FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

مظفر حنفی ۔۔ حیات و جہات

 

حصہ اول (شاعری ۔۱)

 

                ترتیب: فیروز مظفر

 

 

 

گلزار صدف ( شریکِ حیات)

اور

ایمن، زمن، عدنان ( فرزندگان)

کے نام

 

 

 

 

مقدّمہ

 

مظفر حنفی کا ادبی سفر کم و بیش پینسٹھ برسوں کا احاطہ کرتا ہے۔ شعر و ادب کی تقریباً سبھی مروجہ اصناف میں ان کا خاصا کام ہے۔ وہ بنیادی طور پر غزل گو ہیں تاہم تنقید و تحقیق، ترتیب و تدوین، ناول، افسانہ، ترجمہ، سفر نامہ، مزاح نگاری اور ادبِ اطفال کے میدانوں میں ان کے کام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شادؔ  عارفی سے متعلق تحقیق اور ترتیب و تدوین کے لیے بھی انھیں بہ نظر تحسین دیکھا جاتا ہے۔

جیسا کہ عرض کیا گیا۔ مظفر حنفی کی بنیادی پہچان ان کی شاعری کے وسیلے سے ہے۔ تا حال منظرِ عام پر آنے والے ان کے شعری مجموعوں کی تعداد تیرہ ہے۔ ’ عکس ریز‘ ، ’تیکھی غزلیں ‘ ، ’پانی کی زبان‘ ، ’ صریر خامہ‘ ، ’ طلسم حرف‘ ، ’ دیپک راگ‘ ، ’ یم بہ یم‘ ، ’ کھل جا سم سم‘ ، ’ پردہ سخن کا‘ ، ’ یا اخی‘ ، ’ہاتھ اوپر کیے‘ ، آگ مصروف ہے، اور ’ کمان‘ ۔ ’ عکس ریز‘ میں ایک سو چوبیس منظوم خاکوں اور ستر اسّی رباعیوں کے علاوہ ان کی نظموں کی تعداد ایک سو سات ہے جب کہ غزلوں کی تعداد سولہ سو سے تجاوز کر گئی ہے(اپنے ابتدائی دور کی سیکڑوں غزلیں انھوں نے اپنے شعری مجموعوں میں شامل نہیں کیں )۔ ان کے مزاج میں ایک نوع کا تیکھا پن ہے جو اشعار میں طنز بن کر جھلکتا ہے۔ یہی مزاجی مناسبت اپنے دور کے بڑے طنز نگار شادؔ عارفی سے ان کی قربت کا سبب بنی اور انھوں نے چودہ مہینے تک خط و کتابت کے وسیلے سے تقریباً ۱۵۰ غزلوں پر اُن سے اصلاح لی اور ابتداء میں انھیں کا رنگ اختیار کیا۔ خاص طور پر ایک سو چوبیس خاکوں پر مشتمل طویل نظم ’ عکس ریز‘ ، ’ تیکھی غزلیں، اور ’ صریر خامہ‘ میں شامل ان کی شاعری میں شادؔ عارفی جیسا ذائقہ ہے جس کی بابت اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ یہ شاد کے اسلوب کی توسیع ہے اور بعض اسے نیا رنگ قرار دیتے ہیں۔ نقادوں کی کثرتِ رائے کے مطابق وہ بر صغیر کے چار چھے منفرد و ممتاز غزل گویوں میں سے ایک ہیں۔

مظفر حنفی کی شعر گوئی کا آغاز ۱۹۵۶ء کے آس پاس ہوا۔ یہی دور اردو ادب میں جدیدیت کے آغاز کا ہے۔ مظفر حنفی خود کو نہ جدید شاعر کہتے ہیں اور نہ ترقی پسند ہونے کے دعوے دار ہیں اس کے باوجود کچھ ناقدین نے ان کی جدیدیت پر طعن و تشنیع کی ہے تو کچھ نے ان کی ترقی پسندی پر برہمی کا اظہار کیا ہے لیکن فیضانِ سخن کبھی رائیگاں نہیں جاتا چنانچہ آل احمد سرور، شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، وزیر آغا، عمیق حنفی، خلیل الرحمن اعظمی اور بہت سے دوسرے جدید ناقدین انھیں ابتدائی دور سے ہی جدید غزل گویوں میں شمار کرتے آئے ہیں جب کہ اسی زمانے میں ڈاکٹر سید اعجازحسین، پروفیسر احتشام حسین، اختر سعید خاں، ظ۔ انصاری، علی جواد زیدی، ڈاکٹر محمد حسن جیسے ترقی پسند نقاد ان کی شاعری میں ترقی پسندی اور سماجی مقصدیت کی جھلکیاں دیکھتے ہیں اور اس زمرے کے ممتاز شاعروں میں ان کا شمار کرتے ہیں، مزید برآں کلاسیکی طرز فکر رکھنے والے فرمان فتح پوری، اعجاز صدیقی اور انجم فوقی جیسے قابل ذکر اہل قلم ان کی شاعری میں اپنی روایت کی صحت مند اقدار کی جھلکیاں پا کر خوش ہوتے ہیں۔

مظفر حنفی کی نظمیں ان کی غزلوں کی بہ نسبت تعداد میں حالانکہ کم ہیں لیکن جتنی کچھ ہیں منفرد طرز اظہار کی حامل ہیں۔ خاص طور پر ’ عکس ریز‘ جو معاشرے کی نمائندگی کرنے والے ایک سو چوبیس دلچسپ خاکوں پر مشتمل ہے۔ پروفیسر احتشام حسین، علیم اللہ حالیؔ، وہاب اشرفی اور کئی دیگر اہم ارباب قلم نے اس نظم کی خوبیوں اور مظفر حنفی کے مشاہدے کی وسعت اور باریک بینی کا اعتراف کیا ہے۔ مظفر حنفی نے اپنی مختصر مختصر نظموں کے تانے بانے ان چھوٹے موٹے موضوعات سے تیار کیے ہیں جودوسروں کی نگاہ میں نہیں آ سکے تھے۔ ان کی جدید نظموں کی دو خوبیاں ہیں اول تو ہر نظم اول تا آخر ایک ہی مخصوص بحر میں ہوتی ہے جو عام طور پر مصرعوں میں ٹوٹتی نہیں ہے اور ان کے عنوانات نظموں کے سا تھاس طرح مربوط ہوتے ہیں کہ عنوان ہٹا دیں تو مفہوم خبط ہو کر رہ جائے یہ در اصل نظموں ہی کے مصرعے ہیں۔ نظموں میں ان کا اچھوتا اسلوب غیر آرائشی اور بے تکلف ہے جو مظفر حنفی کو جدید نظم گو کی حیثیت سے بھی اہم اور منفرد قرار دیتا ہے۔

غزلوں اور نظموں کے علاوہ مظفر حنفی کے شعری سرمائے میں ساٹھ ستر رباعیات بھی قابل توجہ ہیں ان کی رباعیات میں متنوع موضوعات، کاٹ دار لہجہ، شدت احساس، عصری حسیت، سماجی معنویت، مشاہدے کی باریک بینی اور روزمرہ مسائل کی ترجمانی ملتی ہے۔ شادؔ عارفی کے انتقال پر شدت احساس سے لبریز ان کے مرثیے، ’وصیت‘ کو شمس الرحمان فاروقی نے طنز اور افسردگی کے امتزاج کی کمیاب مثال قرار دیا ہے اور اسے اردو کے اہم مرثیوں میں شمار کیا ہے۔ مسعوداشعراور عرشی زادہ’ بزدلی‘ کو حالیؔ کے مرثیۂ غالبؔ کے بعد دوسرابہترین شخصی مرثیہ تصور کرتے ہیں۔

اپنے تخلیقی سفر کے آغاز میں مظفر حنفی کا شمار افسانہ نگاروں میں ہوتا تھا اور ہندو پاک کے موقر رسائل و جرائد میں ان کے افسانے شائع ہوتے تھے۔ کرشن چندر اور کنھیا لال کپور جیسے نامور افسانہ نگاروں نے انھیں اچھا افسانہ نگار تسلیم کیا۔ فراقؔ گورکھپوری کو مظفر حنفی کے افسانوں میں زندگی کے پہلوؤں کی عکاسی نظر آتی ہے اور وہ ان میں نیا پن محسوس کرتے ہیں۔ مظفر حنفی کے افسانوں کے تین مجموعے ’ دو غنڈے‘ ، ’ اینٹ کا جواب‘ اور ’ دیدۂ حیراں ‘ شائع ہوئے لیکن جدیدیت اور علامت پسندی کا دور دورہ ہوا تووہ افسانہ نگاری سے کنارہ کش ہو گئے کیونکہ ان کے خیال میں اشاریت، رمزیت اور علامت افسانے کی نہیں شاعری کی خوبیاں ہیں۔

ابتدا میں  مظفر حنفی نے بچوں کے لیے دلچسپ کہانیاں بھی لکھیں جو بچوں کے رسائل میں شائع ہوئیں۔ ان میں سے چند منتخب کہانیاں، کتابی شکل میں چھپ چکی ہیں۔ انڈین کونسل آف رائٹرس فار چلڈرن نے تمام ہندوستانی زبانوں کی نمائندہ بچوں کی کہانیوں کا جو انتخاب شائع کیا اس میں اردو کی نمائندگی کے طور پر مظفر حنفی ہی کی ایک کہانی شامل کی گئی ہے۔ اب بھی کبھی کبھار بچوں کے لیے ان کی نظمیں رسالوں میں نظر آ جاتی ہیں۔ این سی ای آر ٹی، اتر پردیش، مدھیہ پردیش،  مہاراشٹر، دہلی، مغربی بنگال وغیرہ کی درسی کتب میں بھی ان کی ایسی کئی نظمیں شامل ہیں۔

شاعری کے بعد مظفر حنفی کے دوسرے اہم کام تحقیق و تنقید کے میدان میں نظر آتے ہیں۔ اب تک ان کی دس بارہ تحقیقی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ شادؔ عارفی: شخصیت اور فن، ان کا نمایاں کارنامہ ہے۔ علاوہ ازیں قومی کونسل برائے ترقی اردو زبان سے شائع ہونے والی وضاحتی کتابیات (بائیس جلدیں )بھی مظفر حنفی کا ایک قابل ذکر کارنامہ ہے جس کی جلد اول، دوم اور سوم کی تیاری میں گوپی چند نارنگ بھی شامل تھے۔ بقیہ انیس جلدیں مظفر حنفی نے آزادانہ تیار کی ہیں۔ یہ ایک پِتّہ ماری کا کام ہے اور خاصی کاوش و جستجو کا مطالبہ کرتا ہے اہل نظر اس کی اہمیت اور افادیت سے واقف ہیں۔ حسرتؔ موہانی اور محمد حسین آزاد پر نیشنل بک ٹرسٹ اور ساہتیہ اکادمی سے چھپنے والی مظفر حنفی کی کتابیں بھی انھیں اچھا محقق ثابت کرتی ہیں۔ دہلی اردو اکادمی کے لیے میر حسنؔ کی غزلیات کا جامع انتخاب اور اس پر مبسوط مقدمہ اس سلسلے کی ایک اور کڑی ہے اور ’آزادی کے بعد دہلی میں اردو طنز و مزاح‘ نیز’ میر تقی میرؔ کا مونو گراف‘ بھی ان کے تحقیقی کارناموں میں شامل ہیں۔ اس سلسلے کا ایک اور کارنامہ ’ کلیات ساغر نظامی ‘ کی ترتیب و تدوین ہے جس کی تین جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ ایک بیباک اور صاف گو نقاد کی حیثیت سے بھی مظفر حنفی ادبی دنیا میں خاصے معروف ہیں۔ مختلف رسالوں، ادبی سمیناروں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے قلمبند کردہ مقالات پر مشتمل مظفر حنفی کی سات کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ عام تنقیدی روش اور مروّجہ پیمانوں سے ہٹ کر کھُلا ڈلا انداز اور غیر رسمی اسلوب نگارش ان کے مضامین کی خصوصیت ہے۔ شخصیتوں پر ان کے مضامین حقیقت پسندانہ، غیر جانبدارانہ اور متوازن رویّے کے حامل ہیں۔ مظفر حنفی نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں پر قلم اٹھانے میں پہل کی اور نئے نئے موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ ان کی نشریاتی تقریروں، ریڈیائی فیچروں اور ڈراموں پر مشتمل کتاب بھی منظر عام پر آ چکی ہے۔ ۱۹۹۲ء میں وہ ڈھائی ماہ برطانیہ میں رہے جس کا سفر نامہ ناول کی طرح دلچسپ  ہے۔ متعدد اہم لکھنے والوں سے ان کے مکالمات، انٹرویو اور خود ان سے لیے گئے انٹرویو بھی کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ انھوں نے بلا مبالغہ سو سے زیادہ کتابوں پر پیش لفظ اور فلیپ لکھے ہیں۔ تحقیق و تنقید کے ضمن میں ان کے تحقیقی کام ’شاد عارفی: فن اور شخصیت‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اسی سے وابستہ شاد عارفی کے سلسلے کی آٹھ اہم اور دستاویزی اہمیت کی حامل کتابوں کا معاملہ ہے۔ مظفر حنفی کو ان کی ترتیب و تدوین کے لیے برسوں تحقیق و جستجوکے خارزاروں سے الجھنا پڑا۔ ہند و پاک کے ہزاروں رسائل، جرائد اور اخبارات کھنگال کر انھوں نے شادؔ عارفی کی تخلیقات یکجا کیں اور ہزاروں  صفحات پر محیط اس ادبی ذخیرہ کو اپنی عسرت، تنگدستی اور وسائل کے فقدان کے باوجود ضخیم کتابوں کی شکل میں شائع کر دیا۔ مظفر حنفی کا یہ کارنامہ ایک ادبی دفینے کی باز یافت کے مترادف ہے انھوں نے ’کلیاتِ شادؔ عارفی‘ رام پور رضا لائبریری کے وسیلے سے منظر عام پر لا کر ادبی دنیا میں اپنے استاد کو ایک عصر ساز فن کار کی حیثیت سے زندہ جاوید کر دیا ہے۔

مظفر حنفی کی زیر ادارت ۱۹۵۹ء میں کھنڈوا سے ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ کے چودہ شمارے منظر عام پر آئے۔ اس پرچے نے قلیل عرصے میں ہندوستان کے ادبی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ہمارے عہد کے صف اول کے قلم کاروں میں سے کئی ایسے ہیں جنھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز ’ نئے چراغ‘ سے کیا۔ مظفر حنفی کا مرتب کردہ مجموعۂ مضامین ’ جدیدیت‘ تجزیہ و تفہیم‘ جدیدیت سے متعلق غالباً پہلی کتاب ہے جو کچھ یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل ہے۔

اسی طرح’ جائزے‘ میں مختلف اصناف ادب سے متعلق تصانیف پر مختلف حضرات کے تبصروں کو مظفر حنفی نے یکجا کیا۔ اس مجموعے میں مظفر حنفی کے تحریر کیے ہوئے پچاس ساٹھ تبصرے بھی شامل ہیں۔ ان کے تبصروں کی مجموعی تعداد ڈیڑھ دوسو کے قریب ہے جنھیں میں یکجا کر کے کتابی شکل میں پیش کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں۔ ترتیب و تدوین کے سلسلے میں ان کا ایک اور اہم کارنامہ ’’ روحِ غزل‘‘ ہے جو غزلوں کا پچاس سالہ انتخاب ہے۔ اس کتاب میں بیسویں صدی کے ۶۹۳ شعراء کی بیشتر تین تین اور ساٹھ ستر کی چھ چھ منتخب غزلیں شامل ہیں نیز اردو غزل کے ارتقائی سفر کے بارے میں مظفر حنفی کا طویل اور مبسوط مقدمہ بھی شریک ہے۔

مظفر حنفی نے اوائل عمری میں بلکہ زمانہ طالب علمی میں چند جاسوسی ناولوں اور کچھ کہانیوں کو انگریزی سے اردو میں منتقل کیا تھا۔ آگے چل کر الیگزینڈر سولنستین کی مشہور زمانہ تصنیف ’’ گلاگ مجمع الجزائر‘‘ ( تین دفتر ) کو انھوں نے کچھ اس خوبی سے اردو میں منتقل کیا کہ (مقام و کردار سے قطع نظر) یہ اردو ہی کی تخلیق محسوس ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ساہتیہ اکادمی اور نیشنل بک ٹرسٹ اور دیگر اداروں کی فرمائش پر ہندوستان کی علاقائی زبانوں :گجراتی، اڑیا، بنگلہ اور ہندی سے ترجمہ کردہ مظفر حنفی کی کتابوں کی تعداد چودہ ہے۔ مزید بر آں انھوں نے سفرنامہ ’چل چنبیلی باغ میں، اور ’’ پُر لطف یاد داشتیں ‘‘ ( بعنوان حاضر جوابیاں ) بھی قلمبند کی ہیں۔

مظفر حنفی کے تا حال ادبی کارناموں کا سرسری جائزہ مکمل کرنے سے پہلے ایک بات عرض کر دینا ضروری سمجھتاہوں۔ موصوف کی حیات، شخصیت اور ادبی کارناموں پر کوئی پچیس چھبیس برس پیشتر، پی ایچ۔ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ لکھا جا چکا ہے جس پر ناگپور یونیورسٹی نے محبوب راہیؔ کو ڈاکٹریٹ تفویض کی ہے۔ یہ ضخیم مقالہ کتابی شکل میں بہت پہلے منظر عام پر آ چکا ہے اور بقول وزیر آغا : کسی زندہ ادبی شخصیت پر شائع ہونے والا پی ایچ۔ ڈی کا اوّلین مقالہ ہے ظاہر ہے کہ وہ ایک خاص مقصد کے تحت فرد واحد کی کاوش تھی اور یہ بھی کہ اس وقت مظفر حنفی شعر و ادب کی مختلف اصناف میں تخلیقی اور تحقیقی کاموں میں مصروف تھے۔ مقالہ نگار نے مظفر حنفی کے ۱۹۸۴ء تک کے تخلیقی، تحقیقی اور دیگر ادبی سرمائے کی روشنی میں ان کے ادبی مرتبے کا تعین کرنے کی مخلصانہ کوشش کی لیکن متعدد اصناف شعر و ادب پر محیط مظفر حنفی کے ادبی کارناموں سے متعلق ہندو پاک کے سینکڑوں ناقدین اور مبصرین نے جو کچھ لکھا تھا اس کی سمائی اس مقالے میں ممکن نہیں تھی اور بہر صورت یہ کام ادھورا تھا۔ چنانچہ میں نے مظفر حنفی کی کتابوں پر تحریر کیے جانے والے بر صغیر کے ممتاز شعراء ادباء اور ناقدین کے مضامین، تبصرے وغیرہ کا جو سرمایہ رسائل و جرائد میں بکھر اہوا تھا، ۱۹۹۹ء میں مرتب کر کے’’ مظفر حنفی:ایک مطالعہ‘‘ کی صورت میں شائع کر دیا تھا جس میں کوئی مضمون مرتب کی فرمائش پر نہیں لکھا گیا تھا۔

پیش نظر کتاب کی ترتیب و اشاعت کا مقصد مظفر حنفی کے کثیر الجہات ادبی کارناموں پر لکھے گئے تازہ بہ تازہ مضامین کو بیک وقت اہلِ نظر کے سامنے لانا ہے تاکہ انکی مجموعی ادبی حیثیت کا از سرِ نو تعیّن کیا جا سکے۔ کیونکہ گزشتہ پچیس سالوں میں اُن کی کم و بیش تیس کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں دو ضخیم جلدوں پر مشتمل موصوف کا شعری کلیات بھی شامل ہے۔

مضامین کے سلسلے میں مظفر حنفی کی اس ہدایت پر میں نے سختی سے عمل کیا ہے کہ معروضیت کو بہر صورت مقدم رکھا جائے۔ لہٰذا کتاب میں کئی ایسے مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں مظفر حنفی کے فن کے تئیں منفی خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مختلف نظریات کے حامل ارباب نقد و نظر کی ان متنوع تحریروں کی روشنی میں اردو دنیا مظفر حنفی کے ادبی قد و قامت کا تعین کر سکے گی۔

کوئی بھی کام اپنے آپ میں مکمل نہیں ہوتا اور نہ خامیوں سے پاک۔ یہ میری ناچیز کاوش ہے اس میں کس حد تک کامیاب ہو سکاہوں اس امر کا فیصلہ ارباب نظر فرمائیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بھی تنقید کی جانب سے مظفر حنفی کا حق پورے طور پر ادا نہیں ہو گا کیونکہ ان کا تخلیقی سفر ہنوز جاری ہے۔ پھر بھی اس مجموعے میں ایسے مضامین شامل ہیں جو اُن کی تخلیقی اور علمی نگارشات کے بیش از بیش پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں ان میں موصوف کی شخصیت، غزل گوئی، نظم نگاری، تنقیدی بصیرت، تحقیقی نکتہ سنجی سے متعلق مضامین بھی شامل ہیں اور ان کی اشاریہ سازی، ادبِ اطفال سے متعلق کارناموں کے علاوہ مزاحیہ نگارشات، مکتوب نویسی، سفر نامے وغیرہ کے بارے میں مختلف مکتبِ فکر کے ناقدین، شعراء اور ادباء کی تحریریں شریکِ اشاعت ہیں۔ میں ان تمام مضمون نگاروں کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی نگارشات اس کتاب میں شامل ہیں۔

یکم جنوری۲۰۱۳ء                                      فیروزؔ مظفر

D-40 بٹلہ ہاؤس، نئی دہلی ۲۵

 

 

 

 

تخلیقی جہات

 

                غزل

 

 

’’فن اور مطالباتِ فن پر مظفر صاحب کی پوری نظر ہے۔ مذہب یا حقیقت پسندی کی سرگرمی ان کو کبھی اس راستے پر نہیں لے جاتی جو فن کو مجروح کر دے۔ ان کے یہاں عموماً عروض، بلاغت، بیان، ترسیل ہر ایک عنصر کا توازن و اعتدال آپ ملے گا۔ یہ احتیاط کا اثر ہے کہ باوجود عمیق خیالات کے مفہوم سمجھنے میں دِقت نہیں ہوتی۔ ان کا لہجہ موضوع سخن کے ساتھ حسب تقاضائے فن بدلتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی لب و لہجہ کی رمز شناسی ان کو بلاغت کی اس منزل پر پہنچا دیتی ہے جو بہت کم شعراء کو نصیب ہوتی ہے یعنی کوئی بات کہتے کہتے اس طرح چپ ہو جانا کہ ان کہی بات دل میں بیٹھ جائے جیسے شاعر نے کچھ نہ کہہ کر بہت کچھ کہہ دیا، ہمارے نزدیک فنِ بلاغت کی ایک مہم سر کرنا ہے۔ اس فنکاری کی ایک مثال مظفر صاحب کے کلام سے ملاحظہ ہو:

شبِ گزشتہ کہ یادوں کا آسرا بھی نہ تھا

ہزار چاہا کہ سو جائیے، ولے صاحب!‘‘

پروفیسر سید اعجاز حسین

 

 

 

 

                شمس الرحمٰن فاروقی

      الٰہ آباد

 

 

 دیباچۂ کلیا ت مظفر حنفی

 

ایک مدت سے میں مظفر حنفی کے بارے میں لکھنے کی سوچ رہا ہوں۔ لیکن ہمیشہ یہ مشکل مانع آ جاتی تھی کہ مظفر حنفی جیسے پر گو اور متنوع غزل گو اور نظم گو کے بارے میں بات کہاں سے شروع کروں، خاص کر جب وہ بہت اچھے رباعی گو بھی ہیں، تنقید بھی انھوں نے جب لکھی ہے تو اچھی خاصی لکھی ہے، افسانہ نگاری کے بھی کوچے سے وہ نا آشنا نہیں۔ ان کے طوفان زا تخلیقی جوش کے باعث ان کی انتہا تو انتہا، ابتدا پر بھی ہاتھ پڑنا مشکل معلوم ہوتا تھا۔ اور اب جب ان کے کلیات کے چھپ جانے کا امکان ہے، یہ مجھے اور بھی مشکل، لیکن اور بھی مناسب لگنے لگا ہے کہ ان پر کچھ لکھا جائے۔

ہر چند کہ مظفر حنفی پر تحقیقی مقالے بھی لکھے گئے ہیں اور ان کی غزل گوئی، ان کی طنزیہ جہت، ان کی طباعی اور طنازی پر بھی لوگوں نے حسب توفیق گفتگو کی ہے، لیکن ان تحریروں میں ہمیشہ مجھے کچھ کمی کا احساس ہوتا تھا۔ اس کی وجہ صرف ان کی پر گوئی نہیں (اگر چہ وہ بھی ایک اہم وجہ ہے)۔ میرا خیال ہے کہ کچھ تو اپنے رجحان طبع کے سبب، اور زیادہ تر اپنے استاد شاد عارفی صاحب کا حق ادا کرنے کے لیے انھوں نے اکثر خود کو طناز، اور غزل کی صنف میں بقدر کثیر طنز کی آمیزش کرنے والا اور ٹیڑھی تیکھی باتیں لکھنے والا لکھا اور کہا ہے۔ (ان کے ایک مجموعے کا نام ہی ’’تیکھی غزلیں ‘‘ ہے۔ ) واضح رہے کہ میں ’’طنز نگار‘‘ نہیں کہہ رہا ہوں، طناز کہہ رہا ہوں۔ ’’طنز نگار‘‘ سے عام طور مراد ہوتی ہے ایسا شخص جس کا ادبی کارنامہ بیش از بیش طنز(اور کچھ مزاح) پر مشتمل ہو۔ مثلاً رشید احمد صدیقی طنز نگار ہیں، سید محمد جعفری طنز نگار ہیں، شاد عارفی طنز نگار ہیں۔ لیکن شفیق الرحمٰن مزاح نگار ہیں، ابن انشا مزاح نگار ہیں، وغیرہ۔ رشید صاحب نے اپنی کتاب ’’طنزیات و مضحکات‘‘ میں ’’طنز نگار‘‘ کی جمع کے طور پر ’’طنزئین‘‘ لکھا ہے، یعنی وہ سب لوگ جو اپنی طنزیہ تحریروں یا میلان کی بنیاد پر ادب میں کوئی مقام رکھتے ہیں، خواہ انھوں نے صرف و محض طنز نہ لکھا ہو۔ لیکن رشید صاحب نے اس کا واحد ’’طنزی‘‘ نہیں استعمال کیا۔ مجھے بھی ’’طنزی‘‘ کچھ بے ڈول سا لگتا ہے۔ اور مظفر حنفی کو صرف’’ طنز نگار‘‘ کہنا غیر منصفانہ معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا میں نے لفظ ’’طناز‘‘ کو اس کے عشقیہ مفہوم سے الگ کر کے صرف ان معنی میں استعمال کیا ہے کہ ہر وہ شخص جو طنز کو اپنی تحریروں میں راہ دیتا ہے، اسے ( اور باتوں کے علاوہ) ’’طناز‘‘ کہا جانا چاہیئے۔

’’فرہنگ آنند راج‘‘ میں لفظ ’’طناز ‘‘ کے حسب ذیل معنی درج ہیں :

بسیار سخن برموز گویندہ وناز کنندہ و رفتار بہ ناز کنندہ

ظاہر ہے غالب کے مندرجہ ذیل مشہور شعر میں ’’طناز‘‘ بمعنی ’’ناز کنندہ‘‘ ہے   ؎

نقش ناز بت طناز بہ آغوش رقیب

پاے طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے

اور میرؔ کے اس شعر میں ’’طنز‘‘ کے معنی ہیں ’’وہ بات جو برموز، یعنی گھما پھرا کر کہی جائے‘‘   ؎

مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں

اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے

طنز کی بنیادی خصوصیت یہی ہے کہ بات کچھ مقصود ہوتی ہے اور کہی کچھ اور جاتی ہے۔ مظفر حنفی کے یہاں یہ صفت عام ہے، اور براہ راست صرف طنز سے مختص نہیں۔ لہٰذا مظفر حنفی کے کلام کی محض طنزیہ جہت پرساری توجہ منعطف کر کے ہم ان کے ساتھ کچھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مگر ایک مشکل یہ بھی ہے کہ مظفر حنفی کو یہ وہم بھی ہے کہ ان کے یہاں عشقیہ شعر کم ہیں، یعنی ان کے کلام میں ’’تغزل‘‘ کا عنصر کم ہے   ؎

غزل مظفر کی خوب تھی اس میں شک نہیں ہے

مگر تغزل کے نام پر ایک بات کم تھی

میں تو’’ تغزل‘‘ کو ایک بے معنی اور اردو تنقید کی اصطلاح کے طور پر، یا غزل کی تفہیم و تعریف بیان کرنے کے لیے ایک وسیلے کے طور پر، موضوعی لفظ سمجھتا ہوں (اس پر کچھ بات آئندہ ہو گی)۔ ہماری پرانی کتابوں میں (حتیٰ کہ ’’آب حیات‘‘ میں بھی) یہ لفظ نہیں ملتا۔ تو جس چیز یا تصور کا وجود ہماری روایت میں تھا ہی نہیں، اس کے وجود یا عدم سے گفتگو کرنا کار فضول ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ناسخ کے یہاں ’’تغزل‘‘  نہیں ہے۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ اسی حساب سے آتش کے یہاں بھی ’’تغزل‘‘ نہیں ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جو بات مشہور ہو جائے اس پر سبھی ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ ناسخ کا رنگ ’’لکھنوی‘‘ اور ’’خارجی‘‘ ہے اور آتش کا رنگ ’’دہلوی‘‘ اور ’’داخلی ‘‘ ہے۔ اور حقیقت حال یہ ہے کہ مصحفی جیسے شخص نے آتش کا نیا انداز دیکھ کر خیال بندی اختیار کی تھی، جیسا کہ مصحفی نے خود کہا ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ خیال بندی ہی شاعری ہے۔ شاعری کی اور بھی کئی طرزیں ہیں، اور سب اپنی اپنی جگہ خوب سے خوب تر کہی جا سکتی ہیں۔ لیکن اگر شعر میں عدم انفعال، رندانہ خوش طبعی، ظرافت اور مضمون آفرینی کی بے لگام قوت دیکھنا ہو تو ناسخ کو دیکھیے، آتش کو دیکھیے۔ ذوقؔ کو دیکھیے۔ ان کے پہلے والوں میں مصحفیؔ کو دیکھیے، اور بھی پہلے بقاؔ اکبر آبادی، اور شاہ نصیر کو دیکھیے۔ افسوس کہ ان لوگوں کو ترک کرنے کی وجہ سے ہماری شاعری اور خاص کر ہماری غزل، جوانی کے رگ پٹھوں اور ہڈی کی توانائی سے محروم رہی۔ ذرا ناسخؔ کو سنیے    ؎

چلی تلوار دریا پر یہ تیرے آشناؤں میں

ہزاروں سر حباب آسا ہوئے نابود پانی میں

الاپا وہ پری طلعت سلیماں جو لب دریا

بجائے شور ہو گا نغمۂ داؤد پانی میں

اکیلے تم نہانے کو نہ اترو سن لو ناسخ کی

نہ غوطہ مار بیٹھا ہو کوئی مردود پانی میں

ان اشعار میں مضمون آفرینی اور رعایت و مناسبت کا جو وفور ہے، اس کو بیان کرنے کا موقع نہیں۔ آپ صرف یہ دیکھیں کہ پہلے شعر میں جو لطف ہے (یعنی دوسرے عاشقوں، یعنی رقیبوں، کے مرنے کا غم بالکل نہیں )وہ ایک طرف مومن کی یاد دلاتا ہے، ( لیکن مومن  کے شعر میں اتنی تیزی اور طباعی نہیں جتنی ناسخ کے شعر میں ہے، ہاں یہ لطف ضرور ہے کہ عاشقوں کا قتل بڑی تماشے کی چیز ہے)، تودوسری طرف حافظ اور نسبتی تھانیسری کے جلوؤں کی چھوٹ سے ہمیں چکا چوندھ کرتا ہے   ؎

کیا تم نے قتل جہاں اک نظر میں

کسی نے نہ دیکھا تماشا کسی کا

(مومن)

زلف نگار  و توبۂ ما  و سر رقیب

ایں ہر سہ را کہ نام شنیدی شکستہ بہ

(نسبتی)

یا وفا یا خبر وصل تو یا مرگ رقیب

بود آیا کہ فلک زیں دو سہ کارے بکند

(حافظ)

اگر (مقبول اور مروج تنقیدی رائے کے مطابق)یہ گمان کیا جائے کہ آتش تو ’’داخلیت‘‘ اور ’’سوزو گداز قلب‘‘ کے شاعر ہیں، لہٰذا آتش کے یہاں اس طرح کی ’’اٹھا پٹک‘‘ والے شعر نہ ہوں گے، تو آتش کی ایک غزل کے کچھ شعر ملاحظہ ہوں۔ بحر وہی ہے، ردیف وہی، قافیہ مگر بدلا ہوا ہے   ؎

نہانے کو لگا جانے جو وہ محبوب دریا میں

عریضوں کی جگہ بہنے لگے مکتوب دریا میں

مرے یوسف کو  لہر آئی اگر اس میں نہانے کی

حباب ایک ایک ہو گا دیدۂ یعقوب دریا میں

لگا کر غوطہ بوسہ لوں گا اس طفل شناور کا

خدا سے گوہر مقصود ہے مطلوب دریا میں

تو جب پرانے ’’اساتذہ‘‘ اور ’’ثقہ‘‘ شاعر اس طرح کے شعر کہتے تھے تو ہمارے مظفر حنفی کی کیا خطا ہے اگر وہ بھی اس طرح کے شعر کہتے ہیں ؟ ملاحظہ ہو    ؎

تھوڑا سا التفات میاں یار بادشاہ

دینے لگے ہیں زخم دھواں یار بادشاہ

لازم ہے دل میں تیر کے مانند آئیے

اب جسم ہو گیا ہے کماں یار بادشاہ

معلوم یہ ہوا کہ وہاں آپ ہیں مقیم

ہم نے کیا قیام جہاں یار بادشاہ

٭

برہمن سیخ پا ہو رہا ہے ادھر

اس طرف شیخ کا قافیہ تنگ ہے

باغباں پر بھروسے کی اچھی کہی

غالباً آپ کی عقل پر زنگ ہے

٭

حیراں نہ ہو فضول کہ کیا ہے پس غبار

کچھ بھی نہیں غبار کھڑا ہے پس غبار

شہ رگ اچھل رہی ہے چھٹی حس کے ساتھ ساتھ

دشمن کوئی ضرور چھپا ہے پس غبار

٭

پوچھیے تو رہرو دشت بلا کوئی نہیں

در حقیقت دور تک دامان صحرا سرخ ہے

آنکھ سے دامن تک آنے میں یہ حالت ہو گئی

خون کا قطرہ بھی آدھا زرد آدھا سرخ ہے

٭

کچھ لوگوں کو جھوٹی تعریفیں بھاتی ہیں مثلاً وہ

کچھ سچی تعریفیں سن کر شرماتے ہیں مثلاً میں

اکثر بے چاروں نے اتنے دھوکے کھائے دنیا میں

اب مخلص لوگوں سے مِل کر گھبراتے ہیں مثلاً میں

٭

جھینپ رہی ہیں فرمائش پر

شرمیلی شرمیلی آنکھیں

ژرف نگاہی سے عاری ہیں

آہو کی تمثیلی آنکھیں

ان شعروں کے سامنے مصحفی کا یاد آ جانا لازمی ہے    ؎

ہیں تری سحر سامری آنکھیں

نہ کریں کیوں کے کافری آنکھیں

زہر کھاتے ہیں ان پہ کیا کیا لوگ

ہیں جو کیری سی بس ہری آنکھیں

مصحفی کتنی زیب دیتی ہیں

گورے چہرے پہ سانوری آنکھیں

یہ بات صحیح ہے کہ مصحفی کے یہاں آنکھوں کے حسن کا احساس بالکل زمینی، بصری اور لمسی سطح پر ہے۔ اسی لیے ان کے شعر ’’دل میں گھر کر جانے‘‘ کی صفت رکھتے ہیں۔ مظفر حنفی کو کسی کے دل میں گھر کرنے کا نہ ذوق ہے نہ فرصت، وہ تو سوچ سوچ کر اور عقل کا استعمال کر کے شعر کہتے ہیں۔ وہ طنز کہیں یا نہ کہیں، لیکن وہ خیال اور عقل کے شاعر پہلے ہیں، باقی سب بعد میں۔

یہ ضرور ہے کہ گئے زمانے کی ردیفیں اور تھیں، مضمون اور تھے، لیکن اصول وہی تھے جو آج مظفر حنفی نے اپنائے ہیں : بات کہنے میں منفعلی کا شائبہ نہیں، بہت سی باتیں صرف بات کی خاطر کہی  جائیں گی، لیکن بات میں ندرت ہونا شرط ہو گا۔ مظفر حنفی مجھے معاف کریں تو میں یہ بھی کہہ دوں کہ ناسخ اور آتش کے اشعار میں فنی لوازم کا التزام زیادہ ہے۔ ان کا ہر شعر نک سک سے درست ہے۔ مظفر حنفی انھیں لوگوں کے معنوی شاگرد ہیں، لیکن ان کے یہاں کبھی کبھی بات کہنے کی ذرا جلدی معلوم ہوتی ہے۔

لہٰذا افسوس یہ ہے کہ غلط اصطلاحوں اور غلط تصورات کے چکر میں پڑ کر ہم نے غزل کی شاعری کی حقیقت کے بارے میں ایک بنیادی بات بھلا دی ہے۔ اور وہ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ لازمی نہیں کہ غزل کا شاعر انفعالی اور ’’پژمردہ‘‘ مزاج رکھتا ہو، ہر بات پر آنسو بہا تا ہو اور معشوق کی یاد میں صحرا و دریا کی خاک چھانتا پھرتا ہو۔ دوسرے الفاظ میں، غزل کے مضامین اور اسالیب وہ نہیں جن کا مذاق حالی نے انتہائی بے دردی سے اڑایا تھا۔ غزل کا شاعر جارحانہ، تفکرانہ اور تحکمانہ مزاج کا حامل بھی ہو سکتا ہے۔ غزل کا شاعر صرف محرومی قسمت اور ناسازگاری زمانہ کی بات نہیں کرتا، وہ لوگوں سے جھگڑتا بھی ہے۔ (ہمارے یہاں سب سے بڑے جھگڑالو حضرت میر محمد تقی میر تھے۔ ) اور اگر وہ محرومی اور نارسائی وغیرہ جیسے مضامین اٹھاتا بھی ہے تو اپنے شعر میں انفعال کی جگہ برہمی، یا طنز، یا مبصرانہ اظہار رائے کو بیش از بیش بکار لاتا ہے۔

مضمون کی تلاش اور نادر بات کہنے کا ذوق، خیال بندی کا ایک اہم پہلو ہے۔ اس کا دوسرا اہم پہلو، ظرافت، ٹھٹھول، عاقلانہ اظہار خیال، تفکر اور تجسس ہے۔ دونوں کی زندہ اور روشن مثالیں ناسخ اور آتش کے اوپر منقولہ مقطعوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ غزل میں ’’داخلیت‘‘ (خدا جانے یہ کیا شے ہے؟)ہی ہو، تصوف اور ما بعد الطبیعیات ہی ہو۔ غزل میں دنیا داری اور پنچایتی رنگ بھی ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شاعر کو ندرت کی تلاش ہو، وہ نئے الفاظ  اور مضامین کو ’’مضر‘‘ نہ سمجھے، ان سے پرہیز نہ کرے، بلکہ انھیں 1

مضمون کے بھی شعر اگر ہوں تو خوب ہیں

کچھ ہو نہیں گئی غزل عاشقانہ فرض

خیال بندی کا تیسرا اہم اصول یہ ہے کہ شاعر اگر نئی بات کہنا چاہے تو اس نکتے کو ملحوظ رکھ کر کہے کہ غزل کا ایک تسلسل ہے، ایک تاریخ ہے، اور کوئی بھی صنف اپنی تاریخ سے بیگانہ نہیں ہو سکتی۔ مظفر حنفی کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے شعر قدم قدم پر اردو فارسی کے کلاسیکی شعرا کی سر زمین سے اگے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر، مظفر حنفی کی ایک غزل کے کچھ شعر دیکھیے۔ یہ شعر میں نے کسی خاص تلاش اور فکر کے بغیر اٹھا لیے ہیں   ؎

کہاں تو پائے سفر کو راہ حیات کم تھی

قدم بڑھایا تو سیر کو کائنات کم تھی

خیال صحرائے ذات میں اس مقام پر تھا

جہاں کہ گنجائش فرار و نجات کم تھی

وہ فرد بخشش کہ جس کی تکمیل کی ہے میں نے

نگاہ ڈالی تو اس میں اپنی ہی ذات کم تھی

ترے کرم سے بڑا تھا کچھ اعتقاد مرا

اسی لیے مجھ کو فکر صوم و صلواۃ کم تھی

بہاؤ پانی کی بوند پر خون کا سمندر

نہیں تو اک قطرۂ لہو سے فرات کم تھی

فی الحال سخت ردیف اور مشکل قافیے کو الگ رکھ کر اشعار پر توجہ کرتے ہیں۔ مطلع سنتے ہی غالب کا شعر یاد آتا ہے   ؎

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

غالب کے یہاں جو کائناتی وسعت ہے اور زمین و آسمان کو جس طرح یکجا کیا گیا ہے، وہ ان کی اپنی قوت ہے۔ اور وہ اس طرز کو ہمیشہ استعمال بھی نہ کر سکے۔ بعد میں اقبال نے کائنات، دنیا، زمین، آسمان، انسان، خدا اور شیطان کو اپنی دنیائے شعر کی مکمل گرفت  اور وسیع حصار میں لے لیا۔ غالب کو اولیت ہے، لیکن تکمیل کا کام اقبال نے انجام دیا، اور وہ بھی اس شان سے، کہ ان کے بعد کسی کو جرأت نہ ہو سکی۔ قدیم سنسکرت شاعری میں ضرور اس طرح کا انداز ملتا ہے (اور ممکن ہے اقبال نے وہاں سے بھی استفادہ کیا ہو)کہ شاعر بے تکلف زمینی اور آسمانی مضامین و مناظر کو یکجا کر لیتا ہے۔ اقبال کی کوئی بھی نظم دیکھ لیں :’’انسان اور بزم  قدرت‘‘ ؛’’صبح‘‘ ؛روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ ؛’’ابلیس کی عرضداشت‘‘ ؛ حتیٰ کہ ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ جیسی بظاہر رسمی نظموں کے صرف آخری بند دیکھ لیجیے، بات واضح ہو جائے گی۔

اقبال اور غالب کی اشرفیت کے باتوں کے باوجود ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ مظفر حنفی کے مطلعے میں غالب اور اقبال دونوں کی تخلیقی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’راہ حیات‘‘ کا مضمون ہے، جس کے لیے پائے سفراٹھا یا تھا، لیکن چلنے کے پہلے ہی معلوم ہوا کہ سفر تو دور رہا، سیر کے لیے بھی وسعت بقدر ذوق نہیں۔ واضح رہے کہ ’’سیر‘‘ کے ایک معنی ’’چلنا‘‘ ، یا ’’سفر‘‘ ہیں تو دوسرے معنی  ہیں ’’تفریح کی غرض سے کہیں جانا، یا تفریح کی غرض سے کچھ دیکھنے یا کسی نئی جگہ کا نظارہ کرنا۔ ‘‘ میر نے کمال خوبی سے دونوں معنی یکجا کر دئیے ہیں   ؎

ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں

نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا

معنی کے اسی امکان سے فائدہ اٹھا کر میرؔ نے ایک جگہ دونوں الفاظ کو یکجا کر کے بالکل نئی بات پیدا کی ہے   ؎

دیر و حرم سے گذرے اب دل ہے گھر ہمارا

ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا

مظفر حنفی کے شعر میں بھی یہی بات ہے کہ ’’سفر‘‘ سے شاعر کا ذہن اور ہمارا ذہن ’’سیر‘‘ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ زندگی اگر ایک سفر ہے جو بہت مختصر معلوم ہوتا ہے، خواہ راہ حیات کتنی ہی طویل ہو، تو کائنات تقاضا کرتی ہے کہ ہم اس کی سیر کریں، اس کے اسرار و علائم کو سمجھیں، اس کے نت نئے نظاروں کو دیکھیں۔ لیکن اگر اپنی طوالت کے باوجود راہ حیات کم لگتی تھی تو سیر و سفر کے لیے بھی جگہ تنگ تھی۔ بجا، کہ میر، اور ایک حد تک غالب نے اپنے شعروں میں معنی کے جو امکانات بھر دئیے ہیں، مظفر حنفی کے شعر میں انھیں ڈھونڈنا بے سود ہو گا۔ لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ یہ مطلع وہیں سے اگا اور بالیدہ ہوا ہے جہاں میر، غالب اور اقبال نے اپنی بیخ افگنی کی تھی۔

دوسرے شعر میں ’’فرا رو نجات‘‘ نے معنی کی ایک اور جہت پیدا کر دی ہے، ورنہ غالب کا شعر یاد آنا لازمی تھا   ؎

شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں

جادہ غیر از نگہ دیدۂ تصویر نہیں

’’نگہ دیدۂ تصویر‘‘ کا پیکر اور استعارہ ناسخ کا فیض معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ناسخ نے ’’شمع تصویر‘‘ کی بے نوری کی بات بہت پہلے کہہ دی تھی   ؎

ایک کو عالم حسرت میں نہیں ایک سے کام

شمع تصویر سے روشن شب تصویر نہیں

لیکن شمع سے شمع یوں ہی جلتی ہے۔ مظفر حنفی کے یہاں ذات کا صحرا پھیلا ہوا ہے، غالب کے یہاں کوئی شوق بے پایا ں ہے جو متکلم کو دوڑائے لیے جاتا ہے۔ غالب کو پھر سنیے   ؎

مدعا محو تماشائے شکست دل ہے

آئینہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے

مظفر حنفی کے شعر کو غالب کے اشعار پر بلیغ اظہار خیال کہنا چاہیئے۔ فرینک کرموڈ (Frank  Kermode) نے کیا عمدہ بات کہی ہے کہ کسی نظم (یعنی شعر) پر بہترین اظہار خیال یا شرح (Commentary)کوئی دوسری نظم ہی ہو سکتی ہے۔ اب مظفر حنفی کے اگلے شعر پر غور کریں   ؎

وہ فرد بخشش کہ جس کی تکمیل کی ہے میں نے

نگاہ ڈالی تو اس میں اپنی ہی ذات کم تھی

میں مجاز کو بہت اچھا شاعر نہیں سمجھتا، لیکن آخری زمانے میں انھوں نے ایک دو غزلیں ضرور ایسی کہیں جن میں نئی جان تھی، ترقی پسندوں کا فارمولا نہ تھا۔ ان کا یہ شعر سنیے   ؎

سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے

سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے

انسانی سعی کے رائیگاں جانے، یا انسانی سعی کتنی ہی اور کیسی ہی انتھک اور بسیط ہو، خود فاعل اس سے مطمئن نہیں ہوتا۔ غالب نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ ’’قلندری و آزادگی و ایثار و کرم کے جو وداعی خالق نے مجھ میں بھر دئیے تھے بقدر ہزار ایک ظہور میں نہ آئے۔ ‘‘ مجاز کے شعر میں رومانی المیہ ہے اور مظفر حنفی کے شعر میں مفکر یا مصلح کا المیہ جو افلاطونی کاوشوں کی یاد دلاتا ہے۔ اگلے شعر میں با خدا دیوانہ باش کا رنگ نظر آتا ہے۔ تیرا کرم بے پایاں ہے، لیکن تجھ پر میرا اعتقاد اس سے بھی زیادہ تھا۔ یہ تو کچھ خدا کی ہستی کے بارے میں عجب طرح کی تشکیک کا مظاہرہ ہے، یا پھر اقبال کی طرح خدا کو چنوتی دینے کی بات معلوم ہوتی ہے     ؎

تو شب آفریدی چراغ آفریدم

سفال آفریدی ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار و راغ آفریدی

خیابان و گلزار و باغ آفریدم

لیکن انسان کی خلاقانہ قوت در حقیقت کھوکھلی ہے، کیونکہ اگر شب نہ ہوتی تو چراغ کہاں سے آتا؟ اللہ مسبب  الاسباب ہے اور انسان عالم اسباب میں اسیر۔ مظفر حنفی کو احساس ضرور ہو گا کہ ذات کی طرح صفات بھی بے پایاں ہیں، پھر بھی وہ خدا کے سامنے اکڑنے سے باز نہیں آتے۔ اور یہ اکڑ یگانہ کی سی اکڑ نہیں ہے کہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے نظام پر طنز کی (ناکام) کوشش کریں   ؎

پچھلا پہر ہے کاتب اعمال ہوشیار

آمادۂ گناہ کوئی جاگتا نہ ہو

اول تو گناہ کرنے کے لیے پچھلے پہر کی کیا قید، گناہ تو ہر وقت ہو سکتا ہے اور ہوتا ہی ہے۔ اس پر ظلم یہ کہ یگانہ کو اللہ تعالیٰ کے اس کرم و لطف کا خیال ہی نہیں کہ انسان جب کسی نیک کام کا ارادہ کرتا ہے تو وہ نیکی اس کے حساب میں لکھ دی جاتی ہے۔ لیکن جب وہ کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو جب تک وہ گناہ اس سے سرزد نہیں ہوتا، اس کے نامۂ اعمال میں درج نہیں ہوتا۔ پھر کراماً کاتبین کے بارے میں تو اللہ نے قرآن میں خود ہی کہہ دیا ہے کہ وہ ہمیشہ مستعد اور مہیا رہتے ہیں، پھر انھیں ہوشیار رہنے کی تلقین فضول محض ہے۔

یگانہ صاحب کی اکڑ بے معنی بھی ہے اور شعری اصول کے حساب سے بھی غلط ہے۔  دیکھیے کچھ مظفر حنفی جیسی بات امیر مینائی کیا لطف سے کہہ گئے ہیں   ؎

بندہ نوازیوں پہ خدائے کریم تھا

کرتا نہ میں گنہ تو گناہ عظیم تھا

امیر مینائی کے یہاں صوفیانہ انداز ہے، زاہدانہ نہیں۔ مظفر حنفی کے یہاں ایک مفکرانہ موقف ہے جس میں خدائے تعالیٰ کی لا متناہی بے کراں رحمت پر ایک طرح سے سوالیہ نشان لگایا گیا ہے۔

نہر فرات  کے ساحل پر امام عالی مقام کی تشنہ لبی پر بے شمار شعر کہے گئے ہیں۔ لیکن کم ہی ایسا ہوتا ہے جب اس مضمون کو بیان کرتے وقت متکلم کا غم اور اس کی برہمی دونوں ایک شعر میں یکجا ہو جائیں۔ مظفر حنفی کہتے ہیں   ؎

بہاؤ پانی کی بوند پر خون کا سمندر

نہیں تو اک قطرۂ لہو سے فرات کم تھی

’’قطرۂ لہو‘‘ کی تازگی لائق داد ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ مضمون ہے کہ امام کے لہو کا ایک قطرہ پورے دریائے فرات سے زیادہ قیمت اور توقیر کا حامل تھا۔ دنیا کے بادشاہوں کو طاقت اور علاقے کی ہوس دبائے اور دوڑائے چلی جاتی ہے۔ وہ کسی کو ایک بوند پانی اپنے پاس سے نہ دیں گے اور ایک بوند پانی کو روکے رہنے کی خاطر خون کے سمندر بہا دیں گے۔ پانی کی بوند اور خون کی بوند کا تقابل نہایت نہایت برجستہ اور استعاراتی امکانات سے بھرا ہوا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب راجہ رام نرائن موزوں کو انگریزوں نے گنگا میں غرق کیے جانے کی تعزیر دی تو ہنگام غرقابی ان کے لبوں پر یہ شعر تھا   ؎

محروم رفت بے تو لب تشنۂ حسین

اے آب خاک شو کہ ترا آبرو نہ ماند

فارسی کا شعر شور انگیز ہے اور اس میں رعایتیں ان رعایتوں سے بھی لذیذ ہیں جو ہم نے ناسخ اور آتش کے شعروں میں دیکھیں۔ فارسی کاشعر دل پر اثر کرتا ہے لیکن ہمیں غور و فکر پر آمادہ نہیں کرتا۔ مظفر حنفی اسی مضمون کو مفکرانہ اور شکوہ سنجی کے انداز میں کہتے ہیں اور مضمون کا پورا حق بھی ادا کر دیتے ہیں۔

سنہ۱۹۶۹ء میں قاسمی صاحب مرحوم کی فرمائش پر میں نے ’’فنون‘‘ کے جدید غزل نمبر کے لیے ’’ہندوستان میں نئی غزل‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا تھا۔ میں نے مظفر حنفی کے بارے میں اس مضمون میں لکھا تھا کہ انھوں نے جدیدیت کو شعوری اقبال و ایجاب کے طور پر اپنایا ہے۔ لہٰذا ان کے یہاں نثریت سے لے کر غیر معمولی شگفتگی تک ہر طرح کا انداز مل جاتا ہے۔ معلوم نہیں مظفر حنفی کو اس خیال سے اتفاق تھا کہ نہیں۔ شاید نہ رہا ہو گا، کیونکہ جدید غزل گویوں میں مظفر حنفی کے جن ہم عصروں نے خیال بندی اور مضمون آفرینی کو بیش از بیش اختیار کیا (بانی، بمل کرشن اشک، زیب غوری، کرشن کمار طور) انھیں پیکر تراشی سے بہت دلچسپی تھی اور بمل کرشن اشک کے سواکسی کو طنز سے لگاؤ کچھ زیادہ نہ تھا۔ اشک کے یہاں بھی طنزیہ جہت ان کی غزلوں سے زیادہ نظموں میں ہے۔ لیکن یہ سب شاعر کسی نہ کسی طور پر عشق کی پیچیدگیوں اور نارسائیوں اور اسرار سے بھی علاقہ رکھتے تھے۔ مظفر حنفی کو عشق کے مسائل یا معاملات سے دلچسپی بہت کم ہے۔ میر نے عشق کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا ہے، اور ہر پہلو کو جس خوبصورتی اور معنویت کے ساتھ نظم کیا ہے، وہ صرف اور صرف انھیں کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود میر بھی شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا اور خود شعر گوئی کے لوازم عشق کے حالات کے محرم ہونے کا درجہ نہیں رکھتے   ؎

نہ کچھ کاغذ میں تہ ہے نے قلم کو درد نالوں کا

لکھوں کیا عشق کے حالات نامحرم ہیں یہ دونوں

مظفر حنفی کا بھی معاملہ کچھ ایسا ہے کہ وہ دل کی بات زبان پر لانے سے کتراتے ہیں (شاید ڈرتے ہیں ؟)یہ کہنا کافی نہیں کہ طنز کا پنجہ ان پر اتنا حاوی ہے کہ وہ عشق کی سر خوشی، یا عشق کی شکست و ریخت کی منزل تک پہنچتے ہی نہیں۔ عشق کے حالات طنزیہ رنگ میں بھی بیان ہو سکتے ہیں، خصوصاً جب شاعر خود پر طنز کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ عرفی کا یہ غیر معمولی شعر دیکھیے۔ خود پر بھی طنز ہے اور معشوق پر بھی طنز ہے   ؎

عرفی قریب نزع رسیدی و بہ شدی

شرمت نیامد از دل امیدوار دوست

لیکن ہر شخص عرفی یا غالب نہیں ہو سکتا۔ مظفر حنفی کے دو شعر میں نے اپنے محولہ بالا مضمون’’ہندوستان میں نئی غزل‘‘ میں نقل کیے ہیں۔ ان میں دوسرا شعر یہ تھا   ؎

سچ مچ وہ تغافل سے کنارہ ہی نہ کر لے

میں سوچنے بیٹھا تو پسینہ نکل آیا

یہ عشقیہ شعر ہے، اور غالب کی یاد دلاتا ہے   ؎

جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امید بھی ہو

یہ نگاہ غلط انداز تو سم ہے ہم کو

غالب کا شعر خیال بندی میں عشقیہ شاعری کی اچھی مثال ہے۔ رعایتیں اس پر مستزاد ہیں۔ لیکن مظفر حنفی نے ایک بالکل نئی بات نکالی ہے۔ اس میں پورا وقوعہ نظم ہو گیا ہے۔ غالب کا متکلم تو شاکی ہے کہ تم تغافل اور تجاہل عارفانہ سے بھی کام نہیں لیتے۔ نظر انداز کر کے نکل جاتے ہو، تو بھلا مجھے کیا امید ہوسکتی ہے کہ تم میرے وجود سے واقف بھی ہو، میری محبت کا اعتراف تو دور کی بات ہے۔ جگر صاحب کا شعر ہے، اگرچہ کمزور شعر ہے، لیکن تجاہل اور تغافل کی یکجائی کے باعث یاد آ گیا    ؎

تجاہل تغافل تبسم تکلم

یہاں تک وہ پہنچے ہیں مجبور ہو کر

جگر صاحب کا دوسرا مصرع بالکل فضول ہے، لیکن تجاہل اور تغافل کے معاملات میں جو امکانات ہیں ان کا ذکر خوب ہے، اگرچہ غالب سے مستفاد ہے۔ مظفر حنفی کی دنیا ہی نرالی ہے۔ معشوق کی طرف سے کبھی کبھی اشارہ ملتا تھا کہ میرا تغافل در اصل ایک ادائے ناز ہے۔ اب کسی باعث وہ اشارے نہیں مل رہے ہیں۔ یا ہو سکتا ہے متکلم نے کبھی جھلا کر معشوق سے کہہ دیا ہو کہ جان کر کیجے تغافل، لیکن اس کا اثر شاید کچھ الٹا پڑا ہے اور اب آثار ہیں کہ وہ تغافل بھی ترک کر دے گا۔ اب جب یہ امکان متکلم پر روشن ہوا ہے تو اس کا تاثر انتہائی غیر معمولی ہے۔ اسے پسینہ آ جاتا ہے، جو انتہائی گھبراہٹ اور شاید خوف کی بھی علامت ہے۔ شعر کی برجستگی اور اپنی حماقت پر متکلم کی تشویش قابل داد ہیں۔ اسی غزل کا ایک اور شعر مجھے یاد ہے، مگر افسوس کہ وہ شعر مجھے کلیات میں نہیں ملا   ؎

پھر کوہکنی ڈھال ر ہی ہے نئے تیشے

پھر فخر سے چٹان کا سینہ نکل آیا

یہ مضمون مجھے تو کہیں نہیں ملا، نہ فارسی میں نہ اردو میں۔ اور اس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ فنکار کا وسیلۂ فن (موقلم، کاغذ، رنگ، قلم، روشنائی، چھینی، کنی، بربط، ستار وغیرہ) فنکار پر ناز کرے، یہ بات تو پھر بھی سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن یہاں تو وہ چٹان جسے تراش کر دودھ کی نہر نکالی جائے گی، یا کوئی شبیہ بنائی جائے گی، وہ ناز کر رہی ہے کہ اب میرے امکانات ظاہر ہونے والے ہیں۔ اور اس احساس کو ظاہر کرنے کے لئے شاعر نے چٹان کے سینے کو فخر سے ابھرتا ہوا بتایا ہے۔ غالب کے یہاں دو شعر ہیں جن میں فن اور فنکار، اور فنکار کے وسیلۂ فن کی بات ہے    ؎

دیدہ ور آں کہ تا نہد دل بہ شمار دلبری

در دل سنگ بنگرد رقص بتان آزری

اور دوسرا شعر خاص شاعرانہ تعلی کا ہے    ؎

ما نبودیم بدیں مرتبہ راضی غالب

شعر خود خواہش آں کرد کہ گردد فن ما

مظفر حنفی کا کمال یہ ہے کہ ان کے یہاں دونوں اشعار کی جھلک ہے لیکن ان کا مضمون بالکل ان کا اپنا ہے۔ اس پر مستزادمصرع ثانی کا پیکر ہے، تمام تصویروں اور تمام تقریروں سے بڑھ کر، کہ مصرع پڑھ کر جھر جھری آ جاتی ہے۔

پھر فخر سے چٹان کا سینہ نکل آیا

مظفر حنفی کی ایک اور غزل کے چند شعر یاد آ گئے، انھیں کوئی تجزیہ کیے بغیر بس نقل کر دیتا ہوں۔ بس یہ کہوں گا کہ ردیف کی ندرت اور اس کا نبھاؤ ہر طرح غیر معمولی ہیں۔ مضمون میں حسب معمول شوخی ہے   ؎

ہمارے عہد میں جنت پہ طنز کرنا ہو

تو کاشمیر کو فردوس بر زمیں کہنا

ہمارے پاؤں تلے سے کھسک رہی ہے زمین

ابھی زمیں کو ہمیں آسماں نہیں کہنا

ہزار ہاتھ بڑھیں جس طرف وہ دامن ہے

کسی کے خون میں تر ہو تو آستیں کہنا

مظفر حنفی کو اپنی قادر الکلامی کا جتنا احساس ہے، اتنا ہی شاید اس بات کا بھی ہے کہ اب تک  ان کے شعر کی قدر کمائی نہیں ہوئی ہے۔ میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ان کے اس مقطعے کا دوسرا مصرع ان کے حسب حال نہیں، لیکن مصرع اولیٰ بے شک ہے۔ اور مصرع اولی کا کنایہ اس قدر لطیف ہے کوڑھ مغز ’’استادوں ‘‘ کی رسائی اس کے معنی تک نہ ہو سکے تو عجب نہیں    ؎

آج مظفر کا ہر شعر بباطن مقطع ہے

استادوں نے تو اس کو ناکارہ سمجھا لیکن وہ

٭٭٭

 

 

 

 

                پروفیسرشمیم حنفی

    دہلی

 

طوفان سا اک دست ہنر میں سمٹ آیا

 

۱۹۶۵ء کو گزرے یوں تو تقریباً آدھی صدی کا لمبا عرصہ ہونے کو آیا، مگر مظفر صاحب ذرا بھی نہیں بدلے۔ ان سے پہلی ملاقات تو ۱۹۷۶ء میں ہوئی مگر جان پہچان کا سلسلہ اس سے گیارہ برس پہلے شروع ہو چکا تھا۔ وہ سیہور (مدھیہ پردیش) میں رہتے تھے اور میں نے اندور کو اپنا ٹھکانا بنا لیا تھا۔ وہاں پہنچنے کے کچھ ہی دنوں بعد ایک روز مظفر صاحب کا خط ملا۔ اس علاقے میں عمیق حنفی کے بعد وہ دوسرے ادیب تھے جن کا نام اور کلام سرحد کے دونوں طرف چھپتا رہتا تھا۔ عمیق صاحب کے ساتھ تو خیر روز کی ملاقات ایک معمول بن گئی کیونکہ وہ بھی اندور میں تھے اور ان کا قیام ہمارے گھر سے کوئی پندرہ منٹ کے فاصلے پر ریڈیو کالونی میں تھا، مگر اندور سے سیہور کے فاصلے کو پار کرنے میں دس گیارہ سال گزر گئے۔

۱۹۷۶ء میں ہم دونوں دلّی آن بسے۔ شعبہ ایک، علاقہ اور ادارہ ایک، روز مرہ کی مصروفیتیں بھی ایک جیسی۔ لیکن پچھلے لگ بھگ چالیس برسوں سے، مظفر صاحب کی زندگی کے چلن اور انداز و اطوار میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی۔ میں نے اپنے کسی شاعر دوست کو اتنا منظم، اپنے مشاغل کا اتنا پابند، اتنا مربوط اور سلیقہ مند نہیں دیکھا۔ بظاہر ان میں شاعروں جیسی کوئی بات، کوئی بے قاعدگی نہیں۔ وہ ایک انتہائی ذمہ دار انسان کی زندگی گزارتے آئے ہیں اور ان کی اس روش میں کبھی فرق نہیں آیا۔ شاید اسی لیے دنیوی کامرانیوں کی حصولیابی کے ساتھ ساتھ نثر و نظم کے میدان میں مظفر صاحب نے جتنا کچھ کر ڈالا ہے کئی لوگ مل کر بھی نہیں کر سکتے۔ ان کی طبیعت میں ریاضت کے علاوہ باقاعدگی کا وہ عنصر بھی بہت نمایاں ہے جسے میراؔجی نے ادیب یا لکھاری ہونے کی بنیادی شرط قرار دیا تھا، یعنی ایسا شخص جس کے لیے ’’لکھنا‘‘ روز مرہ زندگی کا معمول بن چکا ہو۔

مظفر صاحب نے نثر اور نظم کی بہت سی صنفوں میں ایک ساتھ اپنے اظہار کی راہ نکالی ہے۔ تحقیق، تنقید، کالم نویسی، جائزے، تبصرے، فکشن، ترجمہ، مگر ان کی شناخت کا ذریعہ، بہرحال ان کی شاعری کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں اس واقعے کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ مظفر صاحب نے اپنی شاعری کی ترکیب میں ان اجزاء سے بھی برابر کا کام لیا ہے جو بالعموم نثر سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ وہ نثر کی تعمیر کرنے والے بظاہر ’’ کاروباری‘‘ یا عملی (Functional)عناصر کو اپنی شاعری سے کبھی خارج نہیں کرتے۔ یوں بھی طنز، حاشیہ آرائی اور کسی انسانی تجربے یا صورت حال کی عقلی اور منطقی تعبیر اور تعئینِ قدر کے عمل میں طرزِ احساس اور تفکّر کا نثری اندازکسی نہ کسی مرحلے میں خود بہ خود شامل ہو ہی جاتا ہے اور مظفر صاحب کی شاعری اپنی نوعیت اور سرشت کے اعتبار سے صرف حسّی اور اعصابی تجربے کی شاعری نہیں ہے۔ اس کا مجموعی سیاق مظفر صاحب کے تہذیبی، معاشرتی اور اجتماعی تصورات کے واسطے سے مرتب ہوتا ہے۔ ان کے حصے میں اپنے ماحول کی نگہبانی کا فریضہ بھی آیا ہے۔

در اصل اس رویے نے مظفر صاحب کی شاعری میں معاصر زندگی، ماحول، واردات اور ذہنی و جذباتی کیفیتوں سے مناسبت پیدا کی ہے۔ مزاجاً وہ کلاسیکی مذاق رکھنے والے ہیں اور اپنے پیشے کی ضرورتوں ( معلمی کے منصب ) سے قطع نظر، اپنی تربیت اور طبیعت کے اعتبار سے بھی، ادب کی کلاسیکی روایت، پرانے اور آزمودہ اسالیب سے ان کا شغف بہت نمایاں ہے۔ کلاسیکی شاعری کے مانوس رنگوں، لہجوں اور لسانی مضمرات کی آگہی کی سطح ان کے یہاں اتنی ہی نمایاں ہے جتنی کہ خلیل الرحمن اعظمی، حسن نعیم، ظفر اقبال اور عرفان صدیقی جیسے شاعروں کے کلام میں۔ لیکن جو بات انھیں اپنے عہد کے دوسرے ’ نو کلاسیکی، شاعروں سے الگ کرتی ہے، وہ سماجی برہمی، طنز اور تناؤ کی نو کیلی کیفیتیں ہیں۔ یہی کیفیتیں یگانہ اور شادؔ عارفی کے تشخص اور ان کے اپنے ماحول میں انکے روایتی معاصرین، اصغر، فانی، حسرت، جگر اور فراق سے ان کے اختلاف اور امتیاز کا سبب بنیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بہت اہم ہے کہ یگانہ اور شادؔ عارفی کی حسیت کے اسی پہلو نے انھیں اپنے بعد کے دور اور ایک بدلتی ہوئی حسیت کے ترجمان کہے جانے والے شاعروں کے لیے اپنے روایتی ہم عصروں کے مقابلے میں یگانہ اور شاد عارفی کا دھار دار، کھردرا اور کھرا اسلوب روایتی اور قدیم شعریات سے زیادہ مطابقت اور مناسبت، اس شعریات سے رکھتا ہے جو ایک نئے اجتماعی کلچر کی تہہ سے نمودار ہو رہی تھی۔ یہ شعریات ہمارے احساسات کو تھپکیاں دینے کے بجائے ان میں ایک ہیجان، تناؤ  اور بے اطمینانی کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ یگانہ اور شاد کی شاعری کا اسلوب اور اس کا فکری، جذباتی مزاج اردو کی غزلیہ شاعری کے مرکزی دھارے سے مختلف، کہیں کہیں تو متضاد بھی تھا۔ ایک حد تک اس کے نا مانوس اور پریشان کرنے والے اسلوب کی وجہ سے اسے قبول کرنے میں بہتوں کو دشواری ہوتی تھی اور کسی نئی غذا یا نئے تجربے کی طرح شعر کا رسمی اور روایتی ذوق رکھنے والا خود کو تیار کیے بغیر اسے اختیار کرنے سے گھبراتا تھا۔ یہ دونوں کافی عرصے تک اردو شاعری کے عام ماحول میں ایک اجنبی کے طور پر دیکھے جاتے رہے۔ ان کے اسلوب میں ایک بے ارادہ نثریت اور ایک طرح کی انفرادی  منطقیت کا عمل دخل بھی نظر آتا تھا جسے شعر میں برتنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہ تھی۔ پیرایۂ اظہار کے لحاظ سے یہاں مضامین، تصورات اور لفظوں کے ساتھ ساتھ لہجے کو بھی ایک خاص حیثیت حاصل تھی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس شاعری کا پورا مزاج ہی اس کے لہجے اور آہنگ سے متعین ہوتا تھا۔

مظفر صاحب نے یگانہ اور شاد سے قطع نظر اردو کی شعری روایت کے مرکزی دھارے اور مانوس اظہار و اسلوب سے وابستہ شاعروں کا کلام بھی بہت توجہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ان میں بیرونی  عناصر کو جذب کرنے اور آزمودہ اسالیب سے اخذ اور استفادہ کرنے کی صلاحیت بھی غیر معمولی ہے۔ ان کی شاعری میں تیکھی غزلوں سے لے کر آج تک کی شاعری کا انداز و اسلوب اسی لیے پڑھنے والے کے لیے کسی انہونے واقعے کی صورت رونما نہیں ہوتا۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اپنے فطری تخلیقی اعتماد کے ساتھ اپنے پیش روؤں کے قائم کردہ معیاروں اور ان کی پسندیدہ تخلیقی قدروں کو، بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ اپنے راستے کا انتخاب اور تعین اپنی آمادگی اور رضا مندی کے بعد کیا ہے۔ کسی رنگ کو محض جبراً یا زمانے کے رنگ میں رنگ ملانے کی کمزور عادت کے تحت اختیار نہیں کیا ہے۔ مظفر صاحب کی لفظیات سے زیادہ زبان و بیان کے عام مذاق کی طرف ان کے انتخابی رویے نے ان کے انفرادی مزاج اور مذاق کی تربیت کی ہے اور یہ طفیل بھی اسی انتخابی رویے کا ہے کہ ان کے پُرانے اور نئے کلام میں ان کے امتیاز، انفرادیت اور تشخص کے عناصر یکساں طاقت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ وہ اپنی روایت اور ماضی سے نہ تو بے سبب متصادم ہوتے ہیں، نہ نئے تجربوں اور رویوں سے خواہ مخواہ مرعوب ہوتے ہیں۔ ان کے تخلیقی کیریئر میں، جو خاصا طویل ہے، انتشار اور ابتری یا ناہمواری کا کوئی نشان جو نظر نہیں آتا تو اسی لیے کہ مظفر صاحب کا پورا سفر ان کی اپنی مرضی، اپنی پسند اور اپنے انتخاب کا تابع رہا ہے۔ ان کے مزاج کو سب سے زیادہ مناسبت شادؔ عارفی سے تھی اور شاد کی انفرادیت اور امتیازات کی تعمیر و تشکیل میں بھی سب سے زیادہ سرگرم، مؤثر اور فعال رول در اصل اسی عنصر نے ادا کیا ہے۔ ان مرحوم نے بھی اپنا سارا سفر اپنی آمادگی اور انتخاب کے سائے میں طے کیا تھا۔ انھوں نے سخت آزمائشوں سے بھری ہوئی زندگی گزاری، مگر اپنی سی گزاری، اور دنیا سے کسی طرح کی دست گیری کے طالب نہیں ہوئے۔ ایسا نہ ہوتا تو گرد و پیش کی زندگی کے فرسودہ چلن نے ان کی انفرادیت پر غلبہ حاصل کر لیا ہوتا اور ان کی شاعری اس تیکھے پن، تیزی اور تشخص کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی جس نے انھیں نئی حسیت کے بہت سے ترجمانوں کے لیے قابل قبول ٹھہرایا تھا۔ شاد عارفی کے کلام میں ایک ناموافق ماحول کی سخت گیری اور احتساب کے باوجود اپنی انفرادیت پر اصرار اور ہجوم میں اپنے چہرے کی تلاش اور تحفظ کا عنصر، اسی لیے ایک مستقل اور پائیدار قدر کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاد کی موت پر مظفر صاحب کا شخصی مرثیہ، شادؔ کی صعوبتوں سے معمور زندگی کے ساتھ ساتھ خود مظفر صاحب کی ذہنی اور تخلیقی شخصیت کا شناس نامہ بھی ہے۔ اس نظم کو مظفر صاحب کے شخصی ملال کی عکاسی کے علاوہ ایک ذاتی اخلاقی منشور کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

یوں بھی مظفر حنفی کی شاعری میں زندگی اور شخصیت کی اخلاقی جہات کا پہلو بہت نمایاں ہے۔  ہمارے عہد کے ایک دانشور ادیب ( ہیرالڈ  پنیٹر) نے نوبل انعام قبول کرتے وقت اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ وقت آ گیا ہے جب ادب کی تخلیق کرنے والے کو ادب اور اخلاق، سیاست اور اخلاق، روز مرہ زندگی اور اخلاق کے ناگزیر رشتے پر تھکے بغیر گفتگو کرتے رہنا چاہیے۔ ہمارا وقت مادّی اعتبار سے جتنا ثروت مند نظر آتا ہے، اخلاقی سطح پر اتنا ہی قلاش اور حاجت مند بھی ہے اور تو اور علوم، ادبیات اور آرٹ کی دنیا میں بھی اخلاقی اساس سے محرومی کا احساس بہت دبا ہوا ہے اور اس کمی کا اظہار ہمارے ادیب بھی کم کم ہی کرتے ہیں۔ کرتے بھی ہیں تو محض ایک پوز کے طور پر۔ اسی لیے ان کی آواز  دم خم سے بالعموم خالی محسوس ہوتی ہے۔ مظفر صاحب کے اشعار میں تخلیقی اظہار کی اخلاقی قدر اور معنویت کا عنصر نہ صرف یہ کہ ایک حادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے، اس میں خلوص اور سچائی کا تاثر بھی بہت طاقتور ہے۔ لہٰذا شعر گوئی ان کے لیے نہ تو برائے تفریح ہے، نہ صرف عادت کا جبر۔ ان کے یہاں اس سے ایک اخلاقی فریضے کی ادائیگی بھی ہوتی ہے اور اپنے ماحول میں، واقعات میں، اشخاص میں، تجربوں میں انھیں جہاں کہیں بھی نا ہمواری، نقص اور بد ہیئتی دکھائی دیتی ہے، وہ اس پر اپنے ردِّ عمل کے اظہار سے باز نہیں رہتے۔ ان کے کلام سے سوداؔ کے جیسا غم و غصہ اور اشتعال تو پیدا نہیں ہوتا، لیکن اپنے دل کی بات پر وہ کسی طرح کی مصلحت، منافقت اور مجبوری کا پردہ بھی نہیں آنے دیتے۔ اپنی بات وہ دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں اور عام طور پر استعارے، علامت اور ابہام کے بغیر کہتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے مظفر صاحب کی شاعری میں تخلیقیت پر تفکر کا طور غالب آ گیا ہے۔ ان کے اشعار سے، اس پریشاں ساماں عہد کی فکری ابتری اور اخلاقی بے سر و سامانی کا پورا خاکہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ مضمون بندی کا عمل بھی ان کے یہاں اسی رویے کا پابند ہے جس کی نشاندہی میر مہدی مجروحؔ کے اس شعر سے ہوتی ہے کہ:

لکھ وہ مضمون جو ہو نفع رسانِ عالم

روز بے کار لکیریں یونہی کاغذ پہ نہ کھینچ

یہاں اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ مظفر حنفی کی شاعری کسی بیرونی دستور العمل کی تابع نہیں ہے۔ اپنے گہرے سماجی اور انسانی سروکاروں کے باوجود مظفر صاحب کی شاعری کا عمومی میلان ان کی اپنی طبیعت کا پروردہ ہے اور ان کی بے ساختہ، اسی کے ساتھ ساتھ انتہائی منظم اور تربیت یافتہ تخلیقی شخصیت کا اظہار۔ اپنے کلیات میں انھوں نے منظوم سماجی تبصرے یا بچوں کے لیے کہی جانے والی نظمیں جو شامل کر دی ہیں تو اس لیے کہ ہر کلیات کے کچھ ناگزیر تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ تجربوں اور خیالوں کی پختگی اور سن رسیدگی کے با وصف مظفر صاحب کے یہاں کہنگی اور تھکن کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ اپنے پرانے جوش اور وفور کے ساتھ شعر کہے جا رہے ہیں۔ بے تکلف شعر کہنے کی ایک روایت بھی ہماری ادبی تاریخ کا حصہ رہی ہے۔ اس روایت کی تشکیل میں زبان و بیان پر گرفت، لہجے اور آہنگ کو برتنے میں مشاقی اور اپنی زندگی اور زمانے کی طرف آگہی اور حساسیت کا رویہ ضروری ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو مظفر صاحب ہمارے موجودہ ادبی معاشرے میں بڑی حد تک اکیلے اور بے مثال کہے جا سکتے ہیں۔ ان کے ابتدائی دور کی ایک غزل کے کچھ شعر ہیں :

پارساوں میں نہیں ہوں، مجھے پینی بھی نہیں

اس لیے میں کسی ہاتھ سے چھینی بھی نہیں

مجھ پہ ٹوٹی ہے جو آفت مری پروردہ ہے

آسمانی بھی نہیں اور زمینی بھی نہیں

یہ سارا خمیازہ بہر حال اکیلے پن کے سفر کا ہے اور مظفر صاحب پوری طمانیت کے ساتھ بہت سی منزلیں سر کر لینے کے بعد بھی اس پُرانے راستے پر سرگرم سفر ہیں۔ یہ سفر اسی طرح جاری رہے گا۔                         ٭٭

 

’’ مظفر کے اشعار میں نئی زبان کا چٹخارہ ہی نہیں ہمارے آپ کے بہت سے ایسے تجربات ہیں جو ان کے طنزیہ شعروں کا تیزابی عنصر بن گئے ہیں۔ ایک قلندرانہ آوارگی ہے، ایک پھکڑ پن ہے، ایک حاضر جوابی کا سارد عمل ہے۔ بازار اور بے تکلف احباب کی محفل کی گرمی، خلوص میں تپ کر حرارت و حرکت سے بھرپور زبان کا جادو ہے اور ’ترسیل کی کامیابی کا طربیہ‘ ہے مظفر کے یہاں پاس روایت ہے لیکن وہ ’ روایت پرست‘ نہیں ہیں، سماجی معنویت اور زندگی کے تقاضے ہیں لیکن وہ ترقی پسند نہیں ہیں، عصری حسیت اور ذات کے حوالے سے اپنے تجربے کا اظہار ہے لیکن وہ ’’جدیدیے‘‘ نہیں ہیں۔ اس طرح وہ اپنا انفرادی رنگ و آہنگ قائم کر کے یگانہ اور شاد عارفی کے سلسلے کے تیسرے اچھے اور اہم شاعر کے روپ میں سامنے آئے ہیں اور ہمیں شاعری کے ایک نئے ذائقے سے آشنا کرتے ہیں جسے نہ میٹھا کہا جا سکتا ہے، نہ سیٹھا، نہ کھارا نہ کڑوا، نہ کھٹا نہ پھیکا۔ روایت کا احترام کرنے والا کوئی شاعر شعور و ابلاغ کی سطح پر عصری حسیت اور نجی تجربے کو شعری صورت دینے میں مظفرسے بہتر طریقے پر زبان کو شاید ہی برت سکے۔ تفصیل میں جانے کا یہ موقع ہے نہ محل، مظفر حنفی کی شاعری کو بغیر کسی لیبل کے نہ صرف پسند کیا جا سکتا ہے بلکہ پہچانا بھی جا سکتا ہے۔ یہ سعادت یکسانیوں کے اس دور میں کسے نصیب ہوتی ہے۔ ‘‘

عمیق حنفی

 

 

 

 

                 پروفیسر محمد زماں آزردہؔ

       سرینگر

 

 

مظفرؔ حنفی کا منفرد اندازِ فکر چند اشعار کے حوالے سے

 

مظفر حنفی کی ادبی شخصیت ہمہ پہلو ہے۔ اُنھوں نے تقریباً سبھی اصنافِ نظم و نثر میں طبع آزمائی کی ہے۔ اوّل تو لوگ اسی پر حیرت زدہ ہیں کہ اس آدمی کو زندگی کے جھمیلوں سے اتنی فرصت کیسے ملی جو اتنا لکھ پائے اور ابھی برابر لکھ رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ایک ذات کے اندر اتنی چیزیں، اتنے ہُنر جمع ہونا ایک غیر معمولی بات ہے۔ بہر حال اس کے بارے میں اس کے سِوا کیا کہیے کہ :

این سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

مظفرؔ حنفی صاحب کی تخلیقی کاوشوں کوکسی ایک حکم میں جمع کرنا نہ تو ممکن ہے نہ مناسب۔ زندگی کے تقریباً سبھی پہلوؤں پر اُنھوں نے نہ صرف سوچا ہے بلکہ کچھ نہ کچھ، کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت ضرور کہا ہے۔ ایسے موقعوں کے لیے خواجہ حیدر علی آتشؔ کا یہ شعر ہماری ضرور رہنمائی کرتا ہے۔

کہے جاتے وہ سنتے یا نہ سنتے

زباں تک حالِ دل آیا تو ہوتا

یوں تو سبھی اپنے اپنے طور پر بقدرِ فکر خود حالات کو دیکھتے ہیں، کوائف سے نبرد آزما ہوتے ہیں، نتائج اخذ کرتے ہیں، شکار ہوتے ہیں یا شکار کرتے ہیں مگرسبھی ان کوائف کا، اپنے تاثرات کا اور اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کر پاتے بلکہ چپ چاپ بغیر کسی چاپ کے آگے نکل جاتے ہیں۔ آگے چل کے پھر ان کی لن ترانیاں اور مبالغہ آرائیاں بھی اس طرح سامنے آتی ہیں کہ آدمی کو کافی محنت کے باوجود حقائق تک رسائی نہیں ہوتی۔ مظفرؔ حنفی صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے فن میں لاکھ پیچیدگیاں سہی مگر اپنے اظہار میں یہ ایسی سادگی اختیار کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ ایک معصوم بچہ فطرت کی آغوش میں کھیلتا مسکراتا ہوا کبھی ایک انگلی پکڑتا ہے تو کبھی دوسری، کبھی ایک کان کو پکڑ کے کھینچنے لگتا ہے تو کبھی دوسرے کان پر تھپکیاں دیتا ہے اور کبھی سورج کی کرنوں کو اپنی مٹھی میں بند کرنا چاہتا ہے، کبھی یہی بچہ اپنے گھٹتے بڑھتے ہوئے سایہ کے پیچھے دوڑ کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس معصوم بچے کی سمجھ میں روشنی کا یہ کھیل نہیں آتا جب کہ مظفر حنفی صاحب جانتے ہیں کہ اس سایہ کی نکیل، قریب یا دور ہوتی ہوئی روشنی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ بیک وقت سایہ پر بھی نگاہ رکھتے ہیں اور روشنی کو بھی آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ مثال کے طور پر آج کل ہر حکومت کو اپنے چاروں طرف یا تو باغی نظر آتے ہیں یا وفادار۔ ملک سے وفاداری کا مطلب ہے حاکم سے وفاداری، اور حاکم سے بغاوت کا مطلب ہے ملک سے غداری اور بغاوت۔ یہ تو سنا تھا کہ حاکم خدا بن بیٹھتا ہے مگر اس طور پر کہ اپنے سے انحراف کرنے والوں کو حکم کفر دے کر ملک دشمن قرار دے گا، اس پر یقین نہ تھا۔ وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کے پردے میں انسان نے آزادیِ رائے، اظہارِ رائے اور اس طرح کی بیشتر اصطلاحوں سے آشنائی حاصل کر لی تھی مگر یہ آشنائی محض لغت آشنائی تھی، جس میں دیے ہوئے مفاہیم گمراہ کن ہوتے ہیں۔ مظفر حنفی صاحب روایت سے بھی واقف ہیں اور بغاوت کے اسباب سے بھی۔ غالبؔ نے کہا تھا ’ہر کس کہ شد صاحبِ نظر دینِ بزرگاں خوش نہ کرد‘ مگر آج کے دور میں صاحبِ نظر ہونے سے مراد ہے کہ آدمی حاکم کی پسند اور نا پسند کو پہچانتا ہو، اُس میں حاکم کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی صلاحیت ہو۔

مظفر حنفی کہتے ہیں :

جو دہشت گرد کہہ کر بے خطا پروار کرتے ہیں

زمانے کو بغاوت کے لیے تیار کرتے ہیں

اُن کا اندازِ فکر صاف اشارہ کرتا ہے کہ جو کہا جاتا ہے، اُس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے اور جو نظر آتا ہے اُس میں بھی نظر کی رفتار، روشنی کی مِقدار اور فاصلے کی فریب کاری کا اثر نمایاں ہو سکتا ہے۔ غالبؔ نے جب یہ کہا تھا کہ :

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

اُس وقت نہ ٹیلی ویژن تھا اور نہ اس کی اتنی خبروں والی چینلز اور نہ اتنے اخبار اور نہ یہ جمہوریت کہ ہزاروں لوگ ہر طرف سے انگلی اُٹھا کر ایک ہی نشانے پر رکھیں اور لوگوں کو واقعے کی وہ صورت دکھائیں جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہر حاکم یہ چاہتا ہے کہ لوگ اُس کی نظر سے ہر چیز کو دیکھیں۔ لوگ شریف بنیں اور شرافت کا معیار حاکم کی نظر میں یہ ہے کہ آدمی کو نہ بھوک ہو، نہ کسی چیز کی ضرورت، نہ اُس کی زبان پر کوئی حرفِ شکایت آئے، سر اُٹھا کر چلنے کی ہمت بھی نہ ہو اور اس کے انگ انگ سے وفاداری ٹپکتی ہو۔ مظفرؔ حنفی اس صورت حال کا نتیجہ اور اس نتیجے کا سبب یوں سامنے رکھتے ہیں :

ہزاروں صدیوں کی روندی ہوئی شرافت ہوں

یہی سبب ہے کہ میں سر بسر بغاوت ہوں

وفاداری اور بغاوت کے معنی وہی سمجھتے ہیں جو مکہ مسجد اور مالیگاؤں کے دھماکوں کے الزام میں ملوث کیے گئے اُن بے قصور نوجوانوں کی حقیقت جان چکے ہوں جن کی خطا محض یہ تھی کہ حاکم کو ایک ڈھال چاہیے تھی، ریڈیو، ٹی وی اور اخباروں کو خبر چاہیے تھی۔ وفاداری اور بغاوت کے معنی اُس پادری سے زیادہ کون جان سکتا ہے جسے اپنے بچے سمیٹ اڑیسہ میں جلا دیا گیا۔ مظفرؔ حنفی صاحب کا اندازِ فکر اور اندازِ تخاطب دیکھیے:

ملا سکتے ہو کیا ہم سے نِگاہیں

بغاوت کی سزا دینے سے پہلے

پرانا محاورہ ہے کہ کام کرے سپاہی اور نام بلند ہو سردار کا۔ آج کل کی دنیا میں قابل لوگ، محنتی لوگ، اہلِ فکر و نظر کسی نہ کسی سبب سے مہرے بنتے ہیں، دوسروں کے آلۂ کار بنتے ہیں۔ آج  کی دنیا اشتہاری ہے، اشتہار کی استطاعت ہر آدمی کے پاس نہیں ہوتی۔ آدمی شریف ہو تو وہ اپنی تعریف پسند ہی نہیں کرتا۔ سنسکرت میں ایک تمثیل میں آیا ہے کہ ’’ تعریف ایک کنواری لڑکی ہے، اس کی شادی کرنا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ تعریف کو دولھا پسند ہو اور دولھا بھی تعریف کو پسند کرے۔ پوری دنیا میں تلاش کیا، جس کو تعریف نے پسند کیا اُس نے تعریف کو پسند نہیں کیا اور جس نے تعریف کو پسند کیا اُس کو تعریف نے پسند نہیں کیا۔ یوں تعریف ساری زندگی کنواری رہی۔ ‘‘ اس لیے جو لوگ اپنا اشتہار پسند کریں، اپنی تعریف کروائیں وہ تو سب کو نظر آئیں گے لیکن اس تعریف کے پیچھے جن لوگوں کی خاموشی، ایثار اور محنت ہوتی ہے وہ گم نام رہتے ہیں۔ اہلِ علم و ہنر اس حقیقت سے واقف ہیں۔ مگر بہت کم ایسے ہیں جو مظفر حنفی کی طرح اس کو زبان پر لاتے ہیں۔ کہتے ہیں :

محنت کسی کی نام کسی کا ہُوا بلند

ذرّے سمٹ گئے تو بگولا ہوا بلند

اس کیفیت کی سامنے کی مثال تو مضامین کے وہ مجموعے ہیں جو لوگ مختلف سمیناروں میں آ کے پڑھتے ہیں اور ایک آدمی ایڈٹ کرنے کے نام پر دو ڈھائی صفحے کا مقدمہ یا پیش لفظ لکھ کے ان کے مقالوں کو کتاب کی صورت میں شائع کرتا ہے۔ اشتہار تو اس مجموعے کے سر ورق پر چھپا ہوتا ہے اور شرافت، محنت اور لیاقت اندرونی صفحات میں چھُپی ہوئی۔ بہر کیف یہاں بیشتر لوگ زینہ بنتے ہیں، کچھ اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اور کچھ دوسروں کی عیّاری کے سبب سے۔ اندازہ کیجیے ان لوگوں کی سینہ زوری کا جو دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کے اُن ہی کو اُن کے بونے پن کا طعنہ دیتے ہیں۔ مظفر حنفی نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا ہے:

جا کر بلندیوں پر وہ طنز کر رہے ہیں

ہم لوگ جن کی خاطر زینہ بنے ہوئے تھے

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ زندہ رہنے کے لیے کسی کی جان نہیں لیتے بلکہ سقراط کی طرح خود مرتے ہیں۔ ، سر بلند ہونے کے لیے دوسرے کے کندھے پر نہیں، بلکہ سرِ حسینؑ کی طرح نیزے کی نوک پر سوار ہونا پڑتا ہے۔

اصل میں شاعری کی حقیقت یہ ہے کہ اِدھر کانٹا چُبھا اُدھر آہ نکلی۔ یہ آہ چاہے خاموش ہو یا چیخ بنے، مگر کانٹا چُبھنے پر اس کے ردِّ عمل کا اظہار فطری ہے۔ یہ آہ یا چیخ ’’صداقت نشاں ‘‘ ہوتی ہے۔ آج کی دنیا میں سچائی پر اتنے پردے چڑھائے جاتے ہیں کہ شاید ہی کوئی حقیقت تک رسائی حاصل کرتا ہے مگر ان حالات میں بھی ایسے سر پھروں کی کمی نہیں جن کا یہ پہلا اور فطری ردِّ عمل سامنے آ ہی جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس کا کوئی اثر نہ ہو گا۔ مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کہی ہوئی یا لکھی ہوئی بات ایک نہ ایک دن ضرور سامنے آ کے رنگ دکھاتی ہے۔ مظفرؔ کہتے ہیں :

سچ کہنا فطرت ہے میری لیکن اکثر سوچتا ہوں

نقاروں میں کون سنے گا طوطی کی آواز یہاں

میرؔ نے کہا تھا کہ فتح و شکست نصیبوں سے ہوتی ہے مگر یہ بات اہم ہے کہ دلِ ناتواں مقابلہ کرے۔ مظفرؔ حنفی اپنے آپ کو آج کے دَور کی بیساکھیوں کے اعتبار سے بے دست و پا مانتے ہیں مگر لڑنے اور مقابلہ کرنے میں جو مزا ہے، اُس سے وہ محروم نہیں رہنا چاہتے اس کے پیشِ نظر کہتے ہیں کہ:

نقارہ و عَلم تو میسّر نہ تھے اُنھیں

پھر بھی یزیدیوں سے مظفرؔ بہت لڑے

مظفر حنفی کے یہاں بیسیوں ایسے اشعار آسانی سے ملتے ہیں جن سے اُن کے اندازِ فکر کی انفرادیت سامنے آتی ہے اور یہ محسوس کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ اُنکا زاویۂ نگاہ عام ہونے کے باوجود خاص بھی ہے اور اُن کا ردِّ عمل اُن کو عوام سے قریب بھی رکھتا ہے اور اپنے مقام پر مستحکم بھی۔

٭٭٭

 

’’ڈاکٹر مظفر حنفی صنف غزل کے ان خوش بخت فنکاروں میں ہیں جو جدت و جدیدیت کی کشادہ راہوں سے گزر کر صنفی تقاضوں کی خاطر تنگنائے غزل میں داخل ہوئے تو اپنے ساتھ طرز بیان کی نو مولود شگفتگی، خیالات کی وسیع دامانی اور لہجے میں ایک دل پسند سر کشی لے کر داخل ہوئے۔ آج کی غزل میں ان کا اپنا ایک الگ رنگ و آہنگ ہے۔ وہ اپنے مشاہدے اور مطالعے کو ایسے بیباک اور تیکھے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ بعض عاشقانِ غزل کو ان کا رویہ کافرانہ نظر آتا ہے۔ ‘‘

حسن نعیم

 

 

 

 

 

                پروفیسرسلیمان اطہر جاوید

       حیدر آباد

 

’آگ مصروف ہے‘

 

اب زندگی میں اتنی جاذبیت اور کشش، اتنی رونق اور چہل پہل، اتنی حلاوت اور شیرینی اور اتنا کیف و سرور کہاں رہا ہے کہ شعر و ادب میں اس کی جھلکیاں ملیں۔ ادب کو زندگی کا ترجمان کہا گیا ہے اور یہ ایسی اٹل اور قطعی حقیقت  ہے کہ ہر دور میں اس کی سچائی کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ آج سے نہیں ابتداسے، شعر و ادب کے ازل سے، ہر ادیب، شاعر اور قلم کار نے وہی لکھا جس میں اس نے زیست کی، جو اس نے اپنے آس پاس دیکھا۔ جس کو برتا جس کو گوارا کیا، تھوڑی بہت حاشیہ آرائی اور تخیل کی کارفرمائی ہونی چاہیے وہ ہوتی رہی۔ ہم سب سے اکثر یہ کہتے ہیں کہ محمد قلی قطب شاہ کی شاعری زندگی سے دور تھی۔ داغؔ اور کئی کلاسیکی شاعروں نے اپنے اطراف ہونے والے حقائق کو نظر انداز کر دیا۔ یا فلاں شاعر کے پاس صرف ادب برائے ادب ہے۔ اس کے تخلیق کردہ ادب کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسا نہیں، بات در اصل یہ ہے کہ جن شاعروں کے بارے میں ہم کہہ رہے ہیں ان کے دور میں زندگی ایسی ہی تھی۔ محمد قلی قطب شاہ کی زندگی میں کون سی پیچیدگی تھی، عیش و عشرت کی ساری سہولتیں موجود تھیں۔ بن مانگے ہر شے حاضر تھی۔ محمد قلی قطب شاہ ایسی شاعری نہ کرتا تو اور کیا کرتا۔ داغؔ کے دور میں قلعہ معلیٰ سے باہر زندگی پارہ پارہ تھی۔ تیتر بٹیر، ویرانیوں اور وحشتوں کا دور دورہ تھا، بکھراؤ عام تھا۔ کہنے کو بہادر شاہ ظفر بادشاہ تھے لیکن داغِ فراق، صحبتِ شب کی جلی ہوئی شمع کی طرح جو خموش ہو چکی تھی۔ داغ نے بھی ایسا نہیں کہ قلعہ کی باہر کی زندگی سے صرف نظر کر لیا ہو۔ انھوں نے تھوڑا بہت دیکھا اور اس کا اظہار جہاں تک ہو سکا اپنے اشعار میں کیا بھی اور کہیں تو یہ بھی کہہ دیا کہ ان پر جو صدمے گزر رہے ہیں آپ بندہ نواز کیا جانیں اور یہی احوال، حالیؔ، شبلیؔ، اقبالؔ اور پریم چند کے دور کے قلم کاروں کا رہا۔ ترقی پسند تحریک کے زمانے کا اور پھر ادھر جدیدیت اور اِدھر ما بعد جدیدیت کا۔ آج کا شاعر، آج کا قلم کار وہی لکھ رہا ہے جو وہ دیکھ رہا ہے جو اس پر بیت رہی ہے۔ ماضی کے کسی بھی دور کا شعر و ادب۔ اس دور کی زندگی کا ترجمان تھا اور آج کا شعر و ادب آج کے حالات اور شب و روز کا آئینہ دار ہے۔ (ہاں بعض ایسے قلم کار بھی ہوتے ہیں جو ماضی ہی کے کسی بھولے بسرے دور کی راگنی الاپتے ہیں۔ لیکن یہاں ایسے فنکاروں سے بحث نہیں )آج کے دور کی پیچیدگیاں، کچھ اور ہی نوعیت رکھتی ہیں۔ اب مقامیت، علاقائیت اور قومیت کی اصطلاحیں اپنا مفہوم بدلتی جا رہی ہیں۔ یہ گلوبل ازم کا دور ہے۔ کمپیوٹر نے وہ رنگ جمایا ہے کہ نئی حقیقتوں کو تسلیم کیے بغیر چارہ ہی نہیں۔ سائنسی ترقیات اور صنعتی ایجادات نے معاشرہ ہی نہیں ادبی منظر نامہ بھی بدل دیا ہے۔ ادبی سطح کچھ اور ہوتی جا رہی ہے۔ ویسے آج ترقی پسندی کو بھی رنگ و آہنگ دینے کی سعی جاری ہے۔ جدیدیت کے ہمنوا، جدیدیت کی جے جے کار کر رہے ہیں اور ما بعد جدیدیت والے بھی اپنی دھن میں گا رہے ہیں۔ کون، کیا اور کیسا ہے، اس خصوص میں سوچنے سے زیادہ اس حقیقت کو مان لینا چاہیے کہ یہ سب ہیں اور ان کے وجود کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ ہم عصروں میں بہت کم قلم کار ایسے ہیں جنھوں نے حالات خواہ کیسے ہی ہوں صالح اقدار کاساتھ دیا نہ تو جدیدیت کے نام پر زندگی کو فراموش کیا اور نہ ماضی کی زنجیروں میں اسیر رہے۔ اور بھی کئی شاعر ایسے ہیں لیکن یہاں میں نام لوں گا مظفر حنفی کا جن کی شاعری کلاسیکی اقدار سے بھی اپنا رشتہ رکھتی ہے اور جنھوں نے عصری صداقتوں کو بھی ملحوظ رکھا، اور اپنی شناخت بھی برقرار رکھی۔ مظفر حنفی کے کوئی ۱۵۔ ۱۲ شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ پانی کی زبان، یم بہ یم، صریر خامہ، دیپک راگ، کھل جا سم سم، پردہ سخن کا، یا اخی اور ہات اوپر کیے وغیرہ اور اب ان کا شعری مجموعہ آیا ہے ’’آگ مصروف ہے‘‘ سب سے پہلی بات تو یہ کہ مظفر حنفی کے شعری مجموعوں کے عنوان ہی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنی شاعرانہ انفرادیت اور شناخت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ پروفیسر آل احمد سرورؔ نے مظفر حنفی کے ایک شعری مجموعہ ’’ یا اخی‘‘ کے پیش لفظ میں لکھا ہے:

’’ یہ شعروں کے تیروں اور غزلوں کی چڑھی کمانوں، یہ سخت زمین اور رواں دواں آبشار کا سا لہجہ، یہ لہو میں تر اشعار، یہ کھری زبان، یہ دل کے لہو کی بوند، یہ آسمان پر چھائی ہوئی زمین، یہ سب باتیں مظفر حنفی کے لہجہ ان کی کھردری، تیغ کی سی تیزی رکھنے والی زبان کے متعلق کیا کچھ نہیں کہتیں۔ ان کے اشعار میں دھیمی دھیمی بہنے والی جوئے آب کی سی سوئی ہوئی روانی نہیں ہے۔ پہاڑی چشمے کی سی تند و تیز لہر ہے۔ ان کے اشعار میں تلوار کی کاٹ ہے۔ ایک برہم نوجوان کے لہجے کی تلخی ہے۔ اس میں کچھ توڑنے اور کچھ جوڑنے کی بات بھی ہے۔ اس میں بگاڑ اور نئے سرے سے بناؤ کی داستان بھی ہے اور اس میں غزل کی کمائی سے کچھ نا آسودگی کی آہٹ بھی۔ یہ ایک سرکش روح کی کہانی ہے اور ایک باغی کا خواب۔ زندگی کا کتنا زہر پی کر یہ امرت حاصل ہوا ہے۔ ‘‘

مظفر حنفی کے کلام پر یہ نہایت جامع تبصرہ ہے۔ مظفر حنفی کی شاعری کی یہ خصوصیات، ان کی انفرادیت آج بھی برقرار ہے۔ ان کے تازہ شعری مجموعہ ’’ آگ مصروف ہے‘‘ کے مطالعہ کے بعد بھی قاری اس رائے پر قائم رہے گا۔ مظفر حنفی ہیں تو غزل کے شاعر لیکن ’’ آگ مصروف ہے‘‘ میں غزلیں اور نظمیں دونوں شامل ہیں۔ انھوں نے ان دونوں اصناف کا حق ادا کیا ہے۔ عزیز قریشی صاحب نے ’’ حرف آغاز‘‘ میں مظفر حنفی کی شخصیت کے بعض گوشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ مظفر حنفی کی شخصیت کی تفہیم میں اس تحریر سے بڑی مدد ملے گی۔ الفاظ کے انتخاب، مصرعوں کے درو بست، لہجہ کی کاٹ اور اسلوب کی طرفگی کے باعث، مظفر حنفی کی آواز ان کی آواز، بن جاتی ہے۔ اور ان کے ہم عصروں کی آواز سے بہ آسانی ممیز بھی کی جا سکتی ہے۔ اختر سعید خاں نے ’’ مظفر حنفی سخن کے آئینے میں ‘‘ کے تحت لکھا ہے اور خوب لکھا ہے:

’’لہجہ لفظیات، اظہار کے وسیلے، خیالات کی رو، ندرتِ بیان، جدت طرازی، نئی زمینیں، نئے گوشے، غرض جو کچھ ہے اور جیسا ہے، اس کا اپنا ہے۔ ‘‘ (ص ۱۲)

مظفر حنفی زود گو ضرور ہیں لیکن وہ سنبھل کر شعر کہتے ہیں اس لیے ان کے ہاں نہ فنی طور پر ایسی کوئی خامی ملتی ہے اور نہ موضوع کے بارے میں کوئی بے راہ روی۔ نیز ان کے ہاں خیالات کی ایسی تکرار بھی نہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ نئی نئی ردیفوں اور نئے نئے قافیوں کا استعمال بھی نہایت روانی اور فنکارانہ قدرت کے ساتھ کرتے ہیں۔ ’’ آگ مصروف ہے‘‘ میں جو ردیفیں ہیں ان میں سے چند ایک ملاحظہ ہوں۔ میں کیا کرتے ہیں / چلی ٹھنڈی ہوا/ ہے محرومی محرومی/ بھی پڑتا ہے/ چلو یہاں سے/ کی زد پر ہیں / جا جائے گا/ لیکن تم لوگ/ وغیرہ جس سے فن اور زبان و بیان پر ان کی بے پناہ دسترس مترشح ہے اور روانی و بے ساختگی بھی لائق داد۔ اختر سعید خاں نے آگے چل کر لکھا ہے:

’’ ان کی غزلوں کا معنوی تسلسل اور بے ساختگی اس کے شاہد ہیں کہ ان کا جذبہ، قوتِ تخیل اور قلم تینوں ایک ساتھ چلتے ہیں۔ ان کی غزل محض قادر الکلامی نہیں ہے۔ فطری جوش ہے جو رو کے نہیں رکتا ہے۔ ‘‘ (ص ۱۳)

تغزل، سرشاری اور حلاوت غزل کی جان ہیں اور اس کا انحصار شاعر کے فکری مزاج اور تخیل پر ہوتا ہے۔ مظفر حنفی کے ہاں وہ تغزل اور شاعری نہیں جو بہ یک نظر واضح ہوتی ہے۔ بلکہ ان کے ہاں وہ داخلی تغزل ہے جس سے معنویت دو چند ہو جاتی ہے۔ ان کی ہر غزل میں دو چار اشعار ایسے ضرور مل جاتے ہیں۔ مظفر حنفی کی شاعری اپنے اطراف و اکناف کی بو باس سے بھری پڑی ہے۔ غزلوں کے اشعار میں بھی اور نظموں سے بھی انھوں نے اپنی عصری حسیت کا ثبوت دیا ہے۔ زندگی کی بے معنویت، اقدار کی گم شدگی، معاشرتی انتشار و اختلال، سیاستدانوں کی خود غرضی، مذہبی جنون، استحصال، افراتفری اور کیا کیا کچھ۔ مظفر حنفی کھلی آنکھ سے ان سب کا نظارہ کرتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی نظمیں ’’ فلسفے کے شہر میں ‘‘ ، ’’ خوف در خوف‘‘ ، ’’ جنس سے ہٹ کر‘‘ ، ’’ پرتوں کا زنداں ‘‘ ، ’’ موت کا دوسرانام‘‘ ، ’’ آگہی کا غم‘‘ ، ’’ ڈھلتے سورج کی دوپہر‘‘ اور ’’اندھیر نگری‘‘ وغیرہ میں ان کی جاگتی عصری حسیت ملے گی۔ خاص طور پر فسادات کے موضوع پر ان کے ہاں اشعار مل جائیں گے۔ نظم ’’ ایک فساد زدہ رات‘‘ پڑھیے ایک بے نام خوف، عدم اعتماد کی فضا، شکوک و شبہات کا ماحول، کتنی حقیقت پسندانہ عکاسی ہے اور پھر فسادات کے ذیل میں غزل کے یہ دو اشعار بھی ملاحظہ ہوں :

ذرا سی بات پہ واویلا اس قدر نہ کرو

جلے ہیں شہر میں دوچار گھر زیادہ نہیں

نہ جانے کیوں مرا گھر جل رہا ہے اور وہ خوش ہیں

یہی ہمسائے کل تک مجھ سے بے حد پیار کرتے تھے

مظفر حنفی نے غزلیں، نظمیں اور آزاد نظمیں ہی نہیں کہی ہیں ان کے ہاں ایک نثر ی نظم اور رباعیات بھی ہیں۔ رباعیات ان کے فن کی پختگی کی دلیل ہیں۔ آخر میں ان کے اس شعری مجموعہ سے غزلوں کے چند اشعار:

رنگ جتنے ہیں اس گلی کے ہیں

ساری خوشبو ادھر سے آئی ہے

دل سے اس کی یاد کیسے محو کر دوں

کیوں انگوٹھی سے کوئی ہیرا نکالے

دنیا کو آپ میری نظر سے نہ دیکھیے

میں عرض کر چکا ہوں کہ دیکھی نہ جائے گی

سچ بولنے کا تجھ کو بڑا اشتیاق ہے

اچھا تو سر سے باندھ کفن میرے ساتھ آ

اسی کو باندھ کے پھینک آئے لوگ دریا میں

وہی تو شہر میں کشتی بنانے والا تھا

میرا تمھارا ساتھ ہے اس مصلحت کے موڑ تک

تم کو کنارا چاہیے مجھ کو سمندر چاہیے

٭٭٭

 

’’مظفر حنفی کے مطالعہ اور مشاہدے نے ان کے مصرعوں اور شعروں کو ایسی نشتریت عطا کی ہے جس کے ابعاد شاد عارفی سے مختلف ہیں۔ ان کی ہر غزل میں ایک دو مصرعے یا ایک دو اشعار ایسے ہوتے ہیں کہ مجھ جیسا کٹر شاعر بھی ( شاید پارٹ ٹائم نقاد بھی) ان کی ہنر مندی کی داد دیئے بغیر نہیں رہتا۔ زبان و بیان پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ اچھے اچھے شاعروں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ‘‘

ساقیؔ فاروقی

 

 

 

 

                پروفیسرمجاہد حسین حسینی

ممبئی

 

اپنی شناخت آپ قائم کرنے والے منفرد شاعر مُظفرؔ حنفی

 

میرے عزیز بھائی اور اردو کے جانے مانے اُستاد، ادیب اور شاعر جناب پروفیسر مظفر حنفی صاحب کا کلام پڑھ کر مجھ پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکار ہو گئی کہ سچ مچ موصوف کا سارا کلام ( جو میری نظر سے اب تک گزرا ہے) منتخب ہے۔ میرے اس قول کو خدارا مدلل مداحی پر محمول نہ کیا جائے بلکہ خود صاحب موصوف جناب مظفر حنفی صاحب کے حسبِ ذیل حکیمانہ قول کی باز گشت سمجھا جائے جہاں وہ فرماتے ہیں :

’’ در اصل میں کسی قن پارے کو اُس کے اندر سے برآمد ہونے والی روشنی میں پرکھنے کا قائل ہوں کہ نظریے کی عینک نقاد کی نگاہ میں بالغ نظری کی جگہ کج بینی پیدا کرتی ہے۔ ‘‘ ۱؎

اس قول سے اُسی وقت بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے جب ہم زیر بحث فن پارے کے متن کو اپنے سامنے رکھیں۔ میرے خیال ناقص میں متن خواہ سال خوردہ ہو یا نوزائیدہ، اُسے صاف ستھرا، قابل مطالعہ، روشن اور صوری و معنوی ہر حیثیت سے معتبر ہونا چاہیے۔ تخلیق کار کے حسب منشاء اور اصلاح کاتب و ٹائپسٹ سے محفوظ ہو کیونکہ:

’’ صحیح متن کو متعین کرنے کے لیے غیر معمولی علم اور قوتِ فیصلہ کی ضرورت ہے۔ ‘‘ ۲؎

اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم مزید ایک تنقیدی گوشے پر بھی غور کر سکتے ہیں جہاں ’’ متن ‘‘ کی اہمیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:

’’ نئی تنقید متن کے گہرے مطالعے سے عبارت ہے۔ یہاں ہم فن پارے کے لسانی محاسن کو مد نظر رکھتے ہیں تونفسیاتی، سماجی اور جمالیاتی رویّوں سے استفادہ کرتے ہوئے تخلیق میں چھپے ہوئے معنی تک بھی رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑے سے بڑا متن بھی چھوٹے چھوٹے جملوں سے پروان چڑھتا ہے۔ اسی لیے جب آپ متن بنائیں گے تو مقررہ زمان و مکان میں وہ بامعنی بھی ہو سکے گا۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر آپ زبان کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ‘‘ ۳؎

’’متن‘‘ کے بارے میں اب تک جو کچھ عرض کیا گیا اس کی حیثیت محض ایک اصول نظری (theory) کی سی ہے آئیے اس اصول کا استعمال حضرت مظفر حنفی کی شاعری میں بھی دیکھیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نے مظفر صاحب کی صرف غزلوں کو ہی اپنا موضوع گفتگو بنایا ہے کیوں کہ غزل کے علاوہ موصوف کا ذخیرہ تخلیقات شعری کافی وسیع اور ضخیم ہے جس پر ایک ہی نشست میں روشنی ڈالنا خاطر خواہ ممکن و مناسب نہیں۔

موصوف کے شعری مجموعے کافی تعداد میں شائع ہو کر ارباب ادب سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ان مجموعوں میں غزلیں، نظمیں، رباعیات اور تراجم کیا کچھ نہیں ہے؟ لیکن غزلوں کی تعداد نسبتاَزیادہ ہے۔ مجموعوں کے نام رکھنے میں بھی حنفیؔ صاحب کو غیر معمولی مہارت حاصل ہے۔ ان کے ایسے چند مجموعوں کے نام ہیں :  پانی کی زبان، عکس ریز، تیکھی غزلیں، صریر خامہ، دیپک راگ، طلسم حرف، یم بہ یم اور آگ مصروف ہے وغیرہ۔ موصوف کی نثری تخلیقات ایک تفصیلی مضمون بلکہ مبسوط کتاب کا مطالبہ کرتی ہیں۔ فی الحال مظفر صاحب کی غزلوں کا مختصر جائزہ لینا مقصود ہے۔

مظفر حنفی صاحب کے کلام کو پڑھ کر سب سے پہلا تاثر یہ پیدا ہوا کہ موصوف نے ماشاء اللہ ایک بھرپور زندگی گزاری اور اب بھی گزار رہے ہیں۔ وطن تو قصبہ ہسوہ ضلع فتح پور ( یو پی) ہے لیکن ولادت با سعادت یکم اپریل ۱۹۳۶ء کو کھنڈوہ  ( مدھیہ پردیش) میں ہوئی تھی۔ بقول خود تقریباً ۹ سال کی عمر سے شعر کہہ رہے ہیں یعنی ۱۹۴۵ء سے شاعری کر رہے ہیں۔ حضرت شادؔ عارفی رام پوری مرحوم کے شاگرد ہونے کے بعد کلام میں کافی زور پیدا ہو گیا لیکن زندگی کے ابتدائی حصہ میں طرح طرح کے دُکھ جھیلنے کی وجہ سے مظفر صاحب میں حد سے زیادہ انانیت اور جذباتیت پیدا ہو گئی۔ خاص طور پر سماج میں نا برابری اور بے انصافی کی وجہ سے مظفر صاحب میں بغاوت اور بے خوفی کا مادہ پیدا ہو گیا جو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا۔

’’شب خون‘‘ ( الٰہ آباد) میں مطبوعہ غزلوں کے حسبِ ذیل اشعار انھیں تلخ و تند حالاتِ زندگی کا آئینہ ہیں :

اے بام فلک پہ رہنے والو

مٹی کو اگر جلال آیا؟

سورج زیادہ دور نہیں ہاتھ تو بڑھا

محشر کے انتظار میں بینائی جائے گی

دل کا چور یہیں آ کر پکڑا جاتا ہے

اپنا دامن سب سے پہلے دیکھا تم نے

دھرتی کا یہ نٹ کھٹ بالک گھر سے نا آسودہ سا

کھیل رہا ہے نیل گگن کے زہریلے غُبارے سے

مشین عہد رواں کی خدا، فریب فریب

یہ ارتقا ہے کہ تحت الثریٰ فریب فریب

خوشبوئیں سر پیٹ رہی ہیں

کھڑکی کھولو، کھڑکی کھولو

ماحول میں زہر گھل چکا ہے

اب خون کثیف کر دیا جائے

جنابِ قیس کے قصّے مجھے نہیں بھاتے

خلا نورد کو صحرا نورد کیا شے ہے

مظفر حنفی کی غزلوں میں پایا جانے والا اَکھڑ پن ہی ان کے مخصوص لہجے کی شناخت ہے۔ کمال یہ ہے کہ اس میں ابتذال یا منافیِ فصاحت کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ چند مثالیں دیکھیے:

تمھاری شان میں کیسے قصیدہ لکھ دیا جائے

میاں میں اپنی کستوری کو کستوری نہیں کہتا

اگر اندر ہی اندر بُغض کے شعلے بھڑکتے ہیں

تو پھر کیا فائدہ آنگن میں پھلواری لگانے سے

چہروں پہ جمی ہوئی تھی بارود

اور امن کی بات ہو رہی تھی

جگمگ جگمگ ارمانوں سے کُلبُل کرتی دنیا

اتنی ساری بندوقیں شمشیریں کیا کرتی ہے

بستی دھُو  دھُو جلتی ہے

گھر میں سوتا ہے سیلاب

مظفر حنفی صاحب چوں کہ عرصۂ دراز تک تعلیم و تعلم سے وابستہ رہے، انھیں کتابوں کے مطالعہ اور قلم فرسائی کا ذوق بھی رہا، مدتوں کھنڈوہ سے ادبی ماہ نامہ ’’ نئے چراغ‘‘ بھی شائع کیا، اس لیے اردو زبان کے لسانی مطالعے اور تقریر و تحریر میں الفاظ کے حسن استعمال نیز اُن کے اُلٹ پھیر کا عملی تجربہ خوب ہوا۔ ذہانت، اختراع اور اجتہاد کی صفات مبدأ فیاض سے ملی تھیں لہٰذا ان کی غزلوں میں ایسی ردیفیں اور قافیے ملتے ہیں جن کا تصور آپ نے اور ہم نے خواب میں بھی نہیں کیا تھا۔ مثالوں کے لیے مندرجۂ اشعار دیکھیے:

ہمیں چُست و نادر قوافی ملے

مضامین تازہ بھی کافی ملے

آتے جاتے ہر دم ٹوکا کرتے تھے کھڑکی دروازے

جھلّا کر آزاد ہَوا نے توڑ دیے کھڑکی دروازے

عالم الغیب نمائش کو نہیں کرتا قبول

آپ کا سجدہ تو پیشانی پہ رکھّا ہوا ہے

اُدھر کنارے کھڑے ہوئے ناقدین شِستیں جما رہے تھے

اِدھر مظفر جمی ہوئی سطحِ آب سے سر نکالتا تھا

نور مانگا تھا تو ناسور ہے پیشانی پر

اور اس پر بھی نہیں دیر و حرم شرمندہ

بے دست و پائی کا تو یہی اک علاج ہے

آوازۂ جرس پہ دما دم سفر سفر

آستیں شبنم نے ترکی سبزۂ بیگانہ کی

غنچۂ نورستہ کی خاطر چلی ٹھنڈی ہوا

سوائے میرے کسی کو جلنے کا ہوش کب تھا

چراغ کی لَو بلند تھی اور رات کم تھی

چاند نگر میں دھول اُڑائی تارے تارے پھینکے جال

اب میری جھولی میں کیا ہے، محرومی محرومی

سر تا بہ قدم زخم ہیں، اب کیسے بتائیں

گُلدان رہے ہم کہ نمکداں رہے ہم

جی بھر بھول کھلائے، خوب لُٹائے موتی

چلیے صاحب کوچ نگاڑا باج رہا ہے

مظفر حنفی کی غزلوں کا ایک طرۂ امتیاز شوخی اور ظرافت بھی ہے جس سے ان کا کلام کافی دلچسپ اور رنگا رنگ ہو جاتا ہے۔ آپ بھی ایسے چیدہ چیدہ اشعار سے لطف حاصل کر سکتے ہیں :

مری صف کے نمازی، جانتے ہیں، مانتے بھی ہیں

وضو اشکوں سے ہو گا، آب زم زم سے نہیں ہو گا

معراجِ بندگی ہے مرا سر اُٹھا ہوا

سجدے نہ کر سکیں گے نمازی مری طرح

فضیلت کی یہ دستاریں ہمیشہ تنگ کرتی ہیں

ہمیشہ دوسرے کا سرتری دستار سے نکلا

جنھیں زمانے میں ہر شخص، غیر لگتا ہے

انھیں کے پاس مظفرؔ، نظر زیادہ نہیں

نیچے سے بُنیادی اینٹیں کھسکا دیں

چوٹی پر جھنڈے لہرائے یاروں نے

ہمارے زخمِ سر کو ناخنِ وحشت ہی کیا کم تھے

کہ عصری آگہی کے سینگ بھی سر سے نکل آئے

ممکن ہے قارئین کرام یہ پوچھیں کہ آپ نے مظفر صاحب کی غزلوں کے کچھ نمایاں جوہر تو ہمیں دکھائے نہیں۔ یہ بتائیے کہ آپ کے شاعر کے یہاں ’’ چیزے دگر‘‘ بھی ہے؟ میں آپ کے ما فی الضمیر کوسمجھ گیا۔ آپ شاید خالص رُومانیت اور تغزل کے نمونے بھی دیکھنا چاہتے ہیں ؟ تو لیجیے اس کی چند مثالیں بھی ملاحظہ فرمائیے:

اب اتنا بُردبار نہ بن، میرے ساتھ آ

بدلیں گے مل کے چرخ کہن، میرے ساتھ آ

ویسے بھی اپنے دست ہُنر کھا رہے ہیں زنگ

پھیکا پڑا ہے رنگ چمن، میرے ساتھ آ

سچ بولنے کا تجھ کو بڑا اشتیاق ہے

اچھا، تو سر سے باندھ کفن، میرے ساتھ آ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس نے اس انداز سے جھٹکا گیلے بالوں کو

میری آنکھوں میں در آیا پورا کجلی پن

کنبے میں شہرہ ہے جِس کی شوخ طبیعت کا

مرجھائی مرجھائی سی ہے وہ میرے کارن

آنکھوں میں آ کر بس جائے ایسا رُوپ اس کا

جھیلیں اس کی آنکھیں جھرنے اس کا الھڑ پن

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہاں بھی دُوب اُگی ہے ترے بدن جیسی

یہاں بھی پھول کھِلے ہیں ترے لبوں کی طرح

چوڑی کا ایک ریزہ چبھا تھا کہیں اُسے

میں ایک زخم چوم رہا تھا کہاں کہاں

ان کو چھو کر دیکھ چکا ہوں

سر تا پا بجلی کے نکلے

روز اس کے پاس جا کر بیٹھنا

روز کچھ دیوار جیسا درمیاں

چلنے لگے، تمہاری گلی میں اٹھا کے سر

جب سے سُناہے، طرز ستم جانتے ہو تم

مذکورہ بالا غزلوں کو پڑھ کر آپ محسوس کریں گے کہ تغزل کے ساتھ ساتھ جہاں روایتی مضامین ہیں وہیں استعاروں اور تلمیحات کا نظام بھی نظر آتا ہے۔ عصری مسائل کی طرف لطیف اشارے بھی ہیں۔

مظفر حنفی کے کلام میں سادگی، روانی، ندرت، خیال افروزی، طنز کی ہلکی سی کاٹ اور ان کا منفرد لب و لہجہ ہر جگہ موجود ہے۔ بہ الفاظ دیگر مظفرؔ صاحب کا ہر شعر خواہ اس کا تعلق کسی خیال، کسی جذبے اور فکر کے کسی پہلوسے کیوں نہ ہو، پکار پکار کر کہہ دیتا ہے کہ مجھ پر ’’مظفر حنفیت‘‘ کی چھاپ لگی ہے۔ اسی لیے میں نے اپنے  مضمون کی سرُخی رکھی ہے: ’’اپنی شناخت آپ قائم کرنے والے، منفرد شاعر، مظفر حنفی‘‘ ۔

جب مظفر حنفی ہم کو اپنے جدید انداز کے اشعار سناتے ہیں تو ہمیں اُن میں ذرّہ برابر شاعرانہ تفاخر، خود نمائی یا تعلی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے انکسار سے کام لیا ہے اور مبالغہ آرائی کے قیاس سے اپنے دامنِ فنکاری کو بچایا ہے۔ حقیقت تو وہی ہے جس کا اظہار ہمارے ہم عصر بزرگ ترقی پسند شاعر اور مظفرؔ صاحب کے دیرینہ مرحوم کرم فرما جناب اختر سعید خاں ( ایڈوکیٹ) نے کیا ہے۔ فرماتے ہیں :

’’ مظفر کی ابتدائی شاعری کا مطالعہ کیجیے یا آج کی شاعری کا، قاری کو محسوس ہو گا کہ جو شخص اس سے خطاب کر رہا ہے وہ مکمل اکائی ہے، لہجہ، لفظیات، اظہار کے وسیلے، خیالات کی رو، نُدرتِ بیان، جدّت طرازی، نئی زمیں، نئے گوشے، غرض جو کچھ ہے، جیساکچھ ہے، اس کا اپنا ہے۔ اگر کسی دوسرے کا خیال  اسے اظہار کے لیے اُکساتا بھی ہے تو وہ اس پر اختلافی نوٹ لگا کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ ‘‘ ۴؎

میں اپنے اس مختصر سے مضمون کا اختتام حضرت مظفر حنفی کے چند اہم جملوں پر کرنا چاہتا ہوں جو موصوف نے ۱۹۷۳ء میں اپنے لکھے ہوئے ایک مضمون میں تحریر فرمائے تھے۔ اس سے بحیثیت ایک منفرد شاعر اُن کا ادبی مقام معین کرنے میں مدد ملے گی۔ موصوف کا بیان ہے کہ:

’’ میں ابتدا ہی سے اپنی آواز کو بھیڑ میں کھوئے جانے سے بچانے کی کوشش میں لگا رہا ہوں۔ اور نئے ادب میں لہجے کی یکسانیت کا الزام کم از کم مجھ پر صادق نہیں آتا۔ ویسے بھی نقادوں میں عام طور پر میرے منفرد رنگ اور مخصوص لہجے کا اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔ میرا خیال ہے مخالفین خوش ہو رہے ہوں گے کہ میں نے اپنے گرد جو انفرادیت کا اتنا گھنا تانا بانا بُن لیا ہے اس سے ان کے اس الزام کو تقویت ملے گی کہ نیا ادب حد سے زیادہ انفرادیت پرست ہے اور انفرادیت کی دھُن میں اسلوب کے حُسن کی پرواہ نہیں کرتا لیکن وہ جوکسی نے کہا ہے کہ فیضان سخن رائگاں نہیں جاتا سو سچ ہی کہا ہے کیوں کہ یہاں بھی میرے مقطعے اور اشعار مدافعت کے لیے موجود ہیں۔ ‘‘ ۵؎

چند مقطعے آپ بھی دیکھیں :

لفظ و معنی مل گئے، ترسیل ہے جس رنگ میں

اے مظفرؔ ختم ہے وہ رنگ تجھ پر آن کر

لفظوں سے کھیلتے ہیں مظفر غزل میں لوگ

جذبے سے کھینچتا ہوں غزل میں اثر کو میں

اے مظفر، صاف اور تہہ دار ہے میری غزل

آپ بیتی ہے، حدیثِ دیگراں ہوتے ہوئے

جہاں شعر گو فلسفی بن گئے

مظفر غزل گنگناتا رہا

اُٹھ گیا شعر سے ابلاغ مظفر حنفی

جب تلک تجھ سے بنے، بات بنائے رکھنا

اے مظفر، مرے نقاد نہ مانیں لیکن

اَن گنت رنگ مری طرز ادا سے نکلے

آسان تر ہے آؤ مظفر غزل کہیں

مفہوم کی بھی خیر سے علّت نہیں رہی

اے مظفر، شعر ہیں افکار کی قوس قزح

ایک اچھے شعر کی ہوتی ہیں تفسیریں بہت

پیچیدگیِ عہد رواں مجھ سے نہ اُلجھے

حاتم کے لیے موت نہیں کوہِ ندا میں

نازک ہے فنِّ شعر، مگر طرز نو کے ساتھ

ہم اس حباب کو بھی سلامت اُٹھائیں گے

اے مظفر، نئی شاعری کے لیے شرط ابلاغ اٹھ ہی گئی دیکھنا

شعر سے شعریت بھی نہ جاتی رہے نفسیاتی گرہ کھولتے کھولتے

آج نہیں تو خیر مظفر مستقبل کا کوئی ناقد

میرے فن کی گہرائی میں جدت ہی پا کر جھانکے گا

مظفر حنفی صاحب کی یہ پیشین گوئی انشاء اللہ مستقبل قریب میں اُسی طرح سچ ہو جائے گی جس طرح مرزا اسداللہ خان غالبؔ کی حسب ذیل پیشین گوئی :

ہے رنگ لالہ و گُل ونسریں جُدا جُدا

ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

اور جو ایسا ہوا تو اُردو شاعری کے لیے یہ ایک فالِ نیک ہی سمجھا جائے گا۔

ع     ایں دعا از من و از جُملہ جہاں آمین باد!

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

حواشی

۱؎      نقد ریزے( شرح گفتار) پہلا ایڈیشن، مارچ ۱۹۷۸ء، ص ۹

۲؎      ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی: متنی تنقید از ڈاکٹر خلیق انجم ( پیش لفظ) اشاعت اوّل ۱۹۶۷ء

۳؎      امجد طفیل:مضمون بعنوان ( جدید ادبی تنقیدی نظریے اور متن کی تلاش) مطبوعہ شب خون الٰہ آباد۔ جون تا دسمبر ۲۰۰۵ء  ص ۲۶۱۔ ۲۶۴

۴؎      مظفر حنفی، سخن کے آئینے میں۔ مشمولہ آگ مصروف ہے ( مدھیہ پردیش اردو اکادمی بھوپال) ۲۰۰۴ء ص ۱۱۔ ۱۲

۵؎      مظفر حنفی: مضمون: عصری ادب اور میری پہچان مطبوعہ ’’شب خون‘‘ بحوالہ نقد ریزے۔ پہلا ایڈیشن مارچ ۱۹۷۸ء۔ ص ۱۴۹۔ ۱۵۰

٭٭٭

 

 

 

 

 

                پی۔ پی۔ سریواستو رندؔ

        نوئیڈا

 

مظفر حنفی :پچاس برس پہلے

’ہونہار بروا ن کے چکنے چکنے پات‘

 

مظفر حنفی کو میں نے غالباً پچاس برس پہلے کسی ادبی رسالے میں پڑھا تھا اور ان کی شاعری کو پڑھ کر چونکا بھی تھا۔ یہ بات شاید ۶۵۔ ۱۹۶۴ء کی ہے۔ ادبی اردو رسائل ہمیشہ سے ہی میرا شغل رہے ہیں۔ میں مرکزی سرکار کے محکمہ ریلوے میں ایک ذمہ دار عہدے پر فائز تھا اور میرے فرائض میں ڈپارٹمینٹل انکوائریاں تھیں جس کی وجہ سے کافی وقف سفر میں گزرتا تھا۔ بڑی مصروف زندگی تھی۔ سفر کے یہ لمحات ہی میرے لیے فرصت کے ہوتے تھے۔ اس لیے میری کوشش یہی رہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وقت مطالعے میں گزرے۔ ایسے ہی ایک سفر کے دوران مظفر حنفی کی کچھ غزلیں نظر سے گزریں۔ نیا لہجہ، نیا انداز، گنگا جمنی الفاظ نے مجموعی طور پر میرے ذہن پر اپنا اثر چھوڑا جس میں انوکھا پن تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترفی پسندی اور عام خمریاتی شاعری کا ہینگ اوور Hang over اتر رہا تھا۔ اور اردو شاعری میں جدیدیت کا رنگ واضح سمت کی طرف گامزن تھا۔ نو جوان شعرا کی طرح ایک عام قاری بھی دوراہے پر کھڑا تھا۔ روایتی شاعری اور ترقی پسند شاعری سے طبیعتیں بے زار ہو چکی تھیں۔ ایسے ماحول میں جدید لب و لہجے میں ایک خوشگوار فضا کا احساس ہو رہا تھا۔ شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ مجھے مظفر حنفی کی غزلیں پسند آئیں۔ اس وقت مظفر حنفی کی عمر شاید ۲۵۔ ۲۴ برس کی رہی ہو گی۔ پہلی غزل جس نے مجھے متاثر کیا اس کے چند اشعار درج ہیں :

دیواروں پر گیلی ریکھائیں روتی ہیں

ٹینوں پر گھنگھرو کی بوندیں ناچ رہی ہیں

ڈول رہے ہیں آنکھوں میں پتھر کے سائے

شریانوں میں بہتی ندیاں سوکھ گئی ہیں

دَر پر ویرانی کا پردا جھول رہا ہے

کھونٹی پر تنہائی کی بیلیں لٹکی ہیں

مجھ سے مت بولو، میں آج بھرا بیٹھا ہوں

سگرٹ کے دونوں پیکٹ بالکل خالی ہیں

چلیے صاحب، اور کوئی دروازہ دیکھیں

آج مظفرؔ کی باتیں بہکی بہکی ہیں

مجھے محسوس ہوا کہ مظفر حنفی نے اس زمانے کی شعری آوازوں کی باز گشت کو قبول نہیں کیا بلکہ ان کی جگہ لفظوں کی تازگی اور نئے مضامین کے ساتھ اپنے محسوسات کو انفرادیت بخشی ہے۔ اس زمانے میں کہی گئی غزلیات کے مطالعے سے ایک بات جو واضح طور پر نظر آتی ہے وہ یہ کہ ان کی شاعری کے کئی پہلو داخلی اندھیروں کے روشن اجالوں کے نام ہیں، ان کے یہ گوشے عام انسانی زندگی کے منوّر پہلو ہیں۔ حالانکہ مظفر حنفی کو اس وقت کے مستند استاد محترم شادؔ عارفی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا مگر انھوں نے ۲۵۔ ۲۴ برس کی عمر میں ہی استاد کے نقش قدم پر چلنا پسند نہیں کیا، انھوں نے فن کی باریکیاں، مضمون آفرینی، الفاظ کی نشست و برخاست تو سیکھی مگر اپنی راہ الگ اختیار کرنے کی کوشش کی اور اپنا چراغ الگ جلا یا۔

۶۵۔ ۱۹۶۴ء کا دور بڑے اتھل پتھل کا دور تھا۔ فراقؔ، جوشؔ، جگرؔ مشاعروں کے کامیاب شاعر تھے۔ علی سردار جعفری، جاں نثار اختر، مجروح وغیرہ ترقی پسندی کا ڈھول بجا رہے تھے۔ جدید غزل اپنا رنگ بکھیر رہی تھی ایسے دور میں منفرد سوچ، بالغ نظری، طرفگی احساس کے ساتھ نوجوان شاعر مظفر حنفی بھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مظفر حنفی نے اس زمانے کی یا اس زمانے سے کچھ پہلے کی آوازوں کی باز گشت کا کوئی اثر نہیں لیا۔ کئی نوجوان شعرا جدیدیت کا سہارا لے کر حد سے کچھ زیادہ ہی جدید ہو گئے تھے۔ اس زمانے میں شائع شدہ مظفر حنفی کی ایک اور غزل دیکھیں :

چھُڑا کے ہاتھ انا سے کہاں چلے صاحب

اب آ چکی ہے یہ دلدل گلے گلے صاحب

کرن کی ڈور سے لٹکی ہوئی کئی لاشیں

مجھے ملی تھیں اسی پیڑ کے تلے صاحب

زمین پاؤں کے نیچے نہیں، مگر پھر بھی

ہمارے خون میں آتے ہیں زلزلے صاحب

اس بات سے قطع نظر کہ قصبات اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں اس وقت بھی روایتی شاعری ہو رہی تھی۔ مظفر حنفی کی پیدائش کھنڈوہ( مدھیہ پردیش ) کی ہے جہاں سے انھوں نے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ اس زمانے میں ان کے سامنے بھی روایتی شاعری کا منظر نامہ رہا ہو گا۔ مگر انھوں نے روایتی شاعری کا لبادہ نہیں اوڑھا۔ مندرجہ بالا غزل میں ایک نیا پن ہے۔ لب و لہجہ تازہ ہے۔ وہ اپنی نوجوانی کے عالم میں اور چھوٹے شہر سے تعلق رکھنے کے باوجود جدید غزل کے نزدیک نظر آتے ہیں۔ لفظیات، تراکیب، علامتیں اور جذباتی قدریں اس وقت بھی ان کی شاعری میں نمایاں تھیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی طبیعت پورے طور پر جدیدیت کی طرف راغب تھی۔ اس زمانے میں انھوں نے کہا تھا:

عظمت سے ہٹ کے ندرت و جدت کو ناپیے

ہم اور چیز، غالبؔ و میرؔ و فراقؔ اور

۶۵۔ ۱۹۶۴ء میں بھی مظفر حنفی کا لب و لہجہ اور شعری آہنگ اس زمانے کے ماحول کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھا۔ ان کا جو کلام رسالوں میں شائع ہوا اس میں فصاحت کے ساتھ سادگی تھی۔ جسے پڑھ کر مجھے احساس ہوتا کہ ترقی پسندی اور جدیدیت سے ہٹ کر بھی شاعر اپنی طرزِ فکر سے اپنی تخلیقات کے موتی بکھیر سکتا ہے اور نئی فضا قائم کر سکتا ہے۔ اچھا ادب زندگی کا ادراک ہے۔

میرؔ کے زمانے کو آج تین سو سال ہونے کو آئے۔ اس طویل عرصہ میں زبان اور اظہار کے طور طریقے بھی وہ نہیں رہے۔ نئے شعراء نے اپنا لہجہDictionیعنی زبان کے استعمال کا منفرد انداز اپنانے کی کوشش کی۔ میرؔ اور سوداؔکا دور الگ تھا۔ دونوں شعرا ء نے تمام اصناف پر طبع آزمائی کی لیکن دونوں کے الفاظ اور زبان میں نمایاں فرق رہا۔ یہی صورت میرؔ و غالبؔ کے درمیان ہے۔ میرؔ آخر میرؔ ہیں انھوں نے زبان کے سلسلے میں جس جرأت سے کام لیا انھیں کا حصہ ہے۔ جدید شاعری کا دور آتے آتے الفاظ، زبان اور زبان کے برتاؤ میں نمایاں فرق آیا۔ نوجوان شعراء اپنی شعوری فکر، اور شدت احساس کے مطابق روایتی ڈھانچے سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے اور اظہاریت کے امکانات تلاشتے نظر آئے۔ مظفر حنفی نے بھی اپنے لہجے میں نیا پن لانے کی کوشش کی اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اظہار کے راستوں پر اپنے شناخت نامے چسپاں کیے اور غیر غزلیہ احساس کو بہی مخصوص کشادگی کے ساتھ نئے اور ستھرے انداز میں پیش کیا۔

کھیتوں میں اَبر لے کے نہ پُروائی جائے گی

بدلی سمندروں پہ ہی برسائی جائے گی

اک مصرفِ اوقات شبینہ نکل آیا

ظلمت میں تری یاد کا زینہ نکل آیا

کسی قدر تیز چلی سرد ہوا پچھلی رات

گرم بستر کو بہت یاد ہماری آئی

اور پھر پانچویں درویش کی باری آئی

باغِ افسانہ میں ندرت کی سواری آئی

ایسا لگتا ہے کہ اس زمانے میں مظفرؔ حنفی جدیدیت سے کافی متاثر تھے اور روایتی شاعری سے دامن جھٹکنے کی کوشش کر رہے تھے مگر انھوں نے جدیدیت کے شعلے کو اس طرح لپک کر نہیں پکڑا کہ ان کی ہتھیلیاں ہی جلا دے۔ انھوں نے جدیدیت کا اثر بہت ہی محتاط اور سنجیدہ طور پر لیا جس کا لطف دیر پا ہے۔ ان کا لب و لہجہ اور شعری آہنگ اس زمانے کے قاری کو متاثر کر نے کے لیے کافی تھا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس وقت بھی ان کے کلام میں فصاحت، سادگی، رنگینی اور تاثر کی شان پوری آب و تاب سے نمایاں تھی۔ اب یہ اشعار دیکھیں :

ٹوٹی ہوئی چوڑی کی مزے دار کہانی

خوابیدہ گلی جاگ پڑی آنکھ مسل کر

اچھی خاصی دو آنکھیں لے کر پھرتے ہو

پھر بھی مانگے کی عینک سے دیکھا تم نے

کیوں اوڑھے بیٹھے ہو بیتے دن کا پشچاتاپ

بھور بھئے یُگ بِیت چُکا ہے کھڑکی تو کھولو

سادگی کی ان علامتوں کو مظفرؔ حنفی خوب سمجھتے تھے۔ ان کے یہاں تاثراتی میلانات اور فکر کی وسعت موجود تھی۔ جذباتی انتشار، جذباتی کشمکش، داخلی کیفیت کا احساس نوجوان مظفر حنفی کو تھا۔ اس طرح کی غزلیں جو اس زمانے میں شائع ہوتی تِھیں آپ بھی دیکھیں :

سُنا تھا دل کو کہ گرم و گداز ہوتا ہے

ہمارے سینے میں یہ سخت و سرد کیا شے ہے

موروثی اقدار کو تج کر ہم نے وہ تکلیف سہی

جیسے زندہ پاؤں کسی کے کاٹے جائیں آرے سے

وہ سر سے پا تک تمام شعلہ

اُسے کوئی چومتا کہاں سے

اب تو خوش آمدید کہے ملکۂ بہار

کانٹوں پہ چل رہا ہوں بڑے اعتماد سے

میں مظفر حنفی کی پچاس سال پہلے کی شاعری پر کوئی طویل مضمون نہیں لکھ رہا ہوں میں تو اپنے ذہنی تاثرات قلم بند کر رہا ہوں جو مظفر حنفی کی اس وقت کی شاعری سے میرے ذہن و دل پر مرتب ہوئے۔ مضامین یا تقریظیں لکھنا یا کسی شاعر کا مجموعی طور پر جائزہ لینا تو ناقدین اور اہل قلم حضرات کا حصّہ ہے۔ آج مظفرؔ حنفی جس مقام پر ہیں اور انھوں نے اردو ادب کی جو خدمت کی ہے روز روشن کی طرح نمایاں ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنے عنوان میں لکھا ہے : ’’ہونہار بروان کے چکنے چکنے پات‘‘ مظفر حنفی پر ہمارے علاقے کی یہ کہاوت پورے طور پر صادق آتی ہے۔ وہ پودا  جو آج سے لگ بھگ پچاس سال قبل خوشنما پتوں سے آراستہ تھا اب وہ ایک توانا اور ثمر دار درخت بن گیا ہے۔ ایک قد آور اور سایہ دار درخت جو راستے کا سنگ میل بھی ہے اور جس کے سائے سے بے شمار طالب علم فیض حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

٭٭٭

 

’’مظفر حنفی کا کلام دیکھا تھا، اس کے افسانے پڑھ کر میری نظروں میں اس کی توقیر دو چند ہو گئی۔ میں نے سوچا اس ادبی مجاہد کی نیام میں دو تلواریں ہیں اور دونوں کا وار کاری ثابت ہوتا ہے، مسودہ ختم کرنے کے بعد مجھے بے اختیار اسی کی غزل کے دو شعر یاد آ گئے:

اس کے دل و دماغ کی دنیا ہی اور ہے

ظالم کے سوچنے کا طریقہ ہی اور ہے

مرتے ہیں لوگ زلف و لب و رخ کے نام پر

حالات کا اگرچہ تقاضا ہی اور ہے

میری دانست میں اس کے افسانوں پر جو صحیح ترین تبصرہ کیا جا سکتا ہے، وہ ان اشعار میں مرکوز یا مرقوم ہے، واقعی اس کے سوچنے کا طریقہ انفرادی اور جداگانہ ہے، کیونکہ وہ زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا عادی ہے۔ چاہے وہ ظریف ہے یا شاعر، اس کے سر پر یہ دھن سوار ہے کہ زندگی کی ستم ظریفیوں کو بے نقاب کرے۔ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے وہ اکثر افسانے کے اختتام کو ایک ناگہانی موڑ دیتا ہے جسے نیش عقرب سے مشابہت دی جا سکتی ہے۔ ‘‘

کنہیا لعل کپور

 

 

 

 

                شکیل گوالیاری

    گوالیار

 

مظفرؔ تمھارے سفر در سفر میں

 

ڈاکٹر مظفر حنفی سے میری ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔ میں نے اُنھیں دیکھا بھی نہیں، مراسلات کا سلسلہ بھی تواتر کے ساتھ قائم نہیں رہا۔ ہوا یہ کہ میں نے اپنی کتاب ’’ پتھروں کے شہر میں ‘‘ ۱۹۹۴؁ء میں اُنھیں بھیجی تو اُنھوں نے جن الفاظ میں میری حوصلہ افزائی کی وہ انتہائی محبت آمیز الفاظ تھے جو دل و جان کو سیراب کر گئے۔ اس کے بعد ۲۰۰۰ء؁ میں اپنا شعری مجموعہ ’آسمان پر آسماں ‘ نظر گزار کیا تو اُن کی طرف سے پھر ایک محبت بھرا خط  موصول ہوا ان الفاظ کے ساتھ کہ ’’آپ تو ہمارے ہی قبیلے کے ہیں ‘‘ غالباً اشارہ میری تاریخ پیدائش کی طرف تھا۔ میری پیدائش ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء ہے اور موصوف کی تاریخ پیدائش یکم اپریل ۱۹۳۶ء ہے۔ ایک بار اُنھوں نے فون پر رابطہ کیا وہ دن میرے لیے انتہائی خوش گوار اور مسرت آمیز رہا۔ اُن کی بھیجی ہوئی دو تین کتابیں میرے پاس ہیں ’’ہاتھ اوپر کیے‘‘ اور ایک غزلوں کا مجموعہ (ہندی رسم الخط میں )ان کے  علاوہ کتابی سلسلے ’’مژگاں ‘‘ کی پہلی کڑی ’ مظفر حنفی :فن اور شخصیت‘ جس کے مرتب نوشاد مومن ہیں۔ یہ کل سرمایہ میری دسترس میں ہے اور اس کے علاوہ کچھ غزلیں جو مختلف رسائل میں وقتاً فوقتاً نظر سے گزرتی رہی ہیں اُن سب کے نقوش میرے ذہن و دل پر مرتسم ہوتے رہے ہیں۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ مظفر حنفی کی شاعری بظاہر جتنی آسان نظر آتی ہے بہ باطن اُتنی ہی پیچیدہ بھی ہے۔ آسان اُن کے لیے جو شاعری کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور پیچیدہ اُن کے لیے جنھیں شعر کی بین المتونیت سے لطف اندوز ہونے کا چسکا پڑ چکا ہے۔

ایک شعر جو موصوف نے کسی ایک صنفِ سخن کا تعین کرتے ہوئے اپنے فطری تقاضوں کے مطابق قلم کے سپرد کیا ہے اُس پر بھی اپنے منفرد اسلوب کی مہر لگا دی ہے:

بُری نہیں ہے مظفرؔ کوئی بھی صنفِ ادب

قلم غزل کے اثر میں رہے تو اچھا ہے

یعنی وہ قوتِ مدرکہ و متخیلہ جو مختلف اصناف پر صرف ہوتی رہی ہیں اب غزل کو اپنا مرکز بنائیں گی اور اب قلم کلّی طور سے غزل کے اثر میں رہے گا جو اس سے قبل مختلف اصنافِ ادب کے اثر میں تھا۔ یہاں لفظ ’ اثر‘ بہت ہی اہم ہے۔ ’ اثر میں ہونا‘ ایک جنونی کیفیت کی طرف اشارہ ہے۔ جو عوام میں مستعمل ہے، جِن کا اثر،  ہوا کا اثر وغیرہ۔ اس جُنون کو شاعر نے اپنے سر نہ لیتے ہوئے قلم کے سر تھوپ دیا۔

جملۂ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ہمارے شہر گوالیار کے ایک ہندی کوی کے سمّان میں جلسہ منعقد کیا گیا۔ جلسے کی صدارت اِس ناچیز کو سونپی گئی۔ ڈیڑھ گھنٹے تک سمّانِت کوی مہاشے جن وادی کوِیتائیں سناتے رہے۔ آخر میں کچھ لوگوں نے فن پر روشنی ڈالی۔ ہر پرشنسک نے اُنھیں  ’  بُدّھی جیوی‘ ( دانشور) کہہ کر مجمع سے داد حاصل کی۔ صدر ہونے کے ناطے مجھے بھی دو شبد بولنے تھے۔ میں نے کہا کوئی کوی نہیں ہو سکتا جب تک تھوڑا سا فتور اُس کے دماغ میں نہ ہو، وہ دانشور کیسے ہو جائے گا۔ اُن کے دماغی فتور کی تصدیق میں نے اُن کی اردھانگنی سے کرائی جو اُس جلسے میں بہ نفسِ نفیس موجود تھیں اُنھوں نے بھی ہندی غزل پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اُنھوں نے بڑے تپاک سے میری تائید کرتے ہوئے کہا بیشک آپ سچ کہہ رہے ہیں، پھر کیا تھا محفل زعفران زار بن گئی۔ واضح ہو کہ کوئی شاعر نِرا شاعر، نہ ہوتے ہوئے مظفر حنفی صاحب کی طرح محقق بھی ہو، اور نقّاد بھی، اور یہ بھی کہ اُس نے ادب کے ہر گوشے پر اپنی فکر و نظر کے نشانات چھوڑے ہوں، تمام اصنافِ ادب پر کتابوں کے انبار لگا دیئے ہوں اور وہ پروفیسر بھی ہو تووہ ضرور دانشور کہلانے کامستحق ہے۔ مظفر حنفی کی شاعرانہ دانشوری اُن کے اشعار سے جھلکتی ہے۔ شعر دیکھیے۔

مری غزل میں ستارہ جو ہے دمکتا ہوا

کبھی ملا تھا لغت میں کہیں بھٹکتا ہوا

اب دیکھیے ستارہ شرق و غرب کے درمیان بھٹکتا بھی ہے اور دمکتا بھی ہے، لفظ کی صفت نہ چمکنا ہے نہ دمکنا، یہ دونوں صفات لفظ میں پیدا کرنے کے لیے دو الفاظ غزل اور لغت اِس سلیقے سے برتے گئے ہیں کہ شاعر کی غزل میں ستارے کی طرح دمک اُٹھا۔ اب رہ گیا بھٹکنا۔ لغت کہہ کر اُسے لغت در لغت بھٹکنے کا جواز بھی پیش کر دیا گیا۔ لفظ اپنی زبان کی ہر لغت میں موجود رہا لیکن نظر انداز کیا جاتا رہا۔ مظفر حنفی نے لفظ کو توقیر بخشی۔ لفظ کے ساتھ حنفی صاحب کا رویہ انتہائی کریمانہ رہا ہے۔

بعض اوقات اُن کے کسی شعر سے اصل مضمون ہی غائب ہوتا ہے مضمون کے لیے ایک فضا بنا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ شعر کے Structure سے سمجھ لیا جاتا ہے کہ معاملہ کیا ہے۔ جیسے:

سبزے پہ بچھی ہوئی تھیں آنکھیں

اس بات کا عِلم تھا اُسے بھی

اب آپ خود ہی سمجھ لیں کہ اُس نازک اندام کی چال میں اور بھی نزاکت آ گئی معشوقانہ انداز پیدا ہو گیا۔ یہ بھی نشانِ خاطر رہے کہ محاورے میں نظریں بچھائی جاتی ہیں یہاں آنکھیں بچھائی جا رہی ہیں لیکن راہ میں نہیں ’ سبزے پر‘ یہ ایک ایسا حِسّی اور بصری پیکر ہے کہ اگر مصور اپنے کینوس پر اُبھارے تواُسے تصویر میں جان ڈالنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔

ایک شعر یہ بھی ملاحظہ فرمائیں :

مظفرؔ تمھارے سفر در سفر میں

ہماری قبا دھُول سے اٹ رہی ہے

مظفر سفر در سفر میں ہے تو قبا کس کی دھول سے اَٹ رہی ہے؟ اس کا جواب یہ ہو گا کہ وہ بھی مظفر ہے، جس نے اپنے آپ کو مظفر کے ہم سفر سےIdentify کیا ہے اب شعر پر دوبارہ نظر ڈالیے سب سمجھ میں آ جائے گا۔

کل ہی گئے تھے گاؤں سے تازہ ہوائیں لاد کر

شہر سے لوٹ آئے ہیں گرد و غبار لے کے وہ

یہ ایک چالو معمولی درجہ کا شعر ہے اِس میں بھی شاعر نے اپنی ہنر مندی دکھا ہی دی۔ ہوا کے ایک معنی افواہ بھی ہیں۔ تازہ ہوائیں اخبار یا ٹی وی پر نشر ہونے والی تازہ مگر جھوٹی خبریں۔ دھوکا دینے والی خبریں۔ غرض یہ کہ ’ لاد کر‘ نے ہواؤں کے دوسرے معنی پیدا کر دیے ہیں۔

مظفر حنفی کی غزل کی یہ خوبی ہے کہ وہ مشکل سے مشکل مضامین کو آسان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کم ہی لوگ ہوں گے جو کم سے کم الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کہنے پر قادر ہوں۔ اِس طرح کفایت لفظی سے اجمال کی صفت پیدا کر کے موصوف چھوٹی بحروں میں بھی گل کو گلستاں، قطرے کوسمندر اور ذرّہ کو صحرا بنا دیتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ اُن کی غزل عہدِ حاضر کا آئینہ ہے۔ موجودہ معاشرے کو تخلیقی ہنر مندی کے ساتھ شعر کی گرفت میں لانا ایک ایسا کمال ہے جس میں ذرا بھی ڈھیل برتی گئی تو معاشرہ ہی معاشرہ رہ جاتا ہے اور شاعری چپکے سے کہیں مشاعرہ سُننے چلی جاتی ہے۔

سمجھتے تھے کہ اطمینان ہے عزلت نشینی میں

زمانہ ہاتھ میں خنجر لیے اخبار سے نکلا

زمانے کے ہاتھ میں خنجر دے کر تمام عالم میں خوں ریزی و فتنہ و فسادکی منظر کشی کر دی اور یہ بھی کہ لوگ کتنے بے حِس ہو گئے ہیں، چائے کی چسکیوں کے ساتھ مزے لے لے کر اِن خوفناک خبروں کو پڑھتے ہیں۔ پہلا مضمون لفظ ’ زمانہ‘ سے برآمد ہوا اور دوسرا مضمون جو مخفی تھا وہ ’ اخبار‘ سے نکلا۔

ستم رسیدہ ہے ہندوستان میں اُردو

اسی زبان میں ہندوستاں زیادہ ہے

مصرعِ ثانی میں کتنا بلیغ اشارہ ہے ملک کی تہذیب و ثقافت کی طرف! گنتی کے چھ لفظوں میں چھ سو سالہ تاریخ کے اوراق کھول کر رکھ دیے ہیں۔ آگے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں۔ اس شعر میں پورا منظر نامہ شاعر نے پیش کر دیا ہے۔

رہ گئی بات ستم رسیدگی کی تو اس سے کچھ لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ میری سمجھ میں جو آیا ہے وہ میں عرض کیے دیتا ہوں۔ در اصل ہماری خوش فہمی کا حال یہ ہے کہ ہم نے غزل کی مقبولیت کو اُردو زبان کی مقبولیت سمجھ لیا ہے جیسے کوئی اُردو میں ہائیکو لکھ کر یہ سمجھ بیٹھے کہ جاپانی زبان کو فروغ دے رہا ہوں۔ اسی طرح کئی ہندوستانی زبانوں میں غزل کا رواج بڑھتا جار ہا ہے۔ اب غزل اُردو کی صنفِ ادب نہ رہ کر ہندوستانی ادب کی ایک صنف کہلانے کی حق دار ہو گئی ہے۔

ہمارے عہد میں آ کر مظفرؔ

غزل ہندوستانی ہو رہی ہے

ماضی قریب و بعید میں ہر شاعر نے اپنے عہد کے تلخ و ترش حقائق کو بیان کیا ہے لیکن اُن کی فکر و نظر کے زاویے بدلتے رہے ہیں۔ مظفر حنفی نے بھی اپنے تخلیقی عمل کے نئے زاویے تلاش کیے، اُنھوں نے اپنے منفرد لہجے میں طنز کے نشتر چھپا کر مکالماتی زبان اور ڈرامائی فضا میں شعری پیکر کی تشکیل کی یہ اُن کا انفرادی کارنامہ ہے۔ وہ اپنی غزل کے وسیع کینوس پر رنگا رنگ تصویریں اُبھار کر نت نئے تماشے دکھا سکتے ہیں۔ مظفر حنفی اپنی تخلیق میں جن حِسّی تجربوں سے قاری کو آشنا کر رہے ہیں وہ اِسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں ہم روز و شب گزار رہے ہیں۔ اُن کے ہاں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور جرأتِ اظہار بھی۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ معاشرتی اور ثقافتی سیاق سے وابستہ حسّی تجربات وجدانی کیفیات ان میں کس حد تک کار فرما ہیں۔ شاعر کو یہ احساس بھی ہے:

ہم رنگ زمانہ ہو گیا ہے

کچھ رنگ بدل دیا ادب کا

کبھی کبھی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کے کان بج رہے ہیں۔ خلا میں بکھری ہوئی آوازیں اُسے سنائی دے رہی ہیں اور وہ کسی سائنٹفک ذریعہ سے اُن آوازوں کو غافل انسانوں تک پہنچا رہا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ دیکھو تمھاری دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔

سنو سنو! کہ اگر پھونک دی گئی بستی

تو ہم ہزار نئی بستیاں بسا لیں گے

تمھارے عہد میں کوئی نہیں ہوا برباد

تو کیوں یہ آہ و فغاں ہے فضول چاروں طرف

عدالتیں اگر اُن کو معاف بھی کر دیں

تو اُن کے نام ہم اہلِ قلم بھی جانتے ہیں

کبھی مٹی سے بھی پوچھو کہ اس میں خون کس کا ہے

کہ اِس دھرتی پہ بس اپنا اجارہ تم سمجھتے ہو

ہاں یہی سچ ہے کہ تو قتل نہیں کر سکتا

ہم ہی گردن تِری تلوار پہ رکھ دیتے ہیں

وہ بے نیاز تھے اور فاقہ مست رہتے تھے

پھر اُن کا عرس بہ صَرفِ کثیر کیسے ہوا

اندھیری رات کے دامن پہ سجدے خوب کرتے ہو

تو پیشانی پہ اے خوش اعتقاد و چاند اُگ آیا

سچ فرماتے ہیں سر میرا گھوم رہا ہے

اپنا چکّر دیکھو اُلٹا گھوم رہا ہے

غزل کہنے میں اپنے خون کو پانی بھی کرتے ہو

وہاں دربار میں شہ کی ثنا خوانی بھی کرتے ہو

دھبّے مرے دامن کے بہت اُس نے گِنائے

پھر میں نے چھُری اُس کی بغل سے بھی نکالی

بے گناہی کی سزائیں بھی ہُوا کرتی ہیں

لاڈلا جن کا گرفتار ہے پوچھو اُن سے

بدلتی رہتی ہے تیور غزل مظفرؔ کی

میاں کو دھر نہ لیا جائے شرپسندوں میں

مظفر حنفی اپنے اشعار میں زمانۂ حال کی عکاسی اس خوبی سے کرتے ہیں کہ اُس میں روایت، ترقی پسندی اور جدیدیت کے رنگوں کی آمیزش کا احساس تو ہوتا ہے لیکن اُن کے لہجے کی انفرادیت کسی ایک رنگ کو کھُل کر سامنے نہیں آنے دیتی اور وہ اِس قسم کی تخصیص سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ کوئی نظریہ اپنے ماقبل نظریے کو پوری طرح رّد نہیں کرتا، تھوڑی دیر کے لیے ’ سکتے‘ میں ضرور ڈال دیتا ہے:

سکتے میں تھی شاعری مظفرؔ

واں ساختیات ہو رہی تھی

جو بھی نقاد کو اپنے نظریہ کی کسوٹی پر کس کر دیکھے گا تو اس طرح کہ دو چار مغربی نقاد  اُس کے آگے پیچھے بیٹھے ہوں گے۔ اب غزل حیران و پریشان کہ دیکھوں وہ کیا مشورہ دیتے ہیں جن کے یہاں میرا کوئی وجود ہی نہیں۔ اِس لیے بہتر یہی ہے کہ

نقادوں کے قول نہ لاؤ

غزلیں لاؤ مظفرؔ جیسی

مظفر حنفی کو اگر کوئی شکوہ شکایت ہے تو نقاد سے یا پھر اپنے خوشہ چینوں سے جن میں کئی استادِ سخن بھی ہیں :

تنقید اُنھیں مانے مظفرؔ کو نہ مانے

کیا کہتے ہیں اس باب میں فاروقی و نارنگ

اے مظفرؔ کئی استادِ سخن

میرے شعروں کو کتر جاتے ہیں

وہ جومسند پر بیٹھا ہے حلیہ عالی شان بنائے

میری غزلوں کی کترن سے اُس نے بھی دیوان بنائے

وہ اپنے خوشہ چینوں کو نیک مشورہ بھی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں :

لازم ہے کہ اِن سے نئے مضمون نکالو

الفاظ تو اشعارِ مظفرؔ سے اُٹھا لائے

عُرف عام میں اِسے کہتے ہیں کھری کھری۔ اِسی کو جرأتِ اظہار بھی کہہ سکتے ہیں۔  مظفر صاحب کے کاٹ دار لہجے کا ایک انداز اور ہے جس میں ہزل کا رنگ آتے آتے ہوا ہو جاتا ہے اور مضمون کی گہرائی میں سنجیدہ مسائل پر قاری سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اب لہجے کا دوسرارُخ بھی ملاحظہ ہو۔ ریشم کی طرح ملائم اور معصوم۔ روایتی مضامین کو نئے زاویے سے دیکھنا اور اُنھیں غزل کے لہجے میں استعاروں اور علامتوں میں انوکھی سج دھج کے ساتھ شعر کے نازک دھاگے میں پرونا مظفر حنفی کا ایسا Contribution ہے جس سے نئی نسل کے روایت پسند ہی نہیں جدیدیت پسند شعراء بھی استفادہ کر سکتے ہیں اگر وہ جان لیں کہ غزل میں تازہ کاری کا گُر کیا ہے۔

تمام خون سب آنسو کھپا کے دیکھنے تھے

غزل میں رنگ انوکھے سجا کے دیکھنے تھے

سمائی سر میں کچھ ایسی کہ ہوش ہی نہ رہا

نقوش پا تو ہمیں سر جھکا کے دیکھنے تھے

مزاج اُن کا ہے بالکل چھوئی موئی کی طرح

یہ زخم آپ کو نزدیک آ کے دیکھنے تھے

تو خود بہ خود ہی چلا آتا آخری درویش

الاؤ پیڑ کے نیچے جلا کے دیکھنے تھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نہاں ہیں لغزشِ پا میں بڑے تعمیر کے پہلو

کہاں سے یہ فراست آ گئی دیوانۂ دل میں

بہت دنوں میں پلٹ کر میں گھر کو آیا تھا

پتہ چلا کہ مرا گھر گیا ہے صحرا میں

مجھ کو ہی ایسا لگتا ہے یا سچ مچ ہی ہو جاتا ہے

میں تم سے باتیں کرتا ہوں چاند گلابی ہو جاتا ہے

مرے پڑوس کی سب کھڑکیاں چُنی جائیں

ذرا سی دھوپ اگر میرے گھر میں آ جائے

ہمسائے کی بالکنی پر اُترا تھا کل چاند

اُس چنچل نے ہنس کر میرا آنگن بھی دیکھا

اک ستارہ ٹوٹ کر آیا مظفرؔ کی طرف

آپ نے شاید اُسے پیغام بھیجا ہوے گا

اے آوارہ پیلے پتّے میں کیاسمجھاتا اس کو

ایک بگولا پوچھ رہا تھا آج پتہ تیرے گھر کا

اُس مہرباں نے ہاتھ مرے دل پہ رکھ دیا

اب کوئی بے قرار نہیں ہے زمانے میں

منایا جا رہا ہے پھر عدو کو

غزل میری سنائی جا رہی ہے

٭٭٭

 

 

’’مظفر حنفی کے یہاں صحت زبان و بیان کا خاص اہتمام ہے اور ان کی شاعری میں انفرادیت کے آثار بھی پائے جاتے ہیں اور مظفر حنفی کے اشعار پہچانے جاتے ہیں۔ مظفر حنفی نے اگرچہ اپنی ایک کتاب کا نام ’’ تیکھی غزلیں ‘‘ رکھا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ مظفر حنفی کے یہاں کھردرے پن سے زیادہ سڈول انداز بیان ملتا ہے۔ انھوں نے نئے فکر و احساس کو اردو شاعری میں سمونے کے لیے نئے الفاظ بھی برتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی غزلوں پر کھردرے پن کا گمان ہوتا ہے۔ کہیں میں نے کہا ہے کہ مظفر حنفی کے یہاں لسانی فنی اور عروضی چابک دستی ملتی ہے۔ اس چابک دستی اور قادرالکلامی کا راز یہ ہے کہ انھوں نے جی لگا کر شاد عارفی سے اکتساب فیض کیا ہے اور اپنے مشاہدہ اور مطالعہ سے اس خاک میں رنگ بھرا ہے۔ میں نے یہ بھی کہا ہے کہ پروفیسر مظفر حنفی کے یہاں انفرادیت کا ایک رنگ جھلکتا ہے۔ یہ انفرادیت ایک طرف نئے فکر و احساس کی دین ہے اور دوسری طرف اظہار کے عناصر کے نئے تال میل سے پیدا ہوئی ہے۔ ‘‘

پروفیسر عنوان چشتی

 

 

 

 

 

                پرتپال سنگھ بیتابؔ

   جمّوں ( توی)

 

شعرِ ہزار رنگ کا شاعر: مظفرؔ حنفی

 

مظفر حنفی بے شک اردو کے معتبر شاعر، محقق اور نقاد ہیں۔ حالانکہ کسی شاعر کے لیے تحقیق اور تنقید کا کام جاری رکھتے ہوئے شعریت کی بلندیوں کو چھو لینا بہت بہت مشکل ہوتا ہے، قریب قریب مترادف جوئے شیر کے لانے کے۔

مظفر حنفی نے پچھلی صدی کے دوسرے نصف اور موجودہ صدی میں بھی ادب کی ان تمام اصناف میں گویا صحرا میں پھول کھلائے ہیں، پہلی نظر میں زندگی اور کائنات کی وسعتوں پر محیط اپنے طویل ادبی سفر میں مظفر حنفی کی شاعری کے بارے میں سوچتے ہوئے مجھے سب سے پہلے ساحرؔ لدھیانوی کا مندرجہ ذیل شعر یاد آتا ہے:

دُنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مُجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

زندگی کے ترش و تلخ تجربات کا ردِّ عمل ان کے شعروں میں جا بجا دِکھائی دیتا ہے بلکہ اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ کئی بار تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی صوفی صفت شاعر اپنے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے دُکھ درد کو بھی شدت احساس کے ساتھ بیان کر رہا ہے۔

مظفر حنفی کی شاعری سے متعلق سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ساٹھ برس سے اُوپر کے شعری سفر کے بعد بھی وہ مسلسل شعر کہہ رہے ہیں۔ ایسے میں اکثر ہوتا ہے کہ کئی دوست دشمن اکثر ایسے شعرا کے شعری سفر تمام ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ کئی تو حسد کے مارے ایسی رائے بھی دے دیتے ہیں خود مظفر حنفی کا مندرجہ ذیل شعر اسی جانب اشارہ کرتا ہے:

تنقید کہہ رہی تھی مظفرؔ بہت ہوا

اِک آبشار تھا کہ روانی نہیں تھمی

جو فنکار آسمانوں کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں اُن کے لیے وسعتیں لا محدود ہو جاتی ہیں۔ سفر لا محدود ہوتا ہے۔ مظفر حنفی اپنے سفر سے متعلق رقم طراز ہیں :

گرد اُڑانے کا مزہ آبلہ پا سے پوچھو

ورنہ بسنے کے لیے شہرِ تمنا تھے کئی

موجود سے آگے حدِ نظر سے پرے دیکھنے کی خواہش میں منزل کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ یہاں تک کہ آسماں بھی اُس مکان جیسا نظر آتا ہے جس پر آ کر جادۂ سفر بند ہوتا ہوا دِکھائی پڑتا ہے۔ مظفر حنفی نے کِتنی خوبصورتی سے کہا ہے:

راہ مسدود ہے اُڑ کے جاؤں کہاں

ہر طرف آسماں آسماں آسماں

ایک اور خوبصورت شعر ملاحظہ ہو:

میری خواہش کو تو خورشید بھی پاسنگ نہیں

یہ نہ سمجھو کہ ستاروں سے بہل جاؤں گا

اس مقام پر شعرِ مظفرؔ شعرِ غالبؔ سے آنکھ ملاتا  ہوا نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ غالبؔ کا مندرجہ ذیل شعر یاد آ ہی جاتا ہے:

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

سچّا شاعر ایک فقیر کی طرح ہوتا ہے جو اپنے ہی نہیں دوسروں کے دُکھ درد کو بھی دل سے محسوس کرتا ہے، مظفر حنفی کے ہاں بھی ایسے اشعار جا بجا پائے جاتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں :

بادلوں کا سفر دیکھتے رہ گئے

کھیت سُوکھے تھے سُوکھے پڑے رہ گئے

جتنی شاخیں پھلتی تھیں

اُن پر بجلی بیٹھ گئی

پوچھ رہی ہے جانے کب سے بجلی ان کے نام پتے

جتنے پیڑوں کی گنتی ہے اچھے پھلنے والوں میں

مندرجہ بالا اشعار ہمارے سیاسی، سماجی، معاشی حالات پر ایک زبردست تبصرے کی طرح ہیں۔ شاعر سیاسی سماجی معاشی بڑے بھائیوں کو اس انداز سے آئینہ دکھاتا ہے کہ ان نام نہاد رہبروں کو مُنہ چھپانے کی جگہ نہیں ملتی۔

شیخ فرید الدینؒ گنج شکر جنہیں پنجابی کا پہلا باقاعدہ شاعر مانا جاتا ہے اور جن کا کلام سکھوں کی مقدس کتاب گورو گرنتھ صاحب میں موجود ہے، فرماتے ہیں :

مَیں جانیا دُکھ مُجھ کو دُکھ سبایا جگّ

اُچّے چڑھ کے دیکھیا گھر گھر ایہا رگّ

مظفر حنفی کے ہاں بھی متعدد ایسے اشعار موجود ہیں جن میں بالواسطہ بلا واسطہ اپنے دُکھ کی دوسروں کے دُکھ سے اور دوسروں کے دُکھ کی اپنے دُکھ سے شناخت بدرجہ اتم موجود ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ذات سے تھوڑا سا اونچا اُٹھنے کی ضرورت ہے ساری دنیا ساری کائنات ایک جیسی نظر آنے لگتی ہے۔ ملاحظہ ہو:

دھوپ اپنی برچھیوں سے کر چُکی ہے وار ہم پر

اب کرے گا ابرِ رحمت خون کی بوچھار ہم پر

شہر میں جشن ہے نیزوں پہ چڑھے ہیں بچے

آج مکتب میں مناجات نہیں ہونے کی

سماجی معاشی نابرابری کی دوڑ میں دلِ شاعر کا جلنا لازمی ہے۔ چھوٹے بڑے امیر غریب کے علاوہ رنگ نسل علاقہ مذہب ہر نوع کی تفرقہ آمیزی اور بندر بانٹ آج کے دور کا خاصہ ہے۔ شاعر سچ کو سچ کہتا ہے بلا خوف، بے جھجک۔ چند شعر ملاحظہ ہوں :

پھولوں کے درمیاں نہ سہی صحنِ باغ میں

میرا بھی آشیاں ہے اگر ٹھیک سے گنو

چڑھتے سورج سے کہیو بعدِ سلام

شام تو آپ کی بھی آئے گی

وہ آفتاب ٹھہرتی نہ تھی نظر جس پر

ہُوا غروب تو نام و نِشاں کہیں بھی نہیں

عہدِ جدید میں دوست دُشمن کی پہچان بہت مشکل ہے۔ جو کام دشمنوں کے ہیں وہ دوست ہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو بظاہر دوست ہے وہ دل میں گھر کر لیتا ہے مگر حقیقت کھلتی ہے تو درد بہت ہوتا ہے:

ہزاروں مشکلیں ہیں دوستوں سے دُور رہنے میں

مگر اِک فائدہ ہے پیٹھ پر خنجر نہیں لگتا

یہ راز دشمنوں سے نہیں دوستوں سے پوچھ

یکلخت ہم پہ بند ہوا آب و دانہ کیوں

اب نمک تک نہیں ہے زخموں پر

دوستوں سے بڑا سہارا تھا

دُشمنوں سے تو بچ آئے ہیں مگر عالی جاہ

ہر کمیں گاہ میں احباب ہیں اب کیا ہو گا

احباب مِری پیٹھ پہ کرتے رہے یلغار

سینے کے لیے ایک بھی باقی نہ رہا تیر

ہندوستان کی تہذیب و ثقافت میں تصوف اور بھکتی رس اِتنی گہرائی سے رچا بسا ہوا ہے کہ آج بھی لگ بھگ تمام تر ہندوستانیوں کی زندگی میں تصوف اور بھگتی رس کی روحانیت (Metaphysics) کسی نہ کسی سطح پر آشکار ہو جاتی ہے۔ اُردو شعر میں تصوف کا رنگ فارسی غزل کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ علاوہ ازیں عہدِ وسطیٰ کے بھگتی آندولن کا اثر بھی اُردو شاعری پر ہمیشہ سے رہا ہے۔ مظفر حنفی اپنی شاعری میں کئی جگہوں پر تصوف اور بھکتی رس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ یُوں بھی مظفرؔ صاحب کی شاعری ایک خالص ہندوستانی کی شاعری محسوس ہوتی ہے۔ اُن کی زبان داغؔ کی زبان سے بہت قریب نظر آتی ہے۔ اسرار سے اوت پروت چند شعر دیکھیے:

لاکھ پردوں میں ہے وہ پُراسرار

کوئی پردے کہاں کہاں سے ہٹائے

آنکھوں پہ نہ کیبحیو بھروسہ

پردے تو بہت ہٹا رہے ہو

میں ایک ایک شے میں کیا کیا نہ دیکھتا تھا

چاروں طرف مناظر پردہ بنے ہوئے تھے

وہ رچا ہوا ہے وجود میں وہ چہار سمت نمود میں

وہ نہاں ہے دھُند کے پردے میں چمن اشتہار اسی کا ہے

گزر گیا تِرا درویش دشتِ امکاں سے

ہر اِک ستارے کو تھوڑی سی روشنی دے کر

شاعری اشارے کنائے علامت و استعارہ کی چیز ہے۔ سیدھی سپاٹ بات میں وہ بات کہاں۔ مظفرؔ حنفی کے مندرجہ ذیل اشعار پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ اور نگ زیب اور دارا شکوہ کی یاد آ جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ میرا خیالِ محض ہو لیکن پھر بھی خیال کا ایک پہلو (dimension) ہے یوں بھی شاعری ہمہ پہلو(multi dimensional)ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو:

طے کیا قبیلے نے تخت و تاج اُس کاہے

اپنے بھائیوں کے سر جو سوار لائے گا

پھر چھٹی حِس نے پرچے لگائے بہت، آئنے عاقبت نے دکھائے بہت

بھائی نے آج کیوں مجھ کو دیکھا نہیں تاجپوشی کا دربار کرتے ہوئے

تخت پر بیٹھتے ہی یہ پرچہ لگا

تیغ کو بھائی کا خون میٹھا لگا

جیسی کرنی ویسی بھرنی یہ تو سب ہی کہتے ہیں

تخت پہ ہو تم میں تختے پر بولو تم کیا کہتے ہو

تمھارے سر میں جوسودا ہے تاجپوشی کا

تو بوریے پر ذرا انکسار کر لیا جائے

دوزخ اور جہنم یعنی سورگ اور نرک کے تصور کے بارے میں کئی لوگوں نے کئی  طرح سے سوچا ہے۔ فلسفی بھی اور عام آدمی بھی سورگ نرک کے بارے میں اپنے اپنے انداز میں قیافے لگاتے ہیں۔ شعرا نے تو ہر دو مقامات کو یا شاید دونوں لا مکانوں کو علامتی استعاراتی انداز میں خوب پیش کیا ہے۔ شاعری میں اکثر طنزیہ انداز بھی اس سلسلے میں نظر آتا ہے۔ شاعر جب تخلیقی سطح پر سوچتا ہے تو اس کا انداز کسی فلسفی، کسی نظریہ ساز بلکہ کِسی پیر و مُرشد سادھو سنت کے سوچنے کی سطح سے بہت اُوپر ہوتا ہے اور پھر شاعر کی بات دِل پر بھی زیادہ اثر کرتی ہے۔ ملاحظہ ہو:

سر جھکاتے تو درِ خلد کھلے تھے سارے

کیوں نہ دوزخ میں جلیں فرطِ انا نے پوچھا

تا عمر سینچتے رہے کھیتی گناہ کی

فردوسِ بے ثمر کے نکالے ہوئے تھے ہم

میری دُنیا خود کسی آتش کدے سے کم نہیں

پارساؤں کو جہنم سے ڈرائیں شیخ جی

ہزاروں جنتیں آباد لاکھوں دوزخیں پیدا

تمھاری خود نمائی سے ہماری خود پسندی سے

اُردو کے کئی حلقوں میں یہ شکایت عام رہی ہے کہ غیر مسلم شعرا و ادبا کی خدمت ادب کو اکثر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ کئی اچھے اچھے مسلم شعرا و ادبا کو بھی وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ حقدار تھے یا ہیں۔ انیسؔ و دبیرؔ جیسے بلند قامت شعرا کے سلسلے میں بھی یہ شکایت  اکثر سُنی جاتی ہے۔ مظفر حنفی صاحب خود ایک بلند پایہ محقق و نقاد ہوتے ہوئے بھی شاعری کے میدان میں وہ مقام و مرتبہ حاصل نہ کر سکے جس کے وہ مستحق ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ میرا خیال ہی ہو لیکن اُن کی شاعری کے اتنے رنگ ہیں کہ جن کے بارے میں بات کرنے کے لیے ایک مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اس چھوٹے سے مضمون میں تو مجھے یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ مظفر حنفی کی ہمہ جہت شاعری کا کون سا پہلو رکھوں اور کون سا چھوڑ دوں۔ فی الحال تو مظفر حنفی کے چند اشعار پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا:

کیا غم ہے اگر پاؤں میں چھالے ہیں عزیزو

ارمانِ سفر بھی تو نکالے ہیں عزیزو

پتھر بھی زمین پر بہت ہیں

اے کانچ کے آسمان والو

اُچھل پڑتا ہے سایہ اور مجھ کو ڈر نہیں لگتا

کوئی آسیب ہو اِنسان سے بڑھ کر نہیں لگتا

دل پشیماں تھا نہ آنسو آنکھ میں

شیخ جی مکے مدینے آئے تھے

خاک مظفر شعر کہوں

اردو میں کچھ صلہ نہیں

پڑا ہوا ہے پچہتّر برس سے اک ہمزاد

ہماری گور میں بستر لگائے مٹّی کا

بلند ہو گے میاں خاکسار ہونے سے

شکستِ ذات ہی پہلا قدم ہے زینے کا

جنہیں قریب کا جگنو نظر نہیں آتا

وہ منہمک ہیں ستارے شمار کرنے میں

مجھے تو اُس کی گواہی کے بعد علم ہوا

وہ دوست کم ہے مرا راز داں زیادہ ہے

تری تلاش میں کیا کیا نہ مرحلے آئے

ہر ایک راہ کہیں اور جا نکلتی تھی

الگ ہے نشہ نئے راستے نکالنے کا

ہماری جنگ کسی راہبر کے ساتھ نہیں

٭٭٭

 

’’غزل کا عام انداز یہ ہے کہ اس میں زندگی کے واقعات و سانحات پیچھے دھکیل دیے جاتے ہیں اور ان کے اثرات کی دھند اوڑھ لی جاتی ہے مگر مظفر حنفی کی غزل نے واقعات کو دھند میں تبدیل کرنے کے باوجود انھیں کسی نہ کسی حد تک باقی رکھا ہے اور قاری مختلف واقعات کی قاشیں چن کر کہانی کو اپنے طور پر مرتب کر سکتا ہے اس خاص انداز نے مظفر حنفی کی غزل کو ایک ایسا نیا لہجہ اور ذائقہ بخشا ہے جو مسحور کن ہے۔ ان کے ہاں سوچ کے بیک وقت کئی سلسلے کارفرما نظر آتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ مظفر حنفی کے ہاں معاشرتی اور سیاسی جبر کو اس کی عالمگیر اور دیر پا صورت کے حوالے سے موضوع بنایا گیا ہے لیکن وہ عصری واقعات سے براہِ راست اثرات قبول کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ مظفر حنفی کے ہاں سیاسی گدلاہٹ، بے چینی، فرد پر معاشرے کاسیاسی دباؤ اور جبر کے متشدد ادب کا منفی کردار ان سب کو مِنہا کرنے کا رویہ ابھرا ہے جسے انھوں نے اکثر کربلا کی علامتوں میں بڑی خوبی سے پیش کر دیا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر وزیر آغا

 

 

 

 

                شین کاف نظام

جودھپور

 

 

منفرد مظفر

 

مظفر حنفی صاحب کے نام اور کلام سے میرا تعارف مولانا ماہر القادری مرحوم کے رسالے ماہنامہ’’ فاران‘‘ (کراچی) کے ذریعہ ہوا۔ مولانا مرحوم رسالہ مذکور میں نئی مطبوعات پر بھرپور تبصرہ فرماتے تھے۔ اگر میرا حافظہ دغا نہیں کرتا تو جس شمارے کا ذکر ہو رہا ہے، اس میں مظفر صاحب کے شعری مجموعے ’’ پانی کی زبان‘‘ پر تبصرہ شاملِ اشاعت تھا۔ اس تعارف کے بعد مختلف رسائل و جرائد میں مظفر صاحب کی تحریریں میں توجہ سے پڑھنے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے معاصرین شعراء سے مختلف ہیں۔ وہ اشیاء کو الگ انداز اور زاویے سے دیکھتے ہیں اور ان کے یہاں الفاظ کا انتخاب و انسلاک بھی الگ ہے۔ جس دہے کا میں ذکر کر رہا ہوں اس میں تمام شاعری ایک ہی رنگ و آہنگ میں ڈھلی معلوم ہوتی تھی اور اظہار میں تو بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی ایک ہی شخص مختلف ناموں سے ایک ہی موضوع پر لکھ رہا ہے۔ اسی زمانے میں ان کا شعری مجموعہ ’’ تیکھی غزلیں‘‘ ہاتھ لگ گیا۔ جس کا پیش لفظ مرحوم خلیل الرحمن اعظمی صاحب نے سپردِ قرطاس کیا تھا۔ اس پیش لفظ میں خلیل صاحب نے شاعری کی دو قسموں۔ مردہ شاعری اور زندہ شاعری۔ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:

’’ مردہ شاعری میں اس شاعری کو کہتا ہوں جو متحرک اور تغیر پذیر زندگی سے اثر قبول کرنے کے بجائے مرحوم شعراء کے دواوین سے اپنا مواد حاصل کرتی ہے۔ پرانے مضامین، پرانے خیالات اور پرانے جذبات کو پرانی ہی علامات اور تشبیہات اور پرانے ہی پیرائے میں الٹ پلٹ کرتی ہے۔ ‘‘

’’ زندہ شاعری کی میرے خیال میں پہچان یہ ہے کہ وہ زندگی اور زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ نئے طرزِ احساس اور نئے ذہنی رویوں کو جنم دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں اسلوب و اظہار کے نئے نئے پیرائے لے کر سامنے آتی ہے۔ ‘‘

خلیلؔ صاحب نے بالکل صحیح فرمایا کہ نیا طرزِ احساس نئے ذہنی رویوں کو جنم دیتا ہے اور نیا ذہنی رویہ نئے اسلوب و اظہار کو جنم دیتا ہے لیکن نیا طرزِ ادا ایک جیسے اسلوب و اظہار کو جنم نہیں دے سکتا۔ کیوں کہ رویے کے اسلوب و اظہار بننے میں شاعر کی شخصیت کا اہم رول ہوتا ہے۔ شاعر کی شخصیت کالمس پا کر ہی احساس الفاظ میں ڈھلتا ہے پھر شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں شعری تربیت کا بھی تو بڑا رول ہوتا ہے۔ مظفرؔ حنفی کی شعری شخصیت کی تعمیر میں شادؔ عارفی کے شعری رویے نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مظفرؔ حنفی نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے :

مظفرؔ شادؔ صاحب اِک انوکھی طرز رکھتے ہیں

ضرورت ہے کہ اب اس طرز کی تقلید کی جائے

یہ لگی لپٹی نہیں ہے واقعی اس دور میں

اے مظفرؔ دم غنیمت ہے جنابِ شادؔ کا

مظفرؔ شادؔ کے عقیدت مند ہیں۔ انھوں نے ’’شاد عارفی: فن اور فن کار‘‘ کتاب لکھ کر شاد عارفی کے شخصی و شعری مخفی گوشوں سے اہلِ اُردوکوروشناس کرایا ہے جس کے لیے ہم سب کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

مظفرؔ نے بار بار شادؔ عارفی سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے لیکن وہ شادؔ سے الگ ہیں۔ ہر شاعر اپنے ابتدائی دور میں کسی نہ کسی سے متاثر ہوتا ہے لیکن اس کے بعد کا سفر اس اثر سے نجات حاصل کرنے کا سفر ہوتا ہے۔ مظفر نے شادؔ کی تقلید بھی تخلیقی سطح پر کی ہے۔ شادؔ کی طرز سے ارتباط کے باوجود ان کے یہاں جو انفرادیت ہے وہ طنز کے سبب ہے۔ دوسرا سبب ہے زمانہ، جو ربط کو رویے میں بدلتے ہوئے الفاظ کے انسلاک اور معنی کو بدل دیتا ہے۔ میں یہاں ایک بات کا خصوصاً ذکر کرنا چاہوں گا کہ مظفرؔ شعر کہتے ہوئے ظلم اور زیادتی میں تفریق کرتے ہیں۔ وہ آئین شناس بھی ہیں اور قدر شناس بھی اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آئین قدر اساس ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرے کی صورتِ حال طنزیہ طرز میں بیان کرتے ہوئے قدر کا بھی دامن نہیں چھوڑتے۔    ع

وہ بات بھی کہہ جائے مرا دل بھی دُکھے نا

اظہار میں غزل کا ایسا ہی مزاج رہا ہے لیکن مظفر اس کے قائل نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بات لوگوں تک پہنچے۔ بہ الفاظِ دیگر وہ غزل کو اشارے کا آرٹ ماننے سے، تخلیقی سطح پر، انکار کرتے ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ وہ غزل کی رمزیت کے منکر ہیں یا واقعیت کو رمزیت پر ترجیح  دیتے ہیں صحیح نہیں۔ مثلاً

خضر کی راہ نمائی پہ یقیں ہے لیکن

خضر ہی راہ بھٹک جائے تو پھر کیا کیجے

آئینے میں بھی روپ بدلتا ہے میرا عکس

ہابیل کی طرح کبھی قابیل کی طرح

پسلی جو کھو گئی تھی کبھی مل گئی مجھے

اس کا وجود ہے مری تکمیل کی طرح

اس چکا چوندھ میں کچھ نہیں سوجھتا

ہم کو اتنا اجالا نہیں چاہیے

چھین لی مجھ سے بصیرت نے عقیدت میری

بادبانوں نے ڈبویا ہے سفینہ کیسا

یہ کون جاتا ہے تاروں کی گردِ راہ کے پار

خلا میں کس کے قدم کا نشان بیٹھ گیا

میں نے عرض کیا کہ ان کا انداز اپنے معاصرین سے مختلف ہے۔ ان کے مختلف ہونے میں ان کی روایت شناسی اور جدّت فہمی کا اہم رول ہے۔ وہ روایت اور جدّت دونوں کی حدیں جانتے ہیں۔ عصری احساس و اظہار کے آداب سے بھی خوب واقف ہیں۔ وجود کی تلاش میں وہ بھی وہیں پہنچتے ہیں جہاں اُن کے ہم عصر پہنچتے ہیں لیکن جہاں ان کے معاصرین فیصلہ کن بیان دیتے ہیں مظفر وہاں بھی تلاش کی عدم تکمیلیت محسوس کرتے ہیں :

اجنبی سا، دوست سا، دشمن سا یہ بہروپیا

میرے اندر کوئی بتلائے خدارا کون ہے

چیختا تھا میں کہ میرے بھائی تو نے کیا کیا

گونج اپنی ہی پلٹ کر آئی تو نے کیا کیا

اب اظہار کی ندرت ملاحظہ ہو:

پھڑپھڑاتا ہے مرے سینے میں تیرے نام پر

یہ کبوتر اپنی چھتری کا نہیں لگتا مجھے

طنز کا تیور دیکھیے:

نیک دل ہو جائے گا کیسے فرشتوں کی طرح

آدمی اتنا گیا گزرا نہیں لگتا مجھے

تمھاری شان میں کیسے قصیدہ لکھ دیا جائے

میاں میں اپنی کستوری کو کستوری نہیں کہتا

مظفرؔ حنفی اپنے معاصرین کی طرح حوصلہ ہارے ہوئے انسان نہیں ہیں۔ ان کے یہاں کامیاب ہونے کی کوشش بھی ہے اور اُمید بھی ہے۔

یارو اُلچے جاؤ اندھیرا

بس چلّو دو چلّو بھر ہے

اب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ شعری زبان بتانے سے زیادہ چھپانے کا نام ہے لیکن جب شاعر اپنی بات کہنے یا بتانے پر بضد ہو اور شعری زبان و شعر سازی کے تفاعل اور ہنر سے بھر پور واقف ہو تب کیا کیا جائے؟ دونوں میں سے کسی کا انتخاب ناگزیر ہو گا۔ مظفرؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے سماجی فرائض کو شعری فرائض کے ساتھ نباہ لے جاتے ہیں اور اپنے اس ہنر سے وہ خاطر خواہ واقفیت بھی رکھتے ہیں :

میرے اشعار مظفر نہیں مرنے والے

میں نے ہر شعر میں اک چیخ چھپا دی اپنی

یہ چیخ انفرادیت کی نہیں اجتماعیت کی ہے۔ ان کے معاصرین انفرادیت اور فرد کے کرب کو ترجیح دیتے ہیں مظفرؔ کی انفرادیت اجتماعیت کی تعبیر و تشکیل ہے۔ اس لیے ان کے یہاں انفراؔدیت اور اجتماعیت ایک ہی سانچے میں ڈھل گئے ہیں۔ خاموشی کی جادو بیانی کی طرح:

ہم نے اپنے ہونٹ سی کر نام پیدا کر لیا

تم نے شہرت پائی ہے جادو بیانی میں بہت

خامشی کا حبس کہتا ہے کہ آندھی آئے گی

بن رہی ہیں داستانیں بے زبانی میں بہت

ہر ایک شخص کی روداد ہے مِری روداد

عجیب قسم کی تکنیک ہے کہانی میں

مظفر کے معاصر شعرا کے یہاں مدنی معاشرت کی لعنتیں قدم قدم پر ملتی ہیں۔ فرد کو اپنی انفرادیت کے ا جتماعیت میں گم ہونے کا شدید احساس ہے۔ اس روش کے نشان مظفرؔ کے یہاں بھی ہیں لیکن ایک اشارے کے ساتھ :

اپنا آنگن اپنا بستر اپنی یادیں اپنا وقت

یوں لگتا ہے جیسے دن سے رات زیادہ روشن ہے

اظہار میں وہ رعایتِ لفظی کا استعمال بھی بے ساختگی سے کرتے ہیں اسی غزل کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

جو غم تو نے بخشے ہیں وہ اب تک دل میں تازہ ہیں

البم کے کالے پنّے پر تیرا چہرہ روشن ہے

ان کے یہاں گم ہوتے محاورے بھی نئے معنوں میں موجود ہیں :

مقتول پہ دم کرو مظفرؔ

شاید مرا شعر کام کر جائے

لکھنے میں نہیں ہیں ہاتھ محفوظ

دستار سنبھالنے میں سر جائے

پیروں سے تو چُن لیے ہیں کانٹے

اب آنکھوں سے سوئیاں نکالو

مظفرؔ کے انداز واسلوب نے ما بعد شعراء کو بہت گہرے میں متاثر کیا ہے۔ اس لیے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ:

اے مظفر کئی استادِ سخن

میرے اشعار کُتر جاتے ہیں

جس کو دیکھو آج مظفرؔ اپنی غزلوں میں

میرے شعروں کے پیوند لگاتا رہتا ہے

یا

ایسے میں بھی قائم رکھی لہجے کی پہچان

غزلوں کے نقّال بہت ہیں اور مظفرؔ ایک

تو تعلّی محض سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حق تو یہ ہے کہ ہماری سماعی شاعری کا معروف و مقبول لہجہ مظفرؔ کا مرہونِ منت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کی شناخت مظفرؔ سے منسوب نہیں۔ اس کی وجہ مظفرؔ کی قدر سنجی میں کوتاہی ہے۔ خیر، مثال میں یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

ہونے لگا ہے ماں کی دعا میں اثر غلط

بیٹی تو گھر میں بیٹھی ہے بیٹا نکل گیا

مجھے نہ چھیڑ کہ خاکسترِ تمنّا ہوں

اُڑا تو بیٹھنے والا نہیں غبار مِرا

بہت اچھا اگر جمہوریت یہ ہے  تو  حاضر ہیں

انھیں آباد کر دینا، ہمارے گھر جلا دینا

مظفر کے احتجاجی انداز واسلوب اور ان سے متاثر ہونے والوں کے اظہار میں ایک فرق تو وہی ہے جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے یعنی قدر شناسی اور آئین شناسی کے ساتھ ساتھ قدر و آئین کا رشتہ اور حدود۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ مظفرؔ کو چیخ چھپانے کا ہنر آتا ہے۔ پھر حق گوئی اور صاف گوئی میں فرق ہے۔ ہر صاف گو حق گو بھی ہو یہ ضروری نہیں۔ شاید اسی لیے مظفرؔ کہتے ہیں :

بے سوچے سچ نہ بول مظفرؔ  کے ساتھ ساتھ

کچھ اور سوچ کر مرے پیارے ابھی نہیں

مظفر حنفی روایت شناس ہیں اس لیے وہ تخلیقی سطح پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ روایت جامد نہیں سیّال شے کا نام ہے۔ انحراف و اعتراف کے عمل میں احترام ضروری ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں :

راستہ جن سے الگ ہے میرا

ان بزرگوں کی دعا چاہتا ہوں

یہ وہ چند نکات ہیں جو مظفرؔ کو اپنے معاصرین سے مختلف اور غزل میں منفرد بناتے ہیں۔

٭٭٭

 

’’ پانی کی زبان‘‘ ہاتھ آتے ہی میں نے کلام کا بڑا حصہ پڑھ ڈالا۔ کتاب کے ہر صفحے سے تازگی اور نئے پن کی مہک ملی۔ میں اس سے پہلے مظفر حنفی کا کلام رسالوں میں بھی شوق سے پڑھتا رہا ہوں۔ وہ ان معدودے چند لکھنے والوں میں سے ہیں جو مجھے بہت پسند آتے ہیں۔ ‘‘

مخدوم محی الدین

 

 

 

 

                ابراہیم اشک

ممبئی

 

 

موجِ بے پروا: مظفرؔ حنفی

 

گزشتہ پچاس برسوں سے علم و ادب کی دنیا میں ایک نام بڑی آب و تاب کے ساتھ غزل کی روشن خیالی کا ثبوت دے رہا ہے۔ وہ ہے مظفر حنفی۔ اس وقت وہ ۷۷ برس کے ہو گئے ہیں۔ اُن کے ساتھ کے کئی لکھنے والے یا تو اس دنیا میں نہیں رہے ہیں یا ان کی شاعری کا سفر ختم ہو کر رہ گیا ہے لیکن مظفر حنفی آج بھی اتنے ہی تر و تازہ ہیں جتنے وہ آغاز شاعری کے دور میں تھے۔ ان کی تخلیقی توانائی کا عالم یہ ہے کہ ایک موجِ بے پروا کی طرح مچلتے اور غزل کے اشعار کی شکل میں کئی گوہرِ آبدار سےاوراقِ علم و ادب کو مالا مال کرتے رہتے ہیں۔

میں نے کئی نادان لوگوں کو مظفر حنفی کے تعلق سے یہ شکایت کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ وہ ہر جگہ جلوہ افروز نظر آتے ہیں یعنی ان کی غزلیں بڑے رسالوں سے لے کر معمولی اخبار اور جرائد میں بھی اپنی موجودگی کا حساس دلاتی رہتی ہیں۔ ایسا کہنے والوں کو افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ وہ نہ تو مظفر حنفی کی طرح ہر جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلا سکتے ہیں نہ ہی اس تیز رفتار سے ادب کی راہ پر چل پاتے ہیں جس رفتار سے مظفر حنفی چلنے بلکہ دوڑنے کے عادی ہیں اس دوڑ میں جو بھی پیچھے رہ جاتے ہیں ان کا شکایت کرنا لازمی ہے۔ اس سلسلے میں خاکسار کا کہنا یہ ہے کہ ندی نالوں میں موجیں کم ہوتی ہیں جبکہ بیکراں سمندر میں موجوں کا کوئی حساب ہی نہیں ہوتا ہے۔ مظفر حنفی شاعری کا ایک بیکراں سمندر ہے جس کی موجیں تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس کی ہر موج میں گہر نہیں ہوتے ہیں لیکن کوئی کوئی موج ایسا نایاب گہر پھینک جاتی ہے کہ غزل کی دنیا مالا مال ہو جاتی ہے۔ چند مثالیں پیش ہیں :

گھما پھرا کے بھنور انکشاف کرتا ہے

کہ بلبلے کا سمندر طواف کرتا ہے

ملا سکتے ہو کیا ہم سے نگاہیں

بغاوت کی سزا دینے سے پہلے

کوئی بتائے سفینے جلانے والوں کو

کہ اک انا کا سمندر یہاں بھی پڑتا ہے

خدا کے فضل سے تہذیب آ گئی ہے اسے

کِسی کو دعوتِ شیراز ہی نہیں دیتا

سچ بولنے کا تجھ کو بڑا اشتیاق ہے

اچھّا تو سر سے باندھ کفن میرے ساتھ آ

مظفر حنفی کے یہاں نہ تو میرؔ ہیں نہ غالبؔ، نہ مومنؔ ہیں نہ داغؔ، نہ اقبالؔ ہیں نہ فیضؔ۔ کسی کا بھی اثر ان کی شاعری میں دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی اپنی ایک خاص طرز ادا ہے جس کے موجد وہ خود ہیں۔ ان کا اپنا منفرد لہجہ ہے، زبان و بیان ہے۔ اور فکر و خیال کی سطح پر بھی وہ سب سے جُدا ہیں۔ کسی حد تک وہ شادؔ عارفی سے متاثر ضرور ہیں لیکن وہاں بھی وہ اپنی انفرادیت کی جلوہ نمائی کرنے سے نہیں چوکتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مظفر حنفی اردو شاعری میں نئے رنگ و آہنگ کو برتنے والے اپنے عہد کے سب سے نِرالے اور انوکھے شاعر ہیں جن کی ادا اور بانکپن دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

اے مظفر صاف اور تہہ دار ہے میری غزل

آپ بیتی ہے حدیثِ دیگراں ہوتے ہوئے

نہ پوچھیے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے

کھری زبان مِرے جسم و جاں کا حصہ ہے

عظمت سے ہٹ کے ندرت و جدت کو ناپیے

ہم اور چیز غالبؔ و میرؔ و فراق اور

ہے شادؔ عارفی سے مظفرؔ کا سلسلہ

اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہو گئے

پل بھر میں ناقدین نے تجزیّہ کر لیا

ہم نے پچاس سال کھپائے تھے شعر میں

مظفر حنفی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ہندوستان کی مٹی سے جُڑے رہنا۔ وہ عام بول چال اور محاوروں میں ایسی گیان دھیان کی باتیں کر جاتے ہیں جو ولی صفت انسان یا قلندر کے علاوہ کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔ وہ بہت کھلے دل و دماغ سے سوچتے ہیں اور بغیر کسی مصلحت کے اسےاوراق کی زینت بنا دیتے ہیں۔ ان کی صاف گوئی اور بیباکی میں نیکیاں برستی ہیں جن سے انسانی اقدار کی چادر دھُلتی اور روشن ہوتی چلی جاتی ہے۔ ان کے یہاں زندگی کا فلسفہ الجھا ہوا نہیں ہے بلکہ کھلی کتاب کی طرح روشن ہے اور کئی سمتوں میں پھیلا ہوا ہے:

گاؤں آیا ہوں تو وہ آفت کی پرکالہ نہیں

کیا لگاؤں ٹائی کوئی دیکھنے والا نہیں

اپنا آنگن اپنا بستر، اپنی یادیں، اپنا وقت

یوں لگتا ہے جیسے دن سے رات زیادہ روشن ہے

اندر سے اچھَے ہوتے ہیں اکثر ٹیڑھے ترچھے لوگ

جیسے افسانہ منٹوؔ کا جیسے شعر مظفرؔ کا

اگر ایک جملے میں اپنی بات کہنی ہو تو میں کہوں گا مظفر حنفی کھری زبان کے بڑے شاعر ہیں۔ وہ عام آدمی کے خاص شاعر ہیں جو اپنے قاری کو عام راستوں کے سفر سے خاص منزل کی طرف لے جانے کا فرض ادا کرتے ہیں۔ ان کے اشعار کی سادگی اور پر کاری میں گہرائی کے کئی راز پنہاں ہیں جن پر غور کریں تو پرت در پرت وہ کھلتے جاتے ہیں۔ مظفر حنفی کی شعری کائنات میں ایک ایسا شعوری رجحان ہے جو ان کے لا شعور میں پروان چڑھتا اور اپنی روشنی سے آس پاس کے ماحول کو روشن کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ کارہائے نمایاں جان بوجھ کر کی گئی ان کی کوشش کا نتیجہ قطعی نہیں ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

ہمسائے کا تیزاب چھڑکنا مِرے اوپر

حاکم کو مری چیخ سُنائی نہیں دینا

جس نے خلیج ڈال دی آدمی آدمی کے بیچ

عِلم نہیں وہ جہل ہے، فہم نہیں فتور ہے

وضعداری کی بہت قدر کریں، ایسے لوگ

آج کل صرف کہانی میں نظر آتے ہیں

تعصّب سخت جان ایسا کہ صدیوں تک نہیں مرتا

بھروسے کی عمارت لمحہ بھر میں بیٹھ جاتی ہے

جذبات کا احترام کرنا

کاشی میں مجھے سلام کرنا

مظفرؔ حنفی کی شاعری کا کینواس وسیع ہے۔ مضامین کی بھرمار ہے اور نئے نئے فکر و خیال کا لا متناہی سلسلہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں تخلیقی توانائی کا بے پناہ خزانہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ہے۔ ہر اچھے اور بڑے شاعر کی اصلی پہچان یہی ہے کہ خوبیِ  فن کے ساتھ ساتھ اس کی تخلیقی توانائی بھی بے پناہ اور دیر تک جاری رہے۔ جس سے اس کا ادبی سرمایہ بھی بہت زیادہ اور بے شمار ہو جائے۔ اگر یہ سرمایہ کم ہے تو تخلیق کار کو کم ہی آنکا جائے گا۔ میرؔ اور غالبؔ کی غزلیں بے شمار ہیں اور خوبیِ فن کے ساتھ ہیں ان کا معیار اور وقار کہیں بھی گرتا نہیں ہے۔ میر انیسؔ کے مرثیوں کا بھی بھنڈار ہے۔ اس لیے یہ عظیم شاعر کہلانے کے حقدار ہیں۔ دس بیس غزلیں کہہ کر نہ تو کوئی عظیم شاعر بنا ہے نہ آئندہ بنے گا۔ مظفر حنفی  نے ہزاروں غزلیں کہی ہیں۔ کئی درجن ان کے شعری مجموعہ منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ہر ایک غزل میں انھوں نے ایک شعر بھی اگر اچھا کہا ہو گا تو ان کے یہاں ہزاروں اشعار اچھے مل جائیں گے اور ان ہزاروں اشعار میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے مظفر حنفی آج بھی بڑی تیز رفتار سے غزل کہنے میں مصروف ہیں۔ ۷۷ برس میں وہ نئی نسل کے متحرک شاعروں سے بازی مار رہے ہیں۔ بہت کم تخلیق کاروں کو میں نے اس طرح میدانِ ادب میں رواں دواں دیکھا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ان سے رشک بھی ہوتا ہے اور دل سے دُعا بھی نکلتی ہے کہ اللہ انھیں اسی طرح سلامت رکھے تاکہ وہ غزل کے سرمایہ میں دن بہ دن اضافہ کرتے رہیں اور ادب کے اوراق پر ایسے معنی آفریں اور فکر انگیز اشعار کی روشنی بکھرتی رہے جو اپنی مثال آپ ہوں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

کافی ہیں مظفرؔ کے لیے ہاتھ کے چھالے

گلدستہ کبھی دستِ ہنر تک نہیں پہنچا

بھاری تھا دوجہاں سے، مگر جھومتے ہوئے

نوکِ پلک پہ میں نے ترا غم اُٹھا لیا

اِتنی بڑی دنیا پئے تسخیر پڑی ہے

یاں پاؤں میں احساس کی زنجیر پڑی ہے

ہر پھول کی جھولی تری خوشبو سے بھری ہے

غنچے کی کٹوری سے چھلکتا ہے ترا رنگ

یونہی ترے خیال سے بہلا رہا ہوں جی

اتنا کہاں دماغ کہ وحشت کرے کوئی

بڑا تخلیق کار علم و ادب کی کئی سمتوں میں پیش رفت کرتا ہے اور اپنا معیار اور وقار بھی برقرار رکھتا ہے۔ ابتدا میں مظفرؔ حنفی نے افسانے لکھے اور ان افسانوں کے تین مجموعے بھی شائع ہوئے۔ انھوں نے تنقید بھی لکھی۔ شاعری میں انھوں نے نظمیں بھی کہیں اور رُباعیات میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے لیکن  ان کی محبوب صنفِ سخن غزل ہی رہی۔ کیونکہ ان کا سب سے زیادہ سرمایہ صنفِ غزل ہی میں موجود ہے۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور اسی حوالے سے جانے اور مانے جائیں گے۔ غالبؔ نے ایک شعر کہا ہے:

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے

غالبؔ نے جب اپنا دیوان ترتیب دیا تو بے شمار اشعار رد ر دیے یہ ذہن میرؔ کے یہاں نہیں تھا۔ انھوں نے جو کچھ بھی کہا اس پر انتخاب کی نظر نہیں ڈالی۔ ہر شاعر کے پاس یہ نظر ہوتی بھی نہیں۔ لیکن مظفرؔ حنفی چونکہ تنقید نگار بھی ہیں اس لیے وہ  اپنی شاعری کو ایک نقّاد کی نظر سے بھی دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ وہ اپنی ایک چوتھائی شاعری کو رَد کر دیتے ہیں اور اپنی غزل کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں اُن کے اس قول پر مجھے اپنا ایک شعر یاد آ گیا ہے جو ان کی تائید میں یہاں پیش کر رہا ہوں :

بارہا اپنے کہے کو آپ رد کرتا رہا

عظمتِ فن کے لیے خود سے حسد کرتا رہا

اچھی اور سچی غزل کہنا آسان نہیں ہے۔ یہ کام جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک خاص قسم کی سوچ اور شعور ہونا لازمی ہے۔ انسان اسی شعور کے مطابق ہی تخلیقی عمل سے گزرتا ہے۔ اچھی غزل کے تعلق سے مظفر حنفی کے خیالات کچھ اس طرح ہیں :

’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے شمار پہلو ہیں۔ مثلاً شدتِ احساس اور لطفِ بیان جس سے غزل کا شعر دل کو چھو جائے۔ عمیق مشاہدہ اور وسیع مطالعہ تاکہ شاعر کے پاس کہنے کے لیے باتوں کی کمی نہ ہو۔ زبان پر عبور اور اظہار پر قدرت کہ باریک سے باریک اور لطیف سے لطیف کیفیت کو بخوبی پڑھنے یاسننے والے تک منتقل کر سکے۔ صدق بیانی، خلوص اور بے ریائی بھی۔ اچھے غزل گو کی لازمی صفات ہیں۔ اور ان سب سے بڑی صفت یہ کہ غزل کہنے والا نقادوں کے جھانسے میں نہ آئے۔ نہ مشاعروں کی واہ واہ سے گمراہ ہو۔ ‘‘

اسی سوچ نے مظفر حنفی کو ایک اچھا اور سچّا شاعر بنایا ہے اور کئی اچھے اور لافانی اشعار ان سے کہلوائے ہیں۔ چند اشعار مثال کے طور پر ملاحظہ ہوں :

عمر بھر لمسِ محبت کے لیے ترسا ہوں

اب جو شبنم نے چھوا ہے تو بکھر جانے دے

تری تلاش میں کیا کیا نہ مرحلے آئے

ہر ایک راہ کہیں اور جا نکلتی تھی

آپ نے آواز دی لیکن ذرا تاخیر سے

یعنی بڑھ کر لَوٹنا ممکن نہ تھا میرے لیے

لہو سے ہم نے کِیے اَن گِنت دِیے روشن

بجھا کے ایک دِیا تجھ کو آفتاب کیا

ٹوٹی پھوٹی ناؤ ہماری، زخمی دونوں ہاتھ

لیکن بے پتوار کیے ہیں سات سمندر ایک

مظفر حنفی کی شاعری ایک زندہ دل، ہوش مند، خوددار اور با وقار انسان کی شاعری ہے جسے اپنی قدروں کا پاس اور اصولوں کا احساس ہے۔ زندگی کے حادثوں میں وہ ٹوٹتا بکھرتا ضرور ہے لیکن دوسرے ہی پل وہ ایک نئے تیور اور حوصلے کے ساتھ جنگ کے میدان میں کسی سُورما کی طرح دوبارہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ہار ماننا جیسے اس نے سیکھا ہی نہیں ہے۔ یہ تمام خوبیاں ان کے کردار اور شخصیت میں موجود ہیں۔ میں اپنے دہلی قیام کے دوران کافی عرصے تک بٹلہ ہاؤس میں ان کے قریب رہا ہوں۔ میں نے انھیں بہت نزدیک سے دیکھا ہے وہ جب بھی ملے بڑی محبت سے مسکراتے ہوئے ملے۔ کبھی کوئی رنج کوئی تلخی میں نے ان کے چہرے یا مزاج میں نہیں دیکھی۔ زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہوں گے لیکن ان کا انداز ہمیشہ فاتحانہ ہی نظر آیا۔ یہی سب ان کی شاعری میں بھی بخوبی نظر آتا ہے۔ کئی لوگ کہتے ہیں اور لکھا بھی ہے کہ مظفر حنفی طنز اور تلخی کے شاعر ہیں جس کے سرے شاد عارفی اور یگانہ چنگیزی سے جا  ملتے ہیں۔ ہو سکتا ہے چند اشعار ایسے تلاش کرنے پر نکل بھی آئیں لیکن ان کی پوری شاعری پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر تراشنے والی ہے جس میں عزم اور حوصلہ ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

گرد اڑانے کا مزہ آبلہ پا سے پوچھو

ورنہ بسنے کے لیے شہرِ تمنّا تھے کئی

نخلِ امید میں کونپل ہی نہیں آ پاتی

درد کی بادِ صبا سن سے اِدھر سن سے اُدھر

بسمل تھے مگر رقص کیا، رنگ اُڑائے

دنیا تری تفریح کا سامان رہے ہم

چھلک نہ جائے مظفرؔ یہ قیمتی آنسو

یہی شرارہ تو شعروں کو تر بناتا ہے

ابھی تو سر ہی اُبھارا تھا ہم نے دلدل سے

پتہ چلا کہ سمندر بُلا رہا ہے ہمیں

کچھ دھُول اڑائی کہکشاں میں

پھر لوٹ کے گھر میں آ گئے ہم

پھر اس کو یاد کیا اور میں نے مُوند لی آنکھ

کہ اس کے بعد نظر کون آنے والا تھا

یہ رنگ و آہنگ یہ انداز و ادا مظفرؔ حنفی کی شاعری کا خاصہ ہے جس کے سرے کہیں بھی شادؔ عارفی اور یاس یگانہؔ چنگیری سے بالکل ہی نہیں ملتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں بھی کہیں تلخی کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ وہ بہت ہی سیدھے سادے، ہنستے مسکراتے، نرم و نازک طبیعت کے انسان ہیں۔ جن کو کبھی کسی سے الجھتے یا طنز کے تیر برساتے ہوئے کِسی نے نہیں دیکھا۔ کوئی بھی فنکار اپنی اصل زندگی سے الگ ہو کر نہ تو سوچ سکتا ہے نہ ہی لِکھ سکتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا سچا ترجمان ہوتا ہے۔ مظفر حنفی بھی اپنی زندگی کی صحیح ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس راز کو سمجھنے میں کچھ لوگ اگر دھوکا کھا جائیں تو اس میں نہ تو مظفر حنفی کی غلطی ہے، نہ ہی ان کی شاعری کی۔ آخر میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اُن کی شاعری کو زبان و بیان اور فکر و خیال کے باعث دور سے پہچان لینے میں دیر نہیں لگتی۔

اپنے اشعار کے لہجے سے مظفر صاحب

بھیڑ میں دور سے پہچان لِیے جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

                ڈاکٹر منظر اعجاز

     پٹنہ

 

 

مظفر حنفی کے اشعار میں پیکر تراشی کا عمل

 

ڈاکٹر مظفر حنفی متغزلین عصر میں اپنی مخصوص آواز اور لہجے کے خوشگوار تیکھے پن کے لیے مشہور ہیں۔ میرے نزدیک وہ کثیر الجہت مایۂ شعور اور ہر پہلو سے منفرد نظر آتے ہیں۔ اگر پیکر تراشی کے حوالے سے ان کی غزلوں کے اشعار کا مطالعہ کیا جائے تو یہاں بھی ان کے امتیاز کا ایک اور پہلو سامنے آسکتا ہے، لیکن بہ اعتبار تنقید یہ ایک جزوی معاملہ ہے جسے کلّی تنقید پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم پیکر تراشی جیسے جزوی معاملے پر بھی اظہار خیال کرنے سے  پہلے اس کے معنوی حدود یا فنی اصطلاحی مفہوم کو کسی حد تک سمجھ لینا غیر ضروری اور بے محل نہ ہو گا۔

’’ پیکر‘‘ کسی واقعہ، خیال یا تصور کی نقل، پرچھائیں یا عکس کو کہتے ہیں۔ یا تحریر و تقریر کے ذریعہ ذہن پر کسی شے کے اظہار کو پیکر تسلیم کیا جاتا ہے۔ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مطابق ’پیکر‘ وہ شے ہے جو کسی دوسری شے کا تصور کرائے۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایک علامت، ایک نشان یا ایک مکمل استعارہ ہے۔

انسائیکلو پیڈیا ٖ آف پوئٹری اینڈ پوئٹکس کے مطابق:’’ پیکر سے مراد ظاہری مادی محسوسات کے نقش کو ذہن میں از سرِ نو خلق کرنا ہے۔ ایسی صورت میں نقش کا براہِ راست تعلق ہمارے حواس سے ہوتا ہے۔ ایک پیکر، محسوسات و مشاہدات کے وسیلے سے ہمارے حواس کو متاثر کرتا اور پھر متخیلہ کو متحرک کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں ہم ان محسوسات و مشاہدات کے نقوش اپنے ذہن میں قائم کرتے ہیں۔ ذہن میں ان نقوش کو قائم کرنے کے لیے ہم زبان سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ زبان کے الفاظ و بیانات انھیں محسوسات و مشاہدات پر مبنی ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر انیس اشفاق نےRene Wellek and Austin Warren  کی کتاب Theory of Literatureکا درج ذیل حوالہ نقل کیا ہے:

’’ نفسیات میں پیکر کا مطلب کسی گزشتہ حسّی یا ادراکی تجربے کی ذہنی باز آفرینی اور یاد ہے جس کا خود بصری ہونا ضروری نہیں۔ ‘‘

اور پھر وہ اس خیال کی روشنی میں اظہارِ خیال فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں :

’’ ایسی صورت میں پیکر کا تعلق براہِ راست ہماری تخئیل سے ہوتا ہے۔ پہلے ہم اشیا کا مادی یا ظاہری نہیں بلکہ ( ان کی حسّی کیفیت کا) تخیلی ادراک کرتے ہیں اور پھر انہیں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ قاری کے حواس کو متاثر اور متخیلہ کو متحرک کریں۔ اسکاٹ جیمس کے لفظوں میں اسے تخیّلی باز آفرینی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ارسطو نے اسے ( کرداروں اور منظروں کے ساتھ) فطری ہم احساسی کا نام دیا ہے۔ ‘‘

اب ہم اگر غور کریں کہ وہ فن جو تحریری شکل و صورت میں تخلیق پذیر ہوتا ہے اس کی اساس کیا ہے؟ تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ فن، فنکار کے تخلیقی وجدان کا جوش یا روح کی آواز ہے۔ یہ آواز مفرد بھی ہوتی ہے اور مرکب بھی۔ مفرد آواز کی ترسیلی علامت حرف اور مرکب آواز کی ترسیلی علامت لفظ ہوتا ہے۔ لسانی سطح پر صوتی سالمات کی ترسیل حرف و لفظ کی صورت میں ہوتی ہے۔ یعنی حرف و لفظ صفحۂ قرطاس یا لوحِ تحریر پر آواز یا آوازوں کے اجزاء و عناصر کے علامتی پیکروں کی صورت میں ابھرتے ہیں۔ لیکن تخلیقی عمل کے مرحلے سے گزرتے ہوئے یہ صرف صوتی سالمات یا آواز کے اجزا و عناصر کے علامتی پیکروں تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ وجدانی، حِسی اور تجرباتی واقعات و واردات کی تشکیل و تجسیم اور تصویر سازی و پیکر تراشی سے لے کران کی ترسیل تک کے عمل میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی نہیں وہ کائنات حرف و صوت اور جہانِ لفظ و معانی تک کی ترتیب و تنظیم اور ربط و انضمام کے اجزا و عناصر بن کر تکمیلِ حیات و کائنات و ترسیل تجربات و تاثرات کا حیرت انگیز کارنامہ انجام دیتے ہیں۔ اسی بناء پر میں نے کہیں لکھا ہے کہ ادب در اصل ایک تخلیقی عمل ہے اور ادیب کائنات کی تشریح و توضیح کے لیے عمل کے اس مرحلے سے گزرتا ہے۔ لہٰذا ادب کی حیثیت تمثیل کی ہے۔ جس میں ہر عبارت، ہر علامت اور ہر حرف ایک کردار ہوتا ہے، جس کے ذریعے فنکار اپنے تجربات و تاثرات اور تاویلات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ وہ ادیب جن میں تخلیقی توانائی اور محرکات قوی ہوتے ہیں، ایسے کردار خلق کرتے ہیں جن کی گرفت نظامِ خارج پر بھی اور نظامِ داخل پر بھی مضبوط رہتی ہے۔ چنانچہ یہاں یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ مظفر حنفی ایسے ہی قوی مایہ فنکار ہیں جن کے شعری کردار نے تخیلی واردات اور تجربی واقعات و تاثرات کو مطالعے اور مشاہدے کی سطح پر ایسے ایسے پیکر عطا کیے ہیں جو نگار خانۂ حیات و کائنات کی جلوہ سامانیوں سے مزین و مرتب ہو کر بامعنی اور بے مثال بن گئے ہیں۔ تخلیقی عمل یوں بھی کثرت جہات کا حامل ہوتا ہے۔ ہماری متغزلانہ روایت میں اس کی بے شمار شہادتیں موجود ہیں۔ مظفر حنفی صاحب اور ان کی شاعری بھی اسی روایت کا توسیعی عمل ہے۔ چنانچہ ان کی غزلوں میں پیکر تراشی کا عمل بھی کثرتِ جہات کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ پہلے یہ اشعار دیکھیں :

کچھ دیر تو نیزے پہ اچھالو نہ سروں کو

بستی میں ابھی رقصِ شرر ختم ہوا ہے

ادھر بھی لاش تڑپتی ہے دفن ہونے کو

یہ سر بھی نیزۂ سفاک سے اتارا جائے

پہلے شعر کے پہلے مصرع میں نیزے پہ سروں کا اچھالنا اور دوسرے مصرع میں ’’ رقصِ شرر‘‘ بصری پیکر ہیں اور یہ دونوں حرکی ہیں کیونکہ حِس بصارت سے متعلق یہ دونوں پیکر حرکت کا احساس کراتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہاں پیکر کا مفہوم نیزے پہ سروں کے اچھالنے اور رقصِ شرر تک محدود ہے بلکہ پورا بیان ہی ایک پیکر ہے جس سے پے در پے دو واقعات کے رونما ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ یعنی پہلے تو بستی جلائی گئی ہے اور شعلے سے اٹھتی ہوئی چنگاریاں ابھی ابھی بجھی ہیں اور اس کے بعد قتل کا سفاکانہ عمل جاری ہوا ہے پھر نیزے پہ سروں کو اچھالنے کی تیاری ہے۔ اس طرح جو واقعہ تقدم کا حامل ہے، اسے موخر کر کے سفاکانہ قتل کی شدت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ کچھ دیر کے ٹکڑے سے سفاک قاتل کے جذبۂ ترحم کو مہمیز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دوسرا شعر بھی اسی قبیل کا ہے۔ تڑپتی ہوئی لاش اور نیزۂ سفّاک پہ سر، لیکن اس بیان کا لہجہ پہلے شعر کی طرح دردمندانہ اور ملتجیانہ نہیں بلکہ تحکمانہ ہے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے عمل کے اعتبار سے پیکر کا دائرہ نہایت وسیع ہوتا ہے اور اس میں اشاراتی عناصر کی بھی کار فرمائی ہوتی ہے یعنی ایک پیکر پیش منظر سے پس منظر کی طرف بھی اشارہ یا رہنمائی کر سکتا ہے اور کرتا بھی ہے اور معنی و بیان کے مختلف مرحلوں سے بھی گزار دیتا ہے۔ مثلاً ان اشعار میں جو مناظر تشکیل و ترتیب کے مرحلے سے گزار کر پیش کیے گئے ہیں یا پیش منظر پر ابھارے گئے ہیں وہ ایک خاص واقعاتی پس منظر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور یہ پس منظر واقعہ کربلا ہے جہاں یزید کے لشکر نے پہلے تو حضرت امام حسینؓ کے اقربا، اعزا اور احباب و انصار کو شہید کیا، پھر امام عالی مقام کو شہید کرنے کے بعد خیمے میں آگ لگا دی۔ اس کے بعد امام کے سرِ مبارک کو تن سے الگ کر کے نیزے پر بلند کیا۔ شاعر نے پیکر تراشی کے ذریعے واقعہ کربلا کی باز آفرینی کی ہے اور اسے شعری استعارہ میں تبدیل کر دیا ہے یا اسے شعر ی استعارے کے پیکر میں ڈھال دیا ہے۔ ایک شعر اور دیکھیں :

اس کے چلّو میں سمندر مرے ہونٹوں پہ سراب

میں پیاسا ہوں تو وہ بھی نہیں کم شرمندہ

اس شعر کی لفظی ترکیب ’’ چلو میں سمندر‘‘ پر غور کریں تو ایک تصویر ابھرتی ہے۔ لیکن ’’ہونٹوں پہ سراب‘‘ سے کسی مادی شے کی تصویر نہیں ابھرتی یا کوئی پیکر محسوس نظر نہیں آتا کیوں کہ بیان واقعہ میں سراب اپنا مادی یا حسی وجود نہیں رکھتا۔ البتہ شدید پیاس کی علامت کے طور پر ہمارے احساس اور متخیلہ کو متحرک کر دیتا ہے۔ اس لیے یہ تخیلی پیکر ہے اور دوسرے مصرع میں پیاس کی کیفیت اس مافوق یا معنی کی زیریں سطح سے مربوط ہو جاتی ہے۔ اس طرح دوسرا کردار جس کے چلّو میں سمندر ہے، وہ بھی شرمندہ دکھائی دیتا ہے اور شرمندگی کی وجہ کم ظرفی ہے یعنی دو کرداروں کے تفاعل میں تو تضاد ہے کہ ایک کم ظرف کو سمندر نصیب ہے اور دوسرے با ظرف یا با ضمیر کو پیاس یا پیاس کی شدّت! اس میں مماثلت کا بھی ایک پہلو ہے اور وہ یہ کہ ایک کو پیاس ظرف کی ہے تو دوسرے کو پانی کی۔ لیکن یہ قدر ِ مشترک اپنی قیمت کے اعتبار سے مماثل یا یکساں نہیں۔ سمندر اور سراب دونوں علامتی تعبیریں ہیں اور ایک دوسرے کے مدمقابل اور اس مقابلے میں پیاس کی علامت سراب کو سمندر پر فوقیت حاصل ہو جاتی ہے اور بحیثیت کردار حسّی پیکر سمندر، تجریدی پیکر سراب سے مات کھا جاتا ہے۔ تعبیر کے ایک مختلف زاویے سے یہ ایک طرح کی نا آسودگی کا بیان ہے لیکن وہ کردار جس سے پیاس کی شدت ابھرتی ہے، اس کی ناآسودگی اپنے حریف کی شرمندگی سے آسودۂ حال ہو جاتی ہے۔

کبھی کبھی پیکر اپنے متعلقات کے امتزاج و انتشار سے ایک مجموعی یا کلی حیثیت اختیار کر لیتا ہے جس کے نتیجے میں یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ پیکر کے حدود کیا ہیں ؟ یعنی وہ کہاں سے شروع ہوا اور کہاں ختم؟ جارج وہیلے(George Whalley)  کا خیال تو یہ ہے کہ ’’کوئی پیمانہ نہیں جس کے ذریعے  ہم کہہ سکیں کہ شاعری میں کیا پیکر ہے اور کیا نہیں۔ ‘‘ در اصل اس کے خیال میں پیکر اکہرا لفظ ہے جس کا وجود غیر متعین ہے۔ چنانچہ یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ’’ چلّو میں سمندر‘‘ یا ’’ ہونٹوں پہ سراب ‘‘ سے جہاں حِسی اور بصری پیکر تراشی کا کارنامہ انجام دیا گیا ہے، وہاں ’’ پیاس‘‘ اور شرمندگی‘‘ جیسے تجریدی یا غیر حِسی پیکروں کو بھی بروئے کا رلایا گیا ہے جس کی وجہ سے ایک مخلوط یا مرکب کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ اس طرح یہ پورا شعر ایک پیکر ہے۔ ایک اور شعر ملاحظہ ہو:

وسعتیں مجھ کو خلاؤں سے صدا دیتی ہیں

یہ نشیمن کی گرہ پڑ گئی پر میں کیسے

پہلے مصرع میں ’’ وسعتیں ‘‘ اور ’’ خلا‘‘ اپنے امتزاجی ربط کے ساتھ حسی اور بصری پیکر ہیں جب کہ ’’ صدا‘‘ استماعی پیکر ہے۔ دوسرے مصرع میں ’’ نشیمن‘‘ اور ’’ پر ‘‘ اور ’’ گرہ‘‘ حِسی بصری پیکر ہیں۔ گویا کہ بصری اور استماعی پیکروں کے امتزاج سے ایک تخیلی پیکر کی صورت گری یا تشکیل کا کارنامہ انجام پذیر ہوا ہے۔ مفہوم یا معنی کے اعتبار سے یہ انفعالیت یا انفعالی کیفیت کا اظہار ہے جِسے استفہامیہ لہجے نے تاثیر کی شدت عطا کر دی ہے۔ یہ استفہامیہ لہجہ متاسفانہ ہے۔ تاسف اس بات پر ہے کہ خلاؤں کی بے پناہ وسعتیں قوت پرواز کو بلند پروازی اور تسخیر پہنائے فلک کی تحریک دے رہی ہیں۔ لیکن پرندہ فطرتِ پرواز سے گریز پا ہے۔ نشیمن کی راحت و آسودگی  نے اس کے پروں میں گرہ ڈال دی ہے۔ عیش کوشی، عشرت پسندی اور راحت طلبی کا میلان انفرادی زندگی اور اجتماعی و معاشرتی زندگی کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ بفتوائے تاریخ یہ ایک مسلم حقیقت ہے، اس کا احساس مظفر حنفی نے علامتی، استعاراتی اور تمثیلی پیکروں سے مرتب اس شعر میں سوز و سازِ آرزو مندی کے ساتھ دلایا ہے۔

اسی سوز و گداز آرزو مندی سے لبریز اسی قسم کا یہ شعر بھی ملاحظہ ہو:

وسعتیں آواز دیتی ہیں کہ موقع ہے یہی

حسرتِ پرواز ہے، ٹوٹے ہوئے پر اور ہم

شاعر پیام برِ حق اور ہادیٔ برحق بھلے ہی نہ ہو لیکن وہ رہنمایانِ قوم کے حلقے میں ایک اعلیٰ منصب اور بلند مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی اجتماعی، معاشرتی اور قومی زندگی میں اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا، ان سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ مظفر حنفی نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہی کارنامہ انجام دینے کی پر خلوص کاوش کی ہے اور اسے فنّی پیرایہ عطا کرنے میں اپنی فنکارانہ مہارت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔

اشعارِ زیرِ بحث میں پرندہ بیانِ واقع نہیں بلکہ فوق البیان ہے۔ یہ علامتی تمثیلی پیرایۂ اظہار ہے جس سے اصل مفہوم تک رسائی ہو جاتی ہے اور قاری یا سامع کے دل و دماغ پر گہرا اثر بھی مرتب ہوتا ہے۔ جہاں تک پیکروں کا تعلق ہے تو ’’ وسعتوں کی آواز‘‘ اور ’’ حسرتِ پرواز‘‘ تخیلی پیکر ہیں جب کہ’’ ٹوٹے ہوئے پر‘‘ تخیلی ہوتے ہوئے بھی حِسی در کی تناظر پیش کرتے ہیں اور بصری پیکر کے ذیل میں آتے ہیں۔

وسعتوں کا خلاؤں سے آواز لگانا یا صدا دینا صوتی یا استماعی پیکر ہے لیکن یہ حِسی اور درکی نہیں بلکہ تخیلی پیکر ہے۔ البتہ درجِ ذیل شعر میں صوتی پیکر کی خوبصورت مثال ملتی ہے جو بہ اعتبارِ تجربہ حِسی اور درکی بھی ہے۔

وہ ہر اک ٹھوکر پہ اس کا کانچ سا چھن بولنا

سر کے ٹکرانے سے کتنی روشنی پتھر میں تھی

پہلے مصرع کا ٹکڑا ’’ کانچ سا چھن بولنا‘‘ صوتی یا استماعی پیکر ہے جب کہ دوسرے مصرع میں سر کے پتھر سے ٹکرانے کے نتیجے میں پتھر کا چمک جانا روشنی کی حقیقی تعبیر نہیں بلکہ تخیلی تصویر ہے جو خون کے رنگ سے مرتب ہوئی ہے لیکن سر، پتھر اور روشنی بہر حال بصری پیکر ہیں۔ بصری اور لمسی پیکر کی مثال بھی دیکھیں :

حصارِ جسم سے خواہش کے زلزلے نہ رکے

غبار بیٹھ گیا اب ہوا رکے نہ رکے

یہ مخلوط پیکر بھی دیکھیں :

آ مرے سینے سے لگ جا تو اگر سے سیلاب

اور خوشبو ہے تو جا بستی میں گھر گھر پھیل جا

یہ کون کہہ رہا ہے دھرتی نہیں مہکتی

جتنا لہو پیا ہے، اتنی نہیں مہکتی

پھول کس کام کا جس میں تری خوشبو ہی نہ ہو

اور ویرانہ ہے وہ شہر جہاں تو ہی نہ ہو

مرتبے رنگ نے، خوشبو نے، ہوا نے پائے

خار تھے ہم ترے نزدیک نہ آنے پائے

یہاں بصری اور لمسی پیکروں کے ساتھ ساتھ حِس شامہ کو متاثر کرنے والے پیکر بھی موجود ہیں۔ بعض دوسرے اشعار میں حِسی ذائقہ کو متاثر کرنے والے پیکر بھی نظر آتے ہیں :

بوتل کا دوسرا ہے، کتابوں کا طاق اور

مے کش کا ذوق اور ہمارا مذاق اور

سپاٹ لہجے کو لفظوں کی سان پر رکھ دے

سیاہ مرچ غزل کی زبان پر رکھ دے

ایک اہم اور توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ مظفر حنفی کے اشعار میں بیشتر اور بالعموم حرکی پیکروں کا استعمال ہوا ہے۔ ایسا غالباً اس لیے ہے کہ ان کا سکون نا آشنا قلب، اضطرابِ عصر کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جو تخلیق کا اصل محرک ہے اور اسی ساز کی پُر  درد اور پُرسوز آواز پر مظفر حنفی نے نغمہ سرائی کی ہے جس کی ہر لے، ہر سر اور ہر تال میں مخصوص تناسب و توازن کے ساتھ ساتھ اتار چڑھاؤ کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ اس تناسب و توازن سے حسن بھی پیدا ہوتا ہے اور تاثیر بھی۔ یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

گھما پھرا کے بھنور انکشاف کرتا ہے

کہ بلبلے کا سمندر طواف کرتا ہے

سائے مچل رہے ہیں چراغوں کی گود میں

سمجھے تھے ہم کہ گھر سے اندھیرا نکل گیا

اوپر بوڑھے ہاتھ اٹھائے سوکھتے تھے دو چار درخت

پہلے ان پر بجلی ٹوٹی، ویسے بادل برسا بھی

نہ جانے کب سے زمیں گھومتی ہے محور پر

میں بن چکا ہوں مجھے چاک سے اتارا جائے

مظفر حنفی حیرت انگیز ذہانت و ذکاوت اور غیر معمولی فنّی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ یہ میں نہیں کہتا، ان کے اشعار کہتے ہیں اور اشعار میں یہ قوتِ ناطقہ اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک وہ شاعر کے ذاتی تجربے اور مشاہدے سے ہم آہنگ نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ مظفر حنفی کے تجربے اور مشاہدے میں باریکی بھی ہے اور تہداری بھی۔ وسعت و تنوع بھی ہے اور رنگا رنگی و بو قلمونی بھی۔ اس لیے ان کے اشعار مختلف انداز کے حامل ہوتے ہیں اور قاری یا سامع کے ذہن کو مختلف سطحوں پر مختلف زاویے سے متاثر کرتے ہیں۔ وہ حق بجانب معلوم ہوتے ہیں جب ان کی زبان سے یہ شعر ادا ہوتا ہے:

مختلف انداز رکھتی ہے مظفرؔ کی غزل

یہ ہماری آپ بیتی ہے خبر نامہ نہیں

٭٭٭

 

 

’’یہ شعروں کے تیر اور غزلوں کی چڑھی کمانیں، یہ سخت زمین اور رواں دواں آبشار کا سا لہجہ، یہ لہو میں تر اشعار، یہ کھری زبان، یہ دل کے لہو کی بوند، یہ آسمان پر چھائی ہوئی زمین، یہ سب باتیں مظفر حنفی کے لہجے، ان کی کھردری، تیغ کی سی تیزی رکھنے والی زبان کے متعلق کیا کچھ نہیں کہتیں۔ ان کے اشعار میں دھیمی دھیمی بہنے والی جوئے آب کی سی سوئی ہوئی روانی نہیں ہے۔ پہاڑی چشمے کی سی تند و تیز لہر ہے۔ ان کے اشعار میں تلوار کی کاٹ ہے۔ ایک برہم نوجوان کے لہجے کی تلخی ہے اس میں کچھ توڑنے اور بھر کچھ جوڑنے کی بات بھی ہے اس میں بگاڑ اور نئے سرے سے بناؤ کی داستان بھی ہے۔ اس میں غزل کی کمائی سے کچھ ناآسودگی کی آہٹ بھی ہے۔ یہ ایک سرکش روح کی کہانی ہے، زندگی کا کتنا زہر پی کر یہ امرت حاصل ہوا ہے۔ ‘‘

پروفیسر آل احمد سروؔر

 

 

 

                رؤف خیر

حیدر آباد

 

ظفر مند و منفرد شاعر۔ مظفرؔ حنفی

 

کافی ریاض کے بعد فنکار اپنا لہجہ، اپنا اسلوب اور اپنی انفرادیت قائم کر پاتا ہے۔ منفرد استاد شادؔ عارفی کے منفرد شاگِرد پروفیسر مظفر حنفی کی ہر تخلیق پر ان کے دستخط ثبت ہوتے ہیں۔

یہ ۷۱۔ ۱۹۷۰ء کے آس پاس کی بات ہے۔ آرمور نظام آباد (آندھراپردیش) سے ایک ماہنامہ ’’ معمار‘‘ نکلا کرتا تھا۔ ملک بھر کے قلم کاروں کی تخلیقات اس میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ میرے ہم جماعت عبدالحنان کے بھائی عبد الماجد رسالہ پابندی سے نکالا کرتے تھے۔ وہ جانوروں پر کافی معلوماتی مضامین بھی لکھا کرتے تھے جو حیدر آباد کے روزناموں اور رسالوں میں چھپتے تھے جن کی بڑی زبردست پذیرائی ہوتی تھی۔ ’’ معمار‘‘ میں انھوں نے ایک سلسلہ شروع کر رکھا تھا کہ کسی ادیب/ شاعر کی تخلیق یا تخلیقات بغیر نام دیے شائع کرتے ہوئے اُن پر قارئین کی رائے طلب کی جاتی تھی اور کھلی تنقید کی دعوت دی جاتی تھی۔ اگلے شمارے میں شاعر یا ادیب کا نام ظاہر کیا جاتا تھا۔ ایک ماہ دو غزلیں بغیر نام کے شائع کی گئیں اور رائے مانگی گئی۔ میں نے غزلوں کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ غزلیں مظفر حنفی کی لگتی ہیں۔ اگلے شمارے میں میری رائے چھپی اور مدیر ’معمار ‘ نے اعلان بھی کیا کہ یہ غزلیں واقعی مظفر حنفی ہی کی ہیں۔

میں ایک زمانے سے مظفر صاحب کو پڑھتا آ  رہا تھا سو میں نے آسانی سے پہچان لیا تھا۔ مظفر حنفی کے لہجے کی کاٹ ان کے مصرعوں سے بولتی ہے۔ اس میں میرا کیا کمال ہے۔ کمال تو مظفر حنفی کا ہے کہ انھوں نے اپنی پہچان قائم کی تھی جو لہجہ شاد عارفی نے چھوڑا تھا اُسے بام عرُوج تک لانے میں مظفر حنفی نے اپنا خون پسینہ ایک کر دیا۔ یہاں ’’خون پسینہ ایک کرنے‘‘ کا محاورہ بھی میں نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ بیشتر شاعر غزل یا نظم اچھی کہہ تولیا کرتے ہیں مگر اُسے منظرِ عام پر لانے میں تساہل برتتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ گم نامی کے شکار ہو کر جیتے جی ہی مر جاتے ہیں۔ مظفر حنفی جو کچھ کہتے ہیں اُسے رسائل و جرائد کے حوالے بھی کرتے ہیں۔ مدیرانِ رسائل کو ان تخلیقات میں نیا پن دِکھائی دیتا ہے تبھی تو شائع کرتے ہیں ورنہ ملک بھر کے بیشمار تخلیق کاروں کی تخلیقات ردی کی ٹوکری کے حوالے بھی تو ہو جاتی ہیں۔ محض اس لیے کہ ان میں ’’کوئی بات‘‘ نہیں ہوتی۔ یہی ’’ کوئی بات‘‘ مظفر حنفی کی انفرادیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ بچوں کے رسالے ہوں کہ بڑوں کے رسالے، نظم ہو کہ غزل ہو کہ افسانہ تقریباً ہر ماہ مظفر حنفی کا نام کہیں نہ کہیں دکھائی ہی دیتا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ میرے کثیر الاشاعت ہونے کے بارے میں بھی ڈاکٹر یوسف کمال نے ایک لطیفہ گڑھا تھا جِسے پروفیسر بیگ احساس نے ٹی وی کے ایک مشاعرے کی نظامت کرتے ہوئے عام کیا کہ رؤف خیر غزل پہلے پوسٹ کارڈ پر لکھتے ہیں جب وہ چھپ جاتی ہے تو اپنی بیاض میں اتار لیتے ہیں۔

حیدر آباد کے ایک بلند پایہ شاعر خورشید احمد جامیؔ کی تخلیقات بھی ہندو پاک کے معیاری رسائل میں شائع ہوا کرتی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ آدمی صرف گناہ اپنے لیے کرتا ہے ورنہ تخلیق کار کی ہر تخلیق عوام و خواص کے لیے ہوا کرتی ہے۔

ایسے ہی بزرگوں سے سیکھنے کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ میں بھی جو کچھ لکھتا ہوں رسائل و جرائد کے حوالے کر دیا کرتا ہوں۔ میری کوئی تخلیق غیر مطبوعہ نہیں رہ جاتی۔ اول یہ کہ ہم الا بلا تو نہیں لکھتے اسی لیے چھاپنے والے اسے چھاپ دیا کرتے ہیں۔

مظفر حنفی صاحب سے برسوں بعد پہلی بار ۱۹۸۵ء میں بھاگلپور کے ایک کل ہند مشاعرے میں نیاز حاصل ہوا تھا جس کا اہتمام پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے کیا تھا۔ اسی مشاعرے میں پہلی بار زیب غوری جیسے زندہ دل شاعر سے ملاقات ہوئی۔ بیشتر رسائل (خاص طور پر ’’سب رس‘‘ حیدر آباد) میں ان کی اور میری غزلیں ساتھ ساتھ شائع ہوا کرتی تھیں۔ وہیں پروفیسر لطف الرحمن جیسے جدید شاعر سے ملنا ہوا۔ مظفر حنفی صاحب کو پڑھ تو رہے تھے اب انھیں سننے کا موقع بھی ملا۔ اچھا شعر ترنم یا اداکاری یا ڈرامہ بازی کا محتاج نہیں ہوا کرتا۔ ظاہر ہے مظفر حنفی کا شعر جہاں خواص کی توجہ اپنی طرف منعطف کرواتا ہے وہیں عوام سے بھی داد پا ہی لیتا ہے یہ الگ بات کہ عوام کے ذوق کو مظفر حنفی کی سطح تک اونچا اٹھنا ہوتا ہے۔

پھر تو مظفر حنفی صاحب سے گاہے گاہے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ کبھی راؤر کیلا بھوبنیشور (اُڑیسہ) کے کل ہند مشاعرے میں تو کبھی جموں کشمیر، کبھی دہلی کے ہندو پاک مشاعرے میں، کبھی حیدر آباد میں۔ مظفر صاحب نے دورانِ گفتگو بتایا کہ اپنے نام کے ساتھ سب سے پہلے انھوں نے ہی ’’ حنفی‘‘ کا لاحقہ استعمال کیا ہے۔ دیگر ’’حنفی‘‘ جتنے ہیں ان کے بعد حنفی کہلائے چاہے وہ عمیق حنفی ہوں کہ شمیم حنفی۔ مزے کی بات یہ کہ لفظ حنفی کو مظفر صاحب بر وزن منفی استعمال کرتے ہیں۔ فقہ حنفی سے یا امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت اگر ہو تو حنَفی(ن۔ متحرک) ہونا چاہیے تھا۔ ویسے مظفر صاحب شعر و ادب میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، شیعہ، سنّی، اہل حدیث وغیرہ مسالک کے چکر سے کوسوں دور ہیں۔ ان کی شاعری میں بھی مذہبیت نہیں بلکہ شعریت ہوتی ہے۔ لگتا ہے وہ ’’ فضائل اعمال‘‘ کی بہ نسبت ’’ فضائلِ اشعار‘‘ کے قائل ہیں۔ ان کے ’’ ارواحِ ثلاثہ‘‘ نظم، غزل اور افسانہ ہیں۔ وہ شعر و ادب میں ’’ زلزلہ‘‘ برپا کرتے ہیں بلکہ’’ زلزلہ در زلزلہ‘‘ بھی پیدا کرتے ہیں۔ وہ ہاتھ اوپر کیے اس یم بہ یم پانی سے سلامت گزرنے کے جتن کرتے ہیں۔ (مخفی مباد کہ ’’ ارواحِ ثلاثہ ‘‘ تبلیغی مؤلف اور ’’زلزلہ‘‘ بریلوی مکتب فکر کے مصنف کی کتابیں ہیں )

ہر چند کہ انھوں نے کئی افسانے لکھے، نظمیں بھی لکھیں مگر غزل ہی ان کی نورِ نظر اور ان کے لیے نیک اختر ثابت ہوئی۔ انھوں نے سنگلاخ زمینوں میں ایسے ایسے شعر نکالے کہ دوسرا پاؤں دھرے تو لہو لہان ہو جائے۔ البتہ کبھی کبھی کوئی رانا پرتاپ شہزادگیِ شوق میں ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہے یا کوئی یوسف، ضمیر کی آواز کے بجائے ان کی پُکار پر لبیک کہنے لگتا ہے۔

مظفر حنفی کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ پچاس ساٹھ سال سے مسلسل شعر کہتے رہنے کے باوجود ان کا دم نہیں پھولتا ان کا Stamina جوانوں کو شرماتا ہے۔ جن کی تخلیقات آواگون کے چکر سے آزاد نہیں ہو پاتیں کسی نہ کسی رُوپ میں پھر دِکھائی دیتی ہیں :

ہر چیز کو ہزار طرح دیکھتا ہوں میں

آئینۂ خیال مِرا پاش پاش ہے

انھوں نے کبھی یہ بھی کہا تھا کہ:

ع   مجھے کپاس نہ کاجل کی کوٹھری سے گزار

اسے ہم نظم کی چوٹی یا افسانوی وادی بھی کہہ سکتے ہیں کہ غزل کے مقابلے میں یہ فروتر ہیں۔

تتلی ہو کہ جگنو ہو سبک آئے سبک جائے

اے شدتِ احساس مری سانس نہ رُک جائے

ظفر اقبال کی طرح مظفر حنفی نے صوتی قافیوں کو برتا مگر ان کی طرح زبان و ادب سے کھلواڑ نہیں کی۔ شعر و ادب کا ایک ظفر مند و منفرد نام مظفر حنفی ہے۔

٭٭٭

 

 

’’گزشتہ چند برسوں میں اردو کے جن شعراء کی غزل میں ایک نیا ذائقہ محسوس ہوتا ہے ان میں مظفر حنفی کا نام خاص طور پر قابلِ توجہ ہے۔ ان کی غزل کی نمایاں خصوصیت اس کا غیر رومانی لہجہ ہے۔ انھوں نے نئے دور کی حقیقت پیش کرنے کے لیے کھردرے اور درشت لہجے کو اپنایا ہے اور انفعالی جذبات نگاری کے بجائے ایک طنز آمیز جارحیت سے کام لینے کی کوشش کی ہے جو اس دور کے مزاج سے ہم آہنگ ہے جہاں زندگی کی تمام قدریں اور سماجی و معاشرتی ادارے انحطاط و بوسیدگی کا شکار ہیں۔ مظفر کے شاعرانہ مزاج کو شادؔ کے شاعرانہ مزاج سے ایک فطری مناسبت ہے اور اس نوع کی ہم آہنگی اور مماثلت مجھے اردو شاعری میں بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ ‘‘

خلیل الرحمن اعظمی

 

 

 

 

                ڈاکٹر مولا بخش

   نئی دہلی

 

 

مظفر حنفی کی غزلیہ کائنات

(اکیسویں صدی کا دل فگار رزمیہ)

 

اکیسویں صدی علم کی بارش کی صدی ہے۔ سائنسی ترقی اپنے عروج پر ہے اور اس نے اپنا سارا زور شعبۂ اطلاعات میں نت نئے انکشافات کرنے پر صرف کر دیا ہے۔ اسکرین میڈیا نے ہماری نجی سوچ پر پہرا بٹھا دیا ہے۔ ہم کسی بھی حقیقت سے متعلق جانکاری میڈیا کے ذریعے ہی حاصل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ادب کو بھی میڈیا نگلنے کی انتھک کوششیں کر رہا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں اپنے عہد کی وہ حقیقتیں سمائی ہوئی ہیں جسے ہم ماورائے حقیقت یا (Hyper Reality)کہتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات اور اس سے بڑھ کر ہم پر نازل ہونے والا عذاب مثلاً دہشت گردی، گلوبلائزیشن کے نام پر پردیسی ثقافت مثلاً دیسی بازارو ں کی موت اور گاؤں کی سوندھی مٹی کی خوشبو اور زراعتی کلچر کے ختم ہوتے چلے جانے کے سلسلے نیز اقلیتوں اور چھوٹے ممالک پر بڑے ملکوں کے جمہوریت کے نام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور جنگوں نے ماحولیات کی آلودگی کو اس طرح بڑھا دیا ہے کہ انسانی معاشرہ آئے دن نئی قدرتی آفتوں سے دل بر داشتہ ہو چکا ہے۔ کیا ایسے میں ادب کی کوئی صنف یا ہمارا ادب ان جملہ مسائل کی تفہیم اور اس سے جوجھنے والے انسانوں کے لیے کوئی راستہ فراہم کر رہا ہے یا اس سمت میں سوچنے کے لیے اپنے قارئین کے ذہن کو راجع کر رہا ہے۔ اس حوالے سے مظفر حنفی ہی کیا ہر شاعر کو دیکھنا، پرکھنا لازمی ہو گیا ہے۔ آج کے ادب کی ذمہ داریاں پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ غزل ہی کو سامنے رکھیے، ہمارے کلاسیکی سرمائے میں شہنشاہ غزل میرؔ اور غزل کے اہم کلاسیکی شاعر سوداؔ نے کس طرح سے اپنے متن کے زمان(Text-Time)کو قرأت کے زمان یعنی (Reading Time)کے لیے کھلا سیاق عطا کیا۔ ناصر کاظمی نے لکھا تھا کہ ’’میر کی راتیں ہمارے عہد کی راتوں سے جا ملی ہیں اسی طرح سے سوداؔ نے اپنے عہد کی کساد بازاری، لوٹ کھسوٹ، سیاسی انتشار، اخلاقی پستی اور قوم کی زبوں حالی کا جو منظر نامہ پیش کیا تھا، کہہ سکتے ہیں کہ وہ سارے مسائل اکیسویں صدی سے جا ملے ہیں۔ آہستہ آہستہ غزل نے ہر عہد میں اسی لیے تغزل کے مروجہ شعریات سے انحراف کرتے ہوئے اپنے عہد کے لیے غزل کا اپنا سا لہجہ دریافت کرنے کی سعی کی ہے۔ جس عہد میں کھرے کھوٹے کی پہچان، رشتوں کے تقدس کے ختم ہو جانے کے در وا ہو گئے ہوں اور جس عہد میں عام آدمی کی زندگی تمام ترقیوں کے باوجود اجیرن ہو گئی ہو، سرکاروں پر عوام کے دباؤ کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہو، دہشت گردی کی دکانیں سجی ہوئی ہوں، اور اصل مجرم تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہو، شہر شیطان کی آنتوں کی طرح پھیلتے چلے جا رہے ہوں، شہر کی گندگی گاؤں تک پھیلتی چلی جا رہی ہو، روشنی میں نہائے ہوئے شہر کی بڑی آبادی میں عام آدمی کیڑے مکوڑوں کی زندگی بسر کر رہا ہو اور کسی دور افتادہ گاؤں میں ابھی بجلی تک نہیں پہنچی ہو تو ایسے اور ان جیسے کئی مسائل کو شدت سے محسوس کرنے والا شاعر تغزل کی سیدھی لکیر پر چلنے کے بجائے کہیں ایک ایسی راہ اپنی جڑوں سے بر آمد کر لیتا ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی غزل کی عمارت تعمیر کر سکے۔ مظفر حنفی نے بھی اپنے لیے تغزل کی وہ راہ چن لی جو کہیں دور نظیرؔ اکبرآبادی اور اس سے پہلے جعفر زٹلی اور انشاء اور سودا سے ہوتے ہوئے شاد عارفی تک چلی آئی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے  عہد کے نئے لکھنے والوں مثلاً مدحت الاختر، شجاع خاور، اسعدبدایونی، عرفان صدیقی، محبوب راہی، خالد محمود، شکیل گوالیاری، ظفر صہبائی، شاہد میر اور منور رانا میں اچھی غزل کے امکانات کے ہونے کا مژدہ سناتے ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر شعراء مثلاً خالد محمود اور شجاع خاور اپنے طنزیہ تیور کی غزلوں کے لیے خاصے معروف ہو چکے ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی نے جدید تر غزل پر بحث کرتے ہوئے اپنے مضمون بعنوان ’’اردو غزل کے نئے زاویے‘‘  یں لکھا ہے کہ:

’’جدید تر غزل کے قافلے میں 1960کے آس پاس ایک نئی نسل شامل ہوئی ہے جس میں شکیب جلالی، بمل کرشن اشک، مظفر حنفی، خلیل رام پوری، محمد علوی، شہریار، عادل منصوری، ساقی فاروقی، پرکاش فکری اور دوسرے شعرا شامل ہیں جو اپنی غزل کے ذریعے ہماری شاعری کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کر رہے ہیں۔ ‘‘

(فنون، لاہور، غزل نمبر، حصہ اول، ص:73)

مثلاً بانی، مصور سبزواری، زیب غوری، پرکاش فکری، مظہر امام، سلطان اختر، راج نرائن رازؔ، شمس الرحمن فاروقی، ظفر اقبال، لطف الرحمن اور عادل منصوری جیسے شعراء کے درمیان غزل میں اپنی الگ لکیر کھینچنے اور اپنی انفرادیت ثبت کرنے میں مظفرؔ حنفی کامیاب نظر آتے ہیں۔ سیفی سرونجی کو انٹرویو دیتے ہوئے اچھی غزل کی خوبیاں کچھ اس طرح سے بتاتے ہیں :

’’مثلاً:شدت احساس اور لطف بیان، جس سے غزل کا شعر   رادل کو چھو سکے۔ عمیق مشاہدہ اور وسیع مطالعہ، تاکہ شاعر کے پاس کہنے کے لیے باتوں کی کمی نہ ہو۔ زبان پر عبور اور قدرت اظہار کہ باریک سے باریک نکتہ اور لطیف سے لطیف کیفیت کو بخوبی پڑھنے یا سننے والے تک منتقل کر سکے۔ صدق بیانی، خلو ص اور بے ریائی بھی اچھے غزل گو کی لازمی صفات ہیں اور ا ن سب سے بڑی صفت یہ کہ غزل کہنے والا نقادوں کے جھانسے میں آئے نہ مشاعروں کی واہ واہ سے گمراہ ہو۔ ‘‘ ۱؎

ایک جگہ انہوں نے ’میرا نظریۂ فن‘ مضمون میں لکھا ہے کہ:

’’جن شاعروں اور ادیبوں کا تخلیقی شعور بالغ ہے انھیں اپنی ذات اور فن پر بھی اعتماد ہوتا ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ کوئی خراب تخلیق بڑے سے بڑے نقاد کے کہنے پر بھی اچھی نہیں ہو سکتی۔ نیز سچا ادب ناقدین کی بے اعتنائی سے مر نہیں جاتا۔ دوسری جانب نقاد بھی بہر حال انسان ہوتا ہے اور اردو ادب کا نقاد تو ہندوستانی اور پاکستانی بھی ہوتا ہے۔ ‘‘ ۲؎

نقاد کے کہنے پر اب تک بہت سی تخلیقات کلاسیکی درجے پر پہنچ گئی ہے بلکہ اس کے کہے کی بار بار تکرار کی جا رہی ہے۔ ’یاد گار غالب‘ سے پہلے کا غالب اور عبد الغفور شہباز کی تنقید و تحقیق سے پہلے کا نظیر کون ہے؟کیا ہے؟اور کس حیثیت کا رہا ہے؟کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ متن قرات کی محتاج ہے۔ ہاں متن اگر ٹھس ہے تو پھر نقاد چاہے بھی تو اسے بڑا نہیں بنا سکتا۔

غزل کی جو خوبیاں موصوف مظفر حنفی صاحب نے بتائی ہیں وہ وہی خوبیاں ہیں جو اکثر ناقدین کسی بھی شاعر کے یہاں تلاش کر لیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مظفر حنفی کی غزل میں عمیق مشاہدہ، احساس کی شدت صرف کہنے بھر کی نہیں ہے بلکہ واقعتاً یہ کیفیت ان کی شاعری میں موجود ہے لیکن ان کی جملہ شاعری کے بارے میں یہ رائے نہیں دی جا سکتی کہ وہ پہلی قرات میں پوری کی پوری قاری تک منتقل ہو جا تی ہو۔ اگرایسا ہو تو غزل میں پائی جانے والی رمزیت اور بھید جو غور و فکر کے بعد اور وہ بھی ہر قاری پر ہر طرح سے کھلتا ہے اس کا کیا ہو گا۔ دراصل غزل سر شت انسانی کی کھوج میں نکلی ہوئی ایک ایسی جوگن معلوم ہوتی ہے جس کو زمانے کے مکر و فریب نے بری طرح سے ٹھگ لیا ہے۔ اس لیے غزل میں متکلم اپنے دکھ درد کو کچھ اس طرح کی زبان میں بیان کرتا ہے جس کے سرے گائکی کے الاپ سے اور صوفی کے اشاروں سے اور کسی حسینہ کی اپنے عاشق سے آہستہ روی کی گفتگو سے جا ملتے ہیں۔ مثلاً ان کے اس شعر کو سنتے ہی کیا قاری معنی تک پہنچ جاتا ہے اور اگر کوئی رائے فوراً قائم کرتا ہے تو کیا اس کی یہ رائے کلی رائے بن جاتی ہے۔ شعر سنیے:

راہ مسدود ہے اڑ کے جاؤں کہاں

ہر طرف آسماں آسماں آسماں

شعر پر تفصیل سے روشنی نہ ڈالتے ہوئے یہاں صرف یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ اس شعر کا مضمون کیا ہے؟ اور شعری کردار کس سے مخاطب ہے؟ کہنا مشکل ہے۔ اس طرف کوئی حتمی اشارہ ممکن نہیں ہے؟ذرا لفظ آسماں کی تکرار پر غور کیجیے کیا یہ لفظ آسماں اپنے لفظی معنی میں وہی ہے؟میرا خیال ہے کہ یہ لفظ یہاں صرف ایک اشارہ ہے۔ کہنے کے لیے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہاں بے پناہ وسعتوں اور آزادی کے ایک رومانی تصور کو پیش کیا گیا ہے لیکن دراصل کل ملا کر اس ذیل میں ذہن کو راجع کیا گیا ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی بے کراں اور بے پناہ وسعتیں لیے ہوئی ہماری یہ کائنات بہر حال انسان کے لیے ایک زنداں ہی قرار پاتی ہے۔

آسماں یہاں مظروف نہیں رہ گیا ہے۔ شعری کردار اسے اپنے لیے کم جانتا ہے۔ جبکہ اڑان کے لیے اکثر بطور مظروف آسمان ہی ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ لوگ محاورتاً کہتے ہیں کہ آجکل آسمان میں اڑ رہا ہے۔ دراصل یہاں ایک ایسے انسان کی فکر اور مشاہدے کو پیش کیا گیا ہے جسے ہم خود شاعر کا بھی مشاہدہ قرار دے سکتے ہیں لیکن کیا یہ قاری کی بھی سوچ ہے؟ہاں قاری بھی دنیا کے جھمیلوں، رشتوں، دکھوں، مصروفیتوں سے نجات چاہتا ہے۔ وہ اڑنا چاہتا ہے اس قید سے نکلنا چاہتا ہے لیکن نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ چاہے جتنا بھی بھاگے یا اڑے اسی دنیا میں رہے گا۔ مرنے کے بعد بھی وہ اس دنیا کے حافظے میں زندہ رہے گا۔ آئیے کچھ اسی نوع کے درجہ اول کے گہرے اشعار جو ان کے جملہ شعری مجموعوں میں کثرت سے نظر آتے ہیں ان میں سے چند اشعار پر ایک نگاہ ڈالیں :

نہ جانے کب سے زمیں گھومتی ہے محور پر

میں بن چکا ہوں مجھے چاک سے اتارا جائے

سیاہ رات اور جھلملاتے ہوئے ستارے

ہم ایک تختے پہ نیم جاں، ہر طرف سمندر

اوپر جاتے وقت سراپا اپنا عالی شان لگا

جھولا جب نیچے کو پلٹا منھ کو کلیجا آن لگا

کہاں کہاں سے کیا کسب نور، مت پوچھو

کسی کی مانگ میں چھوٹی سی کہکشاں کے لیے

جلوہ بھی اس کا پردہ ہے۔ محرومی، محرومی

میں نے اس کو کب دیکھا ہے۔ محرومی محرومی

سب اچھے لگتے ہیں اپنی کرسی پر

چاند ستارے پانی میں کیا کرتے ہیں

کسی سرحد، کسی بندش کو ہوا مانے کیا

آج وحشت کا ارادہ ہے خدا جانے کیا

کب تک ہر اک بات پہ آئے ہنسی ہمیں

پوچھا کسی نے نام نہ در وا ہوا کوئی

سائے مچل رہے ہیں چراغوں کی گود میں

سمجھے تھے ہم کہ گھر سے اندھیرا نکل گیا

جزو کا یوں کل میں ضم ہونا ہے گویا خود کشی

اس طرح خوش ہے ندی جیسے سمندر بڑھ گیا

چمکنے گرجنے سے کیا فائدہ

گزر جا برستا ہوا ہر طرف

شب گزشتہ کی یادوں کا آسرا بھی نہ تھا

ہزار چاہا کہ سو جائیے، ولے صاحب

آئینہ دار ہوں اس کی تکمیل کا

میں کہ جتنا بھی موجود ہوں کم نہیں

فنا کے غار سے خواہش کے لمبے ہاتھ باہر تھے

کہ وہ دلدل میں سر تک دھنس چکے تھے ہاتھ باہر تھے

میں اس کو روکتا کیسے، میں اس سے پوچھتا بھی کیا

کہ اس کی گود سے دو ننھے ننھے ہاتھ باہر تھے

مذکورہ بالا اشعار پر (جنہیں پہلی قرات میں اچھا محسوس ہونے پر نشان زد کر لیا گیا تھا) کے خط کشیدہ الفاظ و تراکیب، ضمائر کی ساخت اور مصرعوں کے یونٹ پر غور کرنے سے شعر کی معنیاتی تہہ داری کو محسوس کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ آپ یہ بھی محسوس کریں گے کہ ان اشعار پر تو میرؔ و غالبؔ کی غزلیہ روایت کی گہری چھاپ ہے لیکن ٹھہریے ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ذرا آپ شعر نمبر (۴)کے مضمون اور اس میں مستعمل لفظ ’مانگ‘ نیز شعر نمبر(۲)میں کسی شخص کے جہاز کے تباہ ہونے کے بعد اس کے ٹوٹے ہوئے تختے پر بے سدھ بہتے ہوئے کہیں سے کہیں چلے جانے کے استعارے پر غور کیجیے جو ہمیں ایسی کئی داستانوں کی یاد دلاتا ہے جس کے ہیرو کے ساتھ اسی طرح کی کہانی وابستہ ہے۔ اس استعارے یا داستانی کوڈ کے ذریعے زندگی کے جس المیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیا یہ اشارہ اس کوڈ کے ذریعے غزل کے پرانے مضمون کو یکسر بدل نہیں دیتا؟ کیا اس میں انسان کے مجبور محض ہونے کے مضمون کو انتہائی ڈرامائی انداز میں پیش نہیں کیا گیا ہے؟بلکہ اس مضمون کو مزید گہرائی کے ساتھ قاری کے ذہن میں از سر نو خلق کیا گیا ہے۔ میلوں میں بچے اکثر ہنڈولے پر جھولنے کے لیے مچل اٹھتے ہیں، کبھی کبھی بڑے بھی اس کا لطف اٹھاتے ہیں۔ شاعر کو دیکھیے کہ اس نے اسے عروج و زوال کا کیسا استعارہ بنا دیا ہے۔ عروج پر پہنچنے والوں کو اکثر قانون فطرت کے اصولوں سے بے خبر نشے میں چور دیکھا گیا ہے۔ چوتھے شعر میں خانگی زندگی کے کردار شوہر کو سامنے رکھ کر یہ کہنے کی سعی کی ہے کہ پورے کنبے کی کفالت کے ساتھ ساتھ ایک پتی اپنی پتنی کو خوش کرنے کے لیے کیونکر روز اپنے ضمیر پر  ہزاروں کچوکے لگواتے ہوئے اسے خوش رکھتا ہے۔ سماجیاتی اور ازدواجی زندگی نیز خاندانی پس منظر کو اس شعر میں گوندھ کر کتنی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ پانچویں شعر میں حقیقی اور مجازی عشق کی کیسی کشمکش چھپا دی گئی ہے۔ یہ عشق کا وہی تہذیبی اور تخلیقی رنگ ہے جو میر اور غالب کا مقدر بنا ہے۔ شعر کے معنی کو لفظاً بیان کرنا مشکل ہے۔ آپ جس سے محبت کیجیے اس کے دیدار سے طبیعت کی سیری کہاں ہو پاتی ہے۔ چہرے کو تو دیکھ لیتے ہیں لیکن چہرے کی اصل تعریف وہ نہیں جسے ہم دیکھتے ہیں۔ اس کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ پھر اس کی روح کا نظارہ اس کے اندر کی جمالیاتی سطح تک پہنچنا کسے نصیب ہوتا ہے۔ خدا کے ساتھ ساتھ مجازی محبوب بھی اسی طرح سے لاکھ پردوں میں سمٹا ہوا ایک مظہر ہے۔ جس کا دیدار ظاہری آنکھیں کبھی کر نہیں پاتیں۔ یہی وہ دکھ ہے یا تجسس ہے جس نے ہر عہد میں تعلق خاطر کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس شعر میں محرومی کی تکرار مثلاً’’ ہم نے اس کو کب دیکھا ہے، محرومی محرومی‘‘ بطور ردیف صرف لفظ نہیں بلکہ صدیوں کے اس دکھ کا اشاریہ بن جاتا ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح چھٹے شعر میں مضمون کی ندرت اور ساتویں شعر میں مظفر حنفی کی شعری لغت میں بار بار استعمال ہونے والا لفظ ’ہوا‘ کو آزادی، خود مختاری اور کسی بھی بندش سے آزاد انسان کا کوڈ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح آٹھویں شعر میں اس عہد کی بے حسی کے مضمون کو بڑی خوبصورتی سے باندھا گیا ہے۔ نویں شعر کو غالب کے مشہور شعر’’ قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں ×موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں۔ ‘‘ کے سامنے رکھ کر پڑھ سکتے ہیں جس میں کچھ اسی طرح کے مضمون کو غالب سے بھی زیادہ پیچیدہ بنا کر مظفر حنفی نے پیش کیا ہے۔ دراصل کہنے کی سعی یہ کی گئی ہے کہ ہر تھیسس کے بطن میں اینٹی تھیسس موجود ہوتی ہے۔ یعنی ہمارا پیدا ہونا وہ صورت ہے جو موت کو پیدائش کے وقت ہی لکھ دیتا ہے۔ ’چراغ تلے اندھیرا‘ کا محاورہ کسے معلوم نہیں لیکن شاعر مظفر حنفی نے اپنے اس شعر میں اس مضمون کو کتنی خوبصورتی سے باندھنے کی سعی کی ہے۔ سائے کا چراغوں کی گود میں مچلنا، اور متکلم کا یہ سمجھنا کہ گھر سے سارے اندھیرے نکل چکے ہیں کیسا سادہ لوح خیال ہے۔ متکلم ایسا ہی سمجھ رہا تھا یعنی اسے اب احساس ہو گیا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہوا۔ لفظ ’چراغ‘ سے ایک قرینہ اور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ یہاں چراغ استعارہ ہے اولاد کا۔ ماں باپ اسے اپنے گھر کا چراغ کہتے ہیں۔ فی زمانہ یہ چراغ اپنی سرشت سے بے وفائی کر رہا ہے۔ شعر کو اس حوالے سے بھی اور بدی کے ساتھ نیکی اور نیکی کے ساتھ بدی لازم و ملزوم کی طرح وابستہ ہے کے تناظر میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ دسویں شعر میں وحدت الوجودی فکر پر ایک طرح سے طنز کیا گیا ہے۔ یہ طنز اجتماعیت پسندی کے نشے میں چور ان عاملین اور اہل اقتدار پر بھی ہے جو فرد کی آزادی کے سرے سے منکر ہیں۔ کہتے ہیں بندہ قطرہ ہے اور خدا سمندر۔ یعنی کہا ہے کہ ’’جزو کا یوں کل میں گم ہو جانا ہے گویا خود کشی‘‘ یعنی قطرہ اگر سمندر میں گم ہو جائے اور اس گمان میں مبتلا ہو جائے کہ اس کی وجہ سے سمندر کا پانی بڑھ گیا ہے تو اس کی اس خوش گمانی کو کیا کہیے۔ متکلم کے نزدیک اس کی خوش گمانی خود کشی ہے۔ یعنی’’ اس طرح خوش ہے ندی جیسے سمندر بڑھ گیا‘‘ شعر کے حوالے سے اور بھی بہت سی باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ سر دست گیارہویں شعر کی طرف اپنا دھیان مرکوز کیجیے جس میں ان لوگوں پر طنز ہے جو اپنے مخصوص کام کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن اسے ایمانداری سے نہیں نبھاتے۔ جیسے فطرت کا ایک مظہر بادل ہے جو کبھی کبھی صرف گرجتا ہے برستا نہیں ہے۔ بارہواں شعر غزل کا خالص روایتی شعر ہے۔ مضمون کو سلیقے سے نبھایا گیا ہے۔ عاشق کو کہیں سے بھی محبوب سے وصل کی امید نہیں ہے۔ حتیٰ کہ گزشتہ راتوں میں تو وہ اس کی یادوں کے سہارے بھی راتیں کاٹ لیا کرتا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں لیکن مجال ہے کہ نیند آ جائے۔ اب کس کی راہ دیکھے اور کیسی امید لگائے لیکن پھر بھی آنکھوں میں نیند نہیں۔ ولے صاحب کی ردیف عاشق کی اس مجبوری کو مصور کرنے میں کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ تیرہویں شعر کو وہی قاری سمجھ سکتا ہے جس کی نگاہ میں صدیو ں سے چلے آرہے موجود نا موجود، بندہ اور خدا کے رشتے، بندہ خدا اور کائنات کے رشتے، فنا و بقا کے مسائل، اپنے ہونے اور نہ ہونے سے متعلق استفسارات، انسان کے مجبور ہونے یا مختار ہونے، اس کائنات میں انسان کے وجود کے واجب ہونے، ممکن ہونے سے متعلق متصوفانہ مباحث ہوں۔ شعر مذکور میں اشارہ یہ ہے کہ ’میں ‘ ضمیر متکلم جو پورے انسانی وجود کا نمائندہ ہے کو اتنا ضرور احساس ہے کہ اسی کے ہونے سے خدا کے موجود ہونے کی دلیلیں سامنے آئی ہیں اور یہ اس امر کی بھی دلیل ہے کہ انسان کا وجود چاہے جس اعتبار کا بھی ہو کم نہیں ہے۔ یعنی پہلا مصرع ’’آئینہ دار ہوں اس کی تکمیل کا‘ کے بعد دوسرا مصرع ’’میں جتنا بھی ہوں کم نہیں ‘‘ کا قرینہ یہ ہے کہ کم نہیں کہہ کر یہاں انسان کے وجود کے اثبات کے اطمینان بخش ہونے کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ لفظ ’آئینہ دار‘ یہاں قابل غور لفظ ہے جو خدا کے نمائندے کا اشاریہ ہے۔ ’آئینہ دار‘ یہاں آئینہ دکھانے والا بھی معلوم ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ انسان کی عظمت کی دلیلیں فراہم کرتا ہے۔ چودھویں شعر میں خط کشیدہ لفظ’ ہاتھ ‘ جو مظفر حنفی کی غزلیہ اور نظمیہ کائنات کا کلیدی لفظ ہے جس نے ان کی شعری لغت میں علامتوں سے بھی آگے بڑھ کر کوڈ کا درجہ اختیار کر لیا ہے۔ (جس پر آگے گفتگو کی جائے گی)۔ یہ لفظ یا یہ کوڈ یہاں استعاراتی ہی نہیں بلکہ اساطیری نوع کا کردار بن گیا ہے۔ کتنا بلیغ مصرع مظفر حنفی نے خلق کیا ہے۔ ’فنا کے غار سے خواہش کے لمبے ہاتھ باہر تھے‘ اور دوسرا مصرع یہ کہ ’وہ دلدل میں سر تک دھنس چکے تھے ہاتھ باہر تھے‘ پڑھتے ہی دل و دماغ میں تحیر کی لہریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ دراصل شعر کا پس منظر یہ ہے کہ شاعر نے ایک شخص کو دلدل میں دھنستے ہوئے اور اپنی موت کو قریب آتے ہوئے دیکھا ہے جو گردن تک دھنسنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھائے ہوئے ہے کہ خواہش یہ ہے کہ سر کے ڈوب جانے کے بعد بھی شاید انسانی ہاتھ کو دیکھ کر کوئی انسان اسے موت کے غار سے باہر نکال لائے۔ یعنی یہاں خواہش نے امید کا جامہ پہن لیا ہے۔ دوسرا قرینہ یہ ہے کہ موت کے ساتھ خواہش کی موت نہیں ہوتی یا عین موت کے وقت بھی خواہش بے طرح جوان رہتی ہے۔ شاید خواہش نیک یا خواہش بد کوئی بھی ہو موت سے بھی زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔ شعر میں ’ہاتھ ‘ کو انسانی زندگی کے تحفظ کا واحد آلہ قرار دیا گیا ہے اور آخری شعر یعنی پندرہویں شعر میں منظر یہ ہے کہ ایک عورت کے ہاتھ میں ایک کپڑوں میں لپٹا بچہ ہے جس پر عامل کسی وجہ سے سخت ناراض ہو گیا ہے لیکن اس کے سامنے بچے کے دو ننھے ننھے ہاتھ کچھ اس طرح سے سامنے آ جاتے ہیں کہ جیسے یہ ہاتھ نہ ہوں کوئی الوہی اشارہ ہو۔ جسے دیکھ کر وہ اپنے سارے وجود کو بھول گیا ہو۔ کچھ کہہ نہ سکنے اور اس عورت کو کچھ یوں ہی نظر انداز کرنے کی وجہ صرف اس بچے کے یہ دو ہاتھ ہیں جو کیسا المیہ ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ وہ بچہ جسے دنیا کی کوئی خبر نہیں اس نے بھی ہاتھ ہوا میں لہرا دیے ہیں۔ ثابت یہ ہوتا ہے کہ ہمارے لاشعور میں خواہشوں کی ایک ایسی دنیا کھدی ہوئی ہے جس سے بچ کے نکلنا انسانی زندگی کے لیے محال ہے۔ مظفر حنفی کے ایسے بہت سے اشعار آپ ان کے مجموعے سے اپنی پسند کے مطابق منتخب کر کے ان میں پائی جانے والی معنی آفرینی پر مختلف زاویۂ نظر سے گفتگو کر سکتے ہیں جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ مظفر حنفی نے شعر و شاعری برائے بَیت نہیں کی ہے بلکہ شعر کو زندگی کے شانہ بشانہ ایک زندہ حقیقت کے طور پر ڈھالا ہے۔ ان کے سامنے انسان کے ہم عصر مسائل کے ساتھ ساتھ انسانوں کے اپنے نفسی، شعوری، لاشعوری اور ازلی مسائل ہیں ایسے سوالات بھی ہیں کہ جن سے صدیوں سے انسان دو چار ر ہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ہمیں انتہائی معصومیت کے ساتھ اپنی گرفت میں لیتے ہوئے ان شعروں کی از سر نو تخلیق پر اکسانے لگتی ہے۔ مظفر حنفی کے مختلف شعری مجموعوں سے منتخب کیے گئے مذکورہ بالا اشعار کے مختصر سے تجزیے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے اردو غزل کی صدیوں سے چلی آ رہی روایت میں اپنی طرح کی لکیر کھینچ کر اپنی انفرادیت ثبت کرنے کی کامیاب سعی کی ہے جنھیں اپنے استاد گرامی شاد عارفی کا مقلد ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ شمس الرحمن فاروقی اور دیگر نقادوں نے یہ فیصلہ بہت جلد بازی اور ان کے کلام کا بالاستعیاب مطالعہ کیے بغیر سنایا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ معاصرین اپنے معاصر پر ایسے ہی فیصلے تھوپتے رہتے ہیں۔ سیفی سرونجی کو انٹرویو دیتے ہوئے مظفر حنفی نے  اُن کے اس سوال کہ شادؔ عارفی اور آپ کے لہجے میں کیا فرق ہے، کا جواب انہوں نے کچھ اس طرح سے دیا ہے:

’’شاد عارفی کے سلسلہ میں میرے ابتدائی مجموعۂ کلام ’’تیکھی غزلیں ‘‘ (1968) کے پیش لفظ میں خلیل الرحمن اعظمی نے اور اس کی اشاعت کے بعد اس پر تبصرے کرنے والے ناقدین(شمس الرحمن فاروقی، سلیم اختر، امجد اسلام امجد، وزیر آغا، فرمان فتح پوری وغیرہ)نے میرے اور شاد عارفی کے کلام کی مماثلتوں اور مزاج کی مطابقتوں کا اتنی شدت سے اظہار کیا کہ مجھے اپنے مرحوم استاد کی وہ ہدایت بے ساختہ یاد آئی جس میں موصوف نے اپنی الگ راہ نکالنے کی تلقین فرمائی تھی اور خود اپنے(شاد عارفی کے) رنگ میں کہنے سے بھی گریز کرنے کی بات کہی تھی چنانچہ اب شعوری کوشش سے اس رنگ کو نئے پیرایہ میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ دوسرے مجموعے ’’صریر خامہ‘‘ میں اس اسلوب سے مختلف طر ز اظہار کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں اور ’’پانی کی زبان‘‘ کے بعد تو رنگ ہی بدلا ہوا نظر آئے گا، البتہ طنز اور سماجی معنویت صرف میرے اور شاد عارفی کے کلام کی ہی اقدار مشترک نہیں ہیں بلکہ ان کی جھلک کئی دوسرے ہمعصر غزل گویوں میں بھی نظر آتی ہے۔ ‘‘ ۳؎

مظفر حنفی کی رائے سے اتفاق نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ پروفیسر حنیف فوق نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ:

’’انہوں نے (شاد عارفی)نے روایت غزل کے جامد اور سنگلاخ حصے پر ضرب لگاتے ہوئے تجدید غزل کا سامان کیا ہے۔ شاد عارفی کے اثرات صرف مظفر حنفی کے یہاں ہی نہیں (کہ وہ شاد کے شاگرد ہیں )سلیم احمد اور مظفر علی سید وغیرہ کی غزلوں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ مظفر حنفی نے شاد کے سماجی طنز کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ صفائی سے پیش کیا ہے۔ لیکن شاد کے اشعار میں جو نوکیلی معنی خیزی اور دھار جیسی کیفیت ہے، وہ ان میں سے کسی کے یہاں نہیں ملتی۔ ‘‘

(فنون، غزل نمبر، حصہ اول، مدیر، احمد ندیم قاسمی، مطبوعہ:جولائی1969ء)

خلیل الرحمن اعظمی اور حنیف فوق کی رائے سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ مظفر حنفی کی شاعری صرف طنزیہ بنیادوں پر قائم نہیں ہوئی ہے اور انہیں صرف شاد عارفی سے اور ان کے غزلیہ اختصاص سے جوڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔

عشرت ظفر نے صحیح لکھا ہے کہ:

’’بعض حضرات کا اعتراض ہے کہ مظفر حنفی نے زبان میں تبدیلیاں کی ہیں تذکیر و تانیث کا لحاظ نہیں رکھا ہے بعض مقامات پر قوافی صوتی اعتبار سے استعمال کیے ہیں۔ اس کا مثبت جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ لسانیات و شعریات کی تخلیقی سطح بیشتر تکلفات سے پرے ہوتی ہے اور پھر یہ کہ شاعر اب اس بلند مقام تک پہنچ چکا ہے کہ لاکھوں الفاظ اس کے سخن فکر میں تپ کر کندن ہو کر شعر کا روپ اختیار کر چکے ہوں تو پھر اس کا حق ہے کہ تبدیلیاں کرے اور اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ ‘‘ ۴؎

ایک اور بات اس ضمن میں نظر میں ہونی چاہیے کہ انہوں نے ترجیحی بنیادوں پر سیکڑوں افسانوں کو خیر باد کہتے ہوئے غزل گوئی کو کیونکر اپنے لیے سود مند جانا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے مظفر حنفی نے لکھا ہے کہ:

’’بے شک ادبی زندگی کے ابتدائی گیارہ برسوں میں کہانیاں اور افسانے تخلیق کیے۔ (1960)کے آس پاس ادب میں جدید رجحانات کا بول بالا ہوا۔ جدیدیت نے تمام اصناف ادب میں مرکزیت اشاریت، علامت اور ابہام پر زور دیا اور ان کی شمولیت سے شاعری، خصوصاً غزل کو نئے پر و بال مل گئے۔ مجھے تخلیق کار ہونے کے ناتے شاید بر وقت احساس ہو گیا اور میں نے افسانے کی جگہ غزل کو اپنا وسیلہ اظہار بنا لیا۔ میرا ایک مقطع ہے  ؎

بری نہیں ہے مظفر کوئی بھی صنف ادب

قلم غزل کے اثر میں رہے تو اچھا ہے۵؎

گوپی چند نارنگ نے انھیں ان جملہ ناقدوں سے الگ سودا کے قریں پایا ہے اور محمد شمشیر عالم نے صحیح لکھا ہے کہ:

’’گوپی چند نارنگ کے خیال میں ’’کاٹ دار اور تیکھی غزل کی راہ انھوں نے شاد عارفی سے پائی لیکن اس میں بو قلمونی، تہہ داری اور طرح داری کی فضا اپنی بنائی نیز زندگی کے گرم و سرد پر بے نیازانہ نگاہ کرنے اور حوصلہ مندانہ گزر جانے کی جہات ان کی اپنی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی شاعر کا اپنے لہجے اور تیور سے پہچانا جانا ایسی سعادت ہے جس کو تخلیق کا سب سے بڑا افتخار و اعزاز ہی کہنا چاہیے۔ ‘‘ ۶؎

پروفیسر نارنگ کی رائے بڑی حد تک جچی تلی اور معروضی معلوم ہوتی ہے۔ البتہ جن لوگوں نے مظفر حنفی کے اشعار میں بعض نوع کی زبان کی تبدیلیوں اور دیگر عیوب کی نشان دہی کی ہے اس کا جواب عشرت ظفر نے دیا تو ہے لیکن قاری اس سے مطمئن نہیں ہو سکتا کیونکہ جواب صحیح نہیں ہے۔ لوگ غزل کے تمام اشعار میں غزل گو کو ہی تلاش کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ غزل کے جملہ اشعار میں متکلم یا شعری کردار تقریباً جداگانہ ہوتا ہے۔ مظفر حنفی نے غزلوں میں اکثر مقامات پر اپنے شعری کردار کی رو سے زبان کا استعمال کیا ہے۔ جیسے فکشن میں از روئے تقاضائے کردار و ماحول زبان کا ا استعال کیا جاتا ہے جو ظاہر ہے عموماً بولی اور زبان کی وہ شکل ہوتی ہے جو بنی بنائی قواعد کی حدوں کو توڑتی ہے۔ عشرت ظفر نے اس پہلو پر غور نہیں کیا ہے اور مظفر حنفی کے معترضین بھی اس حقیقت سے نا بلد نظر آتے ہیں۔ جیسے عشرت ظفر کے ہی کوٹ کیے گئے مندرجہ ذیل شعر پر نگاہ رکھیں۔ یہاں ایک مخصوص نوع کے کردار کی زبان کو مظفر حنفی نے شعر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے:

چاندنی سی جگ مگی ہو گی جہاں وہ ہوئیں گے

ہوئیں گے ہم جس جگہ، بادل برستا ہوئے گا

مظفر حنفی کا کمال یہی ہے کہ انہوں نے اپنی غزلوں میں رسمی زبان سے یا غزل کی مخصوص زبان کی جگہ بولی ٹھولی، محاوراتی اور کہاوتی طرز اظہار نیز گھروں، بازاروں اور دوستوں کے درمیان بولی جانے والی اردو میں مروجہ فارسی آمیز زبان اور بوجھل تراکیب پر مبنی غزلیہ اظہار سے گریز کرتے ہوئے، غزل کہنے کی کامیاب سعی کی ہے جسے ہم عام آدمی کی زبان قرار دے سکتے ہیں۔ ان کی شاعری کے مطالعے کے وقت ہمیشہ مصرعوں میں نثری منطق ایک خاص زاویے سے ہمارے دامن دل کو کھینچ رہی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ نہ صرف مصرعوں کو نثری نحو کی شکل دے دیتے ہیں بلکہ نثری جملوں میں جس طرح قوسین میں جملۂ معترضہ کے لکھنے کی روایت چلی آئی ہے، ان قوسین کا بھی استعمال کرنے میں وہ جھجکتے نہیں ہیں۔ کمال یہ ہے کہ وہ ان اسلوبی راستوں سے گزرتے ہوئے صریحاً غزل کی کلاسیکی روایت سے مکمل طور پر الگ نہیں ہوتے بلکہ ان کے نثری منطق پر مبنی ا اشعار میں بھی غزل کے کلاسیکی اسلوب کی لکیریں شعر کی داخلی ساخت میں قاری محسوس کر سکتا ہے۔ ویسے تو ان کی پوری شاعری میں اس طرز اسلوب کو محسوس کیا جا سکتا ہے پھر بھی اس نوع کے اشعار کی چند قابل ذکر مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

ترستی رہی روشنی کو نگاہیں

چمکتے رہے چاند تارے وغیرہ

اب کہہ دیا تو بات نبھائیں گے عمر بھر

حالانکہ دوستی کا زمانہ تو ہے نہیں

جیب میں کیا ہے نئے چالیس پیسوں کے سوا

پرس میں منہ دیکھ لیتا ہوں تِری تصویر کا

وہ جو تیرے ہاتھوں چرکے کھا جاتے ہیں مثلاً میں

تیری محفل میں آنے سے کتراتے ہیں مثلاً میں

ڈگمگائیں گے قدم جب ہر طرف یہ شور ہو

اس طرف سے ’یوں نہیں ‘ ’ایسے‘ سنبھل کر آئیے

لوگوں نے (جن کو ربط نہیں زندگی کے ساتھ)

صنف غزل کو مدحت جاناں بنا دیا

بس ایک رات مِرے گھر قیام کرتی جا

نہیں تو موج بلا تجھ سے میری کٹی۔ جا

لوگ دھوکے میں ہیں جاں بہ لب کون ہے

رات کے تین بجتے ہیں۔ اب کون ہے

کیوں اڑے ہو چٹان کی مانند

تم بھی جھرنے کے ساتھ ہو لو نا

میں نے تو حتی المقدور اسے سمجھایا لیکن وہ

میرے بس میں کیا ہے، جی کو سمجھا لوں گا لیکن وہ

چمن میں آں محترم نے جو گل کھلائے ہیں آنچ دے رہے ہیں

نہ بھولیے گا کہ اصل مع سود محترم سے وصول ہو گا

غرقابی کے حیلے ہیں سب

کشتی وشتی ساحل واحل

یہاں کوئی تیسرا نہیں ہے کچھ اور نزدیک آئیے نا

شکن مٹانی ہو شخصیت کی تو گھاس پر لیٹ جائیے نا

شگوفہ کوئی صدف نہیں ہے کھلا کہ خوشبو گہر نہیں ہے

بندھی ہے مٹھی تو ہر طرف سے دکھائیے نا دکھائیے نا

آپ نے مذکورہ بالا اشعار میں بے تکلفی اور عام بات چیت نیز نثری منطق کے اسلوب کا جمال ملاحظہ فرمایا۔ ان اشعار میں سے کچھ اشعار تو معنیاتی تہہ داری کی اپنی مثال آپ ہیں لیکن کسی شعر کو ردی شعر کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ہر شعر میں کچھ نہ کچھ نیا پن اور خیال کی سطح پر ندرت ہے۔ عادل فاروقی نے صحیح لکھا ہے :

’’ مظفر حنفی کے ہاں بوجھل تراکیب، ادق الفاظ اور فارسی زدہ اضافتوں کی کمی کے باوجود عام فہم سلیس لیکن ٹکسالی اردو میں ایسی لفظی تصویر یں موجود ہیں جن کو دیکھ کر ہر انسان چونک اٹھتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مظفر کا کلام آہ، واہ اور ٹھاہ نہیں بلکہ کراہ ہے، جیسے کوئی ٹیکے کی سوئی چبھو دے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جلی کٹی نہیں سناتے لیکن شائستہ پیرائے میں ایسی چنگاریاں چھوڑتے ہیں کہ پڑھنے والا تلملا اٹھے۔ ‘‘ ۷؎

محمود ہاشمی نے اپنے تبصرے ’’صریر خامہ:تلاش و تجزیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ:

’’ مظفر حنفی نے خالص اسلوب اور ہیئت والی ’’چکنی غزل‘‘ سے انحراف کیا ہے اور نئی ہیئت کی نسبت شعر میں مواد کی بنیاد کو لازمی قرار دیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشیاء اور عوامل کی جانب شاعر کا رویہ ایسے مبصر کا ہے جو پیدل چلنے والے مسافر کی طرح مظاہرات کا قریب سے مطالعہ کرتا ہے اور اس مطالعہ کے رد عمل کو بلند آواز میں بیان کرتا ہے۔ چوں کہ شاعر کا رد عمل خارج کی سمت اختیار کرتا ہے، اس لیے لب و لہجہ کھردرا اور بعض اوقات عامیانہ ہے لہجہ کی اس بے ساختگی اور حقیقت آمیز روش کے باعث اشعار میں نثری منطق بہت نمایاں ہے اور وہ پیچیدگی نہیں ہے جس کے لیے جدید شاعری کو معتوب قرار دیا جا تا ہے۔ علاوہ ازیں، مظفر حنفی کے مشاہدات کا اظہار، سماجی تنقید اور بورژوا تصورات و عناصر سے ٹکرانے کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ ‘‘ ۸؎

محمود ہاشمی نے مختصراً مگر بڑی جامع رائے مظفر حنفی کی شاعری کے حوالے سے پیش کی ہے لیکن مجھے ان کی ایک بات سے اختلاف ہے اور وہ یہ کہ مظفر حنفی نے ہیئت کے بجائے شعر میں مواد کو اہمیت دی ہے۔ پرانی تنقید اسی طرح کی گفتگو کرتی تھی۔ زبان خیال کی شرط ہے اور خیال بغیر زبان کے ایک واہمہ ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مظفر حنفی کے عہد کی سچائیاں، دکھ اور سیاسی سماجی اور ثقافتی مسائل نیز ادب کی سطح پر کیے جانے والے تجربوں نے انہیں مروجہ معیار زبان اور شعریات میں اپنی طرح کے تجربے کرنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے جہاں ضرورت محسوس کی وہاں غزل کی رسمی زبان کا بھی استعمال کیا اور جہاں آواز بلند کرنے کی ضرورت محسوس کی وہاں آواز بلند کی۔ باقی رہی پوری شاعری تو اس کے لیے انہوں نے بات چیت کے لہجے کو ترجیح دی۔ مذکورہ بالا اشعار پر ایک نگاہ اور ڈالیں۔ شعر نمبر(۱)میں لفظ ’وغیرہ ‘ کا استعمال شعر کو یکلخت شاعری کے خاندان سے نکال کر نثر کی دنیا میں لاتا ہے۔ قاری کو سکون ملتا ہے کہ وہ غالب کی مشکل گوئی کا مطالعہ نہیں کر رہا ہے۔ تبھی احساس ہوتا ہے کہ شعر میں کہا کیا گیا ہے؟کتنی آسانی سے بات کہی گئی ہے کہ چاند تارے وغیرہ چمکتے تو رہے ہیں لیکن پھر بھی انسان کی نگاہیں روشنی کے لیے ترستی رہی ہیں۔ چاند تارے کے بعد وغیرہ سے مراد ہے سورج کے علاوہ دنیا کے سارے فلسفے، تحریکیں، انقلابات، جو انسان کو اندھیرے سے نکالنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسان اس کے بعد کسی قسم کے دکھ اور المیہ کا شکار نہیں ہوا ہے۔ شعر میں لفظ ’وغیرہ‘ کی جگہ یہ لکھ دیا جاتا کہ چمکتے رہے چاند تارے ’جہاں میں ‘ یا ’جہاں میں ‘ کی جگہ پر لکھا جاتا ’و سورج‘ تو شعر غارت ہو جاتا۔ شعر میں زمانۂ جاریہ کا صیغہ بھی معنیاتی تہہ داری کی وجہ بنا ہے۔ اسی طرح شعر نمبر(۲)میں تو ہے نہیں یعنی نحو شکنی کا عمل، شعر نمبر(۳)میں پیسوں کی جگہ نئے پیسوں کا استعال طنز پید ا کرتا ہے۔ شعر نمبر(۴)میں چرکے کھانا جیسا غیر فصیح دیسی محاورہ بھی طنز کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ شعر نمبر(۵)میں تجھ سے میری کٹی اور پھر فل اسٹاپ کے بعد ’جا‘ کا استعمال بچوں کی سی معصومیت کو سامنے لاتا ہے۔ چھٹے شعر میں بالکل معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم شعر پڑھ رہے ہیں ایسا لگتا ہے کوئی خود سے باتیں کر رہا ہے۔ یعنی رات کے تین بجے ہیں۔ اب کون ہے۔ ‘‘ پھر اسی طرح شعر نمبر(۷)میں ردیف بولو نا، ہولو نا سے کتنی خاکساری جھلکتی ہے لیکن ساتھ ہی زیریں سطح پر طنز کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شعر نمبر(۱۱)میں آں محترم جیسے فقرے میں کیسا طنز مضمر ہے۔ شعر نمبر(۱۳)میں مضمون تقدیر کا باندھا گیا ہے یعنی سب کچھ پہلے سے طے ہے۔ فلسفۂ جبر کو کس خوبی سے شعر میں نبھایا گیا ہے۔ ڈوبنے والے کو ڈوبنا تھا۔ کشتی وشتی ساحل واحل یعنی بول چال کے انداز میں کتنی گہری بات کہی گئی ہے کہ کشتی وغیرہ تو بہانے ہیں۔ اسی طرح شعر نمبر(۱۴)میں آئیے نا، لیٹ جائیے ناکیسی اپنائیت اور خاکساری کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اسی طرح کی خاکساری اپنے اندر پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے لیکن یہاں بھی طنز نے اپنی طرح کی کروٹ ضرو ر بدلی ہے۔

مظفر حنفی کی شاعری کی ایک پہچان شعریات غزل یعنی (Metamorphosis of Ghazal)سے متعلق وافر مقدار میں شعر کہنے کی طرح ڈالنی ہے۔ ان میں سے کچھ اشعار پر نگاہ ڈالنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے:

مِری زمین رہی آسماں پہ چھائی ہوئی

مگر غزل کی کمائی کوئی کمائی ہوئی

(کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصر

یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو)

نئے قافیوں کی زیارت ہوئی

اٹھو قیمتی رات غارت ہوئی

مظفر کے لہجے نے ثابت کیا

غزل قافیوں کا پلندا نہیں

ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے، غزل کا فن کیا ؟

چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے

آج بھی لوگوں کو شعروں میں تغزل چاہیے

اور ہم کو اس طرح کے چونچلے آتے نہیں

جمالیات کے شاعر برا تو مانیں گے

مگر یہ عرض کروں گا کہ تھک رہی ہے غزل

جیسے غزلوں میں شامل ہو ہر پڑھنے والوں کی سوچ

یہ فانوس مظفر صاحب کیا کیا رنگ بدلتے ہیں

مذکورہ بالا خط کشیدہ الفاظ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مظفر حنفی نے مروجہ شعریات غزل سے جیسا اور جتنا بھی انحراف و اجتناب کیا ہے اسے ہم جانا بوجھا اجتناب و انحراف (Intentional Deviation ) قرار دے سکتے ہیں۔ مظفر اپنی غزل کے ذریعے اپنے عہد کا دل فگار رزمیہ لکھنا چاہتے ہیں جس کے لیے مروجہ تصور تغزل ناکافی ثابت ہوا، پھر جو سب سے اہم بات اس شاعری میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ شاعر غزل کی شاعری کو یا غزلیہ متن کو یا غزلیہ شعر کو مابعد جدید مفکروں کی طرح مکمل متن (Finished Product)ماننے کو تیار نہیں کیونکہ غزل ایک بین المتونی صنف شاعری کی سب سے بلیغ مثال فراہم کرنے والی صنف ہے۔ دراصل غزل Genetic Duplication) )یعنی تناسل مثنیٰ کی شاعری ہے۔ پہلے سے سب کچھ موجود ہے یعنی قافیہ، ردیف غزل کی مخصوص، غیر مبدل ہیئت، استعاراتی اور علامتی نظام، غزل کے طے شدہ کردار، عاشق معشوق اور رقیب۔ ایسے میں غزل میں انفرادیت کی تلاش یا شاعر خود کو منفرد تب ہی بنا سکتا ہے جب وہ اپنی روایت کے جملہ دھاروں کی سمجھ رکھتا ہو اور جسے اپنے سننے اور پڑھنے والوں کی ذہانت پر اعتبار ہو۔ اسی لیے مظفر حنفی کے مذکورہ بالا شعر میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ غزل کا شعر قاری کی شراکت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ مظفر حنفی نے جیسا کہ آخر ی شعر میں غزل کے شعر کو فانوس کہا ہے ظاہر ہے کہ اس کے رنگ ہر قاری کی قرأت کے بعد بدلتے رہتے ہیں۔ دوسری بات جو انہیں غزل کے بارے میں بخوبی معلوم ہے وہ یہ ہے کہ غزل کا شعر اس وقت تک قاری کو اپنے اندر شریک نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کے  بطن میں کوئی آگ یعنی کوئی بہت بڑا دکھ، المیہ، انسانی سائکی کا کوئی ان دیکھا پہلو نظر نہ آئے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شاعر کی کتھنی اور کرنی میں کوئی مطابقت ہے یا نہیں ؟کیا  مظفر حنفی کے اشعار پر انہیں کے بیان کردہ اصول کا اطلاق ہوتا ہے؟میرا خیال ہے کہ اب تک جن شعروں پر گفتگو کی گئی ہے ان کے پیش نظر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ ہرگز واشگاف شاعر نہیں ہیں۔ مظفر حنفی کی شاعری کسی حد تک روایتی غزلوں سے پرے ہٹتے ہوئے غزل کی نئی شعریات کی طرف گامزن نظر آتی ہے اور شعریات غزل سے بڑی حد تک وابستہ نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے بڑے اور ذہین نقادوں نے جن میں گوپی چند نارنگ کا نام پچھلے صفحے پر سامنے آ چکا ہے، کے علاوہ آل احمد سرور اور وزیر آغا نے ان کی شاعری کو ان کے معاصرین سے الگ انفرادیت کی حامل بلیغ شاعری قرار دیا ہے۔ آل احمد سرور لکھتے ہیں :

’’ان کے اشعار میں تلوار کی کاٹ ہے، ایک برہم نوجوان کے لہجہ کی تلخی ہے، اس میں کچھ توڑنے کی بات بھی ہے، اس میں بگاڑ اور نئے سرے سے بناؤ کی داستان بھی ہے اور اس میں غزل کی کمائی سے کچھ نا آسودگی کی آہٹ بھی۔ یہ ایک سرکش روح کی کہانی ہے اور ایک باغی کا خواب، زندگی کا کتنا زہر پی کر یہ امرت حاصل ہوا ہے۔ ‘‘ ۹؎

ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے مضمون بعنوان ’’بوند بھر نرم اجالا‘‘ میں لکھا ہے:

’’جدید غزل نے اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے نظم سے استفادہ کیا ہے اور وہ ’’فاصلہ‘‘ جو غزل نے ’’موجود‘‘ اور ’’ماورا‘‘ میں قائم کر رکھا تھا، اسے ذرا کم کرنے کی سعی کی ہے، چنانچہ سامنے کی اشیاء اپنی نوکیلی موجودگی کا احساس دلاتی ہوئی، غزل کے آنچل پرستارو ں کی طرح چمکنے لگی ہیں۔ مظفر حنفی جدید غزل کے اس خاص انداز سے بھی آگے گئے ہیں اور انہوں نے بڑی دلیری سے غزل کو اس کے اعماق میں چھپی کہانی سے اس طور متعارف کرایا ہے کہ فاصلے کم ہو گئے ہیں۔ ہر چند کہ غز ل کی مخصوص خوشبو اور دھند بدستور موجود ہے مگر کہانی کے نقوش مدھم نہیں پڑے جیسا کہ غزل میں عام طور سے ہوتا ہے۔ ‘‘ ۱۰؎

اس طرح ان کی شاعری میں پائی جانے والی بلاغت کا اعتراف کرنے والوں میں  اعجاز حسین، ظ انصاری، شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، ساقی فاروقی، ڈاکٹر گیان چند جین، علی جواد زیدی، مخدوم محی الدین، مسعود اشعر، خورشید احمد جامی، کنہیا لال کپور، عمیق حنفی اور شہریار کے نام نامی اہم ہیں۔ مذکورہ بالا دو اقتباسات میں ان کی شاعری کے ایک اہم عنصر کی طرف وزیر آغا نے اشارہ کیا ہے اور وہ یہ کہ مظفر حنفی کی غزلوں میں بیانیہ عناصر جا بجا بکھرے پڑے ہیں جنہیں پڑھتے ہوئے ہم اکثر کسی نہ کسی کہانی میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ کہانی یا داستان ان کے یہاں عموماً بطور استعارہ سامنے آتی ہے۔ شاید مظفر حنفی اپنی نسل کے واحد فنکار ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ اپنے اشعار میں داستانی شعریات، مشہور داستانوں کے واقعات، کردار، وغیرہ کا استعمال بطور کوڈ کیا ہے۔ یعنی انہوں نے ہندستانی اساطیر کو عموماً اپنے متن میں کچھ اس طرح استعما ل کیا ہے کہ پرانے متن کی ساری معنویت ہم عصر زندگی کے پیچیدہ مسائل یا سوالات کی تفہیم کے لیے ایک کھلا سیاق فراہم کر دیتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ Myth always thinks into the manیعنی جب ہمعصر زندگی کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی انتشار کے ذریعے بعض انسانی مسائل کچھ اس طرح سے سامنے آتے ہیں جن کی تفہیم میں انسانی دماغ بے چین ہو اٹھے یا وہ کسی فیصلہ کن رائے پر نہ پہنچے تو ایسے میں خیال کی سطح پر ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ Myth کا استعمال اسی خلا کو پاٹنے کے لیے فنکار ہر عہد میں کرتے ہیں۔ مظفر حنفی کے ذہن میں ہندوستانی فکر و فلسفہ اور اساطیر کی ساری جہتیں موجود معلوم ہوتی ہیں۔ ان کا ذہن سرتاپا ہندوستانی فکر و فلسفہ میں ڈھلا ہوا ذہن معلوم ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ان گوشوں پر مزید گفتگو کریں آئیے ان کے کچھ اشعار میں اساطیری و ثقافتی مدخولات کی جھلکیاں دیکھیں :

اب تو خوش آمدید کہے ملکۂ بہار

کانٹوں پہ چل رہا ہوں بڑے اعتماد سے

چنچل پری کو ڈھونڈ کے لائیں کہاں سے ہم

منے کی ضد بھی کم تو نہیں دیو زاد سے

اور پھر پانچویں درویش کی باری آئی

باغ افسانہ میں ندرت کی سواری آئی

بے پر کی یار لوگ اڑاتے ہیں آج کل

یہ ملکۂ صبا وہ سیلمان ہو گیا

جھنجھلا کے اپنے عکس کو دو لخت جو کیا

راون کا ایک اور نیا سر تھا سامنے

آئینے میں بھی روپ بدلتا ہے میرا عکس

ہابیل کی طرح کبھی قابیل کی طرح

پیچیدگی عہد رواں مجھ سے نہ الجھے

حاتم کے لیے موت نہیں کوہ ندا میں

اس کلجگ میں گھر کی لنکا ڈھانی ہو گی رام

پہلے خود اپنے اندر کے راون کو مارو

اوپر نیچے، آگے پیچھے، آزو بازو روک

چنتا کی کچھمن ریکھاؤ آگے جانے دو

گھر ملا ہے جسم کے جنگل میں چودہ سال بعد

جس میں دو مٹھی ہوا ہے ہاتھ بھر کا آسماں

جاگتے جاگتے آنکھ پتھرا گئی

اور کتنے برس رات کے رہ گئے

یہ بھی کوئی آرزو تھی غرق ہو جاتا جہاز

ایک تختہ اور میں، بہتا، سمندر دیکھتا

سونے کی ہر لنکا ان کی اور مجھے بن باس

چتر سیانے دس دس سر کے، مجھ مورکھ سر ایک

ہماری تہذیبی اور ثقافتی جڑیں ان ہی اساطیری دنیاؤں میں پیوست ہوتی ہیں۔ آئیے ہم عصر ثقافتی صورت حال پر مظفر حنفی کے اشعار کے حوالے سے ایک نگاہ ڈالیں :

داغ بن کر دو جہاں کا غم جگر میں آ گیا

اس غریبی میں کہاں مہمان گھر میں آ گیا

ٹہنی اپنی شاخ سے کٹ کر بانجھ بنجھوٹی سوکھی چیز

دریا نالا بن جاتا ہے کٹ کر اپنے دھارے سے

جیپ چلی آتی تھی تیزی سے ہرنوں کی ڈار کی جانب

جنگل کی پگڈنڈی بھاگی خوف کے مارے غار کی جانب

میں اپنی شکل ڈھونڈ رہا ہوں جو نامراد

تہذیب و آگہی کی نقابوں میں کھو گئی

یکسانیت نے فرد کی مٹی خراب کی

وہ گھر دکھائیے جو مِرا گھر نہیں لگے

چراغوں کی بستی میں ڈھونڈا بہت

کہیں بھی ذرا سی نہ تھی روشنی

یوں بھی دلی میں لوگ رہتے ہیں

جیسے دیوان میر چاک شدہ

میں قصبے کا بھولا پنچھی، اندر باہر ایک

جس شہری نے ہاتھ ملایا کاٹ لیا پر ایک

جب گاؤں ترقی کے لیے شہر میں آیا

ناپید ہوئے پھول، ٹھکانے لگے جگنو

پوچھنا چاہتا ہوں بیٹوں سے

میں بھی شامل ہوں خاندان میں کیا

نہ رک سکے گا یہ پانی ندی کو بہنے دو

کہ زندگی ہے روانی ندی کو بہنے دو

مذکورہ بالا جن تیرہ اشعار میں ہم عصر زندگی کی تفہیم جن خط کشیدہ اساطیری سیاق کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے ان میں ملکۂ بہار، دیو زاد، پانچواں درویش، ملکۂ صبا، سلیمان، راون، ہابیل قابیل، حاتم، کوہ ندا، لنکا، رام، راون، لکشمن ریکھا، چودہ سال کا بن باس، سونے کی لنکا اور راون کے دس سر کو بطور ایک کوڈ اور اس زبان سے وابستہ تصور زندگی کو سامنے رکھ کر شاعر نے ہمارے اجتماعی حافظے کو بیدار کیا ہے اور توقع کی ہے کہ قاری ان سے وابستہ کہانیوں اور اس کے معنی سے واقف ہے لیکن پرانے زمانے اور نئے زمانے کے تضادات اساطیر کے سیاق سے ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ جیسے شعر نمبر(۶)کو دیکھیے جس میں ہابیل قابیل کا ذکر ہے۔ ہابیل نے قابیل کو انسانی تاریخ میں بلکہ اسلامی اساطیر میں پہلی بار انسان کے ذریعے انسان کو قتل کیے جانے کی مثال پیش کی تھی۔ اس سیاق میں موجودہ ہم عصر انسانوں کے اندر بھی ایک رنگ کے آنے اور دوسرے رنگ کے جانے نیز اس کے اندر نت نئی تبدیلیوں کا مژدہ سناتے ہوئے ہابیل اور قابیل کی مثال کو سامنے رکھا گیا ہے۔ کہنے کی سعی یہ کی گئی ہے کہ انسان کے لاشعور میں بدی اور نیکی یاKilling Instincts))یعنی مارنے کی جبلت، گناہ کرنے کی جبلت کھدی ہوئی ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ اساطیر سے متعلق تمام اشعار پر کھل کر گفتگو کی جائے لیکن طوالت کا خوف طاری ہو گیا ہے۔ البتہ ایک غلط فہمی کا ازالہ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ گوپی چند نارنگ نے بڑی خوبصورتی سے مظفر حنفی کی شعری کائنات میں فنی چابک دستی سے ابھارے گئے اساطیری استعاروں کی طرف قاری کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ انہوں نے مظفر حنفی کی شاعری سے بہت سی مثالیں پیش کرتے ہوئے اس کی توضیح و تشریح پیش کی ہے۔ عشرت ظفر اپنے مضمون بعنوان’’سنگ زار غزل کا کوہ کن: مظفر حنفی ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’مجھے گوپی چند نارنگ کے اس خیال سے اتفاق نہیں ہے کہ اسلام نے اساطیری بیان یا واقعات پر یا ان کے مطالعہ پر کوئی قد غن لگا رکھی ہے ایسا کچھ نہیں ہے ہاں اسلام کا چوں کہ اساطیر سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے صنمیاتی واقعات کو یا مائتھولوجی کو جز و ایمان نہیں بنایا جا سکتا کیوں کہ اس سے شرک کے پہلو بر آمد ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انبیاء علیہ السلام کے واقعات اسطور نہیں، فرضی نہیں، من گھڑت نہیں وہ سب حقائق پر مبنی ہیں، کچھ دنوں پہلے اردو کے ایک بڑے نقاد نے ایک کتاب پر رائے دیتے ہوئے ’’اسلامی اساطیر‘‘ کی اصطلاح وضع کی تھی، جو قطعی مہمل تھی۔ ‘‘ ۱۱؎

پہلی بات تو یہ کہی جا سکتی ہے کہ اگر اساطیر مہمل ہے، غیر شرعی ہے تو مظفر حنفی کی ہی غزل میں اگر اس کی کارفرمائیاں نظر آ رہی ہیں تو موصوف کا اس ذیل میں کیا خیال ہے؟ان کا کلام بھی کہیں مہمل تو نہیں ہو گیا؟اسلام میں اساطیر الاولیں کو خرافات کس سیاق میں کہا گیا ہے۔ ذرا کسی اچھے مولانا سے عشرت ظفر دوبارہ پوچھیں۔ آدم اور حوا سے متعلق جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ تاریخ نہیں ہے عقیدہ ہے۔ کیا دنیا کے سارے لوگ جو مسلمان نہیں ہیں ان کو ڈنڈے کے زور پر اسے اور اسلام کے دیگر واقعات کو سورج آسا حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہوئے سب کو اس پر ایمان لانے کے لیے ہم مجبور کر سکتے ہیں ؟عقیدہ اور اساطیر مترادف الفاظ ہیں نیز اساطیر برابر ادب بھی ہے۔ کس نے کہہ دیا ہے کہ اساطیر کو قرار واقعی سمجھ کر اسے پڑھا جائے۔ جس طرح ادب کے کردار فرضی ہوتے ہیں لیکن سچ سے بھی زیادہ سچے اور متاثر کن نظر آتے ہیں ان کے بارے میں موصوف کا کیا خیال ہے؟ہوری کہاں ہے؟شاید ہر جگہ گاؤں میں لیکن ثبوت کے طور پر کہیں نہیں۔ انہیں ایک بار اکبر ایس احمد کی کتاب’’پوسٹ موڈرنزم اینڈ اسلام‘‘ ضرور پڑھنا چاہیے جہاں انہوں نے اسلامی اساطیر کو مذہب کی رو سے ایک اہم ڈسکورس کے طور پر پیش کیا ہے۔ ہم سادہ لوح ناقدوں کو یہ خبر ہی نہیں کہ اساطیر ایک زبان ہے۔ وہ زبان جو تہذیب کے آغاز میں ہمارے پرکھوں نے ایجاد کی تھی۔ جو آج ہمارا محاورہ بن چکا ہے۔ اگر اساطیر مہمل ہے تو آج سے ہی عشرت ظفر گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، دو بھائیو ں کے پیار کو دیکھ کر رام لکشمن کی جوڑی وغیرہ جیسی اور بھی کہاوتیں اور محاورے ہیں ان کا استعمال کرنا بند کر دیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے محاوروں کی بڑی تعداد ہے جن کا استعمال مظفر حنفی صاحب نے بڑی خوبصورتی سے اپنے غزل کے اشعار میں کیا ہے۔ ذرا یہ شعر دیکھیے:

یہ بتلا دوں اس بستی میں الٹی گنگا بہتی ہے

اب دھولو، بہتی گنگا میں ہاتھ اگر دھو سکتے ہو

ذروں نے آسماں کو سر پر بٹھا لیا

صحرا میں ایڑیاں جو رگڑنے لگی ہوا

ٹھانی کہ خاک بن کے صحیح جائیں گے وہاں

اب خاک ہو گئے تو ہوا لے چلی کدھر

سارا خون نچوڑو تب ہو خواہش کی تکمیل

نو من تیل جٹا سکتے ہو ناچے گی رادھا

ان مثالوں سے قطع نظر اساطیر سے متعلق اشعار میں بھی اساطیری کہانیوں پر مبنی محاورے استعمال کیے گئے ہیں جیسے مذکورہ بالا محاوروں اور کہاوتوں پر مبنی پہلے شعر میں گنگا میں ہاتھ دھونے کا ذکر ہے اور الٹی گنگا کے بہنے کا ذکر ہے جس سے متعلق ایک طویل اساطیری اور لوک کہانی زبانی بیانیہ کے طور پر موجود ہے۔ دوسرے شعر میں ہوا کو ایڑیاں رگڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ از خود اساطیر گڑھنے کی ایک عمدہ مثال ہے۔ حالانکہ یہ سارا کچھ حقیقت پر مبنی نہیں ایک استعاراتی زبان ہے جس کے ذریعے ہم اپنے عصر کی نیز بعض انسانی صورت حال کی تفہیم کرتے ہیں۔ جیسے کہ اسی شعر میں کہ جس میں ہوا کا ذکر ہے کہا یہ گیا ہے کہ ہر تخریب میں تعمیر کا پہلو مضمر ہے۔ ہوا آندھی بن کر جہاں بہت کچھ تباہ کر دیتی ہے تو وہیں ذروں کو آسماں پر بھی پہنچا دیتی ہے۔ گویا کہ اساطیر ایک زبان ہے جو ہمیشہ ہم عصر زبان کے لیے یا ادب کے لیے ایک ایسے مواد کے روپ میں ابھرتی ہے کہ جو خود کی رد تشکیل کے ذریعے عوامی حافظے کا موضوع بنتی چلی جاتی ہے۔ مظفر حنفی کے شعروں میں اساطیر خلق کرنے اور اساطیری استعاریت کے ذریعے عصری تضادات کو ابھارنے نیز ان پر طنز کے تیر برسانے کا کام لیا گیا ہے اور اس میں وہ اپنے ہم عصروں سے بہت آگے ہیں۔

یہی حال آج کی ثقافتی صورت حال کی تفہیم کا ہے۔ انہوں نے عموماً موجودہ ثقافتی و تمدنی ترقیوں کو  فطرت سے بہت دور پایا ہے۔ ثقافتی تغیرات اور ثقافتی اضافیت نیز ثقافتی انتشار ان کے شعروں کے مضامین اکثر بنتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً پہلے شعر میں عام آدمی جو تہذیب و ثقافت کی دہائی زیادہ دیتا ہے، کے گھر غریبی میں مہمان کے آنے کی اطلاع دی گئی ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے تہذیب کرواتی ہے۔ دوسرے شعر میں جڑوں کی تلاش اور تہذیبی جڑوں سے بچھڑنے کے انجام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بات بھی صحیح ہے کہ زندگی ہو یا ادب دونوں کا سر چشمہ ثقافت ہے۔ تیسرے شعر میں ضرورت سے زیادہ تکنیکی ترقی کے ذریعے خلق کردہ ثقافت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثال تیزی سے آتی ہوئی ایک موٹر کار اور جنگل میں حد نگاہ تک نظر آتی پگڈنڈی کی دی گئی ہے جو موٹر کو دیکھ کر غار میں چلی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم کوئی اساطیری کہانی سن رہے ہیں لیکن اشارہ اس جانب ہے کہ بے ہنگم ثقافتی ترقیوں نے فطرت کو زیر زمین چلے جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج کے ماحولیاتی نقاد موجودہ ثقافتی ترقی کے پیش نظر مایوسی کے عالم میں یہ تک کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں :

There is no nature in our worldاور Nature is a Myth۔ پانچویں شعر پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مظفر حنفی اپنے عصر کی خطرناکیوں سے کس قدر واقف فن کار نظر آتے ہیں ہمعصر دنیا میں گلوبلائزیشن نے تکثیریت کو ختم کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ ہر شہر اور وہاں کے بازار، لوگوں کی پوشاک، کھانا پینا وغیرہ انتہائی یکسانیت کا شکار ہو چکا ہے۔ ایک ہی طرح کے حد نظر تک مکانات، پانچویں شعر کا راوی اس یکسانیت سے بور ہو چکا ہے۔ اسے ایسا گھر چاہیے جو اس کا گھر نہ لگے، ایسا اس لیے کہ اس کے گھر جیسے لاکھوں گھر شہر میں موجود ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مظفر حنفی کی شاعری میں ایسے نادر مضمون دوسروں کے مقابلے کہیں زیادہ نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی شاعری کا ثقافتی مطالعات کے غیر روایتی اصولوں کے تحت مطالعہ کیا جائے۔

آپ نے ان اشعار میں گاؤں اور شہروں کا تقابل بھی ملاحظہ فرمایا ہو گا جو آج کا ایک اہم ثقافتی ڈسکورس بن چکا ہے۔ ما بعد جدید شاعری میں اکثر شعراء آگ کی گرمی سے پلاسٹک کی طرح پھیلتے ہوئے شہر سے نفریں ہو چکے ہیں اور گاؤں کے ختم ہوتے چلے جانے کے خوف سے لرزاں نظر آتے ہیں۔ ہم عصر شاعری کا شعری کردار گاؤں کی طرف لوٹ جانے کی تمنا رکھتا ہے۔

اس ضمن میں مظفر حنفی نے کثرت سے اشعار کہے ہیں۔ یہ ان کی شاعری کا ایک اہم مضمون معلوم ہوتا ہے۔ چند اشعار اسی نوعیت کے پیش خدمت ہیں کہ جس میں دیسی ثقافت، اور مقامیت پر زور دیتے ہوئے ایک طرح سے ایسی ثقافت کی طرف ذہن کو راجع کیا گیا ہے جہاں فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہو:

شام سے نازل ہے بستی پر صفائی کی وبا

ہم اٹھائے جائیں گے فٹ پاتھ سے بستر سمیت

جو فرد جس جگہ بھی ہے ٹوٹا ہوا سا ہے

تہذیب آئی ہے تو قبیلے نہیں رہے

کس جگہ رہیے کہاں دن کاٹیے، کیا کیجیے

گاؤں میں کیچڑ بہت ہے، شہر میں کم ہے ہوا

بخشیے مجھ کو، یہ پگڈنڈی غنیمت ہے مجھے

شاہراہوں پہ چلوں گا تو کچل جاؤں گا

مبتلا ہے شہر بھر آسیب میں

سبز پتے لاؤ میرے گاؤں کے

شہر کا زہر مشینوں کا اثر ٹوٹ گیا

جسم سے کھیت کی مٹی جو ذرا لپٹی ہے

مظفر حنفی کے شعری مجموعوں میں ردیف اور قافیے کی چسپیدگی کی بلاغت بھی مطالعے کا موضوع بن سکتا ہے۔ اس سے قطع نظر ان کی غزلوں میں ایک اور جہت ردیفوں کی کچھ اس طرح استعمال سے پیدا ہوئی ہے کہ بیشتر غزلیں نظم کاسا تاثر فراہم کرتی ہیں جسے ہم راستہ نامہ، چپ نامہ، دنیا نامہ، آنکھ نامہ، معافی نامہ، بادل نامہ، غزل نامہ، چیخ نامہ، دھواں نامہ، پانی نامہ، فریب نامہ، سایہ نامہ، شب نامہ، خاموشی نامہ، پنچھی نامہ، چراغ نامہ، سمندر نامہ، آوارگی نامہ، زنجیر نامہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ’’شہر نامہ‘‘ کے بطور پڑھ سکتے ہیں۔ شہر نامے کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں :

پتے سی کانپتی ہوئی بوڑھی شفیق ماں

آیا ہے تار گاؤں میں لے کر جواب شہر

رکشہ چلا رہا ہوں ابھی کل کی بات ہے

شانے پہ ہل کا بوجھ تھا آنکھوں میں خواب شہر

قصبے کی آبرو تھے مظفر میاں کبھی

مسحور کر چکا ہے انہیں بھی سراب شہر

شہر اور گاؤں کے تقابل کے واضح مضمون پر مبنی مذکورہ بالا اشعار کی تہہ نشیں ساخت میں دراصل مقامیت اور آفاقیت نیز فطرت اور ثقافت کے مناقشے اور موازنے کے معنی بھی موجود ہیں۔ مثلاً شہر نامے میں مقطع کا شعر نمبر(۳)میں مظفر میاں بعینہ وہی مظفر میاں نہیں بلکہ ہر وہ آدمی ہے جو شہر آ کر اس کی بھیڑ میں اپنے گاؤں کی آبرو اور خود اپنی شناخت سے محروم ہو چکا ہے۔ شعر نمبر(۲)میں دیکھیے ہل چلانے والے کسان آخر شہر میں رکشہ چلانے پر کیوں مجبور ہوئے ہیں ؟گاؤں میں ماں بیٹے سے نہیں بس اس کے شہر سے آنے والے تار کو پڑھ کر اپنے دل کو تسلی دے لیتی ہے۔ ان جملہ عوامل کے پیچھے ہمارے موجودہ اقتصادی نظام کا ڈھانچہ ہے یا سرکاروں کی پالیسیاں ہیں جو اب تک گاؤں کی ترقی کے سلسلے میں دوہرے کردار کا ثبوت دیتی آئی ہیں۔ شہر نامے سے پہلے گاؤں اور شہر کے تقابل پر مبنی اشعار میں متکلم شہر سے نفریں ہے۔ یہ ایک ایسا آدمی ہے جسے شہر نے پوری طرح سے نچوڑ لیا ہے اور جسے رہ رہ کر گاؤں کی معصومیت، دیسی پن اور وہاں کی البیلی معصوم فطرت کی یاد آتی ہے اور وہ من مسوس کر رہ جاتا ہے۔ یہ اشعار کہانی کی طرح بہت کچھ کہتے نظر آتے ہیں جسے صاحب ذوق قاری پڑھ کر اگر وہ گاؤں کا رہنے والا ہے تو گاؤں کی ان پگڈنڈیوں کو یاد کرنے لگتا ہے جس پر چلتے ہوئے اس کے ساتھ ہزار ہا لہلہاتے ہوئے پودے، قریب سے اڑ کر گزرتے ہوئے پنچھی اور ہوا میں جھومتے ہوئے پودے اس کے دامن سے لپٹ کر اس کا حال چال پوچھتے تھے۔ یہ سب کچھ وسیع و عریض شہر کی چوڑی شاہراہوں پر چلتے ہوئے متکلم کو یاد آتا ہے جہاں ہر لمحہ کچل جانے کا خوف ذہن میں طاری رہتا ہے۔ مظفر حنفی نے ثقافتی ڈسکورس کو پیش کرنے میں ہمیشہ گاؤں کی معصومیت اور وہاں کی مٹی کی سوندھی خوشبو یعنی فطرت کی موت کا ماتم کیا ہے۔ دوسری طرف ان کے یہاں اقلیتی طبقے کا ایک دبا کچلا کردار بھی یکلخت سامنے آتا ہے۔ انہوں نے اپنے اشعار میں جا بجا چند مخصوص الفاظ کا استعمال کیا ہے ان میں سے ایک لفظ ’جگنو ‘‘ ہے تو دوسرا’’ ہاتھ‘‘ اور تیسرا لفظ ’’میاں ‘‘ ہے۔ اس لفظ کا استعمال مختلف سیاق و سباق میں ہوا ہے مثلاً مسلم معاشرے میں اپنے شوہر کو عورتیں عموماً میاں کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ مسلم معاشرے کے کسی بر گزیدہ شخص کو بھی ’میاں ‘ کہا جاتا ہے۔ بڑے اپنے چھوٹوں کو بھی ’میاں ‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں لیکن آزادی کے بعد اور اس سے ذرا کچھ پہلے یہ لفظ ’میاں ‘ قدرے سیاسی رنگ میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔ اس لفظ پر فرقہ واریت کی موٹی تہہ ان ہندوؤں نے جما دی جو مسلمانوں کو ’میاں ‘ کہہ کر مخاطب کرنے لگے۔ اس لفظ میں انہوں نے ایک خاص نوع کی نفرت بھر دی جس کے ذمہ دار مسلمان بھی تھے۔ مظفر حنفی نے اس لفظ کا استعمال اکثر مقام پر تمثیلی پیرائے میں بھی کیا ہے جس سے شعر میں غضب کا انوکھا پن اور نیا پن قاری محسوس کرتا ہے۔ جیسے :

تھوڑی سی روشنی ہے اسے جو بھی لوٹ لے

جگنو میاں کے پاس خزانہ تو ہے نہیں

تم اپنے سر تو سہرا، میرے سر الزام رکھتے ہو

کہاں کے رہنے والے ہو میاں کیا نام رکھتے ہو

روشنی کے تو میاں چند ہی سر چشمے ہیں

وہ کہیں نوک قلم شاخ پلک پر ہو گی

میاں کیا لازمی تھا خاک اڑانا

کسی کو راستہ دینے سے پہلے

ہزاروں میں سے کچھ شمعیں بجھا دی جائیں تو کیا ہے

میاں جی روشنی کا اس طرف سے بھی تقاضا ہے

ان اشعار کے علاوہ وہ خود کو صاحب کہنے کے علاوہ کسی قدر، یا کسی غیر شخص کو صاحب کا جب لقب دیتے ہیں تو شعر میں جیسے جان پڑ جاتی ہے۔ جیسے:

اس بی بی کا نام وفا تھا حضرت عشق فدا تھے جس پر

حضرت نے ہجرت فرمائی، بی بی نے پردہ فرمایا

پھڑ پھڑاتا تھا پرندہ سار گوں کے جال میں

شعر صاحب آپ ہیں، میں بھی کہوں کوئی تو ہے

ڈھول پیٹیں گے حضرت اخلاق

ناچ گھر میں حیا مٹکتی ہے

ان اشعار کو پڑھتے ہوئے ہم جس نوع کے طنز سے دو چار ہوتے ہیں اس کے عقب میں خاص نوع کے ثقافتی مدخولات کو تمثیلی پیرایہ عطا کرنا ہے جیسے حضرت اخلاق، میاں جی، میاں، بی بی وفا، حضرت عشق اور شعر صاحب وغیرہ۔ ان تمثیلی پیرایوں کے ذریعے انہوں نے طنز کی کاٹ کو مزاح پیدا کرتے ہوئے کم کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اشعار کو پڑھتے ہوئے خفیف سی مسکراہٹ ہونٹوں پر پھیل جاتی ہے۔ ثقافت کی ان گہری بحثوں کی تہہ میں دراصل ان کی شاعری سے ایک ایسا کردار آہستہ آہستہ تخلیقی سطح پر ابھرتا ہے جسے طبقۂ اشرافیہ کے چونچلے بالکل نہیں بھاتے۔ وہ دراصل عام آدمی کا ایک چہرہ ہے جس کی اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں اور جو اپنے ہاتھوں سے اپنی ایک دنیا تعمیر کرنے کی سعی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ’ہاتھ‘ ایک کوڈ کے طور پر سیکڑوں اشعار میں پیش کیا گیا ہے نیز ان کے ایک مجموعے کا سرنامہ بھی اسی حوالے سے ہے یعنی ’ہاتھ اوپر کیے ‘ سے عام آدمی کی جو تصویریں سامنے آتی ہیں، ان کے دو روپ ہیں۔ ایک وہ ’ہاتھ‘ جو دعا کے لیے اٹھے ہوں اور دورسرا وہ ’ہاتھ‘ جو بے چارگی میں اپنی جان کی حفاظت کے لیے خود سپرگی کے طور پر اٹھانے پر مجبور کیا گیا ہو۔ اکیسویں صدی میں عام آدمی اپنی زندگی اسی طور گزار رہا ہے۔ طوالت کے خوف سے چند ہی اشعار اس ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :

شہکار کی تکمیل پہ کاٹے گئے بازو

کیسا میرے ہاتھوں پہ ہنر ختم ہوا ہے

آ چکا ہے ایٹمی چابک مشینی ہاتھ میں

اے خلا میں ناچنے والے ستارو چھپ رہو

پھول برسائیں مِرے دوست کہ پتھر برسائیں

میں نے ہاتھ اپنے اٹھا رکھے ہیں اوپر کی طرف

سیلابوں کو شہہ دینے میں طوفانوں کو اکسانے میں

کتنے ہاتھوں کی سازش ہے اِک دیوار گرانے میں

ہم درد ملے تو درد دونا ہو گا

بستر بھی جہنم کا نمونہ ہو گا

بے کاری کا یہ زخم یہ کھجلاتے ہاتھ

بجلی کے کھلے تار کو چھونا ہو گا

ہمیں لوح و قلم تقدیر نے بخشے تو ہیں لیکن

ہمارا آب و دانا لکھ دیا ہے چور ہاتھوں میں

ساتھ تو دینا پڑے گا وقت کی رفتار کا

آنکھ مل کر آئیے یا ہاتھ مل کر آئیے

یہ ہاتھ رہے میرے، کام آئیں گے قاتل کے

لے جاؤ میرا چہرہ، اخبار پہ رکھ لینا

مذکورہ بالا شعروں پر سر سری سی نگاہ ڈالنے والا بھی آسانی سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ مظفر حنفی نے اپنے عہد کے ادبی فیشن جدیدیت سے خود کو بچاتے ہوئے ترقی پسند آئیڈیولوجی کی راست پیش کش سے بھی خود کو دور رکھا ہے۔ ترقی پسندوں نے ’ہاتھ‘ کے استعارے کو سیاسی معنی میں استعمال کیا اور اسے احتجاج کا نیز بطور مجاز مرسل ’ہاتھ‘ کہہ کر مزدور مراد لیا تھا۔ مظفر حنفی صاحب نے اس لفظ کا استعمال کھلے سیاق میں کیا ہے۔ نتیجتاً اس حوالے سے ہم عصر زندگی کے بہت سے تضادات اور مسائل سامنے آ جاتے ہیں۔ ’ہاتھ‘ بطور کوڈ بیک وقت سیاسی، سماجی، اقتصادی، معاشرتی، ثقافتی اور عمومی جہت رکھتا ہے۔

مذکورہ بالا اشعار پر تفصیل سے بحث کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ مختصراً ان اشعار میں شاہکار کی تکمیل پر ہاتھ کے کاٹے جانے کا ذکر ہے اور ایٹمی چابک کا مشینی ہاتھ میں آنے، اپنے ہاتھ کو اوپر اٹھا لینے کا، ہاتھوں کی سازش کا اور بے کاری میں ہاتھ کے کھجلا لینے کا ذکر ہے جس سے ہندوستانی عقیدے کا اظہار ہوتا ہے اور تو اور ہاتھ ملنے کے محاورے کے ذریعے بے چارگی کی تصویر بھی کھنچی گئی ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مظفر حنفی نے لفظوں کو آہستہ آہستہ استعارے اور استعارے سے علامت اور اس سے آگے بڑھ کر کیسے ایک نشانیاتی نظام کا کوڈ بنا دیا ہے۔ جس سے ان کے اشعار میں ندرت، معنی کی تہہ داری اور طرفگیِ خیال پیدا ہو جاتی ہے۔ دراصل انہوں نے اپنے اشعار میں استعاروں اور تشبیہوں کا غیر روایتی استعمال کیا ہے لیکن ان کی جملہ شاعری میں جس صنعت نے ان کے اشعار کو معنی آفریں بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے وہ مجاز مرسل کا وافر مقدار میں استعمال ہے۔ ما بعد جدید متن میں اس صنعت نے نیچر اور کلچر کے جوڑ کو دکھانے اور ان کے درمیان کی دوری کو نشان زد کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ آئیے کچھ اشعار پر ایک نگاہ ڈالیں اور مظفر حنفی کے اشعار میں اس صنعت کی بلاغت کی سطح کا اندازہ لگائیں۔ پہلے ایک حسن تعلیل ملاحظہ فرمائیں :

ڈوب جاتا ہے یہاں تیرنا آتا ہے جسے

وہ کبھی ناؤ تھی دریا لیے جاتا ہے جسے

زلزلہ اور کسے کہتے ہیں

کیا پتہ جسم کے اندر کیا ہے

عام طور سے وہ ڈوبتا ہے جسے تیرنا نہیں آتا لیکن یہاں ڈوبنے کی وجہ تیرنے والے کی صفت بتائی گئی ہے جیسے ’کشتی‘ جو لوگوں کو ڈوبنے سے بچاتی ہے۔ حسن تعلیل کی مزید مثالوں سے قطع نظر مجاز مرسل کی کارفرمائیوں پر مبنی اشعار پیش خدمت ہیں :

چھت نے آئینہ چمکانا چھوڑ دیا ہے

کھڑکی نے بھی ہاتھ ہلانا چھوڑ دیا ہے

خوشبوئیں سر پیٹ رہی ہیں

کھڑکی کھولو کھڑکی کھولو

چار سو ہم درد موجیں پیٹتی پھرتی ہیں سر

ناؤ سے پتوار غائب باد باں اترا ہوا

کوئی مجھے عقب سے آواز دے رہا تھا

سائے کی جستجو میں دیوار چل رہی تھی

بستر پہ لیٹتے ہی تمہارے بدن کی سوچ

پنجے کی طرح گر کے اٹھا لے گئی ہمیں

کھڑکیاں گود پسارے ہیں کہ آ جاؤ نا!

گیلری آنکھ دکھاتی ہے، کہاں جاتے ہو

اس سلسلے میں ایک رباعی ملاحظہ فرمائیے:

ٹوٹے ہوئے پر چھوڑ گیا ہے راہی

جلتا ہوا گھر چھوڑ گیا ہے راہی

منزل پہ پہنچنا تھا اسے عجلت میں

رستے میں یہ سر چھوڑ گیا ہے راہی

مذکورہ بالا اشعار نمبر ایک میں کھڑکی کہہ کر دراصل محبوب مراد لیا ہے۔ شعر نمبر دو میں خوشبوئیں سر نہیں پیٹ رہیں بلکہ برہن کے کھلے مہکتے گیسو بے قرار ہو رہے ہیں۔ شعر نمبر تین میں موجیں نہیں ساحل پر آنے والے کے انتظار میں کھڑے لوگ سر پیٹ رہے ہیں۔ شعر نمبر چار میں دیوار نہیں گھر میں رہنے والے عزیز جیسے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ اسی طرح ہر شعر میں مجا ز مرسل کی اس کیفیت سے ثقافت اور فطرت کے مابین کھڑے انسانوں کی مجبوریاں اور حسرتیں واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہیں۔ ان اشعار میں ایک دو اشعار ایسے بھی ہیں جنہیں ہم جنسیت اور متنیت یعنی SexualityاورTextualityکے تصور کے تحت پڑھ سکتے ہیں۔ جیسے شعر نمبر پانچ میں جسم یا بدن یعنی محبوب کے ترشے ہوئے بدن نے عاشق کے ہوش و حواس جیسے چھین لیے ہیں۔ بستر پر دراز عاشق بستر پر کب ہے۔ وہ تو کہیں دور خلاؤں میں ہے۔ اس کیفیت کو مجاز مرسل کی صنعت نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ ذرا مصرعوں پر ایک بار اور غور کیجیے کہ ’’بستر پہ لیٹتے ہی تمہارے بدن کی سوچ‘‘ ۔ پنجے کی طرح گر کے اٹھا لے گئی ہمیں ‘‘ یہاں پنجے سے مراد عقاب ہے جو آن واحد میں چوزے کو آسمان میں لے اڑتا ہے۔ محبوب کے بدن کے تصور کو یہاں عقاب کا استعارہ بنایا گیا ہے۔ اس بلاغت کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔

اس نوع کے بہت سے اشعار ان کے جملہ مجموعوں میں ملتے ہیں۔ جنہیں ہم ہرگز خالص لذت پرست قسم کی لکھنوی شاعری سے کوسوں دور پاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ان کے نزدیک یہی جسم روح کا رقیب قرار پاتا ہے۔ ہندوستانی فکر و فلسفہ اور ویدانت کے تصور کے مطابق جسم ایک پنجرہ ہے جس نے روح کو قید کر رکھا ہے۔ لہٰذا جسم کا   انہدام اس تصور کے مطابق عباد ت کا درجہ رکھتا ہے۔ مظفر حنفی نے ہندوستانی فکر و فلسفہ اور صدیوں سے چلی آ رہی متصوفانہ روایات کی بڑی خوبصورتی سے خود کو جوڑے رکھا ہے اور ہمیں تہذیبی تسلسل کا احساس دلایا ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے کہ جس میں جسم کو منہدم کرنے اور روح کی آزادی کے گیت گائے گئے ہیں ساتھ ہی کچھ اشعار ایسے بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں عشق کے اس رنگ کو بڑی فن کاری کے ساتھ ابھارا گیا ہے جسے عشق کا تہذیبی اور تخلیقی رنگ کہا جاتا ہے۔ پہلے جسم اور روح کی کشاکش کا نظارہ کیجیے:

ان منزلوں میں ہوں کہ جہاں موت کا خیال

گرمی میں سایہ دار شجر کی طرح لگا

گھبرا کے نکل آئے جو زندان بدن سے

اخباروں میں چھپنے لگی تصویر ہماری

عمر بھر جسم کے فانوس میں رہنا ہو گا

اور اندر کے تھپیڑوں کو بھی سہنا ہو گا

لگی ہے جو آگ اندر اسے ہوا دوں گا

میں ایک روز یہ دیوار جسم ڈھا دوں گا

دھڑ ہمارا خواہشوں کی آگ میں ہے

سر ہے نیزے پر شہید کربلا سا

تنکے جیسا بدن بنا کر

ایک آندھی سی بھر دی اندر

قارئین ان اشعار کو پڑھ کر یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ اشعار اپنے اندر کیسی گہری معنویت رکھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اشعار جسم و روح کی کشاکش کے علاوہ انسان کے اندر جو ایک گہرا اور مستقبل کا انسان چھپا ہوا ہے نیز اس کے اندر جو تمنائیں مچل رہی ہیں یا جس قسم کی آزادی کا خواب وہ دیکھتا رہا ہے اس راہ میں جسم یا بدن ایک استعارہ قرار پاتا ہے ان جملہ رکاوٹوں کا جو انسان کو اس کی اصل تک پہنچنے نہیں دیتے۔ شاعری اسی لیے ایک ایسی آرزو کا نام ہے جسے نہ لکھنے والا ٹھیک سے بیان کر پاتا ہے نہ پڑھنے والا اس کے حتمی معنی تک پہنچ پاتا ہے۔ شعر نمبر تین میں کچھ اسی نوع کا خیال قلم بند ہوا ہے۔ اس حوالے سے مزید گفتگو ہو سکتی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ مظفر حنفی نے اسی لیے اپنے اشعار میں تہذیب عاشقی کے فروغ کے لیے عشق کے اس رنگ پر زیادہ توجہ دی ہے جو ہمارے قدما کا شعری مزاج رہا ہے۔ مثلاً کچھ اشعار عشقیہ رنگ کے ملاحظہ فرمائیں :

کہتی ہے ڈائری کہ ابھی کل ملے تھے ہم

احساس مجھ کو یہ کہ ہزاروں جنم ہوئے

بس وہ ہے انجمن میں کوئی دوسرا نہیں

سورج کی روشنی میں ستارے بھی ضم ہوئے

اس جفا پیشہ کی یاد آئی نہ زخم دل ہنسے

خود بخود سیلاب سا کیوں چشم تر میں آ گیا

تِری محفل سے اچھا ہے مِرا وحشت کدہ جس میں

جدھر آواز دیتا ہوں وہیں سے تو نکلتا ہے

سنا تم نے کہ دنیا کے بجھائے سے نہیں بجھتی

لگی ہے آگ ایسی خرمن یک دانۂ دل میں

تِرے سوا کوئی جب میرے دل کو چھیڑتا ہے

عجیب ساز ہے آواز ہی نہیں دیتا

گھما پھرا کر اسی کی باتوں سے ہو گئے شعر

اسے تصور میں لائے سرشار ہو گئے ہم

یاد بس اتنا رہا ہے شہد جیسے چھن رہا ہو

ہونٹ جھلمل جگنوؤں سے گفتگو چمکار جیسی

کوئی خدمت میرے لائق، کیوں اتنے مغموم ہیں آپ

پھیکے پھیکے چاند سے پوچھا ایک نکلتے سورج نے

آتے جاتے ہر دم ٹوکا کرتے تھے کھڑکی دروازے

جھلا کر آزاد ہوا نے توڑ دیے کھڑکی دروازے

آنکھیں ہر ایک عضو بدن پر اگی رہیں

جب تک نہ یہ عنایت جلوہ تمام ہو

قصہ یہ ہے اک شیشہ تھا اک پتھر تھا پھر کیا تھا

اس نے مجھ کو، میں نے اس کو، چھو کر دیکھا پھر کیا تھا

ٹوٹی ہوئی چوڑی کی مزے دار کہانی

خوابیدہ گھڑی جاگ پڑی آنکھ مسل کر

مذکورہ بالا اشعار میں دل کو عجیب ساز قرار دینا، ہونٹ کو جھلمل جگنوؤں جیسا بتانا، اداس محبوب کو پھیکے پھیکے چاند کے استعارے میں محسوس کرانا، آزاد ہوا، استعاراتی انداز میں عاشق اور معشوق کا قصہ کہنا یعنی ایک شیشہ تھا ایک پتھر تھا اور پھر ٹوٹی ہوئی چوڑی کی مزیدار کہانی جیسے مصرعے کا تلازماتی اثر قاری پر مرتب ہونا نیز خوابیدہ گھڑی کا آنکھ مسل کر جاگ پڑنا وغیرہ ایسے بلیغ حسی، عقلی، نوری اور بصری پیکر ہیں جو شعروں میں معنی کے شرارے بھر دیتے ہیں۔ میں ان شعروں میں سے صرف ایک شعر پر آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہوں گا یعنی شعر نمبر دو کہ جس میں کہا گیا ہے ’کہ بس وہ ہے انجمن میں کوئی دوسرا نہیں ‘ اور دوسرے مصرعہ میں کہا گیا ہے کہ’سورج کی روشنی میں ستارے بھی ضم ہوئے‘ بظاہر شعر بڑا آسان معلوم ہوتا ہے یہ ’وہ ‘ کی ضمیر انتہائی معنی خیز ہے۔ فلسفے میں ’وہ‘ ایک پر اسرار شے یا انسان یا معروض کا نام ہے۔ واحد غائب ’وہ‘ یہاں محبوب مجازی بھی ہے اور حقیقی بھی۔ حقیقت و مجاز کی آنکھ مچولی شعر کے اندر معنی کی لہریں پیدا کرتا ہے۔ ’کوئی دوسرا نہیں ‘ ہمیں کلمہ کی یاد دلاتا ہے۔ بس وہی ہے اور کچھ نہیں ویدانت کی طرف بھی ذہن کو لے جاتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ دوسرے مصرعہ یعنی دلیل کے مصرعہ میں شاعر نے مروجہ فلسفے کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ہے۔ یہ جو دوسرا ہے وہ ویدانت میں کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہاں سورج کے سامنے وہ ستارہ ہے۔ کہنے کو سورج کے سامنے ستارے گم ہو جاتے ہیں لیکن حقیقتاً ایسا ہوتا نہیں، وہ موجود رہتے ہیں نظر نہیں آتے۔ لہٰذا شعر میں ایک قرینہ ان فلسفوں سے الگ شہود کا پیدا ہوتا ہے کہ معشوق سب کچھ نہیں، عاشق کی بھی اپنی ایک حیثیت ہے اور یہ بات ان کے عشقیہ مجاز کی شاعری میں مرکزی مضمون کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں اس نوع کے دیگر مذکورہ اشعار پر کچھ بھی کہنے کے حق میں نہیں ہوں اور آپ کے ذہن پر مزید بار ڈالنا نہیں چاہتا۔ یہ وہ اشعار ہیں جن کو پڑھ کر خموشی میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مظفر حنفی نے اپنی شاعری میں ہمارے زمانے کو یعنی اکیسویں صدی کو کچھ اس طرح سے پیش کیا ہے کہ ہم ان کی شاعری کو اپنے عہد کے زندہ سوالوں سے جوڑ کر زندگی کی راہوں میں پھیلے اندھیروں سے نباہ کرنے کا ہنر حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کی شاعری واقعتاً رواں صدی کا ایک ایسا دل فگار رزمیہ ہے جس سے آنے والے عہد میں بھی قارئین روشنی حاصل کر سکیں گے۔ مظفر حنفی ہمارے عہد کی شاعری میں ایک ایسا نام ہے جسے بھلانا ناممکن ہو گا۔ اخیر میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مظفر حنفی اردو کی غزلیہ روایت کی ایک اہم اور منفرد رنگ کی شاعری کا قابل قدر نشان بن چکے ہیں۔

مظفر سرنگوں ہیں آبشاروں کی طرح لیکن

بگولہ داستاں گو ہے ہماری سر بلندی کا

٭٭٭

حواشی

٭نوٹ:مضمون ہٰذا میں جتنے اشعار مختلف حوالوں کے لیے کوٹ کیے گئے ہیں ان میں سے بیشتر اشعار مظفر حنفی کی منتخب کلیات غزل ’’پرچم گردباد‘‘ (2002) مکتبہ جدید، دریا گنج، نئی دہلی، سے ماخوذ ہیں۔ اس کلیات میں ’’پانی کی زبان‘‘ (1973)، ’’تیکھی غزلیں ‘‘ (1968)، (، ’’صریر خامہ‘‘ (1969)’’دیپک راگ‘‘ (1974)، ’’طلسم حرف‘‘ ، ’’یم۔ بہ یم‘‘ (1979)، ’’کھل جا سم سم‘‘ (1981)اور ’’پردہ سخن کا‘‘ (1986)کی غزلیں شامل ہیں۔ تازہ ترین غزلوں کا مجموعہ ’’ہاتھ اوپر کیے‘‘ (2002)اس سلسلے میں ملاحظہ فرما یا جا سکتا ہے۔

(۱)    انتساب، مظفر حنفی شخصیت و فن، شمارہ نمبر، ۷۷، گفتگو، ڈاکٹر سیفی سِرونجی، محمد توفیق، انل اگروال، ص:51      (۲)     ایضاً، ص:57          (۳)   ایضاً، ص؛46

(۴)   ایضاً، ص:189، مضمون:سنگ زار غزل کا کوہ کن:مظفر حنفی، عشرت ظفر

(۵)   ایضاً، :مضمون:جدید غزل کا ایک اہم نام، ص:202

(۶)    ایضاً، :مضمون، مظفر حنفی:جدید غزل کا اہم نام، ص:202

(۷)   ایضاً، ص:مضمون:امام طنزیات:مظفر حنفی، ص:206

(۸)   ایضاً، تبصرہ:صریر خامہ تلاش و تجزیہ، محمود ہاشمی:ص:283

(۹)    ایضاً، مضمون:سمندر کو آداب کرتے رہو، پروفیسر آل احمد سرور، ص:104

(۱۰)   ایضاً، مضمون:بوند بھر اجالا ڈاکٹر وزیر آغا، ص:111

(۱۱)   ایضاً، مضمون:سنگ زار غزل کا کوہ کن، مظفر حنفی، عشرت ظفر، ص:187

٭٭٭

 

’’موجودہ دور کی سختیاں انسان سے بڑی قربانیاں مانگتی ہیں ایسے میں تعجب نہ ہونا چاہیے اگر مظفر حنفی صاحب کربلا اور شہادت کی تلمیحوں اور استعاروں میں قربانیوں کی حکایت اور زمانے کی شکایت بیان کریں۔ دشت، خار، سنان، نیزہ، لہو اور شہادت ہی نہیں کربلا، فرات، علی اصغر اور اسی طرح کے دوسرے اشارے بھی ان کے یہاں جا بجا ملتے ہیں، اسی کے ساتھ عہد حاضر سے تعلق رکھنے والی چھٹی حس، چوتھی سمت اور ساتواں در بھی ہے۔ کہیں مناظرِ قدرت سے چاند، تتلی، غنچہ، غبار، پھلواری، جگنو، برگد، پربت، چوٹی مستعار لے لیتے ہیں اور کہیں مشین، بس، ریل بھی اکا دکا نظر آ جاتی ہے۔ غرض، ان کے یہاں ایک شعوری تلاش، ایک شعری تجربہ، ایک پہلے سے طے کی ہوئی کوشش کے آثار صفحہ بہ صفحہ ملتے ہیں اور پھر ایک سنبھلا ہوا شعری ذوق اور معتبر اور رچا ہوا لہجہ ان تجربات کی سطح کے اوپر اوپر تیرتا رہتا ہے۔ ان معنوں میں ’’ یم بہ یم‘‘ ایک خوشگوار اضافہ ہے اور اس کا ادبی حلقوں میں گرم جوشی سے استقبال ہونا چاہیے۔ مظفر حنفی اب اردو کی محفل میں اپنے لیے مستقل جگہ بنا چکے ہیں اور سمت متعین کر چکے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ سمت درست ہے اور وہ اپنی منزل کی طرف ایک جادہ شناس کی طرح قدم بڑھا رہے ہیں۔ ہم ان کی ترقی کے ہر سنگ میل کا مشتاقانہ مشاہدہ کرتے رہیں گے۔ ‘‘

علی جواد زیدی

 

 

 

 

                سلیم شہزاد

 مالیگاؤں

 

 

شعری لہجے کی تفتیش

 

جدید غزل کی عام زبان میں انفرادی اظہار کے کچھ ایسے منطقے بھی نظر آتے ہیں جن پر الگ الگ بس ایک ہی شاعر کا تصرف ملتا ہے۔ حسرتؔ کی غزل، اقبالؔ کی غزل سے اور بانیؔ کی غزل، مظفر حنفی کی غزل سے لسانی اظہار میں قطعی مختلف دکھائی دیتی ہے۔ یہ شعری اظہار پر شاعر کی مہر کے مترادف ہے اور شاعر کی یہ مہر در اصل اس کے اسلوب کا استعارہ ہے۔ جدیدیت نے جہاں تشکیک آمیز وجودی فلسفے کو اردو شاعری میں بطور موضوع متعارف اور مستعمل کیا ہے، وہیں اس میں ہر بوجھل فکری جبر سے خود کو آزاد رکھنے والے چند ایسے شعرا بھی سامنے آئے جنھوں نے بے نیازی، کھلنڈرے پن اور صوفیانہ معصومیت کے اظہار سے شعری لسانی منطقے میں اظہار کے بالکل منفرد تجربات کیے۔ جدید غزل کا جغرافیائی خطہ چہار سمت میں پھیلا ہوا ہے۔ یہاں بے شمار آوازیں ہیں کہ مخصوص ذخیرۂ الفاظ کے الٹ پھیر سے اپنا اظہار کیے جا رہی ہیں لیکن جیساکہ کہا گیا، جدید غزل کے گنبدِ صحرائی میں بعض آوازیں اپنی الگ پہچان رکھنے والی بھی ہیں، مظفر حنفی کی آواز کو رس میں غزل گانے والی آوازوں میں شامل نہیں۔ مظفر اپنی شعری لفظیات کے علاوہ اپنے شعری برتاؤ، لہجے کی بے نیازی، ہلکے پھلکے طنز اور کبھی کبھی تلخ ہجویانہ تضحیک کے سبب کورس کے آہنگ سے اپنے آہنگ کو جدا کر لیتے ہیں۔ ان کی یہ انفرادیت اگرچہ انشاءؔ، نظیرؔ، غالبؔ، اکبرؔ، اقبالؔ، یگانہؔ اور شادؔ عارفی کے لہجوں کی روایتی تندی و تلخی سے اپنا رشتہ رکھتی ہے مگر جدید عہد کی جدید فکر نے انھیں اپنے لہجے میں ایک آہنی ٹھنڈک کی خاصیت بھی دی ہے جس کا اظہار ان کی غزلوں میں جا بجا نظر آتا ہے۔

مظفر حنفی نے غزلوں کے کئی مجموعے عصری اردو شاعری کے آفاق پر سجا دیے ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ پانی کی زبان‘‘ ۱۹۶۷ء میں جدیدیت کے زمانۂ آغاز میں شائع ہوا تھا جس کی زبان میں پانی کی روانی کے ساتھ ایسے رنگ برنگے پتھر بھی بہتے نظر آتے ہیں جنھیں جدیدیت کی شناخت قرار دیا گیا۔ اس کے بعد تیکھی غزلیں، صریر خامہ، دیپک راگ، یم بہ یم، طلسم حرف، کھل جا سم سم، پردہ سخن کا، یا اخی، پرچمِ گرد باد، ہات اوپر کیے، آگ مصروف ہے‘‘ وغیرہ غزلوں کے ایسے مجموعے یکے بعد دیگرے سامنے آئے جن کا اسلوبیاتی مطالعہ اردو معاصر شعری اظہار میں شعری لفظیات، شعری تراکیب، شعری پیکروں، استعاروں اور علامتوں وغیرہ کی رنگا رنگ فضائیں تشکیل دیتا ہے۔

۲۰۱۱ء میں مظفر حنفی کے موضوعاتی اشعار کا ایک خوبصورت انتخاب ’’ ہیرے ایک ڈال کے‘‘ شائع ہوا ہے جس کی فہرست میں شامل الف سے یا تک ان کی غزلوں کے موضوعات ظاہر کرتے ہیں کہ مظفر کی ۲۵۰۰ (دو ہزار پانچ سو) غزلوں کا ذخیرۂ الفاظ کتنا متنوع، گوناگوں اور شش جہات کو محیط کرنے والا ہو سکتا ہے۔ یہاں ان کے چند موضوعات سے منتخب شعری لفظیات پیش ہے:

جھرنا بنے ہوئے ہو/ لمحوں کے آبشار میں ایک بلبلہ/ زخموں کا مداوا/ روشنی کا آبشار/ٹوٹے ہوئے پتے شاخوں سے جڑ نہیں سکتے/ ہم جیسے پیلے پتے/ جھرنے، طوفان اور بگولے مل جل کر ماتم کرتے ہیں / تڑپتا ہوا جھرنا/ بگولہ داستاں گو

آبلوں سے چور آسماں / چھالوں کے پھول/گرد اڑانے کا مزہ/ وحشت میں طرح داری/ کاغذ پر شعروں کے پھول/ چھالوں کا غمخوار کانٹا

آسماں ورائے آسماں /آسماں آ پڑے زمینوں پر/ کانچ کے آسمان/ آسماں ٹوٹ گیا/ آسماں بھی چھین لیتے/ بادبانِ آسماں

آسیبوں کا ڈیرا/ فنا کی چار دیواری/ چراغ کا جِن/ آسیبِ عقل/ قِصّہ ہے آسیب گزیدہ

چٹکے ہوئے ماہتاب/ گستاخ پرندے/ آشیاں بھر لیے برق و رعد سے/ زیر دیوارِ شب/ کرن مرے حصے کی/ صابن کے غبارے/ پنکھا جھلتی پروا/ مٹھی میں آفتاب/ زنجیر ہلاتی ہے ہوا/ آگ کا موسم/ بھیڑ چراغوں کی/ دھوپ نے کھیت کیا/ آگ کا حصار/ آگ چرانے کے لیے آئے تھے

تمنا پا بجولاں / آندھی جسم کے اندر/ آندھی کا محکوم/ اندر کی آندھی/ آندھیوں نے پر کتر ڈالے/ پاگل آندھی/ موتی جیسا تہہ میں آنسو/ آنکھوں میں تارے/ آنسوؤں کے بغیر/ قیمتی آنسو/ آنسو شعر بنتا ہے۔

سرشت میں آوارگی / آوارگی پہ فخر / آئینوں کی قاتل/ خمارِ آئینہ/ عکس کو ترستی نگاہ/ آئینہ بندی کا نقش

آبشار، آبلے، آسمان، آسیب، آشیاں، آفتاب، آگ، آندھی، آنسو، آوارگی اور آئینہ جیسے مجرد الفاظ بالذات شعریت سے عاری ہوتے ہیں لیکن شعری نحو اور تراکیب میں شامل ہو کر یعنی اپنے سے ما قبل و ما بعد کچھ اور معنوی ساختیوں سے انسلاک کے بعد ان سے بننے والے لسانی تعملات میں شعریت و معنویت اور ابہام و ایجاز جیسے فنی مظاہر شامل ہو جاتے اور پورے شعر کی ساخت میں جہان معنی کی متعدد طرفوں کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ پہلی مثال ’’ آبشار‘‘ کی دیکھیے جس سے پہلے ’’ لمحوں کے ‘‘ اضافتی مظاہر اور جس کے بعد ’’میں ایک بلبلہ‘‘ کا فقرہ آ کر ’’ لمحوں کے آبشار میں ایک بلبلہ‘‘ کا جو شعری پیکر اور شعری لفظیات کی اکائی تشکیل دیتے ہیں، انکی معنویت محض ایک لفظ ’’ آبشار‘‘ کی مجرد معنویت میں کئی سطحوں کا اضافہ کر دیتی ہے۔ بعد میں آنے والی ترکیب ’’ روشنی کا آبشار‘‘ پہلی ترکیب کے آبشار سے جو معنوی دوری رکھتی ہے، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

مظفر حنفی کی غزلوں کا یہ لفظیاتی مطالعہ محض الفاظ و معانی کا مطالعہ نہیں بلکہ شعر میں مستعمل الفاظ، ان کا نحوی انسلاک، اور ایک لفظ سے دوسرے لفظ میں معنوی سرایت، ترسیل و تفہیم کے بہت سے پردوں کو چاک کر کے قاری کو ایک ایسے جہان معنی کی سیر کراتی ہے جو دوسرے شعر کے جہان معنی سے رنگوں، آوازوں اور خوشبوؤں میں قطعی مختلف ہوتا ہے۔

مندرجہ شعری لفظیات کے مطالعے سے ایک حیران کن صورت یہ بھی سامنے آتی ہے کہ مظفر نے اپنے شعروں میں فارسی نحوی ساختیوں کا استعمال بہت کم کیا ہے۔ ان کی شاعری کے تجزیاتی مطالعے کی یہ ایک با معنی جہت ہو سکتی ہے کہ ان کے شعروں اور شعری لفظیات میں فارسی تراکیب کی تحقیق و تفتیش کی جائے۔

’’ ہیرے ایک ڈال کے‘‘ کے پیش لفظ میں شاعر نے اپنی شاعری کو ’’ لہجے کی شاعری‘‘ کہا ہے۔ لہجہ بنتا کیسے ہے؟ لفظوں کی آوازوں اور ان کے اتار چڑھاؤ سے۔ کیا شاعر کے دعوے کو بغیر دلیل کے قبول کیا جا سکتا ہے۔ شاعر نے تو اپنی لہجے کی شاعری کا پتا دیتے  ہوئے کسی قوال کو اپنے دعوے کا ثبوت نہیں دیا تھا لیکن آپ اگر بے شمار آوازوں میں واقعی لہجے کو پہچاننے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں تو مظفر کا کوئی بھی شعر پڑھیے۔ صرف پڑھیے نہیں کیونکہ لہجے کے شعر کی سپاٹ قرأت اس کے حسن کو زائل کر دیتی ہے اس لیے اسے ٹھہر ٹھہر کر، اس کے لفظوں اور معنوں کا خیال رکھ کر، آوازوں کے زیر و بم سے شعر پڑھا جائے تو ’ لہجے‘ کی چمک صاف نظر آ جاتی ہے۔ مظفر کا ایک شعر ہے :

پھر رات کے جنگل میں لگی آگ، مرے بھائی

زنجیر ہلاتی ہے ہوا، جاگ، مرے بھائی

رات کے جنگل میں لگی ہوئی آگ سے جو شور و شغب، گرمی لپٹ اور خوف و خطر کا ماحول بنتا ہے، شعر کے لہجے میں صوتی بلندی کا احساس جگاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ’’ زنجیر ہلاتی ہوئی ہوا‘‘ سے زنجیر کی کھنک اور ہوا کی سائیں سائیں کا شعری صوتی پیکر پہلے مصرعے کے شور و شغب میں نئی آوازوں کا  اضافہ کر دیتا ہے۔ سونے والوں کو آگ کے خطرے سے آگاہ کرانے اور انھیں جگانے کا ڈرامائی تحرک اس شعر کے لہجے کا ایک اور وصف ہے۔ پھر ردیف ’’ مرے بھائی‘‘ سے جس انسانی رشتے اور ہمدردی کا اظہار ہو رہا ہے، اس کی اخلاقی بلندی لہجے کو شاعرانہ رفعت سے ہمکنار کرنے والی ہے۔ مظفر کی غزلوں کا مطالعہ ایسے ہی لفظ بہ لفظ اور ترکیب در ترکیب طرز پر کیا جائے تو ان کی غزل اور ان کے شاعرانہ لہجے سے خاصا لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

                ڈاکٹر راہی فدائی

      بنگلور

 

پروفیسر مظفر حنفی :قائدِ جدّت طرازاں

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ علم الانسان ما لم یعلم‘‘ یعنی اس نے انسان کو ان تمام علوم و فنون کی تعلیم (بالواسطہ یابلاواسطہ) دی، جن سے وہ آگاہ نہیں تھا۔ من جملہ علوم کے شعر و سخن کا علم بھی جس کی توصیف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’ان من الشعر لحکمۃ ‘‘ یعنی بے شک بعض اشعار سراپا حکمت ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ بعض شعر، حکمت و دانائی کے بر خلاف بھی ہوتے ہیں جو مستحسن نہیں ہیں۔ یہاں اس سوال کا اٹھنا لازمی ہے کہ شعر، پیکرِ حکمت کب بنتا ہے؟ اور اس کے اسباب کیا ہیں ؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جب فنی تقاضوں کے ساتھ شعر میں تازہ و شائستہ مضامین کا وردمسعود ہو تو وہ شعر بلا شبہ سراپا حکمت بن جاتا ہے اور نو بہ نو موضوعات کی کثرت کسی بھی ادب پارے کو عظمت سے ہمکنار کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے اکثر نامور شعرا کی فکر رسا عظمت کی دہلیز پر ہی دم توڑ دیتی ہے، انھیں اس محل سرا میں داخل ہونے کی توفیق ہی نہیں ہو پاتی۔ یہ اس لِیے کہ ان کے پاس  فن کی رنگینیاں اور فکر کی جولانیاں تو موجود ہوتی ہیں مگر ان کے اشعار کے ساغر و مینا، جدت و ندرت کی مئے لالہ گوں سے خالی ہوتے ہیں، حالانکہ بقول ولیؔ دکنی : ’’راہ مضمون تازہ بند نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تا قیامت کھلا ہے باب سخن‘‘ شاعری میں نئے مضامین کی آمد قیامت تک جاری رہے گی مگر شرط یہ ہے کہ شاعر اس کے لیے مجاہدہ کرے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خالقِ کائنات نے انسانی دماغ کو ایک عجیب  و غریب کرشماتی معلومات کا معدن و مخزن بنایا ہے، اس خزانہ عامرہ میں سے جس قدر بھی چاہیں نکالیں وہ کبھی خالی نہیں ہو گا بلکہ جوں کاتوں باقی رہے گا۔ انسانی دماغ میں گویا ہزاروں کھڑکیاں ہیں جو ہنوز بند پڑی ہیں، ابن آدم نے صرف چند ہی دریچوں کو کھلا رکھا ہے جِن سے یہ سائنسی کرامات وجود پذیر ہو رہی ہیں، ما بقیہ دریچے کب کھلیں گے، خدا ہی جانے۔ ایک بیان کی روشنی میں ہم شاعری کے جدید لب و لہجہ کی بات کرتے ہیں تو ہمیں قطعاً  نا امید ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اس سے یہ حوصلہ ملتا ہے کہ شاعر اگر مخلصانہ جد وجہدسے کام لے تو نِت نئے مضامین کی آمد ممکن ہے۔ جس سے شاعری میں عظمت کی راہ کھل سکتی ہے اور پھر وہ کبھی کھوٹی نہیں ہو گی۔

۱۹۶۰ء کے بعد جب اہلِ ذوق حضرات روایتی شاعری اور ترقی پسند سخنوری سے اوب گئے تھے تو اس دور کے قلمکاروں نے یہ شعوری کوشش کی کہ ادب میں، بالخصوص شاعری میں نئے موضوعات کو بروئے کار لایا جائے۔ اس ضمن میں بہت سارا مواد رطب و یابس سے بھرا ہوا ادب کے نام پر جمع ہو گیا، ان حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے نقادوں کی ایک جمعیت نے اس ڈھیر میں سے اپنی اپنی صلاحیت اور کاوش و کوشش کے مطابق چند ادبا و شعرا کا نہ صرف انتخاب کیا بلکہ انھیں خوب اچھال کر شہرت کے آسمان پر ماہ و انجم کی طرح سجایا اور ان کے سروں پر عظمت کا تاج رکھ دیا۔ نتیجتاً ان پر انعامات و اعزازات کی بارش ہونے لگی اور انہیں رشک میرؔ و غالبؔ اور فخر انشاءؔ و اقبالؔ قرار دیا گیا۔ اس بندر بانٹ کے موقع پر حقیقتاً جو شعراء لائق و فائق تھے اور جنھوں نے مذکورہ ناقدین سے دوری و بے نیازی اختیار کر رکھی تھی ان پر نقادوں کی نگاہ شفقت و نظر عنایت نہیں پڑی اور وہ مقبولیت عام اور التفات عوام سے محروم رہ گئے۔ مگر ایسے پیچیدہ و غیر سنجیدہ ماحول میں ایک بلند حوصلہ قلمکار و با کمال شاعر نے خود کو منوانے کا بیڑا اٹھایا اور بیٹ جنریشن (Beat Generation) کی تھیوری پر عمل پیرا ہو کر اپنے جدید اسلوب، متنوع مضامین اور اعلیٰ فکری و تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعہ نقادوں کے آگے یہ چیلنج رکھا کہ

عظمت سے ہٹ کے جدت و ندرت کو دیکھیے

ہم اور چیز، غالبؔ و میرؔ و فراقؔ اور

پھر کیا تھا، ایوانِ تنقید میں تہلکہ مچ گیا اور نقادوں کے خود ساختہ معیار خانوں میں زلزلہ سا آ گیا، اب انھیں لا محالہ اس جیالے شاعر کی طرف متوجہ ہونا پڑاجس کی وجہ سے اس کی تخلیقات پر بحث و تمحیص کا دروازہ کھل گیا۔ پھر اس کی جدتِ فکر اور ندرت خیال سے اہل ذوق قاری متاثر ہونے لگے۔ اس صورت حال سے قائدہ اٹھاتے ہوئے بر صغیر ہند و پاک کے ہر مدیر نے اس کی تخلیقات سے اپنے رسالے کی توقیر بڑھانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی، بعد ازاں اس کا نام ہر ادبی محفل میں بصد اکرام و اہتمام لیا جانے لگا۔ اس طرح شعر و سخن کی دُنیا میں پروفیسر مظفر حنفی کا نام نامی اسم گرامی ہر طرف منور اور بہ ہر جہت معطر ہو اُٹھا۔

ڈاکٹر مظفر حنفی نے قدیم فنّی روایات کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے نوع بہ نوع اور جدید موضوعات کو اپنی خلاقیت کا حصہ بنایا جس کی وجہ سے آپ کے اشعار ذہن و دل پر یکساں اثر انداز ہوتے رہے اور قاری کو ان سے حظ وافر نصیب ہوتا رہا، چنانچہ مندرجہ ذیل اشعار کی قرأت سے اس کا ثبوت فراہم ہو جائے گا:

نہ جانے کب سے زمیں گھومتی ہے محور پر

مجھے سنبھال کے اس چاک سے اتارا جائے

میں اپنا شعر کیسے نذر کر دوں اہلِ دولت کو

اجالے میں تو یہ روشن ستارا ڈوب جاتا ہے

ہماری زندگی بھر پاؤں چادر سے رہے باہر

تعجب ہے سکندر کے کفن سے ہاتھ باہر تھے

کہیں مقبولیت کا زنگ آ جائے نہ لہجے پر

اسے شاعر ہی رہنے دو، اسے مشہور مت کرنا

قطرہ ہوں تو شبنم جیسے جی لوں گا

لوگو مجھ کو دریا میں ضم نئیں ہونا

تھے ہر صدف میں اشکِ ندامت بھرے ہوئے

کاٹے گئے ہیں دستِ تمنا کہاں کہاں

اوس پڑتی ہے مرادوں کی سنہری فصل پر

درد کا لشکر قریب شہر جاں اترا ہوا

ڈاکٹر مظفر حنفی کی انفرادیت کا یہ بھی ایک کمال ہے کہ آپ نے جدید رجحانات کے ساتھ ایسا طنزیہ اسلوب اختیار کیا جس کا ہلکا ساعکس محترم شادؔ عارفی کے کلام میں نظر آتا ہے مگر ڈاکٹر موصوف کے طنز کی کاٹ ’’ لیزر آپریشن (Laser Operation) کی طرح اپنے مقصد میں بے حد کامیاب اور اس کا فنکارانہ استعمال مریض کو جلد شفا یاب کرنے میں مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں چند شعر پیش ہیں، ملاحظہ ہوں :

دیکھو مٹی کو لہو سے نہ کرو آلودہ

ورنہ اس سال بھی برسات نہیں ہونے کی

یہ کام اہلِ سیاست نے لاجواب کیا

خفا کسی سے ہیں، جینا مرا عذاب کیا

زمانہ مجھ سے برہم ہے، مرا سر اس لیے خم ہے

کہ مندر کے کلس، مسجد کے مینارے بناتا ہوں

اور پھر اک روز اس نے بھی کنارا کر لیا

میری ہر تنہائی میں موجود ہونے کے لیے

سیلابوں کو شہہ دینے میں، طوفاں کواکسانے میں

کتنے ہاتھوں کی سازش ہے اِک دیوار گرانے میں

خود کو ہر سمت سے محفوظ سمجھتے تھے بہت

مار ڈالا ہمیں آئینہ دکھا کر تم نے

وہ ہٹتے تھے کنارے سے نہ دریا پار کرتے تھے

مگر ہر بلبلے، ہر موج سے تکرار کرتے تھے

ڈاکٹر مظفر حنفی نے اپنے بظاہر غیر معروف ثقہ لب و لہجے کے ذریعہ ان نوجوان شعراء کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، جن کے ذہنوں میں ادب کے جدید رجحانات کی تخم کاری کی گئی تھی۔ اس موقع پر ایک واقعہ راقم الحروف کو یاد آ رہا ہے جس کا بیان لطف سے خالی نہ ہو گا۔ یہ ۱۹۷۰ء کے آس پاس کی بات ہے جب راقم ہندوستان کی اولین دینی درسگاہ ام المدارس مدرسۂ باقیات صالحات ( قائم شدہ ۱۲۷۹ھ مطابق ۱۸۶۲ء) ویلور، تمل ناڈو میں منتہی درجات کا طالب علم تھا اور اپنے وطن مالوف شہر کڈپہ ( آندھرا پردیش) سے رات کی بس کے ذریعہ ویلور جا رہا تھا، اس وقت راقم کو بس میں سوار کرانے کے لیے ساغر جیدی، یوسف صفی اور عقیل جامد صاحبان آئے ہوئے تھے۔ بس حیدر آباد سے آنے والی تھی، ہم اس کے انتظار میں چائے نوشی میں مصروف تھے، راقم کو اچانک خیال آیا کہ وہ غزل جو اس نے ویلور سے کڈپہ آتے ہوئے سفر کے دوران کہی تھی اور ابھی اپنے استاذ محترم علامہ فدوی باقوی ( متوفی ۱۹۹۳ء) کی نظر سے نہیں گزاری تھی، دوستوں کی اس محفل میں سنا دینا چاہیے، چوں کہ اس زمانے میں مذکورہ سبھی احباب جدید شاعری کے شیدا اور رسیا بن گئے تھے اور ہماری شعوری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی نہ کسی طرح بھیڑ سے ہٹ کر چلیں اور اس خواہش کی بنا پر ابتدا ہی سے نیا پن ہماری غزلوں میں در آ چکا تھا تاہم ابھی پوری طرح خود اعتمادی پیدا نہیں ہوئی تھی اس لیے راقم نے اپنی تازہ غزل دوستوں کے سامنے یہ کہہ کر سنائی کہ یہ غزل محترم ڈاکٹر مظفر حنفی کی ہے، سماعت فرمائیں۔ دوستوں نے چند شعر سننے کے بعد کہا کہ بڑی اچھی غزل ہے، اس پر راقم نے اپنا مقطع  سنایا تو خوب دادو تحسین حاصل ہوئی۔ اس غزل کے دو چار شعر ملاحظہ ہوں

وضع داری کا پاس بہتر ہے

جیب خالی لباس بہتر ہے

خاکساری سے بات بنتی ہے

حکم سے التماس بہتر ہے

اِک نجومی کی لاکھ باتوں سے

منطقی کا قیاس بہتر ہے

جنگ کے وقت دوستوں سے بھی

احتیاطاً ہراس بہتر ہے

اس واقعہ سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ اس دور میں ڈاکٹر مظفر حنفی کی شاعری کا جادو نوجوانوں کے سر چڑھ کر بول رہا تھا اور ڈاکٹر موصوف کی شاعری کا سکہ ہندوستان بھر میں چل رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک اور امتیازی وصف یہ ہے کہ آپ کے یہاں حسنِ ادا کی جلوہ گری ہر جا نظر آتی ہے جس کے بغیر جدید ترین خیالات کی روشنی بھی مدھم پڑ جاتی ہے۔

قارئین کو مذکورہ خوبی ٔ اظہار اور حسنِ ادا کی کرشمہ سازی کا اندازہ درج ذیل اشعار سے بآسانی ہو جائے گا:

میرے مذہب نے سکھایا ہے مظفرؔ مجھ کو

جنگ کی مجھ سے شروعات نہیں ہونے کی

ایک میرا دوست جس کا آخری دم تھا۔ لہو

اور میں مجبور، میرے پاس بھی کم تھا لہو

کسی کو حشر تک رہنا نہیں ہے

زیادہ کچھ ہمیں کہنا نہیں ہے

اب کہہ دیا تو بات نبھائیں گے عمر بھر

حالانکہ دوستی کا زمانہ تو ہے نہیں

آ گیا میں کسی جگنو کی نظر میں کیسے

بوند بھر نرم اجالا مرے گھر میں کیسے

بجھتے بجھتے بھی ظالم نے اپنا سر جھکنے نہ دیا

پھول گئی ہے سانس ہوا کی ایک چراغ بجھانے میں

ناخن سے گوشت، گوشت بدن سے الگ نہیں

ہم منفرد ہیں اور وطن سے الگ نہیں

حاصل کلام یہ کہ محترم ڈاکٹر مظفر حنفی ایک عہد ساز و جدید فکر و نظر کے شاعر و سخنور ہی نہیں بلکہ ایک مایہ ناز نقاد و ادیب اور نامور محقق بھی ہیں مگر چونکہ راقم کا موضوع آپ کی شاعری کی خصوصیات کا بیان ہے اس لیے دیگر جہاتِ ادب سے صرف نظر کیا جا رہا ہے اور یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ آپ کے بلند مقام و مرتبہ کا تعین کسی ناقد کی رائے کا مرہونِ منت نہیں، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاید آپ نے یہ شعر کہے ہیں :

پل بھر میں ناقدین نے تجزیّہ کر لیا

ہم نے پچاس سال کھپائے تھے شعر میں

کل تک ان کی تکراروں سے تیری غزلیں زخمی تھیں

آج مظفرؔ نقادوں کے جھگڑے میں دیوان گیا

بہر حال آپ نے تقریباً چھ دہائیوں پر محیط اپنے شعری سفر میں کئی راہرووں کی رہبری فرمائی ہے۔ آپ کا یہ کارنامہ ادبی تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہے جس کا انکار ممکن نہیں، خدا کرے کہ یہ قائدانہ مقام تا دیر قائم رہے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

                رئیس الدین رئیس

علی گڑھ

 

 

صاحبِ اسلوب اور منفرد شاعر: مظفر حنفی

 

مظفر حنفی محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ انکا نام آفاق ادب میں آفتاب ِ عالم تاب کی طرح تاباں و درخشاں نظر آتا ہے اور پوری اُردو دُنیا میں ان کی شناخت مستحکم ہو چکی ہے۔ نظم و نثر میں وہ ایک کثیر الجہات، کثیر الموضوعات اور کثیر الاصناف قلمکار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اُن کے افسانوں، تحقیقی و تنقیدی مقالوں، ترجموں اور شاعری کو بنظرِ استحسان دیکھا گیا ہے۔ آمدم بر سر مطلب یہ کہ وہ بیک وقت افسانہ نگار، محقق، نقاد، صحافی، ترجمہ نگار اور شاعر سبھی کچھ ہیں۔ ادب کے میدان میں چھے دہوں سے ان کے مسلسل سرگرم عمل اور فعال رہنے کے نتیجے میں اب تک اُن کے تیرہ شعری، بارہ تنقیدی، تین افسانوی، سات تحقیقی اور گیارہ دیگر زبانوں کے ترجموں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اور بقول ان کے:

’’تقریباً پندرہ سو غزلیں، سو سے زائد افسانے، ڈیڑھ سوکے قریب نظمیں و ستر رباعیات، پوری کتاب پر مشتمل نظم’’عکس ریز‘‘ ، تقریباً سو مضامین، دس مستقل تنقیدی کتابیں، ایک سفر نامہ اور وضاحتی کتابیات کی بائیس جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ بچّوں کی کتابیں ہیں، سو ڈیڑھ سوتبصرے ہیں، چودہ پندرہ ضخیم کتابیں مرتب کی ہیں،  دس بارہ کتب ترجمہ کی ہیں۔ آخر الذکر کو ملا کر مطبوعات کی تعدادسات درجن سے تجاوز کر چکی ہیں۔ ‘‘

ان کے متذکرہ بالا عظیم سرمایۂ ادب کے تناظر میں یہ بات بذاتِ خود پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ موصوف نے ذرا بھی وقت ضائع نہیں کیا اور تخلیقی سطح پر ان کا رہوارِ قلم میدان ادب میں مسلسل و مستقل رواں دواں رہا ہے جسے ان کی بسیار گوئی سے بھی تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔

اگرچہ انھوں نے خود کو ہر میدان میں منوایا ہے پھر بھی یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انکا سب سے مضبوط حوالہ شاعری اور اوَلیں ترجیح غزل ہے۔ انھوں نے ترقی پسندی، جدید اور مابعد جدید دور دیکھے ہیں مگر کبھی بھی خود کو کسی ادبی تحریک سے وابستہ نہیں کیا اور نہ کبھی یہ کہا کہ وہ فلاں تحریک کے پروردہ شاعر ہیں۔ کوئی انھیں کسی بھی تحریک کا شاعر قرار دے وہ اس سے تعرض ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ انھوں نے جہاں روایت کی تمام تر صالح اور صحتمند قدروں کو اپنی شاعری میں برقرار رکھا ہے وہیں انھوں نے جدت کے لب و لہجے، استعاراتی اظہار و ابلاغ اور تہہ دار اسلوب کا بھی خندہ پیشانی سے خیر مقدم کیا ہے۔ ان کی شاعری روایت و جدت کاحسین امتزاج ہے جو روایت کے جھوٹے موضوعات، گل و بلبل کی حکایات اور فارسی کی ادق تراکیب سے اگر پاک و صاف ہے تودوسری طرف جدت کی انتہا کو پہنچی ہوئی مہملیت، لایعنیت، یاسیت، فراریت اور قنوطیت سے بھی معریٰ و مبرّا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں روز مرہ استعمال میں آنے والے سادہ و سلیس الفاظ بروئے کار لاتے ہیں۔ ان کی غزلیں زبان کی آرائش و آراستگی اور سبک و شیریں لب و لہجے سے عاری ہیں۔ ان کی زبان نہ تو مصنوعی ہے اور نہ پُر تکلف۔ وہ اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کھردری اور کھری زبان میں کرنا پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح فرضی اور خیالی باتوں کے بجائے وہ اپنے عہد کی تاریخ، معاشرتی رجحانات، ارضی حقائق، سماجی مسائل اور عصری زندگی کو در پیش آلام و مصائب نیز ہر شعبۂ حیات میں در آئی بدعنوانیوں نیز وحشت و بربریت کے واقعات کی عکاسی و ترجمانی کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ وہ اپنی بالغ النظری، گہرے سماجی شعور، بصارت و بصیرت، خلاقانہ ذہن اور وجدانی تحرک کی مدد سے عام سے لفظوں کو استعارہ بنا کر ان کی تہہ بہ تہہ پرتوں میں معانی کی وسیع و بسیط دنیائیں آباد کر دیتے ہیں۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ عرصے سے شاعری کرنے کے باوجود نہ تو انھوں نے خود کو دہرایا ہے اور نہ ہی دوسروں کے خیالات کا اعادہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئے نئے مضامین جس کثرت سے ان کی شاعری میں ملتے ہیں کہیں اور دیکھنے میں نہیں آتے ہیں۔ وہ پرانے موضوعات کو بھی اپنی خلاقانہ مہارت اور اسلوب کی نادر ہ کارانہ جدت سے نیا بنا دیتے ہیں۔ ورنہ تو اتنی مدّت تک نئی زمین اور ایک دم نیا موضوع بہم پہنچانا ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کے لیے بلا مبالغہ یہ فخر و مباہات ہی کی بات ہے کہ شاعری میں ان کا اسلوب سب سے الگ اور بالکل منفرد ہے۔ اُن کی شاعری کے بارے میں بجائے اس کے کہ ہم اپنا موقف بیان کریں، ان کا نقطہ نظر دیکھیں کہ اپنی شاعری کے بارے میں ان کا اپنا خیال کیا ہے جوان کے درج ذیل اشعار سے بھی مظہر ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

ہے شادؔ عارفی سے مظفر کا سلسلہ

اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہو گئے

اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ

کس حال میں لکھی ہے مرے پاس آ کے دیکھ

ٹھپہ لگا ہوا ہے مظفر کے نام کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اُٹھا کے دیکھ

سوچ نئی ہے لہجہ تیکھا، لفظ کھرے آواز جدا

دانستہ رکھا ہے اپنے شعروں کا انداز جدا

میں نے اپنا فن ٹھہرایا ترچھی راہوں پر چلنا

جب سے سیدھی سچی راہیں یاروں نے اپنا لی ہیں

اے مظفرؔ صاف اور تہہ دار ہے میری غزل

آپ بیتی ہے حدیث دیگراں ہوتے ہوئے

راہِ عام سے بچ کر شعر کہنے والوں میں

آپ کے مظفرؔ کا نام بھی ضروری ہے

مظفر حنفی ایک ہمہ جہت و ہمہ گیر اور کثیر الجہات موضوعات کے حقیقت پسند شاعر ہیں۔ وہ اپنے درک و آگہی کو بروئے کار لا کر اپنے مشاہدات و اکتسابات اور احساس و تجربات کی روشنی میں اپنی ذات سے حیات اور کائنات کی معرفت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ان کے عہد کی تاریخ اور تہذیبی، سیاسی اور معاشرتی زندگی مع سماجی گوناگوں مسائل و وسائل اور جملہ بد عنوانیوں کے ساتھ انگڑائیاں لیتی صاف نظر آتی ہے۔

ہمسائے کا تیزاب چھڑکنا مِرے اُوپر

حاکم کو میری چیخ سُنائی نہیں دینا

ہمسائے کے اچھے نہیں آثار خبردار

دیوار سے کہنے لگی دیوار خبردار

جتنی شاخیں تھیں مہندی کے اُس پیڑ پر

اب کے سب ہولیوں میں جلادی گئیں

نوجوانوں کے سر در پہ کاٹے گئے

لڑکیاں کھولیوں میں جلادی گئیں

غضب ہے خون کا بستی میں اس طرح بہنا

کسی کے دیدۂ تر میں رہے تو اچھا ہے

گولی برسی خوب مظفرؔ دہشت گردوں پر کل رات

مرنے والوں میں شامل ہے تین برس کا بچّہ بھی

چہروں پہ جمی ہوئی ہے بارود

اور امن کی بات ہو رہی ہے

شادؔ عارفی کی شاعری میں طنزیہ عنصر کو غالب جہت کا درجہ حاصل ہے اور چونکہ مظفر حنفی انھیں کے چہیتے شاگرد رشید ہیں اس لیے عقیدتمندانہ طور پر کاٹ دار لہجہ خود کار طور پر ان کی شاعری میں بھی در آیا ہے اور قطع نظر اس کے کہ شمس الرحمن فاروقی شاعری میں طنزیہ اسلوب پر موضوعات کی تنگ دامنی کا الزام عائد کرتے ہیں، وہ فخریہ اپنے اشعار کو  طنز کی سان پر رکھ کر انھیں دھار دار اور کاٹ دار بنانا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں اور یہ بات ان کے درج ذیل شعر سے بھی خود بخود واضح ہو جاتی ہے:

کل اے مظفرؔ حزیں طنز ہی رنگ لائے گا

میری غزل غزل نہیں لے دے کے طنز ہی سہی

ان کی شاعری میں طنز کی چمک دمک کو پروفیسر آل احمد سُرور نے بھی محسوس کیا ہے فرماتے ہیں :

’’مظفرؔ حنفی کے شعر پڑھیے تو شادؔ عارفی کا خیال ضرور آتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ شادؔ کے یہاں طنز کی کاٹ زیادہ ہے پھر بھی شادؔ کا لہجہ مظفر کے یہاں جھلک جاتا ہے۔ ‘‘

مظفرؔ  کے یہاں نہ تو الفاظ کی کمی ہے اور نہ موضوعات کی اس لیے سماج کو جھنجھوڑنے اور اس کی اصلاح کے لیے وہ طنزیہ اسلوب کو ہی تیر بہدف سمجھتے ہیں :

یہ طنزیہ زبان مظفر انھیں کی ہے

مطعون رامپور جو ہیں شادؔ عارفی

احتجاجاً سر اُٹھایا جب کسی لاچار نے

غور فرمانے کا وعدہ کر لیا سرکار نے

آپ میں رہبری کے سبھی وصف ہیں

حوصلہ پست ہے پاؤں میں لنگ ہے

آپ آئے ہیں گواہی کے لیے

آستیں تک آپ کی رنگین ہے

قوم سے چندے وصولے ہیں بہت

اب ذرا خیرات بھی جاری کریں

اصلاً تو شاعری حکایات با یار گفتن اور حدیث دل بہ دلبراں ہی ہے۔ لہٰذا روایت کی اس اعلیٰ و صالح قدر کا احترام کرتے ہوئے موصوف نے بھی عشق و عاشقی اور حسن و جمال کے جمالیاتی اور جذباتی موضوعات کو شعری اظہار کا خلعت فاخرہ عطا کیا ہے۔ عام طور پر ہجر و وصال اور قلبی واردات کی اس متغزلانہ و موسیقیانہ شاعری میں فارسی کی تراکیب کے علاوہ شکست خوردگی، خود سپردگی اور خود ترحمی کے جذبات واحساسات کا بے دریغ ذکر کیا جاتا ہے مگر مظفر کے اس رنگ کے اشعار میں ہمیں Passimismکے بجائےOptimistic Attitude  کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ عشق کے ازلی، ابدی، فطری اور سدا بہار جذبے کے بیان میں انھوں نے کھردرے پن کو بالائے طاق رکھ کر نہایت سبک و شیریں لب و لہجے میں جو جمالیاتی کیف و سرور سے معطّر اشعار موزوں فرمائے ہیں وہ اپنی رعنائی و زیبائی اور سحر آفرینی سے والہانہ دلوں کو مسخر کر لیتے ہیں۔ اس قبیل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

اُس جفا پیشہ کی یاد آئی نہ زخم دل ہنسے

خود بخود سیلاب ساکیوں چشم تر میں آ گیا

شریعت نہ فرما تصوف نہ کر

محبت میں گردن کٹا اُف نہ کر

اُس کی زُلفوں میں بس رہی ہے گھٹا

میرے دل پر برس رہی ہے گھٹا

آئِنہ بن کے نہ بستی میں نکلیے صاحب

ورنہ ہر شخص تماشائی نظر آئے گا

ویرانیوں سے اُس نے مِرا حال سُن لیا

تنہائیوں سے اُس کا پتہ مل گیا مجھے

تِری محفل سے اچھا ہے مرا وحشت کدہ جس میں

جدھر آواز دیتا ہوں اُدھر سے تُو نکلتا ہے

تہذیب و تمدن اور حق گوئی کی طرح عزت نفس بھی ایک ’’ مقدس و مسعود قدر (Value) ہے جس کا تحفظ ہر با ضمیر انسان اپنا فرض سمجھتا ہے۔ انا کی اہمیت یہ ہے کہ یہ انسان کو ذلت  و خواری سے محفوظ رکھتی ہے۔ انا کا پاس و احترام ہمیں اُن کے اشعار میں بھی نظر آ جاتا ہے:

انا تھی مظفرؔ کی خنجر بکف

وہاں اور کوئی نہ تھا یا اخی

مری خود آگہی اس طرح آئینہ دکھاتی ہے

انا کا جذبہ خودسر مجھے پاگل نہیں کرتا

سسکتے رہو تلملاتے رہو

مظفر سنان سے انا تیز تھی

یہ جانتے ہوئے کہ فرشتہ نہیں کوئی

ہم نے کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا

درد و کرب، غم اور رنج و الم سے محظوظ ہونے کے لیے اُنکا ظرف کشادہ ہے:

دولتِ درد عطا کی ہے کرو سجدۂ شکر

کہ فرشتے بھی ترستے ہیں میاں اس کے لیے

مظفرؔ کو محض دوسروں پر ہی طنز کرنا نہیں آتا انھیں اپنا محاسبہ کرنا بھی آتا ہے:

ہر ایک شہر میں معصوم لوگ رہتے ہیں

خود اپنی ذات پہ ہیں سنگباریاں میری

آگے مفصل لکھوں گا فی الحال اتنے پر ہی مکتفی ہو تا ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

                ندیم صدیقی

   ممبئی

 

 

 مظفر حنفی کے شعری امتیاز

 

دورِ جدید میں غزل گو شعرا کا ایک اجتہاد نہ جانے کیوں اب تک ہمارے سنجیدہ اہل ادب کی توجہ سے محروم ہے وہ یہ کہ شعرائے متقدمین کے ہاں غزل ایک خاص اسلوب اور طرز کی پابند نظر آتی ہے جس کی روایت بھی خاصی مستحکم ہے مگر عصرِ جدید میں ’تغزل‘ کے روایتی تصور اور اظہار و بیان سے جس طرح غزل کو الگ کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے وہ بہر حال توجہ طلب ہے بالخصوص غزل میں طنز کا نفوذ، جیسے ہمارے دَور میں ہوا ہے وہ متقدمین کی غزل سے یکسر مخالف ہے۔

دورِ گزشتہ میں غزل کے ساتھ طنز و مزاح کی ایک صنف ہزل بھی عام تھی لیکن جدید شعراء نے غزل اور ہزل کے فرق کو ختم کر دیا۔ ہم جسے ایک اجتہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ اساتذہ اس طرح کے اشعار کیا غزل میں قبول کر سکتے تھے۔

اُن کے مداح اس زمانے میں

جیسے کتّے قصائی خانے میں

٭٭٭

آنسو بچا کے رکھیں گورنر، میئر، وزیر

برسات میں گریں گی ہی دو چار بلڈنگیں

٭٭٭

کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح

گھر میں بھرے ہیں لوگ حوالات کی طرح

غزل میں طنز کی اس شمولیت کا ایک سبب عصر جدید کے تلخ و تند حالات و زندگی کو بھی یقیناً بڑا دخل ہے۔ غزل میں اس طرح کے تیکھے طنز کو ماضی قریب میں جس طرح شادؔ عارفی نے برتا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہر چند کہ اس ضمن میں ہم یگانہ چنگیزی کے طرز ِ اظہار سے بھی صَرفِ نظر نہیں کر سکتے مگر شادؔ کو جو وصف حاصل ہے وہ اپنی شدت اور اسلوب کے سبب جدا گانہ حیثیت کا حامل ہو گیا ہے جس میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ طنز کی تیزابیت کے باوجود شادؔ عارفی کے شعری چمن کی فصل جلی یاجھلسی نہیں بلکہ شعری شگفتگی اپنے محاسن کے ساتھ ہمارے دامنِ توجہ کو آج بھی پکڑ لیتی ہے۔

شاد عارفی کے اس شعری رویے کو اُن کے بعد کے شعرا میں فروغ تو ملا مگر جس طرح مظفر حنفی نے اس کو اپنا اسلوب بنایا وہ عمل بھی ہم جیسے ادب کے طالب علموں کی نظر میں اجتہادی کردار کا حامل ہے۔

مظفر حنفی اپنے لب و لہجے اور موضوعات کے سبب دورِ حاضر کے غزل گو شعرا کے جمِ غفیر میں نمایاں ہی نہیں بلکہ صاحبِ طرز شاعر کے منصب پر فائز ہیں۔

اس وقت یاد آتا ہے کہ تین دہوں قبل جب پاکستان سے آنے والے مشہور و ممتاز شاعر و ادیب مولانا انجم فوقی بدایونی(مرحوم) سے عصر حاضر کے ہندوستانی شعرا کے تعلق سے بات چھڑی تھی تو پاکستانی شعرا سے موازنہ کرتے ہوئے انھوں نے ہندوستان کے چند شعرا کا نام لیتے ہوئے ڈاکٹر مظفر حنفی کو خصوصیت سے یاد کیا تھا۔ بلکہ وہ جملہ تو ہم اب تک نہیں بھولے:

’’ پورے پاکستان کی بات تو جانے دیجیے، صرف کراچی میں جو ممتاز شعرا ہیں ان کے ہاں جو فکر کی تازگی اور ندرتِ اظہار پائی جاتی ہے اگر اس کا یہاں (ہند) کے شعرا سے موازنہ کیا جائے تو میری نظر سے یہاں کے جو شعرا گزرے ہیں اُن میں زیب غوری، عرفان صدیقی، ندا فاضلی، اسعد بدایونی جیسے چند شعرا ہی ہیں اور ان میں مظفر حنفی اپنے طرز و اسلوب کے سبب بہت واضح ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہندوستان کے یہ غزل گو شعرا پاکستانی شعرا سے کسی طور کم یا پیچھے نہیں ہیں۔ میں ہندوستانی شعرا کے اس حلقے میں مظفر حنفی سے بڑا متاثر ہوا۔ ‘‘

اس حلقے کے شعرا میں مولانا انجم فوقی بدایونی نے ممبئی کے ایک مشہور اور اردو کے معروف شاعر ارتضیٰ نشاط (بدایونی) کا نام بھی لیا تھا۔

آج جب مولانا انجم فوقی بدایونی کی یہ باتیں یاد آئیں تو مظفر حنفی اور ارتضیٰ نشاط کے حوالے سے ایک بات یہ بھی ذہن میں ابھری کہ ہندوستان کے دو بڑے شہروں کے ان دو شعرا کے یہاں ایک بڑی مماثلت موجود ہے اور وہ ہے طنز کا تیکھا پن۔

ہم نے اس تحریر کی ابتدا میں جو اشعار نقل کیے ہیں اُن میں آخری مطلع ارتضیٰ  نشاط ہی کا ہے۔ ارتضیٰ نشاط کم از کم ممبئی کے شعرا میں اپنی اسی خصوصیت کے سبب ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کا یہ شعر بھی اپنا تذکرہ چاہتا ہے:

سب سے دلچسپ یہی غم ہے مِری بستی کا

موت پسماندہ علاقے میں دوا لگتی ہے

نشاط کے ہاں عصری سفاکی اور دورِ حاضر کی تلخی نے جس طرح اظہار کی راہ اپنائی ہے وہ ہماری غزل کی روایت میں یکسر اضافہ نہ سہی مگر موضوعات کی رنگا رنگی اور حسن اظہار میں اپنی ایک نمایاں کشش ضرور رکھتی ہے۔

واضح رہے کہ ہم نے مظفر حنفی اور ارتضیٰ نشاط کے ہاں ایک مماثلت کی بات کی ہے یہ دونوں شعرا اپنی طبعی اور فکری عمر میں بھی بُعد نہیں رکھتے مگر مظفرؔ حنفی کو اپنی پُر گوئی اور وفورِ فکر کے سبب سبقت حاصل ہے۔ ہمارے ہاں لفظ ’ بسیار‘ اچھے معنی میں نہیں لیا جاتا مگر مظفرؔ حنفی کی کثرتِ شعری اس سے مستثنیٰ ہے۔ انھوں نے بہت کہا بھی اور یہ عمل اسی وفور کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ بے شک زندگی کا کوئی عمل استثنائی رعایت سے خالی نہیں ہوتا۔

ہمارے دور کے اہلِ قلم میں مظفر حنفی کو ایک خصوص یہ بھی حاصل ہے کہ وہ ادب کے دیگر شعبوں میں بھی دخل ہی نہیں رکھتے بلکہ ان شعبوں میں بھی ان کی فتوحات کم نہیں، جو دُنیا سے مخفی نہیں ہیں۔

مظفر حنفی اکابرِ ادب کی ایک اور مستحسن روایت کے نہ صرف امین ہیں بلکہ اس روایت کے فروغ میں بھی اُن کا کردار واضح ہے کہ وہ درس و تدریس کی اس زنجیر کی ایک کڑی ہیں جس میں یہ عمل پیشہ ہوتے ہوئے بھی پیشہ وری سے پاک ہے۔

ہم نے ابھی اُن کے شعری حوالے سے جس کثرت کا ذکر کیا ہے اُس کی نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ وہ حسنِ معنیٰ میں کم نہیں۔

مظفر حنفی ہند و پاک ہی نہیں تمام اُردو دُنیا کے اکثر رسائل و جرائد میں چھپتے رہتے ہیں اور اُن کی کوئی غزل تکرارِ اشاعت کے عیب سے کسی طرح کوئی تعلق نہیں رکھتی اور ان کی ہر غزل اپنی زمین میں ایک خصوص کی حامل ہوتی ہے اور جس کی دوسری خوبی یہ بھی ہے کہ ایک سے زائد شعرا ایسے ضرور ملتے ہیں کہ جن کو پڑھتے وقت آپ کی نظر اور توجہ قیام نہ کرتی ہو۔

یہ بات کسی بھی طور معمولی نہیں ہے ورنہ تو ہمارے دور کے شعری ادب میں کثرت تو یقیناً عام ہے کہ مجموعے پڑھتے چلے جایئے، محسوس ہوتا ہے کہ اخبار پڑھ رہے ہیں جن میں کہیں آپ کی نظر ٹھہرتی نہیں۔ البتہ ان میں کچھ شعرا اور اُن کے مجموعہ ہائے کلام ایسے ضرور ملتے ہیں جو ’ باز گوئی‘ میں ایک دوسرے سے سبقت لیتے محسوس ہوتے ہیں۔

یہاں حضرت انجم فوقی پھر یاد آتے ہیں کہ:

’’ میاں ! شعرا میں اچھا شعر کہنے والے بھی مل ہی جاتے ہیں مگر ایسے کم اور بہت کم ملتے ہیں جو ’’ اپنا شعر‘‘ بھی کہہ لیتے ہوں۔ ‘‘

ہمارے مظفر حنفی اس وصف کے بھی حامل ہیں، اور اس دور میں، جس میں شعر و ادب کا ذوق معاشرے کے ’’ خواص‘‘ میں بھی ختم ہو رہا ہو اور اکثر ’عالِم ‘ نرگسیت کے شکار ہوں، مظفر حنفی جیسا شاعر قابلِ احترام ہی نہیں قابلِ فخر بھی ہے کہ ابھی ہماری شعری دُنیا نیکوں سے خالی نہیں ہوئی۔ ہم نے اپنے ذہن کے Googleپر ’مظفر حنفی کے اشعار‘ سرچ کیے تو فوری طور پر جو شعری صورتیں سامنے آئیں وہ یوں ہیں :

منبر پہ جیسے شیخ نہیں کوتوال ہو

یوں ہے کہ خانقاہ کچہری لگی مجھے

میں گنہگار اور اَنگنت پارسا چار جانب سے یلغار کرتے ہوئے

جیسے شب خون میں بوکھلا کر اُٹھیں لوگ تلوار تلوار کرتے ہوئے

مشورہ پاگل ہواؤں سے بھی کرنا چاہیے

عقل مندو! ریت کی دیوار یوں اُٹھتی نہیں

کوئی دیوار سلامت نہ رہے گی صاحب

پا بہ زنجیر ہواؤں کو نہ گھر میں رکھیے

سورج زیادہ دُور نہیں ہاتھ تو بڑھا

محشر کے انتظار میں بینائی جائے گی

خوشبوئیں سر پیٹ رہی ہیں

کھڑکی کھولو کھڑکی کھولو

جی ہاں یہی خاکسار مٹّی

ٹھکراؤ تو آسمان پر جائے

سچ ہے کہ ابھی عمر پڑی ہے مجھ کو

دھن زود نویسی کی بُری ہے مجھ کو

ڈرتا ہوں قلم کو بھی مرے چاٹ نہ جائے

احساس کی دیمک جو لگی ہے مجھ کو

مظفر حنفی ہر چند کہ عمر طبعی کے تیسرے دور سے گزر رہے ہیں مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ اُن کی فکری اور اظہاری توانائی کہیں سے سال خوردہ یاکسی طرح کے ضعف میں مبتلا نہیں ہے۔

ہماری نئی نسل کو اس توانائی کے مرکز اور حسنِ اظہار کے منبع کو تلاش کرنا چاہیے جس سے مظفر حنفی نہ صرف مستفید ہوئے ہیں بلکہ اس دھارے کو اپنی فکر کی دھار سے آبدار بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔

یہ عمل دورِ گزشتہ میں بھی عام نہیں تھا شکر ہے کہ ہمارے زمانے میں اس روایت کی ایک زندہ جاوید تجسیم کا نام مظفر حنفی ہے۔

٭٭٭

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید