FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابرِ رحمت

جلد دوم

مصنف:شیخ غلام محی الدین

تحقیق و ترتیب: کلیم احسان بٹ

ادارہ مجلس تحقیق و اشاعت، دربار بابا قادر شاہؒ جلال پور جٹاں، گجرات (پنجاب) پاکستان

انتساب

والدِ محترم

احسان اللہ بٹ کے نام

ہنوز آں ابرِ رحمت دُر فشاں است

’’ابرِ رحمت ‘‘ کی در فشانی اور گہر باری کا یہ دوسرا منظر ہے جسے پروفیسر کلیم احسان کے ذوق جمال نے نہایت خوش اسلوبی سے ترتیب دے کر سالکانِ رہِ حقیقت کی نظر نوازی کے لیے پیش کیا ہے۔ قبل ازیں، اس کا جزوِ اول اساتذۂ فن سے دادِ تحسین پا چکا ہے۔

ابرِ رحمت بنیادی طور پر ایک خاص نوع کا تذکرہ ہے جو سید عبدالقادر قادری کے اسفار و ملفوظات پر مشتمل ہے۔ اس کی ایک نظیر تذکرۂ غوثیہ ہے جسے گل حسن نے مرتب کیا جس میں سید غوث علی شاہ پانی پتّی کی زندگی، خاندانی روایات و تذکار، کرامات و ملفوظات، مسائل و وسائل اور مختلف اسفار پر معلومات مرقوم ہیں۔ یہ معلومات و کیفیات اس قدر دلچسپ اور حیرت خیز پیرایۂ اظہار میں بیان ہوئی ہیں کہ بار بار مطالعہ پر اکساتی ہیں اور اس طرح سائل و مسئول دونوں کے مقاصدِ تبلیغ خودبخود پورے ہوتے جاتے ہیں۔ یہی انداز اس تذکرہ ’’ابرِ رحمت ‘‘ کا ہے۔ اس میں پیر سید عبدالقادر قادری کی حیات و افکار، کرامات و ملفوظات، کیفیات و مواجید، اُن کے اسفار، دورانِ سفر میں فقیروں، درویشوں، سیر و سلوک میں مصروف افراد، مجاذیب اور قلندر صفت صوفیاء اور اولیاء سے ملاقاتوں کا احوال نظر آتا ہے۔ سید عبدالقادر قادری کے ان خیالات و افکار اور حالات و واقعات کو شیخ غلام محی الدین نے جمع کیا۔

’’ابرِ رحمت ‘‘ کا عمیق نگاہ اور سوزِ دروں سے جائزہ لیا جائے تو سید عبدالقادر قادری کی متنوع اور مختلف علوم و فنون پر گہری دسترس سے وقوف ملتا ہے، ساتھ ہی شیخ غلام محی الدین کے جذب و کیف اور حسنِ حقیقی سے وارفتگی کا پتہ چلتا ہے۔

سید عبدالقادر، قادری سلسلہ سے منسلک تھے۔ سلسلۂ قادریہ حضور سیدنا غوث اعظم شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی نسبت خاص کا مظہر ہے، ویسے تو ؎

مزرعِ چشت و بخارا و عراق و اجمیر

کون سی کشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا

سید عبدالقادر قادری کا نام نامی بھی اسی پاکیزہ نسبت کا واضح اظہار ہے۔ قادری سلسلہ شیخ سید عبدالقادر الجیلانی قدس سرہ العزیز کے عہد مبارکہ ہی سے اکنافِ عالم میں پھیلتا چلا گیا۔ اس سلسلہ کی ایک خاص خوبی و خصوصیت عشقِ حقیقی میں بلند پروازی اور وارفتگی ہے۔ شیخ قدس سرہ کی تعلیمات کا مرکزی نقطہ توحید و سنت کی اشاعت اور اس کے اعلیٰ اوصاف کو وابستگانِ سلسلہ کے دلوں میں صحیح طور پر جاگزیں کرنا۔۔اور۔۔ یہی روایت قادریہ اسی طریقہ کے شیوخ کے توسط سے یہاں تک پہنچی اور زندہ و تابندہ رہی۔

سید عبدالقادر قادری بھی اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی تھے جن کی محبت کے آثار اس تذکرہ ’’ابرِ رحمت ‘‘ میں دکھائی دے رہے ہیں۔

’’ابرِ رحمت ‘‘ میں جہاں عہد موجود کے سیاسی، سماجی اور خانقاہی سلاسل پر روشنی پڑتی ہے خود صاحبِ تذکرہ کی علمی جلالت، مقام و مرتبہ کا بھی کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے۔ فارسی زبان و ادب، صوفیہ کے اقوال و افکار، قرآن و حدیث کے مطالب و مفاہیم اور اپنی بات کو درست اور سہل انداز میں سامع اور قاری کے ذہن نشین کرنا بھی اُن کے اسلوب گفتار کی ایک خاص صفت ہے۔ جب وہ ’قال‘ کی کیفیت میں ہوتے ہیں تو ’حال‘ سے جدا نہیں ہوتے، اُن کی گفتگو میں بھی خاص وجدانی کیفیت موجود رہتی ہے۔

’’ابرِ رحمت ‘‘ میں بہت سے صوفیانہ مسائل پر کھل کر اور بغیر کسی ابہام کے بات ہوئی ہے۔ سید عبدالقادر کا تعلق وجودی صوفیہ سے ہے اور ان کا فکر اس میدان میں صراطِ مستقیم پر ہے اور اس کی بہت سی امثلہ اس تذکرہ میں موجود ہیں، اُن پر شطاری رنگ زیادہ غالب تھا۔ آج ہم اس دور میں داخل ہیں جہاں ذوقِ جمال‘ محبوبِ حقیقی کے حسن سے مستفیض ہونے سے قاصر ہے اور نفوسِ پاکیزہ کے افعال و اعمال کو اپنی ذات پر قیاس کر کے پرکھنے کی کاوش میں لگے ہوئے ہیں اسی لئے حضرت ابو الحسن شاذلی قدس سرہ نے فرمایا کہ۔۔ اولیاء اللہ کی کرامات اور اُن کے اعمال کی تصدیق بھی ولایت کا حکم رکھتی ہے۔

آج جب جدید علوم و فنون اور فلسفہ و فکر سے آراستہ افراد تصوف کی بنیادی باتوں کو بھی نہیں سمجھ پاتے اور اپنی ہی دانش کے مطابق اسے معنی پہنانے کی کوشش میں ہیں تو اس کا کیا حل ہو سکتا ہے۔ وہ ماحول، معاشرہ، اخلاقی تربیت، روحانی نسبتیں، کچھ بھی نہیں بچا تو خود کو کوسنے کے بجائے صوفیہ کی تعلیمات کو غلط گردان لیا جاتا ہے اور یہی کوتاہی کسی دستِ حق پرست تک رسائی نہیں ہونے دیتی۔

پروفیسر کلیم احسان نے ’’ابرِ رحمت ‘‘ کے جزوِ اول اور اس جزوِ دوم کو مرتب کرتے وقت نہایت دیدہ ریزی اور جانکاہی سے کام لیا ہے اور اس گرانقدر تذکرہ کو منصۂ شہود پر لائے ہیں۔ صوفیہ، انسانی رویوں کو درست اور فکر و شعور کو راست سمت دکھاتے رہتے ہیں۔ وہ آدم گری کے فن سے بخوبی شناسا ہوتے ہیں ۔۔ وہ نہ ہوتے تو انسان کے اندر کی وحشت و بربریت جو آج اس قدر خوفناک نظر آتی ہے اس کا منظر اور بھی بھیانک ہوتا۔ متحیر و متفکر انسانیت کی تسکین و تسلّی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے کامل افراد کے تذکار کو زندہ رکھا جائے۔

پروفیسر کلیم احسان کا صوفیانہ ادب میں یہ دوسرا کار نمایاں ہے۔۔ اور امید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ بھی۔۔ اسی نوع کی تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی تحریروں اور کتب عالیہ سے عہد حاضر کے تشنگانِ علم و ادب کے لیے آبِ زلال کی فراہمی جاری رکھیں گے۔

پروفیسر منیر الحق کعبی

گڑھی احمد آباد ۔۔گجرات

مقدمہ

میں نے ’’ابرِ رحمت ‘‘ (جلد اول) کی اشاعت کے وقت اپنے مقدمے میں لکھا تھا کہ ’’موجودہ کتاب جلد اول ہے اور اس کے اندر ایسے اشارات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس کتاب کی کوئی دوسری جلدیں بھی ہوں گی……….یہ دوسری جلدیں کہاں ہیں؟ یہ معلوم نہیں۔ لیکن گمان غالب ہے کہ ان کی بہت سی کتابیں ان کے مریدوں کے پاس محفوظ ہیں ‘‘

جلد اول کی اشاعت مبارک ثابت ہوئی اور جلد ہی ان کے مریدین سے ’’ابرِ رحمت ‘‘ کی جلد اول اور ’’ابرِ رحمت ‘‘ جلد دوم کی قلمی نسخے دستیاب ہو گئے۔ یہ نسخے اس جلد اول کے نسخے سے مختلف ہیں۔ جن سے جلد اول کا متن تیار کیا گیا۔ خطِ تحریر ہر دو میں یکساں ہے۔ یعنی جس نسخے سے حصہ اول تیار کیا گیا اس کی دوسری جلد کا نسخہ ہنوز دستیاب نہیں ہوا۔ مزید اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ’’ابرِ رحمت ‘‘ کی نہ صرف جلدیں ایک سے زیادہ تھیں بلکہ اس کے متون بھی ایک سے زیادہ ہیں۔ اور اگر مزید متون دریافت ہوئے تو اگلا مرحلہ تصحیح متن کا در پیش ہو گا۔

حصہ دوم کا متن بھی اسی قسم کے مسائل سے دوچار ہے جن کا ذکر حصہ اول میں کیا جا چکا ہے۔ جن لوگوں نے حصہ اول کا مطالعہ کیا ہے ان کے لیے متن کی تفہیم دشوار نہیں۔ اس لیے ان مسائل کا تفصیلی ذکر کارِ لا حاصل تھا۔ تاہم چونکہ دوسری جلد الگ شائع ہو رہی ہے چنانچہ صرف دوسری جلد کا مطالعہ دشوار ہو سکتا ہے۔ اس لیے میں نے کتاب کے ابتدائی صفحات میں قاری کو شیخ غلام محی الدین صاحبؒ کے طرز تحریر کا خوگر بنانے کی کوشش کی ہے لیکن بعد ازاں بریکٹوں کا استعمال کم سے کم کیا ہے۔

جلد اول کی اشاعت سے نہ صرف مریدین کا وسیع حلقہ فیض یاب ہوا بلکہ عام علمی حلقوں تک بھی کتاب کی رسائی ہوئی۔ جس کے نتیجے میں بہت سے احباب نے دربار بابا قادر شاہؒ پر حاضری دی۔ لاہور سے برادرم ڈاکٹر اختر شمار خصوصی طور پر تشریف لائے۔ پشاور سے پبلشر کے نام خطوط آئے جن میں دربار میں حاضری کے شوق کا اظہار کیا گیا اور کچھ احباب نے اپنے شوق کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ گجرات میں پبلشر کے پاس موجود نسخے ایک خریدار کے لیے کم پڑ گئے۔ مجھے بہت زیادہ احباب نے اس نیک عمل کے لیے دعائے خیر سے نوازا جس سے میرے حوصلوں میں اضافہ ہوا اور اس حوصلے کے نتیجے میں جلد دوم آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

کتاب کا مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ اب ’’ابرِ رحمت ‘‘ کی مزید جلدیں موجود نہیں۔ کیونکہ کتاب کا باضابطہ اختتام ان الفاظ میں کر دیا گیا ہے۔

’’میری غرض اس کج مج تحریر سے یہ نہیں کہ کوئی قصہ یا داستان ظاہر کروں۔ یا علمی فصاحت و بلاغت و مضمون نگاری سے ادبی دنیا میں حصہ لوں اور واقعات نگاری سے عالم فاضل کہلاؤں۔ میری غرض تو اس میں صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جو بلا کسی اغراض دنیوی راہ حقیقت حقہ کے چلنے والے اور رات دن جستجوئے حق میں جویاں ہیں اگر کسی قدر ہو سکے تو اپنے اعمال کی فہرست مرتب کرتے ہوئے اپنے عینی مشاہدات کو پائے اور اپنی ہی تحقیق میں لائے ہوئے معاملات کو پیش نظر رکھ کر خدمت ادا کروں۔ ‘‘

تاہم شیخ غلام محی الدین صاحبؒ کی دیگر بہت سی کتب جن کا ذکر جلد اول میں بھی کیا جا چکا ہے موجود ہیں۔ یہ تمام کتابیں بھی اشاعت کا حق رکھتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ان تمام کتابوں کی اشاعت میں جہاں تک ممکن ہو سکے تعاون کریں تاکہ یہ علمی اثاثہ عامۃ الناس کے کام آ سکے۔ شیخ غلام محی الدین صاحبؒ کی تحریروں سے یہ شہادت ملتی ہے کہ یہ تمام تحریریں دراصل اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہیں نہ کہ اپنے علم و فضل کے اظہار یا محض ادیب و شاعر کہلانے کی غرض سے۔

میں ’’ابرِ رحمت ‘‘ جلد دوم کے مندرجات اور آپ کے درمیان زیادہ دیر حائل رہنا نہیں چاہتا لیکن میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ جن احباب نے کتاب کو اس حالت میں آپ تک پہنچانے کے قابل بنایا ان کا شکریہ ادا کروں۔ سب سے پہلے جناب شیخ عبد الرفیق کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی ذاتی دلچسپی سے ’’ابر رحمت ‘‘ کا دوسرا حصہ دستیاب ہوا اور انہوں نے اس کی اشاعت کے تمام اخراجات اپنی جیب سے برداشت کیے۔ جناب پروفیسر منیر الحق کعبی نے نہ صرف کتاب کے پروف بڑی عرق ریزی سے پڑھے بلکہ ہر قدم پر میری رہنمائی بھی فرمائی۔ جناب ڈاکٹر احمد حسین قریشی قلعداری اور پروفیسر ریاض مفتی ایڈووکیٹ کا بھی شکر گزار ہوں کہ جن کی وجہ سے کتاب کے متن کی تفہیم میرے لیے آسان ہوئی۔ میں برادرم افضل راز کا بھی شکر گزار ہوں جن کی وجہ سے میں ہمیشہ اشاعت کے دشوار گزار راستوں میں بھٹکنے سے محفوظ رہتا ہوں۔ میں ان تمام دیگر احباب کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میں اللہ کے فضل و کرم سے اپنی ذمہ داری سے بخوبی عہدہ براہ ہوا۔

کلیم احسان بٹ(شعبہ اردو)

گورنمنٹ زمیندار کالج بھمبر روڈ گجرات

تذکرہ لاہوری شاہ صاحب

اس نیک و پاک جواب با ثواب کا پانا تھا کہ دل میں ایک سرور کی لہر دوڑ گئی۔ ہر موئے بدن سے مرحبا کی صدائے(صدا) پیدا ہوئی۔ جزاک اللہ سامنے پایا۔ رخصت ہوئے۔ جمعہ کا انتظار کرنے لگے۔ پہلے سے زیادہ امنگ بڑہتی(بڑھتی) ہوئی پائی گئی۔ ’مرزا‘ و ’احقر ‘ و تیسرا کریم جو وارد و خادم مقرر ٹھہرا۔ رمز شناس عاقل و دانا ہمارے عمو صاحب کا حضوری و حاشیہ نشین آیا ہوا تھا، سامنا ہوا۔ سویرے ہی رعنا واری سے ٹینکی پورہ چل پڑے۔ تین میل مسافت تھی۔ شہر ہی شہربجلد جا پونچے(پہنچے) ۔ دیکھا کہ آپ صحن میں بیٹھے ہوئے پہنگنی(پھونکنی) سے آگے دہری(دھری) تنکوں کی آگ کو زندہ کر رہے ہیں۔ کوئلوں کی خاکستر سے چہرہ ڈیہانپا(ڈھانپا) ہوا ہے۔ السلام علیکم کیا۔ صف منگوائی، اس پر بیٹھ گئے۔ ہم خاموشی سے دیکھتے رہے۔ کہ کٹھالی میں کی دھات سونے کا رنگ اختیار کر چکی ہے۔ آپ اس کو نکالتے ہیں جو چمک دمک اور رنگ و روغن میں طلائے (طلا) سے بڑھ کر عشوہ گری کرتی ہے۔ پھر اس ٹکیہ کو کٹھالی جدید میں ڈال کر نوشادر وغیرہ چھڑکا کر آگ دیتے ہیں۔ پھر تیسری آگ دینے میں کسی قدر رنگ اوڑ (اڑ) جاتا ہے۔ چوتھی آگ پر وہ جیسی کہ پہلے تھی ویسی ہی دھات رہ جاتی ہے تو آپ بلا تفکر و اندیشہ رکھ دیتے ہیں

یار گر نہ نشست با ما نیست جائے اعتراض

پادشاہے کامراں بود از گدایاں کار داشت

مولانا رومؒ

اور پھر وہی طریق اختیار کرتے ہیں۔ لیکن اب ہماری موجودگی کے باعث اپنی محترمہ بیوی کو حسبِ دستورِ ملک قہوہ پکانے کو کہتے ہیں۔ تیار ہونے پر ہم بیٹھک میں بٹھائے جاتے ہیں اور آپ کام چھوڑ انگیٹھیاں، پھنکنیاں (پھونکنیاں) وغیرہ سنبھال پاس آ بیٹھتے ہیں۔ اور آپ ساقی وحدت کی شان میں مئے توحید کے لبا لب جاموں سے مسرورکر دیتے ہیں۔ نشہ اس قدر غالب آتا ہے کہ عقل و فکر رخصت ہو جاتے ہیں۔ اور جب یہ صادق آتا ہے کہ

خرد ہر چند نقدِ کائنات است

نہ سنجد بیش عشق کیمیا کار

ازیں افیوں کہ ساقی در مے افگند

حریفاں را نہ سر ماند نہ دستار

تین گھنٹے تک صحبت گرم رہی۔ اس میں وہ جو مقصود و محبوب و مطلوب تھا، بے نقاب کر دکھایا۔ ہم ہر سہ ہم جماعت میں سے ہر ایک نے حسبِ فطرت و دید و فکر اپنی اپنی تمناؤں و حوصلہ کے بموجب پایا۔ اس ساقی سرمست کا شکریہ ادائے(ادا) کرنے میں اپنی اپنی ہستی موہومہ کو چھپا ہوا اور ظاہر میں پایا۔ جو پیمانہ ہم سب کو دیا، ہر ایک نے اس میں اپنے عکس کو بعینہ جیسا کہ تھا ویسا ہی روبروئے (روبرو) دیکھنے میں آیا۔ آپ کی اس تھوڑی سی صحبت سے بمصداق

یک زمانے صحبت با اولیا

بہتر از صد سال طاعت بے ریا

بلکہ یہ بندہ پراگندہ دعوے سے کہتا ہے کہ جو سنگِ پارس سے بڑھ کر حکم رکھتی ہے۔ کیونکہ اس کے چھونے سے پتھر سونا ہو جاتا ہے۔ لیکن اس صحبت میں یہ اثر ہے کہ خود بذاتہ اپنا سا بنا دیتی ہے۔ بلکہ یہ اور وہ کی نسبتیں اشارے نام کو نہیں رہتے۔ ہمہ تن یک تن بدن و جان ہو جاتا ہے۔ شکریہ ادائے (ادا) کرتے ہوئے کہا جاتا ہے

گر (گرو) نے ہم سنگ اچھی کیتی

پر جا سے را جا کر دیتی

ماشا اللہ جس قدر بھی وصف ان کی صحبت کے بارے میں کی جاوے تھوڑی ہے۔ عابد بیچارہ تو برسوں سے عابد المعبود کے دیہندے(دھندے) میں پڑا ٹہوکریں (ٹھوکریں) کھا رہا ہے۔ اس کی عقدہ کشائی نہیں ہوتی۔ وہ جس کو پکارتا ہے لیکن لبیک کو نہیں پاتا۔ اور نہیں جانتا اور اس رمز کو نہیں پاتا کہ اللہ کہنا ہی خدا کی لبیک ہے۔ یہ اس واسطے کہ نقاب اٹھایا نہیں گیا۔ پردہ تعینات کو جلایا نہیں گیا۔ اس واسطے کہ کسی پاکباز عارف اکمل اولیائے وقت کی صحبت سے موثر نہیں ہوا ۔ کسی نے مدتوں کی بندہی (بندھی) گانہہ (گائے) کو نہیں کھولا ۔

فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ اللہ جس کے حق میں بہتری چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔ فرمایا جو لوگ بے علم عبادت کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے چکی میں جوتا ہوا بیل۔ تمام دن گردش کرتا ہے مگر وہیں کا وہیں ہے اور کوئی راستہ اس کو نہیں ملتا۔ بس امر ہے کہ

اور کہہ میرے رب مجھے علم دے۔

پارہ۱۶، سورۃ طہٰ، آیت۱۱۴

کیونکہ آنکھیں نہ ہوں تو مطلوب پاس بیٹھا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ کیا چیز انسان کی بزرگ ہوئی ہے فرمایا:اے علی! جب نزدیکی مانیں اپنے پروردگار کی۔ از قسم طاعت و عبادت تو تو عقل و فکر سے اس کی صفت کی نعمتوں کو حاصل کر۔

کیونکہ فرمایا حضور ﷺ نے کہ حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے جس جگہ سے اس کو پاوے وہ اس کے ساتھ لائق ہے۔ نیز فرمایا کہ علم سیکھ لو اٹکل کرنے والوں سے پہلے۔

پس اٹکل کرنا کچھ اور بات ہے۔ بِن دیکھے دلیلیں دوڑانا ’’پائے استدلالیاں چوبیں بود ‘‘ کے مصداق ہے۔ علم آنکھوں میں آنکھوں سے دیکھنا فضل ربانی اور فیضِ یزدانی کی بھاری علامت ہے۔ رحیم صاحب کاک علمِ معرفت کا سرچشمہ اور بہتے ہوئے دریا ثابت ہوئے۔ اکثر مجلسیں بڑی تمنا اور اشتیاق سے بابا محمد وائیں کی معیت میں کروائیں۔ بلکہ ایک دن محمد وائیں صاحب ٹینکی پورہ سے کہا کہ ایک رات میں آپ لوگوں کی حسب معمول تمھارے درس کی صورت دیکھنے کو رات بھر یہیں آپ کے ہاں ٹھہروں گا۔ انہوں نے تمام اپنے احباب کی (جو اس اسکول میں تعلیم پاتے تھے اور اس معلمِ حقیقی کی شاگردی میں نعمت علم سے مالا مال ہوتے تھے) معہ رحیم صاحب دعوت کی۔ کھانے کے بعد درمیان میں رحیم صاحب براجمان ہوئے۔ گرد میں حلقہ باندھے شاگرد۔ اور ان کے حلقے سے باہر دیوار سے تکیہ لگائے راقم بیٹھ گیا۔ اب آپ ایک ’’ مثنوی معنوی مولانا رومؒ ‘‘ کا شعر پڑھتے ہیں اور مخاطب شاگرد سے اس کے معنے معنوی صورت میں طلب فرماتے ہیں۔ جس قدر اس کے علم ودید میں ہوتا ہے وہ بیان کرتا ہے۔ پھر دوسرا پھر تیسرا۔ حتی کہ تمام کے علم و فکر و خیال و مراتب کا اس میں جائزہ لے لیتے ہیں۔

اس میں کسی کی صنعت و بناوٹ و نقل کام نہ دیتی تھی۔ کہ یہ دید کا معاملہ تھا۔ شنید کا اس میں دخل نہ تھا۔ اس (ان میں سے) ہر ایک کی قوت رفتار کہ جس قدر اس نے کی ہوتی یا اس کی دید میں آیا ہوا واقعہ ہوتا من و عن کہہ دیتا۔ اس کے بعد آپ۔ پھر کیا تھا ؟وہ معلوم کہ جس کی طلب میں طالب علم مدتوں سے ٹھوکریں کھاتا اور ہر ہر حرف کے معنوں میں اپنے مطلوب کا کھوج لگائے ہوتا ہے اور اس کے پانے میں توقف و تامل ہوتا، آپ معنوں کا دریا بہا دیتے۔ اور پھر دریائے بیکراں میں کہ جس کی تھاہ نہیں پائی جا سکتی۔ شاگردوں سے فرماتے کہ تم اس قعرِ دریا سے غوطہ لگائے غواصی کیے اپنا اپنا دُرِ معنی پیش کرو۔ جس کا دُر روشنی میں زیادہ، انوکھا اور آب و تاب میں جس قدر زیادہ ہو گا اس کی قدر و منزلت بڑھاؤں گا۔ اور آئندہ اس بحرِ ظلمات میں خضر وار اس کی رہنمائی کرتا ہوا آبِ حیواں پلاتے ہوئے ابدی زندگی کا مزہ چکھاؤں گا۔ کہ جس پر آئندہ پھر کبھی موت لا حق نہ ہو گی۔ بار بار جینے مرنے سے چھوٹ جائے گا۔ ورنہ بار بار جینے مرنے کے قعرِ مذلت اور اسفل السافلین دوری اور مہجوری کی ٹھوکریں کھاتا پھرے گا۔ یہ قطرہ بحرِ بیکراں ہے۔ اپنے آپ سے جدا ہووے منتشر اس فضائے عالم پر(میں) رہا ہے۔ جوہڑوں، چھپڑوں، تالابوں، ندی، نالوں میں سر گرداں ہے۔ مٹکوں میں تعین کے قید ہو کر اپنے اصل سے جدا ہے۔ جب تک اصل سے وصل نہ ہو یہ مچھلی وار سمندر میں رہتے ہوئے سمندر سے جدا العطش العطش کر رہا۔ جس کا علاج سوائے اس کے کوئی نہیں کہ جس پھندے و بیڑی میں یہ بندھا ہے وہ ٹوٹے پھوٹے نہیں۔ یہ اپنی ذات اپنے ملک اپنی حقیقت کو پا نہیں سکتا اس کی ہستی موسومہ ہی اس کے گلے کی پھانسی ہے جو تعینات سے تعقیدات کے جامہ میں ملبوس ہے۔ اس واسطے بقول جناب سرورِ کائنات خلاصۂ موجودات جو حدیثوں میں آیا ہے ’’ موتو قبل انتموتو ‘‘ یعنی تو مرنے سے پہلے مَر جا۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ تیری اپنی خودی مٹ جائے بقول حکیم سنائی

بمیر اید وست پیش از مرگ اگر می زندگی خواہی

کہ ادریس از چنیں مردن بہشتی گشت پیش ازما

ذات باہمہ صفات جامع درتو

اں نور حقیقت است لامع در تو

بر خود تو عبث تہمت ہستی داری

حق است کہ شد با گل و سامع در تو

آپ کی صحبت سے وہ لطف سرور پیدا ہوا جس کا مزہ زندگی بھر بھولنے والا نہیں ہے۔ یہاں جناب با با صاحب کی سی گفتار و رفتار و اثبات بدستور ثابت ہوا۔ مشاہدہ حق کی گرم بازاری تھی۔ قال حال کا اور حال قال کا شاہد تھا۔ مجذوبان و سر مستانِ حق کے پاس بلا شک و شبہ حق ہی سے گفتگو تھی۔ اور حق اسی تعین کے پردہ میں موجودات کو شے کے نام سے منسوب کر کے اپنی سلطنت کر رہا تھا۔ اور حکم جاری رکھے ہر ایک شے کا مجرائے (مجرا) لے رہا تھا۔ اور خدا وند اِن تعینات کے پردہ میں اپنی خدائی کا ثبوت دیے ذرہ ذرہ عالم پر حکمران ہے۔

اور یہ جو بادہ کشان توحید اور عارفان اللہ ہیں تمام تعنیات و تنوعات و تعقیدات کی ہستی، ہرمرئی اور غیر مرئی کی صورت میں، عرش سے لے کر فرش تک کو اپنی ہی ذات کے اوصاف سے متصف کیے اس تعدد کو اپنی جگہ میں گم پاتے ہیں

جہاں رَا بر درت یک نقطہ سازم

ازاں نقطہ جلا گردانم امروز

کا ثبوت دیتے ہیں۔

در کون ومکاں نیست عیاں یک نور

ظاہر شد آں نور بانواع ظہور

حق نور و تنوع ظہورش عالم

توحید ہمیں است دگر وہم و غرور

(جامی)

نیز

عالم بہ بطنِ ماست موجود

مائیم ز کائنات مقصود

ہم مبدا و اولیم و آخر

ہم غائب و باطنیم ظاہر

یہی مذہب اس عارف اللہ کا تھا۔ چنانچہ انہی دنوں ملک کشمیر میں عامۃ الناس میں ایک مسئلہ پیش ہوا کہ عشق پہلے ہے یا معشوق۔ جہاں چند اہلِ علم و عقل و دانش جمع ہوتے اسی پر بحث ہوتی رہتی۔ پہلے فی زمانہ کے علمایان دین(عالمان دین) کے آگے پیش ہوا۔ جن سے کچھ بن نہ آیا کہ صحیح طور اس کا کچھ جواب دے سکیں۔ پھر پیران و صوفیان با صفا بھی اس میں اسی غور و فکر و تصور سے ٹھکرانے (ٹھوکریں کھانے) لگا۔ تا ہم کوئی نتیجہ نہ بن آیا۔ تو اہل طبع نے اس میں حصہ لینا چاہا۔ وہ بھی علت و معلول کے سلسلہ وار انتہائے (انتہا) کو پونچتے (پہنچتے) ہوئے از خود گم ہوئے۔

رحیم صاحب کاک اگرچہ اس بات میں حصہ لینا نہ چاہتے تھے تا ہم لوگوں نے مجبور کیا۔ اہل مشہود تھے یہاں اس معرکہ آرائی سے بھاگنا بھی ان کے آئین کے خلاف تھا۔ دار پر دیدار لینے کے منصور وار عادی تھے۔ اب جب بَن آئی تو بولے کہ حضرت بَل جہاں جناب سرورِ کائنات کی میلاد کا دن ہوتا ہے عامۃ الناس میں اس کا ثبوت اور شہادت دوں گا۔ سننے میں آیا کہ آپ نے کہا کہ ققنس ایک جانور ہے جس کی چونچ بہت لمبی ہے۔ اس میں ہزاروں سوراخ ہیں۔ ققنس کے دم بھرنے سے ہر ایک سوراخ سے علیحدہ علیحدہ راگ نکلتے ہیں۔ اس کی عمر ہزار برس کی طبعی ہوتی ہے۔ ہزار برس وہ جنگل سے لکڑیاں جمع کرتا ہے۔ انبار لگا کر اس میں بیٹھ جاتا ہے۔ اور دیپک راگ مہجوری شروع کر دیتا ہے۔ جس سے آگ پیدا خود بخود ہو جاتی ہے۔ جو لکڑیوں کو لگ جاتی ہے۔ وہ بیچ میں جل جاتا ہے۔ آگ کے سرد ہونے پر اس کی راکہہ(راکھ) سے ایک انڈہ پیدا ہوتا ہے جس سے پھر ققنس نکل آتا ہے۔ یہ جوڑہ نہیں رکھتا۔

مثال ققنس والی مولانا رومؒ مثنوی استعارات میں در بارہ خدا دیتے ہیں۔ جو کسی پہلو سے تجاوز نہیں کرتی۔ ایک حقیقت کے بیان کرنے میں جو اپنی مثال نہیں رکہتی(رکھتی) ۔ عام فہم لوگوں کے لیے ایک کافی جواب تھا جو دے دیا۔ کوئی معترض پیدا نہ ہوا۔ وقت گزر گیا۔ شہر و مفصلات میں اس نظریہ کے ادائے (ادا) کرنے سے شہرت ہوئی۔ بعض اہلِ تحقیق مزید تسلی کے لیے پونچے(پہنچے) ۔ اور حلقہ بگوشوں میں ہوئے۔ سر عقیدت خم کیا۔ مشہور ہوئے۔

میں نے بابا محمد وائیں سے کہا کہ رحیم صاحب کے گرو کہاں رہتے ہیں۔ وہ بو لے : گاؤں میں۔ ان کے دیکھنے کی تمنائے(تمنا) ظاہر کی۔ آدمی بھیج کر منگائے۔ دیکھا کہ وہ از خود رفتہ ہو چکی (چکے) ہیں۔ آپ ہی کہتے اور آپ ہی سنتے ہیں۔ یہاں کچھ اور ہی عالم ہے۔ خنجرِ تسلیم و رضا سے شہید ہو چکے ہیں۔ اپنے سے واسطہ ہے نہ کسی دوسرے تیسرے سے کام۔

حدیث شریف میں وارد ہے۔ اللہ تعالی اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا۔ پاک ہے وہ ذات جو موجودات کے حدوث سے ذات و صفات و اسما سے متغیر نہیں ہوتا۔ کیونکہ تیرا عشق تیری اپنی ہی ذات سے ہے۔ تو خود عاشق اور خود معشوق ہے۔ تیری بیماری عشق ہے اور اس کا علاج بھی تیرے اندر ہے۔ اب بابا صاحب جو اپنے سے گفتگو کرتے دیکھے تو ثابت ہوا کہ تجھے کسی خارجی شے سے تفکر کی ضرورت نہیں ہے۔ تجھے اپنے مقصود کے پانے کے لیے اپنے نفس کے اندر ہی فکر کرنا چاہیے۔ جیسا کہ فرمایا ہے ’’پڑھ اپنی کتاب کہ تیرے لیے یہی کافی ہے ‘‘

اگرچہ آپ نے گفتگو تو نہ کی۔ دیوانگی عائد تھی۔ ’’ہر کہ دیوانہ نہ شد، فرزانہ نہ شد۔ ‘‘ لیکن مشام جان محمدﷺ شاہد حال ہوتی۔ لیلی نے مجنوں کو کو ہِ نجد سے منگوایا تھا۔ جو بھیڑوں میں ٹٹولتے ٹٹولتے وہی رنگ اختیار کر چکا ہوا تھا، پایا گیا۔ ساجد و مسجود عابد و معبود ایک جگہ پاتے ہوئے ایک میں ایک سمائے۔ اب نہ کوئی ناظر اور نہ منظور، نہ کوئی شاہد و نہ مشہود۔ گہرسے نکلے تھے گہرمیں سمائے۔ جانے آنے کے دھندے سے مخلصی پائی۔ تنزیہہ و تشبیہہ سے چھوٹے۔ ہجر و وصل نام کو نہ جانے۔ نسبتوں سے اشاروں سے گفتار سے کل انسان ہوئے۔ محمود نے حمد کی اور اپنا آپ مشکور ہوا۔

آپ کیمیا کا ٹہرک (ٹھرک) کھلے بندوں میدان میں کیا کرتے تھے۔ میں نے بولا: طالب مولا سب چیزوں، خواہشوں سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں سونا اور مٹی کا ڈھیلا برابر ہے۔ چہ جائیکہ آپ کیمیا گری کرتے ہیں۔ آپ نے بولا۔ ایسا نہیں۔ اگرسونا موجود ہو تو پھر اس کی قدروقیمت اس کے پاس کوئی نہ ہو۔ ورنہ کہنے کی باتیں کچھ اور کرنے کی کچھ اور ہوتی ہیں۔ دوسرا مقصود اس مٹی کہنکہناتی(کھنکھناتی) سے نیاریوں کی طرح سونا نکالنا ہے۔ جو بہ تائید ایزدی نکل کر رہے گا۔ محمد حو وغیرہ خادموں سے پوچھا کہ تم لوگ بابا صاحب کو ،یہ جو آٹھویں دن عیال سے اگر کچھ بچ جاوے تو وہ ٹھرک پر ضائع کر دیتے ہیں ،منع کرو۔ کہنے لگے:کیا وہ ضائع کرتے ہیں، ہر چند نہیں۔ اپنا مقصود آپ خوب جانتے ہیں۔ ہمارے واسطے یہ ایک گونہ مبارک ہے۔ کہ کبھی کبھی کوئی چیز ہم سے طلب کر لیتے ہیں۔ اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر وہ کسی سے بات تک بھی نہ کریں۔ اسی سے ہم جب پنجاب کو رخصت ہوئے تو تازہ کوار گندل کی سفارش کی۔ جو ہم نے جناب بابا صاحب سے کہی۔ انہوں نے منگوا کر پارسل میں بند کیے بسبیل ڈاک روانہ کر دی۔

مجذوب اور سالک کے بیان میں

بابا صاحب انڈیانوالہ کی خدمت میں تمام حالات و واقعات ہر دو نقدان جہاں کے بیان کیے۔ آپ سن سن کر بہت مسرور ہوتے ہوئے۔ فرماتے: کہ یہ لوگ جو مجذوب ہوتے ہیں جب کسی پر مہربان ہوں تو اپنے جیسا کر دیتے ہیں۔ جیسے سکول میں تعلیم پاتے پاتے سرکار کسی کو نوکر رکھ لیتی ہے۔ وہی مثال ان کی ہے۔ پر جب نوکری مل جائے تو آئندہ تعلیم بند ہو جاتی ہے۔ ملازم کا کام جس پر کہ وہ مامور ہو اگر (مالک کا) پسندیدہ ہو تو مزید ترقی پاتے ہوئے اس سے اعلی مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔ اور تن آسانی و غفلت سے تنزل۔ جس سے یہ لوگ اپنے وجود سے ہمیشہ بر سر پیکار رہتے ہیں۔ کیونکہ اس کا خاصہ طبعی ہے۔ آرام پروہ جو حرام چیزیں ہیں (نیند وغیرہ) غالب کر آتی ہیں۔ ان کے غلبہ سے غفلت طاری ہوتی ہے۔ اور غفلت سے نگہبانی و نگرانی و ذمہ داری میں نقصان پیدا ہوتا ہے۔ اور اسی نقصان کی وجہ سے ان پر جرم عائد ہوتا ہے۔ اور اس کی سزائے (سزا) تنزل کی صورت میں دی جاتی ہے۔ اختیارات چھینے جاتے ہیں۔ جس (کی وجہ) سے یہ لوگ ہر وقت چوکنے رہتے ہیں۔ اور اپنے قانون میں آپ وجود کو اعتدال سے گزرنے نہیں دیتے۔ سخت سے سخت تکلیفوں میں ڈالتے رہتے ہیں۔ اس کو زخمی تک کر دیتے ہیں۔ کھانے، پینے، پہننے میں نرالا ہی ڈھنگ اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات قانون الہی پر مبنی ہے کہ جو لوگ زہد و اتقا و ریاضت و نفس کشی پر کڑے امتحانوں میں قائم رہتے ہیں خداوند ان کے مدارج اعلیٰ کرتا جاتا ہے۔ اس واسطے یہ نفس سے مجادلہ و مقاتلہ میں مختلف قسم کے اوزار برتتے رہتے ہیں۔ جس کی غرض و غایت غافل نہ ہونے پر موقوف ہے۔ بلکہ باہمی بھی ان کا برتاؤ ایک دوسرے پر تصرف پانا، قابو لگے پر اس کی ولایت میں دست اندازی کرنا ایک معمولی کام ہے۔ جس(کی وجہ) سے آپ کو ہر وقت چوکس رہنا ہوشیار رہنا لازم آتا ہے۔

اور وہ جو سالک مجذوب ہیں وہ بھی مامور من اللہ صاحب ولایت علیا ہوتے ہیں۔ کبھی تو ان پر غلبہ حال ہوتا ہے اور کبھی سکوت طاری ہوتا ہے۔ غلبہ حال کے یہ معنے کہ جو کام ان کے سپرد ہوتا ہے اس میں منہمک رہتے ہیں۔ جیسے کہ جب کوئی ملازم بر سر کار کا ہو تو وہ اپنے معہودہ کام میں منہمک ہوتا ہے۔ توقف و سکوت اس وقت ہوتا ہے جب ذرا اس عمل سے فراغت ہو اور اس جسم کے رہوار کو آرام دیویں۔ لیکن وہ بھی بہت تھوڑا۔ نیند کو تو بالکل خیال میں نہیں لاتے۔ کیونکہ ہر وقت جواب دہ ہوتے رہتے ہیں۔ پوچھنے سے اور جواب نہ دینے پر عذاب دیے جاتے ہیں۔ اپنے اختیارات کی حدود میں جس قدر ان کو علم ہوتا ہے سائل کو جواب دیتے ہیں۔ دنیوی کاروبار میں جہاں تک ان کا تعلق ہو دسترس رکھتے ہوئے بہ امر الہی امداد پہنچاتے ہیں۔ بقول اہل ہنود پینتیس کروڑ دیوتا ہوئے ہیں۔ گویا یہ خدائے عز و جل کے ہتھیار و وجود عالم کے اعضا(ہیں) جن کے ذریعہ سے وجودی حفاظت لازم ہے۔ یہ وہ ہیں جن کی نگاہ ہر وقت اپنے ملک مِلک میں جمی رہتی ہے۔

اور یہ وہ ہیں اپنے حلقہ اثر میں جس قدر کہ ان کا وجود ہوتا ہے موثر رہتا ہے۔ یہ ملائک ربانی ہر ذرہ عالم کے نگہبان ہیں۔ در حقیقت یہ جو مختلف منصب پر مامور ہوتے ہیں۔ جیسے کہ حکام ظاہری لیکن باطن میں ان کا حکم حکام ظاہری کے ذریعہ سے تعمیل میں آتا ہے۔ غرضیکہ اس راز کے سمجھنے اور جاننے کے لیے یہی اشارہ کافی ہے کہ لفظ ظاہر معنی رکھتا ہے۔ جس کے معنی یہی زمرہ مجذوبین ہیں۔

ان میں دین و مذہب و ملت کی کوئی پابندی نہیں۔ طریق و مسلک کا نام و نشان نہیں۔ پاکی پلیدی چھوت چھات سے کوئی سرو کار نہیں۔ البتہ جس کے نصیبہ میں ازل کی تختی پر لکھا جا چکا ہوا ہے خداوند عالم ویسی صورتیں پیدا کر دیتا ہے۔ جیسے کہ کوئی عشق مجاز میں پڑا اس میں ناکام رہا اور کسی کی خوشی و غم دکھ درد میں اس کا کوئی تعلق نہ رہا۔ خویش و بیگانہ آشنا سے ناواقف ہوا۔ دنیاوی سب پابندیوں سے چھوٹ گیا۔ نفع و نقصان یکساں ہوا یا کسی دنیوی نقصان و اذیت سے جب غم و اندیشہ حد سے بڑھ گیا یا کسی کی جدائی کے صدمہ سے پیمانہ مہجوری سے گزرا۔ یاس و حسرت میں رہ گیا۔

غرضیکہ تمام تعلقات سے بری الذمہ ہوا وہ اس دین و مذہب و آئین میں آتے ہوئے اس سرشتہ میں منسلک ہوا، مامور کیا گیا۔ حسب استعداد و طبیعت و فطرت ویسے کاموں پر لگایا گیا۔ چونکہ مجاز حقیقت کا پردہ، لباس ہے ، وجود دل کے حکم کا پابند ہے۔ یہ مذہب دین و مذہب و فرقہ و خاندان سے مستثنی۔ ۔ ۔ دنیا کی نگہبانی و نگرانی پر لگایا جاتا ہے۔ پاکی و ناپاکی کی ان میں ہر چند پابندی نہیں۔ حلال و حرام کا کوئی دھوکا نہیں۔ جس بات سے ان کے کام میں نقصان پہنچے اور منافی ہو اس کے مخالف ہیں۔ اور یہی ان کی ترقی کا زینہ ہے کہ جس نے ذمہ داری سے کام کیا۔ اپنے مدارج کی نگہبانی کی وہ ترقی پاتے پاتے خدا جو اپنی خدائی کر رہتا ہے۔ جس کا کل جہان عیال ہے۔ وہاں تک رسائی یافتہ ہو جانے کا مستحق قرار دیا گیا اور اخلاق اللہ سے مزین ہوا۔ رب الناس ہوتے ہوئے رب العالمین سے جا ملا۔ موسی ٰ رب الامواج کے نام سے، عیسی ٰ آسمانوں کے رب کے ذریعے سے اور محمد ﷺ مصطفی سرورِ عالم ربِ العالمین کے ذات سے اپنی ذات والا صفات سے جا ملا۔

سالک اہل معرفت و فقر کی فضیلت کے بیان میں

بمشیت ایزدی میرا ملاپ ان صاحب عزت و عظمت سالک مجذوب اولیائے کرام سے ہوا اور خصوصیت سے ان ہی صاحب ہمت و مروت لوگوں (ارادہ و خواہش سے) تک رسائی ہوئی اور ان سے بفضل خداوند بہت ہی فیض یاب ہوا۔ فتح ابواب کھلایا۔ حقیقت حقہ سے اللہ تعالی نے آگاہی بخشی۔ بڑے مشکل سے مشکل مسئلوں کا حل ہوا۔ خدا کی خدائی دیکھنے میں آئی۔ محمدﷺ کی بادشاہی ہر ذرہ عالم میں پائی۔ خداوند سامنے بے نقاب دکھلایا۔ جس کا شکریہ ادائے (ادا) کرنے سے (گو لاکھوں زبانیں کیوں نہ ہوں) قاصر ہوں۔ تاہم بابا صاحب ان کی صحبت میں بیٹھنے کی اپنی خواہش سے کھلے طور اجازت نہ دیتے تھے۔ بلکہ کہہ دیتے تھے کہ بیٹا یہ جب مہربان ہوں تو اپنے جیسا کر دیں گے اور بس۔ لیکن یہ بات چنداں دماغ میں نہ سماتی تھی اور سامنے نظر آتا تھا کہ یہاں تو سامنے سامنے اظہر من الشمس خداوند عالم اپنی خدائی کر رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر وہ کون سی نعمت ہے کہ انہیں معاشرت کے لوگوں میں جو کسی قانون ، طریق و شریعت کے پابند نہیں ،تمام قیدوں سے پاک ہیں۔ نفسانی خواہشیں ان کے شرمندہ احسان نہیں۔ آزاد ہیں۔ بلکہ لفظ آزادی سے یہی آزاد دم بدم اپنی انانیت کا دم بھرتے ہوئے غیر کا نام مٹاتے ہیں۔ جس سے عامۃ الناس نے اگر کوئی بات یہ لوگ منہ سے بول دیں تو مجذوب کی بڑھ کہہ کر ان کی آزادی میں مخل نہیں ہو تے۔ پھر بھی یہ آزاد کے آزاد رہ جاتے ہیں۔ کوئی منہہ(منہ) بولی بات اب تک میرے دیکھنے یا میرے ساتھ برتنے میں اور دیکھنے میں نہیں آئی جو ان ہونی ہو، جہاں تک میرے عمل میں آیا اور غور و خوص میں پایا، عقل و فکر نے یہی ثابت کر دکھایا کہ خداوند عالم ان شخصیتوں میں بذات خود گویا ہوتا اور جو کچھ منشا ہو پوری کرتا رہتا ہے لیکن میرے مربی و محسن۔ ۔ ۔ ۔ مادر مہربان حقیقی سے بڑھ کر شیر نور معرفت سے منور کرنے والے میری تحقیق میں آتے اور پرکھاتے ہوئے معاملات میں کہ صداقت اور حقیقت انہی پر بس ہے، مجرائے میں نہیں لاتے اور کہتے ہیں کہ حقیقت حقہ اس سے بھی پرے رہے جس سے کئی طرح کے اندیشے اور خیالات پیدا ہوئے۔

ایک دفعہ جناب با با صاحب کو ساتھ لیے بخدمت جناب حضرت بوٹے شاہ صاحب حاضر ہوا کہ آپ بھی جلال میں جمال بھرے تجلیات سے مستفیض ہوں۔ کیونکہ میں رات دن آپ کے مطبخ سے اعلی سے اعلی نعمتیں کھائے پرورش پا رہا تھا۔ چاہتا تھا کہ گو بابا صاحب بڑے سے بڑے علمانان(عالمان) دین و ہا دیان راہ متین اور عارفان باللہ سے فیض یاب ہو چکے ہوئے ہیں لیکن یہاں جو کچھ دیکھنے میں آیا اور جن جن مسائل کو پایا ہے وہ بفضل خدا شاذو نادر ہی کسی درس گاہ میں پائے جاتے ہوں۔ بابا صاحب کو جیسے کہ کوئی شخص اپنے پیارے کو کوئی نادر چیز بتلاتا یا کہلواتا ہے۔ ہم ہر دو جناب بوٹے شاہ صاحب کے حضوری میں بیٹھے ہوئے(تھے) اور آپ اپنا کام چھوڑ ہماری طرف متوجہ ہو کر تفسیر آیات الہی فرما رہے تھے کہ اسی عنوان میں ایک بوتل ہاتھ میں آئی۔ جو تھوڑی سی اوپر کے حصہ میں خالی تھی۔ آپ نے اوپر سیدھے حصہ کو نیچے کیا اور نیچے کو اوپر۔ دو تین بار کرنے سے فرمایا کہ خدا کا کیا اعتبار ہے کبھی ادھر ہو جا تا ہے اور کبھی ادھر۔ تھوڑی دیر بعد ہم آپ سے رخصت ہوئے۔ تو بابا صاحب نے فرمایا کہ بیٹا بوٹے شاہ صاحب واقعی اولیائے کرام کے زمرہ میں سے ہیں اور مراتب علیا پر فائز ہیں۔ الا فقیر نہیں ہیں۔ آپ کے اس (ایسا) کہنے نے مجھے چونکا دیا۔ دل میں آمنا و صدقنا کہنے کی طاقت پیدا نہ ہوئی۔ کیونکہ بار ہا آپ مجھے کہہ چکے ہوئے تھے کہ جو میں کہوں وہ ہو جاتا ہے۔ اور ضروری ہو کر رہتا ہے۔ اور اگر کسی کو بیٹا دوں تو بیٹا ہی پیدا ہوتا اور جو لڑکی دوں تو لڑکی ہی اور جو چاہوں وہی ہوتا ہے۔ آپ کے یہ لفظ فرمانے سے پہلے میں امتحان بھی کر چکا ہوا تھا اور سب سے (سارے) معاملات میرے سامنے تھے۔ ایسے ایسے مشکل سے مشکل (معاملات) میرے مشاہدہ میں آئے ہوئے تھے کہ آپ کے فرمانے اور ظاہر کرنے میں گو وقت لگتا تھا لیکن اس کے ہونے میں دیر نہ ہوتی تھی۔ قدرت کی ہم آہنگی ایسی ہوتی کہ وہاں کہنے سے پہلے سامان تیاری کے مہیا ہو رہے ہوتے۔ اگر میں آپکے کاموں کو تحریر میں لاؤں تو بڑی لمبی چوڑی کتاب کی ضرورت ہو گی۔ چونکہ میری غرض وہموں کے دور ہونے سے ہے نہ کہ قصص سے، چنانچہ آپ کے زبان فیض ترجمان پر (سے) ہر وقت یہی نکلتا رہتا کہ میں ہوں بوٹا بوٹاں۔ یہ بھی معلوم تھا کہ آپ توجہہ (توجہ) کا ایک اعلی ثبوت دے رہے ہیں، باوجود ان تمام اعجاز و اثبات کے جب تک یہ ازالہ اوہام نہ ہوتا امن نا ممکن تھا۔ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان کے مراتب سے آگے۔ ۔ ۔ ۔ نعمت فقر ہے جس کی تعریف احاطہ بیان میں نہیں آ سکتی۔ جس کو تحریر میں لانے سے قلم کا جگر واقعی پہٹ(پھٹ) جاتا ہے۔ عقل و فکر کو وہاں تک رسائی نہیں۔ اور کسی اہل ذکر کو اس میں تاب گویائی نہیں۔ البتہ بعض صاحب حال اہل فقر و توحید نے اشارات و کنایات سے اس بارہ میں فرمایا ہے۔ کہ

شاہ سوارم شاہ سوارم شاہ سوار

اولیائے مرکبانند زیر باد

یا اہل فقر گہر(گھر) کے مالک ہیں۔ اور یہ ان کے ملازم گہر(گھر) کے رکھوالے۔ یہ لوگ خداوند کائنات کے اسموں کے محافظ ہیں اور جس صفت کا وہ اسم الہی اپنا عمل رکھتا ہے وہ ان لوگوں کے ذریعے سے پورا ہوتا ہے۔ اس سے (ان میں سے) کوئی رزق دینے پر مامور ہے کوئی داد و انصاف پر، کوئی اسم قہار کا حق ادائے (ادا) کیے جلال کی صورت قہر برسا رہا ہے۔ اور کہیں رحمن کی صورت رحم و کرم و فضل سے موجودات کو تازہ کر رہا ہے۔ اور یہ اسم ذات سے ذات میں مل چکے ہوتے ہیں۔ یہاں مغائرت کو راہ نہیں۔ گویا فقر ایک محل ہے اور یہ سب مراتب مکان کے اجزا و کڑیاں وغیرہ اور فقر ذات باری تعالی ہے اور یہ بمنزلہ ملائک نگہبان ہیں۔ یہ جان ہیں اور وہ جاناں بقول عارف

مارا کہ نہ اسم و جسم و جانے ماندہ

نہ کفر نہ ایماں نہ گمانے ماندہ

نے نفی نہ اثبات، نہ نقصے نہ کمال

یعنے ہمہ رخت جان جانے ماندہ

٭

مارا کہ بخود نہ نام نہ ننگے ماندہ

نہ صلح بکس نہ دامی جنگے ماندہ

جز بے رنگی کہ ان مراد دل بود

نے صورت و نے نقش نہ رنگے ماندہ

غرضیکہ جس قدر تعریف اہل فقر کی کی جائے تہوڑی(تھوڑی) ہے۔ یہ عارفان اللہ سب چیزوں سے گزر جاتے اور خدا کے سوائے کسی کو نہیں دیکھتے۔ ’’العارف لا یعلم الا ھو ‘‘ ۔ کیونکہ ان کا مقام سب منزلوں مقاموں اور درجوں سے بالا تر ہے۔

بابا صاحب فی ذاتہ(فی الذات) اہل مشاہدہ تھے۔ آپ کا تکیہ کلام تھا کہ

بعیب نظر مکن در طیورِ باغِ وجود

کہ طوطیانِ چمن زاغ و ہم زغن ہمہ اوست

اور بعض اوقات جب آپ مسرور و معمور ہوتے فرمانے لگ جاتے۔

یارِ من از کمال رعنائی

خود تماشا و خود تماشائی

جب دوسرے تیسرے دن میاں حامد علی صاحب پنڈی لوہاراں میاں ابراہیم آہن گر سوہل گوہر علی بافندہ پنڈی لوہاراں اور نور ماہی ارائیں ساکن ہنجرائے و میاں نبی بخش نیاریہ گجرات جمع ہو جاتے تو میء توحید کے پیمانوں سے ساقی سر مست مسرور کیے مسحور کر دیتا۔ علامہ غلام حیدر وزیر آبادی و مولوی اسمعیل صاحب ان ہی کی (کے) بحرِ توحید میں شناوری کرنے والے پیراک تھے۔ اور غواصی کرتے ہوئے طرح طرح کے دُرِ نایاب لاتے۔ بابا صاحب کی خدمت میں پیش کیا کر تے تھے۔ اور آپ ان کی آب و تاب دیکھتے ہوئے تنقید فرماتے تھے۔

ان میں سے ہر ایک صاحب اپنی اپنی بغلوں میں جام محبت دبائے رات دن مے خوری کے عادی ہو چکے ہوئے تھے۔ کوئی نفس بھی ایسا نہ تھا کہ جو جمالِ الہی کو پائے ہوئے تجلیاتِ الہی کا خوگر نہ ہو چکا ہو۔ ان سوختہ دلوں کے کباب جگر کھانے اور خونِ جگر پینے سے بھی متعلقین متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔ ایک دو دن یہ اگر جدا ہوتے تو تیسرے دن پر بابا صاحب کی حضوری میں آ کر قیام فرماتے تھے۔ اندریں حالات جناب ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی بھی جناب شاہ صاحب کی حضوری کی نعمت سے دم بدم سرور حاصل کر رہے تھے(رہی تھیں) ۔ بابا صاحب کے تسلی دینے سے کسی قسم کا خیال لغزش ان تک راہ نہ پاتا تھا۔ یہ دن ہر ایک کے اس مے خانہ کے جاری ہونے سے بڑے سرور سے گزر رہے تھے۔ میاں حامد علی صاحب اور نور ماہی جو دو تن و یک جاں تھے ہندوستان کے پارچہ کی تجارت کو جایا کرتے تھے۔ اب جب حسبِ معمول ان کے جانے کے دن آئے تو سب احباب کو بہت ناگوار گزرا۔ دوری کا صدمہ بابا صاحب تک کو محسوس ہونے لگا۔ اب کے صورت نہ رہی۔ تکلیف بہت ہی محسوس ہونے لگی۔ تو مشیت ایزدی سے میرا (میری) آواز نکلا(نکلی) کہ بابا صاحب اگر اس قدر تکلیف ہر ایک کو محسوس ہو رہی ہے چہ جائیکہ آپ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ کیا اللہ میاں کو بھی یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ انہیں آپ کی حضوری میں رکھے اور دنیاوی صورتوں سے یہ فارغ البال رہیں۔ بابا صاحب نے فرمایا کہ خداوند آئندہ اس کو ہندوستان جانے سے محفوظ رکھے گا۔ اور خاطر خواہ روزگار بھی عطا فرماوے گا۔

چنانچہ ایک شخص چوہدری حسین بخش نام موضع ٹھٹھہ موسیٰ کا رہنے والا بعہدہ تحصیلدار بندوبست مامور تھا۔ چوہدری موصوف اور میاں حامد علی صاحب اسکول میں اکٹھے ایک ہی جماعت میں تعلیم پاتے(رہے) تھے۔ تعلیم سے فراغت پر چوہدری صاحب بتدریج ترقی کر تے ہوئے اب تحصیل دار ہو چکے تھے۔ گہر (گھر) میں کوئی اپنی زمینوں اور اثاث البیت کا منتظم نہ تھا۔ دوسرا خدا نے انہیں دنیا میں ترقی پانے کا موقع دیا تھا۔ اپنے خاندان میں کوئی ایک نہ تھا کہ ہاتھ بٹاتا۔ میاں صاحب کے اخلاق سے واقف تھا۔ اس سے چوہدری صاحب نے میاں صاحب کو اپنا مختار عام کر دیا جس پر مامور ہوئے اپنا وقت گزارتے۔ لیکن زیادہ فائدہ مند یہ بات تھی کہ بابا صاحب اور احباب کی (کا) شرف حضوری حاصل ہونے لگا۔ کچھ عرصہ بعد بتقاضائے الہی جوانی کے عالم میں ہی چوہدری حسین بخش انتقال کر گیا جس کے تین لڑکے نذر محمد و حق نواز و، محمد نواز چھوٹے چھوٹے باقی رہ گئے۔ میاں صاحب مختاری سے مالک بنے اپنا کام سمجھے۔ کام کو بخوبی بفضل خدا نباہیا(نبایا) ۔ جس قدر سرمایہ تحصیل دار صاحب بھیجتے اس سے زمین ٹھٹھہ موسی میں خریدی جاتی۔ تعدادی ساٹھ ستر بیگھہ زمین نئی خریدی گئی۔ لڑکوں کی تعلیم میں بڑی غور سے حصہ لیتے رہے۔ لیکن خانگی معاملات میں ہم اکثر دفعہ بڑی غور سے دیکھتے رہے کہ انہوں نے دنیاوی معاملات میں سوائے وقت گزارنے کے کوئی ترقی نہیں کی یہاں تک کہ تحصیل دار صاحب کا انتقال ہو گیا۔ ان کے خاندان میں کوئی ایسا آدمی نہ تھا کہ ان یتیم بچوں کے پرورش میں حصہ لیتا اگر دور و نزدیک چند افراد تھے تو وہ لالچ و حرص کا منہ کھولے ہوئے میاں صاحب کی مختاری کو اپنے لیے نقصان دہ تصور کرتے تھے۔ بلکہ پس پردہ آپ کو اذیت پونچانے(پہنچانے) کے خیال میں رہتے تھے۔ جس کی اطلاع جناب بابا صاحب کو ملتی رہتی اور آپ اللہ نگہبان کہتے ہوئے میاں صاحب کا حوصلہ بڑہاتے(بڑھاتے) رہتے۔ حسین بخش صاحب کے مرنے کے بعد میاں صاحب کو دیدہ و دانستہ دکہہ(دکھ) دینے کی ٹھان لی۔ کہ اگر یہ ویسے ہی مختار رہتے تو ہمیں ان یتیم بچوں کے مال و منال کھانے کا موقع نہ ملے گا۔ کئی طرح حیلے بہانے اختراع کرتے تھے کہ آپک جانی تکلیف پونچانے (پہنچانے) کے مسودے بناتے۔ ۔

بابا صاحب کی خدمت میں میاں صاحب نے کہا کہ اب تک جس قدر قربانی کرتے ہوئے میں نے اس مختاری کو نباہا ہے اس کا خدا ہی مشاہدہ حال (شاہد) ہے۔ نفس کو ذرہ (ذرا) موقع نہیں دیا کہ یہ کسی غیر کا مال ہے۔ اب حسین بخش دنیا سے چل بسا ہے۔ سگان دنیا نے مردار کہانے (کھانے) کو منہ کھوہل (کھول) رکہا (رکھا) ہے۔ کہ موقع لگے تو اپنا نفس تازہ کریں۔ بلکہ درپے ایذا رسانی ہو رہے ہیں۔ ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔ راقم بابا صاحب کی خدمت میں اس وقت موجود تھا۔ بجواب آپ نے فرمایا کہ بیٹا اس کی زندگی میں جس کام کو تم کرتے رہے ہو وہ تمہاری دنیاوی خدمت تھی ،اپنا حق خدمت پاتے رہے ہو۔ اب وہ چہوٹے چہوٹے (چھوٹے چھوٹے) جن کی زندگی سرپرستی و نگہبانی کے بغیر نا ممکن ہے۔ پھر وہ مال جو لوگوں کو رکھا نظر آتا ہے وہ بھی ان کے لیے وبال جان کی صورتوں کو پیدا کرے گا۔ کئی طرح کے خطروں کا سامنا ہو گا۔ جس سے بے یار و مدد گار و غم گسار مار کھاویں گے۔ تم اب خدا کا کام کر و اور خدا کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے یتیم بچوں کی سرپرستی کا جوا اٹھاؤ۔ جس میں خدا تمہارا یارو مدد گار ہو گا۔ وہ جو اخلاق و دین سے گزرے ہوئے درندے ہیں خداوند سب کا انتظام کرتا ہوا انہیں قعر جہنم میں گرائے گا۔ اور جو تمہاری مخالف(مخالفت) میں کھڑا ہو گا منہ کی کھائے گا۔ ان باتوں سے میاں صاحب کا حوصلہ بڑھا۔ دل کو محکم کیا کہ جس میں بڑی بھاری قوت ہے۔ اور اپنے (دل) میں عہد باندھا اور مستعد ہو گیا۔ مخالفوں نے ، جو منصوبے باندھتے تھے،ہر معاملہ میں شکست کھائی۔ جب اس خس و خاشاک سے فراغت پائی تو حکومت سے بہت جستجو کرتے ہوئے درخواست کی کہ حسین بخش تحصیل دار مرحوم کے(کہ) تین بچے چھوٹے چھوٹے مع عیال چھوڑ دنیا سے رخصت ہو چکا ہے جن کی کوئی صورت پرورش نظر نہیں آتی۔ کہ وہ دنیاوی زندگی کو اس کے سرمایہ سے نباہ سکیں۔ چونکہ وہ دیانت دار تھا اس واسطے کنبہ پروری کے واسطے سرکار عالیہ کو چاہیے کہ کچھ انہیں عطا فرماوے۔ مشیت ایزدی شامل حال تھی۔ تعدادی چہار مربع زمین سرگودہ(سرگودھا) نہر پر مل گئی۔ جس کا انتظام ابادی(آبادی) بھی میاں صاحب نے خود رکھا۔ اتنے میں نذر محمد خان خلف الرشید حسین بخش انٹرنس تک تعلیم حاصل کیے فارغ ہوا۔ اور بہت وعظ و نصیحت کے بعد اس کو اپنی ملک سنبھالنے اور دنیاوی معاملات کو چلانے کا کام سکھایا۔ لیکن وہ اس کی سمجھ میں چنداں نہ آیا۔ تاہم پاک فطرت تھا ۔ سوائے نیکی کے اس سے کچھ پیدا نہ ہوتا تھا۔ دنیا کے مخمصے و سوانگ اور بچوں کا کھیل اور اس کے فتنے شیطان کا سینگ دکھلاتے تھے۔ میاں صاحب کے پند و نصائح کو مد نظر رکھے بپاس ادب انکار نہ کرتے ہوئے بکراہت (بہ کراہت) کاروبار و نظم و نسق میں حصہ لینا اختیار کیا۔ لیکن وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ جس کو جس کام کے لیے بنایا ہے وہی کام اس سے آسانی کے ساتھ ہوتا ہے۔

میاں صاحب نے جیسے کہ کوئی بھاری کام کیے (کر کے) تھکان کو اتارتا ہے اپنے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اب فطرتی عادات کو کھلے طور پر کرنے کی ٹھانی۔ ’’المومن مراۃ المومن ‘‘ کے مصداق عمل کرنے لگا۔ جام خوشگوار مئے لالہ فام سے اپنے چہرہ کو دیکھتے ہوئے دلی کدورتوں ،جو کثرت کار سے ہوا کرتی ہیں ، دور کرنے لگا۔ یاران ہمنوا بھی ان کی دیکھا دیکھی ہم رنگ ہوئے۔ نبی بخش نیاریہ گجرات جو انہی کے درس کے ابجد خواں تھے انہوں نے بھی کتاب کو بڑی خوبی کے ساتھ پڑہنا(پڑھنا) شروع کیا۔ گوہر جلاہ(جولاہا) نے کرشن جی مہاراج کے طریق کو زندہ کر دکھایا۔ ابراہیم لوہار پنڈی لوہاراں میں جہاد بالنفس کا تبر لیے کردار و اعمال کے نوشتہ کو پڑھتے ہوئے اسرار کو متنبہ کرتے پائے گئے۔ مولانا غلام حیدر صاحب وزیر آبادی نکتہ سنج اور دقیقہ رس طبعیت لیے ، اخلاق سے مزین اپنے طرز بیان میں نیارے ہی نظر آتے ہیں جنہوں نے مستری حیدر بخش وزیر آبادی کو اپنا شاہد بنائے شہادت کے درجے پر فائز کیا ، جام شہادت نوش کروایا۔ اس سے پہلے مولوی اسماعیل مرحوم موضع ’’رن سی کے ‘‘ جو ان کے رشتہ داروں میں سے تھے ، نرالی طبیعت اور نیارے اخلاق کے آدمی تھے۔ مولانا روم کے درس کے وظیفہ خوار اپنی نظم میں معنوں کا دریا بہا دیتے تھے۔ ان کے فکر کا راہوار ایسا تیز رفتار تھا کہ قضائے عالم میں اوڑتے (اڑتے) ہوئے دور دور کا پتہ دیتا تھا۔ اور میاں صاحب بذات خود نکند براق عشق پر سوار ہوئے اپنی زبانی سرور کو نور ماہی ارائیں ہنجرائے کو باگیں سپرد کیے خوب مزے سے مے خانہ توحید میں ساقی سر مست بابا صاحب کے لبا لب جام دینے سے مسرور رہتے تھے۔ اور ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی اپنے تعین کے کعبہ پر بھروسہ کیے ہر دم۔ ۔ ۔ ۔ جرس کی آواز پر بستر باندھے چل رہی تھیں۔ گویا یہ تمام متذکرہ بالا اصحاب بابا صاحب کے مے خانہ کے مے خواروں میں سرشار و مخمور و معمور بے کھٹکا بے اندیشہ مزے سے اپنا وقت گزار رہے تھے۔

جناب قادر شاہ صاحب کے انتقال کے پانچ برس بعد بابا صاحب بعارضہ دنبل بیمار ہوئے۔ تو صحت پانے کے بعد آپ نے اپنے پردہ کا نقاب الٹا۔ آگے (پہلے) جو پس پردہ مے توحید کے جام نوش کیا کرتے تھے اب مے خانہ کا دروازہ کھولنے (کھل جانے) سے طالبان مے توحید کے ہم سنگ ہم رنگ ہوتے ہوئے نظر آئے۔ بخل کو کسی طرح راہ نہ دیا (دی) ۔ جو آیا اپنی قسمت کی بموجب کچھ نہ کچھ نصیبا پاتا ہوا راہی ہوا۔ کسی پر احسان نہ جتلایا۔ اور نہ رسم و رواج کی قید میں آئے۔ اور نہ اپنے بیگانے لفظ کو راہ دیا(دی) ۔ یگانگی نے ایسا زور پکڑا کہ کفر و اسلام، دوست دشمن، اونچ نیچ سب ایک کر دکھائے۔ بعد پانچ برس کے عرصہ ۱۳۱۵ ؁ ھ سے ۱۳۲۰ ؁ ھ تک کا ایک آن کی برابر نظر نہ آیا۔ سب کے سب احباب، ہم درس و ہم جماعت یکدم بھی جدا نہ ہوئے اور نہ چاہے۔ دو دن جلال پور میں تین اور دو تین پنڈی لوہاراں میں ایک سوہل نسووال و ہنجرائے میں مسحور و مسرور، نہ خوف دوزخ نہ تمنائے جنت، گزارتے رہے۔ متذکرہ بالا شخصیتوں کے سوائے کوئی اور شخص اس تھوڑی سی جماعت کے راز سے خبردار نہ ہوتا۔

غلام محمد کسو کی

البتہ ایک شخص جس کا نام غلام محمد المعروف کسوکی محلہ ساہدواں جلالپور کا رہنے والا جو ایک زمانہ میں بہت بڑا عیار اور دنیوی کثافتوں سے ملوث اور بہت ہی گرد آلود تھا میرے ایما سے اس جماعت میں دخل در معقولات کرنے لگا۔ میرے خیال میں مشیت ایزدی سے آیا کہ خدا کی رحمت خدا کے غضب پر سبقت لے جا چکی ہوئی ہے۔ گو(خواہ) کس قدر گرد و غبار سے آلودہ ہو جس کو چاہے ابر رحمت سے پاک صاف کر سکتا ہے۔ چہ جائیکہ غلام محمد ، جس میں یہ صفت تھی کہ اگر آٹھ پہر خدمت میں کھڑا رہے تو دوسری طرف دیکھنا تک نہیں۔ اپنی ڈیوٹی پوری ادا کیے خوش کر دیتا ہے۔ اس کی ایک بوڑھی والدہ اور آپ تھا۔ جو اب ان حقائق پسند لوگوں کے صحبت سے موثر (اثر پذیر) ہوئے ایام گذشتہ کی خرابیوں کو چھوڑنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے پاس کاروبار کی خاطر رکھ لیا۔ جو ڈیرے اور دربار قادر شاہ صاحب کا کام بخوبی ادا کرتا۔ اور جب میں کام ٹھیکہ داری پر مامور ہوتا تو ساتھ چلا جاتا اور کام بڑے اہتمام سے انجام کو پہنچاتا۔ بس بہت مانوس ہو گیا۔

لاہوری شاہ

ان دنوں شہر سیالکوٹ میں جناب لاہوری شاہ صاحب کا بڑا چرچہ (چرچا) تھا۔ عامۃ الناس کا رجوع اس طرف ہو رہا تھا۔ ایک دفعہ آپ جلالپور ہوتے ہوئے موضع فتح پور میں گئے۔ وہاں احمد گوجر زمیندار آپ کے عقیدت مندوں میں سے تھا۔ آپ مستانہ وار طریق رکھتے اور دیوانہ وار باتیں کرتے تھے۔ اور رموزات(رموز) میں سائلوں کا جواب دیا کرتے تھے۔ مہینہ دو مہینہ فتح پور کے پاس ڈلی میں پڑے رہتے تھے۔ ریگ آپ کو پسند تھی۔ پھر سیالکوٹ چلے جاتے۔ وہاں سے چلتے تو لب دریائے چناب مہینوں ریت میں گزار دیتے۔ سیالکوٹ میانہ پورہ سے مغرب میں ایک پختہ خانقاہ تھی (جس میں) رہتے تھے۔ ایک دن شہر میں پڑے ہوئے ایک گھر میں جو پٹھان کہلاتے تھے، داخل ہوئے۔ ان کی مستورات پردہ میں تھیں۔ آپ ان میں جا بیٹھے۔ اتنے میں گھر کا مالک آ گیا۔ جو آپ کو دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گیا۔ شاید اس نے کوئی گستاخی ہی کی ہو گی۔ آپ خاموش نکل آئے۔ اور ڈیرے پر پہنچے ہوں گے کہ جو گھر کی مالکہ بہت سے لڑکوں لڑکیوں کی ماں تھی، اس پر دیوانگی طاری ہو گئی۔ بال کھول دیے۔ باہر بھاگنے لگی۔ حالانکہ تن و توش سے بڑی بھاری تھی۔ تمام ننگ و ناموس کو خیر باد کہہ دیا۔ اپنے بیگانے سے آشنائی توڑ دی۔ لاہوری شاہ لاہوری شاہ کا نام زور زور سے لینے لگ گئی۔ خاندان پٹھانوں کا بھاری ننگ و ناموس کا مالک تھا۔ وہاں ایک کی سنائی نہ دی۔ لاچار ہوئے۔ اس کو باندھا۔ لیکن کب تک؟ وہ بھی آخر کھول دیا۔ وہ بھاگی بھاگی جناب شاہ صاحب کے حضور میں آ گئی۔ بڑا بھاری وجود اور درمیانہ عمر۔ آپ جدھر جاتے پیچھے پیچھے ہو لیتی۔ ایک دم بھی جدا نہ ہوتی۔ جس سے شاہ صاحب کی عام شہرت ہو گئی۔ لوگ ہزاروں تماشہ دیکھنے آتے۔ آپ کی عمر بھی اس وقت بڑھاپے میں تھی۔ اور یہ بھی درمیانہ عمر کی عورت تھی۔ ساتھ ساتھ چلنا شروع کیا۔ آپ خاموش رہتے اور آپ سے آپ باتیں کیا کرتے تھے۔ اس عورت کا نام نصیبن تھا۔ آپ اسے جندی جندی کہہ کر پکارنے لگ گئے۔ تب سے بات عام لوگوں میں مشتہر ہو گئی۔ تو پھر کیا تھا؟لوگ عقیدت مند آنے شروع ہوئے کہ ہمیں اپنے حلقہ بگوش میں لیویں۔ اور اپنے نام لیواؤں میں جگہ دیویں۔ آپ سر، مونچھیں، بھنویں چٹ کرایا رکھتے تھے۔ جو عقیدت مند بننا چاہتا اس پر بھی یہی حال وارد کرتے۔ فوراً حجام منگوا کر صفایا کروا دیتے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے اکا بر، دنیادار اور عزت داروں تک نے یہ طریق و یہ صورت اختیار کی۔ اب جدھر جاتے پانچ سات سر منہ منڈھے ساتھ ہوتے۔ ایک نیارا ہی رنگ دکھائی دیتا۔ مائی جندی بھی ساتھ ساتھ ہوتی۔ جو مشکل سے قدم قدم اٹھاتی کیونکہ وجود اس کا بھاری تھا۔ میل دو میل چلنا جانتی نہ تھی۔ اب جدھر شاہ صاحب تشریف لے جاتے اسے جانا لازمی ہوتا۔ ایک دم امن نہ آتا۔ البتہ جب چند قدم آپ (شاہ صاحب) آگے نکل جاتے اور مائی جندی پیچھے رہ جاتی تو پھر شاہ صاحب بولاتے(بلاتے) ’’آ جندیے آ ‘‘ وہ آہستہ آہستہ چلی آتی۔ تو پھر آپ واپس ہو کر ساتھ لاتے۔ جب عام مرید ہو گئے تو شاہ صاحب فتح پور بھی تشریف لائے۔ ڈلی میں جندی کو لیے پھرنے لگے۔ پر اس کے سر کے بال کٹوا دیے۔ گرم ریگ میں دبا دیتے کہ تمھیں پختہ کیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ عمل کیا کرتے تھے۔ ایک ہی چارپائی پر دونوں بیٹھتے اور ایک ہی پر رات کو سو جاتے تھے۔ لیکن دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔ البتہ مائی صاحبہ جندی کا یہی وظیفہ ہوتا کہ میرا لاہوری شاہ۔ ایک دن غلام محمد نے مجھ سے ذکر کیا کہ میرے والد پہلے ایام میں سیالکوٹ لاہوری شاہ صاحب کے پاس جایا کرتے تھے۔ حالانکہ اس وقت لاہوری شاہ صاحب (کو) چنداں لوگ نہ جانتے تھے۔ جب میں نے یہ سنا تو غلام محمد کو ہمراہ لیا اور سیالکوٹ لاہوری شاہ صاحب کے مکان پر دونوں چلے گئے۔ دیکھا کہ عام آدمی بیٹھے ہوئے ہیں۔ جن میں بات کرنی میں نے مناسب نہ سمجھی۔ دل میں خیال کیا کہ اگر شاہ صاحب ان آدمیوں سے علیحدہ ہو کر میری بات سنیں تو ان کی مہربانی ہو گی۔ آپ خاموشی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آہستہ آہستہ آگے آگے چلنے لگے۔ ہم دونوں ساتھ ہولیے۔ جب پل سڑک پر جو سیالکوٹ سے جلال پور کو آتی ہے اس جگہ پہنچے تو میں نے کہا ’’جناب غلام محمد کا باپ بھی پہلے حضور کے حلقہ بگوشوں میں تھا۔ آپ اس کو بھی اپنے یہیں جگہ دیجیے اور اپنے زمرہ میں داخل کیجیے۔ ‘‘ تو آپ نے فرمایا کہ یہ میری مانتا نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ ضرور مانے گا۔ آپ اسے اپنا بنا دیں (لیں) ۔ شاہ صاحب نے منظور کر لیا۔ اسی وقت واپس ڈیرے پر آ کر اس کی بھی داڑھی مونچھ اور بھنووں کا صفایا کروایا۔ میرے دل کو بہت خوشی ہوئی۔ رات رہے اور جلالپور چلے آئے۔ اب شاہ صاحب بھی سال میں دو دفعہ جلالپور و فتح پور وغیرہ آتے۔ دس دس پندرہ پندرہ دن قیام ہوتا۔ بہت شغل رہتا۔ ہمارے ڈیرے پر بھی مع مائی صاحبہ قیام فرماتے۔ یہ بھی ایک نیا مے خانہ جاری ہوا۔ جس میں سینکڑوں لوگ داخل ہونے لگے۔ لوگوں کی بہیڈ (بھیڑ) چال ہوتی ہے۔ رسم و رواج کو جلد اختیار کرتے ہیں۔ ایسے ہی (لوگ) شاہ صاحب (کی طرف) بھی رجوع ہوئے بصورت پیران مروجہ اپنی روش کو اختیار کیا۔ ایک روز مکان غلام محمد کے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ خوب مجلس آراستہ تھی۔ میاں حامد علی صاحب مع دوسرے احباب حاضر تھے۔ ادھر شاہ صاحب چارپائی پر مع مائی جنداں جلوہ افروز تھے۔ غلام محمد پروانہ وار فدا ہو رہا تھا۔ میاں صاحب کی خصوصاً لمبی داڑھی تھی۔ اور بھی اپنی اپنی جگہ ریش دار تھے۔ شاہ صاحب بولے کہ دیکھو کہ لوگوں نے کیسے اپنے دروازوں پر کوڑا جمع کر رکھا ہے۔ کیوں نہیں اٹھاتے اور مصفا ہوتے؟میں سیالکوٹ جا کر کیا کروں گا؟ بتاؤں گا کہ تو کیا کر کے آیا ہے؟ یہ باتیں کچھ رمز دار تھیں۔ میں نے سمجھا کہ آپ کوئی مرید نہ بننے سے نا خوش ہو رہے ہیں۔ نبی بخش حجام حاضر تھا۔ میں نے کہا کہ تم رچھانی سے کپڑا شاہ صاحب کے نزدیک کھڑے ہو جاؤ۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ تو آپ بولے کہ دیکھو اب حجام بھی بھیجا گیا ہے۔ پھر بھی کوڑا نہیں اٹھاتے۔ سب خاموش سنتے رہے۔ میں نے کہا حضرت ایک ایک سے علیحدہ علیحدہ کہیں۔ میری غرض یہ تھی کہ سب رندان قدح خوار ہیں۔ ان کا علیحدہ علیحدہ۔ ۔ ۔ سنیں کہ کیا کھلتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص سے بولے کہ تم داڑھی منڈاؤ۔ (اس نے کہا) کہ میری داڑھی بہت زیبائش (زیبا) ہے کیوں منڈواؤں؟آپ بولے نہیں۔ وہ بولا کہ مجھے تمہاری (بات) اچھی معلوم نہیں ہوتی۔ تو آپ خاموش ہو گئے۔

جب ایک روز سارے سر منڈے آپ کے عقیدت مند ڈھولوں سے (پر) ناچ رہے تھے۔ بعض پر بھنگ کی حالت طاری تھی اور بعض رسمی صورت میں ناچ رہے تھے۔ بعض وجد میں شاہ صاحب کی چارپائی کے نیچے چلے جاتے، روتے، پیٹتے اور فزع کرتے۔ محبت میں سرشار کچھ سوچتا تک نہ تھا۔ دیکھنے والے تماشائی بھی نیا ہی تماشا دیکھے بہت خوش ہو رہے تھے۔

پہلے میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ یہ ڈھولوں سے ناچ آپ نے کہاں سے لیا ہے۔ تو آپ روشن ضمیر تھے۔ فرمانے لگے۔ کہ میں نے اپنے سے تو اسے جاری نہیں کیا۔ البتہ یہیں سے مل گیا۔ جس کی تفسیر یہ تھی کہ یہاں دتے شاہی خاندان میں ڈھولوں سے ناچنے اور وجد کرنے کا رواج شروع ہوا ہے۔ اور انہوں نے بساکہی (بیساکھی) سے سند حاصل کی ہے۔ اور یہی بات ان میں رواج پکڑ چکی ہے۔ پھر دوسرا سوال کیا کہ اس کودنے اور ناچنے میں کیا حاصل ہے۔ تو فرمانے لگے میں نے آوا اینٹوں کا چڑھا دیا ہے۔ کچھ تو پختہ ہوں گی۔ ابراہیم آہن گر نے غلام محمد کا (کو) گھنگھرؤں سے ناچتا دیکھتے ہوئے اپنے دل میں غصہ ظاہر کیا۔ کہ ایسے شریف زادے کو جو تم نے نچوایا ہے کیا فائدہ ہو گا۔ فرمانے لگے کہ بڑا نہ سہی گنڈے(پیاز) کے چھلڑ (چھلکے) جتنا تو ضرور ہو گا۔

میں نے بولا کہ ہیر وارث شاہ صاحب سن سکیں گے تو فرمانے لگے۔ یہ جو قرآن مفصل ہے اس کی آیات پڑھی نہیں جا سکتیں تو ہیر وارث شاہ کو کیا کریں۔ یعنے قرآن مفصل زمانہ ہے اور یہ تعینات و تنوعات آیات الہی ہیں۔ ھوالظاہر کو دیکھتے ہوئے ہو الباطن کو حی و قیوم حاضر ناظر پاتے اور اسی سے اسی میں رہتے ہوئے اسی کو دیکھتے وہی ہوتے ہیں۔

پاس ہی جہاں بیٹھے ہوئے تھے چند آدمیوں نے نماز نیت لی۔ میں نے کہا کہ کیا آپ بھی نماز پڑھیں گے تو فرمانے لگے کہ یہ کیا کوئی مشکل کام ہے۔ یعنے نماز تو وہ ہے جو ہم پڑھ رہے ہیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں۔

غلام محمد ابھی میرے پاس ہی رہا کرتا تھا کہ اچانک شہر کی ایک عیار عورت کہ جس نے زمانہ کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے تھے ، پس پردہ غلام محمد پر عاشق ہو گئی۔ اب جب سوز دل نے زیادتی پکڑی تو یہ زور ظاہر ہونے لگا۔ عشق کی آگ چھپی نہیں رہتی۔ اور نہ بجھائے سے بجھتی ہے بلکہ بہڑک(بھڑک) جاتی ہے۔ اس کا لوگوں میں چرچا ہونے لگا۔ غلام محمد منظور نہ کرتا تو پھر شاہ صاحب تک یہ مسئلہ پیش ہوا۔ غلام محمد کو سنت اختیار کرنی لازم آئی۔ اب یہ بھی دونوں ایک چارپائی پر مقیم ہوئے۔ ہر دو کے پٹے بالیدہ قدرتی طور رکاٹے گئے۔ برسوں خدا کی حفاظت میں گزرے۔ یک تن ہوئے۔ خداوند نے سب اچھا نباہا۔ اور گرو نے اچھا کر دکھایا۔ ہر حال میں انگ سنگ رہا۔ آخر ہر دو کا ایک ہی جگہ اکٹھے تھوڑے دنوں کے فاصلہ پر مورخہ جنوری ۱۹۴۴ ؁ دار الفنا سے دارالبقا سدہارے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون

کشتوار کو جانا

غلام محمد کسو کی جناب ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی کی خدمت میں با ادب حاضر رہتا اور ضروری امورات دربار پر عمل کرنے سے کوتہی (کوتاہی) نہ کرتا۔ مذاقیہ (مزاحیہ) طبعیت تھی۔ جب سب جمع ہوتے کوئی نہ کوئی انوکھی بات کر کے خوش کر دیتا۔ چنانچہ اب احباب اپنے مذاق میں پُر مذاق تھے۔ کہ کشتوار سے بھائی امام دین کا خط پہنچا کہ میں بقایا داروں چوب قسط پر اجرا کرانے کے لیے کشتوار گیا،دو تین ملازم بھی ساتھ تھے، بیمار ہو گیا،جس میں کھانا پینا بند ہو گیا۔ کھاتا تو بجائے خود پانی پینے پر پیٹ میں پیچ پڑنے شروع ہو جاتے۔ جس سے کھانا پینا سب چھٹ گیا۔ مہینہ کا عرصہ ہو رہا ہے۔ نوکر تیمار داری میں حصہ نہیں لیتے۔ یہاں کوئی یار ہے نہ مدد گار اور نہ کوئی سننے اور سنانے والا ہے۔ یکہ و تنہا مکان میں پڑا ہوا آہ و فغاں کرتا تڑپتا ہوں۔ پس کوئی پہنچو تاکہ یہاں میری میت خراب نہ ہو۔ یہ خط پہنچنے کی دیر تھی سارے خاندان میں شور ہو گیا کہ جلد کوئی پہنچو۔ سب کی را(رائے) نے اتفاقیہ قرار دیا کہ کوہستان کشمیر میں یہ اکثر رہ کر واقف ہو گیا ہوا ہے۔ جلد جاوے اور اپنے بھائی کو ان سنگلاخ پہاڑوں سے نکالتے ہوا از بسکہ کشمیر گھر پر لے آوے۔

اس خط کے سننے سے بہت اضطراب و بے چینی پیدا ہوئی کیونکہ احباب اور بابا صاحب سے جدا ہونا اب میرے لیے بہت ناگوار ہو گیا تھا۔ لیکن یہ سب باتیں میرے ہی واسطے تھیں۔ دوسرے لوگ اس حقیقت سے نا آشنا تھے۔ یہ خط لے کر پہلے میں اور غلام محمد بوٹے شاہ صاحب کی خدمت میں گئے تا کہ ان سے اجازت لیتے ہوئے روانہ ہو جائیں۔ رات سیدھڑی قاسم شاہ کے پاس رہے۔ صبح شاہ صاحب کے حضور میں پہنچے۔ خط کا حال سنایا۔ (کہنے لگے) کہ تمھارے بھائی کا کلیجہ ڈائنوں نے کھا لیا ہے۔ جو اب بمشیت ایزدی کسی بھی صورت میں بچ نہیں سکتا۔ یہ خبر سنتے ہی دل کو سخت صدمہ پہنچا۔ ناچار شاہ صاحب سے رخصت حاصل کی۔ کہ میرا بھائی ہے اور مائی صاحبہ کا حکم ہے کہ کشمیر سے جلد میرے پارچہ دل کو لاؤ۔ رخصت ملنے پر قاسم شاہ نے کہا کہ میں اس کے بغیر ایک گھڑی زندہ نہیں رہ سکتا۔ یا تو اس کے بھائی کو منگا دو۔ (یا میں بھی اس کے ساتھ جاؤں گا) آپ نے فرمایا کہ سائیں اسے کشمیر جانے دو۔ بھائی کی خبر لینا اس کو واجب ہے۔ تم خواہ مخواہ مت جاؤ۔ فجر سے لے کر ۴ بجے اخیر وقت تک مقدمہ چلتا رہا۔ شاہ صاحب نے نہ مانا۔ حسن بی بی جلال پور کی نوجوان لڑکی جو قاسم شاہ پر پروانہ ہو چکی ہوئی تھی وہ بھی نہ چاہتی تھی کہ قاسم شاہ مجھ سے جدا ہو۔ جب قاسم شاہ آپ سے رخصت مانگتا تو وہ بے تاب ہو جاتی اور مانع ہوتی۔

آخر جب کوئی شنوائی شاہ صاحب وغیرہ کے آگے نہ ہوئی تو قاسم شاہ نے اپنی پگڑی کو جنونی طبعیت ہونے کے سبب جلا دی(دیا) ۔ اس سے پہلے جب ہم ہر سہ دام محبت میں گرفتار صحن میں شاہ صاحب کے آگے کھیل رہے تھے اور شاہ صاحب اپنا کام چھوڑے محو تماشہ تھے کہ قاسم شاہ نے اپنی جہالت سے کہہ دیا کہ کون فلانا ہمیں جدا کر سکتا ہے۔ جس سے میں نے کہا کہ او جاہل تو نے خدا کے آگے غضب ڈھا دیا ہے۔ ایسا لفظ جو بالکل جہالت پر مبنی ہے منہ سے نکالا ہے جس کے عوض یہی ہو گا کہ آئندہ ہمارا اور تمھارا ملنا مشکل ہو جائے گا۔ کیونکہ ہر مدعی و مغرور کا سر نیچا اور بول ہلکا کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آئندہ یہی ہوا۔ خیر جو خدا کو منظور ہو(ہو جاتا ہے)

شاہ صاحب بول اٹھے کہ تو بہت منہ لگایا ہوا خراب ہو چکا ہے۔ گو میں نے رخصت لی اور یہ بلا رخصت آیا۔ بے حکم حسن بی بی کے چلانے کو بھی نہ سنتے ہوئے ہمارے ساتھ چل پڑا۔ ہم ہر سہ رات کو موضع ہنجرائے میں نور ماہی کے پاس ٹھہرے۔ صبح جلال پور پہنچے۔ بابا صاحب نے بھی فرمایا کہ واقعی اس کا کلیجہ ڈائنیں کھا چکی ہیں۔ جس کو بہت عرصہ گزر گیا ہے۔ اس سے پہلے ڈائنوں کے علم پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اب دو جگہ سے منجانب اللہ تعالی شہادت پیدا ہوئی۔ جن کا کہنا اور فرمانا اٹل تھا۔ پورا پورا یقین آ گیا۔ لیکن گھروں میں مشتہر نہ کیا۔ راضی برضائے الہی راضی رہنا لازم آیا۔ بابا صاحب سے بولا مجھے ہر صورت جانا لازم ہے۔ لیکن قاسم شاہ بھی اپنے مولا سے نافرمان ہو کر بغیر ان کی رضا مندی کے بھاگ آیا ہے کہ اس کے بغیر میں نہیں رہ سکتا۔ اور دوسرا غلام محمد میرا ہی بندہ فرمان بردار ہے۔ آپ لا محالہ بول اٹھے کہ یہ ہر دو نہ جاویں گے البتہ میں تیرے ساتھ جاتا لیکن یہ گوڈے (گھٹنے) میرے چلتے نہیں۔ اس سے تو دیکھے گا کہ میں تمھارے ساتھ ساتھ ہوں گا۔ لیکن مجھے ان ہر دو کے کشمیر ساتھ نہ جانے پر چنداں یقین نہ آیا۔ کیونکہ قاسم شاہ تو اپنے خدا کا انکار کیے، بغیر رضامندی چلا آیا کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ اب رہا غلام محمد وہ میرا فرمان بردار غلام اور گرویدہ تھا۔ خیر جو کچھ آپ نے فرمایا آمنا و صدقنا کہہ دیا۔ صبح سویرے ہم پیدل براستہ روڈس جہاں مائیکے میں میری بیوی بیمار تھی اس سے بھی وداع ہونا لازمی تھا کہ اس کی زندگی دنوں کی بات ہے۔ گھر سے رخصت ہوتے وقت بہت آدمی وداع کرنے کو نکلے۔ موضع کلا چور کے مشرقی بیرونی حصہ تک واپس ہوتے رہے۔ جناب بابا صاحب نے زور سے مجھے گلے لگایا۔ اور اتنا پیار سے دبایا کہ مجھے ہوش نہ رہی۔ پاؤں اکھڑ گئے۔ میں جوان اور وہ بوڑھے۔ آپ کی قمر (کمر) خم ہو چکی ہوئی تھی۔ میرا تمام بوجھ اٹھائے رکھا۔ تھوڑی دیر کے (لیے) مجھے ہوش تو نہیں، آپ کا ہاتھ پکڑا نیچے بیٹھ گیا۔ آپ کو بھی بٹھا لیا۔ میں بولا کہ آخر ی ملاقات کے آثار ہیں۔ شبہ پیدا ہو گیا کہ آپ میرے بعد دنیا سے رخصت ہو جاویں گے۔ فرمانے لگے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ تم یقین رکھو کہ میرا یہ جسم تم دیکھو گے۔ پھر مجھے یقین آ گیا۔ پھر بولے کہ میرے تمھارے ساتھ ساتھ ہوں گا۔ تم دیکھو گے۔ پھر آپ کو رخصت کیا۔ رات روڈس پہنچے۔ وہاں سے رخصت لیتے سیالکوٹ اور جموں جا کر لال شاہ صاحب کے پاس ،جو جیون شاہ صاحب مشہور و معروف مستوار کی خدمت میں رہتا تھا ،پونچے (پہنچے) جس نے خوب دعوت کی۔ البتہ غلام محمد کا ذکر بھول گیا کہ جب ہم سیالکوٹ لاہوری شاہ صاحب کی خدمت میں پہنچے تو وہ خود بخود بول اٹھے کہ ہمیں یہیں کشمیر ہے۔ غلام محمد نے اپنا سر دو زانوؤں میں رکھ لیا اور خاموش ہوا۔ بولتا تک نہیں ہے۔ اسے میں نے کہا کہ تم مت جاؤ ہم کو رخصت تو کرو لیکن اس نے ہر چند گھٹنوں سے سر نہ نکالا۔ با امر مجبوری ہم ہر دو (قاسم اور میں) رخصت ہوئے۔ جب یہ مارا گیا تو مجھے کسی قدر یقین ہوا کہ اس پر تو مجھے بہت بھروسہ اور اختیار تھا۔ جب وہ مارا گیا ہے تو قاسم شاہ کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ یہ ضرور دیکھیں کہاں سے رخصت ہوتا اور واپسی کے لیے پکارتا ہے۔ جموں سے لال شاہ صاحب وغیرہ مع احباب رخصت کرنے کے لیے نکلے تہمتہل (تھمتھل) سے باہر تین میل تک خاموش چلے گئے۔ کوئی بولتا تک نہیں۔ ایک تکیہ آیا۔ میں نے کہا کہ یہاں ٹھہرو میں حقہ پانی پی لوں۔ اور پیا۔ یہ قاسم شاہ بولا کہ میرے واسطے بھی پانی لاؤ لیکن نئے پیالے میں۔ میرے دل میں خفگی کی لہر دوڑ اٹھی اور کہنے لگا: او بے وقوف تو نہیں جانتا کہ ہم کدھر اور کس واسطے جا رہے ہیں، جہاں برتن تو کیا کوئی سامان تک نہیں ملتا۔ کیا تو سہولت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے کو میرے ساتھ آیا ہے یا مجھے اپنی خدمت میں لگانے کو۔ جب یہ چند الفاظ میں نے ذرا گرمی سے کہے تو کانپنے لگ گیا۔ اور خاموش کھڑا ہو گیا۔ میں نے تمام وداع کنندوں کو رخصت کیا اور اسے کھڑا کا کھڑا چھوڑ توکل بخدا روانہ ہوا۔ پیدل چلنا تھا۔ لاری وغیرہ کوئی نہ تھی۔ پڑاؤ پڑاؤ سفر کرتا بانہال پہاڑ عبور کیا۔ پہلی بساکھ کی تاریخ تھی۔ امسال برف بہت کم پڑی تھی۔ کشمیر کی جانب کے ندی نالے خشک تھے یا تھوڑا پانی رکھتے تھے۔ جس سے ملک کشمیر کے زمینداروں کو زراعت کے لیے پانی کافی نہ ملتا تھا۔ جس سے پانی بانٹتے ہوئے ان میں جنگ ہو جاتا(جاتی) ۔ اور کئی آدمی مارے جاتے۔ یہ واقعہ کبھی کشمیر میں نہ ہوا تھا کہ برف موسم سرما میں بہت تھوڑی پڑے اور پانی نایاب ہو۔ چہ جائیکہ پنجاب و ہندوستان کی آبادی و زندگی بھی اسی برف پر موقوف تھی۔ اور ضرور ہے کیونکہ اگر یہ نہ پڑے تو پنجاب ہند و سندھ کے ندی نالے خشک ہو جائیں لیکن یہ کب ممکن تھا کہ ایسا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اس میں کیا حکمت تھی کہ امسال برف بساکھ تک نہ پڑی ہو اور تھوڑی۔ رات کو چشمہ وری ناگ سے سات میل صوف کا گاؤں تھا۔ جہاں پر ہمارا ڈیرہ تھا۔ اور اب جہاں جناب والا مرحوم کی قبر تھی۔ رات ہوئی۔ مشیت ایزدی بادل چڑھا۔ راتوں ہی رات اس قدر برف پہاڑوں پر پڑی کہ راستوں کا گزر نا ممکن ہو گیا۔ ڈھلوانوں اور میدانوں میں برف کے تودے کوہ کی شکل میں دکھلائی دینے لگے۔ جتنی سال میں جمع شدہ برف ہوتی اس سے کئی گناں (گنا) بڑھ گئی۔ گویا بیک آن جل تھل ہو گیا۔ گویا اب ملک کشمیر سے کشتوار کا راستہ برف سے پٹا پڑا بند ہو گیا۔ دل کو بہت ناگوار گزرا۔ زمینداروں وغیرہ سے مشورہ کیا جنہوں نے کہا کہ کشتوار جانا ابھی اگر آئندہ اور برف نہ پڑے تو پندرہ بیس یوم تک بند ہے۔ یہاں ایک ایک گھڑی صدمہ پہنچا رہی تھی۔ کہ جلد بھائی صاحب کے پاس پہنچوں تاکہ اس کو کسی قدر تسکین ہو۔ شکاری لوگ جو طلب لیے اس گاؤں میں رہتے تھے ان کو بولا کہ تم موسم سرما میں برف کے اوپر انگریزوں کو شکار کرواتے ہو تو پھر ان دشوار گزار راستوں کو کیسے عبور کرتے ہو۔ وہ بولے کہ ککڑ سینہ (مرغے کی طرح) ۔ میں نے بولا کہ وہ کیا ہوتا؟ بولے کہ برف سے پہاڑ پر ہوتے ہیں۔ راستہ نہیں ملتا تو پھر ککڑ کے سینہ کی طرح چڑھائی ہوتی ہے۔ اس پر ہم لوگ عصا ہاتھ میں لیے پاؤں پاؤں پر چڑھائی میں قدم رکھنے کو جگہ بناتے جاتے ہیں۔ اور انگریز پیچھے پیچھے بہ ہزار خرابی پہاڑ کے اوپر پہنچتے ہیں۔ اور اترتے وقت لوئی (گرم چادر) چوتڑوں کے نیچے رکھ لیتے ہیں اور اپنے آپ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ توکل بخدا اگر رستے میں کوئی تصادم نہ ہو تو چند منٹ میں میلوں مسافت طے ہو جاتی ہے اور جو کسی سے تصادم ہو گیا تو پھر کیا؟ انتڑیاں باہر اور اعضا کے تان تان جدا۔ وہیں خاتمہ بیک آن ہو جاتا ہے۔ چونکہ میں پہلے سے بباعث نہ پہنچنے اور بھائی صاحب کی بیماری کی خبر سے مرنے کو ترجیح دیتا تھا۔ میں نے بولا کیا تماس حالت میں میرا ساتھ دے سکتے ہو۔ ان میں سے دو جوان جوش توش کا بڑا دوہرا جسم رکھتے تھے اور اس کام میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ کہنے لگے کہ چلو۔ کچھ ہو، ہم جان تک دینے کو تیار ہیں۔ میں نے بخود آٹھ آنہ یومیہ اور دو وقت روٹی دینی ان کی مزدوری مقرر کر دی۔ ان نے کچھ نہ بولا اور تیار ہو گئے۔ ایک کا نام لسہ تھا اور دوسرے کا اسمعیٰل۔ اب امن کرنا یا آرام حرام ہو چکا تھا۔ خوف بیم و ہراس۔ صبح ان کو ہمراہ لیا۔ لوگوں سے موت پر بیعت کیے روانہ ہو گئے۔ کچھ پختہ و خام زاد راہ اٹھایا۔ رات درمیان میں آئی۔ صبح سویرے آگے برف تھی۔ کہیں زمین کا نام و نشان نہ تھا۔ تمام وجود پر پٹو ہی پٹو بستہ تھا۔ پاؤں میں پلہوڑو اور جراباں، اوپر پٹیاں، سر پر گرم پٹکے، ہاتھوں میں ہر ایک کے عصا تھا۔ دم بدم بلندی سیدھی ہوتی گئی۔ وہ راستہ بناتے جاتے اور ہدایت کرتے کہ تم نے نگاہ ادھر ادھر نہ کرنی ہو گی۔ آنکھوں پر برفانی عینکیں لگی گویا کھوپے چڑھے ہوئے ہیں۔ اگر میں اتفاقیہ نظر ادھر ادھر کرتا تو چکر آ جاتا۔ اس واسطے دوبارہ نظر اٹھانے اور ادھر ادھر کرنے کو معیوب سمجھتا ہوا ان کی ہدایت پر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا جاتا۔ یہاں تک کہ خاص ککڑسینہ نمودار ہوا۔ پھر کیا تھا۔ جسم سیدھا ہو گیا۔ بلکہ بدن کا بوجھ پیچھے گرنے کو چاہتا۔ میں اس وقت کا نمونہ حیرت افزا بیان نہیں کر سکتا۔ البتہ ایک محبت کی گرمی اور برادرانہ اخوت تھی جس کا جوش بدن میں تھا۔ وہ اڑائے لیے جاتی تھی۔ بہ ہزار تکلیف و دقت فجر سے چڑھنا شروع کیا اور بارہ بجے کلہ کوہ پر پہنچے۔ نظر اٹھا کر دیکھا۔ گہر ائی پر نظر پڑی۔ تو معلوم ہوتا جیسے سیدھی دیوار ہے جس پر سے کود کر چھلانگ مارے میلوں نیچے موت کے پنجہ میں اپنے آپ کو دینا ہے۔ انہوں نے اپنی اپنی لویاں تہہ کیں۔ اور مجھے بھی کہا لیکن میرے میں وہ جرات نہ پیدا ہوئی۔ خیال آیا کہ جس راستہ پر ہم نے اپنے آپ کو چھوڑنا ہے وہ ایک ہی ہے۔ اگر ایک کو راستہ میں رکاوٹ ہوئی اور دوسرا اوپر سے ہوا کی طرح آیا اور ٹکراؤ ہو گیا تو پاش پاش ہو جائیں گے۔ ہر چند انہوں نے مجھے سمجھایا میں نے ایک نہ مانی۔ جانے کے سوا چارہ ہی نہ تھا۔ میں نے کہا ایک تم آگے پاؤں دھرنے کی جگہ بناتے جاؤ اور میں اس پر پاؤں رکھے اترتا جاؤں گا۔ دوسرا آدمی مجھے پٹکا باندھے اپنی طرف تانے رکھے اور میرا بوجھ آگے نہ پڑنے دیوے۔ گو اس میں اگر حیاتی باقی ہوئی تو بہت ہی زیادہ وقت خرچ ہو گا لیکن پہنچ جاویں گے۔ بہ امر مجبوری ہر دو شکاریوں کو یہ ماننا پڑا۔ رسے ایک دو بھی ہم ساتھ لائے تھے۔ پچھلے نے بغلوں کے نیچے سے کس دیے اور توکل خدا آہستہ آہستہ اترنا شروع کر دیا۔ بڑی مشکل و ناامیدی سے ککڑ سینہ کی اترائی اترے۔ جو مشکل اور نا امیدی تھی ختم ہوئی۔ پھر رسے وغیرہ کھول دیے۔ اور بدستور چلنے لگے۔ اترتے اترتے مجھ پر غشی کی حالت تک نوبت پہنچتی تو وہ کھلا پلا کر تازہ دم کر دیتے اور پھر چل پڑتے۔ کچھ تھوڑا دن باقی تھا کہ بہ تائید ایزدی مجھ ناتواں و نا طاقت کو نیچے لائے۔ خدا کا بے شمار شکریہ ادا کیا۔ حیاتی باقی تھی ، چند گھر نیچے آباد تھے ان میں شب باش ہوئی۔ تھکان سے چور چور ہو چکا ہوا تھا۔ ہر دو نے خوب دبایا۔ چاہ(چائے) مع غذا سے گرمایا۔ صبح چڑھائی کوئی نہ تھی۔ نالہ کے ذریعے چلنا تھا۔ سر شام کہیں کشتوار شہر کے آثار نظر آئے۔ یہاں دو شاخیں دریائے چناب کی ملتی ہیں۔ ایک ثورپتن و مریو پتن سے اور دوسری پاوڑ پہاڑ کے نیچے سے جہاں سے نیلم نکلتا ہے۔ ہر دو پر پل لکڑی کے بندھے ہوئے تھے۔ عبور کیا۔ تھوڑی چڑھائی کنارہ کی تھی، کر کے ایک وسیع میدان ،گھاس سے سر سبز ،جسے چوگان کہتے تھے ،ایک میل لمبا، طے کیا اور شہر میں داخل ہوئے۔ پتہ دریافت کر کے مکان پر پہنچے۔ ایک آدمی نوکر اور ایک بھائی صاحب چارپائی پر اور ایک دیوانہ سرہانے بیٹھا ہوا پایا گیا۔ بھائی صاحب کی بات چیت سے پہلے اس کا (کی) آواز کان میں پہنچا(پہنچی) ۔ کہ واہ بھائی بوٹا بوٹا ہی بوٹا ہے۔ پے در پے کہتا گیا۔ میں تاڑ گیا۔ بھائی صاحب سے پر تپاک ملا۔ انسان کو سوائے رونے کے کیا ہو سکتا ہے۔ مل ملا کر فارغ ہوئے۔ تو بھائی صاحب بولے کیا بابا انڈیانوالہ زندہ ہیں؟میں نے کہا انشا اللہ تو بولے بس اب جب میں تندرست ہو گیا تو تمام عمر ان کی جوڑہ برداری میں انشاء اللہ تعالی گزاروں گا۔ میں نے کہا وہ کیوں؟ پہلے تو آپ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ بولے: میری غلطی۔ کچھ دن ہوئے ، رات آدھی گزری ہو گی ،اپنے بستر پر زار و زار رو رہا تھا۔ اپنی بے کسی اور بیماری پر خیال کرتے ہوئے کہ اے میرے مولا میں ملک پردیس میں ، دشوار گزار پہاڑوں میں گھرا ہوا ،جہاں کوئی مشکل سے مشکل تکلیفوں کو برداشت کرتے ہوئے بھی پہنچنا مشکل سمجھتا ہے ،پھنسا ہوا ہوں۔ بیماری سے نڈھال ناقابل برداشت تکلیفیں اٹھا رہا ہوں۔ کوئی والی نہیں نہ وارث نہ دوست نہ غمگسار۔ تو میرے حال پر رحم فرما۔ تاکہ میرا دم اگرچہ مرنا ہے، آرام سے گزرے۔ یہی بیٹھا میں کہہ رہا تھا کہ سامنے جناب بابا انڈیانوالہ آ کر کھڑے ہو گئے۔ مجھے پوچھا: کیوں بیٹا اس قدر غم ناک و اندوہ گیں ہو رہا ہے۔ میں نے من و عن اپنی تکلیفیں کہہ سنائیں۔ کہ عرصہ تین مہینہ سے جو کھاتا پیتا ہوں پیٹ میں سخت درد پیدا کرتا ہے۔ نیم جان ہو جاتا ہوں۔ اس سے کھانا پینا چھوٹ گیا ہے۔ آپ دعا کیجیے کہ اس تکلیف سے مخلصی حاصل ہو۔ آپ نے تسلی فرمائی اور کہا کہ صبح تم قدرے افیون کھایا کرو۔ آئندہ انشا اللہ تکلیف کھانے پینے کی نہ ہو گی۔ البتہ حیاتی و مماتی خداوند کے ذمہ ہے۔ اللہ نگہبان کہتے ہوئے رخصت ہوئے۔ اس روز سے میں صبح افیون ذرا سی کھاتا ہوں۔ قہوہ چائے وغیرہ سے ایک پھلکا کھایا کرتا ہوں وہ شکایت درد و وٹ(پیچ) پھر پیدا نہیں ہوئی۔ تب سے میں نہایت صدق سے ایمان لے آیا ہوں۔ اور دل سے آپ کی جوڑہ برداری کو فخر سمجھنے کا تا زیست تہیہ کر لیا ہے۔ جب بھائی صاحب سے یہ بات سنی تو ثابت ہوا کہ مجھے رخصت کرنے کے ساتھ ہی آپ نے اپنی سنگت کا ثبوت دے دیا ہے۔ اور آپ روحانی صورت میں بھائی صاحب کی تکلیف کے دور کرنے میں مساعی ہوئے۔ الا تقدیر جو کسی سے بھی کم و بیش نہیں ہو سکتی۔ سنا گئے کہ حیاتی مماتی بذمہ خدا ہے۔ میں نے آپ سے مجمل طور پر کہہ دیا کہ واقعی اب آپ دن بدن آرام حاصل کیے جائیں گے۔ من بعد بوٹے شاہ صاحب کا ذکر آیا۔ میں نے پوچھا کہ یہ دیوانہ کب سے یہاں آتا ہے؟بولے کہ ایک مہینہ کے عرصہ سے اس کی آمد شروع ہوئی ہے۔ میں خود تو کچھ کر نہیں سکتا البتہ نوکروں کو کہہ دیتا ہوں کہ اس کو کھانا وغیرہ کھلایا کرو۔ جب سے یہ آیا ہے اس کا یہ تکیہ کلام ہے۔ ’’واہ بوٹا بوٹا ہی بوٹا ہے ‘‘ دو چار باتیں ادھر ادھر کی کیں اور یہ کہہ دیا۔ اندازہ لگایا کہ ضرور جناب بوٹے شاہ صاحب کے دربار میں بھائی صاحب کی مثل پیش تھی۔ آپ سے امداد کی درخواست کی۔ آپ اولیائے کرام کے زمرہ میں سے تھے، بر سر عہدہ ممتاز تھے۔ اپنی روحانی کمیٹی کے کارندے نگہبان کشتوار کو مامور فرمایا کہ وہ بھائی صاحب کی تسلی کو حاضر ہوا۔ مزید واقفیت کے واسطے ملازمان بھائی صاحب سے جو کشتوار تھے کہ یہ کون ہے اور کیا نام و مذہب رکھتا ہے؟معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا نام ہری سنگھ تھا۔ دیوانگی میں یگانگی اختیار کی۔ ہر چیز جو ملتی کھا لیتا۔ لوگ متنفر ہوئے۔ جب کوئی ہندو مردہ جلایا جاتا، لوگ جلتا ہوا چھوڑ گھروں کو آتے، یہ جاتا تو اس کا جلا سڑا گوشت کھانے لگ جاتا۔ جب لوگوں کو خبر ہوئی تو بہت ناگوار گزرا۔ تجویز قرار پائی کہ ہری سنگھ کوکسی دور دراز جگہ پر چھوڑ آویں۔ دو چار آدمی پاندی ہوئے۔ اسے چالیس پچاس کوس پر لے جا کر چھوڑ آئے۔ ابھی وہ لوگ (کسی جگہ اسے چھوڑنے والے) راستے ہی میں ہوتے تو یہ کشتوار آگے (پہلے) ہی پہنچا ہوتا۔ اسی طرح دو چار دفعہ کیا۔ یہ بدستور پہلے ہی چلا آتا۔ آخر ناچار ہو کر اس کو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔ اس نے بھی مرگھٹ کے جلے بھنے مردے کھانے چھوڑ دیے۔ تب سے یہ شہر میں پھرا کرتا ہے۔ اکثر لوگ اس کی خدمت کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب سے بے پرواہ ہے۔ بھائی صاحب کہنے لگے کہ یہ بعض دفعہ کنایۃً کہہ دیا کرتا تھا کہ آج تمھارا بھائی فلانی جگہ ہے بلکہ آج خبر دے چکا ہوا ہے کہ آج آ جاویں گے۔ مرے پہنچنے سے دوسرے دن بعد پھر ہر ی سنگھ نہیں دیکھا۔

کشتواڑ

کشتوار چھوٹا سا قصبہ ہے۔ ایسے ہی انداز پر بازار ہے۔ البتہ تجارت کثرت سے ہوتی ہے۔ یہاں تحصیل کے ہونے سے اکثر پہاڑی لوگ مقدمات کے لیے پہنچتے رہتے ہیں۔ یہ زمانہ قدیم سے کھاہ یا کھس لوگوں کے راجاؤں کے رہنے کی جگہ ہے اور تاریخی واقعات اس کے متعلق تاریخوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے شمال میں ایک بہت بڑا وسیع میدان ہے۔ جو ایک مربع میل کا ہو گا جو چوگان کہلاتا ہے۔ غالباً یہاں کے راجا لوگ چوگان اس جگہ کھیلا کرتے ہوں گے۔ اسی چوگان کے مغربی کونہ پر ایک بہت بڑے خدا رسیدہ کا روضہ ہے۔ جو مرجع خلائق ہے۔ ان دنوں پیر غلام محی الدین صاحب سجادہ نشین تھے جو ظاہری علم سے آراستہ و پیراستہ تھے۔ مشرق کی جانب ناہموار جگہ میں زراعت کی زمینیں دو میل تک پائی جاتی ہے جن میں زعفران کی کاشت بھی ہوتی ہے۔ لیکن ملک کشمیر کے زعفران کا (کوئی) مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ (اتنی) کثرت سے (کہیں) ہوتا ہے۔ جنوب کی جانب پہاڑیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ مغربی جانب نشیب میں ایک میل کی دوری پر دریائے چناب بہتا ہے۔ اور یہیں سے یہ اپنا نام دریائے(چناب) پاتا ہے ورنہ کشتوار شہر سے اوپر دو شاخیں علیحدہ علیحدہ ناموں سے نامزد آتی ہیں۔ ان دونوں کے ملنے سے اس کا نام پہاڑ میں چندر بھاگا ہو جاتا ہے۔ جو یہاں سے گزر کر ایک پڑاؤ کے فاصلہ پر ایک نالہ جو بھدرواہ سے آتا ہے ، مل جاتا ، جس سے زیادہ تقویت حاصل کرتا ہوا۔ ۔ ۔ پہاڑی شہر کے نیچے سے بہتا رام نگر پہنچتا ہے جہاں کشمیر کی سڑک اس پر سے گزرتی ہے۔ ایک آہنی پل سے بہت عمدہ گزرگاہ بنایا گیا ہوا ہے۔ یہاں سے پیچ در پیچ اور خم در خم گزرتا ہوا پہاڑی شہر بنام۔ ۔ ۔ سے آگے چلتا ہوا اکھنور میں پہنچ فراخی حاصل کرتا ہے۔

کشتوار کے میدانی علاقہ کے مشرقی سرے پر پاوڑ کا پہاڑ سامنے نظر آتا ہے۔ جو سنگلاخ سیدھا نظر آتا ہے۔ اور اسی میں سے نیلم نکلتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بھرے ہونے سے کوئی شخص اوپر نہیں چڑھ سکتا۔ خود بخود نیلم گرتا ہے۔ ریاست کی طرف سے بر وقت حفاظت کے لیے فوجی سپاہی تعین (متعین) ہیں۔

یہ علاقہ اہل ہنود کھاہ لوگوں سے معمور ہے۔ جن کا مرکز کشتوار ہے۔ یہاں ایک دن ہم نے قیام کیا۔ بھائی صاحب کے لے جانے کو ایک گھوڑا و ایک عارضی پالکی اور ایک کچابا(کجاوہ) جس میں پہاڑی بیماروں کو مشکل و دشوار گزار جگہوں میں بٹھاتے ہیں جو کرسی کی طرح ہوتا ہے اور طاقتور مزدور کی پیٹھ پر باندھ دیتے ہیں، تیار کیے۔ گیارہ مزدور ساتھ مقرر کیے۔ نویں دن کشتوار سے توکل بخدا ضروری خورد و نوش سب کا ساتھ لیے چل پڑے۔ ہموار جگہ جس قدر تھی اس کے واسطے گھوڑے کی سواری مقرر تھی۔ لیکن تھوڑ ی دور جانے پر معلوم ہوا کہ نا طاقت اور کمزور بہت ہیں۔ پالکی میں بٹھلائے گئے۔ دوسرے دن پہاڑ کے پاؤں کے نیچے مقام کیا۔ مشیت ایزدی رات کو آسماں ابر آلود ہو گیا۔ صبح دیکھا تو کلہ کوہ برف سے ڈھکا پڑا ہے۔ اب کس کی مجال تھی کہ ادھر رخ کرتا۔ کیونکہ بادلوں سے تمام پہاڑ گھرا ہوا تھا۔ خاموش و حیران سب بیٹھے رہے۔ کہ کیا کیا جاوے۔ دوسری رات ہوئی۔ برف زور سے پاؤں تک پڑنی شروع ہوئی۔ جس میں ہم بیٹھے ہوئے تھے یہ ایک گھمسان کا جنگل دیوداروں سے معمور، دن کو بھی رات کا سماں ظاہر کرتا تھا۔ چونکہ ہم سب جوان آدمی تھے دو تین دیاروں کے نیچے ڈیرہ لگا دیا۔ دیاروں میں خداوند نے یہ خوبی رکھی ہے کہ وہ اپنے نیچے جہاں تک اس کا پھیلاؤ ہوتا ہے ، برف و بادل پڑنے نہیں دیتا۔ ایک چھتر سا سب برف و بادل باہر پھینکتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم سب محفوظ تھے۔ تا ہم بھائی صاحب کی بیماری و پھر کمزوری سے بڑا اندیشہ تھا کہ خدا نخواستہ کہیں نمونیا نہ ہو جائے۔ ساتھ کے مزدوروں نے جھٹ تین پائیلیں لوئیوں سے لگا دیں۔ ایک میں تو ہم ہر دو برادر اور باقی دو میں مزدور۔ راشن دو دن کا ساتھ تھا ختم ہو گیا۔ وہی دو مزدور روپے دے کر دوڑائے کہ کشتوار سے جا کر لے آویں۔ واللہ اعلم بالصواب کب تک ایسی برف سے پالا پڑتا ہے۔ اور ہمیں یہیں جنگل میں مقیم رہنے کا امر ہے۔ خاموش۔ ۔ ۔ میں ڈیرے لگ گئے۔ مزدوروں نے سردی سے محفوظ رہنے کے لیے بڑے بڑے دیاروں کو خنکی ختم کرنے کے لیے لا کر آگ لگا دی۔ سارا جنگل روشن ہو گیا۔ سردی کی کوئی شکایت باقی نہ رہی۔ بلکہ وہ پہاڑی لوگ کہنے لگے کہ جہاں آگ روشن ہو وہاں غول بیاباں و درندے شیر چیتے ریچھ وغیرہ نزدیک پھٹکنے نہیں پاتے۔ بلکہ وہ علاقہ چھوڑ بھاگ جاتے ہیں۔ اب سب طرح سے جب بفضل خدا محفوظ ہوئے تو بھائی صاحب کی بیماری کے اندمال کی سوجھی۔ وہاں کیا چارہ تھا۔ چائے و قہوہ و پھلکا پر ٹھہری۔ اور سب کے لیے دال چاول تیار کر لیے اور مکئی کی روٹی۔ دوسرا دو دن کا لایا ہوا راشن بھی ختم ہو گیا۔ نہ برف بند ہوتی ہے اور نہ گزر جاری۔ پھر با امر مجبوری مزدور دوڑائے کہ جاؤ چار دن کا راشن اور لاؤ۔ غرضیکہ اسی طرح اس سنسان جنگل و سنگلاخ پہاڑ میں جہاں پانچ پانچ چھ چھ کوس پر آبادی بالکل ندارد تھی،دن میں بھی رات معلوم ہوتی تھی،راضی برضائے وقت گزارتے رہے۔ گیارہ دن گزر گئے۔ سوائے خدا نہ کوئی یار و غمگسار۔ اسی پر بھروسہ کیے توکل باندھے اپنے آپ کو مامون رکھا۔ اگر فضل خدا شامل حال نہ ہوتا تو اندیشہ سے بھیجا نکل پڑتا۔

اس بن باسی حالت میں بھی میرے مولا نے سنگت نہ چھوڑی بلکہ بہت قریب ہوئے۔ اپنی تجلیات سے دل کو ڈھارس دیتا رہا۔ بارہویں دن جب ابر تھما اور برف بند ہوئی خدا کے بھروسہ پر (جنگل کہ جہاں چند آبادی کیے ہوئے بدستور ویرانہ بنائے) چل پڑے۔ جس کا نقشہ ہمیشہ دماغ میں باقی ہے۔ خداوند کے موجود ہونے اور تنگی میں فراخی کرنے و حفاظت رکھنے کے سامان مہیا کرنے پر ہر طرح سے ایمان میں تقویت پائی اور شکریہ ادا کیا۔

چل کھڑے ہوئے۔ بھائی صاحب پالکی میں بٹھائے گئے۔ شروع ہی میں فرازی و بلندی میں جانا تھا۔ قدم قدم پر ٹھوکریں تھیں۔ پتھر اور گڑھے تھے۔ اگلے حصہ پالکی پر رسے باندھے جن کو آگے چلنے والے تنے جاتے تھے تا کہ اٹھانے والوں کو نشیب میں نہ گراویں۔ آہستہ آہستہ قدم قدم پر رستہ کے بموجب صورتیں بنائے شکریہ ادا کیے چلے جاتے۔ یہ آسانی تھی کہ آدمی کثرت سے تھے اور سامان کافی۔ جس چیز کی ضرورت ہوتی تیار ہو جاتی۔ اب پالکی کا اگلا حصہ سیدھی چڑھائی کے باعث کھڑا ہو گیا۔ بیچ میں بھائی صاحب نشیب کی طرف دھکیلے جانے لگے۔ کچابا (کجاوہ) جو ساتھ تھا اس میں بٹھائے گئے اور کچابا (کجاوہ) کورسوں اور لوئیوں وغیرہ سے ایک آدمی کی پشت پر چسپاں کر دیا گیا۔ اٹھانے والے آدمی کی ہر دو بغلوں سے لے کر اوپر کچابا کے سرے تک رسوں سے باندھے ،سب آدمیوں کے ہاتھوں میں دے کھچیں لگائی ہوئی تھیں ،یہاں تک کہ ککڑ سینہ چڑھائی جو بالکل سیدھی ہوتی ہے جہاں اگر چھٹانک بھر بھی وزن پیچھے ہوا تو میزان کی طرح پلڑہ جھک جاتا ہے، پہنچے۔ اب کچابا اپنا کام دینا چھوڑ گیا۔ اٹھانے والے مزدور نے کہا کہ اب جس قدر بھی تم کھینچو میں پیچھے کو جاتا ہوں۔ کچابا سے بھائی صاحب کو نکالا۔ لسہ شکاری صوف والا سب سے قوت میں زیادہ تھا۔ ایسے موقعوں کو اس نے دیکھا ہوا تھا۔ بولا کہ اب بھائی صاحب کو میری پشت پر بصورت گھوڑا باندھ دو اور تم کھچیں قائم کر لو۔ فوراً ایسا ہی کیا گیا۔ بفضل خداوند اگرچہ سب طرح کے سامان اللہ میاں نے پہلے سے ساتھ کر رکھے تھے وہ حالت جو ککڑ سینہ چڑھائی کی ہے بیان کرنے سے باہر ہے۔ سب کے سب آدمی متاثر ہو کر دست دعا دراز کیے دل خدا میں لگائے اسی فرلانگ پر ککڑ سینہ چڑھائی کو طے کیے کلہ کوہ پر بہ تائید ایزدی بیمار و نیم جاں کو لیے پہنچے۔

سب پر حیرانی و سراسیمگی طاری تھی۔ بھائی صاحب غشی میں پائے گئے۔ سماوار ساتھ تھا فوراً قہوہ تیار کیا۔ پلایا۔ افاقہ ہونے پر چل پڑے۔ پھر کچابا اور پھر پالکی میں لیے، رات اس پار گاؤں میں قیام کیے ،بفضل الہی صوف میں پہنچے۔ یہ دشوار گزار سفر تیرہ دن میں طے ہوا۔ تخمیناًپانچ ہزار روپے صوف تک خرچ آئے۔ تاہم خدا کا ہزار در ہزار شکریہ ادا کیا کہ بھائی جان کی جان سلامت لیے مقام پر پہنچے۔ پنجاب و کشمیر میں ہر ایک جگہ اطلاع دی گئی کہ اس حالت میں خدا کے فضل و کرم سے صوف پہنچ چکے ہیں۔

ابھی صوف پہنچے دو روز نہ گزرے تھے کہ پنجاب سے غلام محمد کسو کی کا خط جانکاہ خبر لیے پہنچا کہ بابا صاحب محمد شاہ انڈیانوالہ بیمار ہو گئے ہیں اور اپنے مکان میں مقیم ہو گئے ہیں۔ ہر چند خادموں نے کہا کہ ہم بیمار داری میں حضوری چاہتے ہیں ،کسی کی ملازمت منظور نہیں فرمائی۔ الامائی فضل بی بی کو کہہ دیا ہے کہ تم نے میری بیمار داری کرنی ہو گی اور ساتھ ہی مجھے حکم دیا ہے کہ غلام محی الدین کو لکھو کہ گھبرانا نہیں ہو گا اور نہ میرے بیمار ہونے کی خبر سے اپنے بھائی کو چھوڑ میری خاطر آنا ہو گا۔ اس کی خدمت و دل جوئی و بیمار داری فی نفسہ میری خدمت ہے۔

اس خط نے دل میں سنسنی پیدا کر دی اب کروں تو کیوں کر (کیا کروں) ۔ اگر ساتھ یہ نہ ہوتا کہ تمھیں اسے چھوڑ آنے کی اجازت نہیں ہے تو شاید بھائی کو بے یار و مدد گار چھوڑ چل دیتا۔ اب بجواب خط میں نے لکھا کہ نہیں رہا جاتا اور ہر چند نہیں رہا جاتا۔ شاید میں دیوانگی میں بھائی صاحب کو چھوڑ چل دوں ،آپ غصہ نہ کریں۔ فوراً ہی جواب آیا جو غلام محمد نے لکھا کہ بابا صاحب کی خدمت میں خط تمھار ا پڑھا گیا۔ آپ نے حکم دیا کہ جلدی جواب دو کہ ہر چند آنا نہ چاہیے اور میرے کہے کو ماننا تمھارا فرض ہے۔ دیکھو میں یہاں ہر طرح سے بیمار ی میں صد ہا سامان رکھتا ہوں اور وہ بھائی تمھارا بغیر تمھارے کوئی پردیس میں اپنا غمگسار نہیں رکھتا اور مزید وہ نا امیدی کی حالت میں ہے۔ بیٹا بالکل اس کی خدمت کو میری خدمت سمجھو۔ان باتوں نے کسی قدر ڈھارس باندھ دی۔ بھائی صاحب کی خدمت میں پہلے سے دریغ نہ تھا۔ تخمیناً مہینہ بھر صوف میں علاج وغیرہ کیا۔ افاقہ تو ہونا نہ تھا۔ البتہ دن بدن کمزور ہوتا گیا۔ مستر ی مولا بخش جو ایک بڑے اچھے اخلاق کا آدمی تھا اور بھائی صاحب کا چوب قسط میں بھائیوال بھی تھا ، سری نگر سے صوف میں بیمار پرسی کو پہنچا۔ جس سے دیکھ کر دل کو پریشانی ہوئی کہ یہ شخص ایسا لطیف و نازک طبعیت آدمی ہے کہ سری نگر میں باسمتی کا پلاؤ کھاتے ہوئے کہتا ہے کہ آج کس نے پکایا تھا ،ہاضمہ نہیں ہوا۔ چہ جائیکہ دیہات میں (کھانا پینا) ۔ جوں توں کر کے تین دن اس کے گزرے۔ اور واپس رخصت کیا۔ اس نے مشورہ دیا کہ تم شیخ صاحب کو سرینگر امر اکدل میں لے آؤ۔ وہاں بڑے بڑے حکیم حاذق ہیں۔ ان کی معرفت علاج کیا جائے گا۔ علم تو پہلے ہی سے تھا کہ کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ آپ کا پیمانہ عمر لبریز ہے۔ تقدیر کا لکھا غالب آ رہا ہے لیکن خاموش۔ کسی سے کچھ نہ کہا جاتا۔ جو کوئی کہتا آمنا و صدقنا کیے جاتا۔ اس کے سوائے چارہ بھی نہ تھا کیونکہ اسرار الہی کا کھولنا بہت بڑا جرم ہے۔

ایک مہینہ کے بعد یہاں سے کوچ کر کے سرینگر امراکدل میں (ایک اوپر کی چھت کا کمرہ پہلے ہی سے مستری مولا بخش صاحب نے کرایہ پر لے رکھا تھا) جا کر مقیم ہوئے۔ بڑے بڑے حکیم لائے گئے۔ یکے بعد دیگرے معالج ٹھہرے۔ اب اسہال عام طور پر شروع ہوئے۔ جس سے بہت عفونت و بد بو آتی تھی۔ کمرہ میں بیٹھا نہ جاتا تھا۔ لیکن فوراً مصفا کرنے اور دوری چھڑکنے سے آرام رہتا۔ رفتہ رفتہ بھائی صاحب بہت کمزور ہو گئے۔ میں نے سمجھا کہ اب انہیں گھر ہی لے جانا لازم ہے۔ وانڈی میں لٹا دیے۔ درگنجن کے راستہ گزرنا تھا۔ مشن ہسپتال کے پاس پہنچے تو بھائی صاحب نے کہا کہ مشن والوں کا علاج مفید ہو گا ،داخل کرو۔ فوراً، نیو صاحب اس کے انچارج تھے ، انہوں نے بعد ملاحظہ داخل کر دیا۔ آہنی پلنگ پر سفید بستر کیا گیا۔ دست کثرت سے جاری تھے۔ جب دست آتا فوراً وہ بستر اٹھایا جاتا اور نیا دھلا دھلایا سفید و مصفا ڈالا جاتا۔ اس طرح شام ہوئی۔ بیماری کی تختی پر لکھا گیا۔ کمرہ وسیع تھا۔ اس میں کوئی اور بیمار نہ تھا۔ بھائی صاحب کے پاس میری چارپائی۔ چھوٹے ماتحت ڈاکٹروں اور نرسوں کی ڈیوٹیاں لگ گئیں۔ جو اب دم بدم آتے اور دیکھ کر چلے جاتے۔ غرضیکہ رات بھر میں اٹھارہ بستر بدلے گئے۔ بیمار داروں کا یہ حال دیکھے طبعیت بہت خوش ہوئی۔ کہ ایسی بیمار داری اگرچہ کتنے ہی درد خواہ ہوں کوئی نہیں کر سکتا۔ اور نہ اتنے وسیع خرچ کی برداشت کہ کتنے بسترے جو وہاں انباروں موجود ہوتے ہیں عمل میں آئے (استعمال ہوئے) ۔ فجر دس بجے نیو صاحب ،جو بہت بڑا خلیق تھا،آیا۔ اس کے اخلاق کا شہرہ دور و نزدیک ادنی و اعلی کے پاس ہو چکا تھا۔ دیکھنے کے بعد خاموشی سے میرے کان میں کہنے لگا کہ اب اس کی حیاتی میں تھوڑا وقت باقی ہے۔ براہ مہربانی اسے جلد لے جاؤ۔ خدا نخواستہ اگر یہاں مر گئے تو ہماری بدنامی ہو گی۔ جس سے میں نے مزدور منگائے۔ چارپائی ان سے لی اور اٹھائے لیے۔ ہسپتال سے تخمیناً ڈیڑھ میل رعنا واری میں ہمارا گھر تھا جلد پہنچ گئے۔ اب کمزوری دم بدم اپنا عمل کیے جاتی تھی۔ اکیلا ہی بیمار دار تھا۔ تین مہینے اسی حالت میں گزر گئے تھے لیکن یہ بھائی صاحب کونہ بولا تھا کہ تم نے مرنا ہے۔ یہی کہا جاتا کہ تھوڑے دنوں کو آرام ہو جائے گا۔ پھر ڈل سیر کریں گے۔ اب ڈل سیر کا موقع قریب آ چکا تھا۔ حلق میں خشکی کے آثار تھے۔ آنکھوں میں بھی رونق نہ رہی تھی۔ تراوت (طراوت) گم تھی۔ رات بمشکل نکالی۔ صبح آثار موت پائے گئے تو میں نے بھائی صاحب کو بولا کہ پندرہ منٹ تک آپ ہم سے جدا ہو جائیں گے۔ کہو اگر کوئی دلی تمنا ہو تو پور ی کی جائے۔ اتنا کہنے پر ان کے آنسو نکل آئے۔ میں نے کہا حوصلہ کرو۔ کچھ کہنا ہو تو کہہ لو۔ بولے کہ میری کوئی تمنا باقی نہیں ہے البتہ میری مادر مہرباں سے اتنا کہنا کہ خدا کے واسطے اپنا شیر بہا مجھے بخش دو اور میرے لیے دعائے مغفرت کرو۔ اس وقت مجھے بھی (مجھ پر) رقت طاری ہو گئی۔ سنبھل گیا۔ کہا کہ دستور ہے کہ مرنے کے وقت سورہ یٰسین پڑھی جاتی ہے۔ بولے کہ میں بذات خود اس کا ہمیشہ سے عادی ہوں۔ جو مجھے ساری کی ساری نوک زبان یاد ہے۔ البتہ میں کہتا ہوں اور تم سنتے جاؤ۔ ملاں لانے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ ایسے ہی وہ پڑھنے لگ گئے۔ وقت بہت قریب تھا۔ تیسری یسین پڑھ کر حلق خشک ہو گیا۔ زبان رک گئی۔ اشارے سے کہنے لگے:زبان نہیں چلتی۔ میں نے کہا کچھ غم نہیں دل سے پڑھو۔ خاموش رہے۔ میں نے پوچھا کہ یسین پڑھتے ہیں؟آنکھ کے اشارے سے کہا کہ ہاں۔ دو تین منٹ کے بعد جاں بحق تسلیم ہوئے۔ دار البقا کو سدھارے۔ اناﷲ و انا الیہ راجعون۔

۱۹۰۹ء بروز جمعرات بمطابق ۱۹ صفر ۱۳۲۰ھ کو رعناواری محلہ زندہ شاہ صاحب کے اپنے جدی قبرستان میں پہلے مسلمان ہونے والے شیخ ضیاالدین کی قبر میں ہی مدفون کیے گئے۔

جو کچھ تقدیر کا لکھا ہے غالب آتا ہے۔ ہزار طرح سے تقدیر کا مقابلہ کیا جائے تقدیر اپنے ارادے و منشا تک پہنچا کر رہتی ہے اور جو تدبیریں یہ کرتا ہے وہ بھی در حقیقت تقدیر کی موافقت میں ہوتی ہیں۔ گویا کچھ بھی ہو رہا ہے تقدیر کی حدود کے اندر ہو رہا ہے۔ یہ اپنے احاطہ تحریر سے باہر ایک ذرہ بھر کام بھی نہیں چھوڑتی۔ والد صاحب اپنے اسی فرزند کی دنیاوی زندگی کے لیے کشمیر میں آ کر بہت کوشاں ہوئے۔ ایک جگہ کورتائی (منگنی) کی اور منسوخ ہوئی۔ پھر دوسری جگہ نکاح پڑھایا۔ جو پڑھا پڑھا رہ گیا۔ پہلے حسب منشا و تقدیر کے آپ ہمیشہ خدا سے دعا مانگا کرتے تھے کہ مجھے کشمیر میں مارنا۔ تقدیر نے صوف میں انہیں دفن کرایا۔ گویا یہ ان کی تدبیریں بھی تقدیر کے حدود کے اندر کام کر رہی تھیں۔

بعد میں بھائی صاحب بیمار ہوئے۔ ڈائنوں کے ذریعہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔ (وہ لوگ) جن پر انہوں نے پندرہ ہزار کی ڈگریاں کرائی تھیں۔ تصدیق اور وہ ملک لوگ بولے کہ آج تک ہم سے کسی نے بقایا قسط وصول نہ کیا تھا۔ ایک یہ تھے جنہوں نے ہم پر صد ہا ہزار کی ڈگریاں کرائیں۔ جس سے ہم مجبور ہوئے۔ با امر لاچاری تمام ملک لوگوں نے مجلس منعقد کی کہ ہمارے ملک میں یہ حربہ دشمن کے لیے زبردست ہے۔ چلانا واجب ہے۔ دو مہا ڈائنیں مقرر کی گئیں جس سے یہ تمام علاقہ آگاہ ہے۔ آپ تصدیق کر سکتے ہیں۔ جو واقعات ہیں ٹھیک ہیں۔ بلکہ بعد میں میں نے جموں رہتے ہوئے بھی اس کی تصدیق کی۔ جس کو بہت ہی ٹھیک اور درست پایا۔ اول تو میرے واسطے جناب شاہ صاحب اور بابا صاحب کا فرمانا ہی پایہ یقین تک پہنچا چکا تھا۔ زیادہ تصدیق کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن ساتھ ہی بابا صاحب (جب میں بھائی صاحب کو لانے کے لیے کشتوار جاتا تھا) نے فرمایا تھا کہ تم اپنی حفاظت کے لیے یہ پڑھا کرو محفوظ رہو گے۔ مزید تصدیق ہوئی۔ پھر ان لوگوں کا کہنا پھر جموں میں آ کر تصدیق کرنا۔ میں پایہ یقین کو پہنچ گیا۔ اور خداوند کا فرمانا کہ جادو بھی میر ی ہی مرضی سے اثر کرتا ہے۔ گویا وہ تقدیر کا خدمت گار ہے۔ اگر احاطہ تقدیر میں اس کے لیے کوئی اذیت نہ ہو تو کچھ اثر نہیں کر سکتا۔ غرضیکہ کچھ بھی احاطہ تقدیر سے باہر نہیں ہے۔ جو عمل ہو رہا ہے تقدیر کی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتا۔

راقم کی بیوی کا انتقال

ابھی میں سری نگر میں ہی مقیم تھا کہ جلال پور سے خط پہنچا کہ تمھاری بیوی مورخہ ۵ جون ۱۹۱۲ء کو اپنے مائیکے روڈس سے جاں بحق تسلیم ہوئی ہے۔دل میں خیال گزرا کہ یہ وقت اس پر بھی آنا لازمی تھا۔ چونکہ وہ بیماری کی وجہ سے تکلیف میں تھی۔ لیکن اس تکلیف و دکھ درد بیماری پر میرے تعین نے اس پر احاطہ کیا ہوا تھا۔ (بیماری) جس میں اس کا انتقال لازمی تھا۔ اور یہ وہ چیز ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے عام دکھوں دردوں تکلیفوں اور نفع و نقصان سے نکل جاتا ہے الا ایک محبوب کا خیال دامن گیر انہوں پر رہتا ہے۔ ایک پشہ خیال تک جہاں یہ ہو کسی خیال و فکر و اندیشہ کو پھڑکنے نہیں دیتا۔ چونکہ اس کی ذات فطرت سے ہی ملوثات سے پاک و صاف تھی پھر سونے پر سہاگہ جس نے اس کو بالکل پاک و منزہ کر دیا تھا انہوں پر سوائے رونے کے برسوں یہی کام تھا اور یہ جوئے اشک خود بخود اس مرض میں جاری رہتی ہے جس سے اس کے گناہوں کی تختی پاک و صاف کی جاتی ہے ورنہ توبہ و زہد و ریاضت گندگی سے پاک نہیں ہوتے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔

جناب بابا صاحب محمد شاہ انڈیانوالہؒ کا انتقال

ابھی بھائی صاحب کے ایام بیمار ی ہی میں تھا کہ جلال پور سے خط غلام محمد کا پہنچا کہ بابا صاحب یہ یہ فرمان کرتے ہوئے دنیا سے انتقال فرما گئے ہیں۔ جو حالت اس خط سے واقع ہونی لازم تھی پیدا ہوئی اور افسوس ہوا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ تم مجھے دیکھو گے۔ کیا وہ بھول گئے تھے؟ ایسی ایسی باتیں روزانہ دہراتا رہتا۔ تا ہم یہ وہم آپ نے پہلے سے نکال دیا ہوا تھا کہ اس وجود کے فنا ہونے، مرنے یا نہ رہنے سے مرنا لازم نہیں آتا۔ بلکہ خط میں ایک دفعہ بابا صاحب کو جوش محبت میں میں نے لکھ دیا کہ اگر یہ بابا صاحب کہ یہ جو بلحاظ جسم ان سے ہمارا تعلق اور گفتگو ہے تو یہ بالکل وہم ہے۔ یہ بلبلہ ہے۔ مٹنے والا اور نہ رہنے والا ہے۔ البتہ جو اس کی حقیقت ہے جس نے یہ کپڑا پہنا ہوا ہے جو طائر قدس اس وجود میں قید ہے اس قید وجود سے نکلنے پر آزاد ہے۔ ہر چند کوئی غم و اندوہ کی بات نہیں ہے۔

چنانچہ یہی تعلیم ہمیشہ آپ کی تھی۔ اور اسی پر یقین و اعتبار رکھنا لازم آتا تھا اور در حقیقت یہی بات حق کو ثابت کرتی ہے۔ بابا صاحب کو یہ خط پہنچتے تھے۔ جس کو دیکھے سنے غلام محمد سے خوشی کا اظہار فرماتے تھے۔ اب جب موت نقل مکان کے ثبوت کے لیے لازم ہے تو اندیشہ کی کون سی بڑی بات تھی۔ البتہ مجلسی دنیا کے واسطے کہ جس میں حقائق بیان فرمایا کرتے تھے کچھ حسب عادت تکلیف محسوس ہونے کا احتمال گزرتا ہے۔ لیکن وہ بھی تا بہ کے۔ یہ ساقی خانہ جو آپ کھول گئے تھے بند ہونے والا نہ تھا۔ وہ شاہد جس کے واسطے ہر ایک جان جوکھوں میں ڈالے تڑپتا تھا ، آپ نے یوسف کنعان کی طرح بازار میں بکتا ہوا بتلا دیا تھا۔ جو خریداری کی ہمت و یاوری و طالع سے خریدا جا سکتا تھا۔ کمی کوئی نہ تھی۔ اگر کسی طرح کی ہے تو اپنی تھی۔ ورنہ آپ نے جو کچھ احسان کیا اس کا عوضانہ ادا نہیں ہو سکتا۔ خدا کی طرف سے تھے اور اسی کی اور گئے مورخہ ۷ساون بمطابق ۱۳۲۰ ھ جسد عنصری کو احباب نے جہاں جسم چھوڑنے سے پہلے وصیت کر گئے تھے دبا دیا۔ اس کھوہ پر پہلے بیٹھا کرتے تھے۔ جب کبھی ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کھوہ پر جہاں دفن ہیں پتہ پاتے اور ملتے تو کہتے کہ آپ کیوں یہاں آ کر چھپ جاتے ہیں۔ تو فرمایا کرتے کہ جب کسی کتے کو کھرک پڑ جاتی ہے تو مکھیاں اس کو ستاتی ہیں۔ جس سے یہ تنگ آ کر بھاگ پڑتا ہے۔ پھر کسی پل کے نیچے یا ٹوٹے ہوئے مکانوں میں آ کر چھپ رہتا ہے۔ اب مکھیاں تھے اہل غرض لوگ ، دنیا کے کتے ،ستایا کرتے تھے اس سے اپنی بچت کو یہاں چلے آتے۔

بلکہ یہ شہابلے کو کھوہ اس طرح تیار ہوا کہ شہابلہ غریب زمیندار آپ کا ہمسایہ تھا۔ معاشرت میں بہت تنگ وقت گزرتا تھا۔ یہاں اس کی تھوڑی سی زمین تھی۔ آپ نے فرمایا کہ روزانہ تم یہاں ٹویا کھودا کرو۔ جب نکل آئے تو پانی اچھا نکلے گا۔ تنگی ترشی سے کنواں تیار کر لو۔ انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی۔ ان کو اعتبار تھا کہ آپ کا کہا اٹل ہے،پانی اچھا نکلے گا تو اس نے کہا نہ ٹالا اور کھو کھود دیا۔ امید قوی ہے کہ روپیہ پیسہ میں آپ نے مدد دی ہو گی کیونکہ خیرات حسنہ کے عادی تھے۔ ایسی خیرات کرتے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ کھوہ تیار ہو گیا۔ مرنے سے ایک سال پہلے آپ یہاں آ کر چھپ جاتے۔ شہابلے سے بھی فیصلہ کیا ہو گیا کہ تم نے میری قبر کو جگہ دینی ہو گی بلکہ اس کی قیمت بھی آپ نے خود ہی ادا کر دی ہو گی۔ زمین تعدادی چار مرلہ ہے۔ اس میں یہ بات بابا صاحب کے مد نظر تھی کہ قدرت اللہ حاسد اور رشک بھرا ہے اور حسن بی بی اس کے رعب میں ہے۔ اگر میر ی قبر احاطہ شاہ صاحب میں ہو گی تو مبادا پچھلے احباب کو تکلیف پہنچے۔ اس لیے مرتے ہوئے وصیت کر گئے کہ اگر کسی نے میری لاش قادر شاہ صاحب کی طرف لے جانی چاہی تو تم نے ماننا نہ ہو گا۔ میری ٹانگوں میں رسی باندھے شہابلے کے کھوہ پر جہاں آپ نے پاؤں کی طرف بیر کا درخت نشان لگوایا ہوا تھا مجھے خام قبر میں گاڑھ دینا۔ پختہ قبر بالکل نہ تیار کروائی۔ اس واسطے ہر چند ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی نے درخواست کی کہ آپ میرے باپ سے بڑھ کر ہیں۔ آپ حکم دیں تا کہ قبر احاطہ سرکار میں لگائی جائے۔ آپ نے فرمایا بیٹا میں نے شاہ صاحب سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ میں تا زیست تمھاری لڑکی کی دل جوئی کرتا رہوں گا۔ ایک سر مو فرق نہ کروں گا۔ الحمد اللہ کہ میں بفضل خداوند اپنے وعدے میں کامیاب ہو ا۔ جس قدر مجھ سے بن آیا دامے درمے اپنے بیگانے سب کی خدمت کرتا رہا۔ تمھاری دل جوئی میں ذرہ بھر فرق نہیں کیا۔ اب تم قبر کے معاملہ میں مخل نہ ہونا۔ میری قبر ضرور شہابلے کے کھوہ پر ہونی چاہیے اور ہو گی۔ ہمشیرہ صاحبہ اس وقت ابھی قدرت اللہ کی رعب میں تھی۔ بلکہ زور بھی نہ دیا ہو گا۔ کہ وہ ناراض نہ ہو جائے۔ وہیں (وصیت کے مطابق) قبر کھودی گئی اور بخیر دفن ہوئے۔

بھائی صاحب کے مرنے کے بعد مجھے اب وہ شوق پنجاب میں پہنچنے کا چنداں باقی نہ رہا جو بابا صاحب کی موجودگی میں تھا۔ ان کی زیست میں میں ایک دفعہ وری ناگ سے جموں تین دن میں پہنچا۔ یہ سب ان کی قوت ارادی اور محبت پر موقوف تھا۔ آپ کی جدائی ایک دم نہ بھاتی تھی بلکہ ان کی صحبت میں ہمنواؤں کے ساتھ ہم رنگ ہونا بڑے معنے رکھتا تھا۔ تا ہم ان میں بابا صاحب کا ہونا ان مغوں کی مجلس میں پیر مغاں بڑے سبھا پتی معلوم ہوتے تھے۔ جب وہ چل دیے تو اب جنون و کشش نہ رہی۔ حالانکہ جو کچھ آپ میرے بارے میں کلمات کہہ گئے تھے کہ جب غلام محی الدین آ جائے تو سب نے میری طرف سے اس کو سجدہ کرنا(ہے) اور مائی صاحبہ فضل بی بی کو کہہ گئے جب مرنے لگے تو اس نے پوچھا کہ چاچا جی مجھے کس کے سپرد کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ تیرا سجدہ غلام محی الدین کے پاؤں میں۔ اور بھی بہت سی باتیں اپنی خوشنودی کی ظاہر فرما گئے تھے لیکن میرے خیال میں سمائی تک نہیں۔ اس واسطے کہ بھائی صاحب کا کام بہت وسیع تھا۔ اول تو پندرہ ہزار روپیہ کی ڈگریاں۔ ان کا اب راقم مالک تھا۔ میرے نفس نے ذرہ بھر بھی ان کی طرف توجہ نہ کی۔ مستری مولا بخش کو لکھ دیا کہ تم جانو اور تمھارا کام۔ اس کو کاغذی اختیار دیے اور بہت سے دوسرے کاموں میں وہاں بہت وقت گزر گیا۔ موسم سرما گزرنے لگا۔ ساون میں انتقال ہوا تھا۔ کاتک میں جلال پور پہنچا۔ احباب کو خوشی ہوئی۔ بابا صاحب کی قبر دیکھی اور یاد دلایا کہ تو جھوٹا تو نہ تھا۔ خیر اسی میں موسم سرما گزر گیا۔ وصیت تھی کہ قبر پختہ نہ ہو۔ میں نے کہا کہ قبر کے باہر احاطہ قبر بنایا جائے۔ اس روز سب احباب جمع تھے۔ قبر پر مٹی بہت پڑی ہوئی تھی، ہٹائی گئی۔ مغربی کونہ دیکھا تو مٹی کا سوراخ ہے۔ حیران ہیں کہ اب کیا کریں؟ میاں صاحب نے فرمایا کہ رات کو ہم خود آ کر قبر ٹھیک کریں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تختہ قبر کھایا گیا ہے۔ رات آ گئے ، مٹی اٹھائی گئی، دیکھا کہ چیرویں قبر ہے۔ اوپر تختہ دیا گیا ہوا ہے اور یہی غلام محمد منتظم تھا۔ پورے طور سے، غور سے کام نہ کیا ہوا تھا۔ تختہ کے ایک ڈنڈہ کو جو سرہانے کی طرف تھا دیمک نے اس کا سرا کھا لیا ہوا تھا۔ کمزور ہونے سے اس طرف کی مٹی قبر میں چلی گئی تھی۔ تختہ اٹھایا۔ لالٹین کی روشنی میں اوپر سے دیکھا کہ بفضل خداوند میت کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں۔ میں بیچ میں کود پڑا۔ ہاتھ لگایا تو جیسے کوئی سوکھی ہوئی لکڑی ہے ویسے میت پڑی ہے۔ اوپر کا کفن بھی ویسے ہی کپڑے کا بدستور ہے۔ دیمک وغیرہ نے نہیں کھایا۔ یرقان کی حالت سے سب وجود پر زردی چھائی ہوئی ہے۔ جس سے کہ کفن بھی زرد ہو چکا ہوا ہے۔ سر کے بال چھوٹے چھوٹے اور داڑھی کے ویسے ہی ہیں۔ البتہ جس جگہ مٹی آنکھوں کے اوپر پڑی ہوئی تھی ، ہر دو میں ایک آنکھ کا آنا بالکل ندارد تھا۔ مگر اعجاز یہ تھا کہ جس حالت میں دیمک لکڑی جیسی چیز کو کھا چکی ہے لاش کی طرف کیوں نہیں آئی جو بالکل ملائم ہے اور کفن جو اس کی فوری غذا ہے اسے چھیڑا تک نہیں۔ یہ حرمت وجود ہے۔ بلکہ گاہ گاہ آپ کی زبان سے نکل جایا کرتا تھا کہ اگر گھوڑے کا سوار گزر گیا تو گھوڑا خواہ مخواہ گزر جائے گا۔ میاں حامد علی صاحب، غلام محمد، اللہ دتہ و راقم چہار آدمی سے اس وقت سوائے سکتہ کے کچھ نہ بن پڑا۔ وہ محبت کہ جو بدن سے ہوا کرتی ہے تازہ ہوئی۔ تھوڑی دیر سکوت کا عالم طاری رہا۔ اب تجویز قرار پائی کہ آپ کا حکم ضرور خام قبر کا ہے اس واسطے انہیں فرش زمین پر رکھا جاوے اور اوپر ڈاٹ پختہ بنائی جاوے۔ لاش مبارک کو رات قبر ہی میں رہنے دیا۔ فجر ہوئی۔ قبر کی اسامی چیرویں لاش کو اٹھا۔ پُر کیا گیا۔ اوپر ریگ عام بچھا دی گئی۔ پھر لاش مبارک کو رکھا۔ اوپر ڈاٹ حسن محمد کوڑا معمار جناب شاہ صاحب سے تین دن میں تیار کروائی۔ اور اس ڈاٹ کو ہر دو جانب سے پور (پر) کیا۔ قبر کا نمونہ بنایا۔ ڈاٹ کی فراخی اس قدر رکھی گئی کہ اگر بابا صاحب کے ہر دو جانب ایک ایک میت رکھی جاوے تو تب بھی جگہ وافر بچ رہتی ہے۔ بابا صاحب کی لاش مرنے کے دس مہینہ بعد نکلی۔ عام طور لوگ تین دن تک جب تک کہ ڈاٹ آہستہ آہستہ بنتی رہی دیکھتے رہے۔ ایک ہی حسن محمد بنانے والا تھا۔ جس نے بولا کہ دوسرا آدمی مت لاؤ کیونکہ یہ میرا مہربان ناصح و ہم مجلس ہے۔ میں محبت سے یہ کام کروں گا۔ اس کے بعد اس کی چار دیواری بنائی گئی۔ اور میں میری والدہ مرحومہ اور مائی صاحبہ فضل بی بی اور مادر مہر بان شیخ غلام حسن ڈاکٹر یعنی نظام دین کی بیوی مرحومہ کی اسی (یہ) جگہ ہوئی۔ کیونکہ ان سب نے مرتے ہوئے دست بستہ یہی دعا مانگی اور چاہا کہ ہمیں جوار رحمت بابا صاحب مرحوم میں دفن کیا جائے۔ اس کے بعد مائی صاحبہ فضل بی بی کے ایما سے آپ کا سالانہ عرس ۷ ساون ۱۳۲۰ ھ سے جاری ہوا جس میں تمام احباب جو آپ کی تربیت میں آ چکے ہوئے تھے حصہ لیتے رہے۔

مائی صاحبہ فضل بی بی کے حالات

میرے آنے پر مائی صاحبہ فضل بی بی کا کچھ اور ہی رنگ پایا گیا۔ دیکھا کہ مہجوری کا دل پر قبضہ ہو چکا ہے۔ کاروبار جو آگے کرتی تھی اس سے دل برداشتہ ہو گیا ہے۔ اس کی دو لڑکیاں بیاہی ہوئی اعیال دار تھیں ان سے توجہ ہٹ گئی ہے۔ فقط یہ وظیفہ شروع ہو گیا ہے۔ گیارہ بارہ بجے آدھ پاؤ گوشت لاتی ہیں۔ اس کا بھوننا تیار کرنا شروع ہے۔ شام سے پہلے تک اسی میں منہمک ہے۔ پھر دو چھوٹی چھوٹی روٹیاں تیار کی ہیں۔ مٹی کی تباکھری میں خوب مزیدار بھونا ہوا گوشت رکھ لیا ہے۔ اور وہ روٹیاں دستر خوان میں تلی پر رکھے سر بازار پرانے تھانہ میں سے نکلتے چل پڑتیں۔ ہر ایک کی نگاہ پڑتی ہے کہ مائی صاحبہ بلا ناغہ روزانہ کہاں تشریف لے جاتی ہیں۔ تو چند مہینوں کے بعد بول اٹھتی ہیں کہ اس انڈیانوالہ فلانے فلانے نے مجھ پر سحر پھونک دیا ہے۔ نہ دین کا رکھا ہے نہ دنیا کا۔ نہ اپنے کام سے اور نہ بیگانے سے مطلب۔ آٹھوں پہر مجھ میں یہی دھن رہتی کہ میں غلام محی الدین کے پاس بیٹھی رہوں۔ کچھ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ایسا واقعہ کیوں میرے در پیش ہے۔ دل دور کرنا چاہتی ہوں نکلتا نہیں۔ میں نے بڑے بڑے عیار و طرار و ہشیار آدمیوں کی چالاکی نکالے چاروں شانے چت گرا دیا ہوا ہے۔ بڑے لوگ میرا لوہا مانتے ہیں۔ کیا یہ ایک نادان اور سیدھا لڑکا جس سے نہ کوئی غرض اور نہ کوئی تعلق، نہ لینا اور نہ دینا۔ تعجب ہے ! یہ کون سی پھانسی میرے گلے میں پڑ گئی ہے۔ آہستہ آہستہ اپنے آپ کو گالی دینے لگ جاتی ہیں۔ رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ بابا صاحب اور اپنے آپ اور مجھے گالی گلوچ دیتی چلی آتی ہیں۔ جب وہ پکا پکایا خوب مزیدار گوشت اور دو روٹیاں پہنچتی ہیں (ایسا شام کا کھانا کھانے سے پہلے ہوتا ہے) تو میں حاضرین کو جس قدر بھی ہوں ایک ایک لقمہ اور اوپر ایک ایک بوٹی رکھے تمام کو تقسیم کر دیتا ہوں۔ یہ بھی ایک لقمہ کھا لیتے ہیں۔ جس سے آپ جل بھن کر کوئلہ ہو جاتی ہیں۔ اگر جب تشریف فرما ہوں اور میرے پاس کوئی پہلو سے پہلو لگائے بیٹھا ہو تو بے قابو ہو کر بول اٹھتی ہیں۔ کہ تو کون ہے جو اس کے برابر پہلو سے پہلو لگائے بیٹھا ہے؟ دور ہو جا۔ کوئی اچھی چیز انہیں کھانے پینے کی مل جاتی ہے تو آپ نہیں کھاتیں گھر سے دوڑ پڑتی ہیں۔ مغربی حصہ شہر سے مشرق میں لانے سے کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتیں۔ اور چار چار دفعہ نادر و لطیف چیز ملنے پر آتی ہیں۔ پھر اپنے آپ کو گالی نکالتی ہیں کہا چھا اب نہیں آؤں گی۔ اگر آئی تو اپنے باپ کی بیٹی نہ ہوں گی۔ کسی غیر کی ہوں گی۔ چلی جاتی ہیں۔ ابھی گھر پہنچتی بھی نہیں تو پچھلے پاؤں پھر چل پڑتی ہیں۔ آپ کئی کئی دن غذا نہیں کھاتیں۔ کسی نے کوئی کلمہ مذاقیہ کہہ دیا تو غصہ میں پڑے تین تین چار چار دن بلا غذا نکال دیتی ہیں۔ جس کو دیکھ دیکھ کر میں حیران کہ اے میرے مولا یہ کیا کرشمہ ہے جو بابا جی کر گئے ہیں؟ تو یہ پھر سمجھ میں آتا ہے کہ یہی ابر رحمت الہی کی بارش ہے جس سے سخت اور خرابے والی زمین میں تر و تازگی پیدا ہو رہی ہے۔ مائی صاحبہ کے آنسوؤں کی جھڑی ثابت کر رہی ہے کہ وہ گناہ جو ہم لوگ کیا کرتے ہیں جس کا نقشہ دماغ و حافظہ میں چھپتا جاتا ہے۔ کس طرح مٹاتے دھوتے نہیں دھل پاتا۔ اس کے لیے یہی آنسو ہیں جس سے وہ سیاہ شدہ تختی پھر روشن و سفید ہو جاتی ہے۔

تا نہ گرید کودکے حلوہ فروش

بہر بخشائش کجا آید بجوش

(مولانا روم)

خدا کا فضل و کرم بہت وسیع ہے۔ اس کی رحمت نے دو جہاں کو اپنے میں ڈھانپا ہوا ہے۔ رحمن ہے جس نے کل کائنات کو اس رحمانیت کے ایک رشتہ سے باندھا ہوا ہے۔ ہمارے عیب و ہمارے گناہ ہماری روسیاہی اگرچہ کتنی بڑی لیکن اس کی رحمت بہت ہی بڑی ہے۔

اسے فضل کرتے نہیں لگتی بار

نہ ہو اس سے مایوس امیدوار

ہمارے دیکھنے اور مشاہدہ میں یہ در آب خوب آیا کہ غلام محمد اور اس کی پھیلاں اور مائی صاحبہ ایک ہی پیمانہ کے ایک ہی اخلاق اور عیاری و چالاکی کے ایک خوراک و عمل کے ہم رنگ تھے۔ ہم سنگ و ہم وقت۔ پھر برابر کی شہرت رکھتے تھے۔ لیکن ہمارا پیارا مولا نیارا و نرالا مولا خطا بخش و خطا پوش ہے کہ ایک تو وہاں سے سوائے عفونت و بدبو کے کچھ نکلتا نہیں، آن واحد میں وہاں کستوری سے بڑھ کر عطریات اور بالا تر خوشبوؤں سے معطر کر دیتا ہے کہ جس کے پاس سے گزرنے والے کا دماغ مہک اٹھتا ہے۔اب جہاں پر پھیلاں کیا مائی صاحبہ فضل بی بی ہو جائے جس کی مٹی عرصہ سولہ سال میں پاک و صاف کی جاتی ہے اور روح پرور ریحاں سے معنبر و معطر کیا جاتا ہے اور وہ بھی بڑے زور سے خدائی جانب سے نہ کہ تائب ہونے کی صورت میں۔ عجب ہی خدا کی خدائی میں اگر آنکھیں ہوں تو دیکھنے اور سمجھنے میں آتا ہے۔ کسی کا اللہ اللہ کرتے دماغ معطل اور زبان گھس جاتی ہے، منظوری نہیں ہوتی۔ کوئی ناز و ادا کرتا ہے۔ منہ کرنا نہیں چاہتا۔ بڑے زور اور جبر سے کعبہ کی طرف منہ کیے حاصل مراد دکھایا جاتا ہے۔ در حقیقت خداوند کی اپنی مخلوق اپنی بناوٹ اور اپنا ہی کیا ہو ا ارادہ میں آیا ہوا زمانہ ہے جسے جہاں چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ کسی کو اس میں دخل دینے کی گنجائش نہیں۔ اگر شفاعت ہے تو بھی اس کی مرضی سے ورنہ کوئی شفاعت نہیں کر سکتا۔ دیکھو تو اب ان ہر سہ رو خلقان جہاں کی خاک پا کا سرمہ بنایا جاتا ہے اور جس بات میں ہمارا دیکھا ہوا واقعہ ہے خدا سے ناز و ادا میں سفارش کرتے ہیں اپنا پیا اسے منظور کیے انہیں خوش کرنے کو تیار ہوتا ہے۔

چنانچہ ایک روز مائی صاحبہ فضل بی بی مجھے کہتی ہیں کہ سولہ سال کا عرصہ گزرا ہے جب سے میں تمھاری بندہ وار خدمت کر رہی ہوں اور (خدمت) بے ساختہ ہو رہی ہے۔ مجھے خیال آتا ہے کہ اگر مجھے کسی طرح تکلیف بیماری وغیرہ ہو گی تو مجھے کیسے یقین ہو کہ تم میری خدمت کرو گے یا نہیں۔ اچھا میں پہلے بیمار ہو کر دیکھتی ہوں۔ مشیت ایزدی بیمار ہو جاتی ہیں تو ان کو گھر سے اپنے ڈیرے پر لایا جاتا ہے۔ جو آدمی ڈیرے پر آنے والا ہیں تمام کے تمام اس کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ ایک اٹھتا ہے اور دوسرا دبانے دلجوئی کرنے کو بیٹھ جاتا ہے۔ اتنے میں پندرہ دن گزر جاتے ہیں۔ آپ بہت خوش ہو جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اب مجھے پورا پورا یقین آ گیا ہے کہ تم میری خدمت میں کوتاہی نہ کرو گے۔ تندرست ہو کر گھر چلی جاتی ہیں۔ پھر پندرہ بیس یوم تک بالکل تندرست ہیں۔ بیماری کا کوئی نشان و گمان نہیں کہ اچانک بیمار ہو گئیں۔ سب کے سب احباب خدمت میں باری باری پہنچے جاتے ہیں اور حتی المقدور خدمت میں کوتاہی نہیں کرتے۔ اتنے میں میں جاتا ہوں۔ احمد دین ساتھ ہے۔ چونکہ احمد دین کی میرے ساتھ محبت کی وجہ سے آپ رشک کرتی رہتی تھیں۔ میں سمجھا کہ اب آخری وقت میں یہ بلائے رشک نکل چکی ہو گی۔اس کو سامنے بٹھایا کہ اس سے بخوشی رخصت ہو جیے۔

مائی صاحبہ فضل بی بی کی وفات

تو آپ اسی نگاہ سے جیسے کہ پہلے دیکھا کرتی تھیں دیکھتی ہیں۔ جس پر آخر میں نے اندازہ لگایا کہ یہ لوگ جو گرفتاران تعین ہیں بت کی قید میں ہیں۔ زنانی ہو یا مرد ہر دو میں یہ بلا بن بلائے نازل ہو جاتی ہے۔ جس کی رفتار عشق سے بڑھ کر ہے۔ گویا آفت عشق گڑھا ہے اور رشک بجلی جو آن میں جلا دیتی ہے۔اس سے ایسا ثابت ہے کہ ایک مکھی تک بھی یہ لوگ اپنے تعین پر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ بیک آن جل بھن کر کوئلہ ہو جاتے ہیں۔ میں نے جھٹ احمد دین کو اٹھا دیا اور سامنے آپ بیٹھ گیا۔ وداع کا ہاتھ ملایا کہ اللہ نگہبان۔ آپ چلیں ہم بھی کوئی دم میں اپنے وقت معینہ پر آتے ہیں۔ بخوشی طائر روح قفس بدن سے نکل کر رخصت ہوا۔ اس وقت ۳ دسمبر ۱۹۱۷ء اور ۱۳۳۶ھ تھا۔ جوار رحمت بابا صاحب انڈیانوالہ میں مدفون کیے گئے۔ مائی صاحبہ کا یہ سولہ سالہ بابا صاحب کے بعد چلہ تھا جس میں آپ کی منظوری ہوئی اور حضرت عشق نے خوب پاک کیا۔ یہ سب بابا صاحب کی مہربانی و توجہ کے باعث ہوا جنہوں نے ستاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ستر پوشی کی اور بیک قلم سب گناہ دور کر دیے اور اپنے زمرہ میں منسلک کیا۔

عشق مجاز و تعین کے چند مشاہدات

تعین بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے چند واقعات دیکھنے میں آئے۔ اول سے آخر تک نگاہ دوڑائی۔ غور سے اس کے حالات پر عبور کیا تو ثابت ہوا یہ بھی بصورت جمال اپنا جمال دیتے ہوئے سب کدورتوں، گناہوں، کثافتوں کو دور کر دیتا ہے لیکن کسی کے لگائے نہیں لگتا۔ عطیات الہی سے ہے۔ ’’فاینما تو لو افثم وجہ اللہ ‘‘ کی صورت میں اپنا جمال دکھاتا ہے اور اس میں شجر و حجر، کوہ و کاہ اور انسان و حیوان کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ یہ ہر جگہ موجود۔ حی ہے قیوم و حاضر و ناظر ہے۔ جس جگہ میں سے اپنے فضل و کرم سے دکھائی دے یہ ناظر الہی وہیں لگ جاتا ہے۔ اسی شمع خیال پر اپنا آپ قربان کرتا ہوا اپنی احولی دور کرتا ہے۔ اپنے تعین میں مستانہ وار شراب محبت میں سرشار رہتا ہے۔ براق عشق پر سوار برسوں کی منزل آن کی آن میں طے کیے جاتا ہے۔ اور اسے سوجھتا نہیں۔ تکلیف محسوس نہیں ہوتی اور نہ واویلا کرتا ہے۔ البتہ اپنے محبوب کے خیال سے اول تو خدا نخواستہ اگر کوئی مانع پیدا بھی ہو جائے تو فوراً اس کا سر کچل دیتا ہے۔ خواب و خور، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اسی کا دھیان۔ اسی میں کھویا اور اسی کا تصور سامنے رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس کا اپنا وجود وجود محبوب و مطلوب ہو جاتا ہے۔ تن بدن جان میں کوئی مغائرت نہیں رہتی۔ ان ہر دو شخصیتوں میں سے جس پر غلبہ حال زیادہ ہو وہ زیادہ اپنے وجود کو فراموش کیے وجود جاناں کا اثبات پاتا ہے۔ جس جس انداز سے یہ پہلے چلے اسی کی صورت اس کی بندھتی ہے۔ بعض مقام ادب میں بندہ اور مولا اور بعض عاشقانہ انداز میں حد ادب سے گزرے فنا فی المحبوب ہوتے تمیز نہیں رکھتے اور وہ جو بندہ اور مولا کی صورت انوار کو پیدا کر تا ہے حضوری ہوتے ہیں۔ آخر کو وہ بھی اسی میں فنا ہو جاتا ہے۔ لیکن بدیر منزل مقصود اور کنار عافیت پر پہنچتا ہے۔ البتہ اعجاز و کرامات کرتا ہوا صاحب سلسلہ وار سے جماعت بزور بن جاتا ہے لیکن وہ جو ان حدوں کناروں و قیدوں میں نہیں آتا

از اں افیوں کہ ساقی در مے افگند

حریفاں نہ سر ماند نہ دستار

نکلا چلا جاتا ہے۔ آخر میں اگر فضل خدا شامل حال ہو اور رہبر کامل کی نگرانی اور پرورش میں آیا ہو تو المجاز الحقیقت کے مصداق قطرہ وار سمندر سے مل جاتا ہے۔

جب میرا بھائی کشمیر سے پنجاب اور گھر پر آیا۔ چندے مقیم رہا۔ میری تکلیف کو محسوس کیا کہ اپنے احباب کی کثرت آمد سے محسوس کیا کہ عیال میں بیٹھنے سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے جناب بابا صاحب کی بھی یہی منشا تھی کہ علیحدہ مکان ہونا چاہیے۔ آپ کی منشا و ارادہ بھائی صاحب میں سے ظاہر ہو ا۔ باغیچہ متعلقہ مسجد سے شمالی جانب ایک جھور(ماچھی۔ نانبائی) کی سفیدہ زمین تھی۔ اس میں سے کوٹھا کے لیے سوا مرلہ زمین سفیدہ لے کر ایک کمرہ بنوایا۔ جس میں بیٹھ کر ابھی تیاری کی صورت ہو رہی تھی کہ بابا صاحب نے فرمایا کہ اس مکان کے دروازوں دریچوں کی چوکھٹوں میں سے شرابِ عشقِ الہی کی بوآوے گی۔

کمرہ تیار کرا کے بھائی صاحب تو کشمیر روانہ ہوئے اور میرا ڈیرہ عیال سے باہر اسی کمرہ جدید میں لگ گیا۔ اب منشا الہی ظاہر ہونے لگی۔ ہر وقت عاشقان زار کا تانتا لگا رہتا۔ جو اپنے اپنے جان گداز و جگر سوز زخموں کی یلغار چاہتا۔ ان طائران قدس میں سے ایک سے دوسرا براق عشق پر سوار زور میں زیادہ ہوتا۔ جس کے واقعات و حالات اگر علیحدہ علیحدہ لکھے جائیں تو ہر ایک کا قصہ لیلی مجنوں و ہیر رانجھا و سوہنی مہینوال سے کم نہ ہو گا۔ بلکہ یہ کارزار عشق میں عشاق کے مقابلہ میں شمشیر خون آشام عاشق سے نت نئے دن بڑی بھاری صفائی سے قتل ہوتے اور نئی سے نئی جان حاصل کرتے پائے جاتے تھے۔

چنانچہ ان میں سے ایک کا تھوڑا سا کرشمہ بیان کرتا ہوں۔ کہ نور ماہی ارائیں ہنجرائے کو میرے پاس بیٹھے دس دن گزر گئے تھے۔ گھر بار کی پہلے سے ہی سمائے نہ تھی۔ ذکر حبیب میں بھی وصل کو پاتا تھا۔ اس کی ایک ہی آیت کو بار بار پڑھتے ہوئے بس نہ کرتا۔ اور نہ رات دن کا پتہ رکھتا تھا۔ گو میں بارہا اکتا جاتا لیکن یہ پھر چوکنا کرائے ستانے لگ جاتا تھا۔ قہر درویش بر جان درویش۔ مجھے چارہ نہ تھا اور نہ حکم کہ میں کسی طرح کا دریغ ان وارفتگان خویش و بیگانہ سے کروں۔ میری دروازہ کی طرف پشت تھی اور اس کا منہ۔ نہایت مسرور و معمور تھا کہ اپنے بھائی کو دروازہ میں قدم رکھتے دیکھا کہ اس نے بے تحاشا کہنا شروع کر دیا اور روتا ہوا بولا کہ بھائی صاحب میں آپ کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا کہ جن نے ان دس دنوں میں بڑی بھاری تکلیف اٹھاتے ہوئے میرے درد کی دوا کی۔ ڈاکٹر نے بھی آپ کے ذریعہ سے دریغ نہ کیا۔ درد کا علاج کرنے کو ابھی پانچ دن کا اور نسخہ تجویز کیا۔ اس کے اختراع سے جو اپنے بھائی کو دیکھتے ایک آن کی آن میں کر دی۔ میں حیران ہوا کہ کیسی اس کے اوپر نا گہانی آفت آ گئی کہ جو اس قدر چلایا اور رویا کہ بھاری تکلیف زدہ انسان بھی منہ سے نکال نہیں سکتا۔ اور نہ یہ بناوٹ (جو در حقیقت صحیح معنوں پر دلالت کرتی) کوئی بنا سکتا ہے یہ تمام اسی حضرت عشق کے کھلاڑیوں کے ادنی سے کرشمے دیکھنے میں آئے۔ پھر کیا تھا اس کا بھائی اٹھا اور اس کا پیٹ ملنے لگ گیا۔ بولا فکر نہ کرو جب خوب آرام آوے تو پھر گھر پر آنا۔

گویا اب یہاں سے جانا باوجودیکہ زمیندار تھا، کاروبار بخوبی جاری تھا، عیال دار تھا زن بچہ سے خاندان سر سبز تھا جو اس کے نہ موجود ہونے سے سب کا سب اڑا جا رہا تھا۔ جس کی اس کے دل میں ایک پشہ کاہ کے برابر بھی وقعت و قدر نہ تھی۔ آٹھوں پہر ان لوگوں میں سوائے حبیب کے کسی کو نہ پایا۔ دنیا کی عزت، مال و جاہ، خویش و اقارب سے چھڑانا، تخت و تاج سے بے نیاز کر دینا اور پھر اپنی جان پر کھیل جانا کشتگان خنجر نگاہ ناز کے آگے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ زہد و ریاضت، چلہ کشی، بھوکے رہنے ’’صائم الدہر و قائم والیل ‘‘ ہونے سے نفس بالکل مردہ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ کام سب کے سب اس کے زندہ ہونے اور قوت پانے کے لوازمات میں سے ہیں۔ البتہ یہ اکسیر عشق کہ جس کے ایک ذرہ کو کٹھالی میں ڈالا اور مس نفس طلابلا ملاوٹ تیار ہو گیا۔ خدائے عزوجل کے پانے میں خضر راہ و رہنما ہوا۔ ایک مکان تعین میں سے چھب دکھلائی دی۔ طالب صادق نے موسیٰ ؑ وار تجلی طور سے دیکھا۔ شجر میں سے بولا اے موسیٰؑ میں ہوں میں، رب العالمین۔ تو تمام عالم کے ذرہ سے ذرہ میں اللہ نور السموات والارض اظہر من الشمس پاتے ہوئے اپنے آپ کو مٹایا۔ قطرہ وار بحر توحید الہی میں جا ملا۔ اشہب و رہوار عشق پر سوار ہوئے ایک سمت کو دوڑا۔ کعبہ مراد کا طواف کیا۔ گھر دیکھا۔ پردہ قاب قوسین ارادے کو الٹا۔ اپنے گھر میں داخل ہوا۔ جہاں اپنے سوائے کسی کو نہ دیکھا۔ تائب ہوا کہ آئینہ روئے صنم میں میرے اپنے ہی چہرہ کا عکس تھا جس پرفدا ہو کر سب کو چھوڑا۔ ہر ہر سے منہ پھیر ہر میں پایا۔ یہ تمام خوبیاں حضرت عشق کے طفیل حاصل ہوئیں۔ محبت سے پائیں۔ بذات خود عین محب ہو گیا۔ گویا محبت ہی خدا ہے کہ جس نے محبت میں آ کے ہژدہ ہزار عالم کو پیدا کیا۔ وہ جو اس کے علم میں معلوم تھا جس سے محبت تھی اس کو بتائے سامنے لائے پیدا کیے گرویدہ ہوئے پرستش کرنے لگا۔ اور آئینہ وار جہاں میں اپنے چہرہ پر آپ فدا ہونے لگا۔ اس میں نہ کوئی آیا نہ گیا۔ بذاتہ آپ ہی تھا اور ہے۔ اپنے پر آپ فدا ہو رہا ہے۔

یہ سب نیرنگیاں، تماشہ عجائبات اسی حضرت عشق کی جولاں گاہ سے نمودار ہوتے آئے اور ہیں اور آئندہ ہوتے رہیں گے۔ ذات خداوندی بہت ہی غیور ہے جو اپنا غیر نہیں رکھتا۔ جوں کا توں ہے۔ جس کے ساتھ کوئی اور شے نہیں ہے۔ پس یہ باتیں کیسے پیدا ہوئیں۔ اسی حضرت عشق سے۔ اور کس نے پائیں؟ اسی عشق نے۔ کہ جس نے اپنے پر آپ فدا ہو کر از کتم عدم سے عشق ہی کے زور سے ظاہر میں اور اپنے سامنے لا بٹھلایا۔ اور اس میں اپنے آپ کو آپ سے پایا۔ یہ الفاظ جو اوپر تحریر میں آئے ہیں قران حکیم و مجید سے معنوی صورت میں ہیں۔ آئندہ اسی موضوع پر چند حدیثیں جو آپ نے عشق و محبت کے بارہ میں کہیں، تحریر کی ہیں راویان راہ ہدیٰ، ظاہر کرتا ہوں جن سے ثابت ہو گا کہ عشق کے کیا اعلیٰ اوصاف ہیں۔

حدیثات در بارہ محبت

صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو میری عظمت کی خاطر ایک دو سرے سے محبت کرتے تھے۔ آج میرے سائے کے سوائے کو سایہ پناہ نہیں دیتا۔ میں ان کو اپنے سائے میں لوں گا۔

موطا امام مالکؒ میں ہے کہ میر ی محبت ان لوگوں کو ضروری ہے جو میرے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں۔ اور میرے لیے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہوں۔ اور میرے لیے ایک دوسرے کو مال دیتے ہوں۔

حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جو نہ تو نبی ہوں گے اور نہ شہید لیکن نبی اور شہید قیامت کے دن اس قرب سے جوان کو اللہ کے یہاں ہو گا رشک کریں گے۔ اصحاب نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ کون ہوں گے۔ آپ ؐ نے فرمایا وہ لوگ وہ ہوں گے جنہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اللہ کے لیے محبت رکھی اور ان کی محبت نہ تو کسی قرابت پر اور نہ کسی مالی تعلق پر مبنی ہو گی۔ بخدا ان کے چہرے عین نور کے ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر متمکن ہوں گے۔ اور وہ لوگوں کے ڈرنے کے وقت نہ ڈریں گے اور ان کے غمگین ہونے کے وقت نہ غمگین ہوں گے۔ پھر یہ آیت پڑھی۔ الا ان اولیائے اﷲ لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون۔ چنانچہ یہ لوگ اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوں گے یعنی اللہ سے لو لگائے اللہ سے محو ہوں گے۔ جس شخص سے ان کی محبت ہو گی اس کو ساتھ لیے دریائے محبت میں موجزن ہوں گے۔ اپنے محبوب سے، پیارے و جاناں سے ایک دم بھی فارغ نہ ہوں گے۔ حساب و کتاب و جزا و سزا سے مستثنیٰ و بے خبر ہوں گے۔ چہ جائیکہ پیغمبر اپنی اپنی امتوں کے لیے ان کے حساب و کتاب میں لگے اور اسی طرف توجہ رکھے بلکہ نفسا نفسی کیے معافی کے طالب ہوں گے۔ اور ان کا حساب و کتاب سزا جزا سوائے دیدار محبوب کچھ نہ ہو گا۔ کفر و اسلام سے بے خبر۔ نہ خوف دوزخ نہ خواہش جنت۔

ایکہ بنشستی بہ تن بے تو عذابم عذاب

آتش دوزخ ہمہ با تو گلابم گلاب

اس سے لوگوں کے ڈرنے کے وقت یہ لوگ عاشقان الٰہی کو ئی ڈر بھی نہ رکھیں گے اور غمگین نہ ہوں گے۔ کہ ان کا پیارا ان کی بغل میں ہو گا۔ یہ اس سے راضی اور وہ ان سے راضی ہو گا۔ ان تمام نفع و نقصان اور اپنے بیگانوں نہ خویش و اقارب، نہ خواہش مراتب نہ خوف ذلت نہ طلب عظمت۔ تمام مدارج طے کر چکے ہوئے ہیں۔ بھلا پھر وہ کیونکر ایسی چیزوں میں مبتلا ہوں گے جن کو پہلے سے ہی باعث خرابی تسلیم کر چکے ہوئے ہیں۔ اور با امداد الٰہی و ارادہ دلی انہوں نے وہ چیز حاصل کی ہوئی ہے جس کو زوال نہیں ،خوف نہیں ، خرابی نہیں۔

طبرانی میں ہے اللہ کے کچھ بندے ہوں گے جن کو قیامت کے دن (اللہ) نور کے منبروں پر بٹھائے رکھے گا اور ان کے چہرے نور سے ڈھانپے ہوئے ہوں گے حتی کہ اللہ تعالی خلقت کے حساب سے فارغ ہو گا۔

خداوند عز و جل نے پہلے سے ہی ان طریقان نور السمٰوات والارض کو موجودات میں نور کے طالب بنا کر مصحف روئے خوباں کی آیات کا رات دن مطالعہ کرنے کو بنایا ہوا تھا اور اسی میں سوائے اپنے محبوب کے کچھ نہ دیکھا تھا۔ طالب نور تھے نور سے جا ملے۔ امکان سے باہر کہ جس کو پیغمبر تک نہیں پہنچ سکتے ان کی رفتار تھی۔ حالانکہ پیغمبر موجودات کے ہادی و مشفق و رہنما نجات دلانے والے منجانب اللہ مخصوص ہیں۔ اور انہیں وہ خاص الخاص ملا جس نے خصوصیت سے ان کو اپنے کنار عافیت میں لے لیا۔ اور دنیا کے ملوثات سے بچا لیا۔

جبکہ حضور ؐ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کو دنیا سے اس طرح بچاتا ہے جس طرح تم اپنے بیمار کو پانی سے بچاتے ہو۔ پس جاننا چاہیے کہ جب یہ دنیا کی کدورتوں و پلیدی سے بمشیت ایزدی پاک ہوں تو محبت الٰہی سے وادی عشق میں اس کا گزر لازمی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو بذاتہ عین محبت و رحم و کرم و بخشش ہے کسی شخصیت و وجود بنی آدم میں سے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے اسے چھب دکھلائی دیتا ہے۔ یہ طالب حق جذب محبت سے اس کی طرف خود بخود کھنچا چلا جاتا ہے۔ دنیوی اغراض میں سے ذرہ بھر بھی بیچ میں نہیں ہوتا۔ اور اگر ہو بھی تو اغراض مد نظر نہیں ہوتے۔ جہاں بمشیت ایزدی یہ نسبت پیدا ہو تو جناب سرور کائنات خلاصہ موجودات ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی سے الفت رکھے تو چاہیے کہ اسے بھی خبر کر دے۔ نیز انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص وہاں سے گزرا۔ تو اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں اس سے محبت رکھتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا تم انہیں اس بات سے باخبر کرو۔ پھر میں اس سے ملا اور کہہ دیا کہ میں تم سے بوجہ اللہ دوستی رکھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جس ذات پاک کے لیے تم مجھ سے محبت رکھتے ہو وہ تمھیں دوست رکھے۔ در حقیقت وہ جس کا محبوب ہو گا وہ اس کے ساتھ ہو گا۔ اس کے دین پر اٹھایا جائے گا۔ اور اسی سے اس کا وصل ہو گا۔ اور موت کے بعد بھی مصداق الموت وصل الحبیب علے حبیب لازم آئے گا اور اسی کو اہل تحقیق نے کہا ہے کہ

جا کی جیسی لگن ہے وا لی وا کو رام

روم روم میں رم رہی نہیں اور سے کام

چنانچہ ابو ذرؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ ایک شخص ایک جماعت سے محبت رکھتا ہے لیکن وہ ان کے عمل پر قادر نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اے ابوذرؓ تو اس کے ساتھ ہے جس سے محبت کرتا ہے۔ ابوذرؓ بولا میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ؐ نے فرمایا تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو محبت کرتا ہے۔ ابو ذرؓ نے پھر وہ بات دہرائی۔ آپؐ نے پھر وہی جواب دیا۔

ایسا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ موت تین ہیں۔ موت دنیا میں اور موت آخرت میں اور موت موت میں۔ جو شخص مرا دنیا کی محبت میں، مرا منافق ہو کر ، جو شخص مرا عاقبت کی محبت میں، مرا زاہد ہو کر ، جو شخص مرا بیچ محبت اللہ کے، مرا عارف ہو کر۔ عیسیٰ ؑ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کوئی سچا دوست پایا وہ جنت کی ایک خوشی پا گیا بلکہ وہ دوست جنت کی کنجی ہے۔

لہذا محبت بھی کوئی ایسی فروعات چیز نہیں ہے کہ اپنے بنائے بن جائے بلکہ یہ اللہ تعالی کا ایک عطیہ عظیم و نعمت غیر مترقبہ ہے اور ان سے پیدا ہوتی ہے جو یوم الست بربکم میں آپس میں ایک رشتہ کے اندر منسلک کیے ہوئے ہیں۔ جیسے کہ جناب سرور کائنات ﷺ فرماتے ہیں کہ روحوں کے لشکر میں جھنڈ کے جھنڈ، جو ان میں ازل سے آشنا واقف تھا وہ اس عالم میں آ کر ملا اور الفت والا ہوا اور جو ان میں سے نا آشنا رہا وہ یہاں بھی نا آشنا رہا۔ وہ یہاں بھی جدا اور بھٹکا پھرے گا۔

نیز حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر ایک آدمی مشرق میں ہو اور ایک مغرب میں اور وہ رشتہ محبت میں منسلک ہوں تو جامع المتفرقین کے ذمہ ہے جو ان کو ملا دے گا۔ بچھڑوں کا ملا دینا ذات ربی پر موقوف ہے۔ جو اس کے علم سے باہر ہوتا ہے اس کو وہی جانتا ہے جو اس کا خالق و مالک اور تقدیروں کا جوڑ توڑ کرنے والا ہے۔ جس کے پاس اصل کتاب ہے۔ جو کچھ اس میں لکھا جا چکا اور نقشہ بن آیا ہے اسی کا عمل ہوتا ہے۔ اس کے باہر ذرہ بھر بھی کوئی فعل نہیں ہوتا۔ اس کتاب الٰہی کے مطالعہ کرنے والوں پر اسی سے عجیب و غریب راز منکشف ہوتے ہیں جس سے ان کے سینے رحمت و حکمت کے خزینے ہوتے ہیں۔

