FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

دیوان منصور آفاق

منصور آفاق

 


ردیف الف

جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا

دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا

آ گرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر

اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا

ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیر تک

پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا

جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر

اک سفرزاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا

زندگی اک جوا خانہ ہے جسکی فٹ پاتھ پر اپنا دل

اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا

تم جسے چاند کا چاند کہتے ہو منصور آفاق وہ

ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا

٭٭٭

 

بدن کے قفل چٹختے تھے اسم ایسا تھا

نگار خانۂ جاں کا طلسم ایسا تھا

دہکتے ہونٹ اسے چھونے کو مچلتے تھے

سیہ گلابوں کی جیسی ہے قسم ایسا تھا

لبوں پہ جیسے دراڑیں ، کٹے پھٹے رخسار

کسی فراق کے پانی کا رِسم ایسا تھا

کسی کا پاؤں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ

تمام شہر تھا ساکت ، طلسم ایسا تھا

رکا تھا وقت کا ناقوس بھی تحیر سے

بریدِ چاک سے مٹی کا بسم ایسا تھا

یہ اور بات کہ شیشہ تھا درمیاں منصور

چراغ ہوتا ہے جیسے وہ جسم ایسا تھا

٭٭٭

 

اسے بھی ربطِ رہائش تمام کرنا تھا

مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا

نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے

مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کر نا تھا

بس ایک لنچ ہی ممکن تھا جلدی جلدی میں

اسے بھی جانا تھا میں نے بھی کام کرنا تھا

چراغ جلتے تھے جس کے اک ایک آسن میں

اُس ایک رات کا کیا اختتام کرنا تھا

بس ایک رات بھی گزری نہیں وہاں منصور

تمام عمر جہاں پر قیام کرنا تھا

(جس دوست کو جہاں کے بعد ’’پر‘‘ کے استعمال اعتراض ہو وہ مصرعہ یوں پڑھ لیں ۔۔۔

جہاں جہاں مجھے برسوں قیام کرنا تھا)

٭٭٭

 

یہ الگ اس مرتبہ بھی پشت پر خنجر لگا

یہ الگ پھر زخم پچھلے زخم کے اندر لگا

مجھ سے لپٹی جا رہی ہے بیل جیسی کوئی شام

یاد کے برسوں پرانے پیڑ کو کینسر لگا

موت کی ٹھنڈی گلی سے بھاگ کر آیا ہوں میں

کھڑکیوں کو بند کر ، جلدی سے اور ہیٹر لگا

بند کر دے روشنی کا آخری امکان بھی

روزنِ دیوار کو مٹی سے بھر ، پتھر لگا

ایک لمحے کی عبادت کیا بلندی دے گئی

جیسے ہی سجدے سے اٹھا ، آسماں سے سر لگا

پھیر مردہ بالوں میں اب اپنی نازک انگلیاں

یہ ملائم ہاتھ میرے سرد چہرے پر لگا

ہجر ہے برداشت سے باہر تو بہتر ہے یہی

چل کے کوئے یار کے فٹ پاتھ پر بستر لگا

لگ رہا ہے غم ، اداسی کھل رہی ہے شاخ شاخ

باغِ ہجراں کو نہ اتنا آبِ چشمِ تر لگا

 

اتنی ویراں شاٹ میں تتلی کہاں سے آئے گی

پھول کی تصویر کے پیچھے کوئی منظر لگا

اک قیامت خیز بوسہ اس نے بخشا ہے تجھے

آج دن ہے ، لاٹری کے آج چل نمبر لگا

٭٭٭

 

ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا

آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا

بجھ بجھا جاتا ہے یہ بجھتی ہوئی رات کے ساتھ

دل ہمارا بھی ہے قسمت کے ستارے جیسا

کچھ کہیں ٹوٹ گیا ٹوٹ گیا ہے ہم میں

اپنا چہرہ ہے کسی درد کے مارے جیسا

لے گئی ساتھ اڑا کر جسے ساحل کی ہوا

ایک دن تھا کسی بچے کے غبارے جیسا

جا رہا ہے کسی دلہن کا جنازہ شاید

جھیل میں بہتے ہوئے سرخ شکارے جیسا

کشتیاں بیچ میں چلتی ہی نہیں ہیں منصور

اک تعلق ہے کنارے سے کنارے جیسا

٭٭٭

 

پابجولاں کیا مرا سورج گیا تھا

صبح کے ماتھے پہ آ کر سج گیا تھا

وہ بھی تھی لپٹی ہوئی کچھ واہموں میں

رات کا پھر ایک بھی تو بج گیا تھا

کوئی آیا تھا مجھے ملنے ملانے

شہر اپنے آپ ہی سج دھج گیا تھا

پہلے پہلے لوٹ جاتا تھا گلی سے

رفتہ رفتہ بانکپن کا کج گیا تھا

مکہ کی ویران گلیاں ہو گئی تھیں

کربلا کیا موسمِ  ذوالحج گیا تھا

تُو اسے بھی چھوڑ آیا ہے اسے بھی

تیری خاطر وہ جو مذہب تج گیا تھا

وہ مرے سینے میں شاید مر رہا ہے

جو مجھے دے کر بڑی دھیرج گیا تھا

کتنی آوازوں کے رستوں سے گزر کر

گیت نیلی بار سے ستلج گیا تھا

 

پاؤں بڑھ بڑھ چومتے تھے اڑتے پتے

تازہ تازہ باغ میں اسوج گیا تھا

وہ جہاں چاہے کرے منتج ، گیا تھا

رات کی محفل میں کل سورج گیا تھا

٭٭٭

 

میں بدنصیب تھا احمق تھا پیش و پس میں رہا

تمام رات کوئی میری دسترس میں رہا

میں ایک شیش محل میں قیام رکھتے ہوئے

کسی فقیر کی کٹیا کے خاروخس میں رہا

سمندروں کے اُدھر بھی تری حکومت تھی

سمندروں کے اِدھر بھی میں تیرے بس میں رہا

کسی کے لمس کی آتی ہے ایک شب جس میں

کئی برس میں مسلسل اسی برس میں رہا

گنہ نہیں ہے فروغ بدن کہ جنت سے

یہ آبِ زندگی ، سر چشمۂ ہوس میں رہا

مرے افق پہ رکی ہے زوال کی ساعت

یونہی ستارہ مرا ، حرکت ِ عبث میں رہا

کنارے ٹوٹ گرتے رہے ہیں پانی میں

عجب فشار مرے موجۂ نفس میں رہا

وہی جو نکھرا ہوا ہے ہر ایک موسم میں

وہی برش میں وہی میرے کینوس میں رہا

قدم قدم پہ کہانی تھی حسن کی لیکن

ہمیشہ اپنے بنائے ہوئے قصص میں رہا

جسے مزاج جہاں گرد کا ملا منصور

تمام عمر پرندہ وہی قفس میں رہا

٭٭٭

 

موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا

بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا

اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ

گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا

بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں

ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا

شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ

دیکھا تو میں نے آنکھ کر پتھر بنا لیا

ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کئے چراغ

اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا

پیچھے جو چل دیا میرے سائے کی شکل میں

میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا

اس کی گلی تھی جاں سے گزرنا تھا زندگی

سو موت کو حیات سے بہتر بنا لیا

شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی

مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا

کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر

اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا

پھر عرصۂ دراز گزارا اسی کے بیچ

اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا

بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر

اپنا دماغ گنبدِ  بے در بنا لیا

باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے

لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا

گم کربِ  ذات میں کیا یوں کربِ  کائنات

آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا

منصور بام و در پہ جلا کر چراغِ دل

ہجراں کو میں نے کوچۂ دلبر بنا لیا

٭٭٭

 

اِس جا نمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا

ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا

دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف

اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا

آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی

اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا

اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب

تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا

ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو

دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا

گربہ صفت گلی میں کسی کھونسلے کے بیچ

میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا

ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول

لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا

پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے

کمرے میں ہے میڈونا کا بستربنا ہوا

 

یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف

اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا

ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع

تھا انگ انگ جسم کا محشر بنا ہوا

٭٭٭

 

 دیواروں پر تمام دروں پر بنا ہوا

ہے موت کا نشان گھروں پر بنا ہوا

بس زندگی ہے آخری لمحوں کے آس پاس

محشر کوئی ہے چارہ گروں پر بنا ہوا

آتا ہے ذہن میں یہی دستار دیکھ کر

اک سانپ کاہے نقش سروں پر بنا ہوا

ناقابلِ بیاں ہوئے کیوں اس کے خد و خال

یہ مسئلہ ہے دیدہ وروں پر بنا ہوا

کیا جانے کیا لکھا ہے کسی نے زمین کو

اک خط ہے بوجھ نامہ بروں پر بنا ہوا

اک نقش رہ گیا ہے مری انگلیوں کے بیچ

منصور تتلیوں کے پروں پر بنا ہوا

٭٭٭

 

آئے نظر جو روحِ مناظر بنا ہوا

ہو گا کسی کے ہاتھ سے آخر بنا ہوا

یہ کون جا رہا ہے مدینے سے دشت میں

ہے شہر سارا حامی و ناصر بنا ہوا

پر تولنے لگا ہے مرے کینوس پہ کیوں

امکان کے درخت پہ طائر بنا ہوا

یہ اور بات کھلتا نہیں ہے کسی طرف

ہے ذہن میں دریچہ بظاہر بنا ہوا

آغوش خاک میں جسے صدیاں گزر گئیں

وہ پھر رہا ہے جگ میں مسافر بنا ہوا

فتوی دو میرے قتل کا فوراً جنابِ شیخ

میں ہوں کسی کے عشق میں کافر بنا ہوا

کیا قریۂ کلام میں قحط الرجال ہے

منصور بھی ہے دوستو شاعر بنا ہوا

٭٭٭

 

ہاتھ سے ہنگامِ محشر رکھ دیا

گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا

اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے

بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا

پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں

آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا

اور پھر تازہ ہوا کے واسطے

ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا

ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر

پاؤں میں اس کے مقدر رکھ دیا

دیکھ کر افسوس تارے کی چمک

اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا

ایک ہی آواز پہنی کان میں

ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا

نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر

خواب کو بسترسے باہر رکھ دیا

دیدۂ تر میں سمندر دیکھ کر

اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا

میں نے اپنا استعارہ جان کر

ریل کی پٹڑی پہ پتھر رکھ دیا

رکھتے رکھتے شہر میں عزت کا پاس

ہم نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا

میری مٹی کا دیا تھا سو اسے

میں نے سورج کے برابر رکھ دیا

خانۂ دل سے اٹھا کر وقت نے

بے سرو ساماں ،سڑک پر رکھ دیا

 

جو پہن کو آتی ہے زخموں کے پھول

نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا

کچھ کہا منصور اس نے اور پھر

میز پر لا کے دسمبر رکھ دیا

٭٭٭

 

ہجر میں شوقِ نظارہ رکھ دیا

رات پر اپنا اجارہ رکھ دیا

خاک پر بھیجا مجھے اور چاند پر

میری قسمت کا ستارہ رکھ دیا

بچ بچا کر کوزہ گر کی آنکھ سے

چاک پر خود کو دوبارہ رکھ دیا

دیکھ کر بارود صحنِ ذات میں

اس نے خواہش کا شرارہ رکھ دیا

ریل گاڑی سے نکلتی کوک کو

غم نے اپنا استعارہ رکھ دیا

دور تک نیلا سمندر دیکھ کر

میں نے کشتی میں کنارہ رکھ دیا

٭٭٭

 

تری طلب نے ترے اشتیاق نے کیا کیا

فروزاں خواب کئے شمعِ طاق نے کیا کیا

میں جا رہا تھا کہیں اور عمر بھر کیلئے

بدل دیا ہے بس اک اتفاق نے کیا کیا

عشائے غم کی تلاوت رہے تہجد تک

سکھا دیا ہے یہ دینِ فراق نے کیا کیا

تباہ حال ہیں عاشق مزاج آنکھیں بھی

دکھائے غم ہیں دلِ چست و چاق نے کیا کیا

وہ لب کھلے تو فسانہ بنا لیا دل نے

گماں دئیے ترے حسنِ  مذاق نے کیا کیا

مقامِ خوک ہوئے دونوں آستانِ وفا

ستم کیے ہیں دلوں پر نفاق نے کیا کیا

ہر ایک دور میں چنگیزیت مقابل تھی

لہو کے دیپ جلائے عراق نے کیا کیا

ہر اک مکاں ہے کسی قبر پر کھڑا منصور

چھپا رکھا ہے زمیں کے طباق نے کیا کیا

٭٭٭

خوابِ  وصال میں بھی خرابہ اتر گیا

گالی لہک اٹھی کبھی جوتا اتر گیا

میں نے شبِ  فراق کی تصویر پینٹ کی

کاغذ پہ انتظار کا چہرہ اتر گیا

کوئی بہشتِ دید ہوا اور دفعتاً

افسوس اپنے شوق کا دریا اتر گیا

رش اتنا تھا کہ سرخ لبوں کے دباؤ سے

اندر سفید شرٹ کے بوسہ اتر گیا

اس نرس کے مساج کی وحشت کا کیا کہوں

سارا بخار روح و بدن کا اتر گیا

کچھ تیز رو گلاب تھے کھائی میں جا گرے

ڈھلوان سے بہار کا پہیہ اتر گیا

منصور جس میں سمت کی مبہم نوید تھی

پھر آسماں سے وہ بھی ستارہ اتر گیا

٭٭٭

 

زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا

فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا

میں تشنہ لب پلٹ آیا کہیں سے

کنویں میں کوئی کتا گر پڑا تھا

سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن

ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا

مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر

کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا

رکابی تھی ذرا سی ، اور اس پر

کوئی چاول کا دانہ گر پڑا تھا

مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں

اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا

مری سچائی میں دہشت بڑی تھی

کسی چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا

بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے

ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا

 

مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں

نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا

اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں

بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا

اٹھایا میں نے پلکوں سے تھا سپنا

اٹھاتے ہی دوبارہ گر پڑا تھا

نظر منصور گولی بن گئی تھی

ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا

٭٭٭

 

اتنا تو تعلق نبھاتے ہوئے کہتا

میں لوٹ کے آؤں گا وہ جاتے ہوئے کہتا

پہچانو مجھے ۔میں وہی سورج ہوں تمہارا

کیسے بھلا لوگوں کو جگاتے ہوئے کہتا

یہ صرف پرندوں کے بسیرے کیلئے ہے

انگن میں کوئی پیڑ لگاتے ہوئے کہتا

ہر شخص مرے ساتھ اناالحق سرِ منزل

آواز سے آواز ملاتے ہوئے کہتا

اک موجِ مسلسل کی طرح نقش ہیں میرے

پتھر پہ میں اشکال بناتے ہوئے کہتا

اتنا بھی بہت تھا مری مایوس نظر کو

وہ دور سے کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا

یہ تیرے عطا کردہ تحائف ہیں میں کیسے

تفصیل مصائب کی بتاتے ہوئے کہتا

موسم کے علاوہ بھی ہو موجوں میں روانی

دریا میں کوئی نظم بہاتے ہوئے کہتا

عادت ہے چراغ اپنے بجھانے کی ہوا کو

کیا اس سے کوئی شمع جلاتے ہوئے کہتا

میں اپنی محبت کا فسانہ اسے منصور

محفل میں کہاں ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا

٭٭٭

 

تمہیں یہ پاؤں سہلانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا

سفر رستہ رہے گا بس ، کبھی منزل نہیں ہو گا

مجھے لگتا ہے میری آخری حد آنے والی ہے

جہاں آنکھیں نہیں ہوں گی دھڑکتا دل نہیں ہو گا

محبت کے سفر میں تیرے وحشی کو عجب ضد ہے

وہاں کشتی سے اترے گا جہاں ساحل نہیں ہو گا

مری جاں  ویری سوری  اب کبھی چشمِ  تمنا سے

یہ اظہارِ  محبت بھی سرِمحفل نہیں ہو گا

سکوتِ  دشت میں کچھ اجنبی سے نقشِ  پا ہوں گے

کوئی ناقہ نہیں ہو گا کہیں محمل نہیں ہو گا

ذرا تکلیف تو ہو گی مگر اے جانِ تنہائی

تجھے دل سے بھلا دینا بہت مشکل نہیں ہو گا

یہی لگتا ہے بس وہ شورشِ  دل کا سبب منصور

کبھی ہنگامۂ تخلیق میں شامل نہیں ہو گا

٭٭٭

 

یہی پیام مکاں کی پلیٹ پر لکھا

یہ منتظر ہے تمہارا ، یہ گیٹ پر لکھا

پھر ایک تازہ تعلق کو خواب حاضر ہیں

مٹا دیا ہے جو پہلے سلیٹ پر لکھا

میں دستیاب ہوں ، اک بیس سالہ لڑکی نے

جوارِ ناف میں ہیروں سے پیٹ پر لکھا

لکھا ہوا نے کہ بس میری آخری حد ہے

’اب اس اڑان سے اپنے سمیٹ پر‘ لکھا

جہانِ برف پگھلنے کے بین لکھے ہیں

ہے نوحہ آگ کی بڑھتی لپیٹ پر لکھا

جنابِ  شیخ کے فرمان قیمتی تھے بہت

سو میں نے تبصرہ ہونٹوں کے ریٹ پر لکھا

ہے کائنات تصرف میں خاک کے منصور

یہی فلک نے زمیں کی پلیٹ پر لکھا

٭٭٭

 

آنکھیں مری تھیں جھیل سا سپنا کہیں کا تھا

مرغابیوں کا سرمئی جوڑا کہیں کا تھا

اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے

وہ آسماں پہ ابر کا ٹکرا کہیں کا تھا

کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے شام کی

کچھ اس کا انتظار کمینہ کہیں کا تھا

جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم

پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا

حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف

کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ کہیں کا تھا

پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر

تحریر تھی کہیں کی ، حوالہ کہیں کا تھا

چہرہ بھی اپنا تھا ، مری آنکھیں بھی اپنی تھیں

شیشے میں عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا

آخر خبر ہوئی وہی میرا مکان ہے

منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا

کھلتی کسی چراغ پہ کیسے شبِ فراق

آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا

کیا پوچھتے ہو کتنی کشش ہے گناہ میں

آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا

اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان

منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا

٭٭٭

 

جب قریۂ فراق مری سرزمیں ہوا

برق تجلٰی اوڑھ لی سورج نشیں ہوا

جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی

اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا

میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی

اور حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا

ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے

اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا

ہمت ہے میرے خانۂ دل کی کہ بار بار

لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا

منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے

ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا

کھڑکی سے آ رہا تھا ابھی تو نظر مجھے

یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا

سینے کے بال چھونے لگی ہے دھکتی سانس

منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا

٭٭٭

 

اس نے پہلے مارشل لاء مرے آنگن میں رکھا

میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا

صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند

جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا

جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی

موتیوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا

ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کے ہونٹوں پر نہیں

تھا جہنم خیز موسم اس کے جوبن میں رکھا

سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی

گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا

میں اسے منصور بھیجوں کس لئے چیتر کے پھول

جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا

٭٭٭

 

پیڑ پر شعر لگے ، شاخ سے ہجراں نکلا

اور اس ہجر سے پھر میرا دبستاں نکلا

رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی

اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا

نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے

کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا

خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے

رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا

لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر

والی ِ شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا

صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ

جانے کس کھوج میں پھر شہرِ  پریشاں نکلا

وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے

اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا

زخمِ  دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن

چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا

 

ترے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں

یہ خرابہ تو مری جان ! گلستاں نکلا

زخم کیا داد وہاں تنگی ِ دل کی دیتا

تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا

رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور

جو شبِ  تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا

٭٭٭

 

آپ کا غم ہی علاجِ غم دوراں نکلا

ورنہ ہر زخم نصیب سر مژگاں نکلا

اور کیا چیز مرے نامۂ اعمال میں تھی

آپ کا نام تھا بخشش کا جو ساماں نکلا

محشرِ نور کی طلعت ہے ،ذرا حشر ٹھہر

آج مغرب سے مرا مہر درخشاں نکلا

آپ کی جنبشِ لب دھر کی تقدیر بنی

چشم و ابرو کا چلن زیست کا عنواں نکلا

ظن و تخمینِ  خرد اور مقاماتِ حضور؟

شیخ عالم تھا مگر بخت میں ناداں نکلا

جب بھی اٹھی کہیں تحریک سحر کی منصور

 غور کرنے پہ وہی آپ کا احساں نکلا

٭٭٭

 

درد مرا شہباز قلندر ، دکھ ہے میرا داتا

شام ہے لالی شگنوں والی ، رات ہے کالی ماتا

اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے

ہجر کے کالے چرخِ کہن پر شب بھرسورج کاتا

پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں

اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا

شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے

بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا

ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا

پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا

مادھو لال حسین مرا دل ، ہر دھڑکن منصوری

ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا

وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی

کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا

ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے

بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا

 

میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا

باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا

ذات محمد بخش ہے میری۔۔شجرہ شعر ہے میرا

اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا

میں ہوں موہجوداڑو۔مجھ میں تہذیبوں کی چیخیں

ظلم بھری تاریخیں مجھ میں ، مجھ سے وقت کا ناطہ

ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر

شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا

٭٭٭

 

پیر فرید کی روہی میں ہوں ، مجھ میں پیاس کا دریا

ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا

عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے

صبح طلب کی بہتی کشتی ، شب وسواس کا دریا

سورج ڈھالے جاسکتے تھے ہر قطرے سے لیکن

یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا

جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی

میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا

لوگ ہیں آبِ چاہ شباں کے لوگ حمام سگاں کے

شہر میں پانی ڈھونڈھ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا

تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر

سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا

سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن

رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا

٭٭٭

 

ایک حیرت کدہ ہے نگر رات کا

آسمانوں سے آگے سفر رات کا

بام و در تک گریزاں سویروں سے ہیں

میرے گھر سے ہوا کیا گزر رات کا

صبح نو تیرے چہرے کے جیسی سہی

جسم ہے برگزیدہ مگر رات کا

چل رہا ہوں یونہی کب کڑی دھوپ میں

آ رہا ہے ستارہ نظر رات کا

پوچھ منصور کی چشمِ بے خواب سے

کتنا احسان ہے شہر پر رات کا

٭٭٭

میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا

مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا

مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک

میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا

میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ

یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا

کرے آ کے گفت و  شنید مجھ سے چراغ بس

کسی شب زدہ کی مشاورت نہیں چاہتا

میں کنارِ آب رواں نہیں شبِ یاد میں

کسی چاندنی سے مناسبت نہیں چاہتا

مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے

میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا

شبِ ظلم سے میں لڑوں گا آخری وار تک

کوئی ظالموں سے مطابقت نہیں چاہتا

مجھے جلتی کشتیاں دیکھنے کی طلب نہیں

میں مزاحمت میں مراجعت نہیں چاہتا

مرے پاس اب کوئی راستہ نہیں صلح کا

مجھے علم ہے تُو مخالفت نہیں چاہتا

انہیں ’بھوربن‘ کی شکار گاہ عزیز ہے

ترا لشکری کوئی پانی پت نہیں چاہتا

٭٭٭

 

تری ہر پرت میں کوئی پرت نہیں چاہتا

میں پیاز ایسی کہیں صفت نہیں چاہتا

اسے رقص گاہ میں دیکھنا کبھی مست مست

مرے دوستو میں اسے غلط نہیں چاہتا

کسی ذہن میں ، کسی خاک پر یا کتاب میں

میں یزید کی کہیں سلطنت نہیں چاہتا

مرے چشم و لب میں کرختگی ہے شعور کی

میں سدھارتھا، ترے خال و خط نہیں چاہتا

فقط ایک جام پہ گفتگو مری شان میں

سرِ شام ایسی منافقت نہیں چاہتا

مرے ساتھ شہر نے جو کیا مجھے یاد ہے

میں کسی کی کوئی بھی معذرت نہیں چاہتا

٭٭٭

 

شکستِ جاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا

ہزار ٹوٹ کے بھی طاقِ غم کو توڑ دیا

یہ   احتجاج  کا لہجہ  نہیں  بغاوت  ہے

لکھے  کو آگ  لگا  دی  قلم کو  توڑ  دیا

قریب تر کسی پب کے مری رہائش تھی

اسی  قرابتِ  مے  نے  قسم کو  توڑ  دیا

قدم قدم پہ دلِ مصلحت زدہ رکھ کر

کسی نے راہِ  وفا کے بھرم کو توڑ دیا

ہزار بار کہانی میں میرے ہیرو نے

دعا کی ضرب سے دستِ ستم کو توڑ دیا

سلام اس کی صلیبوں بھری جوانی پر

وہ جس نے موت کے جاہ و حشم کو توڑ دیا

یہ انتہائے کمالِ شعور ہے منصور

یہی کہ کعبۂ دل کے صنم کو توڑ دیا

٭٭٭

 

وہ بات نہیں کرتا، دشنام نہیں دیتا

کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا

بندوق کے دستے پر تحریر تھا امریکا

میں قتل کا بھائی کو الزام نہیں دیتا

کچھ ایسے بھی اندھے ہیں کہتے ہیں خدا اپنا

پیشانی پہ سورج کی کیوں نام نہیں دیتا

رستے پہ بقا کے بس قائم ہے منافع بخش

اُس پیڑ نے کٹنا ہے جو آم نہیں دیتا

اب سامنے سورج کے یہ اشکِ مسلسل کی

برسات نہیں چلتی ،غم کام نہیں دیتا

جو پہلے پہل مجھ کو بازار میں ملتے تھے

کوئی بھی خریدار اب وہ دام نہیں دیتا

بیڈ اپنا بدل لینا منصور ضروری ہے

یہ خواب دکھاتا ہے ، آرام نہیں دیتا

٭٭٭

 

کوئی چہرہ کوئی مہتاب دکھائی دیتا

نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا

خواہشیں خالی گھڑے سر پہ اٹھا لائی ہیں

کوئی دریا کوئی تالاب دکھائی دیتا

ڈوبنے کو نہ سمندر نہ کوئی چشمِ  سیہ

جام ہی میں کوئی گرداب دکھائی دتیا

توُ وہ ریشم کہ مرا ٹاٹ کا معمولی بدن

تیرے پیوند سے کمخواب دکھائی دیتا

دوستو آگ بھری رات کہاں لے جاؤں

کوئی خس خانہ و برفاب دکھائی دیتا

دل میں چونا پھری قبروں کے اِمیج ہیں منصور

کیسے میں زندہ و شاداب دکھائی دیتا

٭٭٭

 

گھر سے سفید داڑھی حاجی پہن کے نکلا

پھر سود خور کیسی نیکی پہن کے نکلا

خوشبو پہن کے نکلا میں دل کے موسموں میں

اور جنگ کے رُتوں میں وردی پہن کے نکلا

کیسا یہ ’’گے ادب ‘‘کا افتی مباحثہ تھا

ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا

لندن کے اک کلب سے بلی کی کج روی پر

ساقی کے ساتھ میں بھی وسکی پہن کے نکلا

 شہوت عروج پر تھی آنکھوں میں ڈاکیے کی

چلمن سے ہاتھ کیا وہ مہندی پہن کے نکلا

بازارِ جسم و جاں میں کہرا جما ہوا تھا

میں لمس کی دکاں سے گرمی پہن کے نکلا

کہتے ہیں چشم و لب کی بارش میں وسوسے ہیں

منصور دوپہر میں چھتری پہن کے نکلا

٭٭٭

 

موسموں کا رزق دونوں پر بہم نازل ہوا

پھول اترا شاخ  پراور مجھ پہ غم نازل ہوا

اپنے اپنے وقت پر دونوں ثمر آور ہوئے

پیڑ  کو  ٹہنی  ملی  مجھ  پر قلم  نازل ہوا

اوس کی مانند اُترا رات بھر مژگاں پہ میں

پھر کرن کا دکھ پہن کر صبح دم نازل ہوا

میں نے مٹی سے نکالے چند آوارہ خیال

آسمانوں سے کلامِ محترم نازل ہوا

یوں ہوا منصور کمرہ بھر گیا کرنوں کے ساتھ

مجھ پہ سورج رات کو الٹے قدم نازل ہوا

میری آنکھوں پر مرا حسن نظر نازل ہوا

دیکھنا کیا ہے مگر یہ سوچ کر نازل ہوا

اس پہ اترا بات کو خوشبو بنا دینے کا فن

مجھ پہ اس کو نظم کرنے کا ہنر نازل ہوا

کوئی رانجھے کی خبردیتی نہیں تھی لالٹین

ایک بیلے کا اندھیرا ہیر پر نازل ہوا

اس محبت میں تعلق کی طوالت کا نہ پوچھ

اک گلی میں زندگی بھر کا سفر نازل ہوا

 وقت کی اسٹیج پر بے شکل ہو جانے کا خوف

مختلف شکلیں بدل کر عمر بھر نازل ہوا

جاتی کیوں ہے ہر گلی منصور قبرستان تک

یہ خیالِ زخم خوردہ دربدر نازل ہوا

٭٭٭

 

کیا خواب تھا ، پیکر مرا ہونٹوں سے بھرا تھا

انگ انگ محبت بھرے بوسوں سے بھرا تھا

کل رات جو کمرے کا بجھایا نہیں ہیٹر

اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا

ہلکی سی بھی آواز کہیں دل کی نہیں تھی

مسجد کا سپیکر تھا صداؤں سے بھرا تھا

اونچائی سے یک لخت کوئی لفٹ گری تھی

اور لوہے کا کمرہ بھی امنگوں سے بھرا تھا

اک ،پاؤں کسی جنگ میں کام آئے ہوئے تھے

اک راستہ بارودی سرنگوں سے بھرا تھا

آوارہ محبت میں وہ لڑکی بھی بہت تھی

منصور مرا شہر بھی کتوں سے بھرا تھا

٭٭٭

 

یاد کچھ بھی نہیں کہ کیا کچھ تھا

نیند کی نوٹ بک میں تھا ، کچھ تھا

میں ہی کچھ سوچ کر چلا آیا

ورنہ کہنے کو تھا ، بڑا کچھ تھا

چاند کچھ اور کہہ رہا تھا کچھ

دلِ  وحشی پکارتا کچھ تھا

اس کی پاؤں کی چاپ تھی شاید

یہ یونہی کان میں بجا کچھ تھا

میں لپٹتا تھا ہجر کی شب سے

میرے سینے میں ٹوٹتا کچھ تھا

کُن سے پہلے کی بات ہے کوئی

یاد پڑتا ہے کچھ ، کہا کچھ تھا

آنکھ کیوں سوگوار ہے منصور

خواب میں تو معاملہ کچھ تھا

٭٭٭

 

سیاہ رنگ کا امن و سکوں تباہ ہوا

سفید رنگ کا دستور کج کلاہ ہوا

زمیں سے کیڑے مکوڑے نکلتے آتے ہیں

ہمارے ملک میں یہ کون بادشاہ ہوا

کئی دنوں سے زمیں دھل رہا ہے بارش سے

امیرِ شہر سے کیسا یہ پھر گناہ ہوا

شرارِ خاک نکلتا گرفت سے کیسے

دیارِ خاک ازل سے جنازگاہ ہوا

وہ شہر تھا کسی قربان گاہ پر آباد

سو داستان میں بغداد پھر تباہ ہوا

جلے جو خیمے تو اتنا اٹھا دھواں منصور

ہمیشہ کے لئے رنگِ علم سیاہ ہوا

٭٭٭

 

دائروں کی آنکھ دی ، بھونچال کا تحفہ دیا

پانیوں کو چاند نے اشکال کا تحفہ دیا

رفتہ رفتہ اجنبی لڑکی لپٹتی ہی گئی

برف کی رت نے بدن کی شال کا تحفہ دیا

سوچتا ہوں وقت نے کیوں زندگی کے کھیل میں

پاؤں میرے چھین کر فٹ بال کا تحفہ دیا

’’آگ جلتی ہے بدن میں ‘‘بس کہا تھا کار میں

ہم سفر نے برف کے چترال کا تحفہ دیا

رات ساحل کے کلب میں مچھلیوں کو دیر تک

ساتھیوں نے اپنے اپنے جال کا تحفہ دیا

کچھ تو پتھر پر ابھر آیا ہے موسم کے طفیل

کچھ مجھے اشکوں نے خدوخال کا تحفہ دیا

پانیوں پر چل رہے تھے عکس میرے ساتھ دو

دھوپ کو اچھا لگا تمثال کا تحفہ دیا

وقت آگے تو نہیں پھر بڑھ گیا منصور سے

یہ کسی نے کیوں مجھے گھڑیال کا تحفہ دیا

٭٭٭

 

پہلے سورج کو سرِ راہ گزر باندھ دیا

اور پھر شہر کے پاؤں میں سفر باندھ دیا

چند لکڑی کے کواڑوں کو لگا کر پہیے

وقت نے کار کے پیچھے مرا گھر باندھ دیا

وہ بھی آندھی کے مقابل میں اکیلا نہ رہے

میں نے خیمے کی طنابوں سے شجر باندھ دیا

میری پیشانی پہ انگارے لبوں کے رکھ کے

اپنے رومال سے اس نے مرا سر باندھ دیا

لفظ کو توڑتا تھا میری ریاضت کا ثمر

وسعتِ  اجر تھی اتنی کہ اجر باندھ دیا

چلنے سے پہلے قیامت کے سفر پر منصور

آنکھ کی پوٹلی میں دیدۂ تر باندھ دیا

٭٭٭

 

کھینچ لی میرے پاؤں سے کس نے زمیں ،میں نہیں جانتا

میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا

کیوں نہیں کانپتابے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے

کس لئے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں ، میں نہیں جانتا

ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں

خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں ، میں نہیں جانتا

کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں

کس طرح ، کب ہوا ، کون مسند نشیں ، میں نہیں جانتا

لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر

تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں ، میں نہیں جانتا

کیا مرے ساتھ منصور چلتے ہوئے راستے تھک گئے

کس لئے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں ، میں نہیں جانتا

٭٭٭

 

پندارِ  غم سے ربطِ مسلسل نہیں ہوا

شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا

پھر ہو گی تجھ تلک مری اپروچ بزم میں

مایوس جانِ من ترا پاگل نہیں ہوا

ممکن نہیں ہے جس کا ذرا سا مشاہدہ

میری نظر سے وہ کبھی اوجھل نہیں ہوا

لاء ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہست کا مگر

قانونِ بود ہم سے معطل نہیں ہوا

دستِ  اجل نے کی ہے تگ و دو بڑی مگر

دروازۂ حیات مقفل نہیں ہوا

منصور اپنی ذات شکستہ کئے بغیر

پانی کا بلبلہ کبھی بادل نہیں ہوا

٭٭٭

 

مری بد لحاظ نگاہ نے مجھے عرشِ جاں سے گرا دیا

وہ جو مرتبت میں مثال ہے اسی آستاں سے گرا دیا

مجھے کچھ بھی اس نے کہا نہیں مگر اپنی رت ہی بدل گئی

مجھے دیکھتے ہوئے برف کو ذرا سائباں سے گرا دیا

مجھے دیکھ کر کہ میں زد پہ ہوں سرِ چشم آخری تیر کو

کسی نے کماں پہ چڑھا لیا کسی نے کماں سے گرا دیا

ہے عجب مزاج کی وہ کوئی کبھی ہم نفس کبھی اجنبی

کبھی چاند اس نے کہا مجھے کبھی آسماں سے گرا دیا

میں وہ خستہ حال مکان تھا جسے خوفِ  جاں کے خیال سے

کسی نے یہاں سے گرا دیا کسی نے وہاں سے گرا دیا

٭٭٭

وہ چشم سراپا حیرت تھی کیا میں نے کیا

وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا

ہے فکر مجھے انجام مرے ہاتھوں سے نہ ہو

آغاز کا کیا ہے اس نے کیا یا میں نے کیا

کچھ زخم گلی کے بلب تلے تحریر کئے

پھر اپنے لہوسے اپنا تماشا میں نے کیا

صد شکر دئیے کی آخری لو محفوظ ہوئی

ہے فخر مجھے دربند ہوا کا میں نے کیا

منصور وہ میری آنکھ کو اچھی لگتی تھی

سو ہجر کی کالی رات سے رشتہ میں نے کیا

٭٭٭

 

خود اپنے آپ سے شرمندہ رہنا

قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا

یہاں روبوٹ کم ہیں آسماں سے

یہ دنیا ہے یہاں آئندہ رہنا

مجھے دکھ کی قیامت خیز رت میں

محبت نے کہا ’’پائندہ رہنا‘‘

سمٹ آئی ہے جب مٹھی میں دنیا

کسی بستی کا کیا باشندہ رہنا

سکھاتا ہے مجھے ہر شام سورج

لہو میں ڈوب کر تابندہ رہنا

یہی منصور حاصل زندگی کا

خود اپنا آپ ہی کارندہ رہنا

٭٭٭

 

مدت کے بعد گاؤں میں آیا ہے ڈاکیا

لیکن اٹھی نہیں کوئی چشمِ  سوالیا

رہنے کو آئی تھی کوئی زہرہ جبیں مگر

دل کا مکان درد نے خالی نہیں کیا

جو زندگی کی آخری ہچکی پہ گل ہوئی

اک شخص انتظار کی اس رات تک جیا

پوچھی گئی کسی سے جب اس کی کوئی پسند

آہستگی سے اس نے مرا نام لے لیا

تارے بجھے تمام ، ہوئی رات راکھ راکھ

لیکن مزارِ چشم پہ جلتا رہا دیا

تکیے پہ بُن رہا ہے ترا شاعرِ فراق

منصور موتیوں سے محبت کا مرثیا

٭٭٭

 

ہوا سینے میں کوئی تھا اسے کہنا

میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا

اک آگ لگا دیتے ہیں برسات کے دل میں

ہم لوگ سلگتے نہیں تنہا اسے کہنا

دروازے پہ پہرے سہی گھر والوں کے لیکن

کھڑکی بھی بنا سکتی ہے رستہ اسے کہنا

اے بجھتی ہوئی شام ! محبت کے سفرمیں

اک لوٹ کے آیا تھا ستارہ اسے کہنا

نازل ہوں مکمل لب و عارض کے صحیفے

ہر شخص کا چہرہ ہے ادھورا اسے کہنا

شہ رگ سے زیادہ ہے قریں میرا محمد

لولاک سے آگے ہے مدنیہ اسے کہنا

منصور مزاجوں میں بڑا فرق ہے لیکن

اچھا مجھے لگتا ہے بس اپنا اسے کہنا

٭٭٭

 

عرش تک میانوالی بے کنار لگتا تھا

دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا

بارشوں کے موسم میں جب ہوا اترتی تھی

اپنے گھر کا پرنالہ آبشار لگتا تھا

دوستوں کی گلیوں میں رات جب مچلتی تھی

کوچۂ رقیباں بھی کوئے یار لگتا تھا

ایک چائے خانہ تھا یاد کے سٹیشن پر

بھیگتے اندھیرے میں غمگسار لگتا تھا

ایک نہر پانی کی شہر سے گزرتی تھی

اس کا یخ رویہ بھی دل بہار لگتا تھا

ادھ جلے سے سگریٹ کے ایک ایک ٹکڑے میں

لاکھ لاکھ سالوں کا انتظار لگتا تھا

قید اک رگ و پے میں روشنی کی دیوی تھی

جسم کوئی شیشے کا جار وار لگتا تھا

باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی

ذہن پر ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا

ہمسفر جوانی تھی ہم سخن خدا منصور

اپنا ہی زمانے پر اقتدار لگتا تھا

٭٭٭

 

شہد ٹپکا ، ذرا سپاس ملا

اپنے لہجے میں کچھ مٹھاس ملا

سوکھ جائیں گی اسکی آنکھیں بھی

جا کے دریا میں میری پیاس ملا

خشک پتے مرا قبیلہ ہیں

دل جلوں میں نہ سبز گھاس ملا

آخری حد پہ ہوں ذرا سا اور

بس مرے خوف میں ہراس ملا

آ ، مرے راستے معطر کر

آ ، ہوا میں تُو اپنی باس ملا

نسخۂ دل بنا مگر پہلے

اس میں امید ڈال آس ملا

ہے لبِ تلخ کیلئے منصور

سو غزل میں ذرا سپاس ملا

٭٭٭

 

خاک کا ایک اقتباس ملا

آسماں کے مگر ہے پاس ملا

اپنی تاریخ کے وہ ہیرو ہیں

جن کو وکٹوریہ کراس ملا

دیکھتے کیا ہو زر کہ یہ مجھ کو

اپنے ہی قتل کا قصاص ملا

جلوہ بس آئینے نے دیکھا ہے

ہم کو تو حسنِ انعکاس ملا

میز پر اہلِ علم و دانش کی

اپنے بھائی کا صرف ماس ملا

کتنے جلدی پلٹ کے آئے ہو

کیا نگر کا نگر خلاص ملا

اس میں خود میں سما نہیں سکتا

کیسا یہ دامنِ حواس ملا

چاند پر رات بھی بسر کی ہے

ہر طرف آسمانِ یاس ملا

گھر میں صحرا دکھائی دیتا ہے

شیلف سے کیا ابونواس ملا

زخم چنگاریوں بھرا منصور

وہ جو چنتے ہوئے کپاس ملا

٭٭٭

جب مجھے حسنِ التماس ملا

تیرا فیضان بے قیاس ملا

جب بھی کعبہ کو ڈھونڈنا چاہا

تیرے قدموں کے آس پاس ملا

تیری رحمت تڑپ تڑپ اٹھی

جب کہیں کوئی بھی اداس ملا

تیری توصیف رب پہ چھوڑی ہے

بس وہی مرتبہ شناس ملا

یوں بدن میں سلام لہرایا

جیسے کوثر کا اک گلاس ملا

تیری کملی کی روشنائی سے

زندگی کو حسیں لباس ملا

ابن عربی کی بزم میں منصور

کیوں مجھے احترامِ خاص ملا

٭٭٭

 

ردیف ب

ایک شرابی ہاتھ کی دستک اور شراب

جنت کے بنگلے کا پھاٹک اور شراب

پیاس ہوائے شام میں اپنے بین کرے

ابر ہے بامِ ذات کی حد تک اور شراب

مجھ سے تیری یادیں چھین نہیں سکتے

اُس بازار کے سارے گاہک اور شراب

سات سمندر پار کا ایک پرانا کوٹ

بیچ سڑک کے ٹوٹی عینک اور شراب

سناٹوں کی آوازوں کا ایک ہجوم

شور میں گم ہو جانے کا شک اور شراب

تیری گلی آوازِ  سگاں ،مجذوب ضمیر

ڈوب رہی ہے رات کی کالک اور شراب

عمر ہوئی میخانے کے دروازے پر

دست و گریباں میرا مسلک اور شراب

رات کے پچھلے پہر لہو کی صورت تھے

میری رگوں میں گھنگھرو ڈھولک اور شراب

کھلتا سرخ سا فیتہ ، دوشیزہ فائل

انٹر کام کی بجتی دستک اور شراب

دیکھ کے موسم خود ہی بچھتے جاتے ہیں

صحرا کی سہ پہر میں اجرک اور شراب

 اک منصور گلی میں دو دیواریں ہیں

ساتھ مری بے مقصد بک بک اور شراب

٭٭٭

 

غیب کا مدفن عینک اور کتاب

میرے کاہن عینک اور کتاب

ایک بہکتے حرف کے پہلو میں

رکھ دی فوراً عینک اور کتاب

ٹیرس پر تنہائی کی رم جھم

بھیگا ساون عینک اور کتاب

میر و غالب پھر مہمان ہوئے

چائے کے برتن عینک اور کتاب

یاد کی لائبریری زندہ باد

اپنا جیون عینک اور کتاب

برف بھری تنہائی میں منصور

یار کا درشن عینک اور کتاب

٭٭٭

 

بہتی بہار سپنا ، چلتی ندی ہے خواب

شاید یہ زندگی کی جادو گری ہے خواب

ایسا نہ ہو کہ کوئی دروازہ توڑ دے

رکھ آؤ گھر سے باہر بہتر یہی ہے خواب

تُو نے بدل لیا ہے چہرہ تو کیا کروں

میری وہی ہیں آنکھیں میرا وہی ہے خواب

میں لکھ رہا ہوں جس کی کرنوں کے سبز گیت

وہ خوبرو زمانہ شاید ابھی ہے خواب

ہر سمت سے وہ آئے قوسِ قزح کے ساتھ

لگتا ہے آسماں کی بارہ دری ہے خواب

اس کے لئے ہیں آنکھیں اس کیلئے ہے نیند

جس میں دکھائی دے تُو وہ روشنی ہے خواب

دل نے مکانِ جاں تو دھکا دیا مگر

اُس لمسِ اخگری کی آتش زنی ہے خواب

اک شخص جا رہا ہے اپنے خدا کے پاس

دیکھو زمانے والو! کیا دیدنی ہے خواب

تجھ سے فراق کیسا ، تجھ سے ملال کیا

تیرا مکان دل ہے تیری گلی ہے خواب

سورج ہیں مانتا ہوں اس کی نگاہ میں

لیکن شبِ سیہ کی چارہ گری ہے خواب

امکان کا دریچہ میں بند کیا کروں

چشمِ فریب خوردہ پھر بُن رہی ہے خواب

رک جا یہیں گلی میں پیچھے درخت کے

تجھ میں کسی مکان کی کھڑکی کھلی ہے خواب

منصور وہ خزاں ہے عہدِ بہار میں

ہنستی ہوئی کلی کی تصویر بھی ہے خواب

٭٭٭

 

لگتے ہیں خوبصورت گزری ہوئی کے خواب

کیا ہے جو دیکھتا ہوں پچھلی گلی کے خواب

ہیں بے چراغ دل کے جگنو قطار میں

پلکوں سے چُن رہا ہوں لا حاصلی کے خواب

آنسو بہا رہی ہیں آنکھیں فرات کی

پتھرا گئے ہیں جیسے تشنہ لبی کے خواب

ہے اجتماعی وحشت چشمِ شعور میں

اپنے خمیر میں ہیں کیا کیا کجی کے خواب

مجبور دل الگ ہے دل کی طلب الگ

بستر کسی کا بے شک دیکھے کسی کے خواب

منصور موتیوں سے جس کی بھری ہے جیب

تاریخ لکھ رہی ہے اک بس اسی کے خواب

٭٭٭

 

شاید وہ چاہتی ہے وفا کے نئے سبب

ناراض پھر رہی ہے یونہی مجھ سے بے سبب

بس رہ گئی ہے یاد میں بجھتی سی ریل کار

میں لیٹ ہو گیا تھا کسی کام کے سبب

کچھ اپنے کارِ ہائے نمایاں بھی خوب ہیں

قسمت نے کچھ بگاڑے ہیں بنتے ہوئے سبب

میں جانتا نہیں تھا مقامِ خیال و خواب

جب چل پڑا تو راہ میں بننے لگے سبب

کیا کیا نکالتی ہے بہانے لڑائی کے

آنسو کبھی وجہ تو کبھی قہقہے سبب

منصور اتفاق سے ملتی ہیں منزلیں

بے سمتیاں کبھی تو کبھی راستے سبب

٭٭٭

 

ردیف پ

کچھ تلاش آپ ہی کئے ہیں سانپ

کچھ نصیبوں نے بھی دئیے ہیں سانپ

گفتگو زہر سے بھری ہی نہیں

سر پہ دستار بھی لئے ہیں سانپ

چھاؤں کو ڈس رہے ہیں شاخوں سے

دھوپ کے سرخ زاویے ہیں سانپ

شام ہوتے ہی چاٹتے ہیں دل

بس وہ دوچار ثانیے ہیں سانپ

پھر کہا خواب سے سپیرے نے

اور اب کتنے چاہیے ہیں سانپ

بھر گیا زہرِ غم سے اپنا دل

یعنی یادوں کے بھی دئیے ہیں سانپ

٭٭٭

 

یہ جو پندار کے پڑے ہیں سانپ

یہ ابھی جسم سے جھڑے ہیں سانپ

کیا خزانہ تلاش کرتے ہو

اس کنویں میں بڑے بڑے ہیں سانپ

ہر قدم پر خدا کی بستی میں

یہ مسائل ہیں یا کھڑے ہیں سانپ

کم ہوئی کیا مٹھاس پانی کی

کتنے دریاؤں کو لڑے ہیں سانپ

اب بھی ڈرتا ہے آدمی ان سے

وہ جو تاریخ میں گڑے ہیں سانپ

ایک فوسل کی شکل میں منصور

کچھ مزاروں پہ بھی جڑے ہیں سانپ

٭٭٭

 

آستیں سے نکل پڑے ہیں سانپ

کچھ پرانے ہیں کچھ نئے ہیں سانپ

آتی راہیں تو اونی بھیڑیں ہیں

جاتے ہیں جو وہ راستے ہیں سانپ

ہم لکیروں کو پیٹنے والے

جا رہے ہیں جہاں گئے ہیں سانپ

آسماں سے پہن کے تیرا روپ

دیکھ قوسِ قزح گرے ہیں سانپ

میرے پہلو میں جو پنپتے ہیں

یہ ترے انتظار کے ہیں سانپ

چل رہے ہیں سنپولئے ہمراہ

ہم بھی محسوس ہو رہے ہیں سانپ

شہر میں محترم نہیں ہم لوگ

صاحبِ عز و جاہ ہوئے ہیں سانپ

اپنے جیون کی شاخِ جنت پر

موسم آیا تو کھل اٹھے ہیں سانپ

لالہ و گل کے روپ میں منصور

زندگی میں کئی ملے ہیں سانپ

٭٭٭

 

گزرا ہے مجھ میں ایک زمانہ بھی اپنے آپ

میں موت کی طرف ہوں روانہ بھی اپنے آپ

بے شکل صورتوں کا ٹھکانہ بھی اپنے آپ

بننے لگا ہے آئینہ خانہ بھی اپنے آپ

جب دھوپ سے ہنسی ترے آنچل کی شوخ تار

روٹھا بھی اپنے آپ میں ۔۔ مانا بھی اپنے آپ

جاری ہے جس کے مرکزی کردار کی تلاش

لوگوں نے لکھ دیا وہ فسانہ بھی اپنے آپ

صرفِ  نظر بھی آپ کیا بزم میں مگر

اس دلنواز شخص نے جانا بھی اپنے آپ

کتنا ابھی ابھی ترو تازہ تھا شاخ پر

یہ کیا کہ ہو گیا ہے پرانا بھی اپنے آپ

منصور کائنات کا ہم رقص کون ہے

یہ گھومنا بھی اور گھمانا بھی اپنے آپ

٭٭٭

 

ردیف ت

کر کے آنکھوں سے بادہ خواری دوست

ہم نے تیری نظر اتاری دوست

اک تعلق ہے خواب کا اس سے

وہ زیادہ نہیں ہماری دوست

زد میں آیا ہوا نہیں نکلا

شور کرتے رہے شکاری دوست

اس کی اک اک نظر میں لکھا تھا

میں تمہاری ہوں بس تمہاری دوست

کیوں مہکتی ہے تیز بارش میں

اک دہکتی ہوئی کنواری دوست

راہ بنتے ہیں آنے جانے سے

اور بناتے ہیں باری باری دوست

کچھ عجب ہے تمہارے کپڑوں میں

بڑھتی جاتی ہے بے قراری دوست

بس اداسی پہن کے پھرتے ہیں

کچھ ہماری بھی غم گساری دوست

ہم اکیلے ہیں اپنے پہلو میں

ایسی ہوتی ہے دوست داری دوست

رات بھر بیچتے تھے جو سورج

اب کہاں ہیں وہ کاروباری دوست

کیا ہیں کٹھ پتلیوں قیامت کی

برگزیدہ ہوئے مداری دوست

حق ہمارا تھا جس کے رنگوں پر

تم نے وہ زندگی گزاری دوست

ہر طرف ہجرتیں ہیں بستی میں

کیا تمہاری ہے شہریاری دوست

دشتِ دل میں تمہاری ایڑی سے

ہو گیا چشمہ ایک جاری دوست

ہجر کی بالکونی کی شاید

میلوں لمبی ہے راہداری دوست

زندگی نام کی کہیں منصور

ایک ہے دوجہاں سے پیاری دوست

٭٭٭

 

چل رہے ہیں ایک ساتھ

میں خدا اور کائنات

عرش پر بس بیٹھ کر

کن فکاں کا چرخہ کات

مرد و زن کا اجتماع

بیچ صدیوں کی قنات

دو وجودوں میں جلی

سردیوں کی ایک رات

بند ذرے میں کوئی

کائناتی واردات

آسیا میں قطب کی

سو گئیں سولہ جہات

پانیوں پر قرض ہے

فدیۂ نہر فرات

تُو پگھلتی تارکول

میں سڑک کا خشک پات

تیرا چہرہ جاوداں

تیری زلفوں کو ثبات

رحمتِ کن کا فروغ

جشن ہائے شب برات

شب تھی خالی چاند سے

دل رہا اندیشوں وات

نت نئے مفہوم دے

تیری آنکھوں کی لغات

آنکھ سے لکھا گیا

قصۂ نا ممکنات

گر پڑی ہے آنکھ سے

اک قیامت خیز بات

تیرے میرے درد کا

ایک شجرہ ،ایک ذات

کٹ گئے ہیں حبس میں

دو ہوا بازوں کے ہاتھ

موت تک محدود ہیں

ڈائری کے واقعات

دو گھروں کے درمیاں

تیغ تیور پل صراط

٭٭٭

 

ردیف ٹ

اپنے ہی کناروں کو میرے دیدۂ تر کاٹ

اڑنے کا وسیلہ ہیں امیدوں کے نہ پر کاٹ

اک بنک کے لا کر میں تری عمر پڑی ہے

شب کاٹ اگر لی ہے تو بے مہر سحر کاٹ

ہر سمت دماغوں کے شجر اگنے لگے ہیں

اس مرتبہ پودوں کے ذرا سوچ کے سر کاٹ

اُس شہرِ سیہ پوش کی تسخیر سے پہلے

آ خانۂ درویش میں بس ایک پہر کاٹ

منصور نکلنا تو ہے مٹی کی گلی سے

لیکن ابھی کچھ اور یہ سورج کا سفر کاٹ

٭٭٭

 

ردیف ث

خانقاہِ غم کا سجادہ نشیں ہوں میر کا وارث

ہے کوئی میرے علاوہ حرف کی جاگیر کا وارث

نظم تلوارِ علی ہے اور مصرعہ لہجۂ زینب

کربلائے لفظ ! میں ہوں خیمۂ شبیر کا وارث

چشمِ دانش کی طرح گنتا نہیں ہوں ڈوبتے سورج

میں ابد آباد تک ہوں شام کی تحریر کا وارث

کنٹرول اتنا ہے روز و شب پہ سرمایہ پرستی کا

کہ مرا بیٹا ہے میرے پاؤں کی زنجیر کا وارث

نقش جس کے بولتے ہیں ، رنگ جس کے خواب جیسے ہیں

حضرتِ غالب وہی ہے پیکرِ تصویر کا وارث

٭٭٭

 

ردیف ج

کسی نے کچھ کہا ہے کیا ، کہاں یہ چل دیا سورج

ابھی دیکھا تھا اپنی روشنی کے ساتھ تھا سورج

اسے معلوم تھی شاید مری راتوں کی برفابی

مری آنکھوں کے بالکل سامنے دن بھر رہا سورج

چپک جاتا ہے خاموشی سے میرے ساتھ بستر میں

یہ نم دیدہ دسمبر کی اداسی سے بھرا سورج

برہنہ پانیوں پر شام کی کرنیں ٹپکتی تھیں

مگر پھر یوں ہوا نیلا سمندر ہو گیا سورج

مرے دریا کے پانی کو ہوا ہونے نہیں دیتا

کہیں برفیلے کہساروں کو پگھلاتا ہوا سورج

یہ کافی دیر سے کھڑکی کھلی ہے میرے کمرے کی

ابھی نکلا نہیں ہے اِس گلی میں صبح کا سورج

ابھی کچھ دیر رہنا چاہتا ہوں میں اجالوں میں

بلاتا ہے مجھے اپنی طرف پھر ڈوبتا سورج

مجھے دل کی گلی میں بھی تپش محسوس ہوتی ہے

خود اپنے ہجر میں اتنا زیادہ جل بجھا سورج

اُدھر پوری طرح اترا نہیں وہ روشنی کا تھال

نکلتا آ رہا ہے یہ کدھر سے دوسرا سورج

رکھا ہے ایک ہی چہرہ بدن کے بام پر میں نے

کوئی کہتا ہے یوں ہی ہے کسی کا تبصرہ سورج

نگاہوں کو شعاعوں کی ضرورت تھی بہت لیکن

کہاں تک میری گلیوں میں مسلسل جاگتا سورج

جہاں اس وقت روشن ہے تبسم تیرے چہرے کا

انہی راتوں میں برسوں تک یہ آوارہ پھرا سورج

اسے اچھے نہیں لگتے سلگتے رتجگے شاید

اکیلا چھوڑ جاتا ہے ہمیشہ بے وفا سورج

اجالے کا کفن بُننا کوئی آساں نہیں ہوتا

نظر آتا ہے شب کے پیرہن سے جا بجا سورج

ابھرنا ہی نہیں میں نے نکلنا ہی نہیں میں نے

اتر کر عرش کے نیچے یہی ہے سوچتا سورج

افق پر اک ذرا آندھی چلی تھی شام کی منصور

کہیں ٹوٹی ہوئی ٹہنی کی صورت گر پڑا سورج

٭٭٭

 

ردیف چ

دل کی بستی سوچتی ہے جاگتے رازوں کے بیچ

ایک ہی کیوں آدمی ہے سارے دروازوں کے بیچ

کھو گئیں میری سخن بستہ نوائیں درد میں

رہ گیا آہوں کا رقصِ مشتعل سازوں کے بیچ

ایک چڑیا سے تقاضائے وفا اچھا نہیں

جانثاری کی سعادت قرض شہبازوں کے بیچ

تم جسے کہتے تھے چرخ نیلگوں اک وہم تھا

گم ہوئی اس کی بلندی میری پروازوں کے بیچ

اپنے شانوں پر اٹھا رکھی تھی خود میں نے صلیب

ہے مگر تاریخ کا الزام ہمرازوں کے بیچ

ہر قدم پر کھینچ لیتا تھا کوئی اندھا کنواں

سو بسا لی اپنی بستی اپنے خمیازوں کے بیچ

شہر ہوتا چاہئے تھا اس سڑک کے آس پاس

کوئی غلطی رہ گئی ہے میرے اندازوں کے بیج

سن رہا ہوں یاد کے پچھلے پہر کی ہچکیاں

دور سے آتی ہوئی منصور آوازوں کے بیچ

٭٭٭

 

ڈھونڈتی ہے آسماں پر در کوئی تاروں کے بیچ

نیند سے بولائی دستک تری دیواروں کے بیچ

گفتگو کیا ہو مقابل جب ہیں خالی پگڑیاں

پہلے تو سر بھی ہوا کرتے تھے دستاروں کے بیچ

اے خدا میرا بھرم رکھنا ، فراتِ  وقت پر

اک انا کا بانکپن ہے کتنی تلواروں کے بیچ

ریل کی پٹڑی بچھائی جا رہی ہے اس کے ساتھ

ایک کاٹج کیا بنایا میں نے گلزاروں کے بیچ

جانتی تھی اور سب کو ایک بس میرے سوا

وہ کہیں بیٹھی ہوئی تھی چند فنکاروں کے بیچ

دھوپ بھی ہے برف تیری سرد مہری کے طفیل

رات بھی پھنکارتی ہے تیرے آزاروں کے بیچ

٭٭٭

 

ٹکڑے تھے کچھ نیل پالش کے مری آنکھوں کے بیچ

اور کچھ ٹوٹے ہوئے ناخن بھی تھے زخموں کے بیچ

راکھ کے گرنے کی بھی آواز آتی تھی مجھے

مر رہا تھا آخری سگریٹ مرے ہونٹوں کے بیچ

ہاتھ میں تو لالہ و گل تھے مرے حالات کے

پشت پر کاڑھی ہوئی تھی کھوپڑی سانپوں کے بیچ

کون گزرا ہے نگار چشم سے کچھ تو کہو

پھر گئی ہے کونسی شے یاد کی گلیوں کے بیچ

دو ملاقاتوں کے دن تھے آدمی کے پاس بس

اور کن کا فاصلہ تھا دونوں تاریخوں کے بیچ

گوشت کے جلنے کی بو تھی قریۂ منصور میں

کھال اتری تھی ہرن کی ، جسم تھا شعلوں کے بیچ

٭٭٭

 

ردیف ح

برف کی شال میں لپٹی ہوئی صرصر کی طرح

زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح

کس طرح دیکھنا ممکن تھا کسی اور طرف

میں نے دیکھا تھا اُسے آخری منظر کی طرح

ہاتھ رکھ لمس بھری تیز نظر کے آگے

چیرتی جاتی ہے سینہ مرا خنجر کی طرح

بارشیں اس کا لب و لہجہ پہن لیتی تھیں

شور کرتی تھی وہ برسات میں جھانجھر کی طرح

کچی مٹی کی مہک اوڑھ کے اِتراتی تھی

میں پہنتا تھا گرم سمندر کی طرح

پلو گرتا ہوا ساڑھی کا اٹھا کر منصور

چلتی ہے چھلکی ہوئی دودھ کی گاگر کی طرح

٭٭٭

 

ردیف خ

فلک سے بھی پرانی خاک کی تاریخ

ہے میری سرزمینِ پاک کی تاریخ

مکمل ہو گئی ہے آخرش مجھ پر

جنوں کے دامن صد چاک کی تاریخ

ابھی معلوم کرتا پھر رہا ہوں میں

تری دستار کے پیچاک کی تاریخ

مری آنکھوں میں اڑتی راکھ کی صورت

پڑی ہے سوختہ املاک کی تاریخ

رگِ جاں میں اتر کر عمر بھر میں نے

پڑھی ہے خیمۂ افلاک کی تاریخ

سرِ صحرا ہوا نے نرم ریشوں سے

پھٹا کویا تو لکھ دی آک کی تاریخ

مسلسل ہے یہ کیلنڈر پہ میرے

جدائی کی شبِ سفاک کی تاریخ

پہن کر پھرتی ہے جس کو محبت

مرتب کر تُو اُس پوشاک کی تاریخ

ہوائے گل سناتی ہے بچشمِ کُن

جہاں کو صاحبِ لولاک کی تاریخ

کھجوروں کے سروں کو کاٹنے والو

دکھائی دی تمہیں ادراک کی تاریخ

ہے ماضی کے مزاروں میں لکھی منصور

بگولوں نے خس و خاشاک کی تاریخ

٭٭٭

 

ردیف د

زندہ ہوں پر زندگانی ختم شد

فلم جاری ہے کہانی ختم شد

رو لیا ہے جتنا رو سکتا تھا میں

آنکھ میں جو تھا وہ پانی ختم شد

کر رہا ہوں شام سے فکرِ سخن

یعنی عہدِ رائیگانی ختم شد

میں بھی ہوں موجود اب افلاک پر

لامکاں کی لامکانی ختم شد

رک گیا میں بھی کنارہ دیکھ کر

پانیوں کی بھی روانی ختم شد

پیچھے چھوڑ آیا ہوں شورِ ناتمام

گاڑیوں کی سرگرانی ختم شد

اور باقی ہیں مگر آسیب کی

اک بلائے ناگہانی ختم شد

آنے سے پہلے بتاتی ہیں مجھے

بارشوں کی بے زبانی ختم شد

دیکھتے ہیں آسماں کے کیمرے

اب گلی کی پاسبانی ختم شد

آ گئے جب تم تو کیا پھر رہ گیا

جو تھا سوچا جو ہے ٹھانی ختم شد

بھیج غالب آتشِ دوزخ مجھے

سوزِ غم ہائے نہانی ختم شد

اڑ رہی ہے راکھ آتش دان میں

یار کی بھی مہربانی ختم شد

کچھ بچا ہی اب نہیں ہے آس پاس

ایک ہی تھی خوش گمانی ختم شد

وہ سمندر بھی بیاباں ہو گیا

وہ جو کشتی تھی دخانی ختم شد

اک تکلم اک تبسم کے طفیل

میرا شوقِ جاودانی ختم شد

آہٹیں سن کر خدا کی پچھلی رات

میرے دل کی بیکرانی ختم شد

اک مجسم آئینے کے سامنے

آرزو کی خوش بیانی ختم شد

لفظ کو کیا کر دیا ہے آنکھ نے

چیختے روتے معانی ختم شد

ایسا ہی کچھ ہے ہوا کے ساتھ بھی

جس طرح میری جوانی ختم شد

اہم تھا کتنا کوئی میرے لئے

اعتمادِ غیر فانی ختم شد

دشت کی وسعت جنوں کو چاہئے

اس چمن کی باغبانی ختم شد

ذہن میں منصور ہے تازہ محاذ

سرد جنگ اپنی پرانی ختم شد

٭٭٭

 

ردیف   ڈ

اس کیلئے تھا باعثِ آزار عید کارڈ

بھیجا نہیں سو یار کو اس بار عید کارڈ

ایسا نہیں کہ بھول گیا ہے تمام شہر

آئے ہیں اپنے پاس بھی دوچار عید کارڈ

تیرہ برس کے بعد بھی اک یاد کے طفیل

میں نے اٹھایا تو لگا انگار عید کارڈ

ہر سال بھیجتا ہوں جسے اپنے آپ کو

اک ہے مری کہانی کا کردار عید کارڈ

کرنا ہے کب تلک شبِ انکار میں قیام

پچھلے برس کا آخری اقرار عید کارڈ

منصور سرورق پہ ہے تصویر شام کی

آیا ہے کیسا آئینہ بردار عید کارڈ

٭٭٭

 

ردیف   ذ

پڑے ہیں جو قلم کے ساتھ کاغذ

یہی ہیں ہر دھرم کے ساتھ کاغذ

جلا آیا جلوسِ دانشِ دیں

شعورِ محترم کے ساتھ کاغذ

جڑے بس رہ گئے ہیں داستاں میں

ترے عہدِ ستم کے ساتھ کاغذ

یہی بس التماسِ دل کہ رکھنا

یہ دیوارِ حرم کے ساتھ کاغذ

پرندے بنتے جاتے ہیں مسلسل

ترے فضل و کرم کے ساتھ کاغذ

میانوالی میں آئے ہیں فلک سے

یہ امکانِ عدم کے ساتھ کاغذ

خود اپنے قتل نامے کا کسی کو

دیا پورے بھرم کے ساتھ کاغذ

کسی مبہم سی انجانی زباں میں

پڑے ہیں ہر قدم کے ساتھ کاغذ

الٹنے ہیں پلٹنے ہیں لحد تک

خیالِ بیش و کم کے ساتھ کاغذ

یہ وہ تہذیب ہے جو بیچتی ہے

ابھی دام و درم کے ساتھ کاغذ

کسی کو دستخط کر کے دئیے ہیں

سرِ تسلیم خم کے ساتھ کاغذ

درازوں میں چھپانے پڑ رہے ہیں

کلامِ چشمِ نم کے ساتھ کاغذ

کسی عباس نے لکھا ہے خوں سے

یہ چپکا دے علم کے ساتھ کاغذ

چمکتے پھر رہے ہیں آسماں کے

چراغِ ذی حشم کے ساتھ کاغذ

بدل جاتے ہیں اکثر دیکھتا ہوں

مری تاریخِ غم کے ساتھ کاغذ

ابد کے قہوہ خانے میں ملے ہیں

کسی تازہ صنم کے ساتھ کاغذ

ہوئے ہیں کس قدر منصور کالے

یہ شب ہائے الم کے ساتھ کاغذ

٭٭٭

 

ردیف  ر

کچھ زخم دھنک خیز ہیں کچھ زخم لہو بار

دیکھا نہ مگر اس نے ہمارا گل و گلزار

کیا مانگنے آ سکتے ہیں پھر تیری گلی میں

ہم آخرِ شب ،آخری سگریٹ کے طلب گار

یہ فلسفہ ہے یا کہ خرابی ہے خرد کی

ہونے سے بھی انکار نہ ہونے سے بھی انکار

اک زاویہ در زاویہ جذبوں کی ریاضی

اک لمس بھری قوسِ قزح۔۔ بسترِ بیدار

رکھ ہاتھ نہ زانو پہ اے دھکے ہوئے موسم

اس وقت زیادہ ہے بہت کار کی رفتار

نازک ہے بہت، داغ نہ پڑ جائیں بدن پر

اُس حسنِ گنہ خیز کو مسواک سے مت مار

آنکھوں سے لپکتے ہیں یہاں برف کا طوفاں

ہرچند کہ مصنوعی نہیں گرمی ِ بازار

بنیاد میں رکھا گیا تھا جس کو مکاں کی

منصور ہوا پھر اسی بھونچال سے مسمار

ق

وحدت کے ازل زار یہ کثرت کے ابد زار

ہم ہی سے دھنک رنگ ہیں ہم ہی سے کرم بار

ہم عالمِ لاہوت کی خوش بخت سحر ہیں

ہم حرکتِ  افلاک ہیں ہم ثابت وسیار

ہم حسنِ نزاکت کی چہکتی ہوئی تاریخ

ہم قرطبہ اور تاج محل کے درو دیوار

ہم کاسۂ مجذوب ہیں ہم دھجیاں دھج کی

ہم روند کے پاؤں سے نکل آئے ہیں دستار

ہم کُن کی صدا ہیں ہمی لولاک کا نغمہ

ہم وقت کے گنبد ہمی بازیچہ ِ  اسرار

ہم لوگ سراپا ہیں کرامت کوئی منصور

ہم قربِ خداوندی کے احساس کا اظہار

٭٭٭

 

اب کوئی ایسا ستم ایجاد کر

اس کو بھی اپنی طرح برباد کر

روند کر رکھ دوں ترے سات آسماں

اک ذرا بس موت سے آزاد کر

اب مجھے تسخیر کرنے کیلئے

اسم اعظم روح میں آباد کر

میری باتیں میری آنکھیں میرے ہاتھ

بیٹھ کر اب رو مجھے اور یاد کر

قریۂ تشکیک کی سرحد پہ ہوں

صاحبِ لوح و قلم امداد کر

خالق و مخلوق میں دے

ہم خدا زادوں کو آدم زاد کر

خشک سالی آ گئی آنکھوں تلک

پانیوں کے واسطے فریاد کر

ہے رکا کوئی یہاں برسوں کے بعد

بس دعائے عمرِ ابر و باد کر

پھر قیامت سے نکل آیا ہوں میں

اب کوئی نازل نئی افتاد کر

ہیں ہمہ تن گوش ساتوں آسماں

بول کچھ منصور کچھ ارشاد کر

٭٭٭

 

یہ خار نگاراں ہے ، ثمر کوٹ کہیں اور

کیکر پہ لگا کرتے ہیں اخروٹ کہیں اور

دیوار پہ تقسیم کی اشکال بنا دیں

اقرارِ محبت کا لکھا نوٹ کہیں اور

چلتے تھے پسینے کے مری جلد پہ قطرے

بم جیسے مرے پاؤں میں ، ریموٹ کہیں اور

ٹوٹا مرا دل تھا ، جھڑی آنکھوں میں لگی تھی

احساس کہیں اور تھا اور چوٹ کہیں اور

ہے اپنے مراسم میں کوئی اور بھی شامل

ہم ٹھیک ہی سمجھے تھے کہ ہے کھوٹ کہیں اور

منصور اڑا تھا میں بڑی تیز ہوا میں

ٹائی کہیں جاتی تھی مری ، کوٹ کہیں اور

٭٭٭

 

ہر دم بھوک بھری مایوس سڑک پر

میلوں لمبا ایک جلوس سڑک پر

دیکھ کے پہلی بار دہکتا سورج

اس نے پھینک دیا ملبوس سڑک پر

برسوں پہلے میرا گھر ہوتا تھا

شہرِ فسوں کی اس مانوس سڑک پر

صرف یہ رستہ جانے والوں کا ہے

پہلی بار ہوا محسوس سڑک پر

میں نے آگ بھری بوتل کھولی تھی

اس نے پیا تھا اورنج جوس سڑک پر

چاند دکھائی دیتا تھا کھڑکی سے

دور لٹکتا اک فانوس سڑک پر

٭٭٭

 

ابھی دھیان کہاں وصل کے فریضوں پر

ابھی وہ کاڑھتی پھرتی ہے دل قمیضوں پر

قیام کرتا ہوں اکثر میں دل کے کمرے میں

کہ جم نہ جائے کہیں گرد اس کی چیزوں پر

یہی تو لوگ مسیحا ہیں زندگانی کے

ہزار رحمتیں ہوں عشق کے مریضوں پر

کسی انار کلی کے خیال میں اب تک

غلام گردشیں ماتم کناں کنیزوں پر

جلا رہی ہے مرے بادلوں کے پیراہن

پھوار گرتی ہوئی ململیں شمیضوں پر

غزل کہی ہے کسی بے چراغ لمحے میں

شبِ فراق کے کاجل زدہ عزیزوں پر

وہ غور کرتی رہی ہے تمام دن منصور

مرے لباس کی الجھی ہوئی کریزوں پر

٭٭٭

 

ردیف ز

مٹی مرا وجود ، زمیں میری جا نماز

پڑھتی ہے جن کو چوم کے بادِ صبا نماز

اک دلنواز شخص نے دیکھا مجھے تو میں

قوسِ قزح پہ عصر کی پڑھنے لگا نماز

پڑھتے ہیں سر پہ دھوپ کی دستارباندھ کر

سایہ بچھا کے اپنا ہم اہلِ صفا نماز

لات و منات اپنے بغل میں لئے ہوئے

کعبہ کی سمت پڑھتی ہے خلقِ خدا نماز

تیرا ہے کوئی اور تعین مرا میں آپ

تیری جدا نماز ہے میری جدا نماز

جانے کب آئے پھر یہ پلٹ کر شبِ وصال

ہو جائے گی ادا تو عشاء کی قضا نماز

میں نے کہا کہ صبح ہے اب تو افق کے پاس

اس نے کہا تو کیجئے اٹھ کر ادا نماز

مت پوچھ کیسی خواہشِ دیدار تھی مجھے

برسوں میں کوہِ طور پہ پڑھتا رہا نماز

قرباں خیالِ گنبدِ خضرا پہ ہیں سجود

میری دعا مدنیہ مقامِ حرا نماز

اس مختصر قیام میں کافی یہی مجھے

میرا مکاں درود ہے میرا دیا نماز

پندارِ جاں میں آئی ہیں تجھ سے ملاحتیں

تجھ سے ہوئے دراز یہ دستِ دعا نماز

اے خواجۂ فراق ! ملاقات کیلئے

پھر پڑھ کنارِ چشمۂ حمد و ثنا نماز

اے شیخ شاہِ وقت کے دربار سے نکل

دروازہ کر رہی ہے بغاوت کا وا نماز

اس کا خیال مجھ سے قضا ہی نہیں ہوا

لگتا ہے میرے واسطے منصور تھا نماز

٭٭٭

 

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید