فہرست مضامین
- جلتا شکارا ڈھونڈنے میں
- نعمان شوقؔ
- ہاتھ ہریالی کا اک پل میں جھٹک سکتا ہوں میں
- مسکرائیں ٹہنیاں اور رنگ و بو نے بات کی
- دھان کے کھیتوں پہ آئیں بدلیاں اڑتی ہوئی
- بہتے رہنا ایک بہانہ ہوتا ہے
- جیسے تیسے کٹ رہی ہے زندگی
- یہ بلا کا شورِ پیہم اور ہے
- اپنی آہٹ پہ چونکتا ہوں میں
- کچھ بھی کرسکتا ہوں میں لوٹ کے جانے کے سوا
- تصویر پھینک دیجئے چہرہ نہیں ہوں میں
- بڑی مشکل میں تھی یہ جان نکلی
- آسماں کیا، مری زمیں بھی نہیں
- اندر کی دنیا سے ربط بڑھاتے ہیں
- مسجد کی محراب سے دنیا دیکھی ہے
- خدا معلوم میں تم سے خفا ہوں
- گرد سے منظر اٹا ہے، کون ہے
- سلگتی جھیل پر جلتا شکارہ ڈھونڈنے میں
- روح کے چیتھڑے کرنے والی
- خود سے یوں جان چھڑاتا ہوں میں
- نہ خشکیوں پہ نہ طغیانیوں میں کھلتا ہے
- دنیا سے سن رکھا ہے مگر تجربہ نہیں
- غم کی اس درجہ فراوانی میں
- سخن کے شہر میں سکّہ بدلنے والا ہے
- دیر سے ہی ہوش تو آیا مجھے
- ختم سارے مرحلے اب پیش و پس کے ہو گئے
- تمام بے سر و سامان اڑتے پھرتے ہیں
- زرد یادوں سے بھر دیا ہے مجھے
- نام سے اس کے پکاروں خود کو
- اب وہ بھیگا جسم بانہوں میں نہیں
- ایک منظر بھی نگاہوں میں تر و تازہ نہیں
- بھر جائیں مرے زخم اشارہ بھی نہیں ہے
- آتی نہیں جب اپنی یاد
- عجب کہ درد کے ماروں کو بھول جاتی ہے
- کرم بھی اس نے بہت میرے جان و تن پہ کیا
- ہاتھ بھی چھوٹا کسی کا مل گیا آرام بھی
- سارے اڑتے ہوئے رنگوں کو مقفل کر لوں
- جامِ تہی کو خالی کیا جائے کتنی بار
- دعوتیں دیتے رہے آلام کو
- اس نے مانا کہ اگر ہم نہ دکھائی دیتے
- زمانہ کیوں نہ ہو غم خوار اس کا
- کشتی میں ہے دریا سارا بھرنے کو
- چاہے جگنو ہی سہی برسات میں
- کر دیا کس نے تباہی کے قریب
- یوں نہ بدلو اپنا چہرہ بار بار
- دل کے اندر آ بھی یار
- عین ممکن ہے کہ ابکے مری باری آئے
- مت کھائیے فریب کہ سستی ہے روشنی
- اتنی جلدی پھول مرجھاتا نہیں
- خواہشوں کو کبھی سجدہ نہ کرو
- تیرے جیسا تو نہیں ہوسکتا
- یادگار لمحوں کی تتلیاں جلا ڈالیں
- رقص کرتا ہوں کبھی نغمہ سراہوں نیند میں
- خوش ہوا میں اسے رلا کے بھی
- اسے بیکار کرنا چاہتا ہوں
- دن رات اگر در پئے آزار بنے تو
- اپنی چاہت کو مرے دکھ کے برابر کر دے
- کون اس کو چاہتا میری طرح
- کرم یہ حیرتِ نا دید سے زیادہ ہے
- پھول وہ رکھتا گیا اور میں نے روکا تک نہیں
- عقیدے طاق پہ رکھ واہمے بناتے ہیں
- وحشتوں کے پر کتر سکتا ہوں میں
- خواہش کہ مارا مارا پھرے اور گھر نہ جائے
- ہماری دنیا جہاں تک تری نظر میں ہے
- مانتا ہوں مہرباں ہے آفتاب اس پار کا
- معاملہ یہ خودی کا نہ بے خودی کا ہے
- چلّا رہے تھے لوگ ہی آب آب بے سبب
- نہ کام آسکی یاری نہ دشمنی میری
- سو مرتبہ بنایا سنوارا گیا مجھے
- چلتا ہے کس کا زور کھلے آسمان پر
- پھر کوئی آزر اٹھے گا خاک سے
- میں اک بھٹکی صدا ہوں
- قلندر اسے دیکھنے سے رہا
- حواس کو بد حواس کر جا
- الٹے سیدھے لفظ لکھوں اور سو جاؤں
- طئے جب زہر کی قیمت ہونے لگتی ہے
- کرتے ہیں ساری رات اسے یاد بے سبب
- خائف تھے جس سے ہم وہ صدا رُک گئی ہے اب
- آپ اپنی موت مر جانے دیا
- اکیلے چاند کا دکھ بانٹتا ہوں
- گہری کالی راتوں میں تابندہ رکھا
- اک آگ سی لہو میں بھڑکتی ہے دیر تک
- بھٹک رہا ہے دماغ میرا
- یہ بدن کا شور، یہ رنگِ تماشہ پھر کبھی
- فاصلے کم نہیں ہونے کے ملاقات سے بھی
- خود سے اور اپنے دلِ بیمار سے گھبرا گئے
- صندلی آواز کا سایہ پڑا
- حسن کا اک عجیب عالم ہے
- اگر دیوانگی کو شاعری کا نام مل جائے
- کہاں تک یہ فریبِ آرزو بھی
- خوش نہیں میں شہرِ ماہ و سال میں
- جتنے بھی جتن کر کے محبت سے بچا جائے
- سخت مشکل میں پڑا ہے شہر تابانی ابھی
- روز ہوتا ہے زیاں انسان کا
- بج رہی ہے پاؤں میں زنجیر ایسی
- جاں چلی جاتی ہے کروٹ سی بدلنے میں بھی
- چڑیوں نے جب پنکھ سکھانا چھوڑ دیا
- چار سو منظر میں بے چینی سی ہے
- ایک پل میں ٹوٹنے کو ہے سمندر کا سکوت
- یہاں اب شور ہی کوئی نہ سرگوشی کسی کی
جلتا شکارا ڈھونڈنے میں
(غزلیں )
نعمان شوقؔ
بیٹے
رامش لاریب
کے لئے
ہاتھ ہریالی کا اک پل میں جھٹک سکتا ہوں میں
آگ بن کر سارے جنگل میں بھڑک سکتا ہوں میں
میں اگر تجھ کو ملا سکتا ہوں مہر و ماہ سے
اپنے لکھّے پر سیاہی بھی چھڑک سکتا ہوں میں
اک زمانے بعد آیا ہاتھ اس کا ہاتھ میں
دیکھنا یہ ہے مجھے کتنا بہک سکتا ہوں میں
آئینے کا سامنا اچھا نہیں ہے باربار
ایک دن اپنی بھی آنکھوں میں کھٹک سکتا ہوں میں
کشتیاں اپنی جلا کر کیوں تم آئے میرے ساتھ
کہہ رہا تھا— مات کھا سکتا ہوں تھک سکتا ہوں میں
ہے سرِ تسلیم خم تیری حکومت کے حضور
ایک حد تک ہی مگر پیچھے سرک سکتا ہوں میں
اب اسے غرقاب کرنے کا ہنر بھی سیکھ لوں
اس شکارے کو اگر پھولوں سے ڈھک سکتا ہوں میں
٭٭
مسکرائیں ٹہنیاں اور رنگ و بو نے بات کی
ایک سوکھے پیڑ سے کل آبجو نے بات کی
حالِ دنیا پوچھ کر میں مخمصے میں پڑ گیا
سارے منظر چپ رہے تازہ لہو نے بات کی
کچھ عجب سے واقعے ہوتے رہے ہیں میرے ساتھ
لفظ نے لکھا مجھے اور گفتگو نے بات کی
دل سے دہشت گرد نے بھی پیار سے دیکھا اسے
مسکرا کر پہلی بار اک جنگجو نے بات کی
بج رہے ہیں میرے کانوں میں ستار اور جلترنگ
تو نے مجھ سے کچھ کہا،کیا تو نے مجھ سے بات کی
اس کے باطن کا بھی دنیا کو پتہ چل جائے گا
آگ پھیلے گی اگر اس صلح خو نے بات کی
اب مجھے کچھ اور بھی محتاط رہنا چاہئے
کانپتے لہجے میں کل مجھ سے عدو نے بات کی
٭٭
دھان کے کھیتوں پہ آئیں بدلیاں اڑتی ہوئی
جب جلا کر جا چکیں چنگاریاں اڑتی ہوئی
بات کچھ توہے یقیناً کاغذی پھولوں میں بھی
بے تحاشہ آ رہی ہیں تتلیاں اڑتی ہوئی
عشق کیا ہے، خوبصورت سی کوئی افواہ بس
وہ بھی، میرے اور تمہارے درمیاں اڑتی ہوئی
تیز بارش میں پرانی یاد کے پٹ کھل گئے
کل جو دیکھی نیلی پیلی چھتریاں اڑتی ہوئی
کیا نشانی دے گئے ہیں جانے والے بھی ہمیں
راکھ کے کچھ ڈھیر اور چنگاریاں اڑتی ہوئی
مجھ کو بھی پہلے پہل اچھے لگے تھے یہ گلاب
ٹہنیاں جھکتی ہوئی اور تتلیاں اڑتی ہوئی
کھولتی ہیں دھیرے دھیرے جھوٹی سرشاری کا بھید
جھومتے پیڑوں سے سوکھی پتیاں اڑتی ہوئی
٭٭
بہتے رہنا ایک بہانہ ہوتا ہے
دریا کو ساگر تک جانا ہوتا ہے
ہر رشتے کی عمر مقرر ہوتی ہے
مجبوراً بھی ہاتھ چھڑانا ہوتا ہے
دنیا کی ساری اچھّی تصویروں میں
اک چہرہ جانا پہچانا ہوتا ہے
کچّے رنگوں والی تتلی کیا جانے
بارش میں بھی ساتھ نبھانا ہوتا ہے
سب سے گہری ہوتی ہے لفظوں کی چوٹ
لہجے کا ہر وار بچانا ہوتا ہے
٭٭
جیسے تیسے کٹ رہی ہے زندگی
ایسے میں کیوں آئے اس کی یاد بھی
سات سُر لینے لگے انگڑائیاں
گنگناتی ہے کوئی چنچل ندی
چونکنا کیا اب کسی آواز پر
قیمتی جو شئے تھی خود ہی توڑ دی
کوئی میرے گھر سے لے جائے اسے
شور کرتی ہے بہت یہ خامشی
رنگ تو سارے نئے لایا تھا میں
آج پھر تصویر تیری بن گئی
چھیڑتی جاتی ہے دل کے تار کو
ناچتی گاتی ہوئی اک زندگی
٭٭
یہ بلا کا شورِ پیہم اور ہے
جان کے جانے کا ماتم اور ہے
کچھ نہ بدلے گا ترے آنے سے بھی
ابکے تنہائی کا عالم اور ہے
بھول جاتے ہیں ابد کے راہگیر
راستے میں ایک موسم اور ہے
کیا ملا اک نام کی گردان سے
اب ہمارا اسمِ اعظم اور ہے
روکتا ہوں اپنے آنسو بار بار
بھول جاتا ہوں مرا غم اور ہے
٭٭
اپنی آہٹ پہ چونکتا ہوں میں
کس کی دنیا میں آگیا ہوں میں
اس کا ملنا کوئی مذاق ہے کیا
بس خیالوں میں جی اٹھا ہوں میں
اپنے ہی کام آ نہیں سکتا
جانے کس کے لئے بنا ہوں میں
انگلیاں کٹ کے گرتی جاتی ہیں
کون سے پھول چن رہا ہوں میں
کچھ نہ تھا میرے پاس کھونے کو
تو ملا ہے تو ڈر گیا ہوں میں
٭٭
کچھ بھی کرسکتا ہوں میں لوٹ کے جانے کے سوا
کوئی چارہ نہیں دل اس کا دکھانے کے سوا
کب چراغوں سے کوئی کام لیا جائے گا
کیا کیا آپ نے بھی گھر کو جلانے کے سوا
کوئی تو نالۂ شب گیر پہ باہر نکلے
کوئی تو جاگ رہا ہو گا دوانے کے سوا
اور مت دیکھئے اب عدلِ جہانگیر کے خواب
اور کچھ کیجئے زنجیر ہلانے کے سوا
باغ کی سیر سے کیا فائدہ ہونا تھا مجھے
کچھ بھی تو چن نہ سکا اوس کے دانے کے سوا
حد تو یہ ہے کہ وہ ناکام رہا اس میں بھی
اور کیا کرنا تھا اب مجھ کو بھلانے کے سوا
٭٭
تصویر پھینک دیجئے چہرہ نہیں ہوں میں
جیسا دکھائی دیتا ہوں ویسا نہیں ہوں میں
تنہائی بانٹنے کو ملے آستیں کے سانپ
یارب! ترا کرم ہے اکیلا نہیں ہوں میں
جو شخص چاہے آ کے مجھے مسترد کرے
فرمان کوئی یا کوئی فتویٰ نہیں ہوں میں
بدلا ہے میرے ساتھ زمانے نے رنگ ڈھنگ
دنیا کے ساتھ ساتھ تو بدلا نہیں ہوں میں
لعنت سے میں بچا رہا صبر و سکون کی
اچھا ہوا کہ آج کسی کا نہیں ہوں میں
٭٭
بڑی مشکل میں تھی یہ جان نکلی
محبّت میرؔ کا دیوان نکلی
یہاں رشتوں کے زینے بن گئے ہیں
بلندی کس قدر آسان نکلی
کھلائے تھے بہت سے پھول اس نے
مگر تنہائی آتشدان نکلی
رہے ہم جس سے انکاری ہمیشہ
وہی دیوانگی پہچان نکلی
ضروری تھا بہت یہ زلزلہ بھی
حویلی کی پرانی شان نکلی
گنوا کر زندگانی دیکھ آئے
یہ مشکل تو بہت آسان نکلی
٭٭
آسماں کیا، مری زمیں بھی نہیں
تیری دنیا میں میں کہیں بھی نہیں
دور رہئے ذہین لوگوں سے
ان کی ہاں بھی نہیں ، نہیں بھی نہیں
جس کے ڈسنے سے زندگی مل جائے
اب تو وہ مارِ آستیں بھی نہیں
مجھ میں کیسی ہے روشنی یارب
جب وہ تارہ مرے قریں بھی نہیں
اپنی دھڑکن میں گونجتا ہوں میں
اب کوئی دوسرا مکیں بھی نہیں
٭٭
اندر کی دنیا سے ربط بڑھاتے ہیں
گھر سے باہر ہم کچھ کم ہی جاتے ہیں
اتنی میٹھی گونج ہے کن تعبیروں کی
اتنے میٹھے سپنے کس کو آتے ہیں
تیرے عشق نے کیسا حال بنا ڈالا
ایسے ویسے لوگ مجھے سمجھاتے ہیں
ہم خاموش نہیں اس قبرستان میں بھی
سنّاٹے میں شور مچائے جاتے ہیں
٭٭
مسجد کی محراب سے دنیا دیکھی ہے
باہر ٹھٹھرا دینے والی سردی ہے
ہم جیسوں نے جان گنوائی پاگل تھے
دنیا جیسی کل تھی بالکل ویسی ہے
دھیرے دھیرے آئیں گے وہ پاس مرے
موسم کی یہ پہلی ژالہ باری ہے
حالانکہ اس رستے میں اب کوئی نہیں
پھر بھی مجھ کو پہلے جیسی جلدی ہے
٭٭
خدا معلوم میں تم سے خفا ہوں
کہ اپنے آپ سے روٹھا ہوا ہوں
مرا کچھ راستے میں کھو گیا ہے
اچانک چلتے چلتے رک گیا ہوں
یہاں پہلے سے اتنی روشنی ہے
تو پھر میں کس کی خاطر جل رہا ہوں
پتہ معلوم ہے منزل کا لیکن
میں اپنا راستہ روکے کھڑا ہوں
مری باتوں پہ سنجیدہ نہ ہونا
میں پاگل جانے کیا کیا سوچتا ہوں
٭٭
گرد سے منظر اٹا ہے، کون ہے
جو ادھر سے جا رہا ہے کون ہے
شک بھری نظروں سے سب کو دیکھئے
کس کے چہرے پر لکھا ہے کون ہے
خود کو کس کے پاس چھوڑ آیا ہوں میں
جو مرا اپنا بنا ہے کون ہے
ا تنے سارے لفظ اتنی خوشبوئیں
جس نے خط مجھ کو لکھا ہے کون ہے
میں تو اِس آواز سے تنگ آ چکا
ہر گھڑی بس اک صدا ہے ’کون ہے‘
کون کرتا ہے میری نیندیں خراب
میرے اندر رو رہا ہے کون ہے
٭٭
سلگتی جھیل پر جلتا شکارہ ڈھونڈنے میں
پریشانی تو ہو گی گھر ہمارا ڈھونڈنے میں
فلک کا تھال ہی ہم نے الٹ ڈالا زمیں پر
تمہاری طرح کا کوئی ستارہ ڈھونڈنے میں
جواب ان کو نہ دینے کا بہانہ مل گیا پھر
لگے ہیں جانے کب سے خط ہمارا ڈھونڈنے میں
تمہارا ذکر ہی شعروں میں کرنا چھوڑ ڈالا
بھٹکتے پھرتے کب تک استعارہ ڈھونڈنے میں
ہم ان آنکھوں سے کیسے کیسے مہنگے خواب بنتے
گنوا آئے جنہیں بس اک نظارہ ڈھونڈ نے میں
٭٭
روح کے چیتھڑے کرنے والی
ریل گاڑی ہے گزرنے والی
آئینہ دیکھ کے رو پڑتی ہیں
خواہشیں سجنے سنورنے والی
مجھ میں مٹّی کے عوض خالق نے
ریت بھر دی ہے بکھرنے والی
مجھ کو دیمک کی طرح چاٹ گئی
آنکھ باطن میں اترنے والی
روز بازار سے لے آتا ہوں
اک نئی چیز بکھرنے والی
میں یہ دیوار گرا دوں خود کیا!
میرے اشعار پہ مرنے والی!
٭٭
خود سے یوں جان چھڑاتا ہوں میں
بار بار اس کو بلاتا ہوں میں
دھول پڑتی ہے مرے چہرے پر
پھول رستے میں سجاتا ہوں میں
دم گھُٹا جاتا ہے اس میلے میں
پھر کہاں لوٹ کے آتا ہوں میں
دیکھ لے رنگ برنگے سپنے
تیری پلکوں کو سجاتا ہوں میں
اب تو دشمن کی ضرورت ہی نہیں
خود کو اس درجہ ستاتا ہوں میں
٭٭
نہ خشکیوں پہ نہ طغیانیوں میں کھلتا ہے
یہ بادبان نئے پانیوں میں کھلتا ہے
اسی لئے تو خدا کو خدا سمجھتا ہوں
کبھی کبھی مری حیرانیوں میں کھلتا ہے
لہو سے لکھے ہوئے خط عجیب ہوتے ہیں
لفافہ رنگ بھرے پانیوں میں کھلتا ہے
خموش رہنے سے دانائیاں جھلکتی ہیں
سخن کا باب تو نادانیوں میں کھلتا ہے
ہمیں بھی دوست ہمہ وقت گھیرے رہتے ہیں
یہ دائرہ تو پریشانیوں میں کھلتا ہے
٭٭
دنیا سے سن رکھا ہے مگر تجربہ نہیں
پہلی نظر میں عشق، ہمیں تو ہوا نہیں
ہر راستے کو مڑنا پڑے گا تری طرف
اس کے سوا اب اور کوئی راستہ نہیں
سر سبز وادیوں کی طرف مڑ گئی ہوا
سوکھے ہوئے گلاب نے کچھ بھی کہا نہیں
چاہت سے دیکھتا ہوں ترا جگمگاتا جسم
پھر خود ہی سوچتا ہوں یہ تارہ مرا نہیں
سارا کمال اس کی چہکتی نظر کا ہے
کاغذ پہ ایک حرف بھی ہم نے لکھا نہیں
٭٭
غم کی اس درجہ فراوانی میں
چاند اترا ہے کھلے پانی میں
اس نے آباد رکھی ہے ہر دم
ایک دنیا میری ویرانی میں
پڑھ نہ پایا مرے باطن کی کتاب
مٹ گیا زعمِ ہمہ دانی میں
تو مرا جسم بھی، پوشاک بھی ہے
رقص یونہی نہیں عریانی میں
راستے سب ترے گھر جاتے ہیں
میں ہی یکتا نہیں نادانی میں
کیسی مٹّی کا بنا ہے وہ شخص
جگمگاتا ہے بدن پانی میں
٭٭
سخن کے شہر میں سکّہ بدلنے والا ہے
مرے کلام کا لہجہ بدلنے والا ہے
ہم اپنے گھر کو اٹھا کر کہاں لئے جائیں
سنا ہے شہر کا نقشہ بدلنے والا ہے
اداسی چھائی ہے کیوں اقربا کے چہروں پر
فقط مریض کا کمرہ بدلنے والا ہے
یقین کرنا بہت چاہتا ہوں میں اس کا
مگر وہ آدمی قبلہ بدلنے والا ہے
سفر کٹے گا بڑے ہی سکون سے ابکے
ہے اس کا ساتھ جو رستہ بدلنے والا ہے
٭٭
دیر سے ہی ہوش تو آیا مجھے
پھر مری دنیا نے اپنایا مجھے
نیند بھی آنکھوں میں اب آتی نہیں
مل گیا یہ کیسا سرمایہ مجھے
اک ستارہ مہرباں نکلا مگر
دور کا منظر نہ راس آیا مجھے
میں کہ بے حس تھا کسی بت کی طرح
کل تری آہٹ نے چونکایا مجھے
٭٭
ختم سارے مرحلے اب پیش و پس کے ہو گئے
گھر سے ہم اکتا کے نکلے اور جرس کے ہو گئے
تیز تر لمحوں نے آ کر چھو لیا کچا بدن
دیکھتے ہی دیکھتے ہم سو برس کے ہو گئے
لہلہاتی فصل نے احوال تک پوچھا نہیں
کتنے بے توقیر یہ بادل برس کے ہو گئے
راہ اپنانی تھی کوئی تو ترے جانے کے بعد
عشق سے فرصت ملی تو ہم ہوس کے ہو گئے
راکھ سے اپنی دوبارہ ہم کو لینا تھا جنم
اس نے جانا ہم اچانک خار و خس کے ہو گئے
٭٭
تمام بے سر و سامان اڑتے پھرتے ہیں
تری نگاہ سے انجان اڑتے پھرتے ہیں
سنائی دیتی ہے سات آسماں میں گونج اپنی
تجھے پکار کے حیران اڑتے پھرتے ہیں
ہمارے ہاتھ کوئی کنکری ہی لگ جائے
پروں کے زور پہ شیطان اڑتے پھرتے ہیں
زمیں کے پاس کشش کا تری جواب نہیں
فقیر لوگ تو ہر آن اڑتے پھرتے ہیں
اٹھائے جگنو کی مانند روشنی کا بوجھ
ہم اپنے آپ سے انجان اڑتے پھرتے ہیں
٭٭
زرد یادوں سے بھر دیا ہے مجھے
رُت نے ویران کر دیا ہے مجھے
ہفت افلاک سیر کی خاطر
قید رہنے کو گھر دیا ہے مجھے
چکھ لیا اس نے پیار تھوڑا سا
اور پھر زہر کر دیا ہے مجھے
جانے کیا کیا میں دیکھ لیتا ہوں
کیسی آنکھوں سے بھر دیا ہے مجھے
اتنا خالی نہیں رکھا اس نے
لمس بھی خواب بھر دیا ہے مجھے
کام ہی کیا تھا چاہنے کے سوا
اس نے بیکار کر دیا ہے مجھے
٭٭
نام سے اس کے پکاروں خود کو
آج حیران ہی کر دوں خود کو
دستبردار ہوا وہ مجھ سے
اب میں جس طرح لٹاؤں خود کو
میرے حصّے میں مرا کچھ بھی نہیں
اس سے مل جاؤں تو پاؤں خود کو
جب زباں کھو لے مجھے یاد کرے
اس کی آواز میں بھردوں خود کو
بھیڑ چھٹ جائے ذرا یادوں کی
شور کم ہو تو سمیٹوں خود کو
نام ہی لے لے تمہارا کوئی
دونوں ہاتھوں سے لٹاؤں خود کو
اس قدر خود سے پریشان ہوں میں
کوئی مانگے تو میں دے دوں خود کو
بن چکا جتنا مجھے بننا تھا
چاک سے چھین کے پھینکوں خود کو
ہوش آیا ہے گھنے جنگل میں
سوچتا ہوں کہ پکاروں خود کو
یہ تب و تاب ہی دشمن ہے مری
کس سیہ غار میں پھینکوں خود کو
٭٭
اب وہ بھیگا جسم بانہوں میں نہیں
پر، وہ لذت جو گناہوں میں نہیں
ان کے پھینکے پھول جو چاہے چنے
یہ ہنر ہم کج کلاہوں میں نہیں
سب تری سفّاکیوں پر مر مٹے
اب کوئی میرے گواہوں میں نہیں
چاہتے ہیں ہم برابر کا سلوک
جو کسی شہہ کی پناہوں میں نہیں
اس کو جیتے گا کوئی ہم سا فقیر
حوصلہ یہ بادشاہوں میں نہیں
٭٭
ایک منظر بھی نگاہوں میں تر و تازہ نہیں
تم کو خوابوں کی گرانباری کا اندازہ نہیں
میرے دل میں آرہے سوچ لو اچھی طرح
لوٹنے والوں کی خاطر اس میں دروازہ نہیں
بانسری کی تان سن کر کانپنے لگتا ہوں میں
ہاں ! تمہیں شاید مری وحشت کا اندازہ نہیں
پھول بھیجے آپ نے بے رنگ،مرجھائے ہوئے
کیا مری سادہ طبیعت کا یہ خمیازہ نہیں
اس کے آتے شہر قبرستان کیسے ہو گیا
کوئی دستک، کوئی آہٹ، کوئی آوازہ نہیں
٭٭
بھر جائیں مرے زخم اشارہ بھی نہیں ہے
اظہار انھیں دکھ کا گوارہ بھی نہیں ہے
یہ رات ترے نام کی تسبیح پڑھے گی
آکاش پہ ٹوٹا ہوا تارہ بھی نہیں ہے
تن کو مرے اوڑھے ہوئے بیٹھی ہے کڑی دھوپ
بادل کے اترنے کا اشارہ بھی نہیں ہے
کس آس پہ لہروں میں اترتے چلے آئے
اس بار تو تنکے کا سہارا بھی نہیں ہے
کس روز مری روح کو سیراب کرے گی
چنچل سی ندی جس کا کنارہ بھی نہیں ہے
٭٭
آتی نہیں جب اپنی یاد
کیسا دل اور کس کی یاد
آنگن میں املی کا پیڑ
بچپن کھٹی میٹھی یاد
یہ بھی کوئی آنا ہے
جیسے بھولی بسری یاد
کمرہ روشن کرنے کو
کافی ہے اک پل کی یاد
ڈھہتے گنبد، جلتے گھر
کالے دن کی کالی یاد
دل دروازہ بند کیا
اب آئے گی کس کی یاد
٭٭
عجب کہ درد کے ماروں کو بھول جاتی ہے
یہ آنکھ جلتے نظاروں کو بھول جاتی ہے
نہ جانے کیا ہے سمندر میں پاؤں رکھتے ہی
ندی بھی اپنے کناروں کو بھول جاتی ہے
وہ مجھ سے کرتی ہے سب موسموں کا ذکر مگر
لہو میں رقصاں بہاروں کو بھول جاتی ہے
ہری بھری ہوئی شاخوں کو کاٹتی خلقت
زمیں پہ اگتے شراروں کو بھول جاتی ہے
بڑے شکار کی دھن میں ہے سر پھری آندھی
تبھی دیے کی قطاروں کو بھول جاتی ہے
٭٭
کرم بھی اس نے بہت میرے جان و تن پہ کیا
بھروسہ دل نے مگر درد کی چبھن پہ کیا
یہاں تو جگنو نہ تارے نہ ماہتاب کوئی
یہ کس نے طنز سیہ شب کے پیرہن پہ کیا
میں اس شجر کی ہر اک شاخ کا پجاری ہوں
ذرا سا سایہ بھی جس نے میرے بدن پہ کیا
ترا قصور کہ چھیڑا نہ میری روح کا ساز
مرا یہ جرم کہ تکیہ ترے بدن پہ کیا
تمام رات کٹی خود سے بات کرتے ہوئے
یقین حد سے زیادہ جو ہم سخن پہ کیا
٭٭
ہاتھ بھی چھوٹا کسی کا مل گیا آرام بھی
کتنی آسانی سے ہو جاتے ہیں مشکل کام بھی
ٹوٹ جانے کو بنی تھی اک قیامت کی شبیہہ
اور کیا ہوتا ہمارے خواب کا انجام بھی
موت کی خوشبو نے پاگل کی طرح لپٹا لیا
ہم ادھورا چھوڑ آئے اک ضروری کام بھی
اب ہے اپنے ہی بکھرے جانے کا اندیشہ ہمیں
اب تو ڈر ڈر کے لیا کرتے ہیں تیرا نام بھی
٭٭
سارے اڑتے ہوئے رنگوں کو مقفل کر لوں
ایک تصویر ادھوری ہے مکمل کر لوں
کچھ تو میں اپنی تب و تاب دکھاؤں اس کو
جھیل سوئی ہے اسے جھومتا بادل کر لوں
سونپ دوں روح کے ہمراہ بدن بھی اس کو
کم سے کم ایک فسانہ تو مکمل کر لوں
شہر میں اس کی ذہانت کے سبھی قائل ہیں
وہ مخاطب ہے تو لہجے کو مدلّل کر لوں
مل گیا چین سے سونے کا بہانہ آخر
مسئلہ ایک اگر ہو تو اسے حل کر لوں
گو ضروری ہے بہت ترکِ تعلّق لیکن
کیا بگڑ جائے گا یہ کام اگر کل کر لوں
٭٭
جامِ تہی کو خالی کیا جائے کتنی بار
اک زندگی ہے اور ، جیا جائے کتنی بار
مشکل سے ایک سجدے کو راضی ہوا فقیر
کارِ ثواب ہے تو کیا جائے کتنی بار
کمبخت سارے زہر کی تاثیر ایک ہے
لذّت کے واسطے، بھی پیا جائے کتنی بار
خود سے کبھی کبھار مری سمت دیکھ تو
ورنہ کسی کا نام لیا جائے کتنی بار
بس ایک ہی سوال مری دھڑکنوں کا ہے
اک بات کا جواب دیا جائے کتنی بار
پیوندِ خاک مانگ رہا ہے لباس زیست
جب تار تار ہو تو سیا جائے کتنی بار
٭٭
دعوتیں دیتے رہے آلام کو
جو سمجھ پائے ترے پیغام کو
میں بنا بے چینیوں کے زہر سے
اور یہ راتیں بنیں آرام کو
پوچھتا ہوں صبح سے تیرا پتہ
روکتا ہوں آتی جاتی شام کو
بند کر دیں یا کھلی رکھیں کواڑ
صبح کا بھولا نہ لوٹا شام کو
آنے میں خود تک زمانے لگ گئے
دل نے الجھائے رکھا ہر کام کو
مان لوں گا عشق ہے ان سے مجھے
پہلے وہ ثابت کریں الزام کو
٭٭
اس نے مانا کہ اگر ہم نہ دکھائی دیتے
یہ حسیں خواب سے موسم نہ دکھائی دیتے
سرجھکائے ہوئے جیتے رہے ہم ہی ورنہ
آسماں پر ترے پرچم نہ دکھائی دیتے
کتنی آوازیں سنائی نہیں دیتی مجھ کو
وہ نہ ہوتا، کئی عالم نہ دکھائی دیتے
مجھ کو اصرار کبھی روز کے ملنے پہ نہ تھا
لیکن اس درجہ بھی کم کم نہ دکھائی دیتے
شعر کہنے سے مصیبت ہی بڑھی ہے اپنی
کچھ نہ لکھتا تو مرے غم نہ دکھائی دیتے
٭٭
زمانہ کیوں نہ ہو غم خوار اس کا
خریدار اس کے ہیں بازار اس کا
وہ چاہے جس زباں میں بات کر لے
مخاطب میں ہی ہوں ہر بار اس کا
اگر توڑے نہیں تو کیا کرے وہ
اثاثہ ہے پسِ دیوار اس کا
تصوّر میں ہزار آنکھیں کھلی ہیں
بہت آسان ہے دیدار اس کا
مسیحا بن کے بستر سے اٹھے گا
بہت چالاک ہے بیمار اس کا
٭٭
کشتی میں ہے دریا سارا بھرنے کو
اور طریقہ ڈھونڈیں پار اتر نے کو
باقی رہ جائے گا بس اک سنّاٹا
مدھ ماتی آواز کا ماتم کرنے کو
اونچا اڑنے میں خطرے ہی خطرے ہیں
اب جیتا ہوں اپنے پنکھ کترنے کو
ایک بھلی سی دھن کو کان ترستے ہیں
سازندے تیار نہیں ہیں مرنے کو
خود کو ہم نے ٹکڑے ٹکڑے بانٹ دیا
یہ آنگن تھا دیواروں سے بھرنے کو
٭٭
چاہے جگنو ہی سہی برسات میں
آسرا تو ہے اندھیری رات میں
اب تعلّق ٹوٹ جانا چاہئے
گم نہیں ہونا تمہاری ذات میں
اس کی پروا بھی کسی بادل کو ہے
کتنی مٹّی کٹ گئی برسات میں
ہر مشقّت کا صلہ لا حاصلی
کیا لکیریں ہیں ہمارے ہاتھ میں !
چاندنی مجھ سے خفا ہے، دھوپ بھی
کس کا چہرہ ہے مرے دن رات میں
٭٭
کر دیا کس نے تباہی کے قریب
شاعری کو تختِ شاہی کے قریب
عیش کے سامان سب موجود ہیں
کون آئے بے گناہی کے قریب
آپ کو کیا شہر کے آزار سے
بیٹھئے ظلِّ الٰہی کے قریب
چھوڑ آئے سلطنت جب ایک بار
کیا بھٹکنا قصرِ شاہی کے قریب
سن رکھا ہے پر یقیں آتا نہیں
اک سویرا ہے سیاہی کے قریب
٭٭
یوں نہ بدلو اپنا چہرہ بار بار
کس کو میں کہتا ہوں اچھّا بار بار
ایک سا اخبار ہے ہر روز کا
کیا کروں لکھتا ہوں نوحہ بار بار
سحر تھا آواز میں اس کی تو کیا
کون سنتا ایک نغمہ بار بار
میں نے موضوعِ سخن بدلا نہیں
سامنے آیا وہ چہرہ بار بار
کیوں نہ تنگ آؤں مسیحائی سے میں
جی اٹھے گر ایک مردہ بار بار
ڈر اُجالے کا نہ ہو تو کیوں چھپے
رات کی چادر میں دنیا بار بار
٭٭
دل کے اندر آ بھی یار
دیکھ لے یہ دنیا بھی یار
کاٹھ کی سیڑھی کیا ٹوٹی
ٹوٹ گیا سپنا بھی یار
کیسے دوست بناتے ہو
یاد نہیں چہرہ بھی یار
اوس تو پی گئی پیاسی دھوپ
خشک ہوا دریا بھی یار
ہاتھ چھڑا کر چلا گیا
تھا کوئی اپنا بھی یار
٭٭
عین ممکن ہے کہ ابکے مری باری آئے
کھِل اٹھوں پھر سے اگر اس کی سواری آئے
اتنے منظر ہیں وہاں جی کو لگانے کے لئے
ایسے موسم میں کسے یاد ہماری آئے
شہر کے شور سے گھبرا کے یہاں آیا ہوں
شاید اس دشت میں آواز تمہاری آئے
اب میں ایسے تو ترے در پہ نہیں آسکتا
جیسے کشکول لئے کوئی بھکاری آئے
اس جھلستے ہوئے جنگل میں کسے کھلنا ہے
لُو چلے اب کہ یہاں بادِ بہاری آئے
٭٭
مت کھائیے فریب کہ سستی ہے روشنی
آنکھوں کو بند کیجئے ڈستی ہے روشنی
ایسی ہی ایک شب میں کسی سے ملا تھا دل
بارش کے ساتھ ساتھ برستی ہے روشنی
جن کے دیے میں جلتا ہے انسان کا لہو
ان کے لئے تو آج بھی سستی ہے روشنی
ہم جانتے ہیں اس کا پتہ ہم سے پوچھئے
کس خطّۂ خیال میں بستی ہے روشنی
ایسے بھی ہیں ستارے کئی جن کی قید سے
کیسے رہائی پائے ترستی ہے روشنی
ہاتھ آگیا یہ کیسا شجر تیری یاد کا
اک شاخ بھی ہلے تو برستی ہے روشنی
٭٭
اتنی جلدی پھول مرجھاتا نہیں
کچھ تو ہے جو سامنے آتا نہیں
جانے کب سمجھیں گے یہ معصوم لوگ
یوں اچانک شہر اجڑ جاتا نہیں
ایک میں ہی روشنی بیزار ہوں
شام کا منظر کسے بھاتا نہیں
بے طلب رہنا تھا اس کو دیکھ کر
بے سبب دستِ دعا جاتا نہیں
میں وہ موسم جس میں بس اڑتی ہے دھول
تو وہ آئینہ جو دھندلاتا نہیں
تم ملے کچھ بھی نہ تھا جب میرے پاس
ورنہ میں شاعر بھی کہلاتا نہیں
٭٭
خواہشوں کو کبھی سجدہ نہ کرو
جس کو چاہو اسے پوجا نہ کرو
کچھ تو بولو کہ اداسی چھٹ جائے
میری آواز کو تنہا نہ کرو
بڑھ نہ جائے کہیں الجھن اس کی
اپنی تنہائی کا چرچہ نہ کرو
آس ہوتی ہے بکھرنے کے لئے
سانس رک جائے گی صدمہ نہ کرو
ہم بھی رہتے ہیں اسی دنیا میں
اپنے بارے میں ہی سوچا نہ کرو
٭٭
تیرے جیسا تو نہیں ہوسکتا
میں فرشتہ تو نہیں ہوسکتا
اور بھی کام مجھے کرنے ہیں
صرف جینا تو نہیں ہوسکتا
دور جتنا بھی چلا جائے مگر
چاند تجھ سا تو نہیں ہوسکتا
کیوں ملا جائے زمانے بھر سے
ذکر اس کا تو نہیں ہوسکتا
جتنا اچھّا مجھے لگتا ہے وہ
اتنا اچھّا تو نہیں ہوسکتا
٭٭
یادگار لمحوں کی تتلیاں جلا ڈالیں
اس نے کل مری ساری چٹھّیاں جلا ڈالیں
دور تک نگاہوں میں بدحواس موسم ہے
مہرباں پرندوں نے ٹہنیاں جلا ڈالیں
ناسمجھ ارادوں کا حشر اور کیا ہوتا
تتلیاں پکڑنے میں انگلیاں جلا ڈالیں
کیوں سنبھال کر رکھتا وہ فضول چیزوں کو
پھول رکھ لئے اس نے پتّیاں جلا ڈالیں
خوفناک سنّاٹے آبسے ہیں آنکھوں میں
کس نے میٹھے سپنوں کی بستیاں جلا ڈالیں
بے بسی کے لمحے میں اور کچھ نہیں سوجھا
ہم نے اپنے ناموں کی تختیاں جلا ڈالیں
٭٭
رقص کرتا ہوں کبھی نغمہ سراہوں نیند میں
کون سی دنیا ہے جس میں کھو گیا ہوں نیند میں
آنکھ کھل جائے تو گھر ماتم کدہ بن جائے گا
چل رہی ہے سانس جب تک چل رہا ہوں نیند میں
لوگ خوابوں میں چلے آنے لگے بے روک ٹوک
میں بھی گویا عام رستہ ہو گیا ہوں نیند میں
موت کے ہمراہ چلتی شہر کی سڑکوں سے دور
گاؤں کی پگڈنڈیوں پر بھاگتا ہوں نیند میں
شب میں بھی تھمتا نہیں ہے جاگتے لمحوں کا قہر
ایک بچّے کی طرح سہما ہوا ہوں نیند میں
یہ سفر جاری رہے گا زندگی کے بعد بھی
اک کرن کا ہاتھ تھامے چل رہا ہوں نیند میں
٭٭
خوش ہوا میں اسے رلا کے بھی
چین ملتا ہے دل دکھا کے بھی
چن لئے ہیں مری سماعت نے
پنکھ ٹوٹی ہوئی صدا کے بھی
موت بھی راگ ہے محبت کا
دیکھ لیں اس کو گنگنا کے بھی
آگ ایسی ہے میرے چاروں طرف
ہاتھ جلنے لگے ہوا کے بھی
خال و خط کے اسیر ٹھہرے ہم
اس کی تصویر کو جلا کے بھی
٭٭
اسے بیکار کرنا چاہتا ہوں
میں خود سے پیار کرنا چاہتا ہوں
مرے جیسا ہی ہے دشمن بھی میرا
میں خود پر وار کرنا چاہتا ہوں
مرا اگلا قدم جانے کدھر ہو
تجھے دیوار کرنا چاہتا ہوں
اب اپنے ٹوٹے پھوٹے زائچے کو
سخن آثار کرنا چاہتا ہوں
اسے بھی اپنے پاگل پن میں شاید
میں خود بیزار کرنا چاہتا ہوں
٭٭
دن رات اگر در پئے آزار بنے تو
یہ دل کبھی دلّی کبھی قندھار بنے تو
ترکیب کوئی سر کو اٹھانے کی بھی ہے کیا
پھولوں سے سجا تاج اگر بار بنے تو
آسیب کی دستک سے لرزتے ہوں در و بام
کیا کیجئے اگر رات پرُ اسرار بنے تو
کشتی کی نہیں خیر سمجھ لیجئے صاحب
دریا کی کوئی لہر ہی پتوار بنے تو
ہر روز پگھل جاتی ہے بنیاد کی اک اینٹ
ایسا ہی مکاں جھیل کے اس پار بنے تو
سب لوگ نظر آئیں برہنہ سرِ بازار
سچائی مرے شہر کا کردار بنے تو
٭٭
اپنی چاہت کو مرے دکھ کے برابر کر دے
یا مجھے دیکھ لے اس طرح کے پتھر کر دے
یہ سمٹتی ہوئی دنیا یہ بکھرتے ہوئے لوگ
انتہا کوئی تو ہر شئے کی مقرّر کر دے
کس کو دیکھوں کہ ترے نام کا نشہ اترے
کس کو چاہوں جو تیرے سحر کو کمتر کر دے
موسمِ وجد میں جا کر میں کہاں رقص کروں
اپنی دنیا مری وحشت کے برابر کر دے
ایک کھٹکا لگا رہتا ہے محبت میں سدا
اس کا کیا، جب جسے چاہے مرا ہمسر کر دے
٭٭
کون اس کو چاہتا میری طرح
وہ بھی تنہا ہو گیا میری طرح
کہہ دیا کس نے خدا ملتا نہیں
ڈھونڈیے اس کا پتہ میری طرح
ٹوٹنا ہی تھا تعلّق ایک دن
ہوبہو وہ شخص تھا میری طرح
اس طرف جانے لگے سب راستے
شہر دیوانہ ہوا میری طرح
مفت میں کیوں کیجئے نیندیں خراب
ہاں ! اگر وہ جاگتا میری طرح
اس کے ہوتے اپنی چاہت میں جئے
کون ہو گا بے وفا میری طرح
میں ہی کیوں پاگل ہوا اس کے لئے
کاش! وہ بھی سوچتا میری طرح
مل گیا سارا تکبّر خاک میں
مٹ گیا میرا لکھا میری طرح
٭٭
کرم یہ حیرتِ نا دید سے زیادہ ہے
تعلّقات کی تجدید سے زیادہ ہے
جھلس کے رہ گئے ہم سائبان والے بھی
یہ دھوپ شام کی تمہید سے زیادہ ہے
اسے بھی دل نے کوئی اہمیت نہیں دی کل
یہ احتیاط تو تاکید سے زیادہ ہے
تمہارے سحر میں اس درجہ ڈوبنا میرا
خود اپنی ذات کی تردید سے زیادہ ہے
میں احترام کی حد سے گزر نہیں سکتا
یہ بے ضمیری تو تقلید سے زیادہ ہے
تمام عمر لکھا اپنے ہی لئے میں نے
مرا سخن کسی تائید سے زیادہ ہے
٭٭
پھول وہ رکھتا گیا اور میں نے روکا تک نہیں
ڈوب بھی سکتی ہے میری ناؤ سوچا تک نہیں
اور کتنا ساتھ دیں ٹوٹی ہوئی بیساکھیاں
اب میرے حصّے میں یہ چھوٹی سی دنیاتک نہیں
جانے کیسی دوستی ہے جھیل سے گلمہر کی
پانیوں میں پھول توکیا ایک پتہ تک نہیں
خواب بن جاتی ہیں جیتی جاگتی سچائیاں
ساتھ تھا اچھے دنوں کا جب تو سوچا تک نہیں
بات کرنا چاہتا ہوں چیختے صحرا سے میں
مجھ کو جانا ہے مگر خاموش دریا تک نہیں
کتنی جلدی بیتتے ہیں بدگمانی کے برس
اب تو میرے حافظے میں اپنا چہرہ تک نہیں
مل نہ جائے شائبہ ٹوٹی ہوئی پہچان کا
اس لئے آج اس نے میری سمت دیکھا تک نہیں
کچھ تو ہونا چاہئے میری اداسی کا سبب
سوگواری کے بھنور میں ایک لمحہ تک نہیں
مسکرا سکتا تھا وہ میری تسلّی کے لئے
آئینے میں رات کے جھوٹا ستارہ تک نہیں
میری آنکھوں میں امڈ آیا میرا سارا وجود
اور جاتے وقت اس نے مڑکے دیکھا تک نہیں
٭٭
عقیدے طاق پہ رکھ واہمے بناتے ہیں
ہم آفتاب بجھا کر دیے بناتے ہیں
بس اک طریقہ ہے مصروف خود کو رکھنے کا
جو نیند توڑ کے ہم رتجگے بناتے ہیں
ہمیں برا نہیں لگتا سفید کاغذ بھی
یہ تتلیاں تو تمہارے لئے بناتے ہیں
تمام رنگ پلٹتے ہیں ان سے ٹکرا کر
ہم اپنے گرد عجب دائرے بناتے ہیں
اب ایک خواب بھلا کتنی بار دیکھیں گے
چلو کہ آج نئے واہمے بناتے ہیں
مرا مکان کبھی ایسا ہو نہیں سکتا
عجیب نقشہ میرے وسوسے بناتے ہیں
٭٭
وحشتوں کے پر کتر سکتا ہوں میں
آسمانوں سے گزر سکتا ہوں میں
مہرباں ! اب دوسرا کوئی ہدف
اور کتنی بار مرسکتا ہوں میں
کوئی سمجھائے مرے مدّاح کو
تالیوں سے بھی بکھر سکتا ہوں میں
ماور ائے لمس ہے اس کا بدن
بس اسے محسوس کر سکتا ہوں میں
ٹوٹ سکتا ہوں بھرو سے کی طرح
آپ کو حیران کر سکتا ہوں میں
کوئی کشتی میری کمزوری نہیں
بیچ دریا رقص کر سکتا ہوں میں
اس نے خود مختار مجھ کو کر دیا
جی نہیں سکتا تو مرسکتا ہوں میں
آزما ہرگز نہ مجھ کو بار بار
پہلی جیسی بھول کر سکتا ہوں میں
٭٭
خواہش کہ مارا مارا پھرے اور گھر نہ جائے
یہ فکر بھی کہ رونقِ دیوار و در نہ جائے
ہے رنگ و بو غضب کا مگر اس کے بعد کیا
یہ پھول مجھ کو اور بھی ویران کر نہ جائے
کچھ اور سوچنے کی اجازت تو مل گئی
لیکن ترے خیال کا چہرہ اتر نہ جائے
اب اپنی سخت جانی سے میں تنگ آ چکا
یہ پل بھی انتظار کا یونہی گزر نہ جائے
تب تک جنوں کو رکھّے رہو اختیار میں
جب تک نظر کا آئینہ چہروں سے بھر نہ جائے
سوکھے کی پیش گوئی سے سوچیں بدل گئیں
ڈرنے لگے ہیں لوگ کہ دریا اتر نہ جائے
آبادیوں سے دور کہیں اور جابسوں
دنیا کو روشنی مری حیران کر نہ جائے
٭٭
ہماری دنیا جہاں تک تری نظر میں ہے
نہ جانے کون سے آسیب کے اثر میں ہے
چمک رہا ہوں ستارے کی طرح میں کب سے
مگر وہ آنکھ کسی اور ہی بھنور میں ہے
وہ صاف صاف بھی کرتا ہے گفتگو اکثر
مگر وہ بات کہاں جو اگر مگر میں ہے
میں آفتاب کی اک اک کرن سے ڈرتا ہوں
عجیب برف جمی میرے بام و در میں ہے
خبر ہے کل کئی شہروں کے ڈوب جانے کی
مگر ندی کا کنارہ تو میرے گھر میں ہے
پتہ چلے گا ہوا کو کب اپنی منزل کا
کبھی شجر میں کبھی دشتِ بے شجر میں ہے
٭٭
مانتا ہوں مہرباں ہے آفتاب اس پار کا
میں بھی تو سایہ نہیں گرتی ہوئی دیوار کا
کون سا ہم سر مد و منصور ہیں خوش آمدید!
راستہ روکا ہے کس نے آپ کی تلوار کا
واقفیت ہے ہمیں ہر پھول کی اوقات سے
آپ کے گجرے کا ہو یا پھر گلے کے ہار کا
کیاپتہ میرے یقیں کے پاؤں کب کاٹے گئے
ہاتھ کب ٹوٹا مری ٹوٹی ہوئی پتوار کا
دوستوں کی مہربانی سے ہوئی ہے پائمال
میری مٹّی میں بھی تھوڑا خون ہے قندھار کا
چومتا ہے خون میں ڈوبے ہوئے ہاتھوں کو بھی
کم سے کم اک آدمی تو ہے یہاں کردار کا
٭٭
معاملہ یہ خودی کا نہ بے خودی کا ہے
تمام پھیلا ہوا سلسہ نفی کا ہے
یہ جان لو تو ڈرو گے بجھے چراغ سے بھی
وہ رابطہ جو مرا اور روشنی کا ہے
سمجھ رہا تھا کہ گمراہ کر رہی ہے ہوس
یہ راستہ تو مگر آپ کی گلی کا ہے
نفس کی آمد و شد سے کچھ اطمینان نہیں
مرا ارادہ کسی اور زندگی کا ہے
وہ سانپ جس نے مجھے آج تک ڈسابھی نہیں
تمام زہر سخن میں مرے اسی کا ہے
٭٭
چلّا رہے تھے لوگ ہی آب آب بے سبب
بستی میں آخر آگیا سیلاب بے سبب
ایسا نہیں کہ جی نہ سکینگے ترے بغیر
دیکھے گئے ہیں یونہی کئی خواب بے سبب
پتھّر نہیں تو پھول ہی پھینکا ہے آپ نے
یوں جاگتا نہیں کوئی تالاب بے سبب
ہم لوگ تیرے غم سے سبکدوش ہو گئے
کرتے نہیں ہیں آنکھ کو خوناب بے سبب
لہروں کا سر کچلنا بھی ہوتا ہے مدّعا
بنتے نہیں ہیں بحر میں گرداب بے سبب
سورج کو جا کے اور کہیں اگنا چاہئے
اندھوں میں کھو رہا ہے تب و تاب بے سبب
دریا کو صرف ایک ہی کشتی سے بیر تھا
ہم لوگ آ گئے ہیں تہہ آب بے سبب
٭٭
نہ کام آسکی یاری نہ دشمنی میری
یہاں کسی کو ضرورت نہیں پڑی میری
میں دکھ سمجھتا ہوں خانہ خراب لہروں کا
بھٹک رہی ہے کسی دشت میں ندی میری
میں اپنی سائے میں بیٹھا تھا کتنی صدیوں سے
تمہاری دھوپ نے دیوار توڑ دی میری
نشہ کوئی بھی ہمیشہ تو رہ نہیں سکتا
کھلے گی ایک نہ اک دن اسے کمی میری
بجائے اس کے میں دیوانہ ہو گیا اپنا
یہ کیسے راگ سناتی ہے بانسری میری
وہ شعر سنتا ہے تو مجھ کو دیکھتا ہی نہیں
ہمارے درمیاں حائل ہے شاعری میری
٭٭
سو مرتبہ بنایا سنوارا گیا مجھے
پھر لے کے اک چمکتا ستارہ گیا مجھے
ایسے پلٹ کے دیکھنا فطرت نہ تھی مری
یہ کس کا نام لے کے پکارا گیا مجھے
دیکھے نہیں تھے میں نے کسی جل پری کے خواب
پھر بھی سمندروں میں اتارا گیا مجھے
کیسا بلند حوصلہ کیا سخت جان تھا
خوش فہمیوں کے زہر سے مارا گیا مجھے
اک کہکشاں سجائی گئی میری راہ میں
پھر گہری کھائیوں میں اتارا گیا مجھے
ایسا بنا دیا گیا جیسا کبھی نہ تھا
کچھ ایسے تجربوں سے گزارا گیا مجھے
٭٭
چلتا ہے کس کا زور کھلے آسمان پر
پہرے لگا کے دیکھئے اونچی اڑان پر
قالین قیمتی ہے پہ میری خطا معاف
ہے رقص کا مزہ تو پھسلتی چٹان پر
اب بانسری بھی ان کی رضا سے بجائیے
ورنہ وہ قہر ڈھائینگے ایک ایک تان پر
کیا پہلی بار اس نے دکھایا ہے دل مرا
کیا ہو گیا کہ آج بن آئی ہے جان پر
کچھ اور بڑھ گیا مری تنہائیوں کا دکھ
چمکیلے پھول کھلنے لگے آسمان پر
٭٭
پھر کوئی آزر اٹھے گا خاک سے
پربتوں کا سر اٹھے گا خاک سے
چاک کی رفتار دیکھ اے کوزہ گر
خواب سا اک گھر اٹھے گا خاک سے
سانپ کے کچلے ہوئے سر مت گنو
کل نیا اک ڈر اٹھے گا خاک سے
سلسلے پھیلے ہیں کہساروں کے پھر
کوئی تیشہ گر اٹھے گا خاک سے
چاند تاروں کی طرف مت دیکھئے
خوشنما پیکر اٹھے گا خاک سے
ایک دن بدلے گی یہ دنیا ضرور
اک نیا منظر اٹھے گا خاک سے
٭٭
میں اک بھٹکی صدا ہوں
بدن میں گونجتا ہوں
پہن رکھا ہے تجھ کو
میں کیسا لگ رہا ہوں
وہ آئینہ ملا ہے
میں خود پہ مر مٹا ہوں
پلٹ کر اب نہ آنا
میں پتھّر ہو چکا ہوں
وہ لمحے جا چکے ہیں
میں جن میں جی رہا ہوں
٭٭
قلندر اسے دیکھنے سے رہا
یہ خود سر اسے دیکھنے سے رہا
اسی نے بنایا ہے انساں مجھے
کہ پتھّر اسے دیکھنے سے رہا
لڑی جائے جنگ آر یا پار کی
میں چھپ کر اسے دیکھنے سے رہا
اسے لامکاں سے ہے نسبت عجیب
مرا گھر اسے دیکھنے سے رہا
ستارہ نہیں ہے نہ وہ چاند ہے
سمندر اسے دیکھنے سے رہا
وہ دلبر ہے ساتوں سماوات کا
یہ منظر اسے دیکھنے سے رہا
٭٭
حواس کو بد حواس کر جا
کبھی مرے دھیان سے اتر جا
سجے گا بازار پھر کسی دن
اداس مت ہو اب اپنے گھر جا
سمیٹ لیں میں نے اپنی پلکیں
اب آگے خود کو سنبھال کر جا
میں کتنا خوش ہوں تجھے گنوا کر
بس آخری بار اداس کر جا
کسی کو مت دے سراغ اپنا
جہاں سے چپ چاپ ہی گزر جا
٭٭
الٹے سیدھے لفظ لکھوں اور سو جاؤں
خواب کی حیراں گلیوں میں پھر کھو جاؤں
ذہن میں اک تصویر ہے کچے رنگوں کی
بادل بن کر برسوں اسے بھگو جاؤں
رنگ برنگے پھول کھلیں گے چاروں اور
اپنی آنکھیں صحراؤں میں بو جاؤں
میں بھی اس سے کہہ دوں اپنے دل کا حال
اس کے ہار میں اک پھول اور پرو جاؤں
٭٭
طئے جب زہر کی قیمت ہونے لگتی ہے
سانپوں کی بھی شہرت ہونے لگتی ہے
عشق بدن میں رہتا ہے بس تھوڑے دن
اس کے بعد عبادت ہونے لگتی ہے
نیند اڑا دیتی ہے پہلے آنکھوں سے
ہر آہٹ پھر رخصت ہونے لگتی ہے
تھوڑی دیر بھی اس کے ساتھ اگر رہ لو
کیسی کیسی چاہت ہونے لگتی ہے
اتنی باتیں ہوں جب خود سے کرنے کو
تنہائی سے الفت ہونے لگتی ہے
٭٭
کرتے ہیں ساری رات اسے یاد بے سبب
ہم ہو رہے ہیں کس لئے برباد بے سبب
مانا کہ رات ہوتی ہے سونے کے واسطے
کرتے نہیں ہیں لوگ بھی فریاد بے سبب
آنا نہیں ہے جس کو اسی کے لئے ہنوز
اک شہر روز کرتے ہیں آباد بے سبب
اب اس کا فون آنے پہ اتنا بھی خوش نہ ہو
کرتے نہیں کسی کو یہاں یاد بے سبب
کس نے کہا تھا اپنے خدا کو پکاریے
آتی نہیں ہے آپ پہ افتاد بے سبب
پیارا تھا یہ لباس، پرانا ہی تھا تو کیا
دل نے اتار پھینکی تری یاد بے سبب
٭٭
خائف تھے جس سے ہم وہ صدا رُک گئی ہے اب
کھولیں بیاضِ دل کہ ہوا رُک گئی ہے اب
کھیتی ہری تھی جب تو خدا بھی عظیم تھا
سوکھا پڑا تو حمد و ثنا رُک گئی ہے اب
میں کم نصیب خواب سے بیدار ہو گیا
جو کُن کی آ رہی تھی صدا رُک گئی ہے اب
وہ التوا میں ڈال گیا سارے فیصلے
میرے لئے جو طئے تھی سزا رُک گئی ہے اب
کون امتحان لینے لگا میرے فقر کا
ہونٹوں کے پاس آ کے دعا رُک گئی ہے اب
٭٭
آپ اپنی موت مر جانے دیا
دل کو نظروں سے اتر جانے دیا
روک سکتا تھا میں جاتے وقت کو
اس کی مرضی تھی گزر جانے دیا
تاش کے پتّوں سے اک دنیا رَچی
اور پھر سب کچھ بکھر جانے دیا
ساتھ میرا اور اک الجھن کا تھا
جس نے اپنایا نہ گھر جانے دیا
راستہ بھٹکی ہوئی آواز نے
چند شاموں کو سنور جانے دیا
ایک اندیشے کی آہٹ کیا سنی
اپنے خوابوں کو بکھر جانے دیا
٭٭
اکیلے چاند کا دکھ بانٹتا ہوں
یہ راتیں جاگ کر ہی کاٹتا ہوں
نہایت مختصر ہے رات لیکن
ستارے شہر بھر میں بانٹتا ہوں
کبھی فرہاد پر میں ہنس رہا تھا
خود اب دن رات پربت کاٹتا ہوں
بچانا ہو گا دل کو ڈوبنے سے
سو ان آنکھوں پشتے کاٹتا ہوں
میں شرمندہ ہوں مجبوری پہ اپنی
کہ دکھ ہی دکھ ترے سنگ بانٹتا ہوں
٭٭
گہری کالی راتوں میں تابندہ رکھا
مجھ کو میرے پاگل پن نے زندہ رکھا
کیسے کیسے خواب دکھائے دنیا نے
ساری عمران آنکھوں کو رقصندہ رکھا
جینے کو اک لمحہ مانگا دنیا سے
اور اسی لمحہ کا نام آئندہ رکھا
مایوسی میں بھی امیّد نہیں چھوڑی
خالی پنجرے میں بھی ایک پرندہ رکھا
کیسے آخر مرنے دیتا اپنے ساتھ
جس پر جان لٹائی اس کو زندہ رکھا
٭٭
اک آگ سی لہو میں بھڑکتی ہے دیر تک
جھانجھر نئے بدن کی چھلکتی ہے دیر تک
چڑیا کو آس پاس کی شاید خبر نہ ہو
سوکھے ہوئے شجر پہ چہکتی ہے دیر تک
یہ تنگ کوٹھری ترے جانے کے بعد بھی
بیلے کے پھول جیسی مہکتی ہے دیر تک
دہشت عجب ہے مالِ غنیمت کے ساتھ ساتھ
تلوار سی نظر میں چمکتی ہے دیر تک
تتلی اسی پہ بیٹھنا چاہے گی جانے کیوں
وہ شاخ جو ہوا میں لچکتی ہے دیر تک
ترسینگے لوگ شہر میں امن و امان کو
اس کی لگائی آگ بھڑکتی ہے دیر تک
٭٭
بھٹک رہا ہے دماغ میرا
مجھے بھی ملتا سراغ میرا
گلاب والے عذاب نکلے
بھلا بھلا سا تھا باغ میرا
میں دل کی عینک اتار پھینکوں
ملے جو اس سے دماغ میرا
نہ بجھ رہا ہے کہ سو سکوں میں
نہ جل رہا ہے چراغ میرا
سبھی لٹاتے تھے جان اس پر
مگر دلِ بد دماغ میرا
٭٭
یہ بدن کا شور، یہ رنگِ تماشہ پھر کبھی
ہم بہت مصروف ہیں جانِ تمنا پھر کبھی
اتفاقاً پڑ گئے تھے کس کی دنیا میں قدم
آج تک دیکھی نہ ہم نے ویسی دنیا پھر کبھی
اب رہائی چاہئے اپنے بدن سے اور بس
یہ نوازش، یہ کرم میرے مسیحا پھر کبھی
تم مجھے اچھّے لگے ہو ہر گھڑی، ہر حال میں
آئینے میں دیکھ لینا اپنا چہرہ پھر کبھی
ہم نشیبوں میں بنانے جا رہے ہیں پھر مکاں
راہ اپنی جیسے بدلے گا نہ دریا پھر کبھی
اس کے چہرے پر سجی ہے سو بہاروں کی رمق
ہم کرینگے اپنی ویرانی کا چرچہ پھر کبھی
٭٭
فاصلے کم نہیں ہونے کے ملاقات سے بھی
اک نئی رات نکل آتی ہے ہر رات سے بھی
از سرِ نو ہی بنا دے کوئی دنیا یارب
لوگ اُکتا گئے بدلے ہوئے حالات سے بھی
آج کچھ اور ہی ہے رنگ طبیعت اس کا
بن نہ پائے گی کوئی بات کسی بات سے بھی
چین کی کون سی منزل کے مسافر ہیں ہم
بڑھ گئے آگے بہت شہر طلسمات سے بھی
راکھ ماضی کی کریدی تو کھلا یہ مجھ پر
آگ لگ جاتی ہے سوئے ہوئے جذبات سے بھی
٭٭
خود سے اور اپنے دلِ بیمار سے گھبرا گئے
ایک طرفہ عشق کے آزار سے گھبرا گئے
چار دن کی قید بھی ہنس کر نہیں کاٹی گئی
گفتگو کر کے در و دیوار سے گھبرا گئے
یہ زمیں ہے رقص میں اور آفتاب اپنی جگہ
روز و شب اس گردشِ پرکار سے گھبرا گئے
چلچلاتی دھوپ میں بھی اتنی بے چینی نہ تھی
آج تو ہم سایۂ دیوار سے گھبرا گئے
٭٭
صندلی آواز کا سایہ پڑا
پھر سلونی شام کو گانا پڑا
ہم برے ہونے لگے بے اختیار
اتنے اچھّے دوست سے پالا پڑا
دیر تک منظر نہیں بدلا تو پھر
میری آنکھوں کو بدل جانا پڑا
گھر بنا تھا جانے کس کے واسطے
آج بھی ہے جوں کا توں سونا پڑا
جانے کیسے عشق کے قائل تھے ہم
دل سا پیمانہ بھی جب چھوٹا پڑا
٭٭
حسن کا اک عجیب عالم ہے
جس قدر چاہوں میں اسے کم ہے
راکھ ہونے میں دیر ہے مجھ کو
لو ابھی خواہشوں کی مدھم ہے
بج چکی ایک ہاتھ سے تالی
چھوڑیے بھی اگر وہ برہم ہے
اب اسی میں گلاب بونے ہیں
اب یہی درد میرا موسم ہے
٭٭
اگر دیوانگی کو شاعری کا نام مل جائے
بکھرتے ٹوٹتے لفظوں کو بھی آرام مل جائے
جلائے جا رہا ہوں کاغذوں کی کشتیاں کب سے
کسی کو اس طرح شاید مرا پیغام مل جائے
تمہارے جھوٹ نے بھٹکا دیا میری کہانی کو
کبھی سچ بول دو شاید کوئی انجام مل جائے
اب اس آسودگی کے حبس سے گھبرا گیا ہوں میں
درِ آزردگی کھلنے سے کچھ آرام مل جائے
٭٭
کہاں تک یہ فریبِ آرزو بھی
دغا دے جائے گا اپنا لہو بھی
کنارے کچھ نہیں جز خاک و خوں اب
یہاں آتش فشاں ہے آبجو بھی
مجھے تو ذہن دوزخ سا ملا ہے
مگر کیا سوچتا رہتا ہے تو بھی
میں اپنی تیغ کو کیا منھ دکھاتا
اگر جھک کے ملا کرتا عدو بھی
مجھے آزاد کر دے گا وہ اک دن
گرا دے گا فصیلِ رنگ و بو بھی
یہ کس بد روح سے پالا پڑا ہے
اذیّت بن گئی ہے آبرو بھی
٭٭
خوش نہیں میں شہرِ ماہ و سال میں
پھنس گیا ہوں جانے کس جنجال میں
ہم تو کل بھی دھوپ میں تھے آج بھی
زلف لہراتی رہے بنگال میں
اب تو احساسِ زیاں سے بھی گئے
کون شامل ہے ہمارے حال میں
اس سے نظریں بھی چراؤں کس طرح
وہ نمایاں ہے کئی اشکال میں
ایک اک گھر مقبرہ بنتا ہوا
پھنس گیا ہے شہر کس بھونچال میں
سب کے سب اندھے تو ہوسکتے نہیں
کچھ نہ کچھ ہے اس کے خدّ و خال میں
وہ مرے شعروں سے بھی ناراض ہے
رہ گئی تھی کچھ کمی تمثال میں
٭٭
جتنے بھی جتن کر کے محبت سے بچا جائے
ممکن ہی نہیں ہے کہ اذیّت سے بچا جائے
کچھ بھی نہ پس انداز کیا جوشِ جنوں میں
کس طرح مگر دل کی ضرورت سے بچا جائے
جنّت بھی سجی ہے کسی دوکان میں گویا
ممکن ہو تو سجدوں کی تجارت سے بچا جائے
اک مسئلہ بننے لگی جب یاد کسی کی
حل اس کا یہی نکلا کہ فرصت سے بچا جائے
لیکن یہ طوائف بڑی دلدار ہے صاحب
کب میں نے نہیں چاہا کہ شہرت سے بچا جائے
٭٭
سخت مشکل میں پڑا ہے شہر تابانی ابھی
ڈر رہا ہوں میں چمک اٹھّے نہ پیشانی ابھی
اپنی آنکھوں سے بدن کو ڈھانپ کرکب تک رکھوں
میرے حصّے میں لکھی ہے کتنی عریانی ابھی
پار اترنے والوں کو ہے کس بھلے موسم کی آس
کم نے ہو گی سرخ دریاؤں میں طغیانی ابھی
دوڑنے کو کہہ دیا اس نے سلگتی ریت پر
خشک میں کر ہی رہا تھا پاؤں سے پانی ابھی
اس کے لہجے میں نہ تھی بیگانگی کی یہ لکیر
دیدنی ہے میری وحشت، میری حیرانی ابھی
٭٭
روز ہوتا ہے زیاں انسان کا
کیا تقاضہ کیجئے تاوان کا
شہر جب میں نے بسایا، خود بخود
راستہ بھی بن گیا طوفان کا
خود سے بھی ہے اجنبی جیسا سلوک
سلسلہ ٹوٹا تری پہچان کا
کون ہے قاتل کے جیساخوش نصیب
کوئی خطرہ ہی نہیں ہے جان کا
جب اجالے اور اندھیرے ایک ہیں
گھر میں کیا مصرف ہے روشندان کا
چل رہا ہوں آج بھی کس شان سے
دکھ ہے یا قالین ہے ایران کا
دل کی ویرانی پہ اتنا مت ہنسو
قصر تھا یہ بھی کسی سلطان کا
٭٭
بج رہی ہے پاؤں میں زنجیر ایسی
مل گئی ہے بے طلب جاگیر ایسی
احتیاطوں سے بھی پوشاکیں جلیں گی
چاہتیں ہوتی ہیں آتش گیر ایسی
اپنے اندر جھانکنا دشوار ٹھہرا
پھیلتی ہے روح میں تنویر ایسی
تھم گیا ہو وقت کا دریا ہی جیسے
ہو گئی اک شام دامن گیر ایسی
جاگتے رہنے میں ہی اب فائدہ ہے
مل رہی ہے خواب کی تعبیر ایسی
٭٭
جاں چلی جاتی ہے کروٹ سی بدلنے میں بھی
وقت کافی ہے ابھی رات کے ڈھلنے میں بھی
بد حواسی میں بہرحال یہ شب کاٹنی ہے
دکھ تو جلنے میں بھی ہوتا ہے پگھلنے میں بھی
سوکھے پتّوں پہ کسی سانپ کی آہٹ جیسی
سرسراہٹ ہے عجب سانس کے چلنے میں بھی
برف باری کا مزہ ہی لیا جائے جب تک
دیر لگتی ہے میاں آگ کے جلنے میں بھی
مجھ کو اک عمر لگے گی اسے معلوم نہیں
ایک ٹوٹے ہوئے پنجرے سے نکلنے میں بھی
٭٭
چڑیوں نے جب پنکھ سکھانا چھوڑ دیا
دھوپ نے بھی آنگن میں آنا چھوڑ دیا
قاتل لمحے میٹھے سپنے دیکھیں گے
درد کے ماروں نے چلّانا چھوڑ دیا
خوابوں کو تقدیر بنا نے کی دھن میں
خوابوں کی تصویر بنانا چھوڑ دیا
اتنا دہشت ناک نہ تھا ماحول کبھی
لہروں نے ساحل تک آنا چھوڑ دیا
پرچھائیں کا پیچھا کر کے ہار گئے
اس رستے سے آنا جانا چھوڑ دیا
٭٭
چار سو منظر میں بے چینی سی ہے
ہر طرف اس گھر میں بے چینی سی ہے
کیسے پتھر میں بھی پڑ جاتی ہے جان
لمس سے پیکر میں بے چینی سی ہے
کسمساتی آگ نے کھولا بدن
جگمگاتے گھر میں بے چینی سی ہے
چیونٹیاں سی رینگتی ہیں جسم پر
پھر مجھے بستر میں بے چینی سی ہے
آسماں کی خاک چھانوں تو کھلے
کس لئے شہپر میں بے چینی سی ہے
٭٭
ایک پل میں ٹوٹنے کو ہے سمندر کا سکوت
یہ اشارہ کر رہا ہے ریت کے گھر کا سکوت
ہم بہت پچھتائے آوازوں سے رشتہ جوڑ کر
شور اک لمحے کا تھا اور زندگی بھر کا سکوت
ایک شام ایسی بھی آئے ہم انہیں کے ہو رہیں
یہ اداسی کے جزیرے یہ سمندر کا سکوت
کوئی تو آواز ابھرے دل کے ویرانے سے اب
چاٹتا جاتا ہے مجھ کو میرے اندر کا سکوت
ایک لمحے میں شفق کے رنگ کو کجلا گئی
اس کی پل بھر کی اداسی اس کا پل بھر کا سکوت
٭٭
یہاں اب شور ہی کوئی نہ سرگوشی کسی کی
اگر کچھ ہے تو شاید ہو یہ خاموشی کسی کی
بلا ناغہ اسے خوں آدمی کا چاہنے اب
ہمیں کھلنے لگی ہے یہ بلا نوشی کسی کی
اچانک چلتے چلتے اونگھنے لگتا ہے سورج
شفق زاروں پہ چھا جاتی ہے مدہوشی کسی کی
یہاں گرتے ہیں ہر دم ٹوٹ کر شاخوں سے پتے
فضا میں گونجتی رہتی ہے شر گوشی کسی کی
وہ قبرستان کا نقشہ ہی رکھ دیں گے بدل کر
کسی کی تاج پوشی ہے تو گل پوشی کسی کی
گلی میں پھر وہی پرچھائیاں لہرا رہی ہیں
مری آہٹ سے کب ٹوٹی ہے بے ہوشی کسی کی
٭٭٭
تشکر: شاعر جنھوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید