FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

خالی آنکھیں اور دوسری کہانیاں

 

 

                مریم جہانگیر

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

جنگ

 

 

 

پانی ماں پانی۔ بچوں کی زبان پہ بس ایک ہی مانگ تھی۔ اور سوکھے منہ والی ماؤں کے پاس لعاب دہن بھی نہ تھا کہ ان کے منہ کو گیلا ہی کر دیتی۔ سورج کی تیز روشنی آنکھوں میں چبھتی اور جسم کے اندر تک سے پانی چوس لیتی سارا جسم پیاس پیاس چلانے لگتا۔ بادل بھی روٹھے ہوئے تھے الٹے ہاتھ کر کر کے ہاتھ پتھرا گئے مگر دعائیں عرش سے ٹکرا کر واپس آ جاتی۔ سب ایک دوسرے کی طرف کن اکھیوں سے دیکھتے کہ ضرور کسی اور کے گناہوں کی سزا ہے کہ رب کو ہم پہ رحم نہیں آ رہا۔ دن طویل ہوتے گئے۔ پہلے پہل تو اٹکی ہوئی جانیں سپردِ خاک ہوئی کئی بہوئیں گھر کی چودھرائن بنی کئی بیٹے بٹوارے کے مقام تک آ گئے پھر لاغر سے بچے اپنے ہونے کا شکوہ کرتے فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ اب ہر کسی کو جان کے لالے پڑے تھے لگتا تھا کوئی نہ بچے گا۔ یہ ڈر گھر گھر موت کا توشہ لئے پھرنے لگا۔ تنور ہوتی زمین میں اب دفنانے کا تکلف بھی چھوڑ دیا گیا۔ کنوئیں تو خشک تھے ہی اب درختوں کے پتے چوسنے سے بھی افاقہ نہ ہوتا۔ گاؤں سارے کا سارا ویرانہ بنتا جا رہا تھا۔ الیکشن کی تاریخ قریب آئی۔ ادھ مرے زندوں میں زندگی کی رمق دوڑ گئی۔ کوئی تو آئے گا یقین محکم تھا۔ دن جلتے بلتے آس کا کنارہ دئیے گزرنے لگے۔ حکومتی کارندوں کی گاڑی جب گاؤں میں داخل ہوئی تو گاڑی کو دس جگہ ٹھہرنا پڑا راستے میں پڑے لاشے گھسیٹ کر ہٹائے گئے پانی مردوں کے منہ پر ڈالا گیا کہ شاید کوئی ہوش میں آ جائے مگر پپڑی زدہ ہونٹ شکوہ کناں تھے۔ سارے گاؤں کا چکر لگایا کہیں بندہ نہ بندے کی ذات سانس لیتی پائی گئی۔ پانی کی بوتلوں سے بھری گاڑی میں جب واپس سوار ہونے لگے تو برتن گرنے کی آواز آئی وہ آواز کی سمت میں لپکے۔ پردہ ہٹایا پاؤں میں چھری اور چمچیں آئی سامنے کملائی ہوئی جوان ماں چھوٹے سے بچے کا سینہ چیرے منہ خون سے رنگے بیٹھی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

سپاٹ

 

 

میرے اور تمہارے درمیان ہے ہی کیا؟ ایک بودا سا رشتہ نہ جسے دنیا شادی کا بندھن کہتی ہے جو میرے لئے فقط ایک بوجھ ہے۔ تمہاری اوقات ہی کیا ہے ؟ تین لفظ طلاق کہوں تو تمہارا نام تک بدل جائے گا پھر کس کے بل بوتے پر اکڑ دکھاتی ہو۔ شفیق کی آنکھوں میں طنز اور لہجے میں تمسخر تھا۔ شمیم جواباً اس کے سر ہی پڑ گئی تھی۔ ’’ تم کیا تھے ؟ تمہاری اوقات کیا تھی؟ تمہیں تو تمہارے والدین نے بھی عاق کر دیا تھا۔ تم جیسے وحشی جانور کے ساتھ میں نے گزارا کیا۔ کوئی اور ہوتی تو دوسرے دن تمہارے منہ پر تھوک کر چلی جاتی۔ ششش پھر کیا تھا شفیق کا تشدد شروع ہو چکا تھا اور شمیم کے جوابی حملے بھی عروج پر تھے۔ دور کونے میں ننھا سا لوتھڑا ڈر کے مارے اپنے آپ میں سمٹا تھا۔ انسان تو وہ ہوتا ہے جس کے پاس جسم کے ساتھ روح بھی ہو اور جذبات بھی۔ وہ محسوس کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو اور اسے دوسروں کو احساس دلانا بھی آتا ہو۔ لیکن یہ نازک سا لوتھڑا جس کے رونے میں شدت آ گئی تھی مگر اس کی گریہ و آزاری کا احساس اس کے والدین کو نہیں تھا۔ کمرے میں بے حسی اور سفاکی ناچ رہی تھی۔

’’ کتنے برس گزر گئے لیکن تمہیں عقل نہ آئی۔ آج بھی راتیں باہر گزارتے ہو۔ پیسہ جوئے پر لُٹا تے ہو۔ کبھی اچھا کھانا اور پہننا مجھے نصیب نہیں ہوا۔ ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا تم نے۔ تم سے کہیں اچھا نکڑ والا جواد ہے۔ بیوی کو عیش کرواتا ہے۔ ششش شمیم کی طعنہ زنی عروج پر تھی۔

’’اس کی بیوی سادہ لوح ہے۔ جسے عیاشی کروانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ میری بیوی خود سب کی عیاشی کا سامان ہے۔ بس پیسہ ہو اور لٹانے کا موقع ملا۔ میں لاکھوں میں کھیلتا تھا تو نے مجھے ککھ کا نہ رہنے دیا۔ تجھ سے شادی سے بہتر تھا اپنے سر میں یونہی خاک ڈال لیتا۔ شفیق نے اپنے ہاتھ نچا نچا کر طعنے دئیے اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ بے شکن لباس میں ملبوس یہ شخص ملکی مالیاتی ادارے کے کسی بڑے عہدے پر تعینات ہے۔ ’’ حرام کماتا ہے۔ حرام کھلاتا ہے ارے حرام جچتا کہاں ہے ؟ کہیں نہ کہیں سے نکل ہی جاتا ہے۔ تُو دیکھنا تجھے ایسی مار پڑے گی قسمت کی کہ تیری شکل تک نہیں پہچانی جائے گی۔ حرام کھا کر حرام کی موت ہی مرے گا۔ ششش شمیم پَر کٹی کبوتری سی کٹنگ کروا کر بالوں کو لہراتے ہوئے اسے تحقیر سے دیکھ رہی تھی۔ ’’ مرد حرام کی طرف جاتا ہے تو اسے لے جانے والی عورت ہوتی ہے۔ اگر عورت صبر و شکر کرنے والی ہو تو مرد کو تھوڑے پر راضی کر لیتی ہے۔ اپنی کسی ادا سے، کسی ناز سے بُرائی کی طرف اُٹھنے والے قدم روک لیتی ہے۔ مرد صرف مرد تب ہوتا ہے جب اسے کسی دوسری عورت کی چاہ لے ڈوبے۔ مجھے تو ایسی کوئی لَت نہیں۔ تجھے پتا ہے میری جو عیاشی کا سامان ہیں وہ گھر سے باہر تک ہیں۔ تیری شکل غور سے دیکھوں تو انھیں گھر بھی لے آؤں۔ مگر جو تُو نے اپنے جیسی منحوس ماری پیدا کر دی ہے اس کے پاس میرا نام ہے۔ اس کی وجہ سے مجبور ہوں۔ ورنہ تیرے اور اس کے پیسے بازار میں خوب لگوا سکتا ہوں۔ ششش شفیق نے اپنی ہر حد پار کر دی تھی۔ شمیم نے بھی پاس پڑا گلدان سر پر دے مارا۔ رات کے گہرے ہوتے اندھیرے حیوانیت کو ہوا دیتے رہے اور گھر کے کسی کمرے کے دروازے کے ساتھ چھوٹی سی بچی سسکتی رہی۔

ایک عام شادی کے نتیجے میں شمیم شفیق کی شریکِ حیات بنی تھی۔ نجانے وہ ذہن کی کونسی سطح تھی جہاں جا کر دونوں کے آپسی تعلق دراڑ بن کر سامنے آئے اور پھر کبھی سرخ ٹائلوں لگے گھر میں محبت کا کوئی پرندہ نہیں چہکا۔ انسانی جبلت کے تقاضے کی تکمیل کے طور پر گھرکی چار دیواری کو ایک اور وجود کی قلقاریاں سننے کو ملی جو بعد میں صرف چیخوں میں بدل گئی۔ وقت گزرا تو یہ چیخیں آہ و بکا میں اور پھر آہ و بکا صرف گرم سیال مادے جسے ہم آنسو کہتے ہیں، اس میں ڈھل گئی۔ شفیق اور شمیم دونوں کی ذہنی اور ذاتی صورتحال ایک ایسے کنوئیں کی مانند تھی جو کبھی سیراب نہیں ہوا۔ دونوں ایک دوسرے کے پاس اپنی پیاس لے کر آئے مگر پیاسے ہی رہے۔ انفرادی طور پر کوئی خوبیاں انہیں معاشرے میں بھی ممتاز نہ کر سکی۔ پیسے کی ریل پیل تھی لیکن رشتے ناپید تھے۔ شفیق کو گھر والوں نے عاق کر دیا تھا تو شمیم کے گھر والوں نے بھی شادی کر کے ایک بوجھ ہی اُتارا تھا۔ دونوں اپنی پیاس پیسے سے بجھاتے تھے اس لئے کردار برائیوں کی دلدل میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ قارون کا خزانہ بھی دونوں ہاتھوں سے لٹایا جائے تو خا لی ہو جاتا ہے یہاں تو پھر چار ہاتھ تھے۔ اب انہوں نے پیسے کا متبادل ذریعہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ نظر اس پر پڑی جسے تراشا جاتا تو ہیرا بن جاتی چمک اُٹھتی۔ پڑھی لکھی خوب ہوتی تو ماں باپ کا سہارا بنتی۔ لیکن فی الحال بوڑھی موٹی آسامی ہی ملی۔ جس کے ذریعہ یہ بساند بھرے جسموں کے تقاضے کچھ عرصہ اور پورا ہو سکتے تھے۔

پلوشہ بن مانگی دعا تھی جب اس پر زور اصرار بڑھتا گیا تو ایک دھند بھری صبح خوبصورت دروازہ دھکیلنے پر ایک صفحہ پھڑپھڑا رہ تھا۔ ’’ حرام حرام ہوتا ہے۔ وہ کبھی حلال نہیں بن سکتا۔ جیسے پانی اور تیزاب کی تاثیر مختلف ہوتی ہے اسی طرح حلال کا لقمہ اور حرام کا گھونٹ یکساں اثر نہیں ڈال سکتے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں اس زرنگر کا کوئی مردار لقمہ حلق سے نیچے نہ اُتاروں لیکن میرے پاس جائے پناہ نہ تھی۔ پھر میں نے پوری کوشش کی کہ اس کی تاثیر سے بچ کر دکھاؤں۔ تاریخ بدل دوں۔ لیکن تاریخ خود کو دُہراتی ہے۔ ہر عمل کا رَد عمل ہوتا ہے۔ آپ دونوں کے جھگڑوں نے نجانے کب محبت کی تلاش میں مجھے بھٹکا دیا اور میں ہوس اور محبت میں فرق نہ کر سکی۔ اپنا منہ مارتی رہی اور خود کو نوچتی رہی۔ آپ دونوں کو نظر بھی آئی تو تب جب آپ کے پاس عیاشی کا سامان نہ بچا۔ میں حرام آپ کو لو ٹانا چاہتی تھی اس بوڑھے عیاش رشید کی بیوی بن کر لیکن وہ بھی گھاگ ہے پہچان جاتا کہ مال کھوٹا ہے۔ متزاد یہ کہ جس کی ہوس کو محبت سمجھتی رہی وہ بھی میرے لہو کی آخری رمق خود اکیلا چوسنا چاہتا تھا اگر یہ شادی ہو جاتی تو میری نا زیبا تصویریں چوک میں ٹنگی نظر آتی۔ جو میں نے اس رات بھیجی تھی جب لاؤنج میں بیٹھا میرا باپ میری قیمت بازار میں لگا رہا تھا۔ ششش مردہ چہرے پر کوئی سفیدی کوئی پیلاہٹ نہ تھی وہ ویسی ہی سپاٹ تھی جیسی تمام عمر رہی۔ بالکل سپاٹ۔

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی

 

سورج کی سنہری کرنیں شفاف پانی کے قطروں پہ رقص کر رہی تھیں۔ جھیل کے بہتے پانی کی مدھر سی موسیقی ماحول کو نغمگی عطا کر رہی تھیں۔ اس نے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو محبت سے دیکھا۔ یہ شخص اس کی زندگی میں کوئی بھی نہیں تھا اور آج سب کچھ تھا۔ نکاح کے دو بولوں میں کتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ ایک انجان شخص کو آپ کے لئے سارا جہاں بنا دیتے ہیں۔ وہ بہت عام سی لڑکی تھی لیکن ملک کے نامور مصور کی بیوی بن کر اسے احساس ہوا کہ اس کی کوئی نیکی خدا کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت پا گئی ہے۔ اس نے گردن میں پڑے سنہری لاکٹ کو ہاتھ سے چھوا اور پیشانی پہ آئی زلف کو پیچھے کرنے کی جان بوجھ کر ناکام کوشش کی۔ وہ اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا لیکن شاید متوجہ نہیں تھا۔ "موسم کتنا اچھا ہے ناں ؟” وہ اس کی توجہ حاصل کرنے کو بولی۔ "ہوں … ہاں ! ” وہ جیسے کسی خواب سے جاگا تھا۔ یہ شخص جتنا اچھا مصور تھا اتنا ہی کم گو بھی تھا لیکن عاشی ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی محبت میں پور پور ڈوبتی گئی۔ ہنی مون کا دورانیہ کب ختم ہوا پتہ ہی نہیں چلا۔ نعمان بہت اچھا بیٹا تھا۔ اس نے سنا تھا کہ جو اچھا بیٹا ہو وہ اچھا شوہر بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس سنی سنائی بات پر تنہائی میں وہ محبت کے اتنے ثبوت خاموشی سے رقم کرتا کہ عاشی اپنے آپ کو ہواؤں سے بھی ہلکا محسوس کرتی۔ اسے خاموشی چبھتی لیکن ثبوت اسے بولنے کی مہلت نہ دیتے۔ عاشی کے آشیانے میں ننھی سی پری کا اضافہ ہوا تو اسے لگا کہ شاید خاموشی کے سمندر میں ارتعاش پیدا ہو لیکن اس نے عاشی کے ہاتھوں پہ اتنی عقیدت سے اپنا ما تھا ٹیکا کہ وہ کوئی شکوہ نہ کر سکی۔ زندگی نے نیا رنگ دکھایا ان کی زندگی میں آرزو آئی۔ وہ کسی شاعر کی غزل جیسی تھی لیکن تھی ایک مصورہ…۔ ۔ نعمان اکثر اس سے باتیں کرتا۔ عاشی اس کی آواز کو حسرت سے سنتی۔ گزرتے گزرتے اپنی سماعتوں میں محفوظ کر لیتی۔ آرزو گھر آتی تو اسے حسرت سے دیکھتی اور اس کی تعظیم میں جھک جاتی۔ منہ سے کچھ نہ بولتی اس کا روم روم جھکا ہوا نظر آتا۔ ان دونوں مصوروں کو آرٹ گیلری میں کوئی پراجیکٹ ملا تھا۔ بے چاری بیوی کلستی رہتی اور وہ مختلف تصورات کے بارے میں تبادلہ خیالات کرتے رہتے۔ عاشی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو آ گیا۔ وہ کہنا چاہتی تھی لیکن کچھ کہہ نہیں سکتی تھی اس کے پاس انگلی اٹھانے کے لئے کوئی خاص بات نہ تھی۔ اگر وہ کہتا کہ یہ کاروباری گفتگو ہے ضروری ہے مجبوری ہے تو وہ کیا کرتی ؟ شرمندگی کا بوجھ کیسے ڈھوتی؟ اگر وہ کہتا یہ عبادت ہے محبت ہے تو وہ قیامت کو کیسے اپنے آنگن پہ ٹوٹتے دیکھتی؟۔ ۔ اگر یہ صرف مجبوری تھی تو وہ کیسے آرزو سے باتیں کرتا چائے پینا بھی بھول جاتا تھا؟ وہ کیسے اس کو آرزو کے پسندیدہ نیلے رنگ کی ساڑھی پہننے کا مشورہ دیتا تھا؟ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کیوں چور نظروں سے باورچی خانے کی طرف نظر کرتا تھا ؟ کیا اسے واقعی فرار کی ضرورت تھی؟ ایک پراجیکٹ ختم ہوا تو دوسرا شروع ہو گیا۔ گھر میں معاشی آسودگی آ گئی لیکن خاموشی بڑھ گئی۔ عاشی اب ناک تک بھر گئی تھی۔ پری کو دیکھتی تو دل میں اٹھتے جوار بھاٹے کو دل میں ہی ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتی۔ چائے چولہے پر ابلتی رہتی وہ اندر ہی اندر کڑھتی رہتی۔ آرزو اپنی گھڑی کو تمکنت سے چھوتی اور ٹک ٹک کرتی چلی جاتی…۔ عاشی سوچتی کتنی بے قدر ہے … یہ آواز اگر مجھ پہ اس طرح مہربان ہو تو میں تو آنکھوں کے راستے بھی سننے لگ جاؤں۔ اب عالمی مقابلۂ مصوری شروع ہونے والا تھا۔ نعمان نے خود کو اپنے مخصوص کمرے میں دن رات کے لئے قید کر لیا۔ عاشی کو اس کی فکر ہونے لگی۔ آرزو کا فون آتا تو سننے لاؤنج میں آتا پھر واپس مقید۔ "صحت برباد ہو رہی ہے "عاشی احتجاج کرتی۔ "ہونے دو ” وہ اطمینان سے کہتا۔ "ایسا کیا بنا رہے ہیں ؟” اسے تجسس ہوتا۔ ” زندگی…۔ ” وہ یک لفظی جواب دیتا اور واپس چلا جاتا۔ اس کی زندگی واقعی زندگی اور آرزو کے فون تک محدود ہو گئی تھی۔ تین ہفتوں کی شب و روز محنت کے بعد آخر اس نے اپنا شاہکار تقریباً مکمل کر ہی لیا۔ یہ اندازہ اس کے چہرے پر پھیلے اطمینان سے لگایا گیا آخر عاشی نے فیصلہ کرنے کی ٹھان لی اور بالا ہی بالا خلع کے کاغذات تیار کروا لئے …۔ وہ نعمان کو بتانا چاہتی تھی کہ اس نے کیا سوچ رکھا ہے لیکن نعمان کا جنون دیکھ کر خاموش رہی کہ کہیں اس فیصلے کا اثر اس کی تخلیق پہ نہ پڑ جائے محبت کتنی خوش گمان ہے اگر اسے میرے ہونے کی پرواہ نہیں تو نہ ہونے کی کیوں ہو گی…وہ سوچتی لیکن چپ رہی شاید اس نے بھی خاموش رہنا سیکھ لیا تھا ایک دن نعمان نے پری کو پیار کیا اور پاس کھڑی عاشی کو کہا ” زندگی مکمل ہے "۔ اپنی سنا کر اس نے نہانے کے لئے غسل خانے میں قدم رکھا عاشی نے خلع کے کاغذات پری کے سرہانے رکھے اور نعمان کی زندگی دیکھنے کے لئے کمرے سے نکل آئی۔ دل میں ہزاروں خدشے تھے دل چاہتا تھا فوراً گھر چھوڑ دے لیکن تجسس کے ہاتھوں مجبور تھی۔ لرزتے ہاتھوں سے اس نے کینوس پہ لگی تصویر سے کاغذ ہٹایا۔ یہ جھیل کنارے بیٹھے اس کی اپنی تصویر تھی جس میں وہ جان بوجھ کر بالوں کو پیشانی سے ہٹانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

وفا

 

وہ شاید زندگی میں تیسری دفعہ اتنا خوش ہوا تھا۔ پہلی خوشی تب ملی تھی جب اس نے اپنے والد کی آنکھوں میں اپنی وجہ سے خوشی کے آنسو دیکھے تھے۔ مرتضیٰ کے گریجویشن کی بات ہے یہ۔ اس نے اپنی یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اور سٹیج پر حیدر صاحب کو بُلا کر وائس چانسلر نے کہا تھا ’’ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کون عظیم والد ہیں جن کے سائے میں مرتضیٰ حیدر جیسے بیٹے نے پرورش پائی ہے ششش۔ حیدر نے اپنے بیٹوں کو ہمیشہ زمین پر چلنا سکھایا اور اُن کی  نظر کو بلندی پہ رکھنے کا حکم دیا اور یہ حکم اس لئے کہ وہ اپنے بیٹوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ محبت چاہے کسی بھی صورت میں کیوں نہ ہو یہ ہمیشہ اس انسان کو وہی سِیکھ دیتی ہے کہ وہ اپنے سے منسلک لوگوں کو اُونچی اُڑان سکھائے۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ کوئی آپ سے محبت کرتا ہے یا نہیں تو دیکھیں کہ آیا وہ آپ کے پَر کاٹتا ہے یا آپ کی پرواز میں آپ کا معاون بنتا ہے۔

دوسری دفعہ اُسے خوشی تب ملی تھی جب وہ اس کے پاس بیٹھی تھی۔ کوئی بھی انسان اکیلا کچھ نہیں۔ دوسرا ہٹ کا احساس تنہائی میں رعنائیاں بکھیر دیتا ہے۔ مرتضیٰ نے یونیورسٹی میں اس لڑکی کو اتنا دیکھا تھا جتنی طاقت اس کی بینائی میں موجود تھی۔ وہ آنکھیں بند کر کے اس کی آواز کا ارتعاش محسوس کر سکتا تھا لیکن وہ اپنے خول میں سمٹی اور سنجیدگی اوڑھے ہوئے محبت کی تمازت محسوس کرنے سے بہت دور تھی۔ اکھٹا ایک ہی پروجیکٹ ملنے پر دونوں کو ایک دوسرے سے بات تو کرنا ہی تھی۔ لیکن بات صرف وہ کر رہی تھی۔ مرتضیٰ تو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کو، اُس کی خم دار پلکوں کو، انگلیاں مروڑتی بے چینی کو، گالوں پہ دھنک کو اور وجود میں گریز کو۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی اپنائیت سے اجنبیت کی تمام دیواروں کو ہٹا دیا تھا اور محبت اس ہوا میں تھِرکتی پھرتی تھی جس میں وفا قریشی اور مرتضیٰ حیدر سانس لیتے تھے۔ جب لفظ ضروری ہو گئے تو وفا کا جواب وہی تھا جو ایک سمجھ دار بیٹی کا ہوتا ہے ’’ مجھے چھ سال چاہئے مجھے یہ نہیں پتا کہ ان سالوں میں میرے سر پر چاندی اُترنے لگے گی یا میں اپنی ذات کی کشش کھو دوں گی۔ مجھے یہ معلوم ہے کہ ان چھ سالوں کے بعد میرے بہن بھائی اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے ششش۔ بغیر والد کے پرورش پانے والی بڑی بہنوں میں ایک مرد خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ جو انہیں معاشرے میں چلنے کی طاقت بھی فراہم کرتا ہے اور ان کا سائبان بھی بنتا ہے۔ مرتضیٰ حیدر نے اس فیصلے کا احترام کیا تھا اور وفا کے دونوں ہاتھوں پہ اپنے ہاتھوں سے ساتھ کی مہر ثبت کر دی تھی۔

آج اسے زندگی کی تیسری بڑی خوشی ملی تھی۔ وہ اسپین کا دیوانہ تھا اسے وہاں کی کرنسی یورو بھی پُر کشش لگتی تھی۔ اسپین کے پہاڑ اور دریا اس کی روح سے جُڑے ہوئے لگتے تھے۔ اسپین کی معیشت نپولین کی جنگ کے بعد بدحالی کی بد ترین شکل کو جا پہنچی تھی اور سیاسی نظام بھی تقسیم ہو گیا تھا لیکن پھر اس جنگ کے نتیجے میں بننے والے دونوں گروہوں ( جن میں سے ایک قدیم خیالات کے مالک اور ایک ترقیاتی خیالات کے مالک ہیں ) میں حکومت کے انتظام کی ترسیل نے وطن کو قائم رکھا اب وہی اسپین معیشت یورپین یونین میں تیسرے نمبر اور خریداری کی بنیاد پر سولہویں نمبر پر ہے۔

ٹیلی فونیکا ۱۹۲۴ء میں اسپین میں قائم ہونے والی ایک بہت بڑی ملٹی نیشنل کمپنی ہے جس میں مرتضیٰ حیدر کو اس کی قابلیت کی بناء پر بہت اچھی نوکری مل گئی تھی۔ اب وہ ائیر پورٹ پہ کھڑا تھا اور سامنے وفا قریشی۔ نارنجی رنگ کے دوپٹے اور سفید چکن کی قمیض میں بھی اس کی رنگت پیلی پڑ رہی تھی جیسے سارا خون نچڑ کر رہ گیا ہو۔ مرتضیٰ نے اس کی نم پلکوں کو دیکھ کر التجا کی تھی ’’ جیسے بھی حالات کیوں نہ ہو جائیں تم میری رہنا۔ تمہیں میرا رہنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ میری وفا کا خیال رکھنا۔ میری وفا کی لاج رکھناششش۔ وفا نے جواب میں سی کی آواز بھی نہیں نکالی تھی اسے ان لفظوں سے تکلیف ہوئی تھی جیسے کوئی خنجر پل پل کر کے سینے میں اُتارا جائے۔ وہ کہنا چاہتی تھی کہ اعتبار بھی ضروری ہے جتنی محبت ضروری ہے مگر خاموش رہی اسے معلوم تھا کہ وقت خود بتائے گا۔

چھ سال گزر گئے۔ مرتضیٰ حیدر داخلی دروازے سے کمرے کے راستے تک آنے والے خوش رنگ پھولوں کو دیکھ رہا تھا۔ نظر دیوار پر پڑی۔ ڈیجیٹل کلاک میں 13 بج کر 13 منٹ ہوئے تھے۔ پسینے کے قطرے نے سر کے آخری حصے سے کمر تک کا سفر طے کیا۔ اس نے اپنی نیلی زرٹ کے کالر کو غیر مرئی قوت کے زیرِ اثر ڈھیلا کیا۔ کمرے کے اندر جاتے ہی اس نے وفا کی والدہ کو دیکھا۔ سنجیدگی کا لبادہ جو بہت سال پہلے ان کی بیٹی کے گرد تھا اسی نے آج اُنکا احاطہ کر رکھا تھا۔ وہ ضرور کسی گہری سوچ میں تھیں۔ ان ظالم سالوں نے مرتضیٰ حیدر کو باپ کی شفقت سے محروم کر دیا تھا۔ اس نے قریب جا کر آنٹی کو سلام کیا۔ ’’ وعلیکم السلام، خوش رہوششش۔ تھوڑی دیر میں وفا کی چھوٹی بہن حِرا سوپ لے کر آ گئی۔ دھوئیں کے مرغولے میں ہر دل اپنے اندیشے اور اپنی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ سوپ کے کٹورے ہاتھوں میں آ گئے تھے۔ وفا سلام دُعا کرتی داخل ہوئی اور ماں کی پائنتی سے جُڑ گئی تھی۔ اُس کی انگلیاں آج بھی ایک دوسرے سے لڑ رہی تھیں مرتضیٰ دل ہی دل میں مُسکرا دیا۔ نمک کی شیشی سے نمک ماں کے پیالے میں اُنڈیلا تو پھر حِرا کو پکڑا دیا تاکہ وہ بھی اپنے سوپ کو مزیدار کر سکے۔ اس سے پہلے کے حِرا شیشی نیچے رکھتی ایک سوپ کا کٹورا وفا نے اُٹھا لیا کہ یہاں اس موقع پر کچھ نہ کرنے سے بہتر سوپ پینا ہے، اور نمک شامل کر لیا گیا۔ ٹھنڈے پسینے نے مرتضیٰ حیدر کی ساری کمر کو بھگو دیا تھا۔ اس کے ہاتھوں سے کٹورا چھوٹ گیا۔ حِرا فوراً سے صفائی کے لئے کپڑا لے آئی۔ سوپ صفائی والے تولیے میں جذب کیا گیا اور پھر جھاڑو سے شیشے کے ٹکڑے اُٹھائے گئے۔ جھاڑو لگاتے ہوئے جھاڑو نے ایک دفعہ مرتضیٰ کی پینٹ کو چھوا تھا ور ایک دفعہ وفا کے پائنچوں کو۔ مرتضیٰ کی آنکھوں میں وحشت تھی اور وفا کی آنکھوں میں نا سمجھی۔ ’’ واپس آ کر میرا دل چاہا کہ میں آپ سب سے ملوں، لیکن ابھی وقت کی قلت ہے پھر آؤں گاششش۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ ایک ماں کی اُمید ٹوٹی تھی اور ایک لڑکی کا مان۔

تین دن بعد وفا کے موبائل پر صوتی پیغام موصول ہوا۔ ’’ اسپین میں 13 کا ہندسہ بد شگونی کا باعث سمجھا جاتا ہے اور جب میں تمہارے گھر داخل ہوا تو تمہارے برآمدے کی گھڑی 13 بج کر 13 منٹ بجا رہی تھی۔ اسپین میں سُنا تھا کہ ایک دستر خوان میں نمک دانی تین لوگوں کے درمیان نہیں گھومنی چاہئے اسے ٹیبل پر ہونا چاہئے۔ لیکن تم جانتی ہو کہ اس دن کیا ہوا۔ اسپین میں اگر کسی شخص کو صفائی کرتے ہوئے جھاڑو لگ جائے تو اس کی کبھی شادی نہیں ہوتی۔ میرے پاس کہنے کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم کبھی ایک نہیں ہو سکتیـششش۔

وفا نے گرتے ہوئے انداز میں بیڈ کی سائیڈ کو پکڑا اور زمین پہ بیٹھ گئی کاش وہ اُسے بتا سکتی کہ برآمدے میں لگی گھڑی وفا کے والد لائے تھے اور وہ سالہا سال سے رُکی ہوئی ہے مگر موجود ہے۔ نمک وفا کے کٹورے میں حِرا نے خود ڈالا تھا۔ صرف تین لوگوں کے کٹوروں میں نمک ضرور تھا مگر نمک دانی نے لمس صرف دو لوگوں کا محسوس کیا تھا۔ اور تم کیوں بھول گئے مرتضیٰ کہ ہمارے یہاں سمجھا جاتا ہے کہ جس کو جھاڑو چھُو لے اُسکا صرف قد چھوٹا رہ جاتا ہے اور ہمارے ہاں اکثر صفائی کرنے والے لمبے ہی ہوتے ہیں۔ تم اسپین جا کر اپنے ساتھ کیا لائے ؟ وہاں کے دریاؤں سی سرد مہری؟ وہاں کے پہاڑوں سا غرور؟ تمہیں یورو یاد رہے اسلام بھول گیا۔ لیکن وہ خود اس کے لئے نامحرم تھی اپنے منہ سے نام کیسے لیتی۔ وہ خود بھی تو با عمل مسلمان نہیں تھی۔ اس نے اپنے نام کی لاج تو رکھ لی تھی۔ لیکن اپنے مذہب کی نہیں۔ وہ کس طرح سے مرتضیٰ حیدر کو روکتی۔ کسی کو روکنے کے لئے کوئی وجہ نہیں چاہئے ہوتی۔ رُکنا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔ محبت کی زنجیریں تبھی اثر کرتی ہیں جب محسوس کیا جائے۔ وہ خاموشی سے اُٹھی اور بستر پر لیٹ گئی۔ وہ سونا چاہتی تھی کیونکہ نیند میں انسان سب بھُلا دیتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

خالی آنکھیں

 

ناعمہ لان کی روٹس پر پیدل چل رہی تھی۔ نصیب کی ان عجب اٹھکیلیوں سے ان کے دماغ میں جنگ سی چھڑی ہوئی تھی۔ جو اسے دکھائی دیتا تھا وہ کسی اور کو نہ تو دکھا سکتی تھی اور نہ ہی سمجھا سکتی تھی۔ حقیقت کی آمیزش میں افسانوں سی باتیں۔ ۔ ۔ جانے کیسا کردار تھا جو اس کی دماغ کی نسیں تک ہلا چکا تھا۔ بکھرے بال اس کی خالی آنکھوں سے الجھ رہے تھے۔ اس کو کیا غرض تھی سنگھار کی مگر اب سوکھے ہونٹوں پر جمی پپڑی عرصہ دراز ہوئے مسکرانا بھول چکے تھے۔ چلتے چلتے ناعمہ پچھلی طرف آ گئی تھی۔ اچانک وہ سامنے آ گیا، :کیوں روتی ہو؟” عباس کی آنکھوں میں الجھن تھی۔ "کس زبان میں بتاؤں تو سمجھو گی کہ مجھے تم سے محبت ہے، آنکھیں پڑھنا نہیں آتا؟ کون سی منت ہے جو میَں نے تمھیں پانے کے لئے نہیں مانی۔ وہ کونسی رات کے نفل تھے جو قضا کئے۔ اپنی عزتِ نفس سے لے کر اپنی نمازیں تک سب گروی رکھ دیا۔ اللہ چاہے تو کیا نہیں کر سکتا۔ اتنی بڑی دنیا بنانے والا، صرف ایک کُن سے تخلیق کرنے والا، تمھیں میرے نصیب میں لکھ دیتا تو کیا برا ہو جاتا؟ اتنی بڑی دنیا ہے اس کی۔ بہروز کے نصیب میں کچھ اور دے دیتا، مجھے عباس شاہ دے دیتا۔ میَں ناعمہ ایمان۔ ۔ ۔ عباس شاہ کے نام کی بھیک مانگ مانگ کر تھک گئی ہوں "۔ وہ پھر اپنے سامنے دیکھ کر ٹوٹ رہی تھی، بکھر رہی تھی، چور چور ہو رہی تھی۔ اس کے جذبات قابو میں نہیں تھے۔ عباس تھوڑا سا آگے آیا اور اس کے عین سامنے کھڑا ہو کر بولا "اس حال میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا ایمان تمھیں۔ تمھاری طاقت نہیں بن سکا، تمھیں کمزور کرنا بھی میرا مقصد نہیں تھا۔ ایسی ہی کسی گھڑی سے خوفزدہ تھا میَں۔ میرے ہاتھ میں ہوتا تو شاید میَں کچھ کر لیتا۔ مگر میرے ہاتھ خالی ہیں اور میرے خالی ہاتھوں نے تمھارے ہاتھوں اور آنکھوں کو بھی خالی کر دیا ہے "۔ ” نہیں عباس، ماما مان جائے گی۔ تم ایک دفعہ میرے ساتھ ان کے پاس چلو تو سہی۔ میرے سوا کسی کو دکھائی بھی نہیں دیتے ہو۔ رات کے اس پہر نظر آتے ہو۔ کبھی یہ نہیں بتاتے کہ کون ہو؟ مجھے کوئی ڈر نہیں ہے، میَں تمھارے لئے ہر خطرہ مول لے سکتی ہوں۔ ہر حد سے پرے جا سکتی ہوں۔ ہر وہ پل عبور کر سکتی ہوں جس کے بعد تمھارے قدموں کی دھول ہی سہی مگر کچھ تو میرا مقدر ہو۔ سب سمجھتے ہیں کہ میَں کسی الوژن میں مبتلا ہوں۔ تم سراب نہیں ہو، سب کو بتا دو تم حقیقت ہو”۔ ایمان اب سراسر گھٹنوں پر بیٹھ چکی تھی۔ ” صحیح کہتے ہیں سب” عباس نے سخت لہجے میں کہا ” جو تمھیں میسر ہے اسے جی لو۔ جو تمھارے پاس ہے اس پر صبر شکر کرو۔ میَں واقعی ایک ایسا سراب ہوں جو کبھی نہیں مل سکتا”۔ ساتھ ہی آواز معدوم ہو گئی۔ ناعمہ ایمان نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا۔ اردگرد کوئی نہیں تھا، وہ ہمیشہ کی طرح غائب ہو چکا تھا۔ مسز صدیقی تقریباً بھاگتی ہوئی آئی اور ناعمہ کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا۔ "اٹھو ناعمہ، کیوں ان درختوں میں آ کر بیٹھ جاتی ہو۔ تمھارے بابا کی خواہش نہ ہوتے تو ان کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک دیتی۔ ان روشنیوں کے ہیولے سے کیوں باتیں کرتی ہو؟””ماما نہیں تھا روشنی کا ہیولا۔ وہ خود تھا، یہاں تھا۔ میَں نے دیکھا تھا”۔ ناعمہ کہہ رہی تھی۔ مسز صدیقی نے پیچھے مڑ کر دیکھا روشنی کے مرغولے سے ہیولا سا بن رہا تھا اور معدوم ہو رہا تھا۔ صبح اٹھتے ہی ان سب درختوں کو کٹواؤں گی۔ مجھے میری بیٹی سے عزیز کوئی نہیں ہے۔ ان اسپاٹ لائیٹس سے رات کے اندھیرے میں نکلنے والی روشنی دھواں بھی ایسے بناتی ہیں جیسے واقعی کوئی ہو۔ میَں بھی تو ایکدم مشکوک ہوئی تھی۔ مسز صدیقی بکھری ہوئی ناعمہ کو زبردستی چلا کر لے جاتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

درختوں کے پیچھے چھپے ہوئے ارحم عباس شاہ نے اپنے آنسو صاف کئے۔ وہ ایمان کو کیسے بتاتا کہ وہ صرف ایمان نہیں ہے۔ ناعمہ ایمان صدیقی ہے۔ اور وہ خود بھی تو صرف عباس شاہ نہیں ہے، ارحم عباس شاہ ہے۔ آج کے بعد اس نے کبھی بھی ایمان کے سامنے نہیں آنا تھا۔ محبت کا شکار تو بن چکا تھا لیکن باپ کے ساتھ بے وفائی کا کھیل نہیں کھیل سکتا تھا۔ بعض اوقات ایک وفا کہاں کہاں بے وفا بنا دیتی ہے۔ اور اس بے وفائی کے روگ سے باہر نکل آنے والی آنکھیں ہنسنے بھی لگ جائیں تو خالی ہی رہتی ہیں۔ خالی ہاتھوں والے بدنصیب لوگوں کی خالی آنکھیں۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

احساس

 

اس نے آہستگی سے تانیہ کے کمرے میں پاؤں رکھے تھے کہ اگر سو رہی ہو تو آہٹ سے جاگ نہ جائے۔ لیکن حرماں نصیباں کو نیند کہاں آنی تھی۔ جب محبت مہرباں نہ ہو تو کسی بھی قسم کی مہربانی، مہربانی نہیں لگتی۔ ہر چیز زحمت لگتی ہے تھکاوٹ کے بعد بھی تھکاوٹ ہی ہوتی ہے نیند آنکھوں کے دریچوں پر دستک نہیں دیتی۔ سامنے اُجڑی تانیہ لکڑی کی کھڑکی سے جڑی کھڑی تھی تنہائی کا دیمک اس گلابوں کی طرح کھِلی لڑکی کو چاٹ چکا تھا۔ آزر نے پاس آ کر اس کا نام پکارا تو وہ چونک اٹھی۔ آنکھوں میں سوال تھے اور رتجگوں کی نشانیاں حلقوں کی صورت میں عیاں تھی۔ یوں لگتا تھا کسی گہرے خواب سے اٹھی ہو۔ ’’ تم اسے بھول کیوں نہیں جاتی؟ششش ’’ عجیب بات کرتے ہو ؟ انسان کسی کتے کو بھی پال لے تو اس سے محبت ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ زیبِ تن کیا ہوا جوڑا بھی اپنا محسوس ہونے لگتا ہے۔ وہ شخص تو نو سال میرے ساتھ تعلق میں رہا۔ نو سال سمجھتے ہو تم؟اس میں کتنے موسم بدلتے ہیں۔ کتنی عیدیں آتی ہیں ؟ کتنی راتیں گزرتی ہیں ؟ میں کیسے بھول جاؤں ؟ تمہیں پتہ ہے آج سے سات سال پہلے میں نے ایک بڑھیا کو ہاتھ دکھایا تھا اس نے کہا تھا دولت تو نہیں مگر تمہاری قسمت محبت کے معاملے میں دھنی ہے۔ اس وقت مجھے شک تھا کہ آزر تم مجھ سے محبت کرتے ہو لیکن میرا روم روم اس کی محبت کی مالا جپتا تھا۔ میں نے امید بھری آنکھوں کو اس بڑھیا پہ مرکوز کیا میرے دماغ نے سوال پوچھا مجھے کیسے پتا چلے گا کہ کون مجھ سے سچی محبت کرتا ہے۔ وہ بڑھیا دنیا دیکھ بیٹھی تھی سمجھ گئی کہ عشق کا روگ تکیے کے نیچے پال رکھا ہے بولی تمہیں وقت بتائے گا کہ کون تمہارے ساتھ ہے۔ لیکن تمہارا دل جس کہ لئے گواہی دے اس کے تصور پر تہجد کے وقت ۴۔ ۔ مرتبہ یا عزیز پڑھ کر پھونک دینا اللہ خیر کرے گا۔ تصور پکا نہ ہو تو تصویر رکھ لو۔ آزر پھر میں تم سے خود ہی دور ہوتی گئی کیونکہ وہ مجھے اپنے پاس چاہئیے تھا۔ میں ہر رات اٹھتی تھی ٹھیک تہجد کے وقت۔ مجھے یاد ہے وہ جاڑے کا موسم تھا ٹھنڈے پانی سے وضو کرتے میرا بال بال کھڑا ہو جاتا تھا مگر میں بنجارن کھلے آسمان کے نیچے جائے نماز پر بیٹھ جاتی تھی۔ تہجد کے نوافل میں تو دلچسپی ہی کہاں تھی خود غرض قسم کی عبادت تھی سلام پھیرتے ہی اس کا نام لیتی تصویر سامنے رکھتی اور ورد شروع کر کے پھونکیں مارتی۔ لیکن دیکھو میری کوئی پھونک میرے کام نہ آئی گھر کا پیر ہولا ہوتا ہے ناں، اسے میرا نہیں بنایا گیا تھا۔ میری ساری دعائیں رائے گاں گئیں مجھے وہ چائیے تھا اس لئے نہیں کہ وہ حاصل کرنے کے قابل تھا بلکہ اس لئے کہ اس نے میرا نام اپنے نام کے ساتھ مشہور کر رکھا تھا لیکن کیا ملا مجھے ؟ جگ ہنسائی ؟ رسوائی؟۔ شششبولتے بولتے وہ تھک گئی تھی لوگوں کے طنز اس کی آنکھوں کے ڈوروں میں ہلکورے لے رہے تھے کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی۔ آزر کو اس پر ترس آیا تھا۔ وہ اس کی تھکاوٹ اتارنا چاہتا تھا اس کے دماغ سے تلخ یادوں کو معدوم کر دینے کا متمنی تھا۔ ’’ وہ تمہارے لئے بنا ہی نہیں تھا۔ جب تم یہ تسلیم کر چکی ہو تو کس بات کا رونا ؟چھوڑ دو آگے بڑھ جاؤ۔ ششش اس نے حوصلہ دیا۔ تانیہ نے اب اس کی گہری آنکھوں میں گھورا وحشت ناچ رہی تھی۔ ’’ بھول جاؤں ؟ کیسے بھول جاؤں ؟ نو سال ایک شخص کے ساتھ صبح شام کرنا اپنا آپ اسے دان کر دینا اور اس کے بعد ممکن ہے کہ میں اسے بھول جاؤں ؟ میں نے دعائیں مانگنا چھوڑ دی ہیں کیونکہ اس کا نام خود ہی لبوں پہ آ جاتا ہے نو سال کی عادت تھی کیسے چھوٹ سکتی ہے اتنی جلدی ؟ یہ سچ ہے کہ میں اس کی بیوی نہیں تھی لیکن وہ مجھے ایسے ہی پچکارتا تھا۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ اگر تم میری کھال کے جوتے بھی بنوا کر پہن لو تو مجھے اعتراض نہیں ہو گا میری کھال تمہارے لمس کی خوشبو سے زندہ رہے گی۔ اس نے ایسا ہی کیا دیکھو میرے سارے رنگ اتار لے گیا روز رات کو جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزاری کر کے واپس گھر جاتا تھا تو یہ میں تھی جو اپنے بستر پر کروٹیں بدلتی جاگتی رہتی تھی۔ یہ میں تھی جو آیت الکرسی پھونک کر تصور میں اسے اللہ کی امان میں دیتی تھی۔ یہ میں تھی جس نے اس کے گھر کے ہر غم اور ہر بلا کو آیتوں سے رد کرنا چاہا۔ وہ سدا کا نکھٹو۔ ڈر کے مارے اپنے امتحانات کا نتیجہ بھی نہیں دیکھتا تھا۔ میں دو نفل حاجت پڑھ کر یہ کام کرتی تھی۔ رمضان میں اس کی طرف سے قرآن پڑھتی تھی اور تم کہتے ہو کہ اسے بھول جاؤ؟ششش آزر کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنے تاثرات کیسے قابو کرے جس لڑکی کو اس نے اپنے دل کی سب سے اونچی مسند پر براجمان کر رکھا تھا وہ اپنے دل پر گزری قیامت اتنی آسانی سے سنا رہی تھی وہ اس پہیلی کو آج کھوج لینا چاہتا تھا۔ ہر چیز اس کے منہ سے نکلوا لینا چاہتا تھا۔ ’’ ہو سکتا ہے اس کی واقعی کوئی مجبوری ہو؟ڈھنگ کی نوکری نہ ہو، گھر والے نہ مانتے ہوں ؟ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ششش ’’ اونہہ مجبوری؟ ہاں تھی اس کی مجبوری۔ اس کی مجبوری پیسہ تھا اور میں نے خوب سارا دیا۔ 15 سال کی عمر سے آخری دن تک میں نے اپنی پاکٹ منی، اپنی عیدیاں اس شخص پر خرچ کی۔ وہ مجھے گڑیا کہتا تھا اس لئے کھیلتا رہا۔ تم تصور کر سکتے ہو آزر میں اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک کمرے کے دروازے کے باہر کھڑی تھی۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک جوڑا اپنی روح کی عریاں نگری میں اپنے جسم کو ڈھانپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے ڈر کر اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا تھا۔ میں نے کبھی کسی مرد کو ایسی حا لت میں نہیں دیکھا لیکن محبت نے اس وقت مجھے یہ بھُلا دیا تھا کہ یہ مرد جس کا ہاتھ تھامے میں کھڑی ہوں مجھ سے وہی کچھ چاہتا ہے جو اندر کمرے میں موجود شخص چھپا رہا ہے۔ یہ بھی نا محرم ہے اور وہ بھی نا محرم۔ لیکن تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے مجھے اس گناہ کی دلدل میں بھی بچائے رکھا سنبھالے رکھا۔ اب جب محبت تباہ کر چکی ہے تو میں ایک اور نا محرم کے سامنے کھڑی یقین دلا رہی ہوں تمہیں کہاں آئے گا یقین لیکن دیکھو میں پاک ہوں۔ ششش آزر کے پاس اس بات کے جواب میں کوئی تسلی نہیں تھی اس نے تانیہ کے پھیلے ہوئے خالی ہاتھوں کو دیکھا اپنا نام تلاش کرنے کی خواہش سرسرا رہی تھی لیکن نہیں … بات بدلنے کی غرض سے لہجے میں شگفتگی گھول کر بولا ’’آج چاند رات ہے آؤ چلو مہندی لگوا لاتا ہوں تمہیں۔ ششش تانیہ کی آنکھوں میں تمسخر جاگ اٹھا اس کا چوڑا ما تھا سپاٹ تھا نہ کوئی قسمت تھی اور نہ امید۔ ’’ تم جتنا مجھے اس کی یادوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہو اتنا پاس لے جاتے ہو۔ مہندی کا قصہ بھی سناتی ہوں۔ اسے مہندی بہت پسند تھی لیکن میرے ہاتھوں پہ مہندی کا صرف ایک ہی ڈیزائن پسند تھا۔ اور میں نے نو سال اپنے بائیں ہاتھ پر صرف اس کی پسند کی صرف اس کے نام کی مہندی لگائی۔ پھر جب کم عمری سے ہم ذرا منگنی کی عمر میں داخل ہوئے اور جاننے والوں نے مجھے کہا کہ یہ تم سے کبھی شادی نہیں کرے گا تو میں ڈر گئی میں نے ہر وسیلہ ڈھونڈا جو اس کو میری طرف مائل کر سکے۔ کسی نے کہا باداموں پر فلاں سورت پڑھ کر فلاں درخت کے ساتھ باند ھ دو۔ درخت قبرستان میں ملا۔ میں جا پہنچی۔ کسی نے کہا میٹھے پر یہ دم کر کے دے دو۔ میں نے چالیس چالیس دن وظیفے کئے اور اس کو چاکلیٹس پر پھونک پھونک کر حلق سے اتروائے۔ اس کے گھر میں ایک قرآن پاک ہے جو میں نے دیا تھا، نیلی موم بتیوں والا کینڈل اسٹینڈ اس کی 20ویں سالگرہ پر لیا تھا، ایک کارڈ جس میں اسے جانِ تانیہ لکھا تھا، ایک پنک کلر کی شرٹ اور ہاں اسے گوگل سے دیکھ کر ایک لوشن بھی بنا کر دیا تھا سردیوں میں جلد بہت خشک ہو جاتی تھی ناں اسکیبنجر دل کی طرح ! اُف میں بھی مہندی کا قصہ سناتے کہاں نکل گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے ایک جاننے والے نے بتایا کہ 9 یا 10 محرم کو شاہ چن چراغ کے مزار پر ہاتھ پہ مہندی لگا کر موم بتی رکھ کر اسے جلا کرتا وقتیکہ موم بتی ختم ہو جائے جو منت مانگی جاتی ہے پوری ہو تی ہے۔ میں جا پہنچی شاہ چن چراغ کے مزار پر ننگے پاؤں۔ محبت وسیلے ڈھونڈتی ہے حالانکہ سچی محبت کو کسی حیلے وسیلے یا وظیفے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ محبوب اور معاشرے کے سامنے خود اپنے آپ کو منوا لیتی ہے۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی اور موم بتی پگھلنے میں اتنا وقت لگا رہی تھی جیسے دلہن تیار ہونے میں لگاتی ہے جلتا گرم موم میرے ہتھیلیوں کو جھلسا رہا تھا لیکن محبت کو پا لینے کی امید نے میرے لبوں کو خوشگوار مسکراہٹ سے دوچار کر رکھا تھا۔ پیچھے سے ابا کے گھر آ جانے کا ڈر لیکن میں نے تن تنہا یہ منت بھی مانی اور جانتے ہو یہ منت ماننے کے بعد میں نے کبھی مہندی نہیں لگائی حالانکہ میرے ہاتھ شاذونادر ہی خالی رہتے تھے۔ میں بے ربط جملے بول رہی ہوں میری یادیں تسلسل سے دستک نہیں دیتی ان کا ہجوم آتا ہے اور بالکل ایسے ہی میرے آج کو میری ذات کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ انسان کو مرگی کا دورہ پڑ جائے یا وہ طاعون سے مر جائے، اس کے جسم میں کیڑے پڑ جائیں یا وہ جسم کے ریشے ریشے کے جدا ہونے کا درد جھیل لے لیکن کبھی کسی بے وفا کی محبت اور وہ بھی سچی محبت اس کی سانسوں کے ساتھ پرورش نہ پائے ورنہ انجام میرے جیسا ہوتا ہے۔ عبرتناک انجام۔ ۔ خالی آنکھیں، خالی ہاتھ۔ ۔ ۔ ۔ ششش ایک آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔ ’’ تمہیں اس سے اتنی محبت تھی تو تم نے اسے چھوڑا کیوں ؟ اسے آخری وقت تک آزماتی ناں ؟ ویسے تو بہت کن فیکون کہتی ہو شاید اللہ اس کا دل بھی بدل دیتا؟ششش آزر اب سمجھ رہا تھا کہ شاید وہ کسی لا علاج مریض سے بات کر رہا ہے جسے موت سے دلچسپی نہیں ہوتی لہٰذا وہ اس کی توجہ زندگی کی طرف مبذول کروانا چاہ رہا تھا۔ ’’ پتہ کیا آزر اللہ نے قرآن پاک میں صحیح کہا ہے کہ ’’ تم زمین اور اس میں جو کچھ ہے (خزانے ) کے بدلے بھی کسی کے دل میں محبت پیدا نہیں کر سکتے اور میں کر سکتا ہوں ششش میں جب مکمل طور پر اس کے نام کی مالا جپنے لگی تو میں نے ربِ کائنات سے شکایت کی کہ میرے دل میں اس کا خیال ڈالنے والا تُو ہے تو پھر اس کے نام کو میرا نصیب بھی تُو خود ہی بنا دے۔ میں نے اس ضمن میں اتنی دعائیں کی کہ لوگوں نے مجھ سے اپنی دعائیں منگوانی شروع کر دی۔ میرے ہاتھوں سے تسبیح جدا نہیں ہوتی تھی ہر وقت ذکر اذکار اور اللہ کے کلام میں تو جانتے ہو نا کتنا اثر ہے۔ اللہ کے کلام نے میرا دل اس کی طرف سے سخت کر دیا۔ جو شخص اللہ کے کلام سے نہ بدلا وہ میری محبت سے کیسے بدل جاتا۔ نہیں نہیں میں کچھ جلدی میں بات سمیٹ رہی ہوں ہوا یوں کہ مجھے پتا چلا کہ اس کا کسی لڑکی کے ساتھ جسمانی تعلق ہے میں حیران ہو گئی اور مستزاد یہ کہ اس نے خود میرے سامنے اعتراف کیا لیکن جانتے ہو کہ بجائے میں اس پر خفا ہوتی وہ مجھ سے خفا ہو گیا کہ ’’ تم میری ہونے والی بیوی ہو اتنی ذرا سی خطا معاف نہیں کر سکتی تو تمام عمر کیسے کاٹو گی؟ ششش نتیجہ یہ ہوا کہ 24 گھنٹے بعد میں اس کے سامنے روتی ہوئی کھڑی تھی کہ ہاں میری غلطی ہے۔ اس واقعے کے بعد میرے وظائف تیز سے تیز تر ہو گئے۔ میری نمازیں لمبی اور سجدے آنسوؤں سے تر ہوتے گئے۔ کیا میں زانیہ ہوں جو میرے نصیب میں زانی لکھا گیا یہ سوال میرے وجود کو لرزا دینے کو کافی تھا تقریباً ایک سال بعد پھر پتا چلا کہ اس کے جسم کی آگ میری منتوں سے بجھنے والی نہیں ہے لہٰذا وہ موہن پورہ کی کسی لڑکی کا عرق قطرہ قطرہ اپنے اندر اُتار رہا ہے۔ اس دن میرا دل اس کے لئے دھڑکنا بند ہو گیا۔ میں نے چاہا میں اسے معاف کر دوں لیکن میں چاہ کر بھی اس کو معاف نہیں کر سکی۔ آج دو سال ہونے کو آئے اس کے سندیسے آ تے ہیں کہ میں اس کو معاف کر دوں اس سے پہلے کی طرح بات کروں لیکن میرے دل کو اس کے لفظوں کی گرمی نہ تو بھاتی ہے اور نہ پگھلاتی ہے۔ حالانکہ یہ وہ شخص ہے کہ جس نے دایاں پاؤں میرے بائیں رخسار پر رکھا تھا اور کہا تھا بولو تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ میں نے فوراً اس کے پیروں کو چوم کر کہا تھا ہاں میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ تمہارے لئے یہ صرف لفاظی ہے میں نے اس کو برتا ہے جھیلا ہے۔ میں نے اس کے تسمے اپنے شوق سے باندھے تھے۔ اس کے لئے کتنی دفعہ چائے بنائی اور وہ بھی میرے مڑنے سے قبل پیالی خالی کر دیتا تھا ڈھونگی…۔ مجھے سب کہتے تھے تمہیں اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ تا اور میں کہتی تھی کہ وہ ہے ہی ایسا کہ اس کو دیکھنے کے بعد کچھ اور دیکھنے کی تمنا باقی نہیں رہتی۔ آج مجھے اس کے چہرے سے بھیانک چہرہ کوئی نہیں لگتا۔ تم اس قرب کا تصور بھی کر سکتے ہو؟نو سال تک استعمال کرنے کے بعد کوئی آپ کو دھتکار دے، آپ کو اور کسی کے قابل نہ چھوڑے ایسا لگتا ہے کہ میری زندگی کا کوئی مصرف ہی نہیں ہے۔ میرا ہونا ایک بوجھ ہے۔ مجھے سانس لینا بھی دشوار لگتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں خود کو نوچ کر رکھ دوں۔ میں چاہتی ہوں کہ مجھے ٹی بی ہو جائے میرے جسم سے خون کا ہر وہ قطرہ جو اس سے محبت کے وقت موجود تھا ختم ہو جائے جل جائے۔ رگوں میں اس کے نام پہ بہتے خون کے ساتھ میں کیسے اسے بھول جاؤں ؟میرا اس سے بات بھی کرنے کا دل نہیں چاہتا۔ چاہوں تو ہاتھ بڑھاؤں اور فاصلے مٹا دوں وہ ہوس کا پجاری پھر سے وقت گزارنے لگ جائے گا۔ اسے تن سے مطلب ہے۔ ریشم باتوں کے پھندے مجھ پہ پھینکے گا اور میں بغیر کسی پتوار کے اس کی گود میں جا گروں گی۔ میں تمہیں بتاؤں ؟ وہ بذاتِ خود ایک نفسیاتی مریض ہے اس لئے وہ مجھے کہتا تھا کہ میں تمہاری نفسیاتی باتوں سے تنگ آ گیا ہوں بھلا بتاؤ۔ ۔ ۔ ہمارے معاشرے میں محبت کے بعد شادی ہی تو ہوتی ہے یہ کیسی نفسیاتی الجھن ہے ؟ لیکن وہ کہتا تھا تم کر لو شادی ہم پھر بھی ملیں گے۔ ہم نے زندگی کا طویل حصہ ایک دوسرے کے ساتھ گزارا ہے تمہیں میں چھوڑ نہیں سکتا اور واقعی اس نے ابھی تک مجھے نہیں چھوڑا لیکن میں اسے چھوڑ چکی ہوں۔ وہ ہوتے ہوئے بھی میرے لئے نہیں ہے۔ وہ زہر ہے۔ وہ میرے اور میرے اللہ کے درمیان آ گیا اس نے میری عبادتوں کو بھی ناپاک کر دیا۔ میرا اخلاص اس کی لمبی بھنوؤں اور گہری آنکھوں میں ڈوب کر رہ گیا مجھے اس کے سارے نقش یاد ہیں میرے ہاتھوں کی پوروں میں ہیں وہ زہر ہے وہ سرطان ہے اس نے کچھ نہیں چھوڑاشششاس کے ہونٹ بولتے بولتے تھر تھرا گئے تھے اور حلق بھی خشک ہو گیا تھا۔ ’’ اگر وہ تمہیں اتنا ہی بُرا لگتا ہے تو تم چار بھائیوں کی بہن ہو۔ میں تمہارا کزن ایک خفیہ ایجنسی میں جھک تو نہیں مار رہا۔ ایک اشارہ کرو اسے گو لیوں سے بھون دیں گے۔ اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ اس کی گردن تمہارے سامنے لا پھینکیں گے۔ صرف اس کا نام بتا دو تو اسے نشانِ عبرت بنا دیں گے۔ آزر کے اندر خون نے جوش مارا تھا۔ ’

’’ تم کیا چاہتے ہو کہ میں اس شخص کے لئے موت کی دعا کروں ؟ یا اس کی سزا موت تجویز کروں جس کے بعد دو سال سے ہر پل جیتی ہر پل مرتی ہوں ؟میں یہ بھی کر گزرتی اگر وہ اپنی آخری حد سے نہ گرتا۔ تم جانتے ہو کہ اس نے مجھے دھمکانے کی کوشش کی ہے کہ اگر میں اس سے نہ ملی تو وہ محبت کے نام پر میری جتنی نشانیاں اس کے پاس ہیں وہ ان کو استعمال میں لائے گا۔ ایسے شخص کو میں کیسے آسانی سے زندگی سے آزادی کی سزا سنا دوں ؟ ششش تانیہ کی آنکھوں میں شرارے لپک رہے تھے۔ ’’ میرے پاس اس کے اس لڑکی کے ساتھ جسمانی تعلقات کی تصاویر بھی ہیں اور میں اسے اتنے آرام سے چھوڑ دوں۔ ششش وہ معصوم سی لڑکی اب انتقام کی آگ میں لکڑی کی طرح جل رہی تھی۔ آزر لمحہ بھر کو ڈر سا گیا ’’ پھر کیا کرنا چاہتی ہو تم اس کے ساتھ؟ششش ’’میرا دعا مانگنے کا حوصلہ نہیں لیکن دعاؤں پہ یقین ہے مجھے محبت پہ یقین ہے میں دعا کروں گی کہ اسے احساس ہو جائے کہ اس نے کیا کیا ہے اس نے کیسے سچی محبت گنوائی ہے۔ اس نے کیسی پجارن گنوائی ہے۔ جس دن اسے میری محبت کی شدت اور سچائی کا احساس ہو گیا اس دن سے زندگی کا ہر پل اس پہ بھاری ہو جائے گا وہ جینا چاہے گا جی نہیں پائے گا وہ موت مانگے گا اور موت بھی مہربان نہیں ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

دو آرزو میں کٹ رہے

 

وہ اپنی ٹائی درست کرتے ہوئے کھڑوس باس کے کمرے کی جانب بڑھا۔ آخری رپورٹ میں تو کسی غلطی کی گنجائش ہی پیدا نہیں ہوتی وہ میں نے خاصی عرق ریزی سے تیار کی تھی۔ پچھلے پندرہ دنوں میں کوئی چھٹی بھی نہیں کی… ہاں ! دو دفعہ آفس سے ذرا جلدی نکلا تھا۔ وہ سوچ کے دائرے میں ڈوبتا ابھرتا کمرے میں داخل ہوا۔ "سر میں آئی کم اِن” جھجکی ہوئی آواز نے کمرے کے خنک ماحول میں ارتعاش پیدا کیا۔ "آؤ بر خوردار آؤ ” باس کی گرمجوشی دیکھ کر اس نے داہنی جانب لگی کھڑکی سے باہر دیکھ کر تصدیق کی کہ آیا سورج مشرق سے ہی نکلا ہے۔ وہ باس کے ہاتھ کے اشارے کے تابع کرسی پر بیٹھ گیا۔ "نوجوان تم نے تو کمال کر دیا ایسی شاندار رپورٹ تیار کی کہ میرا جی خوش ہو گیا۔ میں تمہارے لئے وہی جذبات رکھتا ہوں جو ایک ننھے سے بچے کے اپنے کھلونے کے لئے ہوتے ہیں لہذا اب تمہارے پاس صرف دو صورتیں ہیں یا تو میری بیٹی سے شادی کر لو اور اس فرم کو اپنے زرخیز دماغ سے بامِ عروج تک پہنچاؤ یا پھر تمہیں اس نوکری کو لال کاغذ کے ساتھ خیرباد کہنا پڑے گا لال کاغذ سمجھتے ہو؟ لال کاغذ میری ڈکشنری میں وہ برطرفی ہے جس کے ساتھ تمہاری ناقص کارکردگی کی ایسی رپورٹ ہو کہ تمہیں عمر بھر کہیں اور بھی نوکری نہ ملے "۔ اظہر جس کی نظریں باس سے ہٹ ہٹ کر ان کی کرسی کی پشت پہ ترچھی کھڑی ان کی بیٹی عنیزہ کے بالوں پہ پھسل رہی تھی۔ وہ ششدر رہ گیا۔ قسمت اس پر کبھی ایسے بھی مہربان ہو گی اسے اندازہ ہی نہیں تھا چھپڑ پھاڑ کر زبردستی سر پہ آن پڑنا کسے کہتے ہیں اسے آج سمجھ آئی۔ اس کی صم بکم عمی کیفیت دیکھ کر باس اپنے پرانے لبادے میں واپس آیا۔ "تمہارا یہ فرم چھوڑنے کا ارادہ ہے یا گھر بسانے کا؟ ” خاصے کرخت لہجے میں سوال کیا گیا۔ اظہر نے سیدھا جا کر باس کا سخت ہاتھ تھاما اور آنکھوں سے لگا لیا "پاپا یہ تو میرے لئے بہت فخر کی بات ہو گی کہ میرا رشتہ آپ سے جڑ جائے ” اس نے فوراً نئے رشتے کے حوالے سے نیا نام دیا۔ "مجھے تم سے یہی امید تھی رشتہ طے ہو ہی گیا ہے تو میری طرف سے تحفہ بھی رکھ لو۔ نیچے بی۔ ایم۔ ڈبلیو کھڑی ہے یہ اس کی چابی” باس نے بتیس دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے چابیاں اظہر کو دی۔

"ڈیڈی رشتہ میرا طے ہوا ہے اور راز و نیاز آپ کر رہے ہیں اگر اب آپ کی طبیعت پہ گراں نہ گزرے تو میں اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ لنچ پہ جاؤں۔ ” عنیزہ نے داہنے ہاتھ کی انگلی کے ناخن سے گال کو سہلاتے ہوئے کہا۔ یہ بھی حسن کی ایک ادا ہے اور اب نجانے کتنی ادائیں مجھ پہ بجلیاں گرائیں گی اظہر نے یہ سوچا ساتھ ہی اسے احساس ہوا کہ باس کو پاپا کہہ کر اپنا معیار بڑھانے کی کوشش پہ لفظ ڈیڈی نے بُری طرح پانی پھیر دیا ہے۔ اس نے کان کھجائے۔ باس بھی کھسیانی ہنسی ہنس رہا تھا۔ بیٹی نے فوراً اپنی پرائیویسی کی سرخ جھنڈی جو دکھا دی۔ عنیزہ اپنی بات کہہ کر رکی نہیں۔ دروازے کے پاس جا کر اسے تا حال براجمان اظہر کی وجہ سے مڑنا پڑا "اظہر جی … آپ آئیں ناں ” اظہر کا لگا وہ بے ہوش ہی ہو جائے گا کہاں تو یہ باپ کو بھی لفٹ کروانے والی نہیں اور کہاں اظہر کے لئے آنکھوں میں دنیا بھر کا پیار سموئے انتظار کرتی نظر آ رہی تھی اور اظہر کے نام کے ساتھ جی کالا حقہ…۔ آہا …اچھا!!!!! تو یہ قصہ ہے بیٹی مجھے دل دے بیٹھی ہے اور باپ اب اسے ارینج میرج کی شکل دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ خود اعتمادی کا پرندہ کہیں دور سے اڑ کر اظہر کے جسم میں حلول کر گیا۔ اس نے تمسخرانہ انداز میں باس کو دیکھا اور فاتحانہ چال سے دروازے کے پاس پہنچ گیا۔ ایک خوشگوار سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ کھیلنے لگی۔ یہ وہ لڑکی تھی جو دفتر میں آتی تو کوئی نظر بچا کر بھی دیکھنے کی کوشش نہ کرتا۔ اس کا نخرہ اور انداز دوسروں کو تنبیہ کرنے کے لئے کافی تھے۔ وہ دونوں آہستہ آہستہ چلتے باہر آ گئے۔ سورج بادلوں میں چھپ چکا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں طیبہ کے بالوں کو اظہر کی پلکوں تک اچھالتی لے جا رہی تھیں۔ اظہر کو احساس ہوا کہ اپنی ادھوری زندگی میں جس چیز کی کمی اس نے آج تک محسوس کی وہ صرف عنیزہ کے وجود کی تھی۔ اس کے وجود سے اٹھتی مہک اظہر کی سانسوں کو مدہوش کرنے کے لئے کافی تھی۔ سامنے لش پش کھڑی بی۔ ایم۔ ڈبلیو نے اسے حقیقی زندگی میں لا پھینکا۔ دارالامان میں بڑھا پڑھا شخص ایسی گاڑی کے خواب دیکھنے سے پہلے بھی سوچا کرتا ہے۔ واہ رے تیری قسمت۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس چیز پہ پہلے عش عش کرے اس نے آگے بڑھ کر عنیزہ کے لئے دروازہ کھولا۔ اندر بیٹھتے ہی عنیزہ کی جلترنگ آواز کانوں میں گونجی "میں نے بنی گالہ جانا ہے ” وہ اگر خلائی جہاز میں بیٹھا ہوتا تو پریوں کی شہزادی کو چاند پہ لے جاتا اور اُڑن کھٹولے پہ بیٹھا ہوتا تو چاند سی لڑکی کو پرستان لے جاتا لیکن اب شہزادی نے منزل بتا کر مشکل آسان کر دی تھی کیونکہ وہ کبھی بھی فیصلہ نہ کر پاتا کہ اپنے دل پر اچانک قبضہ کرنے والی رانی کو کہاں لے کر جائے۔ وہ اتنا پر اعتماد تھا کہ گاڑی چلاتے اسے ایک لمحے کو بھی اپنی پھٹیچر موٹر سائیکل یاد نہ آئی جسے وہ گھنٹہ دوڑاتا تو وہ دو گھنٹے سانس لینے کو رک جاتی۔ گاڑی میں جواد احمد کی آواز میں بن تیرے کیا ہے جینا…۔ گونج رہا تھا۔ اظہر کی خوشی کا اندازہ اس کے چلتی گاڑی میں تھرکتے پاؤں سے لگایا جا سکتا تھا۔ گاڑی بنی گالہ کی پارکنگ میں رکی۔

پتھروں پہ چلتے ہوئے کتنی ہی دفعہ عنیزہ ڈگمگائی اور اس نے اظہر کے بازوؤں کا سہارا لیا۔ بالآخر اظہر نے اپنا مضبوط ہاتھ اس کے سامنے کیا۔ عنیزہ ذرا نہ ہچکچائی فوراً تھام لیا۔ اب وہ پانی کے پاس کھڑے تھے۔ پانی کے کنارے پہ خودرو پودوں کی قطار اور ان پہ سنہرے پھولوں کی بہار نے فضا کو رنگین بنا دیا۔ اطراف میں لگے پیڑوں ٹھنڈا سایہ اظہر کو بتانے لگا کہ فانی دنیا ختم ہو چکی اور اب وہ جنت میں ہے حور پہلو میں کھڑی اس پہ فریفتہ ہے۔ اچانک عنیزہ نے اپنی بانہیں اظہر کے گلے کا ہار بنائی۔ ہرنی کی رنگت جیسی چمکتی آنکھیں اظہر کے سیاہ بالوں کی بلائیں لے رہی تھی۔ اسے لگا وہ اس دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہے۔ "تمہیں پتہ ہے اظہر مجھے تم سے محبت کیوں ہوئی؟جاننا چاہتے ہو کہ کب تمہیں دیکھ لینا میرے لئے مقصدِ حیات بن گیا؟ کب تمہارے شانوں پہ جھولنے کی خواہش میں میرے قدم لڑ کھڑانے لگے ؟ ” مدھر لہجہ محبت کا اعتراف کرنے کے لئے تھرک رہا تھا۔ گالوں پہ حیا نے غازہ بکھیر دیا۔ آنکھیں آنکھوں سے چار تھی لیکن پلکیں محبوب کی مرتکز نگاہوں سے لرزنے لگیں۔ اظہر کا سارا جسم سننے کو بے چین ہوا۔ دل میں گدگدی سی محسوس ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں بے قراری نے سانس لینا شروع کر دی……۔ ۔ سانس تیز ہوا…۔ ۔ سانس مزید تیز ہوا۔

ٹرن ٹرن ٹرن ٹرن ٹرن ٹرن……۔ گھڑی ہل ہل کر صبح کے نو بج جانے کا شور مچا رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی …قتل گاہ

(اُس بچے کی جو شکار ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )

 

رات کا عمیق اندھیرا روشنیوں کو نگلنے کہ در پے تھا مگر فطری قمقموں یعنی چاند ،  ستاروں اور برقی قمقموں نے شہر کے بیچوں بیچ بنے اس پارک کو روشنی کے ہالے میں مقید کر رکھا تھا۔ تقریباً رات کے دس بجے ایک ٹیکسی پارک کے آہنی دروازے کے سامنے آ کر رکی۔ ٹیکسی ڈرائیور کی پیشانی پر دن بھر کی تھکاوٹ مانند افشاں بکھری ہوئی تھی مگر طمانیت آنکھوں کے سرخ ڈوروں میں ہلکورے لے رہی تھی شاید اس کا سبب یہ تھا کہ وہ پیسے کے لیے پیٹ بھرنے کے لیے کوئی سواری لے کر پارک میں نہیں آیا تھا بلکہ اپنی جوان ہوتی دو بیٹیوں اور نصفِ بہتر کے ساتھ دن بھر کی تھکن اتارنے آیا تھا۔ رات کے اس پہر یہاں آنے کا مقصد شاید یہ بھی تھا کہ اس وقت داخلی دروازے پر چوکیدار صرف چوکیداری کرتا تھا اور آنے والوں کو ٹکٹ نہیں بیچتا تھا۔ لا اُبالی مگر حساس ماہین نے دھیرے دھیرے چلتے ہوئے داخلی سیڑھیاں عبور کیں اور نرم نرم گھاس پر اپنے پیر رکھ دئیے اس کے عقب میں بڑی بہن شاہین اور اس کی روز بروز کمزور پڑتی ماں دھیرے دھیرے باتیں کرتے چلے آ رہے تھے۔ عبدالرشید نے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور ان کے پاس آ گیا۔ پندرہ سالہ ماہین کے پیچھے چلتے چلتے وہ پارک کے نسبتاً سنسان گوشے میں آ گئے جہاں جھولے لگے ہوئے تھے۔ گھاس پر بیٹھ کر عبدالرشید انہیں دن بھر کی سواریوں کے قصے سناتا رہا۔ کسی برقعے والی کا قصہ جو عبدالرشید کو ڈر کے مارے گھوری جا رہی تھی۔

اس کی گھبراہٹ اس کے پہلی دفعہ تنہا ٹیکسی میں بیٹھنے کی چغلی کھا رہی تھی۔ ان بڑے میاں کا قصہ جنہیں بات سننے کے لیے کان کے آلے کی اشد ضرورت تھی مگر وہ اسے جیب میں رکھنا زیادہ مناسب سمجھتے تھے اور نتیجتاً دو جمع دو کا جواب آٹھ دیتے تھے۔ ابا وہ سامنے سے پانچ روپے والی آئسکریم تو لادو۔ شاہین نے باپ سے خواہش کا اظہار کیا۔ آہ۔ ۔ ۔ ۔ غریب بچوں کی غریب سی خواہش۔ ۔ ۔ حساس بیٹیوں کے نازک جذبات اور ہاں احساس کرنے والے درد مند دل۔ ۔ ۔ عبدالرشید مسکرایا اور اُٹھ کر چل دیا۔ پارک سے باہر جہاں اونچی اونچی دوکانوں کے ساتھ کون آئس کریم والے کا کھوکھا نما ڈربہ ٹائپ ٹھکانہ تھا۔ عبدالرشید کے جاتے ہی ایک گیارہ بارہ سالہ بچہ ان کے پاس آ گیا۔ اس سردی کے موسم میں جب تن ڈھکنا اور ڈھانپنا کپڑوں کا مقصد نہیں ہوتا بلکہ جسم کو ٹھٹھرنے سے باز رکھنا اور گرم رکھنا اصل مقصد ہوتا ہے۔ اسی سردی کے موسم میں وہ معصوم ننگے پیر تھا اس کے پاؤں میں جوتی نہیں تھی۔ کالے ،  کھردرے پاؤں۔ ۔ ۔ اس کی شفاف آنکھوں سے ذرا میل نہیں کھاتے تھے۔ شلوار قمیض میں ملبوس اس بچے کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا اور ہاتھوں میں چند باسی نمکو کے پیکٹس چھوٹے چھوٹے ان لفافوں کو موم سے بنایا گیا تھا۔ اور پھر شعلوں سے بند کیا گیا تھا۔ یعنی جدید حفظانِ صحت کے اصولوں سے واضح انحراف۔ ۔ ۔ ۔ قمیض پر بھی پیوند لگے ہوئے تھے۔ خاکستری رنگ کی قمیض اب قریب قریب کالی ہو چکی تھی۔ گردن پر میل کے نشان تھے ایسا گہرا میل جو شاید مانجھنے سے بھی نہ اترے۔ ہاتھوں پر پڑی کھردری لکیریں دور سے اس قدر واضح تھی کہ دیکھنے سے بھی وحشت ہوتی تھی۔ پپڑی جمے ہونٹ اسی لمحے ہلے تھے جب ماہین اس کا تفصیلی جائزہ لے رہی تھی۔ ’’باجی جی لے لو پانچ روپے کا ایک پیکٹ ہے باجی لے لوششش۔ گڑگڑاہٹ اور التجا سے ماہین کا دل پسیجا تھا مگر ماں کا تنبیہ کرتا لہجہ گونج اٹھا ’’ہمیں نہیں چاہئے۔

’’5روپے میں دو لے لو باجی، تم دو لے لو دیکھو آج صبح سے ایک بھی پیکٹ نہیں بیچ سکا۔ میرے پیروں کو دیکھو سردی سے یخ ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ تمہارے پانچ روپے سے کوئی سستا سا جرابوں کا جوڑا لے لوں گا۔ جوتی تو پانچ روپے میں آ نہیں سکتی شششاس نے شاید اپنا ہی تمسخراُڑایا تھا۔ ۔ ۔ ’’سنو تمہارا نام کیا ہے ؟ششش

شاہین نے پوچھا ’’نام ؟باجی نام کیا ہوتا ہے ؟باجی تم ہی لے لو ایک پیکٹ لے لوششش۔ وہ شاید آگہی کی پست ترین سطح سے بھی نچلی زندگی بسر کر رہا تھا تبھی شناخت سے ناواقف تھا۔ ’’تمہیں گھر والے کیا کہہ کر پکارتے ہیں ؟شششاب کے ماہین نے سوال کیا ’’باجی گُلو شششوہ شرمندہ سا ہو گیا شاید اپنی کم فہمی کا ادراک ہو گیا تھا اسے۔

’’چلو بھاگو یہاں سے ،  ہمیں معاف کرو کہہ جو دیا نہیں چاہئے سمجھ نہیں آتا۔ کونسی زبان سمجھتے ہو۔ گدھے کہیں کے الو کے پٹھے نہ ہو توششش۔ اپنی بیٹیوں کی بڑھتی ہمدردی دیکھ کر کفایت شعار ماں کو اسے بھگانا ہی پڑا۔ عبدالرشید تب تک کون آئسکریمز لا چکا تھا۔ بیٹیوں کے منہ سوجے ہوئے تھے۔ باپ کے آتے ہی سارا قصہ حرف با حرف سنا دیا۔ عبدالرشید باہر نکلنے والا انسان تھا اور اس کی بیٹیاں صرف اپنے تین مرلے کے مکان سے مانوس تھی۔ تجربہ اور عمر انسان کو وہ کچھ سکھا ،  پڑھا اور سمجھا دیتا ہے جو درس گاہیں لاکھ کوشش کے باوجود دماغ میں نہیں انڈیل سکتی۔ عبدالرشید وہاں سے اٹھا پارک میں تا حال موجود اس بچے کو تھاما اور بیٹیوں کے پاس لے آیا۔ بیٹیاں خوش ہو گئی کہ شاید ننھے لڑکے کے پاؤں میں سردی لگنا کم ہو جائے گی اور ان کی ماں تھوڑی سی خفا کہ یہ تو صرف پیسوں کا ضیاع ہے۔ ’’ہاں بھئی تمہارے پاس جوتے نہیں ہیں ؟شششعبدالرشید نے اس کا ہاتھ تھام کر پوچھا۔ نہیں جی اس نگوڑی سردی کا تو کوئی علاج نہیں ہے میرے پاس نہ ایندھن نہ کپڑا نہ رضائی نہ کمبل نہ جوتے نہ سویٹر، اب کے بچے کی آواز میں سرسراہٹ تھی کپکپاہٹ تھی۔ وہ اس بازو کو کسمسار رہا تھا جس میں وہ کالا سا بیگ تھاما رکھا تھا۔ عبدالرشید نے آناً فاناً اس سے وہ بیگ جھپٹ لیا اور زپ کھول دی۔ ۔ ۔ ۔ وہاں پر بیٹھے تین نفوس کی آنکھوں میں حیرانی اور ملامت تھی جبکہ جھوٹ کا احساس آنسو بن کر بچے کے گالوں پر بہہ رہا تھا اور عبدالرشید کی آنکھوں میں اطمینان تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔

جوتوں کے 5,4جوڑے ان سب کا منہ چڑا رہے تھے دو بد رنگ جرابوں کے جوڑے بھی اپنی حالت زار پر شرمسار تھے جبکہ نمکو بکھری ہوئی پڑی تھی ان جوتیوں کے جوڑوں کے نیچے۔ ۔ ۔ ۔ ماہین اور شاہین حیران تھیں کوئی اتنا جھوٹا بھی ہو سکتا ہے ؟وہ جو یہاں اس معصوم آنکھوں والے بچے کے پیچھے اپنی ماں سے ناراض ہوئے بیٹھی تھی اس بچے کا چہرہ کتنا مکروہ تھا۔ جھوٹ اور منافقت کی دلدل۔ ۔ ۔ دنیا۔ ۔ ۔ ۔ وہ دنیا کا حصہ تھا۔ منجھا ہوا کھلاڑی تھا۔ شناخت بتانے کی آگہی نہ تھی مگر مکرو فریب کے کتنے گہرے جالے بُن لیتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ صرف پیسے کمانے کے لیے اس نے اپنے پاؤں کو سردی میں اکڑنے دیا ؟وہ اس کی سن ہوتی پیروں کی نمایاں رگیں جنہیں دیکھ کر رحم بجلی کے کوندے کی مانند ٹپک پڑتا ہے وہ رگیں مصنوعی تھی۔ وہ چاند نہیں تھا اندھیرا تھا۔ گلو سے ان معصوم انسانوں کو گلہ ہو چکا تھا۔ گُلو بھی چہرہ پڑھنے کی صلاحیت رکھتا تھا وہ بے چارا ریت کی طرح پھسل گیا مصنوعی قلعے کی مانند ڈھے گیا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ پپڑی جمے ہونٹوں کو آنسو تر کر چکے تھے مگر تشنگی تا حال تشنہ تھی۔ اس نے لب کھولے انسان تو انساں لگتا تھا کہ ماحول پر بھی سوگواریت چھا گئی ہے۔

گل شیر نام تھا میرا ماں شیر کہہ کر پکارتی تھی۔ مائیں کہاں جانتی ہیں کہ جن کے نام وہ شیر عظمت بلند رکھتی ہیں انہیں دنیا کتنی پستی میں گرا دیتی ہے۔ بلوچستان کے بہت بڑے وڈیرے کے گاؤں میں رہتا تھا اپنے بڑے بھائی کے ساتھ۔ ماں باپ کہنے کو تو ساتھ تھے مگر وڈیرے کے غلام اور وڈیرے کے چاکر نوکر کتنی دیر آزاد رہ سکتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ کتنی دیر اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ میرے باپ نے ایک دن ایک بہت بڑی غلطی کر دی وڈیرے کے پالتو کتے کو باسی ہڈیاں ڈال دیں گناہ عظیم کر دیا (تمسخرانہ ہنسی) نتیجہ جانتے ہو کیا ہوا۔ اسی روز چند لمحوں بعد میرا بڑا بھائی اس کتے کا نوالہ بنا دیا گیا۔ ماں بن چادر کے روتی تڑپتی رہی۔ نو ماہ اس کی کوکھ میں پلنے والا بچہ ایک جنگلی کنے کا لقمہ بنا دیا گیا تھا۔ حادثہ ایسا تھا کہ ماں ہوش و حواس سے بیگانی ہو گئی۔ کتے کو دلار کرنے لگی کہ یہ میرا بچہ ہے اس کے جسم میں میرے بچے کا خون ہے (سسکیاں )باپ کے ضعیف ہاتھوں میں دوڑتی نسیں اسی لمحے بند ہو گئی۔ ایک دن باپ کی قبر پر سر پھوڑتی ماں بھی چل بسی۔ مجھے عزیزوں نے اٹھایا اور حادثوں کا شکار بنا دیا۔ ماں کے ممیرے یا چچیرے رشتہ دار تھے مگر میرے لئے سوتیلوں سے بھی بدتر ثابت ہوئے۔ مجھے فروخت در فروخت کیا گیا۔ سانحہ در سانحہ میرے بدن نے برتا۔ نجانے وہ میرا تیسرا مالک تھا یا دوسرا جس نے یہ حال کیا (وہ اپنے پیٹ سے قمیض ہٹا چکا تھا )اس کے پیٹ پر پڑے سگریٹ سے چلنے کے نشان انسانیت کا ماتم کر رہے تھے۔ ہاں ا یک وہ بھی تھا جو دن اور صبح کا کھانا دیتا تھا مگر اس لئے کہ رات کو میں خود اس کی خوراک بنتا تھا۔ کسی نے ہاتھ پاؤں توڑ کر مروڑ کر قمیض میں ایسے گھسا دئیے جیسے میں معذور ہوں اور سڑک پر بھیک مانگنے کے لیے کھڑا کر دیا۔ کسی نے دنوں فاقوں میں رکھا۔ یہ جو میری گردن پر میل کے نشان ہیں آنکھوں والا لڑکا اب عالم نظر آ رہا تھا )یہ میری بد نصیبی کی کہانی نہیں ہے یہ شروعات ہے اختتام تک پہنچوں تو شاید لفظ لہو رنگ ہو جائیں۔ میرا مالک (تمسخرانہ ہنسی)ویسے تو اللہ ہے مگر اب کی بار جو مالک بنا ہے وہ فجر سے لے کر سورج طلوع ہونے تک دوڑ لگواتا ہے تا کہ میں تھکا ہوا لگوں پھر صبح ہوتے ہی مجھے سفید پاؤڈر چٹا کر اپنے ساتھ ہاتھ تھام کر لے جاتا ہے بھیک مانگنے۔ وہ اندھا بنتا ہے اور میں ہاتھ پھیلاتا ہوں۔ کسی کو میری آنکھوں کے سرخ ڈوروں پر رحم آ جاتا ہے کوئی پسینہ پسینہ ہوئی پیشانی پر نگاہِ کرم ڈالتا ہے۔ دوچار سکے لے کر اس کے پاس واپس آتا ہو تو وہ اپنی چھڑی میری ان آنکھوں پہ مارتا ہے کیل لگی چھڑی (اس نے درد سے آنکھیں سج لیں )میں نیچے گر جاتا ہوں منہ کے سامنے دو نہیں تو کم از کم ایک سکہ مزید گر جاتا ہے۔ دوپہر تک یہ ڈرامہ چلتا ہے پھر کسی شادی ہال کے باہر جا کر کھانے مانگنے والوں کی قطار میں لگنا پڑتا ہے۔ روٹی کتوں کی طرح گھسیٹ کر میں لاتا ہوں کھاتا وہ ہے ہاں کبھی دو چار نوالے مل جاتے ہیں۔ شام کو بوجھ ڈھوتا ہوں۔ کارخانوں کا فرنیچر اتنی بڑی ریڑھیوں پر لادا ہوتا ہے اور میں گدھا (تمسخرانہ ہنسی) اسے گھسیٹ رہا ہوتا ہوں۔ کبھی کیا کبھی کیا ،  کام یا بیگار۔ ۔ ۔ مشقت یا مصیبت۔ ۔ ۔ ۔ آفت یا محنت۔ ۔ ۔ جو بھی نام دیں میں وہی کر رہا ہوتا ہوں آپ کے نزدیک مشقت اور میرے لئے قیامت رات بھر یہ ڈیوٹی دینی ہوتی ہے اس نمکو کو بیچنے کی۔ اپنے ننگے پاؤں کا رونا رونے کی۔ ۔ ۔ کچھ تو ایسے خدا ترس ملتے ہیں جو اپنے جوتے اتار کر دے دیتے ہیں یہ انہی محسنوں کی دین ہے (اس نے بیگ کی طرف اشارہ کیا )اور کچھ ایسے بھی ملتے ہیں جو جوتا اتار کر منہ پر مارتے ہیں اور پھر دوبارہ اپنے پیر میں ڈال لیتے ہیں۔ اب آپ خود بتائیں میں کیا کروں میں کہاں جاؤں۔ مجھے دنیا سے جو مل رہا ہے میں دنیا کو وہی تو دے رہا ہوں میں اور کیا کر سکتا ہوں۔ ایسا نہ کرو تو زندگی چھین لے گا وہ ظالم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (وہ رو دیا ،  وہ سسک گیا وہ تڑپ ہی تو گیا )۔ عبدالرشید اٹھا جیب سے دس دس کے تین نوٹ نکالے اور اٹھ کے چل دیا نوٹ پھینک کر۔ پیچھے پیچھے باقی تین ساکت نفوس بھی روتی بھیگی آنکھوں کے ہمراہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ گل شیر ماں کا شیر دنیا کا گلو روتا رہا۔ ۔ ۔ ۔ نجانے کب تک آئینہ دیکھتا رہا اور لہولہان ہوتا رہا۔ ۔ ۔ پارک کی نسبتاً پرسکون جگہ پر ایک معصوم انسان نجانے کب تک انسان ہو کر بھی انسانیت کا ماتم کرتا رہا۔ ۔ ۔ ۔ وہ روتا رہا۔

٭٭٭

ماخذ: تفکر ڈاٹ کام

http://www.tafacur.com/category/afsany/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید