FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

جہاں گرد طلبہ کے گیت

 

 

                میرا جی

 

ماخذ: ادبی دنیا، لاہور اپریل ۱۹۳۸ء، باز اشاعت جدید ادب، جرمنی، میرا جی نمبر

 

 

 

 

 

بارھویں صدی کے جہاں گرد اور خانہ بدوش یورپی طلبہ کے لاطینی گیت سننے اور اور سمجھنے سے پہلے بہت ضروری ہے کہ ہم یہ بات معلوم کریں کہ اس زمانے کے یورپ میں زندگی کے مختلف پہلو کس نہج پر تھے۔ یہ طلبہ ایک خاص فرقے کی حیثیت رکھتے ہیں اور جب تک اُن کی نفسیات، اُن کے طرز بود و باش اور زندگی کی روش کے متعلق چند خاص باتیں پیش نظر نہ کر لی جائیں، اُن کے نغموں سے پورے طور پر لطف اور فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ ___

جب ہم ازمنۂ وسطیٰ میں یورپ کی ذہنی اور اخلاقی کیفیت کا تصور باندھیں، تو چند مقررہ اور معیّن خیالات ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت یورپ کی تمام اقوام ایک مجہول ذہنی خواب خرگوش میں مبتلا تھیں،  یونان و روما کے علوم و فنون رفتہ رفتہ زوال پذیر ہو کر معدوم ہوتے جا رہے تھے۔ بڑے بڑے کتب خانے بے کار رہ کر کرم خوردہ ہونے کے لیے بھلا دیے گئے تھے اور ہر قوم کے افراد قیامت کے خوف اور انتظار میں انتہا پسند بن چکے تھے۔ نیکی کی طرف مائل ہوتے ہوئے، وہ زندگی کی عام مسرتوں کو بھی گناہ کبیرہ خیال کرتے تھے اور برائی کی طرف رجوع کرتے ہوئے، وہ ایک وحشیانہ اشتیاق کے ساتھ اپنی ہستی کو پست خواہشات اور نفس پرستی کے حوالے کر دیتے تھے۔ آیندہ دنیا اور آیندہ زندگی کے متعلق حد سے زیادہ غور و تفکر نے انھیں اس لائق نہ رہنے دیا تھا کہ وہ ان باتوں پر قابو پا سکیں،  جن سے اس دنیا میں اُن کی موجودہ زندگی خوشگوار بن سکے۔ فلسفیوں اور حکما کے دانش اور تدبر کی ایسی قلب ماہیت ہو چکی تھی کہ اُن کے خیالات جہالت کے درجے کو پہنچے ہوئے تھے اور ایسے بے کار اور کا حاصل مسائل اور موضوع ان کا مشغلہ تھے، جن کو حقیقت اور واقعیت سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ مذہبی جنون نے آزاد مطالعے اور مدلل تجربات کی شمع کو گل کر دیا تھا۔ تمام سماج دقیانوسی خیالات کے بار عظیم کے نیچے دبی ہوئی تھی۔ پیشہ ور مذہبی نمائندے دوزخ کی مکروہ اور گھناؤنی مصیبتوں اور عذاب کے ذکر و بیان سے سامعین کے خیالات کو تلخ بناتے تھے اور تعویذ گنڈے اور مقدس مقامات کی زیارت کو ہی ذریعہ نجات تصور کیا جاتا تھا۔ لوگوں کے دل و دماغ کی قدرتی نشو و نما رک گئی تھی اور شیطانی قوتوں سے عہد و پیمان باندھتے ہوئے،  نظم و نسق کے فقدان کی وجہ سے جادو اور مجنونانہ خواہشات کی طرف مائل ہو کر اوٹ پٹانگ تصورات کی دنیا میں مگن تھے۔ سماج میں عورت کا اصلی درجہ قائم نہ رہا تھا۔ ایک طرف تو لہو و لعب اُسے جنسی جذبات کا آلہ کار سمجھتے تھے اور دوسری طرف اُس کا رتبہ اتنا بلند سمجھا جاتا تھا کہ اُسے ولایت کا رتبہ، ایک تقدیس کا ذریعہ اور آخری منزل کہا جاتا تھا۔ عام سوچ بچار، فیصلے کی قوت، حقیقت کو حقیقت سمجھنا،  زندگی کے برے پہلوؤں سے بچنا اور نیک صورتوں کی طرف مائل ہونا___ان تمام باتوں کی زندگی کے ہر شعبے میں کمی تھی۔ ضد اور غلط فہمی کی وجہ سے زندگی کے مناسب مقاصد اُن کی نظروں سے دور ہو چکے تھے اور وہ حقائق کی طرف مائل ہونے کی بجائے اپنی قوتوں کو موہوم سایوں کے تعاقب میں ضائع کر رہے تھے اور اس مستقبل کے منتظر تھے، جس کے متعلق انھیں کوئی خبر نہ تھی اور اُس حال کو قابو میں کرنے کی کوشش نہ کرتے تھے،  جس سے وہ دوچار تھے۔ اس زمانے میں متحدہ یورپ کا سب سے اہم اقدام محاربہ صلیبی تھا اور یہ ایک فاش غلطی تھی، جس سے انجام کار خون خرابے کے سوا اور کچھ نہ حاصل ہوسکا۔

یہ وہ کیفیت ہے، جو یورپ وسطیٰ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ لیکن یقیناً یہ تصویر کا ایک رخ ہے،  کیوں کہ ان کا ماخذ راہبوں کا وہ علم ادب اور تاریخ ہے،  جس میں احیائے اسلام و فنون کی وجہ سے مبالغے کی بہت آمیزش ہے۔ اس حقیقت سے کسی طرح انکار نہیں ہوسکتا کہ اس زمانے میں یورپ کی ذہنی فضا غیر قدرتی طور پر دھندلی ہو رہی تھی۔ جس کی ہمیں روما کے زوال سلطنت اور تیرھویں صدی عیسوی کے درمیانی وقفے میں اور کہیں نہیں ملتی۔ لیکن اس کے باوجود اس زمانے کی کئی باتیں ایسی ہیں،  جن کی بنا پر ہم اُس عہد کے حق میں بھی زبان کھول سکتے ہیں۔ ابتدائی ازمنہ وسطیٰ نے یقیناً قدیم تہذیب و تمدن کو مٹا دیا، لیکن آخری ازمنہ وسطیٰ نے احمقوں کا ایک ایسا گروہ پیدا کر دیا، جس کی ہستی سے قدیم خیالات اور قدامت پرستی کو بقا حاصل رہی۔ لوگوں کے ذہن اور ضمیر اس بات کے عادی ہو گئے کہ ان تصورات کی خیالی دنیاؤں اور مذہبی عذابوں کے اندیشوں کے ہمدوش رہ سکیں، جو حقیقی قابلیتوں کے غلط استعمال کے منت کش تھے۔ چناں چہ جب ہم ان مقررہ خیالات کی موجودگی میں یورپی طلبہ کے ان لاطینی گیتوں سے دوچار ہوتے ہیں،  تو ہمیں بہت حیرانی ہوتی ہے کیوں کہ ہمیں ان گیتوں میں زندگی کا ایک بے باک، تازہ و شگفتہ، قدرتی اور آزاد انداز نظر معلوم ہوتا ہے اور یہ انداز نظر ہمیں مجبور کر دیتا ہے کہ ہم اس زمانے کے متعلق اپنے مقررہ خیالات سے علاحدہ ہو کر منصفانہ رائے زنی کریں۔ ان گیتوں سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس زمانے میں بھی مردوں اور عورتوں کی طبعی تحریکات اور آرزوئیں ویسی ہی زوردار اور گہری تھیں، جیسی کہ یونان اور روما کے زمانے میں یا احیائے علوم و فنون کے بعد۔ ہاں ایک بات ہمیں ماننی پڑتی ہے کہ اس زمانے میں ان تحریکات طبعی میں ویسی باقاعدگی اور پختگی نہ تھی۔ ان جہاں گرد اور خانہ بدوش طلبہ کی شاعری اس گروہ کی تخلیق تھی، جو مذہبی علم کے طالبوں میں ذیلی درجہ رکھتا ہے۔ اس سے روزمرہ کے انسانی رجحانات کا اظہار ہوتا ہے اور اس وجہ سے یہ شاعری ایک عامیانہ رنگ کی حامل نظر آتی ہے۔ اس سے عوام الناس کی افتاد طبع کا پتا چلتا ہے۔ لیکن اس میں کبھی کبھی علم اور مذہب کی گہری جھلک بھی دکھائی دے جاتی ہے۔

یورپ کے ازمنہ وسطیٰ میں ایک ایسا احیا وجود میں آیا، جس کے لیے ابھی مناسب موقع پیدا نہیں ہوا تھا۔ اس کا مرکز فرانس تھا اور اس کے عروج کا زمانہ بارھویں صدی کا وسطی اور آخری حصّہ تھا۔ نیز لوتھر سے دو صدی پہلے انگلستان میں ایسی مذہبی تحریکات ہوئیں، جو مشرقی یورپ پر پھیل گئیں۔ طلبہ کے ان گیتوں سے، جو بارھویں صدی کی پیداوار ہیں۔ ان دونوں تحریکی کوششوں کا اظہار ہوتا ہے،  جو لوگوں نے فریب نفس سے رہائی پانے کے بعد کیں۔ اِن سے لوگوں کے اُن بے روک احساسات کا اظہار ہوتا ہے، جن میں ایک ہلکی سی عالمانہ جھلک بھی موجود ہے اور جو تمام ملک میں پھیل چکے تھے۔ ان سے ایک ایسے گروہ کے جذبات کا پتا چلتا ہے، جو اُس زمانے میں اپنے خیالات کی وجہ سے یکتا نظر آتا ہے۔ ان سے دو باتیں ظاہر ہوتیں ہیں۔ ایک تو زندگی اور نفسی لذتوں سے، وہ حظ اندوزی، جو زمانۂ احیا کی ایک خصوصیت ہے اور دوسرے روم کی پاپائیت سے، جو تخریب پھیلی اس کے خلاف بغاوت۔

اس شاعری کے متعلق ہماری معلومات کے ماخذ دو ہیں۔ ایک تو تیرھویں صدی کا وہ مسودہ، جو بویریا کے بالائی علاقے کی ایک خانقاہ سے برآمد ہوا اور دوسرے وہ مسودہ، جو ۱۲۶۴ء سے پیشتر لکھا گیا اور ۱۱۴۱ء میں شائع کیا گیا۔ ان دونوں مسوّدوں بہت سی نظمیں یکساں ہیں،  لیکن پہلے مسودے میں، وہ نظمیں جو احیائے علوم و فنون سے پیشتر لکھی گئیں،  کثرت سے ہیں اور دوسرے مسودے میں سنجیدہ اور طنزیہ نظمیں زیادہ ہیں۔ ان دونوں مسو ّدوں کے علاوہ فرانسیسی اور جرمن علما کی مختلف تصانیف و تالیفات سے بھی طالب علموں کی اس شاعری کے متعلق بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

ان گیتوں کو پیش کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان کے مصنفوں کے حالات اور اُن کی شاعری کے فنی تجزیے پر ایک نگاہ ڈالیں۔

اہل روما اپنے علم و ادب کے انتہائی ترقی یافتہ اور معیاری زمانے میں بھی شاعری کے لیے عام طور پر قدرتی اور آسان بحریں اختیار کرتے تھے۔ لیکن مشکل اور مقررہ بحریں رومی علما نے یونانیوں کے تتبع میں اختیار کیں۔ اس سلسلے میں حقیقت کچھ بھی ہو، اس میں کوئی شک نہیں کہ جوں جوں پرانے تہذیب و تمدن کو زوال ہوتا گیا۔ لاطینی نظم نگاری میں مقررہ اور مشکل بحروں کی جگہ موزوں اور لہجے کے لحاظ سے قدرتی اور آسان بحروں نے لے لی۔ کلیساؤں کی مذہبی موسیقی کی وجہ سے نظم نگاری کے نئے طریقے ایجاد ہوئے، قوافی کا رواج جاری ہوا اور کئی اور اختراعات عمل میں آئیں۔ اس طرح شاعری میں ایک وسیع تنوع پیدا ہو گیا اور نغموں میں شگفتگی، لچک اور زور بیان کا رنگ آ گیا۔ اس کے علاوہ اگرچہ دسویں صدی سے پہلے کے زمانے کو علوم و فنون کی کمی اور زوال کی وجہ سے تاریک زمانہ کہا جاتا ہے، لیکن اس عہد میں بھی چند کرنیں، اس بے باک اور آزاد نور کی دکھائی دے جاتی ہیں، جو گذشتہ صنم پرستی اور شرک کے زمانے کی خصوصیت تھایا جسے موجودہ زمانے کی صاف گوئی کی ابتدائے بعید کہا جا سکتا ہے۔ ساتویں اور دسویں صدی کی شاعری میں اس خیال کو ثابت کرنے کے لیے چند مثالیں موجود ہیں۔ ان سے ظاہرہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی جب قیامت کے قرب کا وحشت ناک اندیشہ لوگوں کے ذہنوں پر چھایا ہوا تھا، وہ شراب و شعر و نغمہ اور ان سب سے بڑھ کر عورت کو بھولے نہیں تھے۔ ان میں تاحال اس بات کی اہمیت تھی کہ وہ دنیاوی مسرتوں سے حظ اندوز ہوسکیں۔

ازمنۂ وسطیٰ کے اوائل کی لاطینی شاعری کی ان مثالوں کے متعلق تفصیل کی ضرورت نہیں۔ ان کے متعلق محض اشارہ کر دینا ہی کافی ہے کیوں کہ بارھویں صدی کے احیائے علوم و فنون اور گذشتہ فنی زوال میں یہی ایک مبہم اور نازک ارتقائی رشتہ ہیں اور یہی سلسلہ آگے چل کر اٹلی کی چودھویں اور پندرھویں صدیوں کی فنی اور علمی بلندی سے جا ملتا ہے۔ اس شاعری کی تین خصوصیتوں کو مختصر طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس شاعری میں قدیم نظم نگاری کی بہ نسبت موسیقی نمایاں طور پر موجود ہے اور اس میں قدیم بحروں کو ان نئے اثرات کے ماتحت زیادہ سریلی یا نغماتی بنا لیا گیا ہے۔ دوسرے عوام کی مذہبی شاعری نے خانقاہوں کی فاضلانہ اور عالمانہ شاعری کو پس پشت ڈال دیا اور تیسری قابل غور خصوصیت یہ ہے کہ از منہ وسطیٰ کے تاریک ترین عہد میں بھی لا مذہبی اور آزاد خیالی کی رنگ آمیزی،  پرانے علم الاصنام کی ہلکی ہلکی خوشبو، جلاوطن دیوتاؤں کی سرگوشیوں کی صدائے باز گشت اور ایسی تمام باتیں، جو انسان کو اس دنیاوی زندگی کے عیش و مسرت سے محظوظ ہونے پر اکساتی ہیں، یورپ کے طول و عرض سے کلیتاً معدوم نہیں ہوئی ہیں۔

ایک بات اور، اور وہ یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگ اپنے شاعرانہ جذبات اور احساسات کو لاطینی زبان میں اس لیے ظاہر کرتے تھے کہ ان کی اپنی زبانیں ابھی اس قابل نہ تھیں کہ وہ نزاکت خیال کے ہر پہلو کا بار سنبھال سکتیں۔

جہاں گرد طلبہ کے یہ گیت عالمانہ شاعری کا نمونہ نہیں ہیں، بلکہ انھیں سلاست اور قبول عام کا تمغہ حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ نغمے ایسے لوگوں کی تخلیق تھے، جو متمدن اور مہذب تھے اور کسی نہ کسی قسم کے علم و فن سے متعلق ___اور لاطینی زبان کے متعلق اُن کا علم اتنا بڑھا ہوا تھا کہ انھیں بغیر مبالغے کے علامہ سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ جہاں گرد طلبہ تھے کون؟ ان کا سرسری ذکر تو یورپ کے علم و ادب اور تواریخ میں بسا اوقات آتا ہے، لیکن ان کے بارے میں کوئی بیانات نہیں ملتے۔ جیساکہ ان کے نام سے ظاہر ہے،  یہ جہاں گرد اور خانہ بدوش انسان تھے،  جو علم کی تلاش میں مختلف ممالک یورپ میں پھیلی ہوئی یونیورسٹیوں کی خاک چھانتے پھرتے تھے۔ اپنے وطن سے دور، بغیر کسی قسم کی ذمہ داریوں کے، بغیر دولت کے،  بغیر فکر و تردد کے،  بے پروا، عشرت پسند، وہ ایک آزاد زندگی بسر کرتے تھے۔ اور منطق یا دینیات کے کسی مسئلے پر بحث کرنے کی بجائے شراب و شعر و نغمہ اور عورت ان کے دل پسند موضوع سخن ہوا کرتے تھے اور اُن کو لکچر کے کمرے کی بہ نسبت کسی میخانے کی زینت بڑھانا زیادہ مرغوب خاطر تھا۔ ازمنہ وسطیٰ میں یورپ کے مختلف ممالک مختلف علوم کے راہ نما تھے،  اس لیے ایک طالب علم کے لیے مختلف یونیورسٹیوں کا سفر ایک ناگزیر چیز تھا اور صلیبی جنگوں کے بعد سماج کے ہر حلقے میں ایک بے چینی سی چھا گئی تھی، جس کی وجہ سے ہر طرح کے لوگوں میں جہاں گردی کا ذوق ترقی پا چکا تھا۔ تیرتھ یاترا کے لیے، تجارت کے لیے،  محض تجسس اور شوق علم کے لیے،  تجارتی لحاظ سے صنعتی پیشوں کو بلندی پر پہنچانے کے لیے یا مختلف فنون کے محض ذاتی حصول کے لیے، اس زمانے میں جہاں گردی کا یہ ذوق، جس قدر ترقی حاصل کر چکا تھا، اس کا انداز ابھی تھوڑا عرصہ ہوا علما نے لگایا تھا۔ بارھویں صدی کا ایک راہب لکھتا ہے : ’’ایک عالم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کا چکر لگائے اور اس کے تمام شہروں میں پہنچے، یہاں تک کہ جب علم حد سے بڑھ جائے تو اسے دیوانہ کر دے ‘‘۔ گویا جس طرح ایشیا میں مہاتما بدھ کے بھکشو تبلیغی مقاصد کو لیے ہوئے تمام کرہ ارض کی خاک چھانتے پھرتے تھے، اُسی طرح یورپ کے یہ طلبہ اور ہر ملک کے کونے کونے میں جاپہنچتے تھے۔ لیکن ان سب میں اُن لوگوں کی ایک علاحدہ جماعت تھی، جو علم کی چھان بین کے لیے گھر سے نکلتے تھے۔ لیکن مذہبی فرقوں سے متعلق زاہد سیاحوں سے ان کی ایک جدا اور نمایاں حیثیت تھی، کیوں کہ یہ لوگ نہ تو کسی مخصوص فرقے سے تعلق رکھتے تھے، نہ انھوں نے کوئی حلف اٹھا رکھا تھا اور نہ ہی یہ کسی قسم کے رسم و روایات کے پابند تھے۔ عام شہریوں سے ان کو نفرت تھی اور ان سے وہ کسی طرح کی راہ و رسم پسند نہیں کرتے تھے۔ سپاہیانہ پیشے کے افراد سے اگرچہ انھیں کوئی خاص مخاصمت ہرگز نہ تھی، پھر بھی یہ اُن سے اپنے آپ کو بالاتر ضرور خیال کرتے تھے۔ اگرچہ وہ طبعاً اور ضرورتاً آزاد منش تھے، پھر بھی ان کی ہمدردی مذہب کے ساتھ تھی۔ ازمنہ وسطیٰ میں جس قسم کے رجحانات زندگی کے ہر پہلو پر طاری و ساری تھے۔ ان کے مطابق یہ طلبہ بھی خود بخود ایک جماعت یا فرقہ تصور کیے جانے لگے اور ان کی شاعری سے بھی، اگر کسی بات کا سب سے واضح اظہار ہوتا ہے، تو وہ یہی جماعتی احساس ہے،  جس کی وجہ سے ان میں اخوت اور ایک طرح کا بھائی چارہ پیدا ہو گیا تھا۔

رہی وجوہات اور جبلی حاجتیں، جن کے باعث وہ مجبوراً ایک بے ساختگی کے ساتھ افراد سے ایک جماعت کی شکل میں منتقل ہو گئے۔ انہیں کی بنا پر اُن کے لیے ضروری ہوا کہ اپنا کوئی پیر مقرر کریں۔ لیکن چوں کہ ان کا گروہ آزاد خیالات کا حامل تھا، اس لیے یہ بات لازمی تھی کہ ان کا سرگروہ یا پیر بھی آزاد منش ہی ہو۔ اس پیر کی حیثیت حقیقتاً وہی تھی، جو محفل رنداں میں پیر مغاں کی ہوسکتی ہے۔ اس سر گروہ کو وہ گولیاس (Golias)کے نام سے موسوم کرتے تھے اور خود اُس کے مرید ہونے کے لحاظ سے گولیارڈی (Goliardi)کہلاتے تھے۔ گولیاس کا رتبہ باپ اور آقا کے برابر ہوتا تھا اور گولیارڈی یعنی اس کے مرید، اس کے خاندان، اس کے بال بچوں اور اس کے شاگردوں کا درجہ رکھتے تھے۔

کیا طلبہ کے اس فرقے کی نمود کسی شخص گولیاس نامی سے ہوئی یا خودبخود اس فرقے کے صورت اختیار کرجانے کے بعد پیر کے طور پر گولیاس کا وجود ظاہر ہوا۔ اس سوال کا قطعی جواب ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے۔ البتہ ایک بات طے شدہ ہے اور وہ یہ کہ گولیاس یا گولیارڈی کا ماخذ لاطینی زبان کا لفظ ’’گولا(Gola)‘‘ہے، جس کے معنی چٹورے، پیٹوا اور چٹخارے باز کے ہیں اور اگر اس کا ماخذ دیہاتی زبان کا لفظ گولیار قرار دیا جائے، تو اس صورت میں اس کے معنی دھوکے باز کے ہو جائیں گے۔ چٹخارے باز اور دھوکے باز ___بازی کا تعلق ہر صورت میں ان کے ساتھ رہے گا۔ کیوں کہ وہ لوگ منچلے تھے اور زندگی کو سنجیدگی کے ساتھ کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ بہر حال جہاں گرد طلبہ کے لیے اس لفظ کا اطلاق ازمنہ وسطیٰ میں عام تھا، جس کا پتا مذہبی دستاویزوں سے چلتا ہے۔ ان طلبہ کی شاعری کو ہمیں اس نظر سے دیکھنا ہو گا، گویا وہ ایک مخصوص جماعت کا تخلیقی کارنامہ ہے۔ لیکن تفاصیل اور ہر مصنف یا شاعر کے حال کی عدم موجودگی اور نایابی کے باوجود یہ بات صاف طور پر ظاہر ہے کہ یہ نغمے بہت سے مختلف شاعروں کا کلام ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنی انفرادی حیثیت کا مالک تھا اور یہ بات ان گیتوں کو نظر تنقید سے دیکھنے کے بعد نہایت آسانی سے پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے۔

مذہبی دستاویزوں کے مطالعے سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ عوام کی نگاہوں میں ان طلبہ کا وہی درجہ تھا، جو مسخروں اور آوارہ گرد بھاٹوں کا۔ کیوں کہ آوارہ گرد بھاٹ اور جہاں گرد طلبہ ___ان دونوں جماعتوں کا ازمنہ وسطیٰ کے معاشری نظام میں یکساں رتبہ تھا۔ دونوں کا کام ان لوگوں کی تفریح طبع کا سامان مہیا کرنا تھا، جن کا درجہ دنیوی لحاظ سے ان سے بالاتر تھا۔ مستثنیات کے علاوہ دونوں جماعتوں کے افراد کا کوئی مقررہ مسکن و مامن نہیں ہوتا تھا۔

ان تمام نغموں میں شاعر کی شخصیت ہمیشہ روپوش ہو کر معدوم ہو جاتی تھی۔ شاعر کے انفرادی نام کی بجائے صرف انفرادی انداز بیان باقی رہ جاتا ہے اور نظم یا گیت گولیاس یا سرگروہ کی زبان سے ادا ہوتے ہوئے گویا جماعتی احساسات کا ترجمان بن جاتا ہے۔ مقبول عام ادب کی یہ ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ فرد، جماعت میں گھل مل جائے۔ کیوں کہ وہ جذبات اور خیالات، جو مقبول عام شاعری موضوع ہوتے ہیں، ان کا رنگ ذاتی ہونے کی بجائے جماعتی ہوتا ہے۔ وہ جذبات ایسے ہوتے ہیں کہ یکساں ہمدردی اور ذہانت کی بنا پر تمام دنیا انھیں محسوس کر کے شاعر کے طرز نگارش کو اپنا سمجھتے ہوئے، اختیار کر لیتی ہے، اس سلسلے میں اگر کوئی رکاوٹ ہوتی ہے، تو وہ صرف اتنی کہ ان کی عالمگیر مطابقت میں وقتی اور سماجی صورت حالات ایک معمولی سی خلیج پیدا کر دیتی ہے۔ جیسے دیہاتی گیتوں سے کسانوں کی زندگی اور شہری زندگی کا تضاد ظاہر ہوتا ہے، ویسے ہی طلبہ کے ان گیتوں سے بھی آوارہ گردی کی زندگی کے تعصبات اور دیگر خصوصیات منکشف ہیں۔ ان گیتوں میں نغماتی جذبہ صحیح اور سچا ہوتا ہے، احساس کے ساتھ غیر منصفانہ انداز نظر نہیں برتا جاتا اور ان میں ہر جگہ حقیقت کا رنگ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ان میں وہ ذاتی اور شخصی پکار معدوم ہوتی ہے، جو شاعرانہ تخلیق میں ایک خاص ہمدردی اور گہرائی پیدا کر دیتی ہے۔ کیوں کہ ان نغموں کو تیار کرتے ہوئے ایک شخص ہزارہا انسانوں کا ترجمان بن جاتا ہے۔ دیہاتی گیتوں کی طرح اِن نغموں میں عالمگیر احساس کی وجہ سے شخصی خصائص ضائع ہو جاتی ہیں۔ وہ دلچسپی جس کا تعلق مخصوص حالات سے ہوتا ہے، ان نغموں کی انسانی طبیعت سے وسیع مطابقت کی بھینٹ ہو جاتی ہے۔ ایسا نغمہ ہر اس شخص کو اپنا نغمہ معلوم ہوتا ہے، جو رنج و اندوہ کی حالت میں ہویا کسی کو چاہتا ہویا کسی پر فتح حاصل کر چکا ہو۔ اِن نغموں سے سب دنیا کو چھوڑ کر کسی ایک انسان کے غم، محبت اور جیت کا اظہار نہیں ہوتا۔ ان میں اُن ان گنت انسانی زندگیوں کے احساسات و تاثرات موجود ہوتے ہیں، جو نسلاً در نسلاً مختلف زمانوں میں پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ ان میں ایسے فرق نہیں ہوتے، جو یہ کہنے پر مجبور کر دیں کہ انسانی جذبات کی یکسانی کے باوجود میر، غالب اور داغ کے نغمات محبت ایک نہیں ہیں۔ ان میں مختلف فنکارانہ اثر کم ہوتا ہے اور پائیدار انسانی خصوصیت زیادہ۔ اس قسم کا ہر نغمہ تخلیق کے بعد عوام کی ملکیت ہو جاتا ہے۔ ملک کے اطراف و جوانب میں گھومتا پھرتا ہے، سینہ بہ سینہ اور زبان بہ زبان اس نغمے کا سفر جاری رہتا ہے۔ کہیں پہنچ کر وہ خود کو ضائع کر دیتا ہے اور نئے نغمے پیدا کرتا ہے۔ کہیں پہلے موجود نغمے کو معدوم کر کے، اس کی جگہ خود لے لیتا ہے۔ کبھی اسے کانٹ چھانٹ کے باعث اصلی ہیئت سے دور کا تعلق بھی نہیں رہتا، کبھی اس میں ترمیم و تنسیخ اور اضافے کی وجہ سے اسے ایک بہتر یا بدتر مگر بہرحال نئی شکل مل جاتی ہے۔ کہیں یہ مختلف مقاصد کو پورا کرنے کے لیے گھٹایا بڑھایا جاتا ہے۔ مقبول عام شاعری کا ہر زمانے اور ہر ملک میں یہی حال ہوتا ہے اور مذکورہ خصوصیات ایسی شاعری میں ہمیشہ نمایاں ہوتی ہیں۔ ان کے بیان کی ضرورت یہاں اس لیے در پیش آئی کہ طلبہ کے ان گیتوں میں یکساں جذبات و احساسات اور خیالات، یکساں انداز نظر اور طرز بیان بلکہ بعض اوقات یکساں مصرعوں پر حیرانی محسوس نہ کی جائے۔ چناں چہ اسی وجہ سے ہم شاعروں کی شخصیت کا مسئلہ بحث سے منسوخ کیے دیتے ہیں، کیوں کہ ایسے مقبول عام ادب اور شاعری میں اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی، اسی طرح ہم ان گیتوں کے مصنفوں کی قومیت کا مسئلہ بھی معرض بحث میں نہیں لاتے، کیوں کہ اطالیہ، انگلستان، فرانس اور جرمنی تمام ملک ان مصنفین کا اپنے سے وابستہ ہونے کا دعوا کرتے ہیں اور اصل بات بھی یہ ہے کہ ان طلبہ میں ہر ملک اور قوم کے افراد ہوتے تھے۔ اس لیے قدرتاً ان نغموں کے شاعر بھی یورپ کے ہر ملک اور ہر قوم سے تعلق رکھتے تھے اور چوں کہ ازمنہ وسطیٰ میں یورپ کی ہمہ گیر زبان لاطینی تھی، اس لیے یہ فیصلہ کرنا بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے کہ کونسی نظم یا گیت کونسے ملک یا قوم کے شاعر کی تخلیق تھا۔ البتہ یہاں مشہور انگریزی عالم جے اے سائمنڈز کی رائے بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ نغمے زیادہ تر جنوب مغربی جرمنی اور بویریا سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ گیت جو بہاریہ اور عشقیہ ہیں ان کی شدت احساس سے ظاہر ہے کہ وہ جرمن رشتے میں منسلک ہیں۔ وہ گیت جن سے انگریزی سیاسی رجحانات کا اظہار ہوتا ہے، انگلستان سے متعلق کہے جا سکتے ہیں، وہ گیت جن کو ایک فرانسیسی شاعر سے منسوب تسلیم کر لیا گیا ہے اور وہ گیت جن میں ٹیپ کے مصرعے فرانسیسی ہیں، فرانس سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ گیت جن میں زیتون اور صنوبر کے درختوں کا ذکر ہے،  انھیں اطالوی شعرا سے نہیں تو اطالوی اثرات اور حالات سے نسبت دی جا سکتی ہے۔

ان گیتوں ہیئت اور بیان کے متعلق دو باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ان میں سے اکثر کی بحریں مذہبی نظموں اور مناجاتوں کے ڈھب پر مقرر کی گئی ہیں اور ان کا انداز بیان مذہبی شاعری کا سا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور مناجاتوں کے تتبع میں لکھی ہوئی نظمیں اور تضمینیں زیادہ ہیں، لیکن ایسی تمام نظمیں طنزیہ یا بیانیہ ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو گیت مقبول عام مناجاتوں کے ڈھب پر تیار نہیں کیے گئے،  وہ نغماتی ضرورت کے لحاظ سے لکھے گئے ہیں اور ان کی ہیئت کئی بار بہت پیچیدہ سی ہو جاتی ہے۔ اُن کے مصرعوں کی لمبان مختلف اور اُن میں کبھی سادہ اور کبھی دوہرے قوافی ہوتے ہیں اور کبھی کبھی بغیر قوافی کے بھی کام چلا لیا جاتا ہے۔

ان گیتوں کو موضوع کے لحاظ سے دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے حصے میں ایسی نظمیں ہیں،  جن کے موضوع ان طلبہ کی آوارہ، کھلنڈری اور منچلی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہار کے موسم کی باتیں،  دیہات کی کھلی فضا کی مسرتیں،  عشق و محبت کے مختلف پہلو،  مختلف قسم کی عورتوں کا ذکر و بیان اور شراب اور قمار بازی۔ یہ تمام چیزیں اس حصے کی زینت ہیں۔ دوسرے حصے میں زیادہ سنجیدہ باتوں کی طرف توجہ دی گئی ہے۔ اس میں سماج پر طنزیہ نظمیں خصوصاً روم کے دربار کی ہجویں،  ہر ملک کے مذہبی پیشواؤں کی زندگی پر نقد و نظر،  اخلاقی غور و تفکر اور انسانی زندگی کے اختصار کے متعلق خیال آرائی موجود ہے۔ ان دونوں حصوں میں پہلا حصہ ایسا ہے،  جس سے ان شعرا کے متعلق زیادہ شگفتہ اور واضح تصور پیدا ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے حصے کی نظمیں عموماً ایسے لہجے کی حامل ہوتی ہیں،  جس اُس زمانے کے راہبوں کی پند و نصائح والی خشک نظم نگاری کا رنگ ظاہر ہے۔ البتہ اس کے مقابلے میں ان سنجیدہ نظموں میں بے باکی اور خلوص نسبتاً زیادہ اور نمایاں تر ہے۔ کیوں کہ ان طلبہ کی زندگی سماج اور سماجی اصولوں سے علاحدہ اور آزاد تھی۔ اس لیے وہ طنزیہ نظموں اور ہجوؤں میں زیادہ تلخ طریقے پر وقتی عیوب کا جائزہ لیتے ہیں۔

طلبہ کی اس شاعری میں قدرت اور مناظر قدرت کو بہت دخل ہے۔ ان کے نغمات محبت کی فضائے بعید اور ماحول ہمیشہ ان جنگلوں اور کھیتوں میں ہوتا ہے،  جن پر بہار نے اپنا اثر پھیلا رکھا ہے۔ ہر طرف پھول کھلتے ہیں،  ان کی ایک کثرت اور بہتات ہے، سریلی صداؤں والی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ لیمو، صنوبر اور زیتون کے پیڑ کھڑے ہیں، جن کی ٹہنیوں اور پتوں سے ہوائیں سرسراتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔ گلخن(گلخن کے معنی بھٹی کے ہوتے ہیں،  شاید میراجی نے اسے گلبن کے معنی میں استعمال کر لیا۔ ضیا تاجی) ہیں اور بلبلیں اور نرم و نازک قدموں والے غزال، جنگل کی منوہر پریاں اور بن دیوتا رقصاں و لرزاں،  سبزہ زاروں پر محو خرام ہیں اور اس منظر میں فانی دوشیزاؤں کے جھرمٹ گیت گاتے ہوئے نمودار ہوتے ہیں ___ان مناظر کا بیان اُن کے ذاتی تجربے اور احساس کے جوش و شدت پر مبنی ہوتا ہے۔ ان سے ترو تازہ اور صحت ور ہوا کی خوشبو آتی ہے۔ ان سے اس مسافرانہ زندگی اور عشرت سرراہے (غالباً عشرت سراے ) کی باتیں معلوم ہوتی ہیں، جو ان طلبہ کا شعار ہے،  جن کی عمر ایک قدرتی بہاؤ میں فطرت کے عین مطابق بہی چلی جاتی ہے۔ اس شاعری کو گرہست آشرم کے کسی پہلو سے تعلق نہیں ہے اور دنیوی باتوں کا ذکر اگر کہیں ہے بھی تو اتنا طفلانہ اور نازک اور سادگی سے پُر ہے کہ ہم ان شعرا کی عمومیت پسندی سے درگذر کر جاتے ہیں۔

پریتم اور پریمی برہا کی کتھن منزلوں کے دکھ درد سہنے کے بعد آپس میں ملے ہیں،  گاؤں کے لوگ رقص کی تقریب میں اکٹھے ہوئے ہیں،  پریمی پریتم کو لگاتار دیکھے جا رہا ہے۔ پریمی کو وطن سے دور وطن کی یاد ستاتی ہے۔ طالب علم اور دیہاتی دوشیزہ کا افسانۂ محبت جاری ہے اور یا کبھی کبھی ___پریمی ہے،  غمگین، دکھی اور وہ اس لیے کہ اس کی پریتم نے پریم کے بندھن توڑ کر کسی اور خوش قسمت سے رشتہ جوڑ لیا ہے ___یہی اداکار ہیں اور ایسی اداکاری، جس کا ذکر ان گیتوں میں آتا ہے۔ ہر وہ خصوصیت، جو طبع انسانی سے تعلق رکھتی ہے،  ان گیتوں کے تغزل کی پکار کے ذریعے سے ظاہر ہوتی ہے۔

اس شاعری میں، جس محبت کا ذکر کیا گیا ہے، وہ دوستانہ یا جانبازانہ محبت نہیں ہے۔ اخلاقی نظریوں کے تنگ دل حامی، اگر ان میں کسی نام نہاد ’’پاک محبت‘‘ کی تلاش کریں تو وہ بے کار ہے۔ ان نغموں میں محبت ایک طبعی تحریک،  ایک جبلی حاجت اور ایک نفسی کیفیت کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس محبت کو ہم بے باک اور آزاد محبت کہہ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی، ان گیتوں سے نظم کے اداکاروں یعنی شاعر اور محبوب یا مرد اور عورت کی سیرتوں یا اخلاقی خصوصیتوں کے متعلق کوئی بات ہمیں معلوم نہیں ہوسکتی۔ بس یہی سمجھ لیجیے کہ اس پریم ناٹک کے دو مقررہ کردار ہیں۔ طالب علم شاعر اور کوئی عورت، خواہ اس کا نام فلیس ہو یا فلورا،  لیڈیہ ہو یا سیلیہ ___یہ فرق صرف ظاہری ہو گا۔ اس کی سیرت ہر صورت میں یکساں ہو گی۔ محبوب کے نام کے متعلق تو فیصلہ ہو گیا۔ لیکن شاعر ان گیتوں میں ہمیشہ گمنام ہوتا ہے اور پریمی کا نام ہو بھی کیا، سواے اس کے کہ پریمی؛ یہی نام کافی ہے اور اس کے علاوہ اُس کے جذبات کی شدت ہی اس کی انفرادیت کی نمائندگی کے لیے کافی ہے۔

مے نوشی اور میخواری کے مختلف پہلوؤں کے متعلق، جو گیت ہمارے پیش نظر تھے،  اُن میں سے صرف ایک ہی لیا گیا ہے اور وہ اس لیے کہ اس میں بہت سی فنکارانہ خوبیاں یکجا ہو گئی ہیں۔

اور اب لیجیے گیت۔ لیکن گیتوں سے پہلے ایک بات واضح کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ترجمے میں مطلب کی ہمنوائی کے ساتھ ساتھ اس بات کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ اصل کی روح بھی ضائع ہونے نہ پائے۔ اس لیے اس سلسلے میں یہ احتیاط رکھی گئی ہے کہ مقامی اور ملکی خصوصیات کو مترادف ہندوستانی لباس میں ڈھال لیا ہے۔ مثال کے طور پر ساون، بسنت اور بہار،  تینوں الفاظ بہار کے موسم کا اظہار کرتے ہیں۔ یا سرما کو اس کی بیزار کن کیفیات کی وجہ سے خزاں ہی کہا گیا ہے۔ نیز اکثر گیتوں کی سرخیاں خود تجویز کی گئی ہیں۔ چناں چہ پہلے گیت کی سرخی اگرچہ ’’شرمیلی محبت‘‘ ہے، لیکن شاعر کو اس سے اپنے عشقیہ جذبات دکھانا مقصود نہیں ہے،  بلکہ وہ بہار کے موسم کی جنوں انگیزی کو میر تقی کے اس شعر کے مطابق پیش کر رہا ہے کہ

دھوم ہے پھر بہار آنے کی

کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی

 

 

 

(۱)

شرمیلی محبت

 

 

بسنت رت کی شوبھا،  دیکھو پھولی سب پھلواری،

پیارے پیارے دن ہیں سارے،  راتیں بھی ہیں پیاری!

سجی ہوئی ہے سندرتا سے موہن دھرتی ساری!

بیت گئیں پت جھڑکی گھڑیاں،  اب ہے سکھ کی باری!

لیکن پریم کا گھاؤ ہے میرے من میں پریتم پیاری!

رہ رہ کر اک درد ہے اٹھتا،  آنسو بھی ہیں جاری!

کیسے دکھ سے پیچھا چھوٹے،  آئے سکھ کی باری!

جب تک تو من جائے نہ مجھ سے کیسے مٹے دکھ بھاری؟

دیا کرو، ہاں،  دیا کرو، اب آ کر مجھے سنبھالو،

اپنے ننھے پیارے دل کو میرے دل میں پالو،

اپنے پریم کے رنگ میں میرے پریم کا رنگ ملا لو؛

پریم پجارن بن کر یوں جیون کے انت کو پالو!

٭٭٭

 

 

 

دوسرا گیت خالص بہاریہ چیز ہے !

(۲)

آمد بہار

 

لو، آ گیا ہے لوٹ کے موسم بہار کا،

راحت سے درد مٹ گیا قلب فگار کا،

غمگیں خیال دور ہوئے کھو گئے تمام؛

احساس اب نہیں ہے کسی اضطرار کا!

زرّیں شعاع مہر نے پھیلا دیا ہے نور!

منظر ہرا بھرا ہے ہر اک سبزہ زار کا!

دور خزاں کو آج ہوئی ہے شکست فاش،

نیزہ لگا ہے دل میں بہاریں سوار کا۔

اب ابر غم فضا میں کہیں بھی نہیں رہا۔

ہر دل پہ کیف چھا گیا ہلکے خمار کا!

٭٭٭

 

 

 

 

اور اب ذرا چہل پہل شروع ہوتی ہے، والہانہ سرگرمیوں کا دور جاری ہوتا ہے۔

 

(۳)

دعوت عمل

 

صحیفوں کو اٹھا ڈالو،

کہ ہیں نادانیاں شیریں،

بہار آئی ہے _ آئی ہے،

اب آغاز جوانی ہے،

تفکر کام پیری کا،

جوانی اور نہ آزادی،

جوانی ایک سپنا ہے،

صحیفوں کو اٹھا دو تم

جوانی پھر نہ آئے گی

مسرت منہ چھپائے گی

جوانی کو نہ یوں کچلو،

تفکر کو بھلا ڈالو،

جنوں سامانیاں شیریں !

مسرت ساتھ لائی ہے !

محبت کی کہانی ہے !

تفکر نام پیری کا!

سُبک باد صبا ایسی

یہ بس دو پل کو اپنا ہے !

تفکر کو بھلا دو تم!

جوانی آہ! فانی ہے !

یہ اک شب کی کہانی ہے

نہ ان پھولوں کو یوں مسلو،

صحیفوں کو اٹھا دو اب

تفکر کو بھلا دو اب

٭٭٭

 

 

 

 

اس گیت میں مطالعہ اور کتب بینی سے بیزاری اور طالب علمانہ بے نیازی بھی موجود تھی۔ اب ہم ذرا جراَت سے کام لیتے ہوئے آگے قدم بڑھاتے ہیں۔

(۴)

گیت

 

چار سو چھائی خزاں،  چلتی ہے سرما کی ہوا،

برگ پژمردہ گرے جاتے ہیں پیڑوں سے تمام!

اب تو خاموشی ہے،  خاموش پرندے سارے !

جب تک اس دہر پہ طاری تھا بہاروں کا سماں

آنکھ کے واسطے گلزار کھلے تھے ہر سو!

لیکن انسان کے غم کی حقیقت ہی نہیں،

اس سے سو درجہ زیادہ ہے پرندوں کا الم،

ان کے دل کو نہ ہوئی، اور نہ ہو گی تسکیں،

میرے دل کا ہے مگر آج جدا ہی عالم،

ہاں،  مرے دل کو کوئی غم ہی نہیں،  غم کیوں ہو،

جب مرے پہلو میں وہ ہستی پر افسوں ہو،

آج وہ مان گئی، مان گئی بات مری!

آج تو دن ہے مرا _ دن ہے مرا_ رات مری!

آج تو جیت ہی لی پریم کی بازی میں نے !

آخر کیا ہے اُسے راضی میں نے !

اُس کی چتون میں تبسم ہے ہمیشہ قائم!

شوخی و عشوہ گری کام ہے اس کا دائم!

سانس میں کیف ہے اور آنکھ میں اک نور بھی ہے،

نرم سے سینے میں اس کا دل مخمور بھی ہے !

وہ مجھے دیکھتی ہے،  دیکھتی جاتی ہے مجھے !

اور ہر لمحے میں دیوانہ بناتی ہے مجھے !

آہ، روکے کوئی۔ روکے کوئی میری مستی!

اس نے تحلیل ہی کر ڈالی ہے میری ہستی!

ایک بوسے میں مری روح کا رس چوس لیا!

اس سے بڑھ کر ہے بھلا کھیل کوئی من بھاتا؟

دل پہ قابو ہی نہیں دل ہے یہ نغمہ گاتا

آہ! لو، مان گئی آج وہ باتیں میری!

اب تو دن میرے ہیں،  دن میرے ہیں،  راتیں میری

٭٭٭

 

 

 

 

جراَت سے کام لیتے ہوئے قدم تو بڑھایا تھا۔ لیکن ’’ایک بوسے ‘‘ کے پردے میں ہی بات کو چھپا گئے ؛ اب ہم ان واضح باتوں کو چھوڑ کر دو لمحوں کے لیے شاعر کی ذہنی الجھنوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

 

(۵)

محبت کے شبہے

 

 

کیا ہے وعدہ جو اس نے، وہ شیریں ہے،

مرے بے چین دل کو وجہ تسکیں ہے !

اسی وعدے سے دل میں گرمیاں پیدا ہوئی ہیں، اک تمنا کی!

امیدیں مجھ سے کہتی ہیں کہ آئے گی،

کرے گی آج وہ اقرار کو پورا، ___ تسلی رکھ!

مگر شک لوٹ آتے ہیں۔

مرے دل کو ستاتے ہیں،

کہ شاید تیری امیدیں نہ بر آئیں،

کوئی بے رحم لمحہ پھول کو دل کے کچل ڈالے !

اچانک ٹوٹ جائے رشتۂ امید ہی سارا!

بس اک ہے،  ایک ہے مرکز خیالوں کا،

کہ جیسے اک ستارا ہو فلک پر،  دور۔ وسعت میں !

ہیں اس کے ہونٹ مدھ والے،

ملائم پھول کی پتی سے اور میٹھے !

تبسم میرے ہونٹوں پر بھی آتا ہے اسی کی مسکراہٹ سے !

اور اس کی آرزوئے عشق دل میں آگ بھر دیتی ہے اک پل میں !

جب عشق آتشیں سے جام دل لبریز ہو جائے،

تو پھر درد و اذیت کی تھکن سے روح انسانی،

تنزل گیر ہوتی ہے !

دل عاشق کو مہلک آرزوئے عشق تڑپاتی ہے فرقت میں،

یوں ہی میں بھی شکوک تلخ کا مظلوم ہوں ہمدم!

کوئی دکھ اس سے بڑھ کر اس جہاں میں ہو نہیں سکتا!

میں عشق بدگماں کے آتشیں طوفاں میں جلتا ہوں۔ جلتا ہوں،

ذرا دیکھو، کہ یوں بے کار بیتے جا رہے ہیں مختصر لمحے !

بس اب ہے اک ذریعہ زندگی کا۔ میں جو پیتا ہوں،

شراب آتشیں جام محبت سے !

٭٭٭

 

 

اور اب ایک گیت ایسا ہے، جس سے نہ صرف اُن طلبہ کی مسافرانہ زندگی کی جھلک معلوم ہوتی ہے،  بلکہ اس بات کا اظہار ہوتا ہے یہ آزاد بے باک اور لاپروا مفکر شراب اور عورت کے علاوہ مناظر قدرت سے حظ اندوز ہونے کی اہلیت بھی رکھتے تھے۔

(۶)

سونا موسم

 

چپکے چپکے جنگل،

جن کی ہوا میں اب کب تھرکے اس پنچھی کا راگ،

جو ساون میں کہتا تھا یہ ’’جاگ نیند کو تیاگ‘‘

روتے روتے جنگل،

سرو و صنوبر اونگھ رہے ہیں،  تھک کر ہیں ہلکان!

پہلی بات مٹی ہے ایسی، گویا ہیں بے جان!

پت جھڑ والے جنگل،

کیسا غم ہے ؟ پت جھڑ فانی، ساون ہے کیا دور؟

جلد آئے گا پھر وہ سماں بھی، سب ہوں گے مسرور!

خوشیوں والے جنگل،

٭٭٭

 

 

 

 

اور اب ایک مختصر سا نغمہ فرقت کا ہے۔

 

(۷)

ناکام

 

تلخی ایام کو نغموں میں کھو دیتا ہوں میں !

درد بڑھتا ہے مگر حد سے،  تو رو دیتا ہوں میں !

ہنس اپنے آخری لمحوں میں جیسے گائے گیت،

موج موسیقی میں یوں غم کو ڈبودیتا ہوں میں !

میرے چہرے پر نہیں باقی جوانی کی بہار!

اشتیاق آرزو سے دل ہے پڑمردہ، فگار!

ہر گھڑی رنج و الم بڑھتے ہی جاتے ہیں مرے !

شمع بجھتے ہی فضا ہو جائے گی تاریک و تار!

آہ! لو، مرنے کو ہوں،  مرنے کو ہوں،  ناشاد میں !

ہو گیا برباد میں،  لو، ہو چکا برباد میں !

عشق ہے فطرت مری، اتنی ہے مجبوری مجھے،

اُس کی چاہت دل میں ہے،  جس کو نہیں ہوں یاد میں !

٭٭٭

 

 

 

 

اور اب ذرا نفسیات کی پیچیدگیوں کو نغمے کے رنگوں میں سلجھایا جائے۔

 

(۸)

انکار محبت

 

 

گوری پیت کرے پر بولے

کون آنسو کے موتی رولے ؟

پیت نہیں ہے میرا کام

دل کا بھید چھپائے دل میں

جیسے لیلیٰ ہو محمل میں

لیکن انگ انگ یوں بولے

سولے،  پیت کی نیند میں سولے

پی کر مدھ مستی کا جام

اتنی ضدی اور کٹھور!

لیکن دل پی ہو سے خالی

ہلتی جھومتی اور لہراتی

بات کرے تو کھوئی ہوئی سی

آنکھوں پر حلقے چھائے ہیں

چاند ہیں دو اور دو ہالے ہیں

پیلے پتلے بے رس گال!

ٹھنڈی آہیں چغلی کھائیں !

پھولی پھولی سانس ہے کیسی؟

کام دیو! آؤ، آ جاؤ!

پیت کا اگنی جال بچھاؤ،

یوں ابھمانی جیسے در!

انگ انگ جوں ڈالی ڈالی!

نامعلوم سے نغمے گاتی!

آنکھیں جیسی سوئی ہوئی سی

پتلی پتلی کالی دھاری!

روپ کی راتیں ہیں بھیاری!

ہلکی، سوچتی سوچتی چال!

دل کا سارا بھید بتائیں !

کیوں دل کی دھڑکن ہے ایسی؟

آؤ، تیر پہ تیر چلاؤ!

ایسی بھڑکتی آگ لگاؤ،

منہ سے بول اٹھے بے چاری

’’ہاں،  تم جیتے اور میں ہاری!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

اب ذرا ایک ہلکی پھلکی سی سادہ چیز!

 

(۹)

پیت کا گیت

 

گاؤ، گاؤ، پیت کے گیت

جن سے من کو ہو آرام!

آج مرے کومل من میں،

دکھ کا نہیں ذرا بھی نام!

خوشی، محبت اور ہنسی،

آج بنے ہیں میرے میت!

آج مرا من شاداں ہے،

گاؤ، گاؤ، پریت کے گیت،

جیون سکھ ہی سکھ ہے سارا!

ساون آیا اور چلی

من کی ندّی پریم کا دھارا!

آخر اس دل کی بر آئی،

آج ہوئی ہے اپنی جیت!

جیت ہوئی ہے آج ہماری

گاؤ، گاؤ، پیت کے گیت!

٭٭٭

 

 

 

 

اور اب ذرا ان موسم اور محبت کے نغموں سے ہٹ کر ’’رکھ دیجیے پیمانۂ صہبا مرے آگے ‘‘۔ لیکن واضح رہے کہ اس گیت میں (جسے گیت کی بجائے نظم کہنا موزوں تر ہو گا) مقبول عام شاعری کی وہ عمومیت نہیں،  جو طلبہ کے گیتوں کی عام خصوصیت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مطالعے اور علم و فن سے شغف کی وجہ سے وہ کبھی کبھی ایسی تخلیق بھی کر جاتے تھے،  جسے ہم بہتر شاعری سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

 

(۱۰)

مے خانہ

 

 

حیات گرمِ رو ساکن ہے،  ساکن زندگی ساری!

چمکتی ہیں شعاعیں روشنی کی سطحِمینا پر!

شرابِ آتشیں مینا میں ساکن ہے !

ہیں ساکن دست و بازو مے کے متوالوں کے مستی میں !

پھلوں کا رس نکل کر چھوڑ کر گہوارۂ طفلی

ہوا ہے منجمد ذہنوں کی لہروں میں !

ہیں آوارا ہوائیں ساکن و معدوم سی ہستی!

غم و افکار ساکن ہیں !

نشاط و عیش کی ہستی نہیں باقی!

ہر اک انسان کے جذبے۔

عدم سے جا ملے ہیں، چند لمحوں کے لیے اور یوں

فضائے ہاؤ ہو یکسر،

بنی ہے مرمریں منظر،

اکیلا ایک ساغر ساکن عہد فراموشی!

شرابِ آتشیں مینا میں ساکن ہے !

حیات گرم رو ساکن ہے،  ساکن زندگی ساری!

ایک مکمل تصویر ہے اور شاید شاعر نے مصور کے رنگوں کی بہ نسبت اُسے زیادہ چابکدستی سے الفاظ کے جال میں گرفتار کیا ہے۔

٭٭٭

ماخذ:ادبی دنیا، لاہور اپریل ۱۹۳۸ء، باز اشاعت جدید ادب، جرمنی، میرا جی نمبر

تشکر: وقاص،پنجند لائبریری جنہوں نے جدید ادب، میرا جی نمبر کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید