FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

بارش برستی ہے

 

اقتدار جاوید

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل 

 

 

گھوڑے کی موت

 

 

گھوڑا مرا ہے

کہ وہ اگلی ٹانگوں کو

اوپر اٹھاتا ہوا

میرے دل میں

کہیں ناچتا ہے

اسی موت یوں آئی

لوگوں کو جیسے وبا گھیر لیتی ہے

یک دم

بڑے شہر کو گھیر لیتے ہیں

آہستہ آہستہ جیسے مضافات

 

رقاصوں کے بیچ

یوں گھر گیا تھا

سیہ رنگ گھوڑا

سیہ رنگ لوگوں میں گھرتی ہے

جیسے طوائف

سیہ رنگ گھوڑے کے

گھٹنوں کے نیچے

وہ گھنگھرو بندھے تھے

جو لوگوں کے سینے میں بجتے تھے

گلیاں اجڑتی تھیں، بازار سجتے تھے

گھوڑے کو شاید

طوائف کی ازلی کہانی تھی ازبر

جسے سن کے وہ رقص کرتے ہوئے مر گیا

اپنے ماتھے، ستاروں بھرے اپنے ماتھے کو

لوگوں کے قدموں میں

یوں ٹیکتے ٹیکتے مر گیا

 

ایسے لگتا ہے

گھوڑے کے سینے میں

شاعر کا دل تھا

وہ گھوڑا، مرے دل میں

اک خواب کی شکل میں

جاگتا ہے

مرے دل کے میدان میں

پوری مستی سے

نخرے سے

نازوں سے

ٹانگوں کو

ٹھوڑی کے نزدیک لاتا ہوا

مستقل بھاگتا ہے!

٭٭٭

 

 

مجھے تازہ پانی کی خوشبو بلاتی ہے

 

رات کو

چین کی نیند میں سویا ہوتا ہوں

نیچے، زمیں کے بہت نیچے

پانی کی بے چین آہٹ سے میں جاگ جاتا ہوں

سوہان، ساھول،کسی اٹھاتے ہوئے

چپ درختوں کے نیچے

اندھیرے بھرے راستے سے گزرتا ہوں

سوئے پرندے پروں کو ہلاتے ہیں

زی روح کی چاپ سے جاگ جاتے ہیں

نرمی سے میں پاؤں اوپر اٹھاتا ہوں

گویا دوبارہ پرندے سلاتا ہوں

جنگل میں یوگی

مہا ناگ کے روپ میں

جسم کو ایک کنڈل بناۓ ہوئے

راستہ رو کے بیٹھا ہے

ہاتھوں کو اوپر اٹھاتا ہے

پھن سا بناتا ہے

پرماتما کے لئے

سانس ہی سانس میں

میٹھے اشلوک گاتا ہے

گہرے ہرے رنگ کے ریشمیں ڈھیر سے

ریشمیں روپ والی ہوا

چھب دکھاتی ہے

میری طرف دیکھ کر مسکراتی،

مجھے خاص منزل تلک لے کے جاتی ہے

خوشبو سے لبریز مٹی

مجھے روک لیتی ہے

میں جان جاتا ہوں

پانی کی خوشبو ہے

میں بھاری کسی سے نقطے لگاتا ہوا

ایک چک باندھتا ہوں

مجھے تازہ پانی کی خوشبو بلاتی ہے

میں نیچے جاتا ہوں

پانی کا چہرہ دمکتا ہے

اس میں فلک یوں جھلکتا ہے

جیسے کٹورے سے پانی چھلکتا ہے

گہرے کوئیں میں

میں خشٹک پہ خشٹک لگاتے ہوئے اوپر آتا ہوں

پانی کو چلتے ہوئے دیکھ کر

مسکراتا ہوں

دنیا کی خاطر کوئیں کھودتا ہوں

کوئیں کھود کر اپنی روزی کماتا ہوں

 

جب شام ہوتی ہے

پانی کو ہنستے ہوئے دیکھ کر

گھر کی جانب پلٹتا ہوں

میں چین کی نیند سوتا ہوں

سوتے ہوئے میں

اچانک کوئیں والی چوکور

پانی میں ڈوبی ہوئی سرخ دیواریں

آپس میں ملتے ہوئے دیکھتا ہوں

اچانک کوئیں کی جگہ کو

میں ہم وار ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں

تو پانی کی بے چین آہٹ سے

میں جاگ جاتا ہوں!!!

٭٭٭

 

 

 

 

سرنگیا

 

 

یہیں پہ تھا سرنگ والا

اک سرنگ سے نئی سرنگ کھودتا ہوا

مجھے بتا رہا تھا

آنا ہی نہیں قریب اپنے آپ کے

نقاب اتارنا نہیں

خود اپنے آپ کو بھی دیکھنا نہیں

پلک جھپک کے لوٹنا نہیں

مدارِ اولیں کی سمت

جوڑنی نہیں

پلک سے دوسری پلک

لبوں پہ کوئی بات اۓ

اس کو ڈھالنا نہیں حروف میں

خیال جو جھٹک دیتے گئے تھے

جمع کرنا ہے انہیں

نہیں ہے سونے کے لئے سیاہ رات

جاگنے کے واسطے بنی ہے رات

جسم کو تیاگنے کے واسطے

بنا ہے دن

تمام عمر’ ایک سانس کھینچنا ہے اپنی سمت

سانس کو نکلنا ہے موت پر

 

مجھے ترا وجود یاد آ گیا

خطوط جو خیال سے اتر گۓ تھے

ان کو جوڑتا ہوا

میں سانس توڑتا ہوا

کھلی فضاء میں آ گیا!!

٭٭٭

 

 

 

بارش برستی ہے

 

دریا کنارے پہ پھولوں کی بستی ہے

پھولوں کی بستی

پہ بارش برستی ہے

دن سرمئی ہونے لگتا ہے

نیلے افق والی

نیلا افق گھیر لیتی ہے

جب اپنے کمرے سے باہر نکلتی ہے

اک آگ جلتی ہے

آنگن میں لیموں کے پودے کی شاخیں ہلاتی ہے

وہ کیسی طاقت کا منبع ہے

کیسی وہ جادوئی ہستی ہے

لیموں کے پودے پہ بارش برستی ہے

بارش میں گاتی ہے

چھینتے اڑاتی ہے

فتر پہنچتی ہے

سردی کی صبحوں میں

کافی بناتی ہے

کافی بناتے ہوئے

تھوڑا ہنستی ہے

شیشے کے کیبن پہ بارش برستی ہے

ب رات ہوتی ہے

لفظوں کے جھرمٹ میں

نظموں کی شکلیں بناتی ہے

نیندوں کی نرمی میں

سپنے جگاتی ہے

جنگل اگاتی ہے

جنگل میں گہرا اندھیرا ہے

موروں کی مستی ہے

موروں پہ بارش برستی ہے

نیلے افق والی واپس پلتی ہے

بارش کی رسیا پہ

چمکیلے رستوں پہ

چمکیلی اشیا پہ

دیر بارش برستی ہے!!!

٭٭٭

 

 

 

گڑیا کی گاڑی

 

 

ابو کے سینے میں

جنکشن کی رونق ہے

لوگوں کا انبوہ

قلیوں کا مجمع ہے

ڈبوں پہ شیشے ہیں

شیشوں کی کھڑکی کے پیچھے

غضبناک چہرے ہیں

چمکیلے سہرنے ہیں

گھونگٹ میں گوری ہے

گنے کی پوری ہے

 

آہستہ آہستہ

گاڑی سرکتی ہے

سگنل تڑپتا ہے

رستہ بناتا ہے

گاڑی گزرتی ہے

تنکے اڑاتی ہے

شہروں کو بھوبل بناتی ہے

 

ابو کا کہنا ہے

جو تیرا بھائی ہے

اس کی زمانے سے جیسے لڑائی ہے

غصّے میں رہتا ہے

دریا کی صورت

کنارے گراتا ہے

مستی میں بہتا ہے کس نے سمندر یہ ناپے ہیں

کس نے سمندر یہ پاٹے ہیں

کیا وہ نہیں جانتا ہے

یہ لمحوں کے سودے ہیں

صدیوں کے گھاٹے ہیں

 

بہنوئی کی کیسی جاں لیوا سنگت ہے

آپی کی سرخیلی رنگت ہے

اڑتا دوپٹہ ہے

سونے کے کانٹے ہیں،نتھلی ہے

مضبوط باہوں کا گھیرا ہے

آپی کی نازک سی پسلی ہے

 

یہ کیسی دل کو فنا کرتی میٹھی چبھن ہے

یہ کس طرح کا میٹھا کانٹا ہے

بھائی نے بھابی کو ڈانٹا ہے

پلو کو کھینچا ہے

گہری مسرت سے لبریز پانی سے

باغیچہ سینچا ہے

بھائی کی شادی ہے

بہنوں کے جھگڑے ہیں

امی کے خدشے ہیں

پٹڑی کی لرزش ہے

انجن کی گرمی ہے

گاڑی نے چلتے ہی جانا ہے

رستے میں نیلا سمندر ہے

روشن پہاڑی ہے

ابو کا سینہ ہے

گڑیا کی گاڑی ہے!!!

٭٭٭

 

 

 

گل گو

 

میں کوئی بات ایسی نہیں کر رہا

جس کا مطلب درختوں پہ پتوں

کی صورت لرزتا نہ ہو

جس کا مطلب

کناروں پہ

دریا کے پانی کی صورت

چمکتا نہ ہو

جس کا مطلب

نہ گل گو کے اندر

مسلسل اترتا ہو

آوے میں بارش کا پانی کہاں جمع ہے

 

یہ وہی گیت ہے

جو زمانوں سے

دہراتے آئے ہیں شاعر

وہی نام ہے

سرخ رومال پر

لڑکیاں کاڑھتی آئی ہیں

اور وہی خواب ہے

جو بدن توڑتی نیند میں جگمگاتا ہے

ہل چل مچاتا ہے

جینے کا مطلب بتاتا ہے

سینہ بہ سینہ روایت کی صورت

جسے ساتھ رکھتی ہیں نسلیں

 

خداوند

مفہوم اس کا تری طرح دل میں چمکتا ہے

لیکن

خداوند

تیرے ہی مفہوم کی طرح

صحرا کے بے جان ذروں کی صورت

ہواؤں میں اڑتا ہے

لب ریز آنکھیں

یونہی تو نہیں ہو رہیں

کوئی کانٹا ہے

جس کا نکلنا نہیں طے ہے

 

لفظوں کے انبار میں

اک یہی لفظ ہے

جس کا معنی نہیں مل رہا

اک یہی پھول ہے

جو ترے اور مرے راستے پر نہیں کھل رہا!!!

٭٭٭

 

 

 

دل میں کھبا ملک

 

 

مجھے

اپنے نازوں بھرے ملک کو

دیکھنا ہے

المپک کی گیموں میں

تمغے اڑاتے،

ٹرافی اٹھاتے

مجھے

دل میں کھبتے ہوئے ملک کو

دیکھنا ہے

ممالک کی صف میں

برابر کھڑا

یخ ہواؤں میں

جب

اپنے قومی ترانے کی دھن

پھیلنی ہے

مجھے

تب ممالک کی صف میں

برابر کھڑے ملک کو دیکھنا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

دریا

 

خشک کیکر کے پیڑوں نے لو کے تھپیڑوں نے دھرتی کے بے تاب سینے سے سر سبز و شاداب دریا کی مورت ابھرنے نہیں دی

منوں مٹی کے نیچے بے شکل تودوں،سیہ رنگ پودوں کے ہمراہ دن کاٹتا ہوں گزرگاہِ صد رنگ آنکھوں میں بستی ہے

گیلے کناروں پہ پیڑوں کے نیچے دوآبے کی مہکار اڑتی ہے

میدانی دنیا کی جانب گزرگاہ مڑتی ہے

دریا کے گیلے کناروں پہ تہذیب پلتی ہے

اپلوں کے پھولوں کے اوپر دہکتے توے ہیں

دہکتے توے پر چھنکتے ہوئے سرخ ہاتھوں کی چمکیلی پوریں ہیں

تہمد کے پھاٹوں میں ابرق سی رانوں کی رنگت چمکتی ہے

گہرے،سلونے سمے ہیں فلک کے ستارے ہیں پیڑوں پہ پینگیں ہیں پینگوں کے لمبے ہلارے ہیں

چادر میں ملفوف مدھم نشانوں میں مدہوش رہتا ہوں

دریا ہوں اک سیلِ محبوس ہوں اور اندھے بہاؤ کے اندھے تصور میں بہتا ہوں!!!

٭٭٭

 

 

 

غار

 

ہے ممکنات میں کہ دونوں

ایک شہر میں مقیم ہوں

فلک کے لاجوردی تھال کو

سیاہ دن کی دھول نے

ذرا سی شام کی غریب روشنی نے،

شب کی نرم راکھ نے چھپا لیا ہو

لاجوردی تھال کو ستاروں کے سمیت

کھا لیا ہو

اور اسیر ایک ہی

فلک کے نیچے چل رہے ہوں

اپنی اپنی زندگی کی آگ کی

انگیٹھیوں میں جل رہے ہوں

ہے عین ممکنات میں کہ

گاڑیوں کے ازدحام میں

رکے ہوئے ہوں اک جگہ پہ

انتظار میں

کہ سبز روشنی ہو

چل پڑیں، نکل پڑیں

سڑک کی بھیڑ میں

رواں دواں ہوں

ساتھ ساتھ جا رہے ہوں

ایک شاہراہ پر

سفید بدلیوں کی چھاؤں

ساتھ ساتھ پڑ رہی ہو

آئنے میں دفعتہً تری جھلک پڑے

نگاہ یک بیک چھلک پڑے

سیاہ شب میں

دونوں نیند کے جہاں میں

دونوں عین میں

اک سفید شکل دیکھتے ہوں

موتیے کے پھول کھل اٹھے ہوں

دو گھروں کے سامنے

ہے ممکنات میں

کہ دونوں ایک شہر میں مقیم ہوں

ہم ایک راستے سے

شہر کی حدود چھوڑتے ہوں

سات دن کہیں گزارتے ہوئے

بہم ہوں، خود کو جوڑتے ہوں

یا دوبارہ ایک راستے سے دونوں

شہر کے مہیب غار میں اتر رہے ہوں!!

٭٭٭

 

 

 

زنبور خانہ

 

زنبور،

زنبور خانے سے باہر نہ آنا!

زمانہ تو پھولوں سے

اور شہد سے میٹہے

لوگوں سے لبریز ہے

اونچے پیڑوں کی

پھلدار شاخیں جھکی ہیں

فضاء میں بہت دور

تم سے بہت دور

بادل کے ٹکڑے رکے ہیں

وہ ٹکڑے کی نعمتوں سے لبا لب بھرے ہیں

کہیں دور،تم سے بہت دور

چشموں پہ رنگیں پرندے اترتے ہیں

منقاریں بھرتے ہیں

اڑتے ہیں، مڑتے ہیں

تتلی پروں کو ہلاتی ہے

صد رنگ منظر بناتی ہے

تتلی کے کومل پروں پر

کئی تل ہیں

تل جیسے خواہش بھرے دل ہیں

 

زنبور

زنبور خانے سے باہر نہ آنا

نہ تکنا

بھلا کس طرح پیڑ پھلتا ہے

پتھر پگھلتا ہے

اندر سے جلتا ہے

باہر سے پھلتا ہے

پھل والا آتا ہے

سیڑھی لگاتا ہے

پھل لے کے جاتا ہے

زنبور،

زنبور خانے سے باہر نکلتے ہو

خورشید کی طرح اپنی ہی آتش میں جلتے ہو

ایسے دہکتے ہو

تندور جیسے دہکتا ہے

گھر والی کہتی ہے

ریشم کے لچھے ہو

پھولوں سے کومل ہو

پھولوں سے اچھے ہو

ذی روح کے جسم میں

نیش بوتے ہو

نایاب ہو،زہر آمیز ہو

زہر سے کتنے لبریز ہو!!!

٭٭٭

 

 

 

کشف

 

 

مصلا اٹھایا ہے

رستہ بنایا ہے

سانسوں کو باہر نکالا ہے

گھر والی کو ایک پیغام بھیجا ہے

اور دوستوں کو بتایا ہے

یہ میرا یگ ہے

اسی یگ میں

خود میں اٹھاؤں گا محشر

میں خود ان کو دیکھوں گا خود ان کے کاندھے اتاروں گا

مکار فرقے کے ہاتھوں اسی شہر میں

پھول والی گلی میں

وہ نظموں کی قرات کے دوران مارا گیا تھا

سبھی جانتے ہیں کہ اس خاک کے بھیس میں اک ستارہ اتارا گیا تھا

وہیں ان کو لاؤں گا

چن چن کے ماروں گا

گن گن کے احساں اتاروں گا

بالوں سے پکڑوں گا

حنظل کے میداں میں کھینچوں گا

بازار سے تھان، گہرے سیہ رنگ کا تھان

منگوانا ہے

ایک ہی قبر میں سب کو دفنانا ہے

اس سیہ رنگ کے تھان میں ان کو کفنانا ہے

اس ریاضت کے دوران

جو کشف کا عرصہ گزرا

بھلانے کی آخر گھڑی آ گئی ہے

مگر کشف، جو مجھ پہ اب ہو گیا ہے

بتانے کی

آخر گھڑی آ گئی ہے!!!

٭٭٭

 

 

 

پکا ہوا پھل

 

طبع مری عطار کا مرقد

جسم مرا صوفی کی بغچی

اک خشخاش جو اس کا مالک

کیا ڈھیری سے جڑ پاؤں گا

جو کچھ طبع عطا کرتی ہے

وہ اشکال بنا لیتا ہوں

جس شے سے مٹی چھنتی ہو

دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر

اس پر آہستہ سے رکھ کر

پاک پو تر ہو جاتا ہوں

نہیں بہانہ کوئی بہانہ

جس کی خاطر اپنے آپ سے اوپر اٹھ کر

چھان پھٹک کرتے کرتے

چھلنی سے نیچے گر پاؤں

حکم الٰہی سر ماتھے پر

یہ سرنامہ آنکھ کا تارا

نیند کا ریشم، صبح کی ٹھنڈک

ظہر کی گرمی سر ماتھے پر

وقت وسیلہ پاؤں کے نیچے

جن باتوں کی یک رنگی کا رونا رو کے

عمریں کچھ نہیں

جس یک رنگی کی تہہ کھودی

اس یک رنگی پر میں قرباں

اس سے نکلیں مخمل جیسی دن کی کرنیں

اس سے پھوٹا

ٹھنڈی روشنیوں کا ابد ابد جگمگ فوارہ

یہ فوارہ حکم الٰہی

ست رنگوں کا روشن دھارا

فرض کیا ہے جو کچھ میں نے اوپر

اولیٰ، واجب

میں اس فرض پہ فرحاں شاداں

آپ لڑوں گا جنگ میں اپنی

میری چاروں سمتوں میں جو فوج کھڑی ہے

میں اس فوج کی کرچی کرچی کرتی

تلواروں کو دیکھوں گا

پکے ہوئے پھل کی صورت

اس جھولی میں گر جاؤں گا

جس جھولی میں چھید بہت ہیں۔

٭٭٭

 

 

بلا عنوان

 

 

یہ دریا ہے

یا تیرے شاعر کا سینہ ہے

جس میں مہارنگ موتی ہے

اس گہرے دریا پہ

کیسے

ستاروں کی جھلمل ہے

کس دودھیا روشنی کی طربناک لرزش ہے

اندھی، اندھیروں بھری گہری پاتال میں

اک اُبھرتا ہوا

کیسا مہتاب ہے

تیرے شاعر کے شفاف لفظوں کی صورت

اُفق کے سیہ رنگ سینے سے

باہر نکلنے کو

مہتاب بے تاب ہے!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ترسیل

 

میں کوئی شے دوبارہ نہیں لکھ رہا

صرف دُہرا رہا ہوں

کوئی پیش، جزم اور زیر اور زبر تک

بدلنے نہیں جا رہا

یہ حکایت قدیمی ہے

یگ ریت کے دانوں کی طرح اڑتے ہیں

لیکن

حکایت کہ ذرہ برابر بھی تبدیل ہوتی نہیں

اس حکایت کا سننا سنانا

زمانے کو دھکا لگانا ہے

(زمانے کو آگے بڑھانا ہے)

رسیا وہی لوگ ہیں اس حکایت کے

جو

اس کا معنی نیا اخذ کرنے پہ قادر ہیں

لذت سے بھرپور اُن کی طبع

پھلوں سے بھری ٹوکری ہے حکایت

حکایت وہ رنگلا کبوتر ہے

جو پیڑ کے شاخچوں پر نہیں بیٹھتا

مزاروں پر اُڑتا ہے

لوگوں سے جُڑتا ہے

دریا ہے کوئی کہ

جس نے پہاڑوں کو اور سبز میدانوں کو چیرتے ڈیلٹے میں

اُترنا ہے

رنگوں کا معمورہ ہے یہ حکایت

حکایت کا اک لفظ بھی جس کے اندر اُترتا ہے

وہ اور رنگین ہوتا ہے

رنگین تر ہونے والے کے اندر کوئی جین ہوتا ہے

جو کہ دوبارہ حکایت کی تشکیل کرتا ہے

اور آنے والے زمانوں کی جانب حکایت کی ترسیل کرتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

یہ گھاٹ یہ سانس یہ دیومالا

 

دوگھاٹ ہیں

ایک دریا ہے

اک پھانس ہے جو

مرے باپ کے حلق سے نیچے اُتری نہیں تھی

مرے حلق میں آ رُکی ہے

سمندر کا پانی زمانوں سے جاری ہے

ساحل کی دہلیز صدیوں سے قائم ہے

دائم ہے یہ گھاٹ، یہ سانس، یہ دیومالا

جو زینے سے زینہ ملاتی ہے

اس دیو مالا نے مجھ کو ملایا مرے باپ سے

اور دکھایا مجھے

شب کے کہرے میں سویا ہوا گھر

بنایا مجھے

صبح کاذب میں چُپ چاپ کھلتا ہوا پھول

٭٭٭

 

 

 

 

صلیب

 

کہاں پہ وہ درخت ہے

میں ماں کے ساتھ جا کر اس کو دیکھ لوں

میں جان لوں

کہ پنج آب کی زمینِ خشک پر

اگا وہ کس طرح درخت

دیکھ لوں

کہ کس سمے کی دھوپ میں بڑا ہوا

کسی نے

اشک بھر کے آنکھ میں لگا لیا

کہ اس جگہ پہ خود اگ آیا تھا درخت وہ

میں ماں کو کس طرح بتاؤں گا

کہ کٹ مروں گا حرمت قدیم پر

میں من گیا ہوں، کس طرح اسے مناؤں گا

مٹا سکا

تو نظم مختنم کی لائنوں کو حذف کر سکوں گا

ماں سے کہہ سکوں گا

نظم مختنم کا اختتام وہ نہیں رہا

کئی نشانیاں ظہور ہو چکیں

بتاؤں کس طرح اُسے

کہ اس درخت سے میرا لگاؤ لازوال ہے

مری طرح ہے پاک اس درخت کی جو چھال ہے

میں اس کی گہری چھاؤں، نرم پتوں، جال جیسے شاخچوں کا

مدت مدید سے شکار ہوں

لکیر

اس کے آس پاس کھینچ کر

اسے میں دھوپ سے بچاؤں گا

میں اس درخت کو عظیم ماں کے ساتھ مل کے

چوم لوں

کہ یہ درخت میرا ہم نصیب ہے

کہ اس درخت میں چھپی مری صلیب ہے

٭٭٭

 

 

 

بچپن

 

میں بلّور سے کھیلتے

باغ میں خوبصورت پری کو بُلاتے

یونہی باپ سے اپنا قد ناپتے

دُھوپ کے ساتھ بڑھتے

ستاروں کے ہجوں سے ماں باپ کا نام لکھتے

فلک کی بڑی نیل تختی پہ پوچا لگاتے

اُسے گرم میدان کی دُھوپ میں

اپنے ہمرہ سُکھاتے

بڑا ہو گیا تھا

یونہی آئنے میں سے خود کو پکڑتے

میں خود سے جھگڑتے

میں گھٹنوں پہ چلتے

اچانک کھڑا ہو گیا تھا

وہاں پر، جہاں وقت تھم سا گیا تھا

جہاں اوس چُگتے پرندے کا

اک چہچہا سُن کے پیراہن ابر پھٹتا

ذرا روشنی ٹوٹتی

پردہ چشم ہٹتا

گلی جاگتی، میں بھی انگڑائی لیتا

تو معلوم ہوتا

کہ چاروں طرف سونا، پگھلا پڑا ہے

اگر ڈاکیہ شام تک نہ پہنچتا تو لگتا

ابھی دوپہر ہے

اگر ماں کی آواز آتی

تو بستر میں گھستا

سمجھتا کہ اب رات

اپنا بچھونا بچھانے لگی ہے

اندھیرے نے بستی کو نگلا ہوا ہے

کہیں کوئی آہٹ نہیں

کوئی جھنکار، کچھ بھی نہیں

پوری بستی اندھیرے سے لپٹی

خوشی سے ڈوبی پڑی ہے فقط

اک مرے سانس کی دھونکنی چل رہی ہے!!

٭٭٭

 

 

آیا

 

جہاں پر گلی کا پر اسرار خم ہے

جہاں پر

فرشتے کا تاریک سایہ پڑا ہے

جہاں

ایک چشمے کی مانند

پھوٹی تھی تاریکی

گلیوں میں گلیوں سے ہوتی ہوئی

لمبے بازار میں

سیلاب کی طرح پھیلی تھی

کیسی سراسیمگی تھی

جو اسکول کی وین

اسکول کے گارڈ کے گرد

گھیرا بنائے کھڑی تھی

قیامت کی کوئی گھڑی تھی

جو اسکول عین دروازے پر

گارڈ کے دل میں

خنجر کی صورت گڑی تھی

فرشتوں سے بچوں نے دیکھا

فرشتہ پروں کو جھٹکتا نہیں ہے

وہ اندر سے کٹتا نہیں ہے

وہ اس برزخِ ہست میں جیتا مرتا نہیں ہے

جہاں رات دن مرنا پڑتا ہے

گہری سراسیمگی

ننھے بچوں کی آنکھوں میں پھیلی

تو اسکول، اسکول سے ملحقہ سبز میدان

آیا سے

آیا کی بچوں سی کومل دعاؤں سے

خالی پڑا رہ گیا

ایک آنسو

جو آیا کی آنکھوں سے پھوٹا

وہ پلکیں نہ ملنے کے باعث

المناک آنکھوں کے اندر کھڑا رہ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

دیومالا

 

(باپ کی آنکھ چشمہ ہے

جو جاری رہتا ہے

زمزم کے چشمے کی صورت)

لفظوں کے خوابیدہ معنوں میں

سکتوں کی گہری خموشی میں

اعراب کی سخت بے چینی میں

رس بھرے جملوں میں خود کو تحلیل کرتی ہوئی شاعری

دیومالا بھری شاعری

اس سے پہلے

ترے دیومالا بھرے باپ کے دل میں تُو اتری

دل اس کا مسکن بنایا

دکھایا اسے شب کے کہرے میں سویا ہوا گھر بنایا

اسے صبح کاذب میں چپ چاپ کِھلتا ہوا پھول

اِس، دیومالا کا اور باپ کا

سات رنگوں بھرا ست برابربر ابر مساوی مساوی

مرے باپ نے اپنا جو آدھ لکھنے میں برتا

نہیں جو نہیں کہہ سکا

اس کے ہونٹوں پہ دن رات لرزا

مگر لفظ بننے نہ پایا

وہ الفاظ جو باپ کے حلق میں رک گئے تھے

وہ اب میرے الفاظ ہیں

ٹپ ٹپ برستے چلے جا رہے ہیں

میں، اب باپ کے آدھ کو لے کے نکلا ہوں

یوں جیسے

عباس اک دن علم لے کے نکلا تھا

صدیوں کے گھمسان میں

باپ لا شکل کا پھول

لالی،سیاہ شام کے چوڑے ماتھے کی لالی

وہ دم بھر کو اک خاص خطے کے اوپر لرزتی ہے

جیسے اُترتی ہوئی دھوپ

گم صم پہاڑی مکانوں کی

ٹیڑھی چھتوں سے کسی واہمے کی طرح

نیچے گرتی ہے

یہ دھوپ، جیسے کوئی آنکھ جھپکے

بس اتنی ٹھہرتی ہے

لالی، لہو رنگ رومال

لالی، انگاروں بھری گرم ہوتی تغاری نہیں

لالی، رنگوں بھرا باپ

لاشکل کا پھول

جو اک دفعہ اور بس اک دفعہ کِھلتا ہے

باپ۔ سچ

رات کی سرد، بے مہر، بے نام، چپ چاپ

عمروں کے نادیدہ زینے سے

نیچے اُترتی گھڑی

اور اس کو جیسے پکڑنے جکڑنے کی اِک پل ریاضت

ریاضت کے دوران ہوتے وظائف

سیاہ رنگ کی دلق کے نیچے

ادھڑی ہوئی ایک ٹکڑی کے مٹ میلے

دھاگے کی جنبش کے دوران

وقفوں سے چلتی ہوئی

گوپی چند راولی

سُرسری، دیغ کی تہہ میں پس خوردہ ناطاقتی

اور اک گھونٹ پانی کی خواہش میں

آتے لگاتار آتے ہوئے یاد

جیسے فراموش کردہ لطائف، صحیفے صحائف

گھڑی

جس میں کوئی زمانہ دن اور دوپہریں

یہ اک وقت اک ساتھ بہتی ہوئی تین نہریں

زمانے کی تحضیص سے جیسے عاری زمانہ

زمانے سے عاری گھڑی

باپ سچ

وقت کے پانیوں کا نتھارا ہوا روپ

روشن کلائی پہ کاڑھا ہوا مور

اور مور کے ناچنے کی گھڑی

شیرِ مادر اُترنے کی چندرا گھڑی

مرا باپ لاوقت کی اصل

بنیادی پانی کا ٹھہراؤ

میں اس کی صفوپوش پیشانی کو دیکھتا دیکھتا

دن بدن اس کا پھیلاؤ

حرفوں میں، بچوں میں، بچوں کے بڑھنے میں

دیکھااسے آسمانی پروں کی طرح

خود کو

پھیلاتے

بچوں کو اپنے پروں میں چھپاتے

زمانے کو نیچے ہٹاتے

مرا باپ

خود اپنے ہاتھوں سے کھودے ہوئے غار میں

روز اُترتا الہ دین بنتا

ہزاروں چراغ اس کے ہاتھوں میں آتے

مگر اِن سے ہٹتا، پلٹتا

دہانے پہ جب نام اپنا مرا باپ لیتا

چٹانیں ہواؤں میں اُڑتیں

دہانے لرزتے

میں جب باپ کے ساتھ

زینے سے عمروں سے لمبے کڑے کوس والے

سینہ رنگ زینے ملاتا ہُوا

باپ کے سائے میں

اپنا نادیدہ بے شخص سایہ چھپاتا ہُوا

نیچے اُترا

وہاں پر اندھیری تہوں پر تہیں تھیں

وہاں

ایک عرصے سے چُپ باپ بولا

یہاں پر کوئی اور بھی ہے

جو ہم دونوں کی سانسیں گنتا ہے۔ تب کان کن دیکھتا

ان سرنگوں کا سینہ

ان سرنگوں کا سینہ

سیہ رنگ مٹی کے نیچے تڑپتا ہے

نیچے دھڑکتی ہے دل سی کوئی چیز

جیسے کوئی چیز باہر نکلنے کو بے تاب ہے

کان کن جانتا

اُس کی آنکھوں کے حوضوں میں پانی نہیں

دودھیا خواب ہے

خواب جس پر کوئی دودھیا تھال ہے

تھال میں اُس کے بیٹے کا بستہ ہے

بستے میں اس کی کتابیں نہیں

اُس کی ماں کے لیے

سات رنگوں بھری شال ہے (باپ کے لیے لکھی گئی طویل نظم کے چند ٹکڑے)

٭٭٭

 

 

آبنائے

 

آنکھ کے آبنائے میں

ڈُوبا مچھیرا نہ جانے

فلک تاز دھارے میں

گاتی، نہاتی ہوئی، سُرخ لڑکی کی جان

اُس مچھیرے میں ہے

لڑکی کے گیتوں میں

لنگرانداز کشتی ہے

لہروں کی کروٹ ہے

ساحل کا پھل ہے

مچھیرے کی تازہ جوانی ہے

مستی بھرا نیلا پانی ہے

لڑکی، اُمنڈتی ہوئی وقت کی دھار ہے

جس کے ریلے میں

محشر بپا کرتی لہریں نکلتی ہیں

لڑکی سمندر ہے

گہرے سمندر کی گھمبیر خاموشی

پانی سے اُڑتی ہوئی ڈاریں

چکنے کنارے

ہر اک چیز لڑکی کے گیتوں کے اندر ہے

لڑکی پرندہ ہے

آبی پرندہ

سمندر کے بے انت سینے پہ

اُڑتا ہے صدیوں سے

صدیوں سے لمبی معمر چٹانوں سے جُڑتا ہے، مُڑتا ہے واپس

سمندر کے بے انت پھیلاو کی سمت

لڑکی کوئی معجزہ ہے

سمندر میں جُونہی اُترتی ہے

پانی کو رنگین کرتی ہے

لہروں کی چادر کو اُوپر اُٹھاتی ہے

موتی دکھاتی ہے

موتی دکھاتے ہوئے گیت گاتی ہے

لڑکی کے گیتوں کے معنی

فقط اس مچھیرے پہ روشن ہیں

جو آنکھ کے آبنائے میں ڈُوبا پڑا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

خورد رو

 

 

یہ رُو یہ خورد رد

حوسینۂ زمیں میں بھرتی جا رہی ہے سنسناہٹیں

اُبھارتی ہے دل کی دھڑکنوں میں آہٹیں

لکیر ہے جو کوئی کھینچتا چلا گیا ہے

رویہ خورد رو کہ راہ ہے چمک بھری

جو جھلملا اُٹھی ہے، اپنے آپ

جو پہاڑ اک شکوہ خاص سے کھڑا ہوا تھا

مدتِ مدید سے

کھنچا پڑا ہے درد سے

تناؤ ہے

جو ہو رہا ہے دم بہ دم شدید

ایک رو مہین سی تھی، چل رہی ہے

جو پہاڑ تھا کھڑا ہوا شکوہ سے

گرفت میں ہے

کس طرح کی یہ گرفت ہے

کہ سارا درد سارا صبر

جمع ہو گیا ہے اک مقام پر

واردات ذی نفس کو توڑ دے

پہاڑ تک کو ذی نفس سے جوڑ دے

نیوگ ہے کہ سلسلہ فیض ہے

کہ وقت فصد ہے

کہ ایک سے انیک ہونے کی گھڑی ہے

ہو رہا ہے خود سے کوئی اک کنارہ کش

اک اور رنگ روپ کی ہے موج موج تہہ نشیں

مہین سی لکیر آب گرم کی

لرز رہی ہے اک دراڑ سے

دراڑ گرم سی دراڑ اپنی اصل میں

عظیم ہے پہاڑ سے

اُتر رہے ہیں پنچھیوں کے غول

جس جگہ بنے گا چشمۂ حیات

باوضو کی ہچکیوں کے درمیان میں وقوف ہے

کہ شاہ بادشاہ کی مُراد ہے

یہ چوٹ ہے

جو پھوٹتی چلی گئی ہے اک درون سے

کہ آتشیں مواد ہے !!

٭٭٭

 

 

زردشت کی نسل

 

 

بھٹیا رنوں کا اُبھرتا ہے بھٹی سے دن

اور وہیں گرم بھٹی کے پاتال میں ڈوب جاتا ہے

بھٹیا رنوں کا اُفق

گرم بھٹی کے چوگرد خیمہ فگن ہے

مچلتی ہے جب آگ

بھٹیا رنوں کی محبت بھری آرزوئیں دہکتی ہیں

جب لکڑیاں جلتی ہیں

اونچ

مٹی کے تختوں پہ بیٹھی ہوئی

لکڑیوں کی معیت میں جلتی ہیں

ہُرمز کی کیسی تمنائیں اُن کو ستاتی ہیں

آتش بڑھاتی ہیں

لیکن زمانہ نہیں جانتا ہے

کہ اُٹھتے ہیں بھٹی سے جو تیز شعلے

وہ دل ٹھارتے ہیں

وہ

اُن کے شب و روز رنگین کرتے ہیں

اور دل کے نادیدہ کُنجوں تلک

اپنے رستے بناتے ہیں

رستوں پہ پھلدار پودے لگاتے ہیں

بھٹیا رنیں جن پہ چلتی ہیں

سی مرغ کے بھید کو جاننے والیاں

راکھ سے پیدا ہو کر

دہکتے ہوئے کوئلوں پر

جوانی کے دن کاٹتی ہیں

اُلٹتی ہیں روشن ستاروں بھرا چھاج

بھٹیا رنوں نے طلا کار چھلی کے دانوں کو

گن گن کے

اپنی دُعاؤں کا مرکز بنایا ہوا ہے

زمانوں سے زرتشت کی نسل کا

کیسے آتشکدہ جگمگایا ہوا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ماں جائے

 

ماں جائے چھتّہ ہیں

اس شہد کے چھتّے سے

جو بوند ٹپکتی ہے

لذت میں خالص ہے

رنگت میں یکتا ہے

جو باغ کے پیڑوں کے

زر پرور سایوں میں

گرمی میں پکتا ہے

جہاں بھائی ہوتے ہیں

وہاں محفل جمتی ہے

دُکّی پر دُکّی ہیں

ستّے پرستاّ ہیں

ماں جائے چھتّہ ہیں

ماں جائے جو ملتے ہیں

وہاں شہد ٹپکتا ہے

حلوائی کی دُکانِ شیریں کے اندر اک

شیشے کی جالی ہے

شیرے کی تھالی ہے

ان دیکھا جلوہ ہے

چُولہے کی گرمی ہے

مُلتانی حلوہ ہے

رنگوں کے ٹِکّے ہیں

اک زر کی اکائی ہیں

ٹکسال کی حُرمت ہیں

ہر دور میں چلتے ہیں

ماں جائے سکّے ہیں

جہاں بہنیں ہوتی ہیں

وہاں جُھمکے ہلتے ہیں

وہاں مہندی چڑھتی ہے

جب بھائی ہنستے ہیں

خوشبوئیں اُٹھتی ہیں

اک عطر سے پانی کا

چھڑکاؤ ہوتا ہے

رستے دُھل جاتے ہیں

گملوں میں کھڑا پانی

تادیر چمکتا ہے

ماں جائے رونق ہیں

بازار میں جاتے ہیں

تو مول بڑھاتے ہیں

شکر کے بورے ہیں

ویسے تو ماں جائے

شیرے کے تھالوں میں

ڈوبے آمیزے ہیں

لیکن جب لڑتے ہیں

تب دھک دھک سینے میں

دل ڈر ڈر جاتا ہے

یہ شیر کے پِتّے ہیں

پچھواڑے کی سرسوں ہیں

میدانی خطے ہیں

ماں جائے جس کمرے

ہوتے ہیں، سوتے ہیں

ٹھنڈک سے بھرتا ہے

وہاں پریاں آتی ہیں

مہتاب اُترتے ہیں

وہاں بارش ہوتی ہے

آکاش دمکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

اندھراتا

 

میں پردہ گرانے لگا ہوں

پلک کو پلک سے ملانے لگا ہوں

زمانہ مرے خواب میں آکے رونے لگا ہے

میں اونٹوں کو لے آؤں

آخر کہاں جا کے چرنے لگے ہیں

جہاں پر

پرندے پروں کو نہیں کھولتے ہیں

جہاں

سرحدیں ہیں فلک جیسی قائم

وہاں پاؤں دھرنے لگے ہیں

میں بھیڑوں کو دوہ لوں

کئی ماؤں کی چھاتیاں

چھپکلی کی طرح

سوکھے سینے کی چھت سے

ایک عرصے سے لپٹی ہوئی ہیں

اُنہیں جا کے موہ لوں

کئی فاختائیں

کہ واپس پلٹنا تھا جن کو

چمکتی دوپہروں سے پہلے

وہ مرگ آسا اندھے خلاؤں میں

بھٹکی ہوئی ہیں

گدھے والا

بے وزن روئی کو لادے ہوئے

شہر سے لوٹ آیا ہے

ہلکی تھی روئی

بہت بھاری دن تھا

طلہ دوز تاجر سے

موتی بھی لانے کا

اس سے کہا تھا

جو رنگین عروسانہ جوڑے میں

جڑنے ہیں

ناداں دُلہن کو بھی معلوم ہے

تیز بارش تو ہونی ہے

اولے تو پڑنے ہیں

نازک سی ٹہنی پہ جُھولا ہے

جُھولے کی رسّی ہے نازک

سو رسّی میں بل آخرِ کار پڑنے ہیں

اندھراتا بڑھنے لگا ہے

مچھیرے نے دریا سے واپس بھی آنا ہے

تندور میں

گیلی شاخیں جلانی ہیں

تندور کی طرح

خوابوں بھری جل رہی ہے

اسے بھی

کُشادہ، بھرے بازوؤں میں تو آنا ہے!

٭٭٭

 

 

 

کھیوڑہ کی سیر

 

 

مرا سانحہ باپ کے سانحے سے بڑا ہے

مرے باپ نے

آخری سانس مشکل سے کھینچا

نمک کی سفیدی بھری دھول سے

باپ کی سانس کی نالی

گل سڑ گئی تھی

میں چھوٹا سا تھا

جب مرے باپ کا دوست مجھ کو

نمک کی پر اسرار کانوں میں لے کر گیا تھا

وہاں میں نے دیکھا تھا

ٹھنڈے اندھیرے کا انبار

انبار پر اک دیا

کچی مٹی کا

گویا طلسمی دیا تھا

جو بجھتا نہیں تھا

وہاں میں نے مدقوق لوگوں کو دیکھا

جنت کے باسی

جہنم بھرا دن سنبھالے کھڑے تھے

وہاں ایک چھوٹی سی لائن تھی

چھوٹا سا انجن تھا

انجن کے پیچھے ٹرالی بندھی تھی

نمک کو

ٹرالی میں بھر بھر کے لاتے تھے باہر

نمک ساری دنیا میں بھجوایا جاتا تھا

گائیڈ نے ہم کو بتایا تھا

بتیس کوسوں تلک غار پھیلا ہوا ہے

ہر اک سمت

نیچے، زمیں کے بہت نیچے

کالے پہاڑوں کے اندر بھی

آگے بھی

کانوں پہ لمبی سی سڑکوں کی چھت ہے

اسی چھت کے نیچے

جہاں کان کن کا جہنم بھی ہے

اور جنت بھی ہے

کان کن گہرے ہوتے

جہنم کے اندر اترتے ہیں

اپنا بدن کھینچتے اوپر آتے ہیں

میں نے وہاں

اک بدن کھینچنے والے کی پسلیاں بھی گنی تھیں

وہ چوبیس نوکوں بھری پسلیوں والے گویا

نمک کے ترازو میں تُلتے

نمک رائج الوقت سکہ تھا

کانوں سے بدتر

نمک کھاتی گلیوں میں رُلتی

وہاں میں نے

شفاف نمکیں پانی کا انجانے میں

گھونٹ اک بھر لیا تھا

زباں اور زباں سے بہت آگے تک

تلخ

تر ذائقہ اب بھی موجود ہے

مجھ کو ابکائی آنے سے آنکھوں کے رستے سے پانی بہا تھا

وہ اک گھونٹ

اب قطرہ قطرہ نکلتا ہے آنکھوں سے

شاید مری آخری سانس تک بھی

وہ کڑواہٹوں سے بھرا گھونٹ

پوری طرح ختم ہونے نہ پائے!!

٭٭٭

 

 

 

شیر کی آنکھ

 

دشت، دریاؤں کے بیچ

گہرے ہرے رنگ کی شال میں

ایک لپٹا ہوا مٹی کا ٹکڑا ہے

مکھڑا ہے

اک تنومند، ہشاش رقاص کا

جو ہوا کی طرح

زندگی کے کڑے سے گزر جاتا ہے

دشت، شفاف چشمے سے

اک گھونٹ بھرتے ہرن کا

زمانوں پرانا المناک دکھڑا ہے

مشرق سے مغرب تلک

جتنی رنگیں پرندوں کی ڈاریں ہیں

جنت سے آئی ہوئی

برف کے گالوں کی طرح اڑتی ہوئی

روشنی میں نہائی ہوئی

جتنی پریوں کی کومل قطاریں ہیں

انواع و اقسام کے جتنے حشرات ہیں

شیر کی آنکھ سے کوئی اوجھل نہیں ہے

درخت اور درختوں کی رنگین شاخیں

درختوں کی رنگین شاخوں پہ پکتے ہوئے پھل

سبھی شیر کی آنکھ میں ایک چلتی ہوئی فلم کی طرح محفوظ ہیں

دشت کا کوئی گوشہ

ہزاروں برس کی کتھا سے بھرا کوئی گوشہ

کہیں کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے

جہاں شیر کی

تیز طرار، گولی کی صورت نکلتی ہوئی آنکھ

جا کر ٹھہرتی نہ ہو

شیر نے آنکھ کے ایک کونے میں

مستی سے لبریز بچوں کو

اور دوسرے میں

کسی حاملہ شیرنی کو چھپایا ہوا ہے

فقط شیر کی آنکھ میں

دشت سارا سمایا ہوا ہے!

٭٭٭

 

 

 

میری طرف تو دیکھ

 

 

میں رات کے سیاہ، بے طناب خیمے

چاند کی سنہری چھاؤں

امبر کی سفید چھلنیوں

زمیں کے گرم لب کو

رس سے بھرتے

اوس کے سفید موتیوں کا

دائمی اسیر ہوں!

 

مری طرف تو دیکھ

دیکھ لے یہاں وہاں

کھوئے ہوئے کنوؤں کے ڈول ہیں بھرے ہوئے

فضائے لاجورد میں

مہیب رنگ ابروباد ہے گھلا ہوا

سبک خرام ہے ہوا

سنہری آب و تاب سے بھری ہوئی ہے دھوپ

سینۂ زمین ہے دھلا ہوا

میں اب بھی خود کو توڑتا ہوں

دانہ دانہ جوڑتا ہوں

زندگی بھری اڑان کاٹ کر

پرندے اب بھی لوٹتے ہیں

اپنے گھونسلوں کی سمت

رات بھر پرندے انڈے سیتے ہیں

درخت جھولتے ہیں

صبح دم ہزار رنگ برگ پھوٹتے ہیں

زندگی کی اوکھلی میں

خود کو ریزہ ریزہ کوٹتے ہیں

جانسی فقیر کے مزار پر

دیوں کا تیل ہے پڑا

نتھارے پانیوں میں اب بھی ہے

دھلی ہوئی سہاگ رات

نیند کا جہان اب بھی نرم ہے

کسی کا

ریشمی لحاف سا وجود نرم گرم ہے

مگر کہاں لکیر ہے کھنچی ہوئی

دلوں کے درمیان کون ہے کھڑا ہوا

پہاڑ کی طرح کھڑا ہوا

کوئی تو ہے

جو کاروبار شوق کوسمیٹنے لگا

زمین کھینچنے لگا

زمین کھینچ کر

فلک لپیٹنے لگا!

٭٭٭

 

 

 

 

نوزائیدہ

 

کسی جگہ پر

خدا تخت افگن ہے

کیسے فرشتوں کے جھلمل پروں نے

اُٹھایا ہوا تخت ہے

میرے دل کی طرح نرم ہے تخت

اور میرے احباب کے دل کی صورت

بہت سخت ہے

جگمگاتی ہوئی دھوپ میں

خوبصورت نظر آتے ہیں

یا خدا کے خدوخال

بارش کی رم جھم میں

زیادہ چمکتے ہیں

وقت کے عالم میں

اس کو پکارے کوئی

تو وہ بھیگ جاتا ہے سارے کا سارا

کس سے وہ ہنستا ہے

کس سے وہ ملتا ہے

کیا عرش کی مٹّی میں بھی

کوئی پھول کھلتا ہے

کیا وہ نرا پھول ہے

یا نِری آگ ہے

کس سندیسے