FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بیان

(ناول)

               مشرف عالم ذوقی

حصہ سوم

یہ ناول ضخیم ہونے کی وجہ سے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

حصہ اول کے لئے یہاں کلک کریں

حصہ دوم کے لئے یہاں کلک کریں

 

               خدا حافظ

(۱)

ان چند دنوں میں بہت کچھ ٹوٹا تھا اور بہت کچھ بنا تھا۔ بہت سے پرانے غلط ثابت ہوئے تھے اور ذہن کے بند گو شوں پر نئے خیالات نے اپنا قبضہ جما یا تھا  — مالو کی بیماری کے بعد اوما اور شمیم جیسے سہیلیاں بن گئیں۔ مالو چھوٹی سی نشی کو بہت چاہنے لگی۔ وہ گھر پر بھی ہوتی تو ماں سے نشی کے بارے میں پوچھتی رہتی۔ وہ کیا کھا رہی ہو گی؟ روہی ہو گی ؟ — کسی چیز کے لئے ضد کر رہی ہو گی  …

ان چند دنوں میں سب سے بڑی تبدیلی اوما میں آئی تھی  — بھائی صاحب نے صرف اوما کا دل ہی نہیں جیتا تھا بلکہ اوما تو پوری طر ح سے بھائی صاحب کی بھگت بن گئی تھی  — وہ اوما، جو چھو ا چھو ت کے بیچ پلی بڑھی تھی۔ مجال کہ کسی مسلم گھرانے میں کھانا کھا لے یا گلا س میں پانی پی لے  — گھر پر بھی کوئی ’ملا ‘ آ جاتا تو وہ دیکھ بجا کر دیتی یا پھر واپس آنے پر رسوئی میں کنا رے رکھ دیتی اور خوب صاف کراتی۔ وہی اوما، سوچ کے ’دہرا تل ‘ پر اب پر مپراؤں کے کتنے ہی پرانے کپڑے اتارنے پر تیار ہو گئی تھی۔

سچ کیا ہے ؟

زندگی میں کبھی اسے، اس سامنے کے سچ کو سویکار نے کی ہمت نہیں ہوئی تھی —  پرمپرائیں رسم و رواج سب اپنی جگہ ہیں اور ملنا جلنا اپنی جگہ  — اور ملنے جلنے میں دھرم کا ستیاناس تو نہیں کیا جا سکتا۔ وہی اوما اب نئے سرے سے سوچ رہی تھی۔ اوما سمے بدلا ہے۔ جو فر شتے سمے پر تیری مدد کو آئے۔ وے کون تھے ؟ نا حق چاروں طرف آگ پھیلی ہے۔ ان آگ پھیلانے والوں کے لئے اس کے من میں کافی غصہ بھرا تھا۔

اب وہ مزے سے شمیم کے یہاں کھا پی بھی لیتی  — بلکہ مانگ بھی لیتی۔ سویاں نہیں پکی ہیں  — مجھے پلاؤ بنانا سکھا دو  — شیر مال روٹی، حلوہ سوہن  — باؤ جی کو کھلاؤں گی۔ وہ خوش ہو جائیں گے۔

٭٭٭

ادھر چند دنوں میں، بالمکند شرما جوش کی صحت پر بھی کافی اثر پڑا تھا  — حالات نے دماغ پر بھی اثر ڈالا تھا  — کئی دنوں سے کیفیت یہ تھی کہ کسی سے باتیں نہیں کرتے تھے۔ بلکہ چپ چاپ بت بنے رہتے  — بہت بہت یہی ہوتا کہ اپنی کتابوں کو، بر سوں میں جمع کی گئی کتابوں کو آہ بھر کر دیکھا کرتے  — کسی کسی نادر کتاب کو نکال کر انگلیوں سے سہلایا کر تے پھر میز پر بیٹھ کر کچھ لکھنے کی کوشش کرتے مگر ذہن میں اس قدر ہلچل مچی ہوتی کہ کچھ بھی لکھ نہیں پاتے  — غصہ آتا تو کاغذ مروڑ کر ڈسٹ بن میں ڈال دیتے۔ اب کاغذ کی موڑی گئی ایسی کتنی ہی تھیلیاں ڈسٹ بن میں جمع ہو گئی تھیں  …

کبھی کبھی ٹہل ٹہل کر کسی پرانے شعر کو یاد کر نے کی کوشش کرتے مگر حالات نے حافظے پر بھی اثر ڈالا تھا  …

آنکھوں میں آنسوں آ جاتے تو گنگنا تے  …

سب کہاں کچھ لالہ  و گل میں نمایاں ہو گئیں  —

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں  —

آواز بھاری ہو جاتی تو دروازے پر پڑنے والی تھاپوں پر کان لگاتے  — کئی د ن ہو گئے۔ بر کت حسین نہیں آئے  — بھا ئی برکت حسین۔ اب تویہ پر دہ بس اٹھا چاہتا ہے  — آخری دیدار نہیں کرو گے میاں  …  بس اب ستاؤ نہیں میاں۔ آ جاؤ  — نہیں آتے۔ جاؤ مت آؤ  — یہ آندھیاں تو سبھی چراغ گل کئے دے رہی ہیں  — اب تم کیا آؤ گے میاں۔ اب ہم بھی چلے  — اب یہاں سے جی روٹھ گیا میاں۔

خالی بساط نکال کر بیٹھ جاتے  — یادوں کی آندھیاں چلتیں تو خالی بساط پر ٹپ سے کوئی آنسو کا قطرہ گر پڑتا۔ مگر وہاں اس زخمی قطرے کا پر سان حال ہی کون ہوتا  —

انیل اور نریندر کو بھی لگ رہا تھا کہ اب باؤجی کی ’چلی چلی ‘ ہے  — یہ خاموشی اچھی نہیں  —

انیل کو غصہ آتا تھا  — باؤجی خو د تو چلے جائیں گے اور جائیداد کے لئے ہمیں لڑنے مر نے کے لئے چھوڑ دیں گے  —

نریندر کو غصہ کم آتا تھا۔ لیکن نریندر بھی یہی سوچ رہا تھا۔ باؤ جی اپنی زندگی میں اگر بٹوارہ کر دیتے تو کیا بگڑتا  — اور باؤ جی تھے کہ بٹوارے کے نام پر دونوں کا چہرہ ٹکر ٹکر گھور تے۔ پھر ایک مایوس کن سانس چھوڑ کر لیٹ جاتے  — کہ میاں، بٹوارے کے بعد بھی، کون جانے، تم آپس میں مل کر رہتے ہو یا ایک دوسرے سے جھگڑتے ہو، پھر بٹوارہ کیا کرنا۔ آگے کا خدا حافظ —

٭٭٭

اور سچ مچ اس مکان کا خدا حافظ تھا۔ با ؤ جی کے بیٹھکے پر انیل کی نظر تھی۔ وہ اسے اپنا بزنس چیمبر بنانا چاہتا تھا — وہ باؤ جی کے کمرے میں جب بھی آتا۔ خالی پڑے، spaceکو دیکھ کر سوچا کر تا  …  صوفے کہاں لگیں گے visitorsکے بیٹھنے کی جگہ کون سی ہو گی  — فائلیں کہاں رکھی جائیں گی  …

باہر کے حصے پر نریندر کی نظر تھی  — پارٹی میں اپنا اثر رسوخ اور دبدبہ قائم کر نے کے لئے وہ یہ جگہ پارٹی آفس کے نام کرنا چاہتا تھا۔ اور یہ بات اسے بخوبی پتہ تھی کہ باؤجی کی زندگی تک یہ ممکن نہیں  — ایک دو بار اس سلسلے میں اس نے دبی زبان میں باؤجی سے بات کر نے کی کوشش کی تو باؤ جی نے ایسے دیکھا جیسے وہ ان کی موت کا سودا کر نے آیا ہو  — پھر اس کی ہمت نہیں ہوئی  — شہر کے آسمان پر فرقہ واریت کے گدھ لگا تار گھوم رہے تھے  —

٭٭٭

(۲)

شام کی پر چھائیوں نے شہر کو ڈک لیا تھا۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب دفتر کے اوقات ختم ہوتے ہیں اور تھکے ہارے لوگوں کا قافلہ دفتروں سے نکلتا ہے اور سڑکوں کی طرف کوچ کرتا ہے۔ چائے خانوں اور پان کی دوکانوں پر رونق آ جاتی ہے۔ چوراہوں پر رکشے، ٹم ٹم والے اور اوٹوں والے کے ہنگامے گونجنے لگتے ہیں  — جھنڈ کے جھنڈ لوگ دفتروں سے باہر نکلتے ہیں اور ایک دوسرے سے باتیں کرتے، قہقہے چھوڑتے، گھر کی طرف چل پڑے ہیں  —

دفتر کب کا اٹھ چکا تھا۔ لیکن آج منا کے نصیب میں کچھ زیادہ ہی کام تھا۔ کچھ واؤچر چیک کرنے تھے۔ کچھ حساب جوڑنے تھے۔ اس لئے دوسرے ساتھیوں کے جانے کے بعد بھی وہ اپنی جگہ بیٹھا تھا اور فائلیں چیک کر تا رہا  — آج صبح سے ہی منا کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ صبح میں اٹھنے کے بعد پتہ نہیں کیا جی چاہا کہ نشی کو اٹھا کر خوب خوب پیار کرنے لگا۔

شمیم نے ٹوکا۔ آج دفتر مت جائیے۔

منا کے دل میں پھر سے ہلچل ہوئی  —

’’کیوں نہیں جاؤں ؟‘‘

ایک دن نہیں جانے سے کا ہو گا ؟‘‘

’’نہیں جانے کی کچھ تو وجہ ہونی چاہئے۔ ‘‘

 ’’بھرا بھرا گھر اچھا لگتا ہے  …  ‘‘

 شمیم کہتے کہتے رک گئی  —

 ’’نہیں جانا ضروری ہے  — ‘‘

 منا دفتر تو آ گیا۔ لیکن شمیم کی کہی گئی بات اسے بار بار یاد آ رہی تھی۔ ایک دن نہیں جاتا تو کیا ہو جاتا — گھر میں رہتا۔ بیوی بچوں کے سنگ  — دل کا دھڑکنا بدستور جاری تھا  —

٭٭٭

بجلی آفس کے ٹھیک سامنے، سڑک کے اس پار چائے اور پان کی دکان پاس پاس تھی۔ دکان کے پاس رکشے والے ’چوک ‘ چوک ‘ چلاتے ہوئے آدمیوں کے ہجوم کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس ہجوم میں سے ایک آدمی نکلا۔ چار خانے کی لنگی پہنے۔ ایک چور ملیدہ کرتا پہنے اور سر پر گول ٹوپی  — قد ٹھگنا۔ وہ سامنے سے آتے ہوئے رکشہ والے سے ٹکراتے ٹکراتے بچا  — پھر پان والے کی دکان کے پاس کھڑا ہو گیا — وہ کوئی ایساآدمی نہیں تھا جس پر بہت دھیان دیا جاتا یا اس کی حر کتوں پر غور کیا جاتا — اس کی نظر بھی آفس کے گیٹ پر ٹکی تھی  — دیکھنے میں بس وہ ایک عام سا ملا نظر آ رہا تھا۔

 کافی دیر بعد گیٹ پر منا کا چہرہ نظر آیا۔ چہرے سے وہ بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ منا گیٹ پر ایک لمحے کو ٹھہرا۔ پھر دائیں طرف مڑ گیا۔

رکشے والے اب بھی چیخ رہے تھے  …  چوک چلو۔ چوک چلو۔

ایک نے پوچھا  —

’’چوک چلنا ہے بابو جی۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

منا نے سر ڈلا دیا —

اور دیکھتے دیکھتے سڑک پر ہنگامہ مچ گیا —  چیختا تڑپتا ہوا منا زمین پر گر پڑا کچھ لوگوں نے تیزی سے لنگی اور ٹوپی پہنے، ملا کو بھاگتے ہوئے گلی میں دیکھا تھا۔

سڑک پر افرا تفری مچ گئی —  شہر کی فضا مہینوں سے خراب تھی۔ اس لیے کسی نے بھی جائے واردات پر رکنا مناسب نہیں سمجھا۔ جس کو جہاں موقع مل رہا تھا تیزی سے بھاگ رہا تھا —

دکانوں کے شٹر جلدی جلدی گرنے لگے۔

کچھ ہی دیر میں پولیس کا سائرن بھی سڑک پر گونجنے لگا —

٭٭٭

نیل کنٹھ کی جیپ تیزی سے نلکانی کے گھر پر رکی۔ نریندر اور نیل کنٹھ جیپ سے اتر کر تیزی سے گھر کے اندر بڑھ گئے —

نریندر کا چہرہ ستا ہوا لگ رہا تھا۔

نیل کنٹھ کے چہرے پر بھی تھکاوٹ کے آثار تھے —

’’پریشان ہوا!‘‘

’’نلکانی نے گلاس آگے بڑھایا۔ ‘‘

’’ہاں  — ‘‘

ملا کہاں گیا — ؟

’’اسے دو چار دن کے لیے لاپتہ کرنے کا انتظام ہو گیا ہے۔ پکڑا گیا تو باقی معاملات بعد میں سنبھال لیے جائیں گے — ‘‘

’’ہونہہ — ‘‘

نلکانی نے ٹھنڈی سانس بھری۔

’’ڈاکٹر نویندو سے ملے؟‘‘

’’نہیں  — ‘‘

’’عام مسلمانوں کی کیا پرتیکریاReaction ہے؟‘‘

نیل کنٹھ نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا —  ’’یہ خبر پھیل چکی ہے کہ کسی مولوی نے مارا ہے —  کیوں مارا ہے کا جواب اتنا ہے کہ اپنے مذہب کا ہوتے ہوئے بھی منا اپنے مذہب کے خلاف لوگوں کا بھڑکا رہا تھا —  سبھی منا کے خلاف ہو رہے تھے۔ اس لیے منا کے بارے میں جانے کا کسی کو غم نہیں ہے — ‘‘

نیل کنٹھ چپ ہوا تو نلکانی نے اسے غور سے دیکھا۔ نلکانی کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی تاثر نہیں تھا۔ اس کے برخلاف چہرے پر ایک ہلکی سی اداسی دیکھی جا سکتی تھی …

’’بیچارہ — ‘‘ وہ دھیرے سے بڑبڑائے —  ’’یہ خبر ہم پانچ لوگوں کو ہے۔ ہمیں تم دونوں کو سیندھو اور ڈاکٹر نویندو —  پارٹی کا یہ کرتاؤں میں اس کا Reaction کیا ہے؟‘‘

نیل کنٹھ بولا — ’’ میں کچھ سے مل کر آ رہا ہوں۔ سب جگہ آ کروش ہے — ‘‘

’’اور شہر کا واتاورن؟‘‘

نریندر دھیرے سے بولا —

’’کیا جو ہو گیا ہے وہ کافی نہیں ہے۔ ‘‘

اس کی آواز دم توڑتی ہوئی تھی —

نلکانی چونک گئے —  نریندر۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو نریندر؟‘‘

نیل کنٹھ نے دیکھا۔ نریندر کے چہرے پر ایک عجیب سا پیلا پن خوف کی طرح چھایا تھا۔

نلکانی ٹھہر کر بولے۔ ’’پانی پیو —  تم کیا سوچتے ہو نریندر۔ ہمیں کوئی خوشی ہے ایسا کرتے ہوئے ہمیں سکھ ملا ہے —  ارے بھائی تھا ہمارا وہ۔ ان چند دنوں میں جگری یار بن گیا تھا اپنا —  نریندر ہم کوئی دشمن تھے اس کے  —  کیوں نیل کنٹھ — ‘‘

نلکانی کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے —  ’’تم کیا جانو نریندر۔ میں اسے کتنا ماننے لگ گیا تھا۔ تم سے، نیل کنٹھ سے بھی زیادہ۔ وہ چپ رہتا تھا۔ مگر بات پلے درجے کی بولتا تھا —  میں اسے بیٹے کی طرح چاہتا تھا۔ ہاں نریندر۔ شاید تم اسے مت مانو۔ مگر یہی صحیح ہے۔ میں اسے پریم سے ادھک اور وشواس سے کم چاہتا تھا۔ اس لئے کہ یدی کسی سے پریم کرو تو بڑھتا جاتا ہے۔ ادھک وشواس کرو تو وشواس ایک موڑ پر آ کر گھسی ہوئی رسی کی طرح کمزور اور ٹوٹنے لگتا ہے —  وہ بھی گھسنے اور ٹوٹنے لگا تھا — ‘‘

نلکانی کے آنسو اب کپول (گال) پر بھی تیرنے لگے تھے۔ نلکانی نے کھردرے ہاتھوں سے آنسو صاف کئے۔ پھر بولا۔  —

’’وہ بیٹے سے بڑھ کر تھا ہمارے لیے۔ پرنتو۔ ہمیں کھید تو اسی بات کا ہے کہ وہ ایک بھینکر قسم کی دویدھا میں پھنس گیا تھا —  اور ہمیں دھرم کے لیے اسی کا بلیدان لینا پڑا —  تم کیا سمجھتے ہو۔ کیا اس کے بلیدان سے ہمیں پرسنتا ہوئی ہے۔ ؟‘‘

ٹھیک اسی سمے دندناتے ہوئے سدھیندورائے پہنچے —  ’’کیا خبر ہے؟‘‘

نلکانی جیسے اسی کا انتظار کر رہے تھے —

’’منا نے اسپتال پہنچتے پہنچتے دم توڑ دیا —  اور۔ ‘‘

’’اور کیا  — ؟‘‘

ہمارے کاریہ کرتاؤں نے غصے میں کھیم پور اور اکبر پورہ میں کئی دکانوں جلا کر راکھ کر دیں  —

باہر گاڑی رکی تھی۔ ڈاکٹر نویندو دھیرے دھیرے نپی تلی چال سے اندر آئے —

’’ہاتھ ملاؤ نلکانی — ‘‘

انہوں نے اپنا ہاتھ جوش میں آگے بڑھایا —

’’فساد بڑھ رہا ہے — اب یہ فساد جلد نہیں رکے گا — ‘‘

نلکانی کسی سوچ میں ڈوبے رہے —  انہوں نے ڈاکٹر نویندو کی طر ہاتھ بڑھایا —  گہر ی سوچ میں ڈوبے، صرف ان کے ہونٹوں سے اتنا نکلا۔

’’کیول دھرم کا کام —  ورنہ یدھ کسے پسند ہے؟ کیول ایک لمبے انترال سے چلی آ رہی داستان کی سماپتی کے لیے —  کبھی کبھی دھرم چھیتر اور کرم چھیتر کی آوشکتا پڑتی ہے —  نیل کنٹھ، کورو اور پانڈو کا یدھ کیا تھا؟ بھائیوں کا یدھ تھا کیا؟ نہیں نا۔ ستیہ، استیہ، جھوٹ وشواس، گیان آ گیان، اجالے اور اندھکار کا یدھ تھا —  لیکن بھائیوں سے ہی یدھ چھیڑتے سمے ارجن کے من میں جو شنکائیں (ڈر) اور موہ گھس گیا تھا وہی میرے من میں بھی ہے۔ پرنتو کیا کیا جا سکتا ہے‘‘

ابھی کرنا یہ ہے، ڈاکٹر نویندو مسکرائے۔ ہمیں اپنے اپنے گھر میں جا کر چین کی بنسی بجانی ہے۔ میری گاڑی باہر ہے۔ جو چلنا چاہیں انہیں چھوڑ آتا ہوں۔

چلئے —

نلکانی بوجھل ہو کر بولے —

جب وہ لوگ باہر آئے، شہر کی سڑکیں سناٹے میں ڈوب چکی تھیں  —

اور پولیس گاڑیوں کے سائرن چاروں طرف چیختے چل رہے تھے —

٭٭٭

چودھری برکت حسین کے لیے اس صدمے کی نوعیت عجیب تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے منا کی موت کا ماتم کریں یا خوشی منائیں کہ چلو ایک بلا ٹلی۔ جو افواہیں گشت کرتی ہوئی ان تک پہنچ رہی تھیں، ان کے حساب سے منا کسی مجرم سے کم نہیں تھا۔ ایک ایسا مجرم، جس کے مر جانے میں ہی بھلائی تھی۔ مگر باپ کا دل، ناتواں کندھے —  ناتواں کندھوں پر اپنے جوان بچے کی لاش —  شمیم اور جمیلہ پر یہ خبر دکھ کے پہاڑ کی طرح ٹوٹی تھی۔ شمیم پر تو غشی طاری تھی۔ اس کے مائیکے کے لوگ بھی آ گئے تھے —

برکت حسین کا دل بیٹھ گیا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا —  پولیس کسٹڈی سے ہو کر لاش جب گھر لائی گئی تو منظر ہی دوسرا تھا —  زیادہ تر بھاجپا کے کاریہ کرتا تھے۔ جو انہیں سانتونا اور تسلی دے رہے تھے مگر اندر تک غم میں ڈوبے برکت حسین سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ ان تسلیوں کا جواب کس طرح سے دیں  —  ان لوگوں نے یہ یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ منا کے قتل کے پیچھے کسی پاکھنڈی ملا کا ہاتھ ہے اور وہ ضرور پکڑا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ منا کا بدلہ لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

بہت دیر سے چپ برکت حسین کی آواز بھر گئی۔

’’لوگو! اب مجھ سے کیا چاہتے ہو —  مجھے جو کھونا تھا وہ تو میں نے کھو دیا —  اپنا یقین، اپنی وفاداری اور اپنا بیٹا …  یہ محلے والے بھی مجھے ہی گناہ گار سمجھتے ہیں …  دیکھو، کوئی نہیں آیا …  کوئی نہیں آیا — ‘‘

وہ زار و قطار رو رہے تھے …  ماحول میں سناٹا پسرا تھا۔ یہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ جو ان کے آنسوؤں کو پونچھ سکتا —

٭٭٭

نریندر نیل کنٹھ کو کنارے لے جا کر بولا۔

’’یہ کیسی پرتکچھا ہے دوست؟‘‘

نیل کنٹھ نے نظریں نیچی کر لیں  —

نریندر نے اپنا پرشن دوبارہ دہرایا …

’’یہ کیسی راجنیتی ہے — ؟‘‘

نیل کنٹھ نے دھیر ے سے آنکھیں اٹھائیں  —

نریندر نے پھر پوچھا۔ ستیہ مارگ کیا ہے؟

دھرم کیا ہے؟

کرم کیا ہے؟

نیل کنٹھ نے سگریٹ سلگا لیا —  شاسک کو یہ شوبھا نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کا کوئی پرشن پوچھے۔ راجیہ نرمان کے لیے جو اچت بنے، وہ اسے کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کے لیے مارگ کی بادھاؤں کو ہٹانا ہوتا ہے —

نریندر نے چونک کر نیل کنٹھ کی طرف دیکھا —  آج تم نلکانی کی بھاشا میں بات کر رہے ہو —  شاید یہ اس سمے کا ستیہ ہے اور تمہارے لئے اُچت، راجہ اپنے راج کو بچانے کے لیے یدھ چھیڑتا ہے اور یدھ میں مارا کون جاتا ہے۔ راجیہ کی جنتا، راجہ کے سپاہی، راج کے سپاہ سالار —  ایک بات یاد رکھو، ہم راجہ نہیں ہیں  —  سپاہ سالار بھی نہیں۔ ہم جنتا ہیں اتھوا مورچہ پر شہید ہونے والے سپاہی۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘

نیل کنٹھ نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ ’ تمہارے بھیتر یہ دربلتا کیسے آ گئی۔ ‘

’’پتہ نہیں  —  شاید اس لیے —  میری بھی پتنی ہے۔ بچے ہیں، پریوار ہے — ‘‘

اندر سے شمو کے چیخ چیخ کر رونے کی آواز آ رہی تھی …  نریندر کی آواز تھرتھرا گئی۔ نیل کنٹھ نے شنکا  (شک) سے پوچھا —

’’تم لوٹنا چاہتے ہو کیا — ‘‘

’’نہیں مجھے۔ بس ڈر لگ رہا ہے — ‘‘

نیل کنٹھ پھر کچھ نہیں بولا۔ چپ ہو گیا —

٭٭٭

(۳)

کہانی ختم ہو گئی، اب تھوڑے بہت واقعات بچے ہیں، جنہیں آپ تک پہنچانا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں  — منا کو جس آدمی نے مارا، کوئی ضروری نہیں ہے کہ اس آدمی کے بارے میں بھی آپ کو جانکا ری دی جائے، مگر جنا ب وہ آدمی ہے ہی ایسا، کہ میرا دل چاہ رہا ہے، مختصر میں اس کے بارے میں بھی بتاتا چلوں۔

اس کا کیا نام ہے۔ اس کو بھی نہیں پتہ — لیکن وہ چمولا مداری کے نام سے کبھی جانا جاتا تھا  — چمولا مداری  — کہاں پیدا ہوا، ملک کون ہے ؟وطن کون سا ہے۔ وہ ان سب سے انجانا ہے۔ پیدا ہوا تو ایک مداری دکھانے والے کے ساتھ ساتھ تھا۔ مداری کہتا۔ بول چمورے۔ تیرا دھرم کیا ہے۔

وہ کہتا پیسہ دھرم ہے  —

وہ پوچھتا تیرا کرم کیا ہے —

چمولا بولتا۔ سرکار مائی باپ پیسہ ہی کرم ہے  —

تماشہ دکھا تے دکھاتے وہ سر کس میں بھرتی ہوا۔ پھر وہاں سے نکل کر ہاتھ کی صفائی دکھاتا رہا  — وقت کے ساتھ مداری اور چمولا کے تماشے میں لوگوں کی دلچسپیاں ختم ہو گئی تھیں  — پھر چمولا نے پیسوں کے لئے افیم اور چرس بیچنا شروع کر دیا۔ منا کی ہتیا کی بات آئی تو چمولا اچھے پیسوں کے عوض فورا ً ہی رام ہو گیا۔ سر پر ٹوپی چڑھا کر اور لنگی پہن کر وہ سچ مچ ملا ّبن گیا  — ملاّ پکڑا بھی گیا اور چھوٹ بھی گیا۔ اب کیسے چھوٹ گیا اُسے جانے ہی دیجئے۔ جیسے بڑے بڑے ہتیارے اور اپرادھی چھوٹ جاتے ہیں  — اور آرام سے سینہ تانے معزز شہریوں کی طرح کار، ایئر کنڈیشن گاڑیوں میں میں گھومتے رہتے ہیں۔ ملاّ چمولا بھی چھوٹ گیا اور پھر اپنے دھندے میں لگ گیا۔

٭٭٭

منا کی موت کے بعد شہر کی فضا کچھ زیادہ ہی خراب ہو گئی  — بپھرے ہوئے لوگوں پر قابو پانا اس بار پولس کے لئے آسان ثابت نہیں ہوا۔ اور جیسا، اس طرح کے دنگوں کے بارے میں، افواہ بطور کہا جاتا ہے کہ اس میں پولیس کی بھو میکا بھی رہتی ہے۔ کئی دکانیں نذر آتش کر دی گئیں  — مکانوں میں آگ لگا دی گئی  — سڑک پر سے کھینچ کھینچ کر لوگوں کو مارا گیا  — پورے چار دن تک آگ اور خون کی بارش اس شہر میں ہوتی رہی  — گو بالمکند شرما جو ش کا مکا ن اِن خطروں سے باہر تھا  — مگر دہشت تھی، یا کیا تھا، ایک صبح وہ اپنے بستر پر مردہ پائے گئے  —

مردہ پائی جانے والی صبح سے پہلے کی کہا نی لوگ اس طرح بیان کرتے ہیں  —  رات اپنے دامن میں قیامت خیزسناٹا لیکر آئی تھی۔ منا کی موت کی خبرسننے کے بعد وہ جیسے ادھ مرے ہو گئے تھے۔ خبر لانے والے کو بری طرح سے ڈانٹ دیا۔ مر گیا یا قتل کر دیا گیا تو میں کیا کروں۔ یہاں زند ہ کو ن ہے —  پھر بسترپر اکڑوں، بیٹھ گئے —  چپ — بچوں نے کھانے کے لئے پوچھا تو سیدھا انکار کر دیا  — اوما کھانا لیکر آئی تو پلیٹ پھینک دیا۔ کسی سے بات چیت نہیں  —  مرنے کے روز تک وہ گم سم رہے۔ ہاں انہیں دیکھ کر ایسا لگتا تھا، جیسے انکے اندر کوئی ذہنی کشمکش چل رہی ہو — نریندر اور انیل باؤجی کے پاس ا ٓکر اداس سے بیٹھ جاتے مگر وہ نظر تک اٹھا کر ان کی طرف نہ دیکھتے۔ کھانے کے نام پر ان کے تیور بدل جاتے اور شہر میں پھیلا ہوا لہو جیسے ان کے آنکھوں میں سمٹ آتا — جس رات وہ مردہ پائے گئے، اس رات  — شہر میں فساد تھما نہیں تھا۔

بالمکند بستر سے اٹھ کر بالکنی پر آ گئے  — دکانیں بند  — سڑک پر لوٹتا ہوا سناٹا۔ اور آس پاس سے اٹھتا ہوا دھواں۔ اندھیرے کمرے میں دور تک دھوئیں کی چادر بچھی ہوئی تھی  — چیخنے اور چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں  —

’اُس رات پڑوس میں جم کر دو فرقوں کے در میان تصادم ہوا  — دکانیں لوٹی اور جلائی گئیں  — بالمکند گھبرا گھبرا کر بالکنی پر بھاگتے۔ پھر کمرے آ جاتے  —

رات کے بارہ بجے ہوں گے کہ وہ تیز تیز آواز چیخے  …

’’ارے کوئی ہے  … کوئی ہے۔، ،

نریندر بھاگا بھاگا آیا تو ان کی آنکھوں سے چنگاریاں ابل رہی تھیں۔

’’قلم کس نے چرا لیا؟‘‘

’’قلم کون چرائے گا باؤ جی۔ آپ نے ہی کہیں اِدھر اُدھر رکھ دیا ہو گا۔ ‘‘

وہ بپھر گئے۔ کون چرائے گا۔ تم لوگ چراؤ گے میاں۔ اور کون چرائے گا۔ لاؤ مجھے کچھ لکھنا ہے  —

نریندر نے دبی زبان میں کچھ کہنا چاہا۔ آپ بیمار ہیں۔ آپ کی صحت اچھی نہیں بالمکند غصّے میں پڑ گئے  — ’’صحت اچھی نہیں ہے۔ اس سے تمہیں مطلب میاں۔ میں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ تم لوگ کوئی سازش کر رہے ہواس بڈھے کے لئے۔ لاؤ میرا قلم۔ مجھے کچھ لکھنا ہے  — ، ،

’’مگر کیا لکھنا ہے  — ، ،

نریندر ملائمیت سے بولا مگر بالمکند فائر ہو گئے  — لکھنا ہے تم ہمارے بیٹے نہیں ہو —  عاق کرتا ہوں میں تم دونوں کو  — پوچھتے ہو کیا لکھنا ہے۔ ارے قلم لاؤ میاں  — مجھے بیان دینا ہے  — مجھے اپنا بیان لکھنا ہے  —

نریندر نے اس کے بعد کوئی سوال نہیں کیا۔ چپ چاپ گیا اور مالو  کا قلم لا کر ان کے ہاتھوں میں تھما دیا  — بیچ بیچ میں دبے پاؤ آ کر باؤجی کا جائزہ لیتا رہا۔ وہ کر سی پر بیٹھے، میز پر کاغذ قلم لئے کچھ لکھ رہے تھے  — بہت غصے اور تناؤ میں تھے۔ لکھتے تھے اور پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈال دیتے تھے  — باہر دنگوں کا شور اب بھی صاف صاف سنائی دے رہا تھا اور ایک بوڑھا اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا، پتہ نہیں کیسے بیان تحریری شکل دینے میں لگا تھا —

دوسرے دن اوما باؤجی کو جگا نے آئی تو وہ مرے پڑے تھے۔ ڈسٹ بن میں کاغذات کے ڈھیر پڑے تھے  — انیل اور نریندر نے سارے کاغذات چھان مارے۔ شاید مرنے سے پہلے باؤ جی کو وصیت کا خیال آ گیا ہو  —

مگر انھیں اب کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ ہاں اردو کی چھوٹی سی چٹ تھی، جسے انیل نے چپکے سے اپنی جیب میں ڈال لیا  —

٭٭٭

اس کے بعد کی کہانی کچھ بھی نہیں ہے جناب، سوائے اس کے، کہ ہم پانچوں ان کی موت کے گواہ رہے ہیں  … ہم پانچوں جنھیں وہ پیار سے پانچ پاپی کہتے تھے  — اور میں انہی پانچ پاپیوں میں سے ایک ہوں، جس نے بالمکند شرما جوش کی یہ کہانی آپ تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی ہے  — میں ان پانچ پاپیوں میں سے کو ن ہوں، یہ زیادہ اہم نہیں  — ہاں ضروری یہ ہے کہ جس دن وہ مرے، ہم نے ان کے جنازے میں شرکت کی اور جو کچھ دیکھا اسے پورا پورا آپ تک پہنچانا اپنا فرض سمجھا — جس دن وہ مرے ’ان انتیشٹھی ممکن نہ ہو سکی۔ شہر فساد اور کرفیو کی لپیٹ میں تھا   — شرما جی کی لاش برف کی سلیوں پر رکھ دی گئی تھی۔ مرنے کے دوسرے د ن کرفیو میں دو گھنٹے کی ڈھیل دی گئی  — اوراسی دو گھنٹے میں ان کی انتیشٹھی کا فیصلہ لیا گیا  — گو کرفیو والے دن بھی ان کا انتم سنسکارممکن نہ تھا کہ وہ کچھ دور دراز رشتے داروں کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں اوریہ دکھ بھری سوچنا ٹرنک کال کے ذریعہ ان تک پہنچا دی گئی ہے۔ انتیشٹھی دوسرے دن تھی —

٭٭٭

               قصہ ختم

جوش صاحب کے مرنے بعد کی خبر دھیرے دھیرے شہر میں پھیل چکی تھی۔ شہر کی حالت خراب ہونے کے باوجود ان کے یہاں آنے والوں کا تانتا سا بندھ گیا تھا —  ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں عرش پیامی، نذیر بنارسی اور دیگر ہم پیشہ قسم کے لوگ حاضر ہو چکے تھے۔ سب کے چہرے پر غم کی بدلی چھائی ہوئی تھی۔

برآمدے میں کرسیاں نکلی ہوئی تھیں۔ اندر کمرے سے ٹھہر ٹھہر کر رونے کی آواز اور سسکیوں کی آواز باہر آ جاتی  — ہمیں ایسا پہلی بار لگ رہا تھا کہ جوش صاحب محض ہمارے لئے ایک دلچسپ کردار نہیں تھے۔ وہ کچھ اور بھی کہتے تھے۔ ہمیں پتہ نہیں کیوں، یہ بھی لگ رہا تھا جوش صاحب کے مر جانے سے کچھ، پیدا ہوا ہے جسے ہم کبھی بھرا نہیں جانے والا خلا بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کیسا خلا اس کے بارے میں ابھی ہم صاف نہیں تھے  — جو ش صاحب اور ان کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔

ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ ان کے بڑے لڑکے انیل نے ہمیں کچھ اشارہ کیا  —  اس سے پہلے ہمیں انیل نے کبھی منہ تک نہ لگایا تھا۔ ہم چونکے ضرور تاہم انتظار کرتے رہے کہ وہ کیا ہے  —

برا مت مانئے گا  — ، انیل ہمیں کنارے لے جا کر بولا۔ آپ پتا جی کے ملنے والوں میں سے تھے۔ اس لئے پوچھ رہا ہوں  — پتا جی کے بارے میں آپ لوگوں کی کیا رائے تھی ؟،

 ’’رائے؟ ‘‘

ہم ایک دم سے بھونچک ہو گئے۔ یہ مرحوم شرما جی کے بارے میں تاثر لینے کا کون سا وقت ہے  —

حبیب کے چہرے پر ناراضگی پیدا ہوئی۔ وہ بولا اس کا مطلب  — ‘دراصل وہ آخری وقت میں خبطی ہو گئے تھے۔ ہمیں تو کچھ سمجھتے بھی نہیں تھے۔ سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے تھے۔ مرنے سے، ایک ماہ پہلے سے وہ ایک بات بار بار کہتے تھے کہ …  وہ کوئی بیان دینا چاہتے ہیں  — ‘انیل نے ہماری طرف دیکھا  — ہمیں آشچریہ ہے  — شاید آپ کو اس بارے میں کچھ پتہ ہو  —

’ہاں ہمیں بلایا تو تھا  — ‘باقر مرزا کہتے کہتے رک گیا  —

حبیب تنویر نے کہنی ماری  — لیکن وہ کچھ بتا سکنے کے قابل نہیں تھے  … ان کی طبیعت کچھ خراب سی تھی  — پتہ نہیں۔ ہو سکتا ہے ہمیں بھی کچھ کہنے کے لئے ہی بلایا ہو مگر  — ‘

’ہم اور نریندر سمجھتے تھے کہ شاید گھر اور جائیداد کو لیکر وصیت کے بارے میں کچھ باتیں کریں گے۔ ہم خوش بھی ہوئے تھے  — لیکن ہم نے وصیت کی بات چھیڑی تو ہمیں بری طرح جھڑک دیا۔ کمرے میں ٹہلتے رہے۔ یہ تھی ان کی پرتیکریا  — بار بار ہم سے چیخ کر کہتے۔ بد تہذیبو ! ناسپیؤ تم لوگوں نے جنازہ نکال دیا۔ میری نسل ختم کر دی۔  نریندر کی پتنی بولی کہ باؤ جی ایسا کیوں کہتے ہو۔ ہم بھی تو آپ ہی کے بچے ہیں تو بگڑ گئے۔ یہ ہمارے بچے ہیں کہاں یہ تو  — اب بتائیے۔ بہوؤں کے سامنے ایسا بولنا کیا شوبھا دیتا ہے  — ‘انیل نے باری باری سے ہماری آنکھوں میں جھانکا۔ تو آ پ کو وشواس ہے۔ انھوں نے بیان کے بارے میں آپ کو کچھ بھی نہیں بتایا۔، نہیں  — ترقی پسند کے چہرے پر سلوٹیں پڑنے لگی تھیں۔

انیل نے کچھ سوچ کر گردن ہلائی  — ہمارے باپ تھے وہ۔ باپ کے بارے کچھ غلط بات نہیں کہنی چاہئے  — وہ بھی ایسے سمے جبکہ ان کاانتم سنسکار بھی شیش ہے۔ لیکن سچ ہے۔ کبھی انھوں نے ہمیں سینے سی نہیں لگایا۔ ہم سے کبھی خوش نہیں دکھے  —  وہ گھر کو کتابوں اور شاعروں سے بھر دینا چاہتے تھے، اس نے زور دیا  — جو ہم نہیں چاہتے تھے  — وہ ایسا اور بھی بہت کچھ چاہتے تھے۔، اس نے زور دیا۔ جو ہم نہیں چاہتے تھے اور اسی لئے وہ ہم سے ناخوش رہتے تھے  —

جاتے جاتے وہ بولا  — ہاں ایک بات بتانا بھول گیا۔ ان کی بیڈسے ایک چٹ برآمد ہوئی ہے۔ جس پر اردو میں کچھ لکھا تھا  — شاید بے خبری میں کچھ لکھ رہے ہوں گے۔ لیکن  — اس نے جیبیں ٹٹولیں۔ یہاں نہیں ہے۔ شاید کہیں بھول گیا ہوں۔ پتا جی تو سنکی آدمی تھے۔ اور آخری وقت میں تو انھیں، اس کا چہرا سخت ہو گیا تھا۔ دونوں بھویں آپس میں مل گئی تھیں۔ آواز تھوڑی اونچی ہوئی۔ ڈاکٹر کا بھی یہی کہنا تھا۔ اور میرا بھی اب یہی ماننا ہے  … کہ وہ الزیمرس کے روگی ہو گئے تھے  — ‘

٭٭٭

انیل کے جانے کے بعد باقر نے معصومیت سے کہا۔ کیا بڑھؤسچ مچ خبطا گئے تھے ؟

ترقی پسند نے کہا ہمیں وہ چٹ دیکھنی چاہئے۔ آخر کیا لکھا ہے  —

یہ طے ہوا کہ ابھی سب مصروف ہیں لیکن بعد میں وہ انیل سے مل کر وہ چٹ  حاصل کر نے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے بعد ہم اندر کمرے میں آ گئے۔ برف کی سلیوں پر جو ش صاحب کا جسم ٹھنڈا پڑا تھا۔ ہمیں یہ سو چ کر دھکا لگا کہ موت کے بعد انسان کی کیا حالت ہو جاتی ہے یہ وہی بڑھؤ ہیں، ہم جنھیں چھیڑتے تھے، مذاق اڑاتے تھے  — لیکن زندگی کے بعد کا ایک سچ یہ بھی ہے  —  موت  —  سلیقہ، رکھ رکھاؤ نفاست، سب کو تج کر مردہ بے جان برف کی سلیوں پر رکھ دیا گیا تھا  —

اندر، پردے سے ٹھہر ٹھہر کر عورتوں کے رونے کی آواز گونج اٹھتی  —  الزیمرس —

 ہم ایک دو سرے کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں۔ تو کیا حقیقت یہ تھی کہ جوش صاحب آخری وقت میں سب کچھ بھو ل چکے تھے  — ’شاید ہمیں بھی — ‘احمد ربا نی بولا  —  دیکھتے نہیں تھے، وہ ہمیں دیکھ کر کیسا کیسا کرنے لگتے تھے  —

’نہیں۔ میں ماننے کو قطعی تیار نہیں ہوں، حبیب تنویر کو غصہ تھا۔ ماننے نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے ان کے لڑکے بھی یہی کہہ رہے ہیں  — وہ باتھ روم کی جگہ لٹرین اور لٹرین کی جگہ … ‘

ہم دھیرے سے ہنسے، پھر چپ ہو گئے، کچھ لوگ ہمیں گھور رہے تھے  —

٭٭٭

اندر سے رونے کی آواز بدستو ر جاری تھی۔ کچھ لوگ دری اور چادریں بچھا رہے تھے۔

ہم نے دیکھا انیل ایک ادھیڑ عمر والے آ دمی کے ساتھ ہمیں کھوجتا ہوا ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمارے پاس آ کر وہ ٹھٹھک گیا۔

ان سے ملئے۔ یہ ہما رے دور کے رشتے کے چاچا ہیں۔ ان سے پوچھئے۔ یہ بھی یہی کہتے ہیں  — کہ بابو جی مر نے سے پہلے —

’سیدھے کیوں نہیں کہتے  — ‘موٹے آدمی نے ہماری عمر کا اندازہ لگاتے ہوئے سختی سے ہمیں گھورا  — وہ بیان نہیں، کچھ غلط بات کہنا چاہتے تھے۔ دراصل —  وہ اٹکتے ہوئے بولے  — آخری وقت میں دماغ چل گیا تھا اور ایسے لوگوں کا دماغ تو چل ہی جاتا ہے۔ یہ ہوتا ہے دھرم پر نہ چلنے کا پھل  — دھرم سے بغاوت کا نتیجہ  —

اس کے موٹے گال کچھ اور ہی پھول گئے۔ اس نے ہمارے چہرے کو رکھائی سے دیکھا۔ پھر کہا  — اچھا  — پھر ملتے ہیں۔ پھر باتیں کریں گے۔ ابھی آپ دیکھ رہے ہیں نا … میں دمے کا روگی ہوں۔،

ہم نے دیکھا واقعی وہ تیز تیز ہانپ رہا تھا  —

٭٭٭

آنسو اور شور وغل کے بیچ ارتھی اٹھی۔ اسی موٹے بوڑھے آدمی نے ہمیں اشارہ کیا —  واپسی میں آ پ لوگوں سے ملاقات رہے گی۔ اُس نے ہماری آنکھوں میں جھانکا  —  بڑھؤ نے جو کہا تھا ہمیں یاد ہے۔ آپ کو بتاؤں گا۔ ایک نا مکمل آدمی کا بیان —  ضروری ہے !،

اس نے دو تین بار ضروری ہے، ضروری ہے … دہرایا۔ پھر چپ ہو گیا۔ ستیہ بولو ستیہ ہے۔ رام نام ستیہ ہے، کے بیچ ہم چپ چاپ چلتے رہے  — راستے میں کئی بار لگا، وہ ہمیں دیکھ کر ٹھٹھکا ہو، کچھ بتاتے بتاتے رک گیا ہو  — پھر چلنے لگا تھا۔

٭٭٭

کبھی کبھی کچھ نہیں ہو تا، لیکن احساس ہو تا ہے، کوئی بہت بڑا واقعہ گھٹ چکا ہے۔ بالمکند شرما جوش کے انتم سنسکار کے بعد ہم لوٹے تو محسوس ہوا، کہ ایسا کچھ ہو گیا ہے۔ ماحول میں ایک عجیب سا خالی پن آیا ہوامحسوس ہوا۔ موٹا آدمی دوبارہ ہمارا ہاتھ پکڑے  گھر تک لے آیا تھا  — رونے سسکنے کی آواز اب بند تھی۔ ہاں ایک بوجھل پن سا تھا جو عمو ماً ایسے ماحول میں پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن شاید یہ احساس ہمیں ہی تھا  — دو ایک بار نریندر اپنی بچی کا ہاتھ پکڑے باہر آیا پھر لوٹ گیا۔ ہمیں لگ رہا تھا جیسے سب بہت جلد اپنے معمول پر لوٹ آئے ہوں  — جیسے بوڑھؤ کی موجو دگی کی وجہ سے اس گھر کے معمول یا آزادی پر فرق پڑا تھا۔ جیسے یہ بوڑھے کی نہ موجودگی نے سب کو ایکدم سے آزاد کر دیا ہو  —

موٹے نے گلہ کھکھارا۔ اس پر اب بھی دمے کا اثر تھا — وہ ہانپ رہا تھا۔ وہ ہانپتے ہوئے مسکرایا  — ایک چیز ہوتی ہے کراس بریڈنگ  —  ہمارے شرما جی کا خیال تھا کہ ہمارے اس ساجھا کلچر کے کراس بریڈنگ سے بھا رتیتا کا جنم ہوا تھا۔ اور اب جبکہ  — اُس نے زور دیا  — جبکہ یہ کراس بریڈنگ بند ہو گئی ہے تب سے صرف سامپردائیکتا(فرقہ واریت )جنم لے رہی ہے۔ ‘‘

وہ ہنسا  — الزیمرس۔  میں نہیں مانتا۔ مجھے لگتا ہے۔ وصیت سے بچنے کے لئے بڈھا ناٹک کھیل رہا تھا۔ لیکن کیوں۔ اس کا اُتّر ہے۔ وہ اپنے لڑکوں کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اور انھیں اپنی زندگی کے بعد بھی لڑتا ہو ا دیکھنا چاہتا تھا۔ ہاں۔ اور کیا کارن ہوسکتا ہے … ‘

’لیکن وہ بیان ؟‘ہم نے یاد دلایا  —

موٹے نے کچھ سوچتے ہوئے ہماری طرف دیکھا  — بیان کیا۔ بڈھا خبطی تھا۔ مجھے یاد ہے انتم ملاقات سے پہلے باربار زور دیکر یہی کہتا تھا۔ اس کی مرتیو سادھارن گھٹنا نہیں ہے۔ اور شریف آدمیو !،

’اس نے ہماری طرف دیکھا۔ اور آپ سچ جان سکتے ہیں کہ ایک بے ضررسا آدمی، خبطی معمولی آدمی، بے حد معمولی، اس نے زور دیا۔ اس کی مرتیو کس طرح ایک آسادھارن (غیر معمولی )گھٹنا ہوسکتی ہے۔ بس یہی کہتا تھا وہ بار بار۔

موٹا پھر زور زورسے ہانپ رہا تھا۔ اس کا چہرہ لال سرخ ہو گیا تھا  — آنکھیں چڑھ گئی تھیں۔ ہانپتے ہانپتے منہ سے تھوڑا سا پھین باہر آ گیاجسے جیب سے روما ل نکال کر اس نے فوراً صاف کر لیا پھر ہماری طرف دیکھا اور ہنسا  —

اس کا بیان نامکمل رہا۔ افسوس۔ آپ کیا سوچتے ہیں۔ ایک نامکمل زندگی، ایک نامکمل آ دمی  …  ایک نامکمل بیان۔

اُس پر پھر ہنپنی، کا دورہ پڑ گیا تھا۔

٭٭٭

کرفیو کے ختم ہو جا نے کے بعد، ہم پانچوں دوبارہ مرحوم بالمکند شرما جوش کے گھر گئے   — وہ چٹ اب تک ہمارے خیال میں بسی ہوئی تھی  — اور چٹ کو لیکر ایک عجیب سا تجسس بھی ہمارے اندر تھا کہ آخری وقت میں بڑھؤ ذہن میں پتہ نہیں وہ کون بات آئی ہو گی، جسے لکھنا انھوں نے مناسب سمجھا ہو گا۔

ہم اپنی پرانی بیٹھک میں تھے  — اور آنکھیں اٹھا اٹھا کر اس بدلے ہوئے کمرے کو دیکھ رہے تھے — نہ کتابیں۔ نہ جوش صاحب کی پرانی میز اور کرسی، کمرے کی چونا گر دانی ہوئی تھی۔ اور کمرہ جوش صاحب کی یادوں سے کٹا کٹا معلوم ہو رہا تھا۔

’معاف کیجئے گا۔ دیر ہو گئی  —

انیل کمرے میں آ یا تو ہم جو ش صاحب کی کتابوں اور مینواسکرپٹ وغیرہ کے بارے میں پوچھا — انیل نے حیرت سے ہمیں دیکھا — وہ توکل ہی کباڑی کے ہاتھوں بکوا دیں۔ آپ کی ضرورت کی تھیں تو آپ لے جاتے —  باؤجی تو رہے نہیں۔ اردو پڑھنا لکھنا ہم جانتے نہیں  —  آپ تو جانتے ہی ہیں  —

ہمارے دل پر کیا گزری، ہم جانتے ہیں، لیکن ہم نے اس کا اظہار مناسب نہیں جانا —

’اور وہ چٹ … ؟‘

’دیکھئے نا، وہ چٹ بھی کہیں گم ہو گئی۔ ویسے اب اس کی ضرورت بھی کیا ہے؟ کچھ لکھا ہو گا —  خبطی آدمی تھے۔ ہوسکتا ہے، وہ ہنسا۔ آخری وقت میں شیر (شعر) لکھ رہے ہوں … ‘

لوٹتے وقت ہم نے اداس آنکھوں سے جوش صاحب کے مکان کو دیکھا —  اس وقت پتہ نہیں کیا بات تھی، خود بہ خود ہم اتنے جذباتی ہو گئے کہ ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اور جیسے ہم اپنی محبوباؤں کے ذکر پر، اپنی خیالی محبوباؤں کے ذکر پر، اپنی نظریں ایک دوسرے سے چرائے آنکھوں آنکھوں میں آنسو خشک کر رہے تھے، جو جذبات کی رو میں بہنے اور پھسلنے پرآمادہ ہو گئے تھے —

ہم وہاں سے لوٹ پڑے۔ لیکن ہمارے قدم اتنے بوجھل تھے جتنی نوکری نہ ملنے پر نا امیدی کی حالت میں ہوتے تھے، یا اس سے بھی زیادہ بوجھل —  ہم ٹھیک ٹھیک بتا نہیں سکتے —

٭٭٭

 

ایک خط ذوقی کے نام

                                     — ڈاکٹر محمد حسن

ذوقی :

کیسے لکھ پائے تم

اتنا دل دوز المیہ

بغیر خون کے آنسوؤں کے

سچ یہ ہے کہ ذوقی، تم نے ایک عظیم ناول لکھا ہے۔ بیان: اور خون جگر سے لکھا ہے ہر لفظ کثرت استعمال سے گونگا ہو جاتا ہے۔ میرے لفظوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ اس دھڑکتے ہوئے ناول کی کیفیات کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ صرف آنکھ میں تیرتے آنسو ہی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔ اقبال نے داغ پر نظم لکھی تھی جس میں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ جس طرح سعدی۔ بغداد کی تباہی پر اور ابن بدروں قرطبہ کی بربادی پر فریادی ہوئے تھے اسی طرح جہان آباد کی تہذیب کا ماتم داغ کے نصیب میں تھے۔ تقسیم ہند اور اس سے پیدا شدہ تباہی پر بہت کچھ لکھا گیا مگر ۶؍ دسمبر کی تباہی اس سے مختلف بھی تھی اور اس سے کہیں زیادہ بھیانک بھی کہ اس نے ہمیشہ کے لیے بال مکند شرما جوش جیسے انسان نما فرشتوں شاعر۔ ’’ پایا تھا آسماں نے جسے خاک چھان کر‘‘ کیسی عظیم تہذیب جس کی تعمیر میں صدیوں تک ہندو مسلمان سب شریک رہے اور اس کا کیسا عبرت ناک انجام  …  جس پر جان دینے کے لیے اکیلے بالمکند شرما جوش قتل ہونے کے لیے منا اور اس المیہ کو رقم کرنے والے تم  …

اس زندہ المیہ کو ناول کی حیثیت سے دیکھنا یا اس پر کچھ لکھنا بھی ستم ہے …  یوں بھی ابھی ہم اس سے پوری طرح گزرے کہاں ہیں، گزر رہے ہیں۔ بقول فیض   ؎

اماں کیسی کہ موج خوں ابھی سر سے نہیں گزری

گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائے

تمدن کی ہر ادا تہذیب کی ہر روش اس قتل عام کی زد میں ہے۔ محسوس سب کرتے ہیں لیکن لفظ سب کو نہیں ملتے کہ درد و داغ و جستجو آرزو کا یہ کارواں اور اس کا یہ سر بازار قتل برداشت ہو بھی جائے تو بیان نہیں ہوتا …  (پھر کیا تعجب ہے کہ بال مکند شرما جوش کو بھی آخری بیان کے لیے لفظ نہ ملے ہوں ) تم نے بڑی ہنر مندی سے اس آخری بیان کو سر بہ مہر ہی رکھا ہے …  مگر اب اس کی امید بھی فضول ہے کہ کوئی آبلہ پا ہمارے بعد بھی ان منزلوں میں بھٹکنے کے لیے کبھی آئے گا۔

تمہارے اس ناول کو ناول کی طرح پڑھنے اور پرکھنے کے لیے ابھی کچھ اور وقت اور کچھ اور فاصلہ درکار ہے۔ ابھی تو ایک ایساکاری زخم ہے جس سے رہ رہ کر خون ابلتا ہے، اسے میں احتجاج نہیں کہوں گا۔ اسے میں دور حاضر کی گواہی بھی نہیں کہوں گا۔ یہ ناول ان اصطلاحوں سے کہیں بڑا ہے اور ان دو متوازی واقعات کے سلسلے پر قایم ہے جو منا کے قتل اور بال مکند شرما جوش کی موت سے عبارت ہے …  بلکہ یوں کہوں ان دونوں کے ساتھ ایک عظیم تہذیب کے قتل سے عبارت ہے۔ تم نے اسے بڑے اہتمام اور احتیاط سے بیان کر دیا ہے۔ کیسے لکھ پائے تم ایسا دلدوز المیہ بغیر خون کے آنسوؤں کے …  ! تعجب ہے! یہی غیر حاضر بلکہ شاید غیر موجود ’بیان‘ ہی سب سے بڑی فرد جرم ہے، جو ایک عظیم تہذیب کے قاتلوں پر عائد ہوتی ہے …  مگر سوال یہ ہے کہ سزا وہ دے جس کے ہاتھ خون سے پاک ہوں اور پہلا پتھر وہ مارے جس نے زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہیں کیا ہو۔ بے گناہ اب بھی بہت ہی مگر وہ صرف قتل ہونے کے منتظر ہیں …  ایک تمہارے ہاتھ میں قلم ہے اس کی عزت کرو جو ایسے درد مند لمحوں کی کہانی اس قدر دلدوزی اور دلدوز انداز میں لکھ سکے۔ یہ بال مکند شرما جوش ایک پوری تہذیب کا نام ہے جو غروب تو ہوتی ہے، مکمل طور پر کبھی مٹتی نہیں کہ انہیں سے تو انسانیت کی رمق زندہ رہتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ظالموں کے تذکرے اور ۶ دسمبر کی یادیں۔

اس ناول کا محاکمہ دیر طلب ہے جب تک وقت ان زخموں کو بھر نہیں دیتا یہ کام شاید ممکن نہ ہو گا۔

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور ان کے شکریئے کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائل فراہم کی۔

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

حصہ اول کے لئے یہاں کلک کریں

حصہ دوم کے لئے یہاں کلک کریں