FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بیان

(ناول)

               مشرف عالم ذوقی

حصہ دوم

یہ ناول ضخیم ہونے کی وجہ سے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

حصہ اول کے لئے یہاں کلک کریں

حصہ سوم کے لئے یہاں کلک کریں

 

               الزیمرس

(۱)

نیچے سے آواز مستقل آ رہی ہے … ’پتاجی آ جائیے …  کھانا کھا لیجئے …  آ جائیے … ‘ سچ تو یہ ہے کہ انہیں صاف صاف سب کچھ سنائی پڑ رہا ہے …  مگر …  کسے پکارا جا رہا ہے … کون پکار رہا ہے …  یہ …  آنکھوں کے آگے پھیلتا اندھیرا …  جھل مل کرتا سویرا …  سب کچھ سرخی مائل دھواں دھواں سا …

’’پتاجی …  کیا کر رہے ہیں …  آتے کیوں نہیں … ؟‘‘

یہ کون چلارہا ہے …  کیوں چلا رہا ہے۔ کس قدر بے سری آواز ہے …  وہ سکڑ گئے ہیں۔ دماغ بھک سے اڑا جا رہا ہے …  ایسے جیسے برین ہیمرج ہو گیا ہے …  نام کیا ہے …  ان کا …  کون ہیں وہ … ؟

’’وہ اٹھنا چاہتے ہیں …  مگر نہیں …  بیٹھے رہتے ہیں …  اسی انداز میں …  جیسے گھنٹوں سے بیٹھے ہیں …  یہ سب کیا ہے … ‘‘

جیسے سب کچھ بھول جانے کی حالت ہوتی ہے …  وہ بھول چکے ہیں …

نیچے کھانا لگ چکا ہے۔ ڈائننگ ٹیبل پر اوما، نریندر اور مالو بیٹھ چکے ہیں۔

’’پتا جی نہیں آئے۔ ‘‘

اوما برا سا منہ بناتی ہے … ’’ ناراض ہوں گے …  ‘‘

’’ناراض کیوں ہوں گے؟‘‘ نریندر سوال کرتا ہے۔

’’میں جا کر ددو کو بلاؤں ؟ ‘‘مالو پوچھتی ہے۔

’’ہوسکتا ہے بابوجی کو ہماری آواز سنائی ہی نہ پڑی ہو۔ ‘‘

’’یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ‘‘

’’جاؤ مالو …  ددو کو بلا لو۔ ‘‘

مالو ہرّے کہتی ہوئی دوڑ جاتی ہے …

کمرے کا دروازہ کھلا ہے …  بوڑھا آئینہ کے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے …  سفید کرتا، سفید پائجامہ …  اجلا شفاف چہرہ …  چہرہ پر وقت نے کچھ جھریاں بھی کھڑی کر دی ہیں  — یہ چہرہ کس کا ہے …  یہ کون ہے …  آئینہ کے سامنے کھڑا ہوا بڈھا …  آں وہ زبان نکالتے ہیں۔ آئینہ بھی منہ چڑھاتا ہے …  وہ ہاتھوں کو کان کے پاس لے جا کر لہراتے ہیں …

مالو دیکھتی ہے …  تعجب سے۔

بوڑھا ہاتھوں کو ہلاتا ہے۔ مٹھیاں باندھتا ہے۔ آئینہ والا بوڑھا بھی وہی کرتا ہے۔ بوڑھا پھر منہ چڑھاتا ہے …  آئینہ والا بوڑھا بھی منہ چڑھاتا ہے۔

بوڑھے کو اس کھیل میں مزہ ملنے لگتا ہے …

دروازہ سے مالو چیختی ہے …  ددو … !

بوڑھا پلٹتا ہے …  کون … ؟

’’ددو … ‘‘

مالو پاس آ کر بوڑھے کے ہاتھوں کو پکڑتی ہے۔ ’’ددو، چلیے نا …  نیچے پرتیکچھا ہو رہی ہے …  کھانے پر … ‘‘

’’آں …  آں … ‘‘

بوڑھا آئینہ سے ہٹ کر منہ چڑھاتا ہے۔ کانوں کے پاس لے جا کر ہاتھ ہلاتا ہے۔

’’ددو …  چلونا … ‘‘

’’کہاں چلوں … ‘‘

’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو ددو … ‘‘

’’دیکھوں گا … ‘‘

’’مجھے ڈر لگتا ہے ددو … ‘‘

’’تو بھاگو یہاں سے۔ ‘‘

بوڑھا مارنے کو ہاتھ ہلاتا ہے۔ مالو وہاں سے روتی ہوئی بھاگتی ہے …  روتی ہوئی تیز تیز گھر کی سیڑھیاں اترتی ہے۔

’’نریندر چونک کر پوچھتا ہے … ‘‘

’’ارے کیا بات ہے مالو …  رو کیوں رہی ہے؟‘‘

’’ددو نے بھگا دیا۔ مارنے کو ہاتھ اٹھایا۔ ‘‘

’’کیا — ؟‘‘

نریندر اور اوما ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں۔

’’تم نے کھانے کے لیے نہیں کہا؟‘‘

’’کہا …  مالو روتے روتے چپ ہو جاتی ہے۔ ’ددو تو آئینہ کے سامنے کھڑے تھے آئینہ کو منہ چڑھا رہے تھے۔ ‘‘

’’کیا بکتی ہے۔ ‘‘نریندر نے ڈانٹا۔

’’ہاں ڈیڈی۔ ددو کو کچھ ہو گیا ہے۔ ددو نے مجھے پہچانا نہیں۔ ‘‘

اوما نے شک سے دیکھا …  کہیں بابو جی کو کچھ … ‘

’’کچھ کیا؟‘‘

’’آپ جا کر دیکھیے تو سہی — ‘‘

نریندر دوڑتا ہوا کمرے میں گیا تو اس وقت تک بوڑھا بستر پر گاؤ تکیہ کے سہارے اڑ کر بیٹھ چکا تھا۔

’’باؤجی — ‘‘ نریندر نے پکارا۔

بوڑھے نے آنکھیں اٹھائیں۔ پلکیں جھپکائیں …  ’کون نریندر؟‘

نریندر کے پیچھے کھڑی اوما نے پلٹ کر مالو کو دیکھا۔

’’آپ اچھے تو ہیں۔ ‘‘ نریندر گھبرا گیا تھا۔

’’ہاں۔ ٹھیک تو ہوں۔ ‘‘

’’لیکن مالو کہہ رہی تھی … ‘‘

بالمکند نے ٹھنڈی سانس بھری …  پتہ نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی سب کچھ بھول جاتا ہوں۔ سامنے والا کون ہے؟ میں کون ہوں …  کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

’’چلیے کھانا کھا لیجئے — ‘‘

نریندر ان کا ہاتھ پکڑ کر نیچے لے آتا ہے —

(۲)

کمرے میں پراسرار چپی تھی۔ چپی جو کسی طوفان کی اطلاع دیتی ہے —  نریندر چپ تھا اور نلکانی اس کی آنکھوں میں جھانک رہے تھے۔

’’ابھی تک سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ سنو نریندر، تم پر سب بڑی ذمہ داری ہے۔ تم چپ رہتے ہو …  تمہیں غصہ بھی کم آتا ہے …  تمہاری آنکھوں میں دوسروں کو مسحور کرنے والی کیفیت موجود ہے …  ہمارے لیے ضروری ہے مسلمانوں اور ان کی الہامی کتابوں کو صحیح طور پر جاننا۔ اب سنو جو میں کہہ رہا ہوں …  دلی میں ہونے والی اگلی دھرم سنسد میں یہاں کا نیترتو تم کرو گے — ‘‘

نریندر صرف مسکاتا ہے —

’’ایک بات پوچھوں  —  ڈھانچہ ٹوٹ گیا تو ہم مندر بنا لیں گے۔ اور مندر بن گیا تو …  گؤ ہتیا بند کرنے کے سرکاری حکم کے بعد جن سنگھ جیسی ٹھپ ہو گئی تھی ویسا دن تو نہیں آئے گا؟‘‘

نلکانی مسکرائے …  ’’ یہ بچوں جیسے سوال کیوں پوچھنے لگے نریندر ابھی تو کاشی ہے متھرا ہے۔ اور باقی باتیں تو تم جانتے ہو …  اب ہم کس آدھار پر لڑائی لڑ رہے ہیں۔ عام ہندوؤں سے لیکر بدھ جیوی کلاس تک —  کیا سب تم کو ہمارے ساتھ نہیں دکھ رہے۔ ارے ہماری ریلیوں پر پرتیبندھ لگتا ہے۔ تب بھی ہم ہی ہیرو بنتے ہیں فائدہ ہمیں ہی ہوتا ہے۔ اورسرکار ہی الو بنتی ہے —  تمہیں آشچریہ نہیں ہونا چاہئے متھرا اور کاشی کے نعرے بھی آج کے نہیں۔ ۱۹۸۴ء میں پہلی دھرم سنسد میں ۷۶ پنتھ سمپردایوں کے ۵۵۸ دھرم چاریوں نے حصہ لیا۔ اسی میں پہلی بار رام جنم بھومی اور کاشی وشوناتھ مندر کی مکتی کا نرنَے لیا گیا —

’’ جانتا ہوں  —  نریندر دھیرے سے بولا —  دھرم سنسد اور مارگ درشک منڈل دونوں ہی وشو ہندو پریشد کے سنگٹھن ہیں۔ دھرم سنسد اہم مسئلوں پر مارگ درشک منڈل کو صلاح دیتی ہے۔ اس کے بعد مارگ درشک منڈل اسے منظور کر کے وشو ہندو پریشد کو سونپتا ہے۔ ‘‘

نلکانی دوبارہ مسکرائے …  اب جان گئے ہو گے کہ مارگ درشک منڈل کا ایک بڑا کام پورا ہو چکا ہے —  دھرم سنسد میں لیے گئے پہلے اہم فیصلے پر آر ایس ایس اپنی وجے کی مہر لگا چکی ہے —  رام جنم بھومی وجے کے بعد اب کا شی اور متھرا کی باری ہے۔ یہ رتھ چلتا رہے گا، اس سمے تک، جب تک ہم شتابدی پرانی داستا کے اس وستر (لباس) کو اتار نہیں پھینکتے ہیں۔ ‘‘

نلکانی مسکراتے ہیں …  کام بہت سے کرنے ہیں۔ سمے کم ہے۔ ہمارے پاس شیگھر(جلد) پرکاشت کرنے کے لیے پبلیشر بھی ہیں ہم نے آدھونک اتہاس کی روپ ریکھا تیار کر لی ہے۔ مہینے دو مہینے یا سال بھر میں اتنی کتابیں بازار میں آ جائیں گی کہ لوگ پرانے اتہاس کو بھول جائیں گے۔

’’اس کے لیے کچھ نئے اتہاس گڑھنے بھی تو پڑیں گے۔ ‘‘

’’تتھا ستو —  مسکراتے ہیں نلکانی —  ستیہ کی کھوج کے لیے کبھی کبھی ایسا کرنا پڑتا ہے۔ داس کو مکتی دلوانے کے لیے کبھی کبھی جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس لیے ہماری دھارمک کتابوں میں اس جھوٹ کو غلط نہیں کہا گیا ہے۔ جو سچ کا درشن کرنا چاہتا ہو اور ویکتی کو نرک سے مکتی دلاتا ہے۔ ایسا جھوٹ ہزار سچ پر بھاری ہے۔ ‘‘

’’اب سنو۔ ‘‘ نلکانی کی آواز ہوا کے دوش پر لہرا رہی تھی …  ہم ہر کونے سے اٹھیں گے …  چپے چپے سے اٹھیں گے …  ہم چاروں دشا سے اٹھیں گے۔ ہم ندی، جل، سمندر، پہاڑ، چٹان، چاروں اور سے جٹیں گے …  ہم جٹیں گے ہم چپے چپے پر پھیلیں گے …  اور ہم وجئی رہیں گے۔ ‘‘

’’مجھے نیل کنٹھ سے ملنا ہے۔ ‘‘

’’جاؤ —  نیل کنٹھ کو شیوپوری مارگ پر ایک سبھا سمبودھت کرنا ہے — نلکانی مسکرائے —  ابھی کل کا بچہ ہے —  ہمیں اسے تیار کرنا ہے۔ اور ہاں سنو —  تحسین کو ابھی زیادہ سامنے مت لاؤ —  یہ دلی مہانگری نہیں ہے چھوٹا شہر ہے۔ بیچارہ مفت میں بدنام ہو کر مارا جائے گا —  یہ ہمارے لیے دربھاگ کی بات ہو گی۔ ہمیں تحسین سے آگے بھی کام لینا ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے — چلتا ہوں۔ ‘‘

’’جَے شری رام — ‘‘

نلکانی ہمیشہ کی طرح مسکرائے۔ نریندر کمرے سے باہر نکل گیا۔ نلکانی نے پہلی بار یہ احساس کرایا تھا کہ پارٹی کے لیے وہ کتنا اہم ہے۔ وہ بھی تو سارے کام دھندے چھوڑ کر ادھ کچھ دنوں سے بس پارٹی کے لیے ہی سمرپت تھا —  وقت قربانی چاہتا ہے اور یہ قربانی دینے کے لیے انسان کو تیار ہونا پڑتا ہے۔ اگلی دھرم سنسد میں جانے کے لیے اس کو مانسک (ذہنی) سطح پر تیار ہونا تھا —  اگلا مدعا …  یعنی ۱۹۸۴ء کی پہلی دھرم سنسد کے نرنے کے لحاظ سے اب باری متھرا کے شری کرشن جنم بھومی کو مکتی دلانے کی ہے …  اور نریندر کے لیے اس کا لٹریچر جاننا ضروری ہے۔ ممکن ہوا تو آدھونک (جدید) لٹریچر …  آنکھوں کے آگے نلکانی مسکراتے ہیں …  داس کو مکتی دلانے کے لیے کبھی کبھی جھوٹ کاسہا لینا پڑتا ہے …  اس لیے ہماری دھارمک کتابوں میں اس جھوٹ کو غلط نہیں کہا گیا ہے۔ جو سچ کا درشن کرنا جانتا ہے اور ویکتی کو نرک سے مکتی دلاتا ہو …

کام بہت ہے …  اور نئی اسٹریٹجی تیار کرنے کی ذمہ داری کا کام —  عوام کو صرف بات نہیں چاہئے۔ اتہاس چاہئے، گھٹنائیں چاہئیں۔ گھٹناؤں کی ستیاؤں (سچائی) کے لیے سن، تاریخ چاہئے۔ دماغ میں بیٹھانے کے لیے دلیلیں چاہئیں اور چاہئے جھوٹ پر جمے رہنے کی قلعہ بند سچائی۔

شیو پوری  مارگ …  تنبو لگا تھا —  منچ پر نیل کنٹھ آسین تھا —  بھگوا جھنڈے پھہرا رہے تھے، ماحول میں جے شری رام کی گونج مچی تھی —  ٹیکا دھاری جوان، مرد، عورتیں اور بچے سبھا کی شوبھا بڑھا رہے تھے …  جس وقت نریندر منچ کی طرف بڑھا، مائک پر نیل کنٹھ کی آواز گونج رہی تھی:

’ہم جیتیں گے

ہم جیتیں گے

تم دیکھو گے

ہم جیتیں گے

وشواس رکھو، ہم جیتیں گے

ہم ہر ایک منچ سے جیتیں گے

ہم چپہ چپہ جیتیں گے

ہم وادی وادی جیتیں گے … ‘

سموہ (بھیڑ) تالیاں بجا کر ابھی نندن کر رہا تھا —  نیل کنٹھ ٹھہر ٹھہر کر اور سوچ سوچ کر بول رہا تھا۔

’’ …  اورآپ دیکھ رہے ہیں، سرکار بوکھلا گئی ہے۔ ہماری بڑھتی طاقت سے۔ ہمیں نیچا دکھانے کے لیے سرکار اپنی طاقت، اپنے بل بوتے کا ناجائز استعمال کر رہی ہے ارے سرکار کہتی ہے کہ ہم سامپردائیک ہیں۔ ہندوؤں کو کہتی ہے سرکار کہ  سامپردائیک ہے کیوں کہتی ہے …  ؟ اس لیے کہتی ہے کہ بے چارے بھولے بھالے ہندو سوئے سوئے اب جا کر اپنا حق مانگنے کو تیار ہوئے ہیں۔ سرکار نے مسلمانوں کو کبھی سامپردائیک نہیں کہا، ان کے لیے سات خون معاف۔ کرسچن اور دوسرے لوگوں کو نہیں کہا، وہ زور زبردستی دھر پکڑ کر اپنے دھرم پر چار کا ابھیان چلائیں  —  ان پر سب معاف —  لیکن اگر ہندو کریں، اگر ہندو اٹھیں تو وہ سامپردائیک —  میں آپ کا ادھیک سمے نہیں لوں گا …  اب بھاجپا کے ایک پرمکھ کاریہ کرتا نریندر شرماجی آپ کو بتائیں گے کہ ہمارے لیے بھوشی (مستقبل) میں کن کن چنوتیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔

تالیوں کی گڑ گڑاہٹ کے بیچ نریندر مائیک سنبھالتا ہے —  بس چند پرشن آپ کے سامنے —  کچھ تتھیہ (حقیقت) رکھنے کی اجازت …  اور …  (مسکراہٹ) —  وشو (دنیا) میں کیا ہو رہا ہے۔ اسلامی دیش جس طرح آپس میں مل کر ایک وشال طاقت بننے والے ہیں۔ کیا آپ کو کچھ اندازہ ہے۔ کیا ہوسکتا ہے بعد میں۔ اس کو چھوڑیے۔ کیا ہو رہا ہے اس کی ایک جھلک میں آپ کو دکھاؤں  —  ابھی حال میں ۲۸ نومبر ۹۲ء کو دس مسلم دیشوں نے مل کر ایک اسلامی سنگٹھن بنایا —  ایشیا کا یہ حصہ بہت جلد ایک مہاشکتی کے روپ میں ابھر کر آپ کے سامنے آئے گا —  ابھی حال ہی میں سویت سنگھ میں ہونے والے بدلاؤ کا جائزہ لیں۔ سوویت سنگھ کے مسلم اکثریت والے راجیہ پرتھم وشویدھ (پہلی جنگ عظیم) کے پہلے ترک سامراج کا ایک حصہ تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کو ملنے والی ہار کے بعد روس ان دیشوں پر لگاتار حاوی ہوتا گیا اور دیشوں کو ہڑپتا گیا —  لیکن کیا ہوا —  ۱۹۹۰ء میں جب نیا اتہاس رچا گیا تو وہ علاقے چھ آزاد دیش کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک بڑا سچ یہ رہا کہ اتنے برسوں کے روسی شاسن (حکومت) کے باوجود نہ تو ان کی بھاشا بدلی، نہ دھرم نہ سنسکرتی۔ یہاں کے لوگ ترک نسل کے ہیں۔ اسلام ان کا دھرم ہے۔ اور سنسکرتی بھی ایک ہی ہے۔

اسلام والے جہاں رہتے ہیں، وہ اسلام کے اصولوں میں ہی بندھے رہتے ہیں۔ اور ’بٹوک‘ سا ہندو بیچارہ کوری دھرم نرپیکچھتا کے پیچھے اپنا ہندو منتر گنوا رہا ہوتا ہے۔ ادھر وشو میں اسلامی مہاسنگھٹن بنانے کی یوجنا چل رہی ہے …  اور ادھر ہندو ایک مندر نہیں بنا پا رہا ہے — ایک ڈھانچہ ٹوٹتا ہے تواسے اپنوں کے منہ سے شرم شرم جیسے شبد کو سننے کو ملتے ہیں۔

ذرا غور کیجئے۔ مٹھی بھر مغل شا سک آتے ہیں اور ہندو روند دیئے جاتے ہیں۔ انہیں جبرا مسلمان بنایا جاتا ہے۔ اسلامی مہا سنگٹھن کے ابھرنے کا مطلب ہو گا …  پورے وشو کی داستا، غلامی —  خطرہ جتنا بڑا ہے، ہم اسے اتنا آنک نہیں پا رہے ہیں  —

مسلمان بادشاہوں کو مندر توڑ کر مسجد بنانے کی مہارت تھی۔ اس کی ہمارے دیش میں ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ اب یہی دیکھیے …  کرشن جنم بھومی متھرا —  کنس کے کارا گار میں ۳۱۶۸ (ق۔ م) شری کرشن کا اوترن ہوا تھا۔ اس استھان سے انیک (بہت) برہمی شلالیکھ اور دوسرے پر اتتویہ وشیش۔ پراپت ہوئے۔ جن سے پتہ چلا کہ ق۔ م پہلی شتی میں شاڈاس نام کے شک واجہ کے کاریہ کال میں اس جنم استھان پر واسودیو شری کرشن کے ایک مندر کی بنیاد رکھی گئی —  چوتھی شتی میں گپت سمراٹ چندر گپت وکرمادتیہ نے یہاں ایک وشال مندر بنوایا۔ چینی سیاح ہیون سانگ کے وقت بھی یہ مندر موجود تھا۔ جسے ۱۰۱۷ء میں محمود غزنوی نے توڑ وا دیا۔ ۱۱۵۰ء میں راجہ وجے پال دیو نے دوبارہ اس جگہ پر کیشو کا ایک بڑا مندر بنوایا۔ اس کو سکندرلودی نے ۱۶ ویں شتی میں توڑ دیا۔ بندیلا نریش ویر سنگھ جودتو نے ۱۶۱۳ء میں اس جگہ پھر مندر بنوایا۔ اورنگ زیب نے ۱۶۶۱ء میں اس مہان مندر کو بھی دھارا شائی (برباد) کر دیا۔

ہم بناتے رہے، وے اجاڑتے رہے —  سموچے وشو میں مسلمان دیش ایک دوسرے سے مل رہے ہیں اور یہاں ہم اب بھی آپس میں بکھرے پڑے ہیں۔ ہم اپنے مندروں کی واپسی چاہتے ہیں تو ہمیں دیش دروہی اور سامپردائیک تک کہا جاتا ہے۔

’ تتھیہ آپ کے سامنے ہیں۔ نرنے آپ کو لینا ہے۔ کون سامپردائیک ہے؟‘

نریندر مائیک سے ہٹا تو دیر تک تالیاں گڑ گڑاتی رہیں۔ منچ کے ایک کونے میں خاموش خاموش تحسین بھی بیٹھا تھا —

٭٭٭

سبھا سماپتی کے بعد، تقریباً آدھے گھنٹے بعد ان کے باہر نکلتے ہی سدھیندورائے نے خبر سنائی، وہ اکبر پورہ کے پاس سے، ایک نکڑ سبھا سے آ رہے تھے۔

سدھیندورائے بولے —

’’فضا پھر گرم ہو گئی ہے — ‘‘

نیل کنٹھ نے کہا — ’’ ہماری باتوں کا یہاں بھی اثر ہوا ہے — ‘‘

نلکانی ملے تو بولے —  ’’ایسی سبھائیں ابھی لگاتار ہونی چاہئیں اور جنتا میں داخل آ کروش کو ہمیں نشچت طریقے سے کیش کرنا ہو گا — ‘‘

ہاں اس بیچ تحسین کا منہ سوجا ہوا تھا۔ جیسے اسے کوئی بہت بڑی قیمت چکانی پڑ رہی ہو۔

پولیس کے سائرن پھر شہر میں گونجنے لگے تھے۔

پولیس کے جوان چاروں طرف چھترا گئے تھے۔

اور ایک بار پھر دھیرے دھیرے شہر کی فضا بارودی رنگ اختیار کرنے لگی تھی۔

٭٭٭

’’کل آپ کو کیا ہو گیا تھا؟‘‘

نریندر پوچھ رہا تھا۔

’’ہاں مجھے کچھ ہو گیا تھا؟ بالمکند نے خود سے پوچھا …  میں سب کچھ بھول گیا تھا۔ جیسے دماغ میں کچھ رہا ہی نہیں۔ ایک دم سے خالی …  ہاں ایسا ہی تو لگا … ‘‘

’’شام میں ڈاکٹر کے یہاں چلیں گے، نریندر کو تکلیف ہوئی۔ یہ اچھی بات نہیں ہے پتاجی  — ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا؟‘‘

’’نہیں  —  پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ‘‘

’’اور کیا لگتا ہے … ؟‘‘

’’بس سب کچھ بھول جاتا ہوں۔ یہاں تک کہ بستر کیا بلا ہے۔ تکیہ کیا ہے …  بیٹھا ہوا ہوں کہ کھڑا ہوں آئینہ کیا ہے۔ سامنے کون کھڑا ہے۔ کچھ بھی پہچان نہیں پاتا۔ ‘‘

نریندر چپ ہو گیا۔

بالمکند بھی کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔

٭٭٭

کانگریس آفس اور ادھر ادھر چکر لگا کر انیل تھک چکا تھا۔ بہتر یہی تھا کہ اب گھر واپس ہوا جائے۔ دن بھر کی باتوں کا جمع خلاصہ یہی تھا کہ کانگریس عوام میں اپنا اثر کھو رہی ہے۔ کم از کم مسلم ووٹ تو اس کے حصہ سے نکل ہی گئے۔ اب کانگریس جتنے بھی پینترے کر لے …  انیل کو بزنس کے نرم ہو جانے کا بھی اندیشہ تھا۔ اس پر بھی کانگریس کی چھاپ پڑ چکی تھی —  کانگریس پارٹی دفتروں سے اسے بہت کام ملتا رہا تھا۔ اب سوال تھا، اگر کانگریس ستہ پکچھ کھو دیتی ہے تب؟ وہ تو سیدھے گھاٹے میں آ جائے گا —  تب ان کے پاس کام ہی کیا ہو گا —  زیادہ نہیں لیکن سیاست کی اتھل پتھل کو لے کر تھوڑا پریشان تو تھا ہی۔

گھر آیا تو تلسی کامنہ بنا ہوا تھا۔ بیگ میز پر رکھ کر وہ تلسی کی طرف مڑا۔

’’ارے کبھی تو اچھے موڈ میں بھی رہا کرو۔ ‘‘

’’اچھا موڈ خاک ہو گا۔ تمہیں گھر کی چنتا کب رہی ہے۔ ‘‘

’’کیا ہوا؟‘‘

’’انیل کچھ پریشان سا ہوا — ‘‘

’’باؤجی طبیعت خراب ہے!‘‘

’’خراب ہے؟‘‘

’’نریندر ہی سب کچھ کرتا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ، باؤجی ناشتہ کھانا بھی نریندر کے ساتھ ہی کھاتے ہیں۔ خدمت کے لیے بھی اوما ہی تیار رہتی ہے۔ ‘‘

انیل کا ما تھا ٹھنکا۔ ’’تم کہنا کیا چاہتی ہو؟‘‘

’’راج نیتی کے آدمی آپ ہیں۔ آپ کو راج نیتی ہی نہیں سمجھ آ رہی؟‘‘

’’نہیں  — ‘‘

’’باؤجی بیمار ہیں  —  بوڑھے ہیں …  کبھی بھی  …  کچھ بھی ہوسکتا ہے …  اس سوا کاارتھ جانتے ہیں ؟‘‘

انیل کاما تھا پھر ٹھن سے ہوا …  بڑھاپے میں ماتا پتا کے سیوا کا ارتھ؟

تلسی نے پھر منہ بنایا —  ’’اتنا بڑا مکان —  جائیداد —  بنک بیلنس —  سب کچھ نریندر کا ہو گا — ‘‘ وہ تھوڑی اداس ہو گئی —  مالو بھی ہے …  مالو کے بارے میں بھی باؤجی کو کتنی بار اوما سے کہتے سنا ہے …  اس کے وواہ کے بارے میں پریشان مت ہونا —  ارے، کبھی کبھار تو جا کر بابوجی کی خیر خبر لیتے رہیے۔ ڈاکٹر کے یہاں لے جانے کو کہیے —  ورنہ جان لیجئے آپ کے حصے میں کچھ نہیں رہے گا —  ہاں  — ‘

وہ ٹھہری —  ’اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ بابوجی کو تیار کیجئے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی وصیت نامہ تیار کرا لیں۔ آپ بڑے ہیں۔ آپ کا زیادہ حق ہونا چاہئے۔ آنکھوں کے سامنے وصیت تیار ہو گی تو باؤجی حق نہیں مار سکیں گے۔

تلسی نے پھر زور دیا —  ’تم نہیں جانتے نریندر اوراس کی پتنی ہے۔ بہت چالاک —  راج نیتی میں تم سے بھی دس قدم آگے —  نریندر کو دیکھو …  سمے کی آواز پہچانتا ہے …  اس کروٹ بھی سکھ …  اس کروٹ بھی — ‘‘

’’مطلب۔ ‘‘

’’ادھر باؤجی کی جائیداد ہے …  ادھر بھاجپا آ گئی تو اس کے وارے نیارے۔ تم تو مہا مورکھ ہو — ‘‘

مہامورکھ کی بات انیل کو بری لگی۔ ’’وہ کیسے؟‘‘

’’تمہیں راج نیتی کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ اب کانگریس کا زمانہ نہیں ہے چاروں طرف بھاجپا کی طوطی بول رہی ہے۔ دیکھنا کل نریندر کا پلہ کتنا بھاری ہو گا —  دھرم بھی ملے گا، پنیہ اور پیسہ بھی۔ جب کہ تمہارے حصہ میں کچھ بھی نہیں ہو گا —  تم دھرم سے بھی جاؤ گے، دھن سے بھی اور جاگیر سے بھی — ‘‘

انیل چونک کر بولا۔ ’’باقی باتیں ٹھیک ہیں۔ لیکن دل بدلو سدھانت کو میں نہیں مانتا۔ اب چاہے کانگریس رہے چاہے جائے —  ایک بار جو لیبل لگ گیا سو لگ گیا — ‘‘

’’وہی تو تمہاری مورکھتا ہے۔ راج نیتی میں دل بدلو کو گالی نہیں سمجھا جاتا۔ عزت اور آدر ملتی ہے —  خیر —  جیسی تمہاری اچھا۔ ویسے باؤجی کی خیر خبر ضرور لے لو — ‘‘

’’ابھی لیتا ہوں  — ‘‘

انیل تیزی سے باؤجی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

٭٭٭

’’ہاں ! یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے برکت حسین تم اسے کیا نام دو گے، کیا سچ مچ یاد داشت پر اثر پڑا ہے یا … ‘‘

’’کچھ نہیں میاں۔ صبر رکھو۔ کچھ نہیں ہوا ہے تمہیں۔ ‘‘

’’نہیں کچھ ہوا کیسے نہیں ہے، بر کت حسین۔ ‘‘

بالمکند شرما جوش گہر ی اداسی میں کھو گئے …  ’’بہت کچھ ہوا ہے …  ہوا کچھ کیسے نہیں ہے برکت حسین —  میں بھول رہا ہوں۔ یہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ لیکن جو بھولنا چاہتا ہوں۔ وہی نہیں بھولتا۔ جن سے آنکھیں چرانا چاہتا ہوں وہی زخمی کر دیتے ہیں مجھے — ‘‘

چودھری برکت حسین پریشان ہو اٹھتے ہیں …  ’’خدا نخواستہ بلڈ پریشر وغیرہ تو چیک کراتے ہونا جوش میاں ؟ شوگر، ڈائبٹیز وغیرہ کی شکایت تو نہیں میاں، اس عمر میں ہر پل خطرے کی گھنٹی بجتی رہتی ہے۔ ہوشیار رہنا چاہئے اس عمر میں۔ ‘‘

’’اب ہوشیار کیا رہنا برکت حسین۔ سانسیں ناطہ توڑ لیں، سو زیادہ بہتر —  تمہیں یاد ہے۔ تب کیا صورت ہوئی تھی ہماری۔ پنجاب جل رہا تھا۔ لاہور جل رہا تھا …  پورا ملک جل رہا تھا۔ کیسے عجیب عجیب قصے تھے۔ شک و شبہ کی کھائیاں تھیں۔ لیکن یہی لگتا تھا، آزادی کے چراغ ادھر جلے، ادھر زخم بھرے۔ اور اب۔ برکت حسین! آسمان میں منڈلاتے ہوئے گدھ نظر آتے ہیں مجھے۔ خوفناک گدھ …  انسانی بوٹیوں پر لپکتے ہوئے —  اور یہ بچے —  ڈنڈا، بھالا، ترشول، بھانجتے ہوئے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں  — ‘‘

چودھری برکت حسین آہ بھرتے ہیں  —  ’’یہ سب …  یہ سب کیوں یاد کر رہے ہو جوش میاں۔ ناحق خود بھی پریشان ہوتے ہو، ہمیں بھی پریشان کرتے ہو — ‘‘

آواز کمزور پڑ جاتی ہے۔ ’’کیا کہوں …  اپنا آپ نکالنے والا بھی تو کوئی ہو۔ درد بانٹنے والا —  تم آ جاتے ہو تو دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جاتا ہے برکت حسین —  کیا کیا دیکھ رہا ہوں۔ بالائی منزل پر جاتا ہوں توآسمان پر دھواں ہی دھواں نظر آتا ہے۔ شفق کی سرخی ایسے دکھتی ہے کہ جیسے انسانوں کا خون مل دیا گیا ہو۔ اور …  سب کچھ ختم ہوتا نظر آتا ہے —  سب کچھ — ‘‘

برکت حسین کی آنکھوں میں ایک قطرہ طوفان مچلتا ہے۔ ’یار جوش میاں، کبھی کبھی پرانے ساز چھیڑ کر رلا دیتے ہو تو تم بھی۔ آخر کیا سننا چاہتے ہو تم۔ کیوں یہ گلے شکوے لے کر بیٹھ جاتے ہو …  تم اخلاق اور تہذیب کی ان نسلوں کی آخری کڑی ہو —  سمجھے آخری کڑی۔ اس کے بعد اس ملک کا خدا حافظ۔ ہم نہیں ہوں گے، اور یہی سوچ سوچ کر دہشت ہوتی ہے کہ یہ ملک کن لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا —  یہ پرانی تہذیب کن لوگوں کے پاس گروی رکھیں گے۔ ہماری خوف محنت سے سینچی گئی آزادی کا کیا ہو گا — ‘‘

چودھری برکت حسین کی آواز لرز جاتی ہے …

جوش صاحب نظر اٹھاتے ہیں …  یہ کتابیں دیکھ رہے ہو، قلم، کاغذ، دوات، اب کچھ بھی چھونے کی، اٹھانے کی خواہش نہیں ہوتی …  باہر شور ہے۔ اپنے ہی بچے نظر پھیرے ہوئے لگتے ہیں۔ دوسروں کو کیا کہوں …  باہر دھواں ہے …  جنگ کے جراثیم گھلے ہیں۔ کس سے کہوں۔ کس سے فریاد کروں۔ اور یہاں۔ میرے یہاں …  پرکھوں کی میراث یہ گھر …  یہ گھر بھی ٹوٹنے کو لگتا ہے۔

برکت حسین چونکتے ہیں۔

’’میں مطلب نہیں سمجھا جوش میاں  — ‘‘

’’اب تم جان گئے ہو گے۔ میرے دو ہی بچے ہیں۔ لیکن ایک مشرق ہے۔ دوسرا مغرب میں جانتا ہوں مشرق اور مغرب کو ملانے کی کارروائی بے سود ہے میاں۔ اس لیے اب تھک کر بیٹھ گیا ہوں  —  ان کی باتیں سنتا ہوں، ان کی آپسی جھڑپ دیکھتا ہوں، ان کے درمیان بڑھتی دوریاں دیکھتا ہوں۔ پھر خیال آتا ہے اس گھر کا …  پرکھوں کی میراث اس گھر کا …  تو اس گھر میں ایک دراڑ دکھتی ہے مجھے —  ایک خلیج نظر آتی ہے —  گھر درمیان سے بٹا نظر آتا ہے۔ یہ محض خیال نہیں ہے برکت حسین یہ آنے والے کل کی سچائی ہے۔ وہ مجھ سے بولتے نہیں ہیں۔ ابھی ظاہر نہیں کرتے۔ مگر جب میرے پاس آتے ہیں تو میں ان کے ہونٹوں پر تھرکتی ہوئی خاموشی میں اس سچ کو پہچان لیتا ہوں۔ دراصل وہ بٹوارے کے خواہش مند ہیں۔ ‘‘

’’کیا کہتے ہو جوش میاں  — ‘‘

’’ ہم بوڑھے ہو چلے ہیں۔ برکت حسین بچے سب اسی بات کااحساس کرانا چاہتے ہیں  …  کہ بوڑھے آدمی کے حصے میں ایک موت ہوتی ہے۔ موت جو اگلے پائیدان پر کھڑی ہوتی ہے …  اور اس پائیدان پر قدم رکھنے سے پہلے بوڑھے کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں جاگیر، جائیداد، اور مکان کا وصیت نامہ بھی تیار کرالے …  مگر اس سے پہلے …  ‘‘

جوش صاحب کے لب کانپے …

’’میں ایک بیان دینا چاہتا ہوں …  ایک ضروری بیان … ‘‘

’’کیسا بیان؟‘‘

’’کئی دنوں سے دماغ میں اتھل پتھل ہے۔ مگر وصیت کرنے سے پہلے …  مرنے سے پہلے … ‘‘

آواز کئی بار ٹوٹی …  کئی بار سنبھلے بال مکند جوش پھر نظر نیچی کر لی۔

’’لیکن میں بھی تو سنوں جوش میاں۔ ‘‘

جوش صاحب نے ٹھنڈی سانس بھری۔

’’ابھی نہیں۔ ابھی وقت نہیں آیا ہے۔ ‘‘

کہہ کر خاموش ہو گئے —  مگر آنکھوں کے آگے جیسے لگاتار خونی رتھ یاترائیں گزرتی رہیں  —

(۳)

وہی کمرہ …  کبھی کبھی خود سے باتیں کرتے ہوئے کسی پر اسرار چہرے کی طرح تکنے لگتا ہے …

’’کون ہو تم؟ پہچانتے ہو خود کو … ؟‘‘

’’نہیں  — ‘‘

وقت کی دھمک سنو میاں۔ یہ نگاڑے کیا کہتے ہیں۔ ذرا آواز تو دو۔ کان لگاؤ۔ اور سنو …  یہ قت کی سوئیاں اب کہاں جا کر ٹھہرتی ہیں …  بالمکند شرما جوش …  یہ نئے زمانے کے بچے ہیں …  یہ تمہارے وقتوں کی کھونٹ سے نہیں بندھے …  یہ آزاد ہیں، خودمختار ہیں …

’’میں کون ہوں …  اور یہ سب … ‘‘

کمرہ اچانک اوجھل اوجھل سا دکھنے لگتا ہے …  سب کچھ مدھم مدھم …  کسی کو پکارنا چاہتے ہیں …  آواز لگانا چاہتے ہیں …  ٹھہر جاتے ہیں …  دھواں دھواں سا منظر …  مشاعرہ چل رہا ہے …  بالمکند شرما جوش کا نام پکارا جاتا ہے۔ وہ شیروانی درست کرتے ہیں۔ چم چماتی شیروانی اور چمچماتا سفیدرنگ چہرے مہرے سے ہمیشہ کشمیری لگے …  جوش صاحب کلام پڑھنا چاہتے ہیں …  لیکن …  نعتیہ کلام کی فرمائش ہونے لگتی ہے —

نعتیہ کلام …  وہ بھی ا یک ہندو کے منہ سے …

’’ارے پڑھیے نا، جوش صاحب‘‘

’’واہ بھئی کیا نعت لکھی ہے۔ ‘‘

’’نعت میں تو جوش صاحب کا جواب نہیں … ‘‘

’’انہی کے دم سے تو رونق آ جاتی ہے مشاعرے میں … ‘‘

اور وہ پانچ چھوکرے، پانچ پاپی، بس پانچ قدم کے فاصلے پر ہیں …  مسکراتے ہیں …  طنز سے شاید …  جوش صاحب کو کچھ ایسا ہی لگتا ہے …  ہوٹ کر رہے ہیں …  کرو میاں …  اچھا لگتا ہے …

’’واہ …  ‘‘

اور یہ پانچ پاپی تھے، شہر کے پانچ بے روزگار مسلمان لڑکے …  پانچوں شاعر  …  پانچوں انہیں گھیرے رہتے ہیں …  وہ اس چوکڑی کو پانچ پاپی ہی کہتے۔ نئی نسل ہے، نئی نسل والوں کی بات بھی سننی چاہئے، انہیں ہمیشہ سے اس کمپنی میں مزہ آیا —  ان پانچ پاپیوں کی کمپنی میں …

شیخو میاں رنگریز کا لڑکا، فیض سقراطی —  ان لڑکوں کو انوکھا سانام رکھنے میں بھی مزہ آتا ہے۔ فیض سقراطی، بنا مشاعروں میں اکڑتا پھرتا ہے۔ ایک نمبر کا بقراط۔ بی اے فیل احمد ربانی —  حبیب تنویر، نازاں خیال اور باقر مرزا —  ان میں سب بے روزگاری کے ترشول پر لٹکے ہیں اور شاعری، ان کا محبوب مشغلہ ہے —

یہ پانچوں پاپی اچانک کسی کونے سے ان کے سامنے آ جاتے ہیں …  ’’مشاعروں میں یہ نعت آپ کیوں پڑھتے ہیں جوش صاحب —  ‘‘ فیض سقراطی پوچھتا ہے۔

’’حبیب تنویر خود کو ترقی پسند کہتا ہے۔ وہ ناراض ہوتا ہے۔ جانتے ہیں یہ مشاعروں کے لوگ آپ سے نعت کیوں سننا چاہتے ہیں۔ کیونکہ آپ ایک ہندو ہیں اور آپ نے۔ ‘‘

وہ بچوں کی سنتے ہیں … بچوں کی صاف گوئی میں انہیں مزہ ملتا ہے۔ تبھی تو ان بچوں کو سگے بچوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں …  وہ کیا جانیں کہ نعت کہنا کتنا مشکل کام ہے۔ غزل کو تو ان لوگوں نے حالاتِ حاضرہ سے جوڑ کر بکاؤ اور بازارو بنا دیا ہے۔ ہمارے وقت میں غزل کا کیا عالم تھا۔ ایک ہی طرح پر پورا شہر مغز ماری کرتا تھا۔ دیکھنا یہ ہوتا تھا کہ اس گرہ پر ہم کیسے اشعار کہتے ہیں۔ فلاں استاد نے اس طرح کو کیسے نبھایا تھا۔ تب غزل ایک شاندار اور رشک آمیز تہذیب کا ایک حصہ تھی —  مثنوی لکھی جاتی تو بادشاہ ِ وقت کے قصیدے بیان ہوتے …  یہ تو ایک تہذیب کا حصہ تھا۔ دیکھنا یہ بھی ہوتا تھا کہ فلاں شاعر اصناف سخن کے کس کس صنف میں ہاتھ ڈالتا ہے۔ نعت بھی تو اسی مشق کا ایک حصہ ہے۔ مگر یہ بچے … ‘‘

وہ سنتے ہیں۔ مسکراتے ہیں …  بولنے اور ابلنے دیتے ہیں بچوں کو …

’’انہیں لوگوں نے … ‘ حبیب تنویر کو غصہ ہے …  ادب کو چند جانوروں کا نوالہ بنا رکھا ہے — ‘‘

’’چلو میاں۔ اپنا ادب اپنے پاس رکھو تم۔ اورسناؤ زندگی کے اصل امتحان کی کون کون سی تیاریاں چل رہی ہیں  — ‘‘

’ناکامی —  باقر مرزا ہونٹ چباتے ہیں  —   ’’بس جوش صاحب اس سوال پر مت آئیے …  کہ ہم کیا کر رہے ہیں …  ابھی اس وقت یہ سوال ہمارے نزدیک کسی پستول کی گولی سے کم نہیں ہے — ‘‘

نازاں خیال آہ بھرتا ہے۔ جوش صاحب سوال تو ہمیں ملی ہوئی تعلیم کا بھی ہے۔ یعنی ہم …  ہم پانچوں جہاں سے آئے ہیں وہاں جن اسکولوں کا منہ دیکھنا نصیب ہوا، وہ سرکاری تھے —  انہیں چھوڑ یے توسیدھی بات کہتا ہوں، جیسی تعلیم چاہئے تھی، ویسی ہمیں نہیں ملی۔ دوسروں کے مقابلے کافی پچھڑے ہوئے ملتے ہیں ہم …  اور امتحان میں پہلے سے ہی ہمارا ریزلٹ آؤٹ رہتا ہے —

احمد ربانی ہنستا ہے۔ شاعری نہ ہوتی تو ہمارے جینے کا کوئی مقصد ہی نہ ہوتا۔ آج اور کل پر تبصرے، نکتہ چینی اور شاعری، اس کے سوا ہم کر ہی کیا سکتے ہیں … ‘

جوش صاحب جاتے ہوئے ان پانچ پاپیوں کو دیکھتے ہیں اور پھر سے اپنے کمرے کی خاموشی میں پناہ ڈھونڈھ لیتے ہیں …

وہ کون ہیں …  مشاعرہ …  یہ کمرہ …

یہ سب کیا تھا؟

زندگی کے یہ کیسے رنگ ہیں …  ایک طویل زندگی سے اکتا کر وہ تھک چکے ہیں۔ ہنسی، قہقہے، سب بے معنی …  مالو کی ہنسی بھی اچھی نہیں لگتی اب …  گھر بھر پرایا سا لگتا ہے …  پھر کھو جاتے ہیں …  مالو کون … ؟ انیل نریندر کون  … ؟ نہیں  —  وہ ڈر گئے ہیں  —  فضا سے …  ماحول سے …  اپنے آپ سے …  اپنے گھر سے …  اور …

’’بابو جی  …  آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا؟‘‘

انیل ان کی آنکھوں میں جھانک رہا ہے …

سب مصلحت پسند …  وہ مسکرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔

’’ڈاکٹر کے یہاں چلیے گا … ؟‘‘

اس کی آواز میں کمزوری چھپی ہے۔

’’نہیں  —  ٹھیک ہوں۔ ‘‘

’’کبھی ہمیں بھی —  سیوا کا اوسر(موقع) دیا کیجئے۔ تلسی کہہ رہی تھی۔ جانے کیا بات ہے بابوجی ہم سے ناراض رہتے ہیں۔ ‘‘

وہی کمزور آواز —  وہ مسکرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

’’غلط فہمی ہوئی ہے ناراض کیوں ہونے لگا بھلا۔ ‘‘

’تو اسے بھیج دوں۔ سر میں تیل ڈالنے کے لیے کافی خشکی جھلک رہی ہے۔ ‘‘ انیل کو موقع مل گیا —

’’نہیں  — ‘‘

آواز برف کی طرح یخ ہے —

’’نہیں کیوں بابوجی؟‘‘

’’بوڑھا آدمی اپنی خواہشوں کا غلام ہوتا ہے۔ یہ ہاں اور نہیں اس کے موڈ کے تابع ہوتے ہیں …  سمجھ رہے ہو …  نہیں نا —  جب مرضی ہو گی بلا لوں گا۔ ہاں کچھ کہنا ہو تو کہو — ‘‘

’’جی … ‘‘

انیل اٹک گیا ہے …

’’کوئی بات نہیں۔ صاف صاف کہو … ‘‘

انیل ان کا چہرہ پڑھ رہا ہے …  لیکن —  کیا پڑھ پائے گا —  بھلا؟

وہ۔ آپ جانتے ہیں …  میں …  اتنا بڑا کاروبار پھیلا رہا ہوں …  جانتے ہیں نا … ‘‘

’’نہیں  — ‘‘ وہ دھیرے سے مسکراتے ہیں۔

انیل چونکا۔ ’’نہیں جانتے ہیں۔ ‘‘

’’آگے کہو — ‘‘ چہرہ سپاٹ ہے۔

’’اب کیا کہوں …  بزنس کے لیے، بزنس بڑھانے کے لیے …  پیسہ بھی تو چاہئے … آپ کے بعد … ‘‘

وہ کہتے کہتے اٹک گیا ہے …  جیسے غیر ضروری سی طور پر یہ جملہ اس کے منہ سے نکل آیا ہو …  آپ کے بعد کیا؟ بابوجی کو برا بھی تو لگ سکتا ہے …  نہیں۔ وہ غلط کہہ گیا …

’’میرا مطلب ہے … ‘‘

وہ مسکراتے ہیں …  دبی۔ الجھی مسکراہٹ …

’’کہو …  کہو …  مجھے لگتا ہے نریندر بھی وہی کہنا چاہتا ہے، جو تم  … ‘‘

’’کیا نریندر بھی آپ کے پاس آیا تھا؟‘‘

’’ہاں ‘‘

’’باؤجی میں …  دراصل … ‘‘

’’تم لوگ میری زندگی میں بٹوارہ چاہتے ہو …  یہی نا، گھر، جاگیر اور جائیداد کا۔ ‘‘

ان کی آواز بھاری ہو گئی ہے۔ یقین رکھو۔ ابھی نہیں مر رہا ہوں میں اور مرنے سے پہلے …

’’تلسی کو بھیج دوں بابوجی …  تیل لگانے کے لیے …  خشکی۔ ‘‘

ان کے چہرے پر ورم آ گیا ہے —

’’نہیں۔ رہنے دو۔ ابھی شانتی چاہتا ہوں … ‘‘

انیل چلا گیا —  اندر باہر کمزوری کی ایک لہر چل پڑی ہے …  جیسے سمندر میں جوار بھاٹا آتا ہے۔ لہریں شور مچاتی ہیں …  ویسا ہی جوار بھاٹا …  بچے اب گھر توڑنے میں لگے ہیں  …  بٹوارہ چاہتے ہیں …  کتنے پیوند لگیں گے اس گھر کو … ؟ کتنے پیوند …

جوار بھاٹا کا شور جیسے ہر پل ذہن پر پتھر مار رہا ہے۔ ان سب سے بچنے کے لیے اخبار اٹھاتے ہیں …  خبروں پر نظر دوڑتی ہے۔ پھسلتی ہے۔ آگے بڑھتی ہے اور جیسے حیوانیت اپنا ننگا رقص شروع کر دیتی ہے …  نہیں …  اور نہیں …  اور نہیں …  ریڈیو کھولتے ہیں …  ٹی وی آن کرتے ہیں …  اور …  وہی ریلیاں، بند، آندولن، ہڑتالیں …  اور موت …  ان گنت موت …  ان گنت …  سانحے، حادثے …  وقت کے حاشیے پر کوئی آتنک وادی کھڑا ہے …  ہاتھ میں اسلحہ لیے …  وہ چیخ رہا ہے …  اور گولیاں برسارہا ہے …

نہیں …

وہ زور سے چیخ مارتے ہیں …  بچے …  بہو …  دوڑے دوڑے آتے ہیں …  مگر …  یہ سب کون ہیں …  سب کے چہرے  …  بس دھواں دھواں …  جھل مل جھل مل کر رہے ہیں …

کون ہو تم لوگ …  وہ پہچان نہیں پا رہے ہیں …  بچے پریشان ہیں …  وہ خوفزدہ سے بچوں کی طرف دیکھے جا رہے ہیں …

٭٭٭

(۴)

شہر میں پولیس سیکوریٹی بڑھا دی گئی ہے —  ایک انجان ساخطرہ ہر جگہ، ہر گھر میں محسوس کیا جانے لگا ہے۔ شہر میں ہونے والی سبھاؤں اور دستخط ابھیان سے بھی لوگوں کے اندر بدلاؤ، آیا ہے۔ پولیس انتظامیہ اس خطرہ کو بھانپ رہی ہے۔ اسی لیے شہر میں پولیس کی گشت بھی بڑھا دی گئی ہے۔ ادھر دکانیں ۹۔ ۸ بجے تک کھلی رہتی تھیں۔ انتظامیہ کے نئے حکم کے مطابق اب دکانیں ۷ بجے شام سے بند کر دی جاتی ہیں۔

شام سے ہی شہر، شہر خموشاں جیسا منظر پیش کرنے لگتا ہے …  اُجاڑ، ویران، سنسان  —  کم سے کم چلتے ہوئے لوگ …  یکا دکا گزرتی ہوئی گاڑیاں …  ان میں زیادہ تر ہارن دیتی گاڑیاں پولیس کی ہی ہوتی ہیں  —  یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ مسلمان زیادہ ڈرے ہوئے ہیں۔ مسجدوں تک جانے والے مسلمانوں کی تعداد میں بھی کمی ہوئی ہے …  ایسے بھی مسلمان ہیں جو کرائے دار کے طور پر ہندو کے یہاں رہ رہے ہیں تو انہیں ایک انجانا ساخطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ خطرہ یہ نہیں کہ ہندو مالک مکان مار ڈالے گا، خطرہ مکان کو بھی ہے کہ ان کے یہاں مسلمان کرایہ دار کیوں ہے؟ وہ منع کرتے ہیں کہ آپ کے یہاں داڑھی والے لوگ نہیں آنے چاہئیں۔ زور سے سلام علیکم اور خدا حافظ کی آوازیں باہر تک نہیں پہنچنی چاہئیں۔ اس سے آپ بھی خطرہ میں پڑ جائیں گے اور ہم بھی۔

بڑے بوڑھے لوگ اپنے اپنے زمانے کو یاد کرتے ہیں، تقسیم کے واقعہ سے اس عہد کو جوڑتے ہیں۔ یاد کرتے ہیں کہ تقسیم وطن کے وقت بھی اس شہر میں کبھی فساد کی نوبت نہیں آئی تھی مگر اب —  یعنی حالات تقسیم سے زیادہ برے ہیں۔ کم از کم ان کی باتیں تو یہی اشارہ دیتی ہیں۔

اور ادھر پانچ پاپی ہیں۔ شہر کا ایک پرانا سا ہوٹل ہے …  ایک میز پکڑ لیتے ہیں اور تبصرے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان پانچوں کی الگ الگ محبوبائیں بھی ہیں۔ ہوٹل میں آنے اور چائے پینے تک محبوباؤں کو لے کر ہنسی مذاق ہوتے ہیں، پھر سنجیدگی کے کفن اوڑھ لیے جاتے ہیں  —  ’’کیا ہو گا‘‘ کا خوف بہت زیادہ ہے …  اس خوف کے پانی پر کاغذ کی کمزور ناؤ چلتی کم اور اپلاتی زیادہ ہے۔

حبیب تنویر کو اس کے دوست ترقی پسند کہہ کر چڑھاتے ہیں۔ وہ سنجیدہ ہوتا ہے۔

’’فضا میں بارود ہے اور گھر میں مصلیٰ بچھ رہے ہیں …  مسجد میں جانے والے نئے لڑکوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ ہندوؤں میں بھی نئی نسل کے ساتھ یہی ماجرا ہے تھک ہار کر عام ذہن نے کیا مذہب کے دقیانوسی لبادہ کو قبول کر لیا ہے؟‘‘

’’اپنا ایمان اپنے پاس رکھو۔ لیکن ہمیں کیوں کافر بناتا ہے۔ نازاں خیال ہنستا ہے — ‘‘

اِن پانچوں پاپیوں میں کوئی انفرادیت نہیں تھی۔ جو ان کی خاص شناخت بن سکتی ہو۔ نہ ان کا ڈیل ڈول، نہ ان کا لہجہ —  یہ پانچوں کسی بھی مسلمان محلے یا گھروں میں مل جائیں گے …  جو بے روزگار ہوں اور جنہیں شاعری کا شوق ہو گیا ہو …  اور جن کی ایک عدد محبوبہ ہو —

’’خبر کیا پوچھتے ہو — ‘‘ نازاں خیال اجودھیا سے ہو کر آیا ہے …  وہ خبر دیتا ہے …  اجودھیا، فیض آباد سڑک پر جگہ جگہ ٹوٹے ہوئے میناروں کے ٹکڑے ابھی تک جوں کے توں پڑے ہیں  —  کوٹیا، قضیانہ اور ٹیڑھی بازار کے تباہ شدہ مکان دوبارہ تعمیر ہو رہے ہیں۔ ریلیف کیمپوں سے مسلمان اب واپس آنے لگے ہیں۔ لیکن برپا ہونے والی قیامت کا اثر سب کے چہرے پر ہے —  کتنے ہی لوگ شہر چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں بھاگ چکے ہیں  —  جو واپس آتے ہیں، انہیں گھر اور جائیداد کا موہ کھینچ لایا ہے۔ حقیقت ہے آج اور کل، انہیں اپنا کچھ بھی محفوظ نہیں لگتا —  مسلمانوں کا یقین اور اعتماد سب سے اٹھ گیا ہے —  ایک سوال اور بھی ہے جائیں تو کہاں جائیں  —  شانتی بحال ہونے پر یہی سوال انہیں پھر سے اپنی تباہ شدہ چوکھٹ سے باندھ دیتا ہے —

وہیں ایک منو بابو ہیں۔ ۸۷ سالہ انصار حسین۔ ۱۹۳۴ء میں جب مسجد پر حملہ ہوا اور مسجد کے تینوں گنبدوں کو نقصان پہنچا، تب بھی یہ اس واقعہ کے چشم دید گواہ تھے۔ ہندو مسلمان اتحاد کے ایک ستون —  ایک مندر ہے جس کی نگرانی کا کام انہیں کے ذمہ ہے۔ منو بابو کو یقین تھا، ہر طرف ان کی قدر و منزلت ہے۔ انہیں کچھ نہیں ہو گا۔ مگر ہوا کیا۔ کارسیوکوں نے ترشول کے بل پر انہیں بھی زیر کرنے کی کوشش کی —

ایک محلہ ہے کٹرہ —  وہاں مسلمانوں کے بہت سے مکان تھے۔ شناخت کے لیے ان کے دروازوں پر کراس کے نشان بنادئے گئے۔ حادثہ کے روز سب نے اپنے اپنے دروازوں پر جے شری رام، لکھ دیا۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے مکان کے پہچان میں آسانی ہو گئی —  اور چن چن کر مسلمانوں کے مکان میں آگ لگائی گئی۔

مزار اجڑے پڑے ہیں۔ پانی ٹولہ کے قبرستان کو مرکز نے ایکوائر کر لیا ہے۔ قبریں کھدی پڑی ہیں۔ درگاہ پر حملے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اب بھی لوگ ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔ مگر وہ پہلے والی بات تقریباً ختم ہوئی لگتی ہے —

فیض سقراطی کہتا ہے:

جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ مسجد ٹوٹ گئی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں مسجد مت کہو۔ ڈھانچہ کہو۔ میرا پہلا اعتراض تواسی بات پر ہے۔ وہ مسجد تھی، آخری وقت ٹوٹنے سے قبل تک وہ مسجد تھی تو اسے مسجد ہی کہا جائے گا۔ حکومت نے وہائٹ پیپر جاری کیا اور الزام سے بری ہو گئی اور وہ لوگ جو فخر سے کہتے ہیں کہ یہ میری فوج نے کیا۔ ان پر قانون کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی …  وہ آزادانہ گھومتے رہتے ہیں۔

احمد ربانی کو غصہ تھا …  کچھ لوگ مسلم پرسنل لا پر غصہ نکالتے ہیں۔ آخر کیوں ہندوستان میں صرف مسلم پرنسل لاہی تو نہیں ہے، جین پرسنل لائ، بدھسٹ پرسنل لا اور ہندو کو ڈبل بھی تو ہے۔

نازاں خیال نے اعتراض کیا۔ ’یار، یہ پورا میڈیا ہی ان کا کام کر رہا ہے۔ اس لیے ان بے کار باتوں پر بحث کرنے سے فائدہ نہیں۔ فی الحال چائے پیو اور سوچو۔ شعر  و شاعری سے آگے نکل کر ہماری پلاننگ اور کیا ہونی چاہئے — ‘

باقر مرزا نے چائے کی چسکی لی — ’ہمیں خود ایک پریس نوٹ ریلیز کرنا چاہئے۔ جس میں ہم صاف طور پر مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے فیصلہ لیں کہ ہمیں مسجد نہیں چاہئے —

’’لیکن تمہیں تو نمائندہ بنایا کس نے؟‘‘

’’کسی نے نہیں  —  ہم خود بنیں گے —  اب اندھیرے سے نکل کر ہمیں بھی تو سامنے آنے کی ضرورت ہے … ‘‘

’’کیوں نہیں، کیوں نہیں، حبیب تنویر نے مذاق اڑایا۔ مسلم رہنمائی بس چراغ لے کر آپ ہی کا انتظار کر رہی ہے …  ویسے کہاں چھپے ہوئے تھے اتنے دنوں تک آپ۔ ‘‘

’’یار مذاق مت کرو۔ ‘‘

’’یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ مسلم رہنمائی کے لیے، یہ مسلم لیڈر کم پڑ گئے ہیں جو آپ رہنمائی کا فرض سنبھالیں گے —  اور ہماری اوقات کیا ہے …  ایں …  وہ کیوں آپ کی بات مانیں گے … ‘‘

’’مت مانیں، جائیں بھاڑ میں۔ ‘‘

’’بھاڑ میں صرف وہ نہیں۔ ہم سب جانے والے ہیں  —  بات رہنمائی کی نہیں ہے …  بات ہے کہ اگر دوبارہ مسجد بننے کی بات اٹھتی ہے تو ہم بھی چین سے نہیں رہیں گے اور تلوار ہم پر ہی ٹوٹے گی —  اس لیے …  ‘‘

’’ہاں یار یہ ٹھیک ہے۔ اس لیے کہ صرف شعر و شاعری سے مسئلہ حل نہیں ہو گا اس سے زیادہ اب میدان میں اترنے کی ضرورت ہے۔ ہم صرف پانچ، چھ یا چند لوگ نہیں ہیں۔ ہمارے جیسے سوچنے والے اور بھی ہے جو فساد نہیں چاہتے۔ دنگا نہیں چاہتے —  جو چین اور سکون سے رہنا چاہتے ہیں۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ وہاں مندر بننا ہے تو ایک بار بن جائے —  کیوں ؟‘‘

چائے خالی ہو چکی ہے اور چائے کی خالی گلاسوں پر مکھیاں بھی بھنبھنانے لگی ہیں۔ وہ سر جوڑے خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ پھر کرسی سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

٭٭٭

زمانہ بدل گیا، اکبر پورہ میں پہلے ایک قطار سے رنگ ریزوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ ساڑیاں چھپ رہی ہیں۔ الگ الگ چوکیاں پڑی ہیں۔ لکڑی کے موٹھے ہیں اور انہیں رنگوں میں ڈبا دبا کر پلین ساڑیوں پر گل بوٹے کھلائے جا رہے ہیں۔ پہلے عام گھروں میں اس طرح کی ساڑیوں کے رواج خوب تھے تو رنگ ریز بھی تھے۔ لیکن جیسے وقت کے ساتھ بہت سے پیشے حالات کے نذر ہو گئے، رنگ ریزوں کو بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ اب تو مارکیٹ ہے، شوروم ہے، ایک سے ایک دکانیں ہیں۔ کپڑوں کی میلیں ہیں  —  مفت لال، بمبے ڈائنگ، بنی اور دنیا بھر کی کمپنیاں ہیں۔

اکبر پورہ، رنگریزوں کا یہ مارکیٹ اب پرانے وقتوں کی کہانی ہے۔ اب یہ علاقہ نے شوروم سے بھرا پڑا ہے۔ ہاں ابھی بھی دو ایک رنگریز کی دکانیں موجود ہیں اور یکا دکا گاہک بھی کبھی چلے آتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک دکان ہے شیخو میاں رنگریز کی۔ فیض سقراطی شیخو میاں رنگ ریز کا ہی لڑکا ہے —  عمر کے یہی خطرناک پڑاؤ ہوتے ہیں۔ جب بھٹکتے ہوئے نوکری کے لیے دوڑتے ہوئے قدموں پر آوارگی کا خیال آتا ہے —

شیخو میاں بھی چاہتے تھے، فیضو کا یہ اسطرح دوستوں میں اٹھنا گھومنا بند ہو۔ ارے جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا۔ نوکری مل جائے تو ٹھیک ہے۔ جب تک نہیں ملتی، اس خاندانی دھندے میں شامل ہو جائے۔ دوپیسے تو بنیں گے ہی۔ دوپیسوں سے گھر کا کتنا بڑا سہارا ہو جائے گا —  وہ کبھی کبھی اپنی قسمت کو کوستے ہیں  —  کون سا پاگل پن سوار ہوا تھا جو بچے کو پڑھانے لکھانے اور بڑا آدمی بنانے کا خیال آیا تھا —  میاں تو …  وہ جو کہتے ہیں …  اب سیر اور گانے بھی لکھنے لگے ہیں …  لیکن گانوں سے پیٹ تھوڑا ہی بھرتا ہے — ‘‘

’’ابا کہتے ہیں، ان کا خاندانی پیشہ اپنا لوں  — ‘‘

’’ہم مسلمانوں کو سرکاری نوکری بھول جانی چاہئے — ‘‘

حبیب تنویر ڈانٹتا ہے —  ’’سالے محنت نہیں کرتے۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھ پڑھ کر سمجھتے ہو سرکاری نوکری بھی مل جائے گی۔ میاں اس کے لیے کانونٹ اور انگریزی اسکولوں میں پڑھنا پڑتا ہے — ‘‘

نوکری؟

محبوبہ سے زیادہ ایک حسین خواب تھا ان کے لیے۔

یہ خواب تڑپاتا تھا، چھیلتا تھا اور پریشان کرتا تھا —  کبھی کبھی یہ مشاعروں اور اپنی اپنی شاعری پر جی بھر کر بھڑاس نکالا کرتے۔ ’’ان سے کوئی فائدہ نہیں …  جی چاہتا ہے انہیں ختم کر دوں …  یہ کچھ نہیں دے سکتے — ‘‘

پھر سرجھکا کر بیٹھ جاتے —

آپس میں پیسے جوڑتے اور چائے والے کو پیسے ادا کر کے اداس اداس سے گھر لوٹ پڑتے —

٭٭٭

(۵)

 

چودھری برکت حسین کے لیے منا کا یہ روپ بالکل نیا تھا۔ کہاں ساڑھے چھ بجتے بجتے بھوکا پیاسا آفس سے جلدی جلدی کام نمٹا کر آنے والا منا …  جس کے چہرے پر ہمیشہ ہی بارہ بجتے رہتے اور جو کبھی ٹھیک سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا تھا وہی منا اب بدلا بدلا سا تھا …  گھبرایا ہوا —  پوچھنے پر بھی گھبرا جاتا یا حونقوں کی طرح چہرہ دیکھنے لگتا —

کبھی کبھی منا کے کچھ دوست بھی کھوجنے آتے۔ جن کے چہرے کرخت ہوتے اور جن کو برکت حسین نے کبھی اس سے پہلے منا کے دوستوں میں نہیں دیکھا تھا —  جو بوڑھے میاں کو بڑے ادب سے نمستے تو کرتے، مگر پتہ نہیں برکت حسین کو منا کے یہ نئے دوست جچتے نہیں تھے —

یہ آتے تو منا اور بھی زیادہ گھبرایا ہوا لگتا تھا۔ برکت حسین کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ہوائیاں چھوٹنے لگی تھیں۔ پھر وہ اپنے کمرے میں جاتا اور کاغذ یا تھیلی کی شکل میں لپٹی ہوئی کوئی چیز نکال کر ان کے ہاتھوں میں تھما دیتا۔

یہ خیال بھی ان کے دل میں آیا تھا —  منا کسی غلط کاروبار میں تو نہیں لگ گیا؟

مگر برا کاروبار کیسا۔ سرکاری نوکر ہے۔ بجلی آفس میں کلرکی کرتا ہے —  جائیداد نہ سہی اپنا مکان تو ہے دو دو دکانوں سے کرائے آتے ہیں۔ بھلا غلط کاروبار کیوں کرنے جائے گا۔ کئی دنوں سے وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ اب اگر نشی روتی بھی رہتی تھی تو منا شمیم پر جھنجھلاتا نہیں تھا اور دنوں کی طرح نشی کے روتے ہی برس نہیں پڑتا تھا خود ہی آگے بڑھ کر گود میں اٹھا لیتا۔ کمرے میں ٹہلانے لگتا —

یہ سب … ؟

منا کو کوئی بیماری تو نہیں ہو گئی ہے؟

برکت حسین گھبرا گئے —  اس دن منا آیا تو وہ اپنی کمزوری چھپا نہیں سکے۔ بیٹا بیٹا کہتے ہوئے پیچھے چلے آئے۔ منا کا چہرہ پیلا پڑا ہوا تھا۔

’’تم بیمار ہو کیا؟‘‘

’’کتنی بار کہا ہے ابا۔ مجھے کچھ نہیں ہوا ہے۔ میں کوئی بیمار ویمار نہیں ہوں۔ ‘‘

’’نہیں ہو تو پھر مجھے کیوں لگ رہا ہے۔ ‘‘

’’میں کیا جانوں۔ مجھے تنگ مت کیجئے۔ ‘‘

’’دیکھ —  کوئی پریشانی ہے آفس میں کوئی بات ہوئی ہے …  ؟ نوکری پر کوئی خطرہ ہے … ؟‘‘

’’کوئی خطرہ وطرہ نہیں ہے ابا۔ بس مجھے تنہا چھوڑ دیجئے۔ ‘‘

انہوں نے منا کی بات مان لی۔ تنہا چھوڑ دیا —  مگر اپنے ذہن کو تنہا نہ کرسکے جو لگاتار منا کے چہرے میں کھویا ہوا تھا۔ دوپہر میں بہو نے کھانا لگا یا تو انہوں نے دریافت کیا —

’’منا ایسا کیوں ہو رہا ہے آج کل۔ ‘‘

شمیم نے ابا کی بات سنی تو ہونٹ لرز گئے۔ زور سے بولی۔ ’’میری تو قسمت پھوٹ گئی ابا۔ میں کیا جانوں، مگر …  بہت بدل گئے ہیں وہ … ‘‘

’’کیا بدل گئے ہیں ؟‘‘

شمیم نے آنچل سے آنسو صاف کیے۔ کسی پریشانی میں رات بھر سوتے نہیں۔ اٹھ اٹھ کر ساری ساری رات ٹہلتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’اچھا — ‘‘

وہ ایک دم سے چونک گئے۔ ‘‘تم نے پہلے کبھی بتایا نہیں۔ ‘‘

’’میں کیا بتاتی ابا۔ میں سمجھتی تھی آپ کو معلوم ہو گا — ‘‘

’’تم نے کچھ پوچھا نہیں۔ بات کیا ہے؟‘‘

’’پوچھا تھا۔ کئی بار پوچھا تھا۔ وہ ڈانٹ دیتے ہیں۔ ‘‘

جمیلہ نے سنا تو جھنجلا کر بولی —

’’آپ لوگ ناحق میرے بچے کے پیچھے پڑے ہیں۔ ارے زمانہ خراب، حالات اچھے نہیں۔ یہی سب سوچ کر پریشان رہتا ہے۔ ‘‘

’’لیکن پریشان تو ہم بھی رہتے ہیں۔ تم بھی ہو جمیلہ۔ لیکن منا کی پریشانی …  کچھ اور ہی دکھتی ہے — ‘‘

’’ہاں اماں آپ دیکھتی نہیں  —  پہلے کیسے تھے وہ۔ بات بات پر جھنجلا جاتے تھے وہ …  اب —  نشی کو اٹھا کر پیار بھی کرتے ہیں وہ …  کیسے سمجھاؤں میں … ‘‘

برکت حسین گہری سوچ میں ڈوب گئے —  ماجرا کیا ہوسکتا ہے؟ کوئی خطرناک بات نہیں ہے۔ نہیں تو …  پھر منا میں آئی اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے۔ اتنی تبدیلی بے بات اور اچانک تو نہیں آسکتی …  وہ ذرا سوچ میں ڈوب گئے۔ معاً انہیں ان کے دوستوں کا خیال آیا —  منا کے یہ نئے دوست۔ وہ شمیم کی طرف مڑے۔

’’منا کی دوستی آج کل کافی بڑھ گئی ہے … ‘‘

’’ہے تو …  لیکن ابا وہ دوست بنانے والے آدمی نہیں ہیں۔ ‘ شمیم کہتے کہتے رک گئی۔ رات میں لوٹتے ہیں تو ہاتھ میں کچھ کاغذات بھی ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’کیسے کاغذ — ؟‘‘

’’ پتہ نہیں۔ دفتر کے ہوتے ہوں گے۔ لیکن مجھے ایک بار غصے سے بولے تھے۔ میرے کاغذوں کی ہیر پھیر مت کرنا۔ چھونا بھی مت — ‘‘

’’کہاں رکھتا ہے؟‘‘

’’کمرے میں پلنگ کے نیچے اور کہاں … ‘‘

وہ جیسے دوبارہ سوچ میں ڈوب گئے۔ دفتر کی اتنے دنوں کی نوکری میں پہلے تو وہ کوئی پینڈنگ کام گھر نہیں لایا۔ اب — ؟ لوٹنے میں بھی دیری ہو جاتی ہے دفتر میں کتنا کام بڑھ گیا ہے۔ ٹھیک سے بولتا بھی نہیں  —

’’ دیکھو بہو — ‘‘ برکت حسین آہستہ سے بولے  …  ’’ مجھے لگتا ہے …  ان دنوں وہ بہت پریشان رہنے لگا ہے …  تم اس کی بیوی ہو۔ کوشش کرو کہ اس کی پریشانی کی وجہ معلوم ہوسکے۔ ہاں کوشش کرو — ‘‘

وہ اپنے کمرے میں آ گئے۔ کمرہ جیسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا —  یہ بڑھاپا بھی عجیب چیز ہے …  ذرا سا سوچو، فکر کرو تو تھکن وجود پر مسلط ہو جاتی ہے۔ سارا بدن تھکا تھکا سا لگتا ہے …  وہ تھک گئے ہیں …  ہاں بہت تھک گئے ہیں …  تازہ واقعات کی یورش نے اس قدر تھکا دیا ہے کہ مزید جینے کی خواہش سو گئی ہے۔ صرف ڈر لگا رہتا ہے …  ڈر جو موت کی چغلی کھاتا ہے …  ڈر …  جو خوف کی زبانیں نکال نکال کر دکھاتا ہے …  کہ دیکھو میاں …  حالیہ واقعات نے تقسیم ہند کے دنگوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے —  کوئی جگہ سلامت نہیں رہی …  ریلیاں دنگے اور مستقل ہونے والے فساد …  پتہ نہیں سرکار آئین اور قانون توڑنے والی پارٹیوں پر بندش کیوں نہیں لگاتی — ہر لمحہ دل کی دھڑکن تیز رہتی ہے …  باہر کے شورسن کر دل دھڑکتا ہے کہ کہیں کچھ ہو نہ گیا ہو —  دو بجے کے قریب لاٹھی ٹیکتے ہوئے بالمکند شرما آئے۔ جوش صاحب کی داڑھی دو دنوں کی بڑھی لگ رہی تھی …  جوش صاحب ماشاء اللہ قاعدہ قانون اور اصولوں کے اتنے پابند آدمی تھے کہ کبھی انہوں نے اس حال میں جوش صاحب کو نہیں دیکھا تھا۔ نفاست پسند۔ مجال کہ روزانہ روٹین میں ایک دن کی بھی تاخیر ہو جائے۔ ایک دن بھی شیو کرنا بھی جائیں۔

’’خدا نخواستہ دشمنوں کی طبیعت تو درست ہے۔ ‘‘

ایک تھکی بوجھل سانس لی جوش صاحب نے۔ ’’ہاں میاں برکت حسین! —  اب کیا بتاؤں …  بھول رہا ہوں …  بھولنے کی بیماری ہو رہی ہے …  اچانک پل بھر میں بیٹھے بیٹھے لگتا ہے سب کچھ، سب کچھ بھول گیا ہوں  —  آج دوستوں نے مشاعرہ کے لیے بلایا تھا۔ دیکھو نا، مشاعرہ جیسی چیز کو بھی بھول گیا۔ اچانک یاد آیا تو سوچا تم کو بھی ساتھ لے لوں  — ‘‘

’لیکن یہ بیماری؟‘

جوش صاحب نے ہنسنے کی کوشش کی۔ ’’اب کیا بتاؤں …  یہ کوئی بیماری نہیں ہے میاں۔ بس …  ایک دن بھول جاؤں گا کہ سانس بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور سانس نکل جائے گی … ‘‘

’’کیا کہتے ہیں جوش میاں۔ مریں آپ کے دشمن۔ چلیے۔ مشاعرہ میں چلتے ہیں … ‘‘

مشاعرہ کرامت اللہ صاحب کے یہاں تھا۔ جو کسی زمانے میں شہر کے چیئرمین بھی رہ چکے تھے۔ باہر کا دالان خانہ مشاعروں اور اس طرح کی محفلوں کے لیے وقف تھا جوش صاحب جب پہنچے اس وقت تک شہر کی معزز ہستیاں پہنچ چکی تھیں۔ پانچ پاپیوں کا قافلہ بھی موجود تھا۔ فیض سقراطی، حبیب تنویر، باقر مرزا، احمد ربانی اور نازاں خیال نے ادب سے انہیں سلام کیا —  جواب دیتے ہوئے وہ ایک جگہ بیٹھ گئے —  کارروائی شروع ہوئی۔ غزلیں پڑھی جانے لگیں۔ درمیان میں شعر و شاعری سے الگ باتوں کا رخ حالات کی طرف بھی مڑ جاتا —

حبیب تنویر نے اعتراض بھی کیا۔ ’’اماں کرامت صاحب اب چھوڑیے بھی حالات کا رونا۔ دن بھر تو ہم سب حالات کے پنجڑے میں رہتے ہی ہیں  —  تھوڑی دیر شعرو شاعری بھی ہو جائے۔ ‘‘

فیض سقراط مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’ارے گھنٹے دو گھنٹے تو ہمیں یہاں رہنا ہے۔ شوق صاحب اب کیا مسجد اور کیا مندر — ‘‘

نعمان شوق صاحب نے حامی بھری۔ ویسے بھی وہ ادب برائے ادب کے قائل تھے اور ان فضولیات سے ادب کو پاک رکھتے تھے۔

’میں بھی یہی کہتا ہوں۔ ‘ نعمان شوق بولے —  ’’یہ مسئلہ شعر و شاعری سے اور ہماری آپس کی بات چیت سے حل نہیں ہو گا۔ ‘‘

کسی نے کہا۔ ’’ زمانہ خراب ہے، مسلمانوں کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے۔ ‘‘

میزبان کرامت اللہ صاحب گمبھیر لہجہ میں بولے —  ’’ہاں بھائی سچ کہتے ہو، اب بس ڈر ڈر کر زندگی گزر رہی ہے۔ ‘ وہ بالمکند شرما جوش صاحب کی طرف مڑے۔ ’’ارے ہم تو یہی کہتے ہیں، مسجد کا کیا ہے۔ مسجد تو ویسے بھی اب رہی نہیں۔ مندر تو اب بن ہی جانی چاہئے۔ کیوں بھائی؟‘‘

’’بے شک‘‘ فیض سقراطی وغیرہم نے ان کی تائید کی۔ ’’ دیکھا سب یہی سوچ رہے ہیں جوش صاحب …  یہ میری، کرامت صاحب کی یا کسی ایک مسلمان کی بات نہیں ہے۔ سچائی یہی ہے کہ اب ہم میں سے کوئی بھی فساد نہیں چاہتا۔ سب تھک گئے ہیں اور یہ جان گئے ہیں کہ فساد میں مارا ہم کو ہی جانا ہے۔ فساد کرانے والے تو فساد بھڑکا کر گم ہو جاتے ہیں۔ اور معصوم ہندو اور مسلمانوں کی بن آتی ہے۔ ‘‘

’’فساد — ‘‘ حبیب تنویر نے اپنی آواز تیز کی۔ دیکھئے نا صاحبو۔ زمانہ کتنا بدل گیا۔ اب ذرا ممبئی کے فساد کو لیجئے۔ کیاسننے میں آیا۔ سننے میں آیا کہ سارا فساد بلڈرز کا کارنامہ تھا — جھگیاں بغیر فساد کے خالی ہونے سے رہیں  —  اور بلڈرز چاہتے تھے کہ جھگیاں ہٹا کر بلڈنگس کھڑی کی جائیں اور اس کے لیے چاہئے تھا ایک بڑا فساد۔ اب دیکھیے نا اس میں ہندو اور مسلمان کہاں ہیں۔ سیاست داں کہاں ہیں۔ یہ تو بلڈرز کا فساد ہے — ‘‘

حبیب تنویر نے بات آگے بڑھائی۔ فساد دنگے تو بس کھیل بن چکے ہیں کرامت صاحب۔ اب سٹہ کو ہی لیجئے۔ ملک میں چاروں طرف سٹہ کا بازار گرم ہے۔ خاص کر ممبئی فساد کے بارے میں خبر ملی کہ اس کے بارے میں جے پور میں زبردست سٹہ لگا ہو گا یا نہیں، لاکھوں، کروڑوں کا جوا شروع ہو گیا —  اور بلی کون چڑھا۔ عام انسان۔ ‘‘

نعمان شوق نے ٹھنڈی سانس بھری۔ ’’انسانیت مر رہی ہے۔ قتل ہو رہی ہے صاحب۔ کاروبار ہو رہا ہے انسانی جسموں کا —  سب سے ارزاں ہو گیا ہے انسان کا بدن —  چاہو تو سٹے میں لگا دو … چاہو تو بلڈرز کے مفاد کا نشانہ بنادو۔ انسان کو مرنا ہے …  وہ چاہے جیسے مرے۔ ان سے بھی بچ نکلا تو قدرتی آفات ہیں۔ سیلاب ہے …  طوفان ہے …  زلزلہ ہے …  اور … ‘‘

ایک بزرگ نے دھیرے سے کہا۔ ’’کچھ بھی کیجئے۔ باقی تو کبھی کبھی کی چیزیں ہیں۔ مگر فساد کا موسم اب اس ملک کا چوتھا موسم بن گیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ بارہوں ماس اکیلا چلنے والا موسم فساد کا موسم ہے — ‘‘

’’سچ کہا، بالکل سچ کہا — ‘‘

چودھری برکت حسین کو بزرگ کی بات سولہ آنے سچ لگی۔ وہ مسکرائے۔ پھر جوش صاحب نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ بھی مسکرائے۔

’’لیکن یہ بھی سچ ہے۔ ‘‘کرامت صاحب پھر گمبھیر ہوئے۔ ’’ لیکن مسلمانوں کی زندگی ہے خطرے میں، اب اسی شہر کو لیجئے۔ آزادی سے پہلے بھی کبھی اس جگہ فساد نہیں ہوا۔ اور اب —  ہر روز خدشہ لگا رہتا ہے …  کہ پتہ نہیں کب کیا ہو جائے کب دنگا بھڑک اٹھے۔ ‘‘

فیض سقراطی بولا۔ ’اس وقت ملک کے حاشیہ پر سب سے بڑا ہیرو مذہب ہے۔ ‘

حبیب تنویر نے لقمہ دیا۔ ’’ہیرو نہیں، ولن کہو۔ ‘‘

ایک بزرگ بگڑ گئے —  ’’چند لوگ اگر غلطیاں کرتے ہیں تو مذہب کو قصور وار کیوں مانتے ہیں آپ لوگ؟‘‘

حبیب تنویر نے کچھ بولنا چاہا فیض سقراطی نے ہاتھ پکڑ لیا۔ ہر کا عقیدہ اس کے ساتھ ہے، ہمیں کسی کے عقیدے سے نہیں کھیلنا چاہئے۔

بزرگ تھوڑے اور ناراض ہو گئے —  ’’سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ بچے مذہب کو کھیل کیوں سمجھتے ہیں  — ‘‘

حبیب تنویر کا لہجہ لڑکھڑا گیا — ’’کھیل نہیں سمجھتے ہیں بزرگوار —  لیکن یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا، وہ مذہب کے نام سے ہو رہا ہے۔ جن کے نام پر لڑنے اور کٹنے کا سلسلہ چل رہا ہے، وہ دھرم استھل ہیں  —  رام اور خدا آپس میں لڑنے یا دیکھنے نہیں آ رہے ہیں۔ آ رہے ہیں ہم اور آپ جیسے لوگ …  یہ مذہب کو آپ لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند کیوں نہیں رکھتے نمائش کے لیے باہر کیوں نکال لیتے ہیں۔ ‘‘

بزرگ ہکلا کر بولنے لگے تھے … ’’ نما … ئش …  کیا …  کہا … ‘‘

کرامت صاحب نے نوجوانوں کو شانت کیا۔  …  ’’بہت ہو گیا میاں۔ اب خاموش ہو جاؤ —  اس بحث سے فائدہ بھی کیا ہے … ؟‘‘

’’ہاں کیا فائدہ ہے؟‘‘

چودھری برکت حسین نے سرہلا کر حامی بھری۔

بزرگ، برکت حسین پر چڑھ دوڑے …  ’’میاں برکت حسین آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔ گھر جلے گا تو بے چارے مسلمانوں کا —  ہم لوگوں کا — ‘‘ برکت حسین چونک گئے۔

جوش صاحب حیرت سے بزرگوار کا چہرہ پڑھنے لگے۔

’’کیا فرما رہے ہیں مولانا؟‘‘

برکت حسین کی آواز لڑکھڑا گئی۔ ’’یہ آپ کس زبان میں بات کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’واہ جناب اب زبان بھی، اپنی زبان بھی بھول گئے۔ ‘‘بڑے میاں نے سر نچایا — جیسے آپ کچھ جانتے ہی نہیں۔ بھولے بن رہے ہیں۔ ارے آپ کو کیا فرق پڑے گا۔ آپ کا لڑکا بھی تو …  بھاجپا  کا آدمی ہے …

’’کیا —  ؟‘‘

برکت حسین ایسے اچھلے، جیسے دشمن نے اچھل کر، ان پر تلوار سے وار کیا ہو۔

تلوار کی تیز دھار بدن کے کسی نازک حصے کو چھوتی ہوئی نکل گئی ہو …  بڑے میاں نے جوش صاحب کو دیکھا۔ ان کے چہرے پر غصہ جم گیا تھا۔ بڑے میاں کو طیش آ گیا۔

’’اب ان ہی جوش صاحب کو دیکھئے، یہاں مشاعرے میں آتے ہیں، نعت پڑھتے ہیں اور وہاں ان کا لڑکا سبھائیں بلواتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بولتا پھرتا ہے —  ہے ہے …  کیا نازک زمانہ ہے۔ تلوار بھی چلاؤ۔ اور مرہم پٹی بھی کرو۔ ارے میں کہتا ہوں سب بیکار —  شعر و شاعری میل ملاپ کی باتیں، سب آخ تھو … ‘‘

دیگر لوگوں کے سمجھاتے بڑے میاں ہکلاتے ہکلاتے اٹھے اور غصے سے اپھنتے ہوئے دروازہ سے باہر نکل گئے۔

جوش صاحب کو جیسے کاٹھ مار گیا۔ پتھر کی موت بن گئے۔ سر نیچا ہو گیا —  یہ کیا تھا —  اب اس طرح سربازار انہیں تماشہ بننا پڑے گا۔ برکت حسین کو بھی کچھ یہی لگ رہا تھا۔ آنکھوں کے آگے منا کا سہما سہما چہرہ گھوم رہا تھا …  تیز تلوار انہیں زخمی کرتے ہوئے نکل گئی تھی …  اور یہاں سانس کے چلنے کے باوجود —  کرامت اللہ کے دالان خانے میں ایک بے حس جسم تھا جو تلوار سے کٹنے پر ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا —

٭٭٭

(۶)

بالمکند شرما خاندان، تہذیب اور اخلاق کی اس کھونٹ سے بندھے تھے۔ جہاں سب سے بڑی چیز ہوتی ہے عزت —  عزت جس کے لیے جان لی بھی جاتی ہے اور گنوائی بھی —  کل تو سارا کھیل عزت کا تھا۔ بیاہ، شادی، زندگی کی ڈور سے بندھی ہر رسم، ہر رواج پر عزت کا قبضہ تھا۔ زندگی میں اور ہوتا کیا ہے، پاتا کیا ہے ایک مجبور انسان۔ بس عزت ہی نا؟ اور بچے اس عزت کا جنازہ نکال دیں تو …

ایسے ناشکرے بچوں کو یہ دل کیسے قبول کر لے — ؟

بڑھاپے کا ’گھر‘ تو اور بھی بے جان ہوتا ہے۔ دھڑکا، تپاک اور اس طرح کی بیماریاں  —  مشاعرے میں جوا بھی ہوا وہ ایک خراب کی بدترین تعبیر سے بھی زیادہ بھیانک تھا …  انہیں لگا، ان کی عزت کی پالکی رکھا گئی، سربازار —  برکت حسین کو چھوڑ کر گھر چلے تو دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ دروازے میں داخل ہوئے تو مالو لپک کر آئی۔ مالو کو ان دیکھا کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ مالو دوبارہ لپکی تو جھٹک دیا۔ غصے میں سیڑھیاں چڑھ گئے۔ دروازہ بند کر لیا —  سانس پھول رہی تھی۔ جی چاہ رہا تھا …  گھر کی ہر چیز توڑ ڈالیں …  ہرچیز …  مگر اوپر چڑھتے چڑھتے سانس اتنی پھول گئی …  کہ کچھ بھی …  سمجھ میں نہیں آیا …  سب بھول گئے۔ آنکھوں کے آگے سرمئی اندھیرا اتر آیا …  زور زور سے چیخے …  گلدان اٹھا کر زمین پر دے مارا …  نریندر دوڑا دوڑا آیا۔ ویسے مالو سے ددو کی طبیعت خراب ہونے کی خبر مل گئی تھی …

دروازہ بند تھا —

اندر جیسے توڑ پھوڑ مچ رہی تھی …

پتاجی دروازہ کھولیے —

نریندر وحشت سے چیخا —

پھر جیسے کانچ ٹوٹا ہو —  کوئی چیز زمین پر دھپ سے گری …  اور ٹوٹ کر چور چور ہو گئی …

دروازہ کھولیے …

پتاجی …

اب مالو رونے لگی تھی۔ اوما بھی دوڑی دوڑی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔

نریندر گھبرایا ہوا تھا …  ’دیکھو نا؟ پتاجی نے خود کو اندر سے بند کر لیا ہے۔ وہ سخت غصہ میں لگ رہے ہیں۔ اندر کی چیزیں بھی توڑ رہے ہیں … ‘

’’پتاجی پاگل تو نہیں ہو گئے … ‘‘

اوما شک کا اظہار کرتے ہوئے پھر ڈر محسوس کر رہی تھی …

’’پاگل؟‘‘

نریندر کے چہرے پر وحشت برس رہی تھی …

’’پتاجی!‘‘

اور ایک تیز جھٹکے سے دروازہ کھل گیا۔ سامنے وحشت سے نکلی ہوئی دو پتلیاں تھیں  —  دو انتہائی غصہ میں ڈوبی آنکھیں۔ کمرہ حشر کا میدان نظر آ رہا تھا۔ ریک کی ساری کتابیں زمین پر تھیں۔ شیشے کے گلاس، گلدان شہید پڑے تھے۔

’’پتاجی … ‘‘

’’کون ہو تم۔ کیوں آئے ہو؟‘‘

بوڑھا اپنی پوری طاقت لگا کر گرجا۔

’’میں، نریند رہوں۔ ‘‘

’’جھوٹ بولتے ہو۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم ایک بھاجپائی ہو۔ ‘‘

’’پتاجی … ‘‘

نریندر کو اپنی آواز بے حد کمزور لگی …  ’’دیکھئے، آپ کو بلڈ پریشر بھی ہے پتاجی …  اور آپ کی طبیعت — ‘‘

اس نے آگے بڑھ کر ہاتھ تھامنا چاہا —  بالمکند نے ہاتھ بے رخی سے جھٹک دیا —  مالو آگے بڑھ کر ددو سے لپٹ گئی …

’’ددو۔ ‘‘

’’دور ہٹ — ‘‘

بالمکند نے زور سے ڈانٹا۔ ’’کیوں آئے ہو مجھے پریشان کرنے …  مجھے میرے حال پر چھوڑ دو …  چلے جاؤ … ‘‘

’’نہیں۔ ہم آپ کو یوں نہیں چھوڑیں گے۔ آپ نیچے چلئے پتا جی … ‘‘

وہ دھم سے بستر پر بیٹھ گئے۔ آنکھیں تن گئی تھیں۔ جسم لرز رہا تھا …  انہوں نے کانپتا ہوا ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرا …  چہرہ جیسے پسینے میں نہا گیا تھا۔ وہ جیسے ہاتھ جوڑے نریندر کے سامنے لرز رہے تھے۔

’’ابھی مجھے تنہا چھوڑ دو۔ تنہا چھوڑ دو مجھے — ‘‘

٭٭٭

جیسے ایک گرم صبح ہوتی ہے۔ جیسے آگ برساتا ہوا سورج کا گولہ ہوتا ہے …  زمین تپتی ہے …  جھلستی ہے …  اور جیسے اس جھلستی تپتی گرم زمین پر بارش کی ایک بوند ٹپک جاتی ہے …  جیسے ہلکی سی بارش ہوتی ہے …  اور ماحول میں حبس پھیل جاتی ہے …

جیسے بوڑھے آدمی کا دماغ ہوتا ہے …  تپتا ہے، ایندھن کی طرح جھلستا ہے، ریت کی طرح، پھٹتا ہے لاوے کی طرح …  اور پھر  …  گرم تپتی ریت پر جیسے بارش کی ایک بوند —

میز ہے، کرسی ہے اور بالمکند شرما ہیں۔ ہاتھوں میں قلم ہے …  صبح کا وقت ہے۔ دھوپ کی شعاعیں، کھڑکیوں سے چھنتی ہوئی کمرے میں در آئی ہیں …  اب بھی ذہن پر اتنی ہی ہلچل یا تپش ہے، جیسی گرم ریت ہو …

کاغذ ہے …  اور قلم ہے …  اور چلتا ہوا ہاتھ …

میرے سامنے صرف ایک اتیت ہے۔

ایک اتیت، جہاں جا سکتا ہوں میں، جہاں جانا مشکل نہیں کہ راستے میں آنسوؤں کی ایک ندی پڑتی ہے …  یادوں کا ایک گہرا دریا ہے …  جسے عبور کرنا آسان نہیں  —

میرے سامنے صرف ایک اتیت ہے …

لیکن یہ اتیت مجھے میری جان سے پیارا ہے …  مجھے مری سب سے عزیز ترین شے سے بھی زیادہ عزیز ہے …  یہ اتیت برا بھی ہے …  اس اتیت میں میرے کھٹے میٹھے قصے تو ہیں …  میری شرارتیں تو ہیں …  مگر اس کے علاوہ ایک بدنما غلامی بھی ہے …

میرے سامنے صرف ایک اتیت ہے …

اور جیسا دوسرے بھی جان گئے ہوں گے کہ اس اتیت میں غلامانہ دور کے زخم چھپے ہیں …  میرا لہو لہان بدن چھپا ہے …  کچھ کڑوی یادیں چھپی ہیں …  اور کچھ نفرت کے زہر بھی گھلے ہیں …  مگرجس اتیت میں فرق کے پیوند تھے اور نفرت کے دھبے، وہ اتیت تو میں اسی وقت وقت کے اگالدان میں پھینک آیا —  مجھے اس اتیت سے بھلا کیا لینا تھا …

مجھے تو ایک سندر، سلونا اتیت چاہئے تھا …  وہ اتیت جسے میں جب چا ہوں، جادوگر کے ڈبے کی طرح اپنی مٹھیوں میں اگا لوں …  میں جب چاہوں، تنہائی کے سروں میں پالوں، جب چاہوں آنکھیں بسالوں، کلیجے سے لگا لوں۔ ‘

میرے سامنے صرف ایک اتیت ہے …  اتیت جسے آنسوؤں سے لکھنا ہے اور … جیسے گرم تپتی ریت پر بارش کی ایک بوند …  وہ ابھی تک نہیں پہنچے …  بالمکند شرما گٹھری دیکھتے ہیں …  وہ پانچ پاپی ابھی تک نہیں پہنچے۔ آتے ہی ہوں گے …  یہ زخم تو اب ٹیس دینے لگا ہے …

قلم کو کاغذ پر جمائے وہ گہری سوچ میں ہیں۔ قلم ٹھہرا ہوا ہے …

’’میرے سامنے  … ‘‘

اور سامنے کھڑے ہیں وہی پانچ پاپی —

’’آپ نے یاد کیا ہے جوش صاحب؟‘‘

 فیض سقراطی، نازاں خیال، حبیب تنویر، باقر مرزا، احمد ربانی …

وہ سب کے چہرے کو باری بار سے تکتے ہیں …  مسکرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

’’ہاں، بیٹھ جاؤ، میں نے ہی بلایا تھا۔ میاں غلطی تو نہیں کی؟ نہیں …  اپنے بچوں جیسے ہو تم؟ بلایا تھا …  بیٹھ جاؤ … ‘‘

آواز کبھی شکستہ ہوتی ہے، کبھی ٹوٹتی ہے …  کبھی لرز جاتی ہے …

’’تمہارے آنے سے قبل میں کچھ لکھ رہا تھا۔ دیکھو …  میرے سامنے صرف میرا اتیت ہے …  اور  …  ایسا کیوں ہے …  تم میں سے کوئی بتا سکتا ہے …  نہیں …  مجھے اس طرح دیکھ کر پریشان ہو گئے ہو بچو! ایسے پہلے کبھی نہیں دیکھا نا …  لیکن بچوں …  سنو …  غور سے سنو۔ جو میں کہہ رہا ہوں …  میں اتیت میں چلا گیا ہوں …  اتیت میں کون جاتا ہے …  جس کا انت آ گیا ہوتا ہے بچو …  سب سے زیادہ اتیت سے پیار اسی کو ہوتا ہے …  میں تھک گیا ہوں۔ اتنا تھک گیا ہوں کہ اب ایک لمبی نیند سونا چاہتا ہوں …  آں، پریشان مت ہو —  سنو۔ جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ آج تم نہیں بولو گے …  صرف میں بولوں گا …  وعدہ؟ ٹھیک ہے …  تو سنو …  میں بھلکڑ ہو گیا ہوں …  یہ صحیح بھی ہے …  جو سامنے ہے، اس میں یاد رکھنے کو ہے ہی کیا میاں۔ کہتے ہیں کہ موت نزدیک ہوتی ہے تو اسے اس کے گزرے ہوئے عزیز، رشتہ دار آواز لگاتے ہیں …  وہ اپنے اتیت میں لوٹتا ہے اور ان کی صدائیں سنتا ہے …  اور وہاں جہاں جنت و دوزخ جیسی کوئی اگر شے ہے، تو وہاں اس کے عزیز اس کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔

بچو …  ممکن ہے۔ میں بہک رہا ہوں …  تو آج …  ابھی اس لمحے، جب تم میرے پاس ہو، میرے بہکنے کو بھی معاف کرنا …  اور اب سنو …  میں جو کہنے جا رہا ہوں …  غور سے سنو …  میں جا رہا ہوں یا جانے والا ہوں، تمہارے درمیان سے ہمیشہ کے لیے —

لیکن اس میں حیرانی کی کیا بات ہے بچو۔ جو آتا ہے وہ جاتا ہی ہے اور میں نے کافی وقت تمہاری اس بے رحم دنیا میں گزار لیا ہے …  اس کے باوجود مجھے لگتا ہے تمہارے ساتھ …  ایک حادثہ …  ایک بڑا حادثہ ہونے والا ہے …  اور سنو …  پتہ نہیں کیوں …  آخر وقت میں کوئی آدمی …  جو مجھ میں برسوں سے رہا ہے … مجھ سے چیخ کر کہتا ہے …  کہ میاں، یہ تمہارا جانا ہی سب سے بڑا حادثہ ہے —

سنو، میں جا رہا ہوں …  میں پھر نہیں آؤں گا …  میں تمہارے درمیان پھر کبھی واپس نہیں آؤں گا …  میں تمہارے درمیان کی ایک کڑی تھا۔ میں مشق  سخن کرتا تھا —  میں تمہارے درمیان ہنستا بولتا تھا۔ اب دوسرے آئیں گے، لیکن  —  میں نہیں آؤں گا اور جان لو …  میری طرح کا کوئی آدمی تمہارے درمیان، اس طرح ہنستا بولتا نہیں آئے گا —

میرے بچو …

میرے سامنے صرف ایک اتیت ہے …

اور جیسے کوئی غیبی صدا کچھ کہلواتی ہے …  شاید ویسے ہی مجھے بھی الہام ہوا، یہ —  یہ صدا دی گئی کہ میں تم پانچوں کو بلاؤں …  یہاں …  اور کہوں …  سنو …  میں اتیت میں جا رہا ہوں …

میں اب تمہارے درمیان کبھی واپس نہیں آؤں گا …

کبھی واپس نہیں آؤں گا …

اور اتیت کی باقی کہانی لکھنے کا فرض تمہیں ادا کرنا ہو گا …

تم لکھو گے نا؟ بولو …  جواب دو …

پھر وہ بستر پر لیٹ گئے، اور ایسے لیٹ گئے، جیسے نیند آ گئی ہو —

’’جوش صاحب!‘‘

ان پانچوں نے گھبرا کر آواز لگائی —

وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے —  ’’گھبراؤ مت —  ابھی مروں گا نہیں …  ابھی ایک ضروری بیان دینا ہے مجھے … ‘

ان کے چہرے پر بچوں کی طرح کھلککھلاہٹ تھی۔ پانچوں ان کی حرکتوں کو دم بخود دیکھ رہے تھے۔ اس طرح کہ جیسے کسی پاگل کو دیکھ رہے ہوں  —

٭٭٭

 

اتیت

ایک پاگل اتیت ہے

ایک ہم ہیں

اور ایک ہے پانی سے بھری ٹھنڈی صراحی

ایک کھلا کھلا باغیچہ ہے

ہریالی ہے

اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہیں

کچھ بچے ہیں، میرے بچوں جیسے، میرے بچوں کے چہروں جیسے

ہاتھوں میں جامن ہے، کُن منی بیر ہیں

اور شرارتیں ہیں

شرارتیں جن کے دائرے نہیں ہوتے

اور جن کی تہذیب نہیں ہوتی

ایک ہم ہیں

اور ایک پاگل اتیت ہے

 

               بالمکند شرما جوش ۔۔ اتیت سے کچھ یادیں

(۱)

بالمکند شرما جوش کے پتا یعنی رام ولاس شرما تک آتے آتے جاگیردارانہ اور زمیندارانہ نظام کو کسی حد تک تو خاتمہ ہو ہی چکا تھا۔ لیکن یہ رگوں میں دوڑنے والا خون تھا کہ اعلی نوابیت کے آثار پوری طرح موجود تھے۔ کسی پر نثار ہو جانا تو خود کو لٹادینا، اعلی ظرفی کی ایک سے ایک مثالیں اس گھر کے نام سے دی جاتی تھیں۔ کبھی طوطی بولتا تھا، اور کہتے ہیں اردو فارسی تو اس گھر کی لونڈی تھی۔ بولنے پر آتے تو جیسے شہد کی ندیاں بہہ رہی ہوں۔ زبان میں اتنی مٹھاس، رہن سہن میں اتنی نفاست سلیقہ مندی اس قدر کہ شاہی گھرانوں کے قصے بھی ایک طرف —  یہ الگ بات ہے کہ بالمکند شرما جوش تک آ تے آتے یہ شان، آن بان لوگوں کے پستہ مذاق کو زد میں آ گئی۔

بالمکند شرما جوش کے دادا تھے پرتاپ بہادر شرما۔ ان کے نام سے ایک دلچسپ واقعہ کچھ یوں منسوب ہے کہ ایک بار پرتاپ بہادر ایک نواب صاحب کے یہاں مہمان ہوئے۔ ہفتوں وہیں رہے۔ دعوت اڑائی، شطرنج کی بازیاں جمتی رہیں۔ پھر ایک دن موڈ میں آئے بولے، اچھا نواب صاحب اب اجازت دیجئے۔ تانگہ منگوائیے۔ نواب صاحب نے تانگہ منگوایا۔ پرتاپ بہادر نے کوچوان کو دیکھا۔ منہ سکوڑا۔ انہیں گھوڑا تو پسند آیا مگر کوچوان نہیں۔ بولے۔ ’’رہنے دیجئے نواب صاحب، پھر کسی دوسرے دن … ‘‘

دوسرے دن اگر کوچوان پسند آیا تو گھوڑا دبلا پتلا نکل گیا —  جانے کی باری پھر ٹل گئی۔

پھر ہفتوں گزر گئے۔ کبھی گھوڑا پسند آتا تو کبھی کوچوان۔ کبھی دونوں پسند آتا تو کوچوان کا نام جی کو بھاتا نہیں۔ نواب صاحب بھی پریشان ہو گئے۔ پھر آخر ایک دن نواب صاحب نے ایک خاص تانگے والے کو بلایا —  کوچوان کا نام گلاب تھا۔ گھوڑا عمدہ نسل کا تھا۔ گلاب خود بھی خوبصورت نوجوان تھا —  بس پرتاپ بہادر بیٹھ گئے —  کہ اب اجازت دیجئے نواب صاحب …  آہا …  ہہ … ہہ …  گھوڑا اتنا خوبصورت۔ کوچوان اتنا اچھا …  اور کوچوان کا نام اتنا پیارا۔ بس اب اجازت دیجئے —  بار بار پیار سے، ہاتھوں سے کوچوان کا گال سہلاتے  …  واہ بھائی واہ مزہ آ گیا۔ بس چلو میاں  —  یکے میں بیٹھ گئے۔ یکہ چل پڑا۔ نواب صاحب کی جان میں جان آئی۔ مگر اصل واقعہ یوں ہے کہ بیچارہ برا پھنسا تو کوچوان —  جو ہفتہ بھر پرتاپ بابو کو لے کر ادھر ادھر گھومتا رہا اور عاجزی سے پوچھتا رہا۔ سرکار گھر کا پتہ تو بتائیے۔ چلنا کہاں ہے؟ اور پرتاب بابو مسکراتے ہوئے یہی کہتے رہے …  میاں تمہارا نام اتنا اچھا، تم اتنے اچھے، تمہارا گھوڑا اتنا چھا …  اب جاؤں تو کہاں جاؤں۔ اور واقعہ ہے کہ بیچارہ کوچوان ہفتہ گزار کر ہانپتا کانپتا نواب صاحب کے یہاں یکہ لے کر حاضر ہوا۔ ہاتھ جوڑا کہ حضور، بس آپ ہی کچھ کیجئے۔ یہ تو چھوڑتے ہی نہیں  —

ایک دوسرا واقعہ یوں منسوب ہے کہ لحاظا ًمروتاً نواب صاحب اور پرتاپ بابو میں ایک بارسلام کرنے کی ہوڑ لگ گئی — ایک سلام کر کے رکتا تو دوسرا سلام کے لیے ہاتھ اٹھا دیتا —  دوسرے کا ہاتھ جھکتا تو پہلا لحاظا کہ شرمندگی نہ ہو، آداب میں ہاتھ اٹھا لیتا —  گھنٹوں گزر گئے —  دیکھنے والوں کی بھیڑ لگ گئی۔ بڑی مشکل سے انہیں دیوانِ خاص میں بلوایا گیا۔ تب جا کر ان کا سلام کرنا بند ہوا اور دونوں شطرنج نکال کر بیٹھ گئے۔

رام ولاس شرما جی کے بارے میں مشہور تھا کہ فارسی کے استاد تھے۔ شہر میں کوئی سا بھی اجلاس ہو، مشاعرہ ہو، محفل ہو، خصوصی طور پر بلوائے جاتے —  صدارت کی کرسی انہیں ہی سونپی جاتی —  جب تک زندہ رہے شہر کی شان بنے رہے۔ مرے تو لوگ کہتے تھے کہ ایسے لوگ پیدا کہاں ہوتے ہیں  —  لیکن بالمکند شرما جوش تک آتے آتے تہذیب اور پرانی قدروں کی تعریف کچھ حد تک بدل چکی تھی —  پھر آزادی کے بعد ہر صبح یہ تعریف بدلتی رہی —  انہیں تو اپنے گھر میں ہونے والے وہ مشاعرے یاد تھے جہاں ہندستان بھرسے اعلی پائے کے شاعر بلائے جاتے اور کئی کئی روز تک گھر میں جشن کاسماں رہتا تھا —  لیکن بدلتے وقت نے پرانی قدروں کو کسی حد تک زخمی ضرور کیا تھا۔ جیسے وہ دیکھ رہے تھے کہ وقت کی گردش کا انداز بدلا تھا۔ سورج کا نکلنا، ڈوبنا، صبح شام رات کا ہونا، موسم کا بدلنا، سب میں ایک نمایاں فرق آیا تھا۔

وقت گزاری کے لیے وہ وکالت کرتے تھے لیکن ان کی وکالت کبھی چلتی ہوئی نہیں دیکھی گئی۔ بھلا ایسے شاہی مزاج آدمی کو، جس نے خود کو اصول، قاعدے قانون اور تہذیب کی دقیانوسی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہو، بھلا مؤکل ملتا بھی تو کیسے —  کبھی کبھی کوئی سر پھرا، انہیں کے جیسا مؤکل پھنس جاتا تو پھنس جاتا —  ورنہ اللہ اللہ خیر صلی —  ابھی بھی کافی جائیداد تھی۔ کورٹ بس وقت گزارنے کے لیے استعمال کرتے۔ جی نہیں چاہتا تھا تو وہ بھی نہیں  —  کورٹ بھی بس گپ شپ کے لیے استعمال کرتے۔ شاعری ہو رہی ہے اور پرانے ملنے والوں سے ملا جا رہا ہے۔ پرانے وقتوں کی یاد تازہ کی جا رہی ہے۔

انیل ان کی پہلی سنتان تھی۔ انیل تھوڑا بڑا ہوا تو خیال آیا۔ کسی اچھے مولوی صاحب کو بلا کر آموختہ شروع کرایا جائے کہ آخر وہ بھی تو آموختہ کے بعد ہی اصل پڑھائی کی طرف لوٹے تھے۔ لیکن بدلتی ہوئی ہوا کا پہلا احساس اس دن ہوا جب پتنی اور سسرالی لوگ مخالفت پر اتر آئے۔

’’یہ کیا، بچے کو اردو پڑھواؤ گے؟’‘’’کیوں ؟‘‘

مخالفت کی آنکھیں تو اس کیوں کا جواب ان کی آنکھوں میں گھور رہی تھیں …

’’کیوں برائی کیا ہے؟‘‘

’’یہ مسلمانوں کی زبان ہمارے بچے کو نہیں پڑھائی جائے گی۔ ‘‘

’’کیا کہہ رہی ہو ؟‘‘

وہ ایکدم سے چونک گئے …  آواز اندر ہی اٹک کر دم توڑ گئی …  پتاجی نے انہیں پڑھایا تو کیا ان کا دھرم پریورتن ہو گیا …  یہ سوچ …  یہ نئی ہوا …  وہ بس چہرہ دیکھ رہے تھے …  زبان جیسے پتھرا گئی …

پتنی انیل کا ہاتھ پکڑے کھڑی تھی …

وہ بہت کمزور لہجے میں بولے —  زبان پر کسی کا حق تھوڑا ہے۔

’’ہے کیسے نہیں ؟‘‘ پتنی کا چہرہ سنجیدہ تھا —  اردو میں پڑھا کر مولوی بنانا ہے کیا —  بچے کو بھوکے مارنا ہے۔ وقت بدل گیا ہے اب کوئی اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتا —  ہم بھی نہیں پڑھائیں گے۔

بس سیدھا سا دا فیصلہ —  حکم صادر ہو گیا۔ لیکن وہ خود جیسے اجنبی خیالوں والی پگڈنڈی پرسوار ہو گئے …  وہ نرمی …  وہ شائستگی، وہ حسن، وہ نزاکت، ارے جو چاشنی اردو میں ہے …  وہ  …  لیکن کس سے کہتے …  پتنی تو کب کی جاچکی تھی۔ انہیں لگا، اب دوسروں کو نہیں خود کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ میاں بالمکند شرما جوش، اب ہوش میں آ جاؤ …  ورنہ جان لو اردو کومسلمانوں سے جوڑنے والے کسی دن تم کو بھی مولوی بنا کر خاندان سے علیحدہ کرسکتے ہیں …  تم پر الزاموں کی بارش کرسکتے ہیں …

ہاں تم پر …

اور تم چاہ کر بھی اپنی کوئی صفائی نہیں دے پاؤ گے۔

ان کی زبان بند نہیں کر پاؤ گے۔

وقت گزرتا جا رہا تھا اور گزرتے وقت کے ساتھ ان کے نام کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے —  ایک نام بالمکند شرما گھر کے لیے رہ گیا تھا۔ دوسرا جوش والا حصہ ان کے لیے محفوظ تھا، جینے کے نام پر کچھ تسلی بچا کر رکھنے کے لیے  —  یہ جوش بھی چھن جاتا تو بھلا جینے کے لیے رہ ہی کیا جاتا۔

وقت کی سرپھری ہواؤں میں کتنی ہی باران پر اعتراض بھی ہوئے —  پھر نریندر آ گیا۔ بچے کیا کرتے ہیں۔ کیسے پڑھتے ہیں۔ انہیں اس سے زیادہ مطلب نہیں تھا۔ بچوں سے دل ٹوٹ گیا تھا —  مشاعروں میں جانا، گھر پر مجمع لگانا، لونڈے لپاڑوں کی شاعری سننا، پتنی اور رشتے داروں کو کھلنے لگا تھا —

ایک دن پتنی نے توکا —  ’’بڑھاپے میں لوگ مندر جاتے ہیں۔ ماتھا ٹیکتے ہیں …  اور یہ آپ دن بھر کہاں غائب رہتے ہیں ؟‘‘

’’شعر کہتا ہوں اور جیتا ہوں۔ ‘‘

’’سیدھے سادے ہیں آپ۔ یہی تو چاہتے ہیں وہ لوگ —  کسی دن آپ کو مسلمان بنا کر چھوڑیں گے — ‘‘

٭٭٭

 پتنی کا، ممکن ہے یہ ایک چھوٹا سا مذاق ہو، مگر —  اس بار دل دھک سے نہیں کیا —  اب دھیرے دھیرے سہنے کی عادت پڑنے لگی تھی —  ہاں کچھ خواب ٹوٹے تھے —  ان خوابوں کی دھمک دل میں اب بھی سنائی دیتی تھی —  بچے چھوٹے تھے تو خواہش ہوتی تھی، انہیں سینے سے لپٹا کر میرو غالب کی غزلیں سناتے …  جیسے ابا ان کے ساتھ کرتے تھے …  کبھی تحت اللفظ …  کبھی لہک کر …  مسکرا کر …  معنی پوچھ رہے ہیں …  نہیں بتانے پر خود ہی معنی بتا رہے ہیں …  لیکن کبھی بھول سے غلطی ہو بھی جاتی تو پتنی راستے میں آ جاتیں  —

’’بچوں کو کیوں بگاڑ رہے ہیں آپ؟ سنانا ہے تو شلوک سنائیے۔ گیتا سنائیے، ہنومان چالیسا سنائیے … ‘‘

یہ عورت …  اسی لیے یہ عورت جو ان کی پتنی تھی، کبھی اس عورت سے وہ دل کا ٹانکا نہیں جوڑ سکے۔ سات پھیرے لیے تھے …  بس یہ پھیرے تھے کہ وہ ساتھ نبھائے جا رہے تھے …  مگر اندر سے …  زندگی کے اس ناٹک میں وہ ہر طرح کی اداکاری کرنے پر مجبور تھے —

٭٭٭

سہنے کی طاقت اتنی تھی کہ بڑی سے بڑی بات ہو جانے پر خود پر جلد قابو رکھ لیتے۔ بات بدلنے کے فن میں ماہر تھے —  ہنس کر پتنی کو بہلانے کی بھی کوشش ہوتی۔ مسکرا کر کہتے …  بیگم …  تم تو ناحق اردو فارسی سے نالاں رہتی ہو …  اب ایک دلچسپ لطیفہ سنو …  دیکھو تو سہی ایک شخص نے کیسے فارسی کی ٹانگ توڑی ہے …  ارے ہوا یوں بیگم کہ ایک شخص کو ترجمہ کے لیے کہا گیا …  جملہ یہ تھا کہ  ’’ہڈے نے اتنا کاٹا کہ پھول گیا، اب ذرا ترجمہ سنو بیگم اور حاضر جوابی کی داد دو …  استخوان نرچوں تراشیدہ کہ گل رفت …  ہے نا مزیدار …  مگر تم کیا سمجھو فارسی …  تم کیا جانو لفظوں کا حسن — ‘‘

خود ہی لطیفہ سناتے اور ہنس ہنس کر نہال ہو جاتے۔

پتنی جل بھن کر کہتی —  ایک دن تمہاری ساری اردو کتابیں نہ بکوا دیں تو میرا بھی نام بدل دینا۔

فوراً ہی اپنے پرانے رنگ میں لوٹ آتے۔ چہرہ بدل جاتا۔ آواز کانپ جاتی … ’’ایسا بھول کر بھی۔ بھول کر بھی مت کرنا۔ ‘‘

پریشان، نڈھال سی آواز بھری …  یہ میری زندگی ہیں …  زندگی بھر کا سرمایہ —  بھول کر بھی …  ‘‘

آواز تھرا جاتی۔ ٹوٹ جاتی —  ہاتھ پیروں کے ریشے کانپ جاتے۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے کمرے میں آ جاتے۔

 

               پانچ پاپیوں  کی ایک جھلک یہ بھی

زندگی جیسی بھی ہو، وہ اسے خوبصورت کہتے تھے وہ اسے لے کر گھنٹوں سوچتے تھے۔ وہ اسے لے کر طرح طرح کے پلان بناتے تھے —  جو ظاہر ہے ہوائی محل سے زیادہ نہیں ہوتے تھے —  اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک، ایک دوسرے کی زندگی سے بھلی خوبی واقف تھا —  زندگی ہی نہیں۔ گھر گھرانے سے بھی۔ یہ بھی کہ کس کے گھر میں کیا پکا —  اور زندگی کیسے ایک جگہ، ٹھہر کر، گرمی کی السائی دوپہر یا کی طرح خود سے بے ربط مکالمے کرتی ہے —  مکالمے …  کبھی ان مکالموں میں وہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ ذہین اور پہنچے ہوئے دانشور بن جاتے —  اور کبھی سڑک چھاپ —  ان کے مکالموں میں فلموں کی ایکسٹراگرل سے لے کر اڑوس پڑوس کی حسیناؤں تک کے نام تک درج تھے —  ان میں سے سب کی اپنی الگ الگ محبوبائیں تھیں  —  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے کسی کی محبوبہ کو دیکھا تک نہیں تھا —  صرف چرچے تھے۔ گپیں ہوتی تھیں۔ اور گپیں بھی کیسی، ذہن میں بنتے، رچتے انہی حسین سپنوں کی، جو ہونٹوں تک آتے آتے پور ی کی پوری ایک تصوراتی بن جاتے۔ اس طرح سب کی الگ الگ ہیروئنیں بھی بن گئی تھیں  —  یہ ہیروئینیں کبھی کبھی ان کی تخلیقات میں بھی جھانکا کرتیں۔

اور جب کبھی ان کا ذکر آتا تو ذکر کرنے والا اتنے دھیمے سے ہونٹ داب کر مسکراتا کہ جیسے پوچھ رہا ہو۔ میاں سمجھے کہ نہیں۔ اور باقی بیوقوفوں کی طرح اپنی گردن ہلانے لگتے تھے کہ بس بھئی بہت ہو گیا …  اب آگے بڑھو —

فیض سقراطی کے تصور والی لڑکی زہرہ تھی —  تو احمد ربانی کی نادرہ —  نازاں خیال ایم اے کی محبوبہ حنا تھی تو حبیب تنویر کی کوشلیا —  اسے بھی وہ اپنی ترقی پسند کا ایک حصہ تصور کرتا تھا —  اور باقر مرزا، ’نہاں ‘ کے تصور کو لے کر پریشان رہتا تھا —  اور نہاں اس پر کچھ اس طرح مسلط تھی کہ بازاروں، سڑکوں، غرض ہر جگہ وہ نہاں کو کھوجتا پھرتا تھا کہ پریوں کے دیس کی نہاں کو وہ اس طرح آمنے سامنے دیکھ پانے میں کامیاب بھی ہو گا یا نہیں  —  ان محبوباؤں کے نام پر آپس میں مذاق بھی ہوتے مگر سچائی میں یہ لڑکیاں تھیں کہاں ؟  —  کہاں رہتی تھیں ؟ ان کے ماں باپ کون تھے۔ سارے دن تو آواروں کی طرح یہ ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوتے تھے۔ پھر یہ اپنی محبوباؤں سے ملتے ملاتے کب تھے —  یہ کوئی نہیں پوچھتا تھا —  ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے اس بارے میں جاننا بھی نہیں چاہتا تھا —  اس لیے کہ اس جاننے اور نہیں جاننے سے بڑا بھی ایک سوال تھا، جو سوال اکثر مانس نوچنے والے گدھ کی طرح انہیں نوچتا رہتا تھا —

کہ خواب تک جانے والے راستوں کو پکڑنے کے لیے جو چیز ہوتی ہے۔ وہ کہاں سے لاؤ گے تم؟

کہاں سے حاصل کرو گے؟

شیخو میاں رنگ ریز کئی بار اپنے لڑکے فیض سقراطی کو اپنے پیشے میں آنے کی دھمکی دے چکے تھے —  مگر برا ہو ادب کا —  کہ وہ ابا کے رنگوں سے تر بتر، گندے ہو رہے کپڑے، اور رنگوں میں لپے پتے ہاتھ پاؤں کو دیکھتے ہوئے اس کچرے میں واپس نہیں آنا چاہتا تھا —  ہاں جب کبھی ابا سے ڈانٹ پڑ جاتی تو وہ باقی چاروں دوستوں کو پکڑ کر ملک کی بدنصیبی کو سو سو کو سنے دینے بیٹھ جاتا —

بی اے فیل احمد ربانی کبھی کبھی غصے میں کہتا —  ہم سب تاریکی کی کوکھ سے جنمے ہیں اور ایک دن اسی تاریکی میں مل جائیں گے —  داینڈ —  پھر سب کچھ ختم  —  نہ گھر والوں کو ہمارے لیے رونا پڑے گا، نہ باہر کے لوگوں کو ہمارے جنازے کا بوجھ ڈھونا ہو گا —  سب کے لیے وہ دن، چین اور سکون کادن ہو گا —

’’فارگٹ اٹ —  ‘‘ حبیب تنویر جیسے کسی گہرے خواب سے بیدار ہوتا۔ ایک گندی سی گالی اچھالتا — ’’ہم سب نالی اور کیچڑ میں لوٹتے ہوئے سور ہیں بس باسٹرڈ، ہم عشق کے لائق بھی نہیں ہیں  —  نہ یہ کہ ہمیں چاہا جائے —  نہ ہمیں یہ حق کہ ہم کسی کو چاہیں  — ‘‘

پھر جیسے سب اداسی میں ڈوب جاتے۔ سر نیچا کر لیتے۔ باقر مرزا کو لگتا جیسے اس کی نہاں …  دور …  بہت دور …  بادلوں کی اوٹ میں چھپتی جا رہی ہو …  سب کے سب اپنی اپنی تصور والی لڑکی کے ساتھ اداسی کے شاہراہوں میں کھو جاتے —  پھر چپی بڑھتی جاتی —

حبیب تنویر مسکرا کر، اپنی کرانتی والی کویتا کی پنکتی پڑھتا۔

’’لکھی جائے گی … ‘‘

کل۔

کوئی کرانتی ہمارے ہی ہاتھوں سے

’’یہ ہاتھ ابھی برفیلی آندھیوں کی زد میں ہیں … ‘‘

’’لیکن یہ ہاتھ اٹھیں گے …  چلیں گے ایک دن … ‘‘

’’تم اپنی بے سرپیر کی کویتا اپنے پاس رکھو —  نازاں خیال برا مان جاتا۔ ‘‘

احمد ربانی کو جیسے ایک انوکھا خیال ہاتھ آ گیا۔

’’سنو، مان لو، اگر ہم بیکار نہیں ہوتے تو؟‘‘

’’بیکار نہیں ہوتے تو … ‘‘

 ترقی پسند ی کی آنکھوں میں چمک لہرائی تھی —

’’بیکار نہیں ہوتے تو کہیں کام کر رہے ہوتے …  کیوں ؟‘‘ احمد ربانی اپنے سوال پر منہ پھیر رہا ہوتا۔

’’کام کر رہے ہوتے اور فرض کرو اچھے پیسے مل رہے ہوتے؟‘‘

عجیب سوال تھا …  سب یکایک اداسی سے لوٹ آئے تھے۔ مسکراہٹیں کھلنے لگی تھیں …

’’اب ان میں سے ہر ایک الگ الگ مکالمے چرا رہا تھا … ‘‘

’’فرض کرو …  اچھے پیسے مل رہے ہوتے … ‘‘

’’فرض کرو … اچھی کمپنیوں میں نوکری مل گئی ہوتی … ‘‘

’’فرض کرو … شادی ہو گئی ہوتی … ‘‘

’’فرض کرو … بیوی بچے ہوتے … ‘‘

’’فرض کرو … ایک اچھی خوشحال زندگی ہوتی … ‘‘

’’فرض کرو …  پیسوں کی کوئی دقت نہیں ہوتی … ‘‘

’’فرض کرو …  اتنے پیسے ہوتے کہ ہم بینکوں میں جمع کر رہے ہوتے … ‘‘

’’فرض کرو … ‘‘

حبیب تنویر نے گہری سانس کھینچی۔ جتنے چاہے فرض کر لو۔ لیکن حقیقت دیگر ہے، اس نے ہماری آنکھوں میں جھانکا — فرض کر لو …  یہ حقیقت ہوتی تو …  ہم میں سے کوئی  …  ادب نہیں لکھ رہاہوتا …  ادب سے کب کاسنیاس لے چکا ہوتا …  کوئی شاعری نہیں کر رہا ہوتا …  بے مطلب کی کہانیاں نہیں گڑھ رہاہوتا …  ہماری طرح …  وہ زندگی گزار رہا ہوتا …  ایک خوشحال زندگی۔ ‘

ترقی پسند اچانک ہی چپ ہو گیا۔ فیض سقراطی کو لگا، وہ ایک دم سے ہوا نکالے غبارہ کی طرح ہلکا ہو گیا ہے۔

نازاں خیال نے میز پر زور سے ایک مکا مارا —  میرا یار سچ کہتا ہے —  پہلی بار سچ کہا ہے اس نے  —  یہی ہو گا۔ فرض کرو ہم خوشحال ہوتے تو گھر کے خالی چوکے اور آنکھوں میں اتری پریشانیوں پڑھتے پڑھتے ادب نہیں لکھ رہے ہوتے — ‘‘

فیض سقراطی نے ٹھنڈی سانس بھری۔ بات خطرناک ہے … مگر کم از کم ہمارے تمہارے جیسے لوگوں کے لیے سچ ہے۔ آؤ مان لیتے ہیں۔ تسلیم کر لیتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے …  بے روزگاری ہی ہمیں ادب کے اس جنگل میں لائی ہے …  ہم بے روزگار تھے۔ اس لیے دوست بن گئے اورآپس میں چسکے کے لیے ہمیں ادب مل گیا۔ سب سے سستی چیز — ‘‘

سب نے گہری سانس کھینچی اوراداس ہو گئے ہمیشہ کی طرح۔ پھر فیصلہ ہوا بالمکند شرما جوش کے یہاں چلتے ہیں  —  جوش صاحب کی بیٹھکی میں ان کے لیے سکون کی کرسیاں لگی ہوتیں  —  بیٹھ جاتے —  کتابیں دیکھتے —  جوش صاحب بھی خوش خوش انہیں پرانے زمانے کے مینواسکرپٹ دکھاتے، اس سے جڑی تاریخ کو بتاتے —  آنکھوں میں کتنے ہی خوابوں کے جزیرے گھوم جاتے —  پھر جیسے آنکھوں کے سارے پھول یکایک اداس اور سوگوار ہو جاتے۔ آنکھوں میں ایک طرح کی نااطمینانی اور بے چینی جھلملا رہی ہوتی۔

جوش صاحب آہ بھرتے …  بچو …  پتہ نہیں ہمارے بعد ان سب کا کیا ہو گا؟

فیض سقراطی کہتا۔ ’’ابھی تو آپ ہزاروں برس جئیں گے جوش صاحب …

مگر بوڑھے چہرے پر جھل مل کرتی جھریاں جیسے یہ ہزاروں برس جینے کی دعائیں خموشی سے لوٹا دیتیں۔

٭٭٭

یہ وہ دور تھا، جب پانچوں اپنی اداسی میں خوش تھے اور خوشی میں اداس تھے —  اور ان کے لیے سب سے اہم شے تھی —  نوکری —  ان کی سب سے چہیتی، سب سے خوبصورت ہیروئینیں تھی —  نوکری  —  خواب، خواہشوں کے سب رستے اسی موڑ تک آ کر ٹھہر جاتے تھے —  اسی زمانے میں ریڈیو کی طرف سے اردو خبروں کے لیے نیوز ایڈیٹر کی ضرورت کا اشتہار نکلا —  مزے کی بات، پانچوں نے یہ فارم بھرا کہ کسی کے نام تو نیوز ایڈیٹر کی لاٹری ضرور کھل جائے گی۔ اور بھلا ان کی ذہانت اور قابلیت سے انکارکس کو ہو گا —  ہوائی محل بنائے جانے لگے —  سولہ آنے امید تو اسی دن بن گئی جب پانچوں ریٹین ٹیسٹ میں کامیاب ہو گئے —  اب معاملہ تھا تو صرف انٹرویو کا —  لیکن انٹرویو کے بعد معلوم ہوا کہ لاٹری تو کسی تیسرے ہی آدمی، سنتوش کمار کے نام کھلی ہے —  پانچوں جیسے خوابوں کے شیش محل سے چھوٹ کر پتھریلی سڑکوں پر دھم سے آ کر گرے —  پھروہی بالمکند شرما جوش کا بیٹھکا تھا او ران کی شکایت کی عرضیاں۔

’’دیکھ رہے ہیں جوش صاحب —  یہ ہوتا ہے —  نوکری ہمارے لیے بنی ہی نہیں تو ملے گی کیسے؟‘‘

’’سنتوش کمار — ‘‘

جوش صاحب ٹھہر ٹھہر کر بولے۔ ’بچو، برا مت ماننا، تمہیں ایک شکایت یہ بھی ہے نا کہ سنتوش کمال کیوں کامیاب ہوا، تم کیوں نہیں ہوئے۔ کوئی سلیمان بھائی کیوں نہیں ہوا — ‘

ان کے چہرے پر ایک معنی خیز ہنسی تھی —  ’’ٹھیک کہتے ہو۔ میرے لڑکے بھی یہی کہتے ہیں  —  اردو ادب آپ کی زبان نہیں  —  مسلمانوں کی زبان ہے۔ تم بھی یہی کہتے ہو۔ کسی سنتوش کو کیوں لیا گیا —  کسی مسلمان کو کیوں نہیں لیا گیا — ‘‘

’’نہیں، ہمارا مطلب یہ نہیں تھا …  حبیب تنویر اٹک کر بولا۔

جوش صاحب مسکرائے …  نہیں، تمہارا مطلب یہی ہے بیٹا۔ تمہاری اصل شکایت کا مرکز یہی ہے کہ تم میں سے کسی …  خیر چھوڑو …  ہاں اب تم نے بات صاف کر دی …  ہندوؤں کی سیاسی جماعتیں بھی یہی کہتی ہیں  —  ہمارے لڑکے یہی کہتے ہیں۔ تم یہی سوچتے ہو —  غلطی تو دراصل ہم سے ہوئی۔ ہم بھول گئے کہ اردو تو دراصل ہماری بھی زبان ہے —  نہیں  —  اردو تو ہماری زبان تھی ہی نہیں  —  یہ ہماری بے وقوفی تھی …  یہ تو تمہاری جاگیر تھی … ‘

سب خاموش ہو گئے۔

کافی دیر تک ماحول میں سناٹا پسرارہا۔ اس سناٹے کا انت حبیب تنویر نے کیا۔ ’جوش صاحب سچ کہتے ہیں …  آزادی کے بعد ہمارا سچ یہی بن گیا ہے۔ تکون۔ اردو، مسلمان، پاکستان —  اپنی نااہلی اور کمزوریوں پر ہم سدا ہی اس جھوٹ اور وہم کو پختہ کرنے میں جٹ جاتے ہیں …  اوراس کے باوجود یہ مانتے نہیں کہ ہم Communal ہو گئے ہیں …

’’Communalہو گئے ہیں … ‘‘

آواز لڑکھڑا کر چپ ہو گئی —

اور جیسے اس سچ پر سب نے اپنی اپنی گردنیں نیچی کر لیں۔

٭٭٭

اتیت …

اتیت صرف سنہرا نہیں ہے …  وہاں الگ رنگوں کی آمیزش ہے۔ اور ان رنگوں میں محبت کا رنگ سب سے بھاری تھا …  بالمکند ٹھنڈی آہ بھرتے ہیں …  وقت نے اسی محبت کو نفرت کے رنگوں سے جوڑ دیا …  پھر ایک بادِ سموم چلی اور جیسے سب کچھ جھلس گیا۔

پتنی —  کہتے ہیں پتنی چھایا ہوتی ہے، دکھ سکھ کی ہمراہی ہوتی ہے —  مگر وہ کیسا رشتہ تھا جو جوڑتے جوڑتے بھی دونوں کو جوڑ نہیں پا رہا تھا اور پھر ایک دن بچوں کے سر مہکتے سہرے کے پھول دیکھنے کے بعد پتنی نے آنکھیں موند لیں …  وہ جیٹھ کی گرم دوپہر …  برآمدے میں وہ سر جھکائے بیٹھے ہیں …  گم سم …  بدن جل رہا ہے …  بچے رو رہے ہیں …  اور وہ …

ان کی آنکھوں میں جیسے سارے آنسو جم چکے تھے …  وہ کس کے لیے روئیں۔ ساتھ، جنم جنم کا ساتھ کا ایسا بھی ہوتا ہے …  ان کی اپنی نجی خوشیوں کے بچ تو کب کا دائرہ کھینچ کر بیٹھ گئی تھی پتنی —  وہ برسوں تک بہلا وہ دیتے رہے۔ چھپائے چھپائے سے رہے خود کو …  لیکن اب —  ارتھی اٹھنے والی ہے …  اور ان کی آنکھوں میں ایک قطرہ آنسو نہیں۔ ہاں لمبا ساتھ چھوٹنے کا غم ضرور ہے …

نریندر آتا ہے۔ روتے روتے اس کی آنکھیں آنسوؤں کی جھیل بن چکی ہیں …

’’اب تو اپنی نفرت پونچھ دیجئے بابوجی —  اماں اب جا رہی ہیں۔ اب واپس نہیں آئیں گی کبھی — ‘‘

وہ جیسے خواب کی وادی سے لوٹتے ہیں …  اندر ایک کسک سی جاگتی ہے  …  آواز درد کے نغموں میں ڈوب جاتی ہے …  تم سمجھتے ہو میں نفرت کرتا تھا …  ؟ ارے میں تو اس کی ہر خوشی میں شامل تھا …  ہاں وہی، خود میری کسی خوشی میں شامل نہ ہوسکی۔ میں یہ بھی چاہتا تھا …  اور وہ بھی چاہتا تھا …  میں کیا چاہتا تھا، کسی کو کیا بتاؤں …  مگر میں …  اسے میری ہر طلب میں شک کے جراثیم نظر آتے تھے … ‘‘

وہ سوچتے ہیں …  اتنی لمبی زندگی آخر انہوں نے گزاری تو کیسے؟ جیسے کوئی بدصورت خواب جسم سے آ کر چمٹ جاتا ہے …  جیسے کسی چھوت لگی بیماری کو جبرا جسم میں پناہ دینی پڑتی ہے …

ساتھ چھوٹ گیا …  اتنی عمر کا ساتھ تھا …  خود کو  بہلاوہ دیتے دیتے بھی وہ رو پڑتے ہیں …  سسکیوں میں …  زور زور سے …  ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔

نریندر اور انیل پاس آتے ہیں۔ کندھے پر ہاتھ رکھتے ہیں …  یہ اسپرش …  یہ لمس …  وہ گھبرا کر بیٹوں کی طرف دیکھتے ہیں …

’’چلئے بابوجی … ‘‘

وہ کمزور نڈھال، اپنے قدموں کو اٹھاتے ہیں …  اور بیٹوں کے ساتھ چل پڑتے ہیں  —

٭٭٭

اتیت، بے ہنگم سا اتیت …   اب یہ اتیت کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا، مشاعرہ کے دن جو واقعہ ہوا، اس نے انہیں اورزخمی کر دیا تھا …  لوگ کیا کیا سمجھتے ہیں …  سمجھا کریں  —

لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بالمکند شرما جوش نام کا آدمی زندگی بھر ان کے ساتھ سازش بھرا مذاق رچتا رہا —  مذاق —  دراصل یہ سب، یہ جذباتی بہاؤ …  یہ تہذیبی ورثہ …  یہ سب بے معنی تھا …  اس کے پیچھے کسی سازش کا ہاتھ تھا یا دوسروں کو بے وقوف بنانے کا عمل —  دراصل وہ وہی ہیں …  جو ان کے لڑکے ہیں  —

اور اس سیاسی تگڑم میں ان کی وہی بھاگے داری ہے، جوان کے بچوں کی رہی ہے۔

بالمکند  …  شرما جوش …

یہ کیسی امید پر زندگی گزاری تم نے …  کس امید پر …

اور …  آنکھیں جلنے لگتی ہیں …  سر پھٹنے لگتا ہے …  دماغ میں جیسے بھونچال آ گیا ہے …  جتنا سوچتے ہیں …  اتنا ہی وزن دماغ پرمحسوس کرتے ہیں …  پھر …  جیسے وہ ڈوب رہے ہیں …  ذہن ڈوب رہا ہے …  خود کی شناخت کے لیے وہ آئینہ کے سامنے آتے ہیں …

یہ بوڑھا کون ہے؟

کون ہے؟

وہ عجیب عجیب سی حرکتیں کر رہے ہیں …  کون ہے یہ بوڑھا …

وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں …  اب ذہن میں کچھ بھی نہیں ہے …  وہائٹ پیپر کی طرح سب کچھ صاف …  دھیرے دھیرے عام وحشت کی کیفیت سے وہ لوٹتے ہیں …  مگر ایک عجیب سی سراسیمگی ان پر حاوی ہو رہی ہے …  وہ خود کو ٹٹول رہے ہیں …  وہ کون ہیں …

انہیں کچھ بھی یاد نہیں آ رہا ہے …  کچھ بھی —

٭٭٭

وہی ہوٹل …  وہی میز

پانچوں دم بخود ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔

’’ایسا کیسے ہو گیا؟‘‘

جوش صاحب نے اس دن اچانک کیوں بلا لیا۔ ‘‘

نازاں خیال شک کا اظہار کرتا ہے …  ’’جوش صاحب کی دماغی حالت تو ٹھیک ہے نا … ؟‘‘

حبیب تنویر میز پر مکا مارتا ہے —  دماغی حالت —  اس ملک میں ابھی جو کچھ ہو رہا ہے …  اس سے کیا تمہاری دماغی حالت ٹھیک ہے؟ کس کی ٹھیک ہے؟ جب آنے والے کل  اور مستقبل کے نام پر ہی سوالیہ نشان لگ جائے؟

فیض سقراطی سوچتا ہے —  ’’لیکن فکر کا مقام ہے۔ جوش صاحب اتیت میں جانے کی بات کیوں کر رہے تھے۔ ‘‘

’بڑھاپے میں ہر آدمی کا سہارا اس کا اتیت ہوتا ہے۔ ‘

احمد ربانی کی بات کو فیض سقراطی فوراً رد کر دیتا ہے —  نہیں  —  میں نہیں مانتا —  جوش اور دوسرے دقیانوسی بوڑھوں میں فرق ہے —  خاص کر اس دن …  تم کہہ سکتے ہو، انہوں نے ہمیں بلا کر جو ڈرامہ کھیلا —  اس سے کیا ایک بہت شکستہ آدمی کی الجھن نہیں جھانک رہی تھی — ‘‘

’’تم اسے ڈرامہ کیوں کہتے ہو۔ ‘‘

حبیب تنویر نے پھر مکا مارا —  ‘جس آدمی نے ایک شاندار تہذیب کے آنگن گلیاروں میں پناہ لی ہو …  وہ سب کچھ مرتا، ختم ہوتا دیکھ رہا ہے —  یہ محض ڈرامہ نہیں ہے —  یہ کچھ اور بھی ہے۔

’’بکواس — ‘‘

’’اور وہ بھی ہمارے بھروسے —  فیض سقراطی کو غصہ آ گیا۔ ہماری ادبی حیثیت کیا ہے۔ ‘‘

باقر مرزا کو بھی غصہ آ گیا —  ’آپ بھلے نہ سمجھیں مگر میں سمجھتا ہوں، بوڑھا ایک نمبر کا ڈرامہ باز ہے …  آخر بار بار یہ باتیں کہنے کا مطلب ہی کیا تھا کہ میں جا رہا ہوں …  میں کبھی واپس نہیں آؤں گا —  مرنے کے بعد کون واپس آتا ہے بھلا — ‘‘

حبیب تنویر کچھ سوچ کر بولا — ’شاید جوش صاحب کچھ اور کہنا چاہتے تھے میں تو اپنے تجزیہ کے بعداسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ —  مگر —  وہ اس قدر پریشان تھے اور حوصلہ شکن نظر آ رہے تھے …  کہ کچھ ٹھیک سے کہہ بھی نہیں پائے — ‘‘

باقر مرزا کسی سوچ میں ڈوب گئے۔

نازاں خیال نے رائے دی …  آج نعمان شوق کے یہاں مشاعرہ بھی ہے۔ کیوں نہ جوش صاحب کے گھر چلا جائے اور وہیں سے ان کو لیتے ہوئے مشاعرے میں جایا جائے۔ ‘‘

’’بہتر ہے — ‘‘

سب کو یہ رائے پسند آئی …  پھر چائے کا بل چکانے کے بعد وہ تیزی سے اٹھ کھڑے ہوئے …

٭٭٭

’’جوش صاحب‘‘

حبیب تنویر آواز لگاتا ہے۔ سناٹا ہے …  آواز باز گشت کرتی ہوئی لوٹ آتی ہے۔

’’کوئی ہے نہیں کیا؟‘‘

’’پتہ نہیں۔ ‘‘

’’ذرا زور سے آواز دو — ‘‘

’’جوش صاحب‘‘

’’شاید نہیں ہیں۔ پہلے تو ایک آواز میں ہی بیٹھک کا دروازہ کھل جاتا تھا۔ بات کیا ہے …  جوش صاحب۔ ‘‘

تین چار آواز کے بعد اچانک دروازہ کھلتا ہے …  اور کسی طلسمی داستاں کی طرح …  بال چھترائے، آنکھیں خمار آلود، ایک بوڑھا دروازے پر کھڑا دکھائی دیتا ہے …  بالکل انجان سا —

’’کون ہو تم لوگ؟‘‘

’’جوش صاحب ہیں۔ ‘‘

فیض سقراطی سلام کرنے والے انداز میں دیکھتا ہے۔

’’کیا چاہتے ہو؟‘‘

’’ہم آپ کو مشاعرے میں چلنے کی دعوت دینے آئے ہیں جو ش صاحب۔ ‘‘

جوش صاحب کھڑاگ سے دروازہ بند کرتے ہیں  —  زور سے چلاتے ہیں۔

’’میں کسی مشاعرہ وشاعرہ میں نہیں جاؤں گا۔ چلے آتے ہیں تنگ کرنے۔ ‘‘

دروازہ بند ہے۔

پانچوں حیرت سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں۔

حبیب تنویر آہستگی سے لوٹنے کا اشارہ کرتا ہے …

پانچوں تھکے تھکے بوجھل قدموں سے لوٹ جاتے ہیں۔

٭٭٭

 

               ابھی عام ہے بربریت

(۱)

۴ تاریخ کو اکبر پورہ میں پھر ایک واردات ہو گئی۔ کچھ لوگ ڈھول پیٹتے اور مجیرا بجاتے محلے میں داخل ہوئے۔ ان کی مجموعی تعداد ۱۰ سے ۱۵ کے بیچ ہو گی۔ ان میں زیادہ تر نوجوان طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ پہلے تو آس پڑوس کے لوگوں نے سمجھا کہ کوئی شادی بیاہ کی تقریب ہو گی، یا کوئی تماشہ ہو گا —  لیکن یہ تماشہ، عام تماشوں سے مختلف تھا۔ جو نوجوان ڈھول پیٹتے اور مجیرا بجاتے نظر آ رہے تھے وہ ایسے جھوم جھوم کر ناچ رہے تھے جیسے ڈھیر سارا نشہ کر رکھا ہو —  ان کے ہاتھوں میں ووٹر لسٹیں تھیں۔

اکبر پورہ میں ہندو اور مسلمان ملی جلی آبادی ہے …  چھوٹا سا محلہ ہے —  مسلمان کم پڑھے لکھے ہیں  —  زیادہ تر چھوٹے موٹے کپڑوں کے  ’تھوک بکریتا‘ ہیں  — ‘

مجیرہ بجاتے اور ڈھول پیٹتے لوگ اچانک وحشت پر اتر آئے —  کولڈ ڈنکس کی دکان پر سب سے پہلے ان کا حملہ ہوا۔ سوڈا واٹر کی بوتلیں توڑی گئیں۔ کچھ بوتل عمارتوں کی جانب پوری طاقت سے چلائی گئی۔ کئی ٹوٹی ہوئی بوتل کسی کے سر پر لگی۔ کوئی چیخ کر گرا —  جیسے یہ لوگ پوری تیاری سے آئے تھے۔ مشعل سلگ گئی۔ کپڑوں کی دکانوں میں آگ لگا دی گئی —  ایک دکان کا مالک مولوی غفار روتا چیختا باہر نکلا تو شرپسندوں نے طاقت کے زور پر اس کا پائجامہ اتروا لیا۔

کسی نے فون سے پولیس کو اطلاع بھیج دی۔ دس پندرہ منٹ میں شرپسندوں کی یہ ٹولی جوکر گزر سکتی تھی، وہ اس نے کیا —  جب تک پولیس آتی چار پانچ لوگ زخمی حالت میں چھٹپٹا رہے تھے۔ مسلمانوں کی دو دکانیں پھونکی جاچکی تھیں۔ یہ کون لوگ تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟پوچھے جانے پر بھی ان باتوں کا صحیح صحیح جواب نہ مل سکا۔ آناً فاناً دکانیں بند ہونے لگیں۔ شٹر گرنے لگے۔ سڑک پر بھاگم بھاگ مچ گئی —  گھروں کے دروازے، کھڑکیاں بند کر دیئے گئے۔ کہیں سے رونے اور چلانے کی آواز بھی گونجنے لگی تھی۔

دیکھتے دیکھتے سناٹا چھا گیا۔ اکا دکا لوگ کھڑے تھے جن سے پولیس پوچھ تاچھ کر رہی تھی۔ زخمی لوگوں کو اسپتال پہنچایا گیا —  جس میں سے ایک کے آدھے گھنٹے بعد مرنے کی خبر بھی آ گئی —

ایسا کہا جا رہا تھا کہ یہ سب منصوبہ بند طریقے سے ہوا تھا۔ اکبر پورہ میں کپڑوں کے یہ چھوٹے چھوٹے دکاندار مسلمان طبقے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ ان کی دکانداری اچھی چل نکلی تھی۔ شہر دیہاتوں سے بھی ان کے مستقل گاہک بندھے ہوئے تھے —  پچھلے دنوں لگاتار ہونے والی سبھاؤں نے محلے میں گرمی تو بھر ہی دی تھی۔ مگر یہ سب اتنے انوکھے طریقے سے ہو گا، کس نے سوچا تھا —  یہ ڈھول پیٹنے اور مجیرا بجانے والے کون لوگ تھے، اس کے بارے میں بھی اٹکلیں لگائی جا رہی تھیں  —  کچھ لوگ  اسے بھاجپا سے جوڑ رہے تھے —  اور جوڑنے کے پیچھے ان کی دلیلیں یہ تھیں کہ کچھ دن پہلے شہر کے مختلف مقامات پر ہونے والی سبھاؤں اور ان میں دیئے جانے والی اشتعال انگیز تقریروں میں بھاجپا کا ہی ہاتھ تھا —  کچھ نے دس پندرہ لوگوں کی اس بھیڑ میں گیروا کپڑے پہنے اور ٹیکا لگائے لوگوں کو بھی دیکھا تھا۔ جبکہ پولیس بہت زیادہ انہیں لٹیرا ماننے کو تیار تھی —  چوری اور ڈاکے کے نئے نئے طریقے عام ہیں  —  مگر ایک بات اور بھی تھی۔ حملہ میں جو دکان لوٹی یا جلائی گئی وہ مسلمانوں کی تھی۔ جو لوگ زخمی ہوئے وہ بھی مسلمان تھے —

لٹیروں کے ہاتھ میں ووٹر لسٹ تھی۔ اس بارے میں محلے والوں کا سوچنا تھا کہ منصوبہ کے مطابق ووٹر لسٹ سے دیکھ دیکھ کر وہ مسلمانوں کی شناخت کرنے اور انہیں مارنے کے ارادے سے آئے تھے۔ مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ اور انہیں الٹے پاؤں واپس بھاگنا پڑا۔

محلہ میں مردنی چھا گئی، ایک خوفناک سناٹا گھر کے در و بام پر چھا گیا۔ دنگوں کے پچھلے ریہرسل کی یاد لوگوں کے دلوں میں تازہ تھی۔ لوگ ضرورت سے زیادہ ڈر ے ہوئے تھے۔

منا اس وقت بجلی آفس میں تھا۔ جب یکایک بل والی کھڑکی سے اسے دور سے نیل کنٹھ کا چہرہ نظر آیا جس کی جیپ باہر رکی تھی۔ ہاتھ میں سگریٹ دابے نیل کنٹھ اسی کی طرف آ رہا تھا۔

بل والی کھڑکی پر ابھی بھی قطار لگی تھی۔

نیل کنٹھ نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔ اس نے شارہ کیا …  بس کھڑکی پر کچھ ایک لوگ ہیں …  انہیں نمٹا کر تم سے بات کرتا ہوں۔ ‘

اس نے کندھے اچکائے۔ ایک ستون کی آڑ میں کھڑا ہو کر سگریٹ پینے لگا۔

قطار میں کھڑے لوگوں کو جلدی جلدی نپٹا کر منا باہر نکلا نیل کنٹھ نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ دبایا۔

’’اور۔ سب ٹھیک تو؟‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’اوئے۔ اتنا کھویا کھویا کیوں رہتا ہے۔ ‘‘

’’کچھ نہیں یار۔ ‘‘

منا نے مسکرانے کی کوشش کی۔

نیل کنٹھ کو جیسے کچھ یاد آ گیا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا۔ سو والے چار نوٹ نکالے۔ اس کی مٹھیوں میں پھنسا یا۔

’’لے، پکڑنا۔ ‘‘

منانے حیرانی سے پوچھا —  ’’وہ کس لیے؟‘‘

’’تو کیا سمجھتا ہے۔ پارٹی کے پاس فنڈ کی کمی ہے۔ ‘‘

’’مگر یہ کس لیے ہیں۔ ‘‘

’’ڈاکٹر نریندر نے بھجوایا ہے۔ وہ پھسپھسایا —  ڈاکٹر نریندر کہتے ہیں مسلم محلوں میں تمہاری تقریر بہت کام کی رہی —  بھاجپا کے لیے ان کے دل کا میل تھوڑا سا مٹا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ میں جب تب تمہاری مدد کرتا رہوں۔ تم سے پوچھتا رہوں …  تمہیں پیسوں وغیرہ کی ضرورت تو نہیں ہے … ‘‘

منا نے چونک کر نیل کنٹھ کو دیکھا۔

نیل کنٹھ نے سگریٹ کی راکھ تھوڑی سی جھاڑی …  ڈاکٹر نریندر بڑے خوش ہیں تم سے، کیا جادو کر دیا ہے تم نے ان پر —  یہ طے ہے کہ ان کو ٹکٹ ملیگا اس بار —  میرا تمہارا سب کا بھوش چمکے گا —  اور پیسے چاہئے تو … ‘‘

’’نہیں … ‘‘

منا کا لہجہ برف جیسا سرد تھا اس بار۔

’’ہاں ایک بری خبر ہے۔ ممکن ہو تو گھر چلے جاؤ ابھی …  یا چلو میں چھوڑ دوں۔ ‘‘نیل کنٹھ دھیرے سے پھسپھسایا —  اکبر پورہ میں فساد ہو گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کرفیو لگ جائے۔ میں صرف تم کو خبر دینے آ گیا — ‘‘

منا کا دل بیٹھ گیا۔

’’کب ہوا فساد؟‘‘

’’ابھی کسی کا نقصان نہیں ہوا ہے۔ مگر تم جانتے ہو فضا خراب ہے۔ اس لیے کرفیو تو لگ ہی جائے گا‘‘

’’تم چلو، میں آتا ہوں۔ ‘‘

نیل کنٹھ نے سگریٹ کا ٹکڑا چپل سے مسلا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔

’’اچھا۔ ‘‘

اس نے گاڑی اسٹاٹ کر دی …

منا کچھ دیر تک گاڑی کے چھوڑے دھوئیں سے نہاتا رہا —  ’’دل پر میل سی جم گئی تھی۔ بدن میں لرزہ سا طاری ہو گیا تھا —  پھر فساد ہو گیا۔ ڈاکٹر نریندر، سدھیندورائے، نریندر وغیرہ اسے اپنے ساتھ مسلم محلوں میں بھی لے گئے تھے۔ ایک نوجوان مسلم بھاجپا کا ریہ کرتا کے طور پر اس کا تعارف کرایا گیا تھا —  اور اس نے کہا تھا —  بھاجپا ہی ہے جو آپ کے حقوق کی صحیح طور پر حفاظت کرسکتی ہے …  انہیں خوف نہیں کھانا چاہئے — ‘‘

ف … س … اد … ہو … گیا …

اسے اپنی ہی آواز گھٹتی ہوئی لگی …  فساد …  چھوٹے چھوٹے بے قصور بچوں کی اموات …  لاشیں ہی لاشیں …  عورتوں، کم سن لڑکیوں کے ساتھ زنا بالجبر …  جھلسے ہوئے گھر …  چیخیں  …  گھروں سے اٹھتا ہوا دھواں …  چاروں طرف خون کے اڑتے ہوئے چھینٹے …  اور …  چھوٹے چھوٹے بچے …

وہ صرف …  تصور کے پردے پر چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھ رہا تھا …

نشی بھی چھوٹی ہے …  چھوٹی سی بچی …

فساد ہو گیا …  بلوائی اس کے گھر کی طرف بڑھ رہے ہیں …  نہیں  —  اسے کچھ نہیں ہو گا …  وہ تو …  ان کا ہی آدمی ہے …  کچھ ہوا بھی تو اسے کچھ نہیں ہو گا …  اسے کیا خبر تھی، اپنی دور اندیشی میں اس نے جو پانسہ چلنے کی کوشش کی، وہ کہاں گرے گا …  وہ تو آنے والے کل کو آج ہی محسوس کرنا چاہتا تھا۔ سب سے پہلے —  دوسرے کے جاگنے سے پہلے …  مگر یہاں …

’بہت اندھیرا ہے …  تحسین حسین … ‘

’بہت گھٹن ہے … ‘

میں اپنے ہی لوگوں کے درمیان اجنبی ہونے لگا ہوں …  سب مجھ سے جیسے نفرت کرنے لگے ہوں …  مجھے ایسے دیکھتے ہیں، جیسے کوئی عجوبہ ہوں …  یا سرکس کا جوکر …  یا …  کوئی ہتھیارا خونی …

مگر …

یہ سچ بھی ہے —  میں لوٹ نہیں سکتا ہوں۔ میں پابہ زنجیر ہو رہا ہوں …  میں واپس نہیں ہوسکتا …

جیسے کوئی آنسو آنکھوں آنکھوں میں کانپ کر دم توڑ گیا …

وہ تیزی سے اندر آیا …

رام بلاس بابو اپنی میز پر تھے۔ اس نے جلدی جلدی فائلیں سمیٹیں  —  رام بلاس بابو سے بولا۔

’’بڑے بابو …  ’میں چلا —  اور آپ بھی کھسک لیجئے۔ شہر کی فضا اچھی نہیں ہے … ‘‘

باقی میزوں پر بیٹھے ہوئے لوگ اس سے پہلے کہ چونک کر اس کی طرف دیکھیں وہ تیزی سے باہر نکل گیا —

٭٭٭

چودھری برکت حسین گم سم سے رہتے —  اب ان کا اپنا حجرہ تھا اور وحشت تنہائی  تھی —  ہونٹ سل گئے تھے۔

’’ابا چائے لاؤں۔ ‘‘

شمیم ابا کے اس بدلے ہوئے تیور کو لے کر خوفزدہ تھی —  پہلے وہ بول بک لیتی تھی تو ابا ہی تھے، جو مزاج پرسی کرتے تھے۔ خیر خبر لیتے تھے۔ کبھی منا ڈانٹ دیتا تھا اور وہ چیخ چیخ کر دیہاتی عورتوں کی طرح رونا شروع کر دیتی تھی۔ تب بھی ابا ہی تھے جو بیٹی بیٹی کرتے آتے اوراس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے  —  اماں کی تو اپنی دنیا ہے۔ ذرا سا پریشان ہو گئیں تو کلام پاک نکال لیا۔ ساس ہیں اس لئے ڈانٹنا اور ناراض ہونا بھی اپنا حق سمجھتی ہیں۔ مگر ابا …  مگر ابا تو بالکل جدا ہیں، مختلف ہیں …

’’ابا چائے لاؤں۔ ‘‘

ابا چپ رہتے ہیں تو اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا ہے …  اور تو ادھر …  ادھر گھر میں کیسی نحوست پھیلی ہے۔ اور وہ بھی آتے ہیں تو بس گم سم۔ کسی سے کچھ کہتے نہیں۔ اس سے بھی زیادہ بات نہیں کرتے۔ بس کبھی کبھی نشی کو اٹھا کر پیار کر لیا، بس —  پھر لیٹ گئے۔ یا ٹہلتے رہے …  رات میں جب بھی وہ چونک کر اٹھتی —  منا کو ٹہلتے پاتی —

کتنی ہی بار خود پر جبر کر کے اس نے پوچھا۔

’’آپ کیسے آدمی ہیں۔ بتاتے کیوں نہیں، کیا ہوا ہے؟ ارے کچھ بولیے گا نہیں تو دل کا بوجھ کیسے ہلکا ہو گا — ‘‘

’’ما تھا مت چاٹو۔ سوجاؤ۔ ‘‘

’’ان کا بس یہی جواب ہوتا — ‘‘

’’آپ ٹہلتے رہیں گے تو مجھے کیسے نیند آئے گی صبح میں آفس بھی جانا پڑتا ہے اور آپ سوتے ہی نہیں  — ‘‘

’’میں نے کہانا —  سوجاؤ۔ ‘‘

منا دہاڑ مارتا تو وہ روتی دھوتی چپ ہو جاتی —

ہاں۔ اس رات، اس نے دیکھا۔ وہ چپکے چپکے سسک رہے تھے۔ اس کی آہٹ پاتے ہی جیسے ان کے آنسو بند ہو گئے —  پتھر ہو گئے۔

وہ ساڑی برابر کرتی قریب آئی —  گاؤں کی عورت، محبت کی ادا اور زبان سے انجان تھی …  قریب آ کر کھڑی ہو گئی —

’’رو رہے تھے کیا؟‘‘

منا بپھر گیا۔

’’روؤں گا کیوں …  سوجاؤ۔ ‘‘

لیکن وہ بستر پر نہیں گئی —  ’’مجھے لگا، آپ رو رہے ہیں۔ ‘‘

’’پاگل ہو گئی ہو۔ ‘‘

وہ بھی جواب میں چیخی —  ’’پاگل ہو نہیں گئی ہوں۔ آپ نے کر دیا ہے۔ یہ سب کیا ہے —  کیسا روگ ہے؟‘‘

’’چیخو مت۔ ابا جاگ جائیں گے۔ ‘‘

منا جیسے ذہنی اذیت سے پریشان تھا۔

’’اب تمہیں کیسے سمجھاؤں۔ کیا ہوا ہے …  بس …  مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ اور میری قسم کچھ مت پوچھو — ‘‘

میری قسم  —  سب کچھ ہوتے ہی بس اس قسم تک پہنچتے پہنچتے وہ بے سدھ ہو جاتی ہے۔ میاں نے آگے پوچھنے کا دروازہ ہی بند کر دیا۔ آنکھیں پونچھتی وہ بستر پر لیٹ گئی —  تھوڑی دیر بعد منا بھی آ کر بستر پر لیٹ گئے …

رات میں وہ دیکھتی  …  ادھر میاں جی کا بڑبڑانا پھر شروع ہو گیا تھا، مگر آدھے ادھورے لفظوں کو بھلا وہ کیا سمجھتی ہے اور اب میاں نے قسم ایسی دے دی تھی کہ کچھ پوچھتے ہوئے بنتا نہیں تھا۔

میاں، گم سم تھے تو ابا خیر خبر لیتے رہتے تھے …  لیکن ادھر کچھ دنوں سے وہ ابا کو بھی کسی اور ہی دنیا میں گم دیکھ رہی تھی …

اسے وحشت سی ہو رہی تھی۔

یہ اس گھر کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟ پورے گھر میں جیسے نحوست کا ڈیرہ لگ گیا تھا۔ بھوت بنگلہ —  سارے کے سارے جیسے بھوت بن گئے تھے۔ ہلتے ڈولتے۔ چلتے پھرتے …  لیکن بولتے نہیں تھے …

’’ابا، چائے لاؤں  — ؟‘‘

وہ ڈرتے ڈرتے ابا کے پاس آئی۔

ابا نے نظر اٹھائی۔

اس نے دھیرے سے کہا، ’ابا۔ باہر شور ہے …  کچھ لوگ کہتے ہیں پھر دنگا ہو گیا۔ ‘

ابا اٹھے —

’’ہاں چائے رکھ دو۔ ابھی آیا۔ ‘‘

ابا باہر نکل گئے۔ کچھ ہی دیر میں لوٹ آئے۔ پریشان تھے۔

’’ہاں دکانیں بند ہو گئی ہیں  —  تحسین آیا؟‘‘

تحسین —  وہ ایک دم سے چونک گئی۔ ابا کے منہ سے کبھی بھی اس نے تحسین نام نہیں سنا تھا۔ ابا مناہی کہتے تھے۔ ابا نے تحسین کہا تو اسے بھی اجنبیت کا احساس ہوا۔ پہلے تو وہ سمجھ ہی نہیں پائی۔ پھر دھیرے سے بولی۔

’’نہیں۔ ‘‘

’’آ جائے گا۔ فکر مت کرو۔ ‘‘

ابا کے لہجے میں اعتماد تو تھا لیکن اس اعتماد میں طنز بھرا تھا۔ طنز، یا یہ طنز اس نے محسوس کیا۔

وہ کھڑی رہی —

ابا پھر اسی اعتماد یا طنز سے دوبارہ بولے۔

’’بہو۔ گھبراؤ مت، آ جائے گا۔ جاؤ آرام کرو۔ ‘‘

شمیم آگے بڑھی تو ابا کی آواز نے روک لیا۔

’’وہ  …  کیا ہے …  ‘‘ابا جیسے کچھ کہنے کے لیے لفظ جوڑ رہے تھے …  اس دن بہو …  تم نے کچھ کاغذ پتروں کے بارے میں کہا تھا۔ تحسین جسے پلنگ کے نیچے رکھتا ہے، ہوں گے کیا؟‘

’’پتہ نہیں … ‘‘ شمیم کے لہجے میں حیرت تھی …

’’چلو …  دیکھتا ہوں … ‘‘

برکت حسین کا لہجہ کٹھور تھا۔

کمرے میں داخل ہو کر شمیم نے پلنگ کے نیچے سے اخبار کے ڈھیر سے کچھ کاغذات نکالے جو آرام سے، ’سنیت‘ کرا س طرح رکھے گئے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چلے —  یہ کچھ اشتہارات تھے …  برکت حسین اچانک کانپ سے گئے۔ ان میں دوتین چھپے ہوئے رنگین، پوسٹر تھے …

ان پر جیسے اندھیرا چھا رہا تھا …

مشاعرے میں بوڑھے میاں کا جملہ اچانک ان کے سامنے کسی پھینکے گئے پتھر کی طرح لہرایا …  آپ کو کیا فکر ہے برکت حسین۔ آپ کا لڑکا بھی تو آخر بھاجپا کا …

ہاتھ کانپ گیا۔ شمیم چونک کر تعجب سے ابا کو دیکھ رہی تھی۔

ٹھیک اسی وقت دروازے پر دستک پڑی …

دروازہ کھولو …

یہ منا کی آواز تھی —

برکت حسین نے بت بنے ہوئے انداز میں کہا —

’’جاؤ دروازہ کھول دو — اندر آنے دو۔ ‘‘

شمیم نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ تیزی سے لہراتا ہوا منا اپنے کمرے میں آ گیا اور اچانک دم بخود سا ابا کو دیکھنے لگا …

جو پوسٹر اور اشتہارات ہاتھوں میں لیے کسی سنگ کی مانند کھڑے تھے۔

منا کی آنکھوں میں بجلی سی لہرائی۔ اس نے پلٹ کر شمیم کی طرف دیکھا۔

’’یہ سب آپ کو کہاں سے ملا؟‘‘

برکت حسین چیخ پڑے —  ’’تحسین حسین، سوال اس کا نہیں ہے۔ یہ کہاں سے ملا یہ کیا ہے؟‘‘

’’تم نے نکال کر دیا ہے؟‘‘ منا غصے میں شمیم کی طرف مڑا۔

برکت حسین دوبارہ چیخے۔ ’’میں پوچھتا ہوں یہ سب کیا ہے۔ ‘‘

منا نے کسی پکڑے گئے مجرم کی طرح اقرار کیا —

’’یہ وہی ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ اس سے آگے مت پوچھیے گا۔ ‘‘

برکت حسین کی آواز لرز گئی —  ’’اب پوچھنے کو بچا کیا ہے۔ تحسین حسین۔ صرف ایک سوال اور اپنا نام کب بدل رہے ہو تم؟‘‘

منا دھم سے بستر پر بیٹھ گیا —

’’ابا۔ ابھی آپ للّٰلہ کمرے سے چلے جائیے۔ ‘‘

اس کا ہر لفظ موم کی طرح پگھل رہا تھا …  میں کچھ جواب دینے کی حالت میں نہیں ہوں۔

’’تم جواب کیا دو گے۔ جواب تو یہ ہے۔ ‘‘

برکت حسین نے غصے میں اشتہارات اور پوسٹرزمین پردے مارا۔ غصے میں پلٹتے ہوئے بولے …

تحسین حسین۔ اب ہمیں سوچنا پڑے گا۔ تمہارے ساتھ رہنا چاہئے یا نہیں  —  باہر دنگے بھڑک رہے ہیں …  اور جو بھڑکانے والے ہیں تم ان میں سے ہی ایک ہو —  ڈاکو کب اپنا گھر پھونک ڈالے، کون کہہ سکتا ہے —

وہ تیزی سے باہر نکلے —

منا کسی زخمی کی طرح بسترپر گر گیا —  یہ سب؟ اسے حیرت نہیں ہونی چاہئے تھی …  یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا …  مگر —  سب کا لہجہ یکساں کیوں ہے …  جیسے وہ کوئی ڈاکو ہو، انتہا پسند ہو، دہشت گرد ہو —  ابا بھی اسے نام بدل لینے کی صلاح دیتے ہیں  —  اس کی دانش مندی، دوراندیشی، آنے والے کل کو آج پہچان لینے کی صلاحیت …  سب جیسے زنگ کھا گئی تھی …  اسے رونا آ رہا تھا۔

دروازے پر شمیم روتی ہوئی نشی گود میں لیے عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی …

منا کو وحشت ہو رہی تھی …  اپنے آپ سے وحشت ہو رہی تھی …  جیسے وہ سب کچھ چھوڑ کر کسی دشت بیاباں میں نکل جائے، مگر کہاں …  بیوی بچے …  دل میں جانے کتنی بار خودکشی کا خیال بھی آیا —  مگر بیوی بچوں کا خیال اسے زندہ رکھنے پر مجبور کر رہا تھا۔ اور وقت، حالات جیسے اس کا مذاق اڑانے پر تل گئے تھے …  ایک جال اور وہ پھنس گیا ہے …  چارہ پھینکنے والوں نے اسے اس طرح پھانس لیا ہے کہ وہ باہر نہیں نکل سکتا …  مگر یہ …  وہ کسے سمجھائے …  کسے بتائے …  کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کیسی قید میں سڑرہا ہے …

اس دن …  اس دن کا سارا منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔

٭٭٭

نیل کنٹھ کے گھر پر میٹنگ تھی —  سدھیندورائے، ڈاکٹر نویندو، نریندر اور دیگر بہت سے لوگ جمع تھے —

منا نہیں آیا —

منا ابھی دروازے ہی پر تھا کہ ڈاکٹر نویندو کی آواز لہرائی۔ وہ ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا۔

سدھیندورائے کی آواز تھی —  ’’چھوٹا سا شہر ہے۔ اس بیچارے کا باہر نکلنا مشکل ہو گیا ہے — ‘‘

نریندر کی برف کی طرح ٹھٹھری آواز تھی۔ جب تک ہمارے کام کا ہے۔ کام ہے۔ نہیں ہو گا تو اسے بھی فساد میں مروا دیں گے —

’’اس نے قہقہے کی آواز سنی — ‘‘

ڈاکٹر نویندو نے کہا —  چھوٹے شہر میں یہی تو مصیبت ہے —  ہماری پارٹی کو لوگوں نے مسلمانوں کا دشمن تصور کر لیا ہے —

’’دشمن تو ہے ہی؟‘‘

نریندر نے ٹھہا کا لگایا —  ’’ہم جو بھی چال چلتے ہوں۔ الٹ پلٹ کر بیان دیتے ہوں  —  مگر جیت کی ابتدا تو انہی کے سینے پر مونگ دل کر کی ہے —  اتنے سارے لوگ مسلمانوں کے ورودھ تو ہمارے حصے میں جٹے ہیں  — ‘‘

’’منا کو ایک بھڑکاؤ بھاشن کے لیے تیار کرنا ہے؟‘‘ یہ نریندر کی آواز تھی —

ڈاکٹر نویندو پوچھ رہے تھے —  ’’وہ تیار ہو گا — ‘‘

’’تیار اس کا باپ ہو گا —  اب الٹ پلٹ کیا تو ہم دھمکانے سے بھی باز نہیں آئیں گے‘‘

’’وہ پول بھی تو کھول سکتا ہے۔ ‘‘

’’اس کو اپنی جان کا خطرہ نہیں ہے۔ ‘‘

منا دبے پاؤں وہاں سے واپس لوٹ گیا —  اس وقت صبح کے دس بج رہے تھے —  وہ سیدھا بجلی آفس پہنچ گیا۔ ساڑھے بارہ بجے کے لگ بھگ نیل کنٹھ جیپ اڑاتا وہاں پہنچ گیا۔ یہ منا کا آخری فیصلہ تھا۔ اب وہ پارٹی کاریالیہ نہیں جائے گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ نیل کنٹھ کو دیکھ کر دل ہی دل میں اس نے فیصلے کا موڈ بنا لیا تھا۔

ابھی اس کے کاؤنٹر پر لوگ تھے —  اس نے نیل کنٹھ کو باہر ہی رکنے کو کہا۔ مگر نیل کنٹھ تیر کی طرح اندر گھس آیا۔ ‘

’’میں نے کہا تھا نا۔ باہر انتظار کرو۔ ‘‘ اس نے اپنے لہجے کو مضبوط بنانا چاہا —

’کیوں۔ یہاں اندر آنا منع ہے۔ ‘‘

نیل کنٹھ کے ہونٹوں پر ایک زہریلی ہنسی مچل رہی تھی —

’’اچھا چلتا ہوں  — ‘‘

کاؤنٹر پر کھڑے لوگوں کو دو منٹ شانت رہنے کا حکم دے کر وہ باہر آ گیا۔ کاؤنٹر پر کھڑے ہوئے لوگ ہلا غلہ کر رہے تھے۔

وہ باہر نکل آیا اور مضبوط آواز میں بولا —

’’میں نے تمہاری پارٹی چھوڑ دی۔ اب یہاں میرے پاس مت آیا کرو۔ ‘‘

نیل کنٹھ پھر ہنسا —  میاں۔ ہم پہلے ہی سمجھ گئے تھے۔ جب تم ہماری پارٹی میں نہیں آئے۔

’’بس چھوڑ دی۔ ‘‘

نیل کنٹھ نے گالی دینے والے انداز میں بے رحمی سے اس کے ہاتھ کے گٹھے کو تھام لیا۔

’’ارے یہ کیا کرتے ہو۔ ‘‘

نیل کنٹھ نے ہاتھ کو بے رحمی سے مروڑتے ہوئے چھوڑ دیا —  میاں جی۔ ایک تو اب یہ سوچومت۔ جب ساتھ ہولیے ہو تو پھر ہولیے ہو۔ اب ایسا سوچیو مت —

وہ گندی اور بازارو زبان پر اتر آیا تھا۔ اتنا تو تم کو معلوم ہو ہی گیا ہو گا کہ ہم اچھے لوگ نہیں ہیں۔ ہم قاعدہ قانون کچھ نہیں جانتے —  اب جو ہو گا سو برا ہو گا۔ اتنا سمجھ رکھو۔ تم پیار سے مل رہے ہو تو سمجھو آج ہمارے تمہارے بیچ کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ لیکن تم چھوڑنے کی بات کر رہے ہو تو یہ اسمبھو (ناممکن) ہے — ‘

’’میں نے چھوڑ دی۔ ‘‘

منا نے پھر زور دیا۔

نیل کنٹھ نے کسی بچے کی طرح اس کا کندھا سہلایا۔ پریوار والے ہو۔ اتنی جلدی ڈیسیزن نہیں لیتے۔ میرے اچھے منے۔ جا …  دیکھ بل کاؤنٹر پر لوگ ہلہ کر رہے ہیں۔

وہ سگریٹ پی کر کسی فلمی ویلن کی طرح ہنسا۔ پھر جیپ اسٹارٹ کر دی —

منا کو لگا، بہیلیا کے بچھائے ہوئے جال میں وہ کسی کبوتر کی طرح پھنس گیا ہے … اب سب کچھ بہیلیا کے اختیار میں ہے۔ وہ اسے آزاد کرتا ہے یا …

٭٭٭

شام میں وہ پارٹی دفتر میں تھا۔

نیل کنٹھ نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ دیا۔

’’چلو باہر چائے پیتے ہیں۔ ‘‘

’’چلو۔ ‘‘

وہ دھیرے سے مسکرایا —

چائے پیتے ہوئے نیل کنٹھ نے پوچھا —

’’اب ٹھیک تو ہو؟‘‘

’’ہاں  — ‘‘

’’اس نے کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھا —  میری صبح والی بات کا برا تو نہیں مان گئے؟‘‘

’’صبح میں ؟ ہم ملے تھے کیا ؟‘‘

منا ایکدم سے انجان بن گیا۔

نیل کنٹھ ٹھٹھا کر ہنسا۔ بالکل صحیح جا رہے ہو دوست —  جو صبح میں ہوا اسے شام میں بھول جانا چاہئے۔ یہی پالیٹکس ہے —

’’میں کیا بھول گیا مجھے تو یہ بھی یاد نہیں  — ‘‘

نیل کنٹھ ہنس رہا تھا —

نیل کنٹھ ہنس رہا تھا۔ ’’پارٹی کو تمہارے جیسے آ گیاکاری پتروں کی ضرورت ہے۔ چلو اندر چلتے ہیں۔ ڈاکٹر نویندو تمہیں کھوج رہے تھے۔ ‘‘

٭٭٭

بالمکند شرما جوش آنکھیں بند کئے بستر پر پڑے ہیں۔ انیل سرگوشیوں میں تلسی سے کچھ باتیں کرتا ہے …  پھر بابوجی کے پائتا نے بیٹھ جاتا ہے۔

’طبیعت کیسی ہے باؤجی؟‘

بالمکند دھیرے سے آنکھیں کھولتے ہیں …  انیل کو ٹٹولتے ہیں۔ پھر آنکھیں بند کر لیتے ہیں …

’’باؤجی۔ میں ہوں انیل … ‘‘

بالمکند دیکھتے ہیں …  آنکھوں میں اجنبیت سی سمٹ آئی ہے۔ پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں  —

نریندر ڈاکٹر کو لے کر آ جاتا ہے۔ ڈاکٹر دو نکر رائے پڑوس میں ہی رہتے ہیں  —  دونکر رائے بالمکند کا ہاتھ پکڑ کر بلڈ پریشر چیک کرتے ہیں۔ بالمکند آنکھیں کھول کر اس پورے عمل کو دیکھے جا رہے ہیں۔

دونکر رائے پوچھتے ہیں …  اور شاعری چل رہی ہے آپ کی …

بالمکند جواب نہیں دیتے۔

دونکر رائے اپنا سامان سمیٹتے ہیں  — نریندر کو کنارے لے جاتے ہیں پیٹھ پر ہاتھ رکھتے ہیں۔

’’بالکل نارمل۔ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ ‘‘

’’پھر یہ سب؟‘‘

ڈاکٹر دونکر رائے مسکراتے ہیں  —  بوڑھے ہو گے تب پتہ چلے گا نریندر —  یہ کوئی بیماری نہیں ہے الزیمرس کہتے ہیں اس کو۔ اکثر بڑھاپے میں اس کا روگ ہو جاتا ہے۔ یاد داشت اس حد تک کمزور پڑ جاتی ہے کہ آدمی کبھی کبھی خود کو بھی نہیں پہچان پاتا۔ کئی دلچسپ باتیں ہوتی ہیں اس مرض میں۔ وہ بھول جاتا ہے کہ جانا کہاں ہے۔ باتھ روم جانا چاہتا ہے تو کہیں اور چلا جاتا ہے۔ کبھی کبھی کچھ گڑبڑ بھی کر بیٹھتا ہے …  بٹ نارمل انہیں کچھ نہیں ہوا ہے۔ کچھ بھی سریس نہیں ہے …

’’لیکن ایسا کب تک چلے گا — ‘‘

نریندر! دونکر رائے مسکراتے ہیں۔ عمر ہو گئی ہے پتا جی کی۔ اب وہ بھولنے کی استیتھی میں آ گئے ہیں۔ انہیں پریشان مت کرو بس یہی علاج ہے۔

الزیمرس …  نریندر دہراتا ہے …

’’پریشان مت ہونا۔ کیئر کرنا۔ ہاں … ‘‘ اپنے خاص بنگالی ٹون میں ہندی بولتے ہوئے دونکر رائے بہت معصوم لگتے ہیں …

دونکر رائے کے جانے کے بعد بالمکند اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اوما چائے لے کر آتی ہے —

’’پتاجی چائے۔ ‘‘

تیزی سے ہاتھ بڑھا کر وہ چائے پینے لگتے ہیں۔

نریندر غور سے انہیں دیکھتا ہے جیسے وہ پتاجی اور ان کی بیماری کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو —

٭٭٭

نیلگوں آسمان …  دور تک پھیلا ہوا …

بالمکند بالکنی سے اسی آسمان کا نظارہ کر رہے ہیں …  دماغ پر زور ڈال کر کچھ سوچنا چاہتے ہیں مگر …

وہ واپس اپنے کمرے کی طرف لوٹتے ہیں۔ شیلف میں کتابیں سجی ہیں۔ ایک ایک کر کے کئی کتابیں وہ اپنے ہاتھ میں اٹھا لیتے ہیں۔ الٹتے پلٹتے ہیں۔ پھر ویسے ہی چھوڑ دیتے ہیں کچھ دیر تک خالی کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ پھر آئینہ کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

’’ددو — ‘‘

دروازے سے مالو جھانک رہی ہے۔ مالو دوڑ کر ان کے پاس آتی ہے۔

’’تم اچھے نہیں ہو ددو۔ اب تم بات بھی نہیں کرتے۔ ‘‘

گال پھلا کر وہ ہوپ کرتے ہیں مالو کو …  دھیرے سے مسکراتے ہیں۔ پھر اپنے سینے سے سٹالیتے ہیں ایک قطرہ آنسو کہیں آنکھوں میں چھلکتا ہے …  مگر اس آنسو کو کس نے دیکھا ہے۔ کب سمجھا ہے۔ دیر تک لپٹائے رہتے ہیں مالو کو … ‘‘

مالو  ددو کے ہاتھوں کو آزاد کرتی ہے …  میں جا رہی ہوں پڑھنے۔ تم بھی پڑھنا ددو … ‘

وہ بھاگ جاتی ہے۔ …

بالمکند بس ہونٹ دابے خالی دروازے کو گھورتے رہ جاتے ہیں۔ اچانک آنکھوں کے آگے سائے سے لہراتے ہیں …  چیخ پکار کی آوازیں گونجتی ہیں …  آسمان میں پھیلتا دھواں سا دیکھتے ہیں وہ …

ایک بار وہ پھر میز پر ہیں …

خود سے باتیں کر رہے ہیں …  یہ کیا ہو جاتا ہے مجھے …  میں …  کیا سچ مچ مرنے والا ہوں …  نہیں …  ابھی نہیں مروں گا …  ابھی ایک بیان دینا ہے مجھے …  بیان …  پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ …  شاید صاف صاف کہہ دینا چاہئے مجھے — ‘

ایک بار پھر وہی میز ہے۔ قلم، کاغذ سب سامنے ہے۔ قلم ہاتھوں میں تھامتے ہیں  —  لکھنے لگتے ہیں …

بھولنا کسے پسند ہے؟

مجھے —  مجھے پسند ہے اب —  اچھا لگتا ہے بھولنا …  سب کچھ بھول جانا بچے اور ڈاکٹر سب سمجھتے ہیں  —  میں بوڑھا، بے بس اور لاچار ہو چکا ہوں …  انت سامنے ہے …  مگر میاں …  ابھی نہیں مرنے والا میں …  ابھی نہیں مروں گا …

وہ ٹھہرتے ہیں۔ پھر لکھتے ہیں  —  مجھے سوچ کر وحشت ہوتی ہے کہ میں اب بھی جی رہا ہوں  —  اس خوفناک آندھی میں، تیز و تند ہواؤں میں، برفیلے جھکڑوں میں  —  بڑی آزمائش سے گزر رہا ہوں میں …  خود کو بچائے اور زندہ رکھا ہے …  یہ بہت ہے میاں  —  مجھے تو کب کا مر جانا چاہئے تھا —  اور سچ ہے …  جوش تو کب کا مر چکا ہے —  کچھ میں نے …  کچھ میرے بچوں نے اسے مار ڈالا لیکن —  ابھی سانس باقی ہے اس میں  —  تھوڑی سی …  اسے زندہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مگر میں جانتا ہوں …  بہت دن تک یہ کوشش جاری نہیں رکھ سکتا میں  —  جوش بالآخر مر جائے گا ایک دن …  مجھے وحشت ہو رہی ہے …  میں اپنے سارے دوستوں کو کھا چکا …  جیتندر جین …  سردار یشونت راؤ بے داغ، کلونت سنگھ حاتم …  سب جانے کہاں، کن وادیوں میں گم ہو گئے —  تاریخ بن گئے …  اب صرف یاد کرنے کا غم جھیلنے کے لیے یہ جوش بچا ہے …  اور میاں جوش …  اور جوش کا بھی کیا ٹھکانہ …  رختِ سفر تو کب کا باندھا جا چکا  —

وہ ٹھہرتے ہیں …  پھر لکھتے ہیں …  میں دیکھ رہا ہوں …  وہ پھیل رہے ہیں …  وہ چاروں طرف سے پھیل رہے ہیں …  اور ایک دن وہ آسمان، زمین، چٹان، نالے، سمندر سب کو ڈھک لیں گے …  سب جگہ حاوی ہو جائیں گے وہ …  صرف وہ رہیں گے اور …  سب کچھ ختم ہو جائے گا …  کوؤں اور گدھوں کی حکومت رہ جائے گی بس۔ سوچتا ہوں تو جیسے سب کچھ بھول کر اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہوں۔ پھرکسی کو پہچان نہیں پاتا …  ہوش آتا ہے تو نظریں، سب کو پہچان تو لیتی ہیں پھر خود پر افسوس آتا ہے کہ نہ پہچانتا تو بہتر۔ ‘

بالمکند شرما جوش ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں …  جو لکھا ہے …  اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں …  اٹھ کر بالکنی پرآ جاتے ہیں …

آسمان میں دور تک دھوئیں کی ایک لکیر بچھی ہوئی تھی —

٭٭٭

(۲)

۴؍ جنوری کو اکبر پورہ میں جو کچھ ہوا، اس نے شہر کی فضا پر برا اثر ڈالا۔ ایک بار پھر پوری فضا بارودی ہو گئی — کپڑوں کے تھوک بکریتا مولوی غفار کے ساتھ ہوئی بدسلوکی کا معاملہ بھی گرم تھا —  اسپتال میں جس زخمی نے دم توڑ دیا، وہ عبدالرحمن تھا —  اور مولا بخش کپڑے والے کے یہاں ملازم تھا —  عبدالرحمن کی بیوی اور کچھ ایک رشتہ دار روتے پیٹتے ہوئے تھانہ پہنچے۔ اس وقت تک مرحوم عبدالرحمن کی لاش تھانے لے جائی چکی تھی —  پولیس نے کسی نامعلوم خطرے کے ڈر سے عبدالرحیم کی لاش اس کی بیوی اور عزیزوں کو سونپنے سے انکار کر دیا —  اس وقت تک شہر کی فضا میں خوفناک قسم کے گدھ گھومنے لگے تھے —  اکبر پورہ اور پاس پڑوس کے محلے میں جہاں دہشت کے پھیلنے کا امکان تھا، کرفیو لگا دیا گیا —  شام میں محلے کے چند شرفاء ایک جتھا پولیس افسر سے ملنے کے لیے تھانے آیا، تاکہ عبدالرحیم کی لاش حاصل کی جا سکے اور اسلامی طریقے کے مطابق تجہیز و تکفین کی جا سکے —  لیکن معلوم ہوا کہ پولیس سارا کریا کرم تو پہلے ہی نمٹا چکی ہے۔

یہ معمولی بات تو تھی نہیں  —  کچھ چھوٹے موٹے لوگ اس واقعے کو مذہب کے اپمان سے جوڑ رہے تھے —

تھانہ انچارج رام درشن جوشی اچھی طرح سمجھ رہا تھا کہ اگر ان محلے والوں کو عبدالرحیم کی لاش مل جاتی ہے تو پھر ان کے کھولنے اور ابلنے کو ایک مضبوط ہتھیار مل جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لوگ قابو سے اس قدر باہر ہو جائیں کہ پھر انہیں سنبھالنا ہی مشکل ہو جائے —  پہلے تو اس نے تھانہ کے ہو ہلہ کرنے والوں کو سمجھایا لیکن ہنگامہ کرنے والے جب اپنی مانگ سے ہٹتے نظر نہیں آئے تو اس نے قانونی دفعہ کا سہارا لے کر انہیں جیل میں بند کر دینے کی دھمکی دی۔ یہ دھمکی کار گر ثابت ہوئی —  عبدالرحیم کی بیوی بچے اور عزیز روتے ہوئے گھر واپس ہولیے —

تھانہ انچارج جوشی کو پتہ تھا کہ مرحوم عبدالرحیم کوئی ایسا ویکتی (شخص) تو نہیں کہ زیادہ شور و غل مچ سکے —  نہ ہی کوئی با اثر یا بارسوخ شخص تھا —  ہاں محلے کے مسلمان زیادہ سے زیادہ چار پانچ دن یا ہفتہ بھر بھونک بھانک کر چپ رہیں گے —  اور فی الحال کے لیے کرفیو تو ہے ہی —  گو اب بھی ایک نامعلوم سا خطرہ بنا ہوا تھا کہ ایسے موقع پر کوئی لا وارث لاش بھی اپنا اثر دکھا جاتی ہے —  اور مرحوم کو تو خیر سے دس جاننے والے تھے۔

پچھلے دنگے کی ریہرسل کے بعد اس بار پولیس کچھ زیادہ ہی چوکس تھی اور دوسرے معنوں میں بے رحم تھی —  بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں نے بھی شہر کو آگ کے شعلوں کے سپرد کرنے سے روک رکھا تھا۔

مگر شہر واسی —

لگاتار فساد میں گھرے شہر کی جو حالت ہوتی ہے وہ ان کی تھی —  عام زندگی کی رونق اگر لوٹ بھی آتی ہے تو کیا ٹھکانہ، نحوست کا کوئی باب پھر سے نہ کھل جائے؟ تباہی  وبربادی کی شروعات پھر سے نہ ہو جائے —

کبھی کبھی سڑک پر کھڑکی کھول کر بالمکند سڑک کا نظارہ کر لیتے۔ یہ سناٹے تو آزادی کے بعد جیسے اس ملک کا نصیب بن گئے تھے —  گہرا پراسرارسناٹا۔ اوراس سناٹے کو توڑتی، سائرن بجاتی، گزرتی کوئی پولیس جیپ —  کھڑکی پر دونوں ہاتھ رکھے بالمکند دیر تک اس سناٹے کا جائزہ لیتے رہتے —  انہیں لگتا کہ بہت سے لوگ ہوتے۔ اور وہ انہیں گھیرے بیٹھ جاتے …  وہ ان لوگوں کو پرانے دنوں کی داستان سناتے …  اور بے شک اس پرانی داستان سے صرف سکھ بھرے قصوں کے گٹھر کھولتے …  پھر شروع ہو جاتے …  داستان ختم …  کرتے تو بیٹھے ہوئے ان لوگوں سے دریافت کرتے …  میاں اب بتلاؤ جھوٹ کیا سچ؟ میاں سولہ آنے سچ — اور یقین نہیں آ رہا تو اپنے بڑے بوڑھوں سے دریافت کرو —  سب سولہ آنے سچ —  اور میاں یقین آئے گا بھی تو کیسے —  ایک غلامی سے نجات ملی تو اب سینکڑوں طرح کی غلامی اوڑھ رہے ہو تم لوگ …  ذہنی، روحانی، پیسے ہم بھی کھاتے تھے میاں۔ سیاست کا ہمیں بھی شوق تھا تبھی تو شطرنج کھیلتے تھے …  مہرے، پیدل، فیل، وزیر، بادشاہ، کشتی —  کیسے ہوتی ہے جنگ …  کیسے مات دی جاتی ہے …  شری کرشن کی گیتا، کورو پانڈو کے قصوں سے تمہاری آج تک کی سیاست، سب کی خبر ہے مجھے۔ مگر میاں  —  اب جب تم اپنا ذہن بدل رہے ہو تو اس کا علاج کیا ہے —  کچھ بھی نہیں ہے —

ہاں تمہاری وحشت مجھے تنہا کر دیتی ہے، اکیلا کر دیتی ہے —  کس کے پاس میں جاؤں، پوچھنے کے لیے میاں تم بالمکند شرما جوش پر شک بھری نظریں دھرتے ہو تو اس کی وجہ بتلا سکتے ہو؟

اس کے دونوں بچے؟

نہیں میاں۔ باپ صرف اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر اپنی ذمہ داری سے مکت نہیں ہوتا — ؟

بچے ایک نیا ہندستان چاہتے ہیں اور یہ ہندستان تمہارے ست رنگی تصور والے ہندستان سے جدا ہے —  تم اپنے بچوں پر الزام کی بارش بھی نہیں کرسکتے —  یہ ہندستان انہوں نے ان خواب رنگوں سے تعمیر کیا ہے، جس کی زمین تم نے فراہم کی ہے —  ایک خون میں ڈوبی ہوئی آزادی تم نے انہیں ورثے میں دی —  یعنی آزادی تو دی مگر لہولہان —  وہ ایک آزاد ملک میں پروان چڑھے، لیکن سرحدوں پر پھیلے ہوئے خون خشک ہو جانے کے بعد بھی اپنی نفرت، اپنا غبار اپنا میلان پن چھوڑ گئے۔ ادھر وقت گزرتا رہا اور یہ نفرت، یہ غبار، آزادی کی پرانی ہوتی داستان کے ساتھ ان کے احساس کا ایک جزو بنتا گیا —

میاں بالمکند —  ست رنگا تصور وقت کے ساتھ دھجی دھجی ہو کر بکھرتا رہا —  ایک نسل جاتی دوسری نسل آتی تو جیسے سوغات میں یہ نفرت اور غبار بھی لاتی —

اس ست رنگے تصور کے جنک کبھی تم بھی رہے ہو بالمکند اس لیے الزام سے گھبراتے کیوں ہو —

’’گھبراتے کیوں ہو بالمکند شرما جوش؟‘‘

’’ہاں کیا ہو جاتا ہے مجھے؟‘‘

وہ برکت حسین سے پوچھ رہے تھے —  یہ کیسی بیماری ہے برکت حسین۔ ذہن کھلا ہوتا ہے اور خیالات گھرنی کی طرح ناچتے رہتے ہیں۔ رات میں چاہے نیند آنے کے ٹیبلیٹ کھالو مگر آنکھوں کے آگے وہی اتیت گھومتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی تھک جاتا ہوں تو جیسے سب کچھ بھول جاتا ہوں۔ ڈاکٹر کہتا ہے۔ بوڑھے میاں کو بھولنے کی بیماری ہے پھر یہ اتیت؟

ڈاکٹر روگ کا علاج کرسکتا ہے برکت حسین، لیکن بڑھاپے کا؟ بڑھاپا محض روگ نہیں ہے برکت حسین، جو یہ کل کے لونڈے چھونڈے ڈاکٹر اس کا علاج کھوج سکیں۔ ‘

’’سچ کہتے ہو جوش میا۔ بڑھاپا تو اپنے ماضی کو ٹٹولنے کی یادگار ہے …  یادگار جو فنا ہونے سے پہلے ایک بار بھڑکنا چاہتی ہے —  اور اسی لیے اپنے اتیت کو آواز دیتی ہے۔ ‘‘

’’بچے۔ ‘‘

بالمکند ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں  —  اس ملک کا کیا ہو گا برکت حسین — !

بول کر ایک دم سے چپ ہو جاتے ہیں۔ جیسے سوچ رہے ہوں، یہ بیکار کی گپ لے کر کیوں بیٹھ گئے۔ ملک کی چنتا تو غلام دنوں میں تھیں۔ تب بھی بے فکری کے دانے چنتے تھے کہ یہ شعلے بس بجھنے کو ہی ہیں۔ فرنگی شعلوں میں تہذیب کے لبادے کابس ایک کونہ ہی تو جھلسا ہے —  اس کونے کو تو جھلسنا ہی تھا —  اتنا تو ہونا ہی تھا —  سو زیادہ غم نہیں تھا۔ ملک کے دامن سے ایک اور ملک نکل جائے تو … ؟ تقسیم کی وحشت کچھ دنوں کا سکھ چین تو چھینتی ہی ہے۔ پھر۔ ہمیشہ کے لیے امن …  سکھ چین اور بانسری کی تان …  پھر وہی ملتے ملاتے رہئے ہولی، دیپاولی، درگا  پوجا، عیدالفطر، عید الاضحی اور مشترکہ کلچر — ؟

وہ ادھر ادھر ہاتھ گھماتے ہیں  —

’’کیا تلاش کر رہے ہو؟‘‘

برکت حسین پوچھتے ہیں۔

’’ناس۔ ناس کی شیشی۔ نہیں مل رہی۔ ‘‘

’’اب ناس بھی لگانے لگے؟‘‘

’’خاندانی عادت چھوٹتی کہاں۔ لگ ہی جاتی ہے۔ ‘‘ مسکراتے ہیں بالمکند۔ چھوڑو کہیں رکھ دی ہو گی۔ بھلکڑ دماغ —  بچے بھی سمجھتے ہیں۔ باؤجی کا دماغ ہلکا ہو گیا ہے ہلکا —  مگر ہلکا ہوتے ہوتے یہ اتیت اپنے پنجے کیوں گاڑ دیتا ہے…

سوچتے سوچتے لگتا ہے …  اندھا ہو گیا ہوں۔ ہر چیز دھند میں ڈوبی۔ مدھم …  مبہم …  دھندلکے …  اور دھندلکے میں تیرتی چند پرچھائیاں …  یہ پرچھائیاں تقاضا کرتی ہیں کہ پہچانو …

’’پھر پہچانتا ہوں برکت حسین …  صاف صاف …  ہم ہیں …  تم ہو …  بچپنا ہے۔ حالی محالی ہیں  —  گھر ہے آنگن ہے۔ آنگن میں وہ …  یاد ہے تمہیں امرود کا پیڑ —  الطاف چچا گھر آتے تو ابا سے ضرور کہتے۔ میاں رام ولاس امرود تو بس الہ آباد کے ہوتے ہیں یا تمہارے گھر کے … ‘‘

برکت حسین کے منہ میں پانی بھر آتا ہے …  واہ میاں جوش۔ کیا یاد دلا یا تم نے بھی —  وہ درخت تو شاید ہمارے بچپن کے زمانے میں تھا۔ مجھے یاد ہے —  عبداللہ پاسی کا لڑکا امرود کے پیڑ سے گر کر جس دن زخمی ہوا تھا … ‘‘

’’ابا نے اسی دن غصے میں درخت کے قتل کا حکم سنا دیا۔ یہ فیصلے بس اسی طرح آنا فاناً ہو جاتے تھے۔ پیڑ بھی تھا خاندانی —  کٹنے کو کٹ گیا۔ مگر ابا بھی جی بھر کر روئے تھے۔ کہتے تھے دادا کو بھی بے حد پسند تھے اس کے امردو —  ایک اور نشانی گم ہو گئی —  ہائے ایسی ایسی کئی نشانیاں گم ہو جائیں گی۔ ‘

’’اب چھوڑو بھی جوش میاں  — ‘‘ برکت حسین کے چہرے پر ناخوشگوار تاثر ابھرتے ہیں  — ؟ ’’پرانے دنوں میں لوٹنے سے کیا فائدہ۔ ‘‘

’’اتیت فائدہ نقصان کہاں دیکھتا ہے بھائی۔ مگر ٹھہرو —  کیا یہ موت کی سنوائی ہے —  کبھی کبھی سوچتا ہوں  —  حال میرے سامنے سے کھسک رہا ہے۔ خود کو بھی سامنے کے بچوں کو بھی بھول رہا ہوں۔ مگر اتیت …  صرف وہی زندہ ہے۔ بھولے بسرے چہرے، کبھی اماں بلاتی ہیں کبھی ابا دکھائی دیتے ہیں اور بھی …  وہ منگرو بھشتی، بچپن میں گودوں کھلانے والی فجیلن …  سب جیسے کسی تواریخی کردار کی طرح مجھے گھیر کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ محلے کے گزرے ہوئے دوست، یار، عزیز بزرگ …  اور —  بچپن …  جوانی —  جوانی میں محبت کہاں کی، سمجھوتہ کیا تھا —

بہت کچھ سوچتا ہوں۔ یہ بھی …  کہ میں جا رہا ہوں۔ اور میرا کوئی وارث نہیں ہے —  جو میری میراث، میری وراثت سنبھالتا —  جو مجھ سے جڑی روایتیں میرے بعد بھی جاری رکھتا —  میرے بعد کوئی نہیں ہے۔ یہ حق بات مجھے کھائے جا رہی ہے …

’’بالمکند کسی گہری سوچ میں ڈوب جاتے ہیں  — ‘‘

’’ایک تو بوڑھا پا اوراس پر تھکنے کا عمل۔ تم تھک گئے ہو جوش میاں  — بڑھاپے میں کیسے کیسے دور، کیسے کیسے مرحلے آتے ہیں  — ‘‘

’’یہ ملک … ‘‘ ٹھہر کر ہنسنے لگتے ہیں …  گھوم پھر کر کہیں سے چلو، واپس بس اسی مرکز پر آ کر ٹھہرنا پڑ جاتا ہے …  کبھی کبھی خود پر غصہ آتا ہے کیوں سوچتا ہوں یہ سب۔ بچے ٹھیک کہتے ہیں۔ رام رام کرنا چاہئے مجھے۔ پوجا پاٹھ۔ ہر پرکار کے سوچ سے سنیاس لے لینا چاہئے۔ مگر —  ممکن ہے برکت حسین، بچے ٹھیک ہوں۔ مگر حقیقت پسند ہوں نا؟ لگتا ہے روایت سے کاٹے جانے کا مطلب ہے کچھ ختم ہوا ہے۔ کچھ بربریت سے ختم کیا گیا ہے۔ اوراس ختم کیے جانے کے عمل میں برسوں لگے ہوں …  کبھی لگتا ہے میرا قتل کیا جا چکا ہے — ‘‘

’’اور تمہارا قتل تمہارے بچوں نے کیا ہے؟ اس لیے کہ وہ تمہاری روایت کو آگے نہیں بڑھا سکے — ‘‘

’’نہیں برکت حسین۔ سچ کا ایک رخ یہ بھی ہے —  مگر میں کیا چاہتا ہوں۔ یہ …  کہ وہ مشاعرہ باز ہو جاتے۔ وہ اردو سیکھتے، پڑھتے …  روایت ڈھوئے جانے کی چیز تو نہیں ہوتی۔ میرا چاہنا۔ اتنا محدود نہیں ہے برکت حسین۔ ‘‘

مجھے صرف اس روز روز بڑھتی ہوئی آگ سے خطرہ ہے۔ اس لیے لگتا ہے، بچے ہماری راہ پر چل رہے ہوتے تو  …  یہ کھیم پورہ، اکبر پورہ …  یہ آگ گلی گلی اور محلے محلے میں نہیں پھیل رہی  ہوتی …  مگر قصور وار اکیلے کیا صرف میرے بچے ہیں ؟ اب لگتا ہے سب نے اپنی اپنی الگ الگ دنیائیں بنا رکھی ہیں۔ اور الگ الگ دنیا کے تصور بھی الگ الگ ہیں۔ ظاہر ہے برکت حسین دو چار برتن ہوں گے ڈھن ڈھنائیں گے ہی …  بس وہ لڑ رہے ہیں۔ لڑے جا رہے ہیں  — ‘‘

برکت حسین نے پن ڈبہ کھولا۔ پان نکالا۔ منہ میں دابا —  اور ٹھنڈی سانس بھری —

’’میں کچھ کہنے آیا تھا جوش میاں  — ‘‘

’’ہاں  —  بات کیا ہے — ؟‘‘

’’وہ …  اپنا منا —  تحسین حسین۔ ‘‘

’’کہو۔ کہو … ‘‘

ٹھیک اسی وقت دالان خانے کے دروازے سے نریندر کا چہرہ طلوع ہوا —

’’آداب چچا جان … ‘‘

’’جیتے   …  رہو …  بیٹے … ‘‘ برکت حسین کے لہجے میں تھرتھراہٹ دوڑ گئی۔

’’بات کیا ہے برکت حسین؟‘‘

بالمکند جوش کی آنکھوں میں فکر کے ڈورے تیر گئے —

’’منا۔ کچھ خبطی ساہو گیا ہے۔ نریندر بیٹا —  وہ کچھ غلط طرح کے لوگوں کے ہاتھوں میں تو نہیں چلا گیا ہے؟‘‘

نریندر کے چہرے پر ایک تناؤ سا پیدا ہوا —

یہ تناؤ اس سے قبل بالمکند یا برکت حسین نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ نریندر میز کے پاس والی اونچی کرسی پر بیٹھ گیا —

’’کیوں خطرہ لگتا ہے آپ کو؟‘‘

برکت حسین بغلیں جھانکنے لگے —

نریندر کی آواز میں سختی تھی —  ’’سب بکواس ہے —  آپ لوگ دراصل ڈر گئے ہیں  —  اس ڈر کو نکالیے گا نہیں چچا جان تو پریشان کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا — ‘‘

اور ایک بوڑھی آواز جیسے ایکدم سے لرز اٹھی —

’’نریندر بیٹا میں بڑے چھوٹے سوال جواب نہیں جاننا چاہتا بیٹے۔ صرف یہ کہ …  میرا منا واپس کر دو —  میرا اکلوتا منا — ‘‘

برکت حسین کی آنکھوں سے آنسو ایک موٹا قطرہ ٹپکا اور بالمکند کے سینے میں آگ ہی آگ لگ گئی۔

’’یہ کیا پاگل پن ہے چچا …  آپ تو ایسے گھبرا رہے ہیں جیسے … ‘‘ نریندر کی آواز اورسخت ہو گئی —  وہ جانے کو مڑا —

’’جبکہ سچائی یہ ہے کہ آپ کو بھی غور کرنا چاہئے۔ یہ طے ہے کہ اب ہماری پارٹی آئے گی اور آپ کے لیے بھی ضروری ہے کہ آپ اس کے لیے کچھ Soft Corner پیدا کر دیں  —  اگر چاہتے ہیں کہ مسلمان یہاں امن سے رہیں  —  بات کڑوی ہے لیکن سوچئے گا۔ ‘‘

پھر نریندر رکا نہیں۔ تیزی سے آگے بڑھ گیا —

برکت حسین نے آنسو پونچھے —

’’جوش صاحب پتھریلی ہنسی ہنسے …  چلو مطلع صاف ہو گیا —  اس مطلع کا صاف ہونا بھی ضروری تھا۔ کیوں برکت حسین۔ ‘‘

لیکن برکت حسین تو کسی اور ہی دنیا میں گم ہو گئے تھے —

٭٭٭

۴؍جنوری کو اکبر پورہ میں ہونے والے فساد کی دوسرے ریہرسل کی چنگاری بھی پھس پھس ثابت ہوئی تو امرجیت اور ڈاکٹر نوید و وغیرہ کا چونکنا واجب تھا — انتظامیہ کی سختی نے اس بار ان کا وار خالی کر دیا تھا —  بہر کیف، اب چاروں طرف دلی میں ہونے والی ریلی کے تذکرے تھے —  جس کو بڑے پیمانے پر کامیاب کرنے کے لیے یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں کاریہ کرتاؤں کو لے جانا تھا —  نیل کنٹھ، نریندر، سدھیندورائے گاؤں گاؤں گھوم کر مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کو دلی گھومنے کی مفت دعوت دیتے پھر رہے تھے —

’’ارے کرنا کیا ہے۔ شان سے دلی جاؤ۔ گھومو پھرو اور چلے آؤ —  سب کچھ مفت — ‘‘

مسلم کاریہ کارتا بھی شامل ہوتے، اس خیال کے تحت منا سے بات چیت بھی کی گئی لیکن منا نے بے فرصتی کا بہانہ بنا کر اپنے انکار کا پہلا نمونہ پیش کر دیا۔ منا کے سیدھے انکار سے پارٹی کاریالیہ میں خاصا اتھل پتھل مچی تھی۔ ڈاکٹر نویندو خاص کر بہت غصہ میں تھے —

’’یہ سالے بیچ میں ہی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں  —  دنگوں میں زمین پر لا وارث مر رہا تھا —  وہ تو سدھیندورحم کھا کر لائے۔ ہم نے بھی پناہ دی۔ مفت علاج کیا اور جب ہماری یاد آئی تو کنی کٹا رہا ہے — ‘‘

ڈاکٹر نویندو کا پارہ اتنا گرم تھا کہ ابھی اگر منا کا بچہ ہاتھ لگ گیا تو وہ اس کا صفایا ہی کر دیں گے —  وہ کچھ سوچ کر نیل کنٹھ سے بولے۔

’’ذرا ریلی نکل جائے۔ پھر کچھ سوچتے ہیں منا کے بارے میں۔ گھبرانا مت نیل کنٹھ‘‘۔

لیکن کیا سوچتے۔ منا کی تو ادھر روٹین ہی خراب ہو گئی تھی وہ بھاگتا پھرتا تھا۔ شکل چھپائے پھرتا تھا۔ مگر کس سے —  ؟ جتنی دیر دفتر میں ہوتا، اتنی دیر ہر پل اس کا کلیجہ کسی انہونی کے خیال سے دہل رہا تھا۔ کب کیا خبر آ جائے —  کوئی پارٹی کا آدمی آ جائے۔ گولی مار دے —

’گولی مار دے … ‘ سچ تو یہ ہے کہ وہ اس سے بھی آگے سوچنے لگا تھا —  مگر کیوں سوچنے لگا تھا —  اتنا ڈر، اتنا خوف  …  کہ اب وہ نوکری چھوڑ کر چھوٹی موٹی تجارت کو اولیت دینے لگا تھا۔ ایک بار رات میں گھر لوٹ کر اس نے ابا سے باہر دبئی وغیرہ جانے کی بات تو برکت حسین چونک گئے تھے۔ مگر منا کے اندر بیٹھے ڈر کی تہہ تک نہیں جا سکے۔ اس تہہ تک جانا آسان بھی نہیں تھا۔ اس ڈر کو صرف منا ہی دیکھ رہا تھا —

کہیں بھاگ جائے۔ باہر چلا جائے۔ تجارت کر لے۔ نہیں تو۔ پستول کی گولی تو ہے ہی، اسے ختم کرنے کے لیے —

سچ تو یہ ہے کہ وہ پوری زندگی میں اتنا خوفزدہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ آفس آور ہو جاتا۔ تب بھی ادھر ادھر اپنے مسلمان دوستوں کے یہاں بے وجہ چلاجاتا —  وہ برکت حسین کا لڑکا ضرور تھا۔ لیکن آزادی کے بعد جس ماحول میں اس نے آنکھیں کھولیں تھیں وہ ماحول چار خانے والی لنگی پہننے والے اور وہ بھی موڑ کر پہننے والے مسلمانوں سے جدا نہیں تھا۔ جو ہاتھ میں روزانہ یا مفت روزہ بھڑکاؤ اردو اخبار کی کاپی کھولے زور زور سے کسی کمانی کے چائے کی دکان یا عبدل پان والے کی دکان پر بیٹھک لگائے سنسنی پھیلا رہے ہوتے ارے سنا امریکہ سعودی عرب پر بم گرانے والا ہے —  صدام پھر حملے کی یوجنا بنا رہے ہیں …  تاج محل میں اب پوجا بھی شروع ہو چکی ہے —  اب تک متھرا، کاشی اور اجودھیا ہی تھا۔ اب یہ تاج محل بھی گیا ہاتھ سے …

جتنا سا ذہن، اتنی سی باتیں …  مگر منا اب خوف کے سائے میں پل رہا تھا۔ سڑک پر کوئی راہگیر گھورتا ہوا ملتا تو وہ ڈر جاتا۔ آفس میں اس کے نام کی کوئی کال ہوتی تو وہ ڈر جاتا —  پوری شام کاٹ کر رات کے دس ساڑھے دس بجے تک وہ چھپتا چھپاتا گھر میں داخل ہوتا۔ دروازہ کھلنے پر بھی ڈرا ہوتا کہ کہیں، ابا یہ نہ کہہ دیں کہ کوئی کھوجنے والا آیا تھا۔ یا کوئی بری خبر؟

٭٭٭

امرجیت نے کہا — ’منا کے بارے میں بعد میں سوچیں گے۔ ابھی ریلی کو سفل (کامیاب) بنانے کے بارے میں سوچنا ہے — ‘

’نیل کنٹھ نے سگریٹ کی راکھ جھاڑی —  لیکن کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا منا کا؟‘

سدھیندو رائے پھیکی ہنسی ہنسے، ابھی کافی سمے ہیں نریندر، چنتا چھوڑو —

’’چنتا منا سے ہے —  وہ بہت کچھ جان گیا ہے ہمارے بارے میں ؟‘‘

امرجیت کو غصہ آ گیا۔ ’کیا جان گیا ہے۔ تم تو ایسی باتیں کر رہے ہو جیسے یہ کوئی راشٹریہ پارٹی نہ ہو کر فاسشٹوں کی جماعت ہو —  ارے تم لوگ ہی غلط پروپیگنڈہ کرو گے تو پھر دوسرے کیسے آئیں گے۔ ہم تو ایک سیدھا نتک لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اب تک الپ سنکھیوں (اقلیتوں ) کی ساری مانگیں سنی اور مانی جاتی رہی ہے۔ اور بہو سنکھیوں (اکثریت) کی کوئی سنوائی نہیں  —  بس اتنی سی بات ہے سیدھانتک لڑائی  —  نریندر۔ تم لوگ جوانی کے بہاؤ میں اسے غلط رنگ دے رہے ہو، اس سے پارٹی کو ہی دھکا پہنچے گا — ‘‘

نریندر چپ ہو گیا —

’’امرجیت سوچتے رہے۔ پھر بولے —  منا کا انتظام اوش (ضرور) ہو گا۔ پر ابھی نہیں  —  ابھی ڈاکٹر نویندو کی چنتا کرنی ہے۔ ڈاکٹر نے جتنے آدمیوں کو لے جانے کا Target رکھا ہے، وہ کیسے پورا ہو گا — ‘‘

’’وہ پورا ہو گا نا، سر‘‘

نریندر نے ایک دوسرا سگریٹ سلگایا۔

سدھیندورائے نے یاد دلایا  — ’’کل لوکل لوگوں نے اسی مدے پر ڈیبٹ رکھا ہے۔ آپ چلیں گے امر جیت ؟‘‘

امر جیت نے منع کر دیا۔ نہیں تم لوگ جاؤ  — مجھے او ر ڈاکٹر نویندو کو کچھ کام بھی دیکھنے ہیں  —

٭٭٭

’’ڈبیٹ، بحث ومباحثے، مذاکرے  — ‘‘

فیض سقراطی ہنسا  — ’’ہم پڑھے لکھے لوگوں کا اب بس یہی کام رہ گیا ہے  — ‘‘

’’چلو کوئی تو کام ہے۔ ورنہ ہم نے تو اپنے آپ کو بیکار کی فہرست میں شمار کر لیا تھا۔ ‘

نازاں خیال نے ہنستے ہوئے کہا  —

٭٭٭

یہ کمیونیٹی سینٹر کا چھوٹا سا ہا ل تھا۔ جہاں سو سے دو سو کے بیچ آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ہال کے دائیں بازو کی طرف ایک چھوٹی سی پھلواری تھی  — کھلے دروازے سے، چلتی ہوئی ٹھنڈی ہوا اپنے ساتھ خوشبوؤں کی سوغات بھی لاتی  — چھوٹے شہروں میں اس طرح کے ڈبیٹ کی خاصی اہمیت ہوتی ہے۔ پڑھا لکھا حلقہ، کالج کے اسٹوڈنٹس، ٹیچرس، پروفیسرز، انٹلکچولس، ادیب، ساہتیہ کار، رنگ کرمی، اپنے اپنے خیالات کی پٹاری لے کر حاضر ہو جاتے  — یہ در اصل کھلا منچ ہوتا، جہاں سے اپنی بات کے اظہار کا سب کو مو قع ملتا  — لوگ آرام اور سکو ن سے سب کو سنتے  — پھر ایک ایک کر کے تبصرے ہوتے  — درمیان چائے کا وقفہ تھا  — بہت بہت، اس طرح کے نشستوں کا وقفہ دو چار گھنٹوں کا ہوتا۔

کمیو نیٹی سینٹر کے، اس رویندر بھون میں لوگ جمع ہو گئے تھے۔ دری پر سب کے انتظام بھی تھا  — کنارے مائک لگا ہوا تھا۔ یعنی جسکا نام پکارا جاتا وہی کھڑا ہو کر اپنے خیال کا اظہار کرتا  —

ابھی ڈیبٹ شروع نہیں ہوا تھا  — پانچوں اس وقت ہال کے باہر ہی کھڑے تھے بات چیت کا رخ ماحول سے اٹھ کر ان کی محبوباؤں کی طرف بھی آیا۔ لیکن محبوباؤں کے نام پر ان کے اندر کوئی جوش و خروش نہیں تھا  — ایک طرح کی اداسی سب میں سمٹی ہوئی تھی  —

’’مارو گولی حنا کو۔، فیض سقراطی کا لہجہ عجیب تھا  — اب تو ایک ہی محبوبہ ہے اپنی۔ نوکری۔،

 ’’  یار۔ اب لگتا ہے، اس ادب کے پھیرے میں ہم اپنا وقت ضائع کرتے رہے ہیں  — کچھ کام ہی سیکھ لیتے تو ضرور ت بلا ضرورت کام ہی آ جاتا۔، ،

’کم از کم کتابت ہی سیکھ لیتے۔ ‘

 نازاں خیال کی پھسپھسی ہنسی پر کسی کو ہنسی نہیں آئی  —

’’نوکری!‘‘

اندر بھنبھناہٹ تھی اور باہر، ان پانچوں کے بیچ کسی خیالی جل پری کی طرح اٹھ کر نوکری آ گئی تھی  —

’’مل جائے تو لپک لو  — ‘‘

’پکڑ لو۔ تھام لو۔ بھاگنے نہ پائے۔ ‘‘

 ’’کہاں ہے یار ؟‘‘

 ’’وہ ہے  … ‘‘

اس بار پانچوں ہنسے  —

’احمد ربانی بولا۔ چھوڑو چلتے ہیں۔ کیا رکھا ہے اس مندر مسجد میں۔ ‘

اس نے پیٹ پر ہاتھ مارا۔ یہ روٹی کھوجتا ہے۔ اور روٹی نوکری۔ مسئلہ صر ف ایک ہے۔ حکومت نے اس سے بچنے کے لئے عام آ دمی کو مندر مسجد میں الجھا دیا ہے۔،

’’کو شش کر کے دیکھ لی۔ سالے بوڑھے ہو جائیں گے۔ شادی بھی نہیں ہو گی۔ ‘‘     نازاں خیال طنز سے مسکرایا  — ’’مندر مسجد کرتے جاؤ۔ پیٹ کا حال سنے نہ کبیرا —  نوکری گئی بھاڑ میں، روتا جائے بنجارہ  — ‘‘

’’ہوش کی دوا کرو خیال صاحب، فیض سقرطی نے ڈانٹا۔ نوکری ظالم ایسی بے وفا محبوبہ ہے جس پر شاعری نہیں ہونی چاہئے  — ‘‘

باقر مرزا نے ریڈیو پر کمنٹری کرنے والے انداز میں کہا —  ’’بھائیو۔ ہم اس آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں۔ نوکری تو غلامی کی چیز ہے۔ نوکری غلام کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچ کر خوش ہونا چاہئے کہ آزاد ملک کے آزاد شہری کی بھومیکا ہم سے زیادہ ایمانداری سے کوئی نہیں نبھا رہا ہے اس لیے کہ ہم آزاد ہیں اور نوکری نہیں کر رہے —  ہم حکومت پر کوئی بوجھ نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں کوئی ٹیکس بقایا نہیں ہے —  ہم گریچویٹی اور پی ایف کے بارے میں کچھ نہیں جانتے — ‘‘

’’آزاد ملک کے آزاد شہری۔ ہاہہ … ‘‘فیض سقراطی ہنسا  —

اندر سے کوئی بے سرے سرمیں اعلان کر رہا تھا۔ جو صاحب باہر ہوں، اندر چلے آئیں۔ ہال میں بیٹھیں۔

’’اندر چلنا چاہئے  — ‘‘

فیض سقراطی نے کہا  —

ٹھیک اسی وقت تیر کی تحسین حسین نے کمیونیٹی سینٹرکے دروازے پر قدم رکھا۔ اور ان کے پاس سے گزر گیا۔

’’پہچانتے ہو ؟‘‘ باقر مرزا نے کہا  —

 ’’نہیں  —  ‘‘

  ’’بھاجپا کا ممبر ہے۔،

’’اچھا  — ‘‘

اور سنو۔ چودھری برکت حسین کا لاڈلا ہے  — تحسین حسین۔ مسلمان ہے‘‘ —  مسلمان ہے اور بھاجپا  … ‘‘

نازاں خیال کر تے ٹھہر گیا۔ اسے اپنی آواز خود ہی اٹکتی ہوئی لگی۔

فیض سقراطی نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا۔ ’’ کامریڈ۔ آ گئے نا اسلام پر۔ ‘‘

’’نہیں۔ میرے کہنے کا مطلب تھا  … اور ہم اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ ‘‘باقر مرزا نے اشارہ کیا۔ چلو اندر چلتے ہیں  —

٭٭٭

اندر کار وائی شروع ہو چکی تھی  —

سورج غروب ہو چکا تھا۔ شام کے سائے چاروں طرف پھیل گئے تھے۔

 پانچوں نے اپنی جگہ لے لی

 — باہر ہوا تیز تھی  — کمرے میں ’رات کی رانی ‘اور چمیلی کے پھولوں کی خوشبو ہوا کے جھونکوں کے سا تھ اندر داخل ہو رہی تھی۔

 پانچوں ٹھہر گئے  —  مائیک کسی جوشیلے مسلمان نے تھام رکھا تھا۔ جو زور زور سے ہاتھ بھانجتا کہہ رہا تھا۔

’’بھائیو ! — ‘‘

٭٭٭

منا کے بدن میں حرکت ہو رہی تھی۔ اس کے اندر کا آدمی بار بار اٹھ کر مائیک پر آنا چاہ رہا تھا۔ مگر  —

بیٹھے ہوئے لوگوں میں سدھیندواور نیل کنٹھ بھی تھے۔ ایک بار منا کی ان دونوں سے نظر بھی ملی۔ سدھیندورائے نے کچھ اشارہ بھی کیا مگر منا پتھر کی مورت بنا رہا۔ نیل کنٹھ اسے دیکھ کر مسکرایا بھی۔ اشاروں میں سدھیندو رائے سے پوچھا  —

’’یہ پاگل یہاں کیسے آ گیا ؟‘‘

 ’’پتہ نہیں  — ‘‘

سدھیندو رائے چھوٹے سے ٹھونگے میں رکھا گیا چنا پھانکنے لگے — ’’تو تم بھی کھاؤ  — ‘‘

نازاں خیال نے دھیرے سے باقر مرزا کو ٹہوکا لگایا۔ ’’میں جاؤں کچھ بولنے کے لئے۔ ‘‘

’’اماں سنو میاں  — ‘‘باقر مرزا نے منہ بنایا  —

فیض سقراطی لے لقمہ دیا  —  ’’مائیک پر جاؤ گے اور نوکری کی بات چھیڑو گے، بیٹھ جا یار  — سننے دے  — ‘‘

مائیک لو کل اردو ڈیلی کے ایک صحافی نے تھام لیا تھا  — جس کی گھن گرج فضا میں گونج رہی تھی۔

نیل کنٹھ نے منا کو پھر اشارہ کیا۔

 ’’آ  جاؤ تم بھی بر خوردار  — کب سے منہ پھلائے بیٹھے ہو۔، ،

 منا تن گیا  —

سدھیندو رائے مسکرائے۔ ’’چھوڑو بھی کیوں تنگ کرتے ہو۔، ،

’’یہ لوگ  … ‘‘منا کو مائیک پر بولتے ہوئے سارے لوگ جھوٹے لگ رہے تھے۔ شاید وہ اسی لئے یہاں پہنچا تھا  — اپنی بات کہنے۔ مگر کمزوریاں اسے گھیر رہی تھیں۔ ہفتوں سے، لوگوں میں چھپنے چھپانے والے منا کو اس نے مضبوطی بھری تسلی دی تھی  … مرنا ہی ہے تو ایک بار مر جاؤ  — مگر اپنی بات تو کہہ جاؤ۔ ان موقع پرستوں اور مصلحت پسندوں سے زیادہ سچی اور کھری بات تمہاری ہو گی تحسین حسین تو تمہاری باتیں ان لوگوں تک کیوں نہیں پہنچیں  — پہنچتی ہیں۔ مسلم رہنماؤں کی باتیں، بدھی جیویوں کی، پڑھے لکھوں کی  — ایک سوچ تو تمہاری بھی ہے۔

اس نے نیل کنٹھ اور سدھیندو رائے کی طرف پھر مڑ کر دیکھا جواب دھیرے دھیرے خود سے باتیں کر رہے تھے۔

’’موقع پرست، مصلحت پسند !‘‘

منا کو غصہ آ رہا تھا  — ’’سالے، سب بھڑوے ہیں۔ کام کی بات کوئی بھی نہیں کر رہا۔ سب صرف کام چلاؤ باتیں کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو خوش کرنے والی —  نہیں۔ اس سے کام نہیں چلے گا  — ‘‘

اب مائیک ایک بوڑھے آدمی سنبھالا تھا۔ جو سنبھل سنبھل کر اتیت کے پنو کو ہوا دے رہے تھے۔ میل ملاپ کی کہانیاں  — دوستی بھائی پارگی کی کہانیاں  — محبت کی کہانیاں۔

’’ان سب سے کیا فائدہ ہے اب۔، ، منا کو غصہ آ رہا تھا۔ سب بیکار کی باتیں۔ لچر، کوئی فائدہ نہیں ہے  — اب لڑائیاں چھڑتی ہیں تو یہ گھروں میں بند ہو جاتے ہیں۔ بزدل، باہر آ کر لچھے دار تقریروں کے لئے چھوڑ دو ان کو، پھر دیکھو۔

’مصلحت پسند سب مصلحت پسند … ‘‘

مائیک کچھ دیر کے لئے خالی ہوا، اس سے پہلے کہ کوئی اعلان ہوتا یا کسی کو بلایا جاتا، تیزی سے منا مائیک کی طرف لپکا۔ اس کی سانس چل رہی تھی۔ چہرا جذبات سے لال ہو رہا تھا۔

’’سب جھوٹ۔ جھوٹ ہے سب  … ‘‘

جذبات کی آمیزش سے اس کے لفظ لڑکھڑا گئے۔

سدھیندورائے چونک گئے  —

نیل کنٹھ نے چونک کر دیکھا  —

منا ہکا بکا بیٹھے ہوئے لوگوں کی اس چھوٹی سی جماعت کو تک رہا تھا۔ کسی نے درمیان میں سے کہا  —

’’میاں، تب سچ کیا ہے ؟‘‘

 ’’بولتے کیوں نہیں۔ ‘‘

’’ارے یہ کیا بولے گا۔ ‘‘

 ’’ہاں ہاں بولو۔ چپ کیوں ہو گئے۔ ‘‘

منا نے گہری سانس کھینچی  — جذبات لفظ بہا لے گئے۔ ذہن میں صرف دھماکے ہو رہے تھے۔ جو بولنا تھا، سب دھماکوں ٹوٹ پھوٹ گیا۔

’’ارے بولو میاں۔ سب کو بولنے کا حق ہے۔ ‘‘

ایک بوڑھے نے اونچی آواز میں کہا۔

منا لہراتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا۔

 لوگوں نے پلٹ کر دیکھا  — منا نے مائیک چھوڑ دیا۔ ہٹ گیا۔ اور تیزی سے باہر نکل گیا  —

نیل کنٹھ نے طنز سے سندھیندرائے کو دیکھا۔

 سدھیندرائے نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا  — منا نے باہر نکل کر رکشہ کیا۔ گھر کا پتہ بتایا اور بوجھل سا رکشہ پر بیٹھ گیا۔

٭٭٭

 منا کا دل رونے رونے کو کر رہا تھا۔ وہ کمرے میں بجلی کی طرح گھسا اور کمرہ بند کر لیا  —

 شمیم نے دروازہ پر دستک دی۔

 ’’چائے نہیں پیئے گا ؟‘‘

 ’’نہیں۔ ‘‘

منا بستر پر بیٹھ گیا۔ دماغ اب بھی سائیں سائیں کر رہا تھا۔ وہ کچھ بول کیوں نہیں پایا۔ اگر نہیں بولنا تھا تو پھر اپنا مذاق بنانے وہ وہاں گیا ہی کیوں۔ نہیں وہ بولنا تو چاہتا تھا مگر وقت پر سب بھول گیا  —

شاید ایسا ہی ہوتا ہے  …  ایسا ہی ہوتا ہے  — اس لئے ہماری باتیں لوگوں تک نہیں پہنچتیں۔

اس کا دل رونے رونے کو کر رہا تھا  — اور سچ مچ تکیہ کو چہرے سے سٹا کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

٭٭٭

’’وہ اب ہمارے لئے خطر ناک ہوتا جا رہا ہے۔ ‘‘

 سدھیندورائے امر جیت سے پھسپھسا کر بولے  —

’’کچھ جلدی ہی سوچنا ہو گا  — ‘‘

 ’’ریلی میں جانے کے لئے کتنے لوگوں کا انتظام ہوا۔ ‘‘

امر جیت نے گہری نظروں سے سدھیند ورائے کو دیکھا  — پھر بڑبڑائے۔

 ’’ٹھیک کہتے ہو  — کچھ نہ کچھ انتظام کرنا ہو گا  — جیسے بھی ہو، اس بار ڈاکٹر نریندر کو ہر حال میں جتانا ہے  — ‘‘

 ’’ایک بات پوچھوں  — ؟‘‘

 ’’اَوَش (ضرور )۔ ‘‘

’’آپ کیوں کھڑے ہو جاتے ؟‘‘

امر جیت مسکرائے  — ’’کچھ لوگ پر دے کے پیچھے ہی اچھے لگتے ہیں۔ نریندر پیسے والا بھی ہے۔ ابھی پیسے والوں کی بہت ضرورت ہے۔ ‘‘

وہ پھر چنتا میں ڈوب گئے  —

٭٭٭

پانچوں چپ چاپ ہوٹل میں آ کر اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ڈبیٹ سے لوٹنے کے بعد ان کے چہرے پر سستی چھا گئی تھی۔

 ’’ وہ کیا بولنا چاہتا تھا ؟‘‘

 ’’پتہ نہیں۔ ‘‘

پھر بولا۔ کیوں نہیں۔

’’یہی تو تعجب ہے۔ ‘‘

 ’’مجھے تو معاملہ کچھ گڑبڑ لگتا ہے۔ ‘‘

’’اس کا چہرہ نہیں دیکھا  — کیسا لال ہو رہا تھا۔ ‘‘

 ’’مگر وہ کہنا کیا چاہتا تھا  — ‘‘

نازاں خیال نے باقر مرزا کو ٹوکا۔ ’تم نے کہا تھا کہ وہ  …  ‘‘

 ’’ہاں۔ اسی لئے تو اور تشویش کی بات ہے۔ ‘‘

’’کیوں نہ اس سے ملا جائے۔ ‘‘

’’کون سا تیر مار لو گے  — ؟‘‘

’’یار۔ یہ تو پتہ چل جائے گا کہ آخر وہ کہنا کیا چاہتا تھا۔ ‘‘

نازاں خیال نے کہا  — ’’بڑی بات یہ ہے کہ وہ کہنا تو چاہتا تھا مگر کہہ نہیں پایا۔ ہماری طرح۔ یہی بڑی بات ہے۔ ‘‘

’’یعنی ؟‘‘

فیض سقراطی چونک گیا  —

نازاں خیال نے برا سامنہ بنایا  — اور یہاں کہہ کر کر تا بھی کیا۔ کون سا، یہاں پارلیامنٹ بیٹھی ہے کہ سنوائی ہو گی  — ،

’’پار لیامنٹ میں سنوائی کب ہو تی ہے یار۔ وہاں تو اور بھی مچھری بازار ہے۔ ‘‘ احمد ربانی جھنجھلا کر بولا۔

نازاں خیال سنجیدہ ہو گیا۔ ’چلو چھوڑ دو۔ سمجھ لو وہ ہم میں سے ایک ہے اور ہماری باتیں دل کی دل میں رہ جاتی ہیں۔ یا بہت بہت ہم پانچ سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔،

پانچوں زور زور سے ہنسے۔

بیرے نے پاس آ کر پوچھا  — ’’چائے لاؤں۔ ‘‘

پانچوں نے اپنی اپنی جیبیں ٹٹولیں۔ پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیئے —  نہیں۔ آج نہیں  — ‘

میزسے اٹھ کر وہ باہر آ گئے۔

کافی دیر تک ان کی آپس میں کوئی بات نہیں ہوئی۔

٭٭٭

               مالو بیمار ہے

بالمکند کمزور ہو گئے ہیں۔ جسم میں اب وہ بات نہیں رہی۔ بچے ان کی شاندار صحت کو دیکھتے ہوئے پرانے زمانے کی جس اصلی گھی کی دہائیاں دیتے تھے۔ وہ گھی جسم سے اچانک ہی پگھلنے لگا تھا۔ اب کمزور اتنے ہو گئے ہیں کہ بہت مشکل سے سیڑھیاں چڑھتے اترتے ہیں۔ بہت بہت یہی ہوتا ہے کہ دروازے سے باہر نکل صبح سیر کے لئے دس بارہ قدم چل پڑتے ہیں  — پھر وہی الٹے پلٹے خیالات ہوتے ہیں اور بالمکند شرما جوش ہوتے ہیں  …

ذرا سی نیند جھپکی نہیں کہ یادوں کا حملہ شروع ہو جا تا۔ پرانے پرانے لوگ جانے کب کے مر کھپ گئے۔ سدرشن بابو، جمن چاچا، بدری پرساد نوکوٹھی والے۔ رائے بہادر  … پھر اماں اور ابا کو دیکھتے ہیں  …  مبہم، دھندلے چہرے، آنکھوں میں جہاں کا نور سمیٹے آنکھوں کے پردے پر جگہ گھیر لیتے ہیں۔

’’ہم یاد آتے ہیں بیٹے۔ اب دیر کا ہے کی۔ ہم سب بے صبری سے تمہاری راہ تک تک رہے ہیں  — ‘‘

’’کب آ رہے ہو  … ؟‘‘

’’ابھی بہت سے کام پڑے ہیں۔ اور وہ بیان  …  ‘‘

’’کام تو چلتے ہی رہتے ہیں  — بس اب آ جاؤ۔ ‘‘

دیکھو ہم آ رہے ہیں  — نیند بس موت کا فاصلہ ایک جست میں طے کر نے والی ہے …

بس یہ فاصلہ طے ہوا اور  …

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آنکھیں کھل جاتی ہیں تو خوابوں کی بے چینی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہاں بچے ڈر جاتے ہیں۔

’’ایسے کیوں مسکرا دیکھتے ہیں ؟‘‘

خواب میں اماں ابا کے دیدار ہوئے ؟‘‘

وہ ٹھہر تے ہیں  — میرا وقت آ گیا ہے  — سب مجھے آوازیں دے رہے ہیں  —  پرانے لوگ  — پرانے عزیز  …  کتنوں کے چہرے بھول چکا تھا  …  سب دھندلے دھندلے سے آنکھوں کے آگے اتر رہے ہیں۔

سرائے والی زمین کو لیکر گھر میں مقدمے بازی ہوئی تھی۔ رام ولاس شرما ان دنوں کتنے بے چین رہا کر تے تھے  — الطاف حسین رام ولاس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہیں  …  جاؤ بھائی کو سمجھاؤ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا  —

کتنے ہی ایسے واقعات آنکھوں کے آگے جگہ گھیر تے ہیں  — جیسے کوئی پرانی فلم چل رہی ہو  … ایک کے بعد دوسرا سین  —

طبیعت ذرا ٹھیک ہو تی تو خاندانی وکیل لچھو بابو مزاج پر سی کے لئے چلے آئے۔ پہلے تو دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر لچھو بابو اپنی منشا پر آ گئے۔

’’اب طبیعت کیسی ہے بالمکند بابو۔ ‘‘

’’رب کا فضل۔ ‘‘

’’طبیعت ٹھیک ہو تو ذرا بچوں کے بارے میں بھی سوچئے گا  — ‘‘انہوں نے لچھو بابو غور سے دیکھا  —

’’آپ بچوں کی کوئی سفارش لائے ہیں۔ ‘‘

’’لچھو بابو ایک دم سے چونک گئے۔ ‘‘

’’یہ کیسی بات کر نے لگے بالمکند بابو۔ ‘‘

’’بس یونہی  — مجھے لگا، میرے بچوں نے کچھ کہا ہے آپ کو۔ ‘‘

’’بچے کیا کہیں گے۔ مگر سوچنا تو چاہئے آپ کو  — ‘‘

لچھو بابو مسکراتے ہیں  — ’’اور اگر بچوں نے کہا بھی تو کون سا غلط کہا۔ ان کی گھر گر ہستی ہے۔ ذمہ داریاں ہیں۔ بچے ہیں۔ ‘‘

بالمکند کو غصہ آ گیا۔ ’پھر صاف کہتے کیوں نہیں کہ بچوں نے بھیجا ہے۔ ‘

’’ایسا سمجھ لو  — مشورہ دینا میرا کام  — میں اپنی اتنی لمبی زندگی میں ایسے کتنے ہی گھروں کی خانہ جنگی دیکھی ہے۔ جہاں باپ بنا وصیت کئے مر گیا اور بھائیوں میں خون خرابے کی نوبت آ گئی  — چیزیں مہنگی ہیں  — گھر گر ہستی مشکل بات ہے۔ آپ چاہو تو دونوں کی مرضی لے لو  — میں آمنے سامنے بٹھا کر وصیت کے کاغذات بنا لیتا ہوں  — کیوں، ٹھیک ہے نا، بالمکند بابو ؟‘‘

’’نہیں  — ‘‘بالمکند کے چہرے کا مانس کھچ گیا  — ’’میں نے بھی سوچ لیا ہے، وصیت نہیں کرنی ہے مجھے  — چاہے یہ گھر رہے یا ٹوٹے  — اب بچے مل کر نہیں رہ سکتے تو اس گھر کا جو چاہے حشر ہو، کر لیں ان کی مرضی  — ‘‘

لچھو بابو نے برا سا منہ بنا یا  —

’’میں تو بچوں کی بات تک پہنچادی۔ تو چلوں بالمکند بابو  — ‘‘

’’نہیں۔ ٹھہرئے۔ برا مت مانئے  — آپ تو خاندانی آدمی ہیں ہمارے  — بچے چاہتے ہیں گھر کا بٹوارہ۔ اس گھر کا  — آپ دیکھ رہے ہیں۔ چپے چپے پر بزرگوں کی نشانیاں تیر رہی ہیں۔ اپنی زندگی میں، اپنی آنکھوں کے سامنے کیا کرسکتا ہوں میں  —  لیکن جانتا ہوں، اِدھر آنکھیں بند ہوئیں اور اُدھر بچے اپنی من مانی پر اتر آئیں گے —  اتر آئیں  — کون سا میں زندہ رہوں گا، وہ برا وقت دیکھنے کو  — لیکن جب تک زندہ ہوں میاں  … میں بھی کم ضدی نہیں ہوں ‘‘

’’ارے شبھ شبھ بولئے بالمکند بابو۔ ‘‘

’’بچوں کے لکچھن ٹھیک نہیں تو یہ گھر ٹوٹنے سے کو ئی نہیں بچا پائے گا۔ یہاں اس حقیقت کو پہچانتا ہوں میں۔ اور کم از کم اپنی زندگی میں اُسے ٹوٹا اور بنا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں، بچے میرے اس زخم کو کیا سمجھیں گے  — ‘‘

’’نئے زمانے کے بچے !‘‘

لچھو بابو مسکرائے  — ’’چلئے کوئی بات نہیں  — اچھا نمستے۔ پھر اگر کبھی میری ضرورت ہو تو بلوا لیجئے گا بالمکند بابو  — ‘‘

اُسی شام  —

طبیعت ذرا ٹھیک تھی۔ وہ بستر پر لیٹے تھے کہ پہلے نریندر پھر انیل نے اندر قدم رکھا۔ ایک سرہا نے اور دوسرے نے پائیتانے اپنی جگہ سنبھال لی  —

’’آ ج تو بھگوان کرپا سے آپ سوستھ دکھ رہے ہیں بابو جی  — ‘‘

’’ہاں  — ‘‘

انیل دھیرے دھیرے پاؤ دابنے لگا  —

نریندر نے سر کو سہلا نا شروع کیا  —

ذرا دیر میں اوما چائے اور بسکٹ کے ٹرے لے کر پہنچ گئی  — پیچھے پیچھے تلسی بھی آ گئی — سب کو ایک ساتھ دیکھ کر با لمکند کو اچھا لگا  — پھر سوچا، بچوں کا اس طرح ایک ساتھ آنا کسی مصلحت سے خالی نہیں۔

’’ارے بات کیا ہے ؟‘‘

تلسی آگے بڑھی  — ’’بڑوں کی سیوا تو دھرم ہے باؤجی۔ ‘‘

بالمکند مسکرائے۔ یہ پوچھتے ہوئے ڈر لگا کہ دھرم اچانک آج کیوں یاد آیا۔

انیل نے پوچھا  —

’’صبح میں لچھو بابو آئے تھے۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’ کچھ بات ہوئی آپ سے۔ ‘‘

’’ہوئی۔ ‘‘

وہ چپ ہو گئے۔ دیکھا، انیل اور نریندر کی آنکھوں میں تجسس کے شعلے لپکے تھے۔

’’کیا بات ہوئی  — ؟‘‘

انہوں نے لیٹے لیٹے پاؤں موڑ کر بیٹھنے کی کو شش کی۔ نریندر اور انیل نے ہاتھوں کو پیچھے کر لیا  — انہوں نے دونوں بہوؤں کی طر ف دیکھا  — وہاں بس اس سوال کی تہہ میں جانے کی جلد بازی دکھتی تھی۔

وہ مسکرائے  — ’’بیٹو !ابھی نہیں مر رہا ہوں  — تم ڈر گئے ہو کہ بوڑھا اب بھولنے پر آ گیا ہے  — ڈرو مت  — اس حد تک بھولنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ ‘‘

انیل نے سر جھکا لیا  — ’باؤجی  — ہمیں ضرورت رہتی ہے  — ‘

نریندر نے سر کھجلایا  —

’’روز روز کے تناؤ سے تو بہتر ہے باؤجی کہ آپ بٹوارہ کر ہی دیں۔ آپ ہمارے ساتھ رہیں گے باؤ جی ‘‘ —

اس نے اوما کی طرف دیکھا  —

اوما چہرے پر دنیا جہان کا پیار سمیٹ کر بولی، ’’آپ ہما رے ہی ساتھ رہیں گے باؤ جی۔ مالو بھی کتنا چاہتی ہے آپ کو  — ‘‘

تلسی بگڑ گئی  — ’’کیوں باؤ جی ہمارے سارتھ کیوں نہیں رہیں گے۔ ہم کوئی اچھوت ہیں۔ یا ہم باؤ جی کو کھانا بنا کر نہیں کھلا سکتے۔ ‘‘

’’نہیں، یہ بات نہیں۔ ‘‘

نریندر کی بات کو انیل غصہ سے کاٹا  — ’’بات یہی ہے۔ ہماری خاموشی سے آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ باؤ جی کو بہلا پھسلا کرساری جائیداد اپنے نام کرا لیں گے۔ ‘‘

نریندر نے باؤ جی کی طرف دیکھا۔

’’دیکھا باؤجی۔ یہ الزام ہم پر ہر گھڑی لگتے ر ہتے ہیں  — لیکن ہم چھوٹے ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں بولتے  …  لیکن اب  …  ‘‘

بالمکند نے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھے اور بہوؤں کو روکا  — من تلخی سے بھر اٹھا — جھنجھلاہٹ پر قابو نہیں رکھ پائے

’’ابھی مر نہیں رہا ہوں۔ جب مروں گا تب دیکھا جائے گا  — ابھی مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ ‘‘

    ٭٭٭

بچوں کے جانے کے بعد وہ دیر تک گم سم بیٹھے رہے۔ گھر ٹوٹ جائے گا کیا ؟ دونوں بھائیوں میں تو اب ذرا بھی نہیں بنتی  — سمجھانے اورسمجھنے کے دروازے پر بھی انجانا سا تالا لگ چکا ہے۔

بچوں نے اچھا خاصا موڈ خراب کر دیا تھا۔ وہ دیر تک کمرے میں ٹہلتے رہے۔

اس واقعہ کے دو تین روز تک بیٹوں اور بہوؤں کے منہ پھولے رہے سب کتنے مصلحت پسند ہو گئے ہیں  — یہ بیٹے بہو ہیں  — انہیں رونا آتا تھا۔

اِدھر دلی میں ہونے والی ریلی کے کچھ ہی ہنگامے تھے  — نریندر کی مصروفیت اور ایکٹیویز کو وہ بھی دیکھ رہے تھے  — بالمکند کو آتا، ادھر ملک میں ہونے والے فسادات کم پڑ گئے ہیں۔ جو اتنی بڑی ریلی نکال رہے ہیں۔ پورے ملک کو فساد کی آگ میں جھونک دیں گے یہ لوگ۔

ریلی کولے کر شہر کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی  — دہشت بھرا نریندر ریلی کے لئے دلی چلا گیا تھا  — اوما کو ڈر لگ رہا تھا۔ مالو کی طبیعت کل سے ٹھیک نہیں تھی۔ کل سے دست قے آ رہا تھا  — گھر میں مرد کی شکل میں کوئی نہیں تھا۔ پہلے تو وہ پڑوس کی دکان سے حال کہہ کر دوا لے آئی۔ مگر دوا کھانے کے باوجود رات تک طبیعت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

گھر میں لے دیکر باؤ جی تھے  —

کئی بار اوما کو خیال آیا۔ باؤ جی سے مالو کا حال کہیں  — پھر سوچا باؤ جی تو خود بھی کمزور ہیں۔ باؤ جی کر ہی کیا سکتے ہیں  — صبح تک امید تھی کہ مالو ٹھیک ہو جائے گی — مگر صبح تک امید تھی کہ مالو ٹھیک ہو جائے گی  — مگر صبح تک مالو کی طبیعت بجائے ٹھیک ہونے کے اور خراب ہو گئی  —

ایک بار تو ایسا ہوا کہ اوما ڈر گئی  — مالو کی آنکھیں بند تھیں  — اور وہ نیند میں جیسے کچھ بڑبڑا رہی تھی  — سارا جسم کانپ رہا تھا۔

’’مالو  …  ارے او مالو  … ‘‘

’’مالو  … میری بچی  … ‘‘

ارے  …  آنکھیں کھول مالو  —

ماں کا دل  — اوما کے ہلانے ڈلا نے پر بھی جب مالو نے آنکھیں نہیں کھولیں تو اوما روتی ہوئی باؤ جی کے کمرے کی طرف بھاگی۔

’’باؤجی !‘‘بالمکند بہو کی لرزتی آواز چونک کر بیٹھ گئے  — بات کیا ہے بہو  — ؟‘‘

’’مالو کچھ بولتی نہیں باؤجی۔ ‘‘

ارے کہتے ہوئے بوڑھا جسم سیڑھیوں سے نیچے آیا  — کانپتا ہوا ہاتھ مالو کی پیشانی پر رکھا  — پورا بدن پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔

بالمکند پریشان ہو گئے۔

’’یہ کب سے جی خراب ہے۔ ‘‘

’’کل رات سے باؤجی، دست آ رہا ہے — قے ہو رہا ہے۔ اتنی بار کہ میں پریشان ہو گئی۔ ‘‘

’’تم نے بتایا کیوں نہیں۔ ‘‘

’’آپ کو کیا بتاتی باؤجی، آپ تو خود ہی بیمار ہیں۔ ‘‘

’’اب کیا کروں۔ ‘‘

بالمکند کمرے میں ٹہلنے لگے —  اوما رو نے لگی —  مالو کا جسم اب بھی رہ رہ کر کانپ اٹھتا —  بالمکند نے دیوار گھڑی کی طرف دیکھا۔ گیارہ بج گئے تھے۔ گھر میں نہ انیل تھا نہ نریندر —  مرد کی شکل میں کوئی بھی نہیں  —  اور وہ جانگر سے کمزور ٹھہرے —  کہیں سے کوئی غیبی مدد آ جائے تو …

ٹھیک اسی وقت دروازے پر آواز ہوئی —

’’بھائی جوش میاں  —  ارے بھائی تشریف رکھتے ہو۔ ‘‘

’’برکت حسین۔ ‘‘

وہ تیزی سے باہر لپکے۔ برکت حسین ہی تھے۔ برکت حسین جوش کے گھبرائے چہرے کو دیکھ کر ڈر گئے۔

’’بات کیا ہے جوش میاں۔ ‘‘

’’مالو کی طبیعت خراب ہے —  گھر میں کوئی نہیں۔ ‘‘

برکت حسین پھر رکے نہیں۔ اتنا پوچھا ، پڑوس میں کوئی ٹیلیفون ہے یا نہیں  —  منا سے بات ہوئے زمانہ ہو چکا تھا۔ مگر اس وقت معاملہ دوسرا تھا۔ سامنے والی دکان سے منا کو فون لگایا تو منا مل گیا۔ انہوں نے منا کو سب کام چھوڑ کر بالمکند میاں کے یہاں آ جانے کو کہا —  آدھے گھنٹے کے اندر منا ڈاکٹر کو لے کر حاضر تھا۔ ڈاکٹر نے مالو کو چیک کیا۔ پھر بولے —  اس کو تو ڈائریا ہے —  جسم سے سارا پانی نکل گیا ہے۔ اس کو ابھی بھرتی کرنا ہو گا۔ ‘

اوما رونے لگی۔

منا نے تسلی دی۔ ’’ گھبرائیے مت بھابی۔ ہم ہیں نا۔ آپ بے فکر رہیں۔ ‘‘

ڈاکٹر کا اپنا نرسنگ ہوم تھا —  منا اوٹو لے آیا۔

٭٭٭

سورج کا گولہ آگ برسا رہا تھا۔ گھر پر بالمکند اور برکت حسین رہ گئے تھے۔ دونوں بوڑھے خالی شطرنج نکالے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے —  منا کا انتظار تھا۔ طبیعت رہ رہ کر پریشان ہو اٹھتی۔ گھڑی کی سوئیاں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھیں۔

ایک بجے کے آس پاس منا آیا —  منا نے اطلاع دی …  کہ ابھی پانی چڑھ رہا ہے اور آج رات مالو کو نرسنگ ہوم میں ہی رہنا ہو گا —  فکر کی بات نہیں ہے۔ وہ شمیم کو بھی وہاں بھیج دے گا۔

٭٭٭

وہ رات قیامت کی رات تھی —

مالو اب تک نرسنگ ہوم کے بیڈ پر بے سدھ پڑی تھی —  پانی چڑھ رہا تھا —  صبح سے دوڑتے دوڑتے منا تھک چکا تھا۔ شام کو بالمکند اور برکت حسین بھی نرسنگ ہوم آئے تھے۔ منا نے پھر ان دونوں کو گھر پہنچا دیا —  اب سوال تھا، بچے کے پاس رات میں کون رہے گا —  اوما کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تھیں  —

 باہر ستاروں کا جھل مل ایک قافلہ تھا —  اوما دیوار سے خود کو ٹکائے دور تک تنی آسمانی چادر کو تک رہی تھی۔

منا ٹفن میں کھانا لے آیا —  اسٹول پر بیٹھی بیٹھی شمیم کی جھپکی لگ گئی تھی —

اوما نے منا کو دیکھا —

’’کھانا لے آئے؟‘‘

’’ہاں بھابی —  آپ گھر چلئے، آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔ ‘‘

اوما کو پس و پیش میں دیکھ کر منا دوبارہ بولا۔ ’’گھبرائیے مت بھابی — انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ نے چاہا تو صبح تک بھلی چنگی ہو جائے گی۔ یہاں ہم اور شمو بہت ہیں۔ آپ چلئے — ‘‘

اوما نے سامنے کھڑے فرشتے کو دیکھا، جسے بھگوان نے وقت پر مدد کے لئے بھیج دیا تھا۔

’’بھیا، آپ …  کیسے احسان اتاروں گی آپ کا — ‘‘

اوما رونے رونے کو ہو گئی —

’’چلئے —  گھر پر چچا بھی اکیلے ہوں گے۔ ‘‘

٭٭٭

وہ رات گزر گئی — قیامت کی رات —  اوما گھر تو آ گئی، مگر دل وہیں مالو میں لگا تھا —  وہ بستر پر لیٹ تو گئی مگر دل اسی منا اور شمیم کی محبت میں الجھ کر رہ گیا تھا —

یہ لوگ …  کون ہوتے ہیں اس کے؟ خون کا رشتہ بھی نہیں ہے۔ پھر —  صرف انسانی رشتہ کی مناسبت سے نا؟ وہ یہاں سورہی ہے اور وہاں وہ اپنی نیندیں تباہ کر کے جاگ رہے ہوں گے —  جبکہ آج تو سارے رشتے غرض کی ڈور سے بندھے ہیں  —  دوڑ دوڑ کر دوائی لانا۔ بھاگ بھاگ کر ڈاکٹر کے پاس جانا۔ اس کے پاس آ کر تسلی دینا۔ کون کسی کے لیے کرتا ہے آج کے سنسار میں اتنا۔

مالو کے لئے خطرہ اب بھی بنا ہوا تھا —

چھوٹی سی بچی —  چہرے پر معصومیت، فرشتوں جیسی —  مالو بے سدھ سی پڑی ہے۔ منا دھیرے دھیرے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتا ہے۔ شمو نیچے چادر بچھا کر سوگئی ہے —  کسی کسی بچے کے چہرے پر کیسے دنیا جہان کا نور بھر دیتا ہے اللہ —

مالو نے دھیر سے آنکھیں کھول دیں …  پانی —

منا نے دھیرے سے ہاتھ کے سہارے سے گلاس اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ مالو پھر لیٹ گئی —

منا نے راحت کی سانس لی —  بچی کے چہرے پر چھائی ہوئی شانتی اور معصومیت اسے بہت بھلی لگی —  وہ دھیرے دھیرے مالو کو تھپکنے لگا —

مالو کو نیند آ رہی تھی —

دوسرے دن مالو خود کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہی تھی۔ اس نے کھانے کے لئے بھی مانگا، ممی پاپا کے بارے میں پوچھا —  ڈاکٹر نے بتایا کہ اب وہ خطرے سے باہر ہے اور آپ اسے لے کر گھر جا سکتے ہیں۔

مالو گھر آ گئی —

منا نے اجازت مانگی تو مالو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’رک جائیے انکل — ‘‘

اوما بولی —  ’’ہاں، رک جائیے نا بھائی صاحب۔ ناشتہ وغیرہ کھا کر جائیے۔ ‘‘

بالمکند شرما نے غور سے منا کا چہرہ دیکھا —

منا نے مالو کا سر پیار سے تھتھپایا۔

’’بس تم اچھی ہو جاؤ بیٹا۔ ہم آتے رہیں گے۔ ‘‘

٭٭٭

شام تک مالو بالکل صحت مند ہو گئی۔ چہرے پر رونق آ گئی۔ بولنے بھی لگی —  اس کی چہچہاہٹ پھر سے لوٹ آئی —

مالو نے پوچھا۔

’’انکل نہیں آئے؟‘‘

’’ہاں ممی —  انکل بہت اچھے ہیں۔ انکل تو ساری رات جاگتے رہے۔ ‘‘

’’تم بھی تو سو گئی تھی۔ ‘‘

مالو معصومیت سے بولی —  ’’پر نیند جب بھی ٹوٹتی انکل سر سہلارہے ہوتے۔ ‘‘

اوما نے مالو کی پیشانی سہلائی۔ ’’ہاں، انکل اچھے ہیں …  بہت اچھے۔ پر ابھی زیادہ بات مت کر —  آج بھر آرام کر لے۔ کل سے جتنی مرضی اچھلنا کودنا۔ ‘‘

’’اچھا ممی — ‘‘

مالو نے دھیرے سے آنکھیں موند لیں  —  ’’لو سو گئی!‘‘

اوما اس کی ادا پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکی —

٭٭٭

(۲)

ریلی کا ہنگامہ سماپت (ختم) ہو جانے پر پانچوں، نلکانی، سیدھیندورائے، ڈاکٹر نویندو، نیل کنٹھ اور نریندر ایک کاریہ کرتا کے یہاں جمع ہوئے —  نلکانی باہر ہو گئے تھے۔ منا کی بغاوت کے بارے میں سن کروہ چپ تھے۔ من ہی من کچھ سوچ وچار کر رہے تھے۔ مہانگری آ کر پارٹی نیتاؤں سے ملنے کے بعد ایک طرف جہاں وہ وجے لکچھ (جیت کی منزل) کی دشا میں بڑھنے پر خوش تھے، وہیں شہر میں ان کی کریا کلاپوں پر پارٹی نیتاؤں کی پرتیکریاں (REACTION) سے فکر مند بھی تھے۔

ڈاکٹر نویندو بولے۔ ’’سب کئے کرائے پر پانی پھر رہا ہے۔ جب پارٹی کے لوگ ہی ہم سے ناخوش ہیں تو … ‘‘

نلکانی اپنی پرانی بات پر جمے تھے …  ہم ایک چھوٹا موٹا فساد نہیں کرا پائے —  سدھیندورائے بیڑی کا کش کھینچتے رہے —

ڈاکٹر نویندو غصے سے ابلے —  ’’جانتے ہیں انہوں نے کیا کہا۔ پارٹی ٹکٹ بھی چاہئے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے بھی رہیں گے آپ لوگ۔ اس سے کہیں پارٹی کا ہاتھ مضبوط ہوتا ہے۔ ‘‘

’’تو کیسے مضبوط ہوتا ہے۔ ‘‘ نلکانی بھی تاؤ کھا گئے —  ’’سب سے ادھک چنتا تمہیں ہے ڈاکٹر نویندو۔ اس لیے کہ ٹکٹ کے اصلی بھاگیدار تو تم ہو۔ کیوں ؟‘‘

نویندو اچھل پڑے۔ ’’مطلب؟ آپ کا مطلب؟‘‘

سدھیندو رائے بس چپ چپ بیڑی کھینچتے رہے —

نیل کنٹھ اور نریندر چونک پڑے —

نلکانی اپنی مہین آواز میں بولے —  ’’ہم تو بس بیکار پڑے ہیں  —  جتنا ہم سے بنتا ہے سوہم کرتے ہیں۔ آگے کی چنتا اسے ہو، جسے ٹکٹ ملنا ہے —  ‘‘

سدھیندورائے نے چپل سے بیڑی مسل دی۔ ’’نلکانی جی! یہ سمے آپسی جھگڑے کا نہیں ہے — ‘‘

نریندر بولا۔ پارٹی نیتاؤں نے یدی ہماری آلوچنا کی ہے تو کون سا غلط کیا ہے —

ہم اپنے چھیتر میں پارٹی مضبوط بھی کرنا چاہتے ہیں اور اب تک ہماری کوئی بھی راجنیتک چال سپھل نہیں رہی۔ ‘‘

ڈاکٹر نویندو  ملائمیت سے بولے —  آپ غلط سمجھتے ہیں ہمیں نلکانی جی —  ٹکٹ آپ چاہیں تو بے شک آپ لے لیں۔ لیکن آپس میں یہ من مٹاؤ نہیں ہونا چاہئے۔ ‘

نلکانی تھوڑا نرم پڑے۔ نہیں معاملہ ٹکٹ کا نہیں ہے۔ خیر چھوڑو۔ میرا بھی سر گھوم گیا تھا۔ کیا کروں۔ وے سمجھتے ہیں۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں ہم نے کیا کچھ نہیں کیا۔ پھر بھی اسپھل کے اسپھل رہے — ‘

دل چھوٹا مت کیجئے۔ ڈاکٹر نویندو پلٹ کر مسکرائے۔ رات ہماری ہے۔ واپسی کل ہے۔ آپ کہیں تو آج جشن ہو جائے۔ آج آپ کو بہترین وہسکی پلواتا ہوں۔ ‘

نیل کنٹھ بولا۔ ’ہماری بھی پسند کا خیال رکھیے گا۔ چناؤ میں ہم ہی کام آئیں گے۔ ‘

’’کیوں نہیں۔ ‘‘

ڈاکٹر نویندو اٹھ کھڑے ہوئے —  باہر ٹیکسی کھڑی تھی۔ پانچوں ٹیکسی میں بیٹھ گئے —

٭٭٭

پینے پلانے کے بعد رات ۹ بجے تک یہ ہوٹل میں لوٹ آئے —  ہر ایک کو تھوڑا بہت نشہ چڑھا ہوا تھا۔ مگر طے یہ پایا تھا کہ آج رات ہی کل ملا کر یہ اپنے آگے کی اسٹریٹجی طے کریں گے —

نلکانی کچھ زیادہ ہی لڑ کھڑا رہے تھے —

’’سنبھلئے۔ ارے سنبھلئے صاحب۔ ‘‘

ڈاکٹر نویندو نے انہیں کرسی پر سیدھا کیا۔

’’ایک ہی راستہ ہے۔ ‘‘

نلکانی مسکرائے —  منا کو مروا دو۔ ‘‘

نریندر اور نیل کنٹھ ایکدم سے چونک پڑے۔ جبکہ سدھیندورائے ایک دوسری بیڑی جلا کر چپ چاپ کش کھینچتے رہے۔

’’اور یہ کام تم کرو گے؟’’ انہوں نے نیل کنٹھ اور نریندر کی طرف اشارہ کیا۔

’’کیوں ؟‘‘

نلکانی بولے —  اس پر ادھک سوچ وچار کا سمے نہیں  —  بس یہی ہم نے طے کیا ہے۔

دونوں نے چونک کر ڈاکٹر نویندو کو دیکھا۔ ڈاکٹر نویندو نے دھیرے سے اپنی گردن ہاں میں ہلا دی۔

’’یعنی؟‘‘

’’مطلب مت پوچھو نریندر —  ‘‘ نلکانی اب بھی نشے میں جھوم رہے تھے۔ سمے کم ہے — ‘‘

’’لیکن ہتیا — ‘‘

نلکانی سرک گئے۔ تم اسے ہتیا کہتے ہو —  دھرم کے کام میں ہتیا۔ اپرادھ جیسے شبد نہیں ہوتے۔ یہ دھرم کا کام ہے۔ پارٹی کا تو ہے ہی۔ پارٹی سے بڑھ کر دھرم کاہے —  اور دھرم نے ستیہ کے لیے کئے گئے یدھ کو کبھی غلط نہیں کہا۔ یاد ہے ارجن نے آمنے سامنے کھڑی سینا کو دیکھ کر شری کرشن سے کیا کہا تھا —

ہے واسدیو، ہے شری کرشن، یدھ کے ابھیلاشی اس سمودائے (بھیڑ) کو دیکھ کر میرے انگ (اعضاء) شتھل (ٹھنڈے) پڑ گئے ہیں  —  مکھ سوجا جا رہا ہے میرے شریر میں کمپن اور رومانچ ہو رہا ہے۔ ہاتھ سے گانڈیو دھنش چھوٹا جا رہا ہے۔ توچا جل رہی ہے۔ ہے واسدیو، یدھ میں اپنے ہی لوگوں کو مار کر میں اپنا کلیان نہیں دیکھتا ہوں۔ ہے کرشن۔ میں وجے نہیں چاہتا۔ میں راجیہ اورسکھ نہیں چاہتا۔ ہے گووند …  مجھے راجیہ، بھوگ اور جیون سے کیا واسطہ؟ ہمیں جن کے لیے راجیہ بھوگ اور جیون چاہئے۔ وے ہی دھن اور پران چھوڑ کر یدھ میں کھڑے ہیں  —  آچاریہ، تاؤ، چاچا، بھائی، بندھو، دادا، ماما، سسر، ہے مدھو سدن! تین لوگوں کے راجیہ کے لیے بھی میں انہیں مارنا نہیں چاہتا —  ہے جناردن، دھرت راشٹر کے پتروں کو مار کر ہمیں کیا ملے گا۔

نلکانی بولتے بولتے لڑکھڑائے۔ یاد کرو پھر واسدیو نے کیا کہا تھا —  شری کرشن ارجن کے کتھن کو آتما کی در بلتا مانتے تھے —  انہوں نے سمجھایا۔ دیہہ (جسم) ناشوان ہے۔ اسے نشٹ ہونا ہے۔ مرتیو کے سمبندھ میں شوک کرنا نررتھک ہے۔ یہ اگر تیرے بھائی ہوتے تو رن بھومی میں تم سے ملنے کیوں آتے —  انہوں نے ارجن کی نندا کی کہ وہ دھرم یدھ سے بھاگ رہا تھا —

نلکانی کی آواز میں اب بھی لڑکھڑاہٹ تھی۔ نریندر، اس لئے یہ بھی دھرم یدھ ہے۔ یہ ہمارا دیش ہے پر نتو ہمارا نہیں لگتا۔ ہم جیسے چاہتے ہیں، ویسے اس کو بنا کر نہیں رکھ سکتے۔ ہم آپس میں بھی لڑتے رہتے ہیں۔ ایتو ہمیں لڑایا جاتا رہا ہے  — ہماری بدھی بھرشٹ ہو گئی ہے  — ہم ایک گؤ  ہتیا تک نہیں بند کرا سکے  — ہم کچھ کہتے ہیں تو آیوگ، ابھیو گ کے چکر میں پڑتے ہیں۔ ہم سے ادھک مہا مور کھ کون ہو گا نریندر — ؟

اب ایک اَوَسر (موقع ) ملا ہے ہمیں  — اتیت جیسا بھی بیت گیا پر ورتمان سامنے ہے  — ہم اپنے بھوش (مستقبل ) کو اپنے طور پر آکار د یں گے  — کیوں نریندر —  یدھ میں نشور دیہہ یدی مر یتو کو پر اپت ہو کر ہمیں کچھ دے سکتا ہے، تو ہماری سپھلتا، ہے — ‘‘

٭٭٭

نیل کنٹھ نے سگریٹ جلائی۔ وہ سوچ میں ڈوب گیا  …  تو کیا اس کے لئے ہمیں اپنا ہاتھ خون سے رنگنا ہو گا  —

’’پھر وہی مرکھتا۔ نلکانی بولے۔ پانی پیتے ہو کہ نہیں۔ جل میں دکھائی نہیں پڑنے والے اسنکھ جیو تیرتے ہوتے ہیں۔ بھوجن کے ساتھ ہم کتنے جیو کو نوالہ بنا لیتے ہیں۔ چلتے پھرتے ہمارے پاؤں کے نیچے کتنے ہی جیو آ کر کچل جاتے ہیں  — کبھی کبھی شانتی کے لئے بھی یدھ کرنا پڑتا ہے اور یہ اوسر ہے ایک لمبے سمے کے بعد پراپت ہونے والے شبھ اوسر کا  — یدی ہم اس بار بھی پر شنوں میں الجھ گئے تو پھر ہماری جڑیں اس بھومی سے سماپت ہو نے میں سمے نہیں لگے گا  — ‘‘

نلکانی نریندر کی طرف گھومے۔ نریندر۔ واستویکتا (حقیقت) یہ کہ چار دنوں میں تو ہمیں بھی اس بچے سے پریم ہو گیا ہے۔ بھیتر سے ابھیمانی ہے  — بولنے میں سنکوچ کرتا ہے  — ہمیں بھی اچھا لگتا ہے وہ۔ لیکن اچھا لگنے سے کیا ہو تا ہے۔ دشترتھ کی اِچھا تھی کہ رام کو چودہ ورشوں کے بن واس پر بھیج دیا جائے۔ یہ سب سمے کراتا ہے نریندر — اب تم بھی سنکوچ مت کرو  — ‘‘

٭٭٭

رات ڈوبتی جا رہی تھی۔ نشہ گہرا ہو ا جا رہا تھا۔ نلکانی کی آنکھوں میں نشے کے ڈورے کچھ زیادہ ہی گہرے ہوتے جا رہے تھے  — ڈاکٹر نویند و چت لیٹ گئے تھے — ذرا دیر میں ان کے خراٹے بھی گونجنے لگے  —

نریندر نیل کنٹھ کو لے کر ہوٹل کی بالکنی میں آ گیا  — اندر ایک بھیانک طوفان مچا ہوا تھا  — دونوں ہی خاموش تھے اور ہوٹل کے سامنے کی جھل مل، جھل مل کرتی روشنیوں کو تک رہے تھے۔

٭٭٭

(۳)

نریندر گھر آیا تو جیسے چاروں طرف منا کے نام کے کیسٹ بج رہے تھے۔ باؤ جی ہوں، اوما یا  مالو  …  سب کے ہونٹوں پر منا کا نام ایسے سجا تھا جیسے فرشتوں یا بھگوان کا سجتا ہو  —

مخالف حالات  — ہم سوچتے کچھ ہیں اور حالات آنکھوں پر پٹی چڑھا کر ’ کچھ کے لئے مجبور کر دیتے ہیں  —

اوما کی نظروں بھائی صاحب کا درجہ کچھ اتنا بڑھ گیا تھا کہ آدر، احترام اور عقیدت کے چرنوں کو چھو گیا تھا۔ بھائی صاحب نے یہ کیا  …  بھائی صاحب نے وہ کیا  — وہ تو بھگوان نے فرشتوں کو بھیج دیا۔ کیا بتاؤں۔ کیسی طبیعت ہو گئی تھی مالو کی۔ کیسے کیسے کر رہی تھی  — بھابی تھیں اور بھائی صاحب تھے۔ ساری رات اسپتال میں جاگتے رہے۔ ہمیں کچھ کرنے نہیں دیا۔

اوما بولی  — ’ جاؤ مل آؤ نا۔ برکت چاچا کے یہاں  —

برکت چاچا !

نریندر کے لئے یہ چونکنے کا مقام تھا۔ کہاں تو بڈھے کے گھر میں گھستے ہی اوما ناک بھوں چڑھا تی تھی  — غصے میں ابل پڑتی تھی  …  اب باؤ جی چائے کے لئے تنگ کریں گے۔ ہاں بڑے میاں کو بھی گھر پر نہ کام نہ دھندہ۔ بس چلے آتے ہیں ہمیں پریشان کرنے  — ان داڑھی والوں اور ٹوپی والے ملاؤں سے تو اوما کو جنم واسطے کا بیر تھا۔

مگر اچانک  …

’’برکت چاچا  … ‘‘نریندر مسکرایا  — ’ایک ہی دن میں بڑے میاں چاچا بن گئے۔

اوما چپ نہیں بیٹھی، جھٹ سے جواب دیا۔ آنکھیں کھلنے کے لئے دن اور یگ کیا ایک پل کافی ہے  — سوچ بھی رہی تھی۔ تم سے کچھ کہوں گی، باتیں کروں گی

’’کیا؟‘‘

’’غصہ نہیں کرو گے تب بولوں گی۔ ‘‘

’’غصے والی بات ہو گی تو کروں گا ہی  — ‘‘

’’تب نہیں بولتی  — ‘‘

’’بولنا، کیا خوشامد کرا رہی ہو  — ‘‘

’’اچھا بولتی ہوں  — راج نیتی چھوڑ کیوں نہیں دیتے  — بزنس میں دل لگاؤ یا جس میں تمہارا دل لگے۔ ‘‘

’’صاف صاف کیوں نہیں کہتی  — ‘‘

اوما کو جھٹکا لگا  —  ’’ایک بات بتاؤں۔ کل سے باؤ جی سے بھی بہت پریم بڑھ گیا ہے  — ‘‘

’’پہلے نہیں تھا کیا ؟‘‘

’’تھا کیوں نہیں  — لیکن اتنا نہیں تھا  — ہاں سنو  — ‘‘

نریندر نے گھور کر دیکھا  — ’’ایسا کیا کر دیا اس نے کہ تم سب پر جادو ہی کر دیا۔ ارے بیماری اور دکھ سکھ میں پاس پڑوس والے تو کام آتے ہی ہیں۔ اس میں انوکھا کیا ہے۔ ‘‘

’’انوکھا میں نہیں جانتی  — اس نے میرے مالو کی جان بچائی ہے بس اتنا جانتی ہوں۔ اور اتنا جاننے سے کئی اور بھی باتیں بھی صاف ہو گئی ہیں۔ ‘‘

’’جیسے ؟‘‘

جیسے مسلمان برے نہیں ہوتے  —  ہماری اماں بھی مسلمانوں کو برا کہتی تھیں۔ ڈرتی تھیں۔ سب من کا میل ہے نریندر  — بچپن سے بھیتر بیٹھایا گیا ڈر کیوں، اب بھائی صاحب کو ہی لو  — ‘‘

’’بھائی صاحب  — ‘‘نریندر کو غصہ آ گیا  —

اوما اپنی دھن میں کہتی گئی۔ بچپن میں کیسی کیسی باتیں سنتی تھی۔ میاں جی کے محلے میں جاؤ تو مار دیتے ہیں۔ شیروانی اور کرتے کے اندر چاقو اور چھرا چھپا کر رکھتے ہیں  — نہاتے نہیں ہیں  — تلوار کے زور پر مسلمان بناتے ہیں  — ہمارے مندروں کو توڑتے ہیں  — ‘‘

’’تم نے راج نیتی چھوڑنے کی بات کیوں کی ؟‘‘

’’سچی بولوں تو پھر بگڑ جاؤ گے  — ‘‘

’’مت بولو۔ سمجھ گیا، تم پاگل ہو گئی ہو  — کوری بھا وکتا (جذبات ) میں بہہ گئی ہو۔ ‘‘

’’نا  — پر یا وشواش ہوا ہے کہ جو راجنیتی فرق پیدا کر تی ہے وہ غلط ہے  — ، جو نفرت سکھاتی وہ غلط ہے  — جو بھید بھاؤ اور ذات پات پھیلاتی ہو وہ غلط ہے  — ‘‘

نریندر کو غصہ آ گیا  — ’’یہ آدرش وادیوں والی بات چھوڑ دو، کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے۔ یہ سوچنا مجھے بھی آتا ہے۔ ‘‘

اوما کو برا لگا۔ ’’تمہاری جگہ کوئی دوسرا باپ ہو تا تو وہ بھائی صاحب کا دھنیواد دینے ضرور جاتا۔ اور ایک تم ہو۔ یہاں بیٹھے ہو، ناراض ہو رہے ہو۔ ‘‘

مالو اسکو ل کی کاپی کھو لے پاپا  پاپا کہتی ہو ئی اندر آ گئی۔

’’کیا ہے ؟‘‘

’’یہ  Mathدیکھنا پاپا۔ ‘‘

نریندر نے کاپی دیکھی  — ’ٹھیک ہے۔ اب جاؤ کھیلو !‘

’’انکل  — ؟‘‘

نریندر چونک کر اوما کو دیکھا۔

اوما مسکرائی۔ ’بھا ئی صاحب کو کہہ رہی ہے۔ ‘

’’ہم انکل کے یہاں کب جائیں گے پاپا ؟‘‘مالو پیار سے پوچھ رہی تھی۔

نریندر پو ری طاقت سے غصہ ہو ا  — ابھی ما تھا مت چاٹو  — ابھی جاؤ پڑھو۔ ‘‘

مالو سہم گئی۔ نریندر کو احساس ہو ا۔ بیٹی پر اتنے زور سے بگڑنا نہیں چاہئے تھا۔

’’سنو مالو  — ‘‘اس نے آواز میں نرمی پیدا کی  — ’’چلیں گے بیٹا۔ ابھی ہم تھکے ہوئے ہیں نا  — چلیں گے  — ‘‘

لیکن اس کی نرمی کے باوجود مالو اب تک سہمی ہوئی تھی  — وہ پھر رکی نہیں، تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔

 ٭٭٭

نریندر سگریٹ کبھی کبھار ہی پیتا تھا۔ بالکنی پر آ کر اس نے سگریٹ سلگا لیا  —  سگریٹ کے لمبے لمبے کش کھینچنے لگا  …  لگا آنکھوں میں ڈھیر سی پر چھائیاں سمٹ رہی ہوں  …  یہاں ان تین چار دنوں میں جیسے کوئی معجزہ ہو گیا۔ کوئی کر شمہ ہو گیا  — اور یہاں  …  اس کے ذہن میں لگا تار دھماکے ہو رہے تھے  — جیسے ڈھیر سارے بم، گولے چھوٹ رہے ہوں۔ آنکھوں کے آگے نلکانی کا چہر ہ بار بار ابھر رہا تھا  …  تم اسے ہتیا کہتے ہو۔ دھرم کے کام میں ہتیا، اپرادھ جیسے شبد نہیں ہوتے  …  دھرم نے ستیہ کیلئے کئے گئے یدھ کو کبھی غلط نہیں کہا۔

اسے محسوس ہوا  …  نلکانی نے ایک بھرا ہوا پستول اس کی کھلی ہتھیلیوں کی طرف بڑھایا ہو  …

’’لو  …  شاباش  — ‘‘

اس نے اپنا لرزتا ہو ا ہاتھ آگے کر دیا  —

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور ان کے شکریئے کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائل فراہم کی۔

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

حصہ اول کے لئے یہاں کلک کریں

حصہ سوم کے لئے یہاں کلک کریں