FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

خواب چہرہ

 

 

 

                ثمینہ راجہ

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

عرض مدون

 

میں نے برقی کتابوں کے ابتدائی دور میں ہی  ثمینہ راجہ  کی ای بکس بنائی تھیں۔ اور یہ اولین برقی کتب تھیں جو انٹر نیٹ پر موجود ثمینہ راجہ کے بلاگ سے  کاپی  پیسٹ کر کے بنائی تھیں۔ اب اگرچہ شاعرہ کے کچھ بلاگ فعال نہیں رہے اور یولا سائٹ پر ویب سائٹ کا متن بھی بدل گیا۔ اور اب ان میں دئے گئے روابط سے یہ متن نہیں ملے گا۔ ان دنوں میں نے شاعرہ سے با قاعدہ اجازت حاصل کی تھی اور برقی کتب کے عنوانات تجویز کیے تھے۔ بعد میں  کتاب چہرہ پر وہ میرے احباب میں بھی شامل ہو گئیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ثمینہ نے از راہِ تلطف ان برقی کتب اور ان  کے عنوانات کو بہت پسند کیا۔ اب  جب کہ ثمینہ کی وفات کو بھی تین سال بیت چکے، میں انہیں کتابوں کو دو بارہ انہیں ناموں سے بزم اردو لائبریری میں شامل کر رہا ہوں۔  اور اب میں نے جمع و ترتیب میں اپنا نام دے دیا ہے۔

ا ع

٭٭٭

 

 

 

 

چند گِلے بھُلا دیے چند سے درگزر کِیا

قصۂ غم طویل تھا ، جان کے مختصر کِیا

 

جھوٹ نہیں تھا عشق بھی،زیست بھی تھی تجھے عزیز

میں نے بھی اپنی عمر کو اپنے لیے بسر کِیا

 

جیسے بھی تیرے خواب ہوں جو بھی ترے سراب ہوں

میں نے تو ریت اوڑھ لی، میں نے تو کم سفر کِیا

 

تیری نگاہِ  ناز کا لطف و گریز ایک ساتھ

شوق تھا کچھ اگر رہا،رنج تھا کچھ اگر کِیا

 

ٹوٹ کے پھر سے جُڑ گیا خواب کا زرد سلسلہ

میں نے ترے فراق کو نیند میں ہی بسر کِیا

 

راہ بہت طویل تھی راہ میں اک فصیل تھی

اُس کو بھی مختصر کِیا ،اِس میں بھی ایک در کِیا

 

ہم تو عجیب لوگ تھے ہم کو ہزار روگ تھے

خوب کِیا جو آپ نے غیر کو ہم سفر کِیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے

میرے اندر اک چراغ شام غم جلنے کو ہے

 

کب تلک اس ہجر میں آخر کو رونا چاہئے ؟

آنکھ بھی خوں ہو گئی دامن بھی اب گلنے کو ہے

 

گلستاں میں پڑ گئی ہے رسم تجسیم بہار

اپنے چہرے پر ہر اک گل،خون دل ملنے کو ہے

 

اجنبی سی سر زمیں نا آشنا سے لوگ ہیں

ایک سورج تھا شناسا،وہ بھی اب ڈھلنے کو ہے

 

ہر نئی منزل کی جانب صورت ابر رواں

میرے ہاتھوں سے نکل کر میرا دل چلنے کو ہے

 

شہر پر طوفان سے پہلے کا سناٹا ہے آج

حادثہ ہونے کو ہے یا سانحہ ٹلنے کو ہے

 

اک ہوائے تند اور ہمراہ کچھ چنگاریاں

خاک سی اڑنے کو ہے اور آگ سی جلنے کو ہے

 

سامنے ہے نیند کی لمبی مسافت آج شب

کاروان انجم و مہتاب بھی چلنے کو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 نذرِ  اقبال

 

 

رات جوان ہو گئی، پرتوِ  ماہتاب سے

موجِ  ہَوا کے ساتھ ساتھ کھِلنے لگے گلاب سے

 

عشق میں جیسے زندگی کوئی فسانہ بن گئی

عام سے واقعات بھی ہو گئے خواب خواب سے

 

ہم نے تو ریگِ  ہجر پر، پا لیے نقشِ  پائے یاد

ہم نے تو راستہ لیا دشت میں اک سراب سے

 

لب پہ نہ آ سکی اگر شدّتِ  دل تو کیا ہوا

آنکھ تو خون ہو گئی سوزشِ  اضطراب سے

 

تُو شبِ  پَر فشاں کبھی ہم پہ جو ہوتی مہرباں

چین کی نیند مانگتے ایک قدیم خواب سے

 

اب تو وہ سخت جاں بھی ہیں سوختہ دل کہ جو یہاں

بچ کے چلے نہ تھے کبھی حدّتِ  آفتاب سے

 

حیرتِ  زندگی سے ہے ۔ ۔ ۔ حیرتِ  آئنہ اگر

کس کو خبر کہ آنکھ میں نور ہے کس کی تاب سے

 

عشق کی اپنی آن ہے ، فقر کی اپنی شان ہے

فرق ہے ان کا ذائقہ، لذتِ  نان و آب سے

 

حرف میں میرے کر ظہور اے مری آتشِ نہاں

”طبعِ  زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے ”

 

٭٭٭

 

 

 

 

 مگر میری آنکھیں

 

 

میں اُس رات بھی

زندگی کے اسی گمشدہ راستے پر چلی جا رہی تھی

مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا تھا

مجھے اس کی آنکھیں بلاتی تھیں اکثر

خوشی کے سبھی پھول ۔۔۔ رستے میں گرتے گئے

پر مرے آنسوؤں کا نمک ۔۔۔ میرے ہونٹوں پہ باقی تھا

میری ہتھیلی پہ اس لمس کی یاد تھی

اور مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا تھا

وہی راستہ تھا کہ جس پر اندھیرا ہمیشہ سے بھاری تھا

لیکن ۔۔۔ کبھی کچھ بتا کر تو آتا نہیں حادثہ

 

پھر کسی نے مری خاک اٹھائی

کسی نے مرے پھول اٹھائے

کسی نے ہتھیلی پہ اس لمس کی یاد دیکھی

کسی نے وہاں جھاڑیوں میں پڑی

میری آنکھیں نہ دیکھیں

 

اب اک اور ہی راستے پر چلی جا رہی ہوں

مرے آنسوؤں کا نمک ۔۔۔ میرے ہونٹوں پہ باقی ہے

میری ہتھیلی پہ ۔۔۔ اس لمس کی یاد ہے

اور مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا ہے

مگر میری آنکھیں

وہیں جھاڑیوں میں پڑی رہ گئی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 معبد

 

 

مرا دل ۔۔۔ شاخ پر سوکھا ہوا پتا نہیں تھا

جو ہوائے ہجر کے بس ایک جھونکے سے

بکھر جاتا

مرا دل ۔۔۔ راکھ کی چٹکی نہیں تھا

تم ہتھیلی پر بہت ہلکی سی بس اک پھونک سے

جس کو اڑا دیتے

مرا دل ۔۔۔ راستے کا سنگ پارہ تو نہیں تھا

جو تمہارے پاؤں کی ٹھوکر میں رہتا

میرا دل مہماں سرائے بھی نہیں تھا

جس میں تم مہمان بن کر آ اترتے

اور نئی منزل کی خاطر

اس کو ویراں چھوڑ جاتے

 

میرا دل تو ایک معبد تھا

جہاں تم کو بہت سے کوس

ننگے پاؤں سے چل کر پہنچنا تھا

پرانے طاقچوں پر

اک چراغِ  غم جلانا تھا

الوہی خواب میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سے

اک فرقت زدہ آنسو بہانا تھا

بہت نخوت سے شانوں پر اٹھا ۔۔۔ یہ سر جھکانا تھا

 

 

مرا دل ایک معبد تھا

اگر آنا تھا تم کو

ترکِ  ہستی

ترکِ  دنیا کر کے آنا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 زندگی جو کہانی بن گئی

 

 

جدائی گہرے غم جیسی تھی

غم تھا ۔۔۔ گہرے کالے پانیوں جیسا

بہت ہی بے دعا شب تھی

جب اس نے راستے میں ساتھ چھوڑا

راستے بھی راستوں ہی میں ۔۔۔ بھٹک کر رہ گئے

آنکھوں کے گرد و پیش جتنے بھی ستارے تھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹھٹک کر رہ گئے

 

اب ٹوٹتی جڑتی ہوئی نیندیں ہیں

اور کچھ اجنبی راتیں

مرے سب خواب

راتوں کے پرندوں کی طرح

اپنے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے

فضا کو مرتعش کرتے ۔۔۔ اڑے جاتے ہیں

اور گہری خموشی میں ۔۔۔ بہت سہمے ہوئے دل کو

ذرا کچھ اور سہمانے لگے ہیں

 

مختلف ہے جاگنا فرقت میں ۔۔۔ وصلت سے

بہت ہی مختلف ہے زندگی کرنا

جدا ہو کر محبت سے ،

کہانی میں محبت

اصل سے بھی خوبصورت اور طرب انگیز ہوتی ہے

جدائی ۔۔۔ اصل سے بھی ہولناک

 

میری سب نظموں کا چہرہ

اب جدائی سے مشابہ ہو گیا ہے

زندگی ۔۔۔ کوئی کہانی بن گئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 رو لیجئے کہ پھر کوئی غم خوار ہو نہ ہو

ان آنسوؤں کا اور خریدار ہو نہ ہو

 

کچھ روز میں یہ زخم چراغوں سے جل بجھیں

کچھ روز میں یہ گرمیِ  بازار ہو نہ ہو

 

عجلت بہت ہے آپ کو جانے کی ، جایئے

لوٹیں تو پھر یہ عشق کا آزار ہو نہ ہو

 

سو جائے تھک کے پچھلے پہر چشمِ  انتظار

اور کیا خبر کہ بعد میں بیدار ہو نہ ہو

 

دل کو بہت غرورِ  کشیدہ سری بھی ہے

پھر سامنے یہ سنگِ  درِ  یار ہو نہ ہو

 

اچھا ہوا کہ آج بچا لی متاعِ  خواب

پھر جانے ایسی جراتِ  انکار ہو نہ ہو

 

ق

 

راہوں میں اس کی پھول ہمیشہ کھلے رہیں

قسمت میں اپنی گوشۂ گلزار ہو نہ ہو

 

وہ قصر اور اس کے کلس جاوداں رہیں

ہم کو نصیب سایۂ دیوار ہو نہ ہو

 

جب ہر روش پہ حسنِ  گل و یاسمن ملے

پھر گلستاں میں نرگسِ  بیمار ہو نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 رہِ  فراق کسی طور مختصر کیجے

جو ہو سکے تو کبھی خواب سے گزر کیجے

 

ہمارے دل میں بھی منظر عجیب سیر کا ہے

نہ آ سکیں تو بلندی سے ہی نظر کیجے

 

یہاں پہ چاروں طرف ہے سراغ رستوں کا

پر اختیار کوئی راہ دیکھ کر کیجے

 

یہ شہر و کوہ و بیابان و دشت و دریا تھے

اب آگے خواب ہے ، رک جایئے ، بسر کیجے

 

بنے تھے خاک سے ، ہم کو قیام کرنا تھا

ہوا ہیں آپ، اڑا کیجئے ، سفر کیجے

 

ہم اپنے عہدِ  تمنا پہ اب بھی قائم ہیں

ذرا شریکِ  تمنا کو بھی خبر کیجے

٭٭٭

 

 

 

 

 آگ

 

 

 

یہ مت کہو کہ صلہ آرزو کا کوئی نہیں

کہ جب تلک مرے باطن میں آگ جلتی ہے

اور آئنے میں یہ شعلہ دکھائی دیتا ہے

 

سراغِ اصل ہے آتش ۔ ۔ ۔ فزوں کہیں بھی ہو

الاؤ میں ہو ۔ ۔ ۔ یہ رقصندہ وحشیوں کے بیچ

کہ قافلوں کے پڑاؤ پہ ۔ ۔ ۔ اولیں شب میں

یہ سات پھیروں کے وعدے میں ہو

کہ موت کا انت

 

یہ اہلِ  ہجر کی آنکھوں میں لوَ جگاتی ہو

کہ دل زدوں کے لہو میں خروش کرتی ہو

قدیم وقت کے آتش کدوں میں جلتی ہو

کہ پہلے بیج سے تخلیق کے نکلتی ہو،

نمودِ عشق یہاں آگ ہی سے ممکن ہے

 

یہ مت کہو کہ مرا عشق با مُراد نہیں

کہ جب تلک میرے باطن میں آگ جلتی ہے

اور اس کا شعلۂ لرزاں تمہیں جلاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 پرندے

 

پرندے بہت شور کرنے لگے ہیں

مری نیند کچی بہت ہے

ذرا تیز آہٹ

بہت ہلکی دستک سے ڈرتی ہے

اور ٹوٹ جاتی ہے

اک بار اگر ٹوٹ جائے ۔۔۔ تو پھر

رات بھر اگلے دن کے مسائل

ادھورے سے کچھ خواب ۔۔۔ اور کروٹیں ۔۔۔

 

اور کہا تھا کہ مت لے کر آؤ

ہواؤں فضاؤں کے عادی ۔۔۔ یہ ننھے پرندے

یہ اس قید میں گھُٹ کے مر ہی نہ جائیں ،

یہ بچے ۔۔۔ بھلا مانتے ہیں کسی کی؟

مگر سخت حیرت ہے مجھ کو پرندوں پہ

اس قید میں ۔۔۔ روز دانہ بھی کھاتے ہیں

اور چہچہاتے ہیں

 

لکھتی ہوں اور ساتھ ہی ہنس پڑی ہوں

کہ اک عمر دانہ بھی کھایا ہے

نظمیں بھی لکھی ہیں

پرواز کی آرزو بھی کہیں دل میں رکھی ہے

لیکن ۔۔۔۔۔

پرندے تو جب چاہتے ہیں

بہت شور کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 دن تری یاد سے آغاز کِیا

 

آبِ  حیراں پہ ترے حسن کی ضَو

پردۂ خاک میں تیرا ہی طلسم

تیرے ہی اسم نے افلاک تلک

پیکرِ  گِل کو سرافراز کِیا

 

مِہر کے رنگ سے لوَحِ  دل پر

ایک ہی حرف رقم ہوتا رہا

اور اس حرف سے نسبت پہ مرے

خامۂ شاعری نے ناز کِیا

 

چشم، اسَرار کی جویا میری

دل ہے اک عمر سے شب زندہ دار

دل، غمِ  دل کا سبب پوچھتا تھا

تو نے افشا جو کوئی راز کِیا

 

اب تو اچھی نہیں لگتی دنیا

عشق نے اپنے معانی بدلے

شب ترے ہجر سے منسوب ہوئی

دن تری یاد سے آغاز کِیا

٭٭٭

 

 

 باز دید

 

تنہائی کے ایک زرد بن سے

اب زندگی گرچہ آ گئی تھی

امکان کے سبز راستے پر

 

یہ راہ کے جس کے دونوں جانب

مہکے ہوئے پھول راحتوں کے

اور حدِ  نظر تلک تھے بکھرے

سب رنگ، نویلی چاہتوں کے

 

اب دل میں نہیں تھا ہَول کوئی

اور آنکھ میں گھُل رہی تھی جیسے

فردا کی سپید روشنی سی

 

جو نرم ہَوا ابھی چلی تھی

وہ ایک عجیب سرخوشی سے

اِس تن سے لپٹ لپٹ گئی تھی

 

لیکن یہ ہَوا کی زلف میں ہے

کن زرد اداسیوں کی خوشبو

لگتا ہے کہ جیسے پیشتر بھی

اِس دل پہ چلا ہے اس کا جادو

 

مانوس ہے یا کہ اجنبی ہے

بس اپنی طرف کو کھینچتی ہے

اب پاؤں کہاں بڑھیں گے آگے

جب زندگی خود ہی کہہ رہی ہے

 

‘جنگل میں یہ کیسا گُل کھِلا ہے ‘

جنگل کو پلٹ کے دیکھنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 محبت زندگی سے بھی ضروری تھی

 

 

کہاں ہوں میں ؟ ۔۔۔ کہاں ہے تو؟

زمانوں سے مجھے اک جستجو

دل بے نیازِ  ہا و ہو

تو ماورائے رنگ و بو ۔۔۔۔

شامِ  سفر ۔۔۔ امید ہی رہوار ہے میرا

ستارہ شام کا، حدِ  نظر سے بھی کچھ آگے اُڑتا جاتا ہے

ہوائیں میرا پیچھا کر رہی ہیں

زندگی کو راستے کے موڑ پر رکھ کر

میں شاید بھول آئی ہوں ۔۔۔۔

 

کہاں ہے تو؟

کہاں ہے تو ۔۔۔ زمیں کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے

دھوپ ڈھلنے سے بھی کچھ پہلے

اندھیرا، منظروں پر پھیلتا ہے

آسماں ، اپنے کناروں سے نکل کر بہہ رہا ہے

لوگ، یادوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں

راستے پر رات کی آہٹ

 

کہاں ہوں میں ؟

کہاں ہوں میں کہ سارے لوگ

یادوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں

لوگ ۔۔۔ سارے لوگ

سارے ۔۔۔ درد میں بھیگے ہوئے اور آس میں لتھڑے ہوئے

سب ۔۔۔ زندگی کو اپنے اپنے ٹوٹتے کاندھوں پہ لادے

منزلوں پیچھے رُکے ہوں گے

رُکے ہوں گے ۔۔۔ پلٹ کر جا چھکے ہوں گے ۔۔۔

خدا جانے

 

کہاں ہے دل؟

کہاں ہے دل ۔۔۔ نہیں تھا ۔۔۔۔

ہاں مگر میں نے یہ سمجھا تھا

کہ میری جستجو کے ساتھ ہے

سارے جہاں کے رنگ و بو کے ساتھ ہے

اور زندگی کی آرزو کے ساتھ ہے

گرچہ محبت ۔۔۔۔ زندگی سے بھی ضروری تھی

مگر اب تو بہت ہلکی ۔۔۔ کسک سی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 مری خواب گاہ میں

 

 

مجھے وہم تھا

مری خواب گاہ میں کوئی شے ہے چھپی ہوئی

کوئی سبز، سرخ لکیر سی

جو نظر اٹھاؤں ۔۔۔ تو ایک چیز حقیر سی

جو نظر بچے ۔۔۔ تو عجب طرح سے وہ جی اٹھے

کبھی رینگتی ہوئی فرش کے تنِ زرد پر

کبھی کانپتی ہوئی میرے بسترِ  زرد پر

جو سرہانے آ کے سمٹ گئی

تو وہیں سے نیند اچٹ گئی

کسی شب کو خواب کے پاس سے جو گزر گئی

تو وہاں سے خواب ہی کٹ گیا

کبھی سچ کی طرح مری نگاہ پہ کھل گئی

کبھی واہمہ سا مری نظر سے لپٹ گیا

 

ابھی پائیدان کے پاس تھی ۔۔۔ ابھی در میں ہے

کبھی خوف سا رگ و پے میں میرے اتر گیا

کبھی سنسنی سی کمر میں ہے

نہ میں جاگ پاؤں ۔۔۔ نہ سو سکوں

اور اسی سیاہ خیال میں

نہ ہنسوں ۔۔۔ نہ کھل کے میں رو سکوں

کہ وہ جھولتی ہوئی جھالروں سے چمٹ کے چھت سے لٹک گئی

کہ وہ چھت سے رینگتی رینگتی ۔ ۔ ۔ ۔

جو مرے بدن پہ چھلک گئی؟

اسی ڈر سے آنکھ دھڑک گئی

 

مرے گھر میں کوئی نہ آئے گا

کہ میں ہاتھ تھام کے تختِ  جان سے اتر سکوں

مرے دل میں کوئی نہ آئے گا

کہ میں دل کی بات ہی کر سکوں

وہ سکوت ہے

کہ نہ جی سکوں ۔۔۔ نہ میں مر سکوں

 

کبھی وہم تھا ۔۔۔

مگر اب گماں ہے یقین پر

مری خواب گاہ میں سانپ ہے

میں رکھوں نہ پاؤں زمین پر

٭٭٭

 

 

 

 نروان

 

 

خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا

’’ہر اک چیز غم ہے

حیات ایک نا مختتم رنج کا سلسلہ ہے

یہاں خواہشِ زر کا

نام آوری کی تمنا کا حاصل

محبت کا، نفرت کا انجام ۔۔۔ الم ہے ‘‘

 

خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا

ہر اک شے گزر جانے والی ہے

پھل، پھول، سبزہ، سمندر، پہاڑ اور میداں

بہارو خزاں ، ابروباراں ، زمستاں

ہر اک جاندار اور بے جاں

مکاں ، لامکاں ۔۔۔ سب دھواں

سب گماں ہے ‘‘

 

خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا

’’ہر اک شے عدم ہے

یہ شمس و قمر ۔۔۔ کہکشان و نجوم اور شام و سَحر

اور مہ و سال ۔۔۔ اور وقت

ہر شے کا انجام ۔۔۔ آخر فنا ہے

زمینوں ، زمانوں سے آگے خلا ہے

ہر اک چیز زندہ ۔۔۔ مگر ہر قدم ۔۔۔ موت کی ہم قدم ہے

 

جو ہر شے عدم ہے

تو کس بات کا تجھ کو غم ہے

جو ہر شے گزر جانے والی ہے ۔۔۔ آخر عدم ہے

تو پھر کیسا غم ہے

کہ جینے میں بھی موت دیکھی

جو راحت میں غم کا مزہ تو نے چکھا ‘‘

 

خدا نے یہ پوچھا

جب اس نے مرے آبلے جیسے دُکھتے ہوئے دل پہ

معجز نما ہاتھ رکھا

—————————————-

 

سروم دکھم ۔۔۔ سروم اتیم ۔۔۔ سروم شنیم ( مہاتما بدھ)

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 زمیں کیوں بنائی

 

 

ٍ فلک کیوں بنایا؟

ستاروں سے آگے ستارے بنائے

ستاروں سے پھر کہکشائیں سجائیں

بہت فاصلے ۔۔۔

فاصلوں سے بھی آگے ۔۔۔ بہت فاصلے

چار سمتیں ، کبھی چھ، کبھی سات سمتیں بنائیں

کبھی نور سے نور پیدا کیا اور کبھی تیرگی، تیرگی سے

اندھیرے کا آخر اجالا ۔۔۔ اجالے کا انجام اندھیرا

شہاب اور ثاقب

کہیں آگ ہی آگ ۔۔۔ آگے

کہیں برف ہی برف ۔۔۔ پیچھے

حقیقت میں کوئی نہ آگے ۔۔۔ نہ پیچھے

فقط شعبدے

بس کشش اور ثقل اور ایتھر

 

چلو یہ اگر بن گیا تھا ۔۔۔ بہت تھا

زمیں کیوں بنائی؟

فضائیں ، ہوائیں بنائیں

پہاڑ اور سمندر بنائے

یہ پھل پھول اور کھیتیاں اور جنگل

ہزاروں طرح کے پرندے

کروڑوں طرح کے جناور

یہ پانی میں چھوٹی بڑی مچھلیاں

تاکہ چھوٹی کو کھائے بڑی

اور طاقت میں کم کو زیادہ

 

زمیں پر یہ انساں

یہ حیوانِ  ناطق ۔۔۔ درندوں کا سردار

دو پاؤں پر اک بدن کو اٹھانے پہ نازاں

اور اس کے کئی روپ، بہروپ

سائے ہی سائے ۔۔۔ کبھی دھوپ ہی دھوپ

رشتوں کی زنجیر ۔۔۔ جس میں ہیں مہرو مروت کی

ظلم و عداوت کی کڑیاں

یہ رشتوں کی زنجیر ۔۔۔ جس میں بندھی

ابنِ  آدم کی اور بنتِ حوا کی تقدیر

تقدیر ۔۔۔ جس سے ہیں سب

سخت بیزار و دل گیر و نالاں

 

یہ جھوٹ اور سچ کے ادلتے بدلتے قوانین و میزاں

قوانین و میزاں کہ جن سے ہراساں

یہ مخلوق ۔۔۔ نادار و بے کار و وحشت زدہ و سراسیمہ

مخلوق ۔۔۔ بے راہ و بے سمت و حیراں

 

چلو یہ اگر بن گیا تھا ۔۔۔ بہت تھا

مجھے کیوں بنایا؟

مری عقل کو کیوں بتائی حقیقت

زمین و زماں کی

مکاں لا مکاں کی

یقین و گماں کی

مرے سر پہ پھیلے ہوئے آسماں کی

مری عقل کو یہ حقیقت بتا کر

زمیں کے بجائے

مجھے آسماں کی طرف دیکھنا کیوں سِکھایا؟

٭٭٭

 

 

 

 

میوز

 

 

بہت سرمئی دھند تھی ۔۔۔ آسماں سے زمیں تک

مرا نرم دل نو دمیدہ تھا

نوزائیدہ تن تھا ۔۔ شیشے کے مانند نازک

ابھی تک بہت خواب دیدہ تھا

اور چشم حیراں ذرا نیم وا تھی

مری نیم وا چشم حیراں نے ۔۔۔ مشرق کی جانب

افق میں سیہ اور شفاف آئینے پر

اپنے طالع کو بیدار ہوتے ہوئے

پہلی ساعت میں دیکھا

وہ ساعت کہ جس کے اجالے کے نیچے

مری زندگی نے ، کنار عدم سے ادھر پاؤں رکھا

مرے جسم نے باغ دنیا میں بہتی ملائم ہوا کا

ذرا نیم شیریں

ذرا نیم سرداب چکھا

مرا نرم دل جو ابھی نو دمیدہ تھا

اس آئنے میں خود اپنا وجود خفی دیکھتا تھا

تو اس آئنے میں جھلکتے ہوئے اس نے دیکھا

مرے ساتھ ۔۔۔۔ اک اور چہرہ!

 

ازل سے ابد کی طرف جاتے حیران رستوں پہ

قرنوں تلک نور ہی نور تھا

رستۂ سیم تن کے کناروں پہ رنگیں گلابوں کے تختے مہکتے تھے

خوشبو کی بارش فضائے جہاں پر اترتی تھی

حد سماعت سے آگے تلک نقرئی گھنٹیوں کی صدا تھی

مری جاں ، شب و روز کے فہم سے ماورا تھی

 

کوئی چاندنی سا لبادہ پہن کر

میں اپنے بدن کی لطافت میں

جب آسماں سے زمیں کی طرف اٹھ رہی تھی

مرا ہاتھ تھامے ۔۔۔ مرے ساتھ تھے تم

 

سنہری بدن پر ۔۔۔ مرا تن سنبھالے

گلابی لبوں پر ۔۔۔ مرا لمس اٹھائے

ملائم نظر میں محبت کی رنگین دنیا سجائے

 

تمہاری چمک دار زلفوں سے

کتنے زمانوں کی تازہ ہوائیں گزرتی تھیں

آنکھوں کی اس نیلمیں تاب میں

سینکڑوں شنگرفی سر زمینیں ۔۔۔ کئی نیلگوں آسماں تھے

زمیں سے فلک تک ۔۔۔ ہزاروں نظارے نمایاں تھے

لیکن مری چشم حیراں میں ۔۔۔ یہ سب تماشا نہیں تھا

فقط تم عیاں تھے

رگ جاں میں بہتے ہوئے سرخ خوں میں رواں تھے

 

مری روح کے سبز شعلے میں

اونچی ۔۔۔ بہت اونچی اٹھتی ہوئی ایک لو تھی تمہاری

مرے سر کے اطراف میں جس سے نورانی ہالہ بنا تھا

کہ تم اولیں خواب ہستی کی صورت

خدائے محبت کے مانند

دل میں نہاں تھے

٭٭٭

 

 

 

سامر

 

جادو اثر ہے

جو بھی تُو تسبیح پر

پڑھتا ہے

صبح و شام

میرے سامنے

آنکھوں میں تیری سِحر ہے

آواز میں ہے ساحری

تیرے بدن کے آبنوسی رنگ میں ہے وہ کشش

جو مجھ کو

پاگل کر گئی

 

چہرہ ترا ۔۔۔ بچپن سے میرے خواب میں آتا رہا

ماتھے پہ کالی زلف کی یہ اُلجھی لٹ

میرے پریشاں دل سے الجھی ہی رہی

نظروں میں منڈلاتی رہیں

چوڑی بھنویں اور گہری آنکھیں

میرا رستہ روکتی آنکھیں

تری جادو بھری یک ساں نظر سے

خوں کی اک اک بوند ۔۔۔ اک اک سانپ بن کر

اس بدن میں

سرسراتی ۔۔۔ رینگتی ۔۔۔ چلتی رہی

اُن سانولے ہونٹوں پہ گہری پیاس کا اَن مِٹ نشاں

میرے لبوں پر ۔۔۔ پیاس کا صحرا جگاتا

ریت پر کوئی بگولہ بن کے لہراتا رہا

 

جادو اثر ہے وِرد تیرا

ایسا لگتا ہے کہ ان ہونٹوں کی ہر جنبش

مرے دل میں تمنّا کا الاؤ سا جلاتی ہے

مرے تن پر اشارے سے ۔۔۔ کوئی لیلیٰ بناتی ہے

مجھے اپنی طرف ہر پَل بلاتا ہے

تری آواز کا افسوں

مرا مجنوں

 

ہمیشہ ، رستہ ء دوراں کے کالے موڑ پر بیٹھا ہے

ممنوعہ شجر کے سائے میں

ہر دم ۔۔۔ سُلگتی خواہشوں کی

کوئی دھُونی سی رمائے

اپنی پیشانی پہ ۔۔۔ دنیا رنگ کا

قشقہ لگائے

 

سِحر ہے آواز میں

تسبیح تیرے ہاتھ میں

اک جان لیوا وِرد ہے تیرے لبوں پر

ہجر کا اک دشت ہے میرے بدن میں

سنسناتی پیاس ہے میرے لبوں پر

٭٭٭

 

 

 

 

 یا مرے خواب، مرے ساتھ ہی مر جائیں گے

 

 

ساز خاموش کو چھوتی ہے ـــــــ ذرا آہستہ

ایک امید ـــــ کسی زخمۂ جاں کی صورت

لب پر آتے ہیں دل و ذہن سے الجھے یہ سوال

کسی اندیشے کے مانند ــــ گماں کی صورت

 

ذہن کے گوشۂ کم فہم میں سویا ہوا علم

جاگتی آنکھ کی پتلی پہ ــــــ نہیں اترے گا

ڈوب جائے گا اندھیرے میں وہ نادیدہ خیال

جو چمکتاـــــــ تو کسی دل میں اجالا کرتا

 

جسم پر نشّے کے مانند ـــــــــ تصوّر کوئی

دل میں تصویر مجسّم کی طرح کوئی وصال

دفن ہو جائے گا اک ٹھہرے ہوئے پانی میں

میری آنکھوں کی طرح عشق کا یہ ماہ جمال

 

ایک ہی پل میں بکھر جائے گا شیرازۂ جاں

ایک ہی آن میں کھو جائے گی لے ہستی کی

عمر پر پھیلی ــــــ بھلے وقت کی امید جو ہے

ایک جھٹکے سے یہ دھاگے کی طرح ٹوٹے گی

 

کیا بکھر جائیں گے ـــــ نظمائے ہوئے یہ کاغذ

یا کسی دست ملائم سے ـــــــ سنور جائیں گے

کیا ٹھہر جائیں گے اس لوح پہ سب حرف مرے

یا مرے ساتھ ــــــــ زمانے سے گزر جائیں گے

 

میری آواز کی لہروں سے ، یہ بنتے ہوئے نقش

کیا ہوا کی کسی جنبش سے ، بکھر جائیں گے

زندہ رہ جائیں گے ـــــــــ تعبیر محبت بن کر

یا مرے خواب، مرے ساتھ ہی مر جائیں گے ؟

٭٭٭

 

 

 

ماؤں کا المیّہ

 

 

جواں ہوتے مغرور بچوں کی ماؤں کا

۔۔۔۔۔۔۔ کیسا عجب مسئلہ ہے

انہیں زندگی میں ، نئی زندگی کی تمنا ہے

 

آئنہ دیکھیں تو اس میں کسی اور کا

خوب صورت نویلا بدن

آنکھ میں جاگتی اک کرن

شوق کا اجنبی بانکپن ۔۔۔ دیکھ سکتی ہیں

 

آنکھوں میں خوابوں کا کاجل لگاتی ہیں

ہونٹوں کی معصوم سرخی چھپاتی ہیں

اور مسکراتی ہیں

اور مسکراتی ہیں ۔۔۔ اپنے بدن میں

دھڑکتے ہوئے دل کی موجودگی پر

 

بدن ۔۔۔ جس پہ دیوار و در کا

سلیقے سے بستے ہوئے پورے گھر کا

اور ایک ایک لختِ  جگر کا

بہت رنگ گہرا ہے

عزت، تقدس کا ہر سانس پر سخت پہرا ہے

 

دل ۔۔ جس کو گھر اور گرہستی کے نیچے دبے

بے بدن جیسے ، ٹھنڈے بدن سے نکل کر

کسی دھوپ کے سرخ میں ۔۔۔

خوں نہانے کی خواہش ہے

خوابوں کی اک رنگنائے میں

۔۔۔ غوطہ لگانے کی خواہش ہے

نیلی فضا میں ، بہت دور جانے کی خواہش ہے

اک دودھیا پر ۔۔۔ پرندے کو بانہوں میں لینے کی

افلاک میں اک گلابی ستارے کو چھونے کی

ماہِ  منور کو پانے کی خواہش ہے

 

دل ۔۔۔ جس کو عزت کی چادر میں لپٹے ہوئے

سرد پڑتے ہوئے اور ڈھلکتے ہوئے ۔۔۔ ماس کو

پھر دہکتا ہوا، تن بنانے کی خواہش ہے

گلزارِ  ہستی میں

موجودگی کا کوئی گُل کھلانے کی

شب کے دھڑکتے اندھیرے میں ۔۔ سیجیں سجانے کی

دنیا کی نظروں سے چھپ کر

۔۔۔۔ سراندیپ دنیا، بسانے کی خواہش ہے

 

اس دل کے ہونے پہ ۔۔۔ حیران ہوتی ہیں

اپنے جواں ہوتے مغرور بچوں کی ۔۔۔ معصوم مائیں

کبھی مسکراتی ہیں

پھر اپنی اس مسکراہٹ پہ روتی ہیں

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”سراندیپ” serendipitous

٭٭٭

 

 

 

 

 آئنہ آئنہ ہے تنہائی

 

(۱)

 

آئنہ ڈھونڈتی ہے تنہائی

ایسا لگتا ہے کہ اک مدت سے

اپنا چہرہ ہی نہیں دیکھا ہے

ماند پڑتی ہوئی ۔۔۔ آنکھوں کی چمک دیکھی نہیں

لب و رخسار کی افسردہ جھلک دیکھی نہیں

اپنی بے رنگیِ  ملبوس سے ہے نا واقف

اپنا کھویا ہوا بے نام سراپا ہی نہیں دیکھا ہے

 

آئنہ ڈھونڈتی ہے تنہائی

دیکھنا چاہتی ہے عارض و چشم و لب کو

دیکھنا چاہتی ہے اپنا ہی بے نام سراپا شاید

ماند پڑتی ہوئی آنکھوں میں کسی اور کا شعلہ ۔۔۔ شاید

کانپتے ہونٹوں پہ اک نام کا کھلتا ہوا پھول

زرد رخساروں پہ اک لمسِ  خفی کی سرخی

سانس کے ساتھ کسی اور کی سانسوں کی تپش

دیکھنا چاہتی ہے کو ئی شناسا شاید

 

(۲)

 

آئنہ دیکھتی ہے تنہائی

اتنی مصروف تھی ہنگامۂ روز و شب میں

اپنا تن ۔۔۔ اپنا سراپا ہی نہیں دیکھا تھا

غیر تو غیر ۔۔۔ شناسا ہی نہیں دیکھا تھا

آنکھ میں رنگِ  جنوں

دل میں کوئی عشق کا سَودا ہی نہیں دیکھا تھا

 

 

اب جو دیکھا تو عجب صورتِ  احوال نظر آئی ہے

غیر کا عکس ۔۔۔ نہ دلدار سراپا کوئی

نہ کوئی دوست، نہ غم خوار، نہ اپنا کوئی

۔۔۔۔۔۔۔ آنکھ میں وحشتِ  دل

دل میں لیے عشق کا سودا کوئی ۔۔۔۔۔۔

آئنہ آئنہ ۔۔۔۔ تنہائی ہے

تنہائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 بھیگتی ہوئی شب کے بھیگتے اندھیرے میں خواب کتنا گہرا تھا

کب خبر ہوئی مجھ کو رات میری آنکھوں کے پاس کون ٹھہرا تھا

 

عمر کاٹ دی ساری کیفِ  خود نمائی میں ، لذتِ  جدائی میں

آئنہ جو دیکھا تو آئنے کی آنکھوں میں ایک اور چہرہ تھا

 

راستے میں پڑتا تھا باغ اک عجب جس پر تیرگی برستی تھی

سب درخت کالے تھے شاخ شاخ پر لیکن پھول اک سنہرا تھا

 

دل سے کہہ دیا ہم نے اب نصیب ہے اپنا عمر بھر کی تنہائی

لیکن ایک سایا سا مضطرب تمنا کا دل کے پاس ٹھہرا تھا

 

شہرِ  دست بستہ میں کس طرف سے آتا پھر احتجاج کا پتھر

دل فریب وعدوں کے قفل تھے درِ دل پر، جسم و جاں پہ پہرا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 قصر کا در باغ کے اندر کھلا

پھر طلسمِ  شوق کا منظر کھلا

 

نیند میں کھویا ہوا تھا ایک شہر

روشنی میں خواب سے باہر کھلا

 

دھوپ تھی اور دن کا لمبا دشت تھا

رات کو باغِ  مہ و اختر کھلا

 

اب تلک بے جسم تھا میرا وجود

یہ تو اس کے جسم کو چھو کر کھلا

 

اک جزیرے سے ہوا لائی پیام

بادباں لہرا گئے ، لنگر کھلا

 

ڈوبنے سے ایک لمحہ پیشتر

ساحلِ سر سبز کا منظر کھلا

 

ایک قسمت، شمع، پروانے کی ہے

راز یہ اس شعلے کی زد پر کھلا

 

وہ محبت تھی ردائے مفلسی

پاؤں کو ڈھانپا تو میرا سر کھلا

 

پھر ستارہ وار اس کو دیکھنا

طائرِ  بستہ کا جونہی پر کھلا

 

آخرِ  شب تک مسافر کے لیے

ہم نے رکھا دل کا اک اک در کھلا

 

زندگی فانوس و گلداں ہو گئی

اس طرح اک دن وہ شیشہ گر کھلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 نہیں تھی آسان منزلِ  عشق، راستے پر خطر تو آئے

حدودِ  سود و زیاں سے پھر بھی کسی طرح سے گزر تو آئے

 

لدی ہوئی ہیں ہوائیں اب بھی پرانی یادوں کی خوشبوؤں سے

کبھی کبھی راہ بھول کر ایک نرم جھونکا ادھر تو آئے

 

کوئی نہ پوچھے کہ آنے والے سفر میں کن منزلوں سے گزرے

علاقۂ غیر سے تو نکلے ہیں ، شام سے پیشتر تو آئے

 

زمین اک نورِ زندگی سے سبھی کا مرکز بنی ہوئی ہے

فلک کے حصے میں گو ہزاروں نجوم و شمس و قمر تو آئے

 

اگر وہ ناراض بے سبب ہے تو دل ہمارا بھی کم طلب ہے

نہ حال پوچھے دکھائی ہی دے ، نہ پاس آئے نظر تو آئے

 

کتاب میں دل نہیں لگا تو کوئی نئی فلم ہی لگائیں

کسی بہانے یہ شب تو گزرے کسی طرح سے سحر تو آئے

 

نہیں کہ اس آنکھ میں ہمیشہ اداسیاں ، رت جگے ملیں گے

ہزار پیکر سجے ملیں گے ذرا مرا خواب گر تو آئے

 

مجال کیا گردِ  راہ کی ہے ، اتر کر آ جائیں گے ستارے

قدم ٹھہر جائیں گے ہواؤں کے ، راہ میں تیرا گھر تو آئے

 

یہ باقی ماندہ جو زندگی ہے ، گزر نہ جائے نباہنے میں

پھر اس کی باتوں میں آ کر اس سے اک اور پیمان کر تو آئے

 

اداس ہوں گے قدیم ساحل، نراس ہو جائے گا کبھی دل

نئے جزیروں کے ساحلوں پر نئی لگن میں اتر تو آئے

 

بسے بسائے گھروں سے اٹھ کر بس ایک ہی پل میں چل پڑیں گے

نہ ساتھ کچھ زادِ  راہ لیں گے ، ذرا وہ وقتِ سفر تو آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 چراغِ  عشق تو جانے کہاں رکھا ہوا ہے

سرِ محرابِ  جاں بس اک گماں رکھا ہوا ہے

 

ہوائے شام اڑتی جا رہی ہے راستوں پر

ستارہ ایک زیرِ آسماں رکھا ہوا ہے

 

یہی غم تھا کہ جس کی دھوم دنیا میں مچی تھی

یہی غم ہے کہ جس کو بے نشاں رکھا ہوا ہے

 

ہٹے ، تو ایک لمحے میں بہم ہو جائیں دونوں

گلہ ایسا دِلوں کے درمیاں رکھا ہوا ہے

 

تری نظریں ، تری آواز، تیری مسکراہٹ

سفر میں کیسا کیسا سائباں رکھا ہوا ہے

 

لرزتا ہے بدن اس تند خواہش کے اثر سے

کہ اک تنکا سرِ آبِ  رواں رکھا ہوا ہے

 

مُصر ہے جس کو میرا باغباں ہی کاٹنے پر

اک ایسی شاخ پر یہ آشیاں رکھا ہوا ہے

 

کہیں کوئی ہے انبارِ  جہاں سر پر اٹھائے

کہیں ، پاؤں تلے سارا جہاں رکھا ہوا ہے

 

الاؤ جل رہا ہے مدتوں سے داستاں میں

اور اس کے گرد کوئی کارواں رکھا ہوا ہے

 

رکی جاتی ہے ہر گردش زمین و آسماں کی

مرے دل پر وہ دستِ مہرباں رکھا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 ہم تو بس اک موجۂ خوشبو سے بہلائے گئے

اور تھے وہ پھول جن کو رنگ پہنائے گئے

 

پھر ہوائیں کچھ عجب سرگوشیاں کرنے لگیں

اس سے پہلے دل کو چھو کر شام کے سائے گئے

 

اس خیالِ  جانفزا سے آشنائی جب ہوئی

پھر کبھی ہم اپنی قربت میں نہیں پائے گئے

 

دیر تک الجھے ہوئے بالوں میں دل الجھا رہا

پیشِ آئینہ بہت سے ہجر دہرائے گئے

 

کس طرح کی بستیاں تھیں راہ کے دونوں طرف

کون تھے وہ لوگ جو اس راہ پر آئے ، گئے

 

شہر سے سارے پرندے کر گئے ہجرت اگر

پھر بھلا کیوں موسموں کے جال پھیلائے گئے

 

کس ستارے سے اتر کر آ رہی ہے یہ مہک

کس زمیں سے اس زمیں پر پھول برسائے گئے

 

ایک چٹکی سرخ سے گلنار ہے سارا افق

ایک مٹھی سبز سے ،بن سارے سبزائے گئے

 

جگمگا اٹھے تھے سب ہی دیوتاؤں کی طرح

جب یہ پتھر چاند کی کرنوں سے نہلائے گئے

 

جانتے ہیں خوب اُس مہماں سرائے دل کو ہم

ہاں کبھی ہم بھی وہاں کچھ روز ٹھہرائے گئے

 

تھا یہی عشق و غمِ دل کا فسانہ ، گر کبھی

دور افتادہ زمانوں کے سخن لائے گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 کسک بن کے رہوں

 

 

 

خواب میں دیکھے ہوئے منظرِ حیرانی کی

عشق میں بیتی ہوئی پہلی پریشانی کی

عرصۂ جاں میں کسی گوشۂ ویرانی کی

یاد بن جاؤں

جھلک بن کے رہوں

 

 

جس طرح گلشنِ  ہستی میں کوئی موجِ  ہوا ہوتی ہے

جیسے جتلائی نہیں جاتی مگر رسمِ  وفا ۔۔۔ ہوتی ہے

جیسے وہ جانتا ہے ۔۔۔ جس پہ گزرتا ہے فراق

پھانس، ٹوٹی ہوئی امید کی کیا ہوتی ہے

 

جس طرح لمحۂ کمزور میں گر جائے کوئی غم

لبِ  بے قابو سے

جس طرح ہوتی ہوئی فتح بنے

بس یونہی پل بھر میں شکست

جیسے عمروں کا بھرم ہوتا ہو اک آن میں ریزہ ریزہ

چشمِ  مجبور کے اک آنسو سے

جس طرح اٹھ کے اچانک ہی چلا جائے کوئی پہلو سے

 

جیسے بچھڑے کوئی جلوت کا شناسا

کوئی خلوت کا رفیق

دور ہو جوئے کوئی جسم کا ساتھی

کوئی راتوں کا شریک

جیسے غم خوارِ  محبت ہی بنے

لطفِ  محبت میں فریق

 

یوں لہو کو ترے شعلاؤں

تپک بن کے رہوں

میں ترے دل میں ۔۔۔ ہمیشہ کی

کسک بن کے رہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 محبت اور نفرت ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں

 

 

 

مری آنکھوں کی نیلی پتلیوں پر جو سنہری دھند چھائی ہے

محبت ہے

مگر اس دھند کے بادل سے آگے

خوف کے سنسان رستے کی بہت لمبی حدوں کے پار

اک تاریک و وحشت ناک جنگل ہے

جہاں ہر شاخ پر اک بوم بیٹھا ہے

جہاں سب جھاڑیوں میں بھیڑیے دبکے ہیں

ساری بانبیوں میں سانپ رہتے ہیں

 

ہوا کی نا ملائم سرسراہٹ نے بھلا دھیرے سے تجھ سے کیا کہا

جو کچھ کہا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے

تیرے وفا نا آشنا کانوں نے

جو کچھ بھی سنا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے

یہ آرزو ۔۔۔ یہ جستجو ۔۔۔ حرفِ  وفا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے

یہ زندگی ۔۔۔ اس کا حسیں چہرہ

یہ خد و خال ۔۔۔ یہ نازو ادا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے

 

ہاں سچ تو یہ ہے ۔۔۔ آج تیری چشمِ حیراں کے نظارے کو

وہاں میدان میں اک جشنِ  رنگ و نور برپا ہے

ذرا تو یاد تو کر۔۔۔ مدتوں پہلے ۔۔۔ کوئی جادو بھری اک رات تھی

اور زندگی کے سبز میداں میں ۔۔۔ اک ایسا ہی

سنہرا جشن برپا تھا

جوانی کی سلگتی، تلملاتی خواہشوں سے

عشق کی شدت سے گھبرا کر

شبستانِ محبت سے تجھے میں نے پکارا تھا

اجالوں سے ذرا دوری پہ

گہرے سرخ پھولوں سے بھرے اُس کنج میں

اک دلربا ، گل رنگ بوسہ ۔۔۔ تیرے ہونٹوں پر رکھا تھا

یاد کر ۔۔۔ تو کس قدر وحشت سے یوں پیچھے ہٹا

جیسے ترے ہونٹوں سے کوئی سانپ یا بچھو ۔۔۔ چھوا ہو

میرے دل پر آج بھی چسپاں ہے ۔۔۔ وہ دہکا ہوا لمحہ

 

محبت اور نفرت

ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں

تری حیران آنکھوں کے مقابل

آج بھی اک جشنِ رنگ و نور برپا ہے

ترے پندار کی پہلی ہزیمت کا

جہاں میں آج

اپنے حسن کی طاقت کا نظارہ کروں گی

 

زندگی کے خواب آسا لب سے ٹپکا

سرخ بوسہ ۔۔۔ تو نے ٹھکرایا تھا

اب میں بر سرِ  دربار

خوں آشام کالی موت کا بوسہ

ترے ہونٹوں پہ رکھوں گی

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اور ہیرودیاس کی بیٹی اندر آئی اور اس نے ناچ کر بادشاہ اور اس کے مہمانوں کو خوش کیا تو بادشاہ نے اس لڑکی سے کہا ’’ جو چاہے مجھ سے مانگ، میں تجھے دوں گا‘‘ ۔۔۔ اس نے کہا  ’’یوحنا، بپتسمہ دینے والے کا سر‘‘۔

 

(مرقس -29-16)

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 کچھ ایسے گزرے ہیں عشق کے امتحان سے ہم

نکل کر آئے ہوں جیسے اک داستان سے ہم

 

قبول کر تو لیے تھا سادہ دلی میں ہم نے

مگر نہ بہلیں گے عمر بھر تیرے دھیان سے ہم

 

کبھی حیا ہے ، کبھی انا ہے طلب میں حائل

وجود اپنا ہٹائیں گے درمیان سے ہم

 

رہیں گے سچائی کے سپید و سیہ میں کیسے

گزر کر آئے ہیں رنگنائے گمان سے ہم

 

کوئی بلاتا ہے نوری صدیوں کے فاصلوں سے

کبھی تو آزاد ہوں گے اس خاکدان سے ہم

 

گلاب کی شاخ سے نہیں کیکٹس نکلتے

تو غم اٹھاتے ہیں کس لیے تیرے دھیان سے ہم

 

پڑا ہے فٹ پاتھ پر ہوا کا قدیم جھونکا

چلے ہیں منزل کو یاد کے اس نشان سے ہم

 

سرکتی جاتی ہو دل سے کوئی چٹان جیسے

ہٹا رہے ہیں کسی کا غم ، جسم و جان سے ہم

 

نجانے کب اگلا پاؤں ہم ان کے پار رکھ دیں

گزر رہے ہیں ابھی زمان و مکان سے ہم

 

کچھ اس طرح سر کشیدہ رہتے ہیں فکرِ  فن میں

کلام کرتے ہوں جس طرح آسمان سے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 عشقین

 

 

مرے محبوب

مجھ کو تیرے دشمن سے محبت ہے

 

مجھے معلوم ہے یہ اعترافِ  جاں گسل سن کر

تری غیرت کے دریا میں بہت طوفان اٹھے گا

تری رگ رگ میں بہتے خوں میں

وحشت سے ابال آنے لگے گا

اور ترے اندر جو خوابیدہ ہے صدیوں سے

وہ وحشی، ابتدائی اور قدیمی مرد

اک جھٹکے سے جاگے گا

تڑپ اٹھے گا اور اپنی نیامِ جاں سے ۔۔۔ نفرت کی

کوئی متروکہ تیغ ۔تیز کھینچے گا

کہ اک ہی وار میں یہ بے وفا سر

بے حیا تن سے جدا کر دے

 

مجھے یہ علم کب تھا

زندگی کے خوب صورت راستے میں

اس طرح نا آشنا ۔۔۔ نا مہرباں اک موڑ آئے گا

دل و جاں سے میں تیری تھی

تری آنکھوں ، تری بانہوں ، ترے دل میں

بہت ہی عافیت میں جان میری تھی

سنہرے جسم سے تیرے ۔۔۔ مجھے بھی والہانہ عشق تھا

چاہت بھری باتوں میں تیری لذتِ  آسودگی تھی

جسم و جاں کی پوری سچائی سے لگتا تھا

مری دنیا مکمل ہے

 

اچانک ایک شب

اک محفلِ رنگیں میں میرا سامنا اُس ہوا

اس دشمنِ جانی سے تیرے

اب جو میرا دشمنِ جاں ہے ۔۔۔

مگر کچھ پیشتر، میں اک طرف بیٹھی تھی اپنے دھیان میں

اک لمپ کی کم روشنی میں ۔۔۔ گوشۂ خاموش و بے امکان میں

جب اپنے چہرے پر ان آنکھوں کی تپش محسوس کر کے

میں نے اس کی سمت دیکھا تھا

وہ لمحہ ۔۔۔ آہ وہ لمحہ

وہ میری زنگی کا دلنشیں اور بد تریں لمحہ

کہ جب میری نظر اس کی سیہ آنکھوں سے لپٹی

سانولے چہرے سے ٹکراتی ہوئی

پیاسے لبوں پر جا رکی

لیکن اسی لمحے میں میری روح کھنچ کر آ گئی تھی

میری آنکھوں میں

نجانے کتنی صدیوں سے

مری جاں کے نہاں خانوں میں پوشیدہ تھی ایسی تشنگی

میں جس سے یکسر بے خبر تھی

 

وائے قسمت ۔۔۔ اس بھری محفل میں ، میں نے

اپنے تن کی تشنگی کا ۔۔۔ اپنے دل کی ایسی تنہائی کا نظارہ کیا

وہ دل ۔۔۔ جو اب تک تیری الفت میں دھڑکتا تھا

ترے دشمن کے تیرِ  عشق سے گھائل پڑا تھا

 

جانتی ہوں

یہ کہانی سن کے تیرے دل پہ کس درجہ قیامت ٹوٹتی ہے

تیری نس نس میں کئی چنگاریاں بھرنے لگی ہیں

انتقام ۔۔۔ اک سانپ بن کر تیرے خوں میں ناگتا ہے

پر نئی تہذیب سے روشن تری آنکھیں ۔۔۔ بہت خاموش ہیں

چہرہ بہت ہی پر سکوں ہے

ذہن ۔۔۔ جو گزری ہوئی ان بیس صدیوں کے کئی دانش کدوں

اور تربیت گاہوں سے چَھنتے نور سے معمور ہے

تجھ کو کسی بھی انتہائی فیصلے سے روکتا ہے

 

انتہائی فیصلے سے روکتی ہے

میری عقلِ ناتواں مجھ کو

دلِ وحشی مگر رکتا نہیں ۔۔۔ یہ کیا قیامت ہے

مرے محبوب

اس کو تیرے دشمن سے محبت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 ہوائے خواب اڑا لے گئی کسی جانب

 

 

 

 

ہوا کے دوش پہ کوئی نگر بسا ہوا ہے

کہ بادلوں میں کہیں کوئی گھر بسا ہوا ہے

عجیب راستہ ہے دھند لکے میں چلتا ہوا

چلا ہی جاتا ہے ہر دل ادھر مچلتا ہوا

نشانیاں سی افق پر عیاں نظر آئیں

کلس دکھائی دیے ، برجیاں نظر آئیں

 

پھر ایک شہر کھلا ایسے چشم حیراں پر

کہ جیسے وہم سا پھیلا ہوا نمایاں پر

زمین سرخ پہ صد رنگ گل مہکتے ہوئے

فضائے سبز میں تارے کئی چمکتے ہوئے

عجیب سحر ہے جس سے مہک رہی ہے ہوا

یہ کیسا نشہ ہے جس سے بہک رہی ہے ہوا

ہیں ہوش مند کہ بے ہوش ہیں یہاں کے مکیں

پیے بغیر ہی مد ہوش ہیں یہاں کے مکیں

 

سبھی ہیں نام لبوں پر کوئی سجائے ہوئے

سبھی ہیں سینے سے تصویر اک لگائے ہوئے

کوئی خلاؤں میں تکتا گزرتا جاتا ہے

کوئی خموشی سے اک آہ بھرتا جاتا ہے

کہیں کسی سے الجھ کر گرا کوئی شاید

کسی کے پاؤں میں کانٹا چبھا کوئی شاید

 

سب ایسے ٹوٹ کے بکھرا کوئی گماں جیسے

بنا ہو تاش کے پتوں کا اک مکاں جیسے

نظر کے سامنے اک دشت زرد پھیلا ہوا

جو دل ٹٹول کے دیکھا تو درد پھیلا ہوا

ہوا کے دوش پہ جیسے نگر بسا ہی نہ تھا

کہ بادلوں میں کہیں ایک گھر بسا ہی نہ تھا

خبر نہیں کہ نظارے وہ کس طرح دیکھے

وہ دھوپ اور ستارے وہ کس طرح دیکھے

ہوائے خواب اڑا لے گئی کسی جانب

کہ موج درد بہا لے گئی کسی جانب

٭٭٭

 

 

 دو نیم

 

 

ہمیشہ آنکھ لگتے ہی قدم اک خواب میں رکھا

 

وہ گہرے راز جیسا خواب، جس میں گھپ اندھیرا تھا

کہیں پر زرد رُو شب تھی ۔۔۔ کہیں کالا سویرا تھا

عجب پُر پیچ ، لمبے راستے پھیلے ہوئے ہر سُو

نگر سویا ہوا ۔۔۔ جیسے کسی نے کر دیا جادو

جہاں پاؤں سے پاؤں جوڑ کر تنہائی چلتی تھی

دھواں اٹھتا تھا باغوں سے ، ہوا میں آگ جلتی تھی

کہیں تھے آشنا سے خال و خد، انجان چہروں پر

چمکتی جاگتی آنکھیں کہیں ، بے جان چہروں پر

مناظر۔۔ وحشتوں ، ویرانیوں ، اجڑے مکانوں کے

سفر۔۔ دریاؤں کے ، صحراؤں کے ، گزرے زمانوں کے

ہمیشہ آنکھ لگتے ہی ۔۔۔ پریشانی نئی دیکھی

چھڑایا زندگی سے ہاتھ، پھر بھی زندگی دیکھی

 

کبھی گہری رسیلی نیند کا امرت نہیں چکھا

٭٭٭

 

 

 

 

 اگر مل سکو ۔۔۔۔ تو

 

 

زمانوں سے کھوئی ہوئی ہجر کی منزلوں میں

مری زندگی کے پریشاں نظر راستوں میں

کہیں ایک پل کو ملو ۔ ۔ ۔ تو

مجھے تم سے یہ پوچھنا ہے

کہ دریاؤں کا رخ بدلتے سنا تھا

سمندر نے رستے بدلنا بھلا کب سے سیکھا؟

ہواؤں کے پیچاک میں

پربتوں نے الجھنا بھلا کب سے سیکھا؟

 

زمین اور زہرہ، عطارد، زحل، مشتری اور مریخ

سورج کے محور پہ چلتے ہیں

چلتے رہیں گے ۔ ۔ ۔ مگر

کوئی سورج بھی گدلی زمینوں کے

ٹوٹے ہوئے سرد ٹکڑوں کے محور پہ چلتا ہے

یہ سانحہ ۔۔۔ کائناتوں کی تقویم میں کب لکھا ہے ؟

 

یہی واقعہ ہے

ہوا نے ، فضا نے ، زمانے نے ، دنیا کے ہر تجربے نے بتایا

غلط ہے ، عبث ہے ، خطا ہے ”

یہ خوش فہم نظروں کا دھوکا

تمنائے دل کا فریب اور پیاسے بدن کی صدا ہے

مگر کس نے سمجھا ۔۔۔ مگر کس نے مانا ؟

ازل سے یہی تو ہوا ہے

ابد تک یہی ہونے والا ہے

رستہ ہی منزل ہے

منزل بھی دراصل اک راستہ ہے

سو غم ہی خوشی ہے

خوشی میں بھی غم ہی چھپا ہے

 

’’سفر ہے ۔۔۔ سفر ہے ۔۔۔ سفر ہے ‘‘

ازل سے ابد تک ۔۔۔ فنا سے بقا تک

مسافت میں مصروف ارض و سما نے

ستاروں نے ، مہتاب نے

گرم پانی نے ۔۔۔ ٹھنڈی ہوا نے ، بتایا

مگر دل ۔۔۔ جو کیوپڈ کے تیروں سے چھلنی تھے

مد ہوش تھے ۔۔۔ ان کو کب ہوش آیا؟

 

اگر ہوش آیا ۔۔۔ کسی رہگزر میں

تو امید اور نا امیدی کے لمبے سفر میں

ہواؤں کے اور پانیوں کے بھنور میں

بس اک پل رکے

میں سر کو اناؤں سے

پاؤں کو دنیا کے چکر سے آزاد کرنے کی خواہش میں

۔۔۔۔ پلکیں اٹھائی تھیں

غرقاب ہوتے ہوئے ۔۔۔۔

پیار ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا تھا ”

نہ‘‘ تم نے نفی میں سر کو ہلا کر ”

کسی ڈوبتے آدمی کی طرح سانس لیتے ہوئے

بے بسی سے کہا تھا ’’نہیں ۔۔۔ عشق ہے ۔۔۔ عشق

 

کیا عشق کو بھی فنا ہے ؟

مجھے بس یہی پوچھنا ہے

اگر ایک پل کو کہیں مل سکو ۔۔۔ تو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 دل میں چھپی ہوئی تھی جو، زینتِ  بام ہو گئی

آنکھ اٹھی تو ساری بات بر سرِ  عام ہو گئی

 

ایک رفیق تھا سو دل اب ترا دوست ہو گیا

جو بھی متاعِ  خواب تھی سب ترے نام ہو گئی

 

دیکھا نہیں ہے آفتاب، نصف نہار پر کبھی

عرصۂ زندگی میں بس صبح سے شام ہو گئی

 

خواہشِ  ناتمام کو پیشِ  زمانہ جب کِیا

رم ہی کبھی کِیا نہ تھا، اِس طرح رام ہو گئی

 

شام کے راستے پہ تھا ایک خیال ہم رکاب

پھر تو ہَوا بھی ساتھ ساتھ محوِ  خرام ہو گئی

 

کیسی اڑان کی ہمیں تجھ سے امید تھی مگر

زندگی! تُو بھی طالبِ  دانہ و دام ہو گئی

 

کلفتِ  جاں سے ایک ہی ساعتِ  خوش بچائی تھی

اور وہ نذرِ  گردشِ  ساغر و جام ہو گئی

 

میں نہ جھپک سکی پلک مجھ پہ جھکا تھا جب فلک

حد سے بڑھی تو خامشی، خود ہی کلام ہو گئی

 

شہر میں ان کے نام کے چند چراغ جل اٹھے

راہروانِ  شوق کو دشت میں شام ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

شاید کہ موجِ  عشق جنوں خیز ہے ابھی

دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی

 

ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ  چشم

اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی

 

پھر آبِ  سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے

گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی

 

اک نونہالِ  خواب ہے دنیا کی زد پر آج

اِس غم کی خیر ہو کہ یہ نوخیز ہے ابھی

 

سب ذرّہ ہائے نیلم و الماس ، گردِ  راہ

میرے لیے وہ چشم گہر ریز ہے ابھی

 

کیا جانیے رہے گا کہاں تک یہ دل اسیر

کیا کیجئے وہ شکل دلآویز ہے ابھی

 

دیکھا نہیں ہے کوئی بھی منظر نظر کے پاس

رہوارِ  عمر، طالبِ  مہمیز ہے ابھی

٭٭٭

 

 

 

 

 جاگیں گے کسی روز تو اس خوابِ  طرب سے

ہم پھول ہی چنتے رہے باغیچۂ شب سے

 

پھر ایک سفر۔ ۔ ۔ اور وہی حرفِ  رفاقت

سمجھے تھے ، گزر آئے ہیں ہم تیری طلب سے

 

خوش دل ہے اگر کوئی تو کیا اُس کا یہاں کام

یہ بارگہِ  غم ہے ، قدم رکھو ادب سے

 

اب موسمِ  جاں سے بھی یقیں اٹھنے لگا ہے

دیکھا ہے تجھے رنگ بدلتے ہوئے جب سے

 

یاں بھی وہی بیگانہ روی، اپنے خدا سی

مانگی جو کبھی کوئی دعا شہر کے رب سے

 

چونکی ہوں تو دیکھا کہ وہ ہمراہ نہیں ہے

الجھن میں ہوں کس بات پہ، کس موڑ پہ، کب سے

 

یہ درخورِ  ہنگامہ تو پہلے بھی کہاں تھی

ہول آئے مگر آج تو ویرانیِ  شب سے

 

کچھ، دوست بھی مصروف زیادہ ہوئے اور کچھ

ہم دور ہیں ، افسردگیِ  دل کے سبب سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 کارِ دنیا میں کچھ اے دل نہیں بہتر تو بھی

کوچۂ عشق سے چن لایا ہے کنکر تو بھی

 

جب تلک بامِ  فلک پر ہے ، ستارہ تُو ہے

اور اگر ٹوٹ کے گِر جائے تو پتھر تو بھی

 

یہ قناعت بھی محبت کی عطا ہے ورنہ

شہر میں اور بہت، ایک گداگر تو بھی

 

مرے اندازے سے کچھ بڑھ کے تھی ظالم دنیا

پاؤں رکھ ، راہِ  تمنا پہ سنبھل کر تو بھی

 

اجنبی لگتا ہے کیوں عالمِ  بیداری مجھے

کہیں رہتا ہے مرے خواب کے اندر تو بھی

 

میں اُسی موڑ پہ منزل کی طلب چھوڑ آئی

ہو لیا جب سے مرے ساتھ سفر پر تو بھی

 

میں کرن وار شبِ  ماہ میں تجھ پر اتری

موج در موج اٹھا، بن کے سمندر تو بھی

 

مانگنا بھول گئی میں تو تمنا کا صلہ

دوجہاں سامنے پھیلے تھے ، برابر تو بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 منزلِ خواب لٹی، ختم ہوئی کاوشِ دل

اب تو بے چارگیِ جسم ہے اور کاہشِ دل

 

برف سی جمنے لگی معبدِ دل پر آخر

سرد ہونے لگا آتش کدۂ خواہشِ دل

 

پاؤں کے آبلے سہلانے کی فرصت کس کو

چین لینے نہیں دیتی ہے یہاں سوزشِ دل

 

اک فلک زاد کے چہرے پہ نظر ٹھہری ہے

لے کے جاتی ہے کہاں دیکھیے اب گردشِ دل

 

کیا کریں ، اس کے لیے تن کو لگا لیں کوئی روگ؟

سخت انجان ہے ، کرتا ہی نہیں پرسشِ دل

 

چشم حیران جدا، عقل سراسیمہ الگ

اور بڑھتی چلی جاتی ہے ادھر سازشِ دل

 

آنکھ میں بھیگی ہوئی شام کا منظر ہی رہا

کرۂ خواب پہ ہوتی ہی رہی بارشِ دل

 

ہم بھی خاموش گزر جائیں گے اوروں کی طرح

لے بھی آئی تیرے کوچے میں اگر لغزشِ دل

 

سرد کرتا ہے لہو، تیرے زمستاں کا خیال

منجمد ہونے نہیں دیتی مگر تابشِ دل

 

کوئی آئے تو چراغاں ہو سبھی راستوں پر

کوئی ٹھہرے تو سجے بزم گہِ  خواہشِ دل

 

لب اگر بند رہے ، آنکھ اگر ساکت تھی

تو جو آیا، ہمیں محسوس ہوئی جنبشِ دل

 

رونقِ  بزم سے کیا ہاتھ اٹھانا تھا کہ پھر

رنگِ دنیا سے سوا ہو گئی کچھ رامشِ دل

 

راکھ کا ڈھیر ہی پاؤ گے پلٹ آنے پر

گر اسی طرح جلائے گی ہمیں آتشِ دل

 

شومیِ بخت سہی، زندگی کچھ سخت سہی

پھر بھی قائم ہے ابھی حرمتِ جاں ، نازشِ دل

٭٭٭

 

 

 

 

 

 نہ سہی گر نہیں ملتی کوئی آسائشِ دل

ہم تو اس شخص سے کرتے نہیں فرمائشِ دل

 

اس کی یادوں کے گلاب، اس کی تمنا کا چراغ

ایک مدت سے یہ ہے صورتِ آرائشِ دل

 

ایک مضراب سے بج اٹھتا ہے سازینۂ جاں

ایک تصویر سے ہو جاتی ہے زیبائشِ دل

 

تُو کہاں چھایا ہے ، پھیلا ہے زمانہ کتنا

اِس نظر سے کبھی کی ہی نہیں پیمائشِ دل

 

اُس سے کیا شکوۂ محرومیِ یک لطفِ بدن

جس کو معلوم نہیں معنیِ آسایشِ دل

 

اتنے وقت،اتنے عناصر سے بنا ہے یہ جہاں

کوئی بتلائے کہ کیونکر ہوئی پیدائشِ دل

 

راحتِ جاں سے گئے ، اس کے بھی امکاں سے گئے

وہ جو ہوتی تھی کسی وقت میں فہمائشِ دل

 

یہ بجا ہے ، نظر انداز کریں جسم کی بات

کوئی ٹالے گا کہاں تک بھلا فرمائشِ دل؟

٭٭٭

 

 

پری خانہ

 

 

 

 

رنگ آنے لگا ہے محفل پر

خامشی چھا رہی ہے اس دل پر

 

شام اتری ہے جل پری کی طرح

روشنی ہو گئی ہے ساحل پر

 

جان خود اس کی نذر کرتے ہیں

کیا بھروسا ہے اپنے قاتل پر

 

راستوں سے جڑے ہوئے رستے

کون رکتا ہے سنگِ  منزل پر

 

زیست کے راز ہائے گوناگوں

انحصار ایک چشم غافل پر

 

دشت میں رات ہے اداسی ہے

قیس پر، کارواں پہ، محمل پر

 

غور کرتے ہیں مسکراتے ہیں

ایک کے بعد ایک مشکل پر

 

تم کہاں ، ہم قصور وار ہوئے

اپنے اک اعتبار باطل پر

 

عشق کی انتہا اگر غم ہے

ہم بھی نازاں ہیں اپنے حاصل پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم کسی چشم فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں

خواب ہیں ،خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں

 

تاب، انجام محبت کی بھلا کیا لاتے

نا تواں دل، وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

 

جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ

جب تری انجمن ناز میں رکھے ہوئے ہیں

 

اے ہوا! اور خزاؤں کے علاوہ کیا ہے ؟

وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں

 

اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی

بیشتر، رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

 

کٹ کے وہ پر تو ہواؤں میں کہیں اڑ بھی گئے

دل یہیں حسرت پرواز میں رکھے ہوئے ہیں

 

زندگی آج طلب گار ہے کچھ لمحوں کی

جو کسی چشم پر اعجاز میں رکھے ہوئے ہیں

 

ہم تو ہیں آب زر عشق سے لکھے ہوئے حرف

بیش قیمت ہیں ،بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

چراغ بام تو ہو، شمع انتظار تو ہو

مگر ہمیں ترے آنے کا اعتبار تو ہو

 

کسی کی دید تو ہو،نیند کا سراب سہی

خدائے خواب! ہمیں اتنا اختیار تو ہو

 

کھلیں گے ہم بھی برنگ گل و بسان شرر

ترے نگر میں چراغاں تو ہو، بہار تو ہو

 

وہ ابر ہے تو کسی خاکنائے پر برسے

جو خاک ہے ، تو کسی راہ کا غبار تو ہو

 

ہوا کے ساتھ ہی آئے ، ہوا کے ساتھ ہی جائے

پر ایک رشتۂ جاں اس سے استوار تو ہو

 

جو زندگی کی طرح سامنے رہا ہر دم

وہ راز اپنی نگاہوں پہ آشکار تو ہو

 

ہے جس کا ورد شب و روز کے وظیفے میں

در وفا، تری تسبیح میں شمار تو ہو

 

یہ کیا، وہ سامنے ہو اور دل یقیں نہ کرے

نگاہ شوق پہ تھوڑا سا اعتبار تو ہو

 

تمام عمر ستاروں کے ساتھ چلتے رہیں

فلک پہ ایسا کوئی خطّ رہگزار تو ہو

٭٭٭

 

 

 

پھول روش روش پہ تھے ، رستہ ء صد چراغ تھا

کون کہے گا اِس جگہ دشت نہیں تھا، باغ تھا

 

اِس طرح درد سے بھرے اِس طرح ٹوٹ کر گرے

جیسے کہ چشم تھی سبو جیسے کہ دل ایاغ تھا

 

جب سے نگاہ ہو گئی اخترِ  شام کی اسیر

شب کی نہ کچھ خبر ملی دن کا نہ کچھ سراغ تھا

 

ہم نے بھی خود کو حجرۂ خواب میں رکھ لیا کہیں

کوئی جو کم نگاہ تھا کوئی جو کم فراغ تھا

 

وصلِ  زمین و آسماں دیکھ چکی تھی ایک بار

چہرۂ شامِ  انتظار اس لیے باغ باغ تھا

 

اس میں تو کوئی شک نہیں ہم میں چمک دمک نہیں

آئنۂ نگاہِ  دوست آپ بھی داغ داغ تھا

 

سیرِ  جہاں کے باب میں دونوں ہی سَیر چشم تھے

ایک کو سدِ  راہ دل، اک کے لیے دماغ تھا

 

صبح ہوئی تو سامنے چہرۂ شہرِ  بے تپاک

رات ہوئی تو منتظر خانۂ بے چراغ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دور کہیں کھِلا ہوا خواب تھا مرغزار میں

دیر تلک چلے تھے ہم نیند کے شاخسار میں

 

موجِ خزاں سے قبل ہی ایک ہَوائے ہجر نے

لوٹ لیا چمن مرا وہ بھی بھری بہار میں

 

تجھ کو وہ عہدِ  مختصر یا د نہیں رہا مگر

کوئی رہا ہے عمر بھر محشرِ  انتظار میں

 

اب نہ خدا کرے کہ ہم پھر تری آرزو کریں

اب ہو خدا کرے یہ دل اپنے ہی اختیار میں

 

آج یہ کس نے گرم ہاتھ شانۂ غم پہ رکھ دیا

کون دلاسا دے گیا لمحۂ سوگوار میں

 

کس کے لبوں پہ میرا نام گُل کی طرح چٹک گیا

کس نے اضافہ کر دیا موسمِ  خوشگوار میں

 

ایک نئی ہَوا کے بعد منظرِ  دشت اور ہے

نقشِ  قدم کا ذکر کیا درد کے اس غبار میں

 

جشنِ  گُل و نمائشِ  باغ سے دُور ہم کھِلے

ایک نگاہ کے لیے کون لگے قطار میں

 

راہ مین بیٹھتے گئے تھک کے مریضِ  بے دِلی

منزلِ  شوق کے اسیر اب بھی اُسی حصار میں

٭٭٭

 

 

 

 

 کب چراغوں کی ضرورت ہے ملاقاتوں میں

روشنی ہوتی ہے کچھ اور ہی ان راتوں میں

 

سر پہ جھکتا ہوا بادل ہے کہ اک یاد کوئی

اور بھی گہری ہوئی جاتی ہے برساتوں میں

 

ایک خوشبو سی کسی موسمِ  نادیدہ کی

آخری چیز بچی عشق کی سوغاتوں میں

 

یہ جو بنتا ہے اجڑتا ہے کسی خواب کے ساتھ

ہم نے اک شہر بسا رکھا ہے ان ہاتھوں میں

 

نقش کچھ اور بنائے گئے سب چہروں پر

بھید کچھ اور چھپائے گئے سب ذاتوں میں

 

شاعری،خواب،محبت، ہیں پرانے قصے

کس لیے دل کو لگائے کوئی ان باتوں میں

 

ہفت خواں یوں تو ملے عشق کے اس رستے پر

ہجر ہی منزلِ  مقصود ہوئی ، ساتوں میں

 

دست بردار ہوئے ہم تو تمناؤں سے

عمر گزری چلی جاتی تھی مناجاتوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک مدت سے یوں ملے ہی نہیں

جیسے تم زندگی میں تھے ہی نہیں

 

جس طرح جھوٹ تھا وہ پاگل پن

جیسے الفت کے غم سہے ہی نہیں

 

جیسے ہم مرکزِ  نگاہ نہ تھے

جیسے اس دل میں بسے ہی نہیں

 

جیسے وہ سر کبھی جھکا ہی نہ تھا

جیسے آنسو کبھی بہے ہی نہیں

 

کیا کوئی اور خواب دیکھتے ہو

یا تم اب خواب دیکھتے ہی نہیں ؟

 

ہم نہ کرتے کبھی گلہ تم سے

خیر، اب تو وہ رابطے ہی نہیں

 

آخرِ کار ۔۔۔ جینا سیکھ لیا

خوش رہے ہم، فقط جیے ہی نہیں

 

جب رہائی ملی پرندوں کو

تو کھلا، بال و پر ملے ہی نہیں

 

کاروبارِ  حیات زور پہ تھا

ہم مگر اُس طرف گئے ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

صبح کو بزمِ  ناز کا رنگ اڑا ہوا ملا

پھول جلے ہوئے ملے دیپ بجھا ہوا ملا

 

دل کا نصیب ہے اسے گر غمِ  دوست مل سکے

ایسا نگیں بھلا کسے رَہ میں پڑا ہوا ملا

 

ٹوٹ کے گِر چکا تھا اور ہم نے چنی تھیں کرچیاں

آج یہ آسمان پھر سر پہ تنا ہوا ملا

 

جب بھی فسانۂ فراق شمعِ  خموش سے سنا

خوبیِ  اتفاق سے پہلے سنا ہوا ملا

 

شام کے ساتھ دُور تک چلتا ہوا وہ راستہ

آج تو اپنے پاؤں کے نیچے بچھا ہوا ملا

 

ہجر کدے میں رات کو روز کی طرح آج بھی

نیند بجھی بجھی ملی، خواب جلا ہوا ملا

 

کوئی اٹھا تو دھوپ سا سارے افق پہ چھا گیا

اپنے ہی سائے سے کہیں کوئی ڈرا ہوا ملا

 

گھر میں اگر ہے کچھ کمی رامش و رنگ و نور کی

خانۂ خواب دیکھئے کیسا سجا ہوا ملا

٭٭٭

 

 

 

 

 

شام کو ہو کے بے قرار یاد نہیں کِیا تجھے

کب یہ ہوا کہ بار بار، یاد نہیں کِیا تجھے

 

خواب سجا کے جی لیے دل سے لگا کے جی لیے

رشتۂ دردِ  استوار، یاد نہیں کِیا تجھے

 

دانشِ خاص ہم نہیں یوں تو جُنوں میں کم نہیں

دل پہ ہے اتنا اختیار، یاد نہیں کِیا تجھے

 

فصلِ  بہار پھر خزاں ،رنگِ  بہار پھر خزاں

آئی ہے پھر سے اب بہار یاد نہیں کِیا تجھے

 

اشک جو ختم ہو گئے خود سے لِپٹ کے سو گئے

کوئی نہیں تھا غمگسار، یاد نہیں کِیا تجھے

 

کتنی کہانیاں کہیں ، کتنے فسانے بُن لیے

بن گئے داستاں نگار، یاد نہیں کِیا تجھے

 

سخت اداس تھا نگر،سہمے ہوئے تھے بام و در

دور تھے سارے راز دار، یاد نہیں کِیا تجھے

 

ایک چراغ راہ میں دیر تلک جلا کِیا

بجھ گئی چشمِ  سوگوار یاد نہیں کِیا تجھے

 

ڈھونڈ لیا ترا بدل کہتے ہی کہتے اک غزل

سوئے ہیں اہلِ  انتظار، یاد نہیں کِیا تجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 شدت کے موسم

 

مجھے موسموں کی شدت پسند ہے

ہم گرما کے وسط میں ملتے تھے

اور شدت کے جاڑوں میں ملتے تھے

اور دونوں کی سرحد پر جدا ہو جاتے تھے

جیسے مرغابیاں

سرما کے آغاز میں میدانوں کا رخ کرتی ہیں

اور ابابیلیں ، گرمی کے آغاز میں

جھیلوں اور چشموں کو کھوجتی ہیں

ہم دونوں بھی ایک دوسرے کو تلاشتے ہیں

اور جیسے ابابیلیں ، بارش کی دعا مانگتی ہیں

ہمارے لبوں پر ملن کے لیے ، حرفِ  دعا لرزتا ہے

کاش ہم دونوں پکھیرو ہوتے

سپید برف جیسے بگلے

خاکستری مرغابیاں

یا مٹیالی ابابیلیں

تو ملن میں کوئی شے مانع نہ ہوتی

ایک ساتھ اڑتے اڑتے ، بادلوں کو چھو آتے

نہ تم ساحل ہو نہ میں موج

موج کو ساحل کے ملن سے کون روک سکتا ہے

ہم آدمی ہیں

(سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں )

مجھے شدت کی سردی اور شدت کی گرمی پسند ہے

اور موسلا دھار بارشیں

ٹوٹ کر برستی بہار اور خزاں

مجھے تم پسند ہو

کیونکہ تم دنیا کے تمام مردوں سے زیادہ پُر جوش ہو

اور تمہیں میں پسند ہوں

کیونکہ میں دنیا کی تمام عورتوں سے زیادہ گرم جوش ہوں

مجھے نفرت کی مار ڈالنے والی انتہا

اور محبت کی پاگل کر دینے والی انتہا پسند ہے

مجھے شدت پسند ہے

خواہ وصال کی ہو

یا ہجر کی

٭٭٭

 

 

 

 

محبت کرنے والے

 

محبت کرنے والے ، بہت خوش بخت لوگ ہوتے ہیں ۔

تمام سفر نصیب لوگوں میں

سب سے خوش بخت ۔ وابستگی کی ان دیکھی زنجیروں میں

جکڑے ہونے کے سبب

ممکن ہے یہ عام لوگوں سے زیادہ اذیت میں بسر کرتے ہوں ۔

لیکن یہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ اعلیٰ درجے کے

کیف سے بھی نوازے جاتے ہیں ۔

کیونکہ انہیں اپنی پرانی وابستگیوں پر پڑے ہوئے ،

وقت کے دبیز پردوں کو

ہٹانے کے لیے ، تمنا کی شدت اور وارفتگی عطا کی جاتی ہے ۔

وہ وابستگیاں جو کہیں

پچھلے جنموں میں قائم ہوئیں ۔

فراق و وصال سے بے نیاز، یہ اپنی ہی ذات کے ترفع میں

مصروف لوگ ہوتے ہیں ۔

محبت اور اذیت کی مشترکہ یادوں کے

طلسمی تاروں سے جڑے ہوئے ۔

ان کی روحیں ، کسی الوہی ساز کی وجد آفریں لے پر

رقصاں ہوتی ہیں اور ان کے دل

سرشاری کی انتہا پر پہنچ کر کائنات کی طرح

بے کنار ہو جاتے ہیں ۔

اپنے فن میں ڈوبے ہوئے شاعر، ادیب اور فنکار

ان عشاق سے کہیں زیادہ خوش بخت ہوتے ہیں ۔

اپنی مخصوص نظریاتی وابستگیوں کے سبب،

ممکن ہے ، یہ بھی عام لوگوں سے

زیادہ اذیت میں بسر کرتے ہوں ۔ لیکن انہیں بھی

عام لوگوں کی نسبت، زیادہ اعلیٰ درجے کے

کیف سے نوازا جاتا ہے ۔ وقت بڑی سہولت سے ،

ان کی آنکھوں سے اپنے پردے

ہٹا دیتا ہے ۔ اور زمانے ان کے قدموں میں

راستوں کی طرح بچھ جاتے ہیں ۔

ستائش اور صلے سے بے نیاز،

یہ اپنی ہی ذات کے ترفع میں محو لوگ ہوتے ہیں ۔

ان کے دلوں میں پوری کائنات کو اپنے اندر

سمیٹ لینے کی وسعت ہوتی ہے ۔

اور ان کی روحیں جو الوہی نغمے الاپتے ہیں

ابدیت ان پر رشک کرتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ایک نگاہ اس طرف

 

 

آئنہ رکھ دیا گیا عکس جمال کے لیے

پورا جہاں بنا دیا، ایک مثال کے لیے

خاک کی نیند توڑ کر آب کہیں بنا دیا

ارض و سما کے درمیاں خواب کہیں بنا دیا

خواب نمود میں کبھی آتش و باد مل گئے

شاخ پر آگ جل اٹھی، آگ میں پھول کھل گئے

ساز حیات تھا خموش، سوز و سرود تھا نہیں

اس کا ظہور ہو گیا جس کا وجود تھا نہیں

خاک میں جتنا نور ہے ایک نگاہ سے ملا

سنگ بدن کو ارتعاش دل کی کراہ سے ملا

دشت وجود میں بہار اس دل لالہ رنگ سے

رنگ حیات و کائنات اس کی بس اک امنگ سے

قرنوں کے فاصلوں میں یہ دل ہی مرے قریب تھا

قصۂ ہست و بود میں کوئی مرا حبیب تھا

تیرہ و تار راہ میں ایک چراغ تھا مرا

کوچہ ء بے تپاک میں کوئی سراغ تھا مرا

ہو کے دیار خواب سے کیسی عجب ہوا گئی

شیشۂ تابدار پر گرد ہی گرد جم گئی

بھول چکا ہے اپنی ذات بھول گیا ہے اس کا نام

سوز و گداز کے بغیر، لب پہ درود اور سلام

مدت عمر ہو گئی اس کو عجیب حال میں

فرق ہی کچھ رہا نہیں شوق میں اور ملال میں

دل کی جگہ رکھا ہے اب، سنگ سیاہ اس طرف

ہجر و وصال کے خدا! ایک نگاہ اس طرف

٭٭٭

 

 

 

 

تم مرے دل کی خلش ہو۔۔۔ لیکن

 

تم مرے دل کی خلش ہو لیکن

دور ہو جاؤ ۔۔ یہ منظور کہاں

ایک سایا، جو کسی سائے سے گہرا بھی نہیں

جسم بھی جس کا نہیں ، دل نہیں ، چہرا بھی نہیں

خال و خد جس کے مجھے ازبر ہیں

دید ۔۔۔ جس طرح کوئی دیکھتا ہو

راستہ، شیشے کی دیوار کے پار

گفتگو ۔۔۔ جیسے کوئی کرتا ہو

اپنے ہی کان میں اک سرگوشی

لفظ ۔۔۔ جیسے کہ ہو نظمائی ہوئی خاموشی

یہ تعلق ہے بس اک نقش کہ جو ریت پہ کھینچا جائے

بادِ  حیراں سے اڑانے کے لیے

موجۂ غم سے مٹانے کے لیے

دشت اس دل کی طرح اپنی ہی تنہائی میں یوں سمٹا ہے

جیسے پھیلا تو فلک ٹوٹ پڑے گا اس پر

کارواں کوئی نہ گزرا کسی منزل کی طرف

گھنٹیاں بجتی رہیں ۔۔۔ نیند کی خاموشی میں

شام ہر روز اترتی ہے سرِ جادۂ جاں

وہی اک کہنہ اداسی لے کر

زندگی ڈوبتی جاتی ہے کسی سرد اندھیرے میں ۔۔ مگر

جگمگاتی ہے بہت دور کسی گوشے میں

ایک چھوٹی سی تمنا کی کرن

سائے کا لمس ہے اس دل کی لگن

تم مرے ٹوٹے ہوئے خواب کا اک ذرہ ہو

جو مری آنکھ میں چبھتا ہے تو خوں بہتا ہے

پھر بھی کھو جاؤ یہ منظور کہاں

تم مرے دل کی خلش ہو لیکن ۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

یہ مسافر

 

 

عمر کی سانولی سہ پہر کے کنارے

گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر

مسافر ۔۔۔ بہت سخت حیراں کھڑا ہے

کہ جس طرح بے انت رستے نے

اس کے قدم لے لیے ہیں

ہوا کی عمودی گزرگاہ پر ایک پتھر کی صورت

کبھی آسماں پر سیاہی میں ہلکی سی سرخی کے

اس میل کو دیکھتا ہے

کبھی دور تک دھوپ اور چھاؤں کے

چمپئی کھیل کو دیکھتا ہے

کبھی ہمکلامی کی خواہش سے بیتاب

اور دوسرے پَل ۔۔۔ بس اک لمسِ  بے ساختہ کا

حسیں خواب

گہری خموشی کے بے انت میں

زرد تنہائی میں

اور عمروں پہ پھیلی ہوئی ۔۔۔ بے تمنائی میں

سادہ دل ۔۔ سادہ رُو ۔۔ تشنۂ آرزو ۔۔۔ اک مسافر

جو عمرِ گریزاں کی اِس سہ پہر کے کنارے

گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر

بہت خوش تمنا کھڑا ہے

اگر دیکھ پاتا کبھی ۔۔۔ اولیں صبح کی وہ گلابی

اگر دیکھ پاتا ۔۔۔ دہکتی ہوئی دوپہر آفتابی

٭٭٭

 

 

 

 

بیس برس کے خود کش حملہ آور کے نام

 

 

جن آنکھوں کو

خواب محبت کی پہلی من موہنی دستک سے کھلنا تھا

وہ آنکھیں اک وحشت ناک دھماکے

کے خونی جھٹکے سے … بند ہوئی ہیں

بھورے بھورے بال الجھے ہیں … اک جھاڑی سے

تن کی دھجی دھجی رستوں پر بکھری ہے

 

مارنے اور مر جانے کی اندھی خواہش میں

کس بدلے کی بھاونا … اک شعلے کی صورت

اس نازک تن میں جلتی تھی

دشمن کو بن پہچانے ہی

بیس برس کے اس سینے میں

کیوں اتنی نفرت پلتی تھی؟

 

بیس برس کی عمر تو ماں کی سبز دعاؤں سے اُگتی ہے

بیس برس کی آنکھوں کے محمل میں تو لیلیٰ رہتی ہے

بیس برس کا دل تو عشق کی اونچی لَو سے

سرخ چراغ بنا رہتا ہے

اپنے انجانے جذبوں کا

خود ہی سراغ بنا رہتا ہے

 

کس نے تمہارے روشن دل کو نفرت کرنا سکھلایا تھا

لمبی عمر کی… سبز دعاؤں والی رُت میں

کس ظالم نے موت کا سپنا دکھلایا تھا؟

کس نے کہا، اس آگ میں جل کر تم کو شہادت مل جائے گی

کس نے بتایا، موت کی کالی راہ پہ جنت مل جائے گی

بیس برس کے کم سنِ  دل کو

پہلی چاہت مل جائے گی؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ہے آشنائے رازِ صدائے غمِ حسین

بادِ  صبا ہے نوحہ سرائے غمِ حسین

 

ٹھہرا ہوا ہے آنکھ میں اک ماہِ  سالِ نوَ

چلنے لگی ہے دل میں ہَوائے غمِ حسین

 

اک ایک نقشِ پا جو کھِلا ہے مثالِ گُل

ہو کر گئے ہیں آبلہ پائے غمِ حسین

 

بے پردہ کب تھیں بیبیاں بازارِ  شام میں

ڈھانپے ہوئے تھی ان کو ردائے غمِ حسین

 

کیا غم ہے جو دعا کی طرح ہے زبان پر

غم ہو کوئی نہ تم کو سوائے غمِ حسین

 

دل گیر ہم جفائے زمانہ سے گر نہیں

یہ خندہ رُوئی بھی ہے عطائے غمِ حسین

 

عمروں پہ ہے محیط یہ صدیوں سے ہے بسیط

کم ہے بس ایک ماہ، برائے غمِ  حسین

 

کرب و بلا سے کم تو نہیں ہے یہ دَور بھی

ماتم یہاں بپا ہے بجائے غمِ حسین

 

گریے کو ایک ذکر نے آسان کر دیا

دریا بہیں گے ، لب پہ جو آئے غمِ حسین

 

شیوہ ہے مدتوں سے یہی اہلِ  صبر کا

اپنے غموں پہ کہتے ہیں ، ہائے غمِ حسین

 

دل میں قدم سنبھل کے غمِ  دوجہاں رکھے

جائے ادب ہے یہ، کہ ہے جائے غمِ حسین

٭٭٭

 

 

 

 

السر

 

 

دل و جاں میں یہ بے مزگی۔۔۔۔ کسی شے کی کمی سے

یا کسی عنصر کے بڑھ جانے سے ۔۔۔۔ پھیلی ہے

رگوں میں خوں کی صورت۔۔۔۔ سبز مائع بہہ رہا ہے

جسم کے سارے مساموں پر۔۔۔ ربر کی تہہ چڑھی ہے

اور معدے کو جیسے آکٹوپس نے جکڑ رکھا ہے

 

ہم کو کیا غرض۔۔۔ کوئی کسی سے کیسے ملتا ہے

فلاں کی دوستی کس سے ہے ۔۔۔ کس سے کیا تعلق ہے ؟

کوئی فن کار ہے بھی یا فقط حسنِ  تعلق ہی کی

ساری کارفرمائی ہے ۔۔۔ شہرت میں ؟

بھلا یہ لوگ ہم سے مشورہ کر کے چلیں گے ؟

زندگی کیا آدمی کی دسترس میں رہنے والی چیز ہے ؟

ہم خواب کیوں دیکھیں ؟ بہت دیکھے ہیں ہم نے خواب

 

ساری زندگی بس خواب ہی دیکھے ہیں ہم نے

امن کے ۔۔۔لوگوں کی خوشحالی کے ۔۔۔سچ کی فتح کے ۔۔۔ پھر کیا ملا؟

یہ دھوپ کتنی زرد ہے ۔۔۔

پہلے تو اس میں بے تحاشا رنگ ہوتے تھے

زمیں چٹخی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔۔۔ فلک تو جیسے دل کا بوجھ بنتا

جا رہا ہے

سر اٹھانے پر ۔۔۔ وہی دوچار چکر سے

جھکانے پر۔۔۔ وہی اک آگ کا گولہ۔۔۔ جلن۔۔۔ متلی

کوئی شے جل گئی باورچی خانے میں

 

مگر لوگوں کا کیا ہے ۔۔۔۔ یہ کسی کی کامیابی پر کہاں راضی ہوئے ہیں ؟

کامیابی؟۔۔۔ آہ !۔۔۔ پوچھو اُن سے ۔۔۔ جن کو اک ذرا سی

کامیابی کے لیے ۔۔۔ دنیا سے پنجہ آزمائی کرنی پڑتی ہے

کوئی جتنا زیادہ بے مروّت ۔۔۔ بد دیانت۔۔۔

 

خود غرض اور سنگ دل ہے

اُس قدر مطلوبِ  دنیا ہے

 

بہت دعوے محبّت کے ۔۔۔ وفا کے ۔۔۔ آزمائش سے گزرنے کے ہوئے

لیکن وہی ۔۔۔ قسمت کا لکھّا

زندگی کیا ہے ؟۔۔۔۔ وہی گرہیں سی معدے میں ۔۔۔

وہی اک آگ کا گولہ۔۔۔ وہی چکرّ

٭٭٭

 

 

 

 

 

آگ لگی ہے ہر طرف

 

 

عشرتِ  جاں میں مست تھے

کھوئے ہوئے تھے سارے لوگ

کیسی عجیب نیند تھی

سوئے ہوئے تھے سارے لوگ

 

کس کو خبر تھی، حشر کی

کیسی گھڑی ہے ہر طرف

جاگ کے دیکھتے ہیں کیا

آگ لگی ہے ہر طرف

 

ساری زمیں جلی ہوئی

سارا جہاں جلا ہوا

اُس کی گلی میں خوں ہی خوں

اِس کا مکاں جلا ہوا

سب کا یقیں لہو لہو

سب کا گماں جلا ہوا

محفلِ  دل لٹی ہوئی

قریۂ جاں جلا ہوا

سود و زیاں کے عہد میں

سود و زیاں جلا ہوا

 

ایسا وہ حشر تھا بپا

ہوش سبھی کے کھو گئے

باغ تمام جل گئے

شہر تباہ ہو گئے

راکھ کے ڈھیر پر جنہیں

رونا تھا، وہ بھی رو گئے

 

ایسی عجیب نیند تھی

لوگ دوبارہ سو گئے

٭٭٭

 

 

 

دھند گہری ہو رہی

 

اک کھیل ۔۔۔ جس کے سب کے سب کردار اصلی ہیں

یہ میں اور تم ۔۔۔ یہی وہ ۔۔۔ اور سب

جن کو نہیں معلوم ۔۔۔۔ کیا اصلی ہے کیا نقلی

اک ایسا کھیل ۔۔۔ جس کو لکھنے والے نے لکھا ہے

نیند کے اور جاگنے کے درمیاں

اس کھیل میں وقفے بھی آتے ہیں

برابر زندگی کے ۔۔۔ ایک وقفہ ہے

مگر وقفے میں بھی یہ کھیل جاری ہے

ہدایت کار نے اس ضمن میں کوئی ہدایت دی تو ہو گی

ہاں ۔۔۔ مگر پروا ہدایت کار کی کس کو ؟

سو اب اُس وقت سے ۔۔۔ اِس وقت تک ۔۔۔ اور آنے والے وقت تک

یہ کھیل جاری ہے

بہت بے چین ہو ؟

اچھا تو لو ۔۔۔ اب پردہ اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔ مگر منظر ؟

چلو اب فرض کر لو کوئی ۔۔۔۔

( منظر )

میں : __ اگرچہ ڈھونڈنے نکلے تو ہیں پر رات کالی ہے ذرا ۔۔۔۔

تم: ___ اب صدا دینی پڑے گی ۔۔۔۔

وہ: ___ صدا خود روشنی ہے جبکہ ہم دشتِ  طلب میں ہیں ۔۔۔

صدا دینی پڑے گی

سب: __ کوئی ہے ؟ کوئی ہے ؟ کوئی اگر ہے تو پکارے

 

میں : ___ خموشی ؟ کیا انوکھی خامشی ہے ۔۔۔۔

تم:___ درختوں سے اُبھرتی ۔۔۔ راستوں ہر پھیلتی یہ خامشی ۔۔۔

وہ:___ کس قدر تنہا درختوں کے یہ جھنڈ ۔۔۔ آنکھوں کے آگے پھیلتے یہ راستے

صحرا میں کب ہوتے ہیں ایسے جھنڈ ۔۔۔ ایسے راستے ؟

سب: ___ ہے کوئی صحرا میں یا ۔۔۔۔ ؟

میں :___ دیکھنا وہ چاند نکلا ہے ۔۔۔۔ ذرا دیکھو تو ۔۔۔

تم: ___ صحرا کی چاندی پر جو بکھرے چاند کا سونا ۔

تو کیسا رنگ بنتا ہے انوکھا ۔

میں :___ مگر دل پر اداسی چھا رہی ہے ، خوف اب باقی نہیں ۔۔

ان دیکھی کا اور ان سنی کا ۔۔۔

تم: ___ تو کیا وہ ان کہی کا خوف بھی ؟

میں : ___ ان کہی ؟ میں نے کبھی سوچا نہیں

وہ: ___ ان کہی میں خوف بھی، امکان بھی پوشیدہ رہتا ہے ۔۔ مگر امکان میں

پوشیدگی ہے ۔۔۔ خوف بھی ہے ۔۔۔ ان کہی بھی

سب:__ کہیں پوشیدہ ہے کوئی یہاں ؟

میں :__ جب یہ پہلی بار چاہا تھا کہ نکلوں اس سفر پر ۔۔۔ سب نے روکا تھا

مگر کوئی نہ تھا ۔۔۔ جو بڑھ کے کہہ دیتا کہ مت جاؤ ۔۔۔ رکو میرے لیے

تم: __ میں نے چاہا تھا مگر پھر ۔۔۔ میرا اپنا بھی ارادہ اس سفر کا ہو گیا ۔۔۔

اور ڈھونڈنا کیسا ؟ مجھے دراصل تو مقصود تھی تھوڑی رفاقت ۔۔۔

میں : __ اگر تم نے کہا ہوتا تو شاید ۔۔۔

وہ: ___ مگر کہنا، نہ کہنا ۔۔۔ چاہنا، کم چاہنا ۔۔ کب اختیاری ہے

میں : __ ساری بات اُس سے مختلف تھی، تم نے جو سمجھی مگر ۔۔۔

تم: __ بات جو تم کہہ نہ پائیں آج تک ۔۔۔ اب کہہ بھی دو تو کیا ؟ چلو ۔۔۔

سب: __ ہے کوئی اس جھنڈ سے آگے ۔۔ کوئی ہے ؟

میں :___ یہ کیسے راستوں سے راستے ۔۔۔ نکلے چلے آتے ہیں ۔۔۔

تم:___ الفت کہاں ہوتی ہے گوشہ گیر ایسی ۔۔۔ جیسی تم نے کی ۔۔۔

خبر ہونے نہ دی مجھ کو بھی تم نے ۔۔۔۔

میں : __ مجھے خود بھی خبر کب تھی کہ ایسا واقعہ ۔۔۔۔۔

وہ:___ خیر ، الفت تو خبر ہے خود ۔۔یہی تو واقعہ ہے ۔۔ حادثہ ہے ۔۔ راستہ ہے

سب: ___ کوئی رستوں سے آگے ہے ؟ کوئی ہے ؟؟

میں :___ نجانے رات کتنی جا چکی ہے ۔۔۔

تم: ___ اگر ہم ساتھ ہیں ، پھر فکر کیسی ؟

میں :___ مگر ہم ساتھ کب ہیں ؟ ہم تو اس دشتِ  طلب میں ، اپنی اپنی ذات

پیچھے چھوڑ کر ۔۔۔ نکلے ہیں اُس کو ڈھونڈنے ۔۔۔

وہ:___ ڈھونڈنے والے تو راتوں کو نہیں سوتے ۔۔ وہ اپنی ذات کے

غم میں نہیں روتے کبھی

میں : ___ سوچتی تھی ۔۔۔ میں بھی اپنا خواب دیکھوں ۔۔۔

تم:___ محبت، خواب کی ڈالی سے ٹوٹا پھول تو ہے ۔۔۔

وہ: ___ محبت خار بھی ہے ۔۔۔ دل کی گہرائی میں ٹوٹی ایک نوکِ  خار

سب: ___ باطن میں گہری رات کے ، کوئی تو ہو گا

میں :___ سفر باقی ہے کتنا ؟ پاؤں اب شل ہو چکے ہیں ۔۔۔

تم: ____ سہارا چاہئے تو ہاتھ حاضر ہے ۔۔۔ یہی وہ ہاتھ ہے

جو اس سے پہلے بھی بڑھا تھا ۔۔۔

میں : ___ سہارا ؟ یاد ہے شرطِ  سفر کیا تھی بھلا ؟

تم: ___ رات باقی ہے ۔۔۔ سفر لمبا ۔۔۔ رفاقت کی ضرورت تو رہے گی

وہ: ___ مگر جو ڈھونڈنے نکلیں ۔۔ رفاقت کے تو قائل ہی نہیں ہوتے ۔۔۔

یہ تنہائی مقدر لوگ ۔۔۔۔

میں :___ پیاسی ہوں ۔۔۔ کیا پانی ملے گا ؟

تم:___ محبت آدمی کو اس طرح سیراب کر دیتی ہے ۔۔۔

پھر مشروب کی حاجت نہیں رہتی ۔۔۔۔

وہ:___ پیاس بھی تو ہے محبت ۔۔۔ پیاس ۔۔۔ گہری پیاس

سب:___ کوئی رفاقت کی حدوں کے پار ہے ؟

میں :___ صبح کے آثار ہیں ۔۔ اور دھند اتری آ رہی ہے ۔۔

تم: ___ افق سے راستوں پر اور درختوں پر ۔۔۔ فضا سے اپنے چہروں پر

یہ پلکی دھند ۔۔۔

میں :__ اور پھر یہ دشتِ  ہول ۔۔۔ اور یہ دل کی ویرانی ۔۔۔ یہ دل ۔۔۔

تم: ___ ساتھ کی راحت ؟

میں : ___ جانے جھوٹ کیا ہے ۔۔۔ سچ ہے کیا ؟

تم:___ ہم ہی سچ ہیں

وہ:___ نہیں ہے جھوٹ کوئی ، ہاں مگر کوتاہ نظری ۔۔۔

سچ نہیں کچھ، بس ارادہ اور طاقت

سب:___ کوئی ہے ، جھوٹ میں یا سچ میں پوشیدہ ؟ پکارے ۔۔۔۔

میں : ___ سفر کتنا ہے ؟ کتنا دشت باقی ہے ؟ بتاؤ

تم:___ نہیں اندازہ کچھ اتنا ۔۔ مگر لگتا ہے ۔۔۔ عمروں ہی سے ہم

اس دشت میں ہیں ۔۔ اور صدیوں سے سفر میں ہیں ۔۔۔

کبھی گر ناپ سکتے رات کو ۔۔۔ اور دشت کو ۔۔۔ اور اس سفر کو ۔۔۔

وہ: ___ سفر ناپا نہیں کرتے ۔۔۔ تلاش آغاز کرتے ہیں ، تو پھر انجام کا سوچا

نہیں کرتے ۔۔۔ صدا کرتے ہیں ، بڑھ جاتے ہیں ۔۔۔ ہر اک موڑ پر

ٹھہرا نہیں کرتے ۔۔ چلو آواز دیتے ہیں ۔۔۔ چلو آواز دو ۔۔۔

سب: ___ کوئی ہے ؟ کوئی یہاں پر ہے ؟ کہیں پر کوئی ہے ؟ ہے تو پکارے ۔۔۔

کوئی تو ہو گا ۔۔۔۔ کہیں پر کوئی تو ہو گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔

جواب آتا نہیں ہے

باز گشت آتی ہے

اور اب دھند گہری ہو رہی ہے

( پردہ گرتا ہے )

٭٭٭

 

 

 

دنیائے وفا کا کوئی در باز کریں کیا

منزل ہی نہیں جب،سفر آغاز کریں کیا

 

اُڑتے ہوئے جاتے تھے ستاروں سے بھی آگے

دل ٹوٹ کے گر جائے تو پرواز کریں کیا

 

کیا شہرِ  مراتب میں ہوں مہمان کسی کے

آئے جو کوئی، دعوتِ  شیراز کریں کیا

 

آنکھوں سے کسی خواب کی دوری پہ ہے دنیا

اس دشتِ  فراموشی میں آواز کریں کیا

 

جب اتنی کفایت سے ملے تیری توجہ

کیا خرچ کریں اور پس انداز کریں کیا

 

تجھ سا جو کوئی ہو تو اسے ڈھونڈنے نکلیں

ایسا نہ ہو کوئی تو تگ و تاز کریں کیا

 

ناکام تمناؤں پہ محجوب سا اک دل

سرمایۂ جاں یہ ہے تو پھر ناز کریں کیا

 

تجھ ایسا ہو قاتل تو کوئی جاں سے نہ کیوں جائے

ہوں لاکھ مسیحا بھی تو اعجاز کریں کیا

 

افشائے محبت بھی قیامت سے نہیں کم

اب فاش تری چشم کا ہر راز کریں کیا

٭٭٭

 

 

 

بات میں تیری لطف تھا آنکھ میں دلبری رہی

شاخِ  نہالِ  عشق یوں آج تلک ہری رہی

 

ہجر کی شب میں کوئی دل،لیلیٰ مثال ہو گیا

خاص کسی کے واسطے قیس کی ہمسری رہی

 

رنگ لگا لیے کبھی، پھول سجا لیے کبھی

ذوقِ  جمال تھا نہ تھا، آئنہ پروری رہی

 

رنگِ  حیات دیکھ کر، گل کا ثبات دیکھ کر

سہمی ہوئی تھی بوئے گل،بادِ صبا ڈری رہی

 

سِحرِ  جمال میں رہے ، ایک خیال میں رہے

شیشۂ دل میں آج تک جیسے کوئی پری رہی

 

دل بھی حرم سے کم نہ تھا،اس میں بسا تھا اک خدا

ساتھ کہیں پہ عزتِ  پیشۂ آذری رہی

 

موسمِ  گل رہا یہاں ، یا رہی خیمہ زن خزاں

خواب کی شاخسار تو یونہی ہری بھری رہی

 

مصحفِ  دل پہ لکھ دیا حرفِ  طلائی عشق کا

لفظ گری کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں زر گری رہی

٭٭٭

 

 

 

دیکھ، طلب کی راہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

دل کی اس ایک آہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

 

اپنا یہاں کوئی تو ہے ، تُو نہیں زندگی تو ہے

خانۂ کم تباہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

 

سچ ہے کہ مدّتوں کے بعد راہ میں یونہی ہم ملے

پھر بھی تری نگاہ میں ، غم ہے کہاں خوشی کہاں

 

سایۂ خوابِ  مختصر اب بھی جھکا ہے نیند پر

شب ہے تری پناہ میں ، غم ہے کہاں خوشی کہاں

 

ایک نگاہ، اور پھر، کس کی مجال، دیکھتا

عشق کی بارگاہ میں ، غم ہے کہاں خوشی کہاں

 

رنجشِ  ذات اور ہم؟ لطفِ  حیات اور ہم؟

یوں بھی فقط نباہ میں ،غم ہے کہاں خوشی کہاں

 

ہلتی ہوئی زمین پر بیٹھ کے دیکھتے رہیں

گردشِ  مہر و ماہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

 

اب بڑی دیر ہو چکی،اب تو یہ عمر کھو چکی

باقی دلِ  تباہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

٭٭٭

 

 

کچھ اجنبی سی صداؤں سے بات کی ہم نے

جب ایک شام ہواؤں سے بات کی ہم نے

 

اُنہیں بتایا پتہ آسمان والے کا

زمیں کے سارے خداؤں سے بات کی ہم نے

 

تھے اپنے خواب کے اک داستاں سرا ہم بھی

نگر کے خواب سراؤں سے بات کی ہم نے

 

سہارا کوئی نہ تھا دھوپ میں رفیقوں کا

سو ایک پیڑ کی چھاؤں سے بات کی ہم نے

 

دوبارہ اِس دلِ  مایوس میں اترنے کو

پلٹ کر آتی دعاؤں سے بات کی ہم نے

 

سفر کے بعد ضروری ہے ایک منزل بھی

چنانچہ راہنماؤں سے بات کی ہم نے

 

جدھر ذرا سا گماں تھا تمہارے ہونے کا

ادھر سے آتی ہواؤں سے بات کی ہم نے

 

ہم اپنی خامشی سب کو کہاں سناتے ہیں

یہی بہت ہے خلاؤں سے بات کی ہم نے

 

سب اپنے طالعِ  بیدار کی تلاش میں تھے

جہاں کے بخت رساؤں سے بات کی ہم نے

 

یہ اہلِ عشق بھی کیا خاک سے بنے ہوں گے ؟

عجیب شعلہ نواؤں سے بات کی ہم نے

٭٭٭

 

 

 

سمندر اداس ہے

 

سمندروں کی سرمئی ہوائیں کیوں اداس ہیں ؟

ہواؤں کے مزاج میں ۔۔سمندروں کی تند بو رچی ہوئی

نمی کی اور مچھلیوں کے جسم کی کثیف بو

یہ مردہ مچھلیوں کے اور سیپیوں کے سرد جسم

ساحلوں کی زرد زرد ریت پر

وہ جیتی جاگتی شریر مچھلیوں کے مضطرب بدن کی بو کہاں گئی

سمندروں کے ساحلوں کی زرد ریت آج کیوں اداس ہے ؟

 

یہ ٹوٹتی ہوئی سی

موج موج نے

اداس ساحلوں سے آج کیا کہا

سمندروں کے خوابناک ساحلوں پہ

کیسا بے حساب

وقتِ  شوق بہہ گیا

جو اس سے پہلے لوٹ

کر نہ آ سکا ۔

جو اس کے بعد لوٹ کر

نہ آئے گا

سمندروں کی موج موج کا

وہ نیلگوں اتار اور چڑھاؤ

کیا ہوا؟

وہ صبح کا گلاب رنگ سا افق ۔۔

وہ شام کی سیاہی میں گھلی شفق

وہ پانیوں میں آفتاب کا رخِ  نگارِ  آتشیں

سمندروں کے ساحلوں پہ وہ بہارِ  آتشیں

بہار کیوں اداس ہے ؟

بہار کے پرند کیوں اداس ہیں ؟

سمندروں کا حسن ۔۔۔۔ساحلوں کی جان۔۔۔۔ آبی جاندار

ساحلوں پہ جمگھٹا کیے ۔۔۔ سفید و سرمئی حسیں پرند

نرم خو اڑان والے ۔۔۔ اونچی اونچی تان والے ۔۔۔موج موج پر رواں

وہ موج کے ، ہوا کے ، سرمئی فضا کے راز داں

سمندروں پہ کشتیوں کا خوش نظر خرام کیوں اداس ہے ؟

سفید بادباں ۔۔۔ ابھی تو دور کے کسی سفر کے واسطے کھُلے نہیں

ابھی مسافروں کے دل۔۔۔ نئی زمیں کی جستجو میں جھوم کر کھِلے نہیں

مسافروں کے نرم دل نجانے کیوں اداس ہیں ،

وہ کشتیوں میں آبِ  نیلگوں پہ دور دور جاتے مرد و زن کے رنگ رنگ پیرہن

مسافروں کے ربطِ  عام سے بدن کی وہ مہک

نگاہ میں عجیب سا وہ خوف و اشتیاق ۔۔۔ ایک اجنبی زمین کا

مگر جبیں پہ دھوپ سی چمک دمک

یہ دھوپ کیوں اداس ہے ؟

یہ دھوپ ۔۔۔ ساحلوں کی سرد اور سیاہ ریت پر پڑی ہوئی

یہ مردہ مچھلیوں کی طرح بے وقار اور اداس

سبز پانیوں سے مل کے

بوند بوند تابدار کرنے والی ۔۔۔ گہر گہر آبدار کرنے والی

با وقار دھوپ کیا ہوئی؟

وہ بادبانی کشتیوں پہ دور تک ۔۔۔۔ مسافتوں کا ساتھ دینے والی

اگلے ساحلوں پہ انتظار کرنے والی ۔۔۔ بے شمار دھوپ کیا ہوئی؟ِ

یہ ساحلوں کا شوقِ  انتظار کیوں اداس ہے ؟

جہاز راں ، جو اگلے ساحلوں کی سمت ۔۔۔ مستقل سفر کریں ۔۔۔ کہاں گئے ؟

سفید،نیلی وردیوں میں کسرتی بدن ۔۔۔ جواں جہاز راں

کمر میں جگمگاتی سرخ اور سنہری پیٹیاں کسے ہوئے

وہ لمبی زندگی پہن کے دور جاتے

گہرے پانیوں پہ اجنبی زمیں کا ۔۔۔ حیرتوں میں ڈوبتا ۔۔۔ عجیب راستہ بناتے

عزم سے بھرے جواں جہاز راں

وہ دیو ہیکلوں کو اپنے ہاتھ، اپنی آنکھ کے ۔۔۔۔خفی اشارے سے چلاتے ۔۔۔ مسکراتے

آج کیوں اداس ہیں ؟

عجیب مرحلوں کی سمت ۔۔۔ اجنبی مہیب ساحلوں کی سمت

اک سفر کا عزم کیوں اداس ہے ؟

ازل سے تا ابد حیات کا سفر ۔۔۔ ازل سے تا ابد یہ بحر نیلگوں

یہ اونچی اٹھتی ۔۔۔ آسماں کو چھوتی لہر لہر میں

تموّجِ  حیات بھی ۔۔۔ شکوہِ  کائنات بھی ۔۔۔ فنا بھی اور ثبات بھی

ثبات کیوں اداس ہے ؟

فنا کا راستہ ابھی نہیں ملا ۔۔۔ ثبات کا پتہ ابھی نہیں ملا

سفر میں آبِ  نیلگوں ۔۔۔ سفر میں سب پرند ہیں

سفر میں سب جہاز راں ۔۔۔ سفر میں یہ زمینِ  جاں ۔۔۔ سفر میں سبز آسماں

مگر یہ خوابِ  زندگی ۔۔۔ یہ سطحِ  آب پر ۔۔۔ نگاہ میں ، حبابِ  زندگی

سرابِ  زندگی یہی ۔۔۔ یہی ہے آبِ  زندگی

سمندروں پہ پھیلتا ۔۔۔ سراب کیوں اداس ہے ؟

یہ خوابنائے خواب ۔۔۔ کیوں اداس ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

بمباری کے بعد

 

کہاں گیا اب؟

یہیں کہیں چشمِ  خاک آلود میں ۔۔۔ وہ جگنو سا خواب رکھا تھا

نیند آنے سے پیشتر ایک رات اتری تھی

ہنستے بستے چمکتے شہروں پہ

روز کی طرح رات اتری تھی

اُس نے اک خط

کہیں بہت دور جانے والے کے نام لکھا

اور اپنے چہرے کو آئنے میں دوبارہ دیکھا

کھلے دریچے سے

آسماں کی بسیط وسعت میں ، کچھ ستارے

ذرا سا جھُک کر

زمیں کو حیرت سے دیکھتے تھے

فضا میں زیتون کی مہک، یاسمن کی خوشبو تھی

دل میں گہری طمانیت تھی

کہ جب فضا میں وہ سنسناہٹ کی گونج اُبھری

وہ اجنبی،جب مہیب چہروں پہ ۔۔۔ موت کا عزم

اور جہازوں میں اپنی مکروہ خواہشوں کا

دہکتا بارود بھر کے لائے

تو زندگی بے قرار ہو کر اِدھر اُدھر بھاگتی پھری تھی

”نہیں ۔۔۔ یہاں شاخ پر ابھی ایک گل کھلا ہے

یہاں شجر پر ۔۔۔ کئی پرندوں کے گھونسلے ہیں

نہیں ۔۔۔ یہ بچوں کا مدرسہ ہے

نہیں ۔۔۔ شفا خانہ ہے

یہاں پر مریض آتے ہیں زندگی کی امید لے کر

نہیں ۔۔۔ یہ گھر لَوٹتے ہوؤں کا … بہت ہی گنجان راستہ ہے

نہیں نہیں ۔۔۔ اس کھلے دریچے میں

اک دیا انتظار کا اب بھی جل رہا ہے

مگر قیامت کے شور میں

زندگی کی آواز دب گئی تھی

دھوئیں کے بادل چَھٹے تو دیکھا ۔ ۔ ۔

جہاں دمکتے ہوئے مکاں تھے

وہاں پہ گہرے سیہ گڑھے ہیں

جہاں پر اک باغ رشکِ  فردوس تھا

وہاں آگ لگ چکی ہے

وہ اک عمارت جو پَل میں ملبے کا ڈھیر ہے

اس کو بنتے بنتے نجانے کتنے برس لگے تھے

یہ گھر امیدوں کا تنکا تنکا اکٹھا کر کے

اِس آخری عمر میں بنا تھا

یہ خاک و خوں میں اَٹے ہوئے بے وقار لاشے

بہت ہی پیارے تھے ۔۔۔ لاڈلے تھے

ابھی ابھی جیتی جاگتی

جگمگاتی آنکھوں سے زندگی

سارے رنگ و رامش کو

دیکھتی تھی

اب اپنی نابینا انگلیوں سے

ٹٹولتی ہے

 

’’کہاں گیا اب؟

یہیں ۔ ۔ ۔ کہیں ۔ ۔ ۔

نقشۂ جہاں پر

وہ اک ستارہ سا

شہر رکھا تھا‘‘

 

شہر ۔۔۔

جس کو زمیں پہ بستے ہوئے

زمانے گزر گئے تھے

وہ شہر ۔۔۔ جس پر بس ایک پَل میں

کئی فسانے گزر گئے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنی اپنی زندگی سے

 

 

 

 

اپنی اپنی زندگی سے ۔۔۔ لوگ کتنے مطمئن ہیں ۔۔۔۔

بے نمایاں اور پُر اسرار چہروں ۔۔۔ گہری کینہ توز آنکھوں

کاری گر ہاتھوں ۔۔۔ دِکھانے اور کھانے والے دانتوں

دو مخالف راستوں پر ۔۔۔ یکساں مشّاقی سے چلنے والے پاؤں

کاگتی اور ٹرٹراتی شوخ آوازوں ۔۔۔ بہت عیّار باتوں

نوجوانی کا ذرا سا دھوکا دیتی ۔۔۔ پکی عمروں

دل سے اوپر ۔۔۔ پیٹ سے نیچے چھُپے جذبوں

ہزاروں رینگتی اور سرسراتی خواہشوں سے

شہرتوں سے

لوگ کتنے مطمئن ہیں ۔۔۔ شہرتوں سے

جو انہیں چوری کے لفظوں ۔۔۔ بد مزہ غزلوں ۔۔۔

تشخّص کے لیے ترسی ہوئی نظموں

بہت سے بے سرو پا غیر فنّی تجربوں

ہر بزم میں موجودگی ۔۔۔ ہر راستے پر دستیابی کے عوض

یا پھر خدائی والدوں کی سر پرستی سے ملی ہیں

ہر طرف ۔۔۔ ساری زمیں پر کلبلاتے اور فضا میں بھنبھناتے

گھات میں بیٹھے ہوئے ۔۔۔ یا مار پر نکلے ہوئے

یہ لوگ کتنے مطمئن ہیں ۔۔۔ اپنی اپنی زندگی سے

—————————–

خدائی والد – god fathers

٭٭٭

 

 

 

لیلیٰ لیلیٰ

 

خیمے میں چراغ جل رہا ہے

آئینے پہ چھائی ہے سیاہی

سب نقش و نگار کھو گئے ہیں

دھندلا ہے وجود کا یہ سایا

اپنی ہی نگاہ سے چھپا کر

کس شکل کو ڈھونڈتی ہے لیلیٰ

اس دشتِ  فراقِ  آرزو میں

اتری ہے ہمیشہ رات لیکن

یہ آج کی رات کچھ عجب ہے

خاموش ہیں پہرے دار سارے

گل ہیں سبھی مشعلیں زمیں پر

سوتے ہیں فلک پہ سب ستارے

 

اک موجِ  ہوا کے ساتھ ہر پل

آتی تھی حدی کی تان پہلے

اب تو وہ صدا بھی دم بخود ہے

وہ بادِ  شمال جس کے دم سے

ہو جاتا تھا خوشگوار صحرا

وہ نرم ہوا بھی دم بخود ہے

اس دشتِ  ملالِ  آرزو سے

کچھ دور ہیں زندگی کی راہیں

یہ کیسا غبار ہے کہ جس میں

وہ شہرِ  جمالِ  یار گم ہے

پاؤں سے لپٹ گئی مسافت

اٹھتے ہیں بدن میں کیا بگولے

آنکھوں میں ٹھہر گیا اندھیرا

امید کا ہر دیار گم ہے

اک خواب کی آرزو میں نکلی

اور نیند کی آس توڑ آئی

لے آئی شبیہِ  یار لیکن

آنکھوں کو وہیں پہ چھوڑ آئی

اب سارے جہان سے چھپا کر

کس شکل کو ڈھونڈتی ہے لیلیٰ

ملبوس میں اب نہیں وہ خوشبو

آواز سے کھو گیا وہ جادو

دل میں ہے مگر وہی تمنا

تن کا ہے مگر وہی تقاضا

اپنے ہی وجود سے الجھ کر

کس درد سے ٹوٹتی ہے لیلیٰ

کیسی ہے بدن میں بیقراری

آرام نہیں کسی بھی پہلو

کانوں پہ رکھے ہیں ہاتھ لیکن

اک شور مچا ہوا ہے ہر سو

کیا عکس نے یہ صدا لگائی

یا دیتا ہے آئنہ دہائی

لیلیٰ! ترا وقت کھو چکا ہے

لیلیٰ! ترا دشت لٹ گیا ہے

لیلیٰ! ترا باغ جل رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

یہ دستیاب عورتیں

 

 

یہ بے حجاب عورتیں

جنہوں نے سارے شہر کو

کمالِ  عشوہ و ادا سے

شیوۂ جفا نما سے

بے قرار اور نڈھال کر رکھا تھا

جانے کون چور راستوں سے

کوچۂ سخن میں آ کے بس گئیں

کسی سے سُن رکھا تھا ۔۔۔ ” یاں فضائے دل پذیر ہے

ہر ایک شخص اس گلی کا، عاشقِ  نگاہِ  دلبری

معاملاتِ  شوق و حسن و عشق کا اسیر ہے

کہ سینکڑوں برس میں پہلی بار ہے

زنانِ  کوچۂ سخن کو اِذنِ  شعر و شاعری

بس ایک دعویِ سخن وری کی دیر ہے کہ پھر

تمام عیشِ  زندگی

قبولِ  عام ۔۔ شہرتِ  دوام کی اضافی خوبیوں کے ساتھ

پیش ہوں گے طشتِ  خاص و عام میں سجے ہوئے

مگر یہ ہے کہ دعوی سخن وری کے واسطے

کہیں کوئی کمال ہونا چاہیئے

خریدنے کو مصرعہ ہائے تر بتر

گِرہ میں کچھ تو مال ہونا چاہیئے ”

یہ پُر شباب عورتیں

چھلک رہی تھیں جو وفورِ  شوق سے

تمام نقدِ  جسم ۔۔۔۔۔

زلف و عارض و لب و نظر لیے ہوئے

مچل گئیں ۔۔۔ متاعِ  شعر کے حصول کے لیے

سخن کے تاجروں کو اس طلب کی جب خبر ہوئی

تو اپنے اپنے نرخ نامے جیب میں چھپائے ۔۔۔ پیش ہو گئے

’’نگاہِ  ناز کے لیے یہ سطر ہے

یہ نظم، مسکراہٹوں کی نذر ہے

یہ ایک شعر، ایک بات کے عوض

غزل ملے گی ۔۔۔ پوری رات کے عوض‘‘

نہ پاسبانِ  کوچۂ سخن کو کچھ خبر ہوئی

نجانے کب یہ مول تول ۔۔۔ بھاؤ تاؤ ہو گیا

نجانے کب مذاقِ  حسن و عشق

اپنا منہ چھپا کے سو گیا

کمالِ  فن ۔۔۔ لہو کے اشک رو گیا

یہ کیا ہوا کہ پوری طرح روشنی سے قبل ہی

تمام عہد ۔۔ ایک سرد تیرگی میں کھو گیا

اور اب جدھر بھی دیکھئے

ہیں بے حساب عورتیں

ہر ایک سمت جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی ہیں

شب کے سارے راستوں پہ

دستیاب عورتیں

٭٭٭

 

 

کسی کی سرخروئی کی کہانی کام آئی

سوادِ  عشق میں اک خوش گمانی کام آئی

 

بہت خطرات تھے ، جنات تھے رستے میں لیکن

پری کی دی ہوئی کوئی نشانی کام آئی

 

حقیقت میں بھی جنگل کاٹ آیا شاہزادہ

مگر اس کام میں پوری جوانی کام آئی

 

محبت اصل میں حاصل نہ تھی اس زندگی کو

ضرورت آ پڑی تو ۔ ۔ ۔ داستانی کام آئی

 

ٹھہر جاتے تو ہم بھی وقفِ دنیا ہو گئے تھے

سو بحرِ شوق، تیری بیکرانی کام آئی

 

سنبھالا ہے کسی کی دوستی نے ہم کو ایسے

نئی ٹوٹی ۔ ۔ ۔ تو کوئی شے پرانی کام آئی

 

یہاں امید کی، واں اک ستارے کی چمک تھی

زمینی بجھ گئی تو ۔ ۔ ۔ آسمانی کام آئی

 

وفور‌ِ  رنج سے سار بدن جلنے لگا تھا

تو ایسے میں یہ اشکوں کی روانی کام آئی

 

کوئی اب لا مکاں سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے

بالآخر عمر بھر کی بے مکانی کام آئی

 

ہمارا بھی شہیدانِ  وفا میں ذکر ہو گا

خود اپنے عشق میں یہ زندگانی کام آئی

٭٭٭

 

 

قلم کو اِذن ملے بابِ  کبریائی سے

تو حرفِ  نعت لکھوں دل کی روشنائی سے

 

درود، آسرا بن جاتا ہے دعا کے لیے

وگرنہ جان لرزتی ہے لب کشائی سے

 

بلند سر ہے یہ امّت، تمام امتّوں میں

ترے وجودِ  مقدس کی آشنائی سے

 

مرے رسول! یہ امّت ہے زخم زخم تمام

عطا ہو اس کو شفا، لطفِ  انتہائی سے

 

ہو ان پہ رحم کہ جو آنسوؤں میں ڈوب گئے

جبیں جھکاتے ہوئے فرطِ  بے ریائی سے

 

توجہ ان پہ، جو گویا ہیں دھیمے لہجے میں

جو پچھلی صف میں ہیں احساسِ کم نمائی سے

 

قبول ان کی وفا بھی ہو یا رسول اللہ

پہنچ نہ پائے جو در پر شکستہ پائی سے

 

حضور! اُن کے دِلوں کو گداز بخشا جائے

جو سنگ بستہ ہوئے زَعمِ  پارسائی سے

 

حضور! ایک کرم کی نظر اُن آئنوں پر

شکستہ ہیں جو زمانے کی بے وفائی سے

 

حضور! جن کے گھروں میں چراغ جلتے نہیں

انہیں عطا ہو کرن، نور کی خدائی سے

 

حضور! اب ہوئے خاشاک و خس، دل و جاں بھی

جگائیے اِنہیں اک موجِ  کہر بائی سے

 

ہمارے چاروں طرف جھوٹ موجیں مارتا ہے

حضور! اور بپھرتا ہے حق نوائی سے

 

ہے دل پہ بارِ  غمِ  زندگی، اور اتنا ہے

حضور! ہٹتا نہیں ہے غزل سرائی سے

 

زمانہ اور زمان و مکاں نہیں مطلوب

حضور! ایک ہی پَل،عرصۂ حِرائی سے

 

بس ایک خوابِ  سَحر یاب،اس شبِ  غم میں

حضور! ہم کو ملے قسمت آزمائی سے

 

بس ایک راہِ  تمنّا، حصارِ  دنیا میں

حضور! دل کی طرف، دل کی رہنمائی سے

 

بس اب تو نعت کہیں اور ٹوٹ کر روئیں

ملے گی راحتِ  جاں ، درد کی کمائی سے

٭٭٭

شاعرہ کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے اجازت مرحمت فرمائی

ماخذ:

http:// saminaraja-urdupoetry.blogspot.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید