FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

تمہید تمنا

 

 

 

                عمران ساغرؔ

 

 

 

 

مجھے بھی کچھ عطا کر دے اجالا بانٹنے والے

تری خدمت میں تمہید تمنا لے کے آیا ہوں

 

 

 

 

انتساب

 

اماں ! تری مامتا

کے حوالے سے

ابا کی شفقتوں

کے نام

 

اس سے بڑھ کر اور کیا عمران ساغرؔ چاہیے

باپ کا سایہ ملا، ماں کی ملی شفقت مجھے

 

 

 

نئے چراغ

 

 

تقاضائے فطرت اور دستور قدرت ہے کہ پرانے چراغ بجھتے جاتے ہیں اور نئے چراغ روشن ہوتے جاتے ہیں۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب پرانے چراغ بیچ کر نئے چراغ خریدے جاتے ہیں جن میں روشنی تو ہوتی ہے نور نہیں ہوتا، جن میں اجالا تو ہوتا ہے شفافیت نہیں ہوتی اور یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ پرانے چراغوں سے دوسروں کو راہ دکھاتے رہنے کا ہنر کشید نہیں کیا جاتا صرف جلتے رہنے کو مقصدیت اور معراج تصور کر لیا جاتا ہے تو ہوتا یوں ہے کہ ایسے چراغ انگلیاں جلاتے ہیں، ہواؤں کے حلیف بن جاتے ہیں اور روایات کو خس و خاشاک کی طرح خاکستر کر دیتے ہیں، ہمیں اچھے لگتے ہیں وہ نئے چراغ جو پرانے چراغوں سے مزاحمت نہیں کرتے بلکہ ان سے منفعت بخش اجالوں کا اکتساب کرتے ہیں اور عمران ساغر انھیں نئے چراغوں میں سے ایک ہیں، وہی ہونہار بروا ہیں جس کے پات چکنے ہوتے ہیں اور اپنے ہونہار ہونے کا ثبوت بنتے ہیں ان میں شعری شعور کے ساتھ انفرادیت کے سنگ میل نصب کرنے کا ہنر اور جذبہ بھی ہے ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کے زور قلم کو اور روانی عطا فرمائے اور انھیں بلندیوں پر اپنا نام ثبت کرنے کی توفیق بخشے۔

رہبر تابانی دریا بادی

(صدر بزم افقر بارہ بنکی )

 

 

 

 

 

ادب کا نمک

 

 

ایک خوفناک پنجہ جس کی انگلیاں لتھڑی ہوئی ہیں اور ان انگلیوں سے قطرہ قطرہ کچھ ٹپک رہا ہے، لہو رنگ، خون جیسا یا شاید خون ہی اور ان ٹپکتے ہوئے سبھی قطروں پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

کسی قطرے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانیت

کسی قطرے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمانداری

کسی قطرے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سچائی

کسی قطرے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادب

کسی پر ثقافت، کسی پر علم و فن، کسی پر شعر و سخن، کسی پر خون کے رشتے، کسی پر وفا، کسی پر اعتماد، کسی پر دوستی، کسی پر رواداری، کسی پر کچھ تو کسی پر کچھ وہ خوفناک پنجہ کچھ بلند ہوتا ہے اور ساری بلندیاں نیچے جاتی ہوئی دکھائی دینے لگتی ہیں۔

سچائی کیا ہے۔ ؟ یہ بلندیاں نیچے جا رہی ہیں۔ ؟ یا پستیاں اوپر آ رہی ہیں۔ ؟

ہم اکثر انھیں تصورات اور انھیں خیالات اور انھیں سوالات میں الجھے رہتے ہیں یا یوں کہئے کہ وقت گزارتے رہتے ہیں، یا یوں کہہ لیجئے کہ شغل فرماتے رہتے ہیں، یا یوں بھی کہہ لیجئے کہ انجوائے کرتے رہتے ہیں، ویسے بھی لت لگ جائے تو غم مزہ دینے لگتا ہے، زہر نشہ بن جاتا ہے اور ہم۔ ہم تو ٹھہرے شاعرانہ مزاج والے جو خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور کچھ بھی ایسا ویسا مل جائے تو اسے کیسا کیسا بنا نے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔

ہم اپنے تصور کے اس خونیں پنجے سے ٹپکتے ہوئے قطروں پر لکھے ہوئے لفظوں کا مفہوم ملاحظہ کر رہے تھے کہ کسی ہمدرد نے ایک اطلاع بہم پہنچائی اور وہ اطلاع یہ تھی کہ ’’ایک نومولود شاعر آپ کے فلاں شعر پر نکتہ چینی کر رہا تھا ‘‘

ہم نے اس خبر کو ایک غیبت کی طرح سنا اور اپنے ہمدرد کی خاطر مدارات کر کے انھیں رخصت کر دیا اور پھر اپنے اس شعر پر غور کرنا شروع کیا جس پر وہ نکتہ چینی کا مواد فراہم کر کے گئے تھے، ہمارا مزاج ہے کہ ہم اپنے نکتہ چیں خود بنتے ہیں اور جب کبھی کسی موڑ پر ہمیں اپنے کلام میں کوئی جھول مل جاتا ہے تو ہم اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی بات ہم اپنے ہر پیش رو کو سمجھاتے ہیں کہ اپنے نقاد خود بنو گے تو دوسروں کی تنقید سے بچے رہو گے، اپنی تخلیقات کو دشمن کی تخلیقات سمجھ کر برتو گے تو رفتہ رفتہ خود کے عیوب سے نجات ملتی جائے گی۔ اسی نظریہ کے تحت ہم نے اپنے شعر کا کافی گہرائی سے اس شعر کا دشمن بن کر مطالعہ کیا لیکن ہمیں اس میں کوئی کمی نہیں معلوم ہوئی تو ہم نے استاد گرامی رہبر تابانی صاحب کو فون کیا اور فون پر ہی انھیں شعرسنا کر مشورہ چاہا تو انھوں نے بھی اسے درست قرار دیا۔ پھر بھی ہم مطمئن نہیں ہوئے کیوں کہ کبھی کبھی کسی اناڑی کی بات میں بھی دور اندیشیاں ہم نے دیکھی ہیں۔ ذہن میں ایک خلش رہی اور پھانس بن کر چبھتی رہی ہم نے سوچا کہ کبھی نہ کبھی تو نو خیز نقاد صاحب سے ملاقات ہو گی اور ہم ان سے اپنی فنی غلطی کے بارے میں پوچھیں گے۔

ہمیں بچپن سے کئی بیماریاں لاحق ہیں اور ان میں سے کسی کا بھی علاج ممکن نہیں۔ نتیجہ کے طور پر ہمیں ان بیماریوں سے سمجھوتہ کر کے جینا پڑا ہے اور ایسا کرتے کرتے اب ان بیماریوں میں ایک آدھی مزید بیماریوں کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ ہماری بیماریوں میں پہلے غریبی، ناداری، بے مائیگی (بے ماں کا ہونا )شاعری کے وائرس، افسانہ نگاری کے جراثیم، صحافت کا غیر میعادی بخار، اور بلا وجہ کچھ ہونے کا ڈپریشن، جیسی بیماریاں رہیں، اور ہم نے جو بیماریاں بھی گنائی ہیں وہ سب کی سب ’’دما ‘‘ کی طرح ’’دم ‘‘کے ساتھ ہی جاتی ہیں۔ اور اب تو ناتوانی بھی ایک نئی بیماری بن کر ابھری ہے اور اس کے ساتھ ابھرا ہے استاد بننے کا جذبہ، اس جذبہ کی تسکین کے لئے کچھ لوگ آتے ہیں اور اس بیماری میں ہماری عیادت کر کے نیکیاں کما کر چلے جاتے ہیں۔ وہ ایک بار کہتے ہیں ذرا ہماری غزل دیکھ لیجئے گا اور ہم انھیں دیکھتے رہ جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو اپنی انگلی کو اپنے ہلتے ہوئے دانت کے تلے دبا کر حیرت کا اظہار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ ہم خود ابھی تک اپنی سگی والی غزل کو قاعدے سے نہیں دیکھ سکے ایسے میںد وسروں کی غزلوں میں تانک جھانک کی آوارگی ہم کیسے کر سکتے ہیں۔ ؟لیکن جب دعوت آوارگی عام ہو جائے، حسن کپڑوں سے سمجھوتہ کرنے لگے، حروف کے پیچھے کی دیوار ڈھہ جائے، معانی کے لباس کوئی اچک لے جائے، جملوں کی عریانیت شرمندگی بانٹنے لگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جھینپ مٹانے کے لئے ستر پوشی کی اوٹ پٹانگ کوششیں تو کرنی ہی ہوں گی۔ ہم شاید ایسی ہی کوشش میں تھے کہ ایک عیادت کرنے والے کے ساتھ ایک نوجوان وارد ہوا اور اس کا نام ہمیں عمران ساغر بتایا گیا یہ نام اسی نام سے ملتا جلتا تھا جو نام ہمارے کسی شعر پر تنقید کے حوالے سے سامنے آیا تھا لیکن یہ نوجوان ہمیں ویسا لگا نہیں جیسا ہم سے چغلی کی گئی تھی اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم اس کی غزلوں پر بھی ایک نظر ڈال لیا کریں، حالانکہ ہم ابھی خود استاد کے محتاج ہیں لیکن اپنی سوجھ بوجھ کے حساب سے لوگوں کو مشورہ دے دیا کرتے ہیں اور جہاں جہاں الجھتے ہیں تو استاد سے رجوع کر لیتے ہیں۔ چنانچہ شعری مشوروں کا سلسلہ چل نکلا اور اس سلسلہ میں تیزی یوں آئی کہ ہم نے اپنی عادت کے مطابق کئی بار عمران ساغرؔ کے شعری شعور کو آزمایا، کئی بار اسے نئے نئے مصرعوں میں الجھایا اوراس نے ہمیں نا امید نہیں کیا، رفتہ رفتہ وہ وقت آ پہنچا کہ ہمیں عمران ساغر کی عادت سی پڑ گئی روزانہ ایک وقت مقررہ پر عمران ساغر کا ہمارے دفتر پہنچنا کچھ ادبی اور شعری شرارتیں کرنا، احباب کو تنگ کرنا کچھ سننا کچھ سنانا اور اسی کے درمیان اچانک اس خبر کا سنایا جانا کہ اب عمران سعودی جانے والے ہیں اور ہمارے اندر ایک ہیجان کا بر پا ہونا اور عمران سے یہ پوچھنا کہ تم تو محنت کر سکتے ہو، تم تو ایڑیاں رگڑ سکتے ہو پھر آخر تم بھی سعودی کیوں جانا چاہتے ہو۔ ؟در اصل جب بھی کوئی نوجوان سعودی جاتا ہے تو ہمیں نہ جانے کیوں بڑا دکھ ہوتا ہے کہ اب وہ کئی سال بعد گھر لوٹے گا، وہاں تن تنہا اپنوں سے دور اپنے شب و روز گزارے گا اس کے گھر والے اسے یاد تو کریں گے اس سے موبائل پر باتیں تو کریں گے لیکن وہ سارے درد محسوس نہیں کر سکیں گے جو اپنوں سے دور رہنے والا لمحہ لمحہ محسوس کرتا ہے لیکن اس کی نگاہیں گھر کے ناگفتہ حالات پر ہوتی ہیں جنھیں وہ بدلنا چاہتا ہے اور گھر والوں کو آسودہ دیکھنا چاہتا ہے اور وہ سارے حالات کو ایک عادت بنا کر جینے لگتا ہے۔ یہی سب سوچ کر ہم نے عمران ساغر سے بیرون ملک جانے کا سبب پوچھا تھا اور بڑی حیرانی سے پوچھا تھا کیوں کہ ہم نے عمران ساغر کو کچھ الگ پایا تھا اور محسوس کیا تھا کہ وہ اپنے کو کچھ الگ ثابت کرے گا اور دنیا دیکھے گی اور وہ یوں کہ عام طور پر نافہ داران سخن کچھ الگ ہوتے ہیں ان کے فن کی خوشبو ان کی پہچان تو بنتی ہے لیکن کچھ لوگوں کی اذیت بھی بن جاتی ہے۔ مختلف مقامات پر ہم نے اس کربناک پہلو کا اظہار بھی کیا ہے کہ شاعر اور ادیب جہاں ایک طرف قوم کی زبان کا نمائندہ ہوتا ہے اس زبان کے ادب کا نقیب ہوتا ہے وہیں وہ کئی نسلوں کا گنہگار بھی ہوتا ہے جیسے ہی اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ شاعر ہے وہ اپنے شاعر والے خول میں سمٹ کر بیٹھ جاتا ہے اسی خول سے جھانک کر وہ دنیا کو دیکھتا ہے ، اسی خول کے کسی سوراخ سے وہ سانسیں لیتا ہے اسی خول میں جگہ بنا کر وہ کھاتا پیتا ہے اسے اس خول سے دنیا کی ساری رنگینیاں دکھائی دیتی ہیں لیکن اس کے اپنے یعنی اس کے گھر والے اسے دکھائی نہیں دیتے جیسے آنکھ جو یوں تو سب کچھ دیکھتی ہے لیکن آنکھ کے اندر اگر کچھ چلا جائے تو وہ اسے نہیں دیکھ پاتی اسی طرح ایک شاعر ماں باپ کے لئے مایوسی بن جاتا ہے بھائی بہنوں کے لئے ایک جھوٹا خواب اور خود اپنے لئے کسی ایسے بد نصیب کا خط جو کہیں خون دل سے لکھا ہوا ہو اور کہیں کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا ہو، اس کے بعد اگر کسی بد نصیب کو شاعری کے اس خول میں بند انسان کے پلے باند ھ دیا جائے تو ایک اور بد نصیب نسل وجود پا جائے لیکن شاید نافہ داران سخن کی یہ خصوصیات گئے وقتوں کی شناخت تھیں آج کے عمران ساغر کو ہم نے شاعری کرتے تو دیکھا لیکن شاعری والے اس خول میں کبھی گھستے نہیں دیکھا ہمیشہ اکتساب معاش کے لئے فکر مند پایا اپنے گھر والوں کے لئے خوشیاں تلاش کرتے دیکھا اور اسی لئے ہمیں اس وقت شدید حیرت ہوئی جب ہم نے یہ سنا کہ عمران ساغر بھی سعودی جانے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ جانتا تھا کہ ہمیں اس کا یہ فیصلہ گراں گزرے گا اس لئے اس نے ہم سے اس کا ذکر نہیں کیا لیکن ہمیں معلوم تھا وہ کب جائے گا کس ٹرین سے شہر چھوڑے گا، اور کس طیارے سے ملک، وہ ہم سے ملنے آیا ہم نے خدا حافظ کہا بڑی مشکل سے اس وقت تک کے لئے آنسوؤں کو روکا جب تک وہ چلا نہیں گیا مگر اس کے جانے کے بعد تحمل نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔

وہ جاتے جاتے صرف اپنی یادیں ہی نہیں چھوڑ گیا تھا بلکہ ایک جوتا بھی ہمارے دفتر میں چھوڑ گیا تھا وہ جوتا جو شاید اسے کاٹتا تھا یا بڑا ہوتا تھا جو بھی ہو اس کے جانے کے بعد یہ جوتا ہمارے بڑے کام آیا جب ہمیں اس کی زیادہ یاد آتی تو ہم اس کے جوتے کو دیکھتے اور احباب کو یاد دلاتے کہ دیکھو عمران ساغر نہیں تو کیا ہوا اس کا جوتا تو ہے ہم عمران کو سیدھا نہیں کر سکے اس کا جوتا تو سیدھا کر ہی دیں گے یہ سب کچھ بہت دنوں تک چلتا رہا پھر عمران ساغر کے شعری مجموعہ کی باتیں چلنے لگیں ہم نے سوچا کہ ابھی عمران کا شعری شعور کچھ اور نکھرے تو مجموعہ کلام کی باتیں ہوں کیوں کہ روایت یہی ہے کہ شاعر جب اپنے کو اچھا یا برا ثابت کر لیتا ہے تو چلتے چلاتے ایک مجموعہ کلام چھوڑ جانے کا تمنائی ہوتا ہے۔ شاید وراثت کی طرح، یا نصیحت کی طرح یا وصیت کی طرح یا شاید اس لئے کہ اردو اکادمی سے اس پر کوئی انعام مل جائے گا اور بچے یہ سوچ کر خوش ہو جائیں گے کہ چلو کچھ تو ملا مٹی ملے سے۔

کہتے ہیں کہ کبھی کبھی سچ بڑے عجیب انداز میں رونما ہوتا ہے اور ہمارے ساتھ بھی کچھ یونہی ہوا جب ہمیں پتہ چلا کہ عمران ساغر کا بیرون ملک سفر اسی مقصد کے لئے تھا کہ وہ اپنی کمائی سے اپنی شاعری کی کمائی کو گھر دینا چاہتا تھا وہ خود شاعری کے خول میں بند نہیں ہوا کیوں کہ اسے اپنی شاعری کو خول عطا کرنا تھا۔ اور تب ہم چونکے اور ہم نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ صف ثانی کی نگہ داشت کے ساتھ ساتھ ان کی نگارشات کی گل پیرہنی بھی ضروری ہے اور پھر ہمیں ایک طویل عرصہ لگا عمران ساغر کی نگارشات کو ہر ہر زاوئے سے دیکھنے اور کسی کو دکھانے میں۔ اور اب یہ تمہید تمنا ارباب ادب کے حوالے ہے۔

ہم عمران ساغر سے کہا کرتے تھے کہ شاعری کو پیغام بناؤ ہر کسی کے اندر کوئی نہ کوئی صلاحیت چھپی ہوتی ہے لیکن صلاحیت تحریک مانگتی ہے ’’کک‘‘ مانگتی ہے ترغیب مانگتی ہے اور کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ترغیب نہ ملنے پر صلاحیت دبی کی دبی رہ جاتی ہے لیکن جب شاعری کی صلاحیت ابھرے تو اسے با مقصد بنانے کی کوشش کروا ور ہم نے دیکھا کہ عمران ساغر نے گل و بلبل کی داستانوں، یا عشق و محبت کی حرماں نصیبیوں سے ہٹ کر راہیں تلاش کیں اور سعودی جانے سے پہلے وہ ایک غزل عام طور پر نشستوں میں سنایا کرتا جس کا ایک شعر اسے بہت محبوب تھا اور لوگوں کو بھی پسند آتا تھا پسند تو ہمیں بھی تھا لیکن اسے چڑھانے کے لئے ہم اکثر اس سے پوچھا کرتے تھے کہ یہ خیال تم نے کہاں سے چرایا ہے۔ ؟وہ حسب عادت ہنستا اور دوسری باتیں شروع کر دیتا لیکن ہم یہ نہیں بھولتے کہ عمران ساغر نے نئی نسل کو آئینہ دکھانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور شاید اسی کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اس نے کہا کہ ؎

بزرگوں کو نئی نسلوں نے حیرانی میں رکھا ہے

نمک محفوظ رکھنے کے لئے پانی میں رکھا ہے

اس شعر میں عمران نے جو کچھ بھی کہنے کی کوشش کی ہو ہم نے جو محسوس کیا ہے وہ یہی ہے کہ نئی نسل بڑوں کو چکما دے رہی ہے اور الٹی سیدھی حرکتیں کر کے اپنے بڑوں کو حیران کر رہی ہے اپنے بڑوں کو سمجھاتی ہے کہ اس نے نمک کو پانی میں رکھ دیا ہے وہ محفوظ رہے گا یعنی مغرب کی طرف بڑھتی جاتی ہے اور کہتی جاتی ہے وہ سورج ہے جو مغرب میں جا کر ڈوب جاتا ہے ہم نئی نسل ہیں سب کو ڈبو دیں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ عمران کی شاعری کو پیغام اور نئی نسل کا آئینہ بنائے اس نے ادب کو جو نمک دیا ہے وہ واقعی ادب کا نمک بن جائے۔ وہ سعودی سے لوٹنے والا ہے اور نہ جانے ہمارے کن کن جملوں پر ہم سے جھگڑا کرنے والا ہے اللہ اس کے جذبوں کو توانائی اور اس کی فکر کو تاثیر عطا فرمائے۔

ناچیز : امیر حمزہ اعظمی

 

 

 

تقریظ تمنا

 

شاعری ایک ایسا ذریعہ اظہار خیال ہے جس میں شاعر کی عمر بہت معنی رکھتی ہے، شاعری بچوں کا کھیل نہیں ہے، اگر پچپن میں ہو تو بچوں کا کھیل بھر رہ جاتی ہے جوانی میں ہو تو عین شباب پر ہوتی ہے، شاعری در اصل شباب کا ہی دوسرا نام ہے غزل کی شاعری کے لئے جوانی سب سے موزوں عمر ہوتی ہے جب شاعر بچپن کی حدود سے نکل کر جوانی کی نئی منزلوں کو طے کرتا ہے، ذہن انسانی اسی عمر میں خوابوں کی نئی وادیوں میں سفر کرنے لگتا ہے۔ دل نئی نئی خواہشات کے لئے دھڑکنے لگتا ہے۔ تصورات کی دنیا عجیب عجیب رنگوں سے زندگی کے کینوس پر نئی نئی تصویریں بنانے لگتی ہے اس وقت شاعر تخلیق کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے اور شاعری بڑھاپے میں پند و نصیحت بن کر رہ جاتی ہے یہ وہ زمانہ ہے جب شاعر کو قطرہ میں دریا دکھائی دینے لگتا ہے جز میں کل کا تصور غالب آ جاتا ہے یہ زمانہ ہوتا ہے جب شاعر اپنی ذات سے نکل کر گرد و پیش کے حالات و واقعات کا مشاہدہ شروع کر دیتا ہے عمران ساغر کی شاعری عین جوانی کی شاعری ہے ان کے بچپن کا تو علم نہیں میں نے ان کو عین شباب میں شاعری کرتے دیکھا ہے ایسے میں ان کی شاعری میں غزل اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے ہمارے عہد کی نئی نسل میں سب سے اچھا کہتے ہیں اور بہت کہتے ہیں ہر چند کہ گزشتہ دو سالوں سے ان کو سننے کا موقع نہیں مل رہا ہے مگر جس قدر ان کی شاعری کو سنا ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ مؤ کے شعری افق پر عمران ساغر ایک ایسے آفتاب کے مانند ہیں جن کی شعری کاوشوں سے ادب کو فروغ مل رہا ہے انھوں نے اپنی غزلوں کے ذریعہ شاعری کے فن کو جلا بخشی ہے ہمارے عہد میں جب کہ ہر شئے انحطاط پذیر ہے شاعری اور شاعری کا فن دونوں زوال آمادہ ہیں ایسے میں کوئی شاعر اپنی فکر سے اس فن کو جلا بخش رہا ہو تو ہم اسے معجزہ ہی کہیں گے گزشتہ دس سالوں سے اپنے شہر کے شعراء اور ادباء کی تحریروں کو بہ غور دیکھ رہا ہوں ادب کی جو شکل سامنے آ رہی ہے وہ خاطر خواہ تو نہیں ہے پھر بھی اطمینان بخش ضرور ہے نئے پرانے لوگوں کو سننے کا موقع خوب مل رہا ہے شاعری کی کئی گرہیں کھل رہی ہیں اساتذہ بھی وقتاً فوقتاً دستیاب ہو جاتے ہیں سب کو سننے کے بعد یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس عہد کے تازہ واردان ہوائے دل میں سب سے زیادہ سخن فہم وسخن سنج عمران ساغرؔ ہی واقع ہوئے ہیں۔ خوب مطالعہ کرتے ہیں، اساتذہ سے مشورہ کرتے ہیں پھر جو شاعری کرتے ہیں وہ یقیناًدوسروں کے لئے ایک معیار قائم کرتی ہے عمران ساغرؔ کی شاعری جس قدر غم جاناں کا احاطہ کرتی ہے اسی قدر غم دوراں سے بھی لبریز ہے ان کے اشعار اکثر چونکانے والے ہوتے ہیں شعر میں مضامین کی جدت ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے ہمیشہ نئے مضامین کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہیں۔

زیر نظر مجموعہ کلام ’’تمہید تمنا ‘‘کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔ مجھے بے حد خوشی محسوس ہو رہی ہے ان کے مجموعہ کی تقریظ لکھتے ہوئے امید ہے کہ آئندہ ان کے مزید مجموعہ کلام شائع ہوتے رہیں گے ابھی تو یہ تمہید تمنا ہے۔

ذکی محفوظ (ایڈووکیٹ )

(جنرل سکریٹری بزم اردو مؤ )

 

 

 

مرے نصیب میں جلنا اگر لکھا ہو گا

عمران ساغرؔ : نئی نسل کا نمائندہ شاعر

 

اردو شاعری کا جہاں تک تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ حادثاتی اور سانحاتی شاعری ہے۔ اولاً تو یہ کہ شاعری کو انسان کی مادری زبان کہا اور سمجھا جاتا ہے، اسی کا اعتبار کرتے ہوئے اسے میں نے واقعاتی اور حادثاتی قرار دیا ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان بہت زیادہ خوشی اور مسرت یا اسی طرح سے رنج و غم سے دوچار ہوتا ہے تو اچانک نادانستہ اور غیر شعوری طور پر اس کی زبان سے اپنی مادری زبان کے الفاظ ہی نکلتے ہیں، اس اعتبار سے میں سمجھتا ہوں کہ اردو شاعری کو حادثاتی کہنا کسی طور بے جا نہیں ہو سکتا کیونکہ اپنے معاشرتی تناظر میں ہمارا یہ مشاہدہ رہا ہے کہ اس طرح کے مواقع پر چار و ناچار کوئی نہ کوئی شعر زبان سے پھسل ہی جاتا ہے۔

اردو شاعری کی تاریخ میں میرؔ سے لے کر ساحرؔ و فرازؔ تک ہر ایک شاعر اولاً اولاً کسی زلف گرہ گیر کا اسیر مطلق نظر آتا ہے، چنانچہ میرؔ کے بارے میں کسی کا یہ جملہ مجھے یاد آتا ہے کہ ’’ میرؔ ابتدائے شباب میں کسی آہو چشم کا شکار ہو بیٹھے اور دستور محبت کے مطابق ناکامی سے ہمکنار ہوئے ‘‘، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’عشق مجازی ہی انسان کو عشق حقیقی کی لذت سے آشنا کرتا ہے ‘‘ اور عشق مجازی ہی کے در گزر کر انسان عشق حقیقی کی منزلوں کی جانب رواں دواں ہوتا ہے۔

ایک دوسری بات یہ کہ اردو شاعری کے تعلق سے بہت سارے لوگ مستقل مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہندی ساہتیہ سے متاثر ہو کر اردو سامعین کا مزاج بھی کافی بگڑ چکا ہے اور اردو شعراء بھی عوامی پذیرائی اور سستی شہرت کے لیے وہی سب لکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں جن لغویات کی متحمل کم از کم اردو زبان کی نازک مزاجی کبھی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ملک زادہ منظور احمد نے ایک موقع سے کہا تھا کہ ’’لوگوں کا خیال ہے کہ اردو غزل کا دامن اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ اب مزید اس میں وسعت کی گنجائش نہیں ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر فنکار کی انگلیوں میں دم ہے تو وہ غزل میں اب بھی بہت سارے نئے موضوعات کو سمو سکتا ہے اور بحسن و خوبی انھیں برت سکتا ہے۔ ‘‘ اس لحاظ سے اگر میں کہوں کہ اردو شاعری میں مطلقاً اب بھی کچھ ایسے شاہسوار موجود ہیں جو اردو شاعری کو زمانے کی مانگ کے مطابق نہیں بلکہ میرؔ و غالبؔ کی روایات کے تابع رکھنے کے قائل ہیں تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ ہو گا۔ جہاں تک بزرگ شعراء کا تعلق ہے تو اس پر گفتگو پھر کبھی سہی، لیکن نوجوان شعراء میں بھی امید کی کچھ ایسی کرنیں پھوٹ رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو شاعری باوجود کچھ کمیوں اور خامیوں کے اب بھی ارتقاء کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے اور ؎

یہ چند جھونکے ہوا کے بجھا نہ پائیں گے

مرے نصیب میں جلنا اگر لکھا ہو گا

انھیں نوجوان شعراء میں ایک نام عمران ساغرؔ کا بھی ہے۔

عمران ساغرؔ سے میری ملاقات تو کئی ایک بار کی تھی، لیکن باقاعدہ تعارف ’’بزم شعر و ادب‘‘ کی ماہانہ طرحی نشست کے موقع پر ہوا، مصرع طرح تھا ’’دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے ‘‘ عمران ساغرؔ نے غزل سنائی اور ہر طرف واہ واہ کے شور سے اوریئنٹل لائبریری کا ہال گونج اٹھا۔ نشست کے بعد باقاعدہ تعارف حاصل ہو سکا اور تب سے یہ سلسلہ تا امروز جاری ہے۔ بڑی حیرت ہوئی ساغرؔ جیسے نوجوان شاعر کی زبان سے اس قدر سنجیدہ اور معنی آفریں کلام کو سن کر اور مجھے احساس ہوا کہ اردو شاعری کا ٹمٹماتا ہوا یہ چراغ ابھی کافی دنوں روشن رہے گا اور جب تک ساغرؔ جیسے شعراء موجود رہیں گے ان چراغوں کو کوئی بجھانے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا۔

ساغر کا اصل نام محمد عمران اور ولدیت اخلاق احمد ہے۔ ۱۹؍اکتوبر۱۹۸۹ء کو شہر فضا کے ایک معروف محلہ پیارے پورہ میں ولادت پائی، ابتدائی تعلیم جامعہ مفتاح العلوم، مؤ سے حاصل کی۔ معاشی تنگ دستیوں کے سبب تعلیم کو خیرباد کہہ کر گھریلو صنعت میں والدین کا ہاتھ بٹانے لگے، لیکن شعر و ادب کی دلدادہ طبیعت ذاتی مطالعوں سے باز نہ رہ سکی اور آخر کار معاش کی پرپیچ گلیوں سے گزرتے ہوئے ۲۰۰۶ء  میں کارگاہِ شاعری میں قدم رکھا، ابتداء میں ’’بزم تعمیر اردو‘‘ کی ممبرشپ اختیار کی اور ماہر عبدالحئی مرحوم اور ان کے بعد نیازؔ ہمدم سے مشورہ سخن کیا، لیکن جستجو پسند طبیعت انھیں ادھر سے ادھر لاتی، لے جاتی رہی۔ آخرکار ’’بزم شعر و ادب‘‘ کی ممبری اختیار کی اور امیر حمزہ اعظمی سے مشورہ سخن شروع کیا اور شہر سخن (مؤ ناتھ بھنجن) کے ادبی حلقوں میں ایک ایسا نام بن کر ابھرے کہ ان کے بغیر ادبی نشستیں کچھ تشنہ تشنہ سی لگنے لگیں۔

جہاں تک ساغرؔ کی شاعری کا سوال ہے تو ابتدائی دور سے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے اوپر میرؔ و غالبؔ کی روایات کا تتبع لازم کر لیا تھا، ان کی ابتدائی غزلوں میں بھی وہی میرؔ کی سادگی نظر آتی ہے جس نے میرؔ کو ادب اردو میں جاوداں کر دیا۔ ملاحظہ فرمائیں ؎

ہمیشہ زخم ہی بخشا کبھی راحت نہیں بخشی

نہ جانے اس جفا پیشہ کو کیا مجھ سے عداوت ہے

مرے گھر میں کسی قارون کی دولت نہیں یارو!

بہت نادار انساں ہوں، یہی میری حقیقت ہے

ساغرؔ کا دوسرا شعر اور آتشؔ کا ؎

طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال

ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

سامنے رکھا جائے تو ساغرؔ کے فکری نقوش کا راستہ معلوم کرنا ہمارے لیے سہل ہو جاتا ہے۔

جیسا کہ میں نے ابتداء میں عرض کیا تھا کہ اردو شاعری کا تقریباً ہر بڑا نام کسی نہ کسی زلف گرہ گیر کا اسیر نظر آتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس ’’دامِ جمال‘‘ سے ’’چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں ‘‘ کہہ کر رہائی کی صورت نکال لی تو بہت سے لوگوں کے لیے یہ زلف عنبر بیز ’’پاؤں کی زنجیر‘‘ ہی بن کر رہ گئی۔ ساغرؔ کا معاملہ بھی کچھ یوں ہی سا ہے، اگرچہ ساغرؔ نے کبھی کھل کر اقرار نہیں کیا بلکہ اس کا اقرار بھی زمانے کی پابندیوں کی بھینٹ چڑھ گیا، شاید اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ساغرؔ نے کہا تھا کہ ؎

اگر سچ بول دیتے تو کوئی بدنام ہو جاتا

نہیں ہے غم، سزا پائی جو میں نے بے زبانی کی

ساغرؔ کی محبت بھی سپاٹ یا روایتی نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ حد تک تجدد ہے، نو خیزی ہے، شوخی و ادا بھی ہے ؎

ساغرؔ وہ سامنے مرے آیا جو بے نقاب

کہنا پڑا یہ مجھ کو ستمگر حسین ہے

ساغرؔ کی محبت میں کچھ روایتی کردار ضرور نظر آئیں گے، ایک رقیب (روسیاہ) اور ایک رفیق دیرینہ ساغرؔ کی شاعرانہ محبت کا جز ہیں

وہ اگر جھوٹ بھی بولیں گے تو سچ مانو گے

میں اگر سچ بھی کہوں گا تو فسانا ہو گا

اسی دیرینہ رفیق کو مخاطب کر کے ساغرؔ نے کہا ہے ؎

ان کے کوچے سے سلامت نہیں آتا کوئی

ان کے کوچے میں بہت سوچ کے جانا ہو گا

اور اسی رفیق سے اس شعر میں بھی خطاب کیا گیا ہے ؎

اس نے دیکھا ہے ہمیں آج محبت کی نظر سے

آؤ اس بات پہ ہم شکر کا سجدا کر لیں

ساغرؔ کو حسن کی بہانے بازیاں، ادائیں اور ناز و نخرے کا بھی خوب علم ہے، اسی لیے وہ کافی کھلنڈرے موڈ میں اپنے محبوب سے فرمائش کرتا ہے کہ ؎

دلِ وحشی کو مرے کچھ تو سکوں آئے گا

آپ آئیں نہ مگر آنے کا وعدہ کر لیں

لیکن یہاں ایک اور بات ذکر کرنی اشد ضروری ہے کہ ساغرؔ کا معاملہ بھی کچھ کچھ ایسا ہی رہا ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شادؔ عارفی نے کبھی کہا تھا کہ ؎

دس پانچ برس حضرت حالیؔ کی طرح شادؔ

مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے

لیکن پھر اوروں کی طرح ساغرؔ بھی جلد ہی اس خمار سے باہر آ گیا اور اس کی شاعری ذاتیات سے اٹھ کر آفاقیت کی طرف رواں ہو گئی۔ کہاں شاعر کی نازک مزاجی اور کہاں ملک کے بگڑتے حالات، مفلسی و بے کاری، آخر کار دل کی بات زبان پر کچھ اس طور آئی کہ ؎

چلو اس شہر سے ساغرؔ کہیں اب اور چلتے ہیں

یہاں پر خون سستا ہے یہاں قیمت ہے پانی کی

پھر تو ساغرؔ نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے کی جیسے قسم کھا لی ہو، وہ رہ گزار زیست میں آگے کی طرف ہی بڑھتا گیا، کبھی اگر کسی نے راستہ روکنے کی کی کوشش بھی کی تو اس کی طرف التفات نہ کیا بلکہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ ؎

اے اہل زمانہ ضد نہ کرو وہ دور پرانا یاد نہیں

اب ان کی کہانی کیا کہئے خود اپنا فسانہ یاد نہیں

یہ الگ بات ہے کہ کبھی نہ کبھی دل کے نہاں خانے میں پرانی یادیں تازہ ہونے لگتی ہیں، ایک کسک سی اٹھتی ہے، شکوہ مناسب نہیں لگتا، تو انسان تخیل و تصور کو ہی ذریعہ بناتا ہے اور اپنے محبوب کو پیکر تجسیم کے بجائے پیکر تصویر میں ڈھال کر چند لمحوں کے لیے خود اپنے آپ سے کیے ہوئے وعدوں کو بھول کر یہ کہہ ہی بیٹھتا ہے کہ ؎

وہ چاندنی شب، پھولوں کی مہک وہ ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے

تو اتنی جلدی بھول گیا موسم وہ سہانا یاد نہیں

شاعر کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ کوئی صرف اسی کے لیے جیتا اور مرتا ہے، لیکن وہ بے چارہ غم دوراں اپنے کاندھے پہ اٹھائے ہوئے خود ہی ہلکان ہوتا ہے کہ اسے اپنوں اور پرایوں کی خبر گیری کی رسم یاد نہیں رہ جاتی۔ آخرکار مصائب کے بوجھ اس کے لیے قاتل ہونے لگتے ہیں اور اسے ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کا پرندہ اب قید عنصری سے آزاد ہونا چاہتا ہے لیکن اچانک پھر سے اسے نئی تازگی، نئی زندگی اور تازہ حرارت کا احساس ہوتا ہے، تو اس کا تخیل پھر سے پچھلی زندگی کی طرف دوڑ پڑتا ہے، بہت ساری جانی انجانی شکلیں نظر تو آتی ہیں، لیکن کسی چہرے پہ مانوسیت کے آثار نظر نہیں آتے، وہ تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ؎

زہر کھاتا ہوں مگر موت نہیں آتی ہے

کون ہے جو مجھے جینے کی دعا دیتا ہے

وہ اپنے آپ کو اشکوں سے تر بہ تر کر لیتا ہے، یادوں کے آئینے پہ جمی ہوئی گرد کو صاف کرتے کرتے آئینے پہ خراشیں تک ڈال دیتا ہے مگر پھر بھی اس کا تصور اسے کوئی مانوس صورت مہیا کرنے سے قاصر نظر آتا ہے تو ایسے عالم میں شاعر کا لہجہ شکست خوردہ ہو جاتا ہے اور پھر اس کی زبان سے ایسے اشعار نکلتے ہیں کہ ؎

کسی کی یاد بھی آئی نہیں ہے

میں کیوں آنسو بہاتا جا رہا ہوں

لیکن ان تمام مسائل کا احاطہ کرنے کے بعد بھی عمران ساغرؔکھلے دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ زندگی میں محبت کا صرف ایک ہی محور نہیں ہوتا، صرف کسی حسین کے قدموں میں سر کا جھکا دینا ہی محبت کی معراج نہیں ہے، بلکہ اصل محبت کی حقدار تو وہ ذات ہے جس نے اس معدوم کو وجود بخشا ہے، اس لیے ضروری نہیں ہے کہ زباں پہ آنے والے فدائیانہ اشعار کی نسبت کسی ایک ہی شخص کی طرف کی جائے، بلکہ اس محبت کا محور ماں کا وجود بھی ہو سکتا ہے ؎

ایک بھی لمحہ جسے بھول نہ پاؤں ساغرؔ

وہ مری روح، مری جاں بھی تو ہو سکتی ہے

یاد میں جس کے گزرتی ہیں مری شام وسحر

’’صرف محبوبہ نہیں ماں بھی تو ہو سکتی ہے ‘‘

ساغرؔ کو انسان کی ازلی مجبوریوں کا احساس بھی ہے، وہ زندگی کے دیرینہ مسائل کا واقف کار بھی ہے اور اسے انسان کی تلون مزاجی کا بخوبی علم بھی ہے، اسی لیے وہ اپنی محبت کے محور کو تبدیل کرنا چاہتا ہے کہ ظاہری اسباب میں رونما ہونے والی تبدیلیاں انسان کے قلب پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں، پسند و ناپسند کے معیار بدلتے ہیں، اس لیے کوئی صورت ہمیشہ اچھی نہیں لگ سکتی، ایک نہ ایک وقت آتا ہے کہ جب حسن ظاہر زوال پزیر ہونے لگتا ہے، انسان نئی زمین، نئے آسمان کا متلاشی بن جاتا ہے، کیونکہ اس کی فطرت میں عجلت بھی ہے اور حرص بھی اور یہ عجلت و حرص اسے کسی بھی آن چین و سکون سے نہیں رہنے دیتی۔ مختلف ادوار کے مختلف شعراء نے اس مضمون کو مختلف انداز سے ادا کیا ہے۔ کبھی شمس العلماء خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے کہا تھا ؎

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھیرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

تو شکیل اعظمی نے کچھ یوں کہا کہ ؎

اب بچھڑ جا کہ بہت دیر سے ہم ساتھ میں ہیں

پیٹ بھر جائے تو کھانا بھی برا لگتا ہے

لیکن ساغرؔ نے اسی مضمون کو اٹھایا تو اس نے انتہائی نادرہ کاری کی اور ایک وسیع و بسیط کینوس بنا کر مختلف رنگوں سے رنگ آمیزی کرتے ہوئے اصل مقصود کی طرف آیا اور بڑی خوبصورتی سے دل کی بات کہہ ڈالی ؎

مسئلوں سے سب تو ہیں زیرِ اثر دیکھے گا کون

سب کو اپنا غم ہے میری چشمِ تر دیکھے گا کون

خواہشیں انساں کی اک مرکز پہ رہتی ہی نہیں

ایک ہی چہرے کو ساغرؔ عمر بھر دیکھے گا کون

خلاصہ یہ کہ ساغرؔ نے انتہائی کم عمری میں ’’دشت خار‘‘ میں قدم رکھا ہے اور بغیر رکے، بغیر لڑکھڑائے اب تک کا اپنا شعری سفر بہت ہی کامیابی کے ساتھ طے کیا ہے، ادب اردو کے آفاقی منظر نامے پر ساغرؔ کا مقام تو مستقبل کے نقاد طے کریں گے، لیکن بہرحال ’’قلم کا سفر جاری ہے ‘‘ اور ہم ساغرؔ سے چمنستان ادب کی آبیاری کی بہت ساری توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔

دانش اثری

مؤ ناتھ بھنجن، یوپی

 

 

 

 

 

 حمد پاک

 

یہ چاند تارے بہاروں کا کارواں یارب

ہر ایک شے ترے ہونے کا ہے نشاں یارب

 

ہر ایک نفس کو ہے موت کا مزہ چکھنا

رہے گی صرف تری ذات جاوداں یارب

 

کسی کا دخل نہیں ہے تری خدائی میں

ترے ہی حکم کے تابع ہیں دو جہاں یارب

 

جو دیکھ سکتی ترے جلوے کو ذرا سی دیر

وہ تاب چشمِ کلیمی ؑ میں تھی کہاں یارب

 

نظر تو پھیر لے جس سے وہ چاہے کوئی ہو

نہ مل سکے گی کہیں بھی اسے اماں یارب

 

کرم سے فضل سے اپنے تو در گزر کر دے

بہت سی مجھ میں ہیں پوشیدہ خامیاں یارب

 

یہی ہے آرزو ساغرؔ کی تا دمِ آخر

وہ حمد آپ کی کرتا رہے بیاں یارب٭٭٭

 

 

 

 

بس وہی معبود ہے اس کے سوا کوئی نہیں

وہ سبھی کا ہے خدا اس کا خدا کوئی نہیں

 

سب گرفتارِ محبت ہیں یہاں پر دوستو!

پیار کرنا ہے خطا تو بے خطا کوئی نہیں

 

حضرتِ موسیٰؑ پریشاں ہیں کہ اب جائیں کدھر

پیچھے دشمن آگے دریا راستا کوئی نہیں

 

سچ اگر نکلے زباں سے کاٹ لی جائے زباں

جھوٹ نکلے تو یہاں اس کی سزا کوئی نہیں

 

پارساؤں کے نگر سے چل کہیں تو اور چل

اک یہاں تو ہی برا ہے دوسرا کوئی نہیں

 

ہم پہ جو گزری ہے ساغرؔ ہم بیاں کس سے کریں

اس بھری دنیا میں اپنا ہم نوا کوئی نہیں ٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آخری کڑی تھا تو میرے اس فسانے کی

ختم داستاں تجھ پر ہو گئی دوانے کی

 

موت بھی نہیں آتی زندگی سے عاجز ہیں

یہ سزا ملی ہم کو تم سے دل لگانے کی

 

تجھ میں اب نہیں باقی پیار کا کوئی جذبہ

تو سمیٹ بیٹھا ہے نفرتیں زمانے کی

 

تجھ کو اپنی ضد پیاری مجھ کو ہے انا اپنی

میں قسم نبھاؤں گا لوٹ کے نہ آنے کی

 

دیکھ کر مری صورت جی رہا تھا جو کل تک

آج بات کرتا ہے مجھ کو بھول جانے کی

 

روز و شب میں اے ساغرؔ اس طرح میں الجھا ہوں

اب نہیں مجھے فرصت حالِ دل سنانے کی٭٭٭

 

 

 

 

کوئی ماضی کے اندھیروں سے نکالے مجھ کو

’’کتنی صدیوں سے بلاتے ہیں اجالے مجھ کو‘‘

 

میں ترے دل میں ہوں احساس نہیں اس کا تجھے

جا کے صحراؤں میں اے ڈھونڈنے والے مجھ کو

 

ایسے مر مر کے تو جینے سے کہیں اچھا ہے

اے قضا اپنی پناہوں میں بلا لے مجھ کو

 

یہ مرا جوشِ جنوں کام مرے آ ہی گیا

روک پائے نہ مرے پاؤں کے چھالے مجھ کو

 

میں نہ موتی ہوں، نہ گل ہوں، نہ کوئی تارا ہوں

اپنی زلفوں میں بھلا کیوں وہ سجالے مجھ کو

 

آج پھر پی ہے یہی سوچ کے میں نے ساغرؔ

پھر کوئی مرمریں باہوں سے سنبھالے مجھ کو٭٭٭

 

 

 

 

 

غیر کا تم دم بھرو گے یہ کبھی سوچا نہ تھا

مجھ سے تم نفرت کرو گے یہ کبھی سوچا نہ تھا

 

میں تو سمجھا تھا کہ پل میں مان جاؤ گے مگر

مجھ سے تم روٹھے رہو گے یہ کبھی سوچا نہ تھا

 

زندگی قربان کر دی جس نے تیرے واسطے

بے وفا اس کو کہو گے یہ کبھی سوچا نہ تھا

 

تیری یادوں کے سہارے آج تک جیتا رہا

یہ سہارا چھین لو گے یہ کبھی سوچا نہ تھا

 

رفتہ رفتہ ساتھ چھوڑا میرا سب نے ہی مگر

تم بھی مجھ کو چھوڑ دو گے یہ کبھی سوچا نہ تھا٭٭٭

 

 

 

 

 

مری چشم پریشاں نے تو پیہم خوں فشانی کی

ملا ہے جب بھی وہ، دل کی اسی نے ترجمانی کی

 

اگر سچ بول دیتا تو کوئی بدنام ہو جاتا

نہیں ہے غم سزا پائی جو میں نے بے زبانی کی

 

تمہیں معلوم ہے، دنیا کے پیچھے بھاگنے والو؟

کہانی چار دن کی ہے فقط دنیائے فانی کی

 

خدا جانے محبت میں مرا انجام کیا ہو گا

ابھی سے حال یہ ہے ابتداء ہے یہ کہانی کی

 

چلو اس شہر سے ساغرؔ کہیں اب اور چلتے ہیں

یہاں پر خون سستا ہے یہاں قیمت ہے پانی کی

٭٭٭

 

 

اب تو ساغرؔ سے میں عمران نہیں ہو سکتا

میں ترے نام پہ قربان نہیں ہو سکتا

 

کفر کی حد سے گزر جاؤں محبت میں تری

اتنا کچا مرا ایمان نہیں ہو سکتا

 

ہر کسی کے یہ سمجھ میں نہیں آنے والا

یہ مرا شعر ہے آسان نہیں ہو سکتا

 

جس کے سینے میں ہجوم غم دنیا ہو بہت

وہ ترے غم سے پریشان نہیں ہو سکتا

 

تیرا ملنا بھی نہ ملنے کے برا بر ہو گا

میری جانب ترا رجحان نہیں ہو سکتا

 

نرم شاخوں کی طرح خود کو بنا لو ساغرؔ

گھر کبھی جنگ کا میدان نہیں ہو سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

گلوں کا رنگ ہے اور چاند کا جمال ہے تو

’’یہی مثال ہے تیری کہ بے مثال ہے تو ‘‘

 

نکل کے ذہن سے اشعار میں جو ڈھلتے ہیں

مری ہر ایک غزل کا وہی خیال ہے تو

 

کسی پلیٹ میں کھایا اسی میں چھید کیا

تجھے ہے پھر بھی یہ دعویٰ نمک حلال ہے تو

 

تباہ کر دیا مجھ کو بڑے سلیقے سے

مجھے پتہ بھی نہ تھا اتنا باکمال ہے تو

 

ترے قریب بھی رہ کر تجھے نہیں سمجھا

کہ جیسے الجھا ہوا سا کو ئی سوال ہے تو

 

کمی ضرور محبت میں تیری ہے ساغرؔ

کہ ہوکے اس کا دوانہ ابھی بحال ہے تو

٭٭٭

 

 

 

 

 

تجھ کو کھو دینے کا احساس ہوا تیرے بعد

ڈھونڈھتا پھرتا ہوں اب تیرا پتہ تیرے بعد

 

پھر کسی اور سے کی عرض تمنا نہ کبھی

مجھ میں ارمان نہ پھر کوئی جگا تیرے بعد

 

بیچ رستے میں ہمیں چھوڑ کے جانے والے

اعتماد ہم نے کسی پر نہ کیا تیرے بعد

 

چلتے پھرتے ہوئے پتھر ہیں یہاں کے انساں

کون سمجھے گا بھلا درد مرا تیرے بعد

 

گردش وقت جسے توڑ نہیں پائی تھی

دیکھ وہ شخص بھی اب ٹوٹ گیا تیرے بعد

 

چاہنے والے مرے اور بہت تھے لیکن

میں کسی اور کا ہوہی نہ سکا تیرے بعد

 

پھیلتا جا تا ہے ہر سمت اندھیرا ساغرؔ

زندگی جیسے ہو اک بجھتا دیا تیرے بعد

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مسکراتے ہیں مجھے دیکھنے والے ساغر

جیسے لکھے ہوں مرے منھ پہ لطیفے ساغر

 

ہم نے ایسے بھی یہاں دیکھے عجوبے ساغر

پھول سے جسم ہیں پتھر کے کلیجے ساغر

 

ٹوٹ ہی جاتے ہیں بس ایک ذرا جھٹکے سے

کچے دھاگے ہی تو ہیں پیار کے رشتے ساغر

 

شہر میں اندھوں کے آئے ہو خسارہ ہو گا

تم کہاں بیچنے لے آئے ہو شیشے ساغر

 

بس یہی سوچ کے پردیش میں رویا نہ کبھی

ہے یہاں کون جو آنسو مرے پونچھے ساغر

 

جو مرے بس میں نہ تھا اس نے وہی مانگ لیا

کس طرح توڑ کے لاتا میں ستارے ساغر

٭٭٭

 

 

 

 

 

مجھے اللہ کی قدرت پہ تم حیران ہونے دو

قریب آؤ ذرا پختہ مرا ایمان ہونے دو

 

یہ ممکن ہے مری دیوانگی کے کام آ جائے

یہ دنیا ہوتی ہے ویران تو ویران ہونے دو

 

چلے جانا تمہیں جانے سے میں ہر گز نہ روکوں گا

ٹھہر جائیں مری سانسیں مجھے بے جان ہونے دو

 

بتائیں گے تمہیں ہم دنیا داری کس کو کہتے ہیں

ابھی اچھے برے کی کچھ ہمیں پہچان ہونے دو

 

اسے تہذیب آ جائے تو اس سے گفتگو ہو گی

ابھی وہ شخص شاعر ہے اسے انسان ہونے دو

 

تمہاری سمت لوٹ آؤں تمہیں پھر ٹوٹ کر چاہوں

ذرا ٹھہرو مجھے ساغرؔ سے تم عمران ہونے دو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

منحرف وحدانیت سے جب بشر ہو جائے گا

یہ زمین وآسماں زیر و زبر ہو جائے گا

 

عشق میں اتنے پریشاں کیوں ابھی سے ہو جناب

کیا کرو گے ریزہ ریزہ جب جگر ہو جائے گا

 

آج تک یہ بات میرے ذہن میں آئی نہ تھی

میرا قاتل خود مرا ہی چارہ گر ہو جائے گا

 

آج بھی ہے تو رگ و پے میں لہو بن کر رواں

کیسے تیری یاد سے دل بے خبر ہو جائے گا

 

یہ تری شہرت، یہ عزت یہ ترا نام و نمود

ایک ہی لغزش سے سب زیر و زبر ہو جائے گا

 

اب کسی کروٹ سکوں آتا نہیں ساغرؔ مجھے

کیا خبر تھی پیار اس کا دردِ سر ہو جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

وہ شام ڈھلے تیرا ملنا وہ ہنسنا ہنسانا یاد نہیں

جو تیری رِفاقت میں گزرا ہم کو وہ زمانا یاد نہیں

 

منزل ہے کہاں کچھ یاد نہیں کس سمت ہے جانا یاد نہیں

اب تیرا پتہ ہم کیا پوچھیں خود اپنا ٹھکانا یاد نہیں

 

کیا تجھ سے بہانہ کوئی کریں اب کوئی بہانا یاد نہیں

ہم آ تو گئے محفل میں تری پر دیر سے آنا یاد نہیں

 

اے اہل زمانہ ضد نہ کرو وہ دور پرانا یاد نہیں

اب ان کی کہانی کیا کہئے خود اپنا فسانہ یاد نہیں

 

وہ چاندنی شب، پھولوں کی مہک وہ ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے

تو اتنی جلدی بھول گیا موسم وہ سہانا یاد نہیں

 

وہ رات وہ بارش طوفانی اس رات کا منظر یاد تو کر

وہ اک دوجے کو میٹھی ڈش کیا تم کو کھلانا یاد نہیں

 

الزام تراشی تو ساغرؔ دنیا کا پرانا شیوہ ہے

یوسف پہ زمانے کا تجھ کو کیا انگلی اٹھانا یاد نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی رشتہ نہیں تم سے مرا میں کون ہوتا ہوں

کبھی روکوں تمہارا راستا میں کون ہوتا ہوں

 

وفاداری تو مجھ میں بھی نہیں باقی مرے ہمدم

تمہیں پھر کہنے والا بے وفا میں کون ہوتا ہوں

 

تری آنکھیں، تری زلفیں، ترے رخسار تیرے لب

مرے حصے میں کیوں آئیں بھلا میں کون ہوتا ہوں

 

مری آنکھوں میں آنسو اتفاقاً آ گئے ہوں گے

میں روؤں سن کے تیرا سانحہ میں کون ہوتا ہوں

 

پریشاں کوئی غیروں کے لئے اتنا نہیں ہوتا

مجھے بس یہ بتا دو آپ کا میں کون ہوتا ہوں

 

بھلا کیا ہے برا کیا ہے سبھی کچھ جانتے ہو تم

تمہیں پھر دینے والا مشورہ میں کون ہوتا ہوں

 

ہزاروں عیب جب خود ہی ہیں میری ذات میں ساغرؔ

دکھانے والا اس کو آئینہ میں کون ہوتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

غیر ممکن کو بھی ممکن یہ بنا دیتا ہے

پیار صحراؤں میں بھی پھول کھلا دیتا ہے

 

زہر کھاتا ہوں مگر آتی نہیں مجھ کو موت

کون ہے جو مجھے جینے کی دعا دیتا ہے

 

کس لئے کرتا ہے کیوں کرتا ہے معلوم نہیں

مجھ سے جب ہاتھ ملاتا ہے دبا دیتا ہے

 

کتنا بے صبر ہے انسان کہ اگر تھوڑی سی

مشکلیں پڑتی ہیں ہنگامہ مچا دیتا ہے

 

چاندنی رات ہے میں ہوں تری یادیں بھی ہیں

تو بھی آ جا کہ مرا دل یہ صدا دیتا ہے

 

ہم کو ہوتی ہے جو روزی یہ مہیا ساغرؔ

’’آدمی صرف بہانہ ہے خدا دیتا ہے ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

یہ بغض و حسد دل سے مٹا کیوں نہیں دیتے

نفرت کے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے

 

یہ دردِ جدائی میں سہوں بھی تو کہاں تک

مرنے کی مجھے آپ دعا کیوں نہیں دیتے

 

ہنستی ہوئی آنکھوں کو رلا دیتے ہو لیکن

روتی ہوئی آنکھوں کو ہنسا کیوں نہیں دیتے

 

ہو جائے گا ایوانوں میں کچھ اور اجالا

بستی یہ غریبوں کی جلا کیوں نہیں دیتے

 

اک میں ہی یہاں حق کا طرفدار بچا ہوں

تم مجھ کو بھی سولی پہ چڑھا کیوں نہیں دیتے

 

عمران جنہیں چہرہ شناسی کا ہے دعویٰ

چہرے سے مرا حال بتا کیوں نہیں دیتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مسلسل زخم کھاتا جا رہا ہوں

میں پھر بھی مسکراتا جا رہا ہوں

 

وفا سے پیار سے سچائیوں سے

میں دامن کو بچاتا جا رہا ہوں

 

کسی کی یاد بھی آئی نہیں ہے

میں کیوں آنسو بہاتا جا رہا ہوں

 

مجھے حیرت ہے میں اس بے وفا سے

وفائیں کیوں نبھاتا جا رہا ہوں

 

وہ مجھ کو آزماتے جا رہے ہیں

میں ان کو آزماتا جا رہا ہوں

 

چھپا ہو مجھ میں جیسے کوئی موذی

نئے فتنے جگاتا جا رہا ہوں

 

دلوں کے فاصلے بڑھنے لگے ہیں

میں جتنا پاس آتا جا رہا ہوں

 

سوائے ایک ہی چہرے کے ساغرؔ

میں ہر چہرا بھلاتا جا رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

کیا خبر کون ہے ؟ کیا پتا کون ہے

سب سے چھپ کر مجھے دیکھتا کون ہے

 

حال اپنا سناؤں کسے جا کے میں

میرا دنیا میں تیرے سوا کون ہے

 

ہچکیاں آ رہی ہیں مسلسل مجھے

نام آخر مرا لے رہا کون ہے

 

ہم کو اس کی خبر ہو نہ پائی کبھی

اس قدر ٹوٹ کر چاہتا کون ہے

 

ایک ہنگامہ ہے فرش سے عرش تک

آج محفل میں نغمہ سرا کون ہے

 

دیکھتے ہیں چلو چل کے ساغرؔ ذرا

رات آدھی گئے رو رہا کون ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پاس میرے اگر جو تو آئے

میرے دل کو سکون آ جائے

 

پیار حد سے زیادہ اچھا نہیں

کاش دل کو یہ کوئی سمجھائے

 

درد سہہ سہہ کے جی لیا ہم نے

تم سے ہو کر جدا نہ جی پائے

 

رنگِ محفل اداس ہے یارو

کوئی ساغرؔ کو ڈھونڈ کر لائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جن کی خاطر ادھر ہم مچلتے رہے

ساتھ اوروں کے وہ تو ٹہلتے رہے

 

وہ بھی تھے کچھ پریشاں شب ہجر میں

رات بھر ہم بھی کروٹ بدلتے رہے

 

زندگی بھر وہ پتھر کی مورت رہا

ہم ہی نادان تھے جو پگھلتے رہے

 

کس قدر دُکھ بھری ہے مری داستاں

سننے والوں کے آنسو نکلتے رہے

 

تیری محفل میں ہم سے تھی رونق بہت

شمع صورت ہمیں تھے کہ جلتے رہے

 

کیا کہیں جس کی کوئی بھی منزل نہ تھی

عمر بھر ہم اسی رہ پر چلتے رہے

 

ایک ساغرؔ ہی گر نہ سنبھلا کبھی

لوگ گرتے رہے اور سنبھلتے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

گوہر کی بات چھوڑ دو پتھر حسین ہے

میرے وطن کا آج بھی منظر حسین ہے

 

مانا کہ یہ جہاں ہے حسیں سے حسین تر

ہندوستاں سے کیا کوئی بڑھ کر حسین ہے

 

فصلیں ہیں سبز رنگ کی حدِ نگاہ تک

کھیتوں میں لہلہاتی یہ چادر حسین ہے

 

خوشیوں کے ساتھ جس سے بھی چاہو لگاؤ دل

ہندوستان کا ہر اک دلبر حسین ہے

 

ساغرؔ وہ سامنے مرے آیا جو بے نقاب

کہنا پڑا یہ مجھ کو ستمگر حسین ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

محبت میں ایسے بھی لمحات آئے

انہیں دیکھ کر یہ قدم ڈگمگائے

 

سبھی کو پڑی ہے یہاں اپنی اپنی

کوئی غم کی روداد کس کو سنائے

 

جہاں ساتھ سایا بھی دیتا نہیں

وہاں کام آتے ہیں اکثر پرائے

 

کہاں تیرے بیمار میں اتنی طاقت

سوا تیرے غم کے کوئی غم اٹھائے

 

میں کرتا ہوں ساغرؔ اسی کی تمنا

جو شاید مرا عمر بھر ہو نہ پائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چلتی ہے تلوار پہ تلوار تیرے شہر میں

ہر طرف لاشوں کے ہیں انبار تیرے شہر میں

 

بھوک اور افلاس نے چہرے کی رونق چھین لی

لوگ آتے ہیں نظر بیمار تیرے شہر میں

 

آدمی ہی آدمی کا خون پیتا ہے یہاں

اک سے بڑھ کر ایک ہیں خونخوار تیرے شہر میں

 

شیشے جیسا دل ہمارا سنگ جیسے لوگ ہیں

ہو نہ جائے پھر کہیں تکرار تیرے شہر میں

 

لوگ ہاتھوں میں لئے سنگِ ملامت آ گئے

کیا چلا آیا ہے اک میخوار تیرے شہر میں

 

آرزو دل کی لبوں پر آ گئی بے ساختہ

مجھ کو ہونا تھا ذلیل و خوار تیرے شہر میں

 

خودسری خودرائی ساغرؔ گر نہیں تو کیا ہے یہ

خود کو کہتے ہیں سبھی سردار تیرے شہر میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ریزہ ریزہ جب بھروسے ہو گئے

منقطع ہر اک سے رشتے ہو گئے

 

ٹھوکریں ان کا مقدر بن گئیں

جو جدا شاخوں سے پتے ہو گئے

 

رہبرانِ ہند کو کیا ہو گیا

تن کے اجلے من کے میلے ہو گئے

 

حوصلے بکھرے تو بازی ہار دی

اور قیدی دشمنوں کے ہو گئے

 

ایک سجدے سے کیا تھا انحراف

رائے گاں صدیوں کے سجدے ہو گئے

 

اس طرح سے بندگی رسوا ہوئی

پتھروں کے لوگ بندے ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیوں اپنے حسن کا اسے جلوا دکھا دیا

اچھا بھلا تھا آدمی پاگل بنا دیا

 

الزامِ بے وفائی اسے دے رہے ہو تم

جس نے تمہارے واسطے سب کچھ لٹا دیا

 

غیروں کا گھر بسانے چلے مجھ کو چھوڑ کر

یوں میری حسرتوں کا جنازہ اٹھا دیا

 

پہلے تمہارے غم سے تو فرصت مجھے ملے

پھر اس کے بعد سوچوں کہ دنیا نے کیا دیا

 

میں جا رہا تھا دل میں لئے موت کی طلب

احساس کس نے جینے کا مجھ میں جگا دیا

 

ساغرؔ وہ جس کو پانے میں صدیاں گزر گئیں

لمحوں میں کس طرح اسے میں نے گنوا دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس شوخ کے اندر تو وفا ڈھونڈ رہا ہے

نادان ہے پتھر بھی کہیں موم ہوا ہے

 

تو آگ کی مانند ہے میں آب کی صورت

ہم ایک نہ ہو پائیں گے تاثیر جدا ہے

 

دیکھی نہ گئی اس سے مری آبلہ پائی

کانٹوں سے بھری رہ پہ مجھے ڈال دیا ہے

 

وہ خون بھی پیتے ہیں تو لب بستہ ہیں سب لوگ

اک بادہ کشی پر مری کیوں شور مچا ہے

 

تھم جاتی ہے جبریل کی پرواز جہاں پر

اس سے بھی کہیں آگے یہ انسان گیا ہے

 

یوسفؔ ہیں خطاوار جو آگے سے پھٹا ہو

پیچھے سے پھٹا ہو تو زلیخا کی خطا ہے

 

اپنوں کو اگر پرکھو تو اندازہ ہو تم کو

ہو جائے گا سب دور غیروں سے گلا ہے

 

ہم ایک ہی کشتی کے سواروں میں ہیں ساغرؔ

تیری ہی طرح عشق میں دل اپنا جلا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہاں پیر مغاں بھی لگتا ہے چنگیز ہے ساقی

پیالہ مے کے بدلے خون سے لبریز ہے ساقی

 

تجھے جو اک نظر دیکھے ترا گرویدہ ہو جائے

سراپا ہی ترا کچھ ایسا دلآویز ہے ساقی

 

حدودِ میکدہ میں اور وہ بھی اس اجالے میں

جناب شیخ کا آنا تعجب خیز ہے ساقی

 

یہ موسم بار بار آتا نہیں جی بھر کے پینے دے

گھٹا بھی چھائی ہے ساقی ہوا بھی تیز ہے ساقی

 

کسی کے سخت دل کو موم کر دے غیر ممکن ہے

مرا لہجہ کہاں اتنا اثر انگیز ہے ساقی

 

لہو انسانیت کا شان سے پینے لگے ہیں سب

مجھے تھوڑی سی مے پینے میں بھی پرہیز ہے ساقی

٭٭٭

 

 

 

 

 

رشتہ مرا ہے اتنا پرانا شراب سے

سب پوچھتے ہیں میرا ٹھکانا شراب سے

 

ٹوٹے نہ میرا مے سے تعلق کسی طرح

میں مر گیا تو غسل کرانا شراب سے

 

اک خواب میں نے دیکھا ہے تعبیر تو بتا

بھیگا ہوا ہے سارا زمانا شراب سے

 

ساقی اگر شراب کا نشّہ بڑھانا ہو

آنکھیں بس ایک بار ملانا شراب سے

 

کچھ پل غمِ حیات سے مل جاتی ہے نجات

نقصان عقل و دیں کا ہے مانا شراب سے

٭٭٭

 

 

 

 

سندر سندر دھوکے کھانا چھوڑ دیا

مورتیوں سے دل کو لگانا چھوڑ دیا

 

تیری ذات کو جب ہم نے پہچان لیا

پتھر کو بھگوان بتانا چھوڑ دیا

 

اس کی مرضی آئے نہ آئے ظالم

وعدہ ہم نے یاد دلانا چھوڑ دیا

 

جب سے جانا سچائی کی طاقت کو

جھوٹ کے آگے سر کو جھکانا چھوڑ دیا

 

کوئی نیا اب زخم نہیں ہے اس دل پر

تیر نظر سے اس نے چلانا چھوڑ دیا

 

وہ بھی ہم کو چھوڑ چلا ہے اے ساغرؔ

جس کی خاطر ہم نے زمانہ چھوڑ دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مرے عزیز مرا دل نکال کر لے جا

صدف کو چھوڑ دے ہمراہ تو گہر لے جا

 

مری انا کو خوشی راس آ نہیں سکتی

جدھر ہو رنج و مصیبت مجھے ادھر لے جا

 

تقاضہ فن کا یہی ہے ہر اک سخنور سے

جہاں دماغ نہ پہونچے وہاں نظر لے جا

 

اگر یہ حوصلہ تجھ میں نہیں تو جا واپس

نہیں تو اپنی ہتھیلی پہ اپنا سر لے جا

 

کسی کو ظلم سے اپنا بنا نہیں سکتے

دلوں کو موم جو کرتا ہے وہ ہنر لے جا

 

درِ حبیب سے کچھ لے کے جاتو اے ساغرؔ

ہنسی لبوں پہ نہ آئے تو آنکھ بھر لے جا

٭٭٭

 

 

 

کب کہا میں نے مجھے سارا زمانا چاہئے

صرف مجھ کو آپ کے دل میں ٹھکانا چاہئے

 

عقل کہتی ہے کہ اس کو بھول جانا چاہئے

دل یہ کہتا ہے اسے اپنا بنانا چاہئے

 

جو ہمارے بعد آئیں کم سے کم بھٹکیں نہ وہ

کوئے فن میں اک دیا ایسا جلانا چاہئے

 

تا حدِ امکان ہم نے ہی منایا ہے تمہیں

ہم کبھی روٹھیں تو تم کو بھی منانا چاہئے

 

اپنی خاطر چھوڑئیے اوروں کی خاطر ہی سہی

کم سے کم محفل میں تم کو مسکرانا چاہئے

 

راہ تکتے تکتے اس کی ایک عرصہ ہو گیا

جانے والے کو تو اب تک لوٹ آنا چاہئے

 

سونا چاندی کھا کے ساغرؔ زندہ رہ سکتے نہیں

زندہ رہنے کے لئے تو آب و دانا چاہئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ماں

 

ایک بھی لمحہ جسے بھول نہ پاؤں ساغرؔ

وہ مری روح مری جاں بھی تو ہو سکتی ہے

یاد میں جس کے گزرتی ہیں مری شام وسحر

’’صرف محبوبہ نہیں ماں بھی تو ہو سکتی ہے ‘‘

 

 

 

 

اس کا دکھ ہرگز نہیں ہے مفلسی مجھ کو ملی

رنج اس کا ہے نہ تیری دوستی مجھ کو ملی

 

تیری محفل میں یہ اے ساقی عجب دستور ہے

سب کو جامِ مے ملا اور تشنگی مجھ کو ملی

 

ایسا لگتا ہے ابھی تک میں نشے میں چور ہوں

اس نگاہِ ناز سے وہ میکشی مجھ کو ملی

 

کل بھی میں مجبور تھا اور آج بھی مجبور ہوں

لگتا ہے سارے جہاں کی بے بسی مجھ کو ملی

 

یہ سخن گوئی بھی ساغرؔؔ مفت ہاتھ آئی نہیں

دل دیا تو اس کے بدلے شاعری مجھ کو ملی

٭٭٭

 

 

 

 

تو کسی اور کی امانت ہے

 

تری ریشمی یہ زلفیں، کسی اور کی امانت

تری جھیل سی یہ آنکھیں، کسی اور امانت

ترے نرم ہونٹ پربھی مرا کوئی حق نہیں ہے

تری مہکی مہکی سانسیں، کسی اور کی امانت

 

 

 

 

 

پریشاں ہوں ترا چہرہ بھلایا بھی نہیں جاتا

کسی سے حال دل اپنا سنایا بھی نہیں جاتا

 

وہ آ جائے تو یہ بھی کہہ نہیں سکتا ٹھہر جاؤ

اگر وہ جا رہا ہو تو بلایا بھی نہیں جا تا

 

زباں خاموش رہتی ہے پر آنکھیں بول دیتی ہیں

اِن آنکھوں سے تو رازِ دل چھپایا بھی نہیں جاتا

 

سبھی عمرانؔ کی صورت نہیں ہوتے ہیں دنیا میں

ہر اک انسان کو دل میں بسایا بھی نہیں جاتا

 

کوئی طاقت مجھے مرنے نہیں دیتی ہے اے ساغرؔ

میں مرنا چاہتا ہوں زہر کھایا بھی نہیں جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

ماہر عبدالحئ کی وفات پر

 

بزمِ امکاں میں بپا ماتم ہوا

کس کے جانے کا سبھی کو غم ہوا

ہو گئی مغموم اقلیمِ سُخن

پھر ادب کا اک مجاہد کم ہوا

 

 

 

 

 

پھر کسی چاند سے چہرے کی تمنا کر لیں

اپنی رسوائی میں ہم اور اضافہ کر لیں

 

دور منزل ہے بہت رات ہے ہونے والی

سوچتے ہیں کہ کہیں رک کے سویرا کر لیں

 

اس سے پہلے کہ کوئی زخم نیا دل پہ لگے

زخم جو پہلے کا ہے اس کا مداوا کر لیں

 

اس نے دیکھا ہے محبت کی نظر سے ہم کو

آؤ اس بات پہ ہم شکر کا سجدا کر لیں

 

دلِ وحشی کو مرے کچھ تو سکوں آئے گا

وہ نہ آئیں گے مگر آنے کا وعدہ کر لیں

 

عمر بھر ساتھ ہمارا وہ نہیں چھوڑیں گے

اُن کی اس بات پہ ہم کیسے بھروسا کر لیں

٭٭٭

 

 

 

 

ایک ہی چہرہ

 

مسئلوں سے سب تو ہیں زیرِ اثر دیکھے گا کون

سب کو اپنا غم ہے میری چشمِ تر دیکھے گا کون

خواہشیں انساں کی اک مرکز پہ رہتی ہی نہیں

ایک ہی چہرے کو ساغرؔ عمر بھر دیکھے گا کون

 

 

 

 

 

 

فکرِ روزی نے ہمیں جب سے رلا رکھا ہے

آتشِ عشق کو اشکوں نے بجھا رکھا ہے

 

اب کوئی گونج فضاؤں میں نہیں ہے سچ کی

سچ کی آواز کو جھوٹوں نے دبا رکھا ہے

 

وادیِ دل میں اندھیرے کا گزر ہو کیسے

میں نے جب شمعِ محبت کو جلا رکھا ہے

 

ہر گھڑی سامنے رہتا ہے تمہارا چہرہ

صرف کہنے کو تمہیں میں نے بھلا رکھا ہے

 

یہ بھی اندازِ دعا تیرا عجب ہے ساغرؔ

ہونٹ خاموش ہے اور ہاتھ اٹھا رکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اظہارِ تمنا

 

اب محبت کو کبھی بھول کے رسوا نہ کریں

ہم کسی شخص سے اظہارِ تمنا نہ کریں

ایک کے بعد دیا ایک کو دھوکا اکثر

آپ کے سر کی قسم اب کبھی ایسا نہ کریں

 

 

 

 

 

خبر کیا تھی سہارا جس کو دیں گے

وہی کر دے گا ہم کو بے سہارا

 

لبوں پہ گرم آہیں کھیلتی ہیں

ہوا جاتا ہے دل بھی پارا پارا

 

چڑھے گا پھر کوئی منصور سولی

چلو دیکھیں گے ہم بھی یہ نظارا

 

غزل سن کر سبھی کہتے ہیں میری

یہ شاعر ہے یا کوئی غم کا مارا

 

اسی نے لی ہے میری جان ساغرؔ

جو مجھ کو جان سے بڑھ کے تھا پیارا

٭٭٭

 

 

 

 

روٹیاں

 

کس لئے ظلم و ستم ڈھاتے ہو ڈھانے والو!

بے سبب خون غریبوں کا بہانے والو

سونے چاندی کی پلیٹوں میں تو کھاتے ہو مگر

روٹیاں آٹے ہی کی ہوتی ہیں کھانے والو!

 

 

 

 

کچھ اس طرح سے محبت میں بے قرار ہوئے

جو راز دل میں تھے آنکھوں سے آشکار ہوئے

 

خرد پرستوں پہ برسے نہیں کبھی پتھر

جہاں میں اہلِ جنوں صرف سنگسار ہوئے

 

وہ خون پی کے بھی شامل ہے پارساؤں میں

شراب ہم نے جو پی لی گناہ گار ہوئے

 

جڑا تھا نام ہمارا تمہارے نام کے ساتھ

تمہارے ساتھ تو ہم بھی ذلیل وخوار ہوئے

 

وہی جنوں وہی وحشت ہے کیا کریں ساغرؔ

زمانہ ہو گیا دامن کو تار تار ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

الزام

 

زباں میری مرے قابو سے باہر ہو گئی ساغرؔ

کہ اب دیوانگی کا مجھ پہ بھی الزام آتا ہے

محبت نے تمہاری کر دیا ہے اس قدر پاگل

’’کسی کا نام لوں لب پہ تمہارا نام آتا ہے ‘‘

 

 

 

 

 

 

 

شکوہ کس کس کا کروں کس کس کے سر الزام دوں

اس جہاں میں تو کسی نے بھی نہ اپنایا مجھے

 

در بدر کی ٹھوکریں اپنا مقدر بن گئیں

وہ جو میرا پیار تھا اس نے بھی ٹھکرایا مجھے

 

عقل سمجھاتی رہی اس راہ پہ مت جائیے

دل نہ مانا کھینچ کے اس راہ پہ لایا مجھے

 

اور وہی تنہائیوں کا سلسلہ ہے دور تک

دے گیا دھوکا یہاں پر اپنا ہی سایا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

آبرو

 

خانداں کی معرکہ آرائیوں کی آگ میں

خاک سب کچھ ہو گیا انگنائیوں کی آگ میں

ایک لغزش کے بنا پر عمر بھر دیکھا کئے

آبرو جلتی رہی رسوائیوں کی آگ میں

 

 

 

 

 

 

کیا کریں گے ہم جی کر زندگی یہ ذلت کی

آؤ لڑ کے مر جائیں موت ہم بھی عزت کی

 

جنگ ہار جاؤ گے حوصلہ اگر ہارے

ٹوٹنے نہیں دینا ڈور عزم و ہمت کی

 

زندگی کی راہوں میں ایسے موڑ بھی آئے

وقت نے گناہوں کی سب وصول قیمت کی

 

گھر سے ہو گیا بے گھر دوست ہو گئے دشمن

بس یہ ہے خطا میری آپ سے محبت کی

 

بن سنور کے بیٹھے ہیں آج سرخ جوڑے میں

کتنی جان لیوا ہے یہ گھڑی مسرت کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

پیار کا صلہ

 

پیار کا یہ صلہ نہیں اچھا

زخم ہر دن نیا نہیں اچھا

اپنی دنیا میں لوٹ آ ساغرؔ

یوں بھٹکنا ترا نہیں اچھا

 

 

 

 

 

 

دیکھ اپنے عہد کا ساغر یہ حالِ زار دیکھ

آدمی ہے آدمی سے کس قدر بے زار دیکھ

 

نکتہ چینی کر رہا ہے جو مرے کردار پر

اس سے اتنا کہہ دو جا کے، اپنا بھی کردار دیکھ

 

یہ ترا رکنا خسارے کا سبب بن جائے گا

وقت کے ہمراہ چل تو وقت کی رفتار دیکھ

 

بھوک نے چہرے کی اس کی چھیں لیں رعنائیاں

پڑ گیا ہے پیلا اس کا پھول سا رخسار دیکھ

 

کھیل ساغرؔ دیکھنا ہو گر تجھے تقدیر کا

ہر قدم پہ جیت ان کی اور میری ہار دیکھ

٭٭٭

 

 

 

 

کعبہ و میخانہ

 

غم غلط کرنے کا ہم کو اب قرینا آ گیا

دھیرے دھیرے پیتے پیتے آج پینا آ گیا

بڑھتے بڑھتے جانبِ کعبہ قدم رک سے گئے

لے کے کوئی سامنے جب جام و مینا آ گیا

 

 

 

 

 

 

ہم بھی صیاد کے پھندے سے نکل جائیں گے

سوچ بدلیں گے تو حالات بدل جائیں گے

 

آج جس پھول کو ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں

کل اسی پھول کو پیروں سے کچل جائیں گے

 

تجھ کو احساس نہیں شمع جلانے والے

کتنے پروانے تری شمع سے جل جائیں گے

 

لڑکھڑاتے ہیں قدم اس لئے، ہم ہوش میں ہیں

ہم کو تھوڑی سی پلا دے تو سنبھل جائیں گے

 

ہم کو پتھر نہ سمجھ موم کی صورت ہم ہیں

ہم کو جس سانچے میں تو ڈھالے گا ڈھل جائیں گے

٭٭٭

 

شعر

 

تو بھی تو انسان ہے پیارے پھر کیسے یہ مان لوں میں

تجھ میں کیا وہ عیب نہیں، کی جس کی برائی لوگوں نے

 

 

 

 

 

الجھ گیا ہوں کہ اے کردگار، کس کا ہے

یہ دل مرا ہے مگر اختیار کس کا ہے

 

بھلے برے کا ہمیں امتیاز بھی نہ رہا

دل و دماغ پہ نشّہ سوار کس کا ہے

 

تجھے بھی دیکھ کے آنکھوں کی تشنگی نہ گئی

ترے علاوہ مجھے انتظار کس کا ہے

 

وہی رہا ہے ہمیشہ سے اور رہے گا بھی

وجود اس کے سوا پائیدار کس کا ہے

 

تمہارے ہونٹوں پہ یہ کس کا نام ہے ساغرؔ

تمہاری آنکھوں میں پوشیدہ پیار کس کا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

فسادات کی دنیا

 

اختلافات کی دنیا میں چلا آیا ہوں

میں خرافات کی دنیا میں چلا آیا ہوں

خون ہوتا ہے یہاں روز قلمکاروں کا

کیوں فسادات کی دنیا میں چلا آیا ہوں

 

 

 

 

میں اپنے حالِ زار کا آئینہ دار ہوں

جیسے کسی غریب کا اجڑا مزار ہوں

 

کیوں طنز آپ کرتے ہیں میرے گناہ پر

یہ میں نے کب کہا ہے کہ پرہیزگار ہوں

 

یا رب مری طرح سے کوئی اور بھی ہے کیا

یا صرف ایک میں ہی یہاں سنگسار ہوں

 

جو دل کی بات تھی وہی لفظوں میں ڈھال دی

دنیا سمجھ رہی ہے کہ تخلیق کار ہوں

 

سوچا تھا تجھ کو پا کے ملے گا مجھے قرار

تو مل گیا تو اور بھی میں بے قرار ہوں

 

ناز و نعم سے پال کے جس کو جواں کیا

افسوس آج میں اسی بیٹے پہ بار ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دوجے کی تمنا

 

پیار سے پہلے کسی شخص کو دیکھا کرنا

پھر اسی کو ہی ترا کام ہے رسوا کرنا

سلسلہ اور کہاں تک یہ چلے گا ساغرؔ

ایک مل جائے تو دوجے کی تمنا کرنا

 

 

 

 

روگ کیسا لگا دیا تو نے

مجھ کو شاعر بنا دیا تو نے

 

تیرے فن کی میں داد دیتا ہوں

ہنستے ہنستے رلا دیا تو نے

 

جس کو پانے میں عمر بیت گئی

حیف اس کو گنوا دیا تو نے

 

دل کی بنجر زمین میں ناگاہ

پیار کا گل کھلا دیا تو نے

 

جب بھی بخشا ہے غم ہی بخشا ہے

کچھ نہ غم کے سوا دیا تو نے

 

تو نے چاہا جسے عروج دیا

جس کو چاہا مٹا دیا تو نے

 

اپنے ساغرؔ کو ذلتوں کے سوا

تو بتا دے کہ کیا دیا تو نے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمہارا حسن ہے یکتا، چلو میں مان لیتا ہوں

کوئی تم سا نہیں دیکھا، چلو میں مان لیتا ہوں

 

اگر میرے لئے کہتے نہ ہرگز اعتبار آتا

وہ اوروں کے لئے رویا، چلو میں مان لیتا ہوں

 

مجھے معلوم ہے وعدہ خلافی اس کی فطرت ہے

جو کہتے ہو نبھائے گا، چلو میں مان لیتا ہوں

 

سنا ہے وہ بہت نادم ہوا اپنے رویہ پر

مجھے ٹھکرا کے پچھتایا، چلو میں مان لیتا ہوں

 

جسے میں نے کبھی چاہا تھا اپنی جان سے بڑھ کر

وہ میرا ہو نہیں پایا چلو میں مان لیتا ہوں

 

یونہی تو شہر میں ہنگامہ ساغرؔؔ ہو نہیں سکتا

وہ نکلے ہوں گے بے پردا، چلو میں مان لیتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

جھجھک

 

کوئی بھی تیرے جیسا اس شہر میں نہیں ہے

خود کو پتہ نہیں ہے تو کس قدر حسیں ہے

جی چاہتا ہے تجھ کو میں بار بار دیکھوں

لیکن جھجھک سی دل میں میرے کہیں کہیں ہے

 

 

 

 

 

مرے ہنسنے پہ ظاہر کی ہے جو حیرانگی اس نے

کبھی دیکھی نہیں ہو گی ان آنکھوں کی نمی اس نے

 

ہوا جاتا ہے اپنی چاندنی پر چاند شرمندہ

ہٹائی ہیں رخِ روشن سے کیا زلفیں گھنی اس نے

 

کسی حالت میں وہ تہذیب کی حد سے نہیں نکلا

بڑے اچھے سلیقے سے نبھائی دشمنی اس نے

 

کہیں اس بات پہ اے دل خوشی سے مر نہ جاؤں میں

اگر محسوس کی تو صرف کی میری کمی اس نے

 

کبھی آوارہ بھنورے کی طرح اپنی طبیعت تھی

بہت ترکیب سے چھینی مری آوارگی اس نے

 

ہمیں اک ہیں نہ اس کے واسطے کچھ کر سکے ساغرؔ

ہمارے واسطے برباد کر لی زندگی اس نے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھوک

 

وہ بچپن کا زمانا چاہتی ہے

طبیعت پھر کھلونا چاہتی ہے

یہ سونا اور چاندی کیا کریں گے

ہماری بھوک دانا چاہتی ہے

 

 

 

 

 

 

 

آپ کے ہاتھ میں ہے جام غلط کرتے ہیں

اور پیتے ہیں سرِ عام غلط کرتے ہیں

 

ان کو دن بھر کی مشقت سے ملا ہے جو کچھ

لے چلے پینے سرِ شام غلط کرتے ہیں

 

ان کی آنکھوں سے جو چھلکی تھی وہی پی میں نے

صرف اس بات پہ کہرام، غلط کرتے ہیں

 

جرم جن کا تھا کوئی حرف نہ آیا ان پہ

تہمتیں ساری مرے نام، غلط کرتے ہیں

 

عید کا چاند سمجھ لیں گے یہ دنیا والے

آپ آئے ہیں لبِ بام غلط کرتے ہیں

 

آپ کی تابِ شکیبائی کہاں ہے ساغرؔ

ہر گھڑی شکوۂ آلام غلط کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

میں تجھ سے پیار کرتا ہوں

 

نظر کے پاس تو ہے تو ترا دیدار کرتا ہوں

تجھے محسوس میں دل میں مرے دلدار کرتا ہوں

تری آنکھوں نے جب دیکھا مجھے نفرت سے ہی دیکھا

میں تجھ سے کس طرح کہتا میں تجھ سے پیار کرتا ہوں

 

 

 

 

 

 

تم کو دنیا کی نگاہوں سے چھپانا ہو گا

تم کو آنکھوں میں نہیں دل میں بسانا ہو گا

 

پھر تری زلف کے سائے میں چلا آیا ہوں

پھر مری جان کا دشمن یہ زمانا ہو گا

 

وہ اگر جھوٹ بھی بولیں گے تو سچ مانو گے

میں اگر سچ بھی کہوں گا تو فسانا ہو گا

 

ان کے کوچے سے سلامت نہیں آتا کوئی

ان کے کوچے میں بہت سوچ کے جانا ہو گا

 

تیرگی ایسی کہ ناکام دیئے ہیں ساغرؔ

اب دیوں کی جگہ اس دل کو جلانا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

تشنگی…

 

پیاس نظروں کی بجھاؤ تو کوئی بات بنے

رخ سے چلمن کو ہٹاؤ تو کوئی بات بنے

میکدے میں تو صنم روز پیا کرتا ہوں

آج آنکھوں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے

 

 

 

 

 

زمانے میں تمہاری عزت و توقیر بن جائے

کرو تدبیر کچھ، ممکن ہے یہ تقدیر بن جائے

 

یہاں اک دو نہیں، بہتیرے دعویدار ہیں تیرے

مجھے ڈر ہے نہ تیری ذات بھی کشمیر بن جائے

 

لکیریں کاغذِ دل پر یونہی تم کھینچتے رہنا

بہت ممکن ہے اچھی سی کوئی تصویر بن جائے

 

کسی کو اس قدر اب ٹوٹ کے ہرگز نہ چاہوں گا

کہ اس کی چاہ میرے پاؤں کی زنجیر بن جائے

 

سمجھتے ہیں جسے ہم پھول کی مانند اے ساغرؔ

ہمارے واسطے ایسا نہ ہو شمشیر بن جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کہانی کیوں سناتی ہے ؟؟؟

 

جدائی ملتی ہے اکثر رفاقت مل نہ پاتی ہے

بڑی تقدیر والوں کو محبت راس آتی ہے

بھلا ڈالا اسے میں نے مجھے اس نے تو پھر ساغرؔ

وہ بچوں کو بھلا میری کہانی کیوں سناتی ہے

 

 

 

 

 

 

سبھی کے سینے میں دل کے بجائے پتھر ہے

ذرا سنبھل کے یہاں ہر قدم پہ ٹھوکر ہے

 

اسے نظر نہیں آتے عیوب اپنے ہی

وہ شخص مانا ہوا ایک آئینہ گر ہے

 

چھپائے بیٹھی ہے کتنے ہی راز سینے میں

ہماری ذات بھی جیسے کوئی سمندر ہے

 

تمہارے جسم کی خوشبو بسی ہے سانسوں میں

وجود جس سے ابھی تک مرا معطر ہے

 

تمہارا طرز تکلم بہت لطیف سہی

تمہاری بات میں پوشیدہ تیر و نشتر ہے

 

بروزِ حشر میں کیا منہ دکھاؤں گا اس کو

نہ جانے کتنے گناہوں کا بوجھ سر پر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

انتظار

 

آنکھیں ہیں منتظر تو نظر بے قرار ہے

آ جا کہ میرے دل کو ترا انتظار ہے

لہرا دیا ہے کس نے ہوا میں یہ زلف کو

خوشبو سے جس کی ساری فضا مشکبار ہے

 

 

 

 

 

 

جانے کیوں مرے دل کی دھڑکنیں دھڑکتی ہیں

جب تری کلائی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں

 

ہوہی جاتا ہے تازہ زخم تیری یادوں کا

جب شجر کی شاخوں پر بلبلیں چہکتی ہیں

 

وہ سما ہی جاتے ہیں آکے میری باہوں میں

زور زور سے جب بھی بجلیاں کڑکتی ہیں

 

شاعروں کے شعروں کو غور سے ذرا سنئے

کتنی خواہشیں ان میں دیکھئے سسکتی ہیں

 

میرے رونے پر ساغرؔ بادلوں کو حیرت ہے

اس طرح مری آنکھیں آج کل برستی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تقاضہ

 

وفاؤں کی وہ قیمت مانگتی ہے

مرے دل کی حکومت مانگتی ہے

ابھی تو ابتداء ہے عشق کی یہ

لہو مجھ سے محبت مانگتی ہے

 

 

 

 

 

 

احتساب

 

وقت دہرانے کو ہے تاریخ پھر اسپین کی

حد سے بڑھتی جا رہی ہے قتل اور غارت گری

کر لئے ترکش میں سارے تیر یکجا کفر نے

اور ہم بکھرے ہوئے تیروں کو گنتے ہیں ابھی

 

 

 

 

 

 

’’چھین کر چہرے سے ساری دلکشی لے جائے گا‘‘

یا خیالِ یار میری زندگی لے جائے گا

 

ہر طرف ہے غم کی بارش ہر طرف رنج و الم

سوچتا ہوں میں کہاں خود کو کوئی لے جائے گا

 

ہر کسی نے اپنے دامن میں سمیٹی ہے خوشی

کون ہے جو دکھ بھری یہ طشتری لے جائے گا

 

اے خرد مندو! سنو تم منزلِ مقصود تک

مجھ کو یہ میرا جنونِ عاشقی لے جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تو کیا ہو گا؟

 

مرے دشمن کو مجھ سے پیار جب ہو گا تو کیا ہو گا

ستمگر ہی مرا غمخوار جب ہو گا تو کیا ہو گا

ترس آتا ہے مجھ کو اپنے اس ہنستے ہوئے دل پر

کسی کی زلف کا بیمار جب ہو گا تو کیا ہو گا

 

 

 

 

 

 

چمن کے ساتھ اس دنیا میں ویرانے بھی ہوتے ہیں

جہاں کی بھیڑ میں اپنے بھی بے گانے بھی ہوتے ہیں

 

تمہاری اک نگاہِ ناز کے تیور بدلنے سے

پتہ یہ تو چلا دنیا میں بے گانے بھی ہوتے ہیں

 

یہ مجھ کو سوچنا ہے کس کو اپناؤں کسے چھوڑوں

جہاں میں بت کدے، مسجد بھی، میخانے بھی ہوتے ہیں

 

غموں سے دشمنی سب کی ہوا کرتی نہیں ساغرؔ

کچھ ایسے ہیں کہ جن کے غم سے یارانے بھی ہوتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رونا فضول ہے

 

بڑھتے ہی جاؤ عزم و عمل کا علم لئے

اب اقتباس اک نئے مضمون سے لکھو

حالات و واقعات پہ رونا فضول ہے

تاریخ آنسوؤں سے نہیں خون سے لکھو

 

 

 

 

 

 

ایسا محسوس ہوا چاند کا ہالا دیکھا

میں نے جب آپ کا ہنستا ہوا چہرا دیکھا

 

فرق کعبہ و کلیسا میں نہیں ہے کوئی

میں نے دونوں میں نمایاں ترا جلوا دیکھا

 

یہ الگ بات کہ تعبیر بھیانک نکلی

مری آنکھوں نے تو ہر خواب سنہرا دیکھا

 

اک نہ اک دن تو تجھے ہونا ہے ریزہ ریزہ

زندگی میں نے تجھے ایک گھروندا دیکھا

 

اچھے اچھے یہاں مکرے ہیں زباں سے ساغرؔ

اچھے اچھوں کا یہاں ٹوٹتے وعدا دیکھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہم جانیں

 

وطن کے دشمنوں کو دھول چٹواؤ تو ہم جانیں

محاذِ جنگ ہو دشمن پہ چھا جاؤ تو ہم جانیں

نہتوں پہ بہت آسان ہے گولی چلا دینا

کبھی سرحد سے غازی بن کے تم آؤ تو ہم جانیں

 

 

 

 

 

ہم اہل عشق کو ایسی سزائیں کون دیتا ہے

محبت کے چراغوں کو ہوائیں کون دیتا ہے

 

دوا کا کام کرتا ہے اگر میں زہر بھی کھاؤں

مجھے جینے کی آخر یہ دعائیں کون دیتا ہے

 

چلے آؤ تمہارے چاہنے والوں میں ہم بھی ہیں

ہمیں خوابوں میں اکثر یہ صدائیں کون دیتا ہے

 

یہاں پر جسم سے اب لوگ کپڑے نوچ لیتے ہیں

یہاں عریانیت کو اب ردائیں کون دیتا ہے

 

ستارے دامنِ گردوں میں ٹان کے کس نے ہیں ساغرؔ

گلوں کو مسکرانے کی ادائیں کون دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

لٹیرے راہبر

 

ویرپّن مر گیا کب کا مگر ڈاکہ زنی تو ہے

جو ہم جنگل میں سہتے تھے وہی شہروں میں سہتے ہیں

مسافر کوئی بھی چنبل کی گھاٹی میں نہیں لٹتا

لٹیرے راہبر بن کر ہمارے ساتھ رہتے ہیں

 

 

 

 

 

یوں تو ہر حسیں چہرہ اک گلاب ہوتا ہے

ہاں مگر ترا جلوہ لاجواب ہوتا ہے

 

مجھ سے کیسی رنجش ہے ہمنوا بتا میرے

کیوں ستم مرے دل پر بے حساب ہوتا ہے

 

بجلیاں جفاؤں کی کیوں ہمیں پہ گرتی ہیں

رات دن ہمیں پہ کیوں یہ عذاب ہوتا ہے

 

زلف تیرے چہرے پر اس طرح سے ہے جیسے

بدلیوں کے جھرمٹ میں ماہتاب ہوتا ہے

 

چاند رشک کرتا ہے دیکھ کر ترا چہرہ

جب کبھی تو راتوں میں بے نقاب ہوتا ہے

 

بات دل کی کہہ دی ہے آج ان سے اے ساغرؔ

دیکھنا ہے اب ان کا کیا جواب ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

قربانیاں

 

وہی تلوار نیزے برچھیاں آواز دیتی ہیں

بڑھو آگے اجل کی وادیاں آواز دیتی ہیں

بچانی ہے ہمیں کو آبروئے ہند اے ساغرؔ

شہیدوں کی ہمیں قربانیاں آواز دیتی ہیں

 

 

 

 

 

 

 

ہر طرف آہ و فغاں کی ہی صدا ہو جیسے

شہر سارا ہی محبت میں لٹا ہو جیسے

 

اس کی خاموش نگاہی سے یہ ہوتا ہے عیاں

اس کی آنکھوں کو کوئی مجھ سے گلا ہو جیسے

 

احتجاج اس کی کسی بات پہ میں کر نہ سکا

اس کے احساں تلے دل میرا دبا ہو جیسے

 

پاؤں اٹھتا ہی نہیں میرا سیاست کی طرف

مجھ میں باقی ابھی تھوڑی سی حیا ہو جیسے

 

اجنبی تھا وہ مگر اجنبی لگتا بھی نہ تھا

رابطہ میرا کوئی اس سے رہا ہو جیسے

٭٭٭

 

 

 

 

تو کیا ہے ؟

 

کرے گا فخر آخر کب تلک اسلاف پر اپنے

ترے اجداد سلطاں تھے مگر یہ سوچ تُو کیا ہے

وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر میں جس دنیا کو رکھتے تھے

اسی دنیا کے آگے آج تیرا ہاتھ پھیلا ہے

 

 

 

 

 

 

نمود صبح کی کچھ اس طرح ہم کو خبر دے دی

’’لگی تھی آنکھ ابھی کہ مرغ نے بانگِ سحر دے دی‘‘

 

یہ ممکن تو نہیں رکھے زمانہ یاد ہم کو بھی

کسی کے عشق میں ہم نے بھی اپنی جاں اگر دے دی

 

مداوا غم کا اس چھوٹی سی شب میں کیا کرے کوئی

کہ غم زیادہ دیا مجھ کو، شب غم مختصر دے دی

 

کہ مستقبل کے پردے میں بھی ہم تو جھانک سکتے ہیں

کرم اس کا کہ اس نے ہم کو کچھ ایسی نظر دے دی

 

محبت کا تقاضہ تھا یہی بس سوچ کے ساغرؔ

جہانِ زیست میں ہم نے غموں کو رہگزر دے دی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ دنیا ہے

 

نوالہ چھین لیتی ہے بڑی ظالم ہے یہ دنیا

وہی قانون جنگل کا بہر سُو آج چلتا ہے

یہاں کمزور لوگوں کی چلا کرتی نہیں ساغرؔ

یہ دنیا ہے یہاں طاقتوروں کا راج چلتا ہے

 

 

 

 

 

 

پیار کا قرض ادھورا ہے چکاؤں کیسے

تجھ سے وعدہ جو کیا ہے وہ نبھاؤں کیسے

 

مجھ کو پردیس لئے جاتی ہے یہ فکرِ معاش

سوچتا ہوں کہ تجھے چھوڑ کے جاؤں کیسے

 

اب تو ہر ایک یہاں اپنی ہی دھن میں ہے مگن

حالِ دل اپنا کسے اور سناؤں کیسے

 

ایک طوفان ہے نفرت کا مرے چاروں طرف

پیار اک کاغذی کشتی ہے بچاؤں کیسے

 

اب تو آنسو بھی نہیں ہیں مری ان آنکھوں میں

دل میں جو آگ لگی ہے وہ بجھاؤں کیسے

 

اک ترا غم ہی اٹھایا نہیں جاتا مجھ سے

بوجھ دنیا کا بتا تو ہی اٹھاؤں کیسے

 

میری خود داری اجازت نہیں دیتی ساغرؔ

سر درِ غیر پہ اپنا میں جھکاؤں کیسے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سہانے خواب

 

وہ کیا جانیں گے درد و غم وہ کیا جانیں گے تکلیفیں

انہیں معلوم کیا ہم کس طرح مر مر کے جیتے ہیں

وہی جنتا کی خاطر پھر سہانے خواب لے آئے

وہی جو لوگ جنتا کا لہو پی پی کے جیتے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

جو بات آئی ہے دل میں میرے وہی تو تجھ کو بتا رہا ہوں

ہوا ہے احساس تجھ کو پا کر میں خود سے اب تک جدا رہا ہوں

 

ہے اس کے چہرے پہ خوشیاں بکھریں، غموں کا سایہ ہے میرے رخ پر

بچھڑ کے مجھ سے اگر وہ خوش ہے تو کیوں میں آنسو بہا رہا ہوں

 

کبھی تو پگھلے گا دل تمہارا کبھی تو مجھ سے وفا کرو گے

اسی بنا پر میں عمر اپنی تمہارے پیچھے گنوا رہا ہوں

 

ابھی تو کچھ بھی کہا نہیں ہے ابھی تو کچھ بھی سنا نہیں ہے

ابھی سے کیا رٹ لگا رکھی ہے میں جا رہا ہوں میں جا رہا ہوں

 

طبیعت اپنی بہک رہی ہے عجب سی مستی ہے مجھ پہ چھائی

ہے صرف اتنی سی بات ان سے میں اپنی نظریں ملا رہا ہوں

 

کلیسا ہو یا حرم ہو ساغرؔ کنشت یا بت کدہ نہ کیوں ہو

اٹھاؤں نظریں جدھر بھی دیکھوں اسی کا جلوا میں پا رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل میں ہر وقت رہا پر کبھی آیا بھی نہیں

وہ جو اپنا بھی نہیں اور پرایا بھی نہیں

 

تر بہ تر آپ کی آنکھیں ہیں ابھی سے صاحب

میں نے افسانۂ غم پورا سنایا بھی نہیں

 

عمر گزری ہے ڈھلانوں سے اترتے اپنی

زندگی نے تو کہیں پاؤں جمایا بھی نہیں

 

مجھ سا بدبخت کوئی اور یہاں کیا ہو گا

میں نے پایا بھی تجھے اور تجھے پایا بھی نہیں

 

اس نے محفل بھی سجائی تھی مری ہی خاطر

اور میں پہونچا تو خاطر میں وہ لایا بھی نہیں

 

دھوپ خوشیوں کی ہمیں راس نہیں آئے گی

اس نگر میں تو کہیں درد کا سایا بھی نہیں

 

حیثیت میری کھلونے سے بھی کم تھی ساغرؔ

دیکھ کے چھوڑ دیا مجھ کو اٹھایا بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم کو گالی بھی کوئی دے تو، دعا دیتے ہیں

ہم تو نفرت کا، محبت سے صلہ دیتے ہیں

 

پوچھ دیتا ہے اگر کوئی اداسی کا سبب

ہو کے مجبور ترا نام بتا دیتے ہیں

 

ان کی معصوم طبیعت پہ ہنسی آتی ہے

زہر کے ساتھ وہ جینے کی دعا دیتے ہیں

 

ایک انسان بھلایا نہ گیا اور یہاں

لوگ اللہ تعالیٰ کو بھلا دیتے ہیں

 

کتنے بے درد یہ ہوتے ہیں زمانے والے

ذکر کرتے ہیں ترا اور رلا دیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ساتھ چلتی ہے برائی یہاں سایا بن کر

زندگی کیسے گزاروں میں فرشتا بن کر

 

سیر پانی سے نہیں خون سے ہوتے ہیں یہاں

ہم تو بے کار جیے جاتے ہیں دریا بن کر

 

میری فطرت مجھے اچھا نہیں بننے دیتی

تجھ کو یہ ضد کہ دکھاؤں تجھے اچھا بن کر

 

تجھ کو اس بات کا احساس بھی کچھ ہے کہ نہیں

کتنے ہاتھوں میں تو جاتا ہے کھلونا بن کر

 

قیس لیلیٰ کی طرح وامق و عذرا کی طرح

پیار اپنا بھی یہ رہ جائے نہ قصہ بن کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کریں پھر ان سے تجدید وفا کیا

مٹائیں درمیاں کا فاصلا کیا

 

اگر وہ موم ہوتا تو پگھلتا

وہ پتھر ہے تو پتھر کا گلا کیا

 

کسی کے کام آنا زندگی ہے

نہیں تو جینے سے پھر فائدا کیا

 

یہ کس کو دیکھ کے حیران ہو تم

تمہارے روبرو ہے آئینا کیا

 

کہاں غالبؔ کہاں عمرانؔ ساغرؔ

زمیں کا آسماں سے واسطا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب کی نظر میں صاحب کردار میں ہی تھا

آیا برا جو وقت سرِ دار میں ہی تھا

 

میرے سوا نظر میں تری بے گنہ تھے سب

تیری نظر میں صرف گنہگار میں ہی تھا

 

ہر دل میں تیری آرزو لیتی تھیں سسکیاں

کہنے کو صرف تیرا طلبگار میں ہی تھا

 

میں گر گیا تو ان کو ہوئیں قربتیں نصیب

کیا دو دلوں کے بیچ میں دیوار میں ہی تھا

 

اک ایک کر کے جب سبھی کو آزما چکے

کہنا پڑا یہ ان کو وفادار میں ہی تھا

 

چہرے پہ سب کے خوف نمایاں تھا موت کا

’’مصلوب ہونے والوں میں سرشار میں ہی تھا‘‘

 

سب لوگ میرے پر کو کترنے میں تھے لگے

ساغرؔ تمام شہر میں پردار میں ہی تھا؟

٭٭٭

 

شعر

 

کچھ بھی کہنے کی نہیں ہوتی ہے جرأت تم سے

کتنا دشوار ہے اظہارِ محبت تم سے

 

 

 

 

 

 

میں اپنی حیثیت سے کچھ زیادہ لے کے آیا ہوں

میں قطرہ ہوں مگر ہمراہ دریا لے کے آیا ہوں

 

مرے مالک تو مجھ عاصی پہ بھی نظر کرم کر دے

کئی اک ٹوٹا پھوٹا میں بھی سجدہ لے کے آیا ہوں

 

مجھے بھی کچھ عطا کر دے اجالا بانٹنے والے

تری خدمت میں تمہید تمنا لے کے آیا ہوں

 

تمہاری آنکھ کے رستے تمہارے دل میں اتروں گا

میں عزم و  حوصلہ، پختہ ارادہ لے کے آیا ہوں

 

اجل نے کام اپنا کر دیا رشوت نہیں کھائی

میں کافی دیر تک چیخا کہ پیسہ لے کے آیا ہوں

 

چلے آؤ کہ پہلے کی طرح ماتم کریں مل کر

میں اپنے دل کے ارمانوں کا لاشہ لے کے آیا ہوں

 

مجھے ہر حال میں تاریکیوں کا سر کچلنا ہے

ہتھیلی پر اگا کر چاند، تارا لے کے آیا ہوں

 

مری تحریر سے ساغر ابھی تک خوں ٹپکتا ہے

میں ان کاغذ کے ٹکڑوں میں کلیجہ لے کے آیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بزرگوں کو نئی نسلوں نے حیرانی میں رکھا ہے

نمک محفوظ رکھنے کے لئے پانی میں رکھا ہے

 

بس اتنی بات کہ خود کی پریشانی مٹانے کو

امیر شہر نے سب کو پریشانی میں رکھا ہے

 

یہ مستقبل میں کام آئے گا اس کو غور سے دیکھو

جو منظر میری ان آنکھوں کی ویرانی میں رکھا ہے

 

کہاں وہ بات پھولوں اور فلک کے چاند تاروں میں

خدا نے حسن جیسا حسن انسانوں میں رکھا ہے

 

خلوص، اخلاق ہے کچے مکانوں کے مکینوں میں

حسد، بغض و عداوت قصر سلطانی میں رکھا ہے

 

رفو گر بھی پریشاں ہو کے آخر پوچھ ہی بیٹھا

بتاؤ کیسا نشّہ چاک دامانی میں رکھا ہے

 

یہ اس کی مصلحت ہے وہ ہمیں یوں آزماتا ہے

کبھی تنگی، کبھی اس نے فراوانی میں رکھا ہے

 

ہمارے عہد کے بچے بہت چالاک ہیں ساغرؔ

پیالا دودھ کا بلّی کی نگرانی میں رکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

چلے بھی آؤ

 

وہ منتظر ہیں کسی کی آنکھیں

وہ رات ڈھلنے کو آ گئی ہے

وہ چاند مدھم سا لگ رہا ہے

ستارے بے نور ہو رہے ہیں

سویرا انگڑائی لے رہا ہے

کسی کی باہیں پکارتی ہیں

چلے بھی آؤ، چلے بھی آؤ

وہ تاب ہم میں کہاں ہے باقی

کہ فرقتوں کے عذاب جھیلیں

وہ حوصلے اور وہ ولولے سب

بکھر رہے ہیں بکھر رہے ہیں

تمام احساس مر رہے ہیں

اب اس سے پہلے کہ موت آئے

چلے بھی آؤ، چلے بھی آؤ

وہی غموں کا ہجوم پھر ہے

وہی ہے موسم جدائیوں کا

وہی ہے تیرہ شبی کا منظر

وہی سسکتی سی آرزو ہے

کہ پھر وہ پہلی سی زندگی سے

سہارا باہوں کا پھر سے دے دو

چلے بھی آؤ، چلے بھی آؤ

ہے خشک پتوں سی اپنی حالت

ہوا کے رحم و کرم پہ ہیں ہم

نہ ہم کو راہوں کا کچھ پتہ ہے

نہ منزلوں کی خبر ہے ہم کو

کہاں کہاں ہم لئے پھریں گے

اٹھائے اس زندگی کا لاشہ

چلاؤ نظروں سے تیر ہم پر

ہمیں اجل کی غذا بنا دو

چلے بھی آؤ، چلے بھی آؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کنگن کی کھنک

 

ہر قدم یاد تجھے میری بہت آئے گی

تو جہاں جائے گی ہمراہ مجھے پائے گی

 

تیرے رخسار کی رنگت ترے ماتھے کی چمک

مجھ سے قائم ہے ترے ہاتھ کے کنگن کی کھنک

 

تیری ہر سانس سے وابستہ ہیں سانسیں میری

خواب تیرے ہیں سبھی اور ہیں آنکھیں میری

 

پھر بتا کیسے جدا مجھ سے تو ہو جائے گی

تو جہاں جائے گی ہمراہ مجھے پائے گی

 

دل میں روشن ہے تری یاد چراغوں کی طرح

مجھ پہ طاری ہے ترا پیار ایاغوں کی طرح

 

تو ہی کہہ دے کہ تجھے دل سے بھلا دوں کیسے

میں ترے نام کو ہاتھوں سے مٹا دوں کیسے

 

آ بھی جا اور مجھے کتنا تو تڑپائے گی

تو جہاں جائے گی ہمراہ مجھے پائے گی

 

چھوڑ دینے کا کیا کیسے ارادہ تُو نے

جس کو چاہا تھا کبھی جان سے زیادہ تُو نے

 

کیا ہوئیں قسمیں تری اور وہ وعدے تیرے

ساتھ چلنے کے ہمیشہ کے ارادے تیرے

 

مجھ کو معلوم نہ تھا اتنا بدل جائے گی

تو جہاں جائے گی ہمراہ مجھے پائے گی

 

اپنے وعدے کو وفا کر کے میں دکھلاؤں گا

میں اگر مر بھی گیا پھر بھی تجھے چاہوں گا

 

تو جہاں کے کسی گوشے میں رہے گی ہمدم

ہو کے بے چین صدا دوں گا تجھے میں جس دم

 

میری آواز تیرے کان سے ٹکرائے گی

تو جہاں جائے گی ہمراہ مجھے پائے گی

 

جب بھی دیکھا تری صورت کو ہی دیکھا میں نے

صرف اور صرف تری کی ہے تمنا میں نے

 

میں سوا تیرے کسے دیکھوں نگاہیں بھر کے

جو کبھی دیکھوں مرا رب مجھے اندھا کر دے

 

دیکھ اب مان بھی جا ورنہ تو پچھتائے گی

تو جہاں جائے گی ہمراہ مجھے پائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گنہگار

 

بھری محفل میں ترا نام لیا ہے میں نے

تجھ کو بدنام زمانے میں کیا ہے میں نے

تو سزا چاہے جو دے تیرا گنہگار ہوں میں

 

تجھ میں دیکھی نہ کوئی میں نے علامت شر کی

مجھ میں پوشیدہ برائی ہے زمانے بھر کی

 

تو مجھے کہتا ہے بدکار تو بدکار ہوں میں

تو سزا چاہے جو دے تیرا گنہگار ہوں میں

 

ایک لمحے کے لئے بھول نہ پایا تجھ کو

بن ترے ایک بھی پل چین نہ آیا مجھ کو

 

اے مری جان ترا اب بھی طلبگار ہوں میں

تو سزا چاہے جو دے تیرا گنہگار ہوں میں

 

رَنج اس کا ہے تجھے کوئی خوشی دے نہ سکا

نرم ہونٹوں کو ترے تھوڑی ہنسی دے نہ سکا

 

تیری راہوں میں پڑا پھول نہیں خار ہوں میں

تو سزا چاہے جو دے تیرا گنہگار ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یہ تماشہ کیا ہے ؟

 

منزلیں مل نہ سکیں راستے دشوار ملے

مجھ کو پھولوں کی تمنا تھی مگر خار ملے

’’زندگی اور بتا تیرا ارادہ کیا ہے ‘‘

 

ہم بھی کس شہر ستمگر میں چلے آئے ہیں

سہمے سہمے ہیں بہت دیر سے گھبرائے ہیں

 

کوئی تو ہم کو بتائے یہ تماشا کیا ہے

’’زندگی اور بتا تیرا ارادہ کیا ہے ‘‘

 

پاس رہ کر بھی بہت دور بہت دور ہے تُو

مجھ کو معلوم ہے میری طرح مجبور ہے تو

 

کیفیت دل کی جو ہے مجھ سے چھپاتا کیا ہے

’’زندگی اور بتا تیرا ارادہ کیا ہے ‘‘

 

پیار کا پھول مرے دل میں کبھی کھل نہ سکا

اپنی منزل کا مجھے اب بھی پتہ مل نہ سکا

 

میرے مالک میری تقدیر میں لکھا کیا ہے

’’زندگی اور بتا تیرا ارادہ کیا ہے ‘‘

 

لوٹ آنے کا مرے کوئی بھی امکان نہیں

راستہ عشق کا پیچیدہ ہے آسان نہیں

 

تو مرے واسطے یوں اشک بہاتا کیا ہے

’’زندگی اور بتا تیرا ارادہ کیا ہے ‘‘

 

تو اگر چاہئے تو بن سکتا ہے پتھر کی طرح

بات تو تب ہے کہ بن جائے تو ساغرؔ کی طرح

 

روتی آنکھوں کو ہنسا یار رلاتا کیا ہے

’’زندگی اور بتا تیرا ارادہ کیا ہے ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنا وطن

 

کرتے ہی رہیں گے مل کر ہم خون سے اس کی سینچائی

یہ اپنا وطن ہے اپنا وطن ہم اپنے وطن کے شیدائی

 

اس دیش میں گنگا جمنا ہے

اس دیش میں تاج اجنتا ہے

اس دیش کی پیداوار نہ پوچھ

اس دیش کی مٹی سونا ہے

حیرت میں پڑا ہے سارا جہاں اس دیش کی دیکھ کے رعنائی

یہ اپنا وطن ہے اپنا وطن ہم اپنے وطن کے شیدائی

 

اس دیش پہ آن نچھاور ہے

اس دیش پہ شان نچھاور ہے

اس دیش سے ہم کو پیار بہت

اس دیش پہ جان نچھاور ہے

اس دیش پہ ہم قرباں ہوئے اس دیش پہ جب بھی آنچ آئی

یہ اپنا وطن ہے اپنا وطن ہم اپنے وطن کے شیدائی

 

اس دیش میں مہر و اخوت ہے

اس دیش میں پیار محبت ہے

اس دیش کے ہم ہیں باشندے

یہ بھی تو ہماری قسمت ہے

اس دیش میں ہندو مسلم ہیں اس دیش میں سِکھ اور عیسائی

یہ اپنا وطن ہے اپنا وطن ہم اپنے وطن کے شیدائی

 

اس دیش میں عزت پیروں کی

اس دیش میں قدر فقیروں کی

اس دیش سے دشمن خائف ہے

اس دیش میں دھوم ہے ویروں کی

اس دیش کی مٹی میں ٹیپو اس دیش میں تھی لکشمی بائی

یہ اپنا وطن ہے اپنا وطن ہم اپنے وطن کے شیدائی

٭٭٭

 

 

 

 

پھول اور خوشبو

 

تیرا میرا ایسا رشتا

جیسا پھول سے خوشبو کا

 

تیری کہانی میرا فسانہ

یاد کرے گا صدیوں زمانہ

 

تیری طلب اور تیری حسرت

تیری گلی ہی میری جنت

 

جب سے میں نے تجھ کو پایا

اور خدا سے کچھ نہ چاہا

 

تیرا چہرہ چاند ستارا

سندر سندر پیارا پیارا

 

تیری آنکھیں کتنی پیاری

بن کاجل بھی کجراری

 

سرخ گلابی ہونٹ تمہارے

نازک نازک پیارے پیارے

 

تجھ سے جڑا ہے میرا جیون

میری سانسیں میری دھڑکن

 

آ کہ گلے سے تجھ کو لگا لوں

کھوئی ہوئی تقدیر میں پالوں

 

ہاتھ اگر میں چوم لوں تیرا

پیار امر ہو جائے میرا

٭٭٭

 

 

 

 

 

عید مبارک

 

تمہاری زندگی میں بھی بہاروں کا سماں آئے

یہ گاتا مسکراتا راس تجھ کو دو جہاں آئے

جبیں کو چومنے تیری فلک سے کہکشاں آئے

جدھر تیرا قدم اٹھّے ادھر سارا زماں آئے

خدا دل سے تمہارے دور کر دے آج ہر غم کو

مبارک عید ہو تم کو مبارک عید ہو تم کو

 

تمہاری جھیل سی آنکھوں میں آنسوکس لئے آئیں

تمہارے پنکھڑی سے ہونٹ مسکاتے ہیں مسکائیں

ہمارا کیا خوشی ہم کو کبھی کیا راس آئی ہے

ہماری غم سے صدیوں کی سمجھ لو آشنائی ہے

اداسی چھائے مت تم پہ پریشاں دیکھ کے ہم کو

مبارک عید ہو تم کو مبارک عید ہو تم کو

 

جہاں میں رشتے بنتے ہیں تو رشتے ٹوٹتے بھی ہیں

سفر میں ہمسفر جانے تمنا چھوٹتے بھی ہیں

ہمارے واسطے تم آنکھ اپنی نم نہیں کرنا

کبھی چھوٹے ہمارا ساتھ تو کچھ غم نہیں کرنا

نہ دیکھا جائے گا ہم سے تمہاری چشمِ پرنم کو

مبارک عید ہو تم کو مبارک عید ہو تم کو

٭٭٭

 

 

 

 

خواہش بے جا

 

تو مری چاہ میری تمنا نہ کر

اس طرح پیار سے مجھ کو دیکھا نہ کر

 

ذات پاکیزہ تیری میں بدکار ہوں

تو مرے واسطے خود کو رسوا نہ کر

 

یہ طبیعت بہت بے وفا ہے مری

تو مجھے بھول جا التجا ہے مری

 

میں تبہ ہوں تباہ ہی مجھے رہنے دے

میری آنکھوں سے آنسو یونہی بہنے دے

 

بانٹنے کی مرے غم کو کوشش نہ کر

درد دنیا کا تنہا مجھے سہنے دے

 

ایسے زخموں کی خاطر نہ حیران ہو

جس کے بھرنے کا کوئی نہ امکان ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

خدا ہی خیر کرے

 

کس پیار کی باتیں کرتا ہے

اس پیار کی جو بد نام ہوا

کس پیار کو اب تو روتا ہے

اس پیار کو جو نیلام ہوا

تری آہیں، تیرے آنسو

جھوٹے سب ہیں جھوٹا تو

خدا ہی خیر کرے

 

کس ہاتھ کو تھامے اب تو

وہ ہاتھ جو تو نے چھوڑ دیا

کس دل کی تمنا کرتا ہے

وہ دل جو تو نے توڑ دیا

مجھے تو کر کے یوں تنہا

بہا مت اشکوں کا دریا

خدا ہی خیر کرے

 

اس پیار کی پوجا کیسے کریں

جو بکتا ہے بازاروں میں

اس پیار کو سجدہ کیسے کریں

جو تول چکا دیناروں میں

کوئی نہ پیار کا اب لے نام

محبت ہو چکی بدنام

خدا ہی خیر کرے

 

جس پیار کی خواہش تھی ہم کو

اس پیار کا دامن چاک ہوا

وہ پیار ہوس کے شعلے میں

کچھ یاد نہیں کب خاک ہوا

بہت ہے دل میرا رنجور

محبت ہو گئی معذور

خدا ہی خیر کرے

 

وہ پیار جو ہر دن شام ڈھلے

موجود ہو دولت خانوں میں

اس پیار کی خواہش کون کرے

جو لٹتا ہو ایوانوں میں

وہ پیار ہمیں کیوں آئے راس

حیا کا جس کو نہیں ہے پاس

خدا ہی خیر کرے

 

کس پیار پہ نازاں ہے اب تو

اس پیار پہ جو ہر در پہ جھکا

وہ پیار جو ہر اک جھولی میں

بے دام و درم گرتا ہی رہا

اس پیار نے مجھ کو اے ساغرؔ

موم سے کر ڈالا پتھر

خدا ہی خیر کرے

٭٭٭

 

 

 

 

ممکن ہے، ناممکن بھی

 

کوئی تو ایسا دن آئے، کئے پر اپنے پچھتائے

ممکن ہے ناممکن بھی

خطا پر اپنی تو روئے، چہرہ اشکوں سے دھوئے

ممکن ہے ناممکن بھی

 

تو کیا جانے پیار کی قیمت

بیچنے والے اپنی عصمت

ایک طوائف تیرے اندر

اپنے بدن کا تو سوداگر

چھوڑ دے تو یہ سارے کام، جس سے ہوا ہے تو بدنام

ممکن ہے ناممکن بھی

 

اک پاکیزہ سا رشتا

کیوں نہ تجھ کو راس آیا

اس کا ہوا تو شیدائی

جو تھا ہوس کا تمنائی

سمجھے تو یہ ساری بات، نفس کو اپنے دے تو مات

ممکن ہے ناممکن بھی

 

تیری حقیقت جانتا ہوں

کیا چیز ہے تو پہچانتا ہوں

ایک کھلونا جسم ترا

کھیل کے سب نے چھوڑ دیا

تجھے اس بات کا ہوا احساس

حیا تجھ کو بھی آئے راس

ممکن ہے ناممکن بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دو چار قدم

 

مانا تُو ہے بہت حسیں

کوئی تجھ سا ہے ہی نہیں

 

دل کی بات زباں پہ لاؤں

اپنے دل کا حال سناؤ

کیا اقرار کرے گی تُو

مجھ سے پیار کرے گی تو

اتنا بتا اے ماہِ جبیں

کوئی تجھ سا ہے ہی نہیں

 

دل تیری تمنا کرتا ہے

ہر پل آہیں بھرتا ہے

میری طلب ہے آس ہے تو

دل کا مرے احساس ہے تو

میں ہوں کہیں اور تُو ہے کہیں

کوئی تجھ سا ہے ہی نہیں

 

دو چار قدم تو ساتھ تو دے

پہلے ہاتھ میں ہاتھ تو دے

پھر آگے سوچا جائے گا

جو ہو گا دیکھا جائے گا

تھوڑا سا کر لے مجھ پر یقیں

کوئی تجھ سا ہے ہی نہیں

 

اپنی دعاؤں میں کب سے

تجھ کو مانگتا ہوں رب سے

جس سمت نظر بھی اٹھ جائے

تیرا ہی چہرہ نظر آئے

کیا ہے فلک اور کیا ہے زمیں

کوئی تجھ سا ہے ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

بہت مجبور ہوں

 

تُو اپنے ارادے سے آ باز، مت دے مجھ کو تُو آواز

بہت مجبور ہوں میں

میں لوٹ کے آ نہیں پاؤں گا، میں یونہی ٹھوکر کھاؤں گا

بہت مجبور ہوں میں

 

تو میری کہانی کیا جانے، لمحات مرے گزرے کل کے

میں کن حالات سے گزرا ہوں، میں پل پل کتنا تڑپا ہوں

تجھے نہ کوئی اس کی خبر، او کہنے والے مجھے پتھر

بہت مجبور ہوں میں

 

جذبات سے میرے مت کھیلو، تم چاہو تو میری جاں لے لو

یہ پیار محبت سب دھوکا، اس کا ہے مجھ کو اندازہ

بس مجھ پہ اتنا رحم کرو، تم ہر پل مجھ سے دور رہو

بہت مجبور ہوں میں

 

تو میری چاہ نہیں کرنا، جیون کو تباہ نہیں کرنا

آوارہ ہوا کا میں جھونکا، دل مجھ سے لگا کے روئے گا

تجھے سمجھاؤں میں کیسے، تو ہی مجھ کو بتلا دے

بہت مجبور ہوں میں

 

اے شوخ حسیں اے شعلہ بدن، تو چھوڑ دے یہ دیوانہ پن

یہ جان لے تجھ سے ہٹ کر ہوں، انسان نہیں میں پتھر ہوں

سینے میں دل ہی نہیں میرے، تھک جاؤں گا یہ کہتے کہتے

بہت مجبور ہوں میں

 

میں موت سے لڑ تو سکتا ہوں، ہاں پیار کے نام سے ڈرتا ہوں

یہ پیار ہے ساغرؔ ایسی بلا، جینے نہ دیا مرنے نہ دیا

اب تم ہی سوچو یہ باتیں، کٹتی ہیں مری کیسے راتیں

بہت مجبور ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بغاوت

 

پھر ترے شہر میں آیا ہوں میں کیا کیا لے کر

ہاتھ خالی ہے امیدوں کا ذخیرا لے کر

 

غم کے طوفان میں میں کوئی کنارا ڈھونڈوں

میں تیرے شہر میں غیروں کا سہارا ڈھونڈوں

 

کیوں سرِ عام کیا عشق کو رسوا تو نے

چند سکّوں میں کیا پیار کا سودا تو نے

 

ہاتھ تو نے مرا آ کر کے کہاں پر چھوڑا

تو نے برسوں کے تعلق کو ہی پل میں توڑا

 

دے گیا آنسو مجھے مجھ کو ہنسانے والا

اب یہاں کوئی نہیں مجھ کو بچانے والا

 

دیکھتے کیا ہو مجھے گھور کے دنیا والو!

وقت کا قیس ہوں آؤ مجھے پتھر مارو

 

عشق میں تیرے بتا کیا کیا نہیں میں نے دیکھا

میں ترے غم کو لئے پھرتا تھا صحرا صحرا

 

مجھ سے جب روٹھی تھی بے رحم یہ دنیا ساری

تو تو اپنا تھا مگر تو نے بھی ٹھوکر ماری

 

اب کوئی مونس و غمخوار نہیں ہے میرا

میں اکیلا ہوں کوئی یار نہیں ہے میرا

 

ہو کے مجبور ستمگر کی وہ بستی چھوڑی

دل تھے پتھر کے وہاں میں نے وہ نگری چھوڑی

 

میں نے بھی آج زمانے کے بھرم توڑ دیئے

جو بھی اس دل میں بسائے تھے صنم توڑ دیئے

 

مجھ کو معلوم نہ تھا ایسی بھی حالت ہو گی

اے خدا تیری خدائی سے بغاوت ہو گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

خدایا ماجرا کیا ہے

 

تڑپ اٹھتا ہے دل میرا، اسے جب یاد کرتا ہوں

خدایا ماجرا کیا ہے نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں

 

اسی سے زندگی میری

اسی سے ہر خوشی میری

اسی سے عاشقی میری

اسی سے شاعری میری

 

وہی خوابوں میں آتا ہے

وہی نیندیں اڑاتا ہے

وہی مجھ کو ہنساتا ہے

وہی مجھ کو رلاتا ہے

 

مگر باتیں اسے دل کی میں بتلانے سے ڈرتا ہوں

خدایا ماجرا کیا ہے نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں

 

حسیں ہو خوبصورت ہو

تمہیں میری محبت ہو

مری دنیا کی رنگت ہو

مرے دل کی ضرورت ہو

 

کرم اتنا تو فرماؤ

مرے نزدیک تم آؤ

نہ مجھ سے ایسے شرماؤ

مرے دل میں اتر جاؤ

 

قسم چاہے جو تم لے لو میں تم پہ دل سے مرتا ہوں

خدایا ماجرا کیا ہے نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں

 

اسے دیکھوں، اسے چاہوں

دعاؤں میں اسے مانگوں

اسی کی یاد میں جاگوں

تمنا ہے اسے پالوں

 

وہ مری جان ہے ساغرؔ

مرا ارمان ہے ساغرؔ

وہ میری آن ہے ساغرؔ

مری پہچان ہے ساغرؔ

 

اسے سینے میں دھڑکن کی طرح محسوس کرتا ہوں

خدایا ماجرا کیا ہے نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

دنیا کا پتھر

 

کالی گھٹا میں چاند چھپا ہے ڈوب رہے ہیں تارے

آ جا آ جا اب تو آ جا یہ دل تجھے پکارے

 

جاگتی اِن آنکھوں میں ہے آ دیکھ لے تیرا سپنا

یاد میں تیری ایسے گُم ہوں ہوش نہیں ہے اپنا

 

دیوانہ کہہ کہہ کے مجھ کو دنیا پتھر مارے

آ جا آ جا اب تو آ جا یہ دل تجھے پکارے

 

میرے حال پہ اے ساتھی تو آج کرم فرمانا

مجھ کو تڑپتا چھوڑ کے تنہا ایسے میں مت جانا

 

میں گرتی دیوار ہوں مجھ کو دے گا کون سہارے

آ جا آ جا اب تو آ جا یہ دل تجھے پکارے

 

توڑ کے اس دنیا کی رسمیں توڑ کے سب سے ناطا

میرے سونے اس جیون میں تیری کمی ہے آ جا

 

بن تیرے لگتے ہیں پھیکے مجھ کو یہ نظّارے

آ جا آ جا اب تو آ جا یہ دل تجھے پکارے

 

ایک نظر جو تجھ کو دیکھے وہ تیرا ہی ہولے

تیری چوڑی جب کھنکے دیوانوں کا دل ڈولے

 

پاس ترے آ جاؤں تو کر دے ذرا اشارے

آ جا آ جا اب تو آ جا یہ دل تجھے پکارے

 

آج کے شعراء کی باتوں میں یار کبھی مت آنا

تعریفیں کر کر کے ان کو آتا ہے بہلانا

 

ان کی باتیں رنگ رنگیلی جملے چاند ستارے

آ جا آ جا اب تو آ جا یہ دل تجھے پکارے

 

ہجر میں اس کے یہ جیون بھی ایک سزا ہے ساغرؔ

یاد میں اک پردیسی کے یہ حال ہوا ہے ساغرؔ

 

روکے سے اب رکتے نہیں ہیں ان اشکوں کے دھارے

آ جا آ جا اب تو آ جا یہ دل تجھے پکارے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے مسلمانو!

 

اے مسلمانو! اٹھو! اب ہوش میں آ جاؤ تم

توڑ کر زنجیر باطل نورِ حق پھیلاؤ تم

 

جس طرح فاروق نے کی رہنمائی قوم کی

جس طرح خالد نے جیتی جنگ کی بازی سبھی

ابنِ قاسم نے لڑائی جس طرح حق کی لڑی

آج اپنے دشمنوں سے ویسے ہی ٹکراؤ تم

توڑ کر زنجیرِ باطل نورِ حق پھیلاؤ تم

 

تم کو گر دنیا میں رہنا ہے تو ایوبی بنو

بزدلی اب چھوڑ دو تم بن کے طارق سا اٹھو

ظلم کی ان آندھیوں سے اب نہ ہرگز تم ڈرو

شیرِ نر ہو وقت کے گیدڑ سے مت گھبراؤ تم

توڑ کر زنجیرِ باطل نورِ حق پھیلاؤ تم

 

گیسوؤں اور آنچلوں کا تم سہارا چھوڑ دو

تیغ کے سائے میں آؤ آ کے جینا سیکھ لو

کچھ امنگیں دل میں ہو کچھ حوصلہ پیدا کرو

خوابِ غفلت سے اٹھو بیدار اب ہو جاؤ تم

توڑ کر زنجیرِ باطل نورِ حق پھیلاؤ تم

 

موت کی آغوش میں دن رات وہ پلتے رہے

کیسے تھے انسان جلتی ریت پر چلتے رہے

وہ چراغِ حق تھے کہ طوفاں میں بھی جلتے رہے

کارنامہ اب جہاں میں ویسا ہی دکھلاؤ تم

توڑ کر زنجیرِ باطل نورِ حق پھیلاؤ تم

 

رات دن تم کھٹ رہے ہو بس کمائی کے لئے

ہیں سبھی آمادہ دشمن اب لڑائی کے لئے

رہنما اپنا چنو تم رہنمائی کے لئے

سوچو مت دریا میں گھوڑا ڈال کر دوڑاؤ تم

توڑ کر زنجیرِ باطل نورِ حق پھیلاؤ تم

 

ہر قدم پر مشکلوں کا سامنا ہو گا تمہیں

متحد ہو کر سنو اب سوچنا ہو گا تمہیں

اب دلوں کی رنجشوں کو بھولنا ہو گا تمہیں

بات ساغرؔ کی سنو فولاد اب بن جاؤ تم

توڑ کر زنجیرِ باطل نورِ حق پھیلاؤ تم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کیا خطا ہو گئی

 

ہر قسم توڑ دوں ہر بھرم توڑ دوں

ساتھ تیرا میں کیسے صنم چھوڑ دوں

 

فرقتوں میں بسر یوں نہ اوقات کر

تجھ کو میری قسم ہے ملاقات کر

 

مجھ کو اتنا بتا کیا خطا ہو گئی

اے صنم کس لئے تو خفا ہو گئی

 

میری ہر سانس تجھ پہ تو قربان ہے

تو مرا چین ہے تو مری جان ہے

 

تجھ سے ہو کے جدا میں بکھر جاؤں گا

تو نے کی بے وفائی تو مر جاؤں گا

 

میری نظروں کو بس جستجو ہے تری

میرے اس دل کو بس آرزو ہے تری

 

نام تیرا ہی رہتا ہے لب پر مرے

جلوہ آنکھوں میں تیرا ہے دلبر مرے

 

تجھ کو چاہے نہ دل میرا کیسے بھلا

سارے جگ سے نرالی ہے تیری ادا

 

کتنی معصوم ہے کتنی پیاری ہے تو

کتنی نازک ہے تو کتنی بھولی ہے تو

 

زندگی اپنی تجھ پہ لٹا دوں گا میں

واسطے تیرے خود کو مٹا دوں گا میں

 

درد کی میرے مجھ کو دوا چاہئے

مجھ کو بدلہ وفا کا وفا چاہئے

 

سلسلہ پیار کا یہ نہ ٹوٹے کبھی

اب رہے یا نہ رہ پائے یہ زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یوم جمہوریہ

 

چمک جب تک رہے گی چاند سورج اور ستاروں میں

روانی جب تلک باقی ہے دریاؤں کے دھاروں میں

یہی جذبہ رہے گا ملک کے سب جاں نثاروں میں

چراغِ دل جلائیں گے خوشی کے گیت گائیں گے

یونہی ہر سال چھبیس جنوری مل کے منائیں گے

 

ہمیں جب بھی زمانے کی یہ گردش آزمائے گی

اے چشمِ وقت تو ثابت قدم ہی ہم کو پائے گی

وطن کی اس محبت میں کبھی لغزش نہ آئے گی

وطن کے نام پر سر کو کٹایا تھا کٹائیں گے

یونہی ہر سال چھبیس جنوری مل کے منائیں گے

 

یہی محفل یہی رونق یہی سارا سماں ہو گا

یہی نغمہ، یہی لہجہ یہی طرزِ بیاں ہو گا

نہ ہوں گے ہم، ہمارے ہونے کا پھر بھی گماں ہو گا

ہمارے بعد جو آئیں گے یہ محفل سجائیں گے

یونہی ہر سال چھبیس جنوری مل کے منائیں گے

 

یہیں کشمیر کی وادی جو جنت کا نمونہ ہے

یہیں پر تاج، جس کو دنیا کہتی ہے عجوبہ ہے

یہیں پر گنگا جمنا کا ہے سنگم جو انوکھا ہے

نظارے اس کے دیکھیں گے تو خود کو بھول جائیں گے

یونہی ہر سال چھبیس جنوری مل کے منائیں گے

 

نگاہوں میں ہماری اس کی عزت، قدر و قیمت ہے

نہ پوچھو دیش سے اپنے ہمیں کتنی محبت ہے

یہیں پیدا ہوئے ہیں ہم یہیں مرنے کی حسرت ہے

ہم اپنے دیش پہ سو جان سے قربان جائیں گے

یونہی ہر سال چھبیس جنوری مل کے منائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ووٹ۔ ؟

 

مت کی خاطر جان لے انسان ہی انسان کی

کس قدر جمہوریت میں قدر ہے مت دان کی

 

ووٹ ہی انسان کو کرسی پہ بٹھلائے یہاں

ووٹ ہی انسان کو فٹ پاتھ پر لائے یہاں

ووٹ ہی سے ملتا ہے انسان کو پاور یہاں

ووٹ ہی کر دیتا ہے انسان کو بے گھر یہاں

ووٹ ہی کے بل پہ انساں راج کرتا ہے یہاں

ووٹ ہی کے بل پہ حاصل تاج کرتا ہے یہاں

ووٹ کی خاطر ہی انساں گالیاں کھاتا پھرے

ووٹ کی خاطر ہی انساں ملک کا دورہ کرے

 

ووٹ ہی سے ملتی ہے کرسی یہاں پردھان کی

کس قدر جمہوریت میں قدر ہے مت دان کی

 

ووٹ ہی دشمن کرے بھائی کا بھائی کو یہاں

ووٹ ہی برباد کرتا ہے کمائی کو یہاں

ووٹ ہی کے واسطے انسان بک جائے یہاں

ووٹ کی خاطر ہی انساں ٹھوکریں کھائے یہاں

ووٹ کی خاطر لگائے انساں سب کچھ داؤ پر

ووٹ ہی مرہم رکھا کرتا ہے اکثر گھاؤ پر

ووٹ ہی سے جنتا رہبر اپنا چنتی ہے یہاں

ووٹ سے تقدیر بنتی اور بگڑتی ہے یہاں

 

ووٹ سے بدلا کرے تاریخ ہندوستان کی

کس قدر جمہوریت میں قدر ہے مت دان کی

 

شخصیت چھوٹی ہو چاہے شخصیت کوئی بڑی

ایک ہی مت دینے کا حق رکھتا ہے ہر آدمی

ایک ہی مت سے یہاں پر ہار جاتا ہے کوئی

ایک ہی مت سے یہاں پر جیت پاتا ہے کوئی

یہ جمہوری ملک ہے آزاد ہے ہر ویکتی

ووٹ دے سکتا ہے اپنا جس کو چاہے قیمتی

یوں سمجھ لو مت ہی جنتا کے لئے ہتھیار ہے

مت سے ہی بنتی بگڑتی ملک میں سرکار ہے

 

مت نے جنتا کے لئے مشکل بہت آسان کی

کس قدر جمہوریت میں قدر ہے مت دان کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

درد جدائی

 

اپنا زمانہ ان کی جوانی، دن وہ سنہرے رت وہ سہانی

یاد ہمیں جب آتے ہیں تو آنکھ سے آنسو بہتے ہیں

ہم سے پوچھو ہم کیسے یہ دردِ جدائی سہتے ہیں

 

اک دوجے سے دور ہوئے ہیں

زخموں سے ہم چور ہوئے ہیں

پاؤں میں ہے حالات کی بیڑی

ملنے سے مجبور ہوئے ہیں

 

پھر بھی کیا یہ کم ہے اک دوجے کے دل میں رہتے ہیں

ہم سے پوچھو ہم کیسے یہ دردِ جدائی سہتے ہیں

 

اکثر سوچتے رہتے ہیں ہم

کس کی خاطر جیتے ہیں ہم

کس کی آس ابھی ہے باقی

کس کی راہیں دیکھتے ہیں ہم

 

کوئی نہیں جب آنے والا رات گئے کیوں جگتے ہیں

ہم سے پوچھو دردِ جدائی ہم کیسے یہ سہتے ہیں

 

زخموں کی سوغات نہ دینا

ہاتھ میں چاہے ہات نہ دینا

ہم تو اجالوں کے شیدا ہیں

ہم کو کالی رات نہ دینا

 

جب بھی وہ ملتے ہیں ان سے صرف یہی ہم کہتے ہیں

ہم سے پوچھو ہم کیسے یہ دردِ جدائی سہتے ہیں

 

وہ بھی ہم کو چھوڑ گیا ہے

سارے رشتے توڑ گیا ہے

قسطوں میں مرنے کی خاطر

غم سے ناطہ جوڑ گیا ہے

 

ایسا لگتا ہے ساغرؔ احباب ہمارے بکتے ہیں

ہم سے پوچھو ہم کیسے یہ دردِ جدائی سہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

لمحہ لمحہ

 

سامنے آئے نظر جھکائے، ہولے ہولے مسکائے

اس کی یہ معصوم ادا ہی دل کو میرے بھائے

 

اس کو نہ دیکھوں تو پل بھر چین مجھے نہ آئے

لمحہ لمحہ اسی کی یاد ستائے

 

آنکھ کٹیلی ہونٹ گلابی ہرنی جیسی چال

دیکھ لے اس کو ایک نظر جو ہوتا ہے بے حال

 

ٹھمک ٹھمک کے چلے تو لاگے بادِ صبا لہرائے

لمحہ لمحہ اسی کی یاد ستائے

 

جانے کتنے لوگوں نے ہی اپنی جان گنوائی

اتنی قیامت خیز تھی اس کی ٹوٹی ہوئی انگڑائی

 

ایسا منظر دیکھا میں نے مجھ کو ہوش نہ آئے

لمحہ لمحہ اسی کی یاد ستائے

 

اس سے سندر اس سے پیارا ہے کوئی بتلاؤ

اس کے چہرے کے جیسا تم کوئی چہرہ دکھلاؤ

 

اس کی صورت چاند بھی دیکھے وہ بھی شرما جائے

لمحہ لمحہ اسی کی یاد ستائے

 

چھم چھم پایل باجے اس کی کھن کھن کنگنا کھنکے

اس کے ماتھے کا ٹیکا اور کانوں کے وہ جھمکے

 

دل کا چین سکوں چھینے آنکھوں کی نیند اڑائے

لمحہ لمحہ اسی کی یاد ستائے

 

بات ہماری کوئی یہاں پر مانے یا نہ مانے

سب اس کے دیوانے ساغرؔ سب اس کے دیوانے

 

اس کے ہی قدموں میں ہر اک اپنی جان لٹائے

لمحہ لمحہ اسی کی یاد ستائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہنا ہے اسلام کا

 

اوروں کے دکھ بانٹتے رہئے کہنا ہے اسلام کا

کام کسی کے جو نہ آئے وہ جیون کس کام آئے

 

اپنی خاطر بہت جیے اب اوروں کی خاطر جی لو

کوئی گر مشکل میں گھرا ہو اس کی مشکل دور کرو

 

ایسا نہ ہو کارنامہ اپنا ہو بس نام کا

کام کسی کے جو نہ آئے وہ جیون کس کام کا

 

اپنی اس تنظیم کا مقصد خلقِ خدا کی سیوا کرنا

سارے مذاہب کے لوگوں سے برتاؤ اچھا کرنا

 

دھیان ہمیشہ رکھنا یارو!، رہبر کے پیغام کا

کام کسی کے جو نہ آئے وہ جیون کس کام کا

 

کتنوں کو نہ ملیں دوائیں کتنے دنیا چھوڑ گئے

روٹی کے اک ٹکڑے کی خاطر کتنے ہی دم توڑ گئے

 

اٹھّو جاگو، مت سوؤ یہ وقت نہیں آرام کا

کام کسی کے جو نہ آئے وہ جیون کس کام کا

٭٭٭

 

 

 

 

آخری سلام

 

تم ہمارا آخری لے لو سلام

چھوڑ کے او جانے والو یہ مقام

 

وہ حسیں منظر ہمیں پل پل رلائیں گے

ساتھ جو لمحے گزارے یاد آئیں گے

تم سبھی کی یاد دل سے مٹ نہ پائے گی

زندگی بھر ہم تمہیں نہ بھول پائیں گے

 

آج جی بھر کے کرو ہم سے کلام

چھوڑ کے او جانے والو یہ مقام

 

آنکھ میں آنسو لبوں پر آہ دل میں غم

کون رکھّے گا ہمارے زخم پہ مرہم

زندگی میں اپنی یہ کیسی گھڑی آئی

بے قراری کا ہے عالم اور سکوں برہم

 

پی رہے ہیں آج ہم فرقت کا جام

چھوڑ کے او جانے والو یہ مقام

 

کیا بتائیں دل پہ اپنے کیا گزرتی ہے

حالتِ دل کیا کہیں لفظوں میں ڈھلتی ہے

الوداع کہتے ہوئے ہم یوں تڑپتے ہیں

جیسے پانی کے بنا مچھلی تڑپتی ہے

 

یاد تڑپائے گی سب کو صبح و شام

چھوڑ کے او جانے والو یہ مقام

 

بھول سے نہ بھول ہو تم بھول مت جانا

اس چمن کے پھول ہو تم، بھول مت جانا

تم حصولِ علم کی خاطر کہیں جاؤ

عظمتِ اسکول ہو تم، بھول مت جانا

 

یاد رکھنا تم ہمارا یہ پیام

چھوڑ کے او جانے والو یہ مقام

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

میں سمندر کے پار ہوں امی!

 

سب مناتے تھے عید کی خوشیاں

عید کے دن بھی تو اداس رہی

لوگ جب عید گاہ سے لوٹے

میرے آنے کی تجھ کو آس رہی

دیر تک در پہ تو کھڑی ہو گی

میں نہ آیا تو رو پڑی ہو گی

جب سویّاں پڑی رہی ہوں گی

آیا ہو گا مرا خیال تجھے

مجھ کو معلوم ہے ستاتا ہے

میری دوری کا یہ ملال تجھے

فکر مت کر ضرور آؤں گا

جلد تیرے حضور آؤں گا

میں نے سمجھا تو بس یہی سمجھا

تیری خدمت مری عبادت ہے

میں نے جانا تو بس یہی جانا

تیرے قدموں میں میری جنت ہے

خون کا میرے ایک اک قطرہ

اے مری ماں ہے قرض دار ترا

جب میں کچھ بول بھی نہ سکتا تھا

تو سمجھ لیتی تھی زباں میری

چیخ اٹھتا تھا جب میں راتوں میں

نیند ہو جاتی تھی دھواں تیری

تو نے ہر غم سہے مری خاطر

تو نے فاقے کیے مری خاطر

ذات کتنی عظیم ہے تیری

مرتبہ تیرا کتنا اونچا ہے

تیرے جلوے میں بارہا امی!

میں نے جلوہ کا خدا کا دیکھا ہے

تجھ کو سجدہ اگر روا ہوتا

تیرے قدموں میں سر جھکا ہوتا

میرے حالات نے مجھے ساغرؔ

باپ، بھائی، بہن سے دور کیا

صرف روزی کی جستجو نے مجھے

گھر سے، تجھ سے، وطن سے دور کیا

اب میں دوجے دیار ہوں امی!

میں سمندر کے پار ہوں امی!

٭٭٭

 

 

 

 

نیا سال

 

نیا سال آ رہا ہے دیکھئے کیا گل کھلاتا ہے

نیا ہے کون سا دریا جو کوزے میں سماتا ہے

کسے ملتے ہیں دکھ اور کون گلچھرّے اڑاتا ہے

کسے بھاتے ہیں نیتا، کون نیتاؤں کو بھاتا ہے

عطا کرتا ہے دل کو روشنی یا دل جلاتا ہے

چلو دیکھیں یہ سالِ نو ہمیں اب کیا دکھاتا ہے

پیام امن لایا ہے کہ لایا ہے یہ خوں ریزی

کمی آئے گی استبداد میں یا آئے گی تیزی

فروزاں ہو گی اب انسانیت یا طرز چنگیزی

وفا کے پھول برسیں گے کہ ہو گی شعلہ انگیزی

ہنسی ہونٹوں کو دیتا ہے کہ آنکھوں کو رلاتا ہے

چلو دیکھیں یہ سالِ نو ہمیں اب کیا دکھاتا ہے

خدایا خیر! کہ یہ مقتل جذبات ہو جائے

ہمارے واسطے دن کا اجالا رات ہو جائے

نہ پھر سے وقت کے ہاتھوں ہمیں اک مات ہو جائے

ہماری ذات پھر آسام یا گجرات ہو جائے

ہمارے واسطے پھر کون سا فتنہ اٹھاتا ہے

چلو دیکھیں یہ سالِ نو ہمیں اب دکھاتا ہے

کہیں پر دل ابھی روتا ہے اور آنکھیں کہیں ہیں نم

بپا ہے بزم امکاں میں تباہی کا ابھی ماتم

مگر ایسے بھی کچھ ہیں کہ نہیں ہے جن کو کوئی غم

خوشی ہے زندگی کا ہو گیا اک سال پھر سے کم

یہ دنیا ہے کوئی روتا ہے کوئی مسکراتا ہے

چلو دیکھیں یہ سالِ نو ہمیں اب دکھاتا ہے

اجل کا لقمہ بنتے جانے کتنی زندگی دیکھی

نہ جانے لاش کتنی خون میں لت پت پڑی دیکھی

وطن میں کتنی مستورات کا بے حرمتی دیکھی

ابھی تک دل ہے لرزاں انتہا وہ ظلم کی دیکھی

وہ منظر یاد آتے ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے

چلو دیکھیں یہ سالِ نو ہمیں اب دکھاتا ہے

سرایت کر گئی نفرت محبت کرنے والوں میں

عداوت بڑھتی ہی جاتی ہے گوروں اور کالوں میں

یہاں اب وارداتیں ہوتی ہیں دن کے اجالوں میں

درندے ہم نے دیکھے ہیں یہاں انساں کی کھالوں میں

بتائیں کیا تمھیں ساغرؔ ! کلیجہ منھ کو آتا ہے

چلو دیکھیں یہ سالِ نو ہمیں اب دکھاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

میں پیسا ہوں

 

 

شداد کی جنت مجھ سے بنی

افسوس اسی نے نہ دیکھی

نمرود کی طاقت بھی مجھ سے

اور اس کی ہلاکت بھی مجھ سے

فرعون کو میں ہی لے ڈوبا

نادان کہیں کا بھی نہ ہوا

قارون نے مجھ پہ ناز کیا

آخر پیوند خاک ہوا

مجھ پہ نہ بھروسہ کوئی کرے، میں مکر و ریا کا پتلا ہوں

میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں

 

ہر کوئی تکے ہے راہ مری

ہر کوئی کرے ہے چاہ مری

میری چاہت سب کے اندر

ہیں میرے تمنائی گھر گھر

میں سب کی آنکھ کا تارا ہوں

یعنی ہر ایک کا پیارا ہوں

دنیا مرے پیچھے بھاگتی ہے

اور ٹوٹ کے مجھ کو چاہتی ہے

شاید اس کو معلوم نہیں، میں دھوکا ہوں، میں دھوکا ہوں

میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں

 

میں جڑ ہوں غلط ارادوں کی

میں جڑ ہوں سبھی فسادوں کی

بدکاری پر اکساتا ہوں

اچھوں کو برا بناتا ہوں

میرے لیے بھائی بھائی کا

کاٹے ہے بے دردی سے گلا

میرے لیے عمر گنواؤ مت

جیون کو روگ لگاؤ مت

ہوں بروں کی خاطر برا، مگر اچھوں کی خاطر اچھا ہوں

میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں

 

نیتا کی کرسی مجھ سے ہے

سب عیش پرستی مجھے سے ہے

جو کوئی مجھ کو پاتا ہے

دن رات مزے وہ اڑاتا ہے

یہ محفل، یہ رنگین سماں

ہے سب میرے ہی دم سے جواں

میں گاڑی، بنگلہ دلواؤں

میں جسم کا سودا کرواؤں

میں مختاری کا پہلو ہوں، میں مجبوری کا پلڑا ہوں

میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں

 

سب مجھ سے دل کو لگا بیٹھے

مذہب کا حکم بھلا بیٹھے

سب میری تاک میں رہتے ہیں

میری ہی تمنا کرتے ہیں

کیا اچھا اور برا ہے کیا

انسان یہ باتیں بھول گیا

ایمان کا سودا بھی ساغرؔ

میرے لیے ہوتا ہے اکثر

ہاں سب کے ہاتھ کا میل ہوں میں، کب ایک کا ہو کے رہتا ہوں

میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں، میں پیسا ہوں

٭٭٭

تشکر: شاعر اور دانش اثری، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید