھریوں کو پھیلنے میں دیر نہیں لگی۔ وقت کے ساتھ بالوں کی طرح بڑھتی رہتی ہیں۔ ان کو تراش خراش کے ذریعہ سجایا اور سنوارا بھی نہیں جا سکتا۔ بس چھپایا جا سکتا ہے ، مٹایا نہیں جا سکتا۔

            کرشنن نے آئینے سے اپنی نظریں ہٹا لیں اور اپنے آپ سے سوال کیا۔ ’’اِنسان ان جھریوں کو کس سے چھپاتا ہے ؟ دوسروں سے ؟ اُن سے جن کو اِن میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی! اس لئے کہ ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے  …  …  ؟ یا اپنے آپ سے ؟ لیکن اپنے آپ سے اس کا چھپانا ممکن نہیں، اس لئے کہ چھپانے کی کوشش میں وہ اس پر اور زیادہ عیاں ہو جاتی ہیں۔‘‘

             رضوان، کرشنن کو زندگی کا آئینہ دکھا کر جا چکا تھا۔ کرشنن کو اس آئینہ میں اپنا عکس لمحہ لمحہ مدھم ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اُس نے آئینے کو زمین پر دے مارا۔ اُس کے بے شمار ٹکڑے ہو گئے۔ آئینہ ٹوٹ گیا …  لیکن عکس نہیں ٹوٹا۔ ہر ٹکڑے میں اس کا عکس موجود تھا …  مکمل عکس …  اُن تمام جھریوں کے ساتھ، جن سے نجات حاصل کرنے کے لئے اس نے آئینے کو توڑ دیا تھا۔

            کرشنن کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ حقائق سے فرار ممکن نہیں ہے۔ حقائق تو تسلیم کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ آئینہ توڑنے سے کام نہیں چلتا۔ اس لئے کہ اس کی کرچوں کو سمیٹنا بھی پڑتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اکثر ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں اور انگلیوں سے خون رسنے لگتا ہے۔

            کرشنن اِن کرچوں کو جمع کرنے کے لئے جھکا تو کیا دیکھتا ہے کہ عکس بدل گیا ہے۔ آئینے کے ہر ٹکڑے پر کرشنن کا نہیں بلکہ رادھا کا عکس ہے  …  رادھا سوامی ناتھن کا عکس۔ اُس کا ہاتھ کانپنے لگا۔ وہ رادھا کے عکس کو چھونے کی جرأت اپنے اندر نہیں رکھتا تھا، مبادا وہ ناراض ہو جائے۔ وہ رادھا کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا۔ با دِل ناخواستہ ڈرتے ڈرتے کرشنن نے کرچوں کو سمیٹنا شروع کیا۔ اس کی اُنگلیاں اور دِل، دونوں زخمی ہو چکے تھے۔ دِل جو سارے جسم کے زخموں کو خون فراہم کرتا تھا، جب خود زخمی ہوتا ہے تو خون چوسنے لگتا ہے۔ دِل کے ٹوٹنے کی نہ صدا آتی تھی اور نہ اُس سے خون بہتا تھا۔ دِل کا معاملہ بھی عجیب و غریب تھا کہ وہ اپنے آپ بغیر ٹھیس لگے بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

             کرشنن  نے طویل عرصہ کے بعد ایک دن پھر جاشنمال جانے کا ارادہ کیا۔ وہ  صابن اور شیمپو کے علاوہ کچھ کتابیں بھی خریدنا چاہتا تھا تاکہ اپنے باطن میں تر و تازگی  پیدا کر سکے ، اپنے اندرون کو چمکا سکے ، مہکا سکے ، اور اپنے وجود کے اَدھورے پن کو  کتابوں کی مدد سے تکمیل کے مراحل سے ہمکنار کر سکے۔ وہ کچھ اور بھی چاہتا تھا۔ ایک بے جا سی توقع دل کے نہاں خانے میں سر اُٹھا رہی تھی …  لیکن اس بار وہ محتاط تھا، بلکہ حقیقت پسند۔ گزشتہ مرتبہ ایک نہایت فطری رّد عمل پر وہ بلاوجہ ناراض ہو گیا تھا جس کی وجہ ایک غیر فطری توقع تھی۔ کرشنن نے دوسروں پر اپنی شخصیت کو منطبق کرنے کی غلطی کی تھی۔ کسی اور کو اپنی عینک سے دیکھنے کی سعی ہمیشہ ہی انسان کو مایوسی اور بددلی کا شکار کر دیتی ہے۔ ایسا ہی کچھ کرشنن کے ساتھ ہوا تھا۔ لیکن اِس حقیقت کے اعتراف میں مہینوں کا عرصہ لگ گیا۔

 کرشنن اس بات سے مطمئن تھا کہ صبح کا بھولا اگر شام تک بھی لوٹ کر گھر واپس آ جاتا ہے تو وہ بھولا نہیں کہلاتا۔ خیر، کرشنن دیر تک کتابوں میں کھویا رہا۔ آج اُسے کوئی کتاب پسند ہی نہ آتی تھی۔ شاعری کی بیسیوں کتابیں اُلٹ پلٹ کرنے کے بعد وہ تاریخ کے دریچے میں داخل ہو گیا۔ جنگ و جدال …  قتل و خون …  سازشیں  …  دھوکہ …  فریب …  آخر مورخین یہی سب کیوں لکھتے ہیں ؟ وہ سوچنے لگا …  شاید وہ اُن لوگوں کی تاریخ نہیں لکھتے جن کو اِن چیزوں میں دلچسپی نہیں ہوتی؟ شاید اِس لئے کہ لوگ ان لوگوں کے تاریخ پڑھنا نہیں چاہتے جو اِن رذائلِ اخلاق سے پاک ہوتے ہیں ؟

یا اِس لئے کہ سیدھے سادھے ، بھولے بھالے پاک نفوس کے بارے میں جاننا ارباب اقتدار کے اندر احساس جرم پیدا کرتا ہے ؟ ایسے لوگوں کی سیرت آئینہ بن کر کھڑی ہو جاتی ہے جس میں انسان اپنا عکس دیکھتا ہے تو آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ عام قاری تو ان لوگوں کے بارے میں پڑھنا چاہتا ہے جو اِس سے بھی گئے گزرے ہوں، تاکہ اپنی ذات کا اُن سے تقابل کر سکے اور خود کو اطمینان دلا سکے کہ وہ بُرا ہے لیکن ایسا بُرا بھی نہیں۔ تاکہ وہ اپنی بُرائیوں پر قانع رہے ، اُن سے راضی رہے ، اُن سے نجات کی فکر نہ کرے۔ انسان کو اپنی ہر چیز اچھی لگتی ہے۔ اپنی اچھائیاں بھی اور اپنی بُرائیاں بھی۔ اسی لئے وہ اپنی خامیوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ اُن کی اُوٹ پٹانگ توجیہ کرتا ہے تاکہ ان پر ثابت قدمی کے ساتھ جما رہے۔ یقیناً انسان ’’ظالم اور جاہل ‘‘ہے۔

             کرشنن تاریخ کے شعبے سے نکل کر انسانی نفسیات کے شعبہ میں پہنچ گیا۔ اب وہ نفسیات کی کتابیں اُلٹ پلٹ رہا تھا کہ ایک کتاب کے نام نے اُسے چونکا دیا …  ’’اداس نہ ہوں ‘‘۔ چونکنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ ایک عربی کتاب ’’لاتحزن‘‘ کا انگریزی ترجمہ تھی۔ انگریزی کتابوں کے بشمول عربی دیگر زبانوں میں تراجم تو بے شمار تھے ، لیکن عربی کتاب کا بھی انگریزی ترجمہ مقبول عام ہو سکتا ہے  …  اور مقبولیت بھی ایسی کہ اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہوں، کرشنن کے لئے حیران کن بات تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو کتابیں لکھنے پڑھنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ یہ قہوہ اور حقہ پیتے ہوئے فٹ بال دیکھنے والی قوم ہے۔ کبھی اُن چیزوں سے بیزار ہوتی ہے تو دہشت گردی میں لگ جاتی ہے۔ لیکن اگر ایسا ہی ہے تو اس کتاب کی دس لاکھ کاپیاں کیسے فروخت ہو گئیں ؟

 اُس نے کتاب کی طباعت و نظافت پر نظر ڈالی تو اُسے نہایت معیاری اور نفیس پایا۔ چند جملوں سے اندازہ ہو گیا کہ ترجمہ نہایت سلیس تھا۔ اس کتاب کا موضوع انسانی نفسیات تھا لیکن جو چیز اُسے منفرد بناتی تھی، وہ اُن نفسیاتی مسائل کا قرآن و حدیث کی روشنی میں تجزیہ اور حل تھا۔ کیا الہامی کتب انسان کی نفسیات کو مخاطب کرتی ہیں ؟ کیا انبیاء اس کام کے لئے بھی آتے ہیں ؟ اِن سوالوں کا جواب کرشنن کے سامنے تھا، جس الہام کا مرکزی موضوع انسان ہو اور جو انبیاء انسانوں کی فلاح و نجات کے لئے مبعوث کئے گئے ہوں۔ وہ انسانی نفسیات سے کیونکر صرف نظر کر سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں  …  ایسا نہیں ہو سکتا! مسئلہ یہ ہے کہ لوگ انبیائے کرام اور اُن کی مقدس تعلیمات سے گریز کر رہے تھے۔

 ’’لاتحزن‘‘ کے مصنف نے جب اس بصیرت کو عام کرنے کی کوشش کی تو لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ شاید مسلمان بھی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ کرشنن سوچنے لگا …  لیکن اُن کا اپنا ذوق اور معیار ہے۔ اگر کتابوں کے لکھنے والے ان دونوں چیزوں کا پاس و لحاظ نہ کریں تو انہیں قارئین سے شکایت کرنے کا حق نہیں ہے۔

            کرشنن جاشنمال سے باہر آیا تو وہ نہ مایوس تھا اور نہ اکیلا تھا۔ اس کے ساتھ ’’لاتحزن‘‘ تھی۔

 

 

ماضی کا دریچہ

            کرشنن گھر واپس لوٹتے ہوئے بھاری قدموں کے ساتھ فٹ پاتھ پر چلتا ہوا سوچ رہا تھا کہ رادھا کیوں نہیں آئی؟

            کیا اُس نے اپنے آنے کا وقت بدل دیا ہے ؟ یا اُس نے کتابیں پڑھنے کا شوق ترک کر دیا ہے  … ؟ یا یہ محض ایک اتفاق ہے  … ؟

            اِسی اُدھیڑ بن میں وہ عرب اوڈوپی ہوٹل میں داخل ہو گیا اور فلٹر کافی کا انتظار کرنے لگا۔ کافی سے پہلے اُس نے اپنے کندھوں پر ہلکا سا دباؤ محسوس کیا۔ اُس کے کانوں سے ایک مدھر آواز ٹکرائی ’’کرشنن‘‘ اور اس سے پہلے کہ وہ پلٹ دیکھتا، ایک بھاری بھرکم ہاتھ اُس کی آنکھوں کے اُوپر تھا۔ اب وہ مڑ کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔

            ’’اچھا تو بتاؤ کرشنن میں کون ہوں ؟‘‘

            کرشنن نہیں جانتا تھا کہ یہ کون ہے ، لیکن اس کے باوجود اُس نے کہا۔ ’’میں جانتا ہوں کہ تم کون ہو۔‘‘ اور سوچنے لگا کہ یہ کون ہو سکتا ہے ؟ یقیناً یہ کوئی نہایت بے تکلّف دوست تھا، لیکن کون تھا؟ اس معمہ کا حل ندارد تھا۔ اس شخص کو پہچاننے سے قاصر رہنا دونوں کی دلآزاری کا سبب بن سکتا تھا۔ کرشنن نے بات آگے چلائی اور پوچھا۔ ’’پہلے یہ بتا ؤ کہ تم اِتنے دِن کہاں رہے ؟‘‘ وہ اُس کی آواز کو پھرسے سننا چاہتا تھا، تاکہ اُسے پہچان سکے۔ اُسے امید تھی کہ مبادا جواب سے کوئی اشارہ مل جائے۔

            ’’میں تو وہیں  …  اُسی کالج میں تھا جسے چھوڑ کر تم یہاں بھاگ آئے۔‘‘

            کرشنن سمجھ گیا۔یہ اس کے سابقہ کالج کا کوئی طالب علم ہے وہ ان طلباء کے بارے میں سوچنے لگا جو اس سے بے تکلّف تھے اور ان میں اتنی صاف زبان اور ایسا شوخ لب و لہجہ صرف ایک ہی شخص کا ہو سکتا تھا ’’شیام سندر‘‘ کرشنن نے کہا۔ ’’میری آنکھ پر شیام کا سندر ہاتھ ہے۔‘‘

            ’’اوہو کرشنن! تم نے غضب کر دیا۔ اتنے سال بعد، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم میرے ہاتھوں سے مجھے پہچان لو گے۔‘‘ یہ کہہ کر شیام سندر سامنے آ گیا اور کرشنن سے بغلگیر ہو گیا۔ شیام سندر اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ کرشنن نے اُسے ہاتھوں کے لمس سے پہچانا ہے۔ جبکہ کرشنن نے اُسے آواز سے پہچانا تھا۔ لیکن کرشنن نے اس غلط فہمی کو دُور کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ بیرہ کافی لے آیا تو کرشنن نے شیام سے پوچھا۔ ’’تم کیا لو گے ؟‘‘

            شیام بولا۔ ’’ہم لوگ تو یہاں دوسا کھانے کے لئے آتے ہیں۔

            کرشنن نے بیرے سے کہا۔ ’’گھی سادہ‘‘۔

            شیام بولا۔ ’’تم نے گھی کا اضافہ اپنی جانب سے کر دیا۔

            کرشنن بولا۔ ’’جنوبی ہندوستان کے لوگوں کو گھی اور مکھن کا استعمال شمالی ہند کے لوگوں نے ہی سکھلایا ہے ، ورنہ ہم سیدھے سادے لوگ تو بس روکھا سوکھا اڈلی دوسا کھا لیتے تھے۔

             شیام بولا۔ ’’ہاں، میں آپ لوگوں کی جلیبی جیسی سادگی سے خوب واقف ہوں ‘‘۔ بیرا دوسا لے آیا تو شیام نے کہا۔ ’’اتنی جلدی؟ آج کیا بات ہے ؟‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’آج جمعہ کا دن گاہکوں کی بھیڑ ہے یہ چاہتے ہیں کہ ہم جلدی جلدی سے کھائیں اور بل چکا کر دفع ہو جائیں تاکہ انہیں دوسرے گاہک کی خدمت کا موقع مل سکے۔‘‘

            ’’خدمت کرنے کا یا روپیہ اینٹھنے کا؟‘‘

            ’ایک ہی بات ہے۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔‘‘

            بیرے نے پوچھا۔ ’’صاحب اور کچھ؟‘‘

            شیام بولا۔ ’’ابھی اِسے تو کھانے دو۔‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’یہ چاہتا ہے کہ تمہارے ختم کرنے تک اگلا آرڈر بھی لے آئے۔‘‘

            ’’ٹھیک ہے ، چائے لے آؤ …  دودھ والی۔‘‘ شیام نے کہا، بیرا چلا گیا۔

            کرشنن نے پوچھا۔ ’’یار …  تم نے دوسا کھانا سیکھ لیا، لیکن کافی پینا نہ سیکھ سکے۔‘‘

             شیام بولا۔ ’’بات یہ ہے کہ پیٹ بھرنے کے لئے آدمی کچھ بھی کھا سکتا ہے لیکن تازگی کے لئے تو اپنی پسند ضروری ہے۔‘‘

            کرشنن نے کہا۔ ’’تم شمالی ہند کے لوگوں کا احساس برتری کبھی ختم نہ ہو گا۔‘‘

            شیام بولا۔ ’’نہیں دوست …  مسئلہ صرف انفرادیت اور اختلافِ ذوق کا ہے۔ ہم اپنے لئے چائے پسند کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ کافی کو کمتر سمجھتے ہیں۔ آپ کافی پئیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘

            ’’چائے اور کافی کی حد تک تو ٹھیک ہے ، لیکن جب معاملہ زبان و تہذیب کا آتا ہے ؟ کیا اُس وقت بھی اِسی کشادہ دلی کا مظاہرہ ہوتا ہے ؟‘‘

            شیام بولا۔ ’’افسوس کہ نہیں ہوتا، لیکن ہونا چاہئے۔‘‘

            چائے آ گئی۔ بیرے نے بل بھی رکھ دیا۔ کرشنن نے اُسے اُٹھا لیا، شیام نے منع کیا۔

            کرشنن بولا۔ ’’تم یہاں میرے مہمان ہو۔‘‘

            شیام نے جواب دیا۔ ’’یہاں تو سبھی مہمان ہیں۔‘‘

            ’’نہیں۔‘‘ کرشنن نے کہا۔ ’’جو پہلے آیا وہ میزبان اور جو بعد میں آئے ، وہ مہمان ہوتا ہے۔‘‘

            ’’اچھا …  میں تو سمجھتا تھا ہم لوگ یہاں بن بلائے مہمان ہیں۔ شاید اِسی لئے یہاں ہمارا کوئی میزبان نہیں۔‘‘

             کرشنن بولا۔ ’’تم صحیح کہتے ہو شیام۔ میزبان اُنہیں کا ہوتا جو بن بلائے مہمان نہیں ہوتے۔ جو از خود نہیں آتے ، جن کو بلایا جاتا ہے۔‘‘

            ’’کرشنن …  تمہارے پیشہ نے ، تمہاری کتابوں نے تمہیں فلسفی بنا دیا ہے۔‘‘

            کرشنن کو اچانک خیال آیا کہ فی الحال اُس کا پیشہ چوکیداری ہے۔ اُسے اپنی مفلسی پر افسوس ہوا۔ ویسے بلا کی مشابہت تھی فلسفی میں اور مفلسی میں  …  بالکل ہم قافیہ الفاظ …  ایسا لگتا تھا دونوں فلس یافلوس سے بنے ہیں۔ ’’مافی فلوس‘‘۔ جس کے پاس فلوس نہ ہوں اس کا مخفف مفلس تھا اور ’’فلوس فی‘‘ یعنی جس کے پاس فلوس ہوں، یعنی پیسے والا فلسفی۔

            کرشنن سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ شیام نے پوچھا۔ ’’یہ بتاؤ کہ یہاں کیا مصروفیت ہے ؟ کہاں کام کرتے ہو؟‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’میں  …  میں دراصل یہاں بیلجیم کے ثقافتی مرکز میں لائبریرین ہوں۔‘‘

            کرشنن نے جھوٹ کہا اور شیام نے پکڑ لیا۔ ’’بیلجیم جیسے چھوٹے سے ملک کا یہاں ثقافتی مرکز بھی  ہے ؟ یہ تو تعجب کی بات ہے۔ بیلجیم کے کتنے لوگ یہاں رہتے ہیں ؟‘‘

            ایک معمولی  سے کذب بیانی نے کرشنن کے لئے مسائل دروازہ کھول دیا تھا۔ اس ایک جھوٹ کو  نبھانے کے لئے اُسے نہ جانے کتنے جھوٹ بولنے تھے۔ ’’یہی کچھ …  زیادہ نہیں  …   ویسے اعداد و شمار کا حساب کتاب دوسرا محکمہ رکھتا ہے  …  میں تو بس کتب خانے میں بند رہتا ہوں۔‘‘

            شیام نے کہا۔ ’’ہاں، یہ بات بھی صحیح ہے۔ لیکن تمہاری لائبریری کہاں واقع ہے ؟‘‘

            ’’وہ …  دراصل پہلے  سفارتخانہ ہی میں تھی، لیکن حفاظتی انتظامات کے پیش نظر اسے سفارت کار کے گھر میں منتقل کر دیا گیا ہے۔‘‘

            ’’سفارت کار کے گھر پر؟‘‘ شیام نے تعجب سے پوچھا۔

            ’’ہاں ! میرا مطلب ہے سفیر کا گھر بہت بڑا ہے  …  بہت بڑی کوٹھی … ‘‘ جھوٹ کی رسی شیطان کی آنت کی طرح طول پکڑ رہی تھی۔ کرشنن تماشہ دکھانے والے مداری کی مانند ہاتھوں میں چھڑی لے کر توازن قائم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بولا۔ ’’اس میں بہت سارے کمرے ہیں۔ اُن میں سے ایک کمرے کو لائبریری بنا دیا گیا ہے اور اُس میں ساری کتابیں سجا دی گئی ہیں۔‘‘

            ’’کس زبان کی کتابیں ؟ بیلجیم میں انگریزی بولی جاتی ہے یا کوئی اور زبان؟‘‘

            کرشنن کے لئے سوالات کا سلسلہ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر شیام اس قدر تفتیش کیوں کر رہا ہے ؟ کہیں اُسے شک تو نہیں ہو گیا؟ وہ بولا۔ ’’ویسے تو انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ انگریزی تو سبھی بولتے ہیں لکھتے اور پڑھتے بھی ہیں۔‘‘

            ’’ہاں تمہاری بات صحیح ہے۔ جیسے ہندوستان میں تمل عوام ہندی کو کمتر سمجھتے ہیں، بنگالی اُس سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘ شیام بولا۔ ’’پھر بھی ہندی کی کتابوں سے اُن کے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔ چاہے کوئی اُن سے استفادہ کرے یا نہ کرے۔‘‘

            کرشنن موضوع بدلنے کی کوشش کرنے لگا۔ اُسے ڈر تھا کہ کہیں شیام اس کی خیالی لائبریری میں آنے کا اصرار نہ کر بیٹھے۔ اس لئے کہ کالج کے زمانے ہی سے وہ کتابوں کا شوقین تھا۔ اس کا بہت سارا وقت کتب خانے میں صرف ہوتا تھا، جبکہ دوسرے طالب علم کھیل کود، ناچ  رنگ اور کینٹین میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ کرشنن نے کہا۔ ’’یار میری چھوڑو اور اپنی سناؤ …  تم یہاں کیسے ہو۔ یہاں کیا کرتے ہو؟‘‘

            ’’میں اچھا ہوں، گزر رہی ہے۔ میں یہاں ریفائنری میں ملازمت کرتا ہوں۔‘‘

            ’’لیکن ہمارے کالج میں تو انجینئرنگ پڑھائی نہیں جاتی تھی! تو تم انجینئر کیسے بن گئے ؟ کہیں سے نقلی ڈگری تو نہیں حاصل کر لی؟‘‘

            ’’کیا بکواس کرتے ہو کرشنن؟‘‘ شیام بولا۔ ’’تم تو نرے کتابوں کے کیڑے ہو۔ تمہیں کیا معلوم کہ ریفائنری کے انتظامیہ میں کئی ایسے کام ہوتے ہیں جنھیں انجینئر نہیں کر سکتے ؟ مثلاً بہی کھاتہ، ملازمین کی فلاح و بہبود، کنٹراکٹ مینجمنٹ یعنی ٹھیکیداری کا معاملہ وغیرہ۔‘‘

            ’’ریفائنری میں ٹھیکیدار کہاں سے آ گئے ؟‘‘

            ’’تم یہ بھی نہیں جانتے  … ؟ یہاں اکثر دفاتر اور صنعتیں ٹھیکیداروں کی مدد سے چلتی ہیں۔ اُن میں کام کرنے والے اکثر و بیشتر افراد ٹھیکیداروں کے ملازم ہوتے ہیں۔‘‘

            ’’عجیب حماقت ہے ؟ ریفائنری ٹھیکیداروں کو روپئے دیتی ہے۔ ٹھیکیدار افسران  و عملہ کو تنخواہ دیتا ہے تو ریفائنری براہِ راست اِس کام کو کیوں نہیں کرتی؟‘‘

            ’’اصل بات یہ ہے کہ ریفائنری کا انتظامیہ اپنے ملازمین کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتا، اِس لئے ایک غیر ذمہ دار ٹھیکیدار کو درمیان میں لایا جاتا ہے۔‘‘

            ’’تب تو اِس میں ریفائنری کا نقصان ہے۔ اُسے تنخواہ کے علاوہ ٹھیکیدار کا منافع بھی دینا پڑتا ہے۔‘‘

            ’’نہیں  …  ایسا نہیں ہے۔ ٹھیکیدار اپنا منافع ریفائنری سے نہیں بلکہ ملازمین سے حاصل کرتا ہے۔‘‘

            ’’یار! یہ تو عجیب و غریب باتیں ہیں !‘‘

            ’’اچھا …  تم ہی بتلاؤ کہ اِس میں عجیب کیا ہے ؟ اُسے جو رقم ملتی ہے ، وہ اُس میں سے اپنا منافع الگ کر لیتا ہے اور باقی ماندہ ملازمین کو تقسیم کر دیتا ہے۔‘‘

            ’’لیکن یار، یہ تو ظلم  ہے  …  کسی کے خون پسینہ کی کمائی پر ڈاکہ ہے۔‘‘

            ’’او ہو …  مجھے یاد آیا۔ تم اسٹاف یونین کے لیڈر تھے او ر مجھے خوشی ہے کہ تمہاری مزدور یونین والی روح اب بھی زندہ ہے۔‘‘ شیام نے قہقہہ لگا کر کہا ’’صحیح بات تو یہ ہے کہ یہاں نہ خون بہتا ہے اور نہ پسینہ آتا ہے  …  اور جہاں تک ڈاکہ کا سوال ہے ، محنت کش کے معاوضے پر تو دُنیا کا کاروبار چل رہا ہے۔ کہیں اُس پر حکومت ڈاکہ ڈالتی ہے تو کہیں یونین لیڈر، کہیں صنعتکار اس کا استحصال کرتا ہے تو کہیں ٹھیکیدار اس کی تاک میں لگا ہوا ہوتا ہے۔‘‘

            ’’خیر! تم اِسبکھیڑے میں کیسے پھنسے ؟‘‘ کرشنن موضوع کو اُسی سمت میں آگے بڑھانا چاہتا تھا۔

            ’’دراصل میں گریجویشن کے بعد ایم۔بی۔اے کی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر چنئی چلا گیا۔ وہاں میری ملاقات سالومن سوامی ناتھن سے ہو گئی جو یہاں سے ایم۔بی۔اے کرنے کی خاطر چنئی آیا تھا۔ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ اُسے وزارت محنت میں ملازمت مل گئی اور وہ دہلی چلا گیا اور مجھے یہاں ابوظبی ریفائنری ’’تکریر‘‘ میں ملازمت مل گئی اور میں یہاں آ گیا۔ یہاں پرسالومن کے والدین رہتے ہیں فی الحال میں انہی کے ساتھ رہتا ہوں۔ وہ مجھ پر سالومن کی شفقت  و محبت نچھاور کرتے ہیں اور میں بھی اُن کا والدین کی طرح احترام کرتا ہوں۔‘‘

            ’’اچھا تو تم نے اپنا گھر نہیں لیا۔‘‘

            ’’ہاں یہی سمجھ لو۔ اس لئے کہ ابھی  میری شادی تو ہوئی نہیں، والدین دہلی سے آنا نہیں چاہتے۔ ایسے میں تنہا رہنے سے  بہتر ہے ان لوگوں کے ساتھ رہتا ہوں، تنہائی کے بجائے ایک خاندان کا سا ماحول ہے۔‘‘

            کرشنن نے تائید کی۔ اُسے بے ساختہ  غضنفر و رضوان اور چمیلی و سوژان کا خیال آ گیا۔ پتہ نہیں کیوں وہ البرٹ کو اپنے خاندان میں شامل نہ سمجھتا تھا۔ حالانکہ وہ بھی اُن سب سے نہایت احسان مندی سے پیش آتا تھا۔شاید اپنائیت و یگانگت، ہمدردی سے زیادہ محبت و اُنسیت کی طالب ہوتی ہے۔ کرشنن نے پوچھا’’ لیکن تمہارا، میرا مطلب ہے سوامی ناتھن خاندان کا گھر کہاں ہے ؟‘‘

            ’’ٹی ٹی نگرم۔‘‘

            ’’کیا؟ تمل ناڈو ٹینٹس یعنی ٹی ٹی نگرم …  تم بڑھیا مذاق کرتے ہو شیام۔ ٹی۔ٹی۔نگر تو چنئی میں ہے۔ یہاں کہاں ؟‘‘

            ’’یہ تمہاری غلط فہمی ہے کرشنن کہ ٹی۔ٹی۔نگر صرف چنئی میں ہے۔ اِسی سڑک پر آگے ٹی۔ٹی۔ٹاورس ہیں۔‘‘ شیام نے دُور دو فلک بوس عمارتوں کی جانب اشارہ کیا۔ ’’وہ دو بیگنی رنگ کے ٹاورس دراصل ٹی۔ٹی۔ ٹاورس کہلاتے ہیں۔ ہر ٹاور میں تیس منزلیں ہیں۔ ہر منزل پر ۶؍فلیٹ ہیں، تو کل کتنے مکان ہوئے ؟‘‘

            کرشنن صاحب حساب کرنے لگے  …  ’’تیس ضرب چھ یعنی ایک سو اَسّی۔‘‘

            شیام نے کہا۔ ’’ایک سو اسّی نہیں بلکہ ۳۶۰۔ اس لئے کہ دو ٹاورس اور ہر فلیٹ میں پانچ سے دس افراد تو کل کتنے ہوئے ؟‘‘

            ’’تقریباً ساڑھے تین ہزار۔‘‘

            ’’اور اُن تمام لوگوں میں صرف  ایک ایسا ہے جو تمل نژاد نہیں ہے۔‘‘

            کرشنن بولا۔ ’’میں جانتا ہوں وہ  کون ہے ؟ وہی جو دوسا تو کھانے لگا ہے ، لیکن اب بھی کافی نہیں پیتا۔‘‘

            دونوں دوست ہنستے بو لتے ٹی۔ٹی۔ٹاورس تک پہنچ گئے تھے۔

 

 

تجدیدِ شوق

            ٹی۔ ٹی۔ٹاورس کے ماحول کو دیکھ کر کرشنن حیران رہ گیا۔ دونوں ٹاورس کے نیچے تمام دُکانیں اور ہوٹلس سب کے سب تمل تھے۔ پرچون کی دُکانوں سے مصالحہ کی بو، ہوٹلوں سے سانبھر کی خوشبو، کپڑے کی دُکانوں پر کانچی ورم ساڑیاں، اُن کے خریدار اور دُکاندار …  ہر کوئی تمل! ہم تہذیب اور ہم زبان!! کرشنن کو ایسا لگا گویا وہ تمل ناڈو میں آ گیا ہے۔

            شیام نے کہا۔ ’’چلو میں تمہیں سوامی ناتھن خاندان سے ملاؤں۔ وہ سبھی تمہاری طرح پڑھنے لکھنے والے لوگ ہیں اور سالومن کی بہن تو بس کتابوں کی دیوانی ہے۔‘‘

            اچانک کرشنن کو رادھا کا خیال آیا۔ رادھا نے کتاب پر اپنا خاندانی نام تو لکھا نہ تھا، لیکن اُس کا دِل کہہ رہا تھا کہ اُسے رادھا سوامی ناتھن ہونا چاہئے۔

            تیرہویں منزل پر لفٹ رُکی اور شیام نے ۱۳۰۳؍ نمبر کے فلیٹ کا دروازہ کنجی لگا کر کھولا۔ سامنے گوپال سوامی ناتھن کھڑے تھے۔ شیام نے اُنہیں پرنام کیا اور کرشنن کا تعارف کرایا۔ ’’یہ ہیں انکل سوامی ناتھن …  اور یہ ہیں میرے دوست کرشنن۔ ‘‘

            ’’آؤ کرشنن آؤ!‘‘ سوامی بولا۔ اس طرح یہ تینوں دیوان خانے میں بیٹھ گئے۔ گوپال نہایت باغ و بہار شخصیت کا حامل تھا۔ چند منٹوں میں وہ کرشنن سے بے تکلّف ہو گیا اور اُس کا سارا شجرۂ نصب حاصل کر لیا۔کرشنن نے بھی اس کے بارے بہت ساری معلومات حاصل کر لی تھی۔گوپال نے کہا اُسے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کرشنن پڑھنے لکھنے کا شوقین ہے اور بیلجیم کے ثقافتی مرکز میں لائبریرین کی حیثیت سے ملازم ہے۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط تھیں۔ نہ تو بیلجیم کا کوئی ثقافتی مرکز تھا اور نہ اس کا کوئی کتب خانہ …  اور کرشنن نہ تو لائبریرین تھا اور نہ اسے پڑھنے لکھنے کا کوئی خاص شوق  باقی رہ گیا تھا۔ یہ پورا کا پورا ایک ہوائی قلعہ تھا جو غیر اِرادی طور پر تعمیر ہو گیا تھا۔ لیکن اس نے کرشنن کے دل میں ایک احساس خوف پیدا کر دیا تھا۔ اُسے ڈر تھا کہ نہ جانے کب ایک معمولی سی سوئی اس غبارے میں سوراخ کر دے اور وہ تیرہویں منزل سے سیدھے زمین پر آ جائے  …  …   بلکہ ڈھائی گز نیچے دفن ہو جائے۔

کرشنن نے گفتگو کا رُخ اپنے بجائے اُن کی جانب موڈ دیا اور بولا۔ ’’جناب! مجھے بڑی خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آج کے مادہ پرستانہ دَور میں بھی آپ جیسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو غیروں کے ساتھ بھی اِس قدر اپنائیت سے پیش آتے ہیں۔‘‘

            گوپال بولا۔ ’’کہیں تمہیں شیام نے یہ تو نہیں کہا کہ میں اس سے کرایہ نہیں لیتا! اگر ایسا کیا ہے تو یہ غلط ہے۔ یہ میرا کرایہ دار ہے۔ کرایہ دار پہلے اور بیٹے کا دوست بعد میں  …  میرا مطلب ہے یہ اگر کرایہ دینا بند کر دے تب بھی میرے بیٹے کا دوست رہے گا۔ لیکن میرے نہیں بلکہ کسی اور کے مکان میں رہے گا۔‘‘ گوپال نے قہقہہ لگایا۔

            شیام بولا۔ ’’انکل اِس عمر میں بھی خوب مذاق کرتے ہیں۔ ‘‘

            گوپال نے اسے پکڑ لیا۔ ’’کیا مطلب؟ ہنسی مذاق کے لئے عمر کی کوئی قید ہے ؟ یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ بڑھاپے میں انسان کو مذاق نہیں کرنا چاہئے ؟‘‘

            ’’نہیں انکل! بڑھاپے میں انسان کو خوب ہنسی مذاق کرنا چاہیے ، اس لئے کہ کوئی اور کام تو وہ کر نہیں سکتا! لیکن آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ آپ بوڑھے ہو چکے ہیں ؟‘‘

            گوپال بولا۔ ’’یہ تو سنجیدہ نوعیت کا سوال ہے ، اس لئے کہ اگر میں اس کا صحیح جواب دے دوں تو کوئی اور ناراض ہو جائے گا۔‘‘

            ’’اچھا …  تو غلط جواب دے دو۔‘‘ پیچھے سے کسی خاتون کی آواز آئی۔ ’’میرا نام بتا دو۔‘‘

            گوپال بولا۔ ’’دیکھا تم نے  …  یہ تو جواب دینے سے قبل ہی ناراض ہو گئیں۔‘‘

            ’’لیکن جواب غلط نہیں صحیح ہے۔‘‘ کیتھرین نے کہا۔ ’’میں آپ کی طرح غلط  سلط کام نہیں کرتی!! کیا سمجھے ؟‘‘

            ’’ حضور بجا فرمایا …  غلط سلط کام تو ہم کرتے ہیں اور اس کا سب سے بڑا  ثبوت یہ ہے کہ آپ سے شادی کر لی۔ لیکن آپ کا اگر اس غلط کام میں اشتراک نہ ہوتا تو ہماری کیا مجال تھی کہ ہم کامیاب ہو جاتے۔‘‘ چاروں لوگ ہنسنے لگے۔ گوپال واقعی باغ و بہار شخصیت کا حامل تھا۔

             کرشنن نے کہا۔ ’ ’اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں ایک نجی زندگی کا سوال کروں !‘‘

            ’’بالکل نہیں  …  ایسی کیا بات ہے ، پوچھو؟‘‘ گوپال بولا۔

            ’’یہ گوپال، رادھا، کیتھرین اور سالومن …  کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘

            ’’اوہو …  اِس سوال کے جواب میں تو مجھے اپنی آپ بیتی سنانی پڑے گی اور اس سے پھر تمہاری آنٹی ناراض ہو جائیں گی۔ لیکن کہیں تم نے یہ تو نہیں سوچا کہ رادھا میری پہلی بیوی سے اور سالومن اِن کے پہلے شوہر سے ہے ؟‘‘

            کیتھرین نے کہا۔ ’’گوپال …  تم بوڑھے ہو گئے لیکن تمہارا گھٹیا پن نہیں گیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے اُٹھ کر چلی گئی۔

            ’’دیکھو …  میں نے کہا تھا نا کہ یہ ناراض ہو جائے گی۔ یہ تو پہلے ہی ناراض ہو گئی۔ ویسے اب اس کی ناراضگی سے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ میں اِس کا عادی ہو چکا ہوں، بلکہ اگر یہ کسی دن ناراض نہ ہو تو مجھے تشویش ہو جاتی ہے۔‘‘

            ’’کیا مطلب؟‘‘

            ’’مطلب کہیں بیمار ویمار تو نہیں ہے۔‘‘ پھر سب ہنسنے لگے۔

            گوپال بولا۔ ’’یہ اُس دَور کی بات ہے جب میں جوان تھا۔ ساری دُنیا کی نظروں میں بشمول تمہاری آنٹی کے  …  …   اور وہ بھی!‘‘

            کیتھرین پھر کمرے میں داخل ہوئی  …  …   ’’کیا مطلب؟‘‘

            ’’کچھ نہیں   …  …   یہ ہماری آپس کی باتیں ہیں۔‘‘

            ’’ٹھیک ہے ، لیکن اُس میں میرا ذکر نہیں ہونا چاہئے۔‘‘

            ’’میں اسے اپنی آپ بیتی سنا رہا ہوں۔ اب یہ تمہارے بغیر کیسے مکمل ہو سکتی ہے ؟ یہ تو شروع بھی تم ہی سے ہوتی ہے۔‘‘

            ’’اور  …  …  ‘‘ کیتھرین نے جملہ کاٹ دیا۔ ’’گوپال! تم جو مرضی ہو بولو، لیکن وہ نہ بولنا جو تم ابھی بولنے جا رہے تھے۔ میں اِس بات کے علاوہ کسی بات سے ناراض نہیں ہوؤں گی۔‘‘

            کرشنن کو اندازہ ہو گیا کہ یہ دونوں اپنی عمر کے اُس حصے میں بھی ایک دُوسرے سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ گوپال نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

            ’’دراصل میں اور کیتھرین دونوں چینائی کے کرسچین کالج میں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے۔ جس وقت ہم نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا، میرے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اپنے والدین کو سمجھانے منانے کا تھا۔ اُس زمانے میں شادیاں ماں باپ کی مرضی سے ہوتی تھیں اُن کی مرضی کے خلاف کوئی شادی بیاہ نہ ہوتا تھا۔ چونکہ کیتھرین کو میرے ، بلکہ اُن کے گھر میں آنا تھا، اِس لیے میرے اپنے والدین کی رضامندی بے حد ضروری تھی۔ میرا تعلق براہمن خاندان سے تھا۔ ہمارے گھر میں مذہب کوبڑی اہمیت حاصل تھی۔ ہم لوگ گوشت مچھلی تو کجا، انڈہ تک نہ کھاتے تھے اور عیسائی تو دُور، ہندو اچھو توں سے بھی فاصلہ رکھ کر بات کرتے تھے۔

 میرے ماتا پتا نے جب میری تجویز سنی تو انہیں بہت غصہ آیا۔ اُن لوگوں نے مجھے گھرسے نکل جانے کی دھمکی دی۔ میں اس پر تیار ہو گیا اور کہا کہ اگر آپ لوگ مجھے نکال  دیتے ہیں تو آپ کا یہ حکم  سر آنکھوں پر …  لیکن یاد رہے کہ یہ میرا نہیں آپ کا فیصلہ ہے۔ اس کے بعد اُن لوگوں نے سمجھ لیا کہ اصرار کے معنیٰ اپنے اکلوتے بیٹے کو گنوانا ہے۔ اب وہ شرائط اور مصالحت پر اُتر آئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ ہمارے گھر میں آتی ہے تو آئے ، لیکن اسے ہمارے ریت و رواج اپنانے ہوں گے۔ گوشت، مچھلی، شراب کباب سب بند  …  …   ساتھ ہی مذہب تبدیل کر کے ہندو مذہب اختیار کرنا ہو گا۔

            میں کیتھرین کو جانتا تھا۔ وہ میری خاطر گوشت مچھلی تو چھوڑ سکتی تھی لیکن مذہب نہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ گوشت مچھلی تو ہندو بھی کھاتے ہیں، اِس لئے ان کا اِس پر اصرار کیوں ہے ؟ اور پھر وہ عیسائیت کو مانے یا ہندو مت کو، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ؟ ویسے بھی ہم سیکڑوں خداؤں کو مانتے ہی ہیں، اُن میں  ایک اور کے اضافے سے کیا ہو جائے گا؟

            پتا جی بولے ، تمہاری دوسری دلیل تو بجا ہے لیکن گوشت خوری کی اجازت ہم ہرگز نہیں دے سکتے۔

            میں نے پوچھا تو گویا مذہب اور گوشت میں مذہب کی اہمیت کم ہے ؟

            وہ بولے ، ہاں  …  اس لیے کہ مذہب تو اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے لیکن کھانا تو سب کے لیے اکٹھا بنتا ہے۔

            اب دوسرا مرحلہ کیتھرین کو سمجھانے کا تھا۔ وہ سبزی خوری  پر بغیر کسی چوں چرا کے راضی ہو گئی۔ اس لیے کہ اُسے کھانے پینے میں دلچسپی کم تھی۔ لیکن کیتھرین کے ممی ڈیڈی کا اصرار تھا کہ شادی سے پہلے مجھے عیسائی مذہب اختیار کرنا پڑے گا۔ کیتھرین نے انہیں سمجھایا کہ اگر وہ لوگ مجھے اپنے مذہب کے ساتھ اپنا نے کے لئے تیار ہو گئے  ہیں تو آپ لوگ اصرار کیوں کرتے ہیں ؟ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ گوپال زیادہ دنوں تک بتوں کی پرستش نہیں کر سکتا اس لئے کہ وہ سمجھدار اور اچھے دل کا آدمی ہے۔

 کیتھرین کے والدین بالآخر تیار ہو گئے اب کچھ عملی مسائل تھے ، مثلاً شادی کیسے ہو اور کہاں کی جائے ؟ دوسرے بچوں کا دین کیا ہو؟ ان دونوں مسائل کا بھی حل نکال لیا گیا۔ طے کیا گیا کہ شادی چرچ اور مندر، دونوں جگہ ہو۔ اور اگر دونوں فریق اپنے اپنے ادیان پر قائم رہیں تو بیٹی ہندو ہو اور بیٹاعیسا ئی ہو۔ اس طرح سب سے پہلے رادھا پیدا ہوئی۔ اس وقت تک ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی، اِس لیے اس کا نام ہندو طرز پر رکھا گیا۔ دوسرا لڑکا تھا جس کا نام سالومن رکھا گیا۔ پھر اس کے بعد جیکب پیدا ہوا، تب تک میں لندن جا چکا تھا اور وہاں میں نے دینِ  عیسائیت کو قبول کر لیا تھا۔ اس کے بعد جولیا اور نینسی پیدا ہوئیں۔ اس وقت تک مذہبی اختلاف ختم ہو چکا تھا۔ لیکن میں نے اور رادھا نے اپنے نام نہیں بدلے ، اس لئے ہمارے نام گوپال سوامی ناتھن اور رادھا سوامی ناتھن ہی رہے۔

            کرشنن نے کہا۔ ’’انکل آپ کی آپ بیتی بڑی دلچسپ ہے۔ آپ اس پر کتاب کیوں نہیں لکھتے ؟

            گوپال بولا۔ ’’درحقیقت میں بولنے اور سننے والا آدمی ہوں۔ لکھنا پڑھنا میرے بس کی بات نہیں۔ ہوسکتا ہے میری بیٹی رادھا کچھ لکھے۔‘‘

             کرشنن کے دل میں رادھا سے ملنے کا اشتیاق  بڑھ رہا تھا، لیکن وہ اپنے آپ پر ضبط کئے ہوئے تھا۔نہ جانے کیوں اُسے یقین ہو چلا  تھا کہ وہ آئے گی اور وہ وہی ہو گی، اس لئے وہ بات کو آگے بڑھائے جا رہا تھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’خیر، اب آپ اپنے بچوں کے بارے میں بھی کچھ اور تفصیل بتلائیے ؟

            ’’بچوں کا کیا ہے کہ میرا بیٹا سالومن فی الحال دہلی میں سرکاری ملازم ہے اور وزارتِ تعلیم میں اونچے عہدے پر فائز ہے۔ اس کی شادی ہو چکی ہے ،وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ دہلی میں رہتا ہے۔ جیکب تعلیم حاصل کرنے کے لئے امریکہ گیا تھا، لیکن فی الحال وہ کینیڈا میں ملازمت کر رہا ہے اور اس نے وہیں کسی انگریز لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ چھوٹی بیٹی جولیا کی شادی گزشتہ سال بحرین میں رہنے والے میرے ایک افریقی دوست کے بیٹے سے ہوئی، وہ وہاں رہتی ہے۔نینسی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آسٹریلیا گئی تھی، لیکن اب یونیورسٹی میں لیکچرار ہو گئی ہے اور وہاں کسی چینی کے ساتھ اپنا گھر بسا لیا ہے۔ دونوں بیٹوں اور بیٹیوں کے چلے جانے کے بعد ہمارا گھر بالکل خالی سا ہو گیا تھا، اُسے تمہارے دوست شیام سندر نے پھر آباد کر دیا ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ یہ یہیں شادی کر لے اور اپنی بیوی کو بھی اس گھر میں بہو بنا کر لے آئے۔ ہم اپنے سگے پوتوں، نواسوں کو نہ سہی تو اسی کے بچوں کو کھلائیں اور ان میں اپنا بچپن تلاش کریں۔‘‘

            گوپال کی باتوں  میں پہلی مرتبہ حزن و یاس کے آثار نمودار ہوئے تھے۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھال کر پھر ظریفانہ انداز میں بات آگے بڑھائی اور بولا۔ ’’لیکن اس کے حریص ماں باپ جہیز کے لالچ میں اس کی شادی ہی نہیں طے کرتے۔ ‘‘

            ’’نہیں انکل،ایسی بات نہیں ہے۔ بات کچھ اور ہے۔‘‘ شیام نے مداخلت کی۔

              ’’ٹھیک ہے ، بات جو بھی ہو۔ ویسے میری بیٹی کتابوں کی بڑی شوقین ہے۔ اُسے پتہ چلے گا کہ تم بیلجیم کے کتب خانے میں لائبریرین ہو تو ہوسکتا ہے وہ تمہارے  دفتر پہنچ جائے۔‘‘

             یہ  جملہ سنتے ہی کرشنن کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی، وہ بولا۔ ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کو جن کتابوں کی ضرورت پڑے گی میں خود ہی یہاں پہنچا دوں گا۔‘‘ کرشنن نے موضوع بدلنے کی خاطر ایک اَٹ پٹا ساسوال کر دیا، وہ بولا۔ ’’اگر آپ دونوں بُرا نہ مانیں تو میں ایک سوال کروں ؟ ویسے یہ ایک مفروضہ ہی ہے۔‘‘

            ’’پوچھو۔‘‘ گوپال نے کہا۔

            ’’اگر میرا  دوست شیام آپ کی بیٹی رادھا سے شادی کرنا چاہے تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہو گا؟‘‘

             شیام گوپال سے پہلے بول پڑا۔ ’’یار کرشنن …  مجھے بے گھر کرنے کا ارادہ ہے کیا؟ ویسے بھی آجکل ابوظبی میں گھروں کا کرایہ آسمان چھو رہا ہے اور اس پر بھی اچھے مکان نہیں ملتے۔‘‘

            ’’سوال گوپال انکل سے ہے ، اُن ہی کو جواب دینے دو۔‘‘ کرشنن نے کہا۔

            ’’میں جواب دیتا ہوں۔‘‘ گوپال بولا۔ ’’دراصل یہ اس لئے گھبرا گیا ہے کہ اس کے والدین اسے جنوبی ہند کی لڑکی سے شادی کی اجازت دے ہی نہیں سکتے اور یہ ان کی مرضی کے خلاف شادی کرنے کی جرأت کر ہی نہیں سکتا۔ ‘‘

            کرشنن نے کہا۔ ’’آپ دونوں چچا بھتیجے بہت چالاک ہیں۔ میں نے جو سوال آپ سے کیا، اس کا  جواب بھتیجے نے دیا اور بات گھما دی۔ جو سوال اس سے کیا، اس کا جواب آپ نے دیا اور سوال کو گول کر گئے۔ میرا سوال آپ سے یہ تھا کہ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا؟‘‘

            ’’صحیح سوال غلط آدمی سے کیا جائے یا غلط سوال صحیح آدمی سے کیا جائے ، دونوں صورتوں میں سائل کو مایوس ہونا پڑتا ہے۔‘‘ یہ رادھا کی آواز تھی۔ کرشنن نے دروازے کی طرف دیکھا، وہ وہاں کھڑی مسکرارہی تھی۔

            ’’اوہو  …  …   آپ کب آئیں، مجھے تو پتہ ہی نہ چلا۔‘‘ گوپال بولا۔

            ’’میں بڑی دیر سے آپ لوگوں کی دلچسپ باتیں سن رہی تھی۔ لیکن آپ لوگ اپنی گفتگو میں اس قدر مگن تھے کہ کسی کے آنے جانے کو محسوس ہی نہیں کر پائے۔‘‘

            گوپال نے کہا۔ ’’آؤ بیٹی بیٹھو۔ یہ شیام کے دوست   …  …  ‘‘

             رادھا نے جملہ کاٹ دیا۔ ’’کرشنن ہیں۔‘‘

            ’’جی ہاں۔ یہ بیلجیم کے کتب خانہ میں   …  …  ‘‘

             رادھا نے پھر جملہ کاٹ دیا۔ ’’لائبریرین ہیں۔‘‘

            ’’اور یہ میری بیٹی   …  …  ‘‘

            اِس بار کرشنن نے رادھا کی تقلید کی اور بیچ میں بول پڑا۔ ’’رادھا ہے۔ ‘‘

            ’’جی ہاں  …  جی ہاں   …  …   اور یہ کتابوں کی  …  …  ‘‘

             کرشنن نے پھر کہا۔ ’’بے حد شوقین ہے۔‘‘

            شیام بولا۔ ’’ایسا لگتا ہے آپ دونوں ایک دُوسرے کو پہلے سے جانتے ہیں۔‘‘

            گوپال نے کہا۔ ’’ … اور  اگر  نہیں بھی تو اب جان گئے ہیں۔‘‘

            ’’جی ہاں،ہم لوگ ایک دُوسرے کو جان گئے ہیں۔‘‘ رادھا بولی۔

            ’’پہچان گئے ہیں۔‘‘ کرشنن نے بات پوری کی۔

            ’’اچھا ٹھیک ہے۔ رادھا، تم ایسا کرو، اپنی کتابوں کا ذخیرہ  انہیں بتلاؤ، تب تک ہم لوگ ہندوستان اور سری لنکا میچ دیکھتے ہیں۔ تمہیں تو کرکٹ میں دلچسپی ہے نہیں ؟ مجھے یقین ہے کہ کرشنن کو بھی نہیں ہو گی، اس لئے کہ تمہاری دلچسپیاں یکساں لگتی ہیں۔‘‘

             کرشنن نے کہا۔ ’’جی ہاں، آپ نے بجا فرمایا۔ مجھے کرکٹ سے زیادہ دلچسپی کتابوں میں ہے۔‘‘

             گوپال نے ٹی۔وی کا ریموٹ دبایا۔ شیام کی نظریں ٹیلی ویژن پر جم گئیں۔ کرشنن رادھا کے ساتھ کتابوں کے کمرے میں آ گیا۔ یہ کمرہ کیا تھا، ایک اچھا خاصہ کتب خانہ تھا۔ تینوں دیواروں پر چھت تک الماریاں تھیں اور سب کی سب کتابوں سے اٹی پڑی تھیں۔ کرشنن حیران رہ گیا، اُس نے پوچھا۔ ’’یہ تو لائبریری ہے۔‘‘

            رادھا نے کہا۔ ’’جی ہاں، کسی زمانے میں یہ مہمان خانہ تھا۔ لیکن اب یہ کتب خانہ ہے۔ آجکل مہمان نہیں آتے کتابیں آتی ہیں۔ ‘‘

            ’’ … اور واپس نہیں جاتیں۔‘‘ کرشنن نے جملہ پورا کیا اور پوچھا۔ ’’یہ کتابیں آپ نے کسی ترتیب سے رکھی ہیں ؟‘‘

             رادھا بولی۔ ’’یہ اپنی آمد کی ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں۔ سب سبے پہلے جو کتاب آئی وہ سامنے سب سے نیچے اور سب سے آخر میں جو آئی وہ ادھر پیچھے  …  …   سب سے اوپر۔‘‘

            ’’ اوہو … یہ تو کوئی ترتیب نہ ہوئی۔ اگر کسی کو کوئی کتاب تلاش کرنی ہو تو وہ کیا کرے ؟کیا ان کتابوں کی کوئی فہرست ہے ؟‘‘ کرشنن کے اندر کا لائبریرین جاگ اُٹھا تھا۔

            ’’اِن کتابوں کی کوئی فہرست نہیں ہے۔‘‘ رادھا بولی۔ ’’اس لئے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے بھی کہ میں ایک کتاب کو ایک بار پڑھ لیتی ہوں تو پھر دوبارہ نہیں پڑھتی اور پھر آپ یہ نہ بھولیں کہ یہ کوئی عوامی لائبریری نہیں ہے ، جہاں لوگ کتابیں تلاش کرتے ہیں۔ یہ تو ایک ذاتی کتب خانہ ہے۔‘‘

            کرشنن کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اس نے بات بدلنے کے لئے پوچھا۔ ’’اچھا آپ اگر ایک کتاب کو صرف ایک ہی بار پڑھتی ہیں تو پھر اُسے سنبھال کر رکھنے کی کیا وجہ ہے ؟‘‘

            رادھا کے پاس اِس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، وہ بولی۔ ’’کرشنن صاحب …  آپ کو جاسوس یا صحافی ہونا چاہیے۔ آپ سوالات بہت کرتے ہیں اور وہ بھی نہایت ذاتی قسم کے۔ پہلے تو آپ نے میرے والد صاحب کا لمبا چوڑا انٹرویو لے لیا اور اب مجھ پر سوالات کی بوچھار کر دی۔ میری مرضی …  میری کتابیں ہیں، میں ایک بار پڑھوں یا بار بار پڑھوں ! میں انہیں سنبھال کر رکھوں، پھینک دوں یا لوگوں میں تقسیم کر دوں ! آپ اس معاملے میں دخل اندازی کرنے والے کون ہوتے ہیں ؟‘‘

            کرشنن نے کہا۔ ’’گستاخی معاف۔ یقیناً میں کون ہوتا ہوں دخل اندازی کرنے والا؟ لیکن میں نے ایسی جرأت بھی کب کی ؟ میں تو صرف جاننا چاہتا تھا۔ میں نے کوئی اعتراض تو کیا نہیں۔کیا  وجہ دریافت کرنا کوئی جرم ہے ؟ویسے اگر اس پربھی آپ کو اعتراض ہو تو معافی چاہتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ پیچھے مڑا اور آخری الماری کی آخری قطار کو دیکھنے لگا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ رادھا نے سب سے آخر میں کون سی کتاب پڑھی۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ سب سے آخر میں وہ کتابیں رکھی تھیں جو اس نے رادھا کو تحفہ میں دی تھیں۔ سب سے نیچے تاریخ، پھر نفسیات اور سب سے اوپر شاعری کی کتاب۔ کرشنن کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا۔ ’’یہ کیا؟ یہ تو کئی ماہ قبل؟ ‘‘

            ’’ جی ہاں  …  اس پورے ذخیرے میں صرف ایک کتاب شاعری کی ہے ، اور اس کتا ب کے بعد میں نے کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ اس کتاب کو ایک اور حیثیت سے دوسرو ں پر فوقیت حاصل ہے۔‘‘

            ’’وہ کیا؟‘‘

            ’’اسے میں نے ایک بار نہیں  …  بار بار …  کئی بار پڑھا ہے اور پھر اس کے بعد کچھ اور نہیں پڑھا۔‘‘

            کرشنن جذباتی ہو گیا۔ دونوں کچھ دیر خاموش کھڑے رہے ، پھر وہ بولا۔ ’’وہ تو اچھا ہوا یہ کتاب بہت دیر بعد آپ کے ہاتھ آئی ورنہ یہ عظیم ذخیرہ کیوں کر جمع ہوتا؟‘‘

            ’’جی ہاں کرشنن! تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہر کام اپنے وقت پر اپنے آپ ہو جاتا ہے اور جو کچھ بھی ہوتا ہے ٹھیک ہی ہوتا ہے۔ اگر یہ کتاب شروع ہی میں ہاتھ آ جاتی تو شاید سمجھ میں بھی نہ آتی۔ ان دوسری کتابوں نے اسے سمجھنے میں مدد کی ہے۔ ‘‘

            کرشنن نے کہا۔ ’’آپ کی بات صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔ ان کتابوں نے یقیناً اس کتاب کو سمجھنے میں مدد کی ہو گی۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر یہ کتاب شروع میں ہاتھ آ جاتی تو کچھ سمجھ میں نہ آتا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اس وقت جو معنی اور مفہوم سمجھ میں آتے ، وہ اس سے مختلف ہوتے جو اَب سمجھ میں آ رہے ہیں۔‘‘

            رادھا نے تائید کی، وہ بولی۔ ’’زندگی کا مفہوم بھی وقت، مطالعہ،غور  و فکر اور تجربات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ ‘‘

            ’’اسی تغیر کا نام زندگی ہے رادھا۔ جب یہ عمل رُک جاتا ہے تو اس کے بعد انسان طبعی طور پر ضرور زندہ رہتا ہے ، لیکن اس کی حقیقی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد انسان زندہ بھی ہوتا ہے اور نہیں بھی ہوتا۔‘‘

             کرکٹ میچ ختم ہو چکا تھا۔ معاملہ برابری پر چھوٹ گیا تھا۔ نہ ہندوستان شکست سے  دوچار ہوا اور نہ سری لنکا فتح سے ہمکنار ہوا۔ لیکن کھیل ختم ہو گیا۔ اس لئے کہ وقت ختم ہو گیا  …  …   وقت جو زندگی کا دُوسرا نام ہے

             گوپال کہہ رہا تھا کہ یہ کرکٹ ہی ایک ایسا کھیل ہے جس میں میچ جیت ہار کے بغیر برابری پر چھوٹ جاتا ہے۔

            کرشنن بولا۔ ’’نہیں، زندگی بھی اسی طرح کا کھیل ہے ، جہاں کھیل پورا نہیں ہوتا اور وقت ختم ہو جاتا ہے۔ ‘‘

            شیام بولا۔ ’’وہ تو ایک مقابلہ تھا۔ ابھی اس سیریز میں اور مقابلے ہونے ہیں۔‘‘

            رادھا بولی۔ ’’ٹھیک ہے ، آپ لوگ اگلے میچ کا انتظار کریں۔ میں کھانا لے کر آتی ہوں۔‘‘

            گوپال نے کہا۔ ’’مر گئے  …  اگلا میچ تو اگلے ہفتے ہو گا۔ کیا ہمیں کھانے کے لئے ایک ہفتے کا انتظار کرنا پڑے گا؟‘‘

            ’’ایک ہفتہ نہیں، چند لمحے  …  آپ لوگ ’ایکشن ری پلے ‘ دیکھیں۔ اس کے ختم ہونے سے قبل کھانا لگ چکا ہو گا۔‘‘ کیتھرین کھانے کی میز پر پلیٹ سجاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

            گوپال بولا۔ ’’برابری یا ہارنے والے میچ کا ایکشن ری پلے نہیں دیکھا جاتا۔ انسان صرف اپنی فتح کو بار بار دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘

            شیام نے تائید کی۔ ’’جیتسے آنکھیں ٹھنڈی کرنا چاہتا ہے  …  …  ‘‘

            ’’اور اپنی شکست کو یکسربھلادینا چاہتا ہے۔‘‘ گوپال نے جملہ پورا کیا۔

             رادھا نے کہا۔ ’’اب یہ فتح و شکست کا چکر چھوڑیں اور میز پر آ کر کھانا کھائیں۔‘‘ تین لوگ کھانا کھا رہے تھے اور باقی دو لوگ کھلا رہے تھے۔

            رادھا نے اپنی امی سے کہا۔ ’’آپ بھی بیٹھ جائیں۔‘‘

            کیتھرین بولی۔ ’’نہیں  …  تو بیٹھ جا۔‘‘

            گوپال بولا۔ ’’ایسا کرو آپ لوگ ہمارے بعد ایک ساتھ بیٹھ کر کھا لینا۔‘‘

            کیتھرین چڑھ کر بولی۔ ’’ازلی خودغرض!‘‘

            کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کرشنن جب چلنے لگا تو گوپال نے پوچھا۔ ’’کرشنن …  تم تو پیشہ ور لائبریرین ہو۔ تم بتاؤ کہ رادھا کی لائبریری کے بارے میں تمہارے کیا تاثرات ہیں ؟‘‘ رادھا ہمہ تن گوش ہو گئی۔

            کرشنن نے کچھ دیر سوچا اور پھر گویا ہوا۔ ’’انکل! رادھا کے پاس نہایت بیش قیمت کتابوں کا عظیم ذخیرہ ہے۔ جو اُن کے اعلیٰ و ارفع ذوق کی  ترجمانی کرتا ہے۔ لیکن  …  …  ‘‘ یہ کہہ کروہ رک گیا۔

            ’’لیکن کیا؟ بولو؟‘‘ گوپال نے اصرار کیا۔

            ’’لیکن وہ ترتیب و تدوین کا  محتاج ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس عظیم سرمائے کی تنظیم و ترتیب کا قصد کیا جائے۔‘‘

            ’’لیکن اس سے کیا حاصل؟‘‘ رادھا کا سوال تھا۔

            ’’اس سرمایۂ حیات سے استفادہ کے لئے حسن ترتیب  لازمی ہے۔‘‘

            ’’تم صحیح کہتے ہو کرشنن اور اس کام کو تم سے زیادہ اچھی طرح اور کون کر سکتا ہے ؟‘‘ گوپال نے کہا۔

            ’’جی نہیں  …  ایسی بات نہیں۔ میں کوئی ایسا ماہر بھی نہیں، پھر بھی کوشش کر سکتا ہوں بشرطیکہ  …  …  ‘‘

            ’’بشرطیکہ  …  …   ؟‘‘ گوپال نے پوچھا۔

            ’’ بشرطیکہ رادھا اِس کی اجازت دے۔‘‘

            ’’کیا میری اجازت کافی نہیں ہے ؟‘‘ گوپال نے پوچھا۔

            ’’نہیں۔‘‘ کرشنن بولا۔ ’’چونکہ لائبریری رادھا کی ہے ، اس لئے اس کی ترتیب و تدوین کا کام بھی انہیں کی اجازت سے اور نگرانی و رہنمائی میں ہونا چاہیے تاکہ اُنہیں پسندآئے۔‘‘

             رادھا بولی۔ ’’آپ ہم باپ بیٹی میں کیوں جھگڑا لگانا چاہتے ہیں ؟ میرے والد محترم کی مرضی ہی میری رضامندی ہے۔‘‘

            بیٹی تمہاری بات درست ہے ، لیکن کرشنن کا سوال بھی صحیح تھا۔ جب بچے عاقل و بالغ ہو جاتے ہیں تو ماں باپ کی مرضی ان کی پسند کے تابع ہو جاتی ہے۔‘‘

            ’’ماں باپ کی نہیں بلکہ صرف باپ کی مرضی۔‘‘ یہ کیتھرین کا اعتراض تھا۔

             گوپال بولا۔ ’’کیتھرین تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی ہمیشہ ہی کام خراب کر دیتی ہے۔‘‘

            ویسے تمہاری نرمی اور لچیلے پن سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ تم تو باپ ہو، تمہارا کیا؟ ماں کو اپنے بچوں کے بھلے بُرے کا خیال کرنا پڑتا ہے۔‘‘

            گوپال بولا۔ ’’میں کب کہتا ہوں کہ بھلے بُرے کا خیال نہ کرو۔ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ بھلا کرو بُرا مت کرو۔‘‘

            ’’میں کب بُرا کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ کیتھرین نے کہا۔ ’’لیکن اگر کوئی میری بھلائی کو بُرائی سمجھے تو میرا کیا قصور؟‘‘

            ’’تو کیا یہ اُس کی غلطی ہے جس کی سمجھ میں تمہاری الٹی منطق نہیں آتی؟‘‘ گوپال نے تنک کر پوچھا۔

            کیتھرین بولی۔ ’’ہاں  …  اور نہیں تو کیا میں قصورو ار ہوں ؟‘‘

            گوپال زچ ہو کر بولا۔ ’’کیتھرین ساری دُنیا غلطی کر سکتی ہے لیکن  تم نہیں کر سکتیں۔کوئی انسان تم جیسا نہیں ہوسکتا۔ تم انسان نہیں فرشتہ ہو؟‘‘

            ’’میں کیا ہوں اور کیا نہیں ہوں، مجھے پتہ ہے۔‘‘

            گوپال اور کیتھرین کی نوک جھونک بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ رادھا اور کرشنن اس سے پریشان ہو رہے تھے۔ ایسے میں شیام نے مداخلت کی اور وہ بولا۔ ’’انکل اور آنٹی ایسے میں مجھے اپنے والد صاحب کی بات یاد آتی ہے۔‘‘

            ’’وہ کیا؟‘‘ گوپال نے پوچھا۔

            ’’ وہ کہتے ہیں کہ بچے جب بڑے ہو جائیں تو اُنہیں دو بار سمجھاؤ، اور اگر دُوسری مرتبہ بھی اُن کی سمجھ میں نہ آئے تو خود سمجھ جاؤ۔‘‘

            گوپال بولا۔ ’’تمہارے والد بھی سمجھدار آدمی ہیں۔‘‘

            ’’ان ہی کی طرح۔‘‘ کیتھرین نے کہا۔ ’’مرد سارے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ بچوں کی بات تو سمجھتے ہیں لیکن بیوی کی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ دُنیا کے سب مرد ایک دُوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور ہم عورتوں کی مخالفت کرتے  ہیں۔ سب مل جل کر۔‘‘

            گوپال نے ہنس کر جواب دیا۔ ’’اور اس کے باوجود آپ لوگوں کا کچھ بگاڑ نہیں پاتے بالآخر انہیں اپنا ہی سر پیٹ لینا پڑتا ہے۔‘‘

            کیتھرین چہک کر بولی۔ ’’اگر انجام پتہ ہے تو میرا سر کیوں کھاتے ہو؟ اپنا  سر پیٹو۔‘‘

            گوپال سر پکڑ کر بیٹھ گیا!!!

 

 

سیر و تفریح

رادھا کی لائبریری کرشنن کو اپنے ماضی میں لے گئی۔ وہ ماضی جسے کرشنن ہزاروں میل پیچھے چھوڑ آیا تھا …  وہ ماضی جس میں جذبات و احساسات تھے  …  ہنسنا رونا تھا …  ملنا بچھڑنا تھا …  گویا کہ زندگی تھی۔ لیکن زندہ رہنے کے لئے کرشنن نے زندگی کا سودا کر لیا تھا۔ یہاں وہ مشین کی طرح زندگی گزار رہا تھا۔ صبح کرتا تھا شام کرتا تھا، سوتا تھا اور جاگتا تھا، کھاتا اور پیتا تھا، اپنے آقا اور اس کی اہلیہ سوژان کی تابعداری کرتا تھا۔

وہ ایک گاڑی کی طرح زندگی گزار رہا تھا  جسے چلانے کے لئے دائماً ایندھن اور پانی ڈالا جاتا ہے۔ جب چلتے چلتے انجن گرم ہو جاتا ہے تو کچھ وقفے کے لئے بند کر دیا جاتا ہے تاکہ ٹھنڈا ہو جائے ، پھر اسٹارٹ کر دیا جائے۔ گاڑی چلتی تو خوب ہے لیکن اپنے آقا کی مرضی سے اور رُکتی بھی ہے تو اپنے آقا کی اطاعت میں۔ اس کا چلنا اور رُکنا، کھانا اور پینا، سونا اور جاگنا، کچھ بھی اس کے اپنے لئے نہیں ہوتا۔ ایسا ہی کچھ کرشنن کے ساتھ تھا۔ وہ کام کرتا تھا تاکہ اسے تنخواہ ملے اور اسے تنخواہ ملتی تھی تاکہ وہ کام کرے  …  بس کام اور دام کے درمیان کا اس کا طواف بلا توقف جاری تھا۔ نہ دام کی ضرورت سے مفر تھا اور نہ کام کی اہمیت سے انکار ممکن تھا۔

گھڑی کے پنڈولم کی طرح ایک نقطے سے دوسرا اور دوسرے سے پہلے کامسلسل سفرجاری رہتا تھا۔ لیکن فاصلہ تھا کہ طے ہی نہ ہوتا۔ منزل تھی کہ کہیں دکھائی ہی نہ دیتی تھی۔ گھڑی کے کانٹوں کو دیکھ دیکھ کر لوگ کہاں سے کہاں نکل گئے تھے۔ لیکن وہ کانٹے تھے کہ بس اپنے محور کے گرد طواف کرتے رہتے تھے اس انتظار میں کہ کب ٹک ٹک کی یہ دھڑکن بند ہو جائے ، کب وہ اپنی جگہ جامد و ساکت ہو جائیں اور کب انہیں گھڑی سمیت دیوار سے اُتار کر کوڑے دان کی نذر کر دیا جائے۔

اس کے برعکس رادھا کی لائبریری کا کام اس محور سے باہر کا مشغلہ تھا۔ اس لئے کہ اس کام کا کوئی دام نہیں تھا۔ نام … ؟ نام بھی نہیں تھا، لیکن آرام ضرور تھا۔ آرام کی ضرورت انسان کو کام کے بعد پڑتی ہے ؟ اس وقت کہ جب وہ کام کرتے تھک جائے تاکہ دوبارہ تازہ دم ہو کر کام کرنے کے قابل ہو جائے۔ لیکن لائبریری کا یہ کام کرشنن کے لئے ایسا راحت جان تھا کہ وہ اس سے تھکتا ہی نہ تھا۔ لائبریری کی مصروفیت نے کرشنن کو صدیوں بعد فرحت و انبساط سے لبریز کر دیا تھا۔

کرشنن کام سے فارغ ہو کر یہاں آتا اور پھر تازہ دم ہو کر یہاں سے لوٹ جاتا تھا۔ اس کے فارغ اوقات رادھا کے دفتری اوقات تھے۔ وہ جب آتا تو رادھا نہ ہوتی اور جب وہ چلا جاتا تو رادھا واپس آتی۔ پہلے چند دنوں میں تو رادھا کو پتہ ہی نہ چلا کہ کیا ہو رہا ہے ؟ کرشنن اس حقیقت سے بے نیاز اپنا کام کرتا رہا۔ کیتھرین کو کرشنن کے کام پر شکوک و شبہات لاحق ہو گئے۔ اس نے چھپ چھپ کر دیکھنا شروع کر دیا کہ آخر یہ شخص ہر روز دوپہر میں دو تین گھنٹے تک لائبریری میں کرتا کیا ہے ؟

 اسے تعجب ہوا جب اس نے دیکھا کہ کرشنن نہایت تن دہی کے ساتھ بغیر کوئی وقت ضائع کئے ہر ہر کتاب کا نام، اس کے مصنف کا نام، ناشر و طابع کی تفصیلات وہاں پڑے کمپیوٹر میں درج کرتا جاتا ہے۔ اس کمپیوٹر کو جب سے اس کے لڑکے چھوڑ کر گئے تھے ، کسی نے ہاتھ نہ لگایا تھا بلکہ گوپال تو اسے فروخت کر دینا چاہتا تھا۔

 کتابوں کا اندراج کر لینے کے بعد کرشنن نے انہیں موضوع کے لحاظ سے تقسیم کرنا شروع کر دیا اور اس کے بعد ہر موضوع کے تحت آنے والی کتابوں کو ان کے نام کی ترتیب میں لگانے لگا۔ سینکڑوں کتابیں تھیں، بیسیوں موضوعات تھے۔ اب پھر ایک بار ہر ہفتہ ان کتابوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تھا۔

 کرشنن کے مشاہدہ میں یہ بات آئی کہ جیسے جیسے اس کا کام آگے بڑھتا جا رہا ہے ، شعر و ادب کی کتابوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رادھا کی توجہات مینجمنٹ سے ہٹ کر فنون لطیفہ کی جانب مبذول ہوتی جا رہی تھیں۔ اس کے پاس غور و فکر کی فرصت نہیں تھی۔ وہ اپنے کام سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ کرشنن اس شعبہ کا منیجر سے لے کر چیراسی تک سب کچھ تھا۔ کوئی اُسے روکنے اور ٹوکنے والا نہیں تھا۔ اپنی مرضی کا مختار، جب چاہتا آتا، جب چاہتا واپس چلا جاتا۔ جیسا چاہتا کرتا اور جو نہ پسند آتا، اُسے بدل دیتا۔

 رادھا اپنی لائبریری کی تبدیلیوں کو محسوس کرنے لگی تھی۔ شروع میں اس نظام سے اسے کچھ دقت پیش آئی، لیکن جیسے جیسے یہ سب کچھ اس کی سمجھ آنے لگا، اس کی آسانیوں میں اضافہ ہونے لگا۔ اس کوسب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ پہلی مرتبہ کوئی ان کتابوں کو کوئی  قدر داں میسر آیا تھا …  کوئی ان میں دلچسپی لے رہا تھا …  اپنی کتابوں کو سجانے اور سنوارنے میں اس قدر دلچسپی تو خود اس نے کبھی نہیں لی تھی۔ کرشنن اپنا قیمتی وقت اُن پر صرف کر رہا  تھا اور اس کی بہتری کی خاطر مشقت اُٹھا رہا تھا۔ بے لوث خدمت اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ کسی بھی قسم کے بدلے سے بے نیاز کرشنن اپنا کام کئے چلا جا رہا تھا۔

 رادھا نے معیشت کی بہت ساری کتابیں پڑھیں تھیں، بینک کی ملازمت کا بڑا تجربہ اسے حاصل ہو گیا تھا، مینجمنٹ کے کئی ٹریننگ پروگراموں میں اُس نے شرکت کی تھی، لیکن وہ تمام تعلیم و تربیت کرشنن کے اس رویہ کی توجیہ کرنے سے قاصر تھی۔ نفسیات کی منطق بھی اسے بہت زیادہ میکانکی لگنے لگی تھی۔ اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ ماہرین نفسیات رویوں کی جو توجیہات بیان کرتے ہیں، وہ نہایت سطحی ہیں۔ فلسفہ گہرائی میں جاتا ہے لیکن پھر اپنے پھیلائے ہوئے جال میں کچھ ایسا اُلجھ جاتا ہے کہ اُسے خود اپنا سراغ نہیں ملتا۔ رادھا کا مطالعہ تیز ہو گیا تھا۔ کرشنن کے رویہ کو سمجھنے کے لئے وہ کتابوں پر کتابیں نگلتی جا رہی تھی، لیکن تشفی تھی کہ حاصل ہی نہ ہوتی تھی۔

 آج کل وہ شعر و ادب میں اپنے سوالوں کا جواب تلاش کر رہی تھی۔ دو اور دو چار کا حساب رکھنے والی رادھا کے لئے اشعار کے لطیف پہلوؤں کو سمجھنا ایک مشکل کام ضرور تھا۔ وہ اپنے بینک میں کسی ایک نوٹس کو دو بار نہیں پڑھتی تھی، وہ نوٹوں کو دوبارہ نہ گنتی تھی، اس کے اندر یہ خود اعتمادی تھی کہ ایک بار اگر نظر ڈال دی تو اس کے آگے سب کچھ عیاں ہو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ گن لیا تو نوٹ نہ ایک زیادہ ہو گا اور نہ ایک کم …  لیکن وہ اشعار کو بار بار پڑھتی تھی۔ کئی مرتبہ اس کی سمجھ میں مفہوم ہی نہ آتا۔ لیکن پھر بھی وہ پڑھتی اور گنگناتی جاتی تھی۔ اسے اس بے معنی کام میں لطف و انبساط محسوس ہوتا تھا۔  وہ خوشی و فرحت جو اُس کی زندگی سے ہابیل کے ساتھ کچھ ایسی نکل گئی تھی کہ پھر کبھی اُس نے پلٹ کر رادھا کی جانب نہیں دیکھا تھا …  اب لوٹ کر آیا چاہتی تھی۔

ویسے رادھا بھی کوئی کم خود سر نہیں تھی۔ اس کا مزاج ایسا تھا  کہ وہ کسی بات پر افسوس نہ کرتی تھی۔ جو چیز چلی گئی سوچلی گئی۔ چھوٹ جانے والی چیزوں کے بارے میں وہ سوچ لیا کرتی تھی کہ گویا وہ اس کے لئے تھی ہی نہیں، بلکہ اسے ملی ہی نہیں تھی۔ رادھا کو کبھی کبھار ایسا بھی لگتا تھا کہ ہابیل کے بعد اس کی زندگی سے کچھ کھونے کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ اس لئے کہ اس کے پاس اب کھونے کے لئے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ جو کچھ تھا سو ہابیل تھا اور جب وہ نہیں تھا تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اسے لگا کہ اس حادثے کے بعد اس نے کچھ پایا بھی نہیں تھا۔

کچھ کھو جانے کا اندیشہ اور کچھ حاصل کرنے کی جستجو کے بغیر وہ خالی خولی زندگی کا بے مزہ سفر طے کئے جا رہی تھی۔ اس کے آس پاس بہت کچھ چہل پہل تھی لیکن اس کا اندرون قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف کی طرح بالکل منجمد ہو گیا تھا، وہ ہمالیہ پربت کی مانند برف کا ایک پہاڑ بن گئی تھی جس کی چوٹی کو لوگ رشک سے دیکھتے تھے لیکن کو ئی اسے سر کرنے کی جرأت نہ کرتا تھا۔

 رادھا کے منتشر خیالات کی رو جب ماضی کے  دھندلکوں سے نکل کر کرشنن سے ٹکراتی تو وہ ڈر جاتی تھی۔ کرشنن اس کے لئے ایک  عجیب و غریب معمہ بنا ہوا تھا۔ یہ شخص کون ہے اور کیا چاہتا ہے ؟ کہیں وہ اس کے فخر سے اُٹھی ہوئی پیشانی کو اپنے قدموں تلے روندنا تو نہیں چاہتا؟ ناممکن!! اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو رادھا اسے بھی برف میں تبدیل کر دے گی۔ برف کی ایک بے جان سل بنا کر اپنے قدموں میں ڈال دے گی۔  تاکہ تا حیات راستہ چلنے والوں کی ٹھوکریں کھاتا رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گوپال اور شیام ایک روز چائے کی پیالی پر گفتگو کرتے ہوئے ٹیلی ویژن پر میچ دیکھ رہے تھے کہ گوپال نے کہا۔ ’’یار، وہ تمہارا دوست کرشنن تو بالکل آدم بیزار قسم کا آدمی لگتا ہے۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘ شیام نے سوال کیا۔

’’اس لیے کہ ایک مہینے سے وہ آ رہا ہے۔ دوپہر کے وقت ہم میاں بیوی کھانے کے بعد آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ رادھا اپنے دفتر میں ہوتی ہے۔ وہ سیدھا لائبریری میں چلا جاتا ہے اور شام تک نہ جانے کیا کرتا رہتا ہے ؟ شام ہوتے ہوتے جب جانے لگتا ہے تو میں اسے چائے پر بلاتا ہوں، لیکن وہ مصروفیت کا حوالہ دے کر نکل جاتا ہے۔‘‘

 شیام نے اپنے دوست کی حمایت کی وہ بولا۔ ’’اگر شام میں اُس کو مصروفیت ہے اور دوپہر میں آپ کے آرام کا وقت ہے ، تو اُس بیچارے کا کیا قصور؟‘‘

’’نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ ایک مرتبہ میں اپنے معمول کے خلاف دوپہر کو لائبریری میں چلا گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا۔‘‘

’’اچھا …  تو پھر کیا ہوا؟‘‘

’’پھر کیا  …  …   وہ بس ’ہاں ہوں ‘ کرتا رہا اور اپنے کام میں لگا رہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید میری خلل اندازی اس کو گراں گزر رہی ہے۔‘‘

’’پھر آپ نے کیا کیا؟‘‘

’’بھئی میں واپس آ کر اپنے معمول کے مطابق سو گیا اور کیا ؟‘‘

’’اچھا …  تو آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آپ کی نیند آپ کو وا پس لے آئی۔‘‘

’’نہیں بھائی! ویسے میری نیند تو مجھے پہلے ہی روک رہی تھی۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ بیداری کو مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ، تو میں نے بادل ناخواستہ پھر سے اپنے آپ کو غفلت کی آغوش میں جھونک دیا۔‘‘

شیام بولا۔ ’’ایسا کرتے ہیں، ہم لوگ کرشنن کو ایک دن خاص طور پر کھانے کے لئے بلاتے ہیں۔ میرا بھی جی چاہتا ہے کہ اس سے بات کروں۔‘‘

’’یہ تجویز خوب ہے۔‘‘ گوپال نے تائید کی۔ شیام نے فون لگایا۔

کرشنن نے پوچھا۔ ’’کون؟‘‘

’’او ہو  …  …   تو جناب نہ صرف ہمیں بلکہ ہماری آواز بھی بھو ل گئے۔‘‘

کرشنن شرمندہ ہو گیا۔ اُس نے کہا۔ ’’یار شیام …  یہ تمہاری آواز بدلنے والی عادت اچھے اچھوں کو غلط فہمی کا شکار کر دیتی ہے۔ مجھے تو لگا کہ شاید   …  …  !‘‘ کرشنن رُک گیا۔

شیام بولا۔ ’’بولو، رُک کیوں گئے ؟ بولو نہ کہ مجھے لگا کہ یہ رادھا ہے۔‘‘

کرشنن نے ہنس کر کہا۔ ’’اب اگر تم جیسا ماہر اداکار کسی کی نقالی کرے تو شبہ ہونا لازمی ہے۔‘‘

’’کرشنن میں خوب سمجھتا ہوں۔ یہ شک شبہ کی بات نہیں، یقین اور اعتماد کی بات ہے۔‘‘

کرشنن نے کہا۔ ’’چھوڑو یار ہنسی مذاق، کام کی بات کرو۔‘‘

’’کام کام …  یار ہم تمہارے کام سے پریشان ہیں۔ گوپال انکل کو بھی تم سے وہی شکایت ہے کہ تم یہاں آ کر کام میں ایسے لگ جاتے ہو کہ کسی سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے۔‘‘

گوپال نے پہلے اشارہ کیا پھر فون شیام کے ہاتھ سے چھین لیا اور خود بولے۔ ’’نہیں کرشنن! ایسی بات نہیں۔ یہ تمہارا دوست جھوٹ بول رہا ہے۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’میں شیام کو جانتا ہوں۔‘‘ گوپال کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کرشنن اس کی تردید کر رہا ہے یا اس کی تائید؟ گوپال نے فون پھر شیام کو تھما دیا۔

شیام بولا۔ ’’شکریہ مجھے جاننے کا۔ اب میری ایک بات مانو۔ تمہیں ہمارے ساتھ کھانے پر آنا ہے۔‘‘

’’کھانے پر؟ وہ کس خوشی میں ؟‘‘

’’کھانا انسان کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے خوشی ضروری نہیں ہے۔ انسان خوش ہو یا غمگین، کھانا تو کھاتا ہی ہے۔‘‘

’’جی  ہاں جناب شیام سندر اگروال صاحب! آپ نے سچ فرمایا۔ انسان خوشی اور غم، ہر صورت میں کھانا کھاتا ہے۔ لیکن اپنی خوشی میں اضافہ کرنے کی خاطر یا اپنے غم سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے دوسروں کو کھانا اُسی وقت کھلاتا ہے جب کوئی غیر معمولی خوشی ہوتی ہے یا انسان غمگیں ہوتا ہے۔‘‘

’’اچھا اگر ایسا ہی ہے تو سمجھ لو کہ میں اپنے دوست سے ملنے کی خوشی میں اس کو کھانا کھلانا چاہتا ہوں۔‘‘

’’یہ ٹھیک ہے۔‘‘ کرشنن بولا۔ ’’لیکن ہمارے اوقاتِ کار کچھ اس طرح کے ہیں کہ جب میں فارغ ہوتا ہوں تو آپ لوگ اپنے اپنے دفاتر میں ہوتے ہیں اور جب آپ لوگ  …  …  ‘‘

شیام نے بات کاٹ دی۔ ’’جی ہاں ! اسی لئے ہم نے عام تعطیل یعنی ابوظبی کے قومی دن کا انتخاب کیا ہے۔ اس دن کام کرنا جرم ہے۔ کیا سمجھے ؟‘‘

’’سمجھ گیا۔ لیکن کچھ لوگ ہر روز جرم ضعیفی کی سزا پاتے ہیں، اُن کا کیا؟‘‘

’’اُن کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور تمہارا جرمانہ تمہاری دعوت ہے۔ کیا سمجھے ؟‘‘

’’سمجھ گیا دوست سمجھ گیا۔‘‘ فون بند کرنے کے بعد شیام بولا۔ ’’انکل آپ میرے دوست پر تنقید کر رہے تھے کہ وہ آدم بیزار ہے ، لیکن آپ کی بیٹی رادھا بھی تو حوّا بیزار قسم کی مخلوق ہے۔‘‘

گوپال ’’حوّا بیزار‘‘ کی اصطلاح پر ہنس پڑا۔ وہ بولا۔ ’’شیام، تم نے دنیا کا سب سے عظیم لطیفہ نہیں سنا؟ ’’خواتین کے خاموش بیٹھنے والا‘‘ یہ لطیفہ اس حقیقت کا غماز ہے۔ عورتیں حوّا بیزار نہیں ہوسکتیں۔‘‘

’’جی ہاں ! آپ صحیح کہتے ہیں۔ عام عورتیں ہرگز ہرگز ایسی نہیں ہوتیں۔ لیکن آپ کی بیٹی رادھا تو بہت خاص ہے ، اس لئے اس کی بات استثنائی ہے۔‘‘

 گوپال نے تائید کی۔ ’’جی ہاں  …  تمہارے دوست کرشنن کی طرح بالکل خاص۔‘‘

شیام نے کہا۔ ’’اچھا یاد آیا، رادھا سے بتا دینا ہو گا ورنہ وہ دعوت والے دن کہہ دے گی …  ’’میں ایک دلچسپ کتاب پڑھ رہی ہوں، میرا کھانا رکھ دو، میں بعد میں کھالوں گی۔‘‘

’’تو تم اُس سے کیا کہو گے کہ وہ دعوت والے دن کوئی دلچسپ کتاب نہ پڑھے ؟‘‘

’’جی ہاں ! میں اُس سے یہی کہنے والا ہوں کہ اب پڑھنے لکھنے کا دَور بہت ہو چکا۔‘‘

’’اچھا … ؟ تو کہو  …  …   گوپال نے رادھا کو آواز دی۔ رادھا آ کر دیوان خانے میں بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ میں حسب معمول ایک کتاب تھی ’’شاخ گل‘‘۔

رادھا نے پوچھا۔ ’’جی فرمائیں، کیا حکم ہے ؟‘‘

گوپال بولا۔ ’’شیام تم سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔‘‘

’’مجھ سے ؟ زہے نصیب …  فرمائیے شیام صاحب …  ناچیز کنیز با ادب با ملاحظہ ہمہ تن گوش ہے۔‘‘

شیام نے پوچھا۔ ’’تم مغل اعظم تو نہیں پڑھ رہی تھیں ؟‘‘

’’مغل اعظم … ؟ وہ پڑھنے کی نہیں دیکھنے کی چیز ہے۔‘‘

شیام سٹپٹا گیا، بولا۔ ’’جی ہاں جی ہاں۔ میرا مطلب یہی تھا۔ خیر، ہم لوگوں نے آئندہ ہفتے چھٹی کے دن دعوت رکھی ہے۔‘‘

’’دعوت؟‘‘

’’جی ہاں کھانے کی دعوت یا پکنک سمجھ لو۔‘‘

’’پکنک؟‘‘ رادھا نے حیرت سے کہا۔

شیام بولا۔ ’’میرا مطلب ہے ہم لوگ ساتھ میں یہاں کے مشہور خلیفہ پارک جائیں گے اور وہیں کھانا کھائیں گے۔ پکنک بھی ہو جائے گی اور کھانا بھی ہو جائے گا۔‘‘

’’او ہو …  یہ تو خاصہ لمبا چوڑا منصوبہ ہے۔‘‘ کیتھرین بیچ میں بولی۔

’’نہیں  …  کھانا ہم لوگ جاتے ہوئے راستے سے خرید لیں گے۔‘‘ گوپال  نے بیزاری سے اس کی جانب دیکھا۔

 ’’اور وہاں جا کر ٹھنڈا کھانا کھائیں گے ؟‘‘ کیتھرین نے سوال کیا۔

شیام بولا۔ ’’نہیں گرم گرم کھانا کھائیں گے۔‘‘

’’گرم کیسے کریں گے ؟‘‘ کیتھرین نے پھر پوچھا۔

’’گرم کریں گے ہی نہیں  …  ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھا لیں گے۔‘‘

’’لیکن صبح سے دوپہر تک کھانا گرم کیسے رہے گا؟‘‘

گوپال اپنی بیوی کے سوالات سے بیزار ہو گیا، وہ بولا۔ ’’کیتھرین! تمہیں تو پولیس کے محکمہ میں ہونا چاہئے تھا۔ اس قدر سوالات کرتی ہو، تمہیں یہ کس نے کہا کہ ہم لوگ پکنک پر صبح سویرے جائیں گے ؟ چھٹی کے دن کون بے وقوف صبح جلدی اُٹھتا ہے ؟ ہماری صبح ہی دوپہر کو ہوتی ہے۔ بس نہا دھوکر نکل پڑیں گے ، راستے میں کھانا بندھوا لیں گے اور باغ میں جا کر گرم گرم کھانا کھا لیں گے۔ اتنی آسان سی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

کیتھرین کو غصہ آ گیا، وہ بولی۔ ’’تمہاری اُلٹی پلٹی باتیں نہ میری سمجھ میں آئی ہیں نہ آئیں گی … ‘‘ اور کمرے سے اُٹھ کر چلی گئی۔

شیام نے کہا۔ ’’تو رادھا، اب تو تمہارے سامنے ہمارا منصوبہ آ گیا ہے ؟‘‘

’’جی ہاں ! لیکن کھانا تو یہاں بھی کھا سکتے ہیں۔ اتنی دُور جانے کی کیا ضرورت؟‘‘ اب رادھا نے پوچھنا شروع کیا۔

 گوپال بولا۔ ’’ضرورت ہے بیٹی …  ضرورت ہے۔ اس گھر اور دفتر سے باہر بھی ایک دُنیا ہے اور وہ دُنیا فطرت سے قریب تر ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کے چند لمحات اس حصار سے باہر نکل کر بھی گزارنے چاہئیں۔ اور پھر ہم نے ایک مہمان کو بھی دعوت دی ہے۔‘‘

’’مہمان … ؟ کون مہمان؟‘‘

’’شیام کا دوست کرشنن!‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ یہ کہہ کر رادھا واپس چلی گئی۔ وہ سوچ رہی تھی …  گھر اور دفتر کے باہر کرشنن۔

رادھا کے نکلتے ہی کیتھرین کمرے میں داخل ہوئی، وہ بولی۔ ’’پکنک کا ارادہ تو ٹھیک ہے ، لیکن میں اس میں ایک اضافہ کرنا چاہتی ہوں اگر آپ اجازت دیں ؟‘‘

گوپال بولا۔ ’’تنسیخ یا التواء کے علاوہ ہر چیز کی اجازت ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ دراصل جس طرح آپ لوگوں نے اپنے دوست کو دعوت دی ہے ، میں بھی اپنی سہیلی کو دعوت دینا چاہتی ہوں۔‘‘

’’تمہاری کوئی سہیلی بھی ہے ؟ یہ تو میرے لئے بہت بڑی خبر ہے۔‘‘ گوپال نے مذاق اڑایا۔

’’جی ہاں ! میری بہت ساری سہیلیاں ہیں۔‘‘

 ’’میں تو نہیں جانتا۔‘‘ گوپال نے پھر کہا۔

’ ’تمہارے لئے اُن کا جاننا ضروری نہیں ہے۔ اُن کی …  میری …  بلکہ تمہاری عافیت بھی اسی میں ہے کہ تم نہ جانو۔‘‘

’’ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ لیکن یہ تو بتلاؤ کہ وہ کون خوش قسمت سہیلی ہے جسے تم دعوت دے  رہی ہو مہارانی۔‘‘

’’وہ  ہے مسز الزبیتھ!‘‘

’’اوہو  …  ملکہ الزبیتھ …  تب تو مسٹر الزبیتھ بھی ساتھ آئیں گے ؟‘‘

’’یقیناً! اُن کی کیا مجال کہ وہ میری سہیلی کی بات ٹھکرائیں ؟‘‘

’’جی ہاں وہ ملک الزبیتھ ہوں گے دوسروں کے آگے ، لیکن جب ملکہ سامنے ہو تو بادشاہ بھی بے دام کا غلام ہو جاتا ہے۔‘‘

’’بس …  بند کرو اپنی قینچی جیسی زبان۔‘‘ یہ کہہ کر کیتھرین اُٹھ کر چلی گئی۔

فون کی گھنٹی بجی تو دوسری جانب مسٹر الزبیتھ تھے۔ وہ برطانوی نژاد تھے لیکن انہوں نے اپنی عمر کا زیادہ حصہ برطانیہ کے بجائے مشرق وسطیٰ میں گزارا تھا۔ وہ جس وقت یہاں آئے ، اس وقت یہ علاقہ برطانوی سامراج کی نوآبادیات میں شامل تھا۔ پھر یہ آزاد ہوا، لیکن مسٹر الزبیتھ یہیں رہ گئے۔ انہوں نے اسے گویا اپنا وطن ثانی بنا لیا تھا اور اس قدر طویل عرصہ گزارنے کے بعد وہ یہاں اس طرح رچ بس گئے تھے کہ انہیں دبئی میں لندن کی یاد کم ہی آتی تھی۔ لیکن کبھی کبھار جب لندن جاتے تو دبئی کی یاد ضرور آتی۔ مسٹر الزبیتھ کا حال یہ تھا کہ وہ فرّاٹے کے ساتھ عربی بولتے تھے اور اگر کوئی انہیں ثوب اور شماغ میں حقہ پیتے ہوئے دیکھتا تو اسے یقین نہ آتا تھا کہ یہ انگریز ہے یا مقامی؟ لبنانی کھانے ، عربی موسیقی اور ترکی حقہ …  یہ سب  مسٹر الزبیتھ کی کمزوریاں بن گئی تھیں۔

  مسٹر الزبیتھ نے گوپال کو دعوت کا شکریہ ادا کیا، لیکن اپنی ایک مشکل بتلائی، وہ بولے۔ ’’جس دن کا آپ لوگوں نے انتخاب کیا ہے ، اُس دِن انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کا میچ  ہے۔ اور آپ تو جانتے ہیں میں نے اپنی ساری عمر میں ان دونوں کا کوئی میچ نہیں چھوڑا۔ اس لئے کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسے ایک آدھ دن آگے پیچھے کر دیں ؟‘‘

  گوپال تذبذب میں پڑ گیا۔ لیکن شیام نے اس مسئلہ کو حل کر دیا، وہ بولا۔ ’’انکل، اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اس باغ میں بنا تار انٹرنیٹ کی سہولت مہیا ہے۔ ہم لوگ اپنا کمپیوٹر ساتھ لے جائیں گے اور اس کے مانیٹر پر آپ میچ دیکھ لیجئے گا۔ دیکھنا تو یہ میچ مجھے بھی ہے۔‘‘

’’اچھا …  اس میں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوتی؟‘‘

’’جی نہیں !‘‘ شیام نے کہا۔ ’’میں نے کئی مرتبہ اس گارڈن میں بیٹھ کر شیئر کا کاروبار کیا ہے۔ وہاں تو انٹرنیٹ کا سگنل گھرسے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔‘‘

’’اچھا …  اگر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے  …  اور ہاں، حقہ پانی کا بندوبست میں خود کروں گا۔ ہم سب کل ملا کر کتنے لوگ ہوں گے ؟‘‘

’’ویسے تو سات، لیکن حقہ پینے والے مرد صرف چار۔‘‘

مسٹر الزبیتھ ہنسے اور بولے۔ ’’یہ تمہاری غلط فہمی ہے کہ حقہ صرف مرد پیتے ہیں۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’تم نے عرب عورتوں کو حقہ پیتے نہیں دیکھا؟‘‘

’’دیکھا ہے ، لیکن ہمارے ساتھ کوئی عرب عورت کہاں ہے ؟‘‘

’’ہے تو …  مسز الزبیتھ کو تم کیا سمجھتے ہو؟ وہ اب بھی برطانوی خاتون ہے ؟‘‘ مسٹر الزبیتھ نے سوال کیا اور زوردار قہقہہ لگا کر فون بند کر دیا۔

پکنک کے دن صبح گیارہ بجے مسٹر الزبیتھ اپنی اہلیہ کے ساتھ ٹی۔ٹی ٹاور پر پہنچ گئے۔ ابھی نہ کرشنن پہنچا تھا، نہ شیام تیار ہوا تھا۔ ان کے علاوہ گوپال کا خاندان بالکل تیار تھا۔ کیتھرین جانتی تھی کہ مسٹر اور مسز الزیبتھ ایک منٹ کی تاخیر سے نہیں آسکتے۔ مشرق وسطیٰ میں طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ان کی یہ برطانویت ابھی تک قائم  تھی۔ موبائل بجا اور کیتھرین نے کہا۔ ’’ہم تیار ہیں ابھی آتے ہیں۔‘‘

گوپال نے کہا۔ ’’آپ لوگ ایسا کرو، ان کی کار میں باغ کی طرف جاؤ اور مسٹر الزبیتھ سے کہنا کہ ہم لوگ کھانے پینے کا سامان لے کر آتے ہیں۔ اس طرح بات نبھ جائے گی۔‘‘

’’لیکن اتنے بڑے باغیچہ میں ہم لوگ ایک دُوسرے کو کہاں تلاش کرتے پھریں گے ؟‘‘ کیتھرین نے پوچھا۔

’’تم اس کی فکر نہ کرو۔ موبائل فون کے ہوتے اب یہ اتنا مشکل نہیں ہے۔ ہاں، تم لوگ مغربی سرے کے آس پاس جہاں بھی مناسب جگہ ملے ، اپنا ڈیرہ ڈال دینا۔ ہم لوگ بس آتے ہی ہیں۔‘‘

فون گھنٹی دوبارہ بجی۔ کیتھرین اور رادھا گھر سے نکل پڑے۔ مسز الزبیتھ نے جب دیکھا کہ گوپال غائب ہیں تو سمجھ گئی کہ آج پھر ان دونوں کا جھگڑا ہو گیا۔ اب ایک نیا کام ان کے پلے پڑ گیا تھا کہ مسٹر الزبیتھ گوپال کو سمجھائیں، مسز الزبیتھ کیتھرین کو منائے ، ایسا اس سے پہلے کئی مرتبہ ہو چکا تھا۔‘‘

مسٹرالزبیتھ نے پوچھا۔ ’’گوپال؟ خیریت توہے ؟‘‘

’’جی ہاں، سب ٹھیک ہے۔‘‘ رادھا بول پڑی۔ ’’پاپا اپنے دوستوں کے ساتھ لنچ لے کر پہنچ رہے ہیں، بلکہ ہو سکتا ہے پہنچ گئے ہوں۔چلئے ہم چلتے ہیں۔‘‘

مسز الزبیتھ نے حیرت سے سوال کیا۔ ’’کیا گوپال پیدل گئے ہیں اپنے دوستوں کے ساتھ؟‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’وہ کیا …  سامنے گوپال کی لینڈ کروز کھڑی مسکرا رہی ہے۔‘‘

’’کیتھرین سمجھ گئی، جھوٹ پکڑا گیا ہے ، وہ بولی۔ ’’وہ …   وہ دراصل …  رادھا کی گاڑی لے کر گئے ہیں۔‘‘

’’رادھا کی گاڑی؟ رادھا نے کب گاڑی خرید لی؟ بھئی ہم کو بتلایا تک نہیں۔ کیوں، پارٹی کے ڈرسے ہم سے بات چھپائی جا رہی ہے ؟‘‘ مسز الزبیتھ نے پوچھا۔

’’مسٹر الزبیتھ بولے۔ ’’اب گاڑی میں بیٹھ کر چلتے ہیں۔ واقعی اگر گوپال ہم سے پہلے پہنچ جائے تو اچھا نہیں ہے۔ اسے انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘

’’نہیں نہیں ایسی بات نہیں  …  خیر بیٹھتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر دونوں سہیلیاں پیچھے کی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ لامحالہ رادھا کو آگے بیٹھنا پڑا۔

مسٹر الزبیتھ نے پوچھا۔ ’’بیٹی کیسی ہو؟‘‘

’’خیریت ہے انکل … ‘‘

’’آجکل کیا پڑھ رہی ہو؟‘‘

’’جی آجکل میں ’’شاخ گل‘‘ پڑھ رہی ہوں۔‘‘

’’اوہو …  ’’شاخ گل‘‘ …  یہ تمہیں شاعری کا شوق کب سے ہو گیا؟ اس سے پہلے کہ وہ دیوالیہ ہو جائیں،بینک والوں کو بتانا پڑے گا، ؟‘‘

’’کیا مطلب انکل …  شاعری پڑھنے والے دیوالیہ ہو جاتے ہیں ؟‘‘

’’محض پڑھنے والا تو نہیں ہوتا، لیکن جب انسان شاعری پڑھتے پڑھتے شاعری کرنے لگتا ہے  …  تو یقیناً دیوالیہ ہو جاتا ہے۔

’’لیکن انکل! آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں شاعری کرنے لگی ہوں ؟‘‘ رادھا سے سوال کیا۔

’’بیٹی! مجھے پہلے تو نہیں پتہ  تھا لیکن اب پتہ چل گیا ہے۔ تمہارے اس سوال نے چغلی کر دی۔ پہلے میں نے امکا ن کا اظہار کیا تھا، لیکن وہ اب یقین میں بدل گیا ہے۔‘‘

بیچ میں مسز الزبیتھ بول پڑیں۔ ’’بیٹی شاعری وائری چھوڑو اور یہ بتلاؤ کہ تم نے گاڑی کون سی خریدی ہے ؟‘‘

رادھا کے لئے نئی مشکل کھڑی ہو گئی تھی۔ خیر، اس نے کہا۔ ’’آنٹی میں نے پیوجو گاڑی خریدی ہے۔‘‘

’’پیوجو …  وہ فرانسیسی گاڑی …  تمہیں اس کی کیا سوجھی؟‘‘

مسٹر الزبیتھ نے مداخلت کی اور بولے۔ ’’تمہیں کیا پتہ؟ آجکل بیٹی شاعری کر رہی ہے۔ اب کسی جاپانی یا کورین گاڑی میں بیٹھ کر انسان شاعری تھوڑے ہی کر سکتا ہے ؟‘‘

’’تم خاموش رہو۔‘‘ مسز الزبیتھ نے ڈانٹا۔ ’’کیا بازار میں امریکی اور جرمن گاڑیوں کی فروخت بند ہو گئی ہے جو رادھا جاپانی گاڑی خریدے ؟‘‘

’’ارے بھئی آجکل دُنیا کے اس حصے میں امریکہ کی کوئی چیز پسند نہیں کی جاتی …  نہ گاڑی اور نہ گھوڑا۔‘‘

’’اور جرمن؟‘‘

’’جرمنی کی گاڑیوں میں نسوانیت کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ مردانہ وجاہت کی حامل ہوتی ہیں۔ مرسڈیز، اوڈی، بی۔ ا۔یم۔ڈبلیو سب کی سب۔ رادھا جیسی لطیف و نازک بیٹی کے لئے تو بس پیوجو ہی صحیح ہے۔ کیوں بیٹی؟‘‘

’’جی ہاں انکل …  آپ صحیح کہتے ہیں۔‘‘ رادھا نے تائید کی۔ کیتھرین سوچ رہی تھی کہ ایک بے ضرر سا جھوٹ کس طرح شیطان کی آنت بنتا جا رہا ہے  …  اور کیا ہو گا جب تھوڑی دیر بعد گوپال اپنی پرانی لینڈکروزر میں وہاں پہنچے گا؟ کس قدر شرمندگی ہو گی جب ان دونوں کے جھوٹ کا گھڑا بیچ باغیچہ پھوٹ جائے گا؟ لیکن رادھا نے من ہی من میں ایک اور جھوٹ گھڑ لیا تھا۔ اس کی گاڑی خراب ہو گئی اور مجبوراً گوپال کو اپنی گاڑی لانی پڑی۔ اس کے باعث تاخیر ہو گئی، وغیرہ وغیرہ۔ جب یہ لوگ باغ کے پاس پہنچے تو عام تعطیل کے باعث وہاں کافی بھیڑ بھاڑ تھی، جس کا اندازہ پارکنگ سے ہو رہا تھا۔ ایک دو چکر لگانے کے بعد اُن لوگوں کو پارکنگ ملی بھی تو ایک نئی نویلی پیوجو کے پاس۔

مسٹر الزبیتھ نے کہا۔ ’’اوہ رادھا …  یہ لو، گوپال تو ہم سے پہلے پہنچ گیا۔‘‘

’’پہلے  …  …  ؟ آپ کو کیسے معلوم؟‘‘

’’یہ کیا تمہاری پیوجو تو پہلے سے یہیں کھڑی ہے۔‘‘

رادھا کو اپنا جھوٹ یاد آیا، وہ بولی۔ ’’انکل، یہ نیلی گاڑی میری نہیں ہے۔ میری تو سفید و شفاف پیوجو ہے۔‘‘ رادھا نے ایک اور سفید جھوٹ بول دیا۔

’’خیر نیلی پیلی یا سفید کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ کیتھرین نے بات ٹال دی۔ مسٹر الزبیتھ نے گاڑی کی ڈکی کھولی اور اس میں سے چلتی پھرتی سیگڑھی، کوئلے کی ننھی سے گٹھری، حقہ اور دیگر سامان نکالنے لگے۔

 رادھا نے پوچھا؟ ’’انکل یہ سب کیا ہے ؟‘‘

ا لزبیتھ نے کہا۔ ’’تمہارے والد جو کھانے کا سامان لائیں گے ، اُسے گرم رکھنے کا  سامان۔‘‘ اور انہوں نے اس جدید طرز کی سیگڑھی کی جانب اشارہ کیا اور پھر حقہ کی جا نب دیکھ کر بولے۔ ’’یہ ہے اپنے آپ کو گرم رکھنے کا انتظام۔‘‘

 را دھا بولی۔ ’’انکل، یہاں کوئی برف باری ہو رہی ہے ؟‘‘

مسٹر الزبیتھ بولے۔ ’’بیٹا، برف باری کو تو میں بھول ہی گیا ہوں۔ اب یہاں دسمبر کے مہینے میں مجھے جیکٹ اور سوئٹر وغیرہ پہننا پڑتا ہے۔‘‘

مسز الزبیتھ بولیں۔ ’’جی ہاں بیٹی …  تمہارے انکل اب بوڑھے ہو گئے ہیں۔‘‘

مسٹر الزبیتھ نے طرح لگائی۔ ’’ہاں، کوئی اور کہے تو میں جھٹلا بھی سکتا ہوں، لیکن ان کی بات اگر غلط بھی ہو تب بھی میں اس کی جرأت نہیں کر سکتا۔‘‘

 چاروں افراد سامان سے لدے پھندے باغ کے ایک کنارے آ کر بیٹھ گئے۔

گوپال، شیام اور کرشنن کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ نہ وہ آ رہے تھے اور نہ فون آ رہا تھا، کہ اچانک رادھا کا فون بجا۔

’’جی پاپا …  سامنے سے گوپال نے بتلایا کہ وہ کھانا لیکر ابھی ابھی نکلے ہیں اور دس منٹ میں پہنچیں گے۔‘‘ رادھا سمجھ گئی کہ دس منٹ میں پہنچ بھی گئے تو پارکنگ تلاش کرنے میں کم از کم آدھا گھنٹہ لگ جائے گا۔ گوپال کا فون بند ہونے کے بعد بھی رادھا  بولتی رہی۔ ’’کیا … ؟ گاڑی خراب ہو گئی … ؟ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ نئی گاڑ ی کیسے خراب ہوسکتی ہے  … ؟ وہ آپ نے کوئی غلط بٹن دبا دیا ہو گا۔ خیر، آپ اسے چھوڑ دیجئے اور اپنی گاڑی لے کر آ جائیے  …  جی ہاں لینڈ کروزر …  آپ ٹیکسی سے یہاں نہ آئیں۔ گاڑی لے کر آئیں تاکہ واپسی مشکل نہ ہو …  یہاں شام کو ٹیکسی نہیں ملے گی …  ٹھیک ہے ٹھیک ہے جلدی آئیے۔‘‘ رادھا نے فون اپنے کان سے ہٹایا اور کیتھرین سے بولی۔ ’’پاپا سے گاڑی بند ہو گئی۔‘‘

کیتھرین دل ہی دل میں مسکرائی اور پھر بولی۔ ’’پرانے آدمی سے نئی گاڑی  کیسے چلے گی؟ اُن کے لئے تو وہی لینڈکروزر ٹھیک ہے۔‘‘

مسز الزبیتھ نے بات آگے بڑھائی۔ ’’میں بھی ان سے یہی کہتی ہوں کہ دیکھو، نئی گاڑی کے چکر میں نہ پڑو۔ اس کو چلانا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ تمہارے لئے تو یہ تمہاری پرانی شیورلے ہی ٹھیک ہے۔‘‘

مسٹرالزبیتھ نے کہا۔ ’’جی ہاں مہارانی …  آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر۔‘‘

 

 

کھیل دنیا

میچ کا وقت قریب ہو رہا تھا اور مسٹر الزبیتھ پریشان ہو رہے تھے کہ سامنے سے گوپال، کرشنن اور شیام آتے ہوئے دکھائی دیے۔ اُن کی باچھیں کھل گئیں۔

اُنہوں نے آگے بڑھ کر سامان ہاتھ میں لیا اور بولے۔ ’’آپ لوگ بڑے وقت پر آ گئے ، ابھی میچ شروع ہونے ہی والا ہے۔ کیا نام ہے تمہارا؟‘‘

’’شیام … ‘‘

’’ہاں شیام …  تم ایسا کرو، جلدی سے اپنا لیپ ٹاپ چالو کر دو۔‘‘

 مسز الزبیتھ بولیں۔ ’’ہاں بیٹے جلدی کر، ورنہ ایک نوالہ بھی ان کے گلے سے نہ اُترے گا، بلکہ شاید سانس بھی بند ہو جائے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر میں میچ نہ دیکھوں تو شاید مقابلہ ہی منسوخ کر دیا جائے۔‘‘

’’کیوں نہیں ؟ کیوں نہیں ؟‘‘ مسٹر الزبیتھ بولے۔شیام نے کمپیوٹر کھول دیا۔ عورتوں نے ناشتہ دان سنبھال لیا اور گوپال اپنے دوست کی خیریت و عافیت معلوم کرنے لگا۔ دُعا سلام کے بعد مسٹر الزبیتھ نے پوچھا۔ ’’بھئی تمہاری گاڑی خراب ہو  گئی، اس کے باعث تمہیں کافی دقت ہوئی ہو گی۔‘‘

’’میری گاڑی خراب …  ؟‘‘

رادھا کے کان کھڑے ہو گئے ، وہ بولی۔ ’’پاپا آپ بھول گئے ! فون پر آپ نے بتایا تھا کہ گاڑی خراب ہو گئی ہے۔‘‘

گوپال نے اندازہ لگایا۔ انہوں نے سوچا کہ شاید رادھا نے تاخیر کے لئے جھوٹ بولا ہو، وہ بولے۔ ’’جی ہاں جی ہاں  …  پرانی ہو گئی ہے نا، خراب ہوتی رہتی ہے۔‘‘

’’کیا؟ پرانی … ؟ رادھا تو کہہ رہی تھی کہ نئی سفید پیوجو۔‘‘

رادھا نے پھر کہا۔ ’’انکل، وہ خراب کہاں ہوئی! وہ تو اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیوں بند ہو گئی؟‘‘

گوپال کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ دونوں لوگ کس پیوجو کی بات کر رہے ہیں، جو نئی بھی ہے اور سفید بھی۔

اس بیچ کیتھرین اور مسز الزبیتھ طازج کی گرم گرم مرغیاں لے آئیں اور شیام نے اپنے لیپ ٹاپ پر میچ لگا دیا۔ مسٹر الزبیتھ کی توجہ گاڑی سے ہٹ کر کرکٹ کی جانب مرکوز ہو گئی۔ گوپال اور شیام بھی بڑے اشتیاق سے میچ کے شروع ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

گوپال نے پوچھا۔ ’’شیام تمہاری دلچسپی کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اس مقابلہ میں ہندوستان یا پاکستان کی ٹیم تو حصہ لے نہیں رہی ہے کہ تم ایک کی جیت یا دوسرے کی ہار دیکھنے کے لئے میچ دیکھو ؟‘‘

شیام بولا۔ ’’انکل ایسی بات نہیں۔ گزشتہ ورلڈ کپ سے یہ روایتی حریف اب ایک دوسرے کے حلیف ممالک ہو گئے ہیں۔ پاکستان پہلے کواٹر فائنل سے باہر ہوا تو ہندوستان نے بھی اس کا ساتھ دیا اور اس کے ساتھ ہی واپس آیا۔ اس کے بعد سے میں ہندوستان اور ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍپاکستان، دونوں کا میچ اس لئے دیکھتا ہوں کہ جو بھی جیتے ٹھیک ہی ہے۔‘‘

’’اگر ایساہے تب بھی آج کا میچ؟‘‘ گوپال نے سوال کیا۔

’’وہ دراصل بات یہ ہے کہ اس بار انگلینڈ کا کپتان ایک ایسا شخص ہے جو ہندوستان میں پیدا ہوا تھا۔ حالانکہ اس نے برطانوی شہریت حاصل کر لی ہے ، لیکن ہمارے لئے تو ناصر حسین ایک ہندوستانی ہے۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ یہ میچ انگلینڈ جیتے تاکہ ہمارے آدمی کی کپتانی میں عرصہ دراز کے بعد انگلینڈ کو ویسٹ انڈیز پر فتح نصیب ہو جائے۔‘‘

 مسٹر الزبیتھ کو شیام کی بات اچھی نہیں لگی۔ اُنہیں اس میں سے عصبیت کی بو محسوس ہوئی۔ وہ بولے۔ ’’شیام …  کیا تم جانتے ہو کہ ناصر حسین مسلمان ہے اور تم ہندو ہو؟ مسلمانوں نے تم پر سیکڑوں سال حکومت کی ہے۔ وہ تمہارا آدمی کیسے ہو گیا؟‘‘ مسٹر الزبیتھ نے آپس میں لڑانے کا پرانا حربہ استعمال کیا۔

  شیام بولا۔ ’’انکل ہم ہندوستانی ملک کے اندر ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ لیکن جب  باہر جاتے ہیں تو ایک دوسرے کے دوست ہو جاتے ہیں  …  اور پھر حکومت تو برطانیہ نے بھی کی ہے۔ اب ہمارا آدمی انگلینڈ کا کپتان ہو سکتا ہے تو ہماری آپس کی  چپقلش کیا معنی؟‘‘

میچ کا ٹاس انگلینڈ نے جیت لیا تھا اور ٹاس جیت کر ناصر حسین نے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس بات سے دونوں لوگ مسٹر الزبیتھ اور شیام خوش ہو گئے۔

ناشتہ کرتے ہوئے کرشنن نے کہا۔ ’’پچھلے دنوں میں نے ناصرحسین کا ایک نہایت دلچسپ انٹرویو پڑھا۔

گوپال بولا۔ ’’اچھا وہ کیا تھا؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’ناصر حسین نے بتلایا کہ اس کے ماں باپ جس وقت انگلستان روانہ ہوئے اس وقت وہ بہت چھوٹا تھا۔ وہ جس محلے میں رہتا تھا، وہاں ہندو پاک سمیت ویسٹ انڈیز و افریقہ کے بہت سارے لوگ آباد تھے اور ان کے بچے بھی میدان میں کرکٹ کھیلنا چاہتے تھے۔ لیکن انگریز بچے اُنہیں کھیلنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اس کے باعث وہ لوگ ان انگریز بچوں کے میدان میں آنے سے قبل ہی آ جاتے اور ان کے آنے کے بعد میدان سے باہر چلے جاتے۔ پھر جب وہ تھک کر واپس لوٹ جاتے تو یہ ایشیائی بچے پھر میدان میں کھیلنے لگتے۔ اس طرح یہ لوگ کھیل دیکھتے بھی تھے اور کھیلتے بھی تھے۔

 انگریز بچوں کے ساتھ اُن کا ایک کوچ ہوتا تھا۔ لیکن یہ ایشیائی نژاد بچے خود اپنے استاد ہوتے تھے۔ ایک روز اسی طرح یہ باہر آ رہے تھے اور وہ اندر جا رہے تھے کہ انگریز استاد نے اُن لڑکوں کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ وہ سب  ڈر گئے اور سمجھ گئے کہ اب ڈانٹ پلائی جائے گی۔ میدان کو خراب کرنے کا الزام لگایا جائے گا اور دوبارہ قدم رکھنے پر ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی جائے گی۔ اس لئے وہ لوگ جلدی جلدی میدان سے باہر جانے لگے۔

لیکن استاد نے پھر آواز دی۔ ’’اوے سنو، یہاں آؤ۔ میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

کسی کی ہمت نہیں تھی کہ اس کے پاس جائے ، لیکن ناصر حسین نے حوصلہ کیا اور مڑ کر اُس کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے پوچھا۔ ’’تم انگریزی جانتے ہو۔‘‘

ناصرحسین نے اثبات میں سرہلایا تو وہ بولا۔ ’’تم کپتان ہو؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’پھر کپتان کون ہے ؟‘‘

ناصرحسین نے کالی چرن کی جانب اشارہ کیا۔ وہ واحد افریقی بچہ تھا جو ان کے ساتھ تھا۔ استاد نے کہا۔ ’’آج سے تم ان کے کپتان ہو۔‘‘

’’میں   …  …  ؟ لیکن وہ نہیں مانیں گے۔‘‘

’’وہ نہیں مانیں گے ؟ کیسے نہیں مانیں گے ؟ اُنہیں ماننا ہی پڑے گا۔ اگر یہاں رہنا ہے اور کھیلنا ہے تو ہماری بات ماننا پڑے گی۔‘‘

ناصرحسین نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے سر۔‘‘

وہ بولا۔ ’’اچھا دیکھو، ہم چاہتے ہیں کہ تمہارا ہمارے لڑکوں سے مقابلہ ہو۔‘‘

’’ہمارا ان انگریز لڑکوں سے مقابلہ؟‘‘

’’ہاں۔ تمہارا ان انگریز لڑکوں سے مقابلہ ہو گا۔‘‘

’’کب ہو گا یہ مقابلہ؟‘‘

’’اتوار کے دن،ٹھیک ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ لیکن ایک شر ط ہے۔‘‘ استاد نے کہا۔

’’وہ کیا؟‘‘ ناصر حسین نے حیرت سے پوچھا۔

’’شرط یہ ہے کہ تمہیں لازماً ہارنا پڑے گا۔‘‘

’’میں سمجھا نہیں۔‘ ‘ ناصرحسین نے پھر سوال کیا۔

’’تم انگریزی نہیں جانتے ؟‘‘

’’جانتا ہوں سر۔‘‘

’’تم ہار جیت نہیں جانتے ؟‘‘

’’وہ بھی جانتا ہوں سر۔‘‘

’’پھر کیا سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘

’’جناب مقابلہ سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مقابلے کا نتیجہ تو کھیل کے آخر میں آتا ہے۔ لیکن آپ تو پہلے ہی نتیجہ بتلا رہے ہیں۔‘‘

’’ہاں ہمارا یہی طریقہ ہے۔ ہم مقابلے سے قبل ہی نتیجہ طے کر دیتے ہیں  …  اور ویسے بھی تم لوگ ان سے جیت نہیں سکتے۔ یہ انگریز بچے ہیں  …  سرخ و سفید۔‘‘

’’جی سر …  پھر آپ یہ شرط کیوں لگا رہے ہیں۔‘‘

استاد سوچنے لگاناصرحسین نے اسے اپنی منطق میں پکڑ لیا تھا۔ وہ بولا۔ ’’بس یوں ہی …  حفظ ماتقدم کے طور پر۔‘‘

’’ٹھیک ہے سر! آپ کی یہ شرط مجھے منظور ہے۔‘‘

’’کیا شرط؟‘‘ استاد نے پوچھا۔

’’یہی کہ ہر صورت میں ہمیں ہارنا ہو گا۔‘‘

’’سمجھدارلگتے ہو۔‘‘ استاد مسکرایا۔

ناصر حسین نے شکریہ ادا کیا اور اپنی ٹیم کی جانب پلٹا۔ دو چار قدم آگے بڑھا تھا کہ استاد نے اسے واپس بلایا اور پوچھا۔ ’’تمہارا کیا نام ہے ؟‘‘

’’ناصرحسین۔‘‘

’’اور تمہاری ٹیم کا کیا نام ہے ؟‘‘

’’ٹیم کا نام؟‘‘ نا صرحسین سوچنے لگا۔ اُستاد بولا۔ ’’تمہاری ٹیم کا نام بلیک الیون ہے  …  …   گیارہ کا لے۔‘‘

’’اور اس ٹیم کیا نام ہے جناب؟‘‘ ناصر حسین نے انگریز بچوں کی جانب اشارہ کیا۔

استا د نے کہا۔ ’’وائٹ الیون  …  …   گیارہ گورے۔‘‘

’’ ٹھیک ہے جناب۔‘‘

’’ا ور سنو …  پہلا میچ میری شرط سے مستثنیٰ ہے۔‘‘

’’ کیا مطلب؟‘‘ ناصر حسین نے پوچھا۔

’’ میرا مطلب ہے اگر تم میں دم خم ہے تو پہلا میچ جیت بھی سکتے ہو، لیکن اس کے بعد سے  میری شرط لازمی ہو جائے گی۔‘‘

ناصر  حسین نے کہا ’’شکریہ‘‘ اور واپس آ کر ساری داستان اپنے ساتھیوں کو سنا دی۔ سارے سیاہ فام لڑکے کھیلنے کے لئے تیار ہو گئے۔ لیکن مسئلہ تھا کپتانی کا تھا۔ انگریز استاد نے کالی چرن کو ہٹا کر ناصر حسین کو کپتان بنا دیا تھا۔ لوگوں نے کہا۔ ’’ناصرحسین! تم نے قبول کر لیا کہ کالی چرن کپتان نہیں رہے گا؟‘‘

ناصر حسین بولا۔ ’’میں نے کوئی چیز قبول نہیں۔ کی میں تو صرف اس کی باتیں سنتا رہا اور آ کر آپ لوگوں کو بتلا رہا ہوں۔‘‘

’’اگر ہم اس میدان کے علاوہ کوئی اور میدان تلاش کر لیں تو ہمیں ان کی کوئی بھی بات ماننے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر یہاں کھیلنا ہے تو ان کی شرائط منظور کرنی ہی ہوں گی۔‘‘

کالی چرن بولا۔ ’’مسئلہ میری کپتانی کا نہیں ہے۔ مسئلہ ہارنے یا جیتنے کا بھی نہیں ہے۔ مسئلہ کھیلنے کا ہے۔ مجھے ناصرحسین کی کپتانی منظور ہے۔ ہمیں کسی بھی صورت سے پہلے مقابلے میں اُنہیں شکست دینی ہے اس لئے کہ اس کا موقع ہمیں پھر کبھی نہیں ملے گا۔‘‘

ناصر حسین نے اسے سینے سے لگا لیا اور بولا۔ ’’ہم پہلا میچ ضرور جیتیں گے۔‘‘ سب نے ایک زبان ہو کر تائید کی۔میچ والے دن کالی چرن کے اندر گویا کوئی جن حلول کر گیا تھا۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا کہ بچپن سے ہونے والے تمام امتیاز کا بدلہ چکانے کا آج ایک نادر موقع ہے۔ آج ہم انہیں شکست دے کر بتلا دیں گے کہ ہم ان سے بہتر ہیں اور کئی گنا بہتر ہیں۔ اس میچ کا ٹاس بھی ناصرحسین نے اسی طرح سے جیتا، جیسا کہ آج جیتا ہے اور اس بھی اس نے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا، جیسا کہ آج کیا ہے۔ دونوں فریقوں کے اندر کڑا مقابلہ ہوا لیکن بالآخر گیارہ کالے نو  وِکٹوں سے مقابلہ جیت گئے۔

سفید فام بچے اور ان کا اُستاد اپنی شرمناک شکست برداشت نہ کر سکے۔ اس کے رد عمل میں ان لوگوں نے ان سیاہ فام بچوں کے لئے میدان میں گھسنے پر ہمیشہ کی پابندی لگا دی۔ میدان کے آس پا س ایک اونچی جالی نصب کر دی گئی۔ دروازے پر پہرہ دار بٹھا دیا گیا جو رنگ دیکھ کر داخلے کی اجازت دیتا تھا۔ اس کے بعد کالی چرن ویسٹ انڈیز چلا گیا۔ اس نے ویسٹ انڈیز کی کپتانی کرتے ہوئے عالمی کرکٹ کے فائنل میں انگلینڈ کو شکست دے کر تاریخ کو دوہرانے  کا عظیم فریضہ انجام دیا۔ لیکن ناصرحسین نے انگلینڈ ہی میں کھیلتے ہوئے برطانوی ٹیم کی کپتانی حاصل کر لی۔

آج دو بچپن کے دوست ایک دُوسرے کے مدمقابل تھے۔ وہ دونوں اجنبی ممالک کی ٹیموں کی کپتانی کر رہے تھے۔ وہ جنہیں میدان میں آنے کی اجازت نہیں تھی وہ میدان پر حکمرانی کر رہے تھے۔

 کرشنن کی بات سن کر مسٹر الزبیتھ نے گوپال سے پوچھا۔ ’’میرے دوست! کیا تم جانتے ہو کہ آجکل کرکٹ کا کھیل ایجاد کرنے والا انگلستان اس قدر کسمپرسی کے عالم میں کیوں پہنچ گیا ہے ؟‘‘

گوپال بولا۔ ’’اس کے بارے میں ہماری معلومات آپ سے زیادہ نہیں ہے۔‘‘

مسٹر الزبیتھ بولے۔ ’’ہر صورت ہم جیتیں گے ، ہر حال میں انہیں ہارنا ہو گا‘‘ کی ذہنیت جو لوگ اس طرح کے مصنوعی تحفظات کے تحت جیتے ہیں، اُن کے اندر سے مسابقت کی روح پرواز کر جاتی ہے اور پھر حالت یہ ہو جاتی ہے کہ وہ …  جنہیں ہر صورت ہارنے پر مجبور کیا جاتا تھا، انہیں کے آگے جیت کے لئے جھولی پھیلانے کی نوبت آ جاتی ہے۔‘‘

شیام بولا۔ ’’میں نے بہت سارے حقیقت  پسند لوگ دیکھے ہیں، لیکن آپ جیسا کم ہی دیکھا ‘‘

میچ رفتہ رفتہ آگے  بڑھ رہا تھا۔

 

 

رسم و راہ

مسٹرالزبیتھ  نے ناشتہ سے فارغ ہو کر حقہ سے لطف اندوز ہونے لگے۔ انہوں نے دھوئیں کے مرغولے ہوا میں اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’کچھ عمر کی پختگی انسان کو حقیقت پسند بنا دیتی ہے اور کچھ وطن سے دوری۔‘‘

گوپال نے پوچھا۔ ’’پہلی بات کی میں تائید کرتا ہوں لیکن دوسری بات کچھ  سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘

’’دراصل انسان جب اپنے ملک میں، اپنے ماحول میں رہتا ہے تو بہت ساری باتیں مشاہدے کے باوجود اس کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ کئی مرتبہ وہ عقل کے بجائے دل سے سوچتا ہے ، جذبات کے تحت مغلوب ہو جاتا ہے۔ لیکن جب وطن دُور ہو جاتا ہے تو اِن تمام کمزوریوں سے اُسے نجات حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے اندر حقیقت پسندی آ جاتی ہے۔‘‘

کرشنن نے تائید کی۔ مسٹر الزبیتھ کے ساتھ گوپال اور شیام حقہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے ، لیکن کرشنن سوچ رہا تھا …  اُسے حقہ پیتے ہوئے دیکھ کر رادھا نہ جانے کیا سوچے گی؟ کہیں اس کا ایسا کرنا رادھا کو ناگوار تو نہیں گزرے گا؟

شیام نے پوچھا۔ ’’کرشنن! کیا بات ہے ؟ تم نے ابھی تک دھواں نہیں اُڑایا۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’نہیں  …  کوئی خاص بات نہیں۔ جلدی کس بات کی ہے ؟‘‘

’’ہاں ہاں  …  یہی تو میرا سوال ہے کہ دیرکس بات کی ہے ؟‘‘

’’وہ دیکھو …  مسز الزبیتھ بھی حقہ سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔‘‘ گوپال کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ کھانسنے بھی لگے تھے۔ کیتھرین اُن کی پیٹھ سہلا رہی تھی۔

 رادھا نے مسز الزبیتھ سے پوچھا۔ ’’آنٹی آپ نے یہاں آ کر یہ عادت خوب سیکھی ہے۔‘‘

مسز  الزبیتھ بولی۔ ’’تمہاری بات صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔‘‘

’’وہ کیسے ؟‘‘ رادھا نے پوچھا۔

 مسز الزبیتھ بولیں۔ ’’یہ صحیح ہے کہ میں نے انگلستان میں کبھی حقے کا کش نہیں لگایا تھا، لیکن میں سگریٹ وہاں پر بھی پیتی تھی۔ یہاں آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ حقہ بھی وہی کام کرتا ہے۔ لیکن اس کا دھواں پانی میں سے ہو کر آتا ہے ، اس لئے اس میں ٹھنڈک ہوتی ہے۔ اس کے تمباکو میں تیزی بھی کچھ کم ہوتی ہے ، پھل کی خوشبو ہوتی ہے۔ دیکھو …  تم بھی مزہ لے کر دیکھو۔‘‘

رادھا نے منع کر دیا، وہ بولی۔ ’’نہیں آنٹی، شکریہ۔‘‘

کرشنن کو لگا کہ وہ اُسے منع کر رہی ہے۔ میچ اپنے شباب پر پہنچ چکا تھا۔ گوپال، شیام اور مسٹر الزبیتھ پوری طرح اس میں محو ہو چکے تھے۔ کرشنن کو اس کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ادھر کیتھرین اور مسز الزبیتھ اپنی خاندانی گفتگو میں مصروف تھیں۔ بچے ، اُن کی بیویاں، ان کے بچے ، اس کبھی نہ ختم ہونے لے موضوع نے دونوں سہیلیوں کو نگل لیا تھا۔ رادھا کو اس گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ دُور ایک چھوٹے سے بچے کو کھیلتا ہوا دیکھ رہی تھی، جسے اُس کی ماں نے گھاس پر چھوڑ دیا تھا۔

بچے کی عجیب و غریب کیفیت تھی۔ وہ شوق و مستی میں اپنی ماں سے دُور بھاگتا تھا اور پھر خوف کھا کر قریب آ جاتا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ آزادی کے ساتھ دوڑے ،  بھاگے ، کھیلے کودے ، لیکن اس کا دل کہتا تھا کہ ماں ناراض نہ ہو جائے۔ ماں اس کو شوق اور خوف کے جھولے میں ہچکولے لیتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور مسکرا رہی تھی۔ بچے کا دُور ہو جانے کے بعد دَوڑ کر قریب آ جانا اُسے بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ ماں کو اس کا دُور ہونا بھی بھلا لگتا تھا اور دَوڑ کر اس کی آغوش میں آ جانا بھی خوب بھاتا تھا۔ رادھا نے جب بچہ سے نظر ہٹا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو اُسے کرشنن بھی ماں بیٹے کے اس کھیل سے لطف اندوز ہوتا ہوا نظر آیا۔ اُن دونوں نے اِن دونوں کو قریب کر دیا تھا۔

رادھا نے پوچھا۔ ’’کرشنن …  کیا  دیکھ رہے ہو؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’وہی جو تم دیکھ رہی ہو رادھا۔‘‘

رادھا نے پوچھا۔ ’’یہ کیسا رشتہ ہے ؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’یہ رشتۂ تخلیق ہے۔ یہ بچہ اس عورت کی تخلیق ہے۔ یہ عورت اُس بچے میں اپنے آپ کو دیکھ رہی ہے ، اس نے اس بچہ کے ذریعہ دوبارہ جنم لے لیا ہے۔ اس کا بچپن لوٹ آیا ہے۔‘‘

رادھا بولی۔ ’’صحیح …  تم صحیح کہتے ہو۔ اس بچے کے ذریعہ اس نے اپنی فنا کو بقاء میں بدل دیا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ جب وہ فنا ہو جائے گی، تب بھی اس کے نشان اس دُنیا میں باقی رہیں گے اور یہ نشانیاں کائنات کی تکمیل کا سبب بنیں گی۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’کیسا انوکھا ہے یہ نظام کائنات؟‘‘

’’ہاں کرشنن …  یہ اس کائنات کا دلچسپ ترین پہلو ہے۔‘‘

کرشنن نے کہا۔ ’’رادھا …  مجھے یہ منظر اپنی محرومی کا احساس دلاتا ہے۔‘‘

’’ تمہاری محرومی کی وجہ کیا ہے ؟‘‘

’’ شاید غفلت …  جس وقت مجھے احساس ہوا، بہت دیر ہو چکی تھی۔‘‘

’’ کیا تمہیں واقعی ایسا لگتا ہے ؟‘‘

کرشنن رُک گیا …  اور کچھ سوچ کر بولا۔ ’’مجھے ایسا لگتا تھا۔‘‘

رادھا نے سوال کیا۔ ’’تھا … ؟ کیا مطلب؟ کیا اب ایسا نہیں لگتا؟‘‘

’’شا ید نہیں۔‘‘

’’کیو ں ؟‘‘

’’اس لئے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس محرومیت کا شکار میں تنہا نہیں ہوں۔‘‘

’’اُس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ کیا ایک سے زائد محروم لوگ ایک دُوسرے کی محرومیت کو دُور کر سکتے ہیں۔‘‘

’’شاید ہاں !‘‘ کرشنن نے جواب دیا۔

رادھا نے اپنا سوال دہرایا، وہ بولی۔ ’’کرشنن تمہارا جواب اعتماد سے خالی ہے۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’سوال اعتماد کا نہیں، احتیاط کا ہے۔‘‘

’’کیسی احتیاط؟‘‘

’’اندیشہ  …  …   کہ کہیں میری محرومیت کو دوام نہ حاصل ہو جائے۔ رادھا، تم کیا سوچتی ہو؟‘‘

’’میں کچھ نہیں سوچتی۔‘‘

’’تو پھر مجھے کیا کرنا ہو گا؟‘‘

’’تم میرے والد صاحب سے بات کرو۔‘‘ وہ اپنی ہابیل والی غلطی سے بہت کچھ سیکھ چکی تھی۔ وہ دوبارہ کرشنن کو اور اپنے آپ کو مایوسی کے اندھیروں میں جھونکنا نہیں چاہتی تھی۔

کرشنن کے کہا۔ ’’ٹھیک ہے رادھا، تمہارا بہت شکریہ۔‘‘

رادھا خاموش رہی۔ ماں اپنے بچے کو سینے سے لگائے باغ سے باہر کی طرف جا رہی تھی۔ بچہ اپنی ماں سے لپٹ کر رو رہا تھا، وہ کھیلنا بھی چاہتا تھا اور گھر بھی جانا چاہتا تھا۔ ماں بیٹا ایک دُوسرے کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہے تھے  …  دُنیا و مافیہا سے بے خبر۔

رادھا کی اجازت کے باوجود کرشنن گوپال سے بات کرنے کا حوصلہ اپنے اندر محسوس نہیں کر رہا تھا۔ وہ ایک معمولی چوکیدار کی نوکری کر رہا تھا اور رادھا ایک بینک میں افسر تھی۔ ان لوگوں کے درمیان ازدواجی رشتہ کیوں کر قائم ہو سکتا تھا … ؟ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی …  لیکن اس ایک پہلو کے علاوہ رادھا اور کرشنن میں بہت کچھ مشترک تھا۔ دونوں پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ تھے۔ لکھنے پڑھنے کے شوقین، سنجیدہ اور متین۔ دونوں عمر کے اس حصہ میں تھے جہاں طبیعت میں ایک طرح کی پختگی آ جاتی ہے۔ بچپن اور لڑکپن نام کی کوئی شہ اُن کے درمیان نہیں تھی۔

ایک دن کرشنن نے سوچا کہ اُسے بات کر لینی چاہئے۔ اس لئے کہ اس میں نقصان کیا ہے ؟ اگر گوپال نہ بھی کہہ دیتا ہے تو اُسے کچھ کھونا تو ہے نہیں۔ حالت جیسی ہے ویسی ہی رہے گی۔ زیادہ سے زیادہ اس کا رادھا کے گھر پر آنا جانا بند کر دیا جائے گا۔ ویسے بھی لائبریری کی ترتیب و تدوین کا کام تقریباً ختم ہو چکا تھا، اور پھر  رادھا سے ملاقات کے پہلے بھی اس کا گزر ہو ہی رہا تھا …  اب بھی ہو جائے گا۔ شیام سے کہیں باہر ملاقات کر لیا کرے گا۔ شیام کا خیال کرشنن کے لئے آسانی کا سبب بن گیا۔ اسی نے شیام  سے باہر ملنے کا منصوبہ بنایا اور اسے انڈیا پیلس نام کے شاندار ملیالی ہوٹل میں کھانے کی دعوت دے ڈالی۔

شیام نے پوچھا۔ ’’کوئی خاص بات؟‘‘

 کرشنن نے کہا۔ ’’ہاں۔‘‘

’’تمہارا جنم دن تو نہیں ؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’خیر، کوئی بات نہیں۔ شیام بولا۔ ’’ہم لوگ ملتے ہیں۔‘‘

کھانے کے دوران شیام نے پھر پوچھا۔ ’’یار کرشنن، دعوت بلاوجہ نہیں ہوتی۔ یہ بات تم ہی نے کہی تھی۔ آخر آج کی اس شاندار دعوت کی وجہ کیا ہے ؟‘‘

کرشنن بولا۔ ’’لائبریری کا کام ختم ہو چکا ہے۔‘‘

’’اچھا …  اگر ایسا ہے تو اس کام کے اختتام پر اُسے بھی بلاتے جس کی لائبریری تم نے مرتب کی ہے۔‘‘

’’ہاں   …  …   لیکن میں نے دعوت اختتام کے لئے نہیں بلکہ ابتداء کے لئے دی ہے۔‘‘

’’کیا مطلب؟ میں کچھ سمجھا نہیں ؟‘‘ شیام نے پوچھا۔

’’دوست …  بات دراصل یہ ہے کہ میں رادھا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

شیام نے کہا۔ ’’اوہو … ! یہ تو بڑا اچھا خیال ہے۔ لیکن تالی صرف ایک ہاتھ سے تو نہیں بجتی۔‘‘

کرشنن نے کہا۔ ’’مسئلہ تالی بجانے کا نہیں، شہنائی بجانے کا ہے اور اس کے لئے دو ہاتھوں کے علاوہ ہونٹ اور گلے کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘

’’میں سمجھا نہیں۔ مطلب؟ گوپال نے کہیں منع تو نہیں کر دیا؟‘‘

’’نہیں  …  دراصل میں نے اُن سے پوچھا ہی نہیں۔‘‘

’’لیکن اس سے پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟‘‘

’’مجھے ضرورت نہیں لیکن رادھا کو ہے۔‘‘

’’تو رادھا پوچھے ! رادھا اگر گوپال سے اجازت چاہتی ہے تو کیوں نہیں لے لیتی؟‘‘

’’وہ نہیں لے سکتی۔ اُس نے یہ کام میرے ذمہ کیا ہے۔‘‘

تو تم اس کام کو کیوں نہیں کرتے ؟‘‘

’’مجھے اس بارے میں تھوڑا سا تکلّف ہے۔‘‘

عجیب مصیبت ہے۔ جسے اجازت چاہئے ، وہ لینا نہیں چاہتی۔ وہ جس سے چاہتی ہے کہ اجازت لے ، اُسے تکلّف ہے۔ آخر اس میں شیام کیا کرے ؟‘‘

’’تم میری بات گوپال تک پہنچا دو اور وہ جو کچھ کہتے ہیں، مجھ کو بتلا دو …  بس …  اتنا سا کام نہیں کر سکتے ؟‘‘

شیام نے کہا۔ ’’کر تو سکتا ہوں لیکن اگر گوپال نے انکار کے ساتھ ساتھ مجھے گھر سے نکال دیا تو میں کہاں رہوں گا؟‘‘

’’میرے ساتھ رہ لینا۔‘‘ کرشنن نے پیش کش کی اور دونوں دوست ہنسنے لگے۔

شیام نے ایک دن باتوں باتوں میں گوپال سے کہا۔ ’’کرشنن کہہ رہا تھا، لائبریری کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔‘‘

’’او ہو …  یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تمہارے دوست نے بہت محنت کی اور میری بیٹی کی بے ترتیب لائبریری کو بڑے سلیقے سے مرتب کر دیا۔ میں اس کا ممنون و مشکور ہوں۔‘‘

’’انکل  …  آپ کیا سوچتے ہیں اگر کرشنن کو رادھا کی بے ترتیب زندگی کو بھی مرتب کرنے ذ مہ داری سونپ دی جائے۔‘‘

’’میں سمجھا  نہیں ؟‘‘ گوپال نے کہا۔

شیام بولا۔  ’’دیکھئے انکل! رادھا اور کرشنن دونوں اپنی شادی کی عمرسے گزر چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کنوارے ہیں۔ شاید وہ ایک دوسرے کے لئے کنوارے رہ گئے ہیں۔ دونوں کے شوق، دونوں کی دلچسپیاں، دونوں کے مزاج میں بلا کی یکسانیت ہے۔ آپ کیا سوچتے ہیں اگر دونوں کی شادی ہو جائے ؟‘‘

گوپال بولا۔ ’’مجھے کیا سوچنا ہے۔ اگر وہ دونوں اس بات کے لئے تیار ہوں تو مجھے خوشی ہو گی۔‘‘ گوپال نے کہا۔

شیام نے پھر وضاحت طلب کی اور پوچھا۔ ’’تو کیا میں یہ سمجھوں کہ آپ کی طرف سے اجازت ہے ؟‘‘

گوپال خاموش ہو گیا۔ اُسے پھر کیتھرین کے ساتھ اپنی پرانی لڑائی یاد آ گئی۔ وہ بولا۔ ’’بیٹے تم اس بارے میں جلد بازی نہ کرو۔ میں کیتھرین سے بات کر کے تمہیں دو چار دن میں جواب دوں گا۔‘‘

شیام نے کہا ا۔ ’’شکریہ انکل …  مجھے آپ سے یہی اُمید تھی۔‘‘

گوپال عجیب بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا تھا۔ اُسے خوشی تھی کہ رادھا کے لئے کرشنن جیسے پڑھے لکھے لڑکے کا رشتہ آیا تھا۔ لیکن اسے ڈر تھا کہ کیتھرین اس کو مذہب کی بنیاد پر ٹھکرا نہ دے۔ دو دن یوں ہی گزر گئے۔ وہ کیتھرین سے اس مسئلہ پر بات نہ کر سکا۔ لیکن تیسرے دن اس نے ہمت کر کے کیتھرین سے پوچھا۔

’’کیتھرین …  کرشنن کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘

کیتھرین کے لئے یہ سوال کچھ عجیب قسم کا تھا۔ وہ بولی۔ ’’کیوں آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟‘‘

گوپال بولا۔ ’’بس یوں ہی پوچھ رہا ہوں۔ لیکن تمہارا سوال میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔‘‘

کیتھرین بولی۔ ’’کرشنن اچھا نوجوان ہے ، پختہ ذہن اور ملنسار۔‘‘

’’کیا رادھا اور کرشنن کے درمیان تمہیں کوئی مماثلت دکھائی دیتی  ہے ؟‘‘

’’مماثلت تو بہت ہے لیکن تمہیں یاد ہے ، رادھا نے کہا تھا کہ وہ ہمارے ذریعہ طے شدہ کسی رشتہ کو تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہے۔‘‘

’’ہاں مجھے یاد ہے۔‘‘

’’اور پھر کوئی ضروری تھوڑے ہی ہے کہ تمہاری یہ تجویز اُن دونوں کے لئے بھی قابل قبول ہو۔‘‘

گوپال نے کہا۔ ’’ہاں ! تم سچ کہتی ہو۔ لیکن شیام اس معاملے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے ، جیسا آپ مناسب سمجھیں۔‘‘ کیتھرین کو اپنی ماضی کی غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔ وہ اپنی بیٹی کے مزاج سے بھی واقف ہو چکی تھی۔ اس نے سوچا، اس موقع پر چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی مہنگی پڑ سکتی ہے۔ گوپال کیتھرین کی سمجھداری سے خوش ہوا اور اس نے شیام سے کہا۔ ’’میری طرف سے اجازت ہے۔‘‘

شیام نے یہ خبر کرشنن کو پہنچائی اور کرشنن نے فون کر کے رادھا کو بتلا دیا کہ گوپال کو اعتراض نہیں ہے اور اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو میں باقاعدہ اپنا رشتہ بھیج دوں۔ رادھا خاموش رہی۔ اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے اور ہوا میں جذب ہو گئے۔ کرشنن بار بار پوچھتا رہا، رادھا بولو تم بولتی کیوں نہیں ؟ رادھا نے سوچا کہ کاش کرشنن ان خوشی کے آنسوؤں کو دیکھ پاتا؟ اس کی زبان پر تالہ پڑا ہوا تھا۔ کرشنن نے فون رکھ دیا اور شیام کو یہ واقعہ کہہ سنایا۔

شیام بولا۔ ’’مبارک ہو دوست مبارک ہو۔ رادھا کی خاموشی دراصل ’’ہاں ہے ہاں ‘‘۔

شیام نے باقاعدہ اپنے دوست کا رشتہ گوپال اور کیتھرین کے سامنے پیش کیا اور کیتھرین نے اُسے قبول کرنے سے پہلے ایک مرتبہ کرشنن کا گھر اور دفتر دیکھنے کی شرط رکھ دی۔ حالانکہ اس شرط کا اُسے منظور یا نہ منظور کرنے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی بس دِکھاوے کے طور پر وہ یہ سب کرنا چاہتی تھی تاکہ کرشنن کو ایسا نہ لگے کہ وہ لوگ رادھا کو کسی کے بھی گلے باندھنے کے لئے اُتاولے بیٹھے ہیں۔

 

 

جعلی دفتر

کیتھرین نے سوچا کہ کرشنن چونکہ ایک یوروپی ملک کے سفارت خانے میں لائبریرین ہے ، وہ اس کے دفتر یا گھر اپنے ساتھ مسز الزبیتھ کو لے کر جائے گی، تاکہ اس کو بھی مرعوب کر سکے اور سارا معاملہ بالکل فطری انداز میں آگے بڑھے۔ لیکن کرشنن کے لئے یہ ایک معمولی سا تکلّف ایک بہت بڑی مصیبت بن گیا۔ اس نے خواب میں بھی یہ نہ سوچا تھا کہ کیتھرین یا گوپال اس سے ملنے بھی آسکتے ہیں۔کرشنن کو ایسا لگتا تھا کہ وہ صرف اس کی ذات سے سروکار رکھیں گے۔ لیکن وہ بھول گیا تھا کہ شادی کے بعد نوشہ کو بیوی کی کفالت کی ذمہ داری بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس لئے دلہن کے والدین پہلے ہی اس بات کی یقین دہانی کر لیتے ہیں ان کا ہونے والا داماد ان کی بیٹی کو اپنی اہلیہ بنانے کا اہل ہے یا نہیں ؟  اس جانچ پڑتال میں فرد سے زیادہ اہمیت  اس کے گھر اور دفتر کو حاصل ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ معاشرہ میں انسان کا مقام اس کے دفتر سے طے ہوتا ہے اور بیوی شوہر کے دل میں نہیں، گھر میں رہتی ہے۔

اس درمیان رادھا کو کرشنن کی حقیقت کا علم ہو گیا تھا اس لئے کہ کرشنن کا بنک اکاؤنٹ اسی کی برانچ میں تھا۔ اسے جوں ہی پتہ چلا کہ کیتھرین کرشنن کے گھر اور دفتر میں جانا چاہتی ہے ، پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ وہ سمجھ گئی کہ پھر ایک مرتبہ ہابیل کی کہانی دوہرائی جائے گی۔ شاید یہی اس کا مقدر ہے۔ تقدیر کے لکھے کو انسان نہ پڑھ سکتا ہے اور نہ بدل سکتا ہے۔ رادھا سوچ رہی تھی زمین پر اکڑ کر چلنے والا یہ احمق  انسان کس قدر مجبورِ محض ہے ؟

 کرشنن پہلے تو کچھ دیر پریشان رہا، پھر اس نے سوچا کہ مایوس ہونے کے بجائے کسی کو اس مسئلہ میں شریک کیا جائے۔ رضوان وہ بے چارہ کیا کر سکتا ہے ؟ غضنفر تو ہو سکتا ہے کہ مذاق اڑائے۔ چمیلی خود پریشان ہو گی اور اس کی پریشانی میں اضافہ کرے گی۔ البرٹ سے بات کرنے کی جرأت اس میں نہیں تھی۔ ایسے میں لے دے کر  ایک سوژان بچ گئی۔ اب وہ سوژان سے گفتگو کرنے کے لئے مناسب موقع کی تلاش میں لگ گیا۔ دوپہر کے وقت میں اُسے موقع بھی میسرآ گیا۔ سوژان کے سامنے اس نے معاملہ کے کو بالکل کھول کر رکھ دیا۔ اپنا سچ، اپنا جھوٹ اور اپنی مجبوریاں ہر چیز بیان کر نے کے بعد  اس کے سامنے تعاون کی جھولی پھیلا دی۔

 سوژان ایک عورت تھی۔ اس کا دل فوراً پگھل گیا۔ لیکن اس کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ کرشنن کی مدد کس طرح کی جائے۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔ کیا کرشنن، رادھا اور اس کے خاندان کو فریب دے رہا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو وہ اس دھوکہ دہی میں حصہ دار ہونا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن اسے کرشنن پر رحم آ رہا تھا۔ اس لئے وہ اس کی مدد بھی کرنا چاہتی تھی۔ اس نے کرشنن سے دو دن کا وقت مانگا اور رادھا کے بینک کا پتہ، دفتر کے اوقات اور ٹیلی فون نمبر لے لیے۔ وہ دراصل رادھا کی جانب سے اطمینان کر لینا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ رادھا کی غلط توقعات آگے چل کر کرشنن کی زندگی کو جہنم بنا ڈالیں گی۔ ایسے رشتہ کا بننے سے بہتر بگڑ جانا ہے۔

سوژان نے رادھا سے فون پر گفتگو کی اور ملاقات کے لئے وقت مانگا۔ دونوں شام کے وقت ایک کافی ہاؤس میں ملے۔ سوژان نے اس سے اپنا تعارف کروایا اور اس کو کرشنن کے بارے میں ٹٹولنے کی کوشش کی۔ اس نے محسوس کیا کہ رادھا کرشنن سے بیاہ رچانے کے لئے بالکل تیار ہے۔ سوژان نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ اس بات سے واقف ہے کہ کرشنن کس حیثیت سے ملازمت کر رہا ہے ؟ اس کا مختصر مگر واضح جواب رادھا نے دیا کہ وہ اچھی طرح واقف ہے ، اس لئے کہ بیلجیم سفارت خانے کا بینک اکاؤنٹ نہ صرف اس کے بینک بلکہ اُسی کی برانچ میں ہے۔ اس لئے اس نے کرشنن کے بارے میں سب کچھ سچ سچ پتہ چلا لیا ہے اور اس کے باوجود وہ کرشنن سے شادی کرنے پر رضامند ہے۔ وہ اس بابت کرشنن کے جھوٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی بلکہ اس کی مجبوری پر محمول کرتی ہے۔ سوژان کے پوچھے جانے پر کہ وہ اپنی ماں کے ذریعہ کرشنن کے گھر یا دفتر کی ملاقات کو کس قدر اہم سمجھتی ہے ، رادھا نے بتلایا کہ وہ اسے محض بے معنی رسم و رواج سے زیادہ  اہمیت نہیں دیتی۔

سوژان رادھا کی سادگی اور صاف گوئی سے بے حد متاثر ہوئی۔ اس کی باتوں میں بلا کا اعتماد اور سچائی تھی۔ اسے یکبار کرشنن کی تقدیر پر رشک آنے لگا۔ رادھا سے ملاقات کے بعد سوژان کے دل کی خلش دُور ہو گئی۔ اس نے شرحِ صدر کے ساتھ کرشنن کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سوژان چونکہ شادی سے قبل سفارت خانہ میں کام کر چکی تھی اور وہیں اس کی ملاقات رابرٹ سے ہوئی تھی، جو آگے چل کر ازدواجی رشتے میں بدل گئی۔ اس لئے وہ سفارت خانے میں موجود کمروں سے ، کتابوں سے ، دفاتر سے بلکہ ہر شئے سے واقف تھی۔ لیکن سب سے اہم کام البرٹ کو اپنے منصوبے میں شامل کرنے کا تھا۔  اپنی دلربا اداؤں سے سوژان نے اس کام کو باآسانی کر لیا۔

 اس کے بعد کرشنن کے جعلی گھر اور دفتر کی تیاری کا کام شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے کوٹھی کی اوپری منزل پر موجود خالی کمرے کو صاف کیا گیا اور کرشنن کا سامان اس میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد سفارت خانے میں موجود ملاقاتیوں کے کمرے کو لائبریری میں تبدیل کرنے کا کام شروع ہوا۔ اِدھر اُدھر پڑی ہوئی الماریوں کو سلیقے سے لگا دیا گیا۔ مختلف شعبہ جات میں بکھری ہوئی کتابوں کو اس میں منتقل کر دیا گیا۔ البرٹ خود کتابوں کا بڑا شوقین تھا۔ اس کے گھر سے تمام کتابیں نام نہاد کتب خانے میں پہنچا دی گئیں۔ کچھ فائلیں اور رجسٹر وغیرہ کو ایک کنارے سجا دیا گیا۔ اس طرح گویا ایک لائبریری کی سی چیز دو دن کی محنت سے معارض وجود میں آ گئی۔

 کرشنن نے اس کی زیبائش و آرائش پر خاص توجہ کی تھی۔ سوژان اس کام کی بڑی دلچسپی سے نگرانی کر رہی تھی، گویا اس کے کسی قریبی رشتہ دار بیاہ  ہو رہا ہو۔  لائبریری کا کمرہ اس قدر مختصر تھا کہ درمیان میں ایک بڑی سی میز اور اس کے آس پاس چار کرسیاں تھیں لائبریرین کا بھی اُن میں سے ایک طرف بیٹھ کر لائبریری کا انتظام چلانا سوژان کو جچ نہیں رہا تھا۔ لیکن اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے ؟ اس کی کوئی ترکیب اس کو سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ وہ کوئی ایسا دقیقہ اُٹھا رکھنا نہیں چاہتی تھی جس سے گوپال، کیتھرین اور ان کے ساتھ آنے والے مسٹر اور مسز الزبیتھ کو کوئی  شک ہو جائے۔

 بڑے غور و خوض کے بعدسوژان کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کام کے لئے البرٹ کو تیار کرنا بہت مشکل کام تھا، لیکن پھر بھی اس نے کوشش کر کے دیکھنے کا ارادہ کیا۔ شام کو البرٹ کے ساتھ بیٹھے بیٹھے اس نے قصداً کرشنن کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا اور اس کی تیاریوں پر روشنی ڈالنے لگی۔ البرٹ بے توجہی سے یہ سب سنتا رہا۔ لیکن جب سوژان نے کہا کہ البرٹ مہمانوں کے استقبال کی تمام تیاریاں ہو چکی ہیں، بس ایک کام باقی رہ گیا ہے۔

البرٹ بے زاری سے پوچھا۔ ’’وہ کیا؟‘‘

سوژان بولی۔ ’’کرشنن کا گھر اور لائبریری تو بن گیا لیکن دفتر ابھی نہ بن سکا۔‘‘

’’دفتر؟ لائبریری ہی لائبریرین کا دفتر ہوتا ہے۔‘‘ البرٹ نے جواب دیا۔

’’آپ صحیح کہتے ہیں۔‘‘ سوژان بولی۔ ’’لیکن یہ لائبریری والا کمرہ اس قدر مختصر ہے کہ اس میں لائبریری اور اسی میں دفتر کچھ ٹھیک نہیں لگتا۔‘‘

’’تو ٹھیک ہے  … ‘‘ البرٹ بولا۔ ’’کوٹھی میں جو دوسرا خالی کمرہ ہے ، اُسے دفتر بنا دو۔‘‘

سوژان ہنس پڑی اور بولی۔ ’’آپ بھی مذاق کرتے ہیں۔ اس طرح تو ہمارا سارا کھیل ختم ہو جائے گا۔‘‘

’’وہ کیسے ؟‘‘

’’ارے بھئی لائبریری اور اس کے دفتر میں کہیں ۵؍ کلومیٹر کا فاصلہ بھی ہوتا ہے۔‘‘

’’ہاں ہاں  …  میں جانتا ہوں کہ نہیں ہوتا لیکن یہ سب تو ایک ڈرامہ ہے۔‘‘

’’آپ صحیح کہتے ہیں۔ اسی لئے تو بڑے احتیاط کی ضرورت ہے ، ورنہ تو کوئی بات ہی نہ تھی۔‘‘

’’سفارتخانے میں تو کوئی فاضل کمرہ ہے نہیں جسے تم مصنوعی دفتر بنا سکو۔ اس بات سے تم اچھی طر ح واقف ہو۔‘‘ البرٹ بولا اورسوژان نے تائید کی۔

’’تب کیا کیا جائے ؟‘‘

’’ایک ترکیب ہے اگر آپ بُرا نہ مانیں تو  …  …  ‘‘

’’میں  …  میں کیوں بُرا مانوں گا؟ کیا ترکیب ہے ؟‘‘

سوژان رُک گئی!! پھر بولی۔ ’’نہیں، جانے دیجئے  …  آپ ناراض ہو جائیں گے۔‘‘

’’نہیں میری جان …  بولو، میں ناراض نہیں ہوؤں گا۔ بولو کیا ترکیب ہے ؟‘‘

سوژان نے کہا۔ ’’بات صرف ایک گھنٹے کی ہے۔ وہ لوگ دفتر آئیں گے اور چائے پی کر گھر آ جائیں گے ، ٹھیک ہے۔‘‘

’’لیکن اس میں ترکیب کیا ہے ؟‘‘

’’اگر آپ دو گھنٹے کے لئے دفتر نہ جائیں تو  …  …  ‘‘

’’اس سے کیا ہو گا؟‘‘ البرٹ نے پوچھا۔

’’وہ …  دراصل …  آپ کا دفتر دو گھنٹے کے لئے لائبریرین کا دفتر بن جائے گا۔‘‘

البرٹ چونک پڑا، وہ بولا۔ ’’سوژان …  کیا بکتی ہو؟ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے ؟‘‘

سوژان منہ بسورکر بولی۔ ’’میں تو پہلے ہی کہہ رہی تھی کہ آپ ناراض ہو جائیں گے۔ اس لئے اپنی بات نہیں بتا رہی تھی، لیکن آپ نے ہی اصرار کیا۔‘‘ اس نے ساری غلطی البرٹ کے سرتھوپ دی۔

البرٹ بولا۔ ’’دیکھو سوژان …  یہ مذاق کی بات نہیں، یہ سفارت خانے کا دفتر ہے۔‘‘

’’میں جانتی ہوں۔ لیکن اگر سمجھو کہ آپ کے دفتر میں کوئی کام ہو رہا ہے ، رنگائی ہو رہی ہے ، تو آپ کیا کریں گے ؟ اگر حکومت بیلجیم کی جانب سے کوئی فلم بنائی جائے جس میں آپ کے دفتر کی شوٹنگ کرنی ہے تو کیا ہو گا؟ یہی سمجھ لو۔ بس ایک گھنٹہ وہ وہاں بیٹھے گا، اپنے ہونے والے ساس سسر پر شاندار رعب جمائے گا اور بس  …  …  ‘‘

’’لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟ اپنی بیٹی سے اس کی شادی کر دینے کے بعد جب وہ آئیں گے اور اسے دربانی کرتا ہوا پائیں گے تب کیا ہو گا؟‘‘

سوژان نے کہا۔ ’’تب جو ہو گا سو ہو گا، لیکن اگر شادی ہی نہ ہو؟ تو اس بے چارے کرشنن کا اور رادھا کا کیا ہو گا؟ یہ تو سوچو!‘‘

’’تم تو اس طرح کہہ رہی ہو کہ اگر کرشنن رادھا سے شادی نہ کرے تو وہ کنواری ہی رہ جائے گی اور رادھا کے ماں باپ کرشنن کا رشتہ نامنظور کر دیں تو اس کی کبھی شادی ہی نہ  ہو گی؟‘‘

سوژان نے کہا۔ ’’نہ جانے کیوں مجھے اندیشہ ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ اگر ان دونوں کی شادی نہیں ہوئی تو وہ دونوں اس کے بعد شادی نہیں کر سکیں گے۔‘‘

البرٹ کو ہنسی آ گئی، وہ بولا۔ ’’سوژان تم کس دُنیا کی باتیں کرتی ہو؟ یہ سب تو صرف قصہ کہانیوں میں ہوتا ہے ، حقیقت کی دُنیا کا اس سے کیا واسطہ؟

سوژان بولی۔ ’’نہیں البرٹ! حقیقت میں جو کچھ ہوتا ہے ، اس کی مسخ شدہ صورت قصہ کہانیوں میں دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حقیقت میں جو کچھ ہوتا ہے ، وہ قصوں میں میں کہانیوں میں کب ممکن ہے ؟ خیر چھوڑو، اِسی لائبریری میں لائبریرین، کتابیں اور ان کے پڑھنے والے ، سب بیٹھ جائیں گے۔ مہمان بھی وہیں بیٹھیں گے اور چلے جائیں گے۔ جو ہو گا سو ہو گا …  کرشنن کی تقدیر۔‘‘

 البرٹ کو سوژان پر رحم آ گیا۔ اس نے سوچا کہ اگر واقعی یہ رشتہ ٹوٹ گیا تو کرشنن یا رادھا سے زیادہ دُکھ سوژان کو ہو گا۔ نہ جانے کیوں اُس احمق عورت نے اِس معاملہ کو اپنے اعصاب پر اِس طرح سوار کر لیا ہے ؟

البرٹ بولا۔ ’’چلو ٹھیک ہے ، تمہاری بات مان لیتا ہوں۔ لیکن دیکھو، جب وہ دفتر سے واپس گھر آئے تو کہیں اُن مہمانوں کو اپنی آرام گاہ کرشنن کے بیڈروم کے طور پر نہ دکھلا دینا …  ورنہ وہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ کرشنن شادی شدہ ہے اور پھر اس بے چارے کی شہنائی کے بجائے نگاڑے بج جائیں گے۔‘‘

سوژان نے ناراض ہو کر کہا۔ ’’کیسا بھونڈا مذاق کرتے ہو البرٹ! ہم لوگوں نے کوٹھی کا اوپری کمرہ کرشنن کی آرام گاہ کے طور پر تیار کر دیا ہے۔ اُنہیں وہی کمرہ دکھایا جائے گا۔‘‘

’’اوہو …   بہت خوب!‘‘ البرٹ بولا۔ ’’تمہیں تو ملیالی فلم کا ڈائرکٹر ہونا چاہئے تھا۔ اگر تم نے کہیں تیلگو میں ’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے ‘‘ بنائی تو وہ فلم ایک ہزار ہفتوں کے بعد بھی نہیں اُترے گی۔‘‘

سوژان بولی۔ ’ ’چپ کرو۔ آپ بڑے وہ ہیں۔‘‘

البرٹ نے کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کرشنن کے بچے سے کہنا کہ میرے دفتر میں ہاف شرٹ، لنگی اور چپّل پہن کر نہ بیٹھے۔ ورنہ سارا دفتری رعب ختم ہو جائے گا۔‘‘

سوژان نے کہا۔ ’’جی ہاں۔ آپ نے بڑی اہم بات کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔ ابھی تک تو ہم لوگ صرف گھر، دفتر اور لائبریری وغیرہ کے چکر میں پریشان رہے۔ اس کے لباس کے بارے میں تو سوچا ہی نہیں۔‘‘

’’تم نے نہیں سوچا تو کیا ہوا۔ اُس نے رضوان اور غضنفر کے ساتھ جا کر نئے کپڑے خرید لئے ہوں گے۔‘‘

سوژان بولی۔ ’’مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوا ہو گا۔ وہ تو خود اِس قدر دباؤ میں ہے کہ اُسے کچھ نہیں سوجھتا اور اگر وہ ایسا کرتا تو مجھے ضرور بتلاتا۔ خیر البرٹ  …  ایک بات بتاؤ۔ اگر کرشنن کی شادی رادھا سے طے ہو جاتی ہے تو آپ اسے تحفہ میں کیا دیں گے ؟‘‘

البرٹ کو سوژان کے اِس سوال پر ہنسی آ گئی۔ وہ بولا۔ ’’ارے بھئی اب تک تو اس شادی کی منظوری خطرے میں ہے اور ابھی سے تم نے شادی کا تحفہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ صبر کرو۔ جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا۔‘‘

’’مطلب یہ ہے کہ آپ کو یقین ہے یہ رشتہ منظور نہ ہو گا۔‘‘ سوژان نے کہا۔

’’یہ بات میں نے کب کہی؟‘‘

’’کہی تو نہیں، لیکن آپ کی بات کا یہی مطلب نکلتا ہے۔‘‘

’’نہیں بابا …  میری بات کا یہ مطلب نہیں ہے۔‘‘ البرٹ بولا۔ ’’میں تو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ رشتہ ضرور طے پائے گا۔ بس، اب تو خوش ہو۔‘‘

سوژان کی آنکھیں چمکنے لگیں، وہ بولی۔ ’’آپ کے منہ میں گھی شکر۔ ہاں تو سمجھو کہ رشتہ طے پا گیا تو اب بتاؤ کہ آپ تحفہ میں کیا دیں گے ؟‘‘ سوژان پھر اپنے پُرانے سوال پر آ گئی۔

البرٹ بولا۔ ’’دے دیں گے  …  نائٹ لیمپ دے دیں گے۔‘‘

’’نائٹ لیمپ … !! اپنی حیثیت کا تو کچھ خیال کر کے بولئے۔ نائٹ لیمپ تو رضوان الحق بھی دے سکتا ہے۔‘‘

’’اچھا … ! تو کیا اُسے سونے کی انگوٹھی دے دیں ؟‘‘

سوژان نے کہا۔ ’’آپ تو اس معاملہ میں بالکل میں کندۂ  نا تراش نکلے۔ سونے کے زیور تو دُلہن کو دئیے جاتے ہیں۔ رادھا کے لئے یہ تحفہ ٹھیک رہے گا۔‘‘

البرٹ بولا۔ ’’میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ خیر، تم جو کہو گی وہ دے دیں گے۔‘‘

’’ہاں ! اب آپ نے کام کی بات کہی۔‘‘ سوژان نے خوش ہو کر کہا اور پھر بولی۔ ’’اگر میری بات مانیں تو ہمیں کرشنن کو شاندار تھری پیس سوٹ دینا چاہیے۔‘‘

’’ٹھیک ہے بابا، تین نہیں سیون پیس سوٹ دے دیں گے  …  بس!‘‘

’’یہ سیون پیس سوٹ کیا ہوتا ہے ؟‘‘

’’ارے بھئی وہی شرٹ، بنیان، انڈروئیر، ٹائی اور رومال وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح سیون پیس ہو جائیں گے۔‘‘ البرٹ نے زِچ ہو کر کہا۔

’’ہاں۔ آدمی تو سمجھدار لگتے ہو۔‘‘ سوژان بولی۔ ’’میری مانو تو کیوں نہ یہ تحفہ ہم کرشنن کو ابھی دے دیں ؟‘‘

’’ابھی!‘‘ البرٹ چونک پڑا۔ ’’ابھی تو شادی ہی طے نہ ہوئی۔ ابھی سے تحفے کا کیا مطلب؟‘‘

’’ہاں جی …  ابھی تو کرشنن کو اُس تحفے کی ضرورت ہے ، ورنہ اگر شادی طے ہی نہ ہوئی تو تحفہ کیسے دیا جائے گا؟‘‘

البرٹ پریشان ہو گیا بولا۔ ’’سوژان کیسی بچوں والی بات کر رہی ہو؟ شادی سوٹ بوٹ کی نہیں، کرشنن کی ہونے جا رہی ہے۔‘‘

’’ہاں، جانتی ہوں۔‘‘ سوژان بولی۔ ’’اس کے باوجود ہم لوگ  پچھلے ایک ہفتے سے گھر، دفتر اور لائبریری وغیرہ کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ بات مردوں کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔ چلو ہم لوگ کرشنن کے لئے سوٹ کا تحفہ خریدنے کے لئے چلتے ہیں۔‘‘

البرٹ نے کہا۔ ’’چلے جائیں گے ، جلدی کس بات کی ہے ؟‘‘

’’جلدی ہے۔ کل شام وہ لوگ آنے والے ہیں۔ آج خریدیں گے تو کل تک اُس کا الٹریشن ہو گا، تبھی تو وہ پہن سکے گا۔‘‘

’’کیا تم سنجیدہ ہو سوژان؟‘‘ البرٹ نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں البرٹ! میں بے حد سنجیدہ ہوں، اور آپ سے التجا کرتی ہوں کہ  برائے مہربانی آپ بھی ایک دن کے لئے سنجیدہ ہو جائیے اور اس کام کے لئے میرے ساتھ چلئے۔‘‘

البرٹ نے چند لمحات غور کرنے کے بعد کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ غضنفر  سے کہو گاڑی تیار کرے۔‘‘

 آدھے گھنٹے بعد سوژان اور البرٹ نے شہر کی ایک شاندار دُکان سے تیار شدہ سوٹ بندھوایا اور اُسے اس ہدایت کے ساتھ وہیں چھوڑ دیا کہ تھوڑی دیر بعد کرشنن نام کا ایک شخص آئے گا، جس کے ناپ کے مطابق اس کو درست کر کے کل دوپہر تک حویلی بھیج دیا جائے۔ دُکان والے نے تائید میں سر ہلایا اور رسید لے کر یہ لوگ واپس گاڑی میں بیٹھ گئے۔ راستے میں سوژان نے غضنفر کو بتلایا کہ وہ فوراً کرشنن کو لے کر اِس دُکان میں آئے۔ سوژان نے کرشنن کو سوٹ کی رسید تھمائی اور اُسے غضنفر کے ساتھ جانے کی تلقین کی۔ کرشنن کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید البرٹ کے لئے سوٹ لے کر آنا ہے۔ لیکن اس بات کو غضنفر اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ اسے کیوں بھیجا جا رہا ہے۔ خیر، جب وہ دُکان میں پہنچا تو دُکان کے مالک نے پوچھا۔ ’’کرشنن کو ن ہے ؟‘‘

’’میں ہوں۔‘‘ کرشنن بولا۔

’’ٹھیک ہے جناب۔‘‘ اس نے کرشنن کو درزی کے پاس بھیج دیا جس نے کرشنن کا ناپ لیا اور کہا۔ ’’شکریہ جناب، کل دوپہر تک آپ کا سوٹ درست ہو کر آپ کو مل جائے گا۔‘‘

کرشنن واپس گاڑی میں آ گیا اور غضنفر سے بولا۔ ’’غضنفر …  سوژان عورت نہیں، دیوی ہے۔ وہ انسان نہیں فرشتہ ہے۔‘‘

غضنفر کو کرشنن کی بات اُس وقت سمجھ میں نہیں آئی، لیکن جب دوسرے دن دوپہر کو کرشنن نے سوٹ زیب تن کیا تو غضنفر کی سمجھ  میں آ گیا کہ سوژان ایک فرشتہ صفت انسان ہے۔

البرٹ نے اپنی سکریٹر ی کو بلایا اور اس سے کہا کہ ’’دیکھو، میں آج کھانے کے بعد میں دفتر نہیں آؤں گا۔ تم میرے تمام پیغامات لے لینا اور اگر کوئی ضروری کام ہو تو گھر میں  فون کر کے بتلا دینا۔‘‘

اس کی سکریٹری نے پوچھا۔ ’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟‘‘

اس نے کہا۔ ’’ہاں،بالکل اچھی ہے۔‘‘

’’سوژان کی صحت تو ٹھیک ہے ؟‘‘

البرٹ بولا۔ ’’وہ بھی بالکل ٹھیک ہے۔‘‘

سکریٹری نے معنی خیز انداز میں کہا۔ ’’اوہ اچھا …  میں سمجھ گئی۔‘‘

’’نہیں، وہ بات نہیں ہے جو تم سمجھیں۔ اور ہاں  …  دیکھو ایک خاص کام تمہیں آج دوپہر کرنا ہو گا۔ نہایت راز داری کے ساتھ۔‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’دراصل میرا دفتر آج دوپہر سے شام تک لائبریرین کا دفتر بن جائے گا اور اس میں کرشنن لائبریرین کی حیثیت سے بیٹھے گا۔‘‘

’’کون وہ آپ کا چوکیدار کرشنن؟‘‘

’’ہاں، وہی کرشنن …  اور دیکھو، اس سے ملنے کچھ مہمان آئیں گے۔ تم ان کی خاطر مدارات کا اچھا انتظام کرنا۔ وہ لوگ ایک آدھ گھنٹہ بیٹھ کر کرشنن کے ساتھ لوٹ جائیں گے۔ اس بیچ تم کسی کو اس دفتر کی جانب پھٹکنے نہ دینا۔ اور ہاں، اس معاملہ کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘

البرٹ کی سکریٹری مارلا، سوژان کی پرانی سہیلی تھی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ کرشنن کا اس دفتر میں بیٹھنا، مہمانوں سے ملنا …  اسے یہ سب عجیب و غریب لگ رہا تھا۔ لیکن البرٹ سے وضاحت طلب کرنے کی ہمت مارلا میں نہیں تھی۔ اِس لئے وہ ’’یس سر یس سر‘‘ کرتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد البرٹ غضنفر کے ساتھ گھر آ گیا۔ راستے میں رُک کر غضنفر نے کرشنن کا سوٹ بھی حاصل کر لیا۔ آدھے گھنٹے کے بعد کرشنن نئے سوٹ میں غضنفر کے ساتھ سفارت خانے  کیلئے روانہ ہو گیا۔

جب وہ اگلی سیٹ پر بیٹھنے لگا تو غضنفر بولا۔ ’’جناب، آج کے دن آپ آگے نہیں، پیچھے بیٹھیں گے۔ آج آپ اپنے دوست غضنفر کے ساتھ نہیں چل رہے ہیں۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’چھوڑو غضنفر …  غریب کاکیوں مذاق اُڑاتے ہو؟‘‘

’’نہیں کرشنن، یہ مذاق نہیں ہے۔ سوژان میڈم کا حکم ہے اور میں تو بصد شوق اس کی تعمیل کر رہا ہوں۔‘‘

کرشنن غضنفر کی بات ٹال کر سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور بولا۔ ’’غضنفر …  اگر انسان اپنی آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ لگا لے تو دھوپ، چھاؤں میں نہیں بدل جاتی۔ بس اُسے سائے کا گمان ہوتا ہے۔ دھوپ اِسی طرح باقی رہتی ہے۔‘‘

غضنفر بولا۔ ’’کرشنن تم ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن آج چشمہ دُوسروں کی آنکھوں پر لگانا ہے۔ اُنہیں نہ صرف محسوس کرانا ہے بلکہ یقین دلانا ہے کہ سورج کو بادلوں نے ڈھانپ لیا ہے  …  سرد ہوائیں چل رہی ہیں  …  ساون کا مہینہ بہت قریب آ چکا ہے  …  پھول کھل رہے  ہیں  …  شہنائیاں بج رہی ہیں۔‘‘

کرشنن سفارت خانے میں داخل ہوا تو کسی نے اُس کو نہیں پہچانا۔ سوٹ اور ٹائی میں اس کی شخصیت پوری طرح  بدل چکی تھی۔ وہاں کے عملے نے سمجھا کہ شاید کوئی ملاقاتی ہے۔ جب وہ البرٹ کے  دفتر میں جانے کے لئے مارلا کے سامنے پہنچا تو اُس نے سمجھا کہ مہمان آ گئے۔ وہ بو لی۔ ’’آپ تشریف رکھیں، کرشنن صاحب ابھی آنے ہی والے ہیں۔‘‘

کرشنن کو ہنسی آ گئی۔ اُس نے اپنا رے بان کا چشمہ اُتار کر کہا۔ ’’مارلا …  اور کون سا کرشنن آنے والا ہے ؟‘‘

مارلا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، وہ بولی۔ ’’معاف کرنا کرشنن، میں تمہیں پہچان نہ سکی۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’کوئی بات نہیں، ایسا ہوتا ہے۔‘‘

مارلا نے کہا۔ ’’لیکن اگر رادھا نے بھی تمہیں پہچاننے میں غلطی کر دی تو کیا ہو گا؟‘‘مارلا نے سوژان سے فون پر تمام تفصیلات معلوم کر کر لی تھیں۔

 کرشنن بولا۔ ’’نہیں مارلا! تمام نگاہیں دھوکہ کھا سکتی ہیں، لیکن رادھا  فریبِ نظر کا شکار نہیں ہو سکتی۔‘‘

مارلا بولی۔ ’’بڑا اعتماد ہے تمہیں رادھا پر!‘‘

’’ہاں مارلا! تم سچ کہتی ہو۔ مجھے اپنے آپ سے زیادہ اعتماد رادھا پر ہے۔ اس بیچ اس کی نظر دروازے پر لگی تختی پر پڑی، جس پر لکھا تھا ’’البرٹ میلانٹا، قونصل جنرل، بیلجیم۔‘‘ کرشنن کے کہا۔ ’’مارلا …  یہ کیا؟‘‘

مارلا بولی۔ ’’ارے ہاں۔ یہ تو بڑا غلطی ہو گئی۔‘‘ اُس نے فوراً تختی کو ہوک سے  نکالا اور اُسے لے جا کر اپنی میز کی دراز میں رکھ دیا۔ فون کی گھنٹی بجی، چوکیدار نے  خبر دی کہ مہمان آ چکے ہیں۔ مارلا نے چاروں مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور کرشنن کے کمرے تک اُن کی رہنمائی کی۔ چائے ناشتہ کے بعد کرشنن اُنہیں اپنے ساتھ مصنوعی لائبریری میں لے آیا۔ وہاں انہوں نے پانچ منٹ گزارے اور پھر یہ قافلہ اُس  کے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔

 گھر آنے کے بعد مہمانوں کی ملاقات البرٹ اور سوژان سے ہوئی۔ ان لوگوں  کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی گئی۔ سوژان کرشنن کی تعریف کے پل باندھتی رہی۔ چمیلی بیگم نے کیتھرین کو وہ کمرہ دکھایا جو کرشنن کے نام پر تیار کیا گیا تھا، جس میں کرشنن نے نہ کوئی رات گزاری تھی اور نہ اُسے گزارنی تھی۔ خیر، کیتھرین کرشنن کے گھر اور دفتر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اُسے ہابیل کا رشتہ نامنظور کرنے کے اپنے فیصلے پر فخر ہونے لگا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اچھا ہی ہوا جو اُس نے اُس وقت اڑیل رُخ اختیار کیا، ورنہ کرشنن جیسا اچھا دُولہا رادھا کیوں کر نصیب ہوتا۔ سب کچھ بخیر و خوبی نمٹ گیا۔ سارے مہمان خوشی خوشی واپس لوٹ گئے۔

مہمانوں کے چلے  جانے کے بعد البرٹ نے پوچھا۔ ’’سوژان، اگر واقعی کرشنن کی شادی رادھا سے ہو جاتی ہے تو وہ دونوں کہاں رہیں گے ؟ اِن ملازمین کے کوارٹر میں رادھا کیسے رہے گی؟ وہ تو بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔‘‘

 سوژان بولی۔ ’’میں نے تو یہ طے کر لیا تھا کہ شادی کے بعد بالائی منزلہ کا کمرہ رادھا اور کرشنن کو رہنے کے لئے دے دوں گی۔ لیکن مجھے رادھا نے بتلایا کہ اُس نے بینک سے قرض لے کر اپنے لئے دو کمروں کا ایک فلیٹ بُک کر لیا ہے۔ اور جب تک وہ اس  کے نئے فلیٹ میں منتقل نہیں ہو جاتے ، اس وقت تک کرشنن گھر داماد کے طور پر ٹی۔ٹی۔  ٹاورس میں رہے گا۔‘‘

البرٹ کو تعجب ہو رہا تھا کہ سوژان اس شادی میں کس حد تک جاچکی ہے ، کس قدر تفصیلات اس نے معلوم کر لی ہیں۔ البرٹ کا خیال تھا کہ صرف یوروپ کی عورتیں شادی بیاہ میں اس قدر  دلچسپی رکھتی ہیں اور غضنفر کا خیال تھا کہ صرف ہند و پاک کی خواتین کو شادی بیاہ کے علاوہ کسی معاملہ میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ فلپینی  خاتون ان سب سے آگے نکل گئی تھی۔

 

 

بہو بیٹی

تاریخ اپنے آپ کو دوہرانے جا رہی تھی۔ گوپال اور کیتھرین کی طرح رادھا اور کرشنن کی شادی کو بھی دو بار ہونا تھا۔ پہلی مرتبہ عیسائیت کے طریقہ پر ابوظبی میں اور پھر دوبارہ ہندوانہ رسم و رواج کے مطابق کیرالا میں۔ یہاں پر اُن دونوں کے جاننے والوں کی تعداد تھی تو کم لیکن تھے بھانت بھانت کے لوگ۔ گوپال کا عزیز ترین دوست برطانوی تھا اور دوسرا قریبی ساتھی شیام سندراگروال شمالی ہندوستان سے تعلق رکھتا تھا۔ کرشنن کے جاننے والوں میں غضنفر پاکستانی، تو رضوان الحق بنگالی، سوژان فلپینی تو البرٹ بیلجیم کا باشندہ تھا۔ لیکن اس فہرست میں دلچسپ  اضافہ اُس وقت ہوا کہ جب گوپال کو اس تقریب میں ہابیل کو بلانے کی سوجھی۔ اُس نے اپنی پرانی خستہ حال ڈائری میں سے ہابیل کا نمبر نکال کر اُسے فون لگایا تو سامنے سے ایک نہایت پُر تپاک آواز نے اس کا استقبال کیا۔ یہ عاقل بہشتی کی آواز تھی۔ عاقل گوپال کی آواز سنتے ہی اس کو پہچان گیا، وہ بولا۔ ’’کیسے ہیں گوپال صاحب؟ برسوں کے بعد کیسے ہماری یاد آ گئی؟‘‘

گوپال نے اندازے سے پوچھا۔ ’’کیا میں جناب عاقل بہشتی صاحب سے ہم کلام ہوں۔‘‘

’’ارے بھئی اتنے تکلّفات کی کیا ضرورت … ؟ میرا نام تو عاقل ہے ، بہشتی ہمارا خاندانی نام ہے۔ اس لئے عقلمندی اسی میں ہے کہ آپ صرف عاقل بولو، یہی کافی ہے۔ ویسے چونکہ میں ہابیل اور قابیل کا باپ ہوں، اس لئے لوگ مجھے جاہل بھی کہتے ہیں۔‘‘

’’جاہل  …  …   کیسی باتیں کرتے ہیں آپ؟

’’ارے چھوڑو یار! ویسے کوئی اور کہے نہ کہے ، وزارت داخلہ کے محکمۂ جوازات میں میرا شمار جاہلوں ہی میں ہوتا ہے۔‘‘

گوپال بولا۔ ’’عاقل صاحب! آپ بہت دُور نکل گئے اور وزارت داخلہ تک پہنچ گئے۔‘‘

’’نہیں گوپال نہیں ! کہیں دُور نہیں، یہ دیکھو میری ہوم منسٹر میرے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی زبان سے کہے یا نہ کہے ، مجھے جاہل سمجھتی ضرور ہے۔‘‘

عشرت جہاں نے آہستہ سے ڈانٹا۔ ’’کیا اول فول بکتے رہتے ہو۔‘‘

عاقل بولا۔ ’’دیکھو، یہ مارشل لاء لگا رہی ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی سلب کرنے جا رہی ہے۔‘‘

عشرت جہاں نے فون کے اس بٹن پر اُنگلی رکھ دی جس سے وہ منقطع ہو جاتا ہے۔ عاقل بولا۔ ’’گوپال …  جلد ہی میرا رابطہ ساری دُنیا سے کٹنے والا ہے۔ غیر قانونی خونی شکنجہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے ، اس لئے جلدی سے بولو، کیوں فون کیا؟‘‘

گوپال کے سامنے بیٹھی کیتھرین چشم تصور میں عاقل کے گھر کا منظر دیکھ رہی تھی اور اس سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ گوپال بولا۔ ’’بات دراصل یہ ہے کہ رادھا کی شادی طے ہو گئی ہے۔ اور میں آپ کو مع اہل و عیال اس میں شرکت کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔‘‘

’’اوہو … ! یہ تو بڑی اچھی خبر سنائی گوپال تم نے۔ سچ بتاؤں مجھے اور عشرت کو نہ جانے کس شدّت سے اس خبر کا انتظار تھا۔ اس لئے کہ رادھا کو میں نے اپنی بہو مان  لیا تھا اور جب تمہاری جانب سے انکار ہو گیا تو وہ میری بیٹی بن گئی۔ تم جانتے ہو میری کوئی بیٹی ہے نہیں، بس ایک رادھا کے سوا۔ عرصہ دراز تک مجھے بار بار اس کی شادی کا خیال آتا رہا بعد میں میں نے سوچا کہ شاید اس کی شادی ہو چکی ہو گی۔ تم لوگوں نے ہمیں بتانا ضروری نہیں سمجھا ہو گا، لیکن دل سے آواز آتی کہ نہیں، رادھا ایسا نہیں کر سکتی۔ وہ اپنی خوشی کے اس موقع پر ہمیں بھول نہیں سکتی۔ خیر! میرا اندازہ صحیح نکلا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے ہمیں یاد کیا اور سچ بتلاؤں، اگر تم ہمیں یاد نہ کرتے تو مجھے زندگی بھر اس کا قلق ہوتا۔‘‘

عشرت جہاں کی اُنگلی فو ن کے بٹن سے ہٹ چکی تھی۔ اس کے ہاتھ ہوا میں دُعا کے لئے اُٹھے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا گویا اس کی بن بیاہی بیٹی کا نکاح ہونے جا رہا ہے۔ عاقل بولا۔ ’’دیکھو تمہاری بھابی خدا سے دُعا کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس کی دُعاؤں کو قبول فرمائے  …  آمین!‘‘

کیتھرین نے یہ جملہ سنا  تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ بولی۔ ’’آمین! ثم آمین!‘‘

گوپال نے فو ن پر کہا۔ ’’تمہاری بھابی جو اسپیکر فون پر ہماری گفتگو سن رہی ہے ، ’آمین ثم آمین‘ کہہ رہی ہے۔‘‘

عاقل نے بات آگے بڑھائی، وہ بولا۔ ’’اچھا، اب یہ تو بتلاؤ کہ شادی کب اور کہاں ہے ؟‘‘

گوپال بولا۔ ’’۱۱؍ستمبر کے دن محمد بن زائد مسجد کے سامنے والے چرچ میں۔‘‘

’’جی ہاں جی ہاں  …  میں جانتا ہوں، وہ بڑا زبردست چرچ ہے۔ ہاں تو اِسی چرچ میں شادی ہو گی، بہت خوب۔ لیکن ایک بات ماننی پڑے گی کہ تم نے شادی کے لئے جو مہورت نکالا، وہ واقعی نہایت شبھ …  میرا مطلب مبارک ہے۔‘‘

گوپال نے کہا۔ ’’عاقل …  اب یہ نوبت آ گئی ہے کہ تم مجھے شبھ کا مطلب سمجھاؤ گے۔‘‘

’’اوہو …  معاف کرنا، میں بھول ہی گیا تھا کہ ایک ہندوستانی سے بات کر رہا ہوں۔ پھر بھی دوست …  جنوبی ہند کے ہندوستانیوں سے اچھی ہندی تو ہم ایرانی اور پاکستانی بلکہ دبئی میں رہنے والے عربی بھی جانتے ہیں۔‘‘

گوپال نے کہا۔ ’’ہاں تم صحیح کہتے ہو اور ایسا اس لئے ہے کہ اُن کو ہندی سے نہ کوئی خطرہ ہے اور نہ پرخاش  ہے۔ ہم تمل باشندوں کی حالت مختلف ہے۔ ہمیں اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ لوگ ہم پر ہندی تھوپ کر ہم کو اپنی زبان اور تہذیب سے محروم کر دیں گے۔ اس لئے ہمارا جھگڑا ہے۔ ہم اس زبان سے محبت نہیں نفرت کرتے ہیں، لیکن تمہارا معاملہ مختلف ہے۔‘‘

’’تمہاری بات دُرست ہے۔‘‘ عاقل نے تائید کی اور بولا۔ ’’ہندی تمہارے لئے ہابیل کی طرح ہے اور ہمارے لئے رادھا کی مانند۔‘‘ عاقل کے اِس جملے میں ایک طنز تھا، جسے کیتھرین نے محسو س کیا۔‘‘

گوپال بولا۔ ’’دوست ماضی کے زخموں کو انسان کتنے عرصے سینے سے لگا کر رکھ سکتا ہے ؟ انسان اگر نہ چاہے تب بھی وقت کا مرہم اُسے بھر دیتا ہے۔ اس لئے اب ان کو کریدنا بہتر نہیں ہے۔‘‘

عاقل نے معذرت طلب کی اور بولا۔ ’’گوپال میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ تو خیر ایک جملہ معترضہ تھا۔ میں اس کے لئے معافی چاہتا ہوں۔‘‘

’’اب تم تکلف کر رہے ہو۔‘‘ گوپال بولا۔

’’نہیں ایسی بات نہیں۔‘‘

’’اچھا تو تم مع اہل و عیال … ‘‘

عاقل نے جملہ کاٹ دیا بولا۔ ’’میری دونوں عیال فی الحال ملک سے باہر ہیں۔ ہابیل امریکہ اور قابیل ملیشیا میں۔ اب یہاں پر ہم دونوں ہیں اور ہیں ہماری تنہائیاں۔‘‘

گوپال بولا۔ ’’میں نے تو سنا تھا کہ جب انسان ایک سے دو ہوتا ہے تو تنہا نہیں رہتا۔‘‘

’’تم نے صحیح سنا ہے گوپال۔ لیکن جب وہ چار سے بلکہ چھ سے دو ہو جاتا ہے تو پھر تنہائی محسوس کرنے لگتا ہے۔ جب میں اور عشرت ایک ہوئے تو تنہائی غائب ہو گئی، پھر دو سے چار ہو گئے اور جب ہابیل اور قابیل کی شادیاں ہوئیں تو چھ ہو گئے۔ لیکن جب یہ چھ تین مقامات پر بٹ گئے تو ہماری تنہائیاں لوٹ آئیں۔‘‘

گوپال نے کہا۔ ’’یار تم صحیح کہتے ہو۔ دونوں بیٹوں کے انتقال وطن کے بعد تنہائی نے مجھے بھی دونوں طرف سے گھیر لیا تھا۔ لیکن اب رادھا کی شادی کے بعد تو ہم تنہائی میں پوری طرح غرق ہو جائیں گے۔ خیر، تنہائیاں بھی اپنا مسکن تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ کسی کی  تنہائی دُور ہوتی ہے تو وہ کسی اور کا مقدّر بن جاتی ہے۔‘‘ گوپال نے ٹھنڈی آہ بھری۔

عاقل بولا۔ ’’ گوپال یاد فرمائی کا شکریہ۔ ۱۱؍ستمبر کو پھر ایک بار یادگار بنانے کے لئے بہت بہت شکر یہ۔ اس سال ہم اس کا یادگار جشن منائیں گے۔‘‘

گوپال نے شکریہ ادا کر کے فون رکھ دیا اور گم سم بیٹھ گیا۔‘‘

کیتھرین بولی۔ ’’ گوپال کیا سوچ رہے ہو؟ تم اُداس کیوں ہو گئے ہو؟‘‘

گوپال بولا۔ ’’نہ جا نے کیوں  …  جب سے رادھا کی شادی طے ہوئی ہے ، میں بہت ہی خوش تھا۔ لیکن آ ج عاقل سے بات چیت نے مجھے اُداس کر دیا۔‘‘

کیتھرین بولی۔ ’’ چھوڑو اِن باتوں کو، کام کرو کام۔ ۱۱؍ستمبر قریب سے قریب آتی جا رہی ہے اور بہت  سارا کام ابھی باقی ہے۔ اس طرح اُداس بیٹھے رہو گے تو باقی ماندہ کام کون کرے گا ؟ تمہارے بیٹے تو یہاں ہیں نہیں کہ ہاتھ بٹائیں۔ سب کچھ ہم دونوں کو ہی کرنا ہے۔ ‘‘

گوپال بولا۔ ’’اِسی تنہائی کے  احساس نے مجھے اُداس کر دیا ہے جس کا تم نے ابھی ذکر کیا۔ انسان واقعی اس دُنیا میں تنہا آیا اور تنہا جائے گا، بلکہ تنہا جئے گا اور تنہا مرے گا۔‘‘

کیتھرین نے منہ بنا کر کہا۔ ’’اب یہ فلسفہ بگھارنا چھوڑو اور جلدی سے تیار ہو جاؤ، ہمیں خریداری کے لئے باہر جانا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادھر عشرت جہاں بولی۔ ’’آج میرے سرتاج بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

’’کیا کہا تم نے ؟‘‘ عاقل  بولا۔ ’’بڑے طویل عرصے کے بعد اس لقب سے یاد فرمائی کا شکریہ۔‘‘

عشرت بولی۔ ’ ’تم ہمیشہ مذاق کرتے رہتے ہو۔ میں بولتی نہیں ہوں تو کیا ہوا، سمجھتی تو ہوں۔‘‘

’’اری بھاگوان …  سمجھتی تو تم نہ جانے کیا کیا ہو؟ لیکن ہم تو وہی جانتے ہیں جو بولتی ہو۔ مگر ایک  بات بتاؤں، تم بولتی بہت خوب ہو۔‘‘

’’اَب یہ لفاظی چھوڑو۔ تمہاری اِسی بک بک نے دو مرتبہ گوپال کو چوٹ پہنچائی، کیا تم جانتے  ہو؟‘‘

 ’’جی ہاں۔  لیکن مجھے اس کا احساس بعد میں ہوا۔ اگر پہلے ہوتا تو میں احتراز کرتا۔‘‘

’’تمہارا تو حال  یہ ہے کہ ہمیشہ میں تمہیں اپنی غلطی کا احساس بعد میں ہوتا ہے ، جب چڑیا کھیت  چگ چکی ہوتی ہے۔ رادھا کے سلسلے میں بھی میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ہابیل اور اس کا رشتہ نہیں ہو سکتا۔ تم ہابیل کو سمجھا بجھا کر منع کر دو، لیکن تم نے منع نہیں کیا اور دیکھا اس کا نتیجہ کیا ہوا۔ رادھا کو کتنے سال شادی کے بغیر تنہا زندگی گزارنی پڑی۔‘‘

’’ہاں عشرت! مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے۔ میں ہی اس بارے میں بڑی خوش فہمی کا شکار تھا اور بات آگے بڑھاتا چلا گیا۔ لیکن جب یہ بات نہ بن سکی تو مجھے اس کا بے حد دُکھ ہوا …  اور سچ بات تو یہ ہے میں ایک احساسِ جرم کے تحت زندگی گزارنے لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ گویا اس حادثے کے لئے میں ذمہ دار ہوں۔ رادھا اور ہابیل تو خیر بچے تھے ، لیکن میں  … ؟ میں تو بچہ نہیں تھا۔ کئی بار مجھے خیال ہوتا کہ میں اپنی غلطی کا کفارہ ادا کر دوں۔ کسی مناسب لڑکے کو تلاش کر کے رادھا کا اس سے بیاہ کروا دوں۔ لیکن جو رادھا اپنے ماں باپ کی نہیں سن رہی تھی، وہ میری بات کیوں کر مانتی؟ یہ سوچ کر میں خاموش ہو گیا۔‘‘

عشرت بولی۔ ’’یہ آپ کی غلطی تھی۔ رادھا کے والدین نے اس کی دلآزاری کی تھی، اس لئے وہ ان کی بات نہیں مان رہی تھی۔ لیکن تم نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ اگر تم اس معاملہ میں پیش قدمی کرتے تو شاید وہ تمہاری بات مان جاتی۔‘‘

’’شاید تم ٹھیک کہتی ہو عشرت۔ لیکن میں محتاط ہو گیا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ دوبارہ یہ کہانی دوہرائی جائے۔ لیکن تم نے بھی تو مجھے اس کا مشورہ  نہیں دیا۔‘‘

’’میں کیسے دیتی … ؟ آپ نے کبھی بھی اپنے قلق کا اظہار نہیں کیا۔ ویسے بھی آپ مجھے اپنا سمجھتے کب ہیں جو اپنے غم میں شریک کریں ؟‘‘ عشرت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بولی۔

’’نہیں، ایسی بات نہیں۔ میں اپنے غم میں تمہیں شریک کر کے تمہیں بھی غمگین نہیں کرنا چاہتا تھا۔‘‘

عشرت بولی۔ ’ ’آپ نے پھر غلطی کی۔ جو غم آپ کو تھا، وہی میرے بھی دل میں تھا۔ اگر آپ مجھے  شریک کرتے تو شاید ہم دونوں ایک دوسرے کا دُکھ ہلکا کر پاتے۔‘‘

’’ ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ تم ابھی ان خطوط پر سوچ رہی ہو۔  یہ بات تمہارے بھی دل میں ہے اس لئے کہ  تم نے اسے پوشیدہ ہی رکھا  ہوا ہے ‘‘

’’جی …  میں ایک عورت ہوں۔ یہ ہماری فطرت ہے کہ ہم اپنے دُکھ درد دِل میں چھپا کر رکھتی ہیں اور خود سے پہل نہیں کرتیں۔‘‘

عاقل نے تائید کی۔ ’’اور رادھا …  رادھا بھی تمہاری قبیل سے ہے۔ تم لوگوں کو سمجھنا بے حد مشکل ہے۔‘‘

عشرت نے طرح لگائی۔ ’’بلکہ ناممکن ہے۔ خیر چھوڑو، ماضی کے لمحات کو بھول جاؤ۔ جو ہونا تھا سو ہو چکا۔ اب جو ہو رہا ہے وہ بہت خوب ہے اور جو ہونے والا ہے وہ انشاء اللہ خوب سے خوب تر ہو گا۔‘‘

’’انشاء اللہ العزیز۔‘‘ عاقل نے کہا۔

وہ دونوں واقعی اسی طرح خوشی سے جھوم رہے تھے گویا ان کی اپنی بیٹی رادھا کی شادی ہونے جا رہی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کیتھرین بولی۔ ’’عاقل بہشتی رادھا کی شادی کے بارے میں جان کر کس قدر خوش ہوئے۔‘‘

گوپال خاموش رہا۔ کیتھرین کو اس کی سرد مہری پر غصہ آ گیا، پھر بھی اس نے بات آگے بڑھائی۔ ’’حالانکہ اس کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے۔ آخر رادھا اور عاقل کا کیا رشتہ؟‘‘

گوپال بولا۔ ’’دیکھو کیتھرین! اس دُنیا میں  وقوع پذیر ہونے والی ہر بات کی کوئی نہ کوئی وجہ ہو، یہ ضروری تو نہیں۔ بہت ساری باتیں بے وجہ بھی ہوتی ہیں۔‘‘

کیتھرین کو گوپال کا جواب پسند نہیں آیا، وہ بولی۔ ’’بلاوجہ کوئی اہم بات نہیں ہوتی۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہو کہ تمہارا کند ذہن اس وجہ تک رسائی نہیں کر پا رہا ہے۔ ‘‘

گوپال نے پھر تین الفاظ میں مختصر سا جواب دیا۔ ’’ہاں، یہی سمجھ لو۔‘‘

کیتھرین کا پارہ چڑھ گیا، وہ بولی۔ ’’یہ کیا ہو گیا ہے تمہیں جو ہوا  سے لڑ رہے ہو؟‘‘

گوپال بولا۔ ’’کسے خبر کہ لڑائی کون کر رہا ہے ؟ میں یا تم؟‘‘

’’میں لڑائی کر رہی ہوں ؟ اپنی غلطی کا الزام میرے سر ڈالتے ہو۔ کسی بات کا کہ خود سیدھے منہ جواب نہیں دیتے اور مجھے موردِ الزام ٹھہراتے ہو۔‘‘

گوپال بولا۔ ’’تم سیدھے سوالات ہی نہیں کر رہی ہو، تو ایسے میں اُن کا سیدھا جواب کیسے دیا جائے ؟‘‘

’’تمہارا مطلب ہے میں اُوٹ پٹانگ قسم کے سوالات کر رہی ہوں ؟‘‘

’’یہ میں نے نہیں کہا، لیکن تمہارے سوالات یقیناً واضح نہیں ہیں۔  ایسے میں جواب کیوں کر واضح ہو سکتے ہیں۔‘‘

’’دیکھو میں کوئی سوال نہیں کر رہی ہوں۔ میں تو صرف یہ کہہ رہی  تھی کہ ہم نے رادھا کے بیاہ کی اطلاع کئی لوگوں کو دی۔ اپنے رشتہ داروں کو، بچوں کو اور دوست و احباب کو۔ لیکن کوئی اسے جان کر اس قدر خوش نہیں ہوا۔ کسی نے رادھا کی شادی میں تاخیر کے لئے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے برخلاف کوئی اپنی مجبوریوں کے گیت سنانے لگا تو کوئی اپنی مصروفیت کا راگ الاپتا رہا۔کسی نے شریک ہونے سے معذرت طلب کی تو کوئی فون پر ہی مبارک و سلامت کر کے اپنی ذمہ داری سے بری الذمّہ ہو گیا۔ ارے آپ نہیں آسکتے ہیں تو نہ آئیں، ہماری شادی کون سی رُکنے والی ہے ؟ لیکن بلاوجہ کی بہانے بازی سے کیا فائدہ؟‘‘

’’ٹھیک ہے ہم نے اپنا کام کیا، انہوں نے اپنا کام کیا۔ کام ختم ہو گیا۔ اب تم کیوں پریشان ہو رہی ہو؟‘‘

’’میں کوئی پریشان نہیں ہو رہی ہوں۔ میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ ان لوگوں نے اس مسرت کا اظہار کیوں نہیں کیا، جس کا اظہار عاقل نے کیا۔ بس اتنی سی بات۔‘‘

گوپال بولا۔ ’’دیکھو کیتھرین! جو خود مطمئن ہے ، وہ اطمینان بانٹتا ہے۔ جو خود خوش ہوتا ہے ، وہ دُوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کرتا ہے۔‘‘

’’ہاں، اب تم نے کام کی بات کی۔ کیتھرین خوش ہو کر بولی۔ ’’دراصل ہم لوگوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری خوشی میں وہی شریک ہو سکتا ہے جو ہماری خوشی سے خوش ہو، اور ہمیں بھی اپنی خوشی میں شریک کرنا چاہے۔ ایسا ہی کچھ عاقل کے ساتھ ہوا۔‘‘

گوپال نے تائید کی اور بولا۔ ’’عاقل سے میری کئی بار ملاقات ہوئی ہے۔ اس کے دفتر میں، اس کے گھر پر اور باہر بھی …  میں نے اسے ہمیشہ میں باغ و بہار پایا …  ہنسنے اور قہقہہ لگانے والا عاقل بہشتی جو اپنے غموں اور ناکامیوں کو بھی ہنسی میں اُڑا دیتا ہے۔ اور تم تو جانتی ہی ہو، جیسا کہ عاقل ہے ، ویسی ہی اس کی بیوی عشرت ہے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ کیتھرین نے چہک کر کہا۔ ’’عشرت ویسی ہے اور میں نہیں ہوں ؟‘‘

گوپال کو ہنسی آ گئی، وہ بولا۔ ’’کیتھرین! تم اس عمر میں بھی کچھ معاملات میں بے انتہا حساس واقع ہوئی ہو۔ بھئی جیسی تم ہو ویسی عشرت نہیں ہے اور جیسی عشرت ہے ویسی تم نہیں ہو۔ اس میں پریشانی کس بات کی ہے ؟ سب لوگوں کا ایک جیسا ہونا ضروری نہیں ہے ؟‘‘

’’نہیں  …  مجھے اس بات سے کوئی پریشانی نہیں۔‘‘ کیتھرین بولی۔ ’’لیکن تم نے جس طرح کے تعریفی کلمات اس کے لئے استعمال کئے ، ویسا ایک لفظ بھی کبھی میرے لئے اپنے منہ سے نہیں نکالا۔‘‘

گوپال کو پھر ہنسی آ گئی اور وہ بولا۔ ’’اری بھاگوان …  میں نے عشرت کی تعریف ہی کب کی اور میں ایسا کرنے کی جرأت کیسے کر سکتا ہوں ؟ میں تو عاقل کی تعریف کر رہا تھا، بلکہ مجھ سے زیادہ تم کر رہی تھیں۔ میں نے صرف یہ اضافہ کیا کہ جس طرح عاقل ہے ، اُسی طرح عشرت بھی ہے۔‘‘

’’ہاں ہاں  …  بس کرو! میں خوب جانتی ہوں تم کیا کہہ رہے تھے اور کیا نہیں کہہ رہے تھے۔‘‘ کیتھرین نے تنک کر کہا۔

گوپال بولا۔ ’’لیکن تم یہ نہیں جانتیں کہ عاقل کی عشرت سے شادی کیسے ہوئی؟‘‘

کیتھرین نے کہا۔ ’’ہاں عاقل تو ایرانی  نژاد لگتا ہے اور عشرت فلسطینی ہے۔ یہ دونوں کیسے مل گئے ؟‘‘

’’میں جانتا ہوں۔‘‘ گوپال بولا۔ ’’دراصل جس روز تم نے ہا بیل اور رادھا کی شادی کے بارے میں اپنا قطعی فیصلہ سنا دیا کہ شادی ہرگز ہرگز نہیں  ہو سکتی، اُس سے پہلے میں عاقل سے وعدہ کر چکا تھا کہ میں تمہیں سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤ ں گا اور ہم دونوں اس بات کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو چکے تھے کہ ہابیل  اور رادھا کی شادی یقیناً ہو جائے گی۔ لیکن تمہارے انکار کے بعد یہ فیصلہ عاقل کو بتلانا  میرے لئے ایک مشکل کام تھا۔ میں کئی دنوں تک اپنے آپ کو تیار کرتا رہا اور بالآخر میں نے ایک دن سے عاقل کو ’’اسٹار بک‘‘ نامی کافی ہاؤس میں بلایا۔ عاقل سمجھ گیا کہ خوشخبری سنانے کے لئے میں نے اونچے درجے کے کافی ہاؤس کا انتخاب کیا ہے۔ اس نے پوچھا کہ کیا میں تمہارے ساتھ آ رہا ہوں تاکہ وہ بھی عشرت کو ساتھ لائے ؟ میں نے کہا نہیں، فی الحال تو تم اکیلے آؤ، آگے چل کر دیکھیں گے۔ میری اس بات نے اس کے دل میں اندیشہ پیدا کیا۔اس نے چونک کر کہا کیا؟ اور پھر بولا کوئی بات نہیں، ہم لوگ ملتے ہیں۔

شام کو کافی ہاؤس کے ایک کونے میں ہم لوگ ملے۔ ہال اس قدر کشادہ تھا کہ ایسا محسوس ہی نہ ہوتا تھا کہ انسان کسی عوامی جگہ پر بیٹھا ہے۔ بڑے بڑے صوفے دُور دُور سجائے گئے تھے۔ ایک حصے کا آدمی دوسرے حصے کے لوگوں سے بالکل الگ تھلگ تھا۔ اسے دُوسروں کی موجودگی سے کوئی خلل محسوس نہ ہوتا تھا۔ حالانکہ کافی ہاؤس کے اندر بیٹھے ہوئے گاہکوں  کے درمیان کوئی دیوار نہیں تھی۔ اس کے باوجود فاصلوں کا پردہ تھا۔ میں نے بلیک کافی اور عاقل نے کاپوچنو کا آرڈر دیا۔ ویٹریس آرڈر لے کر چلی گئی۔ ہم لوگ کچھ دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ ایک دُوسرے کی خیریت و عافیت معلوم کرتے رہے۔ اس بیچ کافی آ گئی۔ عاقل گوپال سے خوشخبری سننے کے لئے بے چین ہو رہا تھا۔ اس نے کیک کا بھی آرڈر دے دیا۔ وہ گوپال کا منہ میٹھا کرنا چاہتا تھا۔

کافی کو کپ میں ڈالتے ہوئے گوپال بولا۔ ’’عاقل، مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔‘‘

عاقل کے ہاتھ میں کاپوچینو کا کپ لرز گیا۔ اُس نے کہا ’’کیا؟‘‘

گوپال بولا۔ ’’عاقل …  میں اس بات کے لئے بے حد شرمندہ ہوں۔ اس قدر طویل عرصہ کیتھرین کے ساتھ گزارنے کے باوجود میں اس کے مزاج کو نہیں سمجھ سکا۔ اس کا ٹھیک اندازہ نہ کر سکا۔ میں بھول گیا تھا کہ یہ وہی کیتھرین ہے ، وہی کیتھرین جو اپنی رائے کبھی بھی نہیں بدلتی تھی۔ اس کے فیصلوں پر اس کے والدین تک اثر انداز نہ ہو سکے۔ اس نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف مجھ سے شادی کر لی اور اب اس کی رائے کو اس کا شوہر گوپال اور اس کی بیٹی رادھا بھی متاثر نہ کر سکے۔ اپنی ضد و ہٹ دھرمی کے چلتے اس نے اپنی بیٹی کی ہابیل کے ساتھ شادی سے انکار کر دیا۔ کیتھرین اپنی رائے پر جنون کی حد تک اصرار کرنے والی عورت ہے  …  …   کیتھرین!!‘‘ گوپال کی آواز لرز رہی تھی۔

عاقل نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا۔ ’’لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے گوپال؟ آخر رادھا بھی تو کیتھرین کی بیٹی ہے ؟‘‘

گوپال بولا۔ ’’ہاں عاقل …  میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ رادھا کیتھرین کی بیٹی ہے اور وہ بھی اپنی ماں کی طرح اپنی رائے پر اَڑ جائے گی، بلکہ میں نے بلاواسطہ رادھا کو اشارہ بھی دے دیا تھا کہ وہ اپنی ماں کی مرضی کے خلاف اگر ہابیل سے شادی کر لیتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ بس میں یہ کروں گا کہ کیتھرین کا دل رکھنے کی خاطر اس شادی میں شرکت نہیں کر سکوں گا۔‘‘

’’تو پھر رادھا بیٹی نے کیا کہا؟‘‘ عاقل نے بے چینی سے پوچھا۔

گوپال بولا۔ ’’رادھا میرے جیسے نکل گئی …  کمزور، مصلحت کوش، دوسروں کا خیال کرنے والی، دوسروں کی خوشی کی خاطر خود کو غمگین کرنے والی۔‘‘

عاقل بولا۔ ’’ کیا مطلب؟‘‘

رادھا نے کہا۔ ’’اپاّ …  وہ مجھے اپاّ کہتی ہے۔ میں شادی کر رہی ہوں، چوری نہیں کر رہی۔ میں اس طرح سے شادی نہیں کر سکتی کہ اس میں میری ماں اپنی ناراضگی اور میرا باپ اپنی مجبوری کے باعث شرکت نہ کرے۔ اس کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ کیتھرین کی مرضی کے خلاف شادی نہیں کرے گی لیکن کیتھرین کی مرضی کے مطابق بھی شادی نہیں کرے گی۔ رادھا کا یہ فیصلہ اپنی ماں کی طرح حتمی اور آخری فیصلہ تھا۔ میرے دوست میں تو ماں بیٹی کی ضدی چکّی میں پس گیا ہوں۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ تم اور ہابیل بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے ہو۔‘‘

عاقل نے شکر کی پڑیا گوپال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’گوپال، تم شکر کے بغیر ہی کافی کی چسکیاں لے رہے ہو۔ اس میں شکر الگ سے ڈالنی پڑتی ہے۔‘‘

گوپال بولا۔ ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ زندگی کی تلخیوں کو کم کرنے کے لئے شکر کو الگ سے ڈالنا پڑتا ہے۔ لیکن کچھ تلخیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ شکر کی مٹھاس کو نگل جاتی ہیں۔ مصری کی ڈلی اس کے آگے کنکریاں بن جاتی ہیں، وہ نہ اُن میں گھلتی ہیں اور نہ مٹھاس پیدا کر پاتی ہیں۔‘‘

عاقل نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو گوپال …  شادی بیاہ کے معاملے میں آخری فیصلہ خواتین ہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ مرد  کی جانب سے ایجاب اور عورت کی جانب سے قبول سے ہی یہ ریشمی گانٹھ بندھتی ہے۔‘‘

’’جی ہاں۔‘‘ گوپال بولا۔ ’’لیکن اس ایجاب و قبول میں مرد و عورت مستقبل کے شوہر اور بیوی ہوں تو ٹھیک ہے ، لیکن اگر ایجاب لڑکے کے باپ کی جانب سے ہو اور انکار لڑکی کی ماں کی جانب سے ، تو بات کھلتی ہے۔‘‘

عاقل نے پوچھا۔ ’’گوپال کیا تم تقدیر پر ایمان رکھتے ہو؟

گوپال نے کہا۔ ’’یقیناً صد فیصد۔‘‘

’’اگر ایسا ہے تو تمہیں افسوس نہیں ہونا چاہئے۔ ہم لوگ تقدیر کا لکھا نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ اسے بدل سکتے ہیں۔ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں، وہ یہی ہے کہ مقدر کے فیصلوں پر راضی ہو جائیں  …  اور اگر نہ بھی ہوں تو اس میں صرف اور صرف ہمارا اپنا نقصان ہے۔ اس لئے کہ اس بابت ہماری ناراضگی کسی اور سے نہیں ہماری اپنی ذات سے ہے۔‘‘

گوپال بولا۔ ’’عاقل تمہاری بات درست ہے۔ لیکن آخر تقدیر میں سب کی سب ناکامیاں ہی کیوں لکھی ہوئی ہیں ؟‘‘

عاقل بولا۔ ’’نہیں دوست …  تقدیر میں تو ناکامیاں اور کامیابیاں، دونوں لکھی ہیں۔ لیکن انسان جب کامیاب ہوتا ہے تو وہ اسے اپنی صلاحیت اور قابلیت سے منسوب کرتا ہے اور جب ناکام ہوتا ہے اسے تقدیر کا  خیال آتا ہے۔ دراصل میری اور عشرت کی شادی صرف اور صرف تقدیر کا کھیل ہے۔ ورنہ میرا وطن، میری زبان، میری تہذیب اور میرا مزاج …  سب کچھ اس سے مختلف  تھا۔ اس کے باوجود ہمارا نکاح ہو گیا، اس لئے کہ ’’یہی تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یا ر ہوتا‘‘۔

گوپال کو لگا کہ عاقل نے مصرع میں تبدیلی کی ہے۔ یہ تو غم ویاس کی غزل ہے ، جسے جگجیت سنگھ کی آواز میں وہ کئی بار سن چکا ہے۔ مگر عاقل نے اپنی چالاکی سے اسے پُرمسرت بنا ڈالا تھا۔ گوپال اپنی یادداشت پر زور ڈال کر صحیح مصرعہ ڈھونڈ رہا تھا کہ عاقل نے پوچھا۔ ’’اگر تمہیں دلچسپی ہو تو میں تمہیں بتلاؤں کہ ہماری شادی کیسے ہوئی؟‘‘

 ’’گوپال نے کہا۔ ’’ضرور بتلاؤ۔‘‘

 عاقل بولا۔ ’’لیکن اس سے پہلے تمہیں یہ کیک کھانا پڑے گا۔ ہماری شادی کی سالگرہ کا کیک۔‘‘

’’کیا؟‘‘ گوپال نے پوچھا۔

’’نہیں کچھ نہیں ! ہم لوگ سال میں کئی مرتبہ اپنی شادی کی سالگرہ مناتے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘

دونوں ہنسنے لگے۔ ماحول کا تناؤ کچھ کم ہوا اور عاقل بہشتی نے اپنی داستان ہوشربا شروع کی۔اب وہ  اپنی قسمت کی کہانی گوپال کے آگے بیان کر رہا تھا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

حصہ دوم کے لئے یہاں کلک کریں