احمد دین کے حالات

۱۹۰۵ کا ذکر ہے کہ جلالپور میں طاعون کا زور شور ہوا۔ امر الٰہی سے بہت لوگ جن جن کی قسمت میں آ چکا ہوا تھا مرنے لگ گئے۔ لوگوں کے موت کے غم سے اوسان خطا ہوئے۔ ہر ایک اپنی اپنی جگہ دنیوی زندگی کو عزیز رکھتے اور مرنے سے ڈرتے ہوئے کہ شاید میرا بھی حکم آ چکا ہو پراگندہ خاطر ہوا۔ مسجدیں کثرت صلوۃ سے آ باد ہوئیں اور دل ویران۔ چندے کر کے ہر مسجد میں ختم ہونے لگے۔ اسی طرح ہمارے محلہ والی مسجد میں بھی ختم انبیا کی بڑی رات پر دیگیں پکنی شروع ہوئیں۔ محلہ کے چھوٹے بڑے دیگوں کی تیاری اور ختم میں شامل ہوئے۔ میرے کمرہ کے پاس ہی دائرہ میں دیگیں پکا رہے تھے۔ کمرہ کے باہر چارپائی پر علیحدہ لیٹا ہوا تھا کہ ایک شخص ایک لڑکا کاندھے سے لگائے میرے سرہانے آ کھڑا ہوا۔ بولا کہ یہ لڑکا گھر سے تماشہ دیکھنے آیا تھا۔ میرے کاندھے پر ہی سو گیا ہے۔ اسے ذرا اپنی چارپائی پر تھوڑی اپنے ہی پاس جگہ دیویں کہ تھوڑا آرام کرے۔ پھر میں اسے گھر لے جاؤں گا۔ میرے دل میں بچار پیدا ہوا کہ الہی یہ کیا معاملہ ہے؟یہ اسے کیسے ہمت و دلیری پیدا ہوئی کہ اس نے مجھے بچے کو سلا نے کو کہا۔ اور پھر تعجب بر آنکہ آج تک میں نے کسی کو اپنے پاس چارپائی پر پھٹکنے نہیں دیا۔ مجردانہ زندگی بسر کر رہا ہوں۔ اسے میں کیسے اور کیونکر جگہ دوں؟آخر ان باتوں سے در گزر کیے فیصلہ دل نے دیا کہ یہ آزردہ خاطر ہو جائے گا۔ تم اپنے اوپر تکلیف گھنٹہ دو گھنٹہ برداشت کر و تا کہ یہ بچہ آرام پاوے۔ کیونکہ جب تک کوئی اپنے آپ پر تکلیف برداشت نہ کرے دوسرے کو آرام نہیں مل سکتا۔ میں نے کہا کہ اس کو میرے پہلو میں لٹا دو۔ وہ اس بچہ کو لٹا کر لوگوں کے ساتھ کام میں مشغول ہوا۔ یہ شخص ایک ہاشیہ باف اکیلا ہمارے محلہ کے غلام قادر نامی ایک شخص کے گھر میں رہتا تھا۔ کشمیر سے آیا ہوا مجردانہ زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس لڑکے کو عموماً غلام قادر کے گھر میں کھلایا کرتا تھا اور بچہ سے بہت محبت تھی۔ اور یہ لڑکا غلام قادر کا خلف الرشید(بنام احمد دین) تھا۔ اس کی عمر تخمیناً آٹھ نو سال ہو گی۔ دبلا پتلا تھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ یہ آب خط تقدیر کا لکھا ہوا کون سا واقعہ ہے اور آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ کہ یہی نونہال اپنی میثاقی کتاب کی آیات کو دہرائے گا۔ اور میرے ہر ایک معاملے سیاہ و سفید دینی و ایمانی کا وارث ہو گا۔ جب وہ پگلا محمد شاہ نام اسے چھوڑ اپنے کام میں مشغول ہوا ، طبیعت میں کچھ ایسی محبت کی لہر دوڑی جس نے بجلی کی طرح تمام وجود پر اثر کر دیا۔ آج تک میرے جسم سے سوائے میرے ماں باپ کے چنداں کسی نے چھوا تک نہ تھا اور سوائے اپنی بیوی کے (کہ جو ساری رات دباتے دباتے نشہ محبت میں گزار دیتی تھی۔) کوئی پھٹکنے نہ پایا تھا۔ منجانب اللہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہوا تھا۔ فوراً ہی اس بچہ کو آغوش محبت میں لے لیا۔ تمام رات محبت و پریم کا نشہ مے محبت پینے لگا۔ چھاتی سے لگائے رکھا۔ فجر ہوئی۔ بچہ مانوس ہو گیا۔ فوراً ماں باپ کی نظروں سے اوجھل ہو کر میرے کمرہ میں دوڑ آتا۔ ادھر تمام دن سوختہ دل جو خون کی شراب پینے اور کباب جگر کھانے کے عاد ی تھے جمع رہتے۔ ایک آتا اور دوسرا جاتا۔ اس مغ بچہ کو دیکھتے وہ بھی تالیاں بچاتے کہ واہ خوب ہوا۔ آگے تو ہم سنگ تھے خدا نے ہم رنگ بنا دیا۔ رفتہ رفتہ یہ بالکل ہی اپنے ماں باپ کو بھلا بیٹھا۔ یہ وہ محبت خدائی تھی جس میں ماں باپ اور رشتہ ناطے والے بھی اس سیلاب محبت میں بہے جاتے تھے۔ آخر اس کے والدین بھی یکے بعد دیگرے دنیا سے چل بسے۔ احمد دین جو اب سینکڑوں کا جگر پارہ و عزیز ہو چکا ہوا تھا ماں باپ کے جدا ہونے سے اس کو کسی طرح کا احساس نہ ہوا۔ میری والدہ مہرباں کہ جن کی خدمت پر مامور تھا اس کی دلجوئی فرماتیں۔ اور پرورش میں ماں باپ سے بڑھ کر حصہ لیتیں۔ آپ اب میر ی مرحومہ بیوی کے بعد اکیلی تھیں۔ ایک چھوٹی بچی شیخ نظام دین کی پرورش بھی کر رہی تھیں۔ اور جس قدر مہمان روزانہ آتے تھے ان کا کھانا تیار کرنا کروانا آپ کا کام تھا۔ وہ بڑی کشادہ دلی سے پاک و صاف خدائی دعوت تیار کرتی تھیں۔ رفتہ رفتہ عمر کے بڑھنے سے بازاری سودا سلف لانے کا بھی مختار ہوا۔ بفضل خداوند روپیہ پیسہ کی کمی نہ تھی۔ وہ اس کے پاس عام طور رہتے تھے۔ اس میں بھی طبیعت کا استغنا برتنے لگا۔ کھانے پینے میں چنداں نگاہ نہ رکھتا۔ الامے محبت میں سرشار رہتا۔ مے خانہ محبت کے مے خواروں سے ملا جلا۔ معاملات دنیوی کی ہر چند خبر نہ رکھتا اور نہ (خبر رکھنا) چاہتا۔ البتہ سن بلوغ کے پہنچنے پر جب اسے کھلے طور کہا گیا بلکہ رشتہ داروں سے جو اس کے قریب تھے تحریک دینے کو کہلوایا کہ اب تم پر سن شباب ہے۔ اگر تمھاری مرضی میں یہ کام مرغوب ہے اور تمھارا نفس خواہش کرتا ہے تو تمھیں ہم اجازت دیتے بلکہ نکاح کا اہتمام کر دیتے ہیں۔ اس بات کا سننا تھا کہ آزردہ خاطر ہو کر رونے لگ گیا۔ پوچھا: یہ کیوں؟ بولا کہ اب مجھے آپ اپنے آپ سے جدا کرنا چاہتے ہیں۔ جس کو میں ہر چند گوارا نہ کروں گا۔ البتہ اسی مے خانہ کے جاروب کشوں میں اگر خدا کو منظور ہوا تو اپنی تمام عمر بھینٹ کر دوں گا۔ ہم پہلے ہی سے پا چکے اور اس کی طبیعت کا اندازہ لگا چکے ہوئے تھے کہ یہ ہر چند دنیوی ملوثات میں نہ پھنسے گا۔ اس کی مٹی پہلے سے ہی خالق حقیقی نے شراب عشق و محبت کے پانی سے گوندھی ہوئی ہے۔ نقاش ازل نے اس کا نقشہ بناتے ہوئے ان رنگوں کو جو مذموم ہیں اس میں بھرا ہی نہیں۔ اس کا خط تقدیر گواہی نہیں دیتا کہ یہ کام اس سے ہونے میں آوے۔

احقر کی والدہ ماجدہ کا انتقال

میری والدہ کیا ایک آیہ رحمت تھیں۔ گو زمانہ میں ہر ایک کے واسطے والدہ خدا کی سب رحمتوں سے بڑھ کر اور سب نعمتوں سے بڑی نعمت ، کوئی نعمت اس سے بڑھ کر دکھائی نہیں دیتی۔ تاہم ان الفاظ میں بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے مدارج ہیں۔ میں خدا کی بارگاہ عظیم میں بڑا ہی مشکور (شکر گزار) تھا کہ جس نے اپنی مہربانی اور محبت اور عنایت کا ثبوت ایسی مہربان والدہ کے نام سے دیا تھا۔ جس کا شکریہ ہو نہیں سکتا تھا۔ جس کا ایک ادنی کرشمہ اور اعجاز یہ تھا کہ میری دیوانگی میں آپ دیوانہ وار بارگاہ رب العزت میں وہ درد بھرا دل لے کر پہنچیں کہ جس سے بقول ظاہر اس کے عرش عظیم کے کنگرے ہل گئے۔ اور مجھے ان کی خدمت کے لیے لوٹایا گیا۔ حکم ملا کہ ان کی خدمت میں خدا کی خدمت اور ان کی رضا مندی خدا کی رضا مندی ہو گی۔ پھر تا دم زیست بندہ وار کیا پروانہ وار صورت بنائے آپ کے حکموں اور خوشنودی پر اپنے آپ کو مٹانے میں فخر سمجھتا تھا۔ اندریں عنوان آپ کا شغل زیست تھا کہ روزانہ جو دس پانچ احباب آتے ان کی دعوت کا تیار کرنا کرانا آپ کے ذمے ہوتا جس میں آپ فرخندہ خاطر اپنا وقت گزارتے۔ البتہ اگر کسی دن مہمانوں کی کمی ہوتی تو ملال گزرتا۔ اور کہتے کہ بیٹا کیوں آج کوئی مہمان وارد نہیں ہوا۔ میں ہمیشہ سے روٹی باہر ڈیرے پر مہمانوں میں کھاتا تھا۔ برسوں گزر گئے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ والدہ صاحبہ کے پاس بیٹھ کر روٹی کھاؤں۔ امر الہی نہ تھا۔

اتفاق ایسا ہوا کہ والدہ صاحبہ بہت دنوں سے کہہ رہی تھیں کہ بیٹا کیا بہتر ہوتا کہ کبھی میرے پاس بیٹھ کر کھانا کھاتا اور میں خوش ہوتی۔ مجھے کسی قدر علم تھا کہ ۱۳۱۱ھ سے میرے واسطے مخصوص کیا گیا ہے کہ باہر مہمانوں میں بیٹھ کر کھانا کھایا کرے۔ اور مساوات کو نگاہ رکھے۔ والدہ صاحبہ کا حکم ماننا بھی میرے واسطے فرض تھا۔ کہا کہ آج رات میں آپ کے پاس بیٹھ کر کھانا کھاؤں گا۔ آپ خوش ہوئیں۔ شاید انہوں نے از روئے مہر مادری معمول سے زیادہ کوئی کھانا میرے لیے تیار کیا ہو گا۔ ابھی پہلا لقمہ ہی منہ کی طرف لے جا رہا تھا کہ مائی صاحبہ فضل بی بی للہ مجذوبہ باہر سے دوڑتی ہوئی گھر میں داخل ہوئیں۔ جہاں میں کھا نا کھا رہا تھا۔ فرشتہ غیب نازل ہوئیں۔ ہاتھ پکڑ لیا۔ بولیں کیا تمھیں اسی لیے پیدا کیا ہے کہ گھروں میں بیٹھ کر کھانا کھاؤ۔ کیا میں تمھیں عورت کراؤں۔ میں نے دست بستہ عرض کیا کہ آپ معاف فرما دیں۔ آئندہ ایسا جرم نہ کروں گا۔ حالانکہ اس وقت عورت موجود تھی۔ لیکن خدائی علم میں دنیا سے مستثنیٰ کی گئی تھی۔ والدہ صاحبہ کے پاس بھائی صاحب شیخ نظام دین کی لڑکی نواب کی پرورش لڑکپن سے ہو رہی تھی جو والدہ صاحبہ کے سینہ سے لگی رہتی تھی۔ احمد دین اور فضل کریم بھی اس مطبخ خدائی کے نمک خوار تھے۔ خصوصاً احمد دین ضروریات طعام بازار سے لایا کرتا تھا۔ والدہ صاحبہ بہت خوشی سے ایام بسر کر رہی تھیں کہ اچانک ٹھوڑی پر پھنسی نکلی۔ پیک اجل نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اجل مسمی آن پہنچا۔ دو دن بیمار رہیں تیسرے دن رات کو میاں حامد علی صاحب و نبی بخش احباب چار پانچ بھی خبر سن کر آن پہنچے۔ آدھی رات کا وقت قریب ہو گا۔ تمام آپ کی چارپائی کے قریب بیٹھ گئے۔ آپ ہر ایک سے خوشی خوشی رخصت لیتے ہوئے دعائیں دیتیں۔ اس وقت قدرے تکلیف ہو رہی تھی۔ کاہلی ہو رہی تھی۔ مجھے سخت صدمہ گزرا۔ میں نے کہا کہ میں ان کی یہ مصیبت نہیں دیکھ سکتا۔ تو فرمایا تمام پیغمبروں پیروں فقیروں نے یہ وقت بخوشی منظور کیا ہے اور تو اس کو دیکھ نہیں سکتا۔ بخوشی خدا کی رضا منظور کرنا چاہیے۔ وقت تھوڑا ہے۔ سنو میں تم پر بہت خوش ہوئی اور میرا خدا۔ اور تمھیں خدا کے سپرد کرتی ہوں۔ دوسرا گھر بھرا ہوا ہے کوئی فکر نہ کرو۔ جس سے میرے دل میں قدرے تشویش پیدا ہوئی کہ کہ میں اس گھر کو سوائے خدا کے کیا کروں گا۔ اتنے میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جاں بحق تسلیم ہوئے۔ انتقال فرما گئے۔ ادھر آپ کا دم ختم ہوا گھر کو چھوڑا اور گھر والے کا تقوی رکھا۔ وہ مزا پایا۔ بفضل خدا لطف اٹھایا جو گھر میں نہ تھا۔ ایک خواہش تھی کہ وجود یا خود دکو بابا صاحب انڈیانوالہ کے پاس دفن کیا جائے۔ ایسا ہی کیا گیا۔ بابا صاحب سے چند فٹ کے فاصلہ پر دفن کیے گئے۔

شیخ اللہ دتہ

شیخ اللہ دتہ میرا چچیرا بھائی اور شیخ جان محمد دوسرے چچا کا بیٹا ہر دو کو بھائی صاحب نے کشمیر واسطے تعلیم کے بلایا ہوا تھا۔ وہ وہیں دو چار۔ ۔ ۔ سے تعلیم پاتے رہے تھے۔ اب بھائی صاحب اور راقم پنجاب میں تھے کہ جناب والد مرحوم کا انتقال صوف میں ہو گیا۔ ہر دو تعلیم چھوڑ کر پنجاب میں چلے آئے۔ ایک دن راقم اور قاسم شاہ تفریحاً باغ ودواں متصل جلال پور جانب شرقی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اللہ دتہ پیچھے سے آ گیا۔ اور ڈھاریں مار مار کر رونے لگا۔ سبب پوچھا۔ بولا کہ جب جماعت علی شاہ صاحب علی پوری جلال پور میں رونق افروز ہوئے اور آپ کشمیر میں تھے۔ آپ کی نئی آمد اور نیا ہی چرچا تھا۔ غلام محمد کسو کی آپ کی استقبالیہ کمیٹی کا کارکن اعلیٰ تھا۔ بلکہ انتظامیہ نمائش میں کمال رکھتا تھا۔ شاہ صاحب جس قدر بھی تھے غلام محمد کی نمائش و ستائش سے کئی گنا بڑھ کر نظر آنے لگے۔ لوگ جوق در جوق حلقہ مریدی میں آنے لگے۔ سینکڑوں نے عقیدت میں حاشیہ نشینی اختیار کی۔ ہمیں بھی لوگوں نے مجبور کیا کہ گنج عرفان لٹ رہا ہے جلدی کرنی چاہیے۔ موقع ہاتھ ہاتھ سے جانے نہ دو۔ ایمان میں سبقت لے جاؤ۔ پھر کیا تھا ہم ہر دو برادران حلقہ بگوش ہوئے۔ اب سینکڑوں آدمیوں میں ابھی سن شباب پیدا ہو رہا تھا۔ میں نے خاص طور پر حضوری میں جگہ پائی۔ جس وقت کسی جگہ دعوت ہوتی آپ مجھے ساتھ کھلاتے۔ میرا سر اپنی چھاتی مبارک پر رکھے گھنٹوں لیٹے رہتے۔ میں اس بات سے لا علم تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ جب آپ چلے گئے تو جنون عشق سر چڑھ کر بولا۔ ایک بت نو خیز پر نگاہ کی۔ آنکھیں دو چار ہوتے اس ساحرہ نے مسحور کیا۔ جلوہ الہی کو رات دن طور موسی کی طرح دیکھنے لگا۔ جگر سے دھواں سوز جگر کا نکلا، سر کے بھیجے میں سے پار نکل گیا۔ تعلیم علم و معلم سے نفرت پیدا ہوئی۔ راز افشا ہونے کو تھا کہ بھائی صاحب نے کشمیر بلا لیا۔ برائے نام تعلیم کا ڈھونگ رچائے رکھا۔ جلنے، کڑھنے اور سڑنے کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ انتقال پر ملال جناب بابا صاحب سے ملک کشمیر چھوٹا۔ پنجاب میں پہنچا۔ نار عشق مشتعل ہوئی۔ اتفاق سے آپ باغ میں آئے۔ طاقت نہ تھی اور حیا اجازت نہ دیتی تھی کہ اپنا حال کہہ سناؤں۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ عالم جنوں میں کہہ رہا ہوں۔ اگر شنوائی نہ ہوئی تو پاگل ہو جاؤں گا۔ جس سے آپ کو اذیت پہنچے گی۔ ۔ ۔ ۔ کا نقطہ نگاہ قاسم شاہ کی طرف جس کے حال سے اب میں دن بدن واقف ہو رہا تھا۔ وقت کو ٹالا۔ کل پر موقوف کیا۔ حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ سمجھا کہ واللہ اعلم بالصواب یہ لوگ کس قدر مخلوق خدا کے خاندان تباہ و برباد کر چکے ہوں گے۔ اور کتنے ہی گھروں کو مارِ کل تار کی طرح ڈسا ہو گا۔ جس کی زہر سے بہت سی شخصیتیں ہلاک ہو چکی ہوں گی۔ چنانچہ یہ بچہ نوخیز جس کے اخلاق حسنہ کی تمام خاندان میں تعریف ہو رہی ہے اس کی برباد کرنے میں انہوں نے بہت سے متعلقین کو قابو کرنے کی ٹھانی ہو گی۔ اپنا اعجاز ظاہر کرنا مطلوب ہو گا کہ دیکھتے اور جانتے ہوئے لوگ گرویدہ ہو جائیں گے۔ ہمیں سرمایہ ملے گا۔ مرید بڑھیں گے۔ خیر کل پر ملتوی کیے فوراً جناب بابا صاحب کی خدمت میں گزارش کی۔ آپ گھر پر آئے۔ تمام حالات پر نظر کی۔ سنتے ہی آپ کی طبیعت میں جوش پیدا ہوا۔ خفگی میں آئے۔ جامہ سالوس پہنے پیران ریا کار کے فن میں جو جائز تھا، بولا۔ کہ یہ بے وقوف روئی میں آگ لگا دیتے ہیں۔ نہیں سمجھتے کہ یہ کام ایسے نونہال پودوں کے گرمی کی آگ سے جلا دینے کے مصداق ہے۔ یہ بوڑھوں کی خوراک تھی جو بچوں کو دی گئی۔ متصدقین بنی نوع انسان کے خادم اور خیر خواہ خلق ہوا کرتے تھے۔ ان کی بہتری کے امور کرتے ہوئے اپنی جانوں کو قربان کر دیا کرتے تھے۔ یا یہ بدترین خلق نفس پرور، خود غرض، شہوتوں کے پالنے والے، سنی سنائی باتوں پر عامل، نادان حکیم خطرہ جان نہیں سمجھتے جانتے بوجھتے کہ یہ دوائی اس بیمار کے لیے مفید ہو گی کہ مضر۔ انہی امورات کو بیان کرتے ہوئے آپ بڑی مہربانی سے متوجہ ہوئے۔ فرمانے لگے کہ میرا مولا مجھے اس آتش جہنم سوز سے بچائے اور توجہ خاص سے جو ان لوگوں کا دستور ہے کہ اپنی قوت جذباتی کو پیدا کرتے ہوئے بجلی سے زیادہ سریع الاثر فوق الفطرت سے کام لیا۔ ایک ہی توجہ خاص الہی سے نار ابراہیمی سے گلزار پیدا ہوئی۔ خزاں سے بہار نے سر سبز کر دیا۔ وہ سراسیمگی اداسی اور مہجوری و بے قراری بیک آن جاتی رہی۔ کافور کی سی ٹھنڈک و خوشبو کی مہک پیدا کر دی۔ نار میں سے نور نے اپنا سماں ایسا پیدا کیا کہ ہمہ تن گرویدہ ہوتے ہوئے اپنا تن بدن و جان تک وقف کرائی۔ اچانک ہی شیخ اللہ دتہ کی شادی ہو گئی حالانکہ اس کی فطرت چاہتی نہ تھی(وہ چاہتا تھا) کہ میں آزادانہ زندگی بسر کرتے ہوئے خدائی خدمت میں اپنے ایام زندگانی گزار دوں۔ لیکن جو منظور خدا ہوتا ہے وہی ظہور میں آتا ہے اور طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے۔ خاموش طبیعت، گہری سوچ بچار، دقیقہ رس طبیعت، بہت انکسار، ہر ایک سے ملنسار، خدمت میں بصدق دل بلا علت و غرض رات دن ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں۔ ہر کام بلا امتیاز اپنا و بیگانہ دامے درمے کیے جاتے ہیں۔

کارساز حقیقی کے کاموں پر بہ نگاہ دیکھا کہ جناب شاہ صاحبؒ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جناب بابا صاحب انڈیانوالہ ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی کو سجادہ نشینی کا خطاب دیے پانچ سال ہمہ تن گوش ہو کر حسب وعدہ کھڑے رہے۔ قدرت اللہ اپنی جماعت جہلا بنائے جس قدر بھی اس سے بن آتا ہے بلا چوں و چرا خدمت کیے جاتا ہے۔ نبی بخش میراثی پروردہ جناب شاہ صاحب مجلس سماع منعقد کیے سامعین کو مسرور کرتا جس سے رات دن رونق میں کمی نہ ہوتی۔ بابا صاحب اس مے خانہ توحید کے ساقی بنے جس رنگ کی شراب اس کی فطرت پر نگاہ کیے چاہتی دیے جاتے۔ ہمشیرہ صاحبہ اپنے مولا پر پروانہ نشہ محبت میں مخمور، فدا ہوتے ہوئے نت نئی زندگی حاصل کرتیں۔ خادمان شاہ صاحب کے چند افراد دنیا دار میاں بدھو اور میاں حامد سراج و کالو خاں ٹھمکہ اپنا اپنا مجرائے دیے دنیا سے چل دیے۔ وہ جو خدمت کا دعوی کیے تھے مع مخدوم دار البقا کو سدھارے۔ اور اپنے اپنے کردار کا پھل کھانے کے لیے ’’یخرج الحئی منا لمیت ‘‘ کی آیات الہی کے ثبوت کو زندہ کرنے لگے۔

لیکن بابا صاحب کی بیماری میں وہ لوگ جو فرداً فرداً بابا صاحب سے مستفیض ہوا کرتے تھے جماعتی صورت میں نظر آئے۔ اور ایک دوسرے کو باہمی پہچان لیا۔ کہ ہم سابق میں جس دارالمعلوم کے ہم درس تھے خوش قسمتی سے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ کیوں نہ وقت کو غنیمت سمجھے اپنے معلوم کو جس کے واسطے طرح طرح کی مصیبتیں ملک و مِلک چھوڑ وطن سے منہ موڑ جھیل رہے ہیں اس کا آئندہ کے لیے نشان پائے عشق کے بادہ پیما اشہب رہوار پر سوار ہوئے منزل مقصود تک پہنچیں۔ اور مے کہنہ سے جو اس مے خانہ کی طرح طرح کی صراحیوں میں بھری پڑی ہے ساقی سر مست کی عنایات سے بادہ نوشی کیے تمام کدورتوں کو دور کریں۔ مسرور ہوتے معمور ہوں۔ اور وہ ’’کنت ‘‘ کی دھول کہ جس سے آنکھیں احولی اختیار کر چکی تھیں سرمہ کحل ما زاغ سے صاف و پاک کریں۔ ساتھ ہی اس پیر مغاں کے مشکور (شکر گزار) ہوں کہ جس نے اپنے دین میں داخل کرتے ہی ہر ایک بت سے کہ جس سے یہ بھرا پڑا تھا سبھوں کے خوبیوں سے آگاہی بخشی اور اپنے آپ کو ان میں چھپانے سے آگاہی بخشی اور دین اور آئین کا ثبوت دیا۔

بابا صاحب کے صحت یاب ہونے کے بعد پانچ سال صحبت کی گرم بازاری جس میں خاص طور مولانا غلام حیدر اسلام آبادی، میاں حامد علی صاحب و ابراہیم آہنگر، علی گوہر بافندہ، نبی بخش نیاریہ گجرات و نور ماہی ارائیں ہنجرائے، غلام محمد قابل ذکر ہیں۔ جو اس مے خانہ کے رکن اعظم تھے۔ ماسوائے اس کے بہت سے لوگ جن کی قسمت وابستہ حقیقت تھی مستفیض ہوتے رہے۔ ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی انگشت نمائی کو تھیں جو خود بھی وظیفہ خوار تھیں۔

بابا صاحب کے رخصت ہو جانے پر فضل بی بی صاحبہ برادر زادہ بابا صاحب کی لڑکی منظور نظر ہوئیں۔ شیخ اللہ دتہ خادم جماعت نے اپنی تقویت کماحقہ دینے لگے۔ اور احمد دین سب کا عزیز بنے ناز و نعمت کی زندگی بسر کرنے لگا۔ خاص کر ہمشیرہ صاحبہ کی اردل میں چندے قیام کیے مستری احمد یار چمرنگ بھی تھا لیکن دار القرار کو سدھارا۔ جس کا انتقال۔ ۔ ۔ ۱۹ میں ہوا۔ صحن شاہ صاحب میں مدفون ہوئے۔ سالانہ عرس جناب شاہ صاحب ماہ چند کے اخیر جمعرات کو قرار پایا۔ جس کے تمام اخراجات و آمد و رفت خادمان بارگاہ احقر کے ذمہ رہا البتہ محلہ چمرنگی میں جو محلہ داروں کو دعوت دی جاتی وہ ہمشیرہ صاحبہ اپنی معرفت دیتی تھیں۔ یا عرس کے روز دو تین دیگیں عامۃ الناس۔

بابا صاحب کا عرس مورخہ ۷ ساون ۱۹۲۰ء سے بدستور شروع ہوا جو فضل بی بی کی ایما سے تھا۔ اس کے اخراجات بذمہ احقر تھے۔ جس کا خود خداوند پیدا کرنے والا اخراجات کا کفیل تھا۔ اور سالانہ ہر دو عرس شریف بخوبی اہتمام کو پہنچتے تھے۔

بائیس تئیس بیگھہ زمین جودر موضع ٹھمکہ و لکھنوال و جلال پور تھی، ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی نے کہا کہ تم آئندہ اپنے نام لکھوا لو۔ جس سے دل میں خیال گزرا جیسا کہ مجھے انہوں نے بولا ہے خدا نخواستہ کسی اور آدمی کو کہہ دیں جو نام نہاد بندہ نفس ہو۔ تو پھر وہ خیال جو شاہ صاحبؒ کا تھا پورا نہ ہو تو یہ بھی ہم لوگوں کی غفلت سے گناہ عظیم کا ارتکاب ہو گا۔ میں نے کہا ہمشیرہ صاحبہ میرے خاندان کے لوگ بھی دنیا کے بندے ہیں۔ اگر ان کو کہیں گنجائش مل جاوے تو پھر وہ بھی یہ خیال نہ کریں گے کہ سب بیت المال ہے، بڑی خوشی سے قبضہ جمائے عمل (تصرف) میں لے آویں گے۔ ایسے ہی آپ کے پیچھے خاندانی لوگ بھی ویسے ہی ہیں جیسے اور لوگ ہیں۔ اس لیے مناسب ہے کہ آپ جیتے جی جس کا مال ہے اس کے نام لگوا دیں۔ جائیداد شاہ صاحب کی ان کے نام محفوظ ہو جائے گی۔ بعد میں اگر کوئی بد اخلاق بھی اس پر قابو پائے گا تو وہ کسی صورت سے بھی اسے فروخت نہ کر سکے گا۔ چونکہ عالم نسواں تھا۔ کئی طرح کے نشیب و فراز سوچنے لگے۔ چند برس تساہل میں گزار دیے۔ پھر میں نے میاں نور حسین صاحب گوجر ساکن ڈنگہ صدر قانوگو سے کہا کہ آپ حضور کے خادم اول ہیں اور سبقت بالایمان رکھتے ہیں۔ ہمشیرہ صاحبہ آپ کے کہنے کو بہت اچھا سمجھتی ہیں۔ ماننے کو تیار ہو جاتی ہیں۔ اسے کہو کہ جو کچھ بھائی غلام محی الدین کہتا ہے وہ بہت موزوں و بہتر و اچھا ہے۔ میاں صاحب ممدوح بولا۔ آخر سال بھر کے بعد مان گئیں تو میں اور ہمشیرہ صاحبہ اور میاں صاحب گجرات عدالت میں گئے۔ میں تو نبی بخش کے ہاں کھانا لانے کو گیا تو واپس آنے پر میاں صاحب نے کہا کہ مبارک ہو میں نے انشا اللہ بہت جلد تمام زمین خرید کردہ شاہ صاحب ٹھمکہ و کلا چور و لکھنوال و جلال پور در عدالت ڈاگ سنگھ صاحب مال افسر جناب شاہ صاحب کے روضہ کے نام لکھوا دی ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ متولی کون ہے؟ ہمشیرہ صاحبہ کا نام لکھا گیا۔ بعد کو پوچھا تو آپ کا نام۔ جس پر میں بہت بد دل ہوا کہ میرا نام لکھنا جائز نہ تھا۔ کیونکہ میں شاہ صاحب کی خدمت میں اس غرض سے نہیں آیا ہوں۔ اب جو جاؤں گا تو سامنے نفس نظر آوے گا نہ کہ شاہ صاحب۔ غرضیکہ جو کچھ خدا کو منظور تھا بہت اچھا ہو ا۔ ۱۹۱۹ ؁ میں بعدالت ڈاگ سنگھ تمام زمین وغیرہ بنام روضہ مبارک وقف ہو گئی۔ اندیشہ مٹ گیا۔ ہمشیرہ صاحبہ بھی ٹھنڈے دل سے نگرانی کرنے لگے۔ ہر ایک معاملہ خوش اسلوبی سے طے پاتا رہا۔ نفس کے بندوں کی نگاہیں بھی اس مال خدائی کے ہضم کرنے سے پھر گئیں۔ وہ جو آئندہ کے لیے اپنے آپ کو مریدوں میں کہلاتے تھے ان کا جوش و خروش و خود نمائی بھی دھیمی ہو گئی۔

اس سے پیشتر حاکم بی بی ہمشیرہ قدرت اللہ کا انتقال ۱۹۱۷ ؁ میں ہوا۔ اور وہیں صحن دربار شاہ صاحب میں مدفون کی گئی۔

کچھ عرصہ بعد قدرت اللہ کو بمشیت ایزدی مرض جذام نے آ دبایا۔ ہر چند علاج کیا کچھ بن نہ آیا۔ اور اپنے کیے ہوئے میں گرفتار ہمشیرہ سے کچھ دنوں بعد ۱۹۱۸ ؁ میں اس کا بھی انتقال ہو گیا۔ اور وہیں صحن دربار میں مدفون کیا گیا۔ گو یہ خادم اچھا تھا اپنے نفس پر قابو پا کر لوگوں کی خدمت کرتا تھا۔ کچے مکانات اس نے بے تحاشہ بنائے۔ جن کی پکائی بھی مشکل تھی۔ تھوڑے دنوں بعد مسمار ہوئے۔ لیکن رشک بابا صاحب میں آ کر فتنہ پیدا کر دیا کرتا جو ان لوگوں کا سامان نہ تھا۔ دوسرا ہمشیرہ صاحبہ کا بے ادب بھی ہو گیا۔ گستاخی کی وجہ سے کردار کے دیو نے دبا لیا۔

بابا رنگ علی صاحب مجذوب جموں والا

ٹانگہ روڈ جموں و اودہم پور کا کام شروع ہوا جس سے میں اور شیخ نظام الدین ہر دو برادران بھی جموں گئے۔ رات گزاری۔ صبح قضائے حاجت کو اردو بازار میں سے گزرتا ہوا جوگی دروازہ کو جا رہا تھا۔ جب میں تین چوتھائی بازار گزر چکا تو ایک آدمی کو دیکھا۔ جو اپنی دکان کے برامدہ میں بیٹھا حقہ پی رہا ہے اور زور زور سے کھانستا ہے۔ معمولی نگاہ کی اور آگے نکل گیا۔ تھوڑی دور ہی گیا ہوں گا کہ اس شخص نے آواز دی ! ادھر کدھر جاتے ہو؟ واپس ہوا تو بولا کہ تمھارا یہاں آنا میرے ذمہ آ گیا ہے۔ چونکہ میں شمس ہوں۔ تم جو مانگو مجھ سے لو۔ میں دینے والا ہوں گا۔ پر جلال طبیعت تھی۔ میں تاڑ گیا کہ یہاں پہرے والا نگران ہے۔ جو ہر ایک و ذات ولایت خود ذمہ وار ہے۔ چونکہ صاحب جلال اور پر رعب شمس کے خطاب سے بولتا ہے ضرور فوجی عہدہ پر مامور ہو گا۔ میں بولا ! بہت خوب مجھے بھی ایسا ہی چاہیے۔ باہر سے فراغت پا کر ڈیرے پر چلا آیا۔ دریافت کیا کہ وہ جو اردو بازار میں مستوار رنگ علی نام ایک دکان میں رہتا ہے، بڑی زبر دست طبیعت رکھتا ہے، کسی کو اپنے نزدیک پھٹکنے نہیں دیتا، گالی گلوچ عام طور نکالتا رہتا ہے، تمھاری یہ خوش قسمتی کہ بذات خود بلایا ہے۔ پھر جب دوسرے دن گیا تو بلایا۔ یہی لفظ دوہرائے کہ تمھارا آنا مری سر آنکھوں پر۔ میں نے خیال کیا کہ یہ واقعی پہرے دار صاحب ولایت ہے لیکن مجھے کیا دے گا۔ اور میں اس سے کیا طلب کروں؟ یہ سوچے میں اپنے بھائی چچیرے شیخ نظام الدین کو ساتھ لے گیا۔ کہ آپ مجھے کیا دیں گے؟ یہ میرا بھائی ہے ،ٹھیکے داری کے لیے ہم اپنے وطن سے آئے ہیں۔ اس کی دستگیری کیجیے۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ بولا۔ دیکھو میں شمس ہوں۔ جو چاہوں کر سکتا ہوں۔ میں تمام ٹھیکے داروں میں نظام الدین کا دور دورہ کر دوں گا۔ تم بے خطر رہو۔ اسی کا پہرہ ہو جائے گا۔ مشیت ایزدی کچھ ایام گزر چکے ہوئے تھے کہ جلال پور سے ہجرت کر ایک اہل دیہہ پانڈی خاندان سے جموں گندم منڈی میں آ کر کام کرتے تھے۔ اتفاق سے قادر بخش نام مل گیا۔ اپنے گھر لے گئے۔ کہنے لگے کہ یہ آپ لوگوں کے گھر میں رہا کریں اور روٹی بھی ہر دو وقت یہیں کھائیں۔ بے تکلف اپنا گھر جانے بود و باش اختیار کیے رہیں۔ اور ادھر سردار کورکھ سنگھ اسسٹنٹ انجنئیر ٹانگہ روڈ سے شیخ نظام الدین نے ملاقات کی۔ بہت خوش اسلوبی سے پیش آیا۔ کام مفصل شہر جموں دیا۔ کام شروع ہو ا۔ ہر طرح کا آرام ہو ا۔ ہر کام جس پر مقرر ہوئے فائدہ اٹھایا۔ لوگ ٹھیکہ چھوڑ بھاگ جاتے، وہ ادھورا کام شیخ نظام الدین کو مل جاتا۔ ایسے ہی کئی کام ملنے سے کسی کو فائدہ نہ ہوا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں ہم نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا۔ بقول رنگ علی صاحب کے نظام الدین کا دور دورہ کروں گا۔ بعینہٖ صحیح اور درست پایا۔ بابا صاحب نے ثابت کر دکھایا کہ میں شمس صحیح مالک ہوں۔ جو چاہوں کروں۔ تم جو چاہو مانگو۔ میں دینے والا۔ مجھے ان باتوں سے کوئی مس نہ تھا۔ بلکہ ایسی باتیں سننی نہ چاہتا تھا۔ اگر ضرورت ہوتی تو شیخ نظام الدین کے متعلق (عرض) کی جاتی۔ (مجھے) اگر ضرورت تھی تو یہ کہ میں جائزہ لوں کہ یہ کون ہے؟ اور کیا حقیقت رکھتا ہے؟ اور اس کے کہنے میں کہاں تک صداقت ہے؟ ورنہ دنیوی ضروریات سے میں متنفر تھا۔ اور ہر چند نہ چاہتا تھا کہ کوئی ایسی بات کہوں۔ بلکہ جب کثرت کام کی ہوئی تو عبدالعزیز و غلام محمد اور دو تین اپنے احباب کو منگا لیا۔ اور علیحدہ علیحدہ سب کے ذمے کام کر دیے۔ اپنا کام صرف حساب و کتاب کاروبار تھا یا بعض اوقات کسی جدید کام پر چلا جاتا۔ جب شہر میں آتا تو بابا رنگ علی سے ضرور بلکہ بضرور دن میں کئی بار ملنے چلا جاتا تھا۔ مشیت ایزدی اسی طرح اچھے دن گزرنے شروع ہوئے۔ روپیہ پیسہ کی ضرورت زیادہ لاحق ہوتی تو یہ پانڈی خاندان کے افراد حسب ضرورت دے دیتے۔ غرضیکہ جموں میں بود و باش اختیار کرنے سے ہر ایک طرح کی سہولتیں بفضل خدا مہیا ہو گئیں۔ باشندے کیا ہندو کیا مسلمان بڑے پریم و محبت سے پیش آنے لگے۔ خصوصاً لالہ پرمانندارتی گندم منڈی جو ایک بڑا رئیس شہر اور معزز سری سرکار میں مدبر شمار کیا جاتا تھا ، ہر ایک طرح سے نگرانی کرنے لگا۔ عبدالرحمن المعروف رحماناں پانڈی جو اصلی باشندہ جلال پور لالہ کے پاس بڑا مختار تھا اور اسی کے پاس رہتا تھا دامے درمے حسب ضرورت روپیہ دینے میں تساہل نہ کرتا۔ غرضیکہ بابا رنگ علی کے کہنے کے بموجب سب معاملات دنیوی میں کسی طرح کی دقت و تکلیف پیش آتی ہوئی نظر نہ آتی۔ اور کئی سالوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ تخمیناً سات سال یہیں کام کرتے رہے اور ہزاروں روپے حاصل کیے۔ عبدالرحمن کا لڑکا نور دین ان دنوں آٹھ سات سالہ بچہ تھا۔ اور ایسا ہی فضل قادر بخش کا لڑکا۔ کام اس قدر وسعت اختیار کر گیا کہ اودہم پور سے ویری ناگ تک سڑک روندہ کشمیر کے تمام کام ہمارے متعلق ہوئے۔

یہ تو دنیوی معاملات ہیں۔ جس کا عمل بابا صاحب کے کہنے کے بموجب بفضل خداوند بہت اچھا انجام پذیر ہوتا رہا۔ اور وہ معاملات کہ جس کی طرف میرا خاص خیال تھا تا کہ خدائی قادر مطلق ہونے کا مزید ثبوت ہوتا ہوا پاؤں اور ایمانی تقویت ہو مشاہدہ میں آوے۔ بابا صاحب کے حالات تحریر میں لاتا ہوں۔

بابا رنگ علی کسی اعلیٰ کشمیری خاندان کے فرد تھے اور پہاڑ میں کسی بزرگ کے روضہ پر متولی بھی قرار دیے جاتے تھے۔ کہ در عہد راجہ رنبیر سنگھ کسی دوسرے شخص نے اپنی تولیت کا فائق حق ظاہر کرتے ہوئے قبضہ کر لیا۔ آپ نے جموں آ کر استغاثہ کر دیا۔ جو مہاراجہ بہادر کے آگے پیشی میں آیا۔ اسی میں کئی برس گزر گئے۔ اس عرصہ میں بابا صاحب جموں ہی میں مقیم رہے۔ جیوں شاہ کی خدمت میں بھی اپنا استغاثہ پیش کیا کہ حضور کی ایما سے یہ کام ہو گا۔ آپ مجھے میرا حق دلوائیں۔ آخر کار مہاراجہ سے فرمان سجادہ نشینی ملا۔ بڑی خوشی و شادمانی سے فرمان جیون شاہ صاحب کے پاس لایا۔ کہ جناب آپ کی مہربانی سے یہ ارشاد مل چکا ہے۔ جیون شاہ صاحب نے فرمان شاہی ہاتھ میں لیتے ہی منہ میں ڈالا اور نگل گئے۔ رنگ علی پاس کھڑے دیکھتے کے دیکھتے حیران رہ گئے۔ ساتھ ہی ایک نظر اعجاز نما کی۔ رنگ علی اب رنگ علی نہ رہے۔ وہاں خدائی آواز پیدا ہونے لگا کہ میں ہوں وہ شمس جو کائنات پر شعاع فگن ہے۔ لباس ظاہری مجازی پھاڑا۔ مے خواران یوم الست کے زمرہ میں منسلک ہوئے۔ منصور وار اناالحق کی صدا دم بدم نکلنے لگی۔ ملک اور گھر چھوڑا۔ گدی کو فراموش کیا۔ خویش و اقارب زن و فرزند بھلا دیے۔ اسفل سے علیین ایک نظر میں ہادی بر حق نے پہنچا دیا۔ اور کا اور ہی رنگ چڑھا۔ جیون شاہ صاحب قوم کے نیلاری تھے۔ بول اٹھا کہ نیلاری منڈا رنگ کے کپڑے رنگتا ہے۔

اب رنگ علی ریاست جموں کے ممتاز عہدہ (جو حقیقی ہے فنا پذیر نہیں) پر فائز المرام ہوئے۔ جس کو وہی جانے جو اس عالم ملکوتی سے واقف اور راز الہی سے آگاہ ہو۔ اب اردو بازار کی ایک دکان خالی تھی، اس میں سکونت اختیار کی۔ بولی بدل گئی۔ مجاز سے گزر حقیقت سے دوچار ہوئے۔ اب جو سابق رنگ علی کی زبان سمجھے یہ اس کی نادانی پر مبنی ہو گا۔ دلالت کرے گا جو باعث نقصان ہو گا۔

وہ چند باتیں جو میرے اور ان کے درمیان ہوئیں تحریر میں لاتا ہوں۔ تاکہ وہ لوگ جو متلاشی حق ہیں ان سے سبق حاصل کیے اپنا راستہ اختیار کریں اور یہیں انسان کامل میں ’’الانسان سری وانا سرہ ‘‘ کا پتہ لگائیں۔ اور ’’اینما کنتم فھو معکم ‘‘ کی تصدیق کریں۔ لسان الفقر و سیف الرحمن جانے اس رنگ کی طرف منسوب نہ کریں۔ کیونکہ ’’من عرف ربہ فقد کل لسانہ ‘‘ لیے جس نے اپنے پروردگار کو پہچانا اس کی زبان گونگی ہوئی۔ گونگی سے یہ مراد نہیں کہ بولتا نہیں۔ یہ لوگ بولتے ہوئے ہمارے واسطے گونگے ہوتے ہیں۔ کہ ان کی بولی سمجھتے نہیں۔ چنانچہ اب یہ وہی رنگ علی ہے جب یہ باتیں کرتا ہے تو ہم اس کی بولی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان کی نگاہ مسافت اور دوری کا کوئی خیال نہیں رکھتی۔ یہ آنکھیں جو ذرہ ذرہ پر دھوکا کھاتی اور اٹکلیں دوڑاتی ہیں نقصوں اور عیبوں سے بری ہوتے ہی بدل دی جاتی ہیں۔ ان کی وہ آنکھیں کھل جاتی ہیں جو فرش زمین سے عرش پر سے بھی گزر جاتی ہیں۔ ’’من عرف اللہ لا یخفی علیہ شی ‘‘ لیے جس نے اللہ کو پہچان لیا اس پر کوئی چیز مخفی نہیں رہتی۔ خدا کے علم و نظر میں سب چیزیں سامنے پائی جاتی ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ ہے کہ یہ لوگ چھپائے جاتے ہیں۔ ہم لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ’’ان اولیائے تحت قبای لا یعرفہم غیری ‘‘ لیے اللہ تعالی کہتا ہے۔ اولیا میری قبا کے تلے ہیں۔ ان کو میرے سوائے اور کوئی نہیں پہچان سکتا۔ البتہ یہ لوگ آپ ہی توجہ فرما کر کسی اہل دنیا کو اپنی حضوری میں بلا لیں تو پھر اگر وہ طالب حقیقت حقہ ہو تو ایسی مطبخ سے پس خوردہ کھا سکتا ہے۔ ورنہ اگر طالب مردار دنیا ہو تو اس کو اس میں لگائے رکھتے ہیں۔ اور اپنی خبر تک نہیں ہونے دیتے۔ لاتعداد ان تک پہنچنے میں دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ جن سے گزرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ عموماً اگر کوئی جانے کا ارادہ کرے تو طرح طرح کے خیالوں سے فوراً واپس ہو جاتا ہے۔ اس واسطے یہ چند باتیں جو مشاہدہ میں آئیں۔ احاطہ بشریت میں نہ لاویں۔

کار پاکاں را قیاس از خود مگیر

گر چہ باشددر نوشتن شَیر شِیر

دیکھنے میں آیا کہ آپ اکثر مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے دربار کو جاتے۔ بلا خوف و خطر اور کسی رکاوٹ کے سامنے چلے جاتے۔ راجہ بپاس ادب سرو قد کھڑا ہو جاتا اور ہاتھ باندھ لیتا۔ آپ گالیاں دینا شروع کر دیتے۔ راجہ گلاب سنگھ و رنبیر سنگھ کو ایسا ویسا کہہ دیتے۔ مہاراجہ مست بحق مہاراج کہے جاتے۔ پھر ادھر سے آواز نکلتی کون ہے مالک؟ وہ کہتے آپ۔ حضور فرماتے میں ہوں شمس مالک ریاست۔ چند بار دہراتے۔ مہاراجہ بہادر کھڑے رہتے۔ آخر فرماتے کہ بابا صاحب کو نذرانہ پیش کر و۔ چند روپے اٹھاتے اور چل دیتے۔

پھر عدالت عالیہ میں جاتے۔ حاکم وقت دست بستہ کھڑا ہو جاتا۔ آپ فرماتے کون ہے حاکم؟ جواب ہوتا کہ آپ۔ پھر واپس ہو جاتے۔ رعب و جلال کا یہ عالم ہوتا کہ سامنے والے خود بخود ست بستہ کھڑے ہو جاتے۔ بعض روز دیکھنے میں آیا کہ دس پندرہ فٹ لمبی آہنی زنجیر پاؤں میں باندھ دیتے اور سر پر چھری۔ زندہ پیل کی طرح مست زنجیر کشاں مہاراجہ بہادر کے گھر کو بنام منڈی چلے جاتے اور حسب دستور جائزہ لے کر واپس آتے۔

ایک روز کا ذکر ہے کہ ریاست میں سال کے بعد ایک دن آتا ہے جس کو ٹھاکر کے جنم لینے کا دن کہتے ہیں۔ تو ایک لمبے پتھر سڈول کو جو ان لوگوں کی پوجا میں ہوتا ہے، ایک سنہری ی پالکی میں رکھ لیتے ہیں۔ جس کے آگے و پیچھے رسالے اور ہاتھی و باجے وغیرہ بڑ ی شان و شوکت سے آہستہ آہستہ چلتے اور آگے ٹھاکر والی پالکی کے بھجن گاتے، ٹھہرتے ہوئے پھر چل دیتے ہیں۔ صبح میں وہ پتھر ٹھاکر ہر ایک کو بخوبی نظر آتا ہے۔ بابا صاحب اور راقم ہر دو ایک طرف کھڑے تھے۔ جب پالکی ہمارے سامنے ہوئی تو میرے دل میں خیال ہوا کہ جناب سرور کائنات خلاصہ موجودات کعبہ میں گئے جو پتھروں بتوں سے پر تھا۔ تو معاً سب سجدہ میں گر پڑے۔ آپ نے فوراً زبان مبارک سے نکالا کہ کیا اب محمد ﷺ نہیں ہے۔ فوراً وہ پتھر یا ٹھاکر جو ریشمی اور طلائی سرہانوں میں کھڑا کیا ہوا تھا اور پالکی سامنے کھڑی تھی، پجاری بھجن گا رہے تھے، ٹھاکر صاحب سر بسجود پالکی میں گر پڑے۔ پجاری حیران ہوئے کہ یہ کیا ہو گیا ہے؟ حیرانی کا عالم طاری ہوا اور ہم دونوں چل دیئے۔

گویا آپ سے معلوم ہوا کہ اس وقت بھی وہ اللہ کے آگے سجدے میں گر پڑے تھے اور وہی اللہ اب بھی موجود ہے۔ جو جوں کا توں ہے۔ اس پر مجھے کوئی تعجب نہ ہوا۔ کہ واقعی اب بذاۃٖ وہی مولا جو اس وقت تھا اب بھی ہے۔ یہ پتھر کیا ہزار عالم اسے سجدہ کر رہا ہے۔ اور اسی کے ذکر میں ہے۔

ایک روز پانچ بجے کے قریب ڈیرے سے نکلا۔ اردو بازار میں آپ کی دکان پرسے گزرا تو آپ گالی نکال رہے تھے۔ کہ میں لعب الدین کی اولاد کو ایسا کروں گا۔ جو آپ کی زبان کا تکیہ کلام تھا کہ میں شمس ہوں اسی کی کڑی (لڑکی) کو یہ کروں گا وہ کروں گا۔ گویا ایسے کلمات بوقت جلال آپ کے منہ سے نکلا کرتے تھے۔ میں سلام کیے گزر گیا۔ ساتھ ہی دکان کے جنوب کو کوچہ دائرے میں پڑتا تھا، چلا گیا۔ دیکھتا کیا ہوں صحن دائرہ میں ایک پلنگ پر بستر اعلیٰ بچھا ہوا ہے۔ اس پر ایک بائیس تئیس سالہ نوجوان بیٹھا ہوا ہے۔ بازار کے لوگ دست بستہ کھڑے ہیں کہ رنگ علی روزانہ خدا رسول وغیرہ کو گالی نکالتا رہتا ہے۔ اگر آپ اجازت دیویں تو اس کو تنبیہ کریں۔ وہ کہنے لگا کہ کل ہم بھی ساتھ شامل ہو کر اس کو بخوبی سزا دیں گے۔ مجھے بھی مشورہ میں طلب کیا۔ کہ شیخ صاحب آپ بھی اپنی رائے کا اظہار کریں۔ میں نے کہا میرا اس میں کوئی مشورہ نہیں۔ تم خود جانو۔ دل میں آیا کہ ان لوگوں کی بد بختی ہے۔ آپ کو بوجہ خوف ان سے کچھ کہہ نہیں سکتے اب پیر لعب الدین مظفر آبادی جو اپنے وقت کے بڑے مستجاب الدعوات لوگوں میں ہوئے ہیں اپنا حمایتی بنایا ہے۔ اس کے بھی برے دن آئے ہیں۔ آدھ گھنٹہ گزرنے پر میں بجلد وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ دکان پر سے گزرا تو آپ بہت جوش میں آئے ہوئے فرما رہے تھے کہ پیر لعب دین کے پوتے کو دیکھو کیسے جہنم میں پہنچاتا ہوں اور خارج از شہر کرتا ہوں۔ مشیت ایزدی ! آدھی رات کا وقت تھا۔ کہ اس پوتے صاحب کو مریدان خاص نے ایک نوجوان خوب صورت دوشیزہ سے ناجائز فعل کرتے دیکھا۔ پھر کیا تھا۔ اسی وقت راتوں رات آپ شہر سے روپوش ہو گئے۔ پھر عمر بھر اس طرف کا نام نہیں لیا۔

ایک روز راقم اور غلام محمد ہر دو کام ٹھیکہ کو ختم کیے آئے تو شیخ نظام الدین نے بولا کہ نیا کام دو میل سڑک جدید بننے کا جنگل گلی میں لیا ہے۔ اور بھی ٹھیکہ داروں نے میل دو میل لیا ہے۔ کیونکہ وہاں سڑک جدید کوئلہ کی کانوں سے کوئلہ نکالنے کے لیے بنائی جائے گی۔ ٹھیکہ ہمارے نام ختم ہو چکا ہے اس لیے جانا ہو گا۔ دوسرے لوگوں سے سنا کہ یہ جنگل گلی وہ پہاڑ ہے جہاں دیوی ماتا کا استھان ہے۔ اور یہ وہ پہاڑ ہے جو دور سے ترشاخا نظر آتا ہے۔ جس کے اوپر کے تین ٹیلے کوسوں دور سے نظر آتے ہیں۔ دیوی کے استھان سے مشرق کو ایک نالہ ہے جہاں یہ سڑک نیچے سے اوپر کی طرف پہاڑ کی چوٹی تک جائے گی۔ لیکن اس جگہ جنگل گلی کو جہنم گلی بھی پکارتے ہیں۔ کیونکہ وہاں ایک تو کوئی چیز کھانے پکانے کو نہیں ملتی، دوسرا ایک قسم کے مومنو کتے ہیں جو مکانوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ گو وہ کاٹتے نہیں الا وجود کے جس حصہ پر سے گزر جائیں وہ سیاہ پڑ جاتا ہے۔ عمر بھر رنگ نہیں بدلتا۔ ان باتوں کے سننے سے بابا صاحب رنگ علی کے پاس گیا۔ کہ کیا ہی اچھی جگہ تری خدائی میں ہمیں رہنے کو آئندہ مخصوص کی ہے جسے جہنم کہتے ہیں۔ یہ آپ کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔ سننے کے بعد فوراً بول اٹھے کہ وہ جسے جہنم کہتے ہیں۔ دیکھو میں شمس ہوں اگر تمھارے لیے جنت نہ کر دوں تو تم ہمارا نام جو شمس ہے بدل دینا۔ تم بلا خوف چلے جاؤ۔ میں تمھارے ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے اسے گلزار کر دوں گا۔

ٍ غلام محمد اور میں ہر دو چلنے کی تیاری کرنے لگے۔ ایک شخص شیخ الہ دین نام گوجرانوالہ دیہات کا باشندہ اہل خطہ درویش صورت ساتھ ہو لیا کہ میں نے بھی ایک میل کام لیا ہے۔ اس کی حالت کذائی دیکھے تعجب ہوا۔ کہ کوئی اخلاقی و تمدنی عمل اس کا ہم سے نہیں ملتا اور نہ آئندہ ملے گا۔ تکلیف نہ ہو۔ خدا کے بھروسہ پر چل دیے۔ دوسرے دن جنگل گلی پہنچ گئے۔ ایک مکان رہنے کو صاف و مصفا لیا۔ دیکھتے ہیں کہ مومنوں قطار بنائے فرش مکان پر چل رہے ہیں۔ دیکھ کر خوف آتا لیکن ساتھ ہی خدا کا وعدہ یاد آیا کہ جنت بنا دوں گا۔ خدا کی قدرت دیکھنے لگے۔ ایک بڑھیا دیرینہ سال کو زہ پشت خود بخود سامنے برہمنی آ گئی کہ بیٹا جو چیز تم بتیس دانتوں میں سے مانگو میں دینے کو تیار ہوں۔ کوئی غم و اندیشہ نہ کرو۔ ہم اپنے خدا پر پہلے ہی بھروسہ رکھتے تھے۔اب ہر ایک چیز اس سے لینا شروع کی۔ وہاں کوئی دکان نہ تھی۔ اس پہاڑی نالہ میں ٹھاکر لوگ میل میل فاصلہ پر گھروں میں رہتے تھے۔ سب کے سب ہندو ٹھاکر کہلاتے۔ پستہ قد اور بِلے۔ لیکن عورتیں وہ تھیں جن سے حوران بہشتی بھی شرماتی ہوں گی۔ جس سے مہاراجہ امر سنگھ اس خوبی کو سنے خود جنگل گلی میں آیا۔ اور تصدیق کیا کہ واقعی ٹھیک ہے۔ اب شیخ الہ دین کو دیوان حافظ پڑھانا شروع کر وا دیا۔ مسجد کا پڑھا بھی کسی قدر عربی و اردو دان تھا۔ دیوانِ حافظ کے دو تین ورق ہم نے پڑھے ہوں گے کہ ہمارے نیچے ایک چماروں کا گھر تھا۔ ان کی بہو نوجوان اور بہت ہی خوب صورت تھی۔ چوپایوں کو گھاس چراتی دیکھی۔ تیر نگاہ سے گھائل ہو گیا۔ دم بدم حالت دگر گوں ہونے لگی۔ جب اسے دیکھو چماروں کے گھر میں بیٹھا ہوا ادھر ادھر کی گپیں ہانکتا اور چماروں کے بچوں کو پیسہ پیسہ دو پیسہ روزانہ دیتے خوش رکھتا ہے۔ ایک دم بھی اس بو دار چمار خانہ سے نکلنے کو دل نہیں چاہتا۔ وہی اس کے واسطے خلد بریں کا سماں دکھلائے دل لبھائے جاتا ہے۔ جب کبھی باہر اس کلبہ حزیں سے نکلتا ہے جو شخص اس کے سامنے آ جاتا ہے اس کے پاؤں کے جوتے کو پہلے دیکھتا ہے۔ اگر نہ بھی ٹوٹا ہوتا تو کہہ دیتا کہ بھائی صاحب دیکھو یہ تمھارا جوتا ٹوٹا ہوا ہے۔ ہمارا جوتا تم پاؤں میں رکھو اور یہ ہمیں دے دو۔ ہم اس کو چماروں سے درست کروا کر تمھیں لا دیں گے۔ بڑی کوشش اور منت سماجت کر کے آخر جوتا لے ہی لیتا۔ غرضیکہ اسی صورت میں کام قریب الختم ہو گیا۔ تھوڑے دن باقی رہتے تھے۔ ایک ٹھیکے دار جس کا کام اخیر پہاڑی کی چڑھائی میں تھا، ایک ڈائن عورت نے کام روک دیا۔ اور کہا کہ جاؤ میں مکان سے سڑک گزرنے نہ دوں گی۔ جو تمھارے بس کی بات ہے کرو۔ وہ ٹھیکہ دار ہمارے پاس آ کر منت کرنے لگا کہ جیسے بن آوے وہ ٹکڑا سڑک کا بنوا دیں۔ تاکہ ہمارا نقصان نہ ہو۔ خدا پر بھروسہ کیے میں گیا۔ مزدور ساتھ تھے۔ سڑک پر لگا دیے۔ وہ مکروہ و ڈراؤنی عورت نکل آئی۔ ڈانٹنے لگی کہ میں یہ کروں گی میں وہ کروں گی۔ مجھے بھی اپنے خدا پر پورا پورا بھروسہ تھا۔ اسے یاد کیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ عورت خود بخود ست بستہ آ گئی کہ میری کوئی مجال نہیں ہے۔ آپ بے خوف و خطر سڑک بنا لیویں۔ رنگ علی نے اپنا رنگ خوب دکھایا۔

ایک دن ہم دونوں جنگل گلی سے شہر جموں کی طرف آرہے تھے۔ دس پندرہ روپے پاس تھے۔ کہ غلام محمد نے کہا کہ سیالکوٹ لاہوری شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر واپس ہوں گے۔ میں نے بولا کہ اگر بابا صاحب رنگ علی کو خبر نہ ہو۔ ورنہ وہ سیالکوٹ جانے نہ دے گا۔ البتہ ہم خاموشی سے داخل ہوں اور رات گاڑی میں چپکے سے سیالکوٹ پہنچ جاویں تو ممکن ہے کہ وہ صاحب عظمت و جلال گوارا نہ کرے کہ مجھ کو چھوڑ کہیں چلے جاویں۔ حالانکہ ہم کو غلام محمد کے ذریعے لاہوری شاہ صاحب کا بھی بڑا احترام تھا۔ کہ خود ہی غلام محمد کو اس کے حلقہ مریدی میں داخل کیا ہوا تھا۔ ان باتوں کو دیکھے پختہ ہو ا کہ سیالکوٹ رات کو چل دیں گے۔ البتہ دروازہ شیرانوالہ میں جو کشمیر جانے کا دروازہ ہے داخل نہ ہوئے تھے کہ بابا صاحب دروازے میں کھڑے انتظار کر رہے تھے کہ کب آویں؟ اتنے میں ہم نے سلام کیا۔ آداب بجا لائے۔ بولے تم سیالکوٹ لاہوری شاہ کے پاس جاتے ہو۔ میں تمھیں ہر چند نہ جانے دوں گا۔ ساتھ لے آیا۔ ہمارا ارادہ پکا پکایا رہ گیا۔ دوسرے دن میں خواب سے بیدار ہوا۔ اوپر نظر اٹھا کر دیکھا۔ ایک تجلی الہی پائی اور بے ہوش ہو گیا۔ پندرہ دن تک اپنے بیگانے کی خبر نہ رہی۔ اتنے میں غلام محمد سیالکوٹ ہو کر واپس آیا۔ رات خواب میں بابا صاحب انڈیانوالے آئے۔ جنہوں نے مجھے گھر سے نکالا۔ فجر بابا رنگ علی صاحب دریچہ کے نیچے آ کر مسکرایا۔ کیا عاشق ایسے ہی بے خود ہو جاتے ہیں؟ میں ہنستا ہوا نکلا۔ حواس قائم ہوئے۔

میاں حامد علی اور ابراہیم آہن گر ہر دو میرے ملنے کو آئے۔ فجر ساڑھے چار بجے پہنچے ہوں گے کہ بھونچال آیا۔ جسے کانگڑہ کا غارت کرنے والا بھونچال کہتے ہیں۔ جموں میں تو اندیشناک جھٹکا نہ آیا لیکن کانگڑہ کو سنا کہ بہت غارت ہو گیا۔

فجر ہوئی۔ ہم ہر سہ بابا صاحب کو ملنے کے لیے اس کی دکان پر جا کھڑے ہوئے۔ چونکہ ــ ’’اولیا را اولیا می شناسد ‘‘ ابراہیم کی روحانی کمپنی کا ممبر تھا۔ نظر ملاتے ہی بھاگ گیا۔ دور دس دکانیں چھور جا کھڑا ہوا۔ کہا یہاں بابا صاحب کے پاس آ جاؤ۔ دو چار باتیں خاطر خواہ ہو جائیں گی۔ ایک نہ مانی اور کہا کہ مجھ میں ایسے شیر ببر کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں ہے۔ آخر ہم نے ایک دو باتیں کیں اور چلے آئے۔

ان دنوں جیسے ہم جموں میں رہتے چلے آ رہے تھے بہت سی باتوں کا فیصلہ ہوا جو احاطہ تحریر میں لانے کے قابل نہیں ہیں۔ جب ہم جلال پور سے جموں آئے تو معلوم ہوا کہ وہ جو ٹھیکہ داری میں بھائی وال تھا اس نے شیخ نظام الدین سے روپیہ لیتے ہوئے روزنامچہ میں نہیں ڈالا۔ یہ سید بنام۔ ۔ ۔ تھا جو محرر روزنامچہ تھا۔ تنازع شروع ہو ا۔ تعدادی بائیس صد روپے کا غبن انہوں نے کیا تھا۔ بابا صاحب سے کہا کہ ایسے روپیہ ایک شخص کھا گیا ہے۔ بولے وہ کون ہے؟ کیا کوئی ہندو تو نہیں ہے؟ میں نے بولا ہندو نہیں سید ہے۔ بولے تو اچھا میں اس کی بیٹی کو ایسا کروں گا۔ اور اس کی ماں سے۱۴۰۰ روپیہ نکالوں گا اور ضرور دلاؤں گا۔ چنانچہ ایسا ہی بعد میں فیصلہ ۱۴۰۰ روپیہ ملا اور ہندو کی پاسداری کے ریاست میں معنے پائے گئے کہ کیا وجہ ہے۔

ایک شیر فروش ہندوستانی کی دکان تھی۔ جس کا نام ابراہیم تھا۔ پچھلے وقت چار بجے دکان پر جا کر تفریحاً کرسی پر بیٹھ جایا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے قاسم شاہ کو دیکھا کہ میرے ساتھ ہے۔ بولا کہ میں یہاں ڈاک بنگلہ میں خانساماں تھا۔ جس میں مجھے اچھی خاصی آمدن تھی۔ خدا کی مرضی اچانک موقوف کر دیا گیا۔ بعد ازاں بہتیری چارہ جوئی کی۔ کچھ بن نہ آیا۔ پھر یہ دکان کھول لی۔ بہت تنگی سے وقت گزار رہا ہوں۔ اگر آپ کسی فقیر سے میری مشکل حل کرا دیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔ اس کا خیال قاسم شاہ کی طرف تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ بے چارہ سیدھا سادا آدمی ہے۔ قاسم شاہ سے ملا تو وہ باقی ماندہ اگر گھر میں کوئی بچا بچایا برتن ہے تو وہ بھی کھا جائے گا۔ کام بھی نہ ہو گا۔ میں بولا اگر کسی یہیں کے درویش سے ملا دوں اور وہ تمھارا کام کر دے تو کیا باہر جانے سے اچھا نہیں ہے۔ بولا کہ یہ تو بہت سعادت ہے۔ توجہ میری بابا صاحب رنگ علی کی طرف ہوئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ میری کرسی کے پیچھے میری پشت پر ہاتھ رکھے فرما رہے ہیں۔ کہو کس واسطے مجھے بلایا ہے؟ میں نے کہا کہ جناب میں نے اس ہندوستانی کے لیے آپ کو طلب کیا ہے۔ کہ یہ خانساماں مال گیری میں ڈاک خانہ سے معطل ہو چکا ہے۔ اور پھر سے اپنے کام پر جانا چاہتا ہے۔ فرماتے ہیں کیا میں شمس نہیں ہوں؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ تو پھر بولے دیکھو تم میرے ذمہ ہو۔ فوراً ملازم کرا دوں گا۔ منشا الہی ایسی ہی تھی۔اب یہ ابراہیم انہی دنوں ملازم ہو گیا۔ اپنے کام پر لگایا گیا۔ میرے اور بابا رنگ علی کے تعلقات سے واقف ہو چکا ہوا تھا۔ گاہ بہ گاہ ملاقات ہوتی۔ بابا کے اعجاز اور برتاؤ کی باتیں سناتا کہ ہمارے یہ یہ کام بابا صاحب نے آسانی سے کیے ہیں۔ کاموں کا فیصلہ شیخ نظام الدین کرانے جاتا تھا۔ کیونکہ اسسٹنٹ انجنئیر سردار گورمکھ سنگھ بھی اب ریٹائر ہو چکا تھا۔ جلال پور واپس آنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ جس پر پہلے میں نے رخصت ہونا تھا۔ میں ٹانگے پر سوار ہوا کہ بابا صاحب سے چھپ کر جلال پور چلا جاؤں۔ ٹانگے والے سے میں نے بولا ! اگر بابا رنگ علی دکان سے باہر نکل کر تانگہ روک بھی لیوے تو تم نے ٹھہرنا نہیں ہو گا۔ اردو بازار میں سے تانگہ جار ہا تھا۔ غربی جانب دکان تھی۔اس واسطے میں مشرقی بازو پرسر پر کپڑا اوڑھے تانگے پر بیٹھ گیا۔ جب دکان کے قریب پہنچے تو بابا جھٹ دکان سے باہر نکل دونوں ہاتھ اٹھائے فرمانے لگے۔ ٹھہرو، ٹھہرو۔ مت جاؤ۔ میں خاموش بیٹھا رہا۔ اور تانگہ وہاں سے نکال اسٹیشن پر پہنچا۔ سوار ہوا اور جلال پور پہنچ گیا۔ احباب بہت خوش ہوئے۔ کہ مفارقت سے چھوٹے۔ اب پھر وہ صحبتیں اور مجلسیں جاری ہوئیں۔ لیکن پہلے ایام میرے واسطے تکلیف کے اور سخت گزرے۔

ابراہیم خانساماں راز کا واقف ہو چکا تھا۔ بابا صاحب سے کہتا کہ شیخ صاحب کو منگواؤ۔ فرماتے جاؤ ان کا کھانا تیار کرو۔ ادھر مجھے جلال پور میں دل میں آگ لگ جاتی۔ مجبور ہو کر جموں چلا جاتا۔ ایک دو دن کے بعد رخصت لے کر چلا آتا۔ تین دفعہ ایسا ہی ہوا۔ چوتھی دفعہ جب ایسا ہی ہونے لگا سخت سے سخت آگ مہجوری کی دل میں بھڑک اٹھی۔ حتیٰ کہ میں نے اپنے کپڑے تک پھاڑ دیے۔ کہ نہیں جاؤں گا۔ پھر کہیں خدا خدا کر کے خلاصی ہوئی۔ کیونکہ یہاں یار دوستوں احباب کی مے خانہ میں اکیلے بیٹھ کر مے توحید نوش کرنا بھی ایک حقیقت تھی۔ جو بہت بڑا مزا و لطف رکھتی تھی۔

ابراہیم آہن گر تنگ کرتا تھا کہ تم ضرور جموں سے چلے آؤ۔ بنائے مفارقت یہی تھی جو ہو گئی۔ اب سب یاران طریقت خوش و شادمان بیٹھے ہوئے ہیں۔ لاہوری صاحب بھی یہ کہتے ہوئے چھیڑتے

چھپڑئیے جو گہیئے تیں وچہ پانی نت

عاشقاں دھو لئے کپڑے

لمے نوں کر لیے چت

یہ کلام ہی معنی خیز تھا۔ غلام محمد ان دنوں مہجور ہو رہا تھا۔ اس کی پھیلاں کا جسم پھٹا جاتا تھا۔ کیونکہ اکٹھے ہونے سے جب یہ کام دنیوی نہ کیا جائے تو خون گرم ہو جاتا ہے۔ جس سے بگڑنے کا اندیشہ لا حق ہوتا ہے۔ پھیلاں دکھیائی ہوئی کہتی تھی کہ مجھے آرام ہونا چاہیے۔

آخر غلام محمد و پھیلاں و احمد دین و راقم و ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی و مائی صاحبہ فضل بی بی چھ سات نفر جموں رنگ علی کو ملنے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے۔ جموں پہنچے۔ پھر معلوم ہوا کہ تین مہینہ سے بابا صاحب بیمار ہیں۔ ایک مکان میں جو اردو بازار سے باہر ہے، پڑے رہتے ہیں۔ کسی سے بولتے نہیں۔ دکان خالی مالکوں نے سنبھال لی ہوئی تھی۔ ہم سب اکٹھے رات گزرنے کے بعد بابا

صاحب کے مکان پر پہنچے۔ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے۔ خوش آوند۔ ہم سب آپ کے گرد حلقہ باندھے بیٹھ گئے۔ اور وہ بیچ میں تھے۔ میں نے کہا کہ ہم تیرے مہمان ہیں ہمیں کھانے کو دو۔ یکے بعد دو چھابڑیاں والے ایک میوہ فروش اور دوسرا شیر فروش بھی آ گئے۔ ان کو بولے۔ ابھی فلاں شے لاؤ۔ ان کو خوش کرو۔ انہوں نے اپنی اپنی چھابڑیاں پیش کر دیں۔ میں نے حسب ضرورت ان میں سے اشیائے خوردنی کو اٹھا لیا اور جلد رخصت کیا کہ بابا صاحب سے مطلب کی باتیں کریں۔ پہلے میں نے بولا کہ کیا آپ بیمار تھے۔ بولے نہیں۔ تین تین مہینے بمبئی میں رہا ہوں۔ ولایت کو وہاں رہ کر میں نے اٹھارہ جہاز ضروریات کے بھیجے ہیں۔ جب واپس ہوا تو ایک جگہ طاعون کا دورہ دیکھا کہ لوگوں کو مار رہی ہے۔ وہاں ایک مسلمان پہرہ دار تھا جس نے بولا کہ جو اس ندی کا پانی مسلمان پیے گا اس کو طاعون نہ ہو گی۔ مجھے اس کا یہ فعل دیکھے بہت غصہ آیا۔

کہ دیکھو میں رب العالمین ہوں اور تو مسلمانوں کا رب ہے۔ باقی مخلوق کو مار رہا ہے۔ تو اس لائق نہیں کہ آبادی میں رہے۔ اس کو لائل پور کے جنگلوں میں پھینک آیا ہوں۔ جب لاہور پہنچا تو دیکھا کہ طاعون شاہدرہ میدان میں اپنا اڈا لگائے لوگوں کے کلیجوں کو بھون کر مزے سے کھا رہا ہے۔ مجھے غصہ آیا کہ یہ تیری مخلوق کھا رہا ہے۔ میں نے ساتھ روحانی پولیس کی امداد لی۔ بڑے بڑے گرفتار کر کے جہنم میں ڈال دیے۔ اب دیکھا تو چھوٹے چھوٹے بھاگ گئے ہیں۔ جس سے اب طاعون اس وقت زور شور پر ہو گی جب یہ بچے جوان ہوں گے۔ مشیت ایزدی تب سے طاعون ایسی پیدا نہیں ہوئی۔ واللہ اعلم باالصواب۔

پھیلاں کو پیش کیا اور یہی مدعا تھا کہ اس کے جسم پر نگاہ فرما دیں۔ پھر جلال میں آئے۔ دعوائے شمسی کیا۔ نگاہ دوڑائی۔ فرمایا۔ اب آرام ہو جائے گا۔ بفضل خدا بعد کو پورا پورا آرام ہو گیا۔ بعد ازاں فرمانے لگے کہ میں اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں۔ اس لیے تم کو بلایا ہے کہ ملاقات ہو جائے۔ میرے جانے کا وقت آ گیا ہے۔ آخر خوش خوش رخصت ہوئے۔

اب بوثوق اتنے دنوں کی ملاقات میں مشاہدات سے ثابت ہوا کہ جو اعجاز انہوں نے دکھلائے ان میں سے لوگوں کی انانیت کے متعلق جاننے کی غرض تھی۔ جس کو ہر ایک فرد سے یہی ثابت کیا کہ یہ انانیت جو ان میں کام کر رہی ہوتی ہے یہ شخصی نہیں ہوتی۔ خدائی ہوتی ہے۔ خدا کے آگے یہ ناممکنات کام جو ان سے ظاہر ہوتے ہیں کچھ تعجب انگیز نہیں ہوتے۔ خداوند ہر چیز پر قادر ہے۔ نگہبان اور جہان کے کاموں کو انجام دینے والا۔ یا یوں جانیے کہ یہ جو عالم کے اعضائے رئیسہ ہیں ان میں سے صاحب وجود اپنی وجودی حفاظت کا کام کرتا ہے۔ یا بقول اہل شریعت دین محمدﷺ جو حضورﷺ نے ملائک کے نام سے خطاب دیا ہے کہ جہان کی چیزوں کی حفاظت اور ملکی انتظام ان کے ذمے ہوتا ہے۔ ظاہر کے مملکت برائے نام ہوتی ہے۔ درحقیقت یہی حضرات کار فرما ہوتے ہیں۔ انہی کی مرضی سے سب کام سر انجام پاتے ہیں۔ ’’امنت باللہ و ملا ئکہ ‘‘ کا خطاب انہی کے واسطے آیا ہے۔ پہلے خدا پر ایمان لانا اور پھر فرشتوں پرکی دلیل ایسے سمجھو کہ پہلے بنی آدم کا وجود جس میں جان جسم، جہاں میں محیط اور ذرہ ذرہ پر حاضر ہے اور ملائک حواس خمسہ ظاہری و باطنی سب کاموں پر مامور ہیں جس کے بغیر اس وجود کی حفاظت ناممکن ہے۔ بس آگے کتب و رسول کا حاشیہ لگاؤ۔ قدر کی قیمت جانو۔ تا کہ تم صاحب ایمان کہلاؤ۔ اور نعمت مشاہدہ سے مستفیض ہوتے ہوئے راہ نجات حاصل کرو۔

چنانچہ میری یہ تاریخ برائے اثبات حق ہے۔ جو موجود ہے اور حق کا پتہ جیسے جیسے پایا گیا ہے وہ پیش نظر حاضر ہے۔ اس کے سوائے یہ جو پیر و مرشد، صوفی و صافی، گرو و ساہدو، زاہد و مجاہد بنے بیٹھے ہیں بصورت رسم ہیں۔ چنداں خدائی احکام میں مفید ثابت نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ در حقیقت یہ طالب حق نہیں ہوتے، دنیا حاصل کرنے کا ایک ڈھنگ بنایا ہوتا ہے۔ اہل دنیا در حقیقت بالکل ہی علم حق سے ناواقف ہوتے ہیں اور یہ مدعی و رہنمائی کرنے والے قصے کہانیاں سنی سنائی سنائے لوگوں کو اپنے حلقہ اثر میں لائے، رجھائے لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ اگر زیادہ سے زیادہ ان میں کچھ اعجاز ہے تو اپنے یا کسی دوسری تیسری شخصیت پر مبتلا کرنے کا ہے۔ جب طالب مبتلا ہو جاتا ہے تو یہ اس کو مسحور دیکھے اس کی جیبیں ٹٹول لیتے ہیں۔ جائیدادیں چھین لیتے ہضم کر جاتے ہیں۔ اگر از روئے خود تحقیق کیا جائے تو ان سے بڑھ کر شاہد بازاری جلد مسحور کر لیتی ہے۔ اور اپنی شخصیت و تعین پر پروانہ وار فدا کیے دین و ایمان، مال و دولت سب سارا کے سارا چھین لیتی ہیں۔ اس واسطے یہ حالات ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں تحریر میں لایا ہوں۔ اگر اہل تحقیق و تصدیق ہو تو اپنا مطلوب اگر حق پر ہو تو بتائید ایزدی اس کے سامنے آ جاتا ہے۔

اب ان چند افراد کی جماعت جن کا نام پیشتر تحریر ہو چکا ہے۔ ہر ایک اہل تحقیق کے لیے لیے بپاس تربیت بابا صاحب نعمت شہود سے معمور ہے۔ اور آئندہ اپنے مطلوب کو بے نقاب کرنے کی جستجو میں، دنیا میں برائے نام رہتے ہوئے، لو لگانے کی کوشش میں ہے۔ کیا ہی مبارک ہیں شخصیتیں کہ جنہوں نے دنیا اور روٹی کو اپنا دین نہیں بنایا اور جو کچھ دنیا کا پایا اس کو اسی راہ صداقت پر چلتے ہوئے قربان کر دیا۔ اور ملوثات سے بچنے کی سر تا پا کو شش کی۔

مائی صاحبہ فضل بی بی مجذوبہ

جب ہم جموں سے جلال پور میں چند سال رہ کر آئے۔ کہ ایک روز کیا دیکھتے ہیں کہ ایک نوجوان قدو قامت کی بڑی توانا، کشمیری پھرن (پیرہن) پہنے، کھلتہ اوڑھے، سر پر قصابہ رکھے، شہر میں داخل ہوئی۔ نوجوان تھی شہر کے بدمعاش نوجوان اس کے پیچھے لگ گئے۔ یہ گلی کوچوں میں بھاگتی پھرتی، کشمیری زبان میں گالی گلوچ دیتی، کسی سے مانوس نہ ہوتے ہوئے، ایک تندور پر جو متصل مسجد کنجراں محلہ سادھو میں تھا، ٹھہری۔ جوں توں کرتے نگرانی میں رات گزارتی ہے۔ صبح اچانک ہی ہمارے گھر پر آ جاتی ہے۔ ہمارے گھر کی مستورات میں سے ہماری والدہ ماجدہ زبان کشمیری سے واقف تھیں۔ ان سے کشمیری زبان میں گفتگو کرتی ہیں۔ گویا یہ بچھڑے ہوؤں سے آ ملتی ہیں۔ وہ گھبراہٹ اور تلملاہٹ جو پہلے تھی، نہیں رہتی۔ فضلد دی نام بتایا۔ کشمیر سری نگر کی رہنے والی بتایا۔ کہیں رسل صاحب پرگنہ لار کی نظر میں آ گئیں۔ منظور نظر ہوئیں۔ بیک نگاہ قاتل کفار اسلام کے کنار عافیت میں جگہ پائی۔ اپنے بیگانے سے تعلق چھوٹا۔ بیگانے نے چھاتی سے لگایا اور حکم پایا کہ تم ملک پنجاب میں ہجرت کر جاؤ۔ اور جلال پور میں تمھیں قرار دیا جائے گا۔ وہاں پہنچو۔اب یہ گھر فضلد دی کی حقیقی گھر ہو گیا۔ تمام کا تمام عالم نسواں کا فرقہ دست بستہ بصدق دل خدمت میں کھڑا ہو گیا۔ شہر کے بدمعاش نوجوان بھی دم بخود رہ گئے۔ آہستہ آہستہ شہر کا چکر لگانا ان کا آئین ہوا۔ تمام دن چکر میں رہتیں۔ سر شام گھر پر چلی آتیں۔ ایک کھلی پھرن یا کھلتہ رات دن پوشش ہوتا۔ نہ کو ئی صف بچھاتیں اور نہ چارپائی۔ فرش زمین پر پسار کی ایک بنی تھی، اس پر سرہانہ ہوتا۔ عموماً رات بھر بیٹھی رہتی تھیں۔ آہستہ آہستہ پنجابی زبان کی مشق بھی ہونے لگی۔ والدہ صاحبہ سے بڑی محبت ہو گئی۔ ان کو بیہد دی یعنی بہن صاحبہ کہتیں۔ جب کھانا تیار ہوتا، روٹیاں تنور سے آ جاتیں۔ آپ ان میں سے چار پانچ اٹھا کر کتوں کتوروں کو بلائے ڈال دیتیں۔ کسی کی مجال نہ ہوتی کہ ان کا ہاتھ روکے۔ اگر کوئی بفرض محال منع بھی کرے تو ترش روی سے کہتیں کہ تم کون ہو؟ میں مالک ہوں۔ کیا تم نہیں جانتیں کہ جس کو چاہے رکھوں اور جس کو چاہوں نکال دوں۔ ان الفاظ کے سننے سے سب کی سب سہم گیں ہو جاتیں۔ اپنے کھانے کو باسی ٹکڑا روٹی کا پھرن کی جیب سے نکال کر بغیر کسی سالن کے کھاتیں۔ سب کے سب خاندانی افراد کا علیحدہ علیحدہ نام رکھا۔ ان کے نام رکھنے سے ثابت ہوتا کہ یہ ان افراد کے اخلاقی نام ہیں۔ جب کسی کو بلا نا ہوتا تو وہی اپنا رکھا ہوا نام لے کر پکارا کرتیں۔اب گھر کے تمام آدمی مائی صاحبہ سے بالکل مانوس ہو گئے۔ دو تین سال کے گزرنے سے جب دیکھا کہ ہاڑ سیال، سردی و گرمی یہی ایک پھرن پہنے رہتی ہیں۔ اوڑھنے کے لیے کچھ نہیں لیتیں۔ بچھونا نزدیک آنے نہیں دیتیں۔ بیٹھنے اور سونے کو وہی جگہ جو پسار و صحن کی مشترکہ بنی ہے۔ بہت کم سوتی ہیں۔ تو سب لوگوں کے دلوں میں ان کا مجاہدانہ عمل دیکھے زیادہ خوف پیدا ہو گیا۔ دوسرے جو بات یہ کنایتاً یا اشارۃً منہ سے نکال دیتیں وہ ہو جاتی۔ موسم سرما میں دیکھا گیا کہ اگر رات کو کہیں نیند زیادہ پڑ گئی ہے تو صبح سویرے تالاب پختہ پر ، جو ہمارے گھروں کے نزدیک ہے ، چلی گئیں ہیں۔ مع پھرن اس میں خوب غوطے لگاتی ہیں۔ جب خوب وجود کو سردی لگتی ہے تو چلی آتی ہیں۔ پھرن کو گلے میں ہی رکھے ہوئے۔ دانت بج رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مائی صاحبہ پھرن نکالیں اور دوسرا کپڑا پہنیں تاکہ اس کو خشک کیا جاوے، ہر چند نہیں مانتیں۔ حتی کہ وہ کرتہ دو دو روز تک خشک ہونے میں نہیں آتا۔ ہر ایک گھر کے آدمی کی رگ حمیت پھڑک اٹھتی ہے۔ منت و زاری کرتا ہے۔ ایک نہیں سنتیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب شام کا وقت آ جاتا ہے تو آنکھوں کے پپوٹوں کو تیلوں سے چبھوتی ہیں۔ جب وہ زخمی ہو جاتے ہیں تو اوپر نمک چھڑکتی ہیں۔ اور بعض دفعہ مرچیں تک بیٹھ کر لگاتی ہیں۔ ایسے ایسے خرق عادت دیکھے سب کے سب لرز جاتے ہیں۔ کسی کو مجال نہیں کہ اب ان کے آگے اف تک کرے۔ جلال روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ جسم سے بے پرواہ ہوتے جاتے ہیں۔ حتی کہ اب گلے کا کرتہ بہت پرانا میلا کچیلا ہو جاتا ہے مگر نہیں اتارتی۔ جب بالکل چیتھڑے ہو جاتا ہے تو ہزار بار کہے سے بھی نیا پھرن نہیں پہنتی۔ سینکڑوں آدمی کرتہ بنانے کی اجازت مانگتے ہیں کسی کو اجازت نہیں دیتیں۔ مجبوراً پھر گھر سے تیار کیے ہوئے نئے پھرن کو لیتی ہیں اور سابقہ پرانے چیتھڑوں پر پہن لیتی ہیں۔ میرا نام فقیر صاحب یا نظام صاحب کر کے پکارتی ہیں۔ اگر کوئی کچھ کہتا ہے تو میری طرف اشارہ کرتی ہیں۔ شیخ اللہ دتہ پر خاص توجہ ہو جاتی ہے۔ اور اس سے بڑا پیار کیے جاتی ہے۔ میں نے جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی متاثر ہو اجاتا ہے۔ جب کبھی مہینہ دو مہینہ کے بعد نہانے کو جی چاہتا ہے تو اللہ دتہ کو بلاتی و طلب کرتی ہے۔ کہتی ہے کہ مجھے نہلاؤ۔ ایک کپڑا پہلے صحن کے کونہ میں تنواتی ہے۔ گھر کے تمام افراد کیا عورت کیا مرد سب سے پردہ ہے الا اللہ دتہ۔ اسے کہتی ہے کہ آؤ میرا سر ملو۔ میرے بدن پر پانی ڈالو۔ اب یہی ان کا معمول ہو جاتا ہے۔ تمام کے تمام انگشت بدنداں ہوتے ہیں کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ آخر جب میں نے دیکھا کہ اللہ دتہ بھی کاروبار ٹھیکہ داری سے لا پرواہ ہوا جاتا ہے، ہر وقت مسرور رہتا ہے تو با امر لاچاری میں نے مائی صاحبہ سے کہا کہ دیکھو یہ عیال دار ہے۔ بال بچہ رکھتا ہے۔ کنبہ پرور اور گھر کا دارومدار خدا نے اسی پر رکھا ہے۔ وہ مسرور ہوا جاتا ہے۔ آپ کو لازم نہ تھا کہ یہ لوگ گھر کے جسے آپ اپنا گھر کہتے ہیں اسی میں نقب لگاؤ۔ اور سرمایہ لے جاؤ۔ میں اس میں راضی نہ ہوں گا۔ ایسا ہی دو تین موقعوں پر جب مائی صاحبہ سے کہا تب کہیں اللہ دتہ کا جو اس قدر گہرا تعلق ہو گیا تھا، چھڑایا۔ اور اس کو پھر پچھلے گھروں پر لایا گیا۔ ادھر بابا صاحب انڈیانوالہ حیات تھے۔ اللہ دتہ کا یہ طریق دیکھے نا خوش تھے۔ کہتے تھے بیٹا یہ مستوار لوگ جب مہربان ہوں اپنے جیسا بنا دیتے ہیں۔ ہمیں ان سے اتنا گہرا تعلق نہ چاہیے۔

اب آپ کا عام عمل روزانہ فجر سے شام تک تمام شہر میں گشت کرنا اور ہر ایک محلہ کے دو چار گھروں میں روزانہ جانا ،جو عورت چرخہ کات رہی ہو اس سے بجبر بھی چرخہ چھین کر تھوڑا سوت نکالنا ، اور پھر وہاں سے تیسرے گھر جانا ، یہاں تک کہ دن گزر جاتا تھا، بعض اوقات شام اور بعض روز جب سب سو جاتے، دروازے بند کر دیے جاتے تو آنا، دروازے پر آ کر آواز دیتے ! بنیہد دی (پیاری بہن) دروازہ کھولو۔ والدہ صاحبہ نے جا کر دروازہ کھولنا ،اندر مکان میں داخل ہو کر اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جانا، برسوں آپ کا معمول رہا۔ ایسے ہی تخمیناً بیس سال گزر گئے۔اب ان پر وہ عالم جوانی بھی نہ رہا۔ عمر تخمیناً پچاس سال ہو گئی تھی۔ اچانک ایک روز چلانے لگ گئے اور آہ و فغان کرنے لگے۔ کہنے لگے: میں مسکین یہاں رہتے ہوئے تمھارا کیا نقصان کرتی ہوں۔ ناحق مجھے کیوں ستاتے اور نکالتے ہو۔ اور کیوں دنیا میں در بدر کرتے ہو۔ یہ کہہ کر پھر چلانے لگ جاتے ہیں۔ سب گھر کے افراد پریشان ہوتے ہیں۔ کہ الہی یہ کیا معاملہ ہے؟

ایک روز میں نے پوچھا کہ مائی صاحبہ یہ کیا معاملہ ہے؟ ہمیں بھی تو کسی قدر آگاہ کرو۔ فرمایا کہ مجھے یہاں سے نکل جانے کو کہتے ہیں۔ لیکن میں نے اتنا عرصہ (یہاں رہتے گزرا ہے) کوئی نقصان نہیں کیا۔ لیکن یہ کچھ مانتے نہیں ہیں۔ میں نے پوچھا کہاں ہیں مجھ کو بتاؤ۔ میں ان کو جنگ کر کے نکال دوں گا۔ بولیں وہ یہیں ہیں لیکن تمھیں نظر نہیں آتے۔ میں خاموش ہو گیا کہ یہ تو ہمارے بس کی بات نہیں۔ ساتھ ہی یہ لفظ بولا کہ البتہ اگر کوئی مرد ہو تو یہ مشکل جو مجھ پر پڑی ہے ٹل سکتی ہے ورنہ نہیں۔ اب ہم کہاں سے مرد لائیں۔ یہ جو یہاں ہیں یہ تمام کے تمام عورتوں سے کم درجہ بلکہ ہیجڑوں سے بد تر ہیں۔ قہر درویش بر جان درویش۔ کہ نہ ان سے کام اور نہ ان کے رسم و رواج سے کچھ خبر۔

تھوڑے دنوں بعد یہی رونا چلانا تھا کہ شادی نام ہمارے ہمسایہ نے دو بھینسیں اپنے گھر سے کھولیں اور پانی پلانے کو باہر تالاب پر پیچھے پیچھے چلتا ہوا ہمارے دروازہ پر سے گزرنے لگا۔ یہ ہر دو بھینسیں ایسی اصیل تھیں کہ بجوں تک کسی کو تکلیف نہ دیتی تھیں۔ میں بھی دروازہ پر کھڑا تھا کہ اتنے میں مائی صاحبہ اندر سے نکلیں۔ بھینسوں کے پاس سے گزرنے لگیں۔ ایک بھینس جیسے کسی میں حق داخل ہوتا ہے دیوانہ ہو گئی۔ اور مائی صاحبہ کو ہر دو سینگوں پر اٹھائے نیچے پھینک دیا۔ اوپر سے سینگوں سے مارنے لگی۔ میں دوڑا اور مائی صاحبہ کو نیچے سے کھینچ کر نکالا۔ اٹھایا اور گھر میں لے آیا۔ دیکھا تو مائی صاحبہ کا حس(ہنسلی) جو گردن سے نیچے اور چھاتی سے اوپر ہوتا ہے بیچ میں سے ٹوٹ گیا ہے۔ میں دوڑا دوڑا گیا اور بابو نانک چند ڈاکٹر کو جو ہسپتال کا انچارج تھا لے آیا۔ اس نے دیکھتے ہی پٹی منگوائی۔ باندھنے لگا۔ تو آپ نے فرمایا چھوڑ دو۔ مجھے مت ستاؤ۔ میں نے کہا کہ ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ جب تک باندھیں گے نہیں آرام نہیں ہو گا۔ اور ہو گا بھی تو دیر کے بعد اور نقص رہ جائے گا۔ فرمانے لگے کہ ہمارے میں یہ آئین نہیں ہے۔ کبھی علاج نہیں کرتے۔ جس نے اس کو پھوڑا ہے وہی آرام دے گا۔ ڈاکٹر نے بھی بہتیری تسلی دی۔ ایک نہ مانی۔ آخر وہ بھی چلا گیا۔ درد کا زور تھا۔ کھڑی ہو گئیں۔ میں ساتھ ہو لیا۔ ایک شخص دیسی ہڈی ٹوٹی پھوٹی کا علاج کرتا تھا۔ اس کو بھی خاموشی سے بلا لیا۔ آپ کٹرہ باوا میں پھرنے لگے۔ درد دم بدم ہوا لگنے سے زور دے رہا تھا۔ آپ کراہتے ہوئے چلتے، کہیں ٹھہرتے نہیں۔ دیسی آدمی بھی باندھنے کے لیے نزدیک ہوا۔ آپ نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میری بات نہیں مانتے۔ چھوڑ دو یہ خود بخود درست ہو جائے گا۔ جس نے توڑا ہے وہ جوڑے گا۔ جس سے پھر دوبارہ ہم نے کوشش نہ کی۔ لیکن درد دو تین دن بہت زوروں پر رہا۔ رات دن کراہتے رہتے۔ ہفتہ کے بعد دیکھا تو بالکل گویا حس(ہنسلی) ٹوٹا ہی نہ تھا۔ درد سے بھی آرام ہو گیا۔ حکیم مطلق کا اعجاز دیکھا اور بیمار کی مردانگی۔ ثابت ہوا کہ واقعی یہ لوگ مرد ہیں نہ کہ ہم۔ ہمارا مرد کہلانا بالکل جھوٹ اور سراسر غلط ہے۔ ہم لوگ ہیجڑوں سے بھی بد تر ہیں۔ اس واقعہ کو دیکھنے سے اور دل میں اپنا عمل سوچ کر بہت ندامت ہوئی۔ اور اپنے آپ کو مرد کہلانے میں عار آنے لگی۔ واقعی مرد وہ ہیں جو طالب مولا ہیں۔ مرد وہ ہیں جن کا اسی سے تعلق ہے۔ مرد وہ ہیں جن نے اس کے بغیر کسی شے پر بھروسہ نہیں کیا۔ اور مرد وہ جنہوں نے اسی ایک سے جو ہر شے پر قادر، بڑا حکیموں سے حکیم، ہر شے پر قابو رکھنے اور حکومت کرنے والا ہے۔ جس کی سلطنت ہر وقت ہو رہی ہے۔ اور جس شے کو حکم ملا ہے ایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ اس نے نہ مانا ہو۔ اس کا ہر ایک امر اور حکم ہر وقت جاری ہے۔ بس یہی لوگ مرد ہیں جنہوں نے اسی ایک سے اپنا تعلق پیدا کیا۔ اور اسی ایک کو جانا اور مانا ہے۔ جیسے کہ خداوند فرمایا کہ

’’اور کوئی شخص ہے کہ اپنی جان بیچ کر خدا کی مرضیات تلاش کر تا ہے ‘‘

سورۃ البقرہ، آیت ۲۰۷

جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ پھر قائم رہے۔ ان پر فرشتے اترتے ہیں۔

سورۃ۔ حٰم السجدہ، آیت۳۰

اورجس نے اپنا منہ اللہ کی طرف متوجہ کیا اور وہ نیک ہے اس نے پختہ دستاویز پکڑی۔

سورۃا لقمٰن، آیت ۲۲

اللہ ان سے خوش اور وہ اللہ سے خوش، وہ اللہ کے لوگ ہیں۔ سنتا ہے اللہ ہی کے لوگ مراد کو پہنچیں گے۔

سورۃ المجادلہ، آیت۲۲

یہ آیات الٰہی ان ہی لوگوں پر صادق آتی ہیں۔ ان کے عمل آیت متذکرہ کے بموجب پائے جاتے اور ثابت ہوتے ہیں۔ باوجود اپنی قربانی دینے، رات دن اسی سے لو لگائے کسی پر نظر نہیں ٹھہراتے۔ دیکھتے ہیں تو اس کو، بات ہے تو اسی سے اور اسی میں سمائے ہوئے ہیں۔ اور کسی کی خبر نہیں بلکہ دیوانے اور پاگل کہلائے۔ اور اسی میں اپنے آپ کو چھپاتے ہیں۔ جن کے لیے اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا۔

’’وہ چھپے کھلے سے خبردار ہے۔ سب سے بڑا عالی رتبہ ہے۔ تم میں سے جو بات چھپ کر کرے اور جو ظاہر کرے اور جو شخص رات کو چھپ رہتا اور دن کو گلیوں میں پھرتا ہے سب برابر ہے۔ اس کے لیے اس کے آگے اور پیچھے فرشتے مقرر ہیں۔ جو خدا کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ‘‘

سورۃ الرعد، آیت ۱۰، ۱۱

چنانچہ یہی راز الٰہی ہیں۔ جو ان پاک سرشت لوگوں پر دلالت کرتے ہیں۔ مائی صاحبہ کے واقعات و حالات نے بتلا دیا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو راضی برضائے الہی اپنے ارادہ و خواہش نفس سے گم ہیں۔ اس بیماری سے جب بلا علاج صحت ہوئی تو پھر وہی رونا شروع ہے۔ جو ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ چالیس راتیں گزر گئیں۔ شام سے فجر تک کھڑے ہیں۔ پاؤں پر ورم ہو جاتا ہے۔ اور فجر پھر پھرنے لگ جاتے ہیں۔ رات کو آواز شہر کے اس سرا سے نکلتا ہے اور غربی جانب شہر کے اڈا پر سنائی دیتا ہے کہ میری فریاد سنی جائے۔ واللہ اعلم باالصواب۔ کس کے آگے آہ و زاری شروع ہے۔ کون ہے جو ان کی سنتا اور مانتا نہیں۔ بار بار حکم ملتا ہے کہ تمھاری تبدیلی گجرات میں کی جاتی ہے۔ آخر کا جب کچھ شنوائی نہ ہوئی تو بائیس سال ایک مقام پر رہتے ہوئے، گھروں کے مالک بنے، نہ سدھ بدھ کی لیتے ہیں اور نہ اپنے بیگانے سے پوچھتے ہیں، گجرات کو چل دیتے ہیں۔ تمام شہر میں چرچا پیدا ہوتا ہے کہ مائی صاحبہ چلے گئے ہیں جواب ادھر دیکھتے تک نہیں۔ کچھ عرصہ قیام کیے گجرات سے بھی با امر ربی کوچ ہوتا ہے۔ موضع جھیرانوالہ اور اس کے نواح میں حسب معمول گزار دیتے ہیں۔ حتی کہ سات برس کا عرصہ گزر جاتا ہے۔

انہی ایام میں دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ آپ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میں تمھاری حقیقی والدہ ہوں۔ کیوں نہ جا کر ان سے ملاقات کروں۔ اتفاق سے جھیرانوالی چلا گیا۔ مائی صاحبہ سے ملا۔ آپ کو بہت خوشی حاصل ہوئی۔ رات کے رہنے کی تاکید کی۔ شام کو ایک شخص خاطر خواہ کھانا لایا۔ آرام سے رات گزر گئی۔ فجر درخواست کی آپ جلال پور چلیں۔ ہم آپ کے غلامانہ غلام ہیں۔ پھر وہی جواب ملتا ہے کہ کوئی مرد ہو تو مجھے لے جا سکتا ہے۔ اس کے واسطے میرے پاس کوئی دلیل نہ تھی۔ یہ جان چکا ہوا تھا کہ مرد کسے کہتے ہیں۔ اپنے آپ کو تو مردوں کی صحبت میں بیٹھنے کے لائق نہ پاتا تھا۔ آخر با امر مجبوری رخصت لی۔ اور چلا آیا۔ کچھ دنوں بعد سنا کہ مائی صاحبہ کنجاہ میں تشریف لے آئے ہیں۔ دل چاہتا تھا کہ جلد ملاقات نصیب ہو۔ اتفاقاً ہمارے احباب میں سے ایک کی برات کنجاہ جانے والی تھی۔ انہوں نے کہا کہ برات کے ساتھ چلیں۔ اگرچہ خلاف معمول تھا مگر مائی صاحبہ کی ملاقات کے واسطے مان لیا۔ تاریخ مقررہ پر مع دوسرے احباب برات کے ساتھ شامل ہوئے۔ تانگے اور ٹم ٹمیں برات کے لیے مخصوص تھیں۔ سوار ہوئے جا رہے تھے۔ ابھی ایک میل کنجاہ کی مسافت رہتی تھی کہ مائی صاحبہ نیا پھرن پہنے، دوپٹہ نیا لیے سڑک پر انتظار کر رہے ہیں۔ جن کو دیکھتے ہی فوراً تانگہ سے کود پڑا۔ اور چند احباب بھی اترے اور آہستہ آہستہ مائی صاحبہ کے ساتھ ہوئے۔ کنجاہ تک جہان برات جانی تھی، ساتھ ہی رہے۔ دل کو بہت خوشی اور سرور حاصل ہو رہا تھا۔ کنجاہ کے لوگ حیران تھے کہ چند روز ہوئے مائی صاحبہ ہر ایک آدمی سے خوشی خوشی فرماتے کہ میرا مہمان آنے والا ہے۔ اگر پوچھتے کہ وہ کون سا مہمان ہے؟ تو بات ٹال دیتے۔ اس سے پہلے آپ برہنہ تھے، چند چیتھڑے بدن پر تھے۔ نیا پھرن اور دوپٹہ منگوایا۔ پہن کر سڑک کنجاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم لوگ دیکھتے رہے کہ دیکھیں کون مہمان آپ کا آتا ہے۔ اب یہ راز کھلا کہ آپ لوگ ہیں۔ ہم خاموشی سے لوگوں کی باتیں سنتے رہے اور ٹال مٹول کر دیا۔

ان دیوانوں کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ غرضیکہ رات بھر جہاں برات تھی وہیں اسی نواح میں رہے۔ صبح اچانک ہم سے بلا پوچھے نکل گئے۔ نو بجے ہوں گے کہ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مائی صاحبہ سے جا کر ملوں۔ چند احباب ساتھ ہوئے۔ پوچھا کہ مائی صاحبہ کا قیام کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا سیٹھ رحیم بخش میونسپلٹی والے کے ہاں رہتے ہیں۔ ان کی بیوی آپ کی بہت خدمت کرتی ہے۔ جو کچھ فرما دیں ذرہ بھر انکار نہیں کرتی۔ آپ وہیں ہوں گے۔ ہم سب چلے گئے۔ ایک بڑی حویلی تھی۔ اس کے اوپر چڑھ گئے۔ دیکھتے ہیں کہ مائی صاحبہ بیٹھے ہیں۔ اور چولہے پر نیم دیگ چڑھی چائے پک رہی ہے۔ میں نے پوچھا کہ دیگ کیسی چڑھی ہوئی ہے؟اور اس میں کیا تیار ہو رہا ہے؟ تو بولے کہ یہ چائے پک رہی ہے۔ کیونکہ فجر جب مائی صاحبہ تشریف فرما ہوئے تو کہنے لگے کہ مہمانوں کے لیے چائے تیار کرو۔ ہم نے حسب معمول پتیلہ دھویا۔ کہنے لگے نہیں بڑا لا ؤ۔ پھر اس سے بڑا لائے۔ فرمانے لگے اس سے بڑا۔ پھر فرمانے لگے اس سے بھی بڑا۔ حتی کہ اس نیم دیگ تک نوبت پہنچی تو منظور فرمایا۔ ہمیں کیا عذر تھا۔ پھر ہمارا آزمودہ تھا کہ ہمیشہ آپ کے فرمانے میں حکمت ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے بے چوں و چرا منظور کیا۔

اتنے میں دیکھتے ہیں کہ ہماری برات کے ساتھ جو براتی تھے سب مائی صاحبہ کی ملاقات کو آ گئے۔ تخمیناً چالیس آدمی ہو گئے۔ چائے شروع ہوئی۔ ابھی تمام برات چائے ختم کر ہی چکی تھی کہ دوسری برات کے براتی جو انہی کے ہاں کسی اور جگہ سے آئی ہوئی تھی، سب کی سب آ گئے۔ باقی ماندہ چائے انہوں نے ختم کی۔ اور آپ کی خوشی اور خیالات کا اظہار عملی صورت میں بڑے وسیع پیمانے پر پایا۔ چائے سے فارغ ہو کر مائی صاحبہ ساتھ ہو لیے۔ ہاتھ پکڑے پکڑے کسی قدر شہر میں پھراتے رہے۔ یہاں تک کہ چاشت کے کھانے کا وقت پہنچا۔ پھر بھی ساتھ ہی گئے۔ ساتھ ہی کھانا کھایا۔ لوگ حیران ہوئے کہ الہی یہ کیا؟ آج نیا ہی واقعہ دیکھ رہے ہیں ! پھر برات کی تیار ی ہوئی۔ یہ وہیں ٹھہرے رہے۔ ۰۰۔ ۴ بجے ڈولی لے کر برات رخصت ہوئی۔ محصول چونگی تک رخصت کر کے مع الخیر وداع ہوئے۔ سننے میں آیا کہ پھر شہر پہنچتے ہی نیا پھرن اور دوپٹہ وغیرہ اتار کر پرانے چیتھڑے پہن لیے۔ اور دیوانوں کی شکل بنا ڈالی۔ ہر کہ دیوانہ نہ شد فرزانہ نہ شد کا ثبوت دینے لگے۔

مشیت ایزدی بھائی صاحب نظام الدین نے مٹی ڈالنے کا کام اسی سڑک پر لے لیا۔ جس کے کرانے کے واسطے میرا جانا اور اس کام کا کرانا لازمی تھا۔ بعد رخصت یہ مائی صاحبہ کے خیال کا نتیجہ تھا کہ میں آپ کی حضوری میں کچھ عرصہ رہوں۔ وہاں قیام کیا۔ اب روزانہ مائی صاحبہ کی حضوری کا اتفاق ہوا۔ ان دنوں غلام مرتضیٰ خلف میاں حامد علی صاحب اورحجام احمد دین ومیاں صاحب ہر دو نے ایک پساری و عطاری و حکمت کی دکان مشترکہ جلد (نئی) ہی کھولی تھی۔ احمد دین میاں صاحب کے شاگردوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ دوسرا اپنے ماموں صاحب سے کچھ نظرایا ہوا تھا۔ جس سے اس کے زخم کا ناسور بھرا رہتا تھا۔ میرے کنجاہ میں رہنے سے اب اس کو کسی قدر بلغار زخم مل جایا کرتی تھی۔ دوسرا میاں صاحب کی پاس خاطر کچھ ان سے چشم نمائی کرنی پڑتی تھی۔ ادھر مائی صاحبہ کے یہاں ہونے سے زیادہ تقویت پہنچ رہی تھی۔ مائی صاحبہ سے سفارش کی کہ یہ اپنے بچے ہیں۔ کہ جن میں کچھ تو اپنی موروثی ہماری چلی آتی ہے۔ دوسرا کسی قدر زخم خوردہ ہے۔ اس لیے ان پر اپنی توجہ رکھنی مجھ پر بڑا احسان ہو گا۔ مائی صاحبہ نے ماننے میں تساہل نہ فرمایا۔ روزانہ دو تین دفعہ دکان پر جاتیں اور نصف رات کے وقت احمد دین کو رحیم بخش والے کوچہ میں جہاں یہ برہنہ کوچہ کے خس و خاشاک روڑوں پر ہوتی بلا لیتی۔ یہ حقہ لیے وہاں پہنچ جاتا۔ اور فجر تک وہیں شرف حضوری حاصل کرتا۔ اور پھر گھر چلا جاتا۔

بہت دنوں تک یہ بات ایسے ہی چلتی رہی۔ ایک دفعہ مجھے مائی صاحبہ نے فرمایا کہ میں ہر چند رحم و کرم کی موسلا دھار بارش برساتی ہوں، آب پاشی کرتی ہوں۔ جب یہاں دیکھتی ہوں تو جیسے پتھر۔ بارش اثر پذیر نہیں ہوتی ویسا ہی خشک پاتی ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بچہ ہے۔ یہ دتہ شاہی ٹولہ کے ہم صحبت ہونے کی وجہ سے ہر ایک بات میں جواب دینے کے جو بھی ہیں عادی ہیں۔ اور بجائے نیاز ناز کیے جاتے ہیں۔ جو اکثر قبول نہیں ہوا کرتا۔ مجبور ہیں۔ آپ فضل و کرم کی خوگر ہیں۔ اگر وہ اپنی عادت نہیں چھوڑتے تو آپ اپنے فضل کے عادی ہونے سے کیوں باز رہتے ہیں۔ کیے جاویں، کیے جاویں اور پھر کیے جاویں۔ کوئی نہ کوئی دانہ تو اس کشتِ خشک میں جگہ پکڑے گا۔ پھر آپ خاموش ہو گئیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

انہی دنوں ایک رحماں حجام قلعہ دار کا ملا۔ جو کشتہ ناز محبوب و تیر نگاہ تاباں کا زخمی تھا۔ بڑی تیز گامی سے وادی عشق میں چلا۔ آبلے پڑ گئے۔ تاہم رفتار میں کمی واقع نہ ہوئی۔ سراغ پائے محمل پر چلتا ہوا تپتے ہوئے خشک ریگستانوں میں العطش العطش کرتے جان دے دی۔ اور شہیدان ناز میں جگہ پائی۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔

ایک کام مٹی کا موضع منڈ کے پاس تھا۔ وہ ختم ہوا۔ دوسرا متصل کنجاہ ملا۔ ابھی اور کچھ راز حقیقت حقہ کا انکشاف باقی تھا۔ کہ ایک منشی قربان علی کنجاہی ماسٹر کے گھروں میں زمرہ حق سے پہرہ دار نمو دار ہوا۔ راتوں میری اور اس کی صحبت منشی قربان علی کے گھر میں رہی۔ سرور بہت ہی پیدا ہوا۔ اپنی حقیقت سے آگاہی کرائی۔ کہ ہندوستانی علاقہ۔ ۔ ۔ میں میرے ماں باپ لڑکپن میں راہی ہوئے۔ انہوں نے ہر دو نعمتیں ظاہر ی و باطنی سید وارث علی شاہ کے پاس امانت میں رکھیں۔ جب میں سن بلوغ کو پہنچا تو وہ باطنی نعمت تو سید وارث علی شاہ نے مجھے دے دی لیکن ظاہری نہ دی، بخل کیا۔ اس ظاہری نعمت سے سید وارث علی شاہ ہندوستان میں مرجع خلائق ہوا۔ اور میں ایک پہاڑ کی کھوہ میں مقیم ہو گیا۔ اب بطور سیاحت ملاقات کو آیا ہوں۔

اندریں حالات ایک روز میں اور خضر صورت قلندر قربان علی کے گھر سے باہر نہر پر جا رہے تھے اور مائی صاحبہ گلی میں برہنہ بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ بولا کہ میں ننگی اور برہنہ صورت کو دیکھنا نہیں مانگتا۔ مشیت ایزدی مائی صاحبہ کا نچلا حصہ پٹ کا جل گیا۔ آپ نے کوئی علاج نہ کیا۔ جب تندرست ہو گئیں تو ایک دن ہم باہر نکلے۔ مائی صاحبہ نے غضب کی نگاہ سے دیکھا۔ کہ میں تیرے ملتان کو زیر و بالا کر دوں گی۔ میں ان باتوں سے لا علم تھا۔ وہ بھاگ گیا۔ اور ہندوستان اپنے مکان پر جا پہنچا۔ چند دنوں کے بعد ملتان تہ و بالا ہو گیا۔ سر سبز تھا ہندو مسلم فساد سے خزاں رسیدہ ہوا۔ سینکڑوں آدمی مارے، پیٹے، لوٹے گئے۔

پھر کچھ عرصہ کے بعد مائی صاحبہ فضل بی بی گجرات میں آ گئیں۔ مغربی جانب نبی بخش نیاریہ کے گھر کے باہر ٹال ملک غلام محمد میں رہنے لگی۔ مغربی حصہ شہر دروازہ کابلی قلعہ والا کے اندرون بازار تک گشت کرتی اور سڑک گول چھل (سرکلر روڈ) تک رہتی۔ اب یہ حالت تھی کہ جسم پر بالکل کوئی کپڑا نہ پھٹا نہ پرانا، بال بالکل سر کے منتشر، آنکھیں بہت کم کھلتی تھیں کیونکہ روزانہ پپوٹے اوپر نمک چھڑکتی تھی۔ اب گجرات میں آنے سے ہفتہ میں ایک دفعہ آ کر خدمت میں حاضر ہوتے۔ ایک پتیلہ چائے کا تیار کروانا۔ کچھ آپ پیتی تھی باقی گرا دیتی۔ کہ یہ جو بھتنیاں ہندو مسلم ہیں، انہیں ڈالو۔ یہ مجھے کھانے نہیں دیتیں۔ روزانہ ایک دفعہ یہی کام خوردو نوش ضرور کیا کرتی۔ اگر ہفتہ میں ایک دفعہ نہ پہنچتا تو ضرور بلا لیتی۔ رفتہ رفتہ شہر میں خبر عام پھیل گئی کہ مائی صاحبہ برہنہ مستجاب الدعوات ہیں ان کے پاس چلو۔ مردوں عورتوں کا عام مجمع رہتا۔ مجھے پوچھتی کہ تم کہاں ٹھہرتے ہو تو کہتا چلو میں بتاتا ہوں۔ بنی بخش کا پاس ہی گھر تھا۔ ہمراہ لاتا۔ دروازہ تک آتی اور واپس ہو جاتی اندر نہ آتی۔ آخر ایک دن میں نے کہا کہ یہ میرا گھر ہے اگر تم اس میں نہ داخل ہو گی تو میں تمھارے پاس نہیں آؤں گا۔ مان لیا۔ پھر اس میں آنے جانے لگی۔ تھوڑے دنوں کے بعد ڈیوڑھی میں ڈیرہ لگا دیا۔ بنی بخش کی بیوی برکت بی بی ان کی خدمت کرنے لگ گئی۔ اور دوسری بیوی نبی بخش کی نے نزدیک آنا تک پسند نہ کیا۔ برکت بی بی کو ماسی کے نام سے پکارتی۔ اور ہر دم اس کو کچھ نہ کچھ کہتی رہتی۔ وہ بدل و جان حکم بجا لاتی۔ دن بھر اب ہر وقت ہی مردوں عورتوں کا تانتا بندھا رہتا۔ اسی میں دن گزر جاتا۔ برکت بی بی کو کہتی کہ نظام صاحب کو بلاؤ۔ اور وہیں راقم کو ایسا اتفاق ہوتا کہ حضوری میں حاضر ہو جاتا۔ اسی میں سات سال گزر گئے۔

اب مائی صاحبہ کا جب جلال پور میں وارد ہوئیں تو پانچ سوا پانچ فٹ کا قد گھٹتے گھٹتے تین چار فٹ کا رہ گیا تھا۔ وجود کا ہڈیاں جو بڑی تناور تھیں بالکل چھوٹی ہو گئی تھیں۔ نہ وہ قد نہ شکل نہ شباہت۔ کچھ اور عالم پیدا ہو گیا۔ برہنہ وجود، پٹ اور شکم تک تمام جلا ہوا، بال پریشان، آنکھیں چندھیا گئیں ، نظر بہت کم آتا تھا۔ عموماً آواز سے آدمی کی شناخت کر لیتیں۔ جو اجنبی دیکھتا وہ ایک پگلی، دیوانی اور مجذوبہ کے سوا یاد نہ کرتا۔ لیکن یہ ہر ایک کے ساتھ باتیں با سمجھ لوگوں کی طرح کرتی۔ حالات دریافت کرتی۔ کوئی فعل دیوانوں کی طرح اس سے سر زد نہ ہوتا۔ البتہ بعض وقت خود بخود نامعلوم کسی کو گالی گلوچ شروع کر دیتی۔

ایک دن میں نے پوچھا کہ اب وجود بالکل کمزور ہو گیا ہے۔ اگر قفسِ عنصری کو چھوڑ جانا ہو تو اس کو کس جگہ دفن کیا جاوے۔ کہنے لگی کہ یہیں ڈیوڑھی میں۔ لیکن قانون اجازت نہیں دیتا کہ ایسا کیا جاوے۔ بابا انڈیانوالہ کے پاس کہیں تو دفن کیا جائے۔ وہ جگہ کبھی دیکھی نہ تھی۔ کہنے لگی کہ وہاں پانی سیلاب کا اندیشہ ہے۔ البتہ کرم الہی کے پاس۔ جاتے جاتے رستہ میں ٹھہر گئی۔

انہی دنوں میں محمد دین اور اس کا لڑکا معدہ کی بیماری کی وجہ سے آنے جانے لگ گیا۔ ان کی وہیں کچہری کے دکن کی جانب زمین تھی۔ وہ کہنے لگا کہ ہم اپنی زمین سے ایک کنال اراضی بنام خانقاہ مائی صاحبہ وقف کر دیں گے۔ غالباً مائی صاحبہ کو بھی پسند آیا اور خاموشی اختیار کی۔ میں نے بھی کہا بہت اچھا لیکن دل میں فیصلہ ہوا کہ یہ لوگ دنیاداری مرادی ہیں مریدی نہیں۔ جب کام نکل جاوے تو قائم نہیں رہتے۔ لیکن مائی صاحبہ کی مرضی تھی منظور کیا۔

اتفاقاً آپ بیمار ہو گئے۔ دس پندرہ روز بیماری کے لگے۔ جس میں از روئے اسہال وغیرہ جو کچھ بھی رطوبت تھی نکل گئی۔ مشیت ایزدی سے چار پانچ آدمی پیدا ہو گئے جو رات دن خدمت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بڑھ کر ایثار دکھلانے لگے۔ اتفاق سے میں میاں صاحب حامد علی اور احباب کی معیت میں موضع ٹھٹھہ موسیٰ میں نذر محمد خان سے ملنے کو گئے ہوئے تھے۔ کیونکہ یہ بچہ میاں صاحب کا منظور نظر اور عزیز ہونے کی وجہ سے سب کو عزیز تھا۔ اور بفضل خداوند اس کے اخلاق بہت اچھے تھے۔ فطرتاً خوبیاں ودیعت تھیں۔ چنانچہ میاں صاحب کا تربیت یافتہ اور فیضِ صحبت سے موثر تھا۔ اگرچہ مائی صاحبہ کی بیماری میں وہیں تھا لیکن کسی ضروری کام سے یہاں آنا لازمی تھا جس کی وجہ سے جس رات ان کا انتقال ہوا یہ ٹھٹھہ میں تھا۔ صبح خبر پہنچی۔ فوراً گجرات پہنچ گئے۔ آگے نبی بخش انتظار میں تھا۔ پہنچنے پر تجہیز و تدفین کا انتظام کیا۔ مولود خواں شہر جلال پور جٹاں سے لائے گئے۔ جہاں میلہ مویشیاں لگتا ہے ، بڑا بھاری جنازہ ہوا۔ محمد دین نے بعد جنازہ عام لوگوں سے با آواز بلند کہا کہ میں ایک کنال زمین مزرعہ مائی صاحبہ کی قبر کے لیے وقف کرتا ہوں۔ یہ وہ موقعہ تھا جہاں کچہری سے جلال پور کو سڑک نکلتی ہے، تھوڑے فاصلہ پر سڑک کے جنوب کی طرف۔ عام لوگوں نے دیکھ کر پسند کیا اور اس میں دفن کی گئی۔

مائی صاحبہ فضل بی بی مجذوبہ کی تاریخ وفات

جو ۲۶ دسمبر ۱۹۳۱ء بمطابق ۱۲ پوہ ۱۹۸۸مدفون ہوئیں۔ جس پر نبی بخش صاحب نیاریہ گجرات جو ہمارے احباب عزیزوں میں سے تھا تجہیز و تکفین کا خرچ اپنی گرہ سے کرنے کے بعد اڑھائی صد روپیہ کوٹھا و قبر وغیرہ پر کرتے ہوئے مامور من اللہ ہوئے۔ لیکن اس محمد دین ارائیں نے نفسانی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے سمجھا کہ یہاں آمدن ہو گی۔ کسی کو قبر کے نزدیک پھٹکنے تک نہ دیا۔ اور اپنا قبضہ جمائے رکھا۔ بعد ازاں پھر مبلغ پچاس روپیہ کنجاہ سے آیا جس کو راقم نے خود مائی صاحبہ کی قبر کے تعویذ پر خرچ کیا۔

مائی صاحبہ فضل بی بی کے حالات کا جوانی سے اخیر بڑھاپے تک کا مشاہدہ کیا۔ اور اس کے ہر ایک عمل پر غور کیا تو پایا کہ ابتدائے عمر میں کاروبارِ دنیا جس میں کوئی خلل واقع نہ ہو بڑے اعلیٰ پیمانے پر کیا کرتی تھیں۔ اچانک کسی خدا رسیدہ کی خدنگِ نگاہ میں آ گئیں۔ متاثر ہوتے ہی وہ طریق و روش یا کاروبار سارے کا سارا بیک لحظہ بدل گیا۔ خاندانی احباب وارثوں عزیزوں نے ہر چند کوشش کی۔ علاج کیا کچھ بن نہ آیا۔ چھوڑ بیٹھے۔ اس کا بھی جدھر منہ ہوا چل نکلی۔ پنجاب پہنچنے پر ہم سے واسطہ ہوا۔ بظاہر کوئی عمل، اوراد، وظیفہ، نماز، روزہ نہ کیا کرتی تھیں۔ روکھی سوکھی روٹی کے ٹکڑوں کا کھانا ، سوائے ایک کھلتہ کے دوسرے کپڑوں کا نزدیک نہ آنے دینا ،فرشِ زمین پر لیٹنا ،رات بھر جاگنے رہنا آپ کا آئین تھا۔ اور دن بھر شہر میں گھر گھر پھرنا اپنا دستور تھا۔ اسی صورت میں مستی بڑھتی گئی۔ اور طبیعت میں لا ابالی پن، بے پرواہی اور استغنا بڑھتا گیا۔ پہلے جو کسی قدر شخصیتوں کا خیال تھا اور ان کی قدر و قیمت تھی، جانے لگی۔ البتہ مجھ سے یا والدہ صاحبہ سے مانوس تھی۔ ورنہ اصل میں کسی سے واسطہ نہ تھا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد ایسا دیکھنے میں آیا کہ رات کے وقت خود بخود مثلیں لوگوں کی پیش ہیں اور ان پر حکم لگاتے ہیں۔ کبھی جوش میں آ جاتی ہیں اور کبھی خوشی کا اظہار فرماتی ہیں۔ کوئی بھی شخص غور سے نگاہ کرتے ہوئے (سوچ بچار والا آدمی) اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان کے پیش نظر کوئی ملک یا علاقہ ہے۔ اور اس میں رہنے والوں کے نیک و بد اعمال کو دیکھتے ہوئے گاہ غصے میں آ جاتے ہیں ،کہیں راضی ہو جاتے ہیں اور کہیں گالی گلوچ نکالتے ہوئے غصہ و جلال میں آ جاتے ہیں اور سخت قہر و غضب کا حکم لگاتے ہیں۔ پاس بیٹھنے والا آدمی غضب کے وقت خوف میں آ جاتا ہے کہ مجھ پر آپ نے غصہ کا اظہار کیا ہے اور اسی غم و فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور جب خوشی کی حالت میں اپنے مخاطب کو انعام و اکرام دے رہے ہوتے ہیں تو پاس والا خوش و خرم اپنے آپ کی طرف منسوب کرتا ہے کہ میرے بارے میں انعام فرمایا ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ نے ثابت کیا کہ ان ہر دو کے خیالات غلط ہیں۔ دراصل روحانی اور خیالی طور جو آدمی ان کے آگے تصورات میں پیش ہوتا ہے اِن لوگوں کا ان سے واسطہ ہوتا ہے اور جو کچھ نرم گرم فرماتے ہیں انہیں تصورات میں کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے مجذوبوں کے پاس بیٹھنے اور ان کی باتوں پر اعتبار کرنے کو منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ بعض اہل تحقیق نے یہ درست اور ٹھیک کہا ہے کہ یہ بچوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔ جیسے وہ اپنے ہم عمر بچوں سے خیالی تصور میں باتیں کرتے ہیں ویسے ہی یہ بھی۔ لیکن دراصل آپ کا اور بچوں کا عمل بہت فرق رکھتا ہے۔ ان کی بات لا علمی اور جہل پر دلالت کرتی ہے اور دوسری طرف وہ علم اور حقیقت کو اپنے سامنے پاتے ہیں۔ اور سب ان کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔

اخیر عمر میں ان کا عام عمل یہ تھا کہ چائے کے پتیلوں کے پتیلے بنوا کر زمین پر گراتے تھے۔ ہم کو خیال گزرتا کہ آپ ضائع کر دیتے ہیں۔ لیکن آپ فرماتے یہ دیکھو مجھ سے طلب کر رہے ہیں جو تمھیں نظر نہیں آتا۔ میں نے فرمایا یہ کیا ہے؟ فرمایا:خدا کا عجائب گھر۔ (ایسے لوگوں کی باتیں) کنایتاً ہوتی ہیں۔ کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

جب گجرات طلب فرماتی تو ہاتھ پکڑے ساتھ ساتھ مغربی دروازہ شہر میں داخل ہوئے بازار میں لے جاتی۔ چونکہ اب آپ بالکل برہنہ ایک چیتھڑا بھی اوپر نہ ہوتا۔ مجھے کسی قدر شرم پیدا ہوتی کہ لوگ کہیں گے کہ یہ بھی پاگلوں کے ساتھ بڑا پاگل جا رہا ہے۔ میں نے مذاق کیا کہ مجھے تو آپ کے ساتھ چلتے ہوئے شرم آتی ہے۔ تو فرماتیں کہ دیکھو میرے ساتھ چلنے کی بڑے بڑے شریف تمنا کرتے ہیں مگر چلنا نصیب نہیں ہوتا۔ چہ جائیکہ تو کہتا ہے مجھے شرم آتی ہے۔ جس سے تمام حجابات دور ہو جاتے اور معلوم ہوتا کہ میں ایک بہت بڑے عالی رتبہ شاہنشاہ حقیقی کی حضور ی میں سر نیاز مندانہ خم کیے مشرف ہو رہا ہوں۔ دکان بزاز پر ایک گھنٹہ میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پہنچتے۔ کیونکہ ایک تو آنکھیں ان کی مجروح کی ہوئی کھلتی نہ تھیں دوسرا کمزور ی بڑھاپے کا عالم۔ بڑی بھاری تکلیف سے بزاز کی دکان پر پہنچتے۔ ایک روپیہ مجھ سے لے لیتے۔ بزاز سے کہتے کہ ایک روپیہ کا لٹھا سفید دے دو۔ وہ لوگ بارہا کے عادی ہو چکے ہوئے تھے۔ اور سمجھتے تھے کہ آپ کا ہماری دکان پر آنا ہماری تجارت میں ترقی کا باعث ہو گا۔ لٹھا کا تھان نکال کر مائی صاحبہ کے آگے پھینک دیتے۔ آپ ہاتھ ڈال کر دیکھتے۔ آنکھوں کے نزدیک لے جاتے ،بھاؤ پوچھتے ،وہ کہتے چار آنہ گز،آپ کہتے نہیں ہم تین آنہ گز دیں گے،وہ پہلے ہی گنجائش سے بات کرتے تھے،آخر میں تین آنہ گز پر فیصلہ ہوتا ،روپیہ دیتے ،کپڑا لیے پھر واپس بدستور آہستہ آہستہ چل دیتے۔ نبی بخش کے گھر جہاں ڈیرہ تھا پہنچتے۔ یہ کپڑا مجھے دے دینا کہ لے جاؤ اور اس کو صندوق میں محفوظ رکھو۔ غرضیکہ ایسے پندرہ بیس پارچے صندوق میں جمع ہو گئے مگر انکار نہ کیا جاتا۔ ان کو کہیں خرچ نہ کرتے۔ البتہ آپ کے مرنے کے بعد قبر کا اچھاڑ بناتے بعض کو خرچ کر دیا۔

ایسے واقعات و معاملات سے ثابت ہوتا کہ آپ نگہبان حقیقی تھیں۔ جس چیز کو آپ دیکھنا چاہیں اس کی مانگ فروخت زمانہ میں رواج پکڑتی ہے۔ اور جس بھاؤ پر یہ مقرر کر دیں ارزانی گرانی ان کے کہنے پر موقوف ہوتی ہے۔ جیسے کہ ایک دفعہ جناب بوٹا شاہ صاحبؒ نے فرمایا۔ کہ بازاری نرخ ہم ساہدوں سنتوں کی زبان پر ہوتا ہے۔ ان دنوں قاسم شاہ کی ابتدا تھی۔ روپیہ پیسہ اس کو بڑی مشکل سے ملتا تھا۔ ایک روپیہ اس کے پاس تھا۔ بولا کہ ہم اس روپیہ کا غلہ لالہ موسیٰ سے خریدنے جا رہے ہیں۔ فرمانے لگے جاؤ۔ جب ہم منڈی پہنچے تو نرخ غلہ فی روپیہ چار ٹوپہ تھا۔ جب ہم خریدنے لگے تو ہر ایک نے چھ ٹوپے بتایا۔ اور ہم نے چھ ٹوپہ کے نرخ پر خرید لیا۔ چلے آنے پر بھاؤ پھر چار ٹوپہ ہو گیا۔ گویا یہ دنیوی کام ان لوگوں کی منشا پر موقوف ہوتے ہیں۔ جو خداوند عالم کی ذات سے وابستہ ہے در حقیقت وہی منشا الہی ہوتی ہے۔

انہی دنوں جب آپ کھنڈ(چینی) وغیرہ منگواتی تو ایک آنہ کی لانی ہوتی۔ فرماتی کہ کتنے کی ہے؟ کہتے کہ ایک آنہ کی۔ فرماتی نہیں یہ تو دو پیسہ کی ہے۔ کچھ دنوں بعد جیسے فرماتی ارزانی ہو جاتی۔ گویا یہ آپ کے ادنیٰ ادنیٰ کرشمے اور اعجاز ہوتے۔ جن کو بعد تحقیق ثابت کیا کہ یہ لوگ درحقیقت ترجمان حق ہیں۔ جو ان کا ارادہ و خیال ہو تا ہے وہ حق کا خیال و ارادہ ہے۔ ان کی زبان نہیں خدا کی زبان اور ان کا فعل خدا کا فعل ہوتا ہے۔ جو ان لوگوں کی فردیت میں پیدا ہوتا ہے وہی تمام افراد میں ہوتا ہے اور پایا جاتا ہے اور ان میں سے کسی کو قید و بند، دکھ درد کا حکم نافذ ہوتا ہے وہی عدالت کا حکم و فیصلہ ہوتا ہے۔ پہلے ان سے پھر زمانہ کی شخصیتوں میں پایا جاتا ہے۔ اور ان کا فعل خدا کی منشا پر موقوف ہوتا ہے۔ پس اسی بے سمجھی کے باعث ان مذہبی لوگوں میں تنازع و جنگ و جدل ہو تا ہے۔ نہیں سمجھے کہ یہ راز کیا ہے؟

کلکتہ میں برائے تجارت ۱۲۔ ۱۹۱۱ ء میں جانا اور وہاں سے کریم کا لانا

میرے چچیرے ہر دو بھائی شیخ نظام الدین و عبد العزیز تجارت پشمینہ کی غرض سے کلکتہ پہنچے۔ بڑا بھائی شیخ نظام الدین جلد واپس آ گیا۔ چھوٹا عبدالعزیز وہیں رہا۔ بڑے کی جگہ مجھے بھیجا گیا۔ نفع نقصان سے میری غرض نہ تھی۔ کلکتہ پہنچنے پر قدرت کے مطالعہ کا شوق اور منشا الہی کے پیدا ہونے سے واقعات کا پیش آنا مدِ نظر تھا۔ کہ دیکھیں کلکتہ میں لے جانے سے خداوند عالم کا کیا ارادہ ہے؟ کیا کچھ ظہور پذیر ہوتا ہے؟ لور چیت پور روڈ بازار میں ایک مکان کرایہ پر لیا گیا۔ جو حمیدیہ ہوٹل کے زیر اثر تھا۔ ۱۸×۱۸ فٹ کا کمرہ تھا جو دوسری منزل پر تھا۔ اٹھارہ روپے ماہوار کرایہ تھا۔ اس میں چند آدمی کچھ بھیرہ کے پراچے اور دو بھائی ہم تھے۔ یہ سب علی الصبح مزدوروں کو مال دیے ساتھ لے کر شہر مفصلات میں فروخت کرتے اور دوپہر کو روٹی کھانے کے بعد پھر چلے جاتے۔ گویا سارا دن اس کمرہ میں میں اکیلا بیٹھا رہتا۔ ساتھ والے مشرقی کمرہ میں ایک نائٹ سکول تھا جس کا معلم ماسٹر ابولعلیٰ معین الباللہ تھا۔ اتنا لمبا نام تو لوگوں کو آتا نہ تھا البتہ ماسٹر ابوللا کر کے پکارا کرتے تھے۔ اور اس کے مشرقی جانب ساتھ والا بڑا وسیع ہال سر بازار تھا۔ جس میں الاسلام نام ایک خیراتی شعبہ تھا۔ کہ جو نو مسلم اسلامی امور سے ناواقف ہو اس کو ایک معلم کے ذریعے جس کی پچاس روپیہ ماہوار تنخواہ تھی تعلیم دی جاتی۔ ایک سیکرٹری تھا جس کے ماتحت لائبریری تھی کو ایک صد روپیہ ماہوار۔ اس خرچ کو تارا چند لائن کے رہنے والے امرتسری برداشت کرتے تھے۔

مولوی تو گاہے گاہے آتا البتہ سیکرٹری موجود رہتا اور دو چار نو مسلم۔ دس پندرہ کلکتہ میں اپنے ڈیرے پر مہینے گزرے ہوں گے کہ ۰۰۔ ۹ بجے دن ایک میانہ قد سیاہ فام اجنبی حیران و پریشان صورت بنائے دروازہ میں کھڑا ہو گیا۔ میں نے اندازے سے معلوم کیا کہ تمباکو پیتا ہو گا اس لیے کھڑا ہے۔ نزدیک بلایا، بٹھایا اور حقہ پینے کو کہا۔ سہما ہوا تھا، دو تین کش آہستہ آہستہ لگا (چھوڑ دیا) ۔ میں نے کہا کہ تم کون ہو؟ اردو زبان سے نا واقف تھا۔ کج مج زبان میں بولا کہ میں نو مسلم ہوں اور معین الاسلام میں ناواقف تھا سو داخل ہوا۔ اب سیکرٹری مجھے اپنی منشا کے بموجب تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتا۔ تین آنہ یومیہ خوراک کو دیتے ہیں۔ سارا دن سیکرٹری کبھی ادھر اور کبھی ادھر کام میں بھیجا کرتا ہے۔ مجھے شوق ہے کہ میں نمازوں کے قواعد حاصل کروں، پڑھوں اور خدا جلد ملے۔ جب اس نے یہ بات کی کہ نمازوں کو پڑھوں اور خدا سے ملوں تواس کی باتوں میں زیادہ دلچسپی لینے لگا۔ میں نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور کیوں مسلمان ہوئے ہو؟ اور یہاں کیسے پہنچے ہو؟ اپنا سارا حال صاف صاف بیان کرو۔

(کہنے لگا) کہ میں ملحقہ علاقہ ریاست کولہا پور کا رہنے والا تھا۔ میرے آباؤ اجداد کا ہندو مذہب تھا۔ میں ساہدوں کے ساتھ بچپن سے ہو لیا۔ ان کے کہنے پر عمل کیا کرتا تھا۔ حتیٰ کہ جنگلوں اور پہاڑوں میں رہنا اختیار کیا۔ اور مرجع خلائق ہوا۔ بڑے لوگ میرے پاس آنے لگے۔ لوگوں کے کام اپنے اپنے خیال پر ہوا کرتے لیکن میرے دل میں اطمینان نہ ہوتا۔ خدا کے بارے میں مجھے ذرہ بھر واقفیت نہ تھی۔ جس سے اپنے عمل کو وہمی اور خیالی تصور کرنے لگا۔

بلگاؤں چھاؤنی سے متصل ایک مسلمان بوڑھا درویش، لوگوں کا اس پر بڑا ا عتماد، خدا رسیدہ تھا۔ خفیہ طو ر پر اس سے جا کر ملا۔ کہ مجھے خدا کے بارے میں اطمینان نہیں ہے۔ اگر آپ میرا اطمینان کروا دیں تو حضور کی مہربانی ہو گی۔ وہ بولا کہ اگر تو مسلمان ہو کر نماز روزہ باقاعدہ ادا کرے گا تو خدا تم کو ملے گا۔ اطمینان ہو گا۔ جس سے میں بلگاؤں چھاؤنی میں گیا۔ رسالہ کے سپاہیوں کے ذریعے مسلمان ہوا۔ وہیں ختنہ بھی کر دیا۔ مہینہ تک وہیں پڑا رہا۔ دل میں تپش تھی اس نے آرام نہ کرنے دیا۔ پہلے بمبئی پہنچا۔ مشاہیرانِ وقت سے ،جو بڑے بڑے لوگوں کے پیر و مرشد تھے ، ملا۔ سوال پیش کیا کہ مجھے اپنے خدا سے ملاؤ۔ کسی سے تسلی نہ ہو سکی۔ پھر کراچی پہنچا۔ بہتیرے لوگوں سے ملا۔ وہاں سے اجمیر اور اب کلکتہ آیا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ بہت جلد نماز حاصل ہو۔ پھر پڑھوں تا کہ خداوند جلد ملے۔ اس کی یہ باتیں سننے سے دل میں بہت بے چینی پیدا ہوئی۔اس بے خبر مذہبی بوڑھے نے نا حق اس مسکین کو ملک سے نکلوا دیا۔ خویش و اقارب سے چھڑایا۔ سب سے خیر باد کرایا۔ اور دربدر کیا۔ آگے لاکھوں کروڑوں مسلمان نمازیں پڑھ اور روزے رکھ بدن کانٹا بنائے چِلے کاٹ رہے ہیں۔ اس بارہ میں کسی کی تسلی نہیں ہوئی۔ اور نہ کوئی آج تک بولا ہے کہ میں نے خدا کو پا لیا ہے۔ اس کی تسلی کیسے کوئی کر سکتا ہے؟ اس کے حال زار پر خدائی رحم پیدا ہوا۔ کہا تم میرے پاس رہو۔ دو وقت کھانا میرے ساتھ کھاؤ۔ میں تمھیں ناظرہ نماز و روزہ کے الفاظ پڑھا اور سمجھا دوں گا۔ اور امید ہے تم جلد سیکھ جاؤ گے۔ پھر آئندہ تم نمازیں پڑھنے لگو گے۔

اس بات کے سننے سے اس مسکین غریب الوطن کو بہت تسلی ہوئی۔ چہرے پر خوشی کے آثار پائے گئے۔ قاعدہ عربی منگایا۔ پڑھانے لگا۔ چونکہ اپنے مذہبی علم کے الفاظ جانتا تھا ، ابجد کی خبر تھی ، چند ہی دنوں میں قاعدہ پڑھ گیا۔ جوڑ کرنے لگ گیا۔ اگر کوئی مشکل بات ہوتی تو مرہٹی میں لکھ لیتا۔ مزید براں باہر ایک ابجد کے پڑھانے اور نماز کے قواعد بتانے والا مولوی بھی مقرر کر دیا لیکن یہ بہت کم اس کے پاس جاتا ، دن بھر میرے پاس ہی بیٹھا پڑھتا۔ دو مہینہ کے بعد تمام نماز آ گئی۔ اور پڑھنے لگ گیا۔ اور جو کچھ پڑھتا اس کے معنوں پر بھی عبور حاصل کیے جاتا تھا۔ نماز کے احکام کے بعد شش کلمہ کا پڑھنا شروع کیا۔ پہلے کلمہ شریف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے معنی ذہن نشین کیے۔اس میں خدا کے ہونے اور اس کی ہستی کا یقین دلایا۔ کہ خدا خدا ہے اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں۔ جس سے جب کبھی ہم اکیلے ہوتے تو یہ نو مسلم کہتا کہ بھا ئی صاحب بات تو کرو۔ میں نے کہا کس کی؟ کہنے لگا کہ اس محمد بکس کی۔ میں نے کہا وہ کون شخص ہے؟ کہنے لگا وہ جس کا کلمہ پڑھاتے ہیں۔ حیران ہوا اور کہا نعوذ باللہ بولو۔ آئندہ ایسے کبھی نام نہ لینا۔ کیونکہ ایسا کہنے سے حضورﷺ کی شان میں گستاخی و جہالت پائی جاتی ہے۔ پھر متنبہ ہوا۔ اور آئندہ کہنے کی دلیری نہ کی۔ اور بڑے ادب سے نام مبارک لینے لگا۔

نماز پڑھتے ہوئے سات مہینے گزر گئے۔ اب کلمہ شہادت پڑھنے لگا۔ اس کے معنی دریافت کیے۔ بتایا گیا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ خدا کے سوائے کوئی بندگی کے لائق نہیں۔ بہت خوش ہوا۔ کہ خدا کی شہادت اس میں دی جاتی ہے۔ ضرور ہے کہ کسی نے خدا کو دیکھا ہو گا۔ مجھ سے کہنے لگا کہ کیا آپ شہادت دیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں لکھا ہوا پڑھتا ہوں۔ دید کی شہادت کے واسطے تم تمام علمائے دین جو یہاں کلکتہ میں بڑے بڑے موجود ہیں پوچھ سکتے ہو۔ اسی وقت بھاگا ہوا ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اپنے عقدہ کے کھولنے کے لیے درخواست کی۔ ہر چند انہوں نے نشیب و فراز بتاتے ہوئے تسلی کرنا چاہی لیکن یہ طالب صادق سوزِ محبت میں سرشار، دیدار جاناں کا طلب گار تسلی نہ پا سکا۔ واپس ڈیرے پر آیا۔ اور کہنے لگا یہ واقعی یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ کلمہ شہادت پڑھنے کا حکم ہے لیکن دیکھنے اور پانے سے کوئی مطلب نہیں۔ کیا سب کے سب اہل مذہب یہی عقیدہ و دین رکھے شہادت کے مدعی ہیں۔ کیا یہ سراسر بہتان اور جھوٹ نہیں ہے۔ کیا جس نے اس کلمہ کو رواج دینے اور پڑھنے کا حکم دیا ہے اس نے یہی بولا ہے کہ تم زبان سے تو اقرار کر و اور دیکھو نہیں۔ پھر تو یہ مذہب سراسر جھوٹا اور بازیچہ طفلاں ہے۔ ایسی ایسی بہت سی غصہ بھر ی اندوہناک باتیں کرتا ہوا بچوں کی طرح رونے لگ گیا کہ میں نے اپنا خاندان چھوڑا، خویش اقارب سے تعلق توڑا ، عزت و ننگ و ناموس کو ٹھکرا دیا ، ملک و جائیداد سے قطع تعلق کیا ، دشت و کوہ و بیاباں میں مارا مارا پھرا۔ ملک بہ ملک، دربدر، خاک بسر ! اسی امید میں کہ میرا مطلوب، میرا محبوب، میری تسلی دینے والا اور میری امیدوں اور تمناؤں کا پورا کرنے والا مولا کوئی دم میں ملا چاہتا ہے۔ کہ جس کے ملے سے میں اپنے دل کی بھڑک نکالوں گا۔ اور اس سے کہوں گا کہ ہم کو پیدا کیے، ہمارا خالق و مالک بنے، تو کیوں ہم سے روپوش ہے؟ کیا تمھیں جب کوئی تمھارا شریک نہیں ہے تو کاہے کا ڈر ہے؟ کس سے خوف و خطر ہے؟ جو دکھلائی نہیں دیتا، ہم سے بات چیت نہیں کرتا۔ کیا جس صورت میں ہم تیرے بندے اور تیرے طالب دیدار عاشق راز ہیں کوئی بناوٹ نہیں کوئی کہاوت نہیں طالب صادق ہیں اپنی حضوری کا شرف آقا وار دے۔ اپنے چہرہ منور سے حجاب اٹھائے دل کو شادمان اور آنکھوں میں ٹھنڈک پہنچا۔ اور ہمارے اور اپنے تعلق کا اظہار کر۔ غرضیکہ گڈریا کی طرح جو موسیٰ ؑ کو ملا تھا اس نو مسلم نے بھی اس سے بڑھ کر دلیل دیتے ہوئے مثال کو زندہ کیا۔ جس کو میں خاموشی سے سنتا رہا۔ لیکن دل بھر آیا۔

اگر کہتا کہ اسلام محمدی میں یہ لوگ ایسا ہی کہے جاتے ہیں تو اس کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھر جاتا بلکہ عین ممکن تھا کہ ناامیدی میں جان دیب دیتا۔ کیونکہ عامۃ الناس مسلمان اپنے مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہوئے ، ملاں نے کان پکڑ اللہ کا نام کہہ سنایا ، جس نے رسم کی صورت اختیار کی۔ طالبِ دیدار نہ ہوئے۔ دیکھنے اور ملنے سے محروم رہے۔ لیکن یہ شخص جو ایک بھاری نقصان جانی و مالی برداشت کیے امید لیے یہاں تک پہنچا کیسا ہی بڑا اور بھاری صدمہ کا برداشت کرنے والا ثابت ہو رہا تھا جس کی تلافی ناممکن تھی۔ تسلی کو بے ساختہ میرے منہ سے بمشیت ایزدی نکل گیا کہ دیکھو کریم اگر تم پنجاب میں ہمارے پاس آؤ تو ہم تم کو تمھار گم گشتہ خدا ملا دیں گے۔ یہ سنتے ہی کسی قدر بشاش ہوا۔ غمی کے آثار جاتے رہے۔ چہرہ پر رونق آ گئی۔ گویا مردہ جسم میں جان پیدا ہوئی۔ میری بات پر اعتبار رکھتا تھا کہ یہاں سے انشاء اللہ جھوٹ پیدا نہیں ہوتا۔ حسب معمول چلنے پھرنے لگا۔ الا نماز کو چھوڑ دیا۔

اتنے میں پنجاب سے خط آیا کہ شیخ نظام الدین میونسپلٹی ممبری کی در خواست کر چکا ہے۔ تم چلے آؤ۔ اور جب میں کلکتہ سے چلنے لگا۔ گاڑی ٹم ٹم پر ڈیرے سے چلنے لگا (تو) یہ جھٹ بے ہوش ہو کر وہیں گر پڑا۔ اس وقت خرچ کرایہ ریلوے تھوڑا تھا۔ عبدالعزیز کو کہہ دیا جب تم آؤ اس کو ساتھ لیتے آؤ۔ میرے چلے آنے سے بعد میں کئی دن تک کھانا وغیرہ اس نے کچھ نہ کھایا۔ تجارت میں بھائی والوں نے دھوکے سے روپیہ خود وصول کر لیا۔ عبدالعزیز(تعدادی تین ہزار روپے خسارہ جس کو یہ پراچہ لوگ ہضم کر گئے تھے) خرچ سے بھی تنگ ہو گیا۔ کریم میں گرمی مفارقت نے تیزی کی ہوئی تھی۔ گیا۔ جھٹ ایک آدمی امرتسری سے بولا دو آدمیوں کا کرایہ گجرات تک فوراً دے دو۔ اس نے ایک پہر کی فرصت طلب کی۔ بولا۔ نہیں، ابھی۔ پھر کیا تھا؟ اس نے ہر دو کا مناسب خرچ ریلوے دے دیا۔ کلکتہ سے سوار ہوئے مع الخیر مورخہ یکم مئی ۱۹۱۴ کو ہر دو جلال پور پہنچ گئے۔

میں اپنی کھٹیا میں بیٹھا ہوا تھا کہ سامنے کریم دروازہ پر آ کھڑا ہوا اور بعد سلام کہنے لگا۔ بتاؤ جی اپنے حسبِ وعدہ میرا خدا کہاں ہیـ؟ میرے واسطے یہ گھڑی بہت ہی نازک تھی۔ (بولنے کو) واقعی بڑی زبان سے ،گو تو نے اس کی تسلی کو بولا ہے کہ خدا ملا دے گا اب(یہ وعدہ) پورا ہونا چاہیے۔ میں نے کہا برخوردار تم رات گزارو۔ فجر دیکھی جاوے گی۔ فجر ہوئی تو کریم سے کہا کہ موضع اوان (اعوان شریف) میں تم قاضی جان محمد کے پاس چلے جاؤ۔ ان کی دکان جاری ہے۔ بڑے بڑے ڈپٹی جج وہاں جا کر خاکروبی کرتے، چکی پیستے اور جوڑہ برداری کرتے ہیں۔ اندریں صورت وہ تم کو در بارہ خداوند جہاں تسلی دے سکیں گے اور ناکام نہ پھیریں گے۔

یہاں کیسی اور کاہے کی دیر تھی؟ کمر بستہ ہو کر چل پڑا اور شام کو واپس آ گیا۔ میں نے بولا کیا بات ہوئی؟ کہنے لگا کہ بڑی عمارتیں دیکھنے کے بعد قاضی صاحب کی حضوری میں باریاب ہوا۔ میں نے بولا کہ بتاؤ کہ وہ ہمیں پیدا کر کے کدھر ہے؟ ملتا نہیں۔ ہم جان سے بھی بوجہ نہ ملنے اس کے تنگ ہیں۔ فرمانے لگے کہ وہ تو اب تک ہمیں بھی نہیں ملا۔ تم کو میں کیا بتاؤں؟ تو میں نے بولا کہ پھر یہ دکان کاہے کو نکالی ہے۔؟ کیا جھوٹ کی ہے؟ اسے بند کر دو اور لوگوں کو دھوکا مت دو اور دنیا کو خراب نہ کرو۔ تو پھر کہنے لگے البتہ اگر تم یہاں چوغہ (چغہ) پہنے رہو تو شاید تمھیں مل جائے۔ میں نے کہا کہ تم ہمیں لکھ دو کہ اتنے سال۔ چوغہ میں اس سے دگنے سال لگاؤں گا بشرطیکہ وہ ملنا چاہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ میں نے کہا کہ میں بھی غیر اعتباری میں ایک دم ضائع نہیں کروں گا۔ واپس چلا آیا۔ جس پر مجھے کوئی فکر نہ ہوئی۔ کیونکہ پہلے سے خیال تھا کہ یہاں سے اس کی تسلی نہ ہو گی۔ البتہ اگر ان کے کسی طریقہ یا نمائش میں پھنس جائے تو ہمارے واسطے آسانی ہو گی۔ لیکن یہ دھن کا پکا کسی دام میں نہ آیا۔

فجر ہوئی۔ سائیں کرم الہی جھنگی والا گجرات ان دنوں مرجع خلائق، مجذوب، سالک، صاحب دستگاہ، اہل ولایت تھا۔اس کے پاس بھیج دیا۔ شام کو واپس آ گیا۔ پوچھا بتاؤ کریم اب کیا بات کیے آئے ہو؟ بولا میں نے جاتے ہی کہا کہ بتاؤ ہمارا پیدا کنندہ خالق و مالک کدھر ہے؟ وہ بڑے جلال سے بولا کہ وہ ایسی کی تیسی مراوا کون ہے جو میرے سے باہر ہے؟ وہ تو میں ہوں۔ کہو کیا کہنا ہے۔ میں کچھ نہ سمجھا بلکہ بجنگ اس کے ساتھ تیار ہو ا۔ وہ بھی مرنے مرانے پر تلا نظر آیا۔ میں خاموش ہو کر چلا آیا۔

بس اس بات میں میری بھاری گنجائش تھی۔ جب سائیں صاحب سے آواز ہوئی کہ وہ میں ہوں۔ میں نے کریم سے کہا کہ بس اب میرا وعدہ پورا ہوا۔ بولا کیسے؟ میں نے کہا تھا میں تمھیں خدا بتاؤں گا نہ کہ ملاؤں گا۔ اور اس نے بول دیا کہ وہ میں ہوں۔ اب تم جانو اور وہ۔ کریم لاجواب ہوا اور کچھ بن نہ آیا۔ کہنے لگا مجھے وہاں سمجھ نہ آئی۔ میں نے کہا فکر نہ کرو۔ صبح پھر میں تمھیں بوٹے شاہ صاحب کے پاس بھیجتا ہوں۔

فجر ہوئی۔ چل دیا۔ بدستور شام کو واپس آیا۔ حال پوچھا۔ بہت خوش و خرم بتایا کہ جب وہاں پہنچا تو اپنا سوال کیا تو آپ بولے سائیں جسے تو ڈھونڈتا ہے وہ میں ہوں۔ جاؤ خاکی شاہ کی پوجا کرو ، میں مل جاؤں گا۔ جناب شاہ صاحب کا فرمانا میں سمجھ گیا کہ خاکی شاہ سے کیا مراد ہے؟ اسے بولا کہ تسلی ہوئی کہ دوسری جگہ سے خدا نے اقرار کر دیا کہ میں ہوں۔ سائیں کریم نے پھر در بارہ خدا سوال نہ کیا۔ خاموش ہو گیا۔

اب خاکی شاہ کی پوجا شروع ہوئی۔ چند دن بعد اقبال جان طوائف پر عاشق ہو گیا۔ بے خواب و خور ہو ا۔ سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ دو سال تک خوب آگ میں غوطے لگاتا رہا۔ نارِ جہنم سے جو آگ سخت ہوتی ہے اس میں جل جل کر اس میں کی میل دھوئی۔ خوب جلے نارِ ابراہیمی گلزار ہوتے دکھائی دی۔ سبب عمدہ نکلا۔ اسے دل میں بٹھایا۔ دو سال بعد گجرات میں تھا ، نبی بخش نیاریہ کے ہاں مقام کرایا۔ وہاں مٹی میں سے شعلے کا نکالنا سیکھا۔ جب اس طلا کو کسوٹی پر لگایا تو کسی قدر میل پائی۔ میاں حامد علی صاحب اور حکیم احمد دین کنجاہی، (یہ مربوں پر متصل سرگودھا حکمت اور پنساریوں کی دکان کر تے تھے اوراب سب احباب نے اس کو ہتھیلی کا چھالا بنایا ہوا تھا۔) اس کو ساتھ لے گئے۔ بحکمت پروردگار وہاں بھی وجود کی لنکا کو ایسے اسی رام چندر جی کے ہنومان کے ذریعہ سے آگ لگانے کا اچھا موقع ملا۔ راون کا سر کچلا۔ لنکا کو فتح کیا لیکن پھر بھی اس کے بہت سے سر تھے۔ کام ادھورا رہا۔ جلالپور منگایا۔ شیخ اللہ دتہ (جو ان دنوں لکڑی خریدنے اور کوئلہ بنانے کا کام کرتا تھا) ساتھ لے گیا۔ حکمت پروردگار جو نیاری سے نیاری حکمتیں پیدا کرتی رہتی ہے۔

’’فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمت ‘‘ ان کی کسی بات پر انگشت نمائی کرنا کوتاہ بینی کی علامت ہے۔ کیونکہ جس بات کا تہیہ کیا جاوے اسی میں پروردگار عالم پھنساتا ہے۔ اگر اس کے طالع سعید ہوں تو اسی سے سمجھ عطا کرتے ہوئے در مقصود سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ پہلے اس سے کریم ہندو پن میں اپنا زہد و اتقا ء دکھلائے رجھاتا تھا اور عورتوں کے نزدیک نہ پھٹکنے دیتا تھا۔ اب وہی ہوا جو کردہ الہی تھا۔ مولا کریم نے کریم کی راہ اسی میں سے نکالی۔ ادھر آگ سے نکلتا ، تجلیات طور موسیٰ ؑ سے مخلصی پاتا۔ دنوں موسیٰ وار مع اپنے یاروں (حواس) بے ہوش پڑا رہتا۔ چندے قیام ملے پھر کوہ طور پر اپنی حسب فطرت کسی درخت میں سے موسیٰ کو جمال دکھلاتا و ہم کلام ہوتا۔ کہ ’’اے موسیٰ میں ہوں۔ میں ہوں رب العالمین ‘‘ شیخ اللہ دتہ کا برتاؤ برائے درختاں عموماً تھا۔ یہ بھی جا پہنچا۔ موضع اجنالہ کا بنام چوہدری فضل میر صاحب(جو اپنی بستی و قوم گوجر کا مایہ ناز، دقیقہ رس اور دور بین نگاہیں رکھنے والا اور ہر ایک بات سے اس کا نتیجہ اخذ کرنے والا، فطرتی خوبی سے معمور تھا ) بذریعہ شیخ اللہ دتہ کریم سے دوچار ہوا۔ جس کا چاہا کہ میرے لیے یہ بلال وار صورت کئی صورتوں میں بہتر ہو گی اور میرا مشغلہ ،باتوں ہی باتوں میں کر دہ الہی کا صحیفہ سنایا اور موضع ٹھینڈہ میں اس کی سکونت کو ہم خورما و ہم ثواب کا مصداق جانے بر سر خوردہ عام قبروں بنام شہیدین رہنے کے لیے مخصوص کیا۔ پھر رہائش کے لیے پختہ مکان بنانے کی ٹھہری۔ کریم نے تمام خانقاہوں سے جو بوسیدہ درختوں کی لکڑی جمع تھی برضا مند ی و بہ جبر لانا شروع کی۔ چھ سات صد من جمع ہونے کے بعد شیخ اللہ دتہ نے پینتالیس ہزار خشت پختہ دو انچ موٹی بذریعہ بھٹی پختہ تیار کروائے۔ مشرق و مغرب دو کوٹھڑیاں اور بیچ میں دالان سب وسیع تیار کروایا۔ اور اسی مکان کے بنانے میں بتحریک چوہدری فضل میر ڈسٹرکٹ بورڈ گجرات سے مبلغ ۸۰ روپے دلوائے۔ مکان کے تیار ہونے سے راستہ چلنے والے لوگوں کو بہت آرام ہوا۔ جس سے کوشش کنندہ مامور من اللہ ہوں گے۔

تھوڑے دن گزرے تھے کہ بارود خانہ کریم میں آگ لگ گئی۔ ایک ذرا سی چنگاری پڑی جس نے اس کی امیدوں کے نخلستان کو جلا دیا۔ ایک بتِ غارت گرِ ایمان نے شعلہ بھڑکایا۔ یہیں ایک پرانی کٹیا تھی جس میں سانپ اور بچھوؤں نے اپنا مسکن بنایا ہوا تھا۔ قدِ آدم سے زیادہ اس کی بلندی نہ تھی۔ اس کے درمیان میں قدِ آدم ہی گڑھا کھدوایا۔ تین فٹ چوڑائی رکھی اور خداوند اپنے خالق و مالک سے اڈا(ضد) لگا دیا کہ براہ راست اگر نہ مانے گا تو پروانہ وار اپنے آپ کو فنا کر دوں گا۔ کشتہ نگاہ ناز تھا۔ آنکھوں پر کھوپے چڑھے ہوئے ، ادھر ادھر دیکھنا محال تھا۔ ہٹ کا پکا جھٹ اپنا ہندوؤں کی طرح جو ان کا سیکھا سکھا یا کھیل تھا لوگوں کو تماشہ دکھلانے کو اس گڑھا میں داخل ہو گیا۔ اوپر تھوڑا سا سوراخ رکھا۔ سر پوش کی طرح مضبوط کر دیا۔ بارہ روز گزرے ہم نے سنا کہ کریم دار پر چڑھ منصوار وار دیدار لے رہا ہے۔ میاں حامد علی صاحب جو ہمارے خاص رفیق تھے کو بلایا۔ ان سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا جانا چاہیے ورنہ نا حق مارا جائے گا۔ اس قدر تنگی تو مردہ کو اسامی میں بھی نہیں ہوتی جس قدر اس کی بتائی جاتی ہے۔ تیرہویں روز صبح جلال پور سے چلے۔ حاجی والا سے ایک میل شمال کو تھا، وہاں پہنچے۔ کوٹھڑی میں داخل ہوئے۔ کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ آواز دیا: او کریم ! تہ زمین سے بہت کمزور سی آواز پیدا ہوئی۔ پھر اس موری پر بیٹھ گئے۔ پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگا ہماری مانتا نہیں ہے ، ہم مرے جاتے ہیں۔ میں بولا: ارے بے وقوف کیوں اپنے خدا کو تنگی پہنچاتا ہے۔ نکل۔ وہ ماننے کو تیار ہے۔ ہم نے فوراً وہ چھابا جو منہ سر بمہر بند تھا اٹھا کر پھینکا اور اسے جو سخت محبوس پنجرہ تھا اٹھنے کو کہا۔ چھاتی سے گھٹنے لگے تھے۔ حیران ہوئے کہ استغفراللہ اس قدر تکلیف جو احاطہ برداشت سے باہر ہے اپنی جہالت سے کیوں اٹھا رہا ہے؟ جوں توں کر کے راضی ہوا۔ خوشی ہوئی۔ لیکن یہاں رہنے سے دل اس کا اچاٹ ہو گیا۔ چوہدری فضل میر پہلے ہی سے مانوس تھا جس کے رشتہ دار، متعلقین، شناور، دوست موضع چھتی ٹاہلی رہنے والے آیا جایا کرتے تھے ان میں سے کا شرف علی نام جو فضل میر سے ہمنوا وہم ستار ہو چکا ہوا تھا بولا کہ یہاں نہ زمین چھتی ٹاہلی آپ رہیں ہم لوگ عارفانہ زندگی بسر کریں گے۔ یہاں ڈھینڈہ میرا سے اٹھا کر لے گئے۔ چند روز رہنے سے شرف علی نے پانچ کنال اراضی مزرعہ اور پانچ کنال غلام حسین موضع چھتی ٹاہلی والا نے اپنے لڑکے کی خوشی میں دے دیے۔ اور دس کنال کریم نے مستاجری پر لے کر ایک وسیع قطع زمین بنوا لیا۔ جس سے ہمارا بھی اس طرف آنا جانا شرف علی اور اس کے خلف رحمت خاں کے ذریعے ضروری ہوا۔ کہ یہ اپنی تمنا ظاہر کرتے اور کریم کی چاہت کشاں کشاں لیے جاتی۔ پھر کریم کہنے لگا اس جگہ موسم گرما میں بہت لوگ پٹی چھوڑ ہجرت کر کے مع عیال و مال توی کے کنارے کنارے بیلہ میں ڈیرے لگا دیتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی آپ کو پانی سوائے توی جو میلا ہوتا ہے نہیں ملتا۔ اگر یہاں کنواں ہو تو بمصداق ہم خورما و ہم ثواب ایک تو لوگ و مویشی پانی پی سکیں گے دوسرا سڑک سے گزرنے والے بڑا فائدہ اٹھائیں گے تیسرا یہ پانچ بیگھہ زمین جو میرے زیر اثر ہے خاطر خواہ فصل دیوے گی۔ فضل میر، شرف علی، رحمت خاں، غلام حسین وغیرہ نے اس بارہ میں تصدیق کی کہ ٹھیک اور بہت درست ہے۔ اس کارِ خیر میں حصہ لیویں۔

پہلے احمد دین کو بھیجا۔ اس نے وہاں رہ کر کنویں کا پاڑ کھدوایا۔ پھر نبی بخش و راقم گئے۔ کنواں تیار ہوا۔ کچھ پڑا رہا۔ پھر گجرات سے آہنی سامان خرید کر بخدمت کریم بھیج دیا۔ احمد دین دو مہینہ تک مقیم رہا۔ پھر جاری کرنے کے وقت میں اور نبی بخش پہنچے۔ کنواں جاری کیا۔ چوہدری نذر محمد خان ٹھٹھہ موسیٰ بھی پہلے سے گیا ہوا تھا۔ اس نے پھڑانہ اس خوبی سے بنایا کہ دیکھنے والا بہت ہی اگر آنکھیں رکھتا ہو بنانے والے کی تحسین کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بہت خوشی ہوئی کہ خداوند نے کریم کے ارادہ کو اپنے کرم و بخشش سے پورا کیا۔ مبلغ ڈھائی صد روپیہ خرچ آیا۔ ۱۲۵نبی بخش کی گرہ سے اور ۱۲۵ ہماری گرہ سے خرچ میں آئے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

چوہدری فضل میر و شرف علی و رحمت

کریم کا موضع ڈھینڈہ سے دل برداشتہ کرنا چوہدری فضل میر اور شرف علی کی تحریک سے تھا۔ اور یہ تحریک ارادہ الہی کی پیرو کار تھی کہ اس سنسان و جنگل و بیلہ میں کنواں لگتے ہوئے موجودات کے انسانوں، حیوانوں، پرندوں، چرندوں کو فائدہ پہنچنے کا سامان ہو۔ لیکن یہ تمام باتیں جو ظہور پذیر تھیں بمشیت ایزدی چوہدری فضل میر ساکن اجنالہ کے خیالات و تفکرات کا دل کی گہرائی میں ڈالے ہوئے بیج کا شجر تیار ہو رہا تھا۔ قدرت کی نیرنگیوں کو پاتے ہوئے اور اسی مفصل قران کو پڑھتے ہوئے یہ آیت جو فضل میر نام سے پڑھنے کو آئی تو اس میں بھی عجیب و غریب معنی اخذ کرتے ہوئے پائے۔ بہت دفعہ اس آیہ الہی کو دہرایا۔ ہر ایک حرف و لفظ و جملہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بیّن نظر آیا کہ یہ طالب صداقت معیار حقیقت کو چھپائے پس پردہ ہر ایک کی نقدی کو پر کھائے اندر ہی اندر میں قیمت لگائے یہاں خانہ دل کے خزینہ میں جگہ دیے رکھے جاتا ہے۔ کسی کو بتاتا نہیں۔ اور نہ ہی اسے یہ غرض ہوتی ہے کہ دنیا میں نکتہ چیں کہلاؤں۔ اور ہنگامہ دنیا میں ترکتازی کروں۔ جب سے کریم آیا اور مرحوم شیخ اللہ دتہ نے نواح اجنالہ میں اپنا کاروبار بڑھایا اس شخصیت کو سب سے (بڑھ کر) مرغوب خاطر پایا۔

چوہدری فضل میر

کیونکہ وہ حقائق جو اہل تحقیق نے روڑی میں خزانہ کی صورت چھپا رکھے ہیں ان کا کھوج لگا کر نکالنے کا عادی ہو چکا ہوا ہے۔ اپنی حسب تخلیق بے لگّا لگائے اپنی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ اگر کہیں قرار پکڑے بھی تو اپنے مطلوب کا کھوج لگاتا ، جب نہیں پاتا ، تو چل دیتا ہے۔ مجھے دقائق کی گرہ کشائی کرتے ہوئے اکثر بتاتا ہے اور یہ جو سبک ساران وادی نامرادی ہیں اپنے بھاری بوجھ کو دیکھ کر جو مردانگی سے نباہے جاتا رونی صورت بنائے رجھاتا ہے اور یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ ان کا کفیل ہر وقت کمر بستہ اپنا کام کیے جاتا ہے۔ خداوند اکثر باتیں اس کی ناز سے جو نیازانہ انداز میں ہوتا ہے مانا کرتا ہے۔ ایک بہت بڑی بھاری خوبی اس میں قدرت نے بخت سعید سے ودیعت کر دی ہے کہ بڑا بھاری اشہب سوار جو ترکتازی میں یکہ و تنہا ہو اور سواری میں اٹھکیلیاں کرتا ہو اپنی سواری میں انتخاب کیے ایسا باد پیما چلاتا ہے کہ جس میں اپنا آپ دکھلائی نہیں دیتا۔ یہ سب قدرت الہی کی خوبیاں ہیں۔ جو ایک ذرہ ذرہ پر سبق آموز ہیں۔ اور اپنی مہربانی سے ہمیں اپنی طرف لیے جاتا ہے۔ جس میں کوئی مسافت و دوری نہیں ہے۔

شرف علی و رحمت و احمد خاں

اور اسی فردِ واحد کے مطبخ سے شرف علی اور اس کا خلف الرشید رحمت خاں وظیفہ خوار(غذائے روحانی کے طالب) ہیں۔ جو موضع چھتی ٹاہلی کے رہنے والے، پائے راستی میں خداوند ہر دو باپ بیٹا کو صراطِ مستقیم کی ہدایت فرماویں اور دینی اور دنیوی بہبودی ہر دو میں ملی جلی ترقی دیوے۔ اخلاق حسنہ سے مزین کرے۔ کریم کے چھتی ٹاہلی لے جانے کا یہی بہانہ بنے اور انہوں نے ہی سبقت بالایمان کیے پانچ کنال زمین مزرعہ اپنے کھاتہ سے دی ہے جس میں کنواں لگایا گیا ہے۔ (انشا اللہ) مامور من اللہ ہوں گے۔

چنانچہ انہی کی ذات پات سے وابستہ، اسی لڑی کا گوہر منشی احمد خاں اپنی ذاتی شرافت سے اخلاق حسنہ رکھتے ہوئے مزین ہے۔ خداوند خالق اکبر کی قدرت کاملہ کا نیارے سے نیارا نمونہ جب دیکھنے میں آتا ہے تو لا محالہ اہل دید کہہ اٹھتا ہے۔ کہ کسی کے بنائے کچھ بنتا نہیں ہے۔ جیسے تیری مرضی ہوتی ہے ویسے ہی طرح طرح کے اخلاق و خوبیوں سے مزین کیے مخلوقات پیدا کرتا، جہان کو آراستہ و پیراستہ کیے جاتا ہے۔ چنانچہ احمد خان فطرتاً حقیقی طور حق کا جویا ہے اور بدی سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ خدا اسے کامیاب کرے۔

ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی کے حالات وفات تک

بابا صاحب محمد شاہ المعروف انڈیانوالہ کے رحلت فرمانے کے بعد یہ جو حاشیہ نشین اجلاس بابا صاحب تھے باہمی اکٹھے رہنے کو ترجیح دینے لگے۔ جس دن اصحاب یہ صورت بناتے جلال پور جٹاں میں جھٹ اپنا نمائندہ بھیج دیتے۔ یہاں جو بر وقت ہی ایک جگہ بود و باش رکھنے والے یک جان و دو قالب ہوئے چل دیتے۔ مثلاً ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی و فضل بی بی و احمد دین و راقم موضع پنڈی لوہاراں میں میاں صاحب کے گھر پر مقیم ہوتے تو سب کے سب وہیں جمع ہو جاتے۔ دو تین دن خوب پریم و محبت کی مے سے بھرے جام دم بدم پینے میں آتے۔ بابا صاحب کے فیض صحبت سے ہر ایک پرستار محبت اپنا اپنا شاہد رکھتا۔ جس سے دنیائے دنی کی آلودگی سے بچے رہتے۔ دنیا و ما فیھا کے جھمیلوں کی خبر تک نہ ہوتی۔ سال بھر میں ایک بھاری اجلاس جناب قادر شاہ صاحبؒ کے عرس کے نام سے جو اخیر کی جمعرات ماہ جیٹھ میں کیا جاتا۔ جس میں عامۃ الناس رسم و رواج کے پابند چلے جاتے۔ لیکن ان کی ایک ہفتہ تک گرم بازاری رہتی۔ ایسے ہی با با صاحب انڈیانوالہ کا عرس سالانہ ۷ ساون کو کیا جاتا۔ اس میں بہت ہی فراخ دلی سے حصہ لیا جاتا۔ ہفتہ عشرہ ایک ساعت نہ دکھلاتا۔ کیونکہ مے محبت سے ہر ایک کی آنکھیں پر خمار ہوتیں۔ غرضیکہ یہ ایام زندگی جو کچھ عرصہ گزرتے رہے فلک کج رفتار کے رشک کا باعث ہوئے۔ مولانا غلام حیدر صاحب وزیر آبادی و مستری محمد حسین نے انہی ایام میں ایک ایسا عیارانہ طرز عمل شروع کیا کہ جس کے بیان سے قلم قاصر ہے۔ جس کا مدعا یہی ہوتا کہ یہ مے خانہ جو اس نواح میں کھولا جا رہا ہے اور اس کی تلچھٹ کے مزے ہی کیے ایک محو تماشائے روئے صنم و جاناں خود از خود گزرے ہوئے باقی ملے جا رہے ہیں۔ یہاں وزیر آباد میں اسی آن بان و شان سے کھلا رہے۔

چونکہ آپ بڑے رند مشرب اور عیار کامل ہیں اپنی عیاری کام میں لائے اپنا مدعا پورا کیے جاتے تھے۔ وہ ملایانہ اخلاق جو زمانے پر اظہر من الشمس ہیں ان کو دھول کی طرح اڑاتے ہوئے وہ کچھ کر دکھاتے جو ناممکن ہوتا۔ اپنے محبوب و مطلوب پر قربانی کا وہ ثبوت دیتے جو کسی عالی ہمت جواں مرد کے حوصلہ سے بھی بڑھ کر ہوتا۔ دقیقہ رس طبیعت تھی۔ معیار حقیقت کو چھپائے رکھنے میں کمال تھا۔ چپکے سے ہر ایک کا امتحان لے لیتے اور اپنا ثبوت دینے میں گھر بار چھوڑ، مال و متاع سے منہ موڑ، اللہ نور السموٰات سے تجاوز کرتے ہوئے، شملہ کی بلند گھاٹیوں پر اپنا اڈا جانے، پستی کو خیر باد کیے، فضائے عالم میں دل لگائے، قابو سے باہر ہوتے۔ جب تک اپنا مطلوب ہاتھ میں نہ آئے واپس نہ ہوتے۔ اس میں قربانی وہ کی جو بلا شک و شبہ اپنی قیمت نہ رکھتی تھی۔ لیکن ان کو ذرہ بھر رنج نہ پہنچا جزاک اللہ فی الدارین۔ اور یہی ان کے صنم خانے کا چراغ تھا گل ہوا۔ جس میں بھی ان کو بستی و ویرانہ ایک دکھلایا۔

بعد میں اپنا پیدا کیا ہوا مستری محمد حسین بھی جو بلا شک و شبہ پروانہ شمع مذہب تھا، فدا ہوا۔ اور اپنا نام نشان تک نہ چھوڑا۔ جزاک اللہ۔ چنانچہ وہ جو ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی کے چوپٹ کے مہرے تھے دولا و جلو و احمد یار چمرنگ و حاکم بی بی و قدرت اللہ سب کے سب ہرا دیے۔ غیر اعتباری اس بحر فنا کے بلبلے تھے۔ چندے قرار پکڑے فنا ہو گئے۔ آپ کا شغل جاتا رہا۔ گھر اور باہر ڈیرے پر بے رونقی پیدا ہوئی۔ جس سے اب ہمشیرہ صاحبہ کو اس ویرانی کا اثر ہونے لگا۔ محلہ کے ہمسائے زن و مرد جو قدر دان تھے، چل دیے۔ ابھی کسی قدر دل بہلانے کو یہ جماعت جو مفصلات کے رہنے والوں کی تھی جب کبھی آ جاتی یا بلا لیتی تو تمام تفکرات، غم و غصہ و اندوہ دور ہو جاتے۔ اتنے میں جسمانی کمزوری بھی بڑھنی شروع ہوئی۔ روحانی حالات اور اخلاقی عادات میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ اکثر وہ احباب رضا جو بابا صاحب کے درس خواں تھے بے بے صاحبہ کو بلا لیتے تو ان کی معیت میں چلنے کا موقع باہر جب ملتا تو سمجھانے کی کوشش کی جاتی کہ وہ لوگ جو اپنا اپنا وقت گزار کر چلے گئے ہیں، لوٹنے والے نہیں۔ بلکہ ہم بھی اک روز چلے جائیں گے۔ اس سے پہلے ہمشیرہ صاحبہ اپنے چچیرے بھائی محمد سلطان کے تین لڑکوں کو جلال پور میں تھوڑی بہت تعلیم دلوا کر اپنے گھروں کو واپس کر چکی ہوئی تھی۔ اب چوتھا لڑکا بھائی نے تعلیم دلوانے کو بھیجا۔ اس نے ابتدائی تعلیم سے ساتویں جماعت تک تعلیم پائی تھی یا تعلیم پا چکا تھا کہ باپ کے مر جانے سے دل اس کا اچاٹ ہو گیا۔ تعلیم سے کوسوں بھاگنے لگا۔ میں نے اندرونی طور ہمشیرہ صاحبہ سے کہا کہ آپ جو روتی رہتی ہیں کہ مجھے آئندہ کے لیے کوئی آدمی نظر نہیں آتا اگر یہی لڑکا جو والدین سے گیا گزرا ہوا ہے اس خدمت کے لیے منسوب کیا جائے تو کوئی بری بات نہ ہو گی۔ بجائے اس کے کہ ہم کسی کی تلاش کریں۔ اسی کو کیوں نہ اسی خدمت کی ہدایت کریں۔ لیکن آپ فرمانے لگی کہ دیکھو یہ ایک باپ کے پانچ بچے تھے۔ ان میں سے یہ دوسری بیوی سے تھا جس کے اخلاق اچھے نہ تھے۔ اور یہ اس ماں کا بچہ اپنی والدہ پر جائے گا۔ اس لیے میں ہر چند اسے مخصوص نہیں کرتی کہ یہ مرے مولا کے دربار کو ناپاک کر دے گا۔

انہی باتوں میں چند برس گزر گئے۔ اس دوران میں جب یہ سن شباب کو پہنچا تو ہمشیرہ صاحبہ نے ایک دن بچشم اس کے عیبوں پر اطلاع پائی۔ مجھے کہا۔ میں نے اس غلام حسین نام کو سرزنش کی کہ اگر تم اپنے اخلاق کو بگڑنے نہ دو گے تو منظور نظر اپنی پھوپھی صاحبہ کے ہو جاؤ گے ورنہ وہ جس کا ایک ایک موئے بدن تک اس روضہ کی خاک پاک پر فدا ہے ان برے اخلاق سے نزدیک تک نہ پھٹکنے دے گی۔ لیکن اس بد بخت نے ایک نہ سنی۔ باوجود میری سخت کوشش کے بجائے سدھرنے کے اور بگڑتا گیا۔ کئی ایک آدمیوں کو کہا کہ اس کو سمجھاویں نہ سمجھا۔ جس سے آپ بہت آدمیوں کے آگے گلہ گزار ہوئیں کہ تم لوگ، اگر یہ نہ سمجھے تو، یہاں سے نکال دو۔ لیکن کوئی شخص ایسی بات کرنے پر راضی نہ ہوتا کہ شاید یہ سمجھ جائے۔ شاید متصل کے زمیندار پس پردہ اس کو خراب کرتے ہوں کہ تم کسی کی پرواہ نہ کرو۔ رفتہ رفتہ یہ بد بخت اس قدر خراب ہوا کہ جناب ہمشیرہ صاحبہ گھر سے جب دربار میں تشریف لاتیں ، اپنا اوراد پڑھ کر روضہ سے باہر نکلتیں تو یہ سامنے سے بھاگ جاتا۔ آپ اسی کا واویلا شروع کر دیتیں۔ اس لیے بارہا میں نے سمجھایا کہ تم اس کو اپنا گروہ ہادی و پیشوا تصور کر اور رہ طریقت اختیار کر و اور ان کا فرمان بمنزلہ خدا کے فرمان جانو۔ امید ہے کہ یہ تم پر راضی ہو جائیں۔ لیکن اس بد نصیب و بد بخت نے ایک نہ سنی۔ اب آپ جو شخص ملتا اس کے آگے اسی کی شکایت کرتے کرتے جوش میں آ جاتے۔ آخر کو فرماتے میرا خدا اس کو کوڑھا (جذام) کر کے مارے گا۔ آخر کار آپ نے اس کا کھانا تک دینا بند کر دیا۔ جہاں جانے کی آپ ممانعت فرماتے اب اس نے اسی کے گھر رہنا، اسی کا کام کرنا، اور اسی سے کھانا کھانا شروع کر دیا۔ آپ نے سب کو کہہ دیا اس کو اگر ڈیرے آوے، مت رہنے دو۔ اسی طرح دو تین برس گزر گئے۔ چونکہ جب سے جناب شاہ صاحبؒ کا عرس مبارک سالانہ ۱۸۹۳ء سے شروع ہوا میرا یہ طریقہ رہا کہ یوم عرس پر بارہ دری میں بیٹھ جاتا۔ احباب دور و نزدیک کے جمع ہو جاتے۔ قوالی شروع ہو جاتی۔ کئی جگہ کے قوالی کرنے والے جماعتیں لیے آتے اور اپنا اپنا نصیبہ لے جاتے۔ ایک دن سے دوسرے دن تک تخمیناً دو اڑھائی صد روپیہ ہمارا اور احباب کا خرچ ہو جاتا۔ جتنے دن دوست آشنا اور احباب رہتے ان کے کھانے کا بندوبست میرے ہی ذمہ ہوتا۔ البتہ آمدن دربار بذمہ بے بے صاحبہ ہوتی۔ اس میں میں ہر چند دخل نہ دیتا۔ کیونکہ مجھے ان باتوں سے غرض نہ تھی اور نہ ہی ضرورت۔ بھائیوں کے ساتھ کام ٹھیکہ داری سے جو مجھے ملتا وہ مہمانوں کے کھانے پینے اور عرس کے خرچ کے لیے کافی ہوتا۔ بفضل خدا یہی دستور برسوں چلتا رہا۔

اب بے بے صاحبہ بہت کمزور ہو گئیں۔ کہنے لگی کہ اپنی قبر دیکھ لیتی تو اچھا ہوتا۔ میں نے کہا:بہت خوب۔ بسرو چشم۔ روضہ شاہ صاحب سے مشرق کی طرف گڑھا کھودنا شروع کیا۔ آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھ تم اپنی قبر بھی بنواؤ۔ میں نے پہلو تہی کی کہ واللہ اعلم میرا مرنا کہاں ہو گا۔ لیکن انہوں نے نہ مانا۔ سمجھایا بجھایا ایک نہ سنی۔ بلکہ کہہ دیا میں راضی اسی میں ہوں کہ تیری قبر میرے پہلو میں ہو۔ لاچار منظور کیا کہ خدانخواستہ ناراض ہو جائیں۔ گڑھا کھود کر کنکریٹ کے بعد فرش لگایا تو تین قبروں کا انداز بن گیا۔ میں نے کہا یہاں تو تین قبریں بنتی ہیں۔ فرمانے لگی یہ تیسری کس کی بنی ہے۔ التماس کیا کہ جناب مجھے ہر چند خبر نہیں نہ ارادہ تھا۔ لیکن تین اسامیاں تیار ہو گئیں۔ واللہ اعلم باالصواب۔ وہ خاموش ہو گئیں کہ دیکھیں قدرت سے کیا کچھ ظہور میں آتا ہے۔

قبر بنائے تھوڑے دن گزرے تھے کہ فرمانے لگے روضہ میں بیٹھے سے گرمی ہوتی ہے اس واسطے ہر سہ جانب جالی دار دریچے چھوٹے چھوٹے لگا دو۔ بنائے گئے۔ اوپر چھت روضہ سے پلستر گرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ چھت بنایا گیا۔ اندر بیٹھنے سے بڑی راضی ہوئیں۔ کہ اچانک بیمار ہو گئیں۔ اسہال شروع ہو گئے۔ میں نے کہا دربار میں گھر چھوڑ یہیں تشریف لے آئیں۔ لیکن پھر آرام ہو گیا۔ چلنا پھرنا شروع ہو گیا۔ اندریں بیماری بھی میں نے اس بد بخت سے بولا کہ تم اپنی پھوپھی سے معافی لے لو لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ اتنے میں ہمشیرہ صاحبہ نے مجھے کہا کہ دیکھو میں تجھے ضرور بلکہ بضرور کہتی ہوں کہ میرے بعد میری بجائے کفالت اختیار کرو۔ پہلے سے بھی میرا خیال نہ تھا۔ بدستور انکار کیا۔ پھر روضہ میں جا کر پیٹنا شروع کیا۔ اس قدر سخت اپنے آپ کو بد حال کر دیا کہ مرنے تک کا اندیشہ لا حق ہوا۔ دل میں بہت خوف پیدا ہوا کہ خدا نخواستہ کہیں آپ ناراض ہو جائیں اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔ آپ کو تسلی دی کہ گبھرائیں نہیں۔ پھر بھی یہی فرمایا کہ جب تک تم میرا کہا نہ مانو گے میں اس طرح پیٹتی ہوئی جان دے دوں گی۔ اب چارا کیا تھا۔ منظور کیا کہ جو آپ فرماتے ہیں منظور کرتا ہوں۔ اسی وقت ایک تو مرنے کو تھیں، بہت خوش ہو گئیں۔ وجود تازہ ہو گیا۔ بدن میں توانائی پیدا ہو گئی۔ اب خوش بخوش آنے جانے لگیں۔ سردار بیگم خلف پیر شاہ صاحب ہنجرائے والے کی لڑکی جس کا ذکر آئندہ آوے گا۔ خدمت کے لیے مامور کی گئی۔ دو وقتہ روٹی کا کھلانا اور پانی وغیرہ کا لا کر دینا اندرون گھر میں شروع کیا۔ اب بہت ہی خوش ہو گئیں۔ اس طرح وقت خوشی میں گزرتا گیا۔

احباب نے کہا اب جب تم نے منظور کر لیا ہے تو وصیت نامہ بھی تولیت کا ہو جانا چاہیے۔ تو شیخ محمد دین میونسپل کمشنر محلہ سادھو کو بلایا۔ اور وصیت نامہ سفید کاغذ پر لکھوا لیا گیا۔ جس کو عامۃ الناس میں مشتہر کر دیا۔ کہ کوئی معترض آئندہ نہ ہو۔ اب محلہ چمرنگی میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ یہ ذلیل تو دربار میں چنداں قیام نہ کرتا تھا۔ محلہ کے چند مفسد پردازوں نے خفیہ سازش کی جس میں چوہدری فتح علی خاں کے دو لڑکے بھی شامل ہوئے۔ بے بے صاحبہ دربار سے گھر آ رہی تھیں جب دارا چوہدریاں کے پاس پہنچیں تو ایک آدمی نے کہا کہ مائی صاحبہ یہ دو روپے تمھارے نام آئے ہیں لے لو اور اپنا انگوٹھا لگا دو۔ آپ ایسی حرکات سے کب واقف تھیں۔ دو روپے لیے اور انگوٹھا سفید کاغذ پر لگا دیا۔ یہ خبر بھی پھیل گئی کہ چوہدریوں کی امداد سے جعلی وصیت نامہ لکھوا لیا ہے۔ بے بے صاحبہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے انگوٹھا لگا دیا ہے۔ فرمانے لگے انہوں نے کہا کہ یہ دو روپے ڈاک کے ذریعے سے کسی نے بھیجے ہیں لے لیویں اور انگوٹھا لگا دیں۔ میں نے وصیت نامہ کوئی نہیں لکھا۔ ہماری ہمسائیگی میں آغا صاحب تھانیدار رہتا تھا۔ جب اس نے یہ خبر سنی تو اس نے آدمی بھیجا کہ بلا لاویں۔ بات ٹھیک تھی۔ پھر مجھ سے مشورہ طلب کیا۔ میں نے کہا کہ اس کی بسم اللہ ہی غلط ثابت ہو رہی ہے۔ خدائی خدمت پر مامور ہونے کے لیے یہ کام اختیار کیا تھا۔ میں ایسے معاملات سننے کا عادی ہی نہ تھا۔ گو کتنا نقصان ہو فتنہ سے کوسوں دور بھاگتا۔ ہزاروں روپے چھوڑ دیے لیکن معاملہ اختیار نہ کیا۔ اب اگر کروں تو کیا؟بے بے صاحب فرماتے ہیں۔ چلو میں تھانے جاتی ہوں۔ تھانیدار تمام خاندان چوہدریاں انہی باتوں سے ناراض ہے کہ یہ ایسے برے معاملات ہمیشہ کرتے رہتے ہیں۔ اب یہ موقع ان کے ہاتھ نہیں لگوانا۔ پولیس کے لیے یہ نادر موقع تھا۔ میں نے دور اندیشی سے کام سوچا کہ اگر تھانہ میں رپورٹ ہو گئی تو یہ بہت سے آدمیوں کو گرفتار کریں گے۔ نہ چاہی مخاصمت شروع ہو جائے گی۔ چلو در گزر کرو۔ خدا پر چھوڑو۔ اور خاموش ہو رہو۔ تو اہل آئین نے کہا کہ اگر پولیس تک یہ خبر نہیں کرتے تو گجرات جا کر رجسٹری کراؤ۔ تو پھر یہ کوئی اور دستاویز بھی اگر وہ کرائیں تو منظور نہ ہو گی۔ میں نے مجبوراً مان لیا۔ گجرات گئے۔ جلالپور میں ہی پہلے ایک سار ٹیفکیٹ صحت ہمشیرہ صاحبہ ڈاکٹری لیا گیا۔ وہ ساتھ لے گئے۔ سار ٹیفکیٹ و رجسٹری تحریر شدہ چوہدری فتح محمد خان صاحب رجسٹرار ساکن کولیاں پیش کیا۔ وہ بہ پاسِ ادب بے بے صاحبہ کھڑا ہوا۔ کیونکہ یہ موضع کولیاں کے رہنے والے میاں نور حسین صاحب ڈنگہ خادم حضور سے سن چکے ہوئے تھے۔ اپنے لیے اس رجسٹری کو مبارک سمجھا اور مورخہ۔ ۔ ۔ ۔ رجسٹری فوراً تصدیق کرا دی۔ جب بے بے صاحبہ اور ہم گجرات گئے تو اس بد بخت حسیناں کے ساتھ دو چار آدمی شامل ہوئے اور دن دہاڑے چمرنگی محلہ کے مکان کے قفل توڑ کر اندر سے غلہ وغیرہ نکال لیا۔ اب بے بے صاحبہ اور ہم آئے۔ دیکھا کہ قفل ٹوٹے اور غلہ نکالا ہوا ہے۔ روپے اور پیسے الگ گئے۔ سب نے متفقہ طور تجویز کی کہ بذریعہ پولیس انہیں ماخوذ کیا جائے۔ پھر بدستور میں حائل ہوا کہ کارِ ثواب میں کارِ عذاب کیا۔ لیکن یہ میری ایک بھاری غلطی تھی۔ کہ قانون زمانہ میں بدل کا لیا جانا فساد کے ختم کیے جانے کا باعث ہوا کرتا ہے۔ لیکن پھر اپنی عادت اور فطرت ہی ہر معاملہ میں پیدا ہوتی ہے۔ آغا صاحب تھانے دار نے بھی اشارہ طلب کرنا چاہا۔ جب ہم خاموش ہوئے تو وہ بھی کیا کرتے۔ خاموش ہو گئے۔

ایسے ہی دن گزرتے گئے۔ کہ ہمشیرہ صاحبہ بیمار ہو گئے۔ سردار بیگم خدمت میں بڑی ہوشیاری سے خدمت ادا کرتی رہی۔ میں بھی جاتا رہتا۔ جب سمجھا کہ آپ زیادہ کمزور ہو رہی ہیں تو خانقاہ پر ہمشیرہ صاحبہ کو لایا گیا۔ لیکن وہاں بھی کوئی نہ تھا کہ خدمت کرتا۔ بلکہ حسیناں اگر کہیں دربار خفیہ آیا بھی تھا تو روپوش ہو گیا۔ اس لیے بے بے صاحبہ کو اٹھایا اور اپنے ڈیرے پر لے آئے۔ اس وقت سوائے میرے اور عبداللہ خان بڑیلوی کے کوئی اور نہ تھا جس کا ذکر کرتا ہوا آئندہ لکھتا ہوں۔

موضع بڑیلہ

موضع بڑیلہ میں مقام کیے جامع المتفرقین کا نو نہال عبداللہ خاں سے ملاقات ازلی کا اتفاق بنانا

اکثر دفعہ موضع چھتی ٹاہلی میں بتحریک کریم و شرف علی و رحمت خاں ہوا کرتا تھا۔ ایک روز جب چھتی ٹاہلی سے واپس ہوئے تو مولوی حفیظ اللہ صاحب جو بڑیلہ کے ایک اعلیٰ نسب خاندان سے تھے، ہمارے پہلے سے(جب یہ جلالپور میں عہدہ ماسٹری پر ملازمت کیا کرتے تھے) واقف تھے۔ بلکہ ایک دفعہ انہوں نے بذریعہ رسید بک اسلامیہ سکول جلال پور کے واسطے چندہ وصول کرنے کو دو رسید بکیں لیے کسی قدر کشمیر چندہ بھی جمع کیا تھا جو ناتمام رہا۔ اسی وجہ سے انہوں نے گزرتے ہوئے اپنے بڑیلہ میں رہنے کی درخواست کی۔ ساتھ کے احباب کو گو مشکل گزرا ، اخلاق سے بعید تھا کہ انکار کیا جاتا۔ طبیعت پر جبر کیے ماننا پڑا۔ کوئی فعل حکیم کی حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ چنانچہ اہل بصر دیکھ رہے ہیں کہ ہر ایک امر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جس کا بعض تو پہلے ہی اور بعض بعد کو نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس امر میں یہ حکمت پروردگار مضمر تھی۔ حمد خداوندی کرتے ہوئے سجدہ شکر بجا لاتے اور اپنے ہی عمل میں لاتے لاتے تمام کثرت کی آلودگی سے پاک و صاف ہوتے، اپنی ہستی سے گزرے، توحید الہی کے لبا لب بھرے ہوئے جام پیتے رہتے ہیں۔ جب مقام ہو چکا تو مولوی صاحب سے کہا کہ باہر تفریح طبع کو نکلیے۔ ہم ہر دو اور ایک نوجوان لڑکا تعلیم یافتہ مولانا صاحب کا ہمسایہ ساتھ ہوا۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مشرقی جانب میرا گزرے ایک چھپڑی پر بوہڑ کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ مولوی صاحب نے اپنے روزانہ مشرب کے موافق صوفیانہ خیالات کی تقلیدی باتیں شروع کر دیں۔ اور حدود شریعت سے باہر نکل جانے کو بمصداق کفر ظاہر کیا۔ اور بچوں کی طرح اپنے بنائے ہوئے خیالات سے ڈرنے اور مار کھانے لگے۔ میں نے بھی اپنی ہی حسب عادت اشارۃً کنایۃً چند معارف بیان کیے۔ جس سے مولوی صاحب کی عقل چکرا گئی۔ دماغ پراگندہ ہوا۔ گو میری منشا یہ نہ تھی کہ اسے تکلیف دوں لیکن ’’تا مرد سخن نہ باشد، عیب و ہنرش نہفتہ باشد۔ ‘‘ منشا تھی کہ ایک اپنے عالی نسب ہونے کے مدعی ہیں اور والد مرحوم کو جید عالم ظاہر کرتے ہیں اور سرگودھا قلعہ قدوۃ الواصلین، زاہدین و عابدین میں ممتاز تصور کرتے ہیں ، کچھ عقدہ کشائی کرتے ہوئے دماغی پراگندگی کو دور کریں گے۔ لیکن وہاں صدا بر نحاست والا معاملہ پایا۔ اتنے میں یہ نونہال عبداللہ نام اپنی فطرتی عادت کو ساتھ لیے بول اٹھا کہ اگر گستاخی نہ ہو تو جس قدر میرا دماغ رسائی کرتا ہو بیان کروں۔ یہ مسئلہ چنداں مشکل نہ تھا۔ حدود عقل کے اندر اندر رہتے ہوئے معقول آدمی شافی جواب دے سکتا تھا۔ اس کا دماغ غور طلب اور فکر رسا تھی۔ ترجمانی کرنے لگا۔ گو یہ پورے پورے جھجھکتے ہوئے ادا تو نہ کر سکا لیکن انگشت نمائی کی کہ ہمارا مطلوب فلاں طرف جا رہا ہے۔ اندر ہی اندر خدا کی صناعی کی تعریف کرنے لگے۔ کہ تو نے کیسی کیسی نادر الوجود شخصیتیں بنائی ہیں۔ جو بن پڑھے لکھے بھی ان عالموں سے جن کے دماغ بودے ہیں سبقت لے جاتے ہیں۔ اس کی باتیں دل کو بھائیں۔ خوشی ہوئی۔

رات مولانا صاحب کے تکلفات کی قید میں گزاری۔ علی الصبح رخصت ہوئے۔ مولانا صاحب سے لڑکے کی بابت معلوم کیا کہ عبداللہ نام، زمینداروں کا لڑکا، گوجر قوم سے، ہمارا ہمسایہ ہے۔ جو ورنیکلر مڈل تک تعلیم یافتہ ہے۔ میرے دماغ میں فطرتاً یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ جو لوگ علم و عقل سے منجانب اللہ تبارک تعالیٰ مزین کیے گئے ہوئے ہیں ان کو بہت خوبی حاصل ہوئی ہے۔ اگر انسان اور حیوان میں فرق ہے تو اسی نعمت غیر مترقبہ سے۔ شہر ی اور دیہاتی کے خطاب سے بھی پایا جاتا ہے اور اشرف ہونے کی بھی یہی دلیل ہے ایسا ہی حدیثات میں بھی ذکر آیا ہے۔ کہ جس پر خداوند خالق اکبر مہربانی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا کرتا ہے۔ چنانچہ یہی بہت دفعہ آیات میں آیا ہے کہ میرے عاقل و صاحب علم بندے مجھے ہر ایک ذرے میں پاتے ہیں بلکہ فرمایا ہے کہ جسے حکمت ملی اسے بہت خوبی ملی۔

اس بچے کی دماغی قابلیت اور پھر تیلا پن بہ نسبت مولانا صاحب مرغوب خاطر ہوا۔ میری ذات میں یہ بات کبھی نہیں آئی۔ کہ پیری و مرید ی، گرو و چیلا پن کوئی چیز ہے بلکہ نفس نا ہنجار کے حیلے بنائے ہوئے دکھلائی دیتے۔ چنانچہ بنی نوع انسان باہم دگر ایک لڑی میں پروئے ہوئے جواہرات ہیں۔ بھائی بہن بھی ایک دوسرے کی ذات سے مستفیض ہو رہتا ہے۔ جسے دور بین نگاہیں بہت خوبی سے پاتی ہیں۔ بلکہ عام جہان و جہانباں لازم و ملزوم عام طور پر جہاں کے وجود واحد کے لیے ایک دوسرے سے وابستہ ہے بلکہ ہمہ تن وجود عالم اس کا اپنا وجود ہے۔ جس کی خدمت و حفاظت و نگہبانی بھی آدم کا حق ہے۔ کوئی احسان کی بات نہیں ہے۔ یہ لڑکا سمجھنے میں آیا کہ ارادہ الہی سے پیدا ہوا۔ اور اللہ تعالی سے آیا ہے اور اسی نے ملایا۔

ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی سجادہ نشین کی بیماری

اچانک ایک روز اسے جلال پور میں اپنے ڈیرے پر پایا۔ آنے جانے ملنے جلنے کو کہا۔ رفتہ رفتہ مانوس ہو گیا۔ آئینہ جہان میں اپنا چہرہ دیکھنے لگ گیا۔ خوب سوجھی جس وقت رسم و رواج کی قیود کی ہانڈی پھوٹی۔ لفظوں سے گزر معنوں کے پانے کا خوگر ہونے لگا۔ مخلوق میں خالق کا بیج چھونے لگا۔ مے محبت کے مٹکوں سے شراب پیتے ہوئے شیخ اللہ دتہ کا بیمار ہونا اور اس کے آخری وقت میں اس کی قربانی کرنا، بخدا ایسے حیرت افزا عمل ہیں کہ جن کے بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔ مرحوم کی زبان سے دم بدم یہ درد بھرے الفاظ نکلتے تھے کہ کیا میرے مولا و خالق نے تمھیں میری ہی خاطر میرے درد مند دل کے زخم کاری کے لیے بلغار کو چھپائے رکھا ہوا تھا۔ ایسی ایثار و قربانی و برتاؤ کی بہت کم مثالیں دنیا میں مل سکتی ہیں۔ یہ سب منجانب اللہ تھا۔ خوش ہے وہ جسے نصیب ہو۔ ہر چند دن گزرے کہ ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی سن رسیدہ ہو چکی ہوئی تھیں۔ آپ کا آخری وقت آ گیا۔ اچانک بیمار ہو گئیں۔اس وقت سوائے عبداللہ خاں مرے پاس کوئی عزیز نہ تھا۔ احمد دین کر یم کا باغ و کنواں چھتی ٹاہلی مکمل کروا رہا تھا۔ دربار پر بیمار ہوئیں۔ بد بخت بد بخت بد بخت حسیناں اندریں حالیکہ آپ کو آخری اسہال تھے نزدیک نہ آیا۔ مجھے خبر ہوئی تو فوراً دربار پہنچا۔ آپ کی حالت دیکھے حسینے کی بد بختی پر چار آنسو بہانے لگا۔ تمام بدن آپ کا دستوں سے لتھڑا ہوا تھا، اٹھا لائے۔ ڈیرے پر پہنچا۔ پھر کیا تھا اس بندہ خدا نے اپنے تمام لباس کو اتار دیا۔ ایک دھوتی باندھ لی۔ دن رات میں بارہ چودہ دست آتے تھے۔ یہ فرشتہ غیب ہر ایک دست پر پاؤں سے لے کر ناف تک نہلاتا اور اس آسانی سے کہ تکلیف نہ ہو۔ پھر چارپائی پر لٹاتا تھا۔ آپ ہر وقت با وضو رہنا چاہتے تھے۔ عمر بھر کا خوگر کیا ہو ادر ود مستغاث اپنا عمل دکھلا رہا تھا۔ اور اپنا یارانہ ظاہر کر رہا تھا۔ جس کی وجہ سے پاک و صاف بدن کا رکھنا ضروری تھا۔ بیمار داری میں یہ دوسری مثل اللہ دتہ مرحوم کے بعد ایک سے ایک بڑھ کر تھی۔ ہمشیرہ صاحبہ کے ہر موئے بدن سے دعائیں نکل رہی تھیں کہ تمھیں خداوند ہر دو جہاں کی نعمتوں سے مالا مال کرتا ہوا کنار عافیت پر پہنچائے۔ آمین ثم آمین۔

بی بی صاحبہ دم بدم کمزور ہوتی جاتی تھیں۔ جب چھ دن انہیں دستوں کے ذریعے کمزور ہوتے ہوئے بدن بالکل خشک ہو گیا۔ تو چار بجے فجر کے قریب تھوڑی سی غشی طاری ہوئی۔ میں نے فوراً ایک ہمسائی عورت کرم بی بی کو منگایا کہ دیکھیں حلق میں سے کھنگا رکا آواز آتا ہے۔ مالش کرنے سے یہ تکلیف دور ہو۔ جب اس نے دیکھا تو ہنسنے لگی کہ بھائی صاحب یہ تو آخری وقت کے آثار ہیں۔ حلق میں کھنگار نہیں۔ ابھی کوئی دم میں یہ آواز بند ہو جائے گا۔ چونکہ اوپر والے کمرہ میں تھے اس لیے اس نے کہا کہ آپ کو نیچے اتار لیویں۔ تاکہ دم نکلنے کے بعد میت اتارنے کی تکلیف نہ ہو۔ برکت علی اپنے ڈیرے والے عزیز نے آپ کو نیچے اتارا۔ چارپائی پر ڈالا گیا۔ سب اعضا اپنی اپنی جگہ خود بخود قرار پکڑ گئے۔ اس روز فاتحہ خوانی شیخ عبدالعزیز کی لڑکی کی ہو رہی تھی۔ وہاں سے پندرہ بیس آدمی میر شمس دین وغیرہ اٹھے۔ چارپائی ملحقہ پر بیٹھ گئے۔ اور کہنے لگے کہ آؤ اور خدا کے بندوں کا مرنا دیکھو۔ کہ جہاں رولا ہے نہ مخمصہ۔ البتہ آپ نے رخصت ہوتے ہوئے بھی ہاتھ نہیں پھیلائے کہ چھوڑ چلے ہیں۔ کوئی حسرت نہیں ہے۔

تاریخ وفات ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی

نہ جینے کی خوشی نہ مرنے کا غم۔ بلکہ الدنیا سجن المومنین و جنت الکافرین کے مصداق طائر قدس اس پنجرہ کی قید سے آزاد ہو رہا تھا۔ جو حقیقت میں بہت خوش ہے۔ ابھی دو منٹ سے بھی کم عرصہ دم کے ختم ہونے میں باقی تھا کہ یک دم بڑے زور سے آواز نکلا۔ کہ بھائی میں نے ہاتھ پکڑ لیا اور کیا میں حاضر ہوں؟ اور کان کے پاس جا کر کہا کہ آپ ہم سے رخصت ہو رہے ہیں آپ اپنا کام کیے جائیں۔ دیکھا تو بدستور زبان مبارک سے درود مستغاث (جو رفیق جان تھا جس کے آپ بہت عادی تھے اور فطرت میں سمایا ہوا تھا) پڑھ رہے ہیں۔ لوگ حلقہ باندھے بدستور دیکھ رہے ہیں۔ ساڑھے چھ بجے فجر کا وقت ہے۔ قفس تن سے طائر جان پاک نکل اپنے جاناں سے جا ملا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اللہ سے تھا جو اللہ سے جا ملا۔ اسی روز ۲۸ ربیع الاول ۱۳۰۰ ھ بمطابق ۱۹ ماہ جون ۱۹۳۶ء بروز جمعۃ المبارک انتقال فرمایا۔ اور اپنی مقررہ قبر پختہ جو پہلے ہی روضہ کے مشرق میں تھی اس میں دفن ہوئے۔

حسن بی بی مرحومہ بعمر ۸۰ سال ہو کر دنیا سے دار القرار کو رخصت ہوئے۔ در حقیقت سن بلوغ سے ساری عمر جناب قادر شاہ صاحبؒ کی خدمت اقدس کا فیض حاصل کرتے ہوئے محبت کے مے خواروں میں جگہ پائی۔ حضور کی مہجوری پر بالکل موصول ہوئے۔ کیونکہ آپ کی زندگی میں آپ کا قرب تھا جو جسمانی تھا۔ اب جو آپ چلے گئے تو وصل روحانی سے بالکل سرشار ہو گئے۔ آپ کا تعین ہر وقت دل کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہوتا۔ بعض وقت بے بے صاحبہ سے باتیں بھی ہو جاتیں۔ اور جو آپ پوچھتے جواب شافی پاتے۔ یہ صرف محبت کا خاصہ ہے اور اسی خیال میں آپ دنیا سے چل بسے۔ اور ’’ الموت وصل الحبیب الی الحبیب ‘‘ کے مصداق مستحق ٹھہرے۔

آپ کا عالم شباب کے آغاز میں آنا، کنجروں بھانڈوں ڈوموں کے گھروں میں پھرانا، ہر میدان میں فتح پانا، غولان بیاباں کے سامنے آنا ، نار سے نور کا بہلاوا دیے چاہ ضلالت سے بچانا، انہیں رندان خرابات کی شان میں موجود تھا۔ چوالیس سال شاہ صاحبؒ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جس قدر یہ ناچیز آپ کے قرب کا درجہ حاصل کر چکا ہوا تھا۔ اگرچہ قربانی کرنے کو سب سے پرانی اس شمع نورانی کا طواف کرتے ہوئے، فدا ہوتے ہوئے، سبقت فی العمل دکھانا چاہتے تھے لیکن بفضل خدا کسی سے بن نہ آیا۔ اور نہ کسی نے پایا جو مزہ ہمیں خاکساروں میں آیا۔ جس نے بتائید ایزدی مقام اعلیٰ پر بٹھلایا۔ وہ اعجاز جس کی بابت آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تمھیں حسَّو سے حسُّو اخلاقی صورت میں بنا دیا ہے لیکن ڈھانچہ نہیں بدل سکا۔ اس کو صادق پایا۔ آپ بمثل

’’درمیان قعر دریا تختہ بندم کر دہ ای

باز میگوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش ‘‘

جس سے ہم نے بھی بفضل الہی حمد کا گیت گایا۔ اور صادق آیا کہ پیر وہ ہے جو مرید کے پچھلے گناہ تو بخشوا دے اور آئندہ کرنے نہ دیوے اور سنگ سنگ رہے۔

بوٹے شاہ صاحب کا نیار

چنانچہ ایک دفعہ موضع ڈنگہ میں جہاں کام ٹھیکہ داری پر مامور تھا ایک انوکھی وحشت میں کھویا۔ ڈراؤنی بھیانک صورت دل میں نظر آئی۔ جیسے جیسے اتارتا تھا ویسے ویسے غلبہ پائے سامنے دکھائی دیتی تھی۔ شاہ صاحب کے سوائے کوئی نظر نہ آتا تھا کہ اس بلائے نا گہانی سے چھڑائے۔ دوڑا دوڑا دوپہر کے وقت گرمی کی شدت میں (اس وقت مجھے معلوم نہ ہوئی) آپ کے ڈیرے پر پہنچا۔ احاطہ وسیع کے اندر مغربی جانب آپ دوپہر کا کھانا سوکھی روٹی کے ٹکڑے دانتوں کی کمزوری کے با وجود چبا رہے تھے۔ ایک نوجوان زمیندار آپ کی میراثن خادم کو کچھ دے خوش کر چکا تھا جسے کہہ رہی تھی کہ آپ کھانا کھاتے نزدیک نہیں آنے دیتے۔ کھانے کے بعد تمھاری منظوری کراؤں گی۔ اور میں دور ہی پانی کے مٹکوں کے پاس اپنی حیرت میں گم اور شرمندگی سے شرف حضوری حاصل نہ کر سکتا تھا۔ کہ اہل دید کے سامنے کوئی نقص لیے جانا اچھا نہیں ہے۔ تو آپ دور ہی سے بول دیتے ہیں۔ البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک شریف آدمی نے ٹٹی رضائی اوڑھی ہو اور اسے اچانک ایک چنگاری کہیں سے تھوڑا سا جلا دے تو وہ آدمی جب لوگوں میں رضائی اوڑھے آ جائے تو داغدار جگہ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے لیکن جو صاحبِ دید ہیں دیکھ لیتے ہیں۔ اندیشے کی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ نقص وہ وہم و خیال بیک آن آپ کے یہ کہنے سے کہ اندیشے کی کوئی بات نہیں ہے باقی نہ رہا۔ پھر میں آپ کے نزدیک جا بیٹھا۔ حالانکہ وہ بڑھیا خادم منع کرتی رہی کیونکہ وہ طالب نذرانہ تھی۔ اپنے زمیندار کو بھی لا کر پاس بٹھلا دیا۔ آپ نے پہلے جناب شاہ صاحب کی تعریف میں بہت سے کلمات فرمائے۔ اور پھر ان کی مہربانیوں کا ذکر فرمانے لگے۔ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر ذات با برکات سے ہو سکے تو آپ بھی کچھ نظر عنایت فرمائیں۔ جس میں فرمایا کہ وہ ذات والا تیرے لیے فضلوں اور بخششوں والی ہے اور بے نہایت فضل و کرم کر رہے ہیں اور کیے جائیں گے۔

چونکہ یہ کلمات بہت مبارک اور سعادت بھرے بشارت کے تھے بڑھیا نے زمیندار سے کہا کہ دیکھ آپ نے ایسے مبارک اور مہربانی کے کلمات کبھی نہیں بولے جو تمھارے لیے فرما دیے ہیں۔ تو آپ نے غصہ بھرے آواز سے فرمایا کہ میں اس بے ایمان کو کب کہتا ہوں میں تو اس لڑکے کے حق میں کہہ رہا ہوں۔ پھر تھوڑی دیر بعد میں نے اندر ہی دل میں رخصت مانگی۔ تو آپ نے پھر وہی کلمات دہرا کر کہا۔ خوشی سے جا تو۔ مولا تجھ پر بڑا فضل کرے گا۔ پھر آپ جھنجھلا کر بولے۔ میں اس بد بخت کو نہیں کہتا۔ میں تو اس لڑکے کو کہتا ہوں۔ گویا حضور کی زبان واجب الایمان کا پتہ اولیا کرام سے ملتا رہا۔

آپ تو حضور کے فیض عام کا سرچشمہ آب حیواں تھیں لیکن جب اس ان کے قدر شناس باری باری جاتے رہے تو آخر کو اس حسیناں بد بخت کے ہاتھوں صدمہ پہنچا۔ نجات پائے خوش خوش دنیا سے چل بسیں۔

البتہ دو شخصوں پر آپ کی اعلانیہ ناراضگی تھی۔ ایک تو حسیناں مذکور اور دوسرا بدھو کا لڑکا محمد دین کہ جس نے ۴۴ بیگھہ زمین موضع ٹھمکہ والی جو شاہ صاحب نے بذات خود اپنے روپے سے خرید کر بدھو کے نام لگوائی تھی اور ایک کنواں بھی۔ کہ تم نے اس زمین اور کنویں کی پیدا وار میں سے اپنے طور سالانہ حسب توفیق دے دینا ہو گا اور باقی خود کھاؤ۔ لیکن ایسا نہ کیا گیا۔ محمد دین بذات خود ہی ہضم کرتا رہا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہار نہ رہی۔ خزاں نے اپنا عمل کر دکھایا۔ باغ کو لکڑی کھا گئی۔ اور مفلس ہو گئے۔ اب زمین بھی ایک خوجہ نوشہرہ کے پاس مع کھوہ ساڑھے پانچ ہزار میں فروخت کر دی۔ جس سے ہمشیرہ صاحبہ کا غضب اس کے حق میں بھڑکا رہتا تھا۔ فرمایا کرتے کہ یہاں جلال پور سے کھانا پکا کر لے جاتی اور معماروں مزدوروں کو کھلاتی تھی۔ لیکن اس روسیاہ بد بخت نے سب کچھ فروخت کر دیا ہے اور ایک حبہ تک بھی دربار کو نہیں دیا۔ کہ میں ان کا مال فروخت کرتا ہوں۔ اگر اس وصول کر دہ روپیہ میں سے کسی قدر ان کی ضروریات پر خرچ کر دوں تو سارے کا سارا حلال ہو جائے گا۔

ان دو باتوں سے آپ آخری وقت تک رنجیدہ خاطر رہتے ہوئے دنیا سے چل بسیں۔ اور ان ہر دو کو جسے بد دعا کہتے ہیں دینے میں دریغ نہ فرماتیں۔ اور ساتھ ہی کہہ اٹھتیں کہ فقیروں کا یہ کام نہیں ہے کہ کسی کو بد دعا دیں۔ یہ جو میں کہہ رہی ہوں اپنی جانب سے نہیں کہتی۔ منجانب اللہ ان کے اعمال بد کا نتیجہ ہے جو اٹل ہے۔ اور انہیں مل کر رہے گا۔

آپ جناب شاہ صاحب کی محبت میں فنا ہو چکی تھیں۔ حضور کا تصور اب اس قدر کام کر چکا تھا کہ ہمشیرہ صاحبہ کو اپنا وجود بھی جناب شاہ صاحبؒ کا وجود ثابت ہوتا تھا۔ من تو شدم تو من شدی بالکل صادق آ چکی تھی۔ آپ کا ذکر دم بدم زبان پر جاری تھی۔ جو شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا اسی سے جناب کا ذکر شروع کر دیا کہ آپ یوں فرماتے۔ جس جگہ گئیں ان سے بھی آپ کی باتیں دوبارہ سہ بارہ کر رہی ہیں۔ ایک دم بھی اس ذکر سے باہر نہیں آتیں۔ اس ذکر کے سوا اور کسی کی بات کرنا جرم سمجھتی تھیں۔ اور نہ تقاضائے محبت دوسری بات کے کرنے یا سننے کی اجازت دیتا تھا۔ بالکل سوائے محبوب ہر ایک چیز کو جلا چکا تھا۔ اور یہ بات صادق تھی ’’کہ تو اپنے محبوب یا خدا کا اس قدر ذکر کر کہ لوگ تجھے دیوانہ کہیں ‘‘ بلکہ بعض سننے والے کہہ دیتے تھے کہ یہ ذکر ہم بارہا سن چکے ہوئے ہیں۔ آپ کیوں بار بار ہمیں سناتے ہیں۔ لیکن یہاں کسی کا کہنا کچھ اثر نہ کرتا تھا۔ ان کے پاس تمام فضائے عالم میں آپ کا تعین آپ کی باتیں اور آپ ہی کا ذکر و فکر اپنا کام پورا کر چکا ہوا تھا۔ سارا وجود رگ و ریشہ و اعضا و خون و دل جگر پر بلکہ ہر ایک موئے بدن قادر ہی قادر میں اپنی ہستی مٹا چکا ہوا تھا۔ جس فرد بشر نے کوئی اور بات کی جھٹ آپ نے اپنا ذکر شروع کر دیا۔ اگر اس نے توجہ نہ دی تو یہ خود بخود کرتی گئیں۔ ’’ذکر حبیب کم نہیں وصلِ حبیب سے ‘‘ انہیں کے حال سے پایا جاتا تھا۔

گور نے اپنی سنگت کا فرمان پورا کر دکھایا تھا۔ پس اسی میں آپ کا خاتمہ ہوا اور اسی سے جا ملیں۔ انہی کے عمل سے ہم نے بھی تعین و عشق کی حقیقت سے آگاہی پائی۔ کہ یہ حضرت عشق جہاں اپنا عمل کر دیتا ہے ایک ذرہ بھر اپنے سوا نہیں چھوڑتا۔ اور جو کام بھی مبتلائے بیماری محبت کا ہوتا ہے اس میں اسی کی طرف رجوع ہوتا ہے بلکہ چلنے پھرنے کھانے پینے تک وہی اپنا مطلوب و محبوب مدّ نظر ہوتا ہے۔

غرضیکہ ہمشیرہ صاحبہ کے انتقال کے بعد احباب آنے لگ گئے۔ جو آتا آپ کے حالات زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے بہت مسرور ہوتا۔ اور رشک کرتا ہوا خداوند عالم سے خواستگار ہوتا کہ خداوند ہمیں بھی ایسی ہی نیک و پاک و مسرور زندگی عطا کرتا ہوا حضور کے حاشیہ نشینوں میں جگہ عطا فرمائے۔

شیخ اللہ دتہ کی تاریخ وفات

شیخ اللہ دتہ نے بیمار داری ہمشیرہ صاحبہ اور ان کی تجہیز و تکفین میں ہر طرح سے پورے پورے اہتمام سے کام کیا۔ تھوڑا عرصہ نہ گزرنے پایا تھا کہ اپنی مقررہ موذی مرض میں مبتلا ہوا۔ اس کا دورہ بڑی شدت سے پیدا ہوا۔ عنوان بیمار ی میں سوائے عبداللہ خاں کے کوئی احباب موجود نہ تھا۔ البتہ نذر محمد خاں ٹھٹھہ موسیٰ والا دن میں ہر ایک امور بیمار داری میں عبداللہ خاں کا ہاتھ بٹاتا۔ اور محبت بھرے دل سے جو کام کرتا اس سے بیمار بھی متاثر ہو جاتا۔ لیکن عبداللہ خاں نے پروانہ وار فدا ہونے اور جام محبت سے سرشار ہوئے اپنے آپ کو قربان کرنے میں کسی طرح کی کمی کو نزدیک پھٹکنے نہ دیا۔ جس وقت دیکھو یہی ثابت ہوتا تھا کہ ایک مستعد اور ہوشیار نگران اپنی نوکری پر چوکنا ہو کر کھڑا ہے۔ اور حکم پانے کی انتظاری کر رہا ہے کہ ملتے ہی بجا لانے میں ذرہ برابر تساہل پیدا نہ ہو۔ یا ایسا کہیے کہ ایک عاشق زار اپنے معشوق پر اپنے آپ کو فدا کرنے کے لیے طرح طرح کے نت نئے مخلصانہ اور نیاز مندانہ طریقے اختیار کرتا ہے۔ بیمار اللہ دتہ معذور و مجبور اللہ دتہ مہجور نگاہ سے دیکھتا ہے کہ خداوند تو نے یہ نعمت غیر مترقبہ پریم و محبت کا پتلا اس میرے آخری وقت میں کہیں آج تک تو نے کہاں چھپا رکھا ہوا تھا۔ جو اس قدر قربانی کی مثلیں زندہ کر رہا ہے کہ جن کی دلیل نہیں ملتی۔ جو رات دن ایک کر دکھلا رہا ہے۔ کہ منہ سے ذرا آواز نکلنے یا حرکت کرنے پر سر پر موجود ہے۔ اول تو تمام دن رات عموماً وجود کا مالش و دبانے سے تکلیف کو رفع کرنے کی صورتیں مہیا کرتا رہتا ہے۔ کچھ دن جب ایسے ہی کرب و اندوہ کے گزر جاتے ہیں تو احمد دین بھی موضع چھتی ٹاہلی سے آ جاتا ہے۔ جو دو تین مہینہ سے وہیں اس کے کنواں اور باغ وغیرہ کے مکمل کرنے میں مصروف کار تھا۔ آتے ہی بیمار داری اللہ دتہ میں لگ گیا۔ اور حسب عادت محبت بھرے ہاتھوں سے خدمت کرنے لگا۔ اور خاموشی سے دن رات مصروف ہے۔ ۔ اب تین چار افراد کے خدمت پر مامور ہونے سے ایک دوسرے کی تکلیف میں کسی قدر افاقہ ہو جاتا ہے۔ مسٹر ڈاکٹر ٹیلر صاحب اس واسطے کہ ہمارا ٹھیکیدار اور ٹھیکیدار بھی وہ کہ جو ان ہر دو مشنری ہاسپٹل کے ڈاکٹروں مسٹر کر جو ان دنوں ولایت تھا اور ڈاکٹر ٹیلر دونوں پر اپنے اخلاق حمیدہ و پسندیدہ سے دل میں جگہ کیے ہوئے تھا روزانہ دو دفعہ خبر گیری کو آتا تھا۔ اپنی طرف سے علاج میں کمی نہ کرتا تھا۔ بلکہ دل چاہتا تھا کہ جب تک میں یہاں ہوں کسی دوسرے ٹھیکیدار سے واسطہ نہ پڑے جو کہ ہمیں باعثِ تکلیف ہو۔ لیکن یہاں تقدیر میں پیمانہ عمر لبریز ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر کیا کر سکتے تھے۔

ایک روز ڈاکٹر صاحب آئے۔ دیکھ رہے تھے کہ شیخ اللہ دتہ نے ڈاکٹر صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’کیوں جی !اب اپنی ڈاکٹری ختم کر چکے ‘‘ آپ خاموش حسرت لیکن بھرا دل لیے چلے گئے۔ اور بے چارہ وار اندر ہی اندر رخصت لی۔ اور آخری نظروں سے الوداع کہا۔ مشیت ایزدی دوسرے دن شیخ اللہ دتہ بالکل تندرست ہو گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے ڈیرے کے حمام کے نیچے غسل کر رہا ہے۔ اور سب ملوثات سے بدن کو صاف کر رہا ہے۔ نہانے کے بعد دھوتی کو بدلتا ہے اور باہر برامدہ شمالی میں اپنی چارپائی پر بخوشی بیٹھ جاتا ہے۔ بالکل گمان نہیں گزرتا کہ کسی طرح کی بیماری ہے۔ سارے ڈیرے کے آدمی راضی ہیں کہ اس موذی مرض کا دور ختم ہے۔ اتنے میں میاں حامد علی صاحب ساکن پنڈی لوہاراں اور چوہدری نذر محمد ساکن ٹھٹھہ موسیٰ ہر دو پاس بیٹھے خوش بخوش دیکھ رہے ہیں کہ اللہ کا فضل ہے۔ بیماری کا دورہ ختم ہے۔ اتنے میں میں گیا اور اس نے حسرت بھری نگاہ (جو مجھے بھولنے کی نہیں) سے مجھے دیکھا۔ اور بڑے جوش سے کہا ’’کیوں جی اب سنگت ختم ہے۔ بس یارانہ ہو چکا۔ ‘‘ ہم ہر سہ کے حواس باختہ ہوئے۔ اور پریشان حالت میں جو کچھ منہ سے نکلا وہ تحریر میں نہیں آ سکتا۔ شیخ اللہ دتہ کی ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گو یہ تندرست ہے لیکن اسے خبر مل چکی ہے کہ ضرور وقت قریب آ گیا ہے۔ جو ٹالے نہیں ٹلتا۔ پوشیدہ طور جب اس کے روزنامچہ و کھاتہ وغیرہ کو دیکھتا ہوں تو اس سے بھی پایا جاتا ہے کہ ہر ایک کا حساب کیے لینے دینے کی فہرست تیار رکھی ہے۔ بلکہ ایک جگہ میں نے لکھا ہوا پایا ’’مجھے یہ خبر ہے۔ اگر وہ مانیں تو بہتر ورنہ زور نہ دیں۔ ‘‘ ایسے ایسے معاملات پر غور کیے بالکل شبہ نہیں رہتا۔ یہی ثبوت ملتا ہے کہ اس گھر کا گھر والا، دردمند و بیمارانِ محبت کی مرہم پٹی کرنے والا رخصت ہو رہا ہے۔ لیکن کوئی اف تک نہیں کرتا۔ دلوں ہی دلوں میں جانتے ہیں مگر کہتے نہیں۔ لیکن جدائی و مہجوری کے صدمہ سے جو عنقریب آنے والا ہے چکرائے ہوئے ہیں۔ بظاہر رات تندرستی میں گزری تھی۔ وجود پر کوئی صدمہ نہ تھا۔ چاشت کا کھانا فضل گوجر ملازم نے لا کر سامنے میز پر رکھ دیا۔ اس پر کھانا جو منہ مشرق کی طرف کیے کھا رہا ہے اور میں مغربی پلنگ پر بیٹھا دیکھ رہا ہوں۔ کہ کھانا کھانے کے بعد کلّی وغیرہ کی۔ ہاتھ صاف کیے۔ اب میری طرف مغرب کو منہ کیا۔ ایک پاؤں چارپائی سے نیچے اتار کر جوتے میں ڈالا ہے۔ دوسرا پاؤں چارپائی سے اتارتے اتارتے غشی پیدا ہو گئی۔ جھٹ میں نے چارپائی سے اٹھا کر نیچے ہاتھ رکھے، سنبھالے، سرہانے پر ڈالا۔ جیسے کسی منشّی آدمی کی حالت ہوتی جاتی ہے طاری ہو گئی۔ اسی وقت شیخ عبدالعزیز دوڑا دوڑا ڈاکٹر ٹیلر کے پاس چلا گیا۔ وہ ابھی ہسپتال سے آیا ہی تھا۔ سنتے ہی دوڑا دوڑا چلا آیا۔ تھرمامیٹر لگایا۔ اور کہنے لگا کہ اس کو کوئی چیز نہ دینا حتی کہ پانی تک نہ ڈالنا جب تک خود بخود اس کو ہوش نہ آ جائے۔ تمام رات ایسے ہی غشی میں پڑے ہوئے گزر گئی۔ اس سے پہلے جب دو گھنٹے غشی میں گزر چکے تھے تو خلف الرشید اللہ دتہ کا شیخ غلام احمد اوور سیئر ملتان نے خط لکھا ہوا تھا آ گیا۔ صبح پھر ڈاکٹر صاحب تشریف لائے۔ تمام وجود کو دیکھا۔ حالت یاس اور ناامیدی میں جوش بھرے دل سے بن کہے چل دیے۔ شیخ کے اس کے اخلاق حمیدہ کی بدولت ہر دو گرویدہ تھے۔ جدائی کا اثر دل پر لیتا ہوا بنگلہ پر پہنچا۔ عبدالعزیز گیا۔ کنایتاً کہہ دیا کہ بس اب کوئی دم میں دم ختم ہونے کو ہیں۔ یہ حالت بدلنے میں نہ آئی اور نہ گفتگو تک کی۔ سب خویش اقارب اپنے بیگانے جمع ہوئے۔ پروانہ وار اس کے اخلاق کے گرویدہ تھے اور حسرت بھرا دل لیے ہوئے تھے۔ رات کے ڈیڑ ھ بجے صبح اتوار تھی عازم دار القرار ہوئے۔ تاریخ وفات ۳۰ اگست ۱۹۳۶ بمطابق ۱۰ بھادوں ۱۹۹۳ بکرمی اور ۱۲ جمادی الثانی ۱۳۰۰ ھ قرار پائی۔ جوار رحمت جناب قادر شاہ صاحبؒ میں وہ ڈاٹ تیسری جو خود بخود معمار ازل نے بنائی تھی اس میں داخل کیے گئے۔ گویا ایک طرف مغرب کو ہمشیرہ صاحبہ حسن بی بی اور مشرق میں شیخ اللہ دتہ۔ درمیانی جو راقم کے نام کی ہے ابھی خالی ہے۔ واللہ اعلم باالصواب۔

یہ شخصیت شیخ اللہ دتہ کی ایک نایاب ہستی رکھتی تھی۔ جس کے انداز، نمونے و اخلاق و عادات کا آدمی ملنا لاکھوں میں ایک بھی نا ممکن دکھلائی دیتا تھا۔ عام لوگوں سے جن جن سے اس کا تھوڑا بھی واسطہ ہوا وہ رنج کیے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ صفتیں جو خداوند نے اس میں رکھی تھیں نیاری تھیں۔ اسی سے صناع ازل کی تعریف کی جا سکتی ہے۔ جو ایسے ایسے نایاب انسانوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ یہ اسی پر بس ہے۔ کیونکہ انسان اپنے آپ اپنی ذات اپنی نسبت سے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ یہ تو ایک گندہ قطرہ ہے۔ گندگی اور پلندی کا ٹوکرا ہے۔ علمہ کی صورت اس کے اوپر کا چھلکا ایسا قابل قدر ہے کہ جو ہر کس و نا کس کے لیے مسحور کرنے والا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے ذرا سا اندر جائیں تو تیمامہ بھی خون و پاک کا بنا ہوا گندہ و عفونت دار گوشت، ہڈیاں و رگ و ریشہ سے فوراً بگڑنے والا مضغہ پایا جاتا ہے۔ جس سے اگر خدائی اوصاف نہ رہیں تو بالکل چند ساعت کے لیے بھی اپنے پاس رکھ نہیں سکتا۔ اس لیے اسی کی صفت کہ جس نے یہ بنایا ہے۔ ہونی لازمی ہے اور اسی کے لیے بقا پایا گیا ہے۔ ان بے قرار شخصیتوں پر فدا ہوتا ہوا بے قرار کر دیتا ہے۔ باوجود ایسا جاننے اور ماننے کے اس صانع کی صنعت کے گرویدہ ہوئے جاتے ہیں اور صانع سے غافل ہونے پر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔

جناب ہمشیرہ صاحبہ کے انتقال کے بعد اس بد بخت حسیناں کو لیے میرے پاس آئے کہ اسے مکان میں رہنے دیجیے۔ جو آئندہ اپنے اخلاق کو ٹھیک رکھے گا اور کوئی برا کام نہ کرے گا۔ ان حرکتوں سے جن کی وجہ سے رد کیا گیا بچا رہے گا۔ جس پر میں نے کہا کہ یہ اپنے اخلاق کے سدھارنے میں اپنے نفس پر قابو پا لے گا تو نکالا نہ جائے گا۔ بلکہ اس لائق اگر اس نے اپنے آپ کو بنا لیا تو سارے اختیار آہستہ آہستہ اس کو دے دیے جائیں گے۔ اور یہ تاکیداً کہا کہ جاؤ اپنے آپ کو ٹھیک کرو۔ دوسرا جناب ہمشیرہ صاحبہ کے ملحقہ جو دو قبریں خالی پڑی ہوئی ہیں ان پر نگاہ رکھے کہ کوئی دوسرا تیسرا آدمی مرنے پر ہماری مرضی کے بغیر داخل نہ کیا جاوے۔

میں بھی اپنے خیال میں سبکدوش ہو چکا تھا۔ اگر یہ بوجھ اٹھانا منظور کرتا ہے تو بہت بہتر ہے۔ مجھے آزادی ہو گی۔ دربار کی حفاظت اور خدمت میں آئندہ جو بوجھ میں نے اٹھانا ہو گا وہ یہ اٹھا لے گا۔ اب جب شیخ اللہ کا اس تیسری قبر میں جو قدرت نے اپنا ارادہ پورا کرنے کو بلا ہماری خواہش کے بنا رکھی تھی داخل کرنے کی صورت بن آئی۔ ڈاٹ کا در کھولنے کو احمد دین مزدور ساتھ لے کر دربار گیا۔ تو یہ بد بخت بھاگا ہوا ملحقہ زمینداروں کے پاس دوڑا دوڑا چلا گیا۔ دو تین آدمی آئے اور احمد دین کو ڈاٹ کا دروازہ کھولنے سے روکا۔ اس نے فوراً ہم کو اطلاع دی۔ تمام احباب خویش و اقربا جمع تھے۔ یہ سنتے ہی سب کے دلوں میں جوش پیدا ہوا اور اس بد بخت کی بدبختی و نالائقی پر متفق ہوئے۔ کہنے لگے یہ آپ لوگوں کا ناجائز فعل ہے کیونکہ یہ روسیاہ کبھی بھی سدھرنے والا نہیں مفتن ہے۔ ہمیشہ فساد کیے جاوے گا۔ کوتاہ اندیش و عقل سے دور ہے۔ اس واسطے ابھی سے اسے نکال دیں ورنہ آئندہ اس کی خرابیوں کی وجہ سے سب کو تکلیف ہو گی۔ پس اسی وقت اپنے ہمسایہ تھانیدار صاحب انسپکٹر پولیس کو اطلاع دی کہ یہ معاملہ ہے۔ انہوں نے دو سپاہی روانہ کیے۔ اور آپ مع زمینداروں کے روپوش ہو گئے۔

اب قرار پایا کہ وہاں کوئی دوسرا فقیر صورت درویش سیرت آدمی رکھا جاوے جو جاروب کشی کرے۔ پانی حقہ آگ وغیرہ سے ہر آنے جانے والے کی خدمت کو اپنا فرض سمجھے۔ ایک آدمی اس انداز کا مقرر کر دیا جو اپنا بستر وہاں لے آیا۔ جب یہ مشورہ قرار پایا کہ دربار کی خدمت اپنی ہی زیر نگرانی ہونی چاہیے تو اس کارِ خیر سے آئندہ آنے والے شروں کا نقشہ بنا بنایا سامنے آیا۔ جس کے مقابلہ کی تاب و طاقت اپنے میں نہ پاتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ معاملات دنیوی کا میں اہل نہیں ہوں کیونکہ یہ بھڑوں کا چھتہ ہے۔ شر و فساد کا سرچشمہ ہے۔ اس کا نیک سے نیک کام بھی اپنے ساتھ ہزاروں خرابیاں رکھتا ہے۔ اگر یہ خدمت حق ہے تو اس میں نفس کا شائبہ بھر بھی نہیں۔ زمین ہے تو وہ پہلے سے سولہ سال گزر گئے میں روضہ کے نام وقف کرا چکا ہوا ہوں۔ جس کی آمدن سالانہ دو آدمیوں کی خوراک کو بمشکل پورا کرتی ہے۔ روضہ پر نذرانہ و چڑھاوا وغیرہ کوئی نہیں آتا۔ تاہم باوجود ہمارے پاس کافی ثبوت ہونے کے ممکن نہیں ہے کہ مقابلہ کے لیے اٹھ نہ کھڑے ہوں۔ دوسرا میرے میں جب سے ہوش سنبھالا ہے عادت نہیں ہے کہ اپنی مرضی کے خلاف تھوڑا عرصہ بھی جماعت عامہ میں بیٹھ جاؤں۔ یا زیادہ لوگوں کی لمبی چوڑی باتیں سنوں اور معرکہ آرائی کروں۔ ان حالات و اخلاق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم پر اس خدمت کے لیے اہل ہونا تو بالکل ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ سب احباب گرمائے ہوئے تھے ،سب نے متفقہ فیصلہ کیا کہ کیا آپ روضہ مبارک کے نقصانوں کو برداشت کر سکیں گے۔ (یقیناً) یہ ہر گز ممکن نہ ہو گا۔ جس صورت میں کہ وہاں کی خاک پائے کو سرمہ چشم سمجھتے ہیں۔ تم برائے نام اپنا نام رکھو۔ ہم انش االلہ سب کے سب حتی المقدور جو بھی خدمت دربار کی ہو گی ہمارا بھی حق ہے، بجان و دل کرنے کو تیار ہوں گے۔ خصوصاً چوہدری فضل میر اجنالہ والے اور منشی عبداللہ بڑیلوی ہر دو عزیزوں نے کہا کہ زمیندارہ معاملات سے ہم واقف ہیں۔ اور ان کے آئین سے پوری پوری خبر رکھتے ہیں۔ انشا اللہ تعالی ہم اس بارے میں ایک ذرہ بھر بوجھ تمھاری طرف نہیں آنے دیں گے۔ اور عزیز احمد دین نے وہاں کی خدمت و حاضری و انتظام کا بتائید ایزدی عہد باندھا۔ دوسرے معاملات برادران شیخ نظام الدین و عبدالعزیز نے ذمہ لیے۔ یہ سب منجانب اللہ تھا۔ جسے میں دم بدم کہہ رہا تھا کہ میرے مولا تمھیں معلوم ہے کہ جیسا تو نے مجھے بنایا ہے اور جو میری فطرت میں رکھ دیا ہے۔ ہر چند ہر چند تو نے دنیا کی اہلیت میرے میں نہیں رکھی۔ میاں بیوی کے معاملات کے سننے ماننے جاننے تک کے قابل نہیں بنایا۔ بنی نوع انسان کی جماعتوں سے دور رکھے عمر بھر معتکف کیے رکھا۔ زیادہ گفتگو کرنے کرانے سے دور رکھا۔ جنگ و جدل و تنازع کے نزد یک تک پھٹکنے نہیں دیا۔ خویش و بیگانہ کی تمیز نہ رکھی وغیرہ وغیرہ۔ تمام صورتوں سے مستثنیٰ قرار دیا۔ اب یہ جو حکم امر تقدیر کا مقرر کیا ہوا پیش آ رہا ہے اس میں تو ہی اپنا کام آپ کرنے والا ہے۔ کہ یہ عاجز ہستی قبل ازیں مشاہدہ میں آ چکا ہوا تھا کہ جناب شاہ صاحبؒ نے ہمشیرہ صاحبہ کو فرمایا تھا کہ تم نے گبھرانا نہیں ہو گا۔ میں یہیں موجود ہوں گا۔ لیکن منہ سے نہ بولوں گا۔ البتہ تمام کام متعلقہ اس پردہ تعینات میں سے کیے جاؤں گا۔ جس کی تم نے بھال کرنی ہو گی اور پہنچاننا ہو گا۔ کہ میں کیسے اور کیونکر کر رہا ہوں۔

چنانچہ آپ کا فرمان ہمشیرہ صاحبہ کے برائے نام ہوتے ہوئے ہم دیکھتے رہے کہ واقعی بے کم و کاست سب کاموں کو آپ لوگوں میں سے بخوبی انجام دیتے رہے۔ وہ باوجود عورت وجود رکھنے کے مردانہ اخلاق سے مزین کی گئی تھیں۔ اور یہ احقر مردانہ صورت میں عورتوں سے کمزور تھا۔ جس کی تقویت کو بھی لازم تھا۔ جو وہ میرا پیارا مولا عزیز شخصیتوں سے ڈھارس دینے کو بول اٹھا۔ اور یہ دیکھنے والوں میں قرار دیا گیا

پہلے ہمشیرہ صاحبہ کے جیتے جی چند لغزشیں اس میں آئیں۔ جن سے در گزر کیا گیا۔ بعد ان کے، پہلی لغزش یہ اس سے مشیت ایزدی صادر ہوئی کہ قبر روک دی۔ اس میں بھی حکمت الہی مضمر تھی۔ اگر ایسا نہ کرتا تو مولا کا اتنا ثبوت کہاں سے ملتا۔ دوسرا مفسدہ مرداروں نے اس سے دعویٰ کروا دیا کہ مجھے جبر سے نکال مارا ہے۔ قفل توڑے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دعویٰ بھی فوجداری۔ یک طرفہ گواہی لیتے ہوئے اس کا دعویٰ خارج ہو گیا۔ بہت بہت خدا کا مشکور و ممنون ہوں کہ جس نے مجھے عدالت میں منگوایا نہیں اور آئندہ کے لیے بھی واللہ اعلم باالصواب کیا کیا حیلے سوچ رہے ہوں گے۔ جو سب کے سب بفضل خدا مفید ہوں گے۔ خس کم جہاں پاک کے مصداق ہو گا۔

انتقالات زمین کا کام منشی عبداللہ خاں نے بتائید ایزدی بڑی خوبی سے انجام کو پہنچایا سب معاملات میں اس طرح منہمک رہے کہ کوتاہی کو نزدیک تک نہ پھٹکنے دیا۔ اور ایسا ہی چوہدری فضل میر نے بغیر کسی نمائش و آلائش ظاہری کے بباطن اپنا ثبوت بفضل خدا دینے میں کمی نہ کی۔ جہاں تک اس سے بن آیا تساہل کو بیچ میں پھٹکنے نہیں دیتا۔ عزیز چوہدری نذر محمد خاں جو اخلاق حمیدہ کی ایک زندہ مثال تھا منجانب اللہ تبارک تعالیٰ ہمارے پاس موجود ہے۔ دور بینی اور دور اندیشی میں کبھی اس کی رائے نا معتبر نہیں مانی جاتی۔ اس کی مدد کے ہم بے شمار شکر گزار ہیں۔ خداوند آپ کو جزائے خیر دیوے۔ اللہ تعالی سے میری درخواست تھی اور ہے کہ میں نا اہل ہوں ایسے میں تُو ہی تو ہے۔ ان دنوں جبکہ کام کا بہت زور تھا مری شمولیت اگر چہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو لازمی تھی۔ حکمت ایزدی بائیں ٹانگ پر پھوڑے ہی پھوڑے نکال میرا کارساز حقیقی مجھے تسلی دیتے ہوئے اپنا ثبوت دے رہا تھا۔ کہ دیکھ میں کیسے کرتا ہوں؟ حکیم حقیقی، کارسازِ مطلق کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔ لیکن ہماری بینائی کم اور عقلیں کمزور ہیں۔ جو اس کے حکموں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس کی رحمت و بخشش بہت وسیع ہے۔ لیکن ہمارا دامن چھوٹا ہے جس میں سما نہیں سکتی۔

(گزشتہ تحریر میں جن جن اصحاب کا ذکر بعض جگہ مجمل طور آیا ہے آئندہ بہ شرح تحریر میں لاتا ہوں تا کہ ان کے اخلاق و عمل سے قارئین بتائید ایزدی مستفید ہوں۔)

بابا محمد شاہ صاحبؒ انڈیانوالہ

آپ دو بھائی تھے۔ بڑے کا نام کیلہ شاہ اور چھوٹے کا نام محمد شاہ تھا۔ مہاجرین کشمیر میں سے جلال پور مقیم ہوئے۔ یہاں شالبافی کا پیشہ اختیار کیا۔ یہاں کثرت سے اہل خطہ مقیم تھے۔ بڑے نے شادی کر لی۔ اس میں سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی بنام فضل بی بی نے جگہ پائی۔ لڑکا تو کشمیر چلا گیا اور لڑکی یہیں ایک خاندان اہل خطہ میں بیاہی گئی۔ آخر کیلہ شاہ کی بیوی مر گئی۔ پھر بیاہ نہ کیا۔ محمد شاہ بھی دنیا کی طرف چنداں راغب نہ ہوا۔ یہ چھوٹا تھا۔ بچوں کی طرح بھائی کے ہاتھوں پرورش پائی۔ اب جب سن بلوغت کو پہنچے۔ تو کشمیر کے اپنے خاندان سے جو لال شاہبازی کہلاتے تھے ایک لڑکی نوجوان کو بیاہ لائے۔ کچھ عرصہ بعد لڑکا پیدا ہوا۔ بیوی کا وقت زیست ختم ہو چکا تھا۔ جو پل بھر بھی کم و بیش نہیں ہو سکتا تھا۔ لڑکا بھی اور چند مہینوں کے بعد پنجاب کی گرمی کی شدت برداشت کر سکا۔ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہوئے جان دے دی۔ شیر خوار بچہ بہت خوب صورت تھا۔ محمد شاہ اسے لیے موضع میر پور میں اپنی ہمشیرہ کے پاس پہنچا کہ شاید یہ بھائی کی محبت میں اس نوزائیدہ کی پرورش کرے گی۔ اگر ایام زندگی باقی ہوئے تو زندہ رہے گا۔ اور ہم ہر دو برادران کے نام کو زندہ رکھنے کا باعث ہو گا۔ لیکن یہاں تقدیر میں یہ خیال سماعت نہ پا سکتے تھے۔ بلبلہ اور اس کا مٹنا قرار دیا جا چکا ہوا تھا۔ دو مہینہ کے بعد وہیں ہمشیرہ کی گود میں جو اپنے بچوں سے زیادہ پرورش (میں خیال) کرتی تھی، مٹ گیا۔ اپنا نام کیا نشان تک باقی نہ چھوڑا۔ البتہ محمد شاہ کے دل پر اس کا تصور کھد گیا۔ جس کا مٹنا محال ہو گیا۔ جوں جوں محمد شاہ مٹانے کی محنت کرتا یہ زیادہ سے زیادہ کھدتا۔ یہاں تک کہ گاہ بہ گاہ یاد سے بتدریج ترقی کرتا ہوا ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہنا شروع ہوا۔ اب نماز، روزہ و بندگی بھی اس بچہ کے تصور کے نیچے دبنے لگ گئی۔ جدھر دیکھتا ادھر سامنے یہی تصور دکھلائی دیتا۔ یہاں تک کہ ہر ذرا سے ذرا چیز پر بھی دیکھنے سے یہی پیدا ہوتا۔ محمد شاہ کا عالم جوانی اور زہد و اتقاء کا زور۔ یہ وہم دل پر جا گزیں ہوا کہ خدانخواستہ اگر مر گیا تو بت پرستوں میں شمار کیا جاؤں گا۔ مشرک کہ جس کی نجات نا ممکن ہے ، قعر جہنم میں ڈالا جاؤں گا۔ مومن بننے کی تمنا تھی ، کافر قرار پاؤں گا اور دیدار خدا سے محروم رہوں گا۔

اسی وہم نے رات کا سونا اور دن کا قرار حرام کر دیا۔ شہر شہر ایک جگہ سے دوسری جگہ پیروں فقیروں کی تلاش میں کہ مجھے اس بلائے ناگہانی سے نجات دلائی جائے۔ میری برائے خدا امداد کیجیے۔ مخلصی دلائیے۔ لیکن کہیں بھی اس کا علاج نہ پایا۔ اور نہ کسی چیز کا اثر ہوا اور نہ ہی دعا نے فائدہ پہنچایا۔ کئی دفعہ میر پور آیا۔ کچھ بن نہ پایا تو پھر چل دیا۔ ایک دفعہ میر پور اپنی بہن کے پاس گیا۔ اپنے درد بھرے دل کا رونا اس کے آگے روتا ہوا میر پور سے باہر لب دریا تھکا ماندہ حیران بیٹھا تھا کہ ایک ہندو ہاتھ میں مٹی کا ڈولا لیے دریا کے کنارے پر جو غاریں تھیں اور جن میں ساہدو، مہاتما اور عابد لوگ خدا سے تالی لگائے بیٹھے رہتے تھے ایک میں داخل ہو گیا۔ اور پھر فوراً ہی ڈولا چھوڑے باہر نکل آیا۔

محمد شاہ نے اس ہندو کو اپنے پاس بلایا کہ تم اس غار میں گئے اور ڈولا چھوڑے فوراً نکل آئے۔ یہاں کون صاحب ہیں؟ تو اس نے کہا کہ ایک ساہد و تارک دنیا و دین کا یہاں نو سال سے غار میں قیام ہے۔ میں ساہو کار ہوں۔ میرا اس کا عہد ہو چکا ہوا ہے کہ بارہ سال تک ایک ڈولا چھوٹا سا دودھ کا جو نیلی گائے کا ہو پہنچا دیا کروں گا۔ اور جب دودھ دینے غار میں آؤں گا، دودھ رکھ کر پچھلے پاؤں نکل جایا کروں گا۔ چنانچہ نو سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جو(مقررہ وقت) پرمیشور کی مہربانی سے پورا ہو رہا ہے، امید ہے کہ آئندہ تین سال بھی بیت جائیں گے تو خدا کا شکریہ ادا کروں گا۔

اس کے سننے سے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ضرور اس سادہو کی توجہ سے مجھے نجات حاصل ہو گی۔ بشرطیکہ یہ ساہوکار میرے ساتھ سفارش کو جائے۔ لیکن اس نے انکار کر دیا کہ مجھے حکم ہے سوائے دودھ رکھنے کے زبان سے کوئی بات نہ کروں۔ ساہوکار کے چلے جانے کے بعد جان سے تنگ آیا ہوا تھا۔ اندر داخل ہوا۔ ساہدو دیکھتے ہی شیر کی طرح گرجا۔ اور غضب ناک آواز سے بولا۔ ’’جلد نکل جا ‘‘ جس سے بے ساختہ سجدہ میں گر کر عرض کی کہ میرے حال پر خدا رسول کے واسطے رحم کیجیے۔ میری عرض سنیے اور درد مند دل کو مرہم لگائیے۔

انہوں نے فرمایا کہ اچھا۔ اپنے ناک کی نوک سے تین لکیریں نکالو۔ اور پھر شرط کرو کہ آئندہ نہ آؤں گا۔ میں نے لکیریں نکالیں۔ اور عہد کیا کہ آئندہ نہ آؤں گا۔ آپ نے کہا بولو کیا کام ہے؟ میں نے تمام کی تمام دکھ بھری داستان کہہ سنائی۔ تو جھٹ آپ نے توجہ کی۔ دیکھا تو وہ تمام سحر جو مجھ کو مسحور کیے پریشان کر رہا تھا جاتا ہوا کہیں دکھائی نہ دیا۔ ہوش سنبھالی۔ پھر مجھ سے میری تمام داستان، نام، سکونت پوچھ لی اور فرمایا کہ اچھا نکل جاؤ۔

اسی طرح خوش و خرم تین برس گزر گئے۔ نو بجے اپنے گھر پر آنگن میں نالا بن رہا تھا کہ ایک ہندو نے دروازہ پر آ کر بولا۔ محمد شاہ تمھارا نام ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ بولا تمھیں ایک ساہدو باغ میں بلاتا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ وہ کون سا ساہدو ہے؟ میرا تو کوئی واقف نہیں۔ اس کے باوجود چل دیا۔ باغ میں پہنچا۔ ابھی تھوڑا دور تھا کہ میں نے پہچان لیا کہ یہ تو غار والے صاحب ہیں۔ بے ساختہ میری زبان سے نکل گیا کہ کیڑی کے گھر نارائن آ گیا۔ آپ نے بولا کہ دیکھو محمد شاہ تم یہاں کمر بستہ ہو کر کھڑے رہو۔ کہ کوئی کتا دنیا دار میرے نزدیک سوائے میر ی اجازت نہ آوے۔

امر کی دیر تھی۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ چندے شہر میں کے باغ جو دواڑہ پر مغربی جانب اڈہ کے قریب تھا رہنے چل دیے۔ ضلع گجرات کے بعض مقامات میں رہے۔ جب ضلع سے نکلنے لگے تو مجھے رخصت دے دی۔ کہ اب تم جاؤ۔ اسی طرح سال بسال تشریف لاتے۔ میں دو تین مہینے حضور کی خدمت میں رہتا پھر چلے جاتے۔

ایک دفعہ آپ کے پاس ضلع جہلم کے کچھ آدمی ملنے کو آئے۔ مجھے حکم ہوا کہ انہیں مولوی دسوندی کے گھر لے جاؤ۔ کہنا کہ یہ خدا کے مہمان ہیں۔ ان کی بہ دل و جان خاطر کرنا ہو گی۔ جب مولوی صاحب کی ڈیوڑھی میں پہنچے تو میں نے اندر مولوی کو آواز دی کہ حضور نے مہمان بھیجے ہیں اور ساتھ ہی تاکید بھی فرمائی ہے کہ یہ خدا کے مہمان ہیں۔ اچھی طرح سے خدمت بجا لانا۔ میرے یہ کلمات زبان سے نکلنے کی دیر تھی کہ مولوی کی بیوی نے گالی گلوچ سے خوب مولوی کی خدمت کی۔ اور بولی کہ مہمانوں کو جہاں سے لائے ہو لے جاؤ۔ میں دم بخود رہ گیا۔ اور واپس آ کر مولوی کے حالات من و عن کہہ سنائے۔ آپ غضب کی حالت میں اٹھے۔ مٹھی میں کسی قدر نقدی لے لی۔ ڈیوڑھی میں آ کر فرمایا۔ ’’او نفس بد کے کتے، طالب مردار۔ اگر تمھارے گھروں میں تمھاری کڑی کا خاوند (داماد) آ جائے تو اس کے لیے سوّیاں، پراٹھے اور پلاؤ۔ اور جو خدا کے مہمان ہوں انہیں دھکے ‘‘ ۔ جو کچھ نقدی ہاتھ میں تھی اندر پھینک دی۔ فرمایا۔ ’’لے، تو اس مردار کا طالب ہے، لے۔ ‘‘ پھر تین دفعہ فرمایا۔ ’’عاق، عاق، عاق ‘‘ اور واپس چلے آئے۔ اس کے بعد جب تشریف فرما ہوتے مولوی کو نزدیک نہ آنے دیتے۔ یہ تین عالم تھے جو سالانہ تشریف لانے پر آپ کے پاس آیا کرتے۔ ایک حافظ قائم دین ساکن موضع بھکوکی، دوسرا پیر نیک عالم کا باپ ساکن کلاچور اور تیسرا مولوی دسوندی۔ فی زمانہ ان کے برابر کوئی عالم مسلمانوں میں نہ تھا۔

آخری دفعہ جب تشریف فرما ہوئے تو کہنے لگے کہ یہ میرے پاس میری تصنیف شدہ کتاب ہے۔ اس کو ایک ایک ورق کر کے جلا دو۔ میں نے عرض کیا کہ کیا ہے قیمتی کتاب ہو گی۔ فرمایا کہ تم نہیں جانتے۔ اگر یہ دنیا پر رہ گئی تو کوئی مجھے بدرد کہے گا یا کوئی موجودہ عالموں اور گزرے ہوئے مفسروں کو۔ کیونکہ میں نے جو کچھ لکھا ہے بذات خود دیکھ کر لکھا ہے۔ اور جو مفسروں اور اہل قلم نے لکھا ہے قیاس سے، سنے سنائے قصوں سے۔ میری اور ان کی بات مقابلہ نہیں کھاتی۔ حکم پاتے ہی میں نے ورق ورق کر کے تمام کتاب جلا ڈالی۔

پھر فرمایا۔ دیکھو محمد شاہ ! میں اب تمھیں نہیں ملوں گا۔ کیونکہ اب میں لنکا دیس میں چلا جاؤں گا۔ جہاں حضرت آدم کی قبر ہے۔ وہاں جا کر کسی پیڑ کے مگر (کھوہ) یا زمین کے گڑھے میں اپنے آپ کو دبا دوں گا۔ پھر جب خواہش ہو گی اس جسم سے دنیا کی سیر کروں گا۔ اور بس چلے گئے۔ گئے، گئے، گئے اور پھر نہ آئے۔

آپ بہت دنوں آپ کی صحبت میں رہے۔ اس واسطے آپ سے پوچھا کہ آپ کو علم ہو گا بلکہ بخوبی دریافت کیا ہو گا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ اور کیوں یہ لباس اختیار کیا؟ اور اس میں کیا پایا؟ اور ان کا معیار و مقصود زندگی کیا تھا؟ فرمایا ہاں میں نے پوچھا۔ اور آپ نے فرمایا کہ میں ایران کے شہر شیراز کا رہنے والا تھا۔ میرے والدین بڑے تجار اور فارغ البال تھے۔ جب تعلیم سے فراغت پائی تو شادی ہوئی۔ بچہ پیدا ہوا۔ ایک مذہبی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اس میں پایا کہ پیغمبر ﷺ سے تین صد سال پہلے ایک اہل نصاریٰ عالم بنام نے توریت میں پایا کہ پیغمبر آخر الزمان ملک عرب میں مدینہ نام شہر کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز فرمائیں گے۔ جن کا سکہ چار دانگ عالم میں پایا جائے گا۔ اور ظلمت کفر و شرک مٹا کر نعمت توحید سے دنیا کو مالامال کریں گے۔ منشا الٰہی سے اس میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اسی زندگی میں اگر ممکن ہو تو ہم آپ کی خاکِ پا سے سرمہ جسم بنائے ،نورِ بصارت حاصل کیے ،دیدارِ جاناں سے مستفیض ہوتے ہوئے ، نجات حاصل کروں گا، (تو یہ) سعادت ہو گی۔ اپنے، ہمارے محبوب کو پائے موصول ہوں گا۔ اپنی زندگی بڑھانے کے علم کو حاصل کرنے کی چارہ جوئی کرنے لگا۔ وہ علم جس سے تنفس بڑھایا جا سکتا تھا بہت جستجو کے بعد حاصل کیا۔ مدینے کی سر زمین میں آ کر اپنے آپ کو گڑھا کھود کر بہ ترکیب اکھوا بند کر دیا۔ جب حضور ﷺ کا زمانہ آیا۔ آپ مدینہ منورہ میں نزول فرما ہوئے۔ اصحابؓ سے مل جل رہے۔ ایک سفید زمین پر ایستادہ ہوئے۔ فرمایا کہ یہاں سے بوئے محبت آتی ہے، کھودنا چاہیے۔ جس میں سے ایک بت آدم نیم جان خشک نکلا۔ چند روز کی حفاظت سے اس میں قوت و توانائی پیدا ہوئی۔ اور آپ کی خدمت میں برسوں رہا۔ مشرف بہ نعمت اسلام ہوتا ہوا راہ دین اختیار کی۔

ان واقعات نے مجھے چونکا دیا کہ یہ علم ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ بن پوچھے بلائے، اطلاع و مشورہ کیے، شیراز شہر کے مغرب کی طرف چل نکلا۔ پہلی رات کھانے کو مجھے مکئی کی روٹی ملی۔ جو نہ کبھی کھائی اور نہ دیکھی سنی تھی۔ کھانے میں آئی۔ ہزار ہا شکر کرتے ہوئے اس کو کھایا۔ شوق و طلب علم میں مجھے یہ کچھ اچنبا نظر نہ آیا۔ تلاش و جستجو کرتے کرتے دارالسلطنت اسلام قسطنطنیہ میں پہنچا۔ تمام عالموں فاضلوں سے ملا۔ بہت سی تلاش کے بعد اس علم کی کتاب حاصل ہوئی۔ استاد نہ ملا۔ اب وہیں سے استاد و معلم علم تنفس کی تلاش شروع ہوئی۔ ملک ملک دشت و کوہ و بیاباں کو طے کرتا، ہر مذہب و ملت کے لوگوں سے ملتا، اس علم کے جاننے والوں کا پتہ دریافت کرتا، لیکن کسی سے اس کا نشان تک نہ پاتا۔ تاہم ناامید نہ ہوتا اور نہ تلاش مطلوب میں کمی کی راہ پاتا۔ ترکستان ہوتا ہوا چین ماچین جسے تاتار کہتے ہیں پھرا۔ مشرقی روس چھان مارا۔ چین سے ہوتا ہوا جاپان و برہما میں گیا اور ہندوستان پہنچا۔ شہروں دیہاتوں میں سادہوؤں سے ملتا ہوا آخر ایک ساہدو ہندو اس کام کے کرنے کو خوش قسمتی سے پایا۔ اجازت لی اور پنجاب میں موزوں جگہ کی تلاش میں پھرتا رہا۔

اس علم کا نام اہلِ ہنود میں جوگابھیاس کہلاتا ہے۔ پہلے بارہ سال آگ کی قبر میں، خوراک استعمال میں نہیں لانی۔ اس کے لیے علاقہ پوٹھوہار مناسب سمجھا کیونکہ اس علاقہ میں آگ بہت ہے۔ بارہ سال حسب ہدایت گزارے۔ پھر بارہ سال گلِ عباسی کی قبر میں علاقہ راجوری میں کاٹے۔ تیسرا چلہ بارہ سال کا نیلی گائے دودھ پینا لازمی تھا۔ ایک ہندو ساہو کار کی خدمت اختیار کرنے پر میر پور لبِ دریا ایک غار میں گزارے۔ گویا چھتیس سال میں طبیعت بدلی۔ کہ جس کو نہ کوئی کیڑا مکوڑا اور دیمک کھا سکتی تھی اور نہ مٹی اپنا دخل جماتی تھی۔ خداوند تبارک تعالیٰ کی امداد سے کامیاب ہوا۔ جس میں خود غرضی، خود نمائی اور نفس نے سوائے مطلوب کسی بلا میں مبتلا نہ ہوا۔ فضل ربی شاملِ حال رہا۔ چھتیس سال کے چِلّہ پر روح کی حقیقت و ماہیت کو حاصل کیے، سر کی ایک جگہ میں رہنے کا مقام بنائے، جسم کو سلائے، عالم بالا میں جانے کی طاقت کو پایا۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں برس جسم کو ایک جگہ حنوط میں رکھنے سے بغیر دم کے جینے کا علم حاصل ہوا۔

بابا صاحب سے اس علم کا انکشاف ہونے پر دنیا بھر کے بنی نوع انسانوں میں عجیب و غریب خیالات و ارادے و ہمت کے آدمی سننے میں آئے۔ خالقِ کون و مکان کی قدرت کا مطالعہ کیے اور صانع ازل کی صنعتوں کو نیاری سے نیاری صورتوں میں دکھلائی دیتے ہوئے پایا گیا۔ کہ اس مالک کون و مکان نے طرح طرح کی انواع و اقسام کی مخلوقات پیدا کی ہے۔ جن میں نیارے سے نیارے اوصاف اور علیحدہ علیحدہ علم و ہنر و خوبیاں بھری ہیں۔ جو اہل دید مطالعہ قدرت کرنے والے مشاہدہ الہی میں مسرور و معمور ہیں دیکھے جائیں، محوِ تماشائے جلوۂ جاناں ہیں۔ اس کارگاہ ہستی میں کس کس حوصلہ و ہمت کے افراد ہیں کہ فرہاد کی طرح یکہ وہ تنہا پہاڑ کاٹ کر نہر نکالنے کا تہیہ کر لیتے ہیں۔ اور خدا پر بھروسہ کیے ایک دم بھی کم ہمت نہیں ہوتے۔ اور وہ کام جس میں عقل رسائی نہیں کرتی، علم ناقابلِ عمل ہو جاتا ہے ، عشق کی وادی میں چلنے والے بے خوف و خطر کامیاب ہوتے، در مقصود پاتے، ساحلِ مراد پر پہنچتے ہیں۔

یہ کام جس میں چھتیس سال تمام نعمتوں کو چھوڑے عیش و آرام سے منہ موڑے صرف وجود کی تبدیلی میں لگ جاتے ہیں ، کیے بغیر نہیں چھوڑتے۔ اور اصحاب کہف کی صف میں جگہ پاتے ہیں۔ اور سلکِ اصفیا و اتقیا و اقطاب جہاں میں منسلک ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں عقل کے پر جھڑ جاتے ، مکر و فریب کے بازو ٹوٹ جاتے ہیں۔ ان ملائکہ الہی میں سے کوئی اس کا ساتھی نہیں رہتا۔ لیکن ایک یہ صاحب ارادہ انسان جو اشرف المخلوقات بنا جاتا ہے۔ رفرفِ دید سے تجاوز کرتا ہوا وہاں مقام اختیار کرتا ہے جہاں ما و شما، نسبتیں، تہمتیں، اشارہ، کوئی حرف کوئی آیت کوئی صدا کام نہیں دیتی۔

یہ بنی نوع انسان کہ جن کا احاطہ تحریر میں نہیں آ رہا کن لوگوں میں شمار کیا جاوے۔ البتہ سوائے اس کے چارہ نہیں، کھلے طور یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی اور اصحاب کہف کی نسبت کسی قدر ہو سکتی ہے۔ ورنہ کوئی دلیل و مثال اس جگہ صادق نہیں آتی۔

ایک وقت میں اخباروں میں پایا کہ مس اینی بسنٹ انچارج ہند محکمہ تھیالوجیکل سوسائٹی امریکہ جونہی ہندوستان میں الہ آباد اپنا اخبار جاری کیے مقیم تھی(ہمیں دو دفعہ اس امریکن بڑھیا کے دیکھنے کا اتفاق ہوا جو لیکچر دیتے ہوئے کمزوری اعصاب سے لرزاں تھی) لکھتی ہے کہ میں کوہ کیلاش میں گئی۔ جو کوہ ہمالیہ کی ایک شاخ ہے۔ وہاں غار میں بیٹھے دو آدمیوں سے ملاقات ہوئی۔ جو اب ہوش میں تھے۔ بذریعہ ترجمان بات چیت سے ظاہر ہوا کہ وہ حضرت موسیٰ ؑ کے عہد میں بذریعہ علم جوگابھیاس جو کہ ہندوستان میں قدیم سے چلا آتا ہے اپنی عمر طبعی کو اپنے قابو میں رکھے ہوئے دو تین صد سال کے بعد جب چاہیں ہشیار ہو جاتے ہیں۔ چندے دنیا میں قیام کیے پھر سو جاتے ہیں اور سینکڑوں سال سوئے رہتے ہیں۔

گو یہ باتیں محال بعید از عقل ہیں۔ لیکن جو جانتے ہیں اور علم خداوند سے واقفیت حاصل کر چکے ہوئے ہیں۔ انہیں کی مصدقہ باتیں ہیں۔ جو درست، بالکل حق و قابل اعتبار ہیں۔ معترض کی تھوڑی سی تحقیق کے بعد معلوم ہو سکتا ہے کہ ہندوؤں کے علم، ہندوؤں کی شہادت اور ساہدؤں کا عمل اس کا عام طور شاہد ہے۔

بابا صاحب نے فرمایا کہ شیرازی صاحب ایک روز تونسہ شریف جو کہ صوفیائے کرام کی بڑی بھاری گدی ہے جا نکلے۔ جمعہ کا روز تھا۔ بعد از نمازِ جمعہ مجلس میں جناب حضرت شاہ سلیمان صاحبؒ تونسوی تشریف فرما ہوئے۔ ایک نواب طشت میں اشرفیاں بھرے پیش ہوا۔ اشرفیاں تو لنگر کا خرچ تھیں ، اندر حرم میں لے جانے کا حکم ہوا۔ نواب صاحب کے واسطے آپ نے فرمایا کہ سب مسلمان بدرگاہ مجیب الدعوات ہاتھ اٹھا کر دعا کریں۔ دعا ہونے کے بعد شیرازی صاحب سے رہا نہ گیا۔ کیونکہ سچے اور ستھرے رندانہ روش رکھنے والے آزمودہ روزگار تھے۔ شاہ سلیمان صاحب کی جانب مخاطب ہو کر کہا آپ نے تو اشرفیاں گھر میں داخل کر لی ہیں اور سائل نواب کو کیا دیا ہے۔ پھر حضرت نے تمام حاضرین اہل مجلس کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ سب لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگیں کہ اللہ تعالی اس شخص کی شکل مجھے دوبارہ نہ دکھائے۔ مجلس برخواست ہوئی۔ شیرازی صاحب دربار کے اس پار کہیں جا رہے۔ جمعہ کا دن آیا۔ مجلس منعقد ہوئی۔ شیرازی صاحب اٹھے۔ مخاطب ہو کر کہا کہ کیا یہی دعا تھی جو آپ نے میرے بارے میں کی۔ کہ خدا دوبارہ مجھ کو شکل ایسے آدمی کی نہ دکھائے۔ برخلاف اس کے میں دیکھنے میں آیا۔ آپ خاموش ہوئے اور شیرازی صاحب چل دیئے۔

فرمایا کہ ایک دفعہ سلطان باہوؒ کے روضہ مبارک پر تشریف لے گئے۔ شام کی نماز کے بعد آپ نے سجادہ نشین کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میرے کھانے کا خاطر خواہ بندوبست کریں۔ سنتے ہی سجادہ نشین صاحب سٹپٹائے۔ جو کچھ منہ میں آیا کہا۔ آپ خاموش سنتے رہے۔ بعد نماز مغرب لنگر سے کھایا۔ سجادہ نشین نے معمولی طور کا کھانا بھیجا۔ آپ نے روٹی لانے والے کو بولا۔ لے جاؤ۔ ایسے ویسے کو واپس دو۔ وہ رازق بنتا ہے۔ تھوڑی دیر میں کہیں بستی سے کھانے آنے شروع ہوئے۔ آپ نے لانے والوں کو کہا کہ قرینے سے رکھتے جاؤ۔ جب بہت سے کھانے جمع ہو گئے تو آپ نے ایک آدمی کو کہا کہ جاؤ اور اس گدی کے ملا سے کہو کہ آؤ میرے رزاق کو دیکھو کہ جس کی عنایت و بخشش سے ہر طرح کے کھانے موجود ہو گئے ہیں۔ وہ آیا۔ دیکھا۔ حیران ہوا۔ دل میں خیال کیا کہ یہ کوئی عامل کامل ہے کہ جس نے تسخیر قلوب سے یہ اعجاز کر دکھایا۔ پھر خوشامد کرنے لگا کہ مجھے معافی دیویں۔ اور درخواست کی کہ مجھے بھی یہ مسخر کرنے کا طریق بتلا دیں۔ جس سے آپ نے پھر تنبیہ کی کہ او نادان !یہ میں نے تسخیر قلوب نہیں کیا۔ اللہ، اپنے رزاق سے ملتجی ہوا جس کا سب دلوں پر قبضہ اور جو ہر جگہ موجود ہے۔

فرمایا کہ ایک دن شیرازی صاحب کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ رزاق واقعی خدائے جہاں ہے لیکن بستی میں ہر ایک کو کسی نہ کسی صورت سے دیتا رہتا ہے۔ کیوں نہ ایسی صورت بن دیکھوں۔ کہ کسی کے کانوں تک خبر نہ ہو۔ ایک جنگل میں جہاں کانے کثرت سے تھے جا بیٹھے۔ تین دن تک وہیں چھپے بیٹھے گزار دیے۔ چوتھے دن چاشت کے وقت ایک بارات ہندوؤں کی کہیں جا رہی تھی۔ سڑک پر سے گزرتے ہوئے چھپڑ دیکھا۔ سب نے کہا کہ یہاں پانی موجود ہے۔ سچیتا کر لیویں۔ گڈویاں لیے جنگل میں پھیل گئے۔ اتفاق سے ایک آدمی جہاں آپ چھپے بیٹھے تھے آ نکلا۔ جو دیکھتے ہی پچھلے پاؤں بھاگا۔ سب کو اطلاع دی کہ یہاں ایک سنت مہاتما چھپے بیٹھے ہیں۔ اپنا بوجھن کرنے سے پہلے انہیں کرائیں۔ چنانچہ ہاتھ منہ دھو تھال میں پوریاں وغیرہ (جو عموماً ان دنوں بارات کے ساتھ ہوتی تھیں) ڈال، ایک گڈوی میں پانی لیے خدمت میں حاضر ہوئے۔ تھالی آگے رکھ دی۔ آپ نے ہاتھ نہ لگایا۔ تو ایک نے کہا کہ انہوں نے بات کرنی اور اپنے ہاتھ سے کھانا تیاگ دیا ہوا ہے۔ کیوں نہ ہم اپنے ہاتھ سے کھلائیں۔ ایسا ہی کیا۔ خوب پیٹ بھر کر دوسرے آدمی کے ہاتھ سے کھانا، ایسے ہی پانی پیا۔ وہ چل دیے۔ تھوڑی دیر بعد شیرازی صاحب بھی رزاق مطلق کا پتہ لگائے، مشاہدہ کیے، قوت ایمانی بڑھائے چل دیے۔

گویا ایسے ہی اعجاز سینکڑوں روزانہ ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ ہر ایک معاملہ ان کا خدا کے ساتھ تھا۔ وہ حافظ و نگہبان حقیقی جو جسم کو مرے پڑے برسوں حفاظت کرتا رہتا آپ کو کوئی گزند نہ پہنچتا۔ ہر طرح سے محفوظ رہتے تھے۔ یہ باتیں ان کے لیے کوئی بڑی نہ تھیں۔ مزید براں روحانی صورت میں اسفل کی قید سے نکل اللہ سے اللہ کی طرف پرواز کر نا مقامات کے لحاظ سے علیین ہیں۔ اپنے اصلی وطن کو ایسی جسمانی قیود میں ہوتے ہوئے جانا اور سگ نفس کو دروازے پر باندھے ملوثات سے پاک رکھنا کوئی چھوٹا موٹا معاملہ نہ تھا۔ اور پھر رمز عشق من عرف ربہٗ فقد عرف نفسہ و من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ٗ سے واقف ہونا۔ مرے پہلے مر کر، اصل سے وصل پانا مردان راہ حق کے لیے اور کیا اعجاز ہو سکتا ہے۔

میاں اللہ دتہ صاحبؒ سوک والا کے متعلقہ حالات

اولیائے کرام اور اصفیا ء اکمل کے زمرہ سے حضرت محمد پناہ صاحب قابل ذکر ہیں۔ جو مرزا محمد خورشید صاحبؒ سیالکوٹی جن کا مقبرہ رام تلائی میں مشہور عام ہے۔ جہاں سالانہ دتے شاہی خاندان اور دوسرے متعلقہ خاندان نقشبندیہ منسلک شدہ جا کر عرس کرتے ہیں۔ یہ خاندان نقشبندیہ مرزا جان جاناںؒ سے ملتا ہے۔

محمد پناہ صاحبؒ المعروف رسی وٹ (کیونکہ یہ رسی بنا کر مزدوری کیے حلال کی روزی کھاتے تھے) ان کے چار آدمی (مریدوں اور عقیدت مندان خاص میں سے) اللہ کی طلب والے نامزد حلقہ بگوش نہ تھے۔ جن میں ایک اللہ دتہ ارائیں سوک والا اس گروہ کا چوتھا رکن تھا۔ نقشبندیہ خاندان قدیم سے شرع کے پابند، دین متین پر چلنے والے ثابت ہیں۔ الا میاں دتہ صاحبؒ اور اس کے پیرو کا ر۔ انہوں نے ایک ایسا رستہ اختیار کیا ہے جو بالکل ہی شریعت اسلام کے برخلاف ہے۔ جو کسی صورت میں خواہ کچھ بھی بن آویں اس جوئے رحمت نقشبندیہ سے مل نہیں سکتی۔ بلکہ اس کی ضد کہلانے کے مستحق ہیں۔ اگر وہ اجالا ہیں تو یہ اندھیرا یا بالفرض وہ پھول ہیں تو یہ کانٹا، وہ بہار ہیں اور یہ خزاں۔ اور وہ جو تین رکن اعظم مجلس محمد پناہؒ کے ہیں بدستور سنت و آئین نقشبندیہ کے حدود کے اندر ہیں۔ سالانہ عرس محمد خورشیدؒ پر جاتے ہیں لیکن خاموش۔ ورد و وظائف کرتے ہوئے عامۃ الناس لباس میں انگشت نمائی نہیں کرتے۔ یا یہ گروہ رندان خرابات نہیں۔ جو پالکیوں پر بیٹھے، اونٹوں پر سوار ہوئے، ڈھول ڈھمکہ بجاتے، نقلیں کرتے، کودتے ناچتے، دھول اڑاتے جاتے ہیں۔ چونکہ فی ذاتہٖ میاں صاحب نے راہ رندانہ اختیار کیے۔ پیر مے خانہ بنے۔ خرابات کہلائے مجاز سے حقیقت کا کھوج لگانے کی طریق کو اختیار کیا تھا۔ جہاں تک ہو سکا اپنے ایثار میں ننگ و ناموس کی دھول کو اڑایا۔ اپنا بیگانہ خویش و اقارب اونچ نیچ کے مراتب گنوایا۔ان کے بعد اس راہ پر چلنے والا ایک منجو چک والا نظر میں آیا۔ لیکن بعد ازاں تین سیدوں بہادر شاہ و چنن شاہ و حامد شاہ نے مجاز میں ہی اپنا خوب مقیم بنے قیام فرمایا۔ اور یاران ہم سنگ کو بھی یہیں ٹھہرنے کی ہدایت کی۔

ابتدائے عمر سے آخر بڑھاپے تک ہمارا واسطہ و تعلق بذریعہ میاں حامد علی صاحب پنڈی لوہاراں پیدا ہوا۔ پہلے بابا صاحب محمد شاہ کی معیت میں پنڈی لوہاراں میں جب جاتے بہادر شاہ رکن اعظم دتہ شاہی خاندان کا بھی یہ پہلا پہلا دور تھا۔ بذریعہ مجاز جو سیلاب پر خطر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا اونچا نیچا ایک کر دیتا ہے، یہاں چل رہا تھا۔ ایک مجاز کے درس خوانی کی تعلیم دی جاتی تھی کہ اس کی ابجد کو آنکھوں کے ذریعے از بر کیا جاتا ہے۔ ان آیات الہی کو دل پر نقش کیا جاتا ہے۔ آنکھوں میں جگہ دی جاتی ہے۔ جن سے نورِ بصارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسفل سے علیین کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ انسانی صفات سے ترقی کرتے ہوئے ملکوتی صفت بن جاتے ہیں۔ اس گھر کا طواف کرتے ہوئے گھر والا مل جاتا ہے۔ براق عشق پر سوار ہوئے فرش سے عرش پر مقام کیا جاتا ہے۔ گویا ہر ایک درس خوان کو یہی تعلیم تھی۔ اور زن و بچہ و مرد سب زنانہ لباس میں ملبوس، زیور پہنے، مزاحیہ انداز میں گفتگو کرتے۔

میاں صاحب حامد علی کے والد بھی اسی خاندان کے عقیدت مندوں میں تھے۔ بہادر شاہ کی نمائش کے بہت آدمی گرویدہ ہوئے۔ عام عورتیں بھی مسحور ہوئیں۔ ان میں دو نے اپنی ہستی سب کچھ دین و ایمان، خویش و اقارب، ننگ و ناموس، خاوند و ماں باپ و برادر خدا کے نام پر بھینٹ کر دیے۔ ہم بھی یہ مردانہ روش دیکھتے مرحبا بولتے۔ کہ مرد ہوں تو ایسے کہ باوجود سب عیش کے سامان مہیا ہونے کے اور ذرہ ذرہ پر غولان بیاباں کے دھوکہ دینے کے ایک دم بھی نفس پر ملتفت نہیں ہوتے۔ زبردست شاہ سوار کی طرح مرکب نفس پر ترکتازی کرتے ہوئے یلغار کیے جاتے ہیں۔ اور کہیں اکھڑتے نہیں۔ یہ پایا جاتا تھا کہ

درمیان قعرِ دریا تختہ بندم کر دہ ای

باز میگوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش

کے مصداق عمل ہو رہا ہے۔ کیوں نہ تحسین و ستائش کے قابل ہوں۔ جس سے انہی ایام میں میاں صاحب حامد علی نے اپنی ملکیت میں سے ایک بیگھہ سے زیادہ زمین مزروعہ جو بہت اچھی تھی راہ خدا میں بہادر شاہ کو وقف کر دی۔ کہ اس سے یہ غرض تھی کہ اس ابدی زندگی والے شجر کا یہاں قیام ہو گیا، نصب ہو جڑیں پکڑ گیا۔ جو اس کا پھل کھائے گا زندگی جاوید سے ممتاز کیا جائے گا۔ مرنے جینے سے چھوٹے گا۔ زنانِ خریداران دنیا سے نکلے۔ طور پر چڑھ موسیٰ وار تجلیات سے مستفیض ہو گا اور کہے گا۔

برا بر طورِ عشقِ او اگر داری سر مستی

تو موسیٰ وار در صورت تماشہ کن تجلی را

ملائک سجدہ آوردے بہ پیش آدم معنی

کہ اندر صورت آدم بدیدہ آں تجلی را

گمان غالب ہوا کہ یہ پنڈی لوہاراں نہیں مدینۃ الفقرا ہے۔ مشیت ایزدی کچھ عرصہ بعد کچھ اور کا اور ہی عالم نظر آیا۔ (پہلے) بہار ہی بہار تھی۔اب خزاں کے جھونکے چلنے لگے۔ وہ جو ملائک صورت تھے شیطان سیرت نظر آنے لگے۔ وہ آدم جس کے واسطے ملائک کو حکم ہوا تھا کہ فسجدلہ آدم اب وہی دانہ کے کھانے سے جنت سے باہر نکالا جاتا ہے۔ وہ لباس نورانی اتروا کر جیل خانہ دنیا کا لباس جو عناصر کے اعتدال پر موقوف ہے بھونڈا اور غیر اعتباری ٹھونسا جاتا ہے۔ وہی حوریں اور غلمان جو خاک پائے آدم کا سرمہ چشم بنانے کو فخر سمجھتے تھے ریش شیخ کو پکڑے کشاں کشاں پائمال کیے۔ دھول اڑائے عامتہ الناس کی تفریح کو ٹکے ٹکے پر بک رہے ہیں۔ غیرت مند اس نیرنگی دنیا کا تماشا دیکھتے ہوئے کوسوں بھاگ رہے ہیں۔ اور کانپتے ہوئے الاماں الاماں پکار اٹھتے ہیں۔ یاران قدح خوار زہر حلال کے جاموں کو منہ لگائے جدھر دیکھو ہلاک ہو رہے ہیں۔ گندم نما جو فروشی کا علم ہونے پر خریدار بنے رقمیں دے رکھیں، واپسی سرمایہ کی ناکامی میں دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ یہیں جزا و سزا کا بازار گرم دیکھتے ہوئے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اپنا علم و عقل زہد و اتقاء اپنی ہستی کی نفی کرتے سر چھپائے بھاگے خدا کی پناہ کے بغیر کہیں ٹھہرنے کی جگہ نہیں پاتے۔

یہاں اس خدائی کھیل میں نیارے سے نیارے نتیجے نکلتے اور راز منکشف ہو تے ہیں۔ دور بین نگاہیں دور سے ہی نزدیک والے کو پاتے ہوئے اپنی ہستی سے گزرے۔ سارے کی ساری مستی کھو بیٹھتے ہیں۔ اور شکریہ کے ساتھ اپنے ولی نعمت کے شکریہ میں لگے، اس کی حمد و ثنا کے گیت گاتے عجز و انکسار کی فضا کو پیدا کر دیتے ہیں۔

مزید بر آں اسی بیان میں تحریر کر نا لا حاصل ہے۔ اہلِ دید کے لیے اشارہ ہی بس ہے۔ اسی سلک گوہر بار میں وہ کانچ کی سی آبداری رکھنے والے گو بظاہر چمک دمک میں دل ربائی کرتے سب سے نمائش زیادہ رکھتے ہیں۔ لیکن آخر کا ٹکرانے یا جانچنے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کہیں وہ رنگ، وہ چمک دمک دکھائی نہیں دیتی۔ ذلیل و خوار ہوئے جاتے ہیں۔ گو اسی تماشہ گاہ عالم میں طرح طرح کے نیارے سے نیارے اچنبا اور بوالعجب کھیل ہوتے ہوئے دیکھنے والوں کی نگاہوں میں گھسے چلے جاتے ہیں۔

یار من از کمال رعنائی

خود تماشہ و خود تماشائی

کا ثبوت اہل دید کو پورا پورا مل رہا ہے۔ ان کی نظروں میں غیر کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔ اسی ایک ہی منظم حقیقی کے جوہروں اور صنعتوں کو جانے اور مانے اپنی قوت مشاہدہ کو بڑھائے خود شاہد و مشہود ہوئے جاتے ہیں۔ اپنی ہستی کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ بہ کمال تحقیق و تصدیق صدق لائے مان جاتے ہیں۔ کہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ ایک ہی یکہ و تنہا بلا تھکان و تکلیف عرش سے لے کر فرش تک اور جو کچھ اس کے درمیان میں ہے چلاتا ہوا آئینہ جہاں بنائے اپنے آپ کو دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ اس بوالعجب کھیل کود میں ان پیران ریا کار کا کھیل غولان بیاباں کی طرح بہت ڈراؤنا اور بھیانک دکھائی دیتا ہے۔ جو پہلے مرغوب و پسندیدہ خاطر، دلوں کو اپنی طرف کھینچے لیے جاتا ہے۔ شگفتگی میں یہ شجر ابتدائی حالت میں جب ہو تو مرغوب و محبوب ہوتا ہے لیکن جب یہ پھلتا پھولتا ہے تو اس کا پھل بہت بد ذائقہ، کڑوا، زہریلا اور مہلک ثابت ہوتا ہے۔

چنانچہ میاں حامد علی صاحب جو صحیح النسب شریف خاندان سے شریف الطبع جویائے حق تھا یہی رنگ ڈھنگ چمک دمک دیکھے فریفتہ ہوا۔ اپنی ذات و خاندان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جو اچھے سے اچھا قطعہ اراضی قابل زراعت تھا خدائی خدمت سمجھ کر بطبیعت خاطر دے دیا۔ اور اسی رنگ میں رنگا جانے لگا۔ لیکن جب کچھ عرصہ گزرنے پر اسے صحیح طور معنوی صورت میں اندرونی حالات معلوم ہوئے تو ثابت کیا کہ یہ فرقہ جو پنڈی لوہاراں یا اس کے ملحقہ علاقہ میں ہے سب کا سب گندم نما جو فروش ہے۔ کبیدہ خاطر ہوئے دم بخود رہ گیا۔

مستوار و مجذوب لوگوں کے حالات جو میرے ایام زندگی سے کسی قدر پہلے یا سامنے گزرے ہیں

لال شاہ صاحب مجذوب

سکھوں کے زوال اور انگریزوں کے ابتدائی ایام میں لال شاہ صاحب گجرات میں شہرہ عام رکھتے تھے۔ ان کی بہت سی باتیں لوگوں کے دیکھنے میں آئیں۔ نیارے سے نیارے اعجاز دیکھے۔ کشمیری کمہاروں کے خاندان سے تھے۔ کشمیری و پنجابی زبان کی مہارت رکھتے تھے۔ چارپائی پر بیٹھے کبھی کبھی چارپائی کے دونوں بازو لیے زور زور سے چلا چلا کر کہتے تھے۔ مجھے اس ذوالفقار کی قسم ہے، مجھے اس دلال کی قسم ہے اور کبھی کہتے مرا روح جمنا تک ہے۔

گویا ایسی ایسی مجذوبانہ بڑ مارتے تھے کہ سننے والے جو اس بولی کو نہ سمجھتے تھے حیران ہوتے۔ اس کے اعجاز اس قدر بیان کرتے جو بہت ہی طوالت پذیر ہیں۔ جس سے ہمیں یہ غرض ہے کہ ثابت کریں کہ اس شخصیت سے جو یہ صدا پیدا ہوتی تھی کہ میں کرنے والا فاعل حقیقی ہوں۔ میرے اختیار میں ہے کہ کسی کو ماروں یا جلاؤں، دکھ د وں یا سکھ۔ ایسی باتیں جو دور از قیاس و بعید از عقل ہیں ان مجذوبان الہی کی زبان سے سننے میں آتی ہیں کہ معنی رکھتی ہیں۔ گجرات میں ہی ان کا انتقال ہوا اور عام گورستان مشرقی میں دفن کیے گئے۔

جنگو شاہ صاحب مجذوب:

ضلع گجرات میں لال شاہ صاحب کے بعد عامۃ الناس میں مشہور ہوئے۔ جو اسی ضلع کے رہنے والوں میں سے تھے۔ اس کے والدین تیلیوں کا کام کرتے تھے۔ آپ قدو قامت کے بڑے، توانائی میں زبردست تھے۔ کسی سرمست حق کی نظر میں آئے۔ اور مجذوب ہوئے۔ ابتدائے زمانہ میں سورج کو کھڑے کھڑے دیکھتے رہتے۔ فجر سے دوپہر تک کی مشق سے تجاوز کرتے کرتے شام تک بھی دیکھ سکتے۔ جس سے جذبات بڑھتے گئے۔ پہلے گجرات سے مغرب کی طرف موضع سوہل میں مقیم ہوئے۔ جہاں قدرت اللہ ان کا خادم ہوا۔ پھر موضع لالہ موسیٰ میں ڈیرہ لگائے رکھا۔ ابھی یہاں چنداں رونق نہ تھی نہ جنکشن شٹیشن وغیرہ۔ کہنے لگے کہ یہ چھوٹا لاہور ہو گا۔ ان کے بعد جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا پورا پورا ظہور ہوا۔ کچھ عرصہ رہنے کے بعد آپ موضع کھوکھر میں چلے گئے۔ اور وہیں آپ کا انتقال ہوا۔ اور بعد میں روضہ بنایا گیا۔ جہاں عام لوگ آیا کرتے ہیں۔

جناب قادر شاہ صاحبؒ بھی آنکھوں کی بینائی اچانک چلے جانے سے اپنے خادم صادق کو ساتھ لیے حضور میں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ آنکھیں تو جو کتا آتا ہے اسے درکا دیتی ہیں جس سے ان کی فکر کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ جو دل کی ہیں کھولے دیتا ہوں۔ جس سے جناب قادر شاہ صاحبؒ بہت مسرور و مخمور واپس ہوئے۔ وہ جو مطلوب تھا اس کا قرب حاصل ہوا۔ سامنے دکھلائی دیا۔ اور بے علت نظر آنے لگا۔ جس سے آپ نے جناب جنگو شاہ صاحبؒ کے کے اوصاف میں ایک مرثیہ لکھا۔ جس کا پہلا مصرع یہ ہے۔

الف اللہ برہنہ ہو کے بابا بیٹھا پل تے ہو

آئے گئے دی خبر اوہ رکھے عرش معظم سنبھل کے ہو

یا

آئے گئے دی خبر اوہ دیوے اپنے آپ محل تے ہو

چنانچہ آپ نے بابا صاحب سے ملاقات کرنے کا ذکر مجھ سے خاص طور پر مخاطب ہو کر فرمایا اور ان کے اوصاف جو حسب شان تھے ظاہر فرمائے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ آپ فی زمانہ اولیائے کرام کے زمرہ میں بمنزلہٖ کمشنر تھے۔ گویا اس مدارج علیا تک خدائی کر رہے تھے۔ جس کے سمجھنے اور جاننے سے ہم قاصر ہیں۔ کیونکہ اولیا رااولیا می شناسد۔ البتہ میرا مطلب جس کی طرف میری تحقیق خامہ فرسا ہے کہ یہ اولیائے کرام اپنے اپنے زہد و اتقا کے بموجب منجانب اللہ مدارج رکھتے ہیں۔ اور حسب مدارج ان کی قوت و عمل ہوتی ہے۔ اور عمل میں ان کی زبان سے یہی کلمات سر زد ہوتے رہتے ہیں۔ کہ میں ہوں فلاں۔ جیسے جناب غوث الاعظم قادر محی الدین فرماتے ہیں۔

’’انا الجیلی و محی الدین اسمی اعلامی علی راس الجبال ‘‘ اور یہ خدائی آواز ہوتی ہے نہ کہ بندے کی۔

امام شاہ صاحبؒ جنڈیالہ والے

جناب امام شاہ صاحبؒ موضع جنڈیالہ میں ایک دارا میں میرے دیکھنے میں آئے۔ اس وقت سفید ریش تھے۔ دارے کا دروازہ ہر وقت بند رہتا۔ کسی خاص خاص آدمی کو اندر آنے کی اجازت ہوتی۔ جلال با کمال سے لوگ ڈرتے تھے۔ بہت کم نزدیک آتے۔ جو آتا، نقد جواب اپنے اعمال کا پائے، اپنے گریبان میں سر چھپائے، شرمندہ ہوتا اور چلا جاتا۔ دو پہر کے وقت راقم وہاں عالم جوانی میں پہنچا۔ باریاب ہوا۔ جو فرمایا۔ صادق پایا۔ آپ ہمیشہ آٹا پانی میں ڈالے پیا کرتے تھے۔ اور کوئی غذا نہ کھاتے تھے۔ اور نہ بھاتی تھی۔ اپنے وقت میں مدارج اولیا پر فائز تھے۔

سائیں کرم الہی صاحبؒ کانوالہ گجرات میں

کہتے ہیں کہ انہی سے لڑکپن میں سائیں کرم الہی صاحبؒ فیض یاب ہوئے۔ اور ان کے بعد تھوڑے دنوں میں فیضان الہی ان ہی کے ذریعہ سے فیض بخش عالم ہوا۔ آپ کا جلال عامۃ الناس کو قریب پھٹکنے نہ دیتا۔ جو آتا فوراً نقد جواب پاتا۔ جس سے لرزتے ہوئے نزدیک آنے کی ہمت نہ رکھتا۔ البتہ جس پر نظر عنایت ہوتی باریاب ہوتا۔ اس کو خدمت میں مامور فرمایا جاتا۔ اپنے وقت میں ان کا عام شہرہ ہوا۔ ہر ایک ادنیٰ اعلیٰ اپنی ضرورت کے لیے ان کے در دولت پر پہنچتا۔ آخر جب پیمانہ عمر لبریز ہوا تو۱۹۲۹ء کو دارا لبقا کو چل دیے جن کا روضہ بارہ دری سے جانب شمال مرجع خلائق دکھائی دیتا ہے۔

جناب حضرت جوایا صاحبؒ

آپ سیدوں کے خاندان سے تھے۔ آپ پر جلال کی صورت میں جمال الہی ظاہر ہوا۔ دین و دنیا اور کاروبار جہاں سے کنارہ کش ہوتے ہی جنگلوں اور بیلوں میں یکہ و تنہا پھرنے لگے۔ کسی سے کوئی تعلق نہ رکھا۔ آخر جب مامور من اللہ ہوئے تو لوگوں کو اپنی اپنی مرادوں اور ارادوں سے آگاہ کرنے لگے۔ مرجع عام ہوئے۔ آپ کے خرق عادات و کرامات کا شہرہ ہوا۔ جوق در جوق (جب آپ کا قیام موضع بسال میں ہوا) آنے لگے۔ یہ موضع گجرات سے سڑک جرنیلی پر لالہ موسی ٰ سے جاتے ہوئے دیونہ کے قریب پایا جاتا ہے۔ اسی میں اِدھر سے ادھر مستانہ وار چکر لگاتے چلے آتے۔ جب بڑھاپا پیدا ہوا تو ایک مراثن ادھیڑ عمر عورت خدمت پر مامور ہوئی۔ جہاں جاتے وہ حضوری میں حاضر رہتی۔ جو اہل غرض نذرانہ لیے ہوئے آتے سر نیاز خم کرتے اسے وہی وصول کرتی۔ جس سے رفتہ رفتہ آپ کی توجہ میں آ گئی۔ ہر چند آپ کے خاندانی سیدوں نے لالچ میں آ کر اپنا حق جتلایا لیکن باریاب نہ ہوئے۔ آخر وہیں موضع بسال میں بڑھاپے کی حالت میں قفس عنصری کو چھوڑ مدفون ہوئے۔ بعد کو بڑا بلند روضہ تیار ہوا۔ آپ کرم الہیؒ و شرف شاہؒ مجذوبان الہی کے ہم عصر ہوئے۔ مجھے تین بار آپ کی حضور ی کا شرف حاصل ہوا۔ پہلی بار جب یہ راقم کام ٹھیکہ داری پر مامور موضع ڈنگہ میں کام کرا رہا تھا۔ تو اچانک ایک خیال دل پر خود بخود مذموم پیدا ہوا۔ جس کو میں دیکھنا نہ چاہتا تھا۔ ہر چند میں اسے ہٹانے کی کوشش کرتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ غلبہ پائے جاتا۔ اور سامنے رہتا۔ جس سے مجھے بڑی نفرت پیدا ہوئی۔ اور اپنے مزہ سے بدمزہ ہوا جاتا۔ میرا مجادلہ و مجاہدہ کوئی کام نہ دیتا۔ اس کی شکل بڑھتی ہوئی نظر آتی۔ کوئی علم و عمل بھی کار گر نہ ہوتا۔ چونکہ یہ جناب حضرت شاہ صاحب قبلہ کے دنیا سے دار البقا چل بسنے کے بعد کے دن تھے۔ اگر حضور کی موجودگی میں یہ واقعہ ہوتا تو کوئی اندیشہ کی بات نہ تھی۔ کیونکہ اس وقت جونہی کوئی خیال یا وہم پیدا ہوتا تھا بن کہے اس کا جواب شافی مل جاتا تھا۔ا ور جو علمی صورت ہوتی تو خود بخود عمل پیدا ہوئی تلافی ہو جاتی تھی۔ چونکہ یہ راستہ واقعی بہت پر خطر ہے۔ لاکھوں مرحلے طرح طرح کے طے کرنے میں آتے ہیں۔ اور ہزاروں خیال غولان بیاباں کی طرح آتے ہیں۔ جو اس کے مارنے تک نوبت پہنچا دیتے ہیں۔ یا دیوانہ کیے در بدر کا خاک بسر کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اس میں رہبرِ کامل کا ہونا ضروری ہے۔ جناب قبلہ شاہ صاحب کی عدم موجودگی میری ابتدائی حالت میں نقصا ن دہ تھی۔ جب جان سے تنگ آیا۔ اس غول بیابان نے پیچھا نہ چھوڑا۔ تو ایک روز دوڑا دوڑا ڈنگہ سے دوپہر کے وقت دیوانہ وار موضع بسال میں پہنچا۔ آپ صحن احاطہ میں مغربی جانب اس وقت سوکھا اور روکھا ٹکڑا نان کا کھا رہے تھے۔ گو آپ کے دانت نہ تھے تاہم بمشکل چبائے جاتے تھے۔ چونکہ مجھے اس خیال سے ہی شرمندگی خود بخود آتی تھی جس نے نزدیک جانے سے مجھے روک دیا۔ کہ ان روشن ضمیر لوگوں کے پاس بیٹھنا ایسی حالت میں اچھا نہیں ہے۔ دور ہی خاموشی سے سر بگریبان بیٹھ گیا۔ چونکہ آپ اکیلے تھے۔ فرمانے لگے ’’دیکھو اگر کسی شریف آدمی نے کوئی نئی رضائی اوڑھی ہو اور اس پر غائبانہ طور کہیں آگ کی چنگاری پڑ جائے تو جب دیکھتا ہے کہ کسی صاحب دید آدمی کے پاس بیٹھ نہیں سکتا کہ مبادا یہ دیکھ لے۔ لیکن جو صاحب دید ہوتے ہیں۔ وہ ضرور دیکھ لیتے ہیں۔ کوئی اندیشہ کی بات نہیں ہے۔ ‘‘ یہ سنتے ہی کہ جب ان سے چھپا ہوا نہیں ہے، پاس جا بیٹھا۔ اتنے میں میراثن کے پاس ایک زمیندار آ کر کچھ روپیہ پیسہ دیا۔ چونکہ میں تو کچھ نذرانہ وغیرہ لایا نہ تھا۔ اس نے زمیندار کو پیش کر دیا۔ اتنے میں آپ نے جناب قادر شاہ صاحبؒ کے خود بخود اوصاف بیان کرنے شروع کر دیے۔ کہ آپ بہت مدارج اعلیٰ رکھتے ہیں۔ بعد کو میری حوصلہ افزائی اس قدر کی کہ جس کے میں لائق نہ تھا۔ اور بڑے مزاحیہ فقرے فرمائے۔ وہ مائی بولی (زمیندار سے مخاطب ہو کر) کہ دیکھو بیٹا آج تک آپ نے کسی کے حق میں ایسا نہیں فرمایا۔ تو بڑا خوش نصیب ہے۔ تو جھٹ بول اٹھے کہ میں تو اس لڑکے کے حق میں (میری طرف اشارہ کر کے) کہہ رہا ہوں۔ اس کو کب کہتا ہوں۔ اس کے بعد دعائیں دیں۔ مائی خاموش ہو گئی۔ ایک گھنٹہ کے بعد میں نے اندر ہی اندر رخصت طلب کی تو پھر ویسے ہی گوہر افشانی فرمانے لگے۔ کہ جاؤ تمھارا رب تمھارے ساتھ ہے۔ کوئی بات نہیں جاؤ۔ پھر وہ بڑھیا زمیندار سے کہنے لگی تو آپ نے فرمایا اس کی قبر نکلے میں تو اس لڑکے کو کہتا ہوں۔ جس سے یہ احقر بخوشی رخصت ہوا۔ اور وہ بلا جاتی رہی۔ پھر بھی دوبارہ بخوشی ملا اور آپ بشارت فرماتے رہے۔

جلال پور کے چند وقتی مجذوب

ایسے ہی میرے لڑکپن سے لے کر شہر جلال پور جٹاں میں بہت سے مستوار دیکھنے میں آئے۔ اور ان سے بالمشافہ بہت سے کلمات کرنے کا موقع ملا۔ مثلاً بابا لسہ متو ابتدائے عہد حکومت برطانیہ اور بعد میں قادر متو اور سائیں پیراندتہ، سائیں گوراندتہ و سلمیر صاحبؒ ان سب نے میرے حال پر مہربانی کی۔ اور واسطہ رہا۔ اور یہی پایا کہ ان کی انانیت الہی حسب مدارج کام کیے جاتی تھی۔ اور اپنی اپنی ولایت میں نگہبان اور محافظ تھے۔ ایسے ہی ان دنوں سائیں چراغ شاہ صاحب، جلاہ مرد، مڑیالہ میں رہتے تھے۔ جو ننگی ننگی باتیں عام سائلوں سے کرتے۔ جواب بالمشافہ ملتا۔ آپ اکثر دفعہ شہر جلال پور میں داخل ہونے کی تمنا کرتے رہے، کامیاب نہ ہو سکے۔ یہاں شہر کا مالک و نگران و محافظ بہت تگڑا تھا۔ یہی کہتا رہا کہ قادر مجھے یہاں قیام کرنے نہیں دیتا اور چلے گئے۔ جناب والد مرحوم بھی لائے تھے۔

مائی صاحبہ فضل بی بی:

اس سے پہلے جناب مائی صاحبہ فضل بی بی از خطہ کشمیر جنت نظیر وارد ہوئیں۔ اکیس سال تک یہاں ہمارے ہی گھر پر مقیم رہیں۔ اپنا گھر بنایا بلکہ جتنی مرتبہ قدوم میمنت لزوم سے مشرف کیا ، شہر و مفصلات میں تمام آبادی کے لوگ شاداں رہے۔ کسی طرح کی تکلیف ان کے شہر میں ہوتے ہوئے پیدا نہ ہوئی۔ ان کے جلال پور سے نکلنے کی دیر تھی کہ شہر پر ادبار و بدبختی کے بادل امڈے ہوئے چلے آتے۔ جلال پور سے نکل کر گجرات چندے قیام رہا۔ جھیرانوالی وغیرہ دس بارہ سال گزارتے ہوئے کنجاہ پہنچے۔ کنجاہ میں پہنچیں تو بالکل برہنگی کو اختیار کیا۔ یہاں ہی بعد ازاں امر الہی ہوا تو گجرات بیرون شہر مغربی جانب سڑک کے ملحقہ ایک سفید زمین تین برس گزارے۔ مجھے یہاں گجرات آتے ہوئے تکلیف تھی۔ کہا کہ مفصل مکان میں رہتا ہوں، چلیے۔ ڈرتی رہیں لیکن بعد میں نبی بخش نیاریہ کی ڈیوڑھی میں ڈیرہ لگایا۔ یہیں میرا مقام تھا۔ ہر ایک معاملہ میں آسانی ہو گئی۔ ۲۶ دسمبر کو جاں بحق تسلیم ہوئیں۔

آپ مائی صاحبہ کے اخلاق و عادات معجز نما تھے۔ پہلے دن با امر الہی جب کشمیر جنت نظیر سے جلال پور میں تشریف فرما ہوئیں ، کمال جوانی کا عالم تھا۔ جسم فربہ اور اعضا چکنے چپڑے ، کھلتا اور قصابہ (پہنے) رکھتی تھیں۔ جلال پور میں وارد ہوتے ہی نوجوان لڑکے بد گمان ہوئے کہ کوئی مکار عورت ہے جس نے اپنی نفسانی خواہش کے پورا کرنے کو یہ معاشرت اختیار کی ہے۔ پیچھے ہو گئے۔ تمام دن شہر میں دیوانہ وار پھرتی رہیں۔ شریر لڑکے پیچھے ہوئے۔ رات کو تندور پر قیام کیا۔ کسی سے بات چیت نہ کرتے۔ رات گزاری۔ بمشیت ایزدی صبح ہوئے ہمارے گھر پر تشریف لے آئیں۔ اب لڑکوں نے پیچھا چھوڑ دیا۔ ثابت کیا کہ یہ کوئی خدا رسیدہ مجذوبہ ہے۔ اب دن بھر شہر میں گھر گھر پھرتے۔ رات کے وقت ضرور گھر پر چلے آتے۔ گھر کے تمام افراد عورت، مرد، بچے آپ کی تعظیم کرتے۔ جناب والدہ مرحوم آپ کی بہت قدر کرتیں۔ جب کھانا تیار ہو تا تو آپ تقسیم سے پہلے چار پانچ روٹیاں لے کر کتوں کے آگے ڈال دیتیں۔ کسی کی جرات نہ ہوتی کہ کوئی آپ کا ہاتھ پکڑتا۔ خدا نخواستہ اگر کسی کو تنک مزاجی سے رنج ہوتا تو کہہ دیتیں کہ تم کون ہو؟ میں مالک ہوں۔ رفتہ رفتہ سب مانوس ہو گئے۔ شہر بھر میں آپ کا چرچا ہو گیا۔ جدھر جاتیں لوگ آپ کے گھر میں داخل ہونے کو ابر رحمت سمجھتے۔ ادھر پیراندتہ مست وار اور سلمیر بھی سامنے نہ آتے۔ قدرتی جلال سے پہلو تہی کر جاتے۔ والدہ مرحومہ کو بیہند دی سے خطاب فرماتے۔ ایسے ہی چھوٹے بھائی شیخ اللہ دتہ کو آپ نے مانوس کر لیا۔ اگر کسی روز آپ نے نہانا ہوتا تو آپ عورتوں کی طرف پردہ کرواتے

اور شیخ اللہ دتہ کو پانی ڈالنے کی اجازت دیتے۔ جس سے اس پر حالت بے خودی کی سی ہو جاتی۔ راقم نے مائی صاحبہ سے درخواست کی کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم آپ کے خادم ہیں اور اس کا یہ اجر۔ اس کو خدمت خلق کے لیے مستثنیٰ فرمائیں۔ انکار نہ کیا۔ بائیس برس تک مقیم رہے

ایک روز تمام رات کھڑی رہیں۔ پاؤں کو ورم ہونے لگا۔ سبب پوچھا تو فرمایا کہ مجھے یہاں سے تبدیل کرتے ہیں۔ ہر چند عرض کی مانتے نہیں۔ غرضیکہ چالیس روز تک یہی حالت رہی۔ کوئی درخواست منظور نہ ہوئی۔

ایک روز ایک بھینس نے سینگوں پر اٹھا لیا۔ اور دے مارا۔ ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ علاج سے اجتناب کیا۔ آخر ایک دن جلال پور سے نکل گجرات راہی ہوئیں۔ کسی سے کوئی تعلق نہ جانا۔ نہ پوچھا نہ بلا یا۔ گجرات دو سال اور پھر جھیرانوالی پھر کنجاہ سے گجرات۔ اتنے عرصے میں مستی بڑھتی گئی۔ لباس سے مستثنیٰ ہوئیں۔ بالکل برہنہ رہنے لگیں۔ ہمیشہ زمین پر ننگے بیٹھی یا لیٹی رہتیں۔

راقم کو کہتی تھیں کہ میں تمھاری سگی ماں ہوں۔ میرے دل میں بھی آپ کا بڑا احترام تھا۔ اگر میں آپ کی خرق عادات و کرامات لکھوں تو ایک کتاب چاہیے۔ آپ کا حلقہ اقتدار وسیع تھا۔ بدرجہ ولایت برہنہ رہنا اور شام سے پہلے اپنی آنکھوں کے چھپروں پر مرچیں چھڑکنا اور نمک لگانا دستور تھا کہ رات کو غفلت نہ پیدا ہو۔ تمام مرحلے دنیا کے رخصت ہونے کے طے ہو گئے تھے۔ آخر جہاں مدفون ہوئیں وہاں پہلے مقرر کیا جا چکا تھا کہ یہاں قبر ہونی چاہیے۔ ایک کنال زمین اس

ارائیں نے مقرر کی اور جنازہ میں اعلان کیا کہ مائی صاحبہ کی قبر کے لیے وقف کرتا ہوں۔ میاں نبی بخش نیاریہ نے (جن کی ڈیوڑھی میں ڈیرہ تھا) وفات پانے پر تجہیز و تکفین کی۔ قبر پختہ ہوئی۔ نلکا لگوایا اور ایک وسیع ہال اور سالانہ ایک دیگ پلاؤ مع لوازمات کرنے لگا۔ خداوند اس کو اجر عظیم سے سرفراز فرمائے گا۔

تذکرہ لاہوری شاہ صاحب

آپ سیالکوٹ میں میانہ پورہ سے باہر مغرب کی جانب ریلوے سڑک آمدہ از وزیر آباد کے مغربی کنارہ پر ایک پرانی خانقاہ میں رہتے تھے۔ مجردانہ اور مفردانہ زندگی بسر کرتے ہوئے لاہوری شاہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ پہلے تو یکہ و تنہا تھے۔ کسی سے بات چیت نہ تھی۔ کچھ عرصہ بعد لوگوں کا رجوع ہوا۔ شہر و مفصلات میں اپنے آپ سے گفتگو کرتے ہوئے پھرا کرتے تھے۔ داڑھی، مونچھ، بھنووں اور سر کے بالوں کا صفایا۔ جو کوئی بات کرتا یا مانوس ہونا چاہتا اسے بھی یہی ہدایت کرتے۔ ایک دن شہر سیالکوٹ میں پھر رہے تھے کہ ایک گھر میں (جو پٹھان کہلاتے تھے) داخل ہوئے۔ گھر کی عورتیں بڑے ادب سے پیش آئیں۔اب بال سفید ہو چکے تھے اس واسطے چنداں ستر نہ کیا جاتا تھا۔ گھر کا مالک آیا۔ وہ دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گیا۔ اپنی مستورات کو ڈانٹا۔ گھر کی مالکہ کو بہت برا بھلا کہا۔ شاہ صاحب کو ڈانٹ دکھائی کہ نکل جا۔ بے ادب ہوا۔ آپ خاموشی سے نکل آئے۔ گھر کی مالکہ یا اس شخص کی عورت جس کا نام نصیبن تھا اس کے دل میں وحشت طاری ہوئی۔ آگ لگ، مہجوری پیدا ہوئی۔ کپڑے پھاڑ ڈالے۔ گھر کے لوگوں نے بہتیرا سنبھالا۔ حفاظت کی کچھ بن نہ پڑا۔ پردہ پھاڑ کوچہ میں نکلی۔ موقع کی تاک پا کر لاہوری شاہ کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ تنگ آ کر سب پیچھا چھوڑ گئے۔ لاہوری شاہ خاموش تھے۔ کسی سے کچھ نہ کہتے نہ اسے۔ آخر سیالکوٹ سے نکل ضلع گجرات کے فتح پور گاؤں میں جہاں کبھی پہلے بھی آ کر ڈلی میں پھرا کرتے تھے، چلے آئے۔ احمد گوجر زمیندار خدمت میں حاضر ہوا۔ سینکڑوں لوگ آپ کا یہ اعجاز دیکھتے ہی پیچھے پھرنے لگے۔ میرے پاس جو منشی غلام محمد کسو کی رہتا تھا اس کا والد بھی ابتدائی حالات میں اس کا عقیدت مند تھا۔ مناسب سمجھا گیا کہ غلام محمد کو بھی اس کی بیعت میں جگہ دی جائے۔ اسے ساتھ لیے یہ احقر سیالکوٹ پہنچا۔ دل نے چاہا کہ اگر شاہ صاحب ان لوگوں سے علیحدہ ہو کر میری بات سنیں تو بہتر ہو گا۔ روشن ضمیر تھے سمجھ گئے۔ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم ہر دو ساتھ ہوئے۔ اس پل کے پاس جو جلال پور سے سیالکوٹ کی سڑک کہلاتی ہے، کھڑے ہوئے۔ میں نے کہا کہ یہ شخص آپ کے حلقہ عقیدت میں آنا چاہتا ہے۔ اس واسطے اسے اپنے مریدوں کے حلقہ میں داخل فرمائیں۔ چہ جائیکہ اس کا باپ بھی آپ کا حلقہ بگوش تھا۔ اس واسطے التماس و عرض ہے کہ یہ تمھارا تھا جو ظاہر ہوا۔ جسے ہم دیکھتے ہوئے آپ کی ذات والا صفات کو ملنے کا ذریعہ بنائیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ میرا کہنا ماننا نہیں چاہتا۔ میں نے کہا کہ آپ دست شفقت دراز فرماویں اور سہارا دیویں۔ خدا کو منظور ہوا تو ایک سرِ مُو بھی آپ کے حکم سے تجاوز نہیں کرے گا۔ دیوانہ بکار خود ہوشیار ہوتا ہے۔ ایک ذرہ برابر اپنے اوپر بوجھ نہ ڈالا۔ ہم کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا۔ واپس ہوئے۔ غلام محمد کو چکر میں ڈالا۔ یعنی مہجور ہوا۔ جو یہاں کی ابتدائی منزل ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو اس پیر زال دنیا کے پھندوں سے نکلنا محال بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہم نے بھی سمجھا کہ نگاہ میں آ گیا ہے۔اب اس نے جلال پور اور سیالکوٹ ایک کر دیا۔ ابھی یہاں ہے، تھوڑی دیر نہیں گزری کہ سیالکوٹ کا قصد کیے فوراً اپنے مولا کے دروازے پر پہنچا ہوا پایا جاتا ہے۔

داڑھی، مونچھ، سر اور بھنووں کا صفایا کیا گیا۔ سنت ہادی پر پورا عمل ہوا۔ اس سے پیشتر فتح پور جو جلال پور سے چہار میل مغرب کو ہے آنے جانے لگے۔ کیونکہ یہاں کے احمد گوجر کو اپنے حلقہ میں داخل فرما چکے تھے۔ جس نے ایک گروہ عام خادموں کا بنایا۔ آپ جب فتح پور آتے تو مائی نصیبن جو ایک دم بھی جدا نہ رہ سکتی تھی، ساتھ ہوتی۔ اس کو گرم ریگ ڈلی میں سر منڈا کر دباتے اور فرماتے کہ پخت ہو جائے۔ اس کی کیا مجال تھی کہ چوں و چرا کرے۔ جب وہاں ہوتے تو غلام محمد ساتھ لاتا۔ دس پندرہ دن ٹھہرتے۔ سب احباب جمع ہو کر آپ کا مجرا کرتے۔ بڑے مزے سے دن گزرتے۔ آپ بڑے حقائق کنایتاً بیان فرماتے۔

اب آپ کی آخر ی عمر تھی۔ حسب دستور معتقدین پر انہوں نے بھی دستِ سخا دراز کیے جود و کرم کا دروازہ کھول دیا۔ یعنی داڑھی والوں پر زیادہ ریجھتے۔ کیونکہ جیسے ہی اس پر نظر پڑتی لا محالہ کہہ دیتے کہ دیکھو کتنا کوڑا کرکٹ دروازہ پر رکھا ہوا ہے۔ حالانکہ یہ لوگ دنیوی رواج و عز و جاہ کے لیے اپنی صورت معززانہ بنائے ہوتے۔ اور یہ بالکل صفا چاہتے۔ جس کے بخت سعید ہوتے اس پر نظر ہوتے ہی اثر ظاہر ہو جاتا۔ جھٹ سر آگے رکھ دیتا۔ کہ حضور آپ کی مرضی۔ جو بھی کر لیجیے سر حاضر ہے۔ حکم ہوتا کہ داڑھی، سر، بھنووں کا صفایا کرو۔ جھٹ پٹ تعمیل ہو جاتی۔ اور زمرہ لاہوری شاہ میں داخل ہو جاتے۔ ایسے ہی جلال پور میں بہت دفعہ آتے رہے۔ آخر شاہ صاحب کا پروانہ اجل آ پہنچا۔ منشی غلام محمد کسو کی کو خبر ہو گئی۔ چل دیا۔ رویا اور چلایا گیا تو فرما رہے تھے۔

چھپڑیے جوگیئے تیں وچہ پانی نت

عاشقاں دھولَئے کپڑے لمے کر لئے چِت

۔ ۔ ۔ انتقال فرما کر دار القرار کو راستہ اختیار کیا۔ اور وہیں میانہ پورہ سے باہر مائی صاحبہ نے اسے محبت و پیار سے جس صحن میں رہائش تھی ،دفن کیا۔ مرجع خلائق ہوئے۔ پیری مریدی کا سلسلہ شروع ہوا۔ دو گروہ ہو گئے۔ ایک مائی صاحبہ کے پیرو کار بنے رہے۔ دوسرے ایک مرید تھا، اس کے۔

لیکن بعد میں مائی صاحبہ کو چھوڑ سب اکٹھے ہو گئے اور جھگڑا جاتا رہا۔ تا زیست مائی صاحبہ نے اپنا کام بڑی عزت و وقار سے کیا۔

لاہوری شاہ دراصل آپ کا زبان زد عام نام تھا۔ کیونکہ آپ نے نہ اپنا نام ظاہر کیا نہ کنیت، قوم، ملک، قصبہ بتلایا۔ لاہور سے آنے کے باعث لاہوری شاہ نام مشہور ہوا۔ آپ سالک مجذوب تھے۔ عموماً آپ کو دریائے چناب پر ریگستان میں سے گزرنے کا بہت شوق تھا۔ جس سے عام طور پر۔ ۔ ۔ پتن کے گردو نواح میں سیالکوٹ سے چلے ہوئے ٹھہرنے، پھرنے کا اتفاق ہوتا تھا۔ ایسے ہی جب احمد گوجر ساکن فتح پور کے پاس پہنچتے تو عام طور پر ڈلی فتح پور میں (وقت) گزارتے تھے۔ جس سے احمد آپ کے خادموں کے زمرہ میں ہوا۔

غرضیکہ بہت سی کرامات ظہور پاتی رہیں۔ آپ کے خادموں میں سے اکثر نے آپ کی صورت کو اختیار کیا۔ داڑھی، مونچھ، سر اور بھنووں کے بالوں تک کا صفایا کر لیتے۔ بعد وفات مائی صاحبہ سجادہ نشین رہے۔ ان کی وفات کے بعد دوسرے خادموں میں سے قابض ہوئے۔

انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔

میری غرض اس کج مج تحریر سے یہ نہیں کہ کوئی قصہ یا داستان ظاہر کروں۔ یا علمی فصاحت و بلاغت و مضمون نگاری سے ادبی دنیا میں حصہ لوں اور واقعات نگاری سے عالم فاضل کہلاؤں۔ میری غرض تو اس میں صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جو بلا کسی اغراض دنیوی راہ حقیقت حقہ کے چلنے والے اور رات دن جستجوئے حق میں جویاں ہیں اگر کسی قدر ہو سکے تو اپنے اعمال کی فہرست مرتب کرتے ہوئے اپنے عینی مشاہدات کو پائے اور اپنی ہی تحقیق میں لائے ہوئے معاملات کو پیش نظر رکھ کر خدمت ادا کروں۔ تاکہ ان صاحبان گرامی کی توجہ خاص سے ابدی زندگی کے پانے والوں کے حاشیہ نشینوں میں جگہ پاؤں۔ اور وہ راہ کہ جس کو ہم کھو چکے ہوئے ہیں جان لیں۔

٭٭٭

تشکر: کلیم احسان بٹ جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید