FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

سنن ابن ماجہ

 

 

 

                   امام ابن ماجہ

 

حصہ دوم

 

تیمم کا بیان

 

تمیم کا بیان

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا ہار گر گیا وہ اس کی تلاش میں پیچھے رہ گئیں تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جا کر حضرت عائشہ رضی اللہ کو ڈانٹا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کو بیٹھنا (رکنا) پڑا اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی اجازت نازل فرمائی ، فرماتے ہیں ہم نے اس روز کندھوں تک مسح کیا ، فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور کہا مجھے کیا علم تھا کہ تم اتنی برکت والی ہو۔

 

٭٭ محمد بن ابی عمر عذنی، سفیان بن عیینہ، عمرو، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، عبد اللہ، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کندھوں تک تمیم کیا۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز بن ابی حازم، ابو  اسحاق ہروی، اسماعیل بن جعفر، علاء، ان کے والد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے لئے زمین کو مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا (چند جگہوں کا استثناء کر کے )۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ہشام، عروۃ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اسماء سے ہار عاریتًا لیا وہ گم ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے ڈھونڈنے کے لئے کچھ لوگوں کو بھیجا۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا (پانی تھا نہیں ) اس لئے انہوں نے بغیر وضو نماز پڑھ لی۔ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہ شکایت پیش کی ، اس پر آیت تیمم نازل ہوئی تو اسید بن حضیر (عائشہ سے ) کہنے لگے اللہ تمہیں بہت بدلہ عطا فرمائے۔ اللہ کی قسم ! جب بھی تم پر کوئی پریشانی آئی اللہ نے تمہیں اس میں راہ نکال دی اور اہل اسلام کیلئے اس میں برکت فرما دی۔

 

تمیم میں ایک مرتبہ ہاتھ مارنا

 

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، ذر، سعید بن عبد الرحمن بن ابزی، حضرت عبد الرحمن بن ابزی فرماتے ہیں کہ ایک شخص عمر بن خطاب کے پاس آیا اور کہا میں جنبی ہو گیا اور پانی نہیں مل رہا تو عمر نے فرمایا نماز مت پڑھو تو عمار بن یاسر نے کہا امیر المؤمنین ! آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ ایک سریہ میں تھے کہ جنبی ہو گئے اور پانی نہ ملا تو آپ نے نمازی نہیں پڑھی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی۔ پھر جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے اس کا تذکرہ کیا ، آپ نے فرمایا تمہارے لئے اتنا کافی تھا اور آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر لگائے پھر ان پر پھونک ماری اور ان کو چہرہ اور ہاتھوں پر پھیر لیا۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، حمید بن عبد الرحمن، ابن ابی لیلیٰ، حضرت حکم اور سلمہ بن کہیل نے حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی سے تیمم کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمار کو یوں کرنے کا حکم دیا اور اپنے ہاتھ زمین پر لگائے پھر ان کو جھاڑا اور چہرہ پر پھیر لی۔ حکم کہتے ہیں کہ ہاتھوں ہاتھوں پر بھی پھیرا اور سلمہ کہتے ہیں کہ کہنیوں پر بھی پھیرا۔

 

تمیم میں دو مرتبہ ہاتھ مارنا

 

ابو طاہر احمد بن عمرو سرح مصری، عبد اللہ بن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تیمم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل اسلام کو حکم دیا انہوں نے اپنی ہتھیلیاں مٹی پر لگائیں اور کچھ مٹی بھی نہ اٹھائی اور اپنے چہروں پر ایک مرتبہ ہاتھ پھیرا پھر دوسری مرتبہ اپنے ہاتھ مٹی پر لگائے اور بازوؤں پر مسح کیا۔

 

زخمی جنبی ہو جائے اور نہانے میں جان کا اند یشہ ہو

 

ہشام بن عمار، عبد المجید بن ابی حبیب بن ابی عشرین، اوزاعی، عطاء بن ابی رباح، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں ایک شخص کے سر میں زخم ہو گیا پھر اس کو احتلام ہو گیا تو اس نے نہا لیا وہ (اس وجہ سے ) مر گیا ، جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے فرمایا ان لوگوں نے اس کو مار ڈالا اللہ انہیں مارے کیا جاہل کا علاج یہ نہ تھا کہ (کسی عالم سے ) پوچھ لیتا ، عطاء کہتے ہیں ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کاش ! وہ اپنا جسم دھو لیتا اور سر میں جہاں زخم لگا تھا وہ جگہ چھوڑ دیتا۔

 

غسل جنا بت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، اعمش، سالم بن ابی الجعد، کریب مولی ابن عباس، ابن عباس، امّ المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے غسل کا پانی رکھا ، آپ نے غسل جنابت کیا ، چنانچہ آپ نے بائیں ہاتھ دھوئے پھر ستر پر پانی ڈالا پھر اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا چہرہ دھویا اور تین بار بازو دھوئے پھر باقی جسم پر پانی بہایا پھر اس جگہ سے ہٹ گئے اور پھر پاؤں دھوئے۔

 

٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد الواحد بن زیاد، صدقہ بن سعید حنفی، حضرت جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی اور خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ غسل جنابت کیسے کرتے تھے ، فرمانے لگیں تین مرتبہ ہاتھوں پر پانی ڈالتے پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر تین مرتبہ سر دھوتے پھر جسم پر پانی بہاتے پھر نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور ہم تو اپنا سر پانچ مرتبہ دھو تین چوٹیوں کی وجہ سے۔

 

غسل کنانت کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، ابو  اسحاق ، سلیمان بن صرد، حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موجودگی میں غسل جنابت کے متعلق مختلف باتیں کہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تو اپنے سر پر تین چلو پانی ڈلتا ہوں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، ابو کریب، ابن فضیل، فضل بن مرزوق، عطیہ ، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے غسل جنابت کے متعلق پوچھا ، فرمایا تین بار (پانی ڈالا کرو) اس نے عرض کیا میرے بال بہت زیادہ ہیں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال مقدار میں تم سے زیادہ تھے اور تمہارے بالوں سے زیادہ صاف ستھرے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، جعفر بن محمد، محمد، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم سرد علاقہ میں رہتے ہیں تو غسل جنابت کیسے کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تو اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالتا ہوں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر، ابن عجلان، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرد نے پوچھا کہ جنابت کی حالت میں اپنے سر پر کتنا پانی ڈالوں؟ فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالتے تھے اس مرد نے عرض کیا میرے بال لمبے ہیں ، فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال تم سے زیادہ گھنے اور صاف ستھرے تھے۔

 

غسل کے بعد وضو

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ و اسماعیل بن موسیٰ سدی، شریک، ابو  اسحاق ، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل جنابت کے بعد وضو نہیں کیا کرتے تھے۔

 

جنبی غسل کر کے اپنی بیوی سے گرمی حاصل کر سکتا ہے اس کے غسل کرنے سے قبل

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک، حریث، شعبی، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل جنابت کر کے مجھ سے حرارت حاصل کرتے قبل ازیں کہ میں غسل کروں۔

 

جنبی اس حالت میں سو سکتا ہے پانی کو ہاتھ لگائے بغیر

 

محمد بن صباح، ابو بکر بن عیاش، اعمش، ابو  اسحاق ، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ ایسا بھی ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنبی ہوئے پھر سوگئے اور پانی چھوا تک بھی نہیں حتیٰ کہ اس کے بعد اٹھے اور غسل کیا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، ابو  اسحاق ، اسود، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اگر اپنی اہلیہ سے صحبت کرنی ہوتی تو صحبت کر لیتے پھر اسی حالت میں پانی چھوئے بغیر ہی سو جاتے۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابو  اسحاق ، اسود، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایسا بھی ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنبی ہوئے پھر اسی حالت میں پانی چھوئے بغیر ہی سو گئے ، امام سفیان کہتے ہیں کہ ایک روز میں نے یہ حدیث ذکر کی تو اسماعیل نے مجھے کہا اے جوان اس حدیث کو کسی چیز سے مضبوط کرنا چاہیے۔

 

اس بیان میں کہ جنبی نماز کی طرح وضو کئے بغیر نہ سوئے

 

محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، زہری، ابو  سلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بحالت جنابت اگر سونا چاہتے تو نماز والا وضو کر لیتے۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، عبد الاعلی، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کیا ہم سے ایک جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا جی جبکہ وضو کر لے۔

 

٭٭ ابو مروان عثمانی محمد بن عثمان، عبد العزیز بن محمد، یزید بن عبد ابن الہاد، عبد اللہ بن خباب، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رات میں جنبی ہو گئے ان کا سونے کا ارادہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ وضو کر کے سو جائیں۔

 

جنبی دوبارہ جماع کرنا چاہے تو وضو کر لے

 

محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد الواحد بن زیاد، عاصم احول، ابو متوکل، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس آئے پھر دوبارہ آنا چاہے تو وضو کر لے

 

سب بیویوں سے صحبت کر کے ایک ہی غسل کرنا

 

محمد بن مثنی، عبد الرحمن بن مہدی و ابو احمد، عثمان، معمر، قتادۃ، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایسا بھی ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی تمام ازواج کے پاس ایک ہی غسل سے گئے۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، صالح بن ابی الاخضر، زہری، حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے نہانے کا پانی رکھا ایک رات آپ نے اپنی تمام ازواج مطہرات سے صحبت کر کے ایک ہی غسل کیا۔

 

جو ہر بیوی کے پاس الگ غسل کرے

 

اسحاق بن منصور، عبد الصمد، حماد، عبد الرحمن بن ابی رافع، سلمی، حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی تمام ازواج کے پاس گئے اور ہر ایک کے ہاں نہائے ، عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول! آپ ایک ہی غسل کر لیتے۔ فرمایا اس میں زیادہ پاکیزگی نفاست اور طہارت ہے۔

 

جنبی کھاپی سکتا ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابن علیہ و غندر و وکیع، شعبہ، حکم، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بحالت جنابت اگر کھانا چاہتے تو وضو کر لیتے۔

 

٭٭ محمد بن عمر بن ہیاج، اسماعیل بن صبیح، ابو اویس، شرجیل بن سعد، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کیا جنبی سو سکتا ہے یا کھا پی سکتا ہے؟ فرمایا جی ہاں جب کہ نماز کا وضو کر لے۔

 

جنبی کے لئے ہاتھ دھو نا کافی ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن مبارک، یونس، زہری، ابو  سلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بحالت جنابت اگر کھانا چاہتے تو اپنے ہاتھ دھو لیتے۔

 

ناپا کی کی حالت میں قرآن پڑھنا

 

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرۃ، حضرت عبد اللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت الخلاء میں جاتے قضاء حاجت کے بعد تشریف لاتے ہمارے ساتھ روٹی ، گوشت کھاتے اور قرآن پڑھتے اور جنابت کے علاوہ کوئی چیز آپ کو تلاوت قرآن سے مانع نہ ہوتی۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، موسیٰ بن عقبہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنبی اور حائضہ قرآن کی تلاوت نہ کریں۔

 

٭٭ ابو حسن، ابو حاتم، ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، موسیٰ بن عقبہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جنبی اور حائضہ تھوڑا قرآن بھی نہ پڑھیں۔

 

ہر بال کے نیچے جنابت ہے

 

نصر بن علی جہضمی، حارث بن وجیہ، مالک بن دینار، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر بال کے نیچے جنابت ہے اس لئے بال دھوؤ اور کھال کو خوب صاف کرو۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزۃ، عتبہ بن ابی حکیم، طلحہ بن نافع، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانچ نمازیں اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور امانت ادا کرنا درمیانی اوقات کے لئے کفارہ ہے میں نے عرض کی امانت کو ادا کرنا کیا ہے؟ فرمایا غسل جنابت کیونکہ ہر بال کے نیچے جنابت ہے

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسود بن عامر، حماد بن سلمہ، عطاء بن سائب، زاذان، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اپنے جسم میں ایک بال کے برابر بھی جنابت چھوڑ دی اسے دھویا نہیں دوزخ میں اس کے ساتھ یہ یہ ہو گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسی لئے میں اپنے بالوں کا دشمن ہو گیا ہوں اور آپ بال کٹوا دیا کرتے تھے۔

 

عورت خواب میں وہ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروۃ، عروۃ، زینب بنت ام سلمہ، امّ المؤمنین حضرت امّ سلمہ فرماتی ہیں کہ امّ سلیم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور پوچھا کہ اگر عورت خواب میں وہی دیکھے جو مرد یکھتا ہے ، فرمایا جی اگر عورت پانی دیکھے تو بہا لے میں نے کہا تم نے عورتوں کو رسوا کر دیا ، عورتوں کو بھی خواب نظر آتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تیرا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو (اری بھولی عورت) تو بچہ عورت کے مشابہ کیسے ہو جاتا ہے۔

 

٭٭ محمد بن مثنی، ابن ابی عدی و عبد الاعلی، سعید بن ابی عروبہ، قتادۃ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (میری والدہ) امّ سلیم ، نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ عورت اگر ایسا دیکھے اور اسے انزال ہو تو اس پر غسل لازم ہے اس پر حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ایسا ہوتا بھی ہے ، فرمایا جی مرد کا پانی گاڑھا سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا زرد ہوتا ہے۔ پھر ان میں سے جو پہلے آ جائے یا غالب آ جائے بچہ اس کے مشابہ ہو جاتا ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، سفیان، علی بن زید، سعید بن مسیب، حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ عورت خواب میں اگر وہی دیکھے جو مرد دیکھتا ہے؟ (تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد) فرمایا اس پر غسل لازم نہیں الا یہ کہ انزال ہو جائے جس طرح مرد پر بھی غسل لازم نہیں الا یہ کہ انزال ہو جائے۔

 

عورتوں کا غسل جنابت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ایوب بن موسی، سعید بن ابی سعید مقبری، عبد اللہ بن رافع، حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں عورت ہوں اپنے سر کی مینڈھیاں مضبوط باندھتی ہوں تو غسل جنابت کے لئے کھول دیا کروں ، فرمایا تمہارے لئے تین بار پانی ڈالنا کافی ہے پھر اپنے باقی بدن پر پانی ڈال کر پاک ہو جاؤ گی۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، ایوب، ابو زبیر، عبید اللہ بن عمیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ عورتوں کو نہاتے وقت بال کھولنے کا کہتے ہیں ، تو فرمانے لگیں تعجب ہے ابن عمر (رضی اللہ عنہما) پر وہ عورتوں کو سر منڈانے کا کیوں نہیں کہہ دیتے بلاشبہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے میں اپنے سر پر تین مرتبہ سے زیادہ پانی نہ ڈالتی۔

 

جنبی ٹھہرے ہوئے پانی میں غو طہ لگائے تو اس کے لئے یہ کافی ہے؟

 

احمد بن عیسیٰ و حرملہ بن یحییٰ مصری، ابن وہب، عمرو بن حارث، بکیر بن عبد اللہ بن اشج، ابو سائب مولی ہشام زہرۃ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی بحالت جنابت ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے اس پر حضرت ابو سائب نے عرض کیا ایابو ہریرہ پھر وہ کیا طریق اختیار کرے؟ فرمایا اسمیں سے پانی الگ نکال لے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و محمد بن بشار، غندر و محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، ذکوان، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک انصاری کے پاس سے گزرے ، آپ نے ان کو بلوایا وہ حاضر ہوئے تو سر (سے پانی) ٹپک رہا تھا فرمایا شاید ہم نے تمہیں جلدی میں ڈال دیا ، عرض کی جی اے اللہ کے رسول ! فرمایا جب تم جلدی میں پڑ جاؤ (اور انزال سے قبل جماع موقوف کر دو) یا جماع کرو اور تمہیں انزال نہ ہو تو تم پر غسل لازم نہیں وضو ضروری ہے۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، ابن سائب، عبد الرحمن بن سعاد، حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانی پانی سے ہے۔

 

جب دو ختنے مل جائیں تو غسل واجب ہے

 

علی بن محمد طنافسی و عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، عبد الرحمن بن قاسم، قاسم بن محمد، امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ جب دو ختنے (باہم) مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے مجھے (عائشہ رضی اللہ عنہا کو) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسی صورت پیش آئی تو ہم نے غسل کیا۔

 

٭٭ محمد بن بشار، عثمان بن عمر، یونس، زہری، سہیل بن سعد ساعدی، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ رخصت ابتداء سلام میں تھی پھر بعد میں ہمیں غسل کا حکم دیا گیا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، فضل بن دکین، ہشام دستوائی، قتادۃ، حسن، ابو رافع، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب مرد عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے پھر اس سے صحبت کرے تو غسل واجب ہو جائے گا۔

 

خواب دیکھے اور تری نہ دیکھے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، حجاج، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب دو ختنہ مل جائیں اور حشفہ (سپاری) غائب ہو جائے تو غسل واجب ہو گیا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حماد بن خالد، عمری، عبید اللہ، قاسم، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں کوئی نیند سے بیدار ہو اور تری دیکھے اور اسے یہ خیال نہ ہو کہ اسے احتلام ہو (یعنی خواب دیکھنا یاد نہ ہو) تو غسل کرے اور جب اسے یہ خیال آئے کہ اسے احتلام ہوا اور تری نہ دیکھے تو اس پر غسل نہیں ہے۔

 

نہاتے وقت پردہ کرنا

 

عباس بن عبد العظیم عنبری و ابو حفص عمرو بن علی فلاس و مجاہد بن موسی، عبد الرحمن بن مہدی، یحییٰ بن ولید، محل بن خلیفہ، حضرت ابو سمح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خادم تھا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نہانے کا ارادہ فرماتے تو فرماتے میری طرف پشت کر لو۔ میں آپ کی طرف پیش کر لیتا اور کپڑا پھیلا کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پردہ میں کر دیتا۔

 

٭٭ محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، ابن شہاب، حضرت عبد اللہ بن نوفل فرماتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سفر میں نفل پڑھے مجھے کوئی بتانے والا نہ ملا حتیٰ کہ حضرت امّ ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ آپ فتح مکہ کے سال تشریف لائے پردہ لگانے کا حکم دیا تو پردہ لگا دیا گیا آپ نے غسل کیا پھر آٹھ رکعات نفل پڑھے۔

 

٭٭ محمد بن عبید بن ثعلبہ حمانی، عبد الحمید ابو یحییٰ حمانی، حسن بن عمارۃ، منہال بن عمر ، ابو عبیدۃ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی ہرگز کھلے میدان میں یا چھت پر بغیر پردہ کے غسل نہ کرے اس لئے کہ اگر وہ کسی کو دیکھ نہیں رہا تو دوسروں کو تو نظر آ سکتا ہے۔

 

پیشاب پاخانہ روک کر نماز پڑھنا منع ہے

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عبد اللہ عنہ بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی پاخانہ جانے لگے اور نماز قائم ہو جائے تو پہلے پاخانہ کو جائے۔

 

٭٭ بشر بن آدم، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، سفر بن نسیر، یزید بن شریح، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیشاب پاخانہ روک کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ادریس اودی، ان کے والد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو حاجت ہو تو نماز کے لئے کھڑا نہ ہو۔

 

٭٭ محمد بن مصفی حمصی، بقیہ، حبیب بن صالح، ابو حی، حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی مسلمان پیشاب پاخانہ روک کر نماز کے لئے کھڑا نہ ہو۔ یہاں تک کہ اس بوجھ سے طبیعت ہلکی ہو جائے (یعنی حاجت سے فارغ ہو جائے )۔

 

اس مستحاضہ کا حکم جس کی مدت بیماری سے قبل متعین تھی

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، بکیر بن عبد اللہ، منذر بن مغیرۃ، عروۃ بن زبیر، حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور خون جاری رہنے کی شکایت کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ ایک رگ کا خون ہے پس تو دیکھتی رہ جب تیرے حیض کے دن آئیں تو نماز موقوف کر دے جب ایام حیض گزر جائیں تو پاکی حاصل کر (نہا لے ) پھر اگلے حیض تک نماز پڑھتی رہ۔

 

٭٭ عبد اللہ بن جرح، حماد بن زید، ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمۃ بنت حبیش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگیں اے اللہ کے رسول ! میں ایک عورت ہوں استحاضہ میں گرفتار پاک نہیں ہوتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ فرمایا نہیں یہ تو رگ (کا خون) ہے حیض نہیں ہے اس لئے جب حیض (کے دن) آئیں تو نماز چھوڑ دو اور جب حیض (کے دن گزر جائیں تو نہا کر نماز شروع کر دو۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، ابن جریج، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، ابراہیم بن محمد بن طلحہ، عمر بن طلحہ، حضرت امّ حبیبہ بنت جحش فرماتی ہیں کہ مجھے بہت زیادہ اور طویل خون آتا تھا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتی تاکہ حالت بتا کر حکم معلوم کروں فرماتی ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی ہمشیرہ ام المؤمنین حضرت زینب کے ہاں موجود پایا میں نے عرض کیا مجھے آپ سے کوئی کام ہے ، فرمایا ارے ! بتا کیا کام ہے؟ میں نے عرض کیا مجھے بہت ہی زیادہ استحاضہ آتا ہے اور یہ مجھے نماز روزہ سے مانع ہے۔ آپ مجھے اس دوران کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا میں تمہیں گدی رکھنے کا مشورہ دیتا ہوں اس سے خون رک جائے گا میں نے عرض کیا اس سے بہت زیادہ ہے ، پھر اس کے بعد شریک کی طرح ذکر کیا

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، ابو اسامہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، سلیمان بن یسار، حضرت امّ سلمہ فرماتی ہیں کہ ایک خاتون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہنے لگی مجھے استحاضہ اتنا آتا ہے کہ پاک ہی نہیں ہوتی تو کیا میں نماز موقوف کر دوں؟ فرمایا نہیں البتہ جتنے دن رات پہلے حیض آتا تھا اس کی بقدر نماز موقوف کر دو ، ابو بکر کی روایت میں ہے مہینے میں حیض کے دنوں کی بقدر نماز موقوف کر دے پھر نہا لے اور لنگوٹ کس لے اور نماز پڑھ لے۔

 

٭٭ علی بن محمد و ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اعمش، حبیب بن ابی ثابت، عروۃ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ فاطمہ بنت حبیش نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی اے اللہ کے رسول ! مجھے استحاضہ اتنا آتا ہے کہ پاک ہی نہیں ہوتی تو کیا میں نماز موقوف کر دوں ، آپ نے فرمایا نہیں ، اس لئے کہ یہ تو رگ (خون) ہے حیض نہیں صرف حیض کے دنوں میں نماز سے بچو ، پھر غسل کر لو اس کے بعد ہر نماز کے لئے وضو کر لیا کرو اگرچہ خون چٹائی پر ٹپکے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و اسماعیل بن موسی، شریک، ابو الیقظان، حضرت عدی بن ثابت روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مستحاضہ حیض کے دنوں میں نماز موقوف کرے پھر غسل کرے اور ہر نماز کے لئے وضو کرے اور روزہ رکھے نماز پڑھے۔

 

مستحاضہ کا خون حیض جب مشتبہ ہو جائے اور اسے حیض کے دن معلوم نہ ہوں

 

محمد بن یحییٰ، ابو مغیرۃ، اوزاعی، زہری، عروۃ بن زبیر و عمرۃ بنت عبد الرحمن، امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کی اہلیہ امّ حبیبہ بنت جحش کو سات سال تک استحاضہ جاری رہا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کی شکایت کی تھی۔ آپ نے فرمایا یہ حیض نہیں ہے یہ تو رگ (کا خون) ہے جب حیض آئے (یعنی حیض کے دن آئیں ) تو نماز موقوف کر دو اور جب حیض ختم ہو جائے تو غسل کر لو اور وضو کرو حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ وہ ہر نماز کے لئے غسل کرتی پھر نماز ادا کرتیں اور وہ اپنی ہمشیرہ امّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحش کے ایک لگن میں بیٹھ جاتیں حتی کہ خون کی سرخی پانی پر غالب آ جاتی۔

 

کنواری جب مستحاضہ ہونے کی حالت میں بالغ ہو یا اس کے حیض کے دن متعین ہوں لیکن اسے یاد نہ رہیں

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، شریک، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، ابراہیم بن محمد، طلحہ، عمران بن طلحہ، حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد میں ان کو استحاضہ جاری ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ مجھے بے وقت سخت زیادہ حیض آتا ہے۔ آپ نے ان سے فرمایا گدی رکھ لو عرض کرنے لگیں کہ اس سے بہت زیادہ ہے وہ تو بہت بہتا ہے ، فرمایا لنگوٹ کس لے اور اللہ کو جیسے معلوم ہے اس کے موافق چھ سات روز ہر ماہ میں حیض شمار کر پھر غسل کر لے اور نماز پڑھ اور تئیس یا چوبیس روزے رکھ اور ظہر تاخیر سے اور عصر جلدی سے پڑھ اور ان دونوں کے لئے ایک غسل کر لے اور مغرب تاخیر سے اور عشاء جلدی سے پڑھ اور ان دونوں کے لئے ایک غسل کر اور دونوں صورتوں میں سے یہ صورت مجھے زیادہ پسند ہے۔

 

حیض کا خون کپڑے پر لگ جائے

 

محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید و عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، ثابت بن ہرمز ابو مقدام، عدی بن دینار، حضرت امّ قیس بنت محصن رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ حیض کا خون کپڑے پر لگ جائے تو؟ فرمایا اسے پانی اور بیری کے پتوں سے دھو ڈالو اور کھرچ ڈالو گو پسلی کی ہڈی کے ساتھ۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر، ہشام بن عروۃ، فاطمہ بن منذر، حضرت اسماء بنت سیدنا ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کپڑے میں لگے ہوئے حیض کے خون کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا اسے رگڑ کر دھو لو اور اسے پہن کر نماز پڑھو۔

 

٭٭ حرملہ بن یحییٰ، ابن وہب، عمرو بن حارث، عبد الرحمن بن قاسم، قاسم، امّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ ہم میں کسی عورت کو حیض آتا پھر پاکی کے وقت وہ کپڑے سے خون کو رگڑ کر اتارتی پھر اسے دھوتی اور اپنے سارے بدن پر پانی بہا کر اسی میں نماز شروع کر دیتی۔

 

حائضہ نمازوں کی قضانہ کرے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، سعید بن ابی عروبہ، قتادۃ، معاذہ دعویہ، امّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے ایک عورت نے پوچھا کیا حائضہ (ایام حیض کی) نمازوں کی قضا کرے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کیا تو حروریہ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ہمیں حیض آتا پھر ہم پاک ہوتیں آپ نے ہمیں نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیا

 

حائضہ ( ہاتھ بڑھا کر) مسجد سے کوئی چیز لے سکتی ہے )

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، ابو  اسحاق ، بہی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے فرمایا مسجد سے مجھے چٹائی دے دو۔ میں نے عرض کیا میں حائضہ ہوں فرمایا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔

 

٭٭  ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروة، عروة، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بحالت اعتکاف اپنا سر مبارک میرے قریب کرے درآنحالیکہ میں حائضہ ہوتی تو میں آپ کا سر مبارک دھوتی اور کنگھی کرتی۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، سفیان، منصور بن صفیہ، صفیہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں حائضہ ہوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا سر میری گود میں رکھ کر قرآن کی تلاوت فرماتے۔

 

بیوی اگر حائضہ ہو تو مرد کے لئے کہاں تک گنجائش ہے؟

 

عبد اللہ بن جراح، ابو احوص، عبد الکریم، ابو  سلمہ یحییٰ بن خلف، عبد الاعلی، محمد بن اسحاق ، ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، شیبانی، عبد الرحمن بن اسود، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ ہم (ازواج) میں کوئی حائضہ ہوتی تو حیض کی شدت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے ازار باندھنے کا حکم دے دیتے پھر اس کو اپنے ساتھ لٹا لیتے اور تم میں سے کون ہے جسے اپنے نفس پر اتنا قابو ہو جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے نفس پر قابو تھا (اس لئے جس میں قابو نہ ہو وہ ایسا بھی نہ کرے مبادا جماع میں مبتلا ہو جائے )۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، جریر، منصور، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں ہم (ازواج مطہرات) میں سے جب کوئی حائضہ ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے ازار باندھنے کا حکم دیتے پھر اس کے ساتھ لیٹ جاتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابو  سلمہ، حضرت امّ سلمہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ آپ کے لحاف میں تھی ، مجھے وہی محسوس ہوا جو عورتوں کو ہوتا ہے یعنی حیض میں جلدی سے لحاف سے نکل گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہیں خون آ رہا ہے؟ میں نے عرض کیا مجھے وہی حیض محسوس ہوا جو عورتوں کو ہوتا ہے ، فرمایا آدم کی بیٹیوں کے مقدر میں اللہ نے یہ لکھ دیا ہے ، امّ سلمہ فرماتی ہیں میں جلدی سے گئی اپنے آپ کو درست کیا اور واپس آ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے فرمایا میرے ساتھ لحاف میں آ جاؤ ، فرماتی ہیں میں آپ کے ساتھ لحاف میں ہو گئی۔

 

٭٭ خلیل بن عمرو، ابن سلمہ، محمد بن اسحاق ، یزید بن ابی حبیب، سوید بن قیس، معاویہ بن خدیج، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے (اپنی ہمشیرہ) حضرت امّ حبیبہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حیض میں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کیسے رہتی تھی؟ فرمانے لگیں ہم میں سے ایک حیض کے شروع جوش کی حالت میں آدھی رات تک تہبند باندھ لیتی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ لیٹ جاتی۔

 

حائضہ سے صحبت منع ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، حماد بن سلمہ، حکیم اثرم، ابو تمیمہ ہجیمی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو حائضہ کے پاس جائے یا عورت کے پیچھے کی راہ سے یا کاہن کے پاس جا کر اس کی تصدیق کرے تو اس نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر اترے ہوئے (دین) کا انکار کیا۔

 

جو حائضہ سے صحبت کر بیٹھے اس کا کفارہ

 

محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید و محمد بن جعفر و ابن ابی عدی، شعبہ، حکم، عبد الحمید، مقسم، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیوی کے ساتھ بحالت حیض صحبت کرنے والے کے متعلق فرمایا کہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ کرے۔

 

حائضہ کیسے غسل کرے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے ارشاد فرمایا درآنحالیکہ وہ حائضہ تھیں کہ بال کھول کر نہانا۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابراہیم بن مہاجر، سفیہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت اسماء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے غسل حیض کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا تم میں ایک پانی اور بیری کے پتے لے اور خوب اچھی طرح پاکیزگی حاصل کرے پھر اپنے سر پر پانی ڈال کر اچھی طرح ملے تاکہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے ، پھر اپنے بدن پر پانی بہائے پھر مشک لگا ہوا چمڑے کا ٹکڑا لے اور اس سے پاکی حاصل کرے اسماء نے کہا اس سے کیسے پاکی حاصل کرے؟ فرمایا سُبْحَانَ اللَّہ! اس سے پاکی حاصل کر لے ، عائشہ فرماتی ہیں آپ کا مقصد یہ تھا کہ خون کی جگہ پر اس کو پھیر لے اور فرماتی ہیں کہ اسماء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے غسل جنابت کے متعلق پوچھا ، فرمایا تم میں ایک اپنا پانی لے اور خوب اچھی طرح پاکی حاصل کرے یہاں تک کہ اپنے سر پر پانی ڈالے اور سر کو ملے تاکہ بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچ جائے پھر باقی بدن پر پانی ڈال لے ، عائشہ فرماتی ہیں کہ انصاری کی عورتیں کیا خوب عورتیں ہیں ، انہیں طبعی حیا دین کی سمجھ اور فقہ حاصل کرنے میں مانع نہ ہوئی۔

 

حائضہ کے ساتھ کھا نا اور اس کے نچے ہوئے کا حکم

 

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، مقدام بن شریح بن ہانی، شریح بن ہانی، امّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں بحالت حیض ہڈی چوستی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ ہڈی لے لیتے اور وہیں منہ لگاتے جہاں میرا منہ تھا اور پانی پیتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانی لے کر وہیں سے پیتے جہاں سے میں نے پیا ہوتا حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو الولید، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس فرماتے ہیں کہ یہودی نہ حائضہ کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھتے اور نہ (اس کے ساتھ) کھاتے پیتے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور یہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ فرمایئے وہ گندگی ہے اس لئے عورتوں سے جدا رہو ، حیض میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صحبت کے علاوہ سب کچھ کر سکتے ہو۔

 

حائضہ مسجد میں نہ جائے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و محمد بن یحییٰ، ابو نعیم، ابن ابی غنیہ، ابو الخطاب ہجری، مخلوج دہلی، جسرۃ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس مسجد کے صحن میں تشریف لائے اور با آواز بلند فرمایا مسجد حلال نہیں (یعنی ایسی حالت میں مسجد میں آنا) جنبی اور حائضہ کے لئے۔

 

حائضہ پاک ہونے کے بعد زرد اور خاکی رنگ دیکھے تو

 

محمد بن یحییٰ، عبید اللہ بن موسی، شیبان نحوی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو  سلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورت پاکی کے بعد وہ رنگ دیکھے جو اسے شک میں ڈالے (کہ حیض ہے یا نہیں؟) فرمایا یہ ایک رگ یا کئی رگوں کا خون ہے۔ محمد بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ پاکی کے بعد کا مطلب ہے کہ حیض سے پاک ہو کر غسل کرنے کے بعد۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، ایوب، ابن سیرین، حضرت امّ عطیہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں ہم زرد اور گدلے رنگ کو کچھ بھی شمار نہ کرتے تھے (یعنی حیض نہ سمجھتے تھے )۔

 

جفاس والی عورت کتنے دن بیٹھے

 

نصر بن علی جہضمی، شجاع بن ولید، علی بن عبد الاعلی، ابو سہل، مسۃ ازدیہ، حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں نفاس والی عورت (زیادہ سے زیادہ) چالیس روز بیٹھتی اور چھائیوں کی وجہ سے ہم چہرے پرورس نامی گھاس کی مالش کرتی تھیں۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، محاربی، سلام بن سلیم (یا سلم ، ابو الحسن کے گمان کے مطابق یہ ابو الاحوص ہیں ) ، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نفاس والی عورت کے لئے چالیس یوم مقرر فرمائے الا یہ کہ وہ اس سے پہلے پاکی دیکھے۔

 

جو بحالت حیض بیوی سے صحبت کر بیٹھا

 

عبد اللہ بن جراح، ابو الاحوص، عبد الکریم، مقسم، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بحالت حیض بیوی سے صحبت کر بیٹھتا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے نصف اشرفی صدقہ کرنے کا حکم فرماتے۔

 

حائضہ کے ساتھ کھانا

 

ابو بشر بکر بن خلف، عبد الرحمن بن مہدی، معاویہ بن صالح، علاء بن حارث، حرام بن حکیم، حضرت عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حائضہ کے ساتھ کھانے کے بارے میں پوچھا تو فرمایا حائضہ کے ساتھ مل کر کھا سکتے ہو۔

 

حائضہ کے کپڑے میں نماز

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، طلحہ بن یحییٰ، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ رہے ہوتے میں آپ کے پہلو میں ہوتی میرے اوپر ایک چادر ہوتی اس کا کچھ حصہ آپ پر بھی ہوتا۔

 

٭٭ سہل بن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، شیبانی، عبد اللہ بن شداد، امّ المومنین حضرت میمونہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک چادر اوڑھ کر نماز پڑھی اس کا کچھ حصہ مجھ پر بھی تھا حالانکہ میں حائضہ تھی۔

 

لڑکی جب بالغ ہو جائے تو دو پٹہ کے بغیر نماز نہ پڑھے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد الکریم، عمرو بن سعید، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تشریف لائے تو ان کی ایک باندی چھپ گئی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بالغ ہو گئی ہے؟ عرض کیا جی ! آپ نے اپنی پگڑی میں سے پھاڑ کر ان کو دیا اور فرمایا دوپٹہ کے طور پر استعمال کر لو۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو الولید و ابو النعمان، حماد بن سلمہ، قتادۃ، محمد بن سیرین، صفیہ بنت حارث، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ بالغ عورت کی نماز بغیر دوپٹہ کے قبول نہیں فرماتے۔

 

حائضہ مہندی لگا سکتی ہے

 

محمد بن یحییٰ، حجاج، یزید بن ابراہیم، ایوب، حضرت معاذہ فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا حائضہ مہندی لگا سکتی ہے؟ فرمانے لگیں ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ہوتیں اور مہندی لگاتی تھیں آپ ہمیں اس سے منع نہ فرماتے تھے۔

 

پٹی پر مسح

 

محمد بن ابان بلخی، عبد الرزاق، اسرائیل، عمرو بن خالد، زید بن علی، علی، حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میرا ایک پہنچا ٹوٹ گیا۔ (تو پلستر کروا لیا) میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے (اس مسئلے کے متعلق) دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے پٹی پر مسح کرنے کا حکم دیا۔

 

لعاب کپڑے کو لگ جائے تو

 

علی بن محمد، وکیع، حماد بن سلمہ، محمد بن زیاد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں اور ان کا لعاب بہ کر آپ کو لگ رہا ہے۔

 

برتن میں کلی کرنا

 

سوید بن سعید، سفیان بن عیینہ، مسعر، محمد بن عثمان بن کرامہ، ابو اسامہ، مسعر، عبد الجبار بن وائل، حضرت وائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ کے پاس ڈول لایا گیا آپ نے کلی کے لئے اس میں سے پانی لیا اور ڈول میں ہی کلی کی کستوری کی مانند یا اس سے بھی نفیس خوشبو تھی اور ڈول سے باہر ناک سنکی۔

 

٭٭ ابو مروان، ابراہیم بن سعد، زہری، حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کو یاد تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے کنویں کے ڈول میں کلی کی تھی۔

 

اپنے بھائی کا ستر دیکھنے سے ممانعت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، ضحاک بن عثمان، زید بن اسلم، عبد الرحمن بن ابی سعید خدری، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک عورت دوسری عورت کا ستر بھی نہ دیکھے اور ایک مرد دوسرے مرد کا ستر نہ دیکھے ، (یعنی صنف مخالف ہی نہیں صنف مشترکہ بھی احتیاط بہتر صورت لازم ہے )۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، منصور، موسیٰ بن عبد اللہ بن یزید، مولی عائشہ، حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ستر پر نگاہ نہ ڈالی۔

 

جس نے غسل جنابت کر لیا پھر جس میں کوئی جگہ رہ گئی جہاں پانی نہ لگا وہ کیا کرے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و اسحاق بن منصور، یزید بن ہارون، مسلم بن سعید، ابو علی رحبی، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل جنابت کیا پھر ایک خشک نشان دیکھا جہاں پانی نہیں پہنچا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے بال دبائے اور اس (خشک رہ جانے والی) جگہ کو تر کر دیا۔

 

٭٭ سوید بن سعید، ابو الاحوص، محمد بن عبید اللہ، حسن بن سعد، سعد، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ایک مرد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں نے غسل جنابت کر کے نماز صبح ادا کی پھر دن کی روشنی ہوئی تو دیکھا کہ ناخن کی بقدر جگہ کو پانی نہیں لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم وہاں اپنا ہاتھ پھیر دیتے تو تمہارے لئے کافی ہو جاتا۔

 

جس نے وضو کیا اور کچھ جگہ چھوڑ دی پانی نہ پہنچا یا

 

حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، جریر بن ہازم، قتادۃ، حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک مرد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس وضو کر کے آیا اور اس نے ناخن برابر جگہ چھوڑ دی جہاں پانی نہیں پہنچایا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا واپس جاؤ خوب عمدگی سے وضو کرو۔

 

٭٭ حرملہ بن یحییٰ، ابن وہب، ابن حمید، زید بن حباب، ابن لہیعہ، ابو زبیر، جابر، حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرد کو دیکھا کہ اس نے وضو کیا اور پاؤں میں ناخن کے برابر جگہ چھوڑ دی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے وضو اور نماز دہرانے کا حکم دیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ واپس چلا گیا (اور اس نے وضو کر کے نماز دہرائی)۔

 

 

 

 

نماز کا بیان

 

نماز کے اوقات کا بیان

 

محمد بن صباح و احمد بن سنان، اسحاق بن یوسف ازرق، سفیان، علی بن میمون رقی، مخلد بن یزد، سفیان، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن بریدۃ، حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک مرد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور نمازوں کے اوقات کے متعلق دریافت کیا ، آپ نے فرمایا آج اور کل ہمارے ساتھ نماز پڑھو جب سورج ڈھلا تو آپ نے بلال کو حکم دیا انہوں نے اذان دی پھر آپ نے حکم دیا انہوں نے ظہر کی اقامت کہی پھر حکم دیا تو نماز عصر قائم فرمائی حالانکہ سورج بلند سفید اور صاف تھا، پھر حکم دیا تو مغرب قائم کی جبکہ سورج چھپا پھر حکم دیا تو عشاء قائم کی جب فجر طلوع ہوئی ، دوسرے دن بلال کو حکم دیا انہوں نے اذان ظہر دی ، آپ نے ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھی اور خوب ٹھنڈے وقت میں پڑھی پھر عصر پڑھی جبکہ سورج بلند تھا لیکن کل کی بہ نسبت عصر تاخیر سے پڑھی پھر مغرب پڑھی شفق غائب ہونے سے قبل اور عشاء پڑھی رات کا ایک تہائی حصہ گزرنے کے بعد اور فجر پڑھی اور خوب روشنی میں فجر ادا کی ، پھر فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کے اوقات کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے؟ اس شخص نے کہا میں ہوں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا تمہاری نمازوں کے اوقات وہی ہیں جو تم نے دیکھ لئے۔

 

٭٭ محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، حضرت ابن شہاب زہری فرماتے ہیں کہ وہ عمر بن عبد العز یز کی چادر پر بیٹھے ہوئے تھے جب وہ مدینہ کے امیر تھے ، ان کے ساتھ عروہ بن زبیر (مشہور فقیہ تابعی) بھی تھے تو عمر بن عبد العزیز نے عصر ذرا تاخیر سے ادا کی تو عروہ نے ان سے کہا سنو ! جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آگے نماز پڑھی (امامت کرائی) تو عمر نے ان سے کہا عروہ ! سوچو کیا کہہ رہے ہو؟ عروہ نے کہا میں نے بشیر بن ابی مسعود کو یہ کہتے سنا کہ میں نے ابو مسعود کو یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ جبرائیل تشریف لائے انہوں نے میری امامت کی میں نے ان کے ساتھ (ان کی اقتداء میں ) نماز ادا کی پھر نماز ادا کی پھر نماز ادا کی پھر نماز ادا کی پھر نماز ادا کی انہوں نے اپنی انگلی سے پانچوں نمازیں شمار کیں۔

 

نماز فجر کا وقت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ ہم اہل ایمان عورتیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کرتیں پھر اپنے گھروں کو واپس آتیں تو اندھیرے کی وجہ سے کوئی ہمیں پہچان نہ سکتا

 

٭٭ عبید بن اسباط بن محمد قرشی، اسباط بن محمد قرشی، اعمش، ابراہیم، عبد اللہ و اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آیت (الاسراء) کی تفسیر میں نقل کیا کہ دن اور رات کے فرشتے اس میں حاضر ہوتے ہیں

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، نہیک بن یریم اوزاعی، حضرت مغیث بن سمی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر کے ساتھ اندھیرے میں نماز صبح ادا کی جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے حضرت ابن عمر کی طرف متوجہ ہو کر کہا یہ کیسی نماز ہے؟ فرمانے لگے یہ ویسی ہی نماز ہے جیسی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابو بکر و عمر کے ساتھ پڑھتے تھے ، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا گیا تو عثمان نے روشنی میں پڑھنا شروع کی

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ابن عجلان، عاصم بن عمر بن قتادۃ، قتادۃ، محمور بن لبید، حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ رعنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا صبح کی نماز روشنی میں ادا کیا کرو کیونکہ اس سے تمہارے ثواب میں اضافہ ہو گا۔

 

٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، شعبہ، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز ظہر اس وقت ادا کرتے جب سورج ڈھل جاتا۔

 

٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، عوف بن ابی جمیلہ، سیار بن سلامہ، حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوپہر کی نماز جیسے تم ظہر کہتے ہو اس وقت ادا کرتے جب سورج ڈھل جاتا۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، اعمش، ابو  اسحاق ، حارثہ بن مضرب عبدی، حضرت خباب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ریت کی گرمی کی شکایت کی۔ آپ نے اس شکایت کا لحاظ نہ فرمایا

 

٭٭ ابو کریب، معاویہ بن ہشام، سفیان، زید بن جبیرۃ، خشف بن مالک، مالک، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مضمون مروی ہے لیکن اس کی سند میں مالک طائی غیر معروف ہے اور معاویہ میں ضعف ہے۔

 

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرنا ( یعنی ٹھنڈے وقت میں ادا کر نا)

 

ہشام بن عمار، مالک بن انس، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں ادا کرو اس لئے کہ گرمی کی تیزی دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، سعید بن مسیب و ابو  سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب گرمی میں شدت آ جائے تو ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو اس لئے کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے۔

 

٭٭ ابو کریب، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو کیونکہ گرمی کی شدت دوزخ کی باپ سے ہوتی ہے

 

٭٭ تمیم بن منتصر واسطی، اسحاق بن یوسف، شریک، بیان، قیس بن ابی حازم، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ظہر دوپہر کو ادا کرتے تھے ، آپ نے ہمیں فرمایا نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو اس لئے کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن عمر، عبد الوہاب ثقفی، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو۔

 

نماز عصر کا وقت

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز عصر ادا فرماتے جبکہ سورج بلند اور روشن ہوتا پھر جانے والا عوالی تک چلا جاتا پھر بھی سورج بلند ہوتا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز عصر ادا فرمائی جبکہ دھوپ میرے حجرے میں تھی ابھی سایہ حجرے کے اوپر نہیں چڑھا تھا۔

 

٭٭ احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، عاصم بن بہدلہ، زر بن حبیش، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ خندق کے روز فرمایا اللہ تعالیٰ کافروں کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے جیسے انہوں نے ہمیں درمیانی نماز (عصر) سے روکے رکھا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بلاشبہ جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کے گھر والے اور مال ہلاک کر دیا گیا۔

 

٭٭ حفص بن عمر، عبد الرحمن بن مہدی، یحییٰ بن حکیم، یزید بن ہارون، محمد بن طلحہ، زبید، مرۃ، حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (جنگ خندق میں ) مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز عصر سے روکے رکھا حتیٰ کہ سورج چھپ گیا تو آپ نے فرمایا انہوں نے ہمیں درمیانی نماز (عصر) سے روکا اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے۔

 

نماز مغرب کا وقت

 

عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، ابو النجاشی، حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں مغرب پڑھتے پھر ہم میں سے کوئی واپس آتا تو وہ اپنے تیر گرنے کے مقام کو دیکھ لیتا (یعنی اندھیرا اتنا کم چھایا ہوتا)۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، مغیرۃ بن عبد الرحمن، یزید بن ابی عبید، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز مغرب اس وقت ادا کرتے جب سورج پردے کے پیچھے چھپ جاتا۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ابراہیم بن موسی، عباد بن عوام، ابن ابراہیم، قتادۃ، حسن، احنف بن قیس، حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت اس وقت تک مسلسل فطرت پر قائم رہے گی جب تک نماز مغرب کو اتنا مؤخر نہ کرے کہ ستارے گھنے ہو جائیں۔ امام بن ماجہ فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن یحییٰ کو یہ فرماتے سنا کہ بغداد میں اہل فن حضرات کو اس حدیث میں اضطراب ہوا تو میں اور ابو بکر اعین ، عوام بن عباد بن عوام کے پاس گئے انہوں نے ہمیں اپنے والد کی بیاض دکھائی اس میں بھی یہ حدیث تھی۔

 

نماز عشاء کا وقت

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر گرانی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ان کو عشاء تاخیر سے پڑھنے کا حکم دیتا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ و عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر گرانی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں نماز عشاء کو تہائی رات تک یا آدھی رات تک مؤخر کرتا۔

 

٭٭ محمد بن مثنی، خالد بن حارث، حمید، حضرت انس بن مالک سے پوچھا گیا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگشتری پہنی؟ فرمایا جی آپ نے نصف شب کے قریب تک نماز عشاء مؤخر فرمائی جب آپ نماز پڑھ چکے تو ہماری طرف چہرہ کیا اور فرمایا لوگ نماز پڑھ کر سو رہے اور تم جب تک نماز کے انتظار میں رہے مسلسل نماز ہی میں رہے حضرت انس فرماتے ہیں کہ (اس وقت) آپ کی انگشتری کی چمک اب بھی گویا میری نگاہوں کے سامنے ہے۔

 

٭٭ عمران بن موسیٰ لیثی، عبد الوارث بن سعید، داؤد بن ابی ہند، ابو نضرۃ، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں نماز مغرب پڑھائی پھر باہر تشریف نہ لائے حتیٰ کہ (تقریباً) آدھی رات گزر گئی پھر تشریف لائے اور فرمایا لوگ نماز پڑھ کر سو رہے اور تم مسلسل نماز ہی میں رہے ، جب تک نماز کا انتظار کرتے پسند کر تاکہ نصف شب تک نماز مؤخر کروں۔

 

ابر میں نماز جلدی پڑھنا

 

عبد الرحمن بن ابراہیم و محمد بن صباح، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو قلابہ، ابو مہاجر، حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک جنگ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے ، آپ نے ارشاد فرمایا ابر کے دن نماز میں جلدی کرو کیونکہ جس کی عصر کی نماز رہ گئی اس کے عمل ضائع ہو گئے۔

 

نیند کی وجہ سے یا بھو لے سے جس کی نماز رہ گئی؟

 

نصر بن علی جہضمی، یزید بن زریع، حجاج، قتادۃ، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا اس مرد کے متعلق جس کی نماز بھولے سے یا سوتے رہنے کی وجہ سے چھوٹ جائے؟ فرمایا جب یاد آئے (یا بیدار ہوں ) تو پڑھ لے۔

 

٭٭ جبارۃ بن مغلس، ابو عوانہ، قتادۃ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو نماز بھول جائے تو جب یاد آئے تو پڑھ لے۔

 

٭٭ حرملہ بن یحیی، عبد اللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر چلتے رہے ، جب آپ کو اونگھ آنے لگی تو اتر پڑے اور بلال سے کہا ہمارے لئے تم رات کا خیال رکھو۔ بلال نے جتنا مقدر میں تھا ، نفل ادا کئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھی سو گئے ، جب فجر قریب ہوئی تو بلال نے اپنی اونٹنی کے ساتھ ٹیک لگا دی فجر (مشرق) کی طرف منہ کر کے ، پس بلال پر اسی اونٹنی پر ٹیک کی حالت میں نیند غالب آ گئی نہ ان کی آنکھ کھلی نہ کسی اور صحابی کی ، یہاں تک کہ ان کو دھوپ محسوس ہوئی تو سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جاگے اور گھبرا کر فرمایا ارے بلال ! (یہ کیا ہوا؟) بلال نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول! میری جان کو اسی نے روکے رکھا جس نے آپ کی جان کو روکے رکھا ، آپ نے فرمایا اونٹوں کو چلاؤ لوگوں نے تھوڑی دور تک اپنے اونٹوں کو چلایا (آپ اس جگہ سے چلے گئے کیونکہ وہاں شیطان تھا جیسے دوسری روایت میں ہے ) پھر آپ نے وضو کیا اور صبح کی نماز پڑھائی جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا جو شخص نماز کو بھول جائے تو جب اس کو یاد آئے پڑھ لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قائم کر نماز کو میری یاد کی خاطر اور ابن شہاب اس آیت کو یوں پڑھتے۔( وَاَ قِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ  14) 20۔طہ:14)۔

 

٭٭ احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، ثابت، عبد اللہ بن رباح، ابو قتادۃ، حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے نیند میں کوتاہی کا ذکر کیا ، کہا سوتے رہے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سوتے میں کچھ کوتاہی نہیں کوتاہی تو جاگتے میں ہے ، اس لئے جب ہم میں سے کوئی بھی نماز بھول سے چھوڑ دے یا نیند میں چھوڑ جائے تو جب یاد آئے تو اس وقت پڑھ لے اور آئندہ وقت پر نماز پڑھے۔ ابو قتادہ کے شاگرد عبد اللہ بن رباح کہتے ہیں کہ میں یہ حدیث بیان کر رہا تھا کہ عمران بن حصین نے سنا تو فرمایا اے جوان ! سوچ کر حدیث بیان کرنا کیونکہ اس واقعہ میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا ، فرماتے ہیں کہ انہوں نے اس میں سے کسی بات کی بھی تردید نہ فرمائی۔

 

عذر اور مجبوری میں نماز کا وقت

 

محمد بن صباح، عبد العزیز بن محمد دراوردی، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، بسر بن سعید و اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جسے غروب شمس سے قبل عصر کی ایک رکعت کا بھی موقع مل گیا تو اس کو عصر مل گئی اور جسے طلوع شمس سے قبل صبح کی ایک رکعت بھی مل گئی تو (وہ ایسے ہی ہے کہ گویا) اس کو صبح کی نماز مل گئی۔

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح و حرملہ بن یحییٰ مصری، عبد اللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جسے طلوع فجر سے قبل صبح کی ایک رکعت مل گئی تو اس کو صبح کی نماز مل گئی اور جس کو غروب شمس سے قبل عصر کی ایک رکعت مل گئی تو (گو یا ایسے شخص کو بھی) نماز عصر مل گئی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔

 

عشاء سے قبل سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا منع ہے

 

محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید و محمد بن جعفر و عبد الوہاب، عوف، ابو منہال، سیار بن سلامہ، حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا پسند تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء سے قبل سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا ناپسند فرماتے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو نعیم، محمد بن بشار، ابو عامر، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن قاسم، قاسم، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء سے قبل سوئے نہ عشاء کے بعد باتیں کیں (یعنی یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سلم کا معمول تھا)۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید و اسحاق بن ابراہیم بن حبیب و علی بن منذر، محمد بن فضیل، عطاء بن سائب، شقیق، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں عشاء (کی نماز) کے بعد باتیں کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔

 

نماز عشاء کو عتمہ کہنے سے ممانعت

 

ہشام بن عمار و محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عبد اللہ بن ابی لبید، ابو  سلمہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا تمہاری نماز کے نام میں دیہاتی تم پر غالب نہ آئیں اس کا نام عشاء ہے اور وہ اندھیرے میں اونٹوں کا دودھ دوہتے ہیں۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، مغیرۃ بن عبد الرحمن، محمد بن عجلان، مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہاری نماز کے نام میں دیہاتی تم پر غالب نہ آئیں ایک روایت میں ہے یہ بھی فرمایا کہ اس کا نام عشاء ہی ہے اور دیہاتی عتمہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ تاریکی میں اونٹوں کا دودھ دوہتے ہیں۔

 

 

اذان کا بیان

 

اذان کی ابتداء

 

ابو عبید محمد بن عبید بن میمون مدنی، محمد بن سلمہ حرانی، محمد بن اسحاق ، محمد بن ابراہیم تیمی، محمد بن عبد اللہ بن زید، حضرت عبد اللہ بن زید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارادہ فرما لیا نرسنگا بجوانے کا اور حکم دیدیا ناقوس کی تیاری کا۔ پس وہ تراش لیا گیا تو عبد اللہ بن زید کو خواب دکھائی دیا کہتے ہیں میں نے دیکھا ایک مرد دو سبز کپڑے پہنے ہوئے ناقوس اٹھائے ہوئے ہے میں نے اس سے کہا اے اللہ کے بندے ! کیا یہ ناقوس بیچو گے؟ کہنے لگا تم اس کو کیا کرو گے؟ میں نے کہا میں اس کے ذریعہ نماز کا اعلان کروں گا کہنے لگا میں تمھیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ میں نے کہا اس سے بہتر کیا ہے؟ کہنے لگا تم یوں کہوں (اذان مکمل) کہتے ہیں میں (بیدار ہونے پر) نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر خواب سنایا ، عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے دو سبز کپڑوں میں ملبوس ایک مرد دیکھا جس نے ناقوس اٹھایا ہوا ہے اور سارا خواب بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے ساتھی نے ایک (اچھا) خواب دیکھا تم بلال کے ساتھ مسجد جاؤ اور بلال اذان دے کیونکہ اس کی آواز تم سے بلند ہے۔ کہتے ہیں میں بلال کے ساتھ مسجد گیا ، میں ان کو سکھاتا جاتا اور وہ پکارتے جاتے کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے یہ آواز سنی تو آئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول ! بخدا میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا جیسا اس نے دیکھا۔ امام ابن ماجہ کے استاذ ابو عبید کہتے ہیں مجھے ابو بکر حکمی نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن زید انصاری نے اس بارے میں یہ اشعار کہے میں بزرگی اور احسان کرنے والے اللہ کی حمد و تعریف کرتا ہوں اور بہت تعریف اذان سکھانے پر جب خوشخبری دینے والا فرشتہ اللہ کی جانب سے میرے پاس اذان لایا ، میرے نزدیک کیسا عزت والا خوشخبری سنانے والا ہے ، تین رات مسلسل میرے پاس آیا اور جب بھی آیا میرے عزت اور وقار میں اضافہ کر گیا۔

 

٭٭ محمد بن خالد بن عبد اللہ واسطی، خالد بن عبد اللہ واسطی، عبد الرحمن بن اسحاق ، زہری، سالم، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے مشورہ طلب کیا اس چیز کے متعلق جو لوگوں کو نماز کی طرف متوجہ کرے لوگوں نے بوق (نرسنگا) کا تذکرہ کیا آپ نے یہود کی (مشابہت کی) وجہ سے اسے ناپسند کیا ، پھر ناقوس کا ذکر کیا آپ نے انصاری (کی مشابہت) کی وجہ سے اسے ناپسند کیا، پھر اسی رات ایک انصاری مرد جن کا نام عبد اللہ بن زید ہے اور حضرت عمر کو اذان دکھائی گئی تو انصاری رات ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلال کو اذان دینے کا حکم دیا ، انہوں نے اذان دی۔ زہری فرماتے ہیں بلال نے اذان فجر میں (الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنْ النَّوْمِ) کا اضافہ فرمایا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس اضافے کو برقرار رکھا ، عمر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے ایسا ہی خواب دیکھا جیسا اس نے دیکھا لیکن یہ مجھ سے سبقت لے گیا۔

 

اذان میں ترجیع

 

محمد بن بشار و محمد بن یحییٰ، ابو عاصم، ابن جریج، عبد العزیز بن عبد الملک بن ابی محذورۃ ، حضرت عبد اللہ بن محیریز سے روایت ہے اور وہ یتیم تھے حضرت ابو محذورہ کی گود میں جب ابو محزورہ نے عبد اللہ کو سامان دے کر شام کی طرف روانہ کیا تو (عبد اللہ نے کہا کہ) میں نے ابو محذورہ سے پوچھا چچا جان میں شام کے لئے روانہ ہو رہا ہوں اور میں آپ سے اذان کے متعلق پوچھتا ہوں انہوں نے مجھے بتایا کہ میں کچھ ساتھیوں کے ساتھ نکلا ہم راستے میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مؤذن نے نماز کے لئے اذان دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب ہی ہم نے مؤذن کی آواز سنی اس وقت ہم اذان سے دور تھے (یعنی مسلمان نہ ہوئے تھے ) ہم استہزاء چیخ چیخ کر اس کی نقل اتارنے لگے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہماری آواز سنی تو کچھ لوگوں کو بھیجا ہماری طرف، انہوں نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لا بیٹھایا تو ، فرمایا تم میں سے کس کی آواز میں نے سنی جو بلند تھی تو سب ساتھیوں نے میری طرف اشارہ کیا اور سچ ہی کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا اور مجھ سے فرمایا کھڑے ہو کر اذان دو میں کھڑا ہوا میری یہ حالت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ اور اس اذان سے زیادہ جس کا مجھے آپ نے حکم دیا کوئی چیز ناپسندیدہ نہ تھی پھر بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کھڑا ہو گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بذات خود مجھے اذان کہلوائی ، فرمایا کہواللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ پھر مجھ سے کہا اپنی آواز بلند کرو أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ۔ پھر جب میں نے اذان مکمل کر لی تو مجھے بلا کر ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی پھر میری پیشانی پر اپنا دست مبارک رکھا اور میری چہرہ سینہ و کلیجہ پر ہاتھ پھیرا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہاتھ میری ناف کے قریب تک پہنچا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی تمہیں برکت دے اور تمہارے اوپر برکت دے ، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ نے مجھے مکہ میں اذان پر مامور فرمایا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ! میں نے تمہیں مامور کیا ، اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نفرت میرے دل سے نکل گئی اور وہ سب نفرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت میں بدل گئی میں وہاں سے مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عامل حضرت عتاب بن سید کے پاس گیا اور ان کے ساتھ میں نے نماز کے لئے اذان دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کے مطابق ، عبد العزیز بن عبد الملک بن ابی محذورہ کہ ایک اور صاحب جو ابو محذروہ رضی اللہ عنہ سے ملے تھے نے اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح عبد اللہ بن محیریز نے بیان کی۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، ہمام بن یحییٰ، عامر احول، عبد اللہ بن محیریز، حضرت ابو محزورہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اذان کے انیس کلمات اور اقامت کے سترہ کلمات تعلیم فرمائے ، اذان اس طرح تعلیم فرمائی اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے۔

 

اذان کا مسنون طریقہ

 

ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد، مؤذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کانوں میں انگلیاں ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا اس کی وجہ سے تمہاری آواز بلند رہے گی۔

 

٭٭ ایوب بن محمد ہاشمی، عبد الواحد بن زیاد، حجاج بن ارطاۃ، عون بن حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ابطح (منیٰ میں ایک جگہ) میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ سرخ قبہ میں تھے حضرت بلال رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور اذان دی تو اذان میں (کے وقت) گھومے اور دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں ڈالیں۔

 

٭٭ محمد بن مصفی حمصی، بقیہ، مروان بن سالم، عبد العزیز بن ابی رواد، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمانوں کی دو چیزیں مؤذنوں کی گردنوں میں معلق ہیں نمازیں اور روزے۔

 

٭٭ محمد بن مثنی، ابو داؤد، شریک، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان وقت سے مؤخر نہیں کرتے تھے البتہ کبھی کبھی اقامت کچھ مؤخر دیتے تھے

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، اشعث، حسن، حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آخری وصیت مجھے یہ تھی کہ ایسا مؤذن مقرر نہ کروں جو اذان کی اجرت لے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبد اللہ اسدی، ابو اسرائیل، حکم، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ فجر میں تثویب کرنے کا حکم دیا اور عشاء میں تثویب (اَلصَّلوٰۃُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ کہنے ) سے منع فرمایا۔

 

٭٭ عمر بن رافع، عبد اللہ بن مبارک، معمر، زہری، سعید بن مسیب، حضرت بلال سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس نماز فجر کی اطلاع دینے کے لئے آئے (کہ جماعت تیار ہے ) گھر والوں نے کہا آپ سو رہے ہیں ، بلال نے کہا (نماز نیند سے بہتر ہے ) پھر فجر کی اذان میں یہ کلمہ مقرر ہوا اور یہی حکم جاری رہا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یعلی بن عبید، افریقی، زیاد بن نعیم، حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا۔ آپ نے مجھے حکم دیا تو میں نے اذان دی حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنا چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صدائی بھائی نے اذان دی ہے اور جو اذان دیتا ہے وہی اقامت کہتا ہے۔

 

٭٭ ابو اسحاق شافعی ابراہیم بن محمد بن عباس، عبد اللہ بن رجاء مکی، عباد بن اسحاق ، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب مؤذن اذان دے تو تم اسی جیسے الفاظ کہو (یعنی ساتھ ، ساتھ دہراؤ)۔

 

٭٭ شجاع بن مخلد ابو الفضل، ہشیم، ابو بشر، ابو ملیح بن اسامہ، عبد اللہ بن عتبہ بن ابی سفیان، حضرت امّ حبیبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب دن اور رات میں ان کی باری میں ان کے پاس ہوتے اور مؤذن کو اذان دیتا سنتے تو وہی کلمات ادا فرماتے (یعنی دہراتے ) جو مؤذن کہتا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و ابو کریب، زید بن حباب، مالک بن انس، زہری، عطاء بن یزید لیثی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم اذان سنو تو اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہہ رہا ہو۔

 

٭٭ محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، حکیم بن عبد اللہ بن قیس، عامر بن سعد بن ابی وقاص، حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے مؤذن کی آواز سن کر یہ کہا اس کے گناہ (مذکورہ کلمات پڑھنے سے ) بخش دیئے جائیں گے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ و عباس بن ولید دمشقی و محمد بن ابی حسین، علی بن عیاش الہانی، شعیب بن ابی حمزہ، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اذان سن کر یہ کلمات کہے اے اللہ ! اس پوری پکار کے ربّ ! اس قائم ہونے والی نماز کے مالک ! محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وسیلہ عطا فرما اور فضیلت اور ان کو مقام محمود پر پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔ تو اس شخص کے لئے قیامت کے روز شفاعت لازم ہو گئی۔

 

اذان کی فضیلت اور اذان دینے والوں کا ثواب

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی صعصعہ، حضرت ابو صعصعہ فرماتے ہیں کہ اور وہ ابو سعید خدری کی پرورش میں تھے کہ ابو سعید خدری نے مجھ سے فرمایا جب تو صحرا میں ہو تو بلند آواز سے اذان کہہ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ جو بھی جن ہو یا انسان شجر ہو یا حجر اذان سنے گا تو اس کی شہادت دے گا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، شعبہ، موسیٰ بن ابی عثمان، ابو یحییٰ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا مؤذن کی بخشش کی جاتی ہے جہاں تک اس کی آواز پہنچتی ہے اور اس کے لئے ہر خشک و تر چیز بخشش طلب کرتی ہے اور جو نماز میں شریک ہو اس کے لئے پچیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دو نمازوں کے درمیان کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

 

٭٭ محمد بن بشار و اسحاق بن منصور، ابو عامر، سفیان، عثمان، طلحہ بن یحییٰ، عیسیٰ بن طلحہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے روز سب سے زیادہ لمبی (اور عزت کی وجہ سے ) اونچی گردن والے مؤذنین ہوں گے۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، حسین بن عیسیٰ برادر سلیم قاری، حکم بن ابان، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے بہترین لوگ اذان دیا کریں اور عمدہ قرأت والے نماز پڑھا یا کریں

 

٭٭ ابو کریب، مختار بن غسان، حفص بن عمر ازرق برجمی، جابر، عکرمہ، ابن عباس روح بن فرج، علی بن حسن بن شقیق، ابو حمزہ، جابر، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو ثواب کی امید سے سات سال اذان دے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دوزخ سے نجات کا پروانہ لکھ دیتے ہیں۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ و حسن بن علی خلال، عبد اللہ بن صالح، یحییٰ بن ایوب، ابن جریج، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو بارہ سال اذان دے اس کے لئے جنت واجب ہو گئی اور اذان دینے کی وجہ سے ہر روز ساٹھ نیکیاں لکھی جائیں گی اور ہر بار اقامت کی وجہ سے تیس نیکیاں۔

 

٭٭ عبد اللہ بن جراح، معتمر بن سلیمان، خالد حذاء، ابو قلابہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے تلاش کی ایسی چیز جس کے ذریعے نماز کی اطلاع دیا کریں تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ کلمات اذان دو دو بار کہیں اور کلمات اقامت ایک ایک بار۔

 

کلمات اقامت ایک ایک بار کہنا

 

نصر بن علی جہضمی، عمر بن علی، خالد حذاء، ابو قلابہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کلمات اذان دو دو بار اور کلمات اقامت ایک ایک بار کہنے کا حکم دیا گیا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن سعد، عمار بن سعد، مؤذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان دو بار تھی اور اقامت ایک بار۔

 

٭٭ ابو بدر عباد بن ولید، معمر بن محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اذان دو دو بار اور اقامت ایک بار کہتے تھے۔

 

 

جب کوئی مسجد میں ہو اور اذان ہو جائے تو ( نماز پڑھنے سے قبل) سے باہر نہ نکلے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، ابراہیم بن مہاجر، حضرت ابو الشعثاء کہتے ہیں ہم مسجد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ مؤذن نے اذان دی تو ایک صاحب مسجد سے اٹھ کر چلنے لگے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی نگاہ ان پر لگائے رکھی حتیٰ کہ وہ مسجد سے نکل گئے پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس شخص نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نافرمانی کی۔

 

٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، عبد الجبار بن عمر، ابن ابی فروۃ، محمد بن یوسف مولیٰ عثمان بن عفان، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کے مسجد میں ہوتے ہوئے اذان ہو جائے پھر وہ مسجد سے بلا ضرورت نکل جائے اور واپس آنے کا ارادہ بھی نہ ہو تو وہ منافق ہے۔

 

 

 

مساجد اور جماعت کا بیان

 

اللہ کی رضا کے لئے مسجد بنا نے والے کی فضیلت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد، لیث بن سعد ابو بکر بن ابی شیبہ، داؤد بن عبد اللہ جعفر، عبد العزیز بن محمد، یزید بن عبد اللہ بن اسامہ بن ہاد، ولید بن ابو ولید، عثمان بن عبد اللہ بن سراقہ عدوی ، خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا جو مسجد بنائے جس میں اللہ کا ذکر (نماز ، تلاوت ، تسبیح ، وعظ، درس و تدریس ، افتاء وغیرہ) ہو۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے گھر تیار فرمائیں گے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو بکر حنفی، عبد الحمید بن جعفر، محمود بن لبید، حضرت خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ویسا ہی (ممتاز اور مقدس) گھر جنت میں تیار فرمائیں گے۔

 

٭٭ عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، ابن لہیعہ، ابو الاسود، عروۃ، حضرت خلیفہ چہارم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے لئے مسجد بنائے اپنے مال سے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے گھر بنائیں گے۔

 

٭٭ یونس بن عبد الاعلیٰ، عبد اللہ بن وہب، ابراہیم بن نشیط، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن حسین نوفلی، عطاء بن ابی رباح، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے کبوتر کے گھونسلے کے برابر بھی مسجد بنائی (یعنی کسی درجہ میں بھی شرکت مسجد کی تعمیر میں لی) اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر تیار کروائیں گے۔

 

مسجد کو آراستہ اور بلند کرنا

 

عبد اللہ بن معاویہ جمحی، حماد بن سلمہ، ایوب، ابو قلابہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی حتیٰ کہ لوگ فخر کرنے لگیں مساجد کی وجہ سے۔

 

٭٭ جبارۃ بن مغلس، عبد الکریم بن عبد الرحمن بجلی، لیث، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بعد تم اپنی مساجد کو بلند و بالا تعمیر کرو گے جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنے گرجا گھروں اور عبادت خانوں کو بلند و بالا تعمیر کیا۔

 

٭٭ جبارۃ بن مغلس، عبد الکریم بن عبد الرحمن بجلی، ابو  اسحاق ، عمرو بن میمون، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس قوم کا عمل خراب ہو جائے وہ مسجدوں کو مزین کرنا شروع کر دیتی ہے۔

 

مسجد کس جگہ بنانا جائز ہے؟

 

علی بن محمد، وکیع، حماد بن سلمہ، ابو الثیاح ضبعی، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ مسجد بنوی کی جگہ بنو نجار کی تھی اس میں کھجور کے درخت اور مشرکین کی قبریں تھیں ، آپ نے فرمایا تم مجھ سے اس جگہ کی قیمت وصول کر لو، انہوں نے کہا ہم کبھی بھی اس کی قیمت وصول نہ کریں گے۔ فرمایا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود اس مسجد کو تعمیر فرما رہے تھے اور لوگ (صحابہ) آپ کو سامان (اینٹ پتھر وغیرہ) پکڑا رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ فرماتے جا رہے تھے سن لو زندگی تو بس آخرت کی ہی ہے پس (اے اللہ) انصار و مہاجرین سب کی بخشش فرما دے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد کی تعمیر سے قبل جہاں نماز کا وقت ہوتا وہیں نماز ادا فرما لیتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو ہمام دلال، سعید بن سائب، محمد بن عبد اللہ بن عیاض، حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو حکم دیا طائف میں مسجد ایسی جگہ بنائیں جہاں طائف والوں کا بت تھا۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عمرو بن عثمان، موسیٰ بن اعین، محمد بن اسحاق ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا باغ میں کھاد نجاست ڈالی جاتی ہے (وہاں نماز پڑھنا کیسا ہے ) فرمایا جب اسے بار بار سینچا جا چکے تو اس میں نماز پڑھ سکتے ہو اور انہوں نے اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف فرمائی۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، یزید بن ہارون، سفیان، عمرو بن یحییٰ، یحییٰ، عمرو بن یحییٰ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا تمام زمین سجدہ گاہ ہے سوائے قبرستان اور حمام کے۔

 

٭٭ محمد بن ابراہیم دمشقی، عبد اللہ بن یزید، یحییٰ بن ایوب، زید بن جبیرۃ، داؤد بن حصین، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات جگہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا گھورے میں (جہاں نجاست لید یا کچرا وغیرہ پڑا رہتا ہے ) ذبح خانے میں ، قبرستان میں سڑک پر حمام میں اونٹوں کے باڑے میں اور کعبہ کے اوپر۔

 

٭٭ علی بن داؤد و محمد بن ابی حسین، ابو صالح، لیث، نافع، ابن عمر، خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سات جگہوں میں نماز پڑھنا جائز نہیں بیت اللہ کی چھت پر ، قبرستان میں گھورے میں ذبح خانہ میں حمام میں اونٹوں کے باڑے میں اور راستے کے درمیان۔

 

جو کام مسجد میں مکروہ ہیں

 

یحییٰ بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار حمصی، محمد بن حمیر، زید بن جبیرۃ انصاری، داؤد بن حصین، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کچھ کام مسجد میں نہیں ہونے چاہئیں مسجد کو گزرگاہ نہ بنایا جائے اس میں ہتھیار نہ سونتا جائے کمان نہ پکڑی جائے تیر نہ پھیلائے جائیں (نکالے جائیں ) کچا گوشت لے کر نہ گزرا جائے حد مسجد کے اندر نہ لگائی جائے کسی سے مسجد میں قصاص نہ لیا جائے مسجد کو بازار نہ بنایا جائے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید کندی، ابو خالد احمر، ابن عجلان، عمرو بن شعیب، شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد میں خرید و فروخت سے اور (دنیوی) اشعار پڑھنے سے منع فرمایا۔

 

٭٭ احمد بن یوسف سلمی، مسلم بن ابراہیم، حارث بن نبہان، عتبہ بن یقظان، ابو سعید، مکحول، حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بچاؤ اپنی مسجدوں کو ناسمجھ بچوں سے اور دیوانوں سے اور خرید و فروخت سے اور اپنے جھگڑوں سے اور آوازیں بلند کرنے سے اور حدود (اسلامی سزائیں ) قائم کرنے سے اور تلوار سونتنے سے اور مسجد کے دروازوں پر طہارت کی جگہ بناؤ اور جمعہ کے دن مسجد کو دھونی دو۔

 

مسجد میں سونا

 

اسحاق بن منصور، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں مسجد میں بھی سو جایا کرتے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حسن بن موسی، شیبان بن عبد الرحمن، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو  سلمہ بن عبد الرحمن، یعیش بن قیس بن ظخفہ، حضرت قیس بن طخفہ رضی اللہ عنہ جو اصحاب صفہ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں ارشاد فرمایا چلو! تو ہم چلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف اور ہم نے کھایا ، پیا پھر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر چاہو تو یہیں سو جاؤ اور چاہو تو مسجد میں چلے جاؤ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا ہم مسجد ہی چلتے ہیں (وہیں سو جائیں گے )۔

 

 

کون سی مسجد پہلے بنائی گئی؟

 

علی بن میمون رقی، محمد بن عبید علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم تیمی، ان کے والد، حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کون سی مسجد پہلے بنائی گئی۔ فرمایا مسجد حرام ، فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سی؟ فرمایا مسجد اقصیٰ میں نے عرض کیا ان دونوں کے درمیان کتنی مدت تھی فرمایا چالیس سال اس کے بعد تمام زمین تمہارے لئے نماز کی جگہ ہے جہاں نماز کا وقت ہو وہیں پڑھ لو۔

 

گھروں میں مساجد

 

ابو مروان محمد بن عثمان، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، حضرت محمود بن ربیع انصاری سے روایت ہے کہ جن کو یاد تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ڈول سے پانی لے کر ان کے کنویں میں کلی کی تھی ، وہ روایت کرتے ہیں حضرت عثمان بن مالک سلمی سے جو کہ اپنی قوم بنو سالم کے امام تھے اور غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک بھی ہوئے تھے فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! میری نگاہ کمزور ہو چکی ہے اور سیلاب آتا ہے تو میرے (گھر) اور میری قوم کی مسجد کے درمیان حائل بن جاتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رائے ہو تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ہاں تشریف لایئے اور میرے گھر میں اس جگہ نماز پڑھئے جسے میں مستقل نماز کی جگہ بنانا چاہتا ہوں۔ فرمایا ٹھیک ہے دوسرے دن ، دن ہونے کے بعد آپ اور حضرت ابو بکر تشریف لائے اور اجازت طلب فرمائی میں نے اجازت دی تو آپ بیٹھنے بھی نہیں پائے اور فرمایا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ مجھ سے نماز پڑھوانا چاہتے ہو؟ میں جس جگہ نماز پڑھوانا چاہتا تھا اس کی طرف اشارہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صفیں قائم کر لیں آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی ، پھر میں نے آپ کو ٹھہرائے رکھا ، حلیم کیلئے جو آپ کیلئے تیار ہو رہا تھا۔

 

٭٭ یحییٰ بن فضل مقری، ابو عامر، حماد بن سلمہ، عاصم، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائیں اور میرے گھر میں مسجد کے خط کھینچ دیجئے جہاں میں نماز پڑھوں اور اس وقت وہ نابینا ہو چکے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لے گئے اور ایسا کیا۔

 

٭٭ یحییٰ بن حکیم، ابن ابی عدی، ابن عون، انس بن سیرین، عبد الحمید بن منذر بن جارود، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے ایک چچا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے کھانا تیار کروایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے گھر کھانا تناول فرمائیں اور نماز ادا فرمائیں۔ فرماتے ہیں کہ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لے گئے گھر میں ایک چٹائی تھی جو پرانی ہو کر کالی ہو چکی تھی۔ آپ نے نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی۔

 

مساجد کو پاک صاف رکھنا

 

ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن سلیمان بن ابی الجون، محمد بن صالح مدنی، مسلم بن ابی مریم، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے مسجد سے ناپاک چیز کو نکال پھینکا اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر تیار کروائیں گے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن بشر بن حکم و احمد بن ازہر، مالک بن سعیر، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محلوں میں نماز کی جگہ بنانے کا اور اس کو پاک صاف اور معطر رکھنے کا حکم دیا۔

 

٭٭ رزق اللہ بن موسی، یعقوب بن اسحاق حضرمی، زائدہ بن قدامہ، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ اپنے اپنے محلوں میں مسجدیں بنائیں اور ان کو پاک صاف معطر رکھیں

 

٭٭ احمد بن سنان، ابو معاویہ، خالد بن ایاس، یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سب سے پہلے مسجد میں چراغ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے روشن کیا۔

 

مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے

 

محمد بن عثمان عثمانی ابو مروان، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، حمید بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد کی دیوار میں بلغم دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کنکری اٹھائی اور اس کو کھرچ ڈالا پھر ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی بلغم تھوکنے لگے تو منہ کے سامنے اور دائیں طرف نہ تھوکے بلکہ بائیں طرف یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔

 

٭٭ محمد بن طریف، عائذ بن حبیب، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد کے قبلہ کی دیوار میں بلغم دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غصہ آیا حتیٰ کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا تو ایک انصاری عورت آئیں اور اس کو کھرچ کر اس کی جگہ خوشبو لگائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کیا خوب کام ہے۔

 

٭٭ محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا آپ نے اس کو رگڑ ڈالا پھر سلام پھیرنے کے بعد فرمایا جب تم میں سے کوئی ایک نماز میں ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتے ہیں۔ اس لئے نماز میں سامنے کی طرف کوئی بھی بلغم نہ تھوکے۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد کے قبلہ سے بلغم کو کھرچ ڈالا۔

 

مسجد میں گم شدہ چیز پکار کر ڈھونڈ نے کی ممانعت

 

علی بن محمد، وکیع، ابو سنان، سعید بن سنان، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن بریدہ، حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی تو ایک شخص نے کہا کسی نے سرخ اونٹ کی طرف پکارا تھا؟ (یعنی کسی کو سرخ اونٹ ملا تھا کہ اس نے مجھے اس کے ملنے کی اطلاع دی تھی؟) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تجھے وہ اونٹ نہ ملے ، مساجد تو جس کام کیلئے بنیں ، اسی کام کے لئے نبی ہیں۔

 

٭٭ محمد بن رمح، ابن لہیعہ، ابو کریب، خاتم بن اسماعیل، ابن عجلان، عمرو بن شعیب، شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گم شدہ چیز کے لئے مسجد میں اعلان فرمانے سے منع فرمایا ہے۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد بن وہب، حیوۃ بن شریح، محمد بن عبد الرحمن اسدی، ابو اسود، ابو عبد اللہ مولی شداد بن ہاد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا جو کسی شخص کو سیکھے کہ گم شدہ چیز  کا اعلان مسجد میں کر رہا ہے تو اس کو کہے نہ لوٹائے تجھ پر اللہ تعالیٰ (وہ چیز) اس لئے کہ مساجد اس کام کے لئے نہیں بنیں۔

 

اونٹوں اور بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ابو بشر بکر بن خلف، یزید بن زریع، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تم کو اونٹوں اور بکریوں کے باڑے کے علاوہ کوئی اور جگہ نماز پڑھنے کیلئے نہ ملے تو بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھو اور اونٹوں کے باڑے میں نماز نہ پڑھو۔ (کیونکہ ان سے جان کا خطرہ ہے جب کہ بکریوں سے ایسا نہیں ہے ویسے بھی اونٹ کی سرشت میں شرارت اور کینہ ہے )

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو نعیم، یونس، حسن، حضرت عبد اللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لو لیکن اونٹوں کے باڑے میں نماز نہ پڑھو کیونکہ ان کی خلقت میں شیطنت ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، عبد الملک بن ربیع بن معبد جہنی، حضرت معبد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اونٹوں کے باڑے میں نماز نہ پڑھی جائے اور بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھی جا سکتی ہے

 

مسجد میں داخل ہونے کی دعا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن ابراہیم و ابو معاویہ، لیث، عبد اللہ حسن، حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے (بِسْمِ اللَّہِ وَالسَّلَامُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ) اللہ کا نام لے کر داخل ہوتا ہوں اور سلامتی ہو اللہ کے رسول پر ، اے اللہ ! میرے گناہ معاف فرما دیجئے اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیجئے اور جب مسجد سے باہر آتے تو (بِسْمِ اللَّہِ وَالسَّلَامُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِکَ) یہ دعا پڑھتے اللہ کا نام لے کر مسجد سے نکل رہا ہوں اور سلامتی ہو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اے اللہ ! میرے گناہ بخش دیجئے اور میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دیجئے۔

 

٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار حمصی و عبد الوہاب بن ضحاک، اسماعیل بن عیاش، عمارۃ بن غزیہ، ربیعہ بن عبد الرحمن، عبد الملک بن سعید بن سوید انصاری، حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام بھیجے پھر یہ کلمات کہے (اللَّہُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ) اور جب مسجد سے باہر نکلے تو یوں کہے (فَلْیَقُلْ اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ)۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو بکر حنفی، ضحاک بن عثمان، سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام بھیجے اور یہ کہے (اللَّہُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ) اور جب مسجد سے نکلے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام بھیجے اور کہے (اللَّہُمَّ اعْصِمْنِی مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ) اے اللہ ! مجھے شیطان مردود سے محفوظ رکھئے۔

 

نماز کے لئے چلنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی خوب عمدگی سے وضو کرے پھر مسجد کو آئے اس کو نماز ہی نے (گھر سے ) اٹھایا اور اس کا ارادہ صرف نمازی کاہے تو ہر قدم پر اس کا ایک درجہ اللہ تعالیٰ بلند فرما دیتے ہیں اور اس کی ایک خطاء معاف فرما دیتے ہیں حتیٰ کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے اور جب تک نماز اس کو روکے رکھے۔

 

٭٭ ابو مروان عثمانی محمد بن عثمان، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، سعید بن مسیب و ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب نماز قائم ہونے کا وقت ہو تو دوڑ دوڑ کر مسجد میں مت آؤ بلکہ اطمینان کے ساتھ چل کر نماز کے لئے آؤ اور جتنی نماز جماعت کے ساتھ مل جائے وہ با جماعت پڑھ لو اور جو رکعات نکل جائیں وہ بعد میں اکیلے پڑھ لو

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابی بکیر، زہیر بن محمد، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، سعید بن مسیب، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کیا میں تمہیں وہ اعمال بتاؤں جن کی بدولت اللہ تعالیٰ خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں اور نیکیوں (کے ثواب) میں اضافہ فرما دیتے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! فرمایا طبعی ناگواریوں کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کرنا اور مسجد کی طرف قدموں کی کثرت اور نماز کے بعد اگلی نماز کا انتظار۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابراہیم ہجری، ابو احوص، حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں جسے یہ پسند ہو کہ کل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مسلمان ہو کر حاضر تو وہ ان پانچ نمازوں کو اس جگہ ادا کرنے کا اہتمام کرے جہاں اذان ہوتی ہو (جماعت سے نماز ہوتی ہو) اس لئے کہ یہ ہدایت کا حصہ اور ذریعہ ہیں اور اللہ تعالی نے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہدایت کے طریقے مشروع فرمائے ہیں اور میری زندگی کی قسم ! اگر تم سب کے سب اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھنا شروع کر دو تو تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے (جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے ) طریقے کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طریقے کو چھوڑ دو گے تو تم گمراہ ہو جاؤ گے اور ہم اپنے لوگوں کو دیکھتے تھے کہ جماعت سے وہی رہ جاتا تھا جو کھلا منافق ہوتا اور میں نے دیکھا کہ ایک مرد دو مردوں کے سہارے آتا حتیٰ کہ صف میں داخل ہو جاتا اور جو شخص بھی عمدگی سے طہارت حاصل کرے پھر مسجد کا قصد کرے اور مسجد میں نماز ادا کرے تو ہر قدم پر اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند فرما دیتے ہیں اور اس کی خطا معاف فرما دیتے ہیں۔

 

٭٭ محمد بن سعید بن یزید بن ابراہیم تستری، فضل بن موفق ابو الجہم، فضیل بن مرزوق، عطیہ، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اپنے گھر سے نماز کے لئے نکلے تو (اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِحَقِّ السَّائِلِینَ عَلَیْکَ وَأَسْأَلُکَ بِحَقِّ مَمْشَایَ ہَذَا فَإِنِّی لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا وَلَا بَطَرًا وَلَا رِیَائً وَلَا سُمْعَۃً وَخَرَجْتُ اتِّقَائَ سُخْطِکَ وَابْتِغَائَ مَرْضَاتِکَ فَأَسْأَلُکَ أَنْ تُعِیذَنِی مِنْ النَّارِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِی ذُنُوبِی إِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ) یہ کلمات کہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف پوری توجہ فرماتے ہیں اور اس کے لئے ستر ہزار فرشتے بخشش طلب کرتے ہیں (ترجمہ) اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں اس حق کی وجہ سے جو مانگنے والوں کا آپ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور آپ سے سوال کرتا ہوں اپنے اس چلنے کے حق کی وجہ سے کیونکہ میں غرور اور اترانے اور دکھانے اور سنانے (شہرت) کی ظاہر نہیں نکلا بلکہ میں آپ کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اور آپ کی رضا جوئی کے لئے نکلا ہوں تو میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے دوزخ سے بچا دیں اور میرے گناہوں کو بخش دیں کیونکہ گناہوں کو آپ کے علاوہ کوئی نہیں بخشتا۔

 

٭٭ راشد بن سعید بن راشد رملی، ولید بن مسلم، ابو رافع اسماعیل بن رافع، سمی مولی ابی بکر ، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تاریکیوں میں مسجد کی طرف چلنے کے عادی ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت میں غوطے مارنے والے ہیں۔

 

٭٭ ابراہیم بن محمد حلبی، یحییٰ بن حارث شیرازی، زہیر بن محمد تمیمی، ابو حازم، سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تاریکی میں چلنے کے عادی لوگوں کو قیامت کے دن کامل نور کی خوشخبری دے دو۔

 

٭٭ مجزاۃ بن سفیان بن اسید مولیٰ ثابت بنانی، سلیمان داؤد صائغ، ثابت بنانی، حضرت انس سے گزشتہ حدیث جیسے الفاظ مذکور ہیں

 

مسجد سے جو جتنا زیادہ دور ہو گا اس کو اتنا زیادہ ثواب ملے گا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابن ابی ذئب، عبد الرحمن بن مہران، عبد الرحمن بن سعد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسجد سے جو شخص جس قدر دور ہو گا اسی قدر اس کا ثواب زیادہ ہو گا

 

٭٭ احمد بن عبدۃ، عباد بن عباد مہلبی، عاصم احول، ابو عثمان نہدی، حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ ایک انصاری کا مکان مدینہ میں سب سے زیادہ مسجد سے دور تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ان کی کوئی نماز بھی نہیں چھوٹتی تھی (بلکہ سب نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں با جماعت ادا کرتے تھے ) فرماتے ہیں میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا ارے صاحب اگر آپ ایک توانا گدھا خرید لیں تو گرمی سے بچ جائیں اور گرنے اور ٹھوکر لگنے سے بچ جائیں اور (رات کو) حشرات الارض اور موذی چیزوں سے بچ جائیں۔ انہوں نے کہا بخدا! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میرا گھر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دولت کدہ کے ساتھ ہوا ہو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کا تذکرہ کیا (کہ عجیب مسلمان ہے کہ آپ کے گھر کے ساتھ رہنا  اس کو پسند نہیں ) تو آپ نے  اس کو بلایا اور اس سے دریافت کیا، اس نے آپ کے سامنے بھی ایسی بات کہی اور عرض کیا مجھے قدموں کے نشانات پر (ثواب کی) امید ہے۔ آپ نے فرمایا جس بات کی تم نے امید رکھی وہ تمہیں حاصل ہو گی۔

 

٭٭ ابو موسیٰ محمد بن مثنی، خالد بن حارث، حمید، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ بنو سلمہ نے چاہا کہ اپنے (قدیمی) گھر چھوڑ کر مسجد نبوی کے قریب آ بسیں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ کے اجڑنے کو پسند نہیں کیا (کیونکہ اگر وہ تمام قبیلہ شہر میں آ جاتا تو مدینہ کی ایک جانب بے آباد ہو جاتی) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بنو سلمہ کیا تم نشانات قدم کا ثواب نہیں چاہتے؟ اس پر وہ وہیں ٹھہر گئے۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، اسرائیل، سماک، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ انصار کے گھر مسجد سے فاصلہ پر تھے انہوں نے چاہا کہ مسجد کے قریب آ جائیں تو یہ آیت نازل ہوئی (وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ) 36۔یس:12)  فرماتے ہیں انصار پھر وہیں ٹھہر گئے۔

 

با جماعت نماز کی فضیلت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مرد کا با جماعت نماز ادا کرنا گھر یا بازار میں (اکیلے ) نماز ادا کرنے سے بیس سے کئی زیادہ درجے افضل ہے۔

 

٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جماعت (سے نماز پڑھنے ) کی فضیلت تنہا نماز سے پچیس حصے زیادہ ہے۔

 

٭٭ ابو کریب، ابو معاویہ، ہلال بن میمون، عطاء بن یزید، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مرد کا با جماعت نماز ادا کرنا ، مرد کے تنہا نماز ادا کر نے سے ستائیس درجے افضل ہے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن عمر رستہ، یحییٰ بن سعید، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مرد کا با جماعت نماز ادا کرنا مرد کے تنہا نماز ادا کرنے سے چوبیس یا پچیس درجے بڑھ کر ہے۔

 

٭٭ محمد بن معمر، ابو بکر حنفی، یونس بن ابی اسحاق ، ابو  اسحاق ، عبد اللہ بن ابی بصیر، ابو بصیر، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مرد کا با جماعت نماز ادا کرنا ، مرد کے تنہا نماز ادا کر نے سے چوبیس یا پچیس درجے بڑھ کر ہے۔

 

(بلاوجہ ) جماعت چھوٹ جانے پر شد ید وعید

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے ارادہ کیا کہ لوگوں کو نماز کا کہوں تو جماعت قائم ہو جائے (یعنی تکبیر ہو) پھر میں کسی مرد کو حکم دوں وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں کچھ مردوں کو ساتھ لے کر چلوں جن کے پاس لکڑی کے گٹھے ہوں ان لوگوں کے پاس جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے پھر ان کے گھروں کو ان سمیت جلا ڈالوں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، زائدہ، عاصم، ابو رزین، حضرت ابن ام مکتوم فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں سن رسیدہ ہوں ، نابینا ہوں میرا گھر بھی دور ہے میرے پاس کوئی رہبر بھی نہیں جو میرا ساتھ دے (اور مجھے مسجد تک لائے ) تو کیا مرے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رخصت پاتے ہیں؟ فرمایا تم اذان سنتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی فرمایا میں تمہارے لئے رخصت نہیں پاتا۔

 

٭٭ عبد الحمید بن بیان واسطی، ہشیم، شعبہ، عدی بن ثابت، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے اذان سنی پھر نماز کے لئے نہ آیا تو اس کی نماز ہی نہیں ہوئی الا یہ کہ اس کا عذر (شرعی) کی وجہ سے (جماعت چھوڑ دے )۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو اسامہ، ہشام دستوائی، یحییٰ بن کثیر، حکم بن میناء، حضرت ابن عباس اور ابن عمر فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (منبر کی) لکڑیوں پر یہ فرماتے ہوئے سنا کچھ لوگ جماعت چھوڑنے سے باز آ جائیں ورنہ خدا تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دیں گے پھر وہ یقیناً غافلوں میں سے ہو جائیں گے۔

 

٭٭ عثمان بن اسماعیل ہذلی دمشقی، ولید بن مسلم، ابن ابی ذئب، زبرقان بن عمرو ضمری، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کچھ مرد جماعت چھوڑنے سے باز آ جائیں ورنہ میں ان کے گھر جلا ڈالوں گا۔

 

عشاء اور فجر با جماعت ادا کرنا

 

عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن کثیر، محمد بن ابراہیم تیمی، عیسیٰ بن طلحہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ عشاء اور فجر کی نماز میں کیا (فضیلت و ثواب) ہے تو ان کے لئے (مسجد میں ) آئیں اگرچہ سرین کے بل گھسٹ گھسٹ کر ہی آنا پڑے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا منافقوں پر سب سے زیادہ بھاری نماز عشاء اور فجر ہیں اور اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ان میں کیا (فضیلت و ثواب) ہے تو وہ ان نمازوں کے لئے (مسجد میں ) آئیں اگرچہ سرین کے بل گھسٹ گھسٹ کر آنا پڑے۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، اسماعیل بن عیاش، عمارۃ بن غریہ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کرتے تھے جو چالیس راتیں مسجد میں با جماعت نماز ادا کرے اس کی عشاء میں پہلی رکعت فوت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیں گے۔

 

مسجد میں بیٹھے رہنا اور نماز کا انتظار کرتے رہنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تم میں کوئی مسجد میں داخل ہو جائے تو وہ (فضیلت اور ثواب کے حصول کے اعتبار سے ) نماز ہی میں ہوتا ہے جب تک نماز  اس کو روکے رکھے اور فرشتے تم میں سے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اس جگہ رہے جہاں اس نے نماز ادا کی اور کہتے رہتے ہیں اللہ اس کو بخش دیجئے اس پر رحم فرما دیئے اس کی توبہ قبول فرما دیئے جب تک اس کا وضو نہ ٹوٹے اور وہ کسی کو ایذاء نہ پہنچائے (اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے )۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، ابن ابی ذئب، مقبری، سعید بن یسار، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مسلمان مرد مسجد کو اپنا ٹھکانہ بنائے نماز اور ذکر کی خاطر اللہ تعالیٰ اس سے ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے غائب گھر آئے تو اس کے گھر والے خوش ہوتے ہیں۔

 

٭٭ احمد بن سعید دارمی، نضر بن شمیل، حماد، ثابت، ابو ایوب، حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتیہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز مغرب ادا کی تو کچھ لوگ لوٹ گئے اور کچھ وہیں رہ گئے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیزی سے چلتے ہوئے تشریف لائے (کہ تیز چلنے کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دم چڑھ گیا تھا اور کپڑا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھٹنوں سے ہٹ گیا تھا آپ نے فرمایا خوش ہو جاؤ یہ تمہارا رب ہے اس نے آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھولا ہے تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر فرماتا ہے اور کہتا ہے میرے بندوں کو دیکھو وہ فرض نماز ادا کر چکے ہیں اور دوسری نماز کے انتظار میں ہیں۔

 

٭٭ ابو کریب، رشدین بن سعد، عمرو بن حارث، دراج، ابو الہیثم، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم کسی مرد کو دیکھو کہ مسجد (میں آنے جانے ) کا عادی ہے اس کے بارے میں مؤمن ہونے کی گواہی دو (اس لئے کہ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کی مساجد کو صرف وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے۔

 

 

اقامت نماز اور اس کا طریقہ

 

نماز شروع کرنے کا بیان

 

علی بن محمد طنافسی، ابو اسامہ، عبد الحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو قبلہ کی طرف منہ کرتے اور دونوں ہاتھ اٹھاتے اور کہتے اللَّہُ أَکْبَرُ۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، جعفر بن سلیمان ضبعی، علی بن علی رفاعی، ابو المتوکل، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز شروع کر کے کہتے پاک ہے ( سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ) تو یا الہٰی اور پاکی بیان کرتے ہیں ہم ساتھ تیری اور تعریف کے اور بابرکت ہے نام تیرا اور بلند ہے بزرگی تیری اور نہی کوئی معبود سوائے تیرے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، محمد بن فضیل، عمارۃ بن قعقاع، ابو زرعہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تکبیر کہتے تو تکبیر اور قرأت کے درمیان کچھ دیر خاموش رہتے فرماتے ہیں میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان ہوں میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر اور قرأت کے درمیان خاموش رہتے ہیں ، بتا دیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت کیا پڑھتے ہیں؟ فرمایا میں یہ پڑھتا ہوں ( اللَّہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّہُمَّ نَقِّنِی مِنْ خَطَایَایَ کَالثَّوْبِ الْأَبْیَضِ مِنْ الدَّنَسِ اللَّہُمَّ اغْسِلْنِی مِنْ خَطَایَایَ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ) اے اللہ ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان بُعد پیدا فرما دیجیئے اے اللہ ! مجھے اپنی خطاؤں سے ایسے صاف کر دیجئے جیسے سفید کپڑا میل سے صاف ہوتا ہے اے اللہ ! میری خطاؤں کو پانی سے برف سے اور اولوں سے دھو دیجئے۔

 

٭٭ علی بن محمد و عبد اللہ بن عمران، ابو معاویہ، حارثہ بن ابی رجال، عمرۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز شروع کرتے تو ارشاد فرماتے (سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ تَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ )۔

 

نماز میں تعوذ

 

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرۃ، عاصم عنزی، ابن جبیر بن مطعم، حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز میں داخل ہوئے تو کہا تین مرتبہ اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ ہَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں ہمزہ جنون اور دیوانگی کو کہتے ہیں اور نفث شعر کو اور نفخ تکبر کو۔

 

٭٭ علی بن منذر، ابن فضیل، عطاء بن سائب، ابو عبد الرحمن سلمی، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑھا اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ وَہَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ فرمایا ہمزہ دیوانگی اور جنون ہے اور نفث شعر ہے اور نفخ تکبر ہے۔

 

نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، سماک بن حرب، قبیصہ بن ہلب، حضرت ہلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں امامت کراتے تھے تو بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے تھے۔

 

٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن ادریس، بشر بن معاذ ضہیر، بشر بن مفضل، عاصم بن کلیب، حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ آپ نے اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑا۔

 

٭٭ ابو اسحاق ہروی ابراہیم بن حاتم، ہشیم، حجاج بن ابی زینب سلمی، ابو عثمان نہدی، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے قریب سے گزرے جبکہ میں اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر رکھے ہوئے (نماز ادا کر رہا تھا) تو آپ نے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر بائیں ہاتھ کے اوپر رکھ دیا۔

 

قرأت شروع کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حسین معلم، بدیل بن میسرۃ، ابو الجوزاء، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ سے قرأت شروع فرمایا کرتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان، ایوب، قتادۃ، جبادۃ بن مغلس، ابو عوانہ، قتادۃ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور فاروق رضی اللہ عنہ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ قرأت سے شروع فرمایا کرتے تھے۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی و بکر بن خلف و عقبہ بن مکرم، صفوان بن عیسیٰ، بشر بن رافع، ابو عبد اللہ ، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ سے قرأت شروع فرمایا کرتے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، جریری، قیس بن عبایہ، ابن عبد اللہ بن مغفل، حضرت عبد اللہ مغفل کے صاحبزادے فرماتے ہیں میں نے کم ہی دیکھا کہ کوئی مرد اسلام میں نئی بات (بدعت) کے معاملے میں میرے والد محترم سے زیادہ سخت ہو چنانچہ ایک بار انہوں نے مجھے بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ پڑھتے سنا۔ فرمایا بیٹا اس بدعت سے بہت بچو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابو بکر و عمر اور عثمان کے ساتھ نمازیں پڑھی ہیں اور میں نے کسی ایک کو بھی پڑھتے نہیں سنا قرأت الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ سے شروع کیا کرو (حنفیہ)۔

 

نماز فجر میں قرأت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک و سفیان بن عیینہ، زیاد بن علاقہ، حضرت قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز صبح میں (سورت ق) کی قرأت فرماتے سنا۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، اسماعیل بن ابی خالد، اصبغ، مولیٰ عمرو بن حریث، حضرت عمرو بن حریث فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز فجر میں سورہ تکویر قرأت فرمائی گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پڑھنا سماعت میں رس گھول رہا ہے۔

 

٭٭ محمد بن صباح، عباد بن عوام، عوف، ابو المنہال، ابو برزہ، سوید، معتمر بن سلیمان، سلیمان، ابو منہال، حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز فجر میں ساٹھ سے سو تک (آیات مبارکہ کی) تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

 

٭٭ ابو بشر ، بکر بن خلف، ابن ابی عدی، حجاج صواف، یحییٰ بن ابی کثیر، عبد اللہ بن ابی قتادہ و ابو  سلمہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں نماز پڑھاتے تھے تو ظہر میں پہلی رکعت دوسری کی نسبت ذرا لمبی رکھتے اور صبح کی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے (اور یہی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معمول رہا)۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، ابن جریج، ابن ابی ملیکہ، حضرت عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صبح کی نماز میں سورۃ مومنون کی قرأت فرمائی جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر آیا یعنی (وَجَعَلنَا ابنَ مَریَمَ) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھانسی اٹھی اس لئے آپ رکوع میں چلے گئے۔

 

جمعہ کے دن نماز فجر میں قرأت

 

ابو بکر بن خلاد باہلی، وکیع و عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، مخول، مسلم بطین، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعۃالمبارک کے روز نماز فجر میں یعنی سورۃ سجدہ اور (الانسان) کی قرأت فرماتے

 

٭٭ ازہر بن مروان، حارث بن نبہان، عاصم بن بہدلہ، مصعب بن سعد، حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے روز نماز فجر میں ( الم) اور (ھَل اَتٰی عَلٰی الاِنسَانِ) کی قرأت فرمایا کرتے تھے۔

 

٭٭ حرملہ ، عبد اللہ بن وہب، ابراہیم بن سعد، سعد، اعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایسے ہی روایت ہے

 

٭٭ اسحاق بن منصور، اسحاق بن سلیمان، عمرو بن ابی قیس، ابو فروۃ، ابو الاحوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے روز نماز فجر میں (الم) اور (ھَل اَتٰی عَلٰی الاِنسَانِ) کی قرأت فرمایا کرتے تھے۔

 

ظہر اور عصر میں قرأت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، ربیعہ بن یزید، حضرت قزعہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ فرمایا تمہارے لئے اس میں کوئی بھلائی نہیں (کیونکہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مثل لمبی نماز شاید نہ پڑھ سکو) میں نے عرض کیا اللہ آپ پر رحم فرمائے بتایئے تو سہی۔ فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیلئے ظہر کی نماز کی اقامت کہی جاتی تو ہم میں سے ایک بقیع کی طرف نکل جاتا اور قضاء حاجت کے بعد آ کر وضو کرتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ظہر کی پہلی رکعت میں پاتا۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، اعمش، عمارۃ بن عمیر، حضرت ابی معمر کہتے ہیں میں نے حضرت خباب سے عرض کیا کہ آپ کو ظہر اور عصر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرأت کرنے کا کیسے علم ہوتا تھا ، فرمایا آپ کی ریش مبارک کے ہلنے اور حرکت کرنے سے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو بکر حنفی، ضحاک بن عثمان، بکیر بن عبد اللہ اشج، سلیمان بن یسار، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مشابہ فلاں صاحب سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا نیز فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر میں پہلی دو رکعتوں کو لمبا اور دوسری دو رکعتوں کو مختصر کرتے تھے اور عصر کو بھی مختصر ادا فرماتے تھے۔

 

٭٭ یحییٰ بن حکیم، ابو داؤد طیالسی، مسعودی، زید عمی، ابو نضرۃ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تیس بدری صحابہ جمع ہوئے اور انہوں نے کہا آؤ سری نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کی مقدار کا اندازہ لگائیں پھر ان میں سے دو میں بھی اختلاف نہ ہوا سب نے یہی اندازہ لگایا کہ ظہر کی پہلی رکعت میں قرأت تیس آیات کی بقدر تھی دوسری رکعت میں اس سے آدھی اور عصر میں ظہر کی آخری دو رکعتوں سے آدھی۔

 

کبھی کبھار ظہر و عصر کی نماز میں ایک آیت آواز سے پڑھنا

 

بشر بن ہلال صواف ، یزید بن زریع، ہشام دستوائی، یحییٰ بن ابی کثیر، عبد اللہ بن ابی قتادۃ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں ظہر کی نماز پڑھاتے پہلی دو رکعتوں میں قرأت فرماتے اور کبھی کبھار ایک آیت سنوا دیتے۔

 

٭٭ عقبہ بن مکرم، سلم بن قتیبہ، ہاشم بن برید، ابو  اسحاق ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں ظہر کی نماز پڑھاتے تو ہم سورہ لقمان اور ذاریات کی کچھ آیات کے بعد ایک آیت سن لیتے۔

 

مغرب کی نماز میں قرأت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی والدہ (لبابہ رضی اللہ عنہا) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز مغرب میں (وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا) کی قرأت فرماتے سنا۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان، زہری، محمد بن جبیر بن مطعم، حضرت جبیر بن مطعم فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مغرب میں سورہ طور کی قرأت فرماتے سنا حضرت جبیر رضی اللہ عنہ دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (ا أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ أَمْ ہُمْ الْخَالِقُونَ سے فَلْیَأْتِ مُسْتَمِعُہُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِینٍ) تک کی قرأت فرماتے سنا تو میرا دل منہ کو آنے لگا۔

 

٭٭ احمد بن بدیل، حفص بن غیاث، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ وَقُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ کی قرأت فرمایا کرتے تھے۔

 

عشاء کی نماز میں قرأت

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، یحییٰ بن سعید، عدی بن ثابت، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ) کی قرأت فرماتے سنا۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان، عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ، ابن ابی زائدۃ، مسعر، عدی بن ثابت، حضرت براء رضی اللہ عنہ سے یہی مضمون دوسری سند سے بھی مروی ہے اس میں یہ بھی فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ خوش آواز انسان نہیں سنا (یا فرمایا) عمدہ قرأت والا شخص نہیں سنا۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابو زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں ، حضرت معاذ بن جبل نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی تو بہت لمبی پڑھائی (لمبی قرأت فرمائی) اس پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وَالشَّمْسِ وَضُحَاہَا وَسَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَی وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ کی قرأت کر لیا کرو ،

 

 

امام کے پیچھے قرأت کرنا

 

ہشام بن عمار و سہل بن ابی سہل و اسحاق بن اسماعیل، سفیان بن عیینہ، زہری، محمود بن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو نماز میں فاتحۃ الکتاب کی قرأت نہ کرے اس کی نماز نہیں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیّہ، ابن جریج، علاء بن عبد الرحمن بن یعقوب، ابو السائب، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے نماز میں ام القرآن نہ پڑھی اس کی نماز ناقص و ناتمام ہے (راوی کہتے ہیں ) میں نے عرض کیا اے ابو ہریرہ! میں بسا اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو آپ نے میرا بازو دبایا اور (آہستگی سے ) فرمایا  (ایسی صورت میں ) اس کو اپنے دل ہی دل میں پڑھ لیا کر۔

 

٭٭ ابو کریب، محمد بن فضیل، سوید بن سعید، علی بن مسہر، ابو سفیان سعدی، ابو نضرہ، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو ہر رکعت میں اَلحَمْدُ لِلَّہِ اور سورۃ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں فرض ہو یا غیر فرض۔

 

٭٭ فضل بن یعقوب جزری، عبد الاعلی محمد بن اسحاق ، یحییٰ بن عباد بن عبد اللہ بن زبیر، زبیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یوں فرماتے سنا کہ ہر وہ نماز جس میں امّ القرآن نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے۔

 

٭٭ ولید بن عمرو بن سکین، یعقوب سلمی، حسین معلم، عمرو بن شعیب، شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے ناقص ہے۔

 

٭٭ علی بن محمد، اسحاق بن سلیمان، معاویہ بن یحییٰ، یونس بن میسرۃ، ابی ادریس خولانی، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ایک صاحب نے سوال کیا کیا میں قرأت کر لیا کروں جبکہ امام قرأت کر رہا ہو۔ فرمایا ایک صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ کیا ہر نماز میں قرأت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی۔ اس پر لوگوں میں سے ایک صاحب نے کہا کہ اب تو یہ لازم ہو گئی۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، سعید بن عامر، شعبہ، مسعر، یزید فقیر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں فاتحۃ الکتاب اور سورۃ پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں فاتحۃ الکتاب۔

 

امام کے دو سکتوں کے بارے میں

 

جمیل بن حسن جمیل عتکی، عبد الاعلی، سعید، قتادۃ، حسن، حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ دونوں سکتوں کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ( سیکھ کر) محفوظ کیا تو عمران بن حصین نے اس کا انکار کیا تو ہم نے ابی بن کعب کو مدینہ خط لکھا انہوں نے (جواب میں ) لکھا کہ سمرہ نے (بات کو) یاد رکھا۔ حضرت سعید فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت قتادہ سے پوچھا یہ دو سکتے کیا ہیں؟ فرمایا ایک نماز میں داخل ہوتے ہی اور دوسرے قرأت سے فارغ ہو کر پھر قتادہ نے فرمایا جب (تو بھی سکتہ خفیفہ کرے آمین کہنے کے لئے ) فرمایا صحابہ کو پسند تھا کہ امام قرأت سے فارغ ہو تو خاموش ہو جائے تاکہ اس کا دم ٹھہر جائے۔

 

٭٭ محمد بن خالد بن خداش و علی بن حسین بن اشکاب، اسماعیل بن علیہ، یونس، حسن، حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت سمرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے نماز میں دو سکتے محفوظ کئے ایک قرأت سے قبل اور دوسرا رکوع کے وقت تو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار فرمایا تو لوگوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر پوچھا۔ آپ نے حضرت سمرۃ رضی اللہ عنہ کی تصدیق فرمائی۔

 

جب امام قرأت کرے تو خاموش ہو جاؤ

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر ابن عجلان، زید بن اسلم، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امام کو اس لئے مقرر کیا گیا کہ اس کی اقتداء کی جائے لہذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب قرأت کرے تو تم خاموش ہو جاؤ اور جب ہو (غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ) کہے تو تم آمین کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 

٭٭ یوسف بن موسیٰ قطان، جریر، سلیمان تیمی، قتادۃ، ابو غلاب، حطان بن عبد اللہ رقاشی، حضرت ابو  موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب امام قرأت کرے تو تم خاموش ہو جاؤ جب وہ قعدہ میں ہو تو تمہارا سب اول ذکر تشہد ہونا چاہئے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، ابن اکیمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کو نماز پڑھائی ہمارا خیال ہے صبح کی نماز تھی۔ نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم میں سے کسی نے قرأت کی؟ ایک صاحب نے عرض کیا میں نے (قرأت کی) فرمایا میں بھی کہہ رہا تھا کہ کیا ہوا مجھ سے قرآن میں نزاع کیا جا رہا ہے۔

 

٭٭ جمیل بن حسن، عبد الاعلی، معمر، زہری، ابن اکیمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں نماز پڑھائی پھر سابقہ مضمون ذکر کیا اور اس میں یہ بھی فرمایا کہ اس کے بعد جہری نماز میں صحابہ نے سکوت اختیار کیا (یعنی قرأت کرنا چھوڑ دی)۔

 

٭٭ علی بن محمد، عبید اللہ بن موسی، حسن بن صالح، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس کا امام ہو (یعنی جو با جماعت امام کی اقتداء میں نماز ادا کر رہا ہو) تو امام کی قرأت اس کی قرأت ہے۔

 

آواز سے آمین کہنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب قرأت کرنے والا (یعنی امام) آمین کہے تو تم بھی آمین کہو اس لئے کہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں تو جس کی آمین فرشتوں کے موافق اور برابر ہوئی اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔

 

٭٭ بکر بن خلف و جمیل بن حسن، عبد الاعلی، عمرو بن سرح مصری و ہاشم بن قاسم حرانی، عبد اللہ بن وہب، زہری، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب قرأت کرنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو اس لئے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، صفوان بن عیسیٰ، بشر بن رافع، ابو عبد اللہ ابن عم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب پڑھتے تو آمین کہتے حتیٰ کہ صف اول والے بھی اس کو سن لیتے۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، حمید بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب وَلَا الضَّالِّینَ کہتے تو آمین کہتے۔

 

٭٭ محمد بن صباح و عمار بن خالد واسطی، ابو بکر بن عیاش، ابو  اسحاق ، عبد الجبار بن وائل، حضرت وائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وَلَا الضَّالِّینَ کہا تو آمین بھی کہا اور ہم نے اس کو سنا۔

 

٭٭ اسحاق بن منصور، عبد الصمد بن عبد الوارث، حماد بن سلمہ، سہیل بن ابی صالح، ابو صالح، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہود نے کسی چیز کی وجہ سے تم سے اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام اور آمین کی وجہ سے کیا۔

 

٭٭ عباس بن ولید خلال دمشقی، مروان بن محمد و ابو مسہر، خالد بن یزید بن صبیح مری، طلحہ بن عمرو، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہود نے کسی چیز کی وجہ سے تم سے اتنا حسد نہیں کیا جتنا آمین کی وجہ سے تم سے حسد کیا لہٰذا آمین زیادہ کہا کرو۔

 

رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا

 

علی بن محمد و ہشام بن عمار و ابو عمر ضریر، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم بن عمر، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر تک ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی (کندھوں کے برابر تک ہاتھ اٹھاتے ) اور دونوں سجدوں کے درمیان ہاتھ نہ اٹھاتے۔

 

٭٭ حمید بن مسعدۃ، یزید بن زریع، ہشام، قتادۃ، نصر بن عاصم، حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تکبیر کہتے تو کانوں کے قریب تک ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کرتے تو بھی ایسا ہی کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، صالح بن کیسان، عبد الرحمن اعرج، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں ہاتھ کندھوں کے برابر تک اٹھاتے ، نماز شروع کرتے وقت اور رکوع و سجدہ میں جاتے وقت۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، رفدۃ بن قضاعہ غسانی، اوزاعی، عبد اللہ بن عبید بن عمیر، عبید بن عمیر ، حضرت عمیر بن حبیب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرض نماز میں ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید، عبد الحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، حضرت عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابو حمید ساعدی کو فرماتے سنا اس وقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تشریف فرما تھے جن میں ابو قتادہ بن ربعی بھی تھے۔ فرمایا (ابو حمید ساعدی نے ) کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کو آپ سب سے زیادہ جانتا ہوں ، جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہو جاتے اور دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ کندھوں کے برابر کرتے پھر فرماتے اللَّہُ أَکْبَرُ ! اور جب رکوع میں جاتے سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہتے تو ہاتھ اٹھا اور سیدھے کھڑے ہو جاتے اور جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو اللَّہُ أَکْبَرُ کہہ کر کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے جیسے نماز کے شروع میں کیا تھا۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو عامر، فلیح بن سلیمان، حضرت عباس بن سہل ساعدی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو حمید ابو سید سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کا تذکرہ فرمایا حضرت ابو حمید نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کو آپ سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اَللہُ اَکبَرُ کہا اور ہاتھ اٹھائے پھر جب رکوع کے لئے اَللہُ اَکبَرُ کہا تو بھی ہاتھ اٹھائے پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اٹھائے اور سیدھے کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ ہر جوڑ اپنی جگہ ٹھہر گیا۔

 

٭٭ عباس بن عبد العظیم عنبری، سلیمان بن داؤد ابو ایوب ہاشمی، عبد الرحمن بن ابی زناد، موسیٰ بن عقبہ، عبد اللہ بن فضل، عبد الرحمن اعرج، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ، اللَّہُ أَکْبَرُ ، کہتے اور اپنے کندھوں کے برابر تک ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جانے لگتے تو بھی ایسا ہی کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے اور جب دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے تب بھی ایسا ہی کرتے۔

 

٭٭ ایوب بن محمد ہاشمی، عمر بن رباح، عبد اللہ بن طاؤس، طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، عبد الوہاب، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں داخل ہوتے تو ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جاتے تو بھی۔

 

٭٭ بشر بن معاذ ضریر، بشر بن مفضل، عاصم بن کلیب ، کلیب، وائل بن حجر فرماتے ہیں میں نے سوچا کہ ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھوں گا کہ کیسے نماز ادا فرماتے ہیں۔ آپ قبلہ رو ہو کر کھڑے ہوئے اور ہاتھوں کو کانوں کے برابر تک اٹھایا پھر جب رکوع کیا تو بھی اتنا ہی ہاتھوں کو اٹھایا پھر جب رکوع سے سر اٹھایا تو بھی اتنا ہی ہاتھوں کو اٹھایا۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو حذیفہ، ابراہیم بن طہمان، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرے اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا کرتے اور فرماتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا کرتے دیکھا اور راوی ابراہیم بن طہمان نے اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھائے

 

 

نماز میں رکوع

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حسین معلم، بدیل، جوزاء، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب رکوع میں جاتے تو منہ سر کو اونچا رکھتے نہ نیچا بلکہ درمیان میں (کمر کے برابر) رکھتے۔

 

٭٭ علی بن محمد و عمر بن عبد اللہ، وکیع، اعمش، عمارۃ، ابو معمر، حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ نماز کافی نہیں جس میں مرد اپنی کمر رکوع سجدہ میں سیدھی بھی نہ کرے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ملازم بن عمرو، عبد اللہ بن بدر، عبد الرحمن بن علی بن شیبان، حضرت علی بن شیبان جو اپنی قوم کی طرف سے وفد میں آئے تھے فرماتے ہیں کہ ہم چلے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ سے بیعت اور آپ کے پیچھے نماز ادا کی تو آپ نے گوشۂ چشم سے ایک صاحب کو دیکھا کہ رکوع سجدہ میں ان کی کمر سیدھی نہیں ہوتی ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی فرمایا اے مسلمانوں کی جماعت اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو رکوع سجدے میں اپنی کمر سیدھی نہ کرے۔

 

٭٭ ابراہیم بن محمد بن یوسف فریابی، عبد اللہ بن عثمان بن عطاء، طلحہ بن زید، راشد، حضرت واجصہ بن معبد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز پڑھتے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب رکوع میں جاتے تو اپنی پشت بالکل سیدھی رکھتے حتیٰ کہ اگر پانی ڈال دیا جائے تو وہیں ٹھہر جائے۔

 

گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن بشر، اسماعیل بن ابی خالد، زبیر بن عدی، حضرت مصعب بن سعد فرماتے ہیں میں نے اپنے والد کے پہلو میں دونوں ہاتھ ملا کر رانوں کے درمیان تطبیق کی (رکوع میں دونوں ہاتھ ملا کر رانوں کے درمیان رکھ لئے ) میرے والد نے میرے ہاتھ پر ضرب لگائی اور (نماز کے بعد) فرمایا ہم ایسا ہی کرے تھے پھر ہمیں حکم دیا گیا کہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھیں (اور تطبیق کو منسوخ کر دیا گیا)۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدۃ بن سلیمان، حارثہ بن ابی رجال، عمرۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع میں جاتے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور اپنے بازوں کو جدا رکھتے (پسلیوں سے اور پیٹ سے )۔

 

رکوع سے اٹھائے تو کیا پڑھے؟

 

ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی و یعقوب بن حمید بن کاسب، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، سعید بن مسیب و ابو  سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہہ چکتے تو کہتے رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان، زہری، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب امام سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم کہو رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابی بکیر، زہیر بن محمد، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، سعید بن مسیب، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ جب امام سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم کہو رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، وکیع، اعمش، عبید بن حسن، حضرت ابن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو فرماتے سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ اللَّہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الْأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ اللہ نے سن لی اس کی جس نے اللہ کی حمد بیان کی اے ہمارے رب! آپ ہی کے لئے ہے تمام حمد آسمانوں بھر اور زمین بھر اور اس چیز کے برابر جو آپ اس کے بعد چاہیں۔

 

٭٭ اسماعیل بن موسیٰ سدی، شریک، ابو عمر، حضرت ابو حجیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب ہی مالداری کا ذکر ہوا۔ آپ نماز پڑھ رہے تھے ایک صاحب نے کہا فلاں کے پاس گھوڑوں کی دولت ہے۔ دوسرے بولے فلاں کے پاس اونٹوں کی دولت ہے۔ ایک اور صاحب بولے فلاں کے پاس بکریوں کی دولت ہے۔ ایک صاحب نے کہا فلاں کے پاس غلاموں کی دولت ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز مکمل کی اور اخیر رکعت پڑھ کر سر اٹھایا تو فرمایا اللَّہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الْأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ اَللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ وَطَوَّلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَوْتَہُ بِالْجَدِّ اور لفظ جد (مالداری) کہتے ہوئے آپ نے آواز اونچی فرما دی تاکہ انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ ان کی بات صحیح نہیں۔ اے اللہ ہمارے پروردگار آپ ہی کیلئے ہے تمام حمد آسمانوں بھر اور زمین بھر اور اس چیز کے برابر جو اس کے بعد آپ چاہئیں۔ اے اللہ ! جو آپ عطا فرمائیں اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جب تو روک دے تو کوئی اسے دینے والا نہیں اور کسی مالدار کی مالداری آپ کے مقابلہ میں کچھ نفع نہ دے گی۔

 

سجدے کا بیان

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن عبد اللہ بن اصم، یزید بن اصم، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سجدہ کرے تو اپنے دونوں ہاتھ (پہلو سے جدا رکھتے ) حتیٰ کہ اگر بکری کا چھوٹا سا بچہ آپ کے بازوؤں کے درمیان سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، داؤد بن قیس، عبد اللہ بن عبید اللہ بن اقرم خزاعی، حضرت عبید اللہ بن اقرم خزاعی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نمرہ کے ایک میدان میں تھا (نمرہ عرفات کے قریب ایک جگہ کا نام ہے ) ہمارے قریب سے بہت سے سوار گزرے انہوں نے اپنی سواریوں کو راستے کی ایک طرف بٹھایا میرے والد نے مجھ سے کہا تم اپنے جانوروں میں رہو اور (ان کا خیال رکھو) تاکہ میں ان لوگوں کے پاس جا کر ان کا حال احوال لوں ، فرماتے میرے والد تو تشریف لے گئے اور میں آیا یعنی نزدیک ہوا دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما ہیں۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا میں نے بھی لوگوں کے ساتھ نماز ادا کی تو جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں تشریف لے جاتے تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آتی۔

 

٭٭ حسن بن علی خلال، یزید بن ہارون، شریک، عاصم بن کلیب، کلیب، حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عن فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا جب سجدہ میں جاتے تو گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے اور جب سجدہ سے کھڑے ہوتے تو ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے۔

 

٭٭ بشر بن معاذ ضریر، ابو عوانہ و حماد بن زید، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان، ابن طاؤس، طاؤس، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور بال اور کپڑے نہ سمیٹوں ، ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ میرے والد فرمایا کرتے تھے کہ دو ہاتھ ، دو گھٹنے دو پاؤں اور وہ پیشانی اور ناک کو ایک ہڈی شمار کرتے تھے (تو یہ سات ہڈیاں ہوتیں )۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز بن ابی حازم، یزید بن ہاد، محمد بن ابراہیم تیمی، عامر بن سعد، حضرت عباس بن عبد المطب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یوں فرماتے سنا جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ یہ سات اعضاء بھی سجدہ کرتے ہیں اس چہرہ دونوں ہاتھ دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، عباد بن راشد، حسن، صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں جاتے تو آپ کے بازوؤں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے (مشقت کی وجہ) سے ہمیں آپ پر ترس آنے لگتا تھا۔

 

رکوع اور سجدہ میں تسبیح

 

عمرو بن رافع بجلی، عبد اللہ بن مبارک، موسیٰ بن ایوب عافقی، ایاس بن عامر، حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیمِ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں فرمایا اس کو اپنے رکوع میں اختیار کر لو پھر جب سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی نازل ہوئی تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس (پر عمل) کو اپنے سجدوں میں اختیار کر لو۔

 

٭٭ محمد بن رمح مصری، ابن لہیعہ، عبید اللہ بن ابی جعفر، ابو ازہر، حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سنا۔ جب رکوع کرتے تو تین بار کہتے ہیں اور سجدہ میں جاتے تو تین بار کہتے۔

 

٭٭ محمد بن صباح، جریر، منصور، ابو الضحی، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع اور سجدوں میں بکثرت گویا قرآن کریم پر عمل کرتے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، وکیع، ابن ابی ذئب، اسحاق بن یزید ہذلی، عون بن عبد اللہ بن عتبہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو رکوع کے دوران تین بار کہے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ جب اس نے ایسا کر لیا تو اس کا رکوع پورا ہو گیا اور جب تم میں کوئی سجدہ کرے تو سجدہ میں تین بار کہے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی جب وہ ایسا کر لے تو اس کا سجدہ پورا ہو جائے گا اور یہ پورا ہونے کی ادنی حد ہے۔

 

سجدہ میں اعتدال

 

علی بن محمد، وکیع، اعمش، ابو سفیان، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں کوئی سجدہ کرے تو اعتدال اور میانہ روی اختیار کرے (یعنی نہ بہت لمبا سجدہ کرے نہ بالکل مختصر) اور اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، عبد الاعلی، سعید، قتادۃ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سجدوں میں میانہ روی اختیار کرو اور تم میں کوئی بھی اپنے بازو کتے کی طرح پھیلا کر سجدہ نہ کرے۔

 

دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حسین معلم، بدیل، ابو الجوزاء، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو سجدہ نہ کرتے حتیٰ کہ سیدھے کھڑے ہو جاتے پھر جب سجدہ میں جاتے اور (سجدہ سے ) سر اٹھاتے تو دوسرے سجدہ میں نہ جاتے حتیٰ کہ سیدھے بیٹھ جاتے اور آپ اپنے بائیں پاؤں کو بچھا لیتے تھے۔

 

٭٭ علی بن محمد، عبید اللہ بن موسی، اسرائیل، ابو  اسحاق ، حارث، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ارشاد فرمایا سجدوں کے درمیان گوٹ مار کر مت بیٹھنا۔

 

٭٭ محمد بن ثواب، ابو نعیم نخعی، ابو مالک، عاصم بن کلیب، کلیب، ابو  موسیٰ و ابو  اسحاق ، حارث، حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے علی ! کتے کی طرح چوتڑ زمین پر ٹکا کر مت بیٹھا کرو۔

 

٭٭ حسن بن محمد بن صباح، یزید بن ہارون، علاءابو محمد، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا جب تم سجدہ سے سر اٹھاؤ تو کتے کی طرح گوٹ مار کر مت بیٹھو اور اپنے چوتڑ اپنے پاؤں کے درمیان رکھو اور اپنے پاؤں کے اوپر کا حصہ (پشت) زمین کے ساتھ لگا دو۔

 

٭٭ علی بن محمد، حفص بن غیاث، علاء بن مسیب، عمرو بن مرۃ، طلحہ بن یزید، حذیفہ، علی بن محمد، حفص بن غیاث، اعمش، سعد بن عبیدۃ، مستورد بن احنف، صلۃ بن زفر، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْ لِی رَبِّ اغْفِرْ لِی پڑھا کرتے تھے۔

 

دونوں سجدوں کے درمیان کی دعا

 

ابو کریب محمد بن علاء، اسماعیل بن صبیح، کامل ابو العلاء، حبیب بن ابی ثابت، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کی نماز میں دونوں سجدوں کے درمیان پڑھا کرتے تھے۔

 

تشہد میں پڑھنے کی دعا

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عبد اللہ بن نمیر، اعمش، شقیق بن سلمہ، حضرت عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز پڑھتے تو کہتے سلام اللہ پر اس کے بندوں کی جانب سے سلام جبرائیل اور میکائیل پر اور فلاں فلاں فرشتے پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سنا تو فرمایا یوں نہ کہو سلام اللہ پر اس لیے کہ اللہ تو خود سلام ہے پس جب تم بیٹھو تو کہو التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ( یعنی عالی آداب و تسلیمات اللہ کے لئے ہیں اور بدنی اور مالی عبادات بھی اللہ کے لئے ہیں اور اے نبی ! آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر اللہ کی جانب سے سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر) اس لئے کہ جب وہ یوں کہے گا تو آسمان و زمین میں ہر نیک بندے کو سلامتی پہنچے گی۔ دوسری سند سے یہی مضمون ہے۔ ایک اور سند بھی یہی مضمون منقول ہے۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابو زبیر، سعید بن جبیر و طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں ایسے اہتمام سے تشہد سکھایا کرتے جیسے قرآن کریم کی سورۃ تو فرماتیالتَّحِیَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّیِّبَاتُ لِلَّہِ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔

 

٭٭ جمیل بن حسن، عبد الاعلیٰ، سعید، قتادۃ، عبد الرحمن بن عمر، ابن ابی عدی، سعید بن ابی عروبہ و ہشام بن ابی عبد اللہ ، قتادۃ، عبد الرحمن، یونس بن جبیر، حطان بن عبد اللہ، حضرت ابو  موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں خطبہ دیا اور ہمارے دین کے طریقے بتائے اور ہماری نماز سکھائی چنانچہ ارشاد فرمایا جب تم نماز پڑھو اور قعدہ کے قریب ہو جاؤ تو قعدہ میں تمہارا پہلا ذکر یہ ہونا چاہئے آخر تک یہ سات کلمات ہیں جو نماز کا تحیۃ و تسلیم ہیں۔

 

٭٭ محمد بن زیاد، معتمر بن سلیمان، یحییٰ بن حکیم، محمد بن بکر، ایمن بن نابل، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں قرآن کی سورت کی طرح احتیاط اور اہتمام سے تشہد سکھایا کرتے تھے باسْمِ اللَّہِ وَبِاللَّہِ التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ لِلَّہِ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ آخر میں یہ اضافہ بھی ہے أَسْأَلُ اللَّہَ الْجَنَّۃَ وَأَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ النَّارِ یعنی ، میں اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں۔

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود پڑھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، محمد بن مثنی، ابو عامر، عبد اللہ بن جعفر، یزید بن ہاد، عبد اللہ بن خباب، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ پر سلام کا طریقہ تو یہی ہے جو ہمیں معلوم ہے تو درود کیسے پرھیں؟ فرمایا کہو اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ اے اللہ اپنے بندے اور رسول محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر رحمت نازل فرمایئے جیسے آپ نے رحمت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام پر اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ان کی آل پر برکت نازل فرمایئے جیسے آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر برکت نازل فرمائی۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، شعبہ، محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی و محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، ابن ابی لیلیٰ، حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں بہترین ہدیہ نہ دوں؟ پھر فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے ہم نے عرض کیا ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام کا طریقہ معلوم ہے پر صلوٰت کا کیا طریقہ ہے؟ فرمایا کہو اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔

 

٭٭ عمار بن طالوت، عبد الملک بن عبد الملک بن عبد العزیز ماجشون، مالک بن انس، عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، عمرو بن سلیم زرقی، حضرت ابو حمید عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسو ل! ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر صلوٰت پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے (یعنی قرآن کریم میں ) تو ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کیسے بھیجیں؟ فرمایا کہو اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔

 

٭٭ حسین بن بیان، زیاد بن عبد اللہ، مشعودی، عون بن عبد اللہ، ابو فاختہ، اسود بن یزید، حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا جب تم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دورود بھیجو تو عمدہ اور احسن طریقے سے درود بھیجو اس لئے کہ تمہیں کیا معلوم ہو سکتا ہے تمہارا درود رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ابن مسعود سے کہا کہ پھر ہمیں (درود بھیجنے کا احسن طریق) سکھا دیجئے ، فرمایا کہواللَّہُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلَی سَیِّدِ الْمُرْسَلِینَ وَإِمَامِ الْمُتَّقِینَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّینَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ إِمَامِ الْخَیْرِ وَقَائِدِ الْخَیْرِ وَرَسُولِ الرَّحْمَۃِ اللَّہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُودًا یَغْبِطُہُ بِہِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اے اللہ ! اپنی عنایات اور رحمتیں اور برکتیں نازل فرما دیئے رسولوں کے سردار اہل تقویٰ کے پیشوا خاتم الانبیین اپنے بندے اور رسول بھلائی کے امام اور بھلائی کی طرف لے جانے والے اور رسول رحمت محمد پر ، اے اللہ ! ان کو مقام محمود عطا فرما جس پر اولین و آخرین سب رشک کریں اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر اسی طرح رحمت نازل فرمایئے جس طرح آپ نے ابراہیم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرمائی بلاشبہ آپ خوبیوں والے اور بزرگی والے ہیں۔ اے اللہ ! محمد پر اور ان کی آل پر اسی طرح برکت نازل فرمایئے جس طرح آپ نے ابراہیم اور ان کی آل پر نازل فرمائی بلاشبہ آپ خوبیوں والے اور بزرگی والے ہیں۔

 

٭٭ بکر بن خلف ابو بشر، خالد بن حارث، شعبہ، عاصم بن عبید اللہ، عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ، حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مسلمان بھی مجھ پر درود بھیجے فرشتے اس کے لئے دعا رحمت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہے اب اس مسلم کو اختیار ہے بکثرت درود بھیجے یا کم۔

 

٭٭ جبارۃ بن مغلس، حماد بن زید، عمرو دینار، جابر بن زید، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مجھ پر درود بھیجنا بھول گیا وہ جنت کے رستے سے بھٹک گیا۔

 

تشہد میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کن الفاظ میں درود پڑھے ( دعا بعد از درود)

 

عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، حسان بن عطیہ، محمد بن ابی عائشہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم سے کوئی ایک آخری تشہد سے فارغ ہو جائے تو چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے ، دوزخ کے عذاب سے قبر کے عذاب سے زندگی اور موت کے فتنہ سے اور مسیح دجال کے فتنہ سے۔

 

٭٭ یوسف بن موسیٰ قطان، جریر ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک صاحب سے دریافت فرمایا آپ نماز میں کیا پڑھتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا تشہد پڑھتا ہوں پھر اللہ سے جنت کا سوال اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں لیکن بخدا! مجھے آپ کا اور معاذ کا گنگنانا (دعا مانگنا) سمجھ نہیں آتا ، آپ نے فرمایا ہم بھی اسی طرح گنگناتے ہیں (یعنی جو دعا تم مانگتے ہو اس کے قریب قریب ہی ہم بھی دعا مانگتے ہیں )۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، عصام بن قدامہ، مالک بن نمیر خزاعی، حضرت نمیر خزاعی بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم کو نماز میں دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھ کر انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے دیکھا۔

 

تشہد میں اشارہ

 

علی بن محمد، عبد اللہ بن ادریس، عاصم بن کلیب، کلیب، حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عن فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر پاس والی انگلی (یعنی سبابہ) کو اٹھایا آپ نے اس سے تشہد میں دعا فرمائی۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ و حسن بن علی و اسحاق بن منصور، عبد الرزاق، معمر، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں (کے قریب ران) پر رکھتے اور دائیں ہاتھ انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو اٹھاتے اور اس سے دعا مانگتے اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے (کے قریب ران) پر رکھتے پھیلا کر۔

 

سلام کا بیان

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عمر بن عبید، ابو  اسحاق ، ابن احوص، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں اور بائیں سلام پھیرتے حتیٰ کہ گالوں کی سفیدی دکھائی دیتی (فرماتے ) السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ۔

 

٭٭ محمود بن غیلان، بشر بن سری، مصعب بن ثابت بن عبد اللہ بن زبیر، اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاص، حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرتے۔

 

٭٭ علی بن محمد، یحییٰ بن آدم، ابو بکر بن عیاش، ابو  اسحاق ، صلۃ بن زفر، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرتے حتیٰ کہ رخساروں کی سفیدی نظر آتی (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشا فرماتے ) السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ۔

 

٭٭ عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ، ابو بکر بن عیاش، ابو  اسحاق ، یزید بن ابی مریم، حضرت ابو  موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ حضرت علی نے جمل کے دن (جس دن قاتلین عثمان کی وجہ سے علی و عائشہ اور امیر معاویہ کے درمیان معرکہ ہوا) ہمیں ایسے نماز پڑھائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز یاد دلا دی یا ہم اس کو بھول چکے تھے یا ہم نے چھوڑ دی تھی تو آپ نے دائیں اور بائیں سلام پھیرا۔

 

ایک سلام پھیرنا

 

ابو مصعب مدینی احمد بن ابی بکر، عبد المہیمن بن عباس بن سہل بن سعد ساعدی، عباس بن سہل بن سعد ساعدی، حضرت سہل بن سعد عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک سلام پھیرا اپنے منہ کے سامنے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، عبد الملک بن محمد صغانی، زہیر بن محمد، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے منہ مبارک کے سامنے کی طرف ایک ہی سلام پھیرا کرتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن حارث مصری، یحییٰ بن راشد، یزید مولی سلمہ، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ آپ نے ایک مرتبہ سلام پھیرا۔

 

امام کے سلام کا جواب دینا

 

ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، ابو بکر ہذلی، قتادۃ، حسن، حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب امام سلام پھیرے تو اس کو جواب دو۔

 

٭٭ عبدۃ بن عبد اللہ، علی بن قاسم، ہمام، قتادۃ، حسن، حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں حکم دیا کہ اپنے اماموں کو سلام کریں اور ہم میں سے بعض بعض کو سلام کریں۔

 

امام صرف اپنے لئے دعا نہ کرے

 

محمد بن مصفی حمصی، بقیہ بن ولید، حبیب بن صالح، یزید بن شریح، ابو حی، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص امام ہو وہ مقتدیوں کو چھوڑ کر خاص اپنے لئے دعا نہ کرے اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے مقتدیوں سے خیانت کی۔

 

 

سلام کے بعد دعا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد الواحد بن زیاد، عاصم احول، عبد اللہ بن حارث، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلام کے بعد فقط اسی قدر بیٹھتے کہ کہہ سکیں اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ۔

 

٭٭ ابو بکر بن ، شبابہ، شعبہ، موسیٰ بن ابی عائشہ، مولیٰ ام سلمہ، حضرت امّ سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز صبح سے سلام پھیر کر پڑھتے (اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا طَیِّبًا وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا) اے اللہ! میں آپ سے علم نافع پاکیزہ روزی اور مقبول کا سوال کرتا ہوں

 

٭٭ ابو کریب، اسماعیل بن علیّہ و محمد بن فضیل و ابو یحییٰ تیمی و ابو الاجلح، عطاء بن سائب، سائب، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جو مسلمان بھی ان کو مضبوطی سے اختیار کئے رہے گا جنت میں داخل ہو گا اور وہ دونوں آسان ہیں اور ان پر عمل کرنے والے کم ہی لوگ ہیں ، نماز کے بعد دس بار کہے سُبحَانَ اللّٰہِ، الحمد اللہ دس بار، اَللّٰہُ اَکبَرُ دس بار میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ ان کو اپنے ہاتھوں سے شمار کر رہے تھے یہ زبان سے ڈیڑھ سو ہیں (کیونکہ تیس کلمے ہیں ہر نماز کے بعد اور پانچ نمازیں ہیں ) اور ترازو میں ڈیڑھ ہزار ہیں اور جب اپنے بستر پر آئے تو سو بار سُبحَانَ اللہِ ، اَلحَمدُ للہِ اور اَللہُ اَکبَرُ کہے یہ زبان سے تو سو ہیں لیکن ترازو میں ہزار ہیں تم میں کون ہے جس سے دن میں ڈھائی ہزار خطائیں سرزد ہوتی ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا ان کو کوئی کیوں نہ اختیار کرے گا (حالانکہ انتہائی آسان اور انتہائی فضیلت والا عمل ہے ) فرمایا تم میں سے ایک کے پاس نماز کے دوران شیطان آتا ہے اور کہتا ہے فلاں بات یاد کر ، فلاں بار یاد کر حتیٰ کہ بندہ بالکل غافل ہو جاتا ہے (اسے نماز تک کا خیال نہیں رہتا تسبیحات تو دور کی بات ہے ) اور بندہ کے پاس بستر میں شیطان آ جاتا ہے اور اسے سلانے لگتا ہے حتیٰ کہ بندہ۔ (تسبیحات کے بغیر ہی) سو جاتا ہے۔

 

٭٭ حسین بن حسن مروزی، سفیان بن عیینہ، بشر بن عاصم، عاصم حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ مال و دولت والے ثواب کما گئے وہ ہماری طرح دعا و اذکار بھی کرتے ہیں اور خرچ بھی کرتے ہیں جبکہ ہم خرچ نہیں کر سکتے۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کیا میں تمھیں ایسا کام نہ بتاؤں کہ جب تم اسے کرو گے تو اپنے آگے والوں کو پالو گے اور پچھلوں سے سبقت لے جاؤ گے تم ہر نماز کے بعد اَلحَمدُ للہِ کہو اور سُبحَانَ اللہِ اور اللَّہُ أَکْبَرُ 33بار اور 34 بار۔ سفیان کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ ان میں سے کون سا کلمہ 34بار فرمایا

 

٭٭ ہشام بن عمار، عبد الحمید بن حبیب اوزاعی، عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، شداد ابو عمار، ابو اسماء رحبی، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفار پڑھتے پھر ارشاد فرمایا اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ۔

 

نماز سے فارغ ہو کر کس جا نب پھرے؟

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، سماک، قبیصہ بن ہلب، حضرت ہلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہماری امامت کی تو آپ فارغ ہو کر دائیں اور بائیں دونوں طرف پھیرتے تھے۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابو بکر بن خلاد، یحییٰ بن سعید، اعمش، عمارۃ بن اسود، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے (اعمال) میں شیطان کا حصہ نہ بنائے یہ سمجھے کہ منجانب اللہ اس پر لازم ہے کہ نماز کے بعد دائیں طرف ہی پھرے میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا نماز کے بعد اکثر بائیں طرف پھرا کرتے تھے۔

 

٭٭ بشر بن ہلال صواف، یزید بن زریع، حسین معلم، عمرو بن شعیب، شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ نماز کے بعد کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف مڑتے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، احمد بن عبد الملک بن واقد، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، ہند بنت حارث، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلام پھیرتے ہی عورتیں کھڑی ہو جاتیں آپ اٹھنے سے قبل اسی جگہ کچھ دیر تشریف فرما ہوتے۔

 

جب نماز تیار ہو اور کھانا سامنے آ جائے

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب (نماز) عشاء قائم کی جا رہی ہو اور کھانا رکھ دیا جائے تو پہلے کھانا کھا لو

 

٭٭ ازہر بن مروان، عبد الوارث، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کھانا رکھ دیا جائے اور نماز قائم ہو رہی ہو تو کھانا پہلے کھا لو۔ نافع کہتے کہ حالانکہ وہ اقامت سن رہے تھے۔

 

٭٭ سہل بن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب رات کا کھانا سامنے آ جائے اور نماز قائم ہو رہی ہو تو کھانا پہلے کھالو۔

 

بارش کی رات میں جماعت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن ابراہیم، خالد حذاء، حضرت ابو الملیح کہتے ہیں کہ میں بارش کی رات میں نکلا جب میں واپس ہوا تو میں نے دروازہ کھلوایا تو میرے والد نے پوچھا کون؟ میں نے کہا ابو المیلح ، انہوں نے فرمایا ہم نے اپنے آپ کو حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ دیکھا کہ بارش برسی اور ہمارے جوتے بھی تر نہ ہونے پائے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منادی نے ندا لگائی کہ اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔

 

٭٭ محمد صباح، سفیان بن عیینہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بارش کی رات یا ٹھنڈی اور آندھی والی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا منادی یہ نداء کرتا کہ اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن عبد الوہاب، ضحاک بن مخلد، عباد بن منصور، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بار جمعہ کے روز جب بارش ہو رہی تھی ارشاد فرمایا اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔

 

٭٭ احمد بن عبدۃ، عباد بن عباد مہلبی، عاصم احول، عبد اللہ بن حارث بن نوفل، حضرت عبد اللہ بن عباس نے مؤذن کو جمعہ کے روز اذان دینے کا حکم دیا اور اس دن خوب بارش برس رہی تھی تو اس نے اذان دی پھر فرمایا کہ لوگوں میں یہ ندا کر دوں کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیں تو لوگوں نے ان سے کہا یہ آپ نے کیا کیا؟ فرمایا مجھ سے بہتر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بھی ایسا ہی کیا تھا مجھے کہتے ہو کہ میں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالوں پھر وہ میرے پاس گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ میں بھرے ہوئے آئیں۔

 

نمازی کے سترے کا بیان

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عمر بن عبید، سماک بن حرب، موسیٰ بن طلحہ، حضرت طلحہ فرماتے ہیں ہم نماز پڑھ رہے تھے اور جانور ہمارے سامنے سے گزر رہے تھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اس کا تذکرہ ہوا تو فرمایا پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز تمہارے سامنے ہو تو اب سامنے سے جو کوئی بھی گزرے نمازی کو کچھ نقصان نہ ہو گا۔

 

٭٭ محمد بن صباح، عبد اللہ بن رجاء مکی، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے برچھی نکالی جاتی آپ اس کو گاڑ کر اس کی طرف نماز پڑھتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بشر، عبید اللہ بن عمر، سعید بن ابی سعید، ابو  سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک چٹائی تھی جس کو دن میں بچھاتے اور رات کو اسی سے حجرہ سا بنا لیتے (تاکہ اعتکاف میں یکسوئی حاصل رہے ) اور اس کی طرف نماز ادا فرماتے۔

 

٭٭ بکر بن خلاف ابو بشر، حمید بن اسود، اسماعیل بن امیہ، عمار بن خالد، سفیان بن عیینہ، اسماعیل بن امیہ، ابو عمرو بن محمد بن عمرو بن حریث، حریث بن سلیم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی بھی نماز پڑھے تو اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے اگر کچھ نہ ملے تو لاٹھی ہی کھڑی کر لے ، اگر لاٹھی بھی نہ ملے تو (فقط) خط ہی کھینچ لے پھر جو چیز بھی اس کے سامنے سے گزرے اس کو ضرر نہ ہو گا۔

 

نمازی کے سامنے سے گزرنا

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، سالم ابو النضر، حضرت بسر بن سعید فرماتے ہیں مجھے لوگوں نے زید بن خالد کے پاس بھیجا کہ ان سے نمازی کے سامنے سے گزرنے سے متعلق دریافت کروں تو انہوں نے مجھے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر وہ چالیس تک کھڑا رہے تو اس کیلئے بہتر ہے نمازی کے سامنے سے گزرنے سے ، سفیان فرماتے ہیں مجھے معلوم نہیں کہ چالیس سال یا ماہ یا دن یا ساعت۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، سالم ابو النضر، حضرت بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد نے ابو جہیم انصاری کے پاس کسی کو بھیجا کہ ان سے پوچھے کہ انہوں نے نبی سے اس شخص کے بارے میں کیا سنا جو نمازی کے سامنے سے گزرے انہوں نے فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا اگر تم میں سے کسی کو معلوم ہو جائے کہ اپنے بھائی کے سامنے سے گزر نے میں جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو کتنا گناہ ہے تو وہ چالیس تک کھڑا رہے یہ اس کے لئے گزرنے سے بہتر ہو گا ، راوی نے کہا مجھے معلوم نہیں کہ چالیس سال فرمایا یا چالیس ماہ یا چالیس دن۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، عبید اللہ بن عبد الرحمن بن موہب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کو معلوم ہو جائے کہ نماز میں اپنے بھائی کے سامنے سے گزرنے میں کتنا گناہ ہو گا تو اس کے لئے سو سال کھڑا رہنا اس ایک قدم اٹھانے سے بہتر ہو گا۔

 

جس چیز کے سامنے سے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے

 

ہشام بن عمار، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرفات میں نماز ادا فرما رہے تھے میں اور فضل گدھی پر سوار ہو کر آئے کچھ صف کے سامنے سے ہم گزرے پھر ہم اس سے اترے اور اس کو چھوڑ دیا پھر ہم بھی صف میں داخل ہو گئے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اسامہ بن زید، محمد بن قیس ، قیس، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے حجرے میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عبد اللہ یا عمر بن ابی سلمہ نے گزرنا چاہا آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا وہ واپس ہو گئے پھر زینب ام سلمہ نے گزرنا چاہا تو آپ نے ہاتھ سے یوں اشارہ کیا لیکن وہ گزر گئیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ چکے گئے تو فرمایا عورتیں غالب ہیں (یعنی جہالت یا نا فہمی کی وجہ سے مانتی نہیں )۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، یحییٰ بن سعید، شعبہ، قتادۃ، جابر، حضرت ابن عباس رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کالا کتا اور حائضہ نماز کو توڑ دیتی ہے۔

 

٭٭ زید بن احزم ابو طالب، معاذ بن ہشام، ہشام، قتادہ، زرارۃ بن اوفیٰ، سعد بن ہشام، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عورت کتا اور گدھا نماز کو توڑ دیتے ہیں۔

 

٭٭ جمیل بن حسن، عبد الاعلی، سعید، قتادۃ، حسن، حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورت ، کتا اور گدھا نماز کو توڑ دیتے ہیں۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حمید بن ہلال، عبد اللہ بن صامت، حضرت اذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب مرد کے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز نہ ہو تو عورت ، گدھا اور سیاہ کتا نماز کو توڑ دیتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں میں نے حضرت ابو ذر سے پوچھا کہ سیاہ کتے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے (کہ سیاہ کتے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے باقی سے نہیں ) فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی سوال کیا تھا جو تم نے مجھ سے کیا تو آپ نے فرمایا سیاہ کتا شیطان ہے۔

 

نمازی کے سامنے سے جو چیز گزرے اس کو کہاں تک ہو سکے روکے

 

احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، یحیٰ ابو معلی، حضرت حسن عرنی فرماتے ہیں حضرت ابن عباس کے پاس نماز کو توڑنے والی چیزوں کا ذکر ہوا تو بعضوں نے کہا کتا ، گدھا ، عورت (بھی نماز کو توڑ دیتے ہیں ) آپ نے فرمایا بکری کے بچہ کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک بکری کا بچہ آپ کے سامنے سے گزرنے لگا تو آپ اس سے پہلے جلدی سے قبلہ کی طرف ہو گئے۔

 

٭٭ ابو کریب، ابو خالد احمر، ابن عجلان، زید بن اسلم، عبد الرحمن بن ابی سعید، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے لگے تو سترے کی طرف نماز پڑھے اور سترہ کے قریب ہو جائے اور اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے اگر کوئی گزر نے لگے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ جمال و حسن بن داؤد منکدری، ابن ابی فدیک، ضحاک بن عثمان، صدقۃ بن یسار، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھا رہا ہو تو کسی کو اپنے سامنے سے گزرنے نہ دے (یعنی اشارہ سے روک دے ) اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے۔

 

جو نماز پڑھے جب کہ اس کے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان، زہری، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں نماز پڑھتے اور میں آپ کے اور قبلہ کے درمیان جنازے کی طرح آڑی پڑی ہوتی

 

٭٭ بکر بن خلف و سوید بن سعید، یزید بن زریع، خالد حزاء، ابو قلابہ، زینب بنت ابی سلمہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ ان کا بستر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نماز پڑھنے کی جگہ کے سامنے ہوتا تھا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عباد بن عوام، شیبانی، عبد اللہ بن شداد، حضرت ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھتے حالانکہ میں آپ کے سامنے ہوتی بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں جاتے تو آپ کا کپڑا مجھے لگ جاتا۔

 

٭٭ محمد بن اسماعیل، زید بن حباب، ابو مقدام محمد بن کعب، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے باتیں کرنے والے اور سونے والے کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔

 

امام سے قبل رکوع ، سجدہ میں جانا منع ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبید، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں یہ تعلیم فرمایا کرتے تھے کہ امام سے قبل رکوع سجدہ میں نہ جائیں بلکہ جب وہ اَللہُ اَکبَرُ کہے تو تم اَللہُ اَکبَرُ کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو۔

 

٭٭ حمید بن مسعدۃ و سوید بن سعید، حماد بن محمد بن زیاد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو امام سے قبل اپنا سر رکوع سے اٹھاتا ہے اسے یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ اللہ اس کا سر گدھے کے سر جیسا کر دیں۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو بدر شجاع بن ولید، زیاد بن خیثمہ، ابو  اسحاق ، دارم، سعید بن ابی بردۃ، حضرت ابو موسیٰ  رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میرا جسم بھاری ہو گیا لہٰذا جب میں رکوع کروں تو تم رکوع کرو اور جب میں (رکوع سے ) اٹھوں تو تم اٹھو اور جب میں سجدہ کروں تو تم سجدہ کرو اور میں نہ دیکھوں کہ کوئی مجھ سے قبل رکوع یا سجدہ میں چلا جائے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان، عجلان، ابو بشر بکر بن کلف، یحییٰ بن سعید، ابن عجلان، محمد بن یحییٰ بن حبان، ابن محیریز، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رکوع سجدہ میں مجھ سے پہلے نہ جاؤ اس لئے کہ اگر میں رکوع میں تم سے پہلے چلا گیا تو تم مجھے رکوع میں پا چکو گے جب میں رکوع سے سر اٹھاؤں گا اور جب میں تم سے پہلے سجدہ کروں گا تو تم مجھے سجدہ میں پا چکے ہو گے جب میں سجدہ سے سر اٹھاؤں گا۔ میرا بدن ذرا بھاری ہو گیا ہے۔

 

نماز کے مکروہات

عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ابن ابی فدیک، ہارون بن عبد اللہ بن ہدیر تیمی، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ظلم یا جہالت اور گنوار پن کی بات ہے کہ مرد نماز سے فارغ ہونے سے پہلے بار بار پیشانی کو پونچھے۔

 

٭٭ یحییٰ بن حکیم، ابو قتیبہ، یونس بن ابی اسحاق و اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق ، حارث، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نماز میں اپنی انگلیاں مٹ چٹخاؤ۔ (کہ دیکھنے والے کو ایسا محسوس ہو جیسے تم زبردستی قیام کر رہے ہو)۔

 

٭٭ ابو سعید سفیان بن زیاد موئدب، محمد بن راشد، حسن بن ذکوان، عطاء، حضرت ابو  ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز میں منہ ڈھاپننے سے منع فرمایا۔

 

٭٭ علقمہ بن عمرو و دارمی، ابو بکر بن عیاش، محمد بن عجلان، ابو سعید مقبری، حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک صاحب کو نماز میں ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کھول (کر الگ الگ کر) دیں۔

 

٭٭ محمد بن صباح، حفص بن غیاث، عبد اللہ بن سعید مقری، سعید مقری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی جمائی لے تو اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے اور آواز نہ نکالے اس لئے کہ اس پر شیطان (خوش ہو کر) ہنستا ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، فضل بن دکین، شریک، ابو الیقظان، عدی بن ثابت، حضرت عدی بن ثابت اپنے والد سے وہ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز میں تھوکنا ، رینٹ نکالنا ، حیض اور نفاس شیطان کی طرف سے ہیں۔

 

جو شخص کسی جماعت کا امام بنے جبکہ وہ اسے ناپسند سمجھتے ہوں

 

ابو کریب، عبدۃ بن سلیمان و جعفر بن عون، افریقی، عمران، حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں فرمایا تین شخصوں کی نماز قبول نہیں ہوتی اس مرد کی نماز جو کسی جماعت کا امام بنے اور وہ اس سے (کسی شرعی اور معقول وجہ سے ) ناراض ہوں اور وہ شخص جو وقت گزرنے کے بعد نماز کے لئے آئے اور وہ شخص جو آزاد کو (زبردستی یا دھوکہ سے ) غلام بنا لے۔

 

٭٭ محمد بن عمر بن ہیاج، یحییٰ بن عبد الرحمن ارحبی، عبیدۃ بن اسود، قاسم بن ولید، منہال بن عمرو، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین شخصوں کی نماز ان کے سروں سے ایک بالشت بھی بلند نہیں ہوتی ، وہ مرد جو کسی جماعت کا امام بنے اور وہ جماعت اس سے ناراض ہو (کسی شرعی وجہ سے ) وہ عورت جو رات اس حال میں گزرے کہ اس کا خاوند اس سے ناراض ہو (کسی معقول وجہ سے ) اور وہ دو بھائی جو باہمی تعلق قطع کر دیں۔

 

دو آدمی جماعت ہیں

 

ہشام بن عمار، ربیع بن بدر، ابن بدر، عمرو بن جراد، حضرت ابو  موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو اور دو سے زیادہ آدمی جماعت ہیں۔

 

٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد الواحد بن زیاد، عاصم، شعبی، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں رات کو اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ کے پاس رہا ، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں اٹھ کر نماز پڑھنے لگے تو میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا (اور نیت باندھ لی) تو آپ نے مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا۔

 

٭٭ بکر بن خلف، ابو بشر، ابو بکر حنفی، ضحاک بن عثمان، شرجیل، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آیا اور آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا آپ نے مجھے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔

 

٭٭ نصر بن علی، علی، شعبہ، عبد اللہ بن مختار، موسیٰ بن انس، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ایک اہلیہ کو اور مجھے نماز پڑھا رہے تھے تو آپ نے مجھے اپنی دائیں طرف کھڑا کیا اور آپ کی اہلیہ نے ہمارے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔

 

 

امام کے قریب کن لوگوں کا ہونا مستحب ہے؟

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، اعمش، عمارۃ بن عمیر، ابو معمر، حضرت ابو مسعود انصاری فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لئے کھڑے ہوتے ) وقت ہمارے کندھوں پر ہاتھ پھیرتے اور فرمایا کرتے تھے آگے پیچھے مت ہونا کہیں تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جائے تم میں سے میرے قریب قریب (یعنی صف اوّل میں ) دانشور اور ذی شعور لوگ کھڑے ہوں پھر جو لوگ ان سے قریب ہوں پھر جو لوگ ان سے قریب ہوں۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، عبد الوہاب، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پسند کرتے تھے کہ مہاجرین و انصاری آپ کے قریب ہوں تاکہ آپ سے (علم اور احکام) حاصل کریں۔

 

٭٭ ابو کریب، ابن ابی زائدہ، ابو اشہب، ابو نضرۃ، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ آپ کے صحابہ میں بعض پیچھے رہتے ہیں تو فرمایا آگے بڑھو اور میری پیروی کرو اور تمہارے بعد والے تمہاری پیروی کریں کچھ ہمیشہ پیچھے ہوتے رہتے ہیں حتی کہ اللہ تعالیٰ بھی پھر ان کو پیچھے کر دیتے ہیں۔

 

امامت کا زیادہ حقدار کون ہے

بشر بن ہلال صواف، یزید بن زریع، خالد حذاء، ابو قلابہ ، حضرت مالک بن حویرث فرماتے ہیں میں اور میرے ایک ساتھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے (اور کچھ عرصہ حاضر خدمت رہ کر) جب واپس جانے لگے تو آپ نے فرمایا جب نماز کا وقت ہو تو تم اذان دو اور اقامت کہو (یعنی تم میں سے ہر ایک اذان بھی دے سکتا ہے اور اقامت بھی کہہ سکتا ہے ) اور جو تم میں بڑا ہے وہ امام بنے (کیونکہ علم تو دونوں نے برابر حاصل کیا)۔

 

٭٭ محمد بن بشار محمد بن جعفر، شعبہ، اسماعیل بن رجاء، اوس بن ضمعج، حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قوم کا امام وہ بنے جو کتاب اللہ کو سب سے زیادہ (سمجھ بوجھ کر تفسیر و معانی سے واقف ہو کر) پڑھنے والا ہو (کہ اس زمانے میں قاری کہتے ہی اسے تھے جو تفسیر کے ساتھ قرآن پڑھتا تھا آج کل کی طرح محض الفاظ کی قرأت (اور قرآن فہمی) میں برابر ہوں تو جس نے پہلے ہجرت کی وہ امام بنے اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہو جائیں تو جو ان میں عمر رسیدہ ہو وہ امام بنے اور کوئی شخص دوسرے کے گھر میں یا اس کی وجاہت اور اختیار کی جگہ میں امام نہ بنے اور نہ اس کے گھر میں عزت و تکریم کی جگہ بیٹھے الاّ یہ کہ وہ خود اجازت دے دے (تو پھر کوئی حرج نہیں )

 

امام پر کیا واجب ہے؟

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سعید بن سلیمان، عبد الحمید بن سلیمان، حضرت ابو حازم کہتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد اپنی قوم کے جوانوں کو آگے کرتے ، وہ نماز پڑھاتے تو ان سے درخواست کی گئی کہ آپ ایسا (کیوں ) کرتے ہیں حالانکہ آپ اتنے قدیم الاسلام صحابی ہیں تو انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا فرما رہے تھے کہ امام ضامن ہے (مقتدیوں کی نماز کا) لہٰذا اگر وہ اچھی طرح نماز پڑھائے تو اس کا فائدہ امام اور مقتدی سب کو ہے اور اگر برا کرے (تو اس کا و بال بھی دونوں پر ہو گا امام پر اس کی کوتاہی کی وجہ سے اور مقتدیوں پر اس کو امام مقرر کرنے کی وجہ سے کہ انہوں نے ایسے شخص کو کیوں امام بنایا یہ آخرت میں ہے اور دنیا میں یہ کہ اگر امام کی نماز صحیح نہ ہوئی تو مقتدیوں کی بھی صحیح نہ ہو گی)۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ام غراب، عقیلہ، حضرت سلامہ بنت حر فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا لوگوں پر ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ دیر تک کھڑے رہیں گے لیکن کوئی امام نہ ملے گا جو ان کو نماز پڑھائے (کیونکہ جہالت پھیل جائے گی اور امامت کے لائق کوئی شخص بھی جماعت میں نہ ہو گا)۔

 

٭٭ محرز بن سلمہ عدنی، ابن ابی حازم، عبد الرحمن بن حرملہ، حضرت ابو علی ہمدانی سے روایت ہے کہ وہ کشتی میں سوار تھے جس میں عقبہ بن عامر جہنی بھی تھے ایک نماز کا وقت آیا ہم نے ان سے درخواست کی کہ امامت کروائیں اور عرض کیا آپ ہم سب میں امامت کے زیادہ حقدار ہیں۔ آپ کے صحابی تو انہوں نے انکار فرمایا اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو لوگوں کا امام بنے اور صحیح طریق سے امامت کرے تو نماز کا اجر اس کو بھی ملے گا اور لوگوں کو بھی اور جس نے اس میں کوتاہی کی تو اس امام کو گناہ ہو گا مقتدیوں کو نہ ہو گا۔

 

جو لوگوں کا امام بنے تو وہ ہلکی نماز پڑھائے

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، اسماعیل، قیس، حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! فلاں صاحب کی وجہ سے نماز فجر کی (جماعت) سے رہ جاتا ہوں کہ وہ فجر کی نماز لمبی پڑھاتے ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نصیحت فرماتے ہوئے کبھی اتنے غصہ میں نہیں دیکھا جتنا اس دن دیکھا (فرمایا اے لوگو! تم میں سے بعض (دین کے بارے میں ) متنفر کرنے والے ہیں ، تم میں سے کوئی بھی لوگوں کو نماز پڑھائے تو مختصر نماز پڑھائے اس لئے کہ لوگوں میں کمزور اور سن رسید اور ضرورت مند (جس نے نماز کے بعد کوئی ضرورت پوری کرنے کیلئے جانا ہے ) سب قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔

 

٭٭ احمد بن عبدۃ و حمید بن مسعدۃ، حماد بن زید، عبد العزیز بن صہیب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مختصر اور مکمل نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے مقتدیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی تو نماز کو لمبا کیا تو ہم میں سے ایک صاحب چل دیئے اور اکیلے نماز ادا کر لی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا تو فرمایا وہ منافق ہے (کیونکہ اس دور میں منافق ہی جماعت چھوڑا کرتے تھے ) جب ان صاحب کو یہ معلوم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا تھا سنا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (حضرت معاذ کو مخاطب کر کے ) فرمایا اے معاذ ! (ایسے کام کر کے ) تم فتنہ باز بننا چاہتے ہو جب لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو پڑھ لیا کرو۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، محمد بن اسحاق ، سعید بن ابی ہند، مطرف بن عبد اللہ بن شخیر، حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طائف کا امیر مقرر فرمایا تو آخری نصیحت یہ فرمائی ، ارشاد فرمایا اے عثمان ! نماز میں اختصار کرنا اور لوگوں کو ان میں سب سے کمزور کے برابر سمجھنا اس لئے کہ لوگوں میں سن رسیدہ و کم سن ، بیمار اور دور کے رہائشی اور ضرورت مند سب ہوتے ہیں۔

 

٭٭ علی بن اسماعیل، عمرو بن علی، یحییٰ، شعبہ، عمرو بن مرۃ، سعید بن مسیب، حضرت عثمان ابن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آخری بات جو مجھ سے فرمائی جب تم کسی جماعت کے امام بنو تو ان پر تخفیف کرنا۔

 

 

جب کوئی عارضہ پیش آ جائے تو امام نماز میں تخفیف کر سکتا ہے

 

نصر بن علی جہضمی، عبد الاعلیٰ، سعید، قتادۃ، حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نماز شروع کرتا ہوں تو لمبی نماز پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے پھر کبھی میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز میں اختصار کر لیتا ہوں اس لئے کہ مجھے معلوم ہے کہ بچے کی ماں کو اس کے رونے کی وجہ سے پریشانی ہو گی۔

 

٭٭ اسماعیل بن ابی کریمہ حرانی، محمد بن سلمہ، محمد بن عبد اللہ بن علاثہ، ہشام بن حسان، حسن، حضرت عثمان بن ابی العاص نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز مختصر کر دیتا ہوں۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، عمر بن عبد الواحد و بشر بن بکر، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، عبد اللہ بن ابی قتادۃ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں ارادہ ہوتا ہے کہ لمبی نماز ادا کروں۔ پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے تو نماز مختصر کر دیتا ہوں اس لئے کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ بچے کی ماں کو پریشانی ہو۔

 

صفوں کو سیدھا کر نا

 

علی بن محمد، وکیع، اعمش، مسیب بن رافع، تمیم بن طرفہ، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس طرح صفیں کیوں نہیں بناتے جیسے فرشتے صفیں بناتے ہیں کہا ہم نے عرض کیا کہ فرشتے کیسے صفیں بناتے ہیں؟ فرمایا اگلی صفوں کو مکمل کرے ہیں اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔

 

٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، شعبہ ، نصر بن علی، علی، بشر بن عمر شعبہ، قتادۃ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنی صفوں کو برابر کرو اس لئے کہ صفوں کو برابر کرنا نماز کو پورا کرنے میں داخل ہے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک بن حرب، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صف کو ایسے سیدھا کرتے تھے کہ اس کو بالکل تیر یا برچھی کی طرح کر دیتے تھے فرماتے ہیں ایک بار آپ نے ایک دیکھا کہ ایک مرد کا سینہ آگے بڑھا ہوا ہے ، فرمایا اپنی صفوں کو برابر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں پھوٹ ڈال دیں گے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ جل جلالہ رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے دعائیں کرتے ہیں ان کے لئے جو صفوں کو ملاتے اور جوڑتے ہیں اور جو خالی جگہ کو بھر دے اللہ تعالیٰ اس وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند فرماتے ہیں۔

 

صف اوّل کی فضیلت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہشام دستوائی، یحییٰ بن ابی کثیر، محمد بن ابراہیم، خالد بن معدان، حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صف اول کے لئے تین بار اور دوسری کے لئے ایک بار استغفار فرمایا کرتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید و محمد بن جعفر، شعبہ، طلحہ بن مصرف، عبد الرحمن بن عوسجہ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ارشاد فرماتے سنا اللہ تعالیٰ صف اول پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔

 

٭٭ ابو ثور ابراہیم بن خالد، ابو قطن، شعبہ، قتادۃ، خلاس، ابو رافع، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر لوگوں کو صف اول کی فضیلت معلوم ہو تو (ہر ایک صف اول میں نماز پڑھنے کا خوا ہشمند اور حریص ہو جائے اور پھر اختلاف و نزاع ختم کرنے کے لئے ) قرعہ نکالنا پڑے۔

 

٭٭ محمد بن مصفی حمصی، انس بن عیاض، محمد بن عمرو بن علقمہ ، ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتے ہیں صف اول پر اور فرشتے ان کے لئے بخشش کی دعائیں مانگتے ہیں۔

 

عورتوں کی صفیں

 

احمد بن عبدۃ، عبد العزیز بن محمد، علاء، ان کے والد، سہیل، ان کے والد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے اور سب سے بری پہلی اور مردوں کے لئے سب سے بہتر صف پہلی ہے اور سب سے بری آخری۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مردوں کے لئے سب سے بہتر صف اگلی ہے اور سب سے بری پچھلی اور عورتوں کے لئے سب سے بہتر صف پچھلی ہے اور سب سے بری اگلی۔

 

ستونوں کے درمیان صف بنا کر نماز ادا کر نا

 

زید بن اخزم، ابو طالب، ابو داؤد و ابو قتیبہ، ہارون بن مسلم، معاویہ بن قرۃ، حضرت قرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ہمیں ستونوں کے درمیاں صف بنانے سے منع کیا جاتا تھا اور (اگر وہاں صف بنا ہی لیتے تو) وہاں سے ہٹا دیا جاتا تھا۔

 

صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ملازم بن عمرو، عبد اللہ بن بدر، عبد الرحمن بن علی، شیبان، حضرت علی بن شیبان جو ایک وفد میں تھے فرماتے ہیں ہم نکلے حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہرئے۔ آپ سے بیعت کی اور آپ کے پیچھے نماز ادا کی پھر آپ کے پیچھے ایک اور نماز پڑھی آپ نے نماز مکمل فرمائی تو دیکھا کہ ایک صاحب صف کے پیچھے تنہا کھڑے نماز ادا کر رہے ہیں فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی وجہ سے ٹھہر گئے جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا نماز دوبارہ پڑھ لو جو شخص صف کے پیچھے ہو اس کی نماز نہیں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، حصین، ہلال بن یساف، زیاد بن ابی الجعد، حضرت وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اعادہ (لوٹانے ) کا حکم دیا

 

صف کی دائیں جانب کی فضیلت

 

عثمان بن ابی ، معاویہ بن ہشام، سفیان، اسامہ بن زید، عثمان بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتے ہیں صفوں کی دائیں جانب پر اور فرشتے ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، مسعر، ثابت بن عبید، ابن براء بن عازب، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تو ہم پسند کرتے تھے یا فرمایا میں پسند کرتا تھا کہ ہم آپ کے دائیں کھڑے ہوں (الفاظ میں شک ثابت بن عبید کے شاگرد (معزد مسعر) کو ہوا۔)

 

٭٭ محمد بن ابی حسین ابو جعفر، عمرو بن عثمان کلابی، عبید اللہ بن عمرو الرقی، لیث بن ابی سلیم، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ مسجد کی بائیں جانب بالکل خالی ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مسجد کی بائیں جانب آباد کرے گا اس کے لئے دوہرا اجر لکھا جائے گا (ایک نماز کا اور دوسرا مسجد آباد کرنے کا)۔

 

قبلہ کا بیان

 

عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، مالک بن انس، جعفر بن محمد، محمد، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم پر آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ ہمارے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا مقام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ۔ ولید کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے عرض کیا وَاتَّخِذُوا پڑھا تھا۔ فرمایا جی۔

 

٭٭ محمد بن صباح، ہشیم، حمید طویل، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر آپ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لیں (تو بہت اچھا ہو) تو یہ آیت نازل ہوئی ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ  اِبْرٰہمَ مُصَلًّىٰ) 2۔ البقرۃ:125)۔

 

٭٭ علقمہ بن عمرو والدارمی، ابو بکر بن عیاش، ابو  اسحاق ، حضرت براء فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بیت المقدس کی طرف اٹھارہ ماہ نماز ادا کی اور مدینہ میں آنے کے دو ماہ بعد قبلہ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے بکثرت چہرہ آسمان کی طرف کرتے اور اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قلبی میلان کعبہ کی طرف ہے۔ ایک بار جبرائیل علیہ السلام اوپر چڑھے تو آپ نے ان پر نگاہیں لگائے رکھیں جبکہ وہ آسمان و زمین کے درمیان چڑھ رہے تھے آپ انتظار میں تھے کہ کیا حکم لائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ ) 2۔ البقرۃ:144) ہم دیکھتے ہیں آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا (براء فرماتے ہیں کہ قبلہ بدلنے کے بعد) ایک صاحب ہمارے پاس آئے اور کہا کہ قبلہ کعبہ کی طرف منتقل کر دیا گیا اس وقت ہم دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف پڑھ چکے تھے اور رکوع میں تھے تو ہم پھر گئے اور جتنی نماز ہم پڑھ چکے تھے اس پر باقی نماز کی بناء کی (از سر نو نماز شروع نہیں کی) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے جبرائیل ہماری ان نمازوں کا کیا ہو گا جو بیت المقدس کی طرف پڑھیں (یعنی وہ بے کار ہو جائیں گی یا ان کا اجر ملے گا؟) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی منشاء اور حکم کے مطابق تھیں۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ ازدی، ہاشم بن قاسم، محمد بن یحییٰ نیشاپوری، عاصم بن علی، ابو معشر، محمد بن عمرو ، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔

 

جو مسجد میں داخل ہو ، نہ بیٹھے حتیٰ کہ دو رکعت پڑھ لے

 

ابراہیم بن منذر حزامی و یعقوب بن حمید بن کاسب، ابن ابی فدیک، کثیر بن زید، مطلب بن عبد اللہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو نہ بیٹھے حتیٰ کہ دو رکعت (تحیۃ المسجد) پڑھ لے۔

 

٭٭ عباس بن عثمان، ولید بن مسلم، مالک بن انس، عامر بن عبد اللہ بن زبیر، عمرو بن سلیم زرقی، حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے۔ (اگر مکروہ اوقات ہوں تو پھر تحیہ المسجد نہ پڑھے اس لئے کہ مکروہ اوقات میں نماز پڑھنے سے حدیث میں شدید ممانعت وارد ہوئی ہے )۔

 

جو لہسن کھائے تو وہ مسجد کے قریب بھی نہ آئے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، سعید بن ابی عروبہ، قتادۃ، سالم بن الجعد فطفانی، حضرت معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جمعہ کے روز خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان فرمائی پھر فرمایا اے لوگو تم دو درختوں کو کھاتے ہو میں ان کو برا ہی سمجھتا ہوں یہ لہسن اور یہ پیاز اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں دیکھتا تھا کہ کسی مرد کے پاس سے اس کی بو آتی ہے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر بقیع تک باہر پہنچا دیا جاتا اور جو لاچار اس کو کھانا ہی چاہے تو پکا کر اس کی بدبو ختم کر دے۔

 

٭٭ ابو مروان عثمانی، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کوئی اس درخت یعنی لہسن کو کھائے تو وہ اس کی وجہ سے ہمیں ہماری اس مسجد میں تکلیف نہ پہنچائے۔ ابرا ہیم کہتے ہیں ہمارے والد اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گندنے اور پیاز کا اضافہ بھی نقل کرتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن صباح، عبد اللہ بن رجاء مکی، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اس درخت میں سے تھوڑا سا بھی کھا لے تو وہ مسجد (اسی حالت میں ) نہ آئے (اچھی طرح منہ کی بو زائل کر کے آ سکتا ہے )۔

 

نمازی کو سلام کیا جائے تو وہ کیسے جواب دے؟

 

علی بن محمد طنافسی، سفیان بن عیینہ، زید بن اسلم، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد قبا میں تشریف لے گئے آپ وہاں نماز پڑھ رہے تھے کہ انصار کے کچھ مرد آئے اور آپ کو سلام کیا تو میں نے صہیب سے پوچھا کیونکہ وہ بھی ان کے ساتھ ہی تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو جواب کیسے دیتے تھے فرمایا ہاتھ سے اشارہ کر دیتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، ابو زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی کام کے لئے بھیجا (واپسی پر) میں نے آپ کو نماز میں پایا تو میں نے سلام کیا آپ نے مجھے اشارہ کر دیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلا کر فرمایا ابھی تم نے مجھے سلام کیا حالانکہ میں نماز پڑھ رہا تھا؟

 

٭٭ احمد بن سعید دارمی، نضر بن شمیل، یونس بن ابی اسحاق ، ابو  اسحاق ، ابو الاحوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے پھر ہمیں کہہ دیا کہ نماز میں اہم مشغولیت ہوتی ہے (اس لئے سلام و کلام نہ کیا کرو )

 

لاعلمی میں قبلہ کے علاوہ کسی اور طرف نماز پڑھنے کا حکم

 

یحییٰ بن حکیم، ابو داؤد، اشعث بن سعید ابو الربیع السمان، عاصم بن عبید اللہ، عبد اللہ بن عمار بن ربیعۃ، حضرت عامر بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے کہ آسمان پر بادل چھا گیا اور ہم پر قبلہ مشتبہ ہو گیا ہم نے نماز پڑھ لی اور (جس طرف نماز پڑھی تھی اس طرف) نشانی لگا دی جب سورج نکلا تو معلوم ہوا کہ ہم نے قبلہ کے علاوہ اور طرف نماز پڑھ لی ہے تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اس کا تذکرہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی پس تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کی جہت ہے یعنی وہ جہت جس طرف تمہیں نماز کا حکم ہے۔

 

نمازی بلغم کس طرف تھوکے؟

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، منصور، ربعی بن حراش، حضرت طارق بن عبد اللہ محازلی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم نماز پڑھ رہے ہو تو اپنے سامنے یا دائیں طرف مت تھوکو البتہ بائیں جانب یا پاؤں کے نیچے تھوک سکتے ہو۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، قاسم بن مہران، ابو رافع، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بار مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا تم میں سے ایک کو کیا ہوا کہ اپنے رب کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوتا ہے پھر اسی کے سامنے بلغم تھوکتا ہے کیا تم میں سے کسی کو پسند ہے کہ اس کی طرف منہ کر کے اس کے سامنے بلغم تھوکا جائے جب تم میں سے کوئی تھوکے تو اپنی بائیں جانب تھوک لے یا اپنے کپڑے میں اس طرح کر لے (راوی کہتے ہیں ) پھر مجھے اسماعیل نے اپنے کپڑے میں تھوک کرمل کر دکھایا۔

 

٭٭ ہناد بن سری و عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ، ابو بکر بن عیاش، عاصم، ابو وائل ، حضرت حذیفہ نے شبث بن ربعی کو اپنے سامنے تھوکتے دیکھا تو فرمایا اے شبث اپنے سامنے مت تھوکا کرو اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سے منع فرماتے تھے اور فرمایا کہ مرد جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو اللہ تعالیٰ بذات خود اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں حتیٰ کہ وہ نماز پڑھ کر پلٹ جائے یا برا حدث کرے

 

٭٭ زید بن اخزم و عبدۃ بن عبد اللہ، عبد الصمد، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بار نماز میں اپنے کپڑے کپڑے میں تھوک کر اسے مل ڈالا۔

 

نماز میں کنکریوں پر ہاتھ پھیر کر برابر کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے کنکریوں کو چھوا اس نے فضول حرکت کی۔

 

٭٭ محمد بن صباح و عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو  سلمہ، حضرت معیقیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز میں کنکریوں کو برابر کرنے کے بارے میں ارشاد فرمایا اگر ضرور کرنا ہی ہو تو صرف ایک بار۔ (یعنی دوران نماز اب کنکریوں سے ہی نہ دھیان لگا رہے )۔

 

٭٭ ہشام بن عمار و محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، ابو الاحوص لیثی، حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی ایک نماز کے لئے کھڑا ہو تو رحمت خداوندی اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے لہذا کنکریوں پر ہاتھ پھیرے۔

 

چٹائی پر نماز پڑھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عباد بن عوام، شیبانی، عبد اللہ بن شداد، ام المومنین حضرت میمونہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چٹائی پر نماز پڑھا کرتے تھے۔

 

٭٭ ابو کریب، ابو معاویہ، اعمش، ابو سفیان، حضرت ابو سعید بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چٹائی پر نماز ادا فرمائی۔

 

٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، زمعہ بن صالح، حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں حضرت ابن عباس نے بصرہ میں اپنے بچھونے پر نماز ادا فرمائی پھر اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ رسول اللہ پنے بچھونے پر نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔

 

سردی یا گرمی کی وجہ سے کپڑوں پر سجدہ کا حکم

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد العزیز بن محمد دراوردی، اسماعیل بن ابی حبیبہ، حضرت عبد اللہ بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہمیں بنو عبد الاشہل کی مسجد میں نماز پڑھائی تو میں نے دیکھا کہ آپ نے سجدہ میں اپنے کپڑے پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔

 

٭٭ جعفر بن مسافر، اسماعیل بن ابی اویس، ابراہیم بن اسماعیل اشہلی، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ثابت بن صامت، عبد الرحمن بن ثابت صامت، حضرت صامت سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنو عبد الاشہل میں نماز ادا فرمائی آپ ایک چادر لپیٹے ہوئے تھے کنکریوں کی ٹھنڈک سے بچنے کے لئے آپ اپنے دست مبارک اسی چادر پر ہی رکھ لیتے تھے۔

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم بن حبیب، بشر بن مفضل، غالب قطان، بکر بن عبد اللہ، حضرت انس بن مالک بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شدید گرمی میں نماز پڑھتے تھے۔ جب ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی زمین پر (بوجہ تپش) نہ ٹکا سکتا تو کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کر لیتا۔

 

نماز میں مرد تسبیح کہیں اور عورتیں تالی بجائیں

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مرد تسبیح کہیں اور عورتیں اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر ماریں۔ (اگر نماز میں امام کو سہو ہو جائے یا اور کوئی حادثہ پیش آئے تو)۔

 

٭٭ ہشام بن عمار و سہل ابن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مرد (دوران نماز) سُبْحَانَ اللَّہِ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں

 

٭٭ سوید بن سعید، یحییٰ بن سلیم، اسماعیل بن امیہ و عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مردوں کو (دوران نماز) سُبْحَانَ اللَّہِ کہنے کی اور عورتوں کو تالی بجانے کی اجازت دی

 

جو توں سمیت نماز پڑھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، نعمان بن سالم، ابن اوس، حضرت ابن ابی اوس فرماتے ہیں کہ میرے دادا اوس کبھی کبھار نماز پڑھتے ہوئے مجھے اشارہ کر دیتے تو میں ان کے جوتے ان کو دے دیتا اور وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جوتوں سمیت نماز پڑھتے دیکھا۔

 

٭٭ بشر بن ہلال صواف، یزید بن زریع، حسین معلم، عمرو بن شعیب، شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جوتے اتار کر اور پہنے ہوئے دونوں طرح نماز پڑھتے دیکھا۔

 

٭٭ علی بن محمد، یحییٰ بن آدم، زہیر، ابو  اسحاق ، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جوتوں میں اور موزوں میں نماز ادا کرتے دیکھا۔

 

نماز میں بالوں اور کپڑوں کو سمیٹنا

 

بشر بن معاذ ضریر، حماد بن زید و ابو عوانہ، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے حکم ملا کہ (نماز میں ) نہ بال سمیٹوں نہ کپڑے۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عبد اللہ بن ادریس، اعمش، ابو وائل، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ حکم دیا گیا کہ (نماز میں ) نہ بال سمیٹو نہ کپڑے اور چلنے کی وجہ سے وضو نہ کریں (بلکہ اگر چلتے میں نجاست لگ گئی تو جہاں نجاست لگی ہے صرف اس جگہ کو دھو لیں )۔

 

٭٭ بکر بن خلف، خالد بن حارث، شعبہ، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ کے ایک صاحب ابو سعید کو سنا فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام ابو رافع کو دیکھا انہوں نے حسن بن علی کو نماز پڑھتے دیکھا درآنحالیکہ انہوں نے بالوں کا جوڑا باندھا ہوا تھا تو ابو رافع نے اس کو کھول دیا یا اس سے روکا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جوڑا باندھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ (دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی مردوں کیلئے جوڑا باندھنا ممنوع ہے )۔

 

نماز میں خشوع

 

عثمان بن ابی شیبہ، طلحہ بن یحییٰ، یونس، زہری، سالم ، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنی نگاہوں کو نماز میں آسمان کی طرف مت اٹھاؤ ایسا نہ ہو کہ اچک لی جائیں۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، عبد الاعلیٰ، سعید، قتادۃ، حضرت انس بن مالک نے فرمایا کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی جب نماز مکمل کر لی تو لوگوں کی طرف چہرہ کر کے فرمایا لوگوں کو کیا ہو گیا کہ آسمان کی طرف نگاہیں اٹھاتے ہیں یہاں تک اس بارے میں سخت بات فرمائی اور فرمایا کہ لوگ اس سے باز آ جائیں ورنہ اللہ ان کی نگاہیں اچک لیں گے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، عبد الرحمن، سفیان، اعمش، مسیب بن رافع، تمیم بن طرفہ، حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا باز آ جائیں وہ لوگ جو اپنی نگاہیں (دوران نماز) آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں ورنہ ان کی نگاہیں واپس نہ لوٹیں گی۔

 

٭٭ حمید بن مسعدۃ و ابو بکر بن خلاد، نوح بن قیس، عمرو بن مالک، ابو الجوزاء، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھنے آ جاتی تھی تو بعض لوگ آگے بڑھ کر صف اول میں پہنچ جاتے تاکہ اس پر نگاہ نہ پڑے اور بعض پیچھے ہو جاتے حتیٰ کہ آخری صف میں پہنچ جاتے جب رکوع میں جاتے تو اس طرح بغلوں سے جھانکتے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِیْنَ) 15۔ الحجر:24) (تر جمہ) اور ہم جانتے ہیں تم ہیں آگے بڑھنے والوں کو اور پیچھے ہٹنے والوں کو۔

 

ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم سے بعض ایک ہی کپڑا پہن کر نماز پڑھ لیتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو کیا تم میں ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں۔

 

٭٭ ابو کریب، عمر بن عبید، اعمش ابو سفیان، جابر، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ایک کپڑے میں لپٹ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ توشح کا معنی ہے کپڑا بغل سے نکال کر کندھے پر ڈالنا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عمر بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک کپڑے میں لپٹ کر اس کے دونوں کنارے کندھوں پر ڈالے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا۔

 

٭٭ ابو اسحاق شافعی ابراہیم بن محمد بن عباس، محمد بن حنظلہ بن محمد بن عباد مخزومی، معروف بن مشکان، عبد الرحمن بن کیسان، حضرت کیسان بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیر عُلیا پر ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، عمرو بن کثیر، ابن کیسان، حضرت کیسان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ظہر و عصر ایک کپڑے میں لپٹ کر پڑھتے دیکھا۔

 

قرآن کریم کے سجدہ کے بارے میں

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب انسان آیت سجدہ پڑھے پھر سجدے میں چلا جائے تو شیطان ایک طرف کو ہو کر روتا ہے اور کہتا ہے کہ آدمی کا ستیاناس ہو آدم کے بیٹے کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا اب  اس کو جنت ملے گی اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کر دیا اب میرا ٹھکانہ دوزخ ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، محمد بن یزید بن خنیس، حسن بن محمد بن عبید اللہ بن ابی یزید، ابن جریج، عبد اللہ بن ابی یزید، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نبی کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک صاحب حاضر ہوئے اور عرض کیا میں نے گزشتہ رات خواب دیکھا کہ میں ایک درخت کی جڑ میں نماز پڑھ رہا ہوں تو میں نے آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ کیا درخت نے بھی میرے ساتھ سجدہ کیا میں نے سنا درخت کہہ رہا تھا اے اللہ سجدہ کی وجہ سے میرے گناہوں کا بوجھ کم کر دیجئے اور اس کی وجہ سے میرے لئے اجر لکھ دیجئے اور اس کو اپنے ہاں میرے لئے ذخیرہ کر دیجئے ابن عباس بیان فرماتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ نبی نے آیت سجدہ پڑھی پھر سجدہ میں گئے تو میں نے وہی دعا پڑھتے سنا جو ان صاحب نے درخت سے سن کر بیان کی تھی

 

٭٭ علی بن عمرو انصاری، یحییٰ بن سعید اموی، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، عبد اللہ بن فضل، اعرج، ابو رافع، حضرت علی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سجدہ کرتے تو پڑھتے اللَّہُمَّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ أَنْتَ رَبِّی سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی شَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ تَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ اے اللہ آپ ہی کے لئے میں نے سجدہ کیا اور آپ ہی پر ایمان لایا اور آپ ہی کا مطیع ہوا آپ میرے پروردگار ہیں میرا چہرہ جھکا اس ذات کے سامنے جس نے اس میں آنکھ اور کان بنائے۔ اللہ برکت والا ہے سب بنانے والوں میں اچھا بنانے والا ہے۔

 

سجود قرآنیہ کی تعداد

 

حرملہ بن یحییٰ مصری، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، ابن ابی ہلال، عمر دمشقی، حضرت ابو الدرداء سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ گیارہ سجدے کئے ان میں سورۃ نجم کا سجدہ بھی ہے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، سلیمان بن عبد الرحمن دمشقی، عثمان بن فائد، عاصم بن رجاء بن حیوۃ، مہدی بن عبد الرحمن بن عیینہ بن خاطر، حضرت ابو الدردء بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ گیارہ سجدے کئے۔ جن میں مفصل میں سے کوئی نہ تھا۔ اعراف رعد نحل نبی اسرائیل مریم حج فرقان سجدہ سلیمان (نمل) سورۃ نحل اور سجدہ صٓ اور حم سجدہ۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ابن ابی مریم، نافع بن یزید، حارث بن سعید عتقی، عبد اللہ بن منین ، حضرت عمرو بن عاص بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو قرآن کریم میں پندرہ سجدے پڑھائے جن میں سے تین تو مفصل ہیں اور حج میں دو سجدے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ایوب بن موسی، عطاء بن میناء حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ اور اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ میں سجدہ کیا

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید، ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، عمر بن عبد العزیز، ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ میں سجدہ کیا

 

 

نماز کو پورا کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ بن عمر، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب مسجد میں آئے اور نماز ادا کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد کے ایک کونہ میں تھے۔ انہوں نے حاضر ہو کر سلام عرض کیا۔ آپ نے فرمایا (اور تم پر بھی سلام ہو) دوبارہ جا کر نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ انہوں نے سلام کا جواب دے کر فرمایا لوٹ جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ تم نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی۔ تیسری بار اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مجھے سکھا دیجئے۔ فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو خوب اچھی طرح وضو کرو پھر قبلہ رو ہو کر اللَّہُ أَکْبَرُ کہو پھر جتنا تمہیں آسان ہو قرآن پڑھو پھر رکوع میں جا کر اطمینان سے رکوع کرو پھر رکوع سے اٹھ کر اطمینان سے کھڑے ہو جاؤ پھر سجدہ میں جا کر اطمینان سے سجدہ کرو پھر سے اٹھ کر سیدھے بیٹھ جاؤ پھر باقی تمام نماز میں ایسا ہی کرو۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو عاصم، عبد الحمید بن جعفر، حضرت محمد بن عمرو بن عطا کہتے ہیں کہ میں نے نبی کے دس صحابہ جن میں ابو قتادہ بھی تھے میں حضرت ابو حمید ساعدی کو یہ کہتے سنا میں تم سب سے زیادہ بنی کی نماز کو جانتا ہوں۔ انہوں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بخدا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع میں ہم سے بڑھ کر نہیں اور نہ ہم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اللَّہُ أَکْبَرُ کہہ کر کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے اور آپ کا ہر عضو اپنی جگہ پر ٹھہر جاتا پھر قرأت فرماتے پھر اللَّہُ أَکْبَرُ کہہ کر کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے پھر رکوع میں جا کر اپنی ہتھیلیاں گھٹنوں پر زور دے کر رکھتے اپنا سر پیٹھ سے نہ اونچا رکھتے نہ نیچا بالکل برابر پھر کہتے اور کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے حتیٰ کہ ہر جوڑ اپنی جگہ ٹھہر جاتا پھر زمین کی طرف جاتے اور بازوں اور پہلوؤں کے درمیان فاصلہ رکھتے حتیٰ کہ ہر جوڑ اپنی جگہ ٹھہر جاتا۔ پھر سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑ کر اس پر بیٹھ جاتے اور سجدہ اکبر کہہ کر بائیں پاؤں پر بیٹھ جاتے حتیٰ کہ ہر جوڑ اپنی جگہ ٹھہر جاتا پھر کھڑے ہو کر دوسری رکعت پہلی رکعت کی مانند ادا فرماتے۔ پھر جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے جیسے نماز کے شروع میں کیا تھا پھر باقی نماز اسی طرح ادا فرماتے حتیٰ کہ جب وہ سجدہ کرتے جس کے بعد سلام پھیرنا ہوتا تو ایک پاؤں پیچھے کر کے بائیں جانب پر سرین کے بل بیٹھتے۔ صحابہ نے فرمایا آپ نے سچ کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسے ہی نماز ادا فرماتے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدۃ بن سلیمان، حارثہ بن ابی الرجال، حضرت عمرہ سے روایت ہے کہ میں نے عائشہ سے دریافت کیا کہ نبی نماز کیسے ادا فرماتے تھے؟ فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کے لئے برتن میں ہاتھ ڈالتے تو بسم اللہ کہتے اور خوب اچھی طرح وضو کرتے پھر قبلہ رو کھڑے ہو کر اللَّہُ أَکْبَرُ کہتے اور کندھوں کے برابر تک ہاتھ اٹھاتے پھر رکوع میں جاتے تو ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور بازوؤں کو پسلیوں سے الگ رکھتے پھر سر اٹھاتے تو کمر بالکل سیدھی کر لیتے اور تمہارے قیام سے کچھ زیادہ کھڑے رہتے پھر سجدہ میں جاتے تو قبلہ کی طرف رکھتے اور بازوؤں کو جتنا ہو سکتا جدا رکھتے پھر اٹھاتے اور بائیں پاؤں پر بیٹھ جاتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے اور آپ بائیں جانب گر پڑنے کو (سرین میں پر لگانے کو) ناپسند سمجھتے تھے۔

 

سفر میں نماز کا قصر کر نا

ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک، زبید، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت عمر نے فرمایا کہ سفر کی نماز دو رکعتیں ہیں۔ جمعہ دو رکعتیں ہیں عیدین دو رکعتیں ہیں یہ مکمل اور پوری نماز ہے اس میں کوئی قصر اور کمی نہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے (ایسا ہی معلوم ہوا )

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن بشر، یزید بن زیاد بن ابی الجعد، زبید، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت عمر بن خطاب نے بیان فرمایا سفر کی نماز دو رکعتیں ہیں۔ جمعۃ المبارک کی نماز (بھی) دو رکعتیں ہیں اور عید الفطر اور عید الاضحی (بھی) دو دو رکعتیں ہیں اور یہ پوری نماز ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، ابن جریج، ابن ابی عمار، عبد اللہ بن بابیہ، حضرت یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب سے پوچھا کہ (اللہ تعالیٰ کا ارشاد تو یہ ہے ) تم پر کچھ حرج نہیں کہ نماز میں قصر کرو اگر تمہیں کافروں کی طرف سے اندیشہ ہو اور اب تو لوگ امن میں ہوتے ہیں۔ (لہذا قصر جائز نہ ہونا چاہئے ) فرمایا مجھے بھی اسی سے تعجب ہوا جس سے تمہیں تعجب ہوا تو میں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا۔ فرمایا یہ صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے لہذا تم اس کے صدقہ کو قبول کر لو۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، عبد اللہ بن ابی بکر بن عبد الرحمن، حضرت امیہ بن عبد اللہ بن خالد نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے کہا ہمیں قرآن میں حضر کی اور خوف کی نماز تو ملی لیکن سفر کی نماز نہ ملی تو ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہماری طرف ایسی حالت میں مبعوث فرمایا کہ ہم کچھ بھی نہ جانتے تھے لہذا ہم تو اسی طرح کریں گے جیسے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کرتے دیکھا۔

 

٭٭ احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، بشر بن حرب، حضرت ابن عمر نے بیان فرما یا رسول اللہ جب مدینہ طیبہ سے باہر جاتے تو دو رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے حتیٰ کہ واپس مدینہ آ جاتے۔

 

٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب و جبارۃ بن مغلس، ابو عوانہ، بکیر بن الاخنس، مجاہد، حضرت ابن عباس نے بیان فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے بنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی حضر میں چار اور سفر میں دو رکعتیں فرض فرمائیں۔

 

سفر میں دو نمازیں اکٹھی پڑھنا

 

محرز بن سلمہ عدنی، عبد العزیز بن ابی حازم، ابراہیم بن اسماعیل، عبد الکریم، مجاہد و سعید بن جبیر و عطاء بن ابی رباح و طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر میں مغرب و عشاء (کی نماز) اکٹھی پڑھ لیا کرتے تھے حالانکہ نہ جلدی کی کوئی بات ہوتی نہ دشمن پیچھے ہوتا اور نہ ہی کسی قسم کا خوف ہوتا۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابو زبیر، ابن طفیل، حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر و عصر (کی نمازیں ) اور مغرب و عشاء (کی نمازیں ) سفرِ تبوک میں اکٹھی پڑھیں۔

 

سفر میں نفل پڑھنا

 

ابو بکر بن خلاد باہلی، ابو عامر، عیسیٰ بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب، حضرت حفص بن عاصم بن عمر فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد محترم نے حدیث سنائی فرمایا کہ سفر میں ابن عمر کے ساتھ تھے۔ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی پھر ہم ان کے ساتھ واپس ہوئے اور وہ بھی واپس ہو گئے۔ فرمایا کہ انہوں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ فرمایا یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا نفل پڑھ رہے ہیں۔ فرمایا اگر میں نے نفل پڑھنی ہوتے تو فرض نماز کو بھی پورا کر لیتا۔ اے میرے بھتیجے ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہا۔ آپ نے سفر میں دو رکعت سے زیادہ کچھ نہ پڑھا یہاں تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا۔ پھر میں ابو بکر کے ساتھ بھی رہا۔ آپ نے بھی دو رکعت سے زیادہ کچھ نہ پڑھا۔ پھر میں عمر کے ساتھ بھی رہا آپ نے بھی دو رکعت سے زیادہ کچھ نہ پڑھا۔ میں عثمان کے ساتھ رہا۔ آپ نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ان تینوں حضرات کو اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے بے شک تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات بہترین نمونہ ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد، وکیع، اسامہ بن زید، طاؤس، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضر و سفر میں نماز فرض فرمائی اور ہم حضر میں بھی پہلے اور بعد کی سنتیں پڑھتے تھے اور سفر میں پہلے اور بعد کی سنتیں پڑھتے تھے۔

 

جب مسافر کسی شہر میں قیام کرے تو کب تک قصر کرے؟

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، حاتم بن اسماعیل، حضرت عبد الرحمن بن حمید زہری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سائب بن یز ید سے دریافت کیا کہ آپ نے مکہ کی سکونت کے بارے میں کیا سنا؟ فرمایا میں نے علاء بن حضرمی کو فرماتے سنا کہ نبی نے فرمایا مہاجر کیلئے (منیٰ سے ) واپسی کے بعد تین دن تک رہنے کی اجازت ہے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو عاصم، ابن جریج، حضرت عطاء سے روایت ہے حضرت جابر نے کئی لوگوں میں مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی ذوالحجہ کی چوتھی تاریخ کو مکہ تشریف لائے۔ (اور چار دن مکہ رہے پھر منیٰ گئے اس دوران آپ نے قصر فرمایا)۔

 

٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد الواحد بن زیاد، عاصم احول، عکرمہ، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انیس روز تک قیام فرمایا دو دو رکعتیں پڑھتے رہے اور ہم بھی جب انیس دن تک قیام کریں تو دو دو رکعتیں پڑھتے ہیں اور جب اس سے زیادہ قیام کریں تو چار رکعتیں پڑھتے ہیں۔

 

٭٭ ابو یوسف بن صیدلانی محمد بن احمد رقی، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہ کے سال پندرہ شب تک قیام فرمایا (اور اس دوران) نماز قصر ہی پڑھتے رہے۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، یزید بن زریع و عبد الاعلی، یحییٰ بن ابی اسحاق ، حضرت انس سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے آپ دو دو رکعتیں پڑھاتے رہے۔ حتیٰ کہ ہم واپس لوٹے (راوی کہتے کہ) میں نے پوچھا مکہ میں کتنا قیام ہوا؟ فرمایا دس روز۔

 

نماز چھوڑ نے والے کی سزا

 

علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بندے اور کفر کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہے۔

 

٭٭ اسماعیل بن ابراہیم بالسی، علی بن حسن بن شقیق، حسین بن واقد، عبد اللہ بن بریدۃ، حضرت بریدۃ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہمارے اور ان (منافقین) کے درمیان عہد نماز ہے (جب تک یہ نماز پڑھتے رہیں گے ہم ان کو مسلمان سمجھ کر اہل اسلام کا سا معاملہ کریں گے ) پس جو نماز کو چھوڑ دے تو وہ یقیناً (ظاہری طور پر بھی) کافر ہو گیا۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، عمرو بن سعد، یزید رقاشی، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بندے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہی حائل ہے جب اس نے نماز چھوڑ دی تو شرک کا مرتکب ہو گیا۔

 

فرض جمعہ کے بارے میں

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ولید بن بکیر، ابو جناب (خباب)، عبد اللہ بن محمد عدوی، علی بن زید، سعید بن مسیب، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو ! موت سے قبل اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور مشغولیت سے قبل اعمال صالح کی طرف سبقت کرو اور اپنے اور اپنے ربّ کے درمیان تعلق قائم کر لو اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کر کے پوشیدہ اور ظاہراً صدقہ دے کر اس کی وجہ سے تمہیں رزق دیا جائے گا اور تمہاری مد د کی جائے اور تمہارے نقصان کی تلافی ہو گی اور یہ جان لو جو اللہ تعالیٰ نے میری اس جگہ اس دن اس سال کے اس ماہ میں قیامت تک کے لئے جمعہ فرض فرما دیا۔ لہذا جس نے بھی میری زندگی میں یا میرے بعد جمعہ چھوڑ دیا جبکہ اس کا کوئی عادل یا ظالم امام بھی ہو جمعہ کو ہلکا سمجھتے ہوئے یا اس کا منکر ہونے کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ اس کے پھیلاؤ اور افراتفری میں کبھی جمعیت کو کبھی مجتمع نہ فرمائیں اور نہ اس کے کام میں برکت دیں اور خوب غور سے سنو نہ اس کی نماز ہو گی نہ زکوٰۃ نہ حج نہ روزہ نہ ہی کوئی اور نیکی حتیٰ کہ تائب ہو جائے اور جو تائب ہو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرما لیتے ہیں غور سے سنو کوئی عورت کسی مرد کی امام نہیں بن سکتی اور نہ دیہات والا مہاجر کا امام بنے اور نہ فاسق (دیندار) مؤمن کا امام بنے الاّ کہ وہ مؤمن پر غلبہ حاصل کر لے اور مومن کو اس فاسق کے کوڑے یا تلوار کا خوف ہو۔

 

٭٭ یحییٰ بن خلف ابو  سلمہ، عبد الاعلی، محمد بن اسحاق ، محمد بن ابی امامہ بن سہل بن حنیف، ابو امامہ، حضرت عبد الرحمن بن کعب بن مالک کہتے ہیں جب میرے والد کی بینائی ختم ہو گئی تو میں ان کو پکڑ کر چلا کرتا تھا تو جب میں ان کو جمعہ کیلئے لے کر نکلتا اور وہ اذان سنتے تو ابو امامہ اسعد بن زُرارہ کیلئے استغفار کرتے اور دعا کرتے میں ایک عرصہ تک یہ سنتا رہا پھر میں نے دل میں سوچا کہ بخد ا! یہ تو بیوقوفی ہے۔ جب بھی جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو میں ان کو ابو امامہ کیلئے استغفار اور دعا کرتے سنتا ہوں اور میں ان سے اس کے متعلق دریافت نہیں کرتا کہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ چنانچہ میں ان کو حسب معمول جمعہ کیلئے لے کر نکلا۔ جب انہوں نے اذان سنی تو حسب سابق استغفار کیا میں نے ان سے کہا میرے اباّ جان بتایئے آپ اسعد زرارہ کے لئے اذان جمعہ سن کر استغفار اور دعا کیوں فرماتے ہیں؟ فرمایا اے میرے پیارے بیٹے ! اسعد بن زرارہ وہ شخص ہیں جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکہ سے آمد سے قبل نقیع الحضمات میں جرۃ نبی بیاضہ کے ہزم میں جمعہ کی نماز پڑھائی تھی۔ میں نے پوچھا آپ اس وقت کتنے افراد ہوتے تھے؟ فرمایا چالیس مرد۔

 

٭٭ علی بن منذر، ابن فضیل، ابو مالک اشجعی، ربعی ابن حراش، حذیفہ و ابو حازم، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلوں کو جمعہ سے ہٹا دیا (اور وہ اپنی کجی کی وجہ سے اس کے بارے میں گمراہی میں رہے ) یہود کیلئے ہفتہ کا دن اور نصاریٰ کیلئے اتوار کا دن مقرر ہوا۔ لہذا وہ قیامت تک ہمارے بعد ہیں اور ہم دنیا والوں میں آخر میں ہیں اور (آخرت کے اعتبار سے ) اوّل ہیں جس کا فیصلہ تمام خلائق سے پہلے ہو گا۔

 

جمعہ کی فضیلت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابی بکیر، زہیر بن محمد، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، عبد الرحمن ابن یزید انصاری، ابو لبابہ بن عبد المنذر، حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمعہ تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ کے ہاں تمام دنوں سے زیادہ عظمت والا ہے اور یہ اللہ کے ہاں یوم الفطر اور یوم الاضحی سے بھی زیادہ معظم ہے۔ اس میں پانچ خصلتیں ہیں اس میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو دنیا سے اٹھا لیا (یعنی ان کی وفات ہوئی) اور اسی میں ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس میں جو بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے عطا فرما دیتے ہیں بشرطیکہ حرام چیز کا سوال نہ ہو اور اسی دن قیامت قائم ہو گی تمام مقرب فرشتے آسمان زمینیں ہوائیں پہاڑ اور مندر جمعہ کے دن سے ڈرتے ہیں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی، عبد الرحمن بن یزید بن جابر، ابو الاشعث صنعانی، حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے تمام دنوں میں سب سے زیادہ فضیلت والا دن جمعہ کاہے اسی میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن صور پھونکا جائے گا اسی دن بے ہوش کیا جائے گا اس دن مجھ پر درود زیادہ بھیجا کرو اس لئے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا۔ ایک صاحب نے عرض کیا اے اللہ کے رسو ل! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا حالانکہ آپ مٹی ہو کر ختم ہو چکے ہوں گے؟ آپ نے جواب دیا اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء علیہ السلام کے اجسام کھانے کو حرام کر دیا ہے۔

 

٭٭ محرز بن سلمہ عدنی، عبد العزیز بن ابی حازم، علاء، ابو علاء، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمعہ دوسرے جمعہ تک درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کرے۔

 

جمعہ کے روز غسل

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن مبارک، اوزاعی، حسان بن عطیہ، ابو اشعث، حضرت اوس بن ثقفی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو جمعہ کے دن غسل کرائے (کہ بیوی سے صحبت کرے ) اور خود بھی غسل کرے اور صبح جمعہ کیلئے جلدی نکلے اور خطبہ کے شروع حصہ بھی سن لے اور پیدل جائے سوار نہ ہو اور امام کے قریب ہو کر توجہ سے سنے اور فضول کام نہ کرے تو اس کو ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور شب بیداری کا ثواب ملے گا

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عمر بن عبید، ابو  اسحاق ، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا جو جمعہ کے لئے آنا چاہے تو وہ غسل کر لیا کرے۔

 

٭٭ سہل بن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، صفوان بن سلیم، عطاء بن یسار، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جمعہ کے دن غسل ہر بالغ (مسلمان) کے لئے لازم ہے۔

 

جمعہ کے دن غسل ترک کرنے کی رخصت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو خوب اچھی طرح وضو کر کے جمعہ کے لئے آئے پھر امام کے قریب ہو کر خاموشی اور توجہ سے خطبہ سنے تو اس کے اس جمعہ اور دوسرے جمعہ تک کے بلکہ تین اور زیادہ کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور جو کنکریاں درست کرنے میں لگے تو اس نے لغو حرکت کی۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، یزید بن ہارون، اسماعیل بن مسلم مکی، یزید رقاشی، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے جمعہ کے روز وضو کر لیا یہ بھی اچھا اور خوب ہے اس کا فرض ادا ہو جائے گا اور جس نے غسل کیا تو غسل بہت ہی فضیلت والا ہے۔

 

جمعہ کے لئے سویرے جانا

 

ہشام بن عمار و سہل بن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے مقرر ہوتے ہیں جو لوگوں کے نام ان کے مرتبوں کے مطابق لکھتے ہیں جو کوئی پہلے آتا ہے اس کا نام پہلے پھر جو کوئی بعد میں آتا ہے اس کا اس کے بعد اور جب امام (خطبہ کے لئے ) آتا ہے تو وہ فہرستیں لپیٹ کر توجہ سے خطبہ سنتے ہیں پس سب سے پہلے جمعہ کے لئے آنے والا اونٹ قربانی کرنے والے کی مانند ہے پھر اس کے بعد والا گائے قربانی کرنے والے کی طرح ہے پھر اس کے بعد آنے والا مینڈھا قربان کرنے والے کی مانند ہے حتیٰ کہ آپ نے مرغی اور انڈے کا ذکر فرمایا۔ سہل کی حدیث کا یہ اضافہ ہے کہ جو اس کے بعد آئے (یعنی امام خطبہ کیلئے نکل چکے اس کے بعد) تو وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لئے آیا۔

 

٭٭ ابو کریب، وکیع، سعید بن بشیر، قتادۃ، حسن، حضرت سمرۃ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمعہ کی مثال بیان فرمائی پھر جمعہ کیلئے سویرے جانے کی مثال بیان فرمائی اونٹ ذبح کرنے والے کی مانند پھر گائے ذبح کرنے والے کی مانند پھر بکری ذبح کرنے والے کی مانند حتیٰ کہ مرغی کا ذکر فرمایا۔

 

٭٭ کثیر بن عبید حمصی، عبد المجید بن عبد العزیز، معمر، اعمش، ابراہیم، حضرت علقمہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کے ساتھ جمعہ کے لئے نکلا۔ انہوں نے دیکھا کہ تین آدمی ان سے پہلے پہنچ چکے ہیں تو فرمایا میں چوتھا ہوں اور چار آدمیوں میں چوتھا آنے والا بھی کچھ دور نہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا بلا شبہ قیامت کے دن اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں بیٹھنے میں اس درجہ پر ہوں گے جو جمعہ کے لئے جانے میں ان کا درجہ ہو گا پہلا دوسرا اسی درجہ پر ہو گا پھر فرمایا چار میں چوتھا اور چار میں چوتھا بھی کوئی دور نہیں۔

 

جمعہ کے دن زینت کرنا

 

حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، عمر بن حارث، یزید بن ابی حبیب، موسیٰ بن سعید، محمد بن یحییٰ بن حبان، حضرت عبد اللہ بن سلام بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جمعہ کے روز منبر پر یہ ارشاد فرماتے سنا تم میں سے کسی ایک پر کیا بوجھ ہو اگر وہ عام استعمال کے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کیلئے خصوصی دو کپڑے خرید لے؟ (جیسے کوئی بڑے کے دربار میں جائے تو خصوصی کپڑے پہنتا ہے ) دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عمرو ابن ابی سلمہ، زہیر، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمعہ کے روز لوگوں کو خطبہ دیا تو لوگوں کو پوستین پہنے دیکھا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں کسی ایک پر کیا بوجھ ہو اگر وہ عام استعمال کے کپڑوں کے علاوہ بشرط وسعت جمعہ کے لئے دو خصوصی کپڑے تیار کروائے۔

 

٭٭ سہل بن ابی سہل و حوثرۃ بن محمد، یحییٰ بن سعید قطان، ابن عجلان، سعید مقبری، ابو سعید مقبری، عبد اللہ بن ودیعہ، حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جو جمعہ کے روز خوب اچھی طرح غسل کرے اور اچھی طرح اپنا بدن پاک کرے اور اپنے کپڑوں میں سے سب سے اچھے کپڑے پہنے اور جو اللہ جل جلالہ نے اس کے گھر والوں کو خوشبو عطا فرمائی ہے وہ لگائے پھر جمعہ کے لئے اور فضول کام یا کلام نہ کرے اور دو آدمیوں کو جدا نہ کرے (یعنی دو آدمی مل کر بیٹھے ہوں ان کے درمیان گھس کر نہ بیٹھے ) اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

 

٭٭ عمار بن خالد واسطی، علی بن غراب، صالح ابی الاخضر، زہری، عبید بن اسباق، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ عید کا دن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمایا۔ سو! جو جمعہ کے لئے آنا چاہے تو غسل کر لے اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگا لے اور تم پر مسواک (بھی) لازم ہے۔

 

جمعہ کا وقت

 

محمد بن صباح، عبد العزیز بن ابی حازم، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد بیان فرماتے ہیں کہ ہمارا دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے بعد ہوتا تھا۔

 

٭٭ محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، یعلی ابن حارث، ایاس بن سلمہ بن اکوع، حضرت سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جمعہ پڑھ کر واپس آتے تو دیواروں کا سایہ اتنا بھی نہ ہوتا کہ ہم اس میں بیٹھ یا چل سکیں۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد ، حضرت سعد مؤذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں جمعہ کی اذان اس وقت دیتے جب سایہ تسمے کے برابر ہو جاتا۔

 

٭٭ احمد بن عبدۃ، معتمر بن سلیمان، حمید، حضرت انس فرماتے ہیں کہ ہم جمعہ پڑھ کر واپس آتے پھر قیلولہ کرتے۔

 

جمعہ کے دن خطبہ

 

محمود بن غیلان، عبد الرزاق، معمر، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو خطبے دیتے تھے اور دونوں خطبوں کے درمیان (چند ساعت کے لیے ) بیٹھتے بھی تھے بشر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، مساورالوراق، جعفر بن عمرو بن حریث، حضرت عمرو بن حریث اپنے والد سے مقل کر کے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سیاہ عمامہ باندھ کر منبر پر خطبہ دیتے دیکھا۔

 

٭٭ محمد بن بشار و محمد بن ولید، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے البتہ (دو خطبوں کے ) درمیان میں ایک بار بیٹھتے۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، سماک، حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے کچھ آیات پڑھتے اللہ کا ذکر کرتے۔ آپ کا خطبہ اور نماز دونوں معتدل ہوتے تھے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد، سعد بن عمار بن سعد، عمار بن سعد، حضرت سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب جنگ میں خطبہ دیتے تو کمان پر ٹیک لگاتے اور جب جمعہ میں خطبہ دیتے تو لاٹھی پر ٹیک لگاتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابن ابی غنیہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر ارشاد فرماتے تھے یا بیٹھ کر؟ فرمایا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی ( وَتَرَکُوْکَ قَاۗىِٕمًا) 62۔ الجمعہ:11) اور وہ تجھے کھڑا چھوڑ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خطبہ کھڑے ہو کر ارشاد فرماتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عمرو بن خالد، ابن لہیعہ، محمد بن زید بن مہاجر، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب منبر پر چڑھتے تو اَلسَّلَامُ عَلَیکُم وَرَحمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہ کہتے۔

 

خطبہ توجہ سے سننا اور خطبہ کے وقت خاموش رہنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ سوار، ابن ابی ذئب، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب جمعہ کے روز امام خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے ساتھی سے کہو کہ خاموش ہو جاؤ تو تم نے لغو کلام کیا۔

 

٭٭ محرز بن سلمہ عدنی، عبد العزیز بن محمد دراوردی، شریک بن ابی عبد اللہ بن نمر، عطاء بن یسار، حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمعہ کے روز کھڑے ہو کر (خطبہ میں ) سورہ تبارک پڑھی پھر ہمیں تذکیر بایام اللہ فرمائی (گز شتہ قوموں کی جزا و سزا کا ذکر کر کے عبرت دلائی) اس وقت ابو الدرداء یا ابو ذر میں سے کسی ایک نے مجھے ہاتھ لگا کر پوچھا یہ سورت کب نازل ہوئی؟ میں تو ابھی سن رہا ہوں۔ تو حضرت اُبی نے اشارہ سے ان کو خاموش رہنے کو کہا جب نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو الدرداء یا ابو ذر (میں سے جس نے سوال کیا تھا) میں نے آپ سے پوچھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی؟ تو آپ نے مجھے بتایا نہیں۔ حضرت ابی نے کہا تمہیں آج کی اس نماز میں سے یہی لغو بات حصہ میں آئی۔ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابو ذر کی بات آپ کے سامنے رکھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اُبی نے سچ کہا۔

 

جو مسجد میں اس وقت داخل ہو جب امام خطبہ دے رہا ہو؟

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، جابر، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت سلیک غطفانی مسجد میں آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ) فرمایا تم نے نماز پڑھی؟ سلیک نے عرض کیا نہیں فرمایا تو دو رکعتیں پڑھ لو۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ابن عجلان، عیاض بن عبد اللہ، حضرت ابو سعد فرماتے ہیں کہ ایک صاحب تشریف لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ تم نے نماز پڑھی۔ عرض کیا نہیں۔ فرمایا تو دو رکعتیں پڑھ لو۔

 

٭٭ داؤد بن رشید، حفص بن غیاث، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ و ابو سفیان، حضرت جابر سے روایت ہے کہ سلیک غطفانی آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ تم نے آنے سے قبل دو رکعتیں پڑھیں؟ آپ نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا مختصر سی دو رکعتیں پڑھ لو۔

 

 

جمعہ کے روز لوگوں کو پھلانگنے کی ممانعت

 

ابو کریب، عبد الرحمن محاربی، اسماعیل بن مسلم، حسن، حضرت جابر سے روایت ہے کہ جمعہ کے روز ایک صاحب اس وقت مسجد میں آئے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرما رہے تھے اور لوگوں کو پھلانگنا شروع کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہیں بیٹھ جاؤ تم نے لوگوں کو ایذاء پہنچائی ہے اور آنے میں (بھی) تاخیر کی۔

 

٭٭ ابو کریب، رشدین بن سعد، زبان بن فائد، سہل بن معاذ بن انس، حضرت معاذ بن انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے جمعہ کے روز لوگوں کی گردنیں پھاندیں اس نے جہنم تک ایک پل بنا لیا۔

 

امام کے منبر سے اتر نے کے بعد کلام کرنا

 

محمد بن بشار، ابو داؤد، جریر بن حازم، ثابت، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے روز منبر سے اتر کر ضرورت کی بات کر لیا کرتے تھے۔

 

جمعہ المبارک کی نماز میں قر آن

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، حاتم بن اسماعیل مدنی، جعفر بن محمد، محمد، حضرت عبید اللہ بن ابی رافع سے روایت ہے کہ مروان نے حضرت ابو ہریرہ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنایا اور مکہ کی طرف چلا گیا تو حضرت ابو ہریرہ نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی اور پہلی رکعت میں سورہ جمعہ اور دوسری میں سورہ منافقون کی قرأت فرمائی۔ عبید اللہ کہتے ہیں میں نماز سے فارغ ہو کر حضرت ابو ہریرہ سے ملا اور عرض کیا کہ آپ نے وہی سورتیں پڑھیں جو حضرت علی کوفہ میں پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہی سورتیں پڑھتے سنا۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان، ضمرۃ بن سعید، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ضحاک بن قیس نے حضرت نعمان بن بشیر کو خط لکھ کر پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے روز سورہ جمعہ کے ساتھ کون سی سورت پڑھا کرتے تھے؟ فرمایا آپ آیت (ہَلْ اَتٰىکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ) 88۔ الغاشیۃ:1) پڑھا کرتے تھے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، سعید بن سنان، ابو الزاہریہ، حضرت ابو عنبہ خولانی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز جمعہ میں آیت (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَى) 87۔ الاعلی:1) اور آیت (ہَلْ اَتٰىکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ) 88۔ الغاشیۃ:1) پڑھا کرتے تھے۔

 

جس شخص کو (امام کے ساتھ) جمعہ کی ایک رکعت ہی ملے

 

محمد بن صباح، عمر بن حبیب، ابن ابی ذئب، زہری، ابو  سلمہ و سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کو جمعہ کی ایک رکعت ہی (امام کے ساتھ) ملے وہ دوسری (بعد میں ) اس کے ساتھ ملا لے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کو نماز کی (صرف) ایک رکعت ملی تو اس کو بھی (گویا کہ) وہ نماز مل گئی۔

 

٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار حمصی، بقیہ بن ولید، یونس بن یزید ایلی، زہری، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کو جمعہ یا کسی اور نماز کی ایک رکعت بھی مل گئی تو وہ اس کو وہ نماز مل گئی۔

 

جمعہ کے لئے کتنی دور سے آنا چاہئے

 

محمد بن یحییٰ، سعید بن ابی مریم، عبد اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں قباء کے لوگ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرتے تھے۔

 

جو بلا عذر جمعہ چھوڑ دے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس و یزید بن ہارون و محمد بن بشر، محمد بن عمرو، عبیدۃ بن سفیان حضرمی، حضرت ابو جعد ضمری جن کو شرف صحابیت حاصل ہے۔ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جا تین بار جمعہ کی نماز ہلکا اور غیر اہم سجھ کر چھوڑ دے گا۔ اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ (یعنی محض لاپرواہی کا ثبوت دے کوئی شرعی قباحت نہ ہو)۔

 

٭٭ محمد بن مثنی، ابو عامر، زہیر، اسید بن ابی اسید، احمد بن عیسیٰ مصری، عبد اللہ بن وہب، ابن ابی ذئب، اسید، عبد اللہ بن ابی قتادۃ، حضرت جابر بن عبد اللہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو (کسی شرعی) مجبوری کے بغیر (لگا تار) تین جمعے چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر ثبت کر دیتے ہیں۔

 

٭٭ محمد بن بشار، معدی بن سلیمان، ابن عجلان، عجلان، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ بنی کا ایک گلہ ایک یا دو میل کے فاصلہ پر رکھے۔ اس کو وہاں گھاس مشکل سے ملے تو وہ دور چلا جائے پھر جمعہ آئے اور وہ شریک نہ ہو۔ پھر دوسرا جمعہ آئے وہ اس میں بھی شریک نہ ہو۔ پھر تیسرا جمعہ آئے اور وہ اس میں بھی شریک نہ ہو تو اس کے دل پر مہر لگا دی جائے گی۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، نوح بن قیس، ان کے بھائی، قتادۃ، حسن، حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو قصداً جمعہ ترک کر دے تو ایک اشرفی صدقہ کرے اگر یہ نہ ہو سکے تو آدھی اشرفی صدقہ کر دے (شاید اس سے گناہ میں کچھ تخفیف ہو جائے )

 

جمعہ سے پہلے کی سنتیں

 

محمد بن یحییٰ، یزید بن عبدربہ، بقیہ، مبشر بن عبید، حجاج بن ارطاۃ، عطیہ عوفی، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ سے قبل چار رکعت ایک سلام سے پڑھتے تھے۔

 

جمعہ کے بعد کی سنتیں

 

محمد بن بن رمح، لیث بن سعد، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر جب جمعہ کی نماز پڑھ کر آتے تو گھر میں دو رکعتیں پڑھتے پھر فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان، عمرو ، ابن شہاب، سالم، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے بعد دو سنتیں پڑھا کرتے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و ابو سائب، سلم بن جنادہ، عبد اللہ بن ادریس، سہیل بن ابی صالح، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم جمعہ کے بعد نماز پڑھو تو چار رکعت پڑھو۔

 

جمعہ کے روز نماز سے قبل حلقہ بنا کر بیٹھنا اور جب امام خطبہ دے رہا ہو تو گوٹ مار کر بیٹھنا منع ہے

 

ابو کریب، حاتم بن اسماعیل، محمد بن رمح، ابن لہیعہ، ابن عجلان، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمعہ کے روز نماز سے قبل مسجد میں حلقے بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا۔

 

٭٭ محمد بن مصفی حمصی، بقیہ، عبد اللہ بن واقد، محمد بن عجلان، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا جمعہ کے دن گوٹ مار کر بیٹھنے سے (یعنی سر بن پر دونوں پاؤں کھڑے کر کے ) جس وقت امام خطبہ دے رہا ہو۔

 

جمعہ کے روز اذان

 

یوسف بن موسیٰ قطان، جریر، عبد اللہ بن سعید، ابو خالد احمر، محمد بن اسحاق ، زہری، حضرت سائب یز ید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک ہی مؤذن تھا۔ جب آپ باہر آتے (خطبہ کے لئے ) تو اذان دے دیتا اور جب منبر سے اترتے تو اقامت کہہ دیتا اور ابو بکر و عمر کے دور میں بھی ایسا ہی رہا پھر جب عثمان کا دور آیا اور لوگ زیادہ ہو گئے تو آپ نے بازار میں ایک گھر پر جس کو زوراء کہا جاتا ہے ایک اور اذان کا اضافہ فرمایا۔ جب آپ خطبہ کے لئے آتے تو (دوسری) اذان دی جاتی اور جب منبر سے اترتے تو اقامت ہوتی۔

 

جب امام خطبہ دے تو اس کی طرف منہ کرنا

 

محمد بن یحییٰ، ہیثم بن جمیل، ابن مبارک، ابان بن تغلب، عدی بن ثابت، حضرت ثابت سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب منبر پر کھڑے ہوتے تو تمام صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منہ کر لیتے (یعنی متوجہ ہو جاتے )۔

 

جمعہ گھڑی ( ساعت )

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ایوب، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس میں جو مسلمان بھی کھڑا نماز پڑھ رہا ہو اللہ سے خیر مانگے تو اللہ اس کو ضرور عطا فرما دیتے ہیں اور ہاتھ سے اس گھڑی کے تھوڑا ہونے کا اشارہ فرمایا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، خلاد بن مخلد، کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف مزنی، حضرت عمرو بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جمعہ کے دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ میں بندہ اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا بھی سوال کرے اسے وہ چیز دے دی جاتی ہے۔ پوچھا گیا وہ کون سی گھڑی ہے؟ فرمایا نماز کے لئے اقامت سے نماز سے فراغت تک۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ابن ابی فدیک، ضحاک بن عثمان ابو النضر، ابو  سلمہ، حضرت عبد اللہ بن سلام فرماتے ہیں ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما تھے کہ میں نے عرض کیا ہمیں اللہ کی کتاب میں یہ ملا کہ جمعہ کے روز ایک ساعت ایسی ہے جس میں جو بھی ایمان والا بندہ نماز پڑھا رہا ہو اور اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کو مانگ رہا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی وہ حاجت پوری فرما دیتے ہیں۔ عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں کہ پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اشارہ سے کہا یا ساعت سے کم۔ میں نے عرض کیا آپ نے سچ فرمایا کہ یا ساعت سے کم پھر میں نے کہا وہ کون ساعت ہے؟ فرمایا دن کی آخری ساعت۔ میں نے کہا وہ نماز کا وقت تو نہیں۔ فرمایا ایمان والا بندہ جب نماز پڑھ کر اگلی نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو تو وہ نماز ہی میں ہے۔

 

سنتوں کی بارہ رکعات

 

ابو بکر بن انی شیبہ، اسحاق بن سلیمان رازی، مغیرۃ بن زیاد، عطاء حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو سنت کی بارہ رکعات پر مداومت اختیار کرے گا اس کے لئے جنت میں ایک خصوصی گھر بنایا جائے گا۔ چار رکعت ظہر سے قبل دو رکعت بعد الظہر دو رکعت بعد المغرب دو رکعت بعد العشاء اور دو رکعت قبل از فجر۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، اسماعیل بن ابی خالد، مسیب بن رافع، عنبسہ بن ابی سفیان، حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان بنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت بیان کرتی ہیں کہ جس نے دن رات میں بارہ رکعات (سنت) ادا کیں اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن سلیمان بن اصبہانی، سہیل، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے دن میں بارہ رکعت ادا کیں اس کے لئے جنت میں گھر تیار کیا جائے گا دو رکعت قبل از فجر اور دو رکعت قبل از ظہر اور دو رکعت بعد از ظہر اور مجھے گمان ہے کہ دو رکعت قبل از عصر بھی فرمائیں اور دو رکعت بعد از مغرب اور میرا گمان ہے کہ فرمایا اور دو رکعت بعد از عشاء۔

 

فجر سے پہلے دو رکعت

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب فجر کی روشنی دکھائی دیتی تو دو رکعت پڑھتے۔

 

٭٭ احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، انس بن سیرین، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر سے قبل دو رکعت ایسے ادا فرماتے کہ گویا تکبیر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کانوں میں ہے۔ (یعنی جیسے تکبیر ہو رہی ہو تو آدمی مختصر سی ادا کرتا ہے۔ ایسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی سنتیں مختصر ادا فرماتے )۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، ابن عمر، ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر فرماتی ہیں کہ جب نماز فجر کے لئے اذان دی جاتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مختصر سی دو رکعتیں نماز سے قبل پڑھتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، ابو  اسحاق ، اسود، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب وضو کرتے تو دو رکعتیں پڑھ کر نماز کے لئے نکلتے۔

 

٭٭ خلیل بن عمرو ابو عمرو، شریک، ابو  اسحاق ، حارث، حضرت علی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اقامت کے قریب دو رکعتیں پڑھتے تھے۔

 

فجر کی سنتوں میں کون سی دو سورتیں پڑھے؟

 

عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی و یعقوب بن حمید بن کاسب، مروان بن معاویہ، یزید بن کیسان، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کی سنتوں میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ وَقُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ پڑھی۔

 

٭٭ احمد بن سنان و محمد بن عبادۃ واسطی، ابو احمد، سفیان، اسحاق ، مجاہد، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک ماہ تک دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی سنتوں میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ پڑھتے رہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، جریری، عبد اللہ بن شقیق، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر سے قبل دو رکعتیں پڑھا کرتے اور فرماتے کیا خوب میں یہ دو سورتیں جو فجر کی سنتوں میں پرھی جائیں قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ اور قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ۔

 

 

جب تکبیر ہو تو اس وقت اور کوئی نماز نہیں سوائے فرض نماز کے

 

محمود بن غیلان، زہر بن قاسم، بکر بن خلف ابو بشر، روح بن عبادۃ، زکریا بن اسحاق ، عمرو بن دینار، عطاء بن یسار، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تکبیر ہو جائے تو کوئی نماز نہیں سوائے فرض نماز کے۔ دوسری سند میں یہی مضمون مروی ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، عاصم، حضرت عبد اللہ بن سرجس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک صاحب کو نماز فجر سے قبل دو رکعتیں پڑھتے دیکھا اور آپ نماز میں تھے۔ جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا ان دو میں سے کون سی نماز کو شمار کرو گے۔

 

٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، ابراہیم بن سعد، سعد، حفص بن عاصم، حضرت عبد اللہ بن مالک بن بحینہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرد کے پاس سے گزرے۔ نماز صبح کے لئے اقامت ہو چکی تھی اور وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے اس کو کچھ فرمایا ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ کیا فرمایا۔ جب اس نے سلام پھیرا تو ہم نے اس کو گھیر لیا اور اس سے پوچھنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمہیں کیا فرمایا؟ کہنے لگا یہ فرمایا کہ قریب ہے کہ تم میں کوئی فجر کی چار رکعت پڑھنے لگے۔

 

جس کی فجر کی سنتیں فوت ہو جائیں تو وہ کب ان کی قضاء کرے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، سعد بن سعید، محمد بن ابراہیم، حضرت قیس بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرد کو دیکھا کہ نماز فجر بعد دو رکعتیں پڑھ رہا ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کیا صبح کی نماز دو بار پڑھی جا رہی ہے؟ اس نے عرض کیا میں نے فجر سے پہلے کی دو سنتیں نہیں پڑھی تھیں اس لئے اب وہ پڑھ لیں۔ راوی کہتے ہیں آپ اس پر خاموش ہو رہے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم و یعقوب بن حمید بن کاسب، مروان بن معاویہ، یزید بن کیسان، ابو حازم حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک بار نیند کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فجر کی سنتیں رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورج چڑھنے کے بعد قضاء فرمائیں۔

 

ظہر سے قبل چار سنتیں

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، جریر، حضرت قابو س کہتے ہیں کہ میرے والد نے حضرت عائشہ سے کہلا بھیجا کہ کون سی (سنت) نماز پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہمیشگی اور مواظبت پسند تھی۔ فرمایا آپ ظہر سے قبل چار رکعات پڑھتے ان میں طویل قیام کرتے اور خوب اچھی طرح رکوع سجود کرتے۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، عبیدۃ بن معتب ضبی، ابراہیم، سہم بن منجاب، قزعہ، قرثع، حضرت ابو ایوب سے روایت ہے کہ جب سورج ڈھل جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر سے پہلے چار رکعت ایک سلام سے پڑھتے اور فرماتے کہ سورج ڈھلنے کے بعد آسمان کے دروازے کھلتے ہیں۔

 

جس کی ظہر سے پہلے کی سنتیں فوت ہو جائیں

 

محمد بن یحییٰ وزید بن اخزم ومحمد بن معمر، موسیٰ ابن داؤد کوفی، قیس بن ربیع، شعبہ، خالد حذاء، عبد اللہ بن شقیق، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ظہر سے پہلے چار رکعتیں فوت ہو جاتیں تو فرض کے بعد دو سنتیں پڑھ کران چار رکعتوں کو پڑھ لیتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، یزید بن ابی زیاد، حضرت عبد اللہ بن حارث فرماتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ نے کسی کو حضرت امّ سلمہ کے پاس بھیجا میں بھی اس کے ساتھ چل دیا۔ اس نے حضرت ام سلمہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے گھر میں ظہر کیلئے وضو کر رہے تھے اور آپ نے صدقات (زکوٰۃ و عشر) وصول کرنے کیلئے عامل کو بھیجا تھا اور آپ کے پاس مہاجرین بہت ہو گئے (جو بالکل محتاج تھے ) اور ان کی حالت سے آپ کو فکر ہو رہی تھی کہ دروازہ پر دستک ہوئی نبی باہر نکلے۔ نماز ظہر پڑھائی پھر جو مال وہ صدقہ وصول کرنے والا لایا تھا مستحقین میں تقسیم کرنے کیلئے بیٹھ گئے۔ ام سلمہ فرماتی ہیں عصر تک اسی میں مشغول رہے پھر میرے گھر تشریف لائے اور دو رکعتیں پڑھیں پھر فرمایا صدقات لانے والے کے کام نے ظہر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے سے روکے رکھا (یعنی ذہول ہو گیا) اس لئے میں نے عصر کے بعد وہ پڑھ لیں۔

 

ظہر سے پہلے اور بعد چار چار سنتیں پڑھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، محمد بن عبد اللہ شغیثی، عبد اللہ شغیثی، عنبسہ بن ابی سفیان، حضرت ام حبیبہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے ظہر سے پہلے اور ظہر کے بعد چار چار رکعات پڑھ لیں اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کو حرام فرما دیں گے۔

 

 

دن میں جو نو افل مستحب میں

 

علی بن محمد، وکیع، سفیان و ابی واسرائیل، ابو اسرائیل، حضرت عاصم بن حمزہ سلولی فرماتے ہیں کہ ہم نے علی سے نبی علیہ السلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دن کے نوافل متعلق دریافت کیا۔ فرمایا تم میں اتنی طاقت و ہمت نہیں (کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے برابر نوافل پڑھو اس لئے سوال کرنا بھی زیادہ مفید نہیں ) ہم نے عرض کیا آپ ہمیں بتا دیں ہم بقدر استطاعت اختیار کر لیں گے۔ فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب فجر پڑھتے تو ٹھہر جاتے حتیٰ کہ جب سورج مشرق میں اتنا اوپر آ جاتا جتنا عصر کے وقت مغرب میں ہوتا ہے تو آپ کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھتے (یہ اشراق کی نماز ہے ) پھر ٹھہر جاتے۔ یہاں تک کہ جب سورج یہاں تک آ جاتا جتنا ظہر کے وقت وہاں ہوتا ہے تو آپ کھڑے ہو کر چار رکعت (چاشت) پڑھتے اور جب سورج ڈھل جاتا تو ظہر سے پہلے کی چار سنتیں پڑھتے اور دو رکعتیں ظہر کے بعد پڑھتے اور عصر سے قبل چار رکعتیں دو سلام کے ساتھ پڑھتے اور سلام پھیرنے میں ملائکہ مقربین انبیاء کرام اور ان کے متبعین مسلمان و مؤمنین کی نیت کرتے۔ حضرت علی نے فرمایا یہ تیرہ رکعت وہ نوافل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دن میں پڑھا کرتے تھے اور ان پر مداومت کرنے والے کم ہی لوگ ہیں۔ وکیع جو راوی ہیں کہتے ہیں اس میں میرے والد نے یہ اضافہ کیا کہ حبیب بن ابی ثابت نے کہا ایابو اسحاق مجھے یہ پسند نہیں کہ اس حدیث کے بدلے مجھے تمہاری اس مسجد کے برابر بھر کر سونا ملے۔

 

مغرب سے قبل دو رکعت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، وکیع، کہمس، عبد اللہ بن بریدہ، حضرت عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر اذان و اقامت کے درمیان نماز ہے۔ تین بار یہ فرمایا۔ تیسری بار یہ بھی فرمایا کہ جو چاہے (پڑھ لے اور جو چاہے نہ پڑھے )۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، علی بن زید بن جدعان، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں مؤذن اذان دیتا تو یوں لگتا کہ اس نے اقامت کہی کیونکہ کھڑے ہو کر مغرب سے قبل دو رکعتیں پڑھنے والے بہت سے ہوتے تھے۔

 

مغرب کے بعد کی دو سنتیں

 

یعقوب بن ابراہیم دورقی، ہشیم، خالد حذار، عبد اللہ بن شقیق، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب (مسجد میں ) پڑھ کر میرے گھر تشریف لاتے اور دو رکعتیں پڑھتے۔

 

٭٭ عبد الوہاب بن ضحاک، اسماعیل بن عیاش، محمد بن اسحاق ، عاصم بن عمر بن قتادۃ، محمود بن لبید، حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس بنو عبد الاشہل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے ہمیں ہماری مسجد میں نماز مغرب پڑھا کر فرمایا وہ دو رکعتیں اپنے اپنے گھروں میں پڑھ لو۔

 

مغرب کے بعد سنتوں میں کیا پڑھے؟

 

احمد بن ازہر، عبد الرحمن بن واقد، محمد بن مؤمل بن صباح، بدل بن محبر، عبد الملک بن ولید، عاصم بن بہدلہ، ذر و ابو وائل، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب کے بعد کی سنتوں میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ وَقُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ پڑھا کرتے تھے۔

 

مغرب کے بعد چھ رکعات

 

علی بن محمد، ابو حسین عکلی، عمر بن ابی خثعم یمامی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو  سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے مغرب کے بعد چھ رکعات پڑہیں ان کے درمیان کوئی بری بات نہیں کہی تو یہ چھ رکعات اس کے لئے بارہ برس کی عبادت کے برابر ہوں گی۔

 

وتر کا بیان

 

محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، عبد اللہ بن راشد الذوفی، عبد اللہ بن مرۃ الزوفی، حضرت خارجہ بن حذافہ عدوی بیان فرماتے ہیں کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز بڑھا دی جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی افضل ہے اور وہ (نماز) وتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمہارے لئے مقرر فرمایا ہے نماز عشاء سے طلوع فجر تک۔

 

٭٭ علی بن محمد و محمد بن صباح، ابو بکر بن عیاش، ابو  اسحاق ، عاصم بن ضمرۃ سلولی، حضرت علی بن ابی طالب بیان فرماتے ہیں کہ وتر نہ واجب ہیں نہ فرض نماز کی طرح فرض ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وتر پڑھے پھر ارشاد فرمایا اے قرآن والو ! وتر پڑھا کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ وتر (طاق) ہے وتر کو پسند فرماتا ہے۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، ابو حفص ابار، اعمش، عمرو بن مرۃ، ابو عبیدۃ، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ طاق کو پسند فرماتا ہے اے قرآن والو ! وتر پڑھو۔ دیہات کے ایک صاحب نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا فرماتے ہیں؟ حضرت ابن مسعود نے فرمایا وتر تمہارے لئے اور تمہارے ساتھیوں کے لئے نہیں ہیں۔

 

وتر میں کون کون سی سورتیں پڑھی جائیں؟

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو حفص ابار، اعمش، طلحہ و زبید، ذر، سعید بن عبد الرحمن بن ابزی، ابزی، حضرت ابی بن کعب بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر میں بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ پڑھا کرتے تھے۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، ابو احمد، یونس بن ابی اسحاق ، ابو  اسحاق ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے یہی روایت ہے۔ دوسری سند سے بھی یہی مروی ہے۔

 

٭٭ محمد بن صباح و ابو یوسف رقیم، محمد بن احمد صیدلانی، محمد بن سلمہ، خصیف، حضرت عبد العزیز بن جریج فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر میں کیا پڑھا کرتے تھے؟ فرمایا پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی دوسری میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ تیسری میں قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ وَ الْمُعَوِّذَتَیْنِ پڑھا کرتے تھے۔

 

ایک رکعت وتر کا بیان

 

احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، انس بن سیرین، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات دو دو رکعت پڑھتے اور ایک رکعت پڑھتے

 

٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد الواحد بن زیاد، عاصم، ابو مجلز، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رات کے نوافل دو دو رکعت ہیں اور وتر ایک رکعت ہے (راوی کہتے ہیں ) میں نے عرض کیا بتایئے اگر میری آنکھ لگ جائے اگر میں سو جاؤں۔ فرمایا یہ اگر مگر اس ستارہ کے پاس لے جاؤ میں نے سر اٹھایا تو سماک تارہ نظر آیا دوبارہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رات کے نوافل دو دو رکعت ہے اور وتر صبح سے قبل ایک رکعت ہے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، مطلب بن عبد اللہ، حضرت ابن عمر سے ایک مرد نے پوچھا کہ میں وتر کیسے پڑھو؟ فرمایا ایک وتر پڑھ لو۔ عرض کیا مجھے خدشہ ہے کہ لوگ اس کو بتیراء (دُم کٹی) کہیں گے (اور نبی نے تبیراء ایک رکعت والی نماز سے منع بھی فرمایا ہے ) تو فرمایا سنت ہے اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یعنی ایک رکعت وتر پڑھنا۔ اللہ اور اس کے رسول کا بتایا ہوا طریقہ ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، ابن ابی ذئب، زہری ، عروۃ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعت پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے۔

 

وتر میں دعاء قنوت نازلہ

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک، ابو  اسحاق ، برید بن ابی مریم، ابو الحوراء، حضرت حسن بن علی فرماتے ہیں کہ میرے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے کچھ کلمات سکھائے جو میں وتر میں پڑھتا ہوں۔

 

٭٭ ابو عمر حفص بن عمر، بہز بن اسد، حماد بن سلمہ، ہشام بن عمرو فزاری، عبد الرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی، حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر کے آخر میں یہ پڑھتے دعا۔ اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سُخْطِکَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِی ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ

 

جو قنوت میں ہاتھ نہ اٹھائے

 

نصر بن علی جہضمی، یزید بن زریع، سعید، قتادۃ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی دعا میں ہاتھ نہ اٹھاتے تھے البتہ بارش کے لئے دعا میں ہاتھ اٹھاتے تھے حتیٰ کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی۔

 

 

دعا میں ہاتھ اٹھانا اور چہرہ پر پھیر نا

 

ابو کریب و محمد بن صباح، عائذ بن حبیب، صالح بن حسان انصاری، محمد بن کعب قرظی، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم اللہ عزوجل سے دعا مانگو تو ہتھیلیاں منہ کی طرف رکھ کر دعا مانگو ہتھیلیوں کی پشت منہ کی طرف مت کیا کرو اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو ہاتھ چہرہ پر پھیر لیا کرو۔

 

رکوع سے قبل اور بعد قنوت

 

علی بن میمون رقی، مخلد بن یزید، سفیان، زبید یامی، سعید بن عبد الرحمن بن ابزی، ابزی، حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر پڑھتے تو قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، سہل بن یوسف، حمید، حضرت انس بن مالک سے نماز صبح میں قنوت سے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا ہم رکوع سے قبل اور رکوع کے بعد دونوں طرح قنوت پڑھ لیتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، عبد الوہاب، ایوب، حضرت محمد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے قنوت کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کے بعد قنوت پڑھا۔

 

اخیر رات میں وتر پڑھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو بکر بن عیاش، ابن حصین، یحییٰ، حضرت مسروق کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وتر کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ رات کے ہر حصے میں آپ نے وتر پڑھے شروع میں بھی درمیان میں بھی اور وفات کے قریب آپ کے وتر سحر کے قریب ختم ہوتے۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابو  اسحاق ، عاصم بن ضمرۃ، حضرت علی بیان فرماتے ہیں کہ رات کے ہر حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وتر ادا کئے شروع میں اور درمیان میں اور اخیر وتر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سحر تک ہے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، ابن ابی غنیہ، اعمش، ابو سفیان، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے جس کو یہ اندیشہ ہو کہ رات کے آخر میں بیدار نہ ہو سکے گا تو وہ رات کے شروع ہی میں وتر ادا کر لے پھر سوئے اور جس کو اخیر رات میں بیدار ہو جانے کی امید ہو تو وہ اخیر میں وتر پڑھے کیونکہ اخیر رات کی قرأت میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ زیادہ فضیلت کی بات ہے۔

 

٭٭ ابو مصعب احمد بن ابی بکر مدینی و سوید بن سعید، عبد الرحمن بن زید بن اسلم، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو وتر پڑھے بغیر سو گیا اور وتر پڑھنا بھول گیا تو صبح کو یا جب بھی یاد آئے وتر پڑھ لے۔ (یعنی وتر کا وجوب ثابت ہو رہا ہے۔ )

 

٭٭ محمد بن یحییٰ و احمد بن ازہر، عبد الرزاق، معمر، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو نضرۃ، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صبح سے پہلے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔

 

تین پانچ سات اور نو رکعات وتر پڑھنا

 

عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، فریابی، اوزاعی، زہری، عطاء بن یزید لیثی، حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وتر لازمی اور واجب ہیں لہذا جو چاہے پانچ رکعات وتر پڑھے اور جو چاہے تین رکعات وتر پڑھے اور جو چاہے ایک رکعت وتر پڑھ لے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، سعید بن ابی عروبہ، قتادۃ، زرارۃ بن اوفی، حضرت سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ سے عرض کیا کہ اے ام المؤمنین ! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وتر کے متعلق بتایئے۔ فرمایا ہم آپ کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیتی تھیں پھر رات کے جس حصہ میں اللہ چاہتے آپ کو بیدار فرما دیتے۔ آپ مسواک کرتے پھر نو رکعات پڑھتے ان میں آٹھویں رکعت پر ہی بیٹھتے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے اور تعریف کرتے اور دعا مانگتے پھر کھڑے ہوتے اور سلام نہ پھیرتے پھر کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے پھر بیٹھ جاتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے اور تعریف کرتے اور اللہ سے دعا مانگتے اور اس کے نبی پر (یعنی اپنے اوپر) دردو بھیجتے پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سنائی دیتا۔ پھر سلام کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے یہ گیارہ رکعات ہوئیں جب آپ کی عمر زیادہ ہو گئی اور جسم پر گوشت ہو گیا تو آپ سات رکعات پڑھتے اور سلام کے بعد دو رکعتیں پڑھتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حمید بن عبد الرحمن زہیر، منصور، حکم، مقسم، حضرت ام سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سات یا پانچ رکعات وتر پڑھتے اور ان (وتروں ) کے درمیان سلام و کلام فاصلہ نہ ہوتا۔

 

سفر میں وتر پڑھنا

 

احمد بن سنان و اسحاق بن منصور، یزید بن ہارون، شعبہ، جابر، سالم، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر میں دو رکعتیں پڑھتے اس سے زیادہ نہ پڑھتے اور رات کو تہجد بھی پڑھتے (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے کہا اور آپ وتر بھی پڑھتے تھے فرمایا جی۔

 

٭٭ اسماعیل بن موسی، شریک، جابر، عامر، حضرت ابن عباس عمر فرماتے ہیں کہ سفر کی نماز دو کعت پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ ہے اور یہ مکمل نماز ہے قصر اور کم نہیں اور سفر کم نہیں اور سفر میں وتر پڑھنا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ ہے۔

 

وتر کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھنا

 

محمد بن بشار، حماد بن مسعدہ، میمون بن موسیٰ مرئی، حسن، ام حسن، حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر کے بعد مختصر سی دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، عمرو بن عبد الواحد، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو  سلمہ، حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک رکعت وتر پڑھتے پھر دو رکعتیں پڑھتے ان میں بیٹھ کر قرأت فرماتے رہتے جب رکوع کرنے لگتے تو کھڑے ہو کر رکوع میں جاتے۔

 

وتر کے بعد اور فجر کی سنتوں کے بعد مختصر وقت کے لئے لیٹ جانا

 

علی بن محمد، وکیع، مسعر و سفیان، سعد بن ابراہیم، ابو  سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں میں اخیر رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے پاس سوتا ہوا پاتی یعنی وتر کے بعد (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ دیر کے لئے لیٹ جاتے پھر اٹھ کر سنتیں پڑھ لیتے )۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، عبد الرحمن بن اسحاق ، زہری، عروۃ، امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی سنتیں پڑھ کر دائیں کروٹ پر (کچھ دیر کے لئے ) لیٹ جاتے۔

 

٭٭ عمر بن ہشام ، نضر بن شمیل، سہیل بن ابی صالح، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی سنتوں کے بعد کروٹ پر لیٹ جاتے۔

 

سواری پر وتر پڑھنا

 

احمد بن سنان، عبد الرحمن بن مہدی، مالک بن انس، ابو بکر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب، حضرت سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر کے ساتھ تھا تو میں پیچھے رہ گیا اور وتر پڑھے۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا تمہارے پیچھے وہ جانے کا کیا سبب ہوا۔ میں نے کہا کہ میں نے وتر پڑھے (اس لئے پیچھے رہ گیا) فرمایا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمل میں تمہارے لئے بہترین نمونہ نہیں۔ میں نے کہا کیوں نہیں ضرور ہے۔ فرمایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اونٹ پر وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن یزید اسفاطی، ابو ادوود، عباد بن منصور، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی سواری پر بھی وتر پڑھ لیتے تھے۔

 

شروع رات میں وتر پڑھنا

 

ابو داؤد سلیمان بن توبہ، یحییٰ بن ابی بکیر، زائدہ، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو بکر سے فرمایا آپ وتر کب پڑھتے ہیں؟ عرض کیا عشاء کے بعد شروع رات میں۔ فرمایا اے عمر ! آپ؟ عرض کیا رات کے اخیر میں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یا ابو بکر آپ نے اعتماد والی صورت کو اختیار کیا (کہ رات کے اخیر کا علم نہیں آنکھ کھلے نہ کھلے وتر کی یقین ادائے گی اوّل رات ادا کر لینے میں ہے ) اور عمر آپ نے ہمت اور قوّت والی صورت اختیار کی۔ حضرت ابن عمر سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔

 

نماز میں بھول جانا

 

عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ، علی بن مسہر، اعمش، ابراہیم بن علقمہ، حضرت عبد اللہ مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی تو زیادتی ہو گئی یا کمی (ابراہیم کہتے ہیں کہ شک مجھے ہوا) تو آپ سے عرض کیا گیا کہ کیا نماز میں کچھ اضافہ کر دیا گیا ہے؟ فرمایا میں بشر ہی تو ہوں تمہاری طرح بھول بھی جاتا ہوں۔ جب تم میں سے کوئی بھول جائے تو بیٹھ کر دو سجدے کر لے پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مڑے اور دو سجدے کئے۔

 

٭٭ عمرو بن رافع، اسماعیل بن علیہ ، ہشام ، یحییٰ، حضرت عیاض نے حضرت ابو سعید خدری سے پوچھا کہ ہم میں سے کوئی ایک نماز پڑھ رہا ہو تو اس کو توجہ نہ رہے کہ کتنی رکعات پڑھ لیں (تو کیا کرے ) فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کو توجہ نہ رہے کہ کتنی رکعات پرھیں تو بیٹھ کر دو سجدے کر لے۔

 

بھول کر ظہر کی پانچ رکعات پڑھنا

 

محمد بن بشار و ابو بکر بن خلاد، یحییٰ بن سعید، شعبہ، حکم، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی پانچ رکعات پڑھا دیں تو آپ سے عرض کیا گیا کہ کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ فرمایا کیوں؟ لوگوں نے آپ کو بتایا (کہ پانچ رکعات پڑھی تھیں ) آپ نے اپنا پاؤں موڑا اور دو سجدے کر لئے۔

 

دو رکعتیں پڑھ کر بھولے سے کھڑا ہونا ( یعنی پہلا قعدہ نہ کرنا)

 

عثمان و ابو بکر ابن ابی شیبہ و ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، اعرج، حضرت ابن بحینہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی میرا گمان ہے کہ عصر کی نماز تھی آپ دوسری رکعت میں بیٹھنے سے قبل ہی کھڑے ہو گئے (اور تیسری رکعت شروع کر دی) پھر آپ نے سلام پھیرنے سے قبل دو سجدے کئے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر و ابن فضیل و یزید بن ہارون، عثمان بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر و یزید بن ہارون و ابو معاویہ، یحییٰ بن سعید، عبد الرحمن اعرج، حضرت ابن بحینہ نے بیان فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے (یعنی) بیٹھنا بھول گئے۔ حتیٰ کہ جب (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو سلام پھیرنے سے قبل سہو کے دو سجدے کئے اور سلام پھیرا۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن یوسف، سفیان، جابر، مغیرۃ بن شبیل، قیس ابو حازم، حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی دو رکعتیں پڑھ کر کھڑا ہو تو اگر پوری طرح کھڑا نہیں ہوا تو بیٹھ جائے اور اگر پورا کھڑا ہو گیا تو بیٹھے نہیں اور سہو کے دو سجدے کر لے۔

 

نماز میں شک ہو تو یقین کی صورت اختیار کرنا

 

ابو یوسف رقی محمد بن احمد صیدلانی، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، مکحول، کریب، ابن عباس، عبد الرحمن بن عوف، حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ جب تم میں سے کسی کو دو اور ایک میں شک ہو تو اس (دو) کو ایک قرار دے اور جب دو اور تین میں شک ہو تو اس (تین) کو دو قرار دے اور جب تین اور چار میں شک ہو تو ان (چار) کو تین قرار دے پھر اپنی باقی نماز پوری کرے تاکہ وہم زیادہ کا ہی رہے۔ پھر دو سجدہ کر لے۔ بیٹھ کر سلام پھیرنے سے قبل۔

 

٭٭ ابو کریب، ابو خالد احمر، ابن عجلان، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو بھی نماز میں شک ہو جائے تو شک نظر انداز کر دے اور باقی نماز کی بناء یقین پر کرے اور جب نماز یقین طور پر پوری ہو جائے تو دو سجدے کر لے اگر اس کی نماز (واقعی میں ) نماز ناقص ہو گی تو رکعت اس کی نماز کو پورا کر دے گی اور دو سجدے شیطان کی ناک کو خاک آلودہ کر دیں گے۔

 

نماز میں شک ہو تو کو شش سے جو صحیح معلوم ہو اس پر عمل کرنا

 

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک نماز پڑھائی۔ یاد نہیں اس میں کچھ کمی ہو گئی یا اضافہ تو آپ نے پوچھا ہم نے بتا دیا۔ آپ نے اپنے پاؤں موڑے قبلہ کی طرف منہ کیا اور دو سجدے کر لئے پھر سلام پھیر کر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اگر نماز کے متعلق کوئی نئی بات نازل ہوتی تو میں تمہیں ضرور بتاتا اور میں تو بشر ہوں تمہاری طرح بھول جاتا ہوں اس لئے اگر میں بھول جاؤں تو تم مجھے یاد کرا دیا کرو اور تم میں سے کسی کو جب نماز میں شک ہو تو درستگی کے زیادہ قریب بات کو سوچے اور اس کے حساب سے نماز پوری کر کے سلام پھیر کر دو سجدے کر لے۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، مسعر، منصور، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو تو درستگی کو سوچے پھر دو سجدے کر لے۔ طنافسی کہتے ہیں کہ یہ کلی اصول اور قاعدہ ہے اور کسی کو اس کے خلاف کرنے کا اختیار نہیں۔

 

بھول کر دویا تین رکعات پر سلام پھیر نا

 

علی بن محمد و ابو کریب و احمد بن سنان، ابو اسامہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک بار سہو ہو گیا آپ نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ ایک صاحب (جنہیں ذوالیدین کہا جاتا تھا) نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! نماز کم کر دی گئی یا آپ بھول گئے؟ فرمایا نہ نماز کم ہوئی نہ میں بھولا۔ عرض کیا پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھی ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا ایسا ہی ہے جیسا ذوالیدین کہہ رہے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا جی ! تو آپ آگے بڑھے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا سہو کے دو سجدے کئے۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو اسامہ، ابن عون، ابن سیرین، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں شام کی دو نمازوں (ظہر و عصر (میں سے کوئی نماز دو رکعت پڑھائی پھر سلام پھر کر مسجد میں لگی ہوئی اس لکڑی کی طرف بڑھے جس پر آپ ٹیک لگایا کرتے تھے تو جلد باز لوگ یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ نماز کم کر دی گئی۔ جماعت میں ابو بکر و عمر بھی تھے لیکن آپ کی ہیبت کی وجہ سے کچھ عرض نہ کر سکے اور جماعت میں لمبے ہاتھوں والے ایک صاحب بھی تھے جن کو ذوالیدین کا نام دیا جاتا تھا۔ وہ عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی یا آپ بھول گئے؟ فرمایا نہ نماز مختصر کی گئی اور نہ میں بھولا۔ عرض کیا پھر آپ نے تو دو رکعتیں پڑھی ہیں۔ آپ نے پوچھا کیا ایسا ہی ہے جیسا ذوالیدین کہہ رہے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا جی! راوی کہتے ہیں پھر آپ کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیرا پھر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔

 

٭٭ محمد بن مثنی و احمد بن ثابت جحدری، عبد الوہاب، خالد حذاء، ابو قلابہ، ابو المہلب، حضرت عمر بن حصین فرماتے ہیں کہ ایک بار نماز عصر کی تین رکعات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیر دیا تو لمبے ہاتھوں والے مرد جناب خرباق کھڑے ہوئے اور پکار کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا نماز کم کر دی گئی؟ آپ غصہ کی حالت میں اپنا ازار گھیسیٹتے ہوئے نکلے۔ پھر آپ نے پوچھا جب بتایا گیا تو آپ نے چھوٹی ہوئی رکعت پڑھ کر سلام پھیرا پھر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔

 

سلام قبل سجدہ سہو کر نا

 

سفیان بن وکیع، یونس بن بکیر، ابن اسحاق ، زہری، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر ایک کے پاس نماز میں شیطان آ کر اس نمازی اور اس کے دل کے درمیان گھس جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کو نماز میں کمی زیادتی کا علم نہیں رہتا جب ایسا ہو جائے تو وہ دو سجدے کر لے سلام پھیرنے سے قبل پھر سلام پھیرے۔

 

٭٭ سفیان بن وکیع، یونس بن بکیر، ابن اسحاق ، سلمہ بن صفوان بن سلمہ، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شیطان انسان اور اس کے دل کے درمیان گھس جاتا ہے پھر اسے پتہ نہیں چلتا کہ کتنی رکعات پڑھیں جب ایسا لگے تو سلام سے قبل دو سجدے کر لے۔

 

سجدہ سہو  سلام کے بعد کرنا

 

ابو بکر بن خلاد، سفیان بن عیینہ، منصور، ابراہیم، علقمہ، حضرت ابن مسعود سلام کے بعد سجدہ کرتے اور فرماتے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا ہی کیا (یعنی یہ عمل میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کرتے دیکھا ہے )۔

 

٭٭ ہشام بن عمار و عثمان بن ابی شیبہ، اسماعیل بن عیاش، عبید اللہ بن عبید، زہیر بن سالم عنسی، عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر، حضرت ثوبان بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ ہر سہو میں سلام کے بعد دو سجدے ہیں۔

 

نماز پر بنا کرنا

 

یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد اللہ بن موسیٰ تیمی، اسامہ بن زید، عبد اللہ بن یزید مولی اسود بن سفیان، محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لئے تشریف لائے اور اقامت ہو گئی پھر آپ نے صحابہ کو اشارہ کیا وہ ٹھہر گئے پھر آپ تشریف لے گئے۔ غسل کیا اور آپ سر سے پانی ٹپک رہا تھا آپ نے صحابہ کو نماز پڑھائی جب سلام پھیرا تو فرمایا میں بحالت جنابت تمہاری طرف آ گیا تھا میں بھول گیا تھا یہاں تک کہ نماز کے لئے کھڑا ہو گیا (پھر یاد آیا تو چلا گیا )

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ہیثم بن خارجہ، اسماعیل بن عیاش، ابن جریج، ابن ابی ملیکہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کو نماز میں قے آئے یا نکسیر پھوٹے یا منہ بھر کر پانی نکلے یا مذی نکل جائے تو وہ واپس جا کر وضو کرے پھر اپنی نماز پر بنا کرے اور اس دوران وہ بات نہ کرے۔

 

نماز میں حدث ہو جائے تو کس طرح واپس جائے؟

 

عمر بن شبہ بن عبیدۃ بن زید، عمر بن علی مقدمی، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو نماز کے دوران حدث ہو جائے تو ناک تھامے واپس ہو جائے۔ دوسری سند سے یہی مروی ہے۔

 

بیمار کی نماز

 

علی بن محمد، وکیع، ابراہیم بن طہمان، حسین معلم، ابن بریدہ، ابن بریدہ، حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ مجھے ناسور (بواسیر) کا عارضہ تھا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھو ایسا نہ کر سکو تو بیٹھ کر اگر یہ بھی نہ کر سکو تو کروٹ کے بل لیٹ کر نماز پڑھ لو۔

 

٭٭ عبد الحمید بن بیان واسطی، اسحاق ، ازرق، سفیان، جابر، ابو جریر، حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیماری کی حالت میں دائیں طرف بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا۔

 

نفل نماز ( بلا عذر) بیٹھ کر پڑھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، ابو  اسحاق ، ابو  سلمہ، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جس ذات نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اٹھا لیا اس کی قسم مرتے دم تک آپ کی بیشتر نماز بیٹھ کر تھی اور آپ کو سب سے زیادہ پسند وہ نیک عمل تھا جس پر بندہ مداومت اختیار کرے خواہ تھوڑا ہو۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، ولید بن ابی ہشام، ابو بکر بن محمد، عمرۃ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (نفل نماز میں ) بیٹھ کر قرأت کرتے رہتے جب رکوع کرنے لگتے تو چالیس آیات کی بقدر کھڑے ہو جاتے۔

 

٭٭ ابو مروان عثمانی، عبد العزیز بن ابی حازم، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رات کے نوافل کھڑے ہو کر پڑھتے ہی دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ کی عمر زیادہ ہو گئی تو آپ بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔ حتیٰ کہ جب آپ کی (مقررہ مقدار قرأت میں سے تیس چالیس آیات رہ جاتیں تو کھڑے ہو کر پڑھتے اور (رکوع و سجود) میں چلے جاتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی ابی شیبہ، معاذ بن معاذ، حمید، حضرت عبد اللہ بن شقیق عقیلی کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے متعلق پوچھا۔ تو فرمایا آپ کسی رات کھڑے ہو کر طویل نماز پڑھتے اور کسی رات بیٹھ کر طویل نماز پڑھتے۔ جب کھڑے ہو کر قرأت کرتے تو کھڑے کھڑے ہی رکوع میں چلے جاتے اور جب بیٹھ کر قرأت کرتے بیٹھے بیٹھے رکوع کر لیتے۔

 

بیٹھ کر نماز پڑھتے میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے سے آدھا ثواب ہے

 

عثمان بن ابی شیبہ، یحییٰ بن آدم، قطبہ، اعمش، حبیب بن ابی ثابت، عبد اللہ بن بایاہ، حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قریب سے گزرے تو فرمایا بیٹھ کر پڑھتے والے کی نماز (ثواب کے اعتبار سے ) آدھی ہے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز سے۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، بشر بن عمر، عبد اللہ بن جعفر، اسماعیل بن محمد بن سعد، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نکلے تو دیکھا کچھ لوگ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں تو فرمایا بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز آدھی ہے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز سے۔

 

٭٭ بشر بن ہلال صواف، یزید بن زریع، حسین معلم، عبد اللہ بن بریدہ، حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ انہوں نے مرد کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا۔ فرمایا جس نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو یہ افضل ہے اور جس نے بیٹھ کر نماز پڑھی تو اس کو کھڑے ہونے والے سے آدھا ثواب ملے گا اور جس نے لیٹ کر نماز پڑھی تو اس کو بیٹھ کر نماز پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مرض الوفات کی نمازوں کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ و وکیع، اعمش، علی بن محمد، وکیع، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں انتقال ہوا (اور ابو معاویہ نے کہا جب بیمار ہوئے ) تو بلال آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لئے آئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابو بکر سے کہو لوگوں کو نماز پڑھائے۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ابو بکر رقیق القلب مرد ہیں جب آپکی جگہ کھڑے ہوں گے (تو آپ کے خیال سے ) رونے لگیں گے۔ اس لئے نماز بھی نہ پڑھا سکیں گے اگر آپ عمر کو حکم دیں اور وہ نماز پڑھائیں (تو یہ اچھا ہو گا) آپ نے فرمایا ابو بکر سے کہو نماز پڑھائیں۔ تم تو یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی ہو (جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ زلیخا نے یہ معاملہ کیا کہ عورتوں کی دعوت کی اور مقصد دعوت نہ تھی بلکہ یوسف کے حسن و جمال کا اظہار مقصود تھا تاکہ وہ عورتیں زلیخا کو معذور سمجھیں ) ایسے ہی تم ظاہر میں تو یہ کہہ رہی ہو کہا ابو بکر نرم دل آدمی ہیں نماز میں رونے لگیں گے اصل مقصد یہ ہے کہ لوگ ابو بکر کو منحوس نہ سمجھنے لگیں اگر میری وفات ہو گئی تو ان کو پسند نہ کریں گے اس بات سے ابو بکر کو بچانا چاہتی ہو) عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم نے ابو بکر کو کہلا بھیجا۔ آپ نماز پڑھانے لگے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محسوس کیا کہ اب طبیعت ہلکی ہو گئی ہے تو دو مردوں کے سہارے نماز کیلئے تشریف لائے اور آپ کے قدم مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ جب ابو بکر کو آپ کی تشریف آوری کا احساس ہوا تو پیچھے ہٹنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشارہ سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو اور آتے رہے حتیٰ کہ ان دو مردوں نے آپ کو ابو بکر کے ساتھ ہی بٹھا دیا تو ابو بکر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اور لوگ ابو بکر کی اقتداء کر رہے تھے یعنی امام نبی تھے اور سیدنا ابو بکر مکبر تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیماری میں ابو بکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ آپ نے نماز پڑھانی شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو طبعیت ہلکی محسوس ہوئی۔ آپ باہر نکلے تو ابو بکر لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ جب ابو بکر نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے۔ آپ نے اشارہ سے منع فرمایا کہ اپنی حالت پر ہی رہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو بکر کے پہلوں میں برابر ہی بیٹھ گئے تو ابو بکر نبی کو دیکھ دیکھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ ابو بکر کی نماز کے مطابق نماز پڑھ رہے تھے۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، عبد اللہ بن داؤد، سلمہ بن بہیط، نعیم بن ابی ہند، نبیط بن شریط، حضرت سالم بن عبید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیماری میں بے ہوشی ہو گئی افاقہ ہوا تو فرمایا کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ صحابہ نے عرض کیا جی۔ فرمایا بلال سے کہو کہ اذان دیں اور ابو بکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر بے ہوشی ہو گئی۔ جب افاقہ ہوا تو پوچھا کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ عرض کیا جی۔ فرمایا بلال سے کہو کہ اذان دیں اور ابو بکر سے کہو کہ لوگوں نماز پڑھائیں پھر بے ہوشی ہو گئی جب افاقہ ہوا تو فرمایا کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ عرض کیا جی۔ فرمایا بلال سے کہو کہ اذان دیں اور ابو بکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو عائشہ نے عرض کیا میرے والد مرد رقیق القلب ہیں جب اس جگہ کھڑے ہوں گے تو (آپ کے خیال سے ) رونے لگیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ لہذا اگر آپ کسی اور سے کہہ دیں (تو بہتر ہو گا) پھر بے ہوشی ہو گئی پھر افاقہ ہوا تو فرمایا بلال سے کہو کہ اذان دیں اور ابو بکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تم تو یوسف کے ساتھ والیاں ہو۔ راوی کہتے ہیں پھر بلال کو حکم دیا گیا انہوں نے اذان دی اور ابو بکر کو آپ کا حکم سنا گیا تو انہوں نے نماز پڑھانی شروع کر دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو طبیعت ہلکی محسوس ہوئی۔ تو فرمایا کسی کو دیکھو کہ میں اس سے سہارا لوں۔ اتنے میں (عائشہ کی باندی) بریرہ اور ایک صاحب (عباس یا علی) آئے۔ آپ ان کے سہارے تشریف لائے۔ جب ابو بکر نے آپ کو تشریف لاتے دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے۔ آپ نے اشارہ سے فرمایا اپنی جگہ ٹھہرے رہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آ کر ابو بکر کے ساتھ بیٹھ گئے یہاں تک کہ ابو بکر نے نماز پوری کی پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہو گیا۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، اسرائیل، ابو  اسحاق ، ارقم بن شرحبیل، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرض وفات میں مبتلا ہوئے تو عائشہ کے گھر تھے۔ عائشہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کے لئے ابو بکر کو بلائیں۔ حفصہ نے عرض کیا ہم آپ کے لئے عمر کو بلائیں۔ امّ الفضل نے عرض کیا ہم آپ کے لئے عباس کو بلائیں؟ فرمایا ٹھیک ہے۔ جب سب جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر مبارک اٹھا کر دیکھا اور خاموش ہو گئے تو عمر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے اٹھ جائیں۔ پھر بلال نے حاضر ہو کر اطلاع دی کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ تو آپ نے فرمایا ابو بکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو عائشہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ابو بکر مرد قیق القلب اور کم گو ہیں اور جب آپ کو نہ دیکھیں گے تو رونے لگیں گے اور لوگ بھی رونے لگیں گے۔ لہذا اگر آپ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں (تو بہتر ہو گا) سو (حسب ارشاد) ابو بکر تشریف لائے اور لوگوں کو نماز پڑھانے لگے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو طبیعت ہلکی محسوس ہوئی تو آپ دو مردوں کے سہارے باہر تشریف لائے اور آپ کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو ابو بکر کو متوجہ کرنے کے لئے سُبْحَانَ اللَّہِ کہا وہ پیچھے ہٹنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اشارہ سے فرمایا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آ کر ان کی دائیں طرف بیٹھ گئے اور ابو بکر کھڑے رہے اور ابو بکر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابو بکر کی اقتداء کر رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہیں سے قرأت شروع فرمائی جہاں ابو بکر پہنچے تھے۔ وکیع کہتے ہیں کہ سنت یہی ہے۔ فرمایا کہ پھر اسی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہو گیا۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اپنے کسی امتی کے پیچھے نماز پڑھنا

 

محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، حمید، بکر بن عبد اللہ، حمزۃ بن مغیرۃ بن شعبہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (سفر میں ) پیچھے رہ گئے تو ہم لوگوں کے پاس اس وقت پہنچے کہ عبد الرحمن بن عوف ان کو ایک رکعت پڑھا چکے تھے جب ان کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تشریف آوری کا احساس ہوا تو پیچھے ہٹنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اشارہ سے فرمایا کہ نماز پوری کروائیں اور (نماز کے بعد) فرمایا تم نے اچھا کیا ایسا ہی کیا کرو (کہ سفر میں اگر میری آمد کی توقع نہ ہو تو جماعت کروا دیا کرو)۔

 

امام اس لئے بنا یا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدۃ بن سلیمان، ہشام بن عروۃ، عروۃ، عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی بیمار ہوئے تو کچھ صحابہ عیادت کیلئے حاضر ہوئے تو نبی نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور ان صحابہ نے کھڑے ہو کر آپکی اقتداء میں نماز ادا کی تو نبی نے ان کو اشارہ سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ اور سلام پھیرنے کے بعد فرمایا امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ لہذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی گھوڑے سے گر پڑے تو آپ کی دائیں جانب چھل گئی۔ ہم آپ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے جب نماز کا وقت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور ہم نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی جب نماز پوری کر لی تو فرمایا امام کو اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہے تو تم (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشیم بن بشیر، عمر بن ابی سلمہ، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امان اسی لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہے تو (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) کہو اور اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 

٭٭ محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے اور ابو بکر تکبیر کہہ کر لوگوں کو آپکی تکبیر سنا رہے تھے۔ آپ نے ہماری طرف التفات فرمایا تو ہمیں کھڑے دیکھ کر اشارہ فرمایا۔ ہم بیٹھ گئے اور آپ کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز ادا کی اور جب سلام پھیرا تو فرمایا قریب تھا کہ تم فارس و روم والوں کا سا عمل کرتے وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں جبکہ بادشاہ بیٹھے ہوتے ہیں آئندہ ایسا نہ کرنا اپنے اماموں کی اقتداء کرو اگر امام کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور اگر بیٹھ کر پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔

 

نماز فجر میں قنو ت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس و حفص بن غیاث و یزید بن ہارون، حضرت ابو مالک اشجعی سعد بن طارق فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا ابا جان آپ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے پیچھے اور تقریباً پانچ سال یہاں کوفہ میں حضرت علی کے پیچھے نمازیں ادا کیں۔ کیا وہ فجر میں قنوت پڑھا کرتے تھے؟ فرمایا بیٹا یہ نئی چیز نکالی گئی ہے۔

 

٭٭ حاتم بن بکر ضبی، محمد بن علی زنبور، عنبسہ بن عبد الرحمن، عبد اللہ بن نافع، نافع، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فجر میں قنوت پڑھنے سے روک دیا گیا۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، یزید بن زریع، ہشام، قتادۃ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز صبح میں قنوت پڑھتے اور عرب کے بعض قبائل کے لئے ایک ماہ بد دعا فرماتے رہے پھر چھوڑ دیا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صبح کی نماز کا سلام پھیرا تو یہ دعا مانگی اے اللہ ! ولید بن ولید سلمہ بن ہشام عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور مسلمانوں کو چھٹکارا عطا فرما۔ اے اللہ ! مضر قبیلہ پر سخت گرفت فرما اور ان پر یوسف علیہ السلام کے قحط کی طرح قحط ڈال دے۔

 

نماز میں سانپ بچھو کو مار ڈالنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، معمر، یحییٰ بن ابی کثیر، ضمضم بن جوس، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کے دوران بچھو اور سانپ کو مار ڈالنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

 

٭٭ احمد بن عثمان بن حکیم اودی و عباس بن جعفر، علی بن ثابت دہان، حکم بن عبد الملک، قتادۃ، سعید بن مسیب، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں بچھو نے ڈسا تو ارشاد فرمایا اللہ کی لعنت ہو بچھو پر نمازی کو چھوڑے ہے نہ غیر نمازی کو تم اس کو حل و حرم میں قتل کر سکتے ہو۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ہیثم بن جمیل، مندل، حضرت بن ابی رافع اپنے والد سے انہوں نے دادا سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز میں ایک بچھو مار ڈالا۔

 

فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنا ممنوع ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر و ابو اسامہ، عبید اللہ بن عمر، حبیب بن عبد الرحمن، حفص بن عاصم، حضرت ابو بکر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد غروب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن یعلی تیمی، عبد الملک بن عمیر، قزعہ، حضرت ابو سیعد خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عصر کے بعد غروب آفتاب تک اور فجر کے طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہیں

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادۃ، ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، ہمام، قتادۃ، ابو العالیہ، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ میرے سامنے بہت سی پسندیدہ شخصیات نے شہادت دی جن میں سب سے زیادہ پسندیدہ حضرت عمر فاروق کی شخصیت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کے فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک کسی قسم کی کوئی بھی نماز نہیں۔

 

نماز کے مکروہ اوقات

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، یعلی بن عطاء، یزید بن طلق، عبد الرحمن یلمانی، حضرت عمرو بن عبسہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کیا ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی ایک وقت دوسرے وقت سے زیادہ پسند اور محبوب ہو؟ فرمایا جی! رات کا بالکل درمیان حصہ (اللہ تعالیٰ کو باقی اوقات سے زیادہ محبوب ہے ) لہذا صبح کے طلوع تک جتنا چاہو نماز پڑھتے رہے (فجر کی سنت اور فرض کے علاوہ باقی نمازوں سے ) رک جاؤ یہاں تک کہ سورج طلوع ہو اور جب تک ڈھال کی طرح رہے (رکے رہو) یہاں تک کہ جب خوب کھل جائے تو پھر جتنا چاہو نماز پڑھو یہاں تک کہ ستون اپنے سائے پر قائم ہو تو نماز سے شروع ہو جاؤ (اور رکے رہو) یہاں تک کہ سورج ڈھلنا شروع ہو جائے اس لئے کہ نصف النہار کے وقت دوزخ سلگایا جاتا ہے اس کے بعد جتنی چاہو نماز پڑھتے رہو یہاں تک کہ جب عصر کی نماز پڑھو تو پھر رک جاؤ غروب آفتاب تک اس لئے کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہی طلوع ہوتا ہے۔

 

٭٭ حسن بن داؤد منکدری، ابن ابی فدیک، ضحاک بن عثمان، مقبری، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ صفوان بن معطل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں جو آپ کو معلوم ہے اور مجھے معلوم نہیں۔ فرمایا کیا بات ہے؟ عرض کیا کہ دن رات کی ساعات میں سے کسی ساعت میں نماز مکروہ بھی ہے؟ فرمایا جی! جب صبح کی نماز پڑھ لو تو طلوع آفتاب تک نماز چھوڑ دو کیونکہ آفتاب شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اس کے بعد نماز پڑھو اس نماز میں فرشتے حاضر ہوں گے اور قبول ہو گی یہاں تک کہ آفتاب نیزے کی مانند سیدھا سر پر آ جائے تو نماز چھوڑ دو کیونکہ اس وقت دوزخ کو بھڑکایا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے کھول جاتے ہیں یہاں تک کہ سورج تمہارے دائیں آبرو سے ڈھل جائے تو پھر اس کے بعد کی نماز میں فرشتے بھی حاضر ہوں گے اور قبول بھی ہو گی یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھو تو پھر چھوڑ دو غروب آفتاب تک۔

 

٭٭ اسحاق بن منصور، عبد الرزاق، معمر، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابو عبد اللہ صنابحی فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آفتاب شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے یا یوں فرمایا کہ سورج کے ساتھ شیطان کے دو سینگ بھی نکلتے ہیں جب آفتاب بلند ہو جائے تو جدا ہو جاتا ہے پھر جب آسمان کے وسط میں ہو تو یہ ساتھ مل جاتا ہے اور جب وہ ڈھل جائے تو جدا ہو جاتا ہے اور جب غروب ہو چکتا ہے تو جدا ہو جاتا ہے اس لئے ان تین اوقات میں نماز نہ پڑھو۔

 

مکہ میں ہر وقت نماز کی رخصت

 

یحییٰ بن حکیم، سفیان بن عیینہ، ابو زبیر، عبد اللہ بن بابیہ، حضرت جبیر بن مطعم بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے عبد مناف کے بیٹو کسی کو اس گھر کا طواف کرنے سے اور نماز پڑھنے سے منع نہ کرو جس وقت چاہے دن ہو خواہ رات۔

 

جب لوگ نماز کو وقت سے مؤخر کر نے لگیں

 

محمد بن صباح، ابو بکر بن عیاش، عاصم، ذر، حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شاید تم ایسے لوگوں کو پاؤ جو نماز بے وقت پڑھیں گے اگر تم ان کو پاؤ تو نماز اپنے گھروں میں ہی اس وقت میں پڑھ لینا جس کو تم جانتے پہچانتے ہو (مجھے دیکھ کر) پھر ان کے ساتھ نفل کی نیت سے نماز میں شریک ہو جانا۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابو عمران جونی، عبد اللہ بن صامت، حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نماز بروقت ادا کرو پھر اگر تم امام کو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہوا پاؤ تو ان کے ساتھ (بھی) پڑھ لو اور تم اپنی نماز تو محفوظ کر ہی چکے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو احمد، سفیان بن عیینہ، منصور، ہلال بن یساف، ابو مثنی، حضرت عبادہ بن صامت ایسے حکام ظاہر ہوں گے جو دیگر مشاغل میں مصروفیت کی وجہ سے نماز کو وقت سے بھی مؤخر کر دیں گے (تو تم وقت میں اپنی نماز پڑھ لینا) اور ان کے ساتھ اپنی نماز نفل کی نیت سے پڑھنا۔

 

نماز خوف

 

محمد بن صباح، جریر، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز خوف کے بارے میں فرمایا امام ایک طائفہ کو نماز پڑھائے وہ ایک سجدہ اس کے ساتھ کر دیں (یعنی ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھ لیں ) اور ایک طائفہ ان نماز پڑھنے والوں اور دشمن کے درمیان رہے پھر جہنوں نے اپنے امیر کے ساتھ نماز ادا کی وہ واپس آ کر ان لوگوں کی جگہ لے لیں جہنوں نے نماز نہیں پڑھی اور جہنوں نے نماز نہیں پڑھی وہ آگے بڑھ کر اپنے امیر کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں پھر امیر (امام) سلام پھیر دے کیونکہ اس کی نماز مکمل ہو چکی اور ہر طائفہ اپنی ایک ایک رکعت الگ الگ پڑھ لے۔ اگر خوف اس سے بھی زیادہ ہو جائے (کہ اس طرح بھی نماز ادا نہ کی جا سکے ) تو پیادہ اور سواری کی حالت ہی میں نماز ادا کریں۔

 

٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید قطان، یحییٰ بن سعید انصاری، قاسم بن محمد، صالح بن خوات، حضرت سہل بن ابی حثمہ نے نماز خوف کے بارے میں فرمایا امام قبلہ رو ہو کر کھڑا ہو جائے اور لوگوں میں سے ایک طائفہ امام کے ساتھ ہو جائے اور دوسرا دشمن کے سامنے لیکن منہ اپنی صف کی طرف رکھے۔ امام ان کو ایک رکعت پڑھائے اور ایک رکوع اور دو سجدوں وہ اپنی جگہ کر لیں پھر وہ دوسرے طائفہ کی جگہ آ جائیں اور دوسرا طائفہ جائے تو امام ان کو بھی ایک رکوع کرائے دو سجدے امام کی دو رکعتیں ہو گئیں اور ان کی ایک رکعت پھر وہ بھی ایک رکعت دو سجدوں سمیت پڑھیں محمد بن بشار دوسرے طریق سے اس حدیث مبارکہ کو مرفوعاً روایت کرتے ہیں اور کہتے ہے کہ یحییٰ بن سعید نے بیان فرمایا کہ اس حدیث مبارکہ کو اپنے پاس لکھ رکھو۔ مجھے تو یحییٰ کی حدیث کی مانند یاد ہے دوسری طرح یاد نہیں۔

 

٭٭ احمد بن عبدۃ، عبد الوارث بن سعید، ایوب، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ کو صلوٰۃ الخوف پڑھائی پہلے سب کے ساتھ رکوع کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھ والی صف نے سجدہ کیا باقی کھڑے رہے جب اگلی صف سجدے سے اٹھی تو دوسروں نے اپنے طور پر دو سجدے کئے پھر اگلی صف پیچھے ہو کر دوسری صف والوں کی جگہ کھڑی ہو گئی اور پچھلی صف درمیان میں سے آگے بڑھی اور پہلی صف کی جگہ کھڑی ہو گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب کے ساتھ رکوع کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھ والی صف نے سجدہ کیا جب انہوں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو باقیوں نے دو سجدے اپنے طور پر کر لئے اور سب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رکوع کیا اور ہر طائفہ نے اپنے طور پر دو سجدے کئے اور دشمن قبلہ کی طرف تھا۔

 

سورج اور چاند گرہن کی نماز

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عبد اللہ بن نمیر، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورج اور چاند کو کسی انسان کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا جب تم گرہن دیکھو تو کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔

 

٭٭ محمد بن مثنی و احمد بن ثابت و جمیل بن حسن، عبد الوہاب، خالد حذاءابو قلابہ، حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو آپ گھبرا کر کپڑے سمیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے یہاں تک کہ مسجد میں آ کر نماز میں مشغول رہے حتیٰ کہ سورج اور چاند کو کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے گرہن لگتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کسی کی موت اور حیات کی وجہ سے سورج اور چاند کو گرہن لگا کرتا جب اللہ تعالیٰ کسی چیز پر اپنی تجلی (اظہار قدرت) فرماتا ہے تو وہ اس کی عاجزی کرنے لگتی ہے۔

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح مصری، عبد اللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، عروۃ بن زبیر، سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی میں ایک بار سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد کی طرف گئے اور کھڑے ہو کر اللَّہُ أَکْبَرُ کہا تو لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں بنا لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل قرأت فرمائی پھر اللَّہُ أَکْبَرُ کہہ کر طویل رکوع کیا پھر کہا سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ پھر کھڑے ہو کر طویل قرأت فرمائی لیکن یہ پہلی قرأت کی بنسبت ذرا کم تھی پھر اللَّہُ أَکْبَرُ کہہ کر لمبا رکوع کیا لیکن پہلے رکوع سے نسبتاً مختصر پھر سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہا پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا۔ تو پھر چار رکوع اور چار سجدے کئے اور سورج سلام پھیرنے سے قبل ہی صاف ہو گیا پھر آپ نے کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ جل جلالہ کی حسب شان حمد و ثناء کی پھر فرمایا سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں کسی کی موت و حیات سے ان کو گرہن نہیں لگتا جب تم ان کو گرہن دیکھو تو نماز کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔

 

٭٭ علی بن محمد و محمد بن اسماعیل، وکیع، سفیان، اسود بن قیس، ثعلبہ بن عباد، حضرت سمرہ بن جندب بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں نماز کسوف پڑھائی تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز نہ سنی

 

٭٭ محرز بن سلمہ عدنی، نافع بن عمر جمحی، ابن ابی ملیکہ ، حضرت اسماء ابی بکر فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کسوف پڑھائی تو طویل قیام اور طویل رکوع فرمایا پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر طویل سجدہ کیا پھر سر اٹھا کر دوسرا سجدہ بھی طویل کیا پھر سلام پھیر کر فرمایا جنت میرے اتنی قریب آ گئی کہ اگر ذرا سی کوشش کرتا تو جنت کا ایک خوشہ تمہیں لا دیتا اور دوزخ بھی اتنی قریب ہوئی کہ میں نے کہا اے میرے پروردگار ! ابھی تو میں ان لوگوں میں موجود ہوں (اور آپ کا وعدہ ہے کہ جب تک میں لوگوں میں موجود رہو گا عذاب نہ ہو گا تو پھر یہ دوزخ اتنے قریب کیسے۔) نافع (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ یہ بھی فرمایا کہ میں نے دیکھا ایک عورت کو اس کی بلّی نوچ رہی ہے۔ میں نے پوچھا  اس کو کیا ہوا؟ فرشتوں نے ) بتایا کہ اس نے بلّی کو باندھے رکھا حتیٰ کہ بھوکی مر گئی نہ خود کھلایا نہ کھولا کہ کیڑے مکوڑے (ہی) کھا لیتی۔

 

نماز استسقاء

 

علی بن محمد و محمد بن اسماعیل، وکیع، سفیان، ہشام بن اسحاق بن عبد اللہ بن کنانہ، حضرت اسحاق عبد اللہ کنانہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک حاکم نے سیدنا ابن عباس کی خدمت میں نماز استسقاء کے متعلق دریافت کرنے کے لئے بھیجا تو ابن عباس نے فرمایا کہ ان کو خود پوچھ لینے سے کیا مانع ہوا؟ پھر فرمایا کہ (نبی) تواضع کے ساتھ آرائش و زینت کے بغیر خشوع کے ساتھ آہستگی اور متانت کے ساتھ زاری کرتے ہوئے تشریف لائے اور نماز عید کی مانند دو رکعتیں ادا فرمائیں اور تمہاری طرح یہ خطبہ نہیں پڑھا۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان، عبد اللہ بن ابی بکیر، حضرت عباد بن تمیم کہتے ہیں کہ میرے والد اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ وہ نبی کے ساتھ عیدگاہ کی طرف نکل گئے نماز استسقاء کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبلہ رو ہوئے اور چادر پلٹی اور دو رکعتیں پڑھیں۔ دوسری سند سے یہی مضموم مروی ہے مسعود کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر بن محمد بن عمرو سے پوچھا کیا (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ) اوپر کا حصہ نیچے کیا تھا یا دائیں؟ فرمایا نہیں ! دایاں بائیں۔

 

٭٭ احمد بن ازہر و حسن بن ابی ربیع، وہب بن جریر، نعمان، زہری، حمید بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز بارش طلب کرنے کے لئے گئے آپ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں اذان و اقامت کے بغیر۔ پھر ہمیں خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور ہاتھ اٹھائے قبلہ کی طرف منہ کیا۔ پھر اپنی چادر کو پلٹا تو دائیں جانب کو بائیں کندھے پر کر لیا اور بائیں جانب کو دائیں کندھے پر۔

 

استسقاء میں دعا

 

ابو کریب، ابو معاویہ، اعمش، عمرو بن مرۃ، سالم بن ابی الجعد، حضرت شرحبیل بن سمط نے کعب سے کہا اے کعب بن مرہ ! ہمیں پوری احتیاط سے (کمی بیشی کے بغیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث سنایئے تو انہوں نے فرمایا ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ سے بارش مانگئے۔ تو رسول اللہ نے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی اے اللہ ہمیں پانی پلایئے زمین کو بھرنے والا (جس سے تالاب وغیرہ خوب بھر جائیں ) خوب برسنے والا جلد برسنے والا نہ کہ دیر سے برسنے والا نفع دینے والا نہ کہ نقصان دینے والا۔ کعب فرماتے ہیں کہ (آپ کی اس دعا کے بعد) لوگ ابھی جمعہ سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ بارش برسنے لگی۔ کعب فرماتے ہیں کہ پھر لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بارش زیادہ ہونے کی شکایت کی اور عرض کی اے اللہ کے رسول ! گھر گرنے لگے۔ تو رسول اللہ نے یہ دعا مانگی اے اللہ ہمارے ارد گرد برسے ہم پر نہ برسے۔ کعب فرماتے ہیں کہ پھر (بارش) چھٹ کر دائیں بائیں ہونا شروع ہو گئی۔

 

٭٭ محمد بن ابی القاسم ابو الاحوص، حسن بن ربیع، عبد اللہ بن ادریس، حصین، حبیب ابن ابی ثابت، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ۔ ایک دیہات کے رہنے والے صاحب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں آپ کے پاس ایسی قوم کی جانب سے آیا ہوں جن کے چرواہوں کے پاس توشہ نہیں اور ان کا کوئی نر جانور حرم نہیں اچھالتا (کمزوری کی وجہ سے ) آپ منبر پر آئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر یہ دعا پرھی اللَّہُمَّ اسْقِنَا غَیْثًا مُغِیثًا مَرِیئًا طَبَقًا مَرِیعًا غَدَقًا عَاجِلًا غَیْرَ رَائِثٍ (تر جمہ گزر چکا) پھر منبر سے اترے۔ اس کے بعد جس جانب سے بھی کوئی آتا یہی کہتا کہ ہمارے ہاں بارش ہوئی۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، معتمر، ابو معتمر، برکۃ، بشیر بن نہیک، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارش کے لئے دعا مانگی حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگی۔

 

٭٭ احمد بن ازہر، ابو النصر، ابو عقیل، عمر بن حمزۃ، سالم، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ بسا اوقات مجھے شاعر کا یہ شعر یاد آ جاتا اور میں دیکھتا منبر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ انور کو کہ آپ کے اترنے سے قبل مدینہ کے تمام پرنالے بہہ پڑتے۔وَأَبْیَضَ یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْہِہِ ثِمَالُ الْیَتَامَی عِصْمَۃٌ لِلْأَرَامِلِ (شعر کا ترجمہ ہے ) اور سفید گورے رنگ کے جن کے چہرے کے طفیل بارش مانگی جائے۔ یتیموں کی پرورش کرنے والے اور بیواؤں کی نگہداشت کرنے والے اور یہ ابو طالب کا شعر ہے۔

 

عیدین کی نماز

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ایوب، عطاء، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ رسول اللہ نے خطبہ سے قبل نماز عید پڑھائی پھر خطبہ دیا تو آپ کو خیال آیا کہ عورتوں کو آواز نہیں پہنچی تو آپ عورتوں کے مجمع میں تشریف لے گئے۔ ان کو وعظ و نصیحت فرمائی اور صدقہ کرنے کی تلقین فرمائی اور بلال نے اپنے ہاتھ اس طرح (یعنی چیز پکڑنے کیلئے ) کئے ہوئے تھے اور عورتیں چھلے انگوٹھیاں اور دوسرے زیور جمع کروا رہی تھیں۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، حسن بن مسلم، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید کے روز اذان و اقامت کے بغیر نماز پڑھائی۔

 

٭٭ ابو کریب، ابو معاویہ، اعمش، اسماعیل بن رجاء، رجاء، ابو سعید، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ مروان نے عید کے روز منبر نکلوایا اور نماز سے قبل خطبہ شروع کر دیا تو ایک مرد کھڑے ہوئے اور کہا اے مروان ! تو نے سنت کی مخالفت کی کہ منبر عید کے روز نکلوایا حالانکہ پہلے منبر عید کے روز نہیں نکلوایا جاتا تھا اور تو نے نماز سے قبل خطبہ دیا حالانکہ نماز سے پہلے نہ دیا جاتا تھا۔ تو ابو سعید نے فرمایا کہ اس مرد نے اپنا فریضہ ادا کر دیا۔ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا جو تم میں سے کسی برائی کو دیکھے پھر اسے قوت سے روک سکے تو قوت سے روک دے اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روک دے اگر اس کی استطاعت بھی نہ ہو تو دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

 

٭٭ حوثرۃ بن محمد، ابو اسامہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر حضرت ابو بکر پھر حضرت عمر سب نماز عید خطبہ سے قبل پڑھاتے رہے۔

 

عید ین کی تکبیرات

ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد، مؤذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدین میں پہلی رکعت میں قرأت سے قبل سات تکبیرات اور دوسری رکعت میں قرأت سے قبل پانچ تکبیرات کہتے تھے۔

 

٭٭ ابو کریب محمد بن علاء، عبد اللہ بن مبارک، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن یعلی، عمر بن عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز عید میں سات (7) اور پانچ (5) تکبیرات کہیں۔

 

٭٭ ابو مسعود محمد بن عبد اللہ بن عبید بن عقیل، محمد بن خالد بن عثمہ، کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف، عبد اللہ بن عمرو بن عوف، حضرت عمرو بن عوف سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عیدین میں پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات کہیں۔

 

٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، ابن لہیعہ، خالد بن یزید و عقیل، ابن شہاب، عروۃ، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز فطر و اضحی میں رکوع کی تکبیر کے علاوہ سات اور پانچ تکبیرات کہیں

 

عیدین کی نماز قرأت

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ابراہیم بن محمد بن منتشر، محمد بن منتشر، حبیب بن سالم، حضرت نعمان بن بشیر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدین میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی اور ہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَۃِ پڑھا کرتے تھے۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان، ضمرۃ، بن سعید، حضرت عبید اللہ بن عبد اللہ کہتے ہیں حضرت عمر بن عبد العزیز عید کے روز باہر تشریف لائے اور ابو واقد لیثی سے کہلا بھیجا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس روز کہاں سے قرأت فرماتے تھے۔ فرمایا سورہ قاف اور سورہ قمر۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، وکیع بن جراح، موسیٰ بن عبیدۃ، محمد بن عمرو بن عطاء، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدین میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی اور ہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَۃِ پڑھا کرتے تھے۔

 

عیدین کا خطبہ

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، وکیع، حضرت اسماعیل بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے ابو کامل کو دیکھا جنہیں شرف صحبت حاصل تھا۔ تو میرے بھائی نے ان سے حدیث بیان کی۔ فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اونٹنی پر خطبہ دیتے دیکھا اور ایک حبشی اس اونٹنی کی نکیل پکڑے ہوئے تھے۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن عبید، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت قیس بن عائذ ابو  کاہل فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک خوبصورت اونٹنی پر خطبہ دیتے دیکھا اور ایک حبشی اس کی نکیل تھامے ہوئے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سلمہ بن نبیط، حضرت نبیط کہتے ہیں کہ میں نے حج کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے اونٹ پر خطبہ دیتے دیکھا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد، سعد بن عمار بن سعد، عمار بن سعد، حضرت سعد مؤذن فرماتے ہیں کہ خطبہ کے درمیان تکبیر کہتے تھے اور خطبہ عیدین میں بہت تکبیریں کہتے تھے۔

 

٭٭ ابو کریب، ابو اسامہ، داؤد بن قیس، عیاض بن عبد اللہ، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید کے روز تشریف لاتے۔ لوگوں کو دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیرتے پھر قدموں پر کھڑے ہوتے اور لوگوں کی طرف منہ کرتے اور لوگ بیٹھے رہتے۔ آپ فرماتے صدقہ دو صدقہ دو تو عورتیں سب سے بڑھ کر صدقہ دیتیں بالی انگوٹھی دوسرے زیور۔ اس کے بعد اگر کہیں لشکر روانہ کرنے کی ضرورت ہوتی تو اس کا ذکر فرماتے ورنہ واپس تشریف لے جاتے۔

 

٭٭ یحییٰ بن حکیم، ابو بحر، عبید اللہ بن عمرو رقیک، اسماعیل بن مسلم خولانی، ابو زبیر، حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید الفطر یا اضحی کے روز تشریف لائے اور آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع کیا پھر ذرا بیٹھ کر دوبارہ کھڑے ہوئے (اور خطبہ دیا )

 

نماز کے بعد خطبہ کا انتظار کر نا

 

ہدیہ بن عبد الوہاب و عمرو بن رافع بجلی، فضل بن موسی، بن جریج، عطاء، حضرت عبد اللہ بن سائب کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز عید میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں نماز عید پڑھا کر ارشاد فرمایا ہم نماز ادا کر چکے سو جو خطبہ کے لئے بیٹھنا چاہے بیٹھے اور جو جانا چاہے چلا جائے۔

 

عید سے پہلے یا بعد نماز پڑھنا

 

محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، شعبہ، عدی بن ثابت، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور لوگوں کو عید کی نماز پڑھائی نہ اس سے قبل کوئی نماز پڑھی اور نہ ہی بعد

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، عبد اللہ بن عبد الرحمن طائفی، عمرو بن شعیب، شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید میں نماز سے پہلے یا بعد کوئی نماز نہیں پڑھی۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ہیثم بن جمیل، عبید اللہ بن عمر رقی، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، عطاء بن یسار، حضرت ابو سعید خدری بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید سے پہلے کوئی نماز نہ پڑھتے تھے اور جب (نماز سے فارغ ہو کر) اپنے گھر تشریف لے جاتے تو دو رکعتیں پڑھ لیتے

 

نماز عید کے لئے پیدل جانا

 

ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد، سعد بن عمار بن سعد، عمار بن سعد، حضرت سعد سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز عید کے لئے پیدل تشریف لے جاتے اور پیدل ہی واپس آتے۔

 

٭٭ محمد بن صباح، عبد الرحمن بن عبد اللہ عمری، عبد اللہ عمری و عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز عید کے لئے پیدل تشریف لے جاتے اور پیدل واپس آتے۔

 

٭٭ یحییٰ بن حکیم، ابو داؤد، زہیر، ابو  اسحاق ، حارث، حضرت علی نے بیان فرمایا کہ سنت (نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو) یہ ہے کہ آدمی نماز عید کے لئے چل کر آئے۔

 

٭٭ محمد بن صباح، عبد العزیز بن خطاب، مندل، محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز عید کے لئے چل کر آتے۔

 

عید گاہ کو ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا

 

ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد، سعد بن عمار بن سعد، عمار بن سعد، حضرت سعد فرماتے ہیں کہ نبی کریم جب عید کے لئے جاتے تو سعید بن عاص کے گھر کے قریب سے گزرتے پھر خیمہ والوں کے پاس سے پھر دوسرے راستے سے واپس ہوتے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زریق کے رستے سے پھر عمار بن یاسر ابو ہریرہ کے گھر کے قریب سے گزر کر بلاط تک واپس آتے۔

 

ع

٭٭ یحییٰ بن حکیم، ابو قتیبہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر نماز عید کے لئے ایک رستے سے جاتے اور دوسرے رستے سے واپس آتے اور یہ فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

 

٭٭ احمد بن ازہر، عبد العزیز بن خطاب، مندل، محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت ابو رافع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید کے لئے چل کر آتے اور جس راہ سے آتے تھے اس کے علاوہ کسی دوسری راہ سے واپس ہوتے۔

 

٭٭ محمد بن حمید، ابو تمیلہ، فلیح بن سلیمان، سعید بن حارث زرقی، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب عید کے لئے تشریف لاتے تو واپس میں جس راہ سے آئے تھے اس کے علاوہ کوئی دوسری راہ اختیار فرماتے۔

 

عید کے روز کھیل کود کرنا اور خوشی منانا

 

سوید بن سعید، شریک ، مغیرۃ، حضرت عیاض اشعری نے (عراق کے شہر) انبار میں عید کی تو فرمایا کیا ہوا میں تمہیں اس طرح خوشیاں مناتا نہیں دیکھ رہا جیسے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاں خوشیاں منائی جاتی تھیں۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو نعیم، اسرائیل، ابو  اسحاق ، عامر، حضرت قیس بن سعد سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں جو کچھ ہوتا تھا وہ سب میں اب بھی دیکھ رہا ہوں سوئے ایک چیز کے وہ یہ کہ عیدالفطر کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے خوشیاں خوب منائی جاتی تھیں۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

عید کے روز برچھی نکالنا

 

ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، اوزاعی، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید کے روز عیدگاہ کی طرف نکلتے تو برچھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اٹھا کر چلتے تھے جب آپ عیدگاہ میں پہنچتے تو آپ کے سامنے (بطور سترہ) گاڑ دی جاتی۔ آپ اس کی طرف نماز پڑھتے اس کی وجہ یہ تھی کہ عیدگاہ کھلا میدان تھا وہاں کوئی آڑ کی چیز نہ تھی۔

 

٭٭ سوید بن سعید، علی بن مسہر، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید کے روز یا اور کسی دن (کھلے میدان میں ) نماز پڑھتے تو برچھی آپ کے سامنے گاڑ دی جاتی۔ آپ اس کی طرف نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے ہوتے۔ نافع کہتے ہیں اسی وجہ سے امراء نے برچھی نکالنے کی عادت اختیار کی۔

 

٭٭ ہارون بن سعید ایلی، عبد اللہ بن وہب، سلیمان بن بلال، یحییٰ بن سعید، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز عید عیدگاہ میں پڑھتے برچھی کی آڑ کر کے (یعنی آگے برچھی گاڑ لیتے تھے )۔

 

عورتوں کا عیدین میں نکلنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ہشام بن حسان، حفصہ بنت سیرین، حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں یوم فطر اور یوم نحر (بقر عید میں عورتوں کو نکالنے کا حکم دیا ام عطیہ کہتی ہیں ہم نے عرض کیا بتایئے اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو (تو وہ کیسے نکلے؟) فرمایا اس کی بہن اس کو چادر اوڑھا دے۔

 

٭٭ محمد بن صباح، ایوب، ابن سیرین، حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نکالو لڑکیوں کو اور پردہ نشین عورتوں کو کہ وہ عید اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں اور جو عورتیں حیض کی حالت میں ہوں وہ لوگوں کے نماز پڑھنے کی جگہ سے الگ رہیں۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، حفص بن غیاث، حجاج بن ارطاۃ، عبد الرحمن بن عابس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی صاحبزادیوں اور ازواج مطہرات (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو عیدین کے لئے لے جاتے تھے۔

 

ایک دن میں دو عیدوں کا جمعہ ہونا

 

نصر بن علی جہضمی، ابو احمد، اسرائیل، عثمان بن مغیرۃ، ایاس بن ابی رملہ شامی، ایک صاحب نے حضرت زید بن ارقم سے پوچھا کیا آپ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک دن میں دو عیدیں دیکھیں؟ فرمایا جی۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا طریق اختیار فرمایا؟ فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید پڑھا کر جمعہ کی رخصت دیتے ہوئے فرمایا جو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے (آس پاس کے دیہات سے ) آنا چاہے تو وہ جمعہ کی نماز پڑھ لے۔

 

٭٭ محمد بن مصفی حمصی، بقیہ، شعبہ، مغیرۃ ضبی، عبد العزیز بن رفیع، ابو صالح، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آج کے دن دو عیدیں جمع ہو گئیں جو چاہے اس کے لئے جمعہ کی بجائے عید کی نماز کافی ہو گئی (اب جمعہ کے لئے دوبارہ دیہات سے آنے کی تکلیف نہ کرے ) اور ہم تو انشاء اللہ جمعہ پڑھیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔

 

٭٭ جبارۃ بن مغلس، مندل بن علی، عبد العزیز بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں دونوں عیدیں جمع ہو گئیں تو آپ نے عید کی نماز پڑھا کر فرمایا جو جمعہ کی نماز کے لئے آنا چاہے آ جائے اور جو نہ آنا چاہے تو نہ آئے۔

 

بارش میں نماز عید

 

عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، عیسیٰ بن عبد الاعلیٰ بن ابی فروۃ، ابو یحییٰ عبید اللہ تیمی، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں عید کے روز بارش شروع ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (عیدگاہ میں نماز عید ادا کرنے کی بجائے ) مسجد میں ہی نماز عید پڑھا دی۔

 

عید کے روز ہتھیار سے لیس ہو نا

 

عبد القدوس بن محمد، نائل بن نجیح، اسماعیل بن زیاد، ابن جریج، عطاء، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عیدین میں بلاد اسلامیہ میں ہتھیار لگانے سے منع فرمایا الا یہ کہ دشمن کا سامنا ہو (تو پھر منع نہیں بلکہ ضروری ہے )

 

عیدین کے روز غسل کرنا

 

جبارۃ بن مغلس، حجاج بن تمیم، میمون بن مہران، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فطر و اضحی کے روز غسل فرمایا کرتے تھے۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، یوسف بن خالد، ابو جعفر خطمی، عبد الرحمن بن عقبہ بن فاکہ بن سعد، عقبہ بن فاکہ بن سعد، حضرت فاکہ بن سعد جن کو شرف صحبت حاصل ہے سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فطر نحر اور عرفہ کے روز غسل فرمایا کرتے تھے اور حضرت فاکہ (اسی وجہ سے ) ان ایام میں (اپنے ) اہل خانہ کو غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔

 

عیدین کی نماز کا وقت

 

عبد الوہاب بن ضحاک، اسماعیل بن عیاش، صفوان بن عمرو، یزید بن خمیر، حضرت عبد اللہ بن بسر فطر یا اضحی کے روز لوگوں کے ساتھ نکلے تو امام کے تاخیر سے آنے پر نکیر فرمائی اور فرمایا کہ اس وقت تو ہم (نماز خطبہ سے ) فارغ ہو چکے ہوتے تھے اور یہ تو نفل نماز کا وقت ہے۔

 

تہجد دو دو رکعتیں پڑھنا

 

احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، انس بن سیرین، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تہجد دو دو رکعتیں پڑھتے تھے

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔

 

٭٭ سہل بن ابی سہل، سفیان، زہری، سالم، عبد اللہ بن دینار، ابن عمرو ابن ابی لبید، ابو  سلمہ، ابن عمرو عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رات کی نماز کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا دو دو رکعت پڑھے جب صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو (دو کے ساتھ) ایک رکعت (شامل کر کے ) وتر پڑھے۔

 

٭٭ سفیان بن وکیع، عثام بن علی، اعمش، حبیب بن ابی ثابت، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو دو دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔

 

دن اور رات میں نماز دو دو رکعت پڑھنا

 

علی بن محمد، وکیع، محمد بن بشار و ابو بکر بن خلاد، محمد بن جعفر، شعبہ، یعلی بن عطاء، علی ازدی، حضرت ابن عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ دن اور رات کی نماز دو رکعت ہے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن محمد بن رمح، ابن وہب، عیاض بن عبد اللہ، مخرمہ بن سلیمان، کریب، مولی ابن عباس، حضرت ام ہانی بنت ابی طالب بیان فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے روز رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاشت آٹھ رکعات پڑھیں۔ ہر دو رکعت پر سلام پھیرا۔ (یعنی آٹھ رکعات دو دو رکعات کر کے ادا فرمائیں )۔

 

٭٭ ہارون بن اسحاق ہمدانی، محمد بن فضل، ابو سفیان سعدی، ابو نضرۃ، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا ہے

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ بن سوار، شعبہ، عبدربہ بن سعید، انس بن ابی انس، عبد اللہ بن نافع بن العمیاء، عبد اللہ بن حارث، حضرت مطلب ابن وداعہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت پر تشہد ہے اور اللہ جل شانہ کے سامنے اپنی محتاجی اور مسکینی کا اظہار کرنا ہے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا اور کہنا کہ اے اللہ میری بخشش فرما دیجئے جو ایسا نہ کرے تو اس کا کام ادھورا ہے۔

 

ماہ رمضان کا قیام ( تراویح )

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید سے رمضان بھر روزے رکھے اور رات کو تراویح پڑھیں اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، مسلمہ بن علقمہ، داؤد بن ابی ہند، ولید بن عبد الرحمن جرشی، جبیر بن نفیر، حضرمی، حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رمضان بھر روزے رکھے۔ آپ ہمارے ساتھ ایک بھی تراویح میں کھڑے نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ رمضان کی سات راتیں باقی رہ گئیں۔ ساتوں شب کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا حتیٰ کہ رات کا تہائی گزر گیا اس کے بعد چھٹی رات قیام نہ فرمایا پھر اس کے بعد پانچویں شب آدھی رات تک قیام اگر آپ ہمارے ساتھ نفل پڑھیں (تو کیا خوب ہو) فرمایا جس نے فارغ ہونے تک امام کے ساتھ قیام کیا تو اس کا یہ قیام رات بھر کے قیام کے برابر (موجب اجر و ثواب ہے ) پھر اس کے بعد چوتھی قیام نہ فرمایا پھر اس کے بعد والی یعنی شب کو آپ نے ازواج اور گھر والوں کو جمع فرمایا اور لوگ بھی جمع ہو گئے۔ ابو ذر فرماتے ہیں کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا یہاں تک کہ ہمیں فلاح فوت ہو جانے کا اندیشہ ہونے لگا۔ عرض کیا فلاح کیا چیز ہے؟ فرمایا سحری کا کھانا۔ فرماتے ہیں پھر آپ نے باقی مہینہ ایک رات بھی قیام نہ فرمایا۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع و عبید اللہ بن موسی، نصر بن علی جہضمی، نضر بن شیبان، یحییٰ بن حکیم، ابو داؤد، نصر بن علی جہضمی و قاسم بن فضل حدانی، حضرت نصر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں ابو  سلمہ بن عبد الرحمن سے ملا اور کہا کہ مجھے رمضان کے متعلق وہ حدیث سنایئے جو آپ نے اپنے والد محترم سے سنی فرمایا جی مجھے میرے والد نے بتایا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمضان کا تذکرہ فرماتے ہوئے فرمایا اس ماہ کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض فرمائے ہیں اور اس کے قیام (تراویح) کو میں نے تمہارے لئے سنت قرار دیا ہے۔ لہذا جو ایمان کے ساتھ ثواب کی خاطر اس کے روزوں اور تراویح کا اہتمام کرے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح الگ ہو (کر پاک صاف ہو) جائے گا جیسے ولادت کے روز تھا۔

 

رات کا قیام

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شیطان تم سے ایک کی گدی پر دھاگے سے تین گرہیں لگا دیتا ہے۔ سو اگر وہ بیدار ہو کر اللہ کا نام لے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر کھڑا ہوا اور وضو کرے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے پھر نماز کے لئے کھڑا ہو تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں اور وہ صبح ہی سے نشاط والا اور خوش طبعیت والا ہو جاتا ہے اور اگر ایسا نہ کرے تو صبح سستی اور بوجھل طبعیت کے ساتھ کرتا ہے بھلائی حاصل نہیں کرتا۔

 

٭٭ محمد بن صباح، جریر، منصور، ابو وائل، حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ایک صاحب کا ذکر ہوا جو رات بھر سوتے رہے حتیٰ کہ صبح کر دی۔ فرمایا شیطان نے ان کے کان میں پیشاب کر دیا۔

 

٭٭ محمد بن صباح، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو  سلمہ، حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ فلاں کی طرح نہ بن جانا وہ رات کو قیام کرتا تھا پھر اس نے رات کا قیام چھوڑ دیا۔

 

٭٭ زہیر بن محمد حسن بن صباح و عباس بن جعفر و محمد بن عمرو و حدثانی، سنید بن داؤد، یوسف بن محمد بن منکدر، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام کی والدہ نے ان کو نصیحت کی کہ اے میرے پیارے بیٹے رات کو زیادہ نہ سونا اس لئے کہ رات کو محتاج ہو جائے گا۔

 

٭٭ اسماعیل بن محمد طلحی، ثابت بن موسیٰ ابو یزید، شریک، اعمش، ابو سفیان، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو رات کو نماز (تہجد) بکثرت پڑھے گا اس کا چہرہ دن کو روشن و چمکدار اور حسین ہو گا

 

٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعد و ابن ابی عدی و عبد الوہاب و محمد بن جعفر، عوف بن ابی جمیلہ، زرارۃ بن اوفی، حضرت عبد اللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ جب آپ کی طرف جھپٹے اور کہا گیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے ہیں تو لوگوں میں میں بھی آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ جب میں آپ کے چہرہ انور کو دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے شخص کا چہرہ نہیں (یعنی آپ دعویٰ نبوت میں سچے ہیں ) تو آپ نے پہلی بات یہ فرمائی جب لوگ سو رہے ہوں نماز پڑھو تم سلامتی سے جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

 

رات میں بیوی کو ( نماز تہجد کے لئے ) جگا نا

 

عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، شیبان ابو معاویہ، اعمش، علی بن اقمر، اغر، حضرت ابو سعید و ابو ہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں جب مرد رات میں بیدار ہو اور اپنی بیوی کو بیدار کرے پھر وہ دونوں دو رکعت بھی پڑھ لیں تو وہ بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور بکثرت ذکر کر نے والی عورتوں میں سے شمار ہوں گے۔

 

٭٭ احمد بن ثابت جحدری، یحییٰ بن سعید، ابن عجلان، قعقاع بن حکیم، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ رحمت فرمائیں اس مرد پر جو رات کو کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو جگائے پھر وہ بھی نماز پڑھے اور اگر بیوی اٹھنے سے انکار کرے تو پانی کی ہلکی سی چھینٹیں ڈال کر اس کو جگائے اللہ رحمت فرمائے اس عورت پر جو رات کو کھڑی ہو کر نماز پڑھے اور خاوند کو جگائے کہ وہ نماز پڑھے اگر وہ انکار کرے تو اس کو پانی کا چھینٹا مارے۔

 

خوش آوازی سے قرآن پڑھنا

 

عبد اللہ بن احمد بن بشیر بن ذکوان دمشقی، ولید بن مسلم، ابو رافع، ابن ملیکہ، حضرت عبد الرحمن بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ہمارے ہاں تشریف لائے ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی۔ میں نے ان کو سلام کیا۔ فرمایا کون؟ میں نے بتایا تو فرمایا مرحبا بھتیجے ! مجھے معلوم ہوا کہ تم خوش آوازی سے قرآن پڑھتے ہو میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ یہ قرآن ایک فکر آخرت کی لے کر اترا ہے اس لئے جب تم تلاوت (فکر آخرت سے ) روّ اور اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو اور قرآن کو خوش آوازی سے پڑھو جو قرآن کو خوش آوازی سے نہ پڑھے (یعنی قواعد تجوید کی رو سے غلط پڑھے ) تو وہ ہم میں سے نہیں۔

 

٭٭ عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، حنظلہ بن ابی سفیان، عبد الرحمن بن سابط جمحی، امّ المؤمنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں ایک بار میں رات کو عشاء کے بعد دیر سے پہنچی تو فرمایا تم کہاں تھی؟ میں نے عرض کیا آپ کے ایک صحابی کی قرأت توجہ سے سن رہی تھی اس جیسی قرأت اور آواز میں نے کبھی نہ کسی کی سنی۔ فرماتی ہیں آپ کھڑے ہوئے میں بھی ساتھ کھڑی ہوئی تاکہ آپ کی بات سنوں۔ پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یہ ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے میری امت میں ایسے افراد پیدا فرمائے۔

 

٭٭ بشر بن معاذ ضریر، عبد اللہ بن جعفر مدنی، ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع، ابو زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں میں سب سے زیادہ خوش آوازی سے قرآن پڑھنے والا وہ شخص ہے کہ جب تم اس کی قرأت سنو تو تمہیں محسوس ہو کہ اس کے دل میں خشیت الہٰی ہے۔

 

٭٭ راشد بن سعید رملی، ولید بن مسلم، اوزاعی، اسماعیل بن عبید اللہ، میسرۃ مولیٰ فضالہ، حضرت فضالہ بن عبید فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ خوش آوازی سے قرآن پڑھنے والے کو زیادہ توجہ سے سنتے ہیں۔ بہ نسبت گانے والی کے مالک کے اس کی طرف توجہ کر کے سننے سے

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، یزید بن ہارون، محمد بن عمرو، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو ایک مرد کی قرأت سنی۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ عرض کیا عبد اللہ قیس ہیں۔ فرمایا انہیں حضرت داؤد علیہ السلام جیسی سریلی آواز کا (وافر) حصہ عطا ہوا ہے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید و محمد بن جعفر، شعبہ، طلحہ یامی، عبد الرحمن بن عوسجہ، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زینت دو قرآن کو اپنی آوازوں کے ساتھ یعنی خوش آوازی سے پڑھو۔

 

اگر نیند کی وجہ سے رات کا ورد رہ جائے

 

احمد بن عمرو بن سرح مصری، عبد اللہ بن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، سائب یزید عبید اللہ بن عبد اللہ، عبد الرحمن بن عبد القاری، حضرت عمر بن خطاب بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو نیند کی وجہ سے تمام ورد یا کچھ ورد نہ پڑھ سکے پھر فجر اور ظہر کی نمازوں کے درمیان چھُوٹا ہوا ورد پڑھ لے تو ایسے ہی لکھا جائے گا (جیسے کہ) گویا رات (ہی) میں پڑھا۔

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ حمال، حسین بن علی جعفی، زائدہ، سلیمان اعمش، حبیب بن ثابت، عبدۃ بن ابی لبابہ، سوید بن غفلہ، حضرت ابو الدرداء بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو بستر پر آئے اور اس کی نیت یہ ہو کہ اٹھ کر نماز پڑھوں گا۔ پھر اس پر نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ سوتے سوتے صبح ہو گئی تو اس کو جس عمل (نماز تہجد) کی اس نے نیت کی اس کا ثواب بھی ملے گا اور اس کی نیند رب کی جانب سے اس پر صدقہ ہے۔

 

کتنے دن میں قرآن ختم کرنا مستحب ہے؟

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن یعلی طائفی، عثمان بن عبد اللہ بن اوس، حضرت اوس بن حذیفہ فرماتے ہیں کہ ہم ثقیف کے وفد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے نبی کریم قریش کے حلیفوں کو حضرت مغیرہ بن شعبہ کے ہاں قیام کروایا اور نبی مالک رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ایک قبہ میں ٹھہرایا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر شب عشاء کے بعد ہم سے پاؤں کے بل کھڑے ہوئے گفتگو فرماتے رہتے اور اپنے پاؤں باری باری سہلاتے رہتے اور زیادہ ہمیں قریش کے اپنے ساتھ رویہ کے متعلق سناتے فرماتے ہم اور وہ برابر نہ تھے کیونکہ ہم کمزور اور ظاہری طور پر دباؤ میں تھے جب ہم مدینہ آئے تو جنگ کا ڈول نکالتے (اور فتح حاصل کر لیتے ) اور کبھی وہ ہم سے ڈول نکالتے (اور فتح پاتے ) ایک رات آپ سابقہ معمول سے ذرا تاخیر سے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ آج تاخیر سے تشریف لائے۔ فرمایا میرا تلاوت قرآن کا معمول کچھ رہ گیا تھا میں نے پورا ہونے سے قبل نکلنا پسند نہ کیا۔ حضرت اوس کہتے ہیں کہ میں نے نبی کے صحابہ سے پوچھا کہ تم قرآن (کی تلاوت کے لئے ) کیسے حصے حصے کرتے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ تین (سورتیں فاتحہ کے بعد بقرہ آل عمران اور سنائیں ) اور پانچ (سورتیں مائدہ سے برآت کے آخر تک) اور سات (سورتیں یونس سے نحل تک) اور نو (سورتیں نبی اسرائیل سے فرقان تک) اور گیارہ (سورتیں شعراء سے یٰسین تک) اور تیرہ (سورتیں والصافات سے حجرات تک) اور آخری حزب مفصل کا۔ (یعنی سورہ ق سے آخر تک ان سات احزاب کے مجموعے کو قراء کرام فمی بشوق پکارتے ہیں )۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، یحییٰ بن سعید بن جریج، ابن ابی ملیکہ، یحییٰ بن حکیم بن صفوان، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن کریم حفظ کر لیا تو سارا ایک رات میں پڑھ لیا۔ اس پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ جب تمہاری عمر زیادہ ہو جائے گی تو تمہارے لئے (ہر رات تمام قرآن کی تلاوت) ملال کا باعث ہو گی اس لئے تم ایک ماہ میں پورا قرآن پڑھ لیا کرو۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے رخصت دیجئے تاکہ اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھاؤں۔ فرمایا پھر دس دن میں پڑھ لیا کرو۔ میں نے عرض کیا مجھے رخصت دیجئے کہ مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھاؤں۔ فرمایا پھر دس دن میں پڑھ لیا کرو۔ میں عرض کیا مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھا نے کا موقع دیجئے۔ فرمایا تو سات راتوں میں ختم کر لیا کرو۔ میں نے عرض کیا مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئے۔ آپ نے قبول نہ فرمایا (کہ اس سے کم میں قرآن ختم کروں )۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابو بکر بن خلاد، خالد بن حارث، شعبہ، قتادۃ، یزید بن عبد اللہ بن شخیر، حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے تین رات سے کم میں قرآن پڑھا اس نے قرآن سمجھ کر نہیں پڑھا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، سعید بن ابی عروبہ، قتادۃ، زرارۃ بن اوفی، سعید بن ہشام، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں مجھے نہیں معلوم کہ کبھی صبح ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکمل قرآن کریم پڑھ لیا ہو۔ (یعنی ایک رات میں مکمل قرآن پڑھا ہو)۔

 

رات کی نماز میں قرأت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، مسعر، ابو العلاء، یحییٰ بن جعدۃ، حضرت ام ہانی بنت ابی طالب بیان فرماتی ہیں کہ اپنے تخت پر بیٹھی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رات کو قرآن مجید پڑھنا سنتی رہتی تھی۔

 

٭٭ بکر بن خلف ابو بشر، یحییٰ بن سعید، قدامہ بن عبد اللہ، جسرۃ بنت دجاجہ، حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ نبی نماز میں کھڑے ایک ایک آیت کو صبح تک دہراتے رہے حتیٰ کہ صبح ہو گئی وہ آیت یہ ہے (اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) 5۔ المائدہ:118) حضرت عیسیٰ علیہ السلام روز قیامت عرض کریں گے اے اللہ ! اگر آپ ان پر عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ بخش دیں تو آپ غالب ہیں حکمت والے۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، سعد بن عبیدہ، مستورد بن احنف، صلۃ بن زفر، حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی جب آپ آیت رحمت پڑھتے تو رحمت کا سوال کرتے اور آیت عذاب پر عذاب سے پناہ مانگتے اور جس آیت میں اللہ کی  ہوتا اس پر اللہ کی پاکی بیان فرماتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن ہاشم، ابن ابی لیلیٰ، ثابت، عبد الرحمن بن ابی یعلی، ابن ابی لیلیٰ، حضرت ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پہلو میں نماز پڑھی آپ رات کو نفل پڑھ رہے تھے آپ نے ایک آیت عذاب پڑھی تو فرمایا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں دوزخ کے عذاب سے اور ہلاکت ہے دوزخ والوں کے لئے۔

 

٭٭ محمد بن مثنی، عبد الرحمن بن مہدی، جریر بن حازم، قتادۃ، حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا آپ ذرا بلند آواز سے قرأت فرمایا کرتے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، برد بن سنان، عبادہ بن نسی، حضرت غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بلند آواز سے قرآن کریم پڑھتے تھے یا آہستہ آواز سے تو فرمایا کبھی بلند آواز سے اور کبھی آہستہ آواز سے میں نے کہا اللَّہُ أَکْبَرُ الْحَمْدُ لِلَّہِ اللہ نے اس کام میں وسعت رکھی۔

 

جب رات میں بیدار ہو تو کیا دعا پڑھے؟

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، سلیمان احول، طاؤس، حضرت عباس فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب رات کو بیدار ہوتے تو یہ پڑھتے اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیہِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَیَّامُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیہِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَالِکُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیہِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَلِقَاؤُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ وَالنَّبِیُّونَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ اللَّہُمَّ لَکَ أَسْلَمْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْکَ أَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَإِلَیْکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِکَ اے اللہ آپ ہی کیلئے ہیں تمام تعریفیں آپ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے کے نور ہیں اور آپ ہی کیلئے حمد ہے کہ آپ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو قائم کئے ہوئے ہیں اور آپ ہی کیلئے حمد ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان سب کچھ کے مالک ہیں اور آپ ہی کیلئے حمد ہے۔ آپ حق آپ کی بات بھی حق اور جنت بھی حق دوزخ بھی حق قیامت بھی حق اور انبیاء بھی حق اور محمد بھی۔ اے اللہ میں آپ ہی کا مطیع ہوا آپ ہی پر ایمان لایا آپ ہی پر بھروسہ کیا آپ ہی کی طرف متوجہ ہوا اور آپ ہی کی قوت سے لڑا اور آپ ہی کو فیصل تسلیم کیا میرے گزشتہ اور آئندہ اور پوشیدہ علانیہ سب گناہ معاف فرما دیجئے آپ ہی آگے کرنے والے ہیں اور آپ ہی پیچھے کرنے والے ہیں کوئی معبود نہیں مگر آپ اور آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ گناہوں سے حفاظت اور طاعات کی قوت آپ بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ دوسری سند سے بھی ایسا مضمون مروی ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، ازہر بن سعید، عاصم بن حمید، حضرت عاصم بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کا قیام کس چیز سے شروع کرتے تھے؟ فرمایا تم نے مجھ سے ایسی بات پوچھی جو تم سے پہلے کسی نے نہ پوچھی۔ آپ دس بار اَللہُ اَکبَر کہتے دس بار اَلحَمدُ للہِ دس بار سُبحَانَ اللہِ اور دس بار استغفار کرتے اور پڑھتے اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَاہْدِنِی وَارْزُقْنِی وَعَافِنِی وَیَتَعَوَّذُ مِنْ ضِیقِ الْمُقَامِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِاے اللہ ! میری بخش فرمایئے مجھے ہدایت پر قائم و مستقیم رکھئے مجھے رزق دیجئے اور عافیت عطا فرما دیجئے اور قیامت کے روز جگہ کی تنگی سے پناہ مانگتے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن عمر، عمر بن یونس یمامی، عکرمہ بن عمار، یحییٰ بن ابی کثیر، حضرت ابو  سلمہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب رات کو کھڑے ہوتے تو نماز کی ابتداء کس چیز سے فرماتے؟ فرمایا آپ کہتے اللَّہُمَّ رَبَّ جِبْرَئِیلَ وَمِیکَائِیلَ وَإِسْرَافِیلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیمَا کَانُوا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ اہْدِنِی لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِکَ إِنَّکَ لَتَہْدِی إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ اے اللہ اے جبرائیل و میکائیل و اسرفیل کے رب اے آسمان و زمین کے خالق اے غیب و حاضر کا علم رکھنے والے آپ اپنے بندوں کے درمیان جس پر وہ جھگڑیں فیصلہ فرماتے ہیں۔ مجھے جس میں اختلاف ہے اس میں اپنے حکم سے ہدایت عطا فرما دیجئے۔ آپ صراط مستقیم تک پہنچانے والے ہیں عبد الرحمن بن عمر کہتے ہیں کہ جبرائیل ہمزہ کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو اسی طرح یاد رکھو۔

 

رات کو تہجد کتنی رکعات پڑھے؟

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، ابن ابی ذئب، زہری، عروۃ، عائشہ، عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید، اوزاعی، زہری، عروۃ، حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر فجر تک گیارہ رکعات پڑھتے۔ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے اور ان رکعات میں سجدہ سے سر اٹھانے سے قبل اتنی دیر تک سجدہ میں رہتے جتنی دیر میں تم پچاس آیات کی تلاوت کرو۔ جب میں نماز صبح کی اذان سے فارغ ہوتی تو کھڑے ہو کر مختصر سی دو رکعتیں پڑھتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدۃ بن سلیمان، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں تیرہ رکعات پڑھتے۔

 

٭٭ ہناد بن سری، ابو الاحوص، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو نو رکعات پڑھتے۔

 

٭٭ محمد بن عبید بن میمون ابو عبید مدینی، عبید بن میمون، محمد بن جعفر، موسیٰ بن عقبہ، ابو  اسحاق ، حضرت عامر شعبی کہتے ہیں کہ میں نے حضرات ابن عباس و عبد اللہ بن عمر سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رات کی نماز کے متعلق دریافت کیا تو دونوں نے فرمایا کہ تیرہ رکعات۔ آٹھ تہجد تین وتر اور دو رکعات فجر طلوع ہونے کے بعد فجر کی سنتیں۔

 

٭٭ عبد السلام بن عاصم، عبد اللہ بن نافع بن ثابت زبیری، مالک بن انس، عبد اللہ بن ابی بکر، ابو بکر، عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ، حضرت زید بن خالد جہنی کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ آج رات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز دیکھوں گا۔ میں نے آپ کی چوکھٹ یا خیمہ پر تکیہ لگایا تو (رات میں ) رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے دو مختصر سی رکعتیں پڑھیں پھر دو رکعتیں لمبی لمبی (یعنی بہت لمبی) پھر دو رکعتیں پہلی سے ذرا مختصر پھر دو رکعتیں ان سے بھی ذرا مختصر پھر دو رکعتیں پھر تین وتر پڑھے تو یہ تیرہ رکعات ہوئیں۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، معن بن عیسیٰ، مالک بن انس، مخرمہ بن سلیمان، حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے انہیں بتایا کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ مطہرہ اور اپنی خالہ حضرت میمونہ کے ہاں رات کو سوئے۔ فرماتے ہیں میں تکیہ کے عرض میں لیٹا اور آپ اور آپ کی اہلیہ طول میں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو گئے جب آدھی رات ہوئی یا اس سے کچھ پہلے یا بعد آپ اٹھے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر نیند کو ختم کیا پھر آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں پھر لٹکے ہوئے مشکیزے سے پانی لے کر خوب عمدگی سے وضو کیا۔ پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں بھی کھڑا ہوا اور اسی طرح کیا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا اور جا کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا۔ آپ نے دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر دبانے لگے آپ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر وتر پڑھے پھر آپ لیٹ گئے حتیٰ کہ مؤذن آیا تو آپ مختصر سی دو رکعتیں پڑھ کر نماز کیلئے تشریف لے گئے۔

 

رات کی افضل گھڑی

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و محمد بن بشار و محمد بن ولید، محمد بن جعفر، شعبہ، یعلی بن عطاء، یزید بن طلق، عبد الرحمن بن بیلمانی، حضرت عمرو بن عبسہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کون اسلام لایا؟ فرمایا آزاد بھی اور غلام بھی۔ میں نے عرض کیا کون گھڑی دوسری کی بہ نسبت اللہ (عزوجل) کے ہاں زیادہ قرب کی باعث ہے؟ فرمایا جی! رات کا درمیانی حصہ۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ، اسرائیل، ابو  اسحاق ، اسود، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کے شروع حصہ میں سوتے اور اخیر رات میں عبادت کرتے تھے۔

 

٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی و یعقوب بن حمید بن کاسب، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، ابو  سلمہ و ابو عبد اللہ اغر، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر شب جب رات کا آخری تہائی رہ جاتا ہے اللہ تعالیٰ نزول فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اس کو عطا کروں کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے میں اس کی دعا قبول کروں کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اس کی مغفرت کر دوں۔ حتیٰ کہ فجر طلوع ہو جائے اسی لئے صحابہ اخیر رات کی نماز اوّل رات کی نماز کی بہ نسبت زیادہ پسند کرتے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن مصعب، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ہلال بن ابی میمونہ، عطاء بن یسار، حضرت رفاعہ جہنی فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ (بندوں کو آرام کے لئے ) مہلت دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب رات کا نصف یا دو تہائی حصہ گزر جائے تو فرماتے ہیں میرے بندے ہرگز کسی سے سوال نہ کریں جو مجھ سے دعا مانگے گا اس کی دعا قبول کروں گا۔ جو مجھ سے سوال کرے گا اس کو عطا کروں گا جو مجھ سے مغفرت طلب کرے گا اس کی مغفرت کر دوں گا حتیٰ فجر طلوع ہو جائے۔

 

قیام اللیل کی بجائے جو عمل کافی ہو جائے

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، حفص بن غیاث و اسباط بن محمد، اعمش، ابراہیم، عبد الرحمن بن یزید، علقمہ، حضرت ابو مسعود بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سورہ بقرہ کی آخری دو دو آیتیں پڑھے وہ اس کے لئے کافی ہو جائیں گی

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، ابراہیم، عبد الرحمن بن یزید، حضرت ابو مسعود سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص رات کو سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے وہ اس کے لئے کافی ہو جائیں گی۔

 

جب نمازی کو اونگھ آنے لگے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، عبد العزیز بن ابی حازم، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو اونگھ آئے تو سو جائے یہاں تک کہ نیند (پوری ہو کر) ختم ہو جائے۔ اس لئے کہ اونگھتے اونگھتے نماز پڑھنے میں کیا پتہ استغفار کرنا شروع کرے اور (بجائے استغفار کے ) اپنے لئے بد دعا شروع کر دے۔

 

٭٭ عمران بن موسیٰ لیثی، عبد الوارث بن سعد، عبد العزیز بن صہیب، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لائے آپ نے دو ستونوں کے درمیان رسی تنی ہوئی دیکھی تو پوچھا کہ یہ رسّی کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا زینب کی ہے وہ نماز پڑھتی رہتی ہیں۔ جب طبیعت سست ہونے لگتی ہے تو اس کے ساتھ لٹک جاتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کھولو ! اس رسی کو کھولو۔ تم میں سے ہر ایک نشاط کے ساتھ نماز پڑھے جب سستی ہونے لگے تو بیٹھ رہے۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، حاتم بن اسماعیل ، ابو بکر بن یحییٰ بن نضر، یحییٰ بن نضر، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم سے کوئی رات کو کھڑا (نماز پڑھ رہا) ہو پھر قرآن اس کی زبان سے نہ نکلے (اور غلبہ نوم کے باعث) اسے یہ پتہ نہ چلے کہ کیا کہہ رہا ہے سو جائے۔

 

مغرب و عشاء کے درمیان نماز پڑھنے کی فضیلت

 

احمد بن منیع، یعقوب بن ولید مدینی، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مغرب و عشاء کے درمیان بیس رکعات پڑھے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے ایک گھر بنائیں گے۔

 

٭٭ علی بن محمد و ابو عمر حفص بن عمر، زید بن حباب، عمر بن ابی خثعم یمامی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھے اس دوران کوئی بری بات نہ کہے تو یہ اس کے لئے بارہ سال کی عبادت کے برابر ہے۔

 

گھر میں نفل پڑھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، طارق، عاصم بن عمرو سے روایت ہے کہ کچھ لوگ عراق سے امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق کے پاس آئے۔ جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا عراق والے۔ حضرت عمر فاروق نے کہا تم حکم سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا جی۔ ان لوگوں نے حضرت عمر فاروق سے گھر میں نماز پڑھنے کو پوچھا انہوں نے کہا میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کو پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مرد کی نماز اپنے گھر میں نور ہے تو منور (روشن) کرو اپنے گھروں کو۔

 

٭٭ محمد بن بشار و محمد بن یحییٰ، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، اعمش، ابو سفیان، جابر بن عبد اللہ، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں کوئی اپنی نماز ادا کرے تو اس کا کچھ حصہ اپنے گھر کے لئے بھی رکھے۔ اس لئے کہ اس کی نماز کی وجہ سے اللہ اس کے گھر میں خیر اور بھلائی فرمائیں گے۔

 

٭٭ زید بن اخزم و عبد الرحمن بن عمر، یحییٰ بن سعید، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ (یعنی نفل گھر میں پڑھا کرو)۔

 

٭٭ ابو بشر بکر بن خلف، عبد الرحمن بن مہدی، معاویہ بن صالح، علاء بن حارث، حرام بن معاویہ، حضرت عبد اللہ بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا زیادہ فضیلت کس میں ہے میرے گھر میں نماز یا اس مسجد؟ فرمایا دیکھو میرا گھر مسجد کے کتنا قریب ہے لیکن اپنے گھر میں نماز پڑھنا مجھے مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ پسند ہے الا یہ کہ فرض نماز ہو (تو وہ مسجد میں با جماعت ادا کرنا ضروری ہے )۔

 

چاشت کی نماز

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، یزید بن ابی زیاد، حضرت عبد اللہ بن حارث کہتے ہیں میں نے حضرت عثمان بن عفان کے زمانے میں جب کہ لوگ بہت تھے چاشت کی نماز کے بارے میں پوچھا تو مجھے یہ بتا نے والا کوئی نہ ملا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ نماز پڑھی سوائے ام ہانی نے انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاشت کی نماز آٹھ رکعت پڑھی۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر و ابو کریب، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق ، موسیٰ بن انس، ثمامہ بن انس، حضرت انس بن مالک بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جس نے بارہ رکعات چاشت کی نماز پڑھی اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے سونے کا محل تیار کروائیں گے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، شعبہ، یزید رشک، حضرت معاویہ فرماتی ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ کیا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ فرمایا جی چار اور اس سے بھی زیادہ جتنا اللہ کو منظور ہوتا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، نہّاس بن قہم، شداد ابو عمار، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو چاشت کی دو رکعتوں کی نگہداشت کرے اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اگر سمندر کی جھاگ لے برابر ہوں۔

 

نماز استخارہ

 

احمد بن یوسف سلمی، خالد بن مخلد، عبد الرحمن بن ابی الموالی، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں نماز استخارہ اس طرح (اہتمام سے ) سکھاتے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے تھے فرماتے جب تم میں کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ (نفل) پڑھے پھر یہ دعا مانگے اے اللہ میں آپ سے خیر طلب کرتا ہوں کیونکہ آپ کو علم ہے اور قدرت طلب کرتا ہوں کیونکہ آپ قادر ہیں اور میں آپ سے آپ کے فضل کا سوال کرتا ہوں۔ بے شک آپ کو قدرت ہے اور مجھے قدرت نہیں آپ کو علم ہے اور مجھے علم نہیں اور آپ غیب کی باتوں کو خوب جاننے والے ہیں۔ اے اللہ اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ کام (اور یہاں اس کام کا ذکر کرے ) میرے لئے دین اور معاش میں بہتر اور انجام کے اعتبار سے بھلا ہے یا فرمایا کہ میرے لئے حال اور مال میں بھلا ہے تو  اس کو میرے لئے مقدر فرما دیجئے اور آسان فرما دیجئے اور مجھے اس میں برکت عطا فرما دیجئے اور اگر آپ کے علم میں یہ ہے کہ یہ کام (یہاں بھی پہلے کی طرح کہے ) میرے لئے برا ہے تو  اس کو مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لئے جہاں کہیں خیر ہو مقدر فرما دیجئے پھر مجھے اس پر مطمئن اور خوش رکھئے۔

 

صلٰوۃ الحاجۃ

 

سوید بن سعید، ابو عاصم عبادانی، فائد بن عبد الرحمن، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا جس کو اللہ جل جلالہ سے یا اس کی مخلوق میں سے کوئی حاجت ہو تو وہ وضو کر کے دو رکعتیں پڑھے پھر یہ دعا مانگے حلم اور کرم والے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں بڑے تخت کا مالک اللہ پاک ہے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ اے اللہ ! میں آپ سے آپ کی رحمت کے اسباب مانگتا ہوں اور وہ اعمال جو آپ کی مغفرت اور بخشش کو لازم کر دیں اور ہر نیکی کی طرف لانا اور ہر گناہ سے سلامتی اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ بلا مغفرت کئے میرا کوئی گناہ نہ چھوڑیئے اور میری ہر فکر کو دور کر دیجئے اور میری ہر حاجت جس میں آپ کی رضا ہو پوری فرما دیجئے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دنیا آخرت کی جو چیز چاہے مانگے اللہ تعالیٰ اس کے لئے مقدر فرما دیں گے۔

 

٭٭ احمد بن منصور بن یسار، عثمان بن عمر، شعبہ، ابو جعفر مدنی، عمارۃ بن خزیمہ بن ثابت، عثمان بن حنیف کہتے کہ ایک نابینا مرد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ اللہ سے میرے لئے عافیت اور تندرستی کی دعا مانگئے۔ آپ نے فرمایا اگر چاہو تو آخرت کیلئے دعا مانگوں یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور چاہو تو (ابھی) دعا کر دوں؟ اس نے عرض کیا دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے کہا کہ اچھی طرح وضو کرو اور دو رکعتیں پڑھ کر یہ دعا مانگو اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ إِنِّی قَدْ تَوَجَّہْتُ بِکَ إِلَی رَبِّی فِی حَاجَتِی ہَذِہِ لِتُقْضَی اللَّہُمَّ شَفِّعْہُ فِیَّ اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں رحمت والے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وسیلہ سے اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف توجہ کی اپنی اس حاجت کے سلسلہ میں تاکہ یہ حاجت پوری ہو جائے۔ اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سفارش میرے بارے میں قبول فرما لیجئے۔

 

صلٰوۃ التسبیح

 

موسی بن عبد الرحمن ابو عیسی مسروقی، زید بن حباب، موسیٰ بن عبیدۃ، سعید بن ابی سعید مولیٰ ابی بکر بن عمر بن حزم، حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عباس سے فرمایا اے میرے چچا میں آپ کو عطیہ نہ دوں نفع نہ پہنچاؤں آپ کے ساتھ صلہ رحمی نہ کروں؟ حضرت عباس نے کہا کیوں نہیں ضرور فرمایئے اے اللہ کے رسول۔ فرمایا تو چار رکعات اس طرح پڑھو کہ ہر رکعت میں فاتحہ اور سورت پڑھ چکو تو کہو سُبحَانَ اللہِ وَالحَمدُ للہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکبَرُ پندرہ بار رکوع سے قبل پھر رکوع میں دس بار یہی کلمات کہو پھر رکوع سے سر اٹھا کر دس بار کہو پھر سجدہ میں دس بار کہو۔ پھر سجدہ سے سر اٹھا کر کھڑے ہونے سے قبل دس بار کہو تو یہ کل پچھتر بار ہوا ہر رکعت میں اور چار رکعات میں تین سو بار وہ گیا تو اگر تمہارے گناہ ریت کے ذرات کے برابر بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ بخش دیں گے۔ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول! اور اگر کوئی ہر روز نہ پڑھ سکے تو؟ فرمایا ہفتہ میں ایک بار پڑھ لے اور اگر ہفتہ میں ایک بار پڑھنے کی بھی ہمت نہ ہو تو مہینے میں ایک بار پڑھ لے۔ یہاں تک کہ فرمایا کہ سال میں ہی ایک بار پڑھ لے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن بشر بن حکم نیشاپوری، موسیٰ بن عبد العزیز، حکم بن ابان، عکرمہ، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) بن مطلب سے فرمایا اے عباس ! اے چچا ! میں آپ کو عطیہ نہ دوں تحفہ نہ دوں سلوک نہ کروں دس خصلتیں نہ بتاؤں اگر آپ ان کو کر لیں گے تو اللہ آپ کے گزشتہ و آئندہ نئے و پرانے خطاء سرزد ہوئے اور عمداً کئے ہوئے صغیرہ کبیرہ ظاہرہ اور پوشیدہ سب گناہ معاف فرما دیں گے۔ دس خصلتیں یہ ہیں آپ چار رکعات نماز پڑھیں۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور (کوئی اور) سورۃ پڑھیں۔ پہلی رکعت میں قرأت سے فارغ ہو کر کھڑے کھڑے پندرہ بار سُبحَانَ اللہِ وَالحَمدُ للہِ وَلَا اِلٰہِ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکبَرُ کہیں پھر رکوع تو رکوع میں بھی دس بار یہی کہیں پھر رکوع سے سر اٹھا کر بھی دس بار یہی پڑھیں پھر سجدہ میں جائیں تو سجدے میں بھی دس بار یہی پڑھیں پھر سجدہ سے سر اٹھا کر بھی دس یہی پڑھیں پھر دوسرے سجدہ میں بھی دس بار پڑھیں پھر سجدے سے سر اٹھا کر بھی دس بار پڑھیں۔ یہ پچھتر بار ہو گیا چار رکعات میں سے ہر ہر رکعت میں ایسا ہی کریں اگر ہو سکے تو روزانہ ایک بار نماز پڑھیں یہ نہ ہو سکے تو ہر جمعہ کو ایک بار یہ نہ ہو سکے تو ہر ماہ ایک بار یہ بھی نہ ہو سکے تو عمر بھر میں ایک بار۔

 

شعبان کی پندرھویں شب کی فضیلت

 

حسن بن علی خلال، عبد الرزاق، ابن ابی سبرۃ، ابراہیم بن محمد، معاویہ بن عبد اللہ بن جعفر، عبد اللہ بن جعفر، حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات کو عبادت کرو اور آئندہ دن روزہ رکھو اس لئے کہ اس میں غروب شمس سے فجر طلوع ہونے تک آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ نزول فرماتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ میں اس کی مغفرت کروں۔ کوئی روزی کا طلبگار کہ میں اس کو روزی دوں۔ ہے کوئی بیمار کہ میں اس کو بیماری سے عافیت دوں ہے کوئی ایسا ہے کوئی۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔

 

٭٭ عبدۃ بن عبد اللہ خزاعی و محمد بن عبد الملک ابو بکر، یزید بن ہارون، حجاج، یحییٰ بن ابی کثیر، عروۃ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (اپنے بستر پر نہ) پایا تو تلاش میں نکلی دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع میں آسمان کی طرف سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا تمہیں یہ اندیشہ ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے (کہ میں کسی اور بیوی کے ہاں چلا جاؤں گا) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا مجھے ایسا کوئی خیال نہ تھا بلکہ میں نے سمجھا کہ آپ اپنی کسی اہلیہ کے ہاں (کسی ضرورت کی وجہ سے ) گئے ہوں گے۔ تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور بنو کلب کی بکریوں سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرما دیتے ہیں (بنو کلب کے پاس تمام عرب سے زیادہ بکریاں تھیں )۔

 

٭٭ راشد بن سعید بن راشد رملی، ولید، ابن لہیعہ، ضحاک بن ایمن، ضحاک بن عبد الرحمن بن عرزب، حضرت ابو  موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب متوجہ ہوتے ہیں اور تمام مخلوق کی بخشش فرما دیتے ہیں سوائے شرک کرنے والے اور کینہ رکھنے والے کے۔ دوسری سند سے بھی ایسا ہی مضمون مروی ہے۔

 

شکرانے میں نماز اور سجدہ

 

ابو بشر بکر بن خلف، سلمہ بن رجاء، شعثاء، حضرت عبد اللہ بن اوفی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب ابو جہل کا سر لانے کی خوشخبری دی گئی تو آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔

 

٭٭ یحییٰ بن عثمان بن صالح مصری، ابن لہیعہ، یزید بن ابی حبیب، عمر بن ولید بن عبدۃ سہمی، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک کام ہو جانے کی خوشخبری دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں گر پڑے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، زہری، عبد الرحمن بن کعب بن مالک، حضرت کعب بن مالک کی جب اللہ (عزو جل) کے ہاں توبہ قبول ہوئی (غزہ تبوک میں نہ جانے کی) تو وہ سجدہ میں گر گئے۔

 

٭٭ عبدۃ بن عبد اللہ خزاعی و احمد بن یوسف سلمی، ابو عاصم ، بکار بن عبد العزیز بن عبد اللہ بن ابی بکرۃ، عبد العزیز بن عبد اللہ بن ابی بکرۃ، حضرت ابو بکرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جب کوئی خوش کن بات پہنچتی تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی شکر گزاری میں سجدے میں گر پڑتے۔

 

نماز گناہوں کا کفارہ ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ و نصر بن علی، وکیع، مسعر و سفیان، عثمان بن مغیرۃ ثقفی، علی بن ربیعہ والبی، اسماء بن حکم فزاری، حضرت سیدنا علی فرماتے ہیں کہ جب میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی بات کو سنتا تو اللہ تعالیٰ جتنا چاہتا مجھے نفع دیتا اور جب کوئی مجھے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث سناتا تو میں (تاکید کی خاطر) اس سے حلف لیتا جب وہ حلف اٹھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا اور ابو بکر نے مجھے حدیث سنائی اور سچ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص سے بھی کوئی گناہ سرزد ہو جائے پھر وہ خوب اچھی طرح وضو کرے دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابو زبیر، سفیان بن عبد اللہ، حضرت عاصم بن سفیان ثقفی فرماتے ہیں کہ ہم نے سلاسل کا جہاد کیا لڑائی تو نہ ہوئی صرف مورچہ باندھا پھر معاویہ کے پاس واپس آ گئے۔ آپ کے پاس ابو ایوب عقبہ بن عامر موجود تھے عاصم نے کہا ایابو ایوب ! امسال لڑائی نہ ہو سکی اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ جو بھی ان چار مساجد میں نماز پڑھ لے اس کے گناہ بخشش دیئے جائیں گے تو انہوں نے کہا اے بھتیجے ! میں تمہیں اس سے آسان بات نہ بتاؤں میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جس نے حکم قرآنی کے مطابق وضو کیا اور جیسے نماز کا حکم ہے ویسے نماز پڑھی تو اس کے سابقہ گناہ بخشش دیئے جائیں گے ایسے ہی ہے نا عقبہ؟ فرمایا جی۔

 

٭٭ عبد اللہ بن ابی زیاد، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، صالح بن عبد اللہ بن ابی فروۃ، عامر بن سعد، ابان بن عثمان، حضرت عثمان بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا بتاؤ ! اگر تم میں سے ایک کے گھر کے سامنے نہر جاری ہو وہ اس میں روزانہ پانچ دفعہ نہائے تو اس پر کچھ میل باقی رہ جائے گا؟ عرض کیا بالکل نہیں۔ تو فرمایا نماز گناہوں کو اسی طرح ختم کر دیتی ہے جیسے پانی میل کو۔

 

٭٭ سفیان بن وکیع، اسماعیل بن علیہ ، سلیمان تیمی، ابو عثمان نہدی، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک مرد زنا سے کم کسی درجہ کی معصیت کا مرتکب ہو گیا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کا ذکر کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (نماز قائم کر دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے چند حصوں میں بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں یہ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کیلئے۔ تو اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا یہ میرے لئے ہے؟ فرمایا جو بھی اس پر عمل کر لے اس کے لئے ہے۔ نماز روزہ اور دیگر عبادات سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔

 

پانچ نمازوں کی فرضیت اور ان کی نگہداشت کا بیان

 

حرملہ بن یحییٰ مصری، عبد اللہ بن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض فرمائیں تو میں یہ پچاس نمازیں لے کر واپس ہوا۔ حضرت موسیٰ سے ملاقات ہو گئی تو پوچھنے لگے کہ تمہارے رب نے تمہاری امت پر کیا فرض فرمایا؟ میں نے کہا مجھ پر پچاس نمازیں فرض فرمائیں۔ تو کہنے لگے اپنے رب کی طرف رجوع کرو کیونکہ یہ تمہاری امت کے بس میں نہیں۔ میں نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا تو میرے رب نے مجھے ایک حصہ (پچیس نمازیں ) معاف فرما دیں۔ پھر میں موسیٰ کے پاس آیا اور ان کو بتایا تو انہوں نے کہا اپنے رب کی طرف رجوع کروں کیونکہ یہ بھی تمہاری امت کے بس میں نہیں۔ میں نے پھر اپنے رب کی طرف رجوع کیا۔ تو رب نے فرمایا یہ (شمار میں تو) پانچ ہیں اور (ثواب پوری) پچاس پاس آیا تو کہنے لگے اپنے رب کی طرف پھر رجوع کرو۔ میں نے کہا اب تو مجھے اپنے رب سے شرم آ رہی ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، ولید، شریک، عبد اللہ بن عصم ابی علوان، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا تو انہوں نے تمہارے رب سے کمی کی درخواست کی کہ ان کو پانچ بنا دیں۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابن ابی عدی، شعبہ، عبدربہ بن سعید، محمد بن یحییٰ بن حبان، ابن محیرز مخدجی، حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں جو ان پانچ نمازوں کو پڑھے گا اور ان کو حقیر سمجھ کر ان میں کسی قسم کی کوتاہی کرنے سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ کا اس کے لئے یہ عہد ہے کہ اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور جو ان نمازوں کو اس طرح پڑھے کہ ان کو حقیر سمجھ کر ان میں کوتاہی بھی کرے تو اللہ تعالیٰ کا اس کے لئے کوئی عہد نہیں چاہیں عذاب دیں چاہیں معاف فرما دیں۔

 

٭٭ عیسٰی بن حماد مصری، لیث بن سعد، سعید مقربی، شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں ایک بار ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک صاحب اونٹ پر سوار مسجد میں داخل ہوئے مسجد میں اونٹ بٹھایا پھر اسے باندھ دیا پھر پوچھا تم میں محمد کون ہیں؟ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کے درمیان تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ تو صحابہ نے کہا یہ گورے مرد تکیہ لگائے ہوئے تو ان صاحب نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا اے عبد المطلب کے بیٹے ! تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ! میں تمہاری طرف متوجہ ہوں۔ تو ان صاحب نے عرض کیا اے محمد ! میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اور پوچھنے میں سختی ہو گی اس کو برا نہ منایئے گا۔ آپ نے فرمایا جو جی میں آئے پوچھ لو۔ تو اس نے کہا میں آپ کو آپ کے رب کی اور آپ سے پہلوں کے رب کی قسم دیتا ہوں بتایئے کیا اللہ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف بھیجا ہے؟ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بخدا ! جی ہاں۔ اس نے کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں بتایئے کیا آپ کو اللہ نے حکم دیا کہ دن رات میں پانچ نمازیں پرھیں؟ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بخدا ! جی۔ اس نے عرض کیا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ کو سال میں اس ماہ کے روزوں کا حکم دیا ہے؟ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بخدا ! جی۔ اس نے کہا میں آپ کو قسم دیتا ہوں اللہ کی بتایئے کیا آپ کو اللہ نے حکم دیا کہ ہمارے مالداروں سے یہ زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے ناداروں میں تقسیم کریں؟ آپ نے فرمایا بخدا ! جی۔ تو ان صاحب نے کہا میں آپ کے لائے ہوئے دین پر ایمان لایا اور میں اپنے پیھچے اپنی پوری قوم کا قاصد ہوں اور میں بنو سعد بن بکر قبیلہ کا ایک فرد ضمام بن ثعلبہ ہوں۔

 

٭٭ یحییٰ بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار حمصی، بقیہ بن ولید، ضبارۃ بن عبد اللہ بن ابی سلیل، دوید بن نافع، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو قتادہ بن ربعی فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور یہ عہد کر لیا ہے کہ جو ان نمازوں کی وقت کے مطابق نگہداشت کرے گا اس کو جنت میں داخل کروں گا اور جو ان کی نگہداشت نہ کرے اس کے لئے میرے پاس کوئی عہد نہیں۔

 

مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز کی فضیلت

 

ابو مصعب مدینی، ابن ابی بکر، مالک بن انس، زید بن رباح و عبید اللہ بن ابی عبد اللہ، ابو عبد اللہ اغر، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری اس مسجد میں ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ باقی مساجد میں ہزار نمازوں سے افضل ہے۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔

 

٭٭ اسحاق بن منصور، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا میری اس مسجد میں ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ باقی مساجد میں ہزار نمازوں سے افضل ہے۔

 

٭٭ اسماعیل بن اسد، زکریا بن عدی، عبید اللہ بن عمرو، عبد الکریم، عطاء، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری اس مسجد میں ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ باقی مساجد کی ہزار نمازوں سے افضل ہے اور مسجد حرام میں ایک نماز دیگر مساجد کی لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔

 

مسجد بیت المقدس میں نماز کی فضیلت

 

اسماعیل بن عبد اللہ رقی، عیسیٰ بن یونس، ثور بن یزید، زیاد بن ابی سودۃ، عثمان بن ابی سودۃ، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی باندی حضرت میمونہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہمیں بیت المقدس کے متعلق بتایئے۔ فرمایا وہ حشر کی اور زندہ ہو کر اٹھنے کی زمین ہے وہاں جا کر نماز پرھو کیونکہ وہاں نماز باقی جگہوں کی ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ میں نے عرض کیا بتایئے اگر میں وہاں جانے کی استطاعت نہ پاؤں؟ فرمایا وہاں کے لئے تیل بھیج دو جس نے روشنی کا انتظام ہو جا ایسا کر لے وہ بھی وہاں جانے والے کی مانند ہے۔

 

٭٭ عبید اللہ بن جہم انماطی، ایوب بن سوید، ابو زرعہ شیبانی یحییٰ بن ابی عمر، عبد اللہ بن دیلمی، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب سلیمان بن داؤد علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں ایسے فیصلے جو اللہ کے فیصلہ کے مطابق ہوں اور ایسی شاہی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملے اور یہ کہ اس مسجد میں جو بھی صرف اور صرف نماز کے ارادے سے آئے تو وہ اس مسجد سے اس طرح گناہوں سے پاک ہو کر نکلے جس طرح پیدائش کے دن تھا۔ نبی نے فرمایا کہ دو تو ان کو مل گئیں تیسری کی بھی مجھے امید ہے کہ مل گئی ہو گی۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الاعلیٰ، معمر، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کجاوے نہ باندھے جائیں مگر تین مساجد کی طرف مسجد حرام میری یہ مسجد اور مسجد اقصٰی۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، محمد بن شعیب، یزید بن ابی مریم، قزعہ، حضرت ابو سعید اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کجاوے نہ باندھے جائیں مگر تین مساجد کی طرف مسجد حرام مسجد اقصیٰ اور میری یہ مسجد۔

 

مسجد قباء میں نماز کی فضیلت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ عبد الحمید بن جعفر، ابو الابرد مولیٰ بنی خطمۃ، حضرت اسید بن ظہیر جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسجد قباء میں (پڑھی گئی) ایک نماز (ثواب میں ) عمرہ کے برابر ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، حاتم بن اسماعیل و عیسیٰ بن یونس، محمد بن سلیمان کرمانی، ابو امامہ بن سہل بن حنیف، حضرت سہل بن حنیف بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو اپنے گھر خوب پاکی حاصل کرے پھر مسجد قباء آ کر نماز پڑھے اس کو عمرہ کے برابر اجر ملے گا۔

 

جامع مسجد میں نماز کی فضیلت

 

ہشام بن عمار، ابو الخطاب دمشقی، زریق ابو عبد اللہ الہانی، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مرد کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز کے برابر ہے اور محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا پچیس نمازوں کے برابر اور جامع مسجد میں نماز پڑھنا پانچ سو نمازوں کے برابر ہے اور مسجد اقصٰی میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور میری مسجد میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔

 

منبر کی ابتداء

 

اسماعیل بن عبد اللہ رقی، عبید اللہ بن عمرو رقی، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، طفیل بن ابی ابن کعب، حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک درخت کے تنے کی طرف نماز پڑھاتے تھے جب مسجد پر چھپر تھا اور آپ اسی درخت سے ٹیک لگا کر خطبہ بھی ارشاد فرماتے تو ایک صحابی نے عرض کیا اگر ہم کوئی چیز تیار کریں کہ آپ اس پر کھڑے ہوں جمعہ کے روز تاکہ لوگ آپ کو دیکھیں اور آپ خطبہ ارشاد فرمائیں تو اس کی اجازت ہو گی؟ فرمایا جی۔ تو ان صحابی نے تین سیرھیاں بنائیں وہی اب تک منبر پر ہیں جب منبر تیار ہو گیا تو صحابہ نے اسی جگہ رکھا جہاں اب ہے جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منبر پر کھڑے ہونے کا ارادہ فرمایا تو آپ اسی ٹنڈ (کاٹی گئی لکڑی) کے پاس سے گزرے جس پر ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے جب اس ٹنڈے سے آگے بڑھے تو وہ چیخا حتیٰ کہ اس کی آواز تیز ہو گئی اور پھٹ گئی اس کی آواز سن کر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر سے اترے اور اس پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ حتیٰ کہ  اس کو سکون ہو گیا پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے جب آپ نماز پڑھتے تو اسی ٹنڈ کے قریب نماز پڑھتے جب مسجد ڈھائی گئی اور بدلی گئی تو وہ ٹنڈ حضرت ابی بن کعب نے لے لیا وہ ان کے پاس ان کے گھر میں رہا حتیٰ کہ پرانا ہو گیا پھر  اس کو دیمک کھا گئی اور ریزہ ریزہ ہو گیا۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد باہلی، بہز بن اسد، حماد بن سلمہ، عمار بن ابی عمار، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک تنے کے سہارے خطبہ ارشاد فرماتے جب منبر تیار ہوا تو آپ منبر کی طرف بڑھے اس پر منبر رونے لگا۔ آپ منبر کے قریب آئے اس کو سینے سے لگایا تو اس کی آواز تھم گئی۔ آپ نے فرمایا اگر میں اس کو سینہ سے نہ لگاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔

 

٭٭ احمد بن ثابت جحدری، سفیان بن عیینہ، ابو حازم سے روایت ہے کہ لوگوں کا اس بارے میں اختلاف ہوا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا منبر کس چیز سے بنا ہے؟ تو وہ سہل بن سعد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے پوچھا تو فرمایا لوگوں میں کوئی بھی مجھ سے زیادہ جاننے والا باقی نہ رہا۔ وہ غابہ کے جھاؤ کا فلاں بڑھئی جو فلانی عورت کا غلام ہے اس نے بنایا۔ یہ غلام منبر لے کر آیا جب رکھا گیا تو آپ اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ کی طرف منہ کیا لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے آپ نے قرأت فرمائی پھر رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھا کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور (منبر سے اتر) زمین پر سجدہ کیا۔ پھر منبر پر تشریف لے گئے پھر قرأت فرمائی رکوع کیا پھر کھڑے ہو کر پیچھے کو ہوئے اور زمین پر سجدہ کیا۔

 

٭٭ ابو بشر بکر بن خلف، ابن ابی عدی، سلیمان تیمی، ابو نضرۃ، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے پھر منبر بنا۔ فرماتے ہیں کہ تنا رو نے لگا جابر کہتے ہیں کہ اس کے رونے کی آواز مسجد والوں نے بھی سنی۔ یہاں تک کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ سکون میں آ گیا تو ایک صاحب نے کہا اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے پاس نہ آتے تو قیامت تک روتا ہی رہتا۔

 

نماز میں لمبا قیام کرنا

 

عبد اللہ بن عامر بن زوارۃ و سوید بن سعید، علی بن مسہر، اعمش، ابو وائل، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک رات میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز شروع کر دی آپ مسلسل قیام میں رہے حتیٰ کہ میں نے نامناسب کام کا ارادہ کر لیا (ابو وائل کہتے ہیں ) میں نے کہا وہ نامناسب کام کیا تھا؟ تو فرمایا میں نے یہ ارادہ کیا کہ آپ کو چھوڑ کر خود بیٹھ جاؤں۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زیاد بن علاقہ، مغیرہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ کے قدم مبارک سوج گئے۔ تو آپ سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ نے آپ کے گزشتہ و آئندہ گناہ معاف فرما دیئے (پھر اتنی مشقت برداشت کرنے کی کیا ضرورت؟) فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

 

٭٭ ابو ہشام رفاعی محمد بن یزید، یحییٰ بن یمان، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھتے رہتے حتیٰ کہ آپ کے قدم مبارک سوج جاتے آپ سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سابقہ آئندہ گناہ معاف فرما دیئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا پھر میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟

 

٭٭ بکر بن خلف ابو بشر، ابو عاصم، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سی نماز افضل ہے؟ فرمایا جس میں لمبا قیام ہو۔

 

سجدے بہت سے کرنے کا بیان

 

ہشام بن عمار و عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان، ثابت بن ثوبان، مکحول، کثیر بن مرۃ، ابو فاطمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے ایسا عمل بتایئے کہ میں استقامت اور دوام کے ساتھ اس پر کار بند رہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا اپنے اوپر سجدہ لازم کر لو کیونکہ جب بھی اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کرو گے اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند فرما دیں گے اور ایک خطا مٹا دیں گے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، عبد الرحمن بن عمرو ابو عمرو اوزاعی، ولید بن ہشام معیطی، حضرت معدان بن ابی طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں ثوبان سے ملا تو ان سے عرض کیا کہ مجھے کوئی حدیث سنایئے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے نفع عطا فرمائیں گے۔ فرماتے ہیں وہ خاموش رہے۔ میں نے پھر یہی عرض کیا تو آپ خاموش ہی رہے تین بار ایسا ہی ہوا۔ پھر مجھے فرمانے لگے اللہ کو سجدہ کرنے (یعنی نماز) کا اہتمام کیا کرو کیونکہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو بندہ بھی اللہ تعالیٰ کو ایک سجدہ کرے اللہ تعالیٰ اس سجدہ کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتے ہیں اور ایک خطا معاف فرمایتے ہیں۔ حضرت معدان کہتے ہیں پھر میں حضرت ابو درداء سے ملا ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بھی ایسا ہی فرمایا۔

 

٭٭ عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، خالد بن یزید مری، یونس بن میسرۃ بن حلبس، صنابحی، حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو بندہ اللہ تعالیٰ کو ایک سجدہ بھی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کے لئے ایک نیکی لکھیں گے اور ایک گناہ معاف فرما دیں گے اور ایک درجہ بلند فرمائیں گے۔ اس لئے بکثرت سجدے کیا کرو۔

 

سب سے پہلے بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ ومحمد بن بشار، یزید بن ہارون، سفیان بن حسین، علی بن زید، حضرت انس بن حکیم کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ نے مجھے فرمایا جب تم اپنے شہر والوں کے پاس جاؤ تو ان کو بتانا کہ میں (ابو ہریرہ) نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا مسلمان بندے سے قیامت کے روز سب سے پہلے فرض نماز کا حساب ہو گا۔ اگر اس نے نمازیں پوری کی ہوں گی تو ٹھیک ورنہ کہا جائے گا دیکھو اس کے پاس نفل ہیں؟ اگر اس کے پاس نفل ہوں گے تو فرضوں کی تکمیل نوافل کے ذریعہ کر دی جائے گی پھر باقی فرض اعمال میں بھی ایسا ہی ہو گا۔

 

٭٭ احمد بن سعید دارمی، سلیمان بن حرب، حماد بن سلمہ، داؤد بن ابی ہند، زرارہ بن اوفی، حضرت تمیم داری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بندے سے قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا اگر اس نے نمازیں پوری ہوں گی تو اس کے نفل علیحدہ سے لکھے جائیں گے اور اگر اس نے نماز پوری نہ کی ہو گی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے دیکھو کیا میرے بندے کے پاس نفل ہیں؟ تو ان نوافل کے ذریعے جو فرائض اس نے ضائع کر دیئے ان کی تکمیل کر دو پھر باقی اعمال کا حساب بھی اسی طرح ہو گا۔

 

نفل نماز وہاں نہ پڑھے جہاں فرض پڑھے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، لیث، حجاج بن عبید، ابراہیم بن اسماعیل، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی نفل پڑھنے لگے تو کیا وہ اس سے عاجز ہوتا ہے کہ آگے بڑھ جائے یا پیچھے ہٹ جائے یا دائیں بائیں ہو جائے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، قتیبہ، ابن وہب، عثمان بن عطاء، عطاء، حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امام نے جہاں فرض نماز پڑھائیں وہیں نفل نماز نہ پڑھے بلکہ وہاں سے ہٹ جائے۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

مسجد میں نماز کے لئے ایک جگہ ہمیشہ

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع ابو بشر بکر بن خلف، یحییٰ بن سعید، حمید بن جعفر، جعفر، تمیم بن محمود، حضرت عبد الرحمن بن شبل کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین باتوں سے منع فرمایا ایک کوّے کی طرح ٹھونگیں مارنے سے (یعنی جلدی چھوٹے چھوٹے سجدے کرنا اور جلسہ بھی پوری طرح نہ کرنا) دوسرے درندے کی طرح بازو بچھانے سے (سجدہ میں بازو زمین پر بچھا دینا جیسے کتا بھیڑ یا بچھاتا ہے ) تیسرے نماز پڑھنے کے لئے مستقل طور پر ایک متعین کر لینا جیسے اونٹ اپنی جگہ متعین کر لیتا ہے۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، مغیرۃ بن عبد الرحمن مخزومی، یزید بن ابی عبید، حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ وہ چاشت کی نماز کے لئے آتے تو اس ستون کے پاس جاتے جہاں مصحف رکھا رہتا ہے اس کے قریب ہی نماز پڑھتے۔ یزید بن ابی عبید کہتے ہیں میں نے مسجد کے ایک کونے کی طرف اشارہ کر کے حضرت سلمہ بن اکوع سے کہا آپ یہاں نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ تو فرمانے لگے میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس مقام کا قصد کرتے دیکھا۔

 

نماز کے لئے جوتا اتار کر کہاں رکھے؟

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، محمد بن عباد، حضرت عبد اللہ بن سائب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فتح مکہ کے دن نماز پڑھتے دیکھا آپ نے اپنے جوتے بائیں جانب اتارے۔

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم بن حبیب و محمد بن اسماعیل، عبد الرحمن محاربی، عبد اللہ بن ابی سعید، ابو سعید، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنے جوتے پاؤں میں رکھو۔ اگر اتارو تو ان کو قدموں کے درمیان میں رکھو۔ نہ دائیں نہ بائیں اور نہ ہی پیچھے کہ کہیں (ان کی وجہ سے ) پیچھے والوں کو تکلیف پہنچاؤ۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید