FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

تمازتیں

عذرا ناز

ڈاؤن لوڈ کریں ورڈ فائل ای پب فائل کنڈل فائل عذرا ناز موبائل: +44 7908 049869 ای میل: azranaz1@hotmail.com

اِنتساب

ان لمحوں کے نام جو مجھے ایک ایسی پاکیزہ و مقدس سر زمین میں لے گئے جہاں جانے کی مجھے ایک مدت سے شدید آرزو تھی اور جو دعا بن کر ہمیشہ میرے دل میں اور لب پر مچلتی تھی۔ مجھے ان مقدس مقامات کا دیدار نصیب کرنے کے لئے شکر گذار ہوں اے میرے ربِ کریم!

شکرانہ

شکرانہ شکرانہ اپنے ان مخلص اور سچے رشتوں کے نام جن کی محبت میں کبھی کھوٹ محسوس نہیں ہوا۔ جن میں سے کچھ مٹی کی چادر اورڑھ کر ابدی نیند سو گئے اور کچھ جو آج بھی میرے ساتھ ہیں اور دلی دعا ہے کہ ہمیشہ سلامت رہیں۔ آمین!

فہرست

اِنتساب. 4 شکرانہ 5 اظہارِ تشکر 16 عذرا ناز ؔ کی متاعِ سخن. 20 عذرا ناز ؔ ؛ علوئے فکر کی شاعرہ 28 پیش لفظ 43 حمد باری تعالیٰ 51 نعت رسولﷺ.. 53 مزدور کی محنت کا ملے اُس کو جہاں پھل. 58 کشتیوں کا کیا ہوا انجام لکھتی رہ گئی 60 ٹوٹے ساماں کی طرح رکھ کے کہیں بھُول گیا 62 ضروری ہوں جو باتیں وہ بتانی بھول جاتی ہوں. 64 نہ حسین مثل گلاب ہوں نہ کسی کی آنکھ کا خواب ہوں. 66 کوئی رشتہ بھی زمانے میں نہیں ماں جیسا 68 مشقت میں کٹی ہے زندگانی کون مانے گا 70 لٹیرے ہیں وہاں، جاؤ جہاں بھی 72 یوں سرِ فہرست اسمِ معتبر کو دیکھ کر 74 غمِ حیات سے گھبرا گئے تو کیا ہو گا 77 دھند میں لپٹی ہوئی رات سے ڈر لگتا ہے. 79 ذکر کچھ اس کا زمیں پر تھا نہ افلاک میں تھا 81 تمہارے ہجر کا موسم مجھے برباد کر دے گا 83 احساس. 85 ابھی نہ جا کہ بہاروں کی شام باقی ہے. 88 عشق میں ہوتا ہے کیا سود و زیاں سمجھو گے؟ 90 غریبوں کو امیروں کی حقارت مار ڈالے گی 92 ساون کی پہلی بارش ہے اور تو میرے پاس نہیں. 94 اِک تماشا سرِ بازار نہیں بن سکتی 96 اے مطربہ! نہ چھیڑ محبت کے ساز کو 98 میں بربادیوں کا نشاں بن گئی ہوں. 101 ہوا میں اُڑتے ہوئے نرم آنچلوں کی طرح. 103 سفر میں ہوں ہمیشہ سے ہی محوِ جستجو ہوں میں. 105 سانحۂ پشاور ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ 107 چراغ دل میں امیدوں کا اک جلاتے ہوئے. 108 تیر جب آگے نشانوں سے نکل جاتے ہیں. 110 کشمیر کے موجودہ حالات پر لکھی گئی نظم 112 سمیٹا کیوں ہمیں تم نے، بکھر جانے دیا ہوتا 115 ہر گام پہ یہ مانا کہ خطرات بڑے ہیں. 117 گلابوں سے مہکتی ارغوانی شام کی باتیں. 119 کسی بھی زخم کا باقی نشاں نہیں رہتا 122 تری وفا کی فضاؤں میں مجھ کو رہنا ہے. 124 رائے گاں سب ہیں کوششیں اپنی 127 سانحۂ کراچی 131 مانا کہ رات ہجر کی ماری نہیں رہی 132 بے حسی دل پہ عجب اب کے کوئی طاری ہے. 134 دھیان ہے میرا ابھی تک منظروں کی قید میں. 136 زندگی میں رحم ہو گا اتنا کم سوچانہ تھا 138 دلاسا 140 ذہن کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے چہرے. 143 یوں بن سوچے کسی کا ہاتھ تو تھاما نہیں کرتے. 145 چاند ظلمت میں تو جب نور کا ہالہ رکھ دے. 147 کیا کہیں ترکِ تعلق کی اس اک رات کے بعد 149 کریں گے وہ حقیقت کو قبول آہستہ آہستہ 151 زمستانی ہوا جب چھو کے زلفوں کو گذرتی ہے. 153 زخمِ دل تارِ نظر سے جو سیا کرتے ہیں. 155 نہ دے چاہے کوئی تعظیم مجھ کو 157 میری آنکھوں میں جو اُداسی ہے. 160 پیار بھی مجھ سے کرے اور رہے برہم بھی 162 خزاں کی دھُوپ سے جلنے لگا ہے گلستاں میرا 164 مرے یقیں کی ردا تار تار کرتے رہے. 166 سارے جگ کے لئے جو شخص مثالی ٹھہرا 168 آپ کے عشق میں جب چور ہوا کرتے تھے 170 چمن میں اب کے یہ رنگِ بہار کیسا ہے؟ 173 زندگی کے سوالوں میں الجھے رہے. 175 جسے قطرے سے دریا کر دیا ہے. 177 غور سے دیکھئے اس شہر کا منظر صاحب. 179 یادوں کے جل اٹھے مرے دل میں چراغ کیوں. 182 اعتراف. 184 پرانا ہے یہ غم تازہ نہیں ہے. 187 واقف نہیں ہو تم ابھی رنگِ جمال کے. 189 اے مری جانِ غزل مجھ سے کوئی بات تو کر 191 سنا ہے تم محبت کا عجب معیار رکھتے ہو 193 وردِ لب رہتا ہے جو نام وظیفوں کی طرح. 195 منتظر آج بھی ہوں چاہنے والوں کی طرح. 199 جو کشتہ ہوںد یے وہ تو فروزاں ہو نہیں سکتے 202 بوجھل سی ہو رہی ہے فضا کچھ تو بولیے 204 نبھائیں گے وہ تقاضے بھلا وفاؤں کے؟ 207 جب بھی ساون کی گھٹا جھوم کے چھائی ہو گی 210 مٹی میں ملتے جاتے ہیں کیسے چھیل چھبیلے لوگ. 212 کب تلک پیچھا کرے گی میرا رسوائی مری. 216 جنھیں متروک ماضی کے فسانے یاد رہتے ہیں. 218 درپیش ہے جب راہ مجھے دربدری کی 220 رضیہ۔۔ رضیہ سلطانہ 221 نجانے اور کتنی آندھیاں رکھی ہوئی ہیں. 224 مٹی میں بھی جو لعل و گوہر ڈھونڈتے رہے. 226 اُداس شام کا منظر عجیب لگتا ہے. 228 آ، کہ ہم سانس کی لے پر کوئی نغمہ لکھیں. 230 نشانی 232 مرے یقیں کی ردا تار تار کرتے رہے. 234 جب تک کلر کھیتوں میں ہم فصلیں نہیں اگائیں گے. 236 ترے خیال کو دل سے نکالنا ہو گا 238 محبت کا قرینہ آ گیا ہے. 240 چاہے ہاتھ آئے زمانے کا خزانہ کوئی 242 اداس شب کے جھروکوں سے جھانکتے منظر. 244 تیرگی میں وہ اگر ایک دیا بن جاتا 246 یہ چھت پہ چاند کو تکنا تو اِک بہانہ ہے. 248 کوئی خفا ہے تو ہے زندگی سے تنگ کوئی 250 نہ شکوہ آپ سے ہے اب نہ ہے تقدیر سے کوئی 252 ہر طرف مجھ کو فقط غم سے شناسائی ملی 254 صدائے زندگانی سن رہی ہوں. 256 وصل قسمت میں نہیں ہے تو جدائی بھی نہ دے. 258 جلال چاہیے ہم کو نہ جاہ مانگتے ہیں. 260 دھوپ اور بارش کا آپس میں بھلا کیا میل ہے. 263 تمہاری بے رخی کا کیا سبب ہے کھوجنا ہو گا 265 اب ترے سامنے راستے ہیں بہت. 267

اظہارِ تشکر

میں مالکِ کائنات کی شکر گذار ہوں کہ مجھے اس مقدس سر زمین میں جانا نصیب کیا جس کی تمنا ہر مسلمان اور مسلمہ کے دل میں ہو تی ہے۔ شکرانہ میرے اللہ شکرانہ! میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے جناب قمر رضا شہزاد صاحب، اقبال قمر صاحب، محمود پاشا صاحب، امجد میر صاحب، سید انصر صاحب اور اپنے چھوٹے بھائیوں جیسے عزیز بھائی سلیم فگار کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے قدم قدم پر مجھے اپنے قیمتی مشوروں اور رہنمائی سے نوازا اور ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی۔ میں اپنے ان عزیز رشتوں کی بھی شکر گذار ہوں جنھوں نے ہمیشہ میری خوشی کو اپنی خوشی اور میرے غم کو ہمیشہ اپنا غم سمجھ کر محسوس کیا اور ہمیشہ مجھے تسلی آمیز الفاظ میں زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیا۔ ان میں سے جو شفیق ہستیاں اب دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں وہ یادوں اور خیالوں میں اب بھی ساتھ ساتھ ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ میں فیس بک کے ان تمام احباب کی محبتوں اور خلوص کے لئے بھی تہۂ دل سے شکر گذار ہوں جنھوں نے ہمیشہ مجھے عزت و احترام جیسے انمول خزانے سے نوازا اور میرے کلام کو ہمیشہ بھرپور انداز میں سراہ کر مجھے خوب سے خوب تر لکھنے کی تمناسے ہمکنار کیا۔ جنھوں نے ہمیشہ مجھے میری علالت میں پر خلوص دعاؤں سے نوازا اور خوشی کے لمحات میں ہمیشہ اپنی نیک خواہشوں کے مہکتے گلابوں کے نذرانوں سے سرشار کیا۔ میں محترم ناصر ملک صاحب، جناب مظہر نیازی صاحب اور جناب شبیر ناقد صاحب کے گرانقدر مضامین کے لئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انھوں نے اپنے قیمتی لمحات میں سے کچھ لمحے میری شاعری کو عطا کئے اور اپنے خوبصورت اور حوصلہ افزا خیالات کا اظہار کر کے مجھے ممنونِ احسان کیا۔ میں ناصر ملک صاحب کی بطورِ خاص شکر گذار ہوں کہ انھوں نے بہت زیادہ تعاون کیا اور پبلشرز والے نخرے بالکل بھی نہیں دکھائے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ خود شعر و ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام اور حوالہ ہیں۔ میں ان احباب کے خلوص اور اپنائیت کے لئے کن الفاظ میں شکریہ ادا کروں سمجھ میں نہیں آ رہا۔ بس دلی دعا ہے کہ ان سب کو زندگی کی ہر نعمت اور مسرت میسر ہو اور رحمتِ ایزدی ہمیشہ ان کے سروں پر سایہ فگن رہے۔ آمین۔ عذرا ناز ۷ جون ۲۰۱۹

عذرا ناز ؔ کی متاعِ سخن

لکھ رہی ہوں جو تری حمد، عطا ہے تیری نیم شب میں بھی جو بیدار ہوں میرے مولا! عجز اور انکسار سے مرصع اس شعر کی حامل حمدِ باری تعالیٰ سے آغاز پانے والے اس شعری مجموعہ ’’تمازتیں‘‘ کا مسودہ میرے زیرِ مطالعہ ہے جو معروف اُردو و پنجابی شاعر و افسانہ نگار جناب ناصر ملک کی وساطت سے مجھ تک پہنچا۔ میرا مطالعہ سخن کی وسعتوں کی طرف آہستہ آہستہ گامزن ہے اور میں خوشگوار اور مسحور کن حیرت کے ساگر میں غوطہ زن ہوں۔ عذرا ناز کی نسائی شاعری کی فضا اتنی کیف آور اور مفاہیم گیں ثابت ہو رہی ہے کہ مجھ جیسا شاعری کا شکی مزاج طالب علم بھی جھوم اٹھا ہے۔ ایک طرف جب ہمارا زمانہ اپنے ادبی سرمائے کو مردانہ اور نسوانی تقسیم سے ماورا سمجھنے کی طرف مائل ہے اور ہر دو اصناف کی شاعری بھی اس تقسیم سے نالاں ہے، عذرا ناز کی شعری سلطنت پوری تمکنت کے ساتھ اپنے فکر اور نظریے کے بل پر قائم نظر آ رہی ہے۔ ان کے ہاں شعری محاسن کا حسن جلوہ افروز ہے، کلاسیکیت بھرپور انداز میں متمکن ہے اور انکسار و اخلاص کے دائرے بھی اپنے اپنے محور کی تخصیص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عذرا ناز کی خود اعتمادی اور سلیقہ بہت سے اشعار میں عیاں اور نمایاں ہے۔ کہیں کہیں ڈرافٹنگ کا عنصر بھی ملتا ہے مگر اس کا حصار بہت مختصر ثابت ہوتا ہے۔ وہ آسان گوئی کو ترجیح دیتی ہیں مگر اپنی شاعری کو فنی محاسن سے آراستہ کرنے کے ہنر سے بھی مملو ہیں۔ جہاں شاعری کو اپنی پہچان قرار دیتی ہیں وہیں اپنے قدو قامت کی نمائش و اظہار کی ایک سلیقے کے ساتھ خواہش مند ہیں۔ ان کی غزل کے دو شعر ملاحظہ کیجئے: مجھ کو پہچان مرے فن کے قد و قامت سے طاق پر شعر سجا، میرا حوالہ رکھ دے میں بھی کر پاؤں ترے درد کو محسوس ذرا اپنے ہاتھوں کا مرے ہاتھ پہ چھالا رکھ دے انسانیت کا ایک پہلو مامتائی ہے جس میں انسان کبھی بھی اپنی ماں کی آغوش، حصار اور محبت بھری دعاؤں سے باہر نہیں نکل سکتا۔ اگر اسے کوئی حادثہ اس حصار سے باہر کھینچ لے تو وہ تمام عمر آہیں بھرتے ہوئے مامتا کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ یہ جذبہ اس کے ظاہر سے اس کے باطن میں اور اس کے منظر سے دماغ کے گوشوں میں منتقل ہو کر نمو پا چکا ہے۔ یہ احساس ایک بھرپور اور تناور پیڑ بن کر کئی لوگوں پر سایہ کشا ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ مامتائی احساس عورت کے حسن کا سب سے بڑا اور معتبر سنگھار ثابت ہوتا ہے۔ عذرا ناز کی شاعری میں دنیا کے اس حسین اور معتبر رشتے کی یاد آوری یوں ملتی ہے: کوئی رشتہ بھی زمانے میں نہیں ماں جیسا غیر مشروط ہے پیار اس کا بھی یزداں جیسا بچپن کا یادوں سے عمر بھر وابستگی، شعور کی اولیں سیڑھیوں پر قدم رکھ کر بے دھڑک چلنے کی یادیں، قوس و قزح، کلی، پھول، تتلی اور مسکراہٹوں کے زمانے انسان کا تمام عمر پیچھا کرتے ہیں۔ عام آدمی تو محفلوں میں، احباب و اقارب میں بیٹھ کر ان ایام کو یاد کر کے ہنس رو لیتا ہے مگر عذرا ناز جیسی مستحکم اور وضع دار شاعرہ نے اپنے مخصوص آہنگ میں جھجکتے ہوئے ان کا ذکر یوں کیا ہے: مرے ماہ و برس کی یاد کے بے رنگ خاکے میں مری نوکِ تصور کیسے کیسے رنگ بھرتی ہے نہیں دیکھا کبھی اک بار بھی تو نے مجھے مڑ کے وگرنہ ہر ڈگر تیری مرے دل سے گذرتی ہے عذرا ناز نہ صرف اپنی تخلیق کردہ فضاؤں میں سرگرداں رہیں بلکہ وہ اپنے اطراف اور اپنے لوگوں کی خوشیوں اور دکھوں سے بھی وابستہ رہیں۔ وہ اوور سیز پاکستانی ہیں۔ وطن عزیز سے دور انگلینڈ میں زندگی کے شب و روز گزار رہی ہیں مگر اپنے ملک اور اپنے ہم وطنوں سے کسی طرح بھی بے خبر اور لاتعلق نہیں رہتیں۔ ایک ماں اور شاعرہ وطن سے دوری کا عذاب جھیلتے ہوئے کس طرح سانحۂ پشاور کو اپنے دل پر نہ لیتیں۔ 16 دسمبر 2014ء کو تحریک طالبان پاکستان کے سات دہشت گرد ایف سی کے لباس میں ملبوس پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پچھلی طرف سے داخل ہو گئے اور ہال میں جا کر اندھا دھند فائرنگ کی۔ اس کے بعد کمروں کا رخ کیا اور وہاں پر بچوں کو گولیاں ماریں، سربراہ ادارہ کو آگ لگائی۔ 9 اساتذہ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر ہونے والی کل 144 ہلاکتوں نے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کے تمام حساس اذہان کو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ اس موقع پر عذرا ناز نے کہا: خوں میں نہلائے گئے کس لئے معصوم بدن؟ کیا خطا ان کی تھی یہ پوچھتے ہیں اہلِ وطن کون سی اِس سے بڑی اور قیامت ہو گی؟ پھول سے بچوں کو پہنائے گئے آج کفن بلاشبہ عذرا ناز نے جس بھی موضوع پر قلم اٹھایا، اس کا حق ادا کیا اور خوبصورت شعر تخلیق کیے۔ غزل مشکل صنف ہے۔ بہت احتیاط کی متقاضی ہے۔ مجھے یہ کہنا اچھا لگتا ہے کہ عذرا ناز نے اس صنف کے تقاضوں کو نبھانے کی پوری کوشش کی ہے۔ سہل ممتنع سے مزین اسلوب نے ان کے شعر کے قارئین میں اضافہ کیا ہے جبکہ ان کے مشاہدات، مطالعات اور محسوسات نے شعری مفاہیم کو پختہ کاری کی طرف راغب کیا ہے۔ زرد موسم میں ملا کرتے تھے جب آپ ہمیں خشک پیڑوں پہ بھی تب بور ہوا کرتے تھے اس شعری مجموعہ میں ان گنت ایسے شعر موجود ہیں جنہیں نمائندہ شعر قرار دیا جا سکتا ہے اور ان گنت ایسے شعر بھی موجود ہیں جو ایک بار پڑھے سے ازخود ازبر ہو جانے کے صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے اشعار ہی ضرب المثل شعر کا درجہ حاصل کرتے ہیں۔ بجا طور پر عذرا ناز کے ہاں عمدہ شاعری عمدہ اظہاری پیرائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ میری دعا ہے کہ جس طرح ان کی یہ شاعری ماقبل کی شاعری سے کہیں پختہ اور مفہوم آگیں ہے، اسی طرح اُن کی آنے والی شاعری میں ان کا فنی سفر جاری و ساری ہے۔ خدا کرے زورِ قلم اور زیادہ ہو۔ محمد مظہر نیازی میانوالی (پاکستان) 26 مئی 2019ء

عذرا ناز ؔ ؛ علوئے فکر کی شاعرہ

شاعری جذبات و احساسات اور تخیلات و مشاہدات نیز تجربات کے بے لاگ اظہار سے موسوم ہے۔ اسی وصفِ خاص کی بدولت سخن فطری رچاؤ سے ہم آغوش ہوتا ہے۔ ایک قادر الکلام شاعر کے ہاں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ ہر نوع کے افکار کو بیان کرنے کا قرینہ رکھتا ہے۔ وہ اپنے موضوعات کو دفعتاً پھیلانے اور سمیٹنے کے ہنر سے آشنا ہوتا ہے۔ فطری نوعیت کا کلام ہمیشہ اپنائیت کا استعارہ ہوا کرتا ہے جس سے ہر قسم کے تصنعات و تکلفات گریز پا رہتے ہیں۔ یہی امر کسی بھی سخنور کی کامرانی کی بین دلیل ہوا کرتا ہے۔ عام طور پر انتقادی حوالے سے ایک رائے پائی جاتی ہے کہ عمدہ غزل داخلیت کا آئینہ دار ہوتی ہے جبکہ اعلیٰ قسم کی نظم خارجیت کی پاسدار ہوتی ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہماری ناقدانہ رائے کے مطابق چاہے غزل ہو یا نظم، دونوں داخلیت و خارجیت سے ہم کنار ہوتی ہیں اور اسی میں ہی ان کی کامیابی کا راز مضمر ہے کیونکہ ایک سخنور کے ہاں غزل و نظم کے تخلیقی عمل میں داخلی و خارجی دونوں عوامل بروئے کار ہوتے ہیں۔ "شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کے بسیط و عریض تنقیدی عمل سے یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ شاعرات کے ہاں داخلی احساسات وفور سے پائے جاتے ہیں لیکن عذرا ناز کی سخن سنجی اس حوالے سے ماورا و مبرا ہے کہ ان کے ہاں داخلی و خارجی امکانات حسنِ توازن کے پیرائے میں پائے جاتے ہیں۔ شذرہ ہٰذا کے تمہیدی معروضات در اصل عذرا نازؔ کے شعری مجموعے "تمازتیں‘‘ کے تجزیاتی مطالعے کا حاصل ہیں۔ اس وقت ان کا مذکورہ مجموعۂ کلام برائے تبصرہ ہمارے روبرو ہے اور مضمون ہٰذا میں ان کے اشعار کا جائزہ مطلوب ہے۔ اگر شاعرات کی سخن سازی کے فکری و فنی پہلوؤں پر بات کی جائے تو بہت سے معائب سر اُٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خیالات عموماً نجی و عمومی سطحی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ موزونیت کے حوالے سے عروضیت مفقود ہوتی ہے۔ عروضی تلازمات کا استخدام صحیح طور پر نہیں ہو پاتا۔ شاعرات شاعری کے جدید فنی تقاضوں اور زاویوں سے نا آشنا ہوتی ہیں۔ اسلوب کی سطح پر بہت سے لسانی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ یوں اسلوبیاتی تناظر فطری افق سے گر جاتا ہے۔ جس کے باعث ایک اجنبیت کی سی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن بفضل تعالیٰ عذرا نازؔ کا شعری مجموعہ ان مذکورہ معاملات سے مبرا و ماورا ہے جو نہایت خوش آئند امر ہے۔ عمومی تجربے اور مشاہدے کی بات ہے کہ شاعرات کی غزل کی نسبت نظم زیادی فکری و فنی اور لسانی زبوں حالی کا شکار ہوتی ہے مگر عذرا نازؔ کے ہاں یہ معاملہ بھی نہیں پایا جاتا۔ نعت نگاری کے ضمن میں اگرچہ شاعرات شعراء کی نسبت بہت سے حوالوں سے پیچھے رہی ہیں مگر عذرا نازؔ نے اس کمی کو پورا کرنے کی سعی مشکور کی ہے۔ ان کی نعت بہت سے فکری و فنی اوصاف سے متصف ہے۔ ان کے نعتیہ کینوس میں ایک تحیر کی فضا پائی جاتی ہے اور وہ فضا ایسی ہے کہ وہ ہر کسی کے مشاہدے میں نہیں آ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نفسیاتی و حسیاتی آفاق و اعماق قاری کے حواس کو مستعد کرنے پر قادر نظر آتے ہیں۔ موضوعات کے بیان کا ان کے ہاں ایک منفرد انداز ہے جو دعوتِ غور و فکر دیتا ہے۔ اسی تناظر میں ان کی ایک نعت کے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں: تھے وارث اگرچہ وہ ہر دو جہاں کے تھی سادہ ہمیشہ قبائے محمدؐ رہا گھر میں  گرچہ سدا فقر و فاقہ تھی لاریب جودو سخائے محمدؐ درویشی اور استغنا و قناعت پسندی عذرا نازؔ کی شخصیت کے اوصافِ حمیدہ میں  شامل ہیں۔ وہ ہر قسم کے سماجی لوبھ سے ماورا ہیں۔ وہ تعیشات سے گریزاں ہیں مگر زندگی کی ضروریات و لوازمات سے بخوبی واقف ہیں۔ ساتھ لے جا تو بھلے خوان سبھی نعمت کے میرے حصے کا پر اِک آدھ نوالہ رکھ دے عذرا نازؔ زیست کے یاسیت آمیز رویوں سے بخوبی آشنا ہیں اور ان کے اسباب و علل سے بھی واقف ہیں۔ بین الغزل وہ ترسیل شعور کا کام کرتی ہیں۔ عشق کے فلسلفے کو ہر شاعر نے مقدور بھر سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس روایت کو عذرا نازؔ نے بھی کامیابی و کامرانی کے ساتھ نبھایا ہے: میری آنکھوں میں جو اداسی ہے اس لیے ہے کہ روح پیاسی ہے عشق ہے کائنات کا مرکز بات کہنے کو تو ذرا سی ہے نازؔ کے ہاں متضاد و متنوع موضوعات کے بیان کا ایک لامتناہی سلسلہ اپنے پورے کرو فر سے پایا جاتا ہے جس پر وہ کامل دستگاہ رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں مختلف النوع کیفیات کا بیاں بھی پایا جاتا ہے جس سے تحیرتات کی نمو پذیری میں مدد ملتی ہے۔ ان کے اظہاری پیمانے جدید نوعیت کے ہیں جن کا رشتہ روایت سے مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ پیار بھی مجھ سے کرے اور رہے برہم بھی وہ عدو بھی ہے میرا اور وہی ہمدم بھی آگ سینے میں لگی ہے تو نمی آنکھوں  میں ہے یہ محبت ہے عجب شعلہ بھی ہے شبنم بھی عذرا نازؔ اپنے سماجی مقام و مرتبے سے بخوبی آشنا ہیں۔ عجز و انکسار ان کی طبیعت کا وصفِ خاص ہے مگر وہ اپنی اہمیت سے بھی مکمل طور پر شناسا ہیں۔ ان کی شاعری میں تعلیات کا ورود بھی ہوا ہے جس سے سماج میں ملنے والی ان کی پذیرائی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صنفِ نازک ہونے کی حیثیت سے نرگسیت اور احساسِ خود محبوبی کے احساسات بھی ان کے ہاں پائے جاتے ہیں جنہیں نسائی فطری احساسات سے عبارت بھی کیا جا سکتا ہے۔ نہ حسین مثل گلاب ہوں نہ کسی کی آنکھ کا خواب ہوں تری زندگی کی کتاب کا مگر ایک چھوٹا سا باب ہوں ترے ذوقِ مے کے شباب کو نیا چاہیے کوئی اب نشہ نشہ جس کا اُترے نہ دیر تک وہی میں  پرانی شراب ہوں عذرا نازؔ کے سخن میں  استفہامیہ اشارات کا ورود ان کے حسیاتی و نفسیاتی اعماق و آفاق کا عکاس ہے۔ یوں ان کے کلام کی فلسفیانہ سطح بلند ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے ہاں شدتِ احساس کے پہلو بہ پہلو زورِ بیاں کے لوازمات بھی پائے جاتے ہیں۔ عمرانی بے سکونی اور ملکی حالات میں بدامنی کے کوائف انہیں سراپا سوال کیے رہتے ہیں: اگر ہے ملک میں  امن و امان کی صورت ہر ایک شہر میں پھر انتشار کیسا ہے؟ سماج میں نا انصافی کا وجود ایک اجتماعی بے چینی کو جواز فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ عہدِ نو کا انسان سائنسی ترقیات کی بدولت ثریا پر کمندیں ڈال رہا ہے مگر ہم ابھی تک ناہمواری کی ظلمتوں سے نجات نہیں پا سکے۔ اگرچہ ہم تہذیبی تفاخر کے زعم میں رہتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس ہمارے ہاں اب تک وہی زمانۂ جہالت کا قانون چل رہا ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ طاقت ور مزید طاقتور ہوتا جا رہا ہے اور کمزور، کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ عدم مساوات کے وجود نے ہماری اخلاقی اقدار کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ ان تمام افکار کی بازگشت عذرا نازؔ کے سخن کا خاصا ہے جس میں داخلی و خارجی امکانات ایک توازن سے ملتے ہیں۔ ہمیشہ سے جو سہتی آ رہی ہوں مری غلطی کا خمیازہ نہیں ہے یہ شہرِ ذات ہے باہر کی جانب کھلے جو اس میں دروازہ نہیں ہے ان کے سخن میں سماجی کردار اور عصری رویے اپنی پوری آب و تاب اور حقیقی صورت میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا اظہار بے ساختگی اور بے تکلفی کا مظہر ہے۔ جس سے ان کے کلام کے فطری رچاؤ کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ہاں کچھ تلخ حقائق کی واژ گوئی اور سنگینی بھی پائی جاتی ہے جو عمرانی کرب کو جنم دے رہی ہے۔ جس کے سبب خون کے رشتوں میں سرد مہری اور بے رخی کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ خون سفید ہو گئے ہیں۔ خونی رشتوں کی پہچان بھی مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ بعض اوقات ان کا شعری پیرائیۂ اظہار اساطیری رنگ اختیار کر جاتا ہے۔ جس سے ان کے اشعار دو چند ہو جاتی ہے۔ بھائی نہ نازنیں کو محبوب کی ادا بیٹا تو ماں کا لے گیا دل تک نکال کے عذرا نازؔ اپنے شعری منظر نامے میں  ایک مشرقی اور روایتی خاتوں کے طور پر سامنے آئی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روایت سے ان کا رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ ان کی محبت بھی مثالی نوعیت کی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے جذبوں میں تقدیس و تطہیر کی فضا پائی جاتی ہے اور نسائی وقار بلند ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ذرا سی بات پہ اکثر وہ تنہا چھوڑ جاتا ہے وہ اکثر بھول جاتا ہے کہ اس کی آبرو ہوں میں عذرا نازؔدنیا کو مکافاتِ عمل گردانتی ہیں۔ ان کے افکار میں رجائی امکانات کی چکا چوند بھی پائی جاتی ہے۔ وہ بڑے سہل اور پر تاثیر انداز میں  بڑے بڑے فلسفے تخلیق کرنے پر قادر نظر آتی ہیں۔ ان کے بقول معاشرے میں اچھے برے کردار خود ہی جنم لیتے ہیں اور ان کی جزا و سزا ہماری زندگی کا حاصل قرار پاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں وہ اچھا ہے سو وہ اچھا ہے گر بُرا کہتے تو وہ شخص برا بن جاتا ان کا عشق روایتی نوعیت کا ہے اور اپنی انتہاؤں کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کے رویے تہذیبی رکھ رکھاؤ اور وضع داری کے حامل ہیں۔ اسی لیے ان کے ہاں جرات رندانہ مفقود ہے جس کی بنیادی وجہ مشرق میں خواتین پر سماجی جکڑ بندیوں کا وجود ہے۔ کسی بھی طور سے الوداع تو کہنا ہے یہ لفظ کیسے زباں سے مگر ادا ہو گا ملے تھے تجھ سے تو اس کی خبر نہ تھی عذراؔ ترے بچھڑنے کا انداز ہی نیا ہو گا عذرا نازؔ کا سخن ان کے وسیع تر تجربات و مشاہدات کا حاصل ہے۔ وہ اس امر پر یقین رکھتی ہیں کہ یہ جہاں روبہ تغیر ہے۔ وہ ہر قسم کے تغیرات کو احاطۂ امکاں میں  رکھتی ہیں۔ وہ نا ممکنات پر وشواس نہیں کرتیں۔ ان کے ہاں انسان دوستی اور ترقی پسند فکر کے زاویے بھی میسر آتے ہیں۔ تو اپنا حق نہ سمجھ وقت کی عنایت کو کسی پہ وقت سدا مہرباں نہیں رہتا نظر میں بھی کسی صیاد کی جو آ جائے وہ گھونسلا کبھی جائے اماں نہیں رہتا عذرا نازؔ کی شاعری قدیم و جدید طور و اسلوب کا حسیں امتزاج ہے۔ ان کے ہاں جہاں کلاسیکی شعری رویے ملتے ہیں، وہاں جدید افکار کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ وہ جدید تقاضوں کو عصری معاملات سے ہم آہنگ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جبکہ معاصر شاعرات کے ہاں ایسے افکار شاذ ہی ملتے ہیں۔ قدیم الفاظ کو معنی نئے دینے پڑیں گے اب ہر اِک منظر نئے اک زاویے سے دیکھنا ہو گا اگر اسلوبیاتی حوالے سے بات کی جائے تو عذرا نازؔ نے سہل پسندی کی روایت کو فروغ بخشنے کی سعی بلیغ کی ہے۔ ان کا فن سادگی کا مظرہ ہے۔ عروضی تلازمات کا احترام بھی ان کے ہاں بطریق احسن پایا جاتا ہے۔ انہوں نے زیادہ تر مفرد بحور میں  شاعری کر کے سخن کی فطری چاشنی کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے زیادہ تر بحر ِمتقارب، بحرِ رمل، بحرِ ہزج اور بحرِ رجز کے اوزان میں  شاعری کی ہے۔ ابھی عذرا نازؔ نے مزید فنی منازل سے گزرنا ہے۔ مستقبل میں ان کا کلام کئی کروٹیں بدلے گا۔ بہرحال موجودہ امکانات کی روشنی میں ان کے بہتر شعری مستقبل کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ اگر اسی طرح ان کی مشق سخن جاری و ساری رہی تو وہ اپنی بہت سی پیش رو اور معاصر شاعرات سے پیش رفت کرتی ہوئی محسوس ہوں گی۔ دعا کرے زورِ قلم اور زیادہ ہو۔ شبیر ناقدؔ تونسہ شریف (31 مئی 2019ء) فون: 0333-5066967

پیش لفظ

’’ تمازتیں‘‘ میرا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ میرا پہلا شعری مجموعہ ’’دشتِ جاں‘‘ کے عنوان سے فروری ۲۰۱۶ء میں علم و عرفان پبلی کیشنز کے زیرِ اہتمام شائع ہوا تھا۔ میں گذشتہ ۲۰ سالوں سے برطانیہ میں مقیم ہوں لیکن کبھی لگا ہی نہیں کہ جہلم مجھ سے ایک پل کے لئے بھی جدا ہوا ہو۔ ہر پل میں بیتے ہوئے لمحوں کے حصار میں ہی جیتی آئی ہوں۔ دریائے جہلم کے سورج کی کرنوں سے چمکتے ہوئے پانیوں کی سونے جیسی رنگت، سطحِ آب پر چلتی ہوئی کشتیوں اور ان میں بیٹھے ہوئے سیر کرنے والوں کی کھنکتی، کھلکھلاتی، گنگناتی ہوئی ہنسی کی بازگشت اور دریا کے پرلے سرے پر ریت کے چمکتے ہوئے ذروں کے حسن اور تاب نے کبھی میری یاد کے دامن کو چھوڑا ہی نہیں۔ سلمان پارس کا میلہ، میلے میں چلتا ہوا بڑا سا جھولا، گرمیوں کے دنوں میں برف کے رنگ برنگ گولے، دریا کے کنارے کپڑے دھوتی ہوئی عورتوں اور لڑکیوں کی رنگ برنگی اوڑھنیوں کی نگاہوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہوئی کشش، بچوں کے شور کی آوازیں، اور مچھلیاں پکڑنے کی کوشش میں دریا میں جال پھینکتے ہوئے مچھیروں کی آپس میں چھیڑ چھاڑ اور امید بھری کوششیں۔ پرانے پل پر تانگے میں بیٹھ کر دریا کے پار جاتے ہوئے اس کی لامتناہی نیلاہٹ بھری گہرائیوں اور مد و جزر اور بیلے میں درختوں کے جھنڈ اور اڑتے ہوئے اور پانی میں ڈبکیاں لیتے ہوئے پرندے اور پانی کی سطح سے ابھرتی ہوئی مرغابیوں کا دلکش منظر اور نیلے آسمان کی پر تمکنت وسعتوں کو دیکھتے ہوئے گذرنے کا سحر انگیز لطف اور جذب کے عالم میں ان میں کو دیکھنے کی کیفیت، دریا کے کنارے بیلا بار بی کیو میں بیٹھ کر پر تکلف ڈنر کرے ہوئے دریا کی سطح پر تیرتا ہوا روشنیوں کا عکس اور دریا کو چھو کر چلتی ہوئی رومان پرور ہواؤں کی بالوں سے اٹھکھیلیاں اور اپنے محبوب جیون ساتھی کے لائے ہوئے موتیے کے تازہ گجرے اور ہار کوئی بھولنے والی چیز ہیں؟ شدید گرمی کے موسم میں دریا کے کنارے جال میں ڈال کر دریا میں یخ ٹھنڈے کئے ہوئے تربوز اور اس پر چھڑکے ہوئے کالے نمک کا مزہ کوئی بھول سکتا ہے کیا؟ نہیں کبھی نہیں۔ تھانیداری کا کورس کرنے کے دوران سہالہ کی مشقت بھری ٹریننگ اور بد ذائقہ کھانوں کو دیکھ کر دل کا برا ہونا، ہمجولیوں کی چھیڑ چھاڑ اور وہ پی ٹی کرتے ہوئے شریر دوستوں کو اسے کتھک ڈانس کا رنگ دینا اور وہ ہنسی کے فوارے، تعزیراتِ پاکستان، پولیس رولز اور حدود جیسے دقیق مضامین کو پڑھنا اور سمجھنے کی کوشش کرنا کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟۔ دریائے جہلم سے محبت میری شعوری کوشش کبھی بھی نہیں تھی شاید یہ دریا کی اپنی کشش ہے جو اس کے کنارے رہنے والوں کو ہمیشہ اپنی طرف کھینچتی ہے اور دلوں میں اپنے جیسی ہی وسعت اور گہرائی بھر دیتی ہے۔ میری والدہ خود شاعرہ نہیں تھیں لیکن ان کو صوفیانہ شاعری سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ وہ ہر موقع پر کسی نہ کسی شعر کا حوالہ دیا کرتیں۔ ان کو سینکڑوں اشعار زبانی یاد تھے سو بچپن سے ہی صوفی شعراء کی شاعری سے لگاؤ پیدا ہو گیا۔ اردو شاعری کے ساتھ ساتھ پنجابی شاعری کی طرف بھی مائل رہی لیکن زیادہ جھکاؤ اردو شاعری کی طرف ہی رہا۔ میں ۱۹۹۹ء میں انگلینڈ چلی آئی تھی لیکن اس سے قبل باقاعدہ مشاعروں میں شرکت کرتی رہی۔ وہ بڑا سنہری دور تھا۔ مشاعروں کا ماحول آجکل کی طرح سینما ہال کے ماحول جیسا نہیں تھا۔ میں نے فیس بک پر بہت سے مشاعروں میں اکثر اشعار پر سامعین کو سیٹیاں بجاتے ہوئے دیکھا تو حیرت ہوئی۔ تب بہت پر وقار انداز میں مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ کالج، یونیورسٹی کے دور میں بین الکلیاتی مشاعروں میں شرکت کے بھرپور مواقع نصیب ہوئے۔ بچپن سے ہی مطالعے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ سکول کے زمانے میں ہی کرشن چندر، رام لال، راجندر سنگھ بیدی، رابندر ناتھ ٹیگور، غلام عباس، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، امرتا پریتم، عصمت چغتائی، واجدہ تبسم، ممتاز مفتی، کشور ناہید، منشی پریم چند اور دیگر نامور ادبا کے بہترین ادبی شاہکار پڑھنے کا موقع ملا۔ اسی طرح قدیم و جدید شعرا کا کلام بھی پڑھنے کے بہترین مواقع نصیب ہوئے۔ لکھنے والوں میں سب سے زیادہ مجھے کرشن چندرکا اندازِ تحریر پسند تھا اور عہدِ حاضر کے لکھنے والے ادیبوں میں مجھے صرف محی الدین نوابؔ میں کچھ کچھ کرشن چندر کا رنگ محسوس ہوا۔ (اللہ ان کو غریق رحمت کرے۔ آمین)۔ سکول کے زمانے میں سب رنگ ڈائجسٹ کا ماہانہ شمارہ پہلی فرصت میں ہی میرے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ سسپنس ڈائجسٹ اور جاسوسی ڈائجسٹ میں بھی مشرقی و مغربی ادب کے شاہکار فن پارے شامل ہوتے تھے۔ مغربی ادیبوں کو بھی پڑھنے کا موقع ملا اور سوچ کے بند دروازے وا ہوتے چلے گئے۔ یوں تو میں نے نظمیں بھی کہیں اور گیت بھی لکھے لیکن میرا اصل میدان غزل ہی رہا کیونکہ مجھے اظہارِ خیال کے لئے ہمیشہ غزل کا دامن ہی زیادہ وسیع محسوس ہوا۔ اس میں متنوع مضامین کو بیان کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے اور شاعری یوں بھی کوزے میں دریا کو بند کرنے کا ہنر رکھتی ہے۔ بہت طویل و عریض مضامین کو چند الفاظ میں بیان کر دینا شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ میری اس کتاب میں بھی میری کچھ نئی اور کچھ پرانی شاعری یکجا ہوئی ہے۔ میرا پہلا شعری مجموعہ ’’ دشت جاں‘‘ بہت تاخیر کے ساتھ منظر عام پر آیا تھا جس کی وجہ ایک تو میری ازلی سستی اور کچھ پاکستان سے انگلینڈ آنے کے بعد بہت مدت تک ادبی سرگرمیوں سے کٹے رہنا بھی تھا۔ لیکن اس بار میں نے اس تاخیر کا کفارہ اس طرح ادا کیا ہے کہ میں نے دوسرے شعری مجموعے ’’ تمازتیں‘‘ میں اس بار ۲۵ سال نہیں لئے بلکہ تین سال کے بعد میری دوسرا شعری مجموعہ آج آپ کے سامنے ہے۔ میرا تخلیقی سفر جاری ہے اور مجھے یقین ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تجربات و مشاہدات ایک تخلیق کار کے فن میں اور بھی گہرائی اور پختگی پیدا کرتے ہیں۔ گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ شاعری و ادب کا رنگ بھی بدلتا ہے۔ فن کا سفر ایک ایسا سفر ہے جس میں کوئی پڑاؤ نہیں ہوتا اور یہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ذات کے جنگل میں بھٹکنے رہنے کا عمل ہے۔ سچائی کی کھوج اور آنے والے زمانوں کے روزنوں میں جھانکنے کا سفر ہے۔ میں نے آج تک جو لکھا ہے وہ میرے محسوسات کا خالص پن ہے اور میں نے جب جو محسوس کیا اور اپنے ارد گرد جو دیکھا وہی اپنی شاعری اور تخلیقات میں پوری دیانتداری سے بیان کر دیا۔ عذراؔ ناز انگلینڈ ۷ جون ۲۰۱۹

حمد باری تعالیٰ

تیری رحمت کی طلبگار ہوں میرے مولا! میں خطاکار و گنہگار ہوں میرے مولا! میرا جو پل بھی تری یاد سے غافل گذرا ایسے ہر پل پہ شرمسار ہوں میرے مولا! آسرا ہے مجھے تیرا کہ کھڑی ہوں اب تک میں تو گرتی ہوئی دیوار ہوں میرے مولا! جانے کیا رنگ دکھائے گا مقدر اب کے زیست سے بر سرِ پیکار ہوں میرے مولا! راستہ کوئی سجھائی نہیں دیتا مجھ کو کس قدر بے بس و لاچار ہوں میرے مولا! مانگتی کچھ بھی نہیں جگ سے میں اپنی خاطر ساری دنیا سے میں بیزار ہوں میرے مولا! لکھ رہی ہوں جو تری حمد، عطا ہے تیری نیم شب میں بھی جو بیدار ہوں میرے مولا!

نعت رسولﷺ

کروں کیوں نہ ہر پل ثنائے محمدؐ خدا کی رضا ہے رضائے محمدؐ خدا نے محبت سے دنیا سجائی ہر اک شے بنائی برائے محمدؐ عمل انؐ کا ہر ایک افضل تریں تھا تھی محبوب رب کو ادائے محمدؐ بھلا مرتبہ ایسا ملتا ہے کس کو؟ ملی فاطمہؓ کو ردائے محمدؐ ملاقات کا جو شرف رب نے بخشا نمازوں کے احکام لائے محمدؐ تھے وارث اگرچہ وہ ہر دو جہاں کے تھی سادہ ہمیشہ قبائے محمدؐ رہا گھر میں گرچہ سدا فقر و فاقہ تھی لاریب جود و سخائے محمدؐ رسولوں کے سردار ہیں برملا وہؐ ہیں سارے نبی ہمنوائے محمد ہر اک ذرے ذرے میں ان کا ہے پرتو ہواؤں میں بھی ہے صدائے محمدؐ چلو عاصیو! مل کے طیبہ کو جائیں کہ ہم سب کی بگڑی بنائے محمدؐ وہی چوم سکتے ہیں روضے کی جالی جنہیں پاس اپنے بلائے محمدؐ یہی آرزو ہے مدینے کو جاؤں مری سوئی قسمت جگائے محمدؐ مری خوش نصیبی کہ میں اُمتی ہوں ہے حاصل مجھے آسرائے محمدؐؐ دعا ہے شفاعت ملے روزِ محشر ہمارے گنہ بخشوائے محمدؐ کہاں میں کہاں یہ ثناء میرے مولا! ہے یہ نعت گوئی عطائے محمدؐ تھے خوش بخت کتنے وہ دنیا میں عذراؔ ہوئی جن کو حاصل دعائے محمدؐ

مزدور کی محنت کا ملے اُس کو جہاں پھل

اے ہمدمِ دیرینہ کسی ایسی جگہ چل تقدیر بدلتی ہے فقط فکر و عمل سے مایوس نہ ہو ڈھونڈ مسائل کا کوئی حل گر اپنا بنانا ہے تو پھر مجھ کو بدل دے بننا ہے اگر میرا تو سانچے میں مرے ڈھل جو چاہے تو کر سکتا ہے اے مالکِ مطلق مٹھی میں ہے تیری ہی مرا آج، مرا کل رہتی ہوں میں بے چین بھلا شام و سحر کیوں پائے گی سکوں کیسے مری روح کی ہلچل؟ بدلا نہ مزاج اُس کا کسی طور بھی عذراؔ رسّی تو جلی نکلا نہیں اُس کا مگر بل

کشتیوں کا کیا ہوا انجام لکھتی رہ گئی

تند لہروں پر ہوا پیغام لکھتی رہ گئی فرق گہرا تھا ہماری سوچ کے انداز میں تم سحر لکھتے رہے، میں شام لکھتی رہ گئی اُس کے ہاتھوں پر سجی مہندی تمہارے نام کی میں ہتھیلی پر تمہارا نام لکھتی رہ گئی اپنے درجے کا تعین خود ہی میں نے تھا کیا خاص تم کو اور خود کو عام لکھتی رہ گئی ہو گیا وہ محو دل سے جو ضروری کام تھا اور میں باقی کے سارے کام لکھتی رہ گئی مجھ کو کب آیا چمکنا شہرتوں کے بام پر میں تو بس رہ کر سدا گمنام لکھتی رہ گئی

ٹوٹے ساماں کی طرح رکھ کے کہیں بھُول گیا

لے گیا ساتھ سبھی، مجھ کو یہیں بھُول گیا رنگ و روغن بھی اُکھڑنے لگا دیواروں سے میں ہوں اِک ایسا مکاں جس کو مکیں بھُول گیا نام تک بھی تو نہیں مرا یاد نہیں اب اُس کو کس قدر تھا وہ مرے دل کے قریں بھُول گیا جب سے رکھا ہے قدم اُس نے نئی دنیا میں ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی زمیں بھُول گیا جانے کس چاند سے چہرے کا ہے دیوانہ اب جو سمجھتا تھا مجھے ماہ جبیں بھُول گیا ریزہ ریزہ کیا بیدردی سے جس کو اُس نے بیش قیمت تھا مرے دل کا نگیں بھُول گیا آج کے دور کا انساں ہے بڑا ناشکرا خوانِ نعمت جو ملا، نانِ جویں بھُول گیا

ضروری ہوں جو باتیں وہ بتانی بھول جاتی ہوں

کسی نے کیا سنائی تھی کہانی بھول جاتی ہوں سکھایا ہی نہ تھا ماں نے مجھے اسمِ ریاکاری ہیں کس سے کون سی باتیں چھپانی بھول جاتی ہوں نیا لگتا ہے ہردیکھا ہوا رستہ مجھے اکثر پرانے راستوں کی ہر نشانی بھول جاتی ہوں وہ جب بھی پیار سے میری کلائی تھام لیتے ہیں کلائی ان سے میں اپنی چھڑانی بھول جاتی ہوں اندھیرے غم کے چھاتے ہیں کبھی جب ذہن پر میرے حسین صبحیں وہ شامیں ارغوانی بھول جاتی ہوں یہ میرے واسطے اتنا بھی تو آساں نہیں ہو گا جو تم کہتے ہو تو یادیں سہانی بھول جاتی ہوں سوال آتا ہے میرے سامنے بچوں کے حق کا جب میں اُن لمحوں میں اپنی بے زبانی بھول جاتی ہوں

نہ حسین مثل گلاب ہوں نہ کسی کی آنکھ کا خواب ہوں

تری زندگی کی کتاب کا مگر ایک چھوٹا سا باب ہوں مرے حرف حرف میں ندرتیں مرے باب باب میں حیرتیں کبھی تو نے جس کو چھوا نہیں میں وہ ایک کوری کتاب ہوں مری اپنی شکل نہیں کوئی تو نے جیسے ڈھالا میں ڈھل گئی ہے یہ فیصلہ ترے ہاتھ میں میں عذاب ہوں کہ ثواب ہوں ترے ذوقِ مے کے شباب کو نیا چاہئیے کوئی اب نشہ نشہ جس کا اترے نہ دیر تک وہی میں پرانی شراب ہوں یہ جہان بحر ہے بے کراں میری حیثیت ہی بھلا ہے کیا میرا نام کیا مری ذات کیا میں تو صرف مثل حباب ہوں جو شریکِ جرم تھا ہمنوا وہ تو جانے کب کا رہا ہوا ہوا ماجرا مرے ساتھ کیا میں ابھی بھی زیرِ عتاب ہوں

کوئی رشتہ بھی زمانے میں نہیں ماں جیسا

غیر مشروط ہے پیار اس کا بھی یزداں جیسا میں وہی درد وہی نالہ و فریاد وہی دل کا پھر حال وہی شامِ غریباں جیسا کاش ویرانی مری ہوتی مجھی تک محدود گھر بھی اب لگنے لگا میرا بیاباں جیسا اب تو یہ حالِ جنوں ہے کہ جسے بھی دیکھا اس کا چہرہ ہی لگا صورتِ جاناں جیسا دل کی دنیا ہی بدل دیتا ہے اِک لمحے میں کوئی پیماں بھی نہیں پیار کے پیماں جیسا چاہتوں میں کوئی احسان کہاں ہوتا ہے اس نے چاہا بھی تو انداز تھا احساں جیسا بات کرتا ہے بظاہر وہ بڑی نرمی سے اس کا لہجہ ہے مگر شاہوں کے فرماں جیسا

مشقت میں کٹی ہے زندگانی کون مانے گا

بڑھاپے کی طرح بیتی جوانی کون مانے گا وہ جھوٹا تھا مگر کام آ گیا اثر و رسوخ اس کا میں سچی ہوں مگر میری کہانی کون مانے گا کیا تھا ذائقہ محسوس میں نے بھی تو شہرت کا مگر یہ بات ہے کافی پرانی کون مانے گا ترے ہی حق میں ہو گا فیصلہ معلوم تھا مجھ کو ترا قانون، تیری راجدھانی کون مانے گا وہ جس کا زندگی بھر مجھ کو خوش رکھنے کا وعدہ تھا اسی نے دی مجھے غم کی نشانی کون مانے گا ہوا کرتا تھا جس کو بھیگنے کا شوق بارش میں کہیں رہتی تھی اک لڑکی دوانی کون مانے گا رہے ہیں زندگی بھر بر سرِ پیکار آپس میں تمہارا جبر، میری ناتوانی کون مانے گا

لٹیرے ہیں وہاں، جاؤ جہاں بھی

اماں دیتے ہیں کب دار الاماں بھی اسی کی دسترس میں ہے سبھی کچھ مکاں سے لے کے سوئے لامکاں بھی بنا لو تم ہمیں اپنا نشانہ لو پکڑو! تیر بھی ہے اور کماں بھی یہ لمحے کھو دیے گر آج تم نے ملے گا پھر کہاں میرا نشاں بھی اداسی کا کفن اوڑھے ہوئے ہے بکھرتی، جھلملاتی کہکشاں بھی شرارت بھی کرے، نادانیاں بھی یہ دل بچہ بھی ہے لیکن جواں بھی تجھے دیکھا ہے برسوں بعد میں نے نظر ہے شادماں بھی، پُر فشاں بھی گنہہ ہو گی مری ہر بے گناہی نہ تھا مجھ کو کبھی اس کا گماں بھی

یوں سرِ فہرست اسمِ معتبر کو دیکھ کر

ہو گئے خاموش سب اُس کے اثر کو دیکھ کر خاک پر بکھرے ہوئے تھے گھونسلے ٹوٹے ہوئے سب پرندے اُڑ گئے کٹتے شجر کو دیکھ کر اِس جگہ ہم بیٹھتے تھے، اِس جگہ لکھتے تھے ہم یاد کیا کیا آ گیا دیوار و در کو دیکھ کر یوں تو سب ویسا ہی تھا لیکن وہاں پر ماں نہ تھی آ گئے آنکھوں میں آنسو اپنے گھر کو دیکھ کر ہر طرف انسانیت کی آبرو خطرے میں ہے کون زندہ رہ سکے گا ایسے شر کو دیکھ کر کس نظر سے دیکھتا ہے، مرد کی نیت ہے کیا بھانپ لیتی ہے یہ ہر عورت نظر کو دیکھ کر جب یہ سوچا آخرت کے واسطے کیا پاس ہے رو پڑی بے ساختہ زادِ سفر کو دیکھ کر میں بھی اک بیٹی کی ماں ہوں اِس طرح تو مت ڈرا ڈر رہا ہے دل مرا بھی تیرے ڈر کو دیکھ کر ڈاک سے بھیجی ہے جب سے اُس کو شوہر نے طلاق تب سے ڈر جاتی ہے وہ ہر نامہ بر کو دیکھ کر زیست کی سچائی پر مبنی ہے میری شاعری شعر میں کہتی نہیں شمس و قمر کو دیکھ کر

غمِ حیات سے گھبرا گئے تو کیا ہو گا

ہم اپنے آپ سے تنگ آ گئے تو کیا ہو گا قریب رہ کے بھی کھویا ہے وہ خیالوں میں وہ ہم سے اور بھلا کس طرح جدا ہو گا؟ یہی ہے خوب نہ ہم کچھ بھی اب کہیں اس سے جو کچھ کہیں گے تو وہ اور بھی خفا ہو گا سنائی دے نہ سکا اس کا آخری فقرہ وہ لوٹ آئے گا اس نے یہی کہا ہو گا کسی بھی طور اسے الوداع تو کہنا ہے یہ لفظ کیسے زباں سے مگر ادا ہو گا؟ ملے تھے تجھ سے تو اس کی خبر نہ تھی عذراؔ ترے بچھڑنے کا انداز ہی نیا ہو گا

دھند میں لپٹی ہوئی رات سے ڈر لگتا ہے

ذات کے شہرِ خرابات سے ڈر لگتا ہے اُٹھ کے آئے ہیں جو اک گاؤں کے کچے گھر سے اُن کو اِن اونچی عمارات سے ڈر لگتا ہے بانسری میں وہ سمو دیتا ہے کیا درد کے سُر مجھ کو چروا ہے کے نغمات سے ڈر لگتا ہے سارے اعمال ترازو میں تلیں گے جس دن دل کو اُس روزِ حسابات سے ڈر لگتا ہے آدمی دے ہی نہیں سکتا کبھی جن کے جواب ایسے پیچیدہ سوالات سے ڈر لگتا ہے کاش میں جان سکوں اس کے اردے کیا ہیں اس کے پوشیدہ خیالات سے ڈر لگتا ہے پچھلی بارش میں بھی چھت ٹپکی تھی میرے گھر کی آنے والی مجھے برسات سے ڈر لگتا ہے

ذکر کچھ اس کا زمیں پر تھا نہ افلاک میں تھا

وہ فسانہ جو مرے دیدۂ نمناک میں تھا کوزہ گر میں ہی کوئی شکل نہیں لے پائی کیسے کہہ دوں کہ سقم کوئی ترے چاک میں تھا رکھ دیا سارے زمانے کو ہلا کر جس نے اِک نیا عزم اسی نعرۂ بیباک میں تھا ہم جو الجھے تو الجھتے ہی گئے پھر اس میں وقت کیا جادو تری زلف کے پیچاک میں تھا چاہے کر لیتا وہ تعمیر کئی تاج محل اک نہ اک دن اسے جانا تو اسی خاک میں تھا ٹھوکریں کھا کے زمانے کی بھی ہنستا رہتا حوصلہ اتنا کہاں اس دلِ غمناک میں تھا عمر بھر میری وفاؤں کا اثر ہو نہ سکا زہر اس درجہ تمہارے دلِ سفاک میں تھا اس نے ہر شخص کو دیوانہ بنا رکھا تھا کیسا غمزہ و ادا اُس بتِ چالاک میں تھا

تمہارے ہجر کا موسم مجھے برباد کر دے گا

مجھے معلوم ہے یہ غم مجھے برباد کر دے گا ہمیشہ کوستی رہتی ہوں اپنی کم نصیبی کو یہ صبح و شام کا ماتم مجھے برباد کر دے گا تمہیں چھونا تو میرے واسطے ہے شجرِ ممنوعہ تمہارا لمس اے ہمدم مجھے برباد کر دے گا مرے اندر کے موسم کو خوشی کی بھی ضرورت ہے یہ دل کا گریۂ پیہم مجھے برباد کر دے گا توقع ہو نہیں سکتی کوئی بھی تجھ سے نرمی کی کہ تیرے جبر کا عالم مجھے برباد کر دے گا بچاؤں کس طرح مغرب میں مشرق کی میں قدروں کو یہ دو دنیاؤں کا سنگم مجھے برباد کر دے گا نہ بھر پائے گی گھاؤ دل کے یہ دو دن کی ہمدردی لگانا زخم پر مرہم مجھے برباد کر دے گا

احساس

میں عورت ہوں مرے سو رنگ ہیں ہلکے بھی گہرے بھی مجھے اڑنے نہیں دیتے جو کھل کر ان ہواؤں میں میری سوچوں پہ ہیں اب تک رواجوں کے وہ پہرے بھی میں ہر اک روپ میں تحفہ خدا کا ہوں یہی سچ ہے مگر کچھ روپ ایسے بھی ہیں جو نفرت کے قابل ہیں ہے ذمے دار اس کا کون؟ سوچو گے تو جانو گے اگر تاریخ کے اوراق پلٹو گے تو مانو گے مری عظمت، مری پاکیزگی، میری وفاداری ہمیشہ شک کی نظروں سے سدا دیکھی گئی ہے کیوں؟ مری صبر و رضا کی حد کہ جس کی حد نہیں کوئی نہیں ہے قدر اس کی بھی خطا جس کی بھی ہو لیکن خطا میری ہی ٹھہرے گی کہ میرا جرم اتنا ہے میں عورت ہوں

ابھی نہ جا کہ بہاروں کی شام باقی ہے

مری نظر کا ادھورا پیام باقی ہے کہاں چلے کہ ابھی چاندنی نہیں اتری ابھی نظارۂ ماہِ تمام باقی ہے مری کہانی کا انجام دیکھتے جاؤ ذرا رکو کہ ابھی اختتام باقی ہے چلے گئے ہیں پرندے تو آشیانوں میں شکار گاہ میں دانہ و دام باقی ہے رہیں جو زندہ زمانے میں دوسروں کے لئے جہاں میں ایسے ہی لوگوں کا نام باقی ہے فنا مقام ہے آخر ہر اک نفس کا یہاں ہے ایسا کون کہ جس کا دوام باقی ہے ابھی تو دل نے ترے دل سے کچھ کہا ہی نہیں ابھی نظر کو نظر کا سلام باقی ہے

عشق میں ہوتا ہے کیا سود و زیاں سمجھو گے؟

خیر رہنے دو بھلا تم یہ کہاں سمجھو گے؟ اہلِ دل، اہلِ نظر، اہلِ ہنر لگتے ہو تم یقیناً مِرا اندازِ بیاں سمجھو گے زندگانی میں کبھی ایسا بھی وقت آئے گا کاوشِ زیست کو تم کارِ زیاں سمجھو گے عمر بھر ڈھونڈ نہیں پاؤ گے پھر راہِ فرار ایک زنداں کو اگر دارِ اماں سمجھو گے جھوٹ اور سچ میں کبھی فرق نہ کر پاؤ گے تم حقیقت کو اگر ایک گماں سمجھو گے نعرۂ خلق ہے سننا تو پڑے گا آخر اور کب تک اسے آوازِ سگاں سمجھو گے؟

غریبوں کو امیروں کی حقارت مار ڈالے گی

ملے گی بھیک میں جو وہ عنایت مار ڈالے گی دلاسا ہم کو دیتے ہیں تو شہ دیتے ہیں دشمن کو ہمیں یہ آپ کی دہری سیاست مار ڈالے گی بتا دیں میں نے دشمن کو سبھی کمزوریاں اپنی یقیناً مجھ کو میری یہ حماقت مار ڈالے گی اگر قانون سے بچ بھی گئے ہم رشوتیں دے کر ہمیں اپنے ہی اندر کی عدالت مار ڈالے گی سمجھ لیتے ہیں اپنا راہبر ہر راہزن کو ہم ہمیں نا اہل لوگوں کی قیادت مار ڈالے گی یہ مانا بے خطا ہیں ہم مگر کیسے کریں ثابت گواہوں کی ہمیں جھوٹی شہادت مار ڈالے گی ہمارے دل میں اب پہلے سی وہ چاہت نہیں باقی ہمیں یہ آپ کی بے جا شکایت مار ڈالے گی

ساون کی پہلی بارش ہے اور تو میرے پاس نہیں

تیری نظروں میں شاید یہ لمحے اتنے خاص نہیں داخل ہوں گی اک دن خوشیاں میرے بھی دروازے سے میرے دل میں اب تو زندہ ایسی کوئی آس نہیں جب سے اپنا رشتہ جوڑا میں نے زرد خزاؤں سے سرخ گلابوں والے موسم میرے دل کو راس نہیں یوں تو حاصل ہے ہم کو آسائش ہر اک دنیا کی دور وطن سے بیٹھے ہیں ہم کیا یہ بھی بن باس نہیں سونے کا چمچہ جو منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں غربت کا دکھ کیا ہوتا ہے اُن کو یہ احساس نہیں ایسی کون سی ساعت ہے جب تیرا قرب نہیں چاہا ایسا کون سا لمحہ ہے جب تیری دید کی پیاس نہیں

اِک تماشا سرِ بازار نہیں بن سکتی

اِس کہانی کا میں کردار نہیں بن سکتی اچھی ماں، بیوی، بہن، بیٹی نہ ہو جو عورت وہ کبھی قوم کی معمار نہیں بن سکتی گرچہ اے دوست رقابت ہی رہی ہے ہم میں تیرے رستے کی میں دیوار نہیں بن سکتی بولنے کی نہ اجازت ہو جہاں عورت کو اُس گھرانے کی میں سردار نہیں بن سکتی جن کو آتا ہو اصولوں پہ ہمیشہ چلنا زیست اُن کے لئے دشوار نہیں بن سکتی مجھ کو کوئی بھی بنا سکتا نہیں آلۂ کار میں کسی شخص کا ہتھیار نہیں بن سکتی

اے مطربہ! نہ چھیڑ محبت کے ساز کو

سمجھا نہیں ہے تو ابھی چاہت کے راز کو ہیں زندگی کے اور بہت مسئلے ابھی رہنے دے اپنے قصۂ راز و نیاز کو شامل خلوصِ دل نہ ہو جس کی اساس میں حاصل ہو کیا قبولیت ایسی نماز کو پہنے ہوئے ہے چہرہ مری دوستی کا تو سمجھوں میں کس طرح سے تری ساز باز کو رہ رہ کے مجھ پہ وقت نے ایسے کیے ستم پتھر بنا دیا مرے دل کے گداز کو تو کہہ رہا ہے لوٹا ہے حالات نے تجھے تسلیم کر رہی ہوں میں تیرے جواز کو ہوں یاد جس کو جھوٹے بہانے ہزارہا اب کیا کہوں میں ایسے بہانہ طراز کو آتی ہے یاد مجھ کو ہر اک آپ کی ادا دیکھوں جب آپ جیسے کسی دلنواز کو چونکا نہ مجھ کو آ کے مرے تخلیے میں یوں؟ اڑنے دے میری سوچ کے خالی جہاز کو

ایک شعر

رہ لوں گی عمر بھر ترے قدموں کی بن کے دھول اک بار دل سے کر لے اگر تو مجھے قبول

میں بربادیوں کا نشاں بن گئی ہوں

کہ بھُولی ہوئی داستاں بن گئی ہوں نہ کوئی جسے آج تک جان پایا وفا کا وہ سّرِ نہاں بن گئی ہوں جلا دے گا اِک دن مجھے غم کا لاوہ یوں لگتا ہے آتش فشاں بن گئی ہوں نہ تھا کوئی بھی رازداری کے قابل سو اپنی ہی میں رازداں بن گئی ہوں الاؤ میں جو وقت کے جل رہی ہیں میں اُن حسرتوں کا دھواں بن گئی ہوں وہ آنسو جو گرتے رہے میرے دل پر میں اُن آنسوؤں کی زباں بن گئی ہوں ہوا مجھ پہ یہ منکشف آج عذراؔ تری رہ کا سنگِ گراں بن گئی ہوں

ہوا میں اُڑتے ہوئے نرم آنچلوں کی طرح

تمہارا سایہ تھا ماں سر پہ بادلوں کی طرح بڑے سکوں سے جڑیں کاٹتا رہا میری وہ شخص جس کا رویہّ تھا دوستوں کی طرح میں کِس طرح تری چاہت کا اعتبار کروں؟ تِرا مزاج بدلتا ہے موسموں کی طرح چلی تھی فتح جہاں کے لیے کبھی گھر سے مگر وہ جوش تھا پانی پہ بلبلوں کی طرح فقط ہواؤں کو مٹھی میں قید کرنے کو میں بھاگتی ہی گئی دُور پاگلوں کی طرح کچھ اور بڑھ گیا ساون میں حُسن بارش کا تھی ایسی پتوں میں جھنکار پائلوں کی طرح وہ لفظ تم نے محبت میں جو کہے مجھ سے اُداس شب میں چمکتے ہیں جگنوؤں کی طرح میں تند موجوں کی مانند بیقرار رہی رہا خموش ہمیشہ وہ ساحلوں کی طرح

سفر میں ہوں ہمیشہ سے ہی محوِ جستجو ہوں میں

مثالِ آئینہ اس زندگی کے روبرو ہوں میں ہوا ہے اس کا قد اونچا تو مجھ کو بھول بیٹھا ہے وہ ایسا نخل ہے جس کے لئے وجۂ نمو ہوں میں کیا ہے قتلِ عام اس شخص نے میرے بھروسے کا جسے دعویٰ تھا اس کی زندگی کی آرزو ہوں میں بجھانے پیاس اپنی میکدے میں روز جاتا ہے جو کہتا تھا کہ اس کے واسطے اک آبجو ہوں میں کوئی اپنی نظر سے گر کے زندہ رہ نہیں سکتا خدا کا شکر ہے اپنی نظر میں سرخرو ہوں میں ذرا سی بات پر اکثر وہ تنہا چھوڑ جاتا ہے وہ یہ تک بھول جاتا ہے کہ اس کی آبرو ہوں میں مری کوشش ہے یہ عذراؔ چلوں نیکی کے رستے پر میں ایسا تو نہیں کہتی بڑی ہی نیک خو ہوں میں

سانحۂ پشاور ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴

(دلی دکھ کے ساتھ)

قطعہ

خوں میں نہلائے گئے کس لئے معصوم بدن؟ کیا خطا ان کی تھی یہ پوچھتے ہیں اہلِ وطن کون سی اِس سے بڑی اور قیامت ہو گی؟ پھول سے بچوں کو پہنائے گئے آج کفن

چراغ دل میں امیدوں کا اک جلاتے ہوئے

چلے ہیں بھیڑ میں ہم راستہ بناتے ہوئے انہی کو آج میں اک داستان لگتی ہوں جو رو پڑے تھے مری داستاں سناتے ہوئے ابھی میں سوچ رہی تھی غزل سناؤں انھیں ملے وہ مجھ کو غزل میری گنگناتے ہوئے مرا تمہارا سفر تو فقط یہیں تک تھا وہ مجھ سے بولے محبت سے مسکراتے ہوئے نہ تھا سفر کوئی آسان خود شناسی کا کہ اک زمانہ لگا ہم کو سر اٹھاتے ہوئے لہو لہان ہوئے ہاتھ میری کوشش کے تمہاری راہ کے کانٹے سبھی ہٹاتے ہوئے نجانے کون سے ہم مرحلوں سے گذرے ہیں تری نظر سے تری روح میں سماتے ہوئے

تیر جب آگے نشانوں سے نکل جاتے ہیں

حدِ امکاں کے جہانوں سے نکل جاتے ہیں جب بھی پڑتی ہے سہارے کی ضرورت مجھ کو مرے بازو مرے شانوں سے نکل جاتے ہیں ان میں کر لیتے ہیں پھر آ کے بسیرا آسیب جب مکیں اپنے مکانوں سے نکل جاتے ہیں آپ کے ہاتھوں میں ہم دیکھ چکے ہیں پتھر لیجئے آئینہ خانوں سے نکل جاتے ہیں جن کے ہونے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا ایسے کردار فسانوں سے نکل جاتے ہیں نام تک یاد نہیں رہتا کسی کو ان کا جو کہ لمحوں کی اذانوں سے نکل جاتے ہیں ان کو ہوتی نہیں کچھ اپنے پرائے کی تمیز تیر جب اپنی کمانوں سے نکل جاتے ہیں

کشمیر کے موجودہ حالات پر لکھی گئی نظم

تم چھوڑو گے دہشت کے نشاں اور کہاں تک اے ظالمو یہ آہ و فغاں اور کہاں تک ناپاک وجودوں کے تعّفن کو لئے تم آلودہ کرو گے یہ جہاں اور کہاں تک سیلاب صداؤں کا نہ اب تم سے تھمے گا روکو گے بھلا حق کی اذاں اور کہاں تک سرہانے جواں لاشوں کے اٹھتے ہوئے نوحے سینوں پہ یہ ماتم کے نشاں اور کہاں تک کچھ تم نے مٹانے کو بھی باقی نہیں چھوڑا اب چھوڑو گے عبرت کے نشاں اور کہاں تک تھک جاؤ گے اک روز تمہی ظلم و ستم سے کاٹو گے بھلا نوکِ زباں اور کہاں تک جو سچ ہے وہ اب سارے زمانے کو پتہ ہے تم دو گے بھلا جھوٹے بیاں اور کہاں تک اقبال کے شاہین اگر جوش میں آئے ٹھوکر سے گرا دیں گے ہر اک کوہِ گراں تک اک بار پہن کر جو کفن نکلیں گے گھر سے خاطر میں نہ لائیں گے کوئی تیر و سناں تک آئے نہ اگر باز مرے دیس کے دشمن بھولے سے نہ مل پائے گی پھر ان کو اماں تک

سمیٹا کیوں ہمیں تم نے، بکھر جانے دیا ہوتا

اگر یوں چھوڑ جانا تھا تو مر جانے دیا ہوتا بلکتے بھوک سے ہوتے نہ یوں نوزائدہ بچے اگر طوفان نے چڑیا کو گھر جانے دیا ہوتا ڈراتے ہی رہے تم مصلحت کے نام پر مجھ کو جو کرنا چاہتی تھی میں وہ کر جانے دیا ہوتا مجھے چھوڑا ہے تم نے، کیوں زمانے کو بتاتے ہو؟ کہ یہ الزام بھی میرے ہی سر جانے دیا ہوتا نہتا کر دیا مجھ کو دمِ رخصت بتاؤ کیوں؟ کہ میرے ساتھ کچھ ذادِ سفر جانے دیا ہوتا ستم کرتے اگر تم خود نہ ہوتا غم کوئی مجھ کو نہ غیروں کو مگر کوئی ستم ڈھانے دیا ہوتا

ہر گام پہ یہ مانا کہ خطرات بڑے ہیں

منزل کو بھی پا لیں گے اگر چل ہی پڑے ہیں گھر جس کے سبب سے کبھی برباد ہوا تھا وہ آج تلک اپنی اسی ضد پہ اڑے ہیں اے لڑکی ڈبوئیں گے تجھے بیچ بھنور میں عاشق یہ نئے دور کے سب کچے گھڑے ہیں سرتاج نہ بیچو انہیں یوں کوڑی کے بھاؤ شادی کی نشانی یہ مری ماں کے کڑے ہیں ساحر نے جو مارے تھے کبھی تیر ہوا میں آنکھوں میں مری اب بھی وہی تیر گڑے ہیں ہم نے تو یہی دیکھا ہے اکثر یہ جہاں میں دل ان کے بہت چھوٹے ہیں گھر جن کے بڑے ہیں دیکھا جسے اس کا ہی بنا پھرتا ہے عاشق اس شخص میں اب ایسے بھی کیا ہیرے جڑے ہیں

گلابوں سے مہکتی ارغوانی شام کی باتیں

مرا دل یاد کرتا ہے تمہارے بام کی باتیں حسیں شاموں کے سائے میں کبھی جو مل کے آتے تھے صبح تک کرتے رہتے تھے اسی گلفام کی باتیں کوئی پرسانِ غم ہوتا تو سنتا بات بھی میری سناؤں اب کسے جا کر دلِ ناکام کی باتیں ذرا آغاز ہونے دیجئے اپنے فسانے کا ابھی سے آپ تو کرنے لگے انجام کی باتیں نہیں باقی وہ آشفتہ سری مانا، مگر پھر بھی ابھی تک یاد ہیں ہم کو دلِ ناکام کی باتیں ہوائیں آ کے سرگوشی کیا کرتی ہیں کانوں میں سنا کرتے ہیں خوشبو سے ترے پیغام کی باتیں سنا کرتے تھے پہروں بیٹھ کر ہر بات جو میری انہیں بیکار لگتی ہیں مری اب کام کی باتیں گھڑی بھر آ کے بیٹھو ہم فقیروں کی بھی محفل میں سدا کرتے ہو اپنے مرتبے اور نام کی باتیں رہیں گے یاد دنیا کو تو میرے بعد بھی عذراؔ یہ میرے رنج کے قصے، مرے آلام کی باتیں

کسی بھی زخم کا باقی نشاں نہیں رہتا

کوئی بھی غم ہو ہمیشہ جواں نہیں رہتا تو اپنا حق نہ سمجھ وقت کی عنایت کو کسی پہ وقت سدا مہرباں نہیں رہتا نظر میں بھی کسی صیآد کی جو آ جائے وہ گھونسلہ کبھی جائے اماں نہیں رہتا نکھر ہی جاتا ہے چہرہ بہار کا آخر سدا بہاروں پہ رنگِ خزاں نہیں رہتا جو  جا چکا ہے اُسے دل میں ڈھونڈتے کیا ہو؟ وہ شخص رہتا تھا پر اب یہاں نہیں رہتا ہے سچ یہی گو کوئی لاکھ دل کو سمجھائے کہ سچ یقیں میں بدل کر گماں نہیں رہتا وہاں ہمیشہ ہی رشتوں کی موت ہوتی ہے جہاں بھروسا کوئی درمیاں نہیں رہتا لگن ہو سچی اگر دل میں جاگزیں عذراؔ تو امتحان کوئی امتحاں نہیں رہتا

تری وفا کی فضاؤں میں مجھ کو رہنا ہے

دھڑکتے دل کی صداؤں میں مجھ کو رہنا ہے نہ چھو سکیں گے مری گرد بھی جہاں والے میں موجِ گل ہوں، ہواؤں میں مجھ کو رہنا ہے میں اس جہاں میں رہوں یا نہ رہ سکوں، لیکن ہر ایک دل کی دعاؤں میں مجھ کو رہنا ہے جو بڑھنے دے گا نہ قد مجھ سے ننھے پودے کا اسی درخت کی چھاؤں میں مجھ کو رہنا ہے میں چھوڑ کر چلی آئی ہوں شہر کی رونق تمہارے چھوٹے سے گاؤں میں مجھ کو رہنا ہے ہیں میری روح کو جکڑے قدیم رسم و رواج انہی گھٹی سی فضاؤں میں مجھ کو رہنا ہے کیا تھا جرم کبھی میں نے چاند چھونے کا اب ایک عمر خلاؤں میں مجھ کو رہنا ہے میں جانتی ہوں نہیں یہ مرا جہاں لیکن اسی جہاں کی چتاؤں میں مجھ کو رہنا ہے چنی ہیں میں نے یہ راہیں خود اپنی مرضی سے رہِ جفا کی سزاؤں میں مجھ کو رہنا ہے

رائے گاں سب ہیں کوششیں اپنی

کم نہیں ہوں گی نفرتیں اپنی میرے دل کا الگ ہی موسم ہے میری آنکھوں کی بارشیں اپنی تو ہے سورج مجھے جلا دے گا دور لے جا تمازتیں اپنی آپ کی بے ثمر محبت سے بڑھ گئی ہیں اذیتیں اپنی مجھ پہ اب کچھ اثر نہیں ہو گا رہنے دیجے نوازشیں اپنی عمر یہ جیسے جیسے بڑھتی ہے بڑھتی جاتی ہیں حسرتیں اپنی آپ مانیں نہ مانیں اس کی بات دل کی ہوں گی سفارشیں اپنی میرے دشمن سے جا کے یہ کہہ دو روک دے اب وہ سازشیں اپنی زندگی سب کی اپنی اپنی ہے رنج اپنا ہے راحتیں اپنی

ایک شعر

اِک جیتی بازی ہاری ہم نے پیار کا نام بلند کیا ہونٹوں پہ تبسم بکھرا کر آنکھوں میں سمندر بند کیا

سانحۂ کراچی

سانحے پر سانحہ سہنا کوئی آسان ہے؟ عام سا نقصاں نہیں جانوں کا یہ نقصان ہے روشنی کے شہر تجھ کو لگ گئی کس کی نظر؟ ہر قدم پر اب تو جیسے موت کا سامان ہے

مانا کہ رات ہجر کی ماری نہیں رہی

لیکن وہ رتجگوں کی خماری نہیں رہی چاٹا ہے رات دن اِسے میں نے اِسی لئے زنجیر میرے پاؤں کی بھاری نہیں رہی موسم جو سارے میری حمایت میں تھے کبھی اُن موسموں سے اب مری یاری نہیں رہی حیرت نہ کیجئے کہ ہمیں ہارنا ہی تھا ملتی تھی جو کمک وہی جاری نہیں رہی سسرال میں بھی پا نہ سکی وہ کوئی مقام ماں باپ کی بھی اب وہ دلاری نہیں رہی خوشبو سے جس کی جسم مہکتا تھا صبح و شام اب عشق کی وہ بادِ بہاری نہیں رہی میں کیا غزل لکھوں میں کوئی شعر کیا کہوں جب مجھ پہ کیفیت ہی وہ طاری نہیں رہی

بے حسی دل پہ عجب اب کے کوئی طاری ہے

آنکھ میں اشک نہیں کیسی عزاداری ہے؟ صبح تک پھر سے ہمیں جاگتے رہنا ہو گا آج کی رات بھی لگتا ہے بہت بھاری ہے اپنی غربت کو چھپا رکھا ہے اس دنیا سے بڑی مشکل سے سنبھالی ہوئی خود داری ہے ذائقہ چکھا زباں نے تو یہ محسوس ہوا پانی اشکوں کا تو سچ مچ ہی بہت کھاری ہے چھوڑ سکتے ہو نہ تم مجھ کو نہ اب میں تم کو تم ہی بتلاؤ بھلا کیسی یہ لاچاری ہے؟ تم کو مشرق میں تو مغرب میں مجھے لا پھینکا دوش اپنا نہیں یہ وقت کی عیاری ہے اپنے حصے کا ہر اک جان کو سہنا ہے عذاب آج تیری ہے تو پھر کل کو مری باری ہے

دھیان ہے میرا ابھی تک منظروں کی قید میں

میرے روز و شب ہیں کیسے موسموں کی قید میں یہ رواجوں میں گھری سہمی ہوئی سی لڑکیاں جس طرح معصوم پنچھی ساحروں کی قید میں ساری خوشیاں آنکھ سے اوجھل نہ ہو جائیں کہیں ذہن میرا ہے ابھی تک واہموں کی قید میں نام ہوتا ہے ہر اک رشتے کا دنیا میں کوئی سارے رشتے ہیں سدا سے بندھنوں کی قید میں نرم و نازک تتلیوں کو دیکھ کر لگتا ہے یوں رنگ ہیں قوسِ قزح کے تتلیوں کی قید میں دے رہے ہیں آپ گمراہی کو آزادی کا نام خوش ہوں میں خود ساختہ پابندیوں کی قید میں آئینہ سچا ہے عذراؔ ناز یہ تسلیم کر کٹ گئی تیری جوانی الجھنوں کی قید میں

زندگی میں رحم ہو گا اتنا کم سوچانہ تھا

چھین لے گی مجھ سے یہ سارے بھرم سوچا نہ تھا ایسے مشفق لوگ جن کو دیکھ کر جیتے تھے ہم ہوں گے اک دن راہئی ملکِ عدم سوچا نہ تھا دو قدم چل کر بدل جائیں گے اپنے راستے مجھ کو میری جان تیری ہی قسم سوچا نہ تھا دکھ چھپا رکھا تھا میں نے تو ہنسی کی آڑ میں میرے چہرے پر بھی ہو گا غم رقم سوچا نہ تھا ہر قدم پر میں جلاتی جاؤں گی جتنے دئیے اور تاریکی بڑھے گی دم بدم سوچا نہ تھا یہ ترا احسان ہے احسان اے ربِ کریم مجھ پہ ہو گا اس قدر لطف و کرم سوچا نہ تھا ایک لمحے کوبھی عذراؔ ہم جدا ہوتے نہ تھے اور اتنے دور ہو جائیں گے ہم سوچا نہ تھا

دلاسا

ترے دل پر اُداسی کا کبھی موسم جو چھا جائے تجھے ڈسنے لگیں جب شام کے ڈھلتے ہوئے سائے اگر تنہائیوں میں لو چراغوں کی بھی تھرّائے نہ کوئی روشنی یا رنگ تیرے دل کو پھر بھائے تو ہر اک سوچ سے تم ذہن کو آزاد کر لینا خیالوں میں چلی آؤں گی مجھ کو یاد کر لینا ذرا یہ دل کو سمجھانا کہیں ایسا بھی ہے کوئی تمہارے واسطے جس نے کہ اپنی نیند بھی کھوئی نہ کوئی گر ملے کرتا رہے جو تیری دلجوئی جو دم بھرتا ہے دنیا میں ترا ایسا بھی ہے کوئی تسلی دے کے اپنے دل کو خود ہی شاد کر لینا خیالوں میں چلی آؤں گی مجھ کو یاد کر لینا محبت کرنے والے اور بھی ہوں گے زمانے میں ہوا کیا ہو گیا ناکام گر تو مجھ کو پانے میں مُصِر کیوں ہو تم اپنی زندگی خود ہی گنوانے میں ہے آخر حرج ہی کیا اور کسی سے دل لگانے میں؟ مری خاطر نہ اپنی زندگی برباد کر لینا خیالوں میں چلی آؤں گی مجھ کو یاد کر لینا

ذہن کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے چہرے

یاد میں ابھرتے ہیں کچھ مٹے مٹے چہرے کیسے بھول سکتی ہوں زندگی میں اک پل بھی دھول کی مشقت سے وہ اٹے ہوئے چہرے ارد گرد یوں تو ہے اک ہجوم چہروں کا اب نظر نہیں آتے مہربان سے چہرے ان کے ذہن میں کوئی نقش ٹِک نہیں سکتا دیکھنے کے عادی ہوں روز جو نئے چہرے دیکھتی ہوں جب جب بھی میں گلاب چہروں کو یاد مجھ کو آتے ہیں کچھ تھکے تھکے چہرے ارد گرد جن کے تھے نور کے حسیں ہالے موت کے دھندلکوں میں جا کے کھو گئے چہرے جانتی ہوں جیون بھر پھر نظر نہ آئیں گے اپنے پن کی شفقت میں وہ رنگے ہوئے چہرے

یوں بن سوچے کسی کا ہاتھ تو تھاما نہیں کرتے

مگر جب تھام لیتے ہیں تو یوں چھوڑا نہیں کرتے جنھیں ہو کودنا وہ کود جاتے ہیں سمندر میں لبِ ساحل کھڑے ہو کر کبھی سوچا نہیں کرتے انھیں ہوتی ہے پیاری جان سے محبوب کی عزت جو سچا پیار کرتے ہیں کبھی رسوا نہیں کرتے شبوں میں اس طرح روتے ہیں تکیہ بھیگ جاتا ہے مگر ہم سامنے سب کے کبھی رویا نہیں کرتے نہیں ممکن کسی کو روکنا منت یا اشکوں سے جسے جانا ہو اُس کا راستہ روکا نہیں کرتے ہمیں مضبوط رکھنا ہے زمیں سے رابطہ اپنا بلندی سے جو گرتے ہیں کبھی سنبھلا نہیں کرتے کسی دن بیوفا ہو جائیں ہم ان کی طرح عذراؔ ہم ایسا کر تو سکتے ہیں مگر ایسا نہیں کرتے

چاند ظلمت میں تو جب نور کا ہالہ رکھ دے

میرے آنگن میں بھی تھوڑا سا اُجالا رکھ دے مجھ کو پہچان مرے فن کے قد و قامت سے طاق پرشعر سجا، میرا حوالہ رکھ دے ساتھ لے جا تو بھلے خوان سبھی نعمت کے میرے حصے کا پر اک آدھ نوالہ رکھ دے جل رہی ہے مری پیشانی عجب حدّت سے میرے ماتھے پہ کوئی برف کا گالا رکھ دے میں بھی کر پاؤں ترے درد کو محسوس ذرا اپنے ہاتھوں کا مرے ہاتھ پہ چھالا رکھ دے ہاتھ یوں رکھا ہے اُس نے مری دُکھتی رگ پر جیسے سینے پہ کسی کے کوئی بھالا رکھ دے جو سنے سن کے فقط سر کو دھُنے یا مولا! میرے شعروں میں اثر ایسا نرالا رکھ دے کہہ بھی دے آج ترے دل میں ہے جو کچھ عذراؔ ایک جانب تو خموشی کا یہ تالا رکھ دے

کیا کہیں ترکِ تعلق کی اس اک رات کے بعد

خود سے ہم مل نہ سکے تجھ سے ملاقات کے بعد اپنی خوشیوں میں مگن تم نے کہاں دیکھا تھا اک جنازہ بھی اٹھا تھا تری بارات کے بعد سرد پڑ جاتی ہے جب خون کی گرمی اک دن سوچنے کا بھی مقام آتا ہے جذبات کے بعد پہلے قطرے کی طرح پہل تو ہم نے کی تھی کھل کے برسات ہوئی اشکوں کی برسات کے بعد کم سخن ہوں گے وہ اس درجہ ہمیں علم نہ تھا اک جواب آتا ہے کتنے ہی سوالات کے بعد درد دیمک کی طرح جسم کو کھا جاتا ہے آدمی رہتا ہے سالم کہاں صدمات کے بعد

کریں گے وہ حقیقت کو قبول آہستہ آہستہ

سمجھ جائیں گے اُلفت کے اصول آہستہ آہستہ ہرے ساون کی ہر اِک بوند گویا دل پہ گرتی ہے کھِلا جاتا ہے میرے دل کا پھول آہستہ آہستہ ابھی بھاتی ہے تجھ کور و نق دنیا بہت، لیکن لگے گا تجھ کو بھی سب کچھ فضول آہستہ آہستہ کہاں پہلی نظر میں ہم نے اپنے دل کو ہارا تھا ہوئی تھی ہم سے بھی چاہت کی بھُول آہستہ آہستہ ابھی تازہ محبت ہے ذرا باسی تو ہونے دے لگیں گے پھول بھی تجھ کو ببول آہستہ آہستہ نیا ہے شہر میں اس کو ہوا دنیا کی لگنے دو بدل جائیں گے سب اُس کے اصول آہستہ آہستہ میں اکثر سوچتی رہتی ہوں میرے شیشۂ دل پر نہ جم جائے کہیں لمحوں کی دھُول آہستہ آہستہ

زمستانی ہوا جب چھو کے زلفوں کو گذرتی ہے

تو گویا ایک ٹھنڈک سی رگِ جاں میں اترتی ہے میں زندہ ہوں یہی احساس کافی ہے مری خاطر یہ نیلا آسماں سرپر مرے قدموں میں دھرتی ہے مرے ماہ و برس کی یاد کے بے رنگ خاکے میں مری نوکِ تصور کیسے کیسے رنگ بھرتی ہے دل و جاں کے سبھی تاریک گوشے جگمگاتے ہیں کہ جب بھی کہکشاں یادوں کی سوچوں میں اترتی ہے نہیں دیکھا کبھی اک بار بھی تو نے مجھے مڑ کے وگرنہ ہر ڈگر تیری مرے دل سے گذرتی ہے تجھے ملنے چلی آؤں گی میں یادوں کی شال اوڑھے دسمبر کے مہینے میں، ہوا بھی جب ٹھٹھرتی ہے تمہارا پیار کیا سے کیا بنا دیتا ہے پل بھر میں تمہیں دیکھوں تو رنگت میرے چہرے کی نکھرتی ہے

زخمِ دل تارِ نظر سے جو سیا کرتے ہیں

نام ہم شام و سحر ان کا لیا کرتے ہیں کون کہتا ہے کہ ملتا ہے سکوں دولت سے مفلسی میں بھی تو خوش لوگ جیا کرتے ہیں زندگی زہر بھرا جام تو چل یوں ہی سہی ہم تو یہ جام بھی ہنس ہنس کے پیا کرتے ہیں آدھے رستے میں وہی چھوڑ کے چل دیتے ہیں عہد جو ساتھ نبھانے کا کیا کرتے ہیں ہر تقاضا ہی نبھایا ہے وفا کا ہم نے ہر ستم سہہ کے بھی لب اپنے سیا کرتے ہیں رازِ دل اپنا کسی سے بھی کبھی مت کہنا راز داں بعد میں بدنام کیا کرتے ہیں لے گئے چھین کے جو زیست کی ہر ایک خوشی ہم تو اُن کو بھی دعائیں ہی دیا کرتے ہیں

نہ دے چاہے کوئی تعظیم مجھ کو

تری بیعت نہیں تسلیم مجھ کو بڑی مشکل سے میں یکجا ہوئی ہوں نہ کر ٹکڑوں میں پھر تقسیم مجھ کو کسی کے راز کو میں فاش کر دوں نہیں ایسی ملی تعلیم مجھ کو بھٹکتی پھر رہی ہے روح میری کہ اب درکار ہے تجسیم مجھ کو بتایا تھا انہیں مطلب وفا کا ہے کرنی اس کی اب تفہیم مجھ کو زباں رکھتی ہوں میں بھی منہ میں لیکن تری ملحوظ ہے تحریم مجھ کو مجھے رکھنی ہے سچ کی جنگ جاری مری اب چاہئیے تنظیم مجھ کو کسی کے راز کو میں فاش کر دوں نہیں ایسی ملی تعلیم مجھ کو وہ کم از کم مجھے انساں تو سمجھے میں کب کہتی ہوں دے تکریم مجھ کو

میری آنکھوں میں جو اُداسی ہے

اِس لئے ہے کہ روح پیاسی ہے موت جب تک نہ وا کرے آغوش غم سے ملتی کہاں خلاصی ہے آپ اِترا رہے ہیں کیوں خود پر؟ میری صورت بھی اچھی خاصی ہے خوش نہیں روح آ کے دنیا میں جانے کِس دیس کی یہ باسی ہے عشق ہے کائنات کا مرکز بات کہنے کو تو ذرا سی ہے نعمتوں کا نہ حق ادا کرنا یہ بھی اک شکلِ ناسپاسی ہے کیا کہیں ہے کوئی علاج اِس کا؟ یہ جو ذہنوں کی بے لباسی ہے حُسن میرا اگر نہیں تازہ آپ کا عشق بھی تو باسی ہے

پیار بھی مجھ سے کرے اور رہے برہم بھی

وہ عدو بھی ہے مرا اور وہی ہمدم بھی آگ سینے میں لگی ہے تو نمی آنکھوں میں یہ محبت ہے عجب شعلہ بھی ہے شبنم بھی میری آہوں میں اثر کیسے نہ پیدا ہوتا میری آہوں میں تو شامل ہے جہاں کا غم بھی آپ نے آ کے تمنائیں جگا دیں پھر سے اپنی خوشیوں کا تو کر بیٹھے تھے ہم ماتم بھی انتظار اتنا اذیت کا سبب ہوتا ہے اب تو آ جاؤ کہ آنکھوں میں رکا ہے دم بھی اُس کی آنکھوں کی کشش کھینچے مرا دل عذرا جس کی آنکھوں سے ضیا مانگیں مہ و انجم بھی

خزاں کی دھُوپ سے جلنے لگا ہے گلستاں میرا

نجانے کھو گیا جا کر کہاں پر باغباں میرا ٹھہر اے گردشِ دوراں ذرا سا دم تو لینے دے زمیں کم تھی جو اب دشمن ہوا ہے آسماں میرا سمجھ آتا نہیں کچھ بھی کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ وہی دشمن بنا ہے جو تھا کل تک رازداں میرا یقیں کیسے دلاؤں میں تمہیں اپنی محبت کا تمہارا پیار لے گا اور کتنا امتحاں میرا؟ نہیں کرتا کسی پر رحم، کتنا وقت ظالم ہے کہیں ایسا نہ ہو اِک دن مٹا ڈالے نشاں میرا غزل جس کے لئے لکھی ہے شب بھر جاگ کر عذراؔ پسند آ جائے اس کو کاش اندازِ بیاں میرا

مرے یقیں کی ردا تار تار کرتے رہے

وفا کو جگ میں وہ بے اعتبار کرتے رہے چلا گیا تھا بہت دور قافلہ پھر بھی ہم اپنے آپ کو نذرِ غبار کرتے رہے انھیں خبر بھی نہ تھی اور وہ بے خیالی میں ہماری وضع وہ خود اختیار کرتے رہے تمام عمر انھیں بھولنے کی کوشش کی انہی کو یاد مگر بار بار کرتے رہے یہ جانتے تھے اسے لوٹ کر نہیں آنا اک ایک پل کو مگر ہم شمار کرتے رہے لکھی گئی تھیں خزائیں انہی کی قسمت میں جو دل ہمیشہ تلاشِ بہار کرتے رہے نہ مڑ کے دیکھا تھا اک بار جانے والے نے ہم اپنی آنکھیں یونہی اشکبار کرتے رہے وہ پل جو روٹھ گئے لوٹ کر نہیں آئے انھیں منانے کی کوشش ہزار کرتے رہے

سارے جگ کے لئے جو شخص مثالی ٹھہرا

وہ فقط میرے لئے پیار سے خالی ٹھہرا کر دیا جس نے ہر اک برگ و ثمر کو پامال ہاں وہی شخص مرے باغ کا مالی ٹھہرا ایک ہی درد کے رشتے سے بندھے تھے سارے کوئی غالب، کوئی مومن، کوئی حالی ٹھہرا ساتھ فیشن کے بدل جاتا ہے ہر موسم میں پیار گویا کہ ترا کان کی بالی ٹھہرا ذرے ذرے میں ترا عکس نظر آتا ہے کون کہتا ہے ترا نقش خیالی ٹھہرا معتبر مانی نہ جائے گی گواہی دل کی دل کا مذکور ہے کیا دل تو سوالی ٹھہرا تو نے کیا سوچ کے دل اس سے لگایا عذراؔ عشق اُس کا تو ہمیشہ سے جلالی ٹھہرا

آپ کے عشق میں جب چور ہوا کرتے تھے

اُن دنوں ہم بڑے مغرور ہوا کرتے تھے زرد موسم میں ملا کرتے تھے جب آپ ہمیں خشک پیڑوں پہ بھی تب بور ہوا کرتے تھے آپ کی یاد کے سائے سے لپٹتے رہنا آپ جب ہم سے بہت دور ہوا کرتے تھے سب کے نزدیک تو ہم عام سی لڑکی ہوں گے ماں کی نظروں میں مگر حور ہوا کرتے تھے اِس لئے سہتے رہے ہم تیرا ہر ایک ستم دل کے ہاتھوں بڑے مجبور ہوا کرتے تھے مل کے بیٹھے ہوں فراغت میں جو اک ساتھ کبھی پل وہ مشکل سے ہی مقدور ہوا کرتے تھے عشق میں پہلے پہل چین کہاں آتا تھا؟ خواب بھی آنکھوں سے کافور ہوا کرتے تھے دورِ عسرت میں بڑے خواب کہاں تھے کوئی چھوٹی خوشیوں پہ بھی مسرور ہوا کرتے تھے وہ بھی کیا دن تھے کہ زندہ تھے بڑے جب گھر کے سارے لمحے بڑے بھرپور ہوا کرتے تھے

چمن میں اب کے یہ رنگِ بہار کیسا ہے؟

جو مجھ پہ چھایا ہوا ہے خمار کیسا ہے؟ اگر ہے ملک میں امن و امان کی صورت ہر ایک شہر میں پھر انتشار کیسا ہے؟ کہاں سے آیا ہے میرے بدن میں کھولاؤ لہو میں بڑھتا ہوا یہ فشار کیسا ہے؟ تمام عمر اسی میں گذار دی میں نے نہ پوچھ مجھ سے کہ یہ انتظار کیسا ہے سنبھل کے بادِ بہاری ذرا ٹھہر تو سہی! مجھے بتا وہ گلِ نوبہار کیسا ہے؟ نہ میرے غم نہ خوشی میں ہی وہ شریک رہا یہی ہے پیار تو آخر یہ پیار کیسا ہے؟

زندگی کے سوالوں میں الجھے رہے

کیسے کیسے خیالوں میں الجھے رہے عمر کیسے بتا دی خبر ہی نہیں دن، مہینوں میں سالوں میں الجھے رہے اپنی پہچان کیسے بناتے کہ وہ دوسروں کے حوالوں میں الجھے رہے پھول تم نے بچھائے تھے جو سیج پر رات بھر میرے بالوں میں الجھے رہے اہلِ غم کو جنوں کی ہوا راس تھی اہلِ دل حُسن والوں میں الجھے رہے کر نہ پائے رہائی کی تدبیر تک وقت کے اُلجھے جالوں میں اُلجھے رہے حُسنِ فطرت کی رنگینیاں چھوڑ کر اپنے پیروں کے چھالوں میں الجھے رہے

جسے قطرے سے دریا کر دیا ہے

اُسی نے مجھ کو پیاسا کر دیا ہے مجھے اُس شخص نے اپنا بنا کر بھری دنیا میں تنہا کر دیا ہے تری ہمدردیوں نے آج پھر سے مرے زخموں کو تازہ کر دیا ہے خزاں موسم کی چیرہ دستیوں نے ہری ٹہنی کو سوکھا کر دیا ہے وفا کے نام پر اہلِ ہوس نے محبت کو بھی رسوا کر دیا ہے پرانے راستوں نے آج پھر سے سبھی یادوں کو زندہ کر دیا ہے فضا میں پھیلتی آہ و بکا نے مرے کانوں کو بہرہ کر دیا ہے

غور سے دیکھئے اس شہر کا منظر صاحب

اِس میں ہوتا تھا کہیں میرا بھی اِک گھر صاحب پا لیا کرتی تھی قابو میں ہر اِک مشکل پر کھو دیا میں نے کہاں اپنا وہ جوہر صاحب چاہ کر بھی نہ بچا پائی میں ہستی اپنی لے ہی ڈُوبا مجھے یہ عشق سمندر صاحب ایسی حالت میں کوئی جینا بھی کیوں چاہے گا؟ زندگی ہو گئی جب موت سے بدتر صاحب دیکھنے میں تو وہ ہم جیسے ہی انساں ہیں، مگر کیسے بن جاتے ہیں دل لوگوں کے پتھر صاحب راکھ ہو جائے گا جل کر مرے ہمراہ بدن دُور رہئیے، مرے دامن میں ہیں اخگر صاحب اُس پہ مر مٹتی میں ایسی بھی کہاں ناداں تھی بات یہ تھی کہ وہ اوروں سے تھا ہٹ کر صاحب مجھ کو جس در سے ہر اِک بار ہی دھتکارا گیا پھر ضرورت مجھے لائی اُسی در پر صاحب کون جانے کہاں کب کوئی قیامت ٹوٹے سانس لیتے ہوئے اب لگنے لگا ڈر صاحب

یادوں کے جل اٹھے مرے دل میں چراغ کیوں

اٹھے دھواں جگر سے، جلے ہے دماغ کیوں مرنے کے بعد ہی ملے شاید ذرا سکوں اس زندگی میں آدمی پائے فراغ کیوں رشتہ نہیں ہے تجھ سے بظاہر تو کچھ مرا ہوتا ہے دیکھ کر تجھے دل باغ باغ کیوں شاید کہ زندگی میں کمی کوئی رہ گئی دل ڈھونڈتا ہے بیتے دنوں کا سراغ کیوں مدت کے بعد وہ جو سرِ راہ مل گیا جلنے لگے ہیں پھر سے مرے دل کے داغ کیوں

اعتراف

(نظم)

ہاں یہ سچ ہے کہ کبھی ہم نے محبت کی تھی اک نئی دنیا بسا لینے کی چاہت کی تھی کیسے دنیا سے مگر دونوں بغاوت کرتے؟ اور پھر وقت نے بھی ہم سے عداوت کی تھی اجنبی بن گئے تم، ہو گئے پابندِ رسوم اور پھر ہم نے بھی تسلیم روایت کی تھی میرے شعروں، مرے گیتوں سے جھلکنے والے تم کوئی اور نہیں مرا ہی اِک سایہ ہو جس سے پائی ہے مرے فن نے نئی ایک جلا میری سوچوں کے خزانے کا وہ سرمایہ ہو آج پرچھائیاں باقی ہیں فقط یادوں کی دھڑکنیں بند ہیں سہمی ہوئی فریادوں کی اس لئے بھی تو جدا ہوتی ہے جگ والوں سے اِک الگ سوچ ہوا کرتی ہے بربادوں کی ہاں یہ سچ ہے کہ کبھی ہم نے محبت کی تھی اِک نئی دنیا بسا لینے کی چاہت کی تھی

پرانا ہے یہ غم تازہ نہیں ہے

تجھے اس غم کا اندازہ نہیں ہے ہمیشہ سے جو سہتی آ رہی ہوں مری غلطی کا خمیازہ نہیں ہے نہ دیکھا مڑ کے شل ہونے کے ڈر سے کسا کس کس نے آوازہ نہیں ہے یہ شہرِ ذات ہے باہر کی جانب کھلے جو، اس میں دروازہ نہیں ہے ہیں کاجل کی جگہ آنکھوں میں آنسو مرے چہرے پہ بھی غازہ نہیں ہے مسافت کی جمی ہے دھول اس پر بدن میرا تر و تازہ نہیں ہے

واقف نہیں ہو تم ابھی رنگِ جمال کے

رکھنا دل و نظر کو مری جاں سنبھال کے بھائی نہ نازنین کو محبوب کی ادا بیٹا تو ماں کا لے گیا دل تک نکال کے آیا نہ ایک بار بھی تجھ کو مرا خیال قربان جاؤں میں ترے حُسنِ خیال کے ٹوٹا اگر تو پھر کبھی جڑنے نہ پائے گا کھیلو نہ میرے شیشۂ دل کو اچھال کے کچھ مصلحت تھی اس لئے خاموش ہم رہے سو سو جواب یاد تھے اک اک سوال کے آ جائے جو پسند تجھے اک نگاہ میں لائے ہیں اپنے قلب کو ایسے اُجال کے جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا کچھ عجیب ہے جویا نہیں تھے ہم کسی ایسے مآل کے شعر۲: ایک کہانی کی طرف اشارہ

اے مری جانِ غزل مجھ سے کوئی بات تو کر

یاد اپنی وہ ذرا پہلی ملاقات تو کر گیلی مٹی ہوں میں تو اس میں اُگا دے سبزہ اپنی چاہت کی ذرا مجھ پہ تو برسات تو کر گہری ظلمت میں غنیمت ہے ترا ننھا وجود اچھے جگنو ذرا روشن یہ سیہ رات تو کر دل میں ہے کیا ترے میں بھی تو ذرا جان سکوں مجھ پہ ظاہر کبھی پوشیدہ خیالات تو کر یوں نہتا نہ نکل تاک میں دشمن ہیں ابھی بے خبر رُک، ذرا اندازۂ حالات تو کر تیرے احسانوں کا بدلہ نہ چکا پاؤں میں بے سبب مجھ پہ تو اتنی بھی عنایات تو کر ایک ہی چھت تلے ناراض رہیں گے کب تک؟ تلخ ہی چاہے سہی مجھ سے کوئی بات تو کر

سنا ہے تم محبت کا عجب معیار رکھتے ہو

سروں پر آزمائش کی سدا تلوار رکھتے ہو منافق گر نہیں ہو تم تو آخر اور پھر کیا ہو؟ معافی دے کے بھی تم دل میں اپنے خار رکھتے ہو خبر بھی ہے تمہیں اس بات کی اب تک کوئی صاحب؟ تم اپنے حلقۂ احباب میں غدار رکھتے ہو سدا چنتے ہو تم آسانیاں اپنے لئے لیکن ہمارے واسطے سب راستے دشوار رکھتے ہو یہی اب تک سنا تھا پیار میں شرطیں نہیں ہوتیں نئی تم شرط میرے سامنے ہر بار رکھتے ہو تمہارے کام آتا ہے سدا اثر و رسوخ ان کا بنا کر خود کو جن کا حاشیہ بردار رکھتے ہو خدا لے جائے گا اک دن مدینے کی گلی میں بھی اگر تم دل میں سچی خواہش دیدار رکھتے ہو

وردِ لب رہتا ہے جو نام وظیفوں کی طرح

دل میں وہ شخص اترتا ہے صحیفوں کی طرح عمر بھر میں نے جسے ڈھونڈا تھا قریہ قریہ سامنے آیا جو میرے تو حریفوں کی طرح اک حسیں قافیے جیسا وہ مجھے لگتا ہے میں بھی شاید اسے لگتی ہوں ردیفوں کی طرح یوں تو ہر شخص کو ہوتی ہے شرافت پیاری جینے دیتے ہیں کہاں لوگ شریفوں کی طرح جب یہ دیکھا کہ پتہ کچھ بھی نہیں منزل کا راہ میں بیٹھ گئے تھک کے نحیفوں کی طرح بچے لگتے ہیں ہمیں بچے جواں ہو کر بھی ہم ابھی سے انہیں لگتے ہیں ضعیفوں کی طرح
کہاں پر ہم کسی کو جبر سے زنجیر کرتے ہیں دلوں کو ہم محبت سے مگر تسخیر کرتے ہیں بنایا آشیاں جب بھی نئی بجلی گری اس پر چلو پھر سے نیا اک آشیاں تعمیر کرتے ہیں ادھورے رہ گئے تھے خواب جو ویران آنکھوں کے انہی خوابوں کو آؤ مل کے اب تعبیر کرتے ہیں نئی نسلوں کو دے کر جائیں آخر کچھ تو ورثے میں ہم اپنے دور کے قصے سبھی تحریر کرتے ہیں مجسم درد بن جاتے ہیں آنسو سب کی آنکھوں میں ہم اپنی داستانِ غم اگر تصویر کرتے ہیں مجھے ان کی محبت پر ہمیشہ پیار آتا ہے مجھے کہہ کر مخاطب جب کبھی وہ ہیر کرتے ہیں

منتظر آج بھی ہوں چاہنے والوں کی طرح

آ بھی جا دل کے دریچے میں اجالوں کی طرح بوالہوس کوئی نہ جذبے مرے پامال کرے بن کے رہتی ہوں میں ہر دل میں مثالوں کی طرح مجھ پہ نیندوں کے بھی پرُ خواب دریچے نہ کھلے خود سے الجھی رہی بے رنگ سوالوں کی طرح میرے جذبوں میں ہے خوشبو میرے ارمانوں کی میرا ہر شعر ہے خوش رنگ حوالوں کی طرح بالکونی میں کھڑی سوچ رہی ہوں کب سے سالِ نو بھی نہ ہو بیتے ہوئے سالوں کی طرح ہجر کی چلتی ہیں شمشیریں جہاں چلتی ہوں اور میں سینہ سپر رہتی ہوں ڈھالوں کی طرح میں تو رہتی ہوں رفاقت کے سبھی در کھولے کوئی آتا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح جو بھی کہنا ہے تمہیں کھل کے وہ سب کہہ ڈالو مجھ کو الجھاؤ نہ بے ربط خیالوں کی طرح آئینے کستے ہیں آوازے مجھی پر عذراؔ اور میں رہتی ہوں انجانے سوالوں کی طرح

جو کشتہ ہوںد یے وہ تو فروزاں ہو نہیں سکتے

سبق ازبر ہوں جو وہ طاقِ نسیاں ہو نہیں سکتے نجانے کس کی آنکھوں پر لکھے ہیں گیت سب اس نے ہمارے نین تو رشکِ غزالاں ہو نہیں سکتے انہیں بازار میں لے آئیں کچھ سِکوں کی خاطر ہم ہمارے خواب اب اتنے بھی ارزاں ہو نہیں سکتے جنہیں ہر ایک دل میں دو گھڑی رکنے کی عادت ہو کسی صورت ہمارے دل کے مہماں ہو نہیں سکتے مسائل بیٹھ کر ہی حل کئے جاتے ہیں دنیا میں کہ شرفا اس طرح دست و گریباں ہو نہیں سکتے سمجھتے ہیں جو اپنی ذات کی وقعت کو، عزت کو کسی کے دل کو بہلانے کا ساماں ہو نہیں سکتے ہم اپنی روح کے سب زخم سو پردوں میں رکھتے ہیں ہمارے داغِ دل سب پر نمایاں ہو نہیں سکتے

بوجھل سی ہو رہی ہے فضا کچھ تو بولیے

خاموش سی ہے ٹھنڈی ہوا کچھ تو بولیے ایسا بھی کیا قصور ہے کچھ تو بتائیے کیوں آپ ہو گئے ہیں خفا کچھ تو بولیے خوش رنگ خوش نما سبھی لمحے گزر گئے اب سر پہ آ گئی ہے قضا کچھ تو بولیے پھولوں پہ آج رنگ نیا ایک چھا گیا پتوں کو چھیڑتی ہے صبا کچھ تو بولیے پہلے تو اس طرح سے نہ تھی آپ کی نظر کیا بھا گئی ہے کوئی ادا کچھ تو بولیے کھلتی ہیں ہم کو آپ کی خاموشیاں بہت دے لیجے چاہے کوئی سزا کچھ تو بولیے لکھا ہے نام آپ کا ہاتھوں پہ دیکھیے لگتا ہے کیسا رنگِ حنا کچھ تو بولیے بڑھ کے میں ہاتھ تھام تو لوں آپ کا مگر روکے ہے مجھ کو میری حیا کچھ تو بولیے بن جائیں آپ میرے ہمیشہ کے واسطے ہو گی قبول کب یہ دعا کچھ تو بولیے

نبھائیں گے وہ تقاضے بھلا وفاؤں کے؟

رہے ہیں قیدی ہمیشہ سے جو اناؤں کے سفر پہ جاتے مسافر کو کیا خبر اس کی بدل چکے ہیں خیالات ناخداؤں کے گزر چکا ہے یہاں حادثہ کوئی شاید فضا میں اڑتے ہوئے پر ہیں فاختاؤں کے بھٹک نہ جاؤ کہیں زندگی کے جنگل میں سفر میں رکھ لو یہ تحفے مری دعاؤں کے نہ بن سکیں گے کبھی بھی ضرورتوں کے غلام کہ ہم پجاری نہیں وقت کے خداؤں کے نجانے کیوں ہے اداسی بہت فضاؤں میں کہ آج اور ہی تیور ہیں کچھ ہواؤں کے سنا تھا میں نے یہ ماں سے کہ شام ڈھلتے ہی اترنے لگتے ہیں سب قافلے بلاؤں کے حرام کر لی ہے خود پر ہر اک خوشی ہم نے کہ ہم تو عادی ہیں خود ساختہ سزاؤں کے ہمیشہ رہتا ہے بخشش کا دل میں اک جذبہ بنے ہیں کون سی مٹی سے دل یہ ماؤں کے؟

جب بھی ساون کی گھٹا جھوم کے چھائی ہو گی

تجھ کو اک بار مری یاد تو آئی ہو گی دونوں ہاتھوں سے لٹاتا ہے وہ بیدردی سے باپ دادا کی یقیناً یہ کمائی ہو گی اس کی صورت بھی حسیں ہو یہ ضروری تو نہیں کیسے آواز سے اب چہرہ نمائی ہو گی آج کی رات بھی اس شخص نے حسبِ عادت پھر مرے نام پہ اک شمع جلائی ہو گی اس کے ہاتھوں میں یقیناً ہے بلا کا جادو جس مصوّر نے یہ تصویر بنائی ہو گی تیری آنکھوں میں، مرا نام کسی سے سن کر کوئی بے نام اداسی اتر آئی ہو گی ہو رہا ہے جو مرے رب کی طرف سے عذراؔ لازماً اس میں کوئی میری بھلائی ہو گی

مٹی میں ملتے جاتے ہیں کیسے چھیل چھبیلے لوگ

منظر سے ہٹتے جاتے ہیں سارے رنگ رنگیلے لوگ اک وہ دور تھا سوچ سمجھ کر رشتے جوڑے جاتے تھے دیکھ رہے ہیں آج مگر کب نسلیں اور قبیلے لوگ ہر جانب انبار لگے ہیں اب تو پتھر لہجوں کے کم ہی باقی ہیں دنیا میں مدھم اور سریلے لوگ کیسی کیسی باتیں اکثر کہہ جاتے ہیں باتوں میں دل کو کاٹ کے رکھ دیتے ہیں ظالم اور کٹیلے لوگ ہم شیشے کے شہر سے آئے، خواب ہمارے شیشے کے اس پتھر کی بستی میں تو بستے ہیں پتھریلے لوگ اپنے کرّ و فر کو لے کر خاک پہ کیسے بیٹھیں گے؟ اطلس اور کمخواب کے جیسے چمکیلے بھڑکیلے لوگ اوروں کو بھی دکھ ہوتا ہے ان کے سرد رویے سے خود کو بھی تو کھا جاتے ہیں خودسر اور ہٹیلے لوگ ۱ن کے آگے جیون جیسے کوئی کھیل تماشا ہے زیست کا مطلب کیا سمجھیں گے یہ بدمست نشیلے لوگ بچپن میں اک بات ہمیشہ میرے ذہن میں آتی تھی خوف کی شدت سے آخر کیوں پڑ جاتے ہیں پیلے لوگ دکھ کی آگ میں جل کر کب ہوتے ہیں پل میں راکھ بھلا دھیرے دھیرے سلگیں سیلی لکڑی جیسے سیلے لوگ غصے کی تہہ میں اکثر ہوتا ہے گہرا پیار چھپا دل کے میٹھے ہوتے ہیں یہ کڑوے اور غصیلے لوگ کل تک جو اس دنیا کی رنگینی کا اک حصہ تھے آج ہوئے ہیں خاک نشیں وہ کڑیل اور سجیلے لوگ تیز روی کا دور ہے عذراؔ دنیا بھاگی جاتی ہے جگ میں کیسے چل پائیں گے آخر مجھ سے ڈھیلے لوگ

کب تلک پیچھا کرے گی میرا رسوائی مری

رنگ لائے گی کبھی تو آبلہ پائی مری میں نے پوچھا اس سے آخر ساتھ کیوں چھوڑا مرا؟ اس نے ہنس کر یہ کہا فطرت ہے ہرجائی مری اس قدر حساس ہونا بھی عذابِ زیست ہے درد جب سوچا کسی کا آنکھ بھر آئی مری ساتھ رہتی ہے ہمیشہ اک سہیلی کی طرح پیچھا میرا چھوڑتی ہی کب ہے تنہائی مری میں کہ جس کے بن کبھی اک پل کو بھی رہتی نہ تھی جانے اب کس حال میں ہو گی وہ ماں جائی مری وہ کبھی مل جائے تو اس سے یہ پوچھوں گی ضرور اتنے سالوں میں کبھی کیا یاد بھی آئی مری؟

جنھیں متروک ماضی کے فسانے یاد رہتے ہیں

انھیں انمول لمحوں کے خزانے یاد رہتے ہیں مقام ان کا کوئی مخصوص دن کا ہے نہ ہے شب کا فقیروں کو کہاں اپنے ٹھکانے یاد رہتے ہیں ہنر آتا ہو جن کو زندگی تسخیر کرنے کا انہیں صحراؤں میں بھی گل کھلانے یاد رہتے ہیں بھلے ہم بھول جائیں اپنے دل کی دھڑکنیں لیکن ہمیں ہر پل محبت کے ترانے یاد رہتے ہیں وہ جن کے ساتھ ہم نے کھیل کر بچپن گذارا ہو ہمیشہ ہم کو وہ ساتھی پرانے یاد رہتے ہیں نشانہ چوک جائے یہ کبھی بھی ہو نہیں سکتا تری نظروں کو اپنے سب نشانے یاد رہتے ہیں جڑا رہتا ہے رشتہ یاد کی دہلیز سے دل کا برے ہوں یا کہ ہوں لمحے سہانے یاد رہتے ہیں

درپیش ہے جب راہ مجھے دربدری کی

پھر کیسی شکایت مری آشفتہ سری کی جو چیز چمکتی ہے وہی لگتی ہے سونا دنیا کو ہے پہچان کہاں کھوٹی کھری کی مل جائے گی تجھ کو بھی کوئی تیرے ہی جیسی مزدور کا بیٹا ہے نہ کر بات پری کی جو دیکھے تجھے تجھ پہ وہ ہو جائے نچھاور تعریف کروں کیا میں تری جادوگری کی عورت نظر آتی ہے سدا عزم کی مورت صورت میں وہ رضیہ کی ہو یا ماتاہری کی رکھے ہیں جہاں پاؤں وہاں کانٹے اُگے ہیں قسمت تو ذرا دیکھ تو مجھ بھاگ بھری کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رضیہ۔۔ رضیہ سلطانہ ماتاہری۔۔ تاریخی کردار جو مولا کا قلندر بن گیا ہے وہ قطرے سے سمندر بن گیا ہے اُسے باہر کی ظلمت کا ہے ڈر کیا کہ سُورج جس کا اندر بن گیا ہے جو کر دے چھُو کے مٹی کو بھی سونا مقّدر کا سکندر بن گیا ہے نہ کر چوکھٹ سے اپنی دُور مجھ کو ترا در اب مرا در بن گیا ہے اُسی کے نام سے عزت ہے میری وہ میرے سر کی چادر بن گیا ہے مجھے بھی اپنی قسمت مان لے وہ جو اب میرا مقّدر بن گیا ہے دکاں پر تھا تو کہلاتا تھا ریشم ملا جب مفت، کھدّر بن گیا ہے

نجانے اور کتنی آندھیاں رکھی ہوئی ہیں

ابھی قسمت نے کتنی سختیاں رکھی ہوئی ہیں صدف بننے کو جو کہ منتظر ہیں ابرِ نیساں کی رواں لہروں پہ کتنی سیپیاں رکھی ہوئی ہیں ہتھیلی پر مری چھوڑا ہے تو نے لمس یوں لب کا مرے ہاتھوں پہ جیسے تتلیاں رکھی ہوئی ہیں ڈراؤ مت زمانے کے مجھے سرد و گرم سے تم کہ اس دل میں ہزاروں تلخیاں رکھی ہوئی ہیں جلانے کو نشیمن آسماں تیار بیٹھا ہے کہیں دامن میں اس نے بجلیاں رکھی ہوئی ہیں ابھی تو تیر کر ہی ہم کو دریا پار کرنا ہے کہ اس جانب بہت سی کشتیاں رکھی ہوئی ہے

مٹی میں بھی جو لعل و گوہر ڈھونڈتے رہے

دنیا میں ہم وہ اہلِ نظر ڈھونڈتے رہے بدلا ہوا تھا اب کے تو نقشہ ہی شہر کا ہم دیر تک پرانا شجر ڈھونڈتے رہے آیا تھا وہ کہاں سے، نجانے کہاں گیا ہم اس کا ہر نگر میں ہی گھر ڈھونڈتے رہے منزل پہ پہنچ بھی گئے جتنے تھے ہم سفر ہم عمر بھر ہی رختِ سفر ڈھونڈتے رہے پہنچے جو سیدھی عرشِ معلیّٰ پہ برملا اپنی دعا میں ہم وہ اثر ڈھونڈتے رہے ناداں تھے ہم نہ جان سکے ظلمتوں کا راز لے کے چراغ شمس و قمر ڈھونڈتے رہے لوگوں نے زندگی میں پڑھی ہو نہ آج تک نامہ نگار ایسی خبر ڈھونڈتے رہے

اُداس شام کا منظر عجیب لگتا ہے

مری طرح سے یہ کتنا غریب لگتا ہے قریب جانے پہ بڑھتا ہے فاصلہ ہر دم سراب دور سے لیکن قریب لگتا ہے نجانے اور بھی کتنے دلوں کی دھڑکن ہے وہ شخص مجھ کو جو اپنا حبیب لگتا ہے اٹھا کے پھینک دوں اس کو کہیں یہ جی چاہے یہ درد کاندھے کی مجھ کو صلیب لگتا ہے بغیر نبض چھوئے حال جو سمجھ بھی گیا مجھے وہ شخص بلا کا طبیب لگتا ہے

آ، کہ ہم سانس کی لے پر کوئی نغمہ لکھیں

جو نہ لکھا ہو کسی نے وہ ترانہ لکھیں زندگی پھر سے نیا موڑ تجھے دینے کو راکھ کے ڈھیر میں بھڑکا ہوا شعلہ لکھیں بیوفا تجھ کو کہیں کیسے یہ دل مانے گا؟ کیوں نہ ہم اس کو بھی تقدیر کا دھوکہ لکھیں رات بھی پڑھ کے جسے خوف سے تھرّا جائے صبح کے چہرے پہ اِک ایسا صحیفہ لکھیں کیوں نہ ایسا کریں کانٹے جو ملے ہیں تجھ سے تیری جانب سے انہیں پیار کا تحفہ لکھیں روشنی آتی رہے جس سے گزر کے عذراؔ شب کے رستے میں کوئی خواب دریچہ لکھیں

نشانی

سنو ! جاتے ہوئے کوئی نشانی چھوڑتے جاؤ کوئی وعدہ کوئی امید اپنے لوٹ آنے کی کوئی خوش رنگ سا لمحہ یا اپنے ہاتھ کا اک لمس میرے ہاتھ پر رکھ دو شب تنہائی میں جو جگمگائے ایک جگنو سا مرے پژمردہ لمحوں کو جو پھر سے زندگی بخشے اداسی میں جو میری روح کو اک تازگی بخشے نہیں کچھ مانگتی تم سے سوائے ایک چاہت کے یا چاہت کی نشانی کے مگر یہ بھی تو میری جان تم پر منحصر ہے

مرے یقیں کی ردا تار تار کرتے رہے

وفا کو جگ میں وہ بے اعتبار کرتے رہے چلا گیا تھا بہت دور قافلہ پھر بھی ہم اپنے آپ کو نذرِ غبار کرتے رہے انھیں خبر بھی نہ تھی اور وہ بے خیالی میں ہماری وضع وہ خود اختیار کرتے رہے تمام عمر انھیں بھولنے کی کوشش کی انہی کو یاد مگر بار بار کرتے رہے یہ جانتے تھے اسے لوٹ کر نہیں آنا اک ایک پل کو مگر ہم شمار کرتے رہے لکھی گئی تھیں خزائیں انہی کی قسمت میں جو دل ہمیشہ تلاشِ بہار کرتے رہے نہ مڑ کے دیکھا تھا اک بار جانے والے نے ہم اپنی آنکھیں یونہی اشکبار کرتے رہے وہ پل جو روٹھ گئے لوٹ کر نہیں آئے انھیں منانے کی کوشش ہزار کرتے رہے

جب تک کلر کھیتوں میں ہم فصلیں نہیں اگائیں گے

تب تک غیروں کے آگے ہم ہاتھ یونہی پھیلائیں گے مزدور تو میرا باپ بھی تھا، مزدور ہیں میرے بھائی بھی ہر دور میں محنت کی ہم نے، کیوں محنت سے گھبرائیں گے؟ کب شوق ہے ہم کو جانے کا، غیروں کے ناز اٹھانے کا گر دیس میں روٹی مل جائے، پردیس نہیں ہم جائیں گے غربت کی مٹی میں رُل کر پتھر ہی ہیرے بنتے ہیں ہم کون ہیں، کیا کر سکتے ہیں اِک روز تمہیں دکھلائیں گے ہم بھیجیں کیوں پیغام انہیں، کیوں ان کو پاس بلائیں ہم گر پیار ہمارا سچا ہے وہ لوٹ کے خود آ جائیں گے تم پُوج رہے ہو آج جنہیں، سچائی کی مورت کہہ کر اِک دن ان کا اصلی چہرہ دنیا کے آگے لائیں گے ہم راتوں رات امیری پر ہر گز ایمان نہیں رکھتے عذراؔ ہم اپنی محنت سے اپنی قسمت چمکائیں گے

ترے خیال کو دل سے نکالنا ہو گا

خوشی کو درد کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا دیارِ عشق کی دنیا کا یہ تقاضہ ہے متاعِ درد کو ہنس کر سنبھالنا ہو گا لپٹ کے ہم درودیوار سے ہی رو لیں گے غبار دل کا اب ایسے نکالنا ہو گا چھپا کے رکھا تھا ہم نے جو ساری دنیا سے متاعِ غم کا اثاثہ کھنگالنا ہو گا نگاہِ یار میں کوئی مقام پانے کو خود اپنی ذات کا سونا اجالنا ہو گا وہ ایک لمحہ جو عذراؔ ہمیں جدا کر دے وہ ایک لمحہ کسی طور ٹالنا ہو گا

ایک شعر

جنگ کے قصے نہ چھیڑو امن کی باتیں کرو دوستی اور زندگی کے حسن کی باتیں کرو

محبت کا قرینہ آ گیا ہے

ہمیں مر مر کے جینا آ گیا ہے انھیں بھی مل گیا کوئی رفوگر ہمیں بھی چاک سینا آ گیا ہے ترے قدموں کے نیچے میرے دل کا یہ نازک آبگینہ آ گیا ہے انھیں بھی آ گیا ہے مسکرانا ہمیں بھی اشک پینا آ گیا ہے بڑی ہی کوششوں سے آج آخر سرِ ساحل سفینہ آ گیا ہے مرے حصے میں ماں کی شفقتوں کا یہ لگتا ہے خزینہ آ گیا ہے نجانے کہہ دیا کیا میں نے ایسا ترے رخ پر پسینہ آ گیا ہے

چاہے ہاتھ آئے زمانے کا خزانہ کوئی

بھول سکتا نہیں بچپن کا زمانہ کوئی آج کے دور کے عشآق کا یہ عالم ہے ہے نگاہوں میں کوئی اور نشانہ کوئی بعد مدت کے بھی ہم پھر سے جسے سن پائیں وقت نے گایا نہیں ایسا ترانہ کوئی آج ہر حال میں آنا ہی پڑے گا تجھ کو ہم نہ مانیں گے ترا جھوٹا بہانہ کوئی جب ملے آپ تو کچھ اس طرح محسوس ہوا جیسے کھویا ہوا مل جائے خزانہ کوئی چھیڑ دینا نہ کہیں آج سرِ محفل تم یاد آ جائے اگر بھولا فسانہ کوئی جب کیا تجھ پہ بھروسہ تو یہ احساس ہوا مجھ سا ہو گا نہ زمانے میں دوانہ کوئی

اداس شب کے جھروکوں سے جھانکتے منظر

عجیب سہمے ہوئے سے ڈرے ڈرے منظر نجانے کیوں مرا ہونا نہیں دِکھا ان کو ثبوت ہونے کا مجھ سے ہیں مانگتے منظر نجانے کتنے ہی خدشوں کو ساتھ لائے ہیں عجب سلگتے ہوئے سے مرے مرے منظر دنوں کے بعد مرے دل نے آج پھر چاہا کہیں سے لائے سحر پھر وہی گئے منظر نجانے کیوں مجھے رہ رہ کے ایسا لگتا ہے مری تلاش میں جیسے ہوں چل پڑے منظر سحر کی پہلی کرن سے ہی جاگ اٹھیں گے یہ کسمساتے ہوئے اونگھتے ہوئے منظر یہ کیا مذاق ہے عذراؔ کوئی تو سمجھائے مجھے جگا کے کہاں پھر سے سو گئے منظر

تیرگی میں وہ اگر ایک دیا بن جاتا

عین ممکن تھا مرا راہ نما بن جاتا ختم کر دی تھی محمدؐ پہ نبوت رب نے ورنہ ہر غار یہاں غارِ حرا بن جاتا دے دی منصف نے سزا مجھ کو چلو اچھا ہے یہ بھی ممکن تھا مرا جرم سزا بن جاتا لوگ کہتے ہیں وہ اچھا ہے، سو وہ اچھا ہے گر برا کہتے تو وہ شخص برا بن جاتا وہ اگر میری عیادت کے لئے آ جاتے زہر بھی میرے لئے آبِ شفاء بن جاتا میں نے پوجا تھا اسے اتنا زیادہ عذراؔ اور کچھ دن نہ بدلتا تو خدا بن جاتا

یہ چھت پہ چاند کو تکنا تو اِک بہانہ ہے

تمہارا چہرہ مری دید کا نشانہ ہے ہمہی نہیں جو تمہیں دیکھ دیکھ جیتے ہیں تمہاری دید کا پیاسا تو اِک زمانہ ہے کٹی ہے آبلہ پائی میں زندگی ساری یہی ہے میری کہانی، یہی فسانہ ہے تمہارا نام ہے شامل ہر ایک دھڑکن میں وہی لبوں پہ مچلتا ہوا ترانہ ہے مرے قریب ہیں وہ اب خدا ہی خیر کرے فضا ہے مہکی سی موسم بھی عاشقانہ ہے تمہارے در کے سوا اور اب کہاں جاؤں؟ یہی تو عذراؔ مرا آخری ٹھکانہ ہے

کوئی خفا ہے تو ہے زندگی سے تنگ کوئی

رہی نہ باقی کسی دل میں بھی اُمنگ کوئی نجانے کون سے لمحے کسے نگل جائے؟ ہر اِک قدم پہ ہے بیٹھا ہوا نہنگ کوئی مجھے یہ ڈر ہے کہیں ڈور ہی نہ کٹ جائے کھلی ہوا میں اُڑائی اگر پتنگ کوئی نہ اپنا ہوش، نہ دنیا کی ہے خبر اس کو ہوا ہے تیری محبت میں یوں ملنگ کوئی تمہارے پیار کی تصویر شاہکار تو ہے نمایاں اس میں نہیں ہے وفا کا رنگ کوئی میں زندگی کا ہر اک رُخ پلٹ کے رکھ دیتی رۂ حیات میں ہوتا جو میرے سنگ کوئی کچل کے رکھ دیا جائے گا تیرے جذبوں کو اُٹھے گی جب ترے دل میں نئی ترنگ کوئی بہا ہے خون سدا بے گناہ لوگوں کا شروع جب بھی ہوئی جس جگہ بھی جنگ کوئی

نہ شکوہ آپ سے ہے اب نہ ہے تقدیر سے کوئی

شکایت ہی بھلا کیسی دلِ دلگیر سے کوئی جنھیں بیٹھے بٹھائے منزلیں ملتی ہیں کیا جانیں مسافت کی تھکن پوچھے کسی رہگیر سے کوئی تجھے پورے کا پورا اپنی نظروں میں بسا بیٹھے نہیں ہے اب ہمیں مطلب تری تصویر سے کوئی ہنسیں ہم یا کہ روئیں آج اس قسمت ظریفی پر کہ لوٹ آیا مگر لوٹا بڑی تاخیر سے کوئی محبت کے جو بندھن میں کبھی بندھ ہی نہیں پایا اُسے کیا باندھ پائے گا کسی زنجیر سے کوئی تری سادہ دلی کو کیا خبر ہو گی بھلا اس کی کھنچا آیا ہے تیرے پیار کی تاثیر سے کوئی ستم ہے یا کرم اُس کا نہیں معلوم یہ عذراؔ کئے جاتا ہے دل گھائل نظر کے تیر سے کوئی

ہر طرف مجھ کو فقط غم سے شناسائی ملی

زیست کے لمبے سفر میں یہ مسیحائی ملی زندگی بھر اس کی آمد کی رہی ہوں منتظر جس کی جانب سے نہ اک لمحہ پذیرائی ملی رقص کرتی ہیں مرے اندر بڑی ویرانیاں جب نفس میں جھانک کر دیکھا تو تنہائی ملی صبح کا بھوُلا مگر اب شام کو کیا آئے گا اس کے لہجے میں نہ کوئی ایسی سچائی ملی کب مرے غم کا مداوا کرنے آیا ہے کوئی غور سے دیکھا تو یہ دنیا تماشائی ملی چل دیے مالِ غنیمت باندھ کر سارا غنیم جیتنے کے زعم میں یہ کیسی پسپائی ملی نیک نامی لکھ لی اُس نے ساری اپنے باب میں چاہتوں کے نام پر ہم کو یہ رسوائی ملی جب بھی دیکھا لمحہ بھرکو ہم نے خود اپنی طرف کچھ طبیعت ہم کو عذراؔ اپنی گھبرائی ملی

صدائے زندگانی سن رہی ہوں

ندائے شادمانی سن رہی ہوں تمہاری داستاں سن کر لگا یوں کہ میں اپنی کہانی سن رہی ہوں چھپایا حالِ دل جو تم نے مجھ سے وہ اوروں کی زبانی سن رہی ہوں وہ اپنے ساتھ لے کر آ رہا ہے ملن کی رُت سہانی سن رہی ہوں کسی کی راز کی باتیں کسی سے بشرطِ رازدانی سن رہی ہوں میں تجھ سے بیوفا کی التجا کو برائے مہربانی سن رہی ہوں کہا کب کچھ نیا عذراؔ کسی نے وہی باتیں پرانی سن رہی ہوں

وصل قسمت میں نہیں ہے تو جدائی بھی نہ دے

اشک کو آنکھ تلک تابِ رسائی بھی نہ دے آزمائش کے میں قابل ہی نہیں میرے خدا! پاؤں ننگے ہیں تو پھر آبلہ پائی بھی نہ دے کیا کرے ایسا مسافر کہ اندھیرے میں جسے چلنا لازم ہو مگر راہ سجھائی بھی نہ دے دل سے آتی رہی آواز کوئی مدھم سی اتنی مدھم کہ جو کانوں کو سنائی بھی نہ دے دل پہ ٹوٹے جو قیامت تو نہ کیوں اشک بہیں کیا کرے کوئی اگر کھل کے دہائی بھی نہ دے ناز ہے اس کو بہت جرمِ وفا پر عذراؔ دل وہ مجرم ہے کہ جو اپنی صفائی بھی نہ دے

جلال چاہیے ہم کو نہ جاہ مانگتے ہیں

خدا کے غیض و غضب سے پناہ مانگتے ہیں وہ جنگجو ہیں کچھ ایسے کہ روزِ میداں میں شکست کھانے کو بھی اِک سپاہ مانگتے ہیں کہا جو تم نے وہ تسلیم کر لیا ہم نے کوئی ثبوت، نہ کوئی گواہ مانگتے ہیں ہیں لوگ ایسے بھی کتنے خدا معاف کرے گناہ کرنے کو تابِ گناہ مانگتے ہیں کبھی مدد تو کبھی قرض کے بہانوں سے ہمارے راہ نما گاہ گاہ مانگتے ہیں دیا ہے تو نے بہت کچھ اگرچہ بن مانگے کرم کی تیرے خدایا نگاہ مانگتے ہیں ہو ملک و قوم سے جس کو ذرا سی ہمدردی خدا سے ایسا کوئی سربراہ مانگتے ہیں نہ انتقام ہی رکھتے ہیں اپنی سوچوں میں نہ ہم عدُو کا ہی حالِ تباہ مانگتے ہیں نہیں تمنا زمانے پہ حکمرانی کی نہ پھر سے ہم کوئی یومِ سیاہ مانگتے ہیں

دھوپ اور بارش کا آپس میں بھلا کیا میل ہے

میرے مولا تیری قدرت کا عجب یہ کھیل ہے زندگی کا خون پی پی کر پلی ہے اِس لئے کتنی رنگیں، کتنی تازہ خواہشوں کی بیل ہے ہم وفا کرتے رہیں گے، وہ جفا کرتے رہیں دیکھنا ہے اِن تلوں میں اور کتنا تیل ہے بھاگتی ہی جا رہی ہے پل کو بھی رکتی نہیں زندگی ہے یا کہ کوئی تیز رو سی ریل ہے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں یہ آسائشیں زندگی پردیس کی گویا کہ میٹھی جیل ہے

تمہاری بے رخی کا کیا سبب ہے کھوجنا ہو گا

اکیلے رہ گئے ہم کس لیے یہ سوچنا ہو گا قدیم الفاظ کو معنی نئے دینے پڑیں گے اب ہر اِک منظر نئے اِک زاویے سے دیکھنا ہو گا تمہیں ہم دیکھتے ہیں اس قدر خود سے بلندی پر کہ اب نقشِ کفِ پا کو نظر سے چُومنا ہو گا تمہاری ہر رضا میں اب چھپی ہو گی رضا میری جو تم چاہو گے مجھ کو بھی وہی اب چاہنا ہو گا کہیں ایسا نہ ہو پانی مرے سر سے گزر جائے ترے بہکے ہوئے قدموں کو بڑھ کر روکنا ہو گا ہمیں تجدید پھر کرنی پڑے گی اپنے رشتے کی کہ پیمانِ وفا اب پھر سے ہم کو باندھنا ہو گا

اب ترے سامنے راستے ہیں بہت

منزلیں بھی ترے واسطے ہیں بہت گھر کے اندر کوئی پیش چلتی نہیں گھر سے باہر مگر دبدبے ہیں بہت ساتھ بیٹھے ہوئے کی خبر کچھ نہیں ساری دنیا سے پر رابطے ہیں بہت زندگی کی مسافت کٹھن تھی بڑی سچ جو پوچھو تو ہم تھک چکے ہیں بہت کیوں نگاہوں کے آگے اندھیرا سا ہے؟ یوں تو روشن یہاں قمقمے ہیں بہت جن کو کرنا ہو کچھ کر گذرتے ہیں وہ کچھ جو کرتے نہیں سوچتے ہیں بہت اِک ذرا سی خوشی پر تو نازاں نہ ہو غم کے باقی ابھی سلسلے ہیں بہت ٭٭٭ تشکر: ناشر ناصر ملک جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید ڈاؤن لوڈ کریں ورڈ فائل ای پب فائل کنڈل فائل