FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

حسنِ خیال

 

 

شبیر ناقدؔ

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

نہ ہو فکر انگیز کچھ بات جس میں

وہ فن کیا ہے ناقدؔ وہ کیا شاعری ہے؟

(شبیر ناقِدؔ)

معرفت پروفیسر ظہور احمد فاتح، نزد تعمیرِ نو اکیڈمی

کالج روڈ، تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازیخان(پنجاب۔  پاکستان)

رابطہ فون:  0333-5066967 0303-9297131 0342-5237636

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

ان تمام

ادب پرور اور ادب دوست

احباب کے نام!

جو خود مشقِ سخن کرتے ہیں

یا  قدر دانِ سخن ہیں

 

 

 

 

حمد باری تعالیٰ

 

ہر دل پر ہے راج اسی کا

تخت اسی کا تاج اسی کا

ہر کوئی محتاج اسی کا

 

جس کو چاہے عزت بخشے

جس کو چاہے ذلت بخشے

غم بخشے یا راحت بخشے

 

رحمان و جبار وہی ہے

قہار و غفار وہی ہے

سب کا پالنہار وہی ہے

 

دنیا بھر کا آقا ہے وہ

والی ہے وہ مولا ہے وہ

ناقِدؔ سب کا داتا ہے وہ

 

 

 

 

نعتِ رسول مقبولﷺ

 

ہمارے نبی رحمتِ دو جہاں ہیں

جہاں میں وہی سرورِ سروراں ہیں

 

وہی ہیں امین خلوص و محبت

سدا دہر میں وہ مودت فشاں ہیں

 

مسخر ہوئی آپ سے دل کی دنیا

وہ تاریخ کے دلبرِ دلبراں  ہیں

 

انہوں نے شریعت سکھائی ہے ہم کو

وہ انصاف و احسان کے پاسباں ہیں

 

ہمیں خوف عقبیٰ کا ناقِدؔ نہیں ہے

کہ آقا ہمارے بہت مہرباں ہیں

 

 

غزلیں

 

 

 

 

 

 

مجھے ملک کے رہبروں سے عداوت

مری شاعری ساری حرفِ شکایت

 

بھلا کس کو حاصل ہو آرام و راحت؟

لٹیروں کے ہاتھوں میں آئی قیادت

 

ہو انساں کی چارہ گری دستگیری

یہی ہے حقیقت میں اصل عبادت

 

جلے ہیں سدا سوز میں ہم جہاں میں

ملی ہے ہمیں کب خوشی کی رفاقت

 

بھنور میں سفینہ جو لے جائے ناقِدؔ

مجھے ایسے ہر ناخدا سے ہے نفرت

 

 

 

 

 

خواب مِرا تعبیر پرائی

میں نے ایسی قسمت پائی

پیار کی راہ میں کرب ملا ہے

چاہت میں لکھی رسوائی

تجھ سے کیسے پیار نبھاؤں؟

ظالم نکلا تُو ہرجائی

اس کو عشق کا روگ لگا ہے

جس کی بھی ہے شامت آئی

اپنے بچے بھوک سے پاگل

جب سے آئی ہے مہنگائی

دن بھی کرب سے میرا گزرا

شب بھر مجھ کو نیند نہ آئی

مجھ سے منزل دور ہوئی ہے

قسمت ہے کس موڑ پہ لائی

اس کی بات پہ نالاں مت ہو

ناقِدؔ تو ہے اک سودائی

 

 

 

 

میں تنگ آ گیا ہوں بہت زندگی سے

شب و روز کی مستقل بے کسی سے

 

سدا کرب میں ہم نے جیون گزارا

فروزاں رہے آتش آگہی سے

 

بچا کچھ نہیں راہِ الفت میں اپنا

مگر باز آئے نہ ہم خود سری سے

 

نہیں وقت کا اور کوئی بھی مصرف

سروکار ہے بس ہمیں شاعری سے

 

کرم یہ کیا مجھ کو رسوا کیا ہے

ملا ہے مجھے کیا تری دوستی سے

 

مجھے اس لیے سب نے چھوڑا ہے ناقِدؔ

کہ نفرت انہیں تھی مری مفلسی سے

 

 

 

 

اسے زمانے سے کیا محبت؟

جہاں سے جس کو ملی ہو نفرت

 

بہادروں کو ہے اس سے نسبت

کہ موت ہے اک مقامِ عبرت

 

اسے قیامت کا خوف کیسا؟

حیات جس کی ہو خود قیامت

 

اسے اجل کی ہے آس ہر دم

نہ جس نے جیون میں پائی راحت

 

ہم اس پہ پھر بھی فدا ہیں ناقِدؔ

وہ بے وفا ہے وہ بے مروت

 

 

 

 

کس کو چین سکوں حاصل ہے؟

مرگ حقیقت میں منزل ہے

 

جس میں ہو سامانِ راحت

ایسی بھی کوئی محفل ہے؟

 

قحط خلوص کا ہے دنیا میں

بے حد غمگیں میرا دل ہے

 

کیسے مہر کی آس ہو اس سے؟

جور جفا پر وہ مائل ہے

 

کیسے حق کی بات ہو ناقِدؔ؟

ہر سو غوغائے باطل ہے

 

 

 

 

تو مرے پاس آ اے مری یاسمیں!

رہی دور مجھ سے بچھڑ کر کہیں

 

مجھے مَے کی ہرگز ضرورت نہیں

تری دید کا چاہیے انگبیں

 

مرے دل کی ٹھنڈک میرا نورِ چشم

مجھے بخش دے پیار اے ماہ جبیں!

 

میں کیسے بھلاؤں تجھے میری جاں؟

ہے دل میں تیرا چہرۂ دلنشیں

 

بھلا کیسے ناقِدؔ بھلائے تجھے

مری جاں تو ہے سب سے بڑھ کر حسیں

 

 

 

 

 

 

وفا کا نہ آیا جسے بھی قرینہ

ہے ڈوبا بھنور میں اسی کا سفینہ

 

سلیقہ مروت کا سیکھا ہے جس نے

رہا ہے وہ دنیا میں مثل نگینہ

 

کیا میں نے جس وقت اس کا تصور

تصور میں اس کے بنا دل مدینہ

 

قلم نے مجھے بخش دی ہے یہ رفعت

ملا مجھ کو وجدان کا اک خزینہ

 

تری یاد میں ہو سدا محو ناقِدؔ

بھرا ہو ترے نور سے اس کا سینہ

 

 

 

 

محبت کا مجھ کو نگر چاہیے

پھر اس میں سکوں کی سحر چاہیے

اٹھا دے جو دل میں محبت کی موج

غزل میں کچھ ایسا اثر چاہیے

جو بہرِ محبت فروزاں رہے

مجھے سب میں ایسا شرر چاہیے

وہ کیا بزم جو چند گھڑیاں چلے

مجھے انجمن رات بھر چاہیے

جڑیں جس کی گہری ہوں پاتال تک

مجھے پیار کا وہ شجر چاہیے

مودّت کے گل جس پہ مہکیں سدا

مجھے وہ حسیں رہ گزر چاہیے

نہیں اور ناقِدؔ کو خواہش کوئی

فقط مہر کی اک نظر چاہیے

 

 

 

 

نظر میری اب دھوکہ کھانے لگی ہے

مجھے ہر قدم پر بھلانے لگی ہے

 

ستمگر ہے تیری ادا جانِ جاناں

مجھے یہ بہت ہی ستانے لگی ہے

 

مِرا دل تری یاد میں منہمک ہے

ترے گیت دھڑکن سنانے لگی ہے

 

ترے ہجر نے بس کہیں کا نہ چھوڑا

مجھے عاشقی اب رُلانے لگی ہے

 

چلے آؤ ناقِدؔ پہ ہے وقتِ آخر

تمہیں پھر محبت بلانے لگی ہے

 

 

 

 

میں کیا کرنے آیا تھا کیا ہو گیا؟

فریضہ تھا اک جو قضا ہو گیا

 

اوامر کو سمجھا کیا میں نواہی

سو جو ناروا تھا، روا ہو گیا

 

حقیقی اگر تھا وہ ساتھی مرا

تو کیوں اس جگر سے جدا ہو گیا؟

 

کبھی مجرموں کو سزا نہ ملی

جو اک بے گنہ تھا، سزا ہو گیا

 

ہوا حق جو ناقِدؔ نہ اس کا ادا

مِرا دل بھی مجھ سے خفا ہو گیا

 

 

 

 

بڑے دکھ اٹھائے ہیں میں نے زمیں پر

بہت زخم آئے ہیں میری جبیں پر

 

مری آنکھ نے اشک برسائے چھم چھم

ہوا ظلم جب مفلسوں پہ کہیں پر

 

نہیں عشرتِ زندگی اب کے باقی

نچھاور ہوئی عمر تیری نہیں پر

 

نہیں مجھ کو تشکیک باتوں پہ تیری

کہ ہوئی ہے بنیادِ الفت یقیں پر

 

ترے دم سے ناقِدؔ کو حاصل ہے رفعت

ہے موقوف عظمت مکاں کی مکیں پر

 

 

 

 

تیرا قول اقرار بھی جھوٹا

من مندر کا پیار بھی جھوٹا

 

ایک فریب ہیں تیری ادائیں

پیار کا یہ اظہار بھی جھوٹا

 

تیرا ہر اک سخن تصنع

لگتا ہے انکار بھی جھوٹا

 

سچے سائیں کے جلوے ہیں

ورنہ یہ سنسار بھی جھوٹا

 

ناقِدؔ سچا عشق حقیقت

باقی ہر بیوپار بھی جھوٹا

 

 

 

 

اہلِ فن بھی عجیب ہوتے ہیں

یہ بلا کے خطیب ہوتے ہیں

کوئی غمگین ہے کوئی خوش ہے

اپنے اپنے نصیب ہوتے ہیں

تو جو آئے تو نغمہ سنج ہوں وہ

منتظر عندلیب ہوتے ہیں

دوسروں کا جو دھیان رکھتے ہیں

بندگانِ حبیب ہوتے ہیں

جن میں جتنی ہو دولتِ تقویٰ

اتنے رب کے قریب ہوتے ہیں

جن کا متضاد قول و فعل نہ ہو

وہ بہت ہی نجیب ہوتے ہیں

بُوجھ لیتے ہیں من کی بیماری

جو حقیقی طبیب ہوتے ہیں

جب خوشی کی تلاش میں نکلیں

غم کے سائے مہیب ہوتے ہیں

جن کو ناقِدؔ خیالِ فردا ہو

معتبر وہ ادیب ہوتے ہیں

 

 

 

محسن کبھی احسان کا چرچا نہیں کرتے

اپنے کسی محبوب کو رسوا نہیں کرتے

آلام و مصائب کی ہو برسات اگرچہ

ہم لوگ کبھی یار کو تنہا نہیں کرتے

ٹھہرا ہے یہ دستور یہاں اہلِ جفا کا

ڈھاتے ہیں ستم پھر کبھی پوچھا نہیں کرتے

اچھی ہے روایت یہ مریضانِ وفا کی

دلبر جو کریں قتل تو تڑپا نہیں کرتے

دشمن تو ہوا کرتا ہے ہر حال میں دشمن

ناداں نہ بنو آگ سے کھیلا نہیں کرتے

پانے کے لیے آپ کو کیا کیا نہیں کھویا

یوں اہلِ محبت سے تو روٹھا نہیں کرتے

اربابِ مروت کا رہا ہے یہی شیوہ

اپنوں کے لیے مسئلے پیدا نہیں کرتے

سمجھایا ہے میں نے دلِ ناداں کو یہ اکثر

ذی عقل صنم سنگ کے پوجا نہیں کرتے

ناقِدؔ کے پسِ مرگ تو تم جشن مناؤ

بے درد کبھی قتل پہ رویا نہیں کرتا

 

 

فاؔتح جو ہو مفتوح کبھی ہو نہیں سکتا

شاگردِ ادب اس کا سخن کھو نہیں سکتا

 

چاہے چلے آئیں کئی آلام مسلسل

ہو صبر کی توفیق جسے رو نہیں سکتا

 

ابنائے زمانہ کریں سازش کہ مخالف

مر سکتا ہوں دوستو مٹ تو نہیں سکتا

 

ہر عرصۂ پیکار میں دشمن کو جو دے مات

کر خوفزدہ کوئی بھی اس کو نہیں سکتا

 

دائم نہ رہا نام کہیں اس کا ادب میں

اولاد سے رکھ پیارا سخن جو نہیں سکتا

 

بے باک ہوا کرتا ہے جو شخص بھی ناقِدؔ

آرام تو کرتا ہے مگر سو نہیں سکتا

 

 

 

 

مرے من میں رقصیدہ فرحت رہی ہے

مجھے عام حاصل مسرت رہی ہے

مری زندگانی غموں سے تہی ہے

رفاقت میں ہر آن عشرت رہی ہے

کسی سے بھی مجھ کو نہیں ہے عداوت

مجھے ہر کسی سے محبت رہی ہے

نہیں میری قسمت میں تیرا تقرب

یہ قسمت کی مجھ پہ عنایت رہی ہے

بہت زندگانی میں کھائے ہیں دھوکے

مجھے دوستوں سے شکایت رہی ہے

ہمارا تعلق ہے صدق و صفا سے

مسلم ہماری صداقت رہی ہے

کسی کو نہ ناقِدؔ دیا ہم نے دھوکہ

نہ کو کسی سے ندامت رہی ہے

 

 

 

 

کلبۂ رنج ہے زندگانی مری

بیتی اس حال میں ہے جوانی مری

 

محوِ آہ و فغاں تم بھی ہو جاؤ گے

جب کسی سے سنو گے کہانی مری

 

سارے اہل، سخن محوِ حیرت ہوئے

جب طبیعت میں دیکھی روانی مری

 

چین میرے مقدر میں بالکل نہیں

دل کی حالت وہی ہے پرانی مری

 

یہ بھی ناقِدؔ محبت کا اقرار تھا

اس نے دل سے لگائی نشانی مری

 

 

 

 

 

 

ترے پیار کی مجھ کو حسرت رہی ہے

مقدر سے مجھ کو شکایت رہی ہے

ترے ہجر میں زندگی ہے گزاری

مرے دل میں پنہاں قیامت رہی ہے

ہے دھڑکن سے وابستہ احساس تیرا

سدا مجھ کو تیری ضرورت رہی ہے

کسی کا بھی دل میں نے توڑا نہیں ہے

مجھے ابن آدم سے الفت رہی ہے

جفا کار لوگوں سے کی ہیں وفائیں

انہیں مجھ سے ہر پل ندامت رہی ہے

تھا کردار ممتاز اپنا جہاں میں

مثالی ہماری مروت رہی ہے

دیا مجھ کو ہر موڑ پر جس نے دھوکہ

مجھے اپنے پیتم سے چاہت رہی ہے

مری جاں حقیقت ہے مانو نہ مانو

مسلم شرافت کی عظمت رہی ہے

زمانے میں اخلاص ناپید پایا

نہ دنیا میں باقی اخوت رہی ہے

سکوں میں نے پل بھر بھی پایا نہیں ہے

کہ ناقِدؔ جفا کار قسمت رہی ہے

 

 

 

 

ترے پیار میں مجھ کو عشرت ملی ہے

مقدر سے مجھ کو یہ دولت ملی ہے

 

تہی حزن سے ہے مری زندگانی

مجھے ہر قدم پر مسرت ملی ہے

 

قناعت سے محروم ہو ذات جس کی

یہاں ہر جگہ اس کو حسرت ملی ہے

 

نہیں حاسدوں سے ذرا بھی میں خائف

مجھے یوں فراواں مروت ملی ہے

 

وہی حشر میں سرخرو ٹھہرا ناقِدؔ

پیمبر کی جس کو شفاعت ملی ہے

 

 

 

 

جو اکثر دیر سے سوتے ہیں

وہ تنہائی میں روتے ہیں

 

مل جائے سرورِ دل جن کو

وہ اہلِ سعادت ہوتے ہیں

 

رہتا ہے ان کا نام سدا

جو بیج خلوص کے بوتے ہیں

 

جو وقت کی قدر نہیں کرتے

وہ اپنی منزل کھوتے ہیں

 

ہو جس کپڑے پر میل جمی

اسے ناقِدؔ سنگ پہ دھوتے ہیں

 

 

 

 

مجھے زندگی نے دیا کچھ نہیں ہے

حقیقت میں میں نے کیا کچھ نہیں ہے

 

ملی جب سے مجھ کو قناعت کی دولت

کسی سے بھی میں نے لیا کچھ نہیں ہے

 

پلاتے پلاتے مجھے تھک گئے وہ

کہا میں نے ساقی پیا کچھ نہیں ہے

 

بجا لاتا کچھ اور اعمالِ حسنہ

کرے کیا کہ بندہ جیا کچھ نہیں ہے

 

رہوں کس لیے زندگی سے میں شاکی

ابھی ہاتھ سے تو گیا کچھ نہیں ہے

 

گریباں مِرا اب بھی ہے چاک ناقِدؔ

کہ میں نے ابھی تک سیا کچھ نہیں ہے

 

 

 

 

 

 

ہم تو عشق کے مارے ہیں

غمگیں ہیں دکھیارے ہیں

عشق کی بازی میں جاناں

تم جیتے ہم ہارے ہیں

یار ہوں یا اغیار یہاں

سارے ہم کو پیارے ہیں

کیوں نفرت ہو لوگوں سے؟

سب آنکھوں کے تارے ہیں

کتنے ارماں من میں تھے

کچھ پائے کچھ ہارے ہیں

پندھ ہے اک مایوسی کا

جیون میں اندھیارے ہیں

ناقِدؔ کیا امیدِ وفا

غرض کے بندے سارے ہیں

 

 

 

 

نظر آیا گردش میں سارا زمانہ

انوکھا لگا ہے مجھے یہ فسانہ

 

سدا جو محبت کے ہیرے تراشے

مجھے چاہیے ایسا اک کارخانہ

 

برابر ہیں سب لوگ میری نظر میں

وہ بیگانہ ہو چاہے یا ہو یگانہ

 

کرم کی گزارش فقط اس لیے ہے

سنور جائے شاید یہ ویران خانہ

 

سدا تو نے ناقِدؔ جفا مجھ سے کی ہے

نہیں کارگر کوئی تیرا بہانہ

 

 

 

 

مرے مولا بے حد گناہگار ہوں میں

سزا دے مجھے کہ سزاوار ہوں میں

زمیں پر مری ذات اک بوجھ سا ہے

زمانے کی رسموں سے بیزار ہوں میں

مجھے اک سہارا ہے لا تقنطو کا

یہ مانا کہ بندہ خطا کار ہوں میں

مجھے ناز ہے اپنی عظمت پہ یا رب

تری خلق ہوں تیرا شاہکار ہوں میں

مجھے کوئی بخشے نہ بخشے محبت

مگر سب کی خاطر مدد گار ہوں میں

نہیں پائی میں نے محبت کی منزل

رہِ شوق کا ایسا بیمار ہوں میں

زمانہ مجھے ہے سمجھنے سے قاصر

وہ پوشیدہ سربستہ اسرار ہوں میں

مری ذات سے تم نہ رکھو عداوت

کہ انساں کا اک سچا غمخوار ہیں میں

تری مرضی ناقِدؔ کو چاہے نہ چاہے

حقیقت میں تیرا طلب گار ہوں میں

 

 

 

 

کرو تم مرے ساتھ الفت کی باتیں

مجھے لطف دیتی ہیں چاہت کی باتیں

گوارا تجھے ہوں نہ ہوں اے زمانے!

مسلم ہیں لیکن شرافت کی باتیں

ملاقات کرتے تھے جب لوگ پہلے

تو کرتے تھے اکثر عبادت کی باتیں

وہ جن کا تعلق ہے صدق و صفا سے

عموماً کریں گے صداقت کی باتیں

ترستا ہوں میں بھی کہ کوئی سنائے

وہ قصے کرم کے عنایت کی باتیں

مری جاں براہِ کرم تم نہ چھیڑو

مرے سامنے یہ سیاست کی باتیں

بھلا کون دیتا ہے ناقِدؔ توجہ؟

کرو جس قدر تم ہدایت کی باتیں

 

 

 

 

مرے ذہن میں ہیں گماں کچھ نرالے

ہوں جیسے کسی نے کیے جادو کالے

تفکر کی دنیا میں ہے حشر برپا

مجھے سوچ میری نہ اب مار ڈالے

رہی تیرگی میری ہستی کا مسکن

نہیں پائے قسمت میں میں نے اجالے

بصد سعی میرا مقدر نہ بدلا

ہیں مقسوم کو کچھ لگے ایسے تالے

براہ کی بدولت ہے جیون اجیرن

کوئی میرے من سے غموں کو نکالے

بھلا کیا ملے گی عقوبت جہاں میں

کسی کا اگر کوئی دل بھی چرا لے

مری ذات پر ہو گا احسان اس کا

مرے دل سے ناقِدؔ جو غم کو نکالے

 

 

 

 

ہر کروٹ سکرات ملی ہے

ہجر میں یہ سوغات ملی ہے

زخم ہمارے بھر نہیں پائے

عشق میں ایسی مات ملی ہے

ہر دن چین سکوں سے عاری

پُر وحشت ہر رات ملی ہے

ہر ساون بھادوں سے مجھ کو

دکھ ہی کی برسات ملی ہے

مجھ سے کیسے لوگ ہوں شاداں؟

ایسی طرفہ ذات ملی ہے

کیسے خوشیوں سے ہو ناتا؟

زخموں کی بہتات ملی ہے

مجھ کو اپنے یار سے ناقِدؔ

غمگیں کن ہر بات ملی ہے

 

 

 

 

اے خدا فکر مجھ سے مری چھین لے

اس کے بدلے مجھے بے خودی بخش دے

 

ہے پریشاں کیا بے بسی نے مجھے

بات میری بھلا کوئی کیسے سنے؟

 

اہلِ دنیا مجھے ہیں پریشاں کیے

جب یہ عالم ہو تو عمر کیسے کٹے؟

 

میں نے برسوں سے تھے ذہن میں جو بنے

میرے سپنے وہ مجھ سے نہ پورے ہوئے

 

کون ناقِدؔ یہاں بات میری سنے

کوئی تو ایسا ہو جو عمل کر سکے

 

 

 

 

زمانے میری تیری بڑی دھوم ہے

میں خوش ہوں کہ تو میرا مقسوم ہے

 

مِرے ہر سخن میں مرے دل ربا

ترے پیار کا غم ہی مرقوم ہے

 

عبث ہے جہاں سے وفا کی طلب

کہ دنیا میں اخلاص معدوم ہے

 

مرے پیار کو تم نہ رسوا کرو

کہ یہ بے غرض اور معصوم ہے

 

مری جان بنتے ہو انجان کیوں؟

تمہیں حالِ دل میرا معلوم ہے

 

کرو اپنے ناقِدؔ سے انصاف تم

ستایا ہوا ہے یہ مظلوم ہے

 

 

 

 

 

 

نہیں جب مقدر میں راحت کے لمحے

تو پھر کیسے آئیں مسرت کے لمحے

 

سلجھ جائیں گے زندگی کے مسائل

اگر ہوں عطا تیری الفت کے لمحے

 

ہے محروم خوشیوں سے ماضی ہمارا

نہیں اس میں تیری رفاقت کے لمحے

 

مانو نہ مانو جفا تم نے کی ہے

گراں چاہے گزریں شکایت کے لمحے

 

تمنا نہیں اور کوئی بھی ناقِدؔ

ملیں صرف تیری عنایت کے لمحے

 

 

 

 

غم کی صورت ملا الفتوں کا ثمر

خوب احساں کیا مجھ پہ اے چارہ گر!

 

آبجوئے الم میری ہستی بنی

جب سے پایا ترا ہجر اے ہم سفر!

 

درد و حرماں ملے گا مجھ پیار میں

کرب اتنا ملے گا نہ تھی یہ خبر

 

جس کے سائے میں شاداں و فرحاں رہا

گر گیا ٹوٹ کے پیار کا وہ شجر

 

زندگی کی طوالت کا بھی خوف ہے

جب سے ویراں ہوا میرے من کا نگر

 

ہر کہیں میں نے ڈھونڈا ہے ناقِدؔ اسے

نہ ملا پر کہیں میرا نورِ نظر

 

 

 

 

کوئی تو ایسا مقام آئے

مری وفا میرے کام آئے

 

مری سعادت یہ کم نہیں ہے

ترے فقیروں میں نام آئے

 

تری محبت کا ذکر ہو وہ

زباں پہ جو بھی کلام آئے

 

طلب کیا جب جفا نے تیری

تو پابجولاں غلام آئے

 

رہی ہے تم سے سدا توقع

کہ تیرا ناقِدؔ سلام آئے

 

 

 

 

 

 

جو الفتوں کے سفیر ٹھہرے

وہ آپ اپنی نظیر ٹھہرے

 

کسی سے ہو اب عناد کیسا؟

کہ ہم تو بندے فقیر ٹھہرے

 

نہ راس آئی انہیں اسیری

صنم کے جو بھی اسیر ٹھہرے

 

ضرورتوں کے اسیر بن کر

نظر میں اپنی حقیر ٹھہرے

 

ہو مفلسی سے انہیں گلہ کیوں؟

جو دل کے ناقِدؔ امیر ٹھہرے

 

 

 

 

ہے جہدِ پیہم حیات ٹھہری

کہ دن برابر ہے رات ٹھہری

 

سکون مطلق نہیں میسر

ہے کلبۂ رنج ذات ٹھہری

 

سدا ہزیمت میں بیتا جیون

مقدروں میں جو مات ٹھہری

 

ضرورتوں کے اسیر ہیں ہم

ہماری یہ کائنات ٹھہری

 

کرو نہ ناقِدؔ سوالِ قربت

ہے اس کے لب پہ یہ بات ٹھہری

 

 

 

 

نئی اک دنیا بسانے چلا ہوں

مقدر کو پھر آزمانے چلا ہوں

 

اگرچہ محبت نے ویراں کیا ہے

محبت کے پھر گیت گانے چلا ہوں

 

جسے کج روی کے سبب کھو دیا تھا

اسے بارِ دیگر میں پانے چلا ہوں

 

پرائی ہوئی داستاں پہلے غم کی

نیا ایک غم پھر سے لانے چلا ہوں

 

رلایا مجھے اہلِ دنیا نے ہر دم

میں اب اس جہاں کو ہنسانے چلا ہوں

 

بسر عمر کی دشتِ وحشت میں ناقِدؔ

مگر اب کے فردوس پانے چلا ہوں

 

 

 

 

عشق نے ایسا کام کیا ہے

بدنامی میں نام ہوا ہے

کام ہوئے سب الٹے اپنے

جب سے تم سے کام پڑا ہے

کر ڈالا ہے عشق نے رو گی

بے ڈھب جیون روگ لگا ہے

کیسے عشق چھپائیں اپنا؟

عشق کا چرچا عام ہوا ہے

کس کس غم کا رونا روئیں

اپنا ہر اک درد بڑا ہے

اپنی دولت دکھ سرمایا

یا پھر اپنی مہر و وفا ہے

کیا ہے اپنی ہستی ناقِدؔ

اپنا جیون اک بپتا ہے

 

 

 

 

مری ہم سفر میری تنہائی یارو

نصیبوں میں میرے ہے یہ آئی یارو

 

سدا روتے رہتے ہیں اطفال میرے

نہیں کم مصیبت سے مہنگائی یارو

 

میں یوسف تھا پھر بھی میں لوٹا گیا ہوں

مجھے لوٹنے والے ہیں بھائی یارو

 

یہ تا حشر ہمراہ میرے رہے گی

اگر ہو گئی میری رسوائی یارو

 

سپردِ قلم اس کو ناقِدؔ کرے گا

نظر آئے گی جو بھی سچائی یارو

 

 

 

 

 

 

سفر بڑھ گیا شام بھی ہو گئی ہے

کروں کیا مرے پاس تو بے بسی ہے

 

گزارا ہے جس کی رفاقت میں جیون

ہوا مجھ کو محسوس وہ اجنبی ہے

 

بھلا بات کا کیا اثر ہو کسی پہ؟

کہ ماحول میں ہر طرف بے حسی ہے

 

الاپے ہیں جس کے سدا گیت میں نے

مرے ساتھ پھر بھی اسے دشمنی ہے

 

نہ ہو فکر انگیز کچھ بات جس میں

وہ فن کیا ہے ناقِدؔ وہ کیا شاعری ہے؟

 

 

 

 

نظر نظر میں خمار تیرا

نفس نفس میں ہے پیار تیرا

 

نہیں خبر کیا ہوا ہے اس کو؟

امیرِ محفل تھا یار تیرا

 

تھی رونقِ بزم جس کے دم سے

کہاں گیا وہ قرار تیرا؟

 

قدم قدم لوں بلائیں تیری

کہ میں تو ہوں جاں نثار تیرا

 

اسی سے تو مانگ ہر ضرورت

وہی ہے پروردگار تیرا

 

جو عشق میں ہو گیا تھا ناقِدؔ

نہیں گیا وہ بخار تیرا

 

 

 

 

زندگی کے ستم کا نشانہ ہوں میں

ایک بکھرا ہوا سا فسانہ ہوں میں

 

جس کی رودادِ ہستی ہے رنج و الم

غور سے دیکھ لو وہ زمانہ ہوں میں

 

جس کی قسمت میں لکھ گئیں بجلیاں

ایسا جلتا ہوا آشیانہ ہوں میں

 

دشت و بن میں بھٹکنا ہے منزل مری

ایک لمبے سفر پہ روانہ ہوں میں

 

زندگی اپنی ناقِدؔ ہے مہر و وفا

حاملِ جوہرِ عاشقانہ ہوں میں

 

 

 

 

اپنے چہرے پر نظر کرتا ہوں میں

اپنی صورت دیکھ کر ڈرتا ہوں میں

 

یوں مصائب نے کیا بے کل مجھے

ڈھب سے جیتا ہوں نہ اب مرتا ہوں میں

 

زندگی سے دل لگی ہوتی نہیں

بے خودی میں جانے کیا کرتا ہوں میں؟

 

جس نے غم بخشے مجھے دکھ بھی دیے

اس جفا جو کا ہی دم بھرتا ہوں میں

 

نام لیتا ہوں سدا ناقِدؔ ترا

اپنے دل پر ہاتھ جب دھرتا ہوں میں

 

 

 

 

مرے سامنے اک جہاں اور ہے

نظر میں مری آسماں اور ہے

 

مِرا لہجہ سوزاں بھی فرحاں بھی ہے

مرے شعر کی کچھ زباں اور ہے

 

بہت سے مناظر ملیں گے تمہیں

غزل کا مری کچھ سماں اور ہے

 

خرد سے عبارت مری شاعری

مرے درد کی داستاں اور ہے

 

کبھی صرف تو میرا مطلوب تھا

مرے سامنے اب نشاں اور ہیں؟

 

روش میری ناقِدؔ ہے سب سے جدا

مِرا طرزِ آہ و فغاں اور ہے

 

 

 

 

جو طاری ہے ہر وقت مجھ پر گرانی

گزر جائے گی اس طرح زندگانی

 

عبارت مصائب سے ہے میری ہستی

پریشان و مضطر ہے میری کہانی

 

سدا اشک ریزی ہے میرا مقدر

مرے آنسوؤں میں ہے پیہم روانی

 

ترا وصل تقدیر میں ہی نہیں ہے

مرے پاس ہو تیری کوئی نشانی

 

ملا مجھ کو بچپن میں غم کا بڑھاپا

نہ آئی مرے پاس ناقِدؔ جوانی

 

 

 

 

مصیبت کشی میں سحر کرتا ہوں

یونہی زندگانی بسر کرتا ہوں

 

ملے دہر سے مجھ کو صدمے بہت

لہٰذا جہاں سے مفر کرتا ہوں

 

نہ ہو کوئی ماحول جس کے لیے

میں آباد ایسا نگر کرتا ہوں

 

وہ جس نے دیے مجھ کو دھوکے سدا

اسے اپنا کیوں چارہ گر کرتا ہوں؟

 

کسے پاس ناقِدؔ ہے جذبات کا؟

کیوں صرف خونِ جگر کرتا ہوں

 

 

 

 

میرے دل کا تو ہی اصول ہے

تجھے بھولنا میری بھول ہے

 

جو ہے بڑھ کے ماہ و نجوم سے

وہ تمہاری قدموں کی دھول ہے

 

میری جاں تجھے جو نہ پا سکوں

میری زندگی بھی فضول ہے

 

تو اگر نہ ہو میری بزم میں

میری انجمن بھی ملول ہے

 

یہ ہے مجھ پہ عالم بے بسی

کہ تری جفا کا نزول ہے

 

ترے دم سے ناقِدؔ بہار ہے

تو مرے چمن کا ہی پھول ہے

 

 

 

 

سدا غم کی رفاقت ہے

زمانے کی عنایت ہے

 

نہیں مونس نہیں ہمدم

اکیلی ہی مسافت ہے

 

پریشاں ہے مری ہستی

عجب کچھ میری قسمت ہے

 

عطا کیا ہے زمانے کی؟

حقارت ہے، کدورت ہے

 

نہیں دولت کوئی ناقِدؔ

محبت ہے، مروت ہے

 

 

 

 

سدا حسن کی فتنہ سامانیوں نے پریشاں کیا ہے

ہوں غلطاں غمِ حسن میں اور مِرا حال ابتر ہوا ہے

 

وفا مہ وشوں سے ہمیشہ ہے کی اور کھائے ہیں دھوکے

مجھے ہم نفس مہ جبینوں کی صحبت میں کب سکھ ملا ہے

 

مری ہر غزل ہے حقیقت کا مظہر بصیرت کا پیکر

سخن کی بدولت مری ذات پر فن کا عقدہ کھلا ہے

 

وفا کیش تھے اور وفاؤں کی کرتے رہے پاسداری

مگر اس جہاں کے ہر اک شخص نے ہم کو سمجھا برا ہے

 

علی الرغم غم کے یہی سوچتا ہوں اسی میں میں خوش ہوں

نہیں ہم نوا جن کا ناقِدؔ کوئی ان کا حامی خدا ہے

 

 

 

 

سناتا ہوں میں تم کو اپنا فسانہ

سفر زندگی کا کیا شاعرانہ

کسی شئے سے اعراض برتا نہیں ہے

رقم کر دیا میں نے سارا زمانہ

یہی اپنی رودادِ ہستی ہے اب تو

وہ بیگانہ ٹھہرا ہے جو تھا یگانہ

جو صیاد تھا صید بن بیٹھا میرا

کہ ظالم ہے میری نظر کا نشانہ

دلاسے نہ بہلا سکیں گے مجھے اب

مری جاں بناؤ نہ کوئی بہانہ

ہو ممکن اگر تو کسی رات آ جا

ہے تیرے لیے وَا مِرا آستانہ

لکھے گا کہاں کوئی اشعار ایسے

جو ناقِدؔ ہوا انجمن سے روانہ

 

 

 

 

جو روٹھیں گے ہم تو منا نہ سکو گے

سو روداد اپنی سنا نہ سکو گے

تمہیں غم زمانے میں اتنے ملیں گے

اٹھانا بھی چاہو اُٹھا نہ سکو گے

اگر تم سے ہم روٹھ کر چل دیے تو

بلانا بھی چاہو، بلا نہ سکو گے

حزیں اس قدر ہو گی بپتا تمہاری

کسی کو بھی ہرگز سنا نہ سکو گے

امر نقش ہیں ہم تمہارے جہاں کا

بھلانے سے سے ہرگز بھلا نہ سکو گے

یہ دنیا تمہیں اجنبی سی لگے گی

کسی کو تم اپنا بنا نہ سکو گے

یوں دنیا کی نظروں میں گر جاؤ گے تم

زمانے میں سر پھر اٹھا نہ سکو گے

تمہیں راہ میں اتنے کانٹے ملیں گے

کہ دامن بھی ناقِدؔ بچا نہ سکو گے

 

 

 

 

جو آپ آئے

بہار لائے

 

سو ہم بھی دل کو

سنوار پائے

 

سجن کی باتیں

کوئی سنائے

 

خوشی کا لمحہ

ادھار لائے

 

ہمارے دل کو

ملال کھائے

 

وہ با مروت

کو کیوں ستائے؟

 

بہت منایا

نہ مان پائے

 

یہ سوز میرا

بدن جلائے

 

کوئی تو ناقِدؔ

اسے بلائے

 

 

 

 

 

مجھے آزماؤ

نہ ہرگز بھلاؤ

کبھی روٹھ جاؤ

کبھی مان جاؤ

 

کرو پیار جاناں

نہ اتنا ستاؤ

 

بلاتا ہوں تم کو

مرے پاس آؤ

 

ہے سینے میں روشن

برہ کا الاؤ

 

کبھی آ کے خود ہی

گلے سے لگاؤ

 

کبھی جو نہ گل ہوں

دیے وہ جلاؤ

 

پریشاں ہو ناقِدؔ

اسے لے کے آؤ

 

 

 

 

سدا میں نے گائے خوشی کے ترانے

مسرت سے معمور میرے فسانے

 

میں ہر آزمائش پہ اترا ہوں پورا

لگے ہیں وہ جب سے مجھے آزمانے

 

میں صورت سے غمگیں فقط اس لیے تھا

پریشان پا کر لگے مسکرانے

 

مروت مشیت نے بخشی ہے مجھ کو

تواضع سے روشن ہیں مہمان خانے

 

میں روٹھا جو ناقِدؔ منانا تھا مشکل

کئی بار آئے مجھے وہ منانے

 

 

 

 

میں ناداں تھا کچھ بھی سمجھنے نہ پایا

مجھے زندگی کا مزہ بھی نہ آیا

 

تری دوستی کو بہت آزمایا

مجھے تو نے جاناں بہت ہے ستایا

 

مری جاں کرو مجھ پہ احسان ایسا

پلٹ دے مری زندگی کی جو کایا

 

وہ غیروں کی قربت میں ہر پل رہا ہے

وہ پھر بھی نہ آیا اگرچہ بلایا

 

سمجھتا نہیں ہے مجھے میرا ناقِدؔ

اسے میں نے ہر شعر اپنا سنایا

 

 

 

 

پڑا کس مصیبت سے اب مجھ کو پالا؟

مرے عشق نے ہے مجھے مار ڈالا

 

مجھے ناز تھا اپنی ندرت پہ بے حد

مگر نکلا محبوب مجھ سے نرالا

 

نہیں کوئی آسان دل تھامنا بھی

بڑی مشکلوں سے اسے ہے سنبھالا

 

مجھے جان سکتا تھا کوئی بھلا کیا؟

مری آگہی نے ہے مجھ کو اچھالا

 

بنائی تھی فردوس گر میری خاطر

تو پھر کیوں گیا مجھ کو ناقِدؔ نکالا؟

 

 

 

 

ہر دھڑکن پہ دل میرا ترا ہی نام لیتا ہے

زمانے سے غرض کیا ہو ترے دم سے ہی جینا ہے

 

ہمیں دنیا سے ڈرنا کیا ہمیں تو پیار کرنا ہے

مری جاں تم بھی مخلص ہو مِرا وعدہ بھی سچا ہے

 

بہت صدمے اٹھائے ہیں ، یہی اب میں نے سمجھا ہے

ہے رسوا بھی اُسے ہونا، یہاں جو پیار کرتا ہے

 

الم دے کر خوشی بخشی عجب تیرا کرشمہ ہے

تری چاہت کا دم بھرنا یہی اک شغل دل کا ہے

 

بہت دوری ہے اب ناقِدؔ بھلا کیسے ملن ہو گا

مجھے ایسے ہی لگتا ہے غمِ فرقت میں مرنا ہے

 

 

 

 

ذرا تو آؤ قریب میرے

تمہی ہو جاناں حبیب میرے

 

جدا بھی نہ تم ہونا مجھ سے

کہ تم بنے ہو نصیب میرے

 

مرے مسیحا اے میرے مونس

تمہی ہو دل کے حبیب میرے

 

مری اداسی کا راز یہ ہے

رہے مقدر مہیب میرے

 

جنہیں میں ناقِدؔ سمجھ نہ پایا

وہ چارہ گر ہیں عجیب میرے

 

 

 

 

تجھ کو چاہا تجھ کو پوجا

کرتا ہوں میں پریم کی سیوا

 

اور تو کوئی کام نہیں ہے

ہر دم ساجن تیری رکھشا

 

اک لمحے کو پاس تو ٹھہرو

میرے بلماں میرے مِتوا

 

تیرا ذکر زباں کی زینت

من میں کوئی نام نہ دوجا

 

بے شک نشہ تھا مستی تھی

پی کر ناقِدؔ میں نہ بہکا

 

 

 

 

تن من وارے

ہیں دکھیارے

 

میت پکاریں

گیت ہمارے

 

ہر پل روئیں

درد کے مارے

 

بھولیں کیا ہم؟

لطف تمہارے

 

تم ہو ناقِدؔ

بے حد پیارے

 

 

 

 

گرانی سی ہے اک شب و روز پہ طاری

ملی ہے مجھے مستقل بے قراری

 

قناعت سے رہنا ہے عادت ہماری

نہ نالہ لبوں پر نہ ہے آہ و زاری

 

ہمیں فکر نے یوں اذیت ہے بخشی

رہے بے خیالی میں بھی اشک جاری

 

ہے اک عالمِ کسمپرسی میں زندہ

نہیں کوئی جس کا وہ بڑھیا بچاری

 

ہمیں رنج ناقِدؔ ہیں صحت نے بخشے

لگی ہے مرض کی ہمیں ضرب کاری

 

 

 

 

من سودائی

دل ہرجائی

 

دل کے ہاتھوں

شامت آئی

 

ظالم کتنی؟

ہے تنہائی

 

قسمت میری

کیا دن لائی؟

 

مِیت سے ناقِدؔ

پیت نبھائی

 

 

 

 

رت جگوں کی ریاضت ہے دولت مری

ہے اسی سے عبارت محبت مری

 

اجنبی رستے مجھ کو مرغوب ہیں

ہے ہزیمت کا باعث یہ عادت مری

 

میں سرِ راہ چپ چاپ چلتا رہا

کام آتی رہی ہے قناعت مری

 

میں نے سیکھی بغاوت رواجوں سے ہے

ساتھ دیتی رہی میرا قسمت مری

 

مجھ پہ قدرت کے بے انت احسان ہیں

ہے پسندیدہ ناقِدؔ حکایت مری

 

 

 

 

کہانی سب سنائے جا

تو روئے جا، رُلائے جا

 

ابھی کچھ دھوپ نکلے گی

بدن اپنا جلائے جا

 

یہ رہ جائے گی دنیا میں

تو سیم و زر اڑائے جا

 

بچا کر تو نے کیا کرنا؟

جو ملتا ہے، سو، کھائے جا

 

یہ جیون چار دن کا ہے

خوشی کے گیت گائے جا

 

نہیں ہے جو ترا ناقِدؔ

اسے اپنا بنائے جا

 

 

 

 

ادھورے ہیں سب زندگی کے فسانے

لگے ہیں حسیں مجھ کو تیرے بہانے

 

ترا تیر سیدھا ہدف پر لگا ہے

مری جاں مسلّم ہیں تیرے نشانے

 

تجھے بھول جانا بھی بس میں نہیں ہے

لگے ہیں تجھے ڈھونڈنے میں زمانے

 

مری کارگر کوئی کاوش نہیں ہے

ذرا بات میری ستم گر نہ مانے

 

کوئی طور ناقِدؔ جفا کا نیا ہو

چلیں گے نہ انداز ہرگز پرانے

 

 

 

 

نہیں ٹھہرتا جسم میں میرے پانی

سو اشکوں نے پائی ہے پیہم روانی

 

سکون و مسرت سے عاری رہا ہوں

مری کلبۂ رنج ہے زندگانی

 

ملے گا کہیں بھی نہ انداز میرا

سنو گے جو اشعار میری زبانی

 

ترے ہجر کو میں نے دل میں بسایا

ہے سمجھاسے پیار کی اک نشانی

 

کسی میں بھی پڑھنے کا یارا نہیں ہے

کہ پُر درد ناقِدؔ ہے میری کہانی

 

 

 

 

ہر پل میں نے آفت پائی

قسمت میری کیا رنگ لائی؟

 

ہر در پر جا دستک دی ہے

کوئی بھی آواز نہ آئی

 

سناٹا ہی سناٹا ہے

ہر سو ہے خاموشی چھائی

 

غم سانسوں کے ساتھ جڑے ہیں

قسمت میں کیسی شہنائی؟

 

عیب جو ناقِدؔ اپنے دیکھے

عقل وہ رکھتی ہے بینائی

 

 

 

 

زندگی تلخ ہے

شاعری تلخ ہے

 

بے کلی تلخ ہے

بے بسی تلخ ہے

 

بے خودی تلخ ہے

آگہی تلخ ہے

 

بے وفا دور کی

روشنی تلخ ہے

 

ناقِدِؔ محترم

دوستی تلخ ہے

 

 

 

 

میں معرکے سارے سر کروں گا

ضرور فاتح کبھی بنوں گا

 

تو مجھ سے الفت پہ گر ہو مائل

میں بات ہر اک تری سنوں گا

 

مری محبت رہے گی دائم

اسی میں میں عمر بھر رہوں گا

 

نہ ہو سکے گا زمانہ حائل

جو چاہوں گا میں وہی بنوں گا

 

زباں پہ تیرا ہے ذکر ناقِدؔ

ہمیشہ تیرا ہی نام لوں گا

 

 

 

 

 

بادل بن کر اڑنا چاہوں

بارش میں بھی بھیگنا چاہوں

 

تجھ سے دور رہا ہوں بے حد

قرب ترا اب پانا چاہوں

 

میں نے نفرت وافر پائی

بیج خلوص کا بونا چاہوں

 

چہرے پر ہے کرب کی وحشت

آئینے سے ڈرنا چاہوں

 

کھیل کھلونوں کو ترسا تھا

اب اس عمر میں کھیلنا چاہوں

 

عمر گزاری جاگتے جاگتے

دیر گئے تک سونا چاہوں

 

جیون سے بیزار ہوا ہوں

اب کے جلدی مرنا چاہوں

 

مہر و وفا کو عام کرے جو

ایسا نغمہ گانا چاہوں

 

لگتا ہے کہ ہونٹ سلے ہیں

بات کوئی جب کرنا چاہوں

 

خوشیوں سے سرشار جو کر دے

گیت میں ایسا لکھنا چاہوں

 

درشن چاہیں آنکھیں ناقِدؔ

ہر دم تجھ کو دیکھنا چاہوں

 

 

 

 

مرے ساتھ ہر دم رہی ہے خرابی

طبیعت ودیعت ہوئی ہے عذابی

کئی نامے لکھے جو ابم ندارم

کرے سخت حیراں تری لا جوابی

کسی موڑ پر وہ ملا بھی نہیں ہے

اسے گرچہ ملنے گیا تھا صوابی

ہے کب تک حجابوں میں محجوب رہنا

مجھے چاہیے ہے فقط بے نقابی

فقط اس لیے تجھ پہ میں مر مٹا ہوں

ہیں رخسار تیرے گلابی گلابی

جنوں کا سمندر ہے ان میں سمایا

مرے شعر سمجھو نہ ہرگز کتابی

پڑھو غور سے یہ فسانے خرد کے

یہ فن میرا ناقِدؔ نہیں ہے نصابی

 

 

 

 

محشر سے کم نہیں ہے ساجن شباب تیرا

جگ میں نہیں ہے ممکن مطلق جواب تیرا

 

یہ جور یہ جفائیں کیسے بھلا سکوں گا

دل پر مرے رقم ہے دلبر حساب تیرا

 

صدق و صفا مروت سب کچھ ہے پاس میرے

تُو ہے وفا سے عاری نفرت نصاب تیرا

 

جس نے مجھے ستایا جس نے مجھے رلایا

حائل ہے درمیاں میں گوری حجاب تیرا

 

میں ہوں بہت پریشاں یادوں میں تیری غلطاں

آیا مگر نہ ناقِدؔ خط کا جواب تیرا

 

 

 

 

تھک جاتا ہوں سو جاتا ہوں

پھر سپنوں میں کھو جاتا ہوں

 

یاد ستاتی ہے جب تیری

پھر دیوانہ ہو جاتا ہوں

 

مجھ کو مندر سے کیا نسبت؟

میں مسجد میں جو جاتا ہوں

 

ساقی و صہبا سب واقف ہیں

میں مئے خانے تو جاتا ہوں

 

تم خوش تھے، بیٹھے تھے ناقِدؔ

ناخوش ہو تو لو جاتا ہوں

 

 

 

 

ہمیں زندگی نے ہے کب سکھ دکھایا

سکوں کا کوئی ایک لمحہ نہ پایا

 

زمانے کو ہم سے شکایت رہی ہے

لبوں پر مگر اپنے شکوہ نہ آیا

 

رہا مشکلوں سے سدا دستانہ

کبھی درد کا گیت ہم نے نہ گایا

 

نہیں کارِ آساں یہ خدمت ادب کی

مگر اپنے حصے میں یہ کام آیا

 

رہیں معترض جو بھی احباب ناقِدؔ

نہیں دل کبھی ہم نے ان کا دکھانا

 

 

 

 

تُو جان ہے ہماری

تُو آن ہے ہماری

 

ایمان تُو ہمارا

مسکان ہے ہماری

 

کیسے تمہیں بھلائیں؟

پہچان ہے ہماری

 

یہ جاں تری ادا پر

قربان ہے ہماری

 

ناقِدؔ ہمی ہیں تجھ سے

تُو شان ہے ہماری

 

 

 

 

ہمیں کھا گئیں حسن کی فتنہ سامانیاں بھی

غمِ عشق بھی اور جہاں کی پریشانیاں بھی

 

اگرچہ سدا سے فراست کو نسبت ہے ہم سے

رہیں ہم سے منسوب پھر کیوں ہیں نادانیاں بھی؟

 

بجا ہے تھا سب کچھ ہمارے ہی حسبِ توقع

ملیں کچھ مقدر سے سنگین حیرانیاں بھی

 

مشیت سے از راہِ انعام ہم کو بصیرت ملی ہے

مگر ساتھ رہتی ہیں اکثر پشیمانیاں بھی

 

نہ تخریب کا ان میں عنصر تھا ناقِدؔ

تھیں بے مثل اپنی محبت کی جولانیاں بھی

 

 

 

 

بہت خوبصورت غزل کہہ رہا ہوں

اگرچہ ہوا ذہن شل کہہ رہا ہوں

 

مری بات معقولیت کی ہے مظہر

مناسب کو میں برمحل کہہ رہا ہوں

 

ہے افکار میں فکرِ فردا بھی شامل

کہاں دوش ہے، آج کل کہہ رہا ہوں

 

صباحت کو نسبت ہے پاکیزگی سے

تجھے اک مہکتا کنول کہہ رہا ہوں

 

ابد سے بھی وابستگی ہو گی ناقِدؔ

اگرچہ میں صبحِ ازل کہہ رہا ہوں

 

 

 

 

نفاستوں کا خیال رکھا

نزاکتوں کا خیال رکھا

 

رہا مزاجوں کا پاس ہر دم

لطافتوں کا خیال رکھا

 

عمل نہ ہو رائے گان کوئی

عبادتوں کا خیال رکھا

 

ہمارے حدِ نظر ہے عقبیٰ

ریاضتوں کا خیال رکھا

 

کسی کو ناقِدؔ نہ ہو اذیت

محبتوں کا خیال رکھا

 

 

 

 

ہو مذکور کیا زلف کے پیچ و خم کا

فسانہ ہمارا ہے رنج و الم کا

 

مری جاں مرے پاس آنا اگر ہو

مرے گھر کا ہے فاصلہ دو قدم کا

 

مرے پاس افکار ہیں ہر طرح کے

میں شاعر نہیں ہوں فقط درد و غم کا

 

مجھے بخشنا اخروی کامیابی

تجھے واسطہ تیرے رحم و کرم کا

 

مری ہم سفر بے کلی ہی رہی ہے

مِرا رنج ناقِدؔ نہیں ایک دم کا

 

 

 

 

سدا مہ جبینوں کی قربت کو ترسے

رہی دور راحت ہمارے ہی گھر سے

 

بلانے کو جی بھی مچلتا رہا ہے

بلانے نہ پائے تمہارے ہی ڈر سے

 

دعا اپنے مالک سے کرتا ہوں ہر دم

کہ محفوظ رکھے مجھے تیرے شر سے

 

کبھی بھول کر میرا احوال پوچھو

جو گزرو کبھی تم مری رہ گزر سے

 

مرے نیر نینوں سے پیہم رواں ہیں

ملی ہے نظر جب سے تیری نظر سے

 

کبھی تو نے ناقِدؔ کو چاہت نہ بخشی

اگرچہ ہیں ساون بھی نینوں سے برسے

 

 

 

 

 

 

مجھے تنہا ہی رہنے دو

ستم سب مجھ کو سہنے دو

 

نہ روکو تم تکلم سے

جو کہتا ہوں وہ کہنے دو

 

ہے جگ بگڑا ہوا سارا

سو اُلٹی گنگا بہنے دو

 

مری دنیا ہے خوابوں کی

مجھے سپنوں میں رہنے دو

 

نہ دنیا کی سنو باتیں

کہے ناقِدؔ جو کہنے دو

 

 

 

 

گلہ کیا کریں حسن کی فتنہ سامانیوں کا؟

ملا ہے ہمیشہ صلہ ہم کو نادانیوں کا

 

جنہوں نے ستم پر ستم ہم پر ہر دم کیے ہیں

مداوا نہیں ان سے ممکن پریشانیوں کا

 

ہیں ظالم ستم گر سبھی یار احباب میرے

کسے دوش دوں میں بھلا گھر کی ویرانیوں کا

 

مری زندگی مشکلوں سے عبارت رہی ہے

نہیں ہے تصور مرے پاس آسانیوں کا

 

ہمیں تو محبت کبھی راس آئی نہ ناقِدؔ

غضب ہم نے دیکھا سدا اس کی جولانیوں کا

 

 

 

 

نہ ہوتا اگر کاش جگ سے یگانہ

نہ بنتا جہاں کے ستم کا نشانہ

 

سدا کرب میں زندگانی رہے گی

مِرا سوز بھی کیونکہ ہے جاودانہ

 

جہاں بھی مجھے بھول جائے گا اک دن

سو تم بھی کوئی ڈھونڈ لینا بہانہ

 

مجھے سکھ سکوں بخشنے سے ہے قاصر

اگرچہ مِرا معترف ہے زمانہ

 

مِرا رزق مجھ کو پریشاں کیے ہے

ہے دشوار ناقِدؔ مِرا آب و دانہ

 

 

 

 

لالچ کی دوستی ہے مطلب کا ہے زمانہ

بے کیف اس لیے ہے یہ زیست کا فسانہ

 

دل میں ہوس پرستی لب پر ہیں جھوٹے دعوے

فعلاً غرض پرستی گفتار عاشقانہ

 

کوئی تو ہو مسیحا کوئی تو دلربا ہو

انسان کوئی تو ہو کردار میں یگانہ

 

ترکش میں تیر سارے میرے لیے ہیں رکھے

کب تک بنا رہوں گا میں ظلم کا نشانہ؟

 

ناقِدؔ سے پیار کر لو یہ پیار کے ہے قابل

لگتا ہے یہ ازل سے ساقی ترا دیوانہ

 

 

 

 

مرے رت جگے ہیں مری اصل دولت

بہت ہی بڑی میری خاطر یہ نعمت

 

یہ پیغام تو ہر کسی کے لیے ہے

کسی سے نہ ہرگز رکھو تم کدورت

 

وفاؤں کے بدلے جفائیں ہیں کرتے

عجب مہ جبینوں کی ہے یہ روایت

 

برے کام سے تم کو مولا بچائے

سدا تم کو کرتا ہوں میں یہ نصیحت

 

میں ناقِدؔ بھلا کیسے فن چھوڑ دوں یہ؟

کہ قدرت نے مجھ کو کیا ہے ودیعت

 

 

 

 

نظمیں و قطعات

 

 

 

بے کلی

 

ہر آواز مجھے کھینچے ہے

ہر آواز عزیز ہے مجھ کو

میں اب کس کی جانب جاؤں؟

میں تو حسن کا متلاشی ہوں

ہوں تقسیم کئی حصوں میں

ہر حصہ ہے کرب میں میرا

ہر حصہ ہے بے کل میرا

 

وقت کا تقاضا

 

یہ حالات کا جبر ہے شاید

تم سے دور ہوں میں پیہم

ماضی کا ہر خواب بھلا دوں

خود کو تجھ سے غافل جانوں

پیار کو کھیل پرانا سمجھوں

 

 

 

تم تو مجھے بھلا کے خوشیوں میں کھو گئے

کیوں میری زندگی میں آنسو پرو گئے؟

خود تو بنا لیا ہے تم نے بہار مسکن

لیکن خزاں میں میرا جیون ڈبو گئے

 

نیا ساتھ میرے غضب ہو گیا

سماں زندگی کا عجب ہو گیا

زمانہ مجھے راس آیا نہیں ہے

سو ناقدؔ مرا پھر لقب ہو گیا

 

 

 

نوائے حسرت

تجھ سے پیار نبھا نہ پایا

میری بھی کچھ مجبوری تھی

تو بھی پیار نبھا نہ پایا

تیری بھی کچھ مجبوری تھی

راہ میں حائل رہا زمانہ

ہو نہ پایا سنگم اپنا

اپنی قسمت ہجر میں جلنا

بس میں نے نہیں تجھ کو بھلانا

 

 

تجربہ

 

تو بھی ہجر کی شب کو دیکھے

تجھ پر ہجر کا عالم گزرے

تو بھی کرب کی دولت پائے

پھر تجھ کو احساس یہ ہو گا

ہجر کے لمبے ظالم لمحے

ہوتے ہیں کتنے دکھیارے؟

پھر تو میرے درد کو جانے

یوں نہ رُلائے پاس بلائے

 

 

ترے ہجر کو میں نے یوں ہے نبھایا

تجھے آج تک میں بھلا بھی نہ پایا

بڑی کوششیں کی ہیں پانے کی تجھ کو

بہت اپنی قسمت کو ہے آزمایا

 

 

 

مقدر

 

جو الفتوں کے سفر پہ نکلے

نہ لوٹ پائے گھروں کو اپنے

کسی نے منزل کو پا لیا پھر

کوئی رہا گردِ راہ بن کر

کوئی رہا خوش، کوئی پریشاں

کہ اپنا اپنا ملا مقدر

 

 

 

 

جیون مجھ کو راس نہ آیا

ہر پل میں نے صدمہ پایا

تو نے گو غم بخشے ہر دم

پھر بھی تجھ سے پیار نبھایا

 

 

 

 

حرفِ شکایت

 

وہ بے چین ہے مجھ جو کھو کر

میں بے کل ہوں اس کو کھو کر

ایسے میں بے تاب ہیں دونوں

اس کو شکایت مجھ سے عبث ہے

مجھ کو شکایت اسی سے یہی ہے

کیوں اس نے یہ ظلم کیا ہے؟

میری اس نے یاد بھلا دی

لیکن میری دھڑکن بن کر

آج بھی وہ میرے دل میں

 

 

 

 

 

 

تجھ بن جیون کیسے گزرے؟

پل صدیوں میں جیسے گزرے

ناقِدؔ طاری ہے جانکاہی

ہجر کی شب اب کیسے گزرے؟

 

 

 

رنگِ خلوت

 

غیروں سے نہ شکوہ ہے نہ اپنوں سے گلہ ہے

جو درد ملا ہے سو مقدر کا لکھا ہے

خلوت کے عذابات بھی معلوم ہیں مجھ کو

خلوت کی رفاقت میں سکوں مجھ کو ملا ہے

تنہائی میں بھی پایا ہے یزدان کو ہمراہ

 

 

 

 

 

مری روح رہتی ہے بے کل سدا

لگی رہتی ہے دل میں ہل چل سدا

ملیں گے کبھی بسترِ خار بھی

نہیں رہتے قسمت میں مخمل سدا

 

 

 

معمہ

 

میں نے جو ہیں سپنے دیکھے

میں نے جتنے خواب بنے ہیں

کیا سب کے سب ہوں گے پورے؟

مجھ کو کچھ بھی سمجھ نہ آئے

کوئی ایسی بات بتائے

دل کو چین سکوں مل جائے

میری مشکل حل ہو جائے

 

 

 

وفاؤں کا بدلہ ستم تو نہیں ہے

کسی ضابطے میں رقم تو نہیں ہے

بھلا کیسے تُو آئے ناقِدؔ پہ غالب؟

مری جاں تُو اہلِ قلم تو نہیں ہے

 

 

 

انوکھا سوال

 

میری سوچیں تمہارے تصرف میں ہیں

میرے افکار تم سے ہی منسوب ہیں

کرب سے ہے نوازا مری سوچ کو

اس کے برعکس راحت مری چھین لی

اپنا یہ کرب واپس کرو جانِ جاں

تم یہ احسان کر دو مری ذات پر

مری راحت ذرا پھر مجھے بخش دو

 

 

 

 

مری شاعری ٹوٹے دل کی صدا

مجھے زندگی نے بھلا کیا دیا؟

نہ سپنا مِرا کوئی پورا ہوا

سدا میں یونہی بے بسی میں رہا

 

 

 

 

نا قابل فراموش

 

وہ ایک ہستی جسے بھلا نہیں سکتا

وہ ایک نغمہ جسے گنگنا نہیں سکتا

قریب تر ہے مرے حلقۂ تنفس سے

مرے نصیب کی تشکیل اسی کے دم سے ہے

ہے احترام بڑا اس کا من کے مندر میں

بھلانا چاہوں تو اس کو بھلا نہیں سکتا

کہ اس کی ذات سے اعراض میرے بس میں نہیں

 

 

 

کامیابی

 

ترے پیار میں ہم نے وارا ہے تن من

ہمیں یہ توقع ہے اے جانِ گلشن

کہ عقبیٰ میں پائیں گے ہم سرخروئی

 

 

 

پاگل سپنے

 

دیوانے کے خواب

سچے ہو سکتے ہیں

خوابوں کی تعبیریں

فردا کی تحریریں

اپنی سب تقصیریں

تیری سب تصویریں

من میں ہیں محفوظ

 

 

 

تو نے بھلا دیا ہے

ہم نے تو یاد رکھا

تیرے خیال سے ہی

دل کو ہے شاد رکھا

 

 

 

 

 

 

ناتمام

 

نہیں مجھ کو معلوم قسمت کی نسبت

نجانے ستم اس میں کیا کیا لکھے ہیں

مگر مجھ پہ ہے ایک یہ خوف طاری

کہ ماضی کے قصے ہوں یا حال کے ہوں

کوئی دور بھی میرے حق میں نہیں ہے

ہے ہر عہدِ ہستی سے مجھ کو شکایت

ادھورے مرے عہدِ ماضی کے قصے

مرے حال کے خواب بھی ہیں ادھورے

 

 

 

 

 

الجھن

 

زلفیں الجھیں چہرہ الجھا

سوچیں الجھیں عالم الجھا

میں خود الجھا سب کچھ الجھا

 

 

 

 

شب فرقت

 

تیری شب کی فرقت

ہے سوزِ مسلسل

اسی نے تو میری ہیں نیندیں چُرا لیں

اسی نے مری عشرتِ زندگی کو

مبدل کیا کرب کی کلفتوں سے

تری یاد میں شب کے لمحے گزارے

 

 

شاہکارِ حسن

 

بہن بھائیوں میں جدا طرز اس کا

خدا نے اسے ہے نرالا بنایا

مشیت نے سب حسن اس میں سمویا

ہوا اس لیے ہے جہاں اس کا شیدا

بہت خوبیاں ذات میں ہیں ہویدا

 

 

 

وجدانِ ادب

 

ہوئے ذوقِ تخلیق میں راز افشا

ملے ہیں نشاں گم شدہ منزلوں کے

سفر جیسے برسوں کا لمحوں میں طے ہو

ملی تازگی سوچ کے زاویوں کو

ادب کے توسط سے وجدان پایا

اسی کی رفاقت میں یزدان پایا

 

 

 

 

 

کٹاؤ

 

آج کا دن بھی بیت چلا ہے

آخر کل کا دن بیتے گا

ایسے سال کئی بیتیں گے

کٹ جائے گی عمر یہ اپنی

عمل کٹاؤ کا ہے جاری

 

کربِ پیہم

 

روز ہے ذہن میں ایک ہلچل بپا

ایک پل میں سکوں میں نے پایا نہیں

کربِ پیہم ہے یہ کارِ تخلیق بھی

میری حالت پہ حیران ہے یہ جہاں

میں تصور سکوں کا بھی رکھتا نہیں

ہے مری ذات پر ایک یہ بھی ستم

 

 

 

 

نعم البدل

 

جو تو نے نوازا مجھے رت جگوں سے

تو میں نے بھی شام و سحر میت میرے

ترے پیار اخلاص میں گیت لکھے

پذیرائی کی تیری میرے قلم نے

 

فسانۂ الفت

 

ترے پیار میں مَیں تو پاگل ہوا ہوں

ترے پیار نے چین چھینا ہے میرا

مرے روز و شب اس کشاکش میں گزرے

گنوائی ہیں میں نے بہت سی منازل

مجھے عشق و اخلاص کے اس سفر میں

نشاں گم شدہ منزلوں کے ملے ہیں

کئی موڑ آتے ہیں رہے اس سفر میں

فسانے محبت کے لکھے ہیں جن میں

فسانے ترے ہر فسانے میں لکھے

 

 

 

زندہ رہنا اب مِرا اک معجزے سے کم نہیں

ہیں ہزاروں دل میں پنہاں اور لب پہ غم نہیں

ساتھ میرا چھوڑ دے گا صبر میرا ایک دن

غم کروں اتنے گوارا مجھ میں اتنا دم نہیں

 

 

 

 

پر اعتماد

 

میں کہ ہوں جادۂ کہکشاں کا مسافر

ڈھونڈتا ہوں نشاں گم شدہ منزلوں کے

کیے راز افشا جنوں میں بہت سے

مجھے کامیابی ملی ہر قدم پر

کبھی میں جو رختِ سفر باندھتا ہوں

تو خود ہی مرے پاس آتی ہے منزل

 

 

 

 

 

میں دشتِ آزمائش میں ہی رہتا ہوں

زمانے کا ستم ہر ایک سہتا ہوں

عداوت جھوٹ سے اس درجہ مجھ کو ہے

سرِ مقتل بھی میں حق بات کہتا ہوں

 

 

 

 

فکرِ بقا

 

یہ ڈر ہے مجھے روند ڈالے نہ دنیا

اسی فکر کی رو میں اب تک رواں ہوں

اسی سوچ نے جہدِ پیہم ہے بخشی

اسی کی بدولت ہوں جو کچھ بھی ہوں میں

یہ احساس ٹھہرے گا میری بقا اب

 

 

 

 

الطافِ پیرِ مغاں

 

یہ پیرِ مغاں کی ہے مجھ پہ عنایت

مری تشنگی کو عطا سیرگی کی

جفائیں بھی لگتی ہیں اس کی وفائیں

اسی نے عطا کی ہے دولت جنوں کی

اسی کی بدولت ہی پایا ہے سب کچھ

 

 

 

 

ادھورے سپنے

 

رہ گئے میرے خواب ادھورے

سپنے میرے رہ گئے سپنے

آشائیں دم توڑ گئی ہیں

تنہائی میں چھوڑ گئی ہیں

مجھ سے ناتا توڑ گئی ہیں

 

 

 

 

امید

 

جو نغمے محبت کے لکھے ہیں میں نے

سدا یہ زمانے میں زندہ رہیں گے

محبت کی دولت بڑھاتے رہیں گے

جو ہیں سنگ دل موم ہوتے رہیں گے

 

 

 

 

مداراتِ انا

 

میں کسی اہلِ ثروت سے ڈرتا نہیں

آس رکھتا نہیں اہلِ زر سے کوئی

میری ساتھی ہے میری متاعِ انا

میں ہوں بے باک اس کی مدارات سے

میری دمساز ہے میری فکرِ جواں

جس کا حاصل ہے تحریکِ حسنِ عمل

 

 

رت جگے

 

یہ رت جگے بھی تری عطا ہیں

تری عقیدت کے یہ امیں ہیں

تری نوازش کے یہ نگیں ہیں

تری مودّت کی انگبیں ہیں

انہی کے دم سے سخن حزیں ہیں

 

 

 

عرفاں

 

مجھے تو نے یادوں کی سوغات بخشی

مِرا حسنِ تخیل تیری عطا ہے

بڑا کام اک میرے فن سے ہوا ہے

کہ حسنِ ازل میں نے افشا کیا ہے

الاپے ہیں تحسینِ فطرت کے نغمے

سنائی کہانی مکاں لامکاں کی

کیا مجھ کو ہاتف نے بھیدوں سے واقف

 

 

 

سخن سونے نہیں دیتا

سدا دن رات لکھتا ہوں

جہاں جب سارا سوتا ہے

میں اس لمحے بھی لکھتا ہوں

 

 

 

 

خواہشوں کا کرم

 

مری خواہشیں مجھ کو رکھتی ہیں بے کل

انہوں نے مجھے جہدِ پیہم عطا کی

منازل سے مجھ کو انہوں نے نوازا

انہیں کی بدولت حسیں میرا جیون

انہیں کی عطا نقدِ احساس بھی ہے

یہ سوزِ دروں بھی ہے ان کی نوازش

انہوں نے ہی بخشا ہے ذوقِ نگارش

 

 

 

 

 

ناراض

 

ہے فرقتوں کا اداس موسم

اداس رُت کی اداس گھڑیاں

خفا خفا ہر نفس لگے ہے

کہ روٹھا روٹھا سماں ہے سارا

 

 

 

 

کشمکش

 

کیسے سنوریں کام ادھورے؟

کیسے ہوں یہ سپنے پورے؟

ذہن میں کچھ تدبیر نہ آئے

مجھ کو کچھ بھی سمجھ نہ آئے

خواب اگر اک پورا ہو

سو سپنے تعبیریں پائیں

 

 

 

راز

 

نہ وہ انکار کرتی ہے

نہ وہ اقرار کرتی ہے

کوئی تو راز ہے دل میں

کہ پراسرار لگتی ہے

 

 

 

 

حزبِ قلم

 

مِرا قبیلہ قلم قبیلہ

مِرا قبیلہ عظیم سب سے

فکر و فن سے اسے ہے نسبت

ہے علم و دانش کا پاس اس کو

سدا کدورت نہ راس اس کو

محبتوں کا سدا امیں ہے

مثال اس کی کوئی نہیں ہے

ہے اس کے دم سے فروغِ حکمت

اسی کے باعث وفورِ الفت

 

 

 

 

کارِ واحد

 

ہے فکر نظم و نثر کی

نہ اور کام کاج ہے

یہی وظیفہ ہے مرا

یہی مِرا ریاض ہے

غم و الم کی داستاں

بنی مری بیاض ہے

مری حیات کا ثمر

یہی مِرا کلام ہے

 

 

 

 

حسینوں سے ہم کو ملی نفرتیں ہیں

محبت سے پائی فقط حسرتیں ہیں

سبق ہم نے سیکھا نہیں زندگی سے

ملی ہر قدم پر ہمیں عبرتیں ہیں

 

 

 

 

انتظارِ پیہم

 

ترا کل شب کا وعدہ تھا

مگر کتنی شبیں گزریں

ابھی تک تم نہیں آئے

کبھی کیا تم نہ آؤ گے؟

 

 

 

 

تگ و تاز

 

ابھی میں نے جھنڈے بہت گاڑنے ہیں

کئی معرکے اور ہونے ہیں سر بھی

مجھے ہونا ہے اور کچھ معتبر بھی

تبھی ہے مقدر میں جہدِ مسلسل

نہیں بیٹھنا میں نے آرام سے بھی

تگ و تاز میں میری منزل ہے پنہاں

 

 

جدید کالا پانی

 

میں اک ایسی جگہ پر ہوں

جہاں بجلی نہیں بالکل

نہ کوئی کال ہوتی ہے

نہ پیغامات ہوتے ہیں

کسی سے ربط کیسے ہو؟

کسی سے کیا تکلم ہو؟

 

 

 

اذنِ تکلم

 

کلام کرنے میں حرج کیا ہے؟

جہاں کا ہے ایسا خوف کیسا؟

زبان پر قفل جو لگا دے

تم ایسے ڈر سے نجات پاؤ

عطا ہو اذنِ کلام ہم کو

کئی مہینے گزر گئے ہیں

مگر تقرب ہوا نہ حاصل

سو گفتگو بھی نہ ہونے پائی

ہمیں عطا قربتیں کرو اب

ہمیں تکلم کی بھیک بخشو

 

 

 

 

خفگی

 

میں آپ سے ناراض ہوں

کہ آپ نے تو پیار کے

قابل مجھے سمجھا نہیں

لطف و کرم بخشا نہیں

چاہت مجھے بخشی نہیں

راحت مجھے بخشی نہیں

عشرت مجھے بخشی نہیں

قربت مجھے بخشی نہیں

غم بھی مری قسمت میں ہیں

سو دکھ تری فرقت میں ہیں

یہ پیار ہے کیسا ترا؟

جس نے مجھے رسوا کیا

جس نے مجھے تنہا کیا

جس نے مجھے بے کل کیا

 

 

 

 

 

معیارِ سخن

 

فن کا کمال یہ ہے

اظہار بھی ہو آساں

لفظوں میں جاذبیت بھی ہے بہت ضروری

بحریں رواں دواں ہوں

اسلوب بھی ہو نکھرا

طرزِ ادا نرالی

کچھ ایسی طرح میں نے

اپنے سخن میں ڈالی

 

 

 

 

 

جیون مایا

 

نہیں میں منفرد ایسا

میں اک سادہ سا بندہ ہوں

بنا ہے روگ سا جیون

ہو جیسے سوگ سا جیون

 

 

 

کایا پلٹ

 

دروں کی دنیا بدل گئی ہے

نہ جوش جذبہ نہ وہ جنوں ہے

محبتوں سے فرار مجھ کو

ملا ہے جس سے قرار مجھ کو

نہ عشوے غمزے ہیں اب قیامت

نہ دل پہ اب راج ہے کسی کا

مجھے ہے جس نے سکون بخشا

دروں کی دنیا پہ ہے تسلط فقط اسی کا

 

 

 

 

شغلِ شب و روز

 

لکھتے لکھتے تھک جاتا ہوں ، سو جاتا ہوں

پھر اٹھتا ہوں ، پھر لکھتا ہوں

شغل یہی دن رات ہے میرا

 

 

 

 

کربِ ناتمام

 

سکوں کا کوئی میں نے لمحہ نہ پایا

سدا کرب میں میں نے جیون گزارا

نہ تھیں میرے بس میں مسرت کی گھڑیاں

یونہی مضطرب اپنا بیتے گا جیون

رہے گی یونہی کرب میں اپنی ہستی

 

 

 

 

فراق لمحہ

 

تجھ بن لمحہ بیت گیا ہے

جیسے صدیاں بیت گئی ہیں

اک لمحے کا کرب بڑا ہے

تجھ کو کیا معلوم ستم گر؟

لمحہ وہ کتنا بھاری تھا؟

 

 

 

 

عید

 

ہماری عیدیں اداس گزریں

کہ عید تو نام ہے خوشی کا

حقیقی راحت ہے پیار تیرا

مری تو اس وقت عید ہو گی

ملے گا جب مجھ کو پیار تیری

 

 

 

 

 

موقع شناسی

 

میں چیک رسپانس کرتا ہوں

میں پھر ایڈوانس کرتا ہوں

نہیں کچھ اور کہتا میں

فقط رومانس کرتا ہوں

 

 

 

 

 

قطعہ

 

میں تیری یادوں میں کھو گیا ہوں

میں تیرا دیوانہ ہو گیا ہوں

 

اُگیں گے جن سے نہالِ عظمت

میں ایسے کچھ بیج بو گیا ہوں

 

تھی بے حسی عام یوں دلوں میں

جہاں سے تنگ آ کے سو گیا ہوں

 

رہیں گے میرے نقوش ناقِدؔ

یہاں سے ناکام گو گیا ہوں

 

 

 

خلش

 

میں برسوں سے اک جنگ سی لڑ رہا ہوں

مری جنگ ہے اپنی محرومیوں سے

نہ جانی مری قدر دنیا نے ہرگز

میں زنجیر پیہم ہلاتا ہوں گرچہ

کسی طور شنوائی ہوتی نہیں ہے

گراں سخت اب مجھ پہ جیون ہوا ہے

بہ ایں حال سب کچھ اجیرن ہوا ہے

 

 

 

مصرف

 

جو روٹھنا ہے تو روٹھ جاؤ

تمہیں منانے میں صرف کر دیں گے عمر اپنی

اسی بہانے جو بیت جائے حیات ساری

تو اس سے بڑھ کر حیات کا اور کیا ہو مصرف حسین و ارفع

 

 

 

 

کوئی ہو میت میرا

 

کچھ تو بتاؤ مجھ کو

خاموش ہو گئی ہو

ہونٹوں سے پھول تیرے

جھڑنے سے کیوں رہے ہیں؟

مجبوری کیسی تم کو؟

ہے گفتگو سے مانع

برسوں سے منتظر ہوں

تیرے سخن کا جاناں

تو بھی اگر نہ بولے

بولے گا کون مجھ سے؟

تنہا ہوں اس جہاں میں

کوئی ہو میت میرا

جو حوصلہ مجھے دے

ڈھارس مری بندھائے

 

 

 

 

سورکھشا

 

ہم سر بکف مجاہد

خیبر شکن سپاہی

راتوں کو جاگتے ہیں

دھرتی کی رکھشا خاطر

ہم دیس کے امیں ہیں

ہم پر ہے فرض اس کی

ہر وقت کی حفاظت

اس کے ہی دم سے ہم ہیں

یہ ہے بقا ہماری

مطلوب اس کو پیہم

ناقِدؔ وفا ہماری

 

 

 

 

 

یک جہتی

 

ابھی تک تُو نہیں سوئی

ابھی تک میں نہیں سویا

ابھی تک رات باقی ہے

ابھی تک ساتھ باقی ہے

ابھی تک بات باقی ہے

ہمارا دل بھی یک جا ہے

ہماری جاں بھی یکجا ہے

سو تنہا ہو نہیں سکتے

تمہیں ہم کھو نہیں سکتے

ہمارا ساتھ برسوں کا

رفاقت ہے یہ صدیوں کی

مسافت ہے یہ جنموں کی

 

 

 

 

سراپا معصومیت

 

معصوم تیری سوچیں

معصوم تیرے جذبے

معصوم تیرے ارماں

معصوم ہیں ادائیں

معصوم ہے تو خود بھی

 

 

 

 

 

انجانا خوف

 

سہمی سہمی سی رہتی ہو

ہونٹ لرزتے ہیں جب بولو

ڈر ڈر کے کرتی ہو باتیں

جانے تجھ کو خوف ہے کیسا؟

 

 

 

 

 

پیار سے پیار

 

تری یاد ہے مری ہم سفر

مرے ہم سفر مرے چارہ گر

 

ترا پیار مری حیات ہے

ترا عشق ہی مری ذات ہے

 

ترا حسن ہے مری زندگی

مِرا شوق تیری ہی دوستی

 

ترے دم سے میرا وجود ہے

یہی ہست ہے یہی بود ہے

 

ترے پیار سے ہی نکھار ہے

ترے پیار سے مجھے پیار ہے

 

 

 

 

سیلاب 2010ء

 

تباہی کا پیغام سیلاب لایا

کئی جانیں اس میں تلف ہو گئی ہیں

بہت سارے گھر اس میں غارت ہوئے ہیں

جو املاک تھیں نذر اس کی ہوئی ہیں

کئی بچے ماؤں سے بچھڑے ہیں اس میں

کئی باپ کھو بیٹھے ہیں اپنے بیٹے

کئی بیٹیاں بے سہارا ہوئی ہیں

تھی سونامی سے بھی یہ بڑھ کر تباہی

جو بے گھر ہوئے ان کو گھر بخش مولا

انہیں حوصلے کا ثمر بخش مولا

میسر انہیں دن ہوں امن و سکوں کے

 

 

 

 

کربِ بے خوابی

 

مجھے نیند آتی نہیں رات ساری

تجھے یاد کر کے سویا نہیں ہوں

تری یاد ہر لمحے آتی رہی ہے

مجھے روگ بن کر ستاتی رہی ہے

 

 

 

 

 

پریمی

 

پریم نگر کا باسی ہوں میں

پیار کی بھاشا بولنے والا

پل پل پیت کے نغمے گاؤں

یہ بھگوان کا خاص کرم ہے

 

 

 

 

 

حضورِ حسن

 

تجھے میں نے بخشے ہیں القاب کیا کیا

کبھی تجھ کو جانِ وفا میں نے لکھا

کبھی تجھ کو جانِ جہاں بھی کہا ہے

کبھی تجھ کو جانِ ادا بھی کہا ہے

وفادار بھی بے وفا بھی کہا ہے

کبھی تجھ کو اہلِ حیا بھی کہا ہے

کبھی تجھ کو جانِ غزل میں نے لکھا

کبھی تجھ کو دلکش کنول میں نے لکھا

کبھی تجھ کو لکھا ہے نازِ چمن بھی

کبھی لکھ دیا تجھ کو جانِ سخن بھی

یہ سب روپے تیرے بجا میرے ساجن

تو ہے دل بر و دل ربا میرے ساجن

 

 

 

صوابدید

 

مجھے بھلا کر قرار پاؤ

کہ مجھ سے مل کر سکون پاؤ

تمہاری مرضی پہ منحصر ہے

کہ جو بھی صورت پسند آئے

اسی کو تم اختیار کر لو

ہمیشہ اعراض مجھ سے برتو

کہ مجھ سے بے لوث پیار کر لو

 

 

 

عذر

 

سنو تاریک راہوں پر

قیامت خیز آندھی میں کوئی وعدہ نہیں نبھتا

تمہیں اپنا نہیں سکتے جدا بھی ہو نہیں سکتے

 

خود انحصاری

 

میں آیا ہوں مقسوم بھی ساتھ لے کر

مرے ساتھ دو ہاتھ سونے کے بھی ہیں

وہ بے سود ہے جو پلاننگ تھی پہلے

میں اپنی پلاننگ تو خود ہی کروں گا

کہ خود سوچنے کی ہے توفیق مجھ میں

 

 

 

 

انوکھا مسافر

 

میں ہوں اک بے جہت مسافر

میری کوئی سمت نہیں ہے

وقت کی قید سے باہر ہوں میں

میں جب آؤں میں جب جاؤں

میرا کوئی وقت نہیں ہے

 

 

 

تحمل

 

غموں کے بادل ہیں میرے سر پر

مہیب سائے

عجیب سائے

بہ ایں ہمہ مسکرا رہا ہوں

غموں کے بادل بُلا رہا ہوں

ہے مجھ پہ ہر دم دکھوں کا پہرا

میں حوصلوں کی چٹان ٹھہرا

 

 

 

تاخیرِ اشاعت

 

قلم ساتھ دیتا ہے میرا اگرچہ

مگر ساتھ دیتی نہیں جیب میرا

سبب یہ ہے دیواں تعطل سے ہوتے ہیں شائع

 

 

 

 

 

 

سوزِجنوں

 

جنوں بے چین رکھتا ہے

سدا بے تاب رکھتا ہے

مری صبحیں پریشاں ہیں

مری شامیں بھی بے کل ہیں

میں جیون سے گریزاں ہو

زمانے سے بھی نالاں ہوں

یہی حرفِ شکایت ہے

یہی میری حکایت ہے

 

 

 

 

 

حسن و عشق

 

تیرا شباب نشہ تیرا بدن صراحی

حسرت ہے عشق میرا، میری نظر شرابی

 

 

 

اقلیم

 

عشق تیرا میرا سرمایہ

تیری چاہت میری دولت

میری الفت میری پوجا

تیری یادیں میری دنیا

میرا سب کچھ تیری یادیں

میں ہوں تیرا پریم پجاری

اتنی سی اقلیم ہے میری

 

 

اعلیٰ ظرفی

 

عداوتوں کی بھیڑ میں

منافرت کے درمیاں میں اک خلوص کیش ہوں

وفا مِرا شعار ہے، یہی مِرا عیار ہے

٭٭٭

تشکر: ناشر ناصر ملک، اردو سخن جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل