FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

حنیف اخگر اور ان کی شاعری

 

                   مختلف ادباء

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

 

 

رو میں ہے رخشِ عُمر

 

خاندانی نام

سیّد محمّد حنیف

 

ادبی نام

اخگرؔ ملیح آبادی

 

تاریخ و مقامِ پیدائش

ستمبر3, 1928ء ملیح آباد

 

والد

قاضی سیّد محمّد شریف اثرؔ کسمنڈوی [مرحوم]۔

 

والدہ

محترمہ رضی النّساء بیگم [مرحومہ]۔

 

تعلیم

ایم بی اے ، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن، یونیورسٹی آف کراچی

بی کام، اردو کالج، یونیورسٹی آف کراچی

ایل ایل بی، ایس ایم لاء کالج، یونیورسٹی آف کراچی

ڈپلومہ ان بینکنگ، انسٹیٹیوٹ آف بینکرس ان پاکستان

ڈپلومہ ان بزنس ایڈمنسٹریشن، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن، یونیورسٹی آف کراچی

ڈپلومہ ان انڈسٹریل فنانسنگ، لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس، یونیورسٹی آف لندن

 

ڈپلومہ ان نیویارک اسٹاک ایکسچینج آپریشنز، گُڈ باڈی اینڈ کمپنی اسکول، نیویارک

منشی فاضل، سلیمانیہ کالج، بھوپال، برطانوی انڈیا

 

آغازِ شاعری

۔1945ء، امیر الدولہ اسلامیہ کالج کے طرحی مشاعرہ میں اوّل انعام

 

ہجرت

لکھنؤ سے کراچی۔۔ دسمبر 29، 1950ء

 

پیشہ

ملازمت

 

اقوامِ مُتّحدہ کی انٹرنیشنل سول سروس میں تقریباً سترہ برس مختلف جگہوں پر خدمات انجام دیں۔ اور آخر میں یو این کیپیٹل ڈیویلپمنٹ فنڈ کے ڈویژن چیف برائے ایشیا پیسیفک لائن، امریکہ اور عرب اسٹیٹس ڈویژن کی حیثیت سے مئی 2, 1989ء کو ریٹائر ہوئے ، اور وقتاً فوقتاً ایکسپرٹ یا کنسلٹنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ، ورلڈ اسمبلی آف سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کے مستقل نمائندہ برائے اقوامِ متّحدہ، نیویارک بھی رہے۔

 

شریکِ حیات

سیّدہ سعیدہ خاتون

 

اولاد

سات بیٹیاں: عابدہ، راشدہ، شاہدہ، سیما، اسماء، ہما، اور ختیجہ

چار بیٹے : عارف، آصف، یوسف، توصیف

 

تصنیفات

سٹاک مارکیٹ ان پاکستان، 1970ء*

چراغاں، مجموعہ غزل، 1989، 1992 ء 2003

خیاباں، مجموعہ غزل، 1997ء

خلقِ مجسّم، مجموعہ نعت، 2003ء

 

زیرِ تخلیق

خالقِ کل، مجموعہ حمد

اعتراف و انکشاف، سوانح حیات

 

پسندیدہ صنفِ سُخن

غزل

 

ایوارڈ

خواجہ میر دردؔ ایوارڈ، فروری 1988ء، عالمی اردو کانفرنس، نیو دہلی

 

پسندیدہ اشغال

مطالعہ، شاعری، اور سیاحت

 

پسندیدہ شعراء

عبدالقادر بیدلؔ، حافظؔ شیرازی، عرفیؔ، فانیؔ، غالبؔ، میرؔ، مومنؔ، داغؔ، جگرؔ، حسرتؔ، اصغرؔ، فانیؔ، اور شاعرؔ لکھنوی

 

وفات

مئی 31, 2009ء، ڈلاس، ٹیکساس

 

 

 

پیش لفظ

ڈاکٹر جمیل جالبیؔ

 

حضرت سیّد محمّد حنیف اخگرؔ سے میری پہلی ملاقات چند ہفتے پہلے یہیں کراچی میں ہوئی۔ وہ نکہت بریلوی کے ہمراہ میرے غریب خانے پر تشریف لائے تھے۔ پہلی ہی ملاقات میں وہ مُجھے اچھے لگے۔ شیریں گُفتار اور کچھ رکھ رکھاؤ والے۔ وضع دار، خوش اطوار۔ اور جب انہوں نے اپنا دوسرا مجموعۂ کلام ’’پیش لفظ‘‘ کے لیے مُجھے دیا تو میں اپنی انتہائی مصروفیت کے باوجود اس لئے انکار نہ کرسکا کہ اچھا انسان مجھے ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔ اور انسان اگر اچھا شاعر بھی ہو تو اور اچھا لگتا ہے۔

زیرِ نظر مجموعہ اخگرؔ صاحب کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے۔ پہلا مجموعہ ’’چراغاں‘‘ کے نام سے 1992ء میں شائع ہو چکا ہے۔ اخگرؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔۔ ان کا کلام دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ذہنی و قلبی فضا تغزّل کے رنگ و آہنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ حُسن آفرینی ان کی غزل کی نمایاں خصوصیت ہے ، جس میں ارضیت بھی شامل ہے اور ارفعیت بھی۔ ان کی شاعری میں حُسن ایک مجازی پیکر تو رکھتا ہے ، لیکن وہ مظاہرِ کائنات اور ذہن و قلب کی داخلی فضاؤں میں بھی جلوہ گر ہے۔ حسن کی یہی جلوہ گری وارداتِ عشق سے مل کر ان کی غزل میں ایک ایسا رُخ اختیار کر لیتی ہے کہ ان کے اشعار میں اثر و تاثیر پیدا ہو جاتے ہیں:۔۔

حسین صورت ہمیں ہمیشہ حسیں ہی معلوم کیوں نہ ہوتی

حسین اندازِ دل نوازی، حسین تر ناز برہمی کا

وہ کم سنی میں بھی اخگرؔ، حسین تھا، لیکن

اب اس کے حسن کا عالم عجیب عالم ہے

یادِ فروغِ دستِ حنائی نہ پوچھیے

ہر زخمِ دل کو رشکِ نمک داں بنا دیا

اس مرحلے سے گُزر کر اخگرؔ کی شاعری کا رُخ تصوّف کی طرف ہو جاتا ہے ، اور ان کی غزل کا ایک حصّہ مُرشد اصغرؔ گونڈوی، اور مُرید جگرؔ مراد آبادی کی روایتِ شاعری سے جا ملتا ہے۔ یہی وہ حصّہ ء شاعری ہے جو خصوصیت کے ساتھ پُر اثر بھی ہے ، اور پُر لطف بھی۔ یہ چند اشعار دیکھیے ؂

ظرفِ حجابِ عشق ہی وجہِ نمُودِ حسن تھا

جلوے تمام دیدہ و دل میں سما کے رہ گئے

پردے پہ پڑی رہ گئیں، محفل کی نگاہیں

چہرہ کوئی مجھ کو پسِ پردہ نظر آیا

ہر حسن میں موجود ملی عشق کی صورت

ہر حال میں اخگر یہ تماشا نظر آیا

پردۂ بے خودی میں تھے زاِئرِ کائنات ہم

پردۂ بے خودی اُٹھا، ہوش میں آ کے رہ گئے

یہی جنوں کا مُطالبہ ہے ، یہی تقاضا ہے بے خودی کا

میں تشنہ رہ کر ہی تشنگی سے ، علاج کرتا ہوں تشنگی کا

تصوّف کی طرف ان کا یہ رُخ زندگی ہی کو گوارا نہیں بنا دیتا، بلکہ موت کو گلے لگانے کا سلیقہ سکھادیتا ہے ؂

عالمِ جاں کنی میں یوں کیفِ مَدام رکھ دیا

دیدۂ نیم باز میں خوابِ دوام رکھ دیا

اخگرؔ نیم جاں تجھے مژدۂ عمرِ ناتمام

موت کا نام حاصلِ عمرِ تمام رکھ دیا

اخگرؔ کی شاعری میں جذبہ جب تخیُل اور طرزِ ادا سے مل کر ایک وحدت بنتا ہے تو ان کی شاعری کا رُوپ نکھر اٹھتا ہے ؂

بے شک اسیرِ گیسوئے جاناں ہیں بے شمار

ہے کوئی عشق میں بھی گرفتار دیکھنا

شدید تند ہوائیں ہیں کیا کیا جائے

سَکُوتِ غم کی صدائیں ہیں کیا کیا جائے

فُقدانِ عُروجِ رسن و دار نہیں ہے

منصور بہت ہیں، لبِ اظہار نہیں ہے

ہر طرف ہیں خانہ بربادی کے منظر بے شمار

کچھ ٹھکانہ ہے بھلا، اس جذبۂ تعمیر کا

یہ چند شعر اور دیکھیے ؂

جو مُسافر بھی تِرے کُوچے سے گُزرا ہو گا

اپنی نظروں کو بھی دیوار سمجھتا ہو گا

عشق میں دل کا یہ منظر دیکھا

آگ میں جیسے سمندر دیکھا

کشتۂ ضبطِ فُغاں، نغمۂ بے ساز و صدا

اُف وہ آنسو جو لہو بن کے ٹپکتا ہو گا

شامل ہوئے ہیں بزم میں، مثلِ چَراغ ہم

اب صبح تک جلیں گے ، لگاتار دیکھنا

جس کو بھی اب نصیب ہو قلب و نظر کی روشنی

ہم نے دیا تو برسرِ شارعِ عام رکھ دیا

خلوص و جہد مسلسل، توکّل و اُمّید

’’ یہی ہے رختِ سفر اہلِ کارواں کیلیے ‘‘

اخگرؔ کے ہاں ’’حُسن‘‘ کے ساتھ ’’حیا‘‘ کا تصور بھی لطف دیتا ہے اور تخلیقی قُوّت کے ساتھ اُبھرتا ہے ؂

نگاہوں کے سوا اس راز سے واقف نہیں کوئی

کہ اس رُخ پر حیا کی جلوہ آرائی بھی ہوتی ہے

چہرہ بہ رنگ و نورِ حیا سُرخ تھا مگر

اظہارِ شوق پر وہ برافروختہ نہ تھا

حیا سے شوخی کے پیرہن میں ہزارہا رنگ ہیں نمایاں

نہ گُل نہ بُوٹا قبائے گُل میں، بس ایک عالم ہے سادگی کا

وطن سے دُوری حُبِّ وطن کو اور تیز کر دیتی ہے۔ اخگرؔ کے ہاں یہ مثبت قدر، ایک حسین سہارا بن کر اچھے اشعار کی تخلیق کا مَوجب بنتی ہے ، اور رُوحِ عصر سے جا ملتی ہے ؂

چمن کی یاد نے ہم کو کیا ہے آمادہ

قفس میں جُرأتِ تعمیرِ آشیاں کے لیے

خدا گواہ یقیناً اٹھا رہے ہیں ہم

قفس میں عیشِ اذیّت بھی آشیاں کے لیے

غیروں کی سازشوں نے خود اپنوں کے روپ میں

صبحِ وطن کو شامِ غریباں بنا دیا

میرے بھائیو، میرے ساتھیو، رہ راستی پہ ڈٹے رہو

بہ وجوہ اخگرؑ بے نوا کا بھی حوصلہ ہے بڑھا ہوا

حنیف اخگرؔ نے چھوٹی، درمیانی، اور لمبی، ہر طرح کی بحروں میں غزلیں کہی ہیں۔ اور ہر بحر میں اپنی آواز کا آہنگ شامل کیا ہے۔ درمیانی اور لمبی بحروں کے نمونے ان اشعار میں آپ کو ملیں گے ، جو اوپر مثالوں میں پیش کیے گئے ہیں۔ اب چھوٹی بحر کی غزلوں سے دو دو شعر ملاحظہ کیجیے ؂

 

میرے ارمان نکلے نہیں

ہو کے دل پر رقم رہ گئے

اٹھ کے محفل سے سب گھر گئے

ہم کہ بے گھر تھے ، ہم رہ گئے

 

کیا ستم ہے

درد کم ہے

 

غم بہت ہو

پھر بھی کم ہے

 

حنیف اخگرؔ کے اس مجموعے میں دو منقبتوں میں یہ التزام رکھا گیا ہے کہ ان کا ہر شعر مطلع ہے ، اور یہ منقبتیں خاصی طویل ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ میں محمّد تقی میرؔ کے بیٹے میر کلو عرشؔ کے ہاں پہلی بار یہ صورت نظر آتی ہے۔ اور یہ میر کلو عرشؔ کی ایجاد ہے ، جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہوتا ہے :۔۔

 

تیری ایجاد ہے اے عرشؔ یہ مطلع کی غزل

غزل اشعار کی اک اور سُنائی ہوتی

 

اس کے بعد غزل کی یہ ہیئت حنیف اخگرؔ کے ہاں ملتی ہے۔ فنّی اعتبار سے حنیف اخگرؔ کے ہاں ایک صورت یہ ملتی ہے کہ وہ الفاظ و تراکیب کی تکرار سے کہیں کلام میں حُسن اور کہیں بیان میں زور پیدا کر دیتے ہیں۔ اور یہ انداز لطف دیتا ہے۔ یہ چند شعر دیکھیے ؂

 

ہر طرف ہیں خانہ بربادی کے منظر بے شمار

کچھ ٹھکانہ ہے بھلا، اس جذبۂ تعمیر کا

 

نگاہ و دل ذرا اخگرؔ کلیم و طور بن جائیں

کلیم و طور ہوں تو جلوہ آرائی بھی ہوتی ہے

 

پردۂ بے خودی میں تھے زائرِ کائنات ہم

پردۂ بے خودی اُٹھا ، ہوش میں آ کے رہ گئے

 

ایسے ہی دو شعر میں نے اُوپر نقل کیے ہیں۔ اس مجموعے میں سارے شعر یکساں معیار کے نہیں ہیں۔ یہ کام تو میر بھی نہ کرسکے۔ ہم اخگرؔ سے کیوں [یہ] توقّع رکھیں۔ بحیثیتِ مجموعی حنیف اخگرؔ ایک پُختہ گو، اور قادرالکلام شاعر ہیں۔ یہاں [پاکستان] ہوتے تو تخلیقی سطح پر خوب پھلتے پھولتے۔ بہر حال، جہاں رہیں، شاد آباد رہیں۔

نومبر 2, 1997ء

ڈاکٹر جمیل جالبیؔ

سابق وائس چانسلر، کراچی یونی ورسٹی

کراچی، پاکستان

 

 

بوڑھا برگد ٹھنڈے سائے

                       محسن احسان، پروفیسر

 

سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی گزشتہ تیس برسوں سے امریکہ کے دل نیویارک میں مقیم ہیں۔ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ا ور اپنی وضع قطع، افتادِ طبیعت، مشرقی روایات، پر لطف گفتگو، مخلصانہ میزبانی، دوستانہ روّیوں، برادرانہ شفقتوں، اور دیندارانہ مزاج کی وجہ سے تمام حلقوں میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔

ان کی ادبی تنظیم ’’حلقۂ فن و ادب‘‘ نیویارک میں ان کے اور ان کے دست ہائے راست یٰسین زبیری، عزیزالحسن، اور وکیل انصاری کے تعاون سے فعّال کردار ادا کر رہی ہے۔ ہر سال یومِ اقبال کے موقع پر ایک بین الاقوامی مشاعرے کا اہتمام اس ادارے کی ایک بہت بڑی خدمت ہے ، جس کی وجہ سے پورے شمالی امریکہ میں اس کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔ مقامی معاصرانہ چپقلش حنیف اخگؔرؔ کے حوصلوں کو مزید مہمیز عطا کرتی ہے۔ انہوں نے جو ذمّہ داری اٹھائی ہے ، وہ اسے احسن طریقے سے نباہنے میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ امریکہ جیسی آزاد، بے فکر اور بے مہار دنیا میں رہ کر بھی انہوں نے اپنے رہن سہن، تہذیب، ثقافت، اور دین و مذہب سے لگاؤ میں کوئی رخنہ نہیں آنے دیا۔ وہ اور ان کے تمام اہلِ خاندان صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔ اور تمام بچّے والدین کے حسن تربیت اور حسنِ اخلاق کا عمدہ نمونہ ہیں۔ بیگم محبّت اور خدمت کے جذبے سے سرشار رہتی ہیں، اور رکھ رکھاؤ کے دامن کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ زمانۂ شباب، جو عموماً رامش و رنگ، سرود و نغمہ، اور نُور و رعنائی سے عبارت ہوتا ہے ،[ میں بھی] حنیف اخگرؔ کا دامن کبھی آلودہ نہیں ہونے پایا۔ وہ روحانی فضیلتوں اور قلبی کیفیات کی برکتوں سے واقف ہیں، اور ان کے حصول میں کوشاں۔

حنیف اخگرؔ کا پہلا مجموعۂ کلام ’’چراغاں‘‘ کے نام سے چھپ کر اہلِ فکر و دانش سے داد سمیٹ چکا ہے ، اور اب وہ اپنا دوسرا مجموعہ قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔ اردو شاعری کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں دو قسم کے مکتبہ ہائے فکر کا سُراغ ملتا ہے۔ ایک تو وہ جو اپنی پختگیِ فکر، قادر الکلامی، اور روایت کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے مقبول و محترم ہیں۔ دوسرے وہ جو تازگیِ خیال، شگفتگیِ احساس، ندرتِ الفاظ اور جدّتِ فکر کی وجہ سے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایک طبقۂ شعرا ٔ وہ بھی ہے ، جن میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں۔ حنیف اخگرؔ کے کلام میں پختگیِ فکر،کلاسیکی رکھ رکھاؤ، اور روایتی لب و لہجہ کا خاص چلن بدرجۂ اتم موجود ہے ، جس کی وجہ سے ان کی غزل جذبات، محسوسات، دلی کیفیات اور قلبی واردات کی بھرپور آئینہ دار ہوتی ہے۔ وہ جس رنگِ تغزّل کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ کلاسیکی اندازِ فکر رکھنے والوں میں ہمیشہ مقبول رہا ہے۔ زبان و بیان پر مُکمّل دسترس، اور فنّی رُموز و نکات پر بھرپور توجّہ نے ان کی غز ل کو تقلیدی روش رکھتے ہوئے بھی ایک امتیازی وصف عطا کر دیا ہے۔ اسی لیے فکر و خیال کی ہمہ گیریت اور خلوصِ قلب کی بھرپور رعنائی ان کے ہاں ملتی ہے۔ انہوں نے شکست و ریخت کے اس عہد میں بھی اپنی انسانیت نواز اخلاقیات کو بیرونی تغیّرات کی زد میں نہیں آنے دیا۔ ایک طرف ان کے ہاں انبساطی کیفیت، سرخوشی، سرشاری اور والہانہ پن ہے ، تو دوسری طرف عرفانِ غم کے عناصر بھی اپنی پوری سج دھج سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں ؂

کبھی مسکرائے جو بھول کر، تو ہمارے اشک اُبل پڑے

جو بہار آئی سمجھ گئے کہ یہی خزاں کا پیام ہے

یہ جہاں ہے اخگرؔ بے خبر، یہاں رنج و غم سے کہاں مفر

جو کلی کھلی و ہ اُجڑ گئی، یہی گلستاں کا نظام ہے

یا

عالمِ ترکِ تعلّق کو زمانہ گزرا

دل گر تیرے تصوّر کا طلبگار بھی ہے

اپنی دیوار کے سائے پہ نہ اتراؤ بہت

کچھ نہ کچھ سائے کا سورج سے سروکار بھی ہے

یا

جب اس کا نام لیا، تب ہوا ہمیں محسوس

مزا حلاوتِ کام و دہن میں کتنا تھا

یا

کھو گئے ہم تری آہٹ پا کر

یعنی آواز کو سن کر دیکھا

یا

بادِ خرام ِ ناز نے آ کر صبا کے ساتھ

زندانِ دل کو صحنِ گلستان بنا دیا

یا

غنچہ وہ میرے دل کا کھلائے تو بات ہے

آئے صبا سے پہلے کہ جائے صبا کے بعد

یا

بہ کمالِ ہوش و خِرَد، مجھے ذوق و شوقِ جنوں بھی دے

مرے پاس پائے طلب بھی ہے ، مرے پاس دستِ دعا بھی ہے

یا

اپنے وطن میں آئے تو ایسا لگا ہمیں

گویا جوارِ گورِ غریباں تک آ گئے

حنیف اخگرؔ نے غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا مقابلہ پامردی سے کیا ہے۔ اور یہیں سے ان کی غزل میں غم کی چنگاریاں درد و یاس کی راکھ میں بھڑکتی نظر آ رہی ہیں۔ غم و انبساط کی ان کیفیات نے ان کی غزل کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔ وہ ہیجانی لہروں، جذباتی دباؤ، اور متصادم خیالات کو بھی رفعتوں سے آشنا کر دیتے ہیں۔ ان کے تخیّل کی کرشمہ سامانی سے ایک معمولی سا جذبہ یا خیال ان کی غزل میں لطافت اور سبکساری کی خصوصیات سے مملو نظر آتا ہے۔ وہ غزل میں متانت اور سنجیدگی کے ساتھ ساتھ ایک منظّم اور محتاط انداز بھی رکھتے ہیں۔

حنیف اخگرؔ نے جگر مراد آبادی، اور سیماب اکبر آبادی کی جمال پرستی کو ترفّع دے کر اپنا انفرادی رنگ پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔ یاد رہے کہ جگر کی غزل میں رندانہ مضامین کے بیان میں جو والہانہ پن پیدا ہوتا ہے ، وہ حنیف اخگرؔ کی غزل میں پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ حضرت ریاض خیر آبادی کی طرح حنیف اخگرؔ نے کبھی آتشِ سیّال کو منہ نہیں لگایا۔ اس سلسلہ میں جو کچھ بھی لکھا تخیّل کی گلکاریوں کا بھرپور اظہار ہے۔ کہیں بھی پژمردگی یا مایوسی کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ جینے کی اُمنگ بڑھتی ہے ، اور زندگی کے حُسن پر اعتبار پُختہ تر ہو جاتا ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں؂

یہی جنوں کا مُطالبہ ہے ، یہی تقاضا ہے بے خودی کا

میں تشنہ رہ کر ہی تشنگی سے علاج کرتا ہوں تشنگی کا

خیالِ عظمتِ جام و سبو تھا

بوقتِ مے کشی میں با وضو تھا

اک جستجوئے غم ہے غمِ جستجوئے یار

ہم جستجوئے غم کہ غمِ جستجو کریں

مری پارسائی اخگرؔ ،تھی اسی کی چشم پوشی

وہ نظر سے کیوں پلاتا، جو میں بادہ خوار ہوتا

جذبۂ رندانہ آخر کار کام آ ہی گیا

میرے ساقی کے لبوں پر میرا نام آ ہی گیا

بہت بُری ہے مگر شیخ جی یہ فرمائیں

کبھی جناب نے کوئی شراب پی کیا ہے

مئے ارغواں کس کی آنکھوں سے چھلکی

کہ مخمور پیرِ مُغاں ہو گیا ہے

حنیف اخگرؔ زندگی کی سادہ اور سچّی قدروں کے شیدائی ہیں۔ جدید تہذیب کے کھوکھلے پہن اور تصنّع کو ناپسند کرتے ہیں۔ وہ امریکہ کی مشینی زندگی میں رہتے ہوئے اس کے نت نئے تجربوں سے گزرتے ہیں۔ اسی لیے اس عہد کی مریضانہ بے حسی سے بے زار نظر آتے ہیں۔ ان کا ایمان۔۔ اخلاص، حقیقت پسندی، اور سادگی جیسی اقدار پر پختہ ہے۔ وہ حسن، خیر اور صداقت کو انسانی زندگی کے بنیادی اوصاف گردانتے ہیں۔ غزل جن جن رجحانات اور میلانات کے سبب وسعت سے ہمکنار ہوتی گئی، وقتاً فوقتاً ان عناصر کی شمولیت سے حنیف اخگرؔ کا کلام حسین اور دلآویز بنتا گیا؂

شعر بن کر مرے کاغذ پہ جو آیا ہے لہو

اشک بن کر تر ے دامن سے اُلجھتا ہو گا

یا

کتَبۂ قبر پر مرا نام نہیں لکھا گیا

صرف بنا دیا گیا، ایک دیا بجُھا ہوا

یا

غیروں کی سازشوں نے خود اپنوں کے روپ میں

صبحِ وطن کو شامِ غریباں بنا دیا

یا

جس کو بھی اب نصیب ہو قلب و نظر کی روشنی

ہم نے دیا تو برسرِ شارعِ عام رکھ دیا

یا

عجیب بات ہے کہ ہم تلاش میں انہی کی ہیں

جو منزلیں گُزر گئیں، مُسافتوں کے درمیاں

یا

دل میں مُدّت سے اگر خاک ہی اڑتی ہے تو میں

حق بجانب ہوں اگر اس کو بیاباں سمجھوں

حنیف اخگرؔ نے غزل کی مُروِّجہ روایت کو کسی مقام پر بھی مجروح ہونے نہیں دیا۔ ورنہ آج کے زیادہ تر خام شعور شعراء اور جدّت کے نام پر نگارِ غزل پر ستم روا رکھنے والے قلم کاروں نے اس کے حسن کو نئے نئے تجربوں کے نام پر جس قدر بگاڑا ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے برعکس، حنیف اخگرؔ زندگی کے سچے شعور اور جذبہ و اظہار کی صداقت کو اپنی شاعری کا جزو بناتے ہیں۔ اور ایسے ایسے شعر تخلیق کرتے ہیں جو قاری کے احساسات میں ارتعاش پیدا کر کے گہرا تاَثر چھوڑتے ہیں۔ ان کی شاعری خیال کی لطافت اور جذبہ کی تہذیب سے عبارت ہے۔ وہ سُخن گوئی کو اظہارِ جذبات ہی کا نہیں، تہذیب جذبات کا خوبصورت ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کے ہاں ہوسناکی کے عناصر ناپید ہیں۔ وہ حسن و عشق کے راستے دکھوں اور سکھوں کی منزلوں سے گزرتے ہیں۔ پاکیزہ خیال اور شستہ بیانی کا پرتو جا بجا دکھائی دیتا ہے۔ یہ غزلیں مؤثر ہیں۔ کہیں سادگی، کہیں دلکش رنگینی، کہیں حسّاس سلامت روی، اور کہیں رومانی شباب کا رنگ۔ یہ سب عناصر اجتماعیت سے زیادہ انفرادیت کا رنگ سمیٹے ہوئے ہیں۔ اندازِ نگارش میں روانی، مٹھاس، سرمستی و سرشاری ہے۔ حنیف اخگرؔ موت و حیات، رموزِ کائنات، اور مذہب و فطرت کے حقائق بیان کرتے وقت لہجے کی شائستگی اور زبان کے ترنّم کو برقرار رکھنے میں بے حد کامیاب ہوئے ہیں؂

سُنا نہیں ہے ، کہ دیکھا نہیں ہے دنیا نے

ہمارے شہر میں آباد ہیں جو ویرانے

ایک اُمّید ہمارے دل میں باقی ہے صد شکر ہنوز

طاق میں مدّھم ایک دیا سا ہم کو اچھا لگتا ہے

مقصدِ تخلیقِ آدم دیکھیے

سطوتِ نوعِ بشر آئینہ ہے

راز ہے اخگرؔ حیاتِ مُختصر

یا حیاتِ مختصر آئینہ ہے

فقط اعتقادِ نظر نہیں، مجھے اعتمادِ نظر بھی ہے

کہ پسِ کمالِ حجابِ شب ہی جمالِ نورِ سحر بھی ہے

قدم بھی دل نے خیالوں کی کہکشاں کے لیے

قیامِ قافلۂ یادِ رفتگاں کے لیے

حنیف اخگرؔ نے زندگی کی دشوار گزار گھاٹیوں میں مشاہدات و تجربات کی کئی مشعلیں روشن کی ہیں، جن سے درسِ و پیامِ حیات اخذ کرنا قارئین کا کام ہے۔

جولائی ۹، ۱۹۹۷ء

پشاور

٭

 

 

حنیف اخگرؔ: ایک نیم کلاسیکی شاعر کی آواز

 

                   ڈاکٹر محمد علی صدیقی

 

سیّد محمد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کا دوسرا مجموعۂ کلام میرے سامنے ہے۔ اخگرؔ اردو شاعری کی روایت کے پاس دار ہیں۔ اور گذشتہ مجموعہ کی طرح اس مجموعہ میں بھی ان کی غزل کا مخصوص رنگ نمایا ں ہے۔

حسن و عشق کے بیان میں اخگرؔ کا رویّہ ایک روایتی صوفی سے مشابہ ہے ، جس کے لیے حسن و عشق معرفت خداوندی کے استعارے ہیں۔ لیکن، کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ داغ اور ان کے مقلّدین کے تتبّع میں عشقِ مجازی کی کیفیات کے بیان میں زیادہ لطف لیتے ہیں۔ ایک صاحب نے تو داغ کے پورے کلام کو متصوّفانہ شاعری ہی کے دائرہ میں رکھا ہے ، اور عشقِ حقیقی کی تفہیم کے راستے میں اس قدر دشواریاں کھڑی کر دی ہیں کہ معاً یہ خیال آتا ہے کہ آخر تصوّف سے اس قدر تعلّق یا خوف کیوں، کہ اس کے ساتھ نسبت، خواہ وہ مثبت ہو یا سلبی ہی، شاعری کا جواز بن جائے۔ خواہ سید محمد حنیف اخگرؔ 67, 68 سال کے ہو چکے ہوں۔۔ محبّت و عشق کے جذبات کو ان کی قلمروئے شاعری سے جلاوطن کرنا یا سمجھنا مناسب ہو گا؟۔۔۔

مجھے تو امیرؔ اور داغ کا کلام، جسے واقعتاً بڑھاپے کا کلام کہا جا سککتا ہے ، زیادہ جوان، بلکہ ہیجان انگیز محسوس ہوا۔ ممکن ہے یہ کسی درست نفسیاتی داعیے کے مطابق ہی ہو۔۔۔

جہاں تک اخگرؔ صاحب کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کا تعلّق ہے ، اس کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ فی زمانہ اس شعبہ میں اچھے اشعار کی تخلیق مشکل کام ہے۔ غزل ہی ایک ایسی صنفِ سُخن ہے ، جس میں دوسرے درجہ کا شاعر بھی بسا اوقات اوّل درجہ کے اشعار کہہ سکنے پر قادر ہوسکتا ہے۔ اور ایسا اکثر ہوا ہے کہ بعض اچھے اشعار کے خالق بھی اچھے شاعر نہ کہلائے جا سککے۔ خیر، یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا،ا ور غزل کی ایک خوبی بیان کرنے کے لیے آ گیا تھا، ورنہ یہ بات اس طرح بھی کہی جا سککتی ہے کہ بعض نادرِ روزگار شعرأءسے بھی پیش پا افتادہ بلکہ رکیک مضامین کے شعر سرزد ہو گئے ہیں،ا ور اس سے ان بزرگ شعراء کی سُبکی کا پہلو نہیں نکلتا۔

اخگرؔ کے کلام میں کسی قسم کی ہمہ دانی یا ہیچ مدانی کا احساس نہیں ملتا۔ وہ سیدھے سادھے ، قابلِ ادراک عشقیہ جذبات کی شاعری کرتے ہیں، اور کبھی کبھی اپنی غزلوں میں سوال انگیزی کی فضا پیدا کر کے اس خیال کو تقویت بخشتے ہیں کہ غزل کے شاعر کے پاس متعدد اقسام کے نشتر ہوتے ہیں۔ اور وہ موقع کی مناسبت سے جیسا نشتر چاہتا ہے استعمال کر جاتا ہے۔

اخگرؔ ابھی تک اپنے نمائندہ لہجہ کی تلاش میں ہیں۔ ان کے جس وصف نے سب سے زیادہ متأثر کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ دس سال سے زیادہ عرصہ سے نیویارک، امریکہ، میں اردو شاعری کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اردو مشاعرہ کا ایک تہذیبی مزاج ہے۔ شاید اس کدو کاوش کی وجہ سے شاعری کو مقدور بھر وقت نہ دے سکے۔ یورپ اور امریکہ میں مقیم شعراء اور شاعرات کے ساتھ اپنے تہذیبی وجود کی نمود و نگہداشت کا فریضہ بسا اوقات اپنے وجود کی بقاء سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ یوں ہو تو پھر تخلیقی صلاحیّتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔

اخگرؔ صاحب کے بعض متأثر کن اشعار مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر درج ذیل ہیں۔ ان اشعار میں روایت کی پاسداری، اور جدید اثرات بھی صاف طور پر عیاں ہیں۔ ہر شاعر اپنی ذات کے حوالے سے معاشرہ اور کائنات کے بارے میں تصوّرات رکھتا ہے۔ روایت کی پاسداری میں بھی ایک مخصوص رنگ ہے ؂

جسے سمجھی تھی دنیا رقصِ بسمل

وہ اعلانِ شکستِ آرزو تھا

تا کُجا یہ سیر دنیائے تصوّر خود فریب

تابہ کہ یہ کھینچنا تصویر سے تصویر کا

دل پہ اکِ نقشِ کفِ پا اُبھرا

ایک صحرا میں گُلِ تر دیکھا

ڈوب جانے کا خیال آیا جہاں

وہیں پایاب سمندر دیکھا

ہے تصوّر میں کوئی مست خرام

اک قیامت سی بپا ہے مجھ میں

سخت حیران ہے آئینہ جاں

کوئی تو میرے سوا ہے مجھ میں

اور اگر جدید روایت سے گُریز پائی ملاحظہ کرنی ہو تو پھر مندرجہ ذیل اشعار دیکھیے ؂

یادش بخیر مدرسۂ عشق کا نصاب

ہر دن نیا سبق تھا، کچھ آموختہ نہ تھا

یہی جنوں کا مطالبہ ہے ، یہی تقاضا بھی ہے بے خودی کا

میں تشنہ رہ کر ہی تشنگی سے علاج کرتا ہوں تشنگی کا

عجب تناسب ہے یہ کہ اپنے ، ہزار آنسو نکل پڑے ہیں

کبھی جو بھولے سے آ گیا اک خیال دل میں کسی خوشی کا

بادل ہیں سر پر اور نہ سایہ اِس طرف

سورج بھی ہے کوئی پسِ دیوار دیکھنا

آزارِ ہجر اپنی جگہ مستقل مگر

دل مجھ سے تیرے قرب کا خواہاں نہیں رہا

دیکھ لی میری جرأتِ پرواز

اب ذرا بال و پر لگا مجھ کو

ہر اسیرِ خیالِ مستقبل

حال سے بے خبر لگا مجھ کو

میں آئینہ انہیں کی محبّت کا ہوں اگر

حیراں وہ کیوں ہیں دیکھ کے ، کیا بات ہو گئی

اخگرؔ نیم کلاسیکی [شاعر] ہیں، اور مجھے ان کے ہاں امیرؔ مینائی، اور حسرتؔ موہانی کے رنگوں کا ایک ایسا آمیزہ واضح طور پر نمو پاتا ہوا نظر آ رہا ہے ، جس میں سینسوئسنیس [حساسیت] اور شوخی تو شعری مزاج کی رعایت سے موجود ہے اور قدما کے رنگ میں شعر کہنے کی خواہش شاید اس بناء پر ہے کہ وہ خود کو اس رنگ میں شعر کہنے کا اہل سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ ایسا ٹھیک ہی سمجھتے ہیں۔ میں ان کے نئے مجموعہ کی اشاعت پر مبارک باد دیتا ہوں۔

Sensuousness= حساسیت، ذکاوت، معقولیت

کراچی

نومبر 2, 1997ء

 

 

 

    روایت کی روشنی

 

 

                       پروفیسر ریاض صدّیقی

 

اردو شعر و ادب کے [ کلاسیکی عروج کے ] بعد، نوآبادیاتی دور کی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ اس نے نوآبادیاتی اور نئی نوآبادیاتی، ثقافت و سیاست، اور اقتصادی و کاروباری مفادات سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے غیر جانبداری، اور ادب برائے ادب کے رجحانات کو ترجیح دی۔ اس کے اثرات و نتائج 1960ء کے بعد سامنے آنے لگے تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے ، جب یورپ و امریکہ سے ایسے بہت سے رجحانات و عقائد وارد ہوئے جن کی پیروی چھان پھٹک کیے بغیر [بے دریغ] کھلے عام کی گئی۔ ان طوفانی ہواؤں نے ایک طرف تو ہماری بہترین کلاسیکی روایت کی بنیاد کو اُکھاڑ پھینکا، اور دوسری طرف شعر و ادب کے وسیلے سے سماجی وسیاسی اور ثقافتی و علاقائی شعور کے اظہار کو فنّی و ادبی حوالوں سے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا۔ اس پورے ہی عہد پر، جو ابھی تک برقرار ہے ، لسّانی تشکیلات، وجودیت، سرریلیزم، تحلیلِ نفسی، اور جدیدیت کے بہت سے مختلف و متضاد رجحانات کی چھاپ تھی۔ ابلاغی ذرائع کی دستیابی اور اُن دِنوں قائم حکومتوں کا ان کے لیے نرم روّیہ اور بلاواسطہ تعاون بہت کارگر ثابت ہوا۔

جس دور کا ذکر ہو رہا ہے ، اس میں بین الاقوامی سطح پر ادبی، فکری، اور شعری و تنقیدی جہتوں کا اگر غیر جانبداری اور دیانت کے ساتھ مطالعہ کریں تو ہماری جدیدیت کا اندازِ نظر یک طرفہ اور آمرانہ محسوس ہو گا، جس نے دوسرے رخ پر سنسر نافذ کیے رکھا۔ ادب میں نعرے بازی اور پروپیگنڈے کے خلاف جارحانہ ردِّ عمل کا اظہار کرنے والے جدیدیت نوازوں کے پُرآہنگ دعوے اور مفروضات سازی، بجائے خود ایک نعرہ اور پروپیگنڈہ ہیں۔

ایزرا پونڈ نے جب کہا تھا کہ ’’میک اٹ اے نیو‘‘، یا 1950 ء میں جب ورجینا ولف نے اعلان کیا تھا کہ ادب اچانک بالکل بدل گیا ہے ، کیونکہ انسان بدل گیا ہے ، تو یہ بھی نعرہ ہی تھا۔ حنیف اخگرؔ صاحب کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے اپنے دور کے ادبی و فکری پس منظر سے ان کا کوئی سمبندھ قائم نہیں ہوا۔ تعجّب اس وقت ہوتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود مغرب ان سے کوسوں دور ہے۔ اور ان کی ہند اسلامی کلاسیکیت کا آبگینہ تندیِ مغرب سے ذرا بھی نہیں پگھلا۔ اپنی پوری شاعری میں انہوں نے انگریزی کا صرف ایک لفظ استعمال کیا ہے ؂

تمہیں پتہ تو ہے اخگرؔ کہ لفظ کیا تھے اور

ہر ایک لفظ کو پیراگراف کس نے کیا

ہماری جدید شاعری نے بغیر کسی انتخاب کے انگریزی لفظوں اور اصطلاحات کو شعر کیا ہے۔ اور اب تو اردو کا لب و لہجہ انگریزی لفظوں، فقروں، اور اصطلاحات کی نوآبادیات بنتا جا رہا ہے۔ اس نئی فضا میں ان کی نیم کلاسیکی جدیدیت کی پذیرائی کس حد تک ہو گی، ایک سوال ہے ، جس کا جواب سامنے ہے کہ نہیں ہو گی۔ 1857ء کے بعد ہمارے بزرگ اساتذہ نے انگریزی لالٹینوں کی روشنی میں اپنی کلاسیکیت اور مشرقیت کا رنگ، آہنگ نکھارا، مگر اب ہمارے شعر و ادب، ہماری ثقافت، موسیقی اور گائیکی نے مغرب کے رنگ و آہنگ کو قومیا لیا ہے۔ جیسا کہ یہ سب کچھ ان کا اپنا ہی مال ہو۔ اخگرؔ صاحب نے ٹھیک ہی کہا ہے ؂

غربت میں رہی ، جس کے بنانے ہی کی فکر

اس ملک کے حالات بگڑتے ہی رہے

اور بہت بروقت اس سانحے پر ماتم بھی کیا ہے ؂

یہ سانحہ بھی بڑا عجب ہے کہ، اپنے ایوانِ رنگ و بو میں

ہیں جمع سب مہر و ماہ و انجم، پتا نہیں پھر بھی روشنی کا

اور، اب ان کا یہ شعر آپ کے اندر ایک عجیب سا خوشگوار ہیجان پیدا کرے گا؂

پھر درِ جاں پہ اس نے دستک دی

رہ گیا ہے کچھ، اس مکان میں کیا

بعد جدید دور کی موڈرنسٹ نسل، مستی اور بے خبری میں اردو زبان اور شعر و ادب کو انگریزی زبان و کلچر کا لباس پہنا رہی ہے ، مگر کوئی ان کو یہ نہیں بتاتا کہ یورپ و امریکہ کا شعر و ادب کس قدر فیّاضی کے ساتھ سابق نوآبادیاتی ملکوں کے الفاظ و فقرے استعمال کر رہا ہے ، اور ان کے یہاں مختلف علاقوں کے مُروّج الفاظ و فقرے انگریزی شعر و ادب کی ساخت میں شامل رہے ہیں۔ اہلِ زبان انگریزوں کو بھی اب یہ احساس ہو چلا ہے کہ نوآبادیاتی حکمرانوں کی رائج کی ہوئی زبان اور اس کے شعر و ادب کے سائے سمٹ رہے ہیں۔

حنیف اخگرؔ صاحب نے اصل کام ہی یہ کیا کہ اردو شاعری کی قبل از نوآبادیاتی کلاسیکیت اور مابعد الطبیعاتی بنیاد کو اپنی تخلیقی کیمیا گری میں جذب کیا ہے۔ ان کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے سوداؔ، میرؔ، نظیرؔ، مُصحفیؔ، اور غالبؔ، کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔۔۔ جنہوں نے اردو کلاسکس کی عمارتِ عُظمیٰ بنائی، اور اس پر آفاقی تاریخیت کا وہ رنگ چڑھایا، جس سے بچ کر کلاسیکی انداز میں کوئی نئی سمت نکالنا محال ہے۔ فیضؔ جیسا شاعر بھی سوداؔ، میرؔ، اور نظیرؔ و غالبؔ کے جادو سے بچ نہ سکا۔ اس کے باوجود، کلاسیکیت کی ہمہ گیری اور آفاقیت کو ثبات حاصل رہے گا۔ کیونکہ اس کی جڑیں مقامی سرزمین کے اندر بہت گہرائی تک پیوست ہیں اور اس کی نشوونما مقامی ثقافت ہی کی گود میں ہوتی ہے۔ چنانچہ، اس میں تنوّع، گیرائی، اور قوّت و تأثر کا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس کی بھٹّی میں کسی بھی زبان کا لفظ، مضمون، یا خیال ڈال دیجیے تو وہ تپ کر کُندن بن جائے گا۔ اس کی نمایاں مثال فراقؔ کی شاعری، اور پطرسؔ بخاری کی نثر ہے۔ زیرِ نظر اشعار کی قطار اردو کی کلاسیکی روایت کی لے اور آہنگ پر دلیل ہے ؂

خیالِ عظمتِ جام و سبو تھا

بوقتِ مئے کشی میں با وضو تھا

چہرہ بہ رنگ و نورِ حیا سرخ تھا مگر

اظہارِ شوق پر وہ برافروختہ نہ تھا

وارداتِ عشق اور اخگرؔ غزل کے روپ میں

کھینچنا ہے غم کی جیتی جاگتی تصویر کا

حالِ مریض عشق ہے بیکار دیکھنا

جائے گا جان لے کے یہ آزار دیکھنا

اب اعتبار عہدِ وفا کر رہے ہیں وہ

جب اعتبارِ عمرِ گُریزاں نہیں رہا

ہر جبر اختیار ہے عہدِ وفا کے بعد

پھر بھی وہ کچھ ملول ہے عذرِ حیا کے بعد

اس کی شبیہ اس کا سراپا نہیں تو کیا

تشریحِ گیسو و لب و رخسارِ یار ہو

مجھ کو تلاشِ نقشِ کفِ پائے یار ہے

میری جبینِ شوق بہت بیقرار ہے

بیسویں صدی کی جدید کلاسیکی اردو شاعری کی فہرست میں اپنے بہت سے معاصروں کے ساتھ اب حنیف اخگرؔ کا نام بھی لکھا جانا چاہیے۔ البتّہ، ان کے مقام کے تعیّن کا مرحلہ ابھی دور ہے۔ اردو کی ادبی تاریخ لکھنے والوں نے ایسی کوئی مستند اور مُکمّل تاریخ ابھی تک مُرتّب نہیں کی ہے ، جس میں 1960ء کے بعد آنے والے اس قبیل کے شاعروں کے نام موجود ہوں۔

اخگرؔ صاحب ان معنوں میں حیات و کائنات کے شاعر نہیں ہیں کہ ان کی مجموعی شاعری کا نمایاں تأثر کسی سیاسی و سماجی اور تاریخی شعور سے عبارت ہو۔ کیونکہ، ان کی شاعری پر ایک طرح کی صوفیت اور مذہبی شعور کی کارفرمائی زیادہ حاوی ہے۔ تاہم، اسے مذہبی شاعری کی قسم میں بھی شمار نہیں کیا جا سککتا ہے۔ ان کے یہاں جس قسم کا صوفیانہ رنگ اور اس حوالے سے ایک جمالیاتی و حسّی ثقافت اُبھرتی ہے ، بجائے خود کلاسیکی[روایت، شاعری] ہی کی مرہونِ منِّت ہے ؂

سب جانتے ہیں کس کے اشارے پہ دفعتاً

دو ٹکڑے آسماں پہ قمر ہوکے رہ گیا

بے ساختہ لبوں پہ مرے ہر دعا کے بعد

آتا ہے ایک نام ہمیشہ خدا کے بعد

حدودِ شریعت میں محدود رہ کر

انہیں بے حد و انتہا چاہتا ہوں

سخت حیران ہے آئینۂ جاں

کوئی تو میرے سوا ہے مجھ میں

آنکھوں میں میرے آتے ہی، دل میں اُتر گئے

جلوے جو چھَن کے پردۂ حائل سے آئے ہیں

وہ دل میں اور قریبِ رگِ گلو بھی ملے

ز راہِ لطف مگر، ہم سے روبرو بھی ملے

کھوج میں اس کی سرگرداں ہوں

شہ رگ سے جو دور نہیں ہے

ظرفِ حجابِ عشق ہی وجہِ نمودِ حسن تھا

جلوے تمام دیدہ و دل میں سما کے رہ گئے

اک زحمتِ نگاہ تو فرمائیے کہ ہم

آئینہ بن کے عالمِ حیراں تک آ گئے

اچھا شعر وہ ہوتا ہے جو آشیانے کے قریب دامِ سخت کے مُترادف ہو کہ پڑھنے والا لمحۂ موجود میں اس کی گرفت کا شکار ہو جائے۔ غالبؔ نے اسی کیفیت کو غیب سے مضامین آنا کہا ہے۔ گو کہ کوئی مضمون یا خیال عملاً غیب سے وارد نہیں ہوتا ہے ، بلکہ تخلیق کار کے کسی ایسے تجربے یا مشاہدے کی دَین ہوتا ہے جو اس کے لاشعور میں بند ہو کر رہ گیا ہو۔ اور کوئی تحریک، یا اتّفاق اس قید و بند کو توڑ دے۔ اخگرؔ صاحب کے ہاں اس سطح کے شعر بھی ملتے ہیں؂

تاب نہیں تو مہر کیا، ایک دیا بجھا ہوا

مجھ کو بجا کہا گیا، ایک دیا بجُھا ہوا

روبرو آئینے کے میں، خود کو جو دیکھنے گیا

اس نے مجھے دکھا دیا، ایک دیا بجھا ہوا

اس پوری غزل میں اظہاریت اور تأثر کا ماخذ ردیف ’’ایک دیا بجھا ہوا‘‘ ہے۔

دل اپنا عزمِ ترکِ تعلّق پہ بارہا

مائل ہوا ضرور، مگر ہوکے رہ گیا

کراچی

 

٭

 

 

 

خُلقِ مُجَسّم پر ایک نظر

 

                   ڈاکٹَر فرمان فتح پوری

 [ستارۂ امتیاز]

 

حضرت اخگرؔ ملیح آبادی، عہدِ حاضر کے اُن اردو شعراء میں ہیں جن کا نام و کام دیارِ مشرق سے لے کر ایوانِ مغرب تک، بشمول امریکہ، کینیڈا، اور یورپی ممالک، قدر کی نگاہ سے ، اور ہر ادبی و شعری محفل میں انہیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ، اور ان کی شرکت و موجودگی کو باعثِ توقیر و تبریک سمجھا جاتا ہے۔

 

اپنے ہم عصروں میں انہیں یہ قابلِ رشک مُقام، ان کی خوش خلقی و خوش فکری، اور خوش گوئی و خوش کلامی نے دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ان کی طبیعت کا عجز و انکسار، ان کی سیرت و شخصیت کا ایسا طاقتور پہلو ہے جو بڑے سے بڑے سرکش و مُخالف کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ عارضی طور پر نہیں، بلکہ زندگی بھر کے لیے۔ میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ جو ایک بار بھی اُن سے مِلا، اُن کی شخصیت کی مقناطیسیت کے تحت انہیں کا ہو کر رہ گیا۔

جیسا کہ عرض کیا گیا، اخگرؔ ملیح آبادی اردو کے [ایک] نامور شاعر ہیں۔ اُن کے کمالِ فن کے عام و خاص سبھی معترف ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے ’’چراغاں‘‘ اور ’’خیاباں‘‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں، اور اہلِ فکر و فن سے خراجِ تحسین لے چکے ہیں۔ ان کا تازہ شعری مجموعہ بابرکت و عظیم تر موضوعات اور جاں گُداز اور دل نشیں اُسلوب کے ساتھ بنام ’’خُلقِ مُجَسّم‘‘ منظرِ عام پر آیا ہے۔ اور چراغاں، اور خیاباں کے پس منظر کے ساتھ ایک مومن کے لیے طمانیتِ قلب و آسُودگیء جاں کا حیرت ناک پیش منظر لے کر آیا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا، کہ اس نئے شعری مجموعہ کا تعلّق عام غزلیہ و نظمیہ شاعری سے نہیں، بلکہ کائنات کے عظیم ترین موضوع اور موضوع سے نسبتِ خاص رکھنے والے اُن اشخاص سے ہے جن کی مدح و ثناء کو منظوم صورت میں نعت و منقبت کا نام دیا گیا ہے۔

نعتیہ و منقبتیہ شاعری کا ذکر آیا تو اُس مجموعہ کے مطالعہ سے پہلے قاری کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نعت و منقبت کی شاعری کے تقاضے ، شاعری کے عمومی تقاضوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ اس بدیہی حقیقت کی وضاحت کی ضرورت نہیں، کہ شاعر اور شاعری کی ہر صنف کے لیے موزونیِ طبع کے ساتھ علمِ عروض و قافیہ سے قدرے واقفیت، علمِ بیان و بدیع سے مُناسبت و آگہی، زباں و بیاں کے رَمُوز و نکات سے آشنائی، اور وُسعتِ مطالعہ کے ساتھ جولانیء فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن نعتیہ و منقبتیہ شاعری ان اوصاف سے آگے بڑھ کر اس دیوانگیِ شوق اور جذبۂ والہانہ کا تقاضہ کرتی ہے جو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذات و صِفات اور اُن کی ذات و صفات سے مُستفید ہونے والے اشخاص کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن اس نوع کا انتسابِ قلبی و اختصاصِ شخصی سب کو نہیں، کسی کسی کو مُیسّر آتا ہے۔ بحمدلللہ محمّد حنیف اخگرؔ کو یہ نعمت من جانب اللہ عطا ہوئی ہے۔ اس عطا کو انہوں نے نعت و منقبت کے وسیلے سے اپنے جسم و جاں کے لیے دائمی دار الصحت اور قلب و رُوح کے لیے ادبی دار الشفا بنا لیا ہے۔ جگر مُرادآبادی نے شاید ایسے ہی رُتبۂ بلند اور مُقامِ مَسعود کے لیے کہا تھا کہ ؂

اللہ اگر توفیق نہ دے ، انسان کے بس کا کام نہیں

فیضانِ مُحبّت عام تو ہے ، عرفانِ مُحبّت عام نہیں

 

حنیف اخگرؔ کو اِس مُقامِ بُلند تک پہنچانے میں یقیناً توفیقِ الہٰی کا بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن اتنی بات ذہن میں رہے کہ یہ تَوفیق انہیں کے حصّہ میں آتی ہے جو اس توفیق کے مُتَمَنی اور جَویا ہوں۔ نیز، جنہوں نے قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیّتوں کو طاقتور اور کارگر بنانے کے لیے اپنے اِسلافِ برگزیدہ اور اطرافِ پاکیزہ سے شُکر گزاری اور احسان مندی کے جذبات کے ساتھ اَخذ و استفادہ کیا ہو۔ حنیف اخگرؔ کی بڑائی کا ایک نمایاں نشان یہ بھی ہے کہ حمد و نعت کے باب میں جہاں وہ توفیقِ الہٰی کے شکر گُزار ہیں، وہیں اپنے بُزرگوں کے فیضان کے بھی معترف و احسان مند ہیں۔ تبھی تو لکھتے ہیں:۔

‘‘ حمد و نعت و منقبت کے سلسلے میں بھی میں نے اپنے والدین کی پسندیدگی کے تحت ابّا میاں مرحوم قاضی سیّد محمد شریف اثرؔ کسمنڈوی کے علاوہ امیرؔ مینائی، مُحسنؔ کاکوروی، جگرؔ مُرادآبادی، حسرتؔ مَوہانی کی نعتوں کے بغور مطالعہ کے ساتھ پروفیسر حفیظ تائبؔ، رونقؔ بدایونی، عبدالحمید صدیقی لکھنوی، اور بالخصوص شاعرؔ لکھنوی مرحوم کی نعتوں سے نہ صرف بار بار محظوظ ہوا ہوں، بلکہ ان کو اپنا معیار مقرّر کیا ہے ، اور بہت کچھ سیکھا ہے‘‘۔

یہ سَطُور بتاتی ہیں کہ ’’خُلقِ مُجسّم‘‘ کا شاعر ایک بھرپور ادبی و شعری پس منظر رکھتا ہے ، اس کے تخلیقی ذہن کی تربیت، شعر و ادب کے نکھرے ہوئے ماحول میں ہوئی ہے۔ اس نے اپنے عہد کے بُلَند پایہ نعت کے شعراء کے ساتھ قدیم اساتذہ ء اردو کی فکر و فن سے بھی مولانا حسرتؔ موہانی کی طرح فیض اُٹھایا ہے۔ بقول حسرتؔ،‘‘ طبعِ حسرتؔ نے اُٹھایا ہے ہر استاد سے فیض‘‘۔۔ نہ صرف فیض اُٹھایا ہے ، بلکہ اِس فیضان کو اپنی تخلیقات میں اُنہوں نے سمو کر، اردو کی نعتیہ شاعری کو اور اس کی تاریخ کو حسین و وقیع اور مُعتبر اور مُوقّر بنا دیا ہے۔

جیسا کہ عرض کیا گیا، اور جیسا کہ خود شاعر کو احساس و اعتراف ہے کہ نعت گوئی کا تعلّق فکر و فن اور علم و ہُنر سے زیادہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذاتِ گرامی سے عقیدت و مُحبّت سے ہے۔ جب تک ایک مومنِ با صفا کا دل بادۂ حُبِّ محمدؐ سے سرشار نہ ہو، آنکھوں میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کو دیکھنے کی تڑپ نہ ہو،ا ور قَلب و ذہن میں آستانۂ رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلّم پر حاضری دینے کی آرزومندی اور جذبۂ شوقِ حضوری میں مدینۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم میں سانس لینے کی تمنّائے بیتاب موجود نہ ہو، نعت کا نزول نہیں ہوتا۔ یہ وہ معاملاتِ حُبِّ رَسُول ؐ ہیں، جو ایک سچّے شاعر کو غمِ روزگار و غمِ ذات سے بے پروا و بے نیاز رکھ کر وادیِ حمد و نعت میں گُم کر دیتے ہیں۔ خود اخگرؔ کے لفظوں میں ؂

 

غمِ دُنیا نہ غمِ دل ہیں مسائل میرے

حمدِ رب، نعتِ مُحمّدؐ ہیں مشاغل میرے

 

تحفہ یہ نعت گوئی کا کچھ کم نہیں کہ ہم

شیرینیِ زباں کے سزاوار ہو گئے

 

اک چراغِ عزمِ طیبہ چاہیے

کیا سفر اور کیا سفر کا فاصلہ

 

علمِ قُرآں سہل ہے ، اور سہل تر علمِ حدیث

سر بہ سر تفسیرِ قُرآں ہیں سُخن ہائے رسولؐ

 

ہر وقت ہے اب مَنظرِ طیبہ مرے آگے

وہ اُٹھ گیا، حائل تھا جو پردا مِرے آگے

 

دل وہ ہے کہ جس میں ہو تمنّائے مدینہ

سر وہ ہے کہ جس سر میں ہو سَودائے مدینہ

 

دل دیکھتا رہتا ہے مدینے کے یہی خواب

جب آنکھ مَیں کھولوں، نظر آ جائے مدینہ

 

اب جو خوشبو سے مُعطّر ہے صبا کا دامن

خاک تھا آپؐ کے دامن کی ہوا سے پہلے

 

شاعر کے قلب و نظر، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کے روضۂ مبارک کی زیارت کے لیے کیسے بیتاب ہیں، دل و جاں پر اُن کے فراق میں کیا گزری ہے ، اور ان کے جسم کا رُواں رُواں دیدارِ روضۂ اقدس صلی اللہ علیہ وسلّم کے لیے کیسا بے چین و مضطرب ہے ، اس کا اندازہ میرے بیان سے نہ ہوسکے گا۔ اس کے لیے شاعر کے اضطرابِ قلب و رُوح کا حال خود شاعر کی زبان سے سُنیے ، اور حُسنِ بیاں کوسراہتے ہوئے شاعر کے اشتیاقِ بے پایاں اور اضطرابِ بے کراں کی مُصوّری کی داد دیجیے ؂

 

ہر گھڑی چشمِ تصوّر سے مدینہ دیکھوں

کاش آ جائے مُجھے یوں بھی نظّارہ کرنا

 

توفیقِ نعت گوئی ہے اللہ کا کرم

کاوش یہ ہے ہُنر کی، نہ زورِ بیاں کی ہے

 

تمام عمر میں نعت و سلام لکھتا رہوں

تمام عمر اسی میں تمام ہو جائے

 

نعت گوئی اور مَنقَبَت نویسی کے حوالہ سے حنیف اخگرؔ کا ایک اور کمالِ فن قابلِ ذکر ہے۔ انہوں نے صرف یہی نہیں کہ اپنی طبع زاد زمینوں اور بحروں میں قابلِ صَد تحسین اشعار کہے ہیں، بلکہ اساتذۂ قدیم اور نہایت معروف شعرأ کی زمینوں اور بحروں میں بھی کامیاب نعتیں کہہ کر اپنی قادرالکلامی اور غیر معمولی شاعرانہ صلاحیّتوں کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ چند نمونے دیکھیے ؂

 

آنکھ ہر لمحہ برستی کبھی ایسی تو نہ تھی

دیکھ کر اور ترستی کبھی ایسی تو نہ تھی

 

اس جہاں میں بھی مُیسّر نہ ہو ثانی جس کا

ان سے پہلے کوئی ہستی کبھی ایسی تو نہ تھی

 

سنتا ہوں جب روایتِ شقّ القمر کہیں

پاتا ہوں اپنے سینے میں رشکِ قمر کو میں

 

دیکھوں مہ و نجوم مُحمّدؐ کے نقشِ پا

اور آفتاب ذرّۂ گردِ سفر کو میں

 

حُکمِ سرکارؐ کا مُحتاج رہا اپنا قلم

نعت ہم لکھ نہ سکے اُن کی رضا سے پہلے

 

اذنِ سرکارؐ کے پابند تھے ورنہ اخگرؔ

ہم مدینے میں پُہنچ جاتے صبا سے پہلے

 

مِرا شوق نعتِ رسولؐ ہے ، کبھی سوز میں کبھی ساز میں

کبھی نذرِ نغمۂ جاں کروں، کبھی دل شعورِ نیاز میں

 

کوئی حدِّ سوزِ دروں نہیں، مُجھے چین ہے نہ سَکُوں کہیں

بہ کمالِ عشقِ نبیؐ کہاں، کوئی بات صیغۂ راز میں

 

یہ اشعار اخگرؔ کی جن نعتوں سے لیے گئے ہیں، وہ علیٰ الترتیب، بہادر شاہ ظفرؔ دہلوی، اسد اللہ خاں غالبؔ دہلوی، شوکت علی خان فانیؔ دہلوی، اور علاّمہ اقبال کی مقبول ترین زمینوں اور بحروں میں ہیں۔ اور کیسی کامیاب اور با اثر ہیں، اس کا صحیح اندازہ اخگرؔ کی پُوری نعتوں کے مطالعے سے ہی مُمكن ہے۔ مُجھے تو اس جگہ صرف اس قدر کہنا ہے کہ اخگرؔ کا کمالِ شعر گوئی، صرف غزلیہ اور نظمیہ شاعری تک محدود نہیں ہے ، بلکہ ان کی حمدیہ، نعتیہ، اور منقبتیہ شاعری بھی حد درجہ خوبصورت و پُر کیف ہے۔ اور اسی لیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اخگرؔ کا تازہ نعتیہ مجموعہ ’’خُلقِ مُجسّم‘‘، اردو نعت گوئی کی تاریخ میں محض ایک اضافہ نہیں، بلکہ نہایت حسین و وقیع اور مَوقّر و مُعتبر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔

میں انہیں اس غیر معمولی کامیابی پر دلی مبارکباد دیتا ہوں۔

٭

 

 

 

 

 

    کیفِ نعت و سلام

 

                       سیّد محمّد ابوالخیر کشفؔی

 

 

جناب سّید محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی نئی دنیا [شمالی امریکہ]میں اردو کے زندہ نشان کی حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستانیت اور اسلامی طرزِ حیات کی ایک علامت بھی ہیں۔

گزشتہ دنوں انہوں نے کراچی کی ایک تقریب میں جس طرح نعتِ حضرت خیر البشرﷺ  پڑھی، اس سے جگرؔ اور اُن کے ہم عصر شعراء کا دور جیسے زندہ ہو گیا۔

اخگرؔ صاحب غزل کے ایک مُستند اور مُعتبر شاعر ہیں۔ اور اب ان کی حمد و نعت کا مجموعہ آپ کے سامنے ہے۔ اخگرؔ صاحب کی غزلوں میں بھی اُن کے رُوحانی سفر کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ لیکن زیرِ نظر مجموعہ ‘خُلقِ مُجسّم’ اُن کے نُورانی باطن کا منظر نامہ ہے۔

نعت گوئی کے اس انتہائی تابناک دور میں بھی اچھی حمدیہ شاعری کم نظر آتی ہے۔ بات یہ ہے کہ اَن دیکھے خُدا کو اپنی شہ رگ سے بھی قریب محسُوس کرنے ، اُسے ہر نظّارۂ کائنات میں دیکھنے ، اور قُرآنِ حکیم کی آیات میں اُس کی آواز کو سُننے کے لیے ایمان ، احساس، اور ادراکیت کی جو سطح درکار ہے و بغیر اُس کی توفیق کے انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس ربِّ ذُوالجلال کا فیضانِ تو عام ہے ، لیکن اس کا عرفان عام نہیں۔ ماشاء اللہ! اخگرؔ صاحب کو یہ دولتِ کم یاب بلکہ نایاب حاصل ہے۔خالقِ کائنات نے اُن کی یہ دُعا قُبول فرما لی ہے ؂

 

تُو مُجھے اپنی تمنّا کی عطا کر تَوفیق

اور مِری عرضِ تمنّا کو پَذیرائی دے

 

اُن کے نعتیہ کلام میں اپنے رَسُول ﷺ کے لیے ایک اُمّتی کی بے پایاں محبّت کے ساتھ شعری مَحاسِن بھی ہمیں اپنی طرف متوجّہ کرتے ہیں۔ بعض نئی تراکیب ایسی خُوبصورتی اور بے ساختگی کے ساتھ اُن کے نعتوں میں سَماگئی ہیں کہ تحسین کے ساتھ حیرت بھی ہوتی ہے ؂

 

اے چَراغِ عزمِ طیبہ مرحبا

راستے روشن نظر آئے بہت

 

ایسی نئی تراکیب نئے اندازِ نظر، اور طرزِ فکر کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔

 

ان کی نعت گوئی عقیدت کی ایک وسیع دنیا ہے ، جس میں ان کے شب و روز حضرت رسالتِ مآب ﷺ کے دوسرے مغنّیوں کے ساتھ گُزر رہے ہیں؂

 

رَقصاں تھے سبھی رند ، وہ حافظؔ ہوں کہ سعدیؔ

دورِ مئے عرفاں تھا جہاں، میں بھی وہیں تھا

 

اب نعت و سلام ہی اخگرؔ صاحب کی دُنیا ہے۔ میں بھی اُن کی اِس دُعا پر آمین کہتا ہوں؂

 

تمام عُمر میں نعت و سلام لکھتا رہوں

تمام عمر اسی میں تمام ہو جائے

٭

 

 

 

 

 

 

میخانۂ الہام

 

                   پروفیسر ڈاکٹر جگن ناتھ آزادؔ

 

 

جب ایک غلام ملک دو آزاد ملکوں کی صورت میں تقسیم ہوا تو دونوں ملکوں یعنی ہندوستان اور پاکستان سے بھاری تعداد میں لوگوں نے باہر کے ملکوں کا رُخ کیا، جن میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، یورپ کے مُمالک اور مغربی ایشیا کے بعض ممالک کے نام سرِ فہرست ہیں۔

ہجرت کرنے والے اس بھاری تعداد کے لوگوں میں اکثریت اُن کی تھی جن کے پیشِ نظر اپنے مُلک کی تہذیب اور کلچر کی خدمت تھی۔ اس خدمت کے کئی ابعاد ہیں۔ جن میں حُبِّ وطن بھی آ جاتی ہے ، حُبِّ مذہب بھی، حُبِّ انسانیت بھی، اور سماجی اقدار بھی۔ ایسے مُختصر سی تعداد والے تارکینِ وطن کی فہرست کو ہم کتنا ہی مختصر کریں، وہ فہرست سیّد محمد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کے نام کے بغیر مُکمّل نہیں ہوسکتی۔

اردو اس وقت ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں سے نکل کر دنیا کے مُختلف مُمالک میں پہنچ چکی ہے۔ امریکہ، کینیڈا، روس، جرمنی، سوُئیڈن،ا ور مشرقِ وُسطیٰ کے بعض ممالک میں یہ زبان ایک با وقار مُقام حاصل کر چکی ہے ، اور اس کامیابی کا سہرا جن حضرات کے سر ہے ، ان میں سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اردو کی خدمت میں دن رات ایک کرتے ہوئے انہیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مشاعرے کے بارے میں بعض نقّادوں کی رائے یہ ہے کہ مُشاعرہ اب پایۂ اعتبار سے گر چکا ہے ، اور اردو کے فروغ کو یہ اب کوئی فیض نہیں پہنچاسکتا۔ میں اس رائے سے مُتّفق نہیں ہوں۔ بیرونی ملکوں میں اردو کی ہر دلعزیزی نے جو دن دونی اور رات چوگنی ترقی کی ہے ، وہ بڑی حد تک مشاعرے کی بدولت ہوئی ہے۔

ہندوستان اور پاکستان میں بھی نئی نسل کو اردو سے قریب لانے کے لیے مشاعرے نے جو کام کیا ہے ، وہ سیمیناروں اور توسیعی لیکچروں نے نہیں کیا۔ میں تو یہ کہوں گا کہ نئی نسل کے دلوں میں اردو کے لیے مشاعرے نے پچّاسی فیصد [85%] کشش پیدا کی ہے ، اور سیمیناروں اور توسیعی لیکچروں نے پندرہ فیصد [15%]۔ باہر کے ملکوں میں مشاعرہ سننے والوں کی تعداد میں جو حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے ، اس کے برابر تعداد اردو لیکچروں اور تقریروں میں دیکھنے کے لیے ہمیں ابھی پچّیس [25] سال انتظار کرنا ہو گا۔

تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے عاشقانِ اردو نے باہر ملکوں میں اردو کی مقبولیت کو جس مقام پر پہنچایا ہے ، وہ ماورائے تعریف ہے ، اور اس پر ایک نہیں متعدد تحقیقی مقالے لکھنے کی ضرورت ہے۔

سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی نے اس ضمن میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ ان کی صلاحیّتوں کا ایک رُخ ہے۔ اتنا ہی اہم ان کی تخلیقی صلاحیّتوں کا پہلو ہے۔ میں ان کا کلام ایک مُدّت سے ادبی جرائد میں پڑھ رہا ہوں،ا ور 1962ء سے انہیں یورپ، امریکہ، اور پاکستان کے مشاعروں میں بھی سُن رہا ہوں۔ اُن کا کلام رسائل میں پڑھ کے بھی مجھے اس لذّت اندوزی کا احساس ہوتا ہے ، جو ان کا کلام مشاعرے میں سن کے۔ بعض حضرات جب مشاعروں میں شعراء کا تعارف کراتے ہیں تو وہ بعض دفعہ شعراء کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ ایک کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ کتابوں میں چھپنے والے مشاعرے کے شاعر ہیں،یا کتابوں کے شاعر ہیں۔ اور دوسرے کو وہ کہتے ہیں کہ یہ مشاعرے کے شاعر ہیں۔ معلوم نہیں اس تقسیم سے وہ کس کو کمتر اور کس کو برتر قرار دیتے ہیں۔ ( غالباً مشاعرے کے شاعر کو وہ کمتر درجے کا شاعر قرار دیتے ہوں گے )۔

لیکن میں اس تقسیم کو صحیح نہیں سمجھتا۔ شعراء بہت اونچے درجے کے بھی ہوتے ہیں، اور کم اونچے درجے کے بھی۔ لیکن اس تصوّر کو صحیح نہیں سمجھتا کہ مشاعرے کے شعراء یا ترنّم سے پڑھنے والے شعراء کسی بھی طرح کم پائے کے ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو نواب سائلؔ دہلوی مرحوم، جگرؔ مرادآبادی مرحوم، حفیظؔ جالندھری مرحوم، اور احسانؔ دانش مرحوم کو ہم کس درجے میں رکھیں گے ؟ یقیناً یہ شعراء اردو شاعری کی آبرو رہے ہیں، اور علاّمہ اقباؔل ؒ کا ذکر تو میں بھول ہی گیا ہوں۔ انہوں نے اپنی بعض نظمیں انجمنِ حمایت الاسلام کے جلسوں میں ترنّم سے پڑھ کے سامعین کو رُلا دیا ہے۔ اور ہاں، مومن خاں مومنؔ کے بارے میں بھی یہی پڑھا ہے کہ وہ کلام ترنّم سے پڑھتے تھے۔ کلام بُلند پایہ، اور دلکش ترنّم سے پڑھا جائے تو اردو شاعری کی دلکشی سامعین کے دل میں بیٹھ جاتی ہے ، اور اس طرح سے اردو زبان کو جو با وقار احترام اور پسندیدگی ملتی ہے وہ کسی اور ذریعے سے نہیں مل سکتی۔ میں بڑی آسانی سے حنیف اخگرؔ ملیح آبادی صاحب کا شمار نواب سائلؔ ، جگرؔ صاحب، حفیظؔ صاحب، اور احسانؔ دانش کے زُمرے میں کرتا ہوں، جنہوں نے اپنے حُسنِ کلام اور ترنّم سے مُشاعروں کے ذریعے بھی اردو شعر و ادب کو چار چاند لگائے ہیں۔

سیّد محمّد حنیف اخگرؔ کے اس سے پہلے کے مجموعۂ کلام پر میں ایک مضمون لکھ چکا ہوں۔ ہر شاعر کا کلام جہاں مُختلف کیفیتوں کا مجموعہ ہوتا ہے وہاں اس کی اپنی ذات کا بھی آئینہ ہوتا ہے۔ مذکورہ مجموعۂ کلام [ خیاباں] ، ادبی، سماجی، قومی، سیاسی شاعری اور غزلیات پر مشتمل ہے۔ زیرِ نظر مجموعۂ کلام ’’ خُلقِ مُجسّم‘‘ ایک بُلند تر موضوع سے متعلّق ہے ، اور وہ موضوع ہے روحانیت اور مذہبیات سے متعلّق، اور اس حسن سے متعلّق جسے ہماری ظاہر کی آنکھیں نہیں، بلکہ باطن کی آنکھیں [ہی] دیکھ سکتی ہیں۔

میں نے زیرِ نظر کتاب پر لکھتے ہوئے حُسن کا ذکر کیا ہے۔ وہ حُسن، جسے ہماری باطنی آنکھیں، ظاہری آنکھوں کی بہ نسبت زیادہ اچھی طرح دیکھ سکتی ہیں۔ کائنات کو جب ہم حسین کہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ کائنات کا خالق حسین تر ہو گا۔ مجھ ایسے گُناہگار لوگ تو اُسے نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن جن بُزرگانِ دین نے اُسے دیکھا ہے انہوں نے کلام پاک کی تقلید میں ’’نُورالسمٰوات و الارض‘‘ کہا ہے۔ یہ تشبیہ تام ہے۔ اب زمین و آسمان کے نُور سے زیادہ اور کیا شے حسین ہوسکتی ہے۔ چنانچہ، اس کی تعریف میں اور اس کے بھیجے ہوئے مذہب اور پُہنچی ہوئی شخصیتوں پر قلم اُٹھانے والا شاعر قارئین کے صرف شکریہ ہی کا نہیں، بلکہ دلی مُبارکباد کا بھی مُستحق ہے۔

حمد، مُناجات، نعت اور منقبت کے مضامین ہماری اردو اور فارسی شاعری کے محبوب ترین موضوعات ہیں۔ ان موضوعات پر اردو شاعروں نے بِلا امتیازِ مذہب و ملّت قلم اُٹھایا ہے ، اور پورے خلوص کے ساتھ۔

میں اپنے اس ابتدائیے میں اب اس موضوع کو نہیں چھیڑوں گا کہ کس کس شاعر نے حمد اور نعت لکھی ہے ، کیوں کہ اس سے میں اپنے موضوع سے دور چلا جاؤں گا۔ میں صرف سیّد محمّد حنیف اخگرؔ کی حمدیہ ،نعتیہ، اور منقبتیہ شاعری ہی کا ذکر کروں گا۔

شاعری کا ذکر کرتے ہوئے ارسطو نے بڑی عمدہ بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بڑے خیال کو ہم جب تک جذبے میں نہ سمو لیں بڑی شاعری معرضِ وجود میں نہیں آسکتی۔ اس خیال کو کالرج نے اپنی تحریروں میں تین موقعوں پر دہرایا ہے۔ ارسطو اور کالرج کا کہنا ہے کہ اُصولی طور پر خیال کوئی بھی ہو، فکر کوئی بھی ہو، وہ جب تک جذبے میں تحلیل نہ ہو جائے ، جذبے میں سمو نہ لیا جائے ، سچّی اور کھری شاعری معرض وجود میں نہیں آسکے گی۔ ارسطو اور کالرج خیال کو جذبے میں سمونے کی بات کر رہے ہیں، فکر کو فکرِ محسوس میں تبدیل کرنے کی بات کر رہے ہیں، خیال یا فکر کو شاعری کا یا موزونیت کا لباس پہنا دینے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کی شاعری میں اور زیرِ نظر مجموعۂ کلام میں جو اس وقت ایک مُسوّدے کی صورت میں میرے سامنے ہے ، یہ خصوصیت مجھے خاص طور سے نظر آئی ہے کہ حنیف اخگرؔ نے فکر اور شعریت کو اس طرح یک جان کر دیا ہے کہ ایک کو دوسرے سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سککتا۔ یہاں حمد کے دو ایک اشعار دیکھیے ؂

 

ذرا کرشمۂ قدرت دکھا دیا تو نے

تو مُشتِ خاک کو آدم بنا دیا تو نے

 

بُلا کے عرش پہ پردہ اٹھا دیا تو نے

خود اپنے جلوے کو جلوہ دکھا دیا تو نے

 

بہ انتہائے کرم آخری کتاب کے ساتھ

نبیؐ کو بھیج کے جینا سکھا دیا تو نے

 

اِس حمد کے دوسرے شعر ہی میں رسولِ اکرمؐ کے سفرِ معراج کا ذکر اِس شاعرانہ خوبصورتی کے ساتھ دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ شاعر نے اس شعر میں ایک جہانِ معنی بند کر دیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی دو شانیں ہیں۔ ایک عالمِ لاہوت میں، اور ایک عالمِ ناسوت میں۔ عالمِ لاہوت میں جب اللہ تعالیٰ نے ، یا اللہ تعالیٰ کی ذات نے ، اپنے آپ کو اپنی صفت کی صورت میں دیکھنا چاہا تو اپنی ذات کی پہلی صفت جو اللہ تعالیٰ کو نظر آئی وہ رسولِ اکرم کی ذات تھی، اور سفرِ معراج کا جب وقت آیا تو رسولِ اکرمؐ کو عالمِ ناسوت میں آئے خاصی مُدّت گُزر چکی تھی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی صفت سے مُلاقات کر رہی تھی، اور درمیان میں فاصلہ قابِ قوسین کا تھا۔

اس شعر کا خاص طور سے ذکر اس لیے نہیں کر رہا ہوں کہ یہ شعر قاری کے تصوّر کو روزِ ازل سے رسولِ اکرمؐ کے سفرِ معراج کے وقت تک لے جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں فکر اور جذبہ اس طرح ایک دوسرے سے گھُل مِل جاتے ہیں کہ فکر، فکرِ محسوس بن گیا ہے۔یعنی فکر کو جذبے سے الگ کر کے یا جذبے کو فکر سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سککتا۔

نعت کا جہاں تک تعلّق ہے میں نے اپنی زندگی میں اردو اور فارسی کی بہت نعتیں پڑھی ہیں۔ ایسی بھی جو زبانِ زدِ خاص و عام ہو چکی ہیں۔ موجودہ دور میں بھی بہت اچھی نعتیں کہی جا رہی ہیں، لیکن بعض نئی نعتوں میں مجھے ایک بات نظر آ رہی ہے جو اگر نہ ہو تو بہتر ہے ، اور وہ یہ ہے کہ بعض شعراء جوشِ عقیدت میں نعت کو حمد بنا دیتے ہیں۔

میری ناقص رائے میں حمد اور نعت بہت نازک موضوعات ہیں، بہت نازک تر فنون ہیں۔ ان کو ایک دوسرے میں گُڈ مُڈ نہیں کرنا چاہیے۔ میری مادری زبان اردو نہیں ہے ، سرائیکی ہے۔ مُدّت ہوئی جب میں عیسیٰ خیل اور میانوالی میں مُقیم تھا، تو ایک نعت بہت مقبول تھی، جس کے صرف دو مصرعے مجھے یاد ہیں۔ وہ میں نقلِ کُفر ، کُفر نہ باشد، کے طور پر یہاں درج کر رہا ہوں:۔

 

احمد تے احد وچ فرق نہ کوئی

ہک نقطے شور مچایا

 

مُجھے یاد ہے کہ جب ہم( مسلمان اور ہندو کم عمر طالب علم) مل کر یہ گایا کرتے تھے تو بعض مُسلمان بُزرگ ہمیں [اسے ] گانے سے روک دیا کرتے تھے۔

اسی طرح مجھے یاد ہے کہ لاہور کے ایک نعتیہ مشاعرے میں صدرِ مشاعرہ پنڈت ہری چند اخترؔ نے شعراء کو یہ نصیحت کی تھی کہ رسولِ اکرمؐ کے حُسنِ صورت کے ساتھ حُسنِ سیرت کا اور انؐ کے سماجی کارناموں کا ذکر بھی نعت میں لانا ضروری ہے۔

میں نے جناب حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کے نعتیہ کلام میں یہ بات دیکھی ہے کہ انہوں نے نعت کو نعت کی حدود کے اندر رکھا ہے ، اور حمد کو حمد کی حدود کے اندر۔

 

مُجھے ذوقِ سجدہ ملا تو آپؐ کے نقشِ پا سے ملا مجھے

جو دیا خدا نے دیا، مگر درِ مُصطفے ٰ ؐ سے ملا مجھے

 

سُنیں برگ و بار کی آہٹیں ،ملیں مہر و ماہ سے رونقیں

مگر ان پہ فکر کا حکمِ رب لبِ مُجتبے ٰ ؐ سے ملا مجھے

 

ہے در اصل حاصلِ زندگی، درِ مُصطفٰے کی گداگری

یہ عظیم منصب بندگی جو ملا، خدا سے ملا مجھے

 

اِسی طرح کی مُتعدّد مثالیں اس کتاب میں سے پیش کی جا سکتی ہیں؂

 

تمام حمد ہے اس ربِّ انس و جاں کے لیے

ہر ایک نعت ہے سرکارِ ؐ دوجہاں کے لیے

 

زمیں پہ ٹاٹ کا بستر تو ہاتھ کا تکیہ

یہ اہتمام تھا آرامِ جسم و جاں کے لیے

 

اب نعت شریف کا ذکر آ گیا تو غالب کی زمین میں بھی اخگرؔ صاحب کی ایک نعت کے چند اشعار دیکھ لیجیے ؂

 

واللہ نکھر جائے مرا حُسنِ بیاں اور

تحسینِ مُحمّد ؐ جو رہے وردِ زباں اور

 

وہ ختمِ رُسلؐ رشکِ مہ و مہر ہے جس سے

انوارِ الہٰی ہوئے دنیا پہ عیاں اور

 

گنبد کے تلے محفلِ مہر و مہ و انجم

ہیں شہر مدینہ کے زمیں اور زماں اور

 

ہر لحظہ ہے آنکھوں سے رواں یادِ مدینہ

اور کیف کا عالم ہے سرِ خلوتِ جاں اور

 

مثالیں کہاں تک پیش کی جائیں۔ چاہتا تو میں یہ ہوں کہ شاعر اور قاری کے درمیان حائل نہ رہوں، لیکن قلم ہے کہ رُکتا ہی نہیں ہے۔ نئی تشبیہیں، نئے استعاروں اور نئی علامات سے سجایا ہوا مُسوّدے کا ہر صفحہ راقم التحریر کو پڑھنے کی اور مَسحُور کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔

 

اقبالؔ کی شُہرۂ آفاق غزل کی زمین میں؂

 

مِرا شوقِ نعتِ رسولؐ ہے کبھی سوز میں کبھی ساز میں

کبھی نذر نغمۂ جاں کروں کبھی دل شعورِ نیاز میں

 

میں تو چند سجدے گزار آیا ہوں، سرزمینِ حجاز میں

ابھی بے حساب تڑپ رہے ہیں، مِری جبینِ نیاز میں

 

آفرینشِ حضرت علی ابنِ علی طالب کرم اللہ وجہ کا مطلع دیکھیے ، اس میں ایک تاریخی واقعے کو جس کا پس منظر رُوحانیت ہے ، اخگرؔ صاحب نے اُسے اسی طرح جذبے میں سمویا ہے کہ تاریخ الگ اور شاعری الگ نظر نہیں آتی ہے ، بلکہ تاریخ شعریت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی ولادت کعبہ شریف میں ہوئی۔ اب اس تاریخی واقعے کے پیشِ نظر یہ مطلع اور شعر دیکھیے گا۔۔

 

وہ جس کے حُکم سے عیسیٰ ہوئے تھے بے پدر پیدا

ابو طالب کا کعبے میں ہوا نورِ نظر پیدا

 

ہوئے نام خدا پیدا، خدا کے گھر میں تو گویا

’’خدائی جگمگا اٹھی، ہوا ایسا قمر پیدا‘‘

 

رسولِ اکرمؐ نے فرمایا تھا ’’ میں شہرِ علم ہوں، اور علیؓ اس شہرِ علم کا دروازہ ہیں‘‘۔ اور ویسے بھی جب حضرت علیؓ کا ذکر آتا ہے تو ان کی شہ زوری کے ساتھ ان کے تبحُّرِ علمی کا تصوّر بھی سامنے آ جاتا ہے۔ دیکھیے سید حنیف اخگرؔ کے سامنے یہ تصوّر کس انداز سے آتا ہے ؂

 

علیؓ ہیں مظہرِ نورِ خدا، حُسنِ خدائی بھی

کریں ذکر ان کا ہوں گے خود بخود فکر و نظر پیدا

 

اسی کی دھار نے ہر نغمۂ فتح و ظفر لکھا

جو تیغِ حیدری روکے ، نہیں، ایسی سَپر پیدا

 

بنامِ صدقۂ نامِ علی اللہ کر دے گا

مرے عرضِ ہنر میں وُسعتِ فکر و نظر پیدا

 

آفرینش حضرت امام حُسینؓ کے ذکر میں حنیف اخگرؔ ملیح آبادی نے جو کمالِ فن دکھایا ہے ، وہ میرے فکر اور میرے تصوّر کی حُدود سے میلوں آگے نکل گیا ہے۔ مذکورہ نظم چھتّیس[36] اشعار پر مشتمل ہے ، اور میرے لیے مُقامِ حیرت یہ ہے کہ چھتّیس مطلعے ہیں،ا ور تمام حُسنِ بیان کے نور سے مُنوّر۔ میرا جی چاہتا ہے کہ نمونے کے طور پر چھتّیس کے چھتّیس مطلعے یہاں درج کر دوں۔ لیکن ایک بند کے آخری شعر، اور اس کے بعد کے بند کے چند ابتدائی اشعار پیش کرتا ہوں ؂

 

آئے حُسینؓ شانِ سیادت لیے ہوئے

عشقِ نبیؐ کُلاہِ امامت لیے ہوئے

 

سبطِ نبیؐ ، نبیؐ کی شباہت لیے ہوئے

اپنے پدر کی شانِ جلالت لیے ہوئے

 

چہرے پہ ایک نورِ صداقت لیے ہوئے

ذہنِ رسا میں، گنجِ فراست لیے ہوئے

 

احیائے دینِ حق کی امانت لیے ہوئے

قسمت میں کربلا کی مُسافت لیے ہوئے

 

لہجے میں انگبیں کی حلاوت لیے ہوئے

فطرت میں صبر و شکر کی عادت لیے ہوئے

 

عزمِ نبیؐ ، علی کی شُجاعت لیے ہوئے

عظمت کی ایک ایک علامت لیے ہوئے

 

ایماں کی اپنے خوں میں حرارت لیے ہوئے

اور اپنے آب و گِل میں امامت لیے ہوئے

 

میرے نزدیک یہ مجموعۂ کلام اوّل سے آخر تک ایک میخانۂ الہام ہے۔ شاعرانہ محاسن سے لبریز، جس کا بیان یا جس کی تعریف لفظوں میں ممکن نہیں۔ اسے پڑھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ عقیدت شعریت میں ڈھل گئی ہے ، یا شعریت عقیدت میں۔ جیسا کہ میں پہلے کہیں لکھ چکا ہوں، اس مجموعۂ کلام میں شاعر کی فکر محسوس بن کر شعریت میں ڈھل گیا ہے۔ آج دنیا بڑی حد تک جس راستے پر چل پڑی[ہے ]، اس کے متعلّق کہا جا سککتا ہے :۔

 

ترسم نہ رسی بہ کعبہ اے اعرابی

کیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است

 

میرے اسی خیال کے پیشِ نظر اسی شاعری کی دنیا کو ضرورت ہے ، جس شاعری پر یہ کتاب مشتمل ہے۔ اس تصنیف پر جہاں میں سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی صاحب کو دلی مبارکباد دیتا ہوں۔ وہاں میں اس شعری اضافے پر اردو دنیا کو بھی مُبارکباد دیتا ہوں، کیوں کہ یہ مجموعۂ کلام اسی شاعری پر مشتمل ہے ، جس کو روح کی اور دل کی بُلند پایہ شاعری کہا جا سککتا ہے۔

دہلی، مئی 6, 2002ء

٭

 

 

 

 

 

 

    پرتوِ شعورِ عشق

 

                       پروفیسر مُحسِن احسان

    سابق صدر، شعبۂ انگریزی، پشاور یونی ورسٹی

 

 

 

سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیحآبادی اپنے پہلے مجموعۂ حمد و نعت و سلام و مَنقبَت [خُلقِ مُجسّم] کے ساتھ بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہیں۔ انہیں اور ہر مسلمان کو جناب احمدِ  مُجتبیٰ محمّدِ مُصطفیٰ کی ذاتِ گرامی سے جو محبّت و وابستگی ہے ، اس کا اظہار الفاظ میں مُمکن نہیں۔ یہ عقیدت و محبّت و شیفتگی حاصلِ دین بھی ہے ، پیمانۂ ایمان بھی ہے ، اور اخلاص و صداقت کا معیار بھی۔ یہ تعلّق جس قدر گہرا اور راسخ ہوتا ہے ، اسی سے اللہ تعالیٰ کی معرفت، عقیدۂ توحید میں پُختگی اور ایمان میں ثابت قدمی ثابت ہوتی ہے ، کہ یہ نام اہلِ ایمان کو تازہ دم بھی رکھتا ہے ، اور یہی محبّت و محبوبیت کا سرچشمہ بھی ہے۔ اقبالؔ نے کہا :۔۔

 

نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

 

روایت ہے کہ جناب ختمی مرتبت ﷺ کے صحابۂ کرامؓ میں ایک خاص جماعت شعراء کی تھی۔ آقا و مولا ﷺ کے حکم سے ان حضرات کے لیے منبر لگایا جاتا، جہاں بیٹھ کر یہ حضرات حضورِ اکرمؐ اور حاضرینِ محفل ، صحابۂ کرامؓ کو اپنا کلام سناتے۔ یہی نہیں بلکہ رحمت اللعالمینؐ نے ان میں سے بعض صحابہؓ کو صلۂ نعت گوئی میں جنّت کا وعدہ [بھی]فرمایا ہے۔

سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کی زندگی کی آخری تمنّا دربارِ رسول اکرمؐ میں حاضری اور اسی خاک میں خاک ہو جانے کی ہے ، اور اس تمنّا کے کئی اشارے حنیف صاحب نے بارہا اپنی گُفتگُو اور اپنے نعتیہ اشعار میں کئے ہیں۔ مُجھے اعتراف ہے کہ میں باقاعدہ نمازیں ادا نہیں کرتا، لیکن نعت مری بہت بڑی کمزوری یا توانائی ہے۔ یہ میرے لیے تسکینِ قلب اور سکونِ جاں فراہم کرتی ہے۔ اور میں اس سے انتہائی محبّت اور احترام سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔

برادرم حنیف اخگرؔ کا یہ کلام میں نے بڑے ذوق و شوق سے پڑھا ہے۔ اس میں والہانہ شیفتگی، اور شدّتِ جذبات کے ساتھ ساتھ آدابِ مدحت سے آگاہی بھی دِکھائی دیتی ہے۔ جو، اُن کے تربیت یافتہ شعورِ عشق کا پرتو ہے۔

یہ نعتیں حُبِّ رسولؐ کے گہرے جذبے سے سرشار ہیں۔ اِن میں روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے کی ساری کیفیات موجود ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ مجموعۂ نعت ان کی حیاتِ مادّی کے لیے مژدۂ جانفزا، اور نجاتِ اخروی کے لیے وسیلۂ قبولیت ہو۔

مُجھ گنہگار کی بُہت سی دعائیں ان کے لیے ہیں۔

٭

 

 

 

 

 

عشقِ رسولؐ کی روشنی

 

                   ڈاکٹر پیرزادہ قاسمؔ

وائس چانسلر، فیڈرل اردو یونی ورسٹی، کراچی، [حالیہ وائس چانسلر، کراچی یونی ورسٹی]

 

جناب حنیف اخگرؔ ملیح آبادی، ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے لیے معروف و معتبر[ شخصیت] سمجھے جاتے ہیں۔ اقوامِ مُتّحدہ کے دفاتر میں انہوں نے اہم ذمّہ داریاں احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ ایک لمبی مُدّت سے نیویارک میں مُقیم ہیں،ا ور شمالی امریکہ کی ادبی فضا کو بنانے اور سنوارنے میں اُن کی خدمات گرانقدر اور قابلِ تحسین ہیں۔ مگر ان تمام احوال اور آثار کے ساتھ حضرت حنیف اخگرؔ کی سب سے اہم خصوصیات میں مشرقی روایات سے غیر مشروط محبّت اور شاعری سے عشق نُمایاں ہے۔

 

پھر یہ بھی کہ انہوں نے اپنی تربیتِ ذات کچھ اس طرح کی ہے کہ اس میں اسلامی ثقافت ک پوری پاسداری اور سب سے بڑھ کر عشقِ رسولﷺ کی روشنی انہیں اپنے ہم عصروں میں اہم اور معتبر بنائے ہوئے ہے۔ غزلوں کے دو نہایت خوبصورت اور وقیع مجموعہ ہائے کلام کے بعد، جنہیں، بہت پذیرائی حاصل ہوئی، اب حضرت حنیف اخگرؔ اپنے نعتیہ کلام کا مجموعہ ‘خلقِ مُجسّم’ کے عنوان سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس مجموعۂ سُخن میں جو گُلہائے عقیدت پیش کیے گئے ہیں ان کی تخلیق اور توفیق عشقِ رسولؐ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

حضرت حنیف اخگرؔ کی تمام نعتوں میں نبی کریمؐ سے ایک والہانہ جذبۂ عقیدت و محبّت اپنے تمام روشن اور تابناک پہلوؤں کے ساتھ جلوہ نمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور یہ سب کچھ خُدائے بزرگ و برتر کی عطائے خاص ہے ، جس کی تمنّا وہ حمدِ ربِّ جلیل میں یوں کرتے نظر آتے ہیں؂

 

تو مجھے اپنی تمنّا کی عطا کر توفیق

اور مری عرضِ تمنّا کو پذیرائی دے

 

اُن کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں یہ توفیق نصیب ہوئی، اور ان کی تمنّا کو پذیرائی بھی ملی۔ اور یوں وہ اس سعادت سے بہرہ مند ہوسکے کہ حرفِ نعت لکھیں، اور عشقِ رسولؐ کو اپنی فکر کا محور بنائے رکھیں۔ ان کے نعتیہ اشعار پر نظر ڈالیے ؂

 

میں ایسے اسمِ محمّد ؐ لکھوں کہ اس کے بعد

یہ میرا صفحۂ ہستی تمام ہو جائے

 

ساعتِ مرگ سے محشر کی گھڑی تک ان کو

لبِ خاموش کے لہجے میں پکارا کرنا

 

دل مرا بے بساط تھا ایک دیا بجھا ہوا

نعت سنی تو جل اٹھا ایک دیا بجھا ہوا

 

جنّت ہے یہیں موت ہے برحق تو ہم اُٹھ کر

سرکارؐ کی دہلیز سے جائیں بھی کہاں اور

 

اس طرف شہرِ نبیؐ ہے اس طرف خلدِ بریں

جائیں گے لیکن اِدھر ہوکر اُدھر جائیں گے ہم

 

دمِ آخر تھی جو صورت سرِ محشر ہے وہی

لب پہ تھی نعتِ نبیؐ نعتِ نبیؐ ہے اب بھی

 

حضرت حنیف اخگرؔ کی نعت کے یہ اشعار میری اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی کریمؐ سے اپنی محبّت و عقیدت کو ایک ارفع اور نفیس ترین اظہار کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کی نعتیں حُسنِ عقیدت، بہترین لفظی انتخاب،ا ور نغمگی، غرض تمام ظاہری خوبیوں سے مُرصّع ہیں۔ ایسی خوبصورت نعتیں کہہ کر وہ خوب بھی یقیناً اس احساسِ آسودگی اور طمانیتِ قلب سے معمور ہوئے ہوں گے جو کم کم نصیب ہوتی ہے۔

ان کے اس نعتیہ شعر نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا، کہ یہ حنیف اخگرؔ صاحب کی شخصیت، فنّی مہارت، اور عشقِ رسولﷺؐ سے مُکمّل وابستگی کی دلیل ہے۔۔

 

بحرِ توصیفِ مُحمّد ہی کی اک موج ہوں میں

موج بھی ایسی کہ طوفان ہیں ساحل میرے

مُجھے اُمّید ہے کہ ان کے اس مجموعۂ نعت کو پذیرائی اور دائمی مقبولیت نصیب ہو گی۔

٭

 

 

 

 

 

 

 

‘‘خُلقِ مُجسّم‘‘ کا شاعر

 

 

                   ڈاکٹر عروج اختر زیدی

 

zaidis@mnsi.net؛ uazaidi@home.com
صدر، حلقۂ اربابِ قلم، شمالی امریکہ – وِنڈسر، کینیڈا

 

نیویارک کے غوغائے رستا خیز[رست و خیز]* میں ایک سعید اور بالیدہ روح ایسی بھی ہے ، جو بنی نوعِ انسان کے اس بحرِ بیکنار کے تمام ہنگاموں سے بے نیاز، جذبۂ حبِّ نبیؐ سے یوں سرشار ہے کہ جب کبھی حضورؐ کا اسمِ مبارک یا حضور کی آل کا ذکر اس کی سماعت کی حدوں میں ہوتا ہے تو اس کی آنکھیں وفورِ عقیدت سے ، آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں۔

کسی کے کلام میں احترام کے ساتھ ساتھ اتنا سوز و گداز صرف قوّتِ بازو یا زورِ قلم سے نہیں پیدا ہوتا؛ یہ سعادت صرف خدائے بخشندہ کا عطیہ ہے ، اور جناب حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کو اس کا حصّہ وافر مقدار میں عطا کیا گیا ہے۔

شمالی امریکہ میں جن اہلِ قلم نے اردو زبان و ادب کی نُمایاں خدمات سرانجام دی ہیں ان میں جناب حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کا نام سرِ فہرست ہے۔ اُن کے زیرِ قیادت حلقۂ فن و ادب شمالی امریکہ، نیویارک نے ان گنت بین الاقوامی ادبی محافل منعقد کی ہیں۔ ان محافل سے اردو شعر و سخن کی بزم میں جو چراغاں ہوا ہے ، اس کی روشنی صرف نیویارک تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ وہ امریکہ ، کینیڈا، اور یورپ میں وہنے والی ادبی سرگرمیوں کے لیے مشعلِ راہ بنی۔

‘‘خلقِ مُجسّم‘‘ جناب سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کا مجموعہ ء نعت ہے۔ اس مجموعۂ نعت میں حمد و منقبت کی بھی حسین آمیزش ہے۔ لیکن اس کا بنیادی مقصد کیونکہ بارگاہِ رسالت میں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے ، اس لیے نعتیہ حصّہ حمد منقبت پر حاوی ہے۔ فنِ نعت گوئی ایک شاداب و سدا بہار فن ہے۔ ایک گلشنِ بے خزاں ہے۔ اس کی تازگی کا سلسلہ ابدالآباد تک جاری رہے گا۔ صنفِ نعت اظہارِ محبّت و عقیدت کا وہ ذریعہ ہے جس کی ابتداء کلام ِ الٰہی سے ہوتی ہے۔ دورِ رسالت میں حضرتِ کعبؓ بن زہیر اور حضرتِ حسّانؓ بن ثابت سے لے کے آج تک ان گنت عقیدت مندانِ رسولؐ نے اِس صنفِ سُخن کے ذریعہ اپنی محبّت کے پھول درِ بارگاہِ رسالت پر نچھاور کیے ہیں، اور نعت گوئی کو اپنے لیے ذریعہ ء مغفرت گردانا ہے۔ حضورؐ کی محبّت و عقیدت ان کے معتقدین میں کچھ اس طرح جاگزیں ہے کہ ہر ساعت سپاس گزار اپنی تمام تخلیقی قوّتوں اور صلاحیّتوں کے با وصف [باوجود] اپنے آپ کو اپنے جذباتِ عقیدت کے اظہار پر قادر نہیں سمجھتا۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:۔

 

مجلسِ تمام گشت و بپاں رسید عمر

ماہمچناں بہ اوّل وصفِ تو ماندہ ایم

 

ہزار بار بشویم دہن زِ مشک و گلاب

ہنوز نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبسیت

 

خواجہ عزّت بخاری فرماتے ہیں:۔

 

ادب گاہیت زیرِ آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ اینجا

 

غالبؔ جیسا قادرالکلام شاعر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے :۔

 

غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزدان گزاشتیم

کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است

 

یا

 

من خود خجل کہ حقِّ ستایش ادا نہ شُد

 

حنیف اخگرؔ بھی اس سلسلہ میں اپنے عجزِ بیان کے معترف ہیں،ا ور اس کا اظہار انہوں نے اپنی نعتوں میں جا بجا کیا ہے۔ اس مجموعہ کی تمام نعتیں غزلیہ ہیئت میں کہی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حنیف اخگرؔ صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ اور ان کا فنِ شاعری غزل ہی کے دامن میں پروان چڑھا ہے۔ ان کی غزلوں کے مجموعے ، ’’چراغاں‘‘، اور ’’خیاباں‘‘ شائع ہو کر اہلِ ذوق سے دادِ سُخن لے چکے ہیں۔ یوں وہ غزل سے نعت نگاری کی جانب آئے ہیں۔ اس لیے ان کی نعت میں کہیں کہیں غزل کی رمق اور غزل میں نعت کے جذبات محسوس کیے جا سککتے ہیں۔ مثلاً، ان کی ایک غزل کا یہ شعر:۔

 

مِل جائے ان کا نقشِ کفِ پا اگر کہیں

اک اک لکیر جزو رگِ جاں کریں گے ہم

 

حنیف صاحب کی غزل میں نعتیہ مضامین خاصی تعداد میں ملتے ہیں، اور نعت نگاری کی جانب سفر کرنے کا جذبہ کا بھی اظہار ملتا ہے :۔

 

اِس طرف اک میکدہ ہے ، اُس طرف بابِ حرم

جائیں گے لیکن اِدھر ہو کر اُدھر ہم

 

حنیف اخگرؔ صاحب کی غزل کے متعلّق جناب احمد ندیم قاسمی صاحب نے کہا ہے کہ:۔

۔‘‘حنیف اخگرؔ کی غزل جگرؔ مُراد آبادی اور اصغرؔ گونڈوی کی غزل کی توسیع ہے۔ رنگ و آہنگِ تغزّل وہی ہے ، مگر ان کی غزل کے ایک ایک شعر میں ان کی بھرپور انفرادیت کچھ اس خوبی سے اظہار پاتی ہے کہ شعر میں آفاق گیر وُسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ اخگرؔ کی غزل میں حیرت انگیز بے ساختگی ہے ، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ سامنے کی بات سادگی سے کہہ دی گئی ہے ، مگر اس سادگی میں اتنی گھمبیرتا ہے اور ساتھ ساتھ اتنا جیتا جاگتا عصری شعور ہے کہ یہ غزل اردو کی جدید تر غزل کے جملہ عناصر سے مُزّین ہو جاتی ہے۔ اس بیدار نگاہی کے ساتھ ساتھ جذبہ و احساس کی باریک سے باریک پرتیں بھی کھُلتی محسوس ہوتی ہیں۔ یوں حنیف اخگرؔ کی غزل ظاہر و باطن کی یکجائی کی غزل ہے۔ اور یہ وہ روشن صفت ہے کہ جس نے ان کے پورے کلام کو مُنوّر کر رکھا ہے ‘‘۔

میری رائے میں حنیف اخگرؔ صاحب کی بھرپور انفرادیت اور بے ساختگی انکے نعتیہ اشعار میں بھی اظہار پاتی ہے۔ اور ان کی نعت بھی ظاہر و باطن کی یکجائی کی بہت عمدہ مثال ہے۔ عرفیؔ نے ’’رہِ نعت‘‘ کو ’’دَمِ تیغ‘‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے ہر نعت نگار کو کمالِ احتیاط کی تلقین کی ہے۔ جنابِ حنیف اخگرؔ اس دھار پر سے بسلامت گزر جانے والے شعراء میں سے ہیں۔ کیونکہ ان کا اثاثہ عشقِ رسولؐ ہے۔ وہ اس جذبۂ عشق سے آگاہ ہیں۔ انہیں مبداء فیاض سے قدرتِ کلام، جذبۂ صادق اور دقّتِ نگاہ کے ساتھ ساتھ حسنِ احتیاط اور پاسِ ادب بھی عطا ہوا ہے۔ خدائے بخشندہ سے میری یہ التجا ہے کہ حنیف اخگرؔ صاحب کے اس مجموعۂ نعت کو قبولیت سے سرفراز فرمائے ، اور ان کے درجات کو بلند کرے۔

حنیف صاحب نے گزشتہ دو، تین دہائیوں سے ازراہِ محبّت و شفقت جس حُسنِ ظنِ کریمانہ کا اظہار اس خاکسار کے مُتعلّق کیا ہے ، اور جو حُسنِ سلوک میرے ساتھ روا رکھا ہے ، یہ چند سطور اسی کی سپاس گزاری میں قلمبند کی گئی ہیں، جو نقدِ سُخن کا نہیں، حقیقتاً اظہارِ تشکّر کا ایک ادنیٰ پیرایہ ہے ؂

 

بیانِ قامت آن یارِ دلنواز کُنم

بہ این بہانہ مگر قدِّ خود دراز کنم

 

مُجھے یقین ہے کہ اہلِ نقد و سخن حنیف اخگرؔ صاحب کی اس کاوش کی خاطر خواہ پذیرائی فرمائیں گے ،ا ور ’’خُلقِ مُجسّم‘‘ کو نعتیہ ادب میں وہ درجہ دیں گے جس کا یہ مجموعہ ء نعت حق دار ہے۔

میں بارگاہِ الہٰی میں بصد عجز و الحاح دعاگو ہوں کہ پروردگار جناب حنیف اخگرؔ کی عمر و صحت میں برکت دے ، اور عاقبت میں انہیں فوز و فلاح سے سرفراز فرمائے۔[آمین۔]۔

 

Tel: (519) 250 – 4700

1995 Grand Marais Road West Windsor, ON

N9E1E9 Canada

uroojakhtarzaidi@gmail.com; zaidis@mnsi.net؛ uazaidi@home.com

٭

حنیف اخگر ملیح آبادی  مرحوم پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ جو ان کے مختلف شعری مجموعوں  کے دیباچوں۔تقریظوں کے طور پر کتابوں میں شامل ہیں۔

 

ماخذ:

http://akhgars.blogspot.com/

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید