FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

سائنس نامہ

 

 

                ڈاکٹر اسلم فاروقی

 

 

 

 

 

انتساب!

 

والدین اور اساتذہ کے نام

جن کی تربیت نے مجھے علم سے فیض حاصل کرنے

اور

علم کا فیض عام کرنے کا سلیقہ سکھایا۔

 

 

 

 

 

 

 

کچھ اس کتاب کے بارے میں

 

سائنس نامہ میرے سائنسی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اردو میں سائنسی ادب بہت کم لکھا جاتا ہے اور فی زمانہ سائنس میں ہونے والی ترقی اور نئی ایجادات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات اردو میں ملتی ہیں۔ اردو زبان و ادب کے قارئین کی دلچسپی کے لئے میں نے انگریزی مواد سے استفادہ کرتے ہوئے سائنسی مضامین لکھنے شروع کئے۔ اور اپنے مضامین میں سائنس کی فطرت سے مطابقت اور مذہب اسلام میں سائنس کے پیش کردہ حقائق کو بھی ان مضامین میں شامل کیا جو انگریزی مضامین میں نہیں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سائنسی موضوعات عمومی طور پر غیر دلچسپ اور خشک نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس کے لئے زبان کی روانی اور اسلوب کی چاشنی کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کتاب میں محسوس کی جائے گی۔ اس کتاب میں ہمارے ماحول اور اس کے تحفظ، انسانی صحت اور اس سے متعلق اہم امور اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی ترقی سے متعلق مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ مضامین کے مواد کے لئے انگریزی کتابوں ،تفسیر قران معارف القران از مفتی محمد شفیع صاحب اور سائینسی موضوعات پر دستیاب قدیم کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ سائینس مضامین میں چونکہ دستیاب حقائق کی پیش کشی ہوتی ہے اس لئے اس کتاب میں پیش کئے گئے مواد کا تحقیقی انداز سے نہیں بلکہ معلوماتی انداز سے جائزہ لیا جائے اور موضوع کی افادیت مد نظر رکھی جائے۔ امید ہے کہ قارئین اور اردو کے طالب علم اور اردو داں طبقہ اس کاوش کو ضرور پسند کریں گے۔ اور ’’سائنس نامہ‘‘ عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اردو کے سائنسی ادب میں ایک اہم اور ضروری اضافہ تصور کی جائے گی۔ میں کتاب کی اشاعت کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرنے والے سبھی احباب کا شکر گذار ہوں۔ ساتھی ہی اپنے دوست مصطفی علی سروری کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کے لئے میرا تعارفی مضمون لکھا۔

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

 

 

 

 

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اور ان کے سائینسی مضامین

 

اردو زبان کے حوالے سے جب بھی بات کی جاتی ہے تو لوگ حقیقت پسندی کا دامن چھوڑ کر دو طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اردو کے حوالے سے بالکل مایوسی کا اظہار کرتا ہے اور اردو کے مستقبل کو تاریک قرار دے کر اپنا دامن بچا کر آگے چلا جاتا ہے۔ دوسرا طبقہ اس کے برخلاف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اردو زندہ ہے بلکہ اردو کا دامن پھلتا پھولتا جا رہا ہے۔ اردو کی صورتحال کو پوری طرح خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس زمرے کے لوگ اردو کی حقیقی صورتحال کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں اور خوش فہمیوں میں رہتے ہیں۔ ان دو کے علاوہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے میرا یہ ماننا ہے کہ اردو کے کچھ ایسے خاموش خدمت گذاروں کا بھی گروہ ہے جو اردو کے حوالے سے نہ بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور نہ اس کے مستقبل سے مایوس ہیں۔ بلکہ اپنے طور پر اردو کی خدمت کرتے ہوئے اس کے فروغ کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کا شمار بھی اردو کے ایسے ہی خاموش خدمت گذاروں میں ہوتا ہے جو اپنے طور پر اردو کے فروغ کے لئے ہمہ جہت کوشش میں لگے ہیں۔ وہ پیشہ سے اردو لیکچرر ہیں اور ان دنوں گری راج کالج نظام آباد میں صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہیں۔ کالج میں ایک سال کے عرصہ میں انہوں نے ایک قومی اردو سمینار اور ایک اردو ورکشاپ صحافت کے موضوع پر منعقد کروایا اور فروغ اردو کے لئے اپنی عملی کوششوں کا ثبوت دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اردو میں تصنیف و تالیف، مضامین کی اشاعت اور انٹرنیٹ کے فیس بک اور بلاگنگ جیسی دیگر سہولتوں کو بہ طور ذریعہ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے معلوماتی مضامین ملک و بیرون ملک رسائل اور اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ پاکستان کے جنگ اردو اخبار کے سنڈے میگزین میں ان کا مضمون شائع ہوا۔ جو ہندوستان کے نئے لکھنے والوں کے لئے ایک اعزاز ہے۔تدریسی ضرورتوں اور مختلف مواقع پر انہوں نے انگریزی مواد سے استفادہ کرتے ہوئے روز مرہ سائینس کے موضوعات پر معلوماتی مضامین لکھے۔ جو اخبارات اور رسائل میں شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔ ان مضامین کو انہوں نے کتابی شکل میں ترتیب دیا ہے۔ چنانچہ ’’سائینس نامہ‘‘ کے عنوان سے ان کی تیسریتصنیف زیور طباعت سے آراستہ ہو کر پیش ہو رہی ہے۔ اس سے قبل ان کے معلوماتی ادبی و تحقیقی مضامین پر مشتمل دو تصانیف’’ قوس قزح‘‘ اور’’ مضامین نو‘‘ شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔

زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے روز مرہ کے سائینسی موضوعات پر تحریر کردہ مضامین شامل ہیں۔ اردو زبان میں سائینسی مضامین بہت ہی کم لکھے جاتے ہیں۔ اور زیادہ تر مواد من و عن انگریزی سے ترجمہ کر کے لیا جاتا ہے۔ اور ترجمہ کے دوران مضمون کی روح چھوٹ جاتی ہے اور عبارت ترسیل کے المیہ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور مضمون برائے نام رہ جاتا ہے۔تاہم ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی اس کتاب میں شامل سائینسی مضامین پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان مضامین میں سائینسی مضامین کو ادبی چاشنی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور موضوع کو مذہبی انداز سے بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے کیونکہ اسلام ایک دین فطرت ہے اور اس کی باتیں آج سائینسی تحقیقی سے سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے ان مضامین کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام اور سائینس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جن باتوں کو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے آج سے چودہ سو سال قبل قران و حدیث کے ذریعے پیش کیا تھا آج سائینس اپنی تحقیقات اور تجربات کے ذریعے ان کی تصدیق کر رہی ہے۔ آج سائینس اپنی ترقی کے باوجود نظام قدرت کو پہچان رہی ہے۔ جس کا اندازہ ان مضامین میں پیش کی گئی باتوں سے ہوتا ہے۔ اس طرح مواد کی پیشکشی کے دوران سائینس اور فطرت کا تعلق محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ماحولیات، آلودگی، پانی، دودھ، نمک، شہد کی مکھی، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ موضوعات کو دلچسپ انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ ان مضامین کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے لوگوں کو اپنے ماحول کے تحفظ اور خود اپنی ذات کے بارے میں فکر دلائی گئی ہے۔ ان مضامین میں موضوعات کی عمومیت کے باوجود مواد اور پیشکشی میں ایک نیا پن دکھائی دیتا ہے۔ جو مصنف کی مہارت کا پتہ دیتا ہے۔ مضامین کی زبان آسان ہے اور کہیں بھی قاری کو مفہوم اخذ کرنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ اورسائنسی نکات کو سادہ اور سلیس زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ سائینس میں حقائق کی باتیں ہوتی ہیں اور ان میں رد و بدل کی کسی کو گنجائش نہیں ہوتی اسی لئے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے بھی یہ وضاحت کر دی ہے کہ انہوں نے انگریزی مواد سے استفادہ کیا لیکن اسے اردو کے قاری کی سمجھ کے معیار تک لا کر دلچسپ انداز میں پیش کیا۔ یہی وجہہ ہے کہ

’’ سائینس نامہ‘‘ میں موجود تمام مضامین موضوع کے اعتبار سے دلچسپ ہیں۔ انسانوں کی فلاح و بہبود کا پہلو رکھتے ہیں۔ اور سائینس و فطرت کے رشتے کو اجاگر کرتے ہوئے انسان کو اس ذمہ داری کا احساس دلاتے ہیں کہ وہ بھی اس کائنات اور فطرت کا حصہ ہے۔ اور اسے اپنی زندگی اور ماحول کو بہتر بنانے کے لئے سائینس کی معلومات رکھتے ہوئے بہتر زندگی گذارنا ہے۔

میں اپنے دوست ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو ان کی اس منفرد تصنیف کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اردو میڈیم کے تمام مدارس اور کالجس میں اس کتاب سے استفادہ کیا جائے گا اور اردو میں سائینسی معلومات کے خواہش مند قاری بھی اس کتاب کی پذیرائی کریں گے۔ امید ہے کہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اسی طرح اردو میں دلچسپ اور افادی ادب پیش کرتے رہیں گے۔

 

محمد مصطفی علی سروری

اسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ جرنلزم

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

 

 

 

 

ہمارا ماحول اور اس کے تشکیلی عناصر

 

وہ علاقہ جس میں جاندار رہتے ہیں ماحول کہلاتا ہے۔ اس میں نامیاتی(جاندار) اور غیر نامیاتی(بے جان) عناصر رہتے ہیں۔ ماحولیاتی مطالعہ کو انگریزی میں Ecological Studyکہتے ہیں۔ Ecology کا لفظ یونانی زبان سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب رہائش کا مطالعہ ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک فیصلے میں ماحولیاتی مطالعے کو تعلیمی نصاب کا ایک لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے اطراف جو ماحول ہے وہ روشنی، ہوا، پانی اور حرارت جیسے عناصر سے تشکیل پایا ہے۔ ماحول کے کچھ حصے جیسے زمین اور پانی وسائل کا کام انجام دیتے ہیں۔ جبکہ حرارت اور روشنی وغیرہ ماحول کو باقاعدہ بناتے ہیں۔ یہ تمام عناصر ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ زندگی کی بقاء کے لئے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے۔ انسانی زندگی سے ماحول کا گہرا تعلق ہے۔ انسان اپنے اعمال و افعال کے ذریعے ماحول پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ ماحول کے مختلف عناصر کی تفصیلات اس طرح ہیں۔

درجہ حرارت:انسان پودے اور جانور ایک مخصوص درجہ حرارت میں ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ زمین پر درجہ حرارت سورج کی روشنی سے برقرار رہتا ہے۔ زمین پر اگر کسی علاقے میں درجہ حرارت کم یا زیادہ ہو جائے تو اپنے لئے سازگار درجہ حرارت کی تلاش میں انسان اور جانور دوسرے مقامات کو نقل مقام کرتے ہیں۔ اور اپنے لئے سازگار ماحول فراہم کر لیتے ہیں۔ انسان سردی میں گرمی اور گرمی میں سردی کے ظاہری انتظامات کرتا ہے۔ اور زندگی کو پُر سکون بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ سورج حرارت کا اہم ذریعہ ہے۔ اور زمین پر ہر طرح کی زندگی کے لئے اس کی حرارت ضروری ہے۔

روشنی: روشنی بھی ہمارے ماحول کا ایک اہم حصہ اور ضرورت ہے۔ پودے سورج کی روشنی میں اپنی غذا تیار کرتے ہیں۔ انسان کے علاوہ دیگر کئی جاندار اور پودے سورج کی روشنی سے حرارت حاصل کرتے ہیں۔ اور روشنی میں دنیا کے کئی کام ہوتے ہیں۔

پانی: پانی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ پانی سمندر، دریا، ندی نالوں پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کی شکل میں اور زیر زمین ذخیرے کی شکل میں محفوظ رہتا ہے۔ جن علاقوں میں وافر مقدار میں میٹھا پانی دستیاب ہے وہاں آبادی زیادہ ہے۔

ہوا: ہوا مختلف گیسوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اور زندگی کا اہم جز ہے۔ موسم کے حالات کو ہوا کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہوا پانی سے بھرے بادلوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچاتی ہے۔ پھلوں سے نکلے بیجوں کو دور تک لے جاتی ہے۔ ہوا میں انسانوں اور جانوروں کی زندگی کے لئے لازمی گیسیں شامل ہوتی ہیں۔ نباتاتی پیداوار کا انحصار بھی ہوا پر ہوتا ہے۔

رطوبت: ماحول میں پانی کے بخارات کی موجودگی کو رطوبت کہتے ہیں۔ موسم کی تبدیلی کا انحصار رطوبت پر ہوتا ہے۔

دھاتی عناصر: زندہ رہنے والی نامیاتی اشیاء کو نمو اور پرورش کے لئے کئی دھاتی عناصر جیسے لوہا، فولاد، پارہ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دھاتی عناصر کی کمی یا زیادتی جانداروں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

ماحول دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک قدرتی ماحول دوسرے انسان کا بنایا ہوا ماحول۔ زندہ رہنے والے اجسام ماحول کو متاثر کرتے ہیں۔ جواب میں ماحول انہیں متاثر کرتا ہے۔ سائینس کی ترقی کے بعد سے انسان ماحول کو بہت متاثر کرنے لگا ہے۔ ماحول میں انسان کی بے جا مداخلت ہو رہی ہے۔ اپنی زندگی کو آرام دہ بنانے کے نام پر انسان ماحول میں تیز رفتار تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے۔ ابتدا میں انسان جنگلوں میں اور پہاڑوں کے غاروں میں رہا کرتا تھا۔ بعد میں پکے مکان بنا کر رہنے لگا۔ آبادی میں اضافے سے جنگل کاٹے جا رہے ہیں۔ اور اونچی اونچی عمارتوں کی شکل میں کنکریٹ کا جنگل پیدا کیا جا رہا ہے۔ جنگلوں کے صفائے سے جنگلی جانوروں کی رہائش مشکل ہو گئی ہے۔ کئی جانوروں کی نسلیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ جب سے انسان نے صنعتیں شروع کی ہیں۔ ان صنعتوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے بے کار مادے دریاؤں ،تالابوں اور زیر زمین پانی کو آلودہ کر رہے ہیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے بھاری مقدار میں نکلنے والا دھواں ہوا کو آلودہ کر رہا ہے۔ گذشتہ ایک صدی میں انسان نے صنعتی شعبے میں کافی ترقی کی ہے۔ لیکن اس نے اپنے ماحول کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بڑی صنعتیں ، حمل و نقل کے نئے نئے ذرائع، کھاد اور کیڑے مار ادویہ کے زیادہ استعمال سے ماحول آلود بنا رہا ہے۔ جن کیڑوں کو مارنے کے لئے دوا ڈالی جا رہی ہے۔ ان مرے ہوئے کیڑوں کو کھانے سے پرندے مر رہے ہیں۔ اور پرندوں کی نسلوں کی بقا کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ ہمارے ماحول کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لئے لوگوں کو با شعور بنانا ضروری ہے۔ ماحول کی حفاظت کے لئے انسانی ذمہ داری کا احساس دلانا ضروری ہے۔ لوگوں کو ماحول اور فطرت کے اصولوں کے بارے میں باخبر کر نا ضروری ہے۔ انسان، حیوان اور پیڑ پودوں کا وجود ایک دوسرے کے لئے لازمی ہے۔ انسان اپنے فائدے کے لئے ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے حیوانات پیڑ پودوں اور ماحول کو کوئی نقصان پہنچے۔ انسانوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ ان کے اعمال و افعال سے کس طرح ماحول متاثر ہوتا ہے۔ چھوٹے پیمانے پر کیا گیا کوئی کام کس طرح پورے ماحول کو متاثر کرتا ہے۔ ماحولیات کے مطالعے سے انسان ماحول میں توازن اور قدرتی انداز برقرار رکھ سکتا ہے۔

 

                فضائی آلودگی

 

ہمارے اطراف موجود فضاء میں جب نقصان دہ اجزا اور گیسیں شامل ہو جاتی ہیں تو اسے فضائی آلودگی کہتے ہیں۔ زندگی کے لئے صاف ہوا ایک لازمی عنصر ہے۔ ایک انسان روزانہ اوسطاََ 16تا20کلو ہوا سانس کے ذریعے جسم میں داخل کرتا ہے۔ اگر وہ آلودہ ہوا میں سانس لے رہا ہو تو اندازہ لگائیے کہ وہ کس قدر خطرے میں ہے۔ اگر ہوا میں دوسری گیسیں شامل ہونے لگیں تو ہوا میں آکسیجن کی قدرتی آمیزش کاتناسب کم ہوتا جائے گا۔ ہوا میں ٹھوس ذرات، دھواں ، مٹی کے ذرات شامل ہوتے رہتے ہیں۔ بڑے اور صنعتی شہروں میں فضائی آلودگی سے بہت زیادہ خطرہ ہے۔ بڑے بڑے کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں ، طرح طرح کی گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور بجلی بنانے والے تھرمل اسٹیشن و نیو کلیر اسٹیشنوں وغیرہ سے نکلنے والا دھواں فضاء میں شامل ہو کر آلودگی کو بڑھا رہا ہے۔ دھوئیں سے دھند سی چھا جاتی ہے۔ اور شہروں میں کم دکھائی دیتا ہے۔ فضائی آلودگی نہ صرف انسانوں کو بلکہ جانوروں اور دوسرے پیڑ پودوں کو متاثر کرتی ہے۔ بنیادی طور پر فضائی آلودگی صحت کے لئے نقصان دہ گیسوں ، دھواں ، غبار، ٹھوس ذرات کے صاف ہوا میں شامل ہونے سے پھیلتی ہے۔ نقصان دہ گیسوں میں ایک کاربن مونو آکسائڈ ہے۔ جو گاڑیوں اور کارخانوں کے دھوئیں میں شامل ہوتی ہے۔ ہوا میں اس کی زیادتی انسان کے دل پھیپھڑے اور اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے۔ ایک گیس سلفر کے مرکبات پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ پودوں کے سڑنے گلنے ، آتش فشاں کے پھٹنے اور تھرمل پلانٹس سے نکلتی ہے۔ سلفر ڈائی آکسائڈ کی ہو ا میں زیادتی سانس لینے میں دشواری پیدا کرتی ہے۔ سر کا درد اور آنکھوں میں جلن پیدا کرتی ہے۔ یہ گیس آبی بخارات میں مل کر تیزابی بارش کا اثر پیدا کرتی ہے۔ جس سے پودوں عمارتوں اور انسانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ دیگر نقصان دہ گیسوں نائٹروجن آکسائڈ، ہائیڈرو کاربن اور تمباکو نوشی کا دھواں وغیرہ ہے۔تمباکو کا دھواں تمباکو پینے والے سے زیادہ دھواں سونگھنے والے کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے کینسر کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ فضائی آلودگی ٹھوس ذرات کے سبب بھی ہوتی ہے۔ ہوا میں سمنٹ کے ذرات نکل کر شامل ہوتے رہتے ہیں۔ جو سانس کے ذریعے جسم انسانی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اور انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔

فضائی آلودگی کے ماحول پر اثرات: جنگلات کے کٹاؤ اور لکڑی کی بڑی مقدار جلا دینے سے فضاء میں گیسوں کا توازن بگڑ رہا ہے۔ گذشتہ سو سال سے فضاء میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار 15فیصد بڑھ گئی ہے۔ جس سے ہر سال زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اس اضافہ سے ماحول پر پڑنے والے اثرات کو ’’ سبز گھر کا اثر‘‘ ”Green House Effect”کہتے ہیں۔ سورج کی روشنی جب زمین کی طرف آتی ہے تو فضاء کے اوپر موجود اوزون کی پرت سورج کی روشنی سے خارج ہونے والی بالائے بنفشی شعاعوں Ultra Violet Rays کو جذب کر کے گرمی کی شدت کو کم کرتی ہے۔ اور معتدل سورج کی شعاعیں زمین پر پڑتی ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کی زیادتی سے اوزون کی پرت میں سوراخ ہو رہے ہیں۔ اور اس کی وجہہ سے زمین کا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ جس کے سبب خطرہ ہے کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی پر موجود برف بھاری مقدار میں پگھلنے لگے گی۔ جس سے سمندروں کی سطح بلند ہو گی۔ اور زمین کے ساحلی علاقے ڈوب جائیں گے۔ بالائے بنفشی شعاعوں کے مضر اثرات ہوتے ہیں۔ اس سے پودوں میں غذا کی تیاری کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اور جلد کا کینسر بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے فضاء میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار پر قابو پانے کے لئے زیادہ سے زیادہ پودے لگانے چاہئیں۔

انسانوں اور جانوروں پر فضائی آلودگی کے اثرات:    فضائی آلودگی سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔تنفسی بیماریاں بڑھتی ہیں۔ کھانسی تپ دق کی بیماری ہوتی ہے۔ خون کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ جسم میں آکسیجن کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ فضائی آلودگی کے اثرات پودوں پر بھی ہوتے ہیں۔ ان میں غذا کی تیاری کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ پودے سوکھنے لگتے ہیں۔

فضائی آلودگی کی روک تھام کے اقدامات:موجودہ دور میں فضائی آلودگی کو مکمل طور پر دور کرنا مشکل ہے۔تاہم کئی اقدامات کرتے ہوئے فضائی آلودگی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مناسب قانون سازی اور اس پر سختی سے عمل آوری سے لوگوں کو پابند کیا جا سکتا ہے۔ نقصان دہ گیسوں کو جذب کرنے والے آلات کا استعمال کیا جائے۔ کارخانوں کی چمنیوں کو بلند کیا جائے۔تاکہ نقصان دہ گیسیں ہوا سے اُڑ کر دور چلی جائیں۔ اور انسانوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ نقصان دہ کیمیائی مادوں کو قابل استعمال بنایا جائے۔ ایندھن کے استعمال پر کنٹرول کیا جائے۔ غیر ضروری گاڑیاں نہ چلائی جائیں۔ گاڑیوں کی حد سے زیادہ فروخت پر پابندی لگائی جائے۔ پرانی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی لگائی جائے کیونکہ یہ گاڑیاں زیادہ دھواں چھوڑ کر فضائی آلودگی بڑھاتی ہیں۔ کارخانوں کے قیام سے پہلے ماہرین ماحولیات سے اجازت حاصل کی جائے۔ آبادی سے کافی دور کارخانے قائم کئے جائیں۔ کارخانوں کے قریب آبادی کو بسنے سے روکا جائے۔ ڈیزل سے چلنے والی ریل گاڑیوں کو برقی سے چلایا جائے۔ بغیر lead کا پٹرول استعمال کیا جائے۔ ایسیتوانائی استعمال کی جائے جس میں دھواں نہیں نکلتا ہو جیسے شمسیتوانائی، نیوکلیر توانائی، لہروں کی توانائی وغیرہ۔ پکوان کے لئے لکڑی یا گوبر جلانے کے بجائے ایل پی جی گیس استعمال کی جائے۔ کارخانوں کے اطراف زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ ان اقدامات پر عمل کیا جائے تو فضائی آلودگی پر بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ انسان کو اپنی صحت کی فکر خود کرنا چاہئے ورنہ نقصان کے بعد افسوس کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔

 

                آبی آلودگی

 

پانی میں مضر اور صحت کے لئے نقصان دہ اجزاء شامل ہو جائیں تو ایسے پانی کو آلودہ پانی کہتے ہیں۔ اور پانی میں آلودگی کے شامل ہو جانے کو آبی آلودگی کہتے ہیں۔ صاف پانی میں نالیوں کی گندگی اور صنعتوں سے نکلنے والے بے کار مادے اور تیل وغیرہ شامل ہو جانے سے پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔ آلودہ پانی صحت انسانی کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔ گھروں سے نکلنے والی گندگی نالیوں کے ذریعے بڑے نالوں اور تالابوں کے ذریعے بالآخر دریا میں جا ملتی ہے۔ اگر اس طرح کی گندگی کو پانی کے ذخائر میں ملنے سے نہ روکا جائے تو پانی آلودہ پانی ہو جاتا ہے۔ آلودہ پانی انسانوں کے پینے اور استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ اس طرح کے آلود ہ پانی میں نقصان دہ مادے ہوتے ہیں۔ آلودہ پانی جانوروں کے لئے بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔ گندے پانی میں شامل بیکٹیریا پانی کے آکسیجن کو جذب کر لیتے ہیں۔ اور یہ پانی جانوروں کے پینے کے لائق بھی نہیں رہتا۔ نالیوں کا پانی کبھی کبھی صاف پانی کے پائپوں میں مل جاتا ہے۔ اس سے صحت انسانی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اور آنتوں کی سوزش جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔ صنعتوں سے نکلنے والا فضلہ جب صاف پانی کے ذخائر میں ملنا شروع ہو جاتا ہے۔تو اس سے نہ صرف پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔ بلکہ تالابوں میں موجود مچھلیاں تک مر جاتی ہیں۔ جس کی وجہہ سے پانی بد بو دار ہو جاتا ہے۔ اور اس بد بو سے قریب رہنے والے انسانوں کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ آلودہ پانی زمین میں جذب ہو کر زیر زمین پانی کو بھی ناقابل استعمال بنا دیتا ہے۔تلنگانہ کے ضلع میدک میں پٹن چیرو اور موضع دگوال نزد ظہیر آباد میں کارخانوں سے نکلنے والا گندہ اور آلود ہ پانی زیر زمین پانی کو نا قابل استعما ل بنا چکا ہے۔ اب یہ پانی کئی سال کے لئے بے کار ہو چکا ہے۔ آلود ہ پانی کو صنعتی استعمال میں نہیں لیا جا سکتا۔ اس پانی میں شامل ترشے اور نمک مشینوں کو خراب اور زنگ آلود کر دیتے ہیں۔ کھیتوں میں استعمال ہونے والی کھاد اور جراثیم کش ادویات بارش کے پانی میں مل کر تالابوں کو آلود ہ کرتے ہیں۔ اس طرح آبی آلودگی کو بڑھانے میں کھاد اور جراثیم کش ادویات کا بھی حصہ ہے۔ سمندروں میں تیل لے جانے والے جہاز اگر ڈوب جائیں یا ساحل سمندر کے قریب تیل کے کنووں میں آگ لگ جائے یا انہیں دھماکے سے اُڑایا جائے تو اس میں موجود تیل پانی کی سطح پر پھیل جاتا ہے۔ اور اس طرح ایک بڑے علاقے کا پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔ اور سمندری جانداروں کو نقصان پہنچتا ہے۔ علاقے کا ماحول گندہ ہو جاتا ہے۔ کویت عراق جنگ کے دوران تیل کے کنووں پر بمباری اور آگ لگانے سے بہت ساتیل سمندر کی سطح پر پھیل گیا تھا۔ جس سے سمندری جانوروں اور ماحول کو کافی نقصان پہنچا تھا۔

آبی آلودگی کو روکنے کے اقدامات: پانی کو آلودہ ہونے سے روکنے کے لئے حسب ذیل اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ گندے پانی کے اخراج کو مناسب طریقے سے انجام دیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ گندہ پانی صاف پانی کے ذخائر میں ملنے نہ پائے۔ پانی کے غلط استعمال کو روکا جائے۔ یعنی تالابوں میں کپڑے دھونے ، جانوروں کو نہلانے اور گاڑیوں کو دھونے سے روکا جائے۔ کارخانوں سے نکلنے والے گندے پانی کو صاف کئے بغیر تالابوں اور دریاؤں میں جانے سے سختی سے روکا جائے۔تیل کے اخراج کو روکا جائے۔ گندے اور آلودہ پانی کو تالابوں اور دریاؤں میں جانے سے روکنے کے لئے اور ان میں موجود ٹھوس ذرات کو علاحدہ کرنے کے لئے سپٹک ٹینک، فلٹر بیڈس اور گندے پانی کو صاف کرنے کے پلانٹس وغیرہ استعمال کئے جائیں۔ پینے کے پانی کو فلٹر کر کے اور مناسب ادویات جیسے کلورین اور پوٹاشیم پر مینگنیٹ ملا کر استعمال کیا جائے۔ کارخانوں سے نکلنے والے پانی کو water treatment plantsسے صاف کیا جائے۔ سمندروں میں تیل کے اخراج کی صورت میں تیل کی صفائی کے طریقے بھی ایجاد ہوئے ہیں۔ ان سے استفادہ کیا جائے۔

ہندوستان میں صنعتی علاقوں سے گذرنے والے کئی دریا اور ندیاں آبی آلودگی کا شکار ہیں۔ دہلی سے گذرنے والی جمنا ندی، کلکتہ سے گذرنے والی ہگلی ندی، کانپور کے قریب سے گذرنے والی گنگا ندی اور دامودر، کاویری اور گوداوری ندیاں بھی کارخانوں سے خارج ہونے والے فضلہ کے پانی میں مل جانے سے آلودگی کا شکار ہیں۔ ان سب میں دریائے گنگا ہندوستان کی سب سے زیادہ آلودگی کا شکار دریا ہے۔ اپنے 2525کلو میٹر سفر کے دوران اس میں اتر پردیش، بہار اور مغربی بنگال کی صنعتوں کا فضلہ، گندی نالیوں کا پانی، مُردوں کے جلانے کے بعد کی راکھ ادھ جلی نعشیں ، مردہ جانور اور ہندو یاتریوں کے اشنان سے کافی گندگی شامل ہو رہی ہے۔ اور مقدس گنگا انسان کے کالے کرتوتوں سے آلودہ ہو رہی ہے۔ گنگا کو آلودگی سے بچانے کے لئے حکومت ہند نے گنگا ایکشن پلان 1985شروع کیا۔ اس طرح انسانی صحت کی برقراری اور ماحول کو پاک و صاف رکھنے کے لئے ہر انسان کو کوشش کرنی چاہئے۔ اور انسان ایسا کوئی غلط کام نہ کرے جس سے پانی کو آلودگی بڑھے۔ حکومت بھی کارخانوں اور صنعتوں کو آلودگی پر قابو پانے کے لئے پابند کرے۔تب ہی آنے والی نسلوں کو آلودگی سے پاک صاف پانی مل سکے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

جنگلاتی وسائل اور ان کا تحفظ

 

زمین کے بڑے علاقے پر قدرتی طور پر جو پیڑ پودے اُگ آتے ہیں۔ اور ان کے درمیان جو جنگلی جانور رہتے ہیں۔ اس ماحول کو جنگل کہتے ہیں۔ انسان جنگل اُ گانے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کرتا۔ سطح زمین کے ایک تہائی حصے پر جنگل واقع ہیں۔ جنگل کا وجود انسانی زندگی کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ جنگلات قدرتی وسائل کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ اگر جنگلات کے تحفظ اور انہیں برقرار رکھنے کے اقدامات کئے جائیں تو جنگلاتی وسائل کے فوائد جاری رہ سکتے ہیں۔ جنگل سے انسانوں کو حاصل ہونے والے اہم قدرتی وسائل اس طر ح ہیں۔

لکڑی:   جنگل سے انسان کو طرح طرح کی لکڑی حاصل ہوتی ہے۔ جنگل کی بیشتر لکڑی ایندھن کے طور پر جلانے کے کا م آتی ہے۔ انسان جنگل کی 80فیصد لکڑی اپنی غذا کو پکانے کے لئے جلاتا ہے۔ اس طرح بطور ایندھن جنگلاتی لکڑی کی بہت مانگ ہے۔ ساگوان شیشم اور دیگر اقسام کی لکڑی سے مکان کی تعمیر، فرنیچر اور دیگر ضروریات کی اشیاء بنائی جاتی ہیں۔ بانس

٭٭ ذ سے دوسرے مقام تک پہوتیجہ، ں کی فائلوں سے)لیقات کی کمی کا احساس نہیں ہو گا۔و غزلیں شامل ہیں۔ ل نہیں ہوئ۔ لیقات مدعو نہیں کیو کی لکڑی سے کاغذ بنایا جاتا ہے۔ اور طرح طرح کے باسکٹ وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ کین کی لکڑی سے کرسیاں ، سہارے کی لکڑی اور دیگر اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی مختلف ضروریات کی لکڑی کو آسانی سے حاصل کرنے کے لئے جنگل کو نہ ختم کرے۔ اور اس کے تحفظ کے اقدامات کرتا رہے۔

تیل:     جنگلات کے پیڑ پودوں سے کئی قسم کے ضروری تیل اور مادے حاصل ہوتے ہیں۔ صندل کی لکڑی، ربڑ بنانے کا مادہ، چہرے کو نکھارنے کے تیل، پوڈر، جڑی بوٹیاں ، دوائیں ، مصالحے ، جراثیم کش ادویات، پلاسٹک وغیرہ جنگل سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ ان اشیاء کے حصول میں آسانی کی خاطر بھی انسان کو جنگلات کا تحفظ کرنا چاہئے۔

غذا:      جنگلات سے جانوروں اور انسانوں کو راست یا بالراست طریقے سے غذا حاصل ہوتی رہتی ہے۔ جنگلی جانور چارے اور دوسرے جانوروں کا شکار کر کے اپنی غذا جنگل سے حاصل کرتے ہیں۔ انسان جانوروں سے گوشت اور دودھ حاصل کرتا ہے۔ دودھ سے کئی غذائی اشیا ء تیار ہوتی ہیں۔ شہد جنگل سے حاصل کیا جاتا ہے۔ جنگل میں قبائلی لوگ رہتے ہیں۔ ان کی زندگی اور معیشت سدھارنے میں جنگل اہم رول ادا کرتے ہیں۔ جنگل سے انہیں غذا، ادویات اور گھروں کی تعمیر کے ساز و سامان اور دیگر قیمتی اشیاء حاصل ہوتی ہیں۔

جنگلات کے دیگر فوائد:     جنگل کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ ان سے زمین کے کٹاؤ کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔تیز ہواؤں اور بارش کے سبب سوکھی زمین کٹتی رہتی ہے۔ اور علاقے کے علاقے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔ اگر زمین پر جنگل ہوں تو درخت وغیرہ زمین کو مضبوطی فراہم کرتے ہیں۔ اور زمین کٹاؤ سے بچی رہتی ہے۔ درختوں کی چھاؤں سے زمین سوکھنے نہیں پاتی۔ اور اس کی نمی برقرار رہتی ہے۔ جس سے جنگل ہرا بھرا رہتا ہے۔ زمین کی نمی سے ہوا میں رطوبت قائم رہتی ہے۔ اور موسم زیادہ گرم نہیں ہوتا۔ جس سے انسانوں اور جانوروں کی زندگی پر سکون رہتی ہے۔ جنگلات انسانوں کی چھوڑی ہوئی کاربن ڈائی آکسائڈ گیس جذب کرتے ہیں۔ اور جواب میں صاف آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں جو انسانی زندگی کے لئے لازمی ہے۔ اس طرح جنگلات کے وجود سے ماحولیاتی آلودگی کم ہوتی ہے۔ جنگل کے وجود سے جنگلی جانوروں کی بقاء ممکن ہے۔ ورنہ کئی جنگلی جانوروں کی نسلوں کے معدوم ہو نے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے جنگلات کے تحفظ کے اقدامات ضروری ہیں۔

جنگلات کے کٹاؤ کے نقصانات:      انسان اپنی رہائش کی خاطر اور جلانے کی لکڑی حاصل کرنے کے لئے بڑی تیزی سے جنگل کاٹ رہا ہے۔ ایک درخت کو کاٹتے ہوئے انسان خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہا ہے۔ جنگلی جانوروں کی بقاء اور انسانی صحت کے لئے بڑے خطرے پیدا ہو رہے ہیں۔ جنگل کاٹنے کے چند نقصانات اس طرح ہیں۔ جنگل کے کاٹنے سے زمینی کٹاؤ کا خطر ہ بڑھ جاتا ہے۔تیز ہواؤں اور بارش کے سبب زمین کٹنے لگتی ہے۔ اور زرخیز زمین بہہ جاتی ہے۔ جنگل کے کاٹنے سے قدرتی وسائل کے حصول میں دشواری پید ا ہونے لگتی ہے۔تعمیری لکڑی اور ایندھن کی لکڑی کی قلت کے سبب اس کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ مستقبل میں ایندھن کی لکڑی کی طلب بڑھنے کا خطر ہ بڑھ رہا ہے۔ ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ جنگلات کے کٹاؤ سے سیلاب آتے ہیں۔ سیلابی پانی اپنے تیز بہاؤ کی وجہہ سے زمین کاٹ کر بھاری مقدار میں مٹی اور ریت لے جاتا ہے۔ یہ ریتی پانی جمع کرنے کے ڈیموں میں جمع ہونے لگتی ہے۔ ریت کی موجودگی سے ڈیموں میں پانی کم جمع ہوتا ہے۔ اس طرح برقی کی پیداوار اور دیگر زرعی مقاصد کے لئے بھاری مصارف سے تیار کردہ ڈیم کم پانی اور زیادہ ریت رکھنے کے سبب اپنا مقصد کھو دیتے ہیں۔تلنگانہ میں نظام ساگر ڈیم میں زیادہ ریتی جمع ہو گئی ہے۔ اور وہاں کم پانی جمع ہو رہا ہے۔ جنگل کاٹنے سے موسم میں تغیر پیدا ہوتا ہے۔ اوسط بارش میں کمی واقع ہوتی ہے۔ جنگلی جانوروں کا ٹھکانہ برقرار نہ رہے تو ا ن کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جنگل ریگستانوں میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ قحط سالی شروع ہو جاتی ہے۔ زرخیز زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ آلودگی بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ درختوں کی کمی سے فضاء میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار بڑھنے لگتی ہے اور آکسیجن کی کمی واقع ہوتی ہے۔ آج شہروں میں اسی وجہہ سے فضائی آلودگی بڑھ گئی ہے جس کے سبب شہری لوگ زیادہ بیمار ہونے لگے ہیں۔

جنگلات کے تحفظ کے اقدامات:      جنگلات کے تحفظ اور ان کی بقاء کی ذمہ داری انسانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے لئے سرکاری اور عوامی سطح پر منصوبہ بند اقدامات کی ضرورت ہے۔ عام طور پر جنگلاتی آگ، درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی اور جانوروں کی ہلاکت سے جنگل تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس لئے موجود ہ جنگلوں کا تحفظ کیا جانا چاہئے۔ اور تبا ہ شدہ جنگلوں میں تیزی سے اُ گنے والے پودے لگانے کی مہم چلانا چاہئے۔ ایندھن کے لئے لوگوں میں لکڑی کے بجائے بائیو گیس یا سورج کی روشنی سے چلنے والے شمسی چولہوں کے استعمال پر زور دینا چاہئے۔ جتنے درخت کاٹے گئے ہوں اتنے درخت لگانے چاہئیں۔ حکومت اور عوام کو غیر قانونی طور پر درخت کاٹنے سے روکنا چاہئے۔ قانون توڑنے والوں کو سخت سزا دینی چاہئے۔ سندر لال بہو گنا نے جنگلات کے تحفظ کے لئے گڑھوال یو پی میں چپکو تحریک شروع کی تھی اس طرح کی جنگل بچاؤ تحریکوں کو شروع کرنا چاہئے۔ جنگلات کے تحفظ سے ماحول قابو میں ہو گا۔ اور انسانی زندگی کئی مسائل سے بچ سکے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

توانائی کے قابل تجدید وسائل

(RENEWABLE RESOURCES OF ENERGY)

 

دنیا کی ترقی کے ساتھتوانائی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اور ساری دنیا اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح اس کی توانائی کا مسئلہ حل ہو۔ غذا، پٹرول، برقی، ایندھن اور دیگر ذرائع انسان اور اس کی مشینوں کو چلانے کے لئے توانائی فراہم کرتے ہیں۔توانائی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا اور کوئی کام نہ ہو تو ملک کی ترقی نہیں ہوتی۔ اس لئے جاپان، امریکہ کے بشمول ساری دنیا کے ممالک اس کوشش میں لگے ہیں کہ ان کی توانائی کا مسئلہ حل ہو تاکہ ان کے ممالک ترقی کر سکیں۔ آئیے دیکھیں کہ ہمیں قدرت سے حاصل ہونے والی توانائی کے ذرائع کیا ہیں۔ اور انہیں ہم کیسے بہتر طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

توانائی: کام کرنے کی طاقت فراہم کرنے والے ذریعہ کو توانائی یا Energy کہتے ہیں۔ سورجتوانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایسے وسائل جن کو قدرت میں ہم لا محدود طور پر پاتے ہیں اور جن کا بار بار استعمال ممکن ہے انہیں قابل تجدید توانائی کے وسائل کہتے ہیں۔ یہ وسائل حسب ذیل ہیں۔ ۱ ؎شمسی توانائی ۲؎     ہوائی توانائی ۳؎آبی توانائی ۴؎ جزری توانائی   ۵؎          سمندری تھر مل توانائی   ۶؎           جیوتھرمل توانائی ۷؎            بائیو ماس توانائی ۸؎         بائیو گیاس توانائی

شمسی توانائی (Solar Energy): سورج توانائی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ سورج روشنی کی شکل میں مستقل حرارت زمین کو روانہ کرتا ہے۔ شمسیتوانائی قدرت میں مفت اور آسانی سے دستیاب ہے۔ انسان شمسیتوانائی کو چیزوں کو خشک کرنے ، کپڑے سکھانے کیلئے استعمال کرتا آ رہا ہے۔ شسمیتوانائی آلودگی سے پاک ہوتی ہے توانائی کے بنیادی ذخائر جیسے پٹرول لکڑی اور کوئلہ کی قلت کے پیش نظر سورج کی توانائی کو انسانی زندگی کے فائدے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شمسی چولہے ، شمسی ہیٹر، اور شمسی بیٹری سے چلنے والے بلب وغیرہ ایجاد ہوئے ہیں۔ لیکن ان اشیاء کی قیمت زیادہ ہے اور ان کا استعمال موسم کے انحصار پر ہوتا ہے۔ ہندوستان میں موسم گرما میں یہ اشیاء استعمال کی جا سکتی ہیں۔ خلاء میں گھوم رہے مصنوعی سیارے بھی شمسیتوانائی سے کام کرتے ہیں۔ مستقبل میں شمسی توانائی کا استعمال بڑھنے کا امکان ہے۔

ہوائی توانائی (Wind Energy): ہوا جب تیز چلے تو یہ طاقتور ہو جاتی ہے اور راستے میں آنے والے پیڑ پودوں کو اکھاڑ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسلئے پہاڑ کی چوٹی سمندر کا ساحل یا ایسے علاقے جہاں ہوا تیز چلتی ہے وہاں پنکھے لگا دیئے جاتے ہیں۔ ان پنکھوں کے چلنے سے مقناطیس میں برقی رو پیدا ہوتی ہے۔ ہندوستان کا سب سے بڑا ہوائی فارم کنیا کماری میں واقع ہے۔ جہاں 380 میگا واٹ برقی تیار ہوتی ہے۔ ہوائی توانائی کے پیدا کرنے میں لاگت کم ہوتی ہے اور آلودگی بھی نہیں ہوتی۔تاہم ہوائی توانائی بھی موسم پر منحصر ہوتی ہے۔ ہوا تیز تر چلے تو برقی کی پیداوار تیز ہو جاتی ہے۔

جزری توانائی (Tidal Energy): سورج اور چاند کی قوت کشش سے سمندر میں اٹھنے والی موجوں میں بے انتہا توانائی چھپی ہوتی ہے۔ جزری توانائی کو حاصل کرنے کیلئے جزری باندھ (Tidal Dams) بنائے جاتے ہیں۔ اونچی موجوں کے پانی کو ان باندھوں میں جمع کر لیا جاتا ہے جب پانی قوت سے اس باندھ میں داخل ہوتا ہے تو وہاں پر نصب کردہ ٹربائین گھومنے لگتے ہیں۔ جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ یہی عمل پانی کے ڈھلنے کے وقت دہرایا جاتا ہے۔ جزری توانائی کیلئے بلند موجوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہندوستان میں خلیج کیمبے ، سندر بن کے ڈیلٹاؤں میں جزری توانائی کو حاصل کرنے کا انتظام ہے۔

حیاتی گیس توانائی (BioGas Energy): بائیو گئیس جانوروں کے گوبر، جنگلاتی و زراعتی کچرے سے تیار ہوتی ہے۔ یہ گئیس می تھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈروجن اور ہائیڈروجن سلفائیڈ، پر مشتمل ہوتی ہے۔ فضلہ اور کچرے کو ایک بند پلانٹ میں جمع کیا جاتا ہے تو آکسیجن کی عدم موجودگی کی وجہہ سے پیدا ہونے والے بیکٹریا فضلہ کو کھانے لگتے ہیں۔ اور خالی جگہ میں توانائی کے حامل گئیس پیدا ہوتی ہے۔ یہ گئیس سستی اور بہ آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اسے پکوان اور دیگر کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے آلودگی پیدا نہیں ہوتی اسے عام طور پر گوبر گئیس کہا جاتا ہے۔

پانی سے پیدا ہونے والی بجلی ؍توانائی : دریائی پانی کو بڑے بڑے باندھ بنا کر رو کا جاتا ہے۔ جب پانی کو اونچائی سے نیچے چھوڑا جاتا ہے تو بہاؤ کے دوران باندھ کے دروازوں سے گرتا ہے اور اس کی طاقت سے ٹربائن کی پتیاں گھومنے لگتی ہیں۔ جس سے برقی پیدا ہوتی ہے برقی کی پیداوار کا آسان اور سستا طریقہ ہے۔ جس سے کوئی فضائی آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔ سری سیلم ڈیم کو صرف برقی کی پیداوار کیلئے تعمیر کیا گیا ہے جبکہ ناگر جنا ساگر ڈیم ایک ہمہ مقصدی پراجکٹ ہے اور یہاں پر بھی برقی تیار ہوتی ہے۔

اس طرح توانائی کے یہ وسائل انسان کو قدرت نے مفت فراہم کئے ہیں۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ انہیں بہتر طریقہ پر استعمال کرتے ہوئے کسطرح اپنی زندگی کو بہتر بناتا ہے۔

توانائی کا مسئلہ:     موجودہ دور میں توانائی انسان کی اہم ضرورت بن گئی ہے۔ ذرائع حمل و نقل، کارخانوں ، زراعت، مواصلات اور دفاع وغیرہ کاموں کے لئے توانائی ضروری ہے۔ سماج کی سماجی اور معاشی ترقی کے لئے توانائی کی ضرورت ہے۔ بڑی بڑی عمارتوں ، دکانوں ، بازاروں اور کارخانوں سب کے لئے برقی لازمی ہے۔ اگر مناسب برقی کی پیداوار نہ ہو اور برقی کا سلسلہ منقطع ہو جائے تو شہری علاقوں میں کاروبار چلانے کے لئے جنریٹر استعمال کئے جا رہے ہیں۔ جس سے آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کی سربراہی کے لئے برقی موٹر چلا نے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر برقی نہ ہو تو لوگوں کو پینے کے پانی کی سربراہی کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس لئے توانائی کے محتاط استعمال کی ضرورت ہے۔ شہری زندگی کے لازمی سمجھے جانے والے الیکٹرک ساز و سامان فریج، گیزر، پنکھے ، کولر، واشنگ مشین، گرائنڈر اور ہیٹر وغیرہ کو چلانے کے لئے برقی کی مسلسل سربراہی کی ضرورت ہے۔ شہری زندگی میں برقی کی قلت سے زندگی مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔ اس لئے عوام کو برقی کا محتاط استعمال کرتے ہوئے مشینوں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنا کام خود کرنا چاہئیے۔ اس سے صحت بھی اچھی رہتی ہے۔

پانی کا تحفظ:        پانی زندگی کے لئے لازمی ہے۔ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ زمین پر میٹھا اور صاف پانی آسانی سے مل جاتا تھا۔ لیکن اب ساری دنیا میٹھے پانی کی قلت سے دوچار ہے یا ہوسکتی ہے۔ آفریقہ اور مغربی ایشیاء میں پانی کا بحران زیادہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہاں آبادی زیادہ ہے۔ اور بارش غیر متوازن ہے۔ اقوا م متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جستیزی سے صاف پانی کی قلت ہو رہی ہے اگلے تیس برسوں میں دنیا کی دو تہائی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گی۔ گرما کے موسم میں زیر زمین پانی کی سطح گھٹ جاتی ہے۔ اور پانی کی کمی کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے پانی کے تحفظ کے اقدامات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔

بارش کے پانی کا تحفظ:       ہمارے سماج میں پانی کے تحفظ کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ اور موسم گرما میں پانی کی قلت پر شور مچایا جاتا ہے۔ جبکہ موسم برسات میں بارش کا پانی بہہ کر ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے سمندر میں جا گرتا ہے۔ سمنٹ کے مکانات اور سمنٹ کی پختہ سڑکوں کی تعمیر سے بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہو رہا ہے۔ چنانچہ مکانات کی چھتوں پر گرنے والے بارش کے پانی کو پائپوں کے ذریعے نیچے لا کر مکان کے قریب بنائے گئے خصوصی گڑھوں میں چھوڑا جاتا ہے۔ ان گڑھوں میں اینٹ، کوئلہ، ریتی اور پتھر وغیرہ ڈالے جاتے ہیں۔ اس طرح کے گڑھے بنانے سے شہری علاقوں میں بارش کا پانی زمین میں جذب ہوتا ہے۔ اور علاقے میں پانی کی زیر زمین سطح میں بہتری آتی ہے۔ اس طرح پانی جمع کرنے سے بارش کے دوران سیلاب بھی نہیں آتے۔

باندھ کی تعمیر کے اثرات: ہندوستا ن میں برقی کی تیاری اور زرعی مقاصد کے لئے بڑے بڑے باندھ بنائے گئے۔ ان باندھوں سے شہری لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ لیکن دیہی عوام بے گھر ہو رہے ہیں۔ انہیں مناسب ٹھکانہ دلانے کے لئے سندر لال بہو گنا، میدھا پاٹیکر وغیرہ نے عوامی تحریکات چلائیں۔تاکہ باندھ کی تعمیر سے متاثر ہونے والے بے گھر لوگوں کو آباد کیا جا سکے۔ ماحولیات کے تحفظ کے لئے انسان پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انسان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ فطرت کا ایک حصہ ہے نہ کہ فطرت اس کے قبضے میں ہے۔ اپنے مفادات کے حصول کے لئے ماحول سے کھلواڑ نہیں کرنا چاہئے۔ دوسروں کے مسائل کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر انسانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ماحول کے تحفظ کے عملی اقدامات کریں۔ اسی میں ساری انسانیت کی بھلائی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

زیر زمین پانی کی سطح کیسے بڑھائیں ؟

 

ہر سال ماہ اپریل اور مئی میں جنوبی ہند اور مئی جون میں شمالی ہند میں موسم گرما شاب پر ہوتا ہے۔ اور اس موسم میں پانی کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ لیکن رسد گھٹ گھٹ جاتی ہے۔ شہروں میں لوگوں کی گفتگو کا اہم موضوع یہی ہے کہ کیا آپ کے بورویل میں پانی آ رہا ہے۔ اور اکثر لوگوں کا جواب یہی ہے کہ نہیں صاحب ہمارا بورویل تو سوکھ گیا ہے۔ سمپ بنائے ہیں اور ٹینکر سے پانی منگا رہے ہیں۔ اور ٹینکر کے لئے بھی ایڈوانس بکنگ کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹینکر والے بھی نشیبی علاقوں میں بڑے بڑے بورویل ڈال کر رات دن زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔ شہر میں دور دور تک کوئی جھیل،تالاب، یا کنواں نہیں ہے۔ ہر سال بارش کے موسم میں پانی پڑتا ہے۔ اور سڑکوں اور نالیوں سے ہوتا ہوا شہر کے باہر جا گرتا ہے۔ اور زیر زمین پانی کی نفوذ پذیری نہ ہونے سے ہر سال پانی کی سطح میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ اور زمین میں پانچ سو ہزار فٹ کی گہرائی تک پانی نہیں ہے۔ عوام دولت کے بل بوتے پر پانی خرید رہے ہیں۔ حکومت نل اور ٹینکر سے دور دراز سے پانی سپلائی کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن پانی کے مسئلے کے مستقل حل کی شعوری کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ آئیے دیکھیں کہ قدرت میں مفت دستیاب پانی کو ہم کیسے سال بھر کے لئے محفوظ کر سکتے ہیں۔

پانی زندگی ہے ، ایک ایسا عنصر جس نے کائنات میں موجود تمام سیاروں میں زمین کو منفرد مقام عطا کیا ہے۔ ہوا اور مٹی کے بعد پانی انسانی زندگی کی تیسری بنیادی ضرورت ہے اور انسانی جسم میں نظام انہضام سر انجام دینے ، خوراک کے جزو بدن بننے ، زہریلے مادوں کو خارج کرنے ، سانس لینے ، جسم کا درجہ حرارت قائم رکھنے ، انسانی اعضاء کو طاقت اور آزادی دینے جیسے افعال سر انجام دیتا ہے۔ ہماری زمین ۷۱فیصد پانی اور۹ ۲ فیصد خشکی پر مشتمل ہے ، جبکہ اس پانی کا ۹۷ فیصد حصہ سمندروں میں پائے جانے والے نمکین پانی اور ۲ فیصد قطبین پر برف کی صورت میں موجود ہے۔ دیگر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کرہ ارض پر موجود پانی کا صرف ایک فیصد پانی پینے اور آبپاشی کے مقاصد کیلئے دستیاب ہے۔ اس ایک فیصد حصہ میں بھی برفانی چوٹیوں پر برف کی شکل میں ، دریاؤں ،تالابوں اور جھیل کی شکل میں میٹھا پانی موجود ہے۔ جو سال بھر ہر علاقے میں دستیاب نہیں رہتا۔ اس لئے لوگ زیر زمین پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ جو اکثر حالت میں کھارا ہوتا ہے۔ اور صرف برتنے اور استعمال کے کام آتا ہے۔ پینے کے لئے اسے فلٹر کرنا پڑتا ہے۔ یہ پانی چونکہ اکثر علاقوں میں زیر زمین دستیاب رہتا ہے اور بورویل کی مدد سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ اس لئے اسے گھریلو اور زرعی ضرورت کے تحت بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ زمین کی سطح کے نیچے ایک مخصوص گہرائی پر چٹانوں کے درمیان خالی جگہوں اور سوراخ دار زمین کے حصوں میں بارش کے پانی کی نفوذ پذیری اور دریاؤں اور تالابوں کے زیر زمین راستوں کے ذریعے انسانی جسم کی رگوں میں خون کے دوران کی طرح پانی بہتا رہتا ہے۔ اور جمع ہوتا ہے۔ بورویل سے پانی کی نکاسی اور نشیبی علاقوں میں پانی کے ذخائر کے سوکھ جانے سے زیر زمین پانی ختم ہو جاتا ہے۔ چٹانوں اور زمین کے حصے میں خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ اور زمین کے کھسکنے اور زلزلے کے جھٹکوں کے اندیشے بڑھ جاتے ہیں۔ اس لئے زیر زمین پانی کی سطح کے خشک ہو جانا ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ جس کی جانب ہنگامی حالات کے طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جس طرح بنی نوع انسان کو ہمیشہ سے پانی کی ضرورت رہی ہے اسی طرح جانوروں اور پودوں کی زندگی بھی پانی ہی کی مرہون منت ہے۔ ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں شدید بارشوں کا نظام دریاؤں کی روانی میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے ، لیکن ہم اس پانی کو محفوظ کرنے کے بجائے سیلاب کی شکل میں ضائع کر دیتے ہیں جو ہر سال بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ شہری علاقوں میں تیز بارش کے بعد یہ پانی سیورج سسٹم پر بھاری بوجھ بن جاتا ہے اور مسائل پیدا کرتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں نشیبی زمینوں پر کھڑا ہو کر اس کی زرخیزی پر اس وقت تک اثرانداز ہوتا رہتا ہے جب تک بخارات بن کر اڑ نہ جائے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ ہمارے شہری علاقوں کی تقریباً تمام زمین سڑکوں ، مکانات، صنعتوں اور مختلف تعمیرات سے ڈھک گئی ہے ،۔ شہر کنکریٹ کے جنگل بن گئے ہیں۔ جہاں گرنے والا بارش کا پانی زیر زمین نہیں پہنچ پاتا۔ ایسے میں اگر ہم چھتوں پر برسنے والے غیر آلودہ پانی کو کامیابی سے زیر زمین پہنچا دیں تو نہ صرف زیر زمین پانی کے ذخیرہ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ سیورج کے نظام پر کم بوجھ کی وجہ سے بوسیدہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بھی ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ چھت پر برسنے والے بارش کے پانی کو زیر زمین ذخیرے تک پہنچانے کے لئے ہم پائپ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے چھت پر جمع ہونے والے پانی کو صرف ایک ہی پائپ کے ذریعے گھر کے آنگن میں بنے ایک مخصوص گڑھے تک پہنچانا ہو گا۔ جس میں کوئلہ پتھر وغیرہ ہوتے ہیں تاکہ پانی آسانی سے زمین میں جذب ہو سکے۔ اور بارش کا پانی سویریج سے بہہ کہ شہر کے باہر نہ جائے اور اپنے ہی علاقے کے زیر زمین پانی کی سطح میں اضافے کا باعث بنے۔ اس عمل کیلئے پائپ کے بالائی حصے کو کپڑے کے فلٹر سے لپیٹ کر ریت کے باریک ذروں سے بچایا جا سکتا ہے ، جس سے پائپ بند نہیں ہو نگے۔ اس طریقے سے مقامی طور پر زمین میں پانی کی نفوذ پذیری کو بہت حد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ شہری علاقوں میں جس طرح جگہ جگہ پارک بنائے جا رہے ہیں اسی طرح چھوٹی چھوٹی جھیلیں بھی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے تعمیرات کے دوران منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ حیدرآباد میں گچی باؤلی کے راستے پر اور میاں پور کے علاقوں میں اس طرح کی چھوٹی جھیلیں ہیں۔ اس سے ان علاقوں میں زیر زمین پانی کی نفوذ پذیری بہتر ہے۔ میر عالم تالاب کے اطراف بھی یہی صورتحال ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح میں اضافے کے یہ چند اقدامات ہیں۔ ا س پروگرام پر عمل آوری کے لئے عوامی شعور کی بیداری اور حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ آندھرا پردیش میں سابقہ حکومت نے اس جانب توجہ دلائی تھی لیکن بعد میں اس پروگرام کو رو بہ عمل لایا نہیں جا سکا۔ اور اس سال موسم گرما میں زیر زمین پانی کی سطح میں کمی کے پیش نظر حکومت کے محکمہ آبرسانی اور دیگر محکموں کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ہندوستان میں 2006ءتک 12ملین بورویل تھے۔ جن کی تعداد اب دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ بین الاقوامی واٹر مینیجمنٹ ادارہ ہندوستانی حکام کے ساتھ مل کر ہندوستان میں زیر زمین پانی کے ریچارج کے پروگرام پر عمل کر رہا ہے۔ اس مسئلے پر تحقیق کی گئی۔ اور سخت چٹانی65 فیصد علاقے میں پانی کے ریچارج پروگرام پر عمل آوری کے لئے 18000کروڑ روپئے صرف کئے گئے۔ اس پروگرام کے تحت نشیبی علاقوں میں چوڑے کنویں کھودے گئے اور اس پر کنکریٹ کی پٹیاں بنائی گئیں تاکہ بارش کا پانی ان گڑھوں میں جمع ہو کر زمین میں جذب ہو۔ سیلابی پانی کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے یہی طریقہ کار دریاؤں کے گرد و نواح میں وسیع پیمانے پر اپنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح ہم مستقبل میں پانی کی کمی سے آنے والی ان دیکھی تباہی سے بھی بچ سکتے ہیں اور پانی کو بھی محفوظ کر سکتے ہیں۔ ہندوستان کے سابق صدر اور نامور سائینس دان اے پی جے عبدالکلام نے دریاؤں کو آپس میں مربوط کرنے کی اسکیم پیش کی تھی لیکن ہمارے حکومتوں کو لوٹ مار کے اسکاموں سے نمٹنے میں اتنی فرصت کہاں کہ وہ عوامی بھلائی کی کسی اسکیم پر عمل کرسکے۔ ہندوستان میں انگریزوں کے بنائے ہوئے وسائل اور آندھر ا پردیش میں نظام دور حکومت کے وسائل پر ہی اکتفا ہے۔ اور آزادی کے 65سال بعد بھی آبپاشی اور عوام کو صاف میٹھے پانی کی آسانی سے دستیابی کی کسی اسکیم پر عمل نہیں ہوسکا۔ جب کہ امریکہ نے کہہ دیا کہ آیندہ ہونے والی عالمی جنگیں صاف میٹھے پانی کے علاقوں پر قبضے کے لئے ہوں گی۔ انسان نے جب سے فطرت کے قانون میں دخل دینا شروع کیا ہے اس وقت سے وہ اپنے پیر پر خود کلہاڑی چلا رہا ہے۔ جنگل کاٹ کر شہر بنائے جا رہے ہیں۔ لیکن شہری اور دیہی علاقوں میں درخت اگانے کی مہم پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے جب کہ درخت زمین کی نمی برقرار رکھنے ماحول کے درجہ حرارت کو قابو میں رکھنے اور صاف آکسیجن کی فراہمی میں مدد دیتے ہیں۔ شہروں میں درختوں کی کمی کی وجہہ سے ہر سال شہری درجہ حرارت بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس لئے شہری عوام یہ عہد کریں کہ جہاں وہ کثیر منزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں۔ اور ان عمارتوں میں فائر سیفٹی آلات لگا رہے ہیں۔ وہیں کثیر منزلہ عمارتوں کے لاکھوں مکینوں کے لئے زیر زمین پانی کے تحفظ کے لئے بارش کے پانی کی اپنے ہی گھر میں نفوذ پذیری کے گڑھے بنائیں۔ صاف آکسیجن کی فراہمی کے درخت لگائیں۔ اس سے درجہ حرارت بھی کم رہے گا۔ اور مجموعی طور پر ماحول قدرتی رہے گا۔ انسان جغرافیہ کی تعلیم تو حاصل کرتا ہے لیکن وہ تعلیم سے خود فائدہ نہیں اٹھاتا۔ ایسے میں تعلیم کے حقیقی ثمرات حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

ہمارے یہاں پانی کی دستیابی اور وسائل کی ترقی بحرانی کیفیت اختیار کرتی چلی جا رہی ہے ، جبکہ قدرت کی طرف سے بارشوں کی حالیہ شدت میں کچھ پوشیدہ پیغام ہیں ، جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ مستقبل میں صورتحال بالکل الٹ بھی ہو سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں مہینوں یا کئی سالتک بارش نہ ہو،تو ایسی صورت میں ہمیں مکمل طور پر زیر زمین پانی پر ہی گزارہ کرنا ہو گا۔ مستقبل کیلئے مناسب حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ہماری صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو زیر زمین پانی کی سطح کو مناسب حد تک بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ اس مقصد کیلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کو زمین میں پانی کی نفوذ پذیری کیلئے مختلف ترغیبات دے تاکہ پانی سے متعلق مستقبل کے خدشات سے نمٹا جا سکے۔

٭٭٭

 

 

 

 

پلاسٹک کے استعمالات۔ فائدے اور نقصانات

 

 

پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے گرم کرتے ہوئے ملائم کیا جا سکتا ہے۔ اور اُسے بار بار ڈھالا جا سکتا ہے۔ ایک امریکی جان ونرلی ہیاٹ نے 1869 ء میں پلاسٹک کو دریافت کیا۔ پلاسٹک کے عناصر ترکیبی کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔ پلاسٹک نامیاتی مرکبات کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ پلاسٹک کی تیاری کا بنیادی مادہ عام ذرائع جیسے کوئلہ، پٹرول، روئی، نمکین پانی، ہوا، چونا اور سلفر سے حاصل ہوتا ہے۔ ان ذرائع سے حاصل ہونے والا خام پلاسٹک Resin کہلاتا ہے۔ Resin کو دیگر مادوں سے ملا کر پلاسٹکتیار کیا جاتا ہے۔ اور پلاسٹک کی مطلوبہ اشیاء بنائی جاتی ہیں۔ پلاسٹک کی ایک قسم کا پالیمر ہے۔ اسے پلاسٹک کے چھوٹے ذرات سادہ پانی اور الکوہل سے حاصل کیا جاتا ہے۔ پٹرول یا قدرتی گیس، آکسیجن اور کاربن کے مرکبات کو اونچے درجہ حرارت پر گرم کیا جائے تو ای تھلین تیار ہوتا ہے۔ جس سے پالیمر حاصل کیا جاتا ہے۔ ہائیڈروجن کے بجائے کلورین، آکسیجن یا نائٹروجن کے استعمال سے مختلف استعمالات کیلئے مختلف قسم کا پالیمر تیار ہوتا ہے۔ پلاسٹک کی ایک قسم پالی تھین ہے اسے تھیلیاں بنانے سوٹ کیس بنانے تانبے کے تاروں کو ڈھانپنے ، بوتلیں بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ 1933؁ء میں ای ڈبلیو فاسیٹ اور آر۔ او۔ گبن پہلی مرتبہ پالی تھین کا استعمال دریافت کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں پالی تھین کا استعمال بڑھتا گیا۔ پلاسٹک کی ایک اور قسم (PVC) ہے جسے (Polyvinyle Chloride) کہتے ہیں۔ یہ پانی،تیزاب اور نمکیات سے خراب نہیں ہوتا۔ اس لئے (PVC)سے پانی کی ٹانکیاں ، بارش سے بچنے والے سامان، کھلونے ، چپل، پانی کے پائپ اور گاڑیوں کے پرزے بنائے جاتے ہیں۔ پلاسٹک کی ایک قسم نائلان ہے۔ اسے 1938؁ء میں کاروتھرس نے دریافت کیا یہ لچکدار مضبوط ہوتا ہے ، اور نائلان کے دھاگوں پر مبنی اشیاء اور کپڑے بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ پلاسٹک کی دیگر قسمیں ٹرلین اور نرم ربڑ وغیرہ ہیں۔

پلاسٹک سے بنی اشیاء کے بغیر ہماری روز مرہ زندگی کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ ہماری روزمرہ استعمال کی اشیاء جیسے کرسیاں ، بال پن، برقی اشیاء، ٹوتھ برش، کنگے ، چوڑیاں ، بیلٹ، جوتے ، موزے ، پردے واشنگ مشین، کولر، گھڑیاں ، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، فریج، ڈبے ، پانی کی بوتلیں استعمال کے ڈبے ، گاڑیوں کے پرزے ، کھلونے وغیرہ یہ سب ہی پلاسٹک سے بنی ہوتی ہیں۔ اسطرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانیتہذیب اب پلاسٹک کی تہذیب میں بدل گئی ہے۔ پلاسٹک اپنی حالت میں قائم رہنے والا مرکب ہے۔ لیکن گرمی کے سبب اس سے زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ پلاسٹک کو جلانے سے ان سے جو زہریلی گیس خارج ہوتی ہیں وہ فضاء میں شامل ہو جاتی ہیں۔ اور بارش کے ذریعہ کھیتوں میں اناج کے پودوں کو نقصان پہ ور نقصانات : نچاتی ہیں۔ اسطرح کا متاثرہ اناج استعمال کرنے سے جگر، گردے اور جسم کے دیگر اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ کینسر کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ پلاسٹک سے بنی تھیلیاں سڑکوں ، بازاروں ، باغوں ، کچرے کی کنڈیاں ، نالیوں وغیرہ ہر طرف پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ بعض جانور جیسے گائے بکری وغیرہ انہیں کھا رہے ہیں۔ ایک گائے کا آپریشن کر کے اس کے معدے سے کئی کلو گرام پلاسٹک نکالا گیا تھا۔ پلاسٹک کی تھیلیاں نالیوں میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں جس سے بارش میں پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ پلاسٹک سے بنی تھیلیوں میں غذائی اشیاء نہیں لانا چاہئے۔ کیونکہ ان میں ملا ہوا اکیڈمیم غذا میں شامل ہو جاتا ہے اور صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی پالی تھین تھیلیوں پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ حالیہ عرصے میں حکومت آندھرا پردیش نے بھی 40نمبر سے کم کی پالی تھین تھیلیوں پر پابندی عائد کی ہے۔ اور خلاف ورزی کرنے والوں پر 500روپئے تک جرمانہ عائد کرنے کی بات کہی ہے۔ لیکن عوامی شعور کی کمی کی وجہہ سے اس اسکیم پر مناسب عمل آوری نہیں ہو رہی ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ بازار جاتے وقت کپڑے سے بنی تھیلی گھر سے لے جاتے تھے۔ اب بغیر تھیلی جانے اور دکان سے پلاسٹک کی تھیلی لینے کی عادت ہو گئی ہے۔ پلاسٹک کے مضر اثرات کے پیش نظر عوام کو اپنی صحت کا خیال کرنا چاہئے اور کپڑے سے بنی تھیلیوں کے استعمال کی عادت ڈالنی چاہئے۔ مختلف اداروں اور حکومت کی جانب سے SAY NO TO PLASTICکی مہم بھی چلائی گئی ہے۔ اس مہم کو مزید عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحول اور انسانی صحت پر پلاسٹک کے مضر اثرات دیکھتے ہوئے اس بات کی تحقیق کی جا رہی ہے کہ انسانوں اور ماحول کیلئے مناسب پلاسٹک دریافت کیا جائے۔ Symphony نامی کمپنی نے پلاسٹک کی ایک قسمتیارکی ہے۔ جو 60 دنتا 6 سال میں محفوظ طریقہ سے ختم ہو جاتا ہے۔ انسانی صحت پر پلاسٹک کے مضر اثرات کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ کم سے کم پلاسٹک استعمال کریں۔ آنے والی نسل کو صحت مند اور صاف ماحول فراہم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پلاسٹک کے بارے میں معلومات کو عام کیا جائے اور اس کے کثرت سے استعمال کوترک کیا جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

تمباکو نوشی اور اس کے مضر اثرات

 

 

انسان بنیادی طور پر عقل مند واقع ہوا ہے۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے۔ علم کی ترقی کے ساتھ انسان کائنات کو مسخرکر نے اور فطرت سے مقابلہ آرائی کرنے کے دعوے کرنے لگا ہے۔ انسان اپنے آپ کو لاکھ عقل مند کہہ لے لیکن اس سے بہت سی ایسی بے وقوفی کی حرکتیں سر زد ہوتی ہیں کہ وہ جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیتا ہے۔ انسان کی ایسی بے شمار حرکتوں میں اس کی ایک عادت تمباکو نوشی کی بھی ہے۔ یہ ایک ایسی مہلک عادت ہے۔ کہ جس کے اختیار کرنے کے بعد انسان Slow poison کی طرح آہستہ آہستہ موت کے منہ میں جا گرتا ہے۔ انسانی صحت پر تمباکو کے مضر اور ہلاکت خیز اثرات جاننے سے پہلے آئیے دیکھیں کہ تمباکو کی تاریخ کیا ہے اور کیسے یہ ساری دنیا میں عام ہوتا گیا۔

دنیا کی مختلف زبانوں میں تمباکو کے مختلف نام ہیں۔ اردو، فارسی اور پشتو میں اسے تمباکو کہتے ہیں جب کہ عربی میں اسے تمباک، سنسکرت میں چھارپتر ، انگریزی میں Tobacco اور لاطینی زبان میں Tobaccom کہتے ہیں۔ یہ ایک مشہور و معروف جھاڑ دار پودا ہوتا ہے۔ جس کی بلندی کم از کم ایک فٹ اور زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فٹ ہوتی ہے۔ پتے بیضوی شکل کے اور پھول سرخی مائل ہوتے ہیں۔ اس کے بیج سرخ اور سیاہی دار ہوتے ہیں۔تمباکو کی بو،تند و تیز اور ذائقہ تلخ ہوتا ہے۔تمباکو کی پیدائش دنیا کے تقریباً ہر حصے میں اور خصوصاً گرم آب و ہوا والے ممالک میں زیادہ ہوتی ہے۔ مختلف ممالک میں مختلف اقسام کا تمباکو پیدا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں چار قسم کا تمباکو دیسی کلکتی، سورتی اور پوربی پایا جاتا ہے۔

زمانہ قدیم سے ہی تمباکو انسانوں کے علم میں رہا ہے۔ اس کی ابتداء کے بارے میں تحقیق ابھی تک پایہ ثبوت تک نہیں پہنچ سکی۔ بقراط کے زمانے میں تمباکو سے مشابہ ایک بوٹی ہوتی تھی جو وبائی زہر کو دور کرنے کے لئے لگا ئی جاتی تھی۔ گمان غالب بے کہ وہ بوٹی ہی تمباکو کی شروعات کا باعث بنی ہو گی۔ ابتداء میں یورپ کے لوگ تمباکو سے واقف نہیں تھے۔ امریکہ کی دریافت کے بعد انہیں تمباکو کا علم ہوا۔

پندرہویں صدی عیسوی میں تحقیق پر پتہ چلا کہ امریکہ کے اصل باشندے ریڈ انڈین تمباکو کے استعمال سے واقف تھے۔ کولمبس نے بھی امریکہ کے باشندوں کو نلکی میں بھر کر تمباکو نوش کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ کولمبس نے تمباکو کا پودا جزائر غرب الہند سے اسپین پہنچایا اور پھر پرتگال میں تمباکو کی کاشت شروع ہوئی۔ ایران میں تمباکو کا استعمال شاہ عباس ثانی کے عہد سے ہوا۔ ہندوستان میں مغلیہ دور حکومت سے قبل ہی تمباکو عام تھا۔تزک جہانگیری میں لکھا ہے کہ تمباکو فرنگی لوگ امریکہ سے ہندوستان لائے تھے۔ اکبر اعظم کے عہد میں شاندار حقے تیار ہوئے اور انہیں دربار میں متعارف کروایا گیا۔ ابتدائی زمانے میں نلکیوں میں رکھ کر تمباکو نوش کیا جاتا تھا۔ بعد میں حقے ایجاد ہوئے۔ چونکہ حقہ بڑا ہوتا ہے اور اسے ایک جگہ بیٹھ کر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے استعمال میں پیش آ رہی دشواریوں کو دیکھ کر تمباکو نوشی کے آرام پسند طریقے کھوجے جانے لگے اور تمباکو کو پتوں میں لپیٹ کر اور پھر کاغذ کی نلکیوں میں لپیٹ کر جسے فی زمانہ سگریٹ کہتے ہیں استعمال کیا جانے لگا۔

تمباکو سے سگریٹ بنانے کی دریافت اٹھارویں صدی کے ابتدائی دور میں جنوبی امریکہ میں ہوئی۔ اس سے قبل سگار کا رواج عام تھا۔ سگار کا پہلا کار خانہ 1750 ء میں ہمبرگ میں قائم ہوا موجودہ شکل کا سگریٹ سب سے پہلی اسپین کے لوگوں میں عام ہوا اور پھر یہیں سے دوسرے ممالک میں عام ہوا اور سے دوسرے ممالک پہنچا۔ آج ساری دنیا میں تمباکو نوشی کا سب سے بڑا ذریعہ سگریٹ ہی ہے۔

متعدد طبی اور سائنسیتحقیقات کے بعد اب یہ بات طے شدہ ہے کہ تمباکو نوشی انسانی صحت کے لئے بے انتہا مضر ہے اور اس سے انسان سرطان یعنی کینسرجیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔تمباکو میں زہریلے مادے جیسے نکوٹین، پرونسک ایسڈ، ایکسر ولین اور فرفیورل پائے جاتے ہیں۔ جن کے انسانی جسم میں داخل ہونے سے طرح طرح کے امراض اور شکایتیں پیدا ہوتی ہیں۔تمباکو حواس خمسہ کو ناکارہ کر دیتا ہے۔ قویٰ کمزوری پڑ جاتے ہیں۔ دماغی کمزوری واقع ہوتی ہے۔ رگ پٹھے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ دل میں فتور پیدا ہوتا ہے۔ حلق اور نتھنوں میں خشکی پیدا ہوتی ہے۔ بدن دبلا ہو جاتا ہے۔ اور دق کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔تمباکو طالب علموں کی دماغی ترقی کی روکتا ہے۔ سگریٹ نوشی سے جسم میں خون گاڑھا ہوتا ہے جو عارضہ قلب اور فالج کے حملے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک پروفیسر نے ذہانت کے اعتبار سے اپنے شاگردوں کو چار زمروں میں تقسیم کیا تحقیق پر پتہ چلا کہ اول درجے والوں میں کوئی تمباکو نوش نہیں تھا۔ اور سب سے نچلے درجے میں سب تمباکو نوش تھے۔ اگر کوئی شخص سگریٹ پی رہا ہے اور اس کے سامنے کوئی سگریٹ کا دھواںسونگھ لے تو وہ شخص بھی سگریٹ نوشی کے مضر اثرات سے متاثر ہو سکتا ہے۔ اس لئے عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی عائد ہے۔ حکومت ہر سال سگریٹ کی قیمت بڑھا رہی ہے۔ لیکن سگریٹ پینے والوں کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہو رہی ہے۔

سگریٹ نوشی ایک فیشن بھی بن گیا ہے۔ اب مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی سگریٹ پینے لگی ہیں۔ عورتوں کے لئے ہلکے اثر والے مخصوص برانڈ کے سگریٹ بازار میں دستیاب ہیں۔ عورتوں میں سگریٹ نوشی مغربی ممالک کے فیشن ایبل حلقوں میں کی جاتی ہے۔ مشرق کی خواتین اس وباء سے بہت حد تک محفوظ تھیں۔ لیکن اب مشرقی ممالک میں بھی مغرب کی تقلید کی بیماری اس حد تک پھیل گئی ہے کہ لوگ اس کے مضر اثرات اور نقصان پر سوچے سمجھے بغیر اور ان کی پرواہ کئے بغیر اندھی تقلید کئے جا رہے ہیں اور اسی تقلید کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان اور دیگر مشرقی ممالک میں بھی خواتین میں سگریٹ نوشی کا رواج فروغ پا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ مغربی ممالک اور یورپ کے مقابل ہندوستان یا دیگر مشرقی ممالک میں سگریٹ نوشی کرنے والی خواتین کی تعداد کم ہے لیکن اس تعداد میں ضرور اضافہ ہو رہا ہے۔ جو قابل تشویش بات ہے۔ اگر کوئی سگریٹ نوش خاتون حاملہ ہو تو اس کے پیدا ہونے والے بچے کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ اس طرح کسی خاتون کی سگریٹ نوشی سے ایک پوری نسل پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔

سگریٹ نوشی کا آغاز شوقیہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ عادت آہستہ آہستہ انسان کے لئے لت ثابت ہوتی ہے اور بڑی مشکل سے ہی چھوٹتی ہے۔ سگریٹ کے مضر اثرات کے پیش نظر ڈبیوں پر قانونی تنبیہہ ’’ سگریٹ نوشی صحت کے لئے مضر ہے ‘‘تحریر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود سگریٹ پینے والوں کی تعداد میں کمی ہونا تو دور کی بات ہے بلکہ روز افزوں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔

ہندوستان میں سرکاری میڈیا کے ذریعہ سگریٹ کی تشہیر پر پابندی ہے۔ لیکن پرنٹ میڈیا پر پابندی عائد نہیں کی جا سکی۔ ہر سال تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے لوگوں کو آگاہ کرانے کے لئے 31 مئی کو عالمی یوم مخالف تمباکو نوشی منایا جاتا ہے۔ اس سال منائے گئے یوم مخالف تمباکو نوشی کے موقع پر تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے متعلق جو اعداد شمار سامنے آئے وہ انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر روز دنیا میں تقریباً 11 ہزار افراد تمباکو نوشی سے متعلق امراض سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔تمباکو نوشی کے سبب مرنے والوں کی شرح دیگر اسباب جیسے ایڈز منشیات شراب نوشی سڑک حادثات قتل اور خودکشی کے ذریعہ مرنے والوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے تمباکو اور اس سے متعلق اشیاء کی تیاری پر جہاں سالانہ 24 ہزار کروڑ صرف کئے جاتے ہیں۔ وہیں تمباکو نوشی کے ذریعہ پیدا ہونے والے امراض کے علاج کے لئے 27ہزار کروڑ سے زائد مصارف عائد ہو رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے اعداد شمار کے بموجب ہندوستان میں مضر اشیاء کے استعمال سے سالانہ 64,460 افراد کینسر کا شکار ہو رہے اور ان میں آندھراپردیش سر فہرست ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے نوجوانوں اور دیگر افراد کو آگاہ کیا جائے۔ سماجی سطح پر اس کی مذمت کی جائے۔ حکومت تمباکو کی صنعت پر کڑی شرائط عائد کرے۔ نصاب میں اس سے متعلق مضامین شائع کئے جائیں۔تب امکان ہے کہ انسانی سماج کو کسی حد تک تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے بچایا جا سکتا ہے۔

مسلم سماج اور معاشرہ میں خاص طور پر نوجوان اس لعنت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لعنت کا شکار ہونے والوں میں اکثریت غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ انہیں ابتداء میں اس کے مضر اثرات کا پتہ نہیں چلتا۔ اور جب پتہ چلتا ہے اس وقت تک خود وہی اس کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے لئے اس سے ترک تعلق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔تمباکو نوشی کی دیگر اقسام میں گٹکا کھانا اور اب شہروں میں خوبصورت حقوں میں رات رات بھر حقہ پینے کی لعنت بڑھ رہی ہے۔ یہ تمام عادتیں نوجوانوں کے لئے مضر صحت ہیں۔ اور ان سے چھٹکارہ پانے کے لئے نوجوانوں کو اپنی عادات بدلنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے سے سگریٹ، حقہ، گٹکا اور زردہ نوشی کی عادتوں کو ختم کرنے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ استعلق سے بیداری مہم چلائی جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

اسلامی تعلیمات اور مرض ایڈز سے تحفظ

 

ہر سال یکم ڈسمبر کو عالمی سطح پر یوم ایڈس منایا جاتا ہے۔ صحت کی تنظیمیں ، کالج اور اسکول کے طلباء ریلیاں نکالتے ہیں۔ جلسے کئے جاتے ہیں۔ حکومت کے پیغام کو عوام تک پہنچایا جاتا ہے۔ ایڈس کے مریضوں سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور پھر دنیا اپنی ڈگر پر چلنے لگتی ہے۔ 1995ء میں امریکی صدر نے یکم ڈسمبر کو عالمی یوم ایڈس قرار دیا تھا اور اس سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ عالمی ادارہ صحت WHOکے ایڈس مشن میں کام کرنے والے دو صحافیوں بن اور نیٹر نے 1988ء میں پہلی مرتبہ عالمی یوم ایڈس منانے کی تجویز رکھی تھی جسے اقوام متحدہ نے قبول کیا اور امریکی صدر کے اعلان کے بعد باضابطہ طور پر ہر سال یکم ڈسمبر کو عالمی یوم ایڈس کی تقاریب کا ساری دنیا کے ممالک میں اہتمام کیا جا رہا ہے۔

آج ساری دنیا کے لوگوں کو جس بیماری سے خطرہ لاحق ہے وہ مرض ایڈس ہے۔ ایڈس HIV وائرس سے پھیلتا ہے۔ HIV یعنی (Human Immuno Deficiency Virus) انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو نا کارہ بنا دیتے ہیں۔ یعنی انسانی جسم میں جراثیم سے لڑنے کی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ HIV کی انتہائی حالت (AIDS) ( Acquired Immuno Deficiency Syndrome)کہلاتی ہے۔ یعنی اگر کوئی انسان HIV سے متاثر ہو جائے تو وہ فوری نہیں مر جاتا اگر وہ مخصوص دوائیں لے طاقت ور غذائیں استعمال کرے اور صحت مند زندگی گذارے تو آٹھ تا دس سال کے بعد HIV ایڈس کی حالت کو پہنچتا ہے۔ HIV کا وائرس انسانی جسم کے درجہ حرارت میں زندہ پہنچتا ہے۔ HIV کا وائرس انسانی جسم کے درجہ حرارت میں زندہ رہتا ہے۔ یعنی اسی گرمی کے مائعات خون و غیرہ میں زندہ رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایڈس کی ابتداء براعظم آفریقہ سے ہوئی اس کو پہلی مرتبہ 1981ء میں دریافت کیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک ساری دنیا میں اس مرض سے 30ملین سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ اور 35ملین سے ذائد افراد جن میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں اس مرض سے متاثرہ ہیں۔ ہر سال عالمی سطح پر ادارہ صحت اور دیگر فلاحی اداروں کی جانب سے اس مرض کی روک تھام اور عوامی شعور کی بیداری کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں لیکن اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مرض پر قابو پانے کے اقدامات غیر فطری ہیں۔ اور مرض پر قابو پانے کے بجائے اس کے مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ آج ساری دنیا میں اس مرض سے متاثرہ افراد میں بر اعظم افریقہ کا نمبر سر فہرست ہے جہاں کی 70%آبادی اس مہلک اور لا علاج مرض میں مبتلا ہے۔ افریقہ میں لوگ بوڑھے ہوتے ہی نہیں ہے اور اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد 3040سال کی عمر میں وفات پا جاتے ہیں۔ نائجیریا :ہندوستان اور جنوبی ایشیائی ممالک کا نمبر افریقہ کے بعد ہے جہاں اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔۔ HIV وائرس آفریقہ کے بندروں میں پایا گیا تھا۔ اور وہ وہیں سے انسانی جسم میں منتقل ہوا۔ HIV وائرس کس طرح بندروں سے انسانی جسم میں داخل ہوا یہ معلوم نہیں ہوسکا لیکن یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ انسان نے جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے غیر فطری طریقہ اختیار کیا اور ان بندروں سے خواہش کی تکمیل کی اور HIV ان میں داخل ہو گیا اور دیگر انسانوں میں پھیلتا گیا۔ ایڈز (AIDS) موجودہ دور کی ایک لاعلاج بیماری ہے۔ گویا یہ ایک قدرتی عذاب ہے جو شادی سے پہلے یا شادی کے بعد زنا میں مبتلا ہونے والوں پر نازل ہوتا ہے۔ اس بیماری سے سارے عالم میں لاکھوں اموات واقع ہو رہی ہیں۔ اس میں مرد، عورت، نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں سبھی شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دنیا کو ایڈز کا تحفہ کس نے دیا؟ غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی اقوام کے فحش کلچر نے دنیا بھر میں ایڈز کو فروغ دیا ہے۔ مغربی ممالک کے فحش ذہن رکھنے والے افراد (جن کا مخصوص گروپ ہے ) نے انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹ، فحش لٹریچر، عریاں فیشن شو، مختلف انگریزی و فحش بلو فلمیں ، سیریلز، نائٹ کلب شوز، فلموں میں ہیجان انگیز فحش مناظر، بوائے فرینڈ کلچر، گرل فرینڈ کلچر، آزادانہ جدید ثقافت کے نام پر غیر قانونی ناجائز تعلقات، ہم جنس پرستی کو دنیا کے کونے کونے میں مختلف منصوبہ بند طریقوں سے عام کرتے ہوئے دنیا کی مختلف اقوام کو ایڈز جیسی مہلک اور خبیث بیماری میں مبتلا کر دیا۔ دنیا کو فحش سماج میں تبدیل کرتے ہوئے مختلف مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے فحش گروپ نے عریانیت کو Pornographic Industry کے ذریعہ سارے عالم میں فروغ دیتے ہوئے کروڑہا روپے کمانے کا ذریعہ بنایا۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں طوائفوں کا جال بچھا دیا۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں طوائفوں کو پناہ دیتے ہوئے Red Light Areas   قائم کرتے ہوئے جسم فروشی کو قانونی ذریعہ معاش بنا دیا۔ مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جائز قرار دیتے ہوئے ’ہم جنس پرستی، کی شادیوں کو عام کر دیا۔ ہم جنس پرستی ایک ایسا عمل ہے جسے جانور بھی پسند نہیں کرتے۔ لیکن مغربی کلچر نے ہم جنس پرستی کو اشرف المخلوقات میں عام کر دیا۔ ہم جنس پرستی کی وجہ سے قومِ لوط پر پتھروں کی بارش کی شکل میں قدرتی عذاب نازل ہوا لیکن موجودہ دور میں ہم اپنے اعمال کی وجہ سے قومِ لوط پر نازل ہونے والے عذاب سے بھی خطرناک قدرتی عذاب ’ایڈز، کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دنیاتیسری جنگ عظیم کی شکل میں ‘AIDS War” کے ذریع DS) ( Acquired Immeہ تباہ ہو رہی ہے۔

موجودہ دور میں مغربی عریاں کلچر نے دنیا کے تمام ممالک میں کم سن نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ناجائز جنسی تعلقات میں مبتلا کر دیا، مغربی ممالک میں کم سن لڑکیوں کے حاملہ ہو جانے کے واقعات میں تیز رفتار اضافہ کر دیا۔ عریانیت کے سیلاب نے مقدس رشتوں کو بھی پامال کر دیا۔

دور جدید کی حیرت انگیز ایجاد انٹرنیٹ، عریانیت اور شہوانیت کو فروغ دینے میں ایک اہم ترین ذریعہ بن گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹ، فحش چیٹنگ نے دنیا بھر میں شادی سے پہلے شادی کے بعد غیر قانونی ناجائز تعلقات کو تیز رفتار ی سے عام کر دیا۔ حالانکہ انٹرنیٹ انتہائی مفید ایجاد ہے لیکن موجودہ دور میں اس کا غلط استعمال زیادہ ہو رہا ہے۔ اب تو سیل فون پر بھی فحش فلمیں ، فحش تصاویر ڈاؤن لوڈ کئے جا رہے ہیں۔ اس سے ہر گھر میں تباہی کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ موجودہ حالات میں عریانیت اور شہوانیت کو فروغ دینے والے عوامل سے محفوظ رہتے ہوئے زنا سے بچنا بھی جہاد کے مماثل ہے۔

بنیادی طور پر HIV چار طریقوں سے پھیلتا ہے۔

1 }HIV سے متاثرہ عورت یا مرد سے غیر محفوظ جنسی تعلقات کے نتیجہ میں

2}HIV سے متاثرہ مریض کا خون کسی صحت مند انسان کو چڑھانے سے

3 }ایڈس کے متاثرہ مریض کیلئے استعمال کی گئی سوئی یا بلیڈ دوسرا استعمال کرنے سے

4 }ایڈس سے متاثر حاملہ عورت سے پیدا ہونے والے بچے کو

ایڈس ایک متعدی مرض نہیں ہے یہ ہوا، پانی، غذا، مکھی، مچھر سے نہیں پھیلتا، متاثرہ شخص کے استعمال کردہ حمام، بیت الخلاء اور تولیہ سے نہیں پھیلتا۔ ایڈس کے مریض کیساتھ اُٹھنے بیٹھنے کھانے پینے اور رہنے سہنے سے نہیں پھیلتا۔ دنیا میں 90 فیصد ایڈس غیر محفوظ جنسی تعلقات سے پھیل رہا ہے۔ باقی 10% دیگر تین ذرائع سے پھیل رہا ہے۔ بر اعظم آفریقہ میں بچے اور عورتیں اس مرض سے زیادہ متاثر ہیں ، اور ہندوستان میں بھی ایڈس کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اور ریاست آندھرا پردیش ایڈس سے متاثرہ مریضوں میں ہندوستان سب میں سر فہرست ہے۔ ایڈس کے علاج کیلئے تحقیقات جاری ہیں لیکن ابھی تک ایسی کوئی دو ایجاد نہیں ہوئی۔ جو ایڈس کے جراثیم کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے مریض کو صحت مند بنا دے البتہ کچھ دوائیں ایسی دی جا رہی ہیں جس سے مریض کا عرصہ حیات کچھ بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔

موذی مرض ایڈز کے بارے میں اقوام متحدہ کی جانب سے نئی جائزہ رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔ جس کے مطابق گزشتہ سات برس کے دوران اس مرض سے ہونے والی ہلاکتوں میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ ایڈز سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے نے اپنی سالانہ رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ اب ایڈز کی پھیلتی وبا کو کنٹرول کر لیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایڈز کے مطابق عالمی سطح پر اس مرض سے ہونے والی ہلاکتوں میں بھی واضح کمی کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ ایڈز کے حوالے سے ہونے والی مثبت پیش رفت کی وجہ دواؤں کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا بھی ہے۔ اس سالانہ رپورٹ میں تازہ ترین اعداد و شمار بھی شامل کیے گئے ہیں۔ جس میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں ایڈز سے سب سے زیادہ ہلاکتیں 2005 میں ہوئی تھیں اور یہ تعداد 23 لاکھ تھی، جو اب کم ہو کر 2011 کے اختتام تک 17 لاکھ رہ گئی ہے۔ 2010 میں ایڈز سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اٹھارہ لاکھ تھی۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 34 ملین افراد ایڈز جیسے مرض میں مبتلا ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں عالمی برادری کی ایڈز کے خلاف اجتماعی کوششوں کو انتہائی مناسب اور شاندار خیال کیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ دنیا بھر میں آ پس کے تعلقات یا انتقال خون سے پھیلنے والے انتہائی خطرناک مرض میں بھی کمی سامنے آئی ہے۔ 2011 میں ایڈز میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد 25 لاکھ ریکارڈ کی گئی جو 2001 کے مقابلے میں بیس فیصد کم تھی۔ ادارے نے اس کمی کا کریڈٹ عالمی برادری اور ان حکومتوں کو پیش کیا، جن کی خصوصیت کی وجہ سے اس مرض کے بارے میں مختلف النوع معلوماتی اور حوصلہ افزا سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس کمی کا سہرا مختلف دوا ساز اداروں کو باندھا گیا، جن کی ریسرچ سے ایسی شافی دوائیں تیار کی گئیں ، جن کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا افراد کی قوت مدافعت کو بہتر کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ رپورٹ میں گلوبل کمیونٹی کی صحت کو درپیش سب سے بڑا خطرہ بدستور ایڈز کے مرض کو قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران مدافعتی دواؤں اور معلوماتی سرگرمیوں سے اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد میں جو بیس فیصد کمی پیدا ہوئی ہے ، اس کو ایک شاندار اجتماعی کوشش قرار دیا۔

دنیا کی اقوام میں مرض ایڈس کا جائزہ لیا جائے تو یہ حیرت انگیز انکشاف سامنے آتا ہے کہ مسلمان قوم میں مرض ایڈس کم پایا جاتا ہے۔ اس لئے یہ نعرہ دیا جا رہا ہے کہ ’’اسلامی زندگی اپناؤ ایڈس سے بچو‘‘ کیونکہ خوفِ خدا نہ ہونے ، صفائی کا خیال نہ رکھنے ، شراب نوشی کے بعد نشہ کی حالت میں جنسی بے راہ روی کا شکار ہونے کے سبب ایڈس آسانی سے فاحشہ عورتوں سے مردوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ اور ان مردوں سے ان کی بیویوں میں اور بیویوں سے اُن کے بچوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ اس لئے کہا جا رہا ہے کہ مرد اپنی بیوی سے وفاداری نبھائیں۔ لیکن نعروں سے کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے۔ ہندوستان میں ٹرک ڈرائیور ان پڑھ دیہاتی، گھروں سے لمبے عرصہتک دور رہنے والے فوجی اور اس قسم کے لوگ جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کر ایڈس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایڈس کے بارے میں مکمل جانکاری ہو تب ہی ایڈس سے بچاؤ ممکن ہے۔ نوجوان نسل میں اخلاقی تعلیمات خوف خدا اور صحت مندی کے اصولوں کی تعلیم دی جائے تو ایڈس کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اسلام ایک دین فطرت ہے اس نے حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے واضح کر دیا کہ جب بچہ شادی کی عمر کو پہنچے تو اس کی شادی کر دینا چاہئے اگر کوئی شادی کی قدرت نہ رکھے تو اسے مسلسل روزے رکھنے چاہئیں تاکہ اس کی نفسانی خواہشات پر قابو پایا جا سکے۔ انسان کی نفسانی خواہشات ہوتی ہیں جن کی تکمیل کے لئے اگر اسے شادی جیسے جائز راستے نہ ملے تو وہ غیر محفوظ اور غیر اخلاقی جنسی تعلقات کی تلاش میں رہتا ہے۔ اور وہیں سے اس کی بربادی کا راستہ کھل جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہندوسماج میں خوف خدا نہ ہونے اور شادی کے لئے جہیز اور کٹنم کے نام پر اور ذات پات اور برادری کے نام پر شادی کو موخر کیا جا رہا ہے اس لئے ان کے بچے بے راہ روی کا شکار ہو کر ایڈس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس لئے سماجی سطح پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان میں شادی کی عمر کو کم کیا جائے اور لڑکی کی شادی 18تا21سال میں اور لڑکے کی شادی 21تا 25سال میں کی جائے اور سماج سے کٹنم کی لعنت کو دور کرنے کے لئے سماجی اور مذہبی ادارے آگے آئیں۔ مسلمانوں میں بھی جہیز کی لعنت کے سبب شادی میں تاخیر ہو رہی ہے۔تاہم مسلمانوں میں بچپن میں لڑکوں کی ختنہ کی سنت سے بھی ایڈس سے بچاؤ میں 99%تک کامیابی مل رہی ہے۔ ختنہ کی سنت سے بہت سے بیماریوں سے بچا جاتا ہے اس لئے آج غیر مسلموں خاص طور سے راجپوتوں اور دیگر اقوام میں ختنہ کی سنت کو عام کیا جا رہا ہے۔ اور دیگر ممالک میں بھی اس کے طبی فوائد دیکھ کر اسے اختیار کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایڈس کے موقع پر جہاں کہیں سمینار جلسے اور معلوماتی پروگرام منعقد ہوں اس بات پر زور دیں کہ اسلامی تعلیمات خاص طور سے شادی کو آسان بنانا اور ناجائز رشتوں کو غلط قرار دے کر مجرموں کو سخت سزا دینا اور خوف خدا کے ساتھ پاک صاف زندگی گذارنا ہی ایڈس کے مرض کا موثر علاج ہے۔ مرض ایڈس کا ابھی تک علاج دریافت نہیں ہوا اور ہو گا بھی نہیں کیونکہ سچی خبر دینے والے مخبر صادق پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیﷺ کے ارشادات میں ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ اگر کسی قوم میں زنا کاری اور بد کاری عام ہو تو اس قوم میں ایسی بیماریاں پیدا ہوں گی جن کا کوئی علاج نہیں ہو گا۔ اور آج ہم یہ نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔ اور دین اسلام پر چلنے والے مسلمانوں میں یہ مرض نہیں کہ برابر ہے۔ اس لئے ہرسال یوم ایڈس کے موقع پر ہم واضح طور پر یہ اعلان کریں کہ ’’اسلامی تعلیمات اختیار کرو ایڈس سے بچو‘‘۔ ہماری نوجوان نسل کو ایڈس سے بچانا اسلئے ضروری ہے کہ کل کے ذمہ دار شہری بننے والے ہیں۔ انہیں ملک کی ترقی کے مختلف کام کرنے ہیں۔ اگر یہ نسل ایڈس سے متاثر ہو جائے تو ملک کیلئے کام کرنے والے لوگوں کی کمی ہو جائے گی۔ اچھے افراد کی قلت ہو جائے گی۔ آج ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ کے مضر اثرات سے بھی ہمارے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان میں دینی تعلیمات کو عام کرنے اور ان میں خوف خدا کا جذبہ پیدا کرنا بھی وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ نوجوانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایڈس کے بارے میں صحیح معلومات رکھیں۔ اور ان معلومات کو گاؤں گاؤں میں عام کریں۔ اسطرح دیہاتیوں کو ایڈس کے بارے میں جانکاری حاصل ہو گی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایڈس کے خلاف مہم کو اخلاقیات کے دائرے میں رکھ کر چلائے۔ ایسی کوئی بات اور کام نہ کریں جس سے نوجوانوں کے جذبات مشتعل ہو جائیں اور وہ غلط راستے پر چلنے لگیں۔ NACOاور دیگر ادارے اگر ان باتوں کو اپنی مخالف ایڈس مہم میں شامل کریں تو امید ہے کہ اگلے چند سال میں ایڈس کی روک تھام میں اچھے نتائج برآمد ہو سکیں گے۔ بہر حال ایڈس جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے اور اس آگ کو آگے بڑھ کر بجھانا سب کی ذمہ داری ہے۔ اور اس مرض سے بچنے کا واحد حل اسلامی تعلیمات کو اختیار کرنا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

احتیاط علاج سے بہتر

 

 

محاورہ مشہور ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ انسان اپنی روز مرہ زندگی میں طرح طرح کے حادثات سے دوچار ہوتا ہے اور خود کو اور خاندان والوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم بیشتر حادثات بداحتیاطی سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اگر انسانتھوڑی سی سوجھ بوجھ سے کام لے اور ہر وقت احتیاط کا پہلو ملحوظ رکھے تو وہ بلا ئے ناگہانی ثابت ہونے حادثات سے بہت حد تک محفوظ رہ سکتا ہے۔ ذیل میں روز مرہ زندگی میں اختیار کئے جانے والے احتیاط کے پہلو بیان کئے جا رہے ہیں۔ بچوں کو تیز دھار والے چاقو، قینچی، دواؤں اور جلتی آگ سے دور رکھنا چاہئے۔ پانی سے بھرے ٹب کی پہنچ سے بھی بچوں کو دور رکھیں۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ رینگتا ہوا بچہ ٹب میں گر کر یا سمپ میں گر کر غرقاب ہو گیا۔ بچوں کا بخار ناپنے کے لئے تھرمامیٹر اس کے منہ میں نہ رکھیں۔ اگر بچہتھر مامیٹر دانتوں کے زور سے توڑدے توتواس میں موجود پارہ بچے کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ چھوٹے بچے چھت کی بالکونی سے نیچے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اگر ایک ڈوری سے انہیں باندھ دیں تو گرنے کا خدشہ نہیں رہے گا۔ گھر کے افراد اکثر بیمار ہوتے رہتے ہیں۔ سردی بخار، نزلہ، کھانسی پیچش وغیرہ کے لئے ضروری ادویات ایک ڈبے میں رکھنا چاہئیں اور دوائیں تاریخ ختم ہونے کے ساتھ بیکار ہو جائیں تو ان کی جگہ دوسری دوائیں رکھ دینا چاہئیں۔ زخمی ہونے یا آگ کی گرمی لگنے کے لئے استعمال ہونے والے ابتدائی طبی امداد کے باکس کو بھی گھر میں تیار رکھنا چاہئے۔ اگر آپ کے پاس کار ہو تو استعمال نہ ہونے کی صورت میں اسے مقفل رکھنا چاہئے۔ کار کو باہر رکھنے کے بجائے گھر کے آنگن یا گیاریج میں رکھنا چاہئے۔ آج کل کار کے پہیوں کی چوری کے واقعات بھی سنے جا رہے ہیں۔ اگر آپ گھر سے یا شہر سے باہر جا رہے ہوں تو اپنے ساتھ پرس یا جیب میں اپنا نام پتہ فون نمبر وغیرہ لکھا ہوا کاغذ ضرور رکھیں۔ حادثات کی صورت میں اس سے بہت مدد ملتی ہے اپنے گھر کے نوکروں پر کبھی بھی مکمل بھروسہ نہ کریں۔ پہلے وہ آپ کو اعتماد میں لیں گے اور بعد میں موقع پاتے ہی قیمتی زیورات و اشیاء چوری کر لیں گے۔

قیمتی سامان کو ہمیشہ مقفل رکھیں۔ آج کل گھر کے ملازم کھانے پینے کی اشیاء بھی چوری کرنے لگے ہیں۔ ان سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ سونے سے قبل یہ اطمینان کر لیں کہ گھر کے تمام بیرونی دروازے بند ہیں یا نہیں بڑے مکانات میں غفلت سے چور گھروں میں داخل ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اپنی دولت کے بارے میں اپنے پڑوسیوں اور اجنبیوں کو کبھی نہ بتائیں ورنہ بن بلائے کوئی مصیبت آ سکتی ہے۔ کسی دور کے شناساکو اپنا زیور نہ دیں۔ آج کل زیور بدلنے کی دھوکہ دہی ہو رہی ہے۔ لوگ نمونہ دکھانے کے بہانے زیور لے جا کر اس میں خرد برد کر رہے ہیں۔

اگر کسی کو سگریٹ نوشی کی عادت ہے تو اسے مچھر دان کے اندر بیٹھ کر نہیں جلانا چاہئے۔ اس میں آگ لگنے کا خطرہ رہتا ہے۔ اگر گھر میں چوہے زیادہ ہو گئے ہوں تو انہیں چوہے دان سے پکڑنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کھانے کی اشیاء میں چوہے مار دوا ڈال کر انہیں گھر کے چاروں طرف نہیں ڈالنا چاہئے۔ بعض دفعہ چوہے یہ دوا کھا کر ایسی جگہ ختم ہوتے ہیں جہاں سے انہیں نکالنا دشوار ہو جاتا ہے اور گھر میں بدبو پھیل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے بچے دوا ملی اشیاء کھالیں تو ان کی صحت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ رات میں گھر سے باہر نکلنا ہو تو کم از کم گھر کی ایک لائیٹ کھلی رکھیں۔ اس سے چوری کا خطرہ کم رہتا ہے شہری علاقوں اور سنسان سڑکوں پر رات دیر گئے اکیلے نکلنا خطرہ سے خالی نہیں رہتا۔ اگر جانا ضروری ہوتو کسی کو بتا کر جائیں۔ جیب میں زیادہ نقدی یا قیمتی گھڑیاں یا عورتیں ہوں تو زیور پہن کر نہ نکلیں ، لوٹ لئے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اگر کوئی سواری پر لفٹ دینے کی پیشکش کرے تو سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں۔ اگر اکیلی خاتون ٹرین سے سفر کرنا چاہے تو اسے فرسٹ کلاس کے بجائے سکنڈ کلاس کو ترجیح دینی چاہئے جس میں زیادہ لوگ سفر کرتے ہیں اور اکیلے پن کا ڈر نہیں رہتا۔ گھر میں کسی میکانک، الکٹریشن یا مزدور سے کام کرانا ہو تو جان پہچان والوں سے کرائیں اور جب تک کام ختم نہ ہو اس وقت تک اپنے ساتھ گھر کے یا پڑوس کے کسی فرد کو ساتھ رکھیں ورنہ دھو کہ دہی کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ بڑے بنگلوں اور گھروں میں اکثر ایک سے زیادہ ملازمین اور خادمائیں کا م کرتی ہیں ان کے فوٹو بھی ساتھ رکھ لیں۔ خادموں کے ذریعہ چوری ہو جانے کی صورت میں تفتیش اور تحقیقات میں سہولت رہتی ہے۔ اگر آپ کار سے سفر کر رہے ہوں تو بچوں کو ہمیشہ پچھلی نشست پر بٹھائیں۔ حادثہ کی صورت میں ڈرائیور کے قریب رہنا ان کے لئے محفوظ نہ ہو گا۔ اس کے علاوہ بچے اکثر چپ نہیں رہتے وہ مشین کے ساتھ کچھ بھی چھیڑ چھاڑ کر سکتے ہیں۔ زندگی میں اکثر و بیشتر حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ ایسے مواقع پر سوچ سمجھ کر اور تیزی سے قدم اٹھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ حادثات کے وقت گھبرانا نہیں چاہئے اور اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے مناسب حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے۔

گھروں میں آگ لگنے کے واقعات لاپرواہی سے ہوتے ہیں۔ ان سے بچنے کے لئے ماچس کی ڈبی اور لائٹر بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ اگر آپ محسوس کریں کہ پکوا ن گیس کی بو آ رہی ہے تو ماچس کی کاڑی یا لائٹر نہ جلائیں۔ کھڑکیاں دروازے وغیرہ کھول دیں اور چولہے اور اس کے پائپ کی جانچ کروائیں۔ پکوان ختم ہونے کے بعد ریگولیٹر اور چولہے کے ناب کو یاد سے بند کر دیں۔ ریگولیٹر بند کرنے سے گیس کی بچت بھی ہوتی ہے۔ سلنڈر کو ہمیشہ سیدھی حالت میں رکھیں اور چولہے کو سلنڈر سے اونچائی پر رکھیں۔ نیچے رکھ کر پکانے سے زیادہ مقدار میں گیس چولہے تک آتی ہے۔ چولہے میں خرابی پر لا پرواہی نہ کریں اور فوراً میکانک سے رجوع ہوں۔ کیروسین کا چولہا جلاتے وقت اس میں تیل نہ ڈالیں ، ہمیشہ اچھی قسم کا چولہا استعمال کریں۔ اسٹو پھٹنے کے اکثر حادثات غیر معیاری چولہوں کے استعمال کے سبب ہوتے ہیں۔ فرش کی صفائی میں زیادہ چمکدار بنانے کی کوشش نہ کریں پھسل کر گرنے کا ڈر رہتا ہے۔تیل یا پوڈر گرنے کی صورت میں فوراً صفائی کر لیں۔

گھر میں شیلف میں عموماً کتابیں رکھی ہوتی ہیں کتابوں کو صفائی سے رکھیں۔ مہینہ دو مہینہ میں ان کی صفائی کریں ورنہ کتابوں کو دیمک لگ جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ گھر میں میوہ فروشوں ،ترکاری فروشوں یا ملازمین کے بچوں کو داخل ہونے نہ دیں ، اگر بلائیں تو ان پر گہری نظر رکھیں ، جاتے جاتے کوئی بھی چیز اٹھا کر لے جا سکتے ہیں۔ سڑک پار کرنے میں جلد بازی نہ کریں۔ شاہراہوں پر زیبرا کراسنگ پر ہی سڑک عبور کریں۔ اگر سڑک پار کرنے کے دوران کوئی تیز رفتار گاڑی آتی دکھائی دے تو اسے ہاتھ کے اشارے سے سامنے یا پیچھے سے جانے کے لئے کہیں ، سڑک پر جھجھک دکھانے سے حادثات ہو سکتے ہیں۔

زنگ آلود قفل کو کام میں لانے کے لئے قفل میں تیل ڈالنے کے بجائے کنجی کو تیل لگائیں۔ سلک اور نائیلان کے کپڑوں کو چھاؤں میں سکھائیں۔ المونیم یا پلاسٹک چڑھے ہینگر استعمال کریں۔ لوہے کے یا لکڑی کے ہینگر استعمال کرنے سے دھبے آ سکتے ہیں۔ اوزار کے ڈبے میں ایک کوئلے کا ٹکڑا رکھیں۔ یہ آبی بخارات کو جذب کرے گا اور سامان زنگ لگنے سے محفوظ رہے گا۔ اگر کوئی بال پن، سیاہی ہونے کے باوجود چلتے چلتے رک جائے تو اسے کسی کانچ کی سطح پر رگڑنا چاہئے۔ چلنا شروع ہو جائے گا۔ اگر آپ لکھنے کے لئے کسی کو قلم دیں تو قلم کا کیپ اپنے پاس رکھیں۔ لوگ قلم واپس کرنا نہیں بھولیں گے۔ اگر سامان کو مضبوطی سے باندھنا ہو تو پلاسٹک کی رسی کو گرم پانی میں ڈبو کر باندھیں۔ رسی سوکھنے کے بعد سکڑے گی اور مضبوطی سے بندھ جائے گی۔ اگر لفافے سے اسٹامپ نکالنا ہو تو اسے پہلے پانی میں بھگوئیں۔تھوڑی دیر بعد اسٹامپ آسانی سے نکل آئے گا۔

اگر الارم والی گھڑی کا الارم کم ہو تو گھڑی کو ایک ٹین کے ڈبے میں رکھیں الارم کی آواز زور سے سنائی دے گی۔ جب عطر یا سینٹ کی شیشی ختم ہو جائے تو اسے نہ پھینکیں بلکہ ڈھکن کھول کر خالی شیشی کپڑوں کے درمیان رکھ دیں خوشبو کپڑوں میں آتی رہے گی۔ استعمال شدہ چائے کی پتی اور انڈے کے چھلکے پھولوں کے پودوں اور کنڈوں میں لگائے جانے والے پودوں کے لئے اچھی کھاد ثابت ہوتے ہیں۔ پوڈر کے خالی ڈبوں کو نہ پھینکیں۔ اس کے ڈھکن کو کھول کر اسے رنگ دیں اور گلدستہ کے طور پر استعمال کریں۔ ناریل کے خول کو صاف کر کے ائشٹرے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی خالی ڈبے کے اوپری ڈھکن کو کھول دیں اور اسے ٹوتھ برش، قلم پنسل وغیرہ رکھنے کے لئے استعمال کریں۔ کپڑے دھونے کے بعد بچے ہوئے صابن کے پانی کو فرش، حمام پلاسٹک کوریا ٹیبل کلاتھ دھونے کے کام میں لائیں۔ بچے ہوئے پانی کو بیت الخلا ء میں بہائیں نالیوں میں جھنگر وغیرہ نہیں رہیں گے۔ ڈنڈی ٹوٹ جانے والے برتنوں کو گلدستے کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر جوتوں کی پالش سوکھ جائے تواسے نہ پھینکیں اس کا باریک پوڈر بنائیں اور اس میں ٹرپن تیل ملا کر اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنائیں۔

اگر آپ کے پاس پرانی چھتری ہو اور اس کے کپڑے میں سوراخ ہوں تو ان پر رنگ برنگے کپڑے چسپاں کیجئے اور چھتری کو باغ کے پھولوں کی طرح خوش نما بنائیے۔ فرنیچر ہٹاتے وقت پائیوں کے نیچے کپڑا باندھ دیجئے ، فرش پر لکیریں نہیں آئیں گی۔

گھر کا کچرا ایک ڈبے یا بڑی پالی تھین تھیلی میں جمع کریں اور اسے دن میں ایک مرتبہ صحیح طریقہ سے پھینک آئیں۔ ٹین کے ڈبے میں ایک مقناطیس رکھیں ، سوئیاں اس سے چمٹی رہیں گی اور انہیں ڈھونڈنے میں آسانی ہو گی۔ رات میں لائیٹ جانے کی صورت میں موم بتی اور ماچس ڈھونڈنے کی پریشانی سے بچنے کے لئے گھر کے ہر کمرے میں کسی محفوظ جگہ پر ماچس اور موم بتی رکھیں۔ ڈھونڈنے میں آسانی ہو گی۔ یہ اور اس طرح کی کئی باتیں روز مرہ زندگی میں ایسی ہیں جوسابقہ لوگوں کے تجربات پر مبنی ہیں۔ انہیں ذہن میں رکھتے ہوئے زندگی کو آرام دہ اور پرسکون بنایا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

صحت ایک عظیم نعمت

 

زندگی ہمیشہ پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ مشکلات، مسائل اور جدوجہد کی صورت میں اس کی راہ میں کانٹے بھی ہیں۔ زندگی کو خوش حال اور کامیاب بنانے کے لئے ہم بہت کچھ کرتے ہیں۔ سمجھد ار انسان وہی ہے جو کامیاب لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی زندگی کو خوش حال بنائے۔ ذیل میں صحت کے موضوع پر کار آمد اور مفید باتیں پیش کی جا رہی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ لوگ ان باتوں پر عمل کرتے ہوئے ایک صحت مند زندگی گزاریں گے۔

مقولہ مشہور ہے کہ ’’تندرستی ہزار نعمت ہے ‘‘۔ بلاشبہ اچھی صحت انسان کے لئے ایک عظیم نعمت ہے۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو اچھی صحت کے مالک ہوتے ہیں۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اچھی صحت کے بغیر زندگی بے کار ہے تاہم یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ صحت مندر رہنے کے لئے ہم کتنی سنجیدہ کوشش کرتے ہیں۔ آئیے اب ہم ان غلطیوں کو نہ دہرائیں جن کے سبب ماضی میں ہمیں بیمار ہونا پڑا تھا۔ ہم سب روز گار کے حصول کے لئے کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے آج کل خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ملازمت یا کسی نہ کسی پیشہ سے وابستہ ہے۔ دن بہ دن کام میں مصروف رہنے سے بھی انسانتھکن اور بوریت محسوس کرتا ہے اسے دور کرنے کے لئے ہفتہ میں یا مہینہ پندرہ دن میں ایک مرتبہ قریبی تفریحی مقام کو جانے سے خوشگوار تبدیلی محسوس کی جا سکتی ہے یا کسی پر سکون ماحول میں کچھ وقت گزار نے سے ذہنی بوجھ اورتھکان کم ہوتی ہے۔ اور صحت میں بہتری آتی ہے۔ صبح جلد اٹھنا اور کچھ دیر کے لئے چہل قدمی کرنا جسم کے ہر حصے کے لئے ایک اچھی ورزش ثابت ہو گا۔ مسلمان کی صبح تو فجر کی نماز کی ادائیگی کے ساتھ ہونی چاہئے۔ اس سے صبح کی تازہ ہوا بھی ملے گی۔ اس کے بعد گھر کے کام کرنے سے انسان کی ویسے بھی ورزش ہو جائے گی۔ اگر نہیں تو چہل قدمی یا دیگر ورزش کرنے سے انسان کا جسم صحت مند رہے گا۔

متوازن غذا کھانی چاہئے۔ گھر کی عورتوں کو خاندان کے افراد کی صحت پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ مصالحہ دار اور چکنائی والی غذائیں مسلسل نہیں بنانی چاہئیں اور نہ بچوں اور بڑوں کو زیادہ کھانے کے لئے اصرار کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں نہ کہ کھانے کے لئے جیتے ہیں جہاں تک ہو سکے تلی ہوئی غذاؤں کا استعمالترک کریں۔ترکاری سے بنائے جانے والے سالنوں میں کم سے کم تیل استعمال کریں۔ بہت زیادہ پکے ہوئے پھل نہ کھائیں اس میں شکر کی مقدار کم ہو گی اور اس سے پیٹ کا درد ہو گا۔ بیکری کے بنے کھانے بھی صحت کے لئے مضر ہوتے ہیں۔ اسی طرح فاسٹ فوڈ بھی جو مزے دار ہوتے ہیں لیکن صحت کے اعتبار سے انتہائی خطرناک ہیں۔ ان سے وزن بڑھتا ہے اور بی پی شوگر کی بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ حد سے زیادہ کھانا وزن بڑھنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ کھاتے وقت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت زیادہ کھانا ہیتمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ لہذا صحت مندی کے لئے اسلام میں بھی بھوک سے کچھ کم کھانے پر زور دیا گیا ہے۔ قبض سے بچنے کے لئے وقت پر کھانا اور وقت پر اجابت جانے کی عادت ڈالنا چاہئے عموماً لوگ موٹاپا پسند نہیں کرتے۔ اسے کم کرنے کے لئے کثرت کرنا ضروری ہے۔ اپنے وزن کو تیزی سے کم کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ بتدریج کم کرنا چاہئے روزانہ صبح خالی پیٹ ایک چمچہ شہد میں ادرک کا چھوٹا ٹکڑا ڈال کر کھانا وزن کو موثر طور پر کم کرتا ہے۔ وزن کم کرنے کے لئے چہل قدمی اچھی ورزش ہے۔ بازار یا دوکان جانا ہو تو گاڑی کے بجائے پیدل جائیں ، شہر میں بس سے سفر کر رہے ہوں تو منزل سے ایک اسٹاپ پہلے اتر کر تھوڑا پیدل چل لینا چاہیے۔ رات میں جلد سونا اور صبح جلد بیدار ہونا بھی ایک صحت مند عادت ہوتی ہے۔ رات میں کم از کم آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری ہے بستر انتہائی نرم یا سخت نہیں ہونا چاہیے۔ سوتے وقت چائے یا تمباکو نوشی نہیں کرنی چاہئے۔

ایک پیالی دودھ پینا مناسب ہو گا۔ سوتے وقت شور نہیں ہونا چاہئے۔ روشنی مدھم کر دینی چاہئے اور ذہن کو برے خیالات سے پاک کر کے سونا چاہئے۔ روزانہ مقررہ وقت پر سونے کی کوشش کرنا چاہئے۔ نیند میں کمی سے صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خالی پیٹ یا زیادہ کھا کر نہیں سونا چاہیے۔ شام کے کھانے کے ایک یا دو گھنٹے بعد سونا چاہئے ، خواب آور گولیاں کھانا صحت کے لئے انتہائی مضر ہے ایسی مصنوعی نیند کو نیند نہیں کہتے بے خوابی ایک مرض ہے اس پر قابو پانے کے لئے وقت کی پابندی کے ساتھ سونے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ لیٹے لیٹے کھانا یا ٹیلی ویژن دیکھنا بھی بری عادت ہے۔ دن کے اوقات میں سونا بھی صحت مندی کی نشانی نہیں ہے۔ اگر صبح جلد جاگے ہوں تو دو پہر کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ کر سکتے ہیں۔ یہ سنت ہے۔ سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور کثرت سے چائے یا کافی پینا بری عادتیں ہیں۔ ان سے جتنی جلد چھٹکارہ ممکن ہو اتنا ہی صحت کے لئے مفید ہو گا۔ سگریٹ نوشی ترک کرنے میں دشواری پیش آئے تو آہستہ آہستہترک کرنے کی کوشش کریں۔

موسم کے اعتبار سے لباس اختیار کریں ، گرما میں سوتی کپڑے پہنیں ، ریشمی یا سلک کے کپڑے پہننے سے پسینے کی بدبو پیدا ہوتی ہے۔ نہانے کے بعد جسم پر ٹالکم پوڈر لگائیں۔ اس سے تمام دن جسم پسینے کی بدبو سے محفوظ رہے گا۔ صبح کے اوقات میں سورج کی روشنی میں بیٹھیں اس وقت کی شعاعیں صحت کے لئے اچھی ہوتی ہیں۔ جسم کی مجموعی صفائی پر توجہ دیں ، ظاہری صفائی سے ہی انسان کا باطن بھی صاف ہوتا ہے اسی لئے اسلام میں طہارت و پاکی کو نصف دین قرار دیا گیا ہے۔ چھوٹی موٹی بیماریوں پر طاقتور جراثیم کش دواؤں کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ ہلکا سا بخار نزلہ، زکام، سرکا درد وغیرہ مناسب آرام یا گھریلو چٹکلوں سے دور ہو سکتا ہے۔ مرض بڑھ جائے تو فوری ڈاکٹر سے رجوع ہونا ہے۔ غرض صحت کے بارے میں مندرجہ بالا بنیادی امور کو ذہن میں رکھ کر زندگی گزاری جائے تو لوگ ایک صحت مند اور خوش حال زندگی گزار سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

آنکھوں اور بالوں کی حفاظت

 

آنکھیں قدرت کا عظیم عطیہ اور جسم انسانی میں حواس خمسہ کا اہم جز ہیں۔ آنکھوں کی بدولت ہی انسان دنیا کی رنگینیوں ، رونقوں اور حوادث کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اپنے کام آسانی سے کرتا ہے۔ اور کتابوں کے مطالعہ سے اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بناتا ہے۔ نابینا ہونے سے انسان جس قدر معذور و لاچار ہوتا ہے اس قدر جسم کے کسی اور عضو میں نقص کی سبب نہیں ہوتا۔ نابینا شخص کے لئے سب سے بڑ ی دولت بینائی ہے۔ اسی لئے محاورہ مشہور ہے کہ ’’اندھا کیا چاہے دو آنکھ‘‘ ! آنکھوں کی اہمیت کے باوجود بہت سے لوگ بچپن اور جوانی میں آنکھوں کے معاملے میں لاپرواہی کرتے ہیں اور بڑھاپے میں طرح طرح کی مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں۔ ذیل میں آنکھوں کی حفاظت سے متعلق چند کام کی باتیں دی جا رہی ہیں۔ چہرے کی خوبصورتی آنکھوں سے ہی ہے لہذا چہرے کو خوبصورت اور زندگی کو خوشگوار بنائے رکھنے کے لئے آنکھوں کی صحت اور نگہداشت پر خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ کسی ایک جگہ مسلسل دیکھتے نہیں رہنا چاہیے بلکہ آنکھوں کو حرکت میں رکھنا چاہئے۔ پڑھتے وقت کتاب پر راست روشنی نہیں پڑنی چاہیے بلکہ روشنی پیچھے سے ہو۔ روشنی کے انعکاس سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ اسکولوں میں بھی کمرہ جماعت کے بورڈ پر سورج کی کرنیں نہیں پڑنی چاہئے۔ پلکوں کو طاقت سے نہیں بلکہ نرمی سے بند کرنا چاہئے۔ پڑھتے وقت کتاب کا فاصلہ چہرے سے ایک تا دیڑھ فٹ دور ہونا چاہئے۔ ٹیلی ویژن یا کمپیوٹر اسکرین دیکھنا ہو تو کرسی پر سیدھے بیٹھنا چاہیے۔ گھنٹوں ٹیلی ویژن دیکھنے سے بینائی کے بہت جلد متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ بچوں کو شیشی سے دودھ پلاتے وقت شیشی کو کپڑے سے ڈھانک دینا چاہئے ورنہ ترچھی آنکھوں سے بچہ اگر شیشی میں دودھ کی سطح دیکھنے کی کوشش کرے گا تو اس کی بینائی متاثر ہوسکتی ہے۔ آنکھوں کے اطراف جھریوں سے بچنے کے لئے بات کرتے وقت اور ہنستے وقت آنکھوں کو مناسب مقدار میں کھلا رکھنا چاہئے۔ آنکھیں کم کھول کر ہنسنے اور بات کرنے سے جھریاں دکھائی دیتی ہیں۔ گرما میں تیز روشنی سے بچنے کے لئے دھوپ کے چشمے استعمال کرنے چاہئیں۔ سورج گرہن کے موقع پر راست آنکھوں سے گرہن کو دیکھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس سے نکلنے والی الٹرا وائلٹ شعاعیں بینائی کو متاثر کر سکتی ہیں۔ ایسے مواقع پر سیاہ شیشے ، ایکسرے فلم یا عینک استعمال کرنی چاہیے۔ گاڑی کی سواری کے دوران دھول اور کیڑوں سے بچنے کے لئے بھی چشمے استعمال کرنے چاہئیں۔تاہم اچھے معیاری چشمے ہی استعمال کریں۔ سستے بازاری چشموں کے استعمال سے آنکھوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ بچپن میں اگر بچوں کی بینائی متاثر ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع ہو کر عینک کا استعمال شروع کریں۔

بچوں کو وٹامن سے بھر پور غذائیں دینے سے بینائی بہتر ہوسکتی ہے۔ بڑے لوگوں میں بھی جن کو عینک لگ چکی ہو وہ بغیر عینک کے مطالعہ یا ٹی وی دیکھنے کی کوشش نہ کریں۔ ورنہ ان کی بینائی مزید متاثر ہو سکتی ہے۔ عینک کے گلاس صاف کرتے وقت ایک بھیگا ہوا کاغذ یا کپڑا استعمال کرنا چاہئے۔ صاف کرتے وقت یہ دھیان رکھیں کہ گلاس پر لکیریں نہیں آنے پائیں آنکھوں کو دھول اور دھوئیں سے بچانا چاہئے۔ آنکھوں میں اگر کوئی ذرہ گر جائے تو آنکھوں کو ملنا نہیں چاہئے۔ بلکہ صاف پانی میں آنکھ کھول کر ذرے کو نکالنے کی کوشش کرنا چاہئے۔

کم روشنی میں مطالعہ نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی گھر میں زیادہ روشنی ہو۔ ٹیوب لائیٹ کی سفید روشنی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ آنکھوں کی صحت کے لئے وٹامن سے بھر پور غذائیں لینی چاہئے۔ پھل اور ترکاری کھانا چاہئے۔ اور مناسب مقدار میں دودھ پینا چاہئے سورج کی شعاعیں وٹامن D کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں۔ صبح کے وقت مناسب مقدار میں سورج کی روشنی میں بیٹھنا چاہئے۔ لیکن سورج کی کرنوں کو راست آنکھوں میں پڑنے نہیں دینا چاہئے۔ چمکدار آنکھوں کے لئے ہر روز صبح ٹھنڈے پانی سے آنکھوں کو دھونا چاہئے اور سوتے وقت نیم گرم پانی اور پھر ٹھنڈے پانی سے آنکھوں کو دھونا چاہئے۔ آنکھوں میں میل آنا ایک بیماری ہے۔ ڈاکٹر سے رجوع ہو کر آنکھوں میں قطروں والی دوا احتیاط سے ڈالنا چاہئے۔ آشوب چشم پانی کی خرابی سے پھیلنے والی وبائی بیماری ہے۔ ایسے موقع پر صفائی احتیاط اور مناسب علاج سے کام لینا چاہئے۔ آنکھ صاف کرتے وقت انہیں کپڑے سے رگڑنے میں احتیاط برتنی چاہئے۔ خمار آور یاسست دکھائی دینے والی آنکھوں میں تازگی لانے کے لئے عرق گلاب اور ٹھنڈے پانی کے محلول کو روئی میں بھگا کر پلکوں پر رکھنا چاہئے۔ آنکھوں کی تھکان دور کرنے کے لئے ککڑی کے تکڑوں کو کاٹ کر کچھ دیر پلکوں پر رکھنا چاہئے ایسا کرنے سے آنکھوں کو آرام ملتا ہے۔ اگر بھنویں پھیل گئی ہوں تو انہیں اکھاڑنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے بلکہ کسی بیوٹی پارلر کے ماہر سے رجوع کرنا چاہئے آنکھوں کی خوبصورتی کے لئے مناسب جڑی بوٹیوں سے بنا معیاری کا جل یا سرمہ لگانا چاہئے۔ سنت یہ ہے۔ کہ روزانہ سونے سے قبل تین تین سلائی سرمہ لگایا جائے۔ اس سے آنکھیں نورانی ہوں گی اور سنت کی ادائیگی کا اجر بھی ملے گا۔ انسان کی اخلاقی تربیت میں آنکھوں کا بڑا دخل ہے۔ اگر آنکھوں کے ذریعہ مخرب اخلاق مناظر دیکھے جائیں۔ بد نگاہی ہو تو اس کے اثرات سے انسان کے اخلاق خراب ہوں گے۔ حدیث شریف میں کہا گیا ہے کہ نگاہ شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ لہذا برے مناظر سے آنکھوں کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ بعض لوگوں کی آنکھوں میں عیب ہوتا ہے۔ اس عیب کو ظاہر کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہئے۔ غرض آنکھیں قدرت کی طرف سے عطاء کردہ عظیم نعمت ہیں لہذا ان کی حفاظت میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔

 

                بالوں کی دیکھ بھال

 

جسم کی عمومی صحت و نگہداشت کے ساتھ ساتھ اعضائے جسم کی مناسب دیکھ بھال و نگہداشت انسان کی زندگی کو خوشگوار و خوش حال بناتی ہے۔ جسم کا ایک عضو اگر بیمار ہو جائے تو سارا جسم متاثر ہو جاتا ہے اور انسان بیمار دکھائی دیتا ہے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے عطاء کردہ چہرہ و جسم کے ساتھ خوب سے خوبصورت دکھائی دے۔ چہرے کی خوبصورتی جس طرح آنکھوں کی نگہداشت پر منحصر ہے اسی طرح سر کی خوبصورتی کا انحصار بالوں کی مناسب دیکھ بھال پر ہے۔ خواتین اپنے بالوں کا سنگھار پسند کرتی ہیں اور آج کل مرد بھی اپنے بالوں پر توجہ دینے لگے ہیں۔ اچھے اور سجے ہوئے بال چہرے کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتے ہیں۔ بال قدرت کی طرف سے عطاء کردہ خوبصورت اثاثہ ہیں اور مناسب احتیاط و دیکھ بھال کے ذریعہ انہیں نکھار اجا سکتا ہے۔ بالوں کا بنیادی عارضہ سر میں بفہ کا آنا ہے جس سے بال گرنے لگتے ہیں۔ بفہ دور کرنے کے لئے ریٹھے کا استعمال کرنا چاہئے یا دو انڈوں کی زردی تھوڑے سے پانی میں ملا کر اس محلول کو پانی سے دھلے بالوں میں اچھی طرح ملنا چاہئے۔تھوڑی دیر بعد بالوں کو گرم پانی سے دھونے سے بفہ دور ہو سکتا ہے۔ سوکھے بالوں کو زیادہ نہیں رگڑنا چاہئے۔ البتہ ان میں برابر کنگھی کرتے رہنا چاہیے۔ صحت مند اور خوبصورت بالوں کے لئے وٹامن B12 کی ضرورت پڑتی ہے غذا میں مناسب مقدار میں وٹامن پروٹین اور فولاد لینے سے بالوں کا گرنا کم ہوتا ہے متوازن اور پابند غذا سے اچھے بال آتے ہیں۔ سگریٹ نوشی اور تفکرات بالوں کے دشمن ہیں۔ روزانہ کم از کم 8 گلاس پانی پینا چاہئے۔ اس سے عمومی صحت کے ساتھ ساتھ بالوں کو بھی قوت ملتی ہے صحت مند بالوں کے لئے چربی والی اور زیادہ نمکین اور میٹھی غذائیں کم کرنی چاہئے۔ بالوں کو زرد ہونے سے بچانے کے لئے غذا میں وٹامن B اور پروٹین کی مقدار بڑھانا چاہئے۔ مرغ کا گوشت، دودھ، بکری کا گوشت، پتے والی ترکاریاں اور پھل وغیرہ کھانا بالوں کی صحت کے لئے فائدہ مند ہے۔ شکر، چائے ، شراب وغیرہ کا استعمال وٹامن B کو برباد کر دیتا ہے۔ شدید گرمی میں سورج کی کرنیں راست بالوں پر پڑنے سے بال سوکھ کر اپنی چمک کھو دیتے ہیں بالوں کی جڑوں کو نقصان پہنچتا ہے اور بال گرنے لگتے ہیں۔ بالوں کو راست سورج کی روشنی سے بچانا چاہئے۔ اور خشکی دور کرنے کے لئے زیتون یا بادام کاتیل لگانا چاہئے۔ بالوں میں مالش اور کنگھی احتیاط سے کرنی چاہئے۔ کنگھی برابر کرنے سے بالوں میں ہوا کا بہاؤ مناسب ہو گا جس سے بالوں کی بہتر نشو نما ہو گی۔ بھیگے بالوں میں مالش نہیں کرنی چاہئے۔ نہاتے وقت زیادہ گرم پانی استعمال نہیں کرنا چاہئے اس سے بالوں کی جڑوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ بالوں میں شیمپو لگانے سے قبل چوڑے دانوں والے کنگھے سے بالوں کو اچھی طرح کھول لینا چاہئے۔ یہ مناسب نہیں کہ ہر وقت الگ الگ قسم کا شیمپو لگایا جائے ہمیشہ ایک ہی قسم کا شیمپو استعمال کرنا چاہئے جو لوگ روز نہاتے ہیں انہیں صرف ایک مرتبہ ہلکاساشیمپو استعمال کرنا چاہئے۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح انسان کی زیب و زینت و صاف صفائی کے بارے میں مذہب اسلام نے بھی رہنمایانہ اصول پیش کئے ہیں۔ بالوں کے ضمن میں حضور اکرم ﷺ کا طریقہ اور آپؐ کے ارشادات کا خلاصہ یہ ہے کہ بالوں کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کی اور عورتوں کو مردوں کی شباہت اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ مردو عورت دونوں کے لئے درمیان سے سیدھی مانگ بنانے کا حکم ہے اگر بال سفید ہوں تو حنا مہندی کے استعمال کی تلقین کی گئی ہے۔ زیب و زینت کے لئے بھنویں بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی عادت شریفہ تھی کہ آپ ؐ زلف رکھتے تھے۔ کبھی کبھار مکمل سر مونڈ بھی لیا کرتے تھے۔ خواتین کے لئے اپنے بالوں کے ساتھ دوسروں کے بال جوڑنے کی ممانعت ہے۔ البتہ ریشمی یا اونی دھاگے کی چوٹی لگانے کی اجازت دی گئی ہے۔ مسلمان اگر اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی سنتوں پر عمل کریں تو انہیں سنت پر عمل پیرا ہونے کا ثواب بھی ملے گا اور وہ دوسرں کے لئے صحیح عمل کا نمونہ بنیں گے۔ غرض مندرجہ بالا امور پر عمل کرتے ہوئے بالوں کی مناسب دیکھ بھال کی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

حجامہ (CUPPING) سنت طریقہ علاج

 

انسان اگر احکام الٰہی اور سنت نبوی ﷺ کے مطابق زندگی نہ گذارے تو جسمانی طور پر اور روحانی طور پر بیمار ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس جسم انسانی کو اللہ نے بنایا اور اس کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے طریقے بھی اللہ نے ہی بتائے۔ بیماری اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ اور بیماری سے شفا بھی اللہ ہی دیتا ہے۔ حکیم، معالج یا ڈاکٹر سبب کے طور پر علاج کرتے ہیں اور دوا دیتے ہیں۔ اور انسانوں کے سب سے بڑے اور شافع حکیم ہمارے رہبر اور ہادی برحق پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں جنہوں نے انسانی زندگی کے ہر پہلو سے ہمیں آگا ہ کیا ہے۔ چنانچہ بیماریوں سے شفا کے لئے آپ کے ارشادات پر مبنی طب نبوی ﷺ ہے۔ اور اس سلسلے کی ایک کڑی حجامہ علاج ہے۔ جسے پچھنا لگانا کہتے ہیں۔ یہ ایک بہترین علاج بھی ہے اور سنت رسول ﷺ بھی ہے۔ اس علاج کی تفصیلات اور احادیث نبوی ﷺ سے اس کی تاکید ذیل میں بیا ن کی جا رہی ہے۔

حجامہ یعنی پچھنے لگانا حضور اکرم ﷺ کی سنت سے ثابت ہے۔ اور ایک بہترین علاج ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود پچھنے لگائے اور دوسروں کو ترغیب دی۔ الحجامہ یعنی پچھنے لگانا ایک قدیم طریقہ علاج ہے۔ جو بہت مفید ہے۔ یہ گرم اور سرد دونوں علاقوں میں مفید ہے۔ چین والوں نے اس علاج کی اہمیت جانی اور یہ اس ملک کا قومی علاج ہے۔ اور سارے ملک میں یہ علاج مقبول ہے۔ یہ عرب ملکوں کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں بے حد مقبول ہے۔ حجامہ کی افادیت ہزاروں سال کی طب کی تاریخ سے واضح ہے۔ اس علاج کو دنیا کے بیشتر ممالک میں یکساں موزونیت اور افادیت کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ حجامہ امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، جرمنی اور جنوبی افریقہ میں بھی مقبول ہے۔ اور ہندوستان میں اس طریقہ علاج کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ خلیجی ممالک میں رہ کر آنے والے خاص طور سے مقامات مقدسہ مکہ اور مدینہ میں لوگ وہاں اس علاج کی مقبولیت اور افادیت دیکھ کر ہندوستا ن میں اپنے رشتے داروں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ بھی حجامہ کراتے رہیں۔ کیونکہ یہ علاج سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہے۔ اور جو علاج سنت رسول ﷺ سے ثابت ہے اس کی افادیت میں ایک مومن مسلمان کو کوئی شک ہی نہیں رہتا۔ جسم کی 70%بیماریاں خون کی سربراہی میں رکاوٹ یا عدم سربراہی کی وجہہ سے ہوتی ہیں۔ الحجامہ یا پچھنا لگانے سے جسم کا دوران خونBlood Circulationبہتر ہوتا ہے۔ اور اس علاج کے بعد ایسے اعضائے جسم تک بھی خون کی سربراہی ہونے لگتی ہے جہاں خون کی کمی سے مہلک امراض پیدا ہوتے ہیں۔

حجامہ کے بارے میں احادیث۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشا د فرمایا ’’شفا تین چیزوں میں ہے۔ پچھنا لگوانے ، شہد پینے اور آگ سے داغنے میں ، اور میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔ (بخاری)حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ پچھنا لگوایا۔ اس حال میں کہ آپ ﷺ روزہ میں تھے (بخاری)حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے حالت احرام میں پچھنا لگوایا(بخاری)آپ ﷺ نے ارشا د فرمایا کہ پچھنے سے علاج کرنے والا کیا ہی اچھا آدمی ہے کہ فاسد خون نکال دیتا ہے اور پشت کو ہلکا کر دیتا ہے۔ اور نظر کو تیز کر دیتا ہے ‘‘۔ ابن عباسؓ کا ارشاد ہے کہ معراج کی رات آپ ﷺ کا گذر فرشتوں کی جس جماعت پر بھی ہوا انہوں نے آپ ﷺ سے کہا کہ آپ پچھنے کو لازم پکڑ لیں۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ آپ ﷺسر مبارک پر اور دونوں کندھوں کے درمیان پچھنا لگایا کرتے تھے اور فرمایا جس شخص نے پچھنے کے ذریعے اپنا گندا خون نکلوا دیاتو اب اسے کوئی خدشہ نہیں اس بات سے کہ وہ کوئی بیماری کا علاج کرائے۔ حضرت ابو ہریرہؓ حضور ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ جو چاند کی 17تاریخ کو پچھنے لگوائے تو یہ پچھنے لگوانا ہر بیماری کے لئے شفا ہے۔ قمری مہینے کی 171921تاریخ کو پچھنا لگانے کی روایت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ’’بہترین دن جن میں تم پچھنا لگاتے ہو وہ قمری مہینے کی سترھویں ، انیسویں اور اکیسویں تاریخ کے دن ہیں۔

حجامہ سے کن امراض میں شفا ہے :  الحجامہ یا پچھنا لگانے سے روز مرہ کے کئی امراض سے شفا ہے۔ خا ص طور سے دردسر، ٹینشن کی وجہہ سے ہونے والا درد، کندھوں کا درد، گردوں کا درد، بلڈ پریشر، کمر کا درد، عرق النسائ، ایڑھی کا درد، گھٹنوں کا درد، گردن کا درد، آدھے سر کا درد، فالج، رعشہ، بے خوابی، کیل مہاسے ، یرقان، بد ہضمی، گردے کی پتھری، نا مردی بانجھ پن، سفید کپڑا، فیل پا، ذیابطیس، موٹاپا، مایوسی، دمہ، الرجی اور ہر قسم کے درد میں اس سے شفا ہے۔

حجامہ کے عام فوائد:حجامہ کا علاج خون صاف کرتا ہے۔ حرام مغز کو فعا ل بناتا ہے۔ شریانوں پر اچھا اثر ڈالتا ہے۔ رگ پٹھوں کے اکڑاؤ کو ختم کرتا ہے۔ دمہ اور پھیپھڑوں کے امراض اور امراض قلب انجائنا میں مفید ہے۔ سر درد، دانتوں کے درد میں مفید ہے۔ آنکھوں کی بیماریوں میں اس سے شفا ہے۔ عورتوں کی ماہواری کو باقاعدہ بناتا ہے۔ دل کے ضعف کو دور کرتا ہے۔ زیادہ سونے اور سستی کو دور کرتا ہے۔ مواد بھرے زخموں کے لئے مفید ہے۔ جس جگہ درد ہو وہاں حجامہ کرانے سے آرام ملتا ہے۔ صحت یاب لوگ بھی د وتین مہینے میں ایک مرتبہ حجامہ کرا سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ علاج حدیث سے ثابت ہے۔ اور اس سے بیماریوں سے بچاؤ ہوتا ہے۔ علاج کا کرنا طبیب کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور شفا ء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے مریض اور طبیب دونوں اس علاج کو اللہ کی ذات پر کامل یقین اور سنت نبوی ﷺ سمجھ کر اختیار کریں گے تو اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ حجامہ سے کئی امراض سے ضرور مریضوں کو شفا ملے گی۔

حجامہ کا طریقہ کار:حجامہ کا علاج ماہرین کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا طبی جراحی والا کام ہے۔ اس لئے اسے ہر کوئی نہیں انجام دیتا بلکہ ڈاکٹری پیشہ سے واقفیت رکھنے والے اور نرسنگ کے ماہرین ہی انجام دیتے ہیں۔ ایسا حجامہ جس میں خون نکلتا ہوں۔ اس کے لئے صاف ستھرے اسٹرلائز کئے ہوئے ساز و سامان استعمال کئے جاتے ہیں اور ہر قسم کے انفکشن سے بچنے کے لئے حجامہ کے عمل کو آپریشن تھیٹر میں انجام دیا جاتا ہے۔ ویسے مخصوص حجامہ کرنے والے اسے کھلی فضاء میں بھی انجام دیتے ہیں۔ لیکن آج کل جس طرح صحت کے معاملے میں احتیاط برتی جا رہی ہے اس کے لئے یہ عمل تھیٹر میں ہی انجام ہو تو بہتر ہے۔ قدیم طریقہ حجامہ میں کانچ کے گلاس استعمال ہوتے تھے۔ اور آگ استعمال کی جاتی تھی۔ آج کل حجامہ کے لئے پلاسٹک کے اسٹرلائز کئے ہوئے صاف کپ مختلف سائز کے چین سے منگائے جا رہے ہیں۔ اور انہیں جسم پر بٹھانے کے لئے مخصوص خلائی دباؤ کی گن استعمال کی جا رہی ہے۔ جہاں تک قدیم طریقہ حجامہ کا معاملہ ہے۔ اس میں جن مقامات پر حجامہ کرنا ہو اتنی تعداد میں کانچ کے صاف غیر مستعملہ نئے گلاس منگائے جاتے ہیں۔ ایک عدد میڈیکل بلیڈ اور اسپرٹ روئی اور ہاتھ میں پہننے کے دستانے حجامہ کے سامان میں شامل ہیں۔ حجامہ کا عمل صبح سویرے جب کے مریض کا معدہ خالی ہو کرنا بہتر ہے۔ ویسے کھانے کے چھ گھنٹے بعد یا مشروبات پینے کے ڈیڑھ گھنے بعد بھی حجامہ کیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں بیان کردہ تاریخوں میں حجامہ کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ جس جگہ حجامہ کا عمل کرنا ہوتا ہے اس جگہ کو روئی اور اسپرٹ سے اچھی طرح صاف کیا جاتا ہے۔ اور ایک گلاس میں ٹشو پیپر جلا کر جسم کے اس حصے پر زور سے لگا دیا جاتا ہے۔ گلاس میں جلتا ہوا کاغذ آکسیجن کی تلاش میں جلد کی طرف دباؤ پیدا کرتا ہے۔ اور باہر سے آکیسجن نہ آنے کے سبب وہ جلد سے لگے حصے کو اندر کی جانب کھینچنا شروع کر دیتا ہے۔ آکسیجن کی عدم موجودگی سے گلاس میں خلا پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس کے جگہ جسم کا حصہ کھنچ کر ابھرنے لگتا ہے۔ اور جسم کے اس حصے سے فاسد خون گلاس کے دائرے کی شکل میں جلد کے نیچے جمع ہونے لگتا ہے۔ پانچ منٹ کے وقفے کے بعد جب گلاس کو جسم سے الگ کیا جاتا ہے تو دائرے کی شکل میں جلد سرخ و سیاہی مائل ہو جاتی ہے۔ اب صاف میڈیکل بلیڈ سے اس حصے پر خراشیں لگائی جاتی ہیں۔ اس میں یہ احتیاط کی جاتی ہے کہ زیادہ گہرائی تک یا رگوں یا نسوں کو نہیں کاٹا جاتا بلکہ جلد کی اوپر سطح پر ہلکی خراشیں لگائی جاتی ہیں۔تاکہ اس حصے میں جمع فاسد خون باہر نکلنے لگے۔ دوسری مرتبہ فوری گلاس میں آگ لگا کر دوبارہ خراشوں کی جگہ پر گلاس لگا دیا جاتا ہے۔ اب کی بار خراشوں کی جگہ سے سیاہ گاڑھا فاسد خون نکلنے لگتا ہے۔ یہی وہ بے کار اور فاسد خون ہے جو جسم میں رکاوٹ پیدا کر کے درد پیدا کر رہا تھا اور مختلف امراض کا باعث بن رہا تھا۔ پانچ منٹ بعد احتیاط سے گلاس کو الگ کیا جاتا ہے۔ محفوظ طریقے سے گلاس کو ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اسپرٹ اور روئی سے خراشوں کو صاف کر دیا جاتا ہے۔ اور چونکہ انسانی جسم میں زخم کو مندمل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لئے خون کا رساؤ رک جاتا ہے۔ حجامہ ایک وقت میں دو۔تین یا اس سے ذائد مقامات پر کیا جاتا ہے۔ اب چین سے منگائے جانے والے پلاسٹک کے مختلف کپ استعمال ہونے لگے ہیں۔ اور آگ جلانے کی بھی ضرورت نہیں رہی ہے۔ کپ کو متعلقہ مقام پر رکھ کر کپ پر لگے ناب پر خلائی گن لگا کر کپ کے اندر کی آکسیجن کھینچ لی جاتی ہے۔ اور کپ پر لگے ربر کے واشر سے باہر کی ہوا کپ کے اندر نہیں جاتی اور کپ جسم پر مضبوط بیٹھ جاتا ہے۔ اور خون جمع کرنے کا خلا اور دباؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ اور دوسری مرتبہ میں خراشیں لگا کر خون باہر نکال لیا جاتا ہے۔ حجامہ کے بعد مریض کو غسل کرلینا چاہئے تاکہ جراثیم سے حفاظت ہو۔ حجامہ کی ایک قسم حجامہ مساج بھی ہے۔ جس میں خون نہیں نکالا جاتا بلکہ جسم کے درد والے حصے پر تیل لگا کر حجامہ کا کپ بٹھایا جاتا ہے اور خلا پیدا کر کے کپ کو آہستہ آہستہ جسم پر حرکت دی جاتی ہے۔ جس سے جلد کا حصہ ابھر کر آگے بڑھتا ہے۔ اور مساج سے جسم کا دوران خون صحیح ہوتا ہے۔ عمومی صحت کے لئے تین مہینے میں ایک مرتبہ حجامہ کا عمل کرا سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

دودھ ایک مکمل صحت بخش غذا

 

 

قدرت نے کرہ ارض پر جتنے بھی نباتات و حیوانات جانداروں کی شکل میں پیدا کئے ان کی پیدائش کے ساتھ ساتھ ان کی غذائی ضروریات کی تکمیل کے سامان بھی پیدا فرما دیئے۔ حیوانات کی غذائی عادتیں جدا جدا ہیں۔ ایسے حیوانات جو دودھ پلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں سائنسی اصطلاح میں Mammalکہا جاتا ہے۔ دودھ آسانی سے ہضم ہونے والی ایک مکمل غذا ہے۔ انسان کے بشمول دودھ پلانے والے دیگر حیوانات کے بچے پیدائش کے بعد مخصوص عرصے تک چونکہ سخت اور ثقیل غذائیں ہضم نہیں کر سکتے۔ لہذا قدرت نے دودھ میں ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ بچے کے لئے درکار تمام غذائی ضروریات کی تکمیل کر سکے۔تمام اطباء اس بات پر متفق ہیں کہ ماں کا دودھ ہی بچے کے لئے سب سے بہتر غذا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو دودھ ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ انسان جس وقت اس عالم میں قدم رکھتا ہے تو سب سے پہلے جس غذا کو استعمال کرتا ہے۔ وہ ماں کا دودھ ہے۔ خالق کائنات نے انسان کو جس قدر نعمتیں عطاء کی ہیں ان میں دودھ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی دودھ کو ایک مکمل غذا سمجھا جاتا رہا ہے۔ دودھ بذات خود انسانوں کی پسندیدہ غذا رہا ہے۔ بلکہ دودھ سے بنی اشیاء گھی، مکھن، پنیر، دہی، لسی اور دودھ سے بنی انواع و اقسام کی مٹھائیاں انسانی غذا کا جزو لا ینفک بنی ہوئی ہیں۔ مختلف زبانوں میں دودھ کے مختلف نام ہیں اردو، ہندی، پنجابی میں اسے دودھ کہتے ہیں۔ عربی میں لبن فارسی میں شیر، انگریزی میں Milk، لاطینی زبان میں Lactus کہتے ہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں دودھ مائع حالت میں ہوتا ہے۔ اس کا رنگ سفید ہوتا ہے اور مختلف جانوروں کے دودھ کے مزے اور بو میں ہلکا سا فرق پایا جاتا ہے۔ دودھ کی ماہیت کے بارے میں اطباء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے خون قرار دیتے ہیں اور بعض اسے غذا کارس قرار دیتے ہیں ایک یوم میں جس مقدار میں جانوروں میں دودھ تیار ہوتا ہے اسے دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اتنی مقدار میں جانوروں میں خون تیار نہیں ہوسکتا۔ لہذا دودھ خون نہیں بلکہ مخصوص غذائی مادہ ہے۔ دودھ معتدل قبض کشا اور قدرے دست آور ہوتا ہے۔ جوانی کو تا دیر قائم رکھتا ہے۔ اکثر قسم کے بخار، دل کے امراض، یرقان اور پیاس کی شدت کے لئے انتہائی مفید غذا ہے۔ ہر عمر کے انسان کے علاوہ دیگر جانداروں کے لئے بھی دودھ آب حیات کی مانند ہے۔ اس سے اعصابی کمزوری دور ہوتی ہے اور دماغ کو تقویت ملتی ہے۔ طالب علموں ، اساتذہ، علماء، وکلاء، ادیبوں اور صحافیوں کے لئے دودھ میں وہ تمام اجزاء موجود ہیں جو انسان کی پرورش اور نگہداشت کے لئے ضروری ہیں یہ جسم کے پٹھوں اور دوسرے اعضاء کی پرورش کے لئے پروٹین فراہم کرتا ہے اور دانتوں اور ہڈیوں کی تعمیر کے لئے چونا یعنی کیلشیم فراہم کرتا ہے۔ اس میں 15 فی صد پروٹین 8فی صد فاسفورس اور 6 فی صد فولاد ہوتا ہے۔ بڑھتے بچوں کو مناسب مقدار میں دودھ نہ دیا جائے تو وہ کمزور ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔

زمانہ قدیم سے ہی دودھ انسان کی مرغوب غذا رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر مذاہب نے بھی دودھ کی اہمیت و افادیت بیان کی ہے دودھ کی وجہ سے ہندو گائے کو ماتا کا درجہ دیتے ہیں ، اسلام نے بھی دودھ کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ اور اسے بہترین غذا قرار دیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ جب کبھی دودھ نوش فرماتے تو یہ دعا کرتے ’’ اللھم بارک لنا فیہ وذدنامنہ ‘‘ ( اے اللہ اس میں برکت ڈال اور ہمیں زیادہ دے ) یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ کھانے سے قبل جتنی بھی مسنون دعاعیں آتی ہیں ان میں اس سے بہتر غذا عطا فرما کی دعا ہے لیکن جہاں تک دودھ کا معاملہ ہے تو چونکہ دودھ سے بہتر کوئی غذا نہیں اس لئے دودھ پینے کی دعا میں مزید بہتر غذا کی تلقین نہیں کی گئی۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ بندوں کو جنت کی بشارت دی ہے اور احادیث میں آتا ہے کہ جنت میں دودھ اور شہد کی نہر یں ہوں گی حضرت عبداللہ ابن عباسؓ  روایت کرتے ہیں کہ رسوال اللہ ﷺ کو پینے کی چیزوں میں سے دودھ بہت مرغوب تھا۔ انسان عموماً گائے ، بھینس اور بکری کا دودھ استعمال کرتا ہے۔ انسان کی دودھ کے لئے بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر صنعتی پیمانے پر دودھ پیدا کیا جا رہا ہے۔ ڈیری کا کاروبار ایک منفعت بخش کاروبار بنتا جا رہا ہے۔ شمالی ہند خصوصاً پنجاب سے بھینسیں لائی جاتی ہیں اور انہیں دودھ آو ر غذائیں کھلا کر اور مخصوص قسم کے انجکشن لگا کر زیادہ سے زیاد دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔ دودھ اور اس سے متعلقہ اشیاء کی پیدا وار کے لئے گجرات کا آنند شہر ہندوستان میں کافی شہرت رکھتا ہے۔ ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ دودھ کو زیادہ عرصے تک محفوظ رکھنے کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے۔ پاؤڈر کی شکل میں بھی آج دودھ دستیاب ہے۔ چھوٹے بچوں کے لئے بازار میں مختلف اقسام کے دودھ کے ڈبے ملتے ہیں لیکن ہر ڈبے پر یہ ہدایت واضح طور پر لکھی ہوتی ہے کہ ’’ ماں کا دودھ بچے کے لئے بہتر ہے ‘‘۔

جہاں عمدہ دودھ حفظان صحت کی پابندی کرتے ہوئے استعمال کرنا آب حیات مانا گیا ہے وہیں خراب دودھ صحت کے لئے کافی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ دودھ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ بہت جلد اپنے اطراف کی مضر چیزوں کے اثر کو قبول کر لیتا ہے۔ چنانچہ کچے دودھ کے برتن کو مریض کے کمرے میں رکھ دیا جائے تو اطبائے جدید کے نزدیک مرض کے جراثیم بہت تیزی سے دودھ میں نشو نما پاتے ہیں۔ ماہرین کے بموجب کچے دودھ میں لاکھ احتیاط کے باوجود بیکٹریا کی بھاری مقدار شامل ہو جاتی ہے۔ لہذا بغیر گرم کئے کچا دودھ پینا صحت کے لئے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دودھ کو بار بار گرم کرنے سے بھی اس میں موجود وٹامن ضائع ہو جاتے ہیں۔ دودھ کو جوش دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ تیز آگ پر اسے چار پانچ منٹ گرم کر کر کھولنے دیں اس کے بعد ٹھنڈا کر کے استعمال کریں۔ دودھ کے گاڑھے پن کو ناپنے کے لئے Lactometreنامی آلہ دریافت ہوا ہے۔ خالص دودھ کی پہچان یہ ہے کہ خالص دودھ کی بہ نسبت ملاوٹ والا دودھ بہت جلد خراب ہو جاتا ہے۔ ہاتھ کو دھو کر ایک انگلی دودھ میں ڈبوئیں اگر انگلی کو دودھ لگا رہے تو یہ خالص ہے ورنہ دودھ میں پانی ملا ہوا ہے۔ دودھ کی اسی ملاوٹ سے اردو زبان میں بھی ایک محاورہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی مشہور ہے اس کے علاوہ دودھ کا دھلا، دودھوں نہاؤ وغیرہ محاورے مشہور ہیں۔ جہاں تک بچوں کو ماں کے دودھ پلانے کا سوال ہے تو یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ماں کے دودھ سے ہی بچے کی مناسب پرورش ہوتی ہے اور دودھ کے ذریعہ ماں کے اثرات بچوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ عرب میں چونکہ دایاؤں کے ذریعہ بچوں کو دودھ پلا کر پرورش کرنے کا نظام تھا چنانچہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ احمق اور فاحشہ عورتوں سے دودھ نہ پلواؤ کیونکہ دودھ کا اثر بچہ کے جسم اور اخلاق پر پڑتا ہے۔ اسلام نے بچے کو دودھ پلانے کی عمومی مدت دو سال رکھی ہے اور ڈھائی سال کے عرصے سے زیادہ دودھ پلانا حرام قرار دیا ہے۔ ماں کی صحت کا خیال کرتے ہوئے دو سال کے عرصے سے کم میں بھی بچے کا دودھ چھڑایا جا سکتا ہے۔ منجملہ ان تمام باتوں کے دودھ خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس لئے اسے خدا کا نام لے کر پینا چاہئے اور پینے کے بعد خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور دل میں یہ خیال ہو کہ جس طرح خدا نے دنیا میں ہمیں لذیذ دودھ عطا فرمایا اسی طرح جنت میں بھی عطا فرما۔

آج کے اس مصروفیت والے زمانے میں جب کہ انسان اپنی مصروفیات میں گم ہو کر رہ گیا ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں اپنے مقررہ وقت پر کھانا کھانے کی فرصت بھی نہیں ملتی انہیں دودھ کا استعمال زیادہ کرنا چاہئے تاکہ جسم کو درکار کیلشیم اور توانائی اس سے حاصل ہو سکے۔ مائع ہونے کی وجہ سے دودھ بالغ افراد میں غذا کا نعم البدل تو نہیں کہلا سکتا لیکن کسی حد تک غذا کی کمی سے ہونے والے نقصانات کی پابجائی ضرور کرسکتا ہے۔

کمزور انسانوں کے لئے بھی دودھ کا استعمال بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ خاص طور پر بڑھتی عمر والے بچوں کے لئے بوڑھوں کے لئے دودھ کا بکثرت استعمال ان کی کمزور ی دور کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے اور اس سے توانائی بھی حاصل ہوتی ہے۔

صحت کا خاص خیال رکھنے والے طبقات بھی دودھ کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور صبح کی اولین ساعتوں میں کثرت کرنے کے بعد دودھ کے استعمال کی تلقین کی جاتی ہے۔ اسی طرح عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ رات میں سونے سے کچھ دیر قبل لازمی طور پر مقررہ مقدار میں دودھ استعمال کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے صحت کی برقراری میں بہت بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے اور ان کی نشوونما بھی بہتر طریقہ پر ہوا کرتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

نمک کی اہمیت

 

 

غذا کے معاملے میں بنیادی طور پر انسان کو ذائقہ دار چیزیں پسند ہیں۔ زبان ہر قسم کے ذائقے کو چکھنا چاہتی ہے۔ اور غذاؤں کو ذائقہ دار بنا نے والی ایک بنیادی چیز نمک ہے۔ نمک چونکہ دنیا کے انسانوں کو کم خرچ پر اور با آسانی دستیاب ہو جاتا ہے۔ لہذا اس کی قدر نہیں کی جاتی لیکن نمک کی اہمیت کا اندازہ اس وقت بڑھ جاتا ہے جب بھولے سے کسی پکوان میں نمک نہیں پڑتا اور صرف نمک نہ ہونے کی وجہہ سے پکائی ہوئی قیمتی سے قیمتی شئے کا ذائقہ کم ہو جاتا ہے۔ بچوں کی ایک کہانی بھی مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنی اولاد سے پوچھا کہ وہ مجھے کس چیز سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں تب بادشاہ کی ایک بیٹی نے جواب دیا کہ آپ مجھے نمک سے زیادہ عزیز ہیں۔ بادشاہ کو یہ بات مضحکہ خیز لگی۔ کہ اسے نمک جیسی حقیر شئے پر فوقیت دی گئی جب کہ اس کی دوسری اولادوں نے قیمتی اشیاء پر اسے فوقیت دی تھی۔ بادشاہ کی لڑکی نے مناسب موقع پر اس بات کو سمجھانے کا وعدہ کیا۔ ایک دفعہ پڑوسی ملک کا بادشاہ اس بادشاہ کا مہمان بنا۔ اتفاق سے پکوان کی ذمہ داری بادشاہ کی اسی لڑکی نے سنبھالی جس نے اپنے باپ کو نمک پر فوقیت دی تھی۔ لڑکی نے جان بوجھ کر سارے پکوان بغیر نمک کے پھیکے بنائے۔ پھیکے کھانوں کی دعوت سے بادشاہ کی سبکی ہوئی تب لڑکی نے سمجھا یا کہ حقیر سمجھے جانے والے نمک کی کیا اہمیت ہے نمک قدرتی طور پر دنیا کے ہر علاقے میں پایا جاتا ہے۔ نمک کا بڑا ذخیرہ سمندر کے کھارے پانی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ سمندروں کے ساحل پر وسیع حوض تعمیر کئے جاتے ہیں۔ جس میں سمندر ی پانی کو سکھا کر نمک حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نمک پہاڑوں اور چٹانوں کو کاٹ کر اور زمین کی سطح سے بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ خالص نمک کوسوڈیم کلورائیڈ کہتے ہیں لیکن معدنی نمک میں بے شمار معدنیات جیسے سوڈیم سلفیٹ، کیلشیم کلورائیڈ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ نمک ایک ٹھوس اور ذائقہ دار شئے ہے۔ اس کا ذائقہ کھارا یا نمکین ہوتا ہے۔ ٹھوس نمک کو پیس کر اس کا سفوف بنایا جاتا ہے۔ خالص نمک کی یہ نشانی ہے کہ وہ پانی جذب نہیں کرتا۔ سمندروں یا چٹانوں سے حاصل ہونے والے نمک میں میگنیشیم کلورائیڈ شامل ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں نمی جذب ہوتی ہے۔ صاف کئے ہوئے نمک کا رنگ انتہائی سفید ہوتا ہے جب کہ ہندوستانی نمک میں سرخ اور گلابی رنگ کا شائبہ ہوتا ہے۔ انسانی اور حیوانی زندگی کے لئے نمک بے حد ضروری ہے۔

طبی لحاظ سے نمک کی اہمیت کا انداز ہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کو نمک کے استعمال سے روک دیا جائے تو وہ گھل گھل کر مر جائے گا۔ اسی طرح اگر جانوروں کو نمک کے استعمال سے روکا جائے تو وہ بیمار ہو کر ہلا ک ہو جاتے ہیں۔ بہت سے جانور نمکین پودے کھا کر اپنے جسم کے لئے درکار نمک کی مقدار حاصل کرتے ہیں۔

انسانوں اور حیوانوں کے جسم میں طبعی طور پر نمک کی ایک خاص مقدار ہر وقت موجود رہتی ہے۔ اگر اس میں کمی ہو جائے تو صحت خراب ہو جاتی ہے۔ طبی تحقیق کے مطابق انسان کو یومیہ کم از کم 1/21 اونس نمک ضرور استعمال کرنا چاہئے۔ گرم اور شدید آب و ہوا والے علاقہ میں کم از کم یومیہ ایک اونس نمک استعمال کرنا چاہئے کیونکہ گرمی کے سبب پسینے کے ذریعہ تیزی سے انسانی جسم سے نمک خارج ہوتا رہتا ہے۔ موسم گرما میں مشروبات میں ایک چمچ شکر کے ساتھ ایک چٹکی نمک لینا مناسب ہو گا یا گلوکوس کا پانی پابندی سے پینا چاہئے۔ نمک اور پانی کی کمی کا شکار ہو کر موسم گرما میں لو لگنے سے کئی لوگ بیمار پڑ جاتے ہیں اور ان میں سے چند موت کا شکار بن جاتے ہیں۔ لہذا ایسے لوگوں کو فوری طبی امداد حاصل کرنے اور گلو کوس لگوانے کی فکر کرنا چاہئے۔ نمک کی زیادتی بھی انسان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس سے خون کا دباؤ (Blood Pressure) بڑھ جاتا ہے اور اختلاج قلب اور دل کے دوسرے عوارض پیدا ہو جاتے ہیں۔ لہذا عمر رسیدہ افراد کو نمک کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہئے۔

دنیا کی تاریخ جتنی پرانی ہے نمک کے استعمال کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے۔ قدیم پتھر کے زمانے میں جب انسان نے جانوروں کا شکار کرنا سیکھ لیا تھا تب وہ کچا گوشت ہی چبا کر کھا جاتا تھا۔ آگ کی ایجاد کے بعد اس نے گوشت کو بھون کر کھانا سیکھ لیا تھا۔تب وہ کچا گوشت ہی چبا کر کھا جاتا تھا۔ آگ کی ایجاد کے بعد اس نے گوشت کو بھون کر کھانا سیکھا۔ نمک دریافت ہوا تو انسان نے گوشت کو نمک لگا کر کھانا سیکھا۔ یہیں سے اس کی غذا میں ذائقہ شامل ہونے لگا۔تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نمک کو سب سے پہلے چین والوں نے دریافت کیا۔ اس زمانے میں نمک کے حصول کا واحد ذریعہ سمندرتھے۔ قدیم یونانی لاطینی، سنسکرت کتابوں میں نمک کے استعمال کے واقعات ملتے ہیں۔ مصر کے لوگ اپنے مردوں کے جسموں کو نمک لگا کر محفوظ کیا کرتے تھے۔ فرعون مصر کی حنوط شدہ لاش آج بھی محفوظ ہے۔ اس کی حفاظت کے لئے استعمال کئے جانے والے مصالحوں میں اہم جز و نمک بھی ہے ہر زمانے میں مذہبی اعتبار سے بھی نمک کو اہمیت حاصل رہی ہے۔

2000 ق م میں چین کے بادشاہ ’’یو ‘‘ کے عہد میں نمک کو بڑا مقدس خیال کیا جاتا تھا۔ اور دیوتاؤں کے حضور پیش کی جانے والی قربانی کے گوشت کو نمک لگایا جاتا تھا۔ 1100ق م میں یونان میں تھیوگورس کے عہد میں نمک کو امن اور انصاف کے دیوتا کا مقام حاصل تھا۔ قدیم زمانے میں ہندو بھی نمک کو پوتر (پاک ) چیز تصور کرتے تھے۔ عیسائی نمک کو وفاداری اور عقل مندی کا نشان تصور کرتے ہیں۔ یہودی نمک کو میثاق یا معاہدہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے آپس میں اس کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اسلام میں بھی نمک کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نمک سے روزہ کھولنے کو افضل بیان کیا گیا ہے۔ صاحب جامع کبیر نے حضرت علیؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے علیؓ کھانا نمک کے ساتھ شروع کرنا چاہئے اس میں ستر امراض سے شفا رکھی گئی ہے۔ جس میں جنون، جذام، پیٹ درد، دانت درد وغیرہ شامل ہیں۔ حضور ﷺ کھیرے کو نمک کے ساتھتناول فرمایا کرتے تھے۔ نمک کے نام کے ساتھ ایفائے عہد، وفاداری وغیرہ کے محاورے اردو ادب میں ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ وفاداری نبھانے والے کو نمک حلال اور غداری کرنے والے کو نمک حرام کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ نمک کھانا نمک کا حق ادا کرنا وغیرہ محاورے بھی مشہور ہیں۔ نمک غذا میں استعمال ہونے کے علاوہ دیگر اشیا کی تیاری میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس سے ایش سوڈا، کاسٹک سوڈا، سالٹ کیک، صابن، گلیسرین، بارود، بلیچنگ پوڈر اور ہائیڈروکلورک ایسڈ بنتے ہیں۔ نمک جانوروں کی کھال سکھانے کھاد بنانے ، مچھلی کو محفوظ کرنے کے کام بھی آتا ہے۔ آج کل طبی ماہرین بچوں اور حاملہ خواتین کو آیوڈین ملے نمک کے استعمال پر زور دے رہے ہیں تاکہ بچوں کو مختلف امراض سے بچایا جا سکے۔ مختلف زبانوں میں نمک کے مختلف نام ہیں۔ اسے اردو اور فارسی میں نمک، عربی میں ملح، ہندی اور تلگو میں نون، انگریزی میں سالٹ کہا جاتا ہے۔ نمک کا سائنسی نام سوڈیم کلورائیڈ (NaCl ) ہے۔ غرض نمک خدا کی جانب سے انسانوں کو عطا کر دہ ایک عظیم نعمت ہے۔ جس پر انسان کو اپنے خدا کا شکر گذار ہونا چاہئے اور نمک کی قدر کرنا چاہئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

لاشعاعیں X Rays

 

 

زمانہ قدیم میں حکماء اور اطباء نبض دیکھ کر لوگوں کے امراض کی تشخیص کرتے تھے۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ بیماریوں میں تنوع آتا گیا۔ نئی نئی بیماریاں وجود میں آئیں اور ان بیماریوں کی صحیح تشخیص کے لئے آلات اور مشینوں کا استعمال ہونے لگا۔ انسانی جسم کی ہڈیوں کی ساخت اور دیگر اندرونی کیفیات جاننے کے لئے جو اہم سائنسی دریافت ہوئی ہے وہ لا شعاعیں یا X Ray ہیں۔ یہ شعاعیں چونکہ ٹھوس اشیاء میں سے نہیں گذر سکتی ہیں۔ اس لئے یہ جسم انسانی میں عضلات اور گوشت سے آسانی سے گذر کر ہڈیوں کا سایہ بناتی ہیں۔ ہڈیاں چونکہ ٹھوس ہوتی ہیں اس لئے یہ غیر مرئی شعاعیں ہڈیوں کا سایہ بناتی ہیں۔ چنانچہ ہاتھ پیر یا پسلی کی ہڈیوں کے ٹوٹنے یا ان میں تڑخ پیدا ہو جانے کی صحیح جانچ کے لئے ڈاکٹر فوراً ایکسرے کی مدد لیتے ہیں۔ طب کے علاوہ یہ شعاعیں صنعت اور سائنسیتحقیقات میں بہت معاون ہیں۔

ایکسرے یعنی لا شعاعوں کو 1895ء میں رانجن (Reontgen) نامی سائنس دان نے پہلی مرتبہ دریافت کیا۔ اس سائنس دان کا مکمل نام ویلہلم کو نارڈر انجن تھا۔ ورزبرگ بواریا کی یونیورسٹی میں زائد از 25 برستک اس نے ماہر طبعیات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 5 نومبر 1895ء کو دوران تجربات اتفاقیہ طور پر اس نے چند ایسی غیر مرئی شعاعوں کو دریافت کر لیا تھا کہ ان کے خواص سے وہ خود بھی ناواقف تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی دریافت کردہ پراسرار شعاعوں کا نام X Rays رکھا۔

لا شعاعوں کی دریافت کے وقت پروفیسر رانجن منفی شعاعوں کے بارے میں تجربات کر رہا تھا یہ منفی شعاعیں اخراجی نلی میں ہوا کے کم دباؤ پر نلی میں برقی رو گذارنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ منفی شعاعوں کے اخراج کے لئے استعمال کی جانے والی نلی کا نام کرو کس، نلی تھا۔ جسے برطانوی سائنس دان سرولیم کروکس نے دریافت کیا تھا۔ کروکس نلی کو لے کر ہی رانجن نے اپنے تجربات جاری رکھے کروکس نلی میں منفی برقی ر ہ ایک فلامنٹ یا تار کی شکل میں ہوتا ہے اور اسے برقی سے منسلک کیا جاتا ہے۔ جب تار میں برقی رو گذاری جاتی ہے تو اس میں عجیب و غریب روشنی پیدا ہوتی ہے۔ جس کا رنگ گہرا زرد ہوتا تھا۔ رانجن کو یہ علم تھا کہ کروکس نلی سے مخصوص فاصلے پر اگر چند دھاتیں رکھی جائیں تو ان دھاتوں سے ٹکرا کر یہ شعاعیں چمک پیدا کریں گی۔ چنانچہ مالبڈینم کے دھاتی ٹکڑے سے شعاعوں کو ٹکرایا گیا۔ دھات کا یہ ٹکڑا شعاعوں سے 45ڈگری مائل رہتا ہے رانجن نے ان شعاعوں کا اثر جاننے کے لئے ان کی چمک دیکھنے کے لئے نلی سے کچھ فاصلے پر نمک کا لیپ کردہ ایک کاغذ رکھا۔ عموماً یہ نمک بیریم پلاٹی نو سایانا ئیڈ ہوتا ہے۔ اس نے کروکس نلی کو سیاہ کاغذ سے ڈھانک دیا اور نلی میں برقی رو دوڑانے کے بعد سیاہ کاغذ کو آہستہ آہستہ حرکت دی تو ایک موقع پر اسے شعاعوں کی چمک دکھائی دی۔ ابتداء میں اسے اپنے تجربے پر یقین نہیں آیا اور اس نے دوبارہ تجربے کو دہرایا۔ بعد میں رانجن نے ان عجیب و غریب غیر مرئی شعاعوں کے خواص جاننے کی کوشش کی۔ اس نے محسوس کیا کہ لیپ کردہ کاغذ اور کروکس نلی کے درمیان ایک دھاتی ٹکڑا رکھا جائے تو شعاعوں میں دھاتی ٹکڑے کا سایہ پڑ رہا ہے یعنی یہ شعاعیں دھاتی ٹکڑے میں سے گذر نے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اس نے ایک دھاتی کنجی کا عکس حاصل کیا اور اتفاقاً جب شعاعوں کی آڑ میں اس نے اپنا ہاتھ رکھ دیاتو اسے اپنے ہاتھ کی ہڈیوں کا عکس دکھائی دیا۔ یہیں سے ان شعاعوں کی اہمیت بڑھی۔ چونکہ ان شعاعوں کو سب سے پہلے رانجن نے دریافت کیا تھا لہذا اس کے اعزاز میں ایک عرصہ لا شعاعوں کو رانجن شعاعیں کہا جاتا رہا۔تاہم آج یہ ایکسرے کے نام سے انسانی زندگی کی اہم خدمات انجام دی رہی ہیں۔ زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں نے ان شعاعوں کے مزید خواص اور استعمالات دریافت کئے۔ لا شعاعیں خط مستقیم میں سفر کرتی ہیں۔ یہ شعاعیں روشنی کی رفتار یعنی 3×108 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ یہ شعاعیں مقناطیسی یا برقی میدان سے منحرف نہیں ہوتیں یہ شعاعیں زنک سلفائیڈ جیسی اشیاء پر پڑتی ہیں تو چمک پیدا کرتی ہیں۔ یہ شعاعیں جن گیسوں سے گذرتی ہیں ان میں روانی پیدا کرتی ہیں۔ یہ شعاعیں ایسے مادے سے گذرتی ہیں جن میں سے عام روشنی نہیں گذر سکتی یہ فوٹو گرافی تختیوں کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ شعاعیں انسانی جسم پر بہت زیادہ دیر تک پڑتی رہیں تو نقصان پہنچاتی ہیں۔ لہذا ریڈیو گرافی مشینوں کے قریب کام کرنے والے کو محتاط رہنا چاہئے ورنہ کینسر کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ لا شعاعیں شعبہ طب میں میں ہڈیوں کے ٹوٹنے ، گردے کی پتھری کا مقام معلوم کرنے یا جسم میں گولی لگی ہو تو اس کا مقام معلوم کرنے کے لئے مرض دق کی پہچان میں استعمال ہوتی ہیں۔ صنعتوں میں لا شعاعیں چیزوں کی تڑخ یا شگاف کو معلوم کرنے اور دھاتوں میں سوراخ ڈالنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ جرائم کی تحقیقات میں لا شعاعیں بہت فائدہ بخش ہیں۔ طیران گاہوں پر کسٹمز کے عہدیدار ہتھیاروں اور اسمگلنگ کی اشیا ء کا پتہ چلانے میں ان شعاعوں سے مدد لیتے ہیں۔ سالمات اور قلموں کی ساخت سمجھنے اور سائنسیتحقیقات میں یہ شعاعیں کار آمد ہیں۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ ایکسرے مشینوں کی ہئیت میں بھی تبدیلی آتی گئی اور اب پورٹیبل ایکسرے مشین بھی دستیاب ہیں۔ لا شعاعوں کی دریافت پر رانجن کو 1901ء میں طبعیات کا نوبل انعام دیا گیا 1923ء میں اس کا انتقال ہوا۔ رانجن کی دریافت کی جاری رکھتے ہوئے ہنری بیکرل اور میری کیوری وغیرہ نے تابکار اشیاء کے بارے میں تحقیقات کیں۔

رانجن ایک جرمن سائنسدانتھا۔ اس نے جس وقت لا شعاعوں یا ایکسرے کو دریافت کیا تو وہ دراصل کوئی دوسری دریافت میں مصروف تھا ایکسرے کا نام بھی عجیب و غریب وجہ سے پڑا ہے۔ کیونکہ انگریزی میں نامعلوم کے لئے ایکس کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا اس لئے ان شعاعوں کا نام ایکس رے پڑ گیا۔ ایکس رے کے دیگر استعمالات کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی چیز میں بائیلو جیکل کیمیکل اور فزیکل تبدیلیاں بھی لا سکتے ہیں ۔

٭٭٭

 

 

 

 

حرام اور حلال جانور

 

 

خالق کائنات نے اس دنیا میں کم و بیش 18000 چھوٹی بڑی مخلوقات کو پیدا کیا اور ان میں اپنی تخلیق کے شاہکار انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اسے منصب خلافت سے سر فراز کیا۔ چھوٹی بڑی ہزاروں مخلوقات خدا نے کسی نہ کسی طرح انسان کے لئے بنائیں اور انسان کا مقصد تخلیق خدا کی عبادت قرار دیا۔ اس سرزمین پر جتنے بھی جاندار ہیں ان میں توازن پیدا کرنے کے لئے خدا نے ایک کی ضرورت دوسرے پر منحصر کر دی۔ جاندار اپنی غذائی ضروریات کی تکمیل کے لئے دوسرے جانداروں پر انحصار کرتے ہیں اور اسی طرح زندگی کا چکر چلتا رہتا ہے اور کائنات میں توازن قائم رہتا ہے۔ اگر ایک قسم کے جانداروں کا دوسرے پر انحصار نہ ہوتا تو اس کائنات کا توازن بگڑ جاتا اور ہر طرف جانور اور پیڑ پودے ہی نظر آتے اور انسانی زندگی کا وجود نا ممکن ہو جاتا ہے۔ انسان کے علاوہ دوسرے جانوروں کی غذا ئی ضروریات محدود ذرائع سے پوری ہوتی ہیں۔ لیکن انسان کی غذائی ضروریات میں تنوع پایا گیا ہے۔ زمین سے پیدا ہونے والے غلے ترکاری پھل پھول کے علاوہ انسان کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل کا بہت حد تک انحصار جانوروں پر بھی ہے۔ مختلف قسم کے جانوروں کے گوشت دودھ اور چربی وغیرہ سے انسان کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ خصوصاً سرد علاقوں کے لوگوں کے لئے گوشت کا استعمال ناگزیر ہے۔ جانوروں کا گوشت انسان کی غذا میں داخل ہو کر اس کے بدن کا اہم جزو بنتا ہے۔ قدرت نے مختلف جانوروں میں مختلف خصوصیات اور اثرات رکھے ہیں اور یہ اثرات گوشت کے استعمال کے ساتھ انسان کی فطرت اور مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چنانچہ ابتدائے آفرینش سے سلیم الطبع انسانوں نے اچھے اور برے جانوروں کی تقسیم کر دی۔ انسان درحقیقت سلیم ا لطبع واقع ہوا ہے اور وہ اپنے لئے اچھی چیزپسند کرتا ہے۔ لیکن زمانے میں اچھے اور برے لوگ واقع ہوتے ہیں اور بھی جاہلانہ رسوم کے سبب یا کسی اور وجہ سے انسانوں میں اچھے اور برے کی تمیز اٹھ جاتی ہے تو انسان بری چیز کو بھی اچھی چیز سمجھنے لگتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہر زمانے میں انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے دنیا میں پیغمبر مبعوث فرمائے تاکہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لایا جا سکے۔ پیغمبروں کی تربیت خدا تعالیٰ راست کرتا ہے۔ لہذا جانوروں کے معاملہ میں انہوں نے جن چیزوں کو خبائث قرار دیا وہ حقیقتاً خبیث ہیں اور جن چیزوں کو طیبات سمجھا وہ حقیقتاً پاک ہیں انسان اگر پاک چیزیں استعمال کرے گا تو اس کے جسم سے نیک اعمال ظاہر ہوں گے اور اگر وہ خبیث چیزیں استعمال کرے گاتو جانوروں کی خباثت کے زیر اثر اس کے اخلاق خراب ہوں گے اور اس کے جسم سے سرزد ہونے والے اعمال برے ہوں گے۔ اسلام ایک دین فطرت ہے اور زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اسلام نے قرآن اور حدیث کے ذریعہ حرام و حلال جانوروں کے فرق کو واضح کر دیا۔ شریعت اسلام نے جتنے جانور حرام قرار دیئے ان سب پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ دو اصولوں کے تحت حرام قرار دیئے گئے۔ ایک یہ کہ کوئی جانور اپنی فطرت و طبیعت کے اعتبار سے خبیث ہو دوسرے یہ کہ اس کے ذبح کا طریقہ غلط ہو جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ مردار قرار دیا جائے گا۔ اور ہر زمانے میں مردار جانور کو حرام اور ممنوع قرار دیا گیا قرآن شریف کے سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں جانوروں کی حرمت کے تعلق سے نو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں قسم اول کے تحت خنزیر کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے جانوروں کے خبیث یا حرام ہونے کے چند ضابطے بیان فرمائے ایکتو یہ کہ وہ جانور خبیث ہے جس کی شکل میں بدلتے ہوئے بعض سابقہ اقوام پر خدا تعالیٰ نے عذاب نازل فرمایا تھا۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ ’’یعنی بعض قوموں کو خنزیر اور بندر کی شکل میں بطور عذاب مسخ کیا گیا‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جانوروں کی یہ دونوں قسمیں طبع سلیم کے اعتبار سے خبیث ہیں۔ خبیث جانوروں کی ایک قسم ایسی ہے جو چیر پھاڑ کرتے ہیں یا چیزوں کو اچک لیتے۔ شیر، ببر، چیتا، سانپ، بچھو، چھپکلی، مکھی، چیل اور باز وغیرہ۔ اس قسم کے خبیث جانوروں میں شامل ہیں۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے ضابطہ کے طور پر فرمایا کہ ہر درندہ جانور جو دانتوں سے پھاڑ کر کھاتا ہے جیسے شیر بھیڑیا وغیرہ وہ اور پرندوں میں وہ جانور جو اپنے پنجے سے شکار کرتے ہیں جیسے باز شکرہ وغیرہ۔ یہ سب حرام ہیں یا ایسے جانور جن کی طبیعت میں ذلت اور نجاست میں ملوث ہونا شامل ہے جیسے چوہا یا مردار خور جانور جیسے گدھ وغیرہ یا گدھا یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ ہر ذی شعور انسان ان کے طبعی خواص اور ان کے مضر ہونے سے واقف ہے۔ حرام ہیں۔ سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں جانوروں کی حرمت سے متعلق جو نو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ اس طرح ہیں اس آیت میں کہا گیا کہ تم پر مرد ار جانور حرا م کئے گئے۔ مردار جانور وہ ہیں جو بغیر ذبح کئے کسی بیماری کے سبب یا طبعی موت سے مر جائیں۔ ایسے مردار جانور کا گوشت، طبی، طور پر اور روحانی طور پر انسان کے لئے مضر ہے۔ حدیث شریف کے ذریعہ حضور اکرم ﷺ نے مردار جانوروں میں دو کو یعنی، مچھلی اور ٹڈی کو مسثنیٰ قرار دیا۔ اس آیت کے ذریعہ حرام کی جانے والے دوسری چیزیں خون ہے۔ یہاں خون سے مراد بہنے والا خون ہے۔تاہم جگر اور تلی کو جو کہ باوجود خون کی شکل ہونے کے مسثنٰی قرار دیا گیا ہے۔تیسری چیز خنزیر کا گوشت ہے۔ اس میں اس کا پورا بدن جس میں چربی وغیرہ بھی شامل ہے سب کو حرام قرار دیا گیا چوتھے وہ جانور حرام قرار دیا گیا جو غیر اللہ کے لئے نامزد کیا گیا ہو اور ذبح کے وقت اللہ کے علاوہ کسی غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ پانچویں وہ جانور حرام قرار دیا گیا جو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہو یا خود ہی جال وغیرہ میں پھنس کر اس کا دم گھٹ گیا ہو۔ چھٹے وہ جانور حرام ہیں جو کسی شدید ضرب سے ہلاک ہوا ہو۔ ساتواں وہ جانور جو کسی پہاڑ ٹیلہ یا اونچی عمارت یا کنویں وغیرہ میں گر کر مر جائے وہ بھی حرام ہے۔ آٹھویں وہ جانور جو کسی ٹکر یا تصادم سے ہلاک ہو جائے۔ خواہ کسی گاڑی یا موٹر کے تصادم سے یا

جانوروں کے آپسیتصادم سے ہلاک ہو تو وہ حرام ہے۔ نویں وہ جانور حرام ہے جسے کسی درندے نے چیر پھاڑ کر کے زخمی کر دیا اور اس کے سبب وہ مر گیا ہو۔ آخر میں یہ چھوٹ دی گئی ہے کہ اگر ان جانوروں میں سے تم نے کسی کو زندہ پا لیا اور ذبح کر لیا تو وہ حلال ہو گیا۔ اس کا کھانا جائز ہے۔ اس کے علاوہ زمانہ جاہلیت کی رسوم کے تحت کعبہ کے گرد کھڑے کئے گئے پتھروں پر ذبح کئے جانے والے جانور اور قسمت آزمائی کے تیر زلم سے مارے ہوئے جانوروں کو بھی حرام قرار دیا گیا اور جہاں تک حلال جانوروں کا تعلق ہے اس کا اشارہ سورہ مائدہ کی پہلی آیت میں اور سورۃ انعام کی آیات ۱۴۳۔ ۱۴۴ میں کیا گیا۔ جس کا خلاصہ یہی ہے کہ پہلے بیان کئے گئے حرام جانوروں کی قسموں کے علاوہ چو پائے مویشی اور گھریلو جانور جیسے اونٹ، گائے ، بھینس، بکری وغیرہ جانوروں کی آٹھ قسمیں حلال کی گئیں۔ حلال و حرام جانوروں کے بارے میں ایک نکتہ قابل غور یہ بھی ہے کہ اللہ نے جن جانوروں کو حلال کیا ہے وہ پیدا تو ایک یا دو ہوتے ہیں اور ان کی پیدائش کا وقفہ بھی طویل ہوتا ہے۔ روز آنہ لاکھوں جانور ذبح کئے جاتے ہیں لیکن ان کی نسل ختم ہی نہیں ہوتی۔ اس کے بر خلاف حرام جانور جیسے خنزیر کتا وغیرہ یہ ایک ایک جھول میں کئی کئی بچے جنم دیتے ہیں لیکن قدرت کا انتظام دیکھئے کہ یہ بہت کم تعداد میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ حلال جانوروں کی پرورش و حفاظت کا انتظام اللہ تعالیٰ نے اس انداز میں کر رکھا ہے کہ جتنی زیادہ تعداد میں یہ ذبح ہوں گے اتنی ہی زیادہ تعداد ان کی دکھائی دے گی۔ بہر حال جانوروں کے حلال و حرام ہونے کی تقسیم بتاتے ہوئے اللہ نے انسان کو جہاں اپنے احکامات پر عمل آوری کے ذریعہ اس کے محبوب بندے بننے کی دعوت دی ہے تو وہیں اس کی مناسب جسمانی اور روحانی تربیت کا سامان کیا ہے۔ ہر سال عید الاضحی کے موقع پر دنیا بھر میں لاکھوں جانور ذبح ہوتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ روزانہ غذا کے طور پر بھی لاکھوں جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ لیکن کیا بات ہے کہ ان جانوروں کی نسل ختم ہی نہیں ہوتی۔ اس سے ان لوگوں کو سبق سیکھ لینا چاہئے جو سبزی خور ہوتے ہیں۔ اور گوشت خور لوگوں کو ظالم سمجھتے ہیں۔ ان جانوروں کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے۔ اس لئے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ذبح ہونے کے باوجود ہر سال ایک نئی نسل ان جانوروں کی تیار رہتی ہے۔ اور ایک قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب کسی جانور کو ذبح کیا جاتا ہے تو کوئی جانور یہ نہیں کہتا یا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں قربان نہیں ہو گا۔ ہر جانور بلا چوں و چرا قربان ہو جاتا ہے۔ اور اللہ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے۔ جانوروں کی اس عادت سے انسان کو بھی سبق سیکھنا چاہئے کہ وہ بھی اللہ کے لئے اپنی عزیز چیزیں قربان کرنے کے قابل بنیں۔ جیسے کہ حضرت ابراہیم ْؑ علیہ السلام نے رہتی دنیا تک مثال پیش کی۔

٭٭٭

 

 

 

 

انفارمیشن ٹیکنالوجی کیا ہے ؟

 

 

اکیسویں صدی معلومات کی صدی ہے۔ انسان نے دنیا کے کئی شعبوں میں ترقی کی ہے تاکہ زندگی کو بہتر اور آرام دہ بنایا جا سکے۔ انسانی ایجادات کے فائدے اور نقصانات مساوی ہیں اسلئے انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اطراف ہو رہی تبدیلیوں سے با خبر رہے اور اپنی زندگی کو بہتر بنائے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کا مطلب معلومات کو پیدا کرنا، جمع کرنا،تجزیہ کرنا اور دوسروں تک پہنچانا ہے۔ دنیا میں اطلاعات کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا ہے۔ اب ان معلومات کی لوگوں تکترسیل کی ضرورت نے انفارمیشن ٹکنالوجی کو جنم دیا ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ پیداوار کے لئے کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرتے تھے اور محنت مزدوری کے بعد روزگار حاصل کر کے اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ آج نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ایسے اداروں میں کام کر رہا ہے جہاں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر معلومات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائی جاتی ہوں۔ اس کام کیلئے انہیں معاوضہ بھی اچھا ملنے لگا ہے۔ چاہے کوئی انسان بنک میں کام کر رہا ہو یا ریلوے کا ٹکٹ بک کر رہا ہو۔ ٹیلی ویژن پر نیوز پڑھ رہا ہو یا بڑے اسٹور میں سامان کی فہرست بنا رہا ہو ہر جگہ کمپیوٹر کا استعمال شروع ہو گیا ہے۔ ہندوستان ایک زرعی ملک تھا جس کی 70 فیصد آبادی زراعت کا کام کرتی تھی۔ اب ہندوستان ایک انفارمیشن سوسائٹی میں تبدیل ہو رہا ہے معلومات کو عوام تک، جلد اور تیزی سے پہنچانے کے ذرائع میں بھی ترقی ہوئی۔ پہلے چھاپہ خانوں کی ایجاد سے اخبار اور کتابوں کی اشاعت سے معلومات لوگوں تک پہنچائی جا رہی تھیں۔ بعد میں ٹیلی گراف، ٹیلی فون، فیاکس، ای میل، جیسی جدید ٹکنیکوں اور سہولتوں کے ایجاد ہونے سے کم وقت میں زیادہ معلومات ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ پہلے لوگ اپنے عزیزوں کی خیریت معلوم کرنے کیلئے ڈاکیہ کا انتظار کرتے تھے۔ اب فون کی سہولت سے گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی حصہ میں موجود اپنے رشتے دار سینہ صرف بات کرسکتے ہیں بلکہ انٹرنٹ پر بیٹھ کر اُسے بات کرتا ہوا دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اسطرح معلومات کی فراہمی سے رفتار تیز ہو گئی ہے۔ آج کا دور کمپیوٹر اور انفارمیشن کا دور ہے۔ اور اس دور میں تعلیم یافتہ کی تعریف بھی بدل گئی ہے۔ آج اس شخص کو تعلیم یافتہ کہا جا رہا ہے جسے کمپیوٹر خود سے استعمال کرنا آتا ہو۔ اور اگر کسی شخص کو کمپیوٹر چلانا نہیں آتا تو وہ ایک قسم کا جاہل ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اثرات بھی دور رس ثابت ہو رہے ہیں۔ زرعی اور صنعتی ترقی کی طرح انفارمیشن ٹکنالوجی نے بھی دنیا کو ’’انفارمیشن سوسائٹی‘‘ میں تبدیل کر رہا ہے۔ دنیا میں مواصلات اورترسیل کی حدیں ٹوٹ گئی ہیں۔ اور دنیا ایک ’’گلوبل ولیج‘‘ یعنی ’’چھوٹے سے دیہات‘‘ میں بدل گئی ہے۔ معلومات کی ترقی سے تجارت، صنعت، تعلیم و تربیت، فنو ن لطیفہ،تفریح، سائینس، انجینرنگ جیسے شعبوں میسترقی کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ جس سے انسانیتہذیب نے ترقی کی سمت جست لگائی ہے۔ ٹیلیفون فیاکس، اور Email سے کم وقت میں زیادہ کام ہونے لگا ے۔ دفاتر میں کمپیوٹر کے آ جانے سے اور تجارتی اداروں میں کمپیوٹر کے نٹ ورک لگا دینے سے ای کامرس یعنی تیز رفتار تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ آج ATM کے ذریعہ ملک کے کسی بھی حصے سے اپنے اکاونٹ سے 24گھنٹے میں کبھی بھی رقم نکالی جا سکتی ہے کسی بھی علاقے کا ٹکٹ کہیں بھی ریز رو کرایا جا سکتا ہے۔ آج کل ٹیلی شاپنگ کا رواج بھی عام ہو رہا ہے۔ کارخانہ میں پیداوار کیلئے کمپیوٹر سے مدد لی جا رہی ہے۔ مسئلہ کپڑے ڈیزائن کرنے کا ہویا کسی اور پیداوار کا بلڈنگ کا نقشہ بنانا ہویا کوئی منصوبہ بنانا ہو، کمپیوٹر کے پروگرام Autocad سے مدد لی جا رہی ہے اور خوبصورت ڈیزائن تیار کئے جا رہے ہیں تعلیم و تربیت کے میدان میں بھی کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹکنالوجی سے مدد لی جا رہی ہے۔ کلاس میں تدیس محدود طلباء کیلئے ہوتی ہیں۔ جبکہ ٹیلی ویثرن پر دیکھا جا رہا سبق ساری ریاست اور سارے ملک کے بچے دیکھ اور سُن سکتے ہیں۔ ایک ماہر استاد انفارمیشن ٹکنالوجی کی مدد سے سارے ملک کے بچوں کی تربیت کرسکتا ہے آندھرا پردیش میں امبیڈ کر اوپن یونیورسٹی، Mana Tv اور ہندوستان بھر میں اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی کے پروگرام، ٹیلی ویژن پر کامیابی سے دکھائے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کی حکومت نے کمپیوٹر کو عام انسان اور غریب طالب علم تک آسانی سے پہنچانے کی خاطر حال ہی میں تیار کردہ TABLET COMPUTERکا افت تاح کیا ہے۔ اور امید کی جا رہی ہے کہ اگلے سال سے یہ چھوٹا لیاپ ٹاپ کمپیوٹر سارے ہندوستان کے طلبا کو صرف دو ہزار روپئے میں فراہم کیا جائے گا۔ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں انفارمیشن ٹکنالوجی سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ریموٹ سینسنگ کے ذریعہ مواصلاتی سیاروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ موسم کی پیش قیاسی کی جاتی ہے۔ اب سونامی وارننگ سسٹم بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ طب کے میدان میں جنگی سازو سامان کی تیاری میں میں روزمرہ تعمیراتی کاموں میں کمپیوٹر پروگراموں کی مدد لی جا رہی ہے۔تفریحی میدان میں فلموں کی تیاری میں کمپیوٹر سے مدد لی جا رہی ہے۔ کارٹون فلمیں کمپیوٹر کی ہی دین ہیں۔ رقص، موسیقی، فیشن ڈیزائن، انٹیر یر ڈیزائن وغیرہ میں کمپیوٹر پروگرام مدد کر رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ساری دنیا میں خبروں کی فراہمی کا نظام تیز کر دیا ہے۔ اب دنیا کے کسی بھی حصہ میں کچھ بھی واقعہ ہو جائے فوری اس کی اطلاع ساری دنیا میں لوگوں کو مل جا رہی ہے۔ اور کسی علاقے کے حالات سے لوگ ٹی وی اور انٹر نیٹ سے باخبر ہو جار ہے ہیں۔ اس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ انفارمیشن ٹکنالوجی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ اس سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔ اور ثرصاً سر کا تازہ شمارہ مکمل کر دیا ہے۔ پی ڈی اف فائل بھی بھیج رہا ہوں۔ اب باقی کام تمہارا۔

تیز رفتار ترقی ہو رہی ہے۔ لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان جیسے غریب ملک میں جہاں آج بھی لاکھوں لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی گذار رہے ہیں۔ اور بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا اور مکان کی فکر میں ہیں۔ انہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کیسی مدد کر سکتی ہے۔ آ ج معلومات کے طوفان سے انسانی زندگی میں وقت کی کمی ہو گئی ہے۔ اچھی قدروں کا فقدان ہو گیا ہے۔ انسانی رشتوں کاتقدس ختم ہو رہا ہے۔ جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور زندگی کا سکون ختم ہو گیا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان کو ضرورت کی حد تک ہی معلومات رکھنی چاہئے۔ اور غیر ضروری معلومات کے حصول کے ذریعے اپنی زندگی کا قیمتی وقت برباد نہیں کرنا چاہئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہندوستان میں ٹیلی ویژن کی ترقی

 

 

ٹیلی ویژن موجودہ زمانے کا موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔ اور یہ انسانی زندگی کا نا گزیر حصہ بن چکا ہے۔ اس کے اثرات اخبار، ریڈیو اور فلم کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ٹیلی ویژن کی ابتداءتو کافی دیر سے ہوئی لیکن اس کی ترقی بہت تیز رفتار رہی۔ لفظ ٹیلی ویژن دو الفاظ کا مرکب ہے۔ ٹیلی یونانی لفظ ہے جس کے معنی بہت دور سے اور ویژن لاطینی لفظ ہے جس کے معنی دیکھنا یا دکھائی دینا ہے اس طرح ٹیلی ویژن کے معنی بہت دور کی چیز کو دیکھنا ہیں۔ ٹیلی ویژن کی ایجا د سے قبل ریڈیو مواصلات کا اہم ذریعہتھا۔ اور بغیر آواز کی متحرک فلم بھی پردے پر پیش ہونے لگی تھی۔ جلد ہی سائینس دانوں نے تصویر کی حرکت اور آواز کو ایک ساتھ پیش کرنے اور پھر ان دونوں کو لہروں میں بدل کر دورتک بھیجنے اور ان لہروں کو دوبارہتصویر اور آواز کی شکل میں حاصل کرنے کے طریقے ایجاد کر لئے۔ جو ٹیلی ویژن کی ایجاد کا ذریعہ بنے۔ ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغاز سب سے پہلے 1920ء میں امریکہ میں ہوا۔ یہ نشریات تجرباتی طور پر ہوئی تھیں۔ اس وقت تصویر کو بدلنے کی رفتار کمتھی۔ اس لئے وہ آج کی طرح زندہ جاوید اور چلتی پھرتی تصویریں محسوس نہیں ہوتی تھیں۔ لیکن ٹیلی ویژن کے ابتدائی تجربات فائدہ مند رہے اور بہت جلد ٹیلی ویژن کا خواب حقیقت بنا۔ 1936ء میں بی بی سی نے دنیا کی پہلی ٹیلی ویژن سرویس کا آغاز کیا۔ 1940ءتک امریکہ میں بھی ٹیلی ویژن کو فروغ حاصل ہو گیا۔ اور دور تک ٹیلی ویژن کی نشریات بھیجی جانے لگیں۔ امریکہ میں NBC,RCAنشریاتی کمپنیاں شروع ہوئیں۔ اور 1950ءتک وہاں رنگین ٹیلی کاسٹ کا بھی آغاز ہو گیا۔

ہندوستان میں ٹیلی ویژن کی ابتداء 15ستمبر1959ء سے یونیسکو کے ایک پائلٹ پروجیکٹ کے تحت ہوئی۔ جس کے تحت یہ معلوم کیا گیا کہ یہاں پسماندہ طبقات کی تعلیمی ترقی میں ٹیلی ویژن کس قدر فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ 1961ء میں آل انڈیا ریڈیو نے اسکول ٹیلی ویژن کے نام سے ٹیلی ویژن پروگرام شروع کیا۔ جس کے لئے دہلی اور اطراف کے علاقوں میں ٹیلی ویژن سیٹ لگائے گئے اور دہلی میں پانچ سو واٹ کا ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا۔ 1965ءتک ہفتہ میں صرف ایک دن ایک گھنٹے کے پروگرام نشر ہوتے تھے۔ 1965ء سے روزانہ ایک گھنٹے کے پروگرام پیش کئے جانے لگے جن میں کچھ تفریحی پروگرام بھی ہوا کرتے تھے۔ 1976ءتک ہندوستان میں ٹیلی ویژن کے لئے علٰیحدہ محکمہ نہیں تھا۔ اسی برس دوردرشن کے نام سے ٹیلی ویژن کے لئے علاحدہ محکمہ کام کرنے لگا۔ 1982ء میں ہندوستان میں ایشیائی کھیلوں کا انعقاد عمل میں آیا۔ اور یہاں ٹیلی ویژن نشریات میں بھی انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ مواصلاتی سیاروں اور ٹرانسمیٹروں کے ذریعے ملک کے دور دراز علاقوں میں ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز کیا گیا۔ دہلی میں منعقدہ ایشیائی کھیلوں کو براہ راست ملک بھر میں ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ اور اسی برس ہندوستان میں رنگین ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا۔ اور ملک بھر ٹیلی ویژن کو مقبولیت ملی۔ ملک کا پہلا کامیاب ٹیلی ویژن سیرئیل ہم لوگ 1984ء میں دکھایا گیا۔ ٹیلی ویژن کے ذریعے اشتہارات کو فروغ ہوا۔ 1992ء میں ملک میں بیرونی سٹلائٹ چینل دکھائے جانے لگے۔ ڈش انٹینا اور کیبل ٹی وی کے ذریعے ناظرین کو ان کی پسند کے کھیل اور تفریح کے چینل ایک سے زیادہ کی تعداد میں دکھائے جانے لگے۔ جو چوبیس گھنٹے پروگرام پیش کرتے تھے۔ اسٹار، زی اور سونی ٹی وی نے نشریات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے علاقائی زبانوں میں بھی اس طرح کے کئی چینل شروع ہو گئے۔ دوردرشن نے بھی اپنا دوسرا چینل شروع کیا۔ بعد میں علاقائی چینل بھی شروع کئے گئے۔ نیشنل پروگرام کے تحت رات میں خبریں اور تفریحی اور معلوماتی پروگرام ہندی اور انگریزی میں پیش ہونے لگے۔ علاقائی چینلوں کو اپنی زبان میں پروگرام پیش کرنے کے لئے علٰیحدہ وقت دیا گیا۔ تعلیم، صحت اور زراعت کو فروغ دینے والے پروگرام پیش ہوئے۔ کیبل پروگرام کی ترقی ہوئی۔ اور بڑے آپریٹر سارے شہر میں یکساں پروگرام دینے لگے۔ بڑے آپریٹر بھاری رقومات کی وصولی کے بعد چھوٹے کیبل آپریٹروں کو پروگرام دینے لگے۔ حکومت نے کیبل ٹی وی کی بڑھتی ہوئی تجارت کے پیش نظر 1995ء میں کیبل آپریٹروں کو باقاعدہ بنانے کے لیے قانون سازی کی۔ عوام پر تفریحی Tax عائد کیا گیا۔ اس طرح ہندوستان میں ٹیلی ویژن کی شروعات تو سست رفتار رہی، لیکن سٹلائیٹ چیانلوں کی آمد کے بعد یہاں ٹیلی ویژن کی مقبولیت بہت بڑھ گئی اور کئی بیرونی ادارے اور ان کے چیانل ہندوستان میں اپنے پروگرام پیش کرنے لگے۔ ٹیلی ویژن کی مقبولیت سے اشتہارات کا کاروبار خوب چل پڑا۔ ہندوستانی فلم اور کھیل سے کاروبار کو فروغ ملا۔ ہندوستانی فلم اور کھیل سے وابستہ بڑے بڑے ستارے نئی نئی اشیاء کا اشتہار پیش کرتے ہوئے نظر آنے لگے اور دنیا کی ایک بڑی تجارتی منڈی سمجھے جانے والے اس ملک میں مقامی و بیرونی اشیاء کی تجارت پھیلنے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں عام آدمی روزانہ دو سے چھ گھنٹے ٹی وی دیکھتا ہے اور یہ وقت بہت زیادہ ہے۔ بچے سے لے کر بوڑھے تک سبھی کی پسند کے پروگرام ٹی وی پر دستیاب ہیں۔ دولت مند گھرانوں میں اب تو ہر کمرہ میں سب کے لیے الگ الگ ٹی وی کا انتظام ہونے لگا ہے۔ ٹیلی ویژن استعمال کے اعتبار سے فائدہ مند کم اور نقصان دہ زیادہ ہے۔ اگر پروگراموں کے انتخاب میں احتیاط نہ برتی جائے تو ٹیلی ویژن کے مضر اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ آج اکثر چیانلوں پر دکھائے جانے والے بیشتر سیرئیل اور فلمیں اخلاقی قدروں سے دور، مغربی تہذیب کی عکاسی کرتے ہوئے ناجائز رشتوں کو عریانیت اور فحاشی کے ذریعہ پیش کر رہے ہیں۔ اگر بچے اور نوجوان مسلسل ان باتوں کو دیکھتے اور سنتے ہیں تو ان کی سماجی زندگی پر برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ہندوستان کی سماجی زندگی میں مشرقی اقدار اور اخلاقی قدروں کی شکست و ریخت کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ شادیاں نا پائیدار ہو گئی ہیں۔ ناجائز رشتوں کو Fashion سمجھا جا رہا ہے۔ نوجوان اچھی قدروں کو فرسودہ سمجھ کر روایت سے بغاوت کر رہے ہیں۔ والدین کی نافرمانی، نشہ آور ادویات کا استعمال مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونا، لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ، قتل و غارت گری عام بات ہو گئی۔ کسی بھی خبر کو عوام تک پہلے پہنچانے کی دوڑ میں کئی نیوز چیانل زرد صحافت کو فروغ دے رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور ہر خبر کو بریکنگ نیوز کہہ کر سنسنی پھیلانا سماجی قدروں کو نقصان دہ بنا رہا ہے۔ ٹیلی ویژن کے ان مضر اثرات کے باوجود عوام کے بڑے طبقہ تک اس کی رسائی کے پیش نظر اس ذریعہ ابلاغ کو تعلیم، صحت عامہ، عوامی شعور کی بیداری اور ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوردرشن کے قومی اور علاقائی چیانلوں سے اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی، امبیڈکر اوپن یونیورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے پروگرام کامیابی کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ اسکولوں میں ٹیلی ویژن پر طلباء کے لیے اسباق پڑھائے جا رہے ہیں۔ ویڈیو کانفرنس کی سہولت کے ذریعہ وقت کی بچت کرتے ہوئے دارالحکومت حیدرآباد کو ضلع مستقروں سے جوڑتے ہوئے ضلع کلکٹر اور دیگر عہدیداروں سے راست بات چیت کی جا رہی ہے۔ جس سے انتظامیہ اور نظم و نسق میں سدھار پیدا ہو رہا ہے۔ عوامی شعور کو بیدار کرنے کے لیے ٹیلی ویژن کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ دیہی عوام کو صحت عامہ کی طرف توجہ دلانے اور امراض پر قابو پانے کے لیے پولیو مہم اور دیگر اشتہارات دکھا کر کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ مرض ایڈس سے متعلق اہم معلومات ٹی وی سے بہم پہنچائی جا رہی ہیں۔ انتخابات کے دوران ٹیلی ویژن عوامی شعور کو بیدار کرنے اور رجحان سازی میں اہم رول انجام دے رہا ہے۔ ٹیلی ویژن انڈسٹری سے روزگار کے کافی مواقع دستیاب ہیں۔ خبروں کے چیانلوں پر کام کرنے کے لیے صحافیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور ان صحافیوں کو روزگار ملنے لگتا ہے۔ خانگی نیوز چیانلوں کے صحافی ہر مقام پر موجود ہیں۔ اشتہارات کی تیاری اور ان کو پیش کرنے والے ستارے اور ماڈلس کافی روپیہ کما رہے ہیں۔

اس طرح ٹیلی ویژن نے ہندوستان میں کئی بیروزگاروں کو روزگار فراہم کیا ہے۔ ٹیلی ویژن کا ایک اہم فائدہ ہندوستان میں قومی یکجہتی کا فروغ ہے۔ قومی پروگرام کے ذریعہ دوردرشن ہندوستان میں قومی یکجہتی پر مبنی پروگرام، سیرئیل، گیت اور فلم پیش کرتا ہے جب بھی ہندوستان میں قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا ہے بڑے بڑے فلمی ستارے ، کھلاڑی اور قومی رہنما قومی یکجہتی کا موثر پیام ٹیلی ویژن کے ذریعہ دیتے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر ہندوستان میں ٹیلی ویژن ایک طاقتور ذریعہ ابلاغ ہے۔ اس کا صحیح استعمال ہندوستان کی ترقی میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ ان دنوں ٹیلی ویژن کو انٹرنیٹ سے مسابقت کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود یہ عوامی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہندوستان میں ریڈیو کی ترقی

 

ریڈیو ذرائع ابلاغ کا ایک قدیم، سستا اور موثر ذریعہ ہے کاروباری اداروں ، چھوٹی تجارت کرنے والے اور طالب علم اکثر ریڈیو نشریات سے اپنا دل بہلاتے ہیں۔ آج سے سو سال قبل ریڈیو نشریات کا دنیا میں آغاز ہوا۔ 1875ء میں Thomson نے wireless سگنل بھیجنا شروع کیا، 1876ء میں Bell نے ٹیلی فون ایجاد کیا، 1887ء میں جرمن ماہر طبعیات Hertz نے ریڈیائی لہروں کو خلاء میں بھیجا، 1895ء میں Markoni نے ریڈیو ٹرانسمیٹر اور ریسیور ایجاد کیا۔ اس طرح مارکونی کو ریڈیو کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔ 1917ء میں امریکہ میں ریڈیو کی پہلا اسٹیشن وائس آف امریکہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ریڈیو نشریات کا آغاز ہوا۔

1۔ ہندوستان میں ریڈیو:ریڈیو پروگرام شروع کرنے میں ہندوستان پیچھے نہیں رہا۔ 1921ء کے بعد تجرباتی طور پر یہاں ریڈیو نشریات شروع کی گئیں۔ کلکتہ اور بمبئی میں ریڈیو Club قائم کیے گئے۔ 1926ء میں انڈین براڈکاسٹنگ سرویس (Indian Broadcasting Service) کا قیام عمل میں آیا۔ 1927ء میں کلکتہ اور بمبئی میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے۔ وامسٹا رائے ، لارڈ الوین نے اس کا افتتاح کیا۔ مدراس میں بھی ریڈیو نشریات کا آغاز انھیں دنوں میں ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمن پروپیگنڈے کے اثر کو کم کرنے کے لیے بیرونی نشریات کا آغاز کیا۔ عوام کی ضرورت کے تحت ہندوستانی زبانوں میں نشریات پیش کی گئی۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت ہندوستان کے حصے میں چھ ریڈیو اسٹیشن ممبئی، دہلی، مدراس، کلکتہ، لکھنو،ترچناپلی وجود میں آئے۔ جب کہ پاکستان کے حصہ میں ریڈیو اسٹیشن پیشاور، لاہور اور ڈھاکہ میں قائم کئے گئے۔ 14 اور 15/ اگست کی رات کو ریڈیو پر لارڈ مونٹ بیٹن پنڈت نہرو اور محمد علی جناح نے تقریر کی جسے ریڈیو پر براہ راست پیش کیا گیا۔ ہندوستان میں ابتداء میں ریڈیو رکھنے کے لیے License رکھنا پڑتا تھا۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں 26,000 لائسنس یافتہ ریڈیو سٹ تھے۔ پہلے ، دوسرے ،تیسرے ، پنچ سالہ منصوبوں میں ریڈیو کی ترقی کی کوشش کی گئی۔ نئے نئے ٹرانسمیٹر لگائے گئے ، پہلے پنچ سالہ منصوبہ کے اختتام تک ملک کی 46% آبادی ریڈیو پروگرام سن سکتی تھی۔ 1957ء میں ویوت بھارتی کا قیام عمل میں آیا۔ بمبئی اور مدراس سے عوامی دلچسپی کے پروگرام شروع کیے گئے۔ Medium Wave اور Short Wave نشریات شروع ہوئیں۔تیسرے پنچ سالہ منصوبے کے اختتام تک ہندوستان میں ریڈیو کے 54 مراکز قائم ہوئے اور ملک کی 70% آبادی کا احاطہ کیا گیا۔ آزادی کے بعد ہندوستانی ریڈیو کا نام All India Radio ہو گیا۔ 1967ء میں A.I.R کورڈ نافذ کیا گیا۔ جس کے تحت ملک میں امن قائم رکھنے کے لائق پروگرام نشر کرنے کی بات رکھی گئی۔ آل انڈیا ریڈیو کے کئی شعبہ قائم ہوئے۔ Commercial Broadcasting میں اشتہارات کے ساتھ فلمی گانوں کے پروگرام پیش ہونے لگے۔ News Service Divison کے تحت قومی اور علاقائی زبانوں میں خبریں پیش ہونے لگیں۔ ریڈیو پر تعلیمی نشریاتی پروگرام، کسانوں کے پروگرام، Yuva Vani نوجوانوں کے پروگرام پیش ہونے لگے۔ پانچویں پنچ سالہ منصوبہ میں FM ریڈیو کی شروعات ہوئی۔ ابتداء میں ملک کے بڑے شہروں میں یہ سہولت تھی آج FM ریڈیو کی نشریات کا ملک بھر میں جال پھیل گیا ہے۔ حیدرآباد کا ریڈیو اسٹیشن آل انڈیا ریڈیو اور FM نشریات پیش کرتا ہے۔ Prasar Bharti Broadcasting Corporation of India خود مختار ادارہ ہے اسے حکومت ہند کے کنٹرول سے نکال کر آزاد ادارے کے طور پر قائم کیا گیا۔ مئی 1979ء پرسار بھارتی (Prasad Bharti) بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ 23/ نومبر 1997ء سے پرسار بھارتی نے آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔ اس طرح ہندوستان میں ریڈیو نشریات کی ترقی ہوئی۔ ریڈیو سے موسم کا حال اور عوامی ضرورت کی باتیں دور دراز گاؤں تک بھیجی جاتی ہیں۔ ٹیلی ویژن کے عام ہونے سے ریڈیو کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی۔ 1980ء سے 2000ءتک ریڈیو کا کامیاب زمانہ تھا۔ لوگ بنا کا گیت مالا، جئے مالا اور دوسرے فلمی پروگرام بڑے شوق سے سنا کرتے تھے۔ امین سایانی اورتبسم ریڈیو کے مشہور براڈکاسٹر رہے ہیں۔ جنھوں نے ریڈیو کا مشہور پروگرام بناکا گیت مالا اور سباکا گیت مالا پیش کیا۔ ریڈیو پر ایک عرصے تک کرکٹ کمنٹری سننے کا بھی لوگوں کو بڑا شوق تھا۔ ٹی وی کے آ جانے کے بعد کرکٹ کمنٹری سننے کا شوق کم ہوتا گیا۔ ریڈیو کو اخبار ٹیلی ویژن اور Internet سے مسابقت ہے۔ اب Ham Radio بھی شروع کیے گئے۔ اس طرح ریڈیو ایک اہم ذریعہ ابلاغ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

تعلیم میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

آج ہم اکیسویں صدی میں زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں ٹیکنالوجی نے تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اور خاص طور سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت بڑا انقلاب آیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کبھی کبھی کوئی نادر واقعہ ہوتو اسے بریکنگ نیوز کہا جاتا تھا۔ آج ٹیلی ویژن کے نیوز چینلوں پر ہر تھوڑی دیر میں ہمیں دنیا کے کسی حصے سے بریکنگ نیوز کی اطلاع ملتی ہے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی نئی ایجاد اور نئے طور طریقے ہماری زندگی میں شامل ہو رہے ہیں۔ الیکٹرانک کے شعبے میں حیرت انگیز ٭٭ترقی ہوئی ہے۔ اور جیب میں رکھے جانے والے ایک چھوٹے سے آئی فون میں ہمیں انفارمیشن کے حصول سے متعلق ہر سہولت دستیاب ہے۔ جیسے فون سے بات کرنا ویڈیو کالنگ، انٹرنیٹ براؤزنگ، فیس بک چیاٹنگ، ای میل کی سہوت اور بہت کچھ۔ آج کے اس دور میں جہاں ٹیکنالوجی کے بڑھتے اثرات نے زندگی کو تیز رفتار بنا دیا ہے۔ وہیں تعلیم کے شعبے میں بھی ٹیکنالوجی کا اثر محسوس کیا جا رہا ہے۔ اور جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے اساتذہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پیشہتدریس کو اثر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔ اور تعلیمی ادارے بھی اپنے انتظامی امور میں ٹیکنالوجی کو اختیار کرتے ہوئے اپنے انتظامیہ کو بہتر اور فعال بنا سکتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ ٹیکنالوجی کس طریقے سے ہماری موجودہ تعلیم کا حصہ بن رہی ہے۔

تعلیم کا مفہوم: تعلیم کے معنی جاننے کے ہیں کہ جو بات ہمیں نہیں معلوم اسے جاننے کا نام تعلیم ہے۔ علمی اصطلاح میں ایک انسان کو اس دنیا میں بہتر زندگی گذارنے کے لئے یا بطور پیشہ کوئی شعبہ اختیار کرنے کے لئے جن باتوں کا جاننا ضروری ہے۔ اسے تعلیم کہتے ہیں۔ تعلیم صرف کتابی نہیں ہوتی۔ بلکہ زندگی میں آنے والا ہر دن اور اس دن ہونے والے کسی واقعہ سے سبق حاصل کرنا تعلیم کا ہی حصہ ہے۔ اچھی تعلیم وہی ہے جس میں فرد کی ہر لحاظ سے ترقی ہو۔ تعلیم کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی سنورتی ہے۔ اور وہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ تعلیم روشنی ہے۔ اور جہالت اندھیرا ہے۔ ایک جاہل انسان کبھی کبھی اپنی جہالت سے دنیا والوں کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ اس لئے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواندگی کو عام کرے۔ یہی وجہہ ہے کہ ہندوستان میں حکومت نے ہر بچے کے لئے لازمی تعلیم قانون بنایا ہے۔ اور بچہ مزدوری کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ ہندوستان میں رویتی10+2+3کا نظام تعلیم رائج ہے۔ آج تعلیم کے حصول کے ذرائع میں اسکول کالج یونیورسٹی، اساتذہ اور کتابوں کے علاوہ الیکٹرانک ذرائع جیسے ای کلاس روم، اسمارٹ کلاس، اوور ہیڈ پروجیکٹر، کمپیوٹر سی ڈیز، ٹیابلیٹ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ وغیرہ شامل ہیں۔ جن کی مدد سے عصر حاضر کا استاد اپنے نئے زمانے کی تعلیم کو بہتر بنا سکتا ہے۔

اسکول کی سطح پر بہ طورتدریسی وسائل جدید ٹیکنالوجی کا استعمال: اساتذہ کے لئے لازمی ہے کہ وہ دورانتدریستدریسی آلات جیسے بلیک بورڈ، چا ک پیس، کتاب، نقشہ جات،تصاویر اور دیگر ماڈلس کا استعمال کریں تاکہ اپنے سبق کو دلچسپ اور معلوماتی بنایا جا سکے۔ اسکول کی سطح پر جب کہ بچہ نو آموز ہوتا ہے۔ اور اسے دنیا کی بہت سی باتوں سے واقفیت نہیں ہوتی۔ وہاں انتدریسی وسائل کا استعمال لازمی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آج کل بعض مدارس پرائمری سطح پر کمرہ جماعت کو عصری ٹیکنالوجی سے لیس کر رہے ہیں۔ اور ہر کمرہ جماعت کو پروجیکٹر سے آراستہ کرتے ہوئے لیاپ ٹاپ اور تعلیمی سی ڈیز کی مدد سے اپنے سبق کو بہتر انداز میں پڑھا رہے ہیں۔ اس طرح کی کلاس کو اسمارٹ کلاس کا نام دیا جا رہا ہے۔ بعض تعلیمی ادارے ماہرین کمپیوٹر اور گرافکس و اینیمیشن کی مدد کے ساتھ کتابوں کے روایتی سائینسی سماجی علوم اور ریاضی و زبان کے اسباق کو معیاری بنا رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک ادارہ ہے جو educompکے نام سے کام کر رہا ہے۔ جس کی تعارفی کلاسیس انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں۔ educomp ادارے کے لوگ کسی تعلیمی ادارے سے معاہدہ کرتے ہیں۔ اور ان کے نصاب یا خود ادارے کے نصاب کی مکمل کلاسیس کے اسباق انٹر نیٹ اور خصوصی پاس ورڈ کے ذریعے دستیاب کراتے ہیں۔ اور اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کیسے اسمارٹ کلاس میں پڑھائیں۔ جو تعلیمی ادارے اس طرح کی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں ان کے بچوں میں اور روایتی کتاب کاپی قلم سے سیکھنے والے تعلیمی اداروں کے طلبا کے معیار تعلیم میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ تعلیم ایک مسلسل عمل ہے۔ اور اس میں والدین اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ طلباء کو معیاری تعلیم دینے کے لئے عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھیں۔ اسکولی سطح پر طلبا کو خصوصی انٹرنیٹ پروگرام کے ذریعے تعلیم کے علاوہ کسی موضوع پر پہلے سے دستیاب سی ڈی کا پروگرام دکھاتے ہوئے بھی تعلیم دی جا رہی ہے۔ آج کل کتابوں کی دکانوں میں چھوٹے بچوں کے لئے نظموں کے سی ڈی، انگریزی بول چال سیکھنے کی سی ڈی، وائیلڈ لائف سی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں۔ ایسے والدین جو گھر میں کمپیوٹر یا سی ڈی پلیر رکھتے ہیں۔ وہ اس طر ح کی معلوماتی سی ڈی حاصل کرتے ہوئے گھر پر بھی بچوں کو ٹیکنالوجی کی مدد سے تعلیم فراہم کر سکتے ہیں۔ انٹر نیٹ تو ان دنوں معلومات کی فراہمی کا سب سے اہم اور ایک طرح سے آسان ذریعہ ہو گیا ہے۔ Googleسرچ انجن کا دعوی ہے کہ اس کے ہاں سب کچھ ملتا ہے۔ کسی لفظ کے معنی معلوم کرنا ہو، کسی اور زبان میں اس کا ترجمہ کرنا ہو، کسی موضوع پر تفصیلی معلوماتی مضمون درکا ر ہو، کسی موضوع کی تصویر درکار ہو یا کسی موضوع پر ویڈیو چاہئے بس گوگل کی سہولتوں ترجمہ،تصاویر، ویکی پیڈیا یا یوٹیوب پر جائیے آپ کی پسند کی ہر چیز اور ہر موضوع کی معلومات دستیاب ہیں۔ اس کے لئے سرچ انجن میں درست الفاظ ٹائپ کرنے ہوں گے۔ گذشتہ 11نومبر کو مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش پر ملک بھر میں قومی یوم تعلیم تقاریب منائی گئیں۔ ہمارا ارادہ ہوا کہ کیوں نہ انٹر نیٹ سے مولانا آزاد کی آواز میں ان کی تقریر تلاش کی جائے چنانچہ یو ٹیوب پر سرچ کرنے پر مولانا آواز کی آواز میں 1947ء میں کی گئی ان کی تقریر ڈاؤن لوڈ کی گئی اور فون کی مدد سے اسے ریکارڈ کر کے ذریعے مائیک اسے نئی نسل کے طلبا کو سنایا گیا۔ اس طرح ٹیکنالوجی کا یہ فائدہ ہوا کہ مولانا آزاد کے گذر جانے کے بعد بھی ان کی آواز ان کے بعد آنے والی نسلیں سن پائی ہیں۔ اس طرح والدین اور اساتذہ اگر طلبا پر نگرانی رکھیں اور ان کے لئے تعلیمی ویب سائٹس تک رسائی کو ممکن بنائیں تو بچے چھٹی کے اوقات میں انٹر نیٹ سے بہتر طور پر استفادہ کر سکتے ہیں۔ جن طلبا کو کمپیوٹر پر ٹائپنگ آتی ہو وہ کوئی سبق ٹائپ بھی کر سکتے ہیں۔ بعض مدارس اپنے طلباء کو اس طرح کا ہوم ورک دے رہے ہیں اور ای میل کے ذریعے ہوم ورک کی جانچ ہو رہی ہے۔ بعض طلباء کو ڈرائینگ میں دلچسپی ہوتی ہے۔ ان طلباء کو پینٹنگ اور ڈرائینگ میں ماہر بنانے کے لئے کمپیوٹر کے ورڈ آرٹ سافٹ ویر سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اس طر ح اسکول کی سطح پر educomp، کی اسمارٹ کلاس، لیاپ ٹاپ، سی ڈی اور انٹر نیٹ کی مدد سے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تعلیم کو بہتر، معلوماتی اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔

کالج کی سطح پر بہ طورتدریسی وسائل جدید ٹیکنالوجی کا استعمال:ایک معیاری اسکول سے فارغ جب ایک طالب علم کالج کی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو کالج کے انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کالج کوتدریسی وسائل کے طور پر عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھے۔ چنانچہ کالج کا ہر کمرہ جماعت ای کلاس روم ہو جہاں اساتذہ کے لئے پروجیکٹر کے استعمال کی سہولت ہو۔ اور طلبا بھی اس سہولت سے استفادہ کر سکیں۔ کالج کا طالب علم عنفوان شباب کی عمر کے دور سے گذر رہا ہوتا ہے۔ اور آج کل طالب علم انٹر نیٹ، ٹیلی ویژن اور سیل فون کے اچھے برے اثرات کے ساتھ کالج کے ماحول میں قدم رکھ رہے ہیں۔ ایسے میں طالب علم کی صلاحیتوں کو مثبت افکار کی جانب موڑنا ایک ماہر تعلیم استاد کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ چنانچہ کالج کے کلاس روم میں بھی روایتی کتاب :بلیک بورڈ اور چاک پیس و نقشہ جات کے علاوہ ایک ماہر استاد اپنے لیاپ ٹاپ اور پروجیکٹر کی مدد سے طلباء کو اپنے سبق کو بہتر طور پر سمجھا سکتا ہے۔ اس کے لئے استاد کو کمپیوٹر کا ماہر ہونا ہو گا۔ اور وہ پاور پوائینٹ سہولت کی مدد سے مختلف معلوماتی سلائیڈز کی مدد سے اپنے سبق کو بہتر دلچسپ اور عصر حاضر کے تقاضوں سے متعلق ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ سائینس کے مضامین ہو کہ کوئی اور مضمون جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اسے بہتر طور پر سمجھایا جا سکتا ہے۔ ای کلاس کے لئے اسباق کی تیاری ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ اسے گھر بیٹھے تیار کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔ اور اگر ایک معیاری سبق تیار ہو تو قومی سطح پر اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ریاستی سطح کے انٹر میڈیٹ و ڈگری کے بورڈ اور NCERT,SCERT کی جانب سے ماہر اساتذہ کو طلب کیا جا رہا ہے۔ اور انہیں تمام سہولتوں سے لیس کمپیوٹر لیاب فراہم کیا جا رہا ہے اور انہیں معاوضہ دے کر تعلیمی اسباقتیار کئے جا رہے ہیں۔ ان اسباق کے ڈی وی ڈیز تعلیمی اداروں کو مہیا کرائے جا رہے ہیں۔ اور ان کی مدد سے تعلیم کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ کالج کی سطح پر لائبریری کو بھی عصر حاضر کی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ اگر لائبریری میں مختلف موضوعات کے سی ڈی ہوں اور کوئی طالب علم لائبریری میں بیٹھ کر کمپیوٹر کی مدد سے وہ سی ڈی دیکھ سکتا ہو تو اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ آج کل کالج کی لائبریری کے ایک ہال میں ایک بڑا مانیٹر لگایا جا رہا ہے۔ اور اگر کسی دن کوئی مضمون کا لیکچرر غیر حاضر ہو تو لائیبریری کا انچارج طلباء کے لئے اس مضمون سے متعلق سی ڈی لگاتا ہے اور ساری کلاس ایک لیکچرر کی غیر موجودگی کے باوجود وقت پر ایک اہم لیکچر سے مستفید ہوسکتی ہے۔ آج کل کالج کے طلبا ء کے لئے حکومتی سطح پر چلائے جانے والے خصوصی ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی معلوماتی پروگرام نشر کئے جا رہے ہیں۔ آندھرا پردیش میں MANA TVکے نام سے سرکاری چینل چل رہا ہے۔ جس پر ہر تین ماہ کے مختلف پروگرام کا ٹائم ٹیبل دیا جاتا ہے۔ اور کالج میں ایک لیکچرر کو اس کا انچارج بنایا جاتا ہے۔ جو وقت مقررہ پر طلبا کو کمرہ جماعت میں جمع کرتا ہے۔ اور مخصوص ڈش انٹینا سے نشر ہونے والے پروگرام کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے۔ ان پروگراموں میں کچھ براہ راست پروگرام بھی ہوتے ہیں اور طلبا کو فون ان کی سہولت دی جاتی ہے۔تاکہ وہ اپنے شک و شبہ کا اظہار کر سکیں۔ اکثر پروگرام ایسے ماہر اساتذہ پیش کرتے ہیں جن کے طریقہتدریس میں شک و شبہ کی گنجائش کم ہوتی ہے اور طالب علم کو سیر حاصل معلومات ہوتی ہیں۔ قومی سطح پر دوردرشن اور دیگر خانگی ٹیلی ویژن چینل بھی طلباء کے لئے پروگرام پیش کر رہے ہیں جن سے طلبا استفادہ کرسکتے ہیں۔ سوشیل میڈیا جیسے فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کو بھی فروغ تعلیم کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے طالب علم فیس بک کے دیوانے ہیں۔ اگر کوئی تعلیمی ادارہ یا استاد اپنا ایک فیس بک گروپ رکھے اور اس میں اپنے طلبا اور ماہرین تعلیم کو ممبر بنائے اور معلومات اور اہم اعلانات کا تبادلہ ہو تو اس سے طلبا کی تعلیمی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں۔ گراج گورنمنٹ کالج نظام آباد کے شعبہ اردو نے بھی اس طرح کا ایک گروپ ’’شمع فروزاں ‘‘ کے نام سے بنایا ہے۔ اس گروپ میں کالج کے طلبا کے علاوہ یونیورسٹی اور کالج کے ماہر اساتذہ، ماہرین تعلیم، شعرا، ادیب اور کیریر گائیڈنس کے ماہرین شامل ہیں جو اپنی قیمتی معلومات اور افکار سے طلبا کو مستفید کرتے ہیں اور گروپ انچارج طلبا کو اہم اعلانات سے واقف کراتے ہیں۔ اس طرح تعلیم کے فروغ میں سوشیل میڈیا کا بہتر استعمال ہوسکتا ہے۔ اور طلبا کی صلاحیتوں کو منفی رجحانات کے بجائے مثبت رجحانات کی جانب موڑا جا سکتا ہے۔

آن لائینتدریس: انٹرنیٹ کی بڑھتی مقبولیت اور اس کی عام آدمی تک رسائی سے بہت سی سہولتیں عام ہو گئی ہیں۔ اور آج آن لائن خدمات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ تعلیمی ادارے بھی آن لائن درخواستیں وصول کر رہے ہیں۔ اور طلباء کو مختلف مسابقتی امتحانات کے ہال ٹکٹ بھی آن لائین فراہم کر رہے ہیں۔ اسی آن لائن سہولت کوتدریس میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور آؤٹ سورسنگ خدمات کے ذریعے طلباء کو خانگی ٹیوشن فراہم کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کے کسی ایک مقام پر رہنے والا ایک قابل استاد دنیا کے کسی بھی گوشے میں موجود اپنے شاگرد کو ایک تیز رفتار کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کنیکشن کی بدولت آن لائن ٹیوشن پڑھا سکتا ہے اور یہ سہولت ان دنوں مقبول بھی ہو رہی ہے۔ آج کل ایسے رائٹنگ پیاڈ بھی دستیاب ہیں جن کی مدد سے اسکرین پر قلم کی طرح لکھا بھی جاتا ہے۔ اس طرح آؤٹ سورسنگ اور آن لائن کی بدولت ہر طرح کی تعلیم گھر بیٹھے ممکن ہو گئی ہے۔ اور اس کے ذریعے دولت کمانے کے مواقع بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ کالج کی سطح پر طلبا اس قسم کی سہولت سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ کالج میں چونکہ طے شدہ نصاب ہی پڑھنا ہوتا ہے اس لئے طلبا کو زیادہ کتابوں کی ضرورت نہیں پڑھتی اگر ضرورت ہو بھیتو ای کتابوں کی مدد سے یا انٹرنیشنل لائبریری سے بہ ذریعے انٹر نیٹ دنیا کے کسی بھی کتب خانے کی لائبریری سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ کالج کے طلبا کو مسابقتی امتحانوں کی تیاری میں بھی انٹرنیٹ سے مدد ملتی ہے۔ اور سابقہ امتحانوں کے پرچے اور امتحان کی تیاری کا مواد نیٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اورتدریس کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ کالج کے اساتذہ کو کمپیوٹر کی مہارت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ اور وہ ایک ایسا لیا پ ٹاپ بھی ساتھ رکھے جس میں نیٹ کی سہولت ہو۔ آج کل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا کی سہولت کے لئے wifiانٹر نیٹ سہولت دی جا رہی ہے طلبا اور اساتذہ اس سہولت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

یونیورسٹی کی سطح پر بہ طورتدریسی وسائل ٹیکنالوجی کا استعمال: کالج کے بعد ایک طالب علم کے لئے حصول علم کا ایک بڑا موقع یونیورسٹی کی تعلیم ہوتی ہے جہاں پوسٹ گرائیجویشن کے بعد ریسرچ کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ چنانچہ یونیورسٹیوں کا نگران ادارہ یوجی سی اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں سے ایسے قابل سائینسدان اور ماہر تعلیم تیار ہوں جو ملک اور دنیا کو ان کے مسائل سے نجات دلانے کے لائق بنیں۔ اس لئے یوجی سی یونیورسٹیوں کی ترقی کے لئے لاکھوں روپے کا بجٹ منظور کر رہی ہے اور تعلیم میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے ہر قسم کے وسائل مہیا کر ا رہی ہے۔ یونیورسٹی میں کلاس رومتدریس کم ہی ہوتی ہے اور طالب علم کو انفرادی طور پر حصول علم کے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ اور یونیورسٹی طالب علم کے لئے علم کا خزانہ لائبریری ہوتی ہے۔ چنانچہ لائبریری میں کتابوں کے علاوہ ای کتابیں اور کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی مدد سے دنیا بھر سے لائبریریوں سے استفادے کی سہولت دستیاب کرائی جاتی ہے۔ حیدرآباد میں یونیورسٹی آف حیدرآباد کی اندرا گاندھی لائبریری جنوبی ہند میں اس طرح کی سہولت کے لئے مشہور لائبریری ہے۔ یونیورسٹی کے پروفیسر کے لئے ضروری ہے کہ وہ پاور پوائینٹ کے ذریعے تدریس کا ماہر ہو۔ چنانچہ وہ ایسے اسباقتیار کرتا رہے اور انہیں مختلف سمیناروں اور سمپوزیموں میں پیش کرتا رہے۔ طلبا اگر اس طرح کے لیکچر میں شرکت کریں تو انہیں استفادے کا موقع ملتا ہے۔ اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی، امبیڈکر اوپن یونیورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا جانب سے ٹیلی ویژن پر تعلیمی پروگرام نشر ہو رہے ہیں۔ جن سے طلبا مستفید ہو سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلباء بھی انٹر نیٹ کے ذریعے اپنی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

تعلیمی ٹیکنالوجی اور اردو:اردو زبان بھی آج انٹر نیٹ سے کافی ہم آہنگ ہو رہی ہے۔ اور اردو ان پیج کے علاوہ اردو یونیکوڈ سافٹ ویر کی مدد سے کمپیوٹر میں باآسانی تحریر کی جا سکتا ہے۔ mbilal.comپر اردو یونیکوڈ سافٹ ویر دستیاب ہے۔ اس سافٹ ویر کی مدد سے ایم ایس آفس کے تمام پروگراموں میں اردو میں کام کیا جا سکتا ہے۔ اور فیس بک پر اردو میں تحریر کیا جا سکتا ہے۔ اس سافٹ ویر کی مدد سے اردو میں ای کتابوں کا خزانہ بڑھ رہا ہے اور ان پیج سے یونیکوڈ اور یونیکوڈ سے ان پیج اور پی ڈی ایف کنورٹر سافٹ ویر کی مدد سے اردو کمپوزنگ کی دنیا میں انقلاب آیا ہے۔ اور دور جدید میں اردو کتابت کا کام تیز رفتار اور آسان ہو گیا ہے۔ یونیکوڈ سے اردو ای میل بھی روانہ کیا جا سکتا ہے۔ ان پیج کی تحریر کو پی ڈی ایف کنورٹر کی مدد سے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح اردو زبان بھی کمپیوٹر سے بہت حد تک ہم آہنگ ہوئی ہے۔ NCPULفروغ اردو کا قومی ادارہ ہے جس کے تعلیمی پروگراموں سے اردو اور کمپیوٹر کو سکھایا جا رہا ہے۔

تعلیمی اداروں میں انتظامی ضرورت کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال: ایک طرف جہاں تعلیمی معیار کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے وہیں انتظامی امور کے لئے بھی تعلیمی ادارے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ اسکول کی سطح پر ایسا سافٹ ویراستعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کی مدد سے طالب علم کے داخلے سے لے کر اس کے اسکول چھوڑنے تک تمام ریکارڈ ایک داخلہ نمبر کے ساتھ محفوظ کیا جا رہا ہے۔ اور طالب علم کی ترقی اور پیشرفت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ گروپ ایس ایم ایس کے ذریعے ٹیچر بچوں کا ہوم ورک والدین کے فون پر مسیج کر رہے ہیں۔ اور اسی طرح اہم اعلانات بھی ایس ایم ایس کئے جا رہے ہیں۔ طلبا کے پروگریس کارڈ اور امتحانی پرچے اور ماڈل پیپر وغیرہ بھی کمپیوٹر کی مدد سے تیار کئے جا رہے ہیں۔ ہائی اسکول اور کالج کی سطح پراس قسم کے سافٹ ویر استعمال ہو رہے ہیں اور بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور بورڈ بچوں کے نشانات کے میمو اور تعلیمی اسنادات کمپیوٹر کی مدد سے تیار کر رہے ہیں۔ طلباء کے لئے آن لائین داخلوں کی کونسلنگ ہو رہی ہے۔ فیس کا ادخال کور بینکنگ کے ذریعے ہو رہا ہے۔ اور طلبا کے ہال ٹکٹ اور او ایم آر بار کوڈ شیٹ بھی کمپیوٹر کی مدد سے تیار کئے جا رہے ہیں۔ اور امتحانات کے بعد نتائج کا اعلان اور مزید کا روائی بھی کمپیوٹر اور آن لائن ٹیکنالوجی کی مدد سے ہو رہی ہے۔ بعض تعلیمی ادارے اپنے اسٹاف میں وقت کی پابندی اور ڈسپلن لانے کے لئے پنچ کارڈ سسٹم شروع کئے ہیں۔ جس میں ملازمین کی دفتر میں آمد اور روانگی کا ٹائم محفوظ ہو جاتا ہے۔ پرنسپل اور ہیڈ ماسٹر سی سی کیمروں کی مدد سے اسکول اور کالج کے انتظامی امور پر نظر رکھ رہے ہیں اور پبلک ایڈریس سسٹم اور اجتماعی فون کی مدد سے رابطہ رکھ رہے ہیں۔ اس طرح تعلیمی اداروں میں انتظامی امور میں بھی ٹیکنالوجی اہم رول ادا کر رہی ہے۔ زیراکس مشین، فیاکس مشین، اسکانر، اور دیگر آلات بھی تعلیمی اداروں میں کام کی رفتار اور معیار میں فرق پیدا کر رہے ہیں۔

ٹیکنالوجی کے منفی اثرات: تعلیمی ادارے ہوں یا زندگی کا کوئی اور شعبہ ہو آج کل ٹیکنالوجی کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اور حدود بھی ہیں۔ سب سے پہلی بات کے ہندوستان جیسے غریب اور ترقی پذیر ملک میں جہاں کا عام آدمی روٹی کپڑے اور مکان کے لئے پریشان ہے۔ اسے ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے۔ ٹیکنالوجی مہنگی ہے۔ اور مہنگی ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کرنا تعلیمی اداروں اور عام آدمی دونوں کے لئے مشکل ہے۔ ٹیکنالوجی کے مناسب استعمال کے لئے ماہر افراد کی بھی کمی ہے۔ اور کمپیوٹر ہو کہ پروجیکٹر سب کے چلانے کے لئے برقی کی ضرورت ہے۔ اور ہندوستان میں موسم گرما کے بعدسے کافی عرصے تک ملک کے ہر چھوٹے پڑے شہر اور گاؤں دیہات میں برقی کٹوتی کی جا رہی ہے جس کی بنا وسائل رکھنے کے باوجود ٹیکنالوجی کا استعمال ممکن نہیں ہو پا رہا ہے۔ اگر کوئی جنریٹر استعمال کرتا ہے تو اس کے اخراجات اور بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ صحت کے اعتبار سے بھی ٹیکنالوجی کے نقصانات ہیں۔ مسلسل کمپیوٹر کے استعمال سے بینائی متاثر ہو رہی ہے۔ کمر کے درد کی عام شکایت ہے بچے کھیل کود کے بجائے ویڈیو گیمس کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اور بچوں پر نظر نہ رکھی جائے تو وہ انٹرنیٹ اور فون کے ذریعے فحش ویب سائیٹتک رسائی حاصل کرتے ہوئے اپنے اخلاق اور صحت کو بگاڑ رہے ہیں۔ ایسے میں تعلیم کے میدان میں ٹیکنالوجی کا استعمال ایک بڑے طبقے کے لئے ایک خواب ہی ہے۔ ملک میں صرف دوتا دس فیصد طبقہ ہی ٹیکنالوجی کے ثمرات سے استفادہ کر رہا ہے۔ ابھی اس کے عام ہونے میں مناسب سرکاری پالیسی اور اس پر سنجیدگی سے عمل کی ضرورت ہے۔ حکومت نے تمام طلبا کو کم قیمت کمپیوٹر آکاش دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے لئے مرکزی وزیر کپل سبل نے اعلان بھی کیا اور اقدامات بھی لیکن ابھی آکاش کمپیوٹر ملک کے عام طالب علم کی پہنچ سے دور ہی ہے۔ مجموعی طور پر تعلیم کے فروغ میں ٹیکنالوجی اہم رول ادا کر رہی ہے لیکن روایتی طریقہ تعلیم بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے دونوں میں توازن کی برقراری وقت کا اہم تقاضہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

فیس بُک (facebook) سہولت یا لعنت

 

اکیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ اور اس صدی میں انفارمیشن کا انقلاب جس ذریعے سے آیا ہے وہ انٹرنیٹ ہے۔ انٹرنیٹ کیا ہے ؟ یہ در اصل ساری دنیا میں ایک دوسرے سے مربوط کمپیو ٹر نیٹ ورکس کا ایک وسیعتر نظا م ہے۔ جس سے دنیا ایک گلوبل ولیج میں سمٹ گئی ہے۔ فاصلے ختم ہو گئے ہیں۔ اب ہم جب چاہے دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود اپنے کسی دوست یا عزیز سے نہ صرف بات کر سکتے ہیں بلکہ اسے اپنے کمپیوٹر اسکرین پر روبرو دیکھ سکتے ہیں۔ انٹر نیٹ پر عالمی سطح پر رابطے ، گفتگو اور ایک دوسرے سے اپنی معلومات کا تبادلہ کرنے اور ایک دوسرے کو اپنی تصاویر، ویڈیو اور دیگر معلومات بھیجنے اور حاصل کرنے کا ایک اہم اور ساری دنیا میں مقبول ذریعہ فیس بُک ہے۔ فیس بُک ایک سماجی نیٹ ورک اور ویب سائٹ ہے جسے فروری 2004ء میں ایک امریکی نوجوان مارک زوکر برگ نے اپنے دوستوں ایڈوارڈ ساوارن، ماسکو وٹزاور کرس ہیوز کے ساتھ مل کر شروع کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ فیس بُک کی مقبولیت کے بعد کسی کی دعوت اور کوشش سے فیس بُک کی بدولت ہی اس کے مالک نے اسلام قبول کر لیا اور اس کا نیا نام مارک ابو بکر ہے۔ فیس بُک ایک خانگی ادارہ فیس بُک ان کارپوریشن کی ملکیت ہے۔ ابتداء میں فیس بُک کی رکنیت سازی ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ کے لوگوں کے لئے مختص تھی۔ بعد میں اسے اسٹانفورڈ یونیورسٹی، بوسٹن اور امریکہ کے دیگر شہروں اور پھر انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا میں عام کیا گیا۔ فیس بُک اب انٹرنیٹ کی مقبول ترین سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہے۔ اور اس کے اراکین کی تعداد 80کروڑ سے زیادہ ہے۔ اگر فیس بُک ایک ملک ہوتا اور اس کے اراکین اس کے شہریتو یہ چین 131کروڑ، ہندوستان121کروڑ کے بعد دنیا کاتیسر ا بڑا ملک بن جاتا۔ فیس بُک کے استعمال کنندگان کو اپنے ای میل آئی ڈی اور پاس ورڈ کے ذریعے رجسٹر کر نا پڑتا ہے۔ اور اس کے بعد جب بھی فیس بُک پر لاگ ان کرنا ہو تو اپنا ای میل اور پاس ورڈ فیس بُک کی سائٹ پر ٹائپ کرنے سے فیس بک کا صفحہ کھل جاتا ہے۔ پہلی مرتبہ رجسٹر کرنے والے فیس بُک کے تعارفی صفحہ پر اپنا نام پتہ،تاریخ پیدائش، تعلیم، وطن، پسند ناپسند اور دیگر مشاغل سے متعلق معلومات داخل کرتے ہیں۔ جو دیگر لوگوں کو آپ سے دوستی کرنے سے قبل آپ کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ فیس بُک پر اپنی شناخت کے لئے تصویر بھی لگائی جاتی ہے۔ لوگ اپنی ذاتی تصویر یا اپنی پسند کی کوئی بھی تصویر شامل کرتے ہیں۔ جب آپ فیس بُک پر کوئی اطلاع یا تصویر پوسٹ کرتے ہیں تو آ پ کے نام کے ساتھ آپ کی شناخت والی تصویر بھی آپ کے دوست کے اسکرین پر نظر آتی ہے۔ فیس بُک کے صفحہ پر searchکالم میں آپ کسی دوست کا نام ٹائپ کریں تو ایک نام کے کئے چہرے اور ان کی تفصیلات آتی ہیں۔ ان میں سے آ پ جس دوست سے دوستی کرنا چاہتے ہیں انہیں دوستی شروع کرنے کی درخواست روانہ کی جاتی ہے۔ اگر دوسری جانب سے آ پ کی دوستی کو confirmکیا جاتا ہے تو وہ شخص آپ کے دوستوں کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس طرح دوستوں کی فہرست بڑھتی جاتی ہے۔ اور ایک آئی ڈی پر پانچ ہزار دوستوں کو شامل کرنے کی حد مقرر ہے۔ فیس بُک پر شناسا دوستوں ، عزیزوں کے علاوہ انجان لوگوں سے دوستی اور مراسم بڑھانے کی سہولت ہے۔ اور یہی وہ سہولت ہے جس سے دنیا بھر سے نوجوان ایک دوسرے سے دوستی کر رہے ہیں۔ اور بعض مرتبہ نوجوان لڑکیوں کی معاملے میں یہ دوستی آگے بڑھ کر دھوکہ دہی اور دیگر خطرناک نتائج تک بڑ ھ رہی ہے۔ فیس بُک پر اپنی بات پہنچانے کے جو مواقع ہیں ان میں تحریر،تصویر، مختصر ویڈیو، پیغام رسانی،تحریری چاٹنگ اور راست ویب کیام کے ذریعے آڈیو ویڈیو گفتگو کی سہولت ہے۔ جیسے ہی ہم فیس بُک پر لاگ ان کرتے ہیں ہمارے دوستوں کو ایک سبز نقطے کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ ہم آن لائن ہیں۔ اگر کوئی ہمیں کا ل کرے تو ہم چاہیں تو گفتگو کر سکتے ہیں یا کال کو رد کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے کسی دوست کا پیغام یا تصویر یا ویڈیو آپ کو پسند ہو تو آپ share کے ذریعے اسے اپنے صفحے پر پوسٹ کر سکتے ہیں۔ اس طرح مقبول عام تصاویر، پیغامات اور ویڈیو ایک دوسرے صفحے پر گشت کرتی رہتی ہیں۔ ہر پوسٹ کے نیچے like’ commentوغیرہ آپشن ہوتے ہیں۔ جن کی مدد سے آپ کسی پیغام پر اپنا تبصر ہ کر سکتے ہیں۔ فیس بُک پر آپ کی تاریخ پیدائش کے اعتبار سے سالگرہ مبارک کا پیغام بھی دیا جاتا ہے۔ اور اسے نمایاں کیا جاتا ہے۔ اور آپ کے دوست اس پیغام کو پڑ ھ کا جان لیتے ہیں کہ اس دن آپ کی سالگرہ ہے۔ اور لوگ آپ کو سالگرہ کی مبارکباد دینے لگتے ہیں۔ فیس بُک پر نہ صرف انفرادی دوستوں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ سماجی دلچسپی کے کئی گروپ ہیں جنہیں آ پ گروپ میں شامل کرنے کی درخواست کے ساتھ اس گروپ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ نوجوان اپنی مرضی کے گروپ میں شامل ہوتے ہیں۔ کئی مذہبی تعلیمی اور معلوماتی گروپ بھی فیس بُک پر مقبول ہیں۔ جب آپ فیس بُک کا صفحہ پہلی مرتبہ کھولتے ہیں تو اوپر بائیں جانب سرخ رنگوں میں آپ کو اطلاع ملتی ہے کہ کن کن لوگوں اور کتنے لوگوں نے آپ کو پیغام بھیجا ہے۔ یا آپ کے پیغام کو پسند کیا ہے۔ کن لوگوں نے پیغام دیا ہے اور کن لوگوں نے آپ سے دوستی کی درخواست بھیجی ہے۔ اس نشانی پر کلک کرنے سے آ پ کو پیغام بھیجنے والوں کے نام اور ان کی شناخت معلوم ہو گی۔

فیس بُک نے اپنے آغاز کے ساتھ ہی مقبولیت حاصل کرنی شروع کی۔ کیونکہ یہ سہولت ابھی تک مفت ہے۔ اس کے لئے آپ کو صرف انٹرنیٹ کنکشن رکھنا ہو گا۔ فیس بُک کی بڑھتی مقبولیت دیکھ کر فون بنانے والی بڑی کمپنیوں نے اپنے فون میں راست فیس بُک کھولنے کی سہوت دی ہے۔ اب لوگ سفر میں اور جہاں بھی ہوں دنیا بھر کے دوستوں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اور انہیں پیغام روانہ اور حاصل کر سکتے ہیں۔ 2009ء میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق فیس بُک کو ساری دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے سماجی ویب سائٹ کا مقام حاصل ہوا ہے۔ فیس بُک پر آن لائن گیمس کھیلنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ فیس بُک کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی نصف آباد ی فیس بُک کی رکن ہے۔ اور یہ تعداد ایشیائی ممالک میں بھی بڑھ رہی ہے۔تاہم فیس بُک کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں کئی لاکھ کم عمر بچے رکن بنے ہوئے ہیں۔ اور وہ فیس بُک کے مضر اثرات کا شکار ہو رہے ہیں۔ فیس بُک کو مالیہ کی فراہمی اشتہارات سے ہوتی ہے۔ سنا ہے کہ اس کے صفحات پر کم خرچ میں اشتہارات دئے جاتے ہیں اور اس کے اشتہارات کی مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے۔ فیس بُک کو غلط استعمال کرنے کی شکایات عام ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ یہ اکثر تنازعات میں گھرا رہتا ہے۔ اور دنیا کے چند ممالک جیسے چین، ویتنام، ایران، ازبکستان، پاکستان، شام اور بنگلہ دیش وغیرہ میں فیس بُک پر پابندی عائد کی گئی۔ لیکن انٹرنیٹ کے حصول کے ساتھ ہیں اس پر پابندی قائم رکھنا ان ممالک کے لئے مشکل رہا ہے۔ حالیہ عرصہ میں مصر میں جو عوامی انقلاب آیا اس کی شروعات بھی فیس بُک کی وجہہ سے ہی ہوئی۔ جبکہ ایک خاتون نے فیس بُک پر یہ پیغام دیا تھا کہ وہ مصر کے تحریر اسکوائر پر جا رہی ہے۔تاکہ مصر کی آزادی کی تحریک شروع کی جا سکے اس نے نوجوانوں کو آواز دی کہ اگر وہ چاہیں تو اس کی تحریک میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اور فیس بُک کے ایک پیغام نے مصر میں حکومت کی بے دخلی میں اہم رول ادا کیا۔ فیس بُک پر یہ بھی الزام ہے کہ اس کے ذریعے یہودی لابی اسلام مخالف حملے کر رہی ہے۔ اور لوگوں میں مذہبی منافرت پھیلائی جا رہی ہے۔ اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جبکہ فیس بُک کے ہیاکرس کی جانب سے مسلم ناموں کے ساتھ مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی تصاویر کو دلآزاری کے ساتھ پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ لیکن مسلم نوجوانوں کے گروپ فیس بُک کو اسلام کو عام کرنے کے ایک مقبول ذریعے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لئے فیس بُک پر اسلامی باتیں ، احادیث، اقوال زرین اور اسلامی ویڈیوز پوسٹ کئے جا رہے ہیں۔ فیس بُک پر یہ بھی الزام ہے کہ اس سے ملازمین کی کمپنیوں میں کام کرنے کی صلاحیت پر فرق آیا ہے۔ اس لئے کمپنیوں میں فیس بُک کے استعمال پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ کیونکہ پیغامات کی وصولی اور بھیجنے میں نوجوانوں کا کافی وقت صرف ہو رہا ہے۔ فیس بُک پر جھوٹی اطلاعات پوسٹ کرنے سے انتظامیہ کو بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک لڑکی نے فیس بُک پر اپنی سالگرہ کا دعوت نامہ پوسٹ کر دیا۔ اسے پڑھ کر ہزاروں نوجوان بغیر مدعو کئے دعوت میں شریک ہو گئے جس سے انتظامی بد نظمی ہو گئی۔ فیس بُک نے کئی بچھڑے لوگوں کو ملانے کا کام بھی کیا ہے۔ دنیا میں ایسی مثالیں سامنے آ رہی ہیں جس سے کئی سال کے بعد بچھڑے لوگ آپس میں مل گئے۔ اگر فیس بُک کو اچھے مقصد کے لئے استعمال کیا جائے تو اس سے سماجی بیداری اور عوامی رابطے کا کام لیا جا سکتا ہے۔ بمبئی میں ایک تنظیم آل انڈیا مسلم پروفیشنلس نامی ہے جس کا فیس بُک پر گروپ بھی ہے۔ یہ گروپ مسلمانوں کی تعلیمی، اقتصادی اور ملی ترقی کے لئے اچھا کام کر رہا ہے اور ساری دنیا سے لوگ اس گروپ پر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح ایک گروپ کے دو لاکھ سے بھی زیادہ اراکین ہیں۔ فیس بُک چونکہ نوجوان زیادہ استعمال کرتے ہیں اس لئے ان کی پسند کے گروپ جیسے شعر و شاعری گروپ اور دیگر تفریحی گروپ مقبول ہیں۔ اور دیکھا جا رہا ہے کہ فیس بُک پر نوجوان روزانہ گھنٹوں بیٹھ کر اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں۔ جذبات کو بر انگیختہ کرنے والی تصاویر، پیغامات اور ویڈیو پوسٹ کئے جا رہے ہیں۔ اور فضول باتوں اور چاٹنگ میں وقت گذار رہے ہیں۔ فیس بُک سہولت ہے لیکن اس کے غلط استعمال سے یہ ایک لعنت بن گئی ہے۔ نوجوان جھوٹے اکاؤنٹ کھول کر اور خوبصورت تصاویر لگا کر نئے لوگوں کو راغب کر رہے ہیں اور ان سے دوستی کے نام پر تعلقات بڑھا رہے ہیں اور بعد میں دھوکہ دہی اور زندگی کی بربادی کی مثالیں سامنے آ رہی ہیں۔ چونکہ فیس بُک کا رکن سامنے موجود نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی قانونی کاروائی کی جا سکتی ہے۔ اس لئے اگر کسی کے اخلاق خراب ہوں تو تہذیب سے گرے ہوئے پوسٹ کرے گا۔ اور ہم صرف اس کے پوسٹ کو بلاک کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس لئے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نوجوان بچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں انہیں قیمتی فون دلانے کے ساتھ انہیں سمجھائیں کہ ان کے لئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ نوجوانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اجنبیوں سے دوستی نہ کریں اگر کریں بھیتو ان سے اپنی ذاتی تصاویر اور دیگر شخصی معلومات اور فو ن نمبر شئیر نہ کریں۔ اور جہاں تک ہو سکے اپنی حد میں رہیں۔ فیس بُک کا سب سے بڑا نقصان وقت کی بربادی ہے۔ اگر یہ تجزیہ کیا جائے کہ مسلمانوں کو بے عمل کرنے اور ان کے اخلاق خراب کرتے ہوئے انہیں مذہب سے دور کرنے کی فیس بُک کوئی چال ہے تو یہ تجزیہ غلط نہیں ہو گا۔ کیونکہ اب مسلم نوجوانوں پر اس کے مضر اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس لئے اس دھوکے میں رہنے کے بجائے کہ ہم فیس بُک کے ذریعے اسلام پر ہو رہے حملوں کا جواب دیں گے مسلمانوں کو چاہئے کہ و ہ فیس بُک کے استعمال میں احتیاط ہی کریں تو بہتر ہو گا۔ انٹرنیٹ پر فیس بُک کی طرح کئی سہولتیں جیسے بلاگ، ٹویٹر، آرکٹ، یاہو مسینجر، اسکائپ وغیرہ ہیں۔ جنہیں نوجوان استعما ل کر رہے ہیں۔ بہر حال انٹر نیٹ پر موجود حد سے زیادہ معلومات اور اچھی بری جھوٹی سچی معلومات انسان کو زندگی کی ڈگر سے ہٹا رہی ہیں جن کی جانب سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

انفارمیشن ٹیکنالوجی دور میں اردو کی ترقی

 

اردو ایک عالمی زبان ہے۔ اردو زبان کی گنگا جمنی تہذیب، اردو غزل اور اردو زبان کی ہمہ گیریت نے اسے بلاشبہ دنیا بھر کی مقبول اور پسندیدہ زبان بنا دیا ہے۔ امیر خسرو، ولی، میر و غالب نے اردو زبان کی جو وراثت چھوڑی تھی اس پر اردو کی آنے والی نسلوں نے شاندار تہذیبی عمارت تعمیر کی ہے اور دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو بھی اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو رہی ہے۔ اور اردو زبان میں تعلیم اور روزگار کے بڑھتے مواقع اور اردو کی نئی بستیوں کے براعظم یورپ، امریکہ، آفریقہ اور آسٹریلیا میں قیام اور وہاں اس زبان کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو کا مستقبل روشن ہے۔ اور اردو ذریعہ تعلیم سے آگے بڑھنے والے کسی طالب علم کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اکیسویں صدی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی کہا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور سیل فون کے ذریعے معلومات کا برق رفتاری سے تبادلہ عمل میں آ رہا ہے اور انسان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس طوفان میں مشینی زندگی گذارنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس صدی میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بڑھتے استعمال نے اردو زبان کو بھی اس نئی ترقی سے ہم آہنگ ہونے کا حوصلہ دیا۔ اور جو زبان پہلے قلمی کتابت کے ذریعے اخباروں اور کتابوں سے عوام تک پہنچتی تھی۔ اب کمپیوٹر کتابت اور الیکٹرانک ذرائع سے ہم آہنگ ہو کر ترقی کی راہیں طے کر رہی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اردو کی ترقی اپنی ترقی کی راہ پر ہے۔ آج سے دو دہائی قبل ان پیج کے ذریعے کمپیوٹر پر اردو کتابت کا کام شروع ہوا۔ اور اردو اخبارات اور کتابیں کمپیوٹر کی خوبصورت کتابت سے آراستہ ہو کر شائع ہونے لگی تھیں۔ ان پیج کی کتابت میں صرف تصویری کام ہوتا ہے۔ اور کورل ڈرا اور فوٹو شاپ کی مدد سے رنگین تحریری کام کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کام دوسرے کمپیوٹر پروگراموں میں دیکھا نہیں جاتا۔ اور اردو تحریر کو پڑھنے کے لئے اردو ان پیج لازمی رہا۔ انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد گوگل سرچ میں اگر ہم اردو کے کسی موضوع پر اردو میں مواد ڈھونڈنا چاہیں تو اردو ان پیج کی کمزوری سے اردو کا بیش قیمت مواد انٹرنیٹ پر نظر آنے سے محروم رہا۔ جب دنیا میں کمپیوٹر کا استعمال بڑھا اور ٹیلی ویژن، سیل فون اور دیگر ٹیکنالوجی کے آلات میں اردو کے استعمال کی ضرورت بڑھی تو اردو کے علاوہ دنیا کی تمام زبانوں کو کمپیوٹر کے ایم ایس آفس پروگرام اور انٹرنیٹ کے مختلف پروگراموں میں شامل کرنے کے لئے زبانوں کا یونیکوڈ نظام شروع کیا گیا اور اس کے اعتبار سے کی بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی۔ اردو میں جمیل نوری نستعلیق اور علوی نستعلیق فانٹس تیار ہوئے۔ جن کی مدد سے ایم ایس آفس کے کسی بھی پروگرام، فیس بک، ٹویٹر اور دیگر پروگراموں اور سیل فون میں اردو لکھنا آسان ہو گیا۔ اور ان پیج کو یونیکوڈ میں منتقل کرتے ہوئے اردو زبان و ادب کا بیش قیمت ذخیرہ انٹرنیٹ پر محفوظ کر دیا گیا ہے۔ آج اگر کوئی گھر بیٹھے اپنے کمپیوٹر پر کلیات اقبال، کلیات غالب دیکھنا چاہتا ہے ، مضامین سرسید دیکھنا چاہتا ہے یا اردو کی کوئی بھی کتاب یا کسی موضوع پر مضمون دیکھنا چاہتا ہے تو وہ یونیکوڈ سہولت کو گوگل سرچ میں استعمال کرے تو اسے اردو زبان و ادب کا ایک نیا جہاں نظر آئے گا۔ اردو وکی پیڈیا پر اردو کے شعرا اور اردو زبان و ادب کے دیگر موضوعات پر معلوماتی مضامین دستیاب ہوں گے۔ اردو کے اہم بلاگس، اردو کے ای اخبارات اور اردو زبان و ادب کی دلچسپی کے بہت سے موضوعات دستیاب ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کی نئی نسلتیار ہو اور وہ ٹیکنالوجی کے اس سفر میں اردو کو بھی آگے لے جائے۔ ہندوستان میں اردو کی ترقی کے ادارہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے حال ہی میں مرکزی وزیر کپل سبل کی کوشش سے نوکیا فون میں اردو لکھنے اور پیغام رسانی کی سہولت کا آغاز کیا ہے۔ منتخب اے ٹی ایم مشینوں میں اردو تحریر آ گئی ہے۔ اسی طرح اردو والے اپنا کام جیسے ای میل بھیجنا یا مضامین بھیجنا ہو تو اسے اردو میں یونیکوڈ کی مدد سے بھیجیں۔ اردو کی اس ٹیکنالوجیکل ترقی کے علاوہ اردو کے اور بھی مواقع ہیں۔ جیسے اردو صحافت میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اردو صحافیوں کی مانگ ہے۔ اردو کی طباعت اور اشاعت کے کاموں میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈی ٹی پی اور کمپوزنگ کا کام جاننے والے اردو سے روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ اردو کے دیگر دستیاب مواقع سے بھی استفادہ حاصل کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے اور اردو کے مسائل کو پہچانتے ہوئے انہیں حل کرنا اردو کی آنے والی نسلوں کی اہم ذمہ داری ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

اردو ذریعے تعلیم سے روزگار اور ملازمت کے مواقع مسائل اور امکانات

 

اردو ذریعے تعلیم سے آج جتنے روزگار کے مواقع ہیں شائد ماضی میں اتنے مواقع نہیں تھے۔ آئیے دیکھیں کہ اردو ذریعے تعلیم سے کون لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کی سماجی اور معاشی حیثیت کیا ہے۔ حکومت اور عوامی اداروں کی جانب سے انہیں روزگار اور ملازمت حاصل کرنے کے کیا مواقع دستیاب ہیں اور کیا مواقع متوقع ہوسکتے ہیں۔ جب اردو کی بات ہوتی ہے تو کچھ دل خوش کن باتیں ہوتی ہیں کچھ قراردادیں منظور ہوتی ہیں اور کچھ وعدے ارادے ہوتے ہیں لیکن عملی کام کچھ نہیں ہوتا۔ اردو عالمی سطح پر ایک مقبول زبان ہے۔ برصغیر کے کروڑوں عوام کی مادری زبان ہے۔ چونکہ اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے تو کچھ فرقہ پرست ذہن رکھنے والوں نے اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے دیا اور اسی مریضانہ ذہنیت پر عمل کرتے ہوئے ارباب اقتدار نے ہر زمانے میں اردو کے ساتھ نا انصافی کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار اردو اپنی مقبولیت کے گراف کو اونچا کرتی ہی گئی۔ اور آج ہندوستان کا سیکولر طبقہ یہ بات مانتا ہے کہ اردو مسلمانوں کی نہیں بلکہ ہندوستان اور سارے عالم کی ایک مقبول زبان ہے۔ میں اپنے موضوع پر آندھرا پردیش اور موجودہ علاقہ تلنگانہ کی حد تک بات کرتا ہوں۔

یہاں تعلیمی نظام 10+2+3رائج ہے۔ یعنی ہائی اسکول میں دسویں جماعت تک اس کے بعد انٹر کے دو سال اور ڈگری کے تین سال۔ ذریعے تعلیم کے بارے میں ماہرین تعلیم کی یہ متفقہ رائے ہے کہ بچے کی ابتدائی تعلیم کم از کم مادری زبان میں ہونا چاہئے۔ بچہ اپنے گھر سے فطری طور پر مادری زبان سیکھ کر آتا ہے۔ اگر اس کی ابتدائی تعلیم مادری زبان سے شروع ہو تو اسے پھر سے انڈے یا سیب کو انگریزی،تلگو یا ہندی میں کیا کہتے ہیں دماغ لڑانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ سائینس ریاضی اور سماجی علوم کو بھی اپنی مادری زبان میں پڑھتے ہوئے ترقی کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ چین جاپان روس، امریکہ اور فرانس جیسی ترقی یافتہ قومیں اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتی ہیں یہ اور بات ہے کہ انگریزی کی عالمی مقبولیت کے سبب اب چینیوں اور جاپانیوں کو انگریزی سیکھنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ انگریز حکمران رہے تھے اس لئے انہوں نے جاتے جاتے انگریزی کا چلن ہندوستان میں عام کر دیا۔ انہوں نے حکومت چلانے اور عدلیہ کے جو قوانین بنائے وہ سب انگریزی میں تھے۔ اور آزادی کے بعد بد قسمتی سے سرکاری کام کاج اور دفتری کاروائی انگریزی میں ہونے سے ہندوستان میں انگریزی ذریعے تعلیم کو حصول روزگار اور ترقی کا پہلا اور بنیادی ذریعہتسلیم کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے CBSC تعلیمی اداروں کی سرپرستی اور خانگی سطح پر انگریزی میڈیم تعلیمی اداروں کو پروان چڑھنے کی کھلی چھوٹ دینے سے گذشتہ بیس سال میں ہندوستان میں تعلیم کے شعبے میں بڑا نقصان ہوا ہے۔ اور ماہرین تعلیم کی رائے کے باوجود ملک کا دولت مند اور متوسط طبقہ اپنے بچوں کو مادری زبان اردو یا کوئی اور زبان ہو غیر فطری انگریزی میڈیم سے تعلیم دلانے لگا ہے۔ اور کوا چلا ہنس کی چال نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے کہ مصداق ان انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھنے والے بچے معیار کے اعتبار سے پیچھے رہ گئے۔ جب کہ مادری زبان کے مدارس صرف سرکاری مدارس رہ گئے جہاں غریب اور متوسط گھرانے کے طلبا پڑھنے لگے۔ جن کے معاشی اور معاشرتی حالات ایسے رہے کہ وہ بچے اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے نہیں کر پا رہے ہیں۔ آج جب ہم ہمارے تعلیمی نظام پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تلنگانہ کے علاقے میں اردو بولنے والے کثرت کے علاقوں میں بے شمار اردو میڈیم مدارس ہیں۔ لیکن ہر سال داخلوں کے موقع پر اساتذہ کو گلی گلی پھر کر بچوں کو اسکول میں داخلہ دلانے کے لئے راغب کرنا پڑتا ہے جب کہ حکومت نے دوپہر کے کھانے کی اسکیم بھی چلا رکھی ہے۔ اب یہ ماحول بنادیا گیا ہے کہ جس کے پاس دولت نہیں وہ ان اردو مڈیم اسکولوں میں برائے نام اپنے بچوں کا داخلہ کراتے ہیں اور کسی طرح ہائی اسکول اور انٹر تک یہ بچے اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آج ان اسکولوں میں لڑکیوں کاتناسبتو حوصلہ افزا ہے لیکن لڑکوں کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔ جن والدین کے پاس کچھ پیسے ہیں وہ اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم میں بھاری بھاری فیس دے کر پڑھا رہے ہیں۔ اردو میڈیم سے پڑھنے والے طالب علم کو یہ کہہ کر مایوس کیا جاتا ہے کہ اردو سے پڑھ کر اسے کیا ملے گا۔ اور اردو میں اعلیٰ تعلیم کہاں ہے۔ جب کہ آزادی سے بہت قبل نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان نے مادری زبان میں اعلیٰ تعلیم کی اہمیت دیکھتے ہوئے حیدرآباد میں عظیم مادر علمیہ جامعہ عثمانیہ قائم کی تھی اور اس یونیورسٹی میں روایتی، فنی اور تمام سائینسی مضامین کی اعلیٰ تعلیم صرف اردو میں دی جاتی تھی۔ تعلیم کے لئے درکار اہم ضرورت نصابی اور دیگر نصابی کتابوں کی دستیابی کے لئے دار الترجمہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس یونیورسٹی اور اس کے دار الترجمہ نے جو کام اردو میں کیا تھا اس کے ثمرات آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں اردو ذریعے تعلیم کے فروغ کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے فارغین انگریزی کے بھی ماہر ہوا کرتے تھے اور وہ اس زمانے کے آئی سی ایس امتحان میں بھی کامیاب ہوتے تھے اور دنیا بھر میں عثمانیہ کے ع کا نام روشن کرتے تھے۔ عزیز احمد، ڈاکٹر حمید اللہ، ہاشم علی اختر اور بے شمار فارغین عثمانیہ نے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے کے باجود دنیا بھر میں نام روشن کیا۔ آزادی کے بعد عثمانیہ سے اردو ذریعے تعلیم کو ایک سازش کے تحت ختم کر دیا گیا۔ اور اب اردو جامعہ عثمانیہ کی سنگی دیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ رہی ہے۔

اردو سے اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اہلیان اردو کی خواہش پر حیدرآباد میں اردو کی مرکزی یونیورسٹی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی قائم ہوئی ہے۔ جس میں اردو میں روایتی کورسز کے ساتھ فنی اور عصری علوم کی تعلیم دی جا رہی ہے اور بہت جلد اس یونیورسٹی میں طب، طبعیات، کیمیا، ریاضی کے شعبے بھی قائم ہوں گے اس کے لئے ایک مرتبہ پھر دار الترجمے کی ضرورت ہو گی۔ جس کو یونیورسٹی کے ارباب مجاز ملحوظ رکھیں۔ جب یہ یونیورسٹی مکمل طور پر کام کرنے لگے گی تب اردو ذریعے تعلیم سے آگے بڑھنے والے طالب علم کو عصری حالات سے ہم آہنگ ہونے کا بھر پور موقع ملے گا۔

اب جہاں تک اردو سے سرکاری ملازمتیں ملنے اور روزگار کا مواقع کا معاملہ ہے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہتدریس کے شعبے میں اردو میڈیم کے طالب علموں کے لئے سرکاری ملازمت میں داخل ہونے کے خاطر خواہ مواقع دستیاب ہیں۔ اردو میڈیم سے انٹر کے بعد طلبا ڈائٹ سیٹ کامیاب کریں اور ٹی ٹی سی کی تربیت حاصل کریں تو وہ ایس جی ٹی جائیداد کے اہل ہوسکتے ہیں جس میں ابتدائی تنخواہ 25ہزارتک ہے۔ حیدرآباد کے مقابلے میں تلنگانہ کے دیگر اضلاع میں اس جانب رجحان زیادہ ہے اور ہزاروں طلبا و طالبات اردو میڈیم اس لئے پڑھتے ہیں کہ انہیں ٹیچر کی سرکاری نوکری ملے۔ حیدرآباد میں اس رجحان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر طلباء ڈگری کے بعد بی ایڈ کریں تو انہیں اسکول اسسٹنٹ کے ہائی اسکول ٹیچر بننے کے مواقع ہیں۔ جس میں جائیدادیں کم ہیں۔ سائینس سے پڑھنے والے طلبا کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی ڈاکٹر یا انجینیر بنیں۔ ایم بی بی ایس میں نشستیں محدود ہیں اور اردو میڈیم کا طالب علم ایم بی بی ایس کے معیار کو نہیں پہنچ سکتا۔ ایسے طلبا کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بی یو ایم ایس ایک ایسا کورس ہے جس میں اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے طلباء ڈاکٹر بن سکتے ہیں اور ایم ڈی بھی کر سکتے ہیں۔ حیدرآباد کے یونانی میڈیکل کالج اور کرنول کے عبدالحق یونانی کالج میں 5050نشستیں دستیاب ہیں۔ جس کے لئے صرف ایک یا دو ہزار طلباء ہی انٹرنس لکھ رہے ہیں اس جانب عوامی شعور بیداری کی ضرورت ہے۔ حیدرآباد میں سیاست ہال میں اس کی کوچنگ دی جاتی ہے۔ اضلاع میں سائینس کے لیکچررس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طلبا کو اس کورس کی جانب راغب کریں۔ کیونکہ بی یو ایم ایس کے بعد جونیر میڈیکل آفیسر کے نام سے سرکاری ملازمتیں بھی ہیں۔ اور بہت سے یونانی ڈاکٹرس آج سماج میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انگریزی میں مہارت حاصل کرتے ہوئے اردو میڈیم ریاضی کے طلبا انجینیرنگ اور پالی ٹیکنیک میں جا سکتے ہیں۔

موجودہ دور میں تین شعبے ایسے ہیں جس میں ملازمت کے مواقع زیادہ ہیں وہ بزنس، جرنلزم اور قانون کے ہیں۔ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں اردو میں ایم بی اے کی سہولت ہے اور وہاں کے شعبہ جرنلزم میں اردو میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ اگر طالب علم میں انگریزی کا ذوق ہو اور وہ اردو میڈیم سے بھی ایم بی اے کرے تو اپنی ذاتی قابلیت اور مہارت کی بنیاد پر ایم بی اے کی بنیاد پر ملازمت حاصل کر سکتا ہے۔ جرنلزم شعبے میں جو طالب علم اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے قومی و بین الاقوامی صحافتی اداروں میں ملازمت حاصل کر رہے ہیں۔ بی بی سی، ڈوئشے ویلے جرمنی، ریڈیو جاپان وغیرہ میں اردو صحافیوں کے لئے مواقع ہیں۔ حیدرآباد میں ای ٹی وی کے علاوہ ساکشی، ایچ ایم ٹی وی، 4وی، روبی اور دیگر چینلوں پر خبریں پڑھنے اور پردے کے پیچھے خبریں بنانے کے لئے ماہر صحافیوں کو ملازمت کے مواقع مل رہے ہیں۔ اردو کے بڑے اخبارات سیاست، منصف، اعتماد، سہارا، رہنمائے دکن وغیرہ میں رپورٹر اور سب ایڈیٹر کے لئے اچھے مواقع دستیاب ہیں۔ جرنلزم سے جڑا ہوا ایک اور شعبہ اردو کمپیوٹنگ اور ڈی ٹی پی کا ہے۔ اگر کسی کو اردو ٹائپنگ اور ڈیزائننگ میں مہارت ہو تو اسے اخباری اداروں میں پر کشش تنخواہ پر ملازمت مل رہی ہے اس کے علاوہ خود سے ڈی ٹی پی اور ڈیزائیننگ کرتے ہوئے روزگار حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چھتہ بازار اور لکڑی کا پل کے اشاعتی اداروں میں اردو کے ماہرین ہیں لیکن بہت کم ہیں اس جانب توجہ کی ضرورت ہے۔ اردو اکیڈیمی اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے کمپیوٹر کے ادارے طلبا کو اردو کمپیوٹر سکھا رہے ہیں۔ جہاں تک قانون کے شعبے کی بات ہے اگر اردو میڈیم کا طالب علم انگریزی سے قانون کی تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ بھی اچھا قانون داں بن سکتا ہے۔ آج نلسار یونیورسٹی کے فارغین کو سالانہ ایک کروڑ سے زیادہ تنخواہ آفر کی جا رہی ہے۔

انٹر یا ڈگری تک اردو میڈیم پڑھنے والا طالب علم ریلوے اور بنکنگ کے امتحان لکھتے ہوئے بھی بہت سے روزگار کے مواقع سے استفادہ کر سکتا ہے۔ اس کے لئے بر وقت معلومات رکھنے کی ضرورت ہے۔ آئی اے ایس کی تعلیم ملک کی سب سے اعزازی تعلیم ہے۔ اردو میڈیم کے طالب علم اس جانب توجہ ہی نہیں کرتے کہ انہیں اس جانب راغب کرنے والے کوئی نہیں۔ ملک میں ہر سال جو ایک ہزار کے قریب آئی اے اے ایس منتخب ہوتے ہیں ان میں صرف 3040اردو جاننے والے ہوتے ہیں۔ جب کہ آئی اے ایس میں ایک پرچہ اختیاری مضمون کا ہوتا ہے جس میں اردو اختیاری مضمون لیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں کشمیر کے شاہ فیصل نے اردو اختیاری مضمون لیتے ہوئے آئی اے ایس کامیاب کیا تھا۔ حیدرآباد میں مولانا آزاد اردو یونیورسٹی اور اقلیتی بہبود کے ادارے CDEMکے تحت ہر سال منتخب امیدواروں کو آئی اے ایس کی کوچنگ دی جا رہی ہے لیکن اس کے ثمرات آنا باقی ہیں۔ بہر حال اردو میڈیم کا طالب علم با وقار آئی اے ایس بننے کا خواب دیکھے تب ہی وہ حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔

اردو میڈیم سے مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں روایتی کورسز میں کامرس،تاریخ، پبلک اڈمنسٹریشن اور نامپلی کالج میں معاشیات میں ایم اے کی تعلیم کی سہولت ہے جس کی بنیاد پر طلبا لیکچرر بن سکتے ہیں۔ آندھرا پردیش کی تمام ہی جامعات میں اردو مضمون کا شعبہ ہے جہاں پی ایچ ڈی تک اردو کی تعلیم ہے جس کی بنیاد پر طلبا جونیر و ڈگری کالج میں لیکچرر بن سکتے ہیں اور یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر بن سکتے ہیں اور ہمارے سامنے مثال ہے کہ ساتاواہانا یونیورسٹی کریم نگر اور تلنگانہ یونیورسٹی نظام آباد میں طلبا اردو کے شعبوں میں لیکچرر کے عہدوں پر فائز ہیں۔ اردو میں پی جی والوں کے لئے جے آر ایف اور نیٹ امتحان ہیں جس میں کامیابی کے بعد ترقی کے مواقع ہیں۔ مرکزی یونیورسٹیوں میں اردو میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کو ماہانہ آٹھ ہزار اسکالر شپ دی جا رہی ہے۔ جسے ریاستی یونیورسٹیوں میں توسیع دینے کی ضرورت ہے۔ مولانا آزاد نیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن دہلی کی جانب سے ہر سال اردو میڈیم سے پی ایچ ڈی کرنے والے طلبا یا اقلیتی طلبا کو ماہانہ بیس ہزار اسکالر شپ دی جا رہی ہے اور حیدرآباد میں کئی طلبا اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اضلاع کے طالب علموں کو اس جانب رہبری کرانے کی ضرورت ہے۔

اردو میڈیم سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اگر کوئی طالب علم انگریزی میڈیم سے ڈگری اور بی ایڈ کرتا ہے تو اسے حکومت کی جانب سے نئے شروع کردہ ماڈل اسکولوں میں ملازمت دی جا رہی ہے۔ ملازمت کے ان مواقع کے علاوہ اردو میڈیم طالب علم کو اپنی ذاتی محنت اور صلاحیت کی بنیاد پر خانگی شعبے میں بھی بھر پور مواقع ہیں۔ترجمہ بھی ان دنوں ایک فن کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ انگریزی سے اردو یا عربی یا مقامی زبان سے اردو کے مترجمین کے لئے ملازمت کے مواقع دستیاب ہیں۔ حکومت یا بنکوں سے قرض حاصل کرتے ہوئے اردو کا طالب علم کوئی بھی کاروبار یا ادارہ کھول سکتا ہے۔ واضح رہے کہ زبان کی مہارت بے کار نہیں جاتی اگر کسی کو اچھا بولنے آئے تو وہ موجودہ میڈیا کلچر میں آر جے اور وی جے بن سکتا ہے۔ حیدرآباد سے کچھ نوجوان اس شعبے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ جاب ورک کے عنوان پر بہت سا کام روزگار دلا سکتا ہے۔ اور لوگ یہ کام کر رہے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو میڈیم کے طالب علم کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس کی رہبری کی جائے اور خود طالب علم بھی اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرے کہ ٹاپ کی پوزیشن اس کی ہو گی۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو میڈیم والوں کے لئے مواقع کم ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اور اردو کے فروغ کا نعرہ دینے والے سنجیدگی سے حکومت کی سطح پر اقدامات کریں۔ زبان اور زبان والوں کی ترقی کے لئے حکومت کی سرپرستی ضروری ہے۔ آنے والے تلنگانہ میں اردو کو لازمی طور پر ریاست کی دوسری سرکاری زبان بنایا جائے اور حکومت کے کام اردو میں بھی ہوں تب اردو ذریعے تعلیم سے ترقی ممکن ہو گی۔ اس بات کو شدت سے اٹھایا جائے کہ اردو والوں کو جیسے تلگو لازمی پڑھائی جا رہی ہے ویسے ہی تلگو والوں کو بھی لازمی طور پر اردو پڑھایا جائے اس سے بھی اردو کی ترقی ممکن ہو گی جیسے عثمانیہ یونیورسٹی کے دور اول میں ہوا تھا کہ سب اردو میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ بہر حال یہ چند معلومات تھیں جس سے امکان ہے کہ اردو میڈیم کے طالب علم کو رہبری ہو گی۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید