FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

دیوان منصور آفاق

منصور آفاق

 

 

فہرست مضامین

ردیف ڑ

ساعتِ دیدۂ انکار کے سینے میں دراڑ

دیکھ پڑتی ہوئی دیوار کے سینے میں دراڑ

ایک ہی لفظ سے بھونچال نکل آیا ہے

پڑ گئی ہے کسی کہسار کے سینے میں دراڑ

کوئی شے ٹوٹ گئی ہے مرے اندر شاید

آ گئی ہے مرے پندار کے سینے میں دراڑ

چاٹتی جاتی ہے رستے کی طوالت کیا کیا

ایک بنتی ہوئی دلدار کے سینے میں دراڑ

کون ڈالے گا مرے شاہسوارو! تم میں

موت کی وادی ِ اسرار کے سینے میں دراڑ

ایک ہنستی ہوئی پھر چشمِ سیہ نے ڈالی

آ مری صحبتِ آزار کے سینے میں دراڑ

رو پڑا خود ہی لپٹ کر شبِ غم میں مجھ سے

تھی کہانی ترے کردار کے سینے میں دراڑ

 

روندنے والے پہاڑوں کو پلٹ آئے ہیں

دیکھ کر قافلہ سالار کے سینے میں دراڑ

صبح کی پہلی کرن ! تجھ پہ تباہی آئے

ڈال دی طالعِ  بیدار کے سینے میں دراڑ

کل شبِ ہجر میں طوفان کوئی آیا تھا

دیدۂ نم سے پڑی یار کے سینے میں دراڑ

غم کے ملبے سے نکلتی ہوئی پہلی کوپنل

دیکھ باغیچۂ مسمار کے سینے میں دراڑ

لفظ کی نوکِ سناں سے بھی کہاں ممکن ہے

وقت کے خانۂ زنگار کے سینے میں دراڑ

بس قفس سے یہ پرندہ ہے نکلنے والا

نہ بڑھا اپنے گرفتار کے سینے میں دراڑ

شام تک ڈال ہی لیتے ہیں اندھیرے منصور

صبح کے جلوۂ زرتار کے سینے میں دراڑ

٭٭٭

 

ردیف  ژ

اک راکھ کے بدن کو ہوا کی رپورتاژ

لکھ کر بکھیرنی ہے وفا کی رپورتاژ

میں کھڑکیوں سے صبح کی پہلی کرن کے ساتھ

پڑھتا ہوں روز باد صبا کی رپورتاژ

تشکیل کائنات کی رودادِ گم شدہ

ہو گی کہاں پہ لوحِ خدا کی رپورتاژ

شاید ہے مانگنے کی جبلت وجود میں

لمبی بہت ہے دستِ دعا کی رپورتاژ

تقسیم کیا کرو گے وسائل زمین کے

لکھتے رہو گے جرم و سزا کی رپورتاژ

لکھتے ہیں روز خونِ جگر کو نچوڑ کے

سورج کے ہاتھ شامِ فنا کی رپورتاژ

لاشوں بھری سرائے سے نکلے گی کب تلک

جانِ جہاں کے ناز و ادا کی رپورتاژ

پڑھتے بنام علم ہیں بچے سکول میں

بالِ ہما کے بختِ رسا کی رپورتاژ

شاید لبِ فرات پہ خوں سے لکھی گئی

اس زندگی کی نشو و نما کی رپورتاژ

برسوں سے نیکیوں کا فرشتہ رقم کرے

منصور صرف آہ و بکا کی رپورتاژ

٭٭٭

 

ردیف  س

روشنی کے خواب ، خوشبو کے دئیے تھے آس پاس

گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس

آ گئے ، اچھا کیا ، بھیگی ہوئی اِس شام میں

ایسی رت میں آپ ہی بس چاہیے تھے آس پاس

اک رندھی آواز تھی میرے گلے میں ہجر کی

درد کے روتے ہوئے کچھ ماہیے تھے آس پاس

ہونٹ میرے رات بھر، یہ سوچئے، ہونٹوں پہ تھے

ہاتھ میرے ، آپ اتنا جانئیے ، تھے آس پاس

جب بدن میں بادلوں کا شور تھا تم تھے کہاں

جب چمکتے بجلیوں کے زاویے تھے آس پاس

دیکھتی تھیں اسکی آنکھیں میرے چہرے کے نقوش

زندگی کے آخری جب ثانیے تھے آس پاس

اک فریبِ  ذات تھا پھیلا ہوا صدیوں کے بیچ

چاند جیسے ناموں والے کالئے تھے آس پاس

رات کی دیوار پر پینٹنگ لگی تھی چاند کی

اور کالے بادلوں کے حاشیے تھے آس پاس

نظم کی میت کوئی لٹکا رہا تھا پیڑ سے

اور پریشاں حال کچھ بالشتیے تھے آس پاس

اک سفر میں نے کیا تھا وادی ِ تاریخ میں

بین تھے چیخوں بھرے اور مرثیے تھے آس پاس

جب مرا سر کٹ رہا تھا کربلائے وقت میں

اہل کوفہ اپنی دستاریں لئے تھے آس پاس

ہفتہ بھرسے کوئی بھی ’اطلا‘ نہیں منصور کی

فون پر کچھ رابطے میں نے کئے تھے آس پاس

٭٭٭

 

سوچ کا ثانیہ دم بھر کو گیا یار کے پاس

پاؤں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس

ایک پتھر ہے کہ بس سرخ ہوا جاتا ہے

کوئی پہروں سے کھڑا ہے کسی دیوار کے پاس

گھنٹیاں شور مچاتی ہیں مرے کانوں میں

فون مردہ ہے مگر بسترِبیدار کے پاس

کس طرح برف بھری رات گزاری ہو گی

میں بھی موجود نہ تھا یارِ طرح دار کے پاس

عبرت آموز ہے دربارِ شب و روز کا تاج

طشتِ تاریخ میں سر رکھے ہیں دستارکے پاس

چشمِ لالہ پہ سیہ پٹیاں باندھیں منصور

سولیاں گاڑنے والے گل و گلزار کے پاس

٭٭٭

 

وہی رنگ رنگ کی اجرکیں ، وہی خوشبوئیں نہیں آس پاس

وہ جو بولتی تھی سرائیکی بھری اردوئیں نہیں آس پاس

کہیں خشک سالی وصال کی کہیں آبِ لمس کا قحط ہے

وہ جو پیاس میری بجھاتے تھے وہی اب کنوئیں نہیں آس پاس

مرے دھوپ روپ دیار کے سبھی برف پوش مکان ہیں

وہ جو چمنیوں سے نکلتے تھے کبھی، وہ دھوئیں نہیں آس پاس

یہاں گرم ہاتھ کو پھیر مت ، یہاں لمس لمس بکھیر مت

جو مچلتے تھے ترے قرب سے وہی اب روئیں نہیں آس پاس

سبھی شوخ و شنگ لباس ہیں کوئی لازوال بدن نہیں

جنہیں آنکھیں چومیں خیال میں جنہیں لب چھوئیں نہیں آس پاس

کوئی رات اجلی وصال کی کوئی گیت گاتی سی بالیاں

میرے سانس سے جو دہک اٹھیں وہی اب لویں نہیں آس پاس

٭٭٭

 

کس بھیانک زندگی کا رنج میرے آس پاس

اک سمندر میں بدلتی ہنج میرے آس پاس

کھوجتا پھرتا ہوں میں اسرار اپنی ذات کے

اور ان گلیوں میں داتا گنج میرے آس پاس

تھے مخالف بس مرے دونوں طرف کے لشکری

کیا عجب کھیلی گئی شطرنج میرے آس پاس

بہہ رہی تھی یاد کی سکرین پر دریا کے ساتھ

ناچتی گاتی ہوئی اک جنج میرے آس پاس

میرے ہونٹوں سے گرے جملے اٹھانے کیلئے

رہ رہے ہیں کتنے بدلہ سنج میرے آس پاس

آئینے کو دیکھ کر رویا تو از راہِ مذاق

وقت نے پھیلا دیا اسفنج میرے آس پاس

٭٭٭

 

میرے سوا کسی کو بھی میسج ہوا تو بس

کردار ہم میں تیسرا حارج ہوا تو بس

آسیب سرسرائیں سمندر کی چاپ میں

لہروں سے ہمکلام یہ کاٹج ہوا تو بس

پانی میں بہہ گئے ہیں غریبوں کے صبح و شام

پھر آسماں زمیں کا معالج ہوا تو بس

تھوڑا سا دم چراغ کی بس لو میں رہ گیا

اس مرتبہ بھی صبح کو فالج ہوا تو بس

میں لکھ رہا ہوں گم شدہ قبروں کی ڈائری

ابدال ایسا کشفِ مدارج ہوا تو بس

برسوں پھر اس کے بعد مجھے جاگنا پڑے

اک خواب میری نیند سے خارج ہوا تو بس

یہ روشنی ، یہ پھول ، یہ خوشبو ، یہ سات رنگ

جب بند لڑکیوں کا یہ کالج ہوا تو بس

میں جا رہا ہوں آپ کے کہنے پہ اس کے پاس

میرا خراب دوستو امیج ہوا تو بس

منصور گفتگو ہے یہ پہلی کسی کے ساتھ

تجھ سے غلط حروفِ مخارج ہوا تو بس

٭٭٭

 

ردیف ش

تحیر خیز موسم کی ہوئی وجدان پر بارش

نظر دیوار سے گزری ،  رکی ڈھلوان پر بارش

ترے پاگل کی باتیں اتفاقاتِ جہاں ہیں کیا

ہوئی ہے یوں ہی برسوں بعد ریگستان پر بارش

سراپا آگ !دم بھر کو مرے چہرے پہ نظریں رکھ

تری آنکھوں سے ہو گی تیرے آتش دان پر بارش

گرے تو پھول بن جائے ترے چہرے پہ مہتابی

پڑے تو آگ بن جائے ترے دامان پر بارش

کتابِ غم کو کتنی بار برساتوں میں رکھا ہے

نہیں پڑتی جنابِ میر کے دیوان پر بارش

وہ برساتیں پہن کر گاؤں میں پھرتی ہوئی لڑکی

مجھے یاد آتی ہے اس سے مہکتی دھان پر بارش

محبت جاگتی ہے جب تو پھر ہوتی ہے سپنوں کی

مقام یاد پر بارش ، شبِ پیمان پر بارش

عدم آباد سے آگے خدا کی آخری حد تک

رہی ہے زندگی کی قریۂ امکان پر بارش

گئے گزرے زمانے ڈھونڈتی بدلی کی آنکھوں سے

یونہی ہے اِس کھنڈر جیسے دلِ ویران پر بارش

کئی برسوں سے پانی کو ترستی تھی مری مٹی

کسی کا پاؤں پڑتے ہی ہوئی دلان پر بارش

بڑی مشکل سے بادل گھیر لایا تھا کہیں سے میں

اتر آئی ہے اب لیکن مرے نقصان پر بارش

 بہا کر لے گئی جو شہر کے کچے گھروندوں کو

نہیں ویسی نہیں ہے قصرِ عالی شان پر بارش

کہے ہے بادلو! یہ ڈوبتے سورج کی تنہائی

ذرا سی اہتمامِ شام کے سامان پر بارش

بدن کو ڈھانپ لیتی ہیں سنہری بھاپ کی لہریں

اثر انداز کیا ہو لمس کے طوفان پر بارش

جلایا کس گنہ گارہ کو معصوموں کی بستی نے

کہ اتری بال بکھرائے ہوئے شمشان پر بارش

کسی مشہور نٹ کا رقص تھا اونچی حویلی میں

ہوئی اچھی بھلی نوٹوں کی پاکستان پر بارش

مجھے مرجھاتے پھولوں کا ذرا سا دکھ ہوا منصور

مسلسل ہو رہی ہے کانچ کے گلدان پر بارش

٭٭٭

 

ردیف ص

فردوس سے آگے ہے وہ سرچشمۂ مخصوص

جاتا ہے مدنیہ سے بس اک رستۂ مخصوص

اپنی تو رسائی نہیں اس بامِ فلک تک

معلوم کیا جائے کوئی بندۂ مخصوص

اے شہرِ گداگر ترے والی کیلئے کیا

بنوانا ضروری ہے کوئی کاسۂ مخصوص

انکارِ مسلسل کی فصیلیں ہیں جہاں پر

تسخیر کروں گا میں وہی رشتۂ مخصوص

اک نرم سے ریشے کی کسی نس کے نگر میں

بس دیکھتا پھرتا ہوں ترا چہرۂ مخصوص

کہتے ہیں کہ آسیب وہاں رہنے لگے ہیں

ہوتا تھا کسی گھر میں مرا کمرۂ مخصوص

سنتے ہیں نکلتا ہے فقط دل کی گلی سے

منزل پہ پہنچ جاتا ہے جو جادۂ مخصوص

لوگوں سے ابوزر کے روابط ہیں خطرناک

صحرا میں لگایا گیا پھر خیمۂ مخصوص

ہنستے ہوئے پانی میں نیا زہر ملا کر

بھیجا ہے کسی دوست نے مشکیزۂ مخصوص

آواز مجھے دیتا ہے گرداب کے جیسا

منصور سمندر میں کوئی دیدۂ مخصوص

٭٭٭

 

ردیف ض

مٹی ذرا سی قریۂ لولاک کے عوض

دو گز زمین چاہئے افلاک کے عوض

جاگیر بھی حویلی بھی چاہت بھی جسم بھی

تم مانگتے ہو دامن ِ صد چاک کے عوض

اِس شہر میں تو ایک خریدار بھی نہیں

سورج کہاں فروخت کروں خاک کے عوض

وہ پیٹ برگزیدہ ہیں میری نگاہ میں

جو بیچتے ہیں عزتیں خوراک کے عوض

مثلِ غبار پھرتا ہوں آنکھوں میں جھانکتا

اپنے بدن کی اڑتی ہوئی راکھ کے عوض

دے سکتا ہوں تمام سمندر شراب کے

اک جوش سے نکلتے ہوئے کاک کے عوض

بھونچال آئے تو کوئی دو روٹیاں نہ دے

میلوں تلک پڑی ہوئی املاک کے عوض

غالب کا ہم پیالہ نہیں ہوں ، نہیں نہیں

جنت کہاں ملے خس و خاشاک کے عوض

ہر روز بھیجنا مجھے پڑتا ہے ایک خط

پچھلے برس کی آئی ہوئی ڈاک کے عوض

جاں مانگ لی ہے مجھ سے سرِاشتیاقِ لمس

بندِ قبا نے سینۂ بیباک کے عوض

کام آ گئی ہیں بزم میں غم کی نمائشیں

وعدہ ملا ہے دیدۂ نمناک کے عوض

آیا عجب ہے مرحلہ شوقِ شکار میں

نخچیر مانگتا ہے وہ فتراک کے عوض

 

نظارۂ جمال ملا ہے تمام تر

تصویر میں تنی ہوئی پوشاک کے عوض

منصور ایک  چہرۂ معشوق رہ گیا

پہنچا کہاں نہیں ہوں میں ادراک کے عوض

٭٭٭

 

ردیف ط

آنسوؤں کے عکس دیواروں پہ بکھرانا غلط

یہ دیئے بے فائدہ یہ آئینہ خانہ غلط

وہ پرندوں کے پروں سے نرم ، بادل سے لطیف

یہ چراغِ طور کے جلووں سے سنولانا غلط

جاگ پڑتے ہیں دریچے اور بھی کچھ چاپ سے

اس گلی میں رات کے پچھلے پہر جانا غلط

درد کے آتش فشاں تھم ، کانپتی ہیں دھڑکنیں

یہ مسلسل دل کے کہساروں کا پگھلانا غلط

کون واشنگٹن کو دے گا ایک شاعر کا پیام

قیدیوں کو بے وجہ پنجروں میں تڑپانا غلط

ان دنوں غم ہائے جاناں سے مجھے فرصت نہیں

اے غمِ دوراں ترا فی الحال افسانہ غلط

ایک دل اور ہر قدم پر لاکھ پیمانِ وفا

اپنے ماتھے کو ہر اک پتھرسے ٹکرانا غلط

ایک تجریدی تصور ہے یہ ساری کائنات

ایسے الجھے مسئلے بے کار۔ سلجھانا غلط

وقت کا صدیوں پرانا فلسفہ بالکل درست

یہ لب و عارض غلط ،یہ جام و پیمانہ غلط

کیا بگڑتا اوڑھ لیتا جو کسی تتلی کی شال

شاخ پر کھلنے سے پہلے پھول مرجھانا غلط

کچھ بھروسہ ہی نہیں کالے سمندر پر مجھے

چاند کا بہتی ہوئی کشتی میں کاشانہ غلط

زندگی کیا ہے۔ ٹریفک کا مسلسل اژدہام

اس سڑک پر سست رفتاری کا جرمانہ غلط

جس کے ہونے اور نہ ہونے کی کہانی ایک ہے

اُس طلسماتی فضا سے دل کو بہلانا غلط

منہ اندھیرے چن کے باغیچے سے کچھ نرگس کے پھول

یار بے پروا کے دروازے پہ دھر آنا غلط

پھر کسی بے فیض سے کر لی توقع فیض کی

پھر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ پہچانا غلط

زندگی جس کیلئے میں نے لگا دی داؤ پر

وہ تعلق واہمہ تھا ، وہ تھا یارانہ غلط

میں انالحق کہہ رہا ہوں اور خود منصور ہوں

مجھ سے اہل معرفت کو بات سمجھانا غلط

٭٭٭

 

ردیف ظ

ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ

راکھ ہوئے ارمان ، خدا حافظ

پیارے پاکستان! خدا حافظ

ایک بجا ہے رات کے چہرے پر

اچھا ، میری جان!  خدا حافظ

رختِ  سفر میں باندھ نہیں سکتا

تتلی اور گلدان! خدا حافظ

جوشِ قدح سے آنکھیں بھر لی ہیں

اشکوں کے طوفان! خدا حافظ

رات کا خالی شہر بلاتا ہے

دہکے آتش دان! خدا حافظ

میں کیا جانوں میں کس اور گیا

اے دل اے انجان خدا حافظ

مان نہیں سکتا میں ہجر کی فال

حافظ کے دیوان خدا حافظ

تیرا قصبہ میں ہوں چھوڑ چلا

ساونت پوش مکان خدا حافظ

کالی رات سے میں مانوس ہوا

سورج کے امکان خدا حافظ

رات شرابی ہوتی جاتی ہے

اے میرے وجدان خدا حافظ

 میں ہوں شہر سخن کا آوارہ

علم و قلم کی شان خدا حافظ

خود کو مان لیا پہچان لیا

اے چشمِ حیران خدا حافظ

دل منصور چراغِ طور ہوا

موسیٰ کے ارمان خدا حافظ

٭٭٭

 

ردیف ع

صبح مانگی تو ملا تاریکیوں کا اجتماع

اور ان میں بھی کڑکتی بجلیوں کا اجتماع

میں ، میانوالی ، نظر کی جھیل ، جاں کا ریگزار

یار کی تصویر میں تھا منظروں کا اجتماع

گفتگو میں گمشدہ اقدار کا دن بھر ملال

ذہن میں شب بھر برہنہ لڑکیوں کا اجتماع

جمع ہیں حکمت بھری دنیا کے سارے پیشہ ور

کابل و قندھار میں ہے قاتلوں کا اجتماع

یاد کی مرغابیاں ، بگلے خیال و خواب کے

پانیوں پر دور تک اڑتے پروں کا اجتماع

ایک کافر کی زباں بہکی ہے میرے شہر میں

ہر گلی ہر موڑ پر ہے پاگلوں کا اجتماع

بس تمہی سے تھاپ پر بجتے دھڑکتے ہال میں

روشنی کے رقص کرتے دائروں کا اجتماع

جانتا ہوں دھوپ سے میرے تعلق کے سبب

آسماں پر ہے ابھی تک بادلوں کا اجتماع

بارشیں برساتِ غم کی ، میری آنکھیں اور میں

کوچۂ جاں میں عجب ہے رحمتوں کا اجتماع

مجلسِ کرب و بلا کے آج زیر اہتمام

ہو رہا ہے شہر دل میں آنسوؤں کا اجتماع

شہر میں بیساکھیوں کے کارخانے کیلئے

رات بھر ہوتا رہا بالشتیوں کا اجتماع

ہاتھ کی الجھی لکیریں کس گلی تک آ گئیں

ذہن کے دیوار پر ہے زاویوں کا اجتماع

چل پہن مایا لگا جوڑا ، چمکتی کھڑیاں

دشمنوں کے شہر میں ہے دوستوں کا اجتماع

ایک پاگل ایک جاہل اک سخن نا آشنا

مانگتا ہے حرف میں خوش بختیوں کا اجتماع

ہیں کسی کے پاس گروی اپنی آنکھیں اپنے خواب

کیا کروں جو شہر میں ہے سورجوں کا اجتماع

رات کا رستہ ہے شاید پاؤں میں منصور پھر

کر رہا ہے پھر تعاقب جگنوؤں کا اجتماع

٭٭٭

 

ردیف غ

اتنی جمیل صبحِ شگفتن پہ ایسا داغ

ظلم عظیم ۔۔یار کے دامن پہ ایسا داغ

توبہ یہ وارداتِ فلسطین ، کیا کہوں

اس عہدِ با شعور کے جوبن پہ ایسا داغ

ابھرا ہے آئینہ سے جو تیرے سلوک پر

لگتا ہے چشم مہر میں پھاگن پہ ایسا داغ

ایسا تو کچھ نہیں مرے دل کے مکان میں

کیسے لگا ہے دستِ نقب زن  پہ ایسا داغ

حیرت ہے بارشوں کے مسلسل فروغ میں

رہ جائے آنسوؤں بھرے ساون پہ ایسا داغ

لگتا ہے انتظار کے چپکے ہیں خد و خال

دیکھا نہیں کبھی کسی چلمن پہ ایسا داغ

جس میں دھڑکتے لمس دکھائی دیں دور سے

اس نے بنا دیا میری گردن پہ ایسا داغ

ہونٹوں کے یہ نشان مٹا دو زبان سے

اچھا نہیں ہے دودھ کے برتن پہ ایسا داغ

جیسے پڑا ہوا ہے لہو میرا روڈ پر

کیسے لگا ہے رات کے مدفن پہ ایسا داغ

جس میں مجھے اترنا پڑے اپنی سطح سے

کیسے لگاؤں دوستو دشمن پہ ایسا داغ

یہ کیا پرو دیا ہے پرندے کو شاخ میں

زیتون کے سفید سلوگن پہ ایسا داغ

بعد از بہار دیکھا ہے میں نے بغور دل

پہلے نہ تھا صحیفۂ گلشن پہ ایسا داغ

 

اب تو تمام شہر ہے نیلا پڑا ہوا

پہلے تھا صرف چہرۂ سوسن پہ ایسا داغ

شاید ہے بددعا کسی مجذوب لمس کی

منصور میرے سینۂ روشن پہ ایسا داغ

٭٭٭

 

ردیف    ف

شبِ وصال پہ لعنت شبِ قرار پہ تف

ترے خیال پہ تھو تیرے انتظار پہ تف

وہ پاؤں سوگئے جو بے ارادہ اٹھتے تھے

طواف کوچۂ جاناں پہ ، کوئے یار پہ تف

تجھ ایسے پھول کی خواہش پہ بار ہا لعنت

بجائے خون کے رکھتاہوں نوکِ خار پہ تف

دلِ تباہ کو تجھ سے بڑی شکایت ہے

اے میرے حسنِ نظر ! تیرے اعتبار پہ تف

پہنچ سکا نہیں اس تک جو میرے زخم کا نور

چراغ خون پہ تھو سینۂ فگار پہ تف

ہیں برگِ خشک سی شکنیں خزاں بکف بستر

مرے مکان میں ٹھہری ہوئی بہار پہ تف

کسی فریب سے نکلا ہے جا مٹھائی بانٹ

 ترے ملالِ تری چشم اشکبار پہ تف

تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ مرگیا ہوں میں

اے میرے دوست ترے جیسے غمگسار پہ تف

یونہی بکھیرتا رہتا ہے دھول آنکھوں میں

ہوائے تیز کے اڑتے ہوئے غبار پہ تف

خود آپ چل کے مرے پاس آئے گا کعبہ

مقامِ فیض پہ بنتی ہوئی قطار پہ تف

حیات قیمتی ہے خواب کے دریچوں سے

رہِ صلیب پہ لعنت ، فراز دار پہ تف

صدا ہو صوتِ سرافیل تو مزہ بھی ہے

گلے کے بیچ میں اٹکی ہوئی پکار پہ تف

جسے خبر ہی نہیں ہے پڑوسی کیسے ہیں

نمازِ شام کی اُس عاقبت سنوار پہ تف

مری گلی میں اندھیرا ہے کتنے برسوں سے

امیرِ شہر! تیرے عہدِ اقتدار پہ تف

ترے سفید محل سے جو پے بہ پے ابھرے

ہزار بار انہی زلزلوں کی مار پہ تف

ترے لباس نے دنیا برہنہ تن کر دی

 ترے ضمیر پہ تھو،تیرے اختیار پہ تف

سنا ہے چادرِ زہرا کو بیچ آیا ہے

جناب شیخ کی دستارِِ بد قمار پہ تف

تُو ماں کی لاش سے اونچا دکھائی دیتا ہے

ترے مقام پہ لعنت ترے وقار پہ تف

مرے گھرانے کی سنت یہی غریبی ہے

ترے خزانے پہ تھو مالِ بے شمار پہ تف

یہی دعا ہے ترا سانپ پر قدم آئے

ہزار ہا ترے کردارِ داغ دار پہ تف

کسی بھی اسم سے یہ ٹوٹتا نہیں منصور

فسردگی کے سلگتے ہوئے حصار پہ تف

٭٭٭

 

ردیف   ق

قیام دار سہی آسمان پر آفاق

ملا ہوا ہے زمیں سے بھی یہ مگر آفاق

کسی نے آنا تھا لیکن بڑے مسائل تھے

بھرا ہوا تھا اجالوں سے رات بھر آفاق

کرن کی قوس افق در افق ملائے اسے

ہے آج اپنے ہی پہلو میں جلوہ گر آفاق

صراطِ سمت پہ رکھی ہوئی بصارت سے

تمام کیسے دکھائے مری نظر آفاق

بس اتنا ہے کہ بلندی پہ ہیں ذرا لیکن

ہمیشہ کھول کے رکھتا ہے اپنے در آفاق

نکالتا ہے مسلسل اسی کو دامن سے

ترے چراغ سے کرتا رہا سحر آفاق

یہ اور بات کہ سورج پہن کے رہتا ہے

مرے لئے میرا چھتنار سا شجر آفاق

٭٭٭

 

ابھی بچھڑنے کی ساعت نہیں ڈیئر آفاق

ابھی تو پب میں پڑی ہے بہت بیئر آفاق

بس اس لئے کہ اسے دیکھنے کی عادت ہے

جلاتا روز ہے سورج کا لائیٹر آفاق

بدن نے آگ ابھی لمس کی نہیں پکڑی

ابھی کچھ اور کسی کا مساج کر آفاق

خدا سے کیوں نہ تعلق خراب میرا ہو

ہے ایک چھتری کی صورت اِدھر اُدھر آفاق

اُدھر پتہ ہی نہیں کچھ بہشت کا منصور

اِدھر زمیں کے نظاروں سے بے خبر آفاق

٭٭٭

 

ردیف  ک

ہونٹوں بھری رکھ دی درِ انکارِ پہ دستک

دی میں نے زبردستی لبِ یار پہ دستک

گلشن میں پلٹ آئے ہیں یہ بات الگ ہے

دی پاؤں نے برسوں رہِ پُرخار پہ دستک

پھر رات کی رانی کا محل سامنے مہکے

پھر صبح کی چڑیوں بھری چہکار پہ دستک

کچھ ہاتھ کہیں اور سے آیا ہی نہیں ہے

دینا پڑی پھر عرشِ کرم بار پہ دستک

کاندھے پہ کوئی بھیدوں بھری پوٹلی رکھ کر

دیتا ہے پھر امکان ، ابد زار پہ دستک

دم بھر کو نئی صبح کا اعلانیہ سن کر

دی اہلِ قفس نے گل و گلزار پہ دستک

بازار سے گزرا تو چہکتی ہوئی رت کی

تصویر نے دی جیبِ خریدار پہ دستک

ممکن ہے ملاقات ہو آسیبِ بدن سے

اچھی طرح دے کمرۂ اسرار پہ دستک

ہے فرض یہی تجھ پہ ، یہی تیری عبادت

اے خاک نسب ! خانۂ سیار پہ دستک

درویش فقیری ہی کہیں بھول نہ جائے

ہے کون یہ دیتا ہے جو پندار پہ دستک

وہ دیکھئے دینے لگا پھر اپنے بدن سے

اک تازہ گنہ ، چشم گنہگار پہ دستک

اٹھ دیکھ کوئی درد نیا آیا ہوا ہے

وہ پھر ہوئی دروازۂ آزار پہ دستک

دشنام گلابوں کی طرح ہونٹوں پہ مہکیں

درشن کے لئے دے درِ دلدار پہ دستک

برسوں سے کھڑا شخص زمیں بوس ہوا ہے

یہ کیسی سمندر کی تھی کہسار پہ دستک

پانی مجھے مٹی کی خبر دینے لگے ہیں

اک سبز جزیرے کی ہے پتوار پہ دستک

افسوس ضروری ہے مرا بولنا دو لفظ

پھر وقت نے دی حجرۂ اظہار پہ دستک

مایوسی کے عالم میں محبت کا مسافر

در چھوڑ کے دینے لگا دیوار پہ دستک

دی جائے سلگتی ہوئی پُر شوق نظر سے

کچھ دیر تو اس کے لب و رخسار پہ دستک

اب اور گنی جاتی نہیں مجھ سے یہ قبریں

اب دینی ضروری ہے کسی غار پہ دستک

منصور بلایا ہے مجھے خواب میں اس نے

دی نیند نے پھر دیدۂ بیدار پہ دستک

٭٭٭

 

ردیف  گ

شب زندہ دار خواب ، عشائے نماز لوگ

آئے نہیں دعائے تہجد کے بعض لوگ

کھلنے لگے تھے پھول گریباں کے چاک سے

لوٹ آئے دشتِ یاد سے ہم بے نیاز لوگ

دونوں کا ایک بیج ہے دونوں کی ایک شاخ

یونہی یہ خار و گل میں کریں امتیاز لوگ

کیسی عجیب شے ہیں یہ چہرے کے خال و خد

دل میں بسے ہوئے ہیں کئی بد لحاظ لوگ

پہلے پہل تھا میرا اجالا وجہِ نزاع

کرتے ہیں آفتاب پہ اب اعتراض لوگ

ہر شخص بانس باندھ کے پھرتا ہے پاؤں سے

نکلیں گھروں سے کس طرح قامت دراز لوگ

صبحوں کو ڈھانپتے پھریں خوفِ صلیب سے

کالک پرست عہد میں سورج نواز لوگ

پتھر نژاد شہر! غنیمت سمجھ ہمیں

ملتے کہاں ہیں ہم سے سراپا گداز لوگ

منصور اب کہاں ہیں ہم ایسے ، زمین پر

غالب مثال آدمی ، احمد فراز لوگ

٭٭٭

 

ردیف ل

بڑی سست رفتاریوں سے بھلے چل

محبت کے ٹھہرے ہوئے سلسلے چل

وہاں گھر ہے دریا جہاں ختم ہو گا

چلے چل کنارے کنارے چلے چل

خدا جانے کب پھر ملاقات ہو گی

ٹھہر مجھ سے جاتے ہوئے تو ملے چل

میں تیرے سہارے چلا جا رہا ہوں

ذرا اور ٹوٹے ہوئے حوصلے چل

نئے ساحلوں کے مسائل بڑے ہیں

تُو پچھلی زمیں کی دعا ساتھ لے چل

اکیلا نہ منصور رہ کیرواں میں

محبت کے چلنے لگے قافلے چل

٭٭٭

 

یہ تیرا خار بھی ہے محوِ خواب شاخِ  گل

ذرا سمیٹ بدن کے گلاب شاخِ  گل

مرے نصیب میں کانٹوں کی فصل آئی تھی

نہ مانگ مجھ سے گلوں کا حساب شاخِ  گل

مری بہار کے بارے نہ پوچھا کر مجھ سے

ہے جھوٹ بولنا مجھ پہ عذاب شاخِ  گل

کنارِ آب رواں ہمسفر زمانوں سے

خرامِ زندگی ، موجِ کتاب ، شاخِ  گل

ورق ورق پہ پڑی ہیں شعاعیں خوشبو کی

کتاب زیست کا ہے انتساب شاخِ  گل

خزاں کی شام ملی ہے مجھے تو گلشن میں

کہاں پہ آتا ہے تجھ پہ شباب شاخِ گل

تلاش میں ہیں ہوائیں بہار کی منصور

کہاں لہکتی ہے خانہ خراب شاخ گل

٭٭٭

 

ردیف  م

اب آسماں نژاد بلاؤں کا خوف ختم

بجلی کے ہیں چراغ ، ہواؤں کا خوف ختم

تلوؤں تلے لگا لئے سیارے وقت نے

ہر لمحہ سوچتے ہوئے پاؤں کا خوف ختم

 بادل بڑے گرجتے ہیں باراں بکف مگر

سینہ نہیں دھڑکتا، خداؤں کا خوف ختم

اک چشمۂ شعور پہ اپنی رگوں کے بیچ

ہم شیر مار آئے ہیں ، گاؤں کا خوف ختم

سورج تراش لائے ہیں صحنِ علوم سے

سہمی ہوئی سیاہ فضاؤں کا خوف ختم

ہم نے طلسم توڑ لیا ہے نصیب کا

جادو نگر کی زرد دعاؤں کا خوف ختم

اب شرم سار ہوتی نہیں ہے سنہری دھوپ

پلکوں پہ سرسراتی گھٹاؤں کا خوف ختم

دروازۂ وصال کے قبضے اکھڑ گئے

شامِ  فراق والی سزاؤں کا خوف ختم

کوہ ندا کے کھل گئے اسرار آنکھ پر

آسیبِ  آسماں کی صداؤں کا خوف ختم

اپنا لی اپنے عہد نے تہذیب جین کی

اکڑی ہوئی قدیم قباؤں کا خوف ختم

ہم رقص کائنات ہے منصور ذات سے

اندر کے بے کنار خلاؤں کا خوف ختم

٭٭٭

 

٭٭٭

 

تشکرؒ مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید