FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

صبا کے رستے میں

 

 

                شائستہ مفتی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

گمان تک ہے اماں لاالہٰ الا للہ

بلندیوں کا نشاں لاالہٰ الا للہ

ترا سکون تو پنہاں ہے رازِ وحدت میں

بھٹک رہا ہے کہاں لاالہٰ الا للہ

یہی وہ نور ہے روشن ہے زندگی جس سے

جہاں تلک ہے جہاں لاالہٰ الا للہ

ہر ایک غنچہ و لالہ میں آب و تاب تری

خزاں نہیں ہے خزاں لاالہٰ الا للہ

یہ گونج ہے کہ زمیں آسمان محوِ سخن

کہ ہو رہی ہے اذاں لاالہٰ الا للہ

ازل سے تا با ابد تیری حکمرانی ہے

کہ تو نہیں ہے کہاں لاالہٰ الا للہ

سمیٹ لے تو مری خاک کو بکھرنے تک

یہی ہے دل کی فغاں لاالہٰ الا للہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خاموش ہیں الفاظ،کھلا دستِ دعا ہے

اشکوں کی روانی میں ترا شکر بجا ہے

 

گلیوں میں تری گھوم رہے ہیں بلا مقصد

پانے کے لئے خود کو تجھے سونپ دیا ہے

 

ہر پل تو ہی موجود ہے تنہا میں نہیں ہوں

احساسِ سکوں تیری محبت میں ملا ہے

 

دکھ درد زمانے کے کہیں کھو گئے یکدم

اس گنبدِ صغرا نے جو سائے میں لیا ہے

 

ہے شانِ مدینہ کہ ہے ہر فرد ہی مسرور

اس شہر نے ہر شخص کی جھولی کو بھرا ہے

 

اے کاش کہ اب لوٹ کے آؤں نہ وہاں سے

وہ نور کا منبع جو تخیل میں بسا ہے

 

تھم جائیں یہ گھڑیاں تیری مسجد کے صحن میں

اس صحن میں آتی کہیں جنت کی ہوا ہے

 

ہر شاہ و گدا تیرا سوالی ہے حرم میں

انسان کی اوقات کا عقدہ یہ کھلا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

زمیں ترستی رہی ابر نہ برسا برسوں

دھواں دھواں سا رہا تھا ذرا ذرا برسوں

دُکھا گیا مرے دل کو وہ سرد مہری سے

مری دعاؤں کا عنوان جو رہا برسوں

یقین تھا کہ کوئی خواب سے جگا دے گا

اسی امید پہ سہتی رہی سزا برسوں

گزر رہے ہیں جو لمحے بڑی خموشی سے

ادھڑ رہی تھی مری زیست کی قبا برسوں

وہ مری سوچ کے پنوں سے کھو گیا یکسر

مرے لہو میں جو شامل رہا سہا برسوں

جلا رہی ہوں میں اب تک یہ سوچ کر شمعیں

کسی کو تھا مرے اشکوں کا آسرا برسوں

٭٭٭

 

 

 

 

اجنبی شہر میں الفت کی نظر کو ترسے

شام ڈھل جائے تو رہ گیر بھی گھر کو ترسے

خالی جھولی لئے پھرتا ہے جو ایوانوں میں

میرا شفاف ہنر عرضِ ہنر کو ترسے

جس جگہ ہم نے جلائے تھے وفاؤں کے دیئے

پھر اسی گاہ پہ دلدار نظر کو ترسے

میری بے خواب نگاہیں ہیں،سمندر شب ہے

وقت تھم تھم کے جو گزرے ہے سحر کو ترسے

جانے ہم کس سے مخاطب ہیں بھری محفل میں

بات دل میں جو نہ اترے ہے اثر کوترسے

کتنے موسم ہیں کہ چپ چاپ گزر جاتے ہیں

تیرے آنے کا دلاسہ ہے خبر کو ترسے

شبنمی راکھ بچھی ہے مرے ارمانوں کی

نقشِ پا تیرے کسی خاک بسرکو ترسے

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی تو نے جو بازار سجا رکھا ہے

ہر خریدار نے ہنگام بپا رکھا ہے

اک عقیدت کی نظر گر نہ ملے ہے پتھر

تو نے مندر میں جو بھگوان بٹھا رکھا ہے

 

چند سانسوں کی کہانی ہے ہمارا یہ وجود

اک دیا ہم نے ہواؤں میں جلا رکھا ہے

تو جو آئے تو طلسمات کے در کھلتے ہیں

موسمِ گل کو نگاہوں میں بسا رکھا ہے

دیکھتے کیا ہو مرے دشت کی ویرانی کو

شوق سے ہم نے خزاؤں کو سجا رکھا ہے

 

آتے جاتے ہوئے موسم بھی ٹھہر جاتے ہیں

ہم نے اس دل کو سرائے جو بنا رکھا ہے

 

شب گزیدہ تیری یادوں سے بہل جاتے ہیں

تیرگی میں بھی دیا ہم نے بجھا رکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی کی سحر نہیں ہوتی

خاک یوں دربدر نہیں ہوتی

 

لوٹ آئے ہیں بزمِ ساقی سے

یاد تیری کدھر نہیں ہوتی

 

ایک اک لفظ جذب ہے جاناں

شاعری بے ہنر نہیں ہوتی

 

سنگدل ہیں مکینِ شہرِ بتاں

جاں سے جانا خبر نہیں ہوتی

 

ایک لغزش تھی دل مچلنے کی

بات کیوں درگزر نہیں ہوتی

 

دل کی فریاد لوٹ آئی ہے

کاش یوں بے اثر نہیں ہوتی

 

خوب رہتا ہے درد کا ہنگام

داستاں مختصر نہیں ہوتی

٭٭٭

 

 

 

 

لفظ تو بانجھ ہیں۔۔۔۔

 

لفظ تو بانجھ ہیں جذبوں کی ہنر کیا جانیں

زندگی ہار چکی ہو وہ نظر کیا جانیں۔۔۔

اپنے معصوم گلابوں سے حسیں بچوں کی

ایک کھوئی ہوئی مسکان پہ کچھ لکھنا ہے

ان کی بے جان نگاہوں پہ مجھے کہنا ہے

لفظ تو بانجھ ہیں قرطاس کے آئینے میں

لفظ جو زیست کا عنوان ہیں سرمایہ ہیں

پھر بھی جذبات کے عکاس نہیں ہو سکتے

خوف کے شہر میں احساس نہیں ہو سکتے

نوحۂ غم بھی تو احساس کی جولانی ہے

ہائے اے دل کہ یہاں خوف کی ویرانی ہے

منتظر ماں جو کھڑی ہے ،کہ بہت دیر ہوئی

میرے گھر بار کی رونق نہیں آیا اب تک

لفظ میں ڈھونڈ رہی ہوں کہ اسے کیسے کہوں

تیرا معصوم شہیدوں میں لکھا آیا ہے

نام اپنا جو بہت پیار سے رکھا تو نے

ٹوٹ کر دور کہیں جا کے کہ گرا ہے وہ شجر

جس کو دن رات محبت سے سنوارا تو نے

لفظ تو بانجھ ہیں جذبات نہیں کہہ سکتے

وقت کے وار کو اس بار نہیں سہہ سکتے

٭٭٭

 

 

 

بت خانۂ محمل سے کہا ایک صنم نے

پارس کیا پتھر کو ترے جوروستم نے

 

جب خلد سے نکلے تو کہیں اور نہ ٹھہرے

دل کو نہ دیا چین کسی دیر و حرم نے

 

خاموش نگاہوں سے کیا شکوۂ بیداد

کہنے نہ دیا حال ہمیں تیرے بھرم نے

 

دھرانے لگا وقت اُسی بھولی کتھا کو

لکھی تھی کہانی جو کبھی دیدۂ نم نے

 

انجامِ سخن جان رہا تھا دلِ تنہا۔ ۔

کیا کچھ نہ سکھایا ہمیں قِرطاس و قلم نے

پوچھو گے تو بتلائیں گے دوری کا سبب ہم

کیا کچھ نہ کہا ہم سے ترے ابروئے خم نے

کس طور بھلا گھر کا پتا پوچھ رہے ہیں

پہنچایا ہے جنگل میں ترے نقشِ قدم نے

 

اب کونسی امید پہ بیٹھے ہو سرِ راہ

دکھ درد ہی بخشے ہیں ترے دستِ کرم نے

 

رم خوردہ محبت کی پناہ کون نگر تھی

بخشی ہے اماں جس کو فقط ملکِ عدم نے

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی کا غرور ٹوٹے گا

جب نشاط و سرور ٹوٹے گا

یوں نہ احساس کو گنوا دیجے

چاہتوں کا یہ نور ٹوٹے گا

یہ اندھیرا ،یہ تیرگی کا سماں

اک نہ اک دن ضرور ٹوٹے گا

خامشی ٹوٹنے پہ آئی تو

پھر سے اک بار طور ٹوٹے گا

تھام رکھا ہے کانچ کا بندھن

مان گرچہ حضور ٹوٹے گا

بیچ ڈالے جو ہستی ء جاں کو

فن پہ اس کا غرور ٹوٹے گا

ان کو ڈر ہے کہ مسکرانے سے

خامشی کا ظہور ٹوٹے گا

٭٭٭

 

 

 

 

عشق دیوانگی میں ڈھلتا ہے

تو کہیں پاس سے گزرتا ہے

تجھ کو دیکھا تو جھک گئیں نظریں

دل مچلتا ہے پھر سنبھلتا ہے

اشک پلکوں پہ بن گئے تارے

عکس مژگاں پہ ہی ٹھہرتا ہے

تھا فقط تیرا انتظار مجھے

بام پر اک چراغ جلتا ہے

ڈھونڈتی ہے کسے فریبِ نظر

کون ان جنگلوں میں پھرتا ہے

وہ چمکتا ہے جگنوؤں کی طرح

میرے خالی مکاں میں رہتا ہے

ہم کو اب بھول جائیے واللہ

کتنی شیریں زباں سے کہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آپ سے جو اک نظر باتیں کریں

زندگی سے بے خطر باتیں کریں

اُن کے در پر خامشی کے راگ میں

اپنے دل کی مختصر باتیں کریں

رات بھر تاروں سے کیں اٹکھیلیاں

کیا رہا رنگِ سحر باتیں کریں

اپنے ہونے اور نہ ہونے کا جواز

کوئی ہو جو دیدہ ور باتیں کریں

جھومتی ہے کہکشاں،چھایا سرور

تال پر شمس و قمر باتیں کریں

نرم ٹھنڈے جھلملاتے خواب ہیں

خواب میں اے ہمسفر باتیں کریں

کھیلنا الفاظ سے ،اشعار سے

راس آیا کیا ہنر باتیں کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سونا گھر چھوڑ گیا مجھ کو بسانے والا

کھو گیا ہے تو کہاں دل میں سمانے والا

ڈھونڈتی ہوں میں اسے رات کے سناٹوں میں

اک ستارہ ہے جو پلکوں پہ سجانے والا

اک ہنسی ہے کہ مرے لب سے سسکتی نکلی

آ ہی جائے گا بہت مجھ کو ہنسانے والا

نیند یوں روٹھ گئی ہے کہ بہت ممکن ہے

سو نہ جائے وہ کہیں مجھ کو جگانے والا

تیری ہر ضد بھی مجھے جان سے پیاری ہوگی

گر تو آ جائے مجھے پھر سے رلانے والا

٭٭٭

 

 

 

 

 

عدم کے شہر میں کون و مکاں کی بات کرے

ہے کون شخص جو اس بے نشاں کی بات کرے

 

زمین لاکھ سنور سج کے کھیتیاں پہنے ۔۔۔

مبالغہ ہے اگر آسماں کی بات کرے

 

بہت سے خواب سجائے تھے جس نے گلشن کے

ہے دکھ کی بات کہ وہ بھی خزاں کی بات کرے

 

یہیں کہیں تھا مرا گھر ,یہیں مرا آنگن۔۔۔۔

کوئی تو ہو جو مرے آشیاں کی بات کرے

 

جو آس پاس مناظر سے بے خبر ٹھہرا

عجب نہیں ہے کہ رازِ نہاں کی بات کرے

 

تری نظر ہے کہ الجھی ہوئی کہانی ہے

خموشیوں کی زباں میں فغاں کی بات کرے

 

تجھے پکارتا پھرتا ہے دشت و صحرا میں

جنوں شعار ہے لیکن دھیاں کی بات کرے

٭٭٭

 

 

 

 

سکھ چین کی بستی پہ گھٹا کیوں نہیں آتی

وہ جس سے ہو شاداب،ہوا کیوں نہیں آتی

سناٹے کی اک گونج ہے اور دشت ہے لوگو

وادی سے پلٹ کر یہ ندا کیوں نہیں آتی

اس سرد دسمبر میں تری یاد کی صورت

ہم یاس کے ماروں پہ ردا کیوں نہیں آتی

اک عمر جو گزری ہے خموشی کے سفر میں

تجھ کو جو نظر آئے وفا کیوں نہیں آتی

جو روز گزرتا تھا شبِ غم کے سفر میں

اس سائلِ برہم کی صدا کیوں نہیں آتی

پھر رات گزرتے ہی دریچے میں کھڑے ہیں

تیری جو خبر لائے صبا کیوں نہیں آتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کھیل بگڑا ہے ان ستاروں کا

کیا ہو انجام پھر نظاروں کا

 

اچھے وقتوں میں ساتھ دیتے ہیں

کچھ بھروسہ نہیں سہاروں کا

 

نغمۂ کیف روح میں اترے

گیت سنتے ہیں آبشاروں کا

روپ گلشن پہ آ کے ٹھہرے گا

راستہ روک مت بہاروں کا

عشق انجامِ کار وحشت ہے

سانحہ ہے یہ ریگزاروں کا

خامشی راز بن گئی اپنی

ایک مجمع ہے راز داروں کا

زخمِ دل کی دوا میسر ہے

خوب دعویٰ ہے غم گساروں کا

زندگی جس کو ڈھونڈتی ہی رہی

دے گیا ہے پتہ مزاروں کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کھڑے ہیں کوہِ گراں اس صدا کے رستے میں

بکھر نہ جائیں کہیں ہم ہوا کے رستے میں

 

ابھی تلک کوئی امکاں نہیں کہ اذن ملے

صلیب کس نے رکھی ہے اٹھا کے رستے میں

 

مری نظر میں کوئی خواب آ کے ٹھہرا ہے

بہار رنگ کھلے ہیں گھٹا کے رستے میں

 

نہیں جو خوف ہمیں رات کے اندھیروں کا

چراغ اٹھائے چلے ہیں ہوا کے رستے میں

متاعِ جان لئے ہاتھ پر نکل آئے ۔ ۔

لٹا رہے ہیں سبھی کچھ رضا کے رستے میں

تمھاری چاپ کی آہٹ،تمھاری سرگوشی

ہزار پھول کھلے ہیں صبا کے رستے میں

مرے خلوص کو اتنا تو آپ پہچانیں

پڑاؤ ملتا ہے اپنا خدا کے رستے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھ میں جھلملاتی رہی رات بھر

اک امنگ مسکراتی رہی رات بھر

 

آس دیپک کی صورت میں روشن رہی

ایک لو جھلملاتی رہی رات بھر

ساتھ تیرے محبت میں گزرے جو پل

یادِ الفت ستاتی رہی رات بھر

چل پڑی پھر سہانی نشیلی ہوا

میرا من گدگداتی رہی رات بھر

اک تخیل خیالوں میں ہنستا رہا

یادِ ماضی رلاتی رہی رات بھر

 

راگنی کس نے چھیڑی درختوں پرے

جگنوؤں کو بلاتی رہی رات بھر

چاندنی تجھ سے ہنس ہنس کے ملتی رہی

میرے دل کو جلاتی رہی رات بھر

تیری امید پر ہے چراغِ سحر

زندگی ٹمٹماتی رہی رات بھر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یقین چھین لیا اور گمان چھوڑ گیا

مرے وجود کا کچھ تو نشان چھوڑ گیا

 

خزاں نے اوڑھ لیے رنگ بے ثباتی کے

یہ کس نہج پہ مرا باغبان چھوڑ گیا

تمام عمر رہا ساتھ اور منزل پر

زمین چھوڑ گیا،آسمان چھوڑ گیا

 

مجھے تھا اذن فضاؤں میں دور جانے کا

مرے بریدہ پروں میں اڑان چھوڑ گیا

ابھی بھی گونج رہا ہے سنہری یادوں سے

شکستہ خواب سا اک سائبان چھوڑ گیا

 

پکارتے ہیں وہی راستے بہاروں کے

کہ جس جگہ پہ مرا مہربان چھوڑ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

اس جہان گرد کو منظر نہیں بھایا کوئی

ایسا لگتا ہے کہ آسیب کا سایا کوئی

 

بوجھ بن جائے مسافر تو اسے جانے دو

پاؤں میں وقت کے گرداب کو لایا کوئی

 

روز و شب ایک تصور میں بسر ہوتے ہیں

ہائے بے تابیِ دل آنکھ کو بھایا کوئی

 

گنگناتی ہے ہوا،رات کو بجتے ہیں کواڑ

رنگ خوشبو سے مہکتا ہوا آیا کوئی

 

جب بھی دیکھوں تو سوا اور نظر آتی ہے

عشق تجھ سے ہے کہ چڑھتی ہوئی مایا کوئی

 

جاگتا رہتا ہے ہر وقت مری آنکھوں میں

بند آنکھوں میں تصور جو سمایا کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کتنی رنگین مات بنتی ہے

ایک چاہت حیات بنتی ہے

 

اپنے اشکوں کو ٹانک دیتے ہیں

آسماں پر جو رات بنتی ہے

 

ان سے ملنا،بچھڑ کے پھر ملنا

زندگی حادثات بنتی ہے

 

زندگی بندگی بنا لیجے

ہستیءغم نجات بنتی ہے

 

اس کی آنکھوں میں پھوٹتی کلیاں

اک مری کائنات بنتی ہے

 

خون روتے ہیں ہجر میں تارے

پھر اجالے کی بات بنتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نام سے تیرے محبت کا جہاں بنتا گیا

بے ارادہ سر پہ میرے آسماں بنتا گیا

دشمنِ جاں تھا مرا،ہر بات پر تھا اختلاف

جانے ایسا کیا ہوا وہ جانِ جاں بنتا گیا

خواب جو دیکھے مری دنیا ہی رنگیں ہو گئی

دھوپ کے موسم میں بارش کا سماں بنتا گیا

شہر کے آثار تو ملتے ہیں شہرِ ذات سے

صرف اتنا ہے کہ یادوں کا دھواں بنتا گیا

ہر نفس الفاظ کے انفاس نے گھیرا مجھے

کھیل سمجھے تھے جسے وہ امتحاں بنتا گیا

ایک لمحے کو نظر چوکی تو مجھ کو یوں لگا

اک خلاء سا تیرے میرے درمیاں بنتا گیا

یونہی تھک کر رک گئے تھے ایک لمحے کے لیے

موند لیں آنکھیں جہاں وہ سائباں بنتا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

شبِ رو سیاہ میں دیا چاہتی ہوں

کہ ہوں شاعرہ راستہ چاہتی ہوں

 

جنوں کی ہوئی ابتدا خیر مانگو

بغاوت کی اب انتہا چاہتی ہوں

وفا اور جفا میں تقابل تو ہوگا

میں سچ جھوٹ کا سامنا چاہتی ہوں

تری بزم میں دل نہیں لگ رہا ہے

میاں خوش رہو میں دعا چاہتی ہوں

زمان و مکاں کی یہ سب الجھنیں ہیں

میں کیا ہو گئی اور کیا چاہتی ہوں

مرے سچ کے چہرے پہ تہمت لگا دو

وفاداریوں کی سزا چاہتی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیکھے ہوئے تمھیں گو زمانہ بہت ہوا

لیکن تمھارے نام فسانہ بہت ہوا

عنوان کوئی اور بھی اس زیست کو ملے

اک نام زندگی میں پرانا بہت ہوا

گردِ سفر پکار رہی ہے کہ چل پڑو

مدت ہوئی ہے ایک ٹھکانہ بہت ہوا

دن رات مصلحت کی کہانی تو سن چکے

ہم سے نہ مل سکے یہ بہانہ بہت ہوا

تنہا ہمیں وہ سوچتا رہتا ہے رات کو

اک طائرِ خیال روانہ بہت ہوا

موسم بہار کا مرے دل میں اتر گیا

اب سوچتے ہیں جی کا جلانا بہت ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

آئینۂ جہان ہے ۔ ۔ ۔میرے خیال میں

یک گو نہ اک گمان ہے میرے خیال میں

ہے کون جو بتائے گا میرا پتہ مجھے

تیرا قدم نشان ہے میرے خیال میں

ساحل پہ دیر تک جو رہا میرے ساتھ ساتھ

تیرا فقط دھیان ہے میرے خیال میں

گم کردہ آسمان میں ڈھونڈا کیے اسے

تارہ جو بے امان ہے میرے خیال میں

گزرے دنوں کی راکھ میں حیران چاندنی

لمحہ وہ پھر جوان ہے میرے خیال میں

رہتی ہے جس میں میری محبت کی داستاں

خوابوں کا اک مکان ہے میرے خیال میں

چھپ کر تمھاری یاد میں بیٹھے ہیں دیر سے

یادوں کا سائبان ہے میرے خیال میں

 

اس کائناتِ وجد میں تنہا وجود پر

تیرا ہی آسمان ہے میرے خیال میں

٭٭٭

 

 

 

خاک سے اٹھنا،خاک میں سونا،خاک کو بندہ بھول گیا

دنیا کے دستور نرالے آپ سے رشتہ بھول گیا

 

جنگل جنگل جوگ میں تیرے پھرتے ہیں اک روگ لئے

ترے ملن کی آس جگی ہے ،دشت کا رستہ بھول گیا

 

ایک محبت راس ہے دل کو،ایک وفا انمول صنم

بھیس فقیروں والا بھر کے ذات کا صحرا بھول گیا

 

خواب میں جب سے دیکھا اس کو،چین نہیں ہے انکھیوں کو

ساری رات مسلسل کاٹی ،خواب کا رستہ بھول گیا

 

شام ڈھلے اک پہلا تارا ہم سے ملنے آیا ہے

دور بدیس میں رہنے والا اپنا پرایا بھول گیا

 

ہر دھڑکن سے پیار کا امرت ہر اک لفظ میں اترا تھا

ساری عمر جو لکھا دل نے وہی وظیفہ بھول گیا

 

مالا جپتے جپتے گزری عمر کسی سنیاسی کی

منزل پاس جو آ پہنچی تو عشق صحیفہ بھول گیا

٭٭٭

 

 

 

 

مجھ پر مرے اللہ کی اک خاص نظر ہے

ظلمت کی شبِ دہر میں آسان سفر ہے

عاصی ہوں مگر پھر بھی بلایا ہے حرم میں

اس اندھے طلسمات میں تنہا وہ قمر ہے

احوال جو پوچھا تو بتائیں گے اسے ہم

دل درد سے بوجھل ہے تو چھلنی یہ جگر ہے

دنیا میں کشش لاکھ ہے ،رنگ نور کا عالم

ہے دل کو سکوں راس وہ کعبہ تو ادھر ہے

فانی ہے جو دنیا،تو حقیقت ہی نہیں اب

گمنام ہے ہستی کہ کوئی خاص خبر ہے

بے نام ستارے کی طرح کھو گئے اکثر

یہ شہر کہ دنیا میں فقیروں کا نگر ہے

سب درد و الم محو ہوئے ایک نظر سے

اس دل پہ جو اللہ کی رحمت کا اثر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

میں جو روٹھی تو مرے دوست منانے آئے

پھول لے کر وہ مری قبر سرہانے آئے

 

کیا میں کہتی دلِ برباد کا قصہ جانم

ہر کوئی اپنا ہی دکھڑا جو سنانے آئے

 

جل کے جب خاک ہوا اپنا گلستاں لوگو

میرے احباب مرے گھر کو بسانے آئے

 

تھم ہی جاتے کسی منزل پہ توکل کر کے

راہ میں کتنے ہی اس دل کے ٹھکانے آئے

 

ایک امید کا تارا تھا کہ جب ڈوب چلا

میری قسمت کے ستارے کو بلانے آئے

 

بھر چکا زخم جدائی کا،نشاں تک نہ رہا

تو نہ آئے تو تری یاد ستانے آئے

 

تجھ کو دیکھا تو تری نیند تھی،راتیں تیری

خواب دیکھا تو بہت خواب سہانے آئے

٭٭٭

 

 

 

 

بارشوں نے داغِ دل،دل سے مرے دھویا نہیں

خار فصلِ گل میں کاٹوں جو کبھی بویا نہیں

اپنے ہونے اور نہ ہونے کا یہاں کس کو ملال

بزمِ دنیا میں رہی ایسے کہ میں گویا نہیں

وہ تبسم خیز آنکھیں جھلملا کر رہ گئیں۔ ۔

کہہ رہا تھا وہ مجھے میں رات بھر سویا نہیں

جو نصیبوں میں لکھا تھا،مل گیا ہے ہاتھ پر

کس طرح تجھ کو بتاؤں،میں کبھی رویا نہیں

نغمۂ شیریں مچلتا ہی رہا دل میں مرے

گیت جو دل پر لکھا تھا وہ کبھی کھویا نہیں

بعد برسوں جب اسے دیکھا تو آنکھیں جھک گئیں

وائے شوقِ دل تعجب ہے کہ میں رویا نہیں

یوں تمھارے شہر میں جانے گئے ہم تم مگر

دل میں جو اک بات تھی ممکن ہے کہ گویا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیوں اَشک بہائے بیٹھے ہو

اور دِیا بُجھا ئے بیٹھے ہو

 

برسات کی بھیگی شاموں میں

اِک ہجر سجائے بیٹھے ہو

 

سجتے ہیں بہت ہی اِس دل پر

جو زخم لگائے بیٹھے ہو

 

اک یاد کی خاطر دُنیا میں

ہستی کو بھلائے بیٹھے ہو

 

اُمید بجھا کر رستے میں

دُنیا کے ستائے بیٹھے ہو

 

جب وقت نہیں ہے اُلفت کا

کیوں غم سے نبھائے بیٹھے ہو

 

یہ راہِ وفا لا حاصل ہے

اِک عمر گنوائے بیٹھے ہو

 

آنکھوں سے گِرے انمول رَتن

دامن میں کمائے بیٹھے ہو

 

پُرکھوں کی ادا خاموش وفا

سینے سے لگائے بیٹھے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

سن لیا ہے اس دل نے فیصلہ محبت کا

کھنچ گیا ہے ہستی پر دائرہ محبت کا

 

چاہتوں کی بستی پر آج شام اترا ہے

بھولے بھالے لوگوں پر سانحہ محبت کا

 

جان کی اذیت ہے ،سوچ کا تصادم ہے

ہے غبار آلودہ راستہ محبت کا

 

جیت کر بھی ہارے ہیں،مشکلوں کے مارے ہیں

دے رہا ہے وہ مجھ کو واسطہ محبت کا

 

دھوپ کا سفر جانے کب تمام ہوتا ہے

اک سراب جیسا ہے آسرا محبت کا

 

بھید ہیں زمانے کے ،راز تا ابد کے ہیں

صرف ایک لہجہ ہے با وفا محبت کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

رت بدلنے کا سانحہ نکلا

آرزوؤں کا قافلہ نکلا

 

دل سا وحشی بھی چاہتوں کے لئے

لے کے کشکول جا بجا نکلا

 

بھول بیٹھے تھے زخمِ دل یکسر

موسمِ گل میں پھر ہرا نکلا

 

اک صدا آ رہی ہے روزن سے

سائلِ شب کا در کھلا نکلا

 

راستہ بھول کر کہاں بھٹکے

لوٹ جانے کا آسرا نکلا

 

روز کھلتا ہے آرزو کا گلاب

خار دل میں یہ بارہا نکلا

 

کچھ ہی دوری تھی درمیان مگر

مختصر راستہ جدا نکلا

 

رونقیں شہر کی عجیب رہیں

ہر کوئی شخص دل جلا نکلا

٭٭٭

 

 

 

 

پڑے راستوں میں جہاں کیسے کیسے

ملے ہم سے پیر و مغاں کیسے کیسے

 

نہ جانے یہ تقدیر کیا رنگ لائے ؟

ہیں سر پر مرے آسماں کیسے کیسے

وفاؤں کی مہندی نہ کچھ رنگ لائی

رہے فاصلے درمیاں کیسے کیسے

 

کوئی بات اپنی سمجھ ہی نہ پائے

ترے شہر میں ہیں بتاں کیسے کیسے

خزاں کی کہانی سناتے رہیں گے

بھرے جنگلوں میں نشاں کیسے کیسے

 

کہے رازِ الفت اگر تم کہو تو ۔ ۔ ۔

خموشی کے رازِ نہاں کیسے کیسے

رہا پاسِ الفت تری انجمن میں

سہے دل پہ تیغ و سناں کیسے کیسے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نغمۂ دل کی صدا ہو جیسے

تیرے آنے کی دعا ہو جیسے

 

خوب نکھرے گا تیری رنگت پر

لالۂ شوق کھلا ہو جیسے

 

صبح اک خواب کی صورت اتری

تیری آہٹ کی صدا ہو جیسے

 

تیرے آنے سے بڑھی ہے رونق

خوشبوئے بادِ صبا ہو جیسے

 

یوں تجھے یاد کیا ہے دل نے

شاملِ حال خدا ہو جیسے

 

تم ہی موجود رہے ہو دل میں

آج عقدہ یہ کھلا ہو جیسے

 

تجھ کو یوں ڈھونڈ رہے ہیں ہر سو

ایک گم گشتہ پتہ ہو جیسے

 

یوں خفا ہیں وہ میرے ہونے سے

زندگی ایک خطا ہو جیسے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہستی کو جو دوام ہے موجِ سخن کے نام

ہر سو جو اہتمام ہے موجِ سخن کے نام

 

تنہائی بولتی ہے خموشی میں تال ہے

خود سے جو ہمکلام ہے موجِ سخن کے نام

 

رستے میں کون پھول کھلاتا چلا گیا

آہستۂ خرام ہے موجِ سخن کے نام

 

لگتا ہے کائنات پہ چھایا ہے اک سرور

ہاتھوں میں میرے جام ہے موجِ سخن کے نام

 

لے کر تمھارا نام غزل ابتدا کریں۔ ۔ ۔

مہکی ہوئی سی شام ہے موجِ سخن کے نام

 

لفظوں کی روشنی سے منور ہے زندگی

عالم یہ کل تمام ہے موجِ سخن کے نام

٭٭٭

 

 

 

 

 

خاموش بام و در کو سجاؤ کہ عید ہے

شمعیں جو بجھ چکی ہیں جلاؤ کہ عید ہے

 

بکھرے ہوئے جو کانچ کے ٹکڑے ہیں خواب کے

رنگین انگلیوں سے اٹھاؤ کہ عید ہے

 

آزردۂ خیال ہے ، زندہ ہے آج بھی ۔ ۔

۔روٹھی ہوئی خوشی کو مناؤ کہ عید ہے

میٹھے سروں میں گونجتی خاموش راگنی

دنیا کو آج پھر سے سناؤ کہ عید ہے

 

جذبات کھو چکے ہیں جہاں سرد راکھ میں

سوئے ہوئے خیال جگاؤ کہ عید ہے

 

زندہ دلانِ شہر سے رونق جوان تھی

محفل میں آج ان کو بلاؤ کہ عید ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

قصۂغم کی راہ کھولی ہے

دل میں اک یاد جو سمو لی ہے

فیض تیرا تو عام ہے ہر سو

پھر بھی خالی ہی میری جھولی ہے

اور تاروں سے چھیڑ چھاڑ چلی

ساتھ اک کہکشاں کی ٹولی ہے

اس کی آنکھوں سے گفتگو ہے مری

چاہتوں کی رواں جو بولی ہے

تیر سی دل میں رہ گئی آخر

سرد سی آہ اک چبھولی ہے

رات پھر خواب میں نظر آئی

بھولی بسری جو شکل بھولی ہے

منتظر جھیل نیندسے جاگی

چاند کے عکس سے جو ڈولی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

فصلِ گل پھر نکھار دے گی مجھے

گل نہیں ہیں تو خار دے گی مجھے

 

ایک عالم سکوت کا عالم۔ ۔ ۔ ۔

زندگی یوں گزار دے گی مجھے

 

ہائے ناپائیداریِ دنیا ۔ ۔ ۔

بھول جائے گی،مار دے گی مجھے

 

ڈولتی ڈوبتی ہوئی نیا۔ ۔ ۔

اس کنارے اتار دے گی مجھے

 

تیری ہی کامرانیوں کے لئے

جیتی بازی بھی ہار دے گی مجھے

 

شام امید بن کے اترے گی

خواہشوں کی بہار دے گی مجھے

 

یہ ترے ہجر کی کہانی ہے

اک سراپا وقار دے گی مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایسے آشفتہ ذات ہیں ہم لوگ

بلبلے کی حیات ہیں ہم لوگ

 

حرف لکھتے ہیں اور مٹاتے ہیں

زندگی کی صفات ہیں ہم لوگ

 

ڈھونڈتے ہیں کسی پجاری کو

کیسے لات و منات ہیں ہم لوگ

 

ہو گئی صبح شب بھلادیجے

ڈھل گئی ہو جو رات ہیں ہم لوگ

 

اپنے لہجے کو زندگی بخشیں

روشنی کی دوات ہیں ہم لوگ

 

رازِ گلشن کو جان لیتے ہیں

برگِ گل کا ثبات ہیں ہم لوگ

 

رہ روئے شوق کے مقابل ہیں

خاص صوفی صفات ہیں ہم لوگ

 

یوں پریشان حال مت رہیئے

حسنِ غم کی زکواۃ ہیں ہم لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

خاک میں یوں بکھرگیا کب کا

ساتھ دستِ ہنر گیا کب کا

 

اب کسے ڈھونڈنے کو آئے ہو

دربدر تھا وہ گھر گیا کب کا

 

جیسی گزری جنون میں گزری

دل سا وحشی سدھر گیا کب کا

 

راستے تیرے ساتھ تھے اپنے ۔ ۔

تو جو بچھڑا سفر گیا کب کا

 

ایک چھوٹی سی آرزو مہکی

دامنِ خواب بھر گیا کب کا

 

اب جو خیرات لے کے آئے ہو

سائلِ شب تھا مر گیا کب کا

 

پھر تجھے بھولنے کی خواہش کی

کام مشکل تھا کر گیا کب کا

٭٭٭

 

 

 

 

سفر کرنا اندھیروں کا ، اجالوں کا امیں ہونا

ہمیں راس آئے گا اے آسماں کیسے زمیں ہونا

 

میں گھر کے گوشے گوشے میں مناظر خود بناتی ہوں

بہت دشوار ہے وحشت زدہ گھر کا مکیں ہونا

 

ٹپک جائے نہ بن کر اشک تیری یاد کا لمحہ

ہمیں بدنام کر دیگا نگاہوں کا حزیں ہونا

 

یہ خواہش ٹوٹتی ہے ،جسم و جاں میں سانس لیتی ہے

یہی احساس ہے کِھل کر گلابوں کا کہیں ہونا

٭٭٭

 

 

 

 

 

روپ نگر کی شہزادی

 

خواب اک خواب میں جو دیکھا ہے

ہے تخیل کہانیوں جیسا۔ ۔ ۔

قصۂحسن و عشق کی تمثیل

کاکلِ شب جوانیوں جیسا ۔ ۔ ۔

گزرے وقتوں کی اک کویتا ہو

خالی محلوں میں ڈھونڈتی ہو کسے

لے کے ہاتھوں میں پیار کی زنجیر

خالی نظروں سے پوچھتی ہو کسے

نیند میں سوچتی ہوئی آنکھیں

جاگتے میں رہی جو سوئی سی

جانے کس سمت چل پڑے ہیں قدم

بھولی بسری ادا وہ کھوئی سی

جانے کیوں سکھ نہ مل سکا تجھ کو

خالی جھولی رہی وفاؤں کی

دلِ برباد جھیلتا ہی رہا۔ ۔ ۔

رت نہ بدلی کبھی جفاؤں کی

لوگ کہتے ہیں حسن کی تصویر

ایسی تصویر جو ادھوری تھی

فاصلہ رہ گیا،جو تھا دل میں

ہاتھ بھر کی فقط یہ دوری تھی

وقت کے آسمان پر جانم۔ ۔

تارے انگار سے چمکتے ہیں

یاد رکھتا ہے ان کو ایک جہاں

دامنِ عشق پر جو جلتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

زیرِ لب جسکا نام ہوتا ہے

دل میں اس کا قیام ہوتا ہے

پھر ہوا بوئے گل چرا لائی

جانیئے کیا پیام ہوتا ہے

جگنوؤں نے سجائے ہیں منظر

رات کا اہتمام ہوتا ہے

کیوں خسارے کا کام کرتے ہو

دل کا سودا حرام ہوتا ہے

زخم بن کرجو دل میں رہ جائے

کام وہ ناتمام ہوتا ہے

زندگی بھر وفا نبھائیں گے

کتنا دلکش یہ دام ہوتا ہے

تیری محفل میں بارہا آئے

سوچیئے کچھ تو کام ہوتا ہے

 

بات رہ جائے گی زمانے میں

بندہ عاجز تو عام ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم لوگ وفاؤں کی سزا مانگ رہے ہیں

انجان ہیں قسمت کی رضا مانگ رہے ہیں

اک عمر سے ہم ڈھونڈ رہے ہیں تری بستی

امید کے خوابوں کی جزا مانگ رہے ہیں

ہرچند دعاؤں کی ضرورت ہے مگر ہم

اس مرضِ محبت کی دوا مانگ رہے ہیں

جیون کی کتھا کس کو سنائیں کہ عجب ہے

بت خانۂ محمل سے خدا مانگ رہے ہیں

یہ نین کنول جھیل کے منظر میں کھلے ہیں

بے انت خموشی سے صدا مانگ رہے ہیں

سنتے ہیں بہت تیری سخاوت کے فسانے

درماندۂ دل تیری عطا مانگ رہے ہیں

کچھ اور تو مطلوب نہیں اے غمِ ہستی

برسات کے موسم سے گھٹا مانگ رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اداس رت میں خزاں کا لباس اوڑھے ہوئے

بکھر گیا کوئی مجبوریاں پروتے ہوئے

ہر ایک کاشخص کا چہرہ ہے اجنبی چہرہ

میں اس کو ڈھونڈ رہی ہوں وجود کھوتے ہوئے

ڈھلی جو شام تو صحرا میں رتجگے جاگے

شبِ فراق نے بخشے سراب ٹوٹے ہوئے

یقین و وہم کی منزل سے ماورا گزرے

میں ہوش مند رہی بختِ جاں کے سوتے ہوئے

سکون کیسے دلِ ناصبور کو آئے ۔ ۔ ۔

پلٹ کے دیکھ رہا تھا مجھے وہ روتے ہوئے

بہت دنوں سے سیاہ رنگ اک مزاج میں ہے

نہ بھائے پھول گلستاں میں رنگ ہوتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک تصویر ہے ، دیوار ہے تنہا تنہا

پھر کوئی نیند سے بیدار ہے تنہا تنہا

 

ایک چھوٹی سی تمنا ہے مری مٹھی میں

اور اک شور کا بازار ہے تنہا تنہا

 

کتنے رشتے ہیں مرے نام سے منسوب مگر

دل میں اک شورشِ اغیار ہے تنہا تنہا

 

رات بھر شمعیں جلائی ہیں ترے رستے پر

آج پھر ہجر کا تہوار ہے تنہا تنہا

 

گونجتی رہتی ہے ہر وقت تری یادوں سے

یہ حویلی کہ جو مسمار ہے تنہا تنہا

 

تتلیاں اڑتی ہیں رنگین تمناؤں کی

کون اب ان کا طلبگار ہے تنہا تنہا

 

با ادب ہم بھی کھڑے ہیں کہ تری محفل میں

خوب ہی رونقِ دربار ہے تنہا تنہا

٭٭٭

 

 

 

دلِ وحشی اگر یہ آنکھ بھر آئی تو کیا ہو گا

گزرتے وقت تجھ میں گر ہو بینائی تو کیا ہوگا

ہیولے پھر رہے ہیں خالی آنگن کے اندھیروں میں

رفاقت کاہو گر انجام تنہائی تو کیا ہو گا

جنوں میں کس قدر بے تاب دل نے انتہا مانگی

دعا کی گونج ہو کر عرش سے آئی تو کیا ہوگا

سرِمحفل بہت ممکن ہے تم سے دور ہی بیٹھیں

نظر کا کیا کریں گر تم سے ٹکرائی تو کیا ہو گا

تمھاری ملتمس آنکھیں نظرانداز بھی کر دیں

اچانک بام پر یہ زلف لہرائی تو کیا ہو گا

چراغِ دل اٹھا کر رکھ دیا ہے شام ڈھلتے ہی

کسی کی منتظر جو آنکھ پتھرائی تو کیا ہو گا

خزاں گل رنگ ہو کر گر اتر آئے شبستاں میں

بھٹکتے خشک پتوں میں ہو رعنائی تو کیا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی کو دوام اور سہی

موت برحق ہے کام اور سہی

کون ہے جو ہمیں پکارے گا

دل میں اس کا مقام اور سہی

پھر وفا یاد کر کے رو لیجئے

ایک آزردہ شام اور سہی

جل رہا ہے چراغِ دل کب سے

ہجر کا اہتمام اور سہی

لٹ گئے جان و دل محبت میں

لے رہے ہیں جو نام اور سہی

زخمِ دل پھر کبھی کریدیں گے

وقتِ رخصت کلام اور سہی

اس کی آنکھوں میں ڈوب جانے کو

زہرِ قاتل کا جام اور سہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رفاقتوں میں وفا کی گھڑی نہیں آئی

سفربخیر یہ منزل کبھی نہیں آئی

تمھارے ساتھ کا صدیوں سے منتظر ہے کوئی

کہانیوں سے نکل کر پری نہیں آئی

 

بہت سرور کے عالم میں جب بھی دیکھا ہے

خمارِ خواب میں دن بھر کمی نہیں آئی

 

بکھر کے ٹوٹ گیا مان موتیوں کی طرح

کسی کی آنکھ میں لیکن نمی نہیں آئی

 

برس رہا تھا بہت زور سے کہیں ساون

ہماری چھت پہ برستی جھڑی نہیں آئی

 

تمھارے نام سے دنیا ہمیں بھی یاد کرے

محبتوں میں یہ منزل ابھی نہیں آئی

 

بھٹک رہی تھیں نگاہیں،تلاش تھی جس کی

تمام عمر چلے ، وہ گلی نہیں آئی

٭٭٭

 

 

 

 

کس سے کہیں یہ حال جو اپنا عجیب تھا

اے چارہ ساز دل سے مرے تو قریب تھا

کچھ بھی اثر یہ زہر ہلاہل نہ کر سکا

حیران مجھ پہ کتنا ہی میرا طبیب تھا

اس بزمِ دوستاں میں کوئی بھی نہ تھا مرا

جس سے رہا خلوص،مرا ہی رقیب تھا

وہ خواب جس کا رنگ سنہری رہا سدا

میرا نہ ہو سکا وہ کسی کا نصیب تھا

وہ شخص جس نے پیار کے موتی گنوا دیئے

اسباب کا نہیں،وہ نظر کا غریب تھا

حیرت نہیں جو کرچی مرا مان کر گیا

وہ بدگمان،شہرِ وفا کا نقیب تھا

اس کی نگاہِ ناز کے سب منتظر رہے

میرا فقط نہیں وہ سبھی کا حبیب تھا

اک عمر کے طویل سفر بعد یہ کھلا

منظر جو سامنے تھا وہ صورت صلیب تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کانچ کی گڑیا

 

کانچ نازک ہیں خواب نازک ہیں

تم قدم سوچ کر اِدھر رکھنا

کھیلنے کا تجھے ہے شوق مگر

اِن چٹانوں پہ بھی نظر رکھنا

تیرے دل میں ہے آرزو کی کرن

تیری آنکھوں میں خواب ہیں کل کے

تیرے ہاتھوں میں رنگ تتلی ہیں

تیرے چہرے پہ عزم ہیں دہکے

میرے آنگن کی کانچ کی گڑیا

اپنی قسمت کا امتحان نہ لے

میں تجھے شاد دیکھنا چاہوں

تو اندھیروں کا آسمان نہ لے

دل پہ بیتی جو میں نے سہہ لی ہے

خار راہوں سے تیری چن لوں گی

تیری ہر اک خوشی عزیز مجھے

تجھ کو سنسار اک نیا دوں گی

میری گڑیا مگر یہ کہتی ہے

مجھ کو دنیا تو دیکھ لینے دو

کیا ہوا گر مجھے بھی زخم ملیں

غمِ ہستی کا وار سہنے دو

٭٭٭

 

 

 

 

کیسے پھیلی خبر ہم نہیں جانتے

اور الجھی نظر   ہم نہیں جانتے

رات دہلیز پر آ کے تھم سی گئی

ہو گی غم کی سحر ہم نہیں جانتے

چہرہے گل کی مانند نکھرہ ہوا

کس کی ہم پر نظر ہم نہیں جانتے

دھڑکنیں کون ترتیب دینے لگا؟

اے دلِ بے خبر ہم نہیں جانتے

یہ فضا،یہ ہوا اور دریچے کھلے

کون سا ہے نگر ہم نہیں جانتے

جانیئے کیا کہ ہم کو کہاں لے چلے

راستہ پر خطر ہم نہیں جانتے

بہتا دریا بہا لے گیا ساتھ میں

کیسے لعل و گہر ہم نہیں جانتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے خوابِ دلفریب گنہگار تو نہیں

دیکھا ہے نیند میں تجھے بیدار تو نہیں

دامن بچا بچا کے چلے ہیں حضور ہم

یہ مصلحت ہے اتنے سمجھدار تو نہیں

موقع ملے تو دیکھ لیں چلمن کی اور سے

ڈرتے ہیں تیرے پیار سے بیزار تو نہیں

تم خود نہ آئے ہم نے بہت راہ دیکھ لی

پھر چل پڑے کہ وقت کی رفتارتو نہیں

جتنے بھی زخم تم نے دیئے ہیں چھپا لئے

محشر اٹھائے ہم سرِ بازار تو نہں

تجھ سے بچھڑ کے مجھ کو کوئی غم نہیں مگر

دل میں کسک ہے تیرے پرستار تو نہیں

ہر سو تمھارے نام کی اک ہو پکار ہے

خاموشیوں کے راز ہیں گفتار تو نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل کا مطلق قصور ہوتا ہے

تیری چاہت کا نور ہوتا ہے

 

اک حقیقت تراش لمحے میں

زندگی کا ظہور ہوتا ہے

 

کوچ کرتا ہے سرد موسم میں

کتنا آگاہ طیور ہوتا ہے

 

کیجیئے کچھ لحاظ الفت کا

پاس کچھ تو حضور ہوتا

 

بھول پڑتے ہیں اس جگہ پہ قدم

دشمنِ جاں ضرور ہوتا ہے

 

ایک شاعر جو ہو مصور بھی

فن پہ اپنے غیور ہوتا ہے

اس کی آنکھوں میں ڈوب جانا ہی

زندگی کا سرور ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھیس میں درویش کے نقلِ مکانی کے لئے

ٹھوکریں کھائیں ہیں کتنی عمرِ فانی کے لئے

ہوش گم تھے ،لڑکھڑا کر یوں گرے ڈھلتے ہی شام

مہرباں آگے بڑھے تھے مہربانی کے لئے

دیر تک دیکھا کئے خالی سمندر ،آسماں

چاند جیسے تھم گیا تھا ضو فشانی کے لئے

ان تبسم خیز آنکھوں نے کہا ،دل نے سنا

تھی ریاضت عمر کی اس بے زبانی کے لئے

میرے گلشن کی حسیں یادوں مجھے نا چھوڑنا

صرف یادیں رہ گئی ہیں پاسبانی کے لئے

یوں سمندر میں رکھا کشکول ہے جو آج بھی

بے اماں ترسا رہا ہے بوند پانی کے لئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل دکھانے کی ہے بات

ہار جانے کی ہے بات

 

مختصر قصہ ہے جی

آزمانے کی ہے بات

 

حوصلہ کر لیجیئے

پار جانے کی ہے بات

 

ساتھ دینا ہو اگر

مان جانے کی بات

 

رنگ،خوشبو،شاعری

جی لگانے کی ہے بات

 

کس وفا کا ذکر ہے ؟

اک فسانے کی ہے بات

 

خوب ہے فصلِ بہار

جی جلانے کی ہے بات

 

تم رہے تھے ہمسفر

کس زمانے کی بات؟

 

چھیڑ دی جو راگنی

مسکرانے کی ہے بات

 

یوں ہمیں نہ دیکھیئے

جان جانے کی ہے بات

٭٭٭

 

 

 

 

دل میں ترے خیال کو پلنے نہیں دیا

خوشبو مہک رہی تھی مہکنے نہیں دیا

 

زندہ تو آج بھی ہوں زمانے کی آنکھ میں

اس کرب اور عذاب کو مرنے نہیں دیا

 

یہ شمع خود بجھی ہے دوانے کے واسطے

پروانہ محوِ رقص ہے … جلنے نہیں دیا

 

تم نے کیا تھا ہم سے ملاقات کا جو قصد

ہم خود پہنچ گئے ہیں مکرنے نہیں دیا

 

تجھ کو ہمارے حسن سے تقدیس تھی بہت

اس واسطے بہار کو ڈھلنے نہیں دیا

 

تجھ سے تو اور کچھ بھی نہ مانگا تھا زندگی

اک آشیاں کا خواب تھا بسنے نہیں دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یاد کے موسم ہوا دینے لگے

آخرش تجھ کو دعا دینے لگے

پھر وفا کا نام لے کر ہمسفر

شام ڈھلتے ہی دغا دینے لگے

وہ نوازش جو کبھی حاصل نہ تھی

اس کرم کا آسرا دینے لگے

کیا دمِ پرواز ہم سے پوچھتے

خشک پتے جو صدا دینے لگے

آنسوؤں سے بھیگتی تحریر کو

پارسائی کا صلہ دینے لگے

فطرتِ انسان ہی کا وصف ہے

جب دوا مانگی دعا دینے لگے

پھر کبھی ملنے کا وعدہ کر لیا

زندگی تجھ کو دغا دینے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہستئ جاں کا نام رہنے دے

ہم سے اتنا کلام رہنے دے

 

دستکیں دے رہا ہے دل پہ کوئی

کس کا آیا پیام رہنے دے

 

خواب میں آج اس کو دیکھا ہے

آج دن بھر کے کام رہنے دے

 

خوب ہے چاند کی نوازش بھی

حسن بالائے بام رہنے دے

 

سوچ تجھ پر ہی مرتکز ٹھہری

کام یہ صبح شام رہنے دے

 

خامشی کی صدا تمھاری تھی

کس نے بھیجا سلام رہنے دے

 

کس قدر خوب ہے فریبِ نظر

پیاس کے پاس جام رہنے دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ خدائی راز تھی الہام ہو کر رہ گئی

خاص تھی خلقِ خدا بے نام ہو کر رہ گئی

 

خالق و مخلوق کا رشتہ بہت انمول ہے

زندگی در پر ترے انجام ہو کر رہ گئی

 

بے تحاشہ یوں بکھرتی جا رہی تھی اپنی ذات

تجھ سے ہے جو راہ تیرا نام ہو کر رہ گئی

 

کس قدر دلکش حسیں لگتی تھی مجھ کو زندگی

ہو گیا ادراک جب سے دام ہو کر رہ گئی

 

ٹوٹتے تاروں کی مانند رات کو اشکِ رواں

زندگی کی شمع اک پیغام ہو کر رہ گئی

 

اے مرے معبودِ بر حق تجھ سے ہے اب آسرا

ہم سحر سمجھے جسے اک شام ہو کر رہ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

زخمِ دل کو زخم سے ہی چور رکھ

مٹ گیا جب آشیاں تو دور رکھ

 

ہر جگہ ہم مدعا کہتے نہیں

ان سے ملنے کا پتا اب طور رکھ

 

میرے آنگن کو اندھیرے بخش دے

بے صدا الفاظ کو پر نور رکھ

 

ہو نہ جائے حادثہ ڈھلتے ہی شام

اک چراغِ دل جلا بھرپور رکھ

 

کون پوچھے گا تجھے روزِ سوال

حور کے پہلو میں اک لنگور رکھ

 

مسکرا کر ہم زمانے سے ملے

اور چھپا کر درد کا ناسور رکھ

٭٭٭

 

 

 

 

گردش کبھی سکوت کا دوراں کہا گیا

ہستی کو اس جہان میں ویراں کہا گیا

 

ارمان دل میں پھوٹتی کلیوں کے خواب تھے

چہرے پہ عکس تیرا عیاں تھا جہاں گیا

 

ہے پور پور زخم سجانے کو گھر کے خواب

کانٹے سمیٹنے کو گلستاں کہا گیا

 

اس دورِ بے اماں میں ٹھکانہ تو مل گیا

افسوس گھر کہا جسے امکاں کہا گیا

 

ہم خود خفا ہیں آپ سے ،رنجور تم نہ ہو

اک خوابِ دل فریب کو ہجراں کہا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

زمیں اپن ،مکاں اپنا، جہانِ بے کراں   اپنا

جو لمحوں میں بکھر جائے گاہستی کا نشاں اپنا

لئے پھرتی ہوں ساتوں رنگ اپنی چشمِ پرنم میں

نہ دل سے محو ہو جائے برستا آسماں اپنا

یہ لغزش وقت کی کچھ اس طرح دل میں اتر آئی

مفر ممکن نہیں کہ راہزن ہے راز داں اپنا

نہیں شکوہ کوئی کہ شوق تھا صحرا نوردی کا

ہے غم کیا جو بچھڑ جائے گا میرِ کارواں اپنا

بدلتے موسموں سے کیا طلب کیجیئے وفاداری

کہ جب انجان ہے ہم سے ہمارا آشیاں اپنا

تھی منزل سامنے پھر بھی دبے پاؤں پلٹ آئے

ہماری جیت پر غمگین تھا وہ مہرباں اپنا

بہت انمول ہے یہ دل شکستہ گھر کی ویرانی

ادھورے خواب کی جائے پناہ ہے سائباں اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سورج،ہوئی جو شام سیاہی میں ڈھل گیا

کیا جانیئے کہ ہم سے جو کہہ کر وہ پل گیا

آنکھیں تلاشتی ہی رہیں عمر بھر جسے

آیا جو سامنے تو زمانہ بدل گیا

شکوے ہزار تھے جو مچلتے رہے مگر

ہر غم تمھاری آنکھ کے آگے پگھل گیا

بے خواب شب تھی اور ستارے خموش تھے

اک بے اماں ستارۂ سحری مچل گیا

 

طوفاں میں ساتھ دینے کا وعدہ کئے ہوئے

بوجھل نگاہِ یار سے بازوئے شل گیا

بحرِ سکوت،ہجر کے سائے لئے ہوئے

صد شکر ہے کہ وقت جو مشکل تھا ٹل گیا

ہر سمت راکھ پھیل چکی ہے بنامِ رنگ

غنچہ جو آرزو کا کھلا تھا مسل گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

خواب کا سلسلہ نہیں ہوتا

دل کا جب مسئلہ نہیں ہوتا

پاؤں جس پرپڑے نہ ہوں تیرے

وہ مرا راستہ نہیں ہوتا۔ ۔

دن گزرتا نہیں مرا اس دن

جب ترا سامنا نہیں ہوتا

پھر تجھے بھولنے کی کوشش میں

یاد اپنا پتا نہیں ہوتا۔ ۔

۔ کتنی ویران ہستیء جاں ہے

دن ڈھلے سانحہ نہیں ہوتا

رات تنہا گزارنے کے لئے

چاند کا قافلہ نہیں ہوتا

سو ہی جاتے ہیں تیرے تیرہ نصیب

رات بھر رت جگا نہیں ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تو جسے چھو کے گزر جائے امر ہو جائے

قریۂ دل کے مسافر کو خبر ہو جائے

 

یوں سرِبام ہی ٹوٹے گا ستاروں کا فسوں

میری پلکوں کا جو تارا ہے قمر ہو جائے

 

اک سفر ہے کہ جو درپیش رہا ہے دل کو

ایک منظر ہے جو آنکھوں میں امر ہو جائے

 

منتظر ہیں کہ بہار آئے تو احوال کہیں

بات جو دل میں چھپی ہے وہ خبر ہو جائے

 

کاش اک معجزہ ہو شام سے پہلے پہلے

اور پھر چاند کا جھیلوں سے گزر ہو جائے

 

رات خاموش ہے گزرے ہوئے منظر کی طرح

استعارہ ہے خموشی کا سحر ہو جائے

 

دل ہے شیشہ کہ تری بات ہے ہیرے کی انی

تیری ہر بات کا اس دل پہ اثر ہو جائے

 

ڈھونڈ کے لائیں کہاں شہر میں سکھ کا سایا

اس کڑی دھوپ میں تو میرا شجر ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل جو جذبات سے ہی عاری ہے

چوٹ شاید بہت ہی کاری ہے

 

کون کب کس طرح عدم کو چلے

کون جانے کہ کس کی باری ہے

 

کاروبارِ حیات تھم نہ سکا۔ ۔ ۔

سلسلہ زندگی کا جاری ہے

 

موت کو پاس سے جو دیکھا ہے

ایک ہیبت سی دل پہ طاری ہے

 

ایک رشتہ سنبھالنے کے لئے

مان کیا،زندگی بھی ہاری ہے

 

خوں رلائے گا پیار کا بندھن

دل پہ جو بوجھ ہے وہ بھاری ہے

 

کتنا آساں تھا بھولنا لیکن

شکل تیری مگر جو پیاری ہے

 

کتنے ارماں سے بیج بوئے ہیں

منتظر بارشوں کی کیاری ہے

 

ہر ستارے سے گفتگو ہے مری

رات بھر جاگ کر گزاری ہے

 

پھوٹ پڑتا ہے درد کا چشمہ

پتھروں کا جو دل پجاری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

گھر لوٹ کے جائیں گے تو پائیں گے اماں بھی

آنکھوں کی تھکن کرنے لگی راز عیاں بھی

 

یوں دل نہ بہاروں سے لگاؤ کہ سنا ہے

رستے میں محبت کے ہے اک عہدِ خزاں بھی

 

گر تجھ سے الجھتی ہیں نگاہیں تو برا کیا؟

اس دل میں تری چاہ کا رہتا ہے گماں بھی

 

بدلے ہوئے موسم کو کوئی جا کے بتائے

نظروں کے بدلنے سے بدلتا ہے سماں بھی

بارش میں نہ بہہ جائے مرا کچا گھروندا

بکھرا ہے جو اس بار یہ خوابوں کا نشاں بھی

اب کون وفاؤں کا طلبگار یہاں ہے

اس دل سے ندارد ہے جو احساسِ زیاں بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

سفر کرنا اندھیروں کا،…اجالوں کا امیں ہونا

ہمیں راس آئے گا اے آسماں کیسے زمیں ہونا

 

میں گھر کے گوشے گوشے میں مناظر خود بناتی ہوں

بہت دشوار ہے وحشت زدہ گھر کا مکیں ہونا

 

وہ سارے دکھ جو اپنی مسکراہٹ میں چھپائے ہوں

ہمیں خود بھی نہیں معلوم اُن کا جاگزیں ہونا

 

ٹپک جائے نہ بن کر اشک تیری یاد کا لمحہ

ہمیں بدنام کر دے گا نگاہوں کا حزیں ہونا

 

یہ خواہش ٹوٹتی ہے ،جسم و جاں میں سانس لیتی ہے

یہی احساس ہے کھل کر گلابوں کا کہیں ہونا

 

یہ منظر ریت کے ساحل پہ موتی بن کے بکھرے ہیں

فنا ہو جائے گی جو زندگی اُس کا یقیں ہونا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہی ان کہی….

 

 

کرو تم بھی کوئی وعدہ

کوئی عہدِ وفا کر لو

جو ممکن ہی نہ ہو

ایسا کوئی اقرار تو کر لو

یقیں اور بے یقینی میں

نہیں اب فرق کوئی بھی

کرو قول و قرار ایسا

جو جھوٹا ہو نہ سچا ہو

…. مگر اک آس دے جاؤ

کہ ہم اب تک تمھاری یاد میں شمعیں جلاتے ہیں

اندھیری رات میں جگنو وفا کے

.   …… پاس آتے ہیں

خیال و خواب کی منزل

حقیقت سے ذرا پہلے

منعکس ہو کے گم ہو جائے گی

اک ان کہی بن کر

فقط ٹوٹا ہوا تارا

بجھا انگار ہو جیسا

جسے میں بند کر لوں

اپنی مٹھی میں چھپا رکھوں

یہی ٹوٹا ہوا تارا

یہی بھولی ہوئی منزل

مجھے رستہ دکھائے گی

اندھیری راہ گزاروں میں

نئے منظر بنائے گی

. کوئی اقرار تو کر لو

جو جھوٹا ہو نہ سچا ہو…….!!

٭٭٭

 

 

 

 

منوں ریت تلے ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

میں جو سوئی ہوں منوں ریت تلے

کاش تو جان سکے شام ڈھلے

میری آنکھیں تری آہٹ پہ لگی رہتی ہیں

میرا آنچل میری ترسی ہوئی بے کل ہستی

میری ممتا تری راہوں میں بچھی رہتی ہے

میں بہت خوش ہوں تجھے دیکھ کے اے دل کے قرار

تیرے چہرے کی چمک آج بھی تابندہ ہے

تیرے لہجے میں مرا عکس ابھی زندہ ہے

میں جو سوئی ہوں منوں ریت تلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آج تو نے جو مجھے پھولوں کی چادر دی ہے

میری ترسی ہوئی دنیا میں بہار آئی ہے

شام مہکی ہے معطر سی گھٹا چھائی ہے

کاش تو جان سکے اے مرے دل کے ٹکڑے ۔ ۔ ۔ ۔

میں جو سوئی ہوں منوں ریت تلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تجھ پہ اب ہے قرض ہے ان زخموں کو سہلانے کا

میری ناکام امنگوں کا اکیلا آنگن

تجھ سے بہلے گا، نہیں اور کوئی آنے کا

میری آنکھوں کے دیئے میری وفاؤں کا سحر

تجھ کو ہر بار مرے پاس لئے آئے گا

ساری دنیا تجھے جانے گی مرے ہونے سے

میرا پرتو تری ہستی میں اتر جائے گا

کاش تو جان کے اے مرے دل کے ٹکڑے ۔ ۔۔ ۔

میں جو سوئی ہوں منوں ریت تلے ۔ ۔ ۔۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

شام غزل میں ہوش تھے بے باک کیا کریں

بحر سخن کے ہم بھی تھے تیراک کیا کریں

 

صد روکنے کے بعد بھی لوٹ آئے شوق سے

یہ حسرت جمال ہے سفّاک کیا کریں

 

اک شمع کیا بجھی کہ اندھیرا سا چھا گیا

دیکھے گا کون دامن صد چاک کیا کریں

 

ہم سادہ لوح لوگ بہت دور رہ گئے

غم کچھ نہیں زمانہ تھا چالاک کیا کریں

 

آنسو تو ہم نے آنکھ سے لوٹا دے مگر

کھولے ہے راز دیدہ نمناک کیا کریں

 

ہر موڑ ہر ،گلی پہ ترا واہمہ لگا……

پہنی ہے تیری یاد کی پوشاک کیا کریں

٭٭٭

 

 

 

 

نہ توڑو زندگی رشتہ جہاں سے

ملے گا پھر کوئی ساتھی کہاں سے

 

جفا ئیں ہوں کہ دکھ رکھ لو خوشی سے

کہ بہتر ہیں یہ عمرِ رائیگاں سے

 

بہاروں سے نہ اتنا دل لگاؤ

کہ وحشت ہو چلے تم کو خزاں

 

وہ منظر ریت کے ساحل میں گم ہیں

یہی امید تھی آبِ رواں سے

 

یہ آنکھیں غم سے بوجھل ہو چلی ہیں

اتر آئے مسیحا آسماں سے

 

مری خاموشیاں مجرم بنیں ہیں

سبب ہوگا ادا کیسے زباں سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خشک ہونٹوں سے حرفِ دعا لے گئی

بجھ گیا اک دیا۔۔ اور ہوا لے گئی

 

کن فضاؤں میں تم ڈھونڈتے ہو مجھے

میں جو نابود تھا اور فنا لے گئی

 

دل ٹھہر نہ سکا اور بہل نہ سکا

چین سکھ تیری رنگیں ادا لے گئی

 

کس قدر عمر گزری ریاضت رہی

موت آئی بہ راضی رضا لے گئی

 

ایک لغزش ہی تھی،ہو گئی کیا کریں

عمر بھر کا سکوں اک خطا لے گئی

 

شب ڈھلے آ کے سائل نے دی ہے صدا

کون آندھی تھی دستِ عطا لے گئی

 

کس قدر سرد رو جیسی آواز ہے

تیرے لہجے سے جامِ وفا لے گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے غمِ دل یوں ہمیں برباد کر

بال و پر جب چھن گئے آزاد کر

کون ٹھہرا کس کے در پر کیا خبر

آ گیا گھر اس کا اب فریاد کر

سوچ پر پہرے بٹھا کر سوچ لے

زندگی میں مرگ کو صیاد کر

مٹ گیا بستی کا نامِ بے اماں

اب یہ کہتے ہو وطن آباد کر

ہم سفر منزل پہ کیوں ہو اجنبی

راستے کی دھول کو بھی یاد کر

کھو گیا ہر خواب اور تیرا خیال

کیوں یہ کہتے ہو نظر ایجاد کر

میری آنکھوں نے کیا ہے اک سوال

بے صدا لفظوں کی کچھ امداد کر

کس طرح تعمیر ہو اب زندگی

دل میں جو آ جائے بے بنیاد کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مثل ملتی نہیں نظیروں میں

ہیں جو درویش ہم فقیروں میں

 

ساری دنیا تیاگ دی ہم نے

ہو گئے ہیں جو ہم امیروں میں

 

بات برچھی تھی روح زخمی تھی

پھر بھی زندہ رہے ہیں تیروں میں

 

رو دیا ہاتھ پڑھنے والا بھی

جانے کیا پڑھ لیا لکیروں میں

 

تیری آواز دے رہی ہے صدا

یاد کے بے کراں جزیروں میں

 

بیچ ڈالا سکون بستی کا

کون غدار تھا وزیروں میں

 

اب نہ پچھتائیے بھلا کے اسے

دل بھی شامل رہا مشیروں میں

 

بات خوشبو ہوا کے ہاتھ چلی

حسن اب تک رہا اسیروں میں

 

داعیِ امن ہیں زمانے میں

پیار کا روپ ہیں سفیروں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہوتا

جاتے جاتے جو ہمیں اس نے پکارا ہوتا

آس کے پھول مہکتے ،نہ ہی امید کے خواب

مدتوں بعد نہ زلفوں کو سنوارا ہوتا

فکر تو یہ ہے کہ اب خود ہی چکانا ہوگا

قرض جو جان پہ واجب ہے اتارا ہوتا

بے کلی پھر وہی دل کی ہے ،وہی دامِ قفس

اس تلاطم کا کوئی کاش کنارا ہوتا

کن خلاؤں میں سفر کرنے لگے ہیں ہم تم

عمرِ رفتہ کا کوئی نقش ابھارا ہوتا

گر کوئی تھی نہ خوشی،دکھ ہی میسر ہوتے

ساتھ رہنے کا کسی طور تو یارا ہوتا

 

بھولنے والے اگر غور کیا ہو تو نے

میری آنکھوں میں ترے غم کا ستارا ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ستم کی رات کوئی ماہ تاب لا دیجے

اگر ہمارا کوئی ہے جواب لا دیجے

تیاگ دیں سبھی خوشیاں تمھارے کہنے سے

گزر گیا ہے جو میرا شباب لا دیجے

زمانے بھر سے چھپانا ہے حالتِ دل کو

ہماری آنکھ کو کوئی نقاب لا دیجے

جو کھو گیا ہے مری آنے والی نسلوں سے

وہی تکلمِ با صد حجاب لا دیجے

میں رقص کرتی چلوں چال پر ستاروں کی

بھلا دے جو غمِ ہستی شراب لا دیجے

جو سیکھنا نہ پڑے زندگی کی راہوں میں

جو جھیلنا نہ پڑے وہ عذاب لا دیجے

وہ بچپنے کے تخیل،وہ چاندنی راتیں

گزشتہ عمر کے رنگین خواب لا دیجے

ہنر میں سیکھ لوں خاموش کج ادائی کا

مرے حبیب مجھے وہ نصاب لا دیجے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو ممکنات کی منزل گزر گئی ہو گی

تو دل میں درد کی ساعت ٹھہر گئی ہوگی

وجود پیاس کے پیالے میں جل رہا ہوگا

اندھیری رات اجالے سے ڈر گئی ہو گی

قرار آ ہی گیا دل کی بے قراری کو

چڑھی ہوئی تھی جو ندی اتر گئی ہوگی

ہے عکس موسمِ گل میں تمھاری آہٹ کا

جہاں جہاں تجھے ڈھونڈانظر گئی ہوگی

یہ کیسا کہر سا چھانے لگا فضاؤں میں

پکارتے ہوئے ہر سو سحر گئی ہو گی

بہت اداس ہیں، آجاؤ دل دکھانے کو.

.اکیلی شام بہت بے اثر گئی ہو گی

٭٭٭

 

 

 

 

آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

جانے کس دہر سے آیا ہے یہ طوفان بلا

یہ جو طوفان کہ اس میں ہیں کھنڈر خوابوں کے

ٹوٹتے خواب ہیں دھندلی سی گزر گاہوں کے

ان کہی کوئی کہانی ،کوئی جلتا آنسو

آ کے دامن پی ٹھرتا ہوا بے کل شکوہ

چپ سی سادھی ہے مرے بت نے ………

مگر آنکھوں میں …..

مرے ہر تاج محل کی ہے حقیقت واضح

جس میں رہتی ہے وہ شہزادی جسے قدرت نے

دل دھڑکتا ہوا بخشا ہے بدن پتھر کا

میں نے دیکھا ہے کہ وہ رات کے اندھیاروں میں

اپنے خوابوں کے محل خود ہی جلا دیتی ہے

اپنے ٹوٹے ہوے پر خود ہی چھپا دیتی ہے

اپنے اشکوں کے دیے خود ہی بجھا دیتی ہے

خود ہی اپنے لئے لکھتی ہے سزاؤں کی کتاب

اپنے ہاتھوں سے چھپا دیتی ہے زخموں کے گلاب

آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

آج لرزش سی ہے پیروں میں ،تھکن سانسوں میں

کرچیاں چبھنے لگی ہیں جو میری سانسوں میں

آج لازم ہے ک چپ چاپ گزر جائے شام

کوئی آہٹ ہو نہ دستک ، نہ ہی چھلکے کوئی جام

آج آئینے سے کترا کے گزر جانا ہے

آج شب گھور اندھیرے میں اتر جانا ہے

پھر نیا دن نئی مسکان جگا لائے گا

شب کا طوفان کناروں سے اتر جائے گا

آج لگتا ہے سمندر مے ہے طغیانی سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چاند کے گرد یہ جو ہالہ ہے

اے غمِ دل تجھے سنبھالا ہے

لہر بے چین سی ہوئی ہے کیوں

ایک موتی جہاں نکالا ہے

ایک اک حرف یوں چمکتا ہے

طشت میں موتیوں کی مالا ہے

راستے بند ہیں تقابل میں

سامنے رنجشوں کا جالا ہے

کس کا اب انتظار ہے تم کو

کوئی بھی اب نہ آنے والا ہے

کیوں ڈراتے ہو جی بھنور سے ہمیں

ہم کو طوفان نے ہی پالا ہے

جھیل کا ارتعاش تھم نہ سکا

یادِ ماضی کا ذکر ڈالا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب بہار آئی تو فصلِ باغباں دیکھا کئے

بادلوں میں رنگ بھر کر آسماں دیکھا کئے

 

لڑکھڑا کر ہم گرے تو دور تک کوئی نہ تھا

بے بسی سے دور تک اک مہرباں دیکھا کئے

 

اے مرے معبودِ برحق تو ہی سنتا ہے صدا

کس تردد سے یہاں ہم یہ جہاں دیکھا کئے

 

ہم سے ملنا اور بچھڑنا کھیل لگتا ہے تمھیں

اک تعلق ساز لمحہ درمیاں دیکھا کئے

 

پھر اُڑانیں بھرنے والے ان پرندوں کی طرح

ہم سفر کو اور کبھی یہ آشیاں دیکھا کئے

 

لٹ گیا اسباب سارا اور خبر تم کو نہیں؟

کس نظر سے تم ہمیں اے پاسباں دیکھا کئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بدل گئی ہیں نگاہیں، بدل گیا موسم

سراب جھیلنے والے کی پیاس ہے شبنم

 

ہوئی ہو مات جسے عمر بھر کے سودے میں

خسارہ کیا ہے اگر تو بھی ہو رہے برھم

 

بجھا ہوا تھا وہ چہرہ تھکی تھکی سانسیں

کہ جیسے گھر کے اندھیروں میں اک دیا مدھم

 

برس رہی تھیں وہ آنکھیں کہ مسکرا اٹھیں

کہ جیسے دھوپ میں قوس و قزح کا ہو سنگم

 

تری ہنسی کی کھنک گھل گئی ہے بارش میں

ہر ایک بوند میں بجنے لگے ہیں سر سنگم

٭٭٭

 

 

 

 

 

ماہِ امید

 

ایک امید کا دیا تنہا…..

جب اندھیرے میں گھر بناتا ہے

کس قدر آس اور امنگوں سے

اپنے ہونے پہ مسکراتا ہے

جانیئے کیا کہ بے خبر ہے وہ

اِس ستم کی اندھیری چالوں سے

اس اماوس کے پار کون گیا

کون لایا خبر اجالوں سے

ایک امید کا دیا تنہا

جب ہمکتا ہے میرے دامن پر

کس قدر درد دل میں اٹھتا ہے

اس کے روشن سجیلے نینن پر

روشنی گر نہ دے سکی اس کو

میرا وعدہ ہے راستہ دوں گی

ان گھنے جنگلوں کی سرحد تک

جانے والوں کا نقشِ پا دوں گی

ایک امید کا دیا تنہا…

میرے آنگن میں جھلملاتا ہے

اس کی مدھم سی روشنی میں مجھے

اس کے ہونے پہ پیار آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نمازِ شکر سے پہلے خبر نہیں کرنا

اے میرے دوست مجھے دربدر نہیں کرنا

کہا نا تھا کہ سرِ شام لوٹ آنا تم

اندھیری رات میں تنہا سفر نہیں کرنا

ہمارے ے گھر کے دریچوں پہ رات ٹھہری ہے

کہ اس مکان میں آنا تو گھر نہیں کرنا

جو ہم نے راستہ بدلا تو گھر نہ لوٹیں گے

کہ اب نصیب میں لکھا ہے گھر نہیں کرنا

سہج سہج کے ہر اک خواب کو سجایا ہے

ہماری چاہ کو زیر و زبر نہیں کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مجرم

 

ہم کہ مجرم ہیں تری یاد بھلا دی ہم نے

اپنی پلکوں پہ نئی صبح سجا لی ہم نے

یوں ہی ہوتا ہے زمانے میں کہ جب دیوانے

کسی چاہت بھری دہلیز پہ سر رکھتے ہیں

ایک دنیا تری چاہت میں بھلا کر ناداں

کھوٹے سکوں کی تجارت کا بھرم رکھتے ہیں

وقت کے ساتھ یہ بے نام سے بوجھل رشتے

ساحلِ زیست سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں

نئی دنیا ،نئی چاہت کی مہک کو پا کر

زخم سب تیری جدائی کے سنور جاتے ہیں

ہم کہ مجرم ہیں تری یاد بھلا دی ہم نے

اپنی پلکوں پہ نئی صبح سجا لی ہم نے

٭٭٭

 

 

 

 

باغ میں کھل رہی ہے اک کونپل

 

باغ میں کھل رہی ہے اک کونپل

کہہ دو مالی سے دیکھ بھال کرے

سرخ سا آسمان لگتا ہے

آندھیوں کا ذرا خیال کرے

زندگی ٹوٹ پھوٹ جائے گی

بے ارادہ نہ کچھ کمال کرے

باغ میں کھل رہی ہے اک کونپل

روشنی سے کہو کہ پاس رہے

سانس کی ڈور ہے بہت نازک

اے صبا تھم کے دم شناس رہے

موجِ ہستی سے مانگ کر دو پل

زندگی بھر نہ یوں اداس رہے

باغ میں کھل رہی ہے اک کونپل

اس کو حق ہے کہ وہ پھلے پھولے

کاروبارِ حیات سے کہہ دو

اپنے خالق کا حکم مت بھولے

ہر کلی جو نمود پاتی ہے

پھول بن جائے اور ہوا چھولے

باغ میں کھل رہی ہے اک کونپل

٭٭٭

 

 

 

 

وفا آغاز کرنا، زندگی انجام کر دینا

بہت آساں نہیں یہ دل کسی کے نام کر دینا

مٹا دینا ہمارا نام اپنے دل کے کوچے    سے

کبھی اترو جو اپنے دل میں اتنا کام کر دینا

مہ و انجم کی محفل میں ہماری یاد گر آئے

ستارہ ڈھونڈ لانا اور پھر بے نام کر دینا

لیا ہے جوگ ہم نے جنگلوں میں آ بسے جانم

دلِ وحشی کو آساں ہے سحر سے شام کر دینا

تری آنکھوں کی جنبش سے ہی دل کو ٹوٹ جانا تھا

کہ عادت ہے ہمیں ہر زخم اپنے    نام کر دینا

٭٭٭

 

 

 

 

 

عمرِ رواں نہ چھیڑ بہت ہم اداس ہیں

کوئ جسے سمجھ نہ سکا وہ قیاس ہیں

 

محروم ہے یہ خانۂ دل ان کی چاہ سے

اغیار کے لئے جو محبت کی آس ہیں

 

وہ دن بھری بہار میں کمھلا کے رہ گئے

ہجر و فراقِ یار ہی اس دل کو راس ہیں

 

موسم بدل رہا ہے ہواؤں سے پوچھ لو

میرے دل و نگاہ زمانہ شناس ہیں

اتنے قریب ہیں کہ ہمیں جانتے نہیں

کس نے یہ کہہ دیا وہ ہمارا لباس ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اک قصۂ پارینہ دھندلا سا ہے آئینہ

گنجینۂ گوہر ہے یادوں سے بھرا سینہ

 

کیوں آنکھ چراتے ہیں ملتے ہیں جو محفل میں

اک وقت میں اپنے تھے یہ ہمدمِ دیرینہ

 

بہتا ہوا پانی بھی تھم جائے جنبش سے

چھیڑو نہ کوئ نغمہ خاموش ہے سازینہ

 

اک کن کی صداؤں میں مدہوش غمِ ہستی

ہم رقص مہ و انجم چھلکے ہیں مے و مینا

 

آنکھوں میں لئے وحشت ساحل سے اُلجھتے ہیں

طوفانوں کی چا ہت میں مرنا بھی ہے اب جینا

 

اک قصۂ پارینہ ہے دھند کے رستے میں

تا حدِ نظر دیکھوں تخلیق کا آئینہ

٭٭٭

 

 

 

 

پانی پہ سفر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

تنہائ میں گھر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

اک خواب کا قیدی ہے ، ہو سیب کا گھر جیسے

قطرے کو گوہر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

طوفان کی چاہت تھی اس دشتِ خراباں میں

ہر لہر کو سر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

ہیرے کا جگر اس کا ، تھا پھول سا دل اپنا

اس دل پہ اثر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

زنجیر تھی پیروں میں ، ہر خواب پہ پہرے تھے

پھر اپنی خبر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

معصوم سی خواہش تھی ، اک پیار کا گھر اپنا

اک گل کو ثمر کرنا مشکل تو لگا ہم کو

٭

ماخذ:

https://www.facebook.com/shaista.m.farrukh/notes

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید