FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مکڑی۔ایک معجزہ

فہرست مضامین

(THE MIRACLE IN THE SPIDER)

ہارون یحيٰ

مترجم: افشین عبدالحمید لودھی

قارئین کے نام

’ نظریۂ ارتقاء کی موت ‘‘ کے لئے ایک خاص باب اس لئے مختص کیا گیا ہے کیونکہ یہ نظریہ تمام مذہب دشمن فلسفوں کی بنیاد ہے۔ ڈارونیت چونکہ حقیقت تخلیق کو،اور اسی بناء پر وجودِ خدا کو مسترد کرتی ہے اس لئے پچھلے ایک سو چالیس برسوں میں اس نظریے نے متعدد افراد کو ترکِ دین یا تشکیک کا شکار ہو جانے پر مائل کیا ہے۔ چنانچہ اس بات کا اظہار کہ یہ نظریہ ایک فریب ہے، ایک نہایت اہم فریضہ بن جاتا ہے جس کا دین سے گہرا تعلق ہے۔ یہ اشد ضروری ہے کہ یہ اہم خدمت ہر ایک تک پہنچے۔ ہوسکتا ہے ہمارے قارئین میں سے کچھ ایسے ہوں جنہیں ہماری کتابوں میں سے صرف ایک ہی کتاب پڑھنے کا موقع ملے، لہٰذا ہم یہ موزوں سمجھتے ہیں کہ اس کتاب میں ایک باب اس موضوع کے خلاصے کے لئے مقرر کر دیا جائے۔

مصنف کی تمام کتابوں میں مذہب سے متعلق مسائل قرآنی آیات کی روشنی میں بیان کئے گئے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے احکامات سیکھنے اور ان کے مطابق زندگی بسرکرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ اللہ کی آیات سے متعلق تمام مضامین اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ قاری کے ذہن میں شک کی کوئی گنجائش یا سوالیہ نشان باقی نہیں رہ جاتا۔ جس مخلصانہ، سادہ و رواں اسلوب کو اپنایا گیا ہے اس نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ ہر عمر کا شخص خواہ وہ کسی بھی معاشرتی طبقے سے تعلق رکھتا ہو، ان کتابوں کو بہ آسانی سمجھ سکے۔یہ موّثر اور سہل اندازِ بیان ایک ہی نشست میں ان کتابوں کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مذہب کو سختی سے مسترد کرنے والے افراد بھی ان کتابوں میں بیان کردہ حقائق سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے متن کی تردید نہیں کر پاتے۔

مصنف کی دیگر کتب کی مانند یہ کتاب انفرادی طور پر بھی پڑھی جا سکتی ہے یا پھر ایک گروہ میں بیٹھ کر دورانِ گفتگو اس کتاب پر بات چیت کی جا سکتی ہے۔وہ قارئین جوان کتابوں سے مستفید ہونا چاہتے ہیں انھیں یہ گفتگو بہت فائدہ مند محسوس ہو گی کیونکہ اسطرح وہ ایک دوسرے کو اپنے خیالات اور تجربات سے آگاہ کر سکیں گے۔

مزید یہ کہ ان کتابوں کو، جو صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر لکھی گئی ہیں، پڑھنے اور دوسروں کے سامنے پیش کرنے میں مدد گاری ایک عظیم دینی خدمت ہو گی۔ مصنف کی تمام کتب، قاری کو قائل کر لیتی ہیں۔ اسی لئے جو لوگ دوسروں تک دین پہنچانا چاہتے ہیں، ان کے لئے سب سے موّثر طریقۂ تبلیغ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو یہ کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں۔

ہم یہ امید کرتے ہیں کہ قاری اس کتاب کے آخری صفحات میں درج مصنف کی دیگر کتابوں پر تبصرے پڑھے گا اور ان میں مذہب سے متعلق مسائل پر، جو پڑھنے میں مفید اور مسرّت بخش ہیں، موجود مواد کے قیمتی سرچشمے کی قدردانی کرے گا۔

دوسری کتابوں کے برعکس ان کتابوں میں آپ کو نہ تو مصنف کے ذاتی خیالات، مشتبہ ذرائع پر مبنی تشریحات، اور ایسا اندازِ بیان جو مقدس موضوعات کے لئے واجب احترام و تعظیم کا پاس نہ کرے،ملیں گے اور نہ ہی مایوس کن، شک ڈالنے والے اور قنوطی بیانات جو دل میں انحراف پیدا کرتے ہیں۔

پیش لفظ

ہو سکتا ہے کہ بعض قارئین یہ خیال کریں گے کہ اس کتاب کا موضوع ان کے نزدیک دلچسپ نہیں۔وہ یہ سوچیں گے کہ ایک ننھے سے کیڑے پر مبنی کتاب میں ان کے لئے کچھ نہیں رکھا اور مصروف رفتارِ زندگی میں ان کے پاس ایسی کتاب کے مطالعے کا وقت بھی نہیں بچتا۔

ہو سکتا ہے یہی لوگ پھر یہ محسوس کریں کہ معاشی اور سیاسی تحقیق پر کتب یا ایک ناول، نسبتاً زیادہ دلکش اور ’’کارآمد‘‘ ہو ں گے۔ یا پھر وہ خیال کریں گے کہ دیگر مضامین پر کتابیں ان کے لئے زیادہ دلچسپی کا باعث ہوں گی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب جو اس وقت قاری کے ہاتھ میں ہے ان بیشمار کتابوں سے زیادہ ’مفید‘ ثابت ہو گی جن کا وہ اب تک مطالعہ کر چکا ہے اور اُن سے کہیں زیادہ معلومات پیش کرے گی۔ کیونکہ یہ کتاب، حیاتیات (Biology) کی درسی کتاب نہیں جو ایک ننھے سے جانور ’ مکڑی ‘ پر مفصل معلومات فراہم کرنے کے لئے تحریر کی گئی ہو۔ کتاب کا موضوع ’مکڑی‘ ضرور ہے مگر اس کی اصل اہمیت زندگی کی اس اصلیت سے وابستہ ہے کہ جسے یہ بے نقاب کرتی ہے، اور اس پیغام میں پوشیدہ ہے جو یہ پیش کرتی ہے۔

بالکل ایک چابی کی طرح۔۔۔ چابی ایک ایسا آلہ ہے جو بذاتِ خود بہت غیر اہم ہے۔ اگر آپ یہ کسی ایسے شخص کو تھما دیں جس نے یہ پہلے کبھی نہ دیکھی ہو اور اسی لاعلمی کی بناء پر چابی اور تالے کے باہمی تعلق سے بھی ناواقف ہو تو اسے اپنے ہاتھ میں تھمائی گئی یہ چیز (چابی) بے معنی اور لوہے کا ایک بے کار ٹکڑا معلوم ہو گی۔ حالانکہ اگر دروازے کے پیچھے کوئی بہت ہی قیمتی چیز، تالے میں بند کر کے رکھی گئی ہو تو اس موقع پر(اس تالے کی) چابی ہی دنیا کی سب سے قیمتی شے ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ کتاب لکھنے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ مکڑی کو کتاب کا موضوع بنا دیا جائے، بلکہ یہاں اسے بطور ’چابی‘ استعمال میں لانا ہے اور اس چابی سے کھلنے والے دروازے کے پیچھے واقع حقیقت(reality) وہ عظیم ترین سچائی ہے جسے کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں کسی بھی وقت دریافت کر سکتا ہے۔ کیونکہ اس حقیقت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نظریۂ ارتقاء جو حق کو جھٹلانے والوں نے پیش کیا ہے، کس قدر بے بنیاد ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں چند سوالات کے جوابات بھی فراہم کئے ہیں۔ایسے جوابات جن کا بنی نوانسان ازل سے متلاشی ہے۔’میں کون ہوں ؟‘، ’مجھے اور کائنات کو کیسے تخلیق کیا گیا؟‘اور ’زندگی کا مقصد و مطلب کیا ہے؟‘ ان بنیادی سوالوں کے جواب ہی دروازے کے پیچھے واقع حقیقت ہیں۔

ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ بنی نو انسان اور کائنات، جس کے وہ (انسان) مکین ہیں،آخری (یعنی معمولی اور مختصر ترین) جزو تک صرف اور صرف ایک ہی خالق، اللہ تعالیٰ نے تخلیق کئے ہیں۔ان کا اپنا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے، اور انہیں اسی خالق کا اقرار کرنے اور اسی کی حمد و ثنا کے لئے یہ وجود بخشا گیا ہے۔وہ خالق جو عیب اور خامیوں سے بالاتر ہے اور لامحدود طور پر طاقتور ہے،اللہ تعالیٰ ہی ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی بھی انسان کے وجود کی واحد وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی اور کائنات کی تخلیق پر غور و فکر کرے اور اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرے جو ہر شے کا مالک ہے۔

یہ سمجھ اور فہم حاصل کرنے کے لئے ذرا سی سعی و کوشش درکار ہوتی ہے۔اسی کوشش کا ایک حصہ ہر چیز کا مشاہدہ کرنا،اس پر غور و فکر کرنا اور اس میں موجود پیغام کو سمجھنا ہے۔کیونکہ وجود رکھنے والی ہر چیز بالعموم اور کائنات کی ہر ذی روح شے بالخصوص، اللہ تعالیٰ کے وجود کی نشانی ہے اور اس کی ذات کی گواہی دیتی ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید کی مندرجہ ذیل آیت کی جانب ہمیں متوجہ کرتا ہے جو اس نے اپنے تخلیق کردہ انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے نازل کی۔

’’جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں،رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں،ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لئے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں،بیشمار نشانیاں ہیں ‘‘۔(سورۃ البقرہ:۱۶۴)

اگر جائزہ لیا جائے تو درج بالا آیت میں قرآنِ مجید نے جن امور کا اظہار کیا ہے وہ بہت سے لوگوں کی نظر میں بالکل عام اور معمولی واقعات ہوں گے۔ رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، کشتیوں کا ڈوبنے کے بجائے تیرنا، بارش کا مٹی کو زندگی بخشنا، ہواؤں اور بادلوں کی جنبش۔۔۔ دورِ جدید کے انسان کا خیال ہے کہ ان تمام امور کی سائنس اور میکانیکی استدلال کے ذریعے وضاحت کی جا سکتی ہے اور اسی وجہ سے اس کے نزدیک ان تمام امور میں حیرت کا کوئی عنصر موجود نہیں۔تاہم سائنس محض ظاہری مادی سچائیوں پر غور کرتی ہے اور کبھی بھی سوال ’کیوں ‘ کا جواب فراہم نہیں کر سکی۔ بے خبری اور لاعلمی کی یہ کیفیت، جو دنیا میں چھائے بے دین معاشرتی طبقے کی پیداوار ہے، لوگوں کو ان آیات پر غور کرنے اور ان کے پیچھے واقع مختلف معنوں کو سمجھنے سے روکتی ہے۔فی الحقیقت قرآنِ مجید میں ارشاد ہے کہ صرف ’غور و تدبر کرنے والے‘ ہی ان آیات کی نوعیت کا ادراک کر سکتے ہیں۔

’غور و تدبر کرنے والوں ‘ کے لئے بنیادی طور پر کائنات کا ہر حصہ ایک نشانی کی حیثیت رکھتا ہے یا دوسرے الفاظ میں سچائی کے دروازے کی کنجی ہے۔چونکہ کائنات قریباً لاتعداد حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے اسی لئے چابیوں اور دروازوں کی تعداد بھی تقریباً لامحدود ہے۔تاہم کبھی کبھار کسی شخص کوسچا راستہ دکھانے کے لئے صرف ایک ہی دروازہ کھول دینا کافی ہوتا ہے۔ کائنات میں سے اخذ کیا گیا ایک حصہ، مثال کے طور پر ایک پودا یا جانور، سچائی کے متلاشی کو تمام کائنات کو سمجھ لینے کے قریب لا سکتا ہے۔اسی وجہ سے قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ ہاں اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے‘‘،کیونکہ ’’ جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے‘‘۔(سورۃ البقرہ:۲۶)

مکڑی اور مچھر جیسے ننھے جانوروں کا قرآنی آیات میں تذکرہ موجود ہے۔جس طرح لوگ مچھر کو ایک غیر اہم جانور تصور کرتے ہیں اُسی طرح مکڑی بھی خاص اہمیت کی حامل نہیں، مگر ’ غور و فکر کرنے والے‘ ان معجزات کو دیکھ سکتے ہیں جن کے بارے میں یہ آیات ہمیں بتاتی ہیں۔ان چھوٹے جانوروں میں سے ہر ایک کو ’چابی‘ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور یہ مخلوقِ خدا کی جامعیت و اکملیت کو ظاہر کرنے کے لئے دروازہ کھولتے ہیں۔اور یہ کتاب بھی، جو مکڑی کی ایسی حیران کن اور ناقابلِ یقین خصوصیات بیان کرتی ہے جو بہت کم لوگ جانتے ہیں، اور جو دورانِ بیان ’کیسے‘ اور ’کیوں ‘ جیسے سوالات بھی اٹھاتی ہے، اسی بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ صرف یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب ان بیشمار کتابوں سے زیادہ اہم ہے جن کا آپ اب تک مطالعہ کر چکے ہیں کیونکہ ’غور و فکر کرنے والوں ‘ میں شامل ہو جانا کسی بھی شے سے زیادہ ضروری ہے۔

’’اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے۔اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔‘‘(سورۃ الجاثیہ:۱۳)

٭٭

دیباچہ

دنیا میں مکڑیوں کی کئی سو انواع (species)ہیں۔یہ چھوٹے جانور کبھی ہمیں تعمیراتی انجینئر کی مانند نظر آتے ہیں جن میں اپنی رہائش گاہ بنانے کے لئے حساب کتاب کرنے کی قابلیت ہو تو کبھی ایک اِنٹیر ئر ڈیزائنر کی طرح پیچیدہ منصوبہ بندی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ کبھی یہ کیمیا دان محسوس ہوتے ہیں جو حد درجہ مضبوط اور لچک دار دھاگے،جان لیوا زہر اور تحلیلی تیزاب بناتے ہوں تو کبھی نہایت عیارانہ تدبیریں چلتے ہوئے شکاری لگتے ہیں۔

مکڑی کی ان بیشمار اعلیٰ خصوصیات کے باوجود کوئی بھی اپنی روزمرہ زندگی میں یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ مکڑیاں کس قدر غیر معمولی مخلوق ہیں۔ مکڑیوں سے متعلق اس غلط اندازے کی رو سے نہ مکڑیوں اور نہ ہی دوسرے جانوروں کے وجود میں کوئی حیرت انگیز عنصر موجود ہے۔مگر یہ بالکل غلط اندازِ فکر ہے کیونکہ، دیگر مخلوقات کی طرح، جوں جوں ہم مکڑیوں کے بارے میں (بھی) مزید معلومات حاصل کرتے جاتے ہیں،مثلاً ان کے شکار، دفاع اور نسل خیزی (Reproduction) کے طریقوں کا جائزہ لیتے ہیں، تو کئی حیران کن صفات ہمارے روبرو آتی ہیں۔

کائنات میں تمام ذی روح اشیاء زندہ رہنے کے لئے ایسے طور طریقے اپناتی ہیں جن کے لئے عقل و فہم درکار ہوتی ہے۔ان تمام طور طریقوں میں، جو جانداروں میں استعداد، مہارت اور اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی کی اہلیت کی بنیاد ہیں، ایک چیز مشترک ہے: ان سب کے لیے ’’صلاحیت‘‘ لازماً مطلوب ہے۔ وہ تمام ہنر جن پر ا نسان صرف حصولِ علم، مہارت اور تجربے کے ذریعے عبور حاصل کرتا ہے، جانوروں میں پیدائشی طور پر پائے جاتے ہیں۔اس کتاب کا آخری حصہ ان سوالات پر مشتمل ہے جو ابھی تک جواب طلب ہیں۔ مثلاً، یہ صلاحیتیں (جو تفصیل سے بیان کی جائیں گی) کیسے رونما ہوئیں اور جانداروں نے انھیں کس طرح سیکھا۔ یہ جاندار جو نہایت عقلمندانہ بنیادی خاکوں یا بلیو پرنٹس (blue prints) کے مطابق عمل کرتے ہیں،نپے تلے اندازسے شکار کرتے ہیں، ضرورت کے تحت کیمیائی انجینئر کی مانند عمل کرتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ مخصوص صورتِ حال میں کون سی چیز بنانی ہے؛ ان سائنسدانوں کو حیران کر دیتے ہیں جنہوں نے ان کا مطالعہ کیا ہے۔یہاں تک کہ ارتقاء پرست سائنسدان بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ چالاک ترین جاندار بھی ایسی صفات کے حامل ہیں جن کے لئے ’ذہانت‘ (Intelligence) لازماً درکار ہے۔سائنسدان رچرڈ ڈاکنز (Richard Dawkins)ارتقاء پسند ہونے کے باوجود مکڑیوں کے طور طریقے اپنی کتاب ‘Climbing Mount Improbable’ میں یوں بیان کرتا ہے:

’’ہمیں اپنے راستے میں مکڑی کے جالے دیکھنے کا موقع ملے گا۔(جن میں ہمیں ) وہ حیران کن، لیکن لاشعوری، مہارت بھی (نظر آئے گی) جس سے وہ بنائے جاتے ہیں اور (یہ بھی دیکھیں گے کہ جالے) کس طرح کام کرتے ہیں۔‘۱

دراصل یوں کہہ کر ڈاکنز ایسے سوالات کے مقابل آ کھڑا ہوتا ہے جن کی کسی بھی صورت نظریۂ ارتقاء سے وضاحت ممکن نہیں، جیسے کہ ’جانداروں میں با شعور اور ذہانت آمیز رویہ کیسے ظاہر ہوا اور اس کا منبع کیا تھا؟‘ واقعی یہ سوالات جیسے کہ ’جانداروں کو یہ ذہانت کیسے حاصل ہوتی ہے اور وہ کیسے سیکھتے ہیں کہ اس ذہانت کو کب اور کہاں استعمال کرنا ہے‘ ایسے ہیں جن کے کھلے اور حتمی جوابات پیش کرنے سے نظریۂ ارتقاء کے حامی یکسر قاصر اور معذور ہیں۔

اس مقام پر اُن دلائل کا بغور مشاہدہ کرنا موزوں ہو گا جو اِرتقاء پرست، جانداروں کے شعوری اور ذہانت آمیز طرزِ عمل کے متعلق سوال کا جواب دیتے وقت پیش کرتے ہیں۔ آئیے یہ کام ہم ایک ایسی اصطلاح کا ’اصل‘ مطلب واضح کر کے شروع کرتے ہیں جو نظریۂ ارتقاء کے حامی اپنے دعووں میں استعمال کرتے ہیں۔

’’جانداروں نے با مقصد طور طریقے کس طرح پائے ؟‘‘ اِس سوال کا جواب ڈھونڈنے والے ارتقاء پرست ایک لفظ ’جبلت‘ (Instinct) کا استعمال کر کے اس معاملے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر وہ اس میں کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہوئے اور یہ حقیقت ’جبلت‘ کے تصور کا مکمل اندازہ لگانے کے بعد واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے۔ ارتقاء پرستوں کے مطابق جاندار ’جبلت‘ کی بناء پر اُلفت و محبت، منصوبہ بندی، تدابیر یا ایسے طور طریقے اپناتے ہیں جن کے لئے خاص صلاحیتیں درکار ہوں، جن کے لئے شعور اور ذہانت ضروری ہوں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ارتقاء پرستوں کا محض یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں۔ اس دعوے کے ساتھ ساتھ انھیں اس سوال کا جواب بھی دینا ہو گا کہ یہ طرزِ عمل پہلے پہل کیسے رونما ہوا اور پھر کیسے نسل درنسل منتقل ہوا، ا ور جبلت کے تصور کے تحت کس طرح جاندار اشیاء کو عقل و آگہی حاصل ہوئی۔تاہم ارتقاء پسندوں کے پاس ان سوالات کا قطعاً کوئی جواب موجود نہیں۔ ارتقاء پسند ماہرِ جینیات گورڈن راٹرے ٹیلر (Gordon Rattray Taylor) جبلّت کے بارے میں یہ اظہار کرتے ہیں :

’’جب ہم خودسے یہ سوال کرتے ہیں کہ طور طریقوں کا جبلی نمونہ پہلے پہل کیسے ظہور میں آیا اور (کس طرح) موروثی طور پر مستحکم ہو گیا تو ہمیں کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔‘‘ ۲

دیگر ارتقاء پرست کہتے ہیں کہ تمام جانداروں کے طور طریقوں کی بنیاد ’جبلت‘ پر نہیں بلکہ ان کی جینیاتی پروگرامنگ پر ہے۔لیکن اس صورت میں بھی ان کو یہ وضاحت کرنی ہو گی کہ یہ پروگرام کس نے تیار کر کے جاندار اشیاء میں نصب کیا؟ تاہم ارتقاء پرست ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس نظریے کا بانی ہونے کے باوجود ڈارون ارتقاء پرستوں کو درپیش الجھن کا اِن الفاظ میں اعتراف کرتا ہے:

’’ایک ایسی حیرت انگیز جبلت جیسے کہ چھتے والی مکھی کا اپنے خانے(cells ) بنانا،بے شمار قارئین کو غالباً ایک ایسی مشکل معلوم ہوئی ہو گی جو میرے پورے نظریے کو الٹ دینے کے لئے کافی ہے۔‘‘۳

مذکورہ بیان سے صاف ظاہر ہے کہ ’’ جبلت‘ ‘کا تصور جاندار اشیاء کے شعوری طور طریقے یا رویّوں پر روشنی ڈالنے کے لئے ناکافی ہے۔ یقیناً ایک ایسی طاقت موجود ہے جو جانداروں کو ’’پروگرام‘‘ کر کے ان کو عمل کرنا سکھاتی ہے۔ لیکن یہ طاقت نہ تو ’مادرِ فطرت‘ *کا نتیجہ ہے (جیسا کہ عموماً اسے کہا جاتا ہے)اور نہ ہی کسی جاندار کے (اپنے) بس میں ہے جو اپنے بچیّ کا دفاع کرنے کے لئے جان کی بازی بھی لگا دیتا ہے، یا اپنے گروہ کے رکن کی جان بچانے کی غرض سے مختلف تدابیر کے ذریعے دشمن کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے۔

وہ طاقت جو جانداروں کو ان تمام خصوصیات سے نوازتی ہے، جو ان میں ذہین طرزِ عمل اور با مقصد حرکات تخلیق کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔صرف اللہ تعالیٰ ہی اس دانائی کا مالک ہے جو ہم جاندار اشیاء میں دیکھتے ہیں اور فطرت میں جس کی ان گنت مثالیں ملتی ہیں۔ جاندار جو بھی عمل سر انجام دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی ان کے دل میں وحی کرتا ہے۔

کسی بھی جاندار کے رویے کی ’’اتفاق‘‘ (Coincidence)، کسی دوسرے میکانیکی عمل یا کسی اور دلچسپ نظریے سے وضاحت کرنا ناممکن ہے۔ ایسا کوئی بھی نظریہ ایک فریب سے زیادہ کچھ نہ ہو گا۔ آیاتِ الٰہی میں سے ایک آیت میں ارشاد ہے:

’’( اے نبی ﷺ) ان سے کہو کبھی تم نے دیکھا بھی ہے اپنے شریکوں کو جنھیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو ؟ مجھے بتاؤ انھوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں میں ان کی کیا شرکت ہے۔( اگر یہ نہیں بتا سکتے تو ان سے پوچھو) کیا ہم نے انھیں کوئی تحریر لکھ کر دی ہے جس کی بناء پر یہ (اپنے اس شرک کے لئے )کوئی صاف سند رکھتے ہوں ؟ نہیں بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے کو محض فریب کے جھانسے دیئے جا رہے ہیں ‘‘۔(سورۃ الفاطر : ۴۰)

وہ جانور جو اس کتاب کا موضوع ہے، یعنی مکڑی، اُس کے طور طریقوں کے نمونے اور بے عیب میکانیکی عمل، ایسے ہیں جو نظریۂ ارتقاء کو جھوٹا ثابت کر تے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ اس ’نظریے کو تبا ہ و برباد کر دیتے ہیں ‘۔ کتاب کے اگلے صفحات اللہ تعالیٰ کی خلقت کے اَن گنت معجزات میں سے ایک معجزے ’مکڑی‘ کو پیش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر یہ ثابت کریں گے کہ نظریۂ ارتقاء جو مکمل طور پر ’’اتفاقات‘‘ پہ منحصر ہے، تضحیک اور بے بسی کی گہرائیوں میں جا گرا ہے۔

٭٭

مکڑی کے شکاری طریقے

کمند یا پھندا پھینکنے والی مکڑی (The Lasso-throwing spider)

مکڑیوں کی بیشمار انواع میں سے بولاس Bolas))مکڑی اپنی شکاری تدابیر کی بناء پر سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔اس کیڑے پر اپنی مفصل ریسرچ کے بعد,مکڑیوں کے ماہر Dr.Gertsch نے یہ بات ثابت کی ہے کہ بولاس مکڑی اپنے شکار کو پکڑنے کے لئے پھندے (noose) کا استعمال کرتی ہے۔

بولاس مکڑیاں دو مرحلوں میں اپنا شکار پکڑتی ہیں۔پہلے مرحلے میں مکڑی چپچپے سرے والا ایک دھاگا بن کر شکار کی گھات میں بیٹھ جاتی ہے۔بعد میں وہ اسی چپچپے دھاگے کو پھندے ‘lasso’ ( امریکہ میں مویشیوں کو پکڑنے کا پھندا) کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ شکار کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے مکڑی ایک بہت خاص کیمیا خارج کرتی ہے۔یہ ’ فیرومون ‘ (pheromone)کہلاتا ہے جسے مادہ پتنگے جفتی کے لئے نر پتنگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔نر پتنگا (moth)جعلی آواز سے دھوکا کھا کر بو کے منبع کی جانب بڑھتا ہے۔ مکڑیوں کی قوتِ بینائی بہت کمزور ہوتی ہے لیکن وہ اڑتے ہوئے پتنگے سے پیدا ہونے والے ارتعاش کو محسوس کر لیتی ہیں۔یوں مکڑی شکار کو اپنی جانب بڑھتے ہوئے محسوس کر سکتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مکڑی تقریباً اندھی ہوتی ہے مگر اس کے باوجود وہ اُڑتے ہوئے زندہ جانور کو اس دھاگے سے باآسانی پکڑ لیتی ہے جسے وہ ہوا میں لٹک کر بنتی ہے۔

کتاب "Strange Things Animals Do"میں مکڑی کے اس شکاری طریقِ کار کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے پھندا پھینکتے ہوئے گایوں کے رکھوالے ’کاؤ بوائے‘ (cowboy) سے تشبیہ دی گئی ہے۔

’’مکڑی ایک ریشمی دھاگا بنتی ہے اور پھر اس کے ایک سرے پر گوند کے بھاری ٹکڑے کی صورت میں ایک وزن رکھ دیتی ہے۔اس طرح یہ ہتھیار ہمیں کاؤ بوائے کی یاد دلاتا ہے۔اس کے بعد مکڑی دھاگے کو اپنی سامنے والی دو ٹانگوں میں،جو اب بازوؤں کا کام دیں گی، پکڑ لیتی ہے۔ جب پتنگا پاس سے گزرتا ہے تو مکڑی پھندا پھینکتی ہے۔چپچپا وزنی سرا اُڑتے ہوئے کیڑے کے جسم سے ٹکرا کر اس سے چپک جاتا ہے اور مکڑی پتنگے کو اپنی طرف کھینچ کر اسے لپیٹ دیتی ہے۔‘‘۴

شکار کرنے کا دوسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب شکار بو سے دھوکا کھا کر مکڑی کی جانب بڑھتا ہے۔ اپنی ٹانگیں پیچھے کی جانب لے جا کر مکڑی حملہ کرنے کی پوزیشن میں آ جاتی ہے اور چشم زدن میں پھندا پتنگے کی طرف پھینکتی ہے۔ دھاگے کے سرے پر لگے چپچپے گولے سے پتنگا چپک جاتا ہے۔اب دھاگے سے شکار کو اپنی طرف کھینچ کر مکڑی اسے کاٹتی ہے جس سے وہ مفلوج ہو جاتا ہے۔اس کے بعد وہ پتنگے کو ایک خاص دھاگے سے لپیٹ دیتی ہے جو غذا کو طویل مدّت تک تازہ رکھتا ہے۔اس طرح مکڑی اپنے شکار کو بعد میں کھانے کے لئے محفوظ(preserve)کر لیتی ہے۔

درج بالا کتاب میں مصنف مکڑی کی منصوبہ بندی کے تحت کی گئی حرکات کا ان الفاظ میں تجزیہ کرتا ہے۔

’’سائنسدان مکڑی کو ایک کمتر جانور سمجھتے ہیں۔ لیکن Dr.Gertschمطمئن نہیں کہ یہ ایک درست اصطلاح ہے۔کیونکہ جس چیز کو ایک سدھائی ہوئی پانی کی بلّی، ایک کتا، یا شیر نہیں کر سکتا، جسے ایک بڑا بن مانس بھی نہیں کر سکتا، جو کام ایک کاؤ بوائے کو بھی مشکل معلوم ہوتا ہے، یہ حقیر کہلائے جانے والا جانور(باآسانی)کر لیتا ہے۔‘‘۵

چنانچہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ بولاس مکڑی کا شکار کرنے کا طریقہ ایک خاص مہارت کا طالب ہے اور مسلسل مشق کے ذریعے اس طریقے میں تجربہ و مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔اگر ہم اس عمل کا درجہ بہ درجہ جائزہ لیں تو مکڑی کی حرکات کی پیچیدہ نوعیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ آئیے اس سوال کے جواب پر نظر ڈالتے ہیں کہ ’شکار کرتے وقت بولاس مکڑی کو کیا کچھ کرنا ہوتا ہے؟‘

* مکڑی دھاگے کے سرے پر ایک چپچپا گولا تیار کرتی ہے۔

*وہ اپنے جسم میں ایک ایسی بو تیار کر کے باہر خارج کرتی ہے جو دوسری نوع(species) کے مکوڑوں کی مادہ نر کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے خارج کرتی ہے۔

*اس کے بعد چشم زدن میں پھندے کو شکار کی طرف پھینکتی ہے۔

*وہ پھندے سے شکار کا نشانہ باندھ کر اس پر ضرب لگاتی ہے۔

* آخر میں شکار کو تازہ رکھنے کی غرض سے مکڑی ایک خاص قسم کا دھاگا بنتی ہے جس میں وہ شکار کو لپیٹ دیتی ہے۔

تو بولاس مکڑی کس طرح اتنے با کمال منصوبے کے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہے؟منصوبہ بندی کرنا ان جانداروں کا خاصا ہے جو سوچنے سمجھنے کی طاقت رکھتے ہیں جیسے کہ انسان۔ علاوہ ازیں مکڑی کے دماغ میں ان سب باتوں کا ادراک کرنے اور انھیں عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔لیکن پھر ایسی صورت میں مکڑی کو حیرت انگیز صفات والا طریقۂ شکار کیسے حاصل ہوا؟یہ وہ سوال ہے جس کا سائنسدان آج تک جواب تلاش کر نے کے لئے کوشاں ہیں۔

ارتقاء پرستوں کے مطابق مکڑی اپنی تمام تر خصوصیات کے لئے ’اتفاقات‘ کی ممنون ہے۔ مکڑی نے محض اتفاق سے پھندا بنانے کا ارادہ کر لیا، کیمیائی پیداوار کی،یہ بات بھی اتفاق سے ہی اس کے علم میں تھی کہ اسے موتھ کو اپنی طرف کھینچنا ہے اور اس نے نشانے پر پھندے سے ضرب لگانے کی مہارت بھی اتفاق سے حاصل کر لی۔دیگر تمام خوبیاں بھی جو پھندے سے شکار کرنے کے لئے مکڑی کو درکار ہوتی ہیں، مکمل طور پر ’اتفاق‘ کے باعث و جود میں آئیں۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ’اتفاق‘ پر مبنی تمام دعوے محض خواب خیالی ہیں جن کی کوئی سائنسی یا عقلی بنیاد نہیں۔یہ دیکھنے کے لیے کہ ارتقاء پرستوں کی خواب خیالیاں سائنسی حقائق سے کتنی دور ہیں، آئیے ہم ایک مختصر سا منظر،عدم امکان کے باوجود،اپنے تصور میں لاتے ہیں۔

منظر نامہ: بہت عرصہ پہلے جب ایک مکڑی کو یہ احساس ہوا کہ وہ دوسری مکڑیوں کی طرح جالا نہیں بن سکتی تو اس نے بڑے غور سے اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ایک دن اس نے دیکھا کہ مادہ پتنگے(moths)نر پتنگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ایک کیمیاوی مرکب(chemical)استعمال کر رہے ہیں۔یہ دیکھ کر مکڑی نے سوچا کہ نر پتنگے کو پکڑنے کے لئے اسے بھی ایسا ہی ایک کیمیکل پیدا کرنا ہو گا، چنانچہ مکڑی نے اپنے جسم میں ایک کیمیائی تجربہ گاہ بنائی اور کیمیکل تیار کرنے لگی۔لیکن ابھی اس کے مسائل حل نہیں ہوئے کیونکہ جب تک مکڑی پتنگوں کو پکڑ لینے کے قابل نہ ہو جاتی، انھیں متوجہ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔اس موقع پر مکڑی کو ایک اور ترکیب سوجی اور اس نے اپنے دھاگے سے ایک ایسا ہتھیار بنایا جو گُرز اور پھندے کی ملی جلی شکل تھا۔

مگر محض ایک ہتھیار بنا لینا ہی کافی نہیں تھا۔پہلی مرتبہ شکار کرتے وقت اگر شکار پر کاری ضرب نہ لگتی تو مکڑی کی تمام تر کوششیں ضائع چلی جاتیں اور وہ بھوک سے مر جاتی۔مگر ایسا نہیں ہوا۔ مکڑی نے پتنگے کا شکار کر لیا اور یوں وہ ایک شاندار شکاری طریقہ تشکیل دینے میں ’کامیاب‘ ہو گئی۔ اب اس نے یہ طریقۂ شکار پوری تفصیل کے ساتھ دوسری مکڑیوں کو سکھانے کا ارادہ کیا۔اور اس علم کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کا طریقہ بھی نکال لیا۔

یہ سب منظر نامے کے محض حصے ہیں اور اسے تحریر کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔اس منظر کو حقیقت میں بدلنا ہو گا۔آئیے اس مقصد کے لئے ہم،اوپر بیان کئے گئے تخیلاتی منظر نامے کے دائرے میں رہتے ہوئے،کچھ متبادل تخیلاتی صورتوں (Imaginary alternatives) پر غور کرتے ہیں۔

تخیلاتی متبادل صورت ۱: اس میں وہ چیزیں شامل ہیں جنہیں ارتقاء پرست ’’مادرِ فطرت‘‘ کہتے ہیں یعنی درخت،پھول،آسمان،پانی،بارش،سورج وغیرہ۔اس کے علاوہ کائنات میں موجود تمام طبعی قوتیں بھی ہیں جنہوں نے باہمی ہم آہنگی سے ایک مکمل متحرک نظام قائم کیا ہوا ہے۔اس سارے عمل کے دوران بولاس مکڑی کو فراموش نہیں کیا جاتا اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مکڑی کو ایک اچھا شکاری طریقہ حاصل ہو جائے۔

تخیلاتی متبادل صورت۲:محض اتفاق،جسے ارتقاء پرست ایک متحرک قوت کہتے ہیں، دوسرے شکاریوں کے ساتھ ساتھ بولاس مکڑی کی اعانت کو بھی پہنچتا ہے اور شکار کرنے کی مہارت حاصل کر لینے کے قابل بنا دیتا ہے۔

قدرتی بات ہے کہ یہ سب باتیں تخیلات کے سوا اور کچھ نہیں اور صرف ایک متحرک خیال کی پیداوار ہیں۔ اس متحرک خیال کے مالک ارتقاء پرست ہیں۔اصل جواب کی طرف بڑھنے سے پہلے آئیے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ مناظرے کس قدر غیر منطقی، کالعدم اور بے بنیاد ہیں۔

*بلا شک مکڑی ایک کیمیاوی انجینئر نہیں اس کے لئے پتنگے کے خارج کردہ کیمیاوی مرکبات کا مطالعہ کرنا، ان کی ترکیب نحوی کرنا اور پھر سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بالکل ویسا ہی کیمیاوی مرکب اپنے جسم کے اندر پیدا کر لینا نا ممکن ہے۔اس بات کا اقرار عقل و فہم،منطق اور سائنس کے کلی مخالف ہے۔

*مکڑی پتنگے کے خارج کردہ کیمیاوی مرکب کو ( جسے وہ خود بناتی ہے) شکار کرنے کے سواکسی اور استعمال میں نہیں لا سکتی۔اگر اس نے یہ کیمیاوی مرکب اتفاق سے پیدا کر بھی لیا تھا،تب بھی اسے پتنگے اور اپنی کی بو کے درمیان مماثلت کو سمجھنا ضروری تھا اور پھر اس مشابہت کا تجزیہ کر لینے کے بعد مکڑی کے پاس ’ذہانت‘ کا ہونا لازمی تھا جس سے وہ اُس کیمیاوی مرکب کو اپنے مفاد میں استعمال کرسکے۔

*اگر ہم یہ بات مان بھی لیں کہ مکڑی نے کسی طرح پتنگے کی خارج کردہ بو کی نوعیت کے بارے میں ’جان‘ لیا تھا اور پھر وہ ’اتنی تیز فہم تھی‘ کہ اسے اپنے حق میں استعمال کر سکے،تو اس صورت میں بھی مکڑی میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ کیمیاوی مرکب پیدا کرنے کے لئے اپنے اندر ضروری طبعی تبدیلیاں لا سکے۔تاہم کسی بھی جاندار کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے جسم میں اپنی مرضی سے نئے یا زائد عضو یا کیمیاوی پیداوار کے نظام کا اضافہ کر لے۔اس بات کو حقیقت مان لینا تو درکنار،محض ایسا سوچنا بھی کہ مکڑی ایسا کچھ کر سکتی ہے استدلال کی دنیا کو کوسوں دور چھوڑ دینے کے مترادف ہے۔

یہ بات چاہے کتنی ہی ناممکن کیوں نہ ہو آئیے ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مکڑی نے وہ تمام خصوصیات جنہیں ہم بیان کر چکے ہیں، واقعی ’اتفاق‘ سے حاصل کر لیں۔اب مکڑی کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ پتنگے کو پکڑنے کے لئے پھندے کو استعمال میں لانے کا ’سوچے‘ اور یوں پھندا ’ڈیزائن‘ کر لینے کے بعد اپنی مرضی سے اسے تخلیق کر لے۔

ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اگر بولاس مکڑی کی خصوصیات کا بغور تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بہتر طور پر سمجھ آ جاتی ہے کہ اتفاقات پر مبنی نظریۂ ارتقاء کس قدر مضحکہ خیز ہے۔محض اتفاقات مکڑی کو وہ تمام خدوخال جنہیں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں مثلاً ذہانت، منصوبہ بندی اور تدبیریں، مہیا نہیں کر سکتے۔علاوہ ازیں یہ بات بھی واضح ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بھی مکڑی یہ تمام خدوخال از خود پیدا کر لینے سے قاصر ہو گی۔یہ سمجھنے کے لئے بہت زیادہ غور و فکر کرنے یا کسی تحقیق کی ضرورت نہیں۔اس عیاں سچائی کو سمجھنے کے لئے تھوڑی سی عام سوجھ بُوجھ ہی کافی ہے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ارتقاء پرستوں کے نظریے صریحاً غلط اور جھوٹے ہیں۔باقی صرف سچ ہی رہ جاتا ہے:جس صورتِ حال کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس کے لئے ایک خاص عملِ تخلیق کی ضرورت ہے۔وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمام جانداروں، نباتات، حیوانات اور حشرات الارض کو پیدا کیا۔اللہ تعالیٰ لا محدود طاقت،علم،ذہانت اور دانائی کا مالک ہے۔

’’جو پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے،وہ زبردست اور بڑا بخشنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ ص:۶۶)

صحرا میں رہنے کے لئے فرشی دروازہ(trap door)

صحرائی موسم جانداروں کے لئے جان لیوا حد تک گرم ثابت ہو سکتے ہیں۔تاہم بعض جاندار ایسی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں جو انھیں صحرا میں (سخت گرمی کے باوجود ) زندہ رہنے کے قابل بناتی ہیں۔ان جانوروں کے شکاری طریقۂ کار، جسم کی ساخت یا پھر طور طریقوں کے انداز انہیں صحرائی ماحول میں آرام سے زندگی گزارنے کے قابل بناتے ہیں۔اس کتاب کے موضوع (یعنی مکڑی )کی ایک نوع ایسی خصوصیات کی مالک ہے جو صحرا میں زندگی گزارنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔یہ جاندار جو ’فرشی دروازے والی مکڑی ‘کہلاتا ہے صحرا کے فرش میں ایک منفصل بل بنا کر اسے گرمی سے بچاؤ اور شکار کو پکڑنے کے لئے دام کے طور پر بھی استعمال کرتا ہے۔

مکڑی سب سے پہلے زمین میں ایک بل کھودتی ہے۔وہ مٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات سیال مادے( جسے وہ خود ہی تیار کرتی ہے)کے ساتھ چپکا کر بل کے اندرونی حصے کو پلستر کرتی ہے۔یہ عمل دیواروں کو محفوظ کر کے انہیں گرنے سے بچاتا ہے۔بعد میں مکڑی ایک دھاگا بن کر دیواروں کو اس سے ڈھانپ دیتی ہے۔پلستر کرنے کا یہ طریقہ حجزِ حرارت (thermal insulation)کے اس طریقۂ کار یا تکنیک سے بہت ملتا ہے جو ہم آجکل استعمال کرتے ہیں۔اس طرح آرائش گاہ کے اندرونی حصے کو گرم بیرونی درجہّ حرارت سے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔

ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آشیانے کی دوسری خصوصیت اس کا دام کے طور پر استعمال ہے۔مکڑی اپنے ریشم سے آشیانے کے لئے ڈھکن بناتی ہے۔ڈھکن کا ایک کنارہ قلابے hinge (جو مضبوط دھاگے سے بنا ہوتا ہے )کے ذریعے آشیانے سے جڑا ہوتا ہے۔یوں یہ ڈھکن دروازے کا کام دیتا ہے۔یہ دروازہ مکڑی کو شکار کی نظروں سے اوجھل ہو جانے میں بھی مدد دیتا ہے۔مکڑی ڈھکن کو جھاڑیوں، جھنکار اور مٹی سے چھپا دیتی ہے۔اس کے بعد مکڑی پتوں کے نیچے دھاگے (جو باہرسے آشیانے کے اندر آتے ہیں )کھینچ کر تان دیتی ہے۔جب کوئی مکوڑا گھر کے قریب آ کر ان پتوں یا مٹی پر قدم رکھتا ہے تو زیرِ زمین دھاگے تھرتھرانے لگتے ہیں۔اسی تھرتھراہٹ کی بدولت مکڑی کو پتہ چل جاتا ہے کہ شکار نزدیک ہے۔ تیاری مکمل ہو جانے پر مکڑی آشیانے میں داخل ہو کر شکار کا انتظار کرتی ہے۔

فرشی دروازے والی مکڑی اپنے بھٹ میں دس سال تک رہ سکتی ہے۔وہ اپنی ساری زندگی اس تاریک بل میں گزار دیتی ہے اور تقریباً کبھی باہر نہیں آتی۔شکار کو دبوچنے کی غرض سے اگر ڈھکن کھولے بھی تو اس کی پچھلی ٹانگیں آشیانے سے باہر نہیں آتیں۔اگر ڈھکن کو ٹہنی سے کھولا جائے تو مکڑی دروازے تک آ کر اسے دوبارہ بند کرنے کی بے تحاشا کوشش کرے گی۔مادہ مکڑیاں آشیانے سے باہر نہیں نکلتیں جبکہ نر محض جفتی کے لئے مادہ تلاش کرنے کے لئے باہر آتے ہیں۔جب بچے پیدا کرنے کا وقت آ جائے تو مادہ مکڑی اپنے دھاگے سے ڈھکن کو آنے جانے کے راستے سے چپکا کر، مضبوطی سے راہداری کو بند کر دیتی ہے۔یوں مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مادہ مکڑی اپنے آشیانے سے باہر آئے بغیر اس کے اندر ایک سال گزار سکتی ہے۔

فرشی دروازے والی مکڑیاں رات کے وقت شکار کرتی ہیں اور دن میں اپنے آشیانوں کے دروازے مضبوطی سے بند رکھتی ہیں۔اندھیرا چھانے لگے تو مکڑی ڈھکن کو آدھا اٹھا کر یہ دیکھتی ہے کہ آیا مکمل اندھیرا چھا گیا ہے یا نہیں۔اگر اندھیرا طاری ہو تو مکڑی ڈھکن آدھا کھول کر اپنی سامنے والی ٹانگیں باہر نکال لیتی ہے۔وہ اس انداز میں کئی گھنٹوں تک بیٹھ سکتی ہے۔جب شکار، خصوصاً چیونٹیاں قریب آ جاتی ہیں تو مکڑی فوراً برق رفتاری سے ان پر چھلانگ لگا کر انھیں بل کے اندر کھینچ لیتی ہے۔ڈھکن ا پنے وزن تلے دوبارہ بند ہو جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اوپر بیان کردہ طریقے کے مطابق جینا سیکھنے کے لئے کچھ ایسی صلاحیتیں،مثلاً تعمیری صلاحیت،درکار ہوں گی جن کے لئے ذہانت کی ضرورت ہو۔مکڑی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ محض اتفاق یا سعی اور خطا کے ذریعے بل کو تپش سے منفصل کر لے یا مٹی میں بہروپ بھر لے۔بل بنانے سے پہلے ہی مکڑی یہ بات ’جانتی‘ ہے کہ وہ بل کو حرارت سے محفوظ کرنے کے لئے اپنا ریشم استعمال کرے گی، اسی ریشمی دھاگے سے بل کا ڈھکن بنائے گی،اپنے بل کو دشمن سے چھپنے کے لئے اور ایک بے مثال دام کے طور پر استعمال کرے گی اور ریشم سے ڈھکی دیواروں والے بل میں حفاظت کے ساتھ بچے دے گی۔اگر مکڑی کو پہلے سے یہ سب معلومات نہ ہوتیں تو صحرا کے بیچ نکلنے والی پہلی فرشی دروازے والی مکڑی گرمی یا بھوک سے مر جاتی۔اور اس کا مطلب اس نوع کا خاتمہ ہوتا۔

علاوہ ازیں ہر نوزائیدہ مکڑی اسی طریقے سے زندگی گزارتی ہے، ایک ہی طریقے سے آشیانہ بناتی اور اسی طریقے سے کھاتی ہے۔اس لئے پہلی مکڑی کے لئے محض ان حیران کن خصوصیات کا مالک ہونا ہی کافی نہیں تھا بلکہ اپنی معلومات کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کے قابل ہونا بھی ضروری تھا۔ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہے کہ یہ معلومات مکڑی کے جین (gene)میں مستحکم ہو جائیں۔لیکن ان حقائق کے باوجود ہمیں کئی سوالات کا سامنا ہے۔فرشی دروازے والی مکڑی کو یہ خصوصیات کیسے حاصل ہو گئیں اور ان کو کس نے اس کی جین میں نصب کیا۔

یہ ذہانت آمیز طور طریقے، منصوبہ بندی کی اہلیت، مدبرانہ انتخاب اور تکمیل اور بے عیب جسمانی بناوٹ،جن کی نظریۂ ارتقاء کے حامی جبلّت، تخیلاتی عمل، اتفاق یا مادرِ فطرت جیسے نظریوں سے وضاحت کرنا چاہتے ہیں، کی حقیقتاً صرف ایک ہی وضاحت ہو سکتی ہے۔ جاندار جن مہارتوں کے مالک ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں یا دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے جانداروں کو پہلے ہی سے ان مہارتوں سے آراستہ کر کے پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ بے مثال علم کا مالک ہے۔

دھوکہ دہی کی ماہر مکڑی

عام خیال کے برعکس مکڑیوں کی بہت سی اقسام جالا بنائے بغیر شکار کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک مکڑی جو اپنے شکار کو جالے کے بغیر پکڑتی ہے کیکڑا مکڑی (crab spider)ہے۔یہ مکڑی اپنے آپ کو پھولوں میں چھپا لیتی ہے اور شہد کی ان مکھیوں کا شکار کرتی ہے جو ان پر آ بیٹھتی ہیں۔۶

کیکڑا مکڑی اپنا رنگ بدل سکتی ہے اور وہ اپنی اس صلاحیت کو پھولوں کے پیلے یا سفید رنگ سے میل کھانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔وہ پھول کے بیچ میں اپنی ٹانگیں مکمل طور پر چھپا کر شکار کے انتظار میں بیٹھ جاتی ہے۔مکڑی کا رنگ بالکل اس پھول جیسا ہوتا ہے جس میں وہ چھپ کر بیٹھی ہوتی ہے۔صرف گہرے معائنے سے ہی مکڑی اور پھول میں فرق کیا جا سکتا ہے۔

مکڑی اس وقت حرکت میں آتی ہے جب شہد کی مکھی رس چوسنے کے لئے اس پھول پر آ بیٹھتی ہے جس پر مکڑی گھات لگائے بیٹھی ہوتی ہے۔ٹھیک اسی لمحے مکڑی آہستگی سے اپنی ٹانگیں مکھی کے گرد لپیٹتی ہے اور پھر یکایک اس کے سر پر کاٹ کر اپنا زہر سیدھا مکھی کے سر میں داخل کر دیتی ہے۔اس کے بعد مکڑی شکار کو کھا جاتی ہے۔ مکڑی اپنے آپ کو اس چالاکی سے پھول میں چھپا لیتی ہے کہ کبھی کبھار ایک تتلی یا شہد کی مکھی انجانے میں مکڑی کے عین اوپر آ بیٹھتی ہے۔

کیا مکڑی نے اتفاقاً یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ خود ہی اپنے اندر رنگ بدلنے کی صلاحیت پیدا کر لے؟کیا اس نے پھولوں کا مطالعہ کر کے ان کے گہرے اور ہلکے رنگ اپنے جسم پر نقل کر لئے؟یہ بات واضح ہے کہ مکڑی یہ سب کچھ کرنے کی اہل نہیں ہوسکتی تھی۔چند باہم مربوط عصبی خلیوں (nerve centres) کے علاوہ مکڑی کے پاس ایسا دماغ بھی نہیں ہے جس میں سوچنے کی اہلیت ہو۔ مزید برآں مکڑی رنگ کور(colour blind)ہوتی ہے۔وہ نہ پیلا اور نہ ہی گلابی رنگ دیکھ سکتی ہے۔اگر ہم ایک لمحے کے لئے یہ قبول کر بھی لیں کہ مکڑی کسی طرح اپنے آپ کو اُن ہلکے یا گہرے رنگوں سے ٹھیک ٹھیک ہم آہنگ بنا سکتی تھی جو اس نے دیکھے تو اس صورت میں بھی مکڑی کے لئے ان رنگوں کو اپنے جسم میں پیدا کرنا ناممکن تھا۔یہ اللہ تعالیٰ ہے، اعلیٰ قدرت کا مالک، جو مکڑی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ رنگوں میں فرق کر کے ان کی نقل تیار کر سکے۔

یہ بات عیاں ہے کہ پھولوں اور مکڑیوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے رنگ سے ہم آہنگ بنایا ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے ایک جیسے رنگوں اور برش سے ایک ہی کرمچ(canvas)پر دو تصویریں ایک جیسے گہرے اور مدھم رنگوں میں ایک دوسرے سے اتنی مماثل بنائی گئی ہیں کہ ان کی کسی پریوں کی کہانی جیسے ’اتفاق‘ سے وضاحت ناممکن ہے۔

سیڑھی والے گول جالے سے شکار کرنا

مکڑیوں کے جالے بیشمار جانداروں کے لئے موت کا پھندا ثابت ہوتے ہیں۔لیکن کچھ جاندار موت کے ان مہلک پھندوں میں شکار ہونے سے بچ جاتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک عام پتنگے پر مکڑی کے جالے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔کیونکہ پتنگے کے جسم پر لگے مہین ذرّات جال کے چپچپے حصوں کو بے اثر کر دیتے ہیں۔اسی خاصیت کی بدولت پتنگا باآسانی جال سے بچ نکلتا ہے۔

مگر پتنگے پھر بھی ایسے جالوں میں پھنس جاتے ہیں جن کی ساخت ایک عام جال سے مختلف ہوتی ہے۔مدارینی علاقے میں رہنے والیScoloderus مکڑی کا جال اکثر جالوں سے مختلف ہوتا ہے اور مکھی مار کاغذ(fly-paper) سے ملتا جلتا ہے۔اس طرح scoloderusآسانی سے پتنگے کا شکار کر لیتی ہے۔یہ مکڑی ایک میٹر لمبا اور ۱۵۔۲۰سینٹی میٹر چوڑا سیڑھی نما جال بنتی ہے۔اس جالے میں پھنسنے والے پتنگے جال کے نچلے حصے میں جا گرتے ہیں۔گرتے وقت پتنگے اپنے جسم پر لگی ہوئی حفاظتی تہ (مہین ذرات)جو انہیں عام جال میں چپکنے سے بچاتی ہے،کھو دیتے ہیں اور یوں Scoloderusمکڑی کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں۔

اس مکڑی کا شکاری طریقۂ کاردوسری نوع کی مکڑیوں سے بہت مختلف ہے۔اس شکاری طریقے کی غور طلب بات یہ ہے کہ مکڑی ایسی خصوصیات سے آراستہ جال بنتی ہے جو اسے اُس حشرے کو پکڑنے میں مدد دیتی ہیں جسے وہ شکار کرنا چاہتی ہے۔ مختلف ساخت کا جال بننے والی مکڑی کی یہ نوع ان بے شمار دلائل میں سے ایک ہے جو اللہ تعالیٰ کی لامحدود فنِ تخلیق کی گواہی دیتے ہیں۔

جال پھینکنے والی مکڑی:Dinopis

یہ خوفناک مکڑی یا ڈینوپس Dinopis (سائنسی نام)نہایت انوکھا اور حیران کن شکاری طریقۂ کار استعمال کرتی ہے۔ایک مستحکم جالا بن کر شکار کا انتظار کرنے کے بجائے یہ چند خاص خصوصیات کا حامل جالا بنتی ہے اور اسے شکار کے اوپر پھینک دیتی ہے۔اس کے بعد شکار کو اس جالے میں لپیٹ دیتی ہے۔جالے میں پھنسے شکار کا برا انجام ہوتا ہے۔مکڑی شکار کو چھوٹے بنڈل کی صورت میں نئے دھاگوں میں لپیٹ دیتی ہے تاکہ اپنی غذا کو بعد میں کھانے کے لئے تازہ رکھ سکے۔۷

یہ بات صاف ظاہر ہے کہ مکڑی اپنے شکار کو ایک منصوبے کے تحت شکار کرتی ہے۔منصوبہ بندی اور اس کے نتیجے میں صحیح حجم، شکل اور قوت کا جالا بنانا جو اس شکاری طریقے کے لئے بالکل موزوں ہو اور پھر شکار کا لپیٹے جانا،سب ایسے افعال ہیں جن کے لئے ذہانت پر مبنی اعلیٰ صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔مزید برآں اگر مکڑی کے جالے کی ساخت کی خصوصیات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ خصوصیات بالکل بے عیب ظاہر ہوتی ہیں۔

Dinopisکا جالا ہر لحاظ سے منصوبہ بندی کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔ مکڑی جس ریشم کو استعمال میں لاتی ہے اس کی کیمیائی ساخت ہی اپنے آپ میں ایک معجزہ ہے۔مکڑی اپنے جال کو جس طریقے سے استعمال کرتی ہے وہ بھی بالخصوص دلچسپ ہے۔مکڑی جب شکار کے انتظار میں بیٹھی ہوتی ہے تو اس کا جالا تنکوں سے بنے ایک تنگ پنجرے جیسا لگتا ہے۔لیکن جالے کی یہ بے ضرر شکل دراصل ایک فریب ہوتا ہے۔شکار کو دبوچنے کے لئے جب یہ مکڑی حرکت میں آتی ہے تو اپنی ٹانگوں سے جالے کا اندرونی حصہ باہر کی طرف الٹا دیتی ہے۔یوں یہ جالا موت کا پھندا بن جاتا ہے جس سے بچ کر فرار ہونا ممکن نہیں۔

لیکن مکڑی ایسی بہترین میکانیکی منصوبہ بندی اور کیمیائی ساخت والا جالا کس طرح تعمیر کر لیتی ہے؟ ایسے کام جن کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہو، چاہے وہ کتنے ہی آسان کیوں نہ ہوں،انہیں سرانجام دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ہر ایک کام کے لئے مختلف منصوبے اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم اس کی حسبِ ذیل توضیح کر سکتے ہیں۔مکڑی کا جالا بیان کرتے وقت ہم اکثر اِن الفاظ ’لیس (جھالر) جیسا‘ کا استعمال کرتے ہیں۔اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکڑیاں اپنے جالوں سے واقعی لیس بناتی ہیں۔

آئیے ہم یہ فرض لیتے ہیں کہ سڑک پر چلتے ایک آدمی کو کپاس اورلیس بنانے والے اوزار مثلاً گچھے دار لیس یا جھالر بننے والی پھرکی(tatting shuttle)،سوئیاں، دھاگے وغیرہ دیے جاتے ہیں۔ کیا ہم ایک ایسے شخص سے جسے لیس بنانے کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں، پہلی ہی کوشش میں لیس بنانے کی توقع رکھ سکتے ہیں ؟ یا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایک لیس دار میز پوش اُن گرہوں سے اچانک بن جائے جو محض اتفاقاً لگ گئی ہوں۔یقیناً نہیں۔

کسی بھی منصوبے کا از خود نمودار ہو جانا ناممکن ہے۔کیونکہ کسی بھی منصوبے کے ظہور کے لئے ذہانت، مہارت اور معلومات پہنچانے کے ذریعے کا ہونا ضروری ہے۔منصوبے بنانے، مزید برآں ان منصوبوں کو بغیر کسی خامی کے سرانجام دینے کے لئے، ایک جاندار کا ’ ذہین ‘ ہونا لازمی ہے۔تاہم یہ قبول کر لینا ممکن نہیں کہ ایک کیڑا ذہین ہو سکتا ہے اور منصوبے سوچ سکتا ہے۔یہ محض فرسودہ استدلال کی کڑی ہے جسے سچ تک پہنچنے کی کوشش میں استعمال کیا جاتا ہے اور حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی۔یہی وجہ ہے کہ ایک ایسی قوت یقیناً موجود ہے جس نے کیڑے کو ذہانت عطا کی یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ایک ایسی طاقت ہے جس نے کیڑے کو وہ سب حرکات سکھائیں جو وہ (کیڑا) کرتا ہے یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ (طاقت) کیڑے سے حرکات کرواتی ہے۔دوسرے الفاظ میں کیڑے کا یقیناً ایک خالق ہے۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ بات ایک واضح سچائی ہے کہ یہ جاندار اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے۔لیکن ارتقاء پرست اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں اور امکانات پر اپنے نظریے استوار کرتے ہیں۔اپنے نظریات کی دانستہ غلامی نے انہیں سوچنے سمجھنے، دیکھنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔اور یہ ایک ایسی حالت کو پہنچ گئے ہیں جہاں یہ ایک واضح سچائی کو دیکھ نہیں سکتے اور جو کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہیں اسے قبول نہیں کرتے۔

ارتقاء پرستوں کے مطابق Dinopisنے اپنا جالا ان تمام خصوصیات کے ساتھ جنہیں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، اتفاق سے بُن لیا اور اتفاق سے ہی اسے استعمال کرنا بھی سیکھ لیا۔ہر ذہین شخص یہ بات جانتا ہے کہ ایسا ناممکن ہے۔لیکن ایک لمحے کے لئے ہم یہ قبول کر لیتے ہیں کہ ایسا، واضح طور پر خارج از امکان ہونے کے باوجود، ممکن تھا اور پہلی Dinopis مکڑی نے (درج بالا)جالا اتفاقاً بنا ہی لیا۔ (ہم اِن سوالات کو کہ Dinopisمکڑی پہلے پہل کیسے وجود میں آئی اور اس نے اپنا جالا بنانے کے لئے ضروری کیمیائی مادے اپنے جسم کے اندر کیسے پیدا کر لئے، معلوم حقیقت سمجھتے ہوئے نظرانداز کریں گے)۔اس صورت میں مندرجہ ذیل سوالات کا جواب دینا ضروری ہے : اگر پہلا جالا اتفاقاً بُنا گیا تھا تو دوسرا اور تیسرا جالا کیسے بُنا گیا؟ مکڑی نے بالکل ویسا ہی جالا جیسا اس نے اتفاق سے بُنا تھا،دوبارہ کیسے بنا لیا؟ایک نومولود مکڑی یہ بات کیسے جانتی تھی کہ لیس نما جالا کیسے بنتے ہیں،دوسرے جالوں سے مختلف خصوصیات کا حامل جالا کیسے بنایا جاتا ہے اور یہ کہ اُسے جالا اپنے شکار کے اوپر پھینکنا ہو گا۔

ان سوالات کا صرف ایک ہی جواب ہے۔ مکڑی کو،جو کچھ بھی سیکھنے یا زبانی یاد کرنے کے قابل نہیں اورجس کے پاس یہ کام سرانجام دینے کے لئے بقدرِ ضرورت پختہ دماغ بھی نہیں،یہ تمام خصوصیات اللہ تعالیٰ نے عطا کیں جو تمام ذی روح اشیاء کا قادرِ مطلق خالق ہے۔

پورشیا مکڑی۔دھوکا دہی کی ماہر

دوسری بہت سی مکڑیوں کے برعکس پورشیا مکڑی (Portia Fimbriata)جالا بنا کر شکار پکڑنے کے علاوہ جالے سے دور بھی شکار پکڑتی ہے۔پورشیا کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسرے حشرات الارض کھانے کے بجائے اپنی ہی نوع کی مکڑیاں کھانے کو ترجیح دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پورشیا مکڑی کا میدانِ عمل عموماً دوسری مکڑیوں کا جالا ہوتا ہے۔یہ شکار کرتے وقت ایک عمدہ اور دلچسپ حکمتِ عملی سے کام لیتی ہے۔

پورشیا مکڑی دوسری مکڑیوں کے جالے پر عموماً اس وقت جا بیٹھتی ہے جب ہوا چل رہی ہو یا پھر کوئی کیڑا اپنے آپ کو جالے سے چھڑانے کی کوشش کر رہا ہو۔ہوا اور کیڑے سے پیدا ہونے والی یہ تیز لرزشیں دبے پاؤں آنے والی پورشیا کی تھرتھراہٹ چھپا دیتی ہیں۔دیکھنے میں یہ مکڑی پھل یا پودے کے ایک ٹکڑے سے ملتی جلتی ہے جو ہوا سے اڑ کر جالے میں اٹک گیا ہو۔ان دوسری مکڑیوں کے برعکس جو شکار کو دیکھتے ہی اس پر جھپٹ پڑتی ہیں، پورشیا مکڑی آہستہ سے حرکت کرتی ہے۔جالے پر بیٹھ جانے کے بعد پورشیا مکڑی جالے میں پھنسے ہوئے کیڑے کی طرح جال کو چھیڑتی،کھینچتی اور مارتی ہے۔جال کا مالک جب نزدیک آتا ہے تو پورشیا بالکل تیار گھات لگائے بیٹھی ہوتی ہے۔۸

پورشیا مکڑیاں اپنی نوع کی مکڑیوں کی نقل اتار کر ان کو دھوکا دیتی ہیں۔مثال کے طور پر پورشیا مکڑی Euryattusمکڑی کی جفتی کی رسم کی نقل اتارتی ہے۔یہ Euryattusمکڑی ریشم کے تاروں سے لٹکتے ہوئے ایک مڑے ہوئے پتے کے اندر رہتی ہے۔مادہ مکڑی کے گھر کے اوپر بیٹھ کر پورشیا پتے کو ہلاتی ہے اور اور نر Euryattus کی طرح اس کے اوپر ناچتی ہے۔ایک لمحے کے لئے دھوکا کھا کر مادہ مکڑی گھر سے باہر نکل آتی ہے۔۹

پورشیا کس طرح مختلف مکڑیوں کے اشاروں سے اپنا اشارہ مشابہ کر لیتی ہے؟اور اس نے ایسا مختلف طریقۂ شکار کیوں چنا؟یہ کہنا غیر منطقی ہو گا کہ مکڑی کسی ’تقلیدی مہارت‘ کی مالک ہے اور اسی وجہ سے اس نے ایسا دلچسپ شکاری طریقہ چنا۔مکڑی اس طریقے سے اس لئے شکار کرتی ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی تخلیق کیا۔ایسی مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فنِ تخلیق کی بے مثل خصوصیات دکھاتا ہے۔

مکڑی کے مچھلیاں پکڑنے کے طریقے

کچھ مکڑیاں غیر متوقع علاقوں میں بھی شکار کرتی ہیں۔مثال کے طور پر پانی والی مکڑی Dolomedes کی شکار گاہ پانی کی سطح ہے۔یہ مکڑی زیادہ تر نشیبی مقامات مثلاً مرطوب اور نالوں میں پائی جاتی ہے۔

آبی مکڑی، جو اچھی بینائی سے محروم ہوتی ہے،اپنا زیادہ تر وقت پانی کے کنارے دھاگے بن بن کر انہیں اپنے گرد و پیش پھیلانے میں گزارتی ہے۔یہ دھاگے بیک وقت دو فریضے سر انجام دیتے ہیں۔یہ دوسری مکڑیوں کے لئے تنبیہ کا کام دیتے ہیں اور مکڑی کے مزموعہ علاقے کی حد مقرر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر متوقع خطرے کی صورت میں فرار کے ہنگامی راستے کا کام بھی دیتے ہیں۔

مکڑی کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا شکاری طریقہ یہ ہے کہ یہ اپنی چار ٹانگیں پانی پر رکھ دیتی ہے جبکہ باقی چار ٹانگیں خشکی پر رہتی ہیں۔ ایسا کرتے وقت مکڑی اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے نہایت حسنِ تدبیر سے کام لیتی ہے۔آبی مکڑی پانی میں داخل ہونے والی ٹانگوں کو اپنے دانتوں میں سے گزار کر ایک آب روک تہ سے ڈھک دیتی ہے۔اس کے بعد پانی کے کنارے پہنچ کر نہایت احتیاط سے اپنا جسم آگے بڑھاتے ہوئے پانی کی سطح پر اترتی ہے۔ یہ اپنے دانت اور محاس اس طرح پانی کے اندر ڈالتی ہے کہ سطح آب منتشر نہیں ہوتی۔مکڑی کسی جانور کے آنے کا انتظار کرتی ہے۔اس کی آنکھیں آس پاس کا جائزہ لیتی ہیں جبکہ ٹانگیں پانی میں پیدا ہونے والے ارتعاش کو محسوس کرتی ہیں۔اپنا پیٹ بھرنے کے لئے مکڑی کو کم از کم تصویر میں دکھائی گئی "Golyan"مچھلی جتنی بڑی مچھلی پکڑنا ضروری ہے۔

شکار کرتے وقت مکڑی اس وقت تک بے حس و حرکت کھڑی رہتی ہے جب تک مچھلی اس کے جبڑوں سے ۵.۱ سینٹی میٹر کے فاصلے پر نہیں آ جاتی۔پھر وہ ایکدم پانی میں داخل ہو کر مچھلی کو اپنی ٹانگوں میں جکڑ لیتی ہے اور اپنے زہریلے دانتوں سے اسے کاٹتی ہے۔اس کے بعد مکڑی فوراً اوندھی ہو جاتی ہے تاکہ مچھلی، جو مکڑی سے کافی بڑی ہوتی ہے،اسے پانی کے اندر نہ کھینچ لے۔زہر تیزی سے اپنا اثر دکھاتا ہے۔وہ نہ صرف شکار کو ہلاک کر دیتا ہے بلکہ اس کے اندرونی اعضاء کو تحلیل کر کے ایک شوربے میں بدل دیتا ہے جس سے وہ باآسانی ہضم ہو جاتے ہیں۔جب شکار مر جائے تو مکڑی اسے کنارے پر لا کر کھا جاتی ہے۔۱۰

اس مقام پر بے شمار سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ مکڑی کو وہ لاکھ(موم سے ملتا جلتا مادہ ) جو اسے ڈوبنے سے بچاتی ہے،کہاں سے حاصل ہوئی اور اس نے کس طرح اپنی ٹانگوں پر اس کی تہ چڑھانا سیکھا تاکہ ڈوبنے سے بچ سکے؟مکڑی نے موم کا فارمولا کیسے حاصل کیا اور اسے کس طرح بنایا؟یقیناً مکڑی نے یہ سب چیزیں، جن میں سے ہر ایک ذہانت کی علامت ہے، اپنی مرضی سے رونما نہیں کر لیں۔ دیگر تمام جانداروں کی طرح مکڑی کی یہ نوع بھی اللہ تعالیٰ کی وحی سے اتنے ذہانت آمیز طریقے سے کام کرتی ہے اور ایسی منصوبہ بندی کرنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔اپنی آیات میں سے ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ہر جاندار کو اس کا رزق مہیا کرتا ہے۔

’زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے۔ سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔‘(سورۃ ھود:۶)

گھنٹہ والی مکڑی کا غوطہ لگانے کا طریقہ

ایشیا اور افریقہ کے گرم علاقوں میں پائی جانے والی آبی مکڑیاں اپنا بیشتر وقت زیرِ آب گزارتی ہیں۔چنانچہ یہ اپنا گھر بھی پانی کے اندر بناتی ہیں۔

اپنا آشیانہ بنانے کے لئے مکڑی سب سے پہلے پانی میں پودوں کے تنوں یا پتوں کے درمیان ایک چبوترہ تعمیر کرتی ہے۔مکڑی چبوترے کو تنوں کے ساتھ ریشم کے دھاگوں سے جوڑ دیتی ہے۔یہ دھاگے مکڑی کے گھر کی نشاندہی کرتے ہیں اور چبوترے کو استحکام بخشتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ راڈار (radar)کا کام بھی کرتے ہیں اور شکار کی آمد سے خبر دار کرتے ہیں۔

چبوترہ تیار کر لینے کے بعد مکڑی اپنی ٹانگوں اور دھڑکے ذریعے ہوا کے بلبلے اس کے نیچے لے جاتی ہے۔اس طرح جالا اوپر کی جانب بڑھتا جاتا ہے۔اور جوں جوں مزید ہوا کا اضافہ ہوتا جا تا ہے جالا گھنٹہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔یہ’ گھنٹہ‘ وہ گھر ہے جہاں مکڑی رہتی ہے۔

دن میں مکڑی اپنے گھر میں انتظار کرتی ہے۔جب کوئی چھوٹا جانور، خاص طور سے ایک کیڑا یا لاروا پاس سے گزرتا ہے تو مکڑی اچانک تیزی سے باہر نکل کر اسے جھپٹ کر پکڑ لیتی ہے اور اسے کھانے کے لئے واپس اپنے گھر میں گھسیٹ کر لے جاتی ہے۔پانی کی سطح پر گرنے والا کیڑا پانی میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔مکڑی انہیں محسوس کر کے سطح آب پر آ جاتی ہے اور کیڑے کو پکڑ کر اسے پانی کے نیچے گھسیٹ لیتی ہے۔مکڑی پانی کی سطح پر جالا بھی استعمال کرتی ہے اوراس جالے میں گرنے والے کیڑوں اور دوسرے جانوروں کے مابین کوئی فرق نہیں کرتی۔

موسم سرما کی آمد کے نزدیک جمنے سے بچاؤ کے لئے مکڑی کو چند احتیاطی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی وجہ سے سردی نزدیک آنے پر آبی مکڑی پانی کی گہرائی میں چلی جاتی ہے۔اس مرتبہ وہ سردی کی گھنٹی بناتی ہے اور اس کے اندر ہوا بھر دیتی ہے۔بعض دوسری مکڑیاں شکمی ماصے والی چھوٹی لجلجی مچھلیوں (sea-snails)کے خالی خولوں کے اندر بسیرا کر لیتی ہیں۔یہ مکڑی گھنٹے کے اندر کبھی داخل نہیں ہوتی اور پورے موسمِ سرما میں بمشکل کوئی توانائی صرف کرتی ہے۔اس طرح توانائی بچتی ہے اور آکسیجن کی ضرورت گھٹ جاتی ہے۔ان احتیاطی تدابیر کا مقصد یہ ہے کہ مکڑی جو بلبلے گھنٹہ میں لے جاتی ہے وہ سردیوں میں چار سے پانچ مہینوں تک استعمال کرنے کے لئے کافی ہوں۔۱۱

جیسا کہ ہم نے دیکھا مکڑی کا ہوا کا بلبلہ اور اس کا شکاری طریقہ زیرِ آب زندہ رہنے کے لئے معیاری طریقۂ کار ہیں۔کسی بھی جاندار کے لئے اتفاقاً زیرِ آب زند گی گزارنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالنا ناممکن ہے۔اگر کسی جاندار کے پاس زیرِ آب زندہ رہنے کے لئے درکار خصوصیات نہ ہوں تو وہ پانی میں پہلی مرتبہ داخل ہوتے ہی مر جائے گا۔اس کے پاس اتفاق یا کسی اور چیز کا انتظار کرنے کا وقت ہی نہیں ہو گا۔لہٰذا ایک زمینی جانور جو موزوں مہارتوں کی بناء پر زیرِ آب زندہ رہ سکے، اپنے وجود کے لئے ان مہارتوں کے ظہور کا مرہون ہے۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امتیازی خصوصیات اور صلاحیتوں والی اس آبی مکڑی کو اللہ تعالیٰ نے بہترین انداز میں تخلیق کیا۔

’میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمھارا رب بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔بے شک میرا رب سیدھی راہ پر ہے۔‘(سورۃ ھود: ۵۶)

پہیہ نما مکڑی

جنوب مغربی افریقہ کے Namibian صحرا میں پائی جانے والی مکڑیوں کی بعض انواع خطرے کے وقت اپنی ٹا نگیں مکمل طور پر جسم کے اندر سمیٹ لیتی ہیں اور اپنا جسم بالکل پہیے جیسا بنا لیتی ہیں۔ اس کے بعد اپنے پہیے نما جسم سے مسلسل قلابازیاں کھاتے ہوئے تیزی کے سا تھ خطرے سے دور ہو جاتی ہیں۔

یہ مکڑیاں ۵.۲۔۳ سنٹی میٹر لمبی ہوتی ہیں اور دو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے بڑی تیزی سے حرکت کرتی ہیں۔ اس رفتار کا اندازہ لگانے کے لئے ہم ایک مثال دیتے ہیں۔پہیے کی صورت میں مکڑی کے جسم کی محوری گردش ۴۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی گاڑی کے پہیوں کی محوری گردش کے برابر ہوتی ہے۔

مکڑی کی کچھ انواع دشمن سے بچ نکلنے کے لئے یہ طریقہ استعمال کرتی ہیں۔اکثر اوقات یہ دشمن اچانک حملہ کرنے والی جنگلی مادہ بھڑ (raider wasp)ہوتی ہے۔مکڑی، جو ریت کے ٹیلوں کی چوٹی پر اپنا آشیانہ بناتی ہے، جب محسوس کرے کہ کوئی آشیانے کو کھودنے لگا ہے تو وہ ایکدم باہر آ جاتی ہے۔ پہلے اپنی رفتار بڑھانے کے لئے وہ چند قدم بڑھاتی ہے۔ اس کے بعد اپنی پانچ جوڑوں والی ٹانگیں اندر سمیٹ لیتی ہے اور ڈھلان کی طرف لڑھکتے ہوئے پہیے کی طرح رفتار پکڑتی ہوئی فرار ہو جاتی ہے۔اگر مکڑی ریت کے ٹیلوں کی تلیٹی پر اپنا گھر بناتی تو ضرورت کے مطابق اپنی رفتار تیز نہ کر پاتی اور شکار کر لی جاتی۔اسی وجہ سے مکڑی ٹیلوں کی چوٹی پر گھر بنانے کو ترجیح دیتی ہے۔حفظ ماتقدم کے طور پر مکڑی کا ٹیلے کے اوپر آشیانہ بنانا، بغیر کسی دشمن سے واسطہ پڑے، ایک شعوری رد عمل ہے۔بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مکڑی کو ایسا کرنے پر اُکسایا۔اللہ تعالیٰ بغیر کسی سابقہ مثال کے تخلیق کرتا ہے اور وہ تمام مخلوقات سے باخبر ہے۔

پچکاری مارنے والی مکڑی

مکڑی کی یہ نوع،جو Scytodesکہلاتی ہے اپنے شکاروں پر زہر اور چپچپے مادے کا آمیزہ پچکاری کی صورت میں پھینک کر انہیں ہلاک کر دیتی ہے۔یہ سیال مادے مکڑی کی آنکھوں کے پیچھے ایک بہت غدّے gland))میں پیدا ہوتے ہیں۔اس غدے کے دو خانے ہوتے ہیں۔ ایک خانے میں زہر اور دوسرے میں چپچپا مادہ ہوتا ہے۔مؤخر الذکر خانے کے گرد پٹھے ہوتے ہیں جنہیں سکیڑنے پر مکڑی کے دانتوں سے گوند کی دھار زور سے خارج ہوتی ہے۔آڑھی ترچھی شکل میں نکلنے والا یہ چپچپا مادہ ایک ایسا جالا بن جاتا ہے جو شکار کو اسی پتے یا ٹہنی پر جس پر وہ چل رہا ہو چپکا دیتا ہے۔۱۲۔شکار کو یوں بے حرکت کر دینے اور ٹہنی یا پتے پر چپکانے کے بعد آخر میں مکڑی جہاں شکار لٹکا ہو، وہاں پہنچ کر اسے کھا جاتی ہے۔

پاسیبولسPasilobus مکڑی کا دام

Pasilobusمکڑی جو صرف نیو گِنی New Guineaمیں پائی جاتی ہے دام تیار کرنے میں بڑی ماہر ہے۔اس کے بنے ہوئے جالے بہت چپچپے ہوتے ہیں۔ پورا جالا دو مستحکم کناروں کے درمیان لٹکا ہوتا ہے۔ایک سرے پر گرہ بہت کسی ہوئی ہوتی ہے مگر دوسرے سرے کی گرہ خاصی ڈھیلی چھوڑ دی جاتی ہے۔یہ کسی غلطی یا مکڑی کی بے توجہی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک شکاری حکمتِ عملی ہے۔اور اس بات کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب شکار مکڑی کے نزدیک پہنچتا ہے۔ جوں ہی کوئی پتنگا جال میں آ پھنستا ہے،جالے کا ڈھیلی گرہ والا سرا کھل جاتا ہے۔ چونکہ جالے کادوسرا سِرا بندھا رہتا ہے اس لئے پتنگا ہوا میں پلندے کی طرح لٹکتا رہتا ہے۔بعد میں مکڑی شکار کے قریب پہنچ کر اس کے پورے جسم پر، سر سے شروع کرتے ہوئے چپچپا مادہ اسپرے کر دیتی ہے۔یوں مکڑی شکار کو زندہ پکڑ لیتی ہے۔

٭٭

اچھلنے کودنے والی مکڑی کی خصوصیات

بے عیب چھلانگ لگانا

مکڑیوں کی بیشتر انواع جال بنتی ہیں اور پھر(کیڑوں کا اس جال میں آ کر پھنسنے کا) انتظار کرتی ہیں۔ لیکن ان مکڑیوں کے برعکس چھلانگ لگانے والی مکڑی اپنے شکار پر خود اُچھل کر (جیسا کے اس کے نام سے ظاہر ہے)حملہ آور ہونے کو ترجیح دیتی ہے۔مکڑی اس فعل میں اس قدر مہارت رکھتی ہے کہ اپنے سے نصف میٹر دور ہوا میں اڑتے ہوئے کیڑے کو بھی شکار کر لیتی ہے۔

حملے کے بعد مکڑی اچانک شکار پر جھپٹتی ہے اور اپنے مضبوط جبڑے اس میں گاڑھ دیتی ہے۔ یہ چھلانگ عموماً گھنی جگہوں میں پودوں کے درمیان لگائی جاتی ہے۔یہ کام کامیابی کے ساتھ سر انجام دینے کے لئے مکڑی کو ایک موزوں زاویے کے ساتھ ساتھ شکار کی رفتار اور سمت کا بھی حساب لگانا ہوتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ شکار پکڑ لینے کے بعد مکڑی اپنے آپ کو کس طرح موت سے بچاتی ہے۔مکڑی کی جان کو خطرہ ہوتا ہے کیونکہ اپنے شکار کو پکڑنے کے لئے اسے ہوا میں جست لگانی ہوتی ہے اور اس اونچائی سے (جو عموماً درخت کی چوٹی ہوتی ہے)چھلانگ لگاتے وقت مکڑی کا واپس زمین پر گر جانے کا امکان ہوتا ہے۔لیکن مکڑی اس حادثے کا شکار نہیں ہوتی۔کیونکہ چھلانگ لگانے سے قبل مکڑی ایک دھاگا بن کر اس کا سرا اُس شاخ سے باندھ دیتی ہے جس پر وہ بیٹھی ہوتی ہے۔یہ طریقہ اسے زمین پر گرنے سے بچا کر ہوا میں لٹک جانے میں مدد دیتا ہے۔دھاگا اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ مکڑی اور اس کے پکڑے ہوئے شکار، دونوں کا وزن سہہ لیتا ہے۔

مشن:شکار کو تاک کر نشانہ باندھنا

چھلانگ لگانے والی مکڑی کی اس ماہر و تجربہ کار نوع (species)کی دیگر طبعی خصوصیات بھی کامل اور بے عیب ہیں۔مکڑی کے سر کے درمیان میں سے دو آنکھیں دوربین کی مانند آگے کی جانب بڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔یہ دو بڑی آنکھیں اپنے خانوں (sockets)میں دائیں سے بائیں اور اوپر نیچے حرکت کر سکتی ہیں۔آنکھوں میں موجود چار متوازی درجوں والے پردۂ چشم(retinas)،جو ہری اور ماورائے بنفسجی طولِ موج(green and ultraviolet wavelengths)کو فوراً محسوس کر لیتے ہیں، مکڑی کو دور کی بہترین نظر عطا کرتے ہیں۔سر کے پہلو میں موجود دوسری چار آنکھیں اتنی صفائی سے نہیں دیکھ سکتیں تاہم اپنے ارد گرد ہونے والی ہر حرکت کا پتہ لگا لیتی ہیں۔اس طرح یہ جانور اپنے پیچھے کی طرف موجود شکار یا دشمن کا باآسانی ادراک کر لیتا ہے۔ ۱۳

آئیے اس مکڑی کے بارے میں اب تک ہم نے جو کچھ سیکھا ہے اس پر غور کرتے ہیں۔مکڑی کی جسمانی ساخت ایسی ہے جو اسے تیزی سے حرکت کرنے اور ایک ہی جست میں شکار کو پکڑ لینے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔اسی طرح مکڑی کی آنکھیں شکار کو کسی بھی سمت سے دیکھ لینے میں مدد دیتی ہیں۔

یہ ایک قدرتی بات ہے کہ مکڑی نے خود یہ نہیں سوچا ہو گا کہ یہ اضافی آنکھیں اس کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہیں اور یوں اس نے انہیں خود ہی پیدا کر لیا ہو گا۔یہ آنکھیں ’اتفاق‘ سے بھی خود ہی وجود میں نہیں آ گئیں۔ بلکہ اس جانور کو ان تمام خصوصیات سمیت اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا۔نظریۂ ارتقاء جو یہ واضح نہیں کر سکا کہ صرف ایک آنکھ ہی کیسے وجود میں آئی، چھلانگ لگانے والی مکڑی کی آٹھ آنکھوں اور ان کے بیچ مکمل ربطِ دہی (coordination)کی بابت کوئی رائے پیش کرنے سے قاصر ہے۔

ہر لحاظ سے بہترین بہروپ بھرنے کی صلاحیت

اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ اوپر تصویر کے سیدھے ہاتھ پر آپ کو کیا نظر آ رہا ہے تو آپ یقیناً یہی کہیں گے ’پتے کے اوپر اور نیچے چند چیونٹیاں ‘۔لیکن تصویر میں پتے کے نیچے جو جانور منتظر ہے وہ چیونٹی نہیں بلکہ چھلانگ لگانے والی مکڑی کی قسم Myrmarachneہے۔مکڑی اور چیونٹیوں کے درمیان صرف ٹانگوں کی تعداد گن کر ہی فرق کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ مکڑیوں کی آٹھ جبکہ چیونٹیوں کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں۔

اچھلنے کودنے والی مکڑی چیونٹیوں کو کس طرح دھوکا دے دیتی ہے؟یہ مکڑی محض چیونٹیوں جیسا روپ دھار کر ہی انہیں دھوکا نہیں دیتی بلکہ چیونٹیوں کے رویوں کی بھی نقل اتارتی ہے۔مثلاً اپنی ٹانگوں کی تعداد چھپانے کے لئے اچھلنے کودنے والی مکڑی اپنی سامنے والی دو ٹانگیں چیونٹی کے ہلتے ہوئے انٹینے (antennae)سے مشابہ کرنے کے لئے اوپر اٹھا لیتی ہے۔۱۴۔ اس طرح مکڑی کی یہ آنکھیں چیونٹی کے انٹینے کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔اس مقام پر ہمیں ٹھہر کر سوچنا ہو گا:(ٹانگیں اوپر اٹھا لینے کا) مطلب یہ ہوا کہ مکڑی گنتی کر سکتی ہے۔ مکڑی نے پہلے اپنی اور پھر چیونٹیوں کی ٹانگوں کی تعداد گنی اور دونوں کا موازنہ کیا۔ فرق بھانپ لینے کے بعد یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی کہ اسے اپنی زائد ٹانگوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ اور یوں بڑے محتاط طریقے سے اس نے اپنی زائد ٹانگیں چیونٹی کے انٹینے سے مشابہ کر لیں۔

یہاں کئی نقطے ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلی بات یہ کہ مکڑی طبعی لحاظ سے چیونٹی سے یکسر مختلف ہے۔چیونٹی جیسا لگنے کے لئے مکڑی کے لئے صرف اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا لینا ہی کافی نہیں بلکہ اسے چیونٹی کی چال اور جسمانی وضع کی بھی نقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسا کرنے کے لئے اسے ایک ماہر مشاہد ہونے کے ساتھ ساتھ جو کچھ وہ دیکھتی ہے اس کی نقالی کرنے میں ماہر ہونے کی بھی ضرورت ہے بالکل اداکاری کرتے ہوئے ایک اداکار کی طرح۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا مکڑی نقل کرنے کے ایسے طریقے استعمال کرتی ہے جن کے لئے سوچنا، پھر ان سوچوں کو عملی جامہ پہنانا اور نقل اتارتے وقت ضروری طبعی تبدیلیوں کا احساس کرنا ضروری ہے۔کسی بھی باسمجھ اور صاحبِ فہم شخص کے لئے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ مکڑی یہ سب کچھ از خود نہیں کر سکتی۔اول تو یہ کہ مکڑی کا دماغ اس قسم کی سوچ بچار کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔تو آخر مکڑی کی صلاحیتوں کا منبع کیا ہے؟ کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے مکڑی کی ان دیگر چند خصوصیات کا جائزہ لینا فائدہ مند ہو گا جو بہروپ مکمل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔

مکڑی کے بہروپ میں صرف درج بالا چیزیں ہی شامل نہیں۔چیونٹی کی طرح لگنے کے لئے مکڑی کو اپنی آنکھیں چھپانا بھی ضروری ہے جو چیونٹی کی آنکھوں کی مانند بڑے نقطے کی طرح نہیں ہوتیں۔مگر مکڑی کی ایک خصوصیت نے یہ مشکل حل کر دی ہے۔مکڑی کے سر کے اطراف میں دو کالے نقطے ہوتے ہیں جو بُننے والی مکڑی(weaver ant)کی چشمِ مرکب (compound eyes)جیسے لگتے ہیں۔۱۵

آئیے ذرا رک کر غور کیجیئے :مکڑی کو اس بات کا علم نہیں کہ اس کے سر کے اطراف میں دو نقطے ہیں۔کسی ایسی صورت حال کا ذکر کرنا جہاں ایک مکڑی کسی چیز کا علم رکھتے ہوئے،شعور و آگاہی کے ساتھ ایک حکمتِ عملی تشکیل دے، عقلمندی کی بات نہیں۔ اگر ایسا ہے تو مکڑی کو، جو چیونٹیوں کو کھاتی اور ان کی نقل اتارتی ہے، اپنے سر کے پہلو میں یہ جعلی آنکھیں کیسے حاصل ہو گئیں۔مکڑی نے سب کچھ کس طرح ’سیکھا‘، گِنا اور نقل اتاری؟ اگر مکڑی ان جعلی آنکھوں کی مالک نہ ہوتی تو اس کا کیا انجام ہوتا؟ایسی صورت میں مکڑی خواہ کتنا ہی اچھا سوانگ کیوں نہ بھر لیتی، چیونٹیاں اسے پہچان لیتیں اور خطرہ بھانپ لینے کے بعد اگر چیونٹیاں مکڑی سے پہلے کوئی ردِّ عمل کرتیں تو مکڑی ہلاک ہو جاتی۔یہ چیونٹیاں اپنے طاقتور جبڑوں سے مکڑی کو قتل کر ڈالتیں۔جیسا کہ صاف ظاہر ہے مکڑی کے لئے صرف چیونٹیوں کی نقل اتار لینا ہی کافی نہیں بلکہ بہروپ کو کامیاب بنانے کے لئے مکڑی کے پاس پیدائشی طور پر جعلی آنکھوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔

یہ وہ چند خصوصیات ہیں جن کی مکڑی کو زندہ رہنے کے لئے ضرورت ہے۔اگر ان میں سے ایک کی بھی کمی ہو تو چھلانگ لگانے والی مکڑی جلد ہی مر جائے۔اس صورت میں یہ کہنا نا ممکن ہے کہ مکڑی کو یہ خصوصیات ’انطباق ‘سے حاصل ہو گئیں۔مکڑی کو یہ تمام تر خصوصیات بیک وقت ملیں۔اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو،ہر اس وصف کے ساتھ جس کی اس جاندار کو ضرورت ہے، بہترین شکل میں تخلیق کیا۔

گپت چھرے یا کمانی دار چاقو(flick-knife) جیسے جبڑے

Myrmarachne plataleoidesنوع کی نر مکڑی نہایت دلچسپ شکل کی مالک ہے۔اس نوع کی نر مکڑیوں کی لمبی ’ناک‘ ہوتی ہے۔شکار پکڑتے وقت یا اگر حملے کا خطرہ ہو، تو مکڑی اپنا ناک شق کرتی ہے اور (ناک کے)دونوں حصوں میں تہ کئے ہوئے جبڑے باہر نکال لیتی ہے۔ان جبڑوں کے سروں پر بے نیام دانت ہوتے ہیں۔۱۶.مکڑی ان لمبے اور تیز دھار جبڑوں کو تلوار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

چھلانگ لگانے والی مکڑی کی الفت اور جان نثاری

اچھلنے کودنے والی مکڑی اپنے نوزائیدہ بچوں کو کچھ عرصے کے لئے اپنی پیٹھ پر اٹھائے پھرتی ہے۔اس طرح وہ نہ صرف اپنے بچوں کی ضروریات پوری کر لیتی ہے بلکہ ان کی بہتر طور پر حفاظت بھی کر سکتی ہے۔۱۷۔ مکڑی، جو ایک طرف اپنے دشمنوں کے لئے ایک بے رحم قاتل مشین ثابت ہوتی ہے، دوسری طرف اپنے بچوں کے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آتی ہے۔یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس نے ایسے ارتقاء پرستوں کے لئے بیشمار مشکل سوالات کھڑے کر دیئے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ فطرت میں جانداروں کے درمیان ’جُہد بالبقاء‘ (struggle for survival)پائی جاتی ہے اور صرف اہل یا صحت مند جانور ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔لیکن جب ہم کائنات میں جانداروں کا جائزہ لیتے ہیں تو کئی ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں جو ارتقاء پرستوں کے دعووں کے کلی خلاف ہیں۔ایک ہی نوع کے جانداروں کے مابین شدید الفت کے ساتھ ساتھ مختلف نوع کے جانداروں کے درمیان بھی دلی تعلق کی واضح مثالیں ملتی ہیں۔جانداروں کا دوسرے جانوروں کے لئے قربانی دینے یا اپنے ہی بچوں کے لئے جان کی بازی لگا دینے کی حقیقت ارتقاء پرستوں کو سخت مشکل میں مبتلا کر دیتی ہے جب وہ مظاہرِ فطرت پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ایک سائنسی رسالہ ا س موقف کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

’سوال یہ ہے کہ جاندار ایک دوسرے کی مدد کیوں کرتے ہیں ؟ڈارون کے نظریے کے مطابق ہر ذی روح شے اپنی زندگی کی بقاء اور نسل کشی کے لئے مسلسل جنگ کی کیفیت میں مبتلا ہے۔چونکہ دوسروں کی مدد کرنے سے اس کی اپنی بقا کا امکان گھٹ جاتا ہے، چنانچہ یہ رویّہ بہت عرصہ پہلے معدوم ہو جانا چاہیے تھا جبکہ (اس کے برعکس)یہ دیکھا گیا ہے کہ جاندار ایثار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘۱۸

یہ بات بالکل واضح ہے کہ اپنے بچوں کے لئے مادہ جانوروں کے پیار کی کسی ارتقائی طریقِ عمل سے وضاحت کرنا ناممکن ہے۔یہ ایک ایسی سالم اور ٹھوس حقیقت ہے کہ بیشتر ارتقاء پرست جیسے Cemal Yildirim بھی اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

’کیا بچے کے لئے پیار کی کسی ’اندھے ‘نظام کے ذریعے جس میں جذباتی عوامل شامل نہ ہوں (یعنی طبعی انتخابnatural selection) وضاحت کرنے کا کوئی امکان ہے؟یہ کہنا یقیناً مشکل ہے کہ ماہرینِ حیاتیات اور ڈارون پرست اس سوال کا تسلی بخش جواب پیش کر سکے ہیں۔‘

یقیناً ردِّ عمل کر کہ مکڑ شکیل: اعجاز عبیدپیار، دردمندی اور بچے کی حفاظت کی خواہش جیسے تصورات کی کسی ’اندھے‘ نظام کی اصطلاح میں وضاحت کرنا ممکن نہیں۔ کیونکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو شعور اور ذہانت سے محروم جانوروں کے دل میں سارے طور طریقے اجاگر کرتا ہے۔کسی بھی جاندار کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ از خود، قربانی کا مظاہرہ کرے، منصوبہ تیار کرے یا کوئی بھی اور کام سر انجام دے۔ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔

ریشم کا معجزہ

یہ بات ہر شخص کے علم میں ہے کہ مکڑی جالا بننے کے لئے اپنے ہی جسم میں پیدا کئے گئے ریشمی دھاگے استعمال کرتی ہے۔لیکن دھاگا پیدا کرنے کے مراحل اور اس کی عمومی خصوصیات سے ہر کوئی واقف نہیں۔مکڑی کا دھاگا، جس کا قطر ۱ ملی میٹر کے ہزارہویں حصے سے بھی کم ہو، اِسی موٹائی کی فولادی رسی سے پانچ گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔اس کے علاوہ یہ دھاگا اپنی لمبائی سے چار گنا زیادہ کھنچ سکتا ہے۔ ریشم کی ایک اور حیرت انگیز خاصیت یہ ہے کہ یہ نہایت ہلکا ہوتا ہے۔ ہم اسے ایک مثال سے واضح کرسکتے ہیں۔ریشم کا ایک دھاگا اگر پوری دنیا کے گرد لپیٹ دیا جائے تو دھاگے کا وزن صرف ۳۲۰ گرام ہو گا۔۲۰

درج بالا تکنیکی تفصیلات نظرِ ثانی کے لائق ہیں۔ہم اس حقیقت پر محض ایک سرسری نگاہ نہیں ڈال سکتے کہ ریشم فولاد سے پانچ گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔کیونکہ لوہا،جسے دنیا کی سب سے زیادہ مضبوط اشیاء میں سے ایک مانا جاتا ہے مختلف دھاتوں کا مرکب (alloy)ہے جو بڑے بڑے کارخانوں میں مسلسل عمل سے گزر کر تیار ہوتا ہے۔ تاہم لوہے سے پانچ گنا زیادہ مضبوط مکڑی کا جالا بڑے کار خانوں میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسے ایک مفصل پایہ (arachnid)تیار کرتا ہے۔دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی مکڑی اسے پیدا کر سکتی ہے۔فولاد بہت بھاری شے ہے اور اسی وجہ سے اسے استعمال میں لانا مشکل ہے۔یہ نہایت تیز درجہ حرارت میں بڑی بھٹیوں میں تیار کیا جاتا ہے اور سانچوں میں ٹھنڈا کر کے اسے کارآمد بنایا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مکڑی کا جالا بہت ہلکا ہوتا ہے۔یہ مکڑیوں کے چھوٹے سے جسموں کے اندر پیدا ہوتا ہے نہ کہ بڑی بڑی بھٹیوں اور سانچوں میں۔

مکڑی کے دھاگے کا دوسرا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ یہ بہت لچکدار ہوتا ہے۔کسی ایسی شے کا ملنا بہت مشکل ہے جو مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ لچکدار بھی ہو۔مثال کے طور پر لوہے کی رسیاں یا تاریں مضبوط ترین اشیاء میں سے ایک ہیں مگر چونکہ وہ ربڑ کی طرح لچک دار نہیں ہوتیں اس لئے آہستہ آہستہ اپنی ساخت کھو دیتی ہیں۔ربڑ کی تاریں اگرچہ اپنی اصل شکل برقرار رکھتی ہیں مگر وہ اتنی مضبوط نہیں ہوتیں کہ بھاری وزن اٹھا سکیں۔دوسری طرف، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا،مکڑی کا ریشم اسی موٹائی کی فولادی تارسے پانچ گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور اسی موٹائی کے ربڑ سے ۳۰ فیصد زیادہ لچک دار.۲۱۔فنی اصطلاح میں مکڑی کا دھاگا ٹوٹ جانے کے خلاف قوت مزاحمت اور ٹوٹنے سے پہلے اپنی کھنچے جانے کی حد کے نقطۂ نظر سے ایک ایسی شے ہے جس کی مثل دنیا میں کوئی اور شے موجود نہیں۔

پچھلی چند دہائیوں میں مکڑیوں پر کی جانے والی تحقیق اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات اپنے ساتھ کئی سوالات لائی ہے۔مثلاً اگر بنی نوع انسان کئی سو سالوں کی مدت میں جمع کردہ علم کے نتیجے میں فولاد اور ربڑ کی تاریں بناتا ہے تو پھر مکڑی کا دھاگا، جو نہایت اعلیٰ ہوتا ہے، کس علم کے تحت بنایا جاتا ہے۔ایسا کیوں ہے کہ بنی نوع انسان (جالے کے) فارمولے یا ترکیب کو پوری طرح سمجھ کر اسے عملی جامہ نہیں پہنا سکا؟مکڑی کے ریشم کو ایسی کون سی چیز ممتاز بناتی ہے؟ان سوالوں کا جواب ریشم کی ساخت میں پوشیدہ ہے۔ کیمیائی مرکب پیدا کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی تحقیقات نے صرف ایک حد تک مکڑی کے دھاگے کی بناوٹ دریافت کی ہے۔

ریشم کی ساخت

مکڑیوں کا ریشم دوسرے معلوم ریشوں سے، چاہے وہ قدرتی ہوں یا مصنوعی،کہیں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کو جب اس بات کا احساس ہوا تو انھوں نے تجربے کرنے شروع کر دئیے تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ مکڑی کس طریقے سے ریشم بناتی ہے۔پہلے سائنسدانوں کا یہ خیال تھا کہ مکڑی سے ریشم حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہو گا جتنا ریشم کے کیڑے سے ریشم حاصل کرنا۔لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غلط تھے۔

ڈنمارک کی آرہس یونیورسٹی (Aarhus University)کے ارتقائی عالمِ حیوانیات Fritz Vollrath اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ریشم کو مکڑیوں سے براہِ راست حاصل کر کے بنا نا ممکن نہیں۔ایسی صورت میں پھرسائنسدانوں نے ’ مکڑی کے مصنوعی ریشم کی پیداواری‘ کی تجویز متبادل طریقے کے طور پر پیش کی۔لیکن اس سے پہلے محق

قین کے لئے یہ جاننا ضروری تھا کہ مکڑی کس طرح ریشم پیدا کرتی ہے۔اس میں کئی سال صرف ہوئے۔عالمِ حیوانیات Vollrath نے اپنے دوسرے تجربے میں اس طریقے کا ایک اہم حصہ دریافت کر لیا۔مکڑی کا ریشم بنانے کا یہ طریقہ غیر معمولی طور پر اس عمل سے ملتا جلتا ہے جس سے نائلون(nylon)جیسے صنعتی ریشے تیار کئے جاتے ہیں : مکڑیاں اپنے ریشم کو تیزاب کے ذریعے سخت بناتی ہیں۔Vollrathنے باغ میں پائی جانے والی مکڑی جسے Araneus diadematusکہتے ہیں،کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور ایک نلکی کا بغور مشاہدہ کیا جس میں سے ریشم باہر نکلنے سے پہلے بہتا ہے۔اس نلکی میں داخل ہونے سے قبل ریشم سیال لحمیات پر مشتمل ہوتا ہے۔نلکی کے اندر مخصوص خلیے سیال لحمیات میں سے پانی کھینچ لیتے ہیں۔پانی سے حاصل کردہ ہائڈروجن ایٹم یا جوہر نلکی کے دوسرے حصے میں پمپ کئے جاتے ہیں جس سے تیزابی مائع پیدا ہوتا ہے۔ریشم کے لحمیات جب اس تیزاب سے جا ملتے ہیں تو یہ تہ ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ پل بناتے جاتے ہیں جس سے ریشم سخت ہو جاتا ہے۔۲۲۔لیکن ظاہر ہے ریشم کا بننا اتنا آسان نہیں جتنا کہ یہاں بیان کیا گیا ہے۔ریشم کی تیاری کے لئے دیگر اشیاء اور متنون خاصیتوں والے غشائی کیسوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

مکڑی کے ریشم کا خام مال ’قراتین‘ (keratin)ہے۔یہ ایک ایسا لحمیہ ہے جو امینو ترش زنجیرو ں amino acid chainsکی گوندھی ہوئی، بلدار ڈوریوں کے طور پر نظر آتا ہے۔یہ مادہ بال،سینگ اور پروں میں بھی پایا جاتا ہے۔مکڑی اپنے جالے کے لئے سارا خام مواد شکار کو ہضم کر کے اُس سے حاصل کردہ امینو ترشوں کی ترکیب و تالیف سے حاصل کرتی ہے۔مکڑیاں اپنے جالے بھی کھا کر ہضم کر لیتی ہیں اور یوں اپنے جسم میں مزید جالے بنانے کے لئے مواد پیدا کر لیتی ہیں۔

مکڑی کے پیٹ کے تلے پر ایک جگہ ریشم بنانے کے غدے (silk glands) پائے جاتے ہیں۔ہر غدہ مختلف عناصر(elements) پیدا کرتا ہے۔ان عناصر کی مختلف تراکیب سے مختلف اقسام کے ریشمی دھاگے پیدا ہوتے ہیں۔غدوں کے درمیان بہت زیادہ مطابقت پائی جاتی ہے۔ریشم کی پیداواری کے دورانِ عمل مکڑی کے جسم میں موجود خصوصی طور پر بالیدہ پمپ اور دباؤ کے نظام استعمال میں لائے جاتے ہیں۔پیدا ہونے والا خام ریشم ریشوں کی صورت میں ٹونٹیوں کی مانند کام کرنے والے عضوِ تار کش(spinnerets) کے ذریعے باہر خارج کیا جاتا ہے۔مکڑی ان تار کش اعضاء میں جب چاہے پھوہار کے دباؤ کو بدل سکتی ہے۔یہ خاص طور پر ایک اہم خصوصیت ہے۔کیونکہ اس طرح خام قراتین بنانے والے سالموں کی ساخت بدل جاتی ہے۔صماموں (valves) میں نظامِ روک کے استعمال سے دھاگے کی بنائی کے دوران اس کے قطر، قوتِ مزاحمت اور لچک میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔یوں دھاگا اپنی کیمیائی ترکیب میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت کے بغیر مطلوبہ طبیعی خصوصیات اختیار کر لیتا ہے۔اگر دھاگے میں کسی بڑی تبدیلی کی ضرورت ہو تو ایک اور غدہ برسرِ عمل آتا ہے۔اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بے شمار خصوصیات کے حامل ننھے ریشمی دھاگے پچھلی ٹانگوں کے ماہرانہ استعمال سے مطلوبہ طریقے سے پھیلا دیے جاتے ہیں۔

چھ مختلف غدوں کی پیداوار کی جس تناسب سے آمیزش کی جاتی ہے وہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔مثلاً جس وقت چپچپا دھاگا بنایا جا رہا ہو تو وہ مادہ جو چپچپاہٹ کی صفت بخشتا ہے اگر کافی مقدار میں استعمال نہ کیا جائے تو دھاگا کیڑے پکڑنے کی صلاحیت کھو دے گا۔اور اگر بہت زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے تو جالے کے استعمال کی مدت گھٹ جائے گی۔دھاگے کو کار آمد بنانے کے لئے دیگر غدوں کی پیداوار کو صحیح درجے پر کام میں لانا لازمی ہے۔

یہ سارے عمل کامیابی کے سا تھ مکمل ہو جانے کا حاصل مکڑی کا جالا ہے جس کی تمام خصوصیات ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں اور مختلف کام سر انجام دیتی ہیں۔مکڑی کا دھاگا اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ ماہرِ حیوانیات Vollrath نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :’’مکڑی کا ریشم Kevlar (ایک مصنوعی لچکدار ریشہ) سے زیادہ مضبوط اور لچک دار ہے اور Kevlar مضبوط ترین مصنوعی ریشہ ہے۔‘‘۲۳

مکڑی کے ریشموں کی صرف یہی خاص صفات نہیں۔Kevlar (ایک قسم کا پلاسٹک جو اپنی مضبوطی کی بناء پر گولی روک کوٹ کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے) کے برعکس مکڑی کا ریشم قابلِ باز گردانی (recyclable) ہوتا ہے اور بار باراستعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

یہاں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ دنیا کی یہ بہترین ترین شے، جو فولاد سے زیادہ مضبوط اور ربڑ سے زیادہ لچکدار ہے، مکڑی کے جسم میں تیار ہوتی ہے۔کپڑے کے بڑے سے بڑے کارخانے، کپڑا بننے کے سب سے ترقی یافتہ مراکز اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے مکمل طور پر آراستہ جوہر پر تحقیقات کرنے والی لیبارٹریاں بھی مکڑی کے ریشم جیسی کوئی شے تیار نہیں کر سکیں۔تو پھر مکڑی نے ایسی بے مثال کیمیائی ساخت کی منصوبہ بندی کیسے کی ؟ منصوبہ بندی کرنے کے بعد ریشم بنانے کے لئے ضروری خام مال کا منبع کس طرح معلوم کیا اور چھ بنیادی اجزائے ترکیبی کے بارے میں کیسے فیصلہ کیا؟ان اجزائے ترکیبی کے درمیان تناسب قائم کرنے کے لئے کن آلاتِ پیمائش کا استعمال کیا ؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ اتفاق سے عمل میں نہیں آ گیا ہو گا جیسا کے عموماً ارتقاء پرست خیال کرتے ہیں۔مکڑی اپنے جسم میں ایک نیا نظام پیدا نہیں کر سکتی۔اُس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ پہلے وہ اپنی ضروریات کو پہچانے اور پھر ا نہیں اپنے جسم کے اندر تلاش کرے۔ایسا کوئی بھی تصور عالمِ سائنس اور استدلال سے کوسوں دور ہے۔

کسی بھی ایسے نظام کا، جو تمام ریشم ان کی مختلف صفات سمیت پیدا کرتا ہے، از خود پیدا ہو جانا قطعاً ممکن نہیں۔یہ محض ایک احمقانہ دعویٰ ہے۔

یقیناًآسمانوں اور زمین کے خالق اللہ تعالیٰ نے مکڑی اور اس غیر معمولی نظام کو بھی پیدا کیا۔یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہر چیز بے عیب اور صحیح طریقے سے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر تخلیق سے با خبر ہے۔

’۔۔۔جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے۔ جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔‘(سورۃ الفرقان:۲)

ہر مقصد کے لئے موزوں ترین دھاگے

یہ بات ہر ایک کو معلوم نہیں کہ مکڑیاں اپنے جالے تانتے وقت ایک سے زیادہ قسم کے دھاگے استعمال کرتی ہیں۔اصل میں مکڑیاں اپنے جسم میں مختلف قسم کے دھاگے مختلف مقاصد کے لئے پیدا کرتی ہیں۔جب ہم مکڑیوں کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کتنی اہم خاصیت ہے۔کیونکہ یہ اشد ضروری ہے کہ وہ دھاگے جن پر مکڑی چلتی پھرتی ہے اور وہ جن سے وہ اپنا شکار پکڑتی یا اُسے مضبوطی سے لپیٹتی ہے،ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔مثلاً وہ دھاگا جس پر مکڑی چلتی ہے اگر اُسی دھاگے جتنا چپچپا ہوتا جسے وہ شکار پکڑنے کے کے لئے استعمال کرتی ہے تو مکڑی بھی اس پر چپک جاتی اور یوں اس کی موت واقع ہو جاتی۔

آئیے ایک مثال پر غور کرتے ہیں۔سب مکڑیاں مختلف اقسام کے ریشم پیدا کر کے انہیں استعمال کرتی ہیں لیکن گول جالا بننے والی Araneidمکڑیاں ان ریشموں کو متعدد مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں اور یہ سب سے معروف ریشمی ڈھانچہ یعنی گول یا کروی جالا) (orb-webبنتی ہیں۔یہ مکڑیاں کم از کم سات قسم کے ریشم پیدا کرتی ہیں۔ان میں سب سے پہلا وہ ریشم ہے جو گول جالے کا چوکھٹا اور نصف قطر تشکیل دیتا ہے اور وہ تار (dragline)بھی جس کے ذریعے مکڑی نیچے آتی ہے۔دوسرا ریشم چپچپا ہوتا ہے جو گول جالے کے پھانسنے والے مرغولے(spirals)بنانے کے کام آتا ہے۔ علاوہ ازیں مکڑی مرغولے دار ریشمی دھاگے کو ڈھانپنے کے لئے ایک گوند تیار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے اضافی ریشے بھی پید ا کرتی ہے جن سے بظاہر جالے کے چوکھٹے اور نیچے آنے والی تارکو مزید تقویت ملتی ہے۔ یہ مکڑی کویا کا ریشم (cocoon silk)، مقبوض شکار کو لپیٹنے کا ریشم اور چوکھٹے اور نیچے آنے والی تار کے ریشموں کو سطح سے جوڑنے کے لئے بھی مختلف ریشم تیار کرتی ہے۔۲۴

جس طرح تمام ریشم اپنی مضبوطی اور لچک کے نقطۂ نظر سے مختلف صفات کے حامل ہیں اسی طرح یہ مختلف موٹائیاں اور چپچپاہٹ کے درجے بھی ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر نیچے آنے کے لئے استعمال ہونے والی تار (dragline)جو مکڑی کی زندگی میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے، گو چپچپاہٹ کی صفت سے محروم ہوتی ہے تاہم یہ مضبوط اور لچک دار ہوتی ہے۔یہ تار مکڑی کے وزن سے دو یا تین گنا زیادہ وزن باآسانی سہہ سکتی ہے۔اسی ریشم کی بدولت مکڑی اپنے شکار کو اٹھا کرآسانی سے اوپر اور نیچے حرکت کر سکتی ہے۔

جیساکہ ہم نے دیکھا زندہ رہنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مکڑی مختلف اقسام کے ریشم پیدا کر سکے اور ساتھ ساتھ اسے یہ بھی معلوم ہو کہ ہر ایک ریشم کہاں کہاں استعمال میں لانا ہے۔ان میں سے کسی ایک کی بھی کمی کا مطلب مکڑی کی موت ہو گی۔

اگر یہ تمام ریشم مکڑی کے اندر بیک وقت موجود نہ ہوں تو مکڑی کے لئے زند ہ بچ جانا ممکن نہیں۔ایک ایسی مکڑی کا تصور کریں جسے حیرت انگیز ڈیزائن کے بے عیب جالے تو بننے آتے تھے مگر اس کے جالے چپچپے نہ تھے۔ ایسی صورت میں مکڑی کا جالا بالکل بے کار ہو جاتا۔مکڑی کو اس بات کا بھی اختیار نہیں کہ وہ ہزاروں برس انتظار کرے تاکہ عملِ ارتقاء اسے چپچپے جالے بننا سکھا دے کیونکہ اس علم کے بغیر مکڑی چند دنوں میں ہی مر جائے گی۔یا پھر ایک ایسی مکڑی تصور میں لائیں جو ہر قسم کا ریشم تو پیدا کر سکتی تھی لیکن جالا بننے سے قاصر تھی۔یقیناً اس کے تیار کردہ ریشم کار آمد نہ ہوتے اور یوں مکڑی پھر مر جاتی۔اگر مکڑی سارے ریشم تیار کرنے کے قابل بھی ہوتی مگر انڈوں کی حفاظت کے لئے کویا ریشم ) (cocoon silk نہ پیدا کر سکتی تو اس صورت میں بھی مکڑی معدوم ہو جاتی۔جیساکہ اوپر ثابت کیا گیا، مکڑیوں کو کبھی وقت ہی نہیں ملا کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام خصوصیات حاصل کر لیں جن کی وہ مالک ہیں،جیسا کہ ارتقاء پرستوں کا دعویٰ ہے۔

مکڑیاں جن صفات کی مالک ہیں ان میں سے ذرہ برابر صفات بھی درجہ بہ درجہ رونما نہیں ہو سکتی تھیں جیسا کہ نظریہ ارتقاء دعویٰ کرتا ہے۔ زمین پر اوّلین مکڑی کے وجود سے ہی تمام مکڑیاں مکمل شکل میں وجود رکھنے پر پابند تھیں۔ تمام حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ مکڑیاں ایک ہی وقت میں نمودار ہوئیں یا دوسرے الفاظ میں انہیں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا۔مکریوں میں تخلیق کے اس معجزے کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے اپنی لا محدود طاقت اور علم ظاہر کر رہا ہے۔

ریشمی دھاگوں کی لچک

مکڑی کا دھاگا مختلف خصوصیات ظاہر کرتا ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مکڑی دھاگے کو کس کام کے لئے استعمال کرے گی۔مثال کے طور پر چپچپے دھاگے،نیچے آنے کے لئے استعمال ہونے والے دھاگوں سے مختلف غدوں میں پیدا ہوتے ہیں اور یہ زیادہ پتلے اور لچکدار ہوتے ہیں۔بعض حالات میں یہ چپچپے دھاگے۶۰۰۔ ۵۰۰ فی صد تک کھینچ جاتے ہیں۔

مکڑیاں پمپ اور صمامہ نظام (pump-and-valve system)کی مالک ہیں جس کی مدد سے وہ دھاگے بنا لیتی ہیں۔غدوی نالیاں اپنے اندر سے نکلنے والے مادے کو گاڑھا کر کے انتہائی لزج دار اور گاڑھا (viscous)بنا دیتی ہیں یعنی ایک ایسا سیال بلور جس میں سالمے متوازی خطوط میں ڈھلے ہوتے ہیں۔تیز دھار نکالنے والی ٹونٹیاں، نمودار ہونے والے دھاگے پر چیرتا ہوا قوی دباؤ ڈالتی ہیں جس کی وجہ سے بیشتر الفا زنجیریں (alpha chains) ایک مستحکم، ثالث ڈھانچے، جسے beta-pleated sheetsکہتے ہیں،کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔

یہ لحمیاتی بلور ربڑ نما ماحول (matrix)میں گڑھے ہوتے ہیں جو ایسی امینو ترش زنجیروں پر مشتمل ہوتا ہے جو beta-pleated sheets سے منسلک نہیں ہوتیں۔ اِس کے بجائے (امینو ترش زنجیروں کی)یہ بلدار لڑیاں شدید ناکارگی کی حالت میں ایک دوسرے سے الجھی ہوئی ہوتی ہیں۔یہی بے ترتیبی ربڑ کی طرح ریشم کو بھی غیر معمولی لچک عطا کرتی ہے۔دھاگا کھینچنے سے لحمیاتی لڑیاں الجھاؤ یا بے ترتیبی سے باہر آ جاتی ہیں اور اس کھنچاؤ کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔جبکہ دھاگا چھوڑنے پر یہ لڑیاں ایک بار پھر بے ترتیبی سے سمٹ جاتی ہیں۔۲۵

چپچپے دھاگوں کی لچک اُڑتے ہوئے کیڑوں کو رفتہ رفتہ روک دیتی ہے۔اس طرح جالا ٹوٹ جانے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔چپچپے دھاگوں میں استعمال ہونے والا چپچپا مادہ غدّوں کے ایک دوسرے گروہ میں پیدا ہوتا ہے جو مختلف کام سر انجام دیتے ہیں۔یہ مادہ اس قدر چپچپا ہوتا ہے کہ جالے میں پھنس جانے والے کیڑوں کے لئے فرار ہو جانا نا ممکن ہے۔

مکڑی کے دھاگے فولود سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں

مکڑی کا ریشم ایک ناحل پذیر لحمیہ (scleroprotein)ہے جو عضوِ تار کش میں سے مائع کی صورت میں خارج کیا جاتا ہے۔ یہ نا حل پذیر لحمیہ ایک ایسا لحمیہ ہے جو ہوا کے ساتھ مل کر سخت ہو جاتا ہے اور مضبوط، لچک دار ساخت اختیار کر لیتا ہے۔اسی لحمیے کی بدولت ریشم نہایت مضبوط ہوتا ہے۔ مکڑی کا ریشم اس قدر مضبوط اور لچک دار ثابت ہوا ہے کہ انسانی تناسب سے ماہی جال سے ملتا جلتا مکڑی کا جالا ایک ہوائی جہاز کو روک لے گا۔ ۲۶

ریشم کی مضبوطی اس کی لچک میں توازن قائم رکھتی ہے۔ ریشم چونکہ نباتی گوند میں جڑے شیشے کے ریشوں کی مانند ایک مرکب شے ہے اسی لئے یہ مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے بلور اور میٹرکس ٹوٹنے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ کھینچا ہوا دھاگا عموماً اس لئے ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ سطح پر موجود باریک تڑقن اس میں پچر (wedge)کی طرح شگاف ڈالتی جاتی ہے۔ریشے کی سطح پر پڑنے والی قوتیں شگاف پر مرکوز ہوتی ہیں جس کی وجہ سے شگاف تیزی کے ساتھ گہرا ہوتا جاتا ہے۔ تاہم ایسے شگاف صرف اُسی صورت میں ہی بڑھ سکتے ہیں جبکہ ان کا کسی قسم کی مزاحمت سے ٹکراؤ نہ ہو۔ مکڑی کے ریشم کے ربڑ میٹرکس میں موجود بلور ایسی رکاوٹ مہیا کرتے ہیں جو چیرتے ہوئے دباؤ کو واپس موڑ کر کمزور دیتے ہیں۔۲۷

تناؤ یا کھنچاؤ کی حالت میں کسی بھی چیز کی سطح پر معمولی سا ضرر بھی خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن مکڑی کے دھاگے میں (بُنائی کے وقت لی گئی) احتیاطی تدبیر اس خطرے سے بچاتی ہے۔باغ کی مکڑی جب اپنا ریشم بنتی ہے تو اس وقت اسے ایک سیال مادے کی تہ سے اس طرح ڈھک دیتی ہے کہ سطح ریشم پر مہین تڑقنیں نمودار نہیں ہو پاتیں۔یہ طریقہ جسے مکڑیاں لاکھوں برسوں سے استعمال کرتی آ رہی ہیں دورِ جدید کی صنعتی تاروں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جو بھاری وزن اٹھانے کے کام آتی ہیں اور ان کا مضبوط ہونا نہایت ضروری ہے۔

اب تک ایک ظاہری تعمیری معجزے کی محض تکنیکی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ لیکن اب ہمیں ٹھہر کر سوچنا ہو گا۔ ان تکنیکی تشریحات کی تہ میں کونسی حقیقت کار فرما ہے؟یہ بات تو واضح ہے کہ مکڑی لحمیات سے اور جوہر کی بلوری حالتوں سے بے خبر ہے۔ وہ علم کیمیا، طبیعیات اور انجینئری کے متعلق بھی کچھ نہیں جانتی۔یہ مخلوق سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہے۔ لیکن جہاں تک اس کی خصوصیات کا تعلق ہے، ان کی ’اتفاق‘ کے ذریعے تشریح ناممکن ہے۔پھر اس صورت میں وہ کون ہے جو یہ تمام منصوبہ بندیاں کرتا اور سارے حساب و شمار سر انجام دیتا ہے؟ مکڑی کے جالے اور ریشم، اس کے شکار کرنے اور رہن سہن کے طریقوں کا ہم جوں جوں مطالعہ کرتے جاتے ہیں، یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مکڑی نے یہ بے عیب تکنیکی عمل خود ہی سر انجام نہیں دیا ہو گا۔

ہر ایک مکڑی جسے ہم کسی بھی وقت کسی پوشیدہ کونے یا باغ میں پودوں کے درمیان دیکھتے ہیں اپنی کیمیائی، طبیعیاتی اور تعمیراتی صلاحیتوں سمیت اللہ تعالیٰ کے فنِ تخلیق کا واضح ثبوت ہے۔اس جاندار نامیے کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی لا محدود دانائی اور زبر دست قوتِ تخلیق ہم پر منکشف کرتا ہے۔ اللہ ہی مکڑی کا ہر عمل القا کرتا ہے۔ اس حقیقت کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اعلان کیا ہے۔

’ اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے اور وہی زبردست اور دانا (حکمت والا) ہے۔زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہ ہی ہے،زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے۔اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘ (سورۃ الحدید: ۲۔۱)

باغ کی مکڑی کی جالا بننے کی حیرت انگیز تراکیب

باغ کی مکڑیاں اپنے جالوں کو مضبوط بنانے کے لئے آڑ استعمال کرتی ہیں۔ مکڑی اپنے جالے کے ( مرکز سے) بعید ترین مرغولے دار دھاگے کو چار یا چھ مقامات پر سہارا دے کر اسے مستحکم کرتی ہے اور اس کے بعد اُڑتے ہوئے کیڑوں کو پکڑنے کے لئے جالے کو عموداً معلق کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ مکڑی مرکز سے بعید ترین مرغولے دار دھاگے کو تاننے کے لئے اس کے نچلے حصے پر ایک دوسرے چھوٹے دھاگے کے ذریعے ایک وزنی شے لٹکا دیتی ہے۔یہ وزنی شے جو ہوا میں لٹکتی رہتی ہے اور دھاگے کو مضبوط بناتی ہے، چھوٹا پتھر، لکڑی کا ٹکڑا یا گھونگے کا خول بھی ہو سکتی ہے۔ سائنسدانوں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ جب جال سے لٹکتے اس وزن کو بنا چھوڑے اور جھولنے سے روک کر آہستہ سے اوپر اٹھاتے ہیں تو آشیانے میں منتظر مکڑی ایکدم نمودار ہو کر اسے چیک کرتی ہے۔ اس کے بعد مکڑی دھاگے کو چھوٹا کر تی تاکہ وزنی شے پھر سے جھولنے لگے۔ان مشاہدات سے حاصل ہونے والے نتائج نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مکڑی یہ سارے کام جالے کو مضبوط بنانے کے لئے سر انجام دیتی ہے۔۲۸

دنیا کا سب سے اذیت ناک موت کا پھندا

مکڑی کے جالے میں پھنسا شکار بمشکل اس سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔ دام اس قدر ماہرانہ طریقے سے تیار کیا جاتا ہے کہ اگر شکار اس میں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو جالا اپنی لچک کھو دیتا ہے اور شکار پر اپنی گرفت اور مضبوط کر دیتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب شکار مکمل طور پر بے قوت ہو جاتا ہے تو جالا پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر مزید تن جاتا ہے۔اس طریقے سے مکڑی جو کسی کونے میں بیٹھی شکار کی مایوس کن کوشش دیکھ رہی ہوتی ہے باآسانی پھنسے ہوئے شکار کو، جو اب تھک چکا ہوتا ہے، مار دیتی ہے۔

جب شکار جالے میں پھنس جاتا ہے تو یہی سمجھاجاتا ہے کہ جیسے جیسے وہ اس میں سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو جالا خراب ہو جائے گا اور کیڑا دام میں سے فرار ہو جائے گا۔ لیکن صورت حال اس کے بر عکس ثابت ہوتی ہے اور جالا مضبوط تر ہو جاتا ہے۔اور کیڑے کو مکمل طور پر بے حرکت کر دیتا ہے۔ جالے کی مضبوطی میں اضافہ کیسے ہوتا ہے جب اس میں پھنسا شکار اس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہے؟

جالے کی ساخت کا جائزہ لیا جائے تو اس سوال کا جواب ہمارے سامنے آتا ہے۔ مکڑی کے وہ دھاگے جو شکار کو گرفت میں لیتے ہیں ہوا میں موجود نمی کی وجہ سے ایک نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ تبدیلی مندرجہ ذیل طریقے سے وقوع میں آتی ہے۔ باغ کی مکڑی کے مرغولے دار دھاگے سیال سے ڈھکے دو ریشوں کے باہم مل جانے سے متشکل ہوتے ہیں۔ یہ چپچپا سیال بنیادی ریشے بنانے والے غدود سے ایک مختلف غدے میں پیدا ہوتا ہے۔مکڑی کے تار کش غدود سے نکلنے والے ریشمی دھاگوں پر مسلسل اس چپچپے مادے کی پتلی تہ چڑھائی جاتی ہے۔اس مادے کی چپچپی صفت کا منبع اس میں موجود گلائی کو پروٹینز (glycoproteins) (لحمیات اور کاربوہائیڈریٹ سے مل کر بننے والے مرکبات) ہیں۔ علاوہ ازیں یہ مادہ اسّی فی صد پانی پر مشتمل ہوتا ہے جو کافی مقدار میں دستیاب ہوتا ہے۔۲۹

جیسے ہی یہ چپچپا سیال ہوا میں موجود پانی سے جا ملتا ہے یہ ننھے قطروں میں تقسیم ہو جاتا ہے جو چھوٹے چھوٹے موتیوں کی مانند دھاگے کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں۔ چپچپے دھاگے کو تیز تواتر کے ساتھ یکے بعد دیگرے سکیڑنے اور کھینچنے سے قطروں میں موجو درمیانی ریشے(core fibres)لپٹتے اور کھلتے جاتے ہیں۔درمیانی ریشوں اور چپچپی تہ کا سارا نظام ہر وقت زیرِ دباؤ رہتا ہے جس سے چپچپا دھاگا ہر وقت تنا رہتا ہے۔ تھپیڑے مارتی ہوئی ہوا یا خطا کھانے والے کیڑوں سے پیدا ہونے والی توانائی صرف ریشم ہی نہیں بلکہ پورا نظام جذب کرتا ہے۔

درمیانی ریشے اپنے حصے کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔یہ پلاسٹک جیسے اور ایک مستحکم ربڑ کی طرح ہو تے ہیں اور اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ ناکارگی سے متعلق لچک (entropic elasticity)درجۂ حرارت پر انحصار کرتی ہے۔چونکہ شکار سے نکلنے والی زیادہ تر حرکی توانائی (kinetic energy)حرارت میں تبدیل ہو جاتی ہے اس لئے دھاگا گرم ہو جاتا ہے۔ یہ گرمائش ناکارگی کو بڑھاتی ہے جس کے نتیجے میں درمیانی ریشے مضبوط تر ہوتے جاتے ہیں۔ شکار سے نکلنے والی جذب شدہ توانائی دراصل شکار کے لئے استعمال ہونے والے دھاگے کو مضبوط بناتی ہے اور ایسا صرف مکڑی کی آبی تہ چڑھانے کی با کمال تدبیر کے سبب ممکن ہوتا ہے۔۳۰۔ا ن خصوصیات کے سبب مکڑی کا جالا فطرت کا سب سے اذیت ناک دام ہے۔

یہ بات جاننے کی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آیا یہ خصوصیات دوسرے ریشمی دھاگوں میں بھی پائی جاتی ہیں کہ نہیں۔اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟مثلاً اگر وزن سہنے والے دھاگوں کی کھینچے جانے کی گنجائش چپچپے دھاگوں جتنی ہوتی تو کیا ہوتا؟یقیناً مکڑی کے لئے خود یا اپنے شکار کو لے کر چلنا کافی دشوار ہو جاتا۔ دراصل شکار کرنے والے چپچپے دھاگوں کے بر عکس وزن سہنے والے ریشمی دھاگے،جن سے جالے کا ڈھانچا تشکیل پاتا ہے، ایک مختلف مادے سے ڈھک دیے جاتے ہیں جو انہیں پانی سے محفوظ رکھتا ہے۔ کیونکہ وزن سہنے والے دھاگوں کا چپچپے دھاگوں جتنا لچک دار ہونا ضروری نہیں۔

جیسا کہ اوپر دیکھا گیا،مکڑی کو جیسے اور جب ضرورت پیش آئے وہ مختلف کام انجام دینے والے اور مختلف ساخت کے ریشموں کے لئے مختلف مادوں کی تہ تیار کر لیتی ہے۔ مکڑی ان تمام تہوں کی مختلف طبیعی اور کیمیائی اثرات کے متعلق کیسے جانتی ہے؟یہ کہنا کہ مکڑی کو تربیت دی گئی یا اس نے تجربے یا اتفاق کے ذریعے یہ معلومات حاصل کر لیں،ذہانت اور عقل سلیم کے علی الرغم دعویٰ کرنا ہے۔

اس مقام پر تھوڑا سا غور و فکر سوال کا صحیح جواب تلا ش کر لینے کے لئے کافی ہو گا۔ان تمام چیزوں کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے مکڑی کو سب سے پہلے اوپر بیان کی گئیں تمام سالماتی ساختیات اور کیمیائی میکانیکی عمل جو سیال کو سخت بناتے ہیں سیکھنے ہوں گے۔ یہ تمام باتیں جان لینے کے بعد اسے ان چیزوں کی تیاری کا فیصلہ کرنا ہو گا جس کے بعد اسے اپنے جسم کے اندر کچھ تبدیلیاں لا کر نظام قائم کرنے ہوں گے تاکہ یہ ساری اشیاء تیار کر سکے۔

یہ یقیناً ایک تخیلاتی منظر نامہ ہے۔جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ مکڑی کے جسم میں بہترین منصوبہ بندی اور اس کی با مقصد حرکات کی فطرت کے کسی واقعے یا کسی اور قوت کی روشنی میں توضیح نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات کہ مکڑی یہ تمام امور از خود سرانجام نہیں دے سکتی ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر ذہین شخص دیکھ سکتا ہے۔ چنانچہ مکڑی کی با مقصد اور سوچی سمجھی حرکات اور اس کی طبیعی ساخت کی گزرتے وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں یا کسی اور ارتقائی عمل کے ذریعے تشریح کرنا ناممکن ہے۔

فطرت میں تمام جاندار مکڑی کے جیسی یا اس سے بھی زیادہ مفصل خصوصیات کے حامل ہیں۔ان میں سے کسی بھی ایک صفت کا مشاہدہ ان جانداروں میں کی گئی عیاں منصوبہ بندی کی تصدیق کر دینے کے لئے کافی ہے۔ایک ایسی قوت کا وجود صاف ظاہر ہے جو ان تمام خصوصیات کو متعین کرتی ہے۔مکڑیوں کی طبیعی منصوبہ بندی اور طور طریقے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ان جانداروں کو ایک خالق یا دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا۔اس بات کو سمجھنے کے لئے ذہانت کا استعمال ہی کافی ہے۔ تمام جہانوں کے مالک اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے سامنے اس حقیقت کا اعلان اپنی آیت میں کیا ہے:

’مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب۔ اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں۔‘(سورۃ الشعراء :۲۸)

مکڑی کا ریشم اور دفاعی شعبہ

صنعتی شعبے میں کسی بھی شے کی مضبوطی اور لچک انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔کسی بھی شے کی مضبوطی اس کے مختلف شعبہ جات میں استعمال کا دائرہ وسیع کرتی ہے اور اس کی لچک اسے زیادہ سہولت کے ساتھ کام میں لانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ مضبوطی اور لچک کے لحاظ سے مکڑی کا دھاگا دنیا کی سب بہترین شے ہے۔ اسی وجہ سے محققین نے بیسویں صدی کے آخری چوتھائی عرصے میں مکڑی کے ریشم پر اپنے مطالعات میں اضافہ کر دیا جن کے نتیجے میں وہ کیمیائی ذرائع کے ذریعے مکڑی کے جالے سے محض ملتی جلتی مگر نسبتاً گھٹیا معیار کی ایک شے تیار کر پائے ہیں۔مختصر یہ کہ جدید ٹیکنالوجی اپنے تمام تر وسائل اور تحقیق کے باوجود ایسا دھاگا تیار نہیں کر سکی جس کی خصوصیات مکڑی کے تیار کردہ دھاگے کے مساوی ہوں۔

مکڑی کا دھاگا ایک ایسا لحمیہ ہے جو گلائیسین(glycine)، ایلانین(alanine)، سیرین(serine) اور ٹائیرو سین(tyrosine)امینو ترشوں ( سادہ ترین قدرتی امینو ترشے جو لحمیات میں پائے جاتے ہیں ) پر مشتمل ہے۔ Du Pontکمپنی نے ریشم کا کیمیائی فارمولا دریافت کر کے اور اسے تشکیل دینے والے سالموں کی ترتیب تعین کر کے مختلف قسم کے مصنوعی ریشے تیار کئے ہیں۔اس مصنوعی کثیر سالمی مرکب (polymer)کا ہر بڑا سالمہ کاربن، آکسیجن، نائیٹروجن اور ہائیڈروجن جوہروں کی کئی ہزار سالماتی زنجیروں پر مشتمل ہے۔ یہ شے جسے کیولارKevlarکہتے ہیں اور آجکل مصنوعی طور پر تیار کیا جاتا ہے سب سے زیادہ بالیدہ نامیاتی ریشہ ہے۔ اپنی مضبوطی اور لچک کے اعتبارسے مصنوعی کیولار ریشے مکڑی کے ریشم کی طبیعی خصوصیات کے سب سے زیادہ قریب تر ہیں۔

Kevlar گاڑی کی حفاظتی پٹیوں اور حفاظتی لباس کی مختلف اشیاء میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک اہم شے ہے جو بڑی حد تک طیاروں اور بحری جہازوں کی صنعت میں خارجی مادے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فائبر آپٹک (مہین بلوری ریشوں سے بنے بصری آلات) اور برقی میکانیکی تاریں، رسی اور تار کی صنعت اور کھیلوں کے مختلف سامان بنانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کیولار کے ریشے ‘poly-paraphenylene terephthalamide’سے بنتے ہیں۔طویل سالماتی زنجیروں پر مشتمل یہ ریشہ اپنی ساخت کی بدولت موڑنے اور بطورِ دھاگا استعمال میں لانے کے لئے موزوں ہے۔ پائیداری اور ہلکے پن کی خصوصیات کی بنا پر یہ مادہ صنعت و حرفت کے بے شمار میدانوں میں استعمال میں لایا گیا ہے۔

دفاعی شعبہ ان اہم ترین شعبہ جات میں سے ایک ہے جن میں اس صدی کے اندر Kevlarاستعمال کیا گیا ہے۔گولی روک بنیانیں جنہیں فولاد سے بنایا جاتا تھا اب Kevlarریشوں سے بُنے گئے کپڑوں سے تیار کی جاتی ہیں اور عام کپڑے سے قطعی مختلف نہیں لگتیں۔Kevlarاپنی صدمہ روک خصوصیات کی بدولت گولی کی قوتِ تصادم کم کر دیتا ہے۔ تکنیکی نقطۂ نظرسے Kevlarایک اہم ترین دریافت ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ کارآمد بھی ہے۔تاہم ان تمام خصوصیات کے باوجود Kevlarریشوں کی صدمہ روک خصوصیات مکڑی کے ریشم کا محض ایک تہائی حصہ ہیں۔

یہاں ہر اس شخص کے لئے ا ہم نتائج اور تنبیہات موجود ہیں جو اس بات پر غور کرے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ سائنسی تحقیق کے مراکز بھی مکڑی کے تیار قیکہ وزنےمکڑ کردہ جالے کی محض ایک نسبتاً کم بالیدہ نقل تیار کر پائے ہیں۔یہ موازنہ اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانداروں کو اپنی بے مثال قوتِ تخلیق سے بنایا۔

لوگوں کی زندگی میں مکڑی کے ریشم کا مقام

مکڑی کے ریشم کی کیمیا پر تحقیق کے دوران خاص مشینوں کے ذریعے مکڑیوں میں سے دھاگے کھینچے جاتے ہیں۔ اس طرح ہر کیڑے سے بِنا اسے نقصان پہنچائے ۳۲۰ میٹر ریشم (تقریباً ۳ ملی گرام)یومیہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

طبعی سائنس ایک اور میدان ہے جہاں اس طریقے سے تیار کردہ دھاگے استعمال میں لائے جاتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں جہاں مکڑی نوعِ انسانی کو خدمت پیش کرتی ہے۔ امریکہ میں Wyoming Universityکے ماہرینِ ادویات Nephilaمکڑی کے دھاگے نسیجوں اور جوڑوں کے نہایت نازک عملِ جراحی (operations)میں دھاگوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

پر مہکہونے والا چپچپا مادہ غدّ ٭٭

جالے، منصوبہ بندی کا حیرت انگیز نمونہ

مکڑی کا جالا مختلف دھاگوں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں چوکھٹے کے وزن سہنے والے دھاگے، ان پر بچھے شکار کو پکڑنے والے مرغولے دار دھاگے جن کی سطح چپچپے مادے سے ڈھکی ہوتی ہے،اور اس کے علاوہ تمام دھاگوں کو آپس میں جوڑنے والے دھاگے شامل ہیں۔چپچپی تہ سے ڈھکے مرغولے دار دھاگے جالے کا چوکھٹا تشکیل دینے والے دھاگوں سے مکمل طور پر جڑے نہیں ہوتے۔اس طرح جالے میں پھنسا کیڑا جتنا زیادہ اس میں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی زیادہ اس میں چپکتا چلا جاتا ہے۔ شکار کو پکڑنے والے یہ دھاگے جب کیڑے پر پوری طرح چپک جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ اپنی لچک کھو کر مضبوط تر، سخت اور بے لچک ہو جاتے ہیں۔یوں کیڑا پھنس کر بے حرکت ہو جاتا ہے اور اسے بے دردی سے ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکتا ہے۔بعد ازاں، چوکھٹے کے بے لوچ دھاگوں میں جکڑے شکار، جو غذا کے لپٹے ہوئے زندہ پارسل کی مانند لگتا ہے، کے پاس اس کے سوا کوئی چارا باقی نہیں رہتا کہ وہ مکڑی کے ہاتھوں اپنا کام تمام ہو جانے کا انتظار کرے۔

جالے کی صدمہ روک صلاحیت

ایک موثر اور قابلِ استعمال دام ثابت ہونے کے لئے جالے کا محض چپچپا ہونا یا مختلف خصوصیات کے حامل دھاگوں پر مشتمل ہونا ہی کافی نہیں۔مثال کے طور پر جالے کی بناوٹ ایسی ہونی چاہیے کہ وہ اُڑتے ہوئے کیڑے پکڑ سکے۔ اگر ہم جالے میں پھنسے کیڑے کا میزائل یا قزیفہ سے مقابلہ کریں تو یہ معلوم ہو گا کہ کیڑے کو محض روک دینا ہی کافی نہیں۔جالے میں پھنسے شکار کو بے حرکت کر دینا ضروری ہے تاکہ مکڑی قریب آ کر اس کا جائزہ لے اور اسے کاٹ سکے۔میزائل کو روک کر اسے بے حرکت کر دینا کوئی آسان کام نہیں۔

جالا بنانے والے دھاگے بیک وقت مضبوط اور لچک دار ہوتے ہیں۔ لیکن جالے کی لچک کا درجہ مختلف مقامات پر مختلف ہوتا ہے۔یہ لچک مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر اہمیت کی حامل ہے۔

*اگر دھاگوں کی لچک کا درجہ ضرورت سے کم ہو تو جالے میں آ کر پھنسنے والا کیڑا ٹکرا کر وہیں لوٹ جائے گا جدھر سے وہ آیا تھاجیسے کہ کسی سخت کمانی سے ٹکرایا ہو۔

*اگر دھاگوں کی لچک کا درجہ ضرورت سے زیادہ ہو تو کیڑا جالے کو بہت سے زیادہ کھینچ دے گا، چپچپے دھاگے ایک دوسرے کے ساتھ چپک جائیں گے اور جالا اپنی اصل شکل کھو دے گا۔

*دھاگے کی لچک کا حساب لگاتے وقت ہوا کے اثر کو بھی مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ ہوا کے سبب کھینچا ہوا جالا اپنی سابقہ شکل میں واپس آ جاتا ہے۔

*لچک کا درجہ اس نسبت سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ جالا کس چیز سے جڑا ہے۔ مثال کے طور پر اگر وہ کسی پودے سے جڑا ہے تو اس میں اتنی لچک ہونی چاہیے کہ وہ پودے سے پیدا ہونے والی ہر حرکت کو جذب کر سکے۔

مرغولے دار شکاری دھاگے ایک دوسرے کے بہت نزدیک بچھے ہوتے ہیں۔ہلکی سی جنبش ان دھاگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ چپکا سکتی ہے جس کے نتیجے میں میدانِ دام میں بڑے بڑے خلا پیدا ہوسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے زیادہ لچکدار، چپچپے شکاری دھاگے کم لچکدار خشک دھاگوں کے اوپر بچھائے جاتے ہیں۔ یہ حفاظتی قدم اس لئے لیا جاتا ہے تاکہ جالے میں فرار کے راستے یا سوراخ نہ بن سکیں۔

جیسا کہ اوپر دیکھا گیا جالے کے ہر خدوخال میں ایک معجزانہ ساخت جھلکتی ہے۔ہر ممکنہ صورت پر غور کیا گیا ہے۔ یہ صورتِ حال ایک بار پھر نظریۂ ارتقاء کی حماقت منکشف کرتا ہے۔ بے شک یہ ممکن نہیں کہ اتفاق کے ذریعے پیدا ہونے والی تبدیلیاں مکڑی کو جالے کی صدمہ روک خصوصیات بنانا سکھا دیں۔یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مکڑی کو یہ صلاحیت عطا کی اور اسے با مقصد حرکات کے اظہار کے قابل بنایا۔

’وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ اس کے لئے بہترین نام ہیں۔ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے، اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔‘( سورۃ الحشر: ۲۴)

سہ ابعادی جالے

دو جہتی جالوں کی نسبت سہہ ابعادی(three-dimensional)جالے زیادہ پیچیدہ ساخت رکھتے ہیں۔یہ جالے چپٹے ہونے کے بجائے پیچیدہ سہہ ابعادی ساخت کے مالک ہوتے ہیں۔اس قسم کا جالا اون کے گولوں کے ڈھیر سے مشابہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس جالے کو دو ابعادی جالے کے مقابلے میں سنبھالنا زیادہ مشکل ہے۔اگر جالے میں کچھ ایسے کیڑے پھنس جائیں جو مکڑی کے لائق نہیں تو مکڑی کو مزید کام کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مکڑی اپنا جالا ایسی جگہوں پر بناتی ہے جہاں اس قسم کے جانوروں کا گزر نہ ہو۔

اس قسم کا جالا استعمال کرنے والی ایک مکڑی Black Widowہے۔ تعمیراتی مہارت رکھنے والی اس مکڑی کے جالے کے اندر ایک میکانیکی دام بھی پایا جاتا ہے۔یہ دام کثیف اور چپچپے حصے پر مشتمل ہوتا ہے۔ جالے کا یہ گولا زمین پر کم مضبوط یا کچے دھاگوں کے ذریعے باندھ دیا جاتا ہے۔جیسے ہی کوئی متحرک کیڑا جالے کے گولے سے چپک جاتا ہے، دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں اور گولا زمین سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔تھوڑی دیر بعد مکڑی دام کو سہہ جہتی جالے کے عین درمیان میں اوپر کھینچ لیتی ہے اور بے حرکت شکار کو مار ڈالتی ہے۔

ہمیں اس سہہ جہت دام کے نقشے اور مکڑی کے استعمال کردہ طریقے کا بغور جائزہ لینا چاہیے کیونکہ جالے کی منصوبہ بندی میں صاف طور پر ایک ذہانت جھلکتی ہے۔ تمام سہہ جہت جالوں میں، میکانیکی دام سمیت یا اس کے بغیر، اُڑتے ہوئے شکار کی رفتار گھٹانے کے لئے یہی طریقۂ کار استعمال ہوتا ہے۔یہ جالے منصوبہ بندی کے تحت بہت سے کچے دھاگوں کے ساتھ خاص طور پر بنے جاتے ہیں۔ ایک بار کیڑا پھنس جائے تو یہ کچے دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں۔کیڑے کی حرکات سے پیدا ہونے والی توانائی چونکہ دھاگے توڑنے میں استعمال ہوتی ہے اس لئے اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ اور یوں شکار کو پکڑنے والے دھاگے تڑپتے ہوئے کیڑے کو پکڑ لیتے ہیں۔

بے شک مکڑی نے ارتقاء کے کسی نام نہاد سلسلے کے بعد از خود ہی یہ جالا،جو بے عیب منصوبے کے تحت کام کرتا ہے، بننا نہیں سیکھا۔دیگر جانداروں کی طرح مکڑیاں بھی اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لاتی ہیں۔رحمٰن اور رحیم ذاتِ باری تعالیٰ نے یہ حقیقت قرآنِ مجید کی ایک آیت میں بیان کی ہے۔

’۔۔۔ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں،چار و ناچار،اللہ ہی کی طابع فرمان ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔‘ (سورۃ آل عمران:۸۳)

جالے کی دیکھ بھال

مکڑیوں کے جالوں کو مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ مرغولہ دار چپچپا حصہ بارش یا جالے سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتے ہوئے شکار کی وجہ سے خراب ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، جالے پر چپکنے والی دھول مرغولہ دار دھاگوں کی چپچپاہٹ ختم کر دیتی ہے۔

ایک جالا اپنے جائے وقوع کے اعتبار سے بہت قلیل مدت میں حتیٰ کہ چوبیس گھنٹوں میں ہی کیڑے پکڑنے کی خصوصیات کھو سکتاہے۔ اسی وجہ سے جالا وقتاً فوقتاً پھاڑا اور دوبارہ بنایا جاتا ہے۔ مکڑی جالے کو توڑ کر، اُسے کھا کر ہضم کر لیتی ہے۔ وہ ہضم شدہ دھاگوں کے امینو ترشوں کو نیا جالا بنانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔۳۱

مختلف انواع کی مکڑیاں جالے کے مختلف حصے کھاتی ہیں اور جالے کھانے کے اوقات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر باغ کی مکڑیاں جالے کے چوکھٹے کو چھوڑ کر صرف اس کا نصف قطر اور چپچپے مرغولے کھاتی ہیں۔

مدارینی علاقے کی مکڑیاں اپنے جالے اندھیرے میں بناتی ہیں اور صبح کے وقت کھا جاتی ہیں۔معتدل آب و ہوا کے علاقوں کی مکڑیاں رات کے وقت اپنے جالے کھا جاتی ہیں اور دن میں ایک نیا جالا تعمیر کرتی ہیں کیونکہ ان علاقوں میں مدارینی علاقوں جتنے کیڑے مکوڑے پائے نہیں جاتے جس کی وجہ سے یہ اشد ضروری ہے کہ جالے سارا دن بنے رہیں۔

شکار کے حساب سے جالا بُننا

مکڑیاں اپنے جالے ان جانوروں کے حجم کے مطابق بناتی ہیں جنہیں وہ شکار کرنا چاہتی ہیں۔ مثال کے طور پر جنوب امریکی مکڑی تنگ سوراخوں والا ایک جالا بنتی ہے جس کی مدد سے سفید چیونٹیاں باآسانی پکڑی جا سکتی ہیں۔یہ چیونٹیاں ماہِ ستمبر میں نئے آشیانے تلاش کرنے کے لئے باہر نکلتی ہیں۔ایک کیڑے مثلاً ایک بڑی تتلی کو شکار کرتے وقت مکڑی جالے کے سوراخ چوڑے کر دیتی ہے اور جالے کی مضبوطی اور لچک بڑھا دیتی ہے۔

جالوں کے زاویے بھی بدلے جاتے ہیں اور یہ اس پر منحصر ہے کہ کس قسم کا شکار( اُڑنے، چلنے یا رینگنے والا) شکار کیا جائے گا۔اس سے نقصان بھی کم ہوتا ہے اور جالے کی شکار کو پھانسنے کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔

چڑیوں کے لئے تنبیہ اور بہروپ بھرنا

مکڑیاں اپنے قیمتی جالے عموماً پرسکون جگہوں پر بناتی ہیں تاکہ جانور یا قدرتی حالات جالوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ مکڑیاں اپنے جالوں کو محفوظ رکھنے کے لئے نہایت دلچسپ طریقے استعمال کرتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ دلچسپ طریقہ وسطی امریکہ میں پائی جانے والی Argiopeمکڑی کے جالے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ مکڑیاں اپنے جالوں پر چمکیلے،سفید آڑے ترچھے نشان بناتی ہیں۔ یہ نشانات چڑیوں کے لئے تنبیہ کا کام کرتے ہیں تاکہ وہ جالے کے اندر جانے کا خطرہ نہ مول لیں۔مکڑیاں ان نشانات کو چھپنے کے لئے بھی استعمال میں لاتی ہیں۔مکڑی ان نشانات کے پیچھے چھپ جاتی ہے اور یوں شکار اسے دیکھ نہیں پاتا۔

مکڑیوں کے جالوں سے متاثر ہو کر بنائے گئے نمونے

آجکل صنعتی منصوبہ بندی کرنے کا سب سے مقبول ترین طریقہ یہ ہے کہ فطرت میں پائے جانے والے نمونے استعمال کئے جائیں کیونکہ فطرت کے ماڈل ہر لحاظ سے بے عیب ہوتے ہیں۔بشمول دیگر اشیاء، توانائی بچانے والی خصوصیات، جمالیاتی صفات،بے عیب عملی امکانیت اور منصوبہ بندی کے لئے سوچے سمجھے اقدامات فطرت میں بہترین شکل میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ایسے ماڈل جنہیں انسان اپنی صلاحیتوں، کئی برسوں کے جمع کردہ علم اور مختلف عملوں کے نتیجے میں بناتا ہے عموماً فطرت میں پائی جانے والی مماثل اشیاء کی ادنیٰ نقل سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتے اور اس بات کا اندازہ ان مصنوعی اشیاء کا فطرت کے اصل نمونوں سے مقابلہ کر کے لگایا جا سکتا ہے۔

مکڑیاں ان جانداروں میں سے ایک ہیں جنہیں نمونے کے طور پر پیش نظر رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر کلغی دار یا شبنم مکڑی (dew spider)کا جالا جمالیاتی اور انجینئری نقطۂ نظر سے بالکل بہترین ہے۔ یہ مکڑیاں اپنے جالے افقی زاویے پر اس طریقے سے تعمیر کرتی ہیں کہ وہ سبز ہ زار کے گھاس پر پھیلی ہوئی ایک چادر معلوم ہوتے ہیں۔ مکڑیاں گھاس کے عمودی پتوں کو وزن سہنے والے سہاروں کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جالے کا پورا وزن برابر تقسیم کر دیتی ہیں۔

انسان نے بڑے بڑے علاقے ڈھانپنے کے لئے یہی طریقۂ کار نقل کیا ہے۔ میونخ اولمپک سٹیدیم اور جدہ ایئر پورٹ ٹرمینل،جن کا جدید تعمیرات کے طور پر حوالہ دیا جاتا ہے، انہیں مکڑیوں کے جالوں سے متاثر ہو کر بنائے گئے ہیں۔

دنیا بھر میں مکڑیاں یہ نمونے، جنہیں انسان نے نقل کرتے ہوئے بنایا ہے،اُس وقت سے استعمال کر رہی ہیں جب سے وہ پہلی بار نمودار ہوئیں۔بے شک ایسے نمونوں کا خیال اُبھرنے اور پھر انہیں استعمال میں لانے کے لئے انجینئری کے اچھے خاصے علم کی ضرورت ہے۔ مگر مکڑیاں نہ توساختیاتی انجینئری اور نہ ہی تعمیراتی منصوبہ بندی کے متعلق کچھ جانتی ہیں کیونکہ انھوں نے ایسی کوئی تربیت حاصل نہیں کی۔وہ دوسرے جانداروں کی طرح صرف انہیں اصولوں کے تحت عمل کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ بوقتِ پیدائش انہیں عطا کرتا ہے۔ ان کے تعمیراتی معجزات کا یہی ایک واحد سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک آیت میں فرماتا ہے کہ تمام ذی حیات مخلوقات اسی کے زیرِ اختیار ہیں۔

’یہ ہے اللہ تمہارا رب۔ کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے۔ ہر چیز کا خالق۔ لہذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے۔ ‘

(سورۃ الانعام:۱۰۲)

٭٭

تخلیق کا معجزہ

’یہ تو ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ، ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔‘ (سورۃ لقمان:۱۱)

مکڑیوں کی بعض انواع اپنے پُر اثر زہر اور خاص نکیلے دانتوں سے مینڈک، خرگوش حتیٰ کہ چڑیاں بھی پکڑ سکتی ہیں۔

بہترین تخلیق کی ایک مثال

یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ مکڑیاں ’انجینئر‘ ہیں اور ان کے بنائے ہوئے جالے تعمیرات اور انجنیئری کا حیرت انگیز نمونہ ہیں۔مکڑیاں قاتل مشینیں بھی ہیں جو میکانیکی دام تیار کرتی ہیں۔ یہ زیرِ آب آشیانے بنانے، اپنے جالوں میں بیٹھ کر پھندے (lasso)کے ذریعے شکار کو پکڑنے اور کیمیائی زہر خارج کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ دھاگے کا سہارا لے کر اپنے قد سے کئی گنا زیادہ اونچائی سے چھلانگ لگا سکتی ہیں اور اپنے جسم میں فولاد سے زیادہ مضبوط دھاگے تیار کرنے اور شکار کی غرض سے بہروپ بھر لینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔جب ہم مکڑیوں کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان کے جسم کی ساخت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارا سامنامزید معجزات سے ہوتا ہے۔

سب مکڑیوں کے جسم میں متعدد خصوصیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ انہیں تخلیق کیا گیا ہے، جیسے کہ بننے والے کارخانے کی مانند کام کرنے وا لی کنگھیاں (combs)،کیمیائی اشیاء بنانے والی تجربہ گاہیں، تیز انہضامی خصوصیات پیدا کرنے والے اعضا،خفیف ترین ارتعاش محسوس کرنے والے حواس،زہر داخل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے مضبوط نکیلے دانت وغیرہ وغیرہ۔ان تمام خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مکڑی نظریۂ ارتقاء کی تغلیط کرتی ہے اور ایک مرتبہ پھر اتفاق جیسے مضحکہ خیز مفروضے کو برباد کر دیتی ہے۔

آئیے مکڑی کے اعضا اور ان کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔

جسم

مکڑی کا جسم بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ آپس میں جڑے ہوئے سر اور وسطی حصے(cephalothorax) پر مشتمل ہے اور دوسرا پیٹ یا پچھلے حصے (abdomen) پر۔سر اور وسطی حصے (thorax)میں آٹھ آنکھیں، آٹھ ٹانگیں، دو زہریلے نکیلے دانت اور دو محاسے (feelers)ہوتے ہیں۔ نرم اور لچکدار پچھلے حصے کے سرے پر عضوِ تار کش(spinnerets)کے علاوہ نظامِ تنفس کے لئے سوراخ بھی پائے جاتے ہیں۔وسطی اور پچھلا حصہ چھوٹی ڈنٹھل نما ساخت pedicelکے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔کسی اور جاندار کی کمر یا درمیانی حصہ مکڑی کے درمیانی حصے جتنا پتلا نہیں ہوتا۔ایک ملی میٹر سے بھی تنگ اس ڈنٹھل میں سے کھانا ہضم کرنے کی نالی، رگیں، سانس کی نالی اور اعصابی نظام گزرتے ہیں۔عام مفہوم میں اس بات کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ مکڑی کے جسم کے دونوں حصوں کو ایک خاص طولی نظام (linear system)آپس میں جوڑتا ہے۔یہ لکیریں مکڑی کے جسم کی ساخت میں موجود عمدہ میکانیکی عملوں ( زہر کے غدّے، ریشم پیدا کرنے والے غدّے، پورے جسم کا اعصابی نظام، نظامِ تنفس اور دورانِ خون کا نظام) کو دماغ کے ساتھ ملاتی ہیں۔

کار آمد ٹانگیں

مکڑی کے پاس ٹانگوں کے چار جوڑے ہوتے ہیں جو مشکل ترین حالات میں چلنے اور چڑھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ہر ٹانگ سات حصوں پر مشتمل ہے۔ہر ایک ٹانگ کے سرے پر بال ہوتے ہیں جنہیں scopula کہتے ہیں۔ان بالوں کی بدولت مکڑی دیواروں پر حتیٰ کہ اُلٹی ہو کر بھی چل سکتی ہے۔

مکڑی کی ٹانگوں کی خاص ساخت اسے محض ناہموارسطح پرہی چلنے کے قابل نہیں بناتی۔باوجود اس کے کہ مکڑیوں کی بینائی تیز نہیں، وہ اپنی ٹانگوں کی ساخت کی بدولت رات کے وقت بھی آرام سے چل پھرسکتی ہیں۔مکڑیوں کی بعض انواع صرف روشنی کو محسوس کر سکتی ہیں یا دوسرے الفاظ میں انسانی کی کل بینائی کی دس فی صد کی مالک ہوتی ہیں۔لیکن اس کے باوجود مکڑیاں رات کے وقت جالے بنا لیتی ہیں اور ان پر آسانی کے ساتھ چلتی پھرتی بھی ہیں۔

مکڑیاں جالے کے چپچپے حصوں سے بچتے ہوئے صرف خشک حصوں پر قدم رکھ کر چلتی ہیں۔وہ جالے کے چپچپے حصے پر شاذو نادر ہی قدم رکھتی ہیں اور اگر ایسا ہو جائے تو وہ اس پر چپکتی نہیں۔اس کے لئے مکڑیاں اس بات کی مرہون ہیں کہ ان کی ٹانگیں ایک خاص سیال سے، جو ان کے غدوں میں پیدا ہوتا ہے، ڈھکی ہوتی ہیں۔ٹانگوں کے سرے پر کنگھیاں موجود ہوتی ہیں۔ مکڑی کے پیٹ کے سرے پر عضوِ تار کش spinneretsپائے جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک کئی سو ٹونٹیوں (spigots)سے ڈھکا ہوتا ہے۔مکڑی کے پیٹ میں واقع غدود سے پیدا ہونے والا سیال ریشم اِن ٹونٹیوں کی مدد سے جسم سے باہر خارج کیا جاتا ہے اور پھر( کنگھیوں کی مدد سے) ریشم کی شکل میں بن لیا جاتا ہے۔

اعلیٰ حسیائی صلاحیتیں

چھلانگ لگانے والی مکڑیوں کو چھوڑ کر، زیادہ تر مکڑیوں کی بینائی کسی حد تک کمزور ہوتی ہے اور وہ صرف مختصر فاصلے تک دیکھ سکتی ہیں۔اس کمزوری یا نقص کی کمی کو، جو ایک شکاری کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، مکڑی کا خصوصی طور پر حساس پیشگی انتباہ کا نظام (early warning system) پورا کرتا ہے۔

یہ انتباہی نظام چھونے کی حس یا قوتِ لامسہ پر مبنی ہے۔مکڑی کا بدن ایسے بالوں سے ڈھکا ہوتا ہے جو ارتعاش کو فوراً محسوس کر لیتے ہیں۔ہر ایک بال عصبے کے سرے(nerve ending)سے جڑا ہوتا ہے۔لمس حتیٰ کہ آواز اور بو سے پیدا ہونے والا ارتعاش ان بالوں میں تحرک یا ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔بالوں کی تھرتھراہٹ عصبی ریشوں کے سروں کو متحرک کر دیتی ہے اور یہ عصبے دماغ کو تیزی سے پیغام ارسال کر دیتے ہیں۔ اس طریقے سے مکڑیاں خفیف ترین تھرتھراہٹ کو بھی محسوس کر لیتی ہیں۔

مکڑیاں بے حرکت شکار کا ادراک نہیں کر سکتیں مگر جانداروں کے پیدا کردہ ارتعاش کو محسوس کر کے حساب لگا لیتی ہیں کہ جالے پر کیڑا کس جگہ پھنسا ہے۔ اگر مکڑی مکمل طور پر مطمئن نہ ہو کہ جالے پر کیڑا کہاں واقع ہے تو وہ جالے پر اپنی ٹانگیں مار کر، اسے ہلا جلا کر یہ معلوم کر تی ہے کہ کیڑا کس جگہ پھنسا ہے۔اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے پھر وہ شکار کی جگہ کا پتہ لگا لیتی ہے۔

مکڑی کی ٹانگیں وہ اعضا ہیں جو ان حسیائی بالوں سے اچھی طرح مزّین ہوتے ہیں۔بال کھوکھلے اور بے لچک ساخت کے ہوتے ہیں۔مکڑیاں ایک میٹر کی دوری پر واقع شور کے مخرج سے نکلنے والے ارتعاش کو محسوس کر لیتی ہیں کہ وہ کہاں سے نکل رہا ہے۔علاوہ ازیں اس کی ٹانگوں کے بالوں میں ایک اور حسی نظام موجود ہوتا ہے جو درجۂ حرارت کو فوراً محسوس کر لیتا ہے۔مکڑی کے جسم کی سطح پر بے بال حصے بھی ہوتے ہیں جن کے اندر انتہائی حساس عصبی سرے پائے جاتے ہیں۔ان تمام خصوصیات کی وجہ سے مکڑیاں اپنے ارد گرد حتیٰ کہ اپنی کھال پر بھی ہونے والی ہر حرکت اور کسی بھی شے کی آمد کو محسوس کر لیتی ہیں۔

اگر مکڑی اپنی ایک ٹانگ کھو دے تو کچھ دیر بعد اس کی جگہ دوسری ٹانگ پیدا ہو جاتی ہے۔مکڑی اپنی یہ ٹانگ، جو زمین پر ٹکتی بھی نہیں، چلنے کے لئے استعمال نہیں کرتی۔ دراصل مکڑی ا پنی اصل ٹانگوں کی نصف تعداد،یعنی چار ٹانگوں کے سا تھ کافی آرام سے چل سکتی ہے۔دوسری ٹانگ پیدا ہونے کا واحد سبب، گو کہ وہ چھوٹی ہوتی ہے، یہ ہے کہ مکڑی کو اس پر موجود حساس بالوں کی ضرورت ہے۔

مکڑیوں میں ارتعاش کو محسوس کرنے کی حسیت اس قدر بالیدہ ہوتی ہے کہ وہ اس بات کا اندازہ لگا لیتی ہیں کہ (ارتعاش کا )منبع جالے پر پھنسا ہوا شکار ہے یا جفتی کی غرض سے آئی ہوئی نر مکڑی۔

چند سال پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ جالے اپنی لچکدار ساخت کی وجہ سے ارتعاش ارسال نہیں کر سکتے۔ لیکن حال ہی میں بنائی گئی مشینوں کے ذریعے، جنہیں ڈاپلر لیزر وائیبرومیٹری "Doppler Laser Vibrometry" کہتے ہیں، کی گئی تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ صورتِ حال بالکل برعکس ہے۔اب یہ حقیقت معلوم ہو گئی ہے کہ جالے اپنی لچکدار ساخت کے باوجود ارتعاش منتقل کرتے ہیں اور وہ ارتعاش کے درجے میں اضافہ کرتے ہیں۔۳۲۔تاہم ابھی تک اس کی کوئی سائنسی وجہ دریافت نہیں ہو سکی۔

مکڑی ایک چھوٹی سی صوتی لہرسے لے کر اپنے جالے پر پیدا ہونے والے ارتعاش تک ہر قسم کی تنبیہ کا بڑے واضح طور پر ادراک کر لیتی ہے۔جالے پر چلنے والا یہ انتہائی کارآمد اور مفید پیشگی انتباہی نظام(مکڑی)، مکڑی کے نقطۂ نظر سے ایک ایسا میکانیکی عمل ہے جو کارآمد ترین خصوصیات کا حامل ہے۔اگر ہم اس حقیقت کو زیرِ غور لائیں کہ مکڑی کے جسم پر موجود ہزاروں بالوں میں سے ہر ایک بال عصبے کے سر ے سے جڑا ہوتا ہے اور وہاں سے پھر دماغ سے جا ملتا ہے اور یہ کہ مکڑی ملنے والے انتباہی اشارات کا تیزی کے ساتھ اندازہ لگا لیتی ہے، تو اس نظام کی پیچیدگی مزید نمایاں ہو جائے گی۔

زہر پمپ کرنے والے نکیلے دانت

ہیض انواع اپنے پرُبعد اذمکڑی کی آنکھوں کے سامنے دو نکیلے دانت پائے جاتے ہیں۔یہ دانت وہ ہتھیار ہیں جنہیں مکڑی شکار کرنے اور اپنی حفاظت کے لئے استعمال کرتی ہے۔ ہر دانت کی پچھلی طرف زہر کا غدہ پایا جاتا ہے جس کا جان لیوا زہر بِس کی کنڈی (venom hook)میں گرتا ہے۔ مکڑی جب شکار کو بے حرکت کرنا چاہے تو اپنے دانت اس میں گاڑھ دیتی ہے۔پھر اپنے دانتوں میں موجود سوراخوں کے راستے زہر کو شکار کے جسم میں پمپ کر دیتی ہے۔

مکڑیاں یہ خوفناک اور مہلک اوزار اپنے آشیانے بنانے اور چھوٹی اشیاء اٹھا کر چلنے کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں۔دانتوں کے اطراف میں محاسوں (antennae)کی جگہ دو اضافی حصے، جنہیں pedipalps (دو لخت محاسے)کہتے ہیں،پائے جاتے ہیں۔مکڑی اپنے جالے پر پھنسے شکار کا جائزہ لینے کے لئے انہیں استعمال کرتی ہے۔

جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں،مکڑی کے حسی نظام ایک خاص ڈیزائن کے حامل ہیں۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ نظام نظریۂ ارتقاء کے ارتقائی افزائش کے دعوے کو باطل قرار دے دیتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایسے نظاموں کی، جن کے ذریعے مکڑی اپنے ہی جسم کے اندر مہلک زہر پیدا کر لیتی ہے،اتفاق کے ذریعے تشریح کرنا بھی ناممکن ہے۔

بِس کی کیمیائی ترکیب کیڑے مکوڑوں کو مارنے میں مدد دیتی ہے۔یہ زہر ایک مخصوص غیر موصل یا محجوز(insulated) حصے میں موجود ہوتا ہے تاکہ مکڑی کو نقصان نہ پہنچا سکے۔اسی طرح مکڑی کے لمبے دانت بھی نہایت کارگزار ہوتے ہیں۔زہر پمپ کرنے والے میکانیکی عمل کی نسیج کاٹ (tissue-cutting)دانتوں کے اندر موجودگی، شکار کے اندر زہر منتقل کرنے میں مدد دیتی ہے۔یوں یہ دانت کیمیائی اور جسمانی ہتھیار کے طور پربھی کام کرتے ہیں۔ ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مکڑی کے جسم کا ہر حصہ خاص منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا ہے جس کی اتفاقات،جینیاتی تغیرات یا کسی اور تخیلاتی ارتقائی میکانیکی عمل کے ذریعے تشریح نہیں کی جا سکتی۔اللہ تعالیٰ نے مکڑی کو اس کی تمام خصوصیات سمیت پیدا کیا۔یہ تمام خصوصیات ہمارے لئے اللہ کے فنِ تخلیق کا ثبوت ہیں۔

شکار کو مفلوج کر نا اور ہضم کا عمل

جالے میں پھنس جانے والے جانوروں کو مکڑی دوسرے دھاگے میں پور ی طرح لپیٹ دیتی ہے۔ یہ دھاگا وہ اس وقت تیار کرتی ہے جب شکار جالے پر اچھی طرح پھنس جاتا ہے۔اس کے بعد وہ شکار کو اپنے دانتوں سے پکڑ کر اسے مکمل طور پر زہر سے بھر دیتی ہے جس سے شکار ہلاک ہو جاتا ہے۔

مکڑی صرف سیال مادے ہضم کر سکتی ہے۔مکڑی کے منہ کے گرد بال پائے جاتے ہیں جن کے ذریعے ایک ملی میٹر کے ہزارویں حصے سے بڑے ننھے ذرات چھان دیئے جاتے ہیں۔اسی وجہ سے مکڑی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جانور کے ریشوں کو ہضم کرنے سے پہلے انہیں مائع میں تبدیل کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ مکڑی ہاضم خامروں کے ذریعے کیڑوں کی نسیجیں (tissues)الگ الگ کر دیتی ہے۔جب یہ ریشے اچھی طرح مائع بن جاتے ہیں تو پھر مکڑی مائع کھینچنے کے مضبوط نظام کی بدولت سیال کو پی جاتی ہے۔مثلاً شہد کی مکھی کو مار دینے کے بعد Misumenoides Formosigesمکڑی اس کے جسم میں دو سوراخ کرتی ہے،ایک سر یا گردن میں اور دوسرا اس کے پیٹ میں۔اس کے بعد وہ ان سوراخوں میں سے مکھی کے جسم کا رس چوس لیتی ہے۔

مکڑی جن نسیجوں کو چوس لیتی ہے انھیں اپنے جسم کے معدی ترشوں کے ساتھ ملا لیتی ہے۔ جب شکار کے جسم میں خلا کا دباؤ مکڑی کی مائع کھینچنے کی قوت سے زیادہ ہو جاتا ہے تو مکڑی اپنے پیٹ کے ارد گرد موجود (مائع) کھینچنے والے پٹھوں کو ڈھیلا چھوڑ دیتی ہے۔ یوں مکڑی کے جسم میں موجود ہاضم خامرے مکھی کے جسم کے مختلف حصوں میں داخل ہو کر وہاں کے ریشے بھی تحلیل کر دیتے ہیں۔پھر مکڑی پیٹ میں کئے گئے دوسرے سوراخ میں سے رس چوس لیتی ہے۔اور یہ توارد اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک مکھی مکمل طور پر خالی نہیں ہو جاتی۔غذا کا منبع ہونے کے علاوہ مکھی کا جسم مکڑی کے نظامِ ہضم کا ایک عارضی اضافی حصہ بھی بن جاتا ہے۔ بالآخر مکھی انڈے کے خالی چھلکے جیسی لگنے لگتی ہے اور ایک خول کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔

کیڑے مکوڑے مکڑیوں کی واحد غذا نہیں۔ مینڈک، چوہے، مچھلیاں، سانپ یا چھوٹے پرندے سب مکڑیوں کے شکار کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ’پرندہ مکڑیاں ‘ تو اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ خرگوش اور مرغیاں شکار کر کے ہضم کر لیتی ہیں۔

پانی پر چلنے والی مکڑی

پانی پر چلنے والی مکڑیاں ایک خاص ساخت کی مالک ہوتی ہیں جس کی مدد سے وہ پانی پر چل سکتی ہیں۔ ان مکڑیوں کے پیروں کے سروں پر آب روک موم یا لاکھ سے ڈھکے بالوں کی موٹی مخملی چوٹی پائی جاتی ہے۔ان کی مدد سے مکڑی بغیر ڈوبے پانی پر چل سکتی ہے۔مکڑی کی پانی کی سطح پر کھڑے رہنے کی صلاحیت اس قدر اعلیٰ ہے کہ اگر مکڑی اپنے موجودہ وزن سے پچیس گنا زیادہ بھاری بھی ہوتی تو تب بھی پانی کی سطح پر باآسانی چل سکتی۔

پانی کی سطح پر چلتے وقت آبی مکڑیاں اپنی پچھلی ٹانگیں پتوار (rudders)کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ان کی درمیانی ٹانگیں چلنے میں مدد دیتی ہیں جبکہ سامنے والی چھوٹی ٹانگوں کا کام شکار کو پکڑنا ہے۔ آبی مکڑیاں اس قدر تیزی کے ساتھ حرکت کرتی ہیں کہ وہ پانی کی سطح پر اچانک ایک میٹر اونچی چھلانگ بھی لگا لیتی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موٹر سے چلنے والی کشتی کی رفتار سے حرکت کرتی ہیں۔

شکار کرتے وقت آبی مکڑی پانی کی سطح کو جالے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔غلط قدم کے نتیجے میں پانی پر گرنے والی بھنبھیری جیسی مکھی(dragonfly)، مکھی یا تتلی،مکڑی کی اس نوع کے لئے بہترین شکار بن جاتی ہے۔ جب ان کیڑوں کے پر پانی سے ٹکراتے ہیں تو یہ پانی کی سطح پر اس طرح پھنس جاتے ہیں جیسے کہ مکھی مار کاغذ(fly-paper)پر چپکے ہوں۔کیڑوں کی وجہ سے پانی کی سطح پر پیدا ہونے والے ارتعاش کو مکڑی محسوس کر لیتی ہے۔مزید برآں، مکڑی اس ارتعاش کے ذریعے نہ صرف شکار کی جگہ کا پتہ لگا لیتی ہے بلکہ اس کے جسم کے حجم کا بھی اندازہ لگا لیتی ہے۔ وہ فوراً اس جگہ پہنچ جاتی ہے جہاں شکار پانی پر پھنسا ہوتا ہے اور اسے دانت سے کاٹ کر اس کے جسم میں زہر داخل کر کے ہلاک کر دیتی ہے۔

مکڑی کے پیروں کے بالوں پر یہ تہ نہ جانے کس نے بنائی تاکہ وہ ڈوبنے سے بچ جائے؟ اس سوال کا دائرہ اس بات پر غور کر کے وسیع کیا جا سکتا ہے کہ آج تک جتنی بھی مکڑیاں پیدا ہوئیں ان سب کے پیر اسی طرح تہ سے ڈھکے تھے۔مکڑیاں یہ بات کیسے جانتی ہیں کہ پانی انہیں تیرتا ہوا رکھے گا۔انہیں آب روک سالموں کی خصوصیات اور ان سالموں کا پانی کے ساتھ ردّ عمل کے متعلق کیسے معلوم ہے؟ اس نظام کی منصوبہ سازی مکڑیاں خود تو نہیں کر سکتی تھیں تو پھر یہ کس نے کی؟ پانی کے سطحی تناؤ پر منحصر یہ منظم نظام از خود یا اتفاق سے تو وجود میں نہیں آسکتا تھا تو پھر یہ کیسے وجود میں آیا؟اور مکڑیوں نے یہ نظام اور اس شے کا کیمیائی فارمولا جو انہیں ڈوبنے سے بچاتی ہے، مکڑیوں کی آنے والی نسلوں تک کیسے منتقل کیا؟

ان سوالات کے جواب ہمیں ایک بے عیب اور کامل تخلیق کی موجودگی سے متعارف کراتے ہیں۔مکڑیوں کو اللہ تعالیٰ نے بے عیب اور مکمل شکل میں پیدا کیا۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر نوع کو ان تمام خصوصیات سے نوازا جن کی اسے ضرورت ہے بالکل اسی طرح اس نے ان مکڑیوں کو بھی پانی پر چلنے کی خاصیت عطا کی جس کی انہیں ضرورت ہے۔

اختتام

’اور وہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انہیں کچھ بھی تو روزی نہیں دے سکتے اور نہ کچھ قدرت رکھتے ہیں۔پس اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں مت بناؤ، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘(سورۃ النحل: ۷۴۔۷۳)

نظریۂ ارتقاء قیاس پر مبنی دعویٰ ہے جسے کسی بھی سائنسی اصول کی حمایت حاصل نہیں اور نہ ہی یہ کسی معقول دلیل اور ثبوت پر مبنی ہے۔دوسری طرف اس کا یہ دعویٰ کہ ہر جاندار ان گنت اور قطعاً بعید از امکان اتفاقات کے نتیجے میں نمودار ہوا ہو گا،ذہانت اور سائنس سے یکسر خالی بنیاد پر مبنی ہے۔

اس کے باوجود ارتقاء وہ واحد امید ہے جسے بعض نظریاتی حلقوں نے اپنا لیا ہے تاکہ مجموعی معاشرے کو حقیقت سے دور رکھا جا سکے۔اور اسی وجہ سے اس نظریے کے خلاف تمام دلائل کے باوجود یہ ابھی تک ارتقاء کو ایجنڈے میں شامل رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔تاہم نظریۂ ارتقاء مکڑی، جس کا ہم نے کتاب میں جائزہ لیا ہے، کے سامنے اسی طرح بے بس ہے جس طرح فطرت میں تخلیق شدہ ہر ذی حیات شے کے سامنے۔یہ نظریہ اس امر کی وضاحت کرنے سے یکسر قاصر ہے کہ مکڑیوں کی خصوصیات کیسے رونما ہوئی ہوں گی۔

اگر ہم ارتقاء کے نقطۂ نظر سے مکڑیوں کی خصوصیات پر غور کریں تو یہ بات بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ نظریۂ ارتقاء کس قدر بے بنیاد اور مغالطہ آمیز دعویٰ ہے۔آئیے ہم کیڑے کی ایک ایسی نوع زیرِ غور لاتے ہیں جسے ہم تمام مکڑیوں کا جدِ امجد خیال کریں گے۔ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ کیڑا دورِ حاضر کی مکڑیوں کی طرح بہرہ اور تقریباً اندھا ہے۔ ایسی صورت میں یہ کیڑا کسی بھی چیز کا شکار نہیں کر سکے گا اور یوں فوراً بھوک سے مر جائے گا۔لیکن کسی نہ کسی طرح یہ کیڑا، اتفاق یا کسی دوسری ناقابلِ توضیح قوت کے باعث زندہ رہ جانے میں کامیاب ہو گیا۔

ایک دن اس اندھے اور بہرے کیڑے کو شکار کرنے کے لئے جالا بنانے کا جودت خیال آیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ کیڑے کے پاس رہنے کا کوئی ایسا ٹھکانا ہو جو شکار پکڑنے کے لئے دام کا کام بھی دے۔لیکن یہ کیڑا تعمیراتی صلاحیت اور حساب کرنے کی اہلیت کا مالک نہیں جو جالا بنانے کے لئے ضروری ہیں۔مکڑی کو یکے بعد دیگرے ہوا اور پھانسے جانے والے شکار کی رفتار، سارے وزن جو جالا سہتاہے، ان اوزان کے پھیلاؤ، پودوں اور پتوں وغیرہ کی وزن سہنے کی حد وغیرہ جن پر وہ اپنا جالا بنائے گی اور دوسری بہت سی تفصیلات کا حساب لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس مقام پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ مکڑی کس طرح حساب و کتاب کر سکتی ہے؟لیکن ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ارتقا کی بنیادی منطق بھی یہی ہے۔ارتقاء چونکہ تخلیق سے انکار کرتا ہے اس لئے اس کے پاس اس کے سوا کوئی اور جواب نہیں کہ کیڑے نے یہ پیشگی شمار خود ہی سرانجام دیے۔

تاہم اگر ہم یہ قبول کر بھی لیں کہ کیڑا جالے کی تعمیر کے لئے منصوبہ بندی کرنے کی ذہانت رکھتا ہے تو ایسی صورت میں بھی اس کے لئے موت سے بچنا ممکن نہیں کیونکہ اس کے پاس جالے بنانے کے آلات نہیں۔ایسے آلات جن میں جالے بنانے کے لئے ضروری خصوصیات موجود ہوں فطرت میں پائے نہیں جاتے۔ایسی صورتحال میں اس نے جالا بننے کے لئے خود ہی دھاگا پیدا کرنے کا ارادہ کیا۔لیکن ایک بار پھر اسے ایک بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ یہ دھاگا کس طرح پیدا کرے ؟

اتنا کہہ دینے کے بعد وہ طاقت جسے اتفاق کہتے ہیں ایک بار پھرمساوات equation میں داخل ہوتی ہے۔ کیڑے کے جسم کے اندر کئی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں اور اچانک اس کے دھڑ میں مکمل طور پر بالیدہ چھ مختلف غدّے نمودار ہو جاتے ہیں۔یہ غدے کیمیائی سیال مادے خارج کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور بعد ازاں مساوی دباؤ اور وقت کے نظاموں کے تحت کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ایک بار پھر اتفاق سے ان غدوں کے کیمیائی سیال مادے مخصوص تناسب سے ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور مکڑی کے دھاگے کا خام مواد نمودار ہو جاتا ہے۔ٹھیک اسی لمحے ایک اور اتفاق سے اس کی پچھلی ٹانگیں عضوِ تار کش (spinnerets)میں سے ریشے بُنتی ہیں اور کیڑے کے لئے ایک بہترین دھاگا تیار ہو جاتا ہے۔ اتفاق اس قدر مفید ثابت ہوتا ہے کہ نمودار ہونے والا دھاگا فولاد سے پانچ گنا زیادہ مضبوط اور ربڑ سے تیس فیصد زیادہ لچک دار ہوتا ہے۔اس دھاگے اور اس کی مختلف لحمیاتی خصوصیات کی، جن کی انسان مکمل نقل نہیں بنا سکتا، منصوبہ بندی ایک ننھے سے کیڑے نے کی ہے۔

اس کے بعد کیڑے نے کبھی چپچپے اور لچکدار دھاگے استعمال کر کے اور کبھی بے لچک اور مضبوط دھاگے استعمال میں لا کر جالا بُنا۔کیا عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ کیڑے کی ٹانگیں بھی سات جوڑ والی ہیں تاکہ وہ جالے پر چلنے کے قابل ہو سکے!اور اس نام نہاد اتفاق کی ایک اور پیداوار پہلے سے ہی اس کے پاؤں پر موجود تھی۔ایک خاص تہ جو اسے اپنے ہی جالے پر چپک جانے سے بچاتی ہے۔اور یہ اتفاقات یہیں ختم نہیں ہو جاتے۔جس دن جالا بنا گیا اسی دن سے اس بہرے اور تقریباً اندھے کیڑے کا جسم پہلے سے ہی ایسے خاص بالوں سے ڈھکا تھا جو جالے پر خفیف ترین ارتعاش محسوس کر لیتے ہیں۔یوں دورِ حاضر کی مکڑی اتفاق سے حاصل کردہ صلاحیتوں، جن کی تفصیلات ہم بیان نہیں کر سکے،کے نتیجے میں وجود میں آئی۔

اس منظر نامے کا بغور مشاہدہ کرنے سے یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ نظریۂ ارتقاء فراست سے محروم تخمینہ ہے۔یہاں ایک اہم نکتہ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔اولاً یہ کہ مکڑی جن خصوصیات کی مالک ہے وہ کسی بھی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رونما نہیں ہو سکتی تھیں۔زیرِ بحث صلاحیتیں مکڑی کے اندر لازماً بیک وقت موجود رہی ہوں گی۔ایسی کسی مکڑی کا وجود نہیں جسے جالا بنانے کا علم تو ہو مگر وہ ریشم پیدا کرنے سے قاصر ہویا جو ریشم تو پیدا کر سکے لیکن جالا بنانا نہ جانتی ہو۔جہاں تک ایسی مکڑیوں کا تعلق ہے جو جالا نہیں بناتیں مثلاً چھلانگ لگانے والی مکڑی،انھیں کئی زیادہ خصوصیات سمیت تخلیق کیا گیا،ایسی خصوصیات جنہوں نے ارتقاء کی ہزاروں مرتبہ تغلیط کی ہے۔

اگر مکڑی خوبصورت ترین جالے تعمیر کر سکتی ہے مگر اس کے پاس وہ چپچپا مادہ نہیں جسے وہ جالے پر پھیلاتی ہے تو یہ جالا کسی کام نہیں آئے گا۔اگر چپچپا مادہ تو موجود ہے مگر اس بار چپچپے دھاگوں کو لچک عطا کرنے والے لحمیاتی سالمے موجود نہیں ( جو بالکل ایک عام سی بات ہو گی)تب بھی جالا بالکل بیکار ثابت ہو گا اور مکڑی موت سے دوچار ہو جائے گی۔

ایک ایسی مکڑی جو ریشم بنانے کے لئے تمام ضروری میکانیکی عملوں کی مالک ہو لیکن اُسے ہضم شدہ غذا سے ایک مادہ جسے نا حل پذیر ترکیبی لحمیہ یا scleroprotein کہتے ہیں حاصل نہ ہوسکے تو اس صورت میں بھی وہ ریشم بُن نہیں سکے گی۔اس کے باوجود بھی اگر مکڑی کو جالا اتفاقاً مل جاتا ہے تو تب بھی اسے اپنے پیروں پر ایک ایسی کیمیائی تہ کی ضرورت ہو گی جو اسے جالے پر چپکنے سے بچا کر چلنے میں مدد دے سکے۔اس کے ساتھ ساتھ جالے میں پیدا ہونے والے ارتعاش کو محسوس کرنے کے لیے ایک حسیائی نظام (sensory system) کا ہونا بھی ضروری ہے۔ان تمام خصوصیات میں سے کسی ایک کی بھی کمی کی صورت میں مکڑی چند لمحوں میں موت کا شکار ہو جائے گی۔

مکڑی تنفس،ہضم اور دورانِ خون کے نظاموں کی مالک ہے۔دیگر نظاموں کی طرح یہ نظام بھی بیک وقت نمودار ہوئے ہوں گے۔ہم کسی ایسی مکڑی کا تصور بھی نہیں کر سکتے جس کا پیٹ یا دل نہ ہو۔اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ باقی تمام اعضاء جیسے کہ جالے بنانے والے اعضاء کو موجود ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اِن اعضاء کے جینیائی نقشے (genetic codes)ا ان لاکھوں خلیوں میں سے ہر ایک خلیے کے اندر موجود ہوں جن سے مکڑی تشکیل پاتی ہے۔نئے عضو کا مطلب ڈی ان اے DNA کے لاکھوں تدریجی سلسلوں یعنی جینیائی نقشے میں اضافی معلومات کا اندراج ہے۔ان سلسلوں میں سے کسی ایک میں بھی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ نیا عضو بالکل بیکار ثابت ہو گا۔(مفصل معلومات کے لئے ہارون یحيٰ کی کتاب "خلیہ۔ایک معجزہ"،استنبول، Vural Publishing ملاحظہ کریں ).

ایک اور توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ انڈے سے باہر نکلتے ہی ہر مکڑی،کسی قسم کی تربیت پائے بغیر جالا بننے کے لئے ضروری علم سے آراستہ ہوتی ہے۔اسی علم کی بناء پر مکڑیوں کی نسلوں پہ نسلیں جالے بننے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتی ہیں۔نومولود مکڑی قطعاً کوئی تربیت حاصل نہیں کرتی اور نہ ہی کوئی کورس پڑھنے جاتی ہے۔

ایک انجینئر عمارت کھڑی کرنے کا ضروری علم سیکھنے کے لئے یونیورسٹی میں کم از کم چار سا ل علم حاصل کرتا ہے۔ وہ پہلے سے طبع شدہ کئی سو علمی تصانیف ماخذ کے طور پر استعمال کرتا ہے اور کمپیوٹر پر اپنا حساب و کتاب انجام دیتا ہے۔اس کے اساتذہ اس کی رہنمائی کرتے ہیں اور حساب کتاب کرنا سکھاتے ہیں۔مکڑی سے کئی سو گنا بڑا جالا تعمیر کرنے کے لئے اتنا ہی حساب و کتاب درکار ہوتا ہے جتنا کسی عمارت کو تعمیر کرنے کے لئے۔جالا بنانے والے دھاگوں کے تناؤ،جالا جس بنیاد پر تعمیر کیا گیا اس کی مضبوطی،اقلیدسيوضع geometric formکی درستی،ہوا اور شکار کی حرکات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جالے کو عطا کی گئی مزاحمت اور لچک،دھاگے کی طبیعی اور کیمیائی خصوصیات اوردوسری بہت سی جزویات کی، جنہیں فہرست میں درج نہیں کیا جا سکا، منصوبہ بندی اور حساب و کتاب سرانجام دینے کے لئے یونیورسٹی کا ڈگری یافتہ ہونا بھی کافی نہیں۔بہرصورت نومولود مکڑیوں کے لئے کوئی یونیورسٹی موجود نہیں۔دنیا میں آ جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی وہ دھاگا تیار کرنا،جالے بنانا اور شکار کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ارتقاء پسند سائنسدان جو اس امر کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں ایک دوسرے قطعاً مضحکہ خیز دعوے کا سہارا لیتے ہیں۔اس منطق کے تحت، جو بنیادی عملِ تخلیق سے انکار کرتا ہے،ایک نامعلوم قوت جسے جبلت instinctکہتے ہیں نومولود مکڑی کو یہ بتاتی ہے کہ اُسے کون سا کام سر انجام دینا ہے۔

تو یہ ’جبلت ‘کیا ہے؟کیا یہ ایک ایساالہام ہے جس کا منبع غیر واضح ہے اور جو مکڑی کو طبیعیات اور علمِ کیمیا کا پروفیسر، تعمیراتی انجینئر اور مکڑ س جاتا ہے۔اس کے بعد وہ شکا ماہرِ تعمیرات بنا دیتا ہے؟اس الہام کا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مکڑی میں موجود ہے اور از خود نمودار ہوا ہے، مخرج کیا ہے ؟آئیے ہم مکڑی کی ساخت کا جائزہ لے کر اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تمام جانداروں کی طرح مکڑی بھی لحمیات سے مل کر بنتی ہے۔یہ لحمیات امینو ترشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ امینو ترشے باہم مل جانے والے بڑے سالموں سے مل کر بنتے ہیں۔اور سالمے اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب جوہر آپس میں جڑ جاتے ہیں۔آئیے یہاں درج بالا سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ مکڑی میں یہ جبلت ٹھیک ٹھیک کہاں پائی جاتی ہے جو مکڑی کو ایسے دھاگے بنانا سکھاتی ہے جن کی انسان نقل نہیں بنا سکااور جو تعمیرات اور انجینئری کے بے مثال نمونے تخلیق کرتی ہے۔کیا یہ( جبلت ) ان لحمیات میں واقع ہے جن سے مکڑی کا جسم بنتا ہے یا امینو ترشوں میں جن سے لحمیات بنتے ہیں ؟ یا ان سالموں میں جو امینو ترشے بناتے ہیں ؟ یا پھر ان جوہروں میں جو سالمے تشکیل دیتے ہیں ؟ ان میں سے کون اس الہام یا وحی کا منبع ہے جسے ارتقاء پرست ’جبلت ‘ کہہ کر ٹال دیتے ہیں ؟

یقیناً ان میں سے کوئی بھی جبلت کا سر چشمہ نہیں۔تمام جانداروں کی طرح مکڑی بھی تمام جہانوں کے مالک اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لاتی ہے اور اُسی کی وحی کے مطابق عمل کرتی ہے۔

’ اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی برد بار اور درگزر کرنے والا ہے۔‘ (سورۃ بنی اسرائیل: ۴۴)

ارتقاء کا فریب

کبھی کبھار ننھے جانداروں کے بے مثال نظام ایک عظیم حقیقت کی جانب ہماری آنکھیں کھول دیتے ہیں : تخلیق کی حقیقت۔۔۔اللہ تعالیٰ نے تمام ذی حیات اشیاء کو ان کے خدوخال سمیت بے عیب پیدا کیا۔ نظریۂ ارتقاء،جس کا دعویٰ ہے کہ ہر چیز اتفاق کے نتیجے میں نمودار ہوئی، جانداروں میں پائی جانے والی جامعیت و اکملیت کے سامنے لاجواب ہے۔جدید سائنسی دریافتوں نے بھی صاف طور سے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ یہ نظریہ ایک دھوکا اور فریب ہے۔

کائنات کا ہر جزو ایک اعلیٰ و برتر تخلیق کی جانب اشارہ کرتا ہے۔اس کے بر عکس فلسفۂ مادّیت جو کائنات میں تخلیق کی حقیقت سے انکار کرنے کے لئے کوشاں رہتا ہے،ایک غیر سائنسی مغالطہ ہے۔

ایک مرتبہ مادّیت باطل یا کالعدم قرار پا جائے تو اس فلسفے پر مبنی دیگر تمام نظریات بھی بے اصل و بے بنیاد ہو جاتے ہیں۔ان میں سب سے اہم نظریہ ’’ڈارونیت‘ ہے یعنی نظریۂ ارتقاء۔یہ نظریہ،جو اس بات کو زیرِ بحث لاتا ہے کہ زندگی بے جان مادے سے بذریعہ اتفاقات وجود میں آئی، اس اعتراف کے بعد مسترد کر دیا گیا ہے کہ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا۔سماوی طبیعیات کے امریکی ماہر ہیو راس Hugh Rossاس امر کی یوں تشریح کرتے ہیں۔

’الحاد (Atheism)،ڈارونیت(Darwinism)اور اٹھارویں اور انیسویں صدی کے فلسفوں سے نکلنے والے تقریباً تمام ’ازمز یا نظریے(isms) اس غلط مفروضے پر مبنی ہیں کہ کائنات لامحدود ہے۔اس لا متناہیت (singularity)نے ہمیں کائنات اور اس میں شامل حیات سمیت ہر چیز کے پار، پیچھے اور آگے کارفرما موجب۔یا بانی۔ کے آمنے سامنے لا کھڑا کر دیا ہے۔ ‘۳۳

یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے کائنات کو تخلیق کیا اور مہین ترین جزویات تک اُسکی منصوبہ بندی کی۔چنانچہ نظریۂ ارتقاء کو، جس کا موقف یہ ہے کہ جاندار اللہ تعالیٰ کی تخلیق نہیں بلکہ اتفاقات کا نتیجہ ہیں، سچ تسلیم کر لینا ناممکن ہے۔

اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ جب ہم نظریۂ ارتقاء پر ایک نگاہ دوڑاتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ سائنسی نتائج اس نظریے کی کھلی مذمت کرتے ہیں۔زندگی کے خدوخال نہایت پیچیدہ اور غیر معمولی ہیں۔مثال کے طور پر بے جان اشیاء میں ہم اس امر کا تفصیلی جائزہ لے سکتے ہیں کہ ایٹمی ذرات کس قدر نازک توازن کے ساتھ ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔اس کے علاوہ عالمِ ذی حیات میں بھی اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایٹم کیسے کیسے پیچیدہ انداز میں باہم جوڑے گئے اور ان سے تیار ہونے والے میکانیکی عمل اور ڈھانچے مثلاً لحمیات،خامرے(enzymes) اور خلیے کس قدر غیر معمولی ہیں۔

حیات میں پائے گئے اس غیر معمولی ڈیزائن یا نظم و ضبط نے ڈارونیت کوبیسویں صدی کے آخر میں کالعدم قرار دے دیا۔

ہم نے اس موضوع کو اپنی دیگر تصانیف میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ تاہم ہمارا خیال ہے کہ اس موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظر یہاں بھی اس کا مختصر خلاصہ شامل کرنا مفید ثابت ہو گا۔

ڈارونیت کا سائنسی انہدام

اگرچہ نظریۂ ارتقاء ایک ایسا عقیدہ ہے جس کی جڑیں قدیم یونان تک جا پہنچتی ہیں مگر اسے وسیع پیمانے پر انیسویں صدی میں پیش کیا گیا۔سب سے اہم پیشِ رفت جس نے اس موضوع کو سائنسی دنیا کا مقبول ترین موضوع بنا دیا چارلس ڈارون کی’ انواع کی ابتداء‘ (The Origin of Species) نامی کتاب تھی جو ۱۸۵۹میں شائع ہوئی۔اس کتاب میں ڈارون نے اس حقیقت کی تردید کی کہ زمین پر مختلف ذی روح انواع اللہ تعالیٰ نے علیحدہ علیحدہ تخلیق کی ہیں۔ڈارون کے مطابق تمام جانداروں کا ایک ہی مشترکہ جدِ امجد تھا اور یہ جاندار وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کے نتیجے میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے چلے گئے۔

ڈارون کا نظریہ کسی ٹھوس سائنسی دریافت یا تجربے پر مبنی نہ تھاجیسا کہ اس نے خود بھی قبول کیا کہ یہ محض ایک ’مفروضہ‘ ‘assumption’ تھا۔مزید برآں ڈارون نے اپنی کتاب کے طویل باب ’ نظریے کی مشکلات‘ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ نظریہ کئی تنقیدی سوالات کے سامنے ناکامی سے دوچار ہو رہا تھا۔

ڈارون نے اپنی تمام تر امیدیں مستقبل میں ہونے والی نئی سائنسی دریافتوں سے وابستہ کر لیں۔اُسے توقع تھی کہ یہ دریافتیں نظریے کی مشکلات حل کر دیں گی تا ہم اس کی توقعات کے برعکس سائنسی نتائج نے ان مشکلات کا دائرہ وسیع کر دیا۔

سائنس کے مقابلے میں ڈارونیت کی شکست کا تین بنیادی عنوانات کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

۱۔یہ نظریۂ کسی بھی طرح اس بات کی وضاحت نہیں کر سکتا کہ کرۂ ارض پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔

۲۔ ایسی کوئی سائنسی معلومات دستیاب نہیں جن سے یہ ظاہر ہو کہ نظریے کے تجویز کردہ ’ارتقائی میکانیکی عمل‘(evolutionary mechanisms)ارتقا پذیری کی کوئی طاقت رکھتے ہیں۔

۳۔آثارِمتحجریافوسل ریکارڈ نظریۂ ارتقاء کی تجاویز کو غلط ثابت کرتے ہیں۔

اس حصے میں ہم ان تین بنیادی نقاط کا مجملاً جائزہ لیں گے۔

پہلا ناقابلِ عبور قدم: ابتدائے حیات

نظریۂ ارتقاء یہ فرض کرتا ہے کہ تمام ذی روح انواع ایک ہی جاندار خلیے سے،جو ۸.۳ بلین برس قبل قدیم کرۂ ارض پر نمودار ہوا، بذریعہ ارتقاء وجود میں آئیں۔صرف ایک واحد خلیہ لاکھوں پیچیدہ جاندار انواع کو کیسے عالم وجود میں لایا؟ اور اگر واقعی ایسا کوئی ارتقاء وقوع پذیر ہوا تو پھر فوسل ریکارڈ میں اس کا کوئی سراغ کیوں نہیں ملتا؟یہ ایسے چند سوالات ہیں جن کا نظریہ ارتقاء جواب پیش کرنے سے قاصر ہے۔تاہم سب سے پہلے، مبینہ ارتقائی عمل کے اولین مرحلے کے متعلق معلوم کرنا چاہیے کہ ’پہلا خلیہ‘ کس طرح وجود میں آیا؟

چونکہ نظریۂ ارتقاء تخلیق کی حقیقت سے انکار کرتا ہے اور کسی قسم کی مافوق الفطرت مداخلت کو قبول نہیں کرتااس لئے اس کا خیال ہے کہ ’اولین خلیہ‘ قوانینِ فطرت کے دائرے میں رہتے ہوئے، بغیر کسی ڈیزائن، منصوبے یا ترتیب کے، اتفاقاً نمودار ہوا۔ اس نظریے کے مطابق بے جان مادے نے ضرور اتفاقات کے نتیجے میں جاندار خلیہ پیدا کر لیا ہو گا۔تاہم یہ دعویٰ حیاتیات کے انتہائی غیر متنازع اور مستحکم اصولوں سے بھی متصادم ہے۔

زندگی زندگی سے وجود پاتی ہے

ڈارون نے اپنی کتاب میں کہیں پر بھی زندگی کے آغاز کا ذکر نہیں کیا۔اس کے دور میں سائنس کی قدیم سوجھ بوجھ اِس مفروضے پر مبنی تھی کہ جانداروں کی ساخت نہایت سادہ ہوتی ہے۔قرونِ وسطیٰ کے عہد سے ’خود نو زائدگی ‘ کا نظریہ مقبول عام تھا جس کا دعویٰ ہے کہ بے جان اشیاء یکجا ہو کر جاندار نامیوں کی تخلیق کا سبب بنتی ہیں۔عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ پس خوردہ یا بچی کھچ ی غذا سے حشرات الارض اور گندم میں سے چوہے پیدا ہو جاتے ہیں۔اس نظریے کو سچ ثابت کرنے کے لئے دلچسپ تجربات کیے گئے۔میلے کپڑے پر تھوڑی سی گندم ڈال دی جاتی تھی اور یہ سمجھا جاتا کہ تھوڑی دیر بعداس میں سے چوہے پیدا ہو جائیں گے۔

اسی طرح گوشت میں کیڑوں کا پیدا ہو جانا از خود تخلیق کا ثبوت سمجھا جاتا تھا۔تاہم کچھ ہی عرصے بعد یہ معلوم ہو گیا کہ گوشت میں کیڑے فطری طور پر یا خودبخود ہی نہیں پڑ جاتے بلکہ مکھیاں وہاں لاروے larvae چھوڑ جاتی تھیں جو نظر نہیں آتے اور بعد میں کیڑوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

جس دور میں ڈارون نے ’ زندگی کی ابتداء‘ لکھی اس وقت بھی دنیائے سائنس میں یہ عقیدہ وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا تھا کہ جرثومے بے جان مادے سے وجود میں آسکتے ہیں۔

تاہم، ڈارون کی کتاب کی اشاعت کے پانچ سال بعد لوئی پاسچر Louis Pasteur کی دریافت نے اس عقیدے کو،جو نظریۂ ارتقاء کی اساس تھا، غلط ثابت کر دیا۔ مطالعات اور تجربات پر خاصا وقت صرف کرنے کے بعد پاسچرنے اپنے نتیجے کا خلاصہ یوں پیش کیا:

’’یہ دعویٰ کہ بے جان مادہ زندگی کو وجود بخش سکتا ہے ہمیشہ کے لئے تاریخ کے صفحات میں دفن ہو گیا ہے۔‘‘۳۴

نظریۂ ارتقاء کی وکالت کرنے والوں نے طویل عرصے تک پاسچرکی دریافتوں کی مخالفت کی۔تاہم جب سائنسی ترقی نے جاندار شے کے خلیے کی پیچیدہ ساخت دریافت کر لی تو یہ خیال کہ زندگی اتفاقاً وجود میں آسکتی ہے پہلے سے بھی زیادہ شدید تعطل کا شکار ہو گیا۔

بیسویں صدی کی غیر فیصلہ کن کوششیں

پہلا ارتقاء پرست جس نے بیسویں صدی میں زندگی کی ابتداء کے موضوع کو آگے بڑھایا ایک مشہور روسی ماہرِ حیاتیات الیگزینڈر اوپیرن Alexander Oparin تھا۔۱۹۳۰ کے عشرے میں بے شمار مقالے پیش کر کے اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جاندار شے کا خلیہ اتفاق سے وجود میں آسکتا ہے۔تاہم، یہ تحقیقی مطالعے ناکامی سے دوچار ہوئے اور اوپیرن کو درج ذیل اعتراف کرنا پڑا۔

’بد قسمتی سے خلیے کی ابتدا ء ایک سوالیہ نشان ہے جو فی الحقیقت پورے نظریۂ ارتقاء کا تاریک ترین پہلو ہے‘۔۳۵

اوپیرن کے ارتقاء پسند پیروکارو ں نے زندگی کی ابتدا کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے تجربات کرنے کی کوشش کی۔ا ن تجربات میں سب سے مشہور تجربہ امریکی کیمیا دان سٹینلے ملر Stanley Miller نے ۱۹۵۳ میں کیا۔ایک تجرباتی ماحول میں ملر نے ایسی گیسوں کو آپس میں ملایا جو اس کے بقول قدیم کرۂ ارض کی فضا میں پائی جاتی تھیں۔گیسوں کے اس آمیزے میں توانائی داخل کر کے میلر نے لحمیات کی ساخت میں پائے جانے والے کئی نامیاتی سالمے( امینو ترشے) ترکیب دیئے۔

بمشکل چند سال گزرے ہوں گے کہ یہ تجربہ جسے ارتقاء کے نام پر ایک اہم قدم کے طور پر پیش کیا گیا تھا، باطل ثابت ہو گیا اور اس میں استعمال ہونے والی فضا بھی اصل ارضی حالات سے بہت مختلف تھی۔۳۶

ایک طویل خاموشی کے بعد ملر نے یہ تسلیم کر لیا کہ اس نے جو فضائی ماحول استعمال کیا وہ غیر حقیقی تھا۔۳۷

بیسیوں صدی میں زندگی کے آغاز کی وضاحت پیش کرنے کے لئے ارتقاء پرستوں کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ San Diego Scripps Instituteسے وابستہ ارضیاتی کیمیا دان جیفری باڈا Jeffrey Bada نے ایک مقالے میں اس حقیقت کا اقرار کیا جو ۱۹۹۸ میں ’زمین‘ Earth میگزین میں شائع ہوا۔

’آج جبکہ ہم بیسویں صدی پیچھے چھوڑ رہے ہیں، ہم بدستوراسی عظیم لاینحل مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں جس سے ہم اس وقت بھی دوچار تھے جب ہم بیسویں صدی میں داخل ہوئے تھے کہ کرۂ ارض پر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟‘ ۳۸

زندگی کی پیچیدہ ساخت

وہ بنیادی وجہ جس کی وجہ سے نظریۂ ارتقاء زندگی کی ابتداء کے بارے میں اس قدر شدید تعطل کا شکار ہو گیا یہ ہے کہ بظاہر سادہ ترین نظر آنے والے جاندار بھی ناقابلِ یقین حد تک پیچیدہ ساخت رکھتے ہیں۔ ایک جاندار کا خلیہ انسان کی ایجاد کردہ تمام تر تکنیکی مصنو عات سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ آج بھی دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تجربہ گاہوں میں غیر نامیاتی اشیاء کو یکجا کر ے ایک جاندار خلیہ تیار نہیں کیا جا سکتا۔

ایک خلیہ بنانے کے لئے درکار حالات و شرائط کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ’اتفاقات‘ سے ان کی وضاحت کرنا ناممکن ہے۔ ۵۰۰ امینو ترشوں پر مشتمل ایک اوسط لحمیے(جو خلیے کا بنیادی حصہ ہوتا ہے) کا اتفاقاً متشکل ہو جانے کا امکان ۵۰ ۹ ۱۰ میں سے۱ ہے۔ریاضی میں ایسی امکانیت جو جو ۵۰ ۱۰/۱ سے کم ہو عملی طور پر ناممکن تصور کی جاتی ہے۔

ڈی ان اے سالمہ،جو خلیے کے مرکز (nucleus)میں پایا جاتا ہے اور جینیاتی معلومات کا ذخیرہ رکھتا ہے،معلومات کا ایک حیران کن مخزن ہے۔ حساب لگایا گیا ہے کہ اگر ڈی این اے میں رمز کی شکل میں موجود معلومات کو تحریر کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ایک بڑی لائبریری تیار ہو جائے گی جس میں مخزن العلوم ( انسائیکلوپیڈیا) کی ۹۰۰ جلدیں ہوں گی اور ہر جلد۵۰۰ صفحات پر مشتمل ہو گی۔

اس مقام پر ایک بے حددلچسپ دہری مشکل ظاہر ہوتی ہے۔ڈی این اے صرف چند خاص لحمیات (خامروں ) کی مدد سے ہی اپنی نقل تیار کر سکتا ہے۔ تاہم ان خامروں کی ترکیب صرف اس معلومات کے ذریعے ہی ممکن ہے جو ڈی این اے میں رمز یا کوڈ کے طور پر درج ہے۔چونکہ یہ دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اس لئے نقل ثانی بنانے کے لئے ان دونوں کا بیک وقت موجود ہونا ضروری ہے۔یوں یہ مناظرہ کہ زندگی خودبخود وجود میں آئی تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔کیلی فورنیا کی سان ڈیاگو یونیورسٹی سے وابستہ مشہور ارتقاء پرست پروفیسر Leslie Orgel نے ‘Scientific American’رسالے کے شمارۂ ماہ ستمبر ۱۹۹۴ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا۔

’ یہ بات قطعی طور پر بعید از امکان ہے کہ لحمیات اور نیوکلیائی ترشے (nucleic acids)، جو دونوں ہی ساختیاتی لحاظ سے پیچیدہ ہیں، بیک وقت ایک ہی مقام سے اضطراری طور پر نمودار ہوئے۔مگر ایک کے بغیر دوسرے کا موجود ہونا بھی ناممکن نظر آتا ہے،چناچہ پہلی نگاہ میں یہی نتیجہ اخذ کرنا ہو گا کہ زندگی دراصل کبھی بھی کیمیائی ذرائع سے وجود میں نہیں آئی ہو گی۔۳۹

بلا شک اگر زندگی کی ابتداء فطری وجوہات سے ممکن نہیں تو پھر یہ تسلیم کرنا لازم ہو جاتا ہے کہ زندگی مافوق الفطرت طریقے سے ’تخلیق‘ کی گئی۔یہ حقیقت واضح طور پر نظریۂ ارتقاء کو باطل کر دیتی ہے جس کا اولین مقصد تخلیق کو جھٹلانا ہے۔

عملِ ارتقاء کے تخیلاتی میکانیکی عمل

دوسرا اہم نقطہ جس سے ڈارون کے نظریے کی تردید ہوتی ہے یہ ہے کہ اس نظریے نے جن دو تصورات کو (فطری انتخاب اور جینیاتی تبدیلیاں ) ’ارتقائی میکانیکی عمل‘ کے طور پر پیش کیا تھا، وہ حقیقت میں کسی ’ارتقائی قوت‘ کے حامل نہیں ہیں۔

ڈارون نے اپنے ارتقائی دعوے کی بنیاد مکمل طور پر ’ فطری انتخاب‘ (Natural Selection)کے میکانیکی عمل پر استوار کی تھی۔اس نے اس میکانیکی عمل کو جس قدر اہمیت دی وہ اس کی کتاب کے نام ’انواع کی ابتدا ء بذریعہ فطری انتخاب‘ (The Origin of Species, By Means of Natural Selection)سے ہی ظاہر ہے۔

فطری انتخاب کا موقف یہ ہے کہ ایسے جاندار جو زیادہ طاقتور ہوں گے اور اپنے مسکن کے قدرتی حالات سے زیادہ موافقت رکھتے ہوں گے، زندگی کی جدوجہد میں زندہ رہ سکیں گے۔مثال کے طور پر ہرنوں کے ایک ریوڑ میں سے،جو جنگلی جانوروں کے خطرے میں گھرا ہے، تیز دوڑنے والے ہرن ہی زندہ بچ سکیں گے۔چنانچہ (نسل بعد نسل) ہرنوں کا گلہ زیادہ تیز دوڑنے والے اور مضبوط جانوروں پر مشتمل ہو گا۔تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ میکانیکی عمل ہرنوں کو ارتقائی عمل سے گزار کر انہیں ایک دوسری جاندار نوع مثلاً گھوڑوں میں تبدیل نہیں کر دے گا۔

چنانچہ فطری انتخاب کا عمل کسی ارتقائی طاقت کا حامل نہیں۔ڈارون بھی اس حقیقت سے واقف تھا اور اس نے اپنی کتاب ’انواع کی ابتدا‘ میں کہا کہ:’’فطری انتخاب اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا جب تک موافق تبدیلیاں اتفاقاً وقوع پذیر نہیں ہو جاتیں ‘۔۴۰

لامارک کا گہرا اثر

پس یہ ’ موافق تغیرات یا تبدیلیاں ‘ یا سازگار حالات کیسے وقوع پذیر ہو سکتے ہیں ؟ ڈارون نے اپنے دور میں رائج قدیم اور ناپختہ سائنسی سوجھ بوجھ کے نقطۂ نظر سے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ڈارون سے قبل موجود ایک فرانسیسی حیاتیات دان لامارک Lamarckکے مطابق جانداروں نے اپنی زندگی میں حاصل کردہ امتیازی اوصاف اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کر دیئے۔ یہ اوصاف ایک کے بعددوسری نسل میں جمع ہوتے گئے اور یوں ایک نئی نوع متشکل ہو گئی۔ مثلاً لامارک کے مطابق زرافے سینگ والے ہرنوں (antelopes) میں سے بذریعہ ارتقائی عمل وجود میں آئے۔اونچے درختوں کے پتے کھانے کی کوشش میں زرافوں کی گردنیں نسل درنسل لمبی ہوتی چلی گئیں۔ڈارون نے بھی اسی قسم کی مثالیں پیش کیں۔مثلاً اس نے اپنی کتاب ’انواع کی ابتدا‘ میں لکھا کہ غذا تلاش کرنے کے لئے پانی میں جانے والے ریچھوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو وہیل مچھلیوں میں تبدیل کر لیا۔۴۱

تاہم مینڈل کے دریافت کردہ موروثیت کے قوانین(Laws of Inheritance) نے، جن کی بیسویں صدی میں فروغ پانے والے علمِ جینیات (science of genetics) نے تصدیق کی، مکمل طور پر اس من گھڑت موقف کو باطل قرار دیا کہ ماحول کے زیرِ اثر پیدا ہونے والی حیاتیاتی تبدیلیاں یا خصوصیات (acquired traits)آنے والی نسلوں میں منتقل ہو جاتی ہیں۔اس طرح فطری انتخاب بحیثیت ’ ارتقائی میکانیکی عمل‘ تائید سے محروم ہو گیا۔

نو ڈارونیت اور جینیاتی تبدیلیاں

س مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے ڈارون پسندوں نے ۱۹۳۰ کی دہائی کے آخر میں ’جدید مصنوعی نظریہ‘ (Modern Synthetic Theory) پیش کیا جسے عر فِ عام میں ’نو ڈارونیت‘(Neo-Darwinism)کہتے ہیں۔ نو ڈارونیت نے فطری انتخاب کے ساتھ ساتھ جینیاتی تبدیلیوں کو بھی ’موافق و مفید تغیرات کا سبب ‘ قرار دیا۔ یہ جینیاتی تبدیلیاں جانداروں کی جین میں پیدا ہونے والے ایسے بگاڑ ہوتے ہیں جو نقل ثانی میں غلطیوں یا شعاع ریزی جیسے خارجی عوامل کے نتیجے میں ظاہر ہوتے ہیں۔

آج دنیا بھر میں نوڈارونیت ہی ارتقاء کی علامت ہے۔ اس نظریے کا موقف یہ ہے کہ زمین پر موجود لاکھوں جاندار اشیاء ایک ایسے عمل کے نتیجے میں وجود میں آئیں جس کے دوران ان جاندار نامیوں کے بے شمار پیچیدہ اعضاء مثلاً کان، آنکھیں، پھیپھڑے اور پر ’جینیاتی تبدیلیوں ‘ (Mutations)یعنی جینیاتی بگاڑ سے گزرے۔تاہم ایک واضح سائنسی حقیقت اس نظریے کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے: جینیاتی تغیرات جانداروں کے بالیدہ ہونے کا سبب نہیں بنتے بلکہ وہ ہمیشہ انہیں نقصان ہی پہنچاتے ہیں۔

اس کی بہت سادہ سی وجہ ہے۔ ڈی این اے کی ساخت نہایت پیچیدہ ہے اور اس پر ہونے والے اٹکل پچو اثرات اسے صرف نقصان ہی پہنچا سکتے ہیں۔امریکی ماہرِ جینیات B.G.Ranganathanاس امر کی یوں تشریح کرتے ہیں۔

’ جینیاتی تبدیلیاں چھوٹی، اٹکل پچو اور نقصان دہ ہوتی ہیں۔ یہ شاذو نادر ہی واقع ہوتی ہیں اور زیادہ تر امکان یہ ہوتا ہے کہ یہ غیر مؤثر ہوں گی۔ جینیاتی تبدیلیوں کی یہ چار خصوصیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تغیرات کے نتیجے میں کوئی ارتقائی ترقی نہیں ہوتی۔ مختلف اعضاء رکھنے والے جاندار نامیے میں اٹکل پچو تبدیلی یا تو غیر مؤثر ثابت ہو گی یا پھر ضرر رساں۔ایک گھڑی کی ساخت میں بے ترتیب تبدیلی اُسے بہتر تو نہیں بنا سکتی۔زیادہ امکان تو یہی ہے کہ یہ تبدیلی اسے نقصان دے گی یا زیادہ سے زیادہ غیر مؤثر ثابت ہو گی۔زلزلہ کسی شہر کو بہتر تو نہیں بنا دیتا بلکہ اپنے ساتھ تباہی و بربادی ہی لاتا ہے۔‘ ۴۲

یہ امر باعث تعجب نہیں کہ اب تک ایسی کوئی بھی مفید تبدیلی مشاہدے میں نہیں آئی جو جینیاتی رمز یا کوڈ کو ترقی دے۔تمام جینیاتی تبدیلیاں نقصان دہ ہی ثابت ہوئی ہیں۔یہ بات اب سمجھ میں آ چکی ہے کہ وہ جینیاتی تبدیلی جسے ’ارتقائی میکانیکی عمل‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حقیقت میں ایک ایسا جینیاتی حادثہ ہوتا ہے جو جاندار نامیوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور انہیں ناکارہ کر دیتا ہے۔(جینیاتی تغیر کا انسانوں پرسب سے عام اثر سرطان کی صورت میں ہوتا ہے)۔بلاشبہ ایک تباہ کن میکانیکی عمل ’ارتقائی میکانیکی عمل‘ نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف فطری انتخاب ’ اپنے طور پر کچھ نہیں کر سکتا‘ جیسا کہ ڈارون نے بھی تسلیم کیا۔ یہ حقیقت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ فطرت میں کوئی ’ ارتقائی میکانیکی عمل ‘پایا نہیں جاتا۔چونکہ ایسا کوئی ارتقائی میکانیکی عمل وجود نہیں رکھتا لہذا ارتقاء کے نام کا کوئی تخیلاتی عمل بھی کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا ہے۔

فوصل ریکارڈ : عبوری شکلوں کی عدم موجودگی

فوصل ریکارڈ اس بات کا سب سے واضح ثبوت ہیں کہ نظریہ ارتقاء کا تجویز کردہ مناظرہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا۔

نظریۂ ا رتقاء کے مطابق ہر جاندار شے اپنے کسی پیش رو سے وجود میں آئی ہے۔ماضی میں پہلے سے موجود ایک نوع وقت کے ساتھ ساتھ کسی اور شے میں تبدیل ہو گئی اور تمام انواع اسی طرح سے وجود میں آئیں۔اس نظریے کی رو سے یہ قلب ماہیت یا تبدیلِ ہئیت بتدریج آگے بڑھتی ہے جس میں کئی ملین برس لگتے ہیں۔

اگر واقعتاً ا یسا تھا تو تبدیلِ ہئیت کے اس طویل دور میں درمیانی حالت پر قائم بیشمار انواع زندہ رہی ہوں گی۔

مثال کے طور پر ماضی میں چند نصف مچھلی/ نصف رینگنے والے جانور ضرور گزرے ہوں گے جن میں مچھلیوں کے اوصاف پہلے سے ہی موجود تھے اور اِن اوصاف کے ساتھ ساتھ انہوں نے رینگنے والے جانوروں کی کچھ خصوصیات بھی حاصل کر لی تھیں۔یا چندایسے خزندہ۔ پرندے (reptile-birds) زندہ رہے ہوں گے جنھوں نے پہلے سے موجود رینگنے والے جانوروں کے اوصاف کے ساتھ ساتھ پرندوں کے کچھ اوصاف بھی اپنا لئے تھے۔چونکہ یہ جانور عبوری مرحلے میں تھے اس لئے وہ معذور، نامکمل اور اپاہج رہے ہوں گے۔ارتقاء پرست ان تخیلاتی جانداروں کو،جن کے متعلق انہیں یقین ہے کہ وہ ماضی میں موجود تھے، ’عبوری اشکال ‘ (Transitional forms)کا نام دیتے ہیں۔

اگر ایسے جانور واقعی موجود تھے تو ان کی تعداد اوراقسام کروڑوں حتیٰ کہ اربوں میں ہونی چاہیے۔زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان عجیب و غریب جانوروں کی باقیات فوصل ریکارڈ میں بھی پائی جانی چاہئیں۔اپنی کتاب ’انواع کی ابتدا‘ میں ڈارون نے وضاحت کی:

’اگر میرا نظر یہ سچاہے تو جانداروں کی لاتعداد عبوری قسمیں، جو ایک گروہ کی تمام انواع کو آپس میں منسلک کرتی ہیں، یقیناً زندہ رہی ہوں گی۔یہی وجہ ہے کہ ان کی سابقہ موجودگی کا ثبوت صرف آثارِ متحجرہ میں ہی مل سکتا ہے۔‘۴۳

ڈارون کی امیدوں پر پانی کا پھرنا

گو انیسویں صدی کے وسط سے ارتقاء پرست دنیا بھر میں فوصل تلاش کرنے کی ان تھک کوشش کر رہے ہیں، تاہم،آج تک کوئی عبوری شکلیں پردۂ اخفا سے نکل کر سامنے نہیں آئیں۔ کھدائی کے ذریعے بر آمد ہونے والے تمام فوصل سے پتا چلا کہ ارتقاء پرستوں کی توقعات کے بر عکس زندگی کرۂ ارض پر اچانک اور کامل شکل میں نمودار ہوئی۔ مشہور برطانوی ماہرِ حجریات Derek V.Agerارتقاء پسند ہونے کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے۔

’ اصل نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم فو صل ریکارڈ کا مفصل مطالعہ کریں،خواہ وہ (صنف بندی میں )درجوں (Orders)کی سطح پر ہو یا انواع (species)کی سطح پر، ہم بار بار یہ دیکھتے ہیں کہ درجہ بہ درجہ ارتقاء سے گزرنے کے بجائے ایک گروہ دوسرے گروہ کے مفقود ہو جانے کے بعد اچانک بڑی تعداد میں نمودار ہوا۔‘۴۴

اس کا مطلب یہ ہے کہ فوصل ریکارڈ کے مطابق تمام جاندار اپنی مکمل شکل میں بغیر کسی درمیانی حالت کے اچانک نمودار ہوئے۔یہ امر ڈارون کے مفروضات کے عین بر عکس ہے۔اس کے علاوہ یہ اس بات کا طاقتور ثبوت بھی ہے کہ جاندار تخلیق کیے گئے ہیں۔کسی بھی جاندار کے کسی ارتقائی جدِ امجد کے بغیر اچانک ہر جزو میں کامل نمودار ہونے کی واحد توجیہہ یہی ہے کہ اُسے تخلیق کیا گیا ہے۔ مشہور ارتقائی ماہر حیاتیات Douglas Futuyamaبھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔

’نظریہ تخلیق اور نظریہ ارتقاء کے مابین جاندار اشیاء کی ابتدا سے متعلق تمام ممکنہ تشریحات پیش ہو چکی ہیں۔ جاندار زمین پر یا تو پوری طرح بالیدہ (کامل )نمودار ہوئے یا ایسا نہیں ہوا۔ اگر وہ مکمل حالت میں نمودار نہیں ہوئے تو پھر وہ لازماً پہلے سے موجود ایک نوع میں سے کسی ترمیمی عمل کے ذریعے بالیدہ ہو گئے ہوں گے۔اور اگر وہ مکمل بالیدہ حالت(fully developed state) میں نمودار ہوئے تھے تو پھر یقیناً انہیں کسی قادر کل فہیم ہستی نے تخلیق کیا ہو گا۔‘ ۴۵

فوصل اس امر کا واضح ثبوت پیش کرتے ہیں کہ جاندار پوری طرح بالیدہ اور مکمل حالت میں زمین پر نمودار ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’ جانداروں کی ابتداء ‘ ڈارون کے قیاس کے بر عکس بذریعہ ارتقاء نہیں بلکہ بذریعہ تخلیق ہوئی۔

انسانی ارتقاء کا افسانہ

وہ جسے نظریۂ ارتقاء کے حامی جس موضوع کو بالعموم زیرِ بحث لاتے ہیں وہ ’انسان کی ابتداء ‘(origin of man)ہے۔ڈارونی نظریے کا دعویٰ ہے کہ دورِ حاضر کے جدید انسان ماضی کے بوزنہ نما (ape-like)جانوروں سے بذریعہ ارتقاء وجود میں آئے۔یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آج سے چار یا پانچ ملین برس قبل شروع ہونے والے اس قیاسی عملِ ارتقاء کے دوران جدید انسان اور اس کے آباؤ اجداد کے درمیان کچھ ’عبوری شکلیں ‘ زمین پر رہی تھیں۔یہ ایک مکمل طور پر تخیلاتی منظر نامہ ہے جس کے مطابق چار بنیادی ’ زمرے‘ فہرست کئے گئے ہیں۔

۱۔ آسٹرالوپیتھیکس(Australopithecus)

۲۔قدیم انسان(Homo habilis)

۳۔سیدھا کھڑا ہو کر چلنے والا انسان (Homo erectus)

۴۔موجودہ انسان(Homo sapiens)

ارتقاء پرست انسانوں کے نام نہاد اولین بندر نما آباؤ اجداد کو ’آسٹرالو پیتھیکس‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ’ جنوب افریقی بوزنہ ‘ ہے۔ یہ جاندار دراصل بوزنے کی ایک قدیم قسم کے سوا اور کچھ نہیں جو اب ناپید ہو چکی ہے۔برطانیہ اور امریکا کے دو عالمی شہرت یافتہ ماہرینِ علم تشریح الاعضاء Lord Solly Zuckermanاور Professor Charles Oxnardکی آسٹرالو پیتھیکس کے مختلف نمونوں پر کی گئی جامع تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ جانور عام بوزنوں کی نوع سے تعلق رکھتے تھے جو ناپید ہو گئی اور انسانوں سے کسی قسم کی مشابہت نہیں رکھتے تھے۔

ارتقاء پرست انسانی ارتقاء کے اگلے مرحلے کو ’ہومو‘ یعنی ’انسان‘ کے درجے میں رکھتے ہیں۔ارتقاء پرستوں کے دعوے کے مطابق ’ہومو‘ سلسلے کے جاندار آسٹرالوپیتھیکس کی نسبت زیادہ بالیدہ ہیں۔ ارتقاء پرست اِن مخلوقات کے مختلف رکازات (fossils)کو خاص ترتیب سے رکھ کر ایک قیاسی ارتقائی خاکہ بناتے ہیں۔یہ خاکہ تصوراتی ہے کیونکہ یہ کبھی بھی ثابت نہیں ہوا کہ ہومو سلسلے کے مختلف زمروں کے درمیان کسی قسم کا ارتقائی تعلق موجود ہے۔ بیسویں صدی میں نظریۂ ارتقاء کے ممتاز ترین حامیوں میں سے ایک حامی ارنسٹ میر (Ernst Mayr)اس حقیقت کا ان الفاظ میں اقرار کرتا ہے :’جدیدانسان تک پہنچنے والی کڑی دراصل گم ہو گئی ہے۔‘۴۷

ارتقاء پرست چاروں متذکرہ کڑیوں کا یوں خاکہ بنا کر:’ آسٹرالوپیتھیکس <قدیم انسان<سیدھا کھڑا ہو کر چلنے والا انسان<موجودہ انسان، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک نوع دوسری نوع کی جدِ امجد ہے۔تاہم قدیم انسان پر تحقیق کرنے والے ماہرینِ کی حالیہ دریافتوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ آسٹرالوپیتھیکس،قدیم انسان اور سیدھا کھڑے ہو نے والے انسان ایک ہی وقت میں دنیا کے مختلف حصوں میں پائے جاتے تھے۔۴۸

مزید برآں انسانوں کا ایک خاص گروہ جو Homo erectus کے درجے میں آتا ہے، جدید عہد تک زندہ تھا۔Homo sapiens neandarthalensisاور Homo sapiens sapiens (جدید آدمی) ایک ہی خطے میں ایک سا تھ آباد تھے۔۴۹

یہ صورتِ حال اس دعوے کو مسترد کرتی ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کے آباؤ اجداد تھے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ قدیم حیاتیات Stephen Jay Gould ارتقاء پرست ہونے کے باوجود نظریہ ارتقاء میں اس گتھی کے بارے میں کہتا ہے :

’ اگر نوعِ انسانی کی تین نسلیں (اے افریقی، تنومند جنوب افریقی بندر اور قدیم انسان) ایک ہی دور میں موجود رہیں اور ان میں سے ایک بھی نسل واضح طور پر دوسری نسل میں سے نہیں نکلی تو ہمارے زینے(سلسلۂ مدارج) کا کیا بنا؟ مزید برآں ان تینوں میں سے کسی ایک نے بھی زمین پر اپنے عرصۂ زندگی میں کوئی ارتقائی رجحانات نہیں دکھائے۔‘ ۵۰

مختصراً،ارتقائے انسان کا یہ افسانہ جو میڈیا یا کورس کی کتابوں میں ’نیم بندر، نیم انسان‘ جانوروں کی مختلف تصاویر بنا بنا کر جھوٹی اور مبالغہ آمیز اشاعت کے ہتھمقیکنڈے استعمال کرتے ہوئے اچھالا گیا ہے، سائنسی بنیاد سے محروم ایک کہانی کے سو اور کچھ نہیں۔

بر طانیہ کے سب سے نامور اور محترم سائنسدانوں میں سے ایک سائنسدان لارڈ سولی ذکرمان Lord Solly Zuckerman جنھوں نے اس موضوع پربرسوں تک تحقیق کی اور آسٹرالوپیتھیکس فوصل کا پندرہ برس تک بالخصوص مطالعہ کیا، ارتقاء پرست ہونے کے باوجود بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ حقیقت میں ایسا کوئی شجرہ نصب پایا نہیں جاتا جو انسانوں کو بوزنہ نما مخلوق سے ملاتا ہو۔

Zuckerman نے ایک دلچسپ ’ سائنسی طیف‘ بنایا۔یہ طیف ان علوم پر مشتمل تھا جنہیں وہ سائنسی یا غیر سائنسی سمجھتا تھا۔ اس طیف کے مطا ہو ھور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدبق ’انتہائی سائنسی ‘ (the most scientific) علوم وہ ہیں جن کی بنیاد ٹھوس اعداد و شمار پر ہو جیسے کہ کیمیا اور طبیعیات۔ان کے بعد حیاتیاتی علوم اور بھر معاشرتی علوم آتے ہیں۔اس طیف کے آخری سرے پر،جسے سب سے زیادہ ’غیر سائنسی‘ تصور کیا جاتا ہے، ’ اضافی حسی ادراک‘ (extra-sensory perceptions)یعنی ٹیلی پیتھی اور چھٹی حس جیسے تصورات رکھے گئے ہیں۔ سب سے آخر میں ’انسانی ارتقاء‘ کا اندراج کیا گیا ہے۔Zuckerman اپنے استدلال کو یوں پیش کرتا ہے۔

’ہم پھر معروضی سچ کی فہرست سے ہٹ کر سیدھا فرضی حیاتیاتی سائنس کے ایسے شعبوں مثلاً ماورائے حسی ادراک (extrasensory perception) یا انسانی رکاز کی تاریخ کی تشریح،کی جانب بڑھتے ہیں کہ جہاں اہلِ یقین ( ارتقاء پرست) کے لئے ہر چیز کا ہونا ممکن ہے۔اور جہاں (ارتقاء پر) پختہ یقین رکھنے والا بعض اوقات ایک ہی وقت میں بہت سی متضاد باتوں پر یقین کر لیتا ہے۔ ‘۵۱

انسانی ارتقاء کی یہ کہانی زمین سے بر آمد ہونے والے چند رکازوں کی بابت معتصبانہ توضیحات سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ رکاز یا فوصل ایسے لوگوں نے دریافت کیے جو اپنے نظریے سے بلا سوچے سمجھے، اندھوں کی طرح چپکے ہوئے ہیں۔

آنکھ اور کان کا فنی نظام

ایک اور موضوع جس کا جواب نظریہ ارتقاء کی جانب سے اب تک موصول نہیں ہوا، آنکھ اور کان کی قوتِ ادراک کا بہترین معیار ہے۔

آنکھ کے موضوع کی طرف آنے سے پہلے آئیے ہم اس سوال کا مختصراً جواب دیتے ہیں کہ ’ہم کس طرح دیکھتے ہیں ‘۔کسی شے سے نکلنے والی شعاعیں پردۂ چشم پر اوپر سے نیچے کی سمت پڑتی ہیں۔یہاں روشنی کی یہ کرنیں خلیوں کے ذریعے برقی اشاروں میں تبدیل ہو جاتی ہیں ا ور وہ دماغ کے عقب میں واقع ایک چھوٹی سی جگہ پہنچ جاتے ہیں جسے مرکزِ نگاہ کہتے ہیں۔دماغ کے اس مرکز میں ان برقی اشاروں کا ادراک مسلسل کئی مراحل سے گزرنے کے بعد تصویر کی شکل میں کیا جاتا ہے۔اس تکنیکی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے، آئیے ہم کچھ غور و فکر کرتے ہیں۔

دماغ روشنی سے محجوز(insulated) ہوتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دماغ کا اندرونی حصہ بالکل تاریک ہے اور روشنی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتی جہاں دماغ واقع ہے۔وہ جگہ جسے مرکز نگاہ (centre of vision)کہتے ہیں مکمل طور پر تاریک ہے جہاں تک روشنی کبھی نہیں پہنچ پاتی۔یہ شاید اس قدر تاریک مقام ہے جتنا تاریک مقام کوئی اور آپ نہ جانتے ہوں۔تاہم، ہم اس تاریک ترین جگہ میں بھی ایک روشن ترین چمکتی دمکتی دنیا دیکھ سکتے ہیں۔

آنکھ میں بننے والی تصویر(image) اس قدر واضح اور نمایاں ہوتی ہے کہ بیسویں صدی کی ٹیکنالوجی بھی ایسی صاف اور واضح شبیہ بنانے سے قاصر ہے۔مثال کے طور پر آپ جس کتاب کو پڑھتے ہیں اسے دیکھیں،اُن ہاتھوں پر نظر ڈالیں جن سے آپ کتاب کو تھامتے ہیں، اب اپنا سر اٹھائیں اور ارد گرد نظر ڈالیں۔۔۔کیا آپ نے اس قدر صاف اور نمایاں شبیہ کسی اور جگہ دیکھی ہے؟ یہاں تک کہ ٹی وی کی سب سے ترقی یافتہ سکرین بھی،جسے دنیا کے کسی بہترین ٹی وی کے صنعتکار نے بنایا ہو، آپ کوایسی واضح شبیہ نہیں دے سکتی۔ یہ شبیہ سہ ابعادی (three-dimensional)، رنگین اور انتہائی واضح ہوتی ہے۔ ایسی واضح شبیہ حاصل کرنے کے لئے ہزاروں انجینئر سو سال سے زائد عرصے سے کوشاں ہیں۔اس مقصد کے حصول کے لئے بڑے بڑے رقبوں پر کارخانے قائم کئے گئے، کافی تحقیق کی گئی اور کئی منصوبے اور ڈیزائن تیار کئے گئے ہیں۔آپ ایک بار پھر ٹی وی سکرین اور اپنے ہاتھوں میں تھامی کتاب پر نظر دوڑائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ دونوں کے صاف تیز اور واضح ہونے میں گہرا فرق ہے۔علاوہ ازیں ٹی وی سکرین آپ کو دو ابعادی(two-dimensional) عکس دکھاتا ہے جبکہ آپ اپنی آنکھوں سے سہ ابعادی منظر دیکھ سکتے ہیں جس میں اشیاء لی لمبائی اور چوڑائی کے علاوہ گہرائی بھی ہوتی ہے۔

کئی برسوں سے ہزاروں انجینئر سہ جہتی ٹی وی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انسانی آنکھ میں بننے والی تصویر کے معیار تک پہنچ سکیں۔یہ درست ہے کہ انھوں نے ایک سہ ابعادی ٹی وی نظام بنا لیا ہے لیکن آنکھوں پر مخصوص عینک چڑھائے بغیر اسے دیکھنا ممکن نہیں۔مزید برآں یہ محض ایک مصنوعی سہ ابعاد ہے جس کا پسِ منظر بڑا دھندلا اور پیش منظر ایک کاغذی سا منظر لگتا ہے۔آنکھ کی طرح کی واضح اور نمایاں تصویر تیار کر لینا کبھی ممکن ہو ہی نہیں سکا۔ کیمرہ اور ٹی وی دونوں میں تصویر کا معیار گر جاتا ہے۔

ارتقاء پرستوں کا دعویٰ ہے کہ واضح اور نمایاں شبیہ تیار کرنے والا میکانیکی عمل اتفاقاً وجود میں آیا۔اب اگر آپ سے کوئی یہ کہے کہ آپ کے کمرے میں رکھا ٹیلی وژن ’اتفاق‘ سے بن گیا، اس کے سارے جوہر اتفاق سے یکجا ہو گئے اور انھوں نے تصویر پیش کرنے والا یہ آلہ بنا ڈالا، تو آپ کیا سوچیں گے؟ جوہر وہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہیں جو ہزاروں افراد نہیں کر سکتے ؟

اگر ایک ایسا آلہ جو آنکھ کی نسبت زیادہ نا پختہ تصویر پیش کرتا ہے اتفاقاً متشکل نہیں ہوسکتا تھا تو پھر یہ بات بالکل عیاں ہے کہ آنکھ اور آنکھ میں بننے والی تصویر بھی اتفاقاً متشکل نہیں ہوسکتی۔ یہی صورت حال کان سے متعلق ہے۔ کان کا بیرونی حصہ ارد گرد کی آوازوں کو لالہ گوش (auricle)کے ذریعے پکڑ لیتا ہے اور انہیں کان کے درمیانی حصے کی سمت بھیج دیتا ہے ؛کان کا یہ درمیانی حصہ صوتی ارتعاشات میں شدت پیدا کر کے کان کے اندرونی حصے تک اِن کی ترسیل کرتا ہے؛ کان کا اندرونی حصہ ان ارتعاشات کو برقی اشاروں میں بدل کر دماغ کو بھیج دیتا ہے۔ آنکھ کی طرح،سماعت کا عمل بھی دماغ کے مرکزِ سماعت میں جا کر باقی کے مراحل طے کرتا ہے۔

کان کی صورتِ حال بھی آنکھ کی اندرونی صورتحال کی مانند ہے۔یعنی دماغ آواز سے اُسی طرح منفصل ہوتا ہے جس طرح روشنی سے محجوز ہوتا ہے: یعنی وہ کسی آواز کو اپنے اندر داخل ہونے نہیں دیتا۔ چنانچہ باہر چاہے کتنا ہی شور و غل کیوں نہ ہو دماغ کا اندرونی حصہ مکمل طور پر خاموش اور بے آواز ہوتا ہے۔ اس کے باوجود دماغ میں واضح ترین آوازیں ادراک پاتی ہیں۔آواز سے محجوز اپنے اس دماغ میں آپ آرکیسٹرا کی دھنیں سنتے ہیں اور پر ہجوم مقام کا شور و غل بھی سنائی دیتا ہے۔ تاہم اگر اسی لمحے کسی مناسب آلے سے آپ کے دماغ میں آواز کی سطح کی پیمائش کی جائے تو معلوم ہو گا کہ وہاں مکمل خاموشی چھائی ہے۔

جیساکہ تصویر کے حوالے سے بات ہوئی،کئی دہائیوں سے ایک ایسی آواز پیدا کرنے اور اس کا اعادہ کرنے کی بھی کوشش کی جاتی رہی ہے جو اصل سے قریب تر ہو۔ ان کوششوں کا نتیجہ آواز کو محفوظ کرنے کے آلات، آواز کو من و عن دہرانے کے نظام (high-fidelity systems)اور آواز کا ادراک کرنے کی مشینوں کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ لیکن تمام تر ٹیکنالوجی اور ہزاروں انجینئر اور ماہرین کے مصروفِ کار رہنے کے باوجود اب تک ایسی واضح اور صاف آواز حاصل نہیں ہو سکی ہے جتنی کہ کان خود وصول کرتا ہے۔ موسیقی کی صنعت میں سب سے بڑی کمپنی کے تیار کردہ اعلیٰ ترین معیار کے ہائی فائی نظام(آواز کو عین مطابق اصل دہرانے کے آلات) HI-FI systems کا تصور کیجئے۔ ان آلات میں جب بھی آواز کو ریکارڈ کیا جاتا ہے تو اس کا کچھ حصہ ضائع ہو جاتا ہے یا جب آپ ہائی فائی کا بٹن دباتے ہیں تو آپ کو موسیقی کے آغاز سے قبل ہمیشہ ایک سسکاری سنائی دیتی ہے۔ تاہم انسانی جسم کی ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والی آوازیں نہایت واضح اور صاف ہوتی ہیں۔ انسانی کان میں پڑنے والی آواز کبھی بھی کسی سسکاری یا فضائی انتشار(atmospherics) کے ساتھ سنائی نہیں دیتی جیسا کہ ہائی فائی آلات میں سنائی دیتی ہے۔کان آواز کا بالکل اسی طرح ادراک کرتا ہے جس طرح کہ وہ ہوتی ہے یعنی واضح اور صاف۔جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے اسی طرح ہو رہا ہے۔

آج تک،انسان کا تیار کردہ کوئی بھی بصری یا سمعی آلہ حسیائی معلومات کا ادراک کرنے میں آنکھ اور کان جتنا حساس اور کامیاب نہیں ہو سکاہے۔

تاہم جہاں تک دیکھنے اور سننے کی صلاحیتوں کا تعلق ہے، ان سے آگے کئی گنا زیادہ عظیم حقیقت موجود ہے۔

وہ شعور جو درونِ دماغ دیکھتا اور سنتا ہے کس کی ملک ہے؟

دماغ کے اندر وہ کیا چیز ہے جو اس پرکشش دنیا کو دیکھتی،دھنیں اور چڑیوں کی چہچہاہٹ سنتی اور گلاب کی مہک کو سونگھتی ہے؟

انسان کی آنکھوں، کانوں اور ناک سے داخل ہونے والے ہیجانات یا تحرکات برقی کیمیائی اعصابی لہروں (electro-chemical nervous impulses)کی شکل میں دماغ کی طرف سفر کرتے ہیں۔ حیاتیات، فعلیات اور حیاتی کیمیا کی کتابوں میں آپ کو اس کی بابت بہت سی تفصیلات ملیں گی کہ دماغ میں تصویر کیسے متشکل ہوتی ہے۔تاہم اس موضوع پر ان کتابوں میں یہ اہم ترین حقیقت کبھی نہیں ملے گی کہ دماغ میں اِن برقی کیمیائی اعصابی لہروں کا شبیہات، اصوات،بو اور حسیائی صورت کے طور پر کون ادراک کرتا ہے؟ دماغ کے اندر ایک ایسا شعور موجود ہے جو آنکھ، کان اور ناک کی ضرورت محسوس کیے بغیر ان تمام احساسات کا ادراک کر لیتا ہے۔ یہ شعور کس کی ملک ہے؟ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اس شعور کا اعصاب (nerves)، چربی کی تہ اور عصبی خلیات، جن پر دماغ مشتمل ہے، سے کوئی تعلق نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ڈارون کی حمایت کرنے والے مادہ پرست جن کا ایمان ہے کہ ہر شے مادے پر مشتمل ہے، ان سوالات کا کوئی جواب پیش نہیں کر سکتے۔

کیونکہ یہ شعور ’روح‘ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا۔ اس روح کو شبیہ دیکھنے کے لیے نہ تو آنکھوں کی ضرورت ہے نہ ہی آواز سننے کے لئے کان کی۔ علاوہ ازیں اسے سوچنے کے لئے دماغ کی بھی ضرورت نہیں۔

اِس واضح سائنسی حقیقت کا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ قادرِ مطلق اﷲ تعالیٰ کے متعلق غور و فکر کرے، اس سے ڈ رے اور اس کی پناہ طلب کرے۔اللہ تعالیٰ ساری کائنات کو محض چند مربع سینٹی میٹر پر مشتمل ایک انتہائی اندھیری جگہ میں سہ ابعادی، رنگین، سایہ دار اور روشن صورت میں سمو دیتا ہے۔

مادہ پرست ایمان

اب تک ہم نے جو معلومات فراہم کی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ نظریۂ ارتقاء ایک ایسا دعویٰ ہے جو واضح طور پر سائنسی تحقیق کے برخلاف ہے۔ ابتدائے حیات کے بارے میں اس نظریے کا دعویٰ سائنس کے ساتھ میل نہیں کھاتا، اس کے تجویز کردہ ارتقائی میکانیکی عمل کوئی ارتقائی قوت نہیں رکھتے اور رکازات یہ ثابت کرتے ہیں کہ درمیانی اشکال جو اس نظریے کا جواز بن سکتی تھیں ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا۔چنانچہ یہ لازم ہے کہ نظریۂ ارتقاء کو ایک غیر سائنسی خیال سمجھ کر مسترد کر دیا جائے۔تاریخ میں بہت سے نظریات مثلاً زمین کو کائنات کا مرکز سمجھنا اسی طرح سائنسی ایجنڈے سے خارج کر دیئے گئے۔

مگر نظریۂ ارتقاء جبراً سائنس کے ایجنڈے میں رکھا جاتا ہے حتیٰ کہ کچھ لوگ اس نظریے پر ہونے والی تنقید کو ’سائنس پر حملہ‘ قرار دیتے ہیں۔آخر کیوں ؟

اس کا سبب یہ ہے کہ بعض حلقوں کے نزدیک نظریۂ ارتقاء ایک ناگزیر، پختہ اور اٹل عقیدہ ہے۔ یہ حلقے مادہ پرست فلسفے کے اندھا دھند معتقد ہوتے ہیں اور ڈارونیت یہ سوچ کر اپناتے ہیں کہ صرف یہی وہ واحد مادی فلسفہ ہے جو کار خانۂ قدرت کی کارکردگی واضح کر سکتا ہے۔

یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایسے لوگ اس حقیقت کا خود بھی وقتاً فوقتاً اقرار کرتے رہتے ہیں۔ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور ماہرِ جینیات اور صاف گو ارتقاء پرست رچرڈ سی لیونٹن Richard C.Lewontinاقرار کرتا ہے کہ وہ سب سے پہلے ایک مادہ پرست اوراس کے بعد ایک سائنس دان ہے۔

’ایسانہیں ہے کہ ہم نے مظاہراتی دنیا کی مادی توضیح سائنس کے طریق کار اور قوانین سے مجبور ہو کر تسلیم کی ہے۔بلکہ اس کے برعکس مادی اسباب کے ساتھ ہماری استخراجی وابستگی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم باضابطہ تحقیق اور نظریات کا ایک ایسالائحہ عمل تیار کریں جو مادی توضیحات سامنے لائے، خواہ یہ توضیحات ناآشنا کے لئے کتنی ہی غیر وجدانی اور پراسرار ہی کیوں نہ ہوں۔مزید برآں مادیت ایک قطعی حقیقت ہے اور ہم کسی الہامی تصور کو اندر آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘۵۲

اس طرح کے صریح بیانات واضح کرتے ہیں کہ ڈارونیت کسی ثبوت کے بغیر تسلیم کیا گیا ایسا عقیدہ ہے جسے صرف اس لئے زندہ رکھا گیا ہے کہ اس سے مادہ پرستی کو تقویت ملتی ہے۔ یہ عقیدہ دعویٰ کرتا ہے کہ مادے کے سوا کوئی اور ہستی موجود نہیں ہے اس لئے یہ مصر ہے کہ زندگی کو بے جان اور بے شعور مادے نے وجود عطا کیا ہے۔ یہ بضد ہے کہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں موجود زندہ انواع مثلاً پرندے، مچھلیاں، زرافے، چیتے، کیڑے مکوڑے، اشجار، پھول، وہیل مچھلیاں اور انسان غیر جاندار مادے سے وجود میں آئیں۔ زندگی نے برستی بارش اور کڑکتی بجلی کے باہمی تعاملات کے نتیجے میں بے جان مادے سے جنم لیا۔یہ بات سائنس اور استدلال دونوں سے متصادم ہے۔ اس کے باوجود ڈارونیت کے علمبردار اس کا دفاع صرف اس لئے کرتے ہیں تاکہ وہ ’ الہامی تصور کو اندر آنے سے روک سکیں۔‘

جو شخص جانداروں کی ابتداء کو مادہ پرستانہ تعصب کی نظر سے نہیں دیکھتا ہے و ہ اس حقیقی سچائی کو پہچان لے گاکہ ساری زندہ مخلوق ایک خالق کی کاریگری ہے جو کل قوت، حکیم اور علیم ہے۔ یہ خالق اللہ تعالیٰ ہے جو ساری کائنات کو عدم سے وجود میں لایا،اسے کامل شکل عطا کی اور تمام زندہ چیزوں کو اپنی حکمت کے مطابق خاص وضع بخشی۔

’انہوں نے عرض کیا نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے۔ ہم بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔‘

(سورۃ البقرہ:۳۲)

٭٭

مکڑی پر ہی کتاب کیوں ؟

ہو سکتا ہے کہ بعض قارئین یہ خیال کریں گے کہ اس کتاب کا موضوع ان کے نزدیک دلچسپ نہیں۔وہ یہ سوچیں گے کہ ایک ننھے سے کیڑے پر مبنی کتاب میں ان کے لئے کچھ نہیں رکھا اور مصروف رفتارِ زندگی میں ان کے پاس ایسی کتاب کے مطالعے کا وقت بھی نہیں بچتا۔

ہو سکتا ہے یہی لوگ پھر یہ محسوس کریں کہ معاشی اور سیاسی تحقیق پر کتب یا ایک ناول، نسبتاً زیادہ دلکش اور ’’کارآمد‘‘ ہو ں گے۔ یا پھر وہ خیال کریں گے کہ دیگر مضامین پر کتابیں ان کے لئے زیادہ دلچسپی کا باعث ہوں گی۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب جو اس وقت قاری کے ہاتھ میں ہے ان بیشمار کتابوں سے زیادہ ’مفید‘ ثابت ہو گی جن کا وہ اب تک مطالعہ کر چکا ہے اور اُن سے کہیں زیادہ معلومات پیش کرے گی۔ کیونکہ یہ کتاب، حیاتیات (Biology) کی درسی کتاب نہیں جو ایک ننھے سے جانور ’ مکڑی ‘ پر مفصل معلومات فراہم کرنے کے لئے تحریر کی گئی ہو۔ کتاب کا موضوع ’مکڑی‘ ضرور ہے مگر اس کی اصل اہمیت زندگی کی اس اصلیت سے وابستہ ہے کہ جسے یہ بے نقاب کرتی ہے، اور اس پیغام میں پوشیدہ ہے جو یہ پیش کرتی ہے۔

بالکل ایک چابی کی طرح۔۔۔ چابی ایک ایسا آلہ ہے جو بذاتِ خود بہت غیر اہم ہے۔ اگر آپ یہ کسی ایسے شخص کو تھما دیں جس نے یہ پہلے کبھی نہ دیکھی ہو اور اسی لاعلمی کی بناء پر چابی اور تالے کے باہمی تعلق سے بھی ناواقف ہو تو اسے اپنے ہاتھ میں تھمائی گئی یہ چیز (چابی) بے معنی اور لوہے کا ایک بے کار ٹکڑا معلوم ہو گی۔ حالانکہ اگر دروازے کے پیچھے کوئی بہت ہی قیمتی چیز، تالے میں بند کر کے رکھی گئی ہو تو اس موقع پر(اس تالے کی) چابی ہی دنیا کی سب سے قیمتی شے ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ کتاب لکھنے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ مکڑی کو کتاب کا موضوع بنا دیا جائے، بلکہ یہاں اسے بطور ’چابی‘ استعمال میں لانا ہے اور اس چابی سے کھلنے والے دروازے کے پیچھے واقع حقیقت(reality) وہ عظیم ترین سچائی ہے جسے کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں کسی بھی وقت دریافت کر سکتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ بنی نو انسان اور کائنات، جس کے وہ (انسان) مکین ہیں،آخری (یعنی معمولی اور مختصر ترین) جزو تک صرف اور صرف ایک ہی خالق، اللہ تعالیٰ نے تخلیق کئے ہیں۔ان کا اپنا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے، اور انہیں اسی خالق کا اقرار کرنے اور اسی کی حمد و ثنا کے لئے یہ وجود بخشا گیا ہے۔چنانچہ کبھی کبھار کسی شخص کوسچا راستہ دکھانے کے لئے صرف ایک ہی دروازہ کھول دینا کافی ہوتا ہے۔ کائنات میں سے اخذ کیا گیا ایک حصہ، مثال کے طور پر ایک پودا یا جانور، سچائی کے متلاشی کو تمام کائنات کو سمجھ لینے کے قریب لا سکتا ہے۔

یہ کتاب، جو مکڑی کی ایسی حیران کن اور ناقابلِ یقین خصوصیات بیان کرتی ہے جو بہت کم لوگ جانتے ہیں، اور جو دورانِ بیان ’کیسے‘ اور ’کیوں ‘ جیسے سوالات بھی اٹھاتی ہے، اسی بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ صرف یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب ان بیشمار کتابوں سے زیادہ اہم ہے جن کا آپ اب تک مطالعہ کر چکے ہیں کیونکہ ’غور و فکر کرنے والوں ‘ میں شامل ہو جانا کسی بھی شے سے زیادہ ضروری ہے۔

٭٭٭

حوالے

1. Richard Dawkins, Climbing Mount Improbable, W.W. Norton & Company,1996, p.4.

2. Gordon Rattray Taylor, The Great Evolution Mystery, Harper and Row Publishers, 1983, p 222.

3. Charles Darwin, The Origin of Species: A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press,1964, p. 233

4. Gardner Soul, Strange Things Animals Do, G..P.Putnam’s Son, New York, 1970, p.89

5. Gardner Soul, Strange Things Animals Do, G..P.Putnam’s Son, New York, 1970, p.90

6. Liz Bomford, Camuflage and Colour, Boxtree Ltd., London, 1992, p.108

7. The Guinness Encyclopedia of the Living World, Guinness Publishing, s.164

8. National Geographic, November 1996, Vol.190, No.5, p.106

9.National Geographic, November 1996, Vol.190, No.5, p.111

10.Bilim ve Teknik Gorsel Bilim ve Teknik Ansiklopedisi (Science and Technology Gorsel Science and Technology Encyclopedia), p.494, 495

11.Bates Hayvanlar Ansiklopedisi (Bates Encyclopedia of Animals), p.244

12.Natural History, Tools of the Trade, 3/95, p.48

13.National Geography, All Eyes on Jumping Spiders, September 1991, pp.43-64

14.Natural History, Samurai Spiders, 3/95, p.45

15.Natural History, Samurai Spiders, 3/95, p.45

16.National Geography, All Eyes on Jumping Spiders, September 1991, p.51

17.Karl Von Frisch, Ten Little Housemates, Pergamon Press, London, 1960, p.110

18.Bilim ve Teknik Dergisi (Journal of Science and Technology), no 190, p.4

19.Cemal Yildirim, Evrim Kurami ve Bagnazlik (The Theory of Evolution and Bigotry), Bilgi Yayinlari, p.195

20.Bilim ve Tenik Gorsel Bilim veTeknik Ansiklopedisi (Science and Technology Gorsel Science and Technology Encyclopedia), p.1087

21.Technology Review, Synthetic Spider Silk, October 1994, p.16

22.Discover, How Spiders Make Their Silk, October 1998, p.34

23.Discover, How Spiders Make Their Silk, October 1998, p.34

24.Endeavour, The Structure and Properties of Spider Silk, January 1986, no 10, p. 37

25.Scientific American, Spider Webs and Silks, March 1992, p.70

26.Science News, Computer Reveals Clues to Spiderwebs, 21 January 1995

27.Scientific American, Spider Webs and Silks, March 1992, p.70

28.Bilim ve Teknik Dergisi (Journal of Science and Technology), No 342, May 1996, p.100

29.Science et Vie, L’economie de la toile d’araignee, January 1999, No.976, p.30

30.Scientific American, Spider Webs and Silks, March 1992, p.74

31.Bilim ve Teknik Gorsel Bilim veTeknik Ansiklopedisi (Science and Technology Gorsel Science and Technology Encyclopedia), p.1090

32.Bilim ve Teknik Gorsel Bilim veTeknik Ansiklopedisi (Science and Technology Gorsel Science and Technology Encyclopedia), p.1088

33.Hugh Ross, The Fingerprint of God, p.50

34.Sidney Fox, Klaus Dose, Molecular Evolution and The Origin of Life, New York: Marcel Dekker, 1977.p.2

35.Alexander I. Oparin, Origin of Life, (1936) New York, Dover Publications, 1953 (Reprint), p.196

36."New Evidence on Evolution of Early Atmosphere and Life", Bulletin of the American Meteorological Society, Vol 63, November 1982, p.1328-1330

37.Stanley Miller, Molecular Evolution of Life: Current Status of the Prebiotic Synthesis of Small Molecules, 1986, p.7

38.Jeffrey Bada, Earth, February 1998, p.40

39.Leslie E. Orgel, "The Origin of Life on Earth", Scientific American, Vol 271, October 1994, p.78

40.Charles Darwin, The Origin of Species: A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, p.189

41.Charles Darwin, The Origin of Species: A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, p.184

42.B.G. Ranganathan, Origins?, Pennsylvania: The Banner Of Truth Trust, 1988

43.Charles Darwin, The Origin of Species: A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, p.179

44.Derek A. Ager, "The Nature of the Fossil Record", Proceedings of the British Geological Association, vol 87, 1976, p.133

45.Douglas J. Futuyma, Science on Trial, New York: Pantheon Books, 1983.p.197

46.Solly Zuckerman, Beyond The Ivory Tower, New York: Toplinger Publications, 1970, p.75-94; Charles E. Oxnard, "The Place of Australopithecines in Human Evolution: Grounds for Doubt,", Nature, Cilt 258, s.389

47.J.Rennie, " Darwin’s Current Bulldog: Ernst Mayr", Scientific American, December 1992

48.Alan Walker, Science, vol. 207, 1980, p.1103; A.J.Kelso, Physical Anthropology, 1st ed., New York: J.B.Lipincott Co., 1970, p.221; M.D. Leakey, Olduvai Gorge, vol.3, Cambridge: Cambridge University Press, 1971, p.272

49.Time, November 1996

50.S.J. Gould, Natural History, vol.85, 1976, p.30

51.Solly Zuckerman, Beyond The Ivory Tower, New York: Toplinger Publications, 1970, p.19

52.Richard Lewontin, "The Demon-Haunted World", The New York Review of Books, 9 January, 1997, p.28

٭٭٭

ماخذ: ہارون یحیٰ ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید