FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

محمود و ایاز

 

 

(افسانے)

حصہ دوم

 

ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

 

 

مکمل ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل 

 

 ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

چمیلی سوژالی

 

ہمالیہ کی ترائی میں واقع کالنگ پونگ کے ویران سرکاری دوا خانے میں صرف تین نفر آباد تھے۔ ایک نو  وارد ڈاکٹر انتخاب عالم، دوسرا ان کا بوڑھا کمپاؤنڈر بہارالاسلام اور تیسری اس کی جوان بیٹی چمیلی۔ چمیلی کا دماغی توازن بگڑا ہوا تھا۔ ڈاکٹر انتخاب چونکہ ماہر نفسیات بھی تھے اس لئے علاج کر سکتے تھے مگر چمیلی کے ماضی سے متعلق معلومات کے بغیر یہ نا ممکن تھا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ جھمرو چاچا چمیلی کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں تو انہوں نے جھمرو کو بلا کر سوال کیا آپ مجھے چمیلی کے متعلق وہ سب بتائیں جو آپ جانتے ہیں تاکہ میں اس کا علاج کر سکوں۔ اس سوال کے جواب میں جھمرو کچھ دیر ہوا میں دیکھتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اپنی بات کہاں سے شروع کرے۔ اس کے بعد وہ یوں گویا ہوا۔

ڈاکٹر صاحب! دس سال قبل پہلی مرتبہ میں نے بہارالاسلام کے ساتھ ننھی منی معصوم سی کلی کو دیکھا تو پوچھا بیٹی جھمرو چاچا کو اپنا نام بتاؤ .

وہ بولی چمپا چمیلی۔

میں نے پوچھا چمپا یا چمیلی؟

دونوں

دونوں وہ کیسے؟

اس نے معصومیت بھرے انداز میں جواب دیا چمپا کا رنگ چمیلی کی خوشبو۔

اچھا۔ تجھے کیسے پتہ چلا؟ میں نے حیرت سے سوال کیا۔

وہ بولی۔ خود ہی۔ مجھے خود ہی پتہ ہے۔ مجھے سب پتہ ہوتا ہے۔

یہ ننھی سی جان چمیلی تھی۔ بہارالاسلام اسے انگلی پکڑا کر بازار لاتے اور میرے پاس چھوڑ جاتے۔ وہ مجھ سے باتیں کرتی رہتی یہاں تک کہ بہارالاسلام اپنا کام ختم کر کے لوٹتے اور اسے اپنے ساتھ واپس لے جاتے یہ ہم تینوں کا معمول تھا۔ ہر ہفتہ بازار کے دن ہماری ملاقات ہوتی چمیلی ہفتہ بھر کی باتیں مجھے سناتی۔ اس کے گھر میں کوئی نہیں تھا جس سے وہ دل کھول کر باتیں کر سکتی تھی اور جو اس کے من کی بات بچہ بن کر سن سکتا تھا۔ کوئی پاس پڑوس نہیں تھا۔ بہارالاسلام تھے تو اس کے پاس لیکن والد سے ایک فاصلہ ہوتا ہے۔

چمیلی میرے ساتھ کھل کر باتیں کرتی اور اپنے دل کی ساری باتیں کہہ دیتی تھی۔ وہ مجھے اپنا چچا، اپنا دوست، اپنا ہمدرد اور غم خوار سب سمجھتی تھی اس لئے اپنی خوشیاں اور غم میرے ساتھ بانٹا کرتی۔ ہم لوگ اس قدر گھل مل گئے تھے کہ بغیر بتائے بھی میں اس کا ذہن پڑھ لیتا تھا۔ وقت گذرتا گیا چمیلی نے بچپن سے جوانی کی دہلیز میں قدم رکھ دیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ملیشیا سے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی عالمی صحت عامہ کے ایک پروجکٹ کے سلسلے میں ڈاکٹر سوژالی کا تقرر اس گاؤں کے دوا خانے میں ہوا تھا۔

سوژالی؟ انتخاب نے سوال کیا۔

جھمرو بولا جی ہاں شاید اس کے والدین نے اس کا نام سوزعلی رکھا ہو گا لیکن مقامی لب و لہجے نے اسے سوژالی بنا دیا تھا۔

ڈاکٹر انتخاب عالم کے لئے سوژالی کا تقرر حیرت انگیز تھا۔ اس نے پوچھا لیکن جھمرو زبان کا کیا؟ تم لوگوں کی زبان تو بنگلہ سے بھی مختلف ہے اور وہ ملایا بولنے والا شخص۔ مریض اور معالج کے درمیان ترسیل کا مسئلہ کیسے حل ہوتا تھا؟

جناب آپ نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دے دیا۔ ہمارے یہاں آنے والے بنگالی اہلکار بھی ہماری زبان ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے ہمارا پہاڑی لہجہ اسے اور زیادہ مشکل بنا دیتا ہے سوژالی کے اندر پائی جانے والی خدمت خلق کی شدید تڑپ، کوشش اور جذبہ عمل اس مشکل کا حل بن گیا۔

لیکن پھر بھی؟ انتخاب کے خدشات ہنوز تشنہ تھے۔

ڈاکٹر صاحب در اصل کام کرنے والے کو بات کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے۔ باتوں پر تو مجھ جیسوں کا گذارا ہوتا ہے جو کوئی کام نہیں کرتے۔ بہارالاسلام چائے کی طشتری اپنے ہاتھوں میں لئے کھڑا تھا۔ جھمرو نے آگر بڑھ کر اس کے بوجھ کو ہلکا کیا۔ اور کیتلی سے چائے انڈیلنے لگا۔ بہارالاسلام دروازے کی طرف بڑھا تو انتخاب نے کہا ’بابا‘۔

جھمرو بولا بھئی یہ میری طرح نہیں ہیں ان کو بہت سارے کام کرنے ہیں۔

بہار بولے یہ ٹھیک کہتا ہے۔

انتخاب نے کہا اچھا شکریہ۔

بہارالاسلام زہے نصیب کہہ کر نکل گئے۔ انہیں تعجب ہو رہا تھا کہ انتخاب عالم نے ابھی تک جھمرو کو اپنے پاس سے بھگایا کیوں نہیں؟

چائے کی چسکی لیتے ہوئے انتخاب عالم نے پوچھا وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ بیماری کی تشخیص کیسے کرتا تھا؟

جیسے آپ کسی بچہ کی بیماری جان لیتے ہیں جو ابھی بولنا نہیں جانتا۔ درد کی اپنی بین الاقوامی زبان ہوتی ہے جسے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس پر کان دھرے۔

انتخاب عالم نے کہا جھمرو! تمہاری ہر بات معقول اوردرست معلوم ہوتی ہے۔

شکریہ جناب میں آپ کی قدر شناسی کی داد دیتا ہوں خیر۔ دیکھتے دیکھتے یہ دوا خانہ آباد ہو گیا دور دراز سے مریض یہاں آنے لگے اور شفا یاب ہو کر جانے لگے۔ دواؤں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی اقوام متحدہ کی جانب سے لاری میں بھر کر دوائیں آتی تھیں اور کھپ جاتی تھیں۔ بہارالاسلام کی مصروفیت کافی بڑھ گئی تھی گاؤں کے کچھ نوجوانوں نے بھی رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دی تھیں۔ ڈاکٹر سوژالی کے اخلاق و کردار نے لوگوں کے اندر خدمت کا داعیہ پیدا کر دیا تھا۔

اس دوران بہارالاسلام کے اس باغ کی دیکھ ریکھ چمیلی کرنے لگی تھی۔ ویسے تو وہ اپنے گھر کی تمام ذمہ داریاں ادا کرتی لیکن اس کا سب سے پہلا کام ہوتا تھا کہ صبح صبح باغ سے کچھ تازہ پھولوں کو چنے اور انہیں لے جا کر سوژالی کی میز پر سجادے۔ سوژالی کا تقرر چونکہ محدود مدت کیلئے ہوا تھا اس لئے جب اس کے قیام کا دورانیہ خاتمہ کے قریب پہنچا تو بہارالاسلام نے سوچا اس کے جانے سے قبل چمیلی کے ہاتھ پیلے کر دیئے جائیں۔ بہارالاسلام کی خواہش تھی کہ اس مبارک تقریب میں سوژالی بھی موجود ہو۔ اس درمیان مصروفیت کے باعث چمیلی کا اپنے جھمرو چاچا سے رابطہ منقطع سا ہو گیا تھا۔

ایک دن اچانک خلافِ توقع بہارالاسلام میرے کے پاس آئے میں معمول کے مطابق کچھ لوگوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ بہارالاسلام خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ سب لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ بہارالاسلام نے کبھی ایسا انتظار نہیں کیا تھا۔ میں سمجھ گیا کوئی خاص بات ہے۔ میں نے پوچھا کہیے محترم آپ پچھلے دو گھنٹہ سے خاموش اس حقیر کی محفل میں بیٹھے ہوئے ہیں آج سورج مشرق کے بجائے ۰۰۰۰۰۰۰۰

بہارالاسلام نے درمیان میں ٹوک دیا اور کہا جھمرو آج میں تم سے ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ پر مشورہ کرنے کے لئے آیا ہوں۔

جھمرو نے مسکرا کر اپنا تکیہ کلام دہرا دیا زہے نصیب۔

ایک ماہ بعد سوژالی واپس جانے والا ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کے جانے سے قبل چمیلی کی شادی ہو جائے۔ اس لئے کہ اس کے بغیر تقریب میں مزا نہیں آئے گا۔

جھمرو نے جواب دیا ارے تقریب میں وہ کیسے نہ ہو گا؟ میں تو کہتا ہوں کہ اس کے بغیر یہ تقریب ہی کیوں کر منعقد ہو گی۔

بہارالاسلام کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ وہ بولے کیا بکتے ہو۔

کچھ نہیں جھمرو بولا تم اپنی بات کرو۔

میرے پاس چمیلی کیلئے دو پیغامات ہیں۔ ایک مشہور عالم دین کا بیٹا منظور عالم جو حلوائی کی دوکان چلاتا ہے اور دوسرا شیخ نصیب کا بیٹا شیخ حبیب جو شہر میں ملازمت کرتا ہے تمہارا کیا خیال ہے؟

جھمرو نے بیزاری سے پوچھا میری چھوڑو اپنی بتاؤ؟

در اصل اس دنیا میں میرا چمیلی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے اس لئے میں سوچتا ہوں کہ بظاہر شیخ حبیب بہتر ہے لیکن وہ اسے اپنے ساتھ شہر لے جائے گا اور ہم باپ بیٹی ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گے۔ منظور عالم رہتا تو یہیں ہے لیکن چمیلی کی طبیعت میں نفاست بہت ہے اور دن بھر منظور عالم کے آس پاس مکھیاں بھنبھناتی رہتی ہیں۔ کون جانے ان متضاد شخصیات کا نباہ ہو سکے گایا نہیں؟

جھمرو نے بہار کی باتوں کو غور سے سننے کے بعد کہا بھائی بہار اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ کو ایک تیسرا مشورہ دینا چاہتا ہوں۔

وہ کیا؟ بہارالاسلام نے از راہِ تجسس پوچھا

آپ چمیلی کا بیاہ سوژالی سے کر دیں۔

سوژالی سے؟ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے۔

کیوں اس میں کیا خرابی ہے؟

میرا مطلب تھا کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔

جھمرو بولا تم نے صحیح کہا تم سوژالی کے سامنے گنگو تیلی ضرور ہو لیکن چمیلی۔ چمیلی نہیں۔ میں چمیلی کو بچپن سے جانتا ہوں۔ اور سوژالی کو اس عرصہ میں کافی کچھ جان گیا ہوں مجھ کو پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں۔ میرا دل یہ کہتا ہے کہ قدرت نے سوژالی کو چمیلی کے لئے اس دور دراز مقام پر بھیجا ہے ان کا نکاح قدرت کا فیصلہ ہے جو ٹل نہیں سکتا۔

بہارالاسلام سکتہ میں آ گئے انہوں نے کہا جھمرو تم یہ اپنے دل سے کہہ رہے ہو یا ان دونوں میں سے کسی نے تمہیں یہ بات بتائی ہے۔

جھمرو بولا ان میں سے کسی کے ساتھ میری اس مسئلہ پر بات نہیں ہوئی لیکن یہ میرے دل کی آواز ہے بہار بھائی۔ اور میں زبان کا جھوٹا ضرور ہوں لیکن دل کا سچا ہوں۔

بہار الاسلام نے کہا جھمرو تمہارے پاس دل نہیں ایک پتھر ہے کالا پتھر۔ ورنہ یہ بات تمہارے دل میں کبھی نہیں آتی میں اپنی بیٹی کو شہر بھیجنے سے ہچکچا رہا ہوں اور تم چاہتے ہو کہ وہ پردیس چلی جائے۔ ایک ایسے دیس جس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہاں کے لوگوں کے بارے میں نہیں جانتا۔ جھمرو کاش کہ تمہارے پاس باپ کا دل ہوتا!

جھمرو بولا بہار بھائی میں آپ کے جذبات سمجھتا ہوں اور دل آزاری کیلئے معافی چاہتا ہوں لیکن پھر بھی ایک گذارش ہے۔ یقیناً آپ اس ملک کے بارے میں نہیں جانتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کے بابت آپکی معلومات بہت کم ہے لیکن میں آپ سے یہ کب کہہ رہا ہوں کہ آپ چمیلی کو وہاں تنہا روانہ کر دیں۔

جھمرو نے اپنی بات جاری رکھی آپ سوژالی کو جانتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ سوژالی کو شیخ حبیب اور منظور عالم سے زیادہ جانتے ہیں۔ جو شخص ہم جیسے غیروں کے ساتھ اس قدر اچھا برتاؤ کرتا ہے تو کیا وہ اپنے ملک میں اپنوں کے ساتھ خراب رویہ اختیار کرتا ہو گا؟ اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی مقبولیت اس کے اپنے شہر میں یہاں سے کم ہو گی؟ کیا وہ اپنے لوگوں میں یہاں سے زیادہ ہردلعزیز نہیں ہو گا؟ یقیناً ہو گا بہار بھائی یقیناً ہو گا۔ یقین جانئے وہ دن دور نہیں  جب اس کو حاصل تمام توقیر و احترام اپنے آپ چمیلی کے قدموں میں آ جائے گا۔ جھمرو کا انداز ایسا تھا گویا چمیلی اور سوژالی کا نکاح ہو چکا ہے۔

لیکن کیا وہ دونوں اس پر راضی ہو جائیں گے؟ نادانستہ طور پر بہار کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا خودبہارالاسلام اپنے ہی سوال پر چونک پڑا۔

جھمرو نے جواب دیا اگر تم منا سب سمجھو اور مجھے اجازت دو تو میں ان دونوں کی رائے معلوم کر کے تمہیں بتلا دوں۔

بہار الاسلام خاموش ہو گئے دیر تک خاموش رہے اور پھر بولے جھمرو تمہاری تجویز کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی جرأت میں فی الحال اپنے اندر نہیں پاتا۔ اس لئے تمہیں اس وقت اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر یہ بات میری سمجھ میں آ گئی تو میں تمہارا تعاون لوں گا ورنہ تم یہ سمجھ لینا کہ تمہیں اجازت نہیں ہے۔

جھمرو کیلئے بہارالاسلام کے تذبذب کو سمجھنا مشکل نہیں تھا وہ آخر ایک باپ تھا جس نے ماں کی طرح اپنی بیٹی کو پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ لیکن پھر بھی اسے یقین تھا کہ وہ چند دنوں کے بعد آ کر رجوع کرے گا اور بصد شوق اجازت بھی دے گا۔ جھمرو کو نہ جانے کیوں اطمینان تھا کہ سوژالی اور چمیلی دونوں اس تجویز کو قبول کر لیں گے اور چمیلی کو اپنی دلہن بنا کرسوژالی دور گگن کی چھاؤں میں لے جائے گا۔

انتخاب عالم نے چونک کر پوچھا کیا مطلب؟

جھمرو بولا میرا مطلب یہ ہے کہ سوژالی، چمیلی کو اپنے ساتھ کوالالمپور لے جائے گا۔

جھمرو کے بیان نے انتخاب عالم کا تجسس بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ چمیلی کے بارے میں اس کے حتمی سوال کا جواب دہلیز پر کھڑا دستک دے رہا تھا۔ وہ بولا پھر؟ پھر کیا ہوا؟؟؟

جھمرو نے تاسف بھرے انداز میں جواب دیا پھر وہی ہوا ڈاکٹر صاحب جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میرے تمام اندازے ایک ایک کر کے غلط ثابت ہو گئے۔

انتخاب نے حیرت کے ساتھ پوچھا۔ ک۰۰۰ک۰۰۰کیا؟

جی ہاں ڈاکٹر صاحب اپنی ذات سے متعلق میری تمام خوش فہمیاں ملیامیٹ ہو گئیں۔ مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میں جو اپنے آپ کو نہایت عقلمند آدمی سمجھتا ہوں دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف انسان ہوں۔

ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہو گیا یہ سب؟؟؟ انتخاب نے سوال کیا۔

چند دنوں کے بعد مجھے کسی اور کے ذریعہ اطلاع ملی کہ اگلے ہفتہ بازار کے دن چمیلی کا نکاح منظور عالم سے طے ہو گیا ہے۔ مجھے اس پر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ میں غمگین ہو گیا حالانکہ بظاہر اس کی کوئی وجہ نہیں تھی ہر کوئی مسرور تھا۔ مشہور عالم کا پورا خاندان بشمول منظور عالم اس قدر خوش تھا کہ مٹھائی میں نمک اور نمکین میں شکر ڈال دیتا تھا۔ بہارالاسلام، چمیلی اور سوژالی گویا اس کائنات میں جھمرو کے علاوہ ہر کوئی شادمان تھا۔

نکاح کے دن دو گواہوں کے ساتھ بہار الاسلام نے مجھے وکیل بنایا اور ہم تینوں چمیلی سے اجازت لینے کی خاطر اس کمرے میں پہنچے یہ حسنِ اتفاق ہے ڈاکٹر صاحب کہ آج جبکہ میں پہلی مرتبہ چمیلی کی کہانی دوہرا رہا ہوں یہ وہی کمرہ ہے جس میں چمیلی کو اپنی چنندہ سہیلیوں کے ساتھ اس منحوس دن بٹھایا گیا تھا؟

ڈاکٹر انتخاب عالم نے حیرت سے پوچھا منحوس دن! !

جی ہاں ڈاکٹر صاحب میری زندگی کا سب سے منحوس دن۔ ہم لوگ آ کر بیٹھے۔ میں قاضی کے رجسٹر میں وہ صفحہ تلاش کرنے لگاجس میں چمیلی کی حامی کے بعد اس کے دستخط لینے تھے۔ اس روز نہ جانے کیوں میری قینچی کی طرح چلنے والی زبان گنگ ہو گئی تھی میں چمیلی سے اجازت کے لئے الفاظ تلاش کر رہا تھا کہ چمیلی کی وہ سہیلی جو کھڑکی میں کھڑی تھی اچانک جھکی اور چمیلی کے کان میں کچھ کہا۔ چمیلی نے جیسے ہی وہ بات سنی وہ اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی اور چیخنے چلانے لگی۔ ن۰۰۰ہ۰۰۰۰ی۰۰۰۰۰۰۰۰ں ۰۰۰۰ نہیں۔ نہیں وہ مر نہیں سکتا۔ سوژالی مر نہیں سکتا۔ سوژالی مر نہیں سکتا۔ وہ کسی صورت نہیں مر سکتا! !

دونوں گواہ اور دیگر سہیلیاں چونک گئیں۔ ہر کوئی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہا تھا لیکن مجھے کوئی تعجب نہیں تھا۔ میں نے کھڑکی سے جھانکنے والی لڑکی سے پوچھا۔ کیا واقعی سوژالی نے چھلانگ لگا دی۔

وہ بولی۔ جی ہاں میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہ بغل والے کمرے کی کھڑکی میں آیا۔ کچھ دیر خلاء میں دیکھتا رہا اور پھر کھڑکی سے سیدھا کھائی میں کود گیا۔

میں کہا انا للہ وانا الیہ راجعون۔ محفل میں ہنگامہ برپا ہو گیا لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہوئے لوٹ گئے۔ سوژالی خودکشی کر چکا تھا اور چمیلی پاگل ہو گئی تھی۔ لوگ جو باتیں بنا رہے تھے ان کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔

انتخاب عالم نے پوچھا۔ پھر؟ پھر اس کے بعد کیا ہوا؟

جھمرو بول اپھر کیا گھڑی کی نبض رک گئی۔ وقت کی رفتار ٹھہر گئی دوا خانہ بند ہو گیا۔ مگر ایک معجزہ رونما ہو گیا۔

وہ کیا؟ یہ انتخاب عالم کا آخری سوال تھا

پاگل چمیلی نے دوسری صبح حسب معمول سوژالی کے لئے پھول چنے اور انہیں سجانے کے لئے بغل والے کمرے میں لے آئی جو سوژالی کا دوا خانہ تھا۔ اس نے انہیں حسبِ سابق سجا دیا پھر اگلے دن وہ نئے پھول لے آئی انہیں بھی سجادیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا ہر روز وہ پھول لاتی اور سجا جاتی لیکن وہ پھول تھے کہ مرجھاتے نہ تھے اور نہ ان کی خوشبو میں کوئی کمی واقع ہوتی تھی رفتہ رفتہ یہ بات مشہور ہو گئی۔

پہلے گاؤں والے لوگ اور پھر دور دراز سے لوگ ان پھولوں کو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ حیران اور پریشان لوگ قدرت کا یہ عجیب و غریب کرشمہ دیکھ کر لوٹ جاتے تھے لیکن چمیلی وہ تو دیوانی ہو چکی اسے پتہ ہی نہ تھا کہ لوگ کیوں آتے ہیں اور کس بات پر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ لوگوں کی آمدو رفت سے بے نیاز وہ ہر روز اپنا کام کرتی یعنی تازہ پھول چنتی اور انہیں لا کر اس کمرے میں سجادیتی۔

کمرہ جب پھولوں سے بھر گیا تو بہارالاسلام نے جگہ بنانے کی غرض سے کچھ پھول وہاں سے نکال دئیے۔ پھول جیسے ہی کمرے سے باہر آئے سوکھ گئے۔ اس نے انہیں پھینک دیا۔ اب بہار کا معمول یہ تھا کہ ہفتہ میں ایک دن تھوڑے سے پھول نکال کر نئے پھولوں کے لئے جگہ بنا دیتا باقی گلشن کو یونہی مہکتا چھوڑ دیتا۔ بہارالاسلام کے اندر میری بات کے نہ ماننے کا زبردست احساس جرم تھا۔ اس واقعہ کے بعد وہ ہمیشہ مجھ سے نظریں چراتا رہا وہ کبھی بھی میرے پاس نہ آیا۔ آج صبح پہلی بار اس نے مجھ سے ملاقات کی اور بتایا کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔

یہ چمتکار انتخاب عالم کے عقل و فہم سے بالاتر تھا۔ وہ بولا کیا میں پھولوں والا کمرہ دیکھ سکتا ہوں۔

کیوں نہیں؟ دونوں بغل والے کمرے کے دروازے پر آ گئے جو بھڑا ہوا تھا۔ جھمرو نے اسے ڈھکیل کر کھول دیا۔ اس کمرے کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ غیر آباد کمرہ ہے۔ سب کچھ بالکل صاف ستھرا اور تر و تازہ تھا۔ چمیلی ہر زور اس کمرے کو تیار کرتی تھی لیکن معجزہ داہنی دیوار سے لگی لمبی سی میز پر پھولوں کا ڈھیر تھا۔ ترو تازہ پھول ایسے لگتے تھے گویا شاخوں پر کھلے ہوئے ہیں۔ انہیں توڑا بھی نہیں گیا ہے۔ چمیلی کے پاکیزہ پھول جنھیں نہ کسی نے چھوا ہے اور نہ سونگھا ہے۔

انتخاب عالم یہ منظر اگر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا تو اسے کبھی بھی اس پر یقین نہ آتا۔ اس کے قدم اپنی جگہ جم گئے تھے اس نے مڑ کر جھمرو کو دیکھا تو کیا دیکھتا ہے جھمرو پھولوں کو نہیں کھڑکی کو دیکھ رہا ہے۔ کھڑکی سے نیچے گہری کھائی کو دیکھ رہا ہے۔ کھائی میں بیٹھے سوژالی کو دیکھ رہا ہے۔ سوژالی جس کی محبت سے سراپا وادی مہک رہی تھی۔ بھینی بھینی تازہ خوشبو بالکل ان پھولوں کی طرح جو داہنی جانب میز پر سجے ہوئے تھے۔

کس قدر یکسانیت تھی ان پھولوں کی اور چمیلی کی دیوانگی میں؟ دیوانگی کی اس خوشبو نے موت اور پاگل پن کو مات دے دی تھی۔ جھمرو کی آنکھوں میں دوستارے چمکے ایک کھائی میں گرا اوردوسرا آسمان میں ستارہ بن کر چمکنے لگا۔ وہ پیچھے مڑا اور چپ چاپ بغیر کچھ بولے لوٹ گیا آج پھر جھمرو کی زبان گنگ ہو گئی تھی۔

ڈاکٹر انتخاب عالم اپنے کمرے میں واپس آئے اور بستر پر لیٹ کر چمیلی کا نفسیاتی تجزیہ کرنے لگے اس بیچ بہار الاسلام کھانا لے کر آیا انتخاب عالم نے صرف لسی کا گلاس لیا اور کہا بابا معاف کیجئے میں آج کھانا نہیں کھاؤں گا۔

کیوں؟

بس یونہی۔

میں نہیں سمجھا

یہ جو محنت آپ نے کی ہے رائے گاں نہیں جائے گی۔ میں اسے ناشتہ میں کھالوں گا۔

بہارالاسلام کی سمجھ میں اب بھی کچھ بھی نہیں آیا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جھمرو بھی موجود ہے۔ انہیں توقع تھی کہ جھمرو جاتے ہوئے ان سے ضرور ملاقات کرے گا اور کان کھائے گا۔ بہار الاسلام نے کہا ٹھیک ہے جناب اور سیدھا بازار کی جانب چل دیا۔ وہ اسی مقام پر پہنچ گیا جہاں صبح جھمرو سے ملاقات ہوئی تھی۔ جھمرو اپنے گدھوں کے آگے چارہ ڈال رہا تھا۔ بہارالاسلام نے سلام کیا۔ کھانا رکھا اور کہا جھمرو یہ تمہاری روٹی ہے۔

جھمرو نے رُکھائی سے جواب دیا شکریہ۔

بہارالاسلام کی سمجھ میں یہ رویہ نہ آیا وہ واپس ہولیا۔ جھمرو نے ساراکھانا گدھوں کے آگے ڈال دیا اور خود چار پائی پر لیٹ گیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

چمیلی کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے بعد ڈاکٹر انتخاب عالم اس نتیجے پر پہنچے کہ چمیلی کا علاج اس کے اعترافِ حقیقت میں پوشیدہ ہے۔ جس دن اسے یقین ہو جائے گا سوژالی مر چکا ہے اس کا پاگل پن ختم ہو جائے گا۔ کسی ذی عقل انسان کو موت کا یقین دلانا نہایت آسان کام ہے لیکن جس شخص کا دماغی توازن بگڑ چکا ہو اس کو موت کی حقیقت سے واقف کرانا مشکل ترین ہدف ہے۔

انتخاب عالم کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس لئے بڑے غور و خوض کے بعد انہوں نے ایک منصوبہ بنایا جس کے تحت کھڑکی سے نیچے کھائی کے سامنے مسطح زمین پر ایک بینچ رکھوائی گئی۔ بہارالاسلام کو ہدایت کی گئی کہ وہ ہر روز شام کے وقت چمیلی کے ساتھ وہاں بیٹھ کر اس سے باتیں کرے اور ایک آدھ گھنٹے بعد لوٹ آئے۔ اس بینچ میں گاڑی کی سیٹ کی طرح کے پٹے لگے ہوئے تھے۔

بہارالاسلام اس بینچ پر بیٹھنے کے بعد پہلے چمیلی کا پٹہ لگاتے پھر اپنا پٹہ باندھتے۔ چمیلی پوچھتی بابا یہ آپ کیوں کرتے ہیں؟ تو جواب ہوتا بیٹی سامنے گہری کھائی ہے اس لئے حفاظت کے پیش نظر اچھا ہے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا لیکن پھر بھی بابا کی خاطر پٹہ لگائے بیٹھی رہتی۔ چمیلی کیساتھ وہاں بیٹھ کر بہارالاسلام کو دیر تک باتیں کرتے رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ واپسی سے قبل بہار پہلے اپنا پٹہ کھولتے پھر چمیلی کا پٹہ اور دونوں باپ بیٹی لوٹ آتے۔

اس بیچ انتخاب عالم نے سوژالی کا ایک قد آدم گڈا بنوایا جس میں جدید و حساس مائک اور اسپیکر نصب تھے۔ صبح کے وقت چمیلی کی غیر موجودگی میں اس پتلے کو بنچ پر رکھ کر کئی بار آزمایا گیا۔ بہارالاسلام اس کے بغل میں بیٹھ کر جو کچھ کہتے اسے انتخاب عالم اپنے کمرہ میں بیٹھ کر سن لیتا اور وہ اپنے کمرے کے مائک سے وہ جو کچھ بھی کہتا نیچے گڈے میں لگے اسپیکر کی مدد سے بہارالاسلام اسے سن سکتے تھے۔

ہفتوں کی محنت و مشقت کے بعد جب یہ تجربہ مکمل ہوا تو ایک دن چمیلی سے بات چیت کرتے کرتے بہارالاسلام نے کہا بیٹی مجھے ایک کام یاد آ گیا میں تھوڑی دیر بعد آتا ہوں یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر چلے گئے۔ چمیلی وہاں بیٹھی رہی اپنے آپ سے باتیں کرتی رہی۔ انتخاب عالم اس کی زبان سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کو اپنے کمرے میں بیٹھ کر سنتا رہا یہ باتیں وہ ریکارڈ بھی کر رہا تھا تاکہ حسبِ ضرورت دوبارہ سنا جا سکے اور چمیلی کا ذہن پڑھنے میں مدد ملے۔ انتخاب عالم کا خیال تھا کہ الفاظ ہی وہ کھڑکیاں اور روشندان ہیں جن کے ذریعہ کسی دماغ کے اندر جھانک کر دیکھا جا سکتا ہے۔ چمیلی کی باتیں بظاہر بے ربط ہوتی تھیں لیکن غور کرنے پر اس میں سے کچھ نہ کچھ مطلب نکل آتا تھا ایک دن وہ اپنے آپ سے پوچھ رہی تھی سوژالی اچانک بغیر بتائے کیوں چلا گیا؟

وہ کب آئے گا؟ ۰۰۰۰۰۰آئے گا بھی نہیں؟ ۰۰۰۰۰ کیا کبھی نہیں؟ ۰۰۰۰۰۰

اور اگر نہیں تو ان پھولوں کا کیا ہو گا؟ ۰۰۰۰۰۰۰جو اس کے انتظار میں مسلسل مہکتے رہتے ہیں؟ ۰۰۰۰۰کیا وہ یونہی مہکتے رہ جائیں گے؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰یہ کیسی بہار ہے جو خزاں کی منتظر ہے؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰بہار کی طوالت سے بھی طبیعت اوب جاتی ہے۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰وہ تو خزاں ہے جو بہار کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ اگر خزاں نہ ہو تو بہار کی ضرورت اور اہمیت سب ختم ہو جائے۔

بہار اور خزاں چمیلی کیساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کر رہی تھیں۔ جب سوژالی اس کے چشم تصور میں آتا تو بہار آ جاتی اور جب وہ چلا جاتا تو پھر خزاں کا دور دورہ ہو جاتا لیکن سوژالی کا آنا جانا لگا رہتا تھا اور یہی چمیلی کی دیوانگی کا بنیادی سبب تھا کسی نہ آنے والے کا انتظار انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔ اب چمیلی کو تنہا کچھ دیر کے لئے چھوڑ کر آنا اور پھر واپس جا کر اپنے ساتھ لے آنا بہار الاسلام کا معمول بن گیا تھا۔ انتخاب عالم کے سامنے ہر دن چمیلی کے دل کی کتاب ایک نیا صفحہ کھلتا تھا اور وہ اپنے ساتھ پوشیدہ جذبات واحساسات کو بکھیر کر بند جاتا تھا۔

انتخاب عالم اپنے اس مشکل اور پیچیدہ تجربہ سے لطف اندوز ہونے لگا تھا جس میں طبعی عناصر کی کیمیائی تفتیش نہیں بلکہ انسانی ذہن کو جانچا اور پرکھا جا رہا تھا۔ طبی تعلیم کے دوران طلبا کو پہلے لاشوں پر تجربہ کروایا جاتا ہے اور اس کی مدد سے زندہ انسانوں کی جراحت سکھائی جاتی ہے۔ لیکن جو آپریشن انتخاب عالم کر رہا تھا وہ کسی درسی نصاب میں درج نہیں تھا اوراسے کسی نے کسی کو ابھی تک پڑھایا نہیں تھا۔ یہاں پر جو طالب علم تھا وہی خود استادبھی تھا۔ جو سکھاتا بھی تھا اور سیکھتا بھی تھا۔ منصوبے کے مطابق ایک دن بہارالاسلام کے ہٹ جانے کے بعد ان کی جگہ سوژالی کا گڈا رکھ دیا گیا اور اس میں سے دھیمے دھیمے آواز آئی

چمیلی اوے چمیلی۔

چمیلی چونک پڑی۔ وہ بولی کون! کون ہے؟

پھر آواز آئی چمیلی تم نے مجھے نہیں پہچانا میں سوژالی ہوں سوژالی۔

چمیلی سمٹ کر گڈے سے دور ہو کر بیٹھ گئی اور بولی ہاں ہاں کیوں نہیں سوژالی مجھے پتہ ہے تم سوژالی ہو سوژالی۔

اچھا اگر پتہ ہے تو کیوں پوچھ رہی ہو کہ میں کون ہوں؟

چمیلی چہک کر بولی، یونہی بس یونہی۔

چلو کوئی بات نہیں۔ اچھا بتاؤ کہ تم کیسی ہو؟

میں تم سے نہیں بولتی۰۰۰۰ میں سے بات نہیں کروں گی۔

ٹھیک ہے کوئی بات نہیں چمیلی۔

چمیلی منہ پھلا کر بیٹھ گئی گڈا بڑی صفائی سے اٹھا لیا گیا خاموشی چھا گئی۔

چمیلی اس انتظار میں تھی کہ سوژالی اسے منائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کافی دیر کے بعد چمیلی نے کنکھیوں سے اپنے دائیں جانب دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ ارے سوژالی پھر چلا گیا۔ سوژالی۔ وہ اپنے آپ سے بولی۔ شاید مجھ سے ناراض ہو گیا۔ کیوں کہ میں ناراض ہو گئی مجھے ناراض نہیں ہونا چاہئے تھا۔ چمیلی کی خود کلامی انتخاب عالم سن رہا تھا۔ دیوانگی نے فرزانگی کی جانب پہلا کامیاب قدم بڑھا دیا تھا۔

تھوڑی دیر بعد بہارالاسلام وہاں آئے۔ اس کے پاس میں بیٹھ کر چمیلی سے کہا بیٹی کیسی ہو؟

وہ بولی ویسی ہی ۰۰۰۰۰۰پہلے جیسی۔

کیا مطلب؟ بہارلاسلام نے پوچھا

مطلب پہلے جیسی تنہا۔ تنہا کی تنہا۔

بہارالاسلام چپ ہو گئے کچھ دیر بعد کہا چلو بیٹی اندھیرا ہو چلا ہے۔ چلو چلتے ہیں۔

چمیلی بولی ٹھیک ہے بابا۔

بہارالاسلام نے پہلے اپنا پٹہ کھولا پھر چمیلی کا اور دونوں باپ بیٹی واپس آ گئے اب معمول میں ایک تبدیلی آ گئی تھی بہارالاسلام ہر روز چمیلی کو چھوڑ کر آ جاتے سوژالی کا پتلا رکھ دیا جاتا اور اس پتلے کے توسط سے انتخاب عالم سوژالی بن کر چمیلی سے بات چیت کرتا۔ چمیلی شام ڈھلے اندھیرا ہونے تک سوژالی سے باتیں کرتی رہتی دیوانی جو تھی نہیں جانتی تھی کہ وہ جس سے بات کر رہی ہے وہ سوژالی نہیں بلکہ انتخاب عالم۔

ایک دن جب شام کے سائے لمبے ہو چکے تھے اور اچھا خاصہ اندھیرا چھا گیا تھا انتخاب عالم نے فائر ورکس میں استعمال کی جانے والی بڑی سی پھلجھڑی چھت کے اوپر سے چھوڑی۔ اس سے نکلنے والا بارود آسمان میں جا کر پھٹ پڑا اور ستاروں کی طرح برسنے لگا۔ پھلجھڑی کا رخ اس طرح تھا کہ روشنی کے ستارے آسمان سے کھائی میں گر رہے تھے۔ چمیلی نے انہیں دیکھا تو بچوں کی طرح خوشی سے تالی بجانے لگی۔

انتخاب عالم نے فوراًدوسری پھلجھڑی چھوڑ دی اور پہلی کا سلسلہ بند ہونے سے قبل دوسری سے روشنی کے شرارے برسنے لگے چمیلی نے پوچھا سوژالی یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ آسمان سے کیا گر رہا ہے یہ روشنی یہ چمک یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ ستارے ہیں جو آسمان سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہیں؟

جی ہاں چمیلی تم تو انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو۔

اگر ایسا ہے تو کیا آسمان ان کے گرنے سے تاریک ہو جائے گا؟

نہیں چمیلی ایساکبھی نہیں ہو گا آسمان میں بے شمار ستارے ہیں ان میں سے چند کے ٹوٹنے اور گرنے سے آسمان تاریک نہیں ہو جاتا۔

اچھا لیکن آخر یہ گرتے کیوں ہیں؟

یہ! یہ اس لئے گرتے ہیں کہ ان کو چن کر مانگ میں سجایا جا سکے۔

مانگ میں؟

جی ہاں کیا میں ان کو چن کر لاؤں؟

کیوں؟

تاکہ میں انہیں تمہاری مانگ میں سجا سکوں؟

میری مانگ میں؟

جی ہاں چمیلی تمہاری مانگ میں ۰۰۰۰۰۰۰میں تمہاری مانگ ان ستاروں سے بھر دینا چاہتا ہوں۔

آسمان سے روشنی کے شرارے برس رہے تھے انتخاب عالم نے اشارہ کیا اور گڈے کے پیچھے لگے اسپرنگ کا بٹن دبا دیا گیا۔ گڈا بینچ سے اچھل کر کھائی میں جاگر ا۔ آسمان سے ستاروں کا گرنا بند ہو گیا۔ چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ چمیلی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا۔ وہ کھائی کو دیکھ رہی تھی گہری کھائی کو جس نے ستاروں کو نگل لیا تھا۔ وہ بھیانک کھائی جو ایک سورج کو بھی نگل چکی تھی۔ اس سورج کو جو اس کی مانگ روشن کرنا چاہتا تھا۔ کھائی کی گہرائی میں اس کی آنکھیں سوژالی کو تلاش کر رہی تھیں۔ موت کے اندھیرے نے سوژالی کو نگل لیا تھا۔ چمیلی نے آگے جھکنے کی کوشش کی بینچ میں لگے کمربند نے اسے جکڑ لیا اس نے پیچھے سر رکھ دیا۔

چمیلی اب آسمان کو دیکھ رہی تھی جس میں بے شمار ستارے چمک رہے تھے لیکن ایک ستارہ جو ٹوٹ کر کھائی میں گر چکا تھا۔ اس کا اپنا سورج سوژالی ان میں نہیں تھا۔ چمیلی کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ سوژالی اب کبھی نہ آنے کے لئے  جا چکا ہے۔ چمیلی کی آنکھوں سے آنسورواں ہو گئے وہ ٹپک ٹپک کر ستاروں کی مانند وادی میں گرتے اور غائب ہو جاتے بڑی دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ چپ چاپ بہارالاسلام اس کے بغل آ کر بیٹھ گئے۔

طویل خاموشی کے بعد چمیلی بولی وہ نہیں آئے گا۔ وہ اب کبھی بھی نہیں آئے گا۔ دیوانگی کی جگہ ہوشمندی نے لے لی تھی۔ سوژالی کے کمرے کے پھول مرجھا چکے تھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ ڈاکٹر انتخاب کا تجربہ کامیاب ہو چکا تھا۔

بہار الاسلام نے بینچ کا کمر بند کھولا چمیلی کا ہاتھ پکڑا اور گھر کی جانب چل دیئے وہ بھی لڑکھڑاتی ہوئی ان کے ساتھ چل پڑی اپنے بستر پر لیٹ کر رات بھر روتی رہی صبح تک اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہو چکا تھا۔ چمیلی مرجھا چکی تھی یہ خبر جب گاؤں میں پھیلی تو وہ بازار کا دن تھا جھمرو کو پتہ چلا تو وہ چمیلی سے ملنے کی خاطر آیا۔

چمیلی نے اسے دیکھ کر کہا جھمرو چاچا۰۰۰۰۰۰۰ وہ نہیں آئے گا۔ وہ کبھی نہیں  آئے گا۔ آنسوؤں کا نیا سیلاب امڈ پڑا۔

جھمرو نے چمیلی کے سرپر ہاتھ پھیرا اور کہا بیٹی۔ آسمان میں بے شمار تارے ہوتے ہیں۔ اگر ایک آدھ ٹوٹ بھی جائے تو اندھیرا نہیں ہوتا۔

چمیلی نے کہا لیکن چاچا میرا تو سورج ٹوٹ کر گر چکا ہے۔ اب میری زندگی میں صرف رات ہی رات رہے گی کبھی صبح نہیں ہو گی۔

جھمرو کو پہلی مرتبہ اگرکسی نے لاجواب کر دیا تھا تو وہ چمیلی تھی!!!

٭٭٭

 

 

 

کبوتر خانہ

 

کبوتر خانہ نامی گاؤں اس کے باشندوں کے بجائے کبوتروں کے لئے مشہور تھا۔ باوجود اس کے کہ یہ ایک مضحکہ خیز نام تھا لیکن اس گاؤں کے لوگوں کو اپنے کبوتروں پر اس قدر فخر و ناز تھا کہ وہ اسے اپنے لیے باعث صد افتخار سمجھتے تھے۔ یہ کاشتکاروں کی بستی تھی۔ یہاں کے عوام کا پیشہ زراعت اور مشغلہ کبوتر بازی تھا۔ صبح سویرے یہ لوگ اپنے کھیتوں کی جانب نکل جاتے اور شام میں واپس آ کر کبوتر بازی میں غرق ہو جاتے۔

گاؤں میں ایک چھوٹی سی ویران و پشیمان مسجد بھی تھی۔ اس لیے کہ نماز فجر کے وقت گاؤں کے لوگ نیند کی آغوش میں ہوتے۔ نمازِ ظہر کی اذان ان کے دور دراز کھتیوں تک نہ پہنچ پاتی۔ نماز عصر کا وقت راستے میں گذرتا۔ مغرب اور عشاء کبوتروں کے غٹر غوں کی نذر ہو جاتی۔ برسوں سے یہی معمول تھا۔ کبوتر خانے والے اس نظام الاوقات پر اس قدر راضی برضا تھے کہ انہیں اس میں کچھ بھی عجیب نہ لگتا تھا۔

نہایت وضعدار شخصیت کے حامل چودھری عنایت حسین گاؤں کے سرپنچ تھے۔ وسیع و عریض کھیتوں کے مالک چودھری صاحب کے باڑے میں کبوتروں کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔ ان کے بغل میں اسلم کا گھر تھا۔ اسلم بھی کبوتروں کا بڑا شوقین تھا۔ کھیتی کے کام سے جیسے ہی فرصت پاتا جنگلوں کی جانب نکل جاتا اور وہاں نئے کبوتر پکڑنے میں جٹ جاتا۔ جنگلی کبوتروں کو پھانسنے اور انہیں سدھانے کے فن میں وہ بڑی مہارت رکھتا تھا۔

ایک دن اسلم نے دیکھا جنگل میں ایک سرخ کبوتروں کا جوڑا دانا چگ رہا ہے۔ گاؤں میں لوگوں کے پاس بھانت بھانت کے کبوتر تھے لیکن سرخ کبوتر کسی کے پاس نہیں تھے۔ جب اسلم نے ان کبوتروں کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ اُڑ گئے لیکن دور افق پر اُڑتے ہوئے یہ کبوتر اسلم کے اعصاب پر سوار ہو گئے۔ اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ ہر صورت انہیں حاصل کر کے رہے گا۔ اب دیگر کبوتروں سے اسلم کی دلچسپی کم ہو گئی تھی۔ اس کی نظریں صرف اس سرخ کبوتر کے جوڑے کو تلاش کرتی رہتیں جو کبھی نظر ہی نہ آتے تھے۔

ایک عرصہ گذر جانے کے بعد پھر ایک بار پہلے والے مقام پر اسلم نے انہیں دیکھ لیا اس کی مایوسی امید میں بدل گئی۔ بڑی چالاکی سے اس بار وہ انہیں اپنے دام میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اپنی اس کامیابی پر اسلم کا دل بلّیوں اچھل رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے قارون کا خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ دنیا کی ہر نعمت کی کمیت تقابل سے طے ہوتی ہے۔ جو شئے جس قدر کمیاب ہو اس کی قدر و قیمت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔

کبوتر خانہ گاؤں میں (جہاں انسانوں کا تشخص کبوتروں سے وابستہ تھا )سرخ کبوتر چونکہ صرف اور صرف اسلم کے پاس تھے اس لیے وہ اپنے آپ کو اپنی بستی کا بے تاج بادشاہ سمجھنے لگا تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر سرخ کبوتروں کے چرچے زبان زد عام ہو گئے۔ لوگ آآ کر ان کبوتروں کو دیکھتے اور رشک و حسد کے جذبات سینے میں دبائے واپس ہوتے۔ اسلم بہت جلد انہیں کو سدھانے میں کامیاب ہو گیا۔ اب وہ انہیں فضاؤں میں کھلا چھوڑ دیتا اور یہ سرخ کبوتر آسمان میں اسلم کی عظمت و شہرت کا جھنڈا بلند کرتے پھرتے تھے۔

ان سرخ کبوتروں کے سبب بوڑھے دادا عمرو کے علاوہ اسلم کے سارے گھر والے بہت خوش تھے۔ عمرو نے اسلم سے کہہ رکھا تھا۔ دیکھ اسلم یہ سرخ کبوتر وفا شعار نہیں ہوتے۔ ان کو نہ سدھا۔ ان سے اپنا دل نہ لگا یہ کسی بھی وقت اُڑ جائیں گے۔

اسلم نے کہا۔ کوئی بات نہیں جب اُڑ جائیں گے تب اُڑ جائیں گے لیکن اس وقت تک تو ہماری شان بڑھائیں گے۔

دادا عمرو نے سمجھایا۔ نہیں بیٹے یہ اس قدر آسان نہیں ہے۔ اگر یہ کل کسی اور کے باڑے میں چلے جائیں تو؟

اسلم نے کہا۔ کوئی بات نہیں ان کی مرضی اور اس کا مقدر۔

دادا عمرو نے پھر کہا۔ بیٹے اسلم یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

اسلم نے کندھے اچکائے اور دادا عمر و کودلاسہ دینے لگا۔ آپ بلاوجہ کے اندیشوں میں گرفتار ہو رہے ہیں۔ ایک تو یہ جائیں گے نہیں۔ ہمارے باڑے سے آج تک کوئی کبوتر کہیں نہیں گیا۔ ہماری شفقت اور محبت کا بندھن انہیں کبھی بے وفائی کی اجازت نہیں دیتا اور پھر اگر چلے بھی گئے تو … یہ کہہ کر اسلم رک گیا۔

عمرو دادا بولے۔ اسلم آگے بول رک کیوں گیا؟

اسلم نے بات آگے بڑھائی۔ جی ہاں اگر چلے بھی گئے تو ان کی مرضی۔

اسلم دوسرے کبوتروں کی بات اور ہے میں تو ان سرخ کبوتروں کی بات کر رہا ہوں جو صرف تمہارے پاس ہیں۔

اسلم سوال کی اس وضاحت سے کچھ پریشان سا ہو گیا۔ لیکن پھر کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔ ان کی مرضی اور اس کا مقدر۔

عمرو دادا نے پھر کہا۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

وقت کا پنچھی گردش لیل و نہار سے بے پرواہ مسلسل اُڑا جا رہا تھا۔ وہ نہ تھکتا تھا اور نہ رکتا تھا۔ ایک روز اسلم حسب معمول شام میں اپنے کبوتروں کو دانہ ڈال رہا تھا۔ ایک ایک کر کے کبوتر واپس آتے وہ ان میں سے ہر ایک کو پیار سے ہاتھوں میں اٹھا لیتا، پچکارتا اور پھر ڈربے میں بند کر دیتا۔ رات کے سائے لمبے ہو گئے۔ کبوتروں کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا لیکن اسلم ہنوز انتظار میں تھا۔ سرخ کبوتروں کا جوڑا واپس نہ لوٹا تھا۔

اسلم جانتا تھا کہ اتنی رات گئے کبوتر نہیں لوٹتے لیکن اس کا دل مانتا نہ تھا۔ ذہن و دل کی اس کشمکش میں بار بار عمرو دادا کے الفاظ ’یہ اتنا آسان نہیں ہے‘  اس کے کانوں میں گونجتے رہے۔ وہ یوں ہی بیٹھا رہا۔ ان سرخ کبوتروں کے بارے میں سوچتا رہا۔ رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ نیند کا ایک لمحہ بھی نصیب نہ ہوا۔ صبح سویرے اپنا غم غلط کرنے کیلئے وہ بغیر ناشتہ کیے کھیتوں کی جانب نکل گیا۔ کھیت میں بھی اس کا دل نہ لگا تو وہ جنگل چلا گیا۔

اسلم کے قدم اپنے آپ اسی مقام پر پہنچ گئے جہاں اس نے پہلی بار ان سرخ کبوتروں کو دیکھا تھا اور دوسری بار ان کو پکڑا تھا۔ وہ اس امید میں وہاں پہنچا کہ آج پھر وہ انہیں دیکھے گا۔ آج انہیں پکڑنے کے لیے اسے جال ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ وہ بس پچکارے گا اور دونوں کبوتر آہستہ آہستہ اس کی جانب آ جائیں گے بلکہ چونکہ اس نے کل سے انہیں نہیں دیکھا ہے اس لئے فرط مسرت میں اُڑ کر اس تک پہنچ جائیں گے اور اس کی آغوش میں سما جائیں گے لیکن یہ سب اسلم کی خام خیالی تھی۔ فی الحال اس کے پاس سرخ کبوتروں کی آرزو تھی اور ان کے کھو جانے کا ملال تھا۔ کبوتر نہ تھے۔

اسلم دیر تک وہاں بیٹھا رہا، سوچتا رہا کہاں چلے گئے اس کے کبوتر؟ اسے ایسا لگ رہا تھا اس کا جہان لٹ گیا ہے۔ اسلم نے اپنے آپ کو بہلایا کہ شاید راستہ بھول گئے ہوں گے۔ آج شام لوٹ آئیں گے یا ہو سکتا ہے دن میں لوٹ آئے ہوں۔ وہ کسی بھی طرح اپنے آپ کو یہ بات سمجھا نہیں پا رہا تھا کہ اس نے کبوتر گنوا دیئے ہیں اور وہ اب اس کے پاس کبھی لوٹ کے نہیں آئیں گے۔ کبوتروں کے لوٹ آنے کا خیال اسے شام سے پہلے گھر لے آیا۔ ابھی دوسرے کبوتر اُڑنے کی تیاری میں تھے لیکن اس کی نظریں سرخ کبوتروں کو ڈھونڈ رہی تھیں جو کل سے لوٹے نہ تھے۔ اس نے سوچا شاید شام ڈھلے دوسرے کبوتروں کے ساتھ وہ لوٹ آئیں گے لیکن وہ شام میں بھی نہیں لوٹے۔

اسلم کو جب اس کے دوست اکرم نے بتایا کہ سرخ کبوتر چودھری عنایت حسین کے کبوتروں میں شامل ہو گئے ہیں تو پہلے اسے یقین نہیں آیا لیکن جب اکرم نے کہا کہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے سرخ کبوتروں کو چودھری عنایت حسین کے یہاں دیکھا ہے تو اسلم کے پاس مان لینے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ رہا۔

دوسرے دن اسلم بذاتِ خود چودھری صاحب کی حویلی میں جا پہنچا۔ سلام دعا کے بعد اس نے چودھری صاحب سے کہا۔ میں اپنے سرخ کبوتر لینے آیا ہوں۔

اسلم کی بات سن کر چودھری صاحب مسکرائے انہوں نے کہا۔ اسلم یہ کبوتر اپنی مرضی سے آئے ہیں ہمارے گاؤں کی یہ روایت ہے کہ ہم کبوتروں پر اپنی مرضی نہیں تھوپتے۔

اسلم نے کہا۔ جی ہاں چودھری صاحب آپ بجا فرماتے ہیں لیکن یہ ضابطہ عام کبوتروں کے لئے ہے۔ میں ان سرخ کبوتروں کی بات کر رہا ہوں جو صرف میرے پاس ہیں۔

چودھری صاحب نے کہا۔ دیکھو بیٹے کبوتر تو کبوتر ہے اس میں عام و خاص کی تفریق کیسی؟ ویسے یہ کبوتر اب تمہارے پاس ہیں نہیں! تھے۔ اب یہ تمہارے بجائے میرے پاس ہیں کیا سمجھے؟

چودھری صاحب یہ میرے کبوتر ہیں اور انہیں میں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔

دیکھو اسلم بچے نہ بنو۔ یہ کبوتر نہ میرے ہیں اور نہ تمہارے۔ یہ تو بس اپنی مرضی سے ہمارے پاس آ کر رہتے ہیں۔ اب کسی کے پاس رہنے بسنے سے کوئی کسی کا تھوڑے ہی ہو جاتا ہے۔ چودھری صاحب نے ٹھہر کر فلسفیانہ انداز میں کہا ہاں دل میں بسنے سے ہو جاتا ہے لیکن بسنے والا نہیں بلکہ بسانے والا۔

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں چودھری صاحب اسلم نے سوال کیا

وہی جو تم سن رہے ہو برخورداراسلم، جب تک ان کی مرضی تھی یہ تمہارے ساتھ تھے اور جب تک ان کی مرضی ہو گی یہ ہمارے ساتھ رہیں گے یہ اپنی مرضی کے مختار ہیں۔

لیکن چودھری صاحب آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا اس لیے انہیں ہر قیمت پر اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔

کیا زور زبردستی کر کے لے جاؤ گے؟ چودھری نے پوچھا۔

ہاں زور زبردستی کر کے لے جاؤں گا۔ اسلم نے زور دے کر کہا۔

چودھری صاحب بولے۔ تم بلاوجہ جذباتی ہو رہے ہو۔ میں نہ تو خود زور زبردستی کرنے کا قائل ہوں اور نہ زور زبردستی برداشت کرتا ہوں یا اس کی اجازت دیتا ہوں۔ یہ روایت چونکہ ہمارے گاؤں میں تسلیم شدہ ہے اس لیے کوئی بھی تمہارا ساتھ نہ دے گا۔ تم چاہو تو پنچایت بلو الو۔ میں اس مقدمہ میں سرپنچ کے عہدہ سے دستبردار ہو کر صرف مدعا الیہ بن جاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ فیصلہ اتفاق رائے سے میرے ہی حق میں ہو گا بلکہ میرے کیا ان سرخ کبوتروں کے حق میں ہو گا جنہوں نے میرے باڑے میں آ کر رہنا پسند کر لیا ہے۔

اسلم غصہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور یہ کہہ کر نکل گیا کہ اب فیصلہ پنچایت میں ہو گا۔ لیکن بعد میں اسے لوگوں نے سمجھایا کہ ایسا مقدمہ دائر کرنے سے کیا حاصل جس کا فیصلہ یقیناً اس کے خلاف ہو گا۔ بالآخر پنچایت سے ایک روز قبل اسلم نے مقدمہ واپس لے لیا۔ دادا عمرو کی بات سچ ثابت ہو گئی۔ وفا شعاری اعتماد و محبت بڑھاتی ہے اور بے وفائی بدامنی اور انتشار کو جنم دیتی ہے۔ سرخ کبوتروں نے یہی کیا تھا۔ چودھری عنایت اور اسلم کی برسوں پرانی ہم سائے گی و دوستی میں بال ڈال دیا تھا۔

وقت کا مرہم ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ اسلم کے زخم بھی بھر گئے وہ بھول گیا کہ اس نے کبھی سرخ کبوتروں کا شکار کیا تھا وہ کبھی اس کے صحن میں رہتے بستے تھے۔ ان کے باعث سارا گاؤں اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ ان باتوں کو فراموش کر کے وہ اپنے معمول کے کاموں میں لگ گیا تھا کہ ایک دن اچانک کیا دیکھتا ہے شام میں اس کے کبوتروں سے قبل وہی سرخ کبوتر اس کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ تھوڑی دیر تک اسلم کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اسے اس بات پر غصہ بھی آ یا کہ وہ اسے چھوڑ کر کیوں چلے گئے تھے لیکن کبوتروں کی آنکھوں میں ندامت اور احساس جرم کو دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا۔

اسلم نے دوڑ کر دونوں کبوتروں کو ہاتھوں میں لے لیا اور انہیں چومنے لگا ایک لمحہ میں سارے گلے شکوے دور ہو چکے تھے۔ وہ پھر ایک بار کبوتر خانہ گاؤں کا بادشاہ بن گیا تھا۔ ان کبوتروں نے پھر اس کا سر فخر و ناز سے بلند کر دیا تھا۔ آج اس کی خوشی کا عالم اس دن سے بھی زیادہ تھا جب پہلی بار وہ اس کبوتر کے جوڑے کو اپنے گھر لایا تھا۔ کسی چیز کی قدر و قیمت کا احساس اسے گنوانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ انسان کسی شئے کو گنوائے اور پھر پالے۔ اسلم اپنی خوش نصیبی پر پھولا نہیں سمارہا تھا۔

چودھری عنایت حسین کو پتہ چل گیا۔ سرخ کبوتر دوبارہ اسلم کے پاس لوٹ چکے ہیں۔ اس بات کا انہیں اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ اپنی اس تقریر کو بھول گئے جو انہوں نے کبھی اسلم کو سمجھانے کے لیے کی تھی۔ دوسرے دن انہوں نے اسلم کو اپنی حویلی بلا بھیجا۔ اسلم سمجھ گیا اسے کیوں بلایا جا رہا ہے۔ وہ نہایت اعتماد کے ساتھ حویلی پہنچا۔ دیر تک دونوں خاموشی سے چائے پیتے رہے۔ اس کے بعد چودھری عنایت حسین نے اپنے پر وقار انداز میں کہا۔

اسلم تم تو جانتے ہی ہو کہ میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے؟

اسلم نے کہا۔ جی ہاں چودھری صاحب۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں لیکن اس سلسلے میں آپ کو اپنی ہی ایک بات یاد دلانا چاہتا ہوں اور ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔

چودھری صاحب نے کہا۔ بولو۔

اسلم نے کہا۔ پہلے آپ کی بات کہ آپ نہ زور زبردستی کرتے ہیں نہ برداشت کرتے ہیں اور نہ اس کی اجازت دیتے ہیں اور میری گذارش کہ آپ پنچایت بلوا لیں۔ سرپنچ کے عہدے پر قائم رہیں مجھے یقین ہے کہ ایک رائے کے علم الرغم اکثریت کی رائے سے فیصلہ میرے حق میں ہو جائے گا۔ اس لیے کہ یہ ہمارے گاؤں کی تسلیم شدہ روایت ہے اور کوئی بھی آپ کا ساتھ نہیں دے گا۔

چودھری عنایت حسین عرصہ دراز سے سرپنچ کے عہدے پر فائز تھے انہوں نے بے شمار تنازعات سلجھائے تھے لیکن ان کا اپنا مقدمہ آج تک پنچوں کے سامنے پیش نہ ہوا تھا اور اب اگر ہوتا بھی تو ان کی شکست یقینی تھی۔ اس احساس سے ان کا دل ڈوبنے لگا۔ حالانکہ اس مسئلہ کا آسان سا حل یہ تھا کہ وہ ان کبوتروں کی محبت اپنے قلب سے نکال دیتے مگر وہ ایسا نہ کر سکے یہاں تک کہ ان کے دل کی دھڑکن بند ہو گئی۔ یکبارگی اسلم کو ایسا لگا کہ اس نے کبوتروں کی خاطر اپنے دیرینہ دوست کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے لیکن سرخ کبوتر کو پا لینے کی خوشی اس احساس جرم پر غالب آ گئی۔

چودھری عنایت حسین کی موت کے بعد ایک نیا تنازعہ پیدا ہو گیا کہ آخر سر پنچ کسے بنایا جائے؟ باقی ماندہ پنچوں میں سے ہر ایک اس عہدہ کا دعویدار تھا۔ وہ پنچایت جو لوگوں کے جھگڑے چکاتی تھی خود اپنے جھگڑے میں اُلجھ گئی تھی۔ کافی دنوں تک اس معاملہ میں تعطل رہا بالآخر یہ طے ہوا کہ کبوتر خانہ گاؤں کے سرپنچ کا تعین کبوتروں کی تعداد پر ہو۔ گویا معیار حق کبوتروں کی حمایت ٹھہری۔ جس کے پاس سب سے زیادہ کبوتر ہوں گے وہی سرپنچ ہو گا۔ چاہے وہ سابقہ پنچایت کا رکن ہو یا نہ ہو۔ دو ہفتہ بعد کی ایک تاریخ طے کی گئی جس دن سب لوگوں کو پنچایت میں اپنے کبوتروں کی گنتی کرانے کیلئے حاضر ہونا تھا۔

اسلم نے پوچھا۔ کیا میرے سرخ کبوتروں کا شمار بھی عام کبوتروں جیسا ہو گا؟ اس سوال سے سب سناٹے میں آ گئے لیکن چونکہ اسلم کے علاوہ تمام فیصلہ کرنے والے سرخ کبوتروں سے محروم تھے اس لیے فیصلہ ہوا کہ کبوتر، کبوتر ہے سرخ ہو یا سفید ہر کبوتر ایک کبوتر شمار کیا جائے گا۔

اس فیصلہ کے بعد گاؤں میں ایک کہرام مچ گیا۔ ہر کوئی اپنے کبوتروں کی تعداد بڑھانے میں لگ گیا۔ ہر ایک دوسرے کے کبوتروں کو رجھانے میں مصروف تھا۔ کھیتی باڑی کا کام تقریباً ٹھپ ہو گیا تھا۔ دوسروں کے کبوتر اپنے باڑے میں شامل کرنے کی سعی جب نقطۂ عروج پر پہنچ کے بے اثر ہو گئی تو دوسرے کے کبوتروں کو بھگانے کی کوششیں ہونے لگیں۔ اس لیے کہ اوپر جانے کے لیے خود اوپر جانا ضروری نہیں ہے۔ اگر دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر اسے نیچے لے آیا جائے تب بھی کام ہو جاتا ہے۔ دوسروں کے کبوتروں میں غلطاں لوگ خود اپنے کبوتروں سے غافل ہو گئے جس سے غیروں کو ان پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع مل گیا۔ بہرحال جنون کا نصف ماہ بھی گذر گیا۔ ان پندرہ دنوں میں کبوتر خانہ گاؤں میں وہ سب ہو گیا جو پچھلے پندرہ سالوں میں نہ ہوا تھا لیکن ابھی اصل کھیل باقی تھا۔

پنچایت کی رات ہوا کے جھونکے ایک خاص آواز کے ساتھ تیز تیز چلنے لگے۔ صبح جیسے ہی گاؤں والوں نے اپنے کبوتروں کے ڈربے انہیں پنچایت لے جانے کے لیے کھولے وہ اُڑ اُڑ کر ہوا ہونے لگے۔ گویا وہ اسی کے انتظار میں تھے۔ کبوتروں کا یہ رویہ ان کے معمول کے خلاف تھا اس لیے کہ وہ عام طور سے ڈربہ سے باہر نکلنے کے بعد کچھ سستاتے پر جھاڑتے پھر دانہ چگتے اور اس کے بعد پرواز بھرتے لیکن آج وہ نہ سستائے اور نہ انہوں نے دانے کی جانب دیکھا۔ دیکھتے دیکھتے کبوتر خانہ گاؤں کے سارے کبوتر رفو چکر ہو چکے تھے۔

گاؤں والے پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ان لوگوں کو کبوتروں کی اس قدر فکر تھی کہ وہ تیز سے تیز تر چلنے والے ہوا کے تھپیڑوں سے یکسر غافل ہو گئے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ گھروں کی چھت بھی آندھی اُڑائے لیے جا رہی ہے۔ پیڑ اُکھڑنے لگے ہیں، دیواریں گرنے لگی ہیں تو انہیں ہوش آیا۔ ہوا کے جھکڑ اس قدر تیز تھے کہ گاؤں والے بھی تنکوں کی طرح ہواؤں کے دوش پر اُڑے جا رہے تھے۔ کبوتروں کی مانند، پروں سے محروم، ہوا میں تیرنے یا اپنا توازن قائم رکھنے سے قاصر۔

خالق کائنات نے انہیں دور دراز کی مٹی سے بنایا تھا۔ ہوا انہیں ان دور دراز کے مقام تک اُڑا کر لے جاتی اور ان کی اپنی مٹی کے پاس پٹخ دیتی۔ وہ اس پر گرتے اوراس میں رل مل جاتے۔

جب آندھی رکی تو کبوتر خانہ گاؤں میں نہ کبوتر تھے اور نہ کبوتر باز تھے!

٭٭٭

 

 

 

نشیب و فراز

 

میرے والد گاؤں میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے ہم لوگ مسجد سے متصل حجرے میں رہتے تھے۔ سارا گاؤں میرے والد کا معتقد تھا لوگ اپنے گوناگوں مسائل کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے۔ کوئی عبادات کے بارے میں ان سے پوچھتا کوئی معاملات کے سلسلے میں ان سے رہنمائی طلب کرتا، کوئی اپنے خاندانی مسائل کا تصفیہ کرنے کے لئے ان کے پاس آتا تو کوئی اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ وہ ان میں دلچسپی لیتے اور انہیں حل کرنے کی حتی المقدورسعی کرتے۔ کسی کے گھر میں خوشی یا غم کا کوئی موقع ہوتا تو سب سے پہلے امام صاحب کو اطلاع دی جاتی اور سب سے پہلے وہ حاضر بھی ہو جاتے۔ ہمارا چھوٹا ساگاؤں ایک بڑے سے خاندان کی طرح تھا جس کے سربراہ میرے والد صاحب تھے۔

والد صاحب کے طفیل ہم بھائی بہنوں کی گاؤں میں بڑی عزت تھی وقت اچھا گزر رہا تھا مگر گردشِ ایام کے الٹ پھیر سے گھر کے بچے جوانی کی دہلیز میں داخل ہو گئے اور والد صاحب ضعیف ہو گئے۔ ایک دن انہوں نے جمعہ کی نماز کے بعد گاؤں والوں کو رکنے کے لئے کہا۔ سب لوگ بیٹھے رہے۔ اس کے بعد انہوں گاؤں سے اپنی قریبی تعلق کا اظہار کیا انہیں یاد دلایا کہ کس طرح وہ نوعمری میں مدرسہ سے فارغ ہو کر یہاں آئے تھے اس وقت مسجد کا کیا حال تھا۔ مدرسہ کس حالت میں تھا اور وہ خود کیسے تھے؟ پھر دھیرے دھیرے کیسی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور وہ وقت بھی آ گیا کہ جب وہ بوڑھے ہو چکے ہیں۔

والد صاحب اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے بولے انہیں لگتا ہے کہ اب وہ امامت کے فرائض بحسن و خوبی ادا نہیں کر سکتے۔ نائب امام کافی عرصہ سے اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ انہیں ترقی دے کر امامت کی ذمہ داری پر فائز کر دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے اپنی سبکدوشی کی خواہش کا اظہار بڑے آرام سے کر دیا مگر گاؤں والوں پر یہ خبر بم کی طرح گری ان لوگوں نے کبھی اس زاویہ سے سوچا ہی نہیں تھا۔ ان کے ذہن میں مختلف خدشات کلبلانے لگے تھے کوئی سوچ رہا تھا

اس عمر میں امام صاحب کہاں جائیں گے؟

ان بچوں کا کیا ہو گا؟

دو بیٹے ہیں وہ بھی بے روزگار؟

تین بیٹیاں ہیں جو شادی کے لائق ہونے والی ہیں؟

اور پھر امامت سے سبکدوش ہونے کے بعد ان کا گزر بسر کیسے ہو گا؟

ان کے نہ کھیت ہیں اور نہ کاروبار؟ گاؤں والے پنشن نام کے کسی چیز سے واقف نہیں تھے جس میں لوگوں کو بغیر کام کے تنخواہ ملتی ہے۔

مسجد میں قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی سب لوگ سوگوار تھے کچھ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ گاؤں کے سرپنچ شرف یاب خان کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا میں امام صاحب کی اپنے باپ سے زیادہ عزت کرتا ہوں انہوں نے میرے کان میں اذان دی انہوں نے مجھے الف ب سکھایا اور اس قابل بنایا کہ میں ان کے اور آپ سامنے کھڑا ہوا ہوں۔ آج تک میں تو کیا گاؤں والوں میں سے شاید ہی کسی نے امام صاحب سے کبھی اختلاف کیا ہو؟ ہم سب نے ہمیشہ ہی ان کے ہر فیصلہ کو سر آنکھوں پر رکھا لیکن آج میں ذاتی طور اس حکم کی تعمیل میں تامل محسوس کر رہا ہوں۔

امام صاحب بولے شرف یاب بیٹے میں ان جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن دنیا جذبات سے نہیں چلتی ہر ایک کو اپنے وقت پر یہاں آنا ہوتا ہے یہاں سے جانا ہوتا ہے۔ ہر کوئی صحیح وقت پر اپنا کام شروع کرتا ہے اورمناسب موقع پر سبکدوش ہو جاتا ہے۔

مجمع میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا میرا سوال یہ ہے کہ صحیح اور مناسب وقت کا تعین کیسے کیا جانا چاہئے؟

امام صاحب مسکرائے اور انہوں نے کہا شاباش اسی طرح کے معقول سوالات انسان کو حقیقت کی معرفت کرواتے ہیں صحیح وقت وہ ہوتا ہے جب انسان ذمہ داری کو سنبھالنے کے قابل ہو جائے اور مناسب وقت وہ ہوتا ہے جب وہ انہیں ادا کرنے سے معذور ہو جائے۔

دوسرا بولا کون کہتا ہے کہ آپ معذور ہیں؟

کسی کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے آپ لوگ نہیں کہتے اس لئے کہ آپ کی آنکھوں پر عقیدت کی عینک چڑھی ہوئی ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ کہنے کی نوبت آنے سے قبل میں از خود سبکدوش ہو جاؤں۔

لیکن آپ سبکدوش ہو کر کہاں جائیں گے؟

میں وہیں جاؤں گا جہاں سے آیا تھا۔ میں اپنے گاؤں چلا جاؤں گا۔

آپ کا گاؤں؟

آپ کا؟ ۔۔۔۔۔ اس گاؤں کے سوا کوئی اور گاؤں بھی ہے؟ ۔۔۔۔۔ یہ ہم نہیں جانتے؟

۔۔۔۔۔۔ ہم نے کبھی آپ کو وہاں جاتے آتے نہیں دیکھا! ۔۔۔۔

ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح یہ ہمارا گاؤں ہے اسی طرح آپ کا بھی یہی گاؤں ہے؟ ۔۔۔۔۔

کس گاؤں میں جانے کی بات آپ کر رہے ہیں؟ سوالات کا سیلاب امڈ پڑا تھا۔

ہاں تمہاری بات درست ہے۔ میں نے بھی اس گاؤں کو کبھی پرایا نہیں اپنا ہی سمجھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں یہاں ایک کام کرنے کے لئے آیا تھا جو اب ختم ہو چکا ہے اس لئے مجھے واپس جانا چاہئے۔

لیکن آبائی گاؤں میں آپ کا کون ہے؟

میں نہیں جانتا کہ کون ہے اور کون نہیں ہے۔ کچھ لوگ کبھی کبھار یہاں سے گزرتے ہوئے ملنے آ جاتے تھے تو ان سے خیر خبر مل جاتی تھی لیکن وہ سب لوگ میری طرح بوڑھے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے آنا جانا چھوڑ دیا ہے نئی نسل کو میں نہیں جانتا اس لئے وہ بھی مجھے نہ جانتی ہے اور نہ ملنے آتی ہے۔ اس لئے میں اپنے گاؤں والوں کے بارے میں فی الحال بہت کم جانتا ہوں۔

ٍ      کیا آپ کی وہاں کھیتی باڑی ہے؟

کھیتی باڑی جو وراثت میں ملی تھی وہ تو میں نے کاشت کاری کرنے والوں کو حبہ کر دی اس لئے کہ امامت کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد زراعت کا خیال میں نے اپنے دل سے نکال دیا تھا۔

سوالات کا لامتناہی سلسلہ لحظہ بہ لحظہ امام صاحب کو گاؤں کے سرحدوں کے قریب ڈھکیلتا جاتا تھا۔ شرف یاب نے اس بات کو محسوس کر لیا اور وہ کھڑا ہو گیا سب لوگ خاموش ہو گئے۔ شرف یاب نے کہا باتیں بہت ہو چکی ہیں آپ لوگوں کو گھر جانا ہے کھانا کھانا ہے۔ آپ جائیں نماز عصر کے بعد گاؤں کی پنچایت میں امام صاحب کی تجویز پر فیصلہ ہو گا اور بعد نماز مغرب آپ سب کو بتلا دیا جائے گا۔ لوگ بوجھل قدموں سے اٹھے اور بغیر کچھ کہے سنے اپنے اپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔ امام صاحب کو ایسامحسوس ہوا گویا یہ لوگ ان کی تدفین سے لوٹ رہے ہیں۔ اس روز گاؤں میں سوائے امام صاحب اور ان کے اہل خانہ کے کسی نے کھانا نہیں کھایا۔ جب مردوں نے خواتین کو امام صاحب کا فیصلہ بتلایا تو وہ بھی غم زدہ ہو گئیں اور بغیر کھائے لیٹ گئیں۔ ہر کسی کو مغرب کی نماز کا انتظار تھا۔

نماز جمعہ کو مسجد میں جس قدر بھیڑ ہوتی تھی نماز مغرب میں عام طور پر اس کے مقابلے بہت کم نمازی ہوتے تھے لیکن اس روز تعداد بڑھ گئی تھی۔ ایسے لوگ جنھوں نے جمعہ کی نماز کسی وجہ سے دوسرے علاقہ میں پڑھی تھی اور شام میں گھر لوٹے تھے وہ بھی نماز مغرب میں حاضر ہو گئے۔ ایسا عجیب و غریب ماحول پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ بعد نماز مغرب شرف یاب خان اٹھ کر مائک پر آئے انہوں نے کہا گاؤں والو میرے ہوش سنبھالنے کے بعد آج پہلی مرتبہ گاؤں کی پنچایت اس طرح سے ہوئی کہ اس میں امام صاحب شریک نہیں تھے۔ ہم سب نے امام صاحب کے فیصلے پر غور کیا چونکہ ہم نے آج تک امام صاحب کے کسی فیصلہ سے روگردانی نہیں کی اسی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ہم نے ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔ یہ فیصلہ مجمع پر بجلی بن کر گرا۔

شرف یاب نے بات جاری رکھی۔ امام صاحب کی حیثیت ہمارے اس خاندان کی سربراہ کی سی ہے اس لئے ہم ان سے کچھ گذارشات کرنے کا حق رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ غور فرمائیں گے نیز جن کو مناسب سمجھیں گے شرف قبولیت عطا فرمائیں گے۔ ہماری پہلی گذارش تو یہ ہے کہ امام صاحب اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے باوجود اسی گاؤں میں قیام فرمائیں۔ آپ کی موجودگی ہم گاؤں والوں کے لئے سایۂ رحمت ہے۔ نئے امام مکرم خان صاحب مکان تبدیل کرنے کے بجائے اپنے اسی گھر میں رہیں گے جہاں پہلے سے رہائش پذیر ہیں اس صورت میں امام صاحب کی رہائش اسی مکان میں ہو گی جس میں وہ رہتے ہیں۔ پنچایت کی یہ تجویز بھی ہے کہ امام صاحب کے دونوں عالم دین بیٹے گاؤں کے مدرسے میں مدرسین کے فرائض انجام دیں تاکہ ان کے علم و فضل سے گاؤں والے استفادہ کر سکیں۔ ہماری امام صاحب سے گذارش ہے کہ ہماری ان تجاویز کو قبول فرمائیں۔

امام صاحب کھڑے ہوئے اور پر وقار انداز میں بولے گاؤں والو! جس عقیدت و محبت کا مظاہرہ آپ لوگوں نے کیا ہے اس کی توقع میں نے کبھی نہیں کی تھی۔ پنچایت کے تمام فیصلے میں قبول کرتا ہوں سوائے ایک کے۔ حاضرین محفل کی سانس اس ایک پر جا کر اٹک گئی۔ امام صاحب بولے میری سبکدوشی سے مدرسہ میں ایک مدرس کی جگہ خالی ہوئی ہے اس پر اگر پنچایت اور نئے صدر مدرس مولانا مکرم خان صاحب مناسب سمجھیں تو میرے بیٹے اعظم کو رکھ لیں۔ غلام اعظم اسے قبول کر لے تو مجھے خوشی ہو گی لیکن جہاں تک غلام رسول کا سوال ہے نہ تو اس کے لئے جگہ ہے اور نہ ہی وہ اس قابل ہوا ہے۔ وہ تو ابھی بچہ ہے بچوں کو کیا پڑھائے گا اس لئے فی الحال میں  اسے مدرس بننے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ امام صاحب کی یہ شرط گاؤں والوں کے لئے کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں تھی ان کے لئے توبس یہی کافی تھا کہ امام صاحب گاؤں میں رکنے کیلئے راضی ہو گئے تھے۔

شرف یاب پھر مائک پر آئے اور انہوں نے نے کہا امام صاحب کا ہر حکم سر آنکھوں پر ہمیں خوشی ہے کہ انہوں نے ہماری استدعاکو قبول فرمایا اور اس گاؤں میں رہنا پسند کیا۔ اب ایک ذاتی گذارش میں امام صاحب سے کرنا چاہتا ہوں اگر وہ مناسب سمجھیں تو اپنی بڑی بیٹی نیک زاد بانو کا نکاح میرے بیٹے ظفر یاب سے کرنے پر اپنی رضامندی بتلائیں تاکہ امام صاحب کے ساتھ اس گاؤں کا مزید ایک رشتہ قائم ہو جائے۔

امام صاحب مسکرائے مائک پر آئے انہوں نے کہا مجھے یہ رشتہ منظور ہے لیکن میں اپنی بیٹی کی رضامندی معلوم کر کے شرف یاب کو بتلا دوں گا اس کے بعد وہ مولانا مکرم خان کی جانب بڑھے جو سرجھکائے بیٹھے تھے امام صاحب کو اپنے سے قریب آتا محسوس کر کے وہ کھڑے ہو گئے امام صاحب نے ان کے سر کی دستار کو اتار کر قریب منبر پر رکھا اور پھر اپنے سر کی دستار ان کے سرپر رکھ دی مجمع پکار اٹھا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، نعرہ تکبیر اللہ اکبر۔ لوگ امام صاحب سے اس طرح گلے مل رہے تھے جیسے دلہن کو میکے سے سسرال روانہ کرتے وقت ملا جاتا ہے۔

اس تقریب کے بعد غلام رسول کا ایک بھائی برسر روزگار ہو گیا ایک بہن کا نکاح طے ہو گیا لیکن دو بہنیں ابھی باقی تھیں اور خود اسے روزگار تلاش کرنا تھا۔ یہ کام آسان نہیں تھا گاؤں میں کوئی کام اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ کاشتکاری کے لئے زمین درکار تھی۔ امام صاحب کے لڑ کے کو اپنے کھیت پر مزدور کے طور پر رکھنا گاؤں والوں کو گراں گزرتا تھا۔ دوکانیں اس قدر چھوٹی تھیں کہ ان پر نوکر چا کر کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ مالک اور اہل خانہ ہی اسے چلانے کے لئے کافی ہو جاتے تھے بلکہ ان میں سے بھی کچھ مزدوری کرتے تو کچھ ملازمت کے لئے دوسرے شہروں کی جانب نکل جاتے تھے۔ ان مہاجرین میں ایک غلام رسول کا دوست محمود خان تھا جو شارجہ میں ٹیکسی چلاتا تھا اور اس وقت گاؤں میں چھٹی گذار رہا تھا۔ محمود خان کے پاس کوئی کام نہ تھا دن بھر خالی خولی وقت گذارتا، کھاتا پیتا اور سوجاتا تھا۔ لیکن کھانے سونے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ گاؤں کے بے روزگار دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا جن میں سے ایک امام صاحب کا چھوٹا بیٹا غلام رسول خان بھی تھا۔ ایک دن غلام رسول نے محمود سے پوچھا یار تمہارے منہ سے متحدہ عرب امارات کی اس قدر تعریف سننے کے بعد ایک بار وہاں جانے کو دل کرتا ہے۔

محمود خان نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولا وہاں جانے کے لئے صرف دل کافی نہیں بل کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ بل کیا سانپ کا بل ہے؟

ا رے سانپ کے بل سے بھی خطرناک ہے یہ بل۔ انگریزی میں روپئے اور رسید دونوں کو بل کہتے ہیں۔

انگریزی میں روپئے کو بل کہتے ہیں تو یہ سانپ سے خطرناک کیسے ہو گیا؟

اوہو اتنے بڑے عالم دین کے بیٹے ہو کر اتنی معمولی بات نہیں جانتے سانپ کے زہر کا تریاق موجود ہے اور اگر بروقت علاج ہو جائے تو زہر کا اثر زائل بھی ہو جاتا ہے۔ اگر علاج نہ ہو پائے تب بھی آدمی مر جاتا ہے اور کھیل ختم۔ ایک بار کی موت اور ہمیشہ کی چھٹی لیکن روپیوں کے زہر سے آدمی نہ مرتا ہے نہ زندہ رہتا ہے وہ بدستور کرب میں گرفتار رہتا ہے اور سب سے خاص بات، یہ زہر بے تریاق اگر ایک بار چڑھ جائے تو بس موت کے ساتھ ہی اترتا ہے۔

غلام رسول بولا یار محمود امارات میں جا کر تو تم فلسفی ہو گئے ہو۔

یہی سمجھ لو وہاں کے انسان چلتی پھرتی کتابیں ہیں ہم ٹیکسی ڈرائیور دن بھر نت نئی کتابوں کو پڑھتے رہتے ہیں اسی لئے ہمارے علم کی وسعت لائبریری کے اندر محصور رہنے والے بڑے بڑے دانشوروں سے زیادہ ہوتی ہے۔

لیکن اس علم کا کیا فائدہ جو ایک قریبی دوست کی وہاں تک نہ پہنچا سکے غلام رسول نے لوہا گرم دیکھ کر ضرب لگائی۔

میں نے کب کہا کہ تم وہاں نہیں آ سکتے؟ اور میں اس کے لئے کوشش نہیں کروں گا؟ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ تیاری کرو مگر جلد بازی نہ کرنا۔

دوسری بات تو سمجھ میں آتی ہے پہلی بات سمجھ میں نہیں آئی۔

لگتا ہے تم امارات آنے کے لئے سنجیدہ ہو؟

غلام رسول نے جواب دیا تو اور کیا تم مذاق سمجھ رہے تھے؟

اچھا تو دیکھو ابھی پندرہ دن بعد میری چھٹیاں ختم ہو جائیں گی میں یہاں سے پاورش جاؤں گا تو تم ایسا کرنا کہ میرے ساتھ چلنا وہاں میرا ایک رشتہ دار ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا ہے اس میں تم کام شروع کر دینا اور ساتھ میں گاڑی چلانا بھی سیکھ لینا۔ لائسنس بنانا اس سے تمہارا شہر میں گزارہ بھی ہو جائے گا، رہائش بھی مل جائے گی اور گاڑی پر ہاتھ بھی صاف ہو جائے گا۔ تب تک میں تمہارے لئے ویزا کا بندوبست کرتا ہوں اور پھر ٹکٹ اور ویزا بھیج کر تمہیں بلا لوں گا یہ ہے تیاری۔

بہت خوب لیکن پاورش جانے سے پہلے تم ان پندرہ دنوں میں مجھے گاؤں کے اندر بھی تو گاڑی چلانا سکھا سکتے ہو۔

ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے سرپنچ شرف یاب کی گاڑی اکثر کھڑی رہتی ہے تم اپنے والد صاحب سے کہہ کر اسے چلانے کی اجازت حاصل کر لو میں تمہیں گاڑی چلانا سکھادوں گا۔

اس میں والد صاحب کی کیا ضرورت کیا شرف یاب مجھے نہیں پہچانتے جو سفارش کی ضرورت لاحق ہو۔

محمود خان کو غلام رسول کی خود اعتمادی پسند آئی وہ بولا یہ ہوئی نا مردوں والی بات۔ شام میں ہم دونوں شرف یاب کی حویلی پر چلیں گے اور میں اس سے تمہارے بارے میں بات کروں گا مجھے یقین ہے یہ کام ہو جائے گا۔۔۔۔۔ ان شاء اللہ

دو ہفتے کے اندر غلام رسول گاڑی چلانا سیکھ گیا اور محمود خان کے ساتھ پاورش جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ والد صاحب نے اسے بڑی محبت اور شفقت سے روانہ کیا ماں اور بہنوں کے آنکھوں میں آنسو تھے لیکن بھائی غلام اعظم اس کے ساتھ تھا وہ بس اڈے تک چھوڑنے کے لئے آیا اور راستہ میں بڑے بھائی کی حیثیت سے نصیحت کی غلام رسول تم شہر جا رہے ہو۔ شہروں کو مایا نگری کہا جاتا ہے وہاں جا کر لوگ کھو جاتے ہیں تم اپنا خیال رکھنا۔

مایا نگری میں اپنا خیال کیسے رکھا جاتا ہے؟ غلام رسول نے معصومیت سے پوچھا

غلام اعظم نے جواب دیا ’’زہد‘‘ مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مادہ پرستی کے زہر پر تریاق ہے ’’زہر اور تریاق‘‘ ان الفاظ نے غلام رسول کے دل میں محمود کی گفتگو تازہ کر دی۔ اس نے سوچا محمود نہیں جانتا کہ تریاق موجود ہے۔ نا فہم ہے بے چارہ۔

پاورش میں اسے پتہ چلا کہ اس شہر کا اصلی نام ’پیشہ ور‘ ہے۔ وہاں بڑی سخت زندگی تھی وہاں کے لوگ اس کے والد صاحب کو نہیں جانتے تھے۔ وہ ان کے لئے امام صاحب کا بیٹا اور ایک معزز عالم دین نہیں بلکہ ٹرک پر کام کرنے والا ایک مزدور تھا۔ انہوں اس سے خوب دبا کر کام لیا۔ اور وہی زمانہ تھا جب اس نے جفا کشی کی تعلیم حاصل کی۔ یہ ایک ایسی عملی تربیت تھی جو اس کے والد صاحب اور ان کا مدرسہ اسے نہ دے سکا تھا۔ لیکن اس دوران وہ ساری باتیں جو اس نے برسوں کی محنت سے سیکھی تھیں ایک ایک کر کے بھولتا گیا۔ قرآن مجید کی تلاوت کا شغف سب سے پہلے ختم ہوا اور بالآخر نمازوں کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا۔

جمعہ کے جمعہ نماز پڑھنا وہ اپنے لئے کافی سمجھنے لگا اس لئے کہ اس کے ساتھ رہنے اور کام کرنے والے کچھ لوگ صرف عیدین کی نمازوں پر اکتفاء کئے ہوئے تھے۔ ان کے پاس گپ شپ کے لئے، سیر و تفریح کے لئے، ٹی وی کے لئے، فلموں کے لئے، غرض کہ ہر شئے کے لئے وقت تھا لیکن نماز کے لئے نہیں تھا۔ جس وقت محمود خان اسے پاورش میں چھوڑ کر گیا تھا تو گویا وہ لمبے تختہ والے (سی سا) جھولے پر اوپر بیٹھا ہوا تھا۔ نیکیوں کی بلندی پر تھا اور دوسری جانب بدی زمین کو چھو رہی تھی لیکن آہستہ آہستہ توازن بدلنے لگا۔ یہاں تک کہ چھ ماہ بعد جب محمود یار خان نے ویزا اور ٹکٹ روانہ کیا تو غلام رسول خان جھولے کی دوسرے سرے پر تھا۔ بدی کا پلہ آسمان کو چھو رہا تھا اور نیکی زمین بوس تھی۔

غلام رسول کو اس کی مطلق پرواہ نہیں تھی وہ خوش تھا کہ گاڑی پر ہاتھ صاف ہو گیا ہے، لائسنس بن گیا ہے، پاسپورٹ تیار ہے، مالک اس پردوسرے ملازمین کی بہ نسبت زیادہ اعتماد کرتا ہے۔ اس نے تنخواہ میں بھی معمولی سا اضافہ کر دیا ہے۔ ان کامیابیوں پر نازاں و فرحاں غلام رسول خان شارجہ پہنچ گیا۔ محمود یار خان نے ائیر پورٹ پر اس سے ملاقات کی اور اپنے ڈیرے پر لے آیا۔ اس کے ڈیرے میں چار آدمی رہتے تھے ایک ٹیلی ویژن تھا جس میں ہندی فلم چل رہی تھی چاروں لوگ مزہ لے رہے تھے کہ اچانک عشاء کی اذان ہوئی۔ محمود یار خان اٹھا اور اس نے ٹیلی ویژن بند کر دیا۔ غلام رسول نے پوچھا یہ کیا کیا تم نے؟

محمود بولا تم نے سنا نہیں اذان ہوئی۔ کمرے میں موجود ایک آدمی حمام کی جانب چل پڑا اور وضو بنا نے لگا۔ غلام رسول کی طبیعت پر فلم کا منقطع ہونا گراں گزر رہا تھا۔ لیکن آگے بڑھ کر دوبارہ ٹیلی ویژن چلانے کی جرأت اس کے اندر نہیں تھی ایک ایک کر سب لوگ مسجد کی جانب روانہ ہو گئے۔ غلام رسول نے آگے بڑھ کر ٹیلی ویژن چلا دیا اور پھر فلم دیکھنے لگا پانچ منٹ بعد مسجد سے اقامت کی آواز آئی اور ایک دھماکے کے ساتھ روشنی چلی گئی۔ ٹیلی ویژن بند ہو گیا اس نے سوچا ارے یہ تو پاکستان والی بات ہے یہاں بھی بجلی جاتی ہے۔ اب کیا کرے فلم بند ہو چکی تھی کمرے میں اندھیرا تھا کوئی اور موجود نہیں تھا وہ سوچتا رہا اس اندھیرے میں کیا کرے اسے خیال آیا چلو نماز ہی پڑھ لیں وہ وضو کے لئے حمام میں داخل ہوا تو ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھتا تھا، کرے تو کیا کرے؟ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اس نے سوچا چلو مسجد میں وضو کرتے ہیں وہاں جا کر وضو سے فارغ ہوا ور باہر نکلا تو لوگ مسجد سے واپس آ رہے تھے محمود یار خان نے اسے دیکھا تو سمجھا کہ وہ بھی نماز سے واپس آ رہا ہے۔ غلام رسول بولا یہ تو پاکستان والی بات ہو گئی۔

محمود یار خان نے کہا نہیں وہاں بجلی وقتاً فوقتاً جاتی رہتی ہے یہاں منصوبہ بند طریقہ پر بجلی بند کی جاتی ہے تاکہ مرمت وغیرہ کا کام کیا جا سکے۔ یہاں یہ حادثاتی معاملہ لگتا ہے کوئی ٹرانسفارمر وغیرہ جل گیا ہو گا، لیکن چند منٹوں میں بجلی بحال کر دی جائے گی۔ محمود کی بات حرف بحرف سچ ثابت ہوئی کمرے پر آنے تک بجلی آ چکی تھی محمود نے آگے بڑھ کر ٹیلی ویژن شروع کیا تو وہ بند ہی رہا۔

ارے اسے کیا ہو گیا؟ اس کمرے میں موجود بجلی کا کام کرنے والے خیر دین نے پوچھا۔

غلام رسول بولا شاید بجلی چلے جانے سے خراب ہو گیا ہو۔

خیر دین ہنسا اور بولا یار محمود تمہارا دوست تو بجلی کی ابجد بھی نہیں جانتا۔ بجلی کا آنا جانا تو انہیں آلات کو خراب کر سکتا ہے جو چل رہی ہوں کسی بند مشین پر بھلا وہ کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟ بات معقول تھی لیکن ٹی وی بند کب تھا؟

محمود بولا ٹھیک ہے الکٹرکل انجنیئر صاحب لیکن پھر یہ ٹی وی کیوں بند ہو گیا؟ اذان کے وقت تک تو اچھا بھلا چل رہا تھا، میں نے خود اسے بند کیا تھا۔

ہاں تمہاری بات صحیح ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ ٹی وی بجلی کے آنے جانے سے خراب نہیں ہوا ہے اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ خیر دین بولا

غلام رسول جانتا تھا کہ ٹی وی بجلی کے آنے جانے ہی سے خراب ہوا ہے۔ لیکن وہ اس بات کا اعتراف کرنا نہیں چاہتا تھا کہ ان کے جانے کے بعد اس نے ٹی وی چلا دیا تھا وہ اپنی حرکت پر نادم و شرمندہ تھا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا اس کے ایمان کا ٹرانسفارمر نہ جانے کب کا بند ہو چکا ہے اوراس کا تقویٰ جل کر خاک ہو چکا ہے۔ خیر دین نے ٹی وی کو کھولا۔ اس کے اندر سے فیوز کو نکالا جو جل چکا تھا اور اس میں آدھے درہم کا نیا فیوز لگایا۔ ٹیلی ویژن پھر سے چل پڑا فلم جاری ہو گئی سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا۔ غلام رسول کے اندرون کا فیوز کسی کے پاس نہیں تھا اسے تو صرف وہی بدل سکتا ہے بشرطیکہ دلچسپی ہوتی لیکن اس کے آثار نہیں تھے۔ اس نے پردے پر چلنے والی فلم کے اندر اپنی زندگی کی حقیقت کو بھلا دیا تھا۔

دو دن بعد محمود اسے ٹرافک کے محکمے میں لے گیا اور بہت جلد وہ لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب سوال گاڑی کا تھا۔ ایک پٹھان چھٹی پر جا رہا تھا غلام رسول کو اس کی ٹیکسی دو مہینے کے لئے مل گئی۔ یہ اس کے لئے یہ نعمتِ غیر مترقبہ تھی اس کے واپس آنے تک دو مہینہ کے عرصہ میں دوسری ٹیکسی تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اس دوران اسے ایک گاؤں والے نے بتایا کی شارجہ کی چھوٹی ٹیکسی کے بجائے ابو ظنی دبئی کے بیچ بڑی دس سیٹوں والی ٹیکسی چلائے اس میں مشکل بھی کم ہے اور آمدنی بھی زیادہ۔ اس نے اس موقع کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور شارجہ سے ابو ظبی آ گیا۔

کاروبار چل پڑا اور دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ وہ پابندی سے رقم گاؤں بھیجنے لگا دوسری بہن کی شادی بھی طے ہو گئی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، وہ بہت خوش تھا کہ اس کی محنت سے گھر کی معاشی حالت سدھر گئی تھی، گھر والے اس کے لئے بھی لڑکی تلاش کرنے لگے تھے کہ اس نے اپنے والدین کے لئے حج کا ٹکٹ بھیج دیا اور خود ابو ظبی سے مکہ جانے کی تیاری کرنے لگا لیکن اس کی محرومیت کہ یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی فلائٹ سے ایک ہفتہ قبل والد صاحب کا انتقال ہو گیا والدہ عدت میں بیٹھ گئیں سارا منصوبہ دھر اکا دھرا رہ گیا وہ مکہ جانے کے بجائے گاؤں چلا گیا اور تینوں میں سے کسی نے حج نہیں کیا۔ خیر گھر پر دو ہفتوں کی چھٹی گذار کر وہ واپس آ گیا اور سب بھول بھال کر اپنے کام میں لگ گیا بالکل کولہو کے بیل کی طرح صبح صبح ٹیکسی لے کر بس اڈے پہنچ جاتا اور واپسی میں حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی کے باوجود سواریاں بھر کر لے آتا۔ دن میں کئی چکر ہوتے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی۔ ایک دن کمرے میں اس کے ساتھ والے ایک ڈرائیور نے اسے آگاہ کیا دیکھ غلام رسول تو احتیاط کیا کر آج کل تین ہزار درہم جرمانہ ہے۔

وہ بولا میں نہیں ڈرتا۔

دوست نے متنبہ کیا ایک مرتبہ جیل جائے گا تو تیری عقل درست ہو جائے گی۔

بات بڑھ گئی اور دونوں میں لڑائی ہو گئی۔ کمرے کے سارے لوگ غلام رسول کے مخالف ہو گئے اوراسے نکال باہر کیا گیا۔ وہ غصہ میں اپنا سامان لے کر نکل آیا لیکن اب جائے تو کہاں جائے؟ دو گھنٹہ بلاوجہ ابو ظبی کی سڑک ناپنے کے بعد بالآخر نیند سے بوجھل ہو کر گاڑی ہی میں سو گیا۔ صبح کی نماز کے ساتھ آنکھ کھلی اب نئی مصیبت تھی کہ ضروریات سے فارغ ہونے کے لئے کہاں جایا جائے؟ گھر تو تھا نہیں پھر اذان کا خیال مسجد لے گیا وہاں استنجاء وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد اس نے وضو کیا۔

نماز کے لئے خاصہ وقت تھا سوچا کیوں نہ اس بیچ گاڑی کو بھی غسل دے دیا جائے بعد میں وضو خانہ بند ہو جائے گا اور دن کے وقت یہ ممکن نہ ہو گا اس لئے گاڑی دھونے لگا یہ کام ادھورا ہی تھا کہ اقامت کی آواز آئی اس نے سوچا کہ اسے پورا کر لوں پھر نماز میں شامل ہو جاؤں گا لیکن کام ختم ہونے سے قبل نماز ختم ہو گئی لوگ واپس آنے لگے اسے ڈر لگا کوئی ڈانٹ نہ دے اپنا کام ادھورا چھوڑ کر وہ ناشتہ کر کے بس اڈے پہنچ گیا۔

اس روز گاڑی بہت جلد سواریوں سے بھر گئی اور پھر دو گھنٹہ بعد وہ دبئی سے مسافر اٹھا رہا تھا۔ یہ اس کے لئے نیا تجربہ تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اگر اپنے پاس گاڑی ہو تو انسان کسی اور کے گھر میں کیوں رہے؟ اپنی گاڑی اپنا گھر دیگر ضروریات کے لئے مسجد کا حمام۔ کسی دن نہانے کا جی چاہتا تو اذان کے فوراً بعد نہا لیتا اس وقت وضو گاہ بالکل خالی ہوتی تھی۔ جمعہ کے دن ویسے ہی آسانی ہوتی لوگ ویک اینڈ کے باعث فجر کی نماز میں کم آتے اور آتے بھی تو آخر میں۔ اس کا فائدہ اٹھا کر وہ خوب اچھی طرح نہا لیتا۔ زندگی ایک نئے انداز میں چل پڑی تھی مسجد کی سہولیات کو استعمال کرنے کا ابتدائی احساس جرم وقت کے ساتھ کافور ہو گیا تھا۔ کچھ نمازیوں کو وہ کھٹکنے لگا تھا مگر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

ایک روزاس کا ستارہ اچانک گردش میں آ گیا وہ دبئی بس اڈے سے سواریاں اٹھا رہا تھا کہ پولس کا چھاپا پڑا، اور اس سے پہلے کہ فرار ہوتا دھر لیا گیا۔ پولس نے تین ہزار درہم کے جرمانے کی رسید بنا کر اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ تین ہزار درہم پورے مہینے کی کمائی ایک جھٹکے میں نکل گئی۔ ان تین ہزار کے لئے اس نے کیا کیا جتن کئے تھے گاڑی میں سونا، دن بھر شدید گرمی میں سڑکوں کی دھول چاٹنا۔ نہ آرام نہ چین اور سب کچھ ایک منٹ میں نکل گیا۔ اسے بہت غصہ آیا لیکن مجبور تھا۔ اپنے کمرے کے ساتھی کی طرح پولس حوالدار سے نہیں لڑ سکتا تھا اس لئے کہ ایسا کرنے کی صورت میں گھر جانے کی بجائے ملک بدر ہونے کی نوبت آ سکتی تھی۔ وہ غصہ کا گھونٹ پی کر خاموش ہو گیا۔

دوسرے دن خدا کا کرنا ایسا کہ وہ مسجد کے وضو خانے سے گاڑی دھو رہا تھا کہ ایک آدمی اس پر برس پڑا وہ بولا یہ کیا مذاق ہے میں تمہیں گزشتہ کئی دنوں سے دیکھتا ہوں تم مسجد کے حمام میں منہ ہاتھ دھوتے ہو گاڑی بھی دھوتے ہو اور نماز تک کو نہیں آتے تمہیں شرم آنی چاہئے۔

اس پر بھی اسے صبر کرنا پڑا اس لئے کہ الجھنے کے نتیجہ میں بات آگے بڑھ سکتی تھی دیگر لوگوں کو بھی پتہ چل سکتا تھا۔ وہ دل مسوس کر رہ گیا اور اس کو دل ہی دل میں برا بھلا کہنے لگا۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۰۰۰ان کو ہم ہی ملتے ہیں، غریب لوگ، ان پولیس والوں کو کوئی نہیں بولتا جو دن دہاڑے ہماری جیب کاٹ لیتے ہیں۔ ۰۰۰۰۰۰    ہماری محنت کی کمائی لوٹ لیتے ہیں۔ ۰۰۰۰۰۰ مسجد کی سہولت استعمال کی ہے تو کیا؟ مسجد ان کے باپ کی ہے؟ ۰۰۰۰یہ تو اللہ کا گھر ہے؟ کیا خدا میرا نہیں ہے؟ صرف انہیں کا ہے؟ ۰۰۰۰۰۰۰میں نے اس کی جو بھی چیز استعمال کی ہے اس کا حساب میں دوں گا، یہ کون ہوتے ہیں مجھ سے پوچھنے والے؟ ۰۰۰۰۰۰۰یہ کیا جانیں میری مجبوریاں کیا ہیں؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰میرا باپ مر گیا، مجھے گھر سے بے گھر کر دیا گیا، میری محنت کی کمائی مجھ سے چھن گئی۔ ۰۰۰۰۰۰۰ اس وقت یہ سارے ناصح کہاں مر گئے تھے؟ ۰۰۰۰۰۰۰کسی نے جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ کیا تم نے کھانا کھایا؟ چائے پی؟ اور کیسے گذارا کرو گے؟ گھر کیا بھیجو گے؟

وہ علیٰ طول ان منفی خطوط پر سوچتا رہا اور اس شخص کو کوستا رہا جس نے اسے سارے لوگوں کے سامنے رسوا کیا تھا۔ اس کے اندر نفرت کے شعلے اٹھ رہے تھے۔ وہ سیدھے گاڑی لے کر بس اڈہ پہنچ گیا۔ اس روز عجیب صورتحال تھی۔ اس کے بعد والی گاڑیاں سواریوں کے ساتھ روانہ ہو چکی تھیں لیکن اس کی گاڑی تھی کہ بھرنے کا نام نہ لیتی تھی۔ دیکھتے دیکھتے بیٹھی ہوئی اکّا دکّا سواریاں اس کی گاڑی سے اترتیں اور دوسروں کی ٹیکسی میں سوار ہو جاتیں اور وہ دیکھتا رہ جاتا۔ اب وہ اس شخص کے بجائے اپنی قسمت کو کوسنے لگا کہ ایک سواری آ کر اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس مسافر نے نماز فجر کے بعد اسے مسجد کے باہر دیکھ رکھا تھا۔ اس نے بڑی حلاوت سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟

غلام رسول!

بڑا اچھا نام ہے۔ بھلا رسول سے اچھی غلامی اور کس کی ہو سکتی ہے؟

اس نے تائید میں صرف اپنے سر کو جنبش دینے پر اکتفا کیا۔

مسافر نے کہا بھئی واہ تم فجر کے بعد دبئی جا کر بڑی جلدی واپس آ گئے۔

غلام رسول نے جواب دیا جی نہیں ایسی بات نہیں میں صبح سے یہیں کھڑا ہوا ہوں آج نہ جانے کیا بات ہے؟

مسافر بولا دیکھو غلام رسول نماز کیلئے صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔ تم نے پانچ منٹ بچائے اور گزشتہ ایک گھنٹہ پچاس منٹ سے یہاں کھڑے ہوئے ہو۔ اس شخص کے لب و لہجہ میں بلا کا درد تھا وہ کہہ رہا تھا اچھا ہوتا جوتم نماز پڑھ لیتے۔ تم نے مسجد کے حمام سے نہایت معمولی فائدہ حاصل کیا اپنے جسم اور اپنی روزی کو پاک کرنے کا فائدہ! لیکن تمہاری روح کی پاکی کا انتظام بھی مسجد میں موجود تھا تم نے اپنے آپ کو اس سے محروم رکھا۔ اس آدمی کا ایک ایک لفظ دل میں اتر رہا تھا۔ اس نے بے حد دلسوزی کے ساتھ غلام رسول کواس کی محرومیت کا احساس دلا دیا۔

غلام رسول اس کا شکریہ ادا کر کے بولا وہ سامنے والی ٹیکسی تقریباً بھر چکی ہے۔ آپ اس میں جا کر بیٹھ جائیں۔ اب وہ اپنی ٹیکسی کے ساتھ مسجد کی جانب لوٹ رہا تھا۔ اس مسجد کی طرف جس کے پاس تو وہ ہر روز جاتا تھا لیکن اندر قدم رکھنے سے رک جاتا تھا۔ لیکن آج مسجد اس کے اندر اتر گئی تھی اس کے قلب کا دروازہ اللہ کے گھر کیلئے کھل گیا تھا۔ غلام رسول کی نظر سامنے سڑک پر تھی۔ سگنل کا رنگ سبزسے نارنگی ہو چکا تھا چونکہ غلام رسول بالکل قریب تھا اس نے سوچا کیوں نہ رفتار بڑھا کر اس کے سرخ ہونے سے قبل نکل جائے۔ اس پر نہ جانے کون سی جلدی سوار ہو گئی جو اس نے گاڑی کی رفتار بڑھائی اور پھر ایک زوردار دھماکے کے ساتھ سب کچھ تھم گیا۔ زمین، آسمان، چاند، تارے سارے کے سارے منجمد ہو گئے۔

غلام رسول کی سمجھ میں پہلے تو کچھ بھی نہیں آیا لیکن جب اس نے اپنے حواس مجتمع کئے تو اس کے اس کے آس پاس ایک ہجوم جمع تھا۔ اس کی اپنی گاڑی بری طرح ٹوٹ چکی تھی مگر اس کے کندھے اور ہاتھوں پر معمولی خراشوں کے علاوہ کوئی اور زخم نہیں تھا۔ اس کے سامنے ایک اور گاڑی تھی جس کو درمیان میں غلام رسول نے ٹکر ماری تھی۔ اس کے اندر ایک نوجوان موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ اس کا خون گاڑی سے نیچے سڑک پر پھیل رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ غلام رسول اپنے آپ کو سنبھالتا پولس آ گئی اور اسے حراست میں لے لیا گیا۔ اب زخمی نوجوان ایمبولنس کے اندر ہسپتال اور غلام رسول پولس تھانے کی جانب رواں دواں تھا۔

غلام رسول کی آنکھوں کے سامنے سے خون کے دھبے ہٹے تو اندھیر چھا گیا۔ اسے تو بس یہ یاد تھا کہ ابھی اشارہ لال نہیں ہوا تھا پھر یہ خون کی سرخی کہاں سے آ گئی؟ وہ نوجوان کس سمت سے اور کیسے آیا اور پھر کیا ہو گیا؟ ان سوالات کا کوئی جواب غلام رسول کے پاس نہیں تھا لیکن یہ سولات اہم نہیں تھے بلکہ اب کیا ہو گا؟ یہ سب سے اہم سوال تھا جس نے غلام رسول کو اپنے خونی پنجے میں جکڑ لیا؟ وہ نوجوان جو بھی تھا؟ جہاں سے بھی آیا تھا؟ لیکن اب اس زخمی کا کیا ہو گا؟

اس کے کانوں میں لوگوں کی سرگوشیاں زندہ ہو گئیں!

یہ تو مرگیا! یہ نہیں بچ سکتا!

اس پٹھان نے اس نوجوان کو مار ڈالا!

بلا وجہ ایک نوجوان موت کی آغوش میں چلا گیا!

لیکن یہ پٹھان بھی نہیں بچے گا!

اس نے ایک وطنی کو مارا ہے! اسے تو مرنا ہی پڑے گا!

اسے تو مرنا ہی پڑے گا! یہ پھانسی چڑھے گا!

پھانسی! پھانسی! ! پھانسی! ! ! پھانسی! ! ! !

پولس تھانے سے متصل کوٹھری میں بیٹھا غلام رسول سوچ رہا تھا۔ اگر یہ حادثہ مسجد سے واپسی میں بھی رونما ہوا ہوتا تب بھی ٹھیک تھا۔ وہ اپنا بے داغ دامن لے کر رب کائنات سے کہتا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں نے قانون کی پاسداری کی ہے۔ سگنل ابھی سرخ نہیں ہوا تھا۔ وہ نوجوان خود اپنی ہلاکت کیلئے ذمہ دار ہے۔ میں اس کا قاتل نہیں ہوں۔ قصوروار میں نہیں بلکہ وہ نوجوان ہے اور وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے نادانستہ مجھے پھانسی چڑھا دیا۔ اس لئے کہ میرے پاس کوئی گواہ نہیں تھا لیکن تو گواہ ہے کہ میری کوئی غلطی نہیں ہے۔ میں بے قصور ہوں۔ لیکن اپنے گناہوں کے بوجھ سے لدا پھندا غلام رسول کس منھ سے اپنی فریاد رکھے گا اور وہ اس کے کس کام آئے گی۔ اب تو موت اس کے سامنے ہے اور توبہ و استغفار کا دروازہ بھی بند ہو چکا ہے۔

کوٹھری کا دروازہ کھلا اسی کے ساتھ غلام رسول کی سوچ کا تار ٹوٹ گیا اور ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ چلو تمھارا بیان لکھنا ہے۔

غلام رسول نے اپنے سامنے کھڑے پولس افسر سے سوال کیا۔ اس نوجوان کا کیا حال ہے؟

افسر بولاکسی بھی وقت اس کے موت کی خبر آ سکتی ہے؟

کیا وہ اپنا بیان لکھوا چکا ہے؟

جی نہیں۔ وہ تو ہوش میں آیا ہی نہیں تو بیان کیسے درج کراتا۔

غلام رسول بولا تب پھر میرے بیان کا کیا فائدہ؟

میں سمجھا نہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔

غلام رسول نے پوچھا لیکن اس کے بعد پھر کیا ہو گا؟

ہم تمھیں عدالت میں پیش کر دیں گے۔

غلام رسول نے ایک اور سوال کیا اور پھر اس کے بعد؟

پولس افسر چڑ کر بولا اس کے بعد مجھے کیا معلوم۔ قاضی جو چاہے گا فیصلہ کرے گا۔ ہمارا کام تو بس احکامات کی تعمیل ہے۔

غلام رسول بولا لیکن مجھے معلوم ہے۔ قاضی سزائے موت سنا دے گا اور تم اس پر عمل در آمد کرو گے۔

پولس بولا یہ سب میں نہیں جانتا تم جلدی جلدی بتاؤ کہ کیا ہوا؟

غلام رسول بولا صاحب آپ کیوں اپنا اور عدالت کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مجھے پھانسی دے دیجئے اور قصہ تمام کیجئے۔

پولس افسر کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ ایک عجیب و غریب ملزم سے اس کا پالا پڑا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس آدمی کا دماغی توازن بگڑا ہوا ہے۔ اسی لئے وہ نوجوان اسے نظر نہیں آیا اور بے موت مارا گیا لیکن اگر یہ پا گل ہے تو اسے سزا کیسے ہو سکتی ہے؟ اور اگر اسے نہیں تو سزاکسے ہو گی؟ کیونکہ ایک نوجوان کو ہلاک کرنے کی سزا کسی نہ کسی کو تو ہونی ہی تھی؟

پولس افسر کے خیالات کا تانتا ایک بلند آواز سلام نے توڑ دیا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک بزرگ شیخ اپنے بیٹے کے ساتھ اس کے سامنے کھڑے تھے۔ پولس افسر فوراً اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ اس نے خاص اماراتی انداز میں ناک سے ناک ملا کر شیخ کا استقبال کیا اور مصافحہ کرنے کے بعد بیٹھنے کی گزارش کی۔ ایک کونے میں بیٹھا غلام رسول یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے سوچا ہو نہ ہو یہ اس نوجوان کا باپ اور بھائی ہے۔ اگر انہیں پتہ چل جائے کہ وہی ان کے بیٹے کا قاتل ہے تو مبادا ابھی اسی وقت اس کا قتل ہو جائے لیکن پھر اسے خیال آیا یہ برصغیر نہیں امارات ہے۔ یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ اس لئے کوئی شہری اس کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔

پولس افسر نے بزرگ شیخ سے پوچھا کہیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟

شیخ نے غلام رسول کی جانب اشارہ کر کے کہا ہم لوگ اس کی گواہی دینے کیلئے حاضر ہوئے ہیں۔

غلام رسول نے سوچا یہ لو عدالت کا کام یہیں تمام ہو گیا۔ اب تو بن بلائے گواہ خود چل کر پولس تھانے پہنچ گئے۔

پولس افسر نے پوچھا کیا آپ اسے جانتے ہیں؟

شیخ بولے جی نہیں۔ نہ اس کو اور نہ زخمی ہونے والے نوجوان کو، ہم ان میں سے کسی کو نہیں جانتے لیکن جس وقت یہ حادثہ وقوع پذیر ہوا ہم لوگ وہاں موجود تھے اس لئے اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ جو کچھ دیکھا ہے اسے بے کم و کاست آپ سے بیان کر دیں۔

پولس افسر بولا ویسے تو ہم نے ابھی تک اس کا بیان بھی درج نہیں کیا لیکن خیر آپ بتائیے کہ آپ نے کیا دیکھا؟

بزرگ نے نوجوان کی جانب استفہامیہ انداز میں دیکھا۔ نوجوان بولا میرا نام فیصل تمیمی ہے۔ جس وقت یہ مدینہ زائد کے اشارے پر پہنچا میری گاڑی اس کے برابر میں تھی۔ سگنل کا رنگ سبز سے نارنگی ہو گیا تھا میں نے سوچا کہ سرخ ہونے سے قبل نکل جاؤں لیکن اس سے پہلے کہ میں رفتار بڑھاتا میرے والد نے مجھے منع کر دیا اور میں نے اپنا پیر بریک پر رکھ دیا مگر یہ اپنی گاڑی بڑھاتا چلا گیا اور پھر ہم نے دیکھا کہ وہ نوجوان اچانک دوسری جانب سے اشارہ توڑتا ہوا نمودار ہو گیا۔ اگر میں نے اپنی گاڑی نہیں روکی ہوتی تو وہ اس کے بجائے میری گاڑی سے ٹکرا جاتا اور اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ ہو سکتا وہ خود زخمی ہو جاتا یا ہم میں سے ایک یا دونوں اس دنیا سے سدھار جاتے اس لئے کہ اس کی رفتار بہت زیادہ تھی۔

پولس افسر نے پوچھا کیاجس وقت یہ حادثہ ہوا اشارے کا رنگ سرخ نہیں ہوا تھا؟

بزرگ نے کہا جی نہیں۔ اگر وہ گاڑی اچانک نہیں آتی تو یہ بڑے آرام سے نکل سکتا تھا لیکن میں نے احتیاط کے طور پر اپنے بیٹے کو منع کیا۔

پولس افسر نے پوچھا کیا آپ اور کوئی بات کہنا چاہتے ہیں؟

بزرگ بولے جی نہیں۔

افسر نے ٹیپ ریکارڈر بند کر کے محرر کے حوالے کیا۔ جب تک کہ وہ اسے ٹائپ کر کے لاتا وہ لوگ قہوہ اور کھجور سے شغل کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بیان پر دستخط ثبت کئے۔ اپنا پتہ اور شناختی کارڈ کا نمبر لکھ کر روانہ ہو گئے۔ غلام رسول کا جی چاہا کہ ان کا منھ چوم لے مگر اس کو ایسا محسوس ہوا گویا اس کے پیروں میں زنجیر پڑی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کے نکل جانے کے بعد غلام رسول نے بھی اسی بیان کو دوہرا دیا اور جیل میں فیصلے کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے اندر زندگی کی رمق پیدا ہو چکی تھی۔ غلام رسول اس نوجوان کیلئے دعا کر رہا تھا۔ غلام رسول کو ایک سرکاری وکیل فراہم کر دیا گیا تھا جس نے اس سے ساری معلومات حاصل کر لی تھیں۔ ایک ہفتہ کے اندر عدالت سے غلام رسول کی رہائی ہو گئی اس لئے کہ عدالت میں مدعی کی جانب سے کوئی پیش ہی نہیں ہوا۔ رہائی کے بعد غلام رسول نے وکیل کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا اس نوجوان کا کیا حال ہے؟

وکیل بولا اس کا تو دو روز قبل انتقال ہو گیا۔

اس خبر نے غلام رسول کو سوگوار کر دیا۔ اس نے وکیل سے پوچھا کیا وہ اس نوجوان کے اہل خانہ سے ملاقات کر سکتا ہے؟

وکیل نے پوچھا تم اس جھنجھٹ میں کیوں پڑنا چاہتے ہو جاؤ اپنی خیر مناؤ۔

غلام رسول بولا میں ان سے مل کر تعزیت کرنا چاہتا ہوں۔ اس لئے کہ آخر وہ میرے ہاتھوں حادثہ کا شکار ہوا تھا۔

وکیل بولا اگر تمھارا اصرار ہے تو میں ان سے معلوم کرتا ہوں۔ اگر وہ لوگ تیار ہوں گے تو تم ان سے مل سکتے ہو۔

غلام رسول بولا آپ وقت اور پتہ بھی پوچھ لیں تو مہربانی۔

وکیل نے بتایا کہ ابھی ان کے گھر پر زیارت کی نشست ہے مہمان آ جا رہے ہیں۔ تم بھی چاہو تو جا کر ملاقات کر سکتے ہو۔

غلام رسول نے پوچھا لیکن ان کا گھر کہاں ہے؟

وکیل نے کہا قریب ہے میں ان کے گھر پر تمھیں چھوڑ سکتا ہوں۔

غلام رسول نے کہا مہربانی۔

اب وکیل کو بھی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ اسے حیرت تھی کہ ان لوگوں نے عدالت میں پیروی کیوں نہیں کی۔ ایک مضبوط وکیل کھڑا کر کے غلام رسول کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے تھے۔ وکیل مہلوک کے لواحقین سے مل کر اس کی وجہ معلوم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے غلام رسول سے کہا اگر تم ان کو یہ نہ بتانے کا وعدہ کرو کہ میں تمھارا وکیل تھا تو میں  بھی تمھارے ساتھ اندر چل سکتا ہوں۔ ان کی گاڑی ایک محل نما کوٹھی ’’قصر القبیسی‘‘کے سامنے کھڑی تھی۔ غلام رسول نے سر ہلا کر تائید کی اور وکیل نے اندر گاڑی لگا دی۔ وکیل کے ساتھ غلام رسول بھی دیوان خانے میں پہنچ گیا جہاں شیخ القبیسی چند مہمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ وکیل نے بڑی مکاری سے اپنے بجائے غلام رسول کا تعارف کروایا۔ شیخ نے غلام رسول کو دیکھا تو ان کی آنکھوں میں اپنے بیٹے سیف کی لاش کا منظر آ گیا۔

غلام رسول بولا میں آپ کے غم میں شریک ہوں۔ اس کی آنکھیں پر نم تھیں۔ وہ بولا میں نے واقعی ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

شیخ درمیان میں بول پڑے۔ مجھے سب پتہ ہے۔ شیخ تمیمی سے میں بات کر چکا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ تمھیں چوٹ نہیں آئی۔

غلام رسول بولا مجھے افسوس ہے کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

شیخ القبیسی بولے مشیت کے فیصلوں کو کون ٹال سکتا ہے؟ میں سیف کو سمجھاتا تھا کہ گاڑی اس طرح نہ چلایا کرو۔ کاش کہ میں اس روز اس کے ساتھ ہوتا۔

غلام رسول یہ جواب سن کر چونک پڑا اور اپنے آپ کو سنبھال کر بولا جی ہاں اور سیف اس بے وقت کی موت سے بچ جاتا۔

شیخ القبیسی نے کہا جی نہیں اس کی موت کا وقت کوئی بھی بدل نہیں سکتا تھا۔ نہ تم اور نہ میں لیکن ممکن ہے وہ حادثہ ٹل جاتا لیکن شاید وہ حادثہ بھی اٹل تھا۔ تمھاری ٹیکسی کا کیا حال ہے؟ سنا ہے وہ بھی تباہ ہو چکی ہے؟

غلام رسول بولا جی ہاں میں نے بھی یہی سنا ہے۔ جب اس نے اجازت لی تو شیخ القبیسی نے اپنے بیٹے سالم سے کہا کہ وہ غلام رسول کا فون نمبر نوٹ کر لے۔

محل سے باہر نکلنے کے بعد وکیل نے پوچھا اب کہاں جاؤ گے۔ غلام رسول نے کچھ سوچ کر اسی مسجد کا پتہ بتا دیا جس کی جانب جاتے ہوئے وہ حادثہ کا شکار ہو گیا تھا۔

ظہر کی نماز میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے مسجد کا وضو خانہ مقفل تھا۔ وہ قریب کے ہوٹل میں واش بیسن کے پاس گیا مگر وہاں لکھا تھا پیر دھونا منع ہے۔ غلام رسول نے سوچا اگر وہ وضو کرے گا تو کہیں بیرا نہ ڈانٹ دے اس لئے گلے پر بیٹھے شخص سے پوچھا کیا میں وضو کر سکتا ہوں!

اس شخص نے منہ بگاڑ کر کہا وضو! یہ کون سی نماز کا وقت ہے!

غلام رسول کو غصہ آ گیا، وہ بگڑ کر بولا میں جنازے کی نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ جس کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔

جنازہ کس کا جنازہ!

میرا اپنا جنازہ میں کئی سال پہلے پاورش میں مرگیا تھا اور پھر اپنی لاش کندھوں پر لئے شارجہ اور پھر ابو ظنی آ گیا۔ میں تھک گیا ہوں اسے ڈھوتے ڈھوتے اب میں اسے دفن کر دینا چاہتا ہوں ہمیشہ ہمیش کے لئے۔

ہوٹل والے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس نے کہا کر لو لیکن پانی ادھر ادھر نہ گرانا۔

غلام رسول شکریہ ادا کر کے وضو کرنے لگا لیکن مسجد میں آیا تو وہاں بھی قفل پڑا ہوا تھا۔ وہ صحن میں نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور نیت باندھ لی۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ کون سی نماز پڑھ رہا ہے۔ سلام پھیرنے کے بعد وہ توبہ و استغفار میں مشغول ہو گیا۔ دنیا ما فیہا سے بے خبر ہو کر دیر تک تسبیح تحلیل میں لگا رہا یہاں تک کہ اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گیا تو خواب میں اپنے والد صاحب کے سامنے کھڑا پایا۔ سفید لباس وہی پر نور چہرہ جسے دوسال پہلے وہ اپنے گاؤں میں چھوڑ آیا تھا اور پھر مٹی بھی اسے نصیب نہیں ہو سکی تھی۔ اس کے گھر پہنچنے تک ان کی تدفین ہو چکی تھی

وہی ہنستا مسکراتا چہرہ اس کے سامنے کھڑا تھا وہ کہہ رہے تھے بیٹے کیسے ہو! ۰۰۰۰۰۰۰۰مست ہو اپنی دنیا میں! اسی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے تم نے! ۰۰۰۰۰۰۰۰اور ایسا کرنے کے باوجود تم نے کیا حاصل کر لیا! کیا حاصل کر لیا تم نے دنیا میں! ۰۰۰۰۰۰۰۰وہ شرمندہ سرجھکائے کھڑا تھا والد صاحب بولے دیکھو بیٹے اس دنیا سے بہت بڑے بڑے فائدے حاصل کئے جا سکتے تھے لیکن تم تو بہت کم پر راضی ہو گئے تم تو اس کے ذریعہ ابدی جنت اور وہاں کی بیش بہا نعمتیں حاصل کر سکتے تھے لیکن تم نے اسی دنیا کو جنت بنانے کے چکر میں پڑ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا تمہارے لئے جہنم زار بن گئی۰۰۰۰۰سوچو کیا تم اسی لئے ابو ظبی آئے تھے! ۰۰۰۰۰۰۰کیا اس دنیا میں تمہارے آنے کا یہی مقصد تھا! جس کے پیچھے تم بگ ٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہو۔

یہ کہہ کر والد صاحب اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے، لیکن اس کی آنکھیں کھل چکی تھیں۔ اس نے پھر ایک بار استغفارکیا، سچی توبہ اور پکا ارادہ کیا کہ اب کسی حال میں نہ خدا سے غافل ہو گا اور نہ اپنے آپ سے غفلت برتے گا، اپنی نمازوں کی محافظت کرے گا۔ غلام رسول پلٹ کر اپنی پرانی زندگی کی جانب نہیں جانا چاہتا تھا لیکن اس کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اس بیچ اس کے فون کی گھنٹی بجی یہ کسی اجنبی کا نمبر تھا۔ غلام رسول نے سلام کر کے پوچھا کون صاحب؟

سامنے سے عربی میں جواب ملا میں سالم القبیسی بول رہا ہوں۔ میرے والد نے پوچھا ہے کہ اب تم کیا کرو گے؟

غلام رسول بولا میں اب وہ دبئی اور ابو ظبی کے درمیان ٹیکسی نہیں چلانا چاہتا۔

سالم نے کہا تو کیا تم واپس جانا چاہتے ہو؟

غلام رسول بولا جی نہیں ایسا نہیں ہے۔

سالم نے کہا میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم کیا کرنا نہیں چاہتے ہو۔ کیا تم شہر کے اندر ٹیکسی چلانا چاہتے ہو؟

غلام رسول نے کہا جی ہاں۔ وہی بہتر ہے میں پہلے شارجہ میں یہ کام کر چکا ہوں اب ابو ظبی میں کروں گا۔

سالم بولا ٹھیک ہے میں تم کو سلمان خطیب کا نمبر بھیجوں گا تم اس سے مل لینا۔

سلمان خطیب کی کئی ٹیکسیاں تھیں جنھیں پٹھان ڈرائیور شہر میں چلایا کرتے تھے۔ سالم القبیسی کی ضمانت پر اس نے ایک ٹیکسی غلام رسول کو بھی دے دی۔ اور اس طرح وہ ابو ظنی شہر کے اندر ٹیکسی چلانے لگا اب اس کا معمول یہ تھا کہ اذان کے بعد وہ کوئی سواری نہیں لیتا۔ فجر کے بعد گاڑی لے کر نکلتا دوپہر میں کھانا کھانے کیلئے اپنے گھر میں پہنچ جاتا پہلے نماز پھر کھانا، شام کو عصر کی نماز کے بعد دوسرے شریک کار کو ٹیکسی دے دیتا اور پھر مغرب تک کھانا بناتا، مغرب کے بعد کھانا کھاتا اور چہل قدمی کر کے عشاء کے بعد سوجاتا اور صبح تہجد کیلئے اٹھ کر فجر تک تلاوت اور فجر کے بعد گاڑی لے کر چل پڑتا اس کے کاروبار میں برکت تھی اور وہ نہایت پرسکون زندگی گزار نے لگا تھا۔

غلام رسول ظہر، مغرب اور عشاء کی سنتیں امام کی جگہ کھڑے ہو کر پڑھتا تھا! وہ اکثر مسجد میں سب سے پہلے آنے والوں میں ہوتا۔ امام کے پیچھے نماز پڑھتا اسے مسجد سے واپس جانے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی اس لئے وہ اطمینان سے تسبیح و تحلیل میں مصروف رہتا اور امام صاحب کے نکل جانے کا انتظار کرتا۔ ان کے جانے کے بعد میں انہیں کے مصلیٰ پر اپنی باقی نمازیں پوری کرتا تو اسے اچھا لگتا تھا۔

ایک روز ایسا ہوا کہ نماز مغرب میں امام صاحب کسی وجہ سے نہیں آئے۔ نماز کے لئے چند لمحے انتظار کیا گیا پھر ایک آدمی نے اٹھ کر اقامت کہنا شروع کر دی۔ اقامت کے ختم ہو جانے کے بعد وہ پیچھے آ گیا اور سب لوگ ایک دوسرے کو آگے بڑھنے کے لئے کہتے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے اسے آگے بڑھا دیا وہ ہر روز سنتیں اس محراب میں پڑھتا تھا جس میں ابھی فرض ادا کرنے کے لئے کھڑا تھا لیکن دیگر ایام میں اور اس دن میں ایک خاص فرق تھا۔ ہر روز انفرادی نماز ادا ہوتی تھی آج وہ نمازِ جماعت کے لئے کھڑا تھا ہر روز وہ صرف اپنی نماز پڑھتا تھا اس روز وہ نماز پڑھا رہا تھا۔

اس کی نگاہ سامنے لگے شیشے پر پڑی تو اس میں اسے اپنا عکس نظر آیا۔ اس نے دائیں جانب دیکھا یہاں بھی وہی عکس تھا اس نے نظروں کو گھما کر بائیں طرف نگاہ ڈالی تو وہاں بھی وہی کچھ نظر آیا وہ گھبرا گیا وہ چاروں طرف سے اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا وہ اپنے آپ سے ڈر رہا تھا۔ اس نے تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھ لئے اور پھر اس کے بعد سامنے دیکھا اسے لگا یہ وہ نہیں ہے۔ یہ اس کے والد صاحب ہیں امام صاحب، وہ اپنے بجائے امام صاحب کا عکس دیکھ رہا تھا وہ گویا اس کے سامنے کھڑے تھے وہ ان کا خیال ذہن سے جھٹکنے لگا لیکن بار بار وہ اس کے تخیل پر چھا جاتے۔ ایک رکعت پوری ہو گئی دوسری رکعت میں سوچا والد صاحب اسے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ ہاں اللہ میاں ضرور دیکھ سکتے ہیں اس خیال کے آتے ہی اسے ایسا لگا کہ وہ اللہ میاں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوں وہ اسے دیکھ رہے ہیں۔

وہ اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر شرمسار زمین پر نظر گاڑ کر نماز پڑھ رہا ہے اس نے بہت لمبی تلاوت کی اور پھر رکوع میں چلا گیا قاعدے کے بعد تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہوا تو اس کے دل کی دنیا بدل چکی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اللہ میاں کے سامنے کھڑا ہے وہ اسے دیکھ رہا ہے وہ اس کے آگے جھکا ہوا ہوں وہ اللہ میاں کے قدموں میں سربسجود ہے اس کی پیشانی اللہ رب العزت کے قدموں میں ہے اور پھر وہ کیا محسوس کرتا ہے کہ وہ اللہ میاں سے سرگوشی کر رہا ہے سر جوڑ کر کچھ کہہ رہا ہے اللہ میاں سے۔ جی ہاں اللہ میاں سے، یہ ایک عجیب احساس تھا عجیب و غریب احساس وہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے اس قدر قریب نہیں ہوا تھاجس قدر اس دن تھا بالکل اتنا قریب کہ بس ہاتھ بڑھا کر چھولے۔

اس دن نماز ختم کرنے کے بعد وہ اپنی جگہ بیٹھا رہا دیر تک سکتہ کے عالم میں روتا رہا بس روتا رہا یہاں تک کہ سارے نمازی مسجد سے چلے گئے طویل انتظار کے بعد مسجد کے خادم نے بتیاں بجھا دیں اے سی بند کر دیا۔ اسے پتہ تک نہیں چلا یہاں تک کہ اس نے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کیا میں چلا جاؤں اس نے سر ہلا کر حامی بھری موذن چلا گیا غلام رسول بیٹھا رہا یہاں تک کہ عشاء کی اذان ہو گئی۔ اب وہ اپنی جگہ سے اٹھا اب وہ جگہ کسی اور کی تھی اس کی نہیں تھی اس نے وضو خانہ کا رخ کیا روتے روتے اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اس کی داڑھی گیلی ہو چکی تھی، وہ وضو کر کے دو بارہ مسجد میں آیا اور صف کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔

اس روز اس نے بڑے خشوع اور خضوع کے ساتھ کونے میں نماز پڑھی۔ فرض کے بعد سنتیں اور نوافل بھی وہیں ادا کئے۔ اب وہ جگہ اسے اچھی لگنے لگی تھی اس نے اسی کو اپنے لئے خاص کر لیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

جیون ساتھی

 

ڈاکٹر اویناش اور ایڈوکیٹ سنتوش وہار لیک کے کنارے ایک اعلیٰ درجے کے ریسٹورنٹ میں بیئر کی چسکیاں لے رہے تھے۔ ان کی بیویاں شانتی اور آکانشا تھوڑی دور پر بیٹھ کرتا زہ پھلوں کے رس سے لطف اندوز ہو رہی تھیں اور ان کے بیٹے وکاس اور سبھاش پانی میں کھیل رہے تھے۔ باتیں کرتے ہوئے سنتوش کی نگاہ جب بچوں پر پڑی تو اس نے کہا۔

اویناش تمہیں یاد ہے کسی زمانے میں ہم دونوں بھی وکاس اور سبھاش کی طرح جوہو کے ساحل پر کھیلا کرتے تھے اور ہمارے والد صاحبان ایک طرف ہماری طرح بیٹھے سگریٹ پھونکا کرتے تھے۔

اویناش نے حامی بھری اور کہا۔ ہاں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہماری مائیں ہم چاروں سے الگ تھلگ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح محو گفتگو ہوتی تھیں جس طرح شانتی اور آکانشا فی الحال لگی ہوئی ہیں۔ بالکل دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔

ہاں ہاں مجھے یاد ہے۔ سنتوش بولا۔ اور ان کی باتیں کبھی ختم نہ ہوتی تھیں جس طرح ان دونوں کی باتیں ختم نہیں ہوں گی اور پھر ہمارے والد صاحبان زبردستی ان دونوں کو الگ کر دیا کرتے تھے جس طرح تھوڑی دیر بعد ہم کریں گے اور پھر ہماری مائیں ہم کو بلاتیں جس طرح شانتی اور آکانشا، وکاس اور سبھاش کو بلائیں گی اور پھر ہم سے ناراض ہو جاتیں جیسے کہ وہ ان سے ہو جائیں گی اور پھر ہم با دلِ ناخواستہ اپنے اپنے والدین کی جانب چل پڑتے جس طرح یہ چل پڑیں گے۔ اور پھر ہم اپنے والد کی اسکوٹر پر بیٹھ کر اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو جاتے جس طرح ابھی کچھ دیر بعد ہم اپنی اپنی گاڑیوں میں روانہ ہو جائیں گے۔

لیکن اس سے پہلے پانی پوری کے لیے ضد کرنا تمہیں یاد ہے؟ اور ہاں منع کرنے کے باوجود اصرار کرنا اور والدین کو مجبور کرنا بھی یاد ہی ہو گا۔ وکاس اور سبھاش بھی یہی کرنے والے ہیں۔

یار میں سوچتا ہوں زمانہ کتنا بدل گیا۔ تیس سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا لیکن انسان نہیں بدلا۔

ہاں سنتوش تو صحیح کہتا ہے نہ نسلوں کے فاصلے کم ہوئے نہ جنس کی بنیاد پر موضوعات کے اختلاف میں کوئی تبدیلی آئی۔ پہلے بھی ہمارے ماتا پتا کی دلچسپی کے موضوعات علیٰحدہ ہوتے تھے ہم لوگ ان سے دور دور رہا کرتے تھے آج کل بھی وہی کچھ ہے۔ ایسا لگتا ہے کچھ نہیں بدلا۔

ڈاکٹر اویناش اور ایڈوکیٹ سنتوش بچپن کے یار تھے۔ ایک محلے میں رہتے، ایک اسکول میں پڑھتے، ایک ساتھ آتے جاتے، ایک ساتھ کھیلتے۔ حالانکہ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اویناش نہایت شوخ اور چنچل تھا جب کہ سنتوش نہایت سادہ اور خاموش طبع۔ اس کے باوجود ان کے اندر اٹوٹ دوستی تھی۔ بھائیوں سے زیادہ ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ اسکول کی تعلیم کے بعد دونوں کے راستے بدل گئے۔ ایک نے سائنس تو دوسرے نے آرٹس کا راستہ اختیار کیا۔ ایک ساتھ گریجویشن کی ڈگری کے بعد ایک نے ڈاکٹریٹ کا راستہ اختیار کیا اور دوسرا قانون کی کتابیں پڑھنے لگا۔

دونوں نے تقریباً ایک ساتھ تعلیم مکمل کی۔ اویناش کو ملک کی نامور تحقیقاتی تجربہ گاہ میں ملازمت مل گئی اور سنتوش کو ملک کے بہت بڑے تجارتی ادارے نے اپنا قانونی مشیر بنا لیا۔ اس کے بعد شادی کا وقت آیا تو وہ بھی تقریباً ایک ساتھ ہوئی۔ اویناش کی شادی کالج کے پرنسپل کی لڑکی شانتی سے ہو گئی اور سنتوش نے ایک بہت بڑے تاجر کی بیٹی آکا نشا سے بیاہ رچا لیا۔ دو سال بعد ان دونوں نے لڑکوں کو جنم دیا۔ وکاس اور سبھاش کی عمروں میں صرف تین ماہ کا فرق تھا۔ ان دونوں دوستوں کی زندگی بے شمار اتّفاقات اور اختلافات سے بھری پڑی تھی۔

ڈاکٹر اویناش کا شمار بہت جلد ملک کے بڑے سائنسدانوں میں ہونے لگا تھا۔ رات دیر گئے وہ اپنی لیباریٹری میں کام کرتے رہتے تھے۔ جس کانفرنس میں جاتے چھا جاتے شرکاء کا دل موہ لیتے تھے آئے دن اخبارات میں ان کے انٹرویو چھپتے انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود ان کی بیوی شانتی ان سے ناراض تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اویناش گھر سے باہر جس قدر وقت صرف کرتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی گھر میں نہیں دیتے، ساری دنیا کے لئے ان کے پاس فرصت ہے لیکن گھر والوں کے لئے نہیں، وہ کبھی بھی سورج ڈھلنے سے پہلے گھر نہیں آتے، وکاس کو اکثر سویا ہوا پاتے اور صبح سویا ہوا ہی چھوڑ جاتے۔

شانتی اکثر ان سے کہتی کہ دیکھو تم سرکاری لیباریٹری میں کام کرتے ہو، ہماری کالونی کے سبھی لوگ اس میں کام کرتے ہیں۔ وہ کیسے آرام سے دفتر جاتے ہیں دوپہر کو کھانے کے لیے واپس گھر آ جاتے ہیں قیلولہ کر کے واپس جاتے ہیں۔ شام پانچ بجے اپنے گھر پر دوبارہ حاضر ہو کر بچوں کے ساتھ چائے ناشتہ کر کے چہل قدمی کے لیے نکل جاتے ہیں۔ شام میں تھوڑا بہت وقت بچے کی تعلیم پر بھی صرف کرتے ہیں۔ بیوی کے ساتھ ٹی وی کے سیرئیل دیکھتے ہیں۔ دوسروں کو اپنے گھر بلاتے ہیں اور خود دوسروں کے گھر جاتے ہیں۔

ڈاکٹر اویناش کی زندگی ان تمام چیزوں سے خالی تھی۔ ان کا کسی اور سے تو کیا خود اپنے گھر والوں سے بھی ملنا جلنا نہ ہو پاتا تھا۔ بس کام، کام اور کام۔ اس کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ اویناش کے اس رویہ کے باعث شانتی اپنی زندگی میں ایک بہت بڑا خلاء محسوس کرتی تھی۔ جب بہت لمبا وقفہ اس طرح گذر جاتا تو آکانشا کو اپنے گھر بلا لیتی یا ان کے گھر جانے کا پروگرام بناتی۔ ڈاکٹر اویناش کے لیے یہی ایک ایسی دعوت تھی جس کا ٹالنا ممکن نہیں تھا لیکن یہ موقع بھی سال میں ایک دو بار ہی آتا۔

ڈاکٹر اویناش کئی مرتبہ دیوالی اور ہولی کے موقع پر بھی اپنے اہل خانہ سے دور رہتے۔ یورپ اور امریکہ میں ہونے والی سائنسی کانفرنسوں کا ان تہواروں سے کیا سروکار اور ڈاکٹر اویناش کے لیے ان میں شرکت اپنے اہل خانہ کے ساتھ تہوار منانے سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ اس لیے وہ بلا تکلف نکل جایا کرتے تھے۔ وہاں یاد آ گئی تو فون کر دیا ورنہ وہ بھی بھول گئے۔ ڈاکٹر کے اس رویہ نے شانتی کی زندگی میں اشانتی بھر دی تھی۔ لیکن یہ ایک ایسا کرب تھا جس کا اظہار کرنا بھارتیہ ناری کیلئے مہا پاپ سے کم نہیں تھا۔

ادھر سنتوش کے گھر کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ سنتوش کی زندگی دفتر اور گھر کے درمیان طواف سے منسوب تھی۔ شام پانچ بجتے ہی دفتر سے نکلنے والی سب سے پہلی گاڑیوں میں سے ایک سنتوش کی ہوتی تھی وہ سیدھا اپنے گھر آتا، بیوی بچّے کی خبر لیتا، پہلے تو صبح کا اخبار دیکھتا اور پھر ٹی وی لگا کر شام کا اخبار پڑھنے لگتا۔ ٹی وی کا ریموٹ ہمیشہ اس کے ہاتھوں میں ہوتا۔ خبروں کے چینلس کا تو وہ دیوانہ تھا۔ اس بیچ بچّوں سے خوش گپّیاں کرتا، بیوی کھانا لگا دیتی تو کھانا کھا تا اور چہل قدمی کے لئے چل پڑتا۔ وہ آکانشا کو بھی ساتھ آنے کی دعوت دیتا لیکن آکانشا کو چہل قدمی کے بجائے ٹی وی پر خواتین کے ڈراموں میں زیادہ دلچسپی تھی۔ وہ امیر خاندانوں کی خواتین کی سیاست پر مشتمل ڈراموں میں کھو جاتی تھی۔

آکانشا کا تعلق چونکہ ایک امیر تجارتی گھرانے سے تھا اس لئے ان ڈراموں کے کرداروں میں آکانشا کو کہیں اپنی ماں نظر آتی تو کہیں باپ، بھائی یا بھابی۔ سب کے سب دولت کے نشہ میں چور ایک دوسرے کو جائداد سے بے دخل کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل، سازشوں اور رنجشوں کے تانے بانے میں الجھی ہوئی کہانیاں آکانشا کو بہت اچھی لگتی تھیں۔ اس بیچ ایک نیا سیرئیل بیرسٹر ونود شروع ہوا جس کا ہیرو شہر کا نامور وکیل تھا۔ سارے ملک میں اس کے چرچے تھے۔ وہ بڑے سے بڑے مجرم کو چھڑا لیا کرتا تھا۔ معروف سیاستدان اس کے دوست تھے۔ آئے دن اس کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتیں۔ عدالت کی ہر پیشی کے وہ ہزاروں روپئے لیتا اور ایک محل نما کوٹھی میں رہتا تھا۔

آکانشا جب بھی اس سیرئیل کو دیکھتی اسے سنتوش پر غصہ آنے لگتا اس لیے کہ وہ بھی ایک وکیل تھا لیکن اسے کبھی عدالت جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ملک تو کیا پڑوس کے لوگ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایڈوکیٹ سنتوش کون ہے؟ آج تک اس نے کسی مجرم تو کیا بے قصور ملزم کا بھی مقدمہ نہیں لڑا تھا۔ عجیب بے رنگ زندگی گذار رہا تھا یہ شخص۔ دنیا وی عیش و طرب سے اس کا کوئی لین دین ہی نہ تھا۔ اپنا دفتر، اپنا گھر، اپنا باس اور اپنی بیوی یہی اس شخص کی کل کائنات تھی اور وہ اسی میں مست تھا۔ آکانشا نے اسے کئی مرتبہ سمجھایا، جھنجھوڑا، ڈانٹا ڈپٹا سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن سنتوش کے کان پر جوں نہ رینگتی تھی۔

ایک مرتبہ آکانشا نے زبردستی سنتوش کوبیرسٹر ونود دکھانے کے لیے روک لیا اور خاتمہ کے بعد پوچھا۔ تم ایسے کیوں نہیں بنتے؟

سنتوش نے جواب دیا۔ تم نے نہیں دیکھا یہ شخص کس قدر پریشان ہے۔ کس قدر دباؤ میں زندگی گذارتا ہے۔ رات گئے تک قانون کی کتابوں میں غرق رہتا ہے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے سے اسے فرصت نہیں ملتی۔ کیسے کیسے الٹے سیدھے لوگوں سے اس کے تعلقات ہیں۔ یہ سب میرے بس کی بات نہیں۔ میں یہ فریب دہی نہیں کر سکتا۔

سنتوش کا تبصرہ سن کر آکانشا آگ بگولہ ہو گئی۔ اپنے چہیتے کردار ونود کے بارے میں اتنی ساری منفی باتیں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ آکانشا نے کہا۔ تمہیں اس میں صرف برائیاں ہی برائیاں نظر آتی ہیں کھوٹ ہی کھوٹ دکھائی دیتا ہے۔ تم نے اس کی شاندار حویلی نہیں دیکھی۔ اس کی شہرت تمہیں نظر نہیں آئی۔ اس کا ٹھاٹ باٹ، اس کی گاڑی، اس کی شان و شوکت یہ سب کچھ تمہاری آنکھوں سے اوجھل ہے۔ زندگی بھر کمپنی کے کوارٹر میں رہنے والے اس سے زیادہ سوچ بھی کیا سکتے ہیں اسی کو کہتے ہیں کھسیانی بلّی کھمبا نوچے۔

اپنی بیوی آکانشا کی تقریر سن کر سنتوش نے قہقہہ لگا کر کہا۔ آکانشا اگر تمہیں وہ فلمی کردار اتنا ہی پسند ہے تو کر لو اسی سے شادی۔ میں کل ہی تمہارے طلاق کے کاغذات تیار کر کے لے آتا ہوں لیکن یاد رکھو میں جیسا بھی ہوں اصلی وکیل ہوں۔ ایڈوکیٹ سنتوش رانا ایل ایل ایم اور بیرسٹر ونود نرا بہروپیا ہے بہروپیا۔

آکانشا غصہ سے بپھر گئی۔ اپنی بیوی کو طلاق کی دھمکی دینے کے علاوہ اور ایڈوکیٹ سنتوش کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی کر کے دیکھ لو۔ مجھے اپنے میکے بھیج کر ہو جاؤ آزاد۔

سنتوش پھر مسکرا دیا۔ میری جان طلاق کی بات تو میں نے صرف تمہیں چھیڑنے کے لیے کہی تھی ورنہ کون ظالم اتنی اچھی بیوی کو طلاق دیتا ہے۔ لیکن محترمہ آپ کو یہ تو ماننا ہی پڑے گا میں حقیقت میں جتنا آپ کا خیال رکھتا ہوں، آپ کی خدمت کرتا ہوں وہ تمہارا بیرسٹر ونود ٹی وی کے اسکرین پر بھی اپنی بیوی کی جانب ایسی توجہ نہیں کرتا۔

یہ سن کر آکانشا کچھ نرم پڑی۔ اس نے کہا۔ میں نے کب کہا آپ میرا خیال نہیں رکھتے یا میری خدمت نہیں کرتے۔ وہ سب تو بے شک تم بحسن و خوبی کرتے ہو لیکن سنتوش! زندگی یہی سب تو نہیں ہے مجھے اس کے ساتھ کوٹھی، گاڑی، شان و شوکت، دولت شہرت اور بہت کچھ چاہئے۔ ان کے بغیر زندگی بے معنی لگتی ہے۔

لیکن یہ سب ایک ساتھ نہیں آتا۔ سنتوش نے کہا۔ ایک کو دوسرے کی قیمت پر حاصل کرنا پڑتا ہے اور میں اپنے ازدواجی راحت و سکون کو داؤں پر لگا کر کچھ بھی حاصل کرنا نہیں چاہتا۔ سنتوش نے جواب دیا۔ آکانشا اُداس ہو کر اپنی خوابگاہ میں چلی گئی۔ اس مسئلہ پر سنتوش اور آکانشا کی نوک جھونک کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن آج یہ توتو میں میں اپنے حدود کو پار کر گئی تھی۔ سنتوش دیر تک بیٹھا سوچتا رہا آخر کیا کرے اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایسے میں بے ساختہ اسے اپنے دوست اویناش کا خیال آیا اور اس کی انگلی فون پر چلنے لگی۔ اویناش کے گھر پر فون اس کی بیوی شانتی نے اٹھایا۔ ہیلو کی آواز سنتے ہی سنتوش نے فون رکھ دیا۔ اس لئے کہ شانتی سے بات کرنے کا مطلب تھا آکانشا سے بات کروانا اور آج وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان میں بات ہو۔ اس نے پھر موبائیل پر فون ملایا تو اویناش نے فوراً جواب دیا۔

بول سنتوش کیا حال ہے؟

سنتوش نے جواب دیا۔ یار حال اچھا نہیں ہے۔

یہ سن کر اویناش چونک پڑا۔ تیس سال کی دوستی میں پہلی بار سنتوش کے منہ سے یہ الفاظ اویناش نے سنے تھے اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس نے پھر پوچھا۔ کیوں بھائی خیریت تو ہے مذاق تو نہیں کر رہے ہو؟

اویناش میں یہ کہہ چکا ہوں کہ خیریت نہیں ہے اور میں مذاق نہیں کر رہا ہوں فی الحال یہ بتلاؤ کہ تم کہاں ہو؟ شہر میں یا کہیں باہر۔

سنتوش نے جھنجھلا کر کہا۔ میں تو گھر ہی پر ہوں بتاؤ کیا خدمت کی جائے۔

اویناش بات در اصل یہ ہے کہ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔

اتنی رات گئے۔ خیریت تو ہے۔

اویناش میں تم سے دو بار کہہ چکا ہوں کہ خیریت نہیں ہے۔ مجھے ابھی اسی وقت تم سے ملاقات کرنی ہے۔

اویناش نے کہا۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب بتا کہاں ملنا ہے؟ تو میرے گھر آتا ہے یا میں آؤں؟

نہیں ہم لوگ گھر پر نہیں ملیں گے ہم کسی پارک یا ریسٹورنٹ میں ملتے ہیں۔

یہ سب باتیں اویناش کے لیے نئی تھیں۔ سنتوش رات گئے جاگنے کا عادی نہیں تھا۔ وہ اتنی جلد بازی میں کوئی کام نہ کرتا تھا۔ کسی بھی کام کو بڑے آرام سے کل پر ٹال دیتا تھا اور پھر گھر پر ہی ملنا پسند کرتا تھا۔ کسی اور مقام پر بلانے کے لیے اسے کافی منانا پڑتا تھا لیکن آج سب کچھ اُلٹا ہو رہا تھا۔ اویناش اور سنتوش نے ملنے کے لیے جوہو کا ساحل طے کیا اور اویناش تیار ہونے لگا۔ شانتی نے پوچھا۔

ارے اتنی رات گئے کہاں کی سواری ہے۔

مجھے سنتوش نے بلایا ہے۔

سنتوش بھیا نے اس وقت؟ خیریت تو ہے۔ شانتی نے پوچھا۔

نہیں نہیں خیریت نہیں ہے۔ نہیں میرا مطلب خیریت ہے کوئی بات نہیں۔

شانتی ہنسنے لگی ارے آپ اس قدر بوکھلائے ہوئے کیوں ہیں۔ سنتوش ہی کے پاس جا رہے ہیں نا یا؟

ہاں بابا سنتوش کے پاس ہی جا رہا ہوں۔

میں بھی چلوں۔ شانتی نے پوچھا۔

اویناش جھلّا گیا۔ شک کی دوا تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں اور تم عورتوں کا شک تو بھگوان ہی بچائے۔ چلو اگر چلنا ہے لیکن پہلے بتائے دیتا ہوں کہ سنتوش بھابی کے ساتھ نہیں اکیلے آ رہا ہے۔

شانتی نے ہنستے ہوئے کہا۔ آپ سنجیدہ ہو گئے میں یوں ہی مذاق کر رہی تھی۔ یہ جاننا چاہتی تھی کہ کہیں کوئی تجربہ تو یاد نہیں آ گیا اور ڈاکٹر صاحب تجربہ گاہ کی جانب تو نہیں چل دیئے۔ خیر گڈ بائی۔ گڈ بائی .

سنتوش اور اویناش دس منٹ کے اندر متعینہ مقام پر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد سنتوش نے سارا واقعہ تفصیل سے سنا دیا اور کہا کہ اویناش اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے۔ اب یہ سب قابل برداشت نہیں رہا۔ پہلے نوک جھونک کبھی کبھار ہوا کرتی تھی اب کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ بحث نہ ہو۔ تم تو میرا مزاج جانتے ہی ہو یہ سب میرے بس کی بات نہیں۔

اویناش نے سنتوش کی بات سن کر کہا۔ یار یہ مسئلہ صرف تمہارا نہیں میرا بھی ہے۔ شانتی میری تمام تر کامیابیوں کے باوجود مجھ سے ناراض رہتی ہے۔ اس کے لیے میری شہرت میرے تمغے میرا نام نمود سب بے معنی ہے۔ وہ چاہتی ہے میں بھی دوسروں کی طرح شام پانچ بجے دفتر سے چھوٹ کر اس کی خدمت میں آ جایا کروں نہ دیر تک کام کروں نہ نئی نئی ایجادات کروں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں؟ اس کی بار بار روک ٹوک نے مجھے احساس جرم میں مبتلا کر دیا ہے۔ جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا وہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شانتی نرم آنچ ہے اور آکانشا شعلۂ جوالہ ہے۔ لیکن دوست آگ تو آگ ہے دونوں کے گھاؤ یکساں ہی ہوتے ہیں۔

ہم دونوں کو اس کا علاج تلاش کرنا ہی ہو گا ورنہ ہماری زندگی جہنم بن جائے گی۔

دونوں ساحل سے چل کر چائے خانے میں آ گئے۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دیر تک سوچتے رہے کیا کیا جائے؟ چائے ختم کرتے کرتے اویناش نے کہا۔

آئیڈیا۔ ہم ایسا کرتے ہیں ڈاکٹر نائک سے ملتے ہیں۔

یہ ڈاکٹر نائک کون ہے؟ تمہارے ساتھ کام کرتا ہے کیا؟ سنتوش نے پوچھا۔

نہیں۔ اویناش بولا۔ یہ ہماری لائن کا ڈاکٹر نہیں ہے بلکہ مشہور ماہر نفسیات ہے۔ ہمیں اس سے رجوع کرنا چاہئے۔

اویناش نے فون پر ڈاکٹر نائک کے دوا خانے سے اگلے دن کا وقت لیا اور سنتوش کو اس کے مطب کا پتہ بتلا کر اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ سنتوش بھی واپس آ کر سو گیا۔

دوسرے دن دونوں دوستوں نے اپنی اپنی کہانی ڈاکٹر نائک کو سنائی۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے کئی سوالات کئے اور اپنی تشخیص ان کے سامنے رکھ دی۔ انہوں نے بتلایا چونکہ تم دونوں کے مزاج اپنی اپنی بیویوں کی ضد ہیں۔ اس لیے تمہاری ازدواجی زندگی کبھی بھی اطمینان بخش نہیں ہو سکتی۔

لیکن ڈاکٹر صاحب سنتوش بولا۔ ہم دونوں کے مزاج بھی تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس کے باوجود پچھلے تیس سالوں سے ہم دونوں ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہیں۔ اگر متضاد مزاج کے باوجود دوستی قائم رہ سکتی ہے تو رشتۂ ازدواج کیوں نہیں؟

ڈاکٹر نائک نے کہا۔ سوال دلچسپ ہے۔ دوستی اور شادی میں یہ بنیادی فرق ہے۔ دوستی میں محبت تو بہت ہوتی ہے لیکن باہم انحصار بہت کم ہوتا ہے لیکن شادی میں محبت ہو نہ ہو باہم انحصار بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے دوستوں کی شخصیت ایک دوسرے سے منفرد اور مختلف ہو سکتی ہے لیکن تعلقاتِ زن و شو میں اس سے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بات ہے۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ رشتۂ ازدواج میں ایک دوسرے سے توقعات بہت زیادہ وابستہ ہوتے ہیں اور اسی کے باعث مایوسی کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دوستی میں توقعات کی کمی کے باعث ایسا نہیں ہوتا۔

اویناش نے کہا۔ ڈاکٹر صاحب یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اب ہم کیا کریں؟ ہم خوش رہنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر نائک نے کہا۔ اس حالت میں تو آپ لوگ خوش نہیں رہ سکتے۔

سنتوش نے پوچھا۔ لیکن صاحب اس حالت کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ کون قصور وار ہے؟

ڈاکٹر نائک مسکرائے اور انہوں نے کہا۔ انفرادی طور سے تم چاروں کی کوئی غلطی نہیں ہے تم سب ٹھیک ٹھاک ہو نہ تم میں کوئی کمی ہے نہ خامی مگر تمہارا جوڑ درست نہیں ہے۔

دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔ کیا مطلب؟

نائک بولے۔ تم لوگ گاڑی چلاتے ہی ہو گے۔ اس لیے ایک مثال کے ذریعہ میں یہ بات تمہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک شخص اپنی گاڑی کی رفتار طے کرنے کا حق اپنے پاس ضرور رکھتا ہے لیکن اسے اپنی رفتار کے لحاظ سے ٹریک کا انتخاب کرنا چاہئے۔ اگر دھیمی رفتار سے چلنے والا فاسٹ ٹریک پر گاڑی چلائے تو اسے پیچھے والے کے دباؤ کا شکار ہونا پڑتا ہے اور اسی طرح اگر تیز چلانے والا دھیمی ٹریک پر گاڑی چلائے تو اگلے کی رفتار پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتا ہے۔ یہ دونوں حضرات دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں حالانکہ قصور ان کا اپنا ہوتا ہے۔

لیکن ڈاکٹر صاحب آپ نے کہا تھا ہر شخص کو اپنی رفتار کے تعین کا اختیار ہے۔

جی ہاں میں نے کہا تھا۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ لیکن یہ بھی کہا تھا کہ ہر شخص کو اپنی رفتار کے مطابق ٹریک کا انتخاب بھی کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

اویناش پھر بولا۔ ڈاکٹر صاحب۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن ہم کیا کریں اب تو ہم اس ٹریک پر آ ہی چکے ہیں۔

ٹھیک ہے ڈاکٹر نائک نے کہا۔ آپ لوگ اپنی رفتار بدل دیجئے۔

ہم اپنی رفتار بدل دیں۔ سنتوش نے تعجب سے پوچھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو بہت مشکل ہے۔

ڈاکٹر نائک بولے۔ بہت خوب تمہیں اپنی مشکل کا احساس ہے لیکن دوسروں کی نہیں جو چیز تمہارے لیے مشکل ہے وہ کسی اور کے لیے کیسے آسان ہو سکتی ہے؟

اویناش نے کہا۔ لیکن میں نے کہیں پڑھا تھا محبت ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے۔ اگر ہماری بیویوں کے دلوں میں ہمارے لیے محبت ہے تو ان کے لیے کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے۔

ڈاکٹر نائک بولے۔ اویناش تمہاری یہ دلیل تو بڑی جاندار ہے۔ تمہیں سائنسداں کے بجائے سیاستداں ہونا چاہئے تھا۔ میں پوچھتا ہوں اگراسی منطق کے مطابق تمہارے دل میں ان کے لیے محبت ہے تو تمہیں بھی کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے۔ اب چونکہ تمہارے لیے مشکل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت نہیں ہے اور جب تمہارے دلوں میں ان کے لیے محبت نہیں ہے تو ان کے دلوں میں تمہارے لیے محبت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس لیے کہ محبت ہی تو ایک ایسا جذبہ ہے جس کا رد عمل بالکل یکساں اور برابر ہوتا ہے۔

سنتوش بگڑ گیا۔ ڈاکٹر صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ کا مطلب ہے ہم لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے جذبہ الفت نہیں ہے اور اگر ایسا ہے تو کیا ہے؟

ڈاکٹر نائک بولے۔ سنتوش اطمینان رکھو حقائق کبھی کبھار تلخ ہوتے ہیں لیکن ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محبت اور حکومت میں بہت معمولی سا فرق ہے۔

اویناش اور سنتوش نے ایک ساتھ سوال کیا۔ وہ کیا؟؟

ڈاکٹر نائک بولے محبت میں حبیب اپنے محبوب کی مرضی میں ڈھل جانا چاہتا ہے اور حکومت میں حاکم اپنے محکوم پر مرضی چلانا چاہتا ہے۔ اب تم لوگ خود ہی فیصلہ کر سکتے ہو کہ تمہارے درمیان الفت ہے یا سیاست۔

لیکن ایک درمیانی شکل بھی تو ہوتی ہے مصالحت کی جس میں دونوں فریق اپنے اندر جزوی تبدیلی لائیں۔ کیا اسے آپ محبت نہیں کہیں گے۔ سنتوش نے پوچھا۔

نہیں۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ وہ تو تجارت ہے اس لیے کہ ایسا کرنے کے بعد پھر حساب کتاب ہوتا ہے جس نے اپنے اندر کم تبدیلی برپا کی وہ اپنے آپ کو فائدے میں سمجھتا ہے اور جس کو زیادہ تبدیلی لانی پڑی وہ سمجھتا ہے کہ اس کا خسارہ ہو گیا۔

لیکن انسان ہر ایک کی مرضی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال تو نہیں سکتا تو سب سے محبت کیسے کر سکتا ہے۔؟

ڈاکٹر نائک بولے۔ تمہاری بات درست ہے انسان کو اختیار ہے کہ کس سے محبت کرے کس سے نہ کرے لیکن وہ جس کسی سے محبت کرے گا اس کے تئیں یہی رویہ اختیار کرنا ہو گا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا۔ انسان کو اس کی بھی آزادی ہے کس پر حکومت کرے لیکن وہ جس کسی پر حکومت کرے گا اس کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرے گا جیسا کہ میں  بت اچکا ہوں۔

دونوں خاموش ہو گئے پھر اویناش نے پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب ایک بات بتائیے۔ حکومت میں محکوم حاکم پر اپنی مرضی چلانا نہیں چاہتا لیکن یہاں دونوں ایک دوسرے پر اپنی مرضی چلانا چاہتے ہیں؟

اس کی وجہ یہ ہے۔ ڈاکٹر نائک نے کہا۔ شوہر تو اس لیے چلانا چاہتا ہے کہ وہ شوہر کی حیثیت سے اپنے آپ کو بیوی کا آقا سمجھتا ہے اور بیوی اس خوف سے اس پر اپنی مرضی چلاتی ہے کہ کہیں یہ کسی اور کا محکوم نہ ہو جائے۔ اس لیے اسے اپنا تابع اور فرمانبردار بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ ویسے دونوں کے اندر رشتہ چونکہ محبت کے بجائے ضرورت کا ہوتا ہے اس لیے اگر ضرورت پوری ہوتی ہے تو رشتہ خوشگوار رہتا ہے اور جب وہ پوری نہیں ہوتی تو رشتوں میں تلخی آ جاتی ہے۔

لیکن ہم تو اپنی بیویوں کی ساری ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ سنتوش نے کہا۔

ڈاکٹر نائک بولے۔ عام طور پر مادی ضرورتوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ احساسات و جذبات کو مادی ضروریات پر فوقیت حاصل ہے۔

ٹھیک ہے ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری نفسیات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ہم اسے بدل نہیں سکتے۔ سنتوش نے کہا۔ اس لیے آپ کوئی متبادل بتلائیں۔

ڈاکٹر صاحب بولے۔ متبادل تو یہ ہے کہ اگر تم اپنی رفتار نہیں بدل سکتے ہو تو ٹریک بدل دو یہ سہل تر ہے۔

ڈاکٹر نائک کا جملہ دونوں پر ایٹم بم کی طرح گرا۔ ان دونوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ دونوں سکتے میں آ گئے۔ کافی دیر خاموش رہے۔ اویناش نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔ بات تو شاید معقول ہے لیکن …اور رک گیا۔

ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔ لیکن کیا؟

لیکن میں پہل کرنے کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتا۔

سنتوش نے بھی فوراً تائید کی۔

ڈاکٹر نائک بولے۔ آپ لوگ فکر نہ کریں میں ان کو سمجھانے کی کوشش کروں گا۔

دونوں نے بیک وقت کہا۔ یہ ٹھیک ہے۔ اس کے بعد دہ عجیب بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔ انہیں اپنی منزل سامنے دکھلائی دیتی تھی لیکن درمیان میں بہت بڑی کھائی تھی انہیں یقین تھا آکانشا اور شانتی اس تجویز کو سن کر بپھر جائیں گی اور ایسا کبھی بھی نہ ہو سکے گا۔ ڈاکٹر نائک سے آئندہ ملاقات کا وقت لے کروہ واپس ہوئے۔ دیر تک ساتھ ساتھ چلتے رہے لیکن ایک لفظ نہ کہا۔ عجیب و غریب حالت تھی۔ ان کی زبانیں گنگ ہو گئی تھیں۔ ذہن سن ہو گئے تھے وہ لوگ رو بوٹ کی طرح چل رہے تھے۔ گاڑیوں کے قریب آ کر دو بے جان ہاتھ ایک دوسرے سے ملے اور جدا ہو گئے۔

دو روز بعد ڈاکٹر نائک سے ملنے وہ دونوں دوست اپنی اپنی اہلیہ کے ساتھ پہنچ گئے۔ ڈاکٹر نائک نے پہلے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کی اور پھر شانتی اور آکانشا کو ساتھ بلا کر گفت و شنید کی۔ خلاف توقع ان دونوں خواتین کی جانب سے اس طرح کے سوالات کی بوچھار نہیں ہوئی جیسے اویناش اور سنتوش کرتے رہے تھے۔ تجویز کو سننے کے بعد تھوڑے سے شش و پنج کے بعد آکانشا نے پوچھا۔

بات تو معقول ہے لیکن … اور وہ رک گئی۔

ڈاکٹر نائک نے کہا۔ میں نے ان دونوں کو سمجھا دیا ہے۔

شانتی بولی۔ لیکن بچے؟

ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ ویسے تو بچہ اپنے باپ کا ہے اور اس کی جائداد کا وارث ہے لیکن فی الحال آپ لوگ اس مسئلہ کو اس طرح حل کر سکتے ہیں کہ انہیں سے پوچھ لیں کہ وہ ماں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا باپ کے ساتھ۔ بچہ جس کے ساتھ رہنا چاہتا ہو عارضی طور پر اس کے ساتھ رہنے دیا جائے۔

آکانشا اور شانتی جب ڈاکٹر نائک کے کمرے سے انتظار گاہ میں آئیں تو دیکھا دونوں دوست گم سم احساس شکست کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ کنکھیوں سے شانتی کو دیکھ کر مسکرانے کے بعد آکانشا بولی۔

ہیلو ایوری باڈی۔ یہ کیا تم لوگ تو ایسے بیٹھے ہو جیسے آپریشن تھیٹر سے ہماری لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ کیوں کیا بات ہے؟

اویناش بولا۔ نہیں نہیں کچھ نہیں۔ وہ تو بس یونہی ہم لوگ، کچھ نہیں کچھ بھی نہیں۔

شانتی نے اویناش کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا چلو اویناش وکاس اسکول کے باہر ہمارا انتظار کر رہا ہو گا۔ میں نے اسے میک ڈونالڈ لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔

ہاں ہاں۔ اویناش بولا۔ میں تو بھول ہی گیا تھا۔

شانتی بولی۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ تمہیں یہ سب کب یاد رہتا ہے۔ اچھا آکانشا چلتے ہیں۔ ہمیں دیر ہو رہی ہے۔

ان دونوں کے چلے جانے کے بعد سنتوش بوجھل قدموں سے اٹھا اور آہستہ سے گاڑی کی جانب بڑھا۔ وہ خاموش تھا اور کافی دیر خاموش رہا۔ جب گھر قریب آ گیا تو اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ڈاکٹر نائک نے کچھ کہا تو نہیں؟

آکانشا نے کہا۔ کیسی بات کرتے ہو سنتوش ڈاکٹر نائک سے ہم ملنے جائیں اور وہ کچھ نہ کہیں۔ اگر ایسا ہونے لگے تو انہیں فیس کون دے گا؟

سنتوش نے کہا۔ ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن انہوں نے کچھ ایسا ویسا تو نہیں کہہ دیا۔

نہیں سنتوش۔ وہ اتنے بڑے ماہر نفسیات ہیں وہ ایسی ویسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہئے۔ آکانشا کے اس جملے نے سنتوش کے ہوش اُڑا دیئے۔

ایک ہفتہ کے اندر بچوں سے رائے معلوم کر لی گئی۔ اویناش کے وکاس نے ماں کے ساتھ رہنا پسند کیا اور سنتوش کے سبھاش نے باپ کے ساتھ۔ اس طرح دونوں بچے ایک ساتھ ہو گئے۔ سنتوش نے پہلی مرتبہ طلاق کے کاغذات تیار کیے اور وہ بھی اپنے اور اپنے جگری دوست اویناش کے۔ اسی کے ساتھ شادی کے کاغذات بھی تیار کر لیے۔ جس دن ان کی طلاق کے کاغذ جمع ہوئے اسی دن طلاق نافذ ہو گئی اور شادی بھی رجسٹر ہو گئی۔

دوسرے دن اخبار میں خبر چھپی ڈاکٹر اویناش کھانولکر نے آکانشا بھاٹیا کے ساتھ شادی کر لی۔ کئی لوگوں نے اس کی سابقہ بیوی شانتی کے بارے میں لکھا اور اس پر ہونے والی نا انصافی پر غم و غصہ کا اظہار بھی کیا۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ شانتی نے بھی شانتی پورک زندگی کا نیا سفرسنتوش، وکاس اور سبھاش کے ساتھ شروع کر دیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                  بولتی ناگن

 

جھمرو کا خیمہ شاد باد تھا۔

لوگ اس سے بے سر پیر کے سوالات کر رہے تھے اور وہ ان کے اوٹ پٹانگ جوابات دے رہا تھا پھر بھی ہر کوئی خوش تھا۔ وقفے وقفے سے ہنسی کے فوارے چھوٹتے اور قہقہے بلند ہوتے۔ بازار کی گہما گہمی سے تھک کرسستانے کیلئے لوگ جھمرو کے پاس وقت گزاری کیلئے آ جاتے تھے اور ان کے آنے سے جھمرو کا بھی ٹائم پاس ہو جاتا تھا۔ لوگ اپنی مرضی سے وہاں آتے اور اپنی سہولت سے نکل جاتے نہ کوئی انہیں آنے کیلئے کہتا اور نہ جانے سے منع کرتا لیکن برکت کا یہ عالم تھا کہ جتنے لوگ اٹھ کر جاتے تقریباً اتنے ہی نئے آ جاتے۔ محفل کی رونق رات گئے تک بدستورقائم و دائم رہتی۔ یہاں تک کے بازار اٹھ جاتا اور جھمرو اپنے کام میں جٹ جاتا۔

اس دوران کسی نے پوچھا جھمرو چاچا وہ ناگن کا کیا قصہ ہے؟ سنا ہے اس کے سپیرے نے ہی اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی ہاں تم نے صحیح سنا ہے۔ سپیرے نے نہیں بلکہ اس کے اناڑی لڑکے نے۔ ویسے سپیرے کا لڑکا بھی سپیرہ ہی ہوتا ہے اس لئے تمہاری بات بھی درست ہے۔

دوسرے شخص نے سوال کیا۔ بھئی ہم نے کچھ بھی نہیں سنا۔ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ماجرہ کیا ہے؟

اگر نہیں پتہ تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اس لئے کہ کچھ معاملات میں آگہی کا کرب لاعلمی کی محرومیت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

تیسرے نے ہنستے ہوئے کہا آج تو جھمرو چاچا کے اندر کسی فلسفی کی روح سرائیت کر گئی ہے۔ نہ جانے کیسی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔

ایک ہلکا سا قہقہہ بلند ہوا لیکن اس میں جھمرو شامل نہیں تھا۔ یہ دوسری حیرت انگیز بات تھی ورنہ سب سے پہلے ہنسنے والوں میں سے ایک جھمرو ہوتا تھا۔

ایک اور شخص بولا کہیں جھمرو بابا آج اس ناگن کا سوگ تو نہیں منا رہے ہیں؟

کسی اور نے کہا اس ناگن سے آپ کو کوئی خاص۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جھمرو نے ڈانٹتے ہوئے کہا کیا بکتے ہو چپ کرو اور پھر فوراً اپنے آپ کو سنبھال کر بولا آپ لوگ اس بیچاری ناگن کے پیچھے کیوں پڑ گئے۔ کوئی اور بات کیوں نہیں کرتے؟

جھمرو کو اس قدر غمگین لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ بولے معاف کرنا جھمرو چاچا غلطی ہو گئی لیکن اب ہم ناگن کے بارے میں جانے بغیر یہاں سے نہیں ٹلیں گے۔

جھمرو بولا چھوڑو، وہ لمبی کہانی ہے۔ بازار بند ہو جائے گا تم لو گوں کا سودا سلف چھوٹ جائے گا۔ چلو پھر کبھی۔۔۔۔۔

جی نہیں آج اور ابھی۔ اس بار بہت ساری آوازیں ایک ساتھ اٹھیں

اچھا اگر ایسا ہے تو میری بھی ایک شرط ہے؟

وہ کیا؟

یہی کہ بیچ میں سے کوئی اٹھ کر نہیں جا سکتا۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو۔۔۔۔۔۔

تو کیا؟

تو اژدھا اسے نگل جائے گا اس لئے کہ وہ ابھی زندہ ہے۔

لوگوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ وہ سوچنے لگے اژدھا نگل جائے گا کیا مطلب؟

جھمرو نے زوردار قہقہہ لگا یا اور بولا کیوں ڈر گئے نا سب لوگ؟ جاؤ جا کر اپنا کام کرو۔ چھوڑو ناگن کو اور اس کی کہانی کو۔۔۔۔۔۔

ہم نہیں ڈرے اور ہم نہیں جائیں گے آج آپ کو اس کی کہانی سنانی ہی ہو گی۔

اچھا تو تم سب کو میری شرط یاد ہے؟

سب نے ایک آواز ہو کر کہا جی ہاں۔

اور منظور بھی ہے۔

جی ہاں ہمیں منظور ہے۔

جھمرو نے قصے کا آغاز کر دیا۔ ڈمرو مداری دور کے رشتے میں میرا بھائی ہے۔ نہ جانے کیا سوچ کر میرے چچا نے اس کا نام ڈمرو رکھ دیا تھا اس لئے کے ہم محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں۔ کھیل تماشہ ہم نہیں کرتے۔ اس کام کو ہم نے سیاستدانوں کیلئے چھوڑ رکھا ہے۔ لوگوں کے چہرے پر ہنسی مسکرانے لگی محفل پھر سے اپنے رنگ پر آنے لگی۔

ہوا یوں کہ ایک روز ڈمرو جنگل میں شکار کے لئے گیا ہوا تھا تاکہ گھر میں گوشت پک سکے۔ شام تک وہ مارا مارا پھرتا رہا لیکن کوئی مناسب جانور اس کے ہاتھ نہیں آیا آخر تھک ہار کر وہ ایک پیڑ کے نیچے سو گیا۔ کچھ دیر بعد شور بلند ہوا۔ بولتی ناگن مردہ باد، بولتی ناگن مردہ باد اور چیونٹیوں کی آبادی میں ہلچل مچ گئی۔ بولتی ناگن کی پسندیدہ غذا یہ لال بھڑک چیونٹیاں ہی تھیں۔ چیونٹیاں اپنی جان بچا کر بھاگ رہی تھیں اور ناگن جلدی جلدی سپاسپ انہیں چٹ کر رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ چیونٹیاں کسی محفوظ ٹھکانے پر پہنچتیں ناگن کئی چیونٹیوں کو اپنا تر نوالہ بن اچکی تھی۔

ناگن نے ان کا پیچھا نہیں کیا اس لئے کہ اس کا اژدھا وہیں ڈمرو کے بغل میں محو خواب تھا وہ اسے سوتا چھوڑ کر نہیں جا سکتی اس لئے بہت ساری چیونٹیوں کی جان بچ گئی لیکن اس بھاگو بھاگو اور مردہ باد کے شور شرابے سے ڈمرو کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا ایک موٹا تازہ اژدھا اس کے بغل میں آرام فرما رہا ہے۔ ڈمرو گھبرا گیا اور اس نے جھٹ اپنا رام پوری چاقو نکالا تاکہ اژدھے کے سر میں گھونپ دے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہناتا اس کے کان میں آواز آئی ایسا نہ کرو۔ اس بیچارے نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟

ڈمرو کا ہاتھ کانپنے لگا اس نے خوف سے ادھر ادھر دیکھا نہ آدم نہ آدم زاد یہ آواز کہاں سے آ رہی تھی۔ پتوں کے درمیان اسے ایک ننھی سی ناگن نظر آئی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ ناگن بول رہی لیکن اس کے پاس تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا وہ بولا کچھ کیا نہیں ہے تو کیا؟ کر تو سکتا ہے۔ اگر وہ جاگ کر مجھے کاٹ لے تو میرا کام تمام؟

ناگن بولی اسے اگر کچھ کرنا ہی ہوتا تو وہ آ کر سونے قبل تمہارا کام تمام کر دیتا اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلتا کیونکہ اس وقت تم اسی طرح سو رہے تھے جس طرح اب وہ سورہا ہے۔

ڈمرو نے سوچا بات تو صحیح ہے لیکن پھر وہ شوخی سے بولا اچھا ناگن یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہاری بات نہ مانوں تو تم کیا کر لو گی؟

میں۔۔۔ میں تمہیں ڈس لوں گی۔ ناگن مسکرا کر بولی

ڈمرو پھر ڈر گیا لیکن اپنے آپ کو سنبھال کر بولا اچھا وہ تو تم پہلے بھی کر سکتی تھیں۔

جی ہاں لیکن جس کام کو میرے اجگر نے نہیں کیا اور جس کام سے میں تمہیں منع کر رہی ہو اس کو خود کیسے کر سکتی ہوں بھلا؟

اچھا تم تو بڑی اصول پسند ناگن معلوم ہوتی ہو؟

جی ہاں جنگل میں رہنے والے سارے جاندار ایسے ہی ہوتے ہیں وہ اصولوں کی بات نہیں کرتے ان کا پاس و لحاظ کرتے ہیں۔ ہاں شہروں میں رہنے والوں کا حال مختلف ہے وہ اصولوں کی بات تو بہت کرتے ہیں لیکن پاسداری کم ہی ہوتی ہے۔ لوگ سمجھ گئے یہ بات ناگن نے ہر گز نہیں کہی ہو گی جھمرو اپنی بات اس کے نام سے کہہ رہا ہے لیکن کسی نے ٹوکا نہیں۔ کہانی میں سب کو مزہ آ رہا تھا۔

ڈمرو بولا ناگن تمہاری منطق مجھے پسند آئی اور تمہاری باتیں ان کا کیا کہنا، میں نے تو کبھی انسانوں کے منہ سے بھی اس قدر حکمت کی بات نہیں سنی۔

ناگن بولی ذرہ نوازی کا شکریہ ویسے ابھی تم نے سنا ہی کیا ہے؟ اور کیا تم نے کبھی ناگن کا رقص دیکھا ہے؟

ناگن کا رقص! نہیں تو۔ کیا تم نے رقص کرنا بھی سیکھ لیا ہے؟

ناگن زور سے ہنسی اور بولی تم بھی بہت بھولے ہو ڈمرو ناگن کو ناچ سیکھنا نہیں پڑتا ہے ہر ناگن پیدائشی طور پر ماہر رقاصہ ہوتی ہے۔

اچھا تو پھر ناچ کے دکھلاؤ۔

لیکن اس کیلئے تمہیں بین بجانا پڑے گا؟ کیا تمہارے پاس بین ہے؟

جی نہیں نہ تو میرے پاس بین ہے اور نہ مجھے بین بجانا آتا ہے۔

اچھا مجھے تمہاری صدق گوئی پسند آئی مگر تمہیں میرا رقص دیکھنے کیلئے پہلے تو بین کا بندو بست کرنا ہو گا اس کے بعد اس کو بجانا سیکھنا ہو گا ڈمرو!

ناگن کے منہ سے دوسری بار اپنا نام سن کر ڈمرو حیران رہ گیا وہ بولا اچھا تو تمہیں میرا نام بھی پتہ چل گیا۔ تم ناگن ہو یا جادو گر۔

میں ساحر ہوں نہ جادوگر۔ سفلی علم تو انسانوں ہی کا خاصہ ہے۔

اچھا تو کیا تمہارے قبضے میں کو ئی جن ہے جس نے تمہیں میرا نام بتلا دیا۔ ڈمرو کو ناگن سے باتوں میں لطف آ رہا تھا جس طرح تم لوگوں کو میری باتوں میں آ رہا ہے۔

مجمع نے ایک آواز میں تائید کی جی ہاں جھمرو بہت مزہ آ رہا ہے۔

ناگن نے جواب دیا نہیں جن ون کچھ بھی نہیں در اصل تم خواب میں بار بار اپنے آپ کو ڈمرو‘‘ کہہ کر کوس رہے تھے، میں سمجھ گئی کہ ہو نہ ہو تمہارا نام ڈمرو ہو گا۔ جب پہلی مرتبہ تم نے توجہ نہیں دی تو میں نے سوچا کہ میرا اندازہ غلط ہے لیکن اب تم نے تصدیق کر ہی دی۔

اچھا تو تم میری بات چیت سن رہی تھیں؟

در اصل میں تو اس احمق اجگر کی پہرے داری کر رہی تھی۔ ایسے میں تم اپنے آپ سے باتیں کرنے لگے تو مجھے مجبوراً سننا پڑا۔

بہت خوب۔ اچھا تو اب اپنا نام بھی بتا دو۔

میرا کوئی نام نہیں ہے تم جس نام سے چاہو مجھے بلا سکتے ہو۔

اچھا تو میں تمہیں رانی کہہ کر بلاؤں گا بشرطیکہ تمہارے اجگر کو اعتراض نہ ہو۔

اجگر بیچارہ نہ سن سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے اس لئے اسے کیا اعتراض ہو سکتا ہے

اور سنو ناگن رانی اب تمہیں میں اپنے ساتھ لئے بغیر گھر نہیں جاؤں گا، کیا سمجھیں زندگی میں تم پہلی۔۔۔۔۔۔۔

ناگن ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناگن نے بات آگے بڑھائی۔

جی ہاں وہی ناگن ہو جو مجھے اچھی لگی ہو۔ اس لئے تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے۔ میں اپنے اس اجگر کے بغیر نہیں رہ سکتی اس لئے میرے ساتھ اسے بھی لے کر چلنا ہو گا۔

میں اسے برداشت کر لوں گا اب تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

لیکن کیا تمہاری بیوی کسی اجنبی کو اپنے گھر میں برداشت کر لے گی۔ ہمارے جنگل کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ ایک بار جو جنگل سے گیا اسے باغی قرار دے دیا جاتا ہے اور پھر اسے جنگل میں رہنے کی اجازت نہیں ہوتی کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم نہ گھر کے رہیں نہ گھاٹ کے۔

جی نہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہو گا میری بیوی ٹم ٹم تمہاری طرح عقل مند نہیں ہے میں اسے سمجھا لوں گا۔

تمہارے خیال میں عقلمند کو سمجھانا مشکل کام ہے یا بے وقوف کو؟ ناگن نے سوال کیا

ڈمرو بولا عقلمند کے لئے خود کسی بات کو سمجھنا آسان ہے لیکن کسی اور کا اسے کوئی بات سمجھانا کٹھن ہے اس کے برعکس بیوقوف کا اپنے آپ کسی بات کا سمجھ لینا بہت مشکل ہے لیکن کوئی اور عقلمند اسے کو ئی بات سمجھائے تو وہ آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔

ناگن بولی میں سمجھ گئی۔

کیا سمجھیں تم؟

یہی کہ تم جو ہو نہ، اپنی بیوی اور میرے اجگر کی طرح بیوقوف نہیں ہو۔

دونوں نے ایسا زوردار قہقہہ لگایا کہ بہرہ اجگر بھی جاگ گیا اور اپنی ناگن کے اطاعت میں ڈمرو کے گھر چلنے کیلئے راضی ہو گیا۔ ڈمرو حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا انسان تو انسان جانور بھی۔۔۔۔۔۔ ناگن نے کہا کیا سوچ رہے ہو ڈمرو؟

کچھ نہیں۔ چلو گھر چلتے ہیں ڈمرو بولا اور اسی کے ساتھ یہ تین نفری قافلہ ڈمرو کے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔

گھر پہنچنے کے بعد ڈمرو کیلئے ٹم ٹم کو سمجھانے منانے کی نوبت ہی نہیں آئی وہ خود ہی ناگن پر فریفتہ ہو گئی اور بولی میری ایک بہن تھی کم کم بالکل رانی کی طرح پٹر پٹر بولتی تھی لیکن اسے کسی سانپ نے ڈس لیا اور وہ بچپن ہی میں فوت ہو گئی چلو بھگوان نے مجھے اس کا نعم البدل عطا کر دیا اس طرح پانچ لوگوں کا یہ ایک نیا سنسار وجود میں آ گیا جس میں پانچواں جھمرو کا بیٹا ننھاسامرو تھا۔

دن گزرتے رہے نہ جانے کب ٹم ٹم بازار سے بین اور ڈگڈگی لے آئی اور ڈمرو کو مداری بنا دیا۔ ڈمرو کی بین پر ناگن ناچتی تھی اور ٹم ٹم کی ڈگڈگی پر ڈمرو اچھل کود کیا کرتا۔ ایک اجگر تھا جو اس تماشے کو خاموشی کے ساتھ دیکھا کرتا نہ کچھ سنتا اور نہ بولتا اس لئے کہ گونگا بہرہ تھا۔ ڈمرو اسے رشک سے دیکھتا اور سوچتا خاوند کیلئے گونگا اور بہرہ ہونا کس قدر مفید ہے۔

وقت کے ساتھ ڈمرو ایک ماہر مداری بن گیا تھا۔ وہ اپنے ساتھ جھمورا بھی رکھنے لگا تھا۔ رانی ہرسال ایک انڈا دیتی اجگر اس کو سینکا کرتا اور اس طرح ہر سال ایک نیا سانپ ان کے گھر میں جنم لیتا تھا۔ جس دن سانپ کا بچہ انڈے سے باہر آتا وہ لوگ ناگ پنچمی کا تہوار مناتے۔ جب وہ سانپ کھیل تماشے کے قابل ہو جاتا تو اسے جھمورا کو انعام کے طور پر دے دیا جاتا اس طرح جھمورے کی ترقی ہو جاتی اور وہ مداری بن جاتا اس موقع پر ٹم ٹم کی جانب سے اسے بین کا تحفہ دیا جاتا۔ ڈمرو بلا ارادہ اپنے آپ میں ایک ادارہ بن گیا تھا اس کے شاگرد اس کا بڑا احترام کرتے اور اسے اپنا گرو مانتے تھے۔

ڈمرو دن میں ناگن کے ساتھ مداری کا کھیل دکھلاتا شام میں لوٹ کر آتا تو ٹم ٹم اور اجگر کو انتظار میں پاتا۔ اجگر ناگن کی آہٹ پاتے ہی خوشی سے جھوم اٹھتا تھا اور اپنا دودھ کا پیالہ سرکا کر آگے لے آتا۔ ناگن ڈمرو کو بھول کر اپنے اجگر کے پاس چلی جاتی اور ڈمرو ٹم ٹم کی خدمت میں لگ جاتا۔ ایک روز ٹم ٹم نے ڈمرو سے کہا ایسا کب تک چلے گا؟

کیسا کب تک چلے گا؟ میں کچھ سمجھا نہیں؟ سوال در سوال کو سن کر رانی کے کان کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ بھانپ گئی تھی کہ ٹم ٹم کیا کہنے والی ہے۔ آخر وہ بھی تو صنفِ نازک تھی اگر ٹم ٹم کی بات کو وہ نہیں سمجھتی تو کیا اجگر سمجھتا۔ بے چارہ گونگا اور بہرہ اجگر! لیکن حیرت کی بات تو یہ تھی کی ڈمرو تو اجگر کی مانند گونگا اور بہرہ نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی شوہر تو تھا۔ اجگر کی ہی طرح خادم، مطیع و فرمانبردار۔

ٹم ٹم بولی آپ کب تک اس طرح ڈگڈگی بجاتے رہیں گے؟ اور اپنا سامرو کب تک اس طرح آوارہ گردی کرتا رہے گا؟ ٹم ٹم کا اشارہ اپنے جوان بیٹے سامرو کی طرف تھا۔

بیگم ان دونوں سوالوں کا جواب میرے پاس نہیں ہے، پہلے سوال کا جواب خود آپ کو دینا ہو گا اور دوسرے کا فیصلہ خود آپ کا فرزندِ ارجمند کرے گا۔

اگر ایسا ہے تو سنومیرا جواب اور فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔

حکم! ڈمرو سر جھکا کر بولا۔

کل سے آپ آرام کریں گے اور سامرو کھیل دکھلائے گا۔

اچھا لیکن میرا جھمورا اگر اس کا نائب بننے سے انکار کر دے تو؟

اپنی بلا سے۔ اور مجھے پتہ ہے ایسا ہی ہو گا۔

تو پھر کیا میں تمہارے سامرو کا جھمورا بن جاؤں۔

جی نہیں جھمورا بنیں تمہارے دشمن۔ میں نے ساری منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ میں یہ سنپولاتمہارے موجودہ جھمورے کو دے کر اسے آزاد کر دوں گی، سامرو کے ساتھ جھمورا بنانے کیلئے میں نے تمہارے پرانے شاگرد کھڑک سنگھ کو تیار کر لیا ہے۔

کیا۔۔۔۔۔۔؟ کھڑک سنگھ تو سامرو کے باپ کی طرح ہے وہ اس کا جھمورا کیونکر بن سکتا ہے؟

جانتی ہوں؟ خود کھڑک سنگھ نہیں بلکہ اس کا لڑکا بھڑک سنگھ جھمورا بنے گا۔ اس کو راضی کرنے پر کھڑک سنگھ راضی ہو گیا ہے۔

بھڑک سنگھ تو بڑا بد معاش لونڈا ہے کہیں وہ اپنے سامرو کیلئے مصیبت نہ بن جائے۔

تم اپنے سامرو کو نہیں جانتے وہ اکیلا کئی بھڑکو پر بھاری ہے۔

لیکن کیا اپنے سامری کو بین بجانا آتا ہے؟

جی نہیں۔ میں نے اسے سیکھنے کیلئے کہا تو بولا اس کی ضرورت نہیں۔ بھڑکو چپ چاپ ٹیپ ریکارڈر پر ناگن فلم کی دھن بجا دے گا اور میں منہ پر بین رکھ کر ہلاتا رہوں گا۔

لیکن اگر رانی کو پتہ چل گیا تو؟

میں اسے سمجھا دوں گی بہن بین کی آواز سن کر تم اپنا رقص شروع کر دینا اب کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ رانی سب کچھ سمجھائے بغیر ہی سمجھ گئی تھی۔

ڈمرو بولا ٹم ٹم تمہاری منصوبہ بندی بڑی زبردست ہے اس میں کسی قسم کا کوئی جھول دکھلائی نہیں دیتا۔ میں تو تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے وقوف سمجھتا تھا؟ یہی کہنے والے تھے نا، ٹم ٹم بولی یہی سمجھتے رہو اس خوش فہمی میں ہم دونوں کی بھلائی ہے۔

ٹم ٹم اور ڈمرو کے بارے میں رانی کی رائے کب کی بدل چکی تھی اس لئے اسے کوئی حیرت نہیں ہوئی اور اجگر تو بیچارہ گونگا اور بہرہ تھا۔

پہلے ہی دن سامرو اور بھڑکو نے شہر کے سب سے بڑے چورا ہے پر مجمع لگایا۔ ناگن کی دھن کیا گونجی کہ لوگ جوق در جوق امڈ پڑے۔ رانی ڈمرو کے فراق میں ایسے جھوم کر ناچی کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے۔ اب وقت تھا پیسے جمع کرنے کا۔ بھڑکو نے ناگن کی ٹوکری اٹھا کرسامرو کے دائیں سے چکر لگانا شروع کیا۔ ٹوکری میں روپیوں کی برسات ہو رہی تھی اور بھڑکو کی نیت خراب ہو رہی تھی اس نے اس قدر نوٹ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ سامرو کامیابی کے نشے میں مست جھوم رہا تھا۔ اسے اپنے اولین شو میں ایسی بڑی کامیابی کی توقع نہیں تھی۔ بھڑکو نے درمیان میں ایک منصوبہ بنا لیا اور جب بائیں جانب سے سامرو کے پیچھے پہنچا تو یہ جا وہ جا۔ مجمع کے ساتھ بھڑکو بھی چھٹ چکا تھا۔

سامرو اپنے خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ رانی بولی۔ بیٹے سا مرو، ہوش میں آؤ بھڑکو چمپت ہو چکا ہے۔

کیا۔۔۔۔۔۔۔؟

جی ہاں بھڑکو موجود نہیں ہے۔

یہ سنتے ہی سامرو غصہ سے بھڑک اٹھا اور بولا کہاں بھاگ گیا وہ بد معاش؟

یہ تو میں نہیں بتا سکتی۔ وہ تو تمہارا بچپن کا لنگوٹیا یار ہے، میرا نہیں۔

سامرو کو اپنے دوست کی دھوکہ دہی پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔ بھڑکو نہ صرف ساری کمائی بلکہ رانی کی ٹوکری بھی لے بھاگا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ رانی کو لے کر کیسے جائے؟ آتے وقت تو سارا سامان بھڑکو ڈھو کر لایا تھا لیکن اب وہ غائب تھا۔ سامرو نے سامان سمیٹا اور رانی کو دیکھنے لگا۔

وہ بولی کیا دیکھ رہے ہو بیٹا۔

وہ۔۔۔۔ بات در اصل یہ ہے کہ بھڑکو آپ کی ٹوکری بھی لے بھاگا کمبخت۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب آپ کو کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رانی مسکرا کر بولی سامرو تم بالکل اپنے باپ پر گئے ہو ماں کا سایہ تم پر نہیں پڑا۔

میں سمجھا نہیں؟ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔

خیر چھوڑو ہر بات کا سمجھنا ضروری بھی تو نہیں اور کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا نہ سمجھنا مفید تر ہوتا ہے۔

میں پھر نہیں سمجھا۔

خیر کوئی بات نہیں تم مجھے لے جانے کے بارے میں سوچ رہے تھے نا؟

جی ہاں۔

تم مجھے اسی طرح لے چلو جیسے تمہارا باپ کئی سال قبل مجھے جنگل سے لایا تھا۔

اچھا وہ کیسے؟

اپنی آستین میں رکھ کر۔

اچھا۔

جی ہاں، میں گھر تک تمہاری آستین سے لپٹ جاتی ہوں۔

اوہو یہ تو بہت آسان ہے۔

سامرواپنے سر پر مداری کا سامان اٹھائے اور آستین میں رانی کو لپیٹے گھر کی جانب رواں دواں تھا لیکن اس کا دماغ بھڑکو کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کو سوائے بھڑکو کی بے وفائی کے کچھ اور نظر نہیں آ رہا تھا وہ انتقام کی آگ میں جل رہا تھا کہ اچانک رانی نے دیکھا اسی ویران سڑک پر آگے آگے بھڑکو چلا جا رہا ہے۔ رانی نے سوچا بیچارہ نہیں جانتا کہ اس کی موت اس کے پیچھے کس قدر قریب ہو گئی ہے۔

انسانوں کے ساتھ اس قدر طویل عرصہ رہتے رہتے رانی اپنے آپ کو بھی انسان سمجھنے لگی تھی اور بھڑکو جیسے موذی لو گوں کو سانپ بچھو گرداننے لگی تھی۔    رانی نے جب دیکھا کہ سامرو سامنے سے جاتا ہوا اپنا شکار نہیں دیکھ رہا ہے تو وہ بولی۔ وہ دیکھو آستین کا سانپ۔ اس کا سر کچل دو۔

سامرو نے بے خیالی میں یہ جملہ سنا ہاتھ کو جھٹکا۔ رانی جیسے ہی زمین پر گری اس کا سر کچل دیا۔ سارے خیمے کو سانپ سونگھ گیا تھا۔

اسی کے ساتھ بولتی ناگن زندہ باد کا شور اچانک کسی کونے سے بلند ہوا اور دھیرے دھیرے وہ آسمان کو چھونے لگا۔ یہ چیونٹیوں کا شور تھا جو چہار جانب سے بولتی ناگن کے آس پاس جمع ہو رہی تھیں۔ ناگن مر چکی تھی اب اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس روز چیونٹیوں کی خاطر گویا دعوتِ شیراز کا اہتمام تھا۔ جشن بپا تھا چہار جانب سے چیونٹیوں کا ٹڈی دل ناچتا گاتا، شور مچاتا ناگن کی لاش پر ٹوٹ پڑا تھا۔ چیونٹیاں ضیافت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے درمیان میں بولتی ناگن زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کر دیتی تھیں لیکن اسے سننے والا ڈمرو وہاں موجود نہیں تھا۔ سامرو تو تھا مگر اژدہے کی مانند گونگا اور بہرہ۔

بظاہر چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس سناٹے نے جھمرو کے خیمے کو بھی نگل لیا کچھ دیر خاموشی چھائی رہی اور پھر آہستہ آہستہ بھیڑ چھٹنے لگی۔ اب نہ وہاں ڈمرو تھا نہ سامرو، نہ کھڑک سنگھ تھا اور نہ بھڑک سنگھ، نہ ٹم ٹم تھی نہ رانی بس اجگر اور اس کی مانند جھمرو رہ گیا تھا جو نہ سن سکتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔ اجگر اور جھمرو دونوں سوئے پڑے تھے۔ اس لئے کہ نہ تو کسی کے پاس رامپوری چاقو تھا اور نہ ہی کسی کو اپنے نگل لئے جانے کا خوف تھا۔

٭٭٭

 

 

 

انتخاب و آزادی

 

شیخ جواد المسعودی اپنی نئی نویلی دلہن مرجانہ کے ساتھ دیوان خانے میں بیٹھے قہوہ نوش فرما رہے تھے وہ بڑی محبت سے ننھے ننھے فنجان بھر کے انہیں پیش کرتی اور شیخ صاحب خود اپنے باغ کی تازہ رس بھری کھجوروں کے ساتھ قہوہ کی ہلکی ہلکی چسکیاں لیتے۔ ٹھنڈے کھجوروں کی مٹھاس اور گرم قہوہ کی تلخی نے ماحول کو نہایت خوشگوار بنا دیا تھا کہ ننھا ریحان روتا ہوا وہاں آ پہنچا۔ اس کی نئی ماں مرجانہ نے لپک کر اسے گود میں بٹھا لیا۔ اس کے بعد وہ اور زور زور سے رونے لگا۔ مرجانہ نے بڑے پیار سے پوچھا۔

کیا ہوا کیوں رو رہے ہو؟

آج پھر صفوان نے مارا۔ ریحان بولا۔

اچھا۔ مرجانہ نے کہا۔ کیسے مارا اس نے آپ کو؟ ‘

لاٹھی سے۔

اسی لاٹھی سے جس سے وہ بکریاں ہانکتا ہے۔

مرجانہ نے ریحان کو پیار سے ڈانٹا بیٹے کتنی بار سمجھایا ہے کہ اس کے پاس نہ جایا کرو پھر آپ اس کے پاس کیوں گئے؟

میں اس کے پاس کب گیا؟ ریحان نے جواب دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں اپنی بکریوں کے پاس گیا تھا وہی وہاں آ دھمکا۔

شیخ صاحب بولے۔ بیٹے وہ تو وہاں آئے گا ہی۔ اس کا تو کام ہی بکریوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔

مرجانہ نے اب شیخ صاحب کا رُخ کیا اور بولی۔ آپ چپ کریں آپ کے لاڈ پیار نے ہی صفوان کو بگاڑ دیا ہے۔ اس کا کام بھیڑ بکریوں کی دیکھ ریکھ کرنا ہے یا بچوں کو مار پیٹ کرنا۔ کل اس نے اپنی بہن صفیہ کا سر پھوڑ دیا تھا آج اس نے ریحان کی پٹائی کر دی۔ اگر یہی سلسلہ دراز رہا تو ایک دن اس کی لاٹھی کی زد میں ہم لوگ بھی آ جائیں گے۔

شیخ صاحب کو مرجانہ کی بچکانہ بات پر ہنسی آ گئی۔ انہوں نے کہا۔ کیا اناپ شناپ بک رہی ہو تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔

مرجانہ نے جھٹ کہا۔ میرا دماغ تو ٹھیک ہے لیکن صفوان کا دماغ درست کرنا ہی ہو گا۔ ایسا کرو اس کی لاٹھی اس سے چھین لو۔

شیخ جواد بولے۔ لاٹھی سے اسے کیونکر محروم کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ بکریاں چرانے کے لیے لاٹھی کا استعمال لازمی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو صفوان کو بکریاں چرانے کی ذمہ داری سے بھی سبکدوش کرنا ہو گا۔

مرجانہ چونک کر بولی۔ نانا بابا نا۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہماری ان بکریوں کا کیا ہو گا؟

ریحان بیچ میں بول پڑا۔ میں چراؤں گا۔ مجھے یہ کام بہت اچھا لگتا ہے۔

نہیں بیٹے نہیں۔ مرجانہ بولی۔ یہ تمہارا کام نہیں ہے۔ تم کہاں دشت و صحرا میں بکریاں چراتے پھرو گے۔

تو کیا میں صفوان کی لاٹھی سے مار کھاتا رہوں گا۔ ریحان نے معصومیت سے پوچھا۔

نہیں۔ جاؤ صفوان کو یہاں بلاؤ میں اسی کی لاٹھی سے اس کی کھال ادھیڑتی ہوں۔

یہ سن کر ریحان کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ دوڑتا ہوا صفوان کے پاس جا پہنچا اور کہا۔ چلو جلدی چلو۔ تمہیں نئی امّی بلا رہی ہیں۔

کیوں؟ صفوان کا سوال تھا۔

ریحان سکتہ میں آ گیا حقیقت بتانے کی ہمت اس کے اندر نہیں تھی۔ صفوان نے غرا کر پھر پوچھا۔ بول کیوں بلا رہی ہیں؟ بولتا کیوں نہیں؟ چپ کیوں ہے؟

اب ریحان کانپ رہا تھا۔ صفوان نے کہا۔ میں سمجھ گیا تم نے جا کر میری چغلی کی ہے۔ جاؤ ان سے کہو میں نہیں آتا۔

ریحان زور دے کر بولا۔ کیسے نہیں چلو گے تمہیں چلنا ہی ہو گا۔

اچھا۔ صفوان آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے ایک لاٹھی ریحان کی پیٹھ پر جمادی۔          ریحان روتا بلبلاتا پھر مرجانہ کے پاس آ گیا۔ امّی اس نے مجھے پھر مارا وہ کہتا ہے کہ وہ نہیں آئے گا۔

اچھا اب تو پانی سر سے اوپر ہو گیا۔ مرجانہ بولی۔ اب کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ یہ کہتے ہوئے کھڑی ہو گئی اور صفوان کی جانب جیسے ہی قدم بڑھایا سامنے اس کی سوتن اور ریحان کی سگی ماں سلطانہ کھڑی تھی۔ اس نے پوچھا۔

اتنے غصہ سے کہاں جا رہی ہو دلہن؟

مرجانہ بولی۔ آپ بیٹھیں میں ابھی آئی۔

سلطانہ نے کہا تم بھی بیٹھو۔ غصہ نہ کرو۔ بچوں کے جھگڑے میں بڑوں کو نہ پڑنا چاہئے۔ مار پیٹ سے بچے سدھرتے نہیں بگڑ جاتے ہیں۔ صفوان کو میں سمجھاؤں گی۔ ریحان بیٹے جاؤ صفوان کو بلا لاؤ اس سے کہو میں اسے بلا رہی ہوں اور میرے پاس اس کے لیے مٹھائی ہے۔

ریحان دوبارہ دروازے کی جانب دوڑ پڑا۔ مرجانہ نے کہا۔ باجی یہ جھوٹ ہے۔

نہیں دلہن یہ جھوٹ نہیں ہے۔ سلطانہ بولی۔ اچھی نصیحت کی مٹھاس تمام مٹھائیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔

مرجانہ زچ ہو گئی۔ اس نے کہا باجی آپ کی باتیں ویسے تو کھجور سے زیادہ میٹھی ہیں پھر بھی لیجئے انہیں نوش فرمائیے۔ میں آپ کے لیے قہوہ نکالتی ہوں۔

سلطانہ نے شکریہ ادا کیا ہی تھا کہ ریحان واپس آ پہنچا۔ سلطانہ نے پوچھا۔ صفوان کہاں ہے؟

ریحان بولا۔ وہ کہتا ہے میں نہیں آتا۔ بڑی امی جھوٹ بولتی ہیں ان کے پاس مٹھائی نہیں ہے اور میں ان کی نصیحتوں سے اوب چکا ہوں۔

مرجانہ نے کہا۔ دیکھا باجی سنا آپ نے صفوان کا جواب۔

کوئی بات نہیں ذہین بچہ ہے ہماری چال سمجھ گیا میں اسے بعد میں سمجھا دوں گی۔

لیکن اس نے ریحان کے ساتھ جو پے در پے زیادتیاں کی ہیں اس کا کیا؟

دیر سے خاموش تماشائی بنے ہوئے شیخ جواد بیچ میں بول پڑے۔ میں اس کی سزا صفوان کو دوں گا۔ انہوں نے ریحان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا بیٹے ریحان جاؤ۔ صفوان کو بلاؤ اس سے کہنا ہم بلا رہے ہیں۔‘

ریحان پھر دوڑتا ہوا صفوان کے پاس پہنچا اور کہا۔ بابا بلا رہے ہیں فوراً چلو ورنہ۰۰

صفوان نے بیچ ہی میں لپک لیا۔ ورنہ کیا میری کھال کھینچ لیں گے جا اور ان سے کہہ میں نہیں ڈرتا جو مرضی آئے کر لیں میں نہیں آتا۔

ریحان جب یہ بات اپنے بابا کو بتلا رہا تھا اذان شروع ہو گئی۔ شیخ جواد شکست خوردگی کا احساس لیے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے وضو خانے کی جانب بوجھل قدموں کے ساتھ ہو لیے۔ جب وہ وضو سے فارغ ہو کر نکلے تو دیکھا مرجانہ اور سلطانہ خوش گپیوں میں مصروف ہیں اور فلپائنی دایا ہیلری کی گود میں ریحان آنکھیں موندے لیٹا ہے اور وہ بڑے پیار سے اس کی پیٹھ سہلا رہی ہے۔ جواد سوچنے لگے مرجانہ صفوان کو سزا دینے کی فکر میں ریحان کی پیٹھ سہلانا بھول گئی اور بالآخر یہ سعادت ہیلری کے حصہ میں آئی۔

نماز سے فارغ ہو کر جب شیخ جواد لوٹے تو کیا دیکھتے ہیں لان میں ہیلری بیٹھی ہے۔ صفوان اور ریحان دونوں اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر ان کا دل باغ باغ ہو گیا۔ وہ دیوان خانے میں داخل ہوئے تو دیکھا سلطانہ ان کے لیے کھانا پروس رہی ہے۔

شیخ جواد مرنجان مرنج شخصیت کے حامل تھے ایک نہایت متمول اور دیندار گھرانے میں انہوں نے آنکھیں کھولیں۔ والدین نے حصول تعلیم کے لیے انہیں یوروپ بھیجا وہاں سے فلسفہ کی تعلیم حاصل کر کے واپس لوٹے تو ان کا اپنی روایات سے رشتہ مزید گہرا ہو چکا تھا۔ مغرب کے نمائشی کھوکھلے پن نے انہیں اپنی اقدار کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ کچھ عرصہ تعلیم تدریس کے بعد خاندانی تجارت کی جانب متوجہ ہوئے اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کا کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔

ان کے آبائی گاؤں آبھا میں ان کی شاندار کوٹھی تھی جس میں وہ اپنی دو بیویوں سلطانہ اور مرجانہ کے ساتھ رہتے تھے۔ یہاں ان کے پاس بھیڑ بکریاں اونٹ اور مرغیاں کھیت کھلیان سب کچھ تھا۔ شرافت اور صاف گوئی کے باعث گاؤں والے ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ شیخ صاحب کی سخاوت کے چرچے دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ آبھا سے قریب ہی خمیس مشیط نامی پہاڑی پر سال بھر موسم خوشگوار رہتا تھا۔ سردیوں میں تو برف باری تک ہو جاتی تھی۔ خمیس مشیط کی وادی میں شیخ صاحب کا ایک مزرع (فارم ہاؤس) تھا۔ جس میں کھجوروں کا بہترین باغ تھا اور اعلیٰ نسل کے عربی گھوڑوں کا اصطبل بھی تھا۔

اس مزرع میں ان کی بیوی نذرانہ اپنے سوتیلے بیٹے عرفان کے ساتھ رہتی تھی۔ نذرانہ کی دونوں بیٹیاں دردانہ اور افسانہ بیاہی  جا چکی تھیں۔ شیخ صاحب کا کاروبار قریب کے شہر جیزان میں جما ہوا تھا وہاں ان کی آڑھت تھی۔ پٹرول پمپ تھا۔ ہوٹل اور نہ جانے کیا کیا۔ جیزان میں شیخ صاحب کی سب سے تیز طرار بیوی رخسانہ اپنے بیٹے رضوان کے ساتھ رہتی تھی صفوان در اصل رضوان کا سگا بھائی تھا لیکن وہ جیزان کے بجائے خمیس میں رہتا تھا۔

شیخ صاحب کا معمول یہ تھا کہ وہ ہر مہینہ کے دو ہفتہ اپنے آبائی گاؤں آبھا میں گذارتے نیز ایک ہفتہ خمیس اور ایک ہفتہ جیزان میں حالانکہ مصروفیات کا تقاضا تو یہ تھا زیادہ وقت جیزان میں گذارا جاتا لیکن اپنی بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کو وہ کاروباری ضرورتوں پر ترجیح دیتے تھے۔ بازار میں شیخ صاحب ایک اچھے تاجر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اس لیے کہ اس طویل عرصہ میں ایک بھی بد عہدی یا بددیانتی کا کلنک ان کے معاملات پر نہ لگا تھا۔

ریحان سلطانہ سے تھا۔ صفوان کی ماں شبانہ کو انہوں نے چند ماہ قبل طلاق دے دی تھی اور بڑے مال و اسباب کے ساتھ روانہ کیا تھا تاکہ مرجانہ سے نکاح کیا جا سکے۔ اس واقعہ نے صفوان کے ذہن پر منفی اثرات مرتب کیے تھے اسے ایسا لگتا تھا جیسے مرجانہ نے اسے اپنی حقیقی ماں سے محروم کر دیا ہے۔ سلطانہ کو اس حقیقت کا احساس تھا اس لیے وہ صفوان کا خاص خیال رکھتی تھی۔ لیکن اس کا گھاؤ بھرنے کا نام نہ لیتا تھا۔

ہیلری کی کوششوں سے وہ وقتی طور پر بہل جاتا لیکن تنہائی میں وہ پھر غصہ سے بھر جاتا۔ ایسے میں اس کے پاس بکریاں ہوتیں یا ریحان۔ بکریوں کو وہ اپنی طرح مظلوم سمجھتا تھا اس لیے ان کے تئیں انسیت محسوس کرتا تھا لیکن ریحان کے ساتھ ایسی کوئی بات نہ تھی اس لیے وہ گاہے بگاہے صفوان کے غم و غصہ کا شکار ہوتا رہتا تھا۔

حسب معمول مہینہ کے دوسرے ہفتہ جمعہ کے دن جب شیخ جواد جیزان اپنی حویلی میں پہنچے تو دیکھا ان کا بیٹا رضوان گھر پر موجود ہے۔ والد کی آہٹ سن کر وہ دوڑا دوڑا دروازے تک آیا۔ شیخ جواد نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس نے بڑے احترام سے ہاتھ پر بوسہ دیا۔ شیخ صاحب نے بیٹے کی پیشانی کا بوسہ لے کر پوچھا کب آئے؟

اس سے پہلے کہ رضوان کچھ بولتا اس کی ماں رخسانہ بول پڑی۔ کل رات آیا ہے اور صبح تک بیسیوں مرتبہ آپ کے بارے میں پوچھ چکا ہے۔ بابا آئیں گے نا؟ بابا کب آئیں گے؟ بابا ابھی تک کیوں نہیں آئے؟ میں انہیں کے ساتھ ناشتہ کروں گا۔ یہی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ آپ ایسا کریں جلدی سے ہاتھ منہ دھولیں میں ناشتہ لگاتی ہوں۔

شیخ جواد نے جھلّاتے ہوئے کہا۔ ٹھیک ہے ذرا دم تو لے لینے دو ابھی تو ہم نے ایک دوسرے کی خیریت بھی دریافت نہیں کی اور تم کھانے کھلانے میں لگ گئیں۔ تم عورتوں کو تو بس۔

بس! رخسانہ نے درمیان میں جملہ اُچک لیا۔ خیریت ناشتہ کے دوران بھی پوچھی جا سکتی ہے۔ چلو جلدی سے دسترخوان پر آؤ۔ شیخ جواد نے ناشتہ کے دوران عطا کردہ آزادی پر شکریہ ادا کیا اور نہایت سعادت مندی سے حمام کی جانب چل دیئے۔

رضوان نے کہا۔ امی آپ تو…

رخسانہ نے اس کی بات بھی کاٹ دی۔ ہاں میں جانتی ہوں تم دونوں باپ بیٹے ایک دوسرے کے بڑے ہمدرد و غم خوار ہو۔ لیکن میں بھی تمہاری دشمن نہیں ہوں۔ چلو تم بھی جلدی سے دسترخوان پر چلو۔ اب وہ تینوں ناشتہ کر رہے تھے کہ شیخ جواد نے پوچھا۔ بیٹے امتحانات کب سے ہیں؟

رخسانہ رضوان سے پہلے بول پڑی۔ یہ لو۔ ان شفیق باپ کو دیکھو جنھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ امتحانات ختم ہو چکے ہیں اور شاید آپ کو یہ بھی یاد نہ ہو گا کہ یہ اس کے آخری سال کے امتحانات تھے۔ ان میں کامیابی کے بعد ان شاء اللہ میرا بیٹا انجینئر بن جائے گا۔ المسعودی خاندان کا پہلا مہندس (انجینئر)۔

ہاں ہاں میں جانتا ہوں۔ اچھا تو بیٹے آپ کے نتائج کب تک ظاہر ہو جائیں گے؟

رخسانہ نے پھرٹوکا۔ تعجب ہے آپ اتنا بھی نہیں جانتے کہ ایک مہینہ کے اندر نتائج ظاہر کر دیئے جاتے ہیں آئندہ ماہ جب آپ تشریف لائیں تو مٹھائی کا ٹوکرا اپنے ساتھ ضرور لانا۔ میں اپنے بیٹے کے انجینئر بن جانے کی خوشی میں سارے محلے کو مٹھائی کھلاؤں گی.

ہاں ہاں ضرور کھلانا۔ شیخ صاحب بولے۔ سارے محلے کو کیوں سارے شہر کو مٹھائی کھلانا، ننگارے بجوانا کہ تمہارا بیٹا انجینئر ہو گیا۔ گویا انجینئر ہونے والا یہ دنیا میں پہلا فرد ہے۔

رخسانہ جل بھن کر بولی۔ آپ کیوں جلی کٹی سنانے لگے ساری دنیا میں نہ سہی تو کیا…

شیخ جواد نے جملے کاٹ دیا۔ المسعودی خاندان میں …

فوراً رخسانہ نے پھر جملہ لپک لیا۔ نہ صرف المسعودی خاندان بلکہ میرے جنیدی خاندان میں بھی یہ پہلا مہندس ہے۔

بس کرو اپنے بیٹے کی تعریف میں خوب جانتا ہوں المسعودی اور جنیدی خاندان کو۔

کیوں بس کروں۔ میرا بیٹا لاکھوں میں ایک ہے۔ میں اس کی تعریف نہ کروں گی تو کون کرے گا؟

رضوان بڑی دلچسپی سے اپنے ماں باپ کی نوک جھونک دیکھ رہا تھا۔ ہاسٹل کی زندگی میں وہ ان لمحات کو ترس جاتا تھا وہ خوش تھا کہ اسے اقامت گاہ کی بے لطف زندگی سے نجات حاصل ہو گئی تھی۔ ناشتہ کے بعد شیخ جواد بازار کی طرف نکل گئے اپنے کاروباری معاملات میں وہ نہایت سنجیدہ طبیعت کے حامل تھے۔ ہر کام میں خود دلچسپی لیتے اور خوش اسلوبی سے اس کا حق ادا کرتے۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ تعلیم ختم کرنے کے بعد ان کا بڑا بیٹا رضوان کاروبار کی ذمہ داریاں سنبھال لے لیکن رضوان کو اس خرید و فروخت کے کام میں دلچسپی نہ تھی وہ صنعت کار بننا چاہتا تھا۔ صنعت قائم کرنے کے لیے شیخ جواد کے پاس ذرائع و وسائل کی کمی نہیں تھی لیکن جس طرح کی صنعت رضوان قائم کرنا چاہتا تھا اس کے لیے جیزان شہر موزوں نہیں تھا۔ اپنی پسند کی صنعت کے لیے اس کا جبیل، ینبع، جدہ یا ریاض منتقل ہونا ضروری تھا۔

ہفتہ کے خاتمہ پر جب شیخ جواد نے خمیس مشیط میں واقع مزرع کی جانب رخت سفر باندھا تو رضوان کو بھی اپنے ساتھ چلنے کے لیے تیار کر لیا۔ ان کی خواہش تھی کہ رضوان چند روز مزرع میں گذارے۔ آب و ہوا بھی تبدیل ہو جائے اور بھائی عرفان سے ملاقات بھی ہو جائے۔ رخسانہ کو جیسے ہی اس منصوبے کا پتہ چلا وہ خود بھی تیار ہو گئی۔ رضوان کو اگر اپنے بھائی سے ملنا تھا تو اسے بھی اپنے بیٹے سے ملنے کی خواہش ستا رہی تھی۔ شیخ جواد نے رخسانہ کی فرمائش قبول تو کر لی لیکن اسے سمجھایا کہ دیکھو ذرا اپنی زبان پر لگام رکھنا اور لڑائی جھگڑے سے گریز کرنا ورنہ اس بے چارے کی چھٹیاں خراب ہو جائیں گی۔

دیکھو جی۔ رخسانہ بولی۔ ویسے یہ اب چھٹی پر نہیں آیا ہے بلکہ کالج کی چھٹی کر کے آیا ہے اور پھر میں غلط بات برداشت نہیں کر سکتی۔ چاہے وہ غلط بات آپ کہیں یا آپ کی چہیتی نذرانہ کہے۔ مجھ سے نہیں سہا جائے گا کیا سمجھے؟

شیخ جواد بولے۔ میں کب کہتا ہوں کہ تم غلط بات کو برداشت کرو لیکن تمہارا مسئلہ یہ کہ تم صحیح اور غلط کا فیصلہ اپنی پسند اور ناپسند سے کرتی ہو اور اس کسوٹی کے مطابق جو بات تمہیں غلط معلوم ہوتی ہے اس پر غلط انداز میں گرفت کرتی ہو اسی سے بات بگڑ جاتی ہے۔

رخسانہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ ہاں میں جانتی ہوں کہ میری پسند بھی غلط ہے اور گرفت بھی۔ اسی لیے میں نے آپ کو پسند کر لیا اور آپ کی گرفت میں آ گئی۔

شیخ جواد مسکرائے انہوں نے کہا۔ تم میری گرفت میں ہو یا… وہ رک گئے۔

رخسانہ نے کہا۔ یا کیا؟ آپ میری گرفت میں ہیں یہی نا؟ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ایک ہی بات ہے۔ رخسانہ کی اس بات پر تینوں ہنسنے لگے۔

جمعہ کی نماز سے قبل جب یہ قافلہ مزرع میں پہنچا سبھی لوگ شاد ماں ہو گئے۔ رضوان اور عرفان ایک دوسرے سے مل کر بے حد خوش ہوئے اور بات چیت میں مصروف ہو گئے۔ نذرانہ اور رخسانہ کا بھی یہی حال تھا وہ دونوں بھی گفت و شنید میں محو ہو گئیں۔ شیخ جواد اپنی دو بیویوں اور دو بیٹوں کی موجودگی میں بالکل تنہا ہو گئے۔ کچھ دیر دالان میں خاموش بیٹھنے کے بعد وہ باہر باغ میں آ گئے۔

کھجور کے دراز قد پیڑوں نے ان کی تنہائی دور کر دی۔ ان درختوں سے شیخ صاحب کو بے حد انسیت تھی۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جن کے درمیان انہوں نے اپنا لڑکپن گذارا تھا اور کچھ ایسے تھے جنہیں خود شیخ جواد نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا اور نہایت محنت سے سینچ کر بڑا کیا تھا۔ شیخ جواد جب ان درختوں میں آتے تو انہیں ایسا لگتا گویا وہ ان کے اپنوں میں آ گئے ہیں۔ وہ اس بے زبان مخلوق سے گھنٹوں باتیں کرتے ان کو اپنی سناتے اور ان کی سنتے۔ ان کی یہ بات چیت کوئی اور نہ سنتا۔

دیر تک پیڑوں سے محو گفتگو رہنے کے بعد جب وہ کسی آواز کی جانب متوجہ ہوئے تو وہ اذان کی آواز تھی۔ مؤذن نماز جمعہ کے لیے مصلیان کو مسجد میں آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ نماز جمعہ کے بعد پانچوں ایک ساتھ دسترخوان پر بیٹھے تھے۔

پہلا نوالہ منہ میں رکھتے ہی رضوان نے نذرانہ سے کہا۔ امّی میں تو دعا کرتا ہوں کہ جنت میں بھی مجھے آپ کے ہاتھ کا کھانا نصیب ہو۔

عرفان نے کہا۔ لیکن بھائی کیا بہشت میں بھی بڑی امی کو کھانا بنانے کی مشقت سے نجات نہیں ملے گی؟

شیخ جواد بولے۔ جنت میں انہیں زحمت اٹھانے کی کیا ضرورت وہاں تو فرشتے جیسا چاہیں گے کھانا بنا کر تیار کر دیں گے۔

رخسانہ نے کہا۔ فرشتے یا حوریں؟

شیخ جواد نے کہا۔ فرشتے یا حوریں ایک ہی بات ہے۔ تم بال کی کھال نہ نکالو۔

رضوان بولا۔ لیکن بابا کیا فرشتے بڑی امی جیسا ذائقہ دار کھانا بنا سکیں گے؟

یہ سن کر سب چپ ہو گئے تو نذرانہ نے کہا۔ آپ لوگ بلا وجہ فرشتوں اور حوروں تک پہنچ گئے ان دونوں کے لیے دو اچھی اچھی بیویاں لے آؤ میں ان کو ایسا کھانا بنانا سکھلا دوں گی کہ یہ میرے ہاتھ کا ذائقہ بھول جائیں گے۔

شیخ جواد نے تائید کی۔ ہاں جیسے میں بھول گیا۔

کھانے کے بعد نذرانہ اور رخسانہ باورچی خانے میں مصروف ہو گئے۔ جواد آرام کے لیے چلے گئے اور رضوان اپنے بھائی عرفان کے ساتھ باغ میں آ کر بیٹھ گیا۔ وہ ابھی ایک دوسرے کی خیریت ہی معلوم کر رہے تھے کہ نذرانہ ایک خوبصورت سی طشتری میں تازہ کھجوریں اور قہوہ کا تھرماس لے آئی اور ان کے درمیان رکھ کر خود رخسانہ کے پاس آرام کرنے چلی گئی۔ رضوان نے کھجور کھاتے ہوئے پوچھا۔

بھیا کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے باغ کی کھجوریں اتنی میٹھی کیوں ہیں؟

عرفان بولا۔ کھجوریں تو سبھی باغات کی میٹھی ہوتی ہیں لیکن ہمیں اپنے باغ کی کھجوریں اچھی لگتی ہیں اس لیے کہ وہ ہماری اپنی ہیں۔

ایک بات بتاؤں آپ تو واقعی فلسفی ہیں آپ کی اکثر باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔

کیا مذاق کرتے ہو۔ عرفان بولا۔ تم نے ملک کے سب سے نامور تعلیم گاہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے پھر یہ کیسے ہو سکتا ہو کہ مجھ جیسے گنوار کی بات تمہاری سمجھ میں نہ آتی ہو۔

رضوان نے نفی میں سرہلایا اور کہا۔ نہیں ایسی بات نہیں۔ ہم نے انجینئرنگ کی تعلیم ضرور حاصل کی لیکن وہاں ہمیں فلسفہ کی تعلیم نہیں دی گئی اور علم کلام کی جن کتابوں کا آپ مطالعہ کرتے ہیں انہیں سمجھنا تو درکنار ان کا مطالعہ بھی میرے لیے محال ہے۔

سچ؟ عرفان نے حیرت سے پوچھا

رضوان نے تائید کی بے شک۔ یہ ذوق سلیم بھی بہت بڑی نعمت ہے۔

لیکن والد محترم کواس نعمت کا ادراک نہیں وہ چاہتے ہیں کہ میں شہر میں جا کر کاروبار کروں۔ میں نے انہیں بہتیرا سمجھایا کہ میں شہر نہیں جانا چاہتا میں یہیں رہ کر باغات کی دیکھ ریکھ کرنا چاہتا ہوں اور اپنا مطالعہ جاری رکھنا چاہتا ہوں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ میں جیزان جا کر پٹرول پمپ کی نگرانی کروں بلکہ انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ آئندہ ماہ سے پٹرول پمپ کا کام کاج کو سنبھال لوں اس لئے کہ اسے چلانے کے لیے جسے دیا گیا تھا اس کرایہ دار کی میعاد کار ختم ہونے والی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابتدائی مرحلہ میں آپ کا تعاون حاصل کروں لیکن میں یہ نہیں چاہتا۔ اب تمہیں بتاؤ میں کیا کروں؟

رضوان نے جواب دیا۔ میرے بھائی اس معاملے میں میری حالت تم سے مختلف نہیں۔ انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میں آگے چل کر ایک بڑا صنعت کار بنوں گا لیکن والد صاحب چاہتے ہیں میں جیزان میں ہوٹل چلاؤں۔ یہ تو اَن پڑھ لوگوں کا کاروبار ہے اس میں میری پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا کوئی استعمال نہیں ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر مجھ سے یہی کرانا تھا تو مجھے اتنی دور تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیوں بھیجا گیا۔ یہ کام تو میں بغیر انجینئرنگ کی مشقت طلب تعلیم کے بھی کر سکتا تھا۔

لیکن آپ جیزان کے ہوٹل کے بجائے صنعت کیوں قائم نہیں کرتے؟

رضوان بولا۔ میں جس طرح کی صنعت قائم کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے جیزان موزوں نہیں ہے جو شہر اس کاروبار کے لیے مناسب ہیں وہاں امی بابا مجھے بھیجنا نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا ہے بہت ہو چکی گھر سے دوری اب یہیں جیزان میں رہ کر کاروبار دیکھو۔

دونوں بھائی فکر مند ہو گئے۔ دیر تک خاموش رہے پھر رضوان بولا۔ بھائی میں نے سوچ لیا کہ میں اپنی زندگی اپنے طریقے سے گذاروں گا۔

لیکن امی بابا؟ ‘عرفان نے پوچھا۔

میں انہیں سمجھاؤں گا‘ رضوان بولا۔ کہ وہ ہمیں اپنی زندگی جینے دیں اپنی مرضی ہم پر تھوپ کر ہماری خوشیاں نہ چھینیں۔

عرفان نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس گفتگو کے بعد دونوں بھائی والدین کے مقابلے اپنے آپ کو زیادہ طاقتور محسوس کر رہے تھے۔ ایک ہفتہ دیکھتے دیکھتے گذر گیا۔ شیخ جواد کو اب اپنے آبائی وطن آبھا روانہ ہونا تھا نیز رضوان اور رخسانہ کو جیزان۔ نکلنے سے پہلے شیخ جواد نے عرفان کو پاس بلایا اور جلد از جلد پٹرول پمپ کا کاروبار سنبھال لینے کی تلقین کی۔ رضوان کو ہوٹل کی تیاری کا مشورہ دیا اور دونوں کو ایک دوسرے کا تعاون کرنے کی نصیحت کر کے اپنی راہ لی۔ دونوں بھائیوں میں سے کسی نے بھی ایک لفظ تک نہ کہا۔ سبھی خاموش رہے اور ان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا گیا۔

دونوں بھائی اپنی امی رخسانہ کے ساتھ جیزان تو آ گئے لیکن کاروبار کی طرف جھانک کر بھی نہیں دیکھا۔ درمیان میں ایک دن جواد نے عرفان کو فون پر سخت سست کہا اور اسے کاہلی چھوڑ کر جلد از جلد پٹرول پمپ چلانے والے سے ملنے کا حکم دیا۔ دوسرے دن دونوں بھائی با دلِ ناخواستہ حکم کی تعمیل میں پٹرول پمپ جا پہنچے۔ کرایہ دار نہایت خلیق انسان تھا۔ اس نے بڑی گرم جوشی سے دونوں بھائیوں کا خیر مقدم کیا اور انہیں اپنا دکھڑا کہہ سنایا۔

اس نے کہا آج سے دو سال قبل یہ پٹرول پمپ قائم کیا گیا اور اسی وقت اس نے کرایہ پر لے لیا تقریباً ڈیڑھ سال تو یہ کاروبار گھاٹے میں چلتا رہا اس لئے کہ لوگوں کو پتہ چلنے میں اور گاہکوں کے آنے میں تھوڑا بہت وقت لگتا ہی ہے ابھی گذشتہ چھ ماہ سے کچھ آمدنی شروع ہوئی ہے لیکن پرانے نقصان کی پوری طرح بھرپائی بھی نہ ہو سکی کہ معاہدہ کی میعاد ختم ہو گئی۔ اس نے شیخ جواد کو لاکھ سمجھایا کہ معاہدے کی توسیع کر دی جائے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ اس کرایہ دار نے اب اپنی درخواست عرفان اور رضوان کے سامنے رکھ دی۔

عرفان کا دل پسیج گیا اس نے کرایہ میں معمولی اضافہ کے ساتھ معاہدہ کی مدت مزید دوسال کے لیے بڑھا دی۔ کرایہ دار خوشی سے جھوم اٹھا۔ عرفان بھی خوش تھا وہ واپس خمیس مشیط اپنے مزرع پر آ گیا۔ شیخ جواد کو جب عرفان کی اس حرکت کا پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہوئے چونکہ وہ پٹرول پمپ چلانے کے اختیارات عرفان کو دے چکے تھے اس لیے انہوں نے اس میں مداخلت سے کسی طرح اپنے آپ کو روک لیا لیکن اپنی ناراضگی نہ چھپا سکے ان کے خاندان میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ اولاد نے والدین کی نافرمانی کی ہو اور پھر عرفان جیسی متقی و پرہیز گار اولاد جس پر شیخ جواد ناز کرتے اور جان چھڑکتے تھے۔ اس کی نافرمانی نے شیخ جواد کو غم گین کر دیا تھا۔

شیخ جواد اپنے آبائی مکان میں بیٹھے سلطانہ کے ساتھ قہوہ پی رہے تھے کہ اچانک سلطانہ کو کوئی بات یاد آئی وہ اٹھی اور دوسرے کمرے کی جانب چلی گئی۔ جب واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ریحان کے ششماہی نتائج تھے۔ سلطانہ نے بتلایا کہ ریحان ایک مرتبہ پھر ناکام ہو گیا ہے نیز استانی کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو اسے تیسرا سال بھی اسی درجہ میں گذارنا ہو گا۔

آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا تم اس کی تعلیم کی جانب توجہ نہیں دیتیں؟

نہیں ایسی بات نہیں میں تو میں مرجانہ بھی اس کی تعلیم کی جانب پوری طرح متوجہ ہیں۔ لیکن کیا کریں اس کا دل ہی نہیں لگتا۔

اچھا۔ جواد نے کہا۔ تو آخر کس کام میں اس کا دل لگتا ہے؟

سلطانہ چند لمحہ خاموش رہی اور پھر اس نے کہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مویشیوں میں اس کا دل خوب لگتا ہے ان کو چرانا ان کی دیکھ بھال کرنا اسی میں وہ لگا رہتا ہے۔ جب ہم زبردستی اسے کتاب پکڑاتے ہیں تو وہ رونے لگتا ہے یا سو جاتا ہے۔

اگر ایسا ہے تو کیوں نہ ہم اسے اسی کام میں لگا دیں۔

سلطانہ کا پارہ چڑھ گیا وہ بولی۔ کیا بات کرتے ہیں آپ؟ اگر میں ہاں کہہ دوں تو آپ کل سے ریحان کو مویشیوں کے حوالے کر کے صفوان کو اسکول روانہ کر دیں گے۔

شیخ جواد مسکرائے اور کہا۔ ریحان کو مویشیوں کے حوالے کرنے والا بھلا میں کون ہوتا ہوں وہ تو خود ہی ان میں مست رہتا ہے اور جو دوسری بات تم نے کہی وہ بھی ٹھیک ہی ہے صفوان جب اسکول جاتا تھا اس وقت تک کبھی بھی فیل نہیں ہوا۔ کچھ مضامین میں تو وہ امتیازی نمبر حاصل کرتا تھا اور اس تبدیلی کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ صفوان اور ریحان کے درمیان ہونے والے لڑائی جھگڑے کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔

شیخ جواد کی تجاویز سے سلطانہ چراغ پا ہو گئی اور بولی۔ آپ ان کی لڑائی ختم کرا کے مجھ سے لڑنا چاہتے ہیں۔ میں سب جانتی ہوں آج بھی آپ شبانہ اور اس کے بیٹے صفوان کو مجھ سے اور ریحان سے زیادہ چاہتے ہیں۔ اسے گھر سے نکالنے کے لیے میں نے کیا کیا پاپڑ بیلے۔ مرجانہ کو اس کی جگہ اپنے گھر لائی لیکن افسوس کہ اس کے باوجود اس منہ جلی کو آپ کے دل سے نہ نکال سکی۔ اب تو آپ اس کے بیٹے کو اسکول میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ نیز میرے بیٹے ریحان سے بکریاں چروانا چاہتے ہیں یہ تو حد ہو گئی۔

بات بگڑتی دیکھ شیخ جواد نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی اور بولے۔ دیکھو سلطانہ بات کا بتنگڑ نہ بناؤ۔ ریحان کی ناکامی پر فکر مندی کا اظہار تم نے کیا۔ اسے مویشیوں سے انسیت ہے یہ بات تم نے بتلائی۔ صفوان پڑھنے لکھنے میں اچھا ہے اس حقیقت سے تم خوب واقف ہو۔ ان دونوں کو ساتھ ساتھ مویشیوں کی دیکھ ریکھ پر نہیں لگایا جا سکتا اس لیے کہ ان میں آپس میں بنتی نہیں ہے اب ان تمام مسائل کا کیا حل ہے؟ تمہیں بتاؤ میں مان لوں گا۔

وہ دونوں نہیں لڑتے صفوان لڑتا ہے۔ جس طرح آپ مجھ سے لڑ رہے ہیں میں تو صفوان اور اس کے باپ دونوں سے پریشان ہوں۔

نہیں سلطانہ نہیں۔ تمہاری پریشانی کی وجہ نہ تو صفوان ہے اور نہ میں ہوں بلکہ ریحان اور اس کی ناکامی ہے لیکن تم اصل مسئلہ سے نظریں ہٹا کر دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہو۔ اگر ریحان بار بار ناکام نہ ہوتا تو یہ بکھیڑا ہی کھڑا نہ ہوتا۔ لیکن تم ان حقائق سے آنکھیں چرانا چاہتی ہو اس لیے کہ ریحان تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

سلطانہ نے لپک کر کہا۔ ہاں ضرور ہے کیوں نہ ہو؟ آپ کو بچوں سے کوئی سروکار ہے ہی نہیں۔ اور میرے ریحان سے تو خدا واسطے کا بیر ہے۔ بس صفوان کو اسکول بھیجنے کی فکر ستاتی رہتی ہے تو ٹھیک ہے کل سے یہی ہو گا صفوان کو اسکول روانہ کیا جائے گا اور ریحان کو جانوروں کے ساتھ ان کے باڑے میں جھونک دیا جائے گا۔ اگر آپ اسی سے خوش ہیں تو ایسا ہی ہو گا۔

شیخ جواد نے بالآخر سپر ڈال دی اور کہنے لگے دیکھو سلطانہ بلاوجہ غصہ نہ کرو ریحان کو مویشیوں میں رکھنا یہ میری نہیں اس کی اپنی خواہش ہے۔ لیکن پھر بھی تم ایک اور کوشش کرو کہ اس کا دل پڑھائی میں لگ جائے۔ میں نے کب منع کیا ہے بلکہ میں تو ہر طرح سے اپنا تعاون پیش کرتا ہوں۔ مجھے بتاؤ میں کیا کر سکتا ہوں؟

سلطانہ بھی نرم پڑی اور بولی۔ ریحان بچہ ہے وہ اپنے مستقبل کا فائدہ نقصان نہیں جانتا لیکن ہم تو جانتے ہیں وہ سوچ نہیں سکتا تو کیا ہوا ہم تو سوچ سکتے ہیں۔ ایسے میں ہم اسے مویشیوں کے حوالے کیسے کر سکتے ہیں؟

جی ہاں سلطانہ تم سچ کہتی ہو۔ شیخ جواد نے تائید کی اور بولے۔ لیکن یاد رکھو ریحان ہی کی طرح صفوان بھی بچہ ہے وہ بھی ہماری اولاد ہے اور اس کا بھی مستقبل ہے۔ سلطانہ کے پاس شیخ جواد کی اس بے بسی کا کوئی جواب نہ تھا۔

اگلی مرتبہ جب شیخ جواد نے جیزان کی جانب رختِ سفر باندھا تو مرجانہ بھی تیار ہو گئی۔ کئی دنوں سے رخسانہ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی رضوان گھر آیا ہے اس سے بھی ملنا تھا۔ شیخ جواد نے مرجانہ کو ساتھ لے لیا۔ مرجانہ اور رخسانہ ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ رضوان کے ساتھ مرجانہ کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ مرجانہ نے تعلیم کے بارے میں پوچھا اور یہ پتہ چلنے پر کہ آخری سال کا امتحان ہو چکا مستقبل کا منصوبہ دریافت کیا۔

اس سوال نے رضوان کو افسردہ کر دیا وہ بولا۔ چھوٹی امّی تعلیم ختم کرنے کے بعد میں صنعت کار بننا چاہتا ہوں جیزان شہر میں اس کے امکانات ناپید ہیں۔ میں اس کے لیے ینبع جانا چاہتا ہوں لیکن امی منع کرتی ہیں وہ کہتی ہیں گھر سے دوری بہت ہو چکی اب یہیں رہو کاروبار کرو اور گھر بساؤ۔ لیکن میں یہ نہیں چاہتا۔

مرجانہ نے پوچھا۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس بارے میں آپ کے بابا کیا کہتے ہیں؟

بابا کیا کہیں گے آپ تو میری امی سے واقف ہیں ان کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ بابا کی بھی نہیں۔ انہوں نے امی کی تائید کرتے ہوئے مجھے ہوٹل کا کاروبار کرنے کا حکم دیا ہے۔

مطعم؟ مرجانہ نے تعجب کا اظہار کیا۔

جی نہیں رہائشی ہوٹل بشمول مطعم۔ رضوان نے کہا۔ جیزان میں سیر و تفریح کے لیے دنیا بھر سے سیلانی آتے ہیں بابا کا خیال ہے کہ یہاں ہوٹل کا کاروبار خوب چل سکتا ہے۔

لیکن تمہاری انجینئرنگ؟ مرجانہ نے پوچھا۔

وہی تو میں کہتا ہوں اگر یہی جاہلوں والا کام کرنا تھا تو مجھے پڑھایا لکھایا کیوں گیا۔ کیوں انجینئر بنایا گیا۔ امی آپ نہیں جانتیں میں نے ہر سال امتحانات میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی ہے میں کالج میں ایک ہونہار طالب علم کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں۔ اگر میرے اساتذہ یا دوستوں کو پتہ چلے گا تو کوئی غمگین ہو گا کوئی ہنسے گا۔

کیا تمہاری امی اس بات سے واقف نہیں؟ مرجانہ نے پوچھا۔

وہ خوب جانتی ہیں لیکن ان کے لیے میری تعلیمی لیاقت محض خاندان والوں اور محلے والوں پر فخر جتانے کی شئے ہے اور وہ اس کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ لیکن میرے مستقبل میری پسند اور ناپسند کے بارے میں نہیں سوچتیں۔

مرجانہ خود جدید تعلیم سے آراستہ تھی۔ اس کا تعلق بھی رضوان کی نسل سے تھا۔ اس لیے وہ رضوان کے کرب کو محسوس کرتی تھی۔ مرجانہ نے رضوان کو یقین دلایا کہ وہ اس بارے میں شیخ جواد سے بات چیت کرے گی اور انہیں رضوان کا موقف سمجھانے کی کوشش کرے گی۔

مرجانہ کی یقین دہانی سے رضوان عارضی طور پر خوش ہو گیا۔ لیکن اس کا دل کہتا تھا کہ جہاں رخسانہ جیسی دبنگ شخصیت موجود ہو اور بڑوں کی بات نہ ماننا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہو مرجانہ بے چاری کر بھی کیا سکتی ہے؟ پھر بھی اُمید کا ایک ٹمٹماتا چراغ ضرور روشن ہوا تھا۔

دیکھتے دیکھتے ہفتہ گذر گیا۔ مرجانہ کو رضوان کے بارے میں گفتگو کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ جیزان سے خمیس مشیط کے راستے ہی میں مرجانہ کا میکہ تھا۔ اس نے درخواست کی کہ اگر مناسب سمجھیں تو مجھے ایک ہفتے کے لیے اپنے ماں باپ کے پاس چھوڑ دیں اور واپسی میں اپنے ساتھ لیتے جائیں۔

شیخ جواد نے مرجانہ کی تائید کی اور دوپہر تک اس کے میکے جا پہنچے۔ کھانے کے بعد مرجانہ کو رضوان کے بارے میں بات کرنے کا موقع مل گیا۔ مرجانہ بولی۔ رضوان کو ہوٹل کے کاروبار میں ڈالنا سراسر زیادتی ہے۔ اس نے جو تعلیم حاصل کی ہے اس کے ساتھ مذاق ہے۔ وہ اس کاروبار میں کبھی بھی خوش نہ رہ سکے گا۔

جواد متفکر انداز میں بولے۔ شاید تم سچ کہتی ہو لیکن تم نہیں جانتیں رضوان جس طرح کی صنعت قائم کرنا چاہتا ہے وہ جیزان میں ممکن نہیں اور اس کی ماں رخسانہ اُسے کسی صنعتی شہر بھیجنے کے حق میں نہیں ہے۔ ایسے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟

مرجانہ نے پوچھا۔ وہ اُسے اب کیوں نہیں بھیجنا چاہتیں۔ اگر ایسا ہی تھا تو پہلے کیوں بھیجا؟ یہیں رہتا کنویں کے مینڈک کی طرح۔ اُسے پتہ ہی نہ چلتا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ اور وہ کیا کچھ کر سکتا ہے؟

دیکھو مرجانہ شیخ جواد بولے۔ جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا اب گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا فائدہ؟ رخسانہ نے سارے خاندان کو قائل کر دیا ہے کہ اس کا بیٹا سب سے زیادہ ہونہار ہے۔ اب وہ اس کا گھر بسانا چاہتی ہے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ اسی لیے میں درمیان کا راستہ نکالتے ہوئے اُسے ہوٹل کے کاروبار کی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ وہ اپنی امی کے پاس شاد و باد رہے۔

لیکن یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ وہ خوش رہے گا۔ مرجانہ بولی۔ وہ تو برباد ہو جائے گا۔ احساس زیاں اس کے لیے ناسور بن جائے گا۔ اور اس کا ردِ عمل بھی ہو سکتا ہے۔

لفظ رد عمل پر شیخ جواد چونک پڑے۔ کیسا رد عمل؟ کیا بات کرتی ہو مرجانہ۔

مرجانہ نے سنبھل کر کہا۔ میں آپ کی دل آزاری کرنا نہیں چاہتی لیکن آپ کو حقائق سے آگاہ کر دینا ضروری سمجھتی ہوں ہمارے اس طرح کے رویہ سے نوجوان نسل میں بغاوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور بغاوت کو کچلنے والی ہماری کوششیں ان کے رد عمل میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ ایسے میں کبھی کبھار حالات قابو سے باہر بھی ہو جاتے ہیں۔

شیخ جواد نے تائید کی اور کہا۔ مرجانہ تم سچ کہتی ہو۔ حالات بتدریج قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ عرفان نے میری مرضی کے خلاف کرایہ دار کی مدت میں توسیع کر دی اور مزرع میں روانہ ہو گیا۔ رضوان بھی اسی کے نقش قدم پر رواں دواں ہے۔ صفوان پہلے ہی ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ جانوروں کے ساتھ رہتے رہتے انسانوں سے بھی جانوروں کی طرح پیش آنے لگا ہے۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں؟ افسوس کی بات ہے میری کوئی بھی شریک حیات ان معاملات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی۔ وہ معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید اُلجھا دیتی ہیں۔

نہیں ایسی بات نہیں۔ مرجانہ بولی۔

شیخ جواد نے کہا۔ تم ٹھیک کہتی ہو حالانکہ تم ان سب سے کم سن اور نا تجربہ کار ہو لیکن مجھے خوشی ہے کہ تمہیں ان خاندانی اُلجھنوں کا ادراک ہے اور تم اس معاملے میں فکر مند ہو۔

مرجانہ بولی۔ زہے نصیب۔ یہ میرا فرض ہے۔ اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ ہمارے محلے میں ایک بزرگ حکیم عبداللہ الشمری رہتے ہیں وہ نفسیاتی اُلجھنوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان سے رجوع فرمائیں۔ شیخ جواد راضی ہو گئے۔

بعد نماز جمعہ جب شیخ جواد حکیم عبداللہ الشمری کی خدمت میں پہنچے تو وہ تسبیح و تحلیل میں مصروف تھے۔ جیسے ہی انہوں نے قدموں کی آہٹ سنی اس جانب متوجہ ہو گئے۔ جب تعارف ہوا اور مرجانہ سے رشتے کا پتہ چلا تو بہت خوش ہوئے اور آنے کا سبب دریافت کیا۔

شیخ جواد نے حکیم صاحب کے سامنے اپنی زندگی کی کتاب کھول کر رکھ دی۔ وہ بڑی توجہ سے سب کچھ سنتے رہے۔ جب شیخ جواد خاموش ہو گئے تو نہایت شفقت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ان کی ڈھارس بندھائی۔ دعا کی اور یوں گویا ہوئے۔ تمہارے مسائل کی بنیادی وجہ خود پسندی اور زور زبردستی ہے۔ آپ لوگ مخاطب کے جذبات و احساسات کا خیال کیے بغیر ان کی پسند یا ناپسند معلوم کیے بغیر اپنی مرضی مسلط کر دینا چاہتے ہیں۔

جو بچہ مویشی چرانا چاہتا ہے آپ اسے اسکول بھیجتے ہیں جو پڑھنا چاہتا ہے اسے مویشیوں کے حوالے کر دیتے ہیں نتیجتاً ایک ناکام اور دوسرا منہ زور ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں آپ لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ آپ کی اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اسی طرح جو صنعت کار بننا چاہتا ہے اس سے آپ ہوٹل چلوانا چاہتے ہیں جو باغات کی دیکھ بھال کرنے اور پڑھنے لکھنے کا خواہش مند ہے اسے آپ مزرع سے نکال کر پٹرول پمپ میں جھونک دینا چاہتے ہیں۔ ہر کسی کو اس کی مرضی کے خلاف لے جانے کی کوشش ہی بغاوت کا بنیادی سبب ہے۔

لیکن حکیم صاحب ہم ان کے والدین ہیں۔ شیخ جو اد بولے۔ کیا ہمیں ان کی خیر خواہی کا حق حاصل نہیں ہے؟ کیا ہم ان کا بھلا نہیں چاہ سکتے؟

حکیم صاحب بولے۔ یقیناً تمہیں اس کا حق ہے۔ لیکن خیرخواہی کا تقاضا مخاطب کے نقطۂ نظر کو سمجھنا بھی توہے۔ اس پر اپنا حکم تھوپنے کے بجائے اس کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہے اور اگر اس میں ناکامی ہو جائے تو اس کی بات کو تسلیم کر لینا ہی دانش مندی ہے۔ اگر تم سب باہم محبت کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو دوسروں کے جذبات کا احترام سیکھو۔ بغاوت و انتشار کی کیفیت اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔

لیکن ہمارے لیے ان کی باتوں کو مان لینا بہت مشکل ہے۔ شیخ جواد بولے۔

حکیم صاحب نے کہا۔ اور ان کے لیے بھی آپ لوگوں کی بات کو تسلیم کرنا ویسا ہی مشکل کام ہے۔ دیکھو جواد اس مشکل کا حل اعتماد باہم میں پوشیدہ ہے۔

لیکن وہ کیسے پیدا ہو گا؟ شیخ جواد کا سوال تھا۔ اور جواب میں حکیم صاحب بولے۔

باہم محبت سے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان بچوں کے اور تمہارے درمیان والدین اور اولاد کا رشتہ ضرور قائم ہے لیکن محبت و شفقت کا فقدان ہے۔

یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ شیخ جواد نے پوچھا۔

یہ نہایت آسان کلیہ ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی خوشی اور ناراضگی کا خیال کرتا ہے۔ لیکن آپ لوگ والدین کی حیثیت سے ایسا نہیں کرتے۔

جواد نے اثبات میں سرہلایا۔ حکیم الشمری نے اپنی بات آگے بڑھائی۔ شاید تم خود اپنی بیویوں سے دلی محبت نہیں کرتے۔ اس کے باعث وہ بھی تم سے قلبی لگاؤ نہیں رکھتیں اور تمہارے بچوں سے بھی ویسی محبت نہیں کرتیں جیسی کہ ہونی چاہئے۔

آپ کی ہر بات بجا ہے لیکن خدارا یہ بتلائیں کہ اب مجھے کرنا کیا پڑے گا؟

حکیم صاحب بولے۔ میری تشخیص میں ہی علاج پوشیدہ ہے پھر بھی میں اسے واضح کیے دیتا ہوں۔ ابتداء تم سے ہو گی جب تم اپنی بیویوں سے محبت کرو گے تو جواباً وہ بھی تم سے اور تمہارے بچوں سے محبت کرنے لگیں گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بچوں کے دلوں میں والدین کی محبت اور احترام جنم لے گا۔ جب ایسا ہو گا توسب ایک دوسرے کی پسند و ناپسند کا خیال کریں گے۔ خوشنودی اور ناراضگی کا لحاظ کریں گے۔ دوسروں کی خوشی کو اپنی مرضی پر ترجیح دیں گے۔ اپنی خواہشات کو دوسروں کی مسرت کیلئے قربان کر کے خوش ہوں گے۔ اس طرح تمام مسائل ایک ایک کر کے حل ہوتے چلے جائیں گے۔

حکیم عبداللہ الشمری سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ شیخ جواد نے بڑی عقیدت کے ساتھ ان سے اجازت طلب کی اور معانقہ کر کے واپس آ گئے۔

راستہ بھر حکیم صاحب کے الفاظ ان کے ذہن میں گونجتے رہے۔ ان کے ہر ہر لفظ سے سچائی کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ وہ سوچنے لگے اگر رضوان کو ینبع جانے کی اجازت دے دی جائے تو ہو سکتا ہے رخسانہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ ہجرت کر جائے لیکن اس کے باوجود خود انہیں تو جیزان آتے جاتے رہنا ہی ہو گا۔ لمبا چوڑا کاروبار جو ہے۔ عرفان تو خمیس مشیط سے وہاں آ کر اسے سنبھالنے سے رہا۔

اس صورت حال کا حل یہی ہے کہ رخسانہ کو طلاق دے کر جیزان میں نیا نکاح کر لیا جائے لیکن ایسا کرنے میں رخسانہ کی محبت آڑے آتی تھی اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ اس سے دلی محبت نہ کی جائے اور تمام بیویوں سے انصاف کا تقاضا ہے کہ رخسانہ کی طرح کسی بیوی سے بھی قلبی تعلق نہ رکھا جائے۔ مزرع پر پہنچنے تک انہوں نے حکیم صاحب کے حل کو اپنے طور سے رد تو کر دیا تھا لیکن ہنوز بغاوت کا مسئلہ اپنی جگہ باقی تھا۔

مزرع پہنچنے پر نذرانہ نے ان کا خیر مقدم کیا۔ کافی وقت گذر جانے کے بعد بھی جب عرفان ملنے نہ آیا تو انہوں نے استفسار کیا۔ برخوردار کہاں ہیں؟ خیریت تو ہے؟

نذرانہ نے بتلایا۔ عرفان گھر ہی میں ہے لیکن نہایت غمزدہ ہے۔ جب سے وہ جیزان سے واپس آیا ہے کھویا کھویا سا رہتا ہے۔ پہلے کتابوں کا مطالعہ کیا کرتا تھا وہ سلسلہ بھی بند ہے۔ بلکہ اب تو کھانا پینا بھی کم ہو گیا ہے۔ اسے آپ کی نافرمانی کا بے حد قلق ہے۔ میں تو کہتی ہوں آپ ہی اسے سمجھائیں۔

ٹھیک ہے۔ جواد بولے۔

نذرانہ عرفان کو بلانے چل پڑی۔ پیچھے پیچھے جواد بھی ہو لیے۔ پہلے کمرے میں دیکھا وہاں ندارد پا کر باغ میں آ گئے۔ یہاں ایک پیڑ کے نیچے پتھر پر بیٹھا عرفان کچھ سوچ رہا تھا۔ جواد نے پیچھے سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ عرفان چونک پڑا۔ باپ کو کھڑا دیکھ کر وہ فوراً ان سے لپٹ گیا اور زار و قطار رونے لگا۔ نذرانہ کو محسوس ہوا ایک لمحے میں وقت کا پہیہ بیس سال پیچھے گھوم گیا۔ وہ ننھا سا عرفان جو کسی زمانے میں شیخ جواد کی انگلی پکڑ کر جیزان سے مزرع آیا کرتا تھا ذرا ذرا سی بات پر رو دیتا تھا اور ذرا سا بہلانے پر ہنس دیتا تھا اس کی نظروں میں گھوم گیا۔ نہایت حساس شخصیت کا حامل یہ بچہ نذرانہ کو خوب بھاتا تھا۔

نذرانہ کی چونکہ دو لڑکیاں تھیں جنہیں ایک دن بیاہ کے بعد پرائے گھر جانا تھا اس لیے رخسانہ سے درخواست کر کے اس نے عرفان کو اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ عرفان کو جیزان سے زیادہ خمیس اور اپنی ماں رخسانہ سے زیادہ نذرانہ اچھی لگتی تھی۔ رضوان کے تعلیم کی غرض سے شہر جانے کے بعد وہ گھر میں تنہائی محسوس کرنے لگا تھا۔ یہاں آنے کے بعد اسے دو اچھی اچھی بہنیں مل گئیں۔ باغ جھرنا چرند پرند ہوائیں فضائیں سب کچھ اس کی طبیعت کے مطابق تھا۔ وہ یہاں کیا آیا کہ اس ماحول میں رچ بس گیا۔ اور ان سب کے بغیر اپنے آپ کو نامکمل محسوس کرنے لگا۔

ایک ماہ قبل جب والد صاحب نے جیزان جا کر پٹرول پمپ چلانے کا حکم سنایا تو اس کی ذات سے وابستہ یہ تمام تانے بانے بکھرنے لگے۔ کرایہ دار کی مدت بڑھا کر واپس آتے ہوئے وہ بہت خوش تھا لیکن جب نذرانہ نے اسے والد صاحب کی نافرمانی اور ناراضگی کا احساس دلایا تو وہ پھر اداس ہو گیا اور حزن و ملال بھی ایسا جیسے اس کے تمام دوست اس کے دشمن ہو گئے ہوں۔ اس کا احساس جرم کہتا تھا کہ انہیں اشیاء کی انسیت نے اسے اپنے والد کا نافرمان بنایا ہے۔ والد صاحب کے سینے سے لگ کر اس نے اپنا کھویا ہوا جہان پا لیا تھا۔

جب آنسووں کا سیلاب تھم گیا تو شیخ جواد نے اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا۔ اس کی پیشانی کو چوما اور ہاتھ پکڑ کر اسے دیوان خانے میں لاتے ہوئے صرف یہ کہا۔ بیٹے تمہاری خوشی میں ہماری خوشی ہے۔

شیخ جواد کا یہ جملہ سن کر نذرانہ جھوم اٹھی۔ وہ دن اس کے لیے یومِ عید تھا۔

ناشتے سے فراغت کے بعد نذرانہ قہوہ لانے باورچی خانے میں گئی تو شیخ جواد اپنے مسائل میں اُلجھ گئے۔ وہ اپنے بچوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ حکیم الشمری کا نسخہ ان کے پاس تھا۔ اس پر اطمینان بھی تھا۔ پھر بھی طبیعت کی آمادگی نہیں ہو رہی تھی۔ اس ادھیڑ بن میں خود کلامی کا شکار ہو گئے۔ خود ہی سوال کرتے اور خود ان کا جواب بھی دیتے۔ نذرانہ دیر تک حیرت سے اس منظر کو دیکھتی رہی یہ سب اس کے لیے نہ صرف نیا بلکہ انوکھا بھی تھا۔

نذرانہ نے شیخ جواد کی اس کیفیت میں خلل اندازی مناسب نہ سمجھی۔ دم سادھے کھڑی رہی۔ یہاں تک کہ شیخ جواد خود ہی واپس لوٹ آئے۔ نذرانہ مسکرائی اور کہا۔ میرے سرتاج اس بیس سالہ طویل ازدواجی زندگی میں ایسا منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ایسا لگتا ہے آپ کسی پریشانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ اگر مناسب سمجھیں تو مجھے بھی اس میں شریک فرمائیں۔

شیخ جواد نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولے۔ کوئی خاص بات نہیں۔ پھر بھی تم سے کیا چھپانا۔ بچے وہ نہیں چاہتے جو ہم چاہتے ہیں اور ہم وہ نہیں چاہتے جو وہ چاہتے ہیں۔

اس تمہید کے بعد شیخ جواد نے حکیم الشمری کی تمام گفتگو نذرانہ کے گوش گذار کر دی اور بولے۔ ان کی تجویز معقول ہے مگر مشکل ہے اس لیے میں اس کا متبادل چاہتا ہوں لیکن سجھائی نہیں دیتا۔

نذرانہ نے کہا۔ اچھا آپ کسی زمانے میں ڈاکٹر سائمن کا ذکر کیا کرتے تھے جو تعلیم کے دوران برلن میں آپ کے ساتھ تھے۔ کبھی کبھار اپنے ذاتی مسائل میں بھی ان سے صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔ کیوں نہ پھر ان سے رجوع کیا جائے۔ ہو سکتا ہے وہ کوئی ایسا حل تجویز فرمائیں جس پر عمل درآمد آپ کے لیے آسان تر ہو اور یہ معاملہ سلجھ جائے۔

شیخ جواد خوش ہو گئے۔ انہوں نے کہا بھئی تم نے نہایت معقول مشورہ دیا ہے۔ میں ڈاکٹر سائمن سے رابطہ کروں گا وہ بہت بڑا ماہر نفسیات ہے اس لیے ضرور میرا مسائل حل کر دے گا۔

شیخ جواد نے اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر سائمن کو اپنا پرانا وعدہ یاد دلایا جس کے مطابق اسے چھٹیاں گذارنے کیلئے کم از کم ایک باران کے پاس آنا تھا۔ شیخ جواد نے سائمن کو یہ بھی بتلا دیا کہ وہ اس دوران کچھ خانگی مسائل پر بھی اس سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔

تین چار ماہ بعد ڈاکٹر سائمن اپنی اہلیہ کے ساتھ تشریف لے آئے اور ایک مہینے کا وقت شیخ جواد کے تینوں گھروں میں گذارا۔ چاروں بچوں سے فرداً فرداً بات چیت کی۔ بیوی کے ذریعے شیخ جواد کی بیویوں کے انداز فکر کا بھی اندازہ لگا یا اور اپنا نفسیاتی تجزیہ شیخ جواد کے سامنے پیش کر دیا۔ ڈاکٹر سائمن نے بتایا کہ ان تمام مسائل کا حل انتخابی آزادی میں ہے۔

آزادی؟ کیسی آزادی؟ شیخ جواد چونک پڑے۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اگر یہ لوگ آزاد ہو جائیں گے تو مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔

سائمن ہنسا اور اس نے کہا۔ تم تو کچھ زیادہ ہی بے چین ہو رہے ہو۔ میں نے مجرد آزادی نہیں بلکہ انتخابی آزادی کہا۔ یہ مغرب کا آزمودہ نسخہ ہے جس میں لوگ اپنی مرضی سے غلامی کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہم نے اس کا خوبصورت نام جمہوریت رکھا ہے۔ اس نسخہ کے استعمال سے تم اپنے چاروں بیٹوں کو خود ان کی اپنی مرضی سے اپنا بندۂ بے دام بنا سکتے ہو۔

اچھا۔ وہ کیسے؟ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کبھی تم آزادی کہتے ہو اور کبھی غلامی کی بات کرتے ہو۔ یہ دونوں تو متضاد چیزیں ہیں۔

ڈاکٹر سائمن نے تائید کی۔ یقیناً یہ متضاد چیزیں ہیں۔ لیکن جس پر اس کو آزمایا جاتا ہے وہ اس کے تضاد سے واقف نہیں ہو پاتا وہ آزادی کے نشے میں اس قدر چور کر دیا جاتا ہے کہ اسے اپنے گلے میں پڑا ہوا طوق غلامی خوبصورت ہار دکھائی دینے لگتا ہے۔

وہ کیسے؟ شیخ جواد نے پوچھا۔

میں ابھی بتاتا ہوں۔ ڈاکٹر سائمن نے کہا۔ اطمینان رکھو۔ میں ایک ایک کر کے تمام مسائل کا حل تجویز کروں گا۔ آگے تمہاری مرضی۔

تمہارا بیٹا ریحان پڑھنا لکھنا نہیں چاہتا اس لیے کہ مویشی چرانا چاہتا ہے اس کے برخلاف تم چاہتے ہو کہ وہ تعلیم حاصل کرے۔ ٹھیک ہے؟

شیخ جواد نے کہا۔ بالکل ٹھیک ہے۔

اس کا مطلب ہے جب تک اس کی دلچسپی مویشیوں سے ختم نہیں ہو جاتی وہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔

یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اس کی دلچسپی کیسے ختم کی جائے؟ شیخ جواد نے پوچھا۔

سائمن بولے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے سامنے ایک تیسرا متبادل رکھ دیا جائے۔

اچھا وہ تیسرا متبادل کیا ہے؟

کھیل کود۔

لیکن اگر اس نے کھیل کود میں بھی دلچسپی نہ لی تو کیا ہو گا؟

نہیں ایسا نہ ہو گا۔ تم اس کے سامنے کئی کھیلوں کے متبادل رکھ دو اس سے کہو کہ وہ فٹ بال کھیلے یا والی بال میدان میں اتر کر کھیلے اگر اسے وہ ناپسند ہو تو کمپیوٹر پر کھیلے یا ٹی وی کے پردے پر وہ کھیل تماشے دیکھے۔ اسے آزادی دو کہ وہ جس کا چاہے انتخاب کرے۔ لیکن کھیلنا تو پڑے گا ہی۔ اگر اس نے مؤخر الذکر دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا تو تمہارا کام اور بھی آسان ہو جائے گا۔

وہ کیسے؟

در اصل اس کے باعث اس کی طبیعت میں سہل پسندی اس قدر گھر کر لے گی کہ وہ مویشی چرانے کی سخت کوشی سے خود ہی دور بھاگے گا لیکن اگر وہ فٹ بال یا والی بال بھی کھیلنے لگے تب بھی اس قدر تھک کر لوٹے گا کہ مویشیوں سے اس کی دلچسپی ختم ہو ہی جائے گی۔ لیکن تمہیں اس کے انتخاب کا احترام کرتے ہوئے اس کی پسند کے کھیل کی تمام سہولیات مہیا کرنی ہو گی تاکہ وہ خوش ہو کر اس میں مگن ہو جائے گا۔ بعد میں ممکن ہے پڑھنے لکھنے بھی لگے۔

شیخ جواد نے پوچھا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو؟

سائمن بولا۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر تعلیم نہ بھی حاصل کرے تو مویشی تو نہیں چرائے گا۔ تمہارا آدھا کام تو ہو ہی گیا۔

جی ہاں ریحان کا مویشیوں سے رکنا تعلیم کے حصول سے زیادہ ضروری ہے۔

تب تو تمہارا اہم کام ہو گیا۔ سائمن نے خوش ہو کر کہا۔

اچھا اب یہ بتلاؤ کہ عرفان کا کیا کیا جائے؟

اس کے لیے میرا مشورہ ریحان جیسا ہی ہے۔

کیا مطلب؟

اس کی شادی کر دو۔

شیخ جواد کو ہنسی آ گئی وہ بولے۔ کہاں شادی اور کہاں کھیل کود۔ کیا دونوں یکساں ہیں؟

سائمن بولا۔ بظاہر تو نہیں لیکن حقیقت یہی ہے۔ بچے بے جان کھلونوں سے کھیلتے ہیں اور بڑے جاندار کھلونوں سے۔ ہاں ایک فرق ضرور ہے۔

وہ کیا؟

بڑے جن کھلونوں سے کھیلتے ہیں وہ کھلونے بھی ان سے کھیلتے ہیں۔ اسے شادی کا کھیل کہتے ہیں اس کی اہلیہ اس سے وہ تمام کام بآسانی کرا لے گی جو آپ لاکھ کوششوں کے باوجود نہیں کرا سکتے۔

لیکن اگر وہ شادی کے لیے راضی نہ ہوا تو کیا کریں گے؟

نہیں اس کی آزادی اسے نہیں ہے۔ شادی تو کرنی ہی پڑے گی۔ ہاں شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب کی آزادی اسے ضرور حاصل ہو گی۔ اس کے سامنے کئی لڑکیوں کا متبادل رکھا جائے ان میں سے جس سے چاہے اپنی مرضی سے شادی کرے۔ ایک مرتبہ نکاح ہو گیا تو اسے اپنی اہلیہ کے ناز نخرے اٹھانے ہی پڑیں گے۔ اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو تمہیں اس کو موردِ الزام ٹھہرانے کا پورا پورا حق حاصل ہو گا۔ بس اس کے بعد سمجھو کہ تمہارا کام ہو گیا وہ نہ صرف مزرع چھوڑ کر جیزان آ جائے گا بلکہ پٹرول پمپ کے ساتھ دوسرے کاروبار بھی چلانے لگے گا۔ پڑھنے لکھنے کا شوق ہوا ہو جائے گا۔

اس بیچ چائے آ گئی۔ چائے کے بعد رضوان کا مسئلہ زیر بحث آیا تو سائمن نے کہا۔

دیکھو تم سب سے پہلے رضوان کو یہ سمجھاؤ کہ ہوٹل بھی اپنے آپ میں ایک جدید صنعت ہے اور اس کا انتظام و انصرام کرنے والا بھی صنعت کار ہی ہوتا ہے۔

لیکن یہ تو غلط بات ہے۔ شیخ جواد بولے۔

اگر غلط ہے تو ہوا کرے اس سے کیا فرق پڑتا ہے تمہارا کام نکل جائے یہ کافی ہے۔ سائمن نے بات آگے بڑھائی۔ تم اس کے سامنے کئی متبادل رکھو مثلاً پانچ ستارہ ہو یا چار ستارہ اس کا انتخاب وہ خود کر سکتا ہے۔ اس کے مطعم میں انگریزی کھانے کھلائے جائیں یا چینی اس کا فیصلہ بھی اسی پر چھوڑ دو بلکہ اس سے کہو کہ وہ گاہکوں کا خیال کر کے عربی یا ہندوستانی طرز کے کھانے بھی بنوا سکتا ہے۔ اس کی اسے مکمل آزادی ہے لیکن بہرحال کاروبار تو ہوٹل ہی کا کرنا پڑے گا۔ اسی کے ساتھ اسے اس بات کی بھی آزادی دو کہ ہوٹل کا جو چاہے نام رکھے جیسا چاہے فرنیچر منتخب کرے۔ رنگ و روغن وغیرہ ہر چیز وہ اپنی مرضی سے طے کرے۔

لیکن اس سے ہو گا کیا؟ شیخ جواد نے سوال کیا۔

اس سے یہ ہو گا کہ ان تمام مصنوعی آزادیوں میں حقیقی پابندی چھپ جائے گی اور وہ اس ادھیڑ بن میں گرفتار ہو جائے گا کہ کس قسم کا ہوٹل زیادہ چلے گا، کس میں منافع زیادہ ملے گا وغیرہ وغیرہ اور جیسے جیسے وہ ان سوالات میں الجھتا جائے گا تمہارا مسئلہ سلجھتا جائے گا۔

بہت خوب۔ شیخ جواد نے کہا۔ اب صفوان کے بارے میں کچھ بتاؤ میں اس کے بارے میں بہت ہی زیادہ فکر مند ہوں۔ وہ تیزی کے ساتھ باغی ہوتا جا رہا ہے۔

سائمن نے تائید کی۔ یہ تو حسب توقع ہے تم نے اسے جن جائز حقوق سے محروم کر رکھا ہے انہیں بحال کرنا نہیں چاہتے۔ ایسے میں رد عمل تو لازمی ہے اس لئے قوت کا استعمال ناگزیر ہے مگر خطرہ یہ ہے ایسا کرنے سے دوسروں کے دل میں اس کے تئیں ہمدردی پیدا ہو جائے جو تمہاری بدنامی کا سبب بنے۔

شیخ جواد بولے۔ وہ تو ہو رہی ہے۔

سائمن نے کہا۔ اس بدنامی کا ازالہ یوں ممکن ہے کہ تم سب سے پہلے لوگوں کے دلوں میں اس کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکا ؤ اپنے ظلم پر پردہ ڈالنے کی خاطر اسے ظالم قرار دو ساتھ اس کے سامنے تعذیب کے مختلف متبادل رکھو مثلاً اسے مارنے کی خاطر چھڑی، ڈنڈا، چابک اور ہنٹر جیسی چیزوں کا اہتمام کرو اور جب بھی وہ سرتابی کرے اس کو اس بات کی آزادی دو کہ وہ ان میں سے خود اپنے خلاف استعمال ہونے والے اسلحہ کا انتخاب کرے وہ خود بتلائے کہ اسے چھڑی سے مارا جائے یا ڈنڈے سے۔ اس پر ہنٹر برسایا جائے یا چابک سے اس کی کھال ادھیڑی جائے۔ اس طرح تم اسے سزا اس کی مرضی کے مطابق دو گے یہی انتخابی آزادی ہے۔

شیخ جواد یہ سن کر اچنبھے میں پڑ گئے اور کہا۔ یہ تو عجیب آزادی ہے۔

سائمن بولا۔ آزادی کی اس نیلم پری کا آج کل ساری دنیا میں بول بالا ہے۔ دنیا بھرکو اسی جمہوریت کی مدد سے غلام بنایا جا رہا ہے۔

جواد نے کہا۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن میرے دوست سائمن اس دن کیا ہو گا جب صفوان اس ہنٹر کو میرے ہاتھوں سے چھین لے گا؟

سائمن مسکرا کر بولا اچھا سوال ہے۔ اس دن کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ہنٹر چھین لینے کے بعد وہ بھی انتخاب کی آزادی دیتے ہوئے پوچھے گا’ ہنٹر، چابک، چھڑی یا ڈنڈا۔ شیخ جواد چکرا گئے۔ انہیں ایسا محسوس ہوا گویا چہار جانب سے بیک وقت ان پر ہنٹر، لاٹھی، ڈنڈا اور چابک سے ہلّا بول دیا گیا ہے اور دور کھڑا سائمن ان کی حالت زار پر مسکرا رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

موکش (نجات)

 

بنکم چٹرجی فٹ پاتھ پر ادھر ادھر دیکھتا ہوا چلا جا رہا ہے کہ اچانک اس کے سامنے سے بندوق کی ایک گولی سنسناتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ وہ پیچھے ہٹتا ہے تو ایک اور گولی پیچھے سے گزرتی ہے۔ اب بنکم زمین پر بیٹھ جاتا ہے۔ گولیوں کا اس کے آس پاس سے گزرنا جاری ہے۔ یہاں تک کہ وہ زمین پر اوندھے منہ لیٹ جاتا ہے۔ چند منٹ بعد جب گولیوں کی بوچھار بند ہو جاتی ہے تو وہ اپنی جگہ کھڑا ہو کرآس پاس نظر دوڑاتا ہے اور نہایت اطمینان کے ساتھ سامنے والی پان کی دوکان کے پاس آ کر پوچھتا ہے کالیداس کا گھر کہاں ہے؟

اس کے گرو سوامی پرم آنند نے اسے یہی نشانی بتائی تھی کہ دیکھو بنکم جب تم کالیداس کے گھر کے قریب پہنچو گے تو وہاں گولی باری ہو رہی ہو گی۔ تمہیں اس سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ تمہارا کوئی نقصان نہیں کر سکتی اس لئے کہ آگے تمہارے بھاگیہ میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اس پر  بنکم نے چہک کر پوچھا تھا گرو جی اور کیا کیا لکھا ہے یہ بھی بتلا نے کی کرپا کریں گرو دیو۔     پرم آنند نے مسکرا کر جواب دیا تھا نہیں ششیہ میں فی الحال تمہیں اس سے زیادہ کچھ اور نہیں بتا سکتا۔

میرا ہی بھاگیہ مجھ ہی سے گپت رکھنے کا کیا کارن ہے گرو دیو؟ ویسے بھی آپ تو سب کچھ جانتے ہی ہیں۔ اس سوال کے جواب میں پرم آنند نے صرف اتنا کہا تھا کہ دوسروں کے بارے میں جاننا منشیہ کیلئے اتنا ہانی کارک(نقصان دہ) نہیں ہوتا جتنا سویم اپنے وشیہ میں جاننا ہوتا ہے۔ اس لئے دھیرج رکھو اور آگے بڑھو۔ میں تمہارے لئے پرارتھنا کروں گا کہ ایشور تمہیں یش پردان (کامیاب و کامران)کرے۔

گرو دیو کے آشیرواد نے بنکم کو خوش کر دیا تھا وہ بولا گرو دیو آپ کی اِچھّا (مرضی) میرے لئے آدیش ہے۔ آپکی پرارتھنا میرا سب سے بڑا وردان ہے۔ سوامی جی نے بنکم کے سر پر ہاتھ رکھا اور بنکم ان کے چرنوں کو چھو کر نکل پڑا۔ سوامی جی پر بنکم کو اس درجہ وشواس تھا کہ گولیوں کے سنسناہٹ میں وہ ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں گھبرایا بلکہ اسے یقین ہو گیا کہ وہ اپنے لکش(ہدف) کے سمکش (سامنے) ہے۔

پان والے نے اس کا سوال سن کر اسے غور سے دیکھا اور بولا کون؟ کالیداس؟

بنکم کا جی چاہا کہ کہے وہی کالیداس جو میری بیوی پروفیسر شکنتلا کے ساتھ کلکتہ سے فرار ہو کر ڈھاکہ آ گیا ہے۔ لیکن اس نے اپنے آپ کو سنبھال کر کہا وہی کالیداس جو تمہارا یار غار ہے۔ کیا اب وہ یہاں نہیں رہتا؟

کیسی بات کرتے ہیں صاحب وہ لال دروازے والا مکان کالیداس کا ہی تو ہے

لیکن اس پر تو تالہ پڑا ہوا ہے؟

جی ہاں لیکن اس کی چابی میرے پاس نہیں ہے۔ وہ تو اسی کے پاس ہے۔ آپ چاہیں تو میرے کٹیا میں وشرام کر سکتے ہیں۔

مجھے وشرام نہیں ہے کالیداس چاہئے۔

پان والے نے دانت نکال دئیے اور بولا کاش میرے پاس علاؤ الدین کا چراغ ہوتا اور میں اسے گھس کر جن کو آدیش دیتا کہ وہ کالیداس کو اسی شن آپ کے سمیپ اپستھت کر دے لیکن میں شما چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں کر سکتا۔

بنکم بولا اچھا تو کیا تم مجھے یہ بتا سکتے ہو کہ وہ کہاں گیا ہوا ہے اور کب آئے گا؟

آپ کے دو پرشنوں میں سے ایک کا اتّرتو میرے پاس ہے لیکن دوسرے کا تو شاید خود کالیداس کے پاس بھی نہیں ہے۔

اچھا تو جو جانتے ہو وہی بتا دو۔

اس بیچ دوکان پر ایک گاہک آ گیا۔ پان والا بولا شما کیجئے شریمان لکشمی کی اپستھتی میں دوسرے سارے کاریہ استھگت کرنا انواریہ ہے۔

جب گاہک چلا گیا تو پان والا پھر بولا۔ جی ہاں شریمان آپ پوچھ رہے تھے کہ کالیداس کہاں گیا ہے اور کب آئے گا؟ بنکم نے سر ہلا کر تائید کی تو وہ بولا وہ کب آئے گا یہ کوئی نہیں جانتا بلکہ آئے گا بھی یا نہیں؟ یہ بھی کسی کو نہیں پتہ ہاں وہ گیا تو ہسپتال تھا۔ اب وہاں پہنچا یا نہیں؟ اس کا مجھے گیان نہیں ہے۔

کون سے ہسپتال گیا ہے کالیداس؟

اپولو ہسپتال اور کہاں؟ اسی میں تو وہ کام کرتا ہے۔

اچھا تو وہ ڈیوٹی پر ہے؟

جی نہیں پچھلے ایک ہفتے سے وہ اپنے کسی سگے سمبندھی کی سیوا میں لگا ہوا ہے۔ اس نے کاریالیہ سے چھٹی لے رکھی ہے۔

خیر ٹھیک ہے اب ایسا کرو کہ مجھے اپولو ہسپتال کا پتہ بتلا دو۔

کیوں کیا آپ پیدل جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ وہ تو یہاں سے بہت دور ہے۔

دور ہے تو رکشا سے چلے جائیں گے لیکن پھر بھی پتہ تو چاہئے؟

جی نہیں سرکار اگر آپ رکشا سے جا رہے ہیں تو چنتا کی کوئی جرورت نا ہے سہر کا ہر رکسا والا اپولو ہسپتال کا پتہ جانتا ہے۔

بنکم دھنیہ باد کہہ کر رکشا کی طرف چل پڑا۔

اپولو روگنالیہ کے ککش نمبر تیراسوتین میں جب بنکم پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ شکنتلا کے مرتیو دیہہ کے پاس بیٹھا کالیداس آنسو بہا رہا ہے۔ بنکم نے جب یہ درشیہ دیکھا تو اس کا ہردیہ پسیج گیا۔ اس کے نینوں سے بھی اشرو دھارا بہہ نکلی۔ بنکم نے آگے بڑھ کر کالیداس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا تو کالیداس اس کے چرنوں میں گر گیا اور بولا۔ بنکم دا مجھے شما کریں؟ میں بہت پاپی انسان ہوں مجھ سے مہا پاپ سمپنّ ہوا ہے۔ آپ مجھے شما کر دیں۔ آپ آ گئے۔ بڑا اچھا ہوا جو آپ اس سمے یہاں پہنچ گئے۔ یہ ایشور کی کرپا ہے جو اس نے آپ کو یہاں پہنچا دیا ورنہ میں اپنے اس پاپ کے پرایشچت سے ہمیشہ کیلئے ونچت ہو جاتا۔

بنکم نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا یا اور بولا کالیداس اپنے اتیت سے باہر نکلو اور بھویشیہ کی اور دیکھو۔ اب جبکہ شکنتلا ہی نہیں رہی تو ہمارے بیچ شتروتا کا کوئی کارن شیش نہیں ہے۔ کب تک یونہی آنسو بہاتے رہو گے، بھوت کال کو بھول جاؤ جو ہوا سو ہوا۔ اٹھو اور شکنتلا کے انتم سنسکار کی تیاری کرو۔ ورنہ اس کی آتما کو موکش پراپت نہیں ہو گا وہ دھرتی اور آکاش کے بیچ بھٹکتی رہے گی۔

کالیداس تو خیر شکنتلا کی آخری رسومات کی تیاری میں مصروف ہو گیا لیکن بنکم خود اپنے ماضی میں کھو گیا۔ اس نے سوچا قدرت کی یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ وہ جس وقت شکنتلا کے ساتھ جینا چاہتا تھا کالیداس اسے لے اڑا اور جب اس نے شکنتلا کو موت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ کر لیا تو موت کے فرشتے نے اس پر بازی مار لی اور اسے اپنے مقصدِ حیات سے محروم کر دیا۔ بنکم اپنی دوسری ناکامی پر خوش تھا اس لئے کہ شکنتلا کو تو اس وقت مرنا ہی تھا اگر یہ فرشتہ کچھ تاخیر سے آتا تو زندگی بھر کیلئے اس کی پیشانی پر اپنی زوجہ کے قتل کا کلنک لگ جاتا۔

انتم سنسکار کے پشچات پنڈت جی نے شکنتلا کی راکھ کواستھی کلش میں ڈالکرکالیداس کی اور دیکھا پوچھا ججمان اب آگے کی کیا یوجنا ہے؟

کالیداس نے بنکم کی جانب دیکھا تو وہ بولا ہم اسے گنگا میں بہائیں گے۔

پدما تو یہاں سے بہت دور ہے۔

پدما نہیں گنگا۔

کالیداس بولا بنکم دا گنگا کو یہاں لوگ پدما کہتے ہیں یہ وہی پوتر ندی ہے جو سورگ لوک سے آئی ہے۔

لیکن ججمان کیا تم پدما کے بارے میں گمبھیر ہو؟

پنڈت جی اس میں سنکوچ کیا پرشن؟ یہ استھی کلش اسی ندی میں بہایا جائے گا۔

اچھا تو ٹھیک ہے؟ پنڈت جی بولے لیکن ابھی سندھیا کا سمے ہے ایسا کرتے ہیں کل پراتہ کال نکلتے ہیں تاکہ دوپہر تک اس شبھ کاریہ کو نمٹا کر واپس آ جائیں۔

کالی داس بولا یہ اُچت ہے۔ کیا کل صبح سات بجے کا مہورت ٹھیک رہے گا؟

پنڈت جی نے کہا ہاں ججمان اور گھوشنا کی کہ جو لوگ اس یاترا پر چلنا چاہتے ہیں وہ صبح سات بجے سے پورو کالیداس کے ڈیرے پر پہنچ جائیں۔

لوگ واپس لوٹنے لگے بنکم نے پنڈت جی کو ان کی دکشنا دی تو وہ بولے کل کا اڈوانس بھی دے دیں تو اچت ہو گا۔ بنکم نے روپیوں کی ایک اور گڈی ان کے ہاتھ پر رکھی۔ پنڈت جی دھنیہ واد کہہ کر چلے گئے۔ کالیداس کے ساتھ بنکم اس کے گھر آ گیا۔

دوسری صبح کالیداس کے پانچ دوست اور پنڈت جی کے ساتھ جملہ آٹھ یاتری پدما ندی کی اور چل پڑے۔ گو کہ راستہ گھنے جنگل سے ہو کر گزرتا تھا لیکن پھر بھی پنڈت جی کا اندازہ تھا کہ نو بجے تک وہ لوگ ندی کے کنارے پہنچ جائیں گے۔ جب دس بج چکے اور سورج سر پر آ گیا تو کالیداس کے دوستوں میں سے پان والے نے پنڈت جی سے پوچھا اب اور کتنا راستہ شیش ہے؟ سوریہ دیوتا کا پرکوپ بڑھتا جا رہا ہے۔

پنڈت جی نے کہا یہ ولمب کچھ سمجھ میں نہیں آتا ایسا تو اس سے پورو کبھی نہیں ہوا۔

ان میں سے ایک بولا کہیں ہم لوگ راستہ تو نہیں بھٹک گئے پنڈت جی؟

کیسی بات کرتے ہو ججمان ان راستوں پر تو میں آنکھ موند کر چل سکتا ہوں۔

وہ بولے لیکن ہم کب تک یونہی چلتے رہیں گے۔ ہمیں لگتا ہے کہ واپس جانا چاہئے۔ کالیداس اگر تمہاری آگیہ ہو تو ہم واپس چلے جائیں۔

بنکم نے کہا آپ لوگوں نے جو کشٹ کیا ہم اس کا ابھینندن کرتے ہیں آپ لوگ نسنکوچ واپس جا سکتے ہیں دھنیہ باد۔

چار لوگ لوٹ گئے اور اب بچ گئے صرف چار۔ دو بھاگوں میں بنٹنے سے پورو سب نے مل کر ساتھ لایا ہوا ناشتہ کیا اور وپریت دشا میں پرستھان کیا۔ چار جنگل کی اور جا رہے تھے اور چار شہر کی دِشا میں۔ پنڈت جی بڑی گمبھیر مدرا میں سوچ رہے تھے کہ آخر آج یہ کیا ہو گیا؟ دیکھتے دیکھتے سورج نصف النہار پر پہنچ گیا اب پان والے کا حوصلہ بھی ٹوٹنے لگا تھا اور پنڈت جی تو انتظار ہی میں تھے کب کوئی بولے۔ جیسے ہی پان والے پوچھا پنڈت جی اس طرح تو چلتے چلتے ہم لوگ بھی پرلوک میں پہنچ جائیں گے لیکن پدما ندی کا تٹ ہمیں پراپت نہیں ہو گا۔

پنڈت جی بولے ججمان اتنے سمے میں تو ہم لوگ واپس اپنے شہر میں پہنچ جاتے تھے لگتا ہے کوئی گڑبڑ ہو رہی ہے اس لئے اب میرا بھی من واپس جانے کیلئے کہہ رہا۔ اگر آپ چاہیں تو میں دکشنا لوٹا سکتا ہوں لیکن آگے نہیں جا سکتا۔

بنکم بولاکیسا انرتھ کر رہے ہیں پنڈت جی۔ دکشنا بھی کوئی واپس لیتا ہے۔ میں آپکی سمسیا کو سمجھتا ہوں۔ آپ دونوں اگر چاہیں تو اوشیہ واپس جائیں پرنتو بھوجن کے پشچات۔

پنڈت جی بولے یہ اچت سجھاؤ ہے۔ کھانے کے بعد چاروں نے کچھ دیر وشرام کیا اور پھر دو بھاگوں میں وبھاجت ہو گئے۔ پان والا پنڈت جی کے ساتھ واپس آ رہا تھا اور کالیداس بنکم کے ساتھ آگے کی اور چل پڑا تھا۔

ان دونوں کی یاترا نہ جانے کب تک جاری رہی یہاں تک پیروں سے خون بہنے لگا اور راستے پر نشان بننے لگا اب تو سورج بھی تھک گیا تھا اور رات کے دامن میں چھپ کر سونے کی تیاری کرنے لگا تھا۔ کالیداس نے ایک پیڑ کی جانب دیکھ کر کہا بنکم دا کیوں نہ اس وشال ورکش کے تلے تنک وشرام کر لیا جائے؟ آپ کا اس سبمندھ میں کیا وچار ہے؟

بنکم نے سرہلا کر تائید کی دونوں بیٹھ گئے۔ بنکم نے پوچھا کیا تم اس سے پہلے یہاں آئے ہو؟

ایک نہیں کئی بار آیا ہوں سوامی لیکن دوپہر تک ہم لوگ لوٹ جاتے تھے۔

تو کیا اس بار ہم سے دشا بھول ہو گئی ہے؟

جی نہیں! میں راستہ بھٹک سکتا ہوں لیکن پنڈت جی وہ تو اسمبھو ہے۔

تو پھر کیا کارن ہے۔ ندی کہاں غائب ہو گئی؟

سمبھوتہ صبح سے ہمارے آگے بھاگتے بھاگتے وہ بھی سوکھ گئی ہے۔

سوکھ گئی ہے یہ تم کیا کہہ رہے ہو کالیداس؟ پنڈت جی کہہ رہے تھے پدما ندی گنگا، جمنا، سرسوتی اور برہمپترا کے سنگم سے بنی ہے۔ اگر ان چاروں کا پانی سوکھ جائے تودھرتی پر پرلیہ آ جائے گا۔

مجھے بھی یہی لگتا ہے شیگھر(جلد) ہی پرلیہ آنے والا ہے۔

کیوں تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟ وہ دیکھو سامنے جو کٹیا دکھائی دے رہی ہے وہ رشی کانو کا آشرم تھا۔

رشی کانو! جس نے مینکا کے سورگ لوٹ جانے کے بعد شکنتلا کی پرورش کی تھی؟

جی ہاں اسی رشی کانو کا آشرم جس میں شکنتلا کی ملاقات راجہ دشینتا سے ہوئی تھی۔

اچھا یہ تمہیں کیسے پتہ؟

میں کالیداس ہوں سوامی میں سب کچھ جانتا ہوں۔

اور دور وہ پہاڑی کا ٹیلہ آپ دیکھ رہے ہیں؟

ہاں ہاں بہت دور مجھے دکھائی دے رہا ہے۔ ابھی میرے نین اتنے شکتی شالی ہیں کہ میں اسے دیکھ سکوں۔

یہ وہی پہاڑی ہے جس پر بیٹھ کر بھرت شیر کے دانت گن رہا تھا اور راجہ دشینتا نے اس سے پریچے پراپت کر کے اسے پہچان لیا تھا۔

اچھا اور وہ جو گڑھا سا نظر آتا ہے سو کیا ہے؟

کالیداس بولا شکنتلا کی سارے دکھ درد کا اپج استھان وہی ہے سوامی۔ اسی مقام پر شکنتلا کی انگلی سے وہ انگوٹھی گر گئی جو اسے دشینتا نے اپنی نشانی کے طور پر دی تھی۔ اگر وہ انگوٹھی نہیں گرتی تو دشینتا اسے پہچاننے سے انکار نہیں کرتا اور کالیداس کی لیکھنی (قلم) پیاسی رہ جاتی۔ اسے وہ مہان اپنیاس لکھنے کی کاسورن اوسر پراپت نہ ہوتا۔

بنکم نے دیکھا اس سوراخ سے آگ کے شعلے اب بھی لپک رہے ہیں۔

کالیداس بولا ایک بات کہوں سوامی۔ آپ برا تو نہیں مانیں گے۔

برا ماننے کا کیا پرشن ہے کالیداس اپنے من کی بات نسنکوچ کہو .

سوامی مجھے ڈر لگ رہا ہے .

کیسا ڈر؟ یہاں جنگل میں کون ہمیں شتی(نقصان) پہنچا سکتا ہے۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی سنکٹ آ جائے تو اس ایکانت ویوستھا میں کوئی ہماری سہایتا بھی تو نہیں کر سکتا۔

لیکن ہمیں کسی سہایتا کی اوشیکتا ہو تب نا؟

مجھے لگتا ہے کہ کوئی بہت بڑی درگھٹنا ہونے والی ہے بڑا انرتھ ہماری پرتکشا کر رہا ہے ورنہ پدما ندی کا اتنی دور چلا جانا اور پھر سوکھ کر کانٹا بن جانا کیا یہ سب یونہی ہو رہا ہے۔ کداپی نہیں۔ اگر آپ مجھے آگیہ دیں تو میں واپس جانا چاہتا ہوں سوامی۔

میں تمہیں روکنے والاکون ہوتا ہوں، مجھے اس کا ادھیکار نہیں ہے کہ کسی کو بل پوروک اپنے سنگ رکھوں۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کب تک یونہی چلتے جائیں گے۔ آپ وشواس کریں یہی ندی کا تٹ ہے اور پدما کاجل یا تو دھرتی ماتا نے نگل لیا ہے یا سوریہ دیوتا نے چوس لیا ہے

کالیداس اس سوراخ میں مجھے شکنتلا کی آتما دکھائی دیتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ست یگ کے اندر شکنتلا کا مرتیو سے پورو دشینتا سے مدھر ملن تو ہو گیا اور وہیں پر تم نے اپنے اپنیاس کو سماپت کر دیا پرنتو مرتیو کے پشچات شکنتلا کی آتما کو موکش نہیں ملا  وہ اس یگ سے کل یگ تک بھٹکتی رہی ہے۔ اگر میں نے اس کے استھی کلش کو پدما میں نہیں بہایا تو نہ جانے کب تک وہ موکش کی پرتکشا کرتی رہے گی۔ میں اسے اپنی ماتا مینکا کے پاس پہنچائے بغیر واپس نہیں جاؤں گا چاہے اس کاریہ میں میرا سارا جیون ہی کیوں نہ ویتیت ہو جائے۔

کالیداس بولا سوامی میں آپ کی اِچھآ شکتی کو پرنام کرتا ہوں اور پرارتھنا کرتا ہوں کہ وہ آپکی منو کامنا پورن ہو۔ اندھیرا پھیلنے ہی والا ہے، کیا میں پرستھان کروں؟

جی ہاں کالیداس اب تم جا سکتے ہو۔ اس اندھیارے میں آگے جانے کی میرا بھی سا ہس نہیں ہے۔ میں کل صبح سوریہ اودئے تک یہاں وشرام کروں گا اور پھر اس کے پرکاش میں آگے کی یاترا آرمبھ کروں گا۔

کالیداس نے پرنام کر کے بنکم کے چرن چھوئے اور واپس لوٹ گیا۔

کالیداس کے چلے جانے کے بعد شتج پر پھیلی لکشمی کی لالی کو شکتی کی کالی نے نگل لیا۔ بنکم نے اپنے دائیں ہاتھ کو تکیہ بنایا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔ ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ دکشن سے چندرما نے اپنا آنچل سرکا یا دیکھتے دیکھتے سارا آکاش اور دھرتی اس کی دودھیا چاندنی میں نہانے لگے۔ بنکم بے خبر سورہا تھا کہ اسے انوبھو ہوا کوئی اس کے پیروں کے گھاؤ دھو رہا ہے۔ اس کومل اسپرش نے بنکم کے نیتروں سے ندرا کو بھگا دیا پرنتو تھکن کے کارن اس نے اپنی آنکھوں کو بند ہی رکھا اور بولا۔ تم کون ہو؟ یہاں کیا کر رہی ہو؟ اس ون میں تمہیں یہ امرت سمان جل کہاں سے پراپت ہو گیا؟ بنکم کو لگ رہا تھا مانو اس کے چرنوں کے اور آتما کے گھاؤ دونوں ایک ساتھ دھل رہے ہیں۔

کوئی جواب نہ پا کر بنکم نے پھر پوچھا، ہے سورگ اپسرا کیا تم میرے پرشنوں کا اتر دینے کا کشٹ نہیں کرو گی؟

جواب ملا ہے سوامی آپ اپنی آنکھوں کو کھول کر دیکھیں۔ آپ کے سارے پرشنوں کا آترپراپت ہو جائے گا۔

بنکم چونک پڑا، یہ کیا؟ یہ تو شکنتلا کا سوور(آواز) ہے۔ بنکم نے آنکھیں کھولیں تو اس کے چرنوں میں شاکسات شکنتلا بیٹھی ہوئی تھی۔ شکنتلا نے وہی وستر دھارن کر رکھا تھا جس میں وواہ کے پشچات بنکم سے اس کی پرتھم بھینٹ ہوئی تھی۔

بنکم اپنے استھان پر اٹھ بیٹھا۔ اسے اپنے نینوں پروشواس نہیں ہو رہا تھا۔ چندرما کے پرکاش نے پھر ایک بار شکنتلا کو نوودھو بنا دیا تھا۔ بنکم دیکھ رہا تھا کہ شکنتلا استھی کلش سے پانی انڈیل کر اس کے پیر دھو رہی ہے۔ یہ دوسرا آشچریہ تھا۔ استھی کلش میں تو وہ راکھ لے کر چلا تھا۔ یہ جل دھارا اس کلش کے بھیتر؟ بنکم کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ وہ بولا شکنتلا اس کلش میں تو استھی تھی؟

کس کی استھی؟

تمہاری اور کس کی؟

میری استھی اس کلش میں کیسے ہو سکتی ہے؟ میں تو تمہارے سمکش بیٹھی ہوں۔

وہی تو میں سوچ رہا تھا کہ تم یہاں اس بن میں اچانک کیسے پہنچ گئیں؟

اچھا! آپ تو بہت اچھا وینگ کر لیتے ہیں۔ آپ ہی نے تو کچھ سمے پورو کالیداس کو وہ سوراخ بتلایا تھا جس میں میری آتما نرتیہ کر رہی تھی۔ اسے وشواس نہیں ہوا وہ لوٹ کر چلا گیا لیکن آپ کو تو پورن وشواس تھا؟

وشواس تو اب بھی ہے۔

پھر یہ پرشن کیوں کر رہے ہیں آپ؟

بس یونہی! یونہی انایاس یہ پرشن مستکش میں آ گیا۔ کوئی وشیش کارن نہیں ہے

شکنتلا مسکرائی تو سارا برہمانڈ ہنس پڑا۔ شکنتلا بولی ہے سوامی کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کون سا ورکش ہے؟

جی ہاں یہ بڑ کا پیڑ ہے۔ اس کی لمبی لمبی جٹائیں آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہیں

وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ اس کا اتہاس نہیں جانتے۔

اتہاس؟ میں کیسے جان سکتا ہوں؟

میں بتاتی ہوں سوامی۔ یہ وہی وشال ورکش ہے جس کی چھایا میں بیٹھ کر میرے پتا شری رشی وشومترا نے ایسی تپسیا کی کہ دیو لوک میں اس سے ہلچل مچ گئی

اچھا؟

اور وہاں وہ سامنے چبوترہ آپ کو دکھلائی دے رہا ہے؟

ہاں ہاں کیوں نہیں؟

اسی چبوترے پر اندر دیو نے سورگ سے میری ماتا اپسرا مینکا کو دھرتی پر اتارا تھا

بنکم اپنی کلپنا شکتی سے مینکا کو نرتیہ کرتا ہوا دیکھ رہا تھا اور پھر اس نے دیکھا کہ جٹا دھاری وشوا متر بھی اپنی تپسیا تیاگ کر اس کے سنگ نرتیہ کرنے لگے ہیں اور پھر دیو اور دانو سب مل کر ان کے وواہ سماروہ کا آنند لے رہے ہیں۔ اس کے بعد اسی وشال ورکش نے نیچے مینکا اپنی چاند سی بیٹی کو جنم دیتی ہیں اور وشوامتر اسے اپنی ماں کے سنگ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ شیگھر کال کے پشچات اس بچی کی ماتا شری بھی اس ننھی سی جان کو پکشیوں کے حوالے کر کے سورگ میں لوٹ جاتی ہے اور سامنے سے رشی کانو جب اس پوتر آتما کو شکنتا پکشیوں کے بیچ دیکھتے ہیں تو اس کا ناما کرن ہو جاتا ہے ’’شکنتلا‘‘۔

بنکم کو وشواس نہیں ہوا کہ اس کا بھاگیہ اسے کہاں سے کہاں لے آیا ہے۔ وہ کیسے کل یگ سے پلک جھپکتے ست یگ میں پہنچ گیا۔ پر کرتی کے مہانتم چمتکار کا درشن بنکم اس سمے کر رہا تھا اور شکنتلا چپ چاپ اس کے چرنوں کو امرت کلش سے دھو رہی تھی۔

بنکم نے پوچھا وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ جل وہار اب بھی میرے لئے آشچریہ کا کارن ہے۔ تم نہ جانے کب سے اسے بہا رہی ہو اور یہ مٹکی ہے کہ اس کا پانی سماپت ہونے کا نام ہی نہیں لیتا؟

شکنتلا بولی۔ سوامی یہ پانی کیسے سماپت ہو سکتا ہے؟ اس گاگر میں پدما ندی سمائی ہوئی ہے۔ کیا یہ سمبھو ہے کہ گنگا، جمنا، سرسوتی اور برہمپترا کا جل سماپت ہو جائے۔

اچھا لیکن وہ اس میں کیوں آ گیا؟

شکنتلا بولی اس لئے تاکہ تم اس میں میری استھی کو وسرجت نہ کر سکو۔ میرے بھاگیہ میں موکش نہیں ہے اور تم میرے پتا شری کے سمان پر کرتی سے یدھ کر رہے ہو۔ وشوکرما کو وچلت کرنے کیلئے مینکا کو بھیجا گیا تھا اور آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ شکنتلا رک گئی۔

شکنتلا کو بھیجا گیا ہے۔ بنکم نے واکیہ کو پورن کیا۔

اچھا تو اب میں کیا کروں؟

آپ! آپ میرے موکش کی کلپنا اپنے ہردیہ سے نکال دیں اور میری آتما کو اسی طرح بھٹکتا چھوڑ دیں۔ اس لئے کہ میرے بھاگیہ میں موکش پراپتی نہیں ہے میرے سوامی بنکم۔ میں پرلیہ تک اسی طرح ماری ماری پھرتی رہوں گی۔ میرا پیچھا نہ کریں بنکم۔ مجھے یونہی ایکانت کے حوالے کر کے آپ بھی لوٹ جائیں تاکہ پدما ندی کا پانی لوٹ آئے اور وہ پھر سے بہنے لگے۔ مانو جاتی کا کلیان اسی میں ہے۔

بنکم نے دیکھا اس کے چرنوں کے گھاؤ بھر چکے ہیں سمبھوتہ یہ واپس جانے کا سنکیت ہے۔ شکنتلا سے اس کی جدائی کی گھڑی آن کھڑی ہے۔

دونوں ایک دوسرے کے سمکش کھڑے ہو گئے ایک دوجے کو پریم سے انتم بار دیکھا اور مڑ کر ویپریت دشا میں چل دئیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے

کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام زمین سے جمع کی گئی مٹھی بھر خاک سے پیدا فرمایا۔

آدم علیہ السلام کی اولاد بھی (طرح طرح کی) مٹی سے پیدا ہوئی۔

ان میں سفید فام بھی ہیں، سرخ بھی اور سیاہ بھی

اور ان کے درمیانی رنگوں کے بھی

(اسی طرح) نیک اور بد، نرم خو اور سخت طبیعت اور درمیانی طبیعت والے۔ ”

 

(الحدیث)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل 

 

 ای پب فائل

کنڈل فائل