FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

سائبر دور میں حیدر آباد کے روزنامے، مسائل اور امکانات

 

 

 

 

 

محمد احتشام الحسن

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

پیش لفظ

 

سب سے پہلے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر و سپاس بجا لاتا ہوں جس کے بے حد و بیاں فضل و کرم سے یہ ناچیز اس قابل ہو سکا کہ پیش نظر مقالے کو تا بحد امکان حسن و خوبی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچا سکا۔ ایم اے کے زمانۂ طالب علم ہی سے راقم الحروف کو صحافت سے گہرا لگاؤ پیدا ہو چکا تھا چنانچہ یونیورسٹی سے آنے کے بعد جز وقتی طور پر پیشۂ صحافت سے منسلک ہو چکا تھا۔ ایم اے سے فراغت کے بعد جب میں نے ایم فل کی سند حاصل کرنے کے لئے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں داخلہ لیا تو صحافت سے میری عملی وابستگی اور اس فن سے میرے شغف کو دیکھتے ہوئے اساتذہ نے مجھے اپنے تحقیقی مقالے کے لئے صحافت سے متعلق کسی موضوع کا انتخاب کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ میں نے اپنے لئے موضوع چنا ’’سائبر دور میں حیدر آباد کے روزنامے، مسائل اور امکانات‘‘۔ خوش قسمتی سے میرے انتخاب کردہ موضوع کو شعبے کی ریسرچ کمیٹی نے منظور کیا اور مجھے اس پر کام کرنے کی اجازت دی۔ ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس میرے مقالے کے نگراں مقرر ہوئے جن کی رہنمائی اور علمی اعانت سے میں اپنا مقالہ مکمل کر سکا۔

اس موضوع پر کام کے آغاز سے قبل میں یہ سمجھتا تھا کہ مجھے اس سے متعلق درکار مواد بہ آسانی مل جائے گا لیکن جب کام کا آغاز کیا تو مواد کی فراہمی روز بہ روز پریشان کن ثابت ہوتی گئی، کیونکہ اردو میں اس موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ میں نے مختلف کتب خانوں کی خاک چھانی، گھنٹوں انٹرنیٹ اور موضوع سے متعلق مواد کو تلاشا۔ سینئر صحافیوں سے تبادلۂ خیال کیا اور اخبارات کے قدیم شماروں کی ورق گردانی کی اور اپنے عملی تجربے کو بروئے کار لایا اس طرح دھیرے دھیرے میرا کام آگے بڑھتا گیا۔ تا آنکہ اب یہ مقالہ مکمل صورت میں پیش خدمت ہے۔ سائبر دور اور حیدر آباد کے اردو روزناموں کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے قبل اردو صحافت کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر دوڑانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ہندوستان میں صحافت کا باقاعدہ آغاز 18 ویں صدی کے 8 ویں دہے میں ہوا۔ 29 جنوری 1780ء کو کلکتہ سے جیمس آگسٹس ہکی نے انگریزی زبان کا ہفت روزہ ہکیز گزٹ شائع کیا۔ اس طرح ہندوستان میں انگریزی زبان سے صحافت کا آغاز ہوا۔

کلکتہ ہی سے اردو کا پہلا اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ 27 مارچ 1822ء کو جاری ہوا۔ اس ہفتہ وار اخبار کے مدیر منشی سدا سکھ تھے۔ صحافت کی تاریخ بھی انسان کی بیشتر ایجادوں کی طرح کافی قدیم ہے۔

محمد عتیق صدیقی نے اپنی کتاب ’’ہندوستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہد میں‘‘ لکھا ہے کہ حضرت مسیح سے کوئی 751 برس قبل رومن راج میں روزانہ ایک قلمی خبرنامہ جاری کیا جاتا تھا جس میں سرکاری اطلاعات اور میدان جنگ کی خبریں بھی ہوتی تھیں۔ اس قلمی خبر نامے کو اک ٹاڈیورینا کہا جاتا تھا۔ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے جو ’’اکٹا۔ اور ڈیوری نا‘‘ سے مرتب ہے۔ پہلے لفظ کے معنیٰ کار روائی کے ہیں جبکہ دوسرے لفظ کے معنیٰ روزانہ کے ہیں۔

جدید اخبار نویسی کی تاریخ نسبتاً زیادہ قدیم نہیں 1566 میں وانیس (Vanis) کے شہر میں یہ طریقہ جاری کیا گیا تھا جہاں ایک شخص عام شاہراہ پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے عوام کی دلچسپی کے خبریں ایک قلمی مسودے سے پڑھ کر سناتا تھا۔ قلمی خبروں کا یہ مسودہ حکومت کی نگرانی میں مرتب کیا جاتا تھا۔

جو لوگ ان خبروں کو سنتے تھے ان افراد سے ایک اس وقت کا ’رائج الوقت، سکہ وصول کیا جاتا جس کو ’’گزیٹا‘‘ کہا جاتا اور شاید اس مناسبت سے ’’گزٹ‘‘ کا لفظ ایجاد ہوا جو اخبار کے معنوں میں بولا، لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

اس تجربے کے بعد ہی یوروپ کے دیگر ممالک میں بھی خبرناموں کا رواج شروع ہوا۔ پہلا مطبوعہ خبرنامہ 1609ء میں جرمنی سے جاری کیا گیا جو کہ ’’اویسا ریلیشن آڈر زٹینگ‘‘ (Avisa Relation Order Zeitung) تھا۔

یوروپ کے دیگر ممالک کی طرح قدیم ہندوستان میں اخبار کی فراہمی اور خبر رسانی کا باقاعدہ نظام تھا۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں خبریں منتقل ہوتی تھیں مغلوں کے زمانے میں اخبار نویسی نے بتدریج ترقی کی۔ اورنگ زیب کے عہد میں اخبار نویس اور واقعہ نویس کو ایک خاص حیثیت حاصل ہوئی۔ مغلیہ دور میں شاہی محل کے لئے روزانہ ایک قلمی اخبار جاری کیا جاتا تھا اور یہ اخبار محل تک ہی محدود نہ ہوتا بلکہ اس کی نقلیں دور دراز علاقوں کے امراء وغیرہ کے لئے بھی روانہ کی جاتی تھیں۔ ان اخبارات کے متعلق معلومات اور تفصیلات کا ذکر عتیق صدیقی نے اپنی کتاب ’’ہندوستانی اخبار نویسی‘‘ میں کیا ہے۔

مغلیہ دور، ہندوستان میں انگریزی حکومت، آزادی ہند کے لئے جد و جہد کے ادوار آزاد ہندوستان، لیتھو پرنٹ، آفسیٹ پرنٹ، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ صحافت تک کا دور اپنی ایک طویل اور دلچسپ تاریخ رکھتا ہے اور ان ادوار کے متعلق ہمارے علماء، ادیب اور محققین نے کئی اوراق سیاہ کر چکے ہیں۔ ادب اور صحافت کا خاص رشتہ ہونے کی وجہ سے صحافت کے متعلق اہل قلم نے کئی ایسے موضوعات پر اپنی صلاحیت اور توانائیاں صرف کی ہیں جس نے بیش و بہا مواد کے ذخائر جمع کر دیئے ہیں۔ اردو صحافت کے چند اہم موضوعات کی فہرست پر سرسری نظر ڈالی جائے تو اس میں ہندوستان میں اردو صحافت، اردو صحافت ایک جائزہ، اردو صحافت عہد بہ عہد، انگریزی صحافت کے اردو صحافت پر اثرات، جنگ آزادی میں اردو صحافت کا حصہ، اردو صحافت اور قومی یکجہتی، اردو صحافت اور اخلاقیات، اردو صحافت اور ادب، اردو صحافت اور ترجمہ کا فن، اردو صحافت اور اسپورٹس، مذاہب کی ترویج و تبلیغ میں اردو صحافت کا حصہ، اردو صحافت اور طنز و مزاح، اردو افسانے کے فروغ میں صحافت کا حصہ، اردو صحافت اور فلم و ٹی وی، جنوبی ہند میں اردو صحافت، دہلی میں اردو صحافت۔ حیدر آباد دکن میں اردو صحافت، 20 ویں صدی میں اردو صحافت اور عصری تقاضے، اردو صحافت میں عصری ٹکنالوجیز کا استعمال، ریڈیو صحافت اور ٹیلی ویژن صحافت جیسے موضوعات بہ آسانی مل جاتے ہیں لیکن 21 ویں صدی کی اہم ایجادات کمپیوٹر اور انٹر نیٹ (سائبر ٹکنالوجی) کے اردو صحافت میں استعمال کے بعد اس موضوع پر بہت ہی کم لکھا گیا ہے۔

یہ مقالہ ’’سائبر دور میں حیدر آباد کے روزنامے ’’مسائل اور امکانات‘‘ 21 ویں صدی کی ’’نئی ٹکنالوجی سائبر دور‘‘ یا سائبر ٹکنالوجی‘‘ کے زمانے میں حیدر آباد دکن سے جاری ہونے والے چند کثیر الاشاعت و مقبول عام اخبارات روزنامہ سیاست، رہنمائے دکن، منصف، اعتماد اور قومی روزنامہ راشٹریہ سہارا میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے استعمالات کا آغاز اور ان اخبارات میں ہونے والی اہم تبدیلیوں کے احاطے کی غرض سے تیار کیا گیا ہے۔

موضوع کے اعتبار سے اس مقالے کو 6 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن اس مقالے کو بہ آسانی 2 بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ مقالہ صرف 21 ویں صدی میں حیدر آباد کے روزناموں کا تذکرہ اور ان میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کی تفصیلات کا ہی احاطہ نہیں کرتا بلکہ اس کا پہلا حصہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ٹکنالوجی کے وجود میں آنے کے بعد ایک نئے دور ’’سائبر دور‘‘ کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ ابتدائی 2 ابواب کو اگر مقالے سے علیحدہ کر دیا جائے تو یہ ابواب دنیا میں کمپیوٹر اور خصوصاً شخصی اور دفتری امور کی انجام دہی کے لئے استعمال ہونے والے پرسنل کمپیوٹر کے ایجاد اور ارتقائی منازل کی تفصیلات فراہم کرنے کے علاوہ کمپیوٹرس کو انٹرنیٹ سے منسلک کرتے ہوئے دنیا کو ’’گلوبل ولیج‘‘ بنانے کی شوا ہد پیش کرتے ہیں۔

باب اول جو کہ ’’سائبر دور کے آغاز اور ارتقاء‘‘ کے نام سے شامل کیا گیا اس باب میں کمپیوٹر کے ایجاد، موجد اور اس کے ارتقائی منازل کا احاطہ کیا گیا ہے جس کے بعد کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے انٹرنیٹ کی تیاری اور اس کی افادیت اور اہمیت کے پیش نظر اس کے امریکہ، یوروپ اور افریقی ممالک تک وسعت کا بھی باب اول میں ہی احاطہ کیا گیا ہے۔

پہلے باب کی تفصیلات بعض غلط فہمیوں اور شبہات کا بہترین جواب ہیں عام خیال ہے کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ایک ہی سکے کے نام ہے لیکن افتتاحی باب کے مطالعہ کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعہ تیار کی جانے والی ٹکنالوجی جسے سائبر ٹکنالوجی کہا جاتا ہے وہ ایک ہی سکے کے 2 نام نہیں بلکہ ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ سائبر ٹکنالوجی کی افادیت اور اہمیت نے دیکھتے ہی دیکھتے جہاں دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو متاثر کیا وہیں ہمارے ملک ہندوستان میں بھی اس کا شاندار خیر مقدم کیا گیا۔

باب دوم جو در اصل ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کی آمد کی اہمیت اور مقالے کے پیش نظر ضروری معلومات فراہم کرتا ہے۔ ہندوستان میں پہلے کمپیوٹر کی آمد کی تفصیلات انٹرنیٹ کے ذخیرے میں تو موجود ہیں لیکن ہمارے ملک میں انٹرنیٹ کا آغاز کب اور کہاں ہوا اس کی معلومات کے حصول کے لئے راقم الحروف کو نہ صرف ان تھک محنت کرنی پڑی بلکہ ایک طویل انتظار کرنا پڑا لیکن 29 اکٹوبر 2009ء کو جب ساری دنیا میں انٹرنیٹ کی 40 ویں سالگرہ کا جشن منایا جا رہا تھا اس وقت میڈیا میں انٹرنیٹ کی تاریخ کے اہم سنگ میل گشت کرنے لگے جس کے بعد معلوم ہوا کہ ہندوستان میں انٹرنیٹ کی آمد کا سال 1994ء ہے۔

باب دوم میں اس تاریخی واقعہ کے علاوہ ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کی آمد اور پھیلاؤ کی تفصیلات قلمبند کی گئی ہیں۔ جیسا کہ لکھا جا چکا کہ اگر اس مقالے سے ابتدائی 2 ابواب کو علیحدہ کر دیا جائے تو یہ ایک اہم اور معلوماتی کتاب کی شکل اختیار کر سکتے ہیں جس کے ذریعہ ’’اردو ادب اور سائبر ٹکنالوجی‘‘ کے تناظر میں تحقیق کرنے والے حضرات کی رہنمائی بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس مقالے میں ان ابواب کی شمولیت اس لئے ضروری تھی کہ یہ اگلے ابواب کے پس منظر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اردو ادب اور صحافت کے ساتھ سائبر ٹکنالوجی کے آغاز اور ارتقاء کو اس مقالے میں ایک دوسرے سے جوڑنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اردو داں طبقے کے لئے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ایک نیا مضمون ہے لہذا اس مضمون کی اہم معلومات کے بغیر دیگر ابواب کی تفصیلات کا مطالعہ نامکمل اور ناقابل فہم ہو گا۔

باب سوم میں سائبر دور سے قبل حیدر آباد کے اردو روزناموں کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں حیدر آباد دکن کی اردو صحافت کا مختصر اور اہم پس منظر پیش کیا گیا ہے نیز اس باب میں حیدر آباد کے اہم اخبارات، روزنامہ سیاست، رہنمائے دکن اور منصف کا تذکرہ کرنے کے علاوہ تاریخی پس منظر دیا گیا ہے۔

باب چہارم راقم الحروف کی نظر میں اس لئے کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس باب میں ہی ان اہم تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے جہاں شہر کے روزنامے روایتی طریقوں کو الوداع کرتے ہوئے اپنے دفاتر میں سائبر ٹکنالوجی کا خیرمقدم کر رہے تھے۔ یہ وہ حالات تھے جہاں شہر کے اخبارات کا عملہ نہ صرف خود اپنے کام کرنے کے طریقوں میں تبدیلیاں دیکھ رہا تھا بلکہ اخبارات کی اشاعت کے لئے نئی ٹکنالوجی بھی استعمال کی جا رہی تھی۔ اخبارات کے دفاتر میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں میں نہ صرف کمپیوٹر کے ذریعہ اردو کمپوزنگ شروع ہو چکی تھی بلکہ کاتبوں کو اپنی بقاء کے لئے ایک اہم جنگ کا سامنا تھا۔ اس ضمن میں شہر کے ایک سینئر صحافی اسد شمیم کا انٹرویو دستاویزی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اسد شمیم نے سائبر ٹکنالوجی کی آمد سے قبل حیدر آبادی اردو صحافت میں بحیثیت کاتب خدمات انجام دیں اور اس نئی ٹکنالوجی کی آمد اور اس کے استعمالات کے دور میں وہ معاون مدیر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسد شمیم کے خیالات اور ان سے حاصل کردہ تفصیلات نے ان حقائق کو واضح کر دیا کہ جب شہر کے اخبارات کے دفاتر میں کمپیوٹرس داخل ہونے لگے تو کاتبوں کو ان خدشات نے گھیر لیا کہ اب ان کی ملازمتیں خطرے میں ہیں حالانکہ اخبارات کے مالکین نے انہیں نئی ٹکنالوجی کو سیکھتے ہوئے خود کو بدلتے حالات سے ہم آہنگ کرنے کی تلقین کی اور سہولیات فراہم کی لیکن کاتبوں نے اپنے مالکین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا۔

باب پنجم میں سائبر ٹکنالوجی کے بعد اس نئے دور میں حیدر آباد سے شائع ہونے والے دو اہم روزناموں ’’اعتماد‘‘ اور قومی روزنامہ راشٹریہ سہارا سے متعلق قلم کو حرکت دی گئی ہے۔ اس باب میں ان دو اخبارات کی اشاعت میں سائبر ٹکنالوجی کے استعمالات سے ہونے والی آسانیاں اور ان اخبارات کی تزئین کا احاطہ کیا گیا ہے باب ششم ہمارے خیال میں پورے مقالے کا مغز ہے کیونکہ اخبار کے دفتر میں رہتے ہوئے سائبر دور میں دستیاب آسانیوں کے باوجود اردو صحافیوں کے مسائل کا راقم الحروف نے بہ نفس نفیس مشاہدہ کیا ہے اور ان اہم مسائل کو قلمبند کیا ہے جس پر ذرا سی توجہ اور محنت سے نہ صرف اردو صحافیوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ اس کے ذریعہ اردو زبان اور ادب کی ترقی و ترویج بھی ممکن ہے۔ مسائل سے کی جانے والی بحث کے اس باب میں نہ صرف صحافیوں کی شخصی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے بلکہ مشینوں اور آلات کے استعمالات کے بعد ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی پیش کیا گیا ہے جس میں اردو سافٹ ویر سے لے کر کمپیوٹرس، انٹرنیٹ، پرنٹرس اور پلاٹرس جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔ الغرض اس مقالے کے ذریعہ راقم الحروف نے اپنے اسلاف کی تقلید کی ایک کوشش کی ہے جہاں سینئر صحافی، علمائے اردو ادب اور اہل قلم نے صحافت کے متعلق کئی اہم تحقیقات اور تصنیفات کا ذخیرہ اردو ادب کے حوالے کیا ہے لیکن اردو صحافت کا سفر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ایجادات اور اس کے استعمالات تک محدود ہے لہذا امید کی جا سکتی ہے کہ یہ مقالہ اردو صحافت کے سفر کی اگلی منزل ہو گی جسے ہم سائبر دور میں اردو صحافت یا ویب صحافت کہہ سکتے ہیں۔

اس مقالے کی تکمیل میں مجھے کئی افراد کا تعاون حاصل رہا ان سب کے لئے تشکر کا اظہار کرنا مجھ پر واجب ہے۔ سب سے پہلے میں صدر شعبۂ اردو پروفیسر خالد سعید کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔ میں اپنے نگراں مقالہ ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس کا بھی ممنون ہوں جن کی رہبری میرے لئے مشعل راہ ثابت ہوئی۔ میں شعبے کے تمام اساتذہ کا شکر گذار ہوں جن کی شفقت مجھے حاصل رہی۔ میں اپنے والدین کا بھی مشکور و ممنون ہوں جن کی شفقتیں مجھے حاصل ہونے کے علاوہ انہوں نے لڑکپن سے ہی میری توجہ تعلیم کی طرف مبذول کروائی۔ میں اپنی اہلیہ کا بھی شکر گذار ہوں جنہوں نے انگریزی کتابوں سے مواد کے حصول اور اس کے ترجمے کے دوران میرا ساتھ دیا اور آخر میں ان تمام حضرات اور دوست و احباب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس مقالہ کی تیاری میں میری مدد کی۔

محمد احتشام الحسن

 

 

 

 

باب اول

 

سائبر دور کا آغاز و ارتقاء

 

اردو ادب اور صحافت میں اپنی نوعیت کا رشتہ ہے۔ صحافت گرچہ اپنا علاحدہ انداز رکھتی ہے لیکن پھر بھی یہ ادب کی ایک شاخ ہے۔ نیز دیگر اصناف ادب مثلاً کہانی، افسانہ اور ڈرامہ وغیرہ کی طرح اس کا علاحدہ اور مخصوص انداز تحریر ہوتا ہے۔ صحافتی زبان کے اپنے مخصوص آداب و قواعد ہیں جو اس کی پہچان کرواتے ہیں۔ فارسی کے بعد اردو میں صحافت کا آغاز ہوا اور بہت جلد اس نے ادب کی ایک مستقل اور اہم صنف کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اردو اخبارات صرف خبروں کی ترسیل ہی کا کام انجام نہیں دیتے ہیں بلکہ یہ زبان و ادب کی اشاعت اور تہذیب و تمدن کی ترویج میں بھی اپنا رول ادا کرتے ہیں۔

محققین کے متفقہ فیصلے کے مطابق اردو صحافت کے سلسلے کی سب سے پہلی کڑی ’’جام جہاں نما‘‘ ہے جو کلکتہ سے 27 مارچ 1822ء کو ہفتہ واری جاری ہوا۔ فارسی اور اردو زبان میں اس اخبار کی اشاعت ہوتی تھی۔ پہلے مطبوعہ اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ کی تاریخی اشاعت کی روشنی میں یہ بہ آسانی کہا جا سکتا ہے کہ اردو صحافت کی عمر تقریباً 200 برس کے قریب پہنچ چکی ہے۔

جنوبی ہندوستان کا علاقہ دکن کا بھی میدان اردو صحافت کے لئے ہمیشہ ہی زرخیز رہا یہاں سید احمد محی الدین صاحب مرحوم کی ادارت میں روزنامہ ’’رہبر دکن‘‘ 1920ء میں جاری ہوا۔ پولیس ایکشن (ستمبر 1948) کے وقت سید محمود وحید الدین ’’رہبر دکن‘‘ کے مدیر تھے لیکن پولیس ایکشن (جو در اصل ملٹری ایکشن تھا) کے ساتھ ہی رہبر دکن کی اشاعت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور اسے دوبارہ جاری کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ بعد ازاں محمد منظور حسن کی ادارت میں ’’رہنمائے دکن‘‘ جولائی 1949ء کو جاری ہوا۔ 15 اگست 1949ء کو حیدر آباد کے میر عابد علی خاں نے روزنامہ ’’سیاست‘‘ جاری کیا۔ 1976ء میں روزنامہ ’’منصف‘‘ شروع ہوا جسے بعد میں خاں لطیف خاں کی سرپرستی میں نئے انتظامیہ نے حاصل کر لیا اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے یکم جنوری 1998ء سے دوبارہ جاری کیا۔ حیدر آباد کے پرانے شہر سے برہان الدین اویسی کی ادارت میں 19 ستمبر 2005ء کو روزنامہ ’’اعتماد‘‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ نیز 31 اگست 2006ء کو قومی اردو روزنامہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘ نے حیدر آباد سے اپنے ایڈیشن کا آغاز کیا۔

اردو صحافت نے بدلتے وقت کے ساتھ عصری تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیتھو پرنٹ سے لے کر 21 ویں صدی کے جدید ترین مواصلاتی نظام کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسی ٹکنالوجی کو بھی اردو صحافت نے اپنے دامن میں جگہ دی۔

کمپیوٹر کے ایجاد اور پھر انٹرنیٹ سے اس کو مربوط کرنے کے بعد مواصلاتی دنیا میں ایک نیا انقلاب آیا کیونکہ یومیہ زندگی کے شخصی اور دفتری امور کی انجام دہی میں اس ٹکنالوجی نے اتنی آسانیاں پیدا کر دی کہ آج اس مواصلاتی نظام کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال دکھائی دیتا ہے۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے درپردہ کارفرما عناصر کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ 21 ویں صدی کے اس اہم ترین انقلاب کا بنیادی مقصد ریاضی اور حساب کتاب کے امور میں انسانی ذہنوں سے ہونے والی غلطیوں کو دور کرنا تھا اور کیالکولیٹر سے انجام دیئے جانے والے امور کے دائرے کار کردگی کو وسعت دینا تھا۔ مختلف مراحل کے تجربات اور برسہا برس کی ان تھک محنتوں کے بعد کمپیوٹر وجود میں آیا جس کے بعد محققین کی جماعتوں کے درمیان مواد کے حصول و ترسیل کو یقینی بنانے کے خیال نے کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے ان کے درمیان رابطہ قائم کیا اور اسی کوشش نے نٹ ورک جسے آج انٹرنیٹ بھی کہا جاتا ہے، اس کی بنیاد رکھی۔ کمپیوٹرس کی ایجاد اور انٹرنیٹ سے ان برقی آلات کو مربوط کرنے کے بعد مواصلاتی نظام نے ایک نئی دنیا کا تصور دیا جس کو ’’سائبر ٹکنالوجی‘‘ کا نام دیا گیا۔ نیز سائبر ٹکنالوجی کے وجود نے سائبر دنیا کا تصور دیا۔ انگریزی ادب میں سائبر دنیا کو ’’سائبر اسپیس‘‘ (Cyber Space) کہا جاتا ہے جس کا بنیادی مفہوم دنیا کے 2 مختلف مقامات پر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک ایسا رابطہ قائم کرنا ہے جہاں رابطہ کی دو شکلیں ہوں۔ سائبر اسپیس کا پہلا حصہ وہ ہوتا ہے جس کو ’’حقیقی‘‘ کہا جا سکتا ہے جبکہ دوسرا حصہ ’’خیالی‘‘ ہوتا ہے جیسا کہ پہلے حصے میں برقی آلات، انٹرنیٹ کے ذریعہ استعمال ہونے والے دیگر حقیقی آلات، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو استعمال کرنے والے صارفین وغیرہ یہ بھی حقیقی اجسام و زندگیاں ہیں جبکہ خیالی حصہ وہ ہے جس کو سائبر ٹکنالوجی کی اصطلاح میں ورچوول (Virtual) کہا جاتا ہے۔ ورچوول نظام کی بہترین مثال ایسی ہے جیسا کہ ادب کی قدیم داستانوں میں جن، پری اور جادو گروں کے ہواؤں میں اُڑنا ہے۔ ورچوول نظام میں ایک صارف دنیا کے کسی اور کونے میں موجود ہوتا ہے لیکن اس کے حرکات و سکنات اس کی آوازوں کا مشاہدہ ہم اپنے میز پر موجود کمپیوٹر پر بہ آسانی کر سکتے ہیں۔

کمپیوٹر کی ایجاد اور پھر اس میدان میں محققین و سائنسدانوں کی جانب سے کی جانے والی ان تھک محنتوں نے اس برقی آلے کو ایک بہترین شکل فراہم کی جس کے بعد اس آلے کو وجود میں لانے والے سائنسدانوں کی کاوشوں کو اگلی نسل کے سائنسدانوں کے ذہنوں میں ایک خیال پیدا ہوا کہ ہر کمپیوٹر اپنی اپنی جگہ انفرادی طور پر بہترین کار کردگی انجام دے رہا ہے تاہم کمپیوٹر صارفین کو اپنی مشین کے بجائے دوسرے کمپیوٹر کے استعمال کے لئے اُس کمپیوٹر تک رسائی ناگزیر ہے۔ ایک دفتر یا ایک ہی عمارت کی مختلف منازل میں موجود کمپیوٹر تک رسائی کا مسئلہ پیچیدہ اور سنگین نہیں تھا لیکن جب ضرورت ایک ایسے کمپیوٹر تک رسائی کی ہو جو جغرافیہ اعتبار سے یا فاصلے کے اعتبار سے اگر کافی دور ہو تو یہ ضرورت سنگین اور پیچیدہ مسئلے کی شکل اختیار کر رہی تھی۔ اسی صورت حال نے سائنسدانوں کو کمپیوٹر کو ایک دوسرے سے منسلک یا مربوط کرنے کی سمت راغب کیا۔ کمپیوٹر کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کی سمت کی جانے والی تحقیقات اور کاوشوں کے ضمن میں 29 اکٹوبر 1969ء کی شام انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اسی شام یعنی تقریباً 10:30 بجے شب کمپیوٹر سائنسدان چارلی کلین نے ایک تاریخ بنائی۔ چارلی نے ایک کمرے کے مماثل کمپیوٹر ’’ایس ڈی ایس سگما 7‘‘ (SDS Sigma 7) کے ذریعہ لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے فیلو پارک میں موجود اسٹانفورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے کمپیوٹر کو ایک برقی پیغام روانہ کیا جو انٹرنیٹ کی تاریخ کا پہلا برقی پیغام تھا جو ایک کمپیوٹر سے دوسرے تک پہنچایا گیا تھا ۱؂۔ اس کامیابی نے کمپیوٹر کے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہونے اور ان کے درمیان برقی شکل میں پیغامات کے حصول و ترسیل نے مواصلاتی نظام میں ہونے والے ایک بڑے انقلاب کی آمد کا نقارہ بجادیا تھا۔ 29 اکٹوبر 1969ء کو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے کمپیوٹر سائنسدان چارلی کلین نے 21 برس کی عمر میں جو کارنامہ انجام دیا تھا اُس نے صرف 4 دہوں میں دنیا کو ایک ’’گلوبل ولیج‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ مواصلاتی نظام میں ایک ایسا انقلاب آیا کہ پیغامات کی حصول و ترسیل دنوں اور ہفتوں کے بجائے صرف ساعتوں میں ہونے لگی۔

مواصلاتی نظام میں ہونے والے اس انقلاب نے زندگی کے کئی شعبوں کو متاثر کرنے کے علاوہ اس کی شکل و صورت بھی تبدیل کر دی۔ مؤثر اور نمایاں تبدیلیوں کے ساتھ کئی ایسے الفاظ اور اصطلاحات بھی وجود میں آئے جس کی 50 برس قبل دور دور تک کوئی پہچان نہیں تھی۔ نیز بدلتے وقت کے ساتھ ایک لفظ ’’سائبر‘‘ بھی آج ہماری زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے۔

لفظ ’’سائبر‘‘ در اصل سابقہ ہے جس کے استعمال کے ذریعہ آج کئی نئے الفاظ ہماری یومیہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ جیسے مشہور لفظ ’’سائبر آباد ‘‘حیدر آباد کے مضافاتی علاقے گچی باؤلی میں تلگو دیشم دورِ حکومت میں اس وقت کے ریاستی وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کی زیر سرپرستی میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے متعلق تجارت کو فروغ دیا گیا جہاں ملک کے علاوہ بیرونی ممالک کی چند مشہور و معروف سافٹ ویر کمپنیوں نے حیدر آباد میں اپنے دفاتر کا آغاز کیا۔ گچی باؤلی میں جن کمپنیوں نے اپنی تجارتی مصروفیات کا آغاز کیا ان میں دنیا کی نمبر ایک سافٹ ویر کمپنی مائیکرو سافٹ کے علاوہ گوگل، سیسکو، یا ہو اور ویپرو قابل ذکر ہیں۔ گچی باؤلی کے طویل و عریض علاقے میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو بنیادی ڈھانچہ بناتے ہوئے جو تجارتی سرگرمیاں شروع ہوئی ان پر قانونی تحدیدات اور یہاں بسنے والے مقامی اور بیرونی شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا حکومت کا اولین فریضہ تھا تاہم شہر کے پولیس اسٹیشنوں سے مضافاتی علاقوں پر نگرانی مشکل ترین امر تھا لہذا گچی باؤلی میں ہی پولیس اسٹیشنوں کے قیام کے ساتھ ان علاقوں کو ’’سائبرآباد‘‘ سے موسوم کر دیا گیا اس طرح حیدر آباد کے ساتھ مضافاتی علاقوں میں ’’سائبرآباد‘‘ کا اضافہ ہو گیا۔

لفظ ’’سائبر‘‘ جیسا کہ لکھا جا چکا ہے کہ ’’سابقہ‘‘ ہے لیکن اس لفظ سے مراد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال ہے یعنی کوئی بھی ایسا فعل جہاں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال ہوتا ہے اُس کو لفظ ’’سائبر‘‘ کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے۔ جس کی اول مثال ’’سائبرآباد‘‘ ہے اس کے علاوہ ’’سائبر ٹکنالوجی‘‘ یعنی ایسا مواصلاتی نظام جہاں مواد کی حصول و ترسیل کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے استعمال کے ذریعہ کی جاتی ہے، نیز گزشتہ 3د ہوں سے ایک لفظ ’’سائبر کرائم‘‘ بھی کافی مشہور اور مروج ہو چکا ہے جس سے مراد ایسے جرائم ہیں جن کی انجام دہی کے لئے مجرم کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ سائبر جرائم کی انجام دہی کے لئے جہاں مجرمین میں اعلیٰ تعلیمی قابلتیں ہوتی ہیں وہیں ان سائبر جرائم کے انسداد کے لئے قانون کے رکھوالوں میں بھی اس سائبر ٹکنالوجی کے متعلق اعلیٰ معلومات کا ہونا لازمی جز ہے۔

سائبر جرائم کے عروج کے ساتھ ان کی روک تھام کے لئے کئی قوانین متعارف کئے گئے اور ان قوانین کو ’’سائبر لا‘‘ (Cyber law) کو متعارف کیا گیا ہے جو آج تعلیم اور سند کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ سائبر انقلاب کے بعد اردو ادب اور اردو صحافت میں لفظ ’’سائبر‘‘ آج تعارف کا محتاج نہیں رہا۔

انگریزی ادب میں سب سے پہلے لفظ سائبر اسپیس(Cyber Space) کو ویلم گبسن نے اپنی ناول نیورومینسر (Newromancer) میں استعمال کیا تھا جس کو امریکہ میں ایس بک نے 1984ء کو شائع کیا ۲؂۔ لیکن اس سے قبل 1949ء میں نوربرٹ وینر کے یہاں بھی ’’سائبر نیٹک‘‘ کا استعمال ملتا ہے تاہم نوربرٹ کی تحریروں کا مبنع حیوانوں اور مشینوں کے درمیان رابطہ یا کنٹرول تھا لیکن گبسن نے اپنی تحریروں میں اس بات کی کوشش کی ہے کہ انسان نے ایک ایسی دنیا کی تخلیق کی ہے جو حقیقی نہ ہونے کے باوجود زندگی کے حقائق کو پیش کرتی ہے۔

لفظ سائبر یا سائبر اسپیس کے استعمالات کے متعدد شواہد دستیاب ہوئے ہیں لیکن ’’گبسن کی جانب سے استعمال کردہ تحریر، ہمیں ہماری مقصد کی تکمیل کرتی دکھائی دیتی ہیں کیونکہ گبسن نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ در اصل ہمارے اردو ادب اور صحافت کے مقاصد کے عہد و پیما کی تکمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

گبسن کی ناول نیو رومینسر میں راقم الحروف نے جس خیال کا اظہار کیا وہ حتی الامکان سائبر دنیا کی ترجمانی کرتا ہے کیونکہ سائبر دنیا سے اردو ادب اور اردو صحافت یہ ہی مراد لیتا ہے کہ انسان کی تخلیق کردہ ایک ایسی دنیا جہاں جغرافیائی (فاصلاتی) اعتبار سے دو افراد کے درمیان ایک خیالی دنیا وجود میں آتی ہے لیکن ان دونوں کے درمیان ہونے والے اجلاس اور اس دوران ہونے والی گفت و شنید حقیقی ہوتی ہے یعنی ایک ایسی دنیا جس کا ایک پہلو خیالی تصور کیا جاتا ہے تو دوسرا پہلو حقیقی زندگی کا ترجمان ہے۔

’’سائبر دنیا‘‘ کا وجود چشم زدن (لمحہ بھرمیں) یا پھر دو ایک روز کی محنتوں کا ثمر آوار نتیجہ نہیں بلکہ ایک طویل عرصے اور ایک سے زائد سائنسدانوں کی کوششوں کے بعد کمپیوٹر کا ایجاد اور پھر دوسرے مرحلے میں کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کی کوششوں کے کامیاب نتیجہ کا حاصل ’’سائبر دنیا‘‘ ہے۔ ’’سائبر دنیا‘‘ کا گہرائی سے مطالعہ کمپیوٹر کی تاریخ اور پھر انٹرنیٹ کے وجود میں آنے کی تمام تر تفصیلات کے مطالعہ کی متقاضی ہے۔

سائبر ٹکنالوجی یا سائبر دور کے آغاز کے بعد مواصلاتی نظام میں ایک غیر معمولی انقلاب برپا ہوا لیکن ’’سائبر دنیا‘‘ کو وجود میں لانے کے لئے کمپیوٹر کی ایجاد پھر ان کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کے لئے انٹرنیٹ کی ایجاد دو بنیادی عناصر ہیں۔ کمپیوٹرس سائنس اور انٹرنیٹ ٹکنالوجی کے ذریعہ ہی سائبر ٹکنالوجی کا وجود عمل میں آیا اور اس ٹکنالوجی کے استعمالات کے بعد ایک نئی اصطلاح سائبر ٹکنالوجی کا چلن عام ہوا جس کے بعد ہی سائبر دور کا آغاز و ارتقاء جیسے دلچسپ موضوعات محققین، مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے لگے۔

سائبر دور کے آغاز اور ارتقاء کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے اس ٹکنالوجی کے دو اہم جز کمپیوٹرس اور انٹرنیٹ کا بھی تفصیلی مطالعہ کیا جائے کیونکہ ابتداء میں کمپیوٹرس کو حساب و کتاب کے لئے استعمال کئے جانے والے دیگر سائینٹفک آلات کے متبادل کے طور پر تیار کیا گیا تھا لیکن جب کمپیوٹرس کی کار کردگی اور اس کے نتائج توقعات سے زیادہ بہتر ہونے لگے اور ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر کو مربوط کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی تو اس احساس نے کمپیوٹرس کے نٹ ورک کی راہ بھی ہموار کر دی۔

کمپیوٹر ٹکنالوجی یا کمپیوٹر کی ایجاد اور ارتقاء کے تذکرے ’’بابائے کمپیوٹینگ‘‘ چارلس بابیج کے تذکرہ کے بغیر نامکمل تصور کئے جاتے ہیں۔

کمپیوٹرس کی موجودہ شکل جو ہم اپنے مکان یا دفتر میں دیکھتے ہیں وہ کسی ایک شخص یا تنظیم کی مرہون منت نہیں بلکہ کئی ارتقائی منازل کو طئے کرنے کے بعد اخذ کردہ نتیجہ ہے لیکن اس میدان میں بابائے کمپیوٹنگ چارلس بابیج (Charles Babbage) کے کارناموں اور خدمات کو ہی بنیاد تصور کیا جاتا ہے ۳؂۔

چارلس بابیج 18 ویں صدی میں برطانیہ کا وہ روشن باب ہے جس کے کارناموں اور حالات زندگی کے تذکروں کے بغیر تاریخ برطانیہ اور 18 ویں صدی کی ترقیات نامکمل سمجھی جاتی ہیں۔ چارلس بابیج 26 ڈسمبر 1891 کو پیدا ہوا اور 18 اکٹوبر 1871 کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگیا۔ چارلس بابیج ایک عظیم ماہر ریاضی، میکانیکل انجینئر، کمپیوٹر سائنسداں‘‘ ماہر معاشیات اور ایک عظیم سیاست داں بھی تھا۔ ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کے بعد اس نے برطانیہ کی سرکاری مالی امداد سے 1823 میں مختلف انجنوں کی ایجاد پر تحقیقاتی پراجکٹ کا آغاز کیا جس کی وجہ سے کمپیوٹر کے علاوہ دیگر کئی آلات وجود میں آئے۔ کمپیوٹر کی سوچ اس کے تخلیقی ذہن میں کن حالات کی وجہ سے آئی یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی میں قیام کے دوران بابیج اس بات کا مشاہدہ کرتا تھا کہ حساب و کتاب میں انسانی ہاتھوں سے کئی چھوٹی بڑی غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں اور اگر کوئی ایسی مشین یا آلہ ایجاد کر لیا جائے جو ان غلطیوں سے پاک نتائج فراہم کرے تو یہ ترقی نوع آدم کے لئے ایک بہترین تحفہ ہو گی اور اس مشاہدے نے 1822 میں بابیج کو ایک ریاضی آلہ تیار کرنے کی طرف راغب کیا اور اس طرح کمپیوٹر کی ایجاد کی داغ بیل پڑی جو کئی برس اور مراحل کی تکمیل کے بعد ثمر آور نتائج فراہم کرنے لگی۔ بابیج کے متعلق یہ بات بھی عام ہے کہ اس کے بیشتر انجن اس کی زندگی میں پائے تکمیل کو نہ پہنچ سکے تاہم آنے والی نسل کے سائنسدانوں کے لئے کئی راہیں ہموار ہوئیں اور اس طرح موجودہ کمپیوٹرس کئی کمپنیوں کی جانب سے تیار کئے جا رہے ہیں اور آئے دن اس میدان میں مزید ترقی ہو رہی ہے۔ یہ ترقیات اُسی راہ کی مرہون منت ہیں جس کو بابیج نے دریافت کیا تھا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی اہم ہو جاتا ہے کہ پیچیدہ اور بڑے پیمانے کے سائنسی امور کی تکمیل، موسم کی تبدیلیوں اور اس کی پیش قیاسیوں، راکٹ لانچنگ اور اس طرح کے دفاعی امور کے لئے بڑے جسامتی اور پیچیدہ نوعیت کے کمپیوٹرس استعمال کئے جاتے ہیں لیکن شخصی امور اور دفاتر کی مصروفیات کے لئے آسان اور چھوٹے جسامت کے کمپیوٹرس استعمال ہوتے ہیں جنہیں کمپیوٹرس کے سائنسی شعبے اور اصطلاح میں شخصی کمپیوٹر (Personal Computer) کہا جاتا ہے جس کا مخفف "P.C” ہے اور اس کا چلن بھی عام ہے۔

پرسنل کمپیوٹرس کے وجود میں آنے اور انہیں انٹرنیٹ سے مربوط کرتے ہوئے جس ٹکنالوجی کو آسان اور یقینی بنایا گیا اسی کامیابیوں نے سائبر دور کے چلن کی راہ ہموار کر دی ہے۔

پرسنل کمپیوٹرس نے بھی آج اپنی موجودہ شکل اختیار کرنے کے لئے کئی تجرباتی مراحل اور زمانے کے کئی سال کی قربانی دی ہے۔ پرسنل کمپیوٹر کی اہمیت کا اندازہ محققین کو اُس وقت ہوا جب انہوں نے محسوس کیا کہ مین فرم (Main Frame) کی مرکزی سہولت سے استفادہ کے لئے متعدد صارفین کو اپنی توانائیاں صرف کرنی پڑتی تھی لہذا مین فرم کے برعکس ایک ایسے کمپیوٹر کو تیار کرنے کا خیال سائنسدانوں کو ستانے لگا جو خالص ایک صارف کی ضروریات کو بہ آسانی اور سادہ طریقے سے انجام دے سکے۔ ابتداء میں پرسنل کمپیوٹرس کو ’’مائیکرو کمپیوٹر‘‘ بھی کہا گیا جو کہ ایک الکٹرانک کٹ (Electronic Kit) کی شکل میں فروخت کیا جاتا تھا۔

3 نومبر 1962ء کے نیویارک ٹائمس کے ایک مضمون میں جان ڈبلیو موکھلی (John W. Mauchly) کے خیالات کا حوالہ دیتے ہوئے پہلی مرتبہ لفظ ’’پرسنل کمپیوٹر‘‘ استعمال کیا گیا تھا۔ مذکورہ مضمون میں جان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ جان نے امریکن انسی ٹیوٹ آف انڈسٹریل انجینئرس کے اجلاس میں کمپیوٹرس کے مستقبل کے متعلق کہا تھا کہ ’’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک اوسط عمر کا لڑکا/لڑکی پرسنل کمپیوٹر کا ماہر نہیں ہو سکتا‘‘ ۴؂۔

6 سال بعد سب سے پہلے ہیولٹ پیاکرڈ نے جوکھم اُٹھاتے ہوئے پرسنل کمپیوٹرس کے میدان میں ایک شروعات کی اور ’’دی نیو ہیولٹ پیاکرڈ 9199A‘‘ کو پرسنل کمپیوٹر سے موسوم کیا۔ اس پہلے اقدام کے بعد اگلے 7 برسوں میں شخصی کمپیوٹرس کی میدان میں تیزی کے ساتھ ترقی اور سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ امریکی ماہانہ میگزین ’’بائٹ (Byte)‘‘ نے اپنے پہلے ایڈیشن میں اپنے قارئین کے لئے پرسنل کمپیوٹرس کی تمام تر تفصیلات اور سہولیات فراہم کرنے کا ایک اہم کام کیا اور اپنے اس پہلے ایڈیشن کو ’’پرسنل کمپیوٹنگ کا میدان‘‘ کے نام سے متعارف کیا۔ بائٹ نے اپنے شمارے میں کہا کہ شخصی کمپیوٹر ایک ایسا کمپیوٹر ہے جو نہ صرف مواد کی ذخیرہ اندوزی کی صلاحیت کے ذریعہ صارف کی شخصی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے بلکہ اس میں اپنے تکنیکی امور کی اندرونی تکمیل کے لئے بھی حسب ضرورت طاقت موجود ہوتی ہے۔ 2 برس بعد مختلف آلات کو یکجا کرتے ہوئے ایک چھوٹے جسامت کے کمپیوٹر کو بازار میں متعارف کیا گیا جس کو کمپیوٹر کی مشہور میگزین نے 1977 Trinityء کا نام دیا۔

"Apple II” اور، "PET 2001” کو بھی بازار میں پرسنل کمپیوٹرس کے زمرے میں شامل کرتے ہوئے متعارف کیا گیا جبکہ "TRD-80″ کو ’’مائیکرو کمپیوٹر‘‘ کا نام دیا گیا جس میں گھریلو مصروفیات کی تکمیل کے علاوہ شخصی حساب و کتاب کے انتظامات کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ 1979ء تک تقریباً آدھا ملین پرسنل کمپیوٹرس بازار میں متعارف کئے جا چکے تھے۔

پرسنل کمپیوٹر کی اس مختصر سی تاریخ کے باوجود ’’کمپیوٹر ہسٹری میوزیم‘‘ نے Kenbak-1 (کینباک۔ I) کو سب سے پہلا پرسنل کمپیوٹر قرار دیا۔ ’’کینباک۔ I‘‘ کو 1970ء میں کینباک کارپوریشن کے جان بلانکنبکر (Jhon Blankenbaker) نے ایجاد کیا تھا اور 1971ء میں پہلی مرتبہ اسے فروخت کیا گیا۔ دنیا کے اس پہلے پرسنل کمپیوٹر میں آج کی ٹکنالوجی کے برعکس مختصر جسامت کے انٹیگریٹڈ سرکٹس استعمال کئے گئے تھے۔ نیز پہلی مرتبہ اس کمپیوٹر کو 750 امریکی ڈالرس کے عوض فروخت کیا گیا تھا۔ 1973ء تک تقریباً 40 کمپیوٹرس کو بازار کی زینت بنایا گیا نیز ’’کینباک۔ I‘‘ کی پیداوار اُس وقت رو ک دی گئی جب کینباک کارپوریشن بند ہو گئی ۵؂۔

’’کینباک۔ I‘‘ کی تکنیکی خوبیوں کا تذکرہ کریں تو اس میں 256 Bytes میموری تھی اور یہ”8 bit word size” کی قوت کے ساتھ اپنا کام کرتا تھا۔ پروگرامنگ کے قواعد کے سیکھنے کے لئے یہ کمپیوٹر کافی سود مند ثابت ہوا لیکن اس پر اپلیکشنس پروگرامس چلائے نہیں جا سکتے تھے۔

1970ء میں ڈیٹا پوائنٹ کی جانب سے جو اس وقت ’’سی ٹی سی‘‘ کے نام سے جانے جاتی تھی، نے اپنی مشن ’’ڈیٹا پوائنٹ 2200‘‘ متعارف کیا جو کہ آج کے دور جدید کے کمپیوٹر کے سمت ایک معنی خیز پیشرفت تھی۔ ڈیٹا پوائنٹ 2200 کی ترقی یافتہ کمپیوٹر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مشن ایک ڈسپلے اسکرین، کی بورڈ اور مواد کی ذخیرہ اندوزی کے لئے بہترین آلات کے ساتھ متعارف کی گئی تھی۔ ’’ڈیٹا پوائنٹ 2200‘‘ کا اگر آج کے پرسنل کمپیوٹرس سے موازنہ کیا جائے تو آج کے کمپیوٹرس کی طرح 1970ء کی اس مشن میں صارف اپنی مصروفیات اور پروگرامس کی تکمیل کا بہ آسانی مشاہدہ ڈسپلے اسکرین پر کر سکتا تھا۔ نیز اسے اپنے احکامات جاری کرنے کے لئے بہ ضابطہ مکمل سہولیات سے لیس ’’ کی بورڈ‘‘ بھی دستیاب تھا،

’’ڈیٹا پوائنٹ 2200‘‘ کے دوران ہی ’’پرسنل کمپیوٹر‘‘ کے اصل اور بنیادی آلہ ’’مائیکرو پراسیسر‘‘ (Micro Processor) کی تیاری وجود میں آئی اور اس میدان میں آج کی مشہور و معروف کمپنی انٹیل (Intel) نے اپنے پراسیسر "8008” کے ذریعہ ایک انقلاب برپا کیا۔ ویسے تو 1972ء ہی میں انٹیل نے اپنا ’’پراسیسر‘‘ "Intel 4004” تیار کرتے ہوئے پرسنل کمپیوٹر کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا تھا، لیکن 1974ء میں امریکی میگزین ’’ریڈیو الکٹرانک‘‘ نے انٹیل کے 8008 پراسیسر کے متعلق تفصیلات سے آگاہی کے لئے ایک جامع مضمون شائع کیا تھا ۶؂۔ انٹیل کے اس ترقی یافتہ پراسیسر کو استعمال کرتے ہوئے فرانس کی ایک کمپنی "R2E” نے ایک کمپیوٹر تیار کیا تھا جس کو ’’مکرل این‘‘ کا نام دیا گیا۔ ’’مکرل این‘‘ تکنیکی اعتبار سے ایک ترقی یافتہ اور صارف کے لئے شخصی امور اور دفتری ضروریات کی تکمیل کا ایک بہترین کمپیوٹر ثابت ہوا کیونکہ اس کی رفتار 500 کیلو ہٹز تھی جبکہ "16KB” میموری کے علاوہ اس میں حسب ضرورت دیگر برقی آلات اور کمپیوٹرس کے اضافی پرزوں کو جوڑنے کی زائد سہولیات بھی فراہم کی گئی تھیں۔ تمام سہولیات سے آراستہ اس کمپیوٹر کی اُس وقت قیمت 8500 فرانکس (1300 امریکی ڈالرس) مقرر کی گئی تھی۔

1973ء میں زیراکس کارپوریشن نامی کمپنی نے اپنا کمپیوٹر ’’زیراکس پارک‘‘ متعارف کیا۔ زیراکس پارک ایسا پہلا کمپیوٹر تھا جس میں موز "Mouse” استعمال کیا گیا تھا۔ ایس آر آئی کے بین الاقوامی اجلاس میں ڈوگلس انجل برٹ نے پہلی مرتبہ Graphical User Interface (GUI) کو متعارف کیا تھا جس کے لئے ’’موز‘‘ کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔ گرافیکل یوزر انٹرفیس (جی یو آئی) در اصل کمپیوٹر کے پروگرامس اور صارف کے درمیان کسی بھی امور کی تکمیل کے لئے رابطے کا آسان، تصویری اور مؤثر طریقہ ہے جہاں موز کمپیوٹرس کے پروگرامس اور صارف کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتا ہے۔

جیسا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اردو کی تحریر یا اردو زبان کی مدد سے کسی امور کی تکمیل کے لئے ہم کمپیوٹرس پر جب اردو کے سافٹ ویر ’’ان پیج‘‘ کو موز کی مدد سے استعمال کرتے ہیں یہ عمل در اصل کمپیوٹر کی اصطلاح میں گرافیکل یوزر انٹرفیس کہلاتا ہے جہاں کمپیوٹر کے پروگرام (ان پیج) اور صارف کے درمیان ایک تیسرا پرزہ (موز) اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ یعنی رنگ برنگی تصاویر کے ذریعہ کمپیوٹرس کے پروگرامس کا استعمال گرافیکل یوزر انٹرفیس کہلاتا ہے۔ ’’زیراکس پارک‘‘ سے قبل صارف کو کمپیوٹرس کی سہولیات سے استفادہ کے لئے اس کے احکامات (Commands) یاد کرنے پڑتے تھے اور یہ سارے کے سارے احکامات تحریری شکل میں ہوتے تھے اور اس طرح کے عمل کو Character User Interface (کیارکٹر یوزر انٹرفیس) کہا جاتا ہے جس کا مخفف C.U.I ہے۔ بعد ازاں زیراکس کارپوریشن نے 1981ء میں زیراکس ’’اسٹار ورک اسٹیشن‘‘ تیار کیا جیسے سرکاری طور پر ’’8010 اسٹار انفارمیشن سسٹم‘‘ قرار دیا گیا۔ نیز اس کو زیراکس الٹو بھی کہا جاتا ہے۔ اس کمپیوٹر اور آج کے پرسنل کمپیوٹرس میں کئی مماثلت ہیں جیسے ونڈوز سے تعلق رکھنے والے پروگرامس ’’آئیکانس فولڈرس، موز، دوسرے کمپیوٹرس سے جوڑنے کے لئے اتھرنیٹ نٹ ورکنگ کی سہولت فائل سرور، مواد کو کاغذ پر حاصل کرنے کے لئے ’’پرنٹ‘‘ کی سہولت اور سب سے آگے ای میل کے سہولت بھی دستیاب تھی۔

پرسنل کمپیوٹرس کے ترقی کے سفر میں انٹرنیشنل بزنس مشن (آئی بی ایم) کی خدمات ایک روشن باب ہیں۔ آئی بی ایم نے سب سے پہلے 1975ء میں ’’آئی بی ایم 5100‘‘ متعارف کیا لیکن اس کے 6 برس بعد یعنی ماہ اگست 1981ء کو اس نے ’’آئی بی یم پی سی‘‘ (IBMPC) متعارف کیا۔ تکنیکی اعتبار سے اس میں چند خامیاں ضرور تھیں لیکن پرسنل کمپیوٹرس کے شعبہ میں یہ ایک اہم ایجاد تصور کی جاتی ہے ۷؂۔ آئی بی یم پی سی کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس کو ’’اوپن کارڈ‘‘ ٹکنالوجی کے طرز پر تیار کیا گیا تھا۔ اوپن کارڈ ٹکنالوجی ایسی تکنیک تھی جس کے ذریعہ دیگر محققین اور کمپنیوں کو یہ سہولت دستیاب تھی کہ وہ اس کمپیوٹر کے بنیادی ڈھانچہ میں اپنی صلاحیتوں اور علم و ہنر کے استعمال کے ذریعہ سودمند تبدیلی لا سکیں نیز تبدیل شدہ نئے کمپیوٹرس مزید بہتر کار کردگی کے قابل بن رہے تھے۔ آئی بی ایم پی سی میں اینٹل کا ہی پراسیس استعمال کیا گیا تھا جس کی رفتار 4.77 میگاہٹز تھی۔ مذکورہ کمپیوٹر کا پہلا ماڈل آڈیو کا سیٹ کا استعمال کرتا تھا جہاں مواد جمع کیا جاتا لیکن یہ طریقہ ناکام ثابت ہوا جس کے بعد 1983ء کو متعارف کردہ PCXT میں 10 ایم بی (10 Megabytes) کی ہارڈ ڈسک استعمال کی گئی۔ تقریباً 3 دہے قبل استعمال کیا گیا طریقہ آج بھی کمپیوٹرس میں رائج ہے یعنی آج بھی کمپیوٹرس میں مواد کی ذخیرہ اندوزی ہارڈ ڈسک میں ہی کی جاتی ہے حالانکہ مواد کی ذخیرہ اندوزی کے لئے کئی مؤثر اور متبادل طریقے رائج ہو چکے ہیں لیکن بنیادی طریقہ ہنوز باقی ہے۔ مواد کی ذخیرہ اندوزی کے لئے ہارڈ ڈسک کا استعمال اور اس شعبے میں تحقیق اور گذرتے وقت کے ساتھ اس میں مزید ترقی ایک سلسلہ بن چکا ہے جس کا چلن آج بھی جاری ہے۔ 1956ء میں پہلی ہارڈ ڈسک "RAMAC305” تیار کی گئی تھی ۸؂ لیکن موجودہ دور کی ہارڈ ڈسک کی اصل اور پہلی شکل 1997ء کی آئی بی ایم کی ہارڈ ڈسک کو ہی کہا جا سکتا ہے۔ جس میں ’’1.6 جی بی‘‘ مواد جمع کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ ہارڈ ڈسک چونکہ کمپیوٹرس میں مواد جمع کرنے کا اصل مقام ہے لہذا اس پر بہت زیادہ محنتیں ہوتی رہی ہیں تاکہ مواد کی ذخیرہ اندوزی کے لئے زیادہ سے زیادہ جگہ فراہم کرنے کے علاوہ اس کی جسامت کو چھوٹا اور کار کردگی کو تیز اور مؤثر بنانا سائنسدانوں کا اصل مقصد تھا جس کے آج انتہائی غیر معمولی نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

1984ء میں آئی بی ایم نے ’’پرسنل کمپیوٹر اے ٹی‘‘ متعارف کیا جس کو ’’پی سی/ اے ٹی‘‘ یا ’’اے/ ٹی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کمپیوٹر میں بھی انٹیل کا "80286” مائیکرو پراسیسر استعمال کیا گیا تھا اور یہ ’’16 ایم بی‘‘ میموری کے ساتھ بازار میں دستیاب تھا۔

سائبر دور کے آغاز اور اس کے پھیلاؤ میں جہاں پرسنل کمپیوٹر نے کلیدی رول ادا کیا وہیں خود پرسنل کمپیوٹرس کے گھر، گھر اور دفاتر تک پھیلاؤ کو اس میں استعمال کئے جانے والے گرافیکل یوزر انٹرفیس (G.U.I) کے حامل آپریٹنگ سسٹم نے اہم رول ادا کیا۔ جی یو آئی کی بھی اپنی ایک طویل تاریخ ہے لیکن 1990ء کے دہے میں اس کی ترقی معنی خیز رہی جب 1995ء میں سافٹ ویر کی دنیا میں سر فہرست کمپنی ’’مائیکرو سافٹ‘‘ کے آپریٹنگ سسٹم "Window 95” کو متعارف کیا گیا ۹؂۔ ونڈوز 95 کے بعد اس میدان میں ایک ایسی ترقی ہوئی جس کے بعد ہی حقیقی معنوں میں سائبر ٹکنالوجی کی گھر یا دفتر میں ایک عام صارف تک رسائی آسان ہوئی ہے۔ مائیکرو سافٹ نے ’’ونڈوز 95‘‘ آپریٹنگ سسٹم سے قبل بھی اس میدان میں چند ایک کامیاب کوششیں کی لیکن صارف کی ضروریات کی تکمیل کی صلاحیت ’’ونڈوز 95‘‘ میں اعلیٰ درجے کی تھیں۔

مائیکرو سافٹ نے اپنے آپریٹنگ سسٹم ’’ونڈوز‘‘ کا پہلا ورژن ’’ونڈوز 1.0‘‘ 1985ء میں ہی متعارف کر دیا تھا جس کے بعد 1987ء کو ’’ونڈوز 2.0‘‘ 1990ء میں ونڈوز 3.0 کی ایجاد نے کمپیوٹر اور صارف کے درمیان رابطے کو ’’تصویری شکل‘‘ دینی شروع کی لیکن 1995ء میں ونڈوز 95 کے متعارف ہونے کے بعد ’’جی یو آئی‘‘ کے رابطے کی شکلوں نے کمپیوٹرس کے استعمالات کو حد درجہ آسان اور مؤثر بنا دیا۔ 1995ء میں متعارف کردہ ونڈوز 95 پچھلے تمام ونڈوز سے بہتر اور تکنیکی اعتبار سے مختلف اور عصری تقاضوں کی تکمیل کی مکمل صلاحیت رکھتا تھا۔ نیز انٹرنیٹ کی تکنیک سے خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے اس میں دوسرے کمپیوٹر سے مربوط ہونے کی صلاحیت اسے نمایاں مقام عطا کر رہی تھی۔

3 سال بعد یعنی 1998ء میں مائیکرو سافٹ نے ’’ونڈوز 98‘‘ کو متعارف کیا جو کہ پرسنل کمپیوٹرس کے لئے ایک بہترین اور خوش آئند آپریٹنگ سسٹم ثابت ہوا۔ ونڈوز 98 آپرٹنگ سسٹم میں اُن خامیوں پر بھی قابو پا لیا گیا تھا جس کی شکایات ونڈوز 95 کے صارفین نے کی تھی۔ ’’ونڈوز 98‘‘ آپریٹنگ سسٹم پرسنل کمپیوٹرس کے لئے انتہائی سود مند ثابت ہوا جس کو پرسنل کمپیوٹرس کے دو مختلف شکلوں (ڈسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ کمپیوٹر) کے لئے بہترین آپریٹنگ سسٹم قرار دیا گیا۔ اگلے برس یعنی 1999ء میں ونڈوز 98 آپریٹنگ سسٹم میں مزید بہتری کے ساتھ اس کا دوسرا ایڈیشن جاری کیا گیا جسے تکنیکی اصطلاح میں ’’ونڈوز 98 سکنڈ ایڈیشن‘‘ کہا گیا۔

ونڈوز 95 اور ونڈوز 98 کے بعد مائیکرو سافٹ کی جانب سے بدلتے وقت کے ساتھ آپریٹنگ سسٹم کی ایجاد کا سلسلہ اور گزشتہ کی بہ نسبت نئے آپریٹنگ سسٹم میں بہتر سہولیات کا استعمال ہنوز جاری ہے جیسا کہ ونڈوز 98 کے بعد 2000ء میں ’’ونڈوز ملینیم ایڈیشن‘‘ اور ونڈوز 2000، 2001ء میں ونڈوز XP میڈیا سنٹر، ونڈوز XP پروفیشنل، ونڈوز XP ہوم ایڈیشن اور 2002ء میں ونڈوز XP ٹیبلیٹ پی سی ایڈیشن بھی متعارف کیا۔ مذکورہ تمام آپریٹنگ سسٹم پرسنل کمپیوٹرس کے صارفین کی ضروریات کی تکمیل کے لئے متعارف کئے گئے جس نے سائبر ٹکنالوجی کے ارتقاء میں انتہائی اہم رول ادا کیا۔

مائیکرو سافٹ کے علاوہ دیگر سافٹ ویر کمپنیوں نے بھی اپنے آپریٹنگ سسٹم بازار میں متعارف کئے جن میں میکنٹوش اور لینکس قابل ذکر ہیں ان کے علاوہ سافٹ ویر کی مشہور و معروف کمپنی گوگل نے بھی 7 جولائی 2009ء کو اپنا آپریٹنگ سسٹم کا اعلان کیا جو در اصل ’’گوگل کروم آپریٹنگ سسٹم‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا، لیکن دنیا کے تقریباً ہر کونے میں مائیکرو سافٹ کے آپریٹنگ سسٹم کا صارفین نے اپنے گھروں اور دفاتر میں شاندار خیر مقدم کیا ہے اور کرتے آ رہے ہیں۔

یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ سائبر ٹکنالوجی کے ارتقاء اور اس کے پھیلاؤ میں جہاں پرسنل کمپیوٹرس نے کلیدی رول ادا کیا وہیں پرسنل کمپیوٹرس کی کار کردگی کو یقینی بنانے کے لئے مائیکرو سافٹ کے ونڈوز نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

 

انٹرنیٹ کی ایجاد و ارتقاء

 

پرسنل کمپیوٹرس کا چلن عام ہونے کے ساتھ انٹرنیٹ سے ان کمپیوٹرس کو مربوط کرنے کے عمل نے سائبر ٹکنالوجی کے پھیلاؤ میں انتہائی اہم رول ادا کیا۔ کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کے طریقہ کار کو سائنس کے اس شعبے میں نٹ ورک کہا جاتا ہے۔ نٹ ورک کی کئی اقسام ہیں جس کی اقل ترین شکل ایک ہی کمرے میں موجود 2 یا اس سے زائد کمپیوٹرس کو جوڑنا ہے۔ کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے اس آسان اور غیر پیچیدہ عمل کو لوکل ایریا نٹ ورک (Local area Network) کہا جاتا ہے جس کا مخفف لیان (L.A.N) ہے۔ لیان کی دوسرے الفاظ میں اس طرح بھی تعریف لکھی جاتی ہے کہ ایک کمرے یا ایک ہمہ منزل عمارت کی مختلف منازل میں رکھے ہوئے کمپیوٹرس کو آپس میں جوڑتے ہوئے جو نٹ ورک تیار کیا جاتا ہے اس کو لوکل ایریا نٹ ورک کہا جاتا ہے لیکن جغرافیائی اعتبار سے جس نٹ ورک کا فاصلہ انتہائی کم ہو اس کو نٹ ورک کی اقل ترین شکل کے زمرے میں رکھتے ہوئے اس کو لوکل ایریا نٹ ورک کہا جاتا ہے۔

نٹ ورک کی اعظم ترین شکل جو جغرافیائی اعتبار سے لا محدود کیلو میٹرس کا احاطہ کرتے ہوئے کمپیوٹرس کے درمیان آپسی رابطہ کو یقینی بناتی ہے اس کو ’’وائیڈ ایریا نٹ ورک‘‘ (Wide area Network) کہا جاتا ہے نیز اس نٹ ورک کا مخفف ویان (W.A.N) ہے۔ کئی بڑے نٹ ورک جس میں ’ویان اور لیان‘ دونوں شامل ہیں، کی پیچیدہ شکل انٹرنیٹ کہلاتی ہے۔

سادہ الفاظ میں اگر انٹرنیٹ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو صرف یہ ہی کہا جائے گا کہ جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے سے طویل فاصلے پر موجود کمپیوٹرس کے درمیان آپسی رابطے کو یقینی بنانے کا عمل (ٹکنالوجی) انٹرنیٹ کہلاتی ہے اور انٹرنیٹ کئی لامتناہی نٹ ورکس کے آپسی رابطہ کا دوسرا نام ہے۔

پرسنل کمپیوٹرس کی موجودہ شکل جن ادوار کا سفر اور بدلتے وقت کے ساتھ کئی اہم اور واضح تبدیلیوں کا نتیجہ ہے اُسی طرح انٹرنیٹ کی ایجاد اور ارتقاء بھی اپنے دامن میں ایک طویل اور دلچسپ تاریخ رکھتی ہے۔ انٹرنیٹ کی ایجاد اور ارتقاء میں 1960ء کا دہا کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی دور میں سویت یونین اور امریکہ کے درمیان دنیا کے نمبر ایک سوپر پاؤر بننے کی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ مذکورہ ممالک ٹکنالوجیز میں ترقی کے ذریعہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے۔ دریں اثناء 1955ء میں امریکہ کے صدر ڈی ڈی ایسن ہاور نے اعلان کیا کہ ان کا ملک سٹیلائٹ کو خلاء میں داغنے کی خواہش رکھتا ہے لیکن 4 اکٹوبر 1957ء کو سویت یونین نے دنیا کا پہلا سٹیلائیٹ اسپٹنیک کو داغتے ہوئے امریکہ اور سویت یونین کے درمیان چل رہی سرد جنگ میں ایک انتہائی اہم بازی مار لی۔ سویت یونین کی اس اہم کامیابی کو امریکہ نے خود کے لئے ایک بڑا چیلنج تصور کرتے ہوئے نہ صرف اپنے حریف کا چیلنج قبول کیا بلکہ شعبے دفاع میں اڈوانس ریسرچ پراجکٹس ایجنسی

(Advanced Research Projects Agency) کو قائم کیا ۱۰؂جو کہ آرپا (ARPA) کے نام سے مقبولیت حاصل کرنے لگی۔ امریکہ کی جانب سے آرپا کے قیام کا بنیادی مقصد شعبے دفاع میں نئی ٹکنالوجیز کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف خود کو طاقت ور بنانا تھا بلکہ سویت یونین سے چل رہی سرد جنگ میں سبقت بھی حاصل کرنا تھا۔ ابتداء میں آرپا کی تمام تر توجہ خلائی تحقیقات اور اس میدان میں اہم کامیابیوں، میز ائیلس اور نیوکلیر مصروفیات کی راست نگہداشت پر تھیں۔ ان اہم ترجیحات کے ساتھ جو ذیلی ترجیح تھی یعنی کئی اہم امور کی تکمیل کے لئے مرکزی دفتر اور دیگر مقامات پر چل رہے پراجکٹس خیموں میں استعمال ہونے والے کمپیوٹرس کے درمیان رابطے کو یقینی بنانا تھا۔ شاید اُس وقت کمپیوٹر سائنسدان اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ آرپا کا ذیلی مقصد عام انسانوں کے لئے حد درجہ سود مند ثابت ہو گا۔

سویت یونین کی جانب سے دنیا کے پہلے سٹیلائیٹ اسپٹنیک کے داغے جانے کے بعد امریکہ نے محسوس کیا کہ وہ اپنے کٹر حریف سے سائنس اور ٹکنالوجی کی دوڑ میں کہیں پیچھے نہ ہو جائے اس لئے اس وقت کے امریکی صدر ایسن ہاور نے 1958ء میں آرپا قائم کیا جس میں کمپیوٹرس بھی استعمال کئے گئے۔

عام خیال ہے کہ انٹرنیٹ ایک دفاعی پراجکٹ تھا جو در اصل امریکہ کی جانب سے اپنے کٹر حریف سویت یونین کے خلاف سائنس اور ٹکنالوجی کی دوڑ میں سبقت کے حصول کے لئے شروع کیا گیا تھا لیکن اس خیال کے برعکس انٹرنیٹ کا وجود در اصل آرپا کے قیام اور کمپیوٹرس کو ایک دوسرے کو مربوط کرنے کے بعد اس ٹکنالوجی کی افادیت ہے جس نے انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کی راہیں آسان کر دی۔

1962ء میں مساچوسٹیس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT) کے جوزف لکلیڈر نے کمپیوٹر نٹ ورک کے نظریہ کو منظر عام پر پیش کرتے ہوئے اس پہلے نٹ ورک منصوبے کو ’’کلاٹیک نٹ ورک‘‘ کا نام دیا ۱۱؂۔ جوزف کے اس نظریے نے اسے آرپا میں ایک اہم مقام دلوادیا اور بہت جلد وہ آرپا کی اس جماعت کا صدر مقرر کر دیا گیا جو آرپا کے کمپیوٹرس پر پیغامات کی حصول و ترسیل کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف تھی۔ 1964ء میں "RAND” کارپوریشن کے پال بران نے امریکی فضائیہ کے لئے بھی کمپیوٹرس کے ذریعے پیغامات کے حصول و ترسیل کے ایک نظریے کو کا غذپر پیش کیا۔ نیز امریکہ کے علاوہ برطانیہ کی نیشنل فزیکل لیباریٹری نے بھی کمپیوٹرس کے پیغامات کے حصول و ترسیل کا ایسا ہی نظریہ پیش کیا۔ 1967ء تک آرپا، رانڈ کارپوریشن اور برطانوی نیشنل فزیکل لیباریٹری، تینوں علیحدہ طور پر کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے ان کے درمیان پیغامات کے حصول و ترسیل کو یقینی بنانے کے پراجکٹس پر اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کر رہے تھے۔ علاوہ ازیں آرپا کی مختلف جماعتیں امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں مصروف تحقیقات تھیں اور ان کے درمیان رابطے کو یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت تھی لہذا اسی ضرورت نے آرپا کی ایک نئی شاخ کو جنم دیا جو کہ ’’آرپا نٹ‘‘ کہلائی اور اسی آرپانٹ کی کامیاب کوشش نے نہ صرف انٹرنیٹ کو یقینی بنایا بلکہ انٹرنیٹ کی سہولیات کو عوامی سطح تک پہنچایا۔

1969ء میں آرپانٹ کا وجود عمل میں آیا۔ آرپانٹ کے وجود میں آنے کے بعد چار مقامات لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سانٹا باربرا کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، اوٹھا کی یونیورسٹی اور اسٹانفورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے کمپیوٹرس کو آپس میں جوڑتے ہوئے دنیا کا پہلا کمپیوٹرس نٹ ورک تیار کیا گیا۔

کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہوئے ان کے درمیان پیغامات کے حصول و ترسیل کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے ضمن میں 29 اکٹوبر 1969ء کی شام کو تاریخی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ ہی وہ شام تھی جب کمپیوٹرس کے درمیان پیغام نے ایک مقام سے دوسرے مقام تک برقی شکل میں آگے بڑھتے ہوئے سائبر ٹکنالوجی کا آغاز کیا۔ آرپانٹ کے قیام اور اس کے تحت سائنسدانوں کی متعدد جماعتوں کی کاوشوں نے بالآخر 29 اکٹوبر 1969ء کو ایک شاندار کامیابی حاصل کی۔

29 اکٹوبر 2009ء کو جب ساری دنیا میں انٹرنیٹ کی 40 ویں سالگرہ کی تقاریب منائی جا رہی تھی ۱۲؂ تو اس موقع پر خود چارلی کلین نے اپنے تجربات اور اُس کامیابی کے متعلق بیان دیا اور صحافت و میڈیا نمائندوں سے اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ

’’میں اُس وقت 21 برس کا تھا اور ایک پروگرام کو لے کر میں دن اور رات کے تمام گھنٹے اُس میں مصروف رہتا‘‘ ۱۳؂۔

کلین نے مذکورہ جملوں کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے کمپیوٹر "SDS Sigma 7” پر گھنٹوں بلکہ دن رات مصروف رہتے اور یہ کمپیوٹر اپارٹمنٹ کے ایک بیڈروم کے مساوی تھا۔

انٹرنیٹ کے وجود میں آنے کی تفصیلات میں 29 اکٹوبر 1969ء کے شام 10: 30 کا وقت تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے کمپیوٹر لیاب سے مفلوپارک کے اسٹانفورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں موجود ایک کمپیوٹر تک برقی شکل میں پیغام روانہ کیا گیا۔

دنیا میں پہلی مرتبہ جب مذکورہ مقامات پر رکھے گئے کمپیوٹرس کے درمیان پیغام روانہ کرنے کے لئے جس ٹکنالوجی کو استعمال کیا گیا آج بھی اُسی ٹکنالوجی کے تحت ساری دنیا میں موجود کمپیوٹرس کے درمیان پیغامات کے حصول و ترسیل کا سلسلہ جاری ہے۔

کلین کی کوششوں نے کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہوئے ان کے درمیان پیغامات کی شکل میں مواد کی حصول و ترسیل کو یقینی بنایا لیکن کلین کی یہ کوششیں صرف سائبر ٹکنالوجی کی سمت بڑھتا پہلا کامیاب قدم تھا اگر ہم یہ کہیں کہ کلین کی کوششوں نے سائبر دنیا کا باب الداخلہ کھولتے ہوئے سائنسدانوں کو اس دنیا کا تعارف کروایا تو یہ الفاظ بیجا نہ ہوں گے کیونکہ ابتدائی مرحلے میں کمپیوٹرس کا استعمال اور انہیں ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہوئے ان کے درمیان پیغامات کے حصول و ترسیل کے درپردہ کار فرماں عناصر امریکہ کا دفاعی شعبے میں خود کو مکتفی اور اپنے حریف پر سبقت بنانا تھا۔

آرپانٹ کے وجود میں آنے اور کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہوئے ان کے درمیان مواد کے حصول و ترسیل کو پیغامات کے شکل میں یقینی بنانے کے بعد گذرتے وقت کے ساتھ اس میدان میں شاندار ترقی ہوتی رہی۔ امریکہ کے شعبے دفاع کی جانب سے ایڈوانس ریسرچ پراجکٹ ایجنسی نٹ ورک ’’آرپانٹ‘‘ کے قیام اور اس شعبے میں بتدریج تحقیقات اور کامیابیوں نے سائبر ٹکنالوجی کی راہیں ہموار کر دی۔ 1968ء کے وسط تک کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہوئے انٹرنیٹ کا مکمل منصوبہ تیار کر لیا گیا تھا جس کے بعد 12 مختلف کمپنیوں نے اپنی اپنی بولی بھی لگا دی۔ دریں اثناء 7 اپریل 1969ء کو بی بی این ٹکنالوجی کے ساتھ آرپانٹ کے قیام کا معاہدہ طے پایا بی بی این ٹکنالوجی در اصل بولٹ، برانک اینڈ نیومین کی جانب سے 1948ء میں قائم کی گئی کمپنی تھی جس نے 1969ء میں امریکہ کے شعبے دفاع کے تحت قائم کردہ آرپا کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے آرپانٹ کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا ۱۴؂۔

7 اپریل 1969ء تا 29 اکٹوبر 1969ء تک آرپانٹ کے تحت کئی کوشش اور تحقیقات کئے گئے تاہم 29 اکٹوبر 1969ء کی شب کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے ان کے درمیان پیغامات کے حصول و ترسیل کو یقینی بنایا گیا۔

لاس اینجلس کی آرپا کی جانب سے ’’کمپیوٹر۔ سے کمپیوٹر‘‘ نٹ ورک کے ذریعہ پہلا پیغام یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروگرامر طالب علم چارلی کلین اور ان کے استاد پروفیسر لیونارڈ کلین راک کے ذریعہ ان کی جانب سے استعمال کردہ کمپیوٹر SDS Sigma 7 سے اسٹانفورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے SDS 940 کمپیوٹر کو روانہ کیا گیا۔ آرپانٹ کی جانب سے دو کمپیوٹرس یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے کمپیوٹر SDS Sigma7 اور اسٹانفورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے SDS 940 کے درمیان روانہ کردہ پیغام صرف ایک لفظ Log in (لاگ اِن) تھا لیکن "L” اور "O” بنا کسی دقت اور رکاوٹ کے منزل مقصود تک پہنچ گیا لیکن اس کے بعد کمپیوٹر کراش ہو گیا۔ بعد ازاں ایک گھنٹے کی مسلسل کوشش کے بعد اس پیغام کو روانہ کرنے میں سائنسدانوں نے کامیابی حاصل کی ۱۵؂۔

آرپانٹ کا مستقل نٹ ورک 21 نومبر 1969ء کو لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے کمپیوٹر ’’آئی ایم پی‘‘ اور اسٹانفورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے کمپیوٹر ’’آئی ایم پی‘‘ کے درمیان رابطے کے ذریعہ بنایا گیا۔ مذکورہ نٹ ورک کے بعد 5 ڈسمبر 1969ء کو چار مقامات (4nodes) کو ایک دوسرے سے مربوط کر دیا گیا جس کے بعد ہزاروں نٹ ورک کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی سہولیات منظر عام پر آئی۔ علاوہ ازیں 1971ء کو پہلی مرتبہ برقی پیغام (ای میل) کے مواد کو دوسرے کمپیوٹر تک پہنچایا گیا۔ پہلا برقی پیغام کیا تھا اس کے متعلق اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ 1971ء کو ہی پہلی مرتبہ برقی شکل میں پیغام ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر تک ای میل کی شکل میں روانہ کیا گیا تھا۔ پہلی مرتبہ ای میل روانہ کرنے کا اعزاز امریکہ کے ہی کمپیوٹر انجینئر ریمنڈ سامیول ٹام لنسن کو حاصل ہے ۱۶؂۔

 

سائبر ٹکنالوجی کے پھیلاؤ میں ٹی سی پی/ آئی پی کا کردار

 

آرپا نٹ کی جانب سے 1969ء میں کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہوئے کمپیوٹر نٹ ورکنگ کے ایجاد کے بعد امریکہ کے مختلف مقامات پر کمپیوٹر نٹ ورکنگ کو مختلف طریقوں اور ممکن طریقۂ کار کو استعمال کرتے ہوئے نٹ ورکس تیار کئے جانے لگے۔ چند ماہ کے درمیان امریکہ کے علاوہ اس کے حریف برطانیہ میں بھی کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ مختلف سائنسدانوں کی مختلف جماعتیں کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کے ہر ممکنہ طریقے کو استعمال کرتے ہوئے اسی میدان میں کامیابیاں حاصل کر رہی تھیں۔ نیز ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش نے کمپیوٹرس نٹ ورکنگ کی تکنیکی اعتبار سے کئی شکلیں ایجاد کر دی تھیں۔ مختلف مقامات پر کمپیوٹرس نٹ ورکنگ کے لئے مختلف طریقے اور مختلف اقسام کی کمپیوٹرس لینگویج استعمال کی جانے لگی اور اس طرح ایک نٹ ورک سے دوسرے نٹ ورک کو جوڑنے میں مشکلات ہونے لگی۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی اہم ہو جاتا ہے کہ جس طرح انسان تبادلۂ خیال کے لئے ایک زبان یا بولی استعمال کرتے ہیں اس طرح نٹ ورک میں موجود مختلف کمپیوٹرس کے اور مختلف نٹ ورکس میں موجود کمپیوٹرس کے درمیان رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ایک مشینی لینگویج استعمال ضروری ہو جاتا ہے جس کو ’’پروٹوکال‘‘ کہا جاتا ہے۔ کمپیوٹرس نٹ ورکنگ کے ابتدائی برسوں میں بھی سائنسدانوں کی مختلف جماعتوں نے اپنے طور پر کمپیوٹرس نٹ ورکنگ کے لئے موجود ہر ممکنہ طریقۂ کار اور مشینی لینگویج کو استعمال کیا جس کی وجہ سے ابتدائی مرحلے میں تیار ہونے والے نٹ ورکس میں مختلف مشینی لینگویج استعمال ہونے لگی جس کی وجہ سے مختلف مشینی لینگویج استعمال کرنے والے نٹ ورکس کے درمیان رابطے کو یقینی بنانا سائنسدانوں کے لئے ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ بن چکا تھا اور اسی مسئلے کے حل کے لئے سائنسدانوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ دنیا کے مختلف مقامات پر کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے نٹ ورکس کی تیاری یقینی ہو چکی ہے لیکن مختلف مشینی لینگویج کو استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے نٹ ورکس کو جوڑتے ہوئے نٹ ورک کے پھیلاؤ کو یقینی بنانے کے لئے ایک ایسی مشترکہ مشینی لینگویج کی ضرورت ہے جو بلا امتیاز کسی بھی نٹ ورک کو دوسرے نٹ ورک سے جوڑ دے۔

مختلف اقسام کی ٹکنالوجی استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے کمپیوٹرس نٹ ورک کو ایک مشترکہ ٹکنالوجی سے جوڑنے کے نظریے کے بعد اس میدان میں ترقیات کے ضمن میں 1970ء تا 1983ء کے عرصہ کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی دوران سائنسدانوں نے سائبر ٹکنالوجی کے پھیلاؤ میں کافی اہم سنگ میل عبور کئے ہیں۔ آرپانٹ میں 1970ء میں کمپیوٹر نٹ ورک میں مزید تحقیق اور ترقیات کے لئے ایک خصوصی شعبے کا قیام عمل میں آیا جس کو ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجکٹ ایجنسی‘‘ڈارپا‘‘ کا نام دیا گیا ۱۷؂۔ 1970ء کے اوائل قائم کردہ ڈارپا کے قیام کے بعد 1972ء تک کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے ان کے درمیان پیغامات کے حصول و ترسیل کی مختلف ٹکنالوجیز پر تجربات ہوتے رہے اور کچھ قابل ذکر کامیابیاں بھی حال ہوئیں۔ امریکہ کے مقام نیو جرسی کی ایک خانگی تحقیقاتی یونیورسٹی ’’پرنس ٹن یونیورسٹی‘‘ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے انجینئر ڈاکٹر رابرٹ ایلیٹ کاہن نے 1972ء کو ڈارپا انفرمیشن پراسیسنگ ٹکنالوجی کے دفتر میں شمولیت اختیار کی۔ ’’ڈارپا‘‘ کے اس دفتر میں شمولیت کے مختصر وقت کے بعد ہی ڈاکٹر رابرٹ نے بین الاقوامی کمپیوٹر کمیونکیشن کانفرنس میں 20 مختلف کمپیوٹرس کے درمیان رابطے کو قائم کرتے ہوئے ایک نئے نٹ ورک کا مظاہرہ کیا جس کے بعد سائنسدانوں نے یہ محسوس کیا کہ ڈاکٹر رابرٹ نے جو تجربہ پیش کیا ہے اس کے ذریعہ دنیا میں موجود مختلف ٹکنالوجیز کے زیر اثر کار کردگی انجام دینے والے کمپیوٹر نٹ ورکس کے درمیان رابطے کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر رابرٹ نے مختلف طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے قائم کئے جانے نٹ ورک کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کی ضرورت اس وقت محسوس کی جب وہ ڈارپا میں شمولیت اور ابتدائی تجربات کے لئے سٹلائیٹ اور ریڈیو ٹکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے نٹ ورک کو وہ استعمال کر رہے تھے رابرٹ کے اس احساس نے ہی اسے مختلف ٹکنالوجیز کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی طرف مائل کیا۔

آرپانٹ کے نٹ ورک کنٹرول پروگرام (این سی پی) پروٹوکال کے ایک سافٹ ویر ڈیولپر انجینئر وینٹن کرف نے ڈاکٹر رابرٹ کے ساتھ مل کر ایک ایسی مشینی لینگویج کی تیاری کے پراجکٹ کا آغاز کیا جو مختلف تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے تیار کئے گئے نٹ ورکس کے آپسی رابطے کو یقینی بناسکے۔ 1973ء کے موسم گرما تک ڈاکٹر رابرٹ اور وینٹن نے اپنے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بنیاد تیار کر لی۔

2 مختلف طرز کے نٹ ورکس کو آپس میں جوڑنے کے لئے ان کے درمیان ایک اور کمپیوٹر کو استعمال کیا گیا جس کو ’’راؤٹر (Router)‘‘ کا نام دیا گیا یعنی ایک ایسا راستہ جو مختلف منازل کو آپس میں جوڑسکے۔ ڈاکٹر رابرٹ اور وینٹن کی اس اہم کامیابی کو آج سائبر ٹکنالوجی کی اصطلاح میں گیٹ ویز (Gateways) کہا جاتا ہے یعنی مختلف نٹ ورکس کے درمیان سفر کرنے والے پیغامات ایک نٹ ورک سے نکل کر دوسرے نٹ ورک میں داخل ہونے کیلئے جس مقام کا استعمال کرتے ہیں یہ سرحدی راستے کی طرح ہوتا ہے جس کو ’’گیٹ وے‘‘ کہا جاتا ہے۔

1973-74ء کے دوران وینٹن کی زیر قیادت نٹ ورکنگ تحقیقات پر مامور ایک جماعت نے ’’گیٹ وے‘‘ کے نظریے پر مزید گہرائی سے مطالعہ اور تحقیقات کرنا شروع کیا جس کے کارآمد نتائج برآمد ہوئے۔ ڈارپا نے بی بی این ٹکنالوجیز، اسٹانفورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی کالج لندن سے رابطہ قائم کیا اور ان اہم اداروں کے اشتراک کے بعد مختلف نٹ ورکس کو جوڑنے کے لئے ایک مشترکہ مشینی لینگویج تیار کی گئی جس کو انٹرنیٹ پروٹوکال کے نام سے موسوم کیا گیا۔

مذکورہ اداروں کی مشترکہ کاوشوں کے بعد مختلف ٹکنالوجیز کو استعمال کرتے ہوئے تیار کئے گئے نٹ ورکس کو آپس میں جوڑنے کے لئے ایک مشترکہ مشینی لینگویج تیار کی گئی جس کو ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکال/ انٹرنیٹ پروٹوکال (TCP/IP) کا نام دیا گیا ۱۸؂۔ ابتدائی مرحلے میں ٹی سی پی/ آئی کے مختلف ورژن تیار کئے گئے جس میں ٹی سی پی کے پہلے اور دوسرے ورژنس قابل ذکر ہیں جس کے بعد 1978ء میں ٹی سی پی/ آئی پی کا ورژن 4، کافی سود مند ثابت ہوا جس کو آج بھی انٹرنیٹ کے قیام اور تیاری کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ 1975ء میں دو ٹی سی پی/ آئی پی سے تیار کئے گئے نٹ ورکس کو آپس میں جوڑا گیا یعنی کمپیوٹرس نٹ ورکس کے میدان میں تحقیقاتی پراجکٹس پر مامور سائنسدانوں نے اسٹانفورڈ اور یونیورسٹی کالج لندن کے درمیان ٹی سی پی/ آئی پی کے استعمالات کے ذریعہ کمپیوٹرس نٹ ورک کو تیار کیا۔

ماہ نومبر 1977ء کو ٹی سی پی/ آئی پی کے ذریعہ تیار کئے جانے والے نٹ ورکس نے سرحدوں کو عبور کرنے میں اپنی رفتار تیز کر دی اور امریکہ، برطانیہ اور ناروے کے درمیان موجود 3 نٹ ورکس کے درمیان رابطے اور پیغامات کے حصول و ترسیل کے نظریے کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ اس کامیابی کے بعد 1978 تا 1983ء کے عرصے کے دوران دنیا کے مختلف تحقیقاتی مراکز پر ٹی سی پی/ آئی پی کے شعبے میں کئی تجربات اور تحقیقات ہوئیں اور بالآخر یکم جنوری 1983ء کو آرپانٹ نے خود کو ٹی سی پی/ آئی سے مربوط کر دینے کا سرکاری فیصلہ کر لیا۔ 1983ء کی پہلی تاریخ کو ’’آرپانٹ‘‘ کے تمام نٹ ورکس ٹی سی پی/ آئی پی کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ماہ مارچ 1982ء کو امریکہ کے شعبے دفاع نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ اس کے تمام کمپیوٹر نٹ ورکس ٹی سی پی/ آئی پی کو اپنے لازمی پروٹوکال (مشینی لینگویج) کے طور پر استعمال کر یں گے۔ 1985ء میں انٹرنیٹ آرکیٹکچر بورڈ کی جانب سے ایک سہ روزہ ورک شاپ منعقد کیا گیا تھا جس کا اصل مقصد کمپیوٹر صنعت کے شعبے کو ٹی سی پی/ آئی پی کی افادیت، اغراض و مقاصد سے واقف کروانا تھا جہاں اس شعبے میں ترقیاتی غرض سے مصروف 250 کمپنیوں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ مذکورہ ورک شاپ میں اس مشترکہ پروٹوکال کے تجارتی مقاصد پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

وینٹن کرف، یوجین ڈالال اور چارل سن شائین جیسے معروف کمپیوٹر سائنسدانوں کی زیر قیادت ایک جماعت مشترکہ پروٹوکال کی تیاری میں تحقیقاتی پراجکٹس پر کام کر رہی تھی اور اسی جماعت نے ڈسمبر 1974ء کو پہلی مرتبہ لفظ ’’انٹرنیٹ‘‘ استعمال کیا جو در اصل انٹرنیٹ ورکنگ کی ترجمانی کرتا تھا جس کا مطلب کمپیوٹرس کو جوڑتے ہوئے بنائے جانے والے نٹ ورکس کو آپس میں جوڑتے ہوئے متعدد نٹ ورکس کی تیاری کو یقینی بنانا تھا ۱۹؂۔ 22 نومبر کو ڈارپا کی جانب سے آرپانٹ، پیاکٹ ریڈیونٹ ورک اور اٹلانٹک پیاکٹ سٹیلائیٹ نٹ ورک کی جانب سے کمپیوٹرس نٹ ورک کے مظاہرے کئے گئے لیکن یکم جنوری 1983ء کو کئی اہم اداروں کے کامیاب مظاہروں کے باوجود آرپانٹ نے ٹی سی پی/ آئی پی کو اس کی اہمیت و افادیت کی بنیادوں پر نہ صرف قبول کیا بلکہ سرکاری طور پر اسے اپنے کمپیوٹرس کے نٹ ورک کے لئے رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کرنے کا اعلان کر دیا۔ امریکہ کے بعد یوروپ کے دیگر تحقیقاتی اداروں نے بھی اپنے استعمال کردہ مشینی لینگویج (پروٹوکال) کے استعمال کو ترک کرتے ہوئے مشترکہ مشینی لینگویج (پروٹوکال) ٹی سی پی/ آئی پی کے استعمال کا اعلان کر دیا۔ 1984ء میں یونیورسٹی کالج لندن نے سٹیلائیٹ کے طریقۂ رابطے کو ترک کرتے ہوئے ٹی سی پی/ آئی پی کو اس کا جانشین مقرر کر دیا۔ یوروپین آرگنائزیشن فار نیوکلیر ریسرچ (CERN) نے 1984 تا 1988ء کے دوران اپنے مختلف شعبوں میں استعمال ہوئے کمپیوٹر نٹ ورکس پر ٹی سی پی/ آئی پی کو استعمال کرنا شروع کر دیا لیکن اس کے یہ نٹ ورکس 1989ء تک دنیا کے دوسرے مقامات سے بہ آسانی استعمال کے قابل نہیں تھے کیونکہ سی ای آر این نے اپنے نٹ ورکس کو خانگی حیثیت دے رکھی تھی۔ یوروپ میں جب انٹرنیٹ اپنے جال کو پھیلانے کے علاوہ خود کو مستحکم کر رہا تھا اسی دوران اس نے آسٹریلیائی ارباب مجاز کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کر لی۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ماہ مئی 1920ء کو قائم کردہ ’’یونیورسٹیز آسٹریلیا‘‘ جس نے 1966ء تک ملک کے دیگر شہروں ملبورن اور دارالحکومت کینبرا میں خود کو وسعت دیتے ہوئے آج آسٹریلین وائس چانسلرس کی کمیٹی کا نام حاصل کر لیا اور اس کے 38 اراکین ہیں جو کہ ملک کی 39 یونیورسٹیوں کی ترجمانی کرتے ہیں، اس نے 1989ء میں ’’آسٹریلین اکیڈیمک اینڈ ریسرچ نٹ ورک (AARNet) قائم کیا اس تنظیم جس نے ابتداء میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیئ ٹی سی پی/ آئی پی کو کمپیوٹرس کے درمیان رابطے کے لئے استعمال اور مختلف اداروں میں موجود کمپیوٹر نٹ ورکس کو آپس میں جوڑنے کی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔ نیز آسٹریلیا میں ’’آرنٹ‘‘ نے انٹرنیٹ کے فروغ اور پھیلاؤ میں کلیدی رول ادا کیا۔

ایشیائی ممالک میں انٹرنیٹ کی آمد 1980ء کے دہے کے اواخر میں ہوئی۔ جاپان نے 1984ء میں ’’چاپان یونیورسٹی نٹ ورک (Junet) قائم کیا جو در اصل اکٹوبر 1984ء کو ٹوکیو یونیورسٹی، ٹوکیو انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی اور کیو یونیورسٹی کا اشتراک تھا۔ مذکورہ یونیورسٹیوں کا اشتراک اور مقصد در اصل کمپیوٹر نٹ ورک شعبے میں تجربات اور تحقیقات تھا۔ چاپان کی ان تین یونیورسٹیوں کے درمیان موجود 700 کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے مربوط کر دیا گیا اور جغرافیائی اعتبار سے طویل فاصلے پر موجود کمپیوٹرس کو ٹیلی فون لائن کے ذریعہ ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے انٹرنیٹ کو یقینی بنایا گیا۔ ’’جونٹ‘‘ (Junet) نے جاپان میں انٹرنیٹ کی ترقی اور پھیلاؤ میں انتہائی اہم رول ادا کیا ہے۔ اکٹوبر 1994ء کو ’’وائیڈ پراجکٹ‘‘ کے اعلان کے بعد ’’جونٹ‘‘ نے اپنے جانشین کو ذمہ داریاں سونپ دیں۔ چاپان کے بعد سنگاپور نے 1990ء میں ’’ٹک نٹ‘‘ قائم کیا۔ جبکہ 1992ء کو تھائی لینڈ نے اپنی یونیورسٹی ’’چھولالونگ کورن‘‘ اور ’’یویونٹ‘‘ کے درمیان رابطے کے ذریعہ انٹرنیٹ کا اپنی سرحدوں میں خیر مقدم کیا۔ ترقی یافتہ ممالک جب اپنی سرحدوں میں انٹرنیٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے سائبر ٹکنالوجی کے ذریعہ خود کو ٹکنالوجی کی مسابقتی دوڑمیں یکے بعد دیگرے شامل کر رہے تھے ان کی تقلید ترقی پذیر ممالک نے بھی شروع کر دی۔ 1990ء کے اوائل تک افریقی ممالک میں ٹی سی پی/ آئی پی کے برعکس دیگر تکنیکی طریقوں سے کمپیوٹر نٹ ورکس تیار کئے جا رہے تھے لیکن اگست 1995ء کو ’’انفو میل یوگانڈا لمیٹیڈ‘‘ کا کوالالمپور (ملیشیا) میں قیام عمل میں آیا جو آج ’’انفو کام‘‘ سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ ٹی سی پی/ آئی پی کے استعمالات کا آغاز کیا۔ ’’افری نیک‘‘ نے افریقی ممالک میں انٹرنیٹ کے آغاز اور ارتقاء میں کلیدی رول ادا کیا۔ ’’افریکن نٹ ورک انفرمیشن سنٹر (Afrinic) کا موریشیس کے شہر ’’ایبینی سٹی‘‘ میں ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا۔ افری نیک ہی وہ ادارہ ہے جس نے افریقی ممالک میں نہ صرف انٹرنیٹ کے پھیلاؤ میں کلیدی رول ادا کیا بلکہ انٹرنیٹ کی کار کردگی پر قابو بھی اس کے دائرے کار کر دگی میں شامل ہے۔

افری نیک نے انٹرنیٹ کی عالمی تنظیم ’’آئی سی اے این این‘‘ سے 11 اکٹوبر 2004ء کو اجازت ملنے کے بعد 22 فروری 2005ء سے افریقی ممالک میں انٹرنیٹ کے فروغ اور پھیلاؤ کے لئے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ ’’افری نیک‘‘ کے ذریعہ براعظم افریقہ کے 56 ممالک میں انٹرنیٹ سہولیات فراہم کیجا رہی ہیں جس کے ذریعہ یہاں سائبر ٹکنالوجی کو عام صارفین استعمال کر رہے ہیں۔ ’’افری نیک‘‘ جن 56 افریقی ممالک میں انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کر رہا ہے ان میں قابل ذکر ممالک الجیریا، مصر، ایتھوپیا، گھانا، کینیا، لبیا، موریشیس، مراقش، نیمبیا، ائجریا، سومالیہ، جنوبی افریقہ، سوڈان، تنزانیہ، یو گانڈا اور زمبابوے ہیں۔ ایشیائی خطے کا تذکرہ کریں تو ہندوستان کا پڑوسی ملک چین نے 1991ء میں اپنا پہلا ٹی سی پی/ آئی پی نٹ ورک شینگوا یونیورسٹی میں "Tunet” کے نام سے قائم کیا۔ نیز 1995ء میں چین نے اپنا پہلا عالمی نوعیت کا انٹرنیٹ رابطہ قائم کیا۔ چین میں بین الاقوامی سطح کے طرز پر پہلا انٹرنیٹ رابطہ ’’بیجنگ اسکڑو۔ اسپیکٹرو میٹر کو لابریشن اور اسٹانفورڈ یونیورسٹی کے درمیان قائم کیا گیا۔ لاطینی امریکہ میں انٹرنیٹ کی سہولیات کو عام کرنے میں ’’لاطین امریکن اینڈ کرپشن انٹرنیٹ ایڈریس‘‘ رجسٹری (LACNIC) کا کردار کافی اہمیت کا حامل ہے۔

’’ٹی سی پی/ آئی پی‘‘ سادہ الفاظ میں۔۔ ۔۔ ۔۔

انٹرنیٹ کی ایجاد اور ابتدائی تجرباتی مراحل میں کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے جو ڑنے کے لئے مختلف تکنیک اور طریقے استعمال کئے جاتے رہے ہیں لیکن گذرتے وقت کے ساتھ کمپیوٹر سائنسدانوں نے جب محسوس کیا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں تحقیقاتی اداروں نے جو تجرباتی کامیابیاں انٹرنیٹ میدان میں حال کی ہیں مستقبل میں یہ کامیابیاں ناکافی ہوں گی اور تمام کمپیوٹرس اور جغرافیائی اعتبار سے مختلف مقامات پر تیار کئے جا چکے نٹ ورکس کو آپس میں جوڑنے کے لئے ایک مشترکہ لینگویج (پروٹوکال) کی ضرورت ہے۔ اسی نظریے نے سائینسدانوں اور کمپیوٹر انجینئرس کو نٹ ورک کے لئے ایک مشترکہ لینگویج کی تیاری میں مشغول کر دیا جس کو ٹی سی پی/ آئی پی کا نام دیا گیا۔ ٹی سی پی/ آئی پی کو سمجھنے کے لئے ایک سادہ مثال پیش کی جاتی ہے۔

مثال:

عرب ممالک کے باشندے تبادلۂ خیال کے لئے عربی زبان کا استعمال کرتے ہیں جبکہ مغربی ممالک کے علاوہ بر اعظم یوروپ، آسٹریلیا کے اور افریقہ کے کئی ممالک کے باشندے انگریزی کو تبادلۂ خیال کی زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح بر صغیر اور خود ہندوستانی باشندے علاقائی اعتبار سے کئی زبانوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ اردو ادب اور زباں کی اپنی ایک دنیا ہے لیکن جب ان مختلف ممالک اور جماعتوں کے باشندوں کو ایک دوسرے سے گفتگو اور رابطے کی ضرورت پڑی ہے تو وہ بین الاقوامی زبان ’’انگریزی‘‘ کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ زبان دنیا کے تقریباً ہر ملک اور خطے میں بہ آسانی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

اسی طرح انٹرنیٹ کی ایجاد کے ابتدائی دور میں امریکہ اور یوروپ کے مختلف تحقیقاتی ادارے مختلف تکنیک اور طریقۂ کار کے ذریعہ کمپیوٹر نٹ ورکس تیار کر رہے تھے اور کمپیوٹرس کے درمیان آپسی رابطے کے لئے مختلف مشینی لینگویجس کا استعمال ہو رہا تھا لیکن جب اس میدان کے محققین نے محسوس کیا کہ دنیا کے تمام نٹ ورکس کو جوڑنے کے لئے اور کمپیوٹرس کے درمیان آپسی رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ایک مشترکہ مشینی لینگویج کی ضرورت ہے تو ان کے اس نظریے اور نٹ ورک کی اس ضرورت نے ٹی سی پی/ آئی پی کو وجود میں لایا۔ ٹی سی پی/ آئی پی کے علاوہ اس طرح کی جتنی مشینی لینگویجس موجود تھیں انہیں ایک مشترکہ تکنیکی نام دیا گیا جو کہ ’’پروٹوکال‘‘ کہلایا گیا۔ گذرتے وقت کے ساتھ ٹی سی پی/ آئی پی نے دنیا کے تمام نٹ ورکس کے لئے ایک مشترکہ ’’پروٹوکال‘‘ کی شکل اختیار کر لی۔

ابتدائی دور میں جہاں ٹی سی پی/ آئی پی کے مختلف ورژنس ایجاد کئے گئے وہیں اس کے ورژن ’’4‘‘ نے کافی مقبولیت حاصل کی اس کے بعد ورژن ’’6‘‘ بھی متعارف کیا جا چکا ہے لیکن یہ ہنوز بڑے تحقیقاتی اور تجرباتی اداروں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈی سی پی/ آئی پی کے ورژن 4 کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کیا گیا اور جماعت میں کئی بلین نٹ ورکس کو جوڑنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ نٹ ورکس کی بڑھتی تعداد سے نمٹنے کے لئے ’’ورژن 6‘‘ بھی متعارف کر دیا گیا جس میں ’’ورژن 4‘‘ سے کئی گنا زیادہ نٹ ورکس کو جوڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔

1990ء کا سال عالمی منظر پر کئی اہم واقعات کے لئے یادگار سال مانا جاتا ہے کیونکہ اسی برس فروری میں نلسن منڈیلا کو 27 برس بعد قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی۔ ماہ اپریل میں پہلی مرتبہ ٹیلی اسکوپ کو مدار میں پہنچایا گیا اور اکٹوبر میں جرمنی کا اتحاد عمل میں آیا اسی طرح سائبر ٹکنالوجی میں بھی اس برس اپنی ایک اہم اور بہت بڑی کامیابی حاصل کی اور وہ انٹرنیٹ کے عروج کے لئے پہلے ’’ویب سائیٹ‘‘ اورپہلے ’’ویب سرور‘‘ کو منظر عام پر پیش کیا۔ ماہ مارچ 1989ء کو برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کرنے والے کمپیوٹر انجینئر ٹیم برنرس۔ لی نے یوروپین آرگنائیزیشن فار نیوکلیر ریسرچ (سی ای آر این) کے لئے کام کرتے ہوئے کاغذ پر اپنا ایک نظریہ پیش کیا جس میں لی نے کہا کہ انٹرنیٹ پر ہائپرٹکسٹ (Hyper text) ٹکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ مواد کی حصول و ترسیل کو آسان اور یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ لی کی جانب سے اس نظریے کو پیش کرنے کے اگلے برس انہیں رابرٹ کلیو کی خدمات بھی حاصل ہوئیں جو کہ ایک ماہر کمپیوٹر انجینئر تھے۔

لی کے اس نظریے کو 1990ء میں عملی جامہ پہنایا گیا اور سی ای آر این میں استعمال ہونے والی کمپیوٹرس کو ’’ہائپر ٹکسٹ‘‘ ٹکنالوجی سے جوڑا گیا جس کو سائبر دنیا نے پہلے ’’ویب براؤزر‘‘ کی حیثیت سے تسلیم کیا۔

پہلے ویب براؤزر کی تخلیق کے بعد لی کے لئے اس کے نام کی تجویز اہم مسئلہ بنا، ابتداء میں اسے Mine of Information اور The Information Mesh جیسے نام تجویز کئے گئے لیکن ماہ مئی 1990ء کو یہ "World Wide Web” (ورلڈ وائیڈ ویب) کے نام سے انٹرنیٹ ٹکنالوجی کی ایک اہم کامیابی کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ ماہ مئی 1990ء کو لی کی جانب سے دنیا کے پہلے ویب براؤزر کی تخلیق نے سائبر ٹکنالوجی کو عوامی سطح پر مقبول کرنے کی سمت ایک انتہائی اہم قدم بڑھایا۔

لی نے دنیا کے پہلے ویب براؤزر کی تیاری کے لئے "Next” کمپیوٹر استعمال کیا۔ پہلے ویب براؤزر کی تیاری کے ساتھ ہی دنیا کا سب سے پہلا ویب سرور اور پہلی ویب سائیٹ نے بھی جنم لیا۔ دنیا کی پہلی ویب سائیٹ "Info.Cern.ch” ہے ۲۱؂ جو کہ سی ای آر این کے Next کمپیوٹر پر استعمال کی گئی۔ پہلے ویب سرور اور پہلی ویب سائیٹ اور پہلے ویب براؤزر کے علاوہ دنیا کا پہلا ویب پیج میں کسی قسم کے اختلافات نہیں اور مصدقہ طور پر http: //info.cern.ch/hypertext/www/theproject.html کو پہلا ویب پیج مانا جا چکا ہے۔ اسی طرح رابرٹ کو ویب سائیٹ استعمال کرنے والے دنیا کے پہلے شخص ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1991ء کے موسم بہار تک کائناتی سطح کے ویب براؤزر کے پراجکٹس پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا جس کا بنیادی مقصد ایک ایسے ویب براؤزر کی تخلیق کرنا تھا جس کو دنیا کے بلکہ خلاء میں موجود دیگر تحقیقاتی مشینوں کے ذریعہ بھی قابل استعمال بنایا جا سکے۔ بنیادی طور پر اس کائناتی ویب براؤزر کو صرف کمانڈس (Commands) کے ذریعہ قابل استعمال بنایا گیا تھا جہاں صارفین کو آج کی طرح موز، تصاویر اور دیگر عام سہولیات دستیاب نہیں تھیں۔ 1991ء کے برس یوروپ کے بیشتر اداروں میں سرورس کی تخلیق اور استعمالات کا آغاز ہو چکا تھا۔ نومبر 1992ء کو یوروپ کے باہر پہلی مرتبہ سرور تیار کیا گیا جو کہ امریکہ کے اسٹانفورڈ لینیر ایکسیلٹیر سنٹر (SLAC) میں انسٹال کیا گیا۔ ماہ اکٹوبر 1993ء کو سرورس کی تعداد 200 سے متجاوز ہوئی جس میں کئی اہم اور معروف ویب سرورس شامل ہوئے۔ فروری 1993ء کو سوپر کمپیوٹنگ اپلیکیشن کے نیشنل سنٹر (NCSA) نے ایک ایسا ویب سرور متعارف کیاجس کو پرسنل کمپیوٹرس کے علاوہ کمپیوٹرس کی دوسری قسم ’’اپیل میکینٹوشیں‘‘ کے ذریعہ بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ info.cern.ch کا مشاہدہ کیا جائے تو آج بھی اس ویب سائیٹ پر دنیا کے پہلے ویب سائیٹ کی تخلیق کی تاریخی تفصیلات فراہم کرنے کے علاوہ اس پر جلی حروف میں دنیا کے سب سے پہلے ویب سرور کا ویب سائیٹ تحریر ہونے کے علاوہ ’’مارچ 2009ء‘‘ میں ویب سائیٹ کے 20 برسوں کا جشن کی تفصیلات بھی موجود ہے۔

کمپیوٹر صارفین کے ذہنوں میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ اور ویب براؤزر (www) ایک ہی ٹکنالوجی کے دو نام ہیں لیکن حقیقت میں انٹرنیٹ اور ویب براؤزر 2 علیحدہ ٹکنالوجیز کے نام ہیں۔ انٹرنیٹ در اصل کمپیوٹرس کو آپس میں جوڑنے والی ٹکنالوجی کا نام ہے جبکہ کمپیوٹرس کو آپس میں جوڑنے کے بعد ان کمپیوٹرس پر موجودہ مواد کو انٹرنیٹ کی سہولیات سے قابل استعمال بنانے کے لئے استعمال ہونے والی ٹکنالوجی کو ویب براؤزر کہا جاتا ہے۔ پرسنل کمپیوٹرس کی ایجاد اور ابتدائی دور میں جس طرح صارفین کو موز اور تصویری سہولیات دستیاب نہیں تھیں اسی طرح انٹرنیٹ اور ویب براؤزر کی تخلیق اور ابتداء مرحلے میں یہ ٹکنالوجی بھی مخصوص احکامات (Commands) کی مدد سے قابل استعمال بنائی جاتی تھی لیکن بدلتے وقت کے ساتھ کمپیوٹرس انجینئرس اور سائنسدانوں کی کوششوں نے ’ گرافیکل ویب براؤزر‘‘ کو یقینی بنایا۔

سوپر کمپیوٹنگ اپلیکیشن کے نیشنل سنٹر (NCSA) کے کمپیوٹر انجینئرس مارک ایل اینڈریس سن اور ایرک جی بینا نے 1993ء میں پہلا گرافیکل ویب براؤزر”MOSAIC” تیار کیا جس نے انٹرنیٹ پر موجود ملٹی میڈیا مواد کے استعمالات کو آسان اور یقینی بنایا۲۲؂۔ بعد ازاں اینڈریس سن نے اپنی شخصی کمپنی

Mosil Communication” Corporation” کا آغاز کیا جو کہ کیلیفورنیا میں اپنے تجارتی مقاصد کے حصول میں سرگرم ہو گئی۔ "Mosaic” کے نام کے استعمال پر جب اعتراض کیا گیا تو اینڈریس سن نے اپنی کمپنی کا نام تبدیل کرتے ہوئے اسے "Netscape Communication” کا نام دیا اور اس کمپنی نے اپنا پہلا کامیاب ویب براؤزر "Netscape Navigator” متعارف کیا۔ عام صارفین کی جانب سے استعمال کئے جانے والے ویب براؤزر کی دوڑ میں "Netscape Navigator” سب سے آگے رہا لیکن 2002ء تک یہ اہم اور مقبول عام ویب براؤزر انٹرنیٹ کی دنیا سے تقریباً غائب ہی ہو گیا جس کی اصل وجہ مائیکرو سافٹ کی جانب سے متعارف کردہ ’’انٹرنیٹ ایکسپلورر‘‘I.E Internet Explorer” ہے۔

1995ء کا سال ’’انٹرنیٹ اور عام صارفین‘‘ کے موضوع کے اعتبار سے کافی اہم سال تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اسی برس پرسنل کمپیوٹرس کے لئے کامیاب آپریٹنگ سسٹمس بنانے والی کمپنی مائیکرو سافٹ نے اپنا آپریٹنگ سسٹم "Windows95” متعارف کیا جس میں انٹرنیٹ ایکسپلورر (I.E) شامل تھا جس نے سائبر ٹکنالوجی کو عام کرنے میں انتہائی کلیدی رول ادا کیا۔ مائیکرو سافٹ کمپنی کی جانب سے سائبر ٹکنالوجی کو آسان بناتے ہوئے عام صارفین کے لئے متعارف کردہ آپریٹنگ سسٹم ونڈوز 95 نے انٹرنیٹ کو مزید مقبول بنانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ ونڈوز 95 کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ اس آپریٹنگ سسٹم میں شامل کردہ ویب براؤزر ’’انٹرنیٹ ایکسپلورر‘‘ ہے۔ 16 اگست 1995ء کو انٹرنیٹ ایکسپلورر عام صارفین کے لئے بازار کی زینت بنا دیا گیا۔ گرافیکل یوزر انٹرفیس (آپریٹنگ سسٹم کے استعمال کے قابل بنانے کے لئے احکامات کی تصویری اشکال) آپریٹنگ سسٹم ونڈوز 95 میں انٹرنیٹ ایکسپلورر نے صارفین کو سائبر ٹکنالوجی سے استفادہ کی آسان راہ فراہم کر دی جہاں صارفین کو کمپیوٹر سائینس کے لمبے جوڑے تحریری شکل کے احکامات کو یاد کی محنت سے چھٹکارا ملنے لگا اور اس کے برعکس کمپیوٹر انجینئرس نے تحریری احکامات کے نتائج کو تصویری شکل دی اور صارفین کے لئے یہ سہولت فراہم کر دی کہ وہ اپنی ضرورت کے لئے آپریٹنگ ٹیم میں موجود تصاویر کو موز سے کلک کرتے ہوئے اپنے امور کی انجام دہی کر سکتے ہیں نیز ان ہی سہولیات میں انٹرنیٹ ایکسپلورر بھی ایک ہے۔ 1995ء میں ونڈوز 95 کے بعد مائیکرو سافٹ کا سب سے کامیاب آپریٹنگ سسٹم ونڈوز 98 کو قرار دیا جا سکتا ہے جس نے سائبر ٹکنالوجی کو عام صارفین کے لئے مزید آسان اور مؤثر بنانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ 25 جون 1998 کو مائیکرو سافٹ نے ونڈوز 98 کے ساتھ انٹر ایکسپلوررکے چوتھے ورژن کو متعارف کیا جس کے بعد ونڈوز 98 میں چند مثبت تبدیلیوں کے بعد اس آپریٹنگ سسٹم کو ونڈوز 98 سکنڈ ایڈیشن کے نام سے متعارف کیا جس میں انٹرنیٹ ایکسپلورر کا پانچواں ورژن شامل کیا گیا اس طرح 18 مارچ 1999ء کو ایک اور سہولت انٹرنیٹ ایکسپلورر کے پانچویں ورژن کی شکل میں بازار میں آئی جس نے سائبر ٹکنالوجی کو مزید آسان کرتے ہوئے اسے عام صارفین میں مقبولیت کے گراف کو مزید اُونچا کیا۔

1995 سے 1998ء کے دوران صرف مائیکرو سافٹ نے عام صارفین کی قابلیتیں اور ان کی یومیہ ضروریات کے پیش نظر اپنے 2 شاندار آپریٹنگ سسٹمیں ونڈوز 95 اور ونڈوز 98 متعارف کرتے ہوئے سائبر ٹکنالوجی کو دنیا کے کونے کونے اور ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک کے صارفین کے لئے گھر گھر پہنچایا وہیں ان 3 برسوں کے دوران سائبر ٹکنالوجی کے میدانوں میں ترقیات اور تحقیقاتی اداروں نے کئی کارنامے انجام دے دیئے۔ 25 مارچ 1995ء کو C2.com پر ویکی پیڈیا کا ظہور انٹرنیٹ دنیا میں ایک انتہائی اور اہم ویب سائیٹ کا اضافہ تھا۔ ویکی پیڈیا ایک ایسا ویب سائیٹ ہے جہاں ہر صارف کو زندگی کے مختلف شعبۂ حیات کی تفصیلات اکھٹا کرنے کا موقع دیا گیا اور اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے اس ویب سائیٹ پر زندگی کے تقریباً ہر شعبے کی تفصیلات کا ایک ضخیم ذخیرہ جمع ہو گیا۔ 1995ء کی ایک اہم ایجاد "eBay.Inc” ہے۔ یہ ویب سائیٹ امریکہ کی ایجاد ہے جہاں اشیائے ضروریہ کا آن لائین ہراج یقینی ہو گیا۔ 1996ء کی اہم تخلیق ’’انٹرنیٹ آرکائیوز‘‘ ہے جس کا دفتر سان فرانسیسکو، کیلیفورنیا میں ہے۔ اس اہم ویب سائیٹ کے ایجاد کے بعد اسی پر چند تاریخی اور اہم سافٹ ویرس، کتابوں، فلموں اور آڈیوز کو محفوظ کیا گیا ہے۔ 1998ء کا سال سائبر ٹکنالوجی کے فروغ اور پھیلاؤ کے لئے ایک اہم سال تصور کیا جاتا ہے کیونکہ جہاں مائیکرو سافٹ نے ونڈوز 98 کے ذریعہ عام صارفین کو انٹرنیٹ ٹکنالوجی سے جوڑا وہیں اسی برس یا ہو (Yahoo) اور گوگل (Google) جیسا اہم سرچ انجن سائبر ٹکنالوجی کے اہم ستون کی طرح منظر عام پر آئے۔ 1998ء میں یا ہو گروپ سائبر ٹکنالوجی کا حصہ بنا ۲۳؂ جس نے صارفین کو سرچ انجن (انٹرنیٹ پر مواد کی تلاش کا آلہ)، ای میل، خبریں، تعلیم، موسیقی، جانوروں کے متعلق تفصیلات، گیمس، حکومت اور سیاست، سائنس اور صحت جیسے زمروں میں تفصیلات فراہم کرنا شروع کیا۔ نیز اسی برس یاہو کے کٹر حریف سمجھے جانے والے ایک اور سرچ انجن ’’گوگل‘‘ کا آغاز بھی ہوا۔ گوگل امریکی عوامی کارپوریشن ہے جو کہ انٹرنیٹ سرچ انجن کی بنیادی شناخت رکھتا ہے۔ گلوگل کی سہولیات کی ایک طویل فہرست ہے۔ گوگل کی چند اہم سہولیات میں سرچ انجن، ای میل، خبریں، نقشے، کتابیں، تصاویر اور شعبۂ تعلیم کے علاوہ اشتہارات کی سہولت قابل ذکر ہیں۔ گوگل کو سافٹ ویرس کے میدان میں ایک منفرد اور اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ 2000ء کے دہے میں انٹرنیٹ کی سہولیات کا استعمال تجارتی، تعلیمی، سیاسی، تحقیقاتی اور ترقیاتی زمرے سے آزاد ہو کر تفریحی زمرے میں بھی داخل ہوا جہاں سائبر ٹکنالوجی کو لوگ تفریح اور وقت گذاری کے لئے بھی استعمال کرنے لگے۔ 2003ء کی 2 اہم تخلیقات My Space اور itunes ہیں۔ مائی اسپیس کا تعلق کیلیفورنیا سے ہے جو در اصل ایک سماجی طرز کا ویب سائیٹ ہے۔ اس ویب سائیٹ کے ذریعہ دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں جہاں وہ اپنی تصاویر سے لے کر زندگی کے دیگر نجی پہلوؤں سے دیگر احباب کو واقف کرواتے ہیں۔ ’’آئی ٹیونس‘‘ موسیقی کے دلدادہ افراد کی ضروریات کو پورا کرنے والی ویب سائیٹ ہے جس کو جیف رابن نامی کمپیوٹر انجینئر نے تخلیق کی۔ اس نوعیت کے 2 اہم ویب سائیٹس کی تخلیق 2004ء میں ہوئی جو کہ "Facebook” اور "Flicker” ہیں جہاں لوگ اپنی تصاویر اور ویڈیو ایک دوسرے سے تبدیل کرتے ہیں۔ 2000ء کے آغاز سے 2004ء تک کئی سماجی نٹ ورکس نے سائبر ٹکنالوجی کو تفریحی ٹکنالوجی میں بدل کر رکھ دیا لیکن 2005ء کی ایک اہم تخلیق "Youtube” ہے جہاں مختصر فلموں اور ویڈیوز کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ فروری 2005ء میں تخلیق کردہ آج کے اس مقبول عام ویب سائیٹ کے بانی اسٹیوچن، چھاڈ ہوالی اور جاوید کریم ہیں ۲۴؂۔ 1979ء کو مشرقی جرمنی میں پیدا ہونے والے جاوید کریم کا تعلق بنگال سے ہے جن کے والد نعیم کریم بنگلہ دیشی محقق ہیں۔ یوٹیوب کا ہیڈکوارٹرس برونو کیلیفورنیا میں ہے لیکن یہ بھی گوگل کی ملکیت ہے۔ یوٹیوب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی سہولیات دنیا کی 14 زبانوں میں دستیاب ہے۔

1995 تا 2005ء کا دہا سائبر ٹکنالوجی کو ابتدائی اور تحقیقاتی و تجرباتی مراحل سے نکال کر عوامی تفریحی زمرے میں داخل کرنے کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مذکورہ اہم دہے کے بعد سائبر ٹکنالوجی کے میدان میں آئے دن کئی نئے انوکھے اور اختراعی تجربات کئے جا رہے ہیں جس کے غیر معمولی اور ناقابل یقین نتائج آج ہمارے کمپیوٹرس کے اسکرین پر رو نما ہو رہے ہیں۔

 

حوالہ جات

 

۱؂    میڈیا ڈاٹ این پی آر ڈاٹ او آر جی، ویب سائیٹ

http: //media.npr.org/templates/story.php?story=114280698

۲؂    جیمس واٹسن، میڈیا کمیونکیشن، لندن، چوتھا ایڈیشن، ص 259

۳؂    محمد احتشام الحسن مجاہد، سائبر دنیا اردو میں، حیدر آباد، ص 45

۴؂    ہسٹری آف پرسنل کمپیوٹرس، وکی پیڈیا،

http: //en.wikipedia.org/wiki/history_of_personal_computers

۵؂    ایضاً

۶؂    ایضاً

۷؂    ایضاً

۸؂    جگدیش چکرورتی، سائبر میڈیا جرنلزم، ایمرجینگ ٹکنالوجیز،

نئی دہلی، 2003ء، ص 15

۹؂    محمد احتشام الحسن مجاہد، سائبر دنیا اردو میں، حیدر آباد، ص 60

۱۰؂   تاپس رائے، آن لائین جرنلزم، اے بیسک ٹکسٹ

نئی دہلی 2006ء، ص 11

۱۱؂   کنکٹ ارتھ، ویب سائیٹ، www.connect-earth.com

۱۲؂   انا اسلین یان، انٹرنیٹ سلیبریٹس 40th برتھ ڈے، ایکسپریس بز مورخہ 29 اکٹوبر 2009ء آن لائین ایڈیشن

۱۳؂   میڈیا ڈاٹ این پی آر ڈاٹ او آر جی، ویب سائیٹ

http: //media.npr.org/templates/story.php?story=114280698

۱۴؂   ہسٹری آف انٹرنیٹ، ویب سائیٹ

http: //en.wikipedia.org/wiki/history_of_the_internet

۱۵؂   میڈیا ڈاٹ این پی آر ڈاٹ او آر جی، ویب سائیٹ

http: //media.npr.org/templates/story.php?story=114280698

۱۶؂   ہسٹری آف انٹرنیٹ، ویب سائیٹ

http: //en.wikipedia.org/wiki/history_of_the_internet

۱۷؂   ایضاً

۱۸؂   ایضاً

۱۹؂   ایضاً

۲۰؂   تاپس رائے، آن لائین جرنلزم، اے بیسک ٹکسٹ نئی دہلی 2006ء، ص 16

۲۱؂   دنیا کی پہلی ویب سائیٹ، ’’info.cern.ch‘‘

۲۲؂   جگدیش چکرورتی، سائبر میڈیا جرنلزم، ایمرجینگ ٹکنالوجیز،       نئی دہلی، 2003ء، ص 58

۲۳؂   کنکٹ ارتھ، ویب سائیٹ، www.connect-earth.com

۲۴؂   ایضاً

٭٭٭

 

 

 

باب دوم

 

ہندوستان میں سائبر دور کا آغاز و ارتقاء

 

کمپیوٹرس کی ایجاد پھر دوسرے مرحلے میں انہیں ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے نٹ ورکس کی تیاری نے دنیا کو سائبر ٹکنالوجی کی اہمیت و افادیت سے واقف کروایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ٹکنالوجی دنیا کے تمام ممالک کو اپنے دامن میں سمیٹنا شروع کر دیا۔ امریکہ، یوروپ، آسٹریلیا افریقی ممالک کے بعد ایشیائی ممالک نے بھی اس ٹکنالوجی کا اپنی سرحدوں میں خیرمقدم کیا۔ ایشیائی خطے میں ہندوستان کو بھی تاریخی اعتبار سے ہر محاذ پر اہم مقام حاصل ہے اور اس نے سائبر ٹکنالوجی کے پھیلاؤ میں اپنا کردار ادا کیا۔

ہندوستان میں دو کمپیوٹرس کی آمد، لندن سے کولکتہ کے انڈین اسٹاٹسٹیکل انسٹی ٹیوٹ کے الکٹرانکس اینڈ کمیونکیشن کے یونٹ میں 1955ء کو ہوئی جبکہ 1988ء کو پہلی مرتبہ ہندوستان نے انٹرنیٹ میں شمولیت اختیار کی۱؂۔ ہندوستان میں پہلے کمپیوٹرس کی آمد سے لے کر انہیں انٹرنیٹ سے مربوط کرنے کے درمیان 33 برس کا ایک طویل وقفہ ہے کیونکہ کمپیوٹرس کی ایجاد کے بعد عالمی منظر پر انہیں انٹرنیٹ ٹکنالوجی کے ذریعہ ایک دوسرے سے جوڑنے میں سائنسدانوں اور انجینئروں کو ایک لمبے عرصے تک ان تھک کوششیں کرنی پڑی۔

ہندوستان میں پہلے کمپیوٹرس کی آمد اور اس ترقی پذیر ملک کی سرزمین پر نئی ٹکنالوجی کے خیر مقدم کو کولکتہ کے انڈین اسٹاٹسٹیکل انسٹی ٹیوٹ (آئی ایس آئی) کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔

1955ء کے اواخر لندن کے بحری راستے سے دو "HEC-2M” نامی کمپیوٹرس کی کولکتہ آمد ہوئی تاہم آئی ایس آئی کے ارباب مجاز خود بھی اس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ ان کمپیوٹرس کی جسامت اور حجم کیا ہو گا؟ کمپیوٹرس کی ہندوستان میں آمد کے بعد انہیں انسٹال کرنے کے لئے ماہرین کو دو ماہ کی محنت کرنی پڑی۔ ہندوستان میں پہلے کمپیوٹرس "HEC-2M” کی آمد کے پیچھے ڈاکٹر دیویچش دتہ، ایم ایم مکھرجی اور امریش رائے قابل ذکر نام ہیں۔ نیز ہندوستان نے لندن کے برک باک کالج میں پروفیسر اے ڈی بوتھ کی جانب سے تیار کردہ کمپیوٹرس کو اپنی سرزمین پر خیرمقدم کیا۔ ہندوستان نے جو کمپیوٹرس اپنے لئے منگوائے وہ نہ صرف ہندوستان کے لئے پہلے کمپیوٹرس تھے بلکہ جاپان کے بعد ایشیاء کے لئے بھی پہلے کمپیوٹرس تھے۔ 1964ء میں آئی بی ایم کی جانب سے ’’1401‘‘ کو انسٹال کرنے کے بعد ہندوستان کے پہلے کمپیوٹرس کو آرام کرنے کا موقع ملا۔ یاد رہے کہ ہندوستان میں جو پہلے کمپیوٹرس آئے وہ "16-Set” مشین تھا جو کہ مشینی کوڈس کے ذریعہ اپنی کار کردگی انجام دیتا تھا۔ ایک بڑے کمرے کے مماثل اس کمپیوٹر کی قیمت تقریباً 2 لاکھ روپے تھی۔ 300 مربع گز کے رقبے پر محیط اس کمپیوٹرس کو ایر کنڈیشنڈ میں رکھا گیا تھا۔ مذکورہ کمپیوٹرس پر ’’پنچ کارڈس‘‘ کا استعمال بھی ہوتا تھا بعد ازاں اس کو پرنٹر سے بھی منسلک کر دیا گیا۔ 1010 x  فیٹ کے اس کمپیوٹر کو جہاں روس سے لندن کے بحری راستے سے کولکتہ میں داخل کیا گیا وہیں ایک طویل عرصے کے بعد جب یہ تاریخ کا حصہ بننا شروع ہوا تو اس کی گمنامی کے دور کا آغاز بھی ہو گیا۔ آئی ایس آئی نے جب جادے پور یونیورسٹی کے اشتراک کے ذریعہ اپنا پہلا کمپیوٹر "ISIJU” تیار کیا تو پھر ان بیرونی کمپیوٹرس کی اہمیت مزید گھٹنے لگی۔ 1992ء میں آئی ایس آئی نے ہندوستان کے پہلے کمپیوٹرس کو برلا انڈیسٹریل اینڈ ٹکنالوجیکل میوزیم (Bitm) کو عطیہ دینے کا فیصلہ کر لیا ۳؂۔

پہلے کمپیوٹرس کی آمد کے 33 برس بعد ہندوستان نے اس شعبے کی دوسری اہم کامیابی حاصل کی اور 1988ء میں ہندوستان نے انٹرنیٹ کی فہرست میں شمولیت اختیار کر لی۔ انیل گارگ کی قیادت میں ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نٹ ورک (ERNET) کا قیام عمل میں آیا جس کے ذریعہ ہندوستان کے 8 تعلیمی اداروں کو آپس میں ’’ای میل‘‘ کے ذریعہ مربوط کیا گیا۔ نیز پہلا رابطہ ممبئی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی) اور این سی ایس ٹی کے درمیان قائم کیا گیا تھا۔ جس وقت ہندوستان میں پہلا کمپیوٹرس رابطہ قائم کیا گیا تھا اُس وقت آئی آئی ٹی میں صرف ایک ٹیلی فون کنکشن دستیاب تھا اور یہ سہولت صرف چیرمین کے کیابن میں ہوا کرتی تھی۔ ہندوستان کے پہلے کمپیوٹرس رابطے کے لئے انیل گرگ نے اپنے چیرمین سے معذرت خواہی کے ساتھ کہا کہ ٹیلی فون کو کمپیوٹرس سے جوڑنا ہے لہذا وہ اس ٹیلی فون کو استعمال کرنے کی اجازت دیں۔ ابتدائی دو برسوں کی کامیابی کے بعد ہندوستان میں ڈائیل اپ ٹکنالوجی اور بعد ازاں 1990ء میں لیز لائین کا آغاز ہوا ۴؂۔

1990ء کے دہے میں پہلی مرتبہ بنگلور کی کمپنی "STPI” نے انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنا شروع کیا تاہم اس کی یہ سہولت صرف کارپوریٹ اداروں تک محدود تھی۔ بعد ازاں ودیش سنچار نگم لمیٹیڈ (وی ایس این ایل) نے عوام کے لئے ’’ڈائیل اپ‘‘ کی سہولت فراہم کرنے کا آغاز کیا۔ وی ایس این ایل نے 14 اگست 1995ء کو پہلی مرتبہ عوام کے لئے انٹرنیٹ کی تمام سہولیات فراہم کرنے آغاز کیا ۵؂۔ یوم آزادی سے عین قبل ہندوستان میں انٹرنیٹ کی سہولت عوام تک رسائی حاصل کرنے لگی۔ ابتدائی مرحلے میں وی ایس این ایل کی انٹرنیٹ سہولت سے استفادہ کا موقع ممبئی، دہلی، کولکتہ اور چینائی کے باشندوں کو حاصل ہوا۔ انٹرنیٹ کی سہولت کے ابتدائی برس ہی اس کی رسائی پونے اور بنگلور تک ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بنگلور سائبر ٹکنالوجی کے لئے ہندوستان میں مرکزی حیثیت حاصل کر لیا۔ بنگلور کے بعد جنوبی ہندوستان میں حیدر آباد کو سائبر ٹکنالوجی اور انفرمیشن ٹکنالوجی کے لئے مرکز تصور کیا جاتا ہے جبکہ ہندوستان میں انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کرنے کے معاملے میں ایرٹیل، ٹاٹا، ریلائنس اور بی ایس این ایل سرفہرست کمپنیاں ہیں۔

حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی سہولیات کو عام کرنے کے لئے خانگی اور بیرونی تجارتی کمپنیوں کو دی جانے والی مراعات نے بھی ہندوستان میں انٹرنیٹ کو فروغ دیا اور سائبر ٹکنالوجی نے ملک کے بڑے اور میٹرو شہروں میں داخلہ حاصل کرتے ہوئے اپنے موقف کو مستحکم کرنا شروع کیا۔

6 نومبر 1998ء کو حکومت ہند کی جانب سے انٹرنیٹ سرویس پروائیڈرس (انٹرنیٹ سہولیات فراہم کرنے والا ادارہ) کے متعلق استعمال کی جانے والی پالیسیوں میں نرمی برتی گئی۔ پالیسیوں میں نرمی کے نتائج ہمت افزاء ثابت ہوئے اور جون 2004ء تک سارے ملک میں 189 ایسے ادارے قائم ہو گئے جو کہ انٹرنیٹ سہولیات کو گھر گھر پہنچا رہے تھے ۶؂۔ اعداد و شمار کے متعلق 1995ء میں جب انٹرنیٹ نے عوام میں مقبولیت حاصل کرتے ہوئے ہندوستان کو بھی متاثر کیا تو ہمارے ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 250,000 تھی اور صرف 5 برسوں کے بعد صارفین کی یہ تعداد 5,500,000 تک پہنچ گئی۔ ہندوستانی حکومت کو امید ہے کہ 2010ء کے اختتام تک ملک میں انٹرنیٹ کی صارفین کی تعداد 40 ملین سے تجاوز کر جائے گی۔

ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی اور پھیلاؤ میں امریکہ میں مرکزی حیثیت اختیار کرنے والی ’’سیلیکان ویالی‘‘ میں سرگرم ہندوستانیوں کا کلیدی رول رہا جنہوں نے نہ صرف ’’سیلیکان ویالی‘‘ کی جانب سے فروخت کئے جانے والے شے ئر کو خریدا بلکہ ہندوستان میں کئی سافٹ ویر کمپنیوں کے قیام اور سائبر ٹکنالوجی کے پھیلاؤ کی راہیں ہموار کیں۔

ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے پھیلاؤ اور ہمارے ملک کو سائبر دنیا میں ایک اہم مقام عطا کرنے میں کئی اہم شخصیتوں نے کلیدی رول ادا کیا جن میں ہندوستان کمپیوٹرس لمیٹیڈ کے مشترکہ بانی راج ملہوترہ، سن مائیکرو سسٹمس کے مشترکہ بانی ونود کھوسلہ، سبیر بھائیہ جو کہ ہاٹ میل کے مشترکہ بانی ہیں، لندن میں موجود ورلڈ ٹیل کے چیرمین سام پٹروڈا، ممبئی سے تعلق رکھنے والی کمپنی ویپرو کے چیرمین عظیم پریم جی اور بنگلور سے تعلق رکھنے والی کمپنی انفوسیس ٹکنالوجی کے صدر این آر نارائنا مورتی قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ شخصیتوں کے مقاصد اور ان کے تجارتی اغراض نے ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے پھیلاؤ میں ایسے کارنامے انجام دیئے جن کے احاطے اور تذکروں کے بغیر یہ باب نامکمل تصور کیا جاتا ہے۔

شمالی کیلیفورنیا میں موجود سیلیکان ویالی کو سائبر ٹکنالوجی کی دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس کے اختراعی نظریات اور ترقیات نے ساری دنیا میں مائیکرو الکٹرانک، کمپیوٹرس، ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ کے شعبوں میں نئے انقلابات برپا کئے۔

سیلیکان ویالی میں ماہرین کی بڑھتی مانگ کے پیش نظر دنیا کے مختلف ممالک سے سائبر ٹکنالوجی کے سائنسدانوں اور انجینئروں کے تقر رات کا سلسلہ شروع ہوا لیکن دوسرے ممالک سے بلوائے گئے ماہرین کو جو سہولیات اور تنخواہیں دی جاتی تھیں وہ امریکہ کے مقامی انجینئروں کی بہ نسبت اطمینان بخش نہیں ہوتی لہذا ہندوستانیوں نے بھی خود سیلیکان ویالی میں اپنی سافٹ ویر کمپنیوں کا آغاز کر دیا۔ جس کی ایک بہترین مثال کے۔ بی چندرا شیکھر (چندرا) کی ہے جنہوں نے ممبئی سے تعلق رکھنے والی کمپنی وئپرو کی ملازمت کے بعد سیلیکان ویالی کا رخ کیا اور یہاں ’’اولٹا‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی لیکن کچھ عرصے بعد انہوں نے اپنی خود کی سافٹ ویر کمپنی ’’فورسیس ان کارپوریشن‘‘ کا آغاز کیا۔ چندرا کی طرح کئی اور واقعات سیلیکان ویالی سے منسلک ہیں جنہوں نے ہندوستانیوں کو سائبر ٹکنالوجی میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ملک کو اس سائبر دنیا کا ایک مضبوط رکن بنانے کے لئے ایک مستحکم بنیاد فراہم کی۔ غیر مقیم ہندوستانی شہریوں کو حکومت کی جانب سے دی جانے والی سہولیات اور مراعات کے بعد ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کی ترقی کی راہیں مزید آسان ہوتی گئیں جبکہ بیرونی کمپنیوں کی جانب سے ہندوستان کے مختلف شہروں بنگلور، دہلی، کولکتہ، حیدر آباد، پونے اور چینائی میں اپنے علاقائی مراکز قائم کیا اور ان مراکز قیام نے بھی ہمارے ملک میں سائبر ٹکنالوجی کے جال کو مضبوط و مستحکم کر دیا۔ نیز آج بھی بنگلور، حیدر آباد، چینائی، کولکتہ، دہلی، گڑ گ اؤں، فرید آباد، نویڈا، غازی آباد اور پونے کو ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے اہم مراکز کی حیثیت حاصل ہے۔ ریاست آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدر آباد کو جیسے اپنے ابتدائی دور میں ادبی دبستانوں میں ایک اونچا مقام حاصل تھا نوابوں کے اس شہر نے سائبر دنیا میں بھی اپنا ایک مقام بنایا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبے میں شہر حیدر آباد میں سینکڑوں بیرونی اور ملکی کمپنیوں کا ایک طویل جال پھیلا ہوا ہے جن میں چند قابل ذکر کمپنیاں یہ ہیں ۸؂۔ اے بی این آمرور (نیندرلینڈ)، اے ایم ڈی، اے ڈی پی، ایکسنچر، بنک آف امریکہ، 3 کام کمپیوٹر اسوسی ایٹس، سائپرس سیمی کنڈکٹرس، ڈیل، ڈیلائیٹ، جی ای، جین پیاکٹ، گوگل، ایچ پی، آئی بی ایم، مائیکرو سافٹ، موٹر ولا، اوراکل (تمام امریکی کمپنیاں)، ایچ ایس بی سی (برطانیہ)، کیپ جمنی (فرانس) سیون ہلس بزنس سلوشن، کاگنیزنٹ ٹکنالوجی سلوشن، سائبیج، ایچ سی ایل ٹکنالوجیز، انفورسیس اور پیٹنی کمپیوٹرس سسٹمس (تمام ہندوستانی کمپنیاں)۔

ماہ نومبر 1999ء کو بنگلور میں ایک سہ روزہ قومی کانفرنس ’’ای گورنینس‘‘ کی ضمن میں منعقد ہوئی تھی جہاں ہندوستان کے مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے 32 سے زائد آئی ٹی سکریٹریز نے شرکت کی۔ اس سہ روزہ قومی کانفرنس کے بعد ریاست آندھرا پردیش، کرناٹک اور کیرالا میں بتدریج سائبر ٹکنالوجی کے شعبے میں ترقیات دیکھی گئیں۔ اسی دوران ریاست آندھرا پردیش میں تلگو دیشم پارٹی کے سربراہ اور اُس وقت کے چیف منسٹر نارا چندرا بابو نائیڈو کی قیادت میں آئی ٹی شعبے نے کافی ترقی کی اور عالمی معیار کی کئی بیرونی کمپنیوں نے ریاست آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدر آباد کے مضافاتی علاقوں میں اپنے علاقائی مراکز قائم کر دیئے۔ بیرونی اور خانگی کمپنیوں کی جانب سے تجارتی مراکز کے قیام کے علاوہ یہاں کمپیوٹر ایڈڈ ایڈمنسٹریشن آف رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ (CARD)، آندھرا پردیش اسٹیٹ وائیڈ ایریانٹ واک (APSWAN)، آندھرا پردیش اسٹیٹ سکریٹریٹ کمپس نٹ ورک (APSCAN) اور ٹو وینس سٹیزنٹ ورک سرویسز جیسے ای گورننس پراجکٹس کا آغاز ہو چکا تھا۔

"CARD” کے ذریعہ آندھرا پردیش کے 23 اضلاع کے 29 ہزار دیہاتوں کے کنزیومر رجسٹریشن کے امور انجام دیئے جانے لگے۔ اس سہولت کے ذریعہ مختلف دیہاتوں کی اراضیات، بازار کی قیمتیں، حمل و نقل پر عائد ہونے والے ٹیکس اور اس طرح کے دیگر امور کی عصری ٹکنالوجی کے ذریعہ انجام دہی ہونے لگی۔ سائبر ٹکنالوجی کے ذریعیمختلف امور ایک مقام پر انجام دیئے جانے لگے قبل ازیں اس طرح کے امور کی تکمیل کے لئے کئی دنوں کا وقت صرف ہونے کے علاوہ مختلف مقامات کا سفر کرنا پڑتا تھا۔

حکومتی سطح پر ریاست آندھرا پردیش کے حکومتی امور کی تکمیل کے لئے اس وقت کے ریاست کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو ریاست کے اہم شہروں اور دیہاتوں کے اہم عہدیداروں کے درمیان رابطے کے لئے سائبر ٹکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ ’’ویڈیو کانفرنس‘‘ کا اہتمام کرتے جس کی مدد سے مختلف امور پر چیف منسٹر اور مختلف علاقوں کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان تبادلۂ خیال ہوتا رہتا۔

مذکورہ بیان میں "APSWAN” نے کلیدی رول ادا کیا کیونکہ اس ٹکنالوجی کے ذریعے ریاست کے اہم شہروں کے درمیان مواصلاتی نظام کو یقینی بنایا گیا۔ APSWAN کے ذریعے پہلی مرتبہ حیدر آباد کو مواصلاتی ٹکنالوجی کے ذریعے وجئے واڑہ اور تروپتی سے جوڑا گیا اور تیرہ اضلاع کے ہیڈکوارٹرس کو بھی سائبر ٹکنالوجی سے جوڑتے ہوئے چیف منسٹر اور عہدیداروں کے درمیان حکومتی امور کے متعلق تبادلہ خیال کے لئے آن لائن سیشنس کو قائم کیا جانے لگا۔ نائیڈو APSWAN کے ذریعے ہر ہفتے اضلاع کے عہدیداروں سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے حالات کا جائزہ لینے کے علاوہ مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ APSWAN کے نیٹ ورک کے ذریعے مواد، آواز اور ویڈیو کمیونیکیشن کو یقینی بنایا گیا۔ مذکورہ ٹکنالوجی کے دوسرے مرحلے میں مواصلاتی اس نظام کو مزید وسعت دیتے ہوئے اسے ریاست کے دیگر شہروں اور دیہاتوں کے دفاتر تک پہنچایا گیا۔ دفاتر میں موجود کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے یہاں پہلے ’’لوکل ایریا نٹ ورک‘‘ بنایا گیا اور اسے APSWAN سے جوڑتے ہوئے حکومتی اداروں کو سائبر ٹکنالوجی کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑ دیا گیا۔ حکومتی اداروں میں سائبر ٹکنالوجی کے استعمال نے کئی امور کی انجام دہی کو روایتی طرز کی بہ نسبت کافی تیز کر دیا۔ ریاست کے ایک اور پراجکٹ ’’ٹو ونس سٹیز نٹ ورک سرویس‘‘ کے ذریعے شہریوں کو حکومت کے مختلف شعبۂ انتظامیہ سے ربط قائم کرنے کی سہولیات فراہم کی گئیں۔ حکومت کے مختلف شعبۂ انتظامیہ کا ایک مقام پر انضمام کیا گیا، جس کے ذریعے شہریوں کو ایک ہی مقام پر حکومت کے مختلف شعبوں سے ربط قائم کرتے ہوئے اپنی ضروریات کی تکمیل کا آسان راستہ دستیاب ہوا۔ مذکورہ پراجکٹ کے ذریعے ابتدائی مرحلے میں شہریوں کے لئے 20 خدمات فراہم کی گئیں جوکہ 6 شعبوں سے حاصل کی جا سکتی تھی۔ ابتداء میں اس پراجکٹ کی سہولیات حیدر آباد اور سکندر آباد میں دستیاب تھی۔ چندرا بابو نائیڈو کی قیادت میں ریاست آندھرا پردیش نے سائبر ٹکنالوجی کے کئی اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے ہندوستان میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ۹؂۔ ریاست آندھرا پردیش میں بھی سائبر ٹکنالوجی کو قبول کرنے اور اس کے استعمالات میں بھی دارالحکومت حیدر آباد کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ سائبر دور کے ہندوستان میں آغاز و ارتقاء میں بھی حیدر آباد کو ایک خصوصی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کی ایک اہم وجہہ حکومت کی اس شعبہ کو سرپرستی کے علاوہ بیرونی اور نامور کمپنیوں کو یہاں اپنے تجارتی مراکز قائم کرنے کے لئے دی جانے اولی سہولیات ہیں۔ 1998ء میں ہندوستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے حیدر آباد میں جب ’’ہائی ٹیک سٹی‘‘ کا افتتاح کیا تو نوابوں کے شہر میں سائبر ٹکنالوجی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا ۱۰؂۔ ’’ہائی ٹیک سٹی‘‘ در اصل حیدر آباد انفرمیشن ٹکنالوجی اینڈ انجینئرنگ کنسلٹنسی کا مخفف ہے۔ ’’ہائی ٹیک سٹی‘‘کی 10 منزلہ عمارت کے افتتاح کے بعد حیدر آباد کے مضافاتی علاقوں گجی باؤلی، مادھوپور، کنڈاپور، نانک رام گوڑہ، منی کونڈا اور تلاپور جیسے مقامات کا نقشہ ہی بدل گیا۔ حیدر آباد کے اس ہائی ٹیک سٹی کے وجود میں آنے کے بعد جنوبی ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے پھیلنے اور پھولنے کے لئے راہیں ہموار ہوئیں۔ ہائی ٹیک سٹی کا افتتاح کرنے کے بعد ملک کے سابق وزیر اعظم واجپائی نے ہندوستان میں انفرمیشن ٹکنالوجی کے فروغ اور ملک کی ترقی کے لئے حکومتی پالیسیوں کو اس کے موافق کر دیا۔ 1999ء میں ہی واجپائی نے ملک کو انفرمیشن ٹکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی راہیں ہموار کرنے کی غرض سے وزارت انفرمیشن ٹکنالوجی کے قیام کا اعلان کر دیا۔ وزارت انفرمیشن ٹکنالوجی کے قیام کا مقصد ہندوستان کو انفرمیشن ٹکنالوجی کے شعبہ میں ایک اہم اکائی بنانے کے لئے اندرون ملک ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا اور ملک کو اس شعبے میں خود مکتفی طاقت بنانا تھا۔

وزارت انفرمیشن ٹکنالوجی کے قیام کی وجہ سے ہی ہندوستان نے کیبل، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے شعبوں میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی اور ان فتوحات میں فاصلاتی تعلیم، عوامی خدمات، الکٹرانک گورنینس قابل ذکر ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے وزارت انفرمیشن ٹکنالوجی کے قیام کے بعد ملک کی تقریباً ہر ریاستی حکومت نے انفرمیشن شعبے قائم کرنے کے علاوہ اس شعبے میں تجربات اور ترقیات کے حصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پالیسیاں اختیار کی۔ سائبر ٹکنالوجی کے تیزی سے پھیلاؤ کے بعد جب اس کا غلط استعمال ہونے لگا تو اس کے سدباب کے لئے قوانین بنائے جانے لگے اور ایک خاص لفظ اور اصطلاح عوامی زبانوں پر روزانہ کے بول چال کے الفاظ کی طرح سنائی دینے لگی اور وہ لفظ ’’سائبر لا (سائبر قانون) ہے۔ سائبر قانون کے کامیاب نفاذ کے لئے محکمہ پولیس میں خصوصی شعبوں کا اضافہ کیا گیا جس کی ایک بہترین مثال سی سی ایس (سائبر کرائم اسٹیشن) کا قیام ہے۔

1980ء کے دہے میں سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کی جانب سے شروع کردہ چند اہم پالیسیوں کو ایک اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت حکومت کی جانب سے 1990ء کے دہے میں چند نئی پالیسیوں کے متعارف کرنے کی وجہ سے تقویت ملی۔ راجیو گاندھی کی پالیسیوں کے تحت جہاں کمپیوٹرس نے ہندوستان مارکٹ میں اپنی اہمیت اور افادیت کا سکہ جمایا وہیں 1990ء کے دہے میں واجپائی حکومت کی پالیسیوں نے ہندوستان کو سافٹ ویر کی دنیا کا ایک اہم رکن بنا دیا۔ 1990ء کے عرصے میں ہندوستان نے 100 ملین ڈالرس مالیتی سافٹ ویرس برآمد کئے جبکہ 1998ء میں یہ اعداد و شمار 2.6 بلین ڈالرس تک پہنچ چکے تھے نیز 2000ء میں ہندوستان نے 5 بلین ڈالرس کے سافٹ ویرس برآمد کرتے ہوئے سافٹ ویرس کی پیداوار کا ایک اہم ملک بن گیا۔ 2008ء میں 60 بلین ڈالرس اور 2010ء میں 100 بلین ڈالرس کے سافٹ ویر کی پیداوار کے ذریعہ ہندوستان اس شعبے میں اپنی اہمیت کو مسلسل مستحکم کر رہا ہے۔ سافٹ ویر شعبے کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ہندوستان اسی رفتار کے ساتھ سافٹ ویرس کی دنیا کے پاؤر ہوز بن چکا ہے۔

ہندوستان کو سائبر دنیا کا ایک اہم ملک بنانے میں تلگودیشم پارٹی کے سربراہ اور ریاست آندھرا پردیش کے سابق چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کا رول بھی کافی اہم ہے۔ 1998ء میں بابو کی مشترکہ قیادت میں قومی آئی ٹی ٹاسک فورس کا قیام عمل میں آیا جس نے 108 خصوصی تجاویز حکومت کے سامنے پیش کیں جس میں واضح کیا گیا کہ کس طرح ہندوستان سائبر ٹکنالوجی کا ایک مرکز بن سکتا ہے۔ ہندوستان کی مرکزی حکومت نے آئی ٹی ٹاسک فورس کی سفارشات کو قبول کرتے ہوئے 1999ء میں اس کے لئے 25 ملین ڈالرس کا فنڈ مختص کیا جس کے ذریعہ کمپیوٹر سافٹ ویرس کے شعبے میں ایک انقلابی پیش رفت ہوئی۔

مرکزی حکومت کی جانب سے فنڈ کی منظوری کے علاوہ انفرمیشن ٹکنالوجی کے بل کو منظور کرنے کی راہ ہموار کی جس کے درپردہ مقاصد ای۔ بزنس اور ای کامرس کے فروغ کے لئے سہولیات فراہم کرنا تھا۔ تجارتی مقاصد کے علاوہ آئی ٹی بل کو منظور کرانے کے مقاصد میں سائبر قواعد و قوانین کے نفاذ اور حکومتی شعبوں کے دستاویزات کو کمپیوٹرس پر تیار کرنے اور انہیں ایک مرکزی نقطے (سرور) پر محفوظ کرنے کے قابل بنانا تھا۔ سائبر ٹکنالوجی کے استعمالات کے اہم مقاصد کے بعد ارباب مجاز نے محسوس کیا کہ اس نظام کی کار کردگی کو یقینی بنانے کے لئے کمپیوٹرس اور انٹرنیٹ کے ماہرین اور اس شعبہ کے عملے کے تقر رات بھی ناگزیر ہوئے اور اسی ضرورت نے سائبر ٹکنالوجی کے شعبے میں ملازمتوں کے مواقع فراہم کئے۔ سائبر ٹکنالوجی کے شعبے میں ملازمتوں کے مواقع نے عوامی شعور کو بیدار کیا اور وہ اس شعبے میں دستیاب ملازمتوں کے مواقع کے شرائط اور خود کو اس کے اہل بنانے کے لئے محنتیں شروع ہوئیں۔ سائبر ٹکنالوجی کے شعبے میں دستیاب ملازمتوں کے حصول کی دوڑنے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو عوامی دہلیز پر لا کھڑا کیا اس طرح عوام نے بھی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے شعبے میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سائبر ٹکنالوجی کا والہانہ استقبال کیا۔

حکومتی پالیسیوں کے بہتر ہونے کے نتائج میں خانگی کمپنیاں بھی بڑے پیمانے پر اپنے تجارتی، تجرباتی اور اختراعی پراجکٹس کا بڑے پیمانے پر آغاز کیا۔ خانگی شعبوں کے تجارتی مفاد کی موافق حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ہندوستان نے وپرو، انفوسس اور ستیم جیسی بڑی کمپنیوں کو عالمی مارکٹ میں اپنا مقام بنانے کا مواقع فراہم کیا۔

ہندوستان میں خانگی شعبوں کا سائبر ٹکنالوجی کے فروغ میں جب رول کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو یہاں ایک اہم نام وپرو کے چیرمین عظیم پریم جی کا دکھائی دیتا ہے۔

1966ء میں جب عظیم پریم جی ۱۱؂ کو اسٹان فورڈ یونیورسٹی میں انجینئرنگ شعبے کی بی ایس ڈگری کی تعلیم مکمل کئے ہوئے صرف چند ماہ ہی گذرے تھے کہ انہیں اپنے والد کی موت کی بری خبر سننے کے بعد ممبئی واپس ہونا پڑا جہاں انہوں نے اپنے والد کی تجارت ’’ویسٹرن انڈین ویجیٹیبل پروڈکٹس لمیٹیڈ‘‘ (وپرو) کو سنبھالنا شروع کیا لیکن اسی دوران انہوں نے شمالی کیلیفورنیا کی سیلیکان ویالی میں ہائی ٹکنالوجی سیمی کنڈکٹر کی کمپنی قائم کی جہاں اسٹان فورڈ یونیورسٹی بھی ہے نیز ہندوستان میں کمپیوٹر کمپنی کا بھی آغاز کیا۔ 1970ء میں جب آئی بی ایم نے ہندوستانی کمپیوٹر مارکٹ میں اپنی جگہ خالی کر دی تو پریم جی نے ٹکنالوجی کے شعبے میں موجود مخلوعہ مقام پُر کرنے کی کامیاب کی کوشش کی۔ ابتدائی کوشش میں وپرو نے امریکی کمپنییوں جیسے ہیولیٹ پیا کرڈ اور سن مائکرو سسٹمس سے کلیدی پرزے خریدے، بعد ازاں وپرو نے تائیوان کی پرسنل کمپیوٹر بنانے والی کمپنی ایسر کے ساتھ مشترکہ تجارت شروع کی جس نے 1999ء میں ہندوستان کی کمپیوٹرس فروخت کرنے والی مارکٹ میں آٹھ فیصد ترقیات درج کی۔

ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے پھیلاؤ میں عظیم پریم جی اور ان کی کمپنی وپرو کا اہم رول رہا ہے ان کے علاوہ انفوسس کے این آر نارائنا مورتی بھی ایک اہم نام ہے۔

ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے عروج و ارتقاء میں ایک اہم نام صابر بھاٹیہ ۱۲؂ کا بھی ہے۔ بنگلور سے تعلق رکھنے والے بھاٹیہ کی تعلیم کیلیفورنیا میں ہوئی اور اپنے ابتدائی دور میں انہوں نے ایپل کمپیوٹر کے لئے خدمات انجام دی۔ بھاٹیہ کا اہم کارنامہ "Hotmail” کی تیاری ہے۔ ای میل کی حصول و ترسیل کی دنیا میں آج ہاٹ میل ایک اہم اور جانا پہچانا نام ہے جس کے بھاٹیہ مشترکہ بانی ہیں۔ بھاٹیہ نے سیلیکان ویالی میں رہتے ہوئے سائبر ٹکنالوجی کے عروج میں ہاٹ میل کے ذریعے ایک انتہائی اہم باب کا اضافہ کیا لیکن ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے عروج کے ضمن میں بھاٹیہ کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ 4 جولائی 1996ء کو جب ہاٹ میل صارفین کے لئے متعارف کیا گیا تو اسے استعمال کرنے والا ایک بھی صارف موجود نہیں تھا لیکن جب اٹھارہ ماہ بعد یعنی 31 ڈسمبر 1997ء کو بھاٹیہ اور ان کے ساتھی نے ہاٹ میل کو 400 ملین ڈالرس کے عوض مائیکرو سافٹ کو فروخت کیا تو غیر یقینی طور پر اس کے 12 ملین صارفین موجود تھے اور ایک اندازے کے مطابق یومیہ 150,000 صارفین اس ای میل سہولت سے استفادہ کے لئے اپنے نام درج کر رہے ہیں۔ تحریر کیا جاتا ہے کہ آج سے دس برس قبل ہی یعنی جنوری 2000ء کو ہاٹ میل کو استعمال کرنے والے دنیا میں صارفین کی تعداد 50 ملین ہو چکی تھی جو کہ 202 ممالک کی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔

ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے عروج میں جہاں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں نے اپنی لچکدار پالیسیوں کو متعارف کیا وہیں بیرونی کمپنیوں نے جب تجارتی اغراض اور مفادات کے تحت ہندوستان کا رخ کیا تو ہمارے ملک کے چند شہروں نے بیرونی کمپنیوں کو اپنے سمت راغب کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس دوڑمیں جنوبی ہندوستان کا شہر بنگلور سرفہرست نظر آتا ہے بنگلور کو ہندوستان کی سیلیکان ویالی بھی کہا جاتا ہے بنگلور تقریباً 500 نامور کمپنیوں کا مسکن بن گیا۔ بنگلور کے بعد جنوبی ہندوستان کی ریاستوں میں حیدر آباد کا بھی سائبر ٹکنالوجی کے ملک میں عروج میں اہم مقام ہے۔ سابق چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کی کوششوں نے یہاں سائبر ٹکنالوجی کے عروج کے لئے ماحول سازگار کیا جبکہ اسی دور میں امریکی سابق صدر بل کلنٹن اور مائیکرو سافٹ کے چیرمین بل گیٹس کے دورۂ حیدر آباد نے بھی کلیدی رول ادا کیا کیونکہ بابو کی قیادت میں مذکورہ امریکی اشخاص کی یہاں آمد نے ہند۔ امریکی سائبر ٹکنالوجی تجارت کو مستحکم کیا ۱۳؂۔ ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے عروج اور پھیلاؤ میں ریاستوں کی بہ نسبت شہریوں کو اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ جنوبی ہندستان کے شہر بنگلور کو ہندوستان کی سیلیکان ویالی کا درجہ حاصل ہوا۔ ریاست آندھرا پردیش میں دارالحکومت حیدر آباد کو چندرا بابو نائیڈو نے حتی المقدور سائبر ٹکنالوجی کا مرکز بنانے کوشش کی۔ سابق چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کی کاوشوں کے ثمر آور نتائج برآمد ہوئے۔ چینائی کو بھی جنوبی ہندوستانی ریاستوں میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ جس نے سائبر ٹکنالوجی کے ہندوستان میں پھیلاؤ میں کلیدی رول ادا کیا۔ شمالی ہندوستان میں تاریخی شہر کولکتہ کو بھی اہم مقام دیا گیا۔ ہندوستان کے درالحکومت دہلی اور اس کے اطراف کے علاقے گڑگاؤں، فریدہ آباد، نوئیڈا، گریٹر نوئیڈا اور غازی آباد میں بھی کئی اہم پراجکٹوں کے قیام نے ان علاقوں کو بھی ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے پھیلاؤ کی فہرست میں شامل کر دیا۔ علاوہ ازیں پونے شہر کو بھی سافٹ ویر مارکٹ کا ابھرتا شہر کہا جا سکتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں اور مذکورہ شہروں میں چند اہم اور بڑے پراجکٹس کے قیام نے ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے عروج میں اہم رول ادا کیا۔

1996ء میں اجیت بالا کرشنن کی جانب سے "Rediff.com” کو متعارف کیا گیا۔ ریڈیف ڈاٹ کام کو متعارف کئے جانے کے بعد اس نے بیرونی کمپنیوں یاہو اور گوگل کی طرح سہولیات فراہم کئے۔ ریڈیف ڈاٹ کام صارفین کو نہ صرف ای میل کی سہولیات فراہم کی بلکہ اس کی دیگر سہولیات میں خبریں، سرچ انجن اور دیگر مخصوص سہولیات نے اسے صارفین میں مقبول عام ویب سائٹ کا درجہ دیا۔ 1996ء کا سال ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے عروج میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ کیونکہ اس برس ’’سائبر کیفے‘‘ کا آغاز ہوا۔ ہندوستان کا سب سے پہلا سائبر کیفے ممبئی کی ایک ہوٹل میں متعارف کیا گیا جسے ’’سائبر کیفے‘‘ کا نام دیا گیا۔ ممبئی میں ہندوستان کے پہلے سائبر کیفے کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک اور تحقیق نے ثابت کیا کہ ممبئی میں متعارف کیا گیا سائبر کیفے ہندوستان کو پہلا سائبر کیفے نہیں بلکہ اس سے دو برس قبل بنگلور کے بریگیڈ روڈ پر 1995ء میں ہی ہندوستان کا پہلا تجارتی سائبر کیفے کو متعارف کیا جا چکا تھا جسے ’’کافی ڈے سائبر کیفے‘‘ کا نام دیا گیا تھا ۱۴؂۔

کافی ڈے سائبر کیفے کا نظریہ در اصل مقامی عوام کو چائے، کافی اور دیگر مشروبات کی فراہمی کے ساتھ تفریح کے لئے انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کرنا تھا۔ مذکورہ سائبر کیفے اپنے ابتدائی دور میں عوام کو صرف جنوبی ہندوستان کے مشروبات اور محدود مینو کی سہولیات فراہم کرتے تھے لیکن 1990ء کے دہے کے آخری دنوں میں کافی ڈے کے سائبر کیفے کا جال درجنوں مقامات پر پھیل چکا تھا جس نے اپنے پھیلاؤ کے ساتھ کھانے پینے کی مینو میں بھی اضافہ کرتے ہوئے اس میں سانڈویج، برگر، چپس، آئس کریم اور اس طرح کے دیگر اشیاء بھی فراہم کرنے لگا۔ انٹرنیٹ اور کھانے پینے کی اشیاء کا ایک ہی مقام پر واجبی داموں میں دستیاب ہونا نوجوان طبقے کو اپنی جانب راغب کرنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کافی ڈے سائبر کیفے مراکز پر نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔

سائبر کیفے پر بنگلور کے نوجوانوں کے ہجوم کی ایک اہم وجہ کمپیوٹر کے ذریعے فراہم کی جانے والی سہولیات تھیں جہاں ایک صارف فی گھنٹہ 60 روپے ادا کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی سہولیات سے استفادہ کر سکتا تھا۔ انٹرنیٹ کی سہولیات میں ابتدائی دنوں میں صارفین ای میل کے ذریعے دور دراز کے ممالک میں موجود اپنے عزیز و اقارب کے حالات سے واقف ہو رہے تھے۔ ابتدائی دنوں میں بیشتر سائبر کیفے میں دو یا تین کمپیوٹرس موجود ہوتے تھے، لیکن ہر گذرتے وقت کے ساتھ ان مراکز میں کمپیوٹرس کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ سائبر کیفے میں صارفین کی دلچسپی کی اہم وجہ سائبر ٹکنالوجی کی جانب سے فراہم کی جانے والی تفریحی سہولیات بھی تھی جس میں دستاویزات کا اسکیان (20 روپے فی صفحہ) اور لیزر پرنٹ آؤٹ (7 روپے فی صفحہ) کو اہم سہولیات کہی جا سکتی ہیں۔

عام صارفین کے علاوہ چھوٹے تجارتی ادارے جو کہ کمپیوٹرس اور انٹرنیٹ کی سہولیات کو اپنی چھتوں تلے برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ بھی اپنی تجارت کے فروغ اور گاہکوں تک رسائی کے مؤثر طریقوں کے لئے ان سائبر کیفے مراکز کا رخ کرنے لگے کیونکہ روایتی طرز کی بہ نسبت کمپیوٹرس کے ذریعہ تیار کئے جانے والے دستاویزات اور کمپنیوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی پیشکشوں کو کاغذ پر جاذب نظر بنانا آسان تھا۔ عام صارفین میں یاہو، ہاٹ میل اور اس طرح کے ویب سائٹس کافی مقبول ہوئی جو کہ صارفین کو مفت ای میل، خبریں اور سرچ انجن کی سہولیات فراہم کرتے تھے۔ کافی ڈے سائبر کیفے دیکھتے ہی دیکھتے عوامی ہجوم کے مراکز میں تبدیل ہو گئے جہاں کمپنیوں کے نمائندوں کے علاوہ وقت گذاری کے لئے پہنچنے والے نوجوانوں کی ایک اچھی تعداد دیکھی جانے لگی۔ نیز روایتی ساڑی اور ہندوستانی دیگر روایتی لباسوں میں ملبوس خواتین اور بوڑھے بھی ان مراکز پر دکھائی دینے لگے جن کا ابتدائی مقصد بیرونی ممالک میں مقیم اپنے عزیز و اقارب کی خیر و عافیت حاصل کرنا تھا۔

راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ مرحوم غوث خاں صاحب سعودی عرب میں مقیم اپنے بیٹوں خصوصاً اپنے بیٹے اسمعیٰل کی جانب سے روانہ کردہ ای میل کے حصول کے لئے مکان سے تقریباً ایک کلو میٹر دور موجود سائبر کیفے پہنچتے، حالانکہ خاں صاحب کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت سے استفادے کا طریقہ نہیں معلوم تھا لیکن وہ یہاں سائبر کیفے پر رہنے والے شخص کو 10 روپے ادا کرتے ہوئے اپنے بیٹے اسمعیٰل کے ای میل کا پرنٹ آؤٹ حاصل کرتے جو در اصل روایتی خط کا متبادل کاغذ ہوتا تھا۔ یعنی خان صاحب کمپیوٹر (سائبر کیفے سے) کے ذریعہ اپنے بیٹے کا خط حاصل کرتے۔

مذکورہ بالا ایک واقعہ در اصل ہندوستان کے مختلف شہروں میں بسنے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں خاندانوں میں خط و کتابت کی بدلتی تصویر ہے۔ ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کی آمد کے بعد خط و کتابت کے طریقے بھی بدل گئے اور عوام نے روایتی خط و کتابت کے طریقوں کو خیرباد کہتے ہوئے ای میل کو اپنانا شروع کیا کیونکہ یہ روایتی خط و کتابت جہاں طویل وقت اور زیادہ خرچ کے بعد اپنے عزیز و اقارب کی خیر و عافیت سے آگاہی ہوتی تھی اس کے برعکس ای میل کی اس سہولت نے کم پیسوں اور ہفتوں اور مہینوں کے برعکس گھنٹوں میں اپنے عزیز و اقارب کے حالات سے واقف ہونے کا موقع فراہم کرنا شروع کیا۔

کافی ڈے سائبر کیفے نے اپنے جال کو بنگلور شہر کے مقامات سے آگے بڑھاتے ہوئے ہندوستان کے شہروں، ممبئی، دہلی، چینائی، کولکتہ اور حیدر آباد تک وسعت دے ڈالی۔ ہندوستان کے مختلف شہروں کی تقریباً ہر گلی کوچے میں انٹرنیٹ سہولیات فراہم کرنے کے لئے سائبر کیفے دکھائی دینے لگے اور ان سائبر کیفوں نے ہندوستان کے ہر گھر کے کم از کم ایک فرد کو یا خاندان کے ایک فرد کو اپنی جانب راغب کرتے ہوئے سائبر ٹکنالوجی کے عروج میں ایک کلیدی رول ادا کیا۔ 1999ء کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران حیدر آباد میں تقریباً 600 سے زائد نئے سائبر کیفے قائم کئے گئے۔

ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے سفر میں چند اہم سنگ میل کا تذکرہ کریں تو 1997ء میں آئی سی آئی سی آئی بینک نے بینک سے متعلق ہندوستان کی پہلی ویب سائیٹ متعارف کی اور اسی برس ’’نوکری ڈاٹ کام‘‘ بھی انٹرنیٹ کا حصہ بنی جس کو ہندوستان کی پہلی منافع بخش ’’ڈاٹ کام‘‘ ویب سائیٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا ۱۵؂۔ 1998ء میں ہندوستان نے انٹرنیٹ سہولیات فراہم کرنے والے اداروں (Internet Service Provider) کے لئے نئی پالیسی کا اعلان کیا اور "sify” ہندوستان کا پہلا آئی ایس پی (انٹرنیٹ سرویس پروائیڈر) بنا ۱۶؂۔ 1999ء میں ’’ڈاٹ کام‘‘ ویب سائیٹ کی تعداد پانی کے بلبلوں کی طرح پھٹنے لگی۔ 1999ء کو ہی ہندوستان کی پہلی ہندی ویب سائیٹ "webdunia” کو متعارف کیا گیا۔ 2000ء میں ہندوستان کی پارلیمنٹ نے "IT ACT” کو منظور کیا۔ پارلیمنٹ کی جانب سے انفرمیشن ٹکنالوجی کے متعلق قانون اور دفعات کی منظوری کے بعد آن لائین تجارت کی دنیا میں اہم اور پہلا قدم Bazzee.com کا منظر عام پر آنا ہے جو در اصل بیرونی ممالک کی ویب سائیٹ "E Bay” کی تقلید تھی۔ بازی ڈاٹ کام نے انٹرنیٹ کے ذریعے اشیاء کی خرید و فروخت کو یقینی بنایا۔ 2000ء میں ہی آن لائین صحافت کا آغاز ہوا اور تہلکہ ڈاکٹ کام نے کرکٹ میں سٹے بازی کی بدعنوانیوں کو عوام کے سامنے لا کھڑا کیا۔ دریں اثناء آئی ٹی سی نے دیہاتوں میں انٹرنیٹ کی رسائی کے لئے "E-choupal” متعارف کیا جو کہ شہروں سے دیہاتوں میں انٹرنیٹ کی رسائی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے عروج اور پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے یا ہو اور ایم ایس این نے اپنی خصوصی سہولیات ہندوستان کو دینے کا اعلان کرتے ہوئے ہمارے ملک کے لئے خصوصی ویب سائیٹ متعارف کئے جو کہ yahoo.co.in اور In.msn.com ہیں۔

سال 2001ء کو بھی ہندوستان میں سائبر ٹکنالوجی کے عروج کے باب میں اہم سال مانا جاتا ہے کیونکہ اس برس goznextjob.com کو ہاکینگ کرنے کے جرم میں 2 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ سائبر جرائم کی روک تھام کے لئے اس برس سب سے پہلے بنگلور میں ہندوستان کا پہلا ’’سائبر کرائم پولیس اسٹیشن‘‘ قائم کیا گیا۔ 2001ء میں ایک اہم کامیابی انڈین ریلوے کا آن لائین سہولیات فراہم کرنے کے لئے اپنا ویب سائیٹ تیار کرنا ہے۔ ہندوستانی ریلوے شعبے نے اپنا ویب سائیٹ "irctc.com متعارف کیا جس کے ذریعہ ریلوے مسافرین کو اپنی ٹکٹوں اور ریلوے کے سفر کی سہولیات اور تفصیلات حاصل کرنا آسان ہوا۔ 2001ء کے بعد 2002ء میں بھی کئی اہم ویب سائیٹ متعارف ہوئے تاہم ان میں کوئی قابل ذکر ویب سائیٹ نہیں لیکن 2003ء میں ایر دکن، نے اپنے مسافرین کے لئے آن لائین ٹکٹ حاصل کرنے کی سہولیات متعارف کیں ۱۷؂۔

سائبر ٹکنالوجی کے شعبے کے متعلق مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی لچکدار پالیسیوں اور ملکی اور بیرونی کمپنیوں کی جانب سے تجارتی مفادات کے لئے ہندوستان میں مراکز کے قیام نے جہاں ملک میں سائبر ٹکنالوجی کے ارتقاء اور عروج میں اہم رول ادا کیا وہیں اس شعبے میں ملازمتوں کے شاندار مواقع نے عوام کو اس نئی ٹکنالوجی کی سمت راغب کیا۔ شہروں کے علاوہ دیہاتیوں نے بھی سائبر ٹکنالوجی (کمپیوٹرس اور انٹرنیٹ) کی سمت دوڑنا شروع کیا۔ عوام کی دلچسپی نے کمپیوٹرس کے تاجر طبقے اور انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کو اپنی تجارت کے فروغ کے لئے اختراعی پیشکش دینے کی جانب راغب کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 70 تا 80 ہزار کا کمپیوٹر سٹ کچھ وقت کے بعد 40 تا 35 ہزار روپے میں فروخت ہونے لگا نیز کمپیوٹرس کے تاجروں نے ماہانہ آسان اقساط میں بھی اس عصری مشینوں کو فروخت کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ (سائبر ٹکنالوجی) نے کالجوں، اسکولوں، مدرسوں کے علاوہ ہر گھرکو اپنا مسکن بنانا شروع کیا۔

طلبہ کی ایک بڑی تعداد روز اول سے آج تک پیشہ وارانہ کورسیس میں مہارت کے حصول کے لئے جہاں سرگرداں ہے وہیں تقریباً ہر خاندان میں موجود دیگر افراد بھی یہ محسوس کرنے لگے کہ سائبر ٹکنالوجی کا ایک اہم پہلو تجارتی مفادات اور کریر کو تابناک کرنے کے مواقع فراہم کر رہا ہے وہیں اس کا اقل ترین استعمال یومیہ زندگی کو بہتر سے بہترین بنانے میں کلیدی رول ادا کر رہا ہے جس کا ایک اہم فائدہ بیرونی ممالک میں مقیم اپنے عزیز و اقارب سے روابط کو آسان اور سستا بن جانا ہے۔

کمپیوٹرس اور انٹرنیٹ کی بنیادی تعلیمات سے واقفیت کا رجحان عوام میں بڑھنے لگا اور طلبہ کے علاوہ ملازمین، روزگار کے متلاشیان بزرگ افراد اور گھریلو خواتین کی بڑی تعداد کمپیوٹر سنٹرس میں دکھائی دینے لگی۔ عوام کے اس رجحان نے بھی ہندوستان کے میٹرو شہریوں کے علاوہ دیہاتوں میں بھی سائبر ٹکنالوجی کے آغاز، ارتقاء اور عروج میں کلیدی رول ادا کیا۔ گذشتہ ایک دہے کے دوران سائبر ٹکنالوجی کو جہاں حکومتی سرپرستی نے پھلنے اور پھولنے کا موقع دیا وہیں بڑے تجارتی اداروں کے مالی و منافع بخش مفادات اور عوامی شعور میں مثبت بیداری و رجحان نے ہندوستان کو سائبر ٹکنالوجی کے شعبے میں ایک طاقتور ملک کا موقف عطا کیا۔

٭٭٭

حوالہ جات

 

۱؂    سوبر ٹو بخشی، دی فرسٹ کمپیوٹر کمس ٹو انڈیا، ڈیٹا کوئسٹ، آن لائین ایڈیشن، مورخہ جنوری 1985ء، ص 46 اور 47

۲؂    ایضاً

۳؂    جھمیلی مکرجی پانڈے، انڈیا، س فرسٹ کمپیوٹر از لاسٹ، ٹائمس آف انڈیا، آن لائین ایڈیشن مورخہ یکم  اپیرل 2006ء

۴؂    انا اسلینیان انٹرنیٹ سلیبریٹس 40th برتھ ڈے، ایکسپریس بز، آن لائین، مورخہ 29  اکٹوبر 2009ء

۵؂    ایضاً

۶؂    تاپس رائے، آن لائین جرنلزم اے بیسک ٹکسٹ، نئی دہلی 2006ءص 20

۷؂    اروند سنگھال، آیوریٹ ایم راجرس، انڈیاس کمیونکیشن ریولیشن، نئی دہلی 2001ء، ص 30

۸؂    وکی پیڈیا، انفارمیشن ٹکنالوجی ان انڈیا، ویب سائیٹ

۹؂    اروند سنگھال، آیوریٹ ایم راجرس، انڈیاس کمیونکیشن ریولیشن، نئی دہلی 2001ء، ص 173

۱۰؂   ایضاً ص 45

۱۱؂   ایضاً    ص 48 اور 49

۱۲؂   ایضاً    ص 28

۱۳؂   ایضاً    ص 173 اور 174

۱۴؂   ایضاً    ص 235

۱۵؂   امیت راجن، مائیل اسٹونس ان انڈیاس، انٹرنیٹ جرنی، ویب سائیٹ: www.amitrajan.com

۱۶؂   ایضاً

۱۷؂   ایضاً

٭٭٭

 

 

 

 

باب سوم

 

سائبر دور سے قبل حیدر آباد کے  اردو اخبارات۔ تاریخ و تجزیہ

 

 

زمانے کے احوال حالات اور نت نئے انکشافات سے واقفیت حاصل کرنے میں دلچسپی فطری امر ہے۔ اور انسانی اس فطرت کی وجہ سے خبر رسانی کا ایک شعبہ ہماری زندگیوں میں موجود ہے۔ خبر رسانی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ مختلف شہروں کے باہمی روابط اور تجارتی معاملات نے صحافت کے فن کو کافی فروغ بخشا، اس فن کو عروج و ارتقاء کی راہ پر گامزن کرنے میں چھاپہ خانوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ پریس کے مالکوں نے سب سے پہلے یہ سلسلہ شروع کیا کہ وہ سیاحوں سے نئی نئی خبریں حاصل کرتے اور پمفلٹ کی شکل میں شائع کر دیتے ۱؂۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ابتدائی صحافیوں کو ’’پمفلٹ باز‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

1662ء میں سب سے پہلے لندن میں ایک طباعت خانے سے مختلف عالمی خبروں پر مشتمل ایک ہفت روزہ نکلنا شروع ہوا۔ یہیں سے باضابطہ اخبار کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔ ابتدا میں غیر ملکی خبروں کو زیادہ اہمیت ملتی تھی، پھر رفتہ رفتہ علاقائی خبریں اور قائدین کے بیانات اخبارات میں جگہ پانے لگے۔ روزنامہ اخبار کی تاریخ میں ’’لندن ڈیلی کو رانٹ‘‘ (The London Daily Courant) کو اولیت حاصل ہے، جو 1702ء میں لندن سے شائع ہوا تھا ۲؂۔ گذرتے وقت کے ساتھ میدانِ طباعت میں عمدگی آئی، اخبارات کی اشاعت میں خوش گوار اضافہ ہونے لگا۔ بتدریج اخبارات کی اہمیت کا احساس بھی قارئین کے دلوں میں بیٹھ گیا اور بہت جلد ہی انہیں سماجی ضرورت کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔ اس طرح اخبار کے فروغ پاتے ہی صحافت، طباعت خانوں سے نکل کر ایک مستقل پیشہ کی حیثیت اختیار کر گئی۔

ابتداء میں عالمی منظر نامہ پر ابھرنے میں صحافت کے پیشہ کو کافی رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ روز اوّل سے ہی صحافت کی بڑھتی مقبولیت سے حکمراں طبقہ کو انتہائی تشویش لاحق تھی، وہ اخبارات کے بے باکانہ تبصروں سے نالاں تھے۔ محلوں اور ایوانوں کی خفیہ باتیں عوام تک پہنچنے کی وجہ سے صحافت نے بادشا ہوں کے لئے بڑی مصیبت کھڑی کر دی تھی۔ بعض ممالک نے تو اخبارات پر سخت قانون نافذ کر دیا تھا۔ اشاعت کم کرنے کے لئے بھاری ٹیکس بھی عائد کیا گیا، تاکہ مہنگائی کی وجہ سے ہر کوئی اخبار خریدنے کی جرأت نہ کر سکے۔ برطانیہ کی حکومت اس معاملہ میں سب سے زیادہ سخت تھی۔

19 ویں صدی کے نصف آخر میں صحافت کی دنیا میں خوش گوار انقلاب آیا، اخبارات کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے کے لئے عوامی مطالبات زور پکڑنے لگے، جن کے آگے بیشتر ممالک کی حکومتوں کو جھکنا پڑا۔ تکنیکی ترقیات نے ذرائعِ ابلاغ کے نظام کو استحکام بخشا۔ ٹیلی گراف اور ٹیلی فون کے وجود میں آنے کی وجہ سے اخبارات کو برق رفتاری کے ساتھ تازہ ترین خبریں ملنے لگیں۔ طباعت کی مشینوں میں بہتری نے اخبارات کا ظاہری حسن دوبالا کر دیا، ذرائع نقل و حمل کی ترقی نے اشاعت کے گراف کو آسمان پر پہنچا دیا، یوروپی ممالک کی تجارتی کمپنیوں کے ذریعہ اخبارات بھی خوب ملنے شروع ہو گئے جس کے نتیجہ میں انھیں بے پناہ آمدنی ہونے لگی، جس کی وجہ سے اخبارات کی قیمت اتنی کم ہو گئی کہ معمولی درجے کے ملازمین اور قارئین بھی انھیں خرید کر پڑھنے لگے۔

عوامی مزاج کو پیش نظر رکھتے ہوئے اخبارات کے مدیران نے نت نئے کالمس شروع کئے۔ قارئین کے ذہن پر راست اثر انداز ہونے کے لئے سرخیوں کو جلی اور دھماکہ خیز بنا کر پیش کیا گیا، جرائم کی خبروں کو ہیجان انگیز اور ہنگامہ خیز واقعات کو غیر معمولی اہمیت دی گئی تاکہ اخبارات پڑھنے کی رغبت قارئین میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو سکے، عوام کے سنجیدہ طبقے کو متاثر کرنے کے لئے علمی مضامین کی اشاعت بھی زور پکڑنے لگی، جس کی وجہ سے ہر طبقہ میں اخبار مقبول ہوتا چلا گیا۔

سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ 20 ویں صدی میں اخبارات کی اشاعت کو بے پناہ ترقی و عروج ملا۔ ترقی یافتہ ممالک جن میں لندن، امریکہ، جرمن اور فرانس وغیرہ سرفہرست ہیں، یہاں تعلیم یافتہ شخص لازمی طور پر ایک اخبار خریدنے لگا۔ آفسیٹ کی برکتوں سے معیاری طباعت کے ساتھ اخبارات کی اشاعت میں بھی حیرت انگیز اضافہ درج کیا جانے لگا۔ 20 ویں صدی کے وسط میں کمپیوٹر کے ایجاد نے بھی اخبارات کے معیار کو بلند کرنے اور ان کی بروقت اشاعت کو یقینی بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ اور دور جدید میں ایسی کمپیوٹرائزڈ طباعت کی مشینیں وجود میں آ چکی ہیں، جوفی سکنڈ دو درجن سے زائد ایسے اخبارات تیار کر دیتی ہیں، جو 25 صفحات سے زائد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دہلی کے بہادر شاہ ظفر مارگ میں واقع ٹائمز آف انڈیا کے دفتر میں اس طرح کی طباعتی مشینیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

ہندوستان کا سب سے ۳؂ پہلا اخبار ’’ہکی بنگال گزٹ‘‘ (Hicky’s Bengal Gazette) ہے، جسے 29  جنوری 1780ء کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے طباعتی امور کے مدیر جیمس آگسٹس ہکی

(James Augustus Hicky) نے انگریزی زبان میں شائع کیا تھا۔ دو صفحات پر مشتمل یہ اخبار کافی بے باک اور حکومت مخالف تھا، ہندوستان میں اخبار کی اشاعت کے ساتھ میدانِ صحافت میں بے باکی اور اخلاقی جرأت کو فروغ دینے میں بھی جیمس آگسٹس ہی کو اولیت حاصل ہے۔ بنگال کے بعد چینائی اور ممبئی سمیت ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں بھی غیر ملکی باشندوں میں سب سے پہلے گنگا دھر بھٹا چاریہ نے ’’بنگال گزٹ‘‘ نامی ایک اخبار کا اجرا کیا۔

آزاد ہندوستان میں صحافت نے کچھ زیادہ ہی ترقی کی ہے، 1947ء کے بعد ہندی، انگریزی، اردو کے علاوہ دیگر ہندوستانی زبانوں کے اخبارات کی اشاعت میں خوش آئند اضافہ ہوا، جو آج ایک انقلاب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اردو میں کثیر الاشاعت قدیم اخبار ’’ہند سماچار‘‘ ہے۔

ادب کے علاوہ کسی بھی موضوع پر تحقیقات کے بعد جو نتائج برآمد کئے جاتے ہیں ان میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔ اختلافات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ جو تحقیقات کی گئیں ہیں اور جس کے ذریعہ جو نتائج برآمد ہوئے ہیں وہ سچ اور حقیقت نہیں۔ ہاں اختلافات رائے سے کسی بھی موضوع میں تحقیقات اور تجزیاتی مطالعے کی مزید گنجائش رہ جاتی ہے اور یہ ہی سچائی اور پالیسی حیدر آباد کے پہلے اخبار یا پہلے روزنامے کے ضمن میں کی جانے والی تحقیقات پر صادر ہوتی ہیں۔ حیدر آباد دکن کا پہلا روزنامہ کونسا ہے؟ اس کو ثابت کرنا اس مقالہ کا نصب العین نہیں لہذا راقم الحرومک۳۰عےگf Infot نے اس بحث سے اپنا دامن بچاتے ہوئے صرف اُن معلومات کو اس باب میں جگہ دی ہے جو کہ حیدر آبادی اردو صحافت اور حیدر آباد کے چند قدیم اور جدید روزناموں کا تعارف اور تفصیلات فراہم کرتی ہیں۔

حیدر آباد کی صحافت اور پہلے روزنامے کے تعین میں بھی اختلافات موجود ہیں کیونکہ ’’حیدر آباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات‘‘ کے مصنف سید ممتاز مہدی نے اپنے تحقیقاتی کام کے دوران ’’حیدر آباد کی اردو صحافت از طیب انصاری‘‘ کا سہارا لیتے ہوئے حیدر آباد کے پہلے روزنامے کے تعین کے لئے قاسم علی سجن لال کی کتاب "Vistas of Modern Indian History” کو بنیاد بنا کر ’’آفتاب دکن‘‘ کو حیدر آباد کا پہلا روزنامہ قرار دیا ہے جو کہ 1860ء میں قاضی محمد قطب کی ادارت میں جاری ہوا تھا ۵؂۔

حیدر آباد کے پہلے روزنامے کو منظر عام پر لانے کے لئے ایک اور کوشش 1959ء میں اختر حسین (ایم اے) نے اُس وقت کی جب انہوں نے حیدر آباد سے شائع ہونے والے ایک معتبر روزنامے سیاست کے 40 سالہ جشن کے موقع پر شائع ہونے والے خصوصی ایڈیشن کے لئے ’’حیدر آباد کی اردو صحافت کے سو سال، سیاسی اور سماجی آئینہ میں، کے نام سے مضمون لکھا۔

اختر حسین نے اپنے مضمون کو حیدر آباد کے اردو صحافت کے 100 سالہ تاریخ کے احاطے کے لئے اس عرصے کو 5 ادوار میں تقسیم کیا اور دوسرے دور کی تقسیم 1883ء سے کرتے ہوئے انہوں نے ’’ہزار داستان‘‘ کو تاریخی شہر حیدر آباد کا پہلا روزنامہ قرار دیا ہے جو کہ مرزا غالب کے شاگرد مولوی محمد سلطان عاقل کے ادارت میں جاری ہوا تھا ۷؂۔

ہزار داستان کے اگلے ہی برس ایک اور روزنامہ ’’بیک آصفی‘‘ بھی جاری ہوا۔ نیز 19 ویں صدی کے آخر یا بیسوی صدی کے آغاز سے حیدر آباد کی اردو صحافت کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے، اس دور میں 1899ء کو مولوی امجد علی شہری کی ادارت میں سفیر دکن، بھی جاری ہوا جس کے جاری رہنے کے ثبوت 1959ء تک ملتے ہیں۔ 19 ویں صدی میں جاری ہونے والے حیدر آباد کے چند اہم روزناموں میں مولوی محب حسین کی ادارت میں ’’علم و عمل‘‘ (1904) کا شمار بھی کیا جاتا ہے جس کے بعد 1911 کو ’’صحیفہ‘‘ کی ادارت مولوی اکبر صاحب نے لے لی اور اسے کو روز نامے میں تبدیل کر دیا۔ ’’رعیت، شیر دکن، صبح دکن، رہبر دکن اور سلطنت کے علاوہ اختر حسین کے مضمون میں ’’پیام‘‘ کا ذکر بھی ملتا ہے جس کے مدیر کا تذکرہ کرتے ہوئے مضمون نگار نے یہاں قاضی عبدالغفار کے نام کا تذکرہ کیا ہے۔

حیدر آباد کے پہلے روزنامے کے انتخاب اور تعین میں پہلے ہی متفقہ رائے نہیں لیکن حیدر آباد کی اردو صحافت کے آغاز کے متعلق اکثر محققین اور علمائے ادب کی مسلمہ اور متفقہ رائے یہ ہے کہ ’’حیدر آباد میڈیکل جنرل یا رسالہ طباعت حیدر آباد‘‘ سے حیدر آباد میں اردو صحافت کی ابتداء ہوتی ہے ۸؂۔ یعنی ایک علمی مجلے کے ذریعہ حیدر آباد کی اردو صحافت کا آغاز ہوتا ہے۔

حیدر آباد دکن میں اردو صحافت کا آغاز ’’رسالہ طبابت حیدر آباد‘‘ سے ہوا جو ایک طبی رسالہ تھا۔ یہ طبی رسالہ اپنا ایک پس منظر رکھتا ہے اور اس کی اشاعت کے محرکات کو سمجھنے کے لئے حیدر آباد میں علم و فن طب کی تاریخ سے واقفیت ضروری ہے اس لئے یہاں کی طبی تاریخ کا رسالہ طبابت کی اشاعت عمل میں آئی تھی۔

قدیم زمانے میں یونانی طریقہ علاج کا بول بالا تھا اور شہر حیدر آباد میں عہد محمد قلی قطب شاہ میں دار الشفاء تعمیر ہوا تھا اور مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے حکما مقرر کئے گئے تھے۔ یہاں غربا کو مفت دوا دی جاتی تھی۔ مریضوں کی سکونت کے لئے متعدد کمرے تعمیر کئے گئے تھے جہاں ان کی دیکھ بھال کی جاتی تھی ۸؂۔

حیدر آباد میں اردو صحافت کی ابتدا اس علمی مجلہ ’’رسالہ طبابت حیدر آباد‘‘ سے ہوتی ہے۔ سب سے پہلے اس رسالہ کا ذکر مانک راؤ وٹھل راؤ مولف بستان آصفیہ (حصہ اول) نے کیا ہے۔ ان کے بیان کے مطابق ناصر الدولہ کے حکم سے حیدر آباد میڈیکل اسکول توپ کے سانچہ کے قریب قائم کیا گیا۔ اور تقریباً 16 برس بعد اسکول سے رسالہ طبابت جاری ہوا۔ اس رسالے کی صحیح تاریخ بھی تحقیق طلب ہے۔

بستان آصفیہ کے بعد حکیم سید شمس اللہ قادری اور نصیر الدین ہاشمی نے اس رسالہ کا تذکرہ کیا ہے۔ حکیم شمس اللہ قادری نے اپنے ایک مضمون ’’آثار الکرام‘‘ میں کسی حوالے کے بغیر اس رسالہ کی تاریخ اجرا 1275ھ (250) درج کی ہے ۹؂۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بستان آصفیہ حصہ دوم کا مذکورہ اندراج ان کی نظر سے گذرا تھا جس میں رسالہ طبابت جلد دوم شمارہ آٹھ کی اشاعت جمادی الثانی سنہ 1277ھ بتلائی گئی ہے غالباً انہوں نے جلد اور شمارہ کا حساب جوڑ کرتا ریخ اجرا کا تعین کیا اور سنہ 1275ھ دستیاب کیا، نمبر 8 جلد 2 دیکھ کر انہیں یہ گمان گذرا کہ رسالہ طبابت ایک ماہ وار رسالہ ہے۔ آٹھواں شمارہ جمادی الثانی سنہ 1277ھ میں شائع ہوا ہے اس اعتبار سے جلد دوم کے پہلے شمارے کی تاریخ اشاعت ذیقعدہ سنہ 1276ھ قرار پاتی ہے گویا اس کی اجرائی اس کے ایک سال قبل یعنی ذیقعدہ سنہ 1275 ھ میں ہوئی۔

نصیر الدین ہاشمی نے بھی سید شمس اللہ قادری کی درج کردہ تاریخ کو کسی تحقیق کے بغیر قبول کر لیا اور سنہ 1275ھ کے مطابق سن عیسوی سنہ 1859ء درج کیا (251) اس کے علاوہ انہیں اپنے والد کے کتب خانہ میں دوسری جلد کا پہلا شمارہ دستیاب ہوا تھا جو بقول ان کے ماہ صفر سنہ 1278ھ میں شائع ہوا تھا۔ حیدر آباد کے ایک اور محقق سید تمکین کاظمی صاحب نے اپنے مضمون ’’حیدر آباد دکن کے اردو اخبارات اور رسائل‘‘ میں رسالہ طبابت کو ہندوستان میں اردو کا پہلا ما ہوار رسالہ قرار دیا اور اس کا سن اجرا سنہ 1858ء لکھا ہے (253)۔ غالباً ان کے پیش نظر بھی سنہ 1275ھ کا سن تھا۔ اجرائی کے مہینے کے عدم تعین کی وجہ سے اس کی مطابقت انہوں نے سنہ 1858ء سے کی۔

ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے نصیر الدین ہاشمی کا تتبع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’حیدر آباد دکن میں صحافت کا آغاز علمی مجلوں سے ہوا۔ سنہ 1859ء میں ایک طبی رسالہ جاری ہوا۔ (254) غالباً ان کا اشارہ اسی ’’رسالہ طبابت حیدر آباد‘‘ کی طرف ہے۔

بعد کے مصنفین اور مضمون نگاروں نے بھی بیشتر نصیر الدین ہاشمی ہی کے تحریر کردہ تاریخ اجرا کو من و عن نقل کر دیا ہے۔

طیب انصاری نے اپنی کتاب ’’حیدر آباد میں اردو صحافت‘‘ میں صفحہ بارہ پر یہی سنہ کسی حوالے کے بغیر درج کیا ہے ۱۰؂۔ وہ لکھتے ہیں ’’جہاں تک حیدر آباد کی اردو صحافت کا تعلق ہے اس کی ابتدا سنہ 1859ء میں رسالہ طبابت کی اشاعت سے ہو گئی تھی۔‘‘ (255) لیکن اس کتاب کے صفحہ 97 پر انہوں نے اس رسالہ کی اجرائی کی تاریخ مختلف درج کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’حیدر آباد میں رسائل کی اشاعت کا آغاز جس رسالہ کو سمجھا جاتا ہے وہ در حقیقت طبی رسالہ ہے جو سنہ 1275ھم سنہ 1857ء میں جاری ہوا۔ (256) یہاں بھی انہوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا البتہ صفحہ 128 پر ’’روزنامہ سیاست‘‘ میں ہر مزجی کے ایک مراسلہ کے حوالے سے سنہ 1857ء کو رسالہ طبابت کا سن اجرا قرار دیتے ہیں ہرمزجی نے اپنے مراسلہ میں تحریر کیا تھا کہ ’’اس رسالہ کی ابتدا سنہ 1858ء میں نہیں سنہ 1857ء میں ہوئی تھی‘‘۔

ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال نے اپنے مقالہ جنوبی ہند کی اردو صحافت میں ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی تحریر کردہ تاریخ کو جوں کا توں درج کر دیا ہے اور نصیر الدین ہاشمی کی پیروی میں اسے سہ ماہی رسالہ قرار دیا۔

رسالہ طبابت کی تاریخ اجرا کے بارے میں یہ جو اختلافات رونما ہوئے ہیں اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ مانک راؤ وٹھل راؤ کے پیش نظر صرف دوسری جلد کا آٹھواں شمارہ تھا جو 24 جمادی الثانی سنہ 1277 ھ کا مطبوعہ تھا جسے مانک راؤ وٹھل راؤ نے غلطی سے سنہ 1277 ھ کو رسالہ کا سن اجرا قرار دیا۔ بعد ازاں سید شمس اللہ قادری نے مانک راؤ وٹھل راؤ کے بیانات کے تضاد کو محسوس کیا لیکن رسالہ طبابت کو تلاش کر کے اس کے اجرائی کی صحیح تاریخ معلوم نہ کر سکے اور مانک راؤ وٹھل راؤ کی درج کردہ تاریخ کی مدد سے ’’رسالہ طبابت حیدر آباد‘‘ کے پہلے شمارے کی تاریخ اجرا کو متعین کرنے کی کوشش کی۔

یہ رسالہ ماہنامہ تو قطعاً نہیں نہیں تھا اور نہ ہی خود رسالہ میں کہیں اس کے سہ ماہی ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ سنہ 1272 ہجری میں اس کے تین شمارے شائع ہوئے۔ سنہ 1273ھ میں اس کے صرف دو شمارے شائع ہوئے۔ سنہ 1274 ھ میں اس کے چار شمارے شائع ہوئے۔ مختلف شماروں کی تاریخ اشاعت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ قیاس ضرور کیا جا سکتا ہے کہ اسے سہ ماہی رسالہ کے طور پر جاری کیا گیا ہو لیکن کتابت اور طباعت کی دشواریوں کی وجہ سے رسالہ وقت پر شائع نہیں ہو سکا اور رسالہ کے منتظمین نے اشاعت کے مقر رہ مہینے کا نام چھپانے کے بجائے ایمانداری کے ساتھ رسالہ کی اشاعت کا حقیقی مہینہ درج کر دیا۔ مہینہ کے ساتھ تاریخ کا اندراج ایک مہینہ یا ایک مہینہ سے زیادہ کے رسائل میں عام طور پر نہیں کیا جاتا اور مندرجہ مہینہ کی پہلی تاریخ، تاریخ اشاعت متصور ہوتی ہے لیکن رسالہ طبابت حیدر آباد میں اشاعت کی حقیقی تاریخ ہی درج کی گئی ہے۔

اس رسالہ کا پہلا شمارہ ماہ صفر سنہ 1272ھ میں شائع ہوا۔ سہ ماہی ہونے کے حساب سے دوسرا شمارہ جمادی الاول سنہ 1272ھ میں شائع ہونا چاہئے تھا اس کے بجائے ایک مہینہ تاخیر سے جمادی الثانی سنہ 1272ھ میں شائع ہوا۔ تیسرا شمارہ شعبان سنہ 1272ھ کے بجائے شوال سنہ 1272ھ میں شائع ہوا چوتھا شمارہ ذی الحجہ سنہ 1272ھ تک کے شمارے کو سامنے رکھیں تو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ رسالہ چار ماہی ہے لیکن اگلے سال بعض شمارے ایک یا دو مہینوں کے وقفہ سے شائع ہوئے۔ سنہ 1274ھ میں جملہ چار شمارے شائع ہوئے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ رسالہ جاری کرنے والوں کا منشا سال میں چار شمارے شائع کرنا تھا۔ وہ اس کی پابندی نہیں کر سکے۔

رسالہ طبابت حیدر آباد کے متعلق علمائے اردو ادب اور محققین نے اپنے طور پر ایک بہترین محنت اور تحقیق کرتے ہوئے چند حقائق کو منظر عام پر لایا ہے لیکن کیا یہ رسالہ ماہانہ تھا یا سہ ماہی یا پھر سال میں اس کے 4 شمارے شائع کئے جاتے تھے اور اس کا پہلا شمارہ کب شائع ہوا ان کی صحیح تفصیلات سے قطع نظر یہ ضرور کہا جا سکتا کہ حیدر آباد کی اردو صحافت کا آغاز ایک مجلے سے ہوا ہے۔

حیدر آباد کی اردو صحافت کا مرکز ’’رسالہ طبابت حیدر آباد‘‘ ہے جبکہ حیدر آباد کے پہلے روز نامے کے تعین میں اختلافات موجود ہیں لیکن یہاں بھی یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حیدر آباد کی صحافت ہندوستان کی صحافتی فہرست کا ایک اہم باب ہے نیز دور جدید (سائبر دور) میں حیدر آباد کی اردو صحافت کو جو مقام حاصل ہے وہ مقام ملک کے کسی دوسری ریاست سے شائع ہونے والے اردو اخبارات کو حاصل نہیں۔ عالمی اردو صحافت حیدر آباد کے اردو اخبارات اور خصوصاً روزناموں کی تاریخ اور تفصیلات اور یہاں سے شائع ہونے والے چند بڑے اخبارات کے تذکروں کے بغیر نامکمل ہے اور ان بڑے اخبارات میں روزنامہ رہنمائے دکن، روزنامہ عوام (جو فی الحال بند ہو چکا ہے) روزنامہ سیاست، روزنامہ منصف، قومی روزنامہ راشٹریہ سہارا اور روزنامہ اعتماد ہے۔ مذکورہ اخبارات میں بھی آخر الذکر 2 اخبارات کو سائبر ٹکنالوجی کے عہد میں شائع ہونے والے اخبارات کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے جبکہ دیگر 2 اہم اخبارات روزنامہ سیاست اور منصف کو سائبر ٹکنالوجی سے قبل اور مابعد نئی ٹکنالوجی میں اپنی اشاعت کی تاریخ رکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ راشٹریہ سہارا اور روزنامہ اعتماد کو سائبر ٹکنالوجی میں شائع ہونے والے اخبارات کے زمرے میں رکھا جائے تو ما باقی اخبارات کے علاوہ حیدر آباد کے روزناموں کی ایک اہم اور دلچسپ تاریخ ہے۔

حیدر آباد میں اردو صحافت کے آغاز کا تذکرہ کریں تو جہاں ہندوستان کا پہلا انگریزی اخبار ہکی کا بنگال گزٹ تھا جو 1780ء میں شائع ہوا تو حیدر آباد کا پہلا اخبار ’’دکن ٹائمس‘‘ تھا جو 1864ء میں شائع ہونے لگا 1891ء تک جاری رہا عبدالقادر اس کے ایڈیٹر تھے ۱۱؂۔

اردو اخباروں میں سب سے پہلا اخبار جو ہفتہ وار تھا۔ 1878ء میں ’’آصف الاخبار‘‘ کے نام سے شائع ہوا اس کے ایڈیٹر نارائن راؤ تھے پہلے اردو روزنامے میں اختلافات تو ہیں لیکن ’’ہزار داستان‘‘ کو چند محققین نے پہلا روزنامہ قرار دیا جو 1883ء میں شائع ہوا۔ اس کے ایڈیٹر محمد سلطان عاقل تھے۔

1900ء تک حیدر آباد سے جاری ہونے والے اردو اخبارات میں چند اہم اخبارات اس طرح ہیں: ۔

پیک آصفی جو 1884ء میں مدیر سید حسن کی ادارت، سفیر دکن 1888ء میں مدیر سید امجد علی کی ادارت اور مشیر دکن 1899ء میں مدیر کشن راؤ کی سرپرستی میں شائع ہوتا تھا۔

نازؔ انصاری اپنے مضمون ’’اردو صحافت ایک جائزہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’پبلک آصفی حیدر آباد دکن سے مولوی سعید احمدؔ زید بلگرامی نے پہلا روزنامہ جنوری 1884ء میں شروع کیا۔ ۱۲؂

1887ء میں پنڈت کشن راؤ نے ’’دکن پنچ‘‘۔ شروع کیا۔ پانچ سال بعد اسے مشیر دکن کا نام دے کر روزنامہ کر دیا‘‘۔ اسی طرح ہزار داستان کے متعلق لکھا جاتا ہے کہ یہ ماہ ربیع الاول 1301 ھ سے زبانِ اردو میں زیر ادارت مولی محمد سلطان عاقل دہلوی روزانہ شائع ہونا شروع ہوا۔ عام خریداروں سے بارہ روپیہ سالانہ چندہ لیا جاتا تھا۔ یہ حیدر آباد سے شائع ہوتا تھا۔ ماہ ربیع الثانی 1205ھ سے بند ہو گیا۔ اسی طرح ’’اخبار آصفی‘‘ ماہ ذی الحجہ 1201ھ سے بڑی تقطیع اور زرد رنگ کے کاغذ پر زیر نگرانی مولوی سید محمد سلطان عاقل دہلوی متصل پرانی حویلی سے شائع ہونا شروع ہوا۔ چندہ سالانہ سات روپیہ مقرر تھا۔ یکم جنوری 1887ء سے اس اخبار کو انگریزی مہینے کے 7، 14، 21، 28 تاریخ کو شائع کیا جانے لگا۔ اس میں علمی اور اخلاقی مضامین ہوا کرتے تھے اس کی اشاعت کا سلسلہ چند سال تک جاری رہا۔

افسر الاخبار کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو کہ 7  محرم 1304ھ سے بڑی تقطیع پر بہ سرپرستی نواب کرنل افسر الملک بہادر قلعہ گولکنڈہ سے شائع ہوتا تھا۔ زبان اردو تھی چند ہی سال میں بند ہو گیا۔ اسی طرح  ’’اخبار سفیر دکن‘‘ وسط ماہ ذیقعدہ 1305ھ میں زیر سرپرستی مولوی سید امجد علی شہری بڑی تقطیع پر چادر گھاٹ رزیڈنسی بازار سے روزانہ شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کے مالک مولوی محمد ذکی الدین وظیفہ یاب تعلقدار تھے۔ اختر حسن نے روزنامہ سیاست کے 40 سالہ جشن کے خصوصی سپلمنٹ میں جو مضمون تحریر کیا ہے اُس میں انہوں نے حیدر آباد کی اردو صحافت پر کچھ یوں اظہارِ خیال کیا ہے:

’’ہماری اردو صحافت کی تاریخ پوری ایک صدی کی تاریخ ہے جسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

پہلا دور 1858ء سے شروع ہوتا ہے جب کہ حیدر آباد کا سب سے پہلا اردو رسالہ جاری ہوا۔ اس رسالہ کا نام ’’طبابت‘‘ تھا۔ حیدر آباد کی اردو صحافت کا دوسرا دور 1883ء سے شروع ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ سال ہے جب کہ حیدر آباد سےح پہلا اردو روزنامہ ’’ہزار داستان‘‘ جاری ہوا۔ مرزا غالبؔ کے شاگرد مولوی محمد سلطان عاقل اس پہلے روزنامے کے ایڈیٹر تھے۔ اس کے دوسرے برس ایک اور روزنامہ ’’پیک آصفی‘‘ کے نام سے نکلا۔

انیسویں صدی کے آخری سال یا بیسویں صدی کے آغاز سے حیدر آباد کی اردو صحافت کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے۔ مولوی امجد علی شہری نے 1899ء میں روزنامہ ’’سفیر دکن‘‘ جاری کیا۔ اسی سال ’’شیر دکن‘‘ بھی وجود میں آیا جو آج بھی جاری ہے۔ انیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں متعدد روزنامے نکلے جن کا لب و لہجہ اٹھارہویں صدی کے اخبارات و جرائد کے لب و لہجے سے مختلف تھا۔ مولوی محب حسین کی ادارت میں 1904ء سے روزنامہ ’’علم و عمل‘‘ کی اشاعت شروع ہونی اور 1911ء میں مولوی اکبر علی صاحب نے صحیفہ کی زمام ادارت اپنے ہاتھ میں لی اور اسے روزنامہ بنا دیا۔ اردو صحافت کا تیسرا دور 1933ء تک چلتا رہا اور 1934ء سے چوتھے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دور کے سب سے بڑے نقیب رعیت اور پیام ہیں۔

رعیت 1934ء میں نرسنگ راؤ کے زیر ادارت دوبارہ جاری ہوا اور قاضی عبدالغفار نے 1936ء میں ’’پیام‘‘ نکالا۔ اردو صحافت کا یہ دور 1948ء میں ختم ہو جاتا ہے اور پولیس ایکشن کے بعد ستمبر 1948ء سے پانچواں دور شروع ہوتا ہے جو ابھی جاری ہے۔

اردو صحافت کا چوتھا دور جو 1934ء سے شروع ہوتا ہے کیونکہ اسی سال اخبار ’’رعیت‘‘ روزنامے میں تبدیل ہوا اور اسی سال حیدر آباد میں ریاستی کانگریس کی داغ بیل پڑی۔ اس کے دو سال بعد قاضی عبدالغفار نے ’’پیام‘‘ جاری کیا۔‘‘

مذکورہ بالا بیانات سے یہ طئے ہے کہ اردو کا پہلا روزنامہ ’’ہزار داستان‘‘ ہے، اب جز نازؔ انصاری کے اس استدلال کے کہ یہ ہفت روزہ تھا، چونکہ ابتداء میں ہفتہ وار اور پھر روزانہ کر دیا گیا تھا لیکن کچھ اختلافات بھی سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ مولوی نصیر الدین ہاشمی نے حیدر آباد دکن کا پہلا اردو ہفتہ وار ’’آصف الاخبار‘‘ کو قرار دیا ہے جو 1888ء میں جاری ہوا جس کے ایڈیٹر تھے نارائن راؤ۔

’’لیکن ’’صحافت پاکستان و ہند میں‘‘ ڈاکٹر عبد السلام خورشید نے لکھا ہے کہ ’’خورشید دکن‘‘ حیدر آباد کا پہلا اخبار تھا۔ جو 1877ء میں جاری ہوا اور ایک سال بعد بند ہو گیا۔ اس کے ایڈیٹر مرزا کاظم غازی تھا ۱۳؂۔

دوسرا اختلاف ’’پیام‘‘ کی مستند تاریخ اشاعت سے متعلق ہے کہ طیب انصاری نے اپنی کتاب میں ’’پیام‘‘ کی اشاعت کا سال 1935ء لکھا ہے۔ اختر حسن صاحب جو ابتداء سے ’’پیام‘‘ سے منسلک رہے ہیں، انہوں نے شخصی انٹرویو میں 1932ء کو سال اشاعت قرار دیا ہے۔

مزید یہ کہ طیب انصاری اخبار ’’آفتاب دکن‘‘ (1860ء) مدیر قاضی محمد قطب کو حیدر آباد کا پہلا روزنامہ قرار دیا۔

’’پیک آصفی‘‘ کے مدیر کے نام کے بارے میں بھی اختلافات موجود ہیں۔

’’علم و عمل‘‘ کے تعلق سے اختر حسن کے بیان سے طیب انصاری کی کتاب میں اختلاف ملتا ہے۔ طیب انصاری نے ’’علم و عمل‘‘ کا سالِ اشاعت 1902ء بتایا ہے اور مدیر کا نام صادق حسین لکھا ہے۔ نیز انہوں نے لکھا ہے کہ 1904ء میں محب حسین مدیر ہوئے جب کہ اختر حسن نے محب حسین کی ادارت میں 1904ء ’’علم و عمل‘‘ کی اشاعت کا سال لکھا ہے۔

’’معارف‘‘ 1911ء میں ملا عبدالباسط کی ادارت میں جاری ہوا۔ جو کچھ دن بعد بند ہو گیا۔ اسی سال عبدالحیِ اور سید رضا شاہ کی ادارت میں ’’عثمان گزٹ‘‘ جاری ہوا۔ ’’صحیفہ‘‘ اکبر علی کی ادارت میں 1912ء میں جاری ہوا۔ اکبر علی کے بعد مظہر علی مدیر ہوئے۔ ’’رہبر دکن‘‘ 1920ء میں احمد محی الدین صاحب کی ادارت میں جاری ہوا۔ ’’نظام گزٹ‘‘ 1927ء میں حبیب اللہ رشدی اور وقار احمد نے مل کر جاری کیا۔ ’’صبح دکن‘‘ احمد عارف اور علی اشرف نے 1928ء میں جاری کیا۔ ’’مجلس‘‘ بھی اسی سال حکیم غفران احمد کی ادارت میں جاری ہوا۔ ’’وقت‘‘ اور ’’منشور‘‘ عبدالرحمن رئیس نے 1929ء میں یکے بعد جاری کیا۔

’’سلطنت‘‘ احمد اللہ قادری نے 1930ء میں جاری کیا۔ احمد اللہ قادری نے ہی ’’پیسہ‘‘ ’’ایوننگ نیوز‘‘ جاری کیا تھا۔ ’’میزان‘‘ غلام محمد کلکتہ والا نے تین زبانوں میں جاری کیا۔ اردو کے مدیر حبیب اللہ اوج تھے۔ یہ اخبار 1942ء میں جاری ہوا۔ ’’تنظیم‘‘ بھی 1942ء ہی میں علی اشرف کی ادارت میں جاری ہوا۔ ’’اتحاد‘‘ عبدالقدوس ہاشمی کی نگرانی میں 1947ء میں جاری ہوا۔

’’مستقبل‘‘ (عظیم الدین محبت)، تعمیر دکن (فیض الدین)، انقلاب (مرتضیٰ مجتہدی) ’’محب وطن‘‘ (لچھمی ریڈی) آواز (احمد عبدالقادر) 1947ء ہی میں جاری ہوئے۔ ’’جناح‘‘ بھی 1947ء میں جاری ہوا۔ اظہر رضوی اسے اردو گلی سے نکالتے تھے۔ اس اخبار کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں ’’میزان‘‘ کی طرح ادبی مواد زیادہ ملتا ہے۔ ’’جناح‘‘ کے نام پر انتباہ دیا گیا تو اسے ’’منزل‘‘ کے نام سے 1948ء میں جاری کیا گیا۔

1948ء میں اُس وقت کے ہنگامی حالات کے پیش نظر اخبارات میں ادبی مواد کی اہمیت نہیں تھی۔ خبروں پر قارئین کی توجہ تھی۔ اس لئے اخبار بھی بہت زیادہ نکلتے تھے اور اپنی پالیسی کے اعتبار سے زیادہ پروپگنڈہ کرتے تھے انہیں ہنگاموں کی پیداوار شعیب اللہ خاں کا ’’امروز‘‘، ہمدم‘‘ (مصطفےٰ  قادری)، آغاز (سید معین الحق)، اقدام (مرتضیٰ مجتہدی)، نئی زندگی (جے۔ این سرما)، ہمدرد (نقش عالمی)، ہمارا اقدام (عابد زین العابدین)۔

’’انقلاب‘‘ کے بند ہونے پر مرتضیٰ مجتہدی نے ’’اقدام‘‘ جاری کیا۔ اس میں علمی و ادبی مواد کافی مل جاتا ہے۔ ترقی پسند خیالات رکھنے والے صحافی اس اخبار سے وابستہ تھے، جن میں قابلِ ذکر ہیں: احسن علی مرزا، وہاب حیدر، شاہد صدیقی اور زین العابدین۔ شاہد صدیقی ’’اقدام‘‘ کے اداریے لکھا کرتے تھے 1949ء میں ’’رہنمائے دکن‘‘ محمود وحید الدین کی ادارت میں، ’’سیاست‘‘ عابد علی خاں کی ادارت میں، ’’ملاپ‘‘ یدھ ویرجی کی ادارت میں جاری ہوا۔ اسی زمانے میں شعیب اللہ خاں کا قتل ہو گیا تھا اور ان کی یاد میں ’’شعیب‘‘ جاری ہوا۔ جس کے مدیر انیس الرحمن تھے۔ اس کے علاوہ 1950ء میں مرتضیٰ مجتہدی نے ’’انگارہ‘‘ ان کی بیگم سعادت جہاں رضوی نے ’’تازیانہ‘‘ مرتضیٰ مجتہدی کے بھائی اسد جعفری نے ’’نیاز نامہ‘‘ جاری کیا۔ ’’انگارہ‘‘ میں اسلم، وہاب حیدر اور معین فاروقی شریک کار تھے۔ ’’انگارہ‘‘ بند ہوتے ہی معین فاروقی نے ’’انگارے‘‘ جاری کیا۔ ان کے علاوہ ’’وطن‘‘ (راشد بیگ) امر بھارت (پورن چند شاکر) صداقت (وحید الحسن)، ذبیح (اسمعیل ذبیح) اور حق (شیخ چاند) 1957ء میں جاری ہونے والے چند اخبارات میں

’’نوید دکن‘‘ جمعہ 26  فروری 1976ء کو عظیم عسکری کی ادارت میں جاری ہوا۔ مئی 1976ء میں محبوب عالم خاں مدیر ہو گئے۔ ’’منصف‘‘ 1979ء میں محمود انصاری کی ادارت میں جاری ہوا۔ جس کے بعد خاں لطیف خاں نے اس کا انتظامیہ سنبھال لیا۔ مذکورہ چند حقائق اور علمائے ادب کی کوششوں کے نتائج میں جن کا تعلق حیدر آباد دکن کی صحافت سے ہے۔ اختلافات رائے سے قطع نظر راقم الحروف کو سائبر دور میں شائع ہو رہے حیدر آباد کے چند اہم روزناموں سے بحث ہے جس میں قابل ذکر روزنامے مندرجہ ذیل ہیں:۔

روزنامہ رہنمائے دکن

سید احمد محی الدین صاحب مرحوم کی ادارت میں روزنامہ ’’رہبر دکن‘‘ 1920ء میں جاری ہوا۔ پولیس ایکشن ستمبر 1948ء میں ہوا اس وقت سید محمود وحید الدین ’’رہبر دکن‘‘ کے مدیر تھے۔ بقول سید محمود وحید الدین صاحب ’’ملٹری ایکشن‘‘ کے ساتھ ہی ’’رہبر دکن‘‘ بند کر دیا گیا۔ پولیس ایکشن کے بعد ’’رہبر دکن‘‘ دوبارہ جاری کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کی اجازت نہیں ملی۔ حتی کہ مدیر کی حیثیت سے جناب محمود وحید الدین صاحب کے نام پر کسی نئے اخبار کا اجرا دشوار ثابت ہونے پر جولائی 1949ء میں محمد منظور حسن کی ادارت میں ’’رہنمائے دکن‘‘ جاری ہوا۔ محمد منظور حسن صاحب ادارۂ ’’رہبر دکن‘‘ سے وابستہ رہے تھے لہذا ’’رہنمائے دکن‘‘ کے مینجنگ ایڈیٹر کے فرائض تو وہ ادا کرتے رہے لیکن اس روزنامے کے کرتا دھرتا اور مالک سید محمود وحید الدین ہی تھے۔ 1976ء میں سید محمود وحید الدین نے سید لطیف الدین قادری کو ادارت سپرد کر دی جب کہ منظور حسن نومبر 1968ء میں سبکدوش ہو گئے تھے۔ 20  جنوری 1984ء کو سید لطیف الدین قادری صاحب کا انتقال ہو گیا اور سید وقار الدین ’’رہنمائے دکن‘‘ کے مدیر ہو گئے ۱۴؂۔

سید وقار الدین کی ادارت میں ’’رہنمائے دکن‘‘ آج بھی مہدی پٹنم کے نزد موجود محلے آصف نگر سے شائع ہو رہا ہے لیکن اب اس حیدر آبادی روزنامے کا دکن کی صحافت میں وہ مقام نہیں جو آج سے تقریباً 25 برس قبل تھا حالانکہ حالیہ عرصے میں رہنمائے دکن کے صفحہ اول اور آخر کو رنگین کر دیا گیا جس کے باوجود حیدر آباد کا یہ قدیم اخبار جامعات، لائبریریوں، اخباری دفاتر اور چند گوشوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ روزانہ 8 صفحات اور اتوار و خصوصی مواقع پر مخصوص ایڈیشنس کی اشاعت کے ذریعے اس کے صفحات کی تعداد بڑھائی جاتی ہے لیکن آج یہ اخبار حیدر آباد دکن کے روزناموں کی تعداد میں محض ایک اضافہ بن کر رکھ گیا ہے جس کی ایک اہم وجہ بدلتے وقت، ذرائع ابلاغ کے تقاضوں اور نئی ٹکنالوجیز سے اس اخبار کو ہم آہنگ نہ کرنا ہے۔

’’سائبر دور میں حیدر آباد کے روزناموں‘‘ کا جب بھی تذکرہ کیا جائے گا شہر کے اس قدیم اخبار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

رہنمائے دکن کے ابتدائی شمارے اور آج کے شمارے کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو چند اہم اور بڑی تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔

آج کے شمارے کا اگر صفحہ اول دیکھا جائے تو اس پر سبز رنگ میں اخبار کا نام ’’رہنمائے دکن‘‘ تحریر ملنے کے علاوہ اس کے نام کے اوپر سیدھی جانب ’’کثیر الاشاعت روزنامہ‘‘ اور بائیں جانب ’’حیدر آباد (آندھرا پردیش)‘‘ تحریر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں روزنامے کے نام ’’رہنمائے دکن‘‘ کے بالکل نیچے انگریزی میں بھی اخبار کا نام۔ اشاعت اور مقام اشاعت کی تفصیلات فراہم کی جاتی ہیں۔ نیز ’’چیف ایڈیٹر: سید وقار الدین

editor in chief: syd vicaruddin

جیسی تفصیلات بھی صفحہ اول کی ہی زینت ہے۔ صفحہ اول پر آج تک بھی عالمی، قومی، مقامی اور پڑوسی ممالک کے متعلق اہم خبروں کو جگہ دی جاتی ہے۔ حالانکہ ابتدائی ادوار میں پہلے صفحہ پر ’’رفتار سیاست‘‘ کے عنوان سے اہم سیاسی مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا تھا۔ اسی طرح آخری صفحہ کو ’’گھر کی باتیں‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے جس میں تقریباً خبریں شہر حیدر آباد کے حالات و واقعات کا احاطہ کرتی ہیں۔

دوسرا صفحہ ’’قومی و بین الاقوامی خبروں‘‘ کے لئے مختص کیا گیا ہے جبکہ تیسرا صفحہ ادارتی صفحہ ہے جس پر مذہبی اور مقامی خبریں شائع کی جاتی ہیں اور اس کے اوپری حصے میں ’’آیت شریف اور حدیث شریف‘‘ کے لئے مستقل مقام متعین ہے جہاں روزانہ ایک آیت مع ترجمہ اور ایک آیت شریف پابندی کے ساتھ شائع کی جاتی ہے۔ اس دو کالمی باکس کے بالکل نیچے نماز کے اوقات تحریر ہوتے ہیں جس کے بعد اداریے کا نمبر آتا ہے۔

جیسا کہ صفحہ 3 ’’مذہبی مقامی خبریں۔۔ ۔‘‘ کے نام سے موسوم ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس صفحہ پر مذہبی اور مقامی خبروں میں بھی اکثریت مذہبی خبروں کی ہوتی ہے جس میں ’’جشن عید میلاد النبیؐ‘‘ اعراس شریف جلسے، مذہبی جماعتوں کی مصروفیات، مجلس عزاء، بزم خواتین، مجلس قصیدہ کے علاوہ ایک کالمی خبریں شادی اور انتقال کی خبروں کو بھی مقام دیا جاتا ہے۔ صفحہ چار بھی قومی و بین الاقوامی خبروں کے لئے مختص کیا گیا ہے جس پر کوئی غیر متعلقہ خبر کی اشاعت بھی حیران کن نہیں جیسا کہ مورخہ 20 مارچ 2010ء کے ایڈیشن میں صفحہ چار پر اسپورٹس کی ایک خبر ’’دکن چارجرس اور چینائی سپر کنگس کی کامیابی، کے عنوان سے شائع ہو چکی ہے جو در اصل انڈین پریمئر لیگ (آئی پی ایل) میں کھیلے گئے مقابلوں کے رات دیر گئے نتائج ہیں ۱۵؂۔

رہنمائے دکن کے صفحہ 5 پر ’’مقامی/ اضلاع کی خبریں، کے تحت شہر حیدر آباد کے علاوہ اضلاع میں نارائن پیٹ، بیدر، یاد گیر، ہنمکنڈہ، بنگلور، کریم نگر جیسے علاقوں کے حالات و واقعات کو بھی جگہ دی جاتی ہے۔ 20 مارچ 2010ء کے روزنامے سے صفحہ 5 پر ’’اردو دنیا اور میڈیا‘‘ کے زیر عنوان کرناٹک اردو اکیڈیمی کا سمینار، کی خبر بھی شائع کی گئی ہے۔

رہنمائے دکن کا صفحہ 6 ’’اسپورٹس کی خبریں۔۔ ۔‘‘ کے لئے مختص ہے اور اس صفحے پر کرکٹ، ہاکی، ٹینس، فٹبال کے علاوہ کھیل اور کھلاڑی کے متعلق تمام خبروں کا احاطہ کیا جاتا ہے اس کے علاوہ یہاں دیگر خبروں کی اشاعت بھی ہو جاتی ہے۔ اسپورٹس کی خبروں کے لئے مختص صفحے پر بڑے بڑے فلمی اشتہارات بھی شائع ہوتے ہیں جس کا سلسلہ کئی برسوں سے آج بھی جاری ہے۔ اخبار کے دوسرے آخری صفحے یعنی صفحہ 7، پر مزید مقامی خبروں کی اشاعت عمل میں آتی ہے۔ 8 صفحات پر مشتمل اس حیدر آبادی روزنامے ’’رہنمائے دکن‘‘ کے صرف صفحے اول اور آخر پر چونکہ رنگین طباعت ہوتی ہے لہذا ان 2 صفحات پر ہی رنگین تصاویر اور رنگین سرخیاں مل جاتی ہیں۔

’’رہنمائے دکن‘‘ کے ابتدائی زمانے میں مستقل کالم کے طور پر تقریباً روزانہ ہی ’’سچی باتیں‘‘ کے عنوان سے ’’صدق‘‘ لکھنؤ ہفتہ وار کا کالم ڈائجسٹ کیا جاتا تھا۔ ’’سچی باتیں‘‘ کے علاوہ مستقل کالموں میں ’’تازہ ترین تار‘‘ جس میں تازہ خبریں دی جاتی تھیں گھر کی باتیں‘‘ میں مقامی خبریں ’’خبر و نظر‘‘ رہنمائے دکن کے اہم کالموں میں شامل ہیں۔

ابتداء میں پیر کو خصوصی شمارہ شائع کیا جاتا ہے۔ پہلا صفحہ کوئی ایک رنگ میں عموماً اودے یا آسمانی رنگ میں شائع کیا جاتا تھا پہلے صفحہ پر ’’رفتار سیاست‘‘ کے عنوان سے پورے صفحے پر عالمی، مقامی، ہندوستانی یا پڑوسی ممالک سے متعلق اس ہفتے کے اہم سیاسی مسئلے کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ دوسرا صفحہ مذہبی نگار شات سے پُر ہوتا ہے۔ مذہبی نگارشات کے لئے بھی مستقل کالم شائع کئے جاتے ہیں۔ جیسے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ’’احکام و مسائل فقہ‘‘ ’’حدیث دیگراں‘‘ ’’قرآن اپنے مخاطب سے‘‘ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ تیسرے صفحے پر عالمی اور ملکی مسائل پر مضامین شائع کئے جاتے تھے صفحہ 6 پر اگست 67ء سے ڈسمبر 76ء تک ’’شعر و ادب‘‘ کا صفحہ شائع کیا جاتا رہا۔ ’’رہبر دکن‘‘ کے زمانے ہی سے ایک مستقل کالم طنز و مزاح سے بھرپور ’’رہبر و رہرو‘‘ کے نام سے دیا جاتا تھا جو تقریباً ہر روز ہی شائع ہوتا۔ ’’رہنمائے دکن‘‘ میں بھی اس کالم کو ’’رہنما و رہرو‘‘ کے عنوان سے جاری رکھا گیا۔ از ابتداء تا آخر اس کالم میں سنجیدہ ظرافت اور با وقار طنز کا پہلا نمایاں رہا جو شفیع الدین ناکارہؔ کے اشہب قلم کا نتیجہ ہوا کرتا تھا۔ ناکارہؔ حیدر آبادی کے پاکستان چلے جانے کے بعد سلیمان اطہر جاوید اور ظہیر الحق ایم اے نے بھی اپنی طنزیہ ظرافت کی پھلجھڑیاں اس کالم میں سجائی ہیں۔ سلیمان اطہر جاوید صاحب ’’رفتار سیاست‘‘ کے لئے ایک عرصہ تک لکھتے رہے ۱۶؂۔

’’رہنمائے دکن‘‘ نے ادبی سرپرستی میں اپنا منفرد رول ادا کیا ہے جو ناقابل فراموش ہے۔

’’پسند اپنی اپنی‘‘ رہنمائے دکن کا یہ ایک مستقل ہفت واری کالم ہے۔ 5 جون 59ء سے ’’پسند اپنی اپنی‘‘ کالم کا آغاز کیا گیا جس میں قارئین اپنے پسندیدہ اشعار بھیجتے اور جنہیں با ضابطہ اہتمام کے ساتھ شائع کیا جاتا۔ ابتداء میں ظہیر الحق صاحب ایم اے اساتذہ کے اشعار مرتب کرتے تھے بعد میں قارئین اشعار روانہ کرنے لگے۔ ہر ہفتہ بیس تا چالیس اشعار شائع کئے جاتے۔

پیام

’’پیام‘‘ کی اشاعت 1935ء میں شروع ہوئی۔ ’’پیام‘‘ کی اشاعت جب شروع ہوئی وہ زمانہ دو اعتبار سے بہت اہم ہے ۱۷؂۔

1۔ اس کے مدیر قاضی عبدالغفار اس وقت تک اردو دنیا کے مستند ادیب کی حیثیت سے روشناس ہو چکے تھے اور بذاتِ خود ان کی ادارت روزنامے کو وزن و وقار عطا کرنے کے لئے کافی تھی۔ بنیادی طور پر ان کا تعلق تخلیق ادب سے تھا اور اس تخلیقی ادب میں بھی ان کا طرز نگارش جذباتی اور باغیانہ تھا لہذا ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ ’’روزنامچہ‘‘ (مجنوں کی ڈائری) اس کا ثبوت ہیں۔ ان کی نظر مغربی ادب پر بھی تھی اور اس کے ثبوت میں ’’سیب کا درخت‘‘ اور ’’تین پیسے کی چھوکری‘‘ کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

2۔ جس دور میں قاضی صاحب نے ’’پیام‘‘ نکالا اس دور میں جرمنی میں ہٹلر کے قدم مضبوطی سے جم چکے تھے اور برطانیہ اور فرانس کے ادیب شدت سے اس بات کو محسوس کر رہے تھے کہ ادب کو بہرحال کسی نہ کسی شکل میں فاشسٹ طاقتوں کے خلاف استعمال کرنا چاہئے لہذا ’’پیام‘‘ کے اجراء کے سال بھر بعد ہی ترقی پسند تحریک پورے زور و شور سے ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گئی تھی۔ کانفرنس، جلسے، مذا کرے، باغیانہ رجحان کے افسانے نظمیں وغیرہ تخلیق کئے جا رہے تھے۔

اب اس پس منظر میں 1948 کے بعد ’’پیام‘‘ کے صفحات پر نظر ڈالی جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ در اصل قاضی صاحب نے جس روایت کو مستحکم اور استوار کیا تھا اختر حسن نے حتی الامکان اس کی پاس داری بھی کی اور اسے آگے بھی بڑھانے کی کوشش کی۔

’’پیام کے سلسلے میں ذیل کا اقتباس‘‘ ’’پیام‘‘ سے ہی نقل کیا جا رہا ہے ۱۸؂۔ در اصل یہ قاضی صاحب کے انتقال پر اداریہ ہے اور اس سے ’’پیام‘‘ کے سلسلے کے سارے تصورات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

’’پیام کی اجرائی نے نہ صرف یہ کہ حیدر آباد کی مقامی صحافت میں ایک نئے روزنامے کا اضافہ کیا بلکہ صحت مند اور ترقی پسند صحافتی روایتوں کی بھی بنیاد ڈالی۔ ’’پیام‘‘ سے پہلے حیدر آباد میں قومی زندگی اور ہندوستان کی تحریک آزادی کی جد و جہد کے نشانات مفقود تھے۔۔ ۔ حیدر آباد میں 1935ء سے 1946ء تک مسلسل ’’پیام‘‘ کے ذریعے انہیں اپنے ’’عزم و آرزو‘‘ کے چراغ روشن کرنے کا موقع ملا ‘‘۔۔ ۔ پیام نے تھوڑے ہی دنوں کے اندر جو مقبولیت اور شہرت حاصل کر لی تھی اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ حیدر آباد کے دم گھٹا دینے والے جاگیر داری ماحول میں قاضی صاحب نے اپنے اخبار کے ذریعہ نئے خیالات اور زندگی کے عصری تقاضوں کے روشن دان کھولے۔ اور دوسری وجہ قاضی صاحب کا وہ دلکش اور طاقتور انداز تحریر تھا جس نے اپنے پڑھنے والوں سے صرف جذباتی خراج تحسین ہی حاصل نہیں کیا بلکہ ان کے ذہن و فکر کو شدت کے ساتھ متاثر بھی کیا۔ بہت جلد ’’پیام‘‘ صرف ایک اخبار ہی نہیں رہا بلکہ بجائے خود ایک تحریک، ایک ادارہ اور ایک تنظیم بن گیا۔۔ ۔ قاضی صاحب نے اپنے اخبار کے ذریعے حیدر آباد کی صحافتی زندگی میں پہلی مرتبہ جمہوری تنقید کا دروازہ کھولا اور حکومت کے نظم و نسق پر بڑی بے باکی کے ساتھ بے لاگ اداریے اور مضامین لکھ کر ایک نئی چلچل پیدا کر دی۔۔ ۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حیدر آباد میں قاضی صاحب کا ’’پیام‘‘ ہی تھا جس نے سب سے پہلے قومی اور بین الاقوامی سیاست کے جمہوری تقاضوں سے حیدر آباد کے لوگوں کو روشناس کروایا۔ یہی نہیں بلکہ حیدر آباد کی سماجی اور تہذیبی زندگی کو بھی قاضی صاحب نے نئے موڑ اور نئی منزلیں عطا کیں۔ پریم چند سوسائٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین اور اسی قسم کی دوسری تنظیموں نے بنانے اور سنوار نے میں قاضی صاحب کی شخصیت اور ان کے اخبار نے بہت کچھ کیا۔ جس کی بدولت حیدر آباد کے ٹھیرے ہوئے ماحول میں ایک حیات بخش تازگی اور حرکت پیدا ہوئی۔

اخبار نویسوں کی تنظیم کی جانب بھی قاضی صاحب نے توجہ کی اور جرنلسٹ اسوسی ایشن اور ایڈیٹرس اسوسی ایشن کے ذریعہ حیدر آباد کے مختلف الخیال صحیفہ نگاروں کو ایک ایسے متحدہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جس کی وجہ سے حیدر آباد کی صحافت کا اجتماعی وقار اونچا ہوا۔

قاضی عبدالغفار کا 60 سال کی عمر میں (بتاریخ 17 جنوری 56ء) علی گڑھ میں جب کہ وہ انجمن ترقی اردو (ہند) کے معتمد عمومی اور مدیر ’’ہماری زبان‘‘ تھے انتقال ہوا۔ سر مرزا اسمٰعیل کی وزارتِ عظمی کے زمانے میں آپ حیدر آباد کے ناظم اطلاعات و تعلقات عامہ بھی رہے۔ آپ کی تصنیفات میں ’’لیلیٰ کے چند خطوط‘‘، ’’مجنوں کی ڈائری‘‘، ’’سیب کا درخت‘‘ اور ’’تین پیسے کی چھوکری‘‘ شامل ہیں‘‘ ۱۹؂۔

1946ء سے اختر حسن صاحب نے ادارت سنبھالی جسے 1957ء تک مختلف نشیب و فراز کے ساتھ نکالتے رہے۔ سال 1958ء میں ’’پیام‘‘ ’’عوام‘‘ ہو گیا۔

اخبار کے دوسرے صفحے پر اداریہ ہوتا اور اداریہ میں سب سے پہلے اداریہ سے متعلق ہی شعر ہوتا۔ اداریے کے اوپریا نیچے تفکر آمیز مقولہ ’’ہر روز کچھ سوچیے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتا، مثال کے طور پر

’’ہر روز کچھ سوچیے: ۔ آج زندہ ادب زندگی کی موجودہ حقیقتوں ہی کی ترجمانی کرتا ہے۔‘‘

’’گرد و پیش‘‘ روزانہ کا مستقل کالم تھا جس میں مقامی بین الاقوامی خبروں سے خصوصی اقتباسات شائع کئے جاتے۔ ’’تراشے‘‘ والے کالم میں میگزین، جرنل وغیرہ کے خصوصی اقتباسات دیئے جاتے۔ ’’حیدر آباد کا ایک ہفتہ‘‘ ہر دو شنبہ کو اہم سیاسی و سماجی خبریں دی جاتیں۔ ’’لوگ کہتے ہیں‘‘ کے تحت عوام کے خطوط شائع کئے جاتے۔

’’سِر راہ‘‘ ’’پیام‘‘ کا طنزیہ کالم تھا، اور یہ کالم تقریباً روزانہ ہی دیا جاتا تھا۔ قاضی عبدالغفار کے زمانے میں وہی یہ کالم لکھتے تھے۔ اختر حسن کے زمانے میں اختر حسن کے علاوہ شاہد صدیقی نے بھی یہ کالم لکھا۔

 

نظام گزٹ

1927ء میں حبیب اللہ رشدی اور مولوی وقار احمد نے اخبار ’’نظام گزٹ‘‘ جاری کیا۔ 1948ء میں حبیب اللہ رشدی پاکستان چلے گئے اور مولوی وقار احمد کا 27 مارچ 1959ء کو انتقال ہو گیا۔ وقار صاحب کے انتقال کے بعد عبدالرحمن حلمیؔ صاحب کی ادارت میں یہ اخبار 1967ء تک نکلتا رہا۔ 1917ء میں حضورِ نظام نواب میر عثمان علی خاں کا انتقال ہوا اور جب ہی یہ پرچہ بند ہو گیا ۲۰؂۔ قرائن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ در اصل نظام کے شعری ذوق اور ان کی مخصوص اُفتادِ طبع کی تسکین کے لئے شائع ہوتا تھا اور اسی لئے ان کے انتقال کے بعد بند ہو گیا۔ ذیل میں ’’نظام گزٹ کے بارے میں اخبار ’’سیاست‘‘ کا ایک اقتباس دیا جا رہا ہے جو ’’سیاست‘‘ روزنامے کے ’’فکر و نظر‘‘ سے لیا گیا ہے جو مولوی وقار احمد صاحب کے انتقال پر 27 مارچ 1959ء کو شائع ہوا:

’’مدیر نظام گزٹ مولوی وقار احمد صاحب کا کل انتقال ہو گیا۔ وقار احمد صاحب کا شمار حیدر آباد کے قدیم ترین صحافیوں اور اخبار نویسوں میں تھا۔ ان کی عمر تقریباً 60 سال تھی اور وہ گزشتہ تیس سال سے میدان صحافت کے ایک سرگرم کارکن تھے۔ وقار احمد صاحب 1899ء میں حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے ایم اے یا اور ایل ایل بی کی ڈگری لی لیکن قانون کے یاکسی دوسرے پیشے کے بجائے انہوں نے صحافت کو اپنایا اس زمانے میں جب کہ صحافت کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا نہیں گیا تھا انہوں نے ایک ہفتہ وار اخبار نکالا۔ تیس سال پہلے شائع ہونے والے اس ہفتہ وار کا نام فرمانر وائے وقت نظام سابع کے نام پر ’’نظام گزٹ‘‘ رکھا گیا۔ اس اخبار کے ذریعہ مولوی صاحب نے ریاست حیدر آباد اور اس کے عوام کی خدمت انجام دی پھر اخبار کو روزنامہ کر دیا گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد یوں تو کئی روزنامے حیدر آباد سے شائع ہونے لگے مگر ’’نظام گزٹ‘‘ اپنی مخصوص اور منفرد پالیسی کے باعث ایک خاص مقام کا حامل تھا۔ مدیر ’’نظام گزٹ‘‘ نے اپنی جوانی کے زمانے میں براؤننگ کی بعض تصانیف کا اردو میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے خود بھی کچھ کتابیں لکھی تھیں۔ 1948ء میں پولیس کار روائی سے قبل وقار احمد صاحب ریاست حیدر آباد کی اسمبلی میں صحافت کے نمائندے کے طور پر نامزد کئے گئے تھے۔ وقار احمد صاحب نے بذاتِ خود اپنے اخبار کے ذریعے کئی نوجوانوں صحافیوں کی ہمت افزائی کی تھی۔ آج حیدر آباد کی صحافتی دنیا میں کام کرنے والے کئی نوجوان صحافی وقار احمد صاحب کے اخبار یا ان کے ساتھ کسی طور پر کام کر چکے ہیں ان کے اسی مقام کے باعث انہیں عام طور پر ’’بابائے صحافت‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ مولوی صاحب انتہائی مرنجاں مرنج اور دوست دار قسم کے آدمی تھے اور وہ صحافت کے اصولوں کو ہمیشہ عزیز رکھتے تھے۔ مرحوم کے پسماندگان میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔‘‘

’’نظام گزٹ‘‘ میں نوحے، سلام اور مرثیے شائع ہوا کرتے تھے جو ادب کی یہ اہم ترین اصناف ہیں۔

نظامِ دکن کے ارشادات اور تنبیہات وغیرہ اس اخبار کا ناگزیر جز تھے۔ جناب حلمیؔ آفندی کے بارے میں نظام آصف سابع کے دو ارشادات کا عکس شامل کیا گیا۔ حضورِ نظام حیدر آباد کی نثر شاہی نثر زیادہ معلوم ہوتی ہے جس کی ادبی اہمیت از خود واشگاف ہے۔

 

روزنامہ سیاست

روزنامہ ’’سیاست کی اشاعت کا آغاز 15 اگست 1949ء کو ہوا۔ پولیس ایکشن ہوئے سال بھر بھی نہ گزرا تھا۔ سابق ریاست حیدر آباد کا ماحول انوکھی صورت حال سے دوچار تھا۔ بہت بڑا طبقہ ایسا تھا جو مایوسی و محرومی کا شکار تھا۔ احساسِ شکست نے اسے زندگی کے ہر میدان میں اندھیروں سے ہی ہمکنار کیا۔ خصوصاً وہ طبقہ جس نے اُردو کو ہندوستان کی مشترکہ کلچر کی علامت کے روپ میں دیکھا تھا اور پورے ہندوستان میں حیدر آباد ہی وہ واحد جگہ تھی جہاں اعلیٰ تعلیم کے لئے اردو کو ذریعہ بنایا گیا تھا۔

ایسے حالات میں عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر کا اردو میں اخبار نکالنا بذاتِ خود بہت بڑی ادبی خدمت اس لئے تھی کہ مایوسی اور محرومی کا احساس اس اقدام سے کم ہوا اور وہ جو یہ سوچ کر اردو کے جنازے پر ان سے فاتحہ بھی نہ پڑھا جائے گا، ہندوستان چھوڑ رہے تھے ایسے لوگوں کی تقلید کرنے والے ٹھہر گئے۔ ’’سیاست‘‘ نکلا تو اس نے انتہا پسندوں کے درمیان اعتدال اور توازن کا راستہ اپنا یا اور کوشش کی کہ جس فضا میں بادِ سموم چل رہی ہے وہاں توازن اور صحت مند فکر کی بادِ نسیم چلے۔

’’سیاست‘‘ کو اس میں کامیابی ہوئی اس کا ثبوت اس کی اشاعت ہے جو ’’ہند سماچار‘‘ کے بعد اردو کے تمام اخبارات سے زیادہ ہے۔ ’’سیاست‘‘ صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ تمام بیرونی ممالک میں جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے وہاں ابتدائی دور سے ہی جاتا ہے۔ ’’سیاست‘‘ نے بحیثیت اخبار عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر کے ذریعے فضاء کو سازگار بناتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ زبانیں دفاتر میں عرضیاں قبول کرنے یا سرکاری گزٹ تک استعمال ہونے سے زندہ نہیں رہتیں بلکہ اس کی بقاء ادب سے ہوتی ہے۔ روزنامہ سیاست کے آغاز اور اشاعت کے درپردہ کار فرما عناصر اور حالات کی ترجمانی خود اس کے پہلے شمارہ کا اداریہ کرتا ہے۔ سیاست کے پہلے شمارے کا اداریہ مندرجہ ذیل ہے:

’’میں نے ایک خاص مقصد اور ایک خاص آدرش کے لئے سیاست کی اجرائی کا تہیہ کیا ہے۔ صحافت نگاری میرے لئے باعث نام و نمود نہیں۔ میں نے گزشتہ دس سال سے اس آدرش کے حصول کے لئے جد و جہد کی ہے۔ میری اس جد و جہد کا آغاز یونیورسٹی کی زندگی سے ہوتا ہے، جب کہ میں نے عوامی رجحانات و میلانات کو اپنے مضامین کے ذریعہ پیش کرنا شروع کیا۔ یہ میری خوش قسمتی رہی کہ مجھے اس علمی زندگی کی ابتدائی میں میں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے ذریعہ حیدر آباد کے تمام مکاتب خیال کے با شعور لکھنے والوں کو ایک مرکز پر جمع کیا۔ میں حیدر آباد کی زندگی میں جشن یاد حالیؔ فراموش نہیں کر سکتا۔ جس میں محترمہ سروجنی نائیڈو، ڈاکٹر لطیف سعید بیرسٹر اکبر علی خاں اور مسٹر بی رام کشن راؤ کے ساتھ اس زمانہ کے صدر مجلس اتحاد المسلمین مولوی ابو الحسن۔۔ ۔ بھی شریک تھے انجمن ترقی پسند مصنفین نے ہر گام پر اور ہر لمحہ اتحاد کی مبارک کوشش کیں۔ پانچ سال تک انجمن کی معتمدی نے مجھے ملک میں حیات بخش اور صحت مند جمہوری رجحانات کی پذیرائی کے لئے جد و جہد کا موقع دیا۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ہر مکتب خیال کے با شعور اہل قلم کے باہمی اتحاد کو آگے بڑھانے میں کامیابی حاصل کی۔ میں گزشتہ دس سال سے صحافتی زندگی سے وابستہ ہوں اور اس زندگی کے آداب جنوں سے بھی مجھے شناسائی ہے۔ اس لئے میں نے یہ علم اٹھایا ہے۔ میں آج اپنے اس حقیر ورثہ کے سہارے آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں۔ میں سیاست کو کشکول بنا کر آپ کے پاس حاضر نہیں ہو رہا ہوں۔ میں زندگی کے قافلہ میں درماندہ رہرؤوں کے ساتھ چل سکتا ہوں اسی آدرش کے لئے سیاست جاری ہوا۔ سیاست کسی فرد اور جماعت، کسی رنگ اور کسی گروہ سے وابستہ نہیں۔ چونکہ ایسی وابستگی کسی اخبار نویس کے لئے ہم قاتل ہے۔ سیاست، جنبہ دارانہ حکمت عملی سے ہمیشہ گریز کرے گا اور ایک غیر جانبدار جریدہ کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرے گا۔ ’’سیاست‘‘ اس دور میں باہمی رواداری اور صحت مند جمہوری رجحانات کے فروغ و ارتقاء کے لئے اپنا مقدس فرض ادا کرے گا۔ سیاست اپنے ماتھے پر کوئی داغ لگائے بغیر اپنی ذات سے کسی تحریک کو وابستہ کئے بغیر اداروں اور جماعتوں کی وابستگی کے طوفان اور آندھی سے اپنا دامن بچا کر پوری انسان اور انسانیت کا ساتھ دے گا۔ جس کا مذہب پہچانا نہیں جاتا۔ جو صرف انسان ہے مذہب نہیں، کوئی تحریک نہیں، کوئی جماعت نہیں۔ ان مقاصد کے ساتھ آپ کی بزم میں حاضر ہوا ہوں اور مستقبل سے مایوس نہیں ہوں۔ سپیدہ سحر کی سعی کر رہا ہوں۔ اور سیاست میں ان ہی کرنوں کا نور بکھیرنا چاہتا ہوں۔

15 اگست 1949ء   عابد علی خاں

 

روزنامہ سیاست نے 15 اگست 1949ء میں اپنے سفر کا آغاز کرتے ہوئے حالیہ برسوں میں اپنے 60 سالہ جشن کی خوشیاں بھی دیکھی ہیں۔ سیاست کی یہ روایت رہی ہے کہ اس نے اپنے 10، 20، 25، 30، 40، 50 اور 60 سالہ جشن کو ادبی طریقوں سے منایا ہے یعنی جب بھی موقع ملا سیاست نے خصوصی شماروں کے ذریعہ اپنے سفر کی تفصیلات کو دستاویزی شکل دے ڈالی جو کہ اس شعبے میں تحقیق کرنے والوں کے لئے ایک مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔

جیسا کہ 15 اگست 1949ء کا اداریہ سیاست کے آغاز کی تفصیلات فراہم کرتا ہے اسی طرح 40 سالہ جشن کے موقع پر لکھا گیا اداریہ سیاست میں پہلی مرتبہ کمپیوٹرس کے استعمالات کی تفصیلات پر روشنی ڈالتا ہے۔

سیاست کے پہلے مدیر اعلیٰ عابد علی خاں عثمانیہ یونی ورسٹی کے آرٹس گریجویٹ تھے اور روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے بانی مدیر بھی۔ ترقی پسند تحریک سے ان کا ساتھ اخبار جاری کرنے سے پہلے سے رہا۔ وہ 1943ء تا 1947ء انجمن ترقی پسند مصنفین کے معتمد تھے۔ اخبار کے اجراء کے بعد سرگرم سیاست سے اپنے آپ کو دور رکھا، لیکن اپنے اخبار کے ذریعہ قومی حریت پسندی، سیکولرازم اور ترقی پسند جذبات کو آگے بڑھایا۔ کئی مقبول رسالوں میں چھپے ان کے بے شمار مضامین کے علاوہ ان کی تین کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ انہوں نے ’’کارل مارکس‘‘ ویج لیبر اینڈ کیپیٹل‘‘ ڈیموکریٹک چینا‘‘ کا ترجمہ کیا۔

انہوں نے پیشۂ صحافت کو ہمیشہ ایک مشن سمجھا۔ 50 ویں دہے میں ڈاکٹر بی گوپال ریڈی مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات نے عابد علی خاں کی افرادی قومی خدمات اور اخبار کے ذریعہ ملک کے ایک معیاری اردو اخبار کے مدیر کی خدمات کا اعتراف پریس انفارمیشن بیورو کی جانب سے منعقدہ ایک جلسہ میں کیا ۲۱؂۔

عابد علی خاں پہلے اردو کے مدیر ہیں جن کا انتخاب بورڈ آف ڈائرکٹرس آف پی ٹی آئی کے لئے ہوا۔ نیشنل نیوز ایجنسی ’’سماچار‘‘ کے وہ بانی ڈائرکٹرس میں رہے وہ نیشنل ایڈیٹرس کمیٹی کے رکن بھی رہے جو حکومت کی قائم کردہ کمیٹی ہے گجرال کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں جو ترقیِ اردو کے لئے قائم کی گئی تھی۔

عابد علی خاں کئی ادبی اور تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں۔ اے پی اردو اکیڈیمی کے ایگزیکٹیو صدر رہے۔ وہ انجمن ترقی اردو  اے پی کے شریک معتمد اردو ہال اور ادبی ٹرسٹ کے مینجنگ ٹرسٹی ہیں۔ وہ مختلف اداروں کی کمیٹیوں میں شامل رہے جیسے ممتاز کالج، اردو آرٹس کالج، علاء الدین اور نظامس ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ بہادر خاں ایجوکیشنل فنڈ اور نیشنل ہائی اسکول حیدر آباد۔ روزنامہ سیاست کے آغاز سے آج تک چند اہم کالموں کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں۔

’’روزنامہ سیاست‘‘ کے آغاز سے ہی یعنی 15 اگست 1949ء سے ہی ’’فکر و نظر‘‘ کا اہم کالم دیا جاتا رہا۔ ’’شیشہ و تیشہ‘‘ مزاحیہ کالم بھی ابتداء ہی سے دیا جاتا رہا جس کا سلسلہ آج تک بھی جا رہی ہے۔ روزنامے سیاست کے مستقل کالم۔ ’’فکر و نظر‘‘ کے لئے تحریریں فی الحال یہاں برسر خدمت معاون مدیر محمد جسیم الدین نظامی کی ذمہ داری ہے ۲۲؂۔ ’’فکر و نظر‘‘ کے لئے موضوع اور عنوان کا انتخاب موجودہ حالات، واقعات اور شخصیات کے انتخاب کے ذریعے کیا جاتا ہے جو کہ ایک معلوماتی کالم ہے۔

فکر و نظر اخبار کے ادارتی صفحے ’’صفحے 3‘‘ پر اداریے کے نیچے شائع ہوتا ہے۔ فکر و نظر کے ساتھ صفحے تین پر ہی سیدھی جانب ’’ہماری ڈاک‘‘ کے عنوان سے مراسلات شائع کئے جاتے ہیں جس کی ذمہ داری آج کل معاون مدیران محمد خواجہ مخدوم محی الدین، صدیق علی اور زین العابدین نبھا رہے ہیں۔

’’شیشہ و تیشہ‘‘ روزنامہ ’’سیاست‘‘ کا مقبول ترین طنزیہ و مزاحیہ مستقل کالم رہے۔ اس کے ابتدائی لکھنے والوں میں شاہد صدیقی، مجتبیٰ حسین اور راوی کے علاوہ جیلانی بانو نے بھی لکھا ہے۔

شیشہ و تیشہ ابتدائی دور سے آج تک بھی جا رہی ہے جو ہفتہ وار کالم ہے۔ اتوار کے دن شائع ہونے والے اس کالم کے آج ذمہ دار کمپیوٹر آپریٹر محمد حبیب الدین رفاعی ہیں جو کہ نہ صرف اس کے مواد کو کمپیوٹر پر تیار کرتے ہیں بلکہ عوام اور قارئین کی جانب سے روانہ کردہ تحریروں کے انتخاب اور رد کرنے کی ذمہ داری بھی ان ہی پر انتظامیہ نے عاید کر دی ہے۔ شیشہ و تیشہ میں لطائف، مزاحیہ غزلیں اور اس طرح کی تحریریں مختصر انداز میں شائع کی جاتی ہیں۔

روزنامہ سیاست حیدر آباد دکن کی صحافت کا ایک اہم اور مضبوط ستون تصور کیا جاتا ہے جس نے آغاز سے لے کر آج سائبر دور میں نہ صرف بدلتے وقت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کیا بلکہ اپنی شناخت اور پہلے مقام کو برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور اسی وجہ سے عابد علی خاں مرحوم کے بعد ان کے بیٹے زاہد علی خاں اور اب ان کے بیٹے عامر علی خاں کے ہاتھوں میں اس کی باک ڈور ہے۔ 3 نسلوں نے اس اخبار کو حیدر آباد دکن کی صحافت میں ایک اعلیٰ و ارفع مقام عطا کر رکھا ہے۔ آغاز سے لے کر آف سیٹ پرنٹنگ اور سائبر ٹکنالوجی کے استعمال سے آن لائین ایڈیشن اور ای پیپر اس کے 6د ہوں کے کامیاب سفر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ روزنامہ سیاست روزانہ 12 صفحات پر مشتمل اخبار ہوتا ہے جو کہ دیگر اخبارات کے برعکس روزانہ ہی خواتین، اطفال، نوجوانوں اور فلمی دنیا کے قارئین کے لئے خصوصی ایڈیشن جاری کرتا ہے۔ حالانکہ کچھ برس قبل یہ خصوصی ایڈیشن 8 صفحات پر مشتمل اور رنگین ٹیابلائیٹ کی شکل میں جاری ہوتا تھا لیکن اس خصوصی ایڈیشن کو اب اصل اخبار میں ہی ضم کر دیا گیا ہے۔ جمعہ کو خصوصی ایڈیشن ’’مذہبی اڈیشن، ہوتا ہے جو خالص اسلامی اور شرعی تعلیمات کا مظہر ہوتا ہے۔ نیز ہفتے کو ادبی ایڈیشن کی اشاعت ہوتی ہے۔ اصل اخبار کے ساتھ اس کا سیاست سنڈے ایڈیشن کافی مقبول ہے جو کہ 8 صفحات پر مشتمل ہوتا ہے جس کے 4 صفحات رنگین اور 4 صفحات ’’سیاہ و سفید‘‘ ہوتے ہیں۔ سنڈے ایڈیشن میں سیاسی، سماجی، اقتصادی، معاشی اور فلمی خبریں شائع ہوتے ہیں، ان کے علاوہ طنز و مزاج کا کالم بھی پابندی کے ساتھ شائع ہوتا ہے جس کے لکھنے والے اردو ادب کے نامور شخصیت پدم شری مجتبیٰ حسین ہیں۔ اس کالم کی اردو ادب میں اہمیت اور اس کے لکھنے والی شخصیت کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجتبیٰ حسین کی شخصیت پر تحقیق کرتے ہوئے کئی اسکالرس نے ایم فل اور تقریباً 4 اسکالرس نے مختلف جامعات سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر لی ہیں۔ سنڈے ایڈیشن میں مستقل لکھنے والوں میں پرافل بدوائی، سوم آنند، ایم ٹی خاں، ڈاکٹر مجید خاں، رشید الدین، نعیم وجاہت، کے این واصف اور خیر اللہ بیگ شامل ہیں۔ سنڈے ایڈیشن میں دوسرے صفحے پر مذہبی نوعیت کا ایک کالم بھی شائع ہوتا ہے جس میں فقہی سوالات و جوابات ہوتے ہیں۔ آخری صفحہ ’’فلمی صفحہ‘‘ ہوتا ہے جس کی نگراں کار عبدالسلام ہیں اور یہاں فلمی خبریں اور مواد مل جاتا ہے۔

خصوصی ایڈیشن کے علاوہ اصل اخبار کا سرسری جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ صفحے اول پر بین الاقوامی اہم خبریں صفحے آخر پر ریاستی اور شہر کی اہم خبریں مل جاتی ہیں۔ اسی طرح صفحے 2 ’’اپنا شہر‘‘ پر مقامی، تیسرے صفحے پر اداریہ، فکر و نظر اور ہماری ڈاک کے علاوہ قومی خبریں صفحے 4 ’’احوال عالم‘‘ پر بین الاقوامی اور مسلم دنیا کی خبریں دستیاب ہوتی ہیں۔ سجاوٹ کے اعتبار سے سیاست کا اسپورٹس کا صفحہ تمام اخبار پر بازی اور سبقت لے جاتا ہے چونکہ اس صفحے پر فوٹو شاپ اور کورل ڈرا کا اتنا بہترین استعمال ہوتا ہے لہذا اس کا تقابل دیگر اردو اخبارات سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس طرح کی تکنیک اور سجاوٹ میں حیدر آباد کے دیگر اردو اخبارات کافی پیچھے ہیں۔ سیاست کے ’’اسپورٹس صفحے‘‘ کے مطالعہ کے وقت بسا اوقات گمان ہوتا ہے کہ ہم اردو اخبار سیاست نہیں بلکہ انگریزی کا کوئی اخبار ٹائمس آف انڈیا، ہندوستان ٹائمس یا اس طرح کے کوئی بڑے اخبار کا مطالعہ کر رہے ہوں۔ مطبوعہ اخبار، کے علاوہ سیاست کا ای پیپر خود ہندوستان کی اردو صحافت کا پہلا ای پیپر ہے اور اس کا انداز انگریزی اخبار دکن کرانیکل کی طرز کا ہے۔ سیاست کے ای پیپر کی پہلی ونڈو پر پہنچتے ہی سیدھی جانب اخبار کے تمام صفحات ایک دوسرے کے نیچے صف باندھے نظر آتے ہیں جہاں ’’Page1 سے لے کر Page 12 ‘‘تک تمام صفحات کے علاوہ ان کے درمیان خصوصی شمارے بھی مل جاتے ہیں۔ اپنے دفتر میں سب سے پہلے کمپیوٹرس کے استعمال سے لے کر اردو صحافت کو پہلے ای پیپر کی ترقی یافتہ تحفہ دینے میں روزنامہ سیاست کو اولیت حاصل ہے۔

 

ملاپ

حیدر آباد سے ’’ملاپ‘‘ نومبر 1949ء میں جاری ہوا۔ 1951ء تک حیدر آباد کا ایڈیشن دہلی کے ’’ملاپ‘‘ کے مکمل اخبار کے ساتھ سہ روزہ ہوا کرتا۔ 1951ء میں ’’ملاپ‘‘ کی حیدر آباد سے باقاعدہ اشاعت شروع کی گئی۔ 1951ء سے قبل ٹائیٹل پر ذریعہ طیارہ‘‘ لکھا ہوتا۔ لیکن 1960ء تک بھی ادبی صفحہ کارٹون وغیرہ دہلی ایڈیشن کے دیئے جاتے۔ کارٹون کے ساتھ ایک طنزیہ نظم دی جاتی جو عموماً سیاسی موضوع پر ہوتی اور زیادہ تر اس شعری تخلیق کے تخلیق کار رام کرشن مضطرؔ ہوتے وہی ادبی گوشے کے مدیر بھی تھے ۲۳؂۔

ہر منگل کو ’’ملاپ‘‘ میں ایک خصوصی صفحہ ادب کا ہوتا جس میں معیاری تخلیقات شائع کی جاتیں۔ رام کرشن مضطرؔ جو گوشۂ ادب کے مدیر تھے صاحب طرز اور پر گو شاعر تھے۔ سلیس اور رواں اردو سے ان کی تخلیقات آراستہ ہوتیں۔ تقریباً ہر روز ہی ان کی شعری تخلیقات شائع ہوتیں جو اکثر سیاسی طنز کی شکل میں ہوتی تھیں۔

منگل کے ادبی صفحے میں ایک مستقل کالم ’’رنگ و نور‘‘ شعری تخلیقات کے لئے مختص تھا۔ ’’رنگ و نور‘‘ کے کالم کے اوپری حصے میں یہ نوٹ لکھا جاتا۔

’’رنگ و نور‘‘ میں ہر ہفتہ بلند پا یہ ادبی، سیاسی، تعمیری اور اصلاحی اشعار شائع کئے جاتے ہیں۔ شعراء حضرات اپنا معیاری کلام ’’شاعر مخصوص روزانہ ’’ملاپ‘‘ کناٹ پلیس نئی دہلی‘‘ کے پتے پر مرحمت فرمائیں۔ (مضطرؔ)۔‘‘

’’پیاز کے چھلکے‘‘ طنزو مزاح کا مستقل کالم تھا جو ہر روز فکر تو نسوی کا تحریر کردہ ملتا ہے۔ یہ ایک دن پہلے دہلی میں چھپتا ہے دوسرے دن حیدر آباد میں اس کی اشاعت رہتی تھی طنزیہ و مزاحیہ مضامین:

 

نوید دکن

جمعہ 26 فروری 1976ء کو عظیم عسکری کی ادارت میں ’’نوید دکن‘‘ جاری ہوا۔ 19 مئی 1975ء سے عظیم عسکری کے بجائے محبوب عالم خاں ایم اے مدیر اعلیٰ کا نام ملتا ہے۔ اس تعلق سے صفحہ اول پر 19 مئی 1976ء کو نمایاں خبر دی گئی کہ عظیم عسکری صاحب نے علالت کی وجہ سے وہ استعفیٰ دے دیا ۲۴؂۔

یہ روزنامہ خالص اسلامی نظریات کے تحت شائع کیا گیا۔ اس لئے اس میں تصاویر شائع نہیں کی گئیں اور نہ ہی با تصویر اشتہارات شائع ہوئے فلمی اشتہارات تو قطعی طور پر شائع نہیں ہوئے۔

اداریہ پر شعر ضرور دیا جاتا رہا۔ اداریوں میں اکثر ملی اور مسلم اقلیت کے مسائل کو ہی موضوع بنایا گیا۔

اداریئے کے ساتھ ہی ’’تلخ و شیریں‘‘ کا کالم جس میں طنزیہ و مزاحیہ اشعار کے علاوہ نثر میں بھی یہی عنصر غالب رہا اور اصلاح معاشرہ کو اولین اہمیت دی گئی اکبر الہ آبادی کے منتخب بارہ اشعار 5 مارچ 1976ء کو شائع ہوئے۔ ان میں پہلا شعر ؂

عشرتی گھر کی محبت (کذا) کا مزہ بھول گئے

کھا کے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گئے

اس کالم میں ادب اور ادیبوں پر بھی طنز ملتا ہے۔ ’’شاعروں کی قوم‘‘ جو 4 مارچ کی اشاعت کی زینت بنا اس میں شاعروں اور ادبی تحریکوں پر گہرا طنز ملتا ہے۔ ’’اشتراکیت‘‘ ’’صفائی‘‘ ’’شاعر‘‘ کے عنوانات سے 6 مارچ 76ء کو رشید احمد صدیقی کے مختصر مختصر طنزیئے شائع کئے گئے۔

ہر جمعہ کو ہفتہ واری ایڈیشن شائع کیا جاتا رہا۔ اس ایڈیشن میں ’’ادبی میگزین‘‘ کے عنوان سے ایک صفحہ شعر و ادب کے لئے مختص کیا گیا جس کو شروع ہی سے یوسف اعظمی صاحب نے ترتیب دیا۔ اس ’’ادبی میگزین‘‘ میں باضابطہ سرخی کے ساتھ یوسف اعظمی صاحب نے اداریئے بھی لکھے ہیں۔ اداریئے میں تخلیقات جو ’’ادبی میگزین‘‘ کی زینت بنیں ان کا فنی محاکمہ بھی کیا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کا تعارف بھی دیا گیا۔

 

منصف

روزنامہ منصف 3 مارچ 1977ء سے شائع ہونا شروع ہوا جو کہ ’’یوم رحمت اللعالمین‘‘ کا دن بھی تھا۔ جناب محمود انصاری کی ادارت میں جاری ہوا اور بعد ازاں اسے خان لطیف خان نے حاصل کرتے ہوئے اسے عصری سہولیات سے لیس کر دیا۔ 26 ڈسمبر 1997ء سے نئے منصف کی اشاعت کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں لیکن یکم جنوری 1998ء کو اسے دوبارہ منظر عام پر لایا گیا ۲۵؂۔

روزنامہ منصف آج حیدر آباد دکن کی صحافت کا ایک اہم اور بڑا اخبار مانا جاتا ہے جو کہ خان لطیف خان کی ادارت میں کے ایل کے بلڈنگ روبرو فتح میدان سے جاری ہوتا ہے۔ دور حاضر میں شائع ہونے والا یہ روزنامہ منصف مطبوعہ صحافت اور الکٹرانک صحافت میں حیدر آبادی صحافت کو ایک اہم مقام دلوانے میں اپنا کردار نبھا رہا ہے۔ 12 صفحات پر مشتمل اس اخبار کے صفحے اول اور آخر کی رنگین طباعت ہونے کے علاوہ دیگر چند صفحات بھی رنگین ہیں لیکن اس نے مالی استحکام کے باوجود اپنا ای پیپر جاری کرنے میں تاخیر کی لیکن اس کا آن لائین ایڈیشن شروع سے ہی ضرور مل جاتا ہے۔ منصف کا آن لائین ایڈیشن بھی راشٹریہ سہارا کے آن لائین ایڈیشن کی طرح ہے ۲۶؂۔

لیکن اس کا ایک اہم اور واضح فرق آن لائین ایڈیشن کے ذریعہ ای پیر پر رسائی کی سہولت ہے۔

منصف کے ای پیپر تک رسائی کے لئے لنک

"http: //www.munsifdaily.com/epaper/default.htm”

کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ ویب سائیٹ پر رسائی کے بعد سیدھی جانب قرآن/ حدیث کے نیچے تاریخ انگریزی حروف اور نمبرات میں مل جاتی ہے۔ نیز یہاں صفحہ اول، ریاستی، اضلاع، قومی، بین الاقوامی، ادارتی صفحہ، شہر کی خبریں، اسپورٹس/ بزنس کرناٹک، مہاراشٹرا اور صفحہ آخر کے مطالعے کی سہولیات دستیاب ہیں۔

ای پیپر کے پہلی ونڈو میں جہاں سیدھی جانب اصل اخبار کے مختلف صفحات موجود ہیں وہیں اس پہلی ونڈو کی دوسری جانب اس کے خصوصی شمارے (سپلیمنٹس) موجود ہیں جن میں مینار نور (جمعہ کو شائع ہونے والا مذہبی شمارہ)، گھر آنگن (چہار شنبہ کو شائع ہونے والا خواتین کے لئے خصوصی شمارہ)، نقوش، (اتوار کو شائع ہونے والا خصوصی شمارہ) گلدستہ (ہر پیر کو شائع ہونے والا خصوصی شمارہ جس کو بچوں کا شمارہ بھی کہا جا سکتا ہے)، آئنہ شہر (جمعرات کو شائع ہونے والے خصوصی شمارہ)، سائنس اینڈ ٹکنالوجی (منگل کے دن شائع ہونے والا شمارہ)، نئی منزلیں (ہفتے کے دن شائع ہوتا ہے جس میں کیریر اور اسپورٹس کے مضامین قابل ذکر ہیں) کے علاوہ شرعی مسائل کو بھی ایک خاص زمرے کے تحت فراہم کیا جا رہا ہے حالانکہ شرعی مسائل مطبوعہ اخبار کے جمعہ کے خصوصی شمارے مینار نور کا ہی ایک حصہ ہے۔ منصف کے تمام خصوصی شماروں میں جمعہ کا مذہبی سپلیمنٹ قارئین میں کافی مقبول ہے۔ اس دینی، مذہبی، و ثقافتی ایڈیشن کا صفحے اول، شمع فروزاں، کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے جو کہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی سرپرستی میں شائع ہوتا ہے۔ اس سپلیمنٹ میں شرعی مسائل کے علاوہ ’’میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟‘‘ کے عنوان کے تحت کسی نو مسلم کے اسلام قبول کرنے کے واقعات کی تفصیلی رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔

ای پیپر کی سب سے اہم سہولت ’’آرکائیوز‘‘ ہوتی ہے اور جب روزنامہ منصف کے ای پیپر پر دستیاب آرکائیوز کا تذکرہ کریں تو منصف بھی اپنے ساتھی اخبار روزنامہ سیاست کی تقلید کرتا نظر آتا ہے کیونکہ یہاں آرکیائیوز کے ذریعہ ’’آج کے اخبار‘‘ کے ساتھ گزشتہ 6 دنوں کے اخبارات کے مطالعے کی سہولیات موجود ہیں۔ منصف کے ای پیپر پر روزانہ شائع ہونے والے اصل اخبار اور ہفتہ واری خصوصی شماروں کے علاوہ مخصوص مواقع پر شائع ہونے والے خصوصی شماروں کی فہرست بھی دستیاب ہے جیسا کہ 23 مارچ 2010ء کے ای پیپر کی پہلی ونڈو پر ہفتہ واری ایڈیشنس کے نیچے عید الاضحی، میلاد النیؐ، الوداع ماہ رمضان، رمضان اسپیشل سپلیمنٹ، یوم عاشورہ اور شب قدر کے خصوصی شمارے بھی موجود ہیں ۲۷؂۔

روزنامہ منصف اور روزنامہ سیاست کو دکن کی صحافت کے ابتدائی 2 مینار قرار دیا جائے تو بیجا نہ ہو گا کیونکہ روزنامہ سیاست اور منصف کی اشاعت سائبر دور سے پہلے ہی ہو چکی تھی جس کے باوجود ان اخبارات نے سائبر ٹکنالوجی کے استعمالات کے ذریعہ نہ صرف نئے دور میں اپنے قدم مستحکم کر لئے بلکہ اردو صحافت کو ’’گلوبل ولیج‘‘ میں ایک مستقل مقام عطا کیا ہے۔

 

حوالہ جات

 

۱؂    مفتی اعجاز ارشد قاسمی من شاہِ جہانم    کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند ص 39

۲؂    ایضاً

۳؂    ایضاً ص 41

۴؂    سید ممتاز مہدی حیدر آباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات    پہلا ایڈیشن ص 23

۵؂    ایضاً ص 24

۶؂    ایضاً ص 25

۷؂    اختر حسین ایم اے، حیدر آباد کی اردو صحافت کے سو سال سیاسی اور سماجی آئینہ میں  روزنامہ سیاست مورخہ 15 اگست 1959

۸؂    ڈاکٹر محمد انور الدین، حیدر آباد دکن کے علمی و ادبی رسائل، حیدر آباد، 1997ء، ص 80، 82 اور 83

۹؂    ایضاً ص 82

۱۰؂   ایضاً ص 83

۱۱؂   سید ممتاز مہدی حیدر آباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات    پہلا ایڈیشن ص 36

۱۲؂   ایضاً

۱۳؂   ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال جنوبی ہند میں اردو صحافت حیدر آباد، ص 37

۱۴؂   سید ممتاز مہدی حیدر آباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات پہلا ایڈیشن ص 43

۱۵؂   دکن چارجرس اور چینائی سپرکنگس کی کامیابی رہنمائے دکن ص4، مورخہ 20 مارچ، 2010ء

۱۶؂   حیدر آباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات سید ممتاز مہدی ص 44 پہلا ایڈیشن

۱۷؂   حیدر آباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات سید ممتاز مہدی ص 134 پہلا ایڈیشن

۱۸؂   حیدر آباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات   سید ممتاز مہدی ص 135 پہلا ایڈیشن

۱۹؂   قاضی عبدالغفار صاحب کے انتقال پر روزنامہ ’’پیام‘‘ کا اداریہ مورخہ 19 مارچ 1956      بحوالہ سید ممتاز مہدی ’’حیدر آباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات، پہلا ایڈیشن، ص 136

۲۰؂   سید ممتاز مہدی حیدر آباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات،  پہلا ایڈیشن، ص 161

۲۱؂   ایضاً ص 179

۲۲؂   مصاحبہ از محمد جسیم الدین نظامی، معاون مدیر روزنامہ سیاست حیدر آباد

۲۳؂   سید ممتاز مہدی حیدر آباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات، پہلا ایڈیشن، ص 323

۲۴؂   ایضاً ص 335

۲۵؂   مصاحبہ از رحیم حیدر سینئر سب ایڈیٹر روزنامہ منصف حیدر آباد

۲۶؂   منصف کا آن لائین ایڈیشن www.munsifdaily.com

۲۷؂   http: //www.munsifdaily.com/epaper/default.htm

منصف ای پیپر، مورخہ 23 مارچ، حیدر آباد

 

 

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل