FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بیان

(ناول)

                   مشرف عالم ذوقی

حصہ اول

یہ ناول ضخیم ہونے کی وجہ سے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

حصہ دوم کے لئے یہاں کلک کریں

حصہ سوم کے لئے یہاں کلک کریں

 

اس وقت جب تم اپنے گلاس میں اسکاچ انڈیلتے ہو،

کاکروچ مارتے ہو

یا اپنی گھڑی دیکھتے ہو

جب تم اپنی ٹائی درست کرتے ہو …  لوگ مر رہے ہیں

مضحکہ خیز ناموں والے شہروں میں گولیوں سے چھلنی ہو رہے ہیں

شعلوں میں جھلس رہے ہیں

اور زیادہ تر نہیں جانتے …  کہ لوگ کیوں مر رہے ہیں

ان چھوٹی جگہوں پر جنہیں تم نہیں جانتے

لیکن وہ اتنی بڑی ہیں کہ انہیں چیخنے یا خدا حافظ کہنے کی

مہلت بھی نہیں دی جاتی

 … لوگ مر رہے ہیں

لوگ مر رہے ہیں …  اس وقت جب تم تغافل اور ضبط نفس وغیرہ

کے نئے پیغمبروں کا انتخاب کر رہے ہو …

لوگ مر رہے ہیں

لوگ مر رہے ہیں …

(جوزف براڈسکی A Tune for Bosnia )

 

بیان

(بالمکند شرما جوش  ؔ مرنے سے پہلے بیان دینا چاہتے تھے)

مشرف عالم ذوقی

 

چھ دسمبر …

                                         …  کے نام

اس ناول میں شائع تمام کرداروں کے نام، واقعات اور مقامات فرضی ہیں، کسی بھی طرح کی مطابقت کے لیے مصنف یا ناشر ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

 

ورتمان

 

                   ڈراؤنا خواب

(۱)

بالمکند شرما جوش باہر نکلے تو آنکھیں انگاروں جیسی لال ہو رہی تھیں۔ سر چکرا رہا تھا۔ گرنے کو ہوئے تو دروازہ اپنے کمزور ہاتھوں سے پکڑنا چاہا، مگر جیسے اندر کی قوت ہی جواب دے گئی تھی …

یہ سب … ؟

آنکھوں کے آگے جیسے ہزاروں وحشی، قبائلی تانڈو کر رہے تھے …  مار ڈالیں گے تمہیں مار ڈالیں گے …  سب کو مار ڈالیں گے …  مارو …

آنکھوں کی تکلیف تھی یا جانے کیا تھا کہ سب کچھ دھواں دھواں سا دکھ رہا تھا۔ جیسے وحشی ہو رہی عوام پر، بے قابو ہوتی ریلی پر، پولیس آنسو گیس کا استعمال کرتی ہے …  اسی طرح یہاں آنکھوں کے سامنے، سب کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے …  سامنے والا آدمی بھی …  بجلی کا کھمبا بھی …  یہ جہاں وہ کھڑے ہیں …  یہ دروازہ …  سامنے کی کھڑکی …  وہ آنکھیں اٹھاتے ہیں …  اور آسمان …  دھواں دھواں ہوتے ہوئے سرخی مائل …  جیسے بیمار آدمی کو چکر آتے ہیں، اور بے ہوش ہونے سے پہلے کی سیما ہوتی ہے …  سب کچھ سرخی مائل …  دھواں …  دھواں …  یہ سب …

وہ سڑک کو غور سے گھورتے ہیں …  اتنی سنسان کیوں ہے؟ کوئی حادثہ ہو گیا ہے کیا …  تمام دکانیں بند کیوں ہیں …  اور یہ آسمان پر ہیلی کاپٹر کیوں ناچ رہے ہیں …

’’جنگ ہو گی میاں، جنگ ہو گی … ‘‘

وہ سب کچھ بھول کر آنکھوں کے پردے اچانک نمودار ہوئے برکت بھائی کو دیکھتے ہیں …

پھر جیسے سارا منظر صاف ہے۔

برکت بھائی پان بہت کھاتے ہیں اور پان کھاتے ہوئے لحاظ نہیں رکھتے کہ پان کا تھوکا کہاں گرے گا۔ قمیص پر یا سفید دیوار پر، قمیض پر گرے تو چلو کوئی بات نہیں۔ گھر ہے، بچے ہیں، ڈرائی کلینرس کی دنیا بھر کی دکانیں ہیں۔ مگر دیواروں پر …  وہ بھی دوسروں کی دیواروں پر، دوسرا پتہ نہیں کیا سوچ لے …  یہی تو اچھا لگتا ہے، بڑھاپے میں …  بوڑھا آدمی عام احساس سے کٹ جاتا ہے۔ عیب جوئی اور بری سوچوں سے، کوئی کیا کہے گا۔ کے کھٹکے سے …

آخ تھوہ  …

پیک گھوٹتے نہیں …  تھوک دیتے ہیں …  گردن ہلاتے ہیں۔ آنکھوں پر چڑھا چشمہ ہلتا ہے …  ہلتی ہیں ان کی ڈھیر ساری چہرے کی جھریاں …  ہونٹ کے باہر بن بلائے مہمان کی طرح ٹپک گئے پان کے تھوک کو آرام سے اپنے سفید ہاتھوں سے پونچھ کر قمیص میں مل لیتے ہیں …

’’جوش بھائی …  جنگ ہو گی …  دیکھ لینا جنگ ہو گی‘‘

’تمہیں تو جب دیکھو، بس جنگ کی ہی سوجھتی ہے … ‘

’لو … ‘

برکت بھائی بچوں کی طرح انہیں دیکھ کر ہنستے ہیں …  اور کیا رہ گیا ہے جوش بھائی!زندگی میں اب …  بس جنگ ہی تو ہے …  بچے کام دھندے سے فارغ ہو کر آتے ہیں تو جنگ کی باتیں، ریڈیوں کو لگاؤ تو وہی چیختی چنگھاڑتی دل دہلا دینے والی خبریں، ٹی وی سنو تو وہی قصہ  —   ایک ہم تو تھے، ہمارا بھی زمانہ تھا۔ جوان تھے تو جوانوں جیسی باتیں کرتے تھے یہ نہیں کہ جنگ کا قصہ ہے تو بس جنگ کا قصہ ہے۔ اور بن گئے بوڑھے۔ منہ لٹکا لیا جوانی میں پوپلے ہو گئے …  چہرے پر سنجیدگی چڑھا لی۔ نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی۔ بس فکر ہے اور گھلے جا رہے ہیں۔ ‘

’وقت ہی خراب ہے‘

’نہیں، وقت کو گالی مت دو جوش بھائی! ہم ہی خراب ہو گئے ہیں، ہم ہی ایک دوسرے کے عیب ڈھونڈتے ہیں۔ سامنے سے آؤ تو گلے ملتے ہیں اور پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چھرا بھونکتے ہیں …  بدل گیا ہے جوش بھائی …  سب کچھ بدل گیا ہے۔

بالمکند شرما جوش، برکت بھائی کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں …  مسکراتے ہیں۔

’سچ کہنا، تم بدل گئے ہو کیا؟‘

’نہیں۔ لیکن میرے نہیں بدلنے سے کیا ہوتا ہے۔ بچے بدل گئے ہیں، زمانہ بدل گیا ہے۔ ہماری تمہاری باتوں پر چلنے والے اب کہاں رہ گئے ہیں۔ حکم دے کر تو دیکھو، بچے سن لیں تو سواحسان سمجھو، نہ سنیں تو خیر مناؤ کہ اتنا مان دے رہے ہیں تم کو کہ قدم قدم پر ذلیل نہیں کر رہے ہیں اور اپنے گھر میں رکھ رہے ہیں۔

وہ گلا کھکھارتے ہیں۔

’برکت بھائی! اتنا بھی برا دور نہیں ہے، تم حالات کو کچھ زیادہ ہی لے رہے ہو۔ اور سب کی تھالی ایک جیسی تو نہیں ہوتی اور اپنی تھالی سے جگ کی تھالی کا موازنہ تو نہیں کیا جا سکتا۔ ‘

’لو …  خوب نکالی تھالی کی مثال۔ ‘

ہنستے ہیں برکت بھائی …  ابھی اینٹھو مت زیادہ جوش بھائی …  وہ دن آئے گا۔ جب بازار میں مول کرنے جاؤ گے تو پوچھا جائے گا، کس کی تھالی چاہئے …  ہندو کی تھالی …  یا مسلمان کی تھالی … ‘

٭٭٭

آنکھوں کے آگے جیسے میزائلیں چمکنے لگیں …  راکٹ لانچرس چھوٹنے لگے …  یہ سڑک اتنی سنسان کیوں ہے …  کچھ ہو گیا ہے کیا …  یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جوش بھائی …  سامنے کا پول …  سڑک …  اورآس پاس کی دکانیں …  دھواں دھواں ہوتے ہوئے بھی سب ایک عجیب سے بھیانک خطرے والی سناٹگی کا احساس دلا رہے ہیں۔

صبح سے لگاتارآسمان پر ہیلی کاپٹرس چکر لگا رہے ہیں …  ویسے جیسے جنگ کے دنوں میں …  ابھی زیادہ دن تو نہیں بیتے …  چاروں طرف سے جنگ کے سائرن بجتے سنائی دیتے تھے …  آنکھیں خبروں پر ٹکی ہوتی تھیں …  کان ریڈیو سے لگے ہوتے تھے …  خدارا …  اس بھیانک خواب کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ کب بند ہو گی یہ ہند و پاک کی جنگ —  جب ہیلی کاپٹر اڑتے تھے تو لگتا تھا ایک خوف ناک چڑیا اپنے پروں کو پھیلائے اپنی چونچ میں کوئی خطرناک بم دبائے گھوم رہی ہے پورے وجود میں سنسنی چھائی ہوئی تھی۔ اور سائرن کی خوفناک آوازیں …  لیکن تب تو جنگ کا سماں تھا …  پورے ماحول نے جنگ کے اثرات قبول کر لیے تھے …  اوروہ صرف ایک ہی دعا کر رہے تھے، جنگ بند ہو …  دلوں کے اندیشے بادلوں کی طرح چھٹ جائیں …  آنکھوں سے شک مٹ جائے …  فاصلے پھر قربتوں کو چھولیں۔

تب سے آج تک زیادہ عرصہ تو نہیں ہوا …  مگر ماحول خراب ہی رہا …  ہندو پاک جنگ کی باتیں رہیں یا اپنی خانہ جنگی میں ملک جھولتا رہا …  یہ فساد رہے … دنگا رہا …  یا آنکھوں میں سانپ کی طرح بیٹھا شک رہا اور رہے وہی برکت میاں۔

رہے وہی بالمکند شرما جوش …

اور سب کچھ وہی رہا …  وہی پڑوس کے لونڈے لپاڑوں کی بھیڑ، مشاعرے کی محفل …  ہوٹنگ  …  کمرے میں ٹہل ٹہل کر مصرعے موزوں کرنا …  ہرماہ، ماہانہ نشست کا خیال کرتے ہوئے برجستہ اشعار کا لب پرآنا …  گنگنانا …  بچوں کا شک سے دیکھنا …

اکیلے، تنہا کمرے میں خود کی چٹکی لے رہے ہوتے بالمکند شرما جوش …  میاں جوش  …  کیا شاعری کرتے ہو تم …  ارے واہ …  واہ …  بچوں کو چھوڑو …  آج کے بچوں کی سمجھ ہی کتنی ہے …  مشاعرے میں داد تو ملتی ہے نا …  ارے چھوکرے ہوٹنگ کرتے ہیں تو کیا …  سب اپنے بچے ہیں جوش میاں …  داد دینے کے سب کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں …  پھر دیر تک کمرے میں لہک لہک کر شاعری ہوتی  …  ریک سے نکال نکال کر غالبؔ واقبالؔ کے دیوان الٹے پلٹے جا رہے ہوتے …  اور کبھی کبھی تو مزے مزے کی بیوقوفیاں سرزد ہو جاتیں …  جیسے دیوان حافظ نکال کر، آنکھ بند کر کے شہادت کی انگلی کسی شعر پر رکھی جاتی، یہ دیکھنے کے لیے کہ مشاعرے میں غزل کی واہ واہی کی تعبیر نکلتی ہے یا نہیں …  اور تعبیر جب سمجھ میں نہیں آتی تو گول گپا ’ہوپ‘ بن کر کمرے میں چپ چاپ بیٹھ جاتے جوش صاحب …

کوئی ملنے والا آتا تو پریشان ہو جاتا۔

’’خدا نخواستہ دشمنوں کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا جوش صاحب؟‘‘

’’ارے ماریے دشمنوں کی طبیعت کو میاں، یہاں اپنی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ ‘‘

ملنے والا گھبرا جاتا … ’’کوئی خاص بات ہے کیا؟‘‘

’’اماں یار، شعر پر واہ واہی فال نہیں نکل رہی ہے۔ کب سے دیوان حافظ لیکر بیٹھا ہوا ہوں۔ ‘‘

وہ خود بھی ہنستے اور ملنے والا تو اس بے ساختگی پر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتا …

(۲)

آسمان پر کتنے ہیلی کاپٹر چکر لگا چکے ہیں …  ایک  …  دو …  تین …  کئی کئی ہیلی کاپٹرس …  ضرور بم برسائیں گے …  ان کا بس چلے تو …  زمین سے پتھر اٹھا اٹھا کر پتھراؤ کریں …  کمبخت …  دل دہلا دیتے ہیں یہ …  جانتے نہیں …  بوڑھے آدمیوں کا دل کتنا نازک ہوتا ہے …  سینکڑوں طرح کی، دل کی بیماریاں ہوتی ہیں …

وہ ٹھہرتے ہیں …  دھواں دھواں سرخی مائل مناظر، اب پولس کے سائرن میں بدل جاتے ہیں …  سامنے سے ایک دو نہیں …  چار پانچ پولس کی جیپ تیز ہارن بجاتی ہوئی گزر گئی ہے …  جیسے بھونچال سا آ گیا ہے …  میاں جوش کہاں جا رہے ہو …  سڑکوں پر اب آدمی نہیں چلتے، پولس چلتی ہے، گولیاں چلتی ہیں …  میزائلیں چھوٹتی ہیں …  بم کے گولے چھوٹتے ہیں …  کلاشنکوف اور نئے نئے ماڈل کے جدید اسلحے شور کرتے ہیں …  وہ وقت دور نہیں جب ہم تم سب صرف گھروں میں بند رہیں گے …  وہ بھی اگر بچ گئے تو …  بم سے، آسمانی آفت سے، عذاب سے …  اور پولس کی گولیوں سے …

’’یہ کہاں جا رہے ہیں آپ؟‘‘

دروازے پر نریندر کھڑا ہے۔

’’ہاں …  کہاں جا رہا ہوں … ‘‘ وہ جیسے خود سے بڑبڑائے …

’’پتا جی  …  یہ سمے تو گھر پر بیٹھ کر رام نام جپنے کا ہے …  اور آپ … ‘‘

وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا قریب میں کھڑا ہو جاتا ہے …  ہاتھ تھامتا ہے …   ’’چلیے میرے ساتھ … ‘‘

وہ جیسے خواب سے چونکتے ہیں …  اپنا لڑ کھڑا تا جسم نریندر کے حوالے کر دیتے ہیں …

’’چلو …  جہاں چاہے لے چلو …  اب ان میں جان ہی کتنی بچی ہے … ‘‘

سیڑھیوں تک آ کر ٹھہر گئے بالمکند شرما جوش۔ نریندر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

’’نریندر …  اب چھوڑ دو۔ ‘‘

’’چلیے نا بابو جی …  آپ کو اوپر کمرے تک چھوڑ دوں ؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

وہ ایک پھیکی سی ہنسی ہنسے

’’ضد مت کیجئے۔ آپ میں کمزوری آ گئی ہے۔ ‘‘

’’ہاں بہت کمزور ہو گیا ہوں۔ ‘‘

انہیں اپنی ہی آواز جیسے کسی تنگ و تاریک گہرے کنویں سے آتی معلوم ہوئی۔

’’مگر نریندر تم جاؤ، آرام کرو، مجھے چھوڑ دو۔ ‘‘

نریندر سامنے آ گیا۔

’’آپ غلط سمجھتے ہیں ہمیں۔ ‘‘

انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی  …

’’آپ ہمیشہ ہی غلط سمجھتے آئے ہیں … ‘‘

انہیں اپنی مسکراہٹ کسی بری خبر کی طرح ٹوٹتی ہوئی لگی …

نریندر کی آواز بھرا گئی —

’’ضد مت کیجئے۔ اوپر چھوڑ دیتا ہوں۔ ‘‘

اس نے ہاتھ پکڑ لیا …  وہ دھیرے دھیرے سیڑھیوں کی بانہہ پکڑے اور نریندر کا ہاتھ تھامے اوپر بڑھتے رہے …  کیا سچ مچ اتنے کمزور ہو گئے ہیں وہ اتنے کمزور کہ بغیر سہارے کے …  انہیں حیرت تھی …  لیکن اچانک …  ایک دم اچانک  …  ابھی کچھ روز پہلے تک تو …  ایسا کچھ بھی نہ تھا …  ہٹے کٹے تھے وہ …  کسی کے محتاج نہیں …  جی چاہا تو خود چائے بھی گرم کر لی …  کون بہوؤں کو آواز لگانے جائے …  مگر اتنی نقاہت  …  اس قدر کمزوری …

کمرے میں داخل ہوئے تو جیسے دھول کا ایک طوفان سا باہر نکلتا دکھائی دیا۔

ان کا پورا چہرہ لت پت تھا …  کس سے ؟ دھول سے …  لیکن دھول کہاں تھی …

’’ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ؟‘‘ نریندر نے ٹوکا۔

’’وہ  …  دھول‘‘ …

’’دھول … ‘‘

نریندر نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا … ’’ کیسی باتیں کر رہے ہیں باؤ جی …  دھول کہاں ہے  …  اوما تو دس بار آ کر پوچھا لگاتی ہے …  خود سے۔ میں نے ہی کہہ رکھا ہے …  باؤجی کا کمرہ گندہ نہیں رہنا چاہئے۔ آئی تھی نا اوما؟‘‘

نریندر نے آنکھوں میں جھانکا …

’’آئی ہو گی —  میں نے دیکھا نہیں  — ‘‘

’’اپنی ہی آواز نہیں پہچان پائے جوش صاحب‘‘

نریندر کو باؤ جی کی بات بری لگی …

’’آپ تو پڑھتے لکھتے رہتے ہیں …  اپنے ہی میں مگن رہتے ہیں۔ آپ کو تو گھر کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں رہتا  …  جیسے یہ کہ … ‘‘

اس شکوہ کے انداز میں کہا۔ ’’آج مالو کا جنم دن تھا۔ ‘‘

’’مالو کا … ؟‘‘ انہوں نے گلہ کھکھارا …

’’ہاں مالو کا …  صبح سے چیخ رہی تھی …  ددّو کو مٹھائی کھلاؤ …  ددو کو مٹھائی کھلاؤ …  ددو بھی ہمیں انعام دیں گے … ‘‘

’’میری طرف سے انعام دینا۔ ‘‘ جیب میں ہاتھ ڈال کر انہوں نے پچاس کا ایک مڑا تڑا نوٹ نکالا۔ نریندر کے ہاتھوں میں پھنسایا۔ زور دیا …  ’’میری طرف سے۔ ‘‘

نریندر کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔ ’’آپ دیتے تو کتنی خوش ہو جاتی …  اوپر تو ڈر سے نہیں آتی۔ میں نے ہی منع کر رکھا ہے …  ددو کی کتابیں پڑی ہوتی ہیں …  بچوں کی عادت تو آپ جانتے ہی ہیں …  کمرے میں آئے گی تو چھوئے گی چھائے گی …  روکنے سے تھوڑے مانے گی —  آپ کا کیک بھی رکھا ہے۔ بھجواؤں … ؟‘‘

’’خواہش نہیں ہے … ‘‘

بے دلی جیسے ایک بار پھر ان پر چھاتی چلی گئی۔

نریندر پھر بوجھل ہو گیا۔

’’آپ کو تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا باؤجی …  ہم ہی ہیں جو گھسے رہتے ہیں …  آپ کو تو ہم سے بات چیت کرنا تک پسند نہیں۔ ہم کوئی دشمن نہیں ہیں، آپ کے … ‘‘

’’میں ہی دشمن ہوں اپنا —  بوڑھا جیسے اپنی ہی ناراضگی کی سولی پر چڑھ گیا …  میں ہی پاگل ہوں …  پاگل ہوں تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ کیوں آتے ہو بار بار میرے پاس …  میرے پاس دھرا کیا ہے۔ ‘‘

’’آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے …  آرام کیجئے آپ  … ‘‘

نریندر تیزی سے لوٹ گیا …

وہ پیچھے مڑے، واپسی قدموں کو دیکھتے دیکھتے پتھرا گئے۔ کتنی جلدی وہ قدموں کو باہر لے گیا تھا۔ اندر کی نرم انداز ہی رہ گئی …  سامنے آتے آتے ایک باپ کی آواز اندر ہی اندر مر گئی یا کھو گئی …  وہ روکنا چاہتے تھے …  نہیں روک سکے وہ میٹھی بانی بولنا چاہتے تھے نہیں بول سکے …  آخر ایسا کیو ہوتا ہے …

ہمیشہ …

بچے آتے ہیں، سنگ چاہتے ہیں مگر حاوی ہو جاتا ہے، ان کے اندر کا سنکی بوڑھا ناراض کر دیتا ہے انہیں۔ بچے بھی کیا کیا سوچتے ہوں گی …  مگر نہیں …  وہ چاہتے ہیں سب جیسا سب باپ سوچتے ہیں اپنے بچوں کو لے کر۔ اپنے بچوں کے بارے میں۔ ان کے مستقبل کی فکر کو لے کر۔

نریندر غصے میں چلا گیا۔

بالمکند شرما جوش نے اٹھنا چاہا …  مگر اندر تک پھر ایک ٹھنڈی لہر اترتی چلی گئی …  نہیں جائیں گے …  بچے کون سا خیال رکھتے ہیں ان کا …

لیکن مالو کا جنم دن ہے …  مالو کتنا مانتی ہے۔ ہر سمے ددو …  ددو کہہ کر مچلتی رہتی ہے …  اور مالو کے بجھول …  مالو کے سوالات …

’’ددو آسمان میں اتنے تارے کہاں سے نکل آتے ہیں … چاند صبح میں کہاں چلا جاتا ہے ددو …  ہمارے اسکول کا مالی بتاتا ہے کہ سورج کا ایک بڑا سا گھر ہے …  جیسے ہم اسکول سے چھٹی پا کر گھر چلے جاتے ہیں، ویسے ہی سورج بھی شام کو اپنے گھر چلا جاتا ہے …  اور ددو …

بالمکند جوش نے یاد کیا …  اور منہ کا مزہ کڑوی کسیلی گولیوں کی طرح تلخ ہو گیا۔

اس دن ایسے ہی مالو بے مطلب کے سوال کئے جا رہی تھی …  سوال کرتے کرتے ٹھہر گئی …

’’ایک بات پوچھوں ددو … ‘‘

پہلے اس نے دھیان نہیں دیا۔

مالو پھر مسکرائی۔ ’’ایک بات پوچھوں ددو۔ ‘‘

’’پوچھو۔ ‘‘

آپ مسلمان ہیں کیا؟‘‘

کتاب پڑھتے پڑھتے وہ ایسے چونکے جیسے کسی نے انجانے طور پر عقب سے حملہ کر دیا ہو …

وہ غصے میں گھوم گئے —

’’کیوں ؟‘‘

’’بس ایسے ہی۔ ‘‘

انہوں نے کتاب سامنے رکھ دی …  دونوں ہاتھ سے مالو کو تھام لیا۔ ’’بتاؤ تم نے یہ سوال کیوں پوچھا؟‘‘

’’ بس ایسے ہی۔ ‘‘ مالو ڈر گئی۔

’’نہیں، ایسے ہی نہیں۔ ‘‘

انہوں نے چھوٹی سی مالو کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔

’’آپ اردو جو پڑھتے ہیں۔ ‘‘

مالو معصومیت سے بولی انہوں نے گھبرا کر مالو کو چھوڑ دیا۔ ہکا بکا اسے دیکھتے رہے۔ پھر زور زور سے ہنس پڑے۔ …

’’ٹھیک کہتی ہے رے …  مسلمان ہوں …  مسلمان کیسے ہوتے ہیں ؟‘‘

’’ایک دم سے گندے۔ ‘‘

ددو کھلے تو مالو ڈر بھول کر معصومیت کی رو میں بہتی چلی گئی۔

’’برے کیسے ہیں ؟‘‘

’’وہ نہاتے نہیں ہیں نا، ماں کہتی ہے۔ ان کے پڑوس میں ایک ولی بھائی رہتے تھے، وہ جاڑے میں مہینوں نہیں نہاتے تھے، گرمی میں بھی جب تک ان کے کپڑوں سے اور بدن سے بدبو نہیں اٹھنے لگتی تھی، نہاتے نہیں تھے۔ نہیں نہاتے تھے۔ تب گندے ہوئے نا … ‘‘

’’اور کیسے گندے ہیں ؟‘‘

’’وہ گھر کو گندہ رکھتے ہیں …  جانوروں کو مارتے ہیں اور … ‘‘

’’اور کیا؟‘‘

’’وہ بد معاش ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات میں قتل کرنے سے نہیں چوکتے۔ جہاں زیادہ ہوتے ہیں، وہاں جانے کا نہیں ہوتا۔ نہیں تو تلوار دکھا کر بولتے ہیں، مسلمان بن جاؤ۔ ‘‘

’’اچھا  …  یہ سب کہاں سے سیکھا۔ ‘‘

’’ سیکھا کہاں سے۔ ڈیڈی بتاتے ہیں۔ کبھی کبھی ماں بولتی ہے، وہی سنتی ہوں ہوتے ہیں نا خراب؟‘‘

مالو پیار سے، معصومیت سے ان کی طرف دیکھتی ہے۔

بس، جیسے انتہا ہو جاتی ہے …  خود کو روکتے روکتے اندر سے غصہ ور بوڑھا غرانے لگتا ہے …

’’بھاگ اپنے کمرے میں۔ اب آئی تو ٹانگ توڑ دوں گا۔ ‘‘

وہ غصے میں مُکّا نچاتے ہیں۔

مالو سسکیوں میں روتی ہوئی دروازے پر ٹھہرتی ہے …

’’تم بہت برے ہو ددو۔ بہت برے پہلے تو میٹھی میٹھی باتیں کر کے خود ہی روکتے ہو …  پھر ہاتھ اٹھاتے ہو …  ٹھینگا نہیں آتی تمہاری پاس … ‘‘

وہ روتی سسکتی ہوئی ٹھینگا دکھا کر کمرے سے بھاگ جاتی ہے …

بالمکند شرما جوش جیسے خواب و خیال کی دنیا سے اوندھے منہ گر کر واپس اپنی دنیا میں آ جاتے ہیں …  کمرے میں اپنی میز پر نسوار تلاش کرتے ہیں …  نسوار کی ڈبیہ ملتی ہے تو ناک میں گھسیڑتے ہیں …  ایک ہلکی چھینک مارتے ہیں۔ اور اپنی دنیا کا تنہا باوا آدم بن جاتے ہیں …

مالو کا جنم دن ہے …  اور کمزوری ان کے پورے وجود پر غالب …  نریندر کہہ گیا ہے …  کیک رکھا ہے مالو نے ان کے لیے …  اچانک جیسے پوری نقاہت اڑن چھو …  سب جیسے دماغی تھکن ٹھہری …  ایک منٹ میں ٹھیک …  بچی ہے …  جو بڑے سکھائیں گے وہی تو سیکھے گی …  اس کی غلطی ہی کیا ہے …  بے چاری …

مالو …  رے مالو …

اوپر سے آواز لگاتے ہیں …  آواز گھڑ گھڑاتی ہے …  مالو …  رے  …  مالو …

اب جیسے اندر کوئی چھوٹا سا بچہ اتر رہا ہے …  بچہ شرارت کرنے کو بے چین …  مالو کو دیکھنے کو بے تاب …

مالو …  رے  مالو …

وہ سیڑھیاں اترتے ہیں …  کہیں سے نقاہت نہیں …  ہاں، جیسے تھک گئے ہیں۔ کافی مسلسل چلتے رہنے کے عمل کے بعد۔ بس …

اب نریندر کے کمرے میں ہیں وہ …

اوما  مالو کے ساتھ بیڈ پر لیٹی ہے۔ مالو  ددو کی آواز سن کر بستر سے کودتی ہے۔ اوما آنچل برابر کرتی ہے …  آ کر پیر چھوتی ہے …

’’آپ نیچے کیوں آ گئے باؤجی …  بلا لیتے۔ ‘‘

’’ارے اس کا جنم دن تھا۔ ‘‘

چہکتا ہوا نریندر کمرے میں داخل ہوتا ہے۔

’’بابو جی کو کیک کھلاؤ مالو … ‘‘

’’ابھی آئی۔ ‘‘

مالو بھاگ کر فرج کھول کر کیک لے آئی۔

’’اتنا بڑا نہیں رے۔ ‘‘ انہوں نے ایک چھوٹا پیس اٹھایا۔ گود میں بھرنا چاہا …  بستر پر بیٹھ گئے۔

’’جیتی رہ …  آباد رہ …  پڑھ لکھ کر … ‘‘ وہ تھوڑا ٹھہرے …  جیسے نریندر سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ ’’پڑھ لکھ کر سچ مچ کا پڑھا لکھا بن، پڑھ کر جاہل مت بننا۔ ‘‘

’’میرے پیسے ددو۔ ‘‘

’’وہ نریندر کو دے دیا ہے۔ ‘‘

’’کتے۔ ‘

’’پورے پچاس روپے ہیں۔ تیری مٹھائی کے۔ ‘‘

’’ددو زندہ باد۔ ‘‘

مالو خوشی سے اچھلتی ہے …

وہ جانا چاہتے ہیں تو اوما روک لیتی ہے۔

’’باؤجی۔ چائے پی کر تو جائیے۔ ‘‘

’’نہیں …  اچھا نہیں۔ ‘‘ وہ زبردستی مسکراہٹ پیدا کرتے ہیں …  کیک کھا لیا نا، ’’جیتی رہو بہو۔ ‘‘

اوما پوچھتی ہے۔ ’’پان بھجوا دوں ؟‘‘

’’نہیں۔ ابھی ہے۔ ضرورت پڑی تو پکار لوں گا۔ ‘‘

نریندر اوما سے کہتا ہے’ خود ہی بنا کر باؤجی کے پن ڈبے میں رکھ دیا کرنا۔ ان کے پکارنے پر مت رہنا … ‘

٭٭٭

کمرے میں آنے پر لگتا ہے کیا سچ مچ ان کے آنے سے سب خوش ہو جاتے ہیں …  یا کوئی ناٹک ہے …  سب ناٹک میں مصروف …  مگر ناٹک کیوں ہونے لگا۔ پوری زندگی کوئی ناٹک تو نہیں کرسکتا …  پھر …  سب ایسے بچھ جاتے ہیں کہ …  وہ کبھی کبھی شرمندہ ہو جاتے ہیں …  مگر ان کی خفگی، ناراضگی … ‘‘

سب نے اپنی اپنی دنیا بنا رکھی ہے …  اپنی دنیا جہاں سانپ پھپھکارتے ہیں …  جہاں گرگٹ ناچتے ہیں …  جہاں زخمی نیولے گھومتے ہیں …  جہاں چاروں طرف زہریلے بچھو ہیں …

یہی دنیائیں ہیں، ان کی …  مختصر سی دنیا …

بس انہیں اسی دنیا سے نفرت ہے …

دروازہ کھلا ہے —  یہ باہر کا مردانہ بیٹھکا ہے۔ لیکن یہ نہیں کہ تڑ …  تڑاک اندر داخل ہو جائیں بالمکند شرما جوش …  آداب اور اخلاق کی موٹی موٹی، وزنی وزنی کتابیں جو بچپن سے تربیت کی نرم نرم پیٹھ پر باندھ دی گئی تھیں۔ وہ… ؟

یہ نئے بچے تربیت کا پاٹھ کیا جانیں۔ آداب اور اخلاق کیا سمجھیں …  یہ نئے زمانے کے بچے ہیں …  نئے زمانے کے  …

چودھری برکت حسین …

دروازے پر ٹھہر کر آواز لگاتے ہیں۔ بالمکند شرما جوش … ’’ بھائی چودھری برکت حسین تشریف رکھتے ہیں ؟‘‘

اب وہ زمانہ کہاں …  نہ گھوڑے رہے نہ گھوڑے پالنے والنے والے …  یہ سب خاندانی لوگ ہیں …  لیکن اب وہ خاندانی لوگ رہے کہاں …  سب زر داروں کی قبیل کے ہیں تجارتی زبان سیکھ گئے۔ تجارتی زبان —  کل کے تاجر بھی آداب اور اخلاق کا سبق سیکھے ہوئے تھے۔ زمانہ کتنا بدل گیا —  بدلے ہوئے زمانہ سے نالاں ہوتے ہیں جوش صاحب …

دروازے کے بعد صحن ہے۔ صحن کے دائیں جانب تھوڑی سی پھلواری۔ پھلواری کے ادھر والے حصے میں بھی پہلے پھلواری ہی تھی …  اس طرح کہ اندر داخل ہوئیے تو بیچ کے دونوں طرف اودے اودے —  کھلے ہوئے گلاب اور دیگر رنگ، برنگے پھول آپ کا استقبال کریں گے۔ مگر برا ہو زمانے کا۔ بچوں نے اپنے اپنے وقت کے سبق پڑھ لیے۔ اتنی زمین فالتو کیوں جائے۔ سوبائیں طرف والی زمین کی پھلواری ختم کر دی گئی۔ اور یہاں سے دو دکانیں نکال دی گئیں۔ دکانوں میں کرائے دار آ گئے۔ چودھری برکت حسین خفا تو ہوئے۔ تھوڑے دنوں تک ناراض بھی رہے، پھر وقت کی آواز سن کر چپ ہو گئے۔ یہی ان کی مرضی۔

’’خوشبو کے کیا کرنے ہیں ابا۔ ‘‘

سب سے پہلے تنویر نے یہ آواز اٹھائی تھی۔ ان کا لڑکا وہ یوں بھی اس ٹوٹتی، اجڑتی جاگیر کو لے کر نالاں رہتا تھا۔

تنویر کے بگڑنے کی صدا برکت بھائی نے جوش صاحب تک پہنچائی تھی …  ’’لو … منا کی سنو …  کہتا ہے …  خوشبو سونگھنے سے اللہ میاں پیسے تھوڑے ہی برسادیں گے …  ارے پریکٹیکل بنیے ابا میاں پریکٹیکل سب سے ضروری چیز آج کے زمانے میں پیسے کمانا ہے … ‘‘

’’سو وہ تو ہے‘‘

بالمکند جوش صاحب نے ٹھنڈا سانس بھرا …

وہ جیسے اپنی دنیا میں لوٹ آئے۔ اندر سے اب تک کوئی نہیں آیا تھا …

’’ارے بھائی چودھری برکت حسین تشریف رکھتے ہیں۔ ‘‘

’’کون۔ ‘‘

اندر سے غنود گی بھری آواز سنائی دی …  آنکھیں ملتے برکت حسین باہر آئے۔ جوش صاحب کو دیکھا، بانہیں پھیلائیں۔ مسکراتے ہوئے اندر لائے۔

’’زمانہ بدلا، تم نہیں بدلے جوش صاحب۔ ارے یہ تو مردانہ ڈیرا ہے۔ مردانہ۔ اس میں آنے میں کا ہے کا شرمانا۔ ‘‘

’’نہیں بھائی۔ تم تو جانتے ہو۔ ‘‘

’’ایک بات کہوں۔ ‘‘

’’یہاں کہنے سننے کو ہی تو اکٹھا ہوئے ہیں ہم۔ ‘‘

’’کبھی کبھی لگتا ہے میاں …  کیا ہم اور ہمارے بچوں کے درمیان سینکڑوں برسوں کا فاصلہ ہے کیا۔ سوچو اس پر۔ لگتا ہے نا۔ سینکڑوں کروڑوں برسوں کا فاصلہ ہم اب گدھے معلوم ہوتے ہیں ان کے سامنے گدھے … ‘‘

برکت حسین ہنستے ہیں۔

بالمکند شرما جوش ہنس نہیں پاتے۔ اداس ہو جاتے ہیں۔

’’بچوں اور ہماری بولیوں میں زمین آسمان کا فرق، ان کی ہماری تہذیب میں زمین آسمان کا فرق ہے …  ان کے ہمارے خیالات میں زمین آسمان کا فرق اور … ‘‘

’’ان کی ہماری تعلیم میں … ‘‘ جوش صاحب جیب سے پن ڈبہ نکالتے ہیں۔

برکت حسین گاؤ تکیے کے پاس سے ہاتھ بڑھا کر چوکی کے نیچے سے چمچاتا اگل دان نکال کر بڑھاتے ہیں۔

جوش مذاق کرتے ہیں۔

’’آج اگل دان سے کشتی لڑی ہے کیا۔ ‘‘

’’یہی سمجھ لو — مگر میاں جھوٹ بولوں تو زبان سیاہ پڑ جائے۔ اب یہ مت سمجھنا کہ یہ گھر کے نوکروں کی صفائی ہے …  یہ میرے ہاتھ ہیں میاں میرے ہاتھ … ‘‘

’’کاش …  یہی کچھ سیکھا ہوتا زندگی میں۔ ‘‘

جوش ہنستے ہیں …  ڈرائی کلینرس میں نوکری تو مل گئی ہوتی …  اور میاں ڈرائی کلینرس کی بھی بات جانیں آج کے لڑکے …  ہمارے وقت میں تو بس لے دے کر خاندانی دھوبی ہوتے تھے …  ادھر کپڑا لیا۔ دوسرے دن سج سجا کر حاضر۔ گھر میں داخل ہوئے تو باہر ہی چپل اتار دیئے …  جب تک کپڑے لکھواتے رہے نظریں نیچی رہیں۔ کپڑے لکھوا دئے تب بھی مؤدب ہو کر کہتے …  گن لے جیو جی …  اتنے کپڑے ہیں۔ اب وہ زمانہ کہاں  …  وہ خاندانی دھوبی بھی نہیں رہے۔ ‘‘

’’چھوڑو۔ شطرنج نکالو … ‘‘

برکت حسین شطرنج نکالتے ہیں، مہرے پھیلاتے ہیں مہرے سجاتے ہوئے بھی بولتے رہتے ہیں …

’’لو  …  اب یہ بھی سنو، بچو کو ہمارا شطرنج کھیلنا بھی ناگوار لگتا ہے …  زیادہ دیر تک بیٹھ جاؤ تو ٹوکنے لگیں گے …  یہ کیا ابا کہ سارا دن بس شطرنج لے کر بیٹھ گئے …  اسی میں تو تباہ ہوئے مسلمان۔ ‘‘

’’چودھری برکت حسین، تم سے کچھ الگ نہیں ہیں ہمارے بچے، ہمارے بچے بھی کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں …  پیادہ چلو۔ ‘‘

بالمکند شرما جوش کی آنکھیں بساط پر پھیل جاتی ہیں …

’’یہ فیل چلا … ‘‘

چودھری برکت حسین نے پان چبایا۔ تھوک کو مسکراتے ہوئے دیوار پر پھینکا۔ سفید دیوار جا بجا پان کی پیک کی نقاشی سے چھن چھن کر رہی تھی …

’’لو میاں … وزیر، بچو‘‘

’’ وزیر تو سلامت رہے گا میاں …  تم شہہ بچاؤ۔ ‘‘

بالمکند شرما جوش ہنسے …

’’چائے منگواؤں ؟‘‘ برکت حسین نے پوچھا۔

’’رہنے دو۔ ‘‘

’’رہنے دوں۔ ؟‘‘

’’ہاں۔ اب چائے بھی مہنگی ہو گئی ہے۔ ‘‘

’’قیمت بڑھ گئی ہے۔ ‘‘

برکت حسین نے اگالدان رہتے ہوئے پھر دیوار کی طرف تھوک اچھالا۔

’’نہیں میاں دلوں سے ہماری عزت اتر گئی ہے۔ مشکل ہو گیا ہے چائے بنانا۔ اب سوچنا پڑتا ہے آواز لگاؤں یا نہیں  —  بچے برا تو نہیں مانیں گے کہ بڑھؤ خود کھیلتے رہیں گے اور چائے کے لیے پریشان ہمیں کریں گے۔ ‘‘

’’آخر اتنا کچھ —  ہمارے اور ہمارے بچوں میں یہ زمین وآسمان کی کشتیوں میں تیرتی اپلاتی ہیں۔ ہونٹوں پر لگے تھوک کو ہاتھ سے پونچھتے ہیں برکت حسین … ‘‘

بساط سے اٹھ کر آنکھیں، ایک دوسرے کی آنکھوں کی کشتیوں میں تیرتی اپلاتی ہیں۔ ہونٹوں پر لگے تھوک کو ہاتھ سے پونچھتے ہیں برکت حسین …  منہ ہلاتے ہیں  — ہلتی ہیں جھریاں بھی …  دھیرے دھیرے مسکراتے ہیں۔ لیکن اس مسکراہٹ میں ایک عجیب سی سنجیدگی بھی شامل ہے …

’’سب سنسکارکا فرق ہے … ہم تھے تو سنسکار بھی تھے …  اور جب سنسکار سیکھتے تھے تو اونچ نیچ بھی سیکھتے تھے …  ادب اور تہذیب بھی سیکھتے تھے۔ نئے بچے اڑن کھٹولے پر سوار ہیں، نئی نئی چیزیں …  ریڈیو وغیرہ تو پرانے پڑ گئے میاں …  اب کیبل ہے، اسٹار ہے …  زی، ٹی وی ہے …  اے ٹی ان ہے …  ہم تو بس بچوں سے سنتے رہتے ہیں …  پاپ میوزک ہے …  تم ہی کہو بالمکند، کل کو ہم گھر میں ذرا زور سے بول سکتے تھے چیخ سکتے تھے، تہذیب کو بالائے طاق رکھ سکتے تھے …  تمہیں ایک واقعہ سناؤں …  ایک بار چھوٹا تھا۔ چھوٹا کیا عمر ہو گی سترہ اٹھارہ کی …  آج کے بچے تو اس عمر میں الف سے ی تک سب سیکھ جاتے ہیں۔ کیا انہیں جانتے۔ اور ہم  …  گبدو رہتے تھے …  بدھو …  بے وقوف …  ہم صرف پڑھنا جانتے تھے۔ نماز کا وقت ہو گیا تو وضو بناؤ۔ نماز میں دیر نہیں ہو۔ پڑھنے کا وقت ہو ا تو پڑھنے بیٹھ جاؤ۔ ہر کام اصول سے ذمہ داری سے …  سترہ سال کی عمر کم نہیں ہوتی بالمکند۔ ابا نے بلایا تو سہمے سہمے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے …  جی ابا جان …

’’ہوں، ابا نے ہماری طرف دیکھا۔ اسکول پڑھائی کی خیر خبر دریافت کی۔ پھر پوچھا …  میاں برکت۔ ذرا وہ اشرف میاں کی دکان سے خرچے کی چیزیں لے آؤ گے۔

ہم تو نہال ہو اٹھے بالمکند میاں …  سترہ کی عمر ہو گئی تھی مگر بازار کیسا، سڑک کیسی بہت ہوا تو گھر سے اسکول۔ اسکول سے گھر۔ ابا کی بات سنی تو خوشی سے جھوم گئے ابا نے کسی قابل تو سمجھا۔ خوشی سے بولے۔ لائیے ابا جان۔ حکم سر آنکھوں پر ابھی لاتے ہیں۔ اور جانتے ہو پھر کیا ہوا۔ ابا جان غرائے۔ ایک ہاتھ پیٹھ پر دیا۔

چودھری برکت حسین پیٹھ کا درد محسوس کرتے ہیں۔ بالمکند جوش میاں …  اب بھی احساس کرتا ہوں تو وہ درد اپنی جگہ موجود ہے … ابا غصائے تھے …  میاں میں نے تو محض تمہارا امتحان لیا تھا اور تمہاری مجال اتنی بڑھ گئی کہ باپ کے سامنے دکان جا کر سامان لانے کی باتیں کر رہے ہو …  نالائق …  ناہنجار …  نا خلف … ‘

چودھری برکت حسین نے ٹھہا کا لگایا …  لو …  کیا زمانہ تھا میاں جوش۔ اب سوچو تو سینکڑوں برسوں کے فاصلے لگتے ہیں۔ لگتا ہے ست یگ کی باتیں ہیں …  آج کے بچے تو شیر ہیں …  کچھ بھی کر لیں۔ آپ باپ ہیں مگر بول نہیں سکتے …  سب سنسکار کی باتیں ہیں۔

’’اب سنسکار ہی نہیں رہے۔ ‘‘

بالمکند نے تھکی سانسیں چھوڑیں۔ آنکھیں شطرنج پر گڑائے ہوئے۔ پیادہ ہاتھ میں لیے بڑبڑائے اب سنسکار ہی اٹھ گئے …  اونچ نیچ …  چھوٹے بڑے کا لحاظ سب اٹھ گیا۔

اچانک مسکرائے …  زور سے آواز لگائی …  چودھری برکت حسین …  شہہ بچو۔

چودھری برکت حسین کے چہرے پر تناؤ کا جال پھیل گیا …

’’لو پھنس گیا۔ تم نے باتوں میں الجھا کر آخر مات دے ہی دی …  اب شہہ کہاں بچوں …  چاروں طرف سے شہہ کو تمہارے پیادوں نے گھیر رکھا ہے …  اب مات ہی مات ہے ہمارے لیے۔ ‘‘

ہاتھوں سے پیادے گرا دیئے۔ آواز لرز گئی۔

’تم کیا ہراؤ گے میاں۔ اب تو ہم لگاتار ہار رہے ہیں …  ہر محاذ پر …  ہمارے لیے ہار ہی ہار لکھا ہے۔

انہوں نے کسی کو آواز دی تھی …  شاید چائے کے لیے۔

(۳)

رات ہو گئی —

رات ہی سے تو نفرت ہے بالکمند شرما جوش کو …  رات، بھیانک رات …  ہر رات بھیانک ہوتی ہے …  آنکھیں بند ہوتی ہیں …  اور ایک جسم شتھل لاچار سا بستر پر پڑا ہوتا ہے …  کچھ کچھ مردہ سا …  دنیا  و ما فیہا سے بے خبر …  ممکن ہے تب خراٹے بھی بجتے ہوں …  یا چلتی ہوں سانسیں …  نتھنوں سے آواز اٹھتی ہو …  نیند، سکون اور بے نیازی، نیند کھلنے تک موت کا کفن پہنا دیتی ہے …  پہنے رہو …  اتارنا مت —  نیند تو کبھی پسند نہیں رہی بالمکند شرما جوش کو …  وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے …  جو لاچار اور بیمار ہوتے ہیں، وہی سوتے ہیں …  میں کیوں سونے لگا بھلا …  سوؤں گا بھی تو انگلیوں پر گنے جانے والے چند گھنٹے۔ اور سچ ہے، زندگی برسوں سے اصول اور قاعدے کی اسی سیدھی لائن پر چلتی رہی —  بچپن سے عادت بنا لی تھی۔ پتاجی بازو والے کمرے میں سوتے تھے۔ پتاجی کی بھی یہی عادت تھی۔ سونے کا نام نہیں۔ رات کے جس پہر بھی اٹھ لو …  ہاتھ میں کتاب دبی ہے۔ گاؤ تکیہ سے لگے پڑے ہیں۔ سرہانے اگالدان پڑا ہے۔ پن ڈبے سے پان نکالتے ہیں پان تھوکتے ہیں۔ اور پھر کتاب پر نظر دوڑنے لگتی ہے۔ تب وہیں اور سارے کے پاس باتھ روم بنے تھے۔ آنگن میں چاپاکل تھا۔ رات میں باتھ روم جاتے وقت پتاجی کے کمرے سے ہو کر گزرنا پڑتا۔ جس کسی لمحے بھی باتھ روم جانے کی نوبت آتی ابا کھکھار اٹھتے …

’’بالمکند سوئے نہیں۔ ‘‘

’’سوگیا تھا۔ ‘‘

’’نیند نہیں آ رہی ہے کیا؟‘‘

پھر دبی دبی آواز۔ بلی بہت تنگ کرتی ہے۔ ’’ذرا نعمت خانے کی کواڑ دیکھ لینا۔ ڈھک ڈھک کی آواز ہو رہی تھی۔۔‘‘

’’جی، پتاجی۔ ‘‘

گفتگو بند۔ ہاتھوں میں پھر سے کتاب آ گئی۔ اور شروع ہو گئیں۔ دلچسپیوں سے بھری آنکھیں …

٭٭٭

جانے کب بچپن کے انہیں تجربات و سواقعات سے گزرتے ہوئے انہوں نے بھی یہی عادت ڈال لی —  اس زمانے میں عام شریف گھرانوں کے بچے زیادہ تر گھروں میں قید رہتے تھے۔ ماں باپ کھیل کود اور بچوں کی دلچسپیوں کی چیزیں گھر میں ہی لے آتے تھے …  بچے گھر میں اچھلتے کودتے، کھیلتے باہر نکلنے پر پابندی تھی — یہ سبق بار بار سکھایا جاتا کہ سڑک کے بچے آوارہ ہوتے ہیں، سڑک پر نہیں جانا چاہئے، سڑک کے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہئے، زبان بگڑ جائے گی، ذہن خراب ہو جائے گا —

تب یہی باتیں عام تھیں۔ اٹھنے بیٹھنے، سجنے سنورنے، ہر جگہ آداب کی پیروی کرنی پڑتی۔ کوئی قدم غلط اٹھتا تو فوراً روک ٹوک کرنے والے موجود ہوتے …

’’میاں ‘‘ ہر قدم دیکھ بھال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اندیشہ ہے کہیں ٹھوکر نہ کھا جاؤ۔ ‘

ٹھوکر کھانے کا خوف اس قدر تھا کہ گھر میں بھی، راستے میں کہیں کوئی روڑا، پتھر نظر آتا تو حساس ہاتھ اسے فوراً بڑھ کر ہٹا دیتا —  تب پالکیوں کا رواج تھا۔ گھر کی خواتین پالکیوں پر چلتیں۔

سب جیسے کل کی بات لگتی …  اور کل بہت زیادہ پرانا نہیں لگتا …  بس جیسے ابھی ابھی پاس سے گزرا ہے …  باہر ڈیوڑھی میں کہار کھڑے ہیں …

’’ملکینی کب جائیں گی؟‘‘

’’ڈیڑھ بجے۔ ‘‘

دوبارہ سوال نہیں پوچھا۔ بہت ہوا تو ادھر ادھر ہوئے۔ نہیں تو ڈیوڑھی سے باہر نکل کر سیڑھیوں پررم گئے  —  کوئی گزرا تو  با ادب ہو گئے۔ ہاتھ پیشانی تک جا کر سلام بن جاتے۔

طور طریقے تھے —  وقت کا خیال تھا —  باہر جانا ہوتا تو گھر کے بڑے بوڑھوں کو بتایا جاتا۔ چودھری شرافت حسین کے یہاں سواری جا رہی ہے۔ رائے بہادر صاحب کے یہاں  —  گڑھی والے مان سنگھ کے یہاں …  پرانی حویلی والے نریش کمار سنہاجی کے یہاں …  یا پھر الطاف حسین کے گھر، چودھری برکت حسین کے ابا مرحوم۔

پالکی رکھائی۔ خواتین سوار ہوئیں۔ پردے برابر ہوئے۔ کہاروں نے اپنی اپنی جگہ سنبھالی …  ہاتھوں میں تھامے ڈنڈے پر وزن کیا …  اور یہ چلی پالکی۔

وقت نے کتنی جلدی ہمارے دستور ہی ختم کر دئے۔ تب دیوانِ خاص اور دیوانِ عام کا رواج تھا۔ ہندو ہو یا مسلمان، تہذیب پر سب جان چھڑکتے تھے۔ مردانہ اور زنانہ ڈیرے الگ الگ ہوتے تھے۔ یہ نہیں کہ منہ گھسیڑا اور اندر باہر ایک کر لیا۔ زنانہ ڈیرے میں جانے کا مطلب ہوتا تھا کہ پہلے خبر کرواتے تھے۔ اندر سے اجازت ملتی تھی، تب مؤدب ہو کر اخلاق کے نمونے پیش کئے جاتے۔

وہ زمانہ ابھی ابھی آنکھوں کے سامنے سے گزرا لگتا ہے۔ خون اور خاندانی ہونے کے گیت گونجتے تھے۔ اگلی پچھلی پیڑھیوں کے کارنامے دیکھے جاتے —  اور گھر کے بڑے بوڑھے تو ناک پر بال گرنے کو گوارہ نہیں کرتے۔

تب بچے گھروں میں قید رہتے تھے اور کتابیں پڑھتے تھے۔ لیکن انہی میں سے کچھ لوگ کبھی بھی بغاوت کر جاتے تھے۔ بندشوں اور گھٹے گھٹے جسم کو جب اچانک آزادی نصیب ہوتی تو بہک جاتے، بے راہ رو ہو جاتے، گلی کوچوں کی خاک چھاننے لگتے، بالاخانے پر ادھر ادھر نظریں طواف کرنے لگتیں  — کوٹھے کھلے تھے۔ طوائفوں کے رنگ تھے، گانے بجانے ٹھٹھول تھے۔ پیسہ تھا، دولت کا خمار تھا۔ اور جوانی کی ادائیں تھیں۔ جو بہک جاتے، وہ بہکنے کو بھی خاندانی زیور کا ہی نام دیتے —  مسلمانوں میں تو دو دو شادیوں کا عام رواج تھا۔ خود یہی الطاف حسین —  پہلی بیوی سے اولاد نہیں ہوئی تو اسے گھر بٹھا دیا۔ دوسری لے آئے تا عمر دونوں سے نبھایا۔ مگر حقیقت میں جس سے اولاد ہوئی وہاں چاہت بھی زیادہ ہوئی۔ اب اس چاہت پر مرد کا حق تو نہیں، بے بس اور مجبور ہوتا ہے مرد، کسی پر لٹائے کسی پر کنجوسی کرے، کس سے نظریں ملیں، کس سے نظریں چھپیں۔  —  دل لگا تو معاملہ قتل و غارت تک پہنچ گیا، تلواریں تک نکل گئیں  — خاندانی دشمنی چھڑ گئی۔ اب الگ الگ خاندانی زنگ لگتی تلواروں کی دھار کھل رہی ہے لیکن سب کچھ مہذب طریقے سے —

مہذب؟

بالمکند شرما جوش خاندانی ڈور سے کچھ ایسے بندھے ہیں کہ انہیں سب صحیح صحیح نظر آتا ہے۔ غلط بھی صحیح۔ پرانے وقتوں کے لوگوں کی ساری ادائیں جائز لگتی ہیں۔

خود ان کے خاندان میں۔

پتاجی بتاتے ہیں، ان کے چچیرے بھائی تھے۔ انیردھ شرما جوانے مسانے۔ تھے بھی بڑے بانکے سجیلے۔ ہاں کچھ کرتے نہیں تھے۔ زمینداری پر ناز تھا۔ بیٹھکا جمتا تھا۔ یار دوستوں کی بیٹھکی کھلتی تو …  اور بیٹھکی بھی آج کے چھوکروں جیسی نہیں۔ مہذب دائرے میں …  کسی کو اشارہ کرنا ہوا یا کسی کے حسن کی تعریف کرنی ہے تو وہ بھی شعر و شاعری اور خوب صورت زبان میں  —  اس وقت گھر کی بالائی منزل پر جوان مردوں کے جانے پر بھی پابندی تھی۔ عام خیال تھا کہ بالائی منزل پر عورتیں ہوتی ہیں۔ بے پردگی کا بڑا خیال تھا۔ ایک دن انیردھ کوٹھے پر چڑھے تو محلے میں ہی ایک بنیہار کے یہاں آنکھیں لڑ گئیں۔ پھر کیا تھا، دل کی چوٹ کھا گئے، زندگی بدل گئی …  بیٹھکے میں دل نہیں لگتا تھا۔ آنکھیں تھیں تو بام سے الجھی۔ ہوتے ہوتے داستانِ عشق کے چرچے محلے میں ہونے لگے۔ تب جا کر دادا جی کے کانوں تک بھی یہ بات پہنچی۔ پہلے تو خاندانی خوف کا واسطہ دے کر سمجھایا گیا۔ انیردھ کے مزاج میں ذرا برابر بھی فرق نہیں آیا، تو دادا بزرگوار نے تلوار کھینچ لی۔ جان کے لالے پڑ گئے انیردھ کے محلے بڑے بزرگوں نے سمجھایا کہ بچہ ہے غلطی ہی کیا ہے اور پریم کا روگ کسے نہیں لگا۔ رشی منیوں سے لیکر پہنچے ہوئے سادھو فقیروں تک …  سب اس روگ کا شکار ہوئے۔ بہت سمجھایا گیا تب جا کر دادا بزرگوار نے شمشیر کی نوک نیچے کی۔ غصے میں تھر تھر کانپتے رہے۔ پھر حکم صادر ہوا …  نا خلف ناہنجار کو کہہ دو۔ جب تک زندہ رہوں میرے سامنے نہ آئے۔

لوگوں نے لاکھ کہا سنا۔ معاف کر دیجئے، بچہ ہے۔ مگر اس حکم پر اَڑ گئے دادا بزرگوار —  منہ سے بات نکل گئی تو قانون کی طرح اٹل ہو گئی۔ اب چاہے جو ہو جائے جھکیں گے نہیں  —  کہتے ہیں چار پانچ دن اسی لگا چھپی میں گزرے۔ یعنی ایک تماشہ بن گیا۔ کھانا نکلا تھا۔ ابا بیٹھ گئے۔ انیردھ کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ ابا کھاتے کھاتے اٹھ گئے۔ واپس لوٹ گئے —  کمرے میں گھوم رہے ہیں۔ انیردھ کی جیسے بو بھی سونگھ لی تو اپنے کمرے میں گھس گئے۔

ایک سنجیدہ بات کو اچھے خاصے مذاق میں ڈھال دیا تھا لوگوں نے  —  لیکن زور سے بول نہیں سکتے تھے، ہنس نہیں سکتے تھے۔ معاملہ کتنا سنجیدہ ہے اس کا پتہ تو تب چلا جب بہت دیر ہو چکی تھی …  اور اس سے پہلے کہ دادا صاحب کا غصہ نرم ہوتا، انیردھ نے منہ سے نکلی بات کی لاج رکھ لی۔ ایک صبح وہ کمرے میں مردہ پایا گیا، اس نے سنکھیا کھا لی تھی۔

کہتے ہیں اسی کے بعد ددو زیادہ دن تک نہیں جیئے۔ بیٹے سے پیار تو تھا۔ کمرے میں چھپ چھپ کر روتے تھے مگر کسی کے سامنے اظہار کرنا نہیں چاہتے تھے۔ بیٹے کا جنازہ اٹھا تب بھی نہیں روئے۔ باہر دروازے پر لاٹھی ٹیکے شیروانی کرتا پائجامہ اور ٹوپی میں سر چھپائے مورت کی طرح کھڑے رہے —  آنکھوں میں آنسو کا کوئی قطرہ نہیں، شمشان گئے —  کریا کرم سب کچھ ہو گیا۔ لیکن آنکھوں سے ایک قطرہ نہیں بہا —  ہاں بیٹے سے پیار اتنا تھا کہ گھنٹوں کمرے میں بند رہتے باہر نکلتے تو آنکھیں سوجی سوجی اور پھولی پھولی ملتیں۔

اوراس واقعہ کے کچھ ہی دن بعد داد بزرگوار کے پنکھ بھی پکھیرو ہو گئے۔ انیردھ کا پیار انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔

تو ایسے ہوتے تھے اس وقت کے مہذب لوگ —  تہذیب کسی بندوق کی گولی کی طرح پیدا ہوتے ہی جسم میں داغ دی جاتی تھی۔ بیٹا لاج رکھیو زندگی بھر۔ آخر کس خاندان میں جنمے ہو … ‘

وقت کے ساتھ تہذیب کی تعریف بھی بدل گئی۔ نئے نئے فیشن، پاپ میوزک …  اٹھلاتی چلتی لڑکیاں …  اور لڑکے …  کہیں امید کا ایک ریلا سا بہتا ہے …  پھر اس امید کو مختلف تیز تیز دھارائیں بہا لے جاتی ہیں …  ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہیں …

پھر وہی رات …  بھیانک …

کروٹیں بدلتے ہیں تو بدن کی ہڈیاں چٹخ جاتی ہیں …  آنکھ موندتے ہیں تو دنادن گولیاں چلنی شروع ہو جاتی ہیں …  گھبرا کر آنکھیں کھول دیتے ہیں۔

یہ سب …

یہ جنوں کا رقص، آنکھیں بند کرتے ہی یہ جنوں کا رقص کیسے اور کیوں شروع ہو جاتا ہے …  جیسے چاروں طرف سے حملہ آور تلواریں لے کر ان پر ٹوٹ پڑے ہوں …  بچو گے نہیں بچو — اب تم بھی نہیں بچو گے …  اب تمہاری باری ہے …

’’ہم پر؟‘‘

’’ہاں تم پر … ‘‘

جیسے دیواریں ہنستی ہیں …

رات کو گونجنے والا چوکیدار کا گھنٹہ ہنستا ہے …  جاگ کے سوئیو …

’’لیکن ہم کیوں مارے جائیں گے؟‘‘

اندر تک تیزابی ٹھنڈ تیر جاتی ہے …

’’کیا اب بس یہی بچ گیا ہے؟ یہی ہونے کو؟ دنگے اور فساد کی ایک نئی کہانی دہرائی جائے گی …  ایک نئی کہانی …  شیعہ سنی فساد …  ذات پات کے نام پر ہونے والے دنگے، ہندومسلم دنگے …  سب پرانے پڑ گئے …  اب تلوار کی زد پر تم ہو … ‘‘

’’وہ چیختے ہیں …  لیکن ہم کیوں ہیں ؟‘‘

’’تم غلط کیوں سوچتے ہو؟‘‘

’’غلط؟‘‘

’’ہاں غلط — کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ غلط ہے۔ غلط سمجھوگے تو بس غلط ہی رہو گے۔ ‘‘

’’لیکن وہ پاپ کر رہے ہیں … ‘‘

آواز بھیگ جاتی ہے …

’’چپ رہو۔ سمجھا کرو …  وقت کی نزاکت بھی کوئی چیز ہے۔ ‘‘

’لیکن یہ ہنساتمک راستہ؟‘‘

قہقہہ لگتا ہے …  پاگل ہو۔ اپنی آزادی بھی نہیں چاہتے کیا؟ اپنی مکمل آزادی‘

’’تو کیا اب تک کی آزادی  … ‘‘

قہقہہ پھر گونجتا ہے …

’’پاگل۔ اس آزادی میں تمہارے لیے الگ سے تھا کیا؟ جیسی سب کی تھالی ویسی تمہاری کچھ فرق تو ہونا چاہئے تھا نا … ‘‘

آواز اسے کھنگالتی ہے … ‘‘ دیکھو جو ہو رہا ہے سمجھو۔ اسے غلط سمجھ کر آنکھوں میں کنکری مت بھرو —  ورنہ تم بھی  … ‘‘

آنکھوں میں دہشت سماتی ہے۔

چودھری برکت حسین آنکھوں میں جگہ گھیرتے ہیں …

اب تم بھی خطرے میں ہو بالمکند شرما جوش۔

’’کیوں ؟‘‘

 ’’تمہارے نام کے ساتھ جوش لگا ہے …  آدھے مسلمان … ‘‘

وہ ہنسنا چاہتے ہیں …

’’میاں ایسا ہوا تو اِزار بند کھول کر … ‘‘

چودھری برکت حسین زور دار قہقہہ لگاتے ہیں …  پھر قہقہہ لگاتے لگاتے ٹھہر جاتے ہیں …  بالمکند شرما چپ ہو گئے ہیں …  آنکھوں میں شاید بیتے اتہاس کے کانٹے چبھ گئے ہیں … ‘‘

’’کھولو گے تب بھی فرق نہیں پڑے گا انہیں۔ ‘‘ برکت حسین پن ڈبے سے پان نکالتے ہیں …  ’’تب بھی فرق نہیں پڑے گا جوش میاں …  کیوں کہ اب ہمارے بعد —  تم ہو …  تم جیسے سیکولر سوچنے والے …  اب وہ چن چن کر تمہیں ختم کریں گے —  تم جہاں کہیں بھی ہو گے، تمہیں تلاش کریں گے اور ختم کر دیں گے … ‘‘

٭٭٭

برکت حسین کسی چھلاوہ کی طرح اوجھل ہو گئے  …  مہین آواز برابر گونج رہی ہے۔ کیونکہ اب ہمارے بعد زد میں تم ہو …  تم جیسے …  تم جہاں بھی …  ہو گے تمہیں ختم کر دیں گے۔

بھیانک رات …  جیسے چلتے چلتے ٹیپ پھنس گیا ہو …  کانوں کو زور سے بند کرتے ہیں بالمکند شرما جوش …  نیند نہیں آ رہی …  کم بخت نیند …  اول فول خیالات …  بچپن سے ڈالی گئی بری عادت کا خمیازہ اب اس عمر میں بھگت رہے ہیں وہ …

ایک بار پھر آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ …  سوجاؤں تو تھوڑا آرام مل جائے …  بھاری طبیعت کو قرار مل جائے …  پیر ہاتھ کے جوڑوں میں درد ہے …  ہاتھوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر کڑکڑاتے ہیں۔ پھر آنکھ بند کر لیتے ہیں …  اور …  وہی چھوٹتی ہوئی گولیاں …  دھماکے …  بارود …  وہ بس ایک خواب دیکھتے ہیں اور ڈر جاتے ہیں۔ آنکھیں کھول دیتے ہیں …  وہ خواب دیکھتے ہیں کہ ایک ڈھانچہ ہے … نہیں مسجد ہے …  ایک ڈھانچہ ہے …  نہیں …  وہ اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے …  لیکن کچھ لوگ  …  نہیں ڈھیر سے لوگ  …  نہیں …  اسنکھ لوگ …  خوفناک خوفناک شکلوں والے …  مل کر توڑ رہے ہیں …  اور …

ان میں ان توڑنے والوں میں انیل اور نریندر بھی ہیں۔ اس کے بیٹے …

بس آنکھیں بند کرتے ہی پھر وہ یہی خواب دیکھتے ہیں اور ڈر جاتے ہیں۔

٭٭٭

 

                   شہر آشوب

(۱)

محلے میں تلاشی چل رہی تھی …  پولیس کے آدمی اچانک ہی گھر میں گھس جاتے۔ اسلحوں کی چھان بین کے لیے پورے گھر کا نقشہ بدل دیا جاتا۔ اس کے تحت کتنی ہی گرفتاریاں عمل میں آ رہی تھیں جہاں سے اسلحہ برآمد ہوتے۔ پولیس وہاں مردوں کو کھینچتی ہوئی ۲۵ آرمز ایکٹ یا دفعہ ۱۸۸ کے تحت گرفتار کر لیتی۔

تلاشی کا سلسلہ اچانک شروع ہوا تھا۔ جب اڑتے اڑتے یہ خبر عام ہوئی تھی کہ محلہ کھیم پور میں مسلمان بم بنا رہے ہیں۔ حالات پہلے ہی خراب تھے۔ اس افواہ سے فضا تھوڑی اور بوجھل ہوئی۔ بوجھل فضا میں تلاشی لینے کے واقعہ نے سنسنی پھیلا دی۔

دو دن پہلے مین چوک پر توڑ پھوڑ ہوئی تھی۔ کہتے ہیں شاہی مسجد سے پتھراؤ بھی کیے گئے …  پولیس نے الگ الگ مورچہ سنبھالا تھا۔ کنٹرول روم سے فائرنگ کی خبر پاتے ہی دھڑا دھڑ پولیس گاڑیاں چوک کے آس پاس پہنچنے لگی تھیں۔ کسی آتنک وادی نے بم کا استعمال بھی کیا تھا۔ کانچ کے نوکیلے ٹکڑے زمین پر ادھر ادھر چھترا گئے تھے۔ حالات پر قابو پانے کے لیے پولیس کو آنسو گیس چھوڑنی پڑی اور ڈنڈے بھی برسانے پڑے۔

مسجد سے پتھراؤ ہوئے تھے، ایسا ایک پولیس انسپکٹر کا بیان تھا وہ مسجد میں گھس کر پتھراؤ کرنے والے کو پکڑنا بھی چاہتا تھا۔ مگر ٹھیک اسی وقت وائرلیس سے میسج آیا تھا۔ ایسا بھول کر بھی مت کرنا۔ دنگے کی سمبھاؤنا بڑھ جائے گی۔ آس پاس کے مکانوں سے کافی دیر تک پتھراؤ چلتے رہے۔ مین چوک کے قریب کافی پتھر اکٹھا ہو گئے تھے۔ ہوا میں دھول گرد اور بارود کی مہک پھیل گئی تھی۔

اسے بڑے پیمانے پر ہونے والے دنگے ریہرسل کہنا مناسب نہیں ہو گا کیونکہ اب یہ واقعہ شہر کے لیے کوئی نیا نہیں رہ گیا تھا …  لوگ ویسے ہی ملتے تھے، باتیں کرتے تھے۔ باہر کی میز اور باہر کی دنیا میں لفظوں میں دوستی اور بھائی چارہ عام دنوں کے جیسا ہی بنا تھا۔ مگر حقیقت میں گھر کے دروازے تک قدم رکھنے کے بعد یہ وچار دھارے تناؤ اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں بدل جاتے تھے۔ جن محلوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی وہ علاقے پاکستانی علاقے قرار دیئے جا رہے تھے۔ اور جہاں ہندو اکثریت میں تھے وہ آر ایس ایس چھیتر گھوشت کر دیا گیا تھا —  کہاں کون زیادہ سہما تھا، یہ کہنا مشکل تھا مگر شہر کے وہ محلے، جہاں مسلمانوں کی تعداد کم تھی، یا نہیں کے برار تھی، ضرور ضرورت سے زیادہ سہمے ہوئے تھے۔ فضا خراب ہوتی تو اس طرح کے منظر بھی پاکستانی محلوں میں عام ہو جاتے۔ مٹھری، گٹھیر، اٹیچیاں اور بندھے سامانوں کے ساتھ ہانپتی کانپتی برقع اوڑھے مسلمان عورتیں چھوٹے بچوں کا ہاتھ پکڑے یا اپنی جوان ہوتی بچی کو لپٹائے کسی گھر میں داخل ہو رہی ہیں۔ پھر سلامالیکم کی زور دار آواز کے ساتھ رونے، گلے ملنے اور سسکیوں کی تیز آواز بھی گونج جاتی …  جو بھاگ کر، گھر بار چھوڑ کر پناہ لینے کے بہانے عزیز، رشتہ داروں کے یہاں چھپتے، وہ اپنے ساتھ جھوٹی خبروں اور افواہوں کی گٹھریاں بھی لاتے۔

’’فلاں، مندرسے اعلان ہوا ہے، مسلمانوں کو نماز نہیں پڑھنے دیا جائے گا۔ ‘‘

’’جو مسلمان نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جائے، اسے مار دیا جائے۔ ‘‘

’’سالم پور سے چار نوجوان لڑکے غائب ہیں۔ چاروں مسلمان تھے۔ ‘‘

’’لاش ملی؟‘‘

’’لاش ٹھکانے لگا دی ہو گی۔ رائٹ ہو تو پولیس اور ہندوؤں کی دوستی دیکھنے میں آتی ہے۔ ‘‘

’’ارے سالم پور کیا، کئی محلوں سے مسلمان لڑکے غائب ہیں۔ ‘‘

’’شریف آباد میں ایک مسلمان چھوکڑی کا ایک پولیس والے نے ریپ کیا اور مار کر جھاڑی میں پھینک دیا۔ ‘‘

ایسا نہیں ہے کہ افواہوں کی یہ گشت صرف پاکستانی علاقے میں ہی تھی۔ آر ایس ایس گھوشت کیے گئے چھیتر میں بھی افواہوں کے یہی تانے بانے تھے۔

’’مسلے لڑکے انڈرویر میں بم چھپائے گھوم رہے ہیں۔ ‘‘

’’ایسے بھی سالوں کو بکرا کاٹنے کی پریکٹس ہوتی ہے۔ ‘‘

’’سر پہ چڑھ کے بولنے لگے ہیں حرامی۔ جہاں موقع لگتا ہے، مارنے سے نہیں چوکتے۔ ‘‘

’’اکبر پورہ میں دو ہندوؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ‘‘

’’چمار ٹولی سے چماروں کی ایک لڑکی غائب ہے۔ کہتے ہیں عباس بھائی درزی والے کے لڑکے نچھوسے عشق چل رہا تھا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے، اس لیے اسے مار کر پھینک دیا۔ ‘‘

٭٭٭

ایسا نہیں ہے کہ پولیس ان افواہوں سے انجان تھی۔ مگر افواہوں سے بچنے کا ہر اعلان خالی وار کی طرح بیکار جا رہا تھا۔ ایسے موقعوں پر افواہیں تو اڑتی ہی ہیں اور صرف اڑتی نہیں ہیں۔ بلکہ چنگاری میں بھس کا کام بھی کرتی ہیں۔ پولیس کے لیے جان مال کی حفاظت کی طرح یہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ ان افواہوں کو روکنا اور افواہیں پھیلانے والے ویکتیوں کو حراست میں لینا —  بنا وردی میں بھی پولیس کے جاسوس ادھر ادھر چھترائے ہوئے تھے۔ گولی کوچوں، محلوں، چائے پان دان والوں …  پولس کی الگ الگ چھوٹی بڑی ٹکڑیاں ادھر ادھر گھوم رہی تھیں۔ نکڑوں پر وائرلیس لیے سپاہی اپنے اپنے افسروں سے مشورہ کر رہے تھے۔ کنٹرول روم میں بیٹھے افسران بھی منٹ منٹ اور پل پل کی خبریں لے رہے تھے۔

شہر میں دہشت کا سماں تھا —  لوگ خوف سے اپنے اپنے گھروں میں بند تھے اور بی بی سی کی خبروں پر کان دھرے تھے …  پولیس کی جیپ مکان کے سامنے سے پاس کر جاتی تو بدن میں دہشت سی بھر جاتی۔ رواں کھڑا ہو جاتا۔

پتھراؤ کے بعد حالات اور بھی گمبھیر ہو گئے …  بھاگ دوڑ، افراتفری میں گرتے پڑتے لوگوں کی جماعت، جہاں موقع ملتا، دوڑ جاتی۔ جو انہیں دوڑ پاتے، پولیس کے جوان انہیں ڈنڈوں سے پیٹنے کے اشارے کرتے۔ چوڑی گلی ہوتی، یا سنڈاسوں والی سنکری گلی ہوتی …  ادھر ادھر بھاگتے لوگوں کو پولیس بے رحمی سے کھدیڑ رہی تھی …

پولیس فائرنگ سے ایک آدمی زخمی ہوا تھا —  زخمی کو فوراً ہی ایمبولینس میں کر کے اسپتال بھیج دیا گیا —  چوراہے پر ایک جگہ گول دائرے میں خون کے نشان جھل مل کر رہے تھے …  آگے دور پر پولیس جیپ کھڑی تھی …

بھگدڑ کیسے مچی؟

صاف صاف کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ مگر کئی دنوں سے اس ریہرسل کے ہونے کی امید بندھ گئی تھی۔ پچھلے ایک ماہ سے جمعہ میں ہونے والی نماز کا خیال کرتے ہوئے وردی دھاری پولیس ادھر ادھر مسجد کے آمنے سامنے کی دکانوں پر بیٹھ گئی تھی —  کرفیو لگنے کا بھی اندیشہ تھا۔ مگر تب تک کرفیو کی کوئی ایسی گھوشنا نہیں ہوئی تھی۔ ہاں جمعہ مسجدوں میں نماز کے لیے آنے والوں میں کمی ضرور آ گئی تھی —  سڑکوں پر پولیس گشت بڑھی تھی۔ شام ہوتے ہی دکانیں جلدی جلدی بند ہو جاتیں۔ آپس میں ٹینشن، تناؤ کا ماحول تو بن ہی گیا تھا اوراس پر افواہوں کا مایا جال۔ کل ملا کر دنگوں کی سمبھاؤنا تو بن ہی گئی تھی —  دیگر شہروں میں ہونے والے دنگوں سے بھی یہ شہر متاثر ہوتا۔ صبح کے سماچار میں دنگوں کی خبریں چھپتیں، تو سڑک چوراہوں، پان کی دکانوں پر زور زور سے اخبار سنارہے لوگوں میں جوش و جذبات اور غصے کا ملا جلا رنگ پایا جاتا۔ ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولنے کی کارروائیاں شروع ہو جاتیں۔ کہیں گتھم گتھا کی نوبت آ جاتی۔ کہیں چھوٹا موٹا جھگڑا ہو جاتا، کہیں چاقو چلنے کی واردات ہو جاتی …

شہر گرم تھا۔

اور اس طرح کی چھوٹی موٹی وارداتیں اسے مزید گرم رکھنے میں معاون ثابت ہو رہی تھی۔

لیکن اس سے پہلے تک کرفیو کی نوبت نہیں آئی تھی اور نہ ہی معاملہ اس طرح پولیس کے ہاتھ سے نکلا تھا۔

٭٭٭

اس دن جمعہ تھا۔ اور جمعہ تھا یہی بڑی بات تھی۔ جمعہ کا مطلب مسلمانوں کا دن، ہندوؤں نے اسے اس طرح بانٹا تھا۔ سات دنوں میں پانچ دن ہندوؤں کا جمعہ،  جمعرات مسلمانوں کا —  جمعہ کا مطلب کرتا پائجامہ۔ جمعہ کا مطلب ٹوپیاں، جمعہ کا مطلب مسجدوں کی طرف بڑھتے ٹوپی پہنے قدم …  جمعہ کا مطلب مسجدوں کی طرف جانے والے راستوں میں ہلچل …  اور بدلتے وقت کے ساتھ جمعہ کا مطلب، تناؤ کی فضا، دہشت کا رنگ، وحشت کی ترنگ اور ادھر ادھر دکانوں اور سڑکوں پر پولیس ٹکڑیوں کا جماؤڑا — پتھراؤ سے بچاؤ کے لیے کین کے بنے ہڑ دل لیے گھومتی وردی دھاری پولیس …  اس دن جمعہ تھا اور پچھلے کئی جمعہ نے، اور چھٹ پٹ، ہونے والے ریہرسلوں نے خطرے کے سائرن تو جانے کب کے بجا دئے تھے۔ لیکن لوگوں کی ’کھیج‘ اور غصہ اسی جمعہ پر اترے گا، یہ کس نے سوچا تھا —  جمعہ تھا اور ہندو مسلم افواہوں نے کتنے ہی مسلمانوں کو مسجد جانے سے روک لیا تھا۔ کلیم پور، بہشتی پورا، بہشتی ٹولہ، اکبر پورہ، دالان والی مسجد، محلہ قریش اور دیگر محلوں میں پولیس کی گشت صبح ہوتے ہی بڑھ گئی تھی۔

جمعہ نماز بعد مسجد سے لوٹتے نمازیوں میں سے کسی کی کسی سے کہاسنی ہو گئی پھر اچانک سڑک پر مارو …  جانے نہ پائے اور بھاگو جیسی چیخیں اور بھاگم بھاگ شروع ہو گئی۔ گرتے پڑتے ادھر ادھر بھاگتے نمازیوں کے سر پر خطرے کی تلوار جھول گئی۔

کین کے ہرڈل لیے سپاہی بندوق اٹھائے حرکت میں آ گئے۔ بندوق کی نال ہوا میں اٹھ گئی۔ بھگدڑ مچ گئی۔ شٹر جلدی جلدی گرنے لگے …  دھواں بارود فضا میں پھیلنے لگا …  پولیس کی ٹکڑیوں میں سول پولیس کے سپاہی اور ہوم گارڈ فوراً حرکت میں آ گئے۔ پولیس جیپ کے سائرن تیز ہو گئے۔ گاڑیاں ادھر ادھر گھومنے لگیں۔

کچھ جگہوں پر آگ لگنے جیسی وارداتیں بھی منٹوں میں ہو گئیں …  دھواں اٹھنے لگا …  وسل دیتی پولیس گاڑیاں اعلان کرتی سڑکوں سے گزرنے لگیں  —  دھواں سڑکوں سے ہوتا ہوا ہوا میں ملنے لگا۔ گھروں کی کھڑکیاں، دروازے جلدی جلدی بند ہونے لگے …  جن کی موٹر سائیکلیں تھیں وہ تیز تیز موٹر سائیکلیں بھگاتے ہوئے اپنے اپنے ٹھکانوں پر بھاگ رہے تھے۔

دو ایک جگہوں سے بم دغنے کی آواز بھی آئی۔ کچھ دیر تک فائرنگ کا سلسلہ بھی چلا۔ پولیس میں بھی دہشت تھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ پولیس کی حالیہ دنگوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو بھومیکا رہی ہے، اس سے مسلمان گٹوں میں ناراضگی بھری ہے۔ کچھ مسلمان پولیس ٹکڑیوں پر حملہ کرنے کے پروگرام بنا رہے ہیں۔

سڑکوں پر بندوق اور وردی دھاری سینا کی ٹکڑیاں دیکھتے ہی دیکھتے چھا گئیں۔ مسجد کے پاس جب پولیس پر پتھراؤ ہوا تو کچھ دیر کے لیے پولیس والے بھی ڈر گئے۔ پر پھر وائر لیس پر میسج ملتے ہی ادھر ادھر دکان کی چھتوں پر برجوں پر گھروں پر چپکے سے گھس کر بالائی منزلوں پر چھپ کر بندوق تانے دنادن فائرنگ کا رخ مسجد کی طرف موڑا جائے۔ حالات سنگین ہیں  —  ضرورت پڑنے پر دھواں اور آنسو گیس کا ہی استعمال کیا جائے۔

آس پاس کے گھروں سے رونے، چیخنے چلانے اور الاپ کرنے کی آواز بھی اب بھگدڑ کا حصہ بن گئی تھی …  پی اے سی اور پولیس جوانوں کی بوٹ سڑکوں کو روند ڈالے رہی تھی۔ ادھر ادھر پی اے سی کے جتھے چھترائے ہوئے تھے مسجد کے پاس آ کر ایس پی کی جیپ رکی۔ ایس پی نے باہر آ کر گلے میں لٹکے بھونپو سے مسجد میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لیے اعلان کیا۔ ’’جو گھر جانا چاہیں تو وہ بلا خوف نیچے آ جائیں۔ ہم انہیں گھر تک چھوڑنے کی ذمہ داری لیتے ہیں … ‘‘

پہلے تو مسجد سے چپی رہی، لیکن یہ اعلان دو تین بار گونجا تو پہلے ایک داڑھی والا بوڑھا آدمی نکلا، اس کے چہرے پر دہشت سے ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ماتھے پر گٹھا پڑا تھا۔ ٹوپی سر سے اتار کر اس نے ہاتھ میں پکڑ لی تھی۔ وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔

’’آ جائیے‘‘

 ایس پی نے اشارہ کیا تو وہ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا۔

بوڑھے کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگ اور بھی اتر آئے —  ایس پی نے اسی وقت باقی نمازیوں کو پولیس جیپ میں ان کے گھر بھجوا دیا۔

اسی درمیان شہر کے کئی علاقوں میں، بھڑکنے والے دنگوں کی خبریں بھی آ گئیں چاقو، قتل، گولی مار کر ہتیا، اور کئی گروپوں میں جھڑپ کی وارداتیں بھی سامنے آ گئیں۔

کچھ ہی دیر میں کرفیو کا اعلان کرتی جیپ سڑکوں سے گزرنے لگی۔ سڑک سنسان ہو گئی۔ ویران ہو گئی —  پولیس کی ٹکڑیاں بچ گئیں، پی اے سی کے جتھے رہ گئے۔

اور کین کے بنے ہرڈل لیے بندوق سے لیس سپاہی رہ گئے جن کے جوتے سناٹی سڑک پر بجتے ہوئے خوف اور آتنک پیدا کر رہے تھے۔

(۲)

برکت حسین عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر کمرے میں آئے تو جمیلہ قرآن شریف کی تلاوت میں مصروف تھیں۔ کمرے کی لائٹ تو جل رہی تھی لیکن اندر کچن، باتھ روم اور اوسارے کے پاس کی تمام روشنی گل تھی۔ برکت حسین کے قدموں کی چاپ نے جمیلہ کو مڑ کر دیکھنے کو تو مجبور کیا لیکن ایک سہمی ہوئی نظر ان پر ڈال کر وہ دوبارہ لرزتی آواز میں کلام پاک میں کھو گئیں۔

چار پائی پر نشی سو رہی تھی۔ منا یعنی ان کے لڑکے تنویر حسین کی بچی —  تنویر حسین بڑے ہو گئے۔ شادی ہو گئی۔ بچے ہو گئے لیکن کل کے منا اور آج کے منا۔ نام اپنی جگہ بنا رہا۔ کتنی بار تنویر نے ابو کو منع کیا۔ ابو آپ سمجھتے نہیں۔ اچھا لگتا ہے کیا۔ دوست احباب آتے ہیں۔ برکت حسین مسکراتے بھائی زبان کو کیسے سمجھاؤں۔ تنویر کہتے ہوئے لڑکھڑا جاتی ہے زبان۔ بچپن سے منا ہی بولتا آیا ہوں۔ سو منا ہی کہوں گا۔ اب چاہے تم ناراض ہو، تمہاری مرضی۔

منا بجلی آفس میں کلرک تھا۔ کلرکی سے خوش نہیں تھا۔ اس کے کئی دوست تجارت میں تھے۔ وہ بھی تجارت میں جانے کا خواہش مند تھا۔ لیکن چودھری برکت حسین کو گوارہ نہیں تھا۔ نہیں میاں۔ اب اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہم کہ آٹے دال کی دکان کھول کے بیٹھ جائیں سرکاری نوکری کرتے ہو، دفتر جاتے ہو، شام کو گھر آتے ہو، یہ زیادہ ٹھیک ہے۔ ‘‘

وقت کیسے بدل رہا ہے۔ زمانہ کتنا بدل گیا۔ اس کی پہلی تھاپ تو اس وقت ہتھوڑے کی طرح ان کے ذہن پر پڑی تھی۔ جب منانے باہر کی بیکار پڑی زمین پر دکان اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔

وہ بپھر گئے تھے۔

’’پاگل ہو گئے ہو باپ دادا کی جائیداد کو کوئی ایسے رسوا کرتا ہے۔ اور وہ بھی اس طرح دکان کے لیے اٹھوا کر۔ ‘‘

منا غصہ ہو گیا —

’’لوگ پاگل ہمیں کہتے ہیں ابا۔ اتنی سی زمین۔ چار پانچ دکانیں تو کہیں نہیں گئی ہیں۔ ‘‘

’’لیکن یہ جو پھلواری ہے۔ ‘‘

برکت حسین کا دل پسیج گیا …  یہ خوبصورت پھول بوٹے …  بچپن کے دنوں میں یہیں تو کھیلتے کھیلتے بڑے ہوئے تھے۔ کرسیاں نکلتی تھیں۔ بیلا، چمیلی اور رات کی رانی کی خوشبو سے فضا معطر ہو جاتی۔ کبھی رات کے وقت ان میں جگنو بھی لہراتے، گپیں ہوتیں، چائے پی جاتی …  وہ دن، وہ زمانہ …

مگر منا اڑ گیا —

’’پرکھوں نے دنیاداری سمجھی تھی کب ابا۔ سمجھتے تو ٹھیل ٹھال کے خالی یہ گھر نہ ہوتا۔ نام کے ہیں خاندانی ہم۔ گھر میں اناج نہیں ڈھکتا۔ ‘‘

’’یہ سب کسے سنارہے ہو۔ ‘‘ وہ بگڑ کر بولے۔

’’سناؤں گا کسے۔ اپنی قسمت کو کوستا ہوں۔ نشی بڑی ہو رہی ہے۔ اورآپ سمجھتے نہیں۔

’’نشی — ‘‘

’’ننھی منی دو برس کی نشی پر نظر مرکوز ہو گئی۔ ‘‘

منا غصے میں اٹھا۔ ’ایک تو لڑکی ہوئی، خرچے کا گھر —  بڑھتی خانہ داری اور مہنگائی۔ کیا کھائے کیا جمع کرے آدمی۔ آپ کو سوچنا چاہئے ابا۔ دو دکانیں بھی اٹھ گئیں، تو نشی کے جہیز کے واسطے بینک میں کچھ پیسے جمع ہو جائیں گے۔ کلرکی سے ملتا کیا ہے جو بڑا ہونے پر اس کے جہیز میں دوں گا —  دو دکانوں سے گھر کی رونق نہیں ختم ہو جائے گی اور گھر میں ہے کیا۔ موٹی موٹی دیواریں، بے سلیقہ کمرے —  پرانے لوگوں کو کوئی شعور ہی نہیں تھا مکان بنانے کا۔ صرف کھانے پینے کا شوق تھا۔

چودھری برکت حسین نے دیوار پر پان کی پیک تھوکا۔ ناراض ہو گئے۔

’’جو مرضی ہو کرو، لیکن خاندان کو مت کوسو۔ آبا  و اجداد کو گالیاں مت سناؤ۔ میاں نصیبوں والوں کو ایسے خاندان ملتے ہیں۔ ‘‘

’’ہیں …  نصیبوں والوں کو … ‘‘

منا پھر بڑبڑایا۔ نشی رونے لگی تو شمیم کو زور سے ڈانٹا۔

’’چپ کرا شمو بچی کو —  دیکھتی نہیں۔ بننے سنورنے سے فرصت نہیں ہے۔ ‘‘

’’لو۔ ابا کا غصہ اب ہم پر اتار رہے ہیں۔ ‘‘

نشی پھر روئی۔

منا نے آگے بڑھ کر چھوٹی سی بچی کو کونچ کے اٹھایا۔ شمیم کی گود میں لا ٹپکا۔

’’اسے چپ کراؤ۔ ‘‘

شمیم غصے میں نشی کو لے کر کمرے سے نکل گیا۔

برکت حسین خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔ یا اللہ …  یہ کیسے بچے ہیں …  آداب … تہذیب …

لیکن آداب اور تہذیب کسے سمجھاتے خود کو ہی تسلی دیتے ہیں۔ نئے زمانہ کے بچے زیادہ پریکٹیکل ہیں۔ ان سے زیادہ پیسوں کی قدر کرتے ہیں۔ دور کی سوچتے ہیں۔ کل کی فکر کرتے ہیں۔ چلو۔ باہر دوکان اٹھ ہی گئی تو کیا ہو گا۔ اٹھنے دو۔ نشی کی فکر ہے۔ ٹھیک ہی سوچتا ہے بیچارہ۔ لڑکیوں کی کیا بری گت ہو رہی ہے۔ کل تک کم از کم مسلمانوں کے یہاں یہ جہیز جیسی لعنت نہیں تھی۔ کم از کم ان کے جیسے لوگ تو کبھی دینے لینے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں تھے۔ اب وقت ہے تو سوچنا پڑ رہا ہے۔ چلو میاں انسان کو ہر طرح کا وقت دیکھنے کے لیے تیار رہنا چاہئے —

ہر طرح کا وقت —  اور دیکھتے  ہی دیکھتے ان کے بچپن کی یاد کا وہ ٹکڑا آنکھوں کے سامنے سے گم کر دیا گیا۔ نہیں توڑ دیا گیا۔ مزدور لگ گئے۔ باہری صحن کا ایک حصہ دکان کی نذر ہو گیا۔ مزدور کام کرتے رہے، وہ اندر کمرے میں دھمک سنتے رہے۔ باہر نکلنے کا جی نہیں کرتا۔ باہر آتے تو زبردستی امڈ آئے آنسوؤں کو روک نہیں پاتے۔ آنسو دابے پھر اپنے کمرے میں لوٹ آتے  …  دکان مفت میں ہی بن گئی۔ سڑک پر کا مکان —  آس پاس کے سارے مکانوں میں سے دکان کے حصے نکل چکے تھے۔ صرف ان کا مکان باقی تھا۔ جس پر وہ فخر کرتے تھے …  اتنا بڑا صحن اور بچپن کی یادیں  —  ایڈوانس کی رقم قبول کر لی۔ مزدوروں کو بلا کر ہاتھ لگا دیا۔ دکانیں نکل آئیں …

 —  چلو پیسوں کا ایک اور راستہ تو نکلا —  منا خوش تھا —

برکت حسین بھی منا کی خوشی کے آگے جھک گئے۔

٭٭٭

جمیلہ نے کلام پاک بند کیا۔ آنکھوں سے چوما، جزدان میں رکھا اور پلٹ کر شمیم کی طرف دیکھا۔

’’نشی سوگئی؟‘‘

’’ہاں اماں  — ‘‘

جمیلہ، ہڑبڑائی سی، سہمی ہوئی باہر دروازے کو جھانک رہی تھی۔

جمیلہ نے پوچھا۔

’’منا آیا؟‘‘

’’نہیں ابھی تک نہیں آئے۔ ‘‘

’’ہائیں  — ‘‘

برکت حسین چونک گئے۔ ’’بہو، کہاں گیا ہے منا۔ ‘‘

’’پتہ نہیں۔ کہہ رہے تھے، یہیں پاس میں جا رہے ہیں۔ ‘‘

’’تم نے روکا نہیں۔ ‘‘

شمیم کے ’ٹسوے‘ چو گئے۔ آواز بھرا گئی۔

’’روکتی کیسے نہیں۔ لیکن آپ کو تو معلوم ہے۔ وہ کسی کی سنتے کہاں ہیں۔ ‘‘

جمیلہ غصے میں بولی۔

’’سنتے نہیں ہیں تو مت سنیں۔ تم نے کیوں جانے دیا۔ ‘‘

’’لو اماں بھی ہمیں کو ڈانٹنے لگیں، شمیم باضابطہ رونے لگی۔ ’’جیسے ہمارا ہی سب قصور ہے۔ ‘‘

’’رو مت بہو، رو مت … ‘‘

برکت حسین کمرے میں ٹہلنے لگے …  ’’پاگل لڑکا۔ بیوی بچے گھر پر ہیں۔ اسے خود سمجھنا چاہئے۔ شہر میں کرفیو لگا ہے۔ زمانہ خراب  — ‘‘ وہ اچانک چونکے۔

’’لیکن اس وقت کہاں گیا ہو گا۔ اور کیسے گیا ہو گا۔ ‘‘

’’کہہ رہے تھے۔ ان کے پاس کرفیو کا پاس ہے۔ ‘‘

’’لو ان سے سنو۔ ‘‘ جمیلہ منہ بسور کر بولی۔ ’’کرفیو کا پاس کیسے بنے گا۔ جیسے ہم ہی نہیں جانتے ہیں۔ ارے پولیس والے آسانی سے پاس کہاں بناتے ہیں دس طرح کا سوال پوچھتے ہیں۔ کہاں جانا ہے۔ کون مرگیا ہے، کون بیمار ہے۔ اتنی جرح کے بعد پاس بناتے ہیں۔ ‘‘

’’اب ہمیں کا معلوم اماں۔ ‘‘ شمیم کی پھر رلائی چھوٹ گئی۔

’’بہو اللہ اللہ کرو، رو مت۔ ‘‘

شمیم اور تیز رونے لگی۔ ’’میری تو قسمت پھوٹ گئی۔ میری تو کوئی بات ہی نہیں ہے نہ کہنا، نہ سننا، ارے کوئی لائے ان کو …  پتہ نہیں کہاں گئے ہوں گے۔ ‘

چودھری برکت حسین نے لہجہ سخت کیا۔ ’’بہو منحوسیت مت پھیلاؤ۔ سرپھرا لڑکا ہے۔ خیر خوبی سے آ جائے گا۔‘‘

چودھری برکت حسین آگے بڑھے …  دیوار پر کچھ پڑھتے ہوئے انگلی سے لکھنے لگے …  لکھ کر تالی بجائی۔ قدرے اطمینان سے شمیم کی طرف دیکھا۔

’’اب اطمینان رکھو۔ منا کہیں بھی ہو گا، آ جائے گا۔ ‘‘

برکت حسین خود بھی مطمئن تھے۔ یہ بھی ابا سے سیکھا تھا۔ کوئی چیز گم ہو جائے، کوئی مصیبت میں پھنس جائے تو جھٹ دیوار پر اِنَّا لِلّٰہ …  لکھ دو۔ مسافر جس کسی حالت میں ہو گا جہاں ہو گا، لوٹ آئے گا۔ اتنا اعتقاد تھا —  لیکن دل کا کیا ہو۔ دل کی گھبراہٹ جاری تھی۔ اس بیچ یہ ہوا، نشی رونے لگی۔ شمیم نے آگے بڑھ کر نشی کی پیشانی ٹھوکی …  سوجا …  سوجا …  بیٹا …

نشی چپ ہی نہیں ہو رہی تھی۔ نشی کو جھنجلا کر شمیم نے ایک چانٹا لگایا۔ کم بخت برے وقت میں اور کام بڑھا دیتی ہے۔ ‘‘

’’بہو، بھوکی ہو گی۔ دودھ دانی تو اس کے منہ سے لگا دو۔ ‘‘

’’ارے ہاں ‘‘ شمیم ایک دم سے چونکی۔ بغل میں پڑی دودھ دانی نشی کے منہ میں دے دی۔

دودھ کے بغیر بلکتی بچی نے منہ بچلا کر گردن ادھر ادھر کی، پھر دودھ دانی کا نیپل منہ میں داب لیا۔ اب اس کی رلائی بند ہو گئی تھی۔

’’چپ ہو گئی۔ کمینی۔ پریشان کر دیتی ہے۔ ‘‘ شمیم غصہ ہوئی۔

برکت حسین کو ناگوار گزرا۔

’’بہو۔ اچھے خاندان کی بہو بیٹیوں کے یہ طور طریقے نہیں ہوتے۔ ‘‘

’’کیا کروں ابا۔ جی پریشان ہے۔ ‘‘

’’پریشان جی پر قابو رکھو بہو‘‘

’’رات بہت ہو گئی ہے بہو۔ ‘‘

جمیلہ کا دل بھی گھبرانے لگا تھا۔ ’’یا اللہ‘‘ وہ پھر بہو کی طرف دیکھ کر بولیں۔

’’ہمیشہ جھگڑتے رہتے ہو تم دونوں۔ کہیں چلا گیا ہو گا۔ ‘‘

’’پھر کہیں کوئی جھگڑا کیا، کیا؟‘‘

’’نہیں اماں، قرآن پاک اٹھوا لو۔ ‘‘

’’پاگل لڑکی۔ ‘‘ برکت حسین بگڑے۔ یہ بات بات میں کلام پاک نکالنا۔ یہ طور طریقے تو ہمارے یہاں کبھی رہے نہیں بہو۔ اب …  یہ بھی ہو گا اس گھر میں۔ ‘‘

’’دیکھیے ابا —  ‘‘ شمیم بپھر کر بولی۔ ’’اس وقت میں بہت پریشان ہوں۔ زمانہ خراب اور وہ گھر میں نہیں ہیں۔ اس وقت مجھے کوئی نصیحت مت کیجئے۔ کچھ الٹا پلٹا منہ سے نکل آئے گا تو …  میں ہی بدنام ہوں گی کہ سسر ساس کے منہ لگتی ہے …  قسمت ہی پھوٹ گئی نگوڑی ۔شوہر ہے تو وہ بھی پوچھتا نہیں۔ ‘‘

شمیم کے پاس آخری ہتھیار تھا۔ رونا …  وہ زور سے کلپنے لگی تھی۔

جمیلہ دھیرے دھیرے کچھ بڑبڑانے لگی۔ کچھ ایسی آواز میں جو صاف سنائی نہیں پڑ رہی تھی۔

چودھری برکت حسین انتشار اور  غصہ کے عالم میں باہر نکل آئے۔ کم از کم بہو کی باتیں تو نہیں سننی پڑیں گی۔ دروازہ بند تھا۔ کرفیو کے بعد کا سناٹا کتنا ظالم ہوتا ہے …  جیسے ہوائیں مقتل گاہ میں شور کر رہی ہیں …  جیسے کسی قبرستان کا ہولناک سناٹا ہو …  چمگادڑیں اور سوروں کی منحوس آوازیں گونج رہی ہیں …  شاخوں سے الو بول رہے ہوں …  درخت ہلتے ہوں اور ایک وحشت ناک سناٹگی۔ اندر تک تیزاب الٹ دیتی ہو …

خواہش ہوئی دروازہ کھولیں …

’’منا نہیں آیا، کیوں نہیں آیا؟‘‘

ہاتھ کنڈے تک بڑے۔ پھر واپس لوٹ آئے …

’’کہاں گیا ہو گا کم بخت … ؟‘‘

وہ خود سے بڑبڑائے۔ الٹی کھوپڑی کا ہے کم بخت۔ یہ آج کے بچے۔ نہ کہنا نہ سننا۔ ماں باپ کو تو حقیر نظروں سے دیکھتے ہیں۔ جیسے ماں باپ کچھ ہوں ہی نہیں۔ مگر منا …

دھیرے سے کواڑ کی کنڈی تک پہنچتے ہیں۔ کنڈی نیچے گرتی ہے تو گھڑ …  کی آواز شور بن کر دل میں چبھ جاتی ہے۔

دروازہ اور ان سے دو قدم پیچھے جمیلہ کھڑی ہے۔

’’یہ کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘

’’باہر۔ ‘‘

’’دماغ خراب تو نہیں ہو گیا۔ پہلے لڑکا گیا اور اب آپ … ‘‘

وہ غصہ ہوئے۔ ’’’کہیں نہیں جا رہا ہوں، بس دل گھبرا رہا ہے۔ ‘‘

’’کہاں گیا ہو گا؟‘‘

’’خدا معلوم۔ ‘‘

’’تمہیں بھی بتا کر نہیں گیا۔ ‘‘

’’ارے پاگل ہوں میں جو بتا  کر گیا ہوتا تو آپ کو نہیں بتاتی۔ اچھا، کمرے میں آ جائیے۔ چائے کی طلب ہو تو کہیے۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’تو پھر دروازہ بند کیجئے۔ آ جائیے اندر ‘‘اس بار جمیلہ چیخ کر بولی۔

وہ مڑے —  دماغ مت چاٹو —  شاید آ رہا ہو، دور سے اس کے قدموں کی چاپ ہو …

’’ہونہہ، تو پھر باہر ہی پریشان ہوئیے۔ ‘‘

جمیلہ واپس مڑ گئی۔

ایک منٹ وہ منجمد کھڑے رہے۔ مگر داد دیتے تھے جمیلہ کے صبروسکون کی۔ منہ کی تیز ہے۔ لیکن پیدائشی صابر عورت ہے۔ ایسی عورتیں دنیاوی معاملات اپنے ساتھ نہیں رکھتیں۔ سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیتی ہیں۔ جیسی اللہ کی مرضی۔ پریشان ضرور ہے جمیلہ، لیکن دل ہی دل میں اللہ سے دعا کر رہی ہو گی، بچے کی سلامتی کے لیے خیر خوبی سے واپس آنے کے لیے  …

کنڈی کھسکا کر تھوڑا سا کواڑ کھولتے ہیں، پھر تھم جاتے ہیں …  وہی قبرستان جیسی خاموشی۔ سنسان سڑک۔ مردے لوٹتے ہوئے، دھڑسے دروازہ بند کیا۔

واپس کمرے میں آئے تو جمیلہ خود ہی چائے بنا کر لا چکی تھی۔

’’لو چائے پیو۔ ‘‘

اتنا کہہ کر وہ تسبیح لے کر بیٹھ گئی۔ چائے کی گھونٹ لیتے ہوئے ہو جمیلہ کو دیکھ رہے ہیں …  وہ اپنی دعاؤں میں گم ہے …  ہونٹ چل رہے ہیں، ہاتھ تسبیح کے دانوں پر گھوم رہے ہیں۔

٭٭٭

دو دن پہلے —

منا کی بجلی آفس میں لڑائی ہو گئی تھی۔ اس دن وہ بل جمع ہونے والی کھڑکی پر تھا۔ لوگوں سے ہونے والی ما تھاپچی سے گرم تھا کہ ایک دیہاتی کا نمبر آیا۔

دیہاتی نے غصے میں بل دکھایا۔ چیخ کر بولا۔

’’ہمکا پاگل سمجھو ہوکا کہ ای دوئی مہینے کا پانچ ہزار کابل بھیج دیہو۔ دیماگ تو تہرا ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’ابے تمیز سے بات کر۔ ‘‘

’’لو۔ ان کا سنو، اب ای، تمیج سکھات ہیں ہم کو۔ ‘‘ دیہاتی تاؤ کھا گیا۔

قطار لمبی تھی۔ منا نرمی سے بولا۔

’’وہ سپرنٹنڈنٹ صاحب بیٹھے ہیں۔ جو پوچھنا ہے ان سے پوچھو۔ ‘‘

’’کاہے۔ ہم توراؤر سے ہی کہیں گے۔ آپ کھڑکی پر بیٹھے ہو۔ ‘‘

منا گرم ہو گیا۔ وہ کرسی سے اٹھا، دیہاتی پر برس پڑا۔

’’جانے کہاں کہاں سے چلے آتے ہیں صبح سویرے۔ کام کسی کالے آتے ہیں کسی کے پاس۔ میرا بھیجا مت چاٹو۔ وہاں سپرنٹنڈنٹ صاحب بیٹھے ہیں۔ انہی کا چاٹو۔ اب نکلو یہاں سے ورنہ۔ ‘‘

اس کے منہ سے ایک غلط جملہ نکل گیا۔ ’باہر نکل آیا تو پھیکوا دوں گا سڑک پر۔ ‘

’’کیاکہا۔ ‘‘

دیہاتی غصے میں چڑھ دوڑا، آستین برابر کی۔ ہاتھ نچا کر ایسے دوڑا جیسے درمیان میں کھڑکی کے راڈ نہ لگے ہوتے تو جان ہی لے لیتا …

’’توری ای مجال میاں جی۔ ابھی بتاتے ہیں۔ ‘‘

وہ تو خیر ہو دوسرے لوگوں نے بیچ بچاؤ کیا۔ اور دیہاتی کو سمجھا بجھا کر سپرنٹنڈنٹ کے پاس لے گئے۔ مگر منا کا دماغ بھک سے تھا۔ میاں جی۔ دیہاتی کے منہ سے نکلے اس لفظ میں وہ اپنے لیے صرف گندگی دیکھ رہا تھا۔

٭٭٭

اس دن آفس سے لوٹا تو منہ پھولا ہوا تھا۔

برکت حسین نے پوچھا تو ساری رام کہانی سنادی پھر چڑھ کر بولا۔

’’سالے، یہ ذرا سی بات پر میاں اور مسلمان نکالتے لگتے ہیں۔ دو کوڑی کے سالے۔ ہم سے مقابلہ کرتے ہیں۔ یہاں اب رہنے کا نہیں ہے ابا۔ وہ تاؤ کھا رہا تھا۔ خدا معلوم۔ آپ لوگوں کو کیا سوجھی کہ یہاں رہ گئے پاکستان کیوں نہیں چلے گئے۔ اتنی بے عزتی تو نہیں سہنی پڑتی۔‘‘

بول بلا کر وہ چپ ہو گیا۔ مگر برکت حسین کو لگا، انہیں سمجھانا چاہئے تھا۔ بے عزتی کون کہاں سہہ رہا ہے۔ اس پر گفتگو کرنی چاہئے تھی۔ یہ بچے ذرا دیر میں کیسے ہو جاتے ہیں۔ منہ سوج جاتا ہے، منہ سے نازیبا کلمات نکل جاتے ہیں …  گالیاں تک دے جاتے ہیں … ‘

برکت حسین کو یاد آیا۔ رات میں کھاتے وقت بھی منا غصے سے بولا تھا۔

’’آپ ہی لوگ کھیر کھا کر نرم ہو کر گھر میں بیٹھ رہیے ابا۔ ہم کاہے بیٹھیں گے۔ ہم کسی سے کم ہیں کیا؟ ہم کو غیرت نہیں ہے۔ وہ جو چاہے بول دیں، گالیاں دے دیں۔ ارے ہم کو گالی دے دیں، سوجوتے مار لیں، سہہ جائیں گے، مگر مذہب کو …  نا … کمینیوں کا حوصلہ بڑھتا رہے گا۔ اب چوڑی پہن کر گھر میں ڈھکے رہنے کا وقت نہیں ہے ابا —  میں تو صاف لڑائی کر لیتا ہوں۔ کوئی بولے نہ میرے سامنے۔ ذرا بول کر دیکھے۔ ‘‘

’’کیوں لڑائی کرتا ہے۔ کیا فائدہ؟‘‘

’’فائدہ وائدہ میں نہیں جانتا ابا۔ آخر ان کا کیا فائدہ ہے کہ وہ ہمارے خلاف بولتے ہیں۔ کیا ان کے بولنے سے مسلمان چلے جائیں گے، اس ملک سے۔ ‘‘

وہ چپ ہو گئے، لگا، ماحول کے زہر نے ایک آگ منا کے اندر بھی بھر دی ہے۔ اور وہ واقعات کی سر پھری ہوا کا مقابلہ کرتے ہوئے زہریلا ہو گیا ہے۔ زہریلے بھبھکے ہی چھوڑتا ہے۔ وہ مدتوں سے برسوں سے یہی سب دیکھتے ہوئے بڑا ہوا ہے …  اور اب دیکھنے اور برداشت کرنے کی حد سے باہر نکل کر خطرناک ہو چکا ہے —

ان کا جی چاہا، وہ منا کو سمجھائیں، اسے آنے والے خطرے سے آگاہ کریں۔ تب ہی نشی چیخ دیتی ہے۔ وہ نشی کو دیکھتے ہیں …  ایک نسل اور بڑی ہو رہی ہے …  اسی دنگے اور فساد کی فضا میں …  اسی خونی ٹانڈو میں …  اسی تناؤ اور وحشت کے رقص کے درمیان …  اسی مذہبی خلفشار میں …  یہ بچے ابھی سے کرفیو دیکھ رہے ہیں …  آسمان پر پھیلتا دھواں دیکھ رہے ہیں …  کمرے میں پھیلی گھٹن دیکھ رہے ہیں …

وہ منا سے کچھ کہنا چاہتے ہیں، مگر اب گونگے ہیں …  آواز ہونٹو پر آ کر تھرا جاتی ہے …  برف بن جاتی ہے …

وہ صرف سہم جاتے ہیں کہ اس عمر میں وہ صرف سہم ہی سکتے ہیں۔ وہ جنہیں گزرے کل کا اتہاس بننے میں ابھی بہت دیر باقی نہیں ہے۔ ‘‘

٭٭٭

منا نہیں آیا۔

رات دھیرے دھیرے سرک رہی ہے …

روتی بسورتی شمیم کے رخسار کے آس پاس کتنے ہی بے چین آنسو کی، بوندیں جم گئی ہیں …

برکت حسین خوف میں نہا گئے …  کہیں منا نے کوئی غلط حرکت تو نہیں کر دی …  کہیں کچھ ہو تو نہیں گیا؟

کچھ غلط؟ …

کوئی حادثہ … ؟

دل رہ رہ کر دھک دھک کر رہا ہے …

شمیم کا رونا بند ہے …  بچی کے پاس پلنگ سے ٹیک لگائے ہے …  شاید آنکھوں میں نیند اتر رہی ہے …

جمیلہ اور ان کی آنکھیں ملتی ہیں تو وہ جمیلہ کی آنکھوں میں بھی اب صاف صاف ظاہر ہو رہے خطرے کے نشان دیکھتے ہیں …

رات دھیرے دھیرے سرک رہی ہے …

پو پھٹ گئی

مرغ نے بانگ دیا۔

مگر منا نہیں آیا۔

گھر میں جیسے ماتم کی فضا تھی۔ جمیلہ کا صبر بھی رات کے ڈھلنے کے ساتھ دم توڑ گیا تھا۔

٭٭٭

(۳)

نیل کنٹھ —  عمر ۲۵ سال —  گھنی گھنی مونچھیں۔ پسندیدہ لباس۔ سفید کرتا پائجامہ، بنڈی —  ایک جیپ ہے جسے ہمیشہ ساتھ لے کر گھومتا رہتا ہے۔ کچھ دور سے جاننے والے اسے نیتا جی کہتے ہیں۔ یار دوست نیل کنٹھ ہی کہتے ہیں۔ یاروں کا یار ہے۔ پان خوب کھاتا ہے۔ باتیں مزے کی کرتا ہے۔ منطق اور دلیلیں نہیں سمجھتا۔ بی اے فیل ہے دوبارہ بی اے فیل ہوا تو نیتا گیری کے دھندے میں لگ گیا۔ شروع کے کچھ ایک سال رولنگ پارٹی کا ساتھ دیا یعنی جو پارٹی رہی اسی کے ہو کر رہ گئے۔ پیسہ کمایا اور موج اڑایا —  لیکن پچھلے دو سالوں سے بھاجپا کے بھکت ہیں۔ مرلی منوہر جوشی، آڈوانی، اور باجپائی کی بڑی بڑی فریم کرائی تصویریں ڈرائنگ روم میں پڑی ہیں۔ اور صبح سویرے ان کی پوجا کی جاتی ہے۔

نیل کنٹھ میں اس کے علاوہ بھی کئی اور خاص گن ہیں  —  بہت جلد آپ کے دوست بن جائیں گے —  ایک بار دوست بن گئے تو پھر گھریلو بننے میں دیر نہیں کریں گے، وہ اسے سوشل ورک کہتے ہیں۔ بات کیجئے تو کہیں گے، چناؤ کی سیڑھیاں طے کرنے کے لیے یہ سب بہت ضروری چیز ہے —  یہ سب تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ جنتا کا دل نہیں جیتیں گے تو وہ ووٹ کیسے دیں گے۔

نیل کنٹھ کی ایک خوبی اور بھی ہے، چہرہ ہر وقت کھلا کھلا اور مسکراتا رہتا ہے کوئی کام ہو، چاہے نہیں ہونے والا ہو، مگر انکار نہیں کرے گا نیل کنٹھ، حامی ضرور بھر لے گا۔ یہ بھی ممکن ہے اگلی بار آپ سے کام نہ ہو پانے کی صورت میں کوئی خوبصورت سامناسب بہانہ بھی پیش کر دے، مگر اس صفائی سے جیسے کوئی ماہر سرجن آپریشن کے وقت انجام دیتا ہے۔ کچھ لوگ نیل کنٹھ کو ’اجڈ‘ (بمعنی لفنگا) بھی کہتے ہیں۔ مگر یہ ٹھیک نہیں۔ نیل کنٹھ کو اپنی نتیا گیری سے ہی فرصت نہیں ہے۔ شہر میں تناؤ بڑھا تو جیسے نیل کنٹھ کا کام بڑھ گیا۔ تقریر کرنا آتا تو نہیں مگروہ جو کہتے ہیں کہ مجبوری اور پیسہ کچھ بھی کرا لیتا ہے، سو تقریر بھی کرالو۔ مائیک کے سامنے کھڑے ہیں، اٹک اٹک کو بول رہے ہیں۔ مسکرارہے ہیں  —  پڑھا کل جو بھی ہو، مگر اب وہی کہتے ہیں جو پارٹی کے  ’وکتا‘ نلکانی صاحب اور امرجیت صاحب رٹاتے ہیں …  اور پھر رٹے رٹائے طوطوں کی طرح محفلوں میں، سبھاؤ میں شروع ہو جاتے ہیں نیل کنٹھ صاحب۔

ان کا صاف صاف کہنا ہے —  اگلا چناؤ دیکھیے، ’’ایم پی نہیں تو ایم ایل اے‘‘  …  وہ بھی نہیں تو ’ایم ایل سی‘ تو بن کے ہی رہیں گے۔

’’اگلا چناؤ کب ہو گا۔ ‘‘

’’بہت جلد اور دیکھیے گا ہماری پارٹی ہی جیتے گی۔ ‘‘

کوئی پوچھتا :

’’ہماری پارٹی !مطلب! آپ تو آر ایس ایس کے ہیں۔ ‘‘

بچوں جیسی مسکان چہرے پر بکھیرتے ہیں نیل کنٹھ صاحب۔ ’یہی تو نہیں سمجھ پا رہے ہیں آپ‘۔

’’یعنی بیچ میں کچھ گورکھ دھندہ ہے۔ ‘‘

’’نہیں سمجھے آپ، گورکھ دھندہ نہیں  —  چالاکی …  نہیں چالاکی بھی نہیں …  وہ ٹھہرتے ہیں …  ویسے جنتا سب سمجھتی ہے …  اب دیکھیے۔ ایک ڈنڈے سے آپ سارے جانور کو تو ہانک نہیں سکتے۔ نہیں سکتے نا …  سوکئی لوگ ہوتے ہیں اور جانور بھی الگ الگ مزاج کے۔ اور سمجھانا پڑتا ہے سب کو۔ یہ تو جانوروں کی بات ٹھہری اور یہ بات دیش کی ہے۔ ‘‘

’’پہیلیاں کیوں بجھاتے ہیں، نیل کنٹھ صاحب!‘‘

’’تو صاف صاف سنیے۔ اب آپ تل ہی گئے ہیں تو …  مونچھ اینٹھتے ہیں نیل کنٹھ پھسپھسانے والے انداز میں گویا ہوتے ہیں …  سب ایک ہے …  آپ کو تو پتہ ہی ہے۔ آر ایس ایس، بھاجپا، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل ایک ہی چیز ہیں۔ قاعدے قانون اور صحیح پرشکچھن کے لیے آر ایس ایس ہے۔ لڑنے مرنے کٹنے یعنی فوج کا کام کرتی ہے بجرنگ دل اور راجنیتک استعمال کے لیے ہے بھاجپا — ‘‘

نیل کنٹھ ہنستے ہیں۔ ’’ای کون نہیں جانتا۔ ‘‘

’’تو آپ کا سمبندھ کس سے ہے؟‘‘

’’آپ سے ہے؟‘‘

’’مطلب؟‘‘

’’آپ جنتا ہیں تو آپ سے ہے —  ہمارا کام آپ کو گائیڈ کرنا ہے۔ ‘‘

نیل کنٹھ کہتے ہیں۔ ’’جانتے ہیں نا۔ گائیڈ کا کام کیا ہوتا ہے۔ وہی ہمارا کام ہے۔ ‘‘

’’تو گویا آپ ہمارے گائیڈ ہوئے۔ ‘‘

’’ارے اصل گائیڈ تو اس وقت ہوں گے جب آپ ہم کو ووٹ دیں گے۔ ‘‘

نیل کنٹھ دھڑ دھڑا کر جیپ آگے بڑھا لیتے ہیں۔ ڈگی میں ولس نیوی کٹ کا ڈبہ پڑا ہوتا ہے۔ ڈبے سے سگریٹ سلگاتے ہیں اور جیپ سے سرنکال کر ایسے دیکھتے ہیں، جیسے سیدھے سگریٹ کے اشتہار سے نکل کر کوئی شخص جیپ میں سوار ہو گیا ہو اور اسٹرنگ پر ہاتھ رکھا لیا ہو۔

٭٭٭

کرنا کیا ہے؟‘‘

نیل کنٹھ چاروں طرف گھوم رہے ہیں۔ تناؤ سے پہلے ہی انہیں علم ہو گیا تھا معاملہ زیادہ گڑبڑ ہونے کو ہے۔

کرفیو میں تھوڑی ڈھیل ہوئی تو سیدھے نریندر کے یہاں پہنچ گئے۔

بالمکند شرما دروازے کی آڑ لے کر کھڑے تھے۔

جیپ سے اتر آیا نیل کنٹھ —

’’سلام چاچا — ‘‘

بالمکند نے صرف ہاتھ اٹھایا۔ یہ آدمی کبھی انہیں پسند نہیں آیا۔

بولتا ہے تو لگتا ہے کہ کبھی شرافت کا منہ ہی نہ دیکھا ہو گا۔ صرف کرتا پائجامہ چڑھا لینے سے کیا ہوتا ہے۔ انہیں لوگوں نے تو کرتے پائجامے کی عزت اتار لی۔

نیل کنٹھ پریشان ہوتا ہے۔

’’طبیعت تو ٹھیک ہے چاچا جی۔ ‘‘

’’یہ حالات رہیں گے تو طبیعت کس کی ٹھیک رہے گی۔ ‘‘

نیل کنٹھ کوئی تبصرہ نہیں کرتا۔

’’نریندر ہے؟‘‘

’’ہاں اندر ہے۔ ‘‘

’’اچھا چاچا جی، ذرا نریندر کو دیکھنے آیا تھا۔ ‘‘

مسکرانے کی کوشش کرتے ہیں بالمکند شرما جوش، مگر مسکرانہیں پاتے۔ نیل کنٹھ تیزی سے اندر گھستا ہے۔

’’نریندر …  او …  نریندر …

نریندر ڈرائنگ روم میں مل جاتا ہے۔

’’بیٹھو۔ ‘‘

صوفے پر اوما اور نیل کی پتنی تلسی بیٹھی ہے۔ چپ چاپ۔

’’نمستے بھابی۔ ‘‘

نیل کنٹھ دونوں کو ہاتھ جوڑتا ہے …  پھر ہنس کر کہتا ہے۔

’’ارے سب کے چہرے اتر ے ہوئے کیوں ہیں۔ ارے بھائی ہنگامے سے آپ لوگوں کو مطلب ہی کیا ہے۔ اتنی چپی کیوں ہے …  ارے میاں بھائی اپنی اوقات میں رہتے، ملک کو ملک سمجھتے تو یہ سب نہیں ہوتا، کیوں تلسی بھابی۔ ‘‘

تلسی کے پتی انیل کانگریس کے کاریہ کرتا ہیں۔ ’سکریہ‘ تو نہیں ہیں۔ پھر بھی کانگریس کی ایکٹیویٹیز میں برابر کے شریک رہتے ہیں۔ کانگریس پارٹی سے ان کے پاس خط، دعوتی کارڈ وغیرہ سب آتے رہتے ہیں۔

تلسی نیل کنٹھ کی بات پر منہ بسورتی ہے۔

’’پتہ نہیں، راجنیتی کی بات تو آپ ان سے ہی کیجئے گا۔ ‘‘

’’ارے ان سے کہہ کر شہید ہونا ہے۔ ‘‘ نیل کنٹھ زور زور سے ہنستا ہے۔ ہم بولیں گے ایک بھابی تو انیل بھیا سنائیں گے دس۔ ہم ٹھہرے بھاجپا کے وہ ٹھہرے کانگریسی۔

تلسی کے چہرے پر تھوڑی سی رونق آ گئی۔ جنتا دل ہوتا تو گٹھ جوڑ بھی ہوتا۔ ‘‘

’’ارے ایک بار تو گٹھ جوڑ ہوا ہی تھا۔ ‘‘

’’نتیجہ کیا نکلا۔ تم نے لنگی ماردی — ‘‘ تلسی پھر سنجیدہ ہو گئی۔ چھوڑو مجھے راج نیتی نہیں آتی۔

نیل کنٹھ نریندر کی طرف مڑا۔ ’ کیوں نریندر؟ تم اتنا چپ کیوں ہو؟‘

اس نے ایک ولز سلگا کر پھر ہونٹ سے لگا دیا۔

’’کچھ نہیں۔ ‘‘

پریشان ہو؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’پھر کیا ہے؟‘‘

’’یار —  چپ بھی نہیں رہ سکتا کیا؟‘‘

’’اوہ چپ کا روزہ رکھا ہے کیا۔ پھر ٹھیک ہے۔ چلتا ہوں۔ لیکن ایک بات بتانی ہے۔ ‘‘

نریندر کھنکھارا۔

نیل کنٹھ چپ ہوا۔ نریندر نے اوما کو آنکھوں سے اشارہ کیا۔ تلسی اور اوما دونوں اٹھ کر باہر چلے گئے۔

’’کیا ہے؟‘‘

’’تم کو تو معلوم ہے۔ ہم سب پرسنکٹ آیا ہوا ہے۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’تم کو اطلاع دینے آیا ہوں۔ کچھ دن ہونٹ سی کر بیٹھ۔ کاریالیوں، دفتروں میں پولیس چھاپے مار رہی ہے۔ کچھ دن کے لیے ہمیں انڈر گراؤنڈ ہونا ہو گا۔ یہ سب بین لگنے کی وجہ سے ہے۔ ‘‘

’’ہونہہ — ‘‘

نریندر کو فکر تھی۔ نریندر کمرے میں ٹہلنے لگا۔

’’پارٹی دفتر سے ضروری کاغذات ہٹا لیے گئے ہیں۔ گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ لیکن … ‘‘

اس نے ایک بار پھر زور دیا …

’’کچھ دنوں کیلئے ہمیں انڈر گراؤنڈ ہو جانے کی ضرورت ہے …  اچھا چلتا ہوں۔ ‘‘

’’چائے تو پی کر جا۔ ‘‘

’’نہیں۔ پھر کبھی۔ ‘‘

نیل کنٹھ تیزی سے اٹھا، باہر آیا، تب بھی بالکمند شرما جوش دیوار سے ویسے ہی ٹیک لگائے کھڑے تھے۔

’’اچھا چلتا ہوں چاچا جی۔ ‘‘

نیل کنٹھ جیپ میں بیٹھ گیا جیپ اسٹارٹ ہو گئی۔

(۴)

گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔ شمیم کا روتے روتے برا حال تھا۔ جمیلہ کے بھی صبر کا باندھ ٹوٹ گیا تھا …

صبح ہو گئی، لیکن منا نہیں آیا۔

دل میں رہ رہ کر دھڑکا ہو رہا تھا۔ چودھری برکت حسین رہ رہ سجدے میں گرے جا رہے تھے …  اللہ بری خبر سے بچائیو اللہ …  پروردگار …  معبود …  بری خبر سے محفوظ رکھیو اللہ۔ میرے معبود، میرے رب۔

’’سنیے جی!‘‘

آنسو پونچھتی جمیلہ دروازے پر کھڑی ہے …  ’’کچھ کیجئے گا؟ باہر شور سا ہے۔ کرفیو ختم ہو گیا لگتا ہے …  آپ دیکھیے نا …  باہر جائیے نا …  کچھ کیجئے نا۔ ‘‘

’’کیا کروں ؟‘‘

جیسے برسوں کے بیمار ہو گئے ہوں برکت حسین۔ آنکھیں جل تھل …  کلیجہ میں تپاک۔ باہر آئے …  معلوم ہوا دو گھنٹے کے لیے کرفیو میں ڈھیل دی گئی ہے۔ لوگ سبزیاں اور ضرورت کے سامان خریدنے کے لیے دوڑ پڑے تھے۔

’’کہاں رہ گیا۔ ایسا تو نہیں کرنا چاہئے تھا۔ موسم خراب، زمانہ خراب، گھر میں بیوی بچے —  پہلے سوچا کہ پاس میں گیا ہو …  بجلی آفس میں کسی سے لڑائی بھی کی تھی، بات بات پر بگڑ جاتا تھا —  مزاج کا بھی تیز تھا۔ آج کے لڑکے۔ اچھا برا دیکھتے نہیں۔ اور بے بات بگڑ جاتے ہیں۔ کسی نے کہیں مار کر … ‘‘

بری بات سوچتے ہی دل کی دھڑکن بڑھ جاتی تھی۔

٭٭٭

قریب کی پولیس چوکی۔

چودھری برکت حسین نے ٹوپی برابر کی۔ اندر گھسنا چاہا تو سپاہی نے روک دیا۔

’’کیا ہے؟‘‘

’’ایف آئی آر د رج کرانی ہے۔ ‘‘

’’کیسی ایف آئی آر؟‘‘

’’میرا لڑکا کل رات سے گھر واپس نہیں آیا۔ ‘‘

سپاہی نے منہ پچکایا —  بڑے میاں کے حلیے کو دیکھا۔ سر پر دوپلی ٹوپی۔ شیروانی کرتا، شیروانی پر جگہ جگہ لگے پان کے دھبے۔ منہ چلتا ہوا۔ یعنی پان کی گلوری دبی ہوئی۔ پریشان حال۔ قد لانبا اور پوری طرح سے پرانے زمانے کے نوابوں کی یاد دلاتی ہوئی شخصیت۔

’’کل رات سے نہیں آیا — ؟‘ سپاہی نے دہرایا۔ کسی نے مار کر پھینک دیا ہو گا — ‘‘

وہ لڑکھڑا گئے۔

سپاہی اندر گیا۔ باہر آ کر ان کو گھور کر دیکھا۔

’’جاؤ صاحب بلا رہے ہیں۔ ‘‘

وہ اندر داخل ہوئے۔ اندر بیٹھا پولیس افسر فائل میں کھویا رہا۔ انہوں نے گلہ کھکھار کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ اس نے بغیر دیکھے ہاتھ کے اشارے سے سامنے والی کرسی پر بیٹھ جانے کو کہا۔

وہ بیٹھ گئے۔

ذرا دیر کے بعد انسپکٹر نے سراٹھایا۔

’’کیا ہے؟‘‘

’’میرا لڑکا کل سے غائب ہے۔ ‘‘

’’نام کیا ہے؟‘‘

’’منا۔ ‘‘

’’عمر؟‘‘

’’۳۵ سال … ‘‘

انسپکٹر چونکا۔ ’’اور نام منا ہے۔ ‘‘

’’یہ تو پکار نے کا نام ہے۔ ‘‘

’’اصل نام کیا ہے اور کرتا کیا ہے؟‘‘

’’تنویر حسین۔ بجلی آفس میں کلر ک ہے۔ ‘‘

’’ہونہہ — ‘‘

انسپکٹر نے ہونکاری بھری۔ کچھ سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر بولا۔

’’کیا کہا کل سے غائب ؟ یعنی کرفیو والی رات سے۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’کچھ کہہ کر گیا تھا؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’کسی کی طبیعت خراب تھی؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’کسی سے کچھ کہہ کر نہیں گیا۔ کسی کی طبیعت خراب بھی نہیں۔ پھر کرفیو والی رات کیوں گیا۔ آپ نے سمجھایا نہیں کہ باہر نکلنا منع ہے۔ ‘‘

چودھری برکت حسین کو اس غیر ضروری جرح سے الجھن ہو گئی۔ خود پر رونا آ گیا۔ بولے۔

’’نئے بچے ماں باپ کی اتنی ہی قدر کرتے تو پھر میں آپ کے پاس ہی کیوں آتا؟‘‘

’’آپ کو کوئی شک ہے؟‘‘

’’شک کس پر ہو گا۔ ‘‘

’’منا کا کوئی دوست۔ ‘‘

’’میں نہیں جانتا۔ ویسے تھا اکھڑ طبیعت کا آدمی۔ گھر پر بھی کوئی ملنے نہیں آتا تھا۔ ‘‘

’’آپ کیا چاہتے ہیں۔ ؟‘‘

برکت حسین کو پھر رونا آیا۔ ’’آپ پوچھ رہے ہیں۔ میں کیا چاہوں گا۔ میرا لڑکا غائب ہے، ایک بوڑھا باپ ایسے میں کیا چاہ سکتا ہے۔ ‘‘

انسپکٹر نے بڑے میاں کو گھور کر دیکھا۔

’’محلہ کون سا ہے آپ کا۔ ‘‘

’’کھیم پور۔ ‘‘

’’جی!‘‘

وہ ایک دم سے چونک گئے۔

انسپکٹر مسکرایا۔ ’آتنک وادی تو نہیں ہے۔ ‘

وہ پھر لڑکھڑا گئے۔

’’چونکتے کیا ہیں۔ خبر ملی ہے کہ علی پور، کھیم پور اور زیادہ تر محلے کے مسلمان لوگ یہی کر رہے ہیں۔ آپ کا لڑکا اگر مارا جاتا تو اس کی لاش ہم کو ضرور ملتی۔ کل رات سے ہمارے پاس کسی لاش کے ملنے کی سوچنا نہیں آئی ہے۔ آئے گی تو آپ کو خبر کریں گے۔ آپ پتہ لکھ جائیے۔ ‘‘

’’اور ایف آئی آر؟‘‘

’’جانکی ایف آئی آر لکھتا ہے۔ جانکی نہیں ہے۔ جائیے، گھرواپس جائیے۔ ‘‘

انسپکٹر پھر فائل دیکھنے لگتا ہے۔

دماغ میں آندھیاں چھوٹ رہی تھیں۔

(۵)

اتنا بڑا شہر —  کہاں گیا ہو گا منا؟

منا ان کے لیے اب بھی وہی چھوٹا سا منا تھا۔ کچھ بھی نہیں بھولے تھے …  اس کی شرارتیں، کھیل کود —  سب کچھ یاد تھا —  منتوں اور دعاؤں سے کھلا پھول تھا، تنویر حسین —  بچپن سے ہی ضدی، ہٹی، پڑھنے میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔ شوق تھا، تو ان چیزوں کا، خاندان کی کسی پشت میں جس کا شوق نہیں رہا —  گلی ڈنڈا، کانچ کی گولیاں، اور گلی کے آوارہ چھوکرے۔ وہ پکڑ پکڑ کر گھر میں لاتے طمانچوں سے خیر مقدم کرتے۔ خاندان کا واسطہ دیتے …  اچھے برے کی تمیز سکھاتے بچپن سے ہی جو صحبت بگڑی تو زبان خراب ہو گئی۔ منا کی۔ اسکول میں بھی کبھی اچھا ریزلٹ نہیں کیا۔ ہمیشہ شکایت ہی آتی رہی۔ یہ کر دیا، وہ کر دیا، کسی کی کاپی گم کر دی، کسی کی کتاب پھاڑ دی۔

سچ ہے کہ آوارگی چہرے سے بھی بولنے لگتی ہے یا چہرے پر اس کے آثار آ جاتے ہیں، یہ خیال تھا چودھری برکت حسین کا۔ منا کے چہرے پر کہیں سے بھی وہ پرانا خاندانی پن موجود نہیں تھا۔ پہلے یہ خاندانی پن چہرے چہرے سے جھلکتا تھا۔ اب وقت کے ساتھ جھلکتا ہی نہیں کہ کون کیا ہے۔ کتنے پانی میں ہے کبھی کبھی وہ سوچتے بھی ہیں، چلو اب اس کی ضرورت ہی کیا ہے پھر اس خیال کو کچلنے کے لیے کتنے ہی خیال ہاتھیوں کی فوج کی طرح آگے بڑھ جاتے ہیں۔

ضرورت ہے میاں برکت حسین …  ضرورت ہے۔ یہ سب ڈھونگی باتیں ہیں برابری کی پیسہ لاکھ ہو جائے مگرانسان وہی رہے گا جو اس کے خون میں ہے۔ خاندانی آدمی غریب سے غریب ہو جائے پرآن نہیں جائے گی۔ یہ خوبی ہے۔

چلو، چھوڑو، وہ خود کو سمجھاتے ہیں۔ وقت آگے بڑھ گیا ہے …  اور یہ جو وقت ہے، یہ وقت ان کے وقت سے دیگر ہے۔ یہ صرف خاندانی ڈھکوسلوں میں نہیں جیتا ہے۔ یہ وقت عملی آدمیوں کا ہے۔ یعنی پیسہ کس کی پکڑ میں کیسے آتا ہے۔ اب ایسی باتیں جیسی کہ وہ سوچتے ہیں۔ کسی کے پاس اس طرح کی باتیں سوچنے کی فرصت بھی نہیں …

چھوڑو یار، برکت حسین …  نئے زمانے کو بھی دیکھ رہے ہو۔ کیا یہ کم ہے —  نئی نئی چیزیں آ گئی ہیں۔ آسائش کے نئے نئے سامان۔ تمہارے وقت میں یہ سب کہاں تھے —  لڑنے مرنے کے جدید ماڈل کے اسلحے۔ موت کتنی آسان ہو گئی ہے۔ موت سب سے آسان ہو گئی ہے۔

کیا منا کو بھی موت لے گئی … ؟

ابھی کرفیو میں ڈھیل ہے …  پورے گھنٹے بھر باقی ہیں …

بالمکند شرما جوش کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں …

’’جوش صاحب تشریف رکھتے ہیں … ‘‘

عام دنوں کی طرح آواز میں وہ جوش نہیں ہے۔ ہانپنے لگتے ہیں …  پن ڈبہ گھر پر رہ گیا۔ جیپ میں ہاتھ ڈالنے کے بعد ٹھہر جاتے ہیں …

جوش صاحب … !

دروازے پر نریندر کھڑا ہے۔

’’آئیے چچا جان۔ پتاجی اس طرف ہیں۔ ‘‘

نریندر اشارہ کرتا ہے …  وہ سہمے سہمے سے کمرے میں داخل ہو رہے ہیں۔ چہرہ پیلا پڑا ہوا ہے۔

بالمکند چونکتے ہیں۔

’’کیا ہوا ہے برکت حسین؟‘‘

’’منا کل سے غائب ہے۔ ‘‘

’’کیا — ‘‘ نریندر زور سے چونکا۔

’’گھر نہیں آیا۔ ‘‘بالمکند کی آنکھوں میں تشویش ہے۔

’’شمیم اور جمیلہ دونوں کا روتے روتے برا حال ہے۔ کل تو کرفیو لگا تھا۔ پگلا بغیر کہے رات میں جانے کہاں چلا گیا۔ ‘‘

’’کسی سے کچھ ناراضگی ہوئی کیا۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’پھر کہاں چلا گیا۔ ‘‘

’’خدا معلوم۔ اسی واسطے تو طبیعت پریشان ہے۔ ‘‘

’’کل سے نہیں آیا۔ بات تو واقعی تشویش کی ہے۔ ‘‘

بالمکند نے نریندر کی طرف دیکھا۔

’’کیا کرنا چاہئے؟‘‘

’’آپ نے ایف آئی آر درج کرائی چچا جان۔ ‘‘

’’رپورٹ لکھوانے گیا تھا۔ ‘‘

’’پھر؟‘‘

’’رپورٹ نہیں لکھی۔ انسپکٹر نے کہا کہ جو رپورٹ لکھتا ہے وہ ہے نہیں۔ ‘‘

’’یہ سب ان کی بدمعاشی ہے۔ ‘‘

نریندر دھیرے لہجے میں بدبدایا۔

’’دیکھا — ‘‘ بالمکند شرما جوش غصے میں نریندر کی طرف مڑے۔ دیکھا تماشہ۔ اب یہی ہو گا —  منا غائب ہے۔ یہی ہو گا اب اور یہ سب کرا رہی ہے تمہاری پارٹی۔ ‘

’’ہماری پارٹی کیوں کرا رہی ہے۔ ‘‘

نریندر کی آنکھوں میں خفگی ہے۔

’’نریندر۔ اور کس کی پارٹی کرا رہی ہے۔ زبردستی کے بند۔ اتہاس کی قبر کھود کر گڑے مردے نکالنا —  گڑے مردے نکال کر لوگوں کو بھڑکانا۔ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی سب تمہاری پارٹی کرا رہی ہے۔ ‘‘

’’دیکھیے پتاجی۔ غصہ ہونا ہے تو جی بھر کر غصہ ہو لیجئے۔ لیکن اس طرح چچا جان کے سامنے بے عزت نہ کیجئے۔ ابھی فی الحال میں کچھ نہیں کہہ پاؤں گا۔ ‘‘

’’کہو گے کیا تم؟‘‘

بالمکند شرما جوش کانپ رہے تھے۔

نریندر برکت حسین کی طرف مڑے۔ پتاجی کی طبیعت ان دنوں ناساز ہے۔ آپ گھبرائیے نہیں۔ میں رپورٹ لکھوا کر آتا ہوں۔ چلیے میرے ساتھ … ‘

’’کیا … ‘‘

’’میرے ساتھ چلئے‘‘

بالمکند پھر بڑبڑائے۔ اچھا تماشہ ہے۔ زخم بھی دو اور مرہم بھی بھرو۔ ارے کسے بیوقوف بنا رہے ہو تم …  سب تمہاری پارٹی …  زہر سے کام نہیں چلے گا تو  Sweet poison (میٹھا زہر) دینے میں بھی استاد ہے تمہاری پارٹی …  اب یہی ہو گا۔

’نریندر کمرے سے باہر نکل گیا۔

بالمکند دیر تک غصے میں بڑبڑاتے رہے۔

٭٭٭

کرفیو کا اعلان پھر ہو گیا تھا۔

علی پور، بہشتی ٹولہ، اکبر پورہ، دالان والی مسجد، محلہ قریش اوراس طرح کے دیگر محلوں میں آگ زنی اور چھرا مارنے کے واقعات دوبارہ ہو گئے تھے۔ یہ سب کرفیو کی ڈھیل کا کرشمہ تھا —  بوکھلائے ہوئے لوگوں میں زہر اب ابھی موجود تھا۔ اور کچھ زہر تو لوکل اخباروں نے بھر رکھا تھا۔ جنہیں بکنے اور عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے یہی وقت ملتا ہے۔

پولیس کی گشت پھر جاری تھی۔ سائرن کی آواز اور پی اے سی کے بوٹوں کی گونج پھر سڑکوں پر سنائی دینے لگی تھی۔

٭٭٭

شام کے چھ بجے برکت حسین کے دروازے پر پولیس کی جیپ رکی۔ دہی صبح والا انسپکٹر تھا۔ وہ تیزی سے اتر کر صحن پار کر کے دروازے کی طرف بڑھا۔

برکت حسین بھاگے بھاگے آئے۔

’’کوئی بری خبر تو نہیں ہے بھائی؟‘‘

ان کا کلیجہ زور زور سے کانپ رہا تھا —

’’بری خبر، ابھی نہیں کہہ سکتا۔ شہر کے جنگلی علاقے میں ہمیں ایک لا وارث لاش ملی ہے۔ وہ لاش چوکی میں آ گئی ہے۔ ہم وہی آپ کو دکھانا چاہتے ہیں۔ ‘‘

کمرے کے اندر چیخ کر شمیم کے گرنے کی آواز آتی ہے۔

برکت حسین لرزتے قدموں سے جیپ میں بیٹھ گئے۔

جیپ روانہ ہو گئی —

(۶)

نیل کنٹھ کو خبر ملی تھی، پولیس امرجیت کو گرفتار کر کے لے گئی ہے۔ شہر میں ہونے والے تناؤ میں اس کی بھی بھومیکا پر مکھ رہی ہے۔

تناؤ اب بھی تھا۔ کرفیو میں دو دو گھنٹے کی ڈھیل صبح شام مل جاتی تو جیسے عام زندگی روزمرہ کی خرید و فروخت میں جٹ جاتی۔ مگر تناؤ لگاتار بنا ہوا تھا۔ پولیس کے جتھے ابھی بھی چاروں طرف چھترائے ہوئے تھے۔ امرجیت کی جیپ کے آگے پریس لکھا ہوا تھا ایک اخبار کا پریس کارڈ بھی تھا اس کے پاس۔

نیل کنٹھ جب امرجیت سے ملنے گیا تو وہ گھر ہی تھا ڈرائنگ روم میں نلکانی کے علاوہ پارٹی کے دیگر لوگ بھی جمع تھے۔

نلکانی مٹھائی کے ڈبے سے مٹھائی نکال نکال کر بیٹھے ہوئے لوگوں کو کھلا رہا تھا۔

نیل کنٹھ نے مسکرا کر پوچھا۔ ’’میں نے تو سمجھا تھا کہ آپ جیل میں ہوں گے۔ یہاں مٹھائیاں بٹ رہی ہیں۔ ‘‘

’’چلو تم بھی منہ میٹھا کرو۔ ‘‘

’’مگر کس خوشی میں ؟‘‘

’’ارے دیکھتے نہیں۔ ہماری پارٹی بس جیت کا اتہاس لکھنے ہی والی ہے۔ ‘‘

نیل کنٹھ، ہنس پڑا۔ نلکانی نے مٹھائی کا ایک بڑا سا ٹکڑا اس کے منہ میں ٹھونس دیا —

امرجیت نے نعرہ لگایا …  ’’جے شری رام‘‘

کمرے میں سب ایک جٹ ہو کر سرملا کر بولے، ’’جے شری رام۔ ‘‘

امرجیت مسکرایا —  ’’چاروں طرف ہماری وجے پتا کا پھہرا رہی ہے سب رام کی کرپا ہے۔ اب ہماری پارٹی رہے گی، ہم ہوں گے …  اور ہو گا ہمارا اکھنڈ بھارت ورش … ‘‘

نلکانی نے آگے بڑھ کر صوفے کے کنارے میز پر رکھا ہوا ٹیپ آن کر دیا۔ یہ ٹیپ اس نے اجودھیا سے خریدا تھا۔ سیتا رسوئی کے پاس والی دکان سے پولیس چوکی کے پاس بیٹھا ہوا سپاہی بھی ان گانوں کی دھن سنتے ہوئے خود کو جھومنے سے نہیں روک سکا تھا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا۔

کمرے میں ٹیپ بجنے لگا …  مندر وہیں بنے گا …

’’جے شری رام‘‘

نیل کنٹھ نے اس بار زور سے کہا۔ سب یک مشت بولے۔ جے شری رام۔

ٹھہر کر ملکانی بولا، ’سنکیت اچھے مل رہے ہیں۔ چاروں اور سے اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ ہم پر جتنا انکش یا پرتیبندھ لگایا جا رہا ہے، اس کا لابھ ہم کو مل رہا ہے۔ سماچار پتر ہوں یا دوردرشن، وے جتنا ہمارے وِرودھ بول رہے ہیں اس سے کانگریس کو کوئی لابھ نہیں۔ کانگریس کی امیج زخمی ہوئی ہے۔ مسلمان بھی کانگریس کے ورودھ ہو گئے ہیں اور پرتیکریاسروپ ہم پہلے سے ادھک مضبوط ہو گئے ہیں۔ جن سنگھ کے بعد اب تک کے اتہاس میں یہ پہلی بار ہے جب ہم اتنی جن چیتنا عام ہندوؤں میں جگا پانے میں کامیاب رہے ہیں اور یہی میری سب سے بڑی اپلبدھی اور سفلتا ہے۔ جب جن سنگھ تھی تب یاد ہو گا ہم نے گؤ ہتیا کوروکنے کا ابھیان چلایا تھا۔ اس سمے بھی ہندو جتنا کا ہمیں سمرتھن پراپت ہوا تھا۔ پرنتو اتنا بڑا سمرتھن ہمارے حصے میں پہلی بار آیا ہے اور یہ سمرتھن، یہ جن چیتنا اوشیہ ہمیں پاور مارگ تک لے جائے گی۔

’’پاور مارگ‘‘ اس نے اس لفظ پر زور دیا۔ بچوں اور مہیلاؤں سے لے کر عام بدھی جیوی ورگ تک سب ہمارے ساتھ ہیں۔ ہاں کچھ لوگ ابھی بھی خوش فہمی کے راستے جی رہے ہیں۔ جو سیکولر سیکولر چلاتے ہیں اور دھرم نرپیکچھتا کی بات کرتے ہیں۔ وے بھی جان رہے ہیں کہ اب یہ ابھیان روک پانا ان کے لیے آسان نہیں ہے۔ کم و بیش وے بھی ہمارے ہی ساتھ ہیں، پرنتو کھل کر ان کو سامنے آنے میں آپتی ہے۔ ایسے لوگ ہمارے لیے گھاتک بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہئے کہ اپنا رویہ اسپشٹ کریں کہ وے اس کروٹ ہیں یا اس کروٹ۔ بھوش میں اگر پارٹی ان سے خطرہ محسوس کرتی ہے تو ہمیں ایسے لوگوں کے ورودھ بھی اٹھنا ہو گا لیکن کشل راجنیتی سے ایسے لوگ دو مونہا سانپ ہوتے ہیں انہیں توڑنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن ہم انہیں بھی اپنے پکچھ میں لانے کا ہر سمبھو پریتن کریں گے۔ ‘‘

ہمارے اصل ہتھیار ہوں گے بچے اور مہیلائیں  —  مہیلاؤں سے گھر گرہستی چلتی ہے بچوں کا دماغ نازک ہوتا ہے اور جلد سچ کو سویکار نے کی چھمتا رکھتا ہے۔ مہیلاؤں اور بچوں کو اپنے پکچھ میں کرنے کا مطلب ہے ایسے لوگوں کو سویم اپنے بس میں کرنا —  اور وہ ہم کریں گے —  فی الحال آپ کے لیے ایک سوچنا ہے۔

نلکانی ٹھہر کر بولا۔ ’’پارٹی دفتر کو پولیس نے سیل کر دیا ہے۔ لیکن جلد ہی ہم کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ نکالیں گے۔‘‘

امرجیت نے پاس پڑا ہوا اخبار آگے کیا …  ’دیکھو ہمارے نیتا علیم بخت نے ایک —  کانفرنس میں کتنی اچھی بات کہی ہے۔ وہ زور زور سے اخبار پڑھ کر سنانے لگا۔

’’میں اپنے بارے میں سوچتا ہوں کہ اگر اس ملک کی ۸۰ فیصد آبادی ہندو نہ ہوتی تو میرا کیا ہوتا۔ اگر یہ ملک ہندوؤں کا نہ ہوتا تو علیم بخت کا وہی حشر ہوتا، جو پاکستان میں کسی رام لعل کا ہوتا ہے۔ جہاں رام لعل اپنے حقوق کی بات ہی نہیں کرسکتا، اپنی آواز نہیں اٹھا سکتا، اپنے کو رام لعل تک نہیں کہہ سکتا۔

۱۹۴۷ میں پاکستان کا اسلامی راشٹر گھوشت ہو جانا جائز تھا تو ہندستان کا ہندو راشٹر گھوشت ہو جانا ناجائز کیوں ہے۔ لیکن اس وقت بھی ہندستان ہندو راشٹر نہیں بنا۔ ۸۰ فیصد جنتا کے ہندو ہوتے ہوئے یہ قربانی ہندو جنتا ہی دے سکتی ہے اور وہ لوگ جو اس ملک کے بٹوارے کے ذمہ دار ہیں، سیاست کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں نہیں دی جا سکتی۔ سچائی یہ ہے کہ ہندو کبھی ہنسک نہیں ہوسکتا ہندو اہنسا کا ہی دوسرا نام ہے۔

امرجیت چپ ہوا تو کافی تالیاں پڑیں۔

ایک ممبر نے کہا — ’’ دھرم نرپیکچھتا کی مثال یہ ہے۔ ہمارے بخت صاحب۔ ‘‘

دوسرے نے کہا — ’’کیا خوب اور کھری کھری بات کی ہے۔ یہ ہیں سچے مسلمان۔ ‘‘

نلکانی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہمیں مسلمانوں سے نفرت نہیں ہے۔ مسلمان کو ہم بھارت کا ہی حصہ سمجھتے ہیں۔ اور اگر ہماری پارٹی ستہ میں آ جاتی ہے تو ہم مسلمانوں کو پورن سرکھچادیں گے۔ ‘‘

امرجیت ٹھہر کر بولے، ’’مسلمانوں کے دل میں ہمارے لیے جو گھرنا بھاؤ آ گیا ہے، ہمیں اسے دھو ڈالنا ہے —  ہمیں ان کے بیچ جا کر پریم اور سدبھاؤنا کی بات کرنی ہے۔ ‘‘

نلکانی آگے بولا — ’’اوپر سے حکم ہوا ہے —  ہمارے یہاں مسلم پرتی ندھی کتنے ہیں ؟اور حیرت کی بات ہے کہ ہم یدھ استرپر کام کر رہے ہیں۔ لیکن ایک بھی مسلم پرتی ندھی نہیں بنا پائے ہیں۔ یہ شرم کی بات ہے۔ ‘‘

’پرتیندھی مل جائے گا۔ ‘

لوگوں نے پلٹ کر دیکھا۔ یہ پارٹی کے ایک ممبر تھے۔ سدھنیدوبابو۔ دبلے پتلے۔ لمبے۔ زیادہ تر کرتا اور دھوتی پہنتے تھے۔

’’مل جائے گا۔ ‘‘

’’ہاں۔ ایک ویکتی ہمارے پاس ہے۔ مسلمان ہے۔ دو دن پہلے بے ہوش اوستھا میں ہمیں ملا تھا۔ حالت نازک تھی۔ ہم نے اسپتال میں بھرتی کروا دیا۔ ‘‘

’’لیکن آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بھاجپا میں وہ شامل بھی ہوسکتا ہے۔ ‘‘

’’آج صبح میری اس سے بات چیت ہوئی۔ وہ کچھ ٹھیک تھا۔ لیکن ڈاکٹر نے بستر سے اٹھنے کی ممانعت کر رکھی ہے۔ یہ جان کر کہ ہم بھاجپا کے ہیں۔ اس نے خود ہی شامل ہونے کی بات چھیڑی۔ ‘‘

امرجیت اور نلکانی نے ایک دوسرے کو گھور کر دیکھا۔ ’کوئی ویکتی آ کر خود سے پہل کرے تو اس کا کیا مطلب ہو گا؟‘‘

’’ہمارے لیے کوئی شدینتر بھی تو ہوسکتا ہے۔ ‘‘

’’کیسی بات کر رہے ہو، کیا پورے دیش میں پارٹی کا۔ نیترتو کرنے والے مسلم پرتی ندھیوں کی کمی ہے۔ ہمارے یہاں نہیں ہے۔ تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ مسلم ہماری پارٹی میں آنا ہی نہیں چاہتے۔ ‘‘

’’ہاں یہ ہے۔ ‘‘

نلکانی نے سوچتے ہوئے کہا —  ’’خود بخت صاحب ہیں، قاسم صاحب ہیں …  جو نیتر تو کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے جو مسلمان آنا چاہ رہے ہوں وہ اپنے سماج اور اپنے معاشرے سے کٹنے کی وجہ سے یا کاٹ دیئے جانے کی وجہ سے پرتی رودھ کا شکار ہوں۔ لیکن آسکتے ہیں۔ یہ سوال ہمارے لیے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کی طرح ہے۔ ‘

امرجیت نے کہا۔ ’’مسلمان بھائی ہماری پارٹی جوائن کرنا چاہیں تو ان کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ ‘‘

نیل کنٹھ نے بولنا چاہا۔ ’لیکن ہمارا کھل کر مسلمانوں کے لیے ورودھ بھرے شبد بولنا؟ اپنی دھرم ورودھی پارٹی کو کوئی کیسے اپنا سکتا ہے؟‘‘

’یہیں پر تو ہمیں ایک تیر سے دو شکار کرنے ہیں۔ ‘نلکانی سنجیدہ ہوئے۔ راجنیتی میں سب چلتا ہے۔ ہمیں ورودھ میں بھی بولنا ہے اور مسلمانوں کو پھسلائے بھی رکھنا ہے یعنی دونوں طرح کے سماچار میدان میں اتارنے ہیں۔ تاکہ ان کی بھیتری اتھل پتھل میں ہمارے لیے ایک Soft corner بھی بن جائے۔

امرجیت نے کہا، ’’آخر اتنے دنوں بعد ہماری پارٹی ایک بڑی پارٹی کے روپ میں ابھری ہے۔ کل ہم ستّا میں بھی آئیں گے۔ مسلمان اس سچ کو کسی حد تک سوئیکار کرنے لگے ہیں۔ وے ا س ڈر کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ اور واستو میں ان میں سے کچھ بھاجپا میں آنے کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘

’’اس ویکتی سے کیا بات ہوئی آپ کی۔ ‘‘

’زیادہ بولنا چالنا تو منع ہے۔ اس نے کیول اتنا کہا کہ وہ بھاجپا میں دل چسپی رکھتا ہے۔

نلکانی بولا۔ ’’تو پھر ٹھیک ہے۔ ہم اس ویکتی سے بات کریں گے …  نام کیا ہے؟‘‘

سدھیند و بابو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

’’اس ویکتی نے اپنا نام تنویر حسین عرف منا بتایا ہے۔ ‘‘

(۷)

منا لوٹ آیا۔

منا چپ چاپ لوٹ آیا۔ نہ کسی سے کچھ کہا نہ سنا۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ ان دو دنوں میں چودھری برکت حسین کا چوکی سے تین بار بلاوا آ چکا تھا۔ اور وہ بھی کس سلسلے میں …  لا وارث لاش دیکھنے کے لیے …  جن کے وارث نہیں مل رہے تھے اور چودھری برکت حسین کو شناخت کرنی تھی کہ یہ ان کا منا ہے یا نہیں۔

پہلی بار تو سچ مچ چکرا گئے تھے برکت حسین۔

جب پولیس جیپ کے ساتھ وہ انجان لاش کو شناخت کرنے کے چوکی میں گئے تھے۔ سفید کپڑے سے ڈھکی ہوئی لاش پڑی تھی۔ اور ان سے پوچھا جا رہا تھا —

’’پہچانو کیا یہی تمہارا منا ہے … ‘‘

منا!

اندر جیسے توپیں گرج رہی تھیں۔ بوڑھے لاچار باپ کے نصیب میں کیا اب یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اپنے مرحوم بچے کی لاش کو سہارا دے۔ برا ہوا کرے۔ پر ہے تو اپنا خون —  لاش پڑی ہے …  اور ایک عجیب ساخوف کپکپی بن کر ان کے پورے وجود میں اتر گیا ہے …

برکت حسین …  اگر یہ منا ہوا تو ؟

آنکھوں کے آگے گہرا اندھیرا چھا تا جا رہا تھا …

ڈرتے کانپتے ہاتھوں سے سر کے پاس کی چادر دھیرے سے ہٹائی پھر فورا ڈھک دی …

’’نہیں۔ ‘‘

ایک مضبوط اور مطمئن آواز …  یہ میرا منا نہیں ہے۔

وہ گھر واپس آ گئے تھے۔

٭٭٭

اس کے بعد بھی تھانے سے دو بار بلاوا آیا۔ چلیے لاش کی پہچان کرنی ہے۔

جمیلہ بگڑتی تھی۔ ’’زندہ لوگوں کی کھوج نہیں کرواتے یہ مردود۔ مردوں کی پہچان کرواتے ہیں  —  آپ کا دل ایسے بھی کمزور ہے۔ آپ مت جائیے۔ منا لوٹ آئے گا — میرا دل کہتا ہے۔ ‘‘

اور سچ مچ ماں کے دل میں یہ تاثیر تو ہے جو بچے کے اچھے برے خبر کی گندھ خواب خیال میں سونگھ لیتی ہے —  پتہ چل جاتا ہے —  ہاں شمیم کسی کو کوسنے دیتی تو جمیلہ چلاتی۔

’’چپ کر …  وہ لوٹ آئے گا۔ کسی مصیبت میں ہے، مگر لوٹ آئے گا۔ ‘‘

٭٭٭

اور منا لوٹ آیا۔

دوپہر کا وقت۔ شدید دھوپ چاروں طرف پھیل گئی تھی۔ کرفیو اٹھا لیا گیا تھا۔ لڑکھڑا تے قدموں سے اس نے اپنے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

جو پہلی صورت دروازے پر نظر آئی وہ گود میں نشی لیے شمیم تھی۔

شمیم چیخ مار کر منا سے لپٹ گئی۔

لیکن یہ کیا۔ منا چپ تھا جیسے اندھیری گلی میں بھوتوں کو دیکھ لیا ہو۔ گم سم …  جمیلہ بھاگتی ہوئی آئی۔

’’خیریت تو ہے؟‘‘

چودھری برکت حسین کمرے سے باہر نکل آئے۔

’’کہاں چلا گیا تھا — ؟‘‘

پھر سب منا کو گھیر کر بیٹھ گئے۔ منا بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں گھور رہا تھا۔

’’کہاں چلا گیا تھا۔ ‘‘ برکت حسین چیخے۔

جمیلہ ملائمیت سے بولی۔ ’دیکھتے نہیں ابھی طبیعت ٹھیک نہیں۔ بہو پانی لانا۔ ‘

شمیم جھٹ دوڑ کر گلاس میں پانی لے آئی —  منا نے ایک سانس میں پانی ختم کر دیا۔

’’کہاں گیا تھا میرے لال؟‘‘

برکت حسین اس کے چہرے کے زخمی اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہے تھے۔ یا خدا …  یہ چپی، یہ خاموشی …  کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں۔

منا چپ تھا۔ آنکھیں گھر کے افراد کو نہیں گھور رہی تھیں …  گھور رہی تھیں چھت کو …  خلاء میں دیکھ رہی تھیں۔ ان میں کوئی تاثر نہ تھا۔ نہ کوئی جذبات، نہ احساسات۔

بے رنگی تھی، پتھر ہو جانے جیسی کیفیت تھی۔ سامنے والے کو پتھر بنا دینے والی مضبوطی تھی۔

’’کچھ بولتے کیوں نہیں۔ ‘‘

چودھری برکت حسین نے آگے بڑھ بر اسے جھنجھوڑا —  پاگل ہو گئے ہو، ہوش کھو بیٹھے ہو۔ کہاں چلے گئے تھے۔ اس طرح اچانک۔ بتایا تو ہوتا۔ بیوی تھی۔ بچے تھے۔ ہمارا خیال نہ کیا ہوتا، ان کا کیا ہوتا۔ ٹھیک تھے۔ تو خبر بھجوائی ہوتی۔ ارے کچھ تو کیا ہوتا۔ میاں تم کیا جانو …  ان دو دنوں میں کیا کیا افتاد ہم پر گزر گئی۔ کیا کچھ نہ سہا۔ کیسی کیسی باتیں سوچ لیں۔ تھانے رپورٹ لکھوائی۔ اب ایک بار پھر وہاں جا کر لکھوانا ہو گا کہ تم زندہ لوٹ آئے۔ وہ پوچھیں گے کہاں رہے اتنے دن؟ تب بھی بولنا تو ہو گا۔

’’مجھے تنہا چھوڑ دیجئے۔ ‘‘

منا نے منہ بنا کر کافی دیر پر جملہ ادا کیا۔

’’کیوں  — ؟‘‘

’’میں نے کہا نا۔ مجھے ابھی کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ ‘‘

’’لیکن کہاں چلا گیا تھا۔ اچانک چپ چاپ۔ ‘‘

’’آپ لوگ کیوں میری جان کے پیچھے پڑے ہیں۔ ‘‘

منا کی لرزتی آواز پر جیسے سب چپ ہو گئے۔

برکت حسین نے گھوم کر جمیلہ کو دیکھا۔ اشارہ کیا۔

’’جاؤ —  منا کو آرام کرنے دو۔ ‘‘

شمیم اب بھی رو رہی تھی۔ ’’میری قسمت پھوٹ گئی —  انہیں کیا ہو گیا ہے۔ میری بچی کا کیا ہو گا؟‘‘

منا چپ چاپ مڑ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ ماحول میں کرفیو جیسا سناٹا پھیل گیا۔

تنہا کمرہ …  خاموش کمرہ …  کبھی کبھی کمرہ بولتا ہے …  اور ہم سانپ کے ڈسنے سے دہلتے رہتے ہیں …  کبھی کبھی کمرہ وہ ہیبت طاری کرتا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں …  خود کا حساب لیتا ہے کمرہ …  جرح کرتا ہے، دلیلیں دیتا ہے …  سوال کرتا ہے …  لتاڑتا ہے …  اور زخمی کرتا ہے …

اور ابھی —  اس وقت —  جرح، دلیلوں اورسوالوں کی ترنگوں میں تنویر حسین عرف منا کھویا ہوا تھا۔

یہ سب کیا ہو گیا؟

کیسے ہو گیا؟

تم نے اچانک ہار کیسے مان لی؟

وہ جرح میں کسی وکیل کی طرح الجھتا۔ بڑے لوگوں کو قائد بنا کر دیکھ لیا۔ وہ صرف کٹھ پتلی ثابت ہوئے۔ عام سی کٹھ پتلی۔ بے جان —  وہ دبتے ہیں یا سمجھوتہ کرتے ہیں … ‘‘

’’تو تم بھی سمجھوتہ کر رہے ہو؟‘‘

’’یہ سمجھوتہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک کڑوا سچ جو سامنے ہے‘‘اس سے خود کو باہر نکالنے اور بچانے کا ایک راستہ ہے۔

’’تو کیا اس کے لیے؟‘‘

’’ہماری پہنچ اگر ان تک نہیں ہو گی تو پارلیامنٹ میں ہماری آواز کی گونج تک نہ ہو گی۔ ‘‘

’’نیتا بننا چاہتے ہو منا؟‘‘

کمرہ ہنستا ہے …  بجلی آفس کی کلرکی کے بعد اب نیتا گیری کا نمبر ہے۔ بہت بڑا خواب لے کر جی رہے ہو۔ مسلمانوں کی نمائندگی کی بات کر رہے ہو۔ ان مسلم نیتاؤں سے جی بھر گیا کیا؟

’’ہاں سب سے جی بھر گیا۔ وہ خود مرنے کے لیے سامنے نہیں آتے۔ ہمیں مرواتے ہیں۔ ہمیں سامنے کرتے ہیں۔ ہم پر گولیاں چلواتے ہیں۔ سب کو دیکھ لیا۔ ‘‘

’’اس لیے اب خود نیتا بننا چاہتے ہو … ‘‘

’’میں نیتا کہاں بن رہا ہوں۔ میں صرف برے دن سے واپسی چاہتا ہوں۔ جو خبریں مل رہی ہیں اس سے نجات چاہتا ہوں …  اوراس کے لیے ضروری ہے کہ —  کل میری بچی بڑی ہو گی —  کیا وہ محفوظ ہو گی؟ کون محفوظ ہو گا —  میں تو صرف اپنی شرکت چاہتا ہوں کہ وہ سمجھیں کہ ہم کیڑے مکوڑے نہیں ہیں۔ ہم ان میں بھی شامل ہیں۔ ‘‘

’’لیکن اس شرکت سے تمہیں کیا فائدہ ہو گا۔ تم کون سا ذلیل ہونے سے بچ جاؤ گے — ؟‘‘

کوئی آواز سر نکالتی ہے۔ تم قاسم بنو گے یا علیم بخت کی بھومیکا نبھاؤ گے تو مسلمانوں کے درمیان سے کاٹ دیئے جاؤ گے۔ خود اپنے گھر سے تمہارا بہشکار ہو گا — ‘

آواز بار بار شب خوں مارتی ہے …  خیر چھوڑو …  ہوا کیا تھا میاں تنویر حسین …  تم اچانک چلے کہاں گئے تھے … ؟

اس رات …

تنویر حسین کے لب پتھر ہو گئے تھے۔

٭٭٭

کرفیو والی رات سے چار دن پہلے

افیم والی کوٹھی کے شوکت میاں کے یہاں آس پڑوس کے چار پانچ لوگ بیٹھے تھے۔ ان میں تنویر حسین بھی تھا۔

معاملہ وہی تھا۔ اگر کچھ ہو گیا تو ہم کیا کریں گے۔ ؟

کسی نے کہا۔ اکبر پورا، کھیم پور، علی پور، بہشتی ٹولہ وغیرہ محلوں میں مسلمانوں کی صورتحال زیادہ بھیانک نہیں ہے —  اس لیے کہ ان محلوں میں مسلمان اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ ایک تو حملہ ہو گا ہی نہیں …  اور دوسرا؟‘‘

’’دوسرا کیا؟‘‘

بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک آدمی نے اعتراض کیا۔ ’’ہم میں حملہ کرنے یا حملہ کا جواب دینے کی ہمت ہے؟ پہلے یہ بتائیے۔ ‘‘

شوکت میاں بولے۔ مسلمان اکثریت والے محلوں کے بارے میں یہ سوچنا کہ یہاں کچھ نہیں ہو گا۔ سراسر بے بنیاد ہے۔ جبکہ اصلیت یہ ہے کہ یہ سامپردائیک جماعتیں ایسے ہی محلوں کو پہلے اپنا نشانہ بناتی ہیں۔ اور مسلمانوں کے پاس ہے کیا، ہتھیار کے روپ میں ؟

’’اگر وہ حملہ کرتے ہیں تو جواب دینے کے لیے ہمارے پاس لاٹھیوں کے سوا اور کچھ ہو گا بھی نہیں۔ ‘‘

اور تازہ صورت حال یہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی یوجنا بنا رہے ہیں۔

’’فضا خراب ہے کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ‘‘

’’اور طے ہے کہ کچھ بھی ہوا تو مسلمان ہی مارے جائیں گے۔ ‘‘

’’اسی لیے —  شوکت میاں نے خوف سے سہمے چہروں کو پڑھا —  آپ نے سنا ہو گا۔ کئی محلوں میں بم بنائے جا رہے ہیں۔ گپ چپ یہ کام زوروں پر ہو رہا ہے۔ ہم بھی یہ کام کریں گے۔ ‘‘

انہوں نے ایک طرف کونے میں بیٹھے ہوئے شریف بھائی کو اشارہ کیا۔

’’یہ شریف بھائی ہیں۔ اکبر پورا میں رہتے ہیں۔ سلائی کا کاروبار ہے۔ یہ سکھائیں گے آپ کو بم بنانا۔ ‘‘

منانے مسکرا کر دیکھا شریف بھائی کو —

شریف بھائی ۴۰۔ ۴۵ کی عمر کے ہوں گے —  سنجیدہ آدمی …  وہ اٹک اٹک کر بولے …  جمانا ناجک ہے …  برے وقت کے لیے مسلمانوں کو تیار رہنا چاہئے — ‘‘

’’لیکن سیکھنا کہاں ہو گا۔ ‘‘

’’یہیں آ جائیے گا — ‘‘

شوکت بھائی نے منا کو دیکھا —  میاں کلیم پور کی صورت حال سب سے زیادہ نازک ہے۔ جب سے اس چھونڑے رگھو کی ہتیا ہوئی ہے، بھاجپا کے لوگ اس ہتھیا کو سمپردائیک رنگ دے رہے ہیں۔

منا کی آنکھیں پھیل گئیں …  گھر …  ابا …  اماں …  شمو …  نشی …  ایک نظر میں بے بس اور لاچار یہ سارے نظر میں گھوم گئے …

’’خطرہ تصور سے زیادہ ہے۔ ‘‘

منا نے پلٹ کر پوچھا —  ’میں کب سے سیکھنے لگوں۔ ‘

’’ابھی اسی وخت۔ ‘‘

شریف بھائی مسکرائے، پھر گھر جا کر چوری چھپے بنانا مت بھولیے گا۔

’’کلیم پورہ کی حالت نازک ہے، منا کو اب اس کے علاوہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا — ‘‘

یوں دنگوں کی چھٹ پٹ ریہرسل ہوتی رہی تھی۔ لیکن کیا معلوم تھا کہ اچانک اتنی جلدی صورت اس حد تک نازک ہو جائے گی —  اتنی جلد دنگے گی پرشٹھ بھومی تیار ہو جائے گی کہ سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔

جمعہ کے روز ویسے بھی کلیم پور میں صبح سے اس بات کی چرچا تھی کہ آج کچھ ہو کر رہے گا—

٭٭٭

منا صبح میں پان کی دکان پر تھا۔ پان کی دوکان پر آپس میں کچھ لوگ باتیں کر رہے تھے۔

’’چار ٹرک باہر سے آدمی بلائے گئے ہیں۔ ‘‘

’’چار ٹرک؟‘‘

پھر جیسے اس سے کچھ سنا نہیں گیا۔ گھر میں آ کر بت بن گیا۔ لگا سر پر ایک خونی تلوار لٹک رہی ہے۔ منا کو لگا ابھی مشتعل لوگ آئیں گے، پورے گھر میں آگ لگا دیں گے، سب مارے جائیں گے۔

اس دن منا نے بجلی آفس سے بھی چھٹی کر لی —  جمعہ کی نماز پڑھنے بھی نہیں گیا۔ ہاں دروازے کے باہر جہاں اس نے کرائے پر دو دکانیں دے رکھی تھیں ان کے پاس چلا آیا۔ یہ کرایہ دار بھی مسلمان تھے۔ اور گیارہ بجے کے آس پاس ہی دکان بند کر کے چلے گئے تھے ساڑھے گیارہ بجے کے آس پاس اس نے دیکھا بہت سی دکانوں کے شٹر گر گئے۔ جمعہ کی نماز کا وقت قریب آ رہا تھا۔ سڑک پر انسانوں سے زیادہ پولیس نظر آ رہی تھی۔ پی اے سی کے جوانوں کے جتھے بندوق اور ہر ڈل اٹھائے ایک طرف جاتے دکھائی دئے۔

’اگر کچھ ہو گیا تو؟‘‘

منا کے سامنے بس یہی سوال تھا۔ ان کے یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ شوکت میاں کے یہاں ہے …  کیا اسے وہاں جانا چاہئے —  اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ سڑک پر بھاگم بھاگ اور پولیس دوڑ شروع ہو گئی۔ ساڑھے بارہ بجے اور ڈیڑھ بجے کے درمیان واقعات نے دنگوں کا لباس پہن لیا۔

شہر میں کرفیو لگ گیا۔

منا بار بار اس خیال کی سطح پر تھا کہ کرفیو سے کیا ہوتا ہے …  ان کی پلاننگ ہے تو وہ آئیں گے۔ مسلمانوں پر حملہ کریں گے …  وہ تو مقابلہ بھی نہیں کرسکیں گے۔ حملہ کے لیے مناسب وقت تو رات ہے …  اور پھر پولیس تو خود ان کے ساتھ ہے۔

’’لیکن کرفیو میں ؟‘‘

پھر اسے کرفیو کا خیال آیا —  اسپتال کا بہانہ بنا دے گا۔ ماں سخت بیمار ہے —  کچھ ناٹک کرے گا —

سچ تھا کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا تھا۔ وہ بغیر کسی کو کچھ بتائے چپ چاپ باہر نکل گیا۔

٭٭٭

کھیم پور سے تو وہ چپ چاپ باہر نکل گیا۔ چپل کی آواز بھی شور کر رہی تھی۔

کھیم پور اور پلواسے کراس کرتے ہی نالے کے ادھر شوپوری کا علاقہ ہے۔ ادھر کرفیو نہیں تھا۔ شو پوری ہو کر ہی افیم والی کوٹھی جایا جا سکتا تھا۔ شوپوری میں ڈم، مدھم روشنی میں ایک پان کی دکان کے پاس کچھ لوگ کھڑے تھے۔

پھر اسے کچھ نہیں معلوم —

اس کے سرپر کسی نے ڈنڈے سے وار کیا۔ وہ چکرا کر گر گیا …

جب ہوش آیا تو وہ ڈاکٹر نریندر کی کلینک میں تھا۔ اور سدھیندورائے اس پر جھکے ہوئے تھے …

٭٭٭

یہ اتفاق تھا کہ سدھیندورائے اپنی سائیکل سے نالہ کراس کر رہے تھے۔ انہوں نے زخمی حالت میں گرے ہوئے منا کو دیکھا۔ پھر کسی طرح اس کے اسپتال لے جانے کے بارے میں سوچا۔ مگر اچانک خیال آیا کہ ذرا دور پر ان کے ڈاکٹر دوست اور پارٹی کے کاریہ کرتا ڈاکٹر نریندر رہتے ہیں۔

سدھیندورائے زخمی منا کو ڈاکٹر نریندر کی پرائیویٹ کلینک میں لے گئے۔ پولیس میں رپورٹ جان بوجھ کر نہیں لکھوائی گئی کہ پولیس ایسے میں مصیبت کھڑی کر سکتی تھی۔

چوٹ شدید تھی۔ منا کو ہوش تو آ گیا لیکن سر پھٹا جا رہا تھا۔ اچانک اسے سب کچھ یاد آ گیا —  کرفیو، اس کا باہر نکلنا، ٹھیک اسی وقت اس کے کانوں میں ہلکی سی صدا سنائی پڑی۔ ’’جے شری رام … ‘‘

دھندلے سے دو خاکے تھے جو باتیں کر رہے تھے۔ یہ ڈاکٹر نریندر اور اور سدھیندورائے تھے۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ کر سدھیندورئے لپک کر گئے۔

’’کیسے ہو؟‘‘

اس نے سر پر ہاتھ رکھا، جیسے دماغ کی ساری نس کڑکڑا رہی ہوں۔

’’ابھی تو تم بہتر نہیں ہو۔ لیٹے رہو۔ ‘‘ ڈاکٹر نریندر مسکرا کر آگے بڑھے۔

’’کس محلے کے ہو — ؟‘‘

’’کھیم پور‘‘

سر میں تیز چنک ہو رہی تھی۔

’’نام — ‘‘

اس نے بیٹھتے ہوئے سر کو تھامتے ہوئے بتایا۔

’’تنویر حسین۔ ‘‘

’’مسلمان ہے — ‘‘

ڈاکٹر نریندر مسکرا کر سدھیندورئے سے بولے۔

٭٭٭

دوسرے دن صبح میں ڈاکٹر نریندر خود اس کے پاس چائے کا طشت لیکر پہنچے۔ سدھیندورائے پہلے سے ہی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔

’’مارننگ!‘‘ ڈاکٹر نریندر مسکرائے۔ ’’اب کیسے ہو؟‘‘

’’بہتر ہوں۔ لیکن سراب بھی پھٹ رہا ہے۔ ‘‘

’’باہر کرفیو لگا ہے۔ گھر کوئی میسج بھجوانا ہے … ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘ کہتے کہتے وہ ٹھہر گیا …  نیم بے ہوشی اس پر طاری ہو رہی تھی …

’’ابھی طبیعت پوری طرح درست نہیں ہوئی۔ جتنی چوٹ دماغ پر پڑی تھی، وہ اچھے اچھوں کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہے۔ دماغ کی نس پھٹ سکتی تھی۔ یاد داشت گم ہوسکتی تھی۔ ‘‘

’’بہتر ہے اسے ابھی تم اپنی نگرانی میں رکھو۔ ‘‘

ڈاکٹر نریندر اور سدھیندورائے پھر پارٹی اور کاریہ کرموں کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔

منا کو عجیب سا لگا —  کیا اس پارٹی میں بھی اچھے لوگ موجود ہیں …  سدھیندورائے نے اس کی جان بچائی۔ ڈاکٹر اس کی خیریت پوچھنے آتا ہے۔ مفت علاج کر رہا ہے …

اسے عجیب سا لگ رہا تھا۔ دماغ اب بھی پھٹ رہا تھا۔ غنودگی اسے بوجھل کر رہی تھی۔

دوپہر میں اس کی طبیعت ذرا ٹھیک لگی تو اس نے سدھیندورائے سے پوچھا۔

’’آپ بھاجپائی ہیں ؟‘‘

یہ سوال ایسا تھا جسے پولیس مجرم سے پوچھتی ہے …  بتاؤ، تم مجرم ہو …  تم نے قتل کیا ہے۔

’’ہاں۔ ہوں تو؟‘‘

’’لگتے نہیں  — ‘‘

سدھیندورائے ہنسے۔ ’تم کیا سمجھتے ہو، بھاجپائیوں کو سینگ ہوتی ہے؟‘

وہ ہنس پڑا —

’’سینگ نہیں۔ پھر بھی۔ ‘‘

’’ظالم کا تصور ہو گا تمہارے پاس۔ ‘‘

وہ چپ رہا —

’’سب بکواس‘‘ سدھیندورائے مسکرائے۔ ’’ہماری پارٹی کو ناحق بدنام کیا گیا ہے  —  انسانوں کی عام نظر میں جو قدر اور عزت ہے۔ وہی معاملہ ہماری پارٹی کے ساتھ ہے —  اب بتاؤ کیا ہم تمہیں جنگلی اور دنگائی لگتے ہیں ؟‘‘

’’نہیں  — ‘‘

’’ارے جو دنگا کرتے ہیں وہ بھی تو آدمی ہوتے ہیں۔ مصلحت پسند اور سیاسی۔ ‘‘

’’آپ نہیں ہیں۔ ‘‘ منا کو خود یہ حیرت تھی۔

’’بالکل نہیں  —  ہم تو ایک بات کہہ رہے ہیں اور بات اگر سہی ہے تو اس پر ڈٹے رہنا اور دکھانا ہی کام رہ جاتا ہے —  سیاسی کھلواڑ تو دوسرے لوگ کر رہے ہیں  — ‘‘

سدھیندورائے کو کچھ خیال آیا۔

’’شام میں تمہارے محلے میں دو گھنٹے کی ڈھیل ہے۔ گھر جانا چاہو یا خبر بھجوانا تو …  ویسے خبر بھجوا سکتے ہو۔ ابھی تمہاری طبیعت زیادہ ٹھیک نہیں۔ اس لیے آج بھر آرام کر لو۔ اور گھر خبر بھجوا دو۔ ‘‘

’’نہیں  — ‘‘

اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔

’’کیوں۔ اچانک جا کر سرپرائز دو گے‘‘

وہ بس آہستہ سے مسکرایا۔

’’آج آرام کر لو۔ کل صبح ہی تمہارا نام کٹوا دیں گے۔ اب تم بہتر ہو۔ ‘‘

’’شکریہ۔ ‘‘

منا کو لگ رہا تھا …  ستا اب ان سے زیادہ دور نہیں ہے …  یہ چاروں طرف چھترا چکے ہیں …  ہر جگہ …  ہر محاذ پر …  ان سے فرار ناممکن ہے …

یہ سوال پہلے بھی اس کے دل میں کوندا تھا …  جب وہ حکومت میں آہی رہے ہیں تو پھر کیا کرنا چاہئے۔ دل کے کسی کونے سے آواز اٹھی تھی …  ہمیں بھی ان کی پارٹی جوائن کر لینی چاہئے …

لیکن …

اور اس لیکن کے دائرے سے باہر شکوک  و شبہات کی بارودی لائن بچھی تھی …  لیکن ایک خطرہ اور بھی تھا کہ اگر پارٹی حکومت سنبھال لیتی ہے اور مسلمان اس سے کٹے کٹے رہتے ہیں تو پھر انہیں اپنے حقوق سے بھی ہاتھ دھونا ہو گا …

منا کے چھوٹے سے دماغ میں یہ بات آ گئی تھی  …

اس نے سدھیندورائے سے پوچھا۔

’’ایک بات پوچھوں۔ ‘‘

’’ضرور‘‘

’’میں آپ کی پارٹی جوائن کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

٭٭٭

’’کیسا ہوا ہے۔ کچھ بولتے کیوں ہیں آپ؟‘‘

دروازے پر گود میں نشی کو لیے شمیم کھڑی ہے۔

اور دنوں کی طرح غصہ نہیں آیا شمو پر۔ ڈانٹا نہیں۔ بگڑے نہیں۔ نشی کو گود میں لے لیا۔

نشی گود میں آتے ہی بلکنے لگی۔

شمیم نے آنکھوں میں اتر ہوئے آنسو کو پونچھا۔ ’’آپ نے سب کو رلا دیا۔ ‘‘

منانے ایک اچٹتی سی نظر شمیم پر ڈالی …  سب کچھ وہی ہے …  گھر …  کمرہ …  شمو …  اماں …  صرف وہ بدل گیا ہے …  وہ شمو کی طرف مڑا۔ آواز میں رکھائی شامل تھی۔

’’کھانا لگا دو۔ بھوک لگی ہے — ‘‘

(۸)

’جوش صاحب …  بالمکند شرما جوش صاحب …  تشریف رکھتے ہیں۔ ؟‘

چودھری برکت حسین نے دروازے پر کھڑے کھڑے آواز لگائی۔ آواز لگا کر جیب سے پن ڈبہ نکالا۔ پن ڈبہ سے پان کی ایک گلوری نکالی۔ منہ میں ڈال کر چباتے رہے … اندر سے نقاہت میں ڈوبی ہوئی آواز آئی۔

’’کون ہے بھائی …  برکت …  برکت حسین‘‘

دروازے پر جوش صاحب کھڑے ہیں …  ارے آؤ بھائی …  اندر آ جاؤ … ‘

کمرے میں چپی ہے۔ کافی دنوں بعد مل رہے ہیں دونوں ایک دوسرے سے —  بیچ میں صرف ایک دن منا کے غائب ہونے پر برکت حسین بالمکند سے ملنے آئے تھے …  پھر فضا ہی ایسی رہی کہ کوئی کسی سے کیا ملے …

’’یہ سب کیا ہو رہا ہے بالمکند؟‘‘

برکت حسین کی آواز کانپ رہی ہے۔

’’یہ ہو رہا ہے برکت حسین کہ تم سے نظریں ملاتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے۔ ‘‘

’’واقعات نے کہیں کا رہنے نہیں دیا۔ ایک دیوار تقسیم نے کھڑی کر دی تھی۔ اس دیوار کو توڑنے میں برسوں لگے …  اب یہ نئی دیوار …  اب تو جان ہی جائے گی …  ہم کہاں رہیں گے — ؟‘‘

’’ہونہہ … ‘‘

برکت حسین پیک تھوکنے کے لیے اگالدان ڈھونڈتے ہیں۔ ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوئے دیکھ کر جوش صاحب طنز کرتے ہیں …

’’میاں بدل رہے ہو۔ اتنے دن میں بدل گئے تم۔ میاں برکت حسین۔ ذرا ان دیواروں پر نظر ڈالیے …  پان کے سرخ نشانات، جہاں بھی نظر آ رہے ہیں، سب آپ ہی کی رہینِ منت تو ہیں۔ پھر یہ اگالدان کیوں ڈھونڈا جا رہا ہے؟‘‘

’’وہ … ‘‘

ہنستے ہوئے برکت حسین پیک دیوار پر تھوک دیتے ہیں …  ’’ہاں سچ کہتے ہو‘‘

سب کچھ بدل رہا ہے …  بدلنا پڑ رہا ہے میاں جوش  …  کبھی کبھی ان دوستوں پر رشک آتا ہے جو ہم سے پہلے دنیا کا ساتھ چھوڑ گئے۔ کم از کم یہ برے دن دیکھنے سے بچ گئے نا … ‘‘

جوش صاحب ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں …  ’’برے دن  …  جو ہو رہا ہے …  اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے …  اس سے بھی برے دن آنے والے ہیں، اتنے برے دن جن کے تصور بھی نہیں کئے ہوں گے ہم نے۔ ‘‘

’’ارے چھوڑو میاں …  چلو ایک بازی ہو جائے شطرنج کی۔ ‘‘

جوش صاحب نے شطرنج تو نکال لیا۔ لیکن آنکھیں بساط سے زیادہ پچھلے دنوں ہوئے واقعات کے محاسبے میں پھنسی رہیں۔

مہرہ چلتے ہوئے برکت حسین بولے۔ ’منا تو آ گیا ہے، لیکن بدلا بدلا سا ہے۔ ‘

’’کچھ بتایا نہیں میاں کہ کہاں گیا تھا۔ ‘‘

’’نہیں پولیس کے پوچھنے پر بتا دیا کہ کرفیو کی وجہ سے ایک دوست کے یہاں ٹھہر گیا تھا۔ ‘‘

’’تم نے گم سم رہنے کی وجہ پوچھی؟‘‘

’’کچھ بولتا ہی نہیں۔ گم سم چپ چاپ سوچتارہتا ہے۔ ‘‘

’’پھر بھی پوچھنا تو چاہئے تھا کہ اچانک کہاں چلا گیا تھا۔ ‘‘

’’اب کیا فائدہ جوش میاں۔ لیکن جو ہوا ہے، اچھا نہیں ہوا ہے۔ ‘‘

برکت حسین مہرے گرا دیتے ہیں …  ’اچھا چلتا ہوں جوش میاں۔ آج کھیل میں بھی دل نہیں لگا۔ پہلے سوچا تھا کچھ دیر بیٹھوں گا۔ دل بہلاؤں گا۔ مگر …  خدا حافظ … ‘‘

برکت حسین چلے گئے …

جوش صاحب کے اندر کوئی آواز حرکت کرتی ہے …

’’ …  یہ دنیا جیسی ہے ویسی ہی رہے گی۔ بالمکندشرما جوش تمہارے کہنے سے نہیں بدلے گی اور اس دنیا میں تم جیسوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ‘‘

وہ تیز تیز چلتے ہوئے کھلے میں آ جاتے ہیں …  دماغ پر لگاتار کوئی ہتھوڑے برسارہا ہے …

’’یہ سب …  میاں بالمکند شرما جوش …  تم ایک مرتی ہوئی صدی کا تماشہ دیکھنے کے لیے زندہ ہو۔ اپنے گھر میں ہی کس پر ادھیکار ہے تمہارا؟ اپنے بچوں پر … ؟‘‘

ایک گھٹی ہوئی سانس چھوڑتے ہیں وہ …

’’میرے بچے کہاں ہیں …  یہ تو بھاجپائی ہیں یا کانگریسی۔ یہ میرے بچے نہیں ہیں۔ ‘‘

آواز کی دھمک سر پر مستقل بنی ہوئی تھی۔

٭٭٭

 

                   حیرت گاہ

(۱)

فضا شانت ہو گئی۔

لیکن کیا سچ مچ فضا شانت ہوئی تھی؟

ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا تھا کہ کرفیو ختم کر دیا گیا۔ مگر نکڑوں پر مسجد اور مندر کے چوراہوں پر، چوک پر جیسے پولیس چوکی بیٹھی تھی اور سچ پوچھئے تو فضا ویسی ہی بارودی تھی، جیسے کچھ دنوں پہلے کی ریہرسل کے دوران تھی۔ ڈر اور خوف لوگوں کے دلوں میں برابر بیٹھا ہوا تھا۔

اس بیچ تلاشی کا سلسلہ شروع ہوا —  پولیس نے اچانک گھروں میں گھس کر ریڈ کرنا شروع کیا۔ کھیم پور کے علاوہ اکبر پورہ اور قریش محلہ کے کئی لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔

اس دن اچانک پولیس نے چودھری برکت حسین کے یہاں ریڈ کر دیا۔

دروازہ کھولو —

منا گھر پر تھا۔ دروازہ کھول دیا۔

پولیس کے سپاہی دندناتے ہوئے آگے بڑھ آئے۔ ایک نے آگے بڑھ کر منا سے بدتمیزی کے انداز میں کہا۔

’’ہم کہاں ہے میاں جی؟‘‘

’’تمیز سے بات کرو۔ ‘‘

منا بپھرا تو پولیس کے ایک سپاہی نے ڈنڈے سے منا کو زور سے ٹھیلا۔

’’سالے پولیس سے جبان لڑاتا ہے۔ ‘‘

منا اڑ گیا —  ’’آپ تلاشی نہیں لے سکتے۔ ‘‘

ایک سپاہی دوسرے سپاہی سے کہہ رہا تھا …  ’’سالے سب پاکستان سے ملے ہوئے ہیں۔ ‘‘

منا نے کچھ بولنا چاہا تو ایک سپاہی نے زور سے کہا …  ’’چپ …  ہمیں آرڈر ملا ہے۔ ‘‘

پھر دیر تک اس آرڈر کی تعمیل ہوتی رہی …  چیزیں پھسکارتی رہیں۔

چودھری برکت حسین سہمے سہمے سے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔

ایک سپاہی ان کے پاس آ کر مذاقیہ انداز میں بولا۔ ’’بم بنانا آپ سکھاتے ہو بابا جی — ‘‘

باباجی وہ ایسے لہجے میں بولا تھا کہ دوسرے سپاہی ہنس پڑے۔ اندر تلاشی کے بعد باقی دوسپاہی لوٹ آئے تھے۔

’’چلو۔ یہاں سے کچھ نہیں ملا۔ ‘‘

’’چلو۔ ‘‘

کڑیل مونچھوں والے سپاہی نے پلٹ کر برکت حسین سے پوچھا۔

’’بابا یہاں کوئی تہہ خانہ تو نہیں۔ سچ سچ بتائیے۔ ورنہ اگلوانا تو ہم جانتے ہی ہیں … ‘‘

’’ارے چلو یار۔ ‘‘

دوسرے سپاہی نے اسے کھینچا۔

جمیلہ اور شمیم بری طرح سے کانپ رہی تھیں۔ یہ تو خیر تھا کہ سپاہیوں نے خواتین کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں کی …  منا اندر ہی اندر تاؤ کھا رہا تھا …  یہ سب …  یعنی حد ہو گئی ہے —  ظلم کی انتہا کر دی ہے سالوں نے …

لیکن وہ تو …

کیا وہ مانیں گے اگر اس نے بتانا بھی چاہا تو …  وہ کوئی پبلک فیگر تھوڑا ہے۔ اس نے تو بس دوراندیشی کی ایک چال چلی ہے۔ یہ چال غلط بھی ہوسکتی ہے۔ مگر —

منا نے پکڑ کر شمو کو ڈانٹا۔

کوئی بھی آتا ہے تو تم لوگ اندر کیوں چلی آتی ہو۔ کوئی شرم و حیا نہیں ہے۔ پولیس والے بدتمیزی سے پیش آئے تو … ‘‘

’’ایسے ہی بدتمیزی سے پیش آتے، منہ نہ نوچ لیتی۔ ‘‘

جمیلہ نے بہو کا ساتھ دیا۔

چودھری برکت حسین کے منہ میں جیسے تار لگ گیا تھا …  ایسی بے عزتی پولیس والا کس درجہ بدتمیزی سے ان سے پیش آ رہا تھا۔ انگریزوں کا زمانہ ہوتا تو چلو کوئی بات ہوتی۔ غیر ہیں  —  ظلم کر رہے ہیں۔ غلامی ہے۔ اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے پاپڑ بھی بیلنے پڑتے ہیں۔ گولیاں بھی کھانی پڑتی ہیں اور گالی بھی۔ مگر یہاں …

اپنے ہی وطن واسیوں سے یہ ذلت …  یہ ذلت ان کے لیے ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔ وہ کس قدر بے بس تھے۔ کتنے لاچار …  انہیں لگتا ہے …  پولیس کی طاقت دنوں دن بڑھتی جا رہی ہے …  اور پولیس میں …  فوج  میں …  مسلمانوں کے لیے انتقام اور نفرت کا جذبہ بھی بڑھتا پھیلتا جا رہا ہے …  برسوں کی پرانی کہانی …  میل ملاپ کے تاریخی قصے انہی قصوں کو تو دہراتے ہیں بالمکند شرما جوش …

یا برکت حسین نئے بچوں سے پوچھو تو غالب واقبال کے نام پر بغلیں جھانکیں۔ کون ہیں یہ؟ میری پوتی مالو پوچھتی ہے …  ددو …  آپ مسلمان ہیں کیا …  آپ اردو پڑھتے ہیں …  اردو —  مسلمان —  بچے بھی پوچھتے ہیں مجھ سے۔ آخر مسلمانوں سے کیا ہمدردی ہے۔ مجھے کیوں ان کا پکچھ لیتا ہوں  —  ان کے بارے میں برا کیوں سننا نہیں چاہتا۔ اس کا الٹا جواب بھی ہوسکتا ہے کہ میاں ہمدردی نہیں ہونے کی وجہ کیا ہے۔ اور ان کے بارے میں برا کیوں سننا چا ہوں گا —  میاں، جب برسوں سے مدتوں سے رہنا سہنا ایک ساتھ ایک طرح سے ہوا ہے تو پھر ان سے خود کو کاٹنے کی بات کیسے سوچوں برکت حسین —  اب تو ہم تم جسم کے ایک ٹکڑے ہی لگتے ہو۔ تمہیں تکلیف ہوتی ہے تو دل پر چوٹ پہنچتی ہے۔ بچے اس درد کو نہیں سمجھتے۔ بچے اردو اور مسلمان جانتے ہیں  — بچے نیا اتہاس اور نیا سبق جانتے ہیں …  کل تو سارے کام اردو میں ہوتے تھے۔ ابا حضور کی قابلیت تو فارسی میں بھی دیکھتے بنتی تھی۔ اس سچ کو ہم کیسے جھٹلا دیں کہ میاں زبان کی چاشنی دیکھنی ہو تو اردو کے دامن میں اتر کر دیکھو۔ نہیں برکت حسین میاں بچے اپنے زمانے کے اتار چڑھاؤ کو زبان جانتے ہیں۔ ہمارے تمہارے درد کو نہیں سمجھتے۔ ‘‘

برکت حسین آہ کھینچتے ہیں …  بالمکند جوش میاں …  تم سچ کہتے ہو …  ہم اردو بولتے ہیں۔ اس لیے ہم اس ملک کے تیسرے درجے کے شہری ہیں انہیں حق حاصل ہے کہ ہمیں خوفزدہ کر کے ہمارے گھر کی تلاشی لے سکتے ہیں۔ قانون قاعدے اب ہمارے لیے نہیں رہے جوش میاں …  لگتا ہے …  دھیرے دھیرے مسلمانوں کے لیے ملک کی تہذیب اورسیکولر تہذیب کے طور طریقے سب اٹھتے جا رہے ہیں …  اس لیے اب اگر منا بگڑتا ہے کہ آپ کل پاکستان کیوں نہیں چلے گئے …  تو اسے جواب دیئے نہیں بنتا یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہاں کون سے خوش ہو تم …  وہاں بھی مدتوں برسوں رہ کر اردو بول کر مہاجر ہی کہلا رہے ہو تم …  تم بلوچی ہو، سندھی، پٹھان ہو …  مگرمسلمان کہاں ہو …  پاکستان میں کون سا مار کاٹ کم ہے۔ جو وہاں جاتا …  کون سی خوشی ہے وہاں مگر جوش میاں …  جس ملک پر ناز تھا، اس کے باسیوں اور فوج نے ہم پرانے لوگوں کو زخمی کر دیا ہے … ‘

٭٭٭

احساسات اور جذبات کی موجیں ہلچل پہ آئیں تو آنکھیں بھر آئیں۔ کارنس سے اتار کر شیروانی پہنی۔ لاٹھی تھامی۔

منانے آواز لگائی۔

’کہاں چلے؟‘

’’اور کہاں جا سکتا ہوں ؟‘‘

اس کی آواز نرم تھی ’’جائیے مگر جلد لوٹ آئیے گا۔ ‘‘

٭٭٭

انیل کافی دنوں بعد ٹکرایا تھا —  انہوں نے غور سے انیل کو دیکھا۔ انیل آگے بڑھا۔ چرن چھوئے انہوں نے آشیرواد دیا۔

’’جگ جگ جیو۔ چاند سا بیٹا ہوئے۔ ‘‘

’’اسی آسرے پر تو جی رہا ہوں چاچا۔ دیکھئے بھگوان کو ہماری خوشی کب منظور ہوتی ہے۔ ‘‘

’’ناامید کیوں ہوتے ہو۔ ؟‘‘

’’ناامید نہیں ہوتا چاچا۔ لیکن کبھی کبھی لگتا ہے، سارے دکھوں کے لیے کیا اکیلے ہم ہی رہ گئے ہیں۔ ‘‘

’’سارے دکھ؟‘‘

برکت حسین چونک گئے —

’’اب آپ سے کیا کہوں چاچا …  ایک دکھ تو بچے کا ہے۔ تلسی کی جان الگ کھلتی جا رہی ہے …  اوراس پر ملک کا حشر …  ان بھاجپائیوں پر تو غصہ آتا ہے۔ صرف حکومت کی چاہ  …  اور چاروں طرف آگ بھڑک رہی ہے۔ ‘‘

’’چھوڑو بیٹا ان باتوں کو  …  کچھ دوسری باتیں کرو‘‘

انیل کے چہرے پر بل پڑ گئے۔ اب اس دیش میں کچھ دوسری باتیں بھی ہیں۔ چاچا آنکھوں کے سامنے دیش ٹوٹ رہا ہے۔ عام ویکتی کو سامپردائیکتا کا زہر کھاتا جا رہا ہے …  وہ ہماری آپس کی مثالی ایکتا سے کھیل رہے ہیں۔ اب دوسری باتیں کون سی ہیں چاچا۔ ‘

برکت حسین نے اسے غور سے دیکھا۔ بچپن میں گودوں کھلایا تھا اب سیاسی زبان میں نیتاؤں والی بھاشا میں بات کر رہا تھا۔

’’آج کل پارٹی میں زیادہ آنا جانا لگتا ہے۔ ‘‘

’’زیادہ کیا ہے بس پہلے پریس کے کام سے جاتا تھا۔ اب راجینیتی میں تھوڑا بہت مزہ ملنے لگا ہے۔

انیل نے ٹھہر کر پوچھا۔ لیکن آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں چاچا —

برکت حسین نے گہری سانس بھری۔ پھر کم سے کم لفظوں میں تلاشی اور پولیس کی بدتمیزی کی داستان بتا دی۔

انیل طیش کھا گیا۔

’’منا نے مارا کیوں نہیں ؟‘‘

’’کسے مارتا —  جان سے جانا تھا کیا؟‘‘

’’آپ نہیں جانتے چاچا۔ ان کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے حوصلے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ ‘‘

’’تو تمہاری پارٹی کیا کر رہی ہے۔ ‘‘

’’ہم کیا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مدعا ہی ایسا اٹھایا ہے —  جے شری رام جیسے اب صرف ان کی جھولی میں ہیں۔ ہم سے کوئی واسطہ نہیں۔ عام آدمی بیچارا تو ناسمجھ ہے۔ وہ یہی سمجھتا ہے، یہ مندر بنا رہے ہیں تو یہی صحیح ہیں۔ ‘‘

’اس کا مطلب تم بھی سمجھتے ہو کہ یہ پاور میں آسکتے ہیں۔ ‘

’’نہیں۔ لیکن ان کی طاقت کا بھی اندازہ ہے۔ یعنی یہ آ بھی سکتے ہیں، اس بات کو پوری طرح سے نظرانداز بھی تو نہیں کیا جا سکتا چاچا۔ ‘‘

اور اگر آ گئے تو … ؟

’’تب سمجھیے  —  انیل نے پوری گمبھیرتا سے کہا۔ تب آپ ہی نہیں ہم بھی سرکھچت نہیں یعنی سچ بولنے والے اور تب وشواس رکھیے دیش ٹوٹ جائے گا۔ ‘‘

انیل پھرسے سیاستدان کی طرح تقریر پر اتر آیا تھا۔

 برکت حسین نے جھٹ بات بدل دی۔

’’نریندر کہاں ہے؟‘‘

نریندر —  انیل نے منہ بنایا۔ آج کل بھاجپا اور آرایس ایس والوں کی خوب میٹنگیں چل رہی ہیں۔ اور آپ تو جانتے ہیں کہ نریندر پرانا بھاجپائی ہے۔

برکت حسین نے دعا دی …  بیٹا بھاجپائی ہو یا کانگریسی۔ دونوں میری آنکھوں کے سامنے پلے ہو …  گودی میں کھیلے ہو …  میں تو یہی دعا دیتا ہوں کہ بھائیوں میں میل محبت بنی رہے۔ سب سے بڑی چیز یہی ہے۔

اندر سے کھکھارنے کی آواز آئی تھی۔

انیل بولا …  لگتا ہے پتاجی آ رہے ہیں۔ اچھا چاچا جی …  میں چلا۔

بالمکند شرما جوش نے برکت حسین کو دیکھا —  میاں، آج شطرنج اکیلے ہی کھیل رہا تھا۔ تم آ گئے تو …  چلو ایک بازی ہو جائے اور ہاں …  کچھ تازہ تازہ اشعار ہوئے ہیں۔ وہ بھی سن لینا۔ ‘

چلیے۔ جب اشعار ہوہی گئے ہیں تو آپ کہاں بخشنے والے ہیں۔

(۲)

مالو صبح سے کھانس رہی تھی۔

بالمکند پچھلے دنوں کا زخم بھلانے کے لیے پھر سے شاعری کی دنیا میں واپس آ چکے تھے …  کمرہ تھا اور ان کا ٹہلنا …  ٹہلتے ٹہلتے …  ریک سے، اردو کتابوں کے درمیان سے کوئی کتاب اٹھا لیتے۔ الٹتے پلٹتے۔ پھر شاعری کی دنیا میں کھو جاتے …

اماں قافیہ تنگ ہے …  بات نہیں بن رہی ہے …

ٹہلتے ٹہلتے … وہ ٹھہرے …  مالو کھانس رہی ہے۔ پریشان ہو گئے بالمکند —  غیر ذمہ دار لڑکے۔ بچی کھانس رہی ہے یہ نہیں کہ ڈاکٹر کے یہاں لے جائیں۔

نریندر —  انہوں نے پکارا —

دو ایک پکار کے بعد بہو کی آواز سنائی پڑی۔

کیا ہے باؤ جی۔

’’یہ مالو کھانس کیوں رہی ہے؟‘‘

’’ہلکا ہلکا بخار ہے بابوجی۔ ‘‘

’’بخار ہے؟‘‘ وہ ٹھہر گئے۔ ڈاکٹر کو دکھایا۔ ؟

’’نہیں۔ ‘‘

کیوں۔ ؟

اوما نے سرجھکا لیا۔ وہ کام سے چلے گئے۔

’’گھر میں اور کوئی نہیں ہے۔ ‘‘

’’میں ہوں نا؟‘‘

اوما نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ اوہ —  بالمکند نے سمجھا۔ انیل ہو گا۔ بہو بولنے سے کترا رہی ہو گی —  انہوں نے انیل کو پکار لگائی۔ انیل آ گیا تو وہ شکایت کے لہجے میں بولی۔

’’گھر میں ہو تو گھر کا کچھ خیال بھی تو رہنا چاہئے۔ ‘‘

’’ہوا کیا ہے؟‘‘

مالو بیمار ہے۔ ڈاکٹر کے یہاں لے جانے والا کوئی نہیں۔

انیل کے ماتھے پر شکن پڑ گئی —  نریندر اپنی ذمہ داری سمجھتا ہی نہیں۔

’’چلو۔ نریندر نہیں ہے تو کیا ہوا۔ تم تو ہو۔ ‘‘

بالمکند کہتے کہتے ٹھہر گئے۔ انہوں نے دیکھا، انیل کے چہرے پر شکن پڑ گئی ہے، تجربوں کے حوادث سے گزرتے ہوئے سرد اور گرم موسموں کا اندازہ تو ہو ہی گیا تھا، انہیں …  کہ اب وہ پرانا زمانہ نہیں رہا۔ تعظیم و تکریم کی روایت بھائیوں کے درمیان سے بھی اٹھتی جا رہی ہے۔

انیل کچھ سوچتا رہا۔ پھر بولا۔

’’پتا جی۔ مجھے پریس کا کام ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر جسوال پڑوس میں ہی تو رہتے ہیں بیٹا۔

’’اب میں کیسے کہوں۔ مجھے کام ہے۔ ‘‘

انیل ٹھہرا نہیں فوراً چلا گیا۔

وہ چھن سے رہ گئے۔ بھائیوں کے درمیان خلش اس حد تک بڑھ چکی ہو گی۔ انہیں پتہ نہ تھا —  وہ چھوٹی سی بچی۔ مالو …  اس کا قصور کیا ہے۔

مشاعرے کے لیے غزل پوری نہیں ہوئی۔ مگر مشاعرے میں تو جانا ہے۔ پچھلے دنوں ہوئے دنگوں اور فرقہ واریت کے خلاف یہ مشاعرہ ہے …  ایسے مشاعروں میں تو جانا چاہئے نا، اپنا آپ نکال کر ہلکا کرنا چاہئے نا …  بیٹھے ہوئے لوگ …  شعرو شاعری کی ادبی فضا اور غزل کا حسن —  ذرا دیر کو جی بھی بہل جاتا ہے اور بالمکند شرما جوش کو روحانی تسکین بھی مل جاتی ہے۔

مالو …  رے مالو …

آواز لگاتے ہوئے نیچے تک آئے …  لیکن ددو کہنے والی سریلی آواز چپ ہی رہی۔

بستر پر مالو پڑی بخار سے تپ رہی تھی …  انہوں نے پیشانی چھوا اور لگا ہاتھ جیسے گرم گرم توے پر پڑ گیا ہو۔

’’ارے اسے تو سخت بخار ہے۔ بہو … ‘‘

ہارلکس کا گلاس لے کر اوما کمرے میں آ گئی …  اس کے چہرے پر غصہ تھا۔ وہ شکایت کے لہجے میں بولی۔

’’میں پہلے ہی آپ کو منع کرنے والی تھی بابوجی۔ زبان خالی کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہماری بچی مرے چاہے جیے۔ کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ ‘‘

’’بہو!‘‘

اوما جیسے بہاؤ میں بہہ گئی تھی …  بہت ضبط کیا ہے بابوجی …  چھوٹے چھوٹے کام سے لے کر پورے گھر کی صفائی تک۔ جیسے ایک نوکرانی میں ہی رہ گئی تھی۔ دوسرے کسی کو خیال بھی نہیں …  ارے آدمی ایک گھر میں رہتا ہے تو اس کے سکھ دکھ کے بارے میں تو پوچھتا ہے نا، یہاں تو یہ بھی نہیں …  یہ بھائی ہیں ان کے …  ہمارے یہاں تو ایسا نہیں ہوتا۔

اوما کو موقع ملا تھا —

بالمکند نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ ’’بہو دھیر ے بول۔ اس طرح کی باتوں سے کیا فائدہ۔ لاؤ میں لے جاتا ہوں۔ ‘‘

’’نہیں میں لے جاتی ہوں۔ ‘‘

اوما ہارلکس پلاتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی …  یہاں سب کو میری بات زہر لگتی ہے میری بچی مر رہی ہے۔ لوگوں سے یہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کی خیریت ہی آ کر پوچھ لیں۔ ‘

بالمکند شرما جوش بے دلی سے اپنے کمرے میں لوٹ آئے۔ مالو کی بیماری بہو کا غصہ، اورآپس میں بڑھتے ہوئے فاصلے اب شعر و شاعری کچھ بھی بھلی نہیں لگ رہی تھی …  ایک بار پھر وہ پچھلے دنوں کے ماحول میں پہنچ گئے تھے اور دماغ میں صرف توپیں گرج رہی تھیں اور چیخیں سنائی دے رہی تھیں  —

(۳)

انیل کا آفسیٹ پریس کا بزنس تھا —  پریس کے سلسلے میں کام لانے کے لیے وہ زیادہ تر سرکاری اور پارٹی دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا تھا …  پارٹی آفسوں سے ہی اسے اتنا کام مل جاتا کہ اس کے لیے جلد انجام دینا آسان نہ ہوتا۔ کلینڈر، اشتہاروں سے لے کر بینر پتریکائیں اور چھوٹے موٹے بروشیئر تک …  ایسے ہی کام کے سلسلے میں کانگریس پارٹی سے اس کا جو ناطہ جڑا وہ فیشن سے لے کر اس کی ذاتی دلچسپی کا بھی ایک حصہ بنتا گیا۔ پارٹی دفتروں میں اس کے تجربے بڑے انوکھے ہوتے۔ جیسے کانگریس سیوا دل میں اس نے ایک آدمی کو پچھلے برس چپراسی کے طور پر چائے پلاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے خود اس کے ہاتھوں سے چائے پی تھی۔ اور اس بار اسے شاندار جپسی سے آتے دیکھا تو وہ چونک پڑا۔ یار یہ  پارٹی آفس ہوتی ہے یا حیرت کرنے کی جگہ …  اس آدمی کا نام جاوید تھا اور پچھلے کئی برس سے وہ اپنے علاقے کے ادھیکچھ پد کو پراپت کرنے کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ سوایک موقع مل گیا …  اور چائے پلاتے پلاتے جاوید جپسی میں بیٹھنے کے لائق ہو گیا —

انیل کو رشک آتا تھا۔ ایک موقع ملے تو آدمی کہاں سے کہاں اٹھ آتا ہے۔ اور ایک اس کا بزنس ہے۔ بے غیرتوں کی طرح ٹراتے رہو۔ بھاگتے دوڑتے رہو۔ یہاں تو پیسہ بھی ہے نام بھی ہے — اتفاق سے سیوادل کی معرفت ایسے لوگوں سے واسطہ پڑ گیا تھا، جن کے اثر ورسوخ بھی زیادہ تھے۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ کے وقت سیوادل کے کئی لوگوں نے پارٹی دفتروں میں اپنا اپنا بایوڈاٹا بھجوایا تھا۔ یونہی مذاق مذاق میں اس سے بھی کہا گیا۔ ’’بھائی سارے لوگ بھر رہے ہیں۔ تم بھی اپنا بایو ڈاٹا دے دو۔ ‘‘

’’لیکن میں کیا دوں گا۔ میں تو پارٹی کے لیے کچھ کیا ہی نہیں ہے۔ ‘‘

رامیشور  نیکھراجی مسکرائے تھے —  ’’انیل شرما جی۔ ارے کرتا کون ہے۔ لکھ لیجئے اتنے پرشکچھن شور میں بھاگ لیا۔ سیوادل ریلی میں رہے۔ اپنے یہاں کیمپ لگایا باقی تفصیل ہم سویم بتا دیں گے …  ارے سب چلتا ہے۔ آپ ایک بایو ڈاٹا دے ہی دیجئے۔ ‘‘

’’سب فالس چلتا ہے تو پھر دے ہی دوں گا۔ ‘‘

انیل نے ایک بایو ڈاٹا بھی جمع کر دیا۔ پسند کی کانسٹی ٹیونسی میں اپنے شہر کا نام بھر دیا لیکن بایوڈاٹا جمع کرنے سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ لیکن اس سے ایک بات ہوئی نیتاگیری کی بھوک بڑھ گئی —  جیسے اب وہ جاننے کو بے چین رہتا تھا کہ کہاں کیا ہو رہا ہے …  کب ہو رہا ہے اسے کیا کرے، ہولی دیوالی میں بڑے بڑے افسروں تک مٹھائی لے جانے سے کر سبھاؤں کے نام پر پیسے تک خرچ کرنے سے وہ چوکتا نہیں تھا۔ اب تو پاس پڑوس کے لوگ اس کے پاس کام بھی لے کر آنے لگے تھے۔ یہ کرا دیجئے۔ آپ کی پہنچ منسٹروں تک ہے۔ آپ سے ہو جائے گا۔ آپ جو پیسہ کہیں ہم آپ کے ہاتھ پر رکھ دیں مگر کام ہو جانا چاہئے۔

لیکن براہو نریندر کا۔ گھر میں ہی اس کا پرتیدوندی(مخالف) موجود تھا نریندر کو انیل کے ملنے والے کانگریسی پسند نہیں تھے تو انیل کو ہندو دھرم کا بھونڈا پردرشن کرنے والے بھاجپائی …  جیسے وہ نیل کنٹھ کا بچہ جو بے شرم ہو کر جوڑتا تھا۔

انیل بھیا۔ جے شری رام۔

ایک بار اس نے ٹوکا بھی تھا۔ ’’ارے نیل کنٹھ ہم کو کا کہتے ہو جے شری رام۔ رام جی تو بس تمہارے ہیں اب۔ ‘‘

نیل کنٹھ نے ٹھہا کا لگایا — ’’ایسا کیا ہوا بھیا —  رام جی تو سب کے ہیں  —  سارے جگ کے رام۔ ‘‘

’’سارے جگ کے پہلے تھے۔ اب تو تمہارے ہیں …  تمہاری پارٹی کے۔ ‘‘

’’پارٹی وارٹی کی بات یہاں چھوڑیئے بھیا۔ آپ ہیں تو ہمارے بڑے بھائی سمان۔ دیکھیے گا ایک دن آپ بھی ہماری اور لوٹ آئیے گا۔ ‘‘

انیل کھیج سے بھر گیا۔ اس کا گھر نہیں ہوتا تو وہ بھی دس گالیوں سے دعوت کرتا نیل کنٹھ کی لیکن ایک تو اس کا گھر، اس کے چھوٹے بھائی کادوست۔ اور بچپن سے سنتا آیا تھا۔ گھر آئے مہمان کی بے عزتی نہیں کرنا چاہئے۔ سو چپ رہنے میں ہی اس نے بھلائی سمجھی۔

نیل کنٹھ من ہی من مسکراتے ہوئے اندر نریندر سے ملنے چلا گیا۔

٭٭٭

انیل سے بھی آئے دن پارٹی اختلاف کو لے کر اس کی بحث ہوتی رہتی۔ کہنا چاہئے معاملہ دل کی سطح پر کچھ اتنا بڑھا تھا کہ اب ملنے ملانے میں بھائیوں جیسی بات رہی نہیں تھی۔ اس بات کو نریندر بھی جان رہا تھا اور انیل بھی محسوس کر رہا تھا۔

خیالات کی سطح پر اس فرق نے دونوں بھائیوں کے بیچ رنجش پیدا کر دی تھی —  کہاسنی کا تو ماحول پہلے سے ہی بن گیا تھا لیکن دھیرے دھیرے ان کے آپسی تناؤ سے بھی جو فضا بن رہی تھی، اس نے گھر کا سکون چھین لیا تھا۔

انیل گھر آیا تو تلسی پہلے سے ہی اپھنائی، بیٹھی تھی۔ پتی کی چھتر چھایا ملتے ہی اس نے رونا دھونا شروع کر دیا۔

’’ارے ہوا کیا؟‘‘

’’اب ہونے کو رہ کیا گیا ہے اس گھر میں۔ ‘‘

انیل کا ما تھا ٹھنکا۔ صاف صاف کیوں نہیں بتائی۔

لو یہ صاف صاف پوچھتے ہیں …  تلسی زور زور سے رونے لگی تھی …  جیسے جانتے ہی نہیں۔ سارا دن اکیلا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور گالیاں کھانے کے لیے ہمیں چھوڑ جاتے ہیں۔

’’کسی نے کچھ کہا کیا؟‘‘

اب اس کے علاوہ اور ہے کیا اس گھر میں  —  مالو کو آپ لے نہیں گئے —  اور اومانے جو کھری کھوٹی باؤجی کے رہتے ہمیں سنائی ہے …  ارے میں کہتی ہوں …  آپ کی کوئی حیثیت ہے بھی اس گھر میں کہ نہیں۔ کتنی بار کہا، اس گھر سے جھنجھٹ ہٹا لیجئے —  یا تو اپنا چوکا چکی الگ کرا لیجئے یا پھر کہیں اور مکان لے لیجئے۔

انیل بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔

تلسی اب بھی روئے جا رہی تھی۔

انیل نے ٹھہر کر کہا، تم سچ کہتی ہو …  پانی سر سے اونچا ہونے لگا ہے۔ باؤجی کی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ باؤجی نے ہمیں اپنا ہی کب سمجھا۔ بس ماں تک۔ ماں تھی تو اس گھر کا واتا ورن ہی دوسرا تھا …  ماں کے بعد تو ہم ایکدم اناتھ ہو گئے۔ یوں بھی بابوجی نے …  سچ کہوں تو کبھی بیٹے جیسا ہمیں نہیں سمجھا۔ ہاں بس دکھ تکلیف میں خیر خبر پوچھ لی۔ ‘‘

’’خیر خبر بھی نریندر اور گھر والی کی ہی پوچھتے ہیں ہماری کہاں۔ ہم مریں یا جئیں۔ ‘‘

’’لیکن یہ تو باؤجی کی شروع سے عادت ہے — ‘‘ اماں کہتی تھیں، باؤجی ہمیں اپنے انداز سے تعلیم دلوانا چاہتے تھے۔ اماں اور اماں کے ماتا پتا کو یہ پسند نہیں تھا۔ باؤجی چاہتے تھے کہ ہم اردو پڑھیں ہمارے لیے ملا مولوی رکھے جائیں جب کہ اماں اور اماں کے ماں باپ سمجھ چکے تھے کہ وقت بدل چکا ہے لیکن بابوجی نہیں سمجھے۔ مسلم نوابوں اور گھرانوں کی جو چاٹ انہیں کل لگی تھی۔ وہ آج بھی لگی ہوئی ہے اس لیے باؤجی کو ہم دوش نہیں دیتے۔ باؤجی بھی ہم سے کٹے کٹے رہتے ہیں۔

’’لیکن یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ اوما بولے جا رہی تھی باؤجی کو بڑی بہو کا تو کچھ لحاظ ہونا چاہئے تھا —

٭٭٭

انیل نے آتے ہی صبح کے یہ جو کارنامے سنے تو دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ آئے دن ایسی باتوں نے جینا حرام کر کے رکھ دیا تھا۔ آنکھوں کے آگے اماں اترتی تھیں …  اماں جو کہا کرتی تھیں …  ارے نادانو …  تم کچھ بن گئے تو یہ سب میرے کارن ہے۔ بھگوان کا نام لو جو میری جیسی ماں نصیب ہوئی ورنہ تم لوگوں کے باؤجی کم ضدی نہیں تھے۔ ارے میں تھی جو اپنی ہٹ پر قائم رہی۔ ورنہ تمہارے سروں پر ٹوپیاں چڑھی ہوتیں۔ ‘

باؤجی ایسے کیوں ہیں ؟ اسے تو اب دور دور تک کوئی بھی ایسا نظر نہیں آ رہا تھا۔ آزادی کو تو برسوں گزر گئے۔ اب دور دور تک دیکھیے تو باؤجی جیسے لوگ نہیں ملیں گے …  ارے تین چار سال بہت ہوتے ہیں پریورتن کے  — کتنا بڑا پریورتن آ گیا —  سب کچھ بدل گیا۔ بابوجی کے سنسکاروں میں نہیں آیا —  یاد آیا ایک بار اسی سنسکار کی بات پر باؤجی بگڑ ے تھے۔ تم لوگ سمجھتے ہو کہ بس سارادن پوجا پر بیٹھا رہوں تبھی سنسکار ہے۔ ارے صبح اٹھتا ہوں نہا دھو کر رام نام جپتا ہوں۔ پوجا کر لیتا ہوں یہ سنسکار ہے۔ پھر اس کے بعد میری دنیا ہے …  اور اپنی دنیا اپنی طرح سے جیتا ہوں میں …  اور جان لو …  اپنی دنیا اپنی طرح سے جینا کسی دھرم میں گناہ نہیں ہے۔

جب کالج میں تھے تو دوست یار حیرت کرتے تھے تمہارے باؤجی اردو پڑھتے ہیں شاعر ہیں، اچھا لکھ بھی لیتے ہیں …  سچ تو یہی تھا کہ اس وقت تک اردو پڑھنے اور لکھنے کے دستور سے باہر نکل آیا تھا زمانہ  — غیر مسلموں کا اردو پڑھنا اب حیرت کی بات تھی۔ حیرت کی بات اس لیے کہ گنے چنے پرانے زمانے کے کچھ لوگ ہی رہ گئے تھے۔ انیل اور نریندر کو تو اردو کے لکھے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نظر نہیں آتے تھے —  مگر باؤجی کی دنیا یہی تھی …  یہی مختصر سا جہاں انہوں نے آباد کر رکھا تھا —  اور شاید اسی غم میں پگھلتے رہے تھے کہ ان کے بچوں نے اس کے طور طریقے رہن سہن نہیں سیکھے۔ اب یہ سب ان کے بعد ختم ہو جائے گا۔

٭٭٭

شام میں نریندر آیا تو نریندر کٹا کٹا سا تھا۔ ایک بار باتھ روم جاتے ہوئے دونوں کی ٹکر بھی ہوئی۔ نریندر کی آنکھوں میں تیکھا پن تھا۔ جیسے انیل سے چڑھا ہوا ہو —  انیل بھی چپ رہا —  دونوں بہوئیں اپنے اپنے کمرے میں بند تھیں۔

شام کو بالمکند کو چائے کی طلب ہوئی …  بہو …  بہو کہتے ہوئے نیچے آئے۔ ہوا میں الفاظ اچھالے …

’’ارے کوئی اس بھوکے پیاسے کو چائے پلا سکتا ہے۔ ایک کپ چائے کا سوال ہے۔ ‘‘

آئے تھے اچھے موڈ میں۔ شکل سے بنایا تھا اچھا موڈ۔ سوچا تھا صبح کا زہر کافور ہو گیا ہو گا۔ لیکن نیچے اترنے پر آواز لگاتے ہی جو پہلی چوٹ ان پر ہوئی تھی۔ وہ تھی —  بڑی بہو نے زور سے دروازہ بند کیا تھا۔ جھٹ سے اس زور سے بند کرنے کا مطلب تو وہ اچھی طرح سمجھتے تھے …  بہو ناراض ہے۔ مگر اس میں ان کاکیا قصور …  اچھے موڈ کا فوراً ہی ستیاناس ہو گیا تھا —  تبھی ساڑی کا پلو برابر کرتی بغل والے کمرے سے اوما نکلی۔

’’باؤجی چائے چاہئے۔ ‘‘

’’ہاں۔ مالو کیسی ہے۔ ‘‘

’’اندر آئیے نا۔ اب اچھی ہے …  ددو …  ددو پوچھ رہی تھی۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے بہو۔ جب تک مالو سے بات کرتا ہوں … تم چائے بناؤ — ‘‘

وہ کمرے میں آئے …  مالو اب چہرے سے صحت مند لگ رہی تھی …  ددو کو دیکھ کر مالو نے تالی بجائی …

’’آ گئے ددو …  واہ … واہ …  آ گئے ددو۔ ‘‘

’’ہاں آ گیا۔ لیکن مٹھائی نہیں لایا۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’پہلے طبیعت خراب کر لیتی ہے …  ددو کو چائے کے لیے نہیں پوچھتی ہو …  اور …  چائے تو ممی بنانے گئی ہیں۔ ‘‘

’’ہاں  — ‘‘

’’اچھا ایک بات پوچھوں ددو۔ ‘‘

بخار کے بعد صحت مند کے آثار نے مالو کو کھلا دیا تھا —

’’یہ دنگے کیوں ہوتے ہیں ددو …  دنگوں میں لوگ ایک دوسرے کو جان سے مار دیتے ہیں۔ مندر توڑ دیتے ہیں۔ ‘‘

’’چپ‘‘

’’کوئی مندر توڑے گا تو میں ایک جھاپڑ لگاؤں گی۔ ‘‘

’’چپ‘‘

’’اچھا یہ مسلمان لوگ مندر توڑتے ہیں نا۔ ‘‘

’’چپ …  وہ زور سے ڈکرے، یہ کون سکھاتا ہے الٹی سیدھی تجھے۔ ‘‘

’’پاپا کے دوست آتے ہیں نا۔ میں سب سنتی ہوں۔ ‘‘

وہ سنجیدہ ہو گئے …  یہ چھپ چھپ کر بڑوں کی باتیں سننا اچھی بات نہیں ہے بیٹا۔ مندر مسجد کوئی نہیں توڑتا —  وہ پیار سے بولے۔ اور ایک بات اورسن لو بیٹا —  تم بڑی ہو؟‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’تم اور بڑی ہو گی؟‘‘

’’ہاں ‘‘

’’اور ایک دن کالج میں پڑھو گی۔ ‘‘

’’پڑھوں گی؟‘‘

’’پھر پاپا جتنی ہو جاؤ گی؟‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

تو ایک بات غور سے سن لو بیٹی۔ ابھی جو کچھ سن رہی ہو، وہ کوئی بات سچ نہیں ہے کسی بات پر وشواس مت کرنا۔ اس سے تمہاری پڑھائی پر اثر پڑے گا۔ تمہارے کل پر آنے والے کل پر۔ کل تمہارے پاس ان باتوں پر سوچنے، وچارنے کے لیے کافی وقت ہو گا۔ بس کل غور کرنا ان پر۔ اور ان پر غور کرنے کے لیے کسی دوسرے کا سہارا مت لینا۔ اپنے صحیح دماغ کا فیصلہ ہی سننا ہے ایسی کوئی بھی بات کی، تو پھر میں ناراض ہو جاؤں گا میں کچھ نہیں بولوں گا۔

’’اچھا ددو۔ ‘‘

مالو خوش ہو گئی۔

اوما چائے لے کر آ گئی۔ وہ چائے پینے لگے۔ مگر ذہن میں ابھی بھی خلفشار مچا تھا —  یہ نریندر گھر میں پارٹی کا کاریالیہ کیوں بنا رہا ہے۔ گھر میں ایسی باتیں کیوں کرتا ہے؟ نریندر آیا تو وہ پوچھیں گے …  آخر پوچھنے کا یہ حق بھی تو انہیں نریندر ہی نے دیا ہے …  انہیں جیسے کچھ یاد آ گیا … ‘

٭٭٭

اس دن رات کے گیارہ بج گئے تھے … وہ کسی مشاعرے سے لوٹے تھے کہ دروازہ پر نریندر کو دیکھ کر تھم سے گئے —

نریندر نے دیکھتے ہی پوچھا ’’پتا جی مشاعرے سے آ رہے ہیں کیا؟‘‘

وہ جیسے ایک دم سے بدمزگی کے شکار ہو گئے —

’’ہاں۔ کیوں ؟‘‘

’’کیا ملتا ہے وہاں …  آپ ہمارے ساتھ تو بیٹھتے نہیں کبھی … ‘‘ نریندر کی آواز ٹوٹ رہی تھی  …

اچانک جانے کیا ہوا، وہ بپھر گئے —

’’نریندر۔ یہ گھر کس کا ہے؟‘‘

’’آپ کا ‘‘

’’یہ چھت … ؟‘‘

’’آپ کی ہے۔ نریندر گڑ گڑا کر ان کی طرف دیکھنے لگا۔

’’تم کون ہو۔ ؟‘‘

’’آپ کے لڑکے۔ ‘‘

’’تمہیں اتنا بولنے کا ادھیکار کس نے دیا۔ ‘‘

وہ غصے میں تھر تھر کانپ رہے تھے۔ بہت کچھ تم بھی دیکھ رہے ہو …  بہت کچھ ہم بھی دیکھ رہے ہیں۔ جو نہیں سمجھ سکو تو پھر آئندہ مت بولنا۔ تم یہاں، اس گھر میں، دھرم کے نام پر جن بے بڑھے لکھے راجنیتک بھرشٹ لوگوں کو لے کر آتے ہو، میں نے کبھی اعتراض کیا کہ اس گھر کی ہوا سداسے شدھ رہی ہے … ‘‘

وہ اپنی آواز پر کنٹرول بھول گئے …  ’’اسے اپو تر مت کرو …  اسے اشدھ مت کرو۔ میں نے کبھی کہا تم بھی مت کہنا۔ آئندہ خیال رہے … ‘‘

ان پر جیسے دورہ پڑا تھا۔ وہ غصے میں تھر تھر کانپ رہے تھے۔ نریندر، اوما، تلسی، انیل سب حیرت سے انہیں گھور رہے تھے۔

دوسرے دن صبح کے ناشتے پر نریندر نے کہا۔

’’آپ ناحق ناراض ہو گئے پتاجی …  میرا مطلب وہ نہیں تھا … ‘‘

نریندر مسکرارہا تھا۔ ’’مالو تو ڈر گئی تھی۔ لیجئے نا پتاجی …  یہ لیجئے —  نریندر سبزی کی پلیٹ ان کی طرف بڑھاتا ہوا کہہ رہا تھا —  اپنے دھرم کو ماننا گناہ ہے کیا …  دھرم کا پرچار گناہ ہے کیا۔ یہی تو کرتے ہیں ہم …  پہلے مغل پھر انگریز۔ اپنا گھر، اپنا کبھی نہیں لگا۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ہم بھی داس ہیں۔ اور دوسرے دھرم والے بھارت کو اپنے پرچار اور پرسار کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اور اگر یہی کام ہم کرتے ہیں تو ہم دوشی بن جاتے ہیں۔ ہم پر ہی آروپ اورلاچھن آتے ہیں۔ ہمیں ہی بدنام کیا جاتا ہے۔ آپ بھی ہمیں غلط سمجھتے ہیں کھائیے نا۔ لیجئے نا … ‘‘

اتنا کہہ کر اس کی ہمت بندھی تھی —  آپ کو تو ہمارا ساتھ دینا چاہئے —  ہماری پارٹی کے لوگ کہتے ہیں کہ نریندر تم تو اپنے گھر میں ہی ٹوٹے ہوئے ہو۔ سچ پتاجی، اس پر شرم لگتی ہے۔ انیل بھیا ایک ایسی پارٹی کے لیے ہمارے ورودھ ہیں جو سوار تھی (خود غرض) ہے اور پورے دیش میں ہونے والے دنگوں میں جس کی پرمکھ بھومیکا رہی ہے۔ ہماری پارٹی کو تو ناحق بدنام کیا جاتا ہے …  آپ دیکھ رہے ہیں اکھنڈ دیش جاگ رہا ہے۔ اکھنڈ بھارت ورش …

’’اکھنڈ بھارت ورش … ‘‘

بالمکند شرما جوش جیسے یکایک کسی ڈراؤنے خواب سے جاگ جاتے ہیں۔ اکھنڈ بھارت لیکن اکھنڈ بھارت کہاں ہے …  وہ تو کھنڈ بھارت کو دیکھ رہے ہیں …  زہریلا ریلا بہہ رہا ہے …  چاروں طرف سے زہریلے سانپ اپنے اپنے بلوں سے نکل کر اسے گھیر کر کھڑے ہو گئے ہیں …

یہ بچے کیا سمجھتے ہیں اپنے آپ کو …  ہر برے کام اور برائی کو کیسے کیسے ناموں سے تسلی اور پنیہ قرار دیتے ہیں  —  پھر اسی دلیل کے ذریعہ اپنا ہی گھر توڑنے میں لگ جاتے ہیں …

لیکن یہ بچے ان کے بچے کہاں ہیں …  یہ تو بھاجپائی ہیں …  یا کانگریسی …  یہ ان کے بچے کہاں ہیں …

پھر وہی کمرہ ہے …  ان کا اپنا کمرہ …  ان کی تنہائی کا رفیق، مونس و غمخوار …  یہ ان کا کمرہ ہے …  جہاں وہ اپنی تنہائیاں پیوست کرتے ہیں، اپنا اتیت یاد کرتے ہیں اور سب کچھ بھول جاتے ہیں۔

(۴)

نلکانی کہتا ہے ایک فساد چاہئے۔ اس شہر کو پھر ایک فساد چاہئے۔ ایک ماہ گزر گیا۔ لوگ اپنی دنیاؤں میں واپس آنے لگے ہیں  —  ریہرسل چلتی رہے تو ہم لوگوں کے دلوں میں بنے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر نریندرروہسکی کا ایک چھوٹا سا پیگ تیار کرتے ہیں۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہے۔ یہ چوتھا پیگ ہے ان پر ہلکا ہلکا خمار چھانے لگا ہے۔

’’گھبراؤ مت نلکانی۔ اگلے الیکشن میں مجھے ٹکٹ ملنے ہی والا ہے۔ پھر اس شہر کی تقدیر بدل دوں گا۔ ‘‘

سدھیندورائے مسکراتے ہیں۔ ’’ڈاکٹر نویندو۔ آپ پر نشہ چھانے لگا ہے۔ ‘‘

یہ نشہ نہیں ہے سدھیندورائے۔ یہ جیت کا نشہ ہے۔ ایک بار پارٹی کو ستہ میں آ جانے دو — ‘‘

نلکانی پھر کہتا ہے۔ دلوں میں زہر بھرنے کے لیے ایک فساد ضروری ہے۔ ہمیں یہاں بھاجپا کا ووٹ بنک تیار کرنے کا حکم ہوا ہے اور محض ایک پھلجڑی چھوٹ کر رہ گئی۔

نیل کنٹھ مسکراتا ہوا کمرہ میں داخل ہوا —  سب کو جے شری رام کرتا ہوا وہ کرسی پردھنس جاتا ہے۔

’’کیا خبر ہے؟ ‘‘ نلکانی بیڑی سلگاتے ہیں۔

’’خبر اچھی نہیں ہے نلکانی جی …  ہم تو جہاں بھی گئے ہیں، لوگ باگ ہماری پارٹی کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ‘‘

سدھیندورائے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’ ان کا دھیان بدلنے کی ضرورت ہے۔ اوراس کے لیے … ‘

اوپر سے آئے نردیش (حکم) پروہ دھیمے دھیمے آپس میں باتیں کرتے رہے …  باتوں کا مدعا یہ بھی تھا کہ پارٹی اگلے چناؤ کے لیے پس و پیش میں ہے کہ وہ رام جی کو مدعا بنائے یا نئے طرح کے بجٹ کو —  ورلڈ بینک کے پاس گروی پڑے بھارت کے ارتھ تنتر کا مدعا رکھے یا اسے برا بھلا کہنے والوں کا منہ بند کئے جانے کے بارے میں غور و خوض ہو —  یہ بھی تھا کہ کمیونزم پردیش کی تمام پارٹیوں کو ڈبیٹ کی صلاح دی جائے —  اور اس سے ان لوگوں کی ان پارٹیوں کی قلعی کھولی جائے جو بی جے پی کو کمیونل کہتے ہیں۔

’’تحسین کہاں ہے؟‘‘

نلکانی کو جیسے کچھ یاد آ گیا۔ ’’اب طبیعت تو ٹھیک ہے۔ ؟‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’اب پہلے جیسا کھویا کھویا تو نہیں رہتا؟‘‘

’’نہیں۔ ہم نے اپنی گتی ودھیوں کی جانکاری دے دی ہے۔ اور آرمبھ میں سویم کو سیٹ کرنے میں سمے تو لگے گا ہی کیوں کہ بیسکلی وہ مسلمان ہے۔ اور اوپر سے ہماری پارٹی مسلم ورودھی تو نظر آتی ہی ہے — ‘‘

وہ دھیرے دھیرے آپس میں کچھ باتیں کرتے رہے۔

نیل کنٹھ کچھ گھبرایا سا نظر آ رہا تھا۔

٭٭٭

منا گھر میں داخل ہوا تو کچھ گھبرایا سا تھا۔ ہاتھ میں کپڑوں کا ایک تھیلہ تھا، جس میں کچھ پمفلٹ، اشتہارات اور چھوٹی چھوٹی اسٹیکرس تھیں، ظاہر ہے جس پر بھڑکاؤ باتیں لکھی تھیں۔ جیسے مندر ہے اوروہیں بنے گا، جیسے اسٹیکرس گھر کے دروازوں کے باہر اور بس گاڑیوں میں چپکانے کے لیے تھے —  ان میں کچھ اسٹیکرس مسلم ورودھی بھی تھے۔

گھر میں داخل ہوتے ہی پہلی ٹکر ابا سے لگی۔

برکت حسین اسے دیکھتے ہی ٹھٹھک گئے۔

رات کے ساڑے دس بج گئے تھے۔ گو شہر کی فضا ٹھیک تھی۔ دنگوں کی خوفناک ریہرسل کے بعد فضا میں دہشت کے جراثیم تو موجود تھے ہی۔ کھیم پور میں ابھی بھی دہشت برقرار تھی۔ یہیں ایک ہندو جھونڑے کی ہتیا ہوئی تھی۔ اور اس کے بعد سے لے کر اب تک فضا میں تناؤ برقرار تھا …  یہاں مسلمان گھبرائے زیادہ تھے۔ ہندوؤں کے گھر کم تعداد میں تھے۔ لیکن آ کروش اور غصہ زیادہ تھا۔ کھیم پور کو گھیرنے والے محلوں میں ہندو اور مسلم محلے برابر کے تھے۔ اس لیے کھیم پور کے ہندوؤں کو خطرہ تو تھا لیکن یہ امید بھی تھی کہ کچھ ہوا تو پاس پڑوس کے محلے والے ہندو بھی میاں کو چھوڑیں گے نہیں۔ ماحول دھیرے دھیرے عام زندگی میں لوٹ رہا تھا، لیکن چہروں پر خوف کی دھول اور شک کی پرتیں موجود تھیں۔

سب سے عجیب حالت ان دنوں منا کی تھی۔ کرفیو کی رات غائب ہونے کے بعد سے لے کر اب تک وہ جیسے کسی ڈراؤنے خواب کی بیچ پھنسا ہوا تھا —  اسے لگ رہا تھا …  آکٹوپس کے پنجے اسے گھیرتے جا رہے ہیں …  ایک دلدل ہے، اور اس دلدل میں وہ اتنا پھنس گیا ہے کہ …  باہر نہیں نکل سکتا …  لیکن یہ سب اچانک نہیں ہوا تھا —  یکایک نہیں ہوا تھا۔ یہ تو ملک کی بدلتی ہوئی صورت حال اورسیاست کے نئے ماپ ڈنڈ کی وہ اٹھا پٹک تھی جہاں وہ جینے کا راستہ بھول چکا تھا …  ایسا سوچتا تھا منا۔

ہوش سنبھالا تو چودھری برکت حسین کے خانوادے میں  —  ہوش کے نوالے لیتے لیتے یہی تو جانا تھا …  کہ ایک لمبے عرصے تک مسلمانوں نے یہاں حکومت کی تھی۔ بابر بھی ایک بادشاہ تھا۔ ہلا کو بھی۔ نادر شاہ بھی …  اورنگ زیب بھی —  ہندوؤں سے جزیہ لیا جاتا تھا۔ اسلام کا بڑا نام تھا —  جو گھر میں سنتا —  ابا کے منہ سے یا اردو کتابوں میں … اسکول جا کر معلوم ہوتا کہ میاں منا، تم تو سب کچھ غلط جانتے ہو۔ تم جن کی بہادری کے قصے رٹتے رہے ہو، وہ لوگ بہادر نہیں تھے —  نادر شاہ تمہارے ملک کے خزانے خالی کرنے آیا تھا۔ اورنگ زیب اور بابر نے مندر توڑے —  گھر باہر، پریبھاشائیں، تعریف سب بدلتی رہیں۔

پڑھنے میں دل تو لگتا نہیں تھا۔ اول فول سوچنے میں ہی زیادہ وقت گزرتا رہا —  ادھر بڑا ہوا اور ادھر یہ سوچ ذہن پر حاوی ہو گئی کہ پہلے مسلمانوں نے قہر برپا کیا اور اب یہ —  کبھی جن سنگھ …  کبھی آر ایس ایس کے نام پر مسلمانوں کا دامن زندگی تنگ کرتے رہیں گے —  وہ ایسا ہو گیا کہ دھیرے دھیرے تنگ نظر ہوتا گیا —  محرم کے اکھاڑے میں اسے چاروں طرف مسلمان چہرے …  مسلمانوں کی بھیڑ نظر آتی تو وہ خوش ہو جاتا۔ ڈنڈا بھالا بھانجتے ہوئے مسلمانوں میں اسے سلام کے عروج کا خواب نظر آتا۔ مسلمان کی بدحالی، نوکری اور دیگر معاملوں میں تنگ نظری کے لیے وہ حکومت اور ہندوؤں کو قصور وار مانتا۔ جیسا کہ اس نے ایک بار ابا سے اپنی بے روزگاری کے دنوں میں کہا تھا۔

’پڑھ لکھ کر کروں گا بھی کیا۔ مجھے یہاں نوکری تھوڑے مل جائے گی۔ ‘

برکت حسین اس کا حیرت سے منہ دیکھ رہے تھے۔

٭٭٭

یہ ہندستان نہیں حیرت گاہ تھی۔ اس کے لیے قدم قدم پر حیرتیں  —  لوگوں کے چہروں پر حیرت اگتی تھی۔ ہر دن کے اخبار میں حیرت اگتی تھی۔ فساد نہیں ہوتا تھا، تب حیرت … ریل گاڑی ٹھیک وقت چلی، تب حیرت، کوئی کام اپنے صحیح طریقے سے ہو گیا، تب حیرت …  اوراسی حیرت گاہ میں سہما سہما منا چلا جا رہا تھا۔ اور وقت گھرنیوں پر ناچ رہا تھا۔

پہلے اس نے تقسیم وطن کے حالات سن رکھے تھے۔ کچھ کتابوں میں پڑھے۔ کچھ بزرگوں سے قصے سنے اور پھر ملک کے حاشیے پر یہ قصے وہ روز پڑھنے لگا …  فساد …  آگ زنی …  چاروں طرف فساد …  چاروں طرف مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے —

بجلی آفس میں کلرکی کرتے ہوئے کتنی ہی بار اس کے اندر کا مسلمان بھڑکا تھا یہ مسلمان دفتری ساتھیوں، کلیگ سے بات بے بات الجھا بھی —  لڑا بھی —  پھر دوستی یاری بھی ہوئی —  ’میاں جی‘ کہہ کر چڑھا یا بھی گیا۔ اسے برا بھی لگا۔ پھر دوستی کی رو میں بہہ گئے —  چائے پی گئی۔ سگریٹ سلگائے گئے —  اور مسئلہ اپنی جگہ بنا رہا —

منا محض ایک آدمی تھا —  دائیں بائیں سے واقف نہیں تھا۔ جتنا ذہن سمجھاتا، اسی پر چلتا …  اور اسی پر چلتے ہوئے اس نے فیصلہ لیا تھا کہ وہ بھاجپا سے جڑ جائے گا۔ جبکہ یہ جڑ جانے والی بات بھی اتفاق سے اس کے دل میں آئی تھی اور پھر اسی اتفاق کے راستے پر وہ چل نکلا —

چل نکلا —

دور تک اندھیرا تھا —  اندھیرا —

منا کو لگتا تھا، اس کی آواز اس کا ساتھ چھوڑ گئی ہے … وہ محض ایک روبوٹ ہو گیا۔ مشینی آدمی …  وہ کٹھ پتلی ہو گیا ہے …  وہ کسی اور کے اشارے پر چل رہا ہے …  اسے کوئی اور نچا رہا ہے …  وہ پھنس گیا ہے …

٭٭٭

کمرے میں داخل ہوتے ہوتے وہ چونک گیا —

چودھری برکت حسین اسے گھور رہے تھے —

’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے منا۔ چہرہ اتنا سپید کیوں ہو رہا ہے … ‘‘

منا کو جیسے کرنٹ لگ گیا۔ ہاتھ میں تھاما ہوا کپڑے کا تھیلا کانپ گیا۔ اسے لگا، ابا کی آنکھیں تھیلے میں گھسی جا رہی ہیں …  کیا ہے …  نکال …  جادوگروں کی طرح ہو گئی ہیں۔ ابا کی آنکھیں۔ ابا آنکھیں بند کریں گے اور   …  سب کچھ دیکھ لیں گے …  مگر آنکھیں بند نہ کریں تب بھی …  کان تو سلامت ہے نا …  اور آواز تو باہر بھی گونجنے لگی ہے …  باہر بھی گونجنے لگی ہے۔

جیسے منا کا دوست شبی چونکا تھا —

’’کیا سن رہا ہوں یار؟ سچ ہے؟ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

اس کے ہاں کہنے پروہ کیسا کٹھور ہو گیا تھا — ’پاگل ہو گیا ہے کیا —  دماغ چل گیا ہے — ‘ شبی نے پوچھا —  ’اچھا بتا —  نماز پڑھنے جاتا ہے؟ کم از کم جمعہ کی نماز —  روزہ رکھے گا اس برس —  تو اللہ رسول کے خلاف جا رہا ہے منا —  تو گندے راستے پر چل پڑا ہے —

اخلاق احمد اس کے اسکول کا دوست تھا۔ وہ تو جیسے اس کو مارنے کے لیے دوڑا تھا —

’’کافر ہوتا تو کوئی بات نہیں۔ لیکن اپنا بھائی —  اخلاق کی مسلمان ہوتی داڑھی ہلی۔ سرمہ لگی آنکھوں میں غصہ کا طوفان مچلا —  اب تو اسلام کے خلاف چلے گا کم بخت —  تو خود کے مسلمانوں کے خلاف بولے گا …  اسی لیے جوائن کیا ہے نا … ‘

ایک دن سلیمان رنگ ریز اسے کھوجتا ہوا اس کے آفس آیا تھا۔ وہ بل کھڑکی پر تھا۔ سلیمان اسی کے محلے کا تھا۔ ہم عمر۔ اس لیے بچپن سے ہی دوستی تھی۔ سلیمان نے اسے اشارہ سے ایسے بلایا جیسے —  اس کے ہاتھوں ہوئے اچانک قتل کے بارے میں دریافت کر رہا ہو … ‘‘

’’یار، میں نے سنا تو دوڑا دوڑا آ رہا ہوں …  یہ میں کیا سن رہا ہوں …  تو  — ؟

بہت دیر کے بعد وہ دہاڑا۔ ’’جینا مشکل کر دیا ہے تم لوگوں نے۔ جب تب آ کر مجھ سے ایسے سوال کرتے ہو جیسے میں نے کسی کی جان لے لی ہو۔ ہاں، میں نے بھاجپا جوائن کر لی ہے …  تم اسے قتل کر دینے والی پارٹی سمجھتے ہو …  ڈرتے ہو …  جتنا ڈرتے ہو، اتنا ہی ڈرایا جاتا رہا ہے تمہیں  —  میں پوچھتا ہوں کیوں ڈرتے ہو اتنا۔ مقابلہ کیوں نہیں کرتے — ‘‘

’’مقابلہ — ‘‘

سلیمان اَن پڑھ تھا۔ مقابلہ کی بات بھلا اس کی سمجھ میں کیسے آتی۔

وہ دھیرے دھیرے نرم پڑا —  ’’تم کیوں نہیں سوچتے کہ کل یہ پارٹی حکومت میں بھی آسکتی ہے۔ تم اس کی اس قدر مخالفت پر اترے رہے۔ پھر کیا ہو گا سلیمان میاں تم ان کے خلاف بولتے رہے، بولنا بند نہیں کیا تو کیا حکومت میں آنے کے بعد یہ تمہیں زندہ چھوڑیں گے۔ ارے یہ تمہیں ملک چھوڑنے کے لیے بے بس کر دیں گے — ‘ یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تم پر پابندی عاید کریں گے۔ اذان لاؤڈسپیکر سے مت دو۔ اتنی بڑی تعداد میں مسجد مت جاؤ۔ نماز مت پڑھو۔ تم کیا سمجھتے ہو۔ عرب ممالک —  وہ اسلامی ممالک جن پر تم فخر کرتے ہو، تمہاری مدد کو آ جائیں گے۔ انہوں نے ایران عراق کی مدد کی …  ؟ صومالیہ کی مدد کی — ؟ تمہاری کیوں مدد کرنے آئیں گے یہ؟ تم، زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا، اپلاؤ گے، غلط حرکتیں کرو گے یا زیادہ سے زیادہ آتنک وادی بنو گے —  مجھے لگتا ہے یہ لوگ یہی چاہتے ہیں۔ تم لوگ اپنے ہوش گنوا دو، آتنک پر اتر آؤ تاکہ یہ تمہارا دمن کرسکیں۔ تم پاگل ہو جاؤ۔ تاکہ انہیں پاگل کتوں کو شوٹ کرنے کا اچھا سا بہانہ مل جائے — ‘‘

سلیمان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، کیا کہہ رہے ہو منا بھائی۔ میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ لیکن جو آ رہا ہے، اس سے لگتا ہے …  تم نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ ‘‘

٭٭٭

سلیمان چلا گیا …  لیکن منا اب تک خوف وہراس کے پل پر سوار تھا۔ کیا محض اتنی سی وجہ سے  —  ؟ اس نے یہ خطرہ مول لیا ہے۔ کہیں اس کا کوئی سوارتھ بھی ہے  —  کوئی غرض —  یا سیاست میں کود پڑنے کی انجان للک —  خطرہ بہت زیادہ ہے اور مسلمان مخالفت کا راستہ چھوڑتے نہیں ہیں تو …  خطرہ سوچ اور تصور سے زیادہ ہے … اور یہ مخالفت مسلمانوں کو بہت مہنگی پڑ سکتی ہے …

٭٭٭

چودھری برکت حسین اسے گھور رہے ہیں۔

’’گھڑی دیکھ رہے ہو …  بہو کتنی پریشان ہو جاتی ہے۔ تمہیں سویرے آنا چاہئے۔ ‘‘

’’اوہ —  ہاں … ‘‘

منا جیسے کسی خوفناک حادثہ کا شکار ہوتے ہوتے بچا۔

’’یہ تھیلے میں کیا ہے؟‘‘

وہ چونک گیا …  ’’نہیں …  کچھ نہیں …  کچھ نہیں ہے … ‘‘

’’اچھا جاؤ۔ کھانا کھالو — ‘‘

منا آگے بڑھ گیا۔ برکت حسین اب بھی اسے تعجب سے گھور رہے تھے۔

’’پاگل لڑکا!‘‘

وہ دھیرے دھیرے بڑبڑائے —

٭٭٭٭

مصنف کی اجازت اور ان کے شکریئے کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائل فراہم کی۔

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

حصہ دوم کے لئے یہاں کلک کریں

حصہ سوم کے لئے یہاں کلک کریں