FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

شاد عارفی کی نظمیں

 

 

               ترتیب: ڈاکٹر مظفر حنفی

 

             ’’شادؔ عارفی نے اپنی نظموں میں بیانیہ پیرایہ اختیار کرنے کے بجائے ڈرامائی، مکالماتی اور تمثیلی انداز اختیار کیا ہے۔ بعض نظمیں مختصر افسانے کی تکنیک میں لکھی گئی ہیں۔ ان نظموں میں شادؔ نے اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے کسی نہ کسی کردار کو پیش کر دیا ہے اور اس کی تصویر ، اس کے عمل اور اس کی گفتگو کے ذریعے ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ بعض اوقات ایک ہی نظم میں کئی کئی کردار عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی تو انھوں نے یہ کمال کیا ہے کہ ایک ہی مصرعے کے اندر دو دو اور تین تین کرداروں کے مکالمے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٹی، ایس ، ایلیٹ نے شاعری کی تین آوازوں کا ذکر کیا ہے ان تینوں آوازوں کا ایک ہی نظم میں اجتماع بہت مشکل کام ہے۔ شادؔ نے اُردو نظم میں یہ کام کر دکھایا ہے۔ ‘‘

             (خلیل الرحمن اعظمی: اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک۔ ص ۱۰۸)

 

سلام بحضور سُلطانِ مدینہؐ

السّلام علیک یا شمس الضّحیٰ

السّلام علیک یا بدر الدّجیٰ

السّلام علیک یا نور الہدیٰ

السّلام علیک یا فخر الامیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

السّلام علیک یا شاہِ عرب

السّلام علیک یا طٰہٰ لقب

السّلام علیک یا قرشی حسب

السّلام علیک خیر العالمیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

السّلام  اے نیک خواہِ بیکساں

السّلام اے مدّعائے انس و جاں

السّلام اے راز دارِ این و آں

السّلام اے حاصلِ دنیا و دیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

السّلام اے شافعِ روزِ جزا

السّلام اے رحمت و فضلِ خدا

السّلام اے حاتمِ عفو و عطا

السّلام اے سالکِ عرشِ بریں

السّلام علیک ختم المرسلیں

وجہِ موجوداتِ عالم السّلام

خلق و ایثارِ مجسّم السّلام

بوئے گلشن، رنگ و شبنم السّلام

السّلام اے ذوقِ عرفان و یقیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

ہم غریبوں کے نگہباں آپ ہیں

واقفِ حالِ پریشاں آپ ہیں

حاملِ تائیدِ یزداں آپ ہیں

السّلام اے دستگیرِ مذنبیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

آپ جب ہم کو ہراساں پائیں گے

کیوں نہ تکلیفِ کرم فرمائیں گے

ہم نشینِ سنگِ در بن جائیں گے

چُوکتے ہیں آپ کے سائل کہیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

ہر اندھیری رات ٹھہرے چاند رات

آپ کے نزدیک معمولی سی بات

امّتِ عاصی پہ چشمِ التفات

ڈس رہے ہیں دل کو مارِ آستیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

یہ توقع ہے خدا کی ذات سے

آپ کا دامن نہ چھُوٹے ہات سے

گھٹ بھی جاتا ہے کبھی دن رات سے

کیا یہی حالت، نہیں ایسا نہیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

مل چکے اشکوں کے موتی خاک میں

آ برو ہے پردۂ صد چاک میں

آ گیا حالات سے دم ناک میں

آسماں کا ساتھ دیتی ہے زمیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

در پئے ایذا کئی شیطان ہیں

شوق بے جا ہے، غلط رجحان ہیں

اور پھر یہ بھی کہ ہم انسان ہیں

الغیاث اے ناظمِ دنیا و دین

السّلام علیک ختم المرسلیں

ڈگمکاتے ہیں قدم، شاہا مدد

ہیں کڑی منزل میں ہم، شاہا مدد

کفر و طغیانِ ستم، شاہا مدد

غیر کے در پر نہ جھک جائے جبیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

حسب منشائے خدائے کن فکاں

آپ جو چاہیں نہ ممکن ہو کہاں

بھیجیے وہ انقلابِ گل فشاں

ہو جو اسلام و شریعت آفریں

السّلام علیک ختم المرسلیں

 ’’خسروِ تادیب‘‘ و شاہِ در گزر

ہم خطا کاروں پہ شفقت کی نظر

خود بخود آ جائیں سیدھی راہ پر

ہو عطا تمئیزِ زہر و انگبیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

اے شہِ بطحاؐ ، رسولوں کے رسول

صدقۂ شاہِ شہیدان و بتول

التماسِ عفوِ لغزش ہو قبول

ساتھ ہی احساسِ عزمِ کارِ دیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

٭٭٭

سلام

 ’’ ضریح شاہِ شہیداں ‘‘ کا احترام کرو

مزارِ پاک کا نقشہ سہی، سلام کرو

بہ پاسِ عشرہ و چہلم، نہ شغلِ جام کرو

لحاظِ اصغرِ معصوم و تشنہ کام کرو

مزاجِ دہر ابھی نا شناسِ ماتم ہے

رموزِ ماتمِ خاموش اور عام کرو

عذابِ شمر کے شعلوں پہ تیل کی صورت

 ’’ متاعِ اشکِ الم‘‘ صرفِ انتقام کرو

__________

پئے شمولِ اقلیّت بہتّر تن

جہادِ سرزنشِ بیعت حرام کرو

معاویہؓ کا وہ بیٹا، یہ فاطمہؓ کے لال

 جو تم پہ ہو تو بتاؤ کسے امام کرو

__________

جو تم نے حضرتِ عبّاس پر بہائی تھی

وہ آنسوؤں کی ندی نذر صبح و شام کرو

سرودِ عیش میں عیدیں گزارنے والو

خلوصِ ماہِ محرّم نہ غرقِ جام کرو

عَلم اُٹھا کے بڑھو ظلمتوں کے لشکر پر

حصولِ مقصدِ کرب وبلا میں کام کرو

حدودِ ہوش میں ہوتا ہے نقد ماتم پر

رہیں نہ ہوش ٹھکانے تولاکلام کرو

اگر ہے عابدِ بیمار سے عقیدت شادؔ

تو اہلِ بیت کی خدمت کا اہتمام کرو

٭٭٭

 

شادی کے بعد

جوش ، جوانی، جھلکی الفت، قاصد، کوشش، منگنی، بیاہ

شادی تک ہی سب افسانے پھر ہستی کی سیدھی راہ

آغازِ عشرت پر گویا اب کوئی افتاد نہیں

شادی ایسا باغ کہ جس میں بلبل ہوں صیّاد نہیں

بھوکا ننگا کوئی نہیں ہے، راجہ اِندَر کا سا دیش

یکساں نرخِ نخود و گندم، چیزیں مہنگی بیش از بیش

دولھا دلہن ماہِ عسل منانے کو آتے ہیں یہاں

جس کی گلیاں گرد آلودہ، شہہ راہیں فردوس رساں

دِق کی ماری آبادی سے دُور ’’ سول لائن کا روپ‘‘

جیسے کالی کسبی کے منہ پر ’’ پوڈر کی ڈھلتی دھوپ‘‘

 ’’ ساس نند‘‘ گالی گفتاری، اس جنّت کی رسم نہیں

لٹّھے ململ کا خمیازہ جُز ’’کمبخت و بشم‘‘ نہیں

دیسی چھ بچّوں کا باوا پاتا ہے پندرہ ہر ماہ

مغرب زادے بانجھ بنجھوٹوں کو بارہ سو کی تنخواہ

اس کوپسلی، اس کی آنکھیں ، اس کو جاڑا، اس کو دست

شہری اپنے حال پہ گریاں اور بدیشی جوڑے مست

توبہ! دھیان کدھر جا پہنچا، ہاں تو جب رچ جائے بیاہ

پاتے ہیں انجام فسانے پھر ہستی کی سیدھی راہ

٭٭٭

 

بہتان

ابھی شوروم جس نے چھوڑا ہے

شعر ہے بہترین جوڑا ہے

ان کا بچہ اگر نگوڑا ہے

اپنی دوہار پر گیا ہو گا

اپنی ننہار کی خطا ہو گا

کیچلی جھاڑ کر بڑا ہو گا

بد نما جِلد میں بھلے اشعار

کیوں سمجھتے ہو قسمتِ عطّار

آپ اور چشمِ نقد؟ اے زنہار

یہ ملازم کی بات رہنے دو

ہے ’’ترقی پسند‘‘ کہنے دو

سب کو جِنسی دباؤ سہنے دو

حکمتاً  مو شگاف ہوتے ہیں

دِن اُمیدوں کے صاف ہوتے ہیں

یعنی ماحول باف ہوتے ہیں

ریچھ کی کھال فرشِ کاشانہ

ایک بل ڈاگ ’’ فحش دستانہ‘‘

یا کوئی ہولناک افسانہ

ہائے بنگال، دیکھنا ساراؔ

ماں سے چمٹا ہے بھوک کا مارا

ہار ہے ہڈیوں کا بیچارا

عین پورب میں’  جبکہ آئے شرم‘

تھا منی پڑ گئی ہو ’’گرتی فرم‘‘

ضربِ آب و ہوا سے’  پنڈا گرم‘

وضعِ منظر ہے لا شعور پہ دال

عکس لیتا ہے مضغۂ نقال

وہم کوسوجھتی ہے گندی فال

٭٭٭

 

دسہرا اشنان

اے شادؔ آج صبح زمانے کے واسطے

پُروا سنک رہی تھی سُلانے کے واسطے

یہ نظم آئی مجھ کو جگانے کے واسطے

چادر نسیمِ منظرِ فطرت نے کھینچ لی

آنکھوں سے نیند سیر کی عادت نے کھینچ لی

بستر چُبھا سمٹ کے اُٹھانے کے واسطے

بے اختیار اُٹھ کے چلا میں۔ ۔ ۔ ۔ کِدھر؟ اُدھر

دیوانہ وار اُٹھ کے چلا میں۔ ۔ ۔ ۔ کِدھر؟ اُدھر

جاتی تھی وہ جدھر کو نہانے کے واسطے

اس پُل پہ جس پہ مل کے گزرتے ہیں راستے

دریا عبور کر کے بکھرتے ہیں راستے

روکا ہے ’’ اس کی‘‘ راہ دکھانے کے واسطے

چلتا ہوا، ہجوم ہے سیلاب کم خروش

آنکھوں میں کیفِ عزمِ پرستش‘ زباں خموش

جیون پوترتا میں سجانے کے واسطے

حُسنِ نظر نواز بھی جنسِ فضول بھی

شمشادِ نو نہال بھی، بوڑھے ببول بھی

انجامِ کشتِ عُمر بتانے کے واسطے

دس بیس ان میں آنکھ مچولی کے رات دن

چھ سات چھُپ کے ہاتھ نہ آنے کے سال و سِن

دو چار منتظر چھوئے جانے کے واسطے

مندر کے رو برو یہ پرستانِ خوش خرام

ہے جس میں پیش پیش مری شوخیِ کلام

کوشش میں اپنی جان جتانے کے واسطے

اب پاس آ چکی ہے یہ تمثیلِ کہکشاں

اب مجھ کو پھانستا ہے یہ انبوہِ مہ وشاں

میری نظر سے لطف اُٹھانے کے واسطے

سر ڈھک لیے گئے تو ہوئیں ساریاں درست

سینوں پہ سلوٹوں کو پریشاں ، لباس چست

ہر’  کوندنی‘ پہ ہاتھ گھمانے کے واسطے

گھُٹنوں کو جھول دے کے چھپائی ہیں پنڈلیاں

پھر بھی نظر نوازیِ ساقِ غزل فشاں

مضمونِ بے پناہ سُجھانے کے واسطے

جس کے لبوں پہ شرحِ تبسم ، وہ مثنوی

جس کی جبیں پہ قشقۂ ابہام بے رخی

کہتی چلی ہے گھاٹ پہ آنے کے واسطے

وہ گھاٹ جس کا ریت ہمیں فرش انجمن

وہ پھاٹ، جس کے گیت محبت پہ نغمہ زن

وہ ’’جھاؤ‘‘ میل جول چھپانے کے واسطے

وہ ناؤ رہ گئی جو کنارے پہ ٹوٹ کے

ریتی میں دب چکی ہے جو پانی سے چھُوٹ کے

کافی ہے ولولوں میں بہانے کے واسطے

پھر بیریوں کی آڑ میں ، میلے کی حدسے دُور

پہنچا ہوں اس امید پہ، آئے گی وہ ضرور

کھو جائے گی کہیں مجھے پانے کے واسطے

پلٹے گی جب کہے گی سبھوں سے کہ تھک گئی

میلے کی بھیڑ بھاڑ میں رستہ بہک گئی

چہرہ اُداس بات بنانے کے واسطے

وہ طرزِ گفتگو کہ بہانہ ، نہ کھل سکے

مژگاں پہ وہ نمی کی بناوٹ نہ دھُل سکے

شبہوں کو سو یقین دلانے کے واسطے

جالے لگے ہوئے ہیں ابھی آستین پر

رفتار سست سست، نگاہیں زمین پر

پہنچی وہ یا نہیں یہ بتانے کے واسطے

٭٭٭

 

فلمی محبت

خود گِرا دی جائے گی کوئی کتاب

آپ اُٹھا دیں گے تو ’’ شکریہ جناب‘‘

مِل گیا رستہ، محبت ٹھن گئی

کس لیے بیٹھے ہوئے ہو خاک پر

مکّھیاں لپٹی ہوئی ہیں ناک پر

کس کے اک بَلّا، محبت ٹھن گئی

مال پر’ زن‘ سے گئی موٹر نکل

نصف ماتھے تک کٹی چوٹی کے بل

بس نہیں چلتا، محبت ٹھن گئی

سائیکل ٹکرا کے’  ساری‘ دھول پر

گفتگو نرمی سے بڑھ کر’  فول ‘ پر

پھر جو رُخ بدلا ، محبت ٹھن گئی

سیب سے رخسار پر مچھر، ارے

’ تِل‘ مگر سرمہ کا ہے رہیے پرے

کھل گیا دھوکا، محبت ٹھن گئی

بہہ رہا ہے مے فشاں ہونٹوں سے خوں

پان!’ لپ اسٹک‘، تو چھو کر دیکھ لوں

گال پر چانٹا، محبت ٹھن گئی

آ رہے ہیں آج ہی لندن سے آپ

اور کیا سمجھی ہیں کجلی بن سے آپ؟

سر بسر چکمہ، محبت ٹھن گئی

ریل کی پٹری پہ یا دریا کے پاس

پھر رہی ، یا پھر رہے ہو کیوں اُداس؟

خودکشی؟ توبہ! محبت ٹھن گئی

آپ کے پاپا مگر کیوں گِر پڑے

بچ گئے لاری سے ، کھمبے سے لڑے

اے ادھر تانگا، محبت ٹھن گئی

بھوک سے تیری بہن ہے نیم جاں

جو بھی مل جائے، ابھی لاتا ہوں ماں

چور ہے، لینا! محبت ٹھن گئی

٭٭٭

 

شوفر

 ’’ کھٹ کھٹ۔ کون؟ صبیحہ! کیسے؟ یونہی کوئی کام نہیں

پچھلی رات، بھیانک گیرج، کیا کچھ انجام، نہیں

میرا ذمّہ، میں آئی ہوں ، تم پر کچھ الزام نہیں

ہم ہیں اس تہذیب کے پَیرو ہم ہیں اس اخلاق کے لوگ

جس میں عصمت اک مفروضہ، عفّت جس میں ذہنی روگ

جذبوں پر پہرے بٹھلانا، کیا سودائے خام نہیں

’دو بچوں کے باپ‘ تو کیا ہے؟ دل کا ہو انسان جوان

تم بھی ایسے بن جاؤ نا۔ جیسے منجھلے بھائی جان

سالی اور سلہج پر لٹّو، بیوی سے حمّام نہیں

 ’’ان سے‘‘ یہ تہذیب میں اونچی، چھوٹے بھائی سے وقتی چاہ

شوہر آئے نہ آئے لیکن دیور کی تکتی ہیں راہ

خواہش کی تکمیل بھی جاری ، شادی بھی ناکام نہیں

نوکر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نمک اور مذہب کی تاویلوں سے باز آؤ

مردوں کی اس بے جا نیکی پر مجھ کو آتا ہے تاؤ

’ عورت کے ہونٹوں پہ ٹھپّہ‘‘ اب مقبولِ عام نہیں

ہفتہ کی اک رات،  جگالی جائے ، تو یہ عیب کہاں

ظاہر ہے پاپا، مامی کو حاصل علمِ غیب کہاں

 ’’ہر ہفتے اب غسل کی طے ہے ‘‘ یعنی اذنِ عام نہیں

جاتی ہوں ، گھبراتے کیوں ہو، یہ یکجائی ’’ بور‘‘ ہے کیا

 ’’ دو دِل راضی‘‘ کے بارے میں قاضی کا کچھ زور ہے کیا

لو یہ دس کا نوٹ ، تمھاری اُجرت ہے، انعام نہیں

٭٭٭

 

نمائش (۱)

ہر چند نمائش پھیکی ہے، مقصودِ نمائش فوت نہیں

جلووں کی قلّت پر مت جا، قلّت شاعر کی موت نہیں

کچھ’ مکڑی کے جالے برقعے، کچھ مکھڑوں پر ہالے برقعے

کچھ’  ماتھوں کو چھُوتے برقعے‘’ کچھ گورے منہ کالے برقعے‘

کچھ’  آتش کے پرکالے سے، کچھ ’’ الّھڑ، کچھ متوالے‘‘ سے

کچھ’  کوندے لینے والے سے، ’ کچھ راز پہ پردہ ڈالے‘سے

کچھ نیلے ہیں ، کچھ پیلے ہیں ، کچھ ناموزوں ، کچھ ڈھیلے ہیں

کچھ آزادی کے حامی ہیں و کچھ،  ان کی ضد، شرمیلے ہیں

کچھ برقعے ’’ ننگے بھوکے‘‘ ہیں ، کچھ رستہ ’’ بھولے چوکے‘‘ ہیں

کچھ بک جانے پر آمادہ ہیں کچھ غیرت کے بھوکے ہیں

کچھ بد رنگے، بھگ میلے ہیں تہذیب کے دُکھتے ڈھیلے ہیں

کچھ ساٹن ہے، کچھ زمّا ہے، کچھ ریشم ہے، کچھ شنیلے ہیں

کچھ ’’سیدھی اور خالی‘‘ نظریں ، کچھ ’’ ترچھی بنگالی‘‘ نظریں

کچھ’  بیہودہ فقرے، نظریں ‘ کچھ’  موٹی سی گالی‘‘ نظریں

کچھ چشموں سے مستور آنکھیں ، کچھ سُرمے سے معمور آنکھیں

کچھ پاس آنکھیں ، کچھ دور آنکھیں ، مسرور آنکھیں ، مغرور آنکھیں

کچھ میان کے باہر شمشیریں ، کچھ بجلی ایسی تنویریں

کچھ’ گرتے پڑتے میخانے‘ کچھ’  چلتی پھرتی تقصیریں ‘

کچھ رفتاریں ، بے ڈھنگی سی، بے قابو سی ، اڑدھنگی سی

پنڈلی کے پچھلے حصے پر کچھ’  کھلتی سی، کچھ ننگی سی

کچھ سینے’  گینڈے کی ڈھالیں ‘ ، ’سینوں پر رگبی کی بالیں ‘

دوڑیں ، جھپٹیں ، پکڑیں ، پھینکیں ، ٹھکرائیں اور ٹھوکر کھا لیں

کچھ رسوائی کی تاویلیں ، کچھ اگلی پچھلی تمثیلیں

کچھ فرمائش، کچھ تعمیلیں ، کچھ جنسیّاتی تحلیلیں

کچھ ہرنوں پر لرزہ طاری ’’ ٹھہرے سائے، چلتی ساری‘‘

کچھ شلواریں ہاری ہاری، کُچھ ’’پورے دن، کچھ تیاری‘‘

پھاٹک سے ہٹ کر’  اندھیاری ‘اک نوکر ہے اک’  دلداری‘

افوہ۔ ’’ کھُلی بوسہ بازی‘‘ شاباش ’’ نمائش کی ماری‘‘

٭٭٭

 

نمائش (۲)

بدلتی نہ دیکھی کبھی بھیڑ چال

اُڑا دی نہ جب تک گوالے نے کھال

نہیں سر سے پانی گزرنا محال

تو پھر طنز میں ’’ نقد عریاں ‘‘ حلال

موادوں کو مِلتی ہے ’’نشتر سے فال‘‘

________

یہ پتھر کے چشمے، یہ رجعت پسند

مکانات پنجرے، تجلّی پرند

مؤثر بھی ہیں وعظِ اخلاق و پند

(غلط کاریِ ادّعائے بلند

مِرا ہاتھ روکے، میں ڈالوں کمند)

________

نمائش پر اک طائرانہ نظر

یہاں سے وہاں اس طرف سے اُدھر

گریزاں گریزاں ہیں جلوے ، مگر

وہیں کی وہیں ہرنیاں گھوم کر

نتیجہ وہی۔ صبح کو دردِ سر

________

نمائش نہیں ، بلکہ ’’ہرنوں کا بن‘‘

یہ کستوریہ یہ چکارہ ہرن

ستارہ جبینان و شیریں دہن

 ’’ کدھر چوکڑی بھر رہا ہے وطن‘‘

ترقی۔ ۔ ۔ مگر باعثِ سوئے ظن

________

یہ اسکول کی کنواریاں دیکھیے

وہ ٹھٹکیں طلب گاریاں دیکھیے

مچلتی ہوئی ساریاں دیکھیے

وہ سنبھلیں طرح داریاں دیکھیے

بہت نیک بیچاریاں دیکھیے

________

بڑی ماسٹرنی ہے، شوفر کی وہ

سپیدہ، غلامِ مکرر کی وہ

سکندر کی یہ ہے، مہندر کی وہ

یہ خلّاصنیں سارے دفتر کی وہ

یہ شادی شدہ، اس منسٹر کی وہ

________

اندھیرے کی نیچوں پہ کیا کچھ نہیں

بھلا ہی بھلا ہے بُرا کچھ نہیں

ترقی کی بھی انتہا کچھ نہیں

یہ پیاسا، وہ پانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حیا کچھ نہیں

محبت خدا ہے، خدا کچھ نہیں

________

کئی چوٹیوں پر بھٹکنا فضول

بجز خار کیا دیں گے سُوکھے ببُول

بڑی شرم کی بات یہ ’’ ہوم رول‘‘

وہ ’’بجلی کا جھولا‘‘ گئے آپ بھول

ذرا دیر جھولے کہ قیمت وصول

________

سنیما کی جانب چلے آئیے

پتا دیجیے ’’ رنگ بتلائیے‘‘

یہ زینہ ہے، اوپر چلے جائیے

منیجر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا نہ فرمائیے

ترقی پسندوں سے گھبرائیے

٭٭٭

نمائش (۳)

نمائش کے مقصد پہ زنگ آ گیا ہے

جبیں پر تنزّل کا رنگ آ گیا ہے

ترقی کے قدموں پہ لنگ آ گیا ہے

خریدار پیسے کو تنگ آ گیا ہے

دُکاندار سب مکھّیاں مارتے ہیں

نگاہوں سے جیبوں کو چمکارتے ہیں

 ’’ رٹھونڈے کے میلے‘ سے پھیکی نمائش

گزشتہ سے کم’  روشنی کی نمائش‘

مگر انتہا پر بدی کی نمائش

’کھری سے کھری ‘‘ دلبری کی نمائش

جو ہیں ’’ ناظمانِ نمائش‘‘ کے بندے

نقابوں میں لائے ہیں ’’ ریشم کے پھندے‘‘

یہ برقعوں کے اندر حیا باختائیں

کھلی بیسوائیں ، چھپی فاحشائیں

معیّت میں مائیں نہیں ، نائیکائیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے ساتھ ہیں ساجدائیں

 ’’ رسوخ در سائی‘‘ کے خواہاں گھرانے

چلے آئے ہیں آنکھ نیچی کرانے

یہ ٹولی جو ’’ بھتنا‘‘ لیے پھر رہا ہے

یہ جھُرمٹ جو شرما لیے پھر رہا ہے

یہ ’’ سوسن‘‘ جو لالہ لیے پھر رہا ہے

یہ ’’ پیشے‘‘ جو ’’ چشمہ‘‘ لیے پھر رہا ہے

ضرورت ہے زائد جو شرما رہی ہیں

تصوّر میں ننگی نظر آ رہی ہیں

ہمارے محلّے کی یہ اپسرائیں

نہ کمروں میں بیٹھیں ، نہ ناچیں ، نہ گائیں

مگر شوہروں سے زیادہ کمائیں

نمائش میں مانگے کی موٹر پہ آئیں

پڑا علم و حکمت کا بازار مندا

طبابت سے بہتر ہے عورت کا دھندا

بڑی پھانکڑی ہے یہ ’’مکّار انّا‘‘

جو باتوں میں ٹھگتی ہے ہاتھی سے گنّا

اگلتا ہے دولت یہاں سیٹھ دھنّا

ملے تاکہ خلوت کدوں کا ’’رَونّہ‘‘

 ’’ نئی ابریوں ‘‘ میں ’’ پُرانے فسانے

لگا لائی ہے ساتھ، قیمت بڑھانے

مرے طنز سے کیوں بُرا مانتے ہیں

جو مشہور ہے آپ بھی جانتے ہیں

حقیقت کو کیچڑ میں کیوں سانتے ہیں

یہ ’’ ماما‘‘ اسے آپ پہچانتے ہیں

یہ ہر طرح کی ’’ تکِلّیں ‘‘ بیچتی ہے

دکھاتی ہے ’’ رخ‘‘ اور قط کھینچتی ہے

اُڑاتی نہیں یہ پوَنَّے اَدھنّے

مگر تاؤ والے ترنگے، تِپَنّے

اڑاتی ہے دم بھر میں دشمن کے کنّے

وہ نوّاب جھمّن ہوں ، یا شیخ بنّے

بڑے سے بڑا اس کو جچتے نہ دیکھا

جو اوپر سے آیا وہ بچتے نہ دیکھا

یہ مدھری وہ لمبی، یہ ہلکی وہ بھاری

مِلی خاک میں ان کی والا تباری

مگر اب بھی ہیں ٹھاٹ اگلے سے جاری

میسّر نہیں وقت سے سازگاری

مزاجوں سے جاتی نہیں عیش کوشی

نہ تھی ورنہ آسان غیرت فروشی

وہ اچکن کے سائے میں جھجکا سا برقعہ

حدودِ شریعت میں آتا سا برقعہ

کشش تاب اعضا پہ ڈھیلا سابرقعہ

 ’’رُخِ نیک پرویں ‘‘ پہ سیدھا سا برقعہ

اسی وضع کی نیکیاں اور بھی ہیں

وطن کی بہو بیٹیاں اور بھی ہیں

یہ اپنے پرائے کو پہچانتی ہیں

 ’’نقابیں اُلٹنی‘ نہیں جانتی ہیں

نئی روشنی سے بُرا مانتی ہیں

خدا اپنے شوہر کو گردانتی ہیں

 ’’ نہ پردے کی بوبو‘‘ نہ فیشن کی بندی

جنونِ ترقی، نہ رجعت پسندی

نہیں کوئی ٹھوکر میانہ روی ہیں

وہ افراط و تفریط ہے زندگی میں

یہ احساس و تمئیز ہے جس کسی میں

بڑی چیز ہے اعتدال آدمی میں

جو دوڑیں گے وہ ٹھوکریں کھائیں گے بھی

غلط کاریوں کی سزا پائیں گے بھی

نہ سنٹر ، نہ سبزہ، نہ باجے، نہ تاشے

نہ تھیٹر، نہ سرکس، نہ کھیل اور تماشے

یہ فوّارۂ حوض قاضی کے لاشے

نہ کیفے۔ مگر ’’چاٹ کھاتے مہاشے‘‘

نہیں تازہ تر ہوٹلوں کی نِکاسی

جو ٹھنڈے پراٹھے تو حلوہ ہے باسی

ذرا غور کِیجے، یہ بزمِ سخن ہے

ادب سے یہاں فائدے کی لگن ہے

جو ’’ لونڈا‘‘ ہے وہ ماہرِ علم و فن ہے

نہ جانے حکومت کا یہ کیا چلن ہے

نہ پوچھے کسی سے نہ خود جانتی ہے

خوشامد کو ’’روحِ سخن‘‘ مانتی ہے

کرائے پہ آئے ہیں بھاڑے کے ٹٹو

نکمّے ، نگوڑے، نمو ہے، نِکھٹّو

یہ روڑے ادب کے ، دوراہے کے لٹّو

 ’’ لکھائی ہوئی‘‘ چند غزلوں کے رٹوّ

 ’’ صدارت کا مُضغہ ‘‘ بٹورے برابر

 ’’ کہن سال ہتھنی‘‘ کا ’’اسقاطِ اصغر‘‘

رقم ان کے ناموں پہ بھر دی گئی ہے

نہیں دی گئی ہے، مگر دی گئی ہے

خبر کس کو شاعر کے گھر دی گئی ہے

مصارف کی تکمیل کر دی گئی ہے

بجٹ بھی نہ توڑا، رقم بھی بچا لی

جبھی تو ’’ نظامت‘‘ پہ لڑتے ہیں پالی

نمائش سے باہر، یہ خیمے، یہ ڈیرے

یہاں دیو آتے ہیں پریوں کو گھیرے

مچاتے ہیں اودھم، مہذّب لٹیرے

مرے ساتھ چلیے سویرے سویرے

ہوا سچ تو ایمان لانا پڑے گا

خباثت کو نیکی بتانا پڑے گا

٭٭٭

 

نمائش (۴)

نمائش پہ اس بار بھی میرے شاگرد و احباب کچھ تبصرہ چاہتے ہیں

حیا خوردہ و فحش غزلوں کی بابت نیا رُخ نیا زاویہ چاہتے ہیں

جو ہیں صرف کانوں میں کہنے کی باتیں بہ بانگِ دُہل بر ملا چاہتے ہیں

ادا ہو چکے افتتاحی مراسم، سُنا ہے کہ انجام اچھا رہے گا

اشاروں کی قسمت چمکتی رہے گی، کنایوں کا پیغام اچھا رہے گا

رواں سال، آوارہ صبحوں کے جمگھٹ کا پیچھا سرِ شام اچھا رہے گا

 ’’ چراغانِ ماضی‘‘ بجھاویں توہرسو دھندلکا نہیں ہے، سویرا پڑا ہے

سویرے سے آگے جہاں تک نظر جائے چاروں طرف گھُپ اندھیرا پڑا ہے

کہاں جا رہے ہو، وہاں کچھ نہیں ہے، پریشاں نگاہی کا ڈیرا پڑا ہے

نمائش کے سینے پہ صد رنگ بلبوں کو بجلی کے تاروں سے گوندھا گیا ہے

بہ الفاظِ دیگر طوائف کی چولی کوسلمہ ستاروں سے گوندھا گیا ہے

ہری دُوب کو ریتلی رہگزاروں کے دونوں کناروں سے گوندھا گیا ہے

یہ برطانیہ مارکہ خانوادوں کی پتلون میں ایک بھدّی سی لڑکی

کرپ سول کے ہونٹ ، بٹنوں کی آنکھیں ، کمر اور کولھوں پہ مینڈک ربڑ کی

سپیروں کی بِینوں کی مانند شانوں پہ مُنہ مارتی ناگنیں بالچھڑ کی

یہ ’’ ان پورنا‘‘ ایک ہوٹل ہے جس نے غذائی مسائل کا حل پا لیا ہے

جہاں تبصرے کی ضرورت نے مجھ کو پئے نقد و تحقیق بُلوا لیا ہے

یہ حل بھی بہر حال مہنگا پڑے گا اگر قوم کی جیب دیوالیہ ہے

وہ دیکھو کہ وہ لکھ پتی ہے مگر صَرف کرتا ہے ’’عصمت مآبی ‘‘ پہ رقمیں

ترقی پسندوں کا لفظی محافظ، تجوری کا رُخ ’’عیش گوئی‘‘ کے حق میں

لباس اور عادت ’’ مربّے کی ہر کو لپیٹا گیا ہے سنہری ورق میں ‘‘

مِرے دائیں بازو کی اک میز پر سِن کے قبضے سے باہر نکلتی سی عورت

اداؤں پہ جاؤ تو سیدھی سی بھولی سی باتوں پہ جاؤ تو چلتی سی عورت

دبکتی، سمٹتی، لچکتی سی عورت، سنبھلتی، مچلتی، پھسلتی سی عورت

یہ ان عورتوں میں سے ہے جن کے نزدیک جا کر اگر آپ سیٹی بجا دیں

تو جیسے تعاقب نے تکمیل پالی ہو بے ساختہ اس طرح مُسکرا دیں

دکانوں کے تاریک رُخ پر پہنچ کر نگاہیں تو کیا؟ جانے کیا کیا بچھا دیں

یہ شاعر سنَد یافتہ یعنی ’’ داغی‘‘ نہیں چھوڑتی جن کو شیوہ بیانی

زبانوں پہ طاری قصیدوں کا چسکہ جوانوں کے چربے، غزل آنجہانی

خوشامد کے بغچے، دیانت کے دھیمے، لبوں پر مگر دعویِٰ لن ترانی

ادب پروری کا جسے خبط لاحق ہے، پہچان لِیجے کہ یہ شخص وہ ہے

وہ منعم کہ جس کی بڑی بھّد ہوئی شہر میں جان لیجے کہ یہ شخص وہ ہے

دو رنگی تجارت میں شہرت ہے جس کی، مری مان لیجے کہ یہ شخص وہ ہے

یہ ’’خیمہ‘‘ تو اُردو نہیں بلکہ عربی کا اک لفظ ہے، اس کو پنڈال کہیے

یہاں اِک بڑے آدمی کا ڈِنر ہے تو چھوٹوں کی گل جائے گی دال کہیے

لدی ہیں جو بیروں کے کاندھوں پہ، ان میں ٹرے کس کو کہیے، کسے تھال کہیے

کرایوں کا ادبار جن سے نہ اُٹھّا، ابھی تک دکانیں وہ خالی پڑی ہیں

انھیں میں ’’اُجالے کی دھتکار‘‘ سے بچ کے کتّے نہیں ہیں تو کُتیاں کھڑی ہیں

چھپایا ہے زر تار پردوں نے جن کو، یہ اشیا حقیقت میں ’’ دھوکا دھڑی‘‘ ہیں

جواب اس طرف مُنہ بسورے ہوئے ہیں یہی تھے دھواں دھار گنجان ہوٹل

یہ شیخوں کے ہوتے تھے، یہ سیدوں کے یہ مغلوں کا تھا اور یہ خان ہوٹل

بتاتے تھے اصلی کو ایمان اپنا، پکاتے تھے’ نقلی‘ میں پکوان ہوٹل

ابھی دو بجے ہیں ، ابھی سے یہ سائے، یہ شلوار، برقعے، دوپٹے گھروں کو

یہ دو چار، دس، پانچ ان کا تعاقب مبارک رہے کم نظر سر دھروں کو

مگر ہم تو شاعر ہیں اور شاعروں کو پرکھنا ہی پڑتا ہے کھوٹے کھروں کو

٭٭٭

 

واپسی

کچھ تو میں نے میری ضد میں اپنی چال گھٹا لی ہے

کچھ اسٹیشن پر پہلے سے آ کر آفت ڈھا لی ہے

کانن کی ہرنی ایسی آنکھوں سے آنکھ لڑا لی ہے

جانے والے پارسلوں کی ہر دفتی پڑھ ڈالی ہے

پھر بھی چہرے پر سُرخی ہے دل الجھن سے خالی ہے

آج سفر سے وہ طنّازہ واپس آنے والی ہے

پوسٹروں میں ’’ اُردو کی دُرگت‘‘ سے جی بہلاتا ہوں

نیم شعوری حال میں سگرٹ پے در پے سلگاتا ہوں

بید کی نوک سے خالی پیکٹ کا سینہ برماتا ہوں

پلیٹ فارم کے اس کونے سے اس کونے تک جاتا ہوں

ریلوے آفس کے گھنٹے کی سوئی کو مُردہ پاتا ہوں

بے تابی میں ساعت ساعت مجھ کو ستانے والی ہے

سوچا اس بے کل فرصت پر نظم کا پرتو ڈالا جائے

 ’’ دل خوش کن‘‘ زحمت کا تاثر شعر کے اندر ڈھالا جائے

چلتے پھرتے جلووں کی تنقید میں صدمہ ٹالا جائے

اس ساری میں ’’ سلوٹ‘‘ اس سائے میں ’’ جھول‘‘ نکالا جائے

میٹھی میٹھی ہوکوں میں جھنجھٹ کا روگ نہ پالا جائے

جب دِقّت کی حد ہو جائے، سمجھو آنے والی ہے

گئی تھی وہ، تو یہ قطّامہ گاڑی وقت پہ آئی تھی

بات کا موقع مل جاتا اتنی بھی نہ ٹھیکی کھائی تھی

بھول رہا ہوں۔ گارڈ نے جھنڈی کس گوشے میں ہلائی تھی

یاد نہیں آتا، چلنے سے پہلے وِسِل بجائی تھی

مشرق سے آتی دیکھی، مغرب کو جاتی پائی تھی

اب لاتی ہے اُسے تو کچھوے کو شرمانے والی ہے

ہلکا سا جھٹکا کھا کر سِگنل کا بازو جھُول پڑا

دُور درختوں میں بل کھاتے دھوئیں کا بادل سا اُٹھّا

 ’’ ہوشیار ہو جاؤ۔ گاڑی آئی‘‘ کا چرچا پھیلا

سنجیدہ طبعوں کا تامّل، بے صبری نے لوٹ لیا

کیلے کے چھلکے پر ’’ سینڈل پھسلا ‘‘ اور ’’ چپل رَپٹا‘‘

گھبراہٹ صد رنگ نقابیں رُخ سے ہٹانے والی ہے

ہیبت ناک انجن رُک رُک کے ساتھ گرجتا آتا ہے

ہرے بھرے کھیتوں کا ہِردَے خوف سے دہلا جاتا ہے

پلیٹ فارم کے نیچے، کوئی گھوڑے سے دوڑاتا ہے

یا پُل کے گرڈر پر کوئی پیہم ضرب لگاتا ہے

شوقِ نظارہ نے کہا کس دھن میں وقت گنواتا ہے

چونک پڑا میں اور دیکھا کھڑکی پہ ’’ وہ آنے والی ہے

چہرے پر آثار سفرکے جیسے ’’ روئے صبوحی چش‘‘

’ بکھری آڑی مانگ‘ جبیں سے کان کی لَو تک’  سُنبل وش‘

نیند کے ماتے ابرو کے آغوش میں بِندی۔ اُف! عش عش

آنکھوں کی ہلکی سُرخی پر ’’ نشّۂ جام و مینا‘‘ غش

ہنستے ہونٹوں کی شیرینی ’’ جرأتِ بوسہ‘‘ کو دل کش

سر کی ہر ہر جنبش اپنے پاس بلانے والی ہے

والد کی جانب یہ اشارہ، تاڑ نہ جائیں ، دُور رہو

مجھ سے مخاطب ، چھوٹے بھائی کو یہ ایما ’’ سنبھلو ٹھہرو‘‘

میری طرف نظریں لیکن نوکر کو حکم ’’ سہارا دو‘‘

ماما کی لالچ پہ ’’کنایہ‘‘ خط لانے لے جانے کو

آ کے برابر، کچھ یوں ہی سا یہ فقرہ  ’’آج آنا تو‘‘

شادؔ  ! بس اب خاموش کہ دنیا نظر لگانے والی ہے

٭٭٭

 

مشورہ

مانتی ہوں سہروں کے پھول آپ کھلتے ہیں

اور ’’بر‘‘ زمانے میں بِن تلاش ملتے ہیں

کاہلی کی مسند سے باپ بھی تو ہلتے ہیں

گھر پہ آ کے قسمت کیوں دے صدا کہ حاضر ہوں

تم پہ ہے’ بڑی‘ اب تک بِن بیاہ بیٹھی ہے

دیکھتی ہے کنبے کی رسم و راہ بیٹھی ہے

پاک دامنی سے ہے داد خواہ، بیٹھی ہے

مجھ پہ ہو تو جو مِل جائے اس کو ہاتھ پکڑا دوں

بختیار کی نانی! کون تھی؟ پسنہاری

احتشام کی دادی! حُسنِ بامِ بازاری

خاندانِ رشدی تھا مرکزِ غلط کاری

چھان بین اور ایسی چھان بین، بے بس ہوں

باپ میں یہاں کچھ کھوٹ، ماں وہاں اُدھر کھوٹی

یہ زکات کا پیسہ، وہ حرام کی روٹی

اس کی آبرو دُبلی، اس کے بیکَسی موٹی

اونچ نیچ کی بابت سوچ لو کہ سنتی ہوں

لڑکیوں کی دشمن ہے دوپہر جوانی کی

وَلولوں پہ کھلتی ہے آنکھ پاسبانی کی

نوکروں پہ ہوتی ہے مشق دِلستانی کی

مشورے میں دل کی بات کیوں زبان پر روکوں

کل فلاں فلاں لڑکی نام اچھال کر چل دی

انتہا پہ ہر تتلی پر نکال کر چل دی

رکھ رکھاؤ کے سر پر خاک ڈال کر چل دی

یہ مثال کافی ہے اور کیا حوالہ دوں

جانتے ہو پردے کا گھر قفس نہیں ہوتا

اونچ نیچ کا کھٹکا سو میں دس نہیں ہوتا

دس میں پانچ وہ   بے چین‘‘ جن پہ بس نہیں ہوتا

نقلِ کفر کے اندر کفر کب سمجھتی ہوں

تم ہو دوسرا کوئی اس طرح اگر کہتا

 ’’ سوئے ظن کا خمیازہ‘‘ سطحِ فرش پر بہتا

حملۂ حمیّت پر مارتا کہ مر رہتا

مجھ سے ہو نہیں سکتا حرفِ ناسزا سُن لوں

نظمِ خانہ داری میں تم کو آج تک ٹوکا

صَرفِ جا و بے جا پر میں نے ہاتھ کب روکا

سائرہ کا رشتہ ہے واسطہ من و تو کا

تم زمیں پہ چلتی ہو مّیں ہوا میں اُڑتا ہوں

غیر کف میں شادی کا سلسلہ نہ مانوں گا

اب و جد کو پھٹکوں گا نسل و قوم چھانوں گا

پاک صاف ہڈی پاک صاف جانوں گا

 ’’شجرہ ہائے ساقط‘‘ کو کیا صلائے نسبت دوں

آج سے’’ بڑی‘‘ تنہا باغ میں نہ جانے پائے

جس میں ’’ آہ‘‘ شامل ہو وہ ہوا نہ کھانے پائے

وہ تووہ سلیمہ بھی ڈھول پر نہ گانے پائے

نوجواں گوالا بھی گھر میں اب نہ آئے۔ کیوں ؟

کیا؟ بڑی کو پندرہ دن ہو گئے بخار آتے

کام کاج سے بچتے، ناشتے سے کتراتے

اور کچھ مرض ایسے جو نہیں کہے جاتے

روگ نے جڑیں پکڑیں ، اب حکیم بُلوا دوں

ہمتیں بڑھاتا ہے ہر طبیب اخلاقاً

طبِّ یوسفی یہ ہے اور طاق پر مخزن

دق نہیں تو نسخے میں’  کاسنی‘ کا کیا کارن

نبض کے بُرے لچھّن، تھامنا میں گرتی ہوں

دق سے موت ہے اس جا ’’ احتیاط کرداری‘‘

فرد فرد قصّے پر شدّتِ نگہ داری

جو نماز پڑھتا ہو وہ کرے نہ مئے خواری

پھر یہ ’’ عصمتیں ‘‘ لاکھوں ہو رہی ہیں اغوا کیوں

٭٭٭

 

اندھیر نگری

شادؔ میری نظموں کے کارن امّاں بی دُکھ سہتی ہیں

واقف ہیں خاموش فضا میں فکر کی دھاریں بہتی ہیں

دن بھر گھر کے کام کاج میں دور دور ہی رہتی ہیں

لیکن رات کو پوتوں سے روز ایک کہانی کہتی ہیں

جس میں اکثر بادشاہ کی سات بیٹیاں ہوتی ہیں

بادشاہ بیٹے کی خاطر جیتے جی مر لیتا ہے

دوا، دعا، تعویذ اور گنڈے سبھی جتن کر لیتا ہے

بیگم سے ہر مُلّاسیانا ’’نذر‘‘ پیٹ بھر لیتا ہے

پہلا مرغ و مشک ، دوسرا گھینٹا۱؎ گو گر لیتا ہے

قسمت دُور سے ٹھینگا دکھلاتی ہے، امیدیں روتی ہیں

            ۱ ؎   سوّر کا بچہ

بادشاہ ان ساتوں سے کرتا ہے کسی دن کوئی سوال

یا یہ حکم کہ لائے کوئی امرت اور جائے پاتال

یا دشمن کے ہاتھوں تاج و تخت حرم سرا پاتال

ادل بدل کر وہی مضامیں ، وہی تخیّل، وہی مآل

القصہ روز امّاں بی پوتوں کو سُلا کرسوتی ہیں

مجھ کو یہ یکساں افسانے پہلے پہلے بار ہوئے

پھر آہستہ آہستہ اس عادت سے دو چار ہوئے

جس کے ہوتے مجھ کو نوبت نقّارے بیکار ہوئے

ہر غوغا سے ’’قطعِ سماعت‘‘ جب  چاہا  اشعار ہوئے

وہ اشعار کہ جن کی خوشبوئیں کانٹے سے چبھوتی ہیں

آج رات جب دادی کو اُنکے پوتوں نے گھیر لیا

یہ کاندھے پر چڑھ بیٹھا، اس نے تکیوں کا ڈھیر لیا

ٹھہرو، کہہ کر موصوفہ نے روئے تخاطب پھیر لیا

کھا کر پان، فسانے کا عنوان ’’ غضب اندھیر‘‘ لیا

وہ اندھیر کی جس کا منہ ارواحِ خبیثہ دھوتی ہیں

بولیں ، نام کہانی کا ہے اندھی نگری، چوپٹ رائے

اس نگری میں بھولے بِسرے ایک گُرو دو چیلے آئے

سُنیں صدائیں ، ٹکے سیر، کوئی بھاجی لے کوئی کھا جا کھائے

چیلے اس من بھاتی ریت پہ رِیجھے اور گُرو گھبرائے

بولے، جلدی بھاگو یاں موجیں دریا کو ڈبوتی ہیں

جس بستی میں چلتی ’’گاڑی‘‘ نقد مال ’’ کھویا‘‘ کہلائے

چال جہاں چنچل گھوڑے کی سرپٹ اور پویا کہلائے

 ’’ خُوب کلاں ‘‘ رائی کا دانہ، ہوشیار سویا کہلائے

سمجھیں پاک جہاں شہدے کو، بدمَعاش دھویا کہلائے

اس بستی میں پاپ کی راہیں پُن کا خون بلوتی ہیں

جب ان رمزوں نے چیلوں کے ہِردیوں پر تاثیر نہ کی

گُرو نے ان کی نا سمجھی پر ہاتھ مَلے، تقریر نہ کی

چمٹا، لٹیا، ڈور اٹھا لی، چلنے میں تاخیر نہ کی

چیلوں نے تعمیرِ بدن میں لقمہ بھر تقصیر نہ کی

دنبوں کی رگ رگ میں غذائیں نشو و نما سموتی ہیں

چارے کی  بوُ لیتے پھرتے تھے اک دن یہ دانی سانڈ

کسی سود کے مارے نے کی سودخوار کی بیوی رانڈ

دوڑے، جھپٹے، اُچھلے، کودے بے آئین پولس کے بھانڈ

دُبلے قاتل سے کترا کر لیے یہ موٹے چیلے ڈانڈ

کاٹھ کا پتلا منصف بولا بِندھ جائیں سو موتی ہیں

تھی تمہید کہانی کی کچھ ایسی کڑوی، دل آویز

جیسے جامِ جہاں نما کے اندر مئے نمک آمیز

جیسے ترشی کیف و خمارِ حال کو بیداری انگیز

جیسے چلتے پھرتے مُردوں میں احساسِ رستاخیز

جیسے پھواریں سوکھے کانٹوں میں موتی سے پروتی ہیں

میں نے پوچھا ، کیوں امّاں جی! آج یہ نگری ہے کہ نہیں

جس کی زمینیں الٹی گنگا کے سیلاب کو موزوں تھیں

فرمایا، انجان نہیں تم۔ رہنے دو ، یہ بات یہیں

زیرِ ’’علم‘‘ آسکتا ہے کیا کوئی رسمِ عام کہیں

عام ہیں وہ سرکاریں جو گیہوں کے لیے جَو بوتی ہیں

٭٭٭

 

بیٹے کی شادی پر

چھ ہزار تخمینہ کم سے کم چڑھاوے کا

راگ اور کیا لاتا زیر و بم چڑھاوے کا

اے شعیبؔ کی امّی! کون غم چڑھاوے کا

باغ و قطعہ آراضی جا کے رہن رکھتا ہوں

اہتمامِ شادی میں ہم ذرا جو چوکیں گے

سوبنائیں گے باتیں ، سو جنم پہ تھوکیں گے

تیر نکتہ چینوں کے وہ نہیں کہ اوکیں ۱؎گے

دوستوں کا یہ عالم، دشمنوں کو کیا کوسوں

سُن رہی ہو۔ پھر دل میں رہن کی صدا گونجی

لوگ سرکٹاتے ہیں اپنی بات پر۔ کیوں جی

باغ و قطعہ آراضی، آپڑے، تو کیا پونجی

چھَے ہزار کم کیوں ہیں ؟لو میں تم کو سمجھاؤں

گُر بچن سے بارہ سو، سُود پر منگا لیں گے

دو ہزار سے اونچے پاس کے ملا لیں گے

رنگ بھی رچا لیں گے ، ناک بھی بچا لیں گے

دل سماج کا بھر جائے، دیکھنا وہ دعوت دوں

رہن سے نبٹنے کا غم ابھی سے کیوں آخر

جو کہی سو اُردھنگی، میں حیات ہوں آخر

نَوج! کیا میں لَونڈی ہوں ؟ کیوں نہ رائے دوں آخر

کل کی بات ہے، جھُومر میرا رہن ہی تھا کیوں ؟

پٹّیوں پہ کھچڑی سر، اوپری سا جچتا ہے

یہ خضاب رہنے دو، کہہ رہے تھے اچھّا ہے

کہہ سکوں گی کس کس سے، اے بہن یہ نزلہ ہے

جانتی ہیں انّا بی، کون سنہ کی پَیدا ہوں

اب انھیں بھی لے دوڑیں اپنی ہم نوائی میں

اور بات مطلب کی ڈال دی کھٹائی میں

حق نہیں ادھیڑوں کو بزمِ خود نمائی میں

بزمِ خود نمائی سے تم کھِنچو تو میں بچ جاؤں

ہاں تو بینڈ باجا بھی آ چکا ، براتی بھی

مستعد ہے آتش باز، شیخ شب براتی بھی

تھم گئی ’’ رقم پیشہ‘‘ ناچتی بھی گاتی بھی

عورتوں سے تم بھگتو میں سواریاں بھیجوں

کیوں بھری چلی جائیں ، رتھ ہے جیل تھوڑی ہے

کیوں ٹھنسی چلی جائیں ، رتھ ہے ریل تھوڑی ہے

ہاں اری چلی جائیں رتھ ہے کھیل تھوڑی ہے

بیٹھ ری سلیمہ بیٹھ، رو رہی ہے۔ تھپّڑ دوں

گھُٹ گئی مری بچی! ہٹ تو جا ترے واری

اے بُوا مرا آنچل، اے سکھی مری ساری

تومی اور بُنت چُر مُر، ہو گئی خدا ماری

پھوڑ دوں ترے دیدے ، گھورنے کا بدلہ لوں

ٹھیر! یار جھنڈا خاں ، یہ برات دیکھیں گے

ٹھاٹ دار باجے کی کائنات دیکھیں گے

جھانکتے ہوئے جلوے پان سات دیکھیں گے

موت آئی ہے سالے، تو ٹھہر میں چلتا ہوں

مہر چاہیے اتنا جو ادا نہ ہو پائے

چاہیے شرافت کی انتہا نہ ہو پائے

روز خانہ جنگی ہو، فیصلہ نہ ہو پائے

ورنہ سو طلاقیں ہوں ، حاضرینِ محفل ! کیوں ؟

ڈیڑھ سو کی آمد میں کب ہے دم درود اِتنا

بِل فلاں فلاں اتنے، گُربچن کو سُود اِتنا

ختم رہن کی مدّت، صرفِ ہست وبود اتنا

تار تار گھر بھر کا، لاؤ ، بیچ آتا ہوں

٭٭٭

 

نو روز

(۱)

صبح سے میں اور وہ باغ و بہار

کھیلنے جاتے آموں کا شکار

ہلکی ہلکی ولولہ پیما پھوار

(۲)

حُسن و کیفِ نوجوانی رنگ پر

تتلیاں پہلو میں ، پھولوں پر نظر

 ’’ لمسِ زانوئے محبت‘‘ الحذر

(۳)

چوستے ہیں ہونٹ ان کلیوں کا رس

چھُو نہیں سکتا جنھیں دستِ ہوس

سعیِ گل چیں نا تمامِ دسترس

(۴)

عنبریں گیسو، گھٹا چھائی ہوئی

کوئلوں کو نیند سی آئی ہوئی

دھوپ مِیلوں دور شرمائی ہوئی

(۵)

جس طرف جاتا ہے جنگل میں خیال

سبزۂ شاداب و دل کش پائمال

ہر پپیہے کی صدا اک عرضِ حال

(۶)

پھڑپھڑاتی ہیں بَطیں تالاب میں

بہتے ہیں ساغر شراب ناب میں

رحمتیں ہیں عام سب کے باب میں

(۷)

پھوس کے چھپّر میں ہم ہیں اور آم

کر رہے ہیں تیز چاقو اپنے کام

ذائقہ کھینچے ہے تیغِ بے نیام

(۸)

دے دیا احساسِ لذّت نے جواب

چل دیا تانگہ سوئے دار الخراب

پھر وہی ہم اور تمدّن کا عذاب

٭٭٭

 

گنگا اشنان

اشنان کی تقریب میں گنگا کے کنارے

جمعیّتِ افراد پہ حاوی ہیں نظارے

کچھ حُسن فروزِ چمنِ صبح بنارس

کچھ جلوہ فروشِ سمن آرائے بہارے

وہ بھی جو جوانی کی امنگوں میں رچے ہیں

وہ بھی جو چلے آئے ہیں لاٹھی کے سہارے

ایسے بھی جنھیں رستے میں لے ڈوبی تھی’ لاری‘

ایسے بھی جو چھکڑوں نے سرِ راہ اتارے

مزدور بھی دہقان بھی تاجر بھی گدا بھی

دس بیس مہاجن ہیں تو سَو سُود کے مارے

__________

میں شاعرِ نو عمر و جواں طبع ہوں اے شادؔ

بھاتے ہیں مجھے، عاتق واعطال و نگارے

جاتا ہوں سوئے نغمہ و اشعارِ مجسم

آتا ہوں سوادِ پسِ منظر سے کنارے

__________

آغوشِ ’’صریمت‘‘ میں’ حسینانِ سمن پوش‘

ذرّات ضیا پاش پہ بکھرے ہیں ستارے

مستانہ اداؤں سے جھٹکتے ہوئے چپّل

ریتی پہ ٹہلتے ہیں شفق رنگ چکارے

وہ دوڑ رہی ہے کوئی ’’ رنگین شرارت‘‘

’ ہرنی ہے کہ میدان میں بھرتی ہے طرارے‘

بستر سے کوئی اٹھ کے نہانے کو چلی ہے

آتی ہے کوئی پھول سے چہرے کو نکھارے

وہ پھاٹ میں موجوں سے کوئی کھیل رہی ہے

وہ گھاٹ پہ بیٹھی ہے کوئی پاؤں پسارے

ڈھلتے ہوئے آنچل سے کوئی دھیان ہٹائے

لپٹی ہوئی چادر میں کوئی ’’ شرم کے مارے‘‘

آنکھوں میں لیے نُدرتِ معنائے سن و سال

نظروں کو جھکائے کوئی سینے کو اُبھارے

پانی میں اُترتی ہے کوئی پاؤں جما کر

ساحل پہ اُبھرتی ہے کوئی ہاتھ پسارے

منجدھار سے ڈر ڈر کے پلٹ آتی ہے کوئی

جاتی ہے کوئی دھار میں ساتھن کے سہارے

گِن گِن کے لگاتی ہے کوئی ڈبکی پہ ڈبکی

دم بھر کوئی ٹھہری ہے کہ بالوں کو سنوارے

_________

پگھلے ہوئے بلّور کی لہروں میں ’’ جوانی‘‘

ٹھہرے ہوئے سیماب کے پہلو میں شرارے

وہ ’’سوریا پوجا‘‘ وہ ’’ ہری اوم‘‘ کی جاپیں

زاہد بھی جو سُن لے تو ’’ ہری اوم‘‘ پکارے

میلہ ہے کہ اک نظمِ حسیں ’’ غیر مرتّب‘‘

اس فکر میں بہتے تھے خیالات کے دھارے

 ’’ آں عُربدہ کارے‘‘ کہ وفا داخلِ حُسنش

ناگاہ پدید آمدہ آں عُربدہ کارے

دزدیدہ نگاہوں سے عیاں پرسشِ احوال

اظہارِ غمِ ہجر پہ ’’ معلوم اشارے‘‘

________

القصہ میسّر رہے ساعاتِ تقرّب

فی الجملہ اسی حال میں چھَے روز گزارے

ہر صبح اسی طور سے انوارِ نظر تاب

ہر شام اسی شان سے بھرپور نظارے

بنتے رہے بگڑے ہوئے ’’ اوقاتِ جدائی‘‘

سُلجھے رہے اُلجھے ہوئے حالات ہمارے

________

دیکھے نہ گئے پیرِ فلک سے یہ روابط

جھلّا کے ہُوا در پئے آزار ہمارے

خورشیدِ جہاں تاب کی رفتار بڑھا دی

تعجیل کے چابُک کرۂ ارض پہ مارے

لمحاتِ سُبک سیر کو پرواز کا ایما

گھڑیوں کو دبے پاؤں گزرنے کے اشارے

________

اُٹھتے ہوئے میلے کی المناک صدائیں

لُٹتی ہوئی رونق کے ’’ جنوں خیز نظارے‘‘

تجّار نے آرائشِ بازار سمیٹی

صندوق بھرے ، پردۂ زرتار اُتارے

ہر سمت ہوئے یاس کے آثار ہویدا

ڈیروں سے ہوئے دُور طنابوں کے سہارے

جانے لگے گنگا کے کناروں سے قبیلے

رہ رہ کے اُجڑنے لگے گنگا کے کنارے

وہ خیمۂ دلکش بھی ہوا نذرِ حوادث

تھے میرے لیے رشکِ حرم جس کے دوارے

ہمراہیِ احباب گوارا تھی کسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ!

 ’’ واللہ عجب چیز ہیں احباب ہمارے‘‘

آغاز میں ہنستے ہوئے ہونٹوں سے مِلے تھے

انجام میں روتی ہوئی آنکھوں سے سدھارے

٭٭٭

 

دیوالی

ہو رہے ہیں رات کے دیووں کے ہر سو اہتمام

صبح سے جلوہ نُما ہے آج دیوالی کی شام

ہو چکی گھر گھر سپیدی دھُل رہی ہیں نالیاں

پھرتی ہیں کوچوں میں مٹّی کے کھلونے والیاں

بھولی بھالی بچّیاں چنڈول پاپا کر مگن

اپنی گڑیوں کے گھروندوں میں سجی ہے انجمن

رسم کی ان حکمتوں کو کون کہہ دے گا فضول

رکھ دیے ہیں ٹھیکروں میں خانہ داری کے اصول

جیت میں ہر شخص وہ نوخیز ہو یا پختہ کار

ہار سے انکار لب ہائے مسرّت پر نثار

سرد موسم کا لڑکپن گرم چولھوں پر شباب

 ’’برف میں ساقی لگا لایا ہے مِینائے شراب‘‘

اَبخرے بن کر کڑھائی پر ہوا لہکی ہوئی

ہر گلی پکوان کی بو باس سے مہکی ہوئی

گھی تڑخ کر پاس والوں کی خبر لیتا ہوا

 ’’چَر‘‘ سے شعلوں پر ٹپک جانے سے بو دیتا ہوا

اَدھ جلے ایندھن کا آنکھوں میں دھواں بھرتا ہوا

 ’’ نرگسِ شہلا‘‘ میں تیزابِ خزاں بھرتا ہوا

نیک دل پتنی کا حصّہ ہے مصیبت جھیلنا

پوریاں تلنے کا پس منظر ہے پاپڑ بیلنا

 ’’ حلوۂ بے دود‘‘ کی تھالوں کا بحرِ بے کراں

 ’’ کشتیاں ‘‘ بہتی ہیں یا آ جا رہی ہیں ’’ مہریاں ‘‘

سالموں کے ساتھ ہیں ٹوٹے کھلونے کھانڈ کے

مور کا سر ، شیر کا دھڑ، پاؤں غائب سانڈ کے

صحن میں کِھیلیں بتاشے ابر سے برسے ہوئے

برتنوں کے پاس ’’پتّل‘‘ رات کے پرسے ہوئے

کھو گئی ہیں کام کے اندر کنواری لڑکیاں

ساتھ وہ ہمجولیاں بھی، آئی ہیں جو مہماں

ایک۔ نازک انگلیوں سے دیولے دھوتی ہوئی

دوسری، دھوئے ہوؤں کو چُن کے خوش ہوتی ہوئی

بتّیاں بَٹتی ہے چوتھی روئی کا گالا لیے

اور گُڑوا، تیسری ’’ آفت کی پرکالا ‘‘ لیے

پانچویں ہر سو دِیے ترتیب سے دھرتی چلی

اور چھٹی بتّی سجا کر تیل سے بھرتی چلی

یہ جھمکّا کر چکا آراستہ جب طاق و در

صحن سے زینے پہ دوڑا اور پہنچا بام پر

جونہی ’’روکاروں پہ چھایا‘‘ تھوڑے تھوڑے فرق سے

اوڑھ کر کملی سوادِ شام نکلا شرق سے

بجھ گئی شمعِ شفق نظروں میں کہرا بھر گیا

شام کا گیسو کھُلی آنکھوں پہ جادو کر گیا

آنکھ مَلنا تھی کہ نظارہ پلٹ کر رہ گیا

طور کا جلوہ چراغوں میں سمٹ کر رہ گیا

مختلف آنچل ہوا کے رُخ پہ بل کھانے لگے

روشنی میں ساریوں کے رنگ لہرانے لگے

یہ دِوالی کے مناظر ، یہ نگاہیں کامیاب

یا الٰہی تا قیامت بر نہ آید آفتاب

٭٭٭

 

مہترانی

ٹھہراؤ مست بے پروا یہ کیا جھاڑو لگائی ہے

کہ ہر ہر ہاتھ پر قربان دِیدے کی صفائی ہے

وہ تبّت، یہ ترائی اور وہ لنکا بنائی ہے

یہ پیمانوں کے ٹکڑے یہ سبُو کے یہ سگاروں کے

یہ گلدستوں کے اُجڑے باغ  یہ ار مان ہاروں کے

یہ لاشے راکھ میں لپٹے ہوئے بکھرے شراروں کے

یہ کمرہ دیکھ تیری نوجوانی کی طرح مَیلا

قدم لیتا ہے اُٹھ اُٹھ کر غبارِ گیسوئے لیلا

چلی آ بے دھڑک اندر، جیا کے پاؤں مت پھیلا

ہٹو رستے سے ورنہ سر پہ خاک انداز دیتی ہوں

نہ جانے دو گے؟ جھاڑو کو پرِ پرواز دیتی ہوں

بڑے کمرے میں ہوں گی مالکن، آواز دیتی ہوں

گئی بھی دوست کے ہمراہ وہ دلّی ہوا کھانے

ہوا کھانے کے اندر جذب ہیں کالج کے یارانے

 ’’ نگوڑی بیگمیں ہیں یا کسی بھٹّی کے پیمانے‘‘

مری جاں ! تو ابھی تہذیبِ مشرق کی چمیلی ہے

ابھی اُلفت میں کچّی گولیاں شوہر سے کھیلی ہے

مزے میں آج کل وہ ہے جو آزادی کی چیلی ہے

میں کہتا ہوں اگر اندازِ مغرب تجھ کو چھُو جائے

تو پکّے آم کی صورت مرے پہلو میں چُو جائے

نہ میری آرزو کچلے نہ تیری آبرو جائے

جنھیں عفّت کا محمل اک تہی دامن محافہ ہے

دیانت سے جہاں مقصود اک رنگیں لفافہ ہے

وہاں کیا کیا ترقی ہے، وہاں کیا کیا اضافہ ہے

مرا رُتبہ ہو یا دیوان صاحب کی بلندی ہو

کوئی اعزاز نام آور ہو یا اقبال مندی ہو

نہیں آساں جو شوہر کی طرح بیوی نہ گندی ہو

یہی دیوان  صاحب، تھے جو نمبر دس کے آوارہ

جنھیں حاصل نہ تھا قانون کے خطرے سے چھٹکارہ

قلوپطرہ سی بیوی ہاتھ آنی تھی کہ پو بارہ

یہ وہ عورت کہ جس کی خود روی موٹر سے ڈولی تک

حجابِ دامنِ عصمت ہی کیا، مجروح چولی تک

شبابِ شعلہ خو کی موج دیوالی سے ہولی تک

بڑی دم باز، حیلہ جوُ، بڑی کھُل کھیلنے والی

جسے یہ سوچنا دُوبھر کہ یہ مہتر ہے، یہ مالی

بڑی ’’ بے تال‘‘ سازندہ جو ’’ سم‘ ‘تک بھی نہ دے خالی

لگا کر مجھ کو باتوں میں ، نہ ڈالو ہاتھ سینے پر

کہاں تک پنجۂ فولاد نازک آبگینے پر

جو ڈاکہ ڈال کر پی جائے لعنت ایسے پینے پر

طپنچہ سے ہرانا چاہتے ہو تم تو میں ہاری

ہوَس کے سامنے انسان کی جاتی ہے مَت ماری

تمھیں کچھ سوجھتا بھی ہے، مرا جمپر، مری ساری

اری سنتی ہے! بیرا دو روپے انعام لایا ہے

مگر وہ کون خدمت ہے یہ جس کے دام لایا ہے

ستمبر میں اضافہ کے لیے پیغام لایا ہے

٭٭٭

 

بھکارن

ہے شریکِ عقدِ ابراہیم گھر بھر، صرف میں

رہ گیا چھُٹی نہ ملنے پر، ملازم ہی تو ہوں

رخصتِ مردود پر دل میں کہاں تک پیچ و تاب

نفسِ راحت خور سچ کہتا ہے استعفیٰ نہ دوں

خود پرستوں کو روا فہمائشاتِ این و آں

زیر دستوں کی خطا، گستاخیِ چون و چگوں

وقت سے پہلے ہی آ پہنچا ہوں دفتر اس لیے

خوب اطمینان سے ڈیلی رپورٹیں بھر سکوں

چار گھنٹے، اور نبٹانی کئی ہفتوں کی ڈھیل

پَے بہ پَے ڈوبے قلم کو، کام لیکن جُوں کا توں

وحدتِ شیرازۂ جمعیّتِ خاطر کہاں

جی میں ایسی آ رہی ہے میز میں سرمار لوں

توڑ دوں مہتر کی پسلی، چھوڑ دوں سقّے پہ ہاتھ

دفتری کے دھول، چپراسی کے سر پر ٹیپ دوں

گھونٹ دوں گھنٹے کی بے ہنگام ٹِک ٹِک کا گلا

کرسیاں اوٹوں میں الجھا کر حجابی نوچ لوں

پِیک دانوں کے لہو ٹھوکر سے کر دوں فرش راہ

پارٹیشن کو لگا دوں آگ، شیشے توڑ دوں

جیسے آیا ہو ابھی دفتر کے اندر زلزلہ

جیسے بھاری ہم نے کر ڈالی ہو دنیا سرنگوں

____________

کیا کہا صاحب نے موٹر مانگ لی اچھا ہوا

مل گئی مہلت کہ میزانیں دوبارہ جانچ لوں

دھیان تھا شادی میں’ بسم اللہ‘ اور اتنی غلط

آٹھ نو سترہ کے دو آنے پہ رونے تک ہنسوں

زعمِ جودت سوخت، ہر میزان ہے صحّت طلب

کوفت آخر کوفت، ساری فائلیں گھر لے چلوں

اردلی صاحب کے بنگلے سے چِپک کر رہ گیا

اس کو کیا جچتا ہے آیا کا شبابِ نیلگوں

آڑ میں آیا کے رازِ خلوتِ سرخ و سپید

شلغمی رنگت پہ یہ تاریکی جرمِ دروں

سوچتا تھا صاحبہ اور فون پر فضلو کی رٹ

اور بخشش میں اسے جوتوں کے بدلے سینٹ دوں

صاحب اندھے تو نہیں بالفرض وہ ایسے بھی ہوں

چاہیے بیرا سلامت، میں زباں سے کیوں کہوں

وہ جو شوفر نے کہا صاحب بھی کِس گھر بند ہیں

دشمنوں کے کان بہرے ، روز کچھ سنتا تو ہوں

موٹی موٹی بھدّی بھدّی، گود میں کُتّا لیے

میرے پَلّے باندھ دی جائے تو گولی مار دوں

اب کہ صاحب جا چکے بنگلے، تو فضلوؔ کیا ہوا

چھپ رہا ہو گا کہیں ، رستہ نہ دیکھوں چل پڑوں

________

قفل میں کنجی گھمانے کی صدا، قدموں کی چاپ

صحن میں بھوکے کبوتر غاں غٹر غوں غائیں غوں

اُڑ کے دو شانوں پہ آ بیٹھے تو سو پیروں کے پاس

فائلیں ٹپکوں کہیں ، کھونٹی پہ اچکن پھینک دوں

لاؤ چپّل بھی لگے ہاتھوں پہن لوں اور پھر

سب سے پہلے بے زبانوں کی شِکم سیری کروں

دوسرے جوتے کا فیتہ کھولتی تھیں انگلیاں

یک بیک بھرّے کبوتر میں نے یہ دیکھا کہ یوں

سامنے تھی ایک عبرت خیز تجویزِ گناہ

یعنی کشمیری بِھکارن، پیکرِ حُسنِ زبوں

پیکرِ حُسنِ زبوں پر یہ اضافہ بھی سہی

زیورِ تخریب ہستی، دخترِ دنیائے دُوں

گھر کی تنہائی کو سمجھا، میری نظروں کو پڑھا

لالہ رُخ بننے لگی افسردگیِ ذو فنوں

زلفِ خاک افشاں پہ لہرائے بخاراتِ فریب

عارضِ پژمردہ پر کھیلے مراعاتِ فزوں

گھُورتے اعضا کی ہر جھلکی ’’ تعاون ماجرا‘‘

عشوہ عشوہ اشتراک آمادہ لیکن ہاں نہ ہوں

__________

دل کو اب آتا نہیں تھا بے زبانوں پر ترس

کان اب سنتے نہیں تھے، ناکَسوں کی غائیں غوں

اب مجھے فضلو کی جرأت پر نہیں تھا اعتراض

صاف تھا اب ہر گھڑی آتے تھے ٹیلی فون کیوں

اب مجھے رخصت نہ ملنے کا نہ آتا تھا خیال

اب یہ ظاہر تھا ہوئی تنسیخِ معروضات کیوں

اب مجھے آیا کی بیباکی سے ہمدردی تھی اور

اب وہ نفرت کی عمارت ہو چکی تھی واژگوں

اب وہ صورت تھی کہ جیسے رات کا جاگا ہوا

اب یہ حالت تھی کہ جیسے شدّتِ جوشِ جنوں

اب مرے پندار میں تھی اس درندے کی جھلک

جس کو بُو دیتا ہو دلدل میں پھنسی چِیتل کا خوں

_____________

چار چھوٹے نوٹ لے کر پانچ کا دے دیجیے

ٹھیک لیکن یہ جو نقلی ہے اسے میں کیا کروں

دے دیا کس نے؟ کسی عیّار نے مکّار نے

بارہا ایسا ہُوا ہے، چھوڑیے، کیا کل ملوں ؟

میں نہیں تو اپنی اس چھوٹی بہن کو لاؤں ساتھ

موہ لیتی ہے دلوں کو جس کی چشمِ پُر فسوں

وہ کما لاتی ہے اتنی بھیک پہلی رات میں

مادرِ مجہول کہتی ہے اسے کب تک گِنوں

مجھ سے وعدہ چاہتی تھی وہ، مرا یہ حال تھا

ہائے بیچارے کبوتر! لاؤ دانہ ڈال دوں

٭٭٭

 

ساس ، بہو

اُدھر منھ پھیر لو اندھے کہارو

بہن دُلہن کو ڈولے سے اتارو

ملے گا سب کو حق، چیخیں نہ مارو

میں صدقے جاؤں آنکھوں پر بٹھا لوں

بلائیں لوں کہ سینے سے لگا لوں

ذرا ٹھہرو ، گلوری تو چبا لوں

اسی کمرے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شمعیں تو جلا دو

گھسے آتے ہیں ، بچوں کو ہٹا دو

مری گُڑیا کو تکیے سے بٹھا دو

غلاف اس گاؤ پر نوّے روپے کا

بُرا لگتا ہے اس مسند پہ چیکا

کسے آتا نہیں ہے یاد ’’ میکا‘‘

اری پھوہڑ، یہ گھر کا رنگ کیا ہے

پتیلی یہ تو وہ لوٹا پڑا ہے

بڑی دلہن سے وہ جُوتے سوا ہے

مری پیزار سے موتی جڑی ہے

زباں گز بھر کی چھاتی پر پڑی ہے

تری خالہ ترے منھ پر کھڑی ہے

سُنا اس کو بھی آزادی کا دُکھڑا

دکھاتی پِھر زمانے بھر کو مُکھڑا

مرا دل کون دِن پردے سے اُکھڑا

نہ جانے کیا ہے یہ فلموں کا چکّر

ہوئی مغرب کہ چل دی بن سنور کر

تجھے کرنا بھی ہے محمود کا گھر

یہ ریڈیو سٹ، یہ گانے ، یہ رسالے

بڑے لچّے، بڑے شہدے حوالے

نئی تہذیب جو کیچڑ اُچھالے

تھئیٹر کا تو نام اکثر سُناتھا

موٹی چھمّو سے کلوا کہہ رہا تھا

غضب تھا، ’’با وفا قاتل‘‘ بھی کیا تھا

میں کیا ہوں ، تھیں وہ جلّادَن مری ساس

زباں کی نوک پر تھا ستّیا ناس

چڑھا رہتا تھا مرحومہ پہ خنّاس

مِٹھائی، ہار، خوشبو تیرا شوہر

جو لاتا ہے تو شرماتا ہے گھر بھر

خدا بخشے ، پٹک دیتیں وہ لے کر

زن و شو کے فرائض ہم نے بیشک

کِیے چھپ چھپ کے سر انجام اب تک

لگائی تو نہیں ماتھے پہ کالک

ہم اُٹھتے تھے اذانوں سے بھی پہلے

سحر کے راز دانوں سے بھی پہلے

نگاہوں سے ، زبانوں سے بھی پہلے

یہ ’’ جائز عیب‘‘ ممنونِ ہُنر ہے

وہ جس کو گوشت ہی مدِّ نظر ہے

گلے کی ہڈّیوں سے باخبر ہے

کھلے بندوں نہانے میں نہیں شرم

جو چمکی دھوپ تو پانی ہوا گرم

خراشیں جلد پر رخسار پر ورم

سحر تک جانے کیا زور آزمائی

بجی پائل تو چیخی چارپائی

چھُپاتی بھی نہیں ننگی کلائی

کہا کیا۔ اب نہیں ہے وہ زمانہ

تنزّل میں ترقی کا بہانہ

خدایا ناک اور چوٹی بچانا

٭٭٭

 

ساس

نمک سالن میں اِتنا تیز۔ توبہ

مزَعفر ڈالڈا آمیز۔ توبہ

بہو، اور ساس رستاخیز۔ توبہ

کِسے پیٹوں ، کِسے ڈالوں کٹاون

کہاں غائب ہے پن کٹّی کی ہاون

اری مُردار یہ ٹسووں کا ساون

ڈراتی ہے مجھے جھڑیاں لگا کر

گِرا دے چلمنیں چڑیاں اُڑا کر

کہوں کب تک نہ چل کولھے ہلا کر

یہی اسکول میں سیکھا ہے تو نے

 ’’بڑے بیباک‘‘ مغرب کے نمونے

پڑھایا ہے پڑوسن کی بہو نے

یہ وہ قحبہ، کہ اِک دن یاد آیا

مری ماما سے اک اُلّو منگایا

پکا کر اپنے شوہر کو کھلایا

جونہی کھایا کہ اس کی کٹ گئی مت

بدی پر جب اُتر آئی ہے جرأت

حدوں کو پار کر جاتی ہے عورت

اسی نے تجھ کو بھی تعویذ گنڈے

ہوائی قلعوں کے برجوں پہ جھنڈے

مرے سر تھی کھلا دوں’ ان کو‘ انڈے

مگر میں نے کہا۔ اللہ توبہ

وہ خود چلتے ہیں سیدھی راہ توبہ

ترا لگتا ہے کلّو شاہ! توبہ

ترا شوہر ہے اس بندی کا بیٹا

وہ کب کرتا تھا۔ میں نے سر چَپیٹا

بُرا ہوتا ہے قسمت کا لپیٹا

خدا سمجھے، یہ ساری کون جامہ

جو پہنے ’’ساجدہ‘‘ بن جائے ’’ شاما‘‘

لونڈر، چھوڑ کر عطرِ شماما!

چھچھوندر کا سا بھپکا۔ مار ڈالا

یہ کس بھڑوے نے تھا پوڈر نکالا

نگاہوں کے لیے مکڑی کا جالا

مسلمانوں میں یہ بِندی کی پھِٹکار

صدا دیتی نہیں شیطان کی مار

یہ ہندو ماسٹرنی سے جو ہے پیار

لیے پھرتی ہے بِن شوہر کا بچّہ

مگر ’’ مس صاحبہ‘‘ ہونے کا غچّہ

یہ ’’ لے پالک‘‘ اری تو جان سچّا

تکے جاتی ہے منھ، کچھ پھُوٹ منہ سے

نکالا چاہتی ہے کام ’’ اونہہ‘‘ سے

دو ہتّر، سر پہ دوں ، سینے پہ گھونسے

٭٭٭

 

رت جگا

مرے پڑوس میں اک رَت جگے کی شام ہے آج

ڈھُلا ہوا ہے محلہ۔ صلائے عام ہے آج

پِٹے نہ ڈھول تو مقصد ہی نا تمام ہے آج

بہن مجھے تو بڑے زور کا زکام ہے آج

خیالِ شعر تو کیا؟ خواب تک حرام ہے آج

شکستِ عہد ہے منّت سے دن گزرنے میں

 ’’نیاز و نذر‘‘ کی حدِّ ادب ہے ڈرنے میں

اگر یقین ہے مسجد کا طاق بھرنے میں

تو چاہیے نہ تکلف بھی قرض کرنے میں

جوانیاں ہیں کہ مصروف ہیں سنورنے میں

سڑک پڑے گی تو برقعے بدن چھپا لیں گے

خدا کے گھر میں پہنچ کر نقاب اٹھا لیں گے

عشاء کے بعد نمازی گھروں کو جا لیں گے

اگر ہوئے بھی تو شرعاً نظر نہ ڈالیں گے

جو چار چھ نے تکا بھی تو کیا چھُڑا لیں گے

یقیں نہیں کوئی ہم پر زبان کھولے گا

دِیا نہ جائے گا موقع تو کون بولے گا

جو اپنا وزن کرے گا ہمیں بھی تولے گا

نہیں تو کھا کے طمانچے فرار ہو لے گا

جما رہے گاتو جینے سے ہاتھ دھو لے گا

خدا بچائے نعیمہ۔ یہ گڑ کی بھیلی ہے

انھوں نے بَنییسے شِیرے کے بھاؤ لے لی ہے

چلِیں وہاں سے کہ حاجی شریف تیلی ہے

موئے نے سرسوں میں’ لائی‘ ملا کے پیلی ہے

جھرَپ نہ آئے تو اللہ تیرا بیلی ہے

نِکمّیو، کبھی پکوان بھی پکایا ہے؟

نہیں تو، ماؤں نے ریندھا ہے ہم نے کھایا ہے

جبھی تو چولھے میں ایندھن بہت لگایا ہے

یہ گھان بیچ سے کچّا ہے، وہ جلایا ہے

جو ’’ گلگلا‘‘ ہے وہ مینڈک بنا بنایا ہے

دھواں گھٹے گا یہ پردہ ذرا ہٹا دینا

رُلا رہی ہے چہیتی کو اب سُلا دینا

کھڑی ہے۔ پان کا ٹکڑا مجھے بنا دینا

نظر گزر کی کھجوریں مجھے اُٹھا دینا

موئے چراغ کی بتّی سے گُل گرا دینا

خموش کس لیے بیٹھی ہو آج استانی

دُلائی تان کے سو جاؤ، یہ نہیں مانی

انھیں چُپاؤ۔ کہاں کھانسنے لگیں نانی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو انقلاب سے مٹ جائے گی پریشانی

غنی کی ساس بھی پہنچی تھیں ووٹ دینے کو

کئی تو آئے تھے ووٹوں کے نوٹ دینے کو

کُسُم جو آئی دُلائی کی گوٹ دینے کو

کھُلا یہ بھید کہ آئے تھے چوٹ دینے کو

کَھروں کی ذات میں لائے تھے کھوٹ دینے کو

بٹھا لیا ہے کرم خاں نے اپنی بیٹی کو

کرے بھی کیا وہ بچارہ جنم کی ہیٹی کو

نہیں ہے موت پہ بس ’’ بوریے سمیٹی‘‘ کو

یہ کس نے ہاتھ لگایا تھا میری پیٹی کو

بُری للک ہے یہ پھندو کی سر چپیٹی کو

پولیس پہ ’’ مفت مسافت‘‘ رہی ہیں رکشائیں

مجالِ چون و چرا کیا جدھر بھی لے جائیں

اناج، گنج سے، جنگل سے لکڑیاں لائیں

کریں جو عُذر حوالات کی ہوا کھائیں

رکے نہ بات جو رشوت پہ، جیل ہو آئیں

کل ایک مجرمِ ناکردہ کو بچایا تھا

اصولِ کار ٹریفک پہ مُسکرایا تھا

جو آ گیا تھا زباں پر وہ کہہ سُنایا تھا

فریبِ فرض شناسی پہ بڑبڑایا تھا

ڈیفنس ایکٹ کی زد میں مگر نہ آیا تھا

تو اس قصور میں ، شوکت کی روشنی گُل تھی

نہیں بھی تھی تو بہر حال دبے تامّل تھی

مجسٹریٹ کی نیّت سوئے تجاہل تھی

حضور جھوٹ ہے۔ مدھم نہیں تھی، بالکل تھی

گواہ غیر ثقہ، واردات ڈھلمل تھی

عدالتوں میں تفکر کا بند ٹوٹا ہے

جو صاف صاف گزارش کرے وہ جھوٹا ہے

لُٹے ہوؤں نے یہاں زندگی کو لوٹا ہے

غرض مقدر انصاف و عدل جھوٹا ہے

بھگت کے تین مہینے کی قید چھوٹا ہے

بنا ہوا ہے یہ ہنگامہ رونقِ خانہ

بپا ہے شورشِ تقسیمِ نذر و نذرانہ

تجھے پڑوس کا کچھ دھیان بھی ہے ریحانہ

غریب دوست، امیروں کے حق میں بیگانہ

مزید یہ کہ وہ شاعر ہے یعنی دیوانہ

٭٭٭

 

شادی سے پہلے

سانولا رنگ ، بڑی آنکھ، میانہ خد و خال

میری بیوی کہ غنیمت ہے مگر ’’ اب کی سال‘‘

 ’’ نو مہینے‘‘ کی مصیبت ہے کوئی چوتھی بار

یعنی ہر بار گدازیِ بدن ’’رو بہ زوال‘‘

نو بہاروں سے پلٹ جائیے ماضی کی طرف

رُخِ جلوہ پہ بناوٹ سے’ نہ لگتا تھا کلف‘

کنواریوں میں مری بیوی بھی نظر آتی تھی

وہی اندازِ ’ مہِ نو‘ وہی’ آغازِ  شرف‘

تھا میں’  ایف۔ اے‘ میں ابھی اور وہ’  بی اے‘ میں مگر

ہوسٹل چلیے گا؟ احمق نہ بنو، ’ دائی کے گھر‘

کوئی تانگے پہ ہے ماں ، کہہ دے کہ’ آئی بیٹا‘

مبتدا کان میں پڑنا تھا کہ عریاں تھی خبر

آؤ کھڑکی پہ ذرا دیر کو’ دائی دادی‘

رات تھی ان کے کسی دوست کی ’’خفیہ شادی‘‘

گھر اکیلا تھا، لگی آنکھ نہ ڈر کے مارے

کوئی نوخیز بُری طرح ہوا فریادی

رائے جے مَل کے بغیچے میں’  دروغہ صاحب‘

کوئی اس جرمِ محبت کو چھپا کر غائب

تم نے اس بچّے میں ’’مایا‘‘ کی جھلک بھی دیکھی

کیا کہا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ہیڈ محرّر ہے نہ کوئی نائب

انھیں باتوں سے تو ہو جاتا ہے تھانہ گندا

اس کے پہلو میں کُسم اس کی بغل میں چندا

میں بھی عیّاشی میں ان سب سے نہیں ہوں کچھ کم

شبِ عشرت کے لیے دن میں کوئی تو دھندا

کیوں کھُبا جاتا ہے آنکھوں میں یہ ننّھا مزدور

چٹکیاں لیتا ہے دل میں ’’ گُنہہِ تحت شعور‘‘

دائی نانی نے کہیں مجھ کو ’’ پڑا پایا تھا‘‘

جانے کیوں پھینک گئے تھے مجھے ماں باپ حضور

آج لا حول ولا قوۃ الّا باللہ

اختیاری ہے جسارت کو’ حرامی پلّا‘

خوفِ رسوائیِ عصمت سے چھڑا کر دامن

پھر وہی ’’ دعوتِ خلوت‘‘ تھی نہا کر ’’ چِھلّا‘‘

ہیں جو رجعت کے طرفدار انھیں رونے دو

’ زُہدِ بدکار‘ کے دامن سے بدی دھونے دو

اب نہ دائی سے تعلق ہے نہ رسوائی سے

یہ دوائیں مثلاً ’’روک دو‘‘ مت ہونے دو!

٭٭٭

 

سالی

’ میرے گھر میں کہ اِطاعت کے سوا کچھ بھی نہیں

کچھ تو ہو عشوہ و انداز و ادا کچھ بھی نہیں

پی بھی لیتے ہیں مزا منھ کا بدلنے کے لیے

نہیں’ یک رنگیِ آئینِ غذا‘ کچھ بھی نہیں

گھر کی مرغی کو بہر حال نباہا اب تک

 ’’دال‘‘ کے حق میں چکوروں کو نہ چاہا اب تک

پاکبازی کا نہ کھُل جائے بھرم اے ہمدم

 ’’گھر گرہستی‘‘ میں نہ آیا تھا دو راہا اب تک

میری سالی ہے مجھے گو شجر ممنوعہ

 ’’ بھوک میں ‘‘ زہر نہیں ما حضرِ ممنوعہ

 ’’سایۂ تاک‘‘ میں نیت پہ بھروسہ کس کو

گود میں آ کے گرے جب ثمرِ ممنوعہ

کچھ جوانی ہے ابھی کچھ ہے لڑکپن اس کا

دو دغا بازوں کے قبضے میں ہے جوبن اس کا

چادرِ عفّت و عصمت پہ نہ دھبّہ ہے نہ چھینٹ

داغ دھبّوں سے ابھی پاک ہے دامن اس کا

ہے اچھوتی ، پہ طرب ناک اشارہ ڈھونڈے

ظلمتِ گوشۂ تنہا کا سہارا ڈھونڈے

باوجودے کہ عفیفہ بھی ہے دوشیزہ

دامنِ پاک نگاہی میں شرارہ ڈھونڈے

میری خلوت میں نہ آنا تھا، مگر آتی ہے

بام پر جائے تو زینے پہ ٹھہر جاتی ہے

کوئی بے نام سا کھٹکا ہو کہ آہٹ ہو کہ چاپ

چھوڑ کر ’’بوسۂ مجروح‘‘ گزر جاتی ہے

بھاگتی ہے، مگر اس طرح کہ ہاتھ آ جائے

ہاتھ آنے پہ وہ تیور کہ بدی گھبرائے

لمسِ پستاں میں جو لہریں ہیں انھیں کیا کہیے

جیسے کانٹوں میں کوئی پھُول تسلّی پائے

اس تسلّی کے جھکولوں میں وہ ’’ تیور‘‘ پامال

بھول جاتا ہے جسے ہاتھ چھڑانے کا خیال

مست بانہوں میں مچلتی ہوئی سینے کی تپش

عزّتِ نفس کے ماتھے پہ حرارت کی مثال

آپ سوچیں گے کہ یہ نصف ملاقات ہی کیا

ایک نقطے پہ ٹھہر جائیں وہ حالات ہی کیا

لوگ ’’ نیزہ‘‘ جسے کہتے ہیں وہ ’’ سوئی‘‘ تھا کبھی

پھانس کا بانس نہ بن جائے تو پھر بات ہی کیا

 ’’ ہمہ تن خلق و اطاعت‘‘ ہے مری گھر والی

کل جو موقع کی نزاکت سے ’’ کھُلی شہ‘‘ پالی

بام پر جا کے ذرا دیر ’’ ہوا کھا آؤں ‘‘

اور پھر پیٹ کا ہلکا نہیں۔ کمرہ خالی؟

٭٭٭

 

مال روڈ

مہذّب زمانے کی بیٹی سڑک

درختوں کے سائے میں لیٹی سڑک

حیا باختہ ، گڈ پریٹی سڑک

________

سناؤں تمھیں بات اک رات کی

کہ وہ رات اندھیری تھی برسات کی

بڑی بات ہے اتفاقات کی

________

چمکنے سے جگنو کے تھا وہ سماں

ہوا میں اُڑیں جیسے چنگاریاں

تڑپتی تھی رہ رہ کے برق تپاں

________

کیا برق نے سرچ لائٹ کا کام

ابھی عالمِ نور و ظلمت تمام

وہ کوٹھی کہ جس میں نہیں اذنِ عام

________

وہیں ایک نظارۂ مختصر

تصوّر میں خطرہ سا گزرا مگر

نہ ٹھہرے قدم، واہمہ جان کر

________

بناوٹ پہ جگنو کی پہنچا خیال

کہ اتنے سے کیڑے میں ہے کیا کمال

تفکّر پکارا ’’مری کیا مجال‘‘

________

نہ ہو دسترس جس پہ اس کو نہ جانچ

دھواں ہے نہ شعلہ، نہ گرمی نہ آنچ

مناسب نہیں عقل کی سات پانچ

________

زہے غمزۂ برقِ موقع شناس

ذرا ہٹ کے پھاٹک سے اوجھل کے پاس

تغزّل میں مشغول، اونچے لباس

________

لباسوں میں ہلکی سی ردّ و بدل

 ’’ زحافات‘‘ ’’اِدغام‘‘ کا سا عمل

مصوّر تھی القصّہ عریاں غزل

________

یہ قدرت کی کاری گری ہے جناب

گناہوں کو چمکائے جوں آفتاب

یہ تہذیبِ حاضر، یہ دار الخراب

________

٭٭٭

 

مرے محلّے کے دو گھرانوں سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ طنز ہے، ہجو تو نہیں ہے کہ خاندانوں کے نام لے دوں

جنابِ سوداؔ کی طرح ضاحکؔ سے بد زبانوں کے نام لے دوں

طرب شعاروں کو گالیاں دوں نگار خانوں کے نام لے دوں

بہت سمجھ بوجھ کر ’’ گناہوں کا فیضِ جاری ‘‘ کہا ہے میں نے

جنھیں شکاری کہا ہے منٹو نے، کاروباری کہا ہے میں نے

ڈھکے چھُپے کسبِ زر کو ’’ اونچی دکانداری‘‘ کہا ہے میں نے

غلط نہیں ہے جو اُن گھروں کا کنایۃً کچھ اتا پتا دوں

جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں جو بے خبر ہیں انھیں سجھا دوں

جو طنز کا مدّعا نہیں ہیں ، قلم کی زد سے انھیں بچا دوں

جُدا جُدا ان گھروں پہ لکھنے سے طول پا جائے گا فسانہ

ہزار ایجنسیوں پہ حاوی ہے جب کہ ’’ باٹا کا کارخانہ‘‘

وہی ہے شو روم ’’ ریسٹ ہاؤس‘‘ لکھا ہوا ہے جہاں زنانہ

وہ ’’سہ دری میں ‘‘ حکیم ’’ بطخا‘‘ ہے جس کی حکمت برائے حکمت

یہ بورڈ، وہ پوسٹر‘ یہ اعلان ’’سب گھریلو مطب‘‘ کی نسبت

مریض کی تندرست جیبوں کو شرط ہیں ’’ نسخہ ہائے خلوت

یہ ’’ گھس کھُدے‘‘ تھے کبھی مگر اب تو لاریاں چل رہی ہیں ان کی

وہ لڑکیاں پل چکی ہیں ان کی یہ لڑکیاں پل رہی ہیں ان کی

بغیر ٹکسال کے زمانے میں گِنّیاں ڈھل رہی ہیں ان کی

نشست گاہوں میں ابتداء ً بڑے تکلف سے چاء پانی

سُنا کے جھنکار چوڑیوں کی رجھائے گی ’’ ڈیوڑھی زنانی‘‘

سلام و آداب پہلے نوکر کی معرفت اور پھر زبانی

امیر ہیں آپ اس لیے آپ کی شرافت میں شک نہ ہو گا

رئیس ہیں آپ اس لیے آپ سے تعلق ہتک نہ ہو گا

جو کام چاہیں گے آپ نوٹوں کے بل پہ کیوں بے دھڑک نہ ہو گا

تبسّموں کی کھنک سے جنبش میں آئے گا ہر مکاں کا پردہ

کبھی ہٹے گا یہاں سے پردہ کبھی ہٹے گا وہاں کا پردہ

بڑے سلیقہ کے ساتھ نانی کے بعد ٹوٹے گا ماں کا پردہ

کسی بھی شوہر سے بات کیجے، کریگا بیوی کا آپ سودا

جو بیٹیوں کو پسند فرمائیں آپ، کر لے گا باپ سودا

کسی بھی دلّال کے لیے ہے نہ کوئی لغزش نہ پاپ ’’سودا‘‘

پسند فرمائیں گے جسے آپ ، وہ دبائے گی پاؤں آ کر

حناؔ بنائے گی پان، شمسہؔ شراب دے جائیگی منگا کر

کہے گی نانی کہ رات جاتی ہے سو رہو، روشنی بجھا کر

سحر کو حمّام بھی کرائے گی وہ، دبائے تھے پاؤں جس نے

ہزار پانسے پلٹ پلٹ کر کیے تھے کیسہ پہ داؤں جس نے

 ’’بڑی کھلاڑن ، ، ہے کورٹ کروا دیے ہیں گاؤں گراؤں جس نے

رہی ہے جو داشتہ، کرائے گی ناشتہ بھی سحر سے پہلے

کرے گی رخصت، عقب کے زینے سے آپ کو ہر نظر سے پہلے

گلے میں بانہیں پڑی رہیں گی عطیۂ مال و زر سے پہلے

ادھر گئے آپ، اور چھوٹی بہن کے کمرے نے آنکھ کھولی

ہے شرط سرمایہ دار ہونا، وہ کوئی تیلی ہو یا تنبولی

اُسی کو ملتا ہے اذنِ خلوت جو بول سکتا ہو بڑھ کے بولی

٭٭٭

 

شکارِ ماہی

رات بھر اک جھیل پر’ جھک مار کر‘

صبح کو پلٹا ہوں ہمت ہار کر

دل میں ہے مچھلی نہ پھنسنے کی جلن

ہیں وبالِ جاں تبر، شِستیں ، ڈگن

کوششیں برباد جانے کا ملال

جاگنے کا اوس کھانے کا ملال

مصرفِ تعطیل کی ’’ بے حاصلی‘‘

رات بھر کھونے پہ اک ’’ لاچی‘‘ ملی

اپنی استادی کے دعووں کا لحاظ

شرط کا افسوس، وعدوں کا لحاظ

دوستوں کے مسکرانے کا خیال

طنز گوں باتیں بنانے کا خیال

ایک۔ حضرت! کس قدر مارے’ سنول‘

دوسرا۔ اُس جھیل کے سارے’  کنول‘

تیسرا۔ دیکھیں چلو وہ ڈھیر بھی

جس میں ’’ روہو‘‘ بھی ہیں اورا شیر بھی

چائے کی عادت سے تنگ آیا ہوا

پائے ’’پامردی‘‘ میں لنگ آیا ہوا

عاجزی رہ رہ کے چمکاتی ہے دانت

پھیر سے پگڈنڈیاں شیطاں کی آنت

ڈاک بنگلے کا تصور الاماں

منزلِ مقصود پر طاری دھواں

کھُل گیا اک بوٹ کا فیتہ مگر

جھُک نہیں سکتی نقاہت سے کمر

پاڑھ کے جھانکڑ چلے آتے ہیں ساتھ

کون ڈالے کوٹ کے دامن پہ ہاتھ

دور کرنی چاہتا ہوں دل کی جھانجھ

ڈھالتا ہوں شعر میں منزل کی جھانجھ

جب نہیں ملتا، شکاری کو شکار

سامنے جو آئے کر دیتا ہے وار

یعنی آ پہنچا ہے وہ موضع قریب

بس رہے ہیں جس میں دہقانی غریب

حلقہ ہائے بنگ میں یہ گاؤں ہے

چھپّروں میں نیستی کی چھاؤں ہے

راستہ ناپید۔ کیچڑ بے حساب

پاؤں بہکا۔ موچ، اور کپڑے خراب

پاس ہی مندر کے وہ تالاب ہے

جس میں پانی کی جگہ تیزاب ہے

مچھروں کا ’’مامن ومسکن‘‘ ہے یہ

 ’’ نقصِ صحت‘‘ کے لیے درپن ہے یہ

__________

وہ کنواں کہتے ہیں جل داتا جسے

 ’’ آبِ حیواں ‘‘ بھی نہیں پاتا جسے

ہو چکی جس کی ’’جگت‘‘ جذبِ زمیں

عقل کہتی ہے علامت کچھ نہیں

آدمی جس سے نہاتا ہے یہاں

پھر وہ پانی چُوس لیتا ہے کنواں

پاک ہونے کے لیے آتے ہیں لوگ

اور بھی ناپاک ہو جاتے ہیں لوگ

_________

بے در و دیوار سا ہر گھر یہاں

قصر سرمایہ کا پس منظر یہاں

رہتے ہیں کُٹیا میں یکجا ’’ گاؤ  خر‘‘

 ’’پونڈ‘‘ میں انسان آتے ہیں نظر

یہ ہمارے بھائی وہ دہقان ہیں

جن کے ہم پر سیکڑوں احسان ہیں

_________

ہو چکا ان کی طمانیت کا ناس

ہر گھڑی فکرِ ’’بقایا‘‘ آس پاس

کھا چکا کھیتوں کی پیدا وار’  سود‘

قرض پر دار و مدارِ’ ہست و بود‘

روز افزوں ’’ سر برہ کاری‘‘ کی ’’ مد‘‘

اور اس کے بعد پٹواری کی ’’ زد‘‘

٭٭٭

 

مال زادیاں اور دلال

کس لیے تکلیف فرمائی جنابِ محترم

 ’’ اجنبی تشریف ارزانی‘‘ کا باعث کم سے کم؟

ہم بہی خواہِ جوانی ہیں ، بڑھاپے کی قسم

شربتِ فولاد، معجونِ شباب آور نہیں

بلکہ بھوکی آتما کو شانتی دیتے ہیں ہم

آپ ہوٹل کے منیجر ہوں تو گستاخی معاف

آپ کی ہیئت پہ ہے امدادِ ملک و قوم ضم

دیجیے بنگال کی ٹھنڈی چِتاؤں پر رقم

سائباں مسجد کا، مندر کا کلس، مکتب کی چھت

اور بھی دنیا کمانے کے ہزاروں ’’ عذر و بم‘‘

قوم کی دُکھتی رگوں پر چٹکیاں کس واسطے

قوم کے کچھ پیٹ پل جاتے ہیں یوں بھی جانِ غم!

واسطہ رکھتے ہیں اس ہوٹل کے اس شعبے سے ہم

جس کو لازم ہے مسافر کے لیے آسودگی

یہ بھی گارنٹی کہ حد بھر مال اچھا، دام کم

توبہ توبہ نیند آتی ہے تو کھو جاتی ہے عقل

ہوش کی دنیا کنارے نکتہ دانی کالعدم

بدگمانی کو نہیں سجتا مقامِ جامِ جم

ورنہ ہوں گے آپ تو ایجنٹ ایسی فرم کے

اعتدالِ نفع سے کھلتا نہیں جس کا بھرم

ہاں انھیں پگڈنڈیوں میں جادۂ مقصود ہے

ہاں اسی رستے پہ آگے کی طرف دو اک قدم

اعتباری ہے کسی بزنس میں کچھ پہلوئے ذم

ثالثِ بالخیر کی دنیا سے رہتی ہے طلب

اصطلاحی خبط ہے دلّال کی خدمت سے رم

کارو بارِ فطرتِ مجبور پرکھا چاہیے

روز و شب سے قبل صبح و شام لیتی ہے جنم

کس نے دیکھا اتصالِ نور و ظلمت ایک دم

بیچ میں ہلکے دھندلکے کی اگر کوشش نہ ہو

لغو ، دونوں وقت ملنے کا تصور یک قلم

پھول کی ایجنٹ خوشبو ہی نہیں رنگت بھی ہے

رنگ و نکہت کے سبب لطفِ مناظر اور ہم

منھ بگاڑے شیخ کا ایماں برہمن کا دھرم

ہے ہمارا رہ نما، خیّام ہو یا ابنِ رشد

ان دلائل پر کہیں گے آپ کیا لایا نعم

بندہ پرور فلسفی ہوں میں نہ کوئی منطقی

آپ اور سرمغزنیِ الشراحِ کیف و کم

حدِّ معلومات میخانے سے تا بیت الصّنم

دیکھتی ہے فکر میری زندگی کے موڑ سے

بزمِ سرمایہ کے اندر مصرفِ دام و دِرم

اے معاذ اللہ ! میری گرگ باراں دیدگی

آپ شاعر ہیں مگر انداز حیوانوں سے کم

سیکڑوں دیکھے، جو خبطِ شعر کا بھرتے ہیں دم

اس کی گردن میں گریباں ، بیل کی رسّی پہ طنز

بال اس کے سنبلِ خودرَو بافراطِ اتم

آپ کے ظاہر کو شاعر کہہ نہیں سکتا کوئی

سہہ رہا ہو گا مگر باطن حسینوں کے ستم

خونِ دل ممنونِ طغیانِ سرشکِ چشم نم

آپ ان ہمدردیوں کے بعد کیا کہنے کو ہیں

یہ کہ تشبیہوں کا پردہ اور حورانِ ارم

بعض دیدہ زیب، شیرازہ مگر اُدھڑا ہوا

یعنی ’’قیر آمیز‘‘ بندش چست، استعمال کم

رہن رکھ سکتے ہیں ’’ شعر الہند‘‘ کے یہ جز و ہم

سترہ ستائیس کا غذ جن کا ہے، دو چار ہیں

بعض میں سنہ طباعت ہے پہ مرفوع القلم

جائیے لِللّٰہ! ایسی چھانٹ کر لے آئیے

جِلد نازک، خوشنما جدول ، طباعت مغتنم

اور کاتب خود ستا انداز کا گوہر رقم

جوڑ لفظوں کے غنیمت ہوں ، بھلے نوک اور پلک

روشنائی کم سہی لیکن نہ توہینِ ’’ قدم‘‘

انفرادی ہے مگر ہر شخص کی افتادِ طبع

آٹھ جس کو مدح سمجھیں دس اسے کہتے ہیں ذم

اس لیے محفوظ ہی رکھتے ہیں اپنی رائے ہم

دیجیے، پہلو کے دروازے پہ دستک دیجیے

للعجب! یہ سب کتابیں ہیں کہ آہوئے حرم

٭٭٭

 

ملازمہ

وہ نوکرانی کہ مُفلسی جس کو خدمتوں سے لگا چکی ہے

وہ عجلتِ کار کے تقاضوں میں آدمیّت گنوا چکی ہے

جو بے محابا کباب تلنے میں ہاتھ اپنا جلا چکی ہے

جو ڈانٹ پر ڈانٹ کھا چکی ہے جو آگ پر گھی گرا چکی ہے

جو اپنے بھوکے یتیم بچے کو دے کے ٹکڑا ہٹا چکی ہے

یہ لغزشیں ہیں کہ جن پہ بیگم اسے ہزاروں سُنا چکی ہے

زباں کی قینچی میں خنجرِ آب دار کا رنگ آ گیا ہے

ٹریل میلی پڑی ہوئی ہے چھُری پہ بھی زنگ آ گیا ہے

نفاست و شستگی کا وہ حال، خیر دل تنگ آ گیا ہے

خراب ہے چوٹٹی کی میزبانِ عقل، پاسنگ آ گیا ہے

نظر بچا کرنمک حرامی کا ناروا ڈھنگ آ گیا ہے

میں سب سمجھتی ہوں رات جس طرح دودھ بلّی گرا چکی ہے

سوالِ آقا، کہ پانچ بجتے ہیں ، چائے تیّار کیوں نہیں ہے

’ابھی اٹھی ہوں ‘ سے مجھ کو مطلب، سحر سے بیدار کیوں نہیں ہے

تِتر بِتر ہیں لباس و بستر، تجھے سروکار کیوں نہیں ہے

بھری ہیں کیوں گھنگھنیاں سی منہ میں ، زباں پہ اقرار کیوں نہیں ہے

یہ جس کے لچّھن، یہ جس کے کرتوت ہوں ، خطاوار کیوں نہیں ہے

تجھے ہماری’  عنایتِ چشم پوش‘‘ کاہل بنا چکی ہے

پکڑ لیے ہیں قدم زمیں نے، کھڑی ہے مجبور سر جھکائے

نہیں سزاوارِ پیشِ خدمت کہ ہونٹ کھولے زباں ہلائے

جبیں سے بیچارگی نمایاں ، مصیبتِ دل کہی نہ جائے

دماغ کے ساتھ گھر کی ہر چیز جیسے لٹّو کوئی گھمائے

نظر میں بیگم کے دھندلے دھندلے نقوش جس طرح نیند آئے

یہ ایک سپنا کہ سر کو آقا کی ٹھوکروں پر جھکا چکی ہے

مگر تکبّر نے عاجزی کو نہ لائقِ التفات سمجھا

ستم شعاری نے سجدۂ عفوِ جرم کو واہیات سمجھا

اصیل، مردار، سست، منحوس، بد نظر، نیچ ذات سمجھا

غرورِ سرمایہ نے غریبی کو پیکرِ بے حیات سمجھا

وہ جس نے گھر بھر کی خدمتوں کو فریضۂ کائنات سمجھا

 ’’ ابھی نِکل جا‘‘ حکم پاتے ہی اپنا بستر اُٹھا چکی ہے

٭٭٭

 

مُرید کی بیوی

ٹھیکے دار بھلے کو آئے

نکلے دھوپ تو جاڑا جائے

صبح کو پورا ’’ مرغا‘‘ کھائے

شام سے پھر دوزخ بھڑکائے

ہم اس جنت سے بھر پائے

دودھ، ملائی، ماوا ، مسکا

اس مہنگے میں کس کے بس کا

متوالا گنّوں کے رس کا

چائے کی لت انڈوں کا چسکا

’کور‘ بنا جو، حلق سے کھسکا

آئے پیٹ پجاری بن کر

جم جائے بیماری بن کر

مذہب کا بیوپاری بن کر

قرقی کی تیاری بن کر

 ’’پھکٹ چند گردھاری‘‘ بن کر

موٹا تازہ، ہٹّا کٹّا

گاما سے تھوڑا سا بٹّا

ممدو کی بیوی سے سٹّا

ہی ہی، ہا ہا، چیل جھپٹّا

کیا جانے؟ ’’کب کھائے کھٹّا‘‘

اے انگھڑ صحرائی۔ روڑو!

ہل میں الٹا اونٹ نہ جوڑو

چھیلا خاں ! بیلوں کو موڑو

’کوٹوار کی‘‘ چندیا توڑو

اس ’’ آلھا اودل‘‘ کو چھوڑو

سالے سے اک بھیلی لاؤ

دونوں بیلوں کو کِھلواؤ

خالص گھی کی ناریں۔ جاؤ

جس جا دانہ بھوسہ پاؤ

قیمت ! یہ مونچھیں ! شرماؤ

پِیر تمھارا ہے۔ تم جانو

ایسوں کی عظمت پہچانو

جو مانگے، دو، بے ایمانو!

پھر کہنا۔ ’’چلنے کی ٹھانو‘‘

مجھ کو کیچڑ میں مت سانو

ممدو کی بیوی پر تہمت

ہمسایوں کی گندی عادت

عورت ہے شہکارِ فطرت

شہکارِ فطرت ہے رغبت

پیروں کو زیبا ہے۔ تم مت۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

وہ کافرہ

وہاں ہر آرزو اس روز مہماں تھی جہاں میں تھا

بہ طورِ میزباں کُل بزمِ امکاں تھی جہاں میں تھا

کسی دیوار سے جیسے کوئی روشن جبیں اُبھرے

درختوں پر وہ سعیِ ماہِ تاباں تھی جہاں میں تھا

گھٹا کے سات پردوں سے تجلّی پھوٹ نکلی تھی

تجلّی سات پردوں سے نمایاں تھی جہاں میں تھا

فضا نے بھر دیے تھے کہکشاں کی مانگ میں موتی

نظر بادل کے ہر ٹکڑے پہ رقصاں تھی جہاں میں تھا

چلے آتے تھے کومل گیت پروائی کے شانوں پر

انھیں گیتوں میں فطرت بھی غزلخواں تھی جہاں میں تھا

’ ہجومِ کرمکِ شب تاب‘‘ تھا ’’ نوشٹ‘‘ کے پھولوں پر

دو بالا شوکتِ بزمِ چراغاں تھی جہاں میں تھا

پھبَن سبزے کی، خوشبو مختلف نو خیز کلیوں کی

سہانی رات، شبنم عطر افشاں تھی جہاں میں تھا

سُناؤں کیا وہ کیا ساعاتِ رنگینِ محبت تھے

مجسم رونقِ بزمِ شبستاں تھی جہاں میں تھا

قدِ بالا پہ’ باڈی‘ اور’ پیٹی کوٹ‘ نارنجی

سبک سورج مکھی سروِ خراماں تھی جہاں میں تھا

محبت دل نواز و حسن محوِ ناز برداری

جفائے ہر حسیں افواہِ عریاں تھی جہاں میں تھا

تکلف ہی نہ تھا زیبِ قرینہ ہر نفاست میں

تواضع بھی شریکِ ساز و ساماں تھی جہاں میں تھا

مہیّا تھے وجوبی لازماتِ کیفِ خوش بختی

مگر ناسازیِ قسمت پریشاں تھی جہاں میں تھا

سوادِ شامِ خلوت میں رُخ و گیسو کے نظارے

رہینِ شام خلوت، صبحِ خنداں تھی جہاں میں تھا

سماعت کے لیے لب ہائے شیریں نغمہ گستر تھے

بصارت کے لیے شوخی گل افشاں تھی جہاں میں تھا

ادائے نَو بہ نَو مصروفِ دلداریِ پیہم تھی

مرے پہلو بہ پہلو برق رقصاں تھی جہاں میں تھا

 ’’ تمھاری ہو چکی‘‘ یہ کہہ کے سرشانے پہ رکھ دینا

جبینِ آگہی سر در گریباں تھی جہاں میں تھا

وطن والوں سے دادِ ربطِ باہم کی توقع کیا

 ’’ کہیں ترکِ وطن‘‘ تدبیرِ آساں تھی، جہاں میں تھا

خیالِ چاک دامانی، امینِ پاک دامانی

زلیخا اپنی کج فہمی پہ گریاں تھی جہاں میں تھا

اُدھر بھاری قدم رکھتے ہوئے رہگیر جاتے تھے

اِدھر انگشتِ حیرت زیرِ دنداں تھی جہاں میں تھا

ہر آہٹ پر جھجک کر جھانک لیتی تھی دریچوں سے

 ’’ وہ‘‘ میری بلکہ اپنی بھی نگہباں تھی جہاں میں تھا

مرے اشعار کے اجزائے رسوائی پہ تنقیدیں

میں شاعر، وہ سخن فہم و سخن داں تھی جہاں میں تھا

زباں پر اس کی توصیفِ حرم، اسلام کی حد تک

مرے ایمان کی دنیا پشیماں تھی، جہاں میں تھا

غرض وہ مجھ سے بہتر جانتی تھی میرے مذہب کو

غرض وہ کافرہ عینِ مسلماں تھی جہاں میں تھا

٭٭٭

 

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 ’’ لگانے والے‘‘ بنا کے باتیں ، لگی ہوئی کو بجھا رہے ہیں

دھوئیں کے بادل، افق کے ماتھے ’’کلنک ٹیکے‘ سجا رہے ہیں

شفق کی سُرخی مگر بتاتی ہے، طور ’’لاوا اُگل رہا ہے‘‘

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

چنار کی طرح شاخ در شاخ، تلملاتے ہیں ’’برق پارے‘‘

کسی نشیمن کے اس کنارے، کسی نشیمن کے اس کنارے

جو ظلم بویا گیا تھا انسان کا لہو پی کے پھل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

یہ مسجدیں ، یہ مکان، یہ مدرسے، یہ ’’بھرپور کارخانے‘‘

یہ برج و محراب و طاق و در، اور جلی کتابیں ، کھُلے خزانے

نقوش کالک سے بھر گئے ہیں مگر پتہ صاف چل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

 ’’اکاش وانی‘‘ سنا رہی ہے فغان و فریاد و آہ اب تک

دبی دبی سسکیوں میں ڈوبی ہوئی بلکتی کراہ اب تک

مگر سُنی اَن سُنی ہوئی ہے، سِتم کا چکّر وہ چل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

یہ ’’بھینس‘‘ رسّی نہ توڑ پائی ’’وہ گائے‘‘ جَل بھُن کے رہ گئی ہے

کبوتروں ، مرغیوں کے ٹاپوں میں رُوئی سی دھُن کے رہ گئی ہے

جوازِ قہرِ خدائے عادل کے واسطے وقت ٹل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

انار، امرود، ناشپاتی کے پیڑ جھلسے کھڑے ہیں اب تک

وہ نیم، جامن، سرس جو تیورا کے گر پڑے تھے پڑے ہیں اب تک

ہنوز ’’عبرت کے حامیوں ‘‘ کو پتہ تباہی کا چل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

یہ کارخانہ کہ جس کا پھاٹک، دھواں اُگلتا ہے منہ کو پھاڑے

جو گھُپ اندھیروں میں چور کرتے، عمل ہوا اُس پہ دن دہاڑے

یہاں یہ اسٹاک جل رہا ہے وہاں وہ شعلوں میں ڈھل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

جو آگ لگتی ہے خود، بُجھانے کو دوڑ پڑتا ہے کل محلہ

مگی ’’لگائی گئی‘‘ پہ بھاری رہا ہے ظلم و ستم کا پلّہ

فسادیوں کا ’’پلان‘‘ تجویز کے مطابق اٹل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

محافظوں نے ’’نظر بچا کر‘‘ وطن پناہی کی لاج رکھ لی

سیاستِ ’’رام راج‘‘ رکھ لی، کیا ستِ تخت و تاج رکھ لی

تو آمریت کا دیو، جمہوریت کے پردے میں پل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

سُنا ہے، وحشی سپاہیوں نے جو ’’اُس کو‘‘ بوٹوں سے روند ڈالا

تو ’’ اس کو‘‘ سنگین پر اُٹھا کر ’’بھڑکتی اگنی‘‘ کے رُخ اچھالا

زمین رہ رہ کے کانپتی، آسمان تھم تھم کے چل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

نہیں بسائے گئے ہیں اب تک جو خانہ برباد ہو چکے ہیں

نہ چین سے سو سکے ہیں اب تک، ابھی نہ جی بھرکے رو چکے ہیں

لیے ہوئے رائفل ابھی تک سروں پہ خطرہ ٹہل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

یہ جیل کی طرح اک عمارت جو کیمپ کا کام دے رہی ہے

جو دور سے اپنے ساکنوں کا ’’پیام‘‘ انجام دے رہی ہے

اُداس چہروں سے ناموافق، غذا کا طرزِ عمل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

نہیں ہے ہر سَو میں ، ساٹھ ستّر کے پاس کچھ ’’اوڑھنا بچھونا‘‘

جو جاگنا دن کو سر بہ زانو، تو شب کو ہاتھوں کے بل پہ سونا

سحر کو جو ہاتھ سر کے نیچے رہا تھا، مفلوج و شل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

کسی کو شکوہ ، کہ ’’جب سے آئے ہیں ، چائے پلّے نہیں پڑی ہے‘‘

کسی کا کہنا کہ ’’پیٹ سے کم  غذا‘‘ کی آفت بہت بڑی ہے

وہاں ’’پِٹا تھا‘‘ اگر دوالہ، یہاں ’’کچومر نکل رہا ہے‘‘

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

وہ عورتیں ’’جن کے بال ببرے‘‘ یہ لڑکیاں ’’جن کے جسم ننگے‘‘

پھٹیں جو کرتوں کی آستینیں ، تو ’’کٹ کے‘‘ فرشی بنے اُوٹنگے

معاونت کا سوال دو عدہ ہنوز ہونٹوں پہ چل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

خیال یہ تھا کہ چار چھ بند کہہ کے یہ نظم ختم کر دوں

جو فرض کی تشنگی بجھا دوں تو شعر گوئی کا پیٹ بھر دوں

مگر تصور کی باگ تھامے، خیال آگے کو چل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

سلگ رہے ہیں مرے تصور میں ’’روزناموں کے وہ تراشے‘‘

مدیر جن کے کوئی ’’اکالی‘‘ کوئی ’’مسیحی ‘‘ کوئی ’’مہاشے‘‘

بنام انسانیت و آدمیّت، یہ حادثہ سب کو کھل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

جو دوسروں کو  کِھلا رہے تھے، وہ آج خیرات کھا رہے ہیں

جو ’’مرغ و ماہی‘‘ پہ لقمہ زن تھے وہ دال سے بھات کھا رہے ہیں

جو ہاتھ ’’مونچھوں کو تاؤ دیتا تھا‘‘ آج کھُرچن پہ چل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

بسائے گی پھر جنھیں حکومت، وہ اس عنایت سے کانپتے ہیں

جو دے چکے ہیں ، انھیں اذیت ، وہ ان کے تیور بھی بھانپتے ہیں

یقینِ وعدہ بھی لازمی ہو گیا ہے، جی بھی دہل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

خبر یہ پاکر ’’وزیر اعظم کریں گے ساگر کی سمت پھیرا‘‘

محافظانِ وطن کے، اِخفائے راز سے چھٹ گیا اندھیرا

قنات اس گھر پہ تن رہی ہے تو اُس کا چھجّہ سنبھل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

کھنڈر جدھر سے نظر نہ آئیں ، وہ راہ تجویز کی گئی ہے

گھروں کے مُنہ دھو دیے گئے ہیں درست ’’دہلیز‘‘ کی گئی ہے

اُگل رہے تھے جو گیس، اب اُن نلوں سے پانی اُبل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

یہ گھر جو ہندو رئیس کاہے، کہیں گے اس کو رئیس خاں کا

بعینہٖ جیسے ’’راج موہن‘‘ نے روپ دھارا ہو’ گل زماں ‘ کا

پہن کے شلوار و پوستیں ، بھوپ چند، در پر ٹہل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

کوئی کہے گا ’’صمد کے  ُ  حقیّ  ‘‘ کی آگ ایندھن میں جا پڑی تھی

پڑے تھے جس پر لحاف و بستر وہ کھاٹ بھی پاس ہی کھڑی تھی

اقلیّت کا یہ ’’ جُرمِ معلوم‘‘ اکثریّت پہ ڈھل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

کہی بُدی بات تھی کہ نظمِ وطن پہ کچھ اتّہام رکھو

جلے نہ کوئی بھی قیمتی چیزاس کا خاص اہتمام رکھو

برائے تصدیقِ قتل و غارت، یہ نعرۂ بے بدل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

کیے گئے تھے مگر اکٹھّے، بچے ہوئے بیڑیوں کے پتّے

کٹے پھٹے ٹاٹ ، بوریاں ، گدڑیوں کے جھلّے، غلیظ لتّے

 ’’شعورِ نظمِ وطن‘‘ میں لیکن یہ شور، زیٹ و زٹل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

نظامِ جمہوریت کے رخنے ہیں ، ’’اشتمالی و اشتراکی‘‘

جو یہ اشارت ہے سوویت کی تو وہ شرارت ہے چائنا کی

تو ’’برف مانس‘‘ ہی گوشے گوشے میں سردخطروں پہ چل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

مگر ہم ایسے کسی بھی فرقے کو زندگانی کا حق نہ دیں گے

زبان و صوبہ کے احتجاجوں کو قہرمانی کا حق نہ دیں گے

وہ داؤں نا کامیاب ہو گا، جو اِن صداؤں پہ چل رہا ہے

                                    ابھی جبل پور جل رہا ہے

٭٭٭

 

ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے

کہے دیتے ہیں آثار و قرائن

نہ کہتے بھی، تو ہوتا راز افشا

نہیں ہوتی کوئی تدبیر ممکن

ہوئی ہے ہر شکستِ ساز افشا

جسارت، مکر میں ناکام ہو کر

رہا کرتی ہے طشت از بام ہو کر

 ’’ذرا سا منھ نکل آتا ہے سُت کر‘‘

گلابی پھول پڑ جاتے ہیں پیلے

ندامت رخ پہ رہ جاتی ہے ’پُت کر‘

بہانے کام آتے ہیں ، نہ حیلے

فضا کمرے کی چغلی جڑ رہی ہے

کوئی ہل چل کوئی گڑ بڑ رہی ہے

یہ پھیکے ہونٹ، یہ پامال غازہ

بڑی آنکھوں میں حلقے پڑ گئے ہیں

اگر یہ وہم ہے ’’بندہ نوازہ‘‘

نگینے چوڑیوں کے جھڑ گئے ہیں

تھکن شانوں سے ڈھلکاتی ہے پلّو

یہ کیوں منھ پھیر کر ہنستا ہے کلّو

اگر کچھ دال میں کالا نہیں ہے

نشیبوں میں مرا کرتا ہے پانی

تصور کے لیے تالا نہیں ہے

بیاں کرتی ہے قصہ بے زبانی

صدا دیتا ہے ’’جُرمِ چاکِ دامن‘‘

عقیدت مند ہو جاتے ہیں بد ظن

مگر کیوں رہ گئی چولی مسک کر

نئی ساری مگر کیوں ’’ چل گئی ہے‘‘

گری جاتی ہیں تاویلیں چھلک کر

نہیں ہے خادمہ ’’ یا ٹل گئی ہے‘‘

اسے بھی تاکتا رہتا ہے جھُنڈا

غرض ماحول کا ماحول غنڈا

پریشاں ایوننگ پیرس کے بھپکے

کسی بدبو میں گُڈ مڈ ہو گئے ہیں

’مشامِ جان و دل ‘، نکہت کے لپکے

کھنڈے گیسومیں گڈمڈ ہو گئے ہیں

کچل کر رہ گئی جوتوں میں بِندی

دھواں دیتا ہے اب تک ’’ عودِ ہندی‘‘

نہانے سے کثافت دور ہو گی

ضرورت ہے کہ سر مَیلا نہ رکھیے

بڑی حد تک نقاہت دُور ہو گی

سرو سامانِ شب پھیلا نہ رکھیے

سویرے غسل کی عادی بھی ہو تم

سراسر ’’نقشِ فریادی‘‘ بھی ہو تم

ہمیں جیسے کہ لازم ہو گئی ہو

چہل قدمی کے پردے میں ملاقات

نمودِ صبح جیسے سوگئی ہو

تعلق ، بے تکلف، ہاتھ میں ہاتھ

عموماً اوس میں ٹھنڈی سڑک پر

خنک پڑتے ہوئے جذبوں کے چکّر

 ’’پورینہ‘‘ پرسویرے چھ بجے تک

رہا میں منتظر اور تم نہ آئیں

تو امڈے یوں گمان و شبہ و شک

بھلی رائیں بھی دل پر جم نہ پائیں

اسی الجھن میں بائیں آنکھ پھڑکی

لطیفہ یہ کہ تم ’’ عورت نہ لڑکی‘‘

تو میں ان وسوسوں کے ساتھ بھاگا

 ’’ نصیبِ دشمناں ‘‘ کچھ ہو گیا ہو

تمھاری کیا ’’ نہ پیچھا ہے نہ آگا‘‘

مبادا کوئی ’’ دھنیا بو گیا ہو‘‘

پہن لیتی ہے جب غیرت لبادہ

بدل سکتی ہے دم بھر میں ارادہ

کسی کے ساتھ چل دینے کا شوشہ

فسانے گمشدہ استانیوں کے

پکارا حافظے کا گوشہ گوشہ

جو ہتّھے چڑھ گئیں افغانیوں کے

بعید و یاد رفتہ ، وارداتیں

نظریوں آئیں جیسے کل کی باتیں

بتاتی ہو جو سر میں درد ہو گا

طبیبوں نے بھی یہ ’’چکمہ‘‘ نہ بُوجھا

اگر انسان ’’گرم و سرد‘‘ ہو گا

یہیں تک، اس سے آگے کچھ نہ سوجھا

یہ سر کا درد، یہ چکمہ، یہ چالیں

رہی ہیں مکتبی بچوں کی ڈھالیں

جہاں ’’ ہچکوں پتنگوں ‘‘ کا تصور

بڑھا اتنا کہ مکتب گھر سے بدلا

اُترا آیا بہانے پر تفکر

گرایا درد کے ماتھے پہ ’’ نزلہ‘‘

اُمید و نا اُمیدی کی مدد سے

مگر بچتے ہوئے قمچی کے زد سے

 ’’بڑھے آگے‘‘ تو مولانا نے ٹوکا

گزارش کی روہانسا منھ بنا کر

کہ سر میں ٹیس کا مدّھم ٹہوکا

رہے گا ضبط کا دامن چھڑا کر

یقیں کیجے ’’پھٹا جاتا ہے ماتھا‘‘

جونہی ’’ جھوٹی قسم‘‘ کھانے لگا تھا

تو جیسے ’’ شیر کا حملہ ہرن پر‘‘

یہ غرّاہٹ کہ گردانیں سناؤ

تپ و لرزہ شعورِ ممتحن پر

پسیجے کچھ تو فرمایا کہ جاؤ

پہنچ کر گھر پہ تھوڑی دیر لیٹے

تو امّاں بی نے فرمایا کہ بیٹے

مُوئے نزلے کو میں لُوکا لگاؤں

بُوا عیدن سے اطریفل منگا لے

وہ جب تک ’’جائیں آئیں ‘‘ میں بتاؤں

پہنچ کر چھت پہ کنکوّا اُڑا لے

یہ سُننا تھا کہ اُٹھّے ہڑ بڑا کر

بھگایا درد کنکوّے اُڑا کر

اگر تم بھی یہ بُتّا دے رہی ہو

حقیقت بن نہیں سکتی فسانہ

یہ کیوں زمبک کا احساں لے رہی ہو

شواہد ہو نہیں سکتے نشانہ

پریدہ رنگ چغلی کھا رہا ہے

یہ پنکھا لو، پسینہ آ رہا ہے

پڑا بھی تھا جوہسٹریا کا دورہ

یہ سوڈے اور یہ وہسکی کی بوتل

وہ دورہ جب کہ بیلا تھا نہ بورا

منایا کس نے پھر جنگل میں منگل

مرض تھا وہ کہ شاہد باز کوئی

چھپائے کب چھپا ہے راز کوئی

بلا سکتی تھیں لیڈی ڈاکٹر کو

یہ آخر فون کس دن کے لیے تھا

اگر اُٹھ کر چلا جاتا میں گھر کو

مرا اصرار ’’ اس دن کے لیے تھا‘‘

ٹھہرنا ہی نہ تھااس ہوسٹل میں

نیا حملہ نہ ہو پھر آج کل میں

نہ دیواریں ، نہ دروازہ، نہ پہرا

اُچکّا ہو کہ شہدا ہو کہ لُچّا

سبھی کے ساتھ ہے موقع سنہرا

نِرا بدّھو ہے چوکیدار ٹُچّا

مرض گھس آئے یا منڈلائے ڈاکو

مرا جاتا ہے ’’پی پی کر تماکو‘‘

برائے نام ہی کر لیجیے عقد

 ’’برائے بیت‘‘ اک ساتھی رہے گا

نہیں ہے کچھ سوالِ ’’ نسیہ و نقد‘‘

درِ عصمت پہ اک ہاتھی رہے گا

احاطے میں پڑا جھوما کرے گا

تمھارے پاؤں بھی چوما کرے گا

نشاط آرائیوں کو آڑ دے گا

نہ پھٹکے گا تمھاری خلوتوں میں

غبار آلود دامن جھاڑ دے گا

رقیبوں سے ملے گا جلوتوں میں

یہ مت سمجھو کہ رشتہ توڑ دے گا

تمھارے حق میں رستہ چھوڑ دے گا

ہر اک  ارشاد کی تعمیل ہو گی

مہذّب ہو چکی ہے زن مریدی

بھگت جائے گا جو تذلیل ہو گی

وہی کردارِ رشدی و شہیدی

سمجھ بیٹھے ہیں یہ مغرب کے بیباک

کہ اُن کے منھ پہ ہے فولاد کی ناک

عموماً سَو میں نوّے مِسٹریسیں

جوانی میں نظر آتی ہیں بیمار

جو سہہ جاتی ہیں جذبوں کی کھریسیں

جو راتوں کو رہا کرتی ہیں بیدار

کسی شب خون سے ڈرتی نہیں ہیں

کھُلی پھرتی ہیں ، گھر کرتی نہیں ہیں

کسی عورت کو آزادی کا حیلہ

سزاوارِ یقیں ہوتا نہیں ہے

کہ نازک جنس اور پھر بے وسیلہ

رَوِش مغرب کی مارِ آستیں ہے

وہاں عصمت کا مطلب ہے لفافہ

یہاں عفّت کو لازم ہے ’’ محافہ‘‘

٭٭٭

 

جنسِ جمیل

(دھوبی اور خاں صاحب کا مکالمہ)

دھوبی:              بیسوا ہو کہ طوائف کہ ’’ٹکے ہائی‘‘ ہو

                        سامنے آئے جو شلوار بھی دھلوائی ہو؟

خاں صاحب:     ’مگر ان سب کے یہاں کپڑوں کے انبار نہیں

دھوبی:              چال چلتی ہے شریفوں کی زبانِ بیباک

                        میری بیوی کی یہ ساری ہے یہ جمپر یہ فراک

                        ہم بھی بن جاتے ہیں ایسے کہ خبر دار نہیں

                        ورنہ ہم لوگ تو دھبّوں سے لگاتے ہیں سراغ

                        گھر گرہستی میں سموتے نہیں تفریح کے داغ

                        دل میں کہتے ہیں کہ ہاں جرأتِ اظہار نہیں

خاں صاحب:     مگر اس عہد کے اسباب خدا کے بندے

دھوبی:              ایک مچھلی ہی سے تالاب ہوئے ہیں گندے

                        ’’خدمتِ جنسِ کثیفہ نہیں ،  زنہار نہیں

خاں صاحب:     تم نے اِن بام نشینوں کو غلط سمجھا ہے

                         ’’بیسوا‘‘ جنس کے بھوکوں کا قرنطینہ ہے

                        درِ اخلاق پہ پردہ سہی، دیوار نہیں

                        نہیں ہوتی جو سرِ راہ یہ لذّت کی سبیل

                        روکتی جوشِ جوانی کو نہ خندق نہ فصیل

                        اب بھی سب کچھ ہے مگر گرمیِ بازار نہیں

٭٭٭

 

پُرانے کوٹ

ہاتھی کان، گلا ہے جس کا

استر اُدھڑا، دامن کھسکا

آخر تم کیا دو گے اِس کا

اِتنے کم؟ سِلوائی دے دو

پانچ نہیں تو ڈھائی دے دو

 ’’ فی سِلوٹ‘‘ نَو پائی دے دو

لو یہ گھُنڈی تکمے والا

آگے پیچھے گڑبڑ جھالا

جاہل ہے نا، ہندی کالا

بڈّھا !تو کیا سوچ رہا ہے

مونچھوں کو کیوں نوچ رہا ہے

شاید جاڑا کوچ رہا ہے

آ سردی سے پنڈ کٹا لے

کوئی اونی کوٹ چُکا لے

اس دِن کو بھگوان اٹھا لے

جس دن یہ پہناوا چھوڑوں

جنم کے ساتھی سے منہ موڑوں

ناسمجھوں سے کیا سر جوڑوں

رسّی جس تہذیب کی ڈھیلی

بوتل ہو جس چاک میں کیلی

سب جلتی ہے سوکھی گیلی

یہ جس کی بھی اُترن ہو گی

یا بھنگن یا کَنچن ہو گی

بیوہ، بانجھ، گرہستن ہو گی

ان گندے کوٹوں کے دامن

جھٹکا کھائیں گے کیسے کندن

بلکیں گے بے گنتی جیون

میری یہ کھدّر کی بنڈی

اُون سے اونچی روئی کی منڈی

ان کوٹوں کو کالی جھنڈی

٭٭٭

 

نصف بہتر

فخر ہے مجھ کو کہ جاہل ہے مری ’’گھر والی‘‘

اتنی جاہل ہے کہ پابندِ نماز و روزہ

شرع کی حد میں کھُلا رکھتی ہے ماتھا موزہ

ذہن آزادیِ بے باک سے بالکل خالی

شرط یہ تھی ، مری بیوی ہو نہ بی اے نہ مڈل

گھر گرہستی میں کہاں جبر و مقالہ کی کھپت

شوربوں کے لیے بے کار سمندر کی نپَت

فارمولوں کی رٹائی رُخِ صحت پہ چَپت

نئی تعلیم کا منشاء ہے کہ سونے پہ نِکل

عصمت آلود ہیں کالح نہ سہی، کانِ نمک

سَو میں دس مائلِ قرآن، سو کس گنتی میں

مدّنی وضع کے انسان ، سو کِس گنتی میں

یا بنارس کے مسلمان، سو کس گنتی میں

ڈگریاں ہیں مری دانست میں کنواری کی ہتک

یہی کافی ہے کہ بازار کا سودالکھ دے

اور دھوبن سے پڑے کام تو کیا کیا ٹوکے

آستیں ’’صاد‘‘ سے لکھتی ہو، بھتیجا ٹوکے

مسکرا دے جوکسی بات پہ بچّہ ٹوکے

اپنا رومال سمجھ بوجھ کے میرا لکھ دے

جانِ من! کیا تجھے اندازۂ دنیا ہے یہی

مجھ کو یہ رائے نہ دیجے کہ حیا کچھ بھی نہیں

ایک عورت کے لیے گھر کے سواکچھ بھی نہیں

کام دھندوں میں پپیہوں کی صدا کچھ بھی نہیں

میری توبہ، جو زمانے کا تقاضہ ہے یہی

نغمگی ، جیسے پڑوسن کے میاں کی گالی

تم جو برکھا کی ملہاروں میں مہک جاتی ہو

قوس بنتی ہوئی پینگوں میں ڈھلک جاتی ہو

کاڑھتی بھی ہو کشیدہ تو پھڑک جاتی ہو

لڑکیاں دف پہ بجاتی ہوں اگر قوالی

سنیماہو کہ نمائش ہو کہ میلہ کوئی

جی نہیں ، ان کو مبارک ہو جو جاتی ہیں وہاں

غیر مردوں میں نقابیں جو اٹھاتی ہیں وہاں

اپنے جوبن کو تماشا جو بناتی ہیں وہاں

کیا سنَد ہے کہ نہ ہوتا ہو جھمیلہ کوئی

یہ تو سمجھاؤ کہ آخر وہ جھمیلا کیا ہے

سنیما جا کے نہ پلٹی تھی دُلاری کی بہن

اور نمائش سے مجیدن سی بچاری کی بہن

بھینٹ میلے کے چڑھی راج بہاری کی بہن

صاف اندھیر ہے تہذیب کا ریلا کیا ہے

گھر میں خالہ کے سِوا کون سیاست کا دھنی

وقتِ فرصت انھیں اخبار سنانے سے غرض

ہمہ دانی کو ’’نئے اور پرانے‘‘ سے غرض؟

کسی تاریخ کا ہو، دھاک بٹھانے سے غرض

یہی الجھن ہے تو اب رُوس کی جرمن سے ٹھنی

فخر ہے مجھ کو کہ جاہل ہے مری گھر والی

ذہن، آزادیِ بیباک سے بالکل خالی

٭٭٭

 

ان اونچے اونچے محلوں میں

والا رتبہ مہماں آ کر رَین بسیراکر لیتا ہے

اَونے پَونے داموں’ فرض و عدل‘ کا سودا کر لیتا ہے

وعدوں کے طعمے دے دے کر الّو سیدھا کر لیتا ہے

گیہوں بونے کی خدمت پر آتا ہے اور جوَ بوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

بھینٹ میں یاقوتی ’’آویزے‘‘ مرواریدی مالا۔ تحفہ

جس میں’ وہ ‘ لپٹے ہوتے ہیں وہ خوش رنگ دوشالہ۔ تحفہ

بربط، مطرب، شاہد، ساقی، بادہ، مینا، پیالا۔ تحفہ

شب بھر احساسات کے گھوڑے بیچ رہا تھا، اب سوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

آج ڈِنر کی تیّاری ہے کل اَیٹ ہوم دیا جائے گا

عیدو کی ٹولی آئے گی، چَھیلا ڈوم لیا جائے گا

انگوروں کی روح ڈھلے گی، لیکن ’’سوم‘‘ پیا جائے گا

اب کھُل کھیلے گا، چہکے گا وہ بھی جو گُلّڑ توتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

پھیلی رات، سیاسی کھوسٹ غدّاروں نے تانتا باندھا

غم خوارانِ قوم و وطن کی ہر کوشش کو ’’ فتنہ‘‘ باندھا

اس بیکَس پر تہمت رکھی، اس ذرّے کو صحرا باندھا

لیکن چغلی خور سدا قطرہ پاتا، دریا کھوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

اس نے تسلیماتیں داغیں ، اس نے جھوٹ کی لنکا ڈھائی

رائی کو پربت ٹھہرایا، پربت کو ٹھہرایا رائی

کچھ ایسے ، جیسے بھینسوں کو بین سُنائیں یا شہنائی

ایک قصیدہ ’’چھتیاتا‘‘ ہے ایک ’’ خوشامد‘‘ ’’برموتا‘‘ ہے

اِن اُونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

ناداروں کی ناداری پر اور اضافے کی تدبیریں

بائیں بازو والے بھی کیا زور لگائیں ، کیا منھ چیریں

روز نئے ٹیکسوں کے ڈھولے، روز جفاؤں کی تعمیریں

مفلس کے ’’پِن ہول‘‘ پہ طعنہ، اپنے دامن میں ’’کھوتا‘‘ ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

منھ کے پنجروں سے چھُٹتی ہیں بے پر کی نوّابی ڈینگیں

شیخی کم ظرفوں کی عادت، کج فہموں کی ہابی پینگیں

ورزش پر اعصابی ڈینگیں ، طاقت پر ’’ سہرابی‘‘ ڈینگیں

 ’’بھاری نال‘‘ اٹھانے والا رستم کیا پتّھر ڈھوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

ایسے  بے بنیاد فسانے، جن پر عقل کو رونا آئے

 ’’ سنگل بیرل شیر دہاں ‘‘ سے دو جنگلی ہاتھی ٹپکائے

اور نشانے کا یہ عالم، جس کو تاکیں وہ بچ جائے

مُردہ مینڈھے پہ فرمائیں ’’بھاگو شیر پڑا سوتا ہے‘‘

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 ’’خوب اُگاؤ‘‘ پر ہوتی ہیں جب کھیتی باڑی کی باتیں

کمروں میں بیٹھے بیٹھے ہی بیہڑ اور جھاڑی کی باتیں

جس میں ’’جاوا مرغ‘‘ جُتے تھے اس فرضی گاڑی کی باتیں

گھر میں کیاری خشک پڑی ہے کہتے ہیں بنجر جوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

خاصے کے رہوار کو اک دن’ اینجانب‘ نے ایڑ لگائی

کیسا اونچا، کیسا نیچا، کیسی خندق، کیسی کھائی

سانبھر آپس میں ٹکرائے ، ہرنوں نے رفتار بھلائی

اس رہوار کے آگے شیریں کا گلگوں ’’مٹّھس خوتہ‘‘ ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 ’’قدرِ گوہر شاہ بداند‘‘ کا دعویٰ کُچھ اُکھڑا اُکھڑا

جب بھی آ جائے گا کوئی ہیروں کا تاجر ’’جل کُکڑا‘‘

 ’’ لعلِ بدخشاں ‘‘ کو سمجھیں گے ’’کنچ کے پیپر ویٹ‘‘ کا ٹکڑا

نیشاپوری فیروزے کو کہہ دیں گے، نیلا تھوتھا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

اکثر اکثر برپا ہوتی رہتی ہے اک ’’رومی محفل‘‘

سارے گاما، رے گاماپا، ترکٹ دھُرکٹ، دانتا کِلکل

آنکھیں رقّاصہ سے زائد بانوئے خانہ پر مائل

طبلہ چھاتی پیٹ رہا ہوتا ہے اور بیلا روتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

غیرت کا دروازہ چوپٹ، چوکھٹ یا دہلیز نہیں ہے

غیر حقیقی اور حقیقی میں کوئی تمئیز نہیں ہے

عصمت کو ایمان بنالیں ، عصمت ایسی چیز نہیں ہے

یہ ’’جوڑا‘‘ جو ناچ رہا ہے اک بیٹی ہے اک پوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

رنگ بدلتا ہے خربوزہ، خربوزے کی دیکھا دیکھی

 ’’علیا خاتونیں ‘‘ گدرائیں ، ہوش سنبھالا، دنیا دیکھی

غیرت کو کجلاتے دیکھا، غفلت محوِ تماشا دیکھی

کنوارا جھلّا، کنواری سیپی میں جھوٹے موتی بوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

کھاتا ہے پیراک بھی پائیں باغ کی موتی جھیل میں غوطے

الفت کی تکمیل میں اچّھو، لذّت کی تحصیل میں غوطے

خواہش کے ارشاد میں ڈُبکی، حکموں کی تعمیل میں غوطے

چہرے پر کالک ملتا ہے، دامن کے دھبّے دھوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

قاضی صاحب درشن دیتے ہیں ہنگامِ طلاق ارزانی

پاتا ہے سونے کے سکّے، جرمِ جوازِ ’’عقدِ ثانی‘‘

نافرمانی پر تاویلیں ، تاویلیں کیا آنا کانی

سنتے آئے تھے  یہ قاضی اِبن الوقت کا پڑپوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

کفرانِ رغبت کا دورہ پڑتا ہے سنڈے کے سنڈے

 ’’پِک اپ‘‘ میں لائے جاتے ہیں چُن چُن کے موٹے مسٹنڈے

ہر ہفتے بجتے ہیں شب بھر ’’نیلے پیلے کالے ڈنڈے‘‘

دن میں جس کو دیکھو یاتو اونگھ رہا ہے یاسوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

عشرت کا مجمع رہتا ہے ان اونچے اونچے محلوں میں

غفلت کا بجرا بہتا ہے ان اونچے اونچے محلوں میں

کون ہماری سی کہتا ہے ان اونچے اونچے محلوں میں

ہم دریا ہیں اور دریا اپنے منفذ پر اک سوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

٭٭٭

 

رنگیلے راجا کی مَوت

طبیبانِ شاہی بھی ہیں ڈاکٹر بھی

یہ نرسیں ، یہ جرّاح، یہ چارہ گر بھی

سپہہ دارِ نو عمر و کرنل سمرؔ بھی

کئی دانت چاٹے ہوئے پنشنر بھی

نہیں کوئی اتنا جو مجھ کو بچا لے

ہُوا جا رہا ہوں قضا کے حوالے

میں کہتا تھا دیکھو یہ ڈینگیں نہ ہانکو

خوشامد پہ قابو میں رکھّو زباں کو

چھُڑا لو مصیبت سے مجھ نِیم جاں کو

نمک خوارِ دولت ہو، کونے نہ جھانکو

مرے خوانِ یغما کے اے ریزہ چینو!

یہی شرطِ حقِّ نمک تھی۔ کمینو!

یہ دو سو محل کس مرض کی دوا ہیں

یہ رانی یہ پٹ رانیاں کیا بلا ہیں

مریں کو چبانوں پہ، سقّوں کو چاہیں

ہے تریا چرِتّر، یہ آنسو، یہ آہیں

کوئی جام دو، سَر پھٹا جا رہا ہے

نگاہوں سے پردہ ہٹا جا رہا ہے

نکالو، یہ چمپاؔ کا شوہر کھڑا ہے

یہ زینت محل کا منگیتر کھڑا ہے

یہ سردارِ ملّت، وہ رہبر کھڑا ہے

گروہِ جوانانِ مضطر کھڑا ہے

وہ سب جی اٹھے جو فنا ہو چکے تھے

مرے ہاتھ سے خاکِ پا ہو چکے تھے

یہ وہ کنواریاں ، جو اُڑا دی گئی تھیں

اُڑا دی، سُلادی، چھُپا دی گئی تھیں

چھُپا دی، مِٹا دی، جلا دی گئی تھیں

جلا دی ، دبا دی، بہا دی گئی تھیں

بھیانک ارادوں سے للکارتی ہیں

مرے حال پر قہقہے مارتی ہیں

وہ بوڑھا جو آیا تھا بیٹی کے آڑے

وہ گلشن وہ گلبن جو میں نے اجاڑے

وہ بوڑھی جو لوٹی گئی دن دہاڑے

وہ کلیاں ، کِھلی تھیں جو راجا کے باڑے

وہ سب ظلم کی ٹہنیاں پھل چکی ہیں

بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈھل چکی ہیں

یہ غوغا سُنا۔ طبلِ جنگی بجا دو

درِ قلعہ پر فوجِ شاہی لگا دو

ہر اِک بُرج پر چار توپیں چڑھا دو

بٹھادو فصیلوں پہ پہرے بٹھا دو

وہ خود سر جو گاتے ہیں قومی ترانہ

بنا دو انھیں گولیوں کا نشانہ

بڑھے آ رہے ہیں وطن کے پجاری

نظر آ رہی ہے شرارت تمھاری

دھرا رہ گیا غرّۂ قلعہ داری

کوئی توپ داغی کوئی باڑھ ماری؟

یہ حالات اور تم جہاں تھے وہیں ہو

سمجھتا ہوں سب دشنۂ آستیں کو

کھُلا اب کہ تم تھے چھُپے انقلابی

محل ڈھائے دیتی ہے خانہ خرابی

کلَس کانپ اُٹھّے گِری ماہتابی

نکل جاؤ باہر گِرا کر حجابی

مری سمت حیرت سے کیا دیکھتے ہو

تماشائے عبرت فزا دیکھتے ہو

وہ کمرے میں گھُس آئے پستول لانا

بٹھا کر مجھے گاؤ تکیہ لگانا

پڑے گا مجھے خود ہی زور آزمانا

کوئی ہے۔ ذرا خود و بکتر اُٹھانا

سنبھل جاؤ اے بد معاشو! اُٹھا میں

گھُٹا دم گھُٹا۔ ہائے لینا چلا میں

٭٭٭

 

اختلافات

جہاں گنگا سے کٹ جاتی ہیں شاخیں

جہاں شاخوں میں بٹ جاتی ہیں شاخیں

جہاں رستے سے ہٹ جاتی ہیں شاخیں

جہاں ریتی سے پٹ جاتی ہیں شاخیں

وہاں رہتی نہیں گنگا کی دھارا

یہی اے شادؔ ہے عالم ہمارا

٭٭٭

 

پروڈیوسر

خود ہی موسیقار خود عکاس بھی

خود ہی اسٹوری کا مارے ناس بھی

ڈائرکٹر بھی ’’ انِل بسواس ‘‘ بھی

ایکٹر بھی خود ہی، ایڈیٹر بھی آپ

باپ خود، بیٹا بھی خود، شوہر بھی آپ

خود ہی پبلشر، پروڈیوسر بھی آپ

ثقلِ لہجہ پر گراں ہے شین قاف

 ’’ماف‘‘ سمجھوگے جو بولے گا ’’ معاف‘‘

فلم کے اندر زباں شستہ و صاف

جیسے پردے میں کوئی ’’اُردو فروش‘‘

گیت گپتاؔ کے لکھیں حضرت ’’خموش‘‘

ڈوب مر اے مبتلائے ناؤ نوش!

آ رہا ہے یاد مجھ کو وہ طبیب

جس کے ہاں بنتی تھی معجونِ عجیب

مینڈکوں سے لے کے تا ’’عودِ صلیب‘‘

درد کیسا بھی ہو یہ تریاک ہے

ذوقِ شاہانِ اودھ کی ناک ہے

اگلے وقتوں کی ’’سپاری پاک‘‘ ہے

عورتوں کی دوست مردوں سے سوا

کھائی اور ہونے لگے ’’باقاعدہ‘‘

گھر میں ’’ لیڈی ڈاکٹر‘‘ سے واسطہ

سہل ہو جائیں گے اب بچّوں کے دانت

اب کسی کے بھی نہیں اُترے گی آنت

ایک امرت اس کی دھارا بھانت بھانت

یہ پروڈیوسر، یہ بے ہمتا طبیب

 ’’کھیل‘‘ اِس کا اُس کی معجونِ عجیب

خود ستا، خود ساز لیکن خوش نصیب

٭٭٭

 

رسمی قید خانے

وہ بھولی لڑکیاں جو بند رہتی ہیں مکانوں میں

 ’’مکانوں سے ‘‘ یہ مطلب ہے کہ رسمی قید خانوں میں

 ’’صدائے حکمِ پردہ‘‘ گونجتی رہتی ہے کانوں میں

انھیں ’’ذہنیّتِ آزاد‘‘ کے معنی نہ سوجھیں گے

جسے وہ خود نہ بوجھیں ان کے بچّے خاک بوجھیں گے

انھیں تعلیم دی جائے اُمورِ خانہ داری تک

گھریلو خانہ جنگی سے رواجِ ہرزہ کاری تک

نظر کی وسعتیں محدود ہوں گوٹے کناری تک

اگر ماحول کے سانچے میں ڈھل سکتی ہے خو بے شک

تو ان کی گود کے پھولوں میں آزادی کی بو بے شک

نظامِ اقتصادیات سے یہ بے تعلق ہیں

اُمورِ حرّیت آیات سے یہ بے تعلق ہیں

تمیزِ نبضِ احساسات سے یہ بے تعلق ہیں

قیامت ہے کہ ’’تہذیبِ وطن‘‘ حصہ نہیں اِن کا

سیاست کی کتابوں میں کوئی قصّہ نہیں ان کا

گِنی جاتی ہیں تنقیضِ تمدّن ان کی تدبیریں

انھیں زیبا نہیں منھ کھول کر جلسوں میں تقریریں

تو کیادلچسپ ایوانوں کی رونق ہیں یہ ’’ تصویریں ‘‘

نہیں یہ مردِ خود اندیش کی مطلب پرستی ہے

نسائیّت عروجِ قوم کے حق میں ترستی ہے

انھیں اسلام نے جو مرتبہ بخشا وہ ظاہر ہے

عطا کی جو ’’مساواتِ چمن آرا‘‘ وہ ظاہر ہے

معیّن تھا جو ان کے واسطے پردا وہ ظاہر ہے

 ’’گماں ‘‘ نے ’’اعتمادِ پاک دامانی‘‘ بدل ڈالا

 ’’شریکِ زندگی‘‘ کے ’’ حسنِ معنی‘‘ کو کچل ڈالا

انھیں پابندِ ’’خشت و گِل‘‘ بنانے سے نتیجہ کیا؟

حفاظت کے لیے محمل سجانے سے نتیجہ کیا؟

فروغِ جوہرِ کامل چھپانے سے نتیجہ کیا؟

دکھائے گا انھیں رستہ ’’ چراغِ نورِ ایمانی‘‘

اگر ہم سب انھیں کو سونپ دیں ان کی نگہہ بانی

ہلالِ علم سے ان کی جبینیں جگمگا دیں ہم

تفکّر کے پروں میں شہپرِ جودت بڑھا دیں ہم

دلوں سے تیرگی آنکھوں سے کم بینی مٹا دیں ہم

جہیزوں میں انھیں ملبوس رنگیں دیں ، نہ گہنا دیں

مگر ’’آزادیِ برحق‘‘ کے ’’چندر ہار‘‘ پہنا دیں

وہ مائیں جن کے بچّے قوم کی زینت کہاتے ہیں

وہ بہنیں جن کے بھائی دیش کی قسمت جگاتے ہیں

 ’’حقوقِ واقعی‘‘ سے ہم جنھیں محروم پاتے ہیں

نہ روکیں ان کو پیکارِ عمل میں ساتھ آنے سے

نہ ٹوکیں شوق میں آزادیوں کے گیت گانے سے

٭٭٭

 

تادیب

سوچنا تو چاہیے اے شاعرِ ہم شکلِ خضر!

اسپِ سوداؔ ہے کہ تیرا توسنِ عمرِ رواں

ضعفِ باطن کی بشارت ہے ’’خضابِ مضمحل‘‘

دیکھ آئینہ کبھی اے طوطیِ شیریں بیاں

صورت و معنیٰ کی بے ربطی سے بزمِ شعر میں

تیرے ’’بوڑھے منھ مہاسوں ‘‘ پر ہزاروں پھبتیاں

رعشہ بر اندام لیکن وصلِ جاناں کی ہوَس

جھرّیاں چہرے پہ، دل مُردہ، تمنّائیں جواں

منبرِ وعظ و نصیحت تجھ کو سجتا ہے مگر

تیرے سینے میں وہ کافر دل کہ مسجودِ بتاں

خبطِ موسیقی یہاں تک ناشناسِ عذرِ لنگ

کانپتے لب، ہانپتے نغمے، تنفس، ہچکیاں

نوجوانوں سے کہیں بڑھ کر تجھے سودائے زلف

آستیں ٹکڑے، گریباں چاک، دامن دھجّیاں

وسعتِ دشتِ جنوں پرور تری وحشت پہ تنگ

سبزۂ خود رَو سے گھر پر تجھ کو صحرا کا گماں

جادۂ منزل سے بے پروا بہ ایں تاویل تو

ذلّتِ قطعِ مسافت اتّباعِ کارواں

جس کے دامن تک پہنچنے کو ہُوا تو خاکِ پا

تیری جانب سے چلا جاتا ہے وہ دامن کشاں

تجھ کو خاطر میں نہیں لاتی کوئی کافر نظر

پست ہمّت ہیں اگر نالے تو آہیں ناتواں

بزمِ دلبر تک رسائی کی تمنائیں فضول

پاسباں تیرا مخالف اور دشمن آسماں

تیرے سجدوں کا تواتر باعثِ سوہانِ عقل

گھِستے گھِستے گھِس گیا آخر وہ سنگِ آستاں

التماسِ حالِ دل پر بے زبانی حرف گیر

پھر بھی عرضِ دردِ دل ممکن کہ آنکھیں ترجماں

تف برآں محبوبِ آوارہ ہمہ عالم رقیب

کوچہ و در پر عدو ہیں کارواں در کارواں

آج تک کھاتا ہے تو اس سے فریبِ دوستی

جس نے رہنے کے لیے دُہرا بنایا ہے مکاں

وہ وفا نا آشنا دشمن کے گھر مصروفِ عیش

انتظارِ دید میں پِھرتی ہیں تیری پتلیاں

نازنیں کی آڑ میں چنگیز خاں سے تجھ کو عشق

آستیں میں دشنہ خفتہ، ہاتھ میں تیر و کماں

تیری آہوں کا کرشمہ، بزمِ اجرامِ فلک

چرخِ نیلی فام میں سوراخ ہیں تارے کہاں

روتے روتے ختم ہو جاتے ہیں جب آنسو تِرے

چشمِ شب پیما سے دل کا خون ہوتا ہے رواں

ناک میں دم سارے ہمسایوں کا تیرے شور سے

اور بستر پر اگر ڈھونڈو نہیں ملتا نشاں

شاخِ گل پر آشیاں تیرا رہینِ ہر بلا

شدّتِ طوفان و باد و حدّتِ برقِ تپاں

جب قفس میں آب و دانہ کھینچ لاتا ہے تجھے

توڑ لیتا ہے تڑپ کر تو قفس کی تِیلیاں

تجھ کو جب زنداں میں پہنچاتا ہے جُرمِ عاشقی

پاؤں کی زنجیر بھی رہتی ہے تجھ سے سرگراں

دختِ رز کو منھ لگانا کیا، کبھی دیکھی نہیں

پھر بھی حاصل تجھ کو فخرِ بیعتِ پیرِ مغاں

بد لجامی کیوں سکھاتا ہے سمندِ عمر کو

ٹھوکروں سے مختلف کب ہیں تری سرگرمیاں

الحذر اے شہ سوارِ ہرزہ تازی۔ الحذر

الاماں اے یکّہ تازِ بد کلامی الاماں

٭٭٭

 

خوشامد

اے خوشامد ’’یاوہ گوئی کی بہن‘‘ ذلّت کی ماں

تیری پستی میں ہے بامِ بیسوا رطب اللّساں

اعتمادِ نفس کے چھکّے چھڑا دیتی ہے تو

جرأتِ بیتاب کے ٹخنے اُڑا دیتی ہے تو

جس میں ’’لیلائے غلو‘‘ بیٹھی ہے وہ محمل ہے تو

چاپلوسی کا جہاں سایہ ہو، وہ منزل ہے تو

تیرے ہر عشوے پہ کٹتی ہے ترے شیدا کی مَت

قاز کا روغن لیے پھرتی ہے تیری شیطنت

تو لگا سکتی ہے ہر موقع پہ وہ باتوں کا باغ

مست ہو جاتا ہے جس میں خود پسندی کا دماغ

کاذِبوں کو پیکرِ صدق و صفا کہتی ہے تو

اپنے متوالوں کو رو در رو بُرا کہتی ہے تو

تیرا عادی خلق میں ملعون بھی مطعون بھی

چُوستی ہے تو رگِ انسانیت سے خون بھی

دیکھتی ہے جب مخاطب میں کوئی شانِ عتاب

تو بہا دیتی ہے کانوں میں تملّق کی شراب

رہزنِ علم و عمل تیری قصیدہ بافیاں

منصفوں کو تو سکھا دیتی ہے نا انصافیاں

آہ وہ نادان جو آتے ہیں تیری چال میں

تیری تعریفیں نہیں لپٹے ہیں جوتے شال میں

٭٭٭

 

روٹی

یہ میں ، یہ دلّی کا چاندنی چوک، دوپہر اور یہ اندھیرا

اُداسی و سرخوشی میں ’’ ہنستا توا‘‘ ہے تہذیب کا سویرا

ضعیف مزدور ایک سرمایہ دار کے ساتھ جا رہا ہے

 ’’مآلِ سنّت‘‘ کے پالنے کے لیے اذیّت اُٹھا رہا ہے

بدن کا ہر عضو کانپتا اور دانت ہلتے ہوئے دہن میں

پھٹی ہوئی سو جگہ سے لنگی، ہزار پیوند پیرہن میں

جھکی ہوئی پیٹھ پر اُٹھائے امیر کی خدمتوں کا بوجھا

 ’’ اسیر حرص و ہوا‘‘ لعین و شریر کی بدعتوں کا بوجھا

قدم قدم پر جبینِ بیچارگی سے ڈھلتا ہوا پسینہ

تہی و تشنہ مئے مسرّت سے بزمِ ہستی کا آبگینہ

چلی ہوئی نصف آستینوں میں سوکھے سوکھے سیاہ شانے

چنے انگوچھے کے ایک پلّو میں ، ایک پلّو میں تین آنے

فلاکتوں کی جھپٹ میں آئی ہوئی زبونی و خستہ حالی

بھرا ہوا اشتہائے صادق سے قعر معدہ تو پیٹ خالی

چہل پہل کے نشاطِ جاری میں تو کسی کا نہ کوئی تیرا

غرض کہ دلّی کا چاندنی چوک، دوپہر اور یہ اندھیرا

٭٭٭

 

حیوانِ ناطق

ایک خالی سیٹ پر لیٹا ہوا آرام سے

عازمِ ’’صبحِ بنارس‘‘ تھا ’’اودھ کی شام‘‘ سے

ہم سفر ، ہم درجہ ایسے کچھ مُسافر اور تھے

ریل کی لوری سے جن کے طور ہی بے طور تھے

ریل کے پہیوں کی کھٹ کھٹ نغمہ زن تھی کان پر

خواب کے جھونکوں میں جھُولا جھُولتے تھے جن کے سر

یہ ’’بڑی ڈاڑھی!‘‘ رکوعی شان سے جھکتی ہوئی

مونچھ سجدے کی طرف مائل مگر رُکتی ہوئی

اس طرف سانسوں کی پھُنکاروں میں ’’آوازِ جرس‘‘

اس طرف محوِ نفیرِ خواب تھا ’’ ضیق النّفس‘‘

ہو گئے تھے جمع اک نقطے پہ غوغا و سکوت

پڑھ رہا تھا دل مِرا تسبیح ’’حیِّ لا یموت‘‘

ریل ٹھہری ایک اسٹیشن پہ آفت آ گئی

کھول کر ڈبّے کا دروازہ حماقت آ گئی

یہ حماقت کون؟ اک دلدادۂ طرزِ فرنگ

چھیڑ دی جس نے قلی کے ساتھ مزدوری پہ جنگ

یہ حماقت کون؟ اک صاحب، مگر ہندی نژاد

سنگِ موسیٰ میں گرجتا تھا مذاقِ برق و باد

یہ قلی پر یا قلی جب اس پہ غرّانے لگا

آدمی ’’ حیوانِ ناطق‘‘ ہے یقیں آنے لگا

٭٭٭

 

غدّار

اک دکھاوا، اک بھُلاوا ہے یہ کھدّر کا لباس

آدمیّت کے علاوہ کیا نہیں ہے تیرے پاس

سُرخ ہیرے کی انگوٹھی ’’پارکر‘‘ نامی قلم

سادہ پُرکاری کا تیری کھول دیتے ہیں بھرم

دھان کی کھیلوں سے بھر سکتا ہے جس دوزخ کو تو

چوستا ہے اس کی خاطر قومِ بے کس کا لہو

اپنی بد بینی کو عینک میں چھپاتا ہے مگر

قاقم و سنجاب میں لپٹی ہے تیری ہر نظر

کام آسکتیں جو ٹانگیں منزلِ دشوار میں

آہ تو اُن کو رکھے پھرتا ہے موٹر کار میں

راز داری کی اُدھر تنخواہ، چندہ ہے یہاں

 ’’ناخدائے قوم‘‘ اِس جانب ہے بندہ ہے وہاں

تو سگِ خوانِ عدو ہے قوم کا خادم نہیں

حدِّ جرأت یہ کہ اپنے فعل پر نادم نہیں

ذہن پر تیرے مسلط ہے فریبِ نائے و نوش

باش! اے تاریک باطن! ہِشت اے ایماں فروش

حکمراں تیرے موافق ، قوم پر تیرا اثر

دشمنوں پر عظمتِ قوم و وطن قرباں نہ کر

ایک دن دیکھیں گے یہ رازِ پسِ منظر کھلا

 ’’آستیں میں دشنہ خفتہ‘‘ ہاتھ میں ’’خنجر کھلا‘‘

مان کہنا۔ چھوڑ دے اب بھی یہ دو عملی کا عیب

ورنہ گردن توڑ ڈالے گا کسی دن دستِ غیب

٭٭٭

 

حرّیت

صدر ہو، نیتا ہو یا سرمایہ دار

جو کھنچے تجھ سے اُسے ٹھوکر پہ مار

ہے بہت انمول انسانی وقار

لقمۂ تر کا نہیں کچھ اعتبار

جَو کی روٹی کھا مگر آزاد رہ

بُزدلی ہے’ جی بجا‘ یا’  جی حضور‘

توڑ دے نخوت شعاروں کا غرور

رہ فریبِ آرزو سے دُور دُور

لقمۂ تر زندگی کو کیا ضرور

جَو کی روٹی کھا مگر آزاد رہ

دل سے امدادِ وطن کر اختیار

کام لے ہمّت سے جرأت کو پکار

ہو نہ دنیاوی لذائذ کا شکار

لقمۂ تر پر شرافت کو نہ ہار

جَو کی روٹی کھا مگر آزاد رہ

تو نہیں عشرت کا عادی ناز کر

دل میں ہے خوداعتمادی ناز کر

چیز ہے کیا نا مرادی ناز کر

بات مطلب کی بتا دی ناز کر

جَو کی روٹی کھا مگر آزاد رہ

سیکڑوں گندم نُما و جَو فروش

لالچی، عشرت پرست و عیش کوش

رکھتے ہیں لب پر صدائے نائے و نوش

لقمۂ  تر کیا ہے؟ مرگِ عقل و ہوش

جَو کی روٹی کھا مگر آزاد رہ

اقربا از طرزِ یارانہ تجھے

کہہ کے خوش بختی سے بیگانہ تجھے

دیں گے غدّاری کا بیعانہ تجھے

لقمۂ ذوقِ غلامانہ تجھے

جَو کی روٹی کھا مگر آزاد رہ

اب مخاطب ہو ں میں اُس غدّار سے

پیٹ کے ہلکے ، سگِ اغیار کے

قوم پیکار و وطن آزار سے

بندۂ نفس و خدائی خوار سے

جَو کی روٹی کھا مگر آزاد رہ

ریزہ چینِ خوانِ یغمائے زوال

حلوۂ بے دُود ہو یا شیر مال

دوسروں کے ہاتھ پر شِکرا  نہ  پال

لقمۂ تر ہے امینِ انفعال

جَو کی روٹی کھا مگر آزاد رہ

دشمنِ قوم و وطن اے ہرزہ کار

جان کر گھوڑا ، گدھے پر ہے سوار

ہیچ ہے۔ مہمیز کر یا ایڑ مار

وادیِ ذلّت سے یوں ہو گا نہ پار

جَو کی روٹی کھا مگر آزاد رہ

٭٭٭

 

اَدبار آتا ہے

نطق سے مجروح جب ہو جائے لفظِ ارتقا

جب دماغوں میں چلے جہلِ مُرکّب کی ہوا

لوگ غداری کا رکھ لیں نام جب حُبِّ وطن

جب بتایا جائے ہمدردی کو اک دیوانہ پن

جب سَلف کے کارنامے بھول جائیں نوجواں

عقل کی آنکھوں میں جب بھر جائے غفلت کا دھواں

جب نجابت اپنی ناقدری پہ ہمّت ہار دے

جب سیاست بزدلوں کے ہاتھ میں تلوار دے

خانقاہوں میں اَدا ہوں جب رسومِ مئے کدہ

ساقیِ عشرت پلائے جب زقومِ مئے کدہ

جب نظر آئے تعصّب مسندِ تنظیم پر

جب ’’ من و تو‘‘ زور دے تفریق پر، تقسیم پر

جب یقیں صوفی کا ہو، ہر صوفیِ نا صاف پر

پیر صاحب قرض لے کر کھائیں جب اوقاف پر

علم جب اخلاق کے معنی بتانا چھوڑ دے

جب رواداری مروّت کا ٹھکانا چھوڑ دے

 ’’گنج باد آوردہ‘‘ جب لگ جائے کم ظرفوں کے ہاتھ

چھوڑ دیں جب صاحبِ املاک مزدوروں کا ساتھ

زعمِ خود بینی اٹھا دے جب تمیزِ نیک و بد

جا ملے حیوان کی سرحد سے جب انساں کی حد

شاعرانِ قوم کے اشعرا جب لائیں نہ پھل

جب زبانِ فکر پر حاوی ہوں اربابِ و غل

٭٭٭

 

دادی اور پوتی

اذان ہوتے ہی والدہ صاحبہ نے طاعت سے لَو لگائی

میں ڈر رہاتھا۔ قدم کی آہٹ پہ لیٹ کر تان لی رضائی

کھڑی رہیں تھوڑی دیر خاموش ، پھر جو کی طبع آزمائی

بھلی ہوئی شاعری نگوڑی، لحاف چھُوٹے نہ چارپائی

بس ایک پوتی ہی گھر میں ایسی تھی جس نے بے طرح داد پائی

نماز پڑھنے کے بعد، جی ہاں ، کلامِ اقدس کا ایک پارہ

اٹھی، بھرا کیتلی میں پانی، دھری انگیٹھی پہ، دودھ اُتارا

ابھی سموسے بنا رہی تھی کہ فاخرہؔ نے مجھے پکارا

گئی، تو بولی کہ منجھلے بھائی نے میری بلّی کے رول مارا

چپت دکھا کر کہا، خبردار! یہ شرارت نہ ہو دوبارا

بڑی ہی اچھی مِری سعیدہؔ !اُٹھا لیا گھر کا بوجھ سارا

نصیب اچھا ہو، عمر کے ہر برس پہ سو برکتیں نچھاور

تو اب اجازت ہے دادی امّاں ، خوشی سے ، لیکن دَوا پِلا کر

مزاج کیسا ہے آج امّی! بہت افاقہ ہے جانِ مادر!

جو آپ چاہیں تو سر دبا دوں ؟ نہیں ، پہنچناہے ’’ان کو ‘‘ دفتر

حبیب جائیں گے مدرسہ کو، لطیف جائیں گے نوکری پر

تلے نہیں ہیں کباب اب تک، گلے نہیں ہیں ابھی چقندر

ہماری اچکن کی جیب آپا! ہماری کاپی پھٹی پڑی ہے

سلیٹ کی پینسل کہاں ہے، قلم زمیں پر کٹی پڑی ہے

کسی بھی داوات میں سیاہی نہیں ، پھپھوندی اٹی پڑی ہے

کہاں چلے؟ ٹوپیوں کو دیکھا بھی؟ دھول دھانی ڈٹی پڑی ہے

کہیں سے سُن لیجیے کہ ’’ راہِ نجات‘‘ مجھ کو رٹی پڑی ہے

توکل سنوں گی کہ دادی امّاں کے سر میں خشکی پٹی پڑی ہے

٭٭٭

 

شہر اور دیہات

یہاں ایوانِ دل کش آسماں سے بات کرتے ہیں

وہاں کچّے مکاں دل بستگی کو مات کرتے ہیں

یہاں بجلی سے بام و صحن و در پر نور کا عالم

وہاں مہتاب کے پر تو میں برقِ طور کا عالم

یہاں خود ساختہ نہروں میں نظارہ چراغاں کا

وہاں جھیلوں میں تاروں سے تماشہ صبحِ خنداں کا

یہاں دس بیس گملے سیڑھیوں پر سائبانوں میں

وہاں ارزانیاں ہر سمت فطرت کے خزانوں میں

یہاں میزوں پہ گلدانوں میں گلدستوں کی آرائش

وہاں گمنام پودوں کے سروں پر تاجِ زیبائش

یہاں ہیجان پرور ناچ گانے ماہ پاروں کے

وہاں تسکینِ قلب و روح چشمے آبشاروں کے

یہاں ’’حُسنِ جواں ‘‘ کی زردیاں ممنونِ غازہ ہیں

وہاں امواجِ خونِ گرم سے رخسار تازہ ہیں

یہاں آنکھوں میں شوخی مائلِ عشوہ طرازی ہے

وہاں نیچی نظر تک اعتمادِ پاک بازی ہے

یہاں کھا کر مرغّن مال ’’دنبہ‘‘ نفسِ امّارہ

وہاں ساری بہیمی طاقتیں فاقوں سے ناکارہ

یہاں شورِ تمدّن سے دماغوں میں پریشانی

وہاں خاموش اقدامِ عمل، ٹھہرا ہُوا پانی

یہاں کام و دہن پر لعنتِ جوع البقر طاری

وہاں معدے کے منھ سے قل ہو اللہ ُ احد جاری

یہاں سرمایہ داری مفلسوں پر ظلم ڈھاتی ہے

وہاں انسانیت ایثار کو شیوہ بناتی ہے

یہاں شاعر کی عزّت مرگِ حسرت تک اچھُوتی ہے

وہاں فنکار کی عظمت ادب کے پاؤں چھُوتی ہے

٭٭٭

 

سماج

دھرا ہوا ہے جہالت کے سر پہ تاج ابھی

نہیں عروس کی آزادیوں کا راج ابھی

دلوں کے بھید سے واقف کہاں سماج ابھی

محبتوں میں تباہی کا ہے رواج ابھی

جو فرقِ حُسنِ اطاعت پہ حسرتیں سج دو

تو والدین کی مرضی پہ زندگی تج دو

نہیں یہ بحث کہ مغرب کے کان کاٹے ہند

فضائے عیش و طرب   میں بھرے سپاٹے ہند

’خلیجِ عصمتِ مشرق‘ گنہ سے پاٹے ہند

بہائے رال بتوں پر تو ہونٹ چاٹے ہند

مگر ضرور ہے شادی کو ’’اِذن‘‘ کا سہرا

نہ یہ کہ ’’رعب و ادب‘‘ کا دکھا دیا چہرا

جنھیں مراسمِ فرسودہ نا پسند نہیں

سہی وہ عقل کے پتلے پہ ہوشمند نہیں

شکستِ عہدِ محبت سے کچھ گزند نہیں

تمیزِ فطرتِ انساں میں سر بلند نہیں

 ’’ربابِ زعم‘‘ پہ اپنی پسند کی لَے ہے

یہ جانتے نہیں میلانِ طبع کیا شے ہے

ہوا ہوں آج میں گستاخ اس کی شادی سے

بدل گئی جو مرادوں کو نامرادی سے

چُرا رہا ہوں نگاہیں خود اعتمادی سے

پرے ادب مری اس ’’نظمِ بے ارادی‘‘ سے

سماج ’’نقد و نظر‘‘ کے لیے سنبھل جائے

سناؤں گا وہ حقیقت کہ جی دہل جائے

وہ جس نے مجھ سے کیا تھا نباہ کا وعدہ

عنایت و کرمِ بے پناہ کا وعدہ

حکایتِ غمِ دوری پہ آہ کا وعدہ

 ’’رُخِ صبیح‘‘ پہ زلفِ سیاہ کا وعدہ

تبسمِ لبِ رنگیں پہ عہدِ دل جوئی

نگاہِ خاص میں قول و قسم کی یکسوئی

جو مجھ کو مقصدِ ہستی قیاس کرتی تھی

جو دردِ سوزِ دروں التماس کرتی تھی

جو میرے جذبۂ صادق کا پا س کرتی تھی

جو ’’ دلنوازیِ الفت اساس‘‘ کرتی تھی

 ’’وہ‘‘ ہر ادائے محبت مآل پر مائل

 ’’شباب اور جوانی‘‘ کمال پر مائل

وہ ہم کہ ساتھ رہے کمپنی کے کھیلوں میں

گلاب توڑ لیے، جا چھپے ہیں بیلوں میں

سفر میں جھول گئے کھڑکیوں پہ ریلوں میں

بغل میں ہاتھ دیے پھر رہے ہیں میلوں میں

یہی کہ جن پہ ہوئی جہل کی بلا غالب

سمجھ رہے تھے ہمیں ایک جان دو قالب

تُلے ہماری تباہی پہ یہ ظلوم و جہول

خطا معاف، بڑی چیز ہے دماغ کی چول

بڑھا یہ وہم کہ برتے گئے ’’اصول فضول‘‘

 فضول یوں کہ نہ ان میں عمق نہ عرض نہ طول

بزرگ ہیں ، انھیں خامی پہ ٹوکنا کیسا

بڑوں کو ان کے ارادوں میں روکناکیسا

وہ احتیاط کہ مجبور ہو گئے آخر

قریب آ کے بہت دُور ہو گئے آخر

گھروں سے شہر میں مشہور ہو گئے آخر

زبانِ خلق میں محصور ہو گئے آخر

 ’’نشاطِ جلوۂ مئے  بار‘‘ و باز دید بھی بند

پیام و سلسلہ جنبانیِ رسید بھی بند

لکھا یہ اس نے کہ اب زہر کھا رہی ہوں میں

غمِ مآل سے پیچھا چھڑا رہی ہوں میں

اب آؤ جلد کہ دنیاسے جا رہی ہوں میں

 ’’متاعِ شادیِ بے جا ‘‘ لٹا رہی ہوں میں

سُجھائے جا کے جو میں نے اسے نشیب و فراز

گلے میں ڈال کے بانہیں کیا ’’ قبولِ نیاز‘‘

 ’’سماج‘‘ ہم پہ تو یہ ظلم کر چکی لیکن

وہ آ گیا ہے زمانہ، قریب ہیں وہ دن

جہاد کے لیے اٹھیں گے نوجواں ہم سِن

بہے گی چار طرف سیلِ جذبۂ باطن

نہ ہو سکے گا کہیں ’’اختیارِ نفس‘‘ پہ جبر

کرے گا اپنی حماقت پہ ’’اذنِ بیجا‘‘ صبر

٭٭٭

 

مندر جانے والی

چلی ہے ساتھ وہ ہمجولیوں کو لائے ہوئے

نمودِ صبح کے تاروں کو جھلملائے ہوئے

ضیائے شرق سے کٹتے ہوئے دھندلکے میں

سپیدۂ سحری کے دیے جلائے ہوئے

زہے تحیّر جلوہ کہ تتلیوں کے پرے

زمیں پہ ڈول رہے ہیں پرے جمائے ہوئے

ہجومِ رنگ میں لیکن الگ الگ سب سے

وہی جو دیکھ رہی ہے نظر بچائے ہوئے

وہی جو طرزِ تعاقب سے خوش تو ہے لیکن

مری نگاہ کی جرأت سے ہچکچائے ہوئے

رُخِ صبیح پہ گلگونۂ حیا کی قسم

تجلّیوں کو سمیٹے ہوئے لجائے ہوئے

شرارتوں کو سکھائے ہوئے شکیبائی

اصولِ ضبط و تامّل سے لَو لگائے ہوئے

ٹھہر ٹھہر کے وہ آنچل کو ہاتھ سے روکے

جھٹک جھٹک کے دوشالے پہ خار کھائے ہوئے

 ’’نفیس وضع سنہری بروچ‘‘ آڑی مانگ

جبینِ ناز پہ ریشم کی لَٹ گرائے ہوئے

لبوں کو ضبطِ تبسّم کا واسطہ دے کر

کلی کلی پہ حقارت سے مسکرائے ہوئے

سوادِ خال کو سمجھے ہوئے محلِّ نظر

سیاہ سُرمے سے ٹھوڑی پہ تِل بنائے ہوئے

حریمِ دل میں سجائے خیالِ بُت خانہ

قدم اٹھائے، سرِ بندگی جھکائے ہوئے

پس از ادائے رسومِ سجودِ اہلِ کنِشت

پلٹ رہی ہے وہ مندر سے جل چڑھائے ہوئے

اٹھائے ہاتھ پہ ہلکی سی پتیلی تھالی

کمر دباؤ سے تھوڑا سا لوچ کھائے ہوئے

تِلک سے ’’برہمنِ ہردوار‘‘ پیشانی

لرز رہے ہیں مرے ادّعائے ایمانی

٭٭٭

 

مغرب زدگی

برسات میں ہر شے سے ٹپکتے ہیں قرینے

ہیں ’’ماحصلِ سال‘‘ یہی چند مہینے

فطرت نے بدل دی ہے عناصر کی طبیعت

حدّت نہ حرارت، نہ یبوست نہ پسینے

جب ایک گھٹا آ کے دکھا جاتی ہے جوہر

تب دوسری آتی ہے لٹانے کو خزینے

بوندوں سے بہ ہر شان ترنم سا ہویدا

مدھم کے سلیقے ہیں تو پنچم کے قرینے

مینائے مئے ناب کی پڑتی ہیں پھوہاریں

چھوڑی ہے بلندی سے مئے ناب کسی نے

بیدار ہے اشجار کی نبضوں میں ’’سلالہ‘‘

جھلسے ہوئے سبزے کو جِلایا ہے تَری نے

رگ رگ میں لہو بن کے ’’نمو‘‘ دوڑ رہا ہے

بچھتے ہوئے پودوں کو ابھارا ہے جھڑی نے

بگلوں کی قطاریں طرفِ ابرِ سیہ مست

بہتے ہوئے جاتے ہیں سمندر پہ سفینے

پیپل کی جھکی شاخ سے پُروا کا الجھنا

 ’’کھڑتال سی پھیڑی ہے نسیمِ سحری نے‘‘

کیلوں کو شمیمِ چمن آرا کے جھکولے

سمٹے ہوئے پر کھول دیے سبز پری نے

ہونٹوں پہ شبابوں کے مدھر گیت، ملاریں

لہروں پہ مچلتے ہوئے جھولوں کے سفینے

بلبل کی ملاپوں میں تقرّب کے ترانے

قمری کی صداؤں میں جدائی کے قرینے

آکاش میں بادل سے نکلتے ہوئے تارے

الواحِ زبرجد پہ ضیا تاب نگینے

______________

ایسے میں ملا مجھ کو وہ ’’انگریز طبیعت‘‘

مشرق میں برتتا ہے جو مغرب کے قرینے

جو ہند کی تہذیب کو سمجھا ہے جہالت

جو ہند میں سمجھا ہے کہ بستے ہیں کمینے

کالر میں چھپاتا ہے جو چہرے کی سیاہی

مجبور کیا ہے جسے ’’ہندی نسبی‘‘ نے

مکّہ و خرِ عیسیٰ کی تلمیحِ مکمل

ہاں یہ کہ ذرا مانجھ دیا ’’بد نظَری ‘‘ نے

مقسوم کیا ہے جسے فطرت نے سمجھ کر

مارا ہے جسے اس کی ’’وجاہت طلبی ‘‘ نے

کہتا ہے نہیں ہند میں سامانِ تفرّح

ڈوبے ہیں نقابوں میں حجابوں کے سفینے

ناپید ہے عریانیِ آزادیِ نسواں

آتے نہیں اعضائے نجابت پہ پسینے

________________

بچ بچ کے نکلتے ہیں یہاں جلوۂ رنگیں

تہذیب سے منھ پھیر لیا بے ادبی نے

یہ خوبیِ تقدیر سے ہو آیا ہے یورپ

نیچے ہیں جہاں حُسنِ لبِ بام کے زینے

بِکتا ہے جہاں ایک اشارے میں تبسّم

سستے ہیں جہاں ’’حُسنِ خراماں کے خزینے‘‘

اظہارِ محبت ہے جہاں چائے کی پیالی

ہوٹل ہیں جہاں ’’عشوۂ ارزاں کے دفینے‘‘

مشرق ہے کہ بیٹھا ہے چھپائے ہوئے جوبن

مغرب ہے کہ جاتا ہے اُبھارے ہوئے سینے

_________________

اپنے ہی اَب و جَد پہ یہ الزامِ جہالت

لُٹیا ہی ڈبو دی یمِ عشرت طلبی نے

پھولوں کی تمنّا ’’چمنستانِ ارم سے‘‘

کانٹوں میں گھسیٹا ہے اسے پردہ دری نے

یہ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی قسم کے۔ ۔ ۔ ۔ جتنے بھی ملیں شادؔ

 ’’دریا میں ڈبو دیجیے بھر بھر کے سفینے‘‘

٭٭٭

 

فسانۂ ناتمام

امین و نجمہ کی رات شادی تھی، میں بھی مدعو تھا اور وہ بھی

 ’’ مسرّتِ عقد‘‘ پر مِری طرح دل میں کرتی تھی غور وہ بھی

 ’’علاج بالضّد‘‘ کے طور پر اس کی اور سے ہو چکی ہے نسبت

مرے جنونِ الم کے مندر کی بھینٹ ہے ’’راشدہ کی قسمت‘‘

گزر چکا ہے ہمارے ’’ مستقبلِ محبت‘‘ کے سر سے پانی

 ’’اتھاہ ساگر سمان‘‘ حائل ہیں اختلافاتِ خاندانی

 ’’سماج، خود سر سماج‘‘ دو ہستیاں مٹانے پہ تل چکی ہے

 ’’یمِ جہالت‘‘ میں ’’آبروئے مراسمِ کہنہ‘‘ گھُل چکی ہے

وہ اس کے ہوں اقربا کہ میرے دماغ اُن سب کے چل چُکے ہیں

دوامٍ الفت کے پاک بند بے قد امتوں سے کچل چکے ہیں

عروسِ نو کو سنوارنے میں زمیں پہ رقصاں تھے ماہ پارے

چمک رہے تھے ہزار جگنو، دمک رہے تھے ہزار تارے

لباس و تزئینِ بے محابا سے ’’ڈھیر سا‘‘ بن چکی تھی دُلہن

بلا سے گھُٹ جائے دم تو گھُٹ جائے پر نہ چھوٹے حیا کا دامن

رواجِ مشّاطگی سے دُلھن پہ جو گزرتی ہے عرض کرتا

وہ رنگ و روغن کہ جس سے بیہودگی نکھرتی ہے عرض کرتا

مگر میں جس رُخ پہ جا رہا ہوں وہاں یہ تفصیل بے محل ہے

فروغ پر اصل سے گزرنے میں صَرفِ تخئیل بے محل ہے

برات ابھی دُور تھی کہ باجے کے راگ دینے لگے سُنائی

رُکی طبیعت نے جھرجھری لی، بجھی تمنّا میں لہر آئی

نصیبِ نوشہ پہ رشک آنے لگا کہ اب کامیاب ہو گا

نئے نئے ولولوں کے پہلو میں کیف ساماں شباب ہو گا

خیال آیا امین کی طرح میں بھی آتا ’’کسی کے گھر‘‘ پر

عزیز و احباب دل بچھاتے ’’ خفیف سی جنبشِ نظر‘‘ پر

اسی طرح ’’رسمِ مصحف و آئنہ‘‘ سے حیرت دوچار ہوتی

نہ کھولتی آنکھ کہنے سُننے سے وہ مگر بے قرار ہوتی

 ’’نویدِ رخصت‘‘ کے ساتھ عذرائے آرزو میرے ساتھ ہوتی

جو عہدِ الفت میں ہاتھ کٹوا چکی تھی وہ میرے ہاتھ ہوتی

یہ خواب تھا یاطلسمِ حیرت، سحر کواس وقت ہوش آیا

امین اذنِ وداع کے بعد جب نظر گل بدوش آیا

جھکی ہوئی ’’شاخِ ناردن‘‘ یا عروسِ نو کو دِیے سہارا

مرے برابر سے میری حالت پہ مُسکراتا ہوا سدھارا

نظر اُٹھائی جو میں نے دیکھا’ اُسے‘ کہ مایوس ہو رہی ہے

امین و نجمہ کو دیکھ کر، مجھ کو دیکھ لیتی ہے ، رو رہی ہے

٭٭٭

 

گوالن

گرمیوں کی صبحِ کیف آور کا عکسِ بے ضرر

ابر کے ٹکڑوں سے ٹکرا کر ہوا زیر و زبر

پھر ہمالہ کی اٹھی چوٹی پہ ڈالی روشنی

برف کے گلتے ہوئے ہیرے میں ڈھالی روشنی

پھر حسیں چشموں سے مل کر وادیوں تک آ گیا

دامنِ فطرت سے فطرت زاویوں تک آ گیا

پھر درختوں سے اُتر آیا جو فرشِ خاک پر

وہ کڑے تیور ’’اگر مکھّی بھی بیٹھے ناک پر‘‘

بج رہے تھے دس کہ بپھرا آفتابِ تند خو

ہوش کس کا، جوش میں آیا حرارت کا لہو

حدّتِ شعلہ بجاں ، تڑپی فضا میں ہر طرف

آتشِ برقِ تپاں ، جھپٹی ہوا میں ہر طرف

اب کہ سورج آچکا تھا ٹھیک سمت الراس پر

اور سیدھی ہوکے کرنیں پڑ رہی تھی گھاس پر

تازگی پودوں میں ، شاخوں میں عذوبت سو گئی

جا ملے ذرّے بگولوں سے، رطوبت کھو گئی

منھ اندھیرے کی طراوت ریزیِ شبنم گئی

نرم و نازک پتّیوں پر گرد کی تہہ جم گئی

آ گئی ’’کاریز‘‘ کے ہونٹوں پہ خشکی آ گئی

دوب گولوں کے کنارے تھی مگر مرجھا گئی

دلکشی کا نور گلشن سے عیاں بے رونقی

مٹ گئی تنظیمِ برگ و بار، ہل چل مچ گئی

رنگ و نکہت کے ہوا خواہوں نے اپنی راہ لی

خوش نما پھولوں سے تتلی نے معافی چاہ لی

رس بھرے گیتوں سے متوالا پپیہا باز تھا

موجِ دریا کے لبوں پر شعلۂ آواز تھا

لُو نے باندھی وہ ہَوا پہلا ہی چھاپہ مار کر

گاؤں کی جانب بڑھے دہقان ہمّت ہار کر

وہ گوالن رہ گئی، جس کی جوانی کی ترنگ

اپنے ڈھوروں کے لیے تھی دھوپ سے  مصروفِ جنگ

سنگِ موسیٰ جس سے ہرزہ کار، وہ صورت تھی وہ

ایک بے ڈھنگے ہیولیٰ وضع کی مورت تھی وہ

جس کے چہرے کے نقوشِ ’’ ناسبک‘‘ آہن گداز

وسعت و قعرِ دہانِ بد نما، ہاون گداز

جنبشِ لب وہ کہ جیسے زخم سے پھاہا ہٹے

خندۂ بد زیب سے ہنستا تَوا دل میں کٹے

عشوۂ ناساز میں لپٹی ہوئی نسوانیت

سختیِ اعصاب سے چمٹی ہوئی دہقانیت

گفتگو کا طرز رسوائے غلط فہمی نہ تھا

چشمِ بے غمزہ میں ایمائے غلط فہمی نہ تھا

ہاتھ چاکِ دامنِ پندار سے نا آشنا

پاؤں جنسی لغزشِ رفتار سے نا آشنا

نیلگوں کھدّر کا صد پیوند و بوسیدہ لباس

اتنا بوسیدہ کہ چشمِ آدمیّت ’’بد حواس‘‘

ہاتھ میں شیشم کا ’’ دو شاخہ‘‘ چھڑی کے طور پر

گائے کی رسّی کلائی میں گھڑی کے طور پر

اس طرف عمرِ طبیعی سے وہ لاکھی چوڑیاں

بھر گئے تھے مَیل سے جن کے نگینوں کے نشاں

سلوٹیں کھا کھا کے جلدِ پشتِ پاگینڈے کی کھال

برہنہ پائی سے تلوے سخت جھانویں کی مثال

حُسنِ صورت میں یہ بد ذوقی مگر سیرت بلند

یعنی دل میں’ بدعتِ حیوانیہ‘‘ عزلت پسند

یعنی وہ عورت تھی، عورت اور بیانِ دردِ دل

آب وگِل سے مٹ نہیں سکتی ’’ سرشتِ آب و گل‘‘

اس کا احساسِ جوانی ظرف سے باہر نہ تھا

خم کی گہرائی میں شعلہ تھا مگر مضطر نہ تھا

جس طرح کائی کنول سے منھ نہیں آتی کبھی

خوبیِ باطن کثافت سے نہیں جاتی کبھی

پاؤ گے تم ہند کے ہر خطّۂ نادار میں

یہ گوالن جس کا خاکہ ہے مرے اشعار میں

وہ نہیں ، جس کے لیے ہم شاعرانِ بے عدیل

نام رکھتے ہیں بہ طرزِ نو بہ الفاظِ جمیل

یاد کرتے ہیں جسے اس والہانہ شان سے

جیسے یورپ کے دھُرے ملتے ہوں ہندُستان سے

صِرف کہنے سے صداقت کا اگر چل جائے کام

بھینس کو دے دیجیے جنگل کی شہزادی کا نام

٭٭٭

 

وفائے وعدہ

وہی ہے مُسکراتی آ رہی ہے

مجھے اپنا بناتی آ رہی ہے

وفاسے لَو لگاتی آ رہی ہے

تڑپتی، تلملاتی آ رہی ہے

جو رازِ دل چھپاتی آ رہی ہے

تو گلدستہ بناتی آ رہی ہے

 ’’کوئی وعدہ نہ کر لے صنفِ مجبور‘‘

جھجکتی، ہچکچاتی آ رہی ہے

ہُوا ہے نذرِ الفت ’نازِ خلوت‘

جو یوں تنہا نہ آتی، آ رہی ہے

ڈرایا احتمالِ پاسباں نے

رُکی، سمٹی، لجاتی آ رہی ہے

دبائے زور سے دانتوں میں انگلی

کوئی خطرہ جتاتی آ رہی ہے

انھیں قدموں پہ واپس ہوکے پلٹی

نقوشِ پا مٹاتی آ رہی ہے

سمن کے تختۂ دل کش سے گزری

نیا رستہ بناتی آ رہی ہے

جھٹکتی آ رہی ہے زرد رُومال

یہاں ہوں میں ، بتاتی آ رہی ہے

مٹر کی خوش نما بیلیں جہاں ہیں

وہاں چھپتی چھپاتی آ رہی ہے

سِتم ڈھاتی ہوئی اوراقِ گل پر

ہوا میں پھول اڑاتی آ رہی ہے

بچاتی آ رہی ہے دامنوں کو

 ’’درانڈے‘‘ کو ہٹاتی آ رہی ہے

وہ کانٹے دار تاروں کو اولانگا

بہار آنچل اُڑاتی آ رہی ہے

امنگوں پر ہے احساسِ جوانی

بھرے شانے ہلاتی آ رہی ہے

لٹیں ماتھے پہ گرتی جا رہی ہیں

ہٹاتی پِھر ہٹاتی آ رہی ہے

اندھیرا ہو چلا، اب کل ملیں گے

مجھے کیا کیا ستاتی آ رہی ہے

وہ فوّارے کے چکّر کھا کے ٹھہری

مرے قبضے میں شانے پا کے ٹھہری

٭٭٭

 

گاؤں

سرزمینِ شعر کے اجزا ابھی تھے دُور دُور

طبعِ موزوں کو نہ تھا اپنے ارادوں پر عبور

گلستانِ فکر میں سبزہ ابھی لہکا نہ تھا

پتّہ پتّہ گلبنِ الفاظ کا مہکا نہ تھا

محفلِ اشعار میں شمعِ سخن تھی گُل ابھی

نزہتِ معنیٰ سے کوسوں دور تھی بلبل ابھی

بزمِ پرویں میں’  گُلِ بے خار‘ کی آمد نہ تھی

کہکشاں کی راہ سیاشعار کی آمد نہ تھی

لیکن اِک فنکار کے سینے میں دِل سر میں دماغ

ایک ساعت بھی نہیں پاتا کبھی امن و فراغ

__________

گدگدایا دل کا پہلو قاصدِ الہام نے

رقص میں مضمون آئے، حافظے کے سامنے

سہ پہر کا ، شام نے گیسو میں اپنے بل دیا

گھر سے میں تفریح کی خاطر نکل کر چل دیا

چل دیا تہذیبِ موجودہ کے ہنگاموں سے دور

دور ہوتا جا رہا تھا شہر کا شورِ نشور

اخذِ نظارہ پہ مائل تھا نگاہِ غور سے

حُسنِ فطرت پر نظر تھی ناقدانہ طور سے

چلتے چلتے آخرش پہنچا میں ایسے گاؤں میں

آدمی چوپال میں ، چوپال بڑ کی چھاؤں میں

ناکَسی میں تھی یہاں مفلوج دہقانوں کی عقل

چھپّروں میں جیسے آبیٹھی ہو بن مانس کی نسل

طرزِ بود و باش میں داخل تھا نقالی پہ صبر

آ چکا تھا ان کی پستی کو زبوں حالی پہ صبر

ان کی رگ رگ پر مسلّط بھُوت نادانی کا تھا

نبض کے اندر دھماکا زِشت سامانی کا تھا

___________

تھا غلاظت پر مکانوں کا یہاں نظم و نسق

جن کی بنیادیں سڑی مچھلی پہ گویا منطبق

صحن میں پھیلی ہوئی سٹّی پہ وہ کتّے مگن

برتنوں پر رال ٹپکاتے ہوئے جن کے دہن

کُنج میں ٹوٹے ہوئے ہل، الگنی پر گدڑیاں

جم رہا تھا جن پہ چولھوں اور حُقّوں کا دھواں

کوٹھری میں ایک چکّی، چار برتن، دو پلنگ

قبرِ منعم کی طرح مفلس کی دنیا تنگ تنگ

چھپّروں کے قلب شق، تارے نظر آتے ہوئے

باغ پر چمگاڈروں کے غول منڈلاتے ہوئے

گھر کی دیواروں پہ جالے سُو بہ سُو لپٹے ہوئے

خشک بیلوں کی اداسی میں کدُو لپٹے ہوئے

وہ تعفّن گاؤں کے نزدیک گندی جھیل میں

جیسے گیدڑگِر کے سڑ جاتا ہے بگڑے میل میں

کھاد کی بدبو ہوا میں دانت چمکاتی ہوئی

ڈائنوں کی طرح مغزِ زندگی کھاتی ہوئی

نازشِ اہلِ صفا سے دور ان کی بندگی

ان کی صحّت پر اثر انداز گھر کی گندگی

نو جواں بیگار کی لعنت سے مرجھائے ہوئے

اور بوڑھے شعلۂ غم کی لپٹ کھائے ہوئے

بیویاں ان کی جوانی میں بڑھاپے کا شکار

یاد تو کیجے وہ گلشن جس سے چِھن جائے بہار

دھندلا دھندلا ان کی دوشیزاؤں کا حسنِ ملول

جیسے آخوری نجاست پر کھلیں لالے کے پھول

حُسنِ غم آلود کچھ یوں ملگجی پوشاک میں

جیسے رانی رات کی روندی گئی ہو خاک میں

پھیکی پھیکی انکھڑیوں میں ہر نظر کا’ یاس پن‘

جھاڑیوں میں جیسے پھنس جائیں غزالانِ ختن

ہڈیاں ابھرے ہوئے چہروں پہ زردی کی کلیل

سرخ پھولوں کو نگل لے جس طرح آکاش بیل

___________

ان کے سادہ لوح بچَوں پر غلاظت کا یہ رنگ

چاندنی راتوں میں جیسے چاند پر کہرے کا زنگ

کھیلنے کھانے میں دُور اِن سے نفاست کے قیود

جیسے کیچڑ میں بطوں کا جوششِ شرب الیہود

مہتروں کو جیسے بدبو سے نہیں خوفِ گزند

اپنی دنیاوی جہنم کو یہ کرتے ہیں پسند

حالتِ مذموم کا دہقاں کو اندازہ نہیں

ساغرِ بدگل کی تہہ میں کوئی خمیازہ نہیں

٭٭٭

 

دُخت کش

دخترِ مادرِ ہندی ہے زبانِ اُردو

دخت کش اس کی تباہی کے اُٹھاتے ہیں سوال

یہ دکن میں ہوئی پیدا تو پلی دلّی میں

لکھنؤ میں ہوئی دوشیزۂ سلمائے جمال

کچھ دنوں خطّۂ دلچسپ اودھ میں ٹھہری

اور پنجاب میں پہنچی بہ سرِ اوجِ کمال

پھر ہمالہ سے چلی راس کماری کی طرف

حیدرآباد پہ چھاتی ہوئی آئی بنگال

یعنی ہر سمت بہاتی ہوئی امرت ساگر

گوشہ گوشہ کو دیا ذائقۂ لطفِ وصال

_____________

سنسکرت اس کی ہے دادی تو ہے پوتی اُردو

باعثِ حُسن ہیں ایران و عرب کے خد و خال

لوچ الفاظ میں لہجے میں نزاکت آئی

کھود یا فیضِ فصاحت نے تنافر کا وبال

سعیِ مشّاطۂ معنی نے سنوارا ہے مگر

وہی عفّت ، وہی عصمت، وہی صورت وہی چال

ہائے ہٹ دھرموں کو اپنوں کی بھی پہچان نہیں

وائے بر ضعفِ بَصر، ہائے تعقّل کا زوال

____________

سچ ہے یہ قول کہ اُردو کی فنا ممکن ہے

مگر ایسے بھی ہیں ’’ممکن‘‘ کہ جو ہوتے ہیں محال

ہے یہ جاں دادۂ اُردو کی زباں سے جاری

(دل سے مٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال

ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا)

٭٭٭

 

سگریٹ

بخشتا ہے دل کو تو ایسا سرورِ دل شکن

قالبِ بے رُوح رہ جاتا ہے صندوقِ بدن

کاسدِ فہم و فراست حاسدِ ناموسِ عقل

تیرا بازاروں میں چرچا، محفلوں میں تیرا دخل

حافظہ جھلساہواتجھ سے، جگر تجھ سے خراب

ہوش کے ٹانکے ہلا دیتا ہے تیرا التہاب

عارضِ گلنار کی سُرخی اڑا دیتا ہے تو

تیرے متوالوں کا اکثر خشک دیکھا ہے لہو

تیری صحت سوزیوں پر ہاتھ ملتا ہے شباب

رفتہ رفتہ شمع کی ماند جلتا ہے شباب

سُست رہتے ہیں ترے شیدا بھی، تیرے مست بھی

دابتے ہیں کاہلی کے پاؤں چابک دست بھی

کھل نہیں سکتا کسی پر تیری دم سازی کا راز

تیری کاہش پا نہیں سکتی نگاہِ امتیاز

جب خرد سے دوستی کرتا ہے تیرا التفات

ڈگمگا جاتے ہیں استقلال کے پائے ثبات

٭٭٭

 

وہ اور ہم

پہنچا ہے وہاں اپنی تباہی کا فسانہ

تمہید اٹھائیں تو گزر جائے زمانہ

شاکر ہیں کہ لے جائے جہاں بادِ مخالف

مغرب کے لیے جانبِ مشرق ہیں روانہ

اک وہ ہیں کہ چلتے ہیں زمانے کی روش پر

اک ہم ہیں کہ ہیں تیرِ قدامت کا نشانہ

فرشِ رہِ اغیار ہیں وہ ’امن کی خاطر‘

ہم اپنوں سے دن رات اُلجھنے میں یگانہ

ہر حال میں جاں دادۂ اربابِ وطن وہ

ہم فتنۂ احباب و اقارب کا نشانہ

بہتا ہے کراڑوں میں وہاں ’’ بحرِ سیاست‘‘

سیلاب یہاں وہ کہ نہ’ منبع‘ نہ’ دہانہ‘

مذہب سے وہاں بحث نہیں حُبِّ وطن میں

یاں دست و گریباں ہیں بھجن اور’ دوگانہ‘

ہم شادؔ سبق وقت سے حاصل نہ کریں گے

اچھا ہے کُچل جائے ہمیں پائے زمانہ

٭٭٭

 

یاد

یاد آتا ہے کبھی تجھ سے محبت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی حاصل مسرت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی دل کامیابِ عشق تھا

یاد آتا ہے کبھی ہنسنے پہ قدرت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی راحت اثر تھا درد دل

یاد آتا ہے کبھی جینے کی حسرت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی تیرے ستم تھے دل فریب

 یاد آتا ہے کبھی رونے سے نفرت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی وعدے وفا ہوتے نہ تھے

یاد آتا ہے کبھی تجھ سے شکایت تھی مجھے

یاد آتا ہے مجھے صدمے تھے پیغام سکوں

یاد آتا ہے کبھی فرقت میں راحت بھی مجھے

یاد آتا ہے تصور تھا کبھی معجز نما

یاد آتا ہے کبھی فرصت ہی فرصت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی ملنا تو گھبرائے ہوئے

یاد آتا ہے کبھی تاکیدِ الفت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی تھا عفّتِ الفت پہ عہد

یاد آتا ہے کبھی محدود ہمت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی زیبا نہ تھا بوس و کنار

یاد آتا ہے کبھی جائز اجازت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی آتی تھی وہ پنجوں کے بل

یاد آتا ہے کبھی چھپنے کی عادت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی رہتے تھے یکجا رات بھر

یاد آتا ہے کبھی محتاط جرأت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی کیرم پہ بدجاتی تھی شرط

یاد آتا ہے کبھی ہر جیت نعمت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی پہنچا وہاں کس کس طرح

یاد آتا ہے کبھی اپنے پہ حیرت تھی مجھے

یاد آتا ہے کبھی آتے تھے چھوٹے نامہ بر

یاد آتا ہے کبھی کھنچنے سے رغبت تھی مجھے

’یاد آتا ہے‘سے یہ مطلب وہ اب تک یاد ہے

دوسرے جلووں میں نظریں محو، دل ناشاد ہے

٭٭٭

 

پُرانا قلعہ

مقدر عداوت پہ جب ڈٹ پڑا ہے

زمیں ہل گئی آسماں پھٹ پڑا ہے

درِ قلعہ بے چارہ چوپٹ پڑا ہے

وہ کچرا، وہ کوڑا وہ کرکٹ پڑا ہے

ٹہلتے نہیں پانیئر کے سپاہی

تماشہ کر اے بندۂ تاجِ شاہی

کواڑوں پہ دھولوں کی پپڑی جمی ہے

گری ہے تو گُل میخ پر آ تھمی ہے

پھپھوندی میں تھوڑی کسر ہے، کمی ہے

پلستر پہ نونی، زمیں پر نمی ہے

 ’’غلاموں کی گردش‘‘ غلاموں سے خالی

نہ مہتر نہ دھوبی نہ سقّے نہ مالی

سرِ بام محراب، ڈنکا نہ نوبت

نفیری کی شامت نہ دھونسے کی دُرگت

نہ فرمانِ شوکت نہ اعلانِ عظمت

اُجالے کی دُشمن اندھیرے کی شدّت

بجھے دن پہ ہوتی تھی روشن جو چوکی

وہ اب منتظر ہے ستاروں کی ضو کی

خزاں کا عمل خشک پیڑوں کے تھالے

بہاروں کا موسم خزاں کے حوالے

یہ سبزے پہ کتّے، وہ پتّوں پہ جالے

بہا اشک چشمِ بصیرت ، بہا لے

اُداسی کا منظر عمارت کے جنگلے

علاقے کے ویران سے ڈاک بنگلے

یہ مچّھی بھون جس پہ پردہ نہ اوٹے

ضیا تاب کلسوں کو پالِش کے ٹوٹے

نہ مانجھے کوئی جیسے پیتل کے لوٹے

سیہ پڑ گئے مچھلیوں کے پپوٹے

زمانے کا ہر وار پڑتا ہے تگڑا

پھریرے نے جھنڈے کا دامن نہ پکڑا

نہیں اب وہ بانات کا لال پردہ

نکمّے محلات کا لال پردہ

گناہوں کے دن رات کا لال پردہ

سیہ کار حالات کا لال پردہ

نگہبان تھے جس کے بونے پہاڑی

کھڑی ہے وہاں ایک گلے کی باڑی

پرندہ یہاں پر نہیں مارتا تھا

مگر بوالہوس ناگ پھنکارتا تھا

شبابوں کے دامن پہ منھ مارتا تھا

زمانہ یہاں عصمتیں بارتا تھا!

یہاں بھینٹ چڑھنے کو آتی تھی بھیڑیں

مناسب نہیں ہے کہ یہ ذکر چھیڑیں

جواں سال خلّاصنوں کا عمل تھا

مگر ان سے مشروط قومی خلل تھا

مچھیرن تھی ماں اور باوا مغل تھا

طلاکار نفسوں کو سب برمحل تھا

اگر عزم عصیاں پہ قدرت نہ ہوتی

حکیمانِ حاذِق جگاتے تھے جوتی

اگر تھیں بھی شوہر زدہ خادمائیں

یہ قانون تھا ساتھ بچّے نہ لائیں

سجیں خوب، اپنے کو دلکش بنائیں

تو ظلِّ الٰہی کے مُکّی لگائیں

جنم لے بھی لیتی جو یہ روسیاہی

 ’’پدم‘‘ سے وہ بنتا تھا اولاد شاہی

شریفوں پہ اطلاق دار و رسن تھا

گدھوں کی حفاظت میں شیروں کا بن تھا

رذیلوں کے ہاتھوں میں نظمِ وطن تھا

غرض جو رتن جوت تھا، نورتن تھا

اگر قرۃ العین تحفے میں لاتا

کراؤن، چچا باپ جاگیر پاتا

بڑا چلبلا ہے تخیّل کا گھوڑا

وہ بابو کا گڈھ تم نے دیکھا تو ہو گا

جو نقرہ بچھیری تو مشکی بچھیرا

نتیجے میں ہوتے تھے ابلق ہی پیدا

ہر اک مادیاں  میرؔجی کی سی گھوڑی

جو پٹھوں میں بھاری تو دانتوں میں تھوڑی

کئی بار یہ گھوڑیاں ہنہنائیں

پچھاڑی اکھیڑی ، لگا میں تڑائیں

کھتے سے نکل کر طویلوں میں آئیں

جو  نَر  مِل گیا اس سے آنکھیں لڑائیں

اولیلوں پہ آتی ہے جس وقت مادہ

یہاں استفادہ، وہاں استفادہ

جو اِن استفادوں سے تخلیق پائے

وہ تحقیق زادوں میں خچّر کہائے

یہ تازی کے پٹّھو یہ ویلر کے جائے

مگر میر مفتی نے شجرے بنائے

حسب اور نسب پر بجے شادیانے

شعوروں پہ تانے گئے شامیانے

لگاتا ہوں پھندنے اِدھر کے اُدھر کے

یہ انداز ہیں میری فکر و نظر کے

کہ لکھتا نہیں نظم خاکوں میں بھر کے

ملیں تاکہ میدان عرضِ ہُنر کے

یہ بابو کا گڑھ بھی یوں ہی آن دھمکا

نہ مقصود اُبھرا نہ مضمون چمکا

نہیں گو ہمیں تاجِ شاہی گوارا

نہ شاہوں کی عالم پناہی گوارہ

نہ عالم پناہانِ واہی گوارا

نہیں پھر بھی ایسی تباہی گوارا

کہ شاہی عصا گھٹ کے رہ جائے سونٹا

شہنشاہِ دوراں لگائے لنگوٹا

کسی کی تباہی پہ ہنسنا بُرا ہے

مقامِ تامّل ہے عبرت کی جا ہے

ہرن ہو گیا نشّہ، ہوش آ گیا ہے

یہ ہوتا رہے گا، یہ ہوتا رہا ہے

تشدّد کا بدلہ چکاتی ہے قدرت

رعونت کا پرچم جھکاتی ہے قدرت

٭٭٭

 

مور

دلکش مور! ادائیں تیری

تیرے ساتھ دعائیں میری

کتنا سُندر تاج ہے تیرا

سُندر بن تک راج ہے تیرا

جوُڑا باندھے، مانگ نکالے

سینہ تانے، بازُو ڈالے

نیلا چُست شلوکا تیرا

تیرے پر ہیں گہنا تیرا

تیری صورت پیاری پیاری

بَر میں تیرے اُودی ساری

چلتے چلتے یوں لہرائے

جیسے شاخ جھکولا کھائے

دیپک راگ سُنائے جا تو

دل میں آگ لگائے جا تو

اب یہ قصّہ رام کہانی

قسمت نے کی آنا کانی

صحن میں اب وہ مور نہیں ہے

دل پر میرا زور نہیں ہے

آنکھوں سے جاری ہیں جھڑیاں

بیت گئیں عشرت کی گھڑیاں

بیٹھے ہیں بِپتا کے پہرے

بیاکُل ہردَے کیسے ٹھہرے

ملنا اب، مقسوم نہیں ہے

مجھ کو کچھ معلوم نہیں ہے

مور ہے آنکھ سے اوجھل کس جا

اَور ہے مور سے مطلب اس جا

٭٭٭

 

ہستی

میرے فرزند! یہ ہو گی تری سعیِ ناکام

کہ تو ثابت کرے ہستی کا وجود اور قیام

یہ بھی دشوار ہے کہنا کہ ’’ یہ دنیا کیا ہے‘‘

گامزن جس میں ہے تو صبح سے لے کر تا شام

 ’’صرف اِک جسم ہے‘‘ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا

یہ بھی ممکن نہیں ہرگز کہ تو ہے ’’روح تمام‘‘

یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ’’ جُدا ہے اُن سے‘‘

دُور از فہم ہے یہ ’’تجھ میں ہے دونوں کا قیام‘‘

___________

کیونکہ وہ بات جو ثابت نہیں کی جا سکتی

اُس میں کوشاں رہے کوئی تو ’’یہ سودا ہے  خام‘‘

ایسی حالت میں یہ لازم ہے بہ فتوائے یقیں !

شبہ کے پہلوئے روشن پہ نگہ رکھ تو مدام

معتقد بلکہ تو اس ہستیِ بالا کا رہ

ہے عقیدوں کے مراسم سے اُدھر جس کا مقام

            (ٹینی سن)

٭٭٭

 

تصادم خیال

کسی فلسفی کا قول ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر اس کے بعد قید علائق کی جکڑ بندیوں کا وہ آپ ذمہ دار ہے۔ اوریہ کہ جس قدر عمر بڑھتی ہے اسی قدر زیادہ انسان معصیت کی گہری تاریکیوں میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ یہ قول بہ استثنائے چند قابلِ تسلیم ضرور ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسان کے مفہوم کو پھیلا کر جب ہم ان ہستیوں پر حاوی کرتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگیاں جستجوئے معرفت کے لیے وقف کر دیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ہستیاں افزائشِ عمر کے ساتھ نورِ معرفت میں غرق ہو جاتی ہیں۔ اُن کے لیے پیرانہ سالی ایک نعمت ہے لیکن اسّی فی صدی ایسے لوگ ہیں جواس کلیہ کے ماتحت آتے ہیں جس کو ٹیگور اور ورڈزورتھ نے ایک ہی مرکزِ خیال پر متصادم ہو کر نظم کیا ہے۔ ان دونوں نظموں کا ترجمہ ہدیۂ ناظرین ہے:

ٹیگور

اے وہ کہ جو میرے نام کے ساتھ

زندانیِ جسم خود بنا ہے

دل تیرے فرار کے خطر سے

اِک قصرِ حسیں بنا رہا ہے

دیواریں ہیں مائلِ بلندی

دیواروں سے عمر مُدعا ہے

جتنی کہ بڑھی ہے پختہ مغزی

دِل اتنا ہی ظُلمت آشنا ہے

ورڈز ورتھ

ہر طفل کے سن و سال کے ساتھ

ہوتا ہے بلند اُس کا قد بھی

گھرتا ہے پھر اُن مصیبتوں میں

ہوتی نہیں جن کی کوئی حد بھی

ممکن نہیں انحراف اس سے

ممکن نہیں اس کا کوئی رد بھی

ہے جتنی بھی زائد عمر جس کی

اتنی اُسے معرفت سے کد ہے

٭٭٭

 

کافر ایماں رُبا

تو شکارِ جہل ہے اے قاضیِ خلوت نشیں

کفر کا فتویٰ مجھے سجتا تو ہے۔ زیبا نہیں

یہ حقیقت ہے کہ میں رہن درِ بتخانہ ہوں

لیکن اک ایسی پُجارن کے لیے دیوانہ ہوں

صبح دم مندر کو آتی ہے جو اس انداز میں

جیسے پھولوں کا تبسم کھو گیا ہو سازمیں

منہ اندھیرے جیسے جادو رات کا جاگا ہوا

جیسے رکتا جائے، آہوئے حرم، بھاگا ہوا

آسماں تنویر برساتا ہے جس کے واسطے

نُور کا تڑکا بچھا جاتا ہے جس کے واسطے

جس کے اعضاء کا تناسب جاذبِ ذوقِ نظر

سرو جیسا قد ہے شاخِ یاسمن ایسی کمر

جس کی رفتارِ متانت آفریں جانِ نسیم

بوئے عطر پیرہن سے فیض پاتی ہے شمیم

پر توِ رُخسار سے چندن کی بِندی’ سُرخ پوش‘

ریشمین بالوں کے لچّھوں سے جبیں’ سُنبل فروش‘

ابر کے سائے میں پیشانی کی دنیا تابناک

چندرما کی جوت سے کالی گھٹائیں سینہ چاک

سبز رنگ والی طلائی لونگ ستواں ناک میں

غنچۂ شادابِ زنبق دیدۂ ادراک میں

عارضِ رنگیں سے شرمایا ہوا ماہِ تمام

موجزن لب ہائے نازک پر شرابِ لالہ فام

چُست ’’باڈی‘‘ لچ لچے شانوں میں یوں کھوئی ہوئی

جیسے نکہت پھول کی آغوش میں سوئی ہوئی

کاسنی ساری میں زرّیں فردیاں رخشندہ تر

جھیل کے موتی سے پانی میں ستارے جلوہ گر

مرمریں گردن میں ’’زینت آشنا‘‘ سونے کا ہار

چھوٹ نیلم کی سُبک بندوں میں بے تاب و قرار

سینڈل میں شوخیِ پائے حنائی دیدہ زیب

خوشنما ٹخنوں پہ توڑوں کی سجاوٹ دل فریب

____________

گفتگو کے ساتھ ہلکے سے تبسّم کی جھلک

سامعہ میں گیت بن جاتی ہے آنکھوں میں چمک

 ’’چلتے چلتے میری جانب وہ نگاہِ سحر فن‘‘

دیکھتا جاتا ہے مُڑ مُڑ کر شکاری کو ہرن!

الغرض اے قاضیِ خلوت نشین و پارسا

پوجنے کی چیز ہے وہ کافرِ ایماں رُبا

٭٭٭

 

۔ ۔ ۔ سے

جائے گی کالج کی جانب جب کتابیں لے کے تو

میں ترے چہرے پہ بن جاؤں گا زلفِ مُشک بو

چوک میں ہوتے ہوئے گزرے گی جب بازار سے

دل کو میں پامال کر لوں گا تری رفتار سے

لونگ تیری ناک میں جب پھول کو شرمائے گی

کیل ہیرے کی چمک کر خاک میں مل جائے گی

جب شلوکے میں نظر آئے گا اعضا کا گداز

دل کو میرے موہ لے گا جلوۂ حُسنِ مجاز

جب پہنچ جائے گی تو کالج کے لکچر ہال میں

ہر ادا پابند ہو گی الفتوں کے جال میں

حل کرے گی جس کھڑی جبر و مقالے کے سوال

ذہن کے پردوں میں چکّر کھائے گا میرا خیال

ختم ہو جائیں گے جب کالج کے اوقاتِ حزیں

تو بھی گھر پلٹے گی، لیکن تو کہیں اور دل کہیں

دور تک دوڑے گی میرے واسطے تیری نظر

میں نظر آؤں گا شرقی راستے کے موڑ پر

تا کُجا ضبط و قارِ حُسنِ فطرت کا بھرم

لڑکھڑا جائیں گے میرے واسطے تیرے قدم

نیلگوں آنکھوں سے چھلکے گی محبت کی شراب

شرم کے دلکش پسینے میں نہائے گا شباب

گھر پہنچ کر تو کتابیں پھینک دے گی میز پر

گنگنائے گی غزل اس ربطِ غم آمیز پر

٭٭٭

 

کنول

اے کنول اے جل پری۔ اے جھیل پر تاروں کی جوت

تیرے کارن پیت ساگر میں کھلی گنگا کی سوت

دھارتا ہے روپ کچھ ایسے تو اے نازک کنول

موہنی صورت پہ تیری آنکھ جاتی ہے پھسل

گُدگُدا دیتی ہے تجھ کو جس سمَے کوئل کی کوک

مسکراہٹ سے بدلتی ہے ترے ہردَے کی ہوک

تو کہاں ! اک ہنس ہے پانی میں پَر کھولے ہوئے

چاند پنگھٹ پر اُتر آیا ہے سر کھولے ہوئے

چھُٹ کے افشاں صبح کی نیلی دولائی پر گِری

یاتڑپ کر شوخ بجلی سبز کائی پر گری

یا کوئی بگلا کھڑا ہے سر اٹھائے گھاٹ پر

یا اکٹھا ہو گیا ہے پھین چَوڑے پھاٹ پر

یا یہ چاندی کا کٹورا ہے کٹورا تال میں

یا یہ شیشے کا دیا جلتا ہے چَو مکھ تھال میں

یا کسی دیوی کی سمرن گر پڑی تالاب میں

یا گڑی ہے کوئی پھولوں کی چھڑی تالاب میں

یا کھلا ہے پھول کی صورت میں بھادوں کا بھرم

یا لیا ہے تُور کے تڑکے نے دریا پر جنم

اے کنول کچھ سوچ تیرے یہ ستم کب ٹھیک ہیں

دُور ہوں میں تجھ سے اور بھونرے ترے نزدیک ہیں

مجھ سے برتی جا رہی ہے یہ دو رنگی یہ دوئی

اور جاتی ہیں ابابیلیں تجھے چھوتی ہوئی

مسکراکر کھیلتا ہے رات دن پانی سے تو

اور کچھ واقف نہیں میری پریشانی سے تو

تیرے چہرے پر مسرّت ہے مرے چہرے پہ یاس

خوشنما تیری جوانی میری امّیدیں اداس

مجھ پہ، ملتا ہے جہاں سے چَین، وہ گھر بند ہے

اور تیرے واسطے آنند ہی آنند ہے

آنسوؤں کے موتیوں میں پو رہا ہوں تار میں

ہار تیرے واسطے کرتا ہوں اِک تیار میں

٭٭٭

 

ساون

یہ بھیگی رُت ، یہ بادل یہ پھواریں

جو ہمدردانِ فطرت آنکھ ماریں

تو ہم یہ سِین کاغذ پر اتاریں

ہنڈولے، چُندریاں جھونکے ، ملاریں

گھٹا کھیتوں پہ منڈل چھا رہی ہے

دھنُش کی اوڑھنی لہرا رہی ہے

گوالن بنسری پر گا رہی ہے

کسانوں کا لہو گرما رہی ہے

اُمنگوں پر ہے پُروا کی روانی

درختوں سے ٹپکتی ہے جوانی

اُگل دی ہے زمیں نے زندگانی

ہرے مکّا کے پودے، دھان دھانی

بھنبھیری دُوب سے لپٹی ہمک کر

پتاور پر جمی تتلی لپک کر

ٹٹِیریری تال پر کھاتی ہے چکّر

فضا میں رہ گئیں نظریں ٹھٹھک کر

اُڑے جاتے ہیں بگلے پاؤں جوڑے

نہ جب تک رہنمائے قوم موڑے

نہیں ممکن کوئی ترتیب توڑے

ہمیں بھی کاش یہ منظر جھنجھوڑے

٭٭٭

 

شہر سے دور

گاؤں کے نزدیک ہم ہیں ، شام کا آغاز ہے

جھاڑیوں میں جھینگروں کی صُورِ صد آواز ہے

فاختائیں چپ ہوئی ہیں ، گُل دُمیں خاموش ہیں

چھا گئے میداں پہ گیدڑ ، ہرنیاں روپوش ہیں

اوجھلوں میں مور پھرتے ہیں بسیرے کے لیے

نیل سر، دریا پہ گرتے ہیں بسیرے کے لیے

سو گیا جنگل، ہوا کی سر سراہٹ تھم گئی

نرکلوں کی پتّیوں پر دھول اُڑ کر جم گئی

گاؤں کی رونق ، مویشی آ رہے ہیں سر جھکائے

بھینس کے پہلو میں بکری، بھیڑ کے شانوں پہ گائے

اب نہیں باقی گوالے کی صداؤں میں اثر

تھان کی جذب و کشش سے مٹ گیا لاٹھی کا ڈر

کشمکش میں ’’جادۂ دل تنگ‘‘ کا ماحول ہے

مختلف گلّے تھے بنجر پر، مگر اب غول ہے

جن سے جنسی بھوک مر جائے کچھ ایسے جمگھٹے

بھر کے لاتے ہیں کنویں سے گھر کو مٹّی کے گھڑے

ایک کُولھے پر دھرا ہے ، سر پہ دو، ہاتھوں میں دو

اور ایسی چال، پانی کو ذرا جنبش نہ ہو!

کھیت کی مینڈوں پہ بھڑکی کھیت کے کوڑے کی آگ

بیریوں میں سو گئے گاتی ہوئی چڑیوں کے راگ

شام نے سر رکھ لیا لیلائے شب کے پاؤں پر

پھاڑ کر چھپّر ، دھواں گھٹنے لگا کل گاؤں پر

رات کی تقریب میں گھرگھر دیے جلنے لگے

مشعلیں لے لے کے جگنو چار سو چلنے لگے

بچّیوں میں خوابِ راحت کے لیے آمادگی

لڑکیاں کھدّر کے کپڑوں میں نثارِ سادگی

کروٹیں لیتی ہے سبزے پر بہارِ کائنات

ناچتی پھرتی ہے تاروں کے حسیں منظر میں رات

٭٭٭

 

مالن

خوب ہے قدرت کی ’’ خود مختاریِ خلق آفریں ‘‘

بِیس خاکی پتلیوں میں دو نگارِ آتشیں

شوخیاں کرتی ہے کیا کیا فطرتِ شوخی طراز

ہنس کووّں میں نظر آتا ہے اور چیلوں میں قاز

تال میں مرغابیوں کے ساتھ پھرتے ہیں کلنگ

دار بستِ تاک میں سرگوشیاں کرتی ہے بنگ

دُور تک پھیلے ہُوئے ڈھاکے میں جُوہی پر شباب

صحبتِ نا جِنس بید انجیر پر حیراں گُلاب

تھوہڑوں میں کونیا بھی پھول جاتی ہے کبھی

بنجروں میں کاسنی جلوہ دکھاتی ہے کبھی

باغ میں سورج مکھی اُگتی ہے ککروندوں کے پاس

بھٹ کٹائی کی بغل میں لالۂ گلشن اساس

نیل کے پودوں میں پوشیدہ گلِ عبّاس ! واہ

نرگسِ خود رَوکے چہرہ پر بندریا گھاس! واہ

خاک میں ہیرے چھپا دیتا ہے صناعِ جہاں

اور پھر جوہر شناسوں سے یہ کہتا ہے کہ ہاں

سر بسر اضداد کے اوجھل میں ہیں اسرارِ غیب

شعر کیا؟ دنیا کے اندر ہے ’’شتر گربہ‘‘ کا عیب

موقعہ و ماحول پر کرتا نہیں کچھ غور حُسن

طبقۂ ادنیٰ کی ’’ صنفِ نیم نازک‘‘ اور حُسن

پھول والی ماہ پارہ، دیکھتا ہوں جس کو روز

مالنوں کی طرح مالن ہے مگر گلشن فروز

نوبہارِ ناز گلزارِ نمودِ صبح میں

انکشافِ راز انوارِ ورودِ صبح میں

پھول چنتی ہے کسی شاعر کی تخئیلِ حسین

یاکسی زاہد کی موضوعِ عبادت حور عین

یا سمنؔ بن آئی ہے دو شیزۂ طرفِ چمن

یا کسی مندر کا خواب آلود و مستانہ بھجن

پڑ گئی ہے جان قمری کی صدائے مست میں

نغمۂ ناہید آیا ہے لباسِ ہست میں

وہ لباسِ ہست جو بے مائیگی سے چاک چاک

جس کی رنگت پر غریبی ڈال دے گلیوں کی خاک

جس میں صحّت کاریِ سوزن کی گنجائش نہیں

پردہ داری کے لیے چادر کی پیمائش نہیں

پیرہن گرد و غبارِ راہ سے وارستہ حال

اک صدی پہلے کا جیسے عاشقِ آشفتہ حال

جا بجا خاکستری چادر پہ دھبّے تیل کے

مائلِ وسعت مزاجِ گرم فطرت جھیل کے

پارہ پارہ آستینیں ، کہنیوں سے بے نیاز

جیسے بوسیدہ غلاف ساز عرض شکلِ ساز

نذر فاقہ ’’قیمتِ تزئین‘‘ زلفِ گندہ بوُ

عہدِ موجودہ کا جیسے شاعرِ پیچیدہ مُو

کھینچ دوں تصویر سینہ بند خام الجام کی

جیسے دو بَیتی مصور حضرتِ خیام کی

پنڈلیوں پر یوں وہ صافی رنگ لہنگا تار تار

جیسے مارِ شاخِ صندل کینچلی میں بے قرار

انگلیاں ٹھٹھرے فسانے گردشِ سرشور کے

مور کو جیسے وبالِ جسم پنجے مور کے

چاند کے چہرے پہ گردوں خاک ڈالے بھی تو کیا

اپنے اندر برق کو بادل چھپا لے بھی تو کیا

روشنائی ہے جہاں تک دیدۂ ادراک میں

چھپ نہیں سکتی صباحت ملگجی پوشاک میں

٭٭٭

 

سبق

غفلت کے منھ پر ٹھوکر دے، بیداری کا متوالا بن

اے دنیا میں رہنے والے! مضبوط ارادے والا بن

منزل کی جانب جاری رہ، جو پیش آئے وہ صدمہ سہہ

پستی میں بہتا پانی بن، رفعت پر برقِ ہمالہ بن

قدرت نے عقل عطا کی ہے، اک شمعِ راہ نما دی ہے

ذی ہوش ہے خودمختار ہے تو اب ادنیٰ بن یا اعلیٰ بن

وادی سے دشمن تکتے ہیں جوجی میں آئے بکتے ہیں

بد بِیں کی آنکھ میں تنکا بن، بد گو کی زباں پر تالا بن

٭٭٭

 

گُل کاریِ تصوّر

فرصتِ ہجر میں اکثر اکثر

ہم کہیں اور، نگاہیں ہم پر

کِس کو اعجازِ تصور کی خبر

حُسنِ تخئیل و تصور یکسر

تو مرے پاس، زہے ذوقِ نظر

شانۂ و زلفِ معنبر کی قسم

تیری آنکھوں کی ، ترے سر کی قسم

میں ترے پاس پہنچ جاتا ہوں

چاندنی کے رُخِ انور کی قسم

تو مرے پاس، مقدّر کی قسم

سُن کے اربابِ طرب کے قصّے

قرب و تسکینِ نظر کے چرچے

میں ترے پاس پہنچ جاتا ہوں

شہپرِ فکر رسا کے صدقے

تو مرے پاس، کہوں ؟ کون کہے

دوست گلزار میں لاتے ہیں مجھے

پھول ہنس ہنس کے ستاتے ہیں مجھے

میں ترے پاس پہنچ جاتا ہوں

لوگ حیران سا پاتے ہیں مجھے

تو مرے پاس، بناتے ہیں مجھے

دل بہلتا ہے کتابوں سے کہیں

سر پٹکتے ہیں مضامینِ حسیں

میں ترے پاس پہنچ جاتا ہوں

فلسفہ مانعِ تخئیل نہیں

تو مرے پاس، مگر کس کو یقیں

اس سے زائد بھی محبت کیا ہو

نہ ہو یہ نقضِ شریعت ، یا ہو

میں ترے پاس پہنچ جاتا ہوں

کوئی مندر میں بھجن گاتا ہو

تو مرے پاس ، اگر چرچا ہو

٭٭٭

 

نفسیاتِ سرما

ہوئی سرد خورشید کی انجمن

برودت سے تفسیدہ دل ہیں مگن

زمیں سرد کون و مکاں سرد ہیں

شعاعوں کی سرگرمیاں سرد ہیں

ڈھلا جونہی سورج کہ دن کٹ گیا

بڑا دن ٹھٹھر کر بہت گھٹ گیا

سحر سرد کُہرے میں لپٹی ہوئی

در و بام سے دھوپ چپٹی ہوئی

جنوبی ہواؤں سے ہو کر خجل

لرزتا ہے بحرِ شمالی کا دل

ہوئی سرد اُونی لباسوں کی خُو

دوشالوں کی جاتی رہی آبرو

فضا میں ہیں نشتر عجب قسم کے

کھڑے ہو گئے رونگٹے جسم کے

مزاجوں کو سردی ملی حسبِ ظرف

جو دریا میں پانی وہ حوضوں میں برف

ہوا گوش و بینی میں بھرتی ہوئی

پلٹتی ہے دل سے گزرتی ہوئی

زُکامی تقاطر میں چِھینکوں کا جور

ابھی ایک، پھر ایک، پھر ایک اور

تنفّس رواں بھاپ کی مَوج پر

تکلّم گراں ، گھگّھیاں اَوج پر

حواسوں پہ جاڑا سا چڑھتا ہوا

انگیٹھی پہ ہر ہاتھ بڑھتا ہوا

لطافت سی چھائی ہوئی آگ پر

جوانی سی آئی ہوئی آگ پر

تساہل پہ چستی ہوئی فتح یاب

ضعیفی کی رگ رگ میں دوڑا شباب

جلی برف سے گرمیوں کی بہار

خیابانِ سرما پہ آیا نکھار

وہ باغوں میں نارنگیوں کی چمک

کہ زاہد کی نیّت بھی جائے بھٹک

لبِ تشنہ کامی پہ آئی تَری

سرِ بزم رقصاں ہے ’’قہوہ پری‘‘

تموّل لحافوں میں آرام سے

پڑی اوس مزدور پر شام سے

٭٭٭

 

بیوہ

سپید پوش، لبوں پر سکوت، چہرہ فق

ہوائے کاکلِ بے شانہ، پائمالِ قلق

جبیں حکایتِ ناگفتنی کا آئینہ

نگاہ ’’خانۂ افسردگی‘‘ کی مسکینہ

نظر سے دور ، بہت دُور عشرتِ ماضی

ستم طرازیِ گردوں پہ ہر طرح راضی

جگر پہ ضربتِ تیغِ اَلم کسی کی یاد

نگار خانۂ چیں کا کھنڈر دلِ ناشاد

اداسیوں کایہ عالم کہ مضمحل منظر

تصوّراتِ سکوں بخش میں مخل منظر

نہ طرفہ کاری جوشن نہ ہار سینے پر

سنگھار بھینٹ چڑھایا ہے صرف جینے پر

کلائیوں کو نہ لچھّوں سے واسطہ باقی

حنا سے دُور کفِ’دست و پا‘ کی برّاقی

ضعیف ولولۂ نو، اُمنگ پژمُردہ

حجاب مانعِ شوخی، شباب افسردہ

سہاگنوں میں شرارت کی گفتگو سے الگ

ہر آرزو سے کنارے، ہر آرزو سے الگ

سحر کو محوِ ادائے فریضۂ سحری

بہا رہی ہے متانت کی رَو میں بے خبری

٭٭٭

 

گیہوں نے کہا

پہلے میں بویا گیا جوتے ہوئے ایک کھیت میں

مل گئی آسودگیِ زندگانی ریت میں

کچھ دنوں طاری رہا اعصاب کے اوپر جمود

خوابِ راحت کا مرادف تھا طلسمِ ہست و بود

بار کھیتوں میں لگا جس وقت موتی رولنے

راہ دی مجھ میں رطوبت کو مرے ماحول نے

نطقِ فطرت نے صدائے قم بِاِذن اللہ دی

ٹھوس اعضائے بدن میں ولولوں کو راہ دی

وہ شعاعِ مہر کی تابندگی ادراک میں

میٹھا میٹھا درد جاگ اٹّھا دلِ نمناک میں

کوششِ روئیدگی نے پھر دیا چولا بدل

قلب کے پہلو سے شاخِ آرزو آئی نکل

اب یہ’ کِلّا‘ دل میں گھبرا کر سکوتِ ارض سے

قوتِ نشو و نما کو لے کے طول و عرض سے

عرفۂ ہستی میں مصروفِ نظارہ ہو گیا

دامنِ عافیّتِ دل پارہ پارہ ہو گیا

دھوپ کی کوشش سے جب آب و ہوا راس آ گئی

زرد پودے کے رگ و ریشہ پہ سبزی چھا گئی

کھیت کے آغوش میں پروان چڑھتا ہی رہا

تھا ترقی کے لیے میدان بڑھتا ہی رہا

رفتہ رفتہ نرم و نازک بالیاں آنے لگیں

سبز پتّوں میں ہوا کے ساتھ لہرانے لگیں

بالیوں میں دودھیا دانے نظر آنے لگے

مظہرِ جوشِ جوانی بن کے گدرانے لگے

ہوتے ہوتے نقضِ انجامِ شباب آ ہی گیا

فصل پک جانے سے کھیتوں پر عذاب آ ہی گیا

کھیت کو پامال کرنے پر تُلے دہقاں کے ہاتھ

میری گردن بھی کٹی اپنے جگر گوشوں کے ساتھ

پھر مجھے باندھا گیا، کُوٹا گیا جھٹکا گیا

صرصرِ موّاج کی امداد سے پھٹکا گیا

اُڑ گیابھوسہ ہَوا میں رہ گیا غلّے کا ڈھیر

پھیر لایا اصل کی جانب مری قسمت کا پھیر

شعر کی دنیا میں مستلزم ہے خرمن کو شرر

کھا گئی لیکن مجھے سرمایہ داروں کی نظر

کاروبارِ حال سے تخئیل کا رُخ پِھر گیا

خود غرض چیلوں میں عنقائے تفکر گِھر گیا

ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا سوچ لوں ، یاد آ گیا

پھر لباسِ اوّلیں میں ہوکے برباد آ گیا

محفلِ ہستی میں افسانہ در افسانہ ہوں میں

آج ان تبدیلیوں کے بعد پھر دانہ ہوں میں

٭٭٭

 

آج کل

صبح دم گاتی ہے جب رہ رہ کے شاما آج کل

پاؤں پھیلاتا ہے کیفِ خواب کیا کیا آج کل

شرق سے بہتی ہوئی آتی ہے گنگا آج کل

کفر ہے بعد از اذانِ فجر، سونا آج کل

پاکھروں میں نرم و نازک پتّا پتّا آج کل

چشمِ ناظر میں کھُبا جاتا ہے جلوا آج کل

چھِن گیا تھا جن درختوں سے لباسِ تازگی

کونپلوں سے آ رہی ہے ان پہ شوبھا آج کل

نامیہ نے بد نما پیڑوں کو عزّت بخش دی

ہر سرس کا پھول ہے خوشبو میں نافہ آج کل

نیم کی ڈالوں سے پھوٹی ہیں سنہری پتّیاں

یعنی بیمارِ خزاں ہوتا ہے اچھا آج کل

جذب ہو جاتا ہے غنچوں میں زرِ گل کے لیے

ٹوٹتا ہے آسماں سے جو ستارا آج کل

لالۂ خوش رنگ سے مہکی ہوئی کچنال تک

الفتوں کو عام ہے تلقینِ سودا آج کل

نوجواں پھولوں کارس پی پی کے محوِ نغمہ ہے

باغ میں دِھیمے سروں کے ساتھ بھونرا آج کل

_________________

عشقِ وارفتہ ہی آوارہ نہیں ہے چار سو

حسنِ دلجُو بھی نکل جاتا ہے تنہا آج کل

پڑتی جاتی ہیں نگاہیں تتلیوں پر بار بار

لُطف دیتا ہے نظارے پر نظارہ آج کل

آج کل دادِ وفاداری میں دشواری نہیں

اس کی بانہیں شادؔ ، کوسی کا کنارہ آج کل

جو نہ لکھنا چاہیے تھا مجھ کو وہ لکھتا ہوں میں

میرے سر ہے اپنی بد نامی کا سہرا آج کل

٭٭٭

 

ایک بیمار بیوہ کو دیکھ کر

چارہ و بیچارگی کی ہے یہ ناداری گواہ

بیوگی کے ساتھ بیماری کی الجھن بے پناہ

کہہ نہیں سکتی کسی سے اختلاجِ دل کا بھید

 ہو گیا ہے مرمریں اعضا کے اندر خوں سپید

نبض کی رفتار ’’نملی‘‘ کی طرح ڈوبی ہوئی

اور وہ بھی بر بنائے ’’صبرِ ایّوبی‘‘ ہوئی

پیکرِ نا کامیابی نقش بر دیوارِ یاس

نوجوانی کی امنگیں مضمحل، چہرہ اداس

فطرتِ مجبور سے پیدا سکوتِ متّصل

مرضِ بیتابیِ غم میں ضبط کا منشاء مخل

صرف تشکیلِ تصور شعشۂ حُسنِ خیال

بند آنکھوں میں نظر پرور گرفتارِ جمال

تفرقہ پردازیِ گردونِ دوں کا شاہکار

بسملِ تیغ وفاداری، سراپا انتظار

ساکت و صامت غمِ دوراں کی ہر افتاد پر

کہہ نہیں سکتی جو بپتا ہے دلِ ناشاد پر

مرمریں اعضا میں جنبش کے نشاں ملتے نہیں

نبض بھی ڈوبی ہو شاید ، ہونٹ تو ہلتے نہیں

بِن گندھی چوٹی وبالِ دوش بے چینی کے ساتھ

یاد کی چوکھٹ پہ ماتھا، فکر کے زانو پہ ہاتھ

حُسنِ نازک مبتلا عشقِ اذیّت کوش میں

چٹکیاں لیتے ہیں کانٹے پھول کے آغوش میں

مصرعۂ غالب تتمّہ ہے مری تقریر کا

 ’’نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا‘‘

٭٭٭

 

جبر و قدر

گھیر لی تھی ہم نے کتّوں سے جہاں ہرنوں کی ڈار

تھے اسی اوجھل میں تیتر محوِ ذکرِ کردگار

شام کو گھر کی طرف پلٹے بہ ایں قول و قرار

کل سحر کے وقت کھیلا جائے گا ان کا شکار

سب کو چُن چُن کر فنا کے گھاٹ اتارا جائے گا

سر نکالا نیستاں سے جس نے ، مارا جائے گا

ایک ساعت بھی نہ گزری تھی، ابھی بارش رُکے

ہوکے ٹھنڈے ابر کے ٹکڑے زمیں پر جھُک پڑے

رات میں بلّی کی آنکھیں تھیں کہ برقی قمقمے

بھا پ بنتی تھی نفس کی آمد و شد کُہر سے

یوں جلن محسوس ہوتی تھی پلک ملنے کے ساتھ

جیسے چھو جاتے ہیں آنکھوں سے کبھی مرچوں کے ہاتھ

کھا کے سردی، منھ سے ہر بندوق دیتی تھی دھواں

اوس میں ڈوبے ہوئے گنّوں کا تاروں پر گماں

بُوٹ اور جیبوں میں ٹھٹھری جا رہی تھیں اُنگلیاں

پھر بھی اس شیخی میں تھی مصروف ہر اکڑی زباں

ہم شکاری ہیں ، شکاری اور سردی کا سوال!

ایک اوچھا سا تصوّر، ایک ادنیٰ سا خیال

جا رہے تھے کیفِ خود بینی میں ہم مخمور سے

شہر کی حد پر ہوئے دو چار اُس مغرور سے

راہ رَو اندھا نظر آتا ہے جس کو دُور سے

جس کی خود مختاریاں بے زار ہیں مجبور سے

جس کو رہتی ہے رعایا سے ادب کی آرزو

چاہتا ہے ’’بندہ پرور‘‘ شاملِ ہر گفتگو

پھر نظر آئی وہ موٹر کبک سیر و موج رنگ

جس کا پردہ دستِ کافوری میں اک گوشے پہ تنگ

تھا کبھی حاضر، کبھی غائب شبابِ شوخ و شنگ

مسکراتی تھی حیا پر بے حجابی کی اُمنگ

تہہ بہ تہہ غازہ نگاہِ جلوہ بیں پر بار تھا

حُسن سے زاید فریبِ حُسن کا پرچار تھا

پا پیادہ پھر کئی جوڑے ملے آتے ہوئے

مشرقی رسمِ چہل قدمی سے کتراتے ہوئے

گھر میں پائیں باغ، جنگل کی ہوا کھاتے ہوئے

سر بسر مغرب کی نقّالی پہِ اتراتے ہوئے

کثرتِ بادہ سے ہر شب خوابِ نوشیں میں خلل

یہ ہوا کھانا مگر اس نقصِ صحّت کا بدل

ہم سے آگے جا رہا تھا گاؤں کا وہ نوجواں

جس کی سرگرمی پہ برساتا ہے اولے آسماں

جس کا خرمن پھونکتی ہے فطرتِ نا مہرباں

دودھ جس کی گائے کا جاتا ہے پٹواری کے ہاں

جس کے بیلوں کو کبھی مہلت نہیں بیگار سے

جس کو چھٹکارا  نہیں شیطان کی پھٹکار سے

حاملِ دیہات دَورے پر، اسی کا میہماں

مرغ و مسکہ نوش گرد آور اسی کا میہماں

شحنۂ بے رزق و بے بستر، اسی کا میہماں

شہر کا ہر ہیٹ ہر موٹر اسی کا میہماں

ہر وبالِ ضلع اس کے مال، اس کی جان پر

صادق و الحق طویلے کی بلا بندر کے سر

دھوپ چمکی تھی کہ ہم نے تیتروں جا لیا

پَے بہ پَے اتنے ہوئے فائر کہ جنگل گونج اٹھا

جان دی اِس نے زمیں پر وہ ہوا میں چل بسا

ایک بیچارے کے بازو یہ گِرے، سر وہ گرا

ظالموں کی دل لگی تکمیل پاتی ہے یوں ہی

بے ضرر مخلوق کو دنیا ستاتی ہے یوں ہی

٭٭٭

 

مَوجِ تبسّم

تجھ پہ اے مَوجِ تبسّم انبساطِ دل نثار

نغمۂ رنگیں ہے گویا زیبِ آغوشِ بہار

عسلِ خالص کے سِکورے، شِیرۂ عنّابِ لب

آبِ حیواں کی لطافت ، لذّتِ سیب و عنب

خوش نما محرابِ میخانہ پہ عکسِ ماہتاب

بابِ رحمت کے دریچوں پر ’’گلابی سا حجاب‘‘

حوض کی شفاف سطحِ آب، خوابیدہ سی لہر

صبح کے سیمیں مناظر، چاندنی راتوں کی نہر

ساغرِ زرّینِ جَم پر بے خودی چھائی ہوئی

کشتیِ مئے کے کناروں تک شراب آئی ہوئی

مشتعل چنگاریاں اجزائے مقناطیس پر

دھندلے دھندلے سے نقوشِ جوہرِ تیغِ دوسر

گاؤ مکھ سے نور برساتی ہوئی گنگا کی دھار

 ’’لغزشِ مستانۂ ساقی‘‘ کواحساسِ خمار

آتشِ سیّال پر آبِ خنک چِھڑکا ہوا

دو شکر پاروں پہ تھوڑا سانمک چِھڑکا ہوا

صُبح کی پہلی کرن بابِ فلک پر زر فشاں

شام کی سُرخی میں بل کھاتی ہوئی مرغابیاں

دائرہ عشرت کا پیدا، زمزمہ معدوم ہے

لوحِ لب ہائے جبیں پر زاویہ مرقوم ہے

٭٭٭

 

مقاماتِ شاعر

ناواقفِ اوقات و مقاماتِ سخن ور

اب شادؔ تجھے کوچۂ جاناں میں ملے گا

ڈھل جائے گی جب مہرِ منوّر کی جوانی

آغوش روش ہائے گلستاں میں ملے گا

بل کھائیں گے جب کاکلِ شب روئے شفق پر

یادِ رُخ و گیسوئے پریشاں میں ملے گا

گردوں پہ بکھر جائیں گے جس وقت ستارے

سرگرمِ سخن، بزمِ سخنداں میں ملے گا

جب زاہدِ مرتاض کو سوجھے گا تہجّد

میخانۂ ساقیِ ادب داں میں ملے گا

جب صبح اٹھائے گی نقابِ رُخِ فطرت

ڈوبا ہوا جوئے مئے عرفاں میں ملے گا

کھو جائے گا جب فکرِ معیشت میں زمانہ

مصروفِ عمل جادۂ امکاں میں ملے گا

ہو جائے گا جب قوم کو احساسِ غلامی

منشائے سیاست ہے کہ زنداں میں ملے گا

٭٭٭

 

آپ کی تعریف

(۱)

ان کو ’’ادبارِ سخن‘‘ کہتے ہیں لوگ

مغبچوں پر شعر فرمانے میں طاق

داخلِ عادت ہے ’’ایرانی مذاق‘‘

 ’’قحط‘‘ میں ’’ارشاد سعدیؔ کے خلاف‘‘

عشق پر اصرار ، کستاخی معاف

اس تامّل میں کہ ہو جائے نہ جیل

مَلتے ہیں اشعار پر سانڈے کا تیل

بد قماش و ننگِ فن کہتے ہیں لوگ

ان کو ’’ادبارِ سخن‘‘ کہتے ہیں لوگ

(۲)

پیر ’’گلشن شاہ‘‘ سے بیعت ہیں آپ

سونگھتے ہیں پھول کھاتے کچھ نہیں

جھوٹ ہے، پیتے پلاتے کچھ نہیں

خلوتوں میں ’’مرغ و ماہی کے سوا‘‘

کر چکے ہیں ’’ترکِ حیوان و غذا‘‘

بخشتی ہے آپ کی مِیٹھی نظر

بانجھ کو اولاد اور کنواری کو بَر

بند کِیجے منھ بڑے حضرت ہیں آپ

پیر ’’گلشن شاہ‘‘ سے بیعت ہیں آپ

(۳)

آپ  ظلّ اللہ و عالی جاہ تھے

ناچنے میں آپ کا ثانی نہ تھا

 ’’بھاؤ‘‘ میں امکانِ ارزانی نہ تھا

غلبۂ کیف و نشاط و انبساط

بزم سے خارج حجاب و احتیاط

 ’’مابدولت‘‘ کا اعادہ بار بار

اور ’’ ایں جانب‘‘ سے ’’تاکیدِ وقار‘‘

انقلاب آیا تو پرِّ کاہ تھے

آپ ظلّ اللہ و عالی جاہ تھے

(۴)

یہ فلاں بیگم، یہ بیٹی، یہ بہو

تو نہ کہہ میری نہ میں تیری کہوں

کوئی مانع کوئی حارج ہو تو کیوں

 ’’ایک مقصد ، ایک مقصودِ نظر‘‘

اتّحادِ باہمیِ خیر و شر

اجتماعی استفادے کا سوال

لا نہیں سکتا رقابت کا خیال

ہوں ، اگر دامن ہیں محتاجِ رفو

یہ فلاں بیگم، یہ بیٹی، یہ بہو

(۵)

کیا انھیں بھی آپ پہچانے نہیں

بلبلِ فردوس کے سالے ہیں یہ

بات اتنی ہے ذرا کالے ہیں یہ

چِھن چکی جاگیر، آمد بند ہے

اب فقط افیون میں آنند ہے

 ’’پھل پھلاری‘‘ بیچتے ہیں آج کل

 ’’بھوگتا ہے آدمی کرنی کے پھل‘‘

ہیں پریشاں حال، دیوانے نہیں

کیا انھیں بھی آپ پہچانے نہیں

(۶)

لگ چکا ہے ان کی ڈاڑھی کو کلَف

یہ غلامانِ سیاست اقتدار

قوم کے کاندھوں پہ رہتے ہیں سوار

دیکھنے میں ’’ہستیِ معقول‘‘ بھی

 ’’پردہ دارِ عیب‘‘ زرّیں جھول بھی

چغلیاں کھاتے ہیں کردار و عمل

عقل کو لاحق ہے ’’کرسی‘‘ کا خلل

دیکھنا تالی پِٹے گی ہر طرف

لگ چکا ہے ان کی ڈاڑھی کو کلف

(۷)

لکھ پتی ہیں آپ۔ مِلیے آپ سے

کام چالو ہے ’’پرائے مال پر‘‘

آسرا گویا ہر اک دلّال پر

ناک، نقشہ، قد، کمر، کولھے، اٹھان

آنکھ ، پلکیں ، ہونٹ، سینہ، پیٹ، ران

بھیڑ بکری کی طرح عورت کا مول

ہِشت! اتنی عمر اور پٹّھوں پہ جھول

بھانپیے کردار منھ کی بھاپ سے

لکھ پتی ہیں آپ۔ ملیے آپ سے

(۸)

آپ ہیں شاہی حکیم ابنِ حکیم

کرتے ہیں مخصوص مردانہ علاج

نذرِ امساک و طلا شاہوں کے تاج

کشتۂ سیماب و سمّ الفار بھی

شحمِ خوکؔ و سوسمار  و مارؔ بھی

کیجیے مالش ابھی اور جائیے

 ’’ماحضر‘‘ پر تجربہ فرمائیے

اُمِّ سلمیٰ یہ ہے وہ بنتِ سلیم

آپ ہیں شاہی حکیم ابنِ حکیم

(۹)

یہ مدرّس ہیں کسی اسکول میں

پانچ بچّے ایک بیوی ایک ماں

بیس ماہانہ بہت ہیں ، کم کہاں ؟

ان کے جوتے بخیہ گر سیتے نہیں

سول بھی غائب اگر فیتے نہیں

ٹیوشن چاہیں تو کر سکتے نہیں

سر کھپا کر پیٹ بھر سکتے نہیں

لوٹ کر آئے ہوں جیسے دھول میں

یہ مدرّس ہیں کسی اسکول میں

(۱۰)

حافظِ قرآن ہیں ، قاری ہیں یہ

گھر پہ کچھ بچوں کودو آنے سبق

قرأت و تجوید پر سعیِ ادق

پاؤں میں جوتا نہ کپڑا تن پہ ہے

نیستی چھائی ہوئی مسکن پہ ہے

لیتے ہیں صدقاتِ عیدالفطر بھی

رہتی ہے دو روٹیوں کی فکر بھی

قوم سے مایوسِ غم خواری ہیں یہ

حافظِ قرآن ہیں قاری ہیں یہ

(۱۱)

معتصم باللہ نامی مولوی

آپ ہیں پرہیزگار و نیک خو

غسل کی تعلیم و ترتیبِ وضو

اب تہجّد، چاشت جب، ’’اشراق‘‘ تب

ہے تیمم کا مگر اطلاق کب؟

یہ صلہ اس درس، اس تدریس کا

خرچ سو کا اور وسیلہ تیس کا

عہدِ نو میں ہیں سپردِ مفلسی

معتصم باللہ نامی مولوی

(۱۲)

لکھنؤ ٹائپ پروفیسر ہیں آپ

اچکنیں گرمی میں اور جاڑوں میں سُوٹ

فخرِ آبا پر قصیدے جھوٹ موٹ

روز دو گھنٹے کو لیتے ہیں کلاس

اور لڑکے فیل ہو جائیں کہ پاس

پانسو تنخواہ اور ’’لاجنگ فری‘‘

ہائے تنظیمِ وطن کی زر گری

حافظِ قرآن سے بہتر ہیں آپ

لکھنؤ ٹائپ پروفیسر ہیں آپ

(۱۳)

مال پر ٹی۔ پی کلینک ان کا ہے

آپ کو تھی عالمِ بالا میں دِق

داخلِ فطرت ہے جرثوموں کی ’’شق‘‘

منتقل ہو کر چچا میں ، باپ میں

آپ کے دادا سے آئی آپ میں

پھیپھڑوں کا ’’ایکس رے‘‘ کر وائیے

فیس! کیا حاجت ہے۔ اچھّا لائیے

مشورہ ہر طرح مہلک ان کا ہے

 ’’مال‘‘ پر ٹی۔ بی کلینک ان کا ہے

(۱۴)

حِرص کی دِق کھائے جاتی ہے انھیں

یہ جو الجھن آپ کو آنتوں کی ہے

سب خرابی آپ کے دانتوں کی ہے

یہ مسوڑھا پیپ سے بھرپور ہے

دو روپے فی دانت کا دستور ہے

بد نما چہرے کا غم کیوں کیجیے

ایک بتّیسی نہ بنوا لیجیے

نِت نئی چالیں سکھاتی ہے انھیں

حرص کی دِق کھائے جاتی ہے انھیں

(۱۵)

یہ کروڑی مل ہزاری لال ہیں

ڈاکٹر بھی ہیں ، طبیب و وید بھی

مطمئن ہیں ان سے بکر و زید بھی

ماہرِ امراضِ چشم و بے سند

ہوں اگر روہے، بتاتے ہیں ’’رمد‘‘

نذر پکڑے بِن نہیں مِلتا دماغ

مفت کا پرچار۔ کورا سبز باغ

آدمیّت سے نرے کنگال ہیں

یہ کروڑی مل ، ہزاری لال ہیں

(۱۶)

ڈالیے یہ سب دوائیں صبح و شام

جی نہیں ، ہو گی نہ سُرخی دُور کیوں

پھٹ گیا یہ ’’زخم کا انگور‘‘ کیوں

اِس میں’ پنکی‘ اِس میں’ وہائٹ پینٹ ہے‘

ہر دوا مخصوص ہے پیٹنٹ ہے

’رِڈ بلُو‘ یہ ہے تو وہ’ سلور ڈراپ‘

تاکہ اصلیت سمجھ پائیں نہ آپ

سگرٹوں پر جن کے رکھ چھوڑے ہیں نام

ڈالیے یہ سب دوائیں صبح و شام

(۱۷)

ہیں تو ’’بی۔ اے‘‘ نام ایم۔ اے خان ہے

یہ شکایت ہے خداسے آپ کو

کیوں نہ مغرب میں اتارا باپ کو

عقد’ کالی ماں ‘ سے فرماتے نہ یہ

اور مشرق میں جنم پاتے نہ یہ

ناچتے جا جا کے’ رائل ہال‘ میں

پھانستے شہزادیوں کو جال میں

ان کی’ رنگت‘ پر تَوا حیران ہے

ہیں تو بی۔ اے نام ایم۔ اے خان ہے

(۱۸)

لائے ہیں لندن سے بوڑھی میم ساتھ

ڈالیاں ، تحفے، سفارش، مئے، شباب

’آئی سی ایس‘ کو کلیدِ فتحِ باب

’فیملی ممبر‘ بنے تھے اس کے ہاں

چشمِ مغرب میں شعورِ سن کہاں

الغرض پلٹے جو صاحب اپنے گھر

تھی یہ’ ناکارہ سلیپر‘ ہم سفر

آپ سے پہلے ملاؤ اس سے ہاتھ

لائے ہیں لندن سے بوڑھی میم ساتھ

(۱۹)

یہ صحافی ہیں پرائے ہاتھ پر

جہل و طغیانِ معمّہ کی قسم

ہیں ملازم چند اذہانِ قلم

جو لکھا کرتے ہیں ان کے نام سے

کام ہے جن کو شباب و جام سے

ہو نہ جائے مطبع و اخبار ضبط

قوم کی خدمت کو فرماتے ہیں خبط

جس طرح اندھا کوئی فٹ پاتھ پر

یہ صحافی ہیں پرائے ہاتھ پر

(۲۰)

یہ مدیرانِ سرِ اوراق ہیں

نثر ہے ان کو کسی چڑیا کا نام

شعر جیسے آشیانے زیرِ دام

دعویِ علمِ ہجا کیا کیا غلط

سر بسر انشا غلط املا غلط

چھاپتے ہیں فلم اسٹاروں کے راز

تاکہ ہُن برسائے ان پر فلم ساز

مشتہر ہیں ، شہرۂ آفاق ہیں

یہ مدیرانِ سرِ اوراق ہیں

(۲۱)

ان کو کہتے ہیں مدیرِ عام راہ

مصلحت اندیش کمیونسٹ ہیں

فکر کے عنوان سے اِن لسٹ ہیں

ہم خیالوں کے لیے بنتے ہیں ڈھال

تا نہ رسوا ہو پسِ پردہ کا حال

نظم سے وہ بند کر جاتے ہیں صاف

مقصدیت سے جو پڑتا ہے خلاف

ہیں عوامی مورچے کے خیر خواہ

ان کو کہتے ہیں مدیرِ عام راہ

(۲۲)

آپ سب گُرگے ہیں ’’عیدو میٹ ‘‘ کے

پھیرتے رہتے ہیں رُخ تحریک کا

عزم و ہمّت پر عمل تشکیک کا

جھونکتے ہیں مذہبی آنکھوں میں دھول

تاکہ دہریّت ہو مقبول و قبول

اور سُرخی سر پہ لہرانے نہ پائے

انقلابِ واقعی آنے نہ پائے

ورنہ پڑ جائیں گے لالے پیٹ کے

آپ سب گُرگے ہیں عیدو میٹ کے

(۲۳)

مکر و فن میں آپ عیدو میٹ ہیں

جانتے ہیں نوٹ بک قرآن کو

اور خلّاقِ جہاں شیطان کو

لیتے ہیں اس طرح اسٹالن کا نام

جیسے ہونٹوں پر زبردستی کا جام

بھاگتی ہے بھینس جیسے بِین سے

آپ جلتے ہیں چراغِ چین سے

نسبتاً لینن کے ڈپلیکیٹ ہیں

مکر و فن میں آپ عیدو میٹ ہیں

٭٭٭

 

گویم مشکل و گر نہ گویم مشکل

جب مؤذن پاس کی مسجد میں دیتا ہے اذاں

روزنوں سے جھانکنے لگتی ہیں جس دم جوڑیاں

چہچہا اٹھتے ہیں ننھے طائرانِ نغمہ خواں

تب یہ دروازہ کہ جس کا رخ ہے جنگل کی طرف

کرتی ہے چشم تماشا جس سے ہر منظر ہدف

دور تک نظمیں ہی نظمیں جیسے قازیں صف بہ صف

چھیڑتی ہے اس کی کنڈی جب نسیمِ جاں فزا

اتنے دھیرے سے، خیال آتا ہے وہ کافر ادا

اوڑھ کر اک سر مئی برقع دبے پاؤں آ گیا

ہڑبڑا کر کھول دیتا ہوں میں دروازے کا پٹ

وہم کا یہ خوش نُما تِکّل مگر جاتا ہے کٹ

فکر سادہ ڈور کے ہچکے پہ آتی ہے سِمٹ

بیریوں میں میرے  گھر کے سامنے سرسوں کے کھیت

دور افق پر لہریا بُنتا ہوا’ کوسی‘ کا ریت

نقطۂ وحدت پہ آ جاتا ہے اس کثرت سمیت

جیسے اک منہ زور گھوڑے پر سواری کے لیے

مُوڈ کو چمکارتا ہوں حمد باری کے لیے

مطلعِ شکریۂ فصلِ بہاری کے لیے

آنہیں پاتی صلاحیت ابھی رجحان میں

ہچکچاہٹ آمدِ اشعار کے امکان میں

لفظ و معنی کی رسیلی گنگناہٹ کان میں

’السلام علیک‘ احساسات پر گھُن کی طرح

’ہیبتِ آواز‘ امریکہ کے انجن کی طرح

اور گَل مُچھّوں کا وہ عالم کہ راون کی طرح

بید کے بندوں کی سانپن دار لاٹھی ہاتھ میں

دن میں چِتّی کا نمونہ کوڑھیالی رات میں

چونکہ میری عمر گزری ہے انھیں حالات میں

بندۂ اخلاق ہوں ہر چند باتونی نہیں

چائے پیجے؟ میں تمھاری طرح افیونی نہیں

سگرٹوں سے شوق؟منہ انسان کا دھُونی نہیں

میری عادت پانسو ڈنڑ، سات سو مُگری کے ہاتھ

بعد ازاں بیسن کی روٹی چھاچھ اور مکھن کے ساتھ

چائے ، بسکٹ، پیسٹری’ کالے کرسٹانوں ‘ کی بات

میرے لائق کوئی خدمت؟ میں نے کاٹا راستہ

آمدِ ناگاہ کا مطلب خدا نا خواستہ

بولے ہم لچّوں کو شاعر سے بھلا کیا واسطہ

کچھ نہ کچھ مقصد تو ہو گا، میں نے کی پھر التماس

ہنس کے فرمایا کہ میں یوں آ گیا ہوں تیرے پاس

اپنے پوتے کا عقیقہ کر رہی ہے میری ساس

چونکہ اس رشتہ کے اندر ہیں جلیبی کے سے پھیر

نظم رہ جائے گی بن کر بُور کے حلوے کا ڈھیر

میری اس میٹھی کہاوت نے کیا چیتے کو زیر

قہقہہ پر قہقہہ جیسے پکھاوج کی الاپ

ساس کے پوتے کا مطلب میرا سالااس کا باپ

اور پھر یہ طنز ، سنتے تھے بڑے شاعر ہیں آپ

ایک نمبر چار بیت ہو جائے اس پر شام تک

دے نہ پایا ہوں ابھی میں لڈّوؤں کے دام تک

ناچ کی ’’سائی‘‘ کسی رقّاصۂ گلفام تک

ایک سہرا، عقد ہے’ رنڈوے چچا‘ کا آج رات

میری بیوی ( داشتہ شاید) کی تاریخِ وفات

دُکھ رہی ہیں آپ کی آنکھیں یہ ایسی کون بات

آنکھ دکھنے کا تعلق شاعری سے کچھ نہیں

ہوں نہ عذرِ لنگ سے واقف تو ہم کر لیں یقیں

آئے ہیں پیدل تو خالی ہاتھ جاتے ہیں کہیں

میرے گھر لڑکا ہوا ہے، اس کا اک اچھا سا نام

ہو سنہِ ہجری کے اندر عیسوی کا التزام

جیسے خسروؔ کی پہیلی یا امانتؔ کا کلام

کر رہا ہوں تین ہفتوں سے میں جس لڑکی پہ کام

اس تغافل کیش کی الفت میں ہے سونا حرام

چند شعر ایسے کہ طَے پا جائیں پیغام و سلام

میرا افسر جا رہا ہے، رخصتی اشعار کچھ

جس طرح گیندے کے گجرے جیسے جھوٹے ہار کچھ

اور اس ڈھب سے سمجھ پائے نہ وہ مکّار کچھ

ہے وہ پکا مُرتشی بھی ، مفت کا عیّاش بھی

آپ لکّھیں گے مگر مرتاض بھی شب باش بھی

جھوٹ کیوں ، ممکن ہے شب باشی برائے تاش بھی

اس کی بیوی آہ کیا اعضا ہیں کیا انداز ہیں

مدھ بھری آنکھوں میں غمزے شعلۂ آواز ہیں

آج تک ہم سے قسم لے لو امینِ راز ہیں

آ رہا ہے ان کی بدلی پر جو نینی تال سے

بیچتا تھا خوانچہ میں سیب آڑو فالسے

سنتے ہیں پایا ہے یہ رُتبہ ’’گھریلو چال سے‘‘

اُردلی سے بانٹ لیتا ہے عطیّوں کی رقم

دفتری پر اتہامِ ’’لنچ ٹائم‘‘ کم سے کم

کھا چکا ہے چونکہ یہ رشوت نہ لینے کی قسم

خود ہی کرتا ہے معطّل خود ہی لکھتا ہے اپیل

تھوپتا رہتا ہے عملے پر خطائے بے دلیل

سو روپے ، اک مرغ، اک بوتل، بحالی کی سبیل

اس کی یہ کمزوریاں جو آپ نے مجھ سے سُنیں

شادؔ صاحب اپنے شعروں میں نہ لکھ دینا کہیں

ہاں مگر وہ کون خوبی ہے کہ جو اس میں نہیں

٭٭٭

 

یہ عبادت یہ رسوم

ایک طویل طنزیہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شبِ برأت سے عید تک

آج بھی نجد کے صحرائے خطا پرور سے

مجھ کو شیطان کے سینگوں کے اُبھرنے کا یقیں باقی ہے

یعنی ہوں قائلِ ایصالِ ثواب

فاتحہ باعثِ تخفیفِ عذاب

شبِ آدینہ میں روحوں کے اترنے کا یقیں باقی ہے

حنفی ہوں جو نمازیں نہیں پڑھتا تو کیا

حضرتِ شیخ ریاکار کے ہتھے نہیں چڑھتا تو کیا

یہ حقیقت ہے کہ روزے نہیں رکھتا پھر بھی

میں گنہگار ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافر تو نہیں

ہستیِ واجب و فعّال کا منکر تو نہیں

تنگ دامانیِ کیسہ کے سبب حج و زکوٰۃ

فرض، اربابِ امارت پہ ہیں مجھ پر تو نہیں

کس پہ روشن ہیں مشیّت کے نکات

کیا خبر، کوئی خطا ہو جاتی

لغزشِ کفرِ عنایات عطا ہو جاتی

شکرِ قسامِ ازل ہی نہیں مسلک میرا

غمِ حالات کا ممنون بھی ہوں

شومیِ بختِ ستم کار کا مرہون بھی ہوں

 ’’غفلتِ‘‘ عزمِ طرب خوار سے مامون بھی ہوں

مذہبی قسم کے دیباچہ و تمہید کے بعد

اپنے افکارو خیالات پہ تنقید کے بعد

کسی عطّار کے لونڈے پہ فدا، شاعر کے

جیب و دامان و دلِ زار کے ٹکڑوں کی طرح

بحر وار کان و افاعیل کے حصّے کر کے

اپنے احباب کے ارشاد کی تعمیل کروں

رسم و تقلید کی تحلیل کروں

______________

 ’’نظمِ آزاد ‘‘ وہ گھوڑا ہے کہ جس کی باگیں

ٹوٹ جائیں ‘‘ دمِ کاوا‘ سر میدانِ دعا

اور پھر۔ اس کے جدھر سینگ سمائیں۔ چل دے

بادباں اٹھتے ہی کھل جاتا ہے لنگر۔ گویا

فکر پابستۂ زنجیر نہیں رہ پاتی

کوئی صورت کوئی تدبیر نہیں رہ پاتی

ایک سرمست و قلندر گویا

_______________

مغربی فتنہ طرازوں کی سیاست کی مثال

بن میں پھیلی ہوئی بیلوں کی طرح

باغ کی باڑھ کے کیلوں کی طرح

بات بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بنتی ہوئی جال

پھانس کو بانس بنا دینے پہ اظہارِ کمال

کبھی خوبی تھا مگر عیب ہے آج

رائے پر میری بھروسہ کیجیے

استعاروں کی طوالت سے الجھتا ہے زمانے کا مزاج

 ’’حال‘‘ کی راہ پہ چلتا ہے اگر مستقبل

داستانوں کو خلاصوں میں بدلنا ہو گا

حشو و تعقید و زوائد کے ہٹا کر پتھر

فن کوسو میل کی رفتار سے چلنا ہو گا

شب برأت

طمطراقِ شبِ برأت رخصت

اب نہ مانڈے ہیں ، نہ حلوہ ہے نہ شعلہ سازی

کام آئے گا نہ پکوان میں وہائٹ آئل

نہ چراہند دماغوں کو کرے گی گھائل

سرد پڑ جائے گی سر گرمیِ آتش بازاں

نہ مکانوں میں وہ بارود سے پھیلی ہوئی بدبو نہ ’’انار اندازی‘‘

نہ ہی پلٹیں گے’ فضاؤں ‘ سے شہابِ صد رنگ

بھسم ہو جائیں گے چھپّر، نہ لگے گی کہیں آگ

اپنے گیراج میں سو جائے گا ’’ فائر بریگیڈ‘‘

اور بے فکر محافظ اس کے

تاش کھیلیں گے ورانڈے میں لگا کر بازی

میری بِبیا  پہ لگایا تھا تُرپ کا اَٹّھا

ہاتھ میں اینٹ کی تِگّی جو لیے بیٹھا ہے

یاد رہتا ہے مجھے ہر پتّہ

یہ بڑا بول نہیں البتہ

عمر گزری ہے بُرے کاموں میں

تھا کبھی میں بھی’ مرے یار ‘ جواری چھٹّا

تیرے بشرے سے ٹپکتا تھاکہ بد رنگ نہیں

کیا کہا؟ جیب کے پیسے تو اگلنے ہوں گے

گالیاں ڈانٹ ڈپٹ جنگ  و جدال

اور ’’ ماں بہنوں ‘‘ پہ تفصیل سے اظہارِ خیال

نئے سکے بھی پرانوں سے بدلنے ہوں گے

            _______________

جیسے نوروز پہ چونے کی پتائی سے نہیں کھو سکتے

کسی بھٹی کی عمارت سے ’’گئے سال‘‘ کا رنگ

چوکیاں غسلِ طہارت سے رہیں گی معذور

چاندنی ان پہ بچھے گی نہ پئے شُرب و طعام

اور نہ بچے ہی ’’سَنے پاؤں ‘‘ دھریں گے سرِ شام

مرغیاں ان پہ اسی طرح کریں گی ’’بِیٹیں ‘‘

پھر بدستور وہی گھر کی غلاظت کے پرانے دستور

کہیں اک دِن میں سدھر سکتے ہیں ماحول کے بگڑے ہوئے ڈھنگ

جزو دانوں کے کفن اوڑھ کے ’’بوسیدہ بہشتی زیور‘‘

جس کو شامل کسی استاد کا ہرنی نامہ

سال بھر بعد ہی اب نکلیں گے الماری سے

جانمازوں کو، مصلّوں کو ملے گی  فَرلو

الگنی پھر وہ لدا اونٹ نظر آئے گی

جس کو انشا کے ابوالجان نے ہو کر ناراض

چھت میں قربانی کے بکرے کی طرح ٹانگ دیا ہو اُلٹا

طاقِ نسیاں پہ پہنچ جائیں گی تسبیحیں بھی

پہلے اور دوسرے’ عرفہ‘ پہ نہ ہو گی ’’چیں میں ‘‘

سٹ پٹائیں گے نئے اور پُرانے مُردے

نہیں مُردے نہیں ان کی روحیں

میرے اس طنز پہ کھٹکے گی نہ صنفِ نازک

آپ خاموش رہیں

آپ سے پوچھ رہا ہے کوئی

شرع میں دخل نہ دیں

آپ لکھتے رہیں غزلیں وزلیں

مولوی مونچھ منڈا سکتے ہیں داڑھی تو نہیں

شکل دیکھو تو کرشنا مینن، یا مُصدّق کہ جسے بھول چکا اس کا وطن

سچ تو ہے شعر و شریعت میں علاقہ کیا ہے

آپ خاموش رہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ سے پوچھ رہا ہے کوئی

 ’’شوقِ دیدارِ شب قدر ‘‘ و نوافل کے لیے

دس بجے تک تو بہت زنّاٹے

بعد بارہ کے مصلّوں پہ فقط خرّاٹے

اُٹھ تو محمود کی امّی بیٹی!

فجر بھی آج قضا ہوکے رہی

یعنی گھر کی بھی گئی

جانے کس وقت؟ دُلھن کی باتیں !!!

لیلۃ القدر، مقدّر کے دھنی پاتے ہیں

اس بُری طرح مُوا نیند کا جھونکا آیا

بھر گئے آنکھوں میں دھنکی ہوئی روئی کے پہل

تخت پر نیند کسے آئے پہ قسمت کا خلل

درد جوڑوں میں تو کولھے ہوئے شل

تیز کافی تو بنا۔ ایک فنجان سے کیا بنتا ہے

لا پِلا اور پِلا اور پِلا

ہلالِ رمضان

کاروانِ مہِ شعباں رخصت

زرد اُترے ہوئے چہروں سے جھلکتی ہوئی سرخی کی قسم

ابر آلود فضاؤں کی دلیلیں پایاں

تیس کی شام کو چمکے گا ہلالِ رمضاں

سرد کمروں میں جہاں لُو کے تھپیڑوں کو بدل دے گی خنک کی خوشبو

لوگ آندھی کی طرف لائیں گے گھنگھور گھٹاؤں کے امنڈنے کا گماں

بیٹھ جائیں گے شیاطین پہاڑوں کے دروں میں یعنی

رنگ محلوں کے خنک کمروں میں

عطر چھڑکے ہوئے تہہ خانوں کی بھیگی رُت کے

کاکلِ خواب و نشاط آور و عنبر بو میں

اپنے ہی نفس کے بہکائے میں آ جائیں گے دل

اہلِ ثروت کے۔ غریبوں کے نہیں

فصد و مسہل پہ طبیبوں کی تجاویز کی لی جائے گی آڑ

ساحلی شہر اسے، اس کو مناسب ہے پہاڑ

اور صحت کے تحفظ کا بھرم ’’کھانا‘‘ ہے

یعنی پرہیز وہی وہم طبیبانہ ہے

جس کی دارو نہیں لقمان کے پاس

اب غذاؤں میں وٹامن کے سوا سب بکواس

عید کے روز ہی فرمائیں گے غسلِ صحّت

پہلا روزہ

دُور افق پر وہ ہلالِ رمضاں

جیسے کیوپڈ کی کماں کا ٹکڑا

جیسے مسجد کے کلس پر اکثر

پیتلی چاند ہوا کرتے ہیں

میل کی چمنی سے گز بھر اونچا

ناک کی سیدھ میں باریک ساہے

ٹھیک ناہید کی ہنسلی کی طرح

شاعرِ زارِ غمِ یار کی پسلی کی طرح

کان کھائیں گے جگانے والے

اجر پانے کے لیے ایک پھٹا ڈھول گلے میں ڈالے

بخشوا آئے ہوں جیسے کہ ’’زرِ مہر‘‘ زنِ نیکو سے

کہیں ٹلتے ہیں۔ نہ ٹوٹیں گے جو خوابیدہ دماغوں سے خطا کے تالے

ٹھیک بارہ پہ کبھی۔ اور کبھی اس طرح جیسے ’’چاول میں کنی رہ جائے‘‘

یوں گلا پھاڑ کے۔ ’’ اللہ کو پیاری دنیا‘‘

جاگ اُٹھی چونک پڑی خواب کی ماری دنیا

ابھی آئی نہ تھی کھچڑی دم میں

سائرن دے کے اذاں ، ختم ہوا

قصۂ کام و زباں ختم ہوا

 ’’سحری بِن‘‘ جسے رکھنا ہو وہ روزہ رکھے

کلّیاں کر کے اندھیرے کا گماں ختم ہوا

            _______________

رمضاں ختم ہوا ’’مر پڑ کے‘‘

وہ تراویح کی تاکید کا چکّر بھی گیا

کاہلی جس میں سمائی تھی وہ دل چونک پڑا۔ مر بھی گیا

ختم مائک سے شبینہ کا ثوابِ ہر سو

ایک بیگار تھی افطار کے بعد

شربت و نقل گراں بار کے بعد

اب نہ حُقّوں سے کھلیں گے روزے

روزہ داروں کو دھوئیں سے نہ لگیں گے ’’اوچّھو‘‘

پان کی پیک میں زردے کے نگل جانے سے

ہوش اُڑیں گے نہ پڑیں گے دورے

  نہ ٹپک پائے گا قصّاب سے جھپٹے ہوئے قیمے کے کبابوں سے لہو

جھانجھ روزے کی عیاذاً باللہ

جیسے لڑنے پہ تُلے بیٹھے ہوں

گالیاں درو د  و  وظائف کی جگہ

جھاڑ پھٹکار تحائف کی جگہ

روزہ بہلانے کی خاطر دن بھی

تاش، شطرنج، پتنگیں ، چوسر

سانجھ روزے کی عیاذاً باللہ

خوانچہ والے کے منھ پر تھپّڑ

بھرے بازار میں روزہ بدنام

اس سے الجھاؤ تو اس سے گڑبڑ

            _____________

رمضان بیت گیا عید آئی

پھر نئے سر سے ’’گئی کوفت‘‘ کی تمہید آئی

نظمِ حاضر کی خرابی پہ کھلے طنز کی تائید آئی

فقر و فاقہ کے چھپانے کا زمانہ نہ رہا

تیرہ روزی کے بھگتنے کا ٹھکانہ نہ رہا

خشک ہونٹوں کی اُداسی پہ کوئی بات بنانے کو بہانہ نہ رہا

عید نے آ کے غریبی کا بھرم کھول دیا

ساغرِ عیشِ تہی مغز میں غم گھول دیا

 ’’ میرا روزہ ہے‘‘ نہ کہہ پائے گا بھوکا کوئی

چھپ سکا ہے رُخِ حالات پہ تھوکا کوئی

عذرِ معقول مئے و جام و سبو کا کوئی

نہیں پیتا تو نہ پینے کا سبب کیا ہو گا

کوئی کہہ دے کہ مرے واسطے منگواؤ تو، جب کیا ہو گا

٭٭٭

 

 ُٹکڑ گدے

آپ کو خدا رکھے پوتڑوں کے دولت مند۔ عرضِ واقعہ تا چند

آپ کے اب وجَد نے واردانِ سرحد نے

داد لی دو جوڑا پر اور فتح کی سرہند

سرفراز خاں نانا تھے حضور کی مانند اُس کھجور کی مانند

جس پہ باد و باراں کا حملہ ہائے طوفاں کا

کچھ اثر نہ ہوتا تھا شمعِ طور کی مانند

نانہار میں اکثر جسم کے اکہرے تھے۔ دیکھنے کے چہرے تھے

رام پور کا پانی آؤ تاؤ افغانی

بابِ عہدِ ماضی کے سب ورق سنہرے تھے

اُن کی آ گئی شامت یہ اُلجھ پڑے جن سے۔ بھڑ گئے اَڑے جن سے

ٹوک ٹوک کر مارا روک روک کر مارا

ان کو بھی دیا موقع چومُکھی لڑے جن سے

جس قدر بہادر تھے اتنے ہی سخی بھی تھے۔ ظلم سے بَری بھی تھے

نوجوان بیوائیں وضع دار مامائیں

پرورش بھی پاتی تھیں۔ اور آدمی بھی تھے

لغزشوں پہ لے آئے خادمانِ آوارہ۔ رکھ رکھاؤ ناکارہ

شیطنت نے شہ پائی۔ یہ گئی تو وہ آئی

رہن پڑ گیا زیور۔ بِک گیازمیندارہ

آپ کو وراثت میں کُلُّہم و تخمیناً۔ کچھ بچی کھچی کھُرچن

مل گئی تو کیا پایا۔ ہائے باپ کا سایہ

خون تھا کہ پانی تھا۔ اقربا تھے یا دشمن

لکھ پتی بہت سے ہیں شہر میں مگر کنجوس۔ انتہا کے مکھّی چوس

طنز ہر سوالی پر۔ چوٹ خستہ حالی پر

عِشرۃً بڑے مُصرف، فطرۃً بڑے منحوس

ایک ایک پیسے کو  دانت سے پکڑتے ہیں۔ گھٹّیاں رگڑتے ہیں

آنت اور کھالوں سے۔ سینگ اور بالوں سے

کیمیا بناتے ہیں ہڈّیوں پہ لڑتے ہیں

پوجتے ہیں پیروں کو بھیجتے ہیں کالا مال، چاٹگام اور بنگال

راستے بناتے ہیں مکر و فن دکھاتے ہیں

پِٹ نہ پائے اُس رُخ پر کھیلتے ہیں گہری چال

کھیپ کی برآمد سے چادریں چڑھاتے ہیں۔ منقبت گَواتے ہیں

شہر کے مزاروں پر عرس کے سہاروں پر

شاعرانِ مہمل کو روٹیاں کھلاتے ہیں

فاتحہ کے پردے میں افسروں کی دعوت میں سرخوشی کی حالت میں

کاک ٹیل بنتی ہے خوب خوب چَھنتی ہے

رنڈیاں نَچاتے ہیں پھر انھیں کی خلوت میں ؟

ساتھیو نمک خوارو۔ ہاں میں ہاں ملاتے ہو ، سر ہِلائے جاتے ہو

گفتگو کو یارا دو بات کو سہارا دو

منتظر ہوں لقمے کا، کیوں مجھے تھکاتے ہو

اب خلیل خاں بھائی فاختہ اڑائیں آپ، گلستاں کھلائیں آپ

آپ کی گہُر ریزی بلکہ رنگ آمیزی

نُدرتیں کتر جائے وہ تُرُپ لگائیں آپ

آپ کی نوازش ہے آپ نے جو فرمایا۔ آں منم کہ من دانم

یہ کمین کس قابل۔ کمترین کس قابل

پھر بھی ہر چہ بادا باد۔ مدحتِ فزوں خوانم

جن کا تذکرہ گزرا، ان رئیس چوروں سے۔ تھُڑدلے چِھچھوروں سے

آپ کو نہیں نسبت۔ آپ کو نہیں مہلت

ہم سے مدح خوانوں سے۔ ہم سے مفت خوروں سے

عمر کے تناست سے آپ سِن رسیدہ ہیں۔ فلسفہ دریدہ ہیں

آنکھ ہے سیاست پر۔ دانت ہے وزارت پر

فکرِ شہر میں دُبلے بلکہ آبدیدہ ہیں

جب وزیر اعلیٰ نے وار سب دیے خالی۔ ہر طرف نظر ڈالی

شیخ و شاب کو پھانسا قوم کو دیا جھانسا

یہ جو غیر ملکی ہیں ان پہ پِیٹ دو تالی

اب ’’ریاستی گُرگے‘‘ چال اک نئی کھیلے۔ سانپ کی طرف ڈھیلے

پھینکنے کی صورت میں ’’کرسیِ وزارت ‘‘ میں

آپ کو دیا غوطہ ’’سٹ پٹائے روہیلے

اب حضور والا نے عذرِ لنگ فرمایا۔ خوب تنگ فرمایا

اپنے جاں نثاروں کو اپنے راز داروں کو

شہر سے نکل جائیں بے درنگ فرمایا

نقدِ شعر۔ ’’دایا‘‘ نے ڈال دی ہے گھٹّی میں۔ بالخصوص چھٹّی میں

لغو و سارق و مائر اور وہ غلط شاعر

باندھ لیں جو چھٹّی کے قافیے کو مُٹھّی میں

روز جمع ہوتے ہیں آپ کے نشیمن میں ، مقبروں کے مدفن میں

 ’’محشرِ سخن چینی‘‘ فتنۂ عدم بینی

جھوم جھوم اٹھتے ہیں اتباع و ایقن میں

یادگارِ کنفیوشس یہ نفیس فنجانیں۔ آپ لوگ سچ مانیں

اب نصیب ہیں کس کو۔ ایک دو مِلیں جس کو

باوجودِ غمگینی جی اٹھی ہیں شریانیں

ایم سلامت اللہ کا در بہشت نعمت ہے۔ ذائقہ میں ندرت ہے

دیکھنے میں مُلّا ہے۔ شمع کا معمّہ ہے

اس کی ہر مٹھائی میں منفرد حلاوت ہے

کرسیوں سے اٹھ بیٹھا جھُنڈ بد لگاموں کا۔ مضحکہ سلاموں کا

شاہ راہ پر آ کر۔ بُعد و فاصلہ پاکر

بھر دیا خباثت نے منھ نمک حراموں کا

بے وقوف کو ہم نے کیا گدھا بنایاہے ’’در بہشت‘‘ کھایا ہے

گرم وتلخ قہوہ بھی۔ خاصدان و حقہ بھی

خود پسند کو اکثر کم شعور پایا ہے

٭٭٭

 

دیہاتی لاری

 ’’سولھابیٹھنے کا حق‘‘ حاصل تیس مسافر یہ کیا سوانگ

بابواس قانون کی ہم نے رشوت دے کر توڑی ٹانگ

چھت پر ایسے اتنے بوجھے انمل بے جوڑ اوٹ پٹانگ

بِستر۔ نقلی گھی کے پیپے۔ شکر، تماکو، بسکٹ، بھانگ

 جی ہاں ! جتنے آنے والے آتے جائیں۔ اتنی مانگ؟

چار کے چھے بجنے والے ہیں۔ چل کلّو اسٹارٹ تو کر

موٹے۔ آدھا روند لگا کر ہانپ گیا! ہٹ دیکھ اِدھر

لے یہ دو، یہ دس، یہ بارہ، آئیں ! کھٹ کھٹ گر گر گر!!

ہنستا کیا ہے۔ شرط رہی کچھ، بند نہ ہو پٹرول اگر

پگلے ہیں جو بگاڑیں پیسہ گھٹیا کاربوریٹر پر

یہ بے چارہ ٹھیک ہے، دوڑے ہی نہ کروسن آئیل تو پھر؟

’فلٹر‘ گاڑھی گاد میں بھر جانے سے بگاڑے کھیل تو پھر؟

خوب صفائی کی تھی جو نکلی میل کی ریلا پیل تو پھر؟

کام چور تُو بھولا ہو ٹنکی میں بھرنا تیل تو پھر؟

پانی جس پر بند ہوا ہو۔ منڈھے چڑھے وہ بیل تو پھر؟

کلّو تیل کا پیپا گھر سے لانے دوڑا ٹھمّک چال

لدے پھندے پنجرے کے اندر گھُس آیا اخلاقی کال

ہندو مسلم جھگڑے نے دی موقع پاکر ہڈی ڈال

ٹھہرے آگ بگولہ دونوں ، تیور کڑوے آنکھیں لال

 ’’بر بر شامی‘‘ جوش میں آئے، اینٹھی اکڑی بھاجی دال

عمَامے نے گھونساتانا۔ پگڑی نے کی گالی ’’سر‘‘

عضویّاتی وِرد و وظائف، جنسیّاتی نقد و نظر

اس کا ہاتھ، گریباں اس کا، اس کا جوتا ، اس کا سر

ثالث سعیِ صلح میں حیراں ، یہ اسٹالن و ہ ہٹلر

دونوں کے دونوں دیوانے۔ ’’دونوں کے دونوں حق پر‘‘

تھانیدار کی صورت دیکھی بلوہ ختم فضا خاموش

ومکوکے جھاگوں کی صورت سِمٹا، بیٹھا قومی جوش

نتھنے سکڑے، چہرے اترے، کپڑے سنبھلے آیا ہوش

کیا احبابِ صوف و بریشم، کیا اربابِ کھدّر بوش

ہیں ممنونِ سیاست دونوں اِن کا جُرم نہ اُن کا دوش

٭٭٭

 

شطرنج

فرش پر بیٹھے ہیں کچھ احباب سر جوڑے ہوئے

دوسری دنیا میں ، اس دنیا سے مُنھ موڑے ہوئے

وہ سپہ سالارِ بے لشکر ہے ان میں فرد فرد

ہے بساطِ تنگ داماں جس کو ’’ میدانِ نبرد‘‘

دل ’’غنی‘‘ اس کا وثیقے پر اُسے رشوت پہ ناز

ڈانسر اس کی بہن، اس کا چچا ’’بیلہ نواز‘‘

اگلے وقتوں کا یہ شہزادہ تو وہ جاگیردار

اور یہ ’’ نوّاب پھلکی جاہ‘‘ وہ ’’ بسکٹ وقار‘‘

قرض کی پیتے ہیں لیکن دل میں کہتے ہیں کہ ہاں

باپ مر جائے تو رکھّیں رہن بُستان و مکاں

 ’’شاہ‘‘ جب نقشے میں آ جاتا ہے ’’فرزیں ‘‘ کے سبب

دعوتیں دیتے ہیں دانتوں کو طرفداروں کے لب

دوست میری مان ، شاہی چال پٹ پڑتی نہیں

قلعہ پر حملے میں بازی اس طرح لڑتی نہیں

 ’’رُخ‘‘ نہیں ’’پیلا‘‘ چلو اس گھر پہ، کیا تکتے ہو تم

اور یہ ’’گھوڑا‘‘ جو ہے کمزور، کیا بکتے ہو تم

آپ کو جچتی نہیں اعراب کی جھنجھٹ مگر

رنگ لاتی ہے عموماً اس میں ’’ تحریفِ نظر‘‘

دوپہر سے شام ہو جائے کہ پچھلی رات ہو

ہل کے پانی بھی نہیں پیتے نہ جب تک مات ہو

ان کو الجھی چال سلجھانے سے زائد فکر کیا

سب شہہ شطرنج ہیں سودے سُلف کا ذکر کیا

ورزشِ لہو و لعب میں صَرف ہیں ان کے دماغ

داغ ماتھے پر غلامی کے مگر دل باغ باغ

٭٭٭

 

پیسے ملے تو جوش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اپنی خودی پہ آپ ہی قربان ہو گیا

ہر شخص اس ’’فرار‘‘ پہ حیران ہو گیا

پیسے ملے تو جوش مسلمان ہو گیا

تخلیق کر ہزار بہانے سخن فریب

باتیں بنا، تراش تقیّے وطن فریب

لیکن تِرا ضمیر پشیمان ہو گیا

جن کو بُرا کہا تھا انھیں کی پناہ لی

بگڑی جو بتکدے سے تو کعبے کی راہ لی

ایمان کی تو یہ ہے کہ اپمان ہو گیا

ہر چند لیگیوں میں مکرّم ہوا تو کیا

سرمایۂ نشاط فراہم ہوا تو کیا

تیرا کلام تجھ پہ بلیدان ہو گیا

افسوس تو نے حُبِّ وطن پر کیا نہ غور

انساں کی بات اور ہے گھوڑے کی بات اور

باندھا گیا جہاں بھی وہیں تھان ہو گیا

کشمیر کے بہشت میں اے رندِ ناتمام

لینے چلا تھا حضرتِ آدمؑ کا انتقام

اور بندۂ خدا علی الاعلان ہو گیا

ہجرت سے گو تلافیِ مافات ہو گئی

 لیکن بتا یہ کون بڑی بات ہو گئی

کیا تو جہانِ پاک کا سلطان ہو گیا

کجلا گیا جبینِ وفا تیرا حادثہ

کچھ اور تو ہوا نہ ہوا تیرا حادثہ

ہم شاعرانِ ہند پہ بہتان ہو گیا

جب تک نہ رہبرانِ وطن دیں مجھے نکال

مجھ کو نہیں ہے ترکِ وطن کا کوئی خیال

حالانکہ الجھنوں سے پریشان ہو گیا

٭٭٭

 

میرا حِصّہ دُور کا جَلوہ

آپ اُردو میں نظم کے درپے

میں رہینِ نگاہِ ’’کون وفساد‘‘

آپ مشغولِ بزمِ شعر و ادب

مجھ کو کرنا پڑا ہے ’’کا۔ کھا‘‘ یاد

٭

کل برائے حیات تھا جو فن

بن چکا آج جنّتِ شدّاد

جی الجھتا ہے شاعری سے مگر

ٹال سکتا ہوں آپ کا ارشاد

٭

میرؔ و سوداؔ سے لے کے انشاءؔ تک

غالباً آپ بھی کریں گے صاد

طنز اُردو ادب میں تھی ہی نہیں

اور تھا بھی اگر تو نام نہاد

٭

جیسے بکھرے پڑے ہوں کچھ ہیرے

جھاڑ پر جیسے تتلیاں آباد

جیسے شُہدوں میں ساقیِ نوخیز

جیسے کالی گھٹا میں جگنو شادؔ

٭

جب کیا قوم پر مسدّس چُست

کانپ اُٹھا دل غلام آباد

طنزِ حالیؔ کی اس عمارت میں

کام آئی نظیرؔ کی بنیاد

٭

ایک کے بعد دوسرا ہیرو

زہے قانونِ عالمِ ایجاد

ہوا حالیؔ کا جانشیں اکبرؔ

جس کو مانا گیا جگَت استاد

٭

اس کے لفظوں کے ہیر پھیر میں بات

اس کے فقروں کا ماحصَل فریاد

سُرخ پھولوں کی آڑ میں کانٹے

سبز مخمل میں نشترِ فصّاد

٭

مُسکراہٹ سے مدّعا گِریہ

قہقہوں میں کنایۂ بیداد

اجنبیّت میں قطعہ بند اپیل

مذہبیت پہ مرثیہ ارشاد

٭

نقلِ مغرب پہ جہل کو ٹھوکر

مشرقی طرز پر مبارک  باد

صنفِ نازک کے ساتھ پردے تک

پردہ اٹھنے پہ ہر چہ بادا باد

٭

کبھی پتلون و ارتقا کا مذاق

کبھی ’’ سائے کے پھیلنے سے‘‘ جہاد

کبھی مہمل مباحثوں میں دخیل

کبھی بندر کی ڈارون اولاد

٭

منھ پہ کہہ کر گیا کھری باتیں

قوم کا دوست، دوست کو نقّاد

طنز کا بادشاہ تھا اکبرؔ

حافظوں میں رہے گی اُس کی یاد

٭

٭٭٭

 

اضطرار

(شادؔ عارفی کی سب سے پہلی نظم جو ماہنامہ’ ہمایوں ‘لاہور  بابت ماہ ستمبر ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی تھی)

جب سے ہے یہ دلِ بربادِ تمنّا مضطر

نظر آتا ہے مجھے سارا زمانہ مضطر

چشمِ پرنم میں وہ طوفانِ الم زا بے چین

جس کے ہر قطرہ میں اک موجۂ گنگا مضطر

نالۂ بانگِ درا سوزِ فغاں سے رنجور

رہِ منزل میں ہر اک خارِ خلش زا مضطر

نغمۂ نَے میں ہے آہنگِ پریشاں پنہاں

ضربِ مضراب سے ہر ساز کا پردا مضطر

پہلوئے موسیِٰ عمراں میں تحمل مدہوش

قلّۂ طور پہ اِک برقِ تجلّٰی مضطر

کفِ غنچہ میں اگر نگہتِ مشکیں بیتاب

قفسِ تنگ میں ہر بلبلِ شیدا مضطر

چشمِ مخمور میں بدمستیِ ساقی محزوں

جامِ بلّور میں کیفیّتِ صہبا مضطر

صرصرِ تُند کے جھونکوں سے ہیں ذرّے بیکل

زحمتِ حدّتِ خورشید سے صحرا مضطر

شادؔ بے چین ہے دل روح کی بیتابی سے

موج مضطر نہیں ، دراصل ہے دریا مضطر

٭٭٭

 

ہلالِ عید

( شادؔعارفی کی دوسری نظم جو’ خاتون مشرق‘( میرٹھ۲۰؍ مارچ ۳۰ء) میں شائع ہوئی تھی ’ اضطرار‘ سب سے پہلی نظم تھی مگر اس کے شائع ہونے میں تاخیر ہوئی ،  کافی عرصہ’ ہمایوں ‘‘ کے دفتر میں پڑی رہی اور بڑی ردّ و کد کے بعد شائع ہوئی)

کیا ظاہر مسلمانوں پہ اپنا فیضِ عام آخر

ہلالِ عید دکھلا کر ہوا ماہِ صیام آخر

مہِ تابندہ نے لیلائے شب کی زلف سُلجھائی

سوادِ شامِ غم نے سُرخیِ رنگِ شفق پائی

زمانہ پر ہوئی نورِ سحر کی کارفرمائی

بہ صد اعجاز عید آئی بہ صد انداز عید آئی

____________________

وفورِ شادمانی سے جبینِ ماہ چمکی ہے

جہانِ خُرّمی سے آج رخصت رنج و غم کی ہے

حضورِ عیش سے منظور مہلت چشمِ نم کی ہے

 بہ صد اعجاز عید آئی بہ صد انداز عید آئی

٭٭٭

 

ہولی

ماگھ سے کترا کے پھاگن کا مہینہ آ گیا

چَیت کے ماتھے پہ ہلکا سا پسینہ آ گیا

جا چھپے گھبرا کے صندوقوں میں سرمائی لباس

جاگ اٹھے دھیمی حرارت پا کے گرمائی لباس

آ گیا پنکھوں کی ٹھنڈی آرزو پر روپ بھی

نکلی ہے بازار میں چھاتا لگا کر دھوپ بھی

چلتے ہیں رو کار کے سائے میں سوداوی مزاج

برف و شربت کی طلب میں مُبتلائے اختلاج

وسطِ راہِ عام سے بیزار ’’ عورت مرد‘‘ ہیں

شاہراہوں کے جگر تپتے ہیں پہلو سرد ہیں

سلسبیلِ خلد سے ملتے ہیں اندازِ سبیل

پیاؤ کے ’’امرت اثر‘‘ پانی میں ’’گنگا جل‘‘ دخیل

ٹھیکیاں کھاتا ہوا مزدور بولایا ہوا

خون پانی ہو کے سر سے پاؤں تک آیا ہوا

شیر وانی کے بٹن کھولے ہوئے ہندی جواں

مغربی افراد پر ’’نیکر‘‘ وبال جسم و جاں

ڈوریاں محرم کی مغرب کے ہرن توڑے ہوئے

مشرقی سردِ چمن گھونگھٹ میں جی چھوڑے ہوئے

چادرِ ’’آبِ رواں ‘‘ میں مشرقی کوندے خموش

مغربی سایوں میں مضطر حُسنِ نظّارہ فروش

فصل نے پک کر صدائے دعوتِ شیراز دی

رُت پھری، پھر کر بہارِ باغ کو آواز دی

جوشِ فیضانِ نمو سے ہر کلی گدرا گئی

مُسکراہٹ پھول سے بولی کہ ہولی آ گئی

بھر دیا دُنیا کو نغموں سے رباب و چنگ نے

رنگ ڈالے ہند کے کپڑے ’’ اکاشی رنگ ‘‘ نے

کچھ دنوں رخسارِ صبح و شام پر پھولی بسنت

 ’’سوم رس‘‘ کا دور دورہ دکھ سے ہر ’’ آشا نچنت‘‘

٭٭٭

بھولے بسرے خواب کا جادو جگانے کے لیے

رات وہ آئی جو تھی ہولی جلانے کے لیے

وقت سے پہلے کشادہ چوک میں مندر کے پاس

ہاربر گلیوں کے لائے لوگ بے حدّ و قیاس

سیکڑوں اُپلے  امنڈ آئے تو لاکھوں لکڑیاں

ڈھیر بن کر رہ گیا ٹھٹھرا ہوا آتش فشاں

ہو گیا مقدار سے جب جمع ایندھن دوگنا

اک ہری لکڑی کے گرداگرد ہاتھوں نے چنا

ایک نے منتر پڑھا کچھ اور پڑھ کر آگ دی

آگ دم بھر میں بھڑک اُٹّھی کچھ ایسی لاگ دی

اٹھ کے شعلوں نے لگائی لَو جو دیپک راگ سے

 ’’شاخِ معلومہ‘‘ کو ’’جے کاروں ‘‘ نے کھینچا آگسے

آتشِ نمرود سے پہنچی نہ ہولی کو گزند

ہو گیا گلزارِ ابراہیمؑ کا جھنڈا بلند

رات سرشوری پہ جس جا شعلۂ بے تاب تھا

صبح کو دیکھا تو چوپٹ سوختن کا باب تھا

٭٭٭

اب شفق مشرق سے دوڑی مل کے چہرے پر گلال

صبح کے نیچر نے بدلے رنگ گرگٹ کی مثال

کھو گیا نیرنگیوں کی بھیڑ میں جمِّ غفیر

ایک نے ’’ابرک‘‘ اُڑا دی ایک نے ڈالا ’’عبیر‘‘

 ’’ٹین کی پِچکاریاں مُنہ سے اُگلتی تھیں شراب

عطر پاشوں کی صفوں میں تھے ’’ہزارے‘‘ فتح یاب

بالٹی، کلسے، گھڑے غافل نہ تھے اس جنگ میں

بانس کے ٹکڑے بھی غوطے کھا رہے تھے رنگ میں

اک طرف کچھ ساریاں ڈوبی تھیں آب و تاب میں

مختلف پھولوں کی دنیا بہہ رہی تھی آب میں

اس نے اس کے’ عارضِ گلفام‘ پر صندل ملا

اس نے اس کے’ حسنِ مئے آشام‘ پر کاجل ملا

سخت چوٹی پر گُلابی رنگ پڑ کر بہہ گیا

نرم آڑی مانگ میں سیندور بھر کر رہ گیا

میری جانب آئی پھر اُن میں سے وہ’ آفت جمال‘

جس پہ ظاہر تھا مری چشمِ تماشائی کا حال

آ گئی جب بھاگ کر بچنے کی حد تک وہ شریر

مَل لیا مجھ کو دکھا کر۔ اپنے چہرے پر عبیر

طبقۂ ادنیٰ میں ہولی کی ہوئی ’’کریا خراب‘

عقل کو ٹخنوں میں لے آیا مسرّت کا عذاب

چل پڑے پی کر گھروں سے دشمنِ ناموس و ننگ

چار جانب رنگ میں پیدا ہوئے آثارِ بنگ

کوئی’ بیجا‘ شکلِ ناہنجار پر باندھے ہوئے

کوئی سر کے گرد ’’پشمِ اسپ و خر ‘‘ باندھے ہوئے

داڑھیاں سَن کی کئی چہروں پہ اور اتنی طویل

جن سے ذہنیّت پریشاں جن سے شخصیت ذلیل

دھیان دارو میں تو بے تُک ناچ میں مشغول سب

اپنے پیروں سے اُڑا کر پھانکتے تھے دھول سب

سینگ جس جانب سمائے چل دیے جھکتے ہوئے

صاف چوبو لوں کے اندر گالیاں بکتے ہوئے

کودتے ، اودھم مچاتے، کوچہ و بازار میں

ہوش بے چارے کو گوندھے جوتیوں کے ہار میں

ایک گھیرے میں حصارِ شور و شر باندھے ہوئے

بے خودی میں بے حیائی پر کمر باندھے ہوئے

٭٭٭

تا کجا ’’خرمستیوں ‘‘ کا یہ محاکاتی نظام

شادؔ اس نقد و نظر کو فکرِ شاعر ناتمام

یہ سیاہی ہند کے چہرے سے دھونی چاہیے

اس مقدّس رسم کی اصلاح ہونی چاہیے

٭٭٭

 

فاروق اعظمؓ

(منظوم سیرت کی اوّلین چار قسطیں )

قسط اول

(خطّہ ہائے عرب کی حالت طوفانِ نوحؑ کے بعد)

مُسلّط ہُو کا عالم تھا عرب کے ریگزاروں پر

اُداسی اپنا سایہ ڈالتی تھی کوہساروں پر

نفحّص پر نقوشِ غیر ذی زرعِ نمایاں تھے

سراب آبادِ وحشت میں نہ انساں تھے نہ حیواں تھے

نشیبوں میں بچھی تھی سبزۂ خودرو کی سرسبزی

بہاریں لوٹنے والا مگر ملتا نہ تھا کوئی

ببولوں کی ہری شاخوں پہ پتّے تلملاتے تھے

مسافر چھاؤں لیتے تھے نہ گلّے مُنہ لگاتے تھے

نہ اونٹوں کو تعلق تھا عرب کے ساربانوں سے

رہِ منزل کا رشتہ گم ہوا تھا کاروانوں سے

ہوامسموم، میدانوں میں ہر سو جاں ستاں کانٹے

فضا پر حکمراں شعلے زمیں پر حکمراں کانٹے

بگولے بن کے چکّر کاٹتی تھی فتنہ سامانی

کبڈّی کھیلتے تھے ہر طرف غولِ بیابانی

قناتیں کھنچتی تھی ہولناکی خشک ٹیلوں پر

تعین دشتِ نافرسا کا ناممکن تھا میلوں پر

دبے قدموں ، نظر پھیرے، گزر جاتی تھیں برساتیں

رمائے تھیں بھبوت اپنے بدن پر چاندنی راتیں

حکومت کر رہی تھی دشت و نخلستاں پہ ویرانی

پیاسوں کے لیے بیتاب تھا ہر جھیل کا پانی

کھجوروں کی فراوانی کو انسانوں کی خواہش تھی

دلِ صحرائے بے پایاں کو مہمانوں کی خواہش تھی

زمانے کی زباں پر جب عرب کا نام آتا تھا

فصیلِ شہر بابُل میں تمدّن مُنہ چھُپاتا تھا

نہ تھیں قیاس آرائیاں اس کی مشیّت پر

پڑے تھے سیکڑوں پردے رخِ رازِ حقیقت پر

کسے معلوم تھا اِس دشتِ جاں فرسا کا یہ رتبہ

بنے گا وحشت آبادِ عرب، قبلے کا ہم پلّہ

یقیں کب تھا پڑیں گی پھر یہاں کعبے کی بنیادیں

خبر کیا تھی ادھر جھُک آئیں گی جنّت کی محرابیں

قسط دوم

(حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کا مع حضرت ہاجرہؑ و حضرت اسمٰعیلؑ عرب کی طرف جانا)

’مرے منظوم‘ کو نمرود کے حالات لا حاصل

نہیں شائستۂ رہرو کہ کھوٹی ہو رہِ منزل

براہیمی مصائب ’’ہدیۂ ایجاز‘‘ کرتا ہوں

 ’’بیانِ جرأتِ باطل‘‘ نظر انداز کرتا ہوں

تفکر جوڑتا ہے بیچ سے ٹوٹا ہوا رشتہ

زبانِ دل پہ آتا ہے ذبیح اللہؑ کا قصّہ

ہوئیں اولاد سے مایوس جس دم حضرتِ سارا

بنایا ہاجرہ کو اپنی امّیدوں کا  گہوارا

چنانچہ بارور ہونے لگا فضلِ خداوندی

جنابِ ہاجرہ کی گود اور ’’فخر برو مندی‘‘

ہوا تب حضرتِ سارا کے دل میں وسوسہ پیدا

خلیل اللہ سے اک روز تنہائی میں فرمایا

خدا شاہد کہ میرا مہر ہے میری رضا مندی

تمھیں درکار ہے میری نظر جوئی وخورسندی

مری مرضی ہے پہنچے اس جگہ ’’یہ ماں ، یہ ماں جایا‘‘

جہاں نایاب ہو پانی، جہاں کمیاب ہو سایا

اسی اثنا میں آ پہنچی یہ وحیِ خالقِ اکبر

مثالِ آئینہ روشن ہے رمزِ خشک و تر ہم پر

ہمیں دُنیا میں تم سے اِک ضروری کام لینا ہے

تمھیں اس کام کے بدلے بڑا انعام دینا ہے

یہی ہے مصلحت بینی کہ تم سوئے عرب جاؤ

فلاں وادی میں بچّے اور ماں کو ہم پہ چھوڑ آؤ

پریشاں خاطری سے ان کی تم ہرگز نہ گھبرانا

کسی نے آج تک منشائے قدرت کو نہ پہچانا

ہمارے راز و رمز وکُنہ و ایماء کس نے پائے ہیں

کہ ہم نے ذرّۂ ناچیز میں صحرا بسائے ہیں

سرِ تسلیم خم تھا سُن کے فرمانِ خداوندی

پہ واجب تھی شریکِ زندگی کی بھی رضامندی

کہا دل میں ، بتا دوں ہاجرہ کو حال ہے جتنا

مگر یہ سوچ کر چُپ ہو گئے عورت کا دل کتنا

معمّہ تو نہ تھی کچھ فطرتِ نسواں کی کمزوری

اور اس کے ساتھ ہی شیطانِ بد خصلت کی سرشوری

تامّل تھا، مبادا میل لائے ہاجرہ دل پر

تدبّر نے کہا ’’اخفائے رازِ مدّعا بہتر‘‘

بہر صورت خدا کے حُکم کو افضل تریں جانا

سفر کا مشورہ بیوی نے بے چون و چرا مانا

بھروسے پر خدائے عزّ و جل کے ایک رستہ پر

روانہ ہو گئے خود رہ نما، خود راہرو بن کر

ذبیح اللہ بھی تھے ساتھ اِک چھوٹی سی چادر میں

کبھی والد  کے کاندھے پر کبھی آغوشِ مادر میں

 ’’صفا مروا‘‘ کی وادی تک قریبِ شام جا پہنچے

مقرر تھا جہاں آغاز، نیک انجام جا پہنچے

پہنچتے ہی لجامِ عزم جب سوئے وطن پھیری

جنابِ ہاجرہ بولیں یہ غربت اور یہ اندھیری

ہمیں اس دشت میں کس کے سہارے آپ نے چھوڑا

خلیل اللہ بولے ’’کیا خدا کا آسرا تھوڑا؟‘‘

قسط سوم

(وادیِ صفا مروا میں حضرت ہاجرہ کی گھبراہٹ اور پیاس کی شدّت سے اسمٰعیلؑ کا بیتاب ہونا)

نہ تھا خورشید لیکن سطوتِ خورشید باقی تھی

زمیں کے قلب و رُخ پر حدّتِ خورشید باقی تھی

وہ صرصر تھی کہ چہرے پر لپٹ محسوس ہوتی تھی

وہ جھونکے تھے کہ اعضا کو جھپٹ محسوس ہوتی تھی

تھکے ماندوں نے جب ویرانیِ منزل کو دی زینت

بساطِ وادیِ نا صاف تھی یا مسندِ راحت

 ’’پئے اولاد چابک دست ہے اندیشۂ مادر‘‘

جنابِ ہاجرہ نے چھا لیا چھوٹا سا اک چھپّر

خُدا سے لَو لگائی، فکرِ فرداسے اماں پائی

ہجومِ خواب کے زانو پہ سر رکھتے ہی نیند آئی

ابھی خوابِ پریشاں دیکھتی تھی یہ وفا شیوہ

کہ آئی صبح کچھ اس طرح جیسے نوجواں بیوہ

افق کا پرتوِ سیمیں تھا بے گلکاری و سادہ

شفق کی سرخیوں سے دُور تھی کیفیّتِ بادہ

نسیمِ سُست رَو کے جسم سے کافور تھی نکہت

حواشیِ خزاں سے اُس طرف مستور تھی نکہت

یہ پھیکا پن بھی تھوڑی دیر صحرا کو نہ راس آیا

نکلتے ہی سوا نیزے پہ سورج سر کے پاس آیا

دھواں دینے لگی جل کر فضائے ’’زمہریر آرا‘‘

چٹانوں کی چٹوں سے پھوٹ کر بہنے لگا لاوا

یہ عالم تھا کہ ہر کوزہ سمندر کو فنا کرتا

وہ پانی تھا جو مشکیزے کے اندر کیا وفا کرتا

زبان و کام و لب مُرجھا گئے جب پیاس کے مارے

نگاہِ عافیت بیں کو نظر آنے لگے تارے

مصیبت میں کہیں ذوقِ عمل بنتا ہے فریادی

جنابِ ہاجرہ کے پاؤں تھے اور وسعتِ وادی

ہٹا کر ’’پھول‘‘ کو آغوش سے کچھ دُور ہٹ جاتیں

مگر جب لختِ دل کا دھیان آ جاتا پلٹ آتیں

بہ فضلِ خالقِ باری، یہ رمزِ رازِ دلداری

جو تڑپی ’’فطرتِ معصوم‘‘ زمزم ہو گیا جاری

یہ چشمہ کوثر و تسنیم سے منسوب تھا گویا

کہ پانی جس کا ’’شیرِ مادرِ محبوب‘‘ تھا گویا

نہیں رہتی تھی پی کر خواہشِ آب و غذاجس سے

رگوں میں دوڑتی تھی قوتِ نشو و نما جس سے

جسے پی پی کے نور العینِ مکّہ شاد ہوتا تھا

 ’’ہمیں ہم ہیں ‘‘ زبانِ وجی میں ارشاد ہوتا تھا

قسط چہارم

(قبیلۂ بنی جُرہم کو چشمے کی اطلاع)

ہوئی روئیدگی سیراب، گل بوٹے مہک اُٹھے

مہک سے بھر گیا ماحول اور طائر چہک اٹھے

بلندی سے ادھر پَر جوڑ کر گرنے لگیں چیلیں

پَرے باندھے کبوتر آئے منڈلائیں ابابیلیں

طراوت  جھکَڑوں میں سوندھی سوندھی بُو سے البیلی

فضائے گرد آلودہ پہ ٹھنڈی روشنی کھیلی

قریب مکّہ وہ صندل سرشت و مشک بو تودہ

کہ جس کے عنبریں انبار میں مستور تھا کعبہ

جو تھا محفوظ اب تک گمرہانِ راہِ عرفاں سے

 ’’معنون تھے‘‘ حوالیِ حرم اِک دشتِ ویراں سے

حجازِ خاص میں پھیلے تھے افرادِ بنی جرہم

وہی رسمِ جہانگیری وہی ناقدریِ مردم

حصولِ آب و سبزہ کے لیے بیتاب پھرتے تھے

 ’’گراں بارِ اثاث البیت‘‘ بے اسباب پھرتے تھے

جہاں سبزہ نظر آیا جہاں پانی کی بو پائی

وہیں اونٹوں کو ’’جہکارا ‘‘ وہیں منزل کی ٹھہرائی

(نامکمل)

٭٭٭

 

ایک سوال

ماؤ بھی بتلائے، چواین لائی بھی

بھائی چارے کی وہ کوشش کیا ہوئی

کیا ہوئی وہ ایشیا کی بہتری

یایہ سب کچھ تھی پِنک ’’افیون کی‘‘

_________

رنگ لایا سرحدوں کا احتمال

کھل گیا نیپال پر نیت کا حال

چوکیوں پر ’’پیش قدمی کا سوال‘‘

سہل سمجھے ہو، مگر ہو گا محال

_________

دندنائیں گے جو بھارت کے جواں

سر سے اونچا کر کے سہ رنگا نشاں

چھین لیں گے اپنی ساری چوکیاں

زرد خطرہ بول اُٹھے گا ’’الاماں ‘‘

_________

بھارتی سینا جہاں ڈٹ جائے گی

چین کی فوجوں کی مت کٹ جائے گی

مورچوں کو چھوڑ کر ہٹ جائے گی

ورنہ کائی کی طرح پھٹ جائے گی

_________

سُن چکے ہیں جنگجو لوگوں سے ہم

 ’’پاسبانانِ اخوّتِ کی قسم‘‘

جم نہیں سکتے کبھی اُکھڑے قدم

ایک ساعت، ایک لمحہ، ایک دم

_________

یعنی جب بھگدڑ کی نوبت آئے گی

فوج کا دل ’’بزدلی‘‘ دہلائے گی

برف کے تودوں سے ٹھوکر کھائے گی

چین کو چِیں بولنی پڑ جائے گی

_________

٭٭٭

 

مفارقت

آئی کسی کی آیا خط میرے نام لے کر

وقتی نوید لے کر، ہجر دوام لے کر

کشمیر کے سفر کا غمگیں پیام لے کر

یہ کاسنی لفافہ خوشبو میں بس رہا تھا

الفاظ کی روش پر گلشن برس رہا تھا

سطریں مہک رہی تھی مقصد ترس رہا تھا

اچکن گلے میں ڈالی، بالوں میں کر کے شانہ

اس پیکرِ وفا کی جانب ہوا روانہ

مخمور تھیں گھٹائیں ، رنجور تھا زمانہ

کمرے کا وہ دریچہ آدھا کھلا ہوا تھا

جو حوض کے کنارے ملنے کاراستہ تھا

ہم اُس کے معترف تھے وہ ہم سے آشنا تھا

چلمن کی تیلیوں سے دلچسپ تھا نظارا

ساری میں سادگی تھی اور سادگی میں تارا

انداز کر رہے تھے حالات پر اشارا

مُنہ آئینہ کی جانب زلفوں میں برہمی سی

ڈھلکا ہوا سا آنچل اعضا میں کاہلی سی

سنجیدگی کی حد تک شوخی میں بیخودی سی

چوروں کی طرح میں نے کُرسی کے پاس جا کر

آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر ہونٹوں میں مسکرا کر

کہنے لگی۔ خبر ہے، آنکھوں سے ہاتھ اٹھا کر

پاپا بدل کے یاں سے کشمیر جا رہے ہیں

اسباب جا چکا ہے موٹر منگا رہے ہیں

وہ جا چکی ہے لیکن خط اب بھی آ رہے ہیں

عادت نہیں بدلتی الفت شعار اپنی

ہر ماہ بھیجتی ہے اک یادگار اپنی

ہر یادگار گویا آئینہ دار اپنی

دیکھو مجھے کہ اب تک کشمیر جا نہ پایا

ماحول کی گھٹن میں قسمت بنا نہ پایا

کیسے کہوں بتوں میں ذوقِ وفا نہ پایا

انسان شادؔ اکثر وہ خواب دیکھتا ہے

تعبیر جس کی ضمناً مانوسِ انتہا ہے

اب اُس سے میں جدا ہوں اور مجھ سے وہ جدا ہے

٭٭٭

 

یومِ محمد علی جوہرؔ

داعیانِ یومِ جوہرؔ آئے پرسوں میرے پاس

دعوتِ شرکت پہ میں ان سے کی یہ التماس

مرثیہ مجھ سے کسی مرحوم کا ممکن نہیں

اب ہے جرأت کا زمانہ، بزدلی کے دن نہیں

دن نہیں بیٹھے ہوئے روتے رہیں اجداد کو

جب کہ لازم ہے شجاعت پیش پا افتاد کو

زندگی بھر وہ تو وہ شوکت علی مرحوم تک

جب وطن آئے تو اسٹیشن کے ویٹنگ روم تک

پھر قرنطینہ بپا خود ساختہ قانون سے

مصطفی آباد بچتا ہی رہا طاعون سے

چھوڑیے بھی ورنہ سختی سے اگر کی جائے جانچ

آپ کی مُردہ پرستی پر کہیں آئے نہ آنچ

آج گمنامی کے پردے میں ہیں وہ حضرت نظامؔ

جن کا خطبوں میں بصد عزّت لیا جاتا ہے نام

یہ ڈھٹائی، یہ صفائی چشمِ نا انصاف میں

نام تک اُن کا نہیں ہے دفترِ اوقاف میں

لوحِ تربت پر لکھے الفاظ کالے پڑ گئے

گچ کو استرکاریِ مرقد کے لالے پڑ گئے

بکریاں ہر روز آتی ہیں طوافِ قبر کو

ہڈیاں چونچوں میں لے آتے ہیں کوّے نذر کو

جوہرِ قابل کے دشمن ہیں ریاست کے اصول

اپنے بل بوتے کوئی پہنچے ’’ سرِ عرشِ قبول‘‘

جس میں آزادی کے گُن دیکھے اُسے گہنا دیا

سخت جاں نکلا تو طوقِ آہنی پہنا دیا

نام سے اہلِ سیاست کے لرز جاتا تھا تاج

کروٹیں لیتاتھا کانٹوں پر شہنشاہی مزاج

جب کہاں تھے آپ اور جوہرؔ سے ہمدردی کی دھُن

چاٹتا تھا جب وطن کو عافیت کوشی کا گھُن

یومِ جوہرؔ جب مناتے آپ تب اک بات تھی

کارفرما جب غلامی کی بھیانک رات تھی

اب کہ اندیشہ نہیں ، خدشہ نہیں ، خطرہ نہیں

یومِ جوہرؔ سے مِٹے گی ظلمتِ ماضی کہیں

میری اس تنقید پر اُن سب کو غصّہ آ گیا

شدّتِ جذبات سے ماتھوں پہ بادل چھا گیا

ایک دو نے دُم کٹی مونچھوں پہ اپنی بل دیے

کہہ نہ پائے کچھ مگر نتھنے پھُلا کر چل دیے

یومِ جوہرؔ کے تقاضوں کا ہوا قصّہ تمام

میں نے ان کی اس عنایت پر کیا ان کوسلام

٭٭٭

 

جہیز

گزرنے والی برات پر جائزے کا اقدام کر رہا ہوں

وطن کی تقلیدِ صرفِ بیجا پہ نقد کا کام کر رہا ہوں

وہ کہہ رہا ہوں جو چشمِ رسم و رواج میں ہے بڑی حماقت

بڑی حماقت کا دوسرارخ بڑی جسارت بڑی بغاوت

جہاں جہاں بھی غلط کہوں میں سماج میری زباں پکڑ لے

نہ یہ کہ پنچایتیں بٹھائے نہ یہ کہ پائے قلم جکڑ لے

_____________________

غلیظ کپڑوں میں دق کے مارے یہ ’’پھول باڑے اُٹھانے والے‘‘

غموں کی زردی کی وجہ سے جن کے رنگ ’’گورے رہے نہ کالے‘‘

 ’’یہ کاغذی گلستاں ‘‘ جو سروِ رواں کی مانند چل رہا ہے

مسرّتوں کے ایاغِ رنگیں میں جرمِ اسراف ڈھل رہا ہے

_______________________

عروس کے ہاں سوالِ عزت بڑا کٹھن ہے ، بہت اہم ہے

دلہن کے ڈولے کے آگے آگے جہیز جتنا بھی ہو وہ کم ہے

چنانچہ یہ آٹھ چائے کے سیٹ ہیں ، چار قہوے کے، دو ڈنر کے

یہ دن میں میلے سے ملگجے سے ضرور برتے ہوئے ہیں گھر کے

مسہریاں دس ، پلنگ بارہ، یہ بید کے کوچ ہیں وہ صوفے

سنگھار میزیں جو تین، تیرہ برائے ’’ ایٹ ہوم اور بوفے‘‘

بھرت کے پایوں کا وہ چھپرکھٹ کہ جس سے شرمائیں فیل پائے

نہ آئیں جب تک محلّے والے یہ کس میں طاقت اسے ہلائے

شمار کرنا ٹرے میں رکھّے ہوئے گلاسوں کا ’’ غیر ممکن‘‘

جگوں مگوں کی قطار جگمگ ، اگالدانوں کا روپ بھِن بھِن

وہ خوان پوشوں کا ’’حشرساماں ‘‘ نگاہ جس تک پہنچ نہ پائے

تماش بینوں کی یہ تمنّا، کہیں سے گھونگھٹ ہوا اڑائے

ظروفِ نقرہ میں ایک ’’بہنگی‘‘ ہے جس سے الماریاں سجیں گی

جہاں بھی ٹھہرے جہاں بھی گزرے گی داد کی تالیاں بجیں گی

یہ دیگ، یہ دیگچے، پتیلے، پتیلیاں ، باؤٹے، پیالے

یہ آفتابے، یہ سینیاں ، یہ لگن، یہ لوٹے ’’نقوش والے‘‘

گھڑوچیوں ، لٹکنوں کا وہ کارواں کہ طوفان جس کو کہیے

جو ہو ’’لکڑ ہٹ ‘‘ میں کچھ قباحت تو پھر ’’لکڑسان‘‘ جس کو کہیے

نماز کی چوکیوں پہ بھدّا کمنگری رنگ ’’ گل فشاں ہے‘‘

جو اک ’’ اقامت‘‘ کا منتظر ہے جو ایک سجدے کا میہماں ہے

وطن کے ’’جہلِ خرد نما‘‘ کے خلاف اقدام کر رہا ہوں

سماج کے عیب گن رہا ہوں ، رواج پر کام کر رہا ہوں

٭٭٭

 

مرے پڑوس میں کچی شراب بکتی ہے

عدوئے ہوش جسے کامیاب کہتے ہیں

خرابِ بادہ جسے لا جواب کہتے ہیں

نہ جانے کیوں اُسے کچّی شراب کہتے ہیں

 ’’دو آتشہ‘‘ کے مثال و حساب بکتی ہے

جو کھنچ کے آئے حکومت کے کارخانے میں

وہ مستند بھی ہے، پکّی بھی ہے زمانے میں

چمن میں ، پیٹھ کے پیچھے، کہ آشیانے میں

نہ کوئی حد نہ کوئی احتساب، بکتی ہے

وہ پختہ کار ، جو بھپکوں میں توڑتے ہیں اُسے

غلاظتوں کا بدل کر کے چھوڑتے ہیں اسے

لگا کے گاؤ کی ’’مانی‘‘ نچوڑتے ہیں اُسے

تو جیسے کوئی مئے انتخاب بکتی ہے

جو ساز باز میں دنیا کے کاٹتے ہیں کان

کسی قریب کے جنگل میں ڈالتے ہیں لان

پس از کشید، بھرے شہر میں علی الاعلان

وہ بیچتے ہیں یہ، خانہ خراب بکتی ہے

کہیں گے شیرۂ عنّاب سے بناتے ہیں

غلط ہے، جھوٹ ہے، تیزاب سے بناتے ہیں

گدھے کی لید سے، پیشاب سے بناتے ہیں

مگر بہ فخر ادھر، انتخاب بکتی ہے

اُسی جھجھک سے، جو مانی گئی ہے چوروں میں

پلائی جاتی مٹّی کے آب خوروں میں

 ’’بقدرِ ظرف و طلب ‘‘ مختلف سکوروں میں

پئے براہمن و شیخ و شاب بکتی ہے

مگر ستونِ وطن ’’ افسرانِ رشوت خوار‘‘

جو بِل کلرک ہُوا ہے معطلی کا شکار

بُلا کے لایا ہے اُن کو۔ پلا رہا ہے اُدھار

عتاب کو جو اُڑھا دے نقاب، بکتی ہے

کئی وطن کے نگہبان پینے آتے ہیں

یہ اعتراض کہ شیطان پینے آتے ہیں

مگر جو حافظِ قرآن پینے آتے ہیں

بلا لحاظِ عذاب و ثواب بکتی ہے

یہ ’’شارک اسکن‘‘ و وائل وہ صوف و اطلس ہے

انھیں نشاط کا چسکہ ہے ان کو بڑ بھس ہے

ہرے کنیر کے پھل ہیں ببول کا کس ہے

تمام شہر میں ہم سے خراب بکتی ہے

کوئی چرٹ کوئی رکشا پہ آ کے پیتا ہے

کوئی نظر کوئی دامن بچا کے پیتا ہے

ٹھہر ٹھہر کے، کوئی ڈگمگا کے پیتا ہے

سوادِ شام سے تا آفتاب بکتی ہے

کوئی پران کی باڑی کی آڑ لیتا ہے

کسی بھی جھُنڈ کی جھاڑی کی آڑ لیتا ہے

بِنا جتی ہوئی گاڑی کی آڑ لیتا ہے

بہ احتیاط۔ مگر بے نقاب بکتی ہے

مشاہدہ ہے کہ پیتے ہیں سب بگاڑ کے مُنہ

سعیدؔ حلق پکڑ کر، مہیش پھاڑ کے مُنہ

یہاں لتھیڑ کے کیچڑ وہاں لتاڑ کے مُنہ

کرے جو عقل کی مِٹّی خراب بکتی ہے

رقیب اس کی نہیں گندگی میں شے کوئی

جو ’’ہاخ تھو‘‘ کوئی پی کر، چڑھا کے قے کوئی

کرے جو اس کو گوارا، دماغ ہے کوئی

سخن وروں کو مگر مُشکِ ناب بکتی ہے

دکان قسم کی کچھ باغبانیاں ہیں یہاں

بنا دیا ہے جنھیں شوہروں نے ’’جانِ جہاں ‘‘

بغیرِ جِنس علاجِ محرّکات کہاں

برائے جِنس یہ تحریکِ ناب بکتی ہے

گنوا کے ہوش جو میکش ترنگ لیتے ہیں

جواں سمجھ کے ادھیڑوں سے رنگ لیتے ہیں

کسی بھی کھیت کے معنیٰ پلنگ لیتے ہیں

فضول چیز، بہ شرحِ شباب بکتی ہے

شراب ’’شرطِ ڈنر‘‘ ہے ڈِنر برائے فرنگ

ہزار حیف، یہ تقلیدِ رسم ہائے فرنگ

یہ خانہ سازِ وطن ہے تو وہ عطائے فرنگ

یہ ’’بربنائے فضیلت مآب‘‘ بکتی ہے

تو اس شراب کا رشتہ ہے اُس بلندی سے

تکا کیے ہیں جسے ہم نیاز مندی سے

بنے گا کام نہ ’’قانونِ نشہ بندی ‘‘ سے

جہاں تہاں جو بدیسی شراب بکتی ہے

٭٭٭

 

عورت

خندۂ قلقل، صدا کوئل کی، غنچوں کی چٹک

تابشِ خورشید، نورِ ماہ، پانی کی جھلک

لرزشِ سیماب، بجلی کی تڑپ، شاخوں کا لوچ

عقل کی تیزی ، طبیعت کی اُپج، شاعر کی سوچ

اضطرابِ موج، کانٹوں کی خلش، ناگن کے بل

تیر کی سُرعت، کماں کا عجز، شمشیروں کے پھل

آب موتی کی، چمک کندن کی، ہیرے کی دمک

اشرفی کا روپ، ٹکسالی محاصل کی کھنک

دامنِ کہسار کے منظر، نوائے آبشار

شورِ دریا، کروٹیں لہروں کی ، ساحل کا قرار

زمزمے کا عطر، کیفِ نغمہ، لَے کی پختگی

شورشِ مئے، لغزش مئے نوش، جوشِ بے خودی

آہوئے رم خوردہ کی وحشت، طرارے ، تیزیاں

گائے کی سنجیدگی، جگنو کی آتش ریزیاں

وادیِ کشمیر کی نزہت، گلوں کا رنگ وبو

سرو کا قد، کبک کی رفتار، قمری کا گلو

طلمتِ شام اودھ، صبحِ بنارس کا نکھار

آگرہ کے تاج کی عظمت، ہمالہ کا وقار

سومناتی رفعتیں ، بھارت کی تہذیبِ قدیم

پاٹلی پُترا کی شہرت، مگدھ کی شانِ عظیم

دل پذیریِ اذاں ، دلداریِ ناقوسِ دَیر

صحن مسجد کا تقدس، پرتوِ فانوسِ دَیر

ہر بھجن کا فیض ، حُسنِ اعتقادِ برہمن

کُمبھ کے میلے کی زینت، وقعتِ گنگ وجمن

بربط و چنگ و سرود و ارغنوں کے زیر و بم

دلکشی پردوں کی، آوازوں کا جادو، تال سم

تلخیِ انجام، جب سب کوششیں ناکام ہوں

خوشنما سیبوں کی ہلکی ترشیاں جب خام ہوں

دیکھ کر یہ اقتباسِ کارگاہِ انس و جاں

کار پردازانِ قدرت میں ہوئیں سرگوشیاں

ایک بولا امتزاج ان کا قیامت ساز ہے

دوسرا کہنے لگا۔ خاموش کوئی راز ہے

یہ عناصر ایک مدّت تک رہے گرمِ عمل

آخرش تحریکِ عصمت سے ہوئے آپس میں حل

صبح دم جب گوشہ گوشہ مطلعِ انوار تھا

ذرّہ ذرّہ عالمِ نیرنگ کا سرشار تھا

اس مرکّب کو اصولی جُنبشیں ہونے لگیں

جُنبشیں اپنے مقاصد سے قریں ہونے لگیں

یہ ہیولیٰ ارتقائی منزلیں طے کر گیا

شہپرِ پروازِ عصمت سے بلندی پر گیا

پا لیا تخلیق پر جب اعتبار و اقتدار

تھی جو تقدیرِ مشیت ، شکل کی وہ اختیار

آئی اعضا میں گدازی اور نرمی جسم میں

آئی رخساروں پہ سُرخی اور گرمی جسم میں

پایۂ تکمیل کو پہنچا جونہی یہ شاہکار

دستِ قدرت نے ٹٹولی نبض اُس کی بار بار

بسترِ نکہت پہ یہ تتلی جو محوِ خواب تھی

مست انگڑائی کے ہاتھوں جاگ اٹھی ، شرما گئی

دیکھ کر شاعر نے اس کو نکتۂ حکمت کہا

اور بے سوچے زمانے نے اُسے عورت کہا

٭٭٭

 

غمازہ

 ’’ساقیِ‘‘ دہلی میں دیکھی تو نے میری نظم ’’یاد‘‘

یعنی حاصل ہے تجھے میری وفا کا اعتماد

ضبطِ غم پائندہ باد و ربطِ باہم زندہ باد

پھر خطوں میں ’’مجھ کو بھولے تو نہیں ‘‘ سے کیا مراد

بے وفائی کا گماں مجھ پر ، فریبِ تازہ ہے

یعنی اس جُملے کے پردے میں کوئی غمّارہ ہے

وہ تری چنچل سہیلی، یاسمینِ رشک خو

جو کہ رکھتی تھی مرے اشعارِ نَو کی جستجو

جو سُنا کرتی تھی چھپ چھُپ کر ہماری گفتگو

گدگداتی تھی جو مجھ کو اور جھلّاتی تھی تو

کروٹیں سی کروٹیں بستر پہ میرے سامنے

اور ٹھنڈی سانس ہر ہر بار تیرے سامنے

ہونٹ دانتوں میں دبا کر آنکھ دے کر بار بار

چاہتی تھی مجھ سے تنہائی میں قربِ ناگوار

تیزبوسوں کے لیے پیاسے ارادے بے قرار

لمسِ حظ افزا سے شدّت خواہ سینے کا اُبھار

ہاں وہی پہنچی ہے تیرے کان بھرنے کے لیے

آخری تدبیر مجھ کو رام کرنے کے لیے

یہ معمّہ یہ پہیلی تجھ کو سمجھاتا چلوں

یاسمیں کی آرزوئے دل کو جھٹلاتا چلوں

خلوتِ مخدوش کے لمحوں سے شرماتا چلوں

جذبۂ مخصوص کے ہاتھوں سے کتراتا چلوں

چھ بجے مدعو کیا جاتا ہوں اک دن چائے پر

چائے پی چکنے پہ وہ گندا تغزّل، الحذر

بیٹھ کر نزدیک میرے، والہانہ شان سے

مُسکرائی اور کہا! کہتی ہوں دل سے جان سے

ضبطِ اظہارِ طلب باہر ہے اب امکان سے

پھر یہ بد مستی کہ باہر بھی نہیں مہمان سے

تجھ سے عہدِ الفتِ بے لوث آڑے آ گیا

یاسمیں کا غلبۂ خلوت پچھاڑے کھا گیا

اب وہ اس تردیدِ لذّت کا صلہ دینے کو ہے

اب وہ اس توہینِ عشرت پر سزا دینے کو ہے

اب وہ اس تذلیلِ خلوت پر دغا دینے کو ہے

اور تجھ کو اپنے رستے سے ہٹا دینے کو ہے

چاہتی ہے مجھ کو تشہیرِ ہوَس میں گھیر دے

بَن پڑے جس طرح بھی، مجھ سے ترا دل پھیر دے

شانتاؔ سے، جان کر اس کو امین و راز دار

تجھ سے جو چالیں چلے گی، کہہ گئی بے اختیار

صبح دم اس نے کیے وہ مکر مجھ پر آشکار

چونکہ تیرے پاس جا پہنچی ہے وہ غیبت شعار

اس لیے کیا کچھ کہے گی وہ سناتا ہوں تجھے

مجھ پہ جو بہتان باندھے گی، بتاتا ہوں تجھے

یوں کہے گی، سُن مَری جاتی ہے تو جس کے لیے

جانتی بھی ہے کہ وہ بیتاب ہے کِس کے لیے

آج کل غزلیں لکھا کرتا ہے نرگس کے لیے

ایک نرگس کیا، اری کمبخت نو دس کے لیے

اے بہن، میں اس کی آوارہ مزاجی کیا کہوں

کہہ رہی تھیں کل جو ہمسائی سے باجی، کیا کہوں

روز فسخِ عہدِ اُلفت، روز تازہ میل جول

آٹھ سے سائی بدھائی، دو سے جنسی مول تول

شرع کہتی ہے کسی کے عیب لوگوں پر نہ کھول

عافیت چاہے تو ایسے بے وفا سے اب نہ بول

جس کی وارفتہ شعاری، عام ہے مشہور ہے

جس کی خلوت شاہدانِ ناز سے معمور ہے

گلستاں پر دسترس ہے اس کا مطلب اور بس

عشرتِ ہر ہر نفس ہے اس کا مطلب اور بس

عشق سے فعلِ مگس ہے اس کا مطلب اور بس

خوشنما پھولوں کا رس ہے اس کا مطلب اور بس

بس کوئی نورَس کلی ہر روزاس کو چاہیے

روز مینائے نشاط اندوز اس کو چاہیے

٭٭٭

 

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

 ( اقبالؔ)

(بزمِ اربابِ ادب کی ایک ماہانہ میٹنگ میں یہ بحث چھڑ گئی کہ عربی قصائد کے انداز پر اُردو میں کوئی نظم ممکن نہیں۔ میں نے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’کوشش شرط ہے۔ ‘‘ اور پھر دوسری ہفتہ واری میٹنگ میں یہ نظم سُنائی۔

میں لوہارو اسٹیٹ( پنجاب) میں پیدا ہو کر وہیں نوجوان ہوا اور اس کے بعد جوانی سے بڑھاپے تک رام پور میں ہوں اس لیے اس نظم کا پس منظر رام پور اور لوہارو دونوں کا ممنون ہے جس کے ثبوت میں مقامی محاورے پیش کیے جا سکتے ہیں )

گزارے ہیں مسلسل رات دن میں نے شکاروں میں

ترائی کے نیستانوں میں ، کھادر میں ، کچھاروں میں

کیے ہیں فیر میں نے بے تکلف مست ہاتھی پر

بہ ایں حالت کہ جاڑا چڑھ گیا تھا میرے ساتھی پر

لتاڑے ہی نہیں لنگور کچھ نرکل کی وادی سے

گلے مِلوا دیا ریچھوں کو ان کی نامرادی سے

بچھیرے اور کتّے اَڑ کے گلداروں سے چھینے ہیں

مہے، چیتل، چکارے لڑ کے خونخواروں سے چھینے ہیں

گھنی ایکھوں میں اِکّڑسوّوروں کو میں نے ٹوکا ہے

قدم کی چاپ سُن کر بھاگنے والوں کو روکا ہے

بجھائے غولِ صحرائی کی آنکھوں کے دیے میں نے

ٹھکانے سے لگائے سیفنی کے بھیڑیے میں نے

کبھی رستہ نہ کاٹا میں نے لاگو سانپ سے ڈر کر

نہ ہونے دیں کبھی مروار قازیں کانپ سے ڈر کر

جو گورستانِ طوطی میں برنجے گاڑ آیا ہوں

تو شمشانوں کے بھوتوں کی حقیقت تاڑ آیا ہوں

مرے ہوتے وہاں سے قافلے گزرے ہیں راتوں کو

جہاں دن میں بھی ڈاکو لُوٹ لیتے ہیں براتوں کو

نہ پائی کپکپی میں نے کبھی جرأت کے شانے پر

مری گولی ہمیشہ ٹھیک بیٹھی ہے نشانے پر

بھیانک مرحلوں میں دل نے ہمّت کو پکارا ہے

قدم ٹھٹکے تو افغانی لہو نے جوش مارا ہے

درندہ چوٹ کھا کر جب نکل آیا ہے غصّے میں

پسنیے کی جگہ ماتھے پہ بل آیا ہے غصّے میں

ہنسی کھیلی مرے ہونٹوں پہ طوفانی دریڑوں میں

شڑنگے مارتا گزرا ہوں سیلابی تھپیڑوں میں

جوانوں کو اماں دلوائی ضحاکوں کے پنجوں سے

ضعیفوں کو بچایا فقر و فاقہ کے شکنجوں سے

جوانی کیا، مرا بچپن بھی گزرا جان سپاری میں

رہے ہیں بلبلاتے ٹوڑیے میری سواری میں

وہ کیسے ٹوڑیے، ایسے کہ بیہڑ میں اگر جائیں

تو دو کوہان والے اونٹ بیہڑ سے گزر جائیں

وہ ایسے ٹوڑیے جو بلّیوں کے سر چبا ڈالیں

نکیلیں توڑنا کیا بات ہے، خنجر چبا ڈالیں

وہ ایسے ٹوڑیے ، جو کھائیں پکّی گوار کی پھلیاں

وہ ایسے ٹوڑیے، چُن لیں جو کچّی جاٹ کی کلیاں

وہ ایسے شیر دل، ڈر جائیں جن سے کھیت والے بھی

کسے طاقت کہ ان کو مینڈ سے باہر نکالے بھی

وہ ایسے بے دھڑک جو مست آ نکل سے نہیں ڈرتے

وہ ایسے بے کھٹک جو قطعِ منزل سے نہیں ڈرتے

وہ ایسے جن کو ماؤں سے چھڑایا جائے چھُٹپن میں

جنھیں پانی کے بدلے گھی پلایا جائے بچپن میں

جنھیں ناگور کی گایوں نے دودھ اپنا پلایا ہو

ضمردی خاں نے جن کو موٹھ کا چارہ کھلایا ہو

تو ایسے ٹوڑیے بھی رہ چکے میری سواری میں

ذرا چون و چرا کرتے نہ تھے خدمت گزاری میں

انھیں حیراں بنائے تھا میری ہیبت کا آئینہ

غرض للکار سے مغلوب و عاجز تھا شتر کینہ

سواری کی ہے ایسے ٹوڑیوں پر بے جھجک میں نے

اندھیری رات میں جا جا کے مارے ہیں جرک میں نے

مگر اے نو بہارِ ناز! اے پھولوں کی برنائی!

ترے اعضا پہ حُسنِ یاسمن لیتا ہے انگڑائی

کنول تیری نزاکت کی قسم کھا کھا کے پلتے ہیں

رخ و گیسو کا ایما پا کے دونوں وقت ملتے ہیں

تری رفتار موجوں کو شرارت سونپ دیتی ہے

تری گفتار نغموں کو لطافت سونپ دیتی ہے

میں جب آتا ہوں تیرے سامنے، دل کانپ جاتا ہے

مگر شہباز تتلی کے مقابل کانپ جاتا ہے

٭٭٭

 

بسنت

بہار بادلوں کی طرح گلستاں پہ چھا گئی

ہوا میں تازگی، فضا میں دلکشی سما گئی

بسنت کی خبر کلی کلی کو گدگدا گئی

وہ گدگدی جو ہر کلی کے لب پہ مُسکرا گئی

            ٭٭٭

وداعِ شب سے جاگ اُٹھے طیورِ نغمہ باختہ

دو صد اصول ساختہ ، ترانہ ہا نواختہ

اُڑی پھُننگ سے بلندیوں کی سمت فاختہ

اسی پھُننگ پر کسی کو ساتھ لے کے آ گئی

            ٭٭٭

ترنجِ زر کو مات کر رہے ہیں زرد سنترے

یہ مرغزار ہیں کہ فرشِ مخملیں ہرے بھرے

پکارتے ہیں کھیت لائی کے ادھر ورے ورے

جونہی نظر جمی کہ زعفران میں نہا گئی

            ٭٭٭

شریکِ زندگی و کشت کار اُٹھ اُٹھا چکے

بچی کھچی ، مٹھے کے ساتھ کھا کے کھیت جا چکے

جو آ گھُسی تھیں کھیت میں وہ بکریاں بھگا چکے

یہ جن کی بکریاں تھیں ، ان کو، جو زباں آ گئی

            ٭٭٭

یہ گاؤں کی جوانیاں ، بغل میں گاگریں لیے

وہ بے جھجک شرارتیں کہ جیسے جامِ مئے پِیے

کمر میں کچھ تناؤ سا، قدم کو لغزشیں دیے

جو سب میں تیز تھی، کنوئیں میں ڈول بھی گرا گئی

            ٭٭٭

دلوں کو چھو رہا ہے شوقِ سیرِ باغ و بوستاں

قطار در قطار سبزہ زار پر جہاں تہاں

رخ و جبیں جواں جواں ، نظر نظر مزاج داں

جدھر اُٹھی ، جدھر پڑی دلوں کے بھید پا گئی

            ٭٭٭

جوانیوں پہ آ گیا شبابِ سوسن و سمن

کئی حسین جمگھٹے روش روِش پہ گامزن

گدازیِ بدن، ہوا کے رُخ پہ تنگ پیرہن

نسیمِ صبح آنچلوں پہ سلوٹیں بنا گئی

            ٭٭٭

وہ چمپئی لباس ہر طرف سے دل میں گھر کرے

نمودِ صبح کیا عجب نثار طشتِ زر کرے

یہ وہ سمَے یہ وہ سماں کہ روح پر اثر کرے

شعور چونک اٹھا تو فکرِ شعر تلملا گئی

            ٭٭٭

وہ پِیپلوں کی تتلیوں میں دلفریبیاں کہ بس

وہ تتلیاں ، اُڑان جن کی دیکھ دیکھ کر ترس

کسی سے ان کو کیا غرض، کسی کو ان پہ دسترس

یہ دسترس کی بات صرف قافیہ سجا گئی

            ٭٭٭

نہیں یہ قافیہ نہیں برائے بیت دبے اثر

جو شادؔ نوحہ خواں رہے ہیں اعتبارِ حُسن پر

یہ کہہ تو دوں کہ میں بھی ان کا ہم خیال ہوں ، مگر

میں اور اس طرف بڑھا، وہ اور پاس آ گئی

٭٭٭

 

تقاضائے عُمر

جوانی میں تصوّف آفریں اشعار ناممکن

بتانِ دیر میں اللہ کا دیدار نا ممکن

جواں شاعر حقائق سے تعلق ہی نہیں رکھتے

مجازیات کے دریا تعمق ہی نہیں رکھتے

جوانی میں یہ وہ لکھتے ہیں جو دل پر گزر تی ہے

غزل میں نوجواں اور فلسفہ، بھرتی ہی بھرتی ہے

شبابِ میکدہ بردوش کو ایماں سے کیا نسبت

شرابِ برق ساماں کو مئے عرفاں سے کیا نسبت

نظر کی جرأتِ ذوقِ نظارہ معصیت کوشی

مقامِ حیرتِ جلوہ سے کوسوں دُور مدہوشی

درِ محبوب کے سجدوں میں کعبہ سے غرض توبہ!

دلیلوں میں نہیں چھُپتا محبت کا مرض توبہ!

تمنّا آگ کی ہے برقِ موسیٰ سے نہیں مطلب

انھیں الفاظ سے مطلب ہے معنیٰ سے نہیں مطلب

٭٭٭

 

اقبالؔ

(بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا)

حصولِ قطرۂ نیساں کی خاطر جان کھوتی ہے

تو ہوتا ہے صدف کے صاف سینے سے گُہر پیدا

لطافت قوتِ نشو و نما میں جذب ہوتی ہے

ہزاروں کوششوں کے بعد ہوتا ہے ثمر پیدا

خلش وردِ وطن کی رُوح میں نشتر چبھوتی ہے

یونہی ہوتا نہیں پیغام شاعر میں اثر پیدا

( ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا)

بہ ایں معنیٰ ہمیں اُمید رکھنی چاہیے لیکن

نہیں ممکن کہ ہو اقبالؔ اب بارِ دگر پیدا

٭٭٭

 

ہمارے نوجواں

نظر آتے ہیں ’’شب پاروں میں ‘‘ اکثر

پڑے پھرتے ہیں بازاروں میں اکثر

اِدھر کَیفوں ، اُدھر باروں میں اکثر

یہ وہ ہندوستاں کے نوجواں ہیں

جو بربادی پہ اپنی شادماں ہیں

غرض رہروئے بے جادہ بھی یہ ہیں

غرض مٹنے پہ آمادہ بھی یہ ہیں

بڑے ضدّی بڑے سادہ بھی یہ ہیں

سمجھتے ہیں کہ ہے دشوار، ہونا

ہے مقصد ان کا فلمسٹار ہونا

نہیں حالات کی فطرت سے واقف

نہیں اغیار کی طینت سے واقف

نہیں بربادیِ ملّت سے واقف

سرود و نغمہ سے سرشار یہ ہیں

پتہ چلتا نہیں بیدار یہ ہیں

اب وجد کا سا رنگ ان میں نہیں ہے

سلف کا رنگ ڈھنگ ان میں نہیں ہے

ترقی کی اُمنگ ان میں نہیں ہے

بپا ہے شورِ نائے و نوش ان میں

جو گرما دے نہیں وہ جوش ان میں

ہے ان سر مستیوں کی کچھ سند بھی

نہیں بھاتی انھیں اپنی مدد بھی

مدد ہے ماورائے نیک و بد بھی

کبھی چندے میں دے دیتے ہیں گھر تک

کبھی لیتے نہیں دل پر اثر تک

٭٭٭

 

بحث

حدِّ تاخیر پہ رات اس نے پڑھا یہ مصرع

ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

کہا میں نے کہ میں جس دَور سے گزرا ہوں ابھی

اس میں کچھ شائبۂ خوبیِ تقدیر بھی تھا

وقتِ موعود سے پہلے ہی فلاں منزل میں

ایک مجمع ہی نہیں ، محشرِ تقریر بھی تھا

جنگِ موعود میں تھی ہند کی شرکت پہ یہ بحث

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

ختم اس ٹیپ پہ تھا مرثیۂ ایرانی

کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

اس پہ افسوس کہ ہٹلر سے یہ روسی درخواست

بات کرتے کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا

یہ بھی تھا ذکر کہ خاموش لبوں سے فنِ لینڈ

نالہ کرتا تھا ولے طالبِ تاثیر بھی تھا

چین کی جان بچانے کو نہ پہنچا، نہ سہی

آخر اس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا

بوڑھے پٹیاں پہ تھے اس قسم کے فقرے چسپاں

ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا

خوش تھے اس بحث میں نالائقِ آزادیِ ہند

ہاں کچھ اک رنجِ گرانباریِ زنجیر بھی تھا

            ٭٭٭

میں وہاں گوشۂ تاریک میں سر دھنتا تھا

منتظر یاں درِ بے منّتِ زنجیر بھی تھا

بولی:اس طُرفہ بیانی کا یہ مطلب ہے نا

آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

اور کیا، ورنہ ترے پاس پہنچنے کے لیے

میں بھی مضطر دلِ صد حیلہ و تدبیر بھی تھا

طرب آموز سہی نامہ برَہ کا اصرار

احترامِ تپشِ گرمیِ تحریر بھی تھا

کششِ خلوتِ رنگیں ہی نہ تھی دامن کش

جذبۂ شوقِ ہم آغوشیِ شب گیر بھی تھا

میری تقدیر میں لکھّا ہے ترا نام مگر

حُسنِ انجام پہ میں مُنکرِ تقدیر بھی تھا

چشمِ تنسیخِ امانت کو نظر آتا تھا

خواب۔ وہ خواب جو شرمندۂ تعبیر بھی تھا

ڈگمگاتا تھا قدم وسوسۂ مستقبل

دلِ محتاط کہ آمادۂ تقصیر بھی تھا

شادؔ اس ہرزہ سرائی پہ وہ سلمیٰ سیرت

گر بگڑ بیٹھے تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا

٭٭٭

 

خط کی چوری

کھلی ہوئی جرأتوں کے پہلو میں تھی رسید پیام جس میں

لکھا تھا ’’سرخی سے حسن القاب‘‘ کے لیے تیرا نام جس میں

 ’’سلام و اظہارِ شوق‘‘ پر تھا بصد محبت سلام جس میں

جھلک رہے تھے کھنک رہے تھے دلی امیدوں کے جام جس میں

کیا گیا تھا ’’طلب پہ‘‘ تاکیدِ خاص کا احترام جس میں

نہاں تھے۔ ۔ ۔ ۔ دلّی پہنچ کے ملنے کے مختلف انتظام جس میں

میں جن کے پردہ میں آ رہا تھا عیاں تھے وہ جھوٹ کام جس میں

فلاں فلاں راز جاننے والیوں کو تھے کچھ پیام جس میں

جنھیں بتائے گئے تھے ملنے کے واسطے ’’صبح و شام‘‘ جس میں

 ’’اُسی احاطہ‘‘ کے پاس تجویز کی تھی جائے قیام جس میں

کہا تھا جلّاد پاسبانوں کو خنجرِ بے نیام جس میں

ترے شلوکے کی جیب سے لے اڑا اگر وہ جواب کوئی

سماج کی سختیوں میں آئے گا اور بھی انقلاب کوئی

٭٭٭

 

یارانِ سیاست سے

مفت میں آزادی مانگو

کام کرو تو اُجرت مانگو

مانگو حسبِ ضرورت مانگو

روشن تر ذہنیّت مانگو

مجبوری کی قیمت مانگو

جرأت مانگو ہمّت مانگو

میل جول کی دولت مانگو

عجز و خلق و مروّت مانگو

تنگ دلی میں وسعت ڈھونڈو

ایسی ہی کچھ حکمت مانگو

اے ایثار سے بچنے والو

ہر ایثار کی عادت مانگو

ذکرِ عمل پر لعنت بھیجو

جوشِ عمل پر قدرت مانگو

آنکھیں کھول کے دُنیا دیکھو

دیکھو چشمِ بصیرت مانگو

دولت دے کر عزّت لے لو

 جان بیچ کر شہرت مانگو

طرزِ امن و عدالت سیکھو

فکرِ رمزِ سیاست مانگو

غیرت کو دمساز بناؤ

آزادوں سے غیرت مانگو

کُنجِ قفس میں میٹھے نغمے

سوجھ بوجھ کی فرصت مانگو

چاہ رہے ہو رفعت چاہو

مانگ رہے ہو عظمت مانگو

کھولو ہونٹ بیانِ حق پر

عزمِ عرضِ صداقت مانگو

شادؔ  ابھی کہتا گزرا ہے

آؤ شرابِ وحدت مانگو

٭٭٭

 

جنگِ زرگری

دکھانے جا رہا ہوں آج اُن گوروں کی خو دبینی

جو سہہ سکتے تھے کالوں کے اقدامِ سخن چینی

ریاست جن کی آئینی، سیاست غیر آئینی

لڑائی اہلِ مشرق کے سہارے جیتنے والے

لہو پلوا کے ذرّوں کو ستارے جِیتنے والے

شگوفوں کی ہنسی لے کر نظارے جیتنے والے

جو نو آبادیوں پر آج بھی پنجے جمائے ہیں

تسلط میں جہاں سکتہ پڑا مینڈھے لڑائے ہیں

مگر فی الحال سِٹّی گم ہوئی ہے سٹپٹائے ہیں

بساطِ مصر پر لینے کے دینے پڑ گئے آخر

لڑاتے آئے تھے جن کو انھیں سے لڑ گئے آخر

لڑے تھے جن کے بل بوتے وہ لچھن جھڑ گئے آخر

 ’’دیانت‘‘ آشنا جن کی ، سقاوت جِن کی ’’مُنہ بولی‘‘

گلے میں جن کے پھنس کر رہ گئی حالات کی گولی

منانا چاہتے تھے پھر ہمارے خون سے ہولی

چلے تھے آمرانہ چال لیکن مات کھا بیٹھے

جہاں پھولوں کا موقع تھا وہاں گولے گرا بیٹھے

پشیماں ہوکے آئے تھے پشیماں ہوکے جا بیٹھے

غلط ہے۔ نظم کے عنوان سے میں ہٹ نہیں سکتا

بدل کر پینترے، میدان سے میں ہٹ نہیں سکتا

محاذِ غازہ و لبنان سے میں ہٹ نہیں سکتا

تواس ’’کینوس‘‘ بِنا ممکن نہیں تھا جنگ کا نقشہ

بلا دلدوز  پس منظر کے خونیں رنگ کا نقشہ

 ’’ شبیہہِ مکر امن آلود‘‘ و عذرِ لنگ کا نقشہ

گریبانوں میں رخنے۔ امنِ عالم کی طرف داری

پرائی دولتوں پر غاصبانہ طبعِ آزاری

غمِ فتنہ طرازی، جنگ بازی، شعلہ افشاری

محاذِ جنگ پر ہر سمت طیّاروں کی پروازیں

 ’’ہوائی قلعوں ‘‘ کی صورت میں بمباروں کی پروازیں

نہتّے شہریوں کے سر پہ خونخواروں کی پروازیں

فضا میں رعد کی مانند غرّاتے ہوئے گولے

برسنا ’’میمنہ‘‘ سے میسرہ‘‘ پر آہنی اولے

قضا ہر مورچہ کی سمت مُنہ پھیلائے پر کھولے

صفایا کر دیااس بم نے اس پلٹن کی پلٹن کا

کسی کی پھر گئی پُتلی، کسی کا دھُل گیا منکا

دیا لاشوں کے حق میں خندقوں نے کام مدفن کا

قریب الموت بیکَس زخمیوں کی کون سنتا ہے

کراہوں پر نہ کوئی دھیان دیتا ہے نہ چُنتا ہے

یہ پانی کے لیے مضطر، وہ اپنی جان دھُنتا ہے

وہ ماؤں کے وہ بیواؤں کے پالے لعل کام آئے

یہ رستہ دیکھتی ہیں خط کوئی آئے پیام آئے

سپاہی تھے، خبر پھیلی نہ اخباروں میں نام آئے

کسی کو آخری ہچکی وطن کی یاد میں آئی

پریشاں حال بھابھی اور بہن روتی ہوئی پائی

اور اس کے بعدجیسے نیند میں آ جائے گہرائی

یہ و ہ تھا جس کی ماں نے اس کی منگنی بھی رچا دی تھی

یہ وہ تھاجس کی پیدائش پہ کل پونجی لٹا دی تھی

بہُو کے جوشنوں کی فکر تھی، ہنسلی بنا دی تھی

وہ اکلوتا خدا سے التجاؤں کا نتیجہ تھا

بزرگوں کا تصرّف تھا، دعاؤں کا کرشمہ تھا

بڑھاپے کاسہارا، لختِ دل تھا نورِ دیدہ تھا

شریروں نے بنا ڈالا انھیں ایندھن لڑائی کا

دیا تنخواہ کے بل پر سبق زور آزمائی کا

 ’’بہ خوں غلطیدنِ صد رنگ‘‘ دعویٰ پارسائی کا

٭٭٭

 

یہ ہماری زبان ہے پیارے

اے کہ دانندۂ پیام و خبر

ہے طبیعت پہ تیرے بار اگر

گفتگو ہم سے ریختہ میں نہ کر

یہ ہماری زبان ہے پیارے

شعر و نغمہ کی جان ہے پیارے

اک بڑی داستان ہے پیارے

لشکروں کی، حکومتوں کی قسم

کاروباری سہولتوں کی قسم

تاجرانہ ضرورتوں کی قسم

تھی یہ آپس کے میل جول کی بات

اس میں شامل ہیں دیس دیس کے ہات

قیدِ مذہب نہ شرطِ قوم نہ ذات

اس میں لہجے کی خوشگواری ہے

لفظ و معنی کی پاس داری ہے

سب کی ہمدم ہے سب کی پیاری ہے

دل کو چھوتے ہیں اس کے میٹھے بول

نہ تنافر کہیں نہ حشو نہ جھول

اس کی محفل کے سب رتَن انمول

چین، فارس، عرب ، عجم، کابُل

گل و ریحان و نرگس وسنبل

سَبدِ گُل بھی ہے یہ دستۂ گل

رفتہ رفتہ جنم  لیا اس نے

ہر سبق بیش وکم لیا اس نے

ریختہ بن کے دم لیا اس نے

تازہ د م ہو کے بربِنائے سکون

مسئلے حل کیے ، لکھے مضمون

اور اپنا لیے علوم و فنون

علم و فن پر عبور ہونے سے

نا تمامی کے دُور ہونے سے

برتری کا شعور ہونے سے

اب دھنَش کے سمان ہے اُردو

اب ترنگا نشان ہے اُردو

اب ہماری زبان ہے اُردو

٭٭٭

 

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

آج مزدور بھی حکومت کا، گیان رکھتے ہیں ، دھیان رکھتے ہیں

                                    اک ترنگا نشان رکھتے ہیں

خون پہنچا کے اپنی محنت کا، نبضِ صنعت جوان رکھتے ہیں

                                    قدر و قیمت کی آن رکھتے ہیں

_____________

ان مقولوں کے ہم نہیں قائل، درو دیوار کان رکھتے ہیں

                                    کان ہی کیا زبان رکھتے ہیں

ہے مگر یہ بہت بڑی مشکل، آپ جو پاسبان رکھتے ہیں

                                    اس سے اچھا گمان رکھتے ہیں

ان کی خلوت میں ان کی جلوت میں ، ادب و شعر میں سیاست میں

                                    فائدہ جان کر شرارت میں

بے سبب ، بن خطا، بلا حُجّت، ہم سے جو آن تان رکھتے ہیں

                                    نیشِ عقرب کی شان رکھتے ہیں

وہ جو بندے ہیں گوہر و زر کے، وہ جو مسجد کے ہیں نہ مندر کے

                                    بے وفائی کا تذکرہ کر کے

چغلیاں کھا کے، کان بھر بھر کے، ہم غریبوں کو سان رکھتے ہیں

                                    آپ کو بدگمان رکھتے ہیں

غنچہ و گل کی ناتمامی پر، روش و آب جو کی خامی پر

                                    گلستاں کی بد انتظامی پر

دمِ تحقیق نام گلچیں کا، وہ اگر باغبان رکھتے ہیں

                                    ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

________________

نہ سُنیں وہ تو قصّۂ غم کیا؟ خلشِ آرزو کا ماتم کیا؟

                                    فرق و تمئیزِ اشک و شبنم کیا؟

چارۂ درد و سعیِ مرہم کیا، ہم بھی جو دل میں ٹھان رکھتے ہیں

                                    اَن کہی داستان رکھتے ہیں

شادؔ ازر راہِ التماسِ ہُنر، کھل کے کہنے سے رمز ہے بہتر

                                    مختصر سے بھی مختصر ہے، مگر

مثلاً صرف واہ وا ’’ کہہ کر‘‘ ادبیّت کی شان رکھتے ہیں

                                    اک مفصل بیان رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 ’’التوا‘‘ سے ’’اجراء‘‘ تک

 ’’مجھ کو تنہا چھوڑ دو‘‘ شعر و ادب خطرے میں ہے

فن برائے زندگی یا للعجب خطرے میں ہے

کون جانے جُرم کیا ہے ’’بے سبب خطرے میں ہے‘‘

 ’’اس نگوڑی شاعری میں ‘‘ کیا دھرا ہے؟چھوڑیے

آپ’ ہندی‘ ہیں تو اُردو کیا بلا ہے، چھوڑیے

دیکھیے پنجرے میں ’’توتا‘‘ چیختا ہے چھوڑیے

میں کبوتر کھولتی ہوں ، آپ دانہ ڈال دیں

ورنہ ان سب کے لیے نبّو کو بلّی پال دیں

آپ تو وہ ہیں غزل گوئی میں صدمہ ٹال دیں

قطعہ لکھیے، نظم گڑھ لیجیے، غزل کہہ لیجیے

مصلحت آئے جو مانع، بے محل کہہ لیجیے

 ’’خط نہ ملنے‘‘ ڈاکخانوں کا خلل کہہ لیجیے

ہو چکے ہیں بند ’’چوٹی کے رسالے‘‘ آئیں کیا

جب رسالے ہی نہیں تو شاعری فرمائیں کیا

 ’’تیسرے درجے کے‘‘ آ مرتے ہیں اُن پر جائیں کیا

یہ جو طاقوں پر پڑے سڑتے ہیں ، کیا کچھ بھی نہیں

عورتوں کے واسطے، مردوں کے لائق؟ جی نہیں

جانِ من جو پی چکا ہوں میں وہ تو نے پی نہیں

پوچھ سکتی ہوں کہ ٹوٹا مجھ پہ ’’تندر‘‘ کس لئے

فن برائے زندگی جیلوں کے اندر کس لیے

 ’’کوزۂ رجعت پسنداں ‘‘ میں ’’سمندر‘‘ کس لیے

تم نہ سمجھوگی کہ کیا ہے آج اُردو کا مقام

آ چکا ہے جس صحافت کا صفِ اوّل میں نام

ہندو و پاکستان اس پر رکھ رہے ہیں اتہام

دوست کو دشمن سمجھ لینا ہی دانائی نہیں

کوئی جائز نکتہ چینی وجہِ رسوائی نہیں

معنویّت لیجیے، الفاظ پیمائی نہیں

ہے وہی زندہ ادب جو ارتقا، کو گدگدائے

وہ نہیں جو آسماں پر ’’آہ کی تِھگلی لگائے‘‘

احمقوں کی شان میں لمبے قصیدے ہائے، ہائے

عہدِ حاضر میں یہ ’’جھانپل ازم‘‘ چل سکتی نہیں

 ’’باز‘‘ کو پرچار کر کے ’’چیل‘‘ پل سکتی نہیں

لوگ کس ٹہنی کو کہتے ہیں کہ پھل سکتی نہیں

خامیوں پر طنز جب قید و قفس کی بات ہے

 ’’سیکڑوں پر جائے گی‘‘ دو چار دس کی بات ہے

نظم کہنی چھوڑ دوں ، کیا میرے بس کی بات ہے

دوپہر سے آپ میں کچھ شاعرانہ موڈ ہے

پینسل کب تک بنے گی؟ والہانہ موڈ ہے!

چھت کو نظروں کا بنا لیجے نشانہ موڈ ہے!!

٭٭٭

 

چاند کی نو آبادی

سوال یہ ہے کہ امنِ عالم کہیں نہیں یا یہیں نہیں ہے

جواب یہ ہے کہ فی زمانہ یہ ’’جنسِ عنقا‘‘ کہیں نہیں ہے

سوال یہ ہے کہ یہ ’’مزائل‘‘ یہ ’’جوہری بم‘‘ بنیں گے کب تک

جواب یہ ہے کہ ’’فیصلہ کن‘‘ لڑی نہ جائے گی جنگ جب تک

سوال یہ ہے کہ چاند تاروں پہ یہ کمندیں مفید بھی ہیں ؟

جواب یہ ہے مفید میں کچھ ’’مقامِ سعیِ مزید‘‘ بھی ہیں

سوال ہے کیا خلا کو طے کر کے آدمی کام کر سکے گا

جواب یہ ہے ، سنا گیا ہے نہ جی سکے گا نہ مر سکے گا

سوال یہ ہے ’’قمر کی تسخیر‘‘ واقعہ یا ’’فراڈ‘‘ ہو گا

کہاں یہ واشنگٹن بنے گا، کدھر کو لینن گراڈ ہو گا

وہاں بھی کیا کولؔ اور دراوڑ کا نام پائیں گے چاند والے

یہاں جو ریڈ انڈین کہائے وہاں وہ ہوں گے ’’سپید کالے‘‘

وہاں کی مخلوق ہم کو تاتاریہ کہے گی کہ آریائی

یہ عہدِ ایٹم شمار ہو گا بطور پتھر کے ’’ابتدائی‘‘

سوال یہ ہے اقلیّت کی ہے اکثریّت غلام یہ کیا

جواب یہ ہے خواص سے منحصر ہے ذہنِ عوام یہ کیا

سوال یہ ہے کہ ختم ہو گی سیاستِ تخت و تاج کس دن

جواب یہ ہے سمجھ میں آئے گا خبثِ رسم و رواج جس دن

وہاں بھی کیا سام و جان مِل جُل کے ریچھ کی کھمبیا بھریں گے

نہیں ، مگر دوسروں سے وعدے، لپٹ پڑو ہم مدد کریں گے

سوال یہ ہے وہاں بھر رشوت چلے گی یا اقربا نوازی

جواب یہ ہے، رواج پائے گی جس قدر بھی زمانہ سازی

سوال یہ ہے وہاں بھی ڈھائیں گے ظلم تاتاریوں کے حملے

جواب یہ ہے کہ غیر ممکن نہیں جو’ چنگیز‘ بھی جنم لے

سوال یہ ہے وہاں بھی دلّی کا تخت مغلوں کا راج ہو گا

جواب یہ ہے کہ لال قلعے کا ماحصل صرف ’’تاج‘‘ ہو گا

سوال یہ ہے وہاں بھی اُلجھن میں آئے گا کیا ظفرؔ کا مقطع

جواب یہ ہے ظفرؔ کے مقطع کے ساتھ ٹیپو کے سر کا مقطع

سوال یہ ہے وہاں بھی اُبھرے گا تانتیا فرنویس‘ کوئی

ضرور۔ لیکن دغا کرے گا، رئیس اِبنِ رئیس کوئی

٭٭٭

 

مگر عورت کا دل کتنا

پہلے شہناز کے گھر ہو آؤں

پھر بتاؤں گا تجھے اے ہمدم

رات وہ جال بُنا ہے میں نے

پھنس کے رہ جائے گا آہوئے حرم!

_________

باز آتا ہے کہیں عزمِ جواں

پیش دستی سے نہ چُوکے غالبؔ

یاد کر برقِ فلاں اور فلاں

اور پھر میں نے جو بدلے قالب

_________

تو نے بی۔ اے نہ کیا پاس اب تک

لڑکیوں پر تری دام اندازی

یہ ترے عزم کے دو رُخ کیسے؟

کہیں ’’گھامڑ‘‘ تو کہیں ہے ’’تازی‘‘

_________

دوست! فطرت بھی تو کوئی شے ہے

یعنی ’رنگین‘ ہوں میں ، تو’ سادہ‘

میں نے اک چال چلی تھی، لیکن

عقد پر وہ نہ ہوئی آمادہ

_________

آپ کو میرا پیامِ شرعی

ایک دیوانے کی بڑ تھی گویا

 ’’قاقم و صوف‘‘ میں ’’پیوندِ پلاس‘‘

اس جسارت پہ کئی دن رویا

_________

کل تھی معذور پسندِ خاطر

آج مختار ہے، مجبور نہیں

ابھی رستے میں یہ سوچا میں نے

آپ سب کچھ ہیں پہ مشہور نہیں

_________

ذوقِؔ مرحوم کے اسباب، بخود

کوئی تالاب’ کوئی پُل‘ بے شک

حوضِ قاضی ہو کہ نیلا تالاب

یادگاروں کا مخالف ہے فلک

_________

لاٹ، مینار، ابوالہول، اہرام

ابدیت کا یہ امکان ہے کیا

دے نہ تاریخ گواہی کب تک

ذکر تھا آپ پہ احسان ہے کیا

_________

ساتھ ہے ان کے مری ہمدردی

جن کو ماحول غلط ملتا ہے

طیش آتا ہے مجھے فطرت پر

پھول کانٹوں میں اگر کھلتا ہے

_________

اپنے والد کی ہیں اکلوتی آپ

موت کا نام نہیں ہے گالی

وہ جو اللہ کا پیارے ہو جائیں

صاف میدان ’’افق تک‘‘ خالی

_________

مُند گئی آنکھ تو ہر دولت مند

خاک کے ڈھیر میں تبدیل ہوا

گھاس رہتی نہیں برسات کے بعد

حال، ماحول میں تحلیل ہوا

_________

آپ کو بھی نہ بھُلا دے دُنیا

گھاس رہتی نہیں برسات کے بعد

نام ’’اولاد‘‘ سے کے پُشتوں تک

اصل اوجھل میں ، فروعات کے بعد

_________

فلم لائن پہ کبھی غور کیا؟

اس میں شہرت کی وہ رفتار کہ آج

روشنی اپنی سبک سیری پر

سُست رو، پست قدم، سرد مزاج

_________

تجھ کو کرنا ہی پڑے گا ہمدم

میرے اس عزمِ جواں کا اقرار

جو کتابوں میں نہ لے دلچسپی

جس کو اک کھیل شکستِ پندار

_________

ابھی جھاڑو پھری شہناز کا تار

ڈپٹی صاحب نے پڑھا اور روئے

بمبئی کا کوئی زچّہ خانہ

کنواریاں ہیں انھیں اللہ کھوئے

_________

٭٭٭

 

آپ تو گھُورنے لگے ہم کو!

آپ ہیں امن و عافیت اندیش

ڈھالتے ہیں جبھی تو ایٹم بم

گفتگو میں ہزارہا گوشے

ہونٹ ہنستے ہوئے ، نظر میں خم

قیمتیں چڑھ رہی ہیں اشیاء کی

آ چکا ناک میں غریب کا دَم

ناک میں دم نہ آئے گا جب تک

نہ چڑھیں گے سیاہ کے ’’دم خم‘‘

یہی ہوتے ہیں سامراجی پیچ

یونہی پھرتا ہے سب پہ دستِ کرم

تاکہ پِستی رہے عوام کی روح

تاکہ بھُولا رہے خواص کا غم

آپ تو گھورنے لگے ہم کو

 ’’عالمی امن ‘‘ چاہتے ہیں ہم

٭٭٭

 

دیکھنے والا ہو تو

شیخ کے دل میں نظر آئیں گے اصنامِ حسیں

زاہدوں کے ذہن میں جامِ شراب انگبیں

پاک دامن سو میں دس مشکل سے ، نوّے کچھ نہیں

عالمانِ بے عمل کے سبز عمّاموں میں پیچ

رہ نمایانِ وطن کی ’’جیب میں ‘‘ چندے کی کھینچ

رہبرانِ ملّتِ مرحوم کے ’’اقوال‘‘ ہیچ

صوفیوں کے جُبّہ و دستار میں طاعت کی’ پول‘

خانقاہوں میں’ شبابِ دختِ رز‘کا مول تول

آمدِ ساقی پہ نعرے، محتسب آئے تو گول

رنگ و بوئے گلستاں کی تاک میں بادِ خزاں

چشمِ گلچیں ’’سبزۂ بیگانہ خو‘‘ پر مہرباں

آشیانوں کا مخالف ’’باغبانِ بد گماں ‘‘

حُسنِ خلوت کی نگاہوں میں ’’نظربازانِ عام‘‘

 ’’عشقِ غم شیوہ‘‘ کے لب پر نغمۂ ’’سوزِ تمام‘‘

یاں فریبِ زلف و رُخ ہے واں فریبِ صبح و شام

 ’’ طینتِ سرمایہ داراں ‘‘ مال کی تائید میں

مفلسوں کی زندگانی موت کی اُمّید میں

عید کے شامل محرّم ہے، محرّم عید میں

مجلسِ شعر و سخن میں ’’ڈوم ڈھاری‘‘ کامیاب

ہیں گلے بازی کے رسیا ایں جناب و آں جناب

چاہتے ہیں کان ’’ذکرِ عنفواناتِ شباب‘‘

گردشِ چرخِ کہن کی زد میں تخلیقاتِ فن

شادؔ کو اُکسا رہی ہے ’’خواہشِ ترکِ وطن‘‘

چھوڑ سکتی ہے مگر بلبل کہیں ’’صحنِ چمن‘‘

جوشؔ صاحب کی نہ کہیے، اُن کا شاہانہ مزاج

عازمِ ہجرت ہوا تھا بر بِنائے احتجاج

وہ بھی کیا انساں جو اپنے قول کی رکھّے نہ لاج

ہو گئی ٹھپ جوشؔ صاحب کی ’’خداسے بر تری‘‘

اسپِ اُمّیدِ ریاست کھا گیا ’’اس کندری‘‘

حیف ہیں مائل بہ رجعت وہ بھی کیسی؟ ’’قہقری‘‘

٭٭٭

 

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر ابن مظفر حنفی، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید