FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مندر کا شیر اور کماؤں کے مزید آدم خور

جم کاربٹ

ترجمہ: مقبول جہانگیر

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

مندر کا شیر

جو شخص کبھی دیبی دھورا نہیں گیا وہ اس کے گرد و پیش کے مناظر کے حُسن کا کبھی اندازہ نہیں کر سکتا۔ یہاں ‘پرماتما کے پہاڑ’ کی چوٹی کے قریب ایک ریسٹ ہاؤس ہے۔ اس ریسٹ ہاؤس کے برآمدے میں کھڑے ہو کر آپ جِدھر نظر اٹھائیں گے آپ کو ازلی و ابدی حُسن کے طلسمی نظارے دکھائی دیں گے۔ ریسٹ ہاؤس سے دریائے پانار کی ڈھلان شروع ہو جاتی ہے۔ اس وادی سے پرے پہاڑیوں کا سلسلہ ابدی برف میں کھو جاتا ہے۔

نینی تال سے ایک غیر ہموار اور پیچیدہ سڑک لوہر گھاٹ کی طرف جاتی ہے جو دیبی دھورا کے اندر سے ہو کر گزرتی ہے۔ اسی سڑک کی ایک شاخ دیبی دھورا کو الموڑہ سے ملاتی ہے۔ اسی مؤخر الذکر سڑک پر میں پانار کے آدم خور چیتے کا شکار کھیل رہا تھا کہ مجھے محکمۂ تعمیرات کے اوورسیز نے بتایا کہ اس چیتے نے دیبی دھورا میں ایک شخص ہلاک کر دیا ہے۔ لہذا میں دیبی دھورا کی سمت چل پڑا۔

اپریل کی ایک گرم دوپہر کو ابھی میں دیبی دھورا کے ریسٹ ہاؤس میں پہنچا ہی تھا اور چائے سے خود کو تازہ دم کر رہا تھا کہ دیبی دھورا کے مندر کا پجاری میرے پاس آیا۔ دو برس پہلے جب میں یہاں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کا شکار کرنے آیا تھا تو اس بوڑھے نحیف و نزار آدمی سے میری دوستی ہو گئی تھی۔ وہ مقامی مندر کا پجاری تھا۔ تھوڑی دیر پہلے مندر کے قریب سے گزرتے وقت میں نے اسے سلام کیا تھا۔ مگر اس نے فقط سر ہلا کر جواب دینے میں اکتفا کیا تھا۔ کیونکہ اس وقت وہ عبادت میں مصروف تھا۔ اب عبادت ختم کر کے وہ میرے پاس آ گیا تھا اور برآمدے کے فرش پر بیٹھا میرے ساتھ گپ بازی میں مصروف تھا۔ میں بھی سفر کی تھکاوٹ کا مارا ہوا تھا اور ہلکی پھلکی گفتگو کے سوا کچھ نہ کرنا چاہتا تھا۔

پجاری سے مجھے پتا چلا کہ اوورسیز نے مجھے غلط بتایا تھا کہ دیبی دھورا میں چیتے نے ایک آدمی کو ہلاک کر دیا تھا۔ وہ آدمی اس پجاری کا مہمان تھا اور اس نے رات اس کے پاس مندر میں ہی بسر کی تھی۔ وہ شخص پجاری کی نصیحت کے خلاف رات کو باہر مندر کے چبوترے پر سو گیا تھا۔ نصف شب کے قریب جب مندر کے گرد و پیش کی چٹانیں مندر پہ سایہ فگن تھیں تو آدم خور چیتا رینگتا ہوا اس جگہ آیا اور اس چبوترے پر سوئے ہوئے شخص کا ٹخنا پکڑ کر اسے گھسیٹنے کی کوشش کی۔ وہ شخص ہڑبڑا کر اٹھا اور قریبی الاؤ سے سلگتی ہوئی ایک لکڑی پکڑ کر چیتے کو مار بھگایا۔ اس کے شور سے مندر کے اندر سوئے ہوئے بعض دوسرے پجاری بھی جاگ اٹھے۔ وہ ایک دم اس کی مدد کو پہنچ گئے۔ اپنے لیئے صورتحال خطرناک دیکھ کر چیتا راہِ فرار اختیار کر گیا۔ اس شخص کے زخم زیادہ تشویش ناک نہ تھے۔ گاؤں کے وید نے ان پر بعض جڑی بوٹیوں کا مرہم لگا دیا جس کے بعد وہ آگے اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔

پجاری کی یہ باتیں سن کر میں نے دیبی دھورا ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا۔ گرد و پیش کے دیہات کے لوگ ہر روز مندر میں اور وید کی دوکان پر آیا جایا کرتے تھے۔ یہ لوگ میری آمد کی خبر چاروں طرف پھیلا سکتے تھے اور جب آدم خور چیتا کسی انسان یا جانور کو ہلاک کرتا تو لوگوں کو مجھے تلاش کرنے میں آسانی رہتی۔

جب بڈھا پجاری شام کے قریب مجھ سے رخصت ہونے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ گرد و پیش کے علاقے میں کون سی جگہ شکار کے لیئے موزوں رہے گی۔ کیونکہ میرے آدمیوں نے کئی دن سے گوشت نہ چکھا تھا اور دیبی دھورا میں کسی قیمت پر گوشت ملنا محال تھا۔

’جی ہاں‘ اس نے جواب دیا۔ ‘یہاں مندر کا شیر جو ہے۔‘

میری اس یقین دہانی پر کہ اس کے شیر کو ہلاک کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں، اس نے ایک قہقہہ لگا کر کہا ‘جناب آپ اسے بے شک ہلاک کر دیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر نہ تو آپ اور نہ ہی کوئی دوسرا شکاری، اسے ہلاک کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔‘

اور اس طرح مجھے دیبی دھورا کے مندر کے شیر کا پتہ چلا جس نے مجھے شکار کا ایک دلچسپ ترین تجربہ بخشا اور جسے میں اب آپ کے سامنے بیان کروں گا۔

اگلی صبح میں لوہر گھاٹ کی طرف اس غرض سے نکل گیا کہ آدم خور چیتے کے پنجوں کے نشان تلاش کر سکوں یاس کے متعلق گرد و پیش کے دیہات کے لوگوں سے کچھ اطلاعات لے سکوں کیونکہ چیتا رات کو اس مسافر پر حملہ کر کے اس سمت گیا تھا۔ جب میں دوپہر کو کھانے کی غرض سے ریسٹ ہاؤس میں آیا تو میں نے ایک شخص کو اپنے ایک ملازم سے باتیں کرتے دیکھا۔ اس آدمی نے مجھے بتایا کہ اس کا نام بالا سنگھ ہے۔ رات کو اسے پجاری سے پتا چلا تھا کہ میں شکار کھیلنا چاہتا ہوں اور وہ مجھے چند بارہ سینگوں کا اتا پتا دینے آیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ کھانے کے بعد میں اس کے ساتھ جاؤں گا۔ کھانے کے بعد حسب وعدہ میں اس کے ساتھ ہولیا۔ میرے پاس بالکل نئی بندوق تھی جو کچھ عرصے پہلے میں نے کلکتہ سے اپنے ایک اسلحہ فروش دوست کی دوکان سے خریدی تھی۔ وہ بندوق مارکیٹ میں بالکل نئی تھی اور لوگ اس کے نام سے پہلے واقف نہ ہونے کی بنا پر اسے خریدنے سے گریز کرتے تھے۔ میں نے بھی وہ بندوق اس شرط پر خریدی تھی کہ اگر وہ خاطر خواہ نتائج برآمد نہ کر سکی تو میں اسے واپس کر جاؤں گا۔

دیبی دھورا کے جنوب کی سمت کی پہاڑیوں کی ڈھلوان شمال کی پہاڑیوں کی ڈھلوان کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔ ہم دیودار کے درختوں میں سے گزرتے ہوئے شمال کی سمت ہی جا رہے تھے۔ وادی کی مشرق کی سمت، گھاس کے ایک قطعے کی طرف جو گنجان جنگل سے گھرا ہوا تھا اشارہ کرتے ہوئے اس شخص نے کہا کہ بارہ سیں گے یہیں گھاس چرنے آتے ہیں۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اسوادی کی دائیں طرف ایک پگڈنڈی ہے جودیبی دھورا اور اس کے گاؤں کو آپس میں ملاتی ہے۔ اور اس پگڈنڈی سے اس نے بارہ سینگوں کو اس گھاس کے قطعے میں گھومتے پھرتے دیکھا تھا۔ میری رائفل پانچ سو گز تک مار کر سکتی تھی۔ چونکہ اس پگڈنڈی اور گھاس کے قطعے کا درمیانی فاصلہ بمشکل تین سو گز تھا۔ لہذا میں نے وہیں بیٹھ کر شکار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

جب ہم وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو میں نے سامنے قدرے بائیں طرف چند گِدھ آسمان پہ منڈلاتے دیکھے۔ میں نے اپنے ساتھی کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔ جس پر اس نے کہا کہ گھاس کے قطعے کی دوسری طرف ایک گاؤں ہے۔ ممکن ہے وہاں کوئی مویشی مر گیا ہو اور گِدھ اس کی لاش کو ہضم کرنے کی فکر میں ہوں۔ اس کی اس تشریح سے میری تسلّی نہ ہوئی اور ہم دونوں اس گاؤں کی سمت چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ گاؤں فقط ایک جھونپڑی پر مشتمل تھا۔ جھونپڑی سے پرے کچھ فاصلے پر ایک بیل مرا پڑا تھا اور گِدھ اس کا گوشت نوچ رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ایک شخص جھونپڑی سے باہر نکلا۔ ہمارا پُر تپاک خیر مقدم کرنے کے بعد اس نے پوچھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں نینی تال سے آدم خور چیتے کا شکار کرنے آیا ہوں تو اس نے بڑے تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ کاش اسے کل میری آمد کا پتہ چل جاتا، تب آپ اس شیر کا شکار کر سکتے تھے جس نے میرا بیل ہلاک کیا ہے۔‘ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے پندرہ مویشی کھیت میں بندھے ہوئے تھے۔ رات کو شیر آیا اور اس کا ایک بیل ہلاک کر گیا۔ اس کے پاس کسی قسم کا اسلحہ نہیں تھا۔ لہذا وہ بے چارگی کے عالم میں بیل کو شیر کی نذر ہوتا دیکھتا رہا۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ اگر اسے یہ معلوم تھا کہ دیبی دھورا کے علاقے میں شیر رہتا ہے تو پھر اس نے اپنے مویشی کھُلے کھیت میں کیوں باندھے۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ اس سے پیشتر شیر نے کبھی کسی پالتو مویشی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔

جب میں وہاں سے جانے لگا تو اس شخص نے پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ بارہ سینگوں کا شکار کرنے۔ اس پر وہ ملتجی لہجے میں کہنے لگا کہ اس وقت میں بارہ سینگوں کا خیال ترک کر کے شیر کا شکار کروں، ‘آپ جانتے ہیں کہ میری ملکیت بہت چھوٹی سی ہے۔ اگر شیر اسی طرح میرے بیلوں بھینسوں کو ہلاک کرتا رہا تو میں اور میرے بال بچے بھوکوں مر جائیں گے۔‘

گِدھ مُردہ بیل ختم کر چکے تھے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ کیونکہ گزشتہ رات شیر کو اپنے شکار کی خاطر کسی قسم کی دقّت نہ اٹھانی پڑی تھی۔ اس بنا پر میرا خیال تھا کہ وہ آج رات کو بھی آئے تھے۔ میرا ساتھی بھی اب بارہ سینگوں کے بجائے شیر کے شکار کو ترجیع دینے لگا تھا۔ میں ان آدمیوں کو وہیں چھوڑ کر یہ معلوم کرنے کی خاطر چل پڑا کہ شیر کس سمت گیا تھا۔ چونکہ گاؤں کے آس پاس کوئی درخت نہ تھا جس پر میں اپنی مچان تیار کر سکتا تھا۔ لہذا میں چاہتا تھا کہ شیر کو اُس کی واپسی پر راستے میں ہی جا ملوں۔ وہاں کی زمین بڑی سخت تھی جس پر شیر کے پنجوں کے نشانات دکھائی نہ دیتے تھے۔ دو دفعہ گاؤں کے چکر کاٹنے کے بعد میں پاس ہی بہنے والی برساتی ندی کی سمت چل پڑا۔ وہاں ہموار و نمدار زمین پر ایک بڑے شیر کے پنجوں کے نشان موجود تھے۔ ان نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ شیر اپنا شکار کھانے کے بعد ندی کی بالائی سمت گیا تھا اور یہ فرض کر لینا بے جا نہ تھا کہ وہ اسی سمت سے واپس آئے گا۔ جھونپڑی وہاں سے کوئی تیس گز کے فاصلے پر تھی۔ ندی کے جس کنارے پر میں نے شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے۔ وہیں ایک دیودار کا درخت تھا جس پر جنگلی گلاب کی ایک بیل چڑھی ہوئی تھی۔ درخت کی ایک موٹی سی شاخ ندی پر جھکی ہوئی تھی۔ رائفل کو زمین پر رکھ کر میں درخت کے اوپر چڑھ گیا اور اس کا بغور معائنہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ وہاں دو شاخوں کے درمیان بڑے آرام سے بیٹھا جا سکتا ہے۔

جھونپڑی میں واپس آ کر میں نے ان دونوں دیہاتیوں کو بتایا کہ میں اپنی بھاری رائفل لینے کی خاطر ریسٹ ہاؤس جا رہا ہوں۔ لیکن میرے راہبر نے بڑی زندہ دِلی سے کہا کہ میں یہ تکلیف نہ کروں، وہ خود ہی میری رائفل لے آئے گا۔ اسے ضروری ہدایات دینے کے بعد میں اس دیہاتی کے پاس بیٹھ گیا اور اس کی باتیں سننے لگا کہ اسے کس طرح اپنے سر پر گھاس پھوس کی چھت کا سایہ قائم رکھنے کے لیے فطرت اور جنگلی جانوروں سے نبرد آزمائی کرنی پڑتی ہے اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور کیوں نہیں چلا جاتا تو اس نے بڑی سادگی سے کہا، ‘یہی تو میرا گھر ہے‘۔

سورج غروب ہونے کے قریب تھا کہ میں نے جھونپڑی کی سمت دو آدمی آتے دیکھے۔ ان میں سے کسی کے پاس بھی بندوق نہ تھی۔ ان میں سے ایک بالا سنگھ تھا۔ جس نے ہاتھ میں لالٹین اٹھا رکھی تھی۔ بالا سنگھ نے مجھے بتایا کہ وہ میری بھاری رائفل نہ لا سکا تھا کیونکہ اس کے کارتوس سُوٹ کیس میں بند تھے اور میں اس سُوٹ کیس کی چابی بھیجنا بھول گیا تھا۔ لہذا اب شیر کو نئی رائفل ہی سے شکار کیا جا سکتا تھا۔

درخت پر چڑھنے سے پہلے میں نے کسان سے کہا کہ میری کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ اپنے دونوں بچوں کو خاموش رکھے اور بیوی کو اس وقت تک چولہا نہ جلانے دے جب تک میں شیر شکار نہ کر لوں یا جب تک یہ فیصلہ نہ کر لوں کہ شیر نہیں آ رہا۔ بالا سنگھ کو میں نے یہ ہدایت دیں کہ وہ جھونپڑی کے مکینوں کو خاموش رکھے اور جب میں سیٹی بجاؤں تو لالٹین روشن کر دے۔ اس کے بعد میری مزید ہدایات کا منتظر رہے۔

جب سورج کا آخری شعلہ بھی پہاڑیوں کی اوٹ میں چھپ گیا تو اس کے ساتھ ہی وادی میں چہچہانے والے ہزاروں پرندوں کی آوازیں تھم گئیں۔ شفق گہری ہونے کے ساتھ ہی پہاڑی کے اوپر ایک اُلّو بولنے لگا۔ چاند طلوع ہونے سے پہلے نیم تاریکی کا ایک چھوٹا سا وقفہ آیا۔ یہ وقفہ آتے ہی جھونپڑی کے مکین مُردوں کی طرح خاموش ہو گئے۔ میں نے مضبوطی سے اپنی رائفل پکڑ رکھی تھی اور اندھیرے میں دیکھنے کے لیے آنکھوں پر زور دے رہا تھا کہ شیر میرے درخت کے نیچے سے گزرنے کے بجائے پرے سے گزر کر اپنے گزشتہ شب والے شکار کے پاس گیا۔ اور وہاں فقط ہڈیوں کا ڈھانچہ دیکھ کر غصے میں آ گیا۔ وہ مدھم آواز میں گِدھوں کو برا بھلا کہنے لگا جو اس کے شکار پر ہاتھ صاف کر گئے تھے۔ وہ تین چار منٹ تک بڑبڑاتا رہا اور پھر اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ چاندنی لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہی تھی۔ چند منٹ بعد چاند سامنے والی پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا تھا۔ بیل کی ہڈیاں چاندنی میں سفید سفید چمک رہی تھیں۔ مگر شیر کہیں دکھائی نہ دے رہا تھا۔ شدّتِ احساس سے میرے ہونٹ خشک ہو گئے تھے۔ میں نے ان پر زبان پھیر کر انہیں نمدار کیا اور پھر آہستہ سے سیٹی بجائی۔ بالا سنگھ پہلے ہی چوکنا بیٹھا تھا۔ اس نے فوراً لالٹین روشن کر دی اور جھونپڑی کا دروازہ کھول کر باہر کھڑا ہو کر اگلے حکم کا انتظار کرنے لگا۔ جب سے میں اس درخت پر بیٹھا تھا اس سیٹی کے سوا میں نے کوئی آواز نہ نکالی تھی اور اب جو میں نے نیچے دیکھا تو شیر شفاف چاندنی میں درخت کے نیچے کھڑا تھا اور اپنے داہنے کندھے پر سے بالا سنگھ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میری بندوق کی نالی اور شیر کے سر کے درمیان پانچ فٹ سے زیادہ کا فاصلہ نہ تھا۔ میں جانتا تھا کہ اب شیر میری مُٹھّی میں ہے اور میری ایک ہی گولی اسے ٹھنڈا کر دے گی۔ میں نے بڑے اعتماد سے نشست باندھی اور رائفل کی لبلبی دبا دی۔ لبلبی میری انگلی کے دباؤ تلے دبتی چلی گئی اور کچھ بھی نہ ہوا۔

خدایا! میں کس قدر غیر محتاط واقع ہوا تھا۔ درخت پر بیٹھنے سے پہلے میں نے رائفل میں پانچ کارتوس بھرے تھے۔ کارتوسوں کو باہر نکال کر اس کا معائنہ کرنے کی غرض سے میں نے رائفل کھولی تو کارتوس اپنی جگہ بالکل فِٹ تھے۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ گھوڑا دبانے پر اس نے چلنے سے انکار کر دیا تھا؟ اس کی وجہ مجھے بہت بعد میں سمجھ آئی۔ اگر بندوق پرانی ہوتی تو میں اپنی غلطی کو فوراً درست کر لیتا۔ بندوق کو دوبارہ راست کر کے میں نے ابھی اُس کا گھوڑا بھی نہ دبایا تھا کہ وہ خود بخود چل گئی۔ ایک زور دار دھماکا ہوا اور شیر ایک ہی چھلانگ لگا کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں نے جلدی سے بالا سنگھ کی طرف دیکھا تو وہ بھاگ کر جھونپڑی کے دروازے کے اندر داخل ہو رہا تھا۔

اب درخت پر بیٹھنا فضول تھا۔ میں نے بالا سنگھ کو آواز دی تاکہ وہ درخت سے اترنے میں میری مدد کر سکے۔ جھونپڑی میں آ کر میں نے جو رائفل کا بغور معائنہ کیا تو جس دکان سے میں نے اسے خریدا تھا اس دکاندار کی مجھے ایک نصیحت یاد آ گئی جو اس رائفل کے متعلق اس نے مجھے کی تھی۔ وہ دُہرے سسٹم والی رائفل تھی اور جب تک اس کے دونوں تالے نہ کھولے جائیں وہ چل نہ سکتی تھی۔ یہ نقطہ میرے ذہن سے بالکل نکل گیا تھا اور جب میں نے اپنی ناکامی کی وجہ بالا سنگھ کو بتائی تو وہ خود کو ملامت کرنے لگا۔ ‘اگر آپ کی بھاری رائفل اور سُوٹ کیس دونوں یہاں اٹھا لاتا تو ہرگز ایسا نہ ہوتا۔‘ اس وقت میں اُس سے متفق ہو گیا۔ لیکن بعد میں جب دن گزرتے گئے تو مجھے یقین ہو گیا کہ اگر اُس شام میرے پاس بھاری رائفل بھی ہوتی تو شاید پھر بھی میں اُس شیر کو شکار نہ کر پاتا۔

اگلی صبح میں شیر کے متعلق کوئی نئی خبر حاصل کرنے کی خاطر بڑی دیر تک نواحی علاقوں میں پھرتا رہا۔ اور جب ریسٹ ہاؤس میں آیا تو ایک شخص بڑی بے تابی سے میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس شخص نے بتایا کہ شیر نے ابھی ابھی اُس کی ایک گائے ہلاک کر دی ہے۔ اُس گائے نے نیا نیا بچھڑا جنا تھا اور اب دودھ نہ ملنے کی صورت میں بچھڑے کی موت کا بھی خطرہ تھا کیونکہ اس وقت اس کی اور کوئی گائے بھی دودھ نہ دے رہی تھی۔

گزشتہ شب شیر کو اس کی خوش قسمتی نے بچا لیا تھا۔ لیکن آخر کب تک قسمت اس کا ساتھ دی گی۔ ان سب شکاروں کا حساب اسے اپنی موت کی صورت میں دینا ہو گا۔ اِس پہاڑی علاقے میں مویشی پہلے ہی کم تھے اور ایک مویشی کا ہلاک ہو جانا بڑا سنجیدہ مسئلہ تھا۔ اُس شخص کو اپنے دوسرے مویشیوں کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ کیونکہ وہ بھاگ کر اُس کے گاؤں پہنچ چکے تھے۔ لہذا اُس نے مجھے کہا کہ میں بڑے آرام سے کھانا کھاؤں۔ دوپہر کے ایک بجے کھانے سے فارغ ہو کر میں اُس شخص کے ساتھ ہولیا۔ میرے دو آدمی مچان کا سامان اٹھائے ہمارے پیچھے چل رہے تھے۔

ہمارا قریبی راستہ پہاڑی کی چوٹی پر سے گزرتا تھا لیکن میں شیر کے کام میں مُخل نہ ہونا چاہتا تھا۔ لہذا ہم نے پہاڑی کے گِرد چکر کاٹ کر اُس جگہ پہنچنے کا فیصلہ کیا جہاں گائے ہلاک ہوئی تھی۔ راہ میں نمدار زمین پر بھگوڑے مویشیوں کے کھُروں کے گہرے نشان موجود تھے۔ ان پر چلتے ہوئے ہم جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ وہاں خون کا ایک تالاب تھا۔ اس کے اندر سے گائے کو گھسیٹنے کی کشادہ لکیر موجود تھی۔ یہ لکیر کوئی دو سو گز تک جا کر ایک ندی کے کنارے ختم ہو گئی تھی۔ وہاں گھنے درخت تھے۔ ندی میں پاؤں پاؤں پانی تھا۔ شیر اپنا شکار لے کر ندی کے کنارے انہی گھنے درختوں میں کہیں چھپا تھا۔

گائے صبح کے کوئی دس بجے کے قریب ہلاک کی گئی تھی۔ شیر کی اوّلین خواہش یہی ہو گی کہ اپنے شکار کو کسی ایسی جگہ چھپا دے جہاں اس کو کوئی نہ دیکھ سکے۔ لہذا وہ اپنا شکار درختوں کے جھنڈ میں چھپا کر ندی میں سے گزر کر وادی میں اتر گیا تھا۔ جیسا کہ اس کے پنجوں کے نشانات سے معلوم ہوتا تھا۔ ایک ایسا علاقہ جہاں انسان اور مویشی عام چلتے پھرتے ہوں وہاں اس قِسم کا اندازہ کرنا کہ شیر کہاں لیٹا ہو گا بعید از قیاس ہے کیونکہ ہلکی سی مدافعت سے بھی وہ اپنی جگہ بدل لیتا ہے۔ اگرچہ شیر کے پنجوں کے نشان وادی میں اتر گئے تھے لیکن میں اور میرے آدمیوں نے بڑی احتیاط سے ندی کے کنارے تک چل کر رک جانا مناسب سمجھا۔

یہ ندی کوئی دو سو گز شمال سے ایک ایسے تالاب سے شروع ہوتی تھی جس میں بارش کا پانی جمع ہوتا رہتا تھا۔ یہاں کوئی پندرہ فٹ لمبا ایک گڑھا تھا جس کے دہانے پر گھاس وغیرہ اگی ہوئی تھی۔ ہمارا پہلا اندازہ غلط نکلا۔ شیر نے ندی کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں اپنا شکار چھپانے کے بجائے مؤخر الذکر گڑھے میں چھپا رکھا تھا۔ اپنی گائے کو اپنے سامنے مردہ دیکھ کر اس دیہاتی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میرے پاس ہمدردی کے چند الفاظ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ شیر نے گائے کو ابھی تک چھوا نہ تھا۔ اس سے ظاہر تھا کہ شیر اسے بڑے آرام سے کھانا چاہتا تھا۔

ہمیں اب اس گڑھے کے پاس ایسی جگہ تلاش کرنی تھی جہاں آرام سے بیٹھا جا سکے۔ ندی کے دوسرے کنارے چند دیودار کے درخت تھے مگر وہ سب کے سب گڑھے سے دور تھے اور وہاں سے شیر پر ٹھیک سے گولی نہ چلائی جا سکتی تھی۔ علاوہ بریں ان پر چڑھنا مشکل تھا۔ گڑھے سے تیس گز کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا مضبوط درخت ندی کی بائیں سمت کھڑا تھا۔ اس کی شاخیں خاصی گھنیری تھیں۔ زمین سے صرف چھ فٹ اوپر جا کر درخت کا تنا دو شاخوں میں بٹ گیا تھا۔ جن کے درمیان میں آسانی سے بیٹھ سکتا تھا۔ یہ جگہ زمین کے اتنے قریب تھی کہ میرے ساتھیوں نے میرے وہاں بیٹھنے کے خلاف احتجاج کیا لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اپنے ساتھیوں کو وہاں سے روانہ کرنے سے پہلے میں نے انہیں ہدایت کی کہ وہ گزشتہ شب والی جھونپڑی میں واپس چلے جائیں اور وہاں اس وقت تک میرا انتظار کریں جب تک میں انہیں آواز نہ دوں یا ان کے پاس نہ چلا آؤں۔ وہ جھونپڑی وہاں سے زیادہ دور نہ تھی اور درختوں کی شاخوں میں سے صاف دکھائی دے رہی تھی۔

میرے ساتھی شام کے چار بجے کے قریب رخصت ہو گئے۔ میں درخت کی شاخوں میں چھپ کر آرام سے بیٹھ گیا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے خاصی دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ تجربات سے مجھے معلوم تھا کہ شیر سورج ‏ غروب ہونے سے پہلے یہاں نہ آئے گا۔ میری بائیں سمت ندی کوئی پچاس گز تک دکھائی دے رہی تھی۔ جو میرے سامنے کوئی دس گز پر بہہ رہی تھی۔ یہ ندی دس گز گہری اور بیس گز چوڑی تھی۔ میرے سامنے درختوں سے خالی پہاڑی چٹانیں تھیں۔ میری دائیں طرف وہ گڑھا تھا جہاں شیر اپنا شکار چھپا گیا تھا۔ مُردہ گائے میری نظروں سے اوجھل تھی۔ کیونکہ لمبی لمبی گھاس نے اسے ڈھانپ رکھا تھا۔ میری پشت پر لمبی لمبی گہری جنگلی گھاس تھی، جو میرے درخت تک آئی ہوئی تھی اور اسی گھاس نے گائے کو بھی چھپا رکھا تھا۔ شیر اپنا شکار یہاں چھپانے کے بعد ندی میں سے گزر کر وادی کی دوسری سمت چلا گیا تھا اور اس کی واپسی کا امکان بھی اسی راہ سے تھا۔ لہذا میں متواتر ندی کی سمت دیکھ رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ جونہی شیر ندی کے اس کنارے نمودار ہو اس پر فوراً گولی چلا دوں۔

میرے گرد و پیش کئی قسم کے جانور اور پرندے تھے جو مجھے شیر کی آمد سے مطلع کر سکتے تھے۔ لیکن میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ کیونکہ پرندوں اور جانوروں کی تنبیہی آواز سنے بغیر میں نے اچانک شیر کو اپنے شکار کے قریب غراتے ہوئے دیکھا۔ وہ میرے قریب سے گزرنے کے بجائے دوسری سمت سے وہاں پہنچ گیا تھا۔ لیکن اس سے مجھے کوئی تردّد نہ ہوا۔ میں تجربے سے جانتا تھا کہ شیر دن کے وقت اپنے شکار کے قریب جم کر کھڑا نہیں رہتا اور وہ تھوڑی دیر بعد ضرور کھلے میدان میں میرے سامنے آئے گا۔ اب وہ اپنا شکار کھا رہا تھا۔ ہڈیاں ٹُوٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پندرہ منٹ گزر گئے۔ اچانک مجھے اپنی بائیں سمت سے ایک کالا ریچھ آتا دکھائی دیا۔ وہ بہت بڑا ریچھ تھا۔ اچانک وہ رک گیا۔ اور اپنی تھوتھنی ہوا میں بلند کر کے زور زور سے سونگھنے لگا۔ اس نے گوشت اور شیر کی بو سونگھ لی تھی۔ میں شکار کے دائیں سمت تھا۔ چونکہ ہوا شمال سے جنوب کو چل رہی تھی اس لئے ریچھ میری بُو نہ سونگھ سکا۔ تب اچانک وہ زمین پر لیٹ گیا اور چند لمحوں کے بعد بڑی احتیاط سے آہستہ آہستہ شیر کی سمت بڑھنے لگا۔ وہ ایک سائے کی طرح حرکت کر رہا تھا۔ جوں جوں وہ گڑھے کے قریب آ رہا تھا، زیادہ محتاط ہوتا جا رہا تھا۔ جب وہ گڑھے سے چند ہی قدم کے فاصلے پر رہ گیا تو پیٹ کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر وہ رینگتا ہوا گڑھے کے کنارے پر پہنچ گیا اور اپنا سر اٹھا کر اس کے اندر جھانکنے لگا۔ شیر بڑے مزے سے اپنا شکار کھانے میں مصروف تھا۔ اب کیا ہو گا؟ شدّتِ احساس سے میرا جسم ایک تنے ہوئے رسّے کی طرح تھرّارہا تھا اور میرے ہونٹ اور حلق سوکھ گئے تھے۔

میں سوچ رہا تھا کہ ریچھ اتنا احمق نہیں ہو سکتا کہ جنگل کے بادشاہ کے شکار میں مُخل ہو۔ لیکن ریچھ کی حرکات میری سوچ کو غلط ثابت کرنے پر تلی ہوئیں تھیں۔ چند لمحے ریچھ اسی طرح گڑھے کے اندر جھانکتا رہا۔ پھر اچانک وہ ایک زبردست چیخ مارکر گڑھے کے اندر کود گیا۔ اس چیخ کا مقصد میرے خیال میں شیر کو ہراساں کرنا تھا۔ لیکن اس کا الٹا اثر ہوا۔ شیر ایک دم مشتعل ہو گیا کیونکہ ریچھ کی چیخ کے جواب میں مجھے ایک تیز گرج سنائی دی۔

میں نے جنگلی درندوں کی نبرد آزمائی بہت کم دیکھی ہے۔ یہ شاید میرا دوسرا تجربہ تھا۔ گڑھے کے اندر شیر اور ریچھ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہے تھے اور ان کی تیز خوفناک آوازیں آس پاس گونج رہی تھیں۔ مقابلہ زبردست تھا۔ وقت ایک دم سانس روک کر کھڑا ہو گیا۔ شدت احساس سے میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔ یہ جنگ کوئی تین یا چار منٹ جاری رہی ہو گی۔ بہر حال جب شیر نے یہ سمجھا کہ وہ اپنے دشمن کو خاصا نقصان پہنچا چکا ہے تو چھلانگ لگا کر گڑھے سے باہر نکل آیا اور میرے سامنے سے تیزی سے بھاگتا ہوا نکل گیا۔ اس کے پیچھے چیختا چلّاتا ہوا ریچھ تھا۔ شیر ابھی میرے سامنے سے گزرا ہی تھا کہ میں نے بندوق اٹھا کر نشانہ باندھا اور گولی چلا دی۔ گولی کی آواز پر شیر غصے سے گرجا اور پھر گھاس میں چھپ گیا۔ چند لمحے وہ گھاس میں چلتا رہا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ میرا خیال تھا کہ گولی اس کے دل میں لگی تھی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا تھا۔

اس قسم کے پہاڑی علاقے میں بندوق کی گولی کی آواز توپ کے گولے کی گرج سے کم نہیں ہوتی۔ مگر اس گرج کا پاگل ریچھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ شیر کے تعاقب میں اندھا دھند میری طرف بھاگا چلا آ رہا تھا۔ میں ایک ایسے جانور کو ہلاک نہ کرنا چاہتا تھا جس میں اتنے عظیم دشمن کو بھگا دینے کی جرات تھی۔ لیکن اس کی میرے قریب تر آتی ہوئی منحوس چیخ میرے لیے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ جب وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر رہ گیا تو میں نے بندوق کی بائیں نالی کی گولی اس کے ماتھے میں پیوست کر دی۔ وہ پیٹ کے بل آہستہ سے زمین پر لیٹ گیا اور پھر نہ اٹھ سکا۔

جہاں ایک لمحہ پہلے دو خوفناک درندوں کی ہیبت ناک آوازوں سے جنگل گونج رہا تھا اب سارے میں مکمل خاموشی طاری ہو گئی تھی۔ میرا دل اپنی اصلی حالت پہ آیا تو میں پائپ سلگا کر اپنے اعصاب کو بحال کرنے لگا۔ ابھی میں نے بندوق کو اپنی گود میں رکھ کر پائپ کے ایک دو کش لگائے ہی تھے کہ اپنے سامنے کچھ فاصلے پر مجھے شیر بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ میری طرف نہیں اپنے مردہ دشمن کی طرف دیکھ رہا تھا۔

میں جانتا ہوں کہ یہ واقعات پڑھ کر ایک اچھا شکاری بلا شبہ مجھ پر ایک اناڑی شکاری ہونے کا الزام لگا دے گا۔ میرے پاس دفاع کی کوئی صورت نہیں لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اپنی طرف سے میں پوری طرح ہوشیار تھا۔ جب میں نے شیر کی پشت پر گولی چلائی تھی تو مجھے یقین تھا کہ میں اسے ایک مہلک ضرب لگا رہا ہوں اور گولی چلانے کے بعد میں نے شیر کی جو چیخ سنی تھی اس سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں نے اسے ڈھیر کر لیا ہے۔ میری دوسری گولی سے ریچھ چت ہو گیا تھا۔ لہذا اب میں بندوق کو دوبارہ بھرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا تھا اور اسے اپنی گود میں رکھے ہوئے تھا۔

شیر کو ٹھیک ٹھاک دیکھ کر میں کوئی دو سیکنڈ حیرت میں غلطاں رہا۔ اس کے بعد میں نے جلدی سے رائفل میں کارتوس بھرے۔ اب شیر مجھ سے کوئی چالیس گز کے فاصلے پر تھا اور اس کی رفتار بھی مدھم ہو گئی تھی۔ وہ سامنے والی پہاڑی پر اسی ڈگری کا زاویہ بنائے ہوئے تھا۔ میں نے بندوق اٹھائی اور نشانہ باندھ کر داغ دی۔ شیر لڑکھڑاتا ہوا اپنے پچھلے قدموں پر گرا مگر پھر جلدی سے سنبھل کر پہاڑی کی دوسری سمت کود گیا۔ گولی شیر کے منہ سے کوئی پانچ انچ نیچے چٹان پر لگی تھی جس کے باعث شیر گھبرا کر پیچھے گر پڑا تھا مگر اب کے پھر صاف بچ کر نکل گیا تھا۔

تھوڑی دیر پائپ پینے کے بعد میں ریچھ کو دیکھنے کی نیت سے درخت پر سے اترا۔ میرے خیال کے برعکس ریچھ بہت بڑا نکلا۔ شیر سے اس کی لڑائی واقعی قابل تحسین تھی۔ اس کی گردن اور جسم پر دانتوں کے بڑے بڑے زخم تھے۔ جن سے خون رس رہا تھا۔ ممکن تھا وہ ان زخموں کی زیادہ پرواہ نہ کرتا مگر اس کی ناک پر جو زخم آیا تھا اس نے اسے مشتعل کر دیا تھا۔ ہر نر جانور ناک کے زخم کے متعلق بڑا حساس ہوتا ہے اور اسے ایک طرح اپنی ہتک محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا اور میری پہلی گولی کی آواز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نے شیر کا تعاقب جاری رکھا تھا۔

اب میرے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ میں ریچھ کی کھال اتارنے کے لیے اپنے آدمیوں کو بلاتا۔ لہذا میں انہیں ملنے کے لیے جھونپڑی کی سمت چل پڑا۔ انہیں ساتھ لے کر میں شام سے پہلے ریسٹ ہاؤس میں پہنچ جانا چاہتا تھا کیونکہ اس علاقے میں آدم خور چیتا بھی تو گھوم رہا تھا۔ جھونپڑی کے باہر کوئی ایک درجن آدمی مجھے بڑے غور سے آتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ اور جب میں ان کے پاس پہنچ گیا تو حیرت کے مارے ان کی زبانیں گنگ تھیں۔ آخر بالا سنگھ کی زبان میں سکت آئی اور جب اس نے مجھے ساری بات سنائی تو مجھے اس پر حیرت نہ ہوئی کہ تمام آدمی مجھے کیوں اس طرح دیکھ رہے تھے۔ جیسے میں مردہ ہو کر جی اٹھا تھا۔ آخر بالا سنگھ کہنے لگا، ‘آپ نے ہمیں جھونپڑی کے اندر ٹھہرنے کی نصیحت کی تھی۔ اور جب ہم نے شیر کی پہلی گرج کے بعد آپ کی چیخ سنی تو ہمیں یقین ہو گیا کہ شیر نے آپ کو درخت سے نیچے گھسیٹ لیا ہے اور آپ زندگی کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ اور جب شیر کی گرج بند ہو گئی اور آپ کی چیخ سنائی دیتی رہی تو ہم سمجھے کہ شیر آپ کو اٹھائے لیئے جا رہا ہے۔ بعد میں ہم نے آپ کی بندوق کی دو گولیوں کی آواز سنی۔ اس کے بعد تیسری آواز سے تو ہم بڑی شش و پنج میں پڑ گئے۔ یعنی شیر کے منہ میں آیا ہوا انسان کس طرح گولی چلا سکتا ہے۔ اور اب ہم مشورہ کر رہے تھے کہ آپ اس طرف آتے دکھائی دیئے۔ جس کے سبب حیرت کے مارے ہماری زبانیں بولنا بھول گئیں۔‘ بات یہ تھی کہ انسان اور ریچھ کی چیخ ایک دوسرے سے اس قدر ملتی ہیں کہ دور سے انسان ان میں امتیاز نہیں کر سکتا۔

تب میں نے ان سب کو شیر اور ریچھ کی خوفناک جنگ کے بارے میں بتایا۔ ریچھ کی چربی عام طور پر گٹھیا کے مرض کے لیے مفید سمجھی جاتی ہے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ مجھے چربی کی ضرورت نہیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ دوسری صبح ہم ریچھ کی کھال اتارنے چل پڑے۔ میرے ساتھ آدمیوں کا ایک ہجوم تھا جو ریچھ کی چربی کے خواہش مند تھے۔ علاوہ بریں وہ ایک ایسے بہادر ریچھ کو دیکھنا چاہتے تھے جس نے شیر کو بھگا دیا تھا۔ لوگوں نے ریچھ کی چربی آپس میں تقسیم کر لی اور اس کی کھال میں نے بالا سنگھ کو دے دی جسے حاصل کر کے وہ خود کو سب سے زیادہ خوش قسمت تصور کر رہا تھا۔

شیر اس گائے کو کھانے دوبارہ اس جگہ نہ آیا۔ یوں بھی شام تک گِدھ اسے ختم کر چکے تھے۔

ریچھ کی چربی کی خبر تھوڑی دیر میں سارے نواحی علاقے میں پھیل گئی۔ یہ خبر محکمۂ جنگلات کے ایک محافظ کے پاس بھی پہنچی۔ اس کا باپ کئی برس سے گٹھیا میں مبتلا تھا۔ وہ چربی لینے کی خاطر دیبی دھورا کی سمت آ رہا تھا کہ راستے میں اسے چند مویشی بھاگتے ہوئے دکھائ دیئے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک نوجوان گڈریا بھی تھا۔ جس نے اسے بتایا کہ ابھی ابھی اس کی ایک گائے شیر نے ہلاک کر دی ہے۔ جب اس محافظ نے یہ خبر ہم تک پہنچائی تو میں اور وہ محافظ اس طرف چل پڑے۔ اس وادی میں دیودار کے درخت جگہ جگہ اگے ہوئے تھے۔ میں وادی کے کنارے پر کھڑا اپنے سامنے پھیلے سبزہ زار کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ پھر میں اور وہ محافظ وادی میں اتر گئے۔ تھوڑی دور چل کر ہمیں خشک پتّوں کا ایک ڈھیر دکھائی دیا۔ اگرچہ اس کے اندر سے گائے کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ شیر نے گائے کو اس کے اندر چھپا رکھا ہے۔ بد قسمتی سے میں نے یہ بات اپنے ساتھی کو نہ بتائی۔ بعد میں اس نے بھی مجھے بتایا کہ وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ شیر اس طرح بھی اپنا شکار چھپا دیا کرتا ہے۔ جب شیر اس طرح اپنا شکار چھپا دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ فی الحال کہیں آس پاس نہیں ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ فرض نہ کر لینا چاہیے۔ اگرچہ وادی میں داخل ہونے سے پہلے میں نے اس کا بغور جائزہ لے لیا تھا۔ لیکن اب میں اپنی طرف سے پورا محتاط تھا۔

پتّوں کے اس ڈھیر سے کچھ فاصلے پر ایک پہاڑی پینتالیس ڈگری کا زاویہ بنا رہی تھی۔ اسی پہاڑی کے اوپر چالیس گز کے فاصلے پر جھاڑیوں کا ایک جھنڈ تھا۔ میں ان پہاڑیوں کو دیکھ رہا تھا کہ شیر پر میری نظر پڑ گئی۔ جو وہاں زمین پر لیٹا تھا۔ اور اس کی پشت میری طرف تھی۔ اس کے سر کا ایک حصّہ اور جسم کی ایک دھاری بھی مجھے دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے سر پر گولی چلانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اور جسم پر گولی چلانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ میرے سامنے ساری دوپہر اور شام پڑی تھی۔ لہذا میں نے فیصلہ کر لیا کہ چھپ کر شیر کے اِدھر آنے کا انتظار کروں۔ ابھی میں نے یہ فیصلہ یا ہی تھا کہ مجھے اپنی بائیں سمت ایک حرکت سی دکھائی دی۔ سر پھیر کے دیکھا تو ایک ریچھ پتّوں کے ڈھیر کی سمت بڑھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے۔ شاید ریچھ نے شیر کو شکار کرتے دیکھ لیا تھا اور اب موقع پا کر اس کے شکار پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا تھا۔ اگر میں شیر کے شکار کے قریب کھڑا ہونے کے بجائے وادی کے کنارے پر کھڑا ہوتا تو ایک دلچسپ منظر دیکھنے میں آتا۔ ریچھ نے شیر کا شکار ہضم کرنے کی کوشش کرنی تھی۔ جس پر شیر نے بیدار ہو جانا تھا اور پھر ان کے مابین جو لڑائی ہوتی وہ واقعی قابلِ دید ہوتی۔

محکمۂ جنگلات کا محافظ جو اب تک میرے پیچھے کھڑا تھا اس اب تک شیر دکھائی نہ دیا تھا۔ وہ مجھے ریچھ کی سمت دیکھتے ہوئے خود بھی اس سمت دیکھنے لگا۔ ریچھ کو دیکھنا تھا کہ وہ ایک دم چلّا اٹھا، ‘دیکھو صاحب بھالُو! بھالُو!’ اس کی آواز سن کر شیر ایک دم اٹھا اور ایک ہی جست میں بجلی کی طرح آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ مگر ایسا کرنے سے پہلے اسے بیس گز کھلی زمین کا ایک قطعہ طے کرنا تھا۔ جب وہ وہاں سے گزر رہا تھا تو میں نے رائفل اٹھائی اور لبلبی دبانے ہی والا تھا کہ جنگل کے محافظ نے یہ سمجھا کہ میں نے ریچھ کو نہیں دیکھا اور غلط سمت میں گولی چلانے لگا ہوں۔ لہذا اس نے جلدی سے رائفل کی نال پکڑ کر اس کا رخ ریچھ کی سمت کر دیا۔ بندوق کی گولی مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک درخت میں لگی۔ غصّے میں آنا بے سود تھا۔ اور وہ بھی جنگل میں۔ محافظ جو اب تک پوری بات سے بے خبر تھا اور اس تاثر کے تحت تھا کہ اس نے میری توجہ ریچھ کی جانب کرا کے مجھے ایک آفت سے بچا لیا ہے۔ گولی کی آواز سے ریچھ بھی چوکنا ہو گیا۔ اور وہ اپنے بچوں کے ہمراہ جلدی سے وادی کے نیچے اتر گیا۔ میرا ساتھی یہی کہتا رہ گیا، ‘مارو صاحب مارو۔‘ لیکن جب میں نے اسے ساری بات بتائی تو وہ ایک دم غمگین ہو گیا۔ وہاں سے ہم بنگلے واپس چلے آئے۔

دوسری صبح جب میں پھر اس وادی میں گیا تو میرا یہ شبہ صحیح نکلا کہ شیر اب اپنا شکار کھانے نہ آئے گا۔ جب میں وہاں پہنچا تو تینوں ریچھ شکار پر ہاتھ صاف کر چکے تھے اور بچی کچی ہڈیاں گِدھ نوچ رہے تھے۔

صبح ہوئے ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی۔ میں سامنے والی پہاڑی پر چڑھ کر اس سمت چلنے لگا جِدھر شیر گیا تھا۔ دوپہر کے وقت جب میں بنگلے میں لوٹا تو ایک شخص میرا منتظر تھا۔ اس نے بتایا کہ شیر نے ایک اور گائے ہلاک کر دی ہے۔ وہ شخص ایک مقدمے کے سلسلے میں الموڑا جا رہا تھا اور اس نے راستے میں شیر کو گائے شکار کرتے دیکھا تھا۔ وہ راستے کا تھوڑا سا چکر لگا کر مجھے فقط یہ اطلاع دینے آیا تھا۔ وہ میرے ساتھ تو نہ جا سکتا تھا۔ مگر اس نے زمین پر نقشہ کھینچ کر بتادیا کہ شیر نے کس جگہ گائے ہلاک کی تھی۔ اگر اس شخص نے صحیح نقشہ بنایا تھا تو یہ جگہ اس جگہ سے کوئی پانچ میل کے فاصلے پر تھی جہاں کل میں نے شیر پر گولی چلائی تھی۔ اب کی دفعہ اس نے ایک ندی کے کنارے شکار کیا تھا۔

گزشتہ دن شیر نے جہاں اپنا شکار کیا تھا اسے اس نے وہیں رہنے دیا تھا۔ لیکن آج جب میں جائے حادثہ پر پہنچا تو شیر اپنا شکار گھسیٹ کر دور لے گیا تھا۔ یہ فاصلہ تقریباً دو میل ہو گا۔ اب گائے کے گھسٹنے کی لکیر درختوں کے گھنے جھنڈوں میں گزر رہی تھی۔ تھوڑی دور آگے گیا تو گائے کی ایک پچھلی ٹانگ ٹوٹ کر دو درختوں کے درمیان پھنسی ہوئی ملی۔ چند قدم آگے چل کر سرسبز جھاڑیوں کے ایک گھنے جھنڈ میں شیر کا شکار پڑا تھا۔ اس نے اسے ڈھانپنے کی بھی کوشش نہ کی تھی۔

دو میل کا فاصلہ یوں محتاط ہو کر طے کرنے اور رائفل کے بوجھ سے میرا جسم پسینے سے شرابور تھا اور پیاس کے مارے حلق خشک ہو رہا تھا۔ اس سے میں بخوبی اندازہ کر سکتا تھا کہ اتنا بڑا بوجھ اتنی دور گھسیٹنے سے شیر کو کس قدر پیاس لگی ہو گی۔ پیاس بجھانے کے ارادے سے میں ندی کی سمت چل پڑا۔ وہ ندی جس کے کنارے میں نے ریچھ کو ہلاک کیا تھا، وہ یہاں سے کوئی نصف میل دور تھی۔

میں ندی کے کنارے کھڑا تھا۔ اس جگہ درختوں کا گھنا سایہ تھا۔ ایک چٹان کی عقب سے چکر لگا کر میں ندی میں اترا ہی تھا کہ مجھ سے کوئی بیس گز کے فاصلے پر شیر ندی کے کنارے نرم نرم ٹھنڈی ریت پر سویا ہوا تھا۔ یہاں سے ندی دائیں سمت کو ایک دم مڑ جاتی تھی۔ اس کی پشت میری سمت تھی اور میں فقط اس کی پچھلی ٹانگیں اور دُم دیکھ سکتا تھا۔ میرے اور شیر کے درمیان خشک شاخوں کی ایک دیوار سی تھی۔ جو درخت کے نیچے کی سمت لٹکی ہوئی تھیں۔ یہ شاخیں ہٹا کر شیر کی سمت جانا ممکن نہ تھا کیونکہ شاخوں کی ہلکی سی بھی آواز سے شیر بیدار ہو جاتا۔ دوسری سمت سے ریت پر سے گزر کر اس تک پہنچنا بھی مشکل تھا کیونکہ کنارے کی ڈھلوان سے ریت کے سرکنے سے شیر جاگ جاتا۔ اب میرے پاس فقط یہی صورت تھی کہ میں وہیں بیٹھ کر اس بات کا انتظار کروں کہ شیر کب مجھے خود پر گولی چلانے کا موقع دیتا ہے۔

تھکاوٹ سے چور شیر پانی پینے کے بعد گہری نیند سو رہا تھا۔ نصف گھنٹے تک وہ اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا۔ تب اس نے داہنی سمت پہلو بدلا اور اس کی ٹانگیں کچھ مزید دکھائی دینے لگیں۔ اس حالت میں وہ کچھ دیر لیٹا رہا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا اور ندی کے خم سے باہر نکل آیا۔ رائفل کے گھوڑے پر انگلی رکھے میں اس کے دوبارہ نمودار ہونے کا منتظر رہا کیونکہ اس کا شکار میرے عقب میں پہاڑی کے پیچھے تھا۔ چند منٹ گزر گئے۔ پھر ایک ہرن کی تیز آواز سنائی دی۔ اتنے میں ایک جنگلی مرغ بھی زور زور سے بولنے لگا۔ شیر جا چکا تھا۔ وہ کیوں چلا گیا تھا اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہ سکتا۔ اسے میری خوشبو آ گئی ہو گی ایسا نہیں تھا کیونکہ شیر میں سونگھنے کی حس نہیں ہوتی۔ خیر میرے لیئے اس میں پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ وہ تھوڑی دیر میں ضرور اپنا شکار کھانے کے لیئے آئے گا۔ جسے وہ اتنی مشکل سے گھسیٹ کر لایا تھا۔ ندی کے جس گڑھے سے شیر نے پانی پیا تھا میں نے بھی وہیں جا کر اپنی پیاس بجھائی۔ پانی برف سا ٹھنڈا تھا۔ پانی پینے کے بعد میں نے پائپ سلگا لیا۔

سورج غروب ہونے کے قریب تھا کہ میں گائے سے دس گز دائیں طرف دیودار کے ایک درخت پر چڑھ کر آرام سے بیٹھ گیا۔ شیر نے مغرب کی سمت سے اپنے شکار کے پاس آنا تھا۔ اور میں نہ چاہتا تھا کہ اس کا شکار میرے اور اس کے درمیان ہو۔ کیونکہ شیر کی بینائی بہت اچھی ہوتی ہے۔ درخت پر سے میں سامنے پھیلی ہوئی وادی اور اس کے پیچھے پہاڑیوں کو صاف دیکھ سکتا تھا۔ اور جب سورج آس پاس کی پہاڑیوں پر آگ بکھیر کر بجھنے والا تھا تو پہلے ایک بارہ سینگے کی آواز سنائی دی۔ شیر حرکت کر رہا تھا۔ اسے یہاں پہنچنے میں خاصی دیر لگنی تھی۔ اس کے باوجود اتنی روشنی متوقع تھی کہ میں بڑے آرام سے اُس پر گولی چلا سکتا تھا۔

آگ کا گولا اُفق کے پیچھے چھپ گیا۔ شفق کی سرخی ختم ہو گئی۔ ہر طرف اندھیروں کی پھُوار پڑنے لگی۔ ہر طرف ایک گہرا سکوت محیط تھا۔ ستاروں کی روشنی ہمالیہ کے دامن سے بڑھ کر کہیں اور زیادہ چمکیلی نہیں ہوتی۔ میں اس روشنی میں گائے کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ گائے کا سر میری طرف تھا اور اگر شیر پیچھے سے آ کر اسے کھانے لگتا تو میں اسے دیکھ نہ سکتا تھا۔ اس صورت میں شیر کو ہلاک کرنے کا پچاس فیصد امکان تھا۔ لیکن اسے فقط صرف زخمی کرنا مجھے نہ تھا کیونکہ زخم مندمل ہو جانے کے بعد اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ وہ آدم خور بن جاتا۔ اب تک اس نے جنگل کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہ کی تھی۔ میں اسے فقط دیہاتیوں کی سہولت کی خاطر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔

مشرق کی سمت سے روشنی آ رہی تھی۔ درختوں کی شاخیں زمین پر مبہم سے سائے ڈال رہی تھیں۔ تب چاند نکل آیا اور کھلی وادی میں چاندنی کا دھارا بہنے لگا۔ اب شیر کے آنے کا وقت تھا۔ میں اسے دیکھ تو نہ سکتا تھا لیکن مجھے اس کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ کیا وہ اپنے شکار سے پرے کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا؟ یہ نا ممکن تھا کیونکہ میں درخت کے اوپر اس طرح چھپا بیٹھا تھا کہ اس کا ایک حصہ بن کر رہ گیا تھا اور شیر کسی وجہ کے بغیر جنگل کے ہر درخت کو بغور نہیں دیکھتا۔ اس کے باوجود شیر وہاں شیر وہاں موجود تھا اور مجھے دیکھ رہا تھا۔

اب اتنی روشنی تھی کہ میں گرد و پیش بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ میں نے بڑی احتیاط سے اپنے آس پاس کی زمین کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ جب میں نے اپنا سر داہنی طرف پھیر کر اپنے بالکل پیچھے دیکھنے کی کوشش کی تو میری نظر شیر پر پڑی۔ وہ اپنے پنجوں کے بل زمین پر بیٹھا تھا۔ اس کا منہ اپنے شکار کی طرف تھا مگر وہ سر پھیر کر مجھے دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے مجھے اپنی سمت دیکھتے ہوئے پایا تو اس نے اپنے کان ڈھیلے چھوڑ دیئے اور جب میں اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا تو اس نے پھر سے کان کھڑے کر لیئے۔ جیسے وہ خود سے کہ رہا ہو، ‘خیر اب تم نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ مگر اب تم کیا کرو گے؟’ اور میں واقعی کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کیونکہ شیر پر گولی چلانے کی خاطر مجھے درخت پر پہلو بدل کر پہلے داہنی طرف اور پھر عقب کی سمت مڑنا تھا۔ لیکن ایسا کرنا شیر کو خبردار کرنے کے مترادف تھا جو پندرہ فٹ کے فاصلے سے مجھے برابر گھُورے جا رہا تھا۔ اب اس پر گولی چلانے کا فقط ایک ہی امکان تھا اور وہ تھا بائیں کندھے کے اوپر سے۔ میں نے اس تجویز کو لباسِ عمل پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔ رائفل میرے گھٹنوں پر پڑی تھی اور اس کا منہ بائیں سمت ہی تھا۔ جب میں نے اسے بڑی آہستگی سے اٹھا کر اس کا منہ ہولے ہولے اپنی داہنی سمت پھیرنا شروع کیا تو شیر نے اپنا سر نیچا اور کان چوڑے کر لیئے۔ میں وہیں کا وہیں رک گیا۔ اس پوزیشن میں شیر تب تک رہا جب تک میں اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا لیکن جب میں نے پھر رائفل گمانی شروع کی تو وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھا اور سایوں میں گھل مل گیا۔

شیر ایک دفعہ پھر مجھے مات دے گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ چاہے جتنی دیر تک درخت پر بیٹھا رہوں وہ واپس نہ آئے گا۔ لیکن اگر میں یہاں سے چلا جاؤں تو ممکن ہے وہ لوٹ آئے اور چونکہ وہ ساری گائے فقط ایک رات میں نہیں کھا سکتا تھا۔ لہذا اگلے دن اس سے ٹکر لینے کا مجھے ایک اور موقع مل سکتا تھا۔

اب میرے سامنے یہ سوال تھا کہ رات کہاں بسر کروں۔ اس دن میں نے پہلے ہی کوئی بیس میل کا سفر کیا تھا۔ وہاں سے ریسٹ ہاؤس آٹھ میل دور تھا۔ وہاں تک پہنچنے کی مجھ میں سکت نہ تھی اور پھر راستے میں بھرپور جنگل تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ شکار سے کوئی دو، تین سو گز کے فاصلے پر کھلی وادی میں سو جاؤں مگر مجھے آدم خور چیتے کا خیال آیا اور آدم خور چیتے ہمیشہ رات کو شکار کرتے ہیں۔ آخر مجھے دور مویشیوں کی گھنٹیاں بجنے کی آوازیں آئیں۔ یہ دیہاتیوں کا کوئی پڑاؤ تھا۔ میں درخت سے اترا اور اس سمت چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد میں وہاں پہنچ گیا۔ تھکاوٹ کے مارے میری بری حالت ہو رہی تھی۔ دیہاتیوں نے میری حسبِ توفیق خاطر تواضع کی۔ پھر میں چارپائی پر لیٹ کر پائپ پینے لگا۔

دوسری صبح سورج ابھی طلوع ہو رہا تھا کہ اپنے گرد و پیش کی آوازوں سے میری آنکھ کھل گئی۔ تین آدمی میرے پاس کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک نے گرم گرم تازہ دودھ سے بھرا ہوا پیالہ پکڑ رکھا تھا۔ انہوں نے مجھے کھانے کی پیشکش کی مگر میں نے ان کی میزبانی کا شکریہ ادا کر کے یہ دیکھنے کی خاطر کہ اب شیر اپنا شکار کہاں لے گیا ہو گا پھر سے وادی کی سمت چل پڑا۔ مجھے دیکھ کے حیرت ہوئی کہ گائے وہیں جوں کی توں پڑی ہے۔ گِدھوں سے بچانے کی خاطر میں نے اسے شاخوں سے ڈھانپ دیا اور تازہ دم ہونے کے لیئے ریسٹ ہاؤس کی سمت چل پڑا۔

ہندوستانی ملازم اپنے آقا کے بڑے وفادار ہوتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے کی غیر حاضری کے بعد جب میں وہاں پہنچا تو میرے ملازم حیران نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے مجھ سے کوئی سوال پوچھا۔ غسل کے لیئے گرم پانی تیار تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد میں ریسٹ ہاؤس کے سامنے والے لان میں بیٹھ کر نظروں کے سامنے پھیلی ہوئی دلکش وادی سے حظ اٹھانے لگا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیئے۔ نینی تال سے تو میں پانار کے آدم خور چیتے کو ہلاک کرنے آیا تھا۔ وہی چیتا جس نے اس روز مندر کے چبوترے پر سوئے ہوئے مسافر کی ٹانگ کھینچی تھی۔ اس کے بعد اس کے متعلق کچھ نہ سنا گیا تھا۔ لوگوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بعض اوقات وہ چیتا کافی عرصے کے لیئے دیبی دھورا سے غائب ہو جاتا ہے اور پھر ایک دن اچانک آ جاتا ہے۔ آج کل وہ وہاں سے غائب تھا اور کوئی نہ کہ سکتا تھا کہ کب واپس آئے گا۔ میں تو اصل میں اس چیتے کو ہلاک کرنے آیا تھا اور اس میں مجھے ناکامی ہوئی تھی۔ اب دیبی دھورا میں مزید بیٹھے رہنا میرے لیئے کسی طرح سودمند نہ تھا۔ لیکن مندر کے شیر کا مسلہ بدستور میرے سامنے تھا۔ اس شیر کو ہلاک کرنا میں کسی طرح اپنی ذمہ داری محسوس نہ کرتا تھا۔ لیکن اس کے سبب دیہاتیوں کو جو نقصان پہنچ رہا تھا اس کے پیش نظر میں نے اسے شکار کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اس نے جو نقصان پہنچایا تھا اس کا معاوضہ بھی ادا کیا تھا۔ مگر وہ ہر بار مجھے چکمہ دے گیا تھا۔ لیکن اتنا میں ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ اس نے مجھے شکار کے نہایت دلچسپ تجربات سے آشنا کرایا تھا۔ اس کے ہاتھوں اپنی شکستوں کے باوجود مجھے اس پر کوئی غصہ نہ تھا۔ وہ ایک نہایت ذہین شیر تھا اور میں نے اس جیسے بہت کم شیر دیکھے تھے۔ گزشتہ چار دن سے ہم ایک دوسرے سے نبرد آزما تھے۔ اور ان چار دنوں میں میں بے حد تھک گیا تھا۔ لہذا میں نے آج کا دن آرام کر کے اگلے دن نینی تال واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔ ابھی میں نے یہ فیصلہ کیا ہی تھا کہ مجھے اپنے پیچھے ایک آواز سنائی دی، ‘سلام صاحب! میں آپ کو بتانے آیا ہوں کہ شیر نے میری ایک گائے ہلاک کر دی ہے۔‘ شیر کو شکار کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ لگا تھا۔ میں نے سوچا کہ خواہ میں اس دفعہ کامیاب رہوں یا ناکام بہر صورت کل نینی تال ضرور لوٹ جاؤں گا۔

انسانوں اور ریچھوں کی مداخلت سے تنگ آ کر شیر نے اپنی جائے شکار بدل لی تھی اور یہ آخری شکار اس نے دیبی دھورا کی مشرقی پہاڑیوں پر اس جگہ سے چند میل دور ادھر کیا تھا جہاں میں گزشتہ شب اس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ یہ جگہ اونچی نیچی تھی اور کہیں کہیں ہی کوئی اِکّا دُکّا درخت دکھائی دیتا تھا۔

مشرقی پہاڑیوں کے نیچے ایک وادی تھی جس میں جھاڑیاں بکثرت اُگی تھیں۔ اور ان کے درمیان کہیں کہیں گھاس کے قطعات تھے۔ انہی قطعات میں سے ایک کے کنارے شیر نے گائے ہلاک کی تھی اور اسے گھسیٹ کر بائیں سمت کی جھاڑیوں میں لے گیا تھا۔ چند قدم چلنے پر مجھے گائے نظر آ گئی۔ وہیں دیودار کا ایک درخت تھا۔ میں نے اس پر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا۔

میرے ملازم میرے ساتھ تھے۔ وہ میرے لیئے چائے بنانے میں مصروف ہو گئے۔ میں یہ سوچ کر کہ شاید شیر کہیں آس پاس لیٹا ہو اور اس پر گولی چلانے کا مجھے موقع مل جائے۔ میں ادھر ادھر گھومنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر یہیں کہیں وادی میں لیٹا ہو گا۔ میں ایک گھنٹے تک اسے تلاش کرتا رہا مگر وہ دکھائی نہ دیا۔

جس درخت پر میں بیٹھا تھا اس کا تنا قدرے باہر کی طرف جھکا ہوا تھا۔ اس کے بڑے تنے پر زمین سے کوئی دو گز کے فاصلے پر گھنی شاخیں اگی ہوئی تھیں۔ جس کے باعث درخت پر چڑھنا آسان تھا۔ مگر درخت پر چڑھنے کے بعد تنے کی نیچے والی زمین گھنی شاخوں کے باعث بالکل دکھائی نہ دینی تھی۔ شام کے چار بجے میں نے اپنے ملازم روانہ کر دیئے اور خود درخت کے اوپر زمین سے کوئی بیس فٹ کے فاصلے پر ایک آرام دہ جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے ملازموں سے کہا تھا کہ وہ مشرقی پہاڑی کے قریب میرا انتظار کریں۔ کیونکہ میں نے سوچا تھا کہ اگر شیر شام سے پہلے آ گیا تو بہتر ورنہ وہاں رات گزارنے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔

گائے سر سبز کھلی زمین پر مجھ سے کوئی دس گز کے فاصلے پر پڑی تھی۔ اس کی پچھلی ٹانگیں جھاڑیوں کے ایک جھُنڈ کو چھو رہی تھیں۔ وہاں بیٹھے مجھے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔ میں اوپر نظریں اٹھائے آسمان سے گزرنے والے مختلف پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گائے کو دیکھنے کی نیت سے جونہی میں نے سر پھیرا تو شیر کا سر ان جھاڑیوں سے نمودار ہوتا ہوا دکھائی دیا جنہیں گائے کی پچھلی ٹانگیں چھو رہی تھیں۔ وہ لیٹا ہوا تھا اور اس کا سر زمین سے بہت قریب تھا اور اس کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنا ایک پنجہ بڑھایا اور پھر دوسرا اور پھر بڑی آہستگی سے پیٹ کے بل رینگ کر اپنے شکار کے پاس آ گیا۔ یہاں وہ کسی حرکت کے بغیر چند منٹ لیٹا رہا۔ تب بدستور اپنی نگاہیں مجھ پر گاڑے ہوئے اس نے منہ سے گائے کی دُم کاٹ کر اسے ایک طرف رکھا اور پھر کھانے لگا۔ تین دن پہلے ریچھ سے لڑائی کے بعد اس نے کچھ نہ کھایا تھا اور بے حد بھوکا تھا۔ وہ یوں کھا رہا تھا جیسے کوئی آدمی سیب کھاتا ہے۔ وہ کھال کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گائے کی ران سے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے پھاڑ رہا تھا۔

بندوق میری گود میں پڑی تھی اور اس کا رخ شیر کی سمت تھا۔ میں نے فقط یہ کرنا تھا کہ اسے کندھے کے قریب لا کر گھوڑے کو دبا دوں۔ یہ موقع مجھے اس وقت مل جاتا جب چند سیکنڈ کے لیئے بھی شیر اپنی نظریں اِدھر اُدھر کر لیتا۔ لیکن شاید شیر میرے دل کی بات بھانپ گیا تھا اور اس خطرے سے آگاہ تھا۔ کیونکہ وہ مجھ سے نظریں ہٹائے بغیر بڑے اطمینان سے اپنا شکار کھا رہا تھا۔ جب وہ کوئی دس بارہ سیر گوشت کھا چکا اور اس کے عَقب والی جھاڑی میں ایک بُلبُل بولنے لگی تو میں نے سوچا یہ میرے لیئے بہترین موقع ہے۔ میں رائفل کو نہایت آہستہ آہستہ اٹھاؤں تو شاید شیر کو میری ہاتھوں کی جُنبش کا پتا نہ چلے۔ اور جب بُلبُل تیزی سے بولنے لگی تو میں نے اپنی تجویز کو لباسِ عمل پہنانا شروع کر دیا۔ ابھی میں نے بندوق کو چھ انچ ہی اوپر اٹھایا ہو گا کہ شیر ایک دم ہی پیچھے کی سمت ہٹ گیا جیسے کسی بڑے سپرنگ نے اسے پیچھے کی سمت کھینچ لیا ہو۔ اب بندوق کندھے پہ جمائے اور کہنیاں گھٹنوں پر ٹکائے میں منتظر تھا کہ شیر فقط لمحہ بھر کے لیئے اپنا سر جھاڑیوں سے باہر نکالے اور مجھے یقین تھا کہ وہ ایسا ضرور کرے گا۔ وقت گزرتا گیا اور پھر مجھے شیر کی آواز سنائی دی۔ وہ جھاڑیوں کے عقب سے دبے پاؤں چل کر میرے درخت کے نیچے آ کھڑا ہوا تھا اور اب اپنے اگلے پنجوں سے درخت کے اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے اور اس کے درمیان درخت کے تنے کے گرد اگی ہوئی جھاڑیاں تھیں۔ جن کے باعث میں اسے دیکھ نہ سکتا تھا۔ شیر زور زور سے اپنے پنجے تنے کے گرد مار کر اس کی چھال کھرچ رہا تھا۔

میں جانتا تھا کہ کوّوں اور بندروں میں ظرافت کی حِس ہوتی ہے۔ لیکن اس روز مجھے پتا چلا کہ یہ حِس شیر میں بھی موجود ہے۔ نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ جنگلی جانور اس قدر خوش قسمت بھی ہو سکتا ہے جتنا یہ شیر تھا۔ گزشتہ پانچ دنوں میں اس نے پانچ گائیں ہلاک کی تھیں۔ میں نے کوئی آٹھ مرتبہ اسے دیکھا تھا اور کوئی چار مرتبہ اس پر گولی چلائی تھی۔ اور اب کوئی نصف گھنٹے تک میرے سامنے بیٹھ کر مجھے گھور کر اور اپنا شکار کھا کر میرے درخت کے گرد چکّر لگا رہا تھا۔ جیسے میرا مذاق اڑا رہا ہو۔

اس وقت مجھے مندر کے پجاری کے وہ فقرے یاد آ رہے تھے جو اس نے برآمدے میں بیٹھ کر اِس شیر کے متعلق کہے تھے۔ ‘جناب آپ اسے بے شک ہلاک کر دیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر نہ تو آپ اور نہ ہی کوئی دوسرا شکاری، اسے ہلاک کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔‘ پجاری نے جو کہا تھا شیر اسے ثابت کر رہا تھا۔ یہ میرا اور شیر کا آخری مقابلہ تھا۔ اس سارے وقت میں ہم دونوں کو کوئی ضرب نہ آئی تھی۔ لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ شیر اس طرح میرا مذاق اڑا کر آرام سے لوٹ جائے۔ میں نے بندوق گود میں رکھ لی اور دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں دے کر شیر کے وہاں سے ہٹنے کا انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں شیر پورے زور سے گرجا۔ آس پاس کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ تب شیر پوری رفتار سے بھاگتا ہوا وادی کے نیچے اتر گیا۔ اتنے میں میرے آدمی بھی وہاں آ پہنچے۔ وہ کہنے لگے ‘ہم نے شیر کو بھاگتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کی دُم ہوا میں اٹھی ہوئی تھی۔ اور یہ دیکھیئے اس نے درخت کا کیا حشر کیا ہے۔‘ کچھ دیر اور اگر شیر درخت کو یونہی نوچتا رہتا تو وہ گر ہی جاتا۔

دوسرے دن میں دیبی دھورا سے رخصت ہو گیا لیکن وہاں سے جانے سے پہلے میں نے اپنے دوستوں کو یقین دلایا کہ جب آدم خور چیتے کی سرگرمیاں یہاں بڑھ جائیں گی تو میں پھر آ جاؤں گا۔

بعد میں مجھے کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ لیکن میں نے کسی سے بھی یہ نہ سنا کہ کسی شکاری نے مندر کے شیر کو ہلاک کیا ہے۔

٭٭٭

مکتیسر کی آدم خور شیرنی

نینی تال سے اٹھارہ میل شمال مشرق کی طرف آٹھ ہزار فٹ اونچی اور پندرہ میل لمبی ایک پہاڑی ہے جو مغرب سے مشرق کو پھیلی ہوئی ہے۔ اس پہاڑی کا مغربی کنارا ایک دم اوپر کو اٹھا ہوا ہے اور اس کنارے کے نزدیک مکتیسر کا تحقیقیاتی ادارہ برائے جنگلی حیات ہے۔ جہاں ہندوستان میں حیوانات کی بیماریوں کی روک تھام کے لیئے مختلف ادویات کی تحقیق کی جاتی ہے۔ اس ادارہ کی تجربہ گاہ اور اسٹاف کے کوارٹر پہاڑی کے شمالی حصّے پہ واقع ہیں۔ پہاڑی کے اس شمالی حصّہ کا شمار ہمالیہ کے بہترین نظاروں میں ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے مکتیسر دیکھا ہے یا وہاں رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ علاقہ کماؤں کا خوبصورت ترین علاقہ ہے اور یہاں کی آب و ہوا کا جواب نہیں۔

ممکن ہے مکتیسر کی خوبصورتی کا احساس ایک شیرنی کو بھی ہو گیا ہو کیونکہ اس نے وہاں کے قریبی گھنے جنگلات کو اپنا مسکن بنا لیا۔ وہاں اس کے دن بڑے مزے سے گزرتے تھے کیونکہ وہاں ہرن وغیرہ عام تھے، لیکن بد قسمتی سے ایک دن اس کا مقابلہ خارپشت سے ہو گیا۔ اس مقابلہ میں اس کی ایک آنکھ جاتی رہی اور اس کے جسم پہ کوئی پچاس زخم آئے جو ایک انچ سے نو انچ لمبے تھے۔ بعض زخموں میں خار پشت کے کانٹے ٹوٹ گئے تھے اور جب شیرنی نے انہیں اپنے دانتوں سے نکالنا چاہا تو وہ زیادہ گہرے زخم بن گئے۔ ایک دن جبکہ وہ بھوکی پیاسی ایک جگہ لمبی لمبی گھاس میں لیٹی اپنے زخم چاٹ رہی تھی ایک عورت اپنے مویشیوں کے لیئے گھاس کاٹنے ادھر آ نکلی۔ پہلے تو شیرنی نے اس کی پرواہ نہ کی لیکن جب وہ عورت گھاس کاٹتی کاٹتی بالکل اس کے قریب آ گئی اور اس کی درانتی شیرنی کے جسم سے ٹکرائی تو شیرنی نے غصّے میں آ کر اسے ایک تھپڑ رسید کیا۔ عورت وہیں ڈھیر ہو گئی۔ اس عورت کو وہیں چھوڑ کر شیرنی لنگڑاتی ہوئی ایک میل دور چلی گئی اور ایک اکھڑے ہوئے درخت کے خالی تنے میں پناہ گزیں ہو گئی۔ دو دن بعد ایک آدمی اس درخت سے ایندھن کاٹنے کے غرض سے وہاں آیا۔ شیرنی نے اسے بھی ہلاک کر دیا۔ اس آدمی کا جسم درخت کے دونوں جانب لٹکنے لگا۔ ممکن ہے اس کے جسم سے خون کو بہتا دیکھ کر شیرنی کو پہلی مرتبہ خیال آیا ہو کہ یہ بھی کوئی کھانے والی چیز ہے اور وہ اس سے اپنی بھوک مٹا سکتی ہے۔ بحرحال بات کچھ بھی ہو، اپنے شکار کو چھوڑنے سے پہلے شیرنی نے اس کی پشت کا تھوڑا سا حصہ کھایا۔ تیسرے دن اس نے جان بوجھ کے ایک تیسرے شخص کو ہلاک کیا۔ اس کے بعد وہ ایک مسلّمہ آدم خور بن گئی۔

شیرنی نے ابھی انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کیا ہی تھا کہ اس کی اطلاع مجھ تک پہنچ گئی۔ چونکہ مکتیسر میں شکاری پہلے ہی سے موجود تھے اور جن میں سے ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ وہ شیرنی کو شکار کرے لہذا میں نے ان کے معاملے میں دخل انداز ہونے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ لیکن جب شیرنی نے تقریباً چوبیس افراد ہلاک کر ڈالے اور وہاں کے باشندوں اور تحقیق گاہ میں کام کرنے والے ملازمین کی جانوں کو ہر وقت خطرہ رہنے لگا تو تحقیق گاہ کے انچارج افسر نے حکومت سے میری خدمات حاصل کرنے کی درخواست کی۔

حالات سے پتا چلتا تھا کہ میرا کام آسان نہ ہو گا کیونکہ اس وقت تک ایک تو میرا آدم خوروں کو ہلاک کرنے کا تجربہ خاصا محدود تھا۔ دوسرا شیرنی ایک وسیع رقبہ پر گشت کرتی تھی اور کوئی علم نہ تھا کہ اس سے کہاں سامنا ہو جائے۔

میں نینی تال سے دوپہر کے وقت تین ملازموں کے ہمراہ روانہ ہوا اور دس میل کا سفر طے کر کے رات رام گڑھ کے ڈاک بنگلے میں بسر کی۔ ڈاک بنگلے کا خانساماں میرا پرانا دوست تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں آدم خور شیرنی کو ہلاک کرنے جا رہا ہوں تو اس نے مجھے تنبیہ کی کہ میں وہاں سے مکتیسر کے آخری دو میل بڑی احتیاط سے طے کروں کیونکہ گزشتہ چند دنوں میں شیرنی نے اس راستے پر تین چار مسافروں کو ہلاک کیا تھا۔

اپنے ملازموں کو یہ ہدایت کر کے کہ وہ سامان باندھ کر میرے پیچھے چلے آئیں، خود میں صبح سویرے بندوق لے کر نینی تال اور الموڑا سڑک کے سنگم پر پہنچ گیا۔ جہاں سے مکتیسر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں سے محتاط ہو کر سفر کرنا ضروری تھا کیونکہ اب میں آدم خور کی حدود میں داخل ہو رہا تھا۔ یہاں سے سڑک تھوڑی دور تک سیدھی جاتی تھی اور پھر پیچاک میں الجھ جاتی تھی۔ سڑک کے سیدھے حصے پر دونوں جانب بڑے خوبصورت پہاڑی پھول کھلے تھے۔ اس پہاڑی پر چڑھنے کا میرا یہ پہلا موقع تھا۔ راستے میں قدم قدم پر غار تھے جن میں پہاڑی ہوائیں سستا رہی تھیں۔ سڑک پر جھکی ہوئی چٹانیں تھیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ بعض غار بے حد گہرے ہیں اور وہ زمین کی سطح کو چھو رہے ہیں۔

مکتیسر شروع ہونے سے پہلے پہاڑی پر ایک چھوٹا سا میدان ہے۔ جہاں مکتیسر کا ڈاک خانہ ہے اور وہیں سے بازار بھی شروع ہو جاتا ہے۔ ابھی تک ڈاک خانہ نہیں کھلا تھا۔ فقط ایک دوکان کھلی تھی جس کے مالک نے مجھے ڈاک بنگلے کا راستہ بتایا جو وہاں سے پہاڑی کے شمالی حصے پر تقریباً نصف میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ مکتیسر میں دو ڈاک بنگلے ہیں۔ ایک سرکاری ملازمین کے لیئے اور دوسرا عوام کے لیئے۔ مجھے یہ معلوم نہ تھا مگر میرے دوکاندار دوست نے مجھے سرکاری ملازم سمجھ کر سرکاری ڈاک بنگلے کا راستہ بتادیا جس کے باعث وہاں کے خانساماں کو میرے لیئے ناشتہ تیار کرنے کے لیئے مفت کی تکلیف اٹھانی پڑی۔

میں ناشتہ کرنے میں مصروف تھا اور اپنے سامنے پھیلے ہوئے برف کے دلفریب نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ میرے سامنے بارہ انگریزوں کی ایک پارٹی گزری جنہوں نے رائفلیں اٹھا رکھی تھیں۔ ان کے پیچھے ایک سارجنٹ اور دو آدمی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔ میرے پوچھنے پر سارجنٹ نے مجھے بتایا کہ یہ پارٹی آدم خور کے ڈر سے اکٹھّی ہو کر سفر کر رہی ہے۔ سارجنٹ ہی سے مجھے پتا چلا کہ حکومت نے ادویات کی تحقیق گاہ کے انچارج افسر کو بذریعہ تار اطلاع دے دی ہے کہ میں اس کی درخواست پر وہاں پہنچ رہا ہوں۔ سارجنٹ نے امید کا اظہار بھی کیا کہ میں آدم خور کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا کیونکہ اس بستی میں حالات بڑے ابتر ہو چکے تھے۔ دن کے وقت بھی کوئی تنہا چلنے پھرنے کی جرات نہیں کرتا اور شام پڑتے ہی لوگ گھروں کے دروازے مقفل کر لیتے ہیں۔ آدم خور کو ہلاک کرنے کی بہت سی کوششیں کی گئی تھیں لیکن سب بے سود ثابت ہوئیں کیونکہ شیرنی اپنے شکار کو دوبارہ کھانے کبھی نہ آتی تھی۔

ناشتے کے بعد میں نے خانساماں کو ہدایت کی کہ جب میرے آدمی وہاں پہنچ جائیں تو وہ انہیں بتادے کہ میں آدم خور کا اتا پتا لگانے نکل گیا ہوں اور نہ جانے کب واپس آؤں گا۔ پھر میں نے رائفل اٹھائی اور ڈاک خانہ کی طرف چل پڑا تاکہ اپنے گھر یہاں بخیریت پہنچنے کی اطلاع پہنچا سکوں۔

جب میں تار دینے ڈاک خانے میں آیا تو تار کے فارم پر میرے دستخط دیکھ کر پوسٹ ماسٹر میرے قریب آیا اور مجھے بڑے تپاک سے ملا۔ اور لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے اور سب کے سب آدم خور کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ وہ میری ہر طرح سے مدد کو تیار تھے۔ ان کے اس جذبے سے مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ ان کی باتوں سے مجھے آدم خور کے بارے میں بہت سی مفید اطلاعات حاصل ہوئیں۔ دیہی ہندوستان میں ڈاک خانہ اور بنیئے کی دوکان کی وہی حیثیت ہے جو دوسرے ملکوں میں سرائے اور کلبوں کی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں اگر کسی خاص موضوع پر اطلاعات جمع کرنی ہوں تو اس کے لیئے ڈاک خانہ اور بنیئے کی دوکان مرکز ثابت ہوتے ہیں۔

ڈاک خانے سے کوئی دو میل بائیں جانب ایک ہزار فٹ نیچے ایک باغ ہے جسے بدری شاہ کا باغ کہا جاتا ہے۔ بدری میرے ایک پرانے دوست کا بیٹا تھا جو چند ماہ پہلے میرے پاس نینی تال آیا تھا اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ آدم خور کو ہلاک کرنے میں وہ ہر طرح سے میری مدد کرے گا۔ یہ پیشکش اس وقت میں نے قبول نہ کی تھی۔ لیکن اب جب حکومت کی درخواست پر میں مکتیسر پہنچ گیا تھا میں نے فیصلہ کیا کہ بدری کے پاس جاؤں اور وہ جس قسم کی مدد مجھے دے اسے قبول کر لوں۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں جبکہ شیرنی نے اپنا آخری انسانی شکار اس کے باغ کے تھوڑے فاصلے پہ کیا تھا۔

اپنے ارد گرد کھڑے لوگوں کا شکریہ ادا کر کے اور ان سے یہ کہہ کر کہ میں ان کی مدد پر بھروسہ کروں گا۔ میں دھاری سڑک کی طرف چل پڑا۔ اب دن اچھی طرح نکل چکا تھا اور بدری کے گھر جانے سے قبل میں نے سوچا کہ گرد و نواح کی پہاڑیوں کا ایک چکر لگا لوں۔ سڑک پر کوئی سنگ میل نہ تھا۔ تقریباً چھ میل کا فاصلہ طے کر کے اور دو قریبی دیہاتوں کی سیر کر کے میں واپس چل پڑا۔ ابھی میں نے نصف سفر طے کیا تھا کہ مجھے ایک چھوٹی سی لڑکی ملی جسے ایک بیل تنگ کر رہا تھا۔ لڑکی کی عمر کوئی آٹھ برس کی تھی۔ وہ بیل کا رسّہ آگے کی طرف کھینچ رہی تھی مگر بیل پیچھے کی طرف جا رہا تھا۔ دونوں اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے۔ لڑکی کی مدد کے طور پر میں بیل کو پیچھے سے ہانکنے لگا۔

’تم کلوے کو چرا کر تو نہیں لے جا رہی ہو؟’ لڑکی بیل کو اسی نام سے بُلا رہی تھی۔

’نہیں تو۔‘ لڑکی نے قدرے ہتک محسوس کر کے اپنی بھوری آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔

’یہ کس کا ہے؟’

’میرے باپ کا ہے۔‘

تم اسے کہاں لے جا رہی ہو؟’

’اپنے چچا کے پاس۔‘

’تمہارے چچا کو اس کی کیا ضرورت ہے؟’

’میرے چچا کا ایک بیل شیر نے ہلاک کر دیا ہے۔ اب اس کے پاس فقط ایک ہی بیل ہے۔ کھیتی باڑی کے لیئے اسے دوسرے بیل کی ضرورت ہے۔‘ لڑکی خاموش ہو گئی۔ مگر دوسرے ہی لمحے خود ہی بول پڑی، ‘تم شیر کو ہلاک کرنے آئے ہو؟’

’ہاں ! شیر کا شکار کرنے آیا ہوں۔‘

’تو پھر تم میرے چچا کے مرے ہوئے بیل سے دور کیوں جا رہے ہو۔‘

’کلوا کو تمہارے چچا کے پاس جو پہچانا ہوا۔‘

لڑکی میرے جواب سے مطمئن سی ہو گئی۔ لڑکی نے مجھے ایک مفید اطلاع مبہم پہنچائی تھی۔ مگر میں اس سے مزید اطلاعات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لہذا میں نے اس سے پوچھا۔

’کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ شیر آدم خور ہے؟’

’ہاں اس نے ہمارے گاؤں کے دو تین آدمیوں کو ہلاک کیا ہے۔‘

اتنے میں ہم ایک ایسے چھوٹے سے مکان کے سامنے پہنچ گئے جو ایک کھیت میں واقع تھا۔ لڑکی نے اپنے چچا کو آواز دی اور اس سے کہا کہ وہ کلوے کو لے آئی ہے۔ چچا نے اندر سے آواز دی کہ وہ کھانا کھا رہا ہے۔ لڑکی نے بیل کو باہر کھونٹ پر باندھ دیا اور واپس اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔ میں بھی اس کے ساتھ ہولیا۔

’کیا تم مجھے بتا سکتی ہو کہ تمہارے چچا کے بیل کو شیر نے کہاں ہلاک کیا تھا؟’

’کیوں نہیں۔‘ لڑکی نے بڑے شوق سے کہا۔

’کیا تم نے مرا ہوا بیل دیکھا ہے؟’

نہیں ! وہ میرے چچا نے میرے باپ کو بتایا تھا کہ وہ کہاں ہے۔‘

جہاں سے ہم گزر رہے تھے وہاں سے سڑک بڑی تنگ تھی اور ارد گرد گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ لڑکی سے باتیں کرتے وقت میں گرد و پیش کا بغور جائزہ بھی لیتا جا رہا تھا۔ ہم نے کوئی میل بھر سفر طے کیا ہو گا کہ ہمیں سڑک سے ایک کچا راستہ جنگل میں جاتا ہوا دکھائی دیا۔ لڑکی وہاں ٹھہر گئی اور اس راستے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی۔

’چچا کا بیل اسی راستے میں کہیں مرا پڑا ہے۔‘

اب مجھے ہر ضروری اطلاع مل چکی تھی۔ لڑکی کو بحفاظت اس کے گھر پہنچا کر میں واپس اسی جگہ پر آیا اور اس کچے راستے پر چلنے لگا کوئی دو فرلانگ چلنے پر مجھے ایک جگہ مویشیوں کے گہرے کھُروں کے نشان دکھائی دیئے۔ راستے سے ہٹ کر میں متوازی سمت میں جنگل کے اندر داخل ہو گیا۔ پچاس قدم چلنے پر مجھے ایک بڑی سی لکیر نظر آئی جیسے کسی چیز کو گھسیٹا گیا ہو۔ اس لکیر پر کوئی پچاس گز چلنے کے بعد مجھے بیل کی لاش مل گئی جو ایک پہاڑی نالے کے کنارے سے بیس قدم دور پڑی تھی۔ نالے اور لاش کے درمیان ایک سوکھا ہوا درخت تھا جس پر خار دار بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ فقط یہ ہی ایک ایسا موزوں درخت تھا جس پر بیٹھ کر میں آدم خور کو ہلاک کرنے کی امید کر سکتا تھا۔ رات اندھیری ہونے کے باعث میں بیل کی لاش کے جس قدر زیادہ قریب ہوتا اسے شکار کرنے کے اتنے ہی زیادہ امکان ہو سکتے تھے۔

اس وقت دو بجے تھے۔ میرے پاس ابھی اتنا وقت تھا کہ بدری کے پاس جا سکوں۔ بدری نے میرے لیئے چائے تیار کرائی اور پھر چائے کے دوران ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ جب میں نے بدری سے پوچھا کہ اس بیل کے ہلاک کیئے جانے کی خبر مکتیسر میں دوسرے شکاریوں کو کیوں نہیں پہنچائی گئی تو اس نے جواب دیا کہ یہ شکاری اب تک اس آدم خور کو ہلاک کرنے سے معذور رہے ہیں جس کے باعث لوگوں کو اب ان پر اعتماد نہیں رہا۔ اب گاؤں والے ان تک ایسی کوئی اطلاع پہچانا بے کار تصور کرتے ہیں۔ بدری کے نزدیک ان شکاریوں کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جب کبھی وہ آدم خور کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے تو اس سے پہلے بڑی شاندار تیاریاں کرتے۔ وہ راستے سے جھاڑیوں اور چھوٹے موٹے درختوں کو صاف کر دیتے اور بڑی بڑی مچانیں تیار کرتے اور ان مچانوں پر کئی کئی آدمی بیٹھے ہوتے۔ آدم خور کو فوراً معلوم ہو جاتا کہ سب تیاریاں اس کے لیئے کی گئی ہیں۔ لہذا وہ اپنے شکار کے پاس دوبارہ کبھی نہیں آتا۔ بدری کو یقین تھا کہ مکتیسر کے علاقے میں فقط ایک ہی شیر ہے اور وہ بھی اپنی دائیں ٹانگ سے قدرے لنگڑا ہے۔ مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ لنگڑا کیسے ہوا ہے اور وہ نر ہے یا مادہ۔

میں نے بدری کو اس درخت کے متعلق بتایا جس پر میں رات کو بیٹھنا چاہتا تھا۔ جب شام کے قریب میں شیر کے ہلاک کیئے ہوئے بیل کی طرف جانے لگا تو بدری اس بات پہ مصر ہو گیا کہ وہ اور اس کے دو آدمی بھی میرے ساتھ جائیں گے اور مچان تیار کرنے میں میری مدد کریں گے۔ جب انہوں نے وہ درخت دیکھا تو کہنے لگے کہ میں وہاں بیٹھ کر شیر کا انتظار نہ کروں اور اسے اتنی اجازت دوں کہ وہ اپنے شکار کو گھسیٹ کر کسی مناسب جگہ پر لے جائے جہاں سے اس پر گولی چلانا اور اسے ہلاک کرنا آسان ہو۔ اگر شیر آدم خور نہ ہوتا تو میں بھی یہی کچھ کرتا۔ مگر اب میں ہاتھ آیا ہوا موقع کھونا نہ چاہتا تھا۔ ایسا موقع جو شاید پھر کبھی میسر نہ ہو۔ اس جنگل میں ریچھ بھی تھے۔ اگر کسی ریچھ کو بیل کی خبر ہو جاتی تو اس صورت میں میں آدم خور پر گولی چلانے کا موقع بھی کھو بیٹھتا کیونکہ ہمالیہ کے ریچھ بڑے نڈر ہوتے ہیں اور وہ شیر کا شکار کھانے میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے۔ جہاں تک ممکن ہو سکا میں درخت پر آرام سے بیٹھ گیا۔ بدری اور اس کے آدمی اگلی صبح آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گئے۔

میرا منہ پہاڑی کی سمت اور پشت ندی کی جانب تھے۔ اگر پہاڑی سے کوئی جانور اترتا تو میں اسے صاف طور پہ دیکھ سکتا تھا۔ لیکن اگر شیر پیچھے کی جانب سے آتا، جیسا کہ مجھے توقع بھی تھی، وہ مجھے نہ دیکھ سکتا تھا۔ بیل کا رنگ سفید تھا اور اس کی ٹانگیں میری جانب تھیں۔ میرے اور اس کے درمیان کوئی پندرہ فٹ کا فاصلہ تھا۔ میں چار بجے اس درخت پر بیٹھ گیا اور کوئی ایک گھنٹے بعد مجھ سے دو سو گز دور ندی کی سمت ایک ککر کے بولنے کی آواز آنے لگی۔ شیر حرکت کر رہا تھا۔ ککر اسے دیکھ کر چلانے لگا تھا۔ وہ بڑی دیر تک چلاتا رہا اور پھر حرکت کرنے لگا۔ اس کی آواز مدھم پڑتی گئی حتی کہ مجھ تک آنی بند ہو گئی۔ اس کا مطلب تھا کہ شیر اپنی شکار کی حدود میں داخل ہو کر کسی جگہ پر لیٹ گیا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ شیر کو یہ معلوم کرنے کے لیئے کہ آس پاس کوئی انسان ہے کہ نہیں وہاں لیٹ گیا تھا اور جب اسے یقین ہو جائے گا کہ گرد و نواح میں کوئی انسان نہیں تو وہ اپنے شکار کی سمت حرکت کرے گا۔ وقت کی رفتار مدھم ہو گئی۔ ہر طرف اندھیرا پھیل گیا۔ مرا ہوا بیل اب سفید دھبے جیسا دکھائی دے رہا تھا۔ اتنے میں ندی کی جانب مجھے ایک بھاری سر دکھائی دیا اور کسی کے چور قدموں چلنے کی آواز سنائی دی۔ پھر اچانک کوئی میرے نیچے آ کر رک گیا۔ دو منٹ تک کوئی موت سی خاموشی طاری رہی اور پھر شیر درخت کے نیچے خشک پتّوں پر لیٹ گیا۔

غروب آفتاب کے وقت آسمان پہ گہرے بادل جمع ہو گئے جس سے رات اور زیادہ گہری ہو گئی۔ جس وقت وہ درخت کے نیچے سے اٹھ کر اپنے شکار کے پاس گیا تو اس وقت کثیف اندھیرے کے باعث ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں پر بے حد زور دیا مگر اب سفید بیل بھی مجھے نہ دکھائی دے رہا تھا۔ شیر کی تو بات ہی چھوڑیئے۔ اپنے شکار تک پہنچ کر شیر اسے سونگھنے لگا۔ مجھے شیر پر گولی چلانے کی کوئی جلدی نہ تھی۔ اگرچہ وہ میرے قریب تھا لیکن جب تک میں درخت پر حرکت نہ کرتا اسے معلوم نہ ہو سکتا تھا کہ میں وہاں موجود ہوں۔ میں تاروں کی روشنی میں آس پاس دیکھنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ مگر اس رات تو آسمان پر کوئی تارا بھی نہ تھا اور نہ ہی بادلوں میں بجلی کی چمک تھی۔ شیر نے ابھی تک اپنے شکار کو ہلایا نہ تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ اپنے شکار کی دائیں جانب لمبائی کے رخ پر لیٹا ہوا تھا۔

گھنی تاریکی نے میری بصارت ناکارہ کر دی تھی لہذا میں نے اپنی سماعت پر اعتبار کرنا مناسب خیال کیا۔ میں نے رائفل اٹھائی اور اپنی کہنی کو اپنے گھٹنے پر رکھ کر شیر کی آواز پر بڑی احتیاط سے نشانہ باندھا۔ نشانہ باندھ کر میں نے پھر اپنے کان آواز پر لگا دیئے اور مجھے احساس ہوا کہ میری نشست شیر سے ذرا اوپر ہے۔ لہذا میں نے بندوق کی نالی ذرا نیچے کی اور یقین کی خاطر پھر سے کان آواز پر لگادیئے۔ چند دفعہ میں نے یونہی کیا اور جب میں مطمئن ہو گیا کہ میرا نشانہ صحیح ہے تو میں نے لبلبی دبادی۔ دو ہی چھلانگوں میں شیر ندی کی بیس فٹ چوڑی پٹری پھلانگ چکا تھا۔ چند لمحے خشک پتّوں پر شیر کے قدموں کی آواز آتی رہی اور پھر گمبھیر خاموشی طاری ہو گئی۔ اس خاموشی کی دو طرح توجیہہ کی جا سکتی تھی۔ یا تو شیر وہاں پہنچ کر مر گیا تھا یا پھر اسے گولی لگی نہ تھی۔ رائفل کو کندھے پہ رکھے میں تین چار منٹ تک کوئی آواز سننے کی کوشش کرتا رہا۔ جب مجھے کوئی آواز سنائی نہ دی تو میں نے رائفل کندھے پر سے ہٹالی۔ دوسرے ہی لمحے ندی کے کنارے پر سے شیر کے غرانے کی آواز آئی جس کا مطلب تھا وہ زخمی نہیں ہوا اور اس نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ میں درخت پر زمین سے کوئی دس فٹ بلندی پر بیٹھا تھا۔ چونکہ وہاں بیٹھنے کا انتظام تسلی بخش نہ تھا لہذا میں آہستہ آہستہ نیچے کو سرک رہا تھا اور اس وقت زمین سے کوئی آٹھ فٹ اونچا تھا اور میرے پاؤں نیچے کو لٹک رہے تھے اور مجھ سے بیس فٹ کے فاصلے پر ایک آدم خور شیر غرا رہا تھا۔

دن کے وقت اگر آپ نے شیر دیکھ لیا ہو مگر اس نے آپ کو نہ دیکھا ہو تو یہی صورت حال آپ کے خون کی گردش تیز کر دینے کے لیئے کافی ہوتی ہے۔ لیکن جب رات ہو اور وہ بھی اندھیری رات اور شیر بھی آدم خور ہو اور آپ یہ بھی جانتے ہوں کہ شیر آپ کی طرف گھور رہا ہے تو یہ صورت حال خون میں طوفان برپا کر دیتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ شیر اپنی ضرورت سےے زیادہ شکار نہیں کرتا۔ بشرطیکہ اسے تنگ نہ کیا جائے۔ شیر کے لیئے بیل دو تین دن کے لیئے کافی تھا اور اسے مجھے ہلاک کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس کے باوجود میں بے چین تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ شیر غیر معمولی فطرت کا مالک نہ نکلے۔ ویسے میں درخت پر محفوظ تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ میں سوجاتایا درخت سے گر پڑتا اور شیر کے ہاتھ آ جاتا۔ میں نے سوچا اب بے کار بیٹھنے سے سگریٹ پینا بہتر ہو گا۔ میں نے سگریٹ سلگایا تو شیر ندی کے کنارے سے ذرا پرے ہٹ کر غرانے لگا۔ میں نے تین سگریٹ پیئے۔ اس دوران شیر میری طرف گھورتا رہا۔ آخر بارش آ گئی۔ میں نے ہلکے کپڑے پہن رکھے تھے۔ تھوڑی دیر میں میں سردی سے ٹھٹھرنے لگا۔ مجھے معلوم تھا کہ بارش سے بچنے کے لیئے شیر کسی گھنے درخت یا کسی چٹان کے نیچے پناہ گزین ہو گیا ہو گا۔ بارش رات گیارہ سے صبح چار بجے تک ہوتی رہی۔ جب یہ رکی تو مطلع صاف ہو گیا۔ اب میری تکلیف میں اضافہ کرنے کے لیئے تیز ہوا چلنے لگی اور میں سردی سے منجمد ہوا جا رہا تھا۔

صبح کے وقت ابھی سورج ہی نکل رہا تھا کہ بدری گرم چائے کی کیتلی لیئے وہاں پہنچ گیا۔ اس نے میری رائفل پکڑی اورا اس کے دونوں آدمیوں نے مجھے بڑی احتیاط سے درخت پر سے اتارا۔ میری ٹانگیں جڑ گئی تھیں اور وہ کام کرنے سے انکار کر رہی تھیں۔ دونوں اچھے آدمی مجھے زمین پر لٹا کر میرے جسم کی مالش کرنے لگے جس سے تھوڑی دیر بعد میرا خون گردش کرنے لگا۔ میں نے اس سے پہلے فقط آواز پر نشانہ باندھ کر گولی چلانے کا تجربہ نہ کیا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ میری گولی شیر کے سر سے فقط دو تین انچ ادھر لگی ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی۔

واپسی پر راستے میں بارش کے سبب کیچڑ ہو گیا تھا۔ بدری کا ایک آدمی ناشتہ وغیرہ تیار کرنے کے لیئے ہم سے بیس منٹ پہلے روانہ ہو چکا تھا۔ جب ہم اس کچے راستے پر گئے جو بدری کے گھر جاتا تھا تو اس آدمی کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے۔ تھوڑی دور آگے چل کر یکایک ہمیں ایک شیرنی کے پنجوں کے نشان بھی دکھائی دیئے۔ جیسے وہ ندی کے کنارے سے ایک دم چھلانگ لگا کر اس راستے پر اتر آئی ہو۔

بدری کے آدمی کے قدموں اور شیرنی کے پنجوں کے نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ وہ دونوں بڑی تیزی سے سفر کر رہے تھے۔ بدری اور میں کچھ بھی نہ کر سکتے تھے۔۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں وہ شخص ہم سے بیس منٹ پہلے روانہ ہو چکا تھا۔ اگر وہ اب تک بدری کے گھر بحفاظت پہنچ چکا ہے پھر تو ٹھیک ہے ورنہ ہم اس کے لیئے کچھ نہ کر سکتے تھے۔ ہم نے اپنی رفتار تیز کر دی اور یہ جان کر ہمارے دم میں دم آیا کہ بدری کے باغ سے تھوڑی دور اس طرف شیرنی نیچے کی طرف مڑ گئی تھی اور وہ آدمی خیریت سے باغ میں داخل ہو چکا تھا۔ بعد میں جب اس آدمی سے پوچھا گیا تو اس نے شیرنی کے تعاقب کے متعلق لا علمی کا اظہار کیا۔

کپڑے خشک کرتے وقت میں نے بدری سے اس راستے کے متعلق پوچھا جدھر شیرنی گئی تھی۔ اس نے بتایا کہ راستہ گھنے درختوں سے ڈھکے ہوئے ایک نالے کی طرف جاتا ہے جو کوئی دو میل آگے جا کر ایک اور نالے سے مل جاتا ہے۔ اس سنگم کے قریب گھاس کا ایک کشادہ قطعہ ہے۔ بدری کا خیال تھا کہ شیرنی وہاں جا کر دن بھر آرام کرے گی کیونکہ اس کے آرام کرنے کی وہ مثالی جگہ تھی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ کسی طرح وہاں پہنچ کر شیرنی کو شکار کرنے کے لیئے قسمت آزمائی کرنی چاہیئے۔ لیکن ابھی ہمیں ابھی یہ یقین نہ تھا کہ شیرنی وہاں پہنچی ہے کہ نہیں۔ اس کے لیئے بہترین طریقہ یہ تھا کہ کچھ آدمی اکٹھے ہو جائیں جو نصف دائرے کی شکل میں ڈھول وغیرہ بجاتے ہوئے شیرنی کو گھاس کے اس قطعے تک لے جائیں۔ بدری نے اپنے مالی گوبند کو بلایا۔ گوبند نے بتایا کہ اس کے پاس تیس کے قریب آدمی موجود ہیں۔

اس منصوبے کے بعد میں اپنی رائفل صاف کرنے لگا۔ دوپہر کے وقت گوبند تیس آدمی لے کر آ گیا۔ گوبند اور اس کے آدمی مقامی باشندے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں کس جگہ آدم خور سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ میں نے انہیں اپنے منصوبے سے آگاہ کر دیا تو وہ اس پر عمل کرنے کو تیار ہو گئے۔ گوبند نے اپنے آدمی دو گروہوں میں تقسیم کر دیئے۔ ایک کا انچارج وہ خود بن گیا اور دوسرے کا سربراہ ایک معتبر آدمی کو بنا دیا۔ اب منصوبہ یہ تھا کہ ایک گھنٹے بعد بدری بندوق کی ایک گولی چلائے گا اور دونوں گروہ ندی کے دونوں کناروں پر شور مچاتے اور ڈھول پیٹتے روانہ ہو جائیں گے۔ یہ منصوبہ تو بہت اچھا تھا مگر مجھے شبہ تھا کیونکہ بعض اوقات شیر خلاف توقع حرکت کر جاتا ہے۔

صبح جس راستے پر میں نے آدم خور کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے ان پر چلتے ہوئے میں نے دیکھا کہ شیرنی جھاڑیوں کے گھنے خطے میں داخل ہو گئی تھی۔ چند سو گز چلنے کے بعد میں نے دیکھا کہ پہاڑی کو کئی چھوٹے چھوٹے ندی نالوں نے کاٹ رکھا تھا۔ اب میں گھاس کے اس قطعے کو تلاش کر رہا تھا جہاں گوبند اور اس کے ساتھیوں نے شیرنی کو گھیر کر لانا تھا۔ چند قدم آگے گیا تو ایک جگہ مکھیاں بھنبھنارہی تھیں۔ وہاں ایک گائے کی لاش پڑی تھی جسے کم از کم ایک ہفتے پہلے ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کی گردن پر پنجوں کے نشانوں سے معلوم ہوتا تھا کہ اسے کسی شیر نے ہلاک کیا ہے۔ میں اس ڈھانچے کو کھینچ کر پہاڑی کے کنارے پر لے آیا اور اسے نیچے وادی میں لڑھکا دیا۔ ڈھانچہ تھوڑی دیر تک لڑھکتا رہا اور پھر ایک کھڈ میں جا کر رک گیا۔ بائیں طرف مڑ کر جب میں نیچے کی طرف اترا تو مجھے کوئی تین سو گز کے فاصلے پر گھاس کا ایک کھلا قطعہ دکھائی دیا۔ یہ جگہ اس جگہ سے بہت مختلف تھی جس کا نقشہ میں نے اپنے ذہن میں بنا رکھا تھا۔ وہاں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں میں آرام سے بیٹھ سکتا۔ شیرنی کسی بھی طرف سے آ کر مجھ پر حملہ آور ہو سکتی تھی۔ لیکن اب دیر ہو چکی تھی اور میں کچھ نہ کر سکتا تھا کیونکہ بدری نے بندوق سے گولی چلادی تھی اور اس کے آدمی دو گروہوں میں بٹ کر ندی کے دونوں کناروں پر چلنے کو تیار تھے۔ اتنے میں دور فاصلے پر مجھے لوگوں کے شور مچانے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہ لوگ میری طرف آ رہے ہیں مگر شور بتدریج مدھم پڑتا گیا اور پھر اس کی آواز مجھ تک پہنچنی بند ہو گئی۔ ایک گھنٹے بعد مجھے پھر شور سنائی دیا۔ جب وہ میری داہنی سمت کو میری سطح پر آ گئے تو میں نے انہیں بلند آواز میں شور بند کرنے اور اپنے قریب آنے کو کہا۔ ہمارا منصوبہ غلط ثابت ہوا تھا۔ میں نے گھاس کے قطعے کو پہلے سے نہ دیکھ رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس آدمی بھی بہت کم تھے اور وہ بھی غیر تربیت یافتہ۔ وہ پہاڑی علاقہ بے حد وسیع اور گھنا تھا۔ وہاں تو سینکڑوں آدمیوں کی ضرورت تھی۔

ان آدمیوں کو جھاڑیوں میں سے گزرتے وقت بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ میرے گرد بیٹھے اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے کانٹے نکالنے اور میرے سگریٹ پینے لگے۔ اس دوران گوبند مجھے بتارہا تھا کہ ہمیں اپنا یہ منصوبہ کل پر ملتوی کرنا چاہیئے کیونکہ کل تک مکتیسر سے بہت سے آدمی جمع کیئے جا سکتے ہیں۔ اچانک گوبند نے اپنا ایک جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ جس سے پتا چلتا تھا کہ اس نے میرے پیچھے کوئی غیر معمولی چیز دیکھی ہے۔ میں نے ایک دم پلٹ کے دیکھا۔ وہاں ایک ویران کھیت میں شیرنی بڑی خاموشی سے چلی آ رہی تھی۔ وہ ندی کے دوسرے کنارے پر ہم سے کوئی چار سو گز دور تھی اور ہماری سمت آ رہی تھی۔

جب جنگل میں کوئی شیر آپ کی طرف بڑھ رہا ہو تو آپ کے ذہن میں بجلی کی سی تیزی سے وہ خیالات آتے ہیں جو شیر پر گولی چلانے یا اس کی تصویر اتارنے کے سلسلے میں آپ کی کوشش کو ناکام بناسکتے ہیں۔ شیرنی کو ندی تک پہنچنے کے لیئے ابھی تین سو گز طے کرنے تھے۔ ان میں سے دو سو گز زمین ایسی تھی جہاں کوئی درخت نہ تھا۔ شیرنی سیدھی ہماری طرف آ رہی تھی اور وہ کسی لمحے بھی ہمیں دیکھ سکتی تھی۔ میں اسے دیکھنے کے سوا اور کچھ نہ کر سکتا تھا۔ مکتیسر کے باشندے اسے لنگڑی شیرنی کہتے تھے مگر مجھے وہ لنگڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ میرے ذہن میں بجلی کی طرح یہ منصوبہ آیا کہ جونہی شیرنی کھلے میدان سے جنگل میں داخل ہو تو میں بھاگ کر آگے جاؤں اور جب وہ ندی پار کرنے لگے تو اس پر قسمت آزمائی کروں۔ اگر میرے اور شیرنی کے درمیان کو باڑ وغیرہ ہوتی تو میں اسی وقت آگے بڑھ کر اس کے عقب سے شیرنی پر کھلے میدان میں ہی گولی چلادیتا اور اگر نشانہ خطا ہو جاتا تو اسے ندی پر روک کر دوبارہ گولی چلاتا۔ لیکن چونکہ وہاں باڑ موجود نہ تھی اس لیئے مجھے اس وقت تک انتظار کرنا پڑا جب شیرنی کھلے میدان سے جھاڑیوں میں داخل ہوئی۔ جب شیرنی نظروں سے اوجھل ہوئی تو میں آدمیوں سے یہ کہہ کر کہ میرے آنے تک وہ اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلیں، آہستہ آہستہ ندی کی طرف چل پڑا۔ تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ راستے میں مجھے جنگلی گلاب کی ایک جھاڑی دکھائی دی جو چند گز پھیلی ہوئی تھی۔ اس جھاڑی کے درمیان میں ایک سرنگ سی تھی۔ جب میں اس سے گزرنے لگا تو میرا ہیٹ کانٹوں میں الجھ کر گر پڑا جس سے میرے سر میں کئی کانٹے داخل ہو گئے جنہیں بعد میں گھر پہنچنے پر میری بہن میگی نے بڑی مشکل سے نکالا۔ میرے سر سے خون بہہ رہا تھا مگر میں اسی حالت میں اس گڑھے کی طرف بھاگ رہا تھا جہاں کچھ دیر پہلے میں نے مردہ گائے کا ڈھانچہ پھینکا تھا۔ آخر میں وہاں پہنچ گیا۔ وہ گڑھا چالیس گز لمبا اور تیس گز چوڑا تھا۔ اس گڑھے کا بالائی حصہ گھنی جھاڑیوں سے ڈھکا ہوا تھا مگر نچلا حصہ بالکل صاف تھا۔ جب میں اس گڑھے کے دھانے پر پہنچا تو اندر سے مجھے ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز آئی۔ شیرنی مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکی تھی اور گزشتہ رات کی بھوک مٹا رہی تھی۔

اگر گائے کو چھوڑ کر شیرنی باہر نکلتی تو میں اس پر بخوبی گولی چلا سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ گڑھے کے بالائی حصے سے جھاڑیوں کے اندر سے پہاڑی کی چوٹی کی سمت چلی جاتی تو میرے لیئے اسے دیکھنا محال تھا۔ گھنی جھاڑیوں سے جہاں سے شیرنی کی آواز آ رہی تھی۔ ایک تنگ سا راستہ میرے پہلو سے گزرتا ہوا ایسی چٹان کی طرف جاتا تھا جس کے نیچے پچاس گز کے فاصلے پر ندی بہہ رہی تھی۔ وہاں کچھ کھلی زمین بھی تھی۔ میں اس امکان پر غور کر رہا تھا کہ شیرنی کو کسی نہ کسی طرح اس کھلی زمین کی طرف لے جایا جائے۔ اس کی یہی صورت تھی کہ پہاڑی پر ایک پتھر پھینک کر شیرنی کو خبردار کیا جائے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے اپنے عقب سے آواز سنائی دی، پیچھے مڑ کر دیکھا تو گوبند میرا ہیٹ لیئے کھڑا تھا۔ اس زمانے میں کوئی یورپین ہیٹ کے بغیر باہر نہ پھرا کرتا تھا۔ ہیٹ کو جھاڑیوں میں الجھا ہوا دیکھ کر گوبند اسے مجھے دینے آیا تھا۔ ہمارے نزدیک پہاڑی میں ایک غار سا تھا۔ میں نے اپنی ایک انگلی ہونٹوں پہ رکھتے ہوئے گوبند کو بازو سے پکڑا اور اسے اس غار میں دھکیل دیا۔ وہ اس غار میں دبک کر بیٹھ گیا، میرا ہیٹ اس کے ہاتھوں میں لٹک رہا تھا۔ گڑھے میں ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز سن کر اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا اور اس پر کپکپی طاری ہو گئی تھی۔ ادھر سے فارغ ہو کر جب میں دوبارہ گڑھے کے منہ پر آیا تو شیرنی نے گوشت کھانا بند کر دیا تھا یا تو اس نے مجھے دیکھ لیا تھا یا گائے کا گوشت اس کے لیئے ناکافی ثابت ہوا تھا۔ خاصی دیر تک نہ تو گڑھے میں کوئی حرکت ہوئی اور نہ ہی کوئی آواز سنائی دی۔ آخر وہ مجھے دکھائی دی۔ وہ مخالف سمت سے گڑھے کے کنارے پر چڑھی اور پہاڑی چڑھنے لگی۔ جھاڑیوں میں سے وہ مجھے تھوڑی تھوڑی دکھائی دے رہی تھی۔ اس امید کے ساتھ کہ میری گولی جھاڑیوں سے گزر کر شیرنی کو لگے گی۔ میں نے جلدی سے بندوق اٹھائی اور نشانہ لے کر لبلبی دبادی۔ گولی چلنے پر شیرنی ایک دم پیچھے کو مڑی اور دوبارہ گڑھے کے کنارے کی طرف آئی۔ اس کے پاس سے گزر کر میرے راستے کے قریب سے بھاگنے لگی۔ اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ گولی اس کے کان کے قریب لگی ہے اور وہ ایک آنکھ سے اندھی ہے۔ وہ فقط گھبرائی ہوئی نظر آ رہی تھی جیسا کہ خطرے کے وقت اکثر جانوروں کی کیفیت ہو جاتی ہے۔ اسے یہ معلوم ہو سکا تھا کہ گولی کس سمت سے آئی تھی۔ خیر جو کچھ بھی تھا، ایک زخمی اور بپھری ہوئی شیرنی میرے سمت آ رہی تھی۔ جب وہ مجھ سے دو گز کے فاصلے پر رہ گئی تو میں نے جلدی سے نشانہ لے کر گولی چلادی۔ شیرنی پورے زور سے اچھلی اور اندھا دھند چٹان کے اوپر سے چھلانگ لگا کر بڑے دھماکے سے ندی میں کود گئی۔ میں نے اوپر سے جھانک کر دیکھا تو شیرنی کا جسم پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کی ٹانگیں اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔ اس کے ارد گرد کا پانی خون سے سرخ ہو رہا تھا۔

گوبند ابھی تک اسی غار میں دبکا بیٹھا تھا۔ میری طرف سے اشارہ پا کر وہ میرے پاس آ گیا۔ شیرنی کو دیکھ کر وہ مڑا اور آدمیوں کی طرف منہ کر کے بلند آواز میں چلانے لگا، ‘شیر مر گیا! شیر مر گیا۔‘ وہ آدمی بھی شور مچانے لگے۔ ان کی آواز سن کر بدری نے اپنی رائفل سے ہوا میں دس فائر کر دیئے۔ یہ فائر مکتیسر اور اس کے نواحی دیہات میں سنے گئے اور دیکھتے دیکھتے ندی کنارے بہت سے آدمی جمع ہو گئے۔ انہوں نے شیرنی کو پانی سے باہر نکالا اور بدری کے باغ کی طرف چل پڑے۔ اسے دیدار عام کے لیئے خشک گھاس کے بستر میں ڈال دیا گیا اور میں چائے پینے کے لیئے بدری کے مکان میں چلا گیا۔ ایک گھنٹے بعد لوگوں کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے میں نے شیرنی کی کھال اتاری۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک آنکھ سے کانی تھی اور اس کے جسم پہ خارپشت کے زخموں کے کوئی پچاس نشان تھے جن میں سے بعض نشان نو انچ لمبے تھے۔ دس بجے میں اپنے کام سے فارغ ہو گیا۔ بدری نے بڑے خلوص سے مجھے رات وہاں ٹھہرنے کی دعوت دی جسے چند مجبوریوں کے باعث میں قبول کرنے سے معذور تھا۔ وہاں سے میں مکتیسر کی طرف روانہ ہو پڑا۔ میرے ہمراہ دو آدمی تھے جنہوں نے شیرنی کی کھال اٹھا رکھی تھی۔ ڈاک خانے کے سامنے کھلی زمین پر شیرنی کی کھال بچھادی گئی۔ مکتیسر کے باشندے اسے دیکھنے کے لیئے جمع ہو رہے تھے۔ ان کے چہروں پہ خوشی کے آثار تھے۔ وہ رات میں نے ڈاک بنگلے میں گزاری اور دوسرے دن تقریباً ۷۲ گھنٹوں کی غیر حاضری کے بعد میں دوبارہ اپنے گھر نینی تال میں موجود تھا۔

کسی آدم خور کو ہلاک کرنے سے ایک عجیب سے اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی بہت بڑے فرض سے عہدہ برا ہوا ہو۔ یہ اطمینان کہ میں نے ایک بہت بڑے خود غرض درندے کو اس کی اپنی زمین پہ شکست دی ہے اور کم از کم زمین کے ایک چھوٹے سے حصے کو اتنا محفوظ بنا دیا ہے کہ ایک چھوٹی سی آٹھ سالہ لڑکی وہاں آزادی سے آ جا سکتی تھی۔

٭٭٭

چوکا کا آدم خور شیر

چوکا۔۔۔۔۔ جس نے لدھیا وادی کے آدم خور شیر کو چوکا کے آدم خور کا نام دیا۔ لدھیا وادی کے قریب دریائے ساروا کے دائیں کنارے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے شمال مغربی کنارے سے ایک راستہ ایک چوتھائی میل چل کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ جس کا ایک تہائی حصہ تو ٹھک جاتا ہے اور دوسرا حصہ پہاڑیوں میں سے بل کھا کر کوٹی کندری میں ختم ہو جاتا ہے۔ کوٹی کندری ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جس کے مالک چوکا کے باشندے ہیں۔

۱۹۳۶ء موسم سرما کا ذکر ہے کہ اس موخر الذکر راستے پر ایک آدمی اپنے بیلوں کے ہمراہ جا رہا تھا۔ جب وہ چوکا کے قریب پہنچا تو اچانک ایک شیر جھاڑیوں سے نکل کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس آدمی نے انتہائی جرات سے کام لیا اور وہ شیر اور بیلوں کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ وہ شیر کو ڈرانے کے لیئے اونچی آواز میں شور مچانے لگا اور ساتھ ہی اپنی لاٹھی گھمانے لگا۔ بیلوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور سرپٹ گاؤں کی طرف بھاگ گئے۔ جب شیر نے اپنے شکار کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو اس نے اپنی توجہ اس آدمی پر مرکوز کر دی۔ شیر کے خطرناک ارادے کو بھانپتے ہوئے وہ آدمی پیچھے کو مڑا اور انتہائی تیز رفتاری سے بھاگنے لگا۔ وہ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ شیر چھلانگ لگا کر اس پر کود پڑا۔ اس آدمی کے کندھوں پر ایک بھاری ہل تھا اور اس کی پشت پر ایک بوری تھی جس میں اس نے اپنی ضروریات کی چیزیں باندھ رکھی تھیں۔ شیر نے اپنے دانت اس بوری میں گاڑ دیئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس آدمی نے بوری کو وہیں پھینک دیا اور مدد کے لیئے شور مچاتا ہوا گاؤں کی طرف بھاگنے لگا۔ اس کا واویلا سن کر گاؤں سے اس کے رشتہ دار اور دوست اس کی مدد کو دوڑے چلے آئے لیکن وہ آدمی مزید کسی حادثے کے بغیر گاؤں پہنچ گیا۔ شیر کا ایک پنجہ اس کے دائیں کندھے پر اس زور سے پڑا تھا کہ وہاں ایک گہرا زخم چھوڑ گیا تھا۔

جون ۱۹۳۷ء کا ذکر ہے کہ سات آدمی اور دو لڑکے ٹھک سے دو سو گز مغرب کی طرف مویشی چرا رہے تھے۔ دس بجے کے قریب انہیں خیال آیا کہ ان کے کچھ مویشی بھٹک کر جنگل چلے گئے ہیں۔ انہوں نے ایک چودہ سالہ لڑکے کو انہیں جنگل سے لانے کے لئے بھیجا۔ لڑکے کو بھیج کر یہ لوگ ایک سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سو گئے اور تقریباً چھ گھنٹے بعد بیدار ہوئے تو جنگل میں ایک ہرن کے بولنے کی آواز سنائی دی جو اس سمت سے آ رہی تھی جدھر مویشی بھٹک کر گئے تھے۔ ان آدمیوں نے ایک دوسرے لڑکے کو جس کی عمر بھی تقریباً چودہ برس تھی پہلے لڑکے کے سراغ میں بھیج دیا۔ جونہی وہ جنگل میں داخل ہوا مویشی ایک دم افراتفری کے عالم میں ایک ندی کی طرف دوڑے۔ ندی کے قریب ایک شیر ایک گائے پر کود پڑا اور سات آدمیوں کے سامنے اسے ہلاک کر دیا۔ مویشیوں کی بھاگ دوڑ اور آدمیوں کے شور شرابے سے گاؤں والے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور تھوڑی ہی دیر میں ندی کے سامنے والی کھلی زمین پر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ ان لوگوں میں دوسرے لڑکے کی ماں بھی تھی جو بیوہ تھی۔ جب اس نے لوگوں کو اپنے بیٹے کا نام پکارتے سنا تو وہ ان کی طرف صورتحال معلوم کرنے کے لئے گئی۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا جنگل میں مویشیوں کو ہانکنے کے لئے گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا تو وہ خود اس کی تلاش میں نکل پڑی۔ اس لمحے پہلے لڑکے کے والدین بھی وہاں پہنچ گئے اور جب انہوں نے ان سات آدمیوں سے اپنے بیٹے کے متعلق پوچھا تو انہیں یاد آیا کہ انہوں نے تو اسے صبح دس بجے سے ہی نہیں دیکھا۔

بیوہ عورت کے پیچھے تمام لوگ بھی جنگل میں داخل ہو گئے وہ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اسے اپنے بیٹے کی لاش دکھائی دی اور اس کے قریب ہی جھاڑی میں پہلا لڑکا بھی مرا پڑا تھا۔ شیر نے اس کے جسم کا ایک حصہ کھا لیا تھا۔ دونوں لاشوں کے بیچ ایک بچھڑا مرا پڑا تھا۔ بعد میں جب مجھے اس المناک حادثے کی تفصیل بتائی گئی تو میں نے اندازہ کیا کہ اس روز شیر جنگل میں اس کھلی زمین کے پاس ہی کہیں لیٹا تھا جہاں مویشی چر رہے تھے اور جب بچھڑا جو آدمیوں کے دیکھے بغیر جنگل میں چلا گیا تھا شیر کے قریب آیا تو اس نے اسے ہلاک کر دیا اور ابھی وہ اسے اٹھا کر چلنے بھی نہ پا یا تھا کہ پہلا لڑکا اس کی تلاش میں وہاں آ نکلا اور شیر نے اسے بھی ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد شیر دونوں شکاروں کے پاس چار بجے شام تک لیٹا رہا۔ تب ایک ہرن پانی پینے کی غرض سے گزرا تو اس نے شیر کی بو سونگھ کر بلند آواز میں بولنا شروع کر دیا۔ یہ آواز سن کر ان آدمیوں کو اس حقیقت کا احساس ہوا کہ ان کے مویشی جنگل میں چلے گئے تھے اور انہوں نے دوسرے لڑکے کو انہیں واپس ہانکنے کے لئے جنگل میں بھیجا۔ بد قسمتی سے وہ لڑکا بھی سیدھا وہاں جا پہنچا جہاں شیر اپنے شکاروں کی حفاظت کر رہا تھا اور اس نے اسے بھی ہلاک کر دیا۔

دوسرے لڑکے کی موت کے شاہد مویشی بھی تھے۔ جو اس کی مدد کے لئے فوراً وہاں آئے۔ انہوں نے شیر کو وہاں سے بھگا دیا اور خود بھی ڈر کے مارے افراتفری کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اپنے شکار سے محروم ہونے پر شیر کو غصہ آیا اور وہ بھگوڑے مویشیوں کے پیچھے بھاگا اور آخری گائے پر کود کر اپنا انتقام لے لیا۔ اگر مویشی گاؤں کی سمت نہ بھاگتے تو ممکن تھا کہ شیر کے انتقام کی آگ فقط ایک ہی مویشی کے ہلاک کرنے سے نہ بجھتی۔

ان ظالمانہ حملوں سے نینی تال اور الموڑا کے ضلعوں میں ایک ہنگامہ بپا ہو گیا اور شیر کو ہلاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانے لگی۔ ضلع کے بعض افسر رات رات بھر مچانوں پر بیٹھے رہے مگر فقط دو مرتبہ شیر کو زخمی کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ اس کے بعد شیر نے انتقامی جذبے کے تحت زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا اور خاص طور پر ٹھک کے گاؤں میں۔

ٹھک سے دو سو گز اوپر کی طرف گندم کا ایک کھیت ہے۔ اس میں فصل کاٹی جاچکی تھی اور دو لڑکے مویشی چرا رہے تھے۔ وہ دونوں بھائی تھے۔ اپنی حفاظت کے لئے وہ کھیت کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ کھیت کے شمالی کنارے پر جھاڑیوں کا ایک جھنڈ تھا۔ وہاں سے کوئی پہاڑی شروع ہو جاتی تھی جو کوئی ایک ہزار فٹ اونچی تھی۔ اس پہاڑی پر سے دونوں لڑکے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ شام کے قریب ان کی ایک گائے بھٹک کر جھاڑیوں کے جھنڈ کی طرف چلی گئی۔ دونوں لڑکے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اسے ہانکنے کے لئے ادھر گئے۔ بڑا لڑکا آگے تھا۔ جونہی وہ ایک جھاڑی کے قریب سے گزرا تو شیر جو وہاں چھپا بیٹھا تھا اس پر کود پڑا۔ چھوٹا لڑکا خوف کے مارے گاؤں کی طرف دوڑا اور چوپال میں بیٹھے ہوئے چند آدمیوں کے قدموں میں سسکیاں بھرنے لگا۔ جب لڑکے میں بولنے کی طاقت آئی تو اس نے بتایا کہ ایک بڑے لال رنگ کے جانور نے اس کے بھائی کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس نے زندگی میں پہلی بار شیر کو دیکھا تھا۔ اسی وقت دیہاتیوں کا ایک گروہ بڑی دلیری سے خون کی لکیر کے پیچھے پیچھے جنگل میں لڑکے کی لاش ڈھونڈنے چل پڑا۔ چونکہ رات قریب تھی لہذا وہ لوگ کوئی ایک میل جنگل میں چل کر واپس ٹھک آ گئے۔ دوسرے دن آس پاس کے دیہات کے لوگوں کی مدد سے انہوں نے پھر اپنی تلاش شروع کر دی۔ لیکن سارے دن کی تلاش کے بعد انہیں فقط اس لڑکے کی سرخ ٹوپی اور خون میں لتھڑے ہوئے کپڑے مل سکے۔ چوکا کے آدم خور کا یہ آخری شکار تھا۔

چوکا کے آدم خور شیر کے ڈر سے لدھیا وادی کے لوگ وہاں سے ہجرت کرنے لگے اور جب ایبٹسن نینی تال، الموڑا اور گھڑوال کے اضلاع کا ڈپٹی کمشنر ہوا تو اس نے اپنے ڈویژن کو اس خوفناک شیر سے رہائی دلانے کا تہیہ کر لیا۔

اپریل ۱۹۳۷ء کی ایک دوپہر ایبٹسن، اس کی بیوی اور میں براستہ تنک پور موضع بھوم پہنچے۔ ہم سر سے پاؤں تک گرد میں اٹے ہوئے تھے۔ دریائے ساروا کے کنارے کچھ دیر آرام کرنے کے اور چائے کی ایک پیالی پینے کے بعد ہم تھولی گھاٹ پیدل روانہ ہو پڑے جہاں ہمارے خیمے ملازموں نے پہلے ہی نصب کر رکھے تھے۔ دوسری صبح ہم ناشتہ کرنے کے بعد ہم کالا ڈھونگا پہنچے۔ تھولی گھاٹ اور کالا ڈھونگا کے درمیان آٹھ میل کا فاصلہ ہے۔ ہماری آمد کی اطلاع پہلے ہی سے وہاں پٹواریوں اور جنگل کے محافظوں کو پہنچا دی گئی تھی۔ ان لوگوں کو ہم نے اس لئے جمع ہونے کو کہا تھا کہ وہ ہمیں آدم خور کے متعلق تازہ ترین اطلاعات بہم پہنچا سکیں۔ جب ہم ریسٹ ہاؤس پہنچے تو چار آدمی ہمارے منتظر تھے اور آدم خور کے متعلق ان کی اطلاع حوصلہ افزا تھی۔ گزشتہ چھ سات دنوں میں وہاں کوئی انسان ہلاک نہیں ہوا تھا اور لوگوں کو یقین تھا کہ شیر موضع ٹھک کے گردو نواح میں موجود ہے۔ جہاں اس نے چند روز پہلے ایک بچھڑا ہلاک کیا تھا۔ کالا ڈھونگا ایک پہاڑی وادی میں واقع ہے اور اس کا رقبہ کوئی چار میل کے قریب ہے۔ اس کے تین طرف دریائے ساروا اور چھوتی طرف ایک پہاڑی ہے جو کوئی پانچ ہزار فٹ اونچی ہے۔ ریسٹ ہاؤس دریائے ساروا کے کنارے واقع ہے اور اس کے سامنے والے مناظر دنیا کے خوبصورت ترین مناظر میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔

رات کالا ڈھونگا کے ریسٹ ہاؤس میں گزارنے کے بعد صبح کے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم چوکا کی طرف پیدل چل پڑے جو وہاں سے کوئی پانچ میل کے فاصلے پر تھا۔ سورج کی شعاعوں میں خوشگوار قسم کی حدت تھی۔ شمال سے جنوب کی طرف ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔

آدم خور کے خلاف اپنی تحریک میں مدد اور مزید انسانی جانوں کے نقصان کو روکنے کے لئے ہم نے چھ نوجوان بھینسے تنک پور سے پہلے ہی چوکا روانہ کر دئیے تھے۔ یہ بھینسے ہم نے شیر کو ترغیب دینے کے لئے استعمال کرنے تھے۔ چوکا پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ ان بھینسوں کو جنگل میں مختلف جگہوں پر گزشتہ تین راتوں سے باندھا ہوا ہے اور اگرچہ ایک شیر کے پنجوں کے نشان دو تین بھینسوں کے قریب دیکھے گئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ہلاک نہیں ہوا۔ اگلے چار دنوں کے دوران ہم صبح کے وقت ان بھینسوں کو دیکھنے جاتے۔ دن میں شیر کو دیکھنے کی کوشش کرتے اور شام کو ایک دفعہ پھر بھینسوں کو دیکھنے جاتے۔ پانچویں صبح کو ٹھک کے قریب جنگل کے کنارے بندھے بھینسے کو شیر اٹھا کر لے گیا۔ اپنے شکار کو گھنے جنگل میں لے جانے کے بجائے جیسا کہ ہمیں توقع تھی شیر اسے ایک کھلے راستے سے پہاڑی پر لے گیا تھا۔ ایسا اس نے ایک مچان سے بچنے کی خاطر کیا تھا۔ اس مچان سے اس پر دو مرتبہ پہلے گولی چلائی جا چکی تھی اور شاید وہ زخمی بھی ہوا تھا۔ بھینسے کو تھوڑی دور لے جانے کے بعد اس کے سینگ دو تنگ چٹانوں کے درمیان پھنس گئے تھے اور شیر اسے وہیں چھوڑ گیا تھا۔ شیر کے پنجوں کے نشانات سے معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑا نر شیر ہے۔

مردہ بھینسے سے بیس فٹ کے فاصلے پر جامن کا ایک درخت تھا۔ بھینسے کو چٹانوں کے درمیان سے کھینچنے کے بعد ہم نے ایک آدمی کو جامن کے درخت پر چڑھا دیا تاکہ وہ اس کی ایسی چند شاخیں توڑ دے جو بھینسے کو پوری طرح دیکھنے میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ پہاڑی پر وہ اکیلا ہی درخت تھا اور وہیں بیٹھ کر شیر پر گولی چلائی جا سکتی تھی۔ درخت پر سے گرد و پیش کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ جب وہ شخص درخت کی شاخیں توڑ رہا تھا تو میرا خیال ہے کہ شیر نے اسے دیکھ لیا تھا۔

اس وقت صبح کے گیارہ بجے تھے۔ اپنے آدمیوں کو گاؤں کھانا کھانے کے لئے بھیج کر میں اور ایبٹسن ایک سایہ دار جھاڑی کے نیچے بیٹھ کر سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔ اڑھائی بجے کے قریب ہم ہلکا پھلکا کھانا کھا رہے تھے کہ چند جنگلی پرندوں کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ ایبٹسن اور اس کا ملازم شیر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے جنگل میں چلے گئے اور میں جامن کے درخت پر چڑھ گیا۔ جب میں درخت پر ٹھیک طرح بیٹھ سے گیا تو ایبٹسن اور اس کا ملازم جنگل سے باہر نکل آئے اور چوکا کیمپ واپس چلے گئے۔ اپنے پیچھے وہ دو آدمی ٹھک میں چھوڑ گئے۔

ایبٹسن کے جانے کے تھوڑی دیر بعد پھر جنگل میں سے پرندوں کی تیز آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اس سے ظاہر تھا کہ شیر پھر حرکت کر رہا تھا۔ لیکن اس بات کی بہت کم امید تھی کہ وہ شام سے پہلے کھلے میدان میں سے گزر کر اپنے شکار کی طرف آئے گا۔ پرندے تقریباً پندرہ منٹ تک چلاتے رہے اور پھر ایک دم خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد شام تک کوئی آواز سنائی نہ دی اور جنگل پر خاموشی طاری رہی۔

دریائے ساروا کے کنارے نیپال کی پہاڑیوں پر شام کی شفق آہستہ آہستہ اندھیرے میں تبدیل ہونے لگی۔ اتنے میں ایک ہرن کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ شیر اس سمت سے واپس آ رہا تھا جدھر سے وہ اپنا شکار چھوڑ کر گیا تھا۔ میرے سامنے درخت کی ایک شاخ تھی جس پر میں نے بندوق کی نال ٹکا رکھی تھی اور شیر کے آنے پر فقط بندوق کے پچھلے حصے کو ذرا اوپر اٹھا کر لبلبی دبانے کی ضرورت تھی۔ وقت آہستہ آہستہ رینگنے لگا پھر دو سو گز کے فاصلے پر پہاڑی کی سمت ککر چیخ اٹھا۔ شیر پر گولی چلانے کے سلسلے میں میری امید نے دم توڑ دیا۔ اب یہ صاف ظاہر تھا کہ شیر نے میرے آدمی کو درخت کی شاخیں توڑتے دیکھ لیا تھا اور پھر شام کے قریب ممکن تھا کہ اس نے مجھے بھی درخت پر بیٹھے دیکھ لیا ہو۔ بہرحال وہ شکار سے پرے پرے چلا گیا تھا۔ اس کے بعد تھوڑے تھوڑے وقفے سے سانبھر اور ککروں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں لیکن ہر آواز پہلی آواز سے قدرے دور سے آتی تھی۔ نصب شب کے قریب یہ آوازیں بھی بند ہو گئیں اور جنگل پر مکمل خاموشی طاری ہو گئی۔

ابھی دن نکلا ہی تھا کہ میں درخت سے اترا، اپنی سکڑی ہوئی ٹانگیں سیدھی کیں اور ایک قریبی جھاڑی میں چھپائی ہوئی تھرماس سے چائے پینے لگا۔ جب ٹانگوں میں ذرا چستی آئی اور میں قدرے تازہ دم ہو گیا تو گاؤں کی طرف چل پڑا۔ گاؤں آ کر پہلے میں نے غسل کیا اور ناشتہ کر کے لیٹ گیا۔ رات کے اس تجربے سے میں کچھ دل برداشتہ ہو گیا تھا۔ اتنے میں گاؤں کے چند معتبر لوگ بھی وہاں آ پہنچے۔ میری دل برداشتگی کے اظہار پر انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں ایک دو روز مزید وہاں ٹھہروں۔ انہیں یقین تھا کہ میں شیر کو ہلاک کر لوں گا۔

ایک بجے کے قریب میں پھر ٹھک کی پہاڑیاں چڑھ رہا تھا۔ راستے میں مجھے بتایا گیا کہ ایک سانبھر کی آواز سنی گئی ہے۔ کیمپ سے میں اس ارادے سے چلا تھا کہ اب کے ایک زندہ بھینس کے قریب شیر کا انتظار کروں گا۔ جس طرف سے سانبھر کی آواز سنائی دی تھی وہاں راستے میں ایک درخت تھا۔ ہم نے رسے کی مدد سے اس پر مچان تیار کی اور درخت کے نیچے بھینس باندھ دی۔ تین بجے کے قریب میں اس درخت پر چڑھ گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد ایک ککر کی آواز آئی اور تھوڑی دیر بعد کوئی ہزار گز سے شیر کی گرج سنائی دی۔ بھینس کے آگے بہت سارا چارہ ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے گلے کی گھنٹی رات بھر بجتی رہی مگر وہ شیر کو اپنی سمت متوجہ نہ کر سکی۔

صبح کے وقت جب میں چوکا واپس آیا تو معلوم ہوا ایبٹسن صبح ہونے سے پہلے ہی وہاں سے جا چکا ہے۔ گزشتہ شام اسے اطلاع ملی تھی کہ لدھیا وادی سے آٹھ میل دور ایک شیر نے ایک بیل ہلاک کر دیا تھا۔ وہ ساری رات اس بیل کے قریب شیر کے انتظار میں بیٹھا رہا مگر بے سود۔ دوسری شام وہ کیمپ واپس چلا آیا۔ صبح کو جب ہم ناشتہ کر رہے تھے تو ایک آدمی نے آ کر اطلاع دی کہ جو بھینس دریا کے بہاؤ کی سمت جنگل میں بندھی تھی۔ جہاں گزشتہ روز ککر اور سانبھر کی آوازیں سنائی دی تھیں، وہاں سے غائب ہے۔ اس گفتگو کے دوران میں ڈویژنل فاریسٹ آفیسر میکڈونلڈ بھی وہاں پہنچ گیا جو اسی روز کالا ڈھونگا سے اپنا کیمپ چوکا میں منتقل کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے دریا کے بہاؤ کی سمت (غالباً جہاں بھینس بندھی ہوئی تھی) شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے ہیں۔

ناشتے کے بعد مسز ایبٹسن اور میکڈونلڈ مچھلی کے شکار پر چلے گئے اور میں ایبٹسن کے ایک ملازم کے ہمراہ گمشدہ بھینس کی کھوج میں چل پڑا۔ ٹوٹے ہوئے رسے اور شیر کے پنجوں کے نشانوں کے سوا کسی دوسری بات سے یہ ظاہر نہ ہوتا تھا کہ بھینس کو ہلاک کیا گیا ہے۔ بہرحال آس پاس تلاش کرنے پر مجھے خون کی لکیر دکھائی دی۔ نہ جانے کس مصلحت کی بنا پر شیر اپنے شکار کو تین چار میل کا چکر دے کر اسے پھر سے دریا کے کنارے لے آیا تھا اور یہ جگہ اس جگہ سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر تھی جہاں اس نے بھینس کو ہلاک کیا تھا۔ اس جگہ سے دریا کا پاٹ بہت چھوٹا ہو جاتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شیر اپنے شکار کے ہمراہ وہیں کہیں لیٹا ہو گا۔ چونکہ میرا ارادہ ساری رات شیر کے انتظار میں بیٹھنے کا تھا لہذا میں نے دن کا باقی وقت مسز ایبٹسن اور میکڈونلڈ کے ہمراہ مچھلیاں پکڑنے میں گزارنا بہتر سمجھا۔ لیکن میں پہلے اس بات کا یقین کر لینا چاہتا تھا کہ شیر وہاں موجود ہے کہ نہیں۔

واپس گاؤں آ کر میں نے چار آدمی اور لئے اور پھر اسی سمت چل پڑا۔ میں چاروں آدمیوں کے آگے آگے چل رہا تھا۔ جب میں دریا کے تنگ پاٹ کے قریب پہنچا تو شیر کی غرا ہٹ سنائی دی۔ شیر کی غرا ہٹ مجھ سے بیس گز سامنے گھنی جھاڑیوں میں سے آ رہی تھی۔ جب جنگل میں ایک ان دیکھا شیر قریب ہی غرا رہا ہو تو اس کی آواز بے حد ہیبت ناک ہوتی ہے اور واضح طور پر بتاتی ہے کہ دخل اندازی کی کوشش نہ کرنا۔ اس تنگ جگہ پر جب کہ شیر موزوں جگہ پر بیٹھا تھا اور اس کا پلہ بھاری تھا، میرا آگے بڑھنا سراسر حماقت تھی۔ میں نے اپنے آدمیوں کو پیچھے مڑنے کا اشارہ کیا اور خود بڑی بھی بڑی احتیاط سے الٹے قدموں چلنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر کہاں ہے۔ اب میں اس سے دو دو ہاتھ کر سکتا تھا۔ میں نے انہیں گاؤں واپس جانے کے لئے کہا مگر وہ اس قدر خوف زدہ تھے کہ رائفل کی پناہ کے بغیر ایک قدم اٹھانے کو تیار نہ تھے۔ اگر میں انہیں گاؤں چھوڑنے جاتا تو تقریباً دو گھنٹے ضائع ہو جاتے۔ لہذا ناچار انہیں اپنے ساتھ ہی رکھنا پڑا۔

میرا ارادہ تھا کہ شیر کے عقب سے اس پر حملہ کیا جائے۔ دریا کے بائیں کنارے کی چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم دریا سے تقریباً دو سو گز پیچھے ہٹ گئے۔ یہاں ہم بائیں سمت کو مڑ گئے۔ دو سو گز مزید چلنے پر ہم پھر بائیں جانب کو ہو لئے۔ اب ہم اس جگہ سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر تھے جہاں سے شیر کی غرا ہٹ سنائی دی تھی۔ اب صورتحال شیر کے بجائے ہمارے حق میں تھی۔ میں جانتا تھا کہ شیر دریا کی سمت نہ جائے گا۔ کیونکہ وہاں اس نے آدمی دیکھ لئے تھے اور نہ ہی پہاڑی کی سمت کیونکہ ایسا کرنے کے لئے اسے ہمارے قریب سے گزرنا پڑتا۔ ہم اسے سامنے والی پہاڑی کی سمت جانے کی ترغیب دینا چاہتے تھے۔ کوئی دس منٹ تک ہم دریا کے کنارے بیٹھے بغور گرد و پیش کا جائزہ لیتے رہے۔ تب چند قدم پیچھے ہٹ کر ہم تین گز بائیں سمت کو چلے اور پھر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ میرے ساتھ والے آدمی نے سرگوشی میں کہا، ‘شیر’ اور دریا کی سمت اشارہ کر دیا۔ لیکن مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ دوبارہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے فقط شیر کے کان ہلتے ہوئے دیکھے تھے۔ کوشش کے باوجود مجھے شیر دکھائی نہ دے سکا۔ اتنے میں ایک آدمی حالات کا ٹھیک جائزہ لینے کو کھڑا ہوا اور شیر جو ہماری طرف منہ کر کے لیٹا ہوا تھا، اٹھ کھڑا ہوا اور پہاڑی چڑھنے لگا۔ جونہی ایک پہاڑی کے عقب سے اس کاسر دکھائی دیا میں نے گولی چلا دی۔ بعد میں دیکھنے پر معلوم ہوا کہ گولی شیر کی گردن کے بالوں میں سے گزر گئی تھی۔ شیر نے ایک چھلانگ لگائی اور جھاڑیوں کے عقب میں روپوش ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ شیر زخمی نہیں ہوا اور میرا یہ خیال بعد میں صحیح ثابت ہوا کیونکہ جس چٹان میں میری گولی لگی تھی اس کے قریب ہی شیر کے کچھ بال پڑے تھے اور خون کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔

تھوڑے فاصلے پر بھینس پڑی تھی۔ شیر نے اسے گدھوں اور دوسرے گوشت خور پرندوں سے بچانے کی خاطر پانی کے ایک چار فٹ گہرے گڑھے میں چھپایا ہوا تھا۔ چاروں آدمیوں کو گاؤں واپس بھیج کر میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک شکار کے قریب چھپا رہا اور جب شیر واپس نہ آیا تو کیمپ واپس لوٹ گیا۔ اگلی صبح ناشتہ کرنے کے بعد میں اور میکڈونلڈ پھر دریا کے کنارے آئے۔ شیر اپنے شکار کو وہاں سے اٹھا کر کچھ فاصلے پر لے گیا تھا اور رات میں اس کا نصف سے زیادہ حصہ کھا گیا تھا۔

ٹھک کی پہلی بھینس کو جسے شیر نے ہلاک کیا تھا اور جس کے قریب میں رات بھر شیر کا انتظار کرتا رہا تھا، وہاں سے اٹھا کر اس سے دو سو گز کے فاصلے پر ایک نئی بھینس باندھ دی گئی تھی۔ چار دن بعد ٹھک کے نمبردار نے ہمیں اطلاع بھیجی کہ شیر اس بھینس کو ہلاک کر کے اٹھا لے گیا ہے۔

ہم نے جلدی سے تیاری کی پھر میں اور ایبٹسن بڑی مشکل چڑھائی عبور کرنے کے بعد اس جگہ پہنچ گئے۔ شیر بھینس کو ہلاک کر کے اسے سیدھا وادی میں لے گیا تھا۔ ہم دونوں شیر کے پنجوں کے نشانات پر چلنے لگے۔ ہمارے پیچھے ہمارے دو ملازم تھے، جنہوں نے ہمارا سامان اٹھا رکھا تھا۔ جلد ہی ہمیں پتا چل گیا کہ شیر اپنا شکار کسی خاص جگہ لے کر گیا تھا۔ آخری گھنی جھاڑیوں میں سے دو گرے ہوئے درختوں پر سے گزر کر شیر نے اپنا شکار ایک چھتری نما درخت کے نیچے چھپا دیا تھا۔ شیر نے اسے ابھی تک چھوا نہیں تھا اور یہ بات ہمارے لئے خاصی پریشان کن تھی۔ بھینس کی گردن پر دانتوں کے نشانات سے پتا چلتا تھا کہ وہ آدم خور شیر ہی تھا۔

اتنا لمبا سفر کرنے سے ہمارے جسم پسینے سے شرابور ہو رہے تھے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر چائے پیتے وقت میں گرد و پیش کا جائزہ لینے لگا تاکہ کوئی ایسا درخت نظر آ سکے جس پر میں رات گزار سکوں۔ کوئی تیس گز کے فاصلے پر ایک درخت تھا جس کا ایک تنا زمین سے دس فٹ اوپر زمین کے متوازی جا رہا تھا۔ میں نے اس تنے میں مچان کھڑی کر دی۔ مچان تیار کرتے وقت ہم لوگ بلند آواز میں باتیں بھی کر رہے تھے تاکہ اگر شیر کہیں آس پاس ہو تو وقتی طور پر وہاں سے ہٹ جائے۔ جب مچان تیار ہو گئی تو ایبٹسن اور میں تھوڑی دیر سگریٹ پیتے اور گپیں لگاتے رہے۔ اس کے بعد وہ دونوں آدمیوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہو گیا۔

جس درخت پر ہم نے مچان بنائی تھی وہ زمین سے ۴۵ درجے کا زاویہ بناتا تھا۔ اس کے نیچے کوئی بیس مربع فٹ زمین بالکل ہموار تھی۔ اس کے فوراً بعد گھاٹی شروع ہو جاتی تھی۔ جس کی ڈھلوان پر گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ اس گھاٹی کے آخر پر ایک ندی تھی۔ شیر کے آرام کے لئے مثالی جگہ۔

ایبٹسن اور اس کے آدمیوں کو رخصت ہوئے ابھی پندرہ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک سرخ بندر چلا چلا کر جنگل کے باسیوں کو شیر کی موجودگی کا احساس دلانے لگا۔ اس سے پتا چلتا تھا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت شیر وہاں موجود نہ تھا اور اب اپنے شکار کے پاس آوازیں سن کر صورت حال کی تحقیق کرنے آ رہا ہے۔

میرا منہ پہاڑی کی طرف اور شکار میری دائیں طرف تھا۔ بندر ابھی چھ سات بار ہی چلایا تھا کہ مجھے اپنے نیچے گھاٹی پر کسی خشک لکڑی کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے داہنی طرف دیکھا تو شیر گھاٹی چڑھ کر چالیس گز دورسے میرے درخت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چند منٹ تک وہ درخت کو گھورتا رہا۔ آخر اس نے میری سمت آنے کا فیصلہ کر لیا۔ میرے درخت کے نیچے ہموار زمین کی طرف بڑھتے وقت وہ زیادہ محتاط ہو رہا تھا اور اس کا پیٹ زمین سے لگتا جا رہا تھا۔ آخر وہ میرے درخت کے نیچے آ کر خشک پتوں پر لیٹ گیا۔

پندرہ منٹ تک وہ بالکل خاموش بیٹھا رہا۔ شیر بالکل میرے نیچے لیٹا تھا۔ اس کی تھوڑی زمین پر تھی اور آنکھیں بند تھیں۔ ایک دم اس نے آنکھیں کھولیں، مکھیاں اڑانے کے لیئے پلکیں جھپکائیں اور پھر سو گیا۔ اب مجھے شیر کی دم اور پچھلی ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر میں درخت پر ذرا بھی حرکت کرتا تو شیر کو میری موجودگی کا علم ہو جانا تھا۔ اس بات کا مجھے یقین تھا کہ شیر نیند پوری کرنے کے بعد اپنے شکار کے پاس جائے گا۔ لیکن کب؟ دوپہر بڑی گرم تھی لیکن شیر نے بڑی سایہ دار جگہ چنی تھی اور ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی اس حالت میں ممکن تھا کہ وہ شام تک سویا رہے اور میں شام کے اندھیرے میں اس پر گولی چلانے کا موقع کھو بیٹھوں۔ لہذا صورت حال کو شیر کی مرضی پر چھوڑنا سراسر غلطی تھی۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں جہاں میں بیٹھا تھا وہاں فقط شیر کی دم اور ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے اس حصے پر گولی چلانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ آخر میں نے بڑی احتیاط سے اپنی ٹانگیں اوپر کیں اور آہستہ آہستہ تنے کے اوپر کھڑا ہو گیا۔ اب مجھے شیر کا تین چوتھائی حصہ دکھائی دینے لگا۔ میں نے اپنی پشت کو ایک بڑی شاخ کے ساتھ لگایا اور بندوق کی نالی شیر کی طرف پھیر کر چلا دی۔ شیر بجلی کی طرح اچھلا اور گھاٹی اترنے لگا۔ میں ایک دم اپنی جگہ سے مڑا اور دوسری گولی اس کے سینے میں اتار دی۔ وہ بڑے دل گردے والا شیر ثابت ہوا کیونکہ ایک آواز نکالے بغیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔

گولی کی آواز سن کر ایبٹسن اور اس کے ساتھی میری سمت چل پڑے۔ راستے میں میری ان سے ملاقات ہو گئی۔ ہم واپس جائے وقوعہ پر آئے۔ ہم چاروں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اتنے بڑے شیر کو اٹھا کر کیمپ تک لے آتے۔ لہذا ہم آدمیوں کو جمع کرنے گاؤں کی سمت چل پڑے۔

وہ ایک بڑا نر شیر تھا۔ مجھے اس کے جسم کے مختلف حصوں میں شاٹ گن کے کئی چھرے بھی ملے۔ اگلی صبح تقریباً سو افراد کے مجمع کے سامنے ہم نے شیر کی کھال اتاری۔

٭٭٭

پانار کا آدم خور

(۱)

جب میں ۱۹۰۷ء میں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کے شکار میں سر گرداں تھا تو مجھے اس آدم خور تیندوے کا پتہ چلا جس نے الموڑا ضلع کے مشرقی سرے میں دہشت پھیلائی ہوئی تھی۔ یہ تیندوا جس کے بارے ہاؤس آف کامنز میں بھی سوال پوچھے گئے، کئی ناموں سے مشہور تھا۔ اس کے ذمے کم از کم ۴۰۰ مصدقہ ہلاکتیں تھیں۔ چونکہ میں اس تیندوے کو پانار کے آدم خور تیندوے کے نام سے جانتا ہوں اس لئے میں اسے اس کہانی میں اسی نام سے ہی پکاروں گا۔

سرکاری کاغذات میں ۱۹۰۵ء تک کسی آدم خور کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ۱۹۰۵ء میں پہلی بار یہاں چمپاوت کی آدم خور شیرنی اور پھر پانار کے آدم خور تیندوے کا ظہور ہوا۔ اس سے قبل کماؤں میں آدم خور کا کبھی نہیں سنا گیا تھا۔ ان دونوں جانوروں نے کل ۸۳۶ انسان ہلاک کئے تھے۔ جب یہ درندے نمودار ہوئے تو حکومت ان کے سامنے لاچار تھی کیونکہ حکومت کے پاس اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کوئی بھی ذریعہ نہیں تھا۔ تاہم سرکاری افسران نے اپنے دوست احباب اور شکاریوں سے ذاتی طور پر درخواستیں کیں کہ وہ ان جانوروں کو ٹھکانے لگائیں۔ تاہم چند ہی شکاریوں نے اس دعوت پر لبیک کہا کیونکہ آدم خور جانور کا پیچھا کر کے شکار کرنا بالکل اسی طرح انتہائی خطرناک امر سمجھا جاتا تھا جیسا چند سال بعد ولسن کی جانب سے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کی واحد کوشش تھی۔ جتنا ولسن کو ایورسٹ سے ناواقفیت تھی اتنا ہی میں آدم خور جانوروں سے لاعلم تھا۔ تاہم جب میں اس کوشش میں کامیاب ہوا اور ولسن اپنی کوشش میں ناکام، تو اس کی ذمہ داری محض قسمت پر ہی ہے۔

جب چمپاوت کی آدم خور شیرنی کی ہلاکت کے بعد میں نینی تال گھر پہنچا تو حکومت نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں پانار کے آدم خور تیندوے کا شکار کرنا چاہوں گا؟ اس وقت مجھے ملازمت کے سلسلے میں انتہائی مشکلات درپیش تھیں اور کئی ہفتے گذرنے کے بعد مجھے اتنا وقت مل سکا کہ میں اس تیندوے پر توجہ دوں۔ تاہم جب میں روانہ ہونے ہی والا تھا تو مجھے نینی تال کے ڈپٹی کمشنر کی درخواست ملی جس میں انہوں نے مکتسر کی آدم خور شیرنی کے بارے بتایا کہ اس شیرنی نے بہت دہشت پھیلا رکھی ہے اور اسے ہلاک کیا جانا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے، مکتسر کی شیرنی کی ہلاکت کے بعد میں پانار کے تیندوے کی جانب لوٹا۔

چونکہ میں تیندوے کے علاقے میں پہلے کبھی نہیں آیا تھا اس لئے میں الموڑا سے ہو کر گذرا تاکہ الموڑا کے ڈپٹی کمشنر سے تیندوے کے بارے ہر ممکن معلومات لے سکوں۔ انہوں نے مجھے نہ صرف ناشتہ کھلایا بلکہ مجھے نقشے وغیرہ بھی مہیا کیے۔ تاہم میرے روانہ ہوتے وقت انہوں نے یہ کہہ کر مجھے اچھا خاصا جھٹکا پہنچایا کہ کیا میں تیندوے کے تعاقب سے متعلق تمام خطرات سے آگاہ ہوں اور انہی خطرات کے پیش نظر کیا میں نے اپنی وصیت مرتب کر لی ہے؟

ان نقشوں کے مطابق متاثرہ علاقے تک پہنچنے کے دو راستے تھے۔ ایک راستہ پان ونولہ سے بذریعہ پتھور گڑھ روڈ جاتا تھا اور دوسرا لام گرا سے بذریعہ دیبی دھورا روڈ۔ میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور دوپہر کا کھانا کھانے اور وصیت کے تذکرے کے باوجود خوش دلی سے روانہ ہوا۔ میرے ساتھ ایک ملازم اور چار دیگر افراد تھے جو میرا سامان اٹھائے ہوئے تھے۔ میں اور میرے ساتھی پہلے ہی ۱۴ میل کا سفر طے کر چکے تھے لیکن چونکہ ہم نوجوان اور مضبوط تھے اس لئے ہم نے سوچا کہ مزید کچھ آگے جا کر رکیں گے۔

چودھویں کا چاند طلوع ہو ہی رہا تھا کہ ہم ایک چھوٹی سی علیحدہ واقع عمارت تک پہنچے۔ اس کی چھوٹی دیوار اور پھیلے ہوئے کاغذوں سے ہم نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ عمارت بطور سکول استعمال ہوتی ہو گی۔ چونکہ میرے پاس کوئی خیمہ نہیں تھا اور عمارت مقفل تھی تو میں نے فیصلہ کیا کہ رات ہم صحن ہی میں گذارتے ہیں۔ چونکہ ہم ابھی آدم خور کے علاقے سے کئی میل دور تھے اس لئے یہاں شب بسری محفوظ تھی۔ صحن ۲۰ مربع فٹ تھا اور اس کے ایک طرف سڑک اور دوسری جانب سکول کی عمارت تھی۔ باقی دو اطراف دو فٹ اونچی دیوار تھی۔

چونکہ سکول کی عمارت کے پیچھے جنگل میں آگ جلانے کے لئے لکڑیاں بے شمار تھیں اس لئے میرے ساتھیوں نے جلد ہی صحن کے ایک کونے میں آگ جلا لی۔ میرے ملازم نے میرے لئے کھانا تیار کیا۔ اس وقت سکول کے مقفل دروازے سے ٹیک لگائے میں سگریٹ پی رہا تھا۔ میرے ملازم نے میرے لئے بکرے کی بھنی ہوئی ٹانگ کو کاغذ پر منتقل کر کے دیوار پر رکھا اور مڑ کر آگ کریدنے لگا۔ اسی دوران اس کے پیچھے دیوار کی دوسری جانب سے تیندوے کا سر نمودار ہوا۔ حیرت کے مارے میں اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ جب میرا ملازم چند فٹ مزید دور ہوا تو تیندوے نے بکرے کی ران دبوچی اور یہ جا وہ جا۔ چونکہ کاغذ ابھی تک ران سے چمٹا ہوا تھا تو اس کی آواز سن کر میرا ملازم یہ سمجھا کہ کوئی کتا اسے اٹھائے جا رہا ہے۔ بے چارہ فوراً اس کے پیچھے لپکا لیکن جونہی اسے احساس ہوا کہ یہ کتا نہیں بلکہ تیندوا ہے تو وہ تیزی سے میری طرف پلٹا۔ یورپی لوگوں کو مشرق میں تھوڑا سا دیوانہ سمجھا جاتا ہے۔ جب میرا ملازم واپس لوٹا تو میں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ اس بے چارے نے یہی سمجھا ہو گا کہ میں کچھ زیادہ دیوانہ ہو گیا ہوں کیونکہ سارا دن ہم چلچلاتی ہوئی گرمی میں چلتے رہے تھے۔ اس نے بتایا کہ بکرے کی ران ہی وہ چیز تھی جو وہ میرے لئے کھانے کے طور پر لا رہا تھا۔ تاہم کچھ دیر بعد اس نے کچھ اور کھانا تیار کیا اور میرے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس کھانے سے میں نے اور تیندوے نے بکرے کی بھنی ران سے یکساں انصاف کیا۔

اگلی صبح جلدی روانہ ہوتے ہوئے ہم لوگ لام گرا دوپہر کا کھانا کھانے رکے۔ شام کو ہم لوگ ڈول ڈک کے بنگلے پر پہنچے۔ یہاں سے آدم خور کی سلطنت شروع ہوتی تھی۔ اگلی صبح اپنے ساتھیوں کو بنگلے چھوڑ کر میں اس نیت سے نکلا کہ جا کر آدم خور کے بارے کچھ سن گن لوں۔ ایک گاؤں سے دوسرے تک اور راستے پر تیندوے کے پگوں کی تلاش کرتے ہوئے میں شام گئے ایک علیحدہ بنے ہوئے ایک مکان تک پہنچا۔ یہ مکان پتھروں سے بنا ہوا تھا جس پر سلیٹ کی چھت تھی۔ اس کے پاس چند ایکڑ جتنے کھیت موجود تھے اور ان کے پیچھے جنگل ہی جنگل۔ اس گھر کو جانے والی پگڈنڈی پر میں نے ایک بڑے نر تیندوے کے پگ دیکھے۔

جب میں اس مکان کے نزدیک پہنچا تو اس کا دروازہ کھلا اور ایک بندہ اس سے باہر نکلا۔ بالکنی سے ہوتا ہوا وہ سیڑھیاں اترا اور مجھے ملنے آیا۔ اس کی عمر بائیس سال ہو گی اور بہت پریشان دکھائی دیتا تھا۔ یہ بندہ اپنی بیوی کے ساتھ گذشتہ رات فرش پر سو رہا تھا اور دروازہ کھلا تھا کیونکہ اپریل کا مہینہ تھا اور گرمی کافی سخت تھی۔ آدم خور تیندوا بالکونی پر چڑھ کر اندر داخل ہوا اور اس کی بیوی کو گلے سے پکڑ کر کھینچنے لگا۔ اس عورت نے گھٹی گھٹی سی چیخ ماری اور اپنے شوہر کو پکڑ لیا۔ اس بندے نے فوراً ہی صورتحال کو جان لیا اور دروازے کو پکڑ کر بیوی کو جھٹکے سے تیندوے سے چھڑایا اور لپک کر دروازہ بند کر لیا۔ بقیہ رات میاں بیوی کمرے کے ایک کونے میں دبکے لرزتے رہے اور تیندوا بار بار دروازہ توڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ انتہائی گرم اور حبس زدہ کمرے میں اس عورت کے زخموں میں پیپ پڑنا شروع ہو گئی تھی۔ شکر ہے کہ وہ صبح سے اپنے زخموں اور درد کے باعث نیم بے ہوش تھی۔

سارا دن یہ بندہ اپنی بیوی کے پاس رہا اور اسے ڈر تھا کہ آدم خور کسی بھی وقت واپس آ سکتا ہے۔ اس کا نزدیکی ہمسایہ ایک میل دور رہتا تھا اور راستہ گھنے جنگل سے گذرتا تھا۔ اب یہ بندہ بے چارہ دہشت سے بھری ایک اور رات کا منتظر تھا کہ اس نے مجھے آتے دیکھا۔ جب میں نے اس کی کہانی سنی تو مجھے بالکل حیرت نہ رہی کہ مجھے دیکھتے ہی وہ کیوں بھاگ کر میرے قدموں میں گر کر رونے لگا تھا۔

صورتحال کافی مشکل تھی۔ اس وقت تک میں نے حکومت کو آدم خور کے علاقے میں جراثیم کش ادویات اور ابتدائی طبی امداد کا سامان پہنچانے کا نہیں کہا تھا اور اس وقت نزدیک ترین ہسپتال بائیس میل دور الموڑا میں تھا۔ اس عورت کی مدد کے لئے اگر میں ادویات لانے جاتا تو یہ اس بندے کو پاگل کر دینے کے لئے کافی تھا۔ ایک اور رات اس گرم کمرے میں یہ جانتے ہوئے گذارنا کہ آدم خور کسی بھی وقت واپس آ کر دروازہ توڑنے کی کوشش کر سکتا ہے، اس بندے کو پاگل کر دینے کے لئے کافی ہوتی۔ پہلے ہی ایک رات اس نے جیسے تیسے گذاری تھی۔

اس کی بیوی اٹھارہ سال کی لڑکی تھی اور پشت کے بل لیٹی ہوئی تھی۔ آدم خور کے دانتوں نے اس کے گلے میں سوراخ کر دیئے تھے اور جب اس کے شوہر نے اسے تیندوے سے چھڑانے کی کوشش کی تو اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے تیندوے نے اس کی چھاتی پر پنجہ گاڑ دیا تھا۔ اس طرح جب یہ عورت آدم خور کی گرفت سے نکلی تو اس کی چھاتی پر چار گہرے زخم بن گئے۔ اس کمرے میں جہاں صرف گرمی ہی گرمی تھی کیونکہ یہاں کوئی کھڑکی نہیں تھی اور مکھیوں کے جم غفیر اس کے زخموں پر جمع تھے۔ زخم اب سڑنے لگ گئے تھے اور چاہے اسے طبی امداد ملتی یا نہیں، اس کے زندہ بچنے کے امکانات بہت معدوم تھے۔ اس لئے میں نے بجائے اس کے کہ جا کر اس کے لئے طبی امداد لاتا، میں نے رات یہیں گذارنے کا فیصلہ کیا۔ میری یہ دلی دعا ہے کہ آپ میں سے جو بھی اس کہانی کو پڑھ رہے ہوں، انہیں کبھی کسی انسان یا جانور کے ساتھ اس طرح رات نہ گذارنی پڑے کہ شیر یا تیندوے کے دانتوں سے اس کے گلے میں سوراخ ہوں اور ما سوائے رائفل کی گولی کے اسے اس کی اذیت سے نجات دلانے کا کوئی اور طریقہ نہ ہو۔

بالکنی مکان کی لمبائی میں پھیلی ہوئی تھی اور دونوں اطراف سے بند تھی۔ اس کی کل لمبائی پندرہ فٹ اور چوڑائی چار فٹ تھی۔ صنوبر کی لکڑی کے بنے زینے اسے زمین سے ملاتے تھے۔ سیڑھیوں کے عین سامنے مکان کا واحد دروازہ تھا اور اس کے عین نیچے چار فٹ چوڑی اور چار فٹ اونچی جگہ پر جلانے کے لئے لکڑیاں رکھی گئی تھیں۔

اس بندے نے میری منتیں کیں کہ میں اس کے ساتھ کمرے کے اندر رہوں۔ اگرچہ میرا جی آسانی سے مالش نہیں کرتا لیکن اس کمرے کی فضاء اتنی گھٹن آلود تھی کہ میں مزید برداشت نہ کر سکا۔ اس بندے کی مدد سے میں نے سوختنی لکڑیوں کا کچھ حصہ ہٹا دیا اور اتنی جگہ بن گئی جہاں میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ سکتا۔ رات کی تاریکی چھانے والی تھی اس لئے نزدیکی چشمے سے غسل کر کے اور پیاس بجھا کر میں اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور اس بندے سے کہا کہ کمرے میں جا کر دروازہ کھلا چھوڑ دے۔ اس نے پوچھا ‘صاحب اس طرح تو تیندوا لازما آپ کو کھا جائے گا پھر میں کیا کروں گا؟’ میں نے جواب دیا ‘دروازہ بند کر کے صبح کا انتظار کرنا۔‘

چاند سولہویں کا تھا اور رات کی تاریکی چھانے کے کچھ دیر بعد نکلتا۔ یہ تاریکی کا مختصر سا وقفہ مجھے پریشان کر رہا تھا۔ جیسا کہ اس بندے نے بتایا تھا کہ تیندوا صبح ہونے تک دروازے کو توڑنے کی کوشش کرتا رہا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تیندوا زیادہ دور نہیں گیا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ اب بھی تیندوا جھاڑیوں میں چھپا مجھے دیکھ رہا ہو۔ اسی حالت میں میں نصف گھنٹہ بیٹھا رہا اور آنکھوں پر زور دے کر مسلسل دیکھتا رہا اور چاند کے جلد از جلد نکلنے کی دعا مانگتا رہا۔ اچانک دور سے گیدڑ بولا۔ یہ آواز پوری طاقت سے نکالی گئی تھی اور کافی فاصلے سے آئی تھی۔ اس آواز کو آپ ‘فیوں فیوں‘ سے مشابہ کہہ سکتے ہیں۔ گیدڑ یہ آواز بار بار نکالتا رہا جب تک کہ خطرہ اس کے سامنے سے ہٹ نہ گیا۔ شکار کی تلاش میں نکلے یا پھر شکار کردہ جانور پر آتے وقت تیندوے انتہائی آہستگی سے حرکت کرتے ہیں۔ اگر اس گیدڑ نے آدم خور تیندوے کو دیکھا تھا تو یہ تیندوا نصف میل کا فاصلہ اتنی دیر میں طے کرتا کہ اگر چاند نہ بھی نکلا ہوتا تو بھی اتنی روشنی ہوتی کہ میں آسانی سے گولی چلا سکتا۔ یہ سوچ کر مجھے کافی سکون ملا اور میں آسانی سے سانس لینے کے قابل ہو گیا۔

وقت گذرتا رہا۔ گیدڑ کی آواز بند ہو گئی۔ چاند پہاڑیوں کے اوپر سے نکل آیا اور میرے سامنے کی زمین پر چاندنی اتنی پھیل گئی کہ دور دور تک صاف دکھائی دینے لگا۔ تاہم مجھے کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں دکھائی دی اور واحد آواز اس بے چاری لڑکی کی تھی جو وہ سانس لینے کی کوشش میں نکال رہی تھی۔ منٹ گھنٹوں میں بدلتے گئے۔ حتیٰ کہ چاند نصف النہار پر پہنچ کر زوال پر مائل ہو گیا۔ اب مکان کا سایہ میرے سامنے پڑنے لگا۔ اب پھر خطرہ آ گیا تھا۔ اگر تیندوا مجھے دیکھ چکا ہو تو اب اندھیرے میں اس کی حرکات مجھ سے پوشیدہ رہتیں۔ تیندوا آسانی سے ساری رات ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے گذار سکتا ہے۔ تاہم رات بخیریت گذری اور صبح کی آمد کے ساتھ میری طویل ترین راتوں میں سے ایک ختم ہوئی۔

گذشتہ رات کے رت جگے کے بعد یہ رات اس بندے نے آسانی سے سو کر گذاری تھی۔ جب میں اپنے کونے سے نکلا اور اپنی دکھتی ہڈیوں کو سہلا رہا تھا تو وہ بندہ سیڑھیوں سے نیچے اترا۔ چند رس بھریوں کے علاوہ میں نے چوبیس گھنٹے میں کچھ نہیں کھایا تھا۔ چونکہ اب یہاں مزید رکنا فضول تھا تو اس بندے سے اجازت لے کر میں اس نیت سے آٹھ میل دور ڈول ڈک کے ڈاک بنگلے کو روانہ ہوا کہ جا کر اس لڑکی کے لئے طبی امداد لاؤں۔ ابھی میں چند ہی میل گیا ہوں گا کہ مجھے میرے ساتھی آتے دکھائی دیئے۔ میری طویل غیر حاضری سے پریشان ہو کر انہوں نے میرا سامان باندھا اور ڈاک بنگلے کے بقایا جات ادا کر کے وہ میری تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ابھی ہم باتیں کر رہے تھے کہ وہاں سے روڈ اوور سیئر گذرا۔ یہ وہی بندہ تھا جس کے بارے میں نے مندر کا شیر میں بھی لکھا تھا۔ وہ ایک مضبوط خچر پر سوار تھا۔ اسے میں نے ایک خط سٹیف کے نام دیا جو اس نے پہچانے کا وعدہ کر لیا۔ میرا خط ملتے ہی سٹیف نے فوراً طبی امداد کا بندوبست کیا لیکن امداد پہنچنے سے قبل ہی اس لڑکی کی مشکل ختم ہو گئی تھی۔

اسی روڈ اوور سیئر نے مجھے دیبی دھورا میں آدم خور کی واردات کے بارے بتایا تھا جہاں میں اپنی زندگی کے بہترین شکاری تجربات میں سے ایک سے دوچار ہوا تھا۔ جب اس واقعے کے بعد میں نے پنڈت سے پوچھا کہ آیا یہ آدم خور بھی مندر کی حفاظت میں تو نہیں تو اس نے فوراً کہا ‘نہیں صاحب۔ یہ شیطان میرے مندر کے بہت سارے پوجا کرنے والوں کو کھا چکا ہے اور جیسا کہ آپ نے کہا کہ آپ اس کے پیچھے پھر آئیں گے تو میں اس سلسلے میں صبح شام آپ کی کامیابی کے لئے دعائیں کروں گا۔‘

(۲)

چاہے آپ کی زندگی کامیابیوں اور مسرتوں سے بھری ہوئی کیوں نہ ہو پھر بھی چند واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر نظر ڈالنے سے خصوصی خوشی ملتی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال ۱۹۱۰ کا سال ہے۔ اس سال میں نے مکتسر کے آدم خور شیر اور پانار کے آدم خور تیندوے کو ہلاک کیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ محکمہ گھاٹ پر میں نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ایک دن میں بغیر کسی مشینی مدد کے میں نے اور میرے آدمیوں نے ۵۵۰۰ ٹن سامان منتقل کیا۔

پانار کے آدم خور تیندوے کے شکار کی میری پہلی کوشش اپریل ۱۹۱۰ء میں تھی لیکن پھر ستمبر تک مجھے دوسری کوشش کا وقت نہ مل سکا۔ مجھے علم نہیں کہ اپریل تا ستمبر کتنے مزید افراد کو تیندوا کھا چکا تھا کیونکہ سرکاری طور پر ان اعداد و شمار کو شائع نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بارے ہاؤس آف کامنز میں بھی سوال پوچھے گئے۔ تاہم ہندوستانی پریس میں اس کے بارے کچھ بھی نہیں لکھا گیا۔ پانار کے آدم خور کے کھاتے میں ۴۰۰ انسانی ہلاکتیں لکھی تھیں۔ تاہم ردر پریاگ کے آدم خور تیندوے نے ۱۲۵ انسان ہلاک کیے تھے۔ پھر بھی پانار کے آدم خور کے بارے اتنا کم لوگوں کو معلوم ہے جبکہ ردر پریاگ کا آدم خور ہندوستان کے چپے چپے پر مشہور تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پانار کا آدم خور انتہائی دور دراز علاقے میں سرگرم تھا جبکہ ردر پریاگ کا تیندوا جس علاقے میں شکار کرتا تھا وہاں ہر سال ۶۰۰۰۰ سے زیادہ یاتری ہندوستان کے طول و عرض سے آتے تھے۔ یہ یاتری اور حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے اعلامیوں نے ہی ردر پریاگ کے آدم خور تیندوے کو اتنا مشہور بنا دیا تھا جبکہ اس سے ہونے والا نقصان نسبتاً کم تھا۔

ایک ملازم اور چار ساتھیوں کے ساتھ میں نینی تال سے ۱۰ ستمبر کو اس تیندوے کے شکار پر دوسری بار نکلا۔ یہ چار ساتھی میرا خیمہ اور دیگر ضروری سامان اٹھائے جا رہے تھے۔ جب صبح چار بجے ہم لوگ گھر سے روانہ ہوئے تو بادل چھائے ہوئے تھے اور ابھی ہم چند ہی میل دور گئے ہوں گے کہ بارش شروع ہو گئی۔ سارا دن بارش ہوتی رہی اور جب ہم الموڑا ۲۸ میل کا سفر کر کے پہنچے تو ہم انتہائی گیلے ہو چکے تھے۔ طے یہ ہوا تھا کہ یہ رات میں سٹیف کے ساتھ گذاروں گا لیکن چونکہ میرے پاس کوئی بھی خشک کپڑے نہیں تھے اس لئے سٹیف سے معذرت کر کے رات ڈاک بنگلے پر گذاری۔ چونکہ ڈاک بنگلے میں کوئی اور مسافر مقیم نہیں تھا اس لئے چوکیدار نے کمال مہربانی سے ہمیں دو کمرے اور کافی بڑی مقدار میں سوختنی لکڑی بھی دی۔ صبح تک ہم اور ہمارا سامان پوری طرح خشک ہو چکا تھا اور ہم روانگی کے لئے تیار تھے۔

میرا ارادہ تھا کہ میں وہی راستہ اپناؤں گا جو اپریل میں میں نے اختیار کیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ جس گھر میں لڑکی تیندوے سے لگے زخموں سے مری تھی، وہیں سے میں اس شکار کا آغاز کروں گا۔ جتنی دیر میں ناشتہ کرتا، پنوا نام کا ایک راج میرے پاس آیا۔ یہ بندہ نینی تال میں ہمارے لئے چھوٹے موٹے کام کرتا تھا اور اس کا گھر وادی پانار میں تھا۔ جب اس نے میرے ساتھیوں سے یہ سنا کہ ہم وادیِ پانار آدم خور کے شکار کے لئے جا رہے ہیں تو اس نے درخواست کی کہ ہم اسے بھی ساتھ لیتے چلیں۔ چونکہ اسے بھی گھر جانا تھا اور خطرے کے پیش نظر وہ اکیلا نہیں جانا چاہتا تھا۔ پنوا اس علاقے سے بخوبی واقف تھا اور اس کے مشورے پر میں نے اپنا سفری پروگرام تبدیل کر لیا۔ اس بار دیبی دھورا براستہ اس سکول سے جانے کی بجائے، جہاں تیندوے نے میرے بکرے کی ران اٹھائی تھی، میں نے پتھورا گڑھ والی سڑک پکڑی۔ رات کو ہم نے پنوا نولا ڈاک بنگلے میں رہے۔ اگلی صبح ہم جلدی روانہ ہوئے اور چند میل کے بعد سڑک سے دائیں جانے والی ایک پگڈنڈی پر ہو لئے۔ اب ہم آدم خور کی سلطنت میں تھے اور ان جگہوں پر آمد و رفت سڑکوں کی بجائے پگڈنڈیوں سے ہوتی ہے۔

ہماری پیش قدمی کافی سست تھی کیونکہ کئی سو مربع میل پر گاؤں پھیلے ہوئے تھے اور آدم خور کے بارے یقینی اطلاع حاصل کرنے کے لئے ہمیں ہر گاؤں جا کر معلومات لینی تھیں۔ سلن اور رنگوٹ کی پٹیوں (پٹی سے مراد دیہاتوں کا ایک مجموعہ ہے ) سے ہوتے ہوئے چوتھے روز شام گئے ہم لوگ چکاتی پہنچے۔ یہاں نمبردار نے مجھے بتایا کہ چند دن قبل دریائے پانار کی دوسری جانب تیندوے نے سانولی نامی گاؤں میں ایک بندہ ہلاک کیا تھا۔ چونکہ حالیہ بارشوں کے سبب دریائے پانار خوب چڑھا ہوا تھا اس لئے نمبردار نے ہمیں رات وہیں بسر کرنے کا کہا۔ اس نے وعدہ کیا کہ اگلی صبح وہ مجھے ایک محفوظ جگہ دکھانے کے لئے رہنما ساتھ بھیجے گا۔ دریائے پانار پر اس جگہ کوئی پل نہیں تھا۔

نمبردار سے میری یہ گفتگو گاؤں کے ایک سرے پر واقع دو منزلہ مکانوں کی قطار کے ایک سرے پر ہو رہی تھی۔ جب میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے رات کو اسی گاؤں میں رہنے کا فیصلہ کیا تو اس نے کہا کہ وہ بالائی منزل پر میرے اور میرے ساتھیوں کے لئے دو کمرے خالی کرا دیتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ نچلی منزل بھی خالی ہی تھی اس لئے میں نے اسے کہا کہ میں اسی کمرے میں سوؤں گا جبکہ میرے ساتھیوں کے لئے وہ بالائی منزل کا ایک کمرہ خالی کرا دے۔ جس کمرے کا میں نے اپنے لئے انتخاب کیا تھا اس کا دروازہ غائب تھا۔ لیکن چونکہ آدم خور کی پچھلی واردات دریا کے دوسرے کنارے پر ہوئی تھی اور تب سے دریا میں طغیانی آئی ہوئی تھی اس لئے تیندوا لازما دوسری طرف ہی ہو گا۔

کمرے میں کسی قسم کا ساز و سامان نہیں تھا اور جب میرے آدمیوں نے اس کمرے کو اچھی طرح صاف کر کے اس میں پھیلے ہوئے چیتھڑے ہٹائے اور اس غلیظ بندے کو کوستے رہے جو ہم سے قبل یہاں رہ رہا تھا۔ پھر انہوں نے مٹی کے فرش پر صاف چادر بچھائی اور میرا بستر لگا دیا۔ صحن میں میرے باورچی نے میرے لئے کھانا تیار کیا جو میں نے بستر پر بیٹھے ہوئے کھایا۔ اس دن ہم نے کافی طویل سفر کیا تھا اور میں تھکن سے چور تھا۔ اگلی صبح جب سورج نکلنے والا تھا اور کمرے میں اچھی طرح روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ہلکی سی آہٹ سے میری آنکھ کھل گئی۔ میرے بستر کے ساتھ ہی ایک بندہ فرش پر بیٹھا تھا۔ اس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہو گی اور بے چارہ کوڑھ کے موذی مرض کے آخری مراحل سے گذر رہا تھا۔ اس بد قسمت انسان نے جب مجھے بیدار ہوتے دیکھا تو اس نے سلام کیا اور کہا کہ اسے امید ہے کہ میں اس کے کمرے میں اچھی طرح سویا ہوں گا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ دو دن کے لئے نزدیکی گاؤں اپنے دوست کو ملنے گیا ہوا تھا اور جب واپس لوٹا تو اس نے دیکھا کہ میں اس کے کمرے میں سو رہا ہوں۔ اس لئے وہ میرے بیدار ہونے تک میرے قریب بیٹھ گیا۔

کوڑھ کا مرض مشرقی بیماریوں میں سب سے زیادہ خطرناک اور چھوت کا مرض ہے جو کماؤں میں بری طرح پھیلا ہوا ہے۔ ضعیف العقیدہ کے مالک لوگ اس بیماری کو خدا کا قہر سمجھتے ہیں اور بیماری میں مبتلا افراد کو الگ نہیں کرتے۔ اگرچہ نمبردار کو علم تھا کہ اس کمرے میں کئی سال سے کوڑھی رہ رہا ہے لیکن اس نے مجھے اس بارے ایک لفظ بھی نہیں بتایا۔ بعجلت میں نے کپڑے پہنے اور جونہی ہمارا رہنما حاضر ہوا، ہم روانہ ہو گئے۔

کماؤں میں گھومتے وقت مجھے کوڑھ سے انتہائی خوف محسوس ہوتا ہے۔ لیکن پوری رات کوڑھی کے کمرے میں گذارنے کے بعد میں نے خود کو جتنا غلیظ اور گندا تصور کیا، بیان سے باہر ہے۔ پہلی ہی ندی جو راستے میں آئی، پر میں نے سب کو رکنے کا کہا کہ اس دوران میرا ملازم میرے لئے اور دیگر افراد کے لئے کھانا تیار کر لے۔ پھر اپنے آدمیوں کو کہا کہ وہ اس چادر کو اچھی طرح دھوئیں جس پر میرا بستر بچھا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے انہیں کہا کہ وہ میرا بستر اچھی طرح دھوپ میں پھیلا دیں۔ میں نے کاربالک صابن اٹھایا اور ندی پر جا کر ایک بڑی چٹان کی اوٹ میں سارے کپڑے اتار کر خود کو صابن کی مدد سے اتنی بار دھویا جب تک کہ میری تسلی نہ ہو گئی۔ بقیہ صابن سے میں نے اپنے کپڑے دھوئے اور انہیں خشک ہونے کے لئے وہیں ایک بڑے پتھر پر ڈال دیا۔ دو گھنٹے بعد جب میرے کپڑے خشک ہو گئے تو میں نے کپڑے پہنے اور خود کو صاف ستھرا محسوس کیا اور میری بھوک بھی لوٹ آئی۔

ہمارا رہنما ساڑھے چار فٹ لمبا ہو گا اور اس کے بہت بڑے سر پر ایک چوٹی لہرا رہی تھی۔ موٹے جسم اور کم گو طبعیت کا حامل تھا۔ جب ہم نے پوچھا کہ کیا راستے میں کوئی سخت چڑھائی آئے گی تو اس نے اپنی ہتھیلی دکھائی اور کہا کہ اس ہتھیلی کی طرح ہموار راستہ ہے۔ یہ کہہ کر وہ ہمیں انتہائی ڈھلوان راستے سے گہری وادی میں اتار لے گیا۔ میرا خیال تھا کہ اس وادی سے وہ دریا کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے گا۔ لیکن نہیں۔ بغیر کچھ کہے یا دائیں بائیں دیکھے بنا وہ سیدھا کھلے میدان سے گذرا اور دوسری جانب کی پہاڑی پر چڑھنے لگا۔ یہ پہاڑی نہ صرف انتہائی بلند بلکہ کانٹے دار جھاڑیوں سے بھی بھری ہوئی تھی۔ چونکہ سورج ہمارے سروں پر تھا اس لئے چوٹی تک پہنچتے پہنچتے ہم پسینے میں شرابور ہو چکے تھے۔ ہمارا رہنما بالکل پرسکون تھا جیسے کہ اس کی ٹانگیں محض پہاڑوں پر چڑھنے اترنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔

پہاڑی کی چوٹی سے کافی دور دور تک منظر دکھائی دے رہا تھا اور ہمارے رہنما نے اطلاع دی کہ اسی طرح دو اور پہاڑیوں کے بعد دریائے پانار ہمارے سامنے ہو گا۔ پنوا راج کے پاس ایک بڑا گٹھڑ تھا جو وہ اپنے گھر والوں کے لئے تحفے تحائف پر مشتمل تھا۔ اس کے پاس ایک بڑا کوٹ بھی تھا جو بھاری اور کسی گہرے رنگ کے کپڑے سے بنا ہوا تھا۔ پنوا نے یہ کوٹ ہمارے رہنما کو دیا اور کہا کہ چونکہ وہ ہمیں کماؤں کی ساری پہاڑیوں سے گذار کر دریا تک پہنچائے گا اس لئے یہ کوٹ اٹھانا اس کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے رہنما نے اپنی کمر سے بکری کے بالوں سے بنی رسی کھولی اور اس کی مدد سے کوٹ اپنی پشت پر اچھی طرح کس کر باندھ لیا۔ دو اور پہاڑیوں کو عبور کرنے کے بعد ہمارے سامنے دریائے پانار دکھائی دیا۔ سارا راستہ ہم نے کوئی پگڈنڈی نہیں دیکھی نہ ہی کوئی گاؤں ہمارے راستے آیا۔ لیکن یہاں پہنچ کر ہم نے ایک چھوٹا سا راستہ دریا کو جاتے دیکھا۔ جتنا ہم قریب ہوتے گئے اتنا ہی میں دریا سے خائف ہوتا گیا۔ یہ راستہ دریا تک چلا گیا تھا اور پھر ایک جگہ سے دریا کو عبور کر کے دوسری طرف سے پھر شروع ہو گیا تھا۔ تاہم دریا پوری طرح بپھرا ہوا تھا اور اسے عبور کرنا کافی خطرناک تھا۔ تاہم ہمارے رہنما کے بقول دریا کو اس جگہ سے انتہائی آسانی سے عبور کیا جا سکتا تھا۔ جوتے اور جرابیں اتار کر میں نے پنوا کا ہاتھ پکڑا اور پانی میں اتر گیا۔ اس جگہ دریا تقریباً چالیس گز چوڑا تھا اور اس کی ناہموار سطح سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ تہہ میں جگہ جگہ پتھر موجود ہیں۔ چند بار پتھروں پر ٹھوکر کھاتے اور بہہ جانے سے بال بال بچتے ہوئے ہم دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔

ہمارے رہنما نے ہمارے پیچھے دریا میں قدم رکھا لیکن جلد ہی دشواریوں میں پڑ گیا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ وہ بھی ہماری طرح اپنی پشت دریا کے بہاؤ کی طرف رکھتا اور کیکڑے کی طرح چلتے ہوئے دریا عبور کرتا۔ اس کی حماقت کہ اس نے بہاؤ کی طرف اپنا رخ کر لیا۔ جہاں پانی ہماری رانوں تک آتا تھا، اس کی کمر تک پہنچ گیا۔ جونہی وہ بہاؤ کے درمیان پہنچا تو اس کے پیر اکھڑ گئے۔ میں ننگے پیر نوکیلے پتھروں پر حرکت سے معذور تھا۔ تاہم پنوا کے لے یہ نوکیلے پتھر کوئی مسئلہ نہیں تھے اس لئے اس نے اپنا بنڈل پھینکتے ہوئے دوڑ لگائی اور پچاس گز دور اس پتھریلی چٹان کا رخ کیا جہاں سے دریا بالکل قریب سے گذرتا تھا۔ اس جگہ پہنچ کر پنوا نیچے لیٹا اور جونہی ہمارا رہنما اس کے پاس سے گذرا تو اس نے اسے اس کے لمبے بالوں سے پکڑ لیا اور انتہائی جد و جہد کے بعد اسے پانی سے نکال لیا۔ جب وہ دونوں ہمارے پاس واپس لوٹے تو ہمارا رہنما بھیگے ہوا چوہا دکھائی دے رہا تھا اور جب میں نے پنوا کو اس کی بہادری پر شاباش دی کہ اس نے کتنی بہادری سے اپنی جان پر کھیلتے ہوئے ہمارے رہنما کی جان بچائی ہے۔ پنوا نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پھر بولا کہ میں تو اس کی جان نہیں بچا رہا تھا میں تو اپنے نئے کوٹ کو بچانے کی فکر میں تھا۔ خیر اس کا مقصد چاہے جو بھی ہو، ایک سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ پھر جب ہمارے دیگر تمام ساتھی ہماری طرح بازوؤں میں بازو ڈال کر دریا عبور کر کے ہماری طرف آ گئے تو ہم نے وہیں ڈیرہ جما لیا اور رات وہیں گذاری۔ پنوا کا گاؤں اس جگہ سے پانچ میل دور تھا اور اس نے رہنما کو ساتھ لیا اور روانہ ہو گیا۔ ہمارا رہنما بے چارہ دریا دوبارہ عبور کرنے سے ڈر گیا تھا۔

(۳)

اگلی صبح ہم لوگ سانولی کو تلاش کرنے نکلے جہاں اطلاعات کے مطابق آدم خور نے آخری شکار کیا تھا۔ شام گئے ہم لوگ ایک کھلی وادی کے ایک سرے پر پہنچے۔ چونکہ کوئی انسانی آبادی نزدیک دکھائی نہیں دے رہی تھی اس لئے ہم نے وادی میں ہی سونے کا فیصلہ کیا۔ اب ہم آدم خور کی سلطنت کے عین وسط میں تھے اور نم اور ٹھنڈی زمین پر کافی بے چین رات گذارنے کے بعد ہم لوگ اگلے دن دوپہر کو سانولی پہنچے۔ اس چھوٹے سے گاؤں کے باشندوں نے بخوشی ہمارے لئے ایک کمرہ خالی کر دیا۔ میں نے اپنے لئے ایک کھلے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا جس پر گھاس پھونس کی چھت تھی۔

یہ گاؤں پہاڑی کی ایک جانب تھا اور وادی دکھائی دیتی تھی جہاں تہہ در تہہ کھیت بنے ہوئے تھے اور چاول کی فصل حال ہی میں کاٹی گئی تھی۔ وادی کے دوسرے سرے پر پہاڑی بتدریج بلند ہوتی گئی تھی اور مزارعہ زمین سے سو گز دور گھنی جھاڑیوں کا ایک قطعہ تھا جو تقریباً ۲۰ ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا۔ اس قطعے سے اوپر ایک گاؤں اور پہاڑی کے دائیں جانب دوسرا گاؤں تھا۔ کھیتوں کے بائیں جانب وادی کا اختتام ایک انتہائی ڈھلوان پہاڑی پر ہوتا تھا۔ یعنی جھاڑیوں کا یہ قطعہ تین اطراف سے مزارعہ زمین اور چوتھی جانب سے گھاس کے کھلے میدان سے گھرا ہوا تھا۔

جتنی دیر میں ناشتہ تیار ہوتا گاؤں کے لوگ میرے آس پاس بیٹھ گئے۔ پندرہ مارچ سے لے کر پندرہ اپریل تک اس علاقے میں چار آدمی آدم خور کا لقمہ بنے۔ پہلا واقعہ پہاڑی کے سرے پر موجود گاؤں میں پیش آیا۔ دوسرا اور تیسرا واقعہ پہاڑی کی کنارے والے گاؤں میں جبکہ چوتھا سانولی میں پیش آیا۔ چاروں ہی افراد کو رات کو ہلاک کیا گیا تھا اور انہیں اٹھا کر تقریباً پانچ سو گز دور تیندوا انہی جھاڑیوں کے قطعے میں لے گیا اور آرام سے پیٹ بھرا۔ چونکہ مقامی افراد کے پاس آتشیں اسلحہ نہیں تھا اس لئے تینوں دیہاتوں کے باشندوں نے لاشوں کو تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ آخری واردات چھ دن قبل ہوئی تھی اور دیہاتیوں کا خیال تھا کہ تیندوا ابھی بھی انہی جھاڑیوں میں ہو گا۔

سانولی پہنچنے سے قبل ایک اور گاؤں سے گذرتے ہوئے میں نے دو بکریاں خریدی تھیں اور اب چونکہ شام ہو رہی تھی تو میں نے چھوٹی بکری کو ساتھ لیا اور اسے جھاڑیوں کے جھنڈ کی طرف جانے والے راستے پر باندھ دیا تاکہ دیہاتیوں کی رائے کا جائزہ لے سکوں۔ تاہم اس بکری کے پاس کوئی مناسب درخت نہیں تھا اور بادل بھی چھا رہے تھے اور رات کو بارش ہونے کی توقع تھی۔ اس لئے میں نے بکری پر بیٹھنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ میں نے جو پلیٹ فارم چنا تھا وہ ہر طرف سے کھلا تھا۔ میں نے دوسری بکری کو اسی پلیٹ فارم کے ساتھ باندھ دیا۔ مجھے امید تھی کہ اگر تیندوا رات کو گاؤں کا چکر لگاتا تو انسانی سخت گوشت کی بجائے بکری کے نرم گوشت کا انتخاب کرتا۔ رات گئے تک میں ان دونوں بکریوں کی آواز سنتا رہا جو وہ ایک دوسرے کو بلانے کے لئے نکال رہی تھیں۔ مجھے یقین ہو گیا کہ تیندوا یہاں سے بہت دور ہے۔ تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ تیندوا جلد یا بدیر اس علاقے کو واپس نہ آتا اس لئے میں بہتری کی امید لئے سو گیا۔

رات کو ہلکی بارش ہوئی اور صبح سورج جب نکلا تو اس کی روشنی میں ہر پتی اور ہر بوٹا دھلا دھلا سا دکھائی دیا۔ پرندے چہچہا رہے تھے۔ میرے نزدیک والی بکری پاس موجود جھاڑی کو کھا رہی تھی اور وقتا فوقتا بولتی بھی جاتی تھی۔ دوسری بکری البتہ خاموش تھی۔ اپنے ملازم کو ہدایت کر کے کہ میرا ناشتہ گرم رکھے، میں دوسری بکری کی طرف چل پڑا۔ یہاں آ کر پتہ چلا کہ رات کو بارش سے کچھ پہلے تیندوے نے بکری کو مارنے کے بعد رسی توڑی اور بکری کو اٹھا لے گیا۔ بارش کی وجہ سے گھسیٹنے کے نشانات تو مفقود تھے لیکن آس پاس صرف ایک ہی جگہ تھی جہاں تیندوا بکری کو لے جاتا۔ یہ جگہ وہی جھاڑیوں کا جھنڈ تھی۔

تیندوے یا شیر پر اس کے شکار پر گھات لگانا میرے نزدیک شکار کی بہترین اور دلچسپ ترین شکلوں میں سے ایک ہے۔ تاہم اس میں کامیابی کے لئے بہت ساری شرائط لازم ہیں۔ تاہم اس بار معاملہ الٹ تھا کیونکہ جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ شور کئے بغیر ان میں حرکت کرنا ممکن نہیں تھا۔ گاؤں واپس لوٹ کر میں نے ناشتہ کیا اور پھر گاؤں والوں کو اکٹھا کر کے میں نے ان سے آس پاس کے علاقے کے بارے پوچھا۔ یہ جاننے کے لئے بکری کی لاش تک پہنچنا لازمی تھا کہ آیا اس میں کچھ باقی بھی ہے یا نہیں تاکہ اس پر بیٹھنے کا فیصلہ کرتا۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس مداخلت سے ناراض ہو کر جب تیندوا اس جگہ سے بھاگتا تو آیا اسی طرح کا کوئی دوسرا مناسب مقام آس پاس موجود ہے یا نہیں۔ نزدیک ترین مناسب مقام یہاں سے دو میل دور تھا اور وہاں جانے کے لئے تیندوے کو کافی چوڑی مزارعہ زمین سے گذرنا پڑتا۔

دوپہر کو میں ان جھاڑیوں کو لوٹا اور سو گز دور ہی میں نے بکری کی باقیات دیکھیں۔ اس کے کھر، سینگ اور اوجڑی کا کچھ حصہ باقی بچا تھا۔ چونکہ اس وقت مجھے یہ خطرہ نہیں تھا کہ تیندوا دو میل دور جنگل میں جانا پسند کرے گا، میں نے بلبل، مینا اور دیگر پرندوں کی آواز سے تیندوے پر گھات لگائی جو مجھے تیندوے کی ہر حرکت سے آگاہ کرتے رہے۔ عین ممکن ہے کہ کچھ لوگ یہ کہیں کہ میں نے دیہاتیوں کو جمع کر کے ہانکا کیوں نہیں کروایا تھا تاکہ تیندوے کو کھلے میدان میں لا کر اس پر گولی چلاتا۔ اس طرح ہانکے والوں کے لئے انتہائی خطرہ تھا کیونکہ جب تیندوے کو یہ محسوس ہوتا کہ اسے کھلے میدان میں جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے تو وہ الٹا ہانکے والوں پر ہی چڑھائی کرتا اور راستے میں آنے والے ہر بندے پر حملہ کرتا جاتا۔

جب میں ناکام ہو کر گاؤں واپس پہنچا تو ملیریا بخار کا حملہ ہو گیا۔ اگلے چوبیس گھنٹے میں چبوترے پر پڑا بخار میں تپتا رہا۔ اگلی شام کو جا کر بخار اترا۔ اس دوران میرے آدمیوں نے دوسری بکری کو اسی جگہ باندھ دیا تھا جہاں سے پہلی بکری ماری گئی تھی۔ تاہم اس بار تیندوے نے اس پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اب میرے حوصلے بلند تھے کہ تیندوا اب بھوکا ہو گا اور اس پر میں اب پھر گھات لگا سکتا تھا۔

جھاڑیوں کے پاس اور پہلی بکری کے مقام سے سو گز دور ایک پرانا بلوط کا درخت تھا۔ یہ درخت دو کھیتوں کی درمیانی منڈیر پر اگا ہوا تھا جو چھ فٹ اونچی تھی۔ یہ درخت پہاڑی سے مخالف سمت جھکا ہوا تھا اور میں اس پر اپنے ربر سول والے جوتوں کے ساتھ آسانی سے چڑھ گیا۔ نچلے کھیت سے پندرہ فٹ بلند اس درخت کی واحد شاخ تھی جس پر میں بیٹھ سکتا تھا۔ یہ شاخ اگرچہ ایک فٹ موٹی تھی لیکن کھوکھلی ہو چکی تھی اور اس پر بیٹھنا خطرناک تھا۔ تاہم چونکہ کوئی اور درخت کئی سو گز تک نہیں دکھائی دے رہا تھا اس لئے میں نے اسی پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

جھاڑیوں میں موجود پگ بالکل ویسے ہی تھے جیسے میں نے اپریل میں اس گھر کے باہر دیکھے تھے جہاں لڑکی نے اپنی جان گنوائی تھی یعنی میرا واسطہ پانار کے آدم خور تیندوے سے تھا۔ جب میں آرام سے شاخ پر بیٹھ گیا تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ کانٹے دار جھاڑیوں کو کاٹ کر اس درخت کے تنے سے مضبوط رسی سے باندھ دیں۔ اس ضمن میں میں نے پوری توجہ دی تاکہ کوئی خامی نہ رہ جائے۔ مجھے یقین ہے کہ میری اسی احتیاط سے میری جان بچی۔

آلوبخارے کی کانٹوں سے بھری کئی شاخیں جو دس سے بیس فٹ لمبی تھیں درخت کے تنے کے ارد گرد باندھ دی گئیں۔ چونکہ میرے دائیں یا بائیں درخت کی کوئی شاخ نہیں تھی کہ جس کا میں سہار لے سکتا، انہی شاخوں کو میں نے اپنی دائیں اور بائیں بغل میں دبا لیا۔ پانچ بجے میری تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ میں اس شاخ پر آرام سے بیٹھ چکا تھا اور میرے کوٹ کا کالر میرے گلے پر بندھا ہوا تھا اور میرا نرم ہیٹ میری گدی کو بچانے کے لئے پیچھے موجود تھا۔ میرے سامنے تیس گز دور بکری ایک کھونٹے سے بندھی ہوئی تھی۔ میرے آدمی سامنے والے کھیت میں بیٹھے سگریٹ پیتے اور گپیں ہانکتے رہے۔

اب تک جھاڑیوں میں بالکل خاموشی تھی اور اب اچانک ہی ایک چڑیا نے زور سے بولنا شروع کر دیا۔ ایک یا دو منٹ بعد ایک اور نسل کی چڑیاں بولنے لگیں۔ یہ دونوں پرندے پہاڑی علاقے میں درندے کی موجودگی کے بارے بہترین مخبر کا کام دیتے ہیں۔ انہیں سنتے ہی میں نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ وہ واپس گاؤں کو لوٹ جائیں۔ زور سے بولتے ہوئے خوشی خوشی وہ واپس روانہ ہو گئے اور بکری نے ممیانا شروع کر دیا۔ نصف گھنٹے تک خاموشی رہی پھر جب سورج پہاڑی کے پیچھے چھپنے والا تھا کہ دو مینائیں جو میرے درخت پر بیٹھی تھیں، نیچے اتریں اور میرے اور جھاڑیوں کے درمیان کسی جانور پر بولنے لگیں۔ بکری جو اب تک گاؤں کی سمت ممیا رہی تھی، نے اب رخ بدلا اور میری جانب دیکھنے لگی۔ بکری اور میناؤں کو دیکھتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ ان کی توجہ کا مرکز جو جانور ہے وہ تیندوے کے علاوہ اور کوئی نہیں۔

چاند رات دیر گئے نکلتا اس لئے کئی گھنٹے تاریکی میں گذرتے۔ چونکہ میں جانتا تھا کہ شاید تیندوا اندھیرے میں ہی آئے، میں نے بارہ بور کی دو نالی بندوق میں موٹے چھروں والے کارتوس بھرے ہوئے تھے۔ ایک گولی کی نسبت آٹھ موٹے چھروں سے تیندوے کو نشانہ بنانا زیادہ آسان ہوتا کیونکہ اندھیرا کافی گہرا ہوتا۔ ان دنوں ہندوستان میں برقی ٹارچوں اور مصنوعی روشنیوں کا استعمال شروع نہیں ہوا تھا اس لئے میں نے بندوق کی نال پر سفید کپڑا باندھ لیا تھا جو نشانہ لینے میں کسی حد تک مدد کرتا۔

کئی منٹ تک خاموشی رہی اور پھر اچانک ہی میں نے محسوس کیا کہ میری بغل میں دبی شاخوں کو جیسے کسی نے کھینچا ہو۔ ایک بار پھر اپنی دور اندیشی پر مجھے انتہائی خوشی ہوئی کیونکہ جس حالت میں میں بیٹھا تھا اس میں مڑ کر اپنا دفاع کرنا ممکن نہیں تھا اور کوٹ کا کالر اور ہیٹ بہت کمزور دفاع ثابت ہوتے۔ یہ بات یقینی تھی کہ انتہائی نڈر آدم خور تیندوے سے میرا سامنا تھا۔ جب تیندوے نے دیکھا کہ کانٹے دار جھاڑیوں کی موجودگی میں درخت پر چڑھنا ممکن نہیں تو اس نے شاخوں کے سروں کو دانتوں میں دبایا اور انتہائی زور سے جھٹکے دینے شروع کر دیئے۔ ہر جھٹکے پر میں درخت کے تنے سے ٹکراتا۔ اتنی دیر میں روشنی بالکل دم توڑ گئی اور چونکہ تیندوے نے سارے شکار اندھیرے میں ہی کئے تھے اس لئے صورتحال اس کے حق میں تھی اور میرے لئے گھاٹا ہی گھاٹا تھا کیونکہ تمام جانوروں میں انسان ہی اندھیرے میں سب سے زیادہ بے بس ہو جاتا ہے اور اگر میں اپنی بات کروں تو انسان کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے۔ چار سو انسانوں کو رات کے اندھیرے میں ہلاک کرنے کے بعد تیندوے کو مجھ سے کوئی خطرہ نہیں محسوس ہو رہا تھا۔ اس کا ثبوت یہ بھی تھا کہ شاخوں کو کھینچتے وقت وہ بار بار اتنے زور سے غرا رہا تھا کہ گاؤں تک اس کی آواز جا رہی ہو گی۔ بعد میں مجھے میرے آدمیوں نے بتایا کہ تیندوے کی دھاڑ سے ان کے پتے پانی ہوئے جا رہے تھے جبکہ مجھ پر ان غراہٹوں کا الٹا اثر ہو رہا تھا کیونکہ ان سے مجھے پتہ چل رہا تھا کہ تیندوا اب کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ تاہم جب وہ خاموش ہوتا تو مجھے انتہائی خوف لاحق ہو جاتا کہ اب تیندوا کیا کرنے والا ہو گا۔ کئی بار اس نے انتہائی زور سے شاخوں کو کھینچ کر اچانک چھوڑا کہ میں گرتے گرتے بچا۔ چونکہ اندھیرا گہرا تھا اور میرے لئے کوئی سہارا نہیں تھا اس لئے اگر تیندوا مجھ پر حملہ کرنا چاہتا تو مجھے یقین ہے کہ اس کے چھوتے ہی میں گر پڑتا۔

پھر ایک دم تیندوے نے اوپری کنارے سے چھلانگ لگائی اور نیچے بکری کی طرف دوڑا۔ مجھے امید تھی کہ تیندوا دن کی روشنی میں آئے گا اور بکری اس نیت سے ۳۰ گز دور باندھی گئی تھی میں تیندوے کے حملے کے دوران بکری کو بچا سکوں۔ اندھیرے کی وجہ سے مجھے سفید بکری محض ایک دھبے کی شکل میں دکھائی دے رہی تھی۔ جب بکری کی مدافعت ختم ہوئی تو میں نے ہر ممکن طریقے سے اس جگہ کا نشانہ لیا جہاں میرے خیال میں تیندوا ہوتا، اور لبلبی دبا دی۔ کارتوس چلتے ہی تیندوے کی غراہٹ سنائی دی اور جیسے ہی اس نے قلابازی کھائی تو مجھے اس کا سفید پیٹ دکھائی دیا۔ دوڑ کر وہ نچلے کھیت کی اونچی منڈیر کے پیچھے چھپ گیا۔

دس پندرہ منٹ تک میں انتہائی بے صبری سے تیندوے کی مزید آوازیں سننے کی کوشش کرتا رہا اور پھر میرے آدمیوں نے پکار کر پوچھا کہ کیا وہ آ سکتے ہیں؟ اگر وہ بلند زمین پر چلتے ہوئے آتے تو بالکل محفوظ ہوتے۔ میں نے ہدایت کی کہ صنوبر کی مشعلیں جلا کر اور میری اگلی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے آئیں۔ یہ مشعلیں در اصل سبز درخت سے کاٹی جاتی ہیں اور اس میں تیل موجود ہوتا ہے۔ ان کے جلنے سے اچھی خاصی روشنی پیدا ہوتی ہے اور کماؤں کے دور دراز دیہاتوں میں رات کو روشنی کا واحد ذریعہ ہیں۔

کافی بھاگ دوڑ اور شور و غل کے بعد بیس آدمی گاؤں سے روانہ ہوئے اور ہر بندے کے ہاتھ میں ایک مشعل تھی۔ میری ہدایت پر عمل کرتے ہوئے وہ لوگ چکر کاٹ کر میرے درخت کے پیچھے سے آئے۔ کانٹے دار جھاڑیاں جس رسی سے بندھی تھیں، تیندوے کی جہد و جہد کی وجہ سے اس رسی کی گرہیں بہت سخت ہو گئی تھیں۔ رسیوں کو کاٹنے کے بعد چند بندے درخت پر چڑھے اور مجھے اترنے میں مدد دی۔ اس تکلیف دہ نشست پر بیٹھے بیٹھے میری ٹانگیں سن ہو گئی تھیں۔

ان مشعلوں کی روشنی سے تیس گز دور بکری کی لاش صاف دکھائی دے رہی تھی اور پورا کھیت روشن تھا۔ تاہم دوسرا کھیت جہاں تیندوا گیا تھا، ابھی بھی تاریک تھا۔ سب لوگوں کو سگریٹ دے کر میں نے کہا کہ میں نے تیندوے کو زخمی تو کیا ہے لیکن مجھے علم نہیں کہ تیندوا کتنا زخمی ہے۔ انہیں میں نے یہ بھی کہا کہ ہم اب گاؤں واپس جائیں گے اور اگلے دن صبح کو میں تیندوے کو تلاش کرنے آؤں گا۔ اس بات کو سنتے ہی ان سب نے مایوسی ظاہر کی اور کہا کہ اگر تیندوا زخمی ہے تو اب تک مر چکا ہو گا۔ دوسرا ان کے پاس اچھی خاصی روشنی ہے اور میرے پاس بندوق بھی۔ کیوں نہ کھیت کے کنارے تک جا کر ہم یہ دیکھ لیں کہ تیندوے کے خون کی لکیر کہاں جا رہی ہے۔ اچھی خاصی بحث کے بعد اپنی مرضی کے خلاف میں اس بات پر تیار ہو گیا کہ اگلے کھیت کی منڈیر تک جا کر تیندوے کو دیکھ لیتے ہیں۔

ان کی بات ماننے کے بعد میں نے ان افراد سے وعدہ لیا کہ وہ میرے پیچھے قطار میں چلیں گے، ان کی مشعلیں اونچی ہوں گی اور اگر تیندوا حملہ کرے گا تو وہ مجھے اندھیرے میں چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔ انہوں نے بخوشی وعدہ کیا اور مشعلوں کو دوبارہ تیز کر کے ہم روانہ ہوئے۔ میں سب سے آگے تھے اور یہ لوگ مجھ سے پانچ گز پیچھے قطار میں چل رہے تھے۔

بکری تک تیس گز، پھر مزید بیس گز آگے جا کر کھیت کا کنارہ تھا۔ آہستہ آہستہ اور خاموشی سے چلتے ہوئے ہم آگے بڑھے۔ جب ہم بکری تک پہنچے تو اس کی لاش دیکھنے کا وقت نہیں تھا کیونکہ دوسرے کھیت کا نچلا کنارہ دکھائی دے رہا تھا۔ جتنا ہم کنارے کے قریب ہوتے گئے، دوسرا کھیت اتنا ہی روشن ہوتا گیا۔ جب کھیت کا ایک مختصر سا پٹی کی شکل کا حصہ اندھیرے میں تھا تو اچانک تیندوے نے غراتے ہوئے کنارے پر چھلانگ لگائی اور سامنے آ گیا۔

عجیب بات ہے کہ تیندوے کی غراہٹوں میں کچھ ایسی ہوتی ہے کہ میں نے ان ہاتھیوں کی پوری قطار بھاگتے دیکھی ہے اور ہاتھی بھی وہ جو شیر کے حملے کے وقت اپنی جگہ ڈٹے رہتے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بالکل حیرت نہیں ہوئی کہ میرے سارے ساتھی جو غیر مسلح تھے، اچانک ہی بھاگ پڑے۔ خوش قسمتی میری کہ وہ ایک دوسرے سے ٹکرائے اور کچھ مشعلیں زمین پر گر گئیں۔ اتنی روشنی کافی تھی اور میں نے تیندوے کے سینے میں دوسرے کارتوس کے چھرے اتار دیئے۔

بندوق کی آواز سنتے ہی سب رکے اور پھر میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ نہیں نہیں۔ صاحب بالکل ناراض نہیں ہوں گے کیونکہ انہیں علم ہے کہ اس شیطان نے ہمارے پتے پانی کر دیئے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ درخت پر بیٹھے ہوئے مجھے علم تھا کہ کیسے آدم خور کا خطرہ بہادر انسان کو بھی بزدل بنا دیتا ہے۔ جہاں تک ان کے بھاگنے کا سوال تھا تو اگر میں نے بھی مشعل اٹھائی ہوئی ہوتی تو میں ان سب سے آگے آگے بھاگتا۔ اس لئے ان پر ناراض ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ان کو شرمندگی سے بچانے کے لئے میں نے ظاہر کیا کہ میں تیندوے کا جائزہ لے رہا ہوں۔ دو دو اور تین تین کی ٹولیوں میں واپس لوٹے۔ جب وہ سب جمع ہو گئے تو بغیر نظریں اٹھائے میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ بانس اور رسی لائے ہیں تاکہ تیندوے کو گاؤں لے جا سکیں۔ انہوں نے فوراً جواب دیا کہ جی ہاں۔ یہ سارا سامان درخت کے نیچے موجود ہے۔ میں نے انہیں ہدایت کی کہ جا کر سامان لے آئیں کیونکہ میں گاؤں جا کر چائے پینا چاہتا ہوں۔ رات کی سرد ہوا چل رہی تھی اور اب جب تیندوے کا مسئلہ ختم ہو گیا تھا تو مجھ پر دوبارہ ملیریا کا حملہ ہوا اور اب میرے لئے کھڑا ہونا دشوار ہو رہا تھا۔

کئی سالوں بعد پہلی بار اس رات سانولی کے لوگ سکھ کی نیند سوئے اور اس وقت سے وہ بے خوف ہو کر آرام سے سوتے ہیں۔

٭٭٭

تلہ دیس کا آدم خور

(۱)

بندو کھیڑا میں جوبن پر آئے ہوئے گل مور کے درختوں کے نیچے لگائے گئے کیمپ سے زیادہ بہتر کیمپ پورے کوہ ہمالیہ میں کہیں نہیں ہو سکتا۔ اب آپ خود ذرا تصور کریں کہ سفید خیمے اور ان پر مالٹائی رنگ کے پھولوں کی بہار جن پر مختلف النسل پرندے چہچہا رہے ہوں اور ٹہنیوں پر پھدک رہے ہوں اور ان کی حرکتوں سے نیچے گرنے والے پھول خیموں کے ارد گرد مالٹائی رنگ کے قالین کی مانند دکھائی دیں اور اس کے پیچھے گھنے درختوں سے بھری پہاڑی ڈھلوانیں ہوں اور تہہ در تہہ ہمالیہ کے پہاڑ دکھائی دے رہے ہوں جو بلند ہوتے ہوتے سفید برف سے مستقل ڈھکی چوٹیوں پر مشتمل ہوں تو آپ کو ہمارے اس کیمپ کا کچھ تصور ہو سکے گا جو ہم نے فروری ۱۹۲۹ء میں یہاں لگایا۔

بندو کھیڑا اس بارہ میل لمبے اور دس میل چوڑے گھاس کے مسطح میدان کے ایک سرے پر موجود کیمپ کی جگہ کا نام تھا۔ جب سر ہنری رمسے کماؤں پر حکمرانی کرتے تھے تو یہ سارا علاقہ کھیتوں سے بھرا ہوا تھا لیکن جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت یہاں محض تین چھوٹے گاؤں ہی تھے اور ہر گاؤں کے پاس چند ایکڑ جتنے کھیت جو ندی کے کنارے تھے۔ میری آمد سے کچھ ہفتے قبل یہاں کی گھاس کو جلایا گیا تھا اور نم جگہوں پر گھاس جلنے سے محفوظ رہی تھی اور ایسی جگہیں بہت تھیں۔ ہم لوگ اسی طرح کی جگہوں پر ہفتے بھر شکار کا پروگرام بنا کر آئے تھے۔ اس جگہ میں دس سال سے شکار کھیل رہا تھا اور اس کے چپے چپے سے واقف تھا۔ اس لئے شکار کے لئے رہنمائی میرے ذمے تھی۔

اچھے سدھے ہوئے ہاتھی کی پشت سے ترائی کے گھاس کے میدانوں میں شکار کرنا شکار کی انتہائی بہترین اقسام میں سے ایک ہے۔ چاہے کتنا ہی طویل دن کیوں نہ ہو، اس کا ہر لمحہ تجسس اور جوش سے بھرا ہوتا ہے کیونکہ یہاں بہت ساری اقسام کے جانور اور پرندے ملتے ہیں۔ ایک دن ہم نے اٹھارہ مختلف اقسام کے جانور اور پرندے شکار کئے جن میں بٹیر اور سنائیپ اور تیندوے اور ہرن بھی شامل تھے۔ اگر یہاں پیدل چلا جائے تو بہت ساری اقسام کے پرندے بھی ملتے ہیں۔

اس بار ہمارے ساتھ ۹ شکاری اور ۵ تماشائی تھے جب ہم اس صبح شکار پر نکلے۔ ناشتہ کر کے ہم لوگ ہاتھیوں پر سوار ہو کر روانہ ہوئے اور قطار کی صورت میں اس طرح روانہ ہوئے کہ ہر دو شکاریوں کے ہاتھیوں کے درمیان ایک تماشائی کا ہاتھی بھی تھا۔ قطار کے عین وسط میں میں نے اپنی جگہ سنبھالی اور میرے دونوں جانب چار شکاری اور چار تماشائی تھے۔ یہاں سے ہم نے جنوب کا رخ کیا۔ دائیں جانب والا آخری شکاری قطار سے پچاس گز آگے تھا تاکہ پرندے اور جانور جو بھی شکاریوں سے بچ کر دائیں جانب جنگل کو بھاگیں تو وہ انہیں سنبھال سکے۔ اگر آپ رائفل اور بندوق دونوں کے اچھے شکاری ہوں اور آپ کو اس طرح کے ملے جلے شکار میں حصہ لینے کا موقع ملے تو کوشش کریں کہ دائیں یا بائیں کنارے پر رہیں کیونکہ جو بھی جانور یا پرندہ ہاتھیوں سے ڈر کر بھاگتا ہے وہ دائیں یا بائیں کنارے کا رخ کرے گا۔ اس کے علاوہ جو پرندہ یا جانور دیگر شکاریوں سے بچ کر آیا ہو اس کا شکار زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔

صبح سویرے جب ہلکی ہوا چل رہی ہو اور پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہو تو انسان کو مخمور کر دیتی ہے۔ یہی اثر جانوروں اور پرندوں پر بھی ہوتا ہے۔ جلد باز شکاری اور جنگلی پرندے جب اکٹھے ہوں تو زیادہ شکار ہاتھ نہیں آتا۔ اس لئے شکار کے شروع میں عموماًنشانہ خطا جاتا ہے اور شکار کے آخر پر بھی جب ہاتھ اور آنکھیں تھکی ہوتی ہیں۔ جب تھوڑی سی مشق کے بعد شکاریوں کے ہاتھ جم گئے اور نشانے بہتر ہونے لگے تو پہلے چکر پر ہم نے پانچ مور، تین سرخ جنگلی مرغ، دس کالے تیتر، چار بھورے تیتر، دو بٹیر اور تین خرگوش مارے۔ ایک اچھا سانبھر بھی نکلا لیکن جب تک رائفلیں چھتیائی جاتیں، وہ جنگل میں گم ہو گیا۔

جس جگہ جنگل ایک تنگ سے سرے کی مانند کئی سو گز تک میدان میں چلا گیا تھا میں نے ہاتھی روکے۔ یہ جگہ مور اور جنگلی مرغ کے لئے مشہور تھی۔ تاہم یہاں بہت سارے گہرے نالے تھے جن کی وجہ سے قطار کو سیدھا رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ ہمارے ساتھ ایک نیا شکاری بھی تھا جو آج پہلی بار ہاتھی کی پشت سے شکار کر رہا تھا اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ یہاں سے ہم پیدل آگے جائیں۔ کئی سال پہلے جب میں ونڈہم کے ساتھ شیر تلاش کر رہا تھا تو میں نے پہلی بار کارڈینل چمگادڑ دیکھی۔ یہ خوبصورت چمگادڑیں جب اڑتی ہیں تو تتلی جیسی دکھائی دیتی ہیں اور جہاں تک مجھے علم ہے، محض ایلیفنٹ گراس نامی گھاس میں ہی ملتی ہیں۔

یہاں رکنے کے بعد میں نے ہاتھیوں کو مشرق کی طرف قطار میں جانے کو کہا۔ جب وہ اس قطعے سے باہر نکلے جہاں سے ہم ابھی ہو کر آئے تھے تو میں نے انہیں شمال کو مڑنے کا کہا۔ اب کوہ ہمالیہ ہمارے سامنے تھا اور ہمارے اوپر موجود سفید بادل اتنے گہرے تھے کہ حقیقتاً ان پر فرشتے چل سکتے تھے۔

سترہ ہاتھیوں کی قطار کی لمبائی موقع کی مناسب سے گھٹتی بڑھتی ہے۔ جہاں گھاس گھنی تھی تو میں نے قطار کی لمبائی سو گز رکھی اور جب گھاس ہلکی ہوئی تو میں نے اسے لمبا کر کے دو سو گز پر پھیلا دیا۔ اسی طرح شمال کو چلتے ہوئے ہم ایک میل گئے اور اس دوران تیس پرندے اور ایک تیندوا شکار ہوا۔ اچانک ہمارے سامنے سے زمینی الو اڑا۔ فوراً ہی اس پر کئی بندوقیں اٹھیں لیکن جب شکاریوں کو الو دکھائی دیا تو انہوں نے بندوقیں نیچے کر لیں۔ زمینی الو عموماً دیگر جانوروں کی بلوں میں رہتے ہیں اور ان کی ٹانگیں دیگر الوؤں کی نسبت زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔ یہ تیتر سے دو گنا بڑے اور ان کے پروں کے کنارے سفید ہوتے ہیں۔ جب ہاتھیوں کی قطار کے سامنے یہ اڑیں تو پچاس سے سو گز تک نیچی پرواز کرتے ہیں اور پھر اوپر اٹھتے ہیں۔ شاید اس طرح وہ اپنی بلوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم یہ الو پچاس یا ساٹھ گز کے بعد اچانک ہی چھوٹے چھوٹے دائروں میں اونچا ہونے لگا۔ جلد ہی اس کی وجہ بھی معلوم ہو گئی کیونکہ جنگل سے ایک باز اس کے پیچھے تیزی سے اڑتا ہوا دکھائی دیا۔ چونکہ الو اپنی بل کو واپس نہ جا سکتا تھا اس لئے اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ باز کے اوپر ہی رہے۔ تیزی سے پر پھڑپھڑاتے ہوئے الو اٹھتا جا رہا تھا اور باز بھی اپنی پوری طاقت سے الو سے اوپر جانے میں کوشاں تھا۔ سارے شکاری اور مہاوت بھی اس تماشے میں اتنے محو تھے کہ میں نے قطار کو روک دیا۔

جب بلندی کا تقابل کرنے کے لئے کوئی چیز موجود نہ ہو تو بلندی کے بارے کچھ یقین سے کہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق یہ دونوں پرندے ہزار فٹ اوپر پہنچ گئے ہوں گے اور پھر الو دائروں میں گھومتا ہوا اس بڑے سفید بادل کو جانے لگا۔ باز نے بھی الو کے مقصد کو فوراً ہی بھانپ لیا اور اسی جانب لپکا۔ کیا الو بادل تک پہنچ پائے گا یا باز کو قریب پا کر ہمت ہار جائے گا اور زمین پر واپسی کا سوچے گا؟ جن کی نظر کمزور تھی انہوں نے دوربینیں نکال لیں۔ واضح طور پر دو مختلف آراء تھیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ الو بادل تک نہیں پہنچ پائے گا جبکہ دوسرے کہہ رہے تھے کہ پہنچ سکتا ہے۔ فاصلہ بہت کم رہ گیا ہے۔

اچانک ایک پرندہ بادل کے سامنے رہ گیا۔ شاباش شاباش کے نعرے لگنے لگے۔ جتنی دیر میں میرے ساتھی تالیاں بجاتے، باز انتہائی وقار کے ساتھ سیمل کے اسی درخت پر آن کر بیٹھ گیا جہاں سے اس نے اڑان بھری تھی۔

ایک ہی واقعے پر ہر انسان کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ ابھی تک ہم نے کل چون پرندے اور چار جانور مارے تھے اور کسی نے ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا اور اب نہ صرف شکاری اور تماشائی بلکہ مہاوت بھی الو کے بحفاظت باز سے بچ نکلنے پر خوش ہو رہے تھے۔

اس قطعے کے شمالی سرے پر پہنچ کر میں نے قطار کو جنوب کی سمت موڑا اور اس بار ہم آب پاشی والی نالی کے دائیں کنارے سے ہو کر جانے لگے۔ اس جگہ زمین نم تھی اور گھاس بھی کافی لمبی تھی۔ یہاں ہرن اور پاڑے بکثرت ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور تیندوا بھی ہاتھ لگنے کی امید تھی۔

ندی کے کنارے ہم ایک میل تک گئے۔ اس دوران پانچ مور، چار نر تلور (مادائیں جان بوجھ کر چھوڑ دی گئی تھیں )، تین سنائپ اور ایک پاڑہ جس کے سینگ بہت بڑے تھے، مارے۔ اچانک میرے پیچھے بیٹھے ایک تماشائی نے غلطی سے ہائی ولاسٹی رائفل چلا دی (منکر نکیر سے معذرت)۔ اس رائفل کے دھماکے سے میرے بائیں کان کا پردہ پھٹ گیا اور میرے کان بند ہو گئے۔ باقی کا سارا دن میرے لئے اذیت ناک تھا۔ ساری رات جاگنے کے بعد میں نے بہانہ کیا کہ مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے (منکر نکیر سے ایک اور معذرت) اور جب سب سو رہے تھے تو پو پھٹتے ہی میں پچیس میل کے سفر پر کالا ڈھنگی گھر کو روانہ ہو گیا۔

کالا ڈھنگی میں ایک نوجوان ڈاکٹر تھا جو طبی تعلیم پوری کر کے کچھ عرصہ قبل ہی آیا تھا۔ اس نے میرے خدشات کی تصدیق کی کہ میرے کان کا پردہ پھٹ چکا ہے۔ ایک ماہ بعد جب ہم اپنے گرمائی گھر نینی تال منتقل ہوئے تو میں نے ریمسے ہسپتال کا چکر لگایا اور نینی تال کے سول سرجن کرنل باربر نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔ دن گذرتے گئے اور یہ بات صاف ظاہر ہونے لگی کہ میرے سر کے اندر پھوڑے بننے لگے ہیں جو میرے اور میرے بہنوں کے لئے انتہائی تشویش کا سبب تھے۔ چونکہ ہسپتال والے میری تکلیف رفع کرنے سے قاصر تھے اس لئے میں نے کرنل باربر اور اپنی بہنوں کی مرضی کے خلاف ہسپتال سے رخصت لی اور چل پڑا۔

اس حادثے کے بارے میں نے اس لئے نہیں بتایا کہ آپ کی ہمدریاں سمیٹ سکوں بلکہ اس لئے کہ تلہ دیس کے آدم خور کے شکار کے متعلق اس کی الگ اہمیت ہے جو میں بتانے لگا ہوں۔

(۲)

۱۹۲۹ء میں بل بائنس الموڑا اور ہم ویوان نینی تال کے ڈپٹی کمشنر تھے اور دونوں کے اضلاع میں آدم خور تباہی مچا رہے تھے۔ الموڑا میں تلہ دیس جبکہ نینی تال میں چوگڑھ کی آدم خور شیرنی سرگرم تھی۔

میں نے ویوان سے وعدہ کیا تھا کہ میں تلہ دیس والے آدم خور کو میں پہلے شکار کروں گا تاہم سردیوں میں چونکہ یہ آدم خور اتنا سرگرم نہیں رہ گیا تھا اس لئے ویوان کی مرضی سے میں نے بینس کی مدد کے لئے تلہ دیس کے آدم خور کا پیچھا کرنے کی ٹھانی۔ مجھے امید تھی کہ اس آدم خور کے پیچھے سرگرم رہنے سے میں نہ صرف اپنی تکلیف پر قابو پا لوں گا بلکہ اپنی اس معذوری کا بھی عادی ہو جاؤں گا۔ اس لئے میں نے تلہ دیس کا رخ کیا۔

تلہ دیس کے آدم خور کی کہانی میں نے تب تک بیان نہیں کی جب تک کہ میں نے جنگل لور نامی دوسری کتاب نہیں لکھ لی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک قارئین کو یہ علم نہ ہو جائے کہ بچپن میں اور پھر بڑے ہو کر میں نے جنگل میں گھومنا اور رائفل سے شکار کرنا کیسے سیکھے تھے، اس کہانی کو لکھنا فضول تھا۔ وہ افراد جو کماؤں میں نہیں رہے، انہیں میری بات سمجھنے میں بہت دقت ہوتی۔ چونکہ میری دیگر کہانیاں من و عن قبول ہو چکی تھیں، اس لئے اس کہانی کے سلسلے میں کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔

میری تیاریاں جلد ہی مکمل ہو گئیں اور ۴ اپریل کو میں نینی تال سے نکلا تو میرے ساتھ چھ گڑھوالی جن میں مادھو سنگھ اور رام سنگھ، الٰہی نامی باورچی اور ایک برہمن جس کا نام گنگا رام تھا اور جو چھوٹے موٹے کام کرتا تھا اور میرے ساتھ جانے کے لئے ہمیشہ تیار ہوتا تھا، شامل تھے۔ ۱۴ میل اترائی کے بعد ہم کاٹھ گودام پہنچے جہاں سے ہم نے شام کی ٹرین پکڑی اور بریلی اور پلی بھٹ سے ہوتے ہوئے اگلے دن دوپہر کو تنک پور پہنچے۔ یہاں میری ملاقات پیش کار سے ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ گذشہ روز آدم خور نے ایک لڑکے کو ہلاک کیا ہے۔ بینس کے احکامات پر اس نے میرے لئے دو نوعمر بھینسے بھی خرید لئے تھے اور چمپاوت کے راستے تلہ دیس بھجوا دیئے تھے۔ یہ بھینسے شیر کے لئے گارے کا کام دیتے۔ جتنی دیر میں میرے آدمی ناشتہ تیار کر کے کھاتے، میں نے ڈاک بنگلے میں ناشتہ کیا اور ہم کالا ڈھنگا کے چوبیس میل کے سفر پر چل پڑے۔

پہلے بارہ میل تک سڑک برمادیو سے ہوتی ہوئی پرناگری کے مقدس پہاڑوں کے دامن تک جاتی ہے۔ تقریباً یہ سارا فاصلہ ہی گھنے جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔ جہاں یہ سڑک ختم ہوتی ہے، وہاں سے کالا ڈھنگا کو دو راستے جاتے ہیں۔ لمبا راستہ پرناگری کے مندروں والی جانب سے پہاڑ سے بائیں جانب سے ہو کر گذرتا ہے جو انتہائی ڈھلوان ہیں اور پھر نیچے اتر کر کالا ڈھنگا پہنچتا ہے۔ دوسرا راستہ کولئیر کی ٹرام وے کی لائن کا تھا جو انہوں نے دس لاکھ مکعب فٹ سال کی لکڑی لانے کے لئے بنائی تھی اور اس کے بارے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں۔ کولئیر کی ٹرام لائن جہاں چار میل جتنا دریائے سردا کی کھائی سے ہو کر گذرتی ہے، انتہائی سخت چڑھائی پر مشتمل ہے۔ یہاں راستہ بہت عرصہ ہوا مٹ چکا ہے اور اس تقریباً عمودی پہاڑ پر کہیں کہیں راستہ باقی بچا ہوا ہے۔ چونکہ میرے ساتھیوں پر بھاری سامان لدا ہوا تھا اس لئے پیش رفت کافی سست تھی۔ ابھی ہم نے اس کھائی کا نصف راستہ طے کیا ہو گا کہ رات ہونے لگی۔ شب بسری کے لئے کیمپ کی مناسب جگہ تلاش کرنا اتنا آسان نہیں تھا اور کئی جگہیں محض اس وجہ سے چھوڑنی پڑیں کہ اوپر سے پتھر گرنے کا خطرہ تھا۔ آخر کار ہم نے ایک ایسی جگہ تلاش کر لی جہاں اوپر چٹان سائبان کی شکل میں موجود تھی اور اگر کوئی پتھر گرتے تو یہ چٹان ہمیں بچاتی۔ ہم نے رات یہیں گذارے کا فیصلہ کیا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد میں نے کپڑے بدلے اور کیمپ کے بستر پر لیٹ گیا۔ اتنی دیر میں میرے ساتھی دریا سے لکڑیاں لا کر اپنے لئے کھانا بنانے لگے۔ میرے پاس چالیس پاؤنڈ وزنی خیمہ، ایک واش بیسن اور ایک بستر تھا۔

چونکہ دن کافی گرم تھا اور تنک پور سے یہاں تک فاصلہ سولہ میل بنتا تھا اس لئے میں کافی تھکا ہوا تھا اور کھانے کے بعد سگریٹ پی رہا تھا کہ اچانک دریا کی دوسری جانب پہاڑ پر مجھے تین روشنیاں دکھائی دیں۔ نیپال کی جانب والے جنگلات کو ہر سال آگ لگائی جاتی تھی اور آگ لگانے کا کام اپریل میں شروع ہوتا تھا۔ یہ روشنیاں دیکھتے ہی میں نے سوچا کہ شاید چند انگارے ہوں گے جنہیں نیچے آنے والی ہوا اپنے ساتھ لا رہی ہے۔ میں بے کار بیٹھا ان روشنیوں کو دیکھتا رہا کہ اچانک ان تین روشنیوں سے کچھ اوپر دو اور روشنیاں نمودار ہوئیں۔ اچانک ان نئی دو روشنیوں میں سے بائیں جانب والی نے حرکت کی اور پہلی تین روشنیوں میں سے درمیان والی تک پہنچ کر اس میں ضم ہو گئی۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ یہ آگ نہیں بلکہ یکساں حجم والی روشنیاں ہیں جن کا قطر دو فٹ رہا ہو گا۔ یہ روشنیاں یکساں رفتار سے جل رہی تھیں اور ان سے دھواں بھی نہیں اٹھ رہا تھا۔

پھر اچانک بائیں جانب اور پھر کافی اوپر بھی کئی روشنیاں نمودار ہو گئیں۔ اسی وقت مجھے خیال آیا کہ عین ممکن ہے کہ اس پہاڑ پر کسی شکاری کا کچھ قیمتی سامان کھو گیا ہو گا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو لالٹین اور ہتھیار دے کر تلاش کرنے بھیجا ہو گا۔ اگرچہ یہ توجیح بذات خود کافی عجیب تھی لیکن ان علاقوں میں اس طرح کی باتیں عام ہیں۔

میرے ساتھی بھی ان روشنیوں کو میری طرح توجہ سے دیکھ رہے تھے۔ چونکہ دریا انتہائی سکون اور خاموشی سے بہہ رہا تھا تو میں نے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا انہیں کوئی آوازیں بھی سنائی دےر ہی ہیں؟ ہمارا درمیانی فاصلہ کوئی ڈیڑھ سو گز رہا ہو گا۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ انہیں کچھ سنائی نہیں دیا۔ چونکہ اس صورتحال پر مزید قیاس آرائیاں کرنا بے کار تھا اور سارے دن کے تھکے ہوئے ہونے کی وجہ سے ہم جلد ہی سو گئے۔ رات کو ہمارے اوپر والی چٹان پر پہلے گڑھل اور پھر کچھ دیر بعد تیندوا بولا۔

چونکہ اب ہمارے سامنے طویل سفر اور مشکل چڑھائی تھی اس لئے میں نے اپنے ساتھیوں کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ ہم علی الصبح روانہ ہو جائیں گے۔ مشرق میں افق پر روشنی نمودار ہو رہی تھی کہ میرے باورچی نے مجھے چائے کا کپ تھما دیا۔ کیمپ کو ختم کرتے وقت ہمیں محض چند برتن اکٹھے کرنے تھے اور بستر کو دوبارہ ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کام جلد ہی مکمل ہو گیا۔ میرا باورچی اور گڑھوالی سامان اٹھا کر پہاڑی بکریوں کے راستے پر نیچے جانے لگے۔ کولئیر کے وقت میں یہاں آہنی پل بنایا گیا تھا۔ اسی دوران میں نے ان روشنیوں والے پہاڑ کو اوپر سے نیچے اور پھر نیچے سے اوپر تک غور سے دیکھا۔ پھر میں نے دوربین سے یہی عمل دہرایا۔ روشنی اتنی ہو گئی تھی کہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ تاہم اس پہاڑ پر مجھے انسان کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیئے۔ اب میں نے آگ والی بات پھر سے سوچی۔ لیکن پورے پہاڑ کا سبزہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے آگ سے محفوظ تھا اور اکا دکا درخت اور جھاڑیاں دراڑوں میں اگی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ جہاں روشنیاں نمودار ہوئی تھیں وہ جگہ بالکل عمودی تھی اور ماسوائے اوپر سے لٹک کر نیچے آنے کے، اور کوئی راستہ نہیں تھا۔

۹ روز بعد جب میرا کام مکمل ہو گیا تو میں نے کالا ڈھنگا میں رات بسر کی۔ اگر آپ کو مناظر فطرت سے عشق ہو یا آپ کو مچھلی کے شکار کا جنون ہو تو کالا ڈھنگا سے زیادہ بہتر جگہ پورے کماؤں میں شاید ہی ملے۔ کولئیر کے بنائے ہوئے بنگلے سے زمین آہستہ آہستہ نیچی ہوتی ہوئی دریائے سردا تک چلی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت بڑی بڑی بنچیں رکھی ہوئی ہوں۔ انہی بنچوں پر جہاں کبھی کاشتکاری ہوتی تھی اب گھاس بکثرت اگ آئی تھی۔

صبح اور شام کو یہاں بنگلے سے بیٹھ کر سانبھر اور چیتل چرتے ہوئے عام دکھائی دیتے تھے۔ بنگلے کے پیچھے جنگلوں میں شیر اور تیندوے بھی عام ملتے تھے۔ اس کے علاوہ پرندے بشمول مور، جنگلی مرغ وغیرہ بھی بکثرت تھے۔ یہاں کے تالابوں اور دریائے سردا میں مچھلی کا بہترین شکار ہو سکتا تھا۔

اگلے دن پو پھٹتے ہی ہم کالا ڈھنگا سے نکلے تو گنگا رام نے پہاڑی راستے سے پرناگری سے ہو کر جانا تھا اور ہم باقی افراد دریائے سردا کی کھائی کے راستے گئے۔ گنگا رام کا سفر دس میل زیادہ لمبا تھا اور اس کا مقصد پرناگری کے مندر پر ہماری طرف سے بھینٹ چڑھانا تھی۔ روانگی سے قبل میں نے اسے ہدایت کی کہ ہر ممکن طریقے سے وہ مندر کے پجاریوں سے ان روشنیوں کے بارے پوچھے۔ جب شام کو وہ تنک پور ہمارے پاس پہنچا تو اس نے ہمیں مندرجہ ذیل کہانی سنائی جو اس نے پجاریوں اور اپنے مشاہدے سے نوٹ کی تھی:

پرناگری بھاگ بتی دیوی کی پوجا کی جگہ تھی اور ہر سال یہاں ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند آتے تھے۔ یہاں تک آنے کے دو راستے تھے۔ ایک راستہ برمادیو سے ہوتا ہوا جبکہ دوسرا کالا ڈھنگا سے گذر کر آتا تھا۔ دونوں راستے پہاڑ کی چوٹی سے ذرا نیچے شمالی جانب آن ملتے تھے۔ اسی سنگم پر پرناگری کا چھوٹا مندر واقع تھا۔ زیادہ مقدس اور بڑا مندر پہاڑ کے اوپر بائیں جانب تھا۔ بڑے مندر تک جانے کا راستہ انتہائی دشوار تھا اور تقریباً عمودی چٹان پر موجود پتلی سی دراڑ سے ہو کر گذرتا تھا۔ کمزور دل والے افراد، بچے اور بوڑھوں کو ٹوکری میں لاد کر پہاڑی افراد اوپر لے جاتے تھے۔ دیوی کے پسندیدہ افراد ہی بڑے مندر جا سکتے تھے۔ باقی افراد سب کچھ بھول بھال کر نچلے مندر پر ہی بھینٹ چڑھا کر لوٹ جاتے تھے۔

بڑے مندر میں پوجا سورج نکلتے ہی شروع ہوتی تھی اور دوپہر کو ختم ہو جاتی تھی جس کے بعد زیریں مندر سے کسی کو اوپر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ بڑے مندر کے ساتھ ہی ایک جگہ سو فٹ اونچی چٹانیں موجود تھیں جن پر چڑھنے پر دیوی کی طرف سے پابندی تھی۔ تاہم بہت عرصہ قبل ایک سادھو نے سوچا کہ وہ اس چٹان پر جا کر دیوی سے ہم کلام ہو۔ اس کی اس جرات پر ناراض ہو کر دیوی نے اسے اچھال کر دریا کی دوسری جانب کے پہاڑ پر پھینک دیا۔ اس سادھو کو اب پرناگری آنے کی اجازت نہیں اور وہ اب مندر سے دو ہزار فٹ اوپر رہ کر عبادت کرتا ہے اور روشنیاں جلاتا ہے۔ یہ روشنیاں صرف خاص مواقع پر ہی ظاہر ہوتی ہیں (اس بار پانچ اپریل کو ظاہر ہوئی تھیں ) اور صرف دیوی کے انتہائی پسندیدہ افراد ہی انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ چونکہ میں اور میرے ساتھی دیوی کے زیر اثر علاقے کو آدم خور کے وبال سے چھڑانے آئے تھے اس لئے یہ روشنیاں ہمیں دکھائی دیں۔

پرناگری سے واپسی پر گنگا رام نے یہ توجیہہ پیش کی اور پھر ہم وہیں رک کر تنک پور کی ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ ہفتے بعد پرناگری کا سب سے بڑا پنڈت یا راول مجھے ملنے آیا۔ چونکہ میں نے مقامی اخبار میں ان روشنیوں کے بارے ایک مضمون لکھا تھا اور اس کا شکریہ ادا کرنے اور یہ بتانے کے لئے یہ پنڈت آیا تھا کہ میں واحد یورپی ہوں جس نے یہ روشنیاں دیکھی تھیں۔ اپنے مضمون میں ان روشنیوں کے بارے میں نے وہی کچھ لکھا تھا جو میں نے اوپر بیان کیا۔ اس کے علاوہ میں نے یہ بھی لکھا کہ اگر قارئین کو کسی وجہ سے اس پر یقین نہ ہو اور وہ خود سے تحقیقات کرنا چاہیں تو درج ذیل باتیں ذہن میں رکھیں:

روشنیاں ایک ساتھ جلنا شروع نہیں ہوئی تھیں

ان سب کا ایک ہی حجم تھا جو دو فٹ کے برابر ہو گا

ہوا سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑا

ایک جگہ سے دوسری جگہ وہ آسانی سے منتقل ہوتی رہیں

اس پنڈت نے اس بات پر کافی زور دیا کہ یہ روشنیاں ایک حقیقت ہیں اور مجھے اس بات سے اتفاق تھا کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں۔ اس کے علاوہ پنڈت کی توجیہہ کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسری توجیہہ نہیں جسے میں قبول کر سکوں۔

اگلے سال میں سر میلکم (اب لارڈ) ہیلی کے ساتھ مچھلی کے شکار پر دریائے سردا گیا جو اس وقت صوبجات متحدہ کے گورنر تھے۔ سر میلکم نے میرا مضمون پڑھا تھا اور انہوں نے کہا کہ میں انہیں وہ جگہ دکھاؤں۔ اس وقت ہمارے ساتھ چار ملاح تھے جو ہوا بھری ہوئی کھالوں سے بنی کشتی میں ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے۔ یہ افراد بیس افراد کی اس جماعت میں شامل تھے جو کماؤں کے بلند علاقوں سے چیل کے درخت کاٹ کر دریا کے راستے نیچے بھیجتے تھے۔ یہ کام بہت مشکل، طویل اور پر خطر تھا اور اس کے لئے نہ صرف بلند حوصلہ بلکہ اس سے وابستہ خطرات کے پورے طرح آگہی ہونا بھی لازمی تھی۔

جس جگہ کولئیر نے پہاڑ کو ڈائنامائیٹ سے اڑایا تھا اس کے نیچے وہ چٹان تھی جس کے سائے میں ہم نے رات گذاری تھی اور روشنیاں دیکھی تھیں۔ اس جگہ دریا کے کنارے میرے کہنے پر ملاحوں نے یہ ‘کشتیاں‘ روکیں اور ہم نیچے اتر کر دریا کے کنارے پر گئے۔ یہاں سے میں نے وہ جگہیں دکھائیں جہاں روشنیاں تھیں اور ان کی حرکات کے بارے بھی بتایا۔ سر مالکم نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ یہ ملاح اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔ انہیں نہ صرف ہندوستان کے مقامی افراد سے بات پوچھنے کا گر معلوم تھا بلکہ انہیں مقامی زبان پر پوری طرح عبور بھی تھا۔ انہوں نے یہ معلومات حاصل کیں۔ ان افراد کے گھر کنگرا وادی میں تھے جہاں وہ معمولی کھیتی باڑی کرتے تھے جو ان کی کفالت کے لئے ناکافی تھی اور انہیں لکڑی کو دریا کے راستے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کرنا پڑتا تھا جس سے معقول آمدنی ہو جاتی تھی۔ یہ افراد برما دیو تک دریا کے چپے چپے سے واقف تھے اور بے شمار مرتبہ دریا کے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تک سفر کر چکے تھے۔ اس کھائی سے وہ بخوبی واقف تھے کیونکہ لکڑی یہاں کے پانی میں اکثر پھنس جاتی تھی اور انہیں بہت مشکل پیش آتی تھی۔ انہوں نے اس جگہ دریا کے کنارے آج تک نہ تو وہ روشنیاں اور نہ ہی کوئی اور غیر معمولی بات نہیں دیکھی تھی۔

جونہی وہ میری جانب مڑے، میں نے انہیں کہا کہ ان افراد سے ایک اور سوال پوچھیں۔ سوال یہ تھا کہ آیا ان برسوں میں کبھی انہوں نے اس جگہ رات گذاری تھی؟ انہوں نے ایک زبان ہو کر جواب دیا کہ نہیں۔ وجہ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ان کے نزدیک یہ جگہ آسیب زدہ تھی اور انہوں نے کبھی کسی کو یہاں رات گذارتے نہیں دیکھا تھا۔

دو ہزار فٹ اوپر ایک تنگ دراڑ سی تھی جو نسل در نسل عقیدت مندوں کے یہاں سے گذرنے کے سبب شیشے کی طرح پھسلوان بن گئی تھی۔ یہ راستہ سا پچاس گز لمبا تھا اور نیچے والے مندر کو اوپر والے مندر سے ملاتا تھا۔ اس جگہ کہیں بھی ہاتھ جمانے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ مقامی پنڈتوں کی تمام تر احتیاط کے باوجود یہاں سے گذرنے والوں کی شرح اموات بہت بلند تھی۔ تاہم چند سال قبل میسور کے راجہ نے یہاں زیریں مندر سے بالائی مندر تک سٹیل کی ایک موٹی تار لگوانے کی رقم مہیا کر دی تھی۔

اس لئے اگر یہاں روحیں تھیں بھی تو ان میں سے کوئی بھی بد روح نہیں تھی۔

(۳)

اب اصل کہانی کی طرف واپس چلتے ہیں۔

گنگا رام جو پہاڑوں پر کماؤں بھر کے افراد سے زیادہ تیز چل سکتا تھا، میرے ساتھ پیچھے رہا اور میرا کیمرہ اٹھانا اس کی ذمہ داری تھی۔ شب بسری کی جگہ سے دو میل کے فاصلے پر ہم اپنے دیگر ساتھیوں سے آن ملے۔ اگلے چھ گھنٹے ہم نے مسلسل سفر جاری رکھا۔ اس دوران ہم گھنے جنگلوں سے اور کئی بار دریائے سردا کے عین کنارے پر چلتے رہے۔ ہمارا راستہ کالا ڈھنگا اور چکہ سے ہو کر پہاڑ کے دامن تک جاتا تھا۔ اس پہاڑ کے دوسری جانب ہماری منزل تھی جہاں تلہ دیس کے آدم خور نے تباہی مچا رہی تھی۔ پہاڑ کے دامن میں ہم رکے اور دو گھنٹے کے لئے آرام کیا اور کھانا وغیرہ پکا کر کھایا۔ اس کے بعد ہمارے سامنے ۴۰۰۰ فٹ کی سخت چڑھائی تھی۔

سہہ پہر کو جب اپریل کا گرم سورج ہماری پشتیں جلا رہا تھا اور راستے میں ایک بھی سایہ دار درخت نہیں تھا۔ یہ چڑھائی میری زندگی کی سب سے سخت چڑھائیوں میں سے ایک تھی۔ برائے نام سڑک تھی جو در اصل ایک پگڈنڈی تھی۔ یہ راستہ سیدھا پہاڑ کے دامن سے چوٹی تک چلا جاتا تھا اور کہیں بھی موڑ نہیں تھے کہ چڑھائی آسان ہو جاتی۔ بار بار رکتے ہوئے اور آرام کرتے ہوئے ہم لوگ ایک چھوٹی سی وادی میں پہنچے جو چوٹی سے ۱۰۰۰ فٹ نیچے تھی۔ اب سورج ڈوب رہا تھا۔ چکا میں ہمیں اس وادی سے ہوشیار رہنے کے لئے کہا گیا تھا کیونکہ پہاڑ کے جنوبی سرے پر یہ واحد انسانی آبادی تھی جس کی وجہ سے آدم خور یہاں باقاعدگی سے چکر لگاتا تھا۔ تاہم چاہے آدم خور ہو یا کچھ اور، ہم میں مزید اوپر چڑھنے کی ہمت نہیں تھی۔ یہ بستی راستے سے چند سو گز ہٹ کر تھی جہاں ہم پہنچے۔ اس وادی میں رہنے والے دونوں خاندان کے لوگ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آرام کرنے اور کھانا کھانے کے بعد میرے آدمی تو مقامی افراد کی طرف سے مہیا کئے گئے کمرے میں بند دروازے کے پیچھے محفوظ ہو گئے اور میں نے درخت کے نیچے اس جگہ اپنا سفری بسترا بچھایا جہاں چشمے سے یہ لوگ پانی بھرتے تھے۔ میرے ساتھ میری رائفل اور لالٹین بھی تھی۔

اس رات بستر پر لیٹ کر میں نے پوری صورتحال کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ بل بینس نے مقامی نمبرداروں کو حکم دیا تھا کہ میری آمد تک کسی بھی انسانی یا مویشی کی لاش کو اس کی جگہ سے نہ ہٹایا جائے۔ تنک پور کے پیشکار نے مجھے جس لڑکے کے بارے بتایا تھا وہ چار تاریخ کو ہلاک ہوا تھا اور اب چھ تاریخ کی رات تھی۔ تنک پور کے ریلوے سٹیشن پر اترنے کے بعد ہم نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ جائے وقوعہ پر ہر ممکن جلدی پہنچا جا سکے۔ مجھے اچھی طرح علم تھا کہ میری آمد سے قبل ہی شیر نے لاش کو صاف کر دیا ہو گا اور اگر اسے کسی مداخلت کا شبہ نہ ہوا تو وہ ابھی کچھ دیر مزید بھی اسی علاقے میں رکے گا۔ صبح کیمپ سے روانہ ہوتے ہوئے مجھے امید تھی کہ ہم سورج غروب ہونے سے قبل ہی منزل پر پہنچ جائیں گے اور میرے پاس اتنا وقت ہو گا کہ کم از کم ایک بھینسا تو ضرور مطلوبہ جگہ پر باندھ دوں گا۔ تاہم دریائے سردا سے اوپر والی چڑھائی نے ہمارا کچومر نکال دیا تھا۔ اس پر جتنا بھی افسوس ہوتا کم تھا لیکن ایک دن تو ضائع ہو ہی گیا تھا۔ اب امید یہی تھی کہ اگر شیر اس جگہ سے ہٹا بھی ہو گا تو شاید زیادہ دور نہیں گیا ہو گا۔ اس بات پر غور کرنا فضول تھا کہ کماؤں کا یہ علاقہ میرے لئے بالکل انجان تھا۔ اس علاقے میں آٹھ سال کے دوران آدم خور نے کم از کم ڈیڑھ سو انسانی شکار کئے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ شیر کافی بڑے علاقے میں وارداتیں کر رہا تھا۔ اگر ایک بار اس کا نشان ہاتھ سے نکل جاتا تو پھر کئی ہفتوں تک اس کی خبر نہ ملتی۔ تاہم اس بات پر غور کرنا کہ شیر نے کیا کیا یا کیا کرے گا اس وقت فضول تھا اس لئے میں سو گیا۔

چونکہ ہمیں صبح بہت جلدی روانہ ہونا تھا اس لئے ابھی کافی اندھیرا تھا کہ گنگا رام نے آ کر لالٹین جلایا جو رات گئے شاید بجھ گیا تھا۔ جتنی دیر ناشتہ تیار ہوتا میں نے چشمے پر غسل کیا اور تیار ہو گیا۔ نیپال والے پہاڑ کے اوپر سے سورج نکلنے ہی والا تھا کہ میں نے اپنی اعشاریہ ۲۷۵ بور کی رگبی ماؤزر رائفل کو صاف کر کے تیل دیا اور اس کے میگزین میں پانچ گولیاں ڈالیں اور روانگی کے لئے تیار ہو گیا۔ آدم خور کی وجہ سے ان دیہاتوں کا آپس میں رابطہ منقطع تھا اس لئے یہ لوگ آدم خور کے آخری شکار سے بے خبر تھے اور اس لئے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہمیں کس سمت اور کتنا دور جانا ہو گا۔ اس اس لئے مجھے نہیں علم تھا کہ اگلی بار کھانا ہم کہاں اور کب کھائیں گے، میں نے اپنے ساتھیوں کو اچھی طرح پیٹ بھرنے کر اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ انہیں یہ بھی میں نے ہدایت کی کہ اکٹھے چلتے ہوئے وہ جب آرام کرنے کے لئے بیٹھیں تو صرف ہر طرف سے کھلی جگہ کا انتخاب کریں۔

واپسی اسی راستے پر پہنچ کر کہ جس سے ہم آئے تھے، میں وادی کا جائزہ لینے کے لئے رک گیا۔ میرے نیچے دریائے سردا کی وادی تھی جس سے چل کر ہم آئے تھے۔ وادی پر ابھی تک سورج کی روشنی نہیں پڑی تھی اور گھوم پھر کر یہ دریا کافی آگے تنک پور پہنچتا تھا۔ تنک پور سے آگے دریا چمکیلی پٹی کی صورت میں افق تک جاتا دکھائی دیتا تھا۔ چکا بھی ابھی سائے میں تھا اور جزوی طور پر دھند میں چھپا ہوا تھا۔ تاہم مجھے ٹھاک کو جانے والا راستہ بخوبی دکھائی دے رہا تھا جس کے چپے چپے سے دس سال قبل ٹھاک کے آدم خور کا پیچھا کرتے ہوئے میں واقف ہوا تھا۔ ٹھاک کا گاؤں کئی سو سال قبل کماؤں کے حکمران چند راجاؤں کی جانب سے پرناگری کے مندروں کے پجاریوں کو تحفتاً دیا گیا تھا۔

اس منظر کو دیکھے ہوئے مجھے پچیس برس پورے ہو گئے ہیں۔ یہ عرصہ بہت لمبا ہے اور اس دوران کیا کچھ نہیں ہو گیا۔ لیکن جو یادیں دماغ میں انمٹ نقوش چھوڑ گئی ہوں، وہ ہمیشہ تازہ رہتی ہیں۔ تلہ دیس کے آدم خور کے پیچھے پانچ دن کا عرصہ میرے ذہن میں آج بھی اسی طرح تازہ ہے جیسے پچیس سال قبل تھا۔

پہاڑ کی دوسری جانب جا کر یہ راستہ اچھی خاصی سڑک پر چڑھتا تھا جو چھ فٹ چوڑی تھی اور شرقاً غرباً پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں میرے سامنے ایک عجیب مسئلہ آن کھڑا ہوا۔ چونکہ مجھے دائیں یا بائیں کوئی گاؤں دکھائی نہیں دے رہے تھے اس لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس جانب رخ کروں۔ پھر میں نے سوچا کہ بائیں سڑک زیادہ سے زیادہ دریائے سردا تک لے جائے گی، میں نے اس کو اختیار کیا۔

اگر مجھے چہل قدمی کے لئے جگہ اور وقت کا انتخاب دیا جائے تو میرے نزدیک اپریل کے اوائل میں ہمالیہ کی کسی بھی اچھی سرسبز پہاڑی کی شمالی جانب کی چہل قدمی بہترین ہے۔ اس وقت پورے ماحول پر بہار آئی ہوئی ہوتی ہے۔ پت جھڑ کے شکار درختوں پر نئے پتے نکل رہے ہوتے ہیں اور رنگا رنگ پھول کھلے ہوتے ہیں اور بے شمار اقسام کے پرندے چہچہا رہے ہوتے ہیں جو سردیوں میں نیچے وادی میں چلے گئے ہوتے ہیں۔ ان کے گھونسلے یہاں ہوتے ہیں اور ملاپ کے لئے ہنسی خوشی چہچہاتے ہیں۔ ایسے علاقے میں جہاں چہل قدمی کے دوران کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تو بندہ محض ان پرندوں کو سنتا اور ان درختوں اور پھولوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ تاہم جب آدم خور کا خطرہ سر پر ہو تو بندہ ان جگہوں پر چلتے ہوئے بے فکر نہیں رہ سکتا۔

ہر قسم کے کھیل میں خطرے کا عنصر اسے زیادہ دلچسپ بنا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ شکاری ہو یا کھلاڑی، اس کی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے اور آنکھ اور کان انتہائی ذمہ داری سے جنگل میں اپنا فرض نبھاتے ہیں۔ تاہم ایسا خطرہ جس سے آپ بخوبی واقف ہوں اور اس کے لئے تیار بھی ہوں تو پھر وہ خطرہ آپ کو فطرت سے لطف اندوز ہونے سے نہیں روک سکتا۔ چاہے ان پھولوں کی کنج کے پیچھے بھوکا آدم خور ہی کیوں چھپا ہو، اس کنج کے رنگ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح درخت کی چوٹی پر چہچہاتی چڑیا کی آواز اس وجہ سے بری نہیں ہو جاتی کہ اسی درخت کی نچلی شاخوں پر ایک اور پرندہ جنگل کے باسیوں کو شیر کی آمد سے خبردار کر رہا ہوتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ چند خوش نصیب ایسے ہوں کہ انہیں ڈر نہ لگتا ہو لیکن میں ان میں سے نہیں۔ زندگی جنگل میں گذارنے کے باوجود مجھے شیر کے دانتوں اور پنجوں سے اسی طرح ڈر لگتا ہے جس طرح کہ بچپن میں میگگ اور مجھے شیر نے ڈرا کر بھگایا تھا۔ تاہم اس خطرے کا سامنا کرنے اور اس کو حواس پر طاری نہ کر لینے کی وجہ سے اب میں اس بچے سے بہت مختلف ہوں جو اس دن میگگ کے ساتھ جنگل میں شیر کا سامنا ہونے کے بعد ڈر کر بھاگا تھا۔ اس وقت مجھے ہر طرف سے ڈر لگتا تھا اور ہر آواز مجھے ڈراتی تھی لیکن اب مجھے علم تھا کہ خطرہ کن جگہوں سے ہو سکتا ہے اور کون سی آواز ایسی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں اور کس آواز کو پوری توجہ سے سننا ہے۔ اس کے علاوہ ان دنوں کے برعکس کہ جب مجھے گولی چلانے پر یقین نہیں ہوتا تھا کہ گولی نشانے پر لگے گی بھی یا نہیں، اب مجھے علم تھا کہ میں جہاں چاہوں گولی وہیں لگے گی۔ تجربے سے اعتماد بڑھتا ہے اور یہ دونوں اکیلے اور پیدل آدم خور کے شکار کے دوران قیمتی اثاثہ بن جاتے ہیں۔ ان کے بغیر جنگل میں پیدل آدم خور کے شکار پر نکلنا خود کشی کا انتہائی احمقانہ اور دردناک طریقہ ہے۔

جس راستے پر میں چل رہا تھا وہ آدم خور کی سلطنت سے گذرتا تھا۔ جگہ جگہ ناخن کھرچنے کے نشانات اس بات کی واضح نشانی تھے کہ آدم یہاں بکثرت آتا رہتا ہے۔ تاہم یہ نشان کافی پرانے تھے اور ان سے آدم خور کی پہچان نا ممکن تھی۔ ان کے علاوہ تیندوے، سانبھر، ریچھ، کاکڑ اور سؤر کے بھی پگ موجود تھے۔ پرندوں اور پھولوں کی بے شمار اقسام یہاں موجود تھیں۔ اس کے علاوہ پورے درختوں یا ان کی شاخوں پر پھولدار بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ یہاں ایک پھولدار درخت پر میں نے ہمالیائی ریچھ کا بنایا ہوا انتہائی خوبصورت گھونسلہ دیکھا تھا۔ زمین سے چالیس فٹ کی بلندی پر بلوط کا یہ درخت شاید برف کے وزن یا پھر کسی طوفان سے ٹوٹ گیا تھا۔ جس جگہ تنا ٹوٹا تھا، وہاں سے بہت ساری شاخیں نکل آئی تھیں جن کی موٹائی انسانی بازو کے برابر رہی ہو گی۔ اس جگہ کافی کائی اگی ہوئی تھی اور اسی کائی پر پھول اگ آئے تھے۔ اسی تنے پر شاخوں کو توڑ موڑ کر ریچھ نے اپنا گھونسلہ بنایا تھا۔ اپنے گھونسلے کے لئے ریچھ جن درختوں کا انتخاب کرتے ہیں ان کی شاخیں لچکدار ہوتی ہیں اور موڑے جانے پر ٹوٹتی نہیں۔ تاہم ان گھونسلوں کا افزائش نسل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور عموماً۲۰۰۰ سے ۸۰۰۰ فٹ کی بلندی تک ملتے ہیں۔ اس سے کم بلندی پر جب ریچھ جاتے ہیں تو ان کا کام جنگلی آلو بخارے اور شہد کی تلاش ہوتا ہے۔ یہاں گھونسلوں میں ریچھ چیونٹیوں اور مکھیوں سے بچے رہتے ہیں۔ زیادہ بلندی پر بنے ہوئے گھونسلوں میں ریچھ دیگر جانوروں کی مداخلت سے بچ کر دھوپ سینکتے ہیں۔

جب کوئی راستہ دلچسپ ہو تو اس کی لمبائی کا احساس نہیں ہوتا۔ میں اندازا ایک گھنٹہ چلا ہوں گا کہ گھاس سے ڈھکی ایک چٹان سامنے آئی جس کے نیچے ایک گاؤں تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو پورا گاؤں میرے استقبال کے لئے نکل آیا۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کے کسی دوسرے کونے میں اگر کوئی انجان مسافر کسی دیہات میں اچانک جا پہنچے تو کیا اس کا استقبال اتنے والہانہ انداز میں کیا جائے گا جتنا کہ کماؤں کے علاقے کے ہر گاؤں میں ہوتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ پیدل اور اکیلا آنے والا میں یہاں پہلا سفید فام بندہ تھا لیکن میرے پہنچنے تک نہ صرف قالین بچھ گیا تھا بلکہ میرے لئے ایک موڑھا بھی لا کر رکھ دیا گیا تھا۔ ابھی میں اس پر بیٹھا ہی تھا کہ میرے ہاتھ میں دودھ سے بھرا جست کا گلاس تھما دیا گیا۔ چونکہ میں ساری زندگی کماؤں کے علاقے میں رہا ہوں اس لئے ان علاقوں کے مختلف لہجوں سے بخوبی واقف ہوں اور ان کی بات سمجھ سکتا ہوں۔ میرے ہاتھ میں رائفل سے تو انہیں پتہ چل گیا تھا کہ میں آدم خور سے ان کا پیچھا چھڑانے آیا ہوں لیکن یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی کہ میں اتنی صبح سویرے یہاں کیسے پہنچا جبکہ نزدیک ترین ڈاک بنگلہ بھی ۳۰ میل دور تھا۔

جتنی دیر میں دودھ پیتا، سگریٹ تقسیم ہو گئے۔ جھجھک بھی کم ہوئی اور جب میں نے ان کے سارے سوالوں کے اطمینان بخش جوابات دے دیئے تو میں نے ان سے کچھ سوالات پوچھے۔ اس گاؤں کا نام تملی تھا۔ اس گاؤں سے آدم خور اکثر خراج وصول کرتا رہتا تھا۔ کچھ لوگوں کے مطابق آٹھ سال جبکہ دیگر کے خیال میں دس سال سے آدم خور سرگرم تھا۔ تاہم اس بات پر سبھی متفق تھے کہ آدم خور اسی سال نمودار ہوا جب بچی سنگھ نے لکڑیاں کاٹتے کاٹتے اپنا پیر کاٹ لیا تھا اور دان سنگھ کا کالا بیل جو اس نے ۳۰ روپے خرچ کر کے خریدا تھا، پہاڑی سے نیچے گر کر مر گیا تھا۔ آدم خور کا آخری شکار کندن کی ماں تھی جو مارچ کی بیس تاریخ کو ماری گئی۔ وہ بے چاری دیگر خواتین کے ساتھ کھیت میں کام کر رہی تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آدم خور نر ہے یا مادہ۔ انہیں صرف اتنا علم تھا کہ آدم خور بہت بڑا جانور ہے اور اس کے خوف سے کھیتی باڑی بند ہو گئی تھی اور کسی کی ہمت نہیں تھی کہ تنک پور جا کر گاؤں والوں کے لئے خورد و نوش کا سامان لا سکے۔ آدم خور اس گاؤں سے کبھی بھی زیادہ دن غائب نہیں رہا تھا اور اگر میں ان کی درخواست کو قبول کر کے یہیں رہ جاتا تو پورے تلہ دیس میں یہ جگہ بہترین ثابت ہوتی۔

جب لوگوں کو آپ پر اندھا اعتقاد ہو تو انہیں آدم خور کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جانا اتنا سہل کام نہیں۔ لیکن انہوں نے آرام سے میری توجیہہ مان لی اور پھر یہ وعدہ کر کے کہ جونہی موقع ملا میں ان کے پاس ضرور آؤں گا، میں واپس چل پڑا۔

جس جگہ یہ راستہ جنگل والے راستے سے ملتا ہے، میں نے وہ نشان ہٹایا جو میں نے آتے وقت رکھا تھا اور دوسری جانب وہی نشان رکھ دیا۔ مزید احتیاط کے پیش نظر میں نے دوسری جانب سڑک پر وہ نشان رکھ دیا جس سے سڑک بند دکھائی دیتی۔ یہ دو نشان کماؤں میں ہر کوئی جانتا ہے اور اگرچہ میں نے اپنے ساتھیوں کو اس کے بارے پہلے سے نہیں بتایا تھا لیکن مجھے علم تھا کہ وہ نشان دیکھتے ہی میرا مقصد سمجھ جائیں گے۔ پہلا نشان در اصل ایک چھوٹی سی شاخ تھی جو سڑک کے درمیان کسی پتھر یا لکڑی کے نیچے دبا دی جاتی ہے اور اس کے پتوں کا رخ اسی جانب ہوتا ہے جس جانب بندہ جاتا ہے۔ دوسرا نشان دو شاخوں پر مشتمل ہوتا ہے جو کانٹے کی شکل میں رکھی جاتی ہیں۔

مغرب کی جانب جانے والی یہ سڑک تقریباً ہموار تھی اور بلوط کے اونچے اونچے درختوں سے بھرے جنگل سے ہو کر گذرتی تھی۔ راستے پر گھٹنوں تک اونچی اگی ہوئی گھاس وغیرہ تھی۔ تاہم جس جگہ بھی ذرا سا جنگل چھدرا ہوتا، وہاں سے برف سے ڈھکی چوٹیوں والی پہاڑیاں دکھائی دیتیں جو تا حد نگاہ مشرق کو جاتی دکھائی دیتیں۔

(۴)

چار میل مغرب کی سمت جا کر یہ سڑک پھر شمال کو مڑتی ہے اور وادی کے سرے سے گذرتی ہے۔ وادی میں ایک صاف شفاف پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا جو میرے بائیں جانب موجود پہاڑ کے بلوط کے جنگل سے نکلتا تھا۔ پتھروں پر چلتے ہوئے میں نے یہ چشمہ پار کیا اور ہلکی سی چڑھائی کے بعد کھلے میدان تک پہنچ گیا جس کے دوسرے سرے پر گاؤں تھا۔ چشمے سے پانی بھرنے کے لئے آنے والی کئی لڑکیوں نے مجھے دیکھ لیا تھا اور جب میں اس کھلے میدان پر پہنچا تو مجھے ان کی پر جوش آواز سنائی دی کہ ‘صاحب آ گئے ہیں۔ صاحب آ گئے ہیں۔‘ جتنی دیر تک میں اس کھلے میدان کو عبور کرتا، پورا گاؤں گھروں سے نکل آیا تھا اور میرے وہاں پہنچنے پر انہوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا۔ میرے چاروں طرف مرد، عورتیں اور بچے جمع تھے۔

نمبردار نے مجھے بتایا کہ اس گاؤں کا نام تلہ کوٹ ہے اور دو دن قبل یعنی پانچ اپریل کو پٹواری چمپاوت سے آیا تھا تاکہ مجھ سے ملے اور لوگوں کو یہ بتانے آیا تھا کہ نینی تال سے ایک صاحب آدم خور کو مارنے کے لئے روانہ ہو گئے ہیں۔ پٹواری کی آمد کے کچھ ہی دیر بعد گاؤں کی ایک عورت کو آدم خور نے ہلاک کر دیا۔ الموڑا کے ڈپٹی کمشنر کے احکامات کی روشنی میں انہوں نے لاش کو بالکل نہیں چھیڑا۔ اب میری آمد کے انتظار میں انہوں نے صبح سویرے کچھ بندے بھیجے تھے جو جا کر اس عورت کی لاش تلاش کرتے اور اگر لاش کا کچھ حصہ باقی ہوتا تو اس پر مچان باندھتے۔ جتنی دیر میں نمبردار نے مجھے یہ باتیں بتائیں، ۳۰ بندوں کی ایک جماعت آ گئی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس جگہ کو اچھی طرح دیکھا تھا اور انہیں اس عورت کے محض چند دانت ہی ملے تھے۔ حتیٰ کہ اس عورت کے کپڑے بھی غائب تھے۔ جب میں نے پوچھا کہ یہ واردات کہاں ہوئی تھی تو سترہ سالہ ایک لڑکا سامنے آیا اور بولا کہ اگر میں اس کے ساتھ گاؤں کی دوسری جانب چلوں تو وہ مجھے وہ جگہ دکھائے گا جہاں اس کی ماں کو آدم خور نے ہلاک کیا تھا۔ اب یہ لڑکا آگے آگے اور اس کے پیچھے میں اور میرے پیچھے پورا گاؤں چل پڑا۔ ہمارا راستہ گاؤں سے ہو کر دو پہاڑوں کو ملانے والی پتلی سی پچاس گز لمبی ایک منڈیر نما جگہ تک پہنچا۔ یہ جگہ در اصل دو وادیوں کے ملاپ کی جگہ تھی۔ بائیں جانب یعنی مغرب کی سمت دریائے لدھیا کی وادی تھی۔ دائیں جانب والی وادی انتہائی ڈھلوان تھی اور دس یا پندرہ میل آگے چل کر دریائے کالی کو جاتی تھی۔ اسی جگہ رک کر اس لڑکے نے دائیں جانب والی وادی کی طرف منہ موڑا۔ بائیں جانب والی یعنی شمالی سمت کی وادی میں چھوٹی چھوٹی گھاس اگی ہوئی تھی اور اکا دکا جھاڑیاں بھی تھیں۔ دائیں جانب والی وادی میں گھنا جنگل اور لمبی گھاس اگی ہوئی تھی۔ بائیں جانب والی وادی کی میں آٹھ سو سے ہزار گز دور اور ہزار یا ڈیڑھ ہزار فٹ نیچے کے ایک مقام کی طرف اشارہ کر کے اس بتایا کہ وہاں اس کی ماں دیگر عورتوں کے ساتھ گھاس کاٹ رہی تھی کہ آدم خور نے اسے ہلاک کیا۔ پھر اس نے ایک کھائی میں اگے بلوط کے درخت کو اشارہ کر کے بتایا کہ اس درخت کے نیچے اس کی ماں کی باقیات ملی تھیں۔ اس درخت کی کئی شاخیں لنگوروں نے توڑ دی تھیں۔ تاہم اس نے یا اس کے ساتھیوں نے شیر کو نہیں دیکھا تاہم انہوں نے بتایا کہ وادی میں نیچے اترتے وقت انہوں نے پہلے ایک گڑھل اور پھر لنگور کی آوازیں سنی تھیں۔

گڑھل اور لنگور کی آوازیں۔ گڑھل بعض اوقات انسان کو دیکھ کر بولتے ہیں لیکن لنگور انسان کو دیکھ کر کبھی نہیں بولتے۔ البتہ دونوں جانور شیر کو دیکھتے ہی لازمی بولتے ہیں۔ کیا یہ ممکن تھا کہ شیر وہیں کہیں چھپا ہوا لیٹا ہو اور ان بندوں کی آمد سے خبردار ہو کر اپنی جگہ سے نکلا ہو اور پھر اسے پہلے گڑھل اور پھر لنگور نے دیکھ لیا ہو؟ ابھی میں اس بات پر غور کر ہی رہا تھا کہ پٹواری آن پہنچا۔ جب میں یہاں پہنچا تو پٹواری کھانا کھا رہا تھا۔ اس سے میں نے پوچھا کہ بینس والے دو بھینسے کہاں ہیں؟ اس نے بتایا کہ چمپاوت سے بھینسوں کو ساتھ لے کر وہ نکلا تھا اور یہاں سے دس میل دور اس نے بھینسے اس گاؤں میں چھوڑ دیئے تھے جہاں ۴ اپریل کو آدم خور نے گاؤں کے کنارے ایک لڑکے کو ہلاک کیا تھا۔ چونکہ اس گاؤں میں آدم خور کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں تھا اس لئے انہوں نے لڑکے کی لاش کو ہٹا کر اس کی اطلاع چمپاوت بھیج دی تھی جو میری طرف تنک پور بھیج دی گئی تھی۔ پھر اس نے لڑکے کی لاش کو جلانے کا حکم دے دیا۔

ابھی میرے ساتھی نہیں پہنچے تھے اس لئے پٹواری کو یہ بتا کر کہ وہ میرا خیمہ چشمے کے کنارے کھلی جگہ پر لگوائے، میں جا کر ذرا اس جگہ کا جائزہ لے آؤں جہاں آدم خور نے اس عورت کو ہڑپ کیا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ اگر اس جگہ پگ دکھائی دیں تو پتہ چل سکے کہ آیا شیر نر ہے یا مادہ اور اگر مادہ ہے تو کیا اس کے بچے بھی ساتھ ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، کماؤں کا یہ علاقہ میرے لئے انجان تھا۔ جب میں نے نمبردار سے پوچھا کہ اس جگہ تک جانے کے لئے کون سا راستہ بہتر رہے گا تو وہی لڑکا پھر سامنے آیا کہ اگر میں اس کے ساتھ نیچے چلوں تو وہ مجھے راستہ دکھائے گا۔

آدم خور کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کا اعتماد اور ان کا وہ یقین جو وہ کسی بھی اجنبی پر رکھتے ہیں، انتہائی کمال کی چیز ہے۔ یہ لڑکا جس کا نام بعد میں مجھے ڈنگر سنگھ بتایا گیا، اس کی ایک واضح مثال تھا۔ سالہا سال سے ڈنگر سنگھ آدم خور کے علاقے میں رہ رہا تھا اور ابھی گھنٹہ بھر پہلے ہی وہ اپنی ماں کی لاش کی باقیات لے کر واپس لوٹا تھا۔ اکیلا اور غیر مسلح ہونے کے باوجود اب ڈنگر سنگھ ایک ایسے مکمل اجنبی بندے کے ساتھ اس جگہ جانے کو تیار تھا جہاں اس نے گڑھل اور لنگور کی آواز سن کر آدم خور کی موجودگی کا یقین کر لیا تھا اور یہ وہی آدم خور تھا جس نے اس کی ماں کو ہلاک کر کے پیٹ بھرا تھا۔ یہ سچ ہے کہ کچھ دیر قبل وہ اسی جگہ سے لوٹا تھا لیکن اس وقت اس کے ساتھ ۳۰ افراد بھی تھے اور بڑی جماعت ہمیشہ ہی محفوظ ہوتی ہے۔

اس کھائی میں اس جگہ سے اترنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ڈنگر سنگھ مجھے گاؤں سے گذار کر اس جگہ لے گیا جہاں سے بکریوں کی پگڈنڈی شروع ہوتی تھی۔ اس جگہ جب ہم جھاڑیوں کے درمیان سے گذرے تو میں نے اسے بتایا کہ میری قوت سماعت کافی کمزور ہے اور اگر وہ مجھے کوئی خاص چیز دکھانا چاہے تو رک کر اس کی طرف اشارہ کرے۔ اگر اسے کوئی بات کہنی ہو تو قریب آ کر میرے دائیں کان میں سرگوشی کر کے بتائے۔ ابھی ہم ۴۰۰ گز گئے ہوں گے کہ ڈنگر سنگھ اچانک رکا اور مڑ کر پیچھے دیکھنے لگا۔ میں نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا تو پٹواری اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ آتا دکھائی دیا۔ اس کے ساتھی کے پاس بندوق تھی۔ ان کی تیز رفتاری سے مجھے شک ہوا کہ شاید وہ کوئی خاص بات بتانے آ رہے ہیں۔ تاہم جب وہ نزدیک آئے تو یہ جان کر مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ وہ محض میرے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ میں نے انتہائی بے دلی سے اجازت دی۔ دونوں کے پیروں میں بھاری بوٹ تھے اور جنگل میں چلتے وقت اچھا خاصا شور کرتے تھے۔

ابھی ہم گھنی گھاس سے مزید چار سو گز آگے گئے ہوں گے کہ ہمارے سامنے چند مربع گز جتنی صاف زمین آئی۔ اس جگہ سے بکریوں کی پگڈنڈی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ ایک شاخ بائیں جانب کافی گہری کھائی کو جبکہ دوسری دائیں جانب پہاڑی کو گھوم کر جاتی تھی۔ اس جگہ ڈنگر سنگھ نے رک کر کھائی کی جانب اشارہ کیا اور پھر میرے کان میں سرگوشی کر کے بولا کہ اس کھائی میں اس کی ماں کو آدم خور نے کھایا تھا۔ چونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس جگہ کی زمین پر بوٹوں کے نشانات شیر کے پگوں کو خراب کریں، میں نے ڈنگر سنگھ سے کہا کہ وہ ان دونوں بندوں کے ساتھ وہیں رکے اور میں نیچے جا کر کھائی میں دیکھتا ہوں۔ ابھی میں نے اپنی بات پوری کی تھی کہ اچانک ڈنگر سنگھ مڑا اور پہاڑی کے اوپر کی جانب دیکھنے لگا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہاں سارا گاؤں اس جگہ جمع تھا جہاں سے کچھ دیر قبل میں روانہ ہوا تھا۔ ایک ہاتھ پھیلا کر ڈنگر سنگھ نے ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دوسرا ہاتھ کان پر رکھ کر وہ کچھ سنتا اور سر ہلاتا رہا۔ پھر آخری بار سر ہلا کر وہ مڑا اور میرے کان میں سرگوشی کر کے بولا ‘میرے بھائی نے کہا ہے کہ نیچے والے ویران کھیت میں انہیں کوئی سرخ رنگ کی چیز دھوپ میں لیٹی دکھائی دے رہی ہے۔‘

ویران کھیت سے مراد ایسا کھیت تھا جس میں کاشتکاری بند کر دی گئی تھی اور اس میں کوئی سرخ رنگ کی چیز لیٹے دھوپ سینک رہی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سرخ رنگ کی چیز کئی جھاڑی یا شاخ ہو یا پھر کاکڑ یا سانبھر تاہم عین ممکن تھا کہ وہ شیر ہوتا۔ کچھ بھی ہو، میں اس موقعے کو ہاتھ سے نہیں گنوانا چاہتا تھا۔ اس لئے میں نے اپنی رائفل ڈنگر سنگھ کو تھمائی اور پٹواری اور اس کے ساتھی کو بازو سے پکڑ کر نزدیک موجود ایک درخت تک لے گیا۔ اس جگہ میں نے پٹواری کی بندوق خالی کر کے نیچے موجود جھاڑی میں چھپا دی اور انہیں ہدایت کی کہ درخت پر چڑھ جائیں اور میری واپسی تک خاموشی سے وہیں رہیں۔ جتنی خوشی سے وہ لوگ درخت پر چڑھ کر بلند ترین شاخوں پر براجمان ہو گئے اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ گاؤں سے نکلتے وقت اور اب ان کے ارادوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

دائیں جانب والی بکریوں کی پگڈنڈی اسی ویران کھیت تک جاتی تھی اور اس جگہ کافی بڑی گھاس اگی ہوئی تھی۔ یہ کھیت سو گز لمبا اور میرے پاس اس کھیت کی چوڑائی دس فٹ جبکہ دوسرے سرے پر تیس فٹ تھی۔ دوسرے سرے پر اس کا اختتام چھجے پر ہوتا تھا۔ پچاس گز تک سیدھا جانے کے بعد یہ کھیت بائیں مڑ جاتا تھا۔ جب ڈنگر سنگھ نے مجھے اس جانب دیکھتے پایا تو اس نے بتایا کہ دوسرے سرے سے ہمیں ویران کھیت کی وہ جگہ دکھائی دے گی جہاں اس کے بھائی نے وہ سرخ چیز دیکھی تھی۔ کھیت کے اندرونی کنارے کے ساتھ جھک کر گھٹنوں اور کہنیوں کے بل رینگتے ہوئے ہم اس کھیت کے کنارے تک پہنچے اور ہاتھوں سے گھاس کو ہٹا کر سامنے دیکھا۔

ہمارے سامنے نیچے چھوٹی سی وادی تھی جس کے دوسرے سرے پر گھاس سے بھری ڈھلوان تھی جس کا دوسرا سرا بلوط کے چھوٹے درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ ان درختوں کے پیچھے گہری کھائی تھی جس میں آدم خور نے ڈنگر سنگھ کی ماں کو کھایا تھا۔ یہ گھاس والی ڈھلوان تیس گز چوڑی ہو گی اور اس کے نیچے ایک چوٹی تھی جس کے نیچے اگے درختوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہ چوٹی اسی سے سو فٹ اونچی ہو گی۔ اس ڈھلوان پر ہماری جانب والے سرے پر ایک کھیت تھا جو سو گز لمبا اور دس گز چوڑا ہو گا۔ یہ کھیت جو ہمارے سامنے بالکل سیدھا تھا، پر ہماری جانب والے کنارے پر گھاس اگی ہوئی تھی۔ باقی حصے پر خوشبودار جڑی بوٹی تھی جو عموماً۴۰۰۰ سے ۵۰۰۰ فٹ کی بلندی پر عام ملتی ہے۔ گھاس کے اس قطعے پر سورج کی روشنی میں ایک دوسرے سے دس فٹ کے فاصلے پر دو شیر لیٹے ہوئے تھے۔

نزدیکی شیر کی کمر ہماری جانب اور سر پہاڑی کی جانب تھا۔ دوسرے شیر کا پیٹ ہماری جانب جبکہ اس کی دم پہاڑی کی جانب تھی۔ دونوں ہی بے خبر سو رہے تھے۔ نزدیکی شیر پر گولی چلانا زیادہ آسان تھا لیکن مجھے خطرہ ہوا کہ گولی کے دھماکے سے دوسرا شیر بیدار ہوتے ہی سیدھا پہاڑی سے نیچے اتر جائے گا جہاں کافی گھنی جھاڑیاں وغیرہ تھیں۔ اس کا سر اسی جانب تھا۔ تاہم اگر میں دوسرے شیر پر پہلے گولی چلاؤں تو گولی کے دھماکے کے علاوہ اس کے دھکے کو سن کر دوسرا شیر یا تو سیدھا پہاڑی کی جانب بھاگے گا جہاں جھاڑیاں اتنی گھنی نہیں تھی یا پھر وہ سیدھا میری جانب آئے گا۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ دور والے شیر پر پہلے گولی چلاؤں۔ درمیانی فاصلہ تقریباً ۱۲۰ گز ہو گا اور چونکہ شیر بالکل سامنے ہی تھا اس لئے گولی کو اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ عموماً ہمالیہ کے پہاڑی علاقے میں شکار کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کھیت کے کنارے پر میں نے رائفل کو رکھا اور ہر ممکن احتیاط سے اس جگہ کا نشانہ لے کر جہاں میرے خیال میں اس شیر کا دل ہو گا، میں نے آہستگی سے لبلبی دبا دی۔ اس شیر نے رواں تک نہ ہلایا جبکہ دوسرا شیر ایک لمحے میں بیدار ہو کر چھلانگ لگا کر پانچ فٹ اونچے کنارے پر چڑھا جو کھیت اور برساتی نالے کے درمیان منڈیر کا کام دیتا تھا۔ اس جگہ دوسرا شیر میرے سامنے آڑا کھڑا ہو کر گردن موڑ کر اپنے ساتھی کو دیکھ رہا تھا۔ گولی لگتے ہی یہ شیر اچھلا اور سیدھا برساتی نالے میں گر کر میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دوسری گولی چلتے ہی میں نے پہلے شیر کے پاس موجود گھاس میں حرکت دیکھی۔ کوئی بڑا جانور سیدھا کھیت میں دوڑ رہا تھا۔ دیگر دو شیروں کے اتنے قریب سے بھاگنے والا جانور صرف ایک اور شیر ہی ہو سکتا تھا۔ مجھے وہ جانور تو دکھائی نہیں دیا لیکن اس کی حرکت سے ہلنے والی جھاڑیوں سے مجھے اس کا پتہ چلتا رہا۔ ۲۰۰ گز کی پتی اٹھا کر میں نے انتظار کیا کہ وہ جانور کب جھاڑیوں سے نکلتا ہے۔ اچانک ہی ڈھلوان پر مجھے شیر بھاگتا دکھائی دیا۔ اس جگہ میں نے محسوس کیا کہ ڈھلوان دائیں جانب کو مڑ رہی تھی۔ میں جس سرے پر تھا وہ بائیں جانب مڑتا تھا۔ اس لئے شیر میرے سامنے تقریباً آڑا تھا جب میں نے اس پر گولی چلائی۔

میں نے گولی کھاتے ہی جانوروں کو گرتے دیکھا ہے اور گولی کھا کر انہیں گول گیند کی شکل میں تبدیل ہوتے بھی دیکھا ہے لیکن جس طرح بظاہر یہ شیر مرا، وہ ناقابل یقین تھا۔ چند لمحے تک یہ شیر وہیں پڑا رہا اور پھر نیچے کو پھسلنے لگا۔ اس کے پیر آگے تھے اور پھسلنے کے ساتھ ساتھ اس کی رفتار بھی بڑھتی گئی۔ اس کے عین نیچے چٹان کے کنارے سے چند فٹ پر بلوط کا ایک درخت تھا جو دس یا بارہ انچ موٹا ہو گا۔ شیر کا پیٹ اس درخت سے جا ٹکرایا اور اگلی ٹانگیں ایک جانب جبکہ دم اور دیگر دو ٹانگیں دوسری جانب لٹک گئیں۔ رائفل کو کندھے سے اور انگلی کو لبلبی پر رکھے میں منتظر رہا لیکن شیر نے کوئی حرکت نہ کی۔ اٹھ کر میں نے پٹواری اور اس کے ساتھی کو نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ جہاں وہ بیٹھے تھے، وہاں سے انہیں سارا منظر بخوبی دکھائی دے رہا تھا۔ ڈنگر سنگھ جو میرے ساتھ ہی لیٹا تھا، اب خوشی اور جوش کے مارے ناچ رہا تھا۔ جس طرح وہ اوپر موجود دیہاتیوں اور پھر شیروں کو دیکھ رہا تھا اس سے صاف لگ رہا تھا کہ اس کے پاس انہیں سنانے کے لئے اچھی خاصی کہانی ہے۔

جب میں نے دو شیروں کو ایک دوسرے کے نزدیک سویا ہوا دیکھا تو میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ آدم خور نے اپنا ساتھی تلاش کر لیا ہے۔ لیکن جب میری تیسری گولی پر تیسرا شیر بھی گرا تو مجھے یقین ہو گیا کہ میرا مقابلہ آدم خور شیرنی اور اس کے دو بچوں سے ہے۔ ان تینوں میں سے ماں کون سی تھی اور بچے کون سے، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ رائفل سے نشانہ لیتے وقت تینوں ہی شیر ایک جیسی جسامت کے حامل دکھائی دیئے تھے۔ ان تینوں میں سے ایک تلہ دیس کا آدم خور تھا اس میں کوئی شک نہیں۔ ان پہاڑی علاقوں میں شیر خال خال دکھائی دیتے یہں اور یہ تین شیر اس جگہ کے اتنے نزدیک تھے جہاں آدم خور نے آخری شکار کیا تھا۔ بچوں کو ماں کے گناہوں کی سزا بھگتنی پڑی تھی۔ بے شک دودھ چھوڑنے کے بعد سے انہوں نے ماں کے ساتھ مل کر انسانی گوشت کھایا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب وہ اپنی ماں سے الگ ہوتے تو آدم خوری کی عادت جاری رکھتے۔ اگرچہ ‘کماؤں کے آدم خور’ نامی میری کتاب چھپنے کے بعد سے اس موضوع پر بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن میں ابھی بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ آدم خور شیروں کے بچے ہندوستان کے اس علاقے میں جس کے بارے میں لکھ رہا ہوں، محض اس وجہ سے آدم خور نہیں بن جاتے کہ انہوں نے بچپن میں انسانی گوشت کھایا تھا۔

کھیت کے کنارے بیٹھ کر ٹانگیں جھلاتے ہوئے میں نے رائفل کو اپنے گھٹنوں پر رکھا اور اپنے ساتھیوں کو سگریٹ دیئے۔ میں نے انہیں مطلع کیا کہ سگریٹ ختم ہونے پر میں نیچے جا کر برساتی نالے میں گرے شیر کو دیکھوں گا۔ مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ شیر مر چکا ہے لیکن چند منٹ بیٹھ کر اپنی اس کامیابی پر خوشی منانے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ تلہ دیس آمد کے ایک گھنٹے کے اندر اندر اتفاق سے میں نے نہ صرف چند سیکنڈ کے وقفے سے اس آدم خور شیرنی کو ہلاک کر دیا تھا جس نے کئی سو مربع میل کے علاقے میں آٹھ سال سے دہشت پھیلا رکھی تھی بلکہ اس کے دو بچے بھی شکار کر لیئے تھے۔ ہر شکاری جب وہ شکار پر نکلتا ہے تو انتہائی جوش کی حالت میں چلائی ہوئی گولیاں نشانے پر لگیں تو اسے بہت خوشی ہوتی ہے اور یہ خوشی اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب اسے علم ہو جائے کہ اسے کسی زخمی شیر کا پیچھا نہیں کرنا اور زخمی شیر کے پیچھے جانے کے نتائج کی فکر نہیں کرنی۔

تاہم میرے ساتھیوں نے میری کامیابی کو قسمت سے نہیں جوڑا۔ انہوں نے کسی بھی ناکامی سے بچنے کے لئے نینی تال سے نکلتے وقت وہاں کے بوڑھے پنڈت سے سفر کے آغاز کے لئے مبارک گھڑی معلوم کی تھی اور تلہ دیس پہنچنے تک کسی بھی برے شگن سے سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح اگر میں ناکام رہتا تو بھی اس میں میری بد قسمتی نہیں تھی کیونکہ چاہے جتنی بھی احتیاط اور نشانے سے گولی چلائی جائے، جس جانور کی موت کا وقت نہیں آیا، وہ نہیں مر سکتا۔ شکار پر میرے ساتھ جو افراد ہوتے ہیں ان کے اعتقادات میرے لئے کافی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ میں اپنا سفر کبھی جمعے کے دن شروع نہیں کرتا۔ اس لئے میں پہاڑیوں کے ان اعتقادات پر نہیں ہنس سکتا جن کے مطابق منگل اور بدھ کو شمال کی جانب، جمعرات کو جنوب کی جانب، مشرق کو پیر اور ہفتے کے دن جبکہ اتوار یا جمعہ کو مغرب کی سمت سفر کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ اگرچہ کسی بھی خطرناک سفر کے آغاز کے دن کا انتخاب اپنے ہمراہیوں پر چھوڑنا معمولی سی بات ہے لیکن اس سے بہت بڑا فرق پیدا ہو سکتا ہے۔ اجازت نہ دینے کی صورت میں سارا سفر کسی انجان حادثے کی فکر میں ضائع ہو جاتا ہے جبکہ اجازت دینے کی صورت میں وہی سفر انتہائی خوشگوار ماحول میں طے ہوتا ہے۔

ہم چاروں افراد کھیت کے کنارے بیٹھے سگریٹ ختم کرنے ہی والے تھے کہ اچانک تیسرا شیر جو بلوط کے تنے سے ٹکا ہوا تھا، اچانک ہلنے لگا۔ بظاہر اس کے جسم کا خون اس کے سر کی جانب جمع ہونے لگا تھا جس کی وجہ سے اگلا حصہ زیادہ بھاری ہوا اور شیر نیچے کی جانب سر کے بل پھسلنے لگا۔ جب وہ تنے سے ہٹا تو نیچے ڈھلوان پر گرتے ہوئے کنارے کو بڑھا۔ کنارے سے پھسل کر ہوا میں ہوتا ہوا شیر نیچے گر رہا تھا کہ میں نے رائفل اٹھائی اور اس پر گولی چلا دی۔ مجھے یہ کہتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ اتنے خوش نصیب دن میں اگر میں ہوا میں گرتے ہوئے شیر پر بھی گولی چلاؤں تو میرا نشانہ خطا نہیں ہو گا۔ اگلے لمحے شیر نیچے گرا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا اور نیچے ہلکی سی تھڈ کی آواز آئی۔ شیر کو ہوا میں گرتے ہوئے میں نے جو گولی چلائی تھی وہ اسے لگی یا نہیں، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ اب گاؤں والوں کو شیر کی لاش زیادہ دور سے اٹھانی پڑتی۔

سگریٹ ختم ہو گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ وہیں رکیں اور میں نیچے جا کر برساتی نالے میں گرے شیر کا جائزہ لے کر آتا ہوں۔ اس جگہ پہاڑی انتہائی ڈھلوان تھی اور ابھی میں بمشکل پچاس فٹ گیا ہوں گا کہ ڈنگر سنگھ نے مجھے پکارا۔ ‘صاحب وہ دیکھیں۔ شیر جا رہا ہے۔‘ میں نے سوچا کہ میرے نیچے برساتی نالے والا شیر بھاگ رہا ہے اور میں نے بیٹھ کر رائفل اٹھائی اور اپنے خیال میں سامنے سے آنے والے شیر پر گولی چلانے کو تیار ہو گیا۔ یہ دیکھتے ہی ڈنگر سنگھ پھر چیخا کہ ‘اس طرف نہیں صاحب بلکہ دوسری طرف۔‘ فوری خطرے کی فکر سے آزاد ہو کر میں نے سر موڑا اور ڈنگر سنگھ کو دیکھا تو وہ اس جانب اشارہ کر رہا تھا جہاں اس کی ماں کو آدم خور نے کھایا تھا۔ پہلے تو مجھے کچھ نہ دکھائی دیا پھر اچانک میں نے ترچھے پہاڑ کے اوپر کی جانب جاتے ہوئے شیر کو دیکھا۔ شیر انتہائی لنگڑا کر چل رہا تھا اور ایک وقت میں بمشکل تین یا چار قدم اٹھاتا اور پھر رک جاتا۔ اس کے دائیں شانے پر بڑا سا خون کا دھبہ تھا۔ شانے کے دھبے سے مجھے علم ہوا کہ یہ وہ شیر ہے جو بلوط کے تنے سے اٹک گیا تھا اور پھر نیچے گرا تھا۔ برساتی نالے میں گرے شیر کے بائیں کندھے پر میں نے گولی چلائی تھی۔

پہاڑی پر میرے نزدیک صنوبر کا ایک چھوٹا سا درخت اگا ہوا تھا۔ تین سو گز کی پتی چڑھا کر میں نے درخت کو بائیں ہاتھ سے پکڑا اور رائفل کی نال کو اپنی کلائی پر رکھ کر آرام سے نشانہ لیا۔ شیر میری نسبت کچھ زیادہ بلندی پر تھا اور میں نے تھوڑا سا اوپر کی طرف نشانہ لے کر شیر کے رکنے کا انتظار کیا۔ جونہی شیر رکا، میں نے گولی چلا دی۔ گولی نے اس فاصلے کو طے کرنے میں بہت زیادہ وقت لیا۔ بالآخر میں نے شیر کے پاس مٹی اڑتی دیکھی اور اسی وقت شیر آگے جھکا اور آہستگی سے آگے بڑھا۔ میں نے ہلکا سا نشانہ غلط لیا تھا۔ تاہم اب مجھے بالکل درست اندازہ ہو گیا اور شیر کی ہلاکت کے لئے محض ایک گولی درکار تھی۔ وہ گولی جو میں اس کے ہوا میں گرتے وقت اس پر ضائع کر دی تھی۔ خالی رائفل ہاتھ میں لئے میں نے شیر کو آہستگی اور تکلیف سے پہاڑ پر چڑھتے دیکھا۔ چند لمحے کے تذبذب کے بعد شیر دوسری جانب غائب ہو گیا۔

ہمالیہ میں جن شکاریوں نے شکار نہیں کیا، وہ اسے میری حماقت سمجھیں گے کہ میرے پاس اعشاریہ ۲۷۵ کی ہلکی رائفل تھی اور محض پانچ گولیاں۔ اس کی وجہ کچھ یوں ہے:

۱) اس رائفل کو میں گذشتہ ۲۰ سال سے استعمال کر رہا تھا اور میں اس سے اچھی طرح واقف تھا۔

۲) یہ رائفل ہلکی لیکن نشانے میں بلا کی سچی اور ۳۰۰ گز پر آزمائی ہوئی تھی۔

۳) کرنل باربر نے مجھے بھاری رائفل کے استعمال سے منع کیا تھا اور یہ بھی کہ ہلکی رائفل سے بھی بلا ضرورت فائر نہ کروں۔

جہاں تک پانچ گولیوں کی بات ہے تو اس وقت میں شیروں کے شکار پر نہیں بلکہ اس نیت سے نکلا تھا اس گاؤں کو تلاش کر سکوں جہاں آدم خور نے آخری شکار کیا تھا اور اگر وقت ملتا تو اس مقام پر بھینسا باندھتا۔ ہلکی رائفل اور پانچ گولیاں پھر بھی کافی ہوتیں اگر میں نے وہ ایک اہم ترین گولی غلط نہ چلائی ہوتی۔

اتنی دیر میں میرے ساتھی گاؤں پہنچ چکے تھے اور سارا منظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ انہیں علم تھا کہ میرے پاس محض پانچ گولیاں تھیں اور پانچویں گولی چلنے کے بعد بھی جب انہوں نے شیر کو آگے بڑھتے اور پہاڑ کی دوسری جانب غائب ہوتے دیکھا تو مادھو سنگھ انتہائی عجلت سے بھاگتے ہوئے میرے پاس مزید گولیاں لے کر آیا۔

گھاس کے قطعے اور برساتی نالے والے شیر عین اسی جگہ مرے پڑے تھے جہاں وہ گرے تھے۔ دونوں ہی تقریباً پوری طرح جوان بچے تھے۔ اس لئے جو شیر زخمی ہو کر فرار ہوا تھا وہ ان کی ماں تھی اور وہ ہی تلہ دیس کی آدم خور تھی۔ مادھو سنگھ اور ڈنگر سنگھ کو وہیں چھوڑا تاکہ وہ ان شیروں کو گاؤں لے جانے کا بندوبست کریں اور میں زخمی شیرنی کو تلاش کرنے کی نیت سے نکل کھڑا ہوا۔ جس جگہ وہ پہلے گری تھی وہاں سے میں نے خون کی ہلکی دھار دیکھی جو اس جگہ تک گئی تھی جہاں میں نے اس پر آخری گولی چلائی تھی۔ اس جگہ میری گولی سے اس کی پشت کے کچھ بال کٹ گئے تھے اور جب اس نے اپنے اوپر میری گولی کی آواز سنی اور آگے جھکی تو مزید کچھ خون بھی گرا۔ اس جگہ سے پہاڑی تک اکا دکا خون کے قطرے تھے اور کنارے کے بعد کی گھاس پر میں نے خون کے نشانات نہیں دیکھے۔ میرے پاس ہی سو گز چوڑا اور تین سو گز لمبا جھاڑیوں کا قطعہ تھا۔ میرا خیال تھا کہ شیرنی نے اسی قطعے میں ہی پناہ لی ہے۔ لیکن رات ہو رہی تھی اور درست نشانے کے لئے روشنی ناکافی تھی اس لئے میں نے گاؤں واپس لوٹ کر اگلے دن شیرنی کی تلاش کا سوچا۔

(۵)

اگلی صبح میں نے دونوں شیروں کی کھال اتارنے اور پھر انہیں چھ انچ لمبے کیلوں کی مدد سے پھیلانے پر صرف کی۔ یہ کیل میں نینی تال سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ جتنی دیر میں اس کام سے فارغ ہوتا، میرے خیمے کے نزدیک والے درختوں پر سینکڑوں گدھ جمع ہو گئے۔ انہی گدھوں کی وجہ سے ہمیں آدم خور کے آخری شکار کے کپڑوں کا سراغ ملا۔ ان دونوں شیروں نے خون آلود کپڑے پھاڑ کر کھا لیئے تھے۔

گاؤں کے افراد میرے گرد جمع تھے اور کھال اتارتے ہوئے میں نے انہیں بتایا کہ میری خواہش ہے کہ وہ میرے گڑھوالی ساتھیوں کے ہمراہ زخمی شیرنی کو گھاس کے اس قطعے سے نکالنے کے لئے ہانکا کریں۔ انہوں نے بخوشی حامی بھر لی۔ دوپہر کے وقت ہم لوگ نکلے اور گاؤں کے درمیان سے ہوتے ہوئے پہاڑ کے عین اوپر اس جگہ کے پاس پہنچ گئے جہاں شیرنی نے پناہ لی تھی۔ بکریوں والی پگڈنڈی سے میں نیچے اترا اور اسی جگہ گیا جہاں میں نے گذشتہ شام کو شیرنی کا پیچھا کیا تھا۔ اسی نچلے کنارے پر ایک بہت بڑا پتھر تھا جس پر کھڑا ہو کر میں پہاڑی کی چوٹی پر موجود ان افراد کو دکھائی دے سکتا تھا۔ میں نے ہاتھ ہلا کر انہیں ہانکا شروع کرنے کا کہا۔ شیرنی کے ہاتھوں زخمی ہونے کے خطرے کے پیش نظر میں نے ان افراد سے کہا تھا کہ وہ پہاڑ کے اوپر ہی موجود رہ کرتا لیں بجاتے اور شور کرتے رہیں اور مطلوبہ جگہ پر پتھر لڑھکاتے رہیں۔ تاہم محض ایک کاکڑ اور چند مرغ زریں یعنی فیزنٹ نکلے۔ جب پتھروں نے پورے قطعے کو چھان لیا تو میں نے ہاتھ ہلا کر ہانکا روکنے اور گاؤں واپس جانے کا اشارہ کیا۔

جب سارے افراد گاؤں چلے گئے تو میں نے شیرنی کی عدم موجودگی کے امکانات کے باوجود اس قطعے کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا۔ جب میں نے شیرنی کو پہاڑ پر شام کو چلتے دیکھا تو صاف لگ رہا تھا کہ شیرنی کو بہت تکلیف دہ زخم لگا ہے لیکن جس جگہ شیرنی آگے کو جھکی، وہاں موجود خون کے نشان سے صاف پتہ چلا کہ زخم گہرا نہیں بلکہ سطحی ہے۔ پھر شیرنی میری گولی لگتے ہی ایسے کیوں گری جیسے پتھر گرا ہو۔ اس کے علاوہ بلوط کے درخت کے تنے پر شیرنی دس سے پندرہ منٹ تک رکی رہی اور کیوں اس نے حرکت نہیں کی؟ اس وقت میرے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں تھے اور نہ ہی اب میرے پاس اس کا کوئی واضح جواب ہے۔ بعد میں میں نے دیکھا کہ میری نرم سرے اور نکل کے خول والی گولی شیرنی کے کندھے کے جوڑ میں پھنس گئی تھی۔ جب تیز رفتار یعنی ہائی ولاسٹی والی گولی اچانک کسی ہڈی سے ٹکراتی ہے تو اس سے پہنچنے والا صدمہ بہت شدید ہوتا ہے۔ پھر بھی شیر جیسا بھاری جانور جو اتنا طاقتور ہوتا ہے، اعشاریہ ۲۷۵ جیسی ہلکی گولی کھاتے ہی دس یا پندرہ منٹ کے لئے بے ہوش ہو جائے، میری سمجھ سے باہر ہے۔ سرے پر لوٹ کر میں کھڑا ہوا اور علاقے کا جائزہ لیا۔ یہ سرا کئی میل لمبا تھا اور دو وادیاں اس سے گذرتی تھیں۔ بائیں جانب والی وادی کے اوپری سرے پر یہ گھاس کا قطعہ تھا اور اس کے بعد گھاس چھدری ہوتی جاتی تھی۔ دائیں جانب والی وادی کا اوپری سرا جہاں شیروں نے اس عورت کو کھایا تھا، گھنے جنگل سے دائیں طرف بھرا ہوا تھا اور بائیں جانب گہری ڈھلوان تھی۔

اس پتھر پر بیٹھ کر میں نے خاموشی سے سگریٹ پیا اور گذشتہ شام کے واقعات پر غور کیا اور درج ذیل نتائج اخذ کئے:

۱) شیرنی گولی کھانے سے لے کر نیچے گرنے تک کے عرصے میں بالکل بے ہوش تھی۔

۲) جب وہ جھاڑ جھنکار وغیرہ پر گری تو اس کے ہوش بحال ہو گئے لیکن پھر بھی وہ تقریباً نیم بے ہوش تھی۔

۳) اسی نیم بے ہوشی کی حالت میں اس نے محض ناک کی سیدھ میں سفر جاری رکھا اور پہاڑ پر چڑھی اور یہ جانے بغیر کہ کہاں جا رہی ہے، بڑھتی رہی۔

اب میرے سامنے یہ سوال تھا کہ شیرنی کس سمت اور کتنی دور گئی ہو گی۔ زخمی ٹانگ کے ساتھ پہاڑ پر چڑھنے کی نسبت اترنا زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جونہی شیرنی کی حواس جمع ہوئے تو اس نے نیچے کے سفر کو چھوڑ کر وہیں کہیں لیٹ کر اپنے زخم کی دیکھ بھال کی ہو گی۔ اس پناہ گاہ تک پہنچنے کے لئے اس نے پہاڑ کے سرے کو عبور کیا اور اس کا بات کا یقین کرنے کے لئے اس کے پگ دیکھنے کی ضرورت تھی۔ کئی میل لمبے پہاڑ کے سنگلاخ سرے پر شیر جیسے نرم پیروں والے جانور کے پگ تلاش کرنا کارے وارد ہوتا اگر یہ سرا خنجر کی دھار کی طرح تیز نہ ہوتا۔ عین سرے کے نیچے جنگلی جانوروں کی پگڈنڈی سی تھی اور اس پر بہت سارے جانوروں کے پگ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ اس پگڈنڈی کے بائیں جانب گھاس والی ڈھلوان تھی اور دائیں جانب بھربھری مٹی والی ڈھلوان تھی جس کے سرے پر کافی گہری کھائی تھی۔

سگریٹ ختم کر کے میں اٹھا اور اسی پگڈنڈی کو دیکھتا ہوا چل پڑا۔ اس پر گڑھل، سراؤ، سانبھر، لنگور، سیہہ اور ایک نر تیندوے کے پگ موجود تھے۔ جتنا میں آگے بڑھتا گیا اتنا ہی مجھے شک ہوتا گیا کہ اگر شیرنی کے پگ دکھائی نہ دیئے تو پھر اس کی تلاش پر کافی وقت ضائع ہوتا۔ ایک میل تک میں چلتا گیا اور اس دوران میری آمد سے گھبرا کر دو گڑھل بھاگے۔ آخر کار میں نے شیرنی کے پگ تلاش کر لئے اور خون کا ایک خشک دھبہ بھی موجود تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ پہاڑ کے دوسری جانب جانے کے بعد شیرنی اسی گھاس والی ڈھلوان پر چلتی رہی حتیٰ کہ اس کے حواس بحال ہوئے اور اس نے نیچے جانے کی بجائے پہاڑ کے متوازی چلنا شروع کر دیا۔ اس طرح وہ اس پگڈنڈی تک پہنچی۔ نصف میل تک پیچھا کرتے ہوئے میں اس جگہ پہنچا جہاں یہ ڈھلوان پندرہ گز چوڑی رہ گئی تھی۔ یہاں سے نیچے اترنے میں شاید شیرنی کی یہ خواہش ہو گی کہ وہ نیچے جا کر کھائی کی دوسری جانب والے گھنے جنگل میں چھپ جائے۔ اترتے ہوئے اس کی ٹانگ دغا دے گئی یا پھر اس کے حواس مختل ہو گئے، لیکن شیرنی پھسل گئی اور چند گز نیچے گرنے کے بعد اس نے ٹانگیں پھیلا کر خود کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ اگر وہ زیادہ نیچے جاتی تو گہری کھائی میں گر جاتی۔ اگرچہ میں پہاڑی بکریوں کی طرح پہاڑ پر چڑھ سکتا ہوں لیکن یہ ڈھلوان میرے بس سے باہر تھی۔ اسی راستے پر چند سو گز آگے جا کر میں پہاڑ کے ایک شگاف میں پہنچا اور اس کے ذریعے کھائی میں اترا۔

جب میں اس تیس گز چوڑی کھائی میں داخل ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ اوپر موجود چوٹی ساٹھ سے اسی فٹ اونچی ہے اور اگر کوئی جانور وہاں سے نیچے گرتا تو لازما پتھروں سے ٹکرا کر مر جاتا۔ جب میں اس جگہ پہنچا جہاں شیرنی گری تھی تو وہاں کسی بڑے جانور کا سفید پیٹ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ لیکن میری خوشی جلد ہی غائب ہو گئی کیونکہ یہ لاش شیرنی کی بجائے سراؤ کی تھی۔ بظاہر سراؤ اوپر کسی جگہ سو رہا تھا اور شیرنی کی آواز سن کر یا اس کی بو پا کر اچانک بیدار ہوا اور پریشانی میں نیچے چھلانگ لگا کر اپنی گردن تڑوا بیٹھا۔ سراؤ کے قریب ہی ریت کا ایک مختصر ٹکڑا تھا جہاں شیرنی گری تھی۔ گرنے کے ساتھ ہی اس کے شانے کا زخم کھل گیا تھا اور شیرنی اگرچہ سراؤ کی لاش سے ایک گز کے فاصلے سے گذری لیکن اس پر توجہ دیئے بغیر چلتی رہی اور اس کے پیچھے خون کی لکیر جاری تھی۔ یہاں کھائی کا دائیاں کنارہ چند فٹ اونچا تھا اور شیرنی نے اس پر کئی بار چڑھنے کی ناکام کوشش کی۔ ظاہر ہے کہ اب پہلی جھاڑی میں ہی شیرنی موجود ہوتی۔ لیکن میری قسمت نے میرا ساتھ نہیں دیا کیونکہ کچھ وقت سے آسمان پر گہرے بادل جمع ہو رہے تھے۔ جتنی دیر میں میں کھائی سے شیرنی کے خون کا پیچھا کرتے ہوئے نکلتا، بارش آ گئی اور سارا خون صاف کر گئی۔ چونکہ شام گہری ہو رہی تھی اور میرا واپسی کا سفر کافی مشکل تھا، اس لئے میں واپس مڑا اور کیمپ کو چل دیا۔

ہر طرح کے شکار میں قسمت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ابھی تک شیرنی کی قسمت اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ پہلے تو یہ کہ شیرنی اپنے بچوں کے ساتھ سونے کی بجائے الگ ہو کر گھنی گھاس میں سو رہی تھی۔ اگر وہ کھلے میں ہوتی تو میں اسے دیکھتے ہی فوراً پہچان لیتا۔ پھر میری گولی اس کے جسم کی اس واحد ہڈی میں لگی کہ گولی سے اسے کوئی گہرا زخم نہیں پہنچا۔ پھر دو بار شیرنی پہاڑ سے گری۔ پہلی بار جھاڑ جھنکار اور دوسری بار اگر ریت کا چھوٹا سا ٹکڑا اس کے آڑے نہ آتا تو شیرنی لازما ہلاک ہو جاتی۔ آخر میں جب میں اس جگہ سے محض سو گز دور تھا جہاں شیرنی لیٹی تھی، بارش نے اس کے خون کے نشانات مٹا دیئے۔ تاہم میری قسمت بھی کسی حد تک مہربان تھی کیونکہ مجھے جو خطرہ تھا کہ اگر شیرنی گھاس والی ڈھلوان سے نکل کر گم ہو جائے گی، غلط نکلا۔ اس کے علاوہ اب مجھے اچھی طرح علم تھا کہ اسے کس جگہ تلاش کرنا ہے۔

(۶)

اگلی صبح میں کھائی کو لوٹا تو میرے ساتھ میرے چھ گڑھوالی بھی تھے۔ پورے کماؤں میں سراؤ کا گوشت بہت لذیذ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سراؤ جس کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی، نوعمر اور خوب پلا ہوا تھا اور میرے ساتھیوں کو گوشت کی ضرورت بھی تھی۔ جتنی دیر میرے ساتھی سراؤ کی کھال اتارتے، میں نے سوچا کہ آگے بڑھ کر اس جگہ کا جائزہ لوں جہاں سے کل شام میں واپس لوٹا تھا۔ اس جگہ پہاڑ کے دائیں جانب جاتی ہوئی دو کھائیاں دکھائی دیں۔ چونکہ عین ممکن تھا کہ ان میں سے کسی کھائی سے ہو کر شیرنی گئی ہو، اس لئے میں نے باری باری دونوں کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے میں نے نزدیک والی میں جا کر دیکھا۔ چند سو گز آگے جا کر اس کھائی کا اختتام ۳۰ فٹ گہرے کھڈ میں ہوا تھا جبکہ کھائی کے کنارے اتنے ڈھلوان تھے کہ شیرنی اس پر نہ چڑھ سکتی۔ واپس لوٹ کر میں نے پچاس گز دور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میرے لئے آگ جلا کر چائے کی کتیلی تیار کریں۔ پھر میں دوسری کھائی میں جونہی داخل ہوا تو یہاں جنگلی جانوروں کی عام گذرگاہ دکھائی دی۔ اس جگہ میں نے شیرنی کے پگ دیکھے جو گذشتہ شام کی بارش سے کچھ مٹ گئے تھے۔ جہاں میں کھڑا تھا اس کے پاس ہی بڑا سا پتھر تھا۔ اس پتھر کی دوسری جانب نشیب سا تھا اور وہاں پتے جمع تھے جن پر شیرنی لیٹی تھی اور خون کا بڑا سا دھبہ بھی موجود تھا۔ چالیس گھنٹے قبل جب شیرنی پہاڑ سے نیچے گری اور یہاں آ کر لیٹ گئی۔ جب میں نے اپنے ساتھیوں کو چائے بنانے کا کہا تو میری آواز سن کر وہ اس جگہ کو چھوڑ کر آگے گئی تھی۔

چونکہ ہر شیر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اس لئے یہ کہنا کہ فلاں شیر زخمی ہونے پر کس طرح پیدل شکاری کا سامنا کرے گا یا یہ کہ کتنے عرصے کے لئے زخمی شیر کو خطرناک تصور کرنا چاہیئے، ممکن نہیں یعنی اگر اسے تنگ کیا جائے تو وہ حملہ کر دے گا۔ ایک بار میں نے ایک شیر کو دیکھا جسے بھاگتے ہوئے پچھلے پیر کے تلے میں ایک انچ لمبا زخم لگا تو اس نے زخمی ہونے کے پانچ منٹ بعد سو گز کے فاصلے سے حملہ کر دیا تھا۔ اسی طرح ایک زخمی شیر جس کا جبڑہ بری طرح زخمی تھا، نے کئی گھنٹے بعد شکاری کو چند فٹ قریب تک آنے دیا اور حملہ نہیں کیا۔ تاہم جب زخمی شیر کی صورت میں آدم خور سے سامنا ہو تو بات کچھ پیچیدہ ہو جاتی ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ قریب پہنچنے پر یہ زخمی شیر حملہ کر سکتا ہے بلکہ یہ بھی کہ اگر اسے کاری زخم نہ لگا ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ پیٹ کی آگ بھی ایک ساتھ بجھانا چاہے گا۔ عام طور پر جب شیر زخمی یا آدم خور نہ ہو تو بہت اچھا جانور ہوتا ہے۔ اگر شیر شریف جانور نہ ہوتا تو ہر روز ہزاروں افراد جنگلوں میں مختلف کاموں کے لئے جاتے ہیں یا جنگل سے گذرتے ہیں کبھی زندہ واپس نہ لوٹ سکیں۔ تاہم اگر کوئی بندہ اس کے بچوں کے بہت قریب پہنچ جائے یا اس کے شکار کردہ جانور کی لاش پر پہنچ جائے اور شیر نزدیک موجود ہو تو شیر تنبیہ کرتا ہے۔ اگر تنبیہ یعنی غراہٹ بھی نظر انداز کر دی جائے تو پھر شیر چھوٹی چھوٹی دوڑ لگا کر خوب زور سے دھاڑتا ہے۔ اگر اس کا کوئی اثر نہ ہو تو پھر شیر کے حملے کی ذمہ داری انسان پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ایک مثال پیش ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں اور میری چھوٹی بہن میگی دریائے بور پر مچھلی کا شکار کر رہے تھے۔ یہ جگہ کالا ڈھنگی میں ہمارے گھر سے تین میل دور تھی۔ میں نے دو چھوٹی مہاشیر پکڑی تھیں اور بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا کہ جیف ہوپکنز اپنے ہاتھی پر سوار آ گئے۔ بعد میں جیف اتر پردیش کے جنگلات کے کنزرویٹر بن گئے تھے۔ چونکہ وہ میرے گہرے دوستوں میں سے ایک تھے اور ان کے پاس گوشت ختم ہو رہا تھا اس لئے وہ اعشاریہ ۲۴۰ بور کی رائفل لے کر مور یا کاکڑ کے شکار کی نیت سے نکلے۔ چونکہ میں اپنی ضرورت کی مچھلی پکڑ چکا تھا اس لئے میں نے جیف کی تجویز مان لی کہ ہم مل کر شکار کو جاتے ہیں۔ ہاتھی پر سوار ہو کر ہم نے دریا عبور کیا اور میں نے مہاوت کو جنگل کے اس حصے کی طرف مڑنے کو کہا جہاں کاکڑ اور مور بکثرت تھے۔ ابھی ہم چھوٹی گھاس اور آلو بخارے کے جنگل سے گذر رہے تھے کہ میری نظر ایک مردہ چیتل پر پڑی جو درخت کے نیچے پڑا تھا۔ ہاتھی کو وہیں روک کر میں نیچے اترا اور یہ دیکھنے کے لئے آگے بڑھا کہ چیتل کو کس جانور نے ہلاک کیا ہے۔ یہ مادہ چیتل کافی بوڑھی تھی اور اسے مرے کم از کم چوبیس گھنٹے گذر چکے تھے اور چونکہ اس کے جسم پر زخم کا کوئی نشان نہ تھا اس لئے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ اسے سانپ نے کاٹا ہو گا۔ جونہی میں ہاتھی کی طرف جانے کے لئے مڑا تو مجھے تازہ خون کا ایک قطرہ پتے پر دکھائی دیا۔ اس قطرے سے پتہ چلا کہ یہ جانور اس مردہ چیتل کی مخالف سمت جا رہا تھا۔ اس طرف رخ کیا تو کچھ دور ایک اور دھبہ دکھائی دیا۔ ان تازہ دھبوں نے مجھے الجھن میں ڈال دیا اس لئے میں نے ہاتھی کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور اس سمت چل پڑا۔ ساٹھ یا ستر گز تک مختصر جسامت کی گھاس کے گذر کر خون کے نشانات پانچ فٹ اونچی جھاڑیوں کو جانے لگے۔ جب ان جھاڑیوں کے قریب پہنچا تو یہ نشانات غائب ہو گئے۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے جھاڑیاں ہٹائیں اور میرے ہاتھوں کے عین نیچے ایک نر چیتل جس کے سینگ ابھی مخمل سے پوشیدہ تھے، مرا پڑا تھا اور میرے سامنے میری جانب رخ کئے شیر اسے کھا رہا تھا۔ جونہی میں نے جھاڑیاں ہٹائیں تو شیر نے سر اٹھا کر میری جانب دیکھا اور زبان حال سے کہا ‘لعنت ہو’۔ بالکل یہی الفاظ میرے ذہن میں بھی تھے۔ خوش قسمتی سے میں اتنا حیران ہوا کہ حرکت نہ کر سکا۔ شاید میرا دل بھی اس وقت تھم گیا ہو گا۔ ایک لمحہ مجھے دیکھنے کے بعد شیر اٹھا اور مڑ کر وقار کے ساتھ جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ اس وقت شیر میرے اتنا قریب تھا کہ اگر وہ اپنا پنجہ بڑھاتا تو میرے سر پر چپت لگا سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہماری آمد سے ذرا قبل شیر نے چیتل کو مارا اور اسے اٹھا کر ان جھاڑیوں میں لے آیا۔ اس دوران میں نے خون کے نشانات دیکھے تو پیچھا کیا اور وہیں آن پہنچا۔ جب تک شیر میرے سامنے سے غائب نہ ہو گیا میرے ساتھیوں نے اسے نہیں دیکھا۔ تاہم اسے دیکھتے ہی مہاوت نے چلا کر کہا ‘خبر دار صاحب۔ شیر ہے۔‘ وہ مجھے شیر کی موجودگی کا بتا رہا تھا۔

واپس اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ کر میں نے دیکھا کہ انہوں نے کھال اتار کر سراؤ کو مناسب ٹکڑوں میں کاٹ دیا تھا اور اٹھائے روانگی کو تیار تھے۔ انہیں ساتھ لے کر میں واپس لوٹا۔ یہ چھ کے چھ بندے میرے ساتھ شکار کی مختلف مہمات پر جاتے رہے تھے۔ خون کے نشانات دیکھ کر انہوں نے کہا کہ شیرنی کو کاری زخم لگا ہے اور چند گھنٹوں کی مہمان ہے۔ تاہم میں بخوبی جانتا تھا کہ شیرنی کا زخم سطحی ہے اور کچھ وقت بعد مندمل ہو جائے گا۔ جتنا وقت وہ زندہ رہے گی، اتنا ہی اس سے مڈبھیڑ کے امکانات کم ہوتے جائیں گے۔

اگر آپ تصور کریں کہ تنگ اور گہری کھائی میں آپ موجود ہوں جو پہاڑ کے اوپر کی سمت جا رہی ہو اور دائیں کنارہ کھائی کی جانب ڈھلوان کی شکل میں ہو اور اس پر درخت اگے ہوں لیکن جھاڑ جھنکار سے پاک ہو اور بائیں جانب کھائی کا کنارہ بلند ہو رہا ہو اور اس پر پہاڑی بانس اور دیگر اقسام کے درخت اور جھاڑیاں موجود ہوں تو آپ کو اس علاقے کا کچھ اندازہ ہو گا جہاں اس دن ہم نے شیرنی کو تلاش کیا۔

میرا ارادہ تھا کہ اپنے ساتھیوں کو دائیں جانب کنارے پر چڑھاتا جہاں وہ اونچے درختوں پر بیٹھ کر مجھے دیکھتے رہے اور اگر انہیں میری توجہ مبذول کرانے کی ضرورت پڑتی تو سیٹی بجاتے۔ پہاڑوں کے باشندے آسانی سے سیٹی بجا سکتے ہیں۔ اس جانب انہیں کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ یہاں جھاڑیاں نہیں تھیں اور شیرنی کھائی کی دوسری جانب والے کنارے سے پہاڑ کو گئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ سب افراد درخت پر چڑھنے کے ماہر تھے۔ پھر میں نے اسی پہاڑ پر شیرنی کا پیچھا شروع کیا۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ جنگل کی زبان کوئی علم نہیں جسے آپ کتب پڑھ کر سیکھ سکیں۔ تاہم یہ فن ہے جسے قطرہ قطرہ کر کے جذب کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ یہی مثال ٹریکنگ یعنی پیروں کے نشانات کی مدد سے پیچھا کرنے پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اس میں بے انتہا تبدیلیاں ہو سکتی ہیں اور میرے نزدیک یہ شکار کی بہترین اقسام میں سے ایک ہے اور بعض اوقات یہ انتہائی دلچسپ بھی ہو سکتی ہے۔ عام طور پر اس طرح کھوج لگانے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ پہلے طریقے میں ایسے نشانات کا پیچھا کرنا جہاں خون کے نشانات بھی موجود ہوں اور دوسری قسم جس میں خون شامل نہیں ہوتا۔ تاہم ان دو طریقوں کے علاوہ بھی میں نے کئی بار مردہ جانوروں کو مکھیوں یا گوشت خور پرندوں کا تعاقب کر کے تلاش کیا ہے۔ ان دو طریقوں میں سے خون کے نشانات سے زخمی جانور کو زیادہ آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن عموماً ہر زخم سے مسلسل خون نہیں بہتا اس لیے زخمی جانوروں کا پیچھا کرنے کے لئے ان کے پگوں یا ان کی گذرگاہ پر کچلی یا ہٹی ہوئی گھاس وغیرہ کو دیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ پیچھا کرنے کا عمل زمین کی مناسبت سے آسان یا مشکل ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ اس بات پر بھی کہ آیا جانور کھر دار ہے یا نرم پنچوں والا۔ چونکہ میری آواز سن کر شیرنی جب آگے بڑھی تو اس کے زخم سے خون بہنا بند ہو گیا تھا لیکن اس کے زخم میں پیپ پڑنے لگی تھی جس سے کوئی خاص مدد نہیں ملی۔ اس لئے میں نے گھاس پھونس وغیرہ کو دیکھ کر شیرنی کا پیچھا کرنے کا ارادہ کیا۔ اس طرح کی زمین پر اس طریقے سے پیچھا کرنا مشکل نہیں تھا لیکن اس پر کافی وقت لگتا۔ جتنا زیادہ وقت لگتا، تعاقب اتنا ہی لمبا ہوتا اور شیرنی کے بچ نکلنے کے امکانات بڑھتے جاتے۔ گذشتہ کئی دنوں کی محنت میرے اعصاب پر سوار ہونے لگی تھی۔

پہلے سو گز تک میں نے گھٹنوں تک اونچی گھاس میں تعاقب کیا جو کافی آسان تھا اور شیرنی نے تقریباً سیدھا حرکت جاری رکھی تھی۔ اس کے بعد بانس کے گھنے جھنڈ اور فرن وغیرہ شروع ہو گئے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ شیرنی انہی جھنڈوں میں لیٹی ہو گی۔ تاہم جب تک شیرنی حملہ نہ کرتی، میں اس پر گولی نہ چلا سکتا کیونکہ جھنڈ بہت گھنا تھا اور چلتے ہوئے کافی شور ہوتا تھا۔ جب میں جھنڈ کے وسط میں پہنچا تو کاکڑ بولنے لگا۔ شیرنی پھر چل پڑی تھی اور اس بار سیدھا پہاڑ پر چڑھنے کی بجائے وہ بائیں مڑ کر کھلے میدان سے گذری تو کاکڑ نے اسے دیکھ لیا۔ کاکڑ ابھی تک اپنی جگہ رکے بھونک رہا تھا۔ بائیں مڑ کر میں آگے بڑھا تو کھلی جگہ کوئی نہیں دکھائی دی اور نہ ہی کاکڑ کی آواز قریب محسوس ہوئی۔ تاہم چند لمحے بعد کاکڑ نے بھونکنا بند کیا اور پھر کئی مرغ زریں بولنے لگے۔ شیرنی ابھی تک چل رہی تھی لیکن میں جتنا بھی سر موڑتا مجھے آواز سنائی نہ دیتی۔

پن پوائنٹنگ یعنی ہر سنی ہوئی آواز کی سمت اور اس کے فاصلے کا بالکل درست اندازہ لگانا در اصل میری ایک ایسی کامیابی تھی جس پر مجھے بہت فخر ہے۔ تاہم اب مجھ پر یہ بھیانک انکشاف ہوا کہ اوپر بیان کئے گئے حادثے کی وجہ سے اب اپنی حفاظت کے لئے اپنی سماعت پر اعتبار نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اب میں جنگل کے جانوروں اور پرندوں کی آواز سے نہیں لطف اندوز ہو سکتا حالانکہ اس فن کو سیکھنے میں مجھے برسوں لگے تھے۔

اگر میرا دوسرا کان درست ہوتا تو بھی مجھے کوئی فکر نہ ہوتی لیکن کئی سال قبل دوسرا کان بھی اسی طرح ایک ‘حادثے‘ کا شکار ہوا تھا۔ چونکہ اب اس بارے کچھ اور کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے مجھے اپنی اس معذوری کو قبول کرتے ہوئے ہر ممکن دیگر طریقے سے شیرنی کا پیچھا جاری رکھنا تھا۔ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے اور ہماری جسمانی حالتیں ایک دوسرے سے زیادہ بہتر نہیں تھیں۔

واپس فرن تک پہنچ کر میں نے شیرنی کو اپنی آنکھوں کی مدد سے تلاش کرنا شروع کیا۔ جنگل میں ہر قسم کے جانور اور پرندے موجود تھے۔ میں نے بار بار سانبھر، کاکڑ اور لنگوروں کی تنبیہی آوازیں سنیں اور ایک سے زیادہ مرتبہ پرندوں کی آوازیں بھی سنیں۔ ان آوازوں پر میں نے کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ عام حالات میں میں ان آوازوں کو پوری توجہ سے سنتا۔ قدم بقدم میں نے شیرنی کا پیچھا جاری رکھا جو بار بار رکتی ہوئی پہاڑ کے اوپر کی جانب جا رہی تھی۔ کئی بار وہ خط مستقیم میں اور کئی بار اس نے ایک آڑ سے دوسری آڑ تک آڑا ترچھا سفر بھی کیا۔ چوٹی کے قریب ہی چھدری گھاس کا ایک قطعہ تھا جو سو گز لمبا ہو گا۔ اس کے بعد جھاڑیوں کے دو گھنے جھنڈ تھے جن کے درمیان سے ایک راستہ گذرتا تھا۔ شیرنی جانتی تھی کہ اس کا تعاقب ہو رہا ہے اس لئے وہ ہر ممکن طریقے سے خود کو چھپاتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔ دائیں جانب والا قطعہ بائیں قطعے کی نسبت تیس گز قریب تھا اس لئے میں نے پہلے اسے دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی میں اس سے ایک یا دو گز دور ہوں گا کہ میں نے بھاری پنجے کے نیچے خشک ٹہنی چٹخنے کی آواز سنی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ یہ آواز میرے بائیں جانب سے آئی ہے۔ یہ اس روز میری دوسری غلطی تھی۔ پہلی غلطی وہ تھی جب میں نے اپنے ساتھیوں کو چائے بنانے کے لئے کہا تھا۔ بعد میں مجھے میرے ساتھیوں نے بتایا کہ اس کھلے قطعے سے گذرتے وقت میں شیرنی کے عین پیچھے تھا اور جب میں بائیں جانب مڑ کر چلنے لگا تو شیرنی چند گز آگے کھلے قطعے میں لیٹی میری منتظر تھی۔

جب بائیں جانب والی جھاڑیوں میں مجھے شیرنی کا کوئی سراغ نہ ملا تو میں واپس کھلی جگہ آیا اور مجھے اپنے ساتھیوں کی سیٹی سنائی دی تو میں نے ان کی جانب مڑ کر دیکھا۔ وہ مجھ سے کئی سو گز دور بہت اونچے درخت کی چوٹیوں پر بیٹھے تھے۔ جب میں نے ہاتھ اٹھا کر انہیں اشارہ کیا کہ میں نے انہیں دیکھ لیا ہے تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اوپر اوپر اوپر اور پھر نیچے نیچے نیچے کا اشارہ کیا۔ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ شیرنی پہاڑ کی چوٹی سے ہو کر دوسری جانب اتر گئی ہے۔ جتنا تیز ممکن ہوا چلتے ہوئے میں دونوں قطعوں کے درمیانی راستے سے گذرا اور چوٹی پر پہنچ کر دیکھا تو اس جانب کافی کھلی جگہ تھی۔ اس جگہ حال ہی میں گھاس جلائی گئی تھی اور راکھ گذشتہ روز کی بارش سے ابھی تک نم تھی۔ اس راکھ پر میں نے شیرنی کے پگ دیکھے۔ یہاں سے پہاڑ ہلکی ڈھلوان کی شکل میں نیچے جاتا ہوا اس ندی پر ختم ہوتا تھا جو میں نے تلہ کوٹ آمد پر راستے میں عبور کی تھی۔ یہاں لیٹ کر پیاس بجھانے کے بعد شیرنی اسے عبور کر کے دوسری طرف کے گھنے جنگل میں غائب ہو گئی تھی۔ چونکہ اب کافی دیر ہو رہی تھی اس لئے میں واپس مڑا اور اپنے ساتھیوں کو بلایا۔

جس بڑے پتھر پر چڑھ کر میں نے شیرنی کے پگ دیکھے تھے وہاں سے ندی تک کا فاصلہ چار میل ہو گا۔ لیکن یہ چار میل میں نے سات گھنٹوں میں طے کئے تھے۔ اگرچہ یہ تعاقب ناکامی پر منتج ہوا تھا لیکن بہت دلچسپ تھا۔ یہ دلچسپی نہ صرف میرے لئے تھی کیونکہ میں نے نہ صرف تعاقب کرنا تھا بلکہ شیرنی کے اچانک حملے سے بھی بچنا تھا بلکہ میرے ساتھی جو درختوں پر چڑھے تھے وہ مجھے اور شیرنی کو بخوبی دیکھ رہے تھے۔ اس کے علاوہ سارا دن ہم نے مصروف گذارا کیونکہ ہم صبح طلوع آفتاب کے وقت نکلے تھے اور رات کو آٹھ بجے کیمپ واپس پہنچے۔

(۷)

اگلی صبح جب میرے ساتھی کھانا کھا رہے تھے تو میں نے شیروں کی کھالوں کی دیکھ بھال میں کچھ وقت گذارا۔ میں نے انہیں دوسری جگہ منتقل کر کے ان کے گیلے حصوں پر راکھ وغیرہ ملی۔ شیروں کی کھال انتہائی نازک ہوتی ہے اور اس کی دیکھ بھال میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر چربی کو پوری طرح صاف نہ کیا جائے اور ہونٹوں، کانوں اور تلوؤں کو اچھی طرح نہ صاف کیا جائے تو بال جھڑنے لگتے ہیں اور کھال برباد ہو جاتی ہے۔ دوپہر سے ذرا قبل میں تیار تھا اور چار ساتھیوں کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ دو بندے میں نے کیمپ میں اس نیت سے چھوڑ دیئے کہ وہ سراؤ کی کھال کی دیکھ بھال کریں گے۔ ہمارا رخ اسی جانب تھا جہاں گذشتہ شام میں نے شیرنی کا پیچھا چھوڑا تھا۔

یہ وادی جس سے ندی گذرتی تھی، کافی چوڑی اور نسبتاً مسطح تھی۔ اس کا رخ مغرب سے مشرق کو تھا۔ بائیں جانب پر وادی کے دوسرے سرے پر ایک پہاڑی تھی جس پر میں نے گذشتہ روز شیرنی کا پیچھا کیا تھا اور دائیں جناب وہ پہاڑی تھی جس سے گذر کر سڑک تنک پور کو جاتی تھی۔ آدم خور کے ظہور سے قبل ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان وادی میں تلہ کوٹ سے بکثرت مویشی چرنے کے لئے آتے تھے جس کے نتیجے میں آڑی ترچھی پگڈنڈیاں سی بن گئی تھیں اور جگہ جگہ برساتی نالوں نے بھی وادی کو کاٹ ڈالا تھا۔ وادی میں جگہ جگہ مختلف جسامت کے درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈ تھے۔ اس جگہ سانبھر، کاکڑ اور ریچھ کا بہترین شکار ہو سکتا تھا لیکن آدم خور کے شکار کے لئے بدترین جگہ تھی۔ بائیں جانب والی پہاڑی سے وادی کا پورا منظر دیکھا جا سکتا تھا اور یہاں میں نے اپنے ساتھیوں کو دو دو سو گز کے فاصلوں سے چوٹی پر موجود درختوں پر بٹھا دیا تاکہ وہ نہ صرف میری نگرانی کر سکیں بلکہ اگر ضرورت پڑے تو میری مدد کو پہنچ بھی سکیں۔ پھر میں نیچے اتر کر اس جگہ پہنچا جہاں گذشتہ شام میں نے شیرنی کا تعاقب چھوڑا تھا۔

۷ اپریل کو میں نے شیرنی کو زخمی کیا تھا اور اب ۱۰ اپریل تھی۔ عام طور پر شیر ۲۴ گھنٹے کے بعد خطرناک نہیں رہتے کہ بندہ دیکھتے ہی اس پر حملہ کر دیں۔ تاہم زخم کی نوعیت اور شیر کی فطرت کے مطابق یہ دورانیہ فرق ہو سکتا ہے۔ اگر شیر کو کہیں گوشت میں زخم ہو تو ۲۴ گھنٹے بعد بندے کو دیکھ کر وہ اس جگہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ تاہم اگر جسم پر کسی جگہ کاری زخم لگا ہو تو شیر کئی دن تک خطرناک رہ سکتے ہیں۔ مجھے علم نہیں تھا کہ شیرنی کے زخم کی نوعیت کیا ہے اور چونکہ گذشتہ روز اس نے حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اس لئے میں نے یہ تصور کر لیا تھا کہ اب میرا مقابلہ عام آدم خور شیرنی سے ہے جو زخمی نہیں لیکن بہت زیادہ بھوکی ہے کیونکہ اس عورت کو مارنے اور بچوں کے ساتھ کھانے کے بعد سے شیرنی نے کوئی شکار نہیں کیا تھا۔

جس جگہ شیرنی نے ندی کو عبور کیا تھا، وہاں دراڑ سی تھی جو تین فٹ چوڑی اور دو فٹ گہری تھی۔ شاید بارش کے پانی کے بہاؤ سے بنی ہو گی۔ اس دراڑ کے دوسرے سرے پر کافی گھنی جھاڑیاں تھیں جس کی طرف شیرنی گئی تھی۔ اس کے پگوں کا پیچھا کرتے ہوئے میں ایک پگڈنڈی پر پہنچا۔ اس جگہ شیرنی دراڑ سے نکل کر پگڈنڈی پر دائیں جانب گئی تھی۔ ۳۰۰ گز کے بعد اس راستے پر ایک گھنا درخت آتا تھا جس کے نیچے شیرنی نے رات بسر کی تھی۔ اس کا زخم کافی تکلیف دہ تھا کیونکہ ابھی بھی چلتے ہوئے وہ لنگڑاتی تھی لیکن جس جگہ وہ پتوں پر لیٹی تھی وہاں نہ تو خون کے نشانات تھے اور نہ ہی پیپ کے۔ یہاں سے آگے شیرنی کے پگ کافی تازہ تھے۔ ہر ممکن احتیاط سے مبادا کہ شیرنی گھات نہ لگائے بیٹھی ہو، میں آگے بڑھا۔ سارا دن پگڈنڈیوں اور جنگلی جانوروں کی گذرگاہوں سے ہو کر گذرتا رہا لیکن شیرنی دکھائی نہ دی۔ سورج ڈوبنے پر میں نے اپنے ساتھی اکٹھے کئے اور کیمپ کو چل دیا۔ واپسی کے سفر پر انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے شیرنی کی آمد و رفت کا اندازہ پرندوں اور جانوروں کی آوازوں سے لگایا لیکن انہیں بھی شیرنی دکھائی نہیں دی۔

جب کسی عام آدم خور کا پیچھا کیا جا رہا ہو تو ہوا کا رخ بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ یعنی اگر ہوا کی مخالف سمت میں حرکت کی جا رہی ہو تو خطرہ عقب سے یا پھر کسی حد تک دائیں یا بائیں جانب سے ہوتا ہے۔ اگر ہوا پیچھے سے آگے کی طرف چل رہی ہو تو خطرہ دائیں یا بائیں جانب منتقل ہو جاتا ہے اور اگر ہوا دائیں جانب سے ہو تو خطرہ بائیں یا عقب کی جانب سے اور اگر ہوا بائیں جانب سے چل رہی ہو تو خطرہ دائیں اور عقب کی جانب ہو سکتا ہے۔ تاہم کسی بھی صورت میں عموماً شیر چاہے وہ آدم خور ہوں یا نہیں، سیدھا سامنے سے حملہ نہیں کرتے۔ عام حالات میں آدم خور کے حملے کا فاصلہ اتنا ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی جست میں اپنے شکار کو دبوچ لے۔ اسی وجہ سے عام شیر کے مقابلے زخمی شیر کا مقابلہ کرنا آسان ہوتا ہے جو شاید سو گز کے فاصلے سے بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ یعنی عام شیر کے حملے کی صورت میں چشم زدن کا وقفہ ہوتا ہے اور زخمی شیر کی صورت میں بندہ آرام سے رائفل کو اٹھا کر نشانہ لے کر گولی چلا سکتا ہے۔ دونوں ہی صورت میں تیزی سے گولی چلانا اور یہ دعا کرنا لازمی ہوتی ہے کہ ایک یا دو اونس کا سیسہ کئی سو پاؤنڈ وزنی پٹھوں اور ہڈیوں سے بنے جانور کو روکنے میں کامیاب ہو جائے۔

جس شیرنی کا میں شکار کر رہا تھا اس کے زخم کی نوعیت ایسی تھی کہ وہ زیادہ بڑی جست نہیں لگا سکتی تھی۔ اگر میں اس کی ممکنہ جست سے دور رہتا تو میں بالکل محفوظ ہوتا۔ تاہم اسے زخمی ہوئے چار دن گذر گئے تھے اس لئے اس کا زخم کافی حد تک ٹھیک ہو گیا ہو گا جسے ذہن میں رکھنا لازمی تھا۔ ۱۱ اپریل کو جب صبح میں اکیلا شیرنی کے تعاقب میں نکلا تو میں نے طے کر لیا تھا کہ ہر جھاڑی، چٹان، پتھر، درخت یا کسی بھی قسم کی ایسی رکاوٹ سے دور سے گذروں گا جس کے پیچھے شیرنی کی موجودگی کا امکان ہو گا۔

گذشتہ شام تک شیرنی تنک پور والی سڑک کی سمت گھومتی رہی تھی۔ ایک بار پھر میں نے وہ جگہ تلاش کر لی جہاں شیرنی نے پچھلی رات بسر کی تھی۔ اس جگہ سے میں نے اس کے تازہ پگوں کا پیچھا شروع کیا۔ گھنی جھاڑیوں سے بچ کر کہ شاید وہ ان سے خاموشی سے نہیں گذر سکتی تھی، شیرنی ندی نالوں کے قریب حرکت کرتی رہی۔ اس کی یہ نقل و حرکت فضول نہیں تھی بلکہ وہ خوراک کی تلاش میں نکلی ہوئی تھی۔ ایک ندی میں اس نے چند ہفتے کی عمر کا کاکڑ کا ایک بچہ کھایا تھا۔ شاید یہ بچہ اس جگہ سو رہا تھا کہ شیرنی پہنچ گئی۔ شیرنی نے اس کے ننھے منے سم چھوڑ کر باقی سارا جسم کھا لیا تھا۔ اب میں شیرنی سے ایک یا دو منٹ پیچھے تھا۔ مجھے یقین تھا کہ کاکڑ کے بچے سے اس کا پیٹ نہیں بھرا ہو گا الٹا اس کی بھوک اور زیادہ چمک اٹھی ہو گی۔ کئی جگہوں پر شیرنی کے پگ بل کھاتے ہوئے نالوں سے ایسی جگہوں سے گذرے جہاں گھنے درخت اور جھاڑیوں موجود ہوتے تھے۔ اگر میری قوت سماعت ٹھیک ہوتی تو میں کب کا شیرنی کے قریب پہنچ چکا ہوتا۔ لیکن میری قوت سماعت بہت متائثر ہوئی تھی۔ میرے سر، چہرے اور گردن پر سوجن اتنی بڑھ چکی تھی کہ میں سر کو اوپر نیچے یا دائیں بائیں نہیں گھما سکتا تھا اور میری بائیں آنکھ بند ہو چکی تھی۔ تاہم میری دائیں آنکھ ابھی تک کام کر رہی تھی جسے میں گولی چلانے کے لئے استعمال کرتا اور مجھے کسی حد تک سنائی بھی دیتا تھا۔

سارا دن میں شیرنی کا پیچھا کرتا رہا لیکن اسے دیکھ نہ پایا۔ مجھے یقین ہے کہ شیرنی نے بھی مجھے نہیں دیکھا۔ جب بھی شیرنی کے پگ کسی گھنی جھاڑی کا جھنڈ سے گذرتے تو میں لمبا چکر کاٹ کر دوسری جانب سے اس کے پگوں کا پیچھا کرتا۔ اس علاقے سے میری ناواقفیت بہت بڑی رکاوٹ تھی کیونکہ مجھے ضرورت سے کہیں زیادہ چلنا پڑ رہا تھا۔ اس کے علاوہ شیرنی کی حرکات و سکنات کی پیش بندی کرنا بھی میرے لئے ممکن نہیں تھی۔ جب میں نے شام گئے شیرنی کا تعاقب ختم کیا تو شیرنی کا رخ پہاڑ کے اوپر اور گاؤں کی سمت تھا۔

جب میں کیمپ واپس پہنچا تو مجھے علم ہو چکا تھا کہ میرا برا وقت جس کے بارے میں پہلے سے جان چکا تھا اور جس سے مجھے انتہائی خوف آتا تھا، قریب آ چکا ہے۔ سر کے اندر کے پھوڑوں میں بجلی کے جھٹکے لگ رہے تھے اور ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میرے سر پر ہتھوڑے چل رہے ہوں۔ مسلسل رت جگا اور خوراک کے نام پر محض چائے کی وجہ سے میں ہمت ہار چکا تھا۔ اب ایک اور رات اپنے بستر پر بیٹھ کر درد کی اذیت برداشت کرتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جسمانی تکلیف کے بارے کیا کیا نہ سوچنا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ میں تلہ دیس اس نیت سے آیا تھا کہ یہاں کے لوگوں کو آدم خور کے پنجے سے بچاؤں اور اگر ممکن ہو تو اپنا برا وقت بھی گذاروں۔ اب تک میں نے ان کے مسائل میں محض اضافہ ہی کیا تھا۔ آٹھ سال کے عرصے میں شیرنی نے ڈیڑھ سو افراد کو شکار کیا تھا۔ اب چونکہ زخمی ہونے کے بعد سے اس کے شکار کی صلاحیت متاثر ہوئی تھی اس لئے اب وہ محض انسانوں پر ہی گذارا کرے گی جو اس کے لئے آسان ترین شکار ہوں گے۔ اس لئے میرے اور اس شیرنی کے بیچ ایک قضیہ تھا جس کا تصفیہ ہونا باقی تھا۔ اس تصفیئے کے لئے آج کی رات بھی انتہائی مناسب تھی۔

اپنے ساتھیوں سے میں نے چائے کا کپ مانگا جو پہاڑی رواج کے مطابق دودھ سے بنائی گئی تھی جسے میں نے چاندنی میں کھڑے ہو کر پیا۔ پھر میں نے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور انہیں کہا کہ وہ اگلے دن شام تک میرا انتظار کریں۔ اگر میں اس وقت تک واپس نہ آؤں تو میرا سامان اکٹھا کر کے اس سے اگلی صبح نینی تال روانہ ہو جائیں۔ پھر میں نے اپنے بستر سے رائفل اٹھائی اور سیدھا وادی میں اتر گیا۔ میرے ساتھی میرے ساتھ برسوں سے تھے اور انہوں نے مجھے روکنے یا یہ پوچھنے کی کوشش تک نہیں کی کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ وہ بس اکٹھے کھڑے مجھے تکتے رہے۔ شاید ان کے گالوں پر جو چمکدار لکیریں تھیں وہ چاندنی کا عکس ہوں یا شاید میرا تصور ہوں۔ خیر جب میں نے مڑ کر دیکھا تو کسی نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی تھی۔ وہ اسی جگہ ویسے ہی کھڑے تھے جیسا میں نے انہیں چھوڑا تھا۔

(۸)

میرے لڑکپن کی بہترین یادوں میں سے اہم ترین وہ تھیں جب چاندنی رات کو جنگل میں ہم دس بارہ ساتھی سردیوں کی رات کو نکلتے تھے اور پھر گھر لوٹ کر ہم خوب چائے پیتے تھے۔ انہی چہل قدمیوں نے میرے دل سے رات کو جنگل سے وابسہ انسانی خوف دور کئے تھے۔ اس کے علاوہ ہم جنگل میں رات سے متعلق آوازوں سے بھی روشناس ہوئے تھے۔ بعد میں سالہا سال کے تجربات سے میرے علم اور میرے اعتماد میں اضافہ ہوا تھا۔ اس لئے جب ۱۱ اپریل کی رات کو میں کیمپ سے نکلا تو چاندنی جوبن پر تھی۔ میری نیت تلہ دیس کی آدم خور سے حساب برابر کرنے کی تھی۔ تاہم میں خود کشی کی نیت سے نہیں بلکہ شیرنی سے برابری کی سطح پر مقابلہ کرنے نکلا تھا۔

مجھے بچپن سے شیروں سے دلچسپی رہی ہے اور میری زندگی اسی علاقوں میں بسر ہوئی ہے جہاں میں شیروں کا بخوبی اور بغور مشاہدہ کر سکتا تھا۔ بچپن میں میری سب سے بڑی خواہش شیر کو صرف دیکھنے تک محدود تھی۔ بعد میں میری خواہش تھی کہ ایک شیر کو شکار کروں۔ میری یہ خواہش تب پوری ہوئی جب میں نے زمین پر کھڑے ہو کر پرانی فوجی رائفل کی مدد سے شیر کو شکار کیا تھا۔ یہ رائفل میں نے پچاس روپے کے عوض اس بندے سے خریدی تھی جو سمندر پار جا رہا تھا۔ اب میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ یہ رائفل اس نے چوری کر کے شکاری رائفل کے طور پر بیچی تھی۔ بعد میں میری سب سے بڑی خواہش شیر کی تصویر کھینچنا تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری یہ تینوں خواہشیں پوری ہو چکی تھیں۔ شیروں کی تصویر کھینچنے کے دوران ہی میں نے شیروں کی عادات کے بارے کچھ جانا۔ حکومت کی جانب سے مجھے جنگلات میں آزاد پھرنے کی اجازت تھی جو پورے ہندوستان میں محض ایک اور شکاری کو حاصل تھی۔ اس لئے پورے ہندوستان کے جنگلات میں میں آرام سے پورا سال گھوم سکتا تھا اور ان دنوں شیر بھی بکثرت ہوتے تھے۔ دنوں یا ہفتوں تک شیروں کا مطالعہ کرتے رہنا اور ایک بار تو میں نے ساڑھے چار ماہ صرف کر کے شیروں کا مطالعہ کیا۔ اس طرح میں نے شیروں کی عادات اور شکار پر گھات لگانے اور شکار کو مارنے کے طریقے دیکھے۔ شیر اپنے شکار کے پیچھے دوڑ کر اسے ہلاک نہیں کرتا۔ اس کی بجائے شیر یا تو شکار کے راستے میں لیٹ کر یا پھر گھات لگا کر شکار کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں شیر یا تو جست لگا کر یا پھر چند گز جتنا دوڑ کر اور پھر جست لگا کر شکار کے اوپر ہوتا ہے۔ اس طرح اگر کوئی جانور شیر سے اس سے زیادہ فاصلے سے گذرے تو شیر اس پر گھات نہیں لگا سکتا اور اگر وہ جانور شیر کو دیکھ کر یا اس کی آہٹ سن کر یا اس کی بو پا کر دوڑ لگا دے تو مجھے پورا یقین ہے کہ وہ جانور اپنی قدرتی موت مرے گا۔ تہذیب کی وجہ سے انسان سے اس کی قوت شامہ یعنی سونگھنے کی حس اور قوت سماعت چھین لی ہیں۔ اس لئے جب آدم خور شیر حملہ کرے تو انسان کے لئے اپنے بچاؤ کے لئے محض اس کی آنکھیں ہی ہوتی ہیں۔ درد اور بے چینی کی وجہ سے جب میں اس رات کو کیمپ سے باہر نکلا تو میری صرف ایک آنکھ کام کر رہی تھی۔ تاہم اس معذوری کے برعکس میرے پاس یہ علم تھا کہ اگر میں شیرنی کے بہت قریب نہ پہنچا تو شیرنی مجھے نہیں مار سکے گی لیکن اگر میں نے شیرنی کو دور سے دیکھ لیا تو میں دور رہتے ہوئے بھی اسے مار سکوں گا۔ اس لئے جب میں نے اپنے ساتھیوں کو اگلی شام تک انتظار کے بعد نینی تال واپس لوٹ جانے کو کہا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں شیرنی کے مقابلے کے قابل نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر میں اپنی تکلیف کے سبب ہوش گنوا بیٹھا تو اپنی حفاظت کے قابل نہیں رہوں گا۔

ذہن میں نقشے بنانے کی عادت میرے لئے بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔ میں کسی بھی مخصوص جگہ پر دوبارہ بغیر کسی دقت کے جا سکتا ہوں۔ اس لئے شیرنی کے پگ میں نے جہاں چھوڑے تھے، وہیں سے جا کر میں نے پیچھا شروع کیا۔ تاہم اب پگوں کا پیچھا محض پگڈنڈیوں پر ہی ممکن تھا اور خوش قسمتی سے شیرنی انہی راستوں پر چل رہی تھی۔ سانبھر اور کاکڑ اب گھنے جنگل سے نکل کر کھلی جگہوں پر آ گئے تھے۔ کچھ کا مقصد پیٹ پوجا کرنا تھا اور باقی اپنے بچاؤ کے لئے آئے تھے۔ ان کی وقتاً فوقتاً بولیوں سے مجھے شیرنی کی سمت کا اندازہ ہوتا رہا لیکن بالکل درستگی سے میں شیرنی کی موجودگی کے مقام کا اندازہ نہیں لگا سکا۔

اس تنگ راستے پر چلتے ہوئے میں ایک جگہ گھنی جھاڑیوں کے قطعے کے پاس پہنچا۔ جب میں نے اس کے گرد چکر کاٹ کر دوسری طرف جانے کی کوشش کی تو وہ توقع سے زیادہ طویل نکلا۔ جب میں دوسرے سرے پر پہنچا تو یہاں زمین نسبتاً کھلی اور اکا دکا بلوط کے بڑے درخت موجود تھے۔ یہاں ایک بڑے درخت کے نیچے میں آن رکا۔ اچانک درخت کے سائے میں حرکت ہوئی اور مجھے علم ہوا کہ اس درخت پر لنگور موجود ہیں۔ پچھلے ۱۸ گھنٹوں کے دوران میں نے بہت سفر کیا تھا اور اب کچھ دیر آرام کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا کیونکہ اگر شیرنی نزدیک آتی تو لنگور شور مچا دیتے۔ درخت کے تنے سے ٹیک لگائے اور ان جھاڑیوں کی طرف منہ کئے میں بیٹھ گیا۔ ابھی میں آدھا گھنٹہ بیٹھا ہوں گا کہ اچانک لنگور بولا اور شیرنی اسی وقت جھاڑیوں سے نکلی۔ لنگور نے شیرنی کو جھاڑیوں سے نکلتے ہی دیکھ لیا تھا۔ جب شیرنی لیٹنے لگی تو میں نے بھی اسے دیکھ لیا۔

شیرنی مجھ سے تقریباً سو گز اور جھاڑیوں سے دس گز دور اور میرے سامنے آڑی لیٹی ہوئی تھی۔ پہلو کے بل لیٹی شیرنی سر اٹھائے لنگور کو دیکھ رہی تھی۔

رات کے وقت شکار کا مجھے بہت وسیع تجربہ تھا کیونکہ کالا ڈھنگی میں سردیوں میں میں اپنے مزارعوں کی فصلوں کو سور اور ہرنوں وغیرہ سے بچانے میں ان کی مدد کرتا تھا۔ جب مطلع صاف ہو اور چاندنی رات ہو تو میں ایک سو گز کے فاصلے سے تقریباً سو فیصد یقین کے ساتھ جانور کو ہلاک کر سکتا ہوں۔ اکثر لوگوں کی طرح میں نے بھی گولی چلاتے ہوئے دونوں آنکھیں کھلی رکھنے کی عادت ڈالی ہوئی ہے۔ ایک آنکھ سے نشانہ لینے اور دوسری سے جانور کو نگاہ میں رکھتا ہوں۔ اگر کوئی اور موقع ہوتا تو میں شیرنی کے اٹھنے کا انتظار کرتا اور پھر گولی چلاتا۔ لیکن چونکہ میری ایک آنکھ ورم کے سبب بند تھی اس لئے میں سو گز کے فاصلے سے ایک آنکھ کی مدد سے گولی چلانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ پچھلی دو راتوں میں شیرنی نے لیٹ کر اور اسی جگہ سو کر کافی وقت گذارا تھا۔ مجھے امید تھی کہ وہ اب بھی وہیں سو جائے گی۔ اس وقت شیرنی پیٹ کے بل لیٹی تھی اور اس کا سر اٹھا ہوا تھا۔ اگر وہ پہلو کے بل لیٹتی تو میں دوبارہ ان جھاڑیوں کی دوسری طرف سے جا کر شیرنی کا پیچھا کرتا اور اس کے دس گز کے فاصلے تک پہنچ کر اس پر گولی چلا سکتا تھا۔ دوسری صورت میں میں یہاں سے سیدھا شیرنی تک رینگ کر جاتا اور جب وہ قریب ہوتی تو اس پر گولی چلا دیتا۔ تاہم جتنی دیر شیرنی یہ سوچتی کہ اسے کیا کرنا ہے، میرے پاس بالکل بے حس و حرکت بیٹھنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

بہت دیر تک، شاید نصف گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ وقت شیرنی اسی حالت میں رہی۔ تاہم وہ کبھی کبھار اپنا سر دائیں اور بائیں موڑتی اور لنگور کو دیکھتی جو نیند سے بھرائی ہوئی آواز میں بول رہا تھا۔ آخر کار وہ اٹھی اور بہت آہستگی اور تکلیف سے چلتے ہوئے میرے دائیں جانب جانے لگی۔ اس کی حرکت کی سیدھ میں ایک گہری کھائی تھی جو دس سے پندرہ فٹ گہری اور بیس یا پچیس گز چوڑی ہو گی۔ اسی کھائی کے نچلے سرے کو میں نے یہاں آتے ہوئے عبور کیا تھا۔ جب شیرنی مجھ سے ڈیڑھ سو گز دور ہو گئی ہو گی تو میں نے بھی حرکت کی اور درختوں کی اوٹ لیتے ہوئے اس کا پیچھا اس سے ذرا زیادہ تیزی سے کرنا شروع کر دیا۔ جب شیرنی کھائی کے کنارے پہنچی تو ہمارا درمیانی فاصلہ پچاس گز رہ گیا تھا۔ اس فاصلے سے گولی چلانا آسان تھا لیکن شیرنی سائے میں کھڑی تھی اور محض اس کی دم دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر رکنے کے بعد اس نے اچانک کھائی کو عبور کرنے کا فیصلہ کیا اور آہستگی سے کنارے سے نیچے چل پڑی۔

جونہی شیرنی نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو میں جھکا اور اس کے پیچھے دبے قدموں دوڑا۔ سر کو نیچے جھکا کر دوڑنا بہت بڑی حماقت تھی۔ چند گز بعد مجھے چکر آنے لگے۔ میرے پاس ہی بلوط کے دو نوعمر درخت تھے جو ایک دوسرے سے چند فٹ دور اور ان کی شاخیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں۔ رائفل کو زمین پر رکھ کر میں دس یا بارہ فٹ بلندی تک درختوں پر چڑھا۔ یہاں میں نے ایک شاخ دیکھی جس پر بیٹھنا ممکن تھا اور دوسری شاخ جس پر میں اپنے پیر رکھ سکتا تھا اور ایک اور شاخ جس سے میں ٹیک لگا سکتا تھا۔ اپنے سامنے والی شاخوں پر میں نے اپنے ہاتھ آڑے کر کے رکھے اور ان پر سر رکھ دیا۔ اسی لمحے میرے سر کے اندر موجود پھوڑا پھٹ گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ میرے خدشات کے برعکس پھوڑا دماغ کی جانب نہیں بلکہ بائیں کان اور ناک کے راستے بہنا شروع ہو گیا۔

کسی بندے نے کیا خوب کہا تھا کہ کسی بھی شدید درد کے اچانک ختم ہونے سے زیادہ خوشی بندے کو نہیں مل سکتی۔ جو بندے کسی شدید ترین اذیت سے اچانک ہی چھٹکارا پا چکے ہوں، وہ اس کی قدر جانتے ہیں۔ جب میرا پھوڑا پھٹا تو اس وقت نصف شب ہو رہی ہو گی۔ جب میں نے اپنے بازوؤں سے سر اٹھایا تو پو پھٹ رہی تھی۔ چار گھنٹے ایک پتلی سی شاخ پر بیٹھنے سے میری ٹانگیں اکڑ گئی تھیں جس کے درد سے میں بیدار ہوا تھا۔ پہلے پہل تو مجھے یاد نہ رہا کہ میں کہاں ہوں یا مجھے کیا ہوا ہے۔ لیکن فوراً ہی مجھے صورتحال کا ادراک ہو گیا۔ میرے سر، گردن اور چہرے کی سوجن غائب تھی اور درد بھی ختم ہو چکا تھا۔ اب میں اپنے سر کو آسانی سے ہر جانب گھما سکتا تھا اور میری بائیں آنکھ کھلی تھی۔ تھوک نگلنے میں بھی مجھے کوئی دقت نہیں ہو رہی تھی۔ شیرنی کو گولی مارنے کا ایک نادر موقع ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا؟ میرا برا وقت ختم ہو چکا تھا اور اب چاہے شیرنی جتنی دور یا جس سمت میں بھی ہو، میں جلد یا بدیر اس کے سر پر پہنچ جاتا۔

جب میں نے شیرنی کو آخری بار دیکھا تو وہ گاؤں کی جانب جا رہی تھی۔ درخت سے آسانی سے اتر کر میں نے رائفل اٹھائی اور اسی جانب چل پڑا۔ رات کو اس درخت پر چڑھنے میں مجھے بے حد دقت ہوئی تھی۔ ندی پر رک کر میں نے اپنے آپ کو اور کپڑوں کو دھویا اور صاف کیا۔ میرے ساتھیوں نے میری ہدایت کے برعکس رات گاؤں کی بجائے کیمپ میں گذاری تھی اور ساری رات انہوں نے چائے کے لئے پانی کی کیتلی تیار رکھی تھی۔ پانی سے شرابور جونہی انہوں نے مجھے آتے دیکھا تو وہ اچانک کھڑے ہو کر وہ خوشی سے چلائے ‘صاحب آپ واپس آ گئے ہیں اور اب آپ ٹھیک ہو گئے ہیں۔‘ میں نے جواب دیا ‘ہاں میں لوٹ آیا ہوں اور میں ٹھیک ہو گیا ہوں۔‘ جب ہندوستانی بندہ کسی سے اپنی وفاداری دکھاتا ہے تو وہ اس کی قدر یا قیمت کی پروا نہیں کرتا۔ جب ہم تلہ کوٹ آئے تو نمبردار نے میرے ساتھیوں کے لئے دو کمرے مختص کر دیئے تھے کیونکہ بند دروازہ ہی رات کو شیرنی سے بچنے کی واحد صورت تھی۔ تاہم گذشتہ رات جب میں کیمپ سے نکلا تو وہ خطرے سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود وہیں کیمپ میں رکے رہے کہ شاید مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہو اور میرے لئے چائے کا پانی گرم تیار رکھا شاید کہ میں واپس لوٹ آؤں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے چائے پی یا نہیں لیکن انہوں نے میرے جوتے اتارے اور جب میں بستر پر لیٹا تو انہوں نے میرے گرد کمبل لپیٹ دیا۔

پرسکون نیند، گھنٹوں پر گھنٹے گذرتے گئے۔ پھر اچانک ایک خواب دکھائی دیا۔ کوئی بندہ مجھے بعجلت بلا رہا ہے اور دوسرا بندہ اسے روک رہا ہے کہ مجھے نہ جگایا جائے۔ بار بار جب یہ خواب تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ دہرایا گیا حتیٰ کہ میں نیند سے بیدار ہوا اور خواب حقیقت بن گیا۔ ‘آپ انہیں جگائیں ورنہ وہ بہت ناراض ہوں گے۔‘ ایک بندے نے کہا۔ ‘وہ بہت تھکے ہیں اور ہم انہیں بیدار نہیں کریں گے۔‘ گنگا رام کی آواز سنائی دی۔ میں نے گنگا رام کو آواز دی کہ اس بندے کو اندر بھیج دے۔ فوراً ہی میرے خیمہ میں لڑکوں اور مردوں کا مجمع لگ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ گاؤں کی دوسری جانب آدم خور نے چھ بکریاں مار ڈالی ہیں۔ جوتے پہنتے ہوئے میں نے اس مجمع پر نگاہ ڈالی تو ڈنگر سنگھ دکھائی دیا جو اس وقت بھی میرے ساتھ تھا جب میں نے شیرنی کے بچے مارے تھے۔ میں نے ڈنگر سنگھ سے پوچھا کہ کیا اسے اس جگہ کا علم ہے جہاں بکریاں ماری گئی تھیں اور کیا وہ مجھے وہاں تک لے جائے گا؟ ‘ہاں صاحب۔ بالکل لے جاؤں۔ مجھے علم ہے کہ بکریاں کہاں ماری گئی ہیں۔‘ اس نے فوراً ہی جواب دیا۔ نمبردار سے کہہ کر کہ وہ ہجوم کو وہیں رکھے، میں نے اعشاریہ ۲۷۵ کی رائفل اٹھائی اور ڈنگر سنگھ کے ساتھ گاؤں کے راستے چل پڑا۔

میری نیند نے ساری تھکن اتار دی تھی اور چونکہ اب مجھے آرام سے قدم رکھنے کی ضرورت نہیں کہ سر کو جھٹکے نہ لگیں، میں کئی ہفتوں بعد پہلی بار بغیر دقت یا تکلیف کے چلنے کے قابل ہوا۔

(۹)

جس دن میں تلہ کوٹ پہنچا تو یہی لڑکا ڈنگر سنگھ مجھے گاؤں سے گذار کر اس جگہ لے گیا تھا جہاں ایک بلند جگہ تھی اور جہاں سے دو وادیوں کا پورا منظر دکھائی دیتا تھا۔ دائیں جانب والی وادی بہت گہری اور ڈھلوان تھی اور دریائے کالی کی سمت جاتی تھی۔ اسی وادی کے بالائی سرے پر میں نے شیرنی کے دو بچے ہلاک کئے تھے اور شیرنی کو بھی زخمی کیا تھا۔ دوسری وادی میرے بائیں جانب تھی اور نسبتاً کم ڈھلوان تھی۔ اس پر سے بکریوں کی ایک گذرگاہ تھی۔ اسی وادی میں بکریاں ماری گئی تھیں۔ اس راستے پر ڈنگر سنگھ اب بھاگنے لگا اور میں اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ پانچ یا چھ سو گز تک کٹی پھٹی زمین پر بھاگنے کے بعد راستے سے ندی گذرتی تھی اور پھر وادی اس ندی کے بائیں کنارے پر چلی جاتی تھی۔ جس جگہ راستہ ندی سے گذرتا تھا، وہاں نسبتاً مسطح زمین کا کھلا قطعہ تھا۔ اس پر دائیں بائیں چٹانیں سی تھیں اور ان کی دوسری جانب ایک کھڈ سا تھا۔ اسی کھڈ میں بکریاں ماری گئی تھیں۔

راستے میں ڈنگر سنگھ نے مجھے بتایا تھا کہ اسی وادی میں نیچے دوپہر کے وقت ڈھیر ساری بکریوں کو دس یا پندرہ لڑکے چرا رہے تھے کہ اچانک شیرنی نمودار ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ آدم خور شیرنی ہے۔ شیرنی نے اچانک ہی حملہ کر کے چھ بکریاں گرا لیں۔ شیرنی کو دیکھتے ہی لڑکوں نے شور مچا دیا اور ساتھ ہی لکڑیاں جمع کرتے کچھ بندے بھی شور میں شامل ہو گئے۔ شور اور بکریوں کی بھگڈر کی وجہ سے شیرنی واپس چلی گئی لیکن کسی نے توجہ نہ کی کہ شیرنی کس سمت گئی ہے۔ تین بکریوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ باقی تین بکریوں کو اٹھائے یہ افراد سیدھا میرے پاس اطلاع دینے پہنچ گئے۔ تینوں زخمی بکریاں اسی جگہ موجود تھی۔

بکریوں کی قاتل آدم خور ہی تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا۔ گذشتہ رات میں نے شیرنی کو گاؤں کی سمت جاتے دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے میرے ساتھیوں نے بتایا تھا کہ میری آمد سے ایک گھنٹہ قبل کاکڑ ندی کے قریب سے بولا تھا جو ان سے سو گز دور تھی۔ وہ یہ سمجھے کہ کاکڑ مجھے دیکھ کر بھونک رہا ہے اس لئے انہوں نے آگ جلا لی۔ ان کی قسمت کہ انہوں نے آگ جلا لی کیونکہ بعد میں میں نے شیرنی کے پگ دیکھے جو آگ سے کترا کر گاؤں کی سمت چلے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ شیرنی کسی انسان کو شکار کرنے کے ارادے سے گئی تھی۔ چونکہ اسے کوئی انسان نہ مل سکا تو وہ گاؤں کے نزدیک ہی کہیں چھپ گئی۔ جب اسے موقع ملا تو اس نے چند لمحوں میں چھ بکریاں مار لیں۔ لیکن وہ اپنے زخم کی وجہ سے بری طرح لنگڑا رہی تھی۔

میں اس جگہ سے اچھی طرح واقف نہیں تھا اس لئے میں نے ڈنگر سنگھ سے پوچھا کہ اس کے خیال میں شیرنی کس سمت گئی ہو گی۔ اس نے وادی کے نیچے کی جانب اشارہ کر کے بتایا کہ شیرنی شاید اس طرف گئی ہو کیونکہ اس طرف گھنا جنگل تھا۔ ابھی میں اس سے جنگل کے متعلق سوال کر رہا تھا کہ میں شیرنی کا پیچھا کرتا کہ اچانک مرغ زریں بولنے لگے۔ ان کی آواز سنتے ہی ڈنگر سنگھ مڑا اور پہاڑی کے اوپر کی جانب دیکھنے لگا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ شاید یہ پرندے اس طرف سے بول رہے ہوں گے۔ ہمارے بائیں جانب کی پہاڑی بہت ڈھلوان تھی اور اس پر چند جھاڑیاں اور چند ٹنڈ منڈ سے درخت اگے ہوئے تھے۔ مجھے علم تھا کہ شیرنی کبھی بھی اس طرح کی چڑھائی کو پسند نہیں کرے گی۔ جب ڈنگر سنگھ نے مجھے پہاڑی کے اوپر کی جانب دیکھتے پایا تو اس نے مجھے بتایا کہ یہ پرندے پہاڑی کی کنارے ایک کھائی سے بول رہے ہیں۔ چونکہ پرندے ہماری نظروں سے اوجھل تھے اس لئے وہ صرف اور صرف شیرنی کو دیکھ کر ہی بول رہے تھے۔ ڈنگر سنگھ سے میں نے کہا کہ وہ فوراً گاؤں کی سمت بھاگ کھڑا ہو۔ پھر میں نے رائفل سے اسے کور کیے رکھا حتیٰ کہ وہ خطرے سے دور ہو گیا۔ پھر میں نے اپنے چھپنے کے لے جگہ تلاش کرنا شروع کی۔

وادی میں صرف صنوبر کے دیو قامت درخت موجود تھے جن پر تیس سے چالیس فٹ کی بلندی تک کوئی شاخیں نہیں تھیں۔ اس لئے ان پر چڑھنے کی کوشش کرنا کارے وارد تھا۔ اب مجھے زمین پر ہی کہیں بیٹھنے کی جگہ تلاش کرنی تھی۔ دن کی روشنی میں تو میں کہیں بھی بیٹھ سکتا تھا لیکن اگر شیرنی رات تک واپس نہ آئی اور اسے بکری کی بجائے انسان کے گوشت کی تلاش ہوئی تو مجھے ابتدائی ایک یا دو گھنٹے قسمت پر بھروسہ کرنا ہو گا کیونکہ چاند سورج غروب ہونے کے ایک یا دو گھنٹے بعد نکلتا۔

کھائی کے ہماری جانب پر ایک کم بلند چٹانی سلسلہ سا تھا جس کے اختتام پر ایک بڑی مسطح چٹان تھی۔ اس کے پاس ایک اور نسبتا چھوٹی چٹان اور اس کے ساتھ ایک اور۔ چھوٹی چٹان پر بیٹھ کر میں نے دیکھا کہ میں بڑی چٹان کے پیچھے اس طرح چھپ گیا تھا کہ میرا سر دکھائی دے رہا تھا۔ شیرنی کے اسی جانب سے آنے کے امکانات تھے۔ میں نے یہیں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ میرے سامنے چالیس گز چوڑی کھائی اور اس کا بیس فٹ بلند کنارہ دوسری جانب تھا۔ اس کنارے پر دس سے بیس گز تک مسطح زمین تھی جو دائیں جانب ڈھلوان کی شکل میں تھی۔ اس کے بعد پہاڑی اوپر کو اٹھتی ہوئی بہت ڈھلوان ہو گئی تھی۔ جب یہ لوگ بھاگے تو کھائی میں پڑی تینوں بکریاں زندہ تھیں جو اب مر چکی تھیں۔ شیرنی نے جب ان پر حملہ کیا تو ان کی کمر پر سے کھال نوچ لی تھی۔

مرغ زریں اب خاموش ہو گئے تھے۔ میں یہ اندازہ لگا رہا تھا کہ جب میں یہاں پہنچا تو مرغ زریں شیرنی کو آتے دیکھ کر بولے تھے یا جاتے دیکھ کر۔ پہلی صورت میں انتظار کافی مختصر اور دوسری صورت میں بہت لمبا ہوتا۔ میں اس جگہ دو بجے بیٹھا تھا اور نصف گھنٹے بعد دو ہمالیائی کوے اڑتے ہوئے آئے۔ یہ خوبصورت پرندے افزائش نسل کے موسم میں دیگر چھوٹے پرندوں کے گھونسلوں اور انڈوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ جنگل میں موجود کسی بھی مردہ جانور کو تلاش کرنے میں کمال رکھتے ہیں۔ مجھے ان کی آمد کا بہت پہلے علم ہو گیا تھا کیونکہ یہ پرندے بہت شور کرتے ہیں۔ جونہی ان کی نگاہ بکریوں پر پڑی تو وہ اچانک چپ ہو گئے اور آہستگی سے بکریوں کی جانب بڑھے۔ کافی دیر تک شش و پنج کے بعد آخر کار وہ اس بکری کی لاش پر اترے جس کی پشت سے کھال اتر گئی تھی اور کھانا شروع کر دیا۔ کافی دیر سے ایک بڑا گدھ اس مقام کے چکر لگا رہا تھا اور اب اس نے کوؤں کو دیکھا تو فوراً ہی نیچے آ کر صنوبر کے درخت کی ایک خشک شاخ پر بیٹھ گیا۔ یہ گدھ شاہی گدھ کہلاتا ہے اور اس کے سینے پر سفید پر ہوتے ہیں جبکہ باقی کھال سیاہ اور سر اور ٹانگیں سرخ ہوتی ہیں۔ تمام گدھوں سے پہلے یہ گدھ مردہ جانور پر پہنچتے ہیں۔ چونکہ ان کی جسامت مختصر ہوتی ہے اس لئے جب دیگر نسلوں کے گدھ آ جائیں تو انہیں ہٹنا پڑتا ہے۔

گدھ کی آمد پر مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ گدھ سے مجھے کافی اہم معلومات مل سکتی تھیں کیونکہ وہ کافی اونچی شاخ پر بیٹھا تھا۔ اگر گدھ نیچے اتر کر کھانا شروع کر دیتا تو اس کا مطلب تھا کہ شیرنی جا چکی ہے لیکن اگر وہ اپنی جگہ پر ہی رہتا تو اس کا مطلب تھا کہ شیرنی کہیں نزدیک ہی موجود ہے۔ اگلے نصف گھنٹے تک کوے لاش کھاتے رہے جبکہ گدھ اسی شاخ پر براجمان رہا۔ پھر اچانک سورج کے سامنے گہرے بادل چھا گئے۔ کچھ دیر بعد مرغ زریں پھر بولنے لگے اور کوے بھی شور مچاتے نیچے وادی کو اڑ گئے۔ شیرنی آ رہی تھی اور اس کی آمد میری توقع سے زیادہ جلدی ہوئی تھی۔ اب مجھے اس سے اپنا کل رات والا حساب برابر کرنے کا موقع ملنا تھا۔ پچھلی رات جب مجھے چکر آئے تو میں پیچھا جاری نہ رکھ سکا تھا۔

پہاڑی کے کنارے پر چند چھدری جھاڑیاں کھائی کے سامنے اگی ہوئی تھیں اور صاف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اب ان جھاڑیوں کے پیچھے میں نے شیرنی کو دیکھا۔ انتہائی آہستگی سے چلتی ہوئی شیرنی کھائی کے دوسرے بلند کنارے تک پہنچی اور اس دوران اس کا رخ مسلسل میری جانب تھا۔ چونکہ میرا صرف سر دکھائی دے رہا تھا اور ہیٹ میری آنکھوں تک جھکا ہوا تھا اس لئے جب تک میں کوئی حرکت نہ کرتا، شیرنی مجھے نہ دیکھ پاتی۔ اس لئے رائفل کو اس چٹان پر رکھے میں بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ میرے عین سامنے آ کر شیرنی اس طرح بیٹھی کہ ایک بڑے صنوبر کا تنا ہمارے درمیان تھا۔ مجھے درخت کے ایک جانب شیرنی کا سر اور دوسری جانب اس کی دم اور پچھلی ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس جگہ وہ کئی منٹ تک بیٹھی اپنے زخموں پر بھنبھنانے والی مکھیوں کو اڑاتی رہی۔

(۱۰)

آٹھ سال قبل جب شیرنی نوجوان تھی تو سیہہ کے ساتھ مقابلے میں اسے کافی زخم لگے تھے۔ جب وہ زخمی ہوئی تو شاید اس وقت اس کے بچے بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب وہ اپنا قدرتی شکار کرنے کے قابل نہ رہی تو اس نے انسان کو شکار کرنا شروع کیا۔ اس طرح اگرچہ اس نے قانون فطرت کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ وہ گوشت خور درندہ تھی اور گوشت چاہے انسانی ہو یا حیوانی، اس کی بھوک مٹانے کا واحد ذریعہ تھا۔ حالات سے مجبور ہو کر انسان ہو یا حیوان، ایسی خوراک کھانے پر تیار ہو جاتا ہے جسے وہ عام حالات میں پسند نہیں کرتا۔ آٹھ سال کے دوران شیرنی نے کل ڈیڑھ سو انسان ہلاک کئے تھے۔ یعنی ایک سال میں بیس افراد۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ جب شیرنی کے ساتھ بچے ہوتے تھے اور وہ اپنی قدرتی خوراک حاصل نہ کر پاتی تو انسانوں کو خوراک بناتی تھی تاکہ خود کو اور اپنے بچوں کو پال سکے۔

تلہ دیس کے لوگ شیرنی کے ہاتھوں عاجز تھے تاہم شیرنی کو اب اپنے کئے کی سزا بھگتنی تھی۔ اس کی تکلیف کو ختم کرنے کے لئے میں نے کئی بار رائفل سے اس کے سر کا نشانہ لیا لیکن چونکہ گہرے بادلوں کی وجہ سے ساٹھ گز دور شیرنی کے سر کا نشانہ اتنا یقینی نہیں تھا، اس لئے میں رک گیا۔

بالآخر شیرنی اپنی جگہ سے اٹھی اور تین قدم چل کر میرے سامنے آڑی ہو کر رکی۔ اس کا رخ بکریوں کی جانب تھا۔ اپنی کہنیاں چٹان پر رکھ کر میں نے آرام سے اس جگہ کا نشانہ لیا جہاں میرے خیال میں شیرنی کا دل تھا، اور لبلبی دبا دی۔ گولی چلتے ہی میں نے شیرنی کی دوسری جانب پہاڑی سے مٹی اڑتے دیکھی۔ مٹی اڑتے دیکھتے ہی مجھے خیال آیا کہ شاید میری گولی خطا گئی ہے۔ تاہم اتنی احتیاط سے نشانہ لینے کے بعد غلطی کا امکان نہیں تھا۔ شاید میری گولی شیرنی کے جسم سے آر پار ہو گئی تھی۔ گولی کھاتے ہی ڈری ہوئی شیرنی نے تیزی سے دوڑ لگائی اور قبل اس کے کہ میں دوسری گولی چلاؤں، نظروں سے غائب ہو گئی۔

شیرنی نے مجھے گولی چلانے کا اتنا عمدہ موقع دیا تھا اور میں نے گنوا دیا۔ مجھے خود پر بے انتہا غصہ آ رہا تھا۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ شیرنی بچ کر نہیں جائے گی۔ چٹان سے کود کر اترا اور اس طرف کو بھاگا جہاں شیرنی غائب ہوئی تھی۔ اس جگہ چالیس فٹ گہری ڈھلوان تھی جس پر سے شیرنی جست لگاتی اتری تھی۔ موچ کے خطرے کے پیش نظر میں بیٹھ کر پھسلتے ہوئے اس سے نیچے اترا۔ نیچے ایک اچھی خاصی پگڈنڈی تھی اور مجھے یقین تھا کہ شیرنی اسی پر گئی ہو گی۔ لیکن زمین کافی سخت تھی اور شیرنی کے پگ دکھائی نہیں دیئے۔ راستے کے دائیں جانب پتھروں سے بھری ہوئی ایک ندی تھی۔ یہ وہی ندی تھی جو ڈنگر سنگھ اور میں نے کافی اوپر کی سمت عبور کی تھی۔ بائیں جانب پہاڑی تھی جس پر اکا دکا صنوبر کے درخت اگے ہوئے تھے۔ کچھ فاصلے تک یہ راستہ بالکل سیدھا تھا اور جب میں پچاس گز دور گیا ہوں گا کہ میں نے گڑھل کی چھینک سنی۔ گڑھل کی موجودگی صرف دائیں جانب کی پہاڑی پر ہو سکتی تھی اور میں نے سوچا کہ شاید شیرنی ندی عبور کر کے پہاڑی پر چڑھی ہو۔ میں رکا تاکہ شیرنی کو دیکھ سکوں تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے کئی بندے چلا رہے ہوں۔ مڑ کر دیکھا تو گاؤں کے کنارے پر بہت سارے بندے کھڑے تھے۔ جب انہوں نے مجھے متوجہ پایا تو ہاتھ ہلا کر مجھے سیدھا آگے بڑھنے کو کہا۔ اگلے لمحے میں پھر دوڑ رہا تھا۔ ایک موڑ مڑتے ہی میں نے راستے پر تازہ تازہ خون کے نشان دیکھے۔

جانوروں کی کھال کافی ڈھیلی ہوتی ہے۔ جب جانور کھڑا ہو اور اسے گولی لگے تو وہ پوری رفتار سے بھاگتا ہے۔ کھال پر بنا سوراخ گوشت پر موجود سوراخ کی سیدھ میں نہیں آتا اس لئے جتنی دیر تک جانور تیزی سے بھاگتا رہے، یا تو خون نہیں بہتا یا پھر بہت کم بہتا ہے۔ تاہم جب جانور کی رفتار سست پڑتی ہے تو کھال اور جسم کے سوراخ سیدھ میں آنے لگتے ہیں اور خون زیادہ تیزی سے بہنے لگتا ہے۔ جانور کی رفتار جتنی کم ہوتی جائے گی خون اتنا تیزی سے بہتا جائے گا۔ جب آپ کو گولی لگنے کا یقین نہ ہو تو عین اسی جگہ پر جائیں جہاں گولی چلاتے وقت جانور موجود تھا اور دیکھیں کہ وہاں کھال سے کٹے ہوئے کچھ بال تو نہیں پڑے۔ اگر بال موجود ہوں تو گولی لگی ہے اور اگر بال موجود نہیں تو گولی نہیں لگی۔

موڑ مڑنے کے بعد شیرنی کی رفتار سست ہو گئی تھی لیکن وہ ابھی بھی بھاگ رہی تھی۔ تاہم خون کے نشانات بڑھتے جا رہے تھے۔ اسے جا لینے کے خیال سے میں نے رفتار تیز کر دی۔ تاہم تھوڑی ہی دور اچانک بائیں جانب ایک ابھار سا آیا۔ اس ابھار کے بعد راستہ انتہائی تنگ موڑ مڑتا تھا۔ چونکہ میری رفتار بہت تیز تھی اور میں خود کو روک نہ سکا، اس لئے سیدھا نیچے گرا۔ دس یا پندرہ فٹ بعد خوش قسمتی سے ایک جنگلی جھاڑی اگی ہوئی تھی جو میں نے آسانی سے دائیں بغل میں دبا لی۔ مزید خوش قسمتی یہ کہ یہ جھاڑی مڑی تو سہی لیکن اپنی جگہ سے نہ اکھڑی۔ اس سے نیچے کافی گہری کھائی تھی جس میں تیز رفتار ندی گذرتی تھی۔ اس جگہ ندی مڑتی تھی جس کی وجہ سے ندی نے پہاڑی کو بری طرح کاٹ دیا تھا۔ پھر میں نے انتہائی احتیاط سے پیروں کے لئے پہاڑ پر جگہ بنانا شروع کر دی جہاں فرن بکثرت اگے ہوئے تھے۔

شیرنی کو جا لینے کا موقع تو ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن میرے سامنے اب خون کے نشانات تھے جن کا پیچھا کرنا بہت آسان تھا۔ اس لئے اب مجھے جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ راستے پہلے شمال کے رخ جاتا تھا پھر مڑ کر پہاڑی کی شمالی جانب سے مغرب کو جانے لگا۔ پہاڑ کا یہ شمالی سرا کافی ڈھلوان اور گھنے جنگل سے بھرا تھا۔ مزید دو سو گز جانے کے بعد مسطح جگہ آئی۔ جسم میں گولی لگنے کے بعد میرے خیال میں شیرنی اس سے زیادہ دور نہ جا پاتی۔ اس لئے اس جگہ جہاں فرن وغیرہ اور جھاڑیاں بکثرت تھیں، میں بہت احتیاط سے پہنچا۔

جب زخمی شیر اپنے زخم کا بدلہ لینے پر تیار ہو تو ہندوستانی جنگل میں اس سے زیادہ خطرناک کوئی اور جانور نہیں ہوتا۔ شیرنی کچھ دیر قبل زخمی ہوئی تھی اور بکریوں کی ہلاکت اور پھر اب گولی لگنے کے بعد اس کی جست اور دوڑ سے ظاہر ہوتا تھا کہ پانچ دن قبل والا گولی کا زخم اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ مجھے علم تھا کہ جونہی شیرنی کو اپنے تعاقب کا پتہ چلا، وہ فوراً چھپ کر میرا انتظار کرے گی اور موقع ملتے ہی جست لگا کر بدلہ لے گی جس کا سامنا کرنے کے لئے شاید میرے پاس ایک ہی گولی ہو۔ رائفل کی نالی سے گولی کو نکال کر میں نے اچھی طرح دیکھا۔ یہ گولیاں کلکتہ سے مینٹن نے مجھے تازہ تازہ بھجوائی تھیں۔ گولی کو میں نے پھر چیمبر میں ڈال کر بولٹ چڑھایا اور سیفٹی کیچ اتار دیا۔

راستہ فرن سے بھرا ہوا تھا جو کمر تک بلند تھا اور فرن راستے کے اوپر ملے ہوئے تھے۔ خون کے نشانات اسی راستے سے گذرتے تھے۔ شیرنی راستے پر ہی یا دائیں یا بائیں جانب لیٹی میری منتظر ہوتی۔ اس لئے میں انتہائی آہستگی سے اور پوری احتیاط سے چلتے ہوئے فرنوں تک پہنچا۔ میں نے پوری توجہ سامنے رکھی کیونکہ ایسے مواقع پر دائیں بائیں دیکھنا خطرناک ہوتا ہے۔ ابھی میں تین گز دور ہوں گا کہ میں راستے کے دائیں جانب ایک گز کے فاصلے پر کوئی حرکت دیکھی۔ شیرنی جست لگانے کے لئے تیار ہو رہی تھی۔ بھوکی اور زخمی ہونے کے باوجود شیرنی مقابلے کے لئے پوری طرح تیار تھی۔ تاہم وہ جست نہ لگا سکی۔ اس سے پہلے ہی میری ایک گولی اس کے آر پار ہوئی اور دوسری گولی سے اس کی گردن ٹوٹ گئی۔

بہت دنوں تک تکلیف اور پریشانی کے ساتھ ساتھ خالی پیٹ کی وجہ سے اب میں بری طرح کانپ رہا تھا اور اس مقام تک پہنچنے میں مجھے بہت مشکل ہوئی جہاں میں نیچے گرا تھا۔ اگر اس جگہ اس جھاڑی کا ایک بیج ہوا کے ساتھ اڑ کر نہ پہنچا ہوتا تو میں نیچے گر کر اپنی جان گنوا چکا ہوتا۔

پورا گاؤں پہاڑ کے سرے پر جمع تھا اور جب میں نے ہیٹ کو ہلانے کی نیت سے اتارا تو وہ سارے کے سارے خوشی سے چلاتے ہوئے نیچے بھاگے۔ میرے چھ ساتھی سب سے آگے تھے۔ مبارکبادوں کے بعد شیرنی کو ایک درخت سے باندھ کر پورے کماؤں میں سب سے زیادہ مغرور چھ گڑھوالی تلہ دیس کی آدم خور شیرنی کو لے کر گاؤں روانہ ہوئے۔ گاؤں میں انہوں نے شیرنی کو بھوسے کے ڈھیر پر رکھا تاکہ عورتیں اور بچے اسے دیکھ سکیں۔ میں اپنے خیمے کی طرف روانہ ہوا تاکہ کئی ہفتے بعد پہلی بار کوئی ٹھوس غذا کھا سکوں۔ ایک گھنٹے بعد ہجوم کے درمیان بیٹھ کر میں نے شیرنی کی کھال اتاری۔

اعشاریہ ۲۷۵ کی نرم سرے والی گولی جس کا خول نکل کا تھا، سات اپریل کو اسے لگی اور شانے کے جوڑ میں گڑ گئی تھی۔ جب وہ ہوا میں گر رہی تھی اور جب پہاڑ پر چڑھتے ہوئے اس پر میں نے دوسری اور تیسری گولی چلائیں تو وہ خالی گئی تھیں۔ چوتھی گولی ۱۲ اپریل کو چلائی گئی تھی اور اس کے جسم سے ہڈیوں سے ٹکرائے بغیر گذر گئی تھی۔ پانچویں اور چھٹی گولی سے شیرنی ہلاک ہوئی تھی۔ شیرنی کی اگلی دائیں ٹانگ اور شانے سے میں نے سیہہ کے دو انچ سے چھ انچ لمبے ۲۰ کانٹے نکالے جو اس کے پٹھوں میں بری طرح پیوست تھے۔ انہی کانٹوں کی وجہ سے شیرنی آدم خور بنی تھی۔

اگلا دن میں شیرنی کی کھال خشک کرتے گذارا اور تین دن بعد میں اپنے گھر بحفاظت واپس لوٹ آیا تھا اور میرا برا وقت بھی ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا تھا۔ بینس نے کمال مہربانی سے ڈنگر سنگھ اور اس کے بھائی کو الموڑا میں ایک عوامی اجتماع میں بلا کر ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے آدم خور کی ہلاکت کے سلسلے میں میری مدد کی تھی اور انہیں شکریے کے طور پر انعام بھی دیا۔

نینی تال واپسی کے ایک ہفتے بعد سر میلکم ہیلی نے کانوں کے ماہر ڈاکٹر کرنل ڈک کے نام ایک تعارفی رقعہ دیا جنہوں نے مجھے لاہور میں تین ماہ اپنے ہسپتال میں داخل رکھا اور جب میں وہاں سے فارغ ہوا تو اس قابل ہو چکا تھا کہ دیگر افراد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہ کرتا اور جنگلی پرندوں کی آوازوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل ہو چکا تھا۔

٭٭٭

ماخذ:

http: //shikariyat.blogspot.com/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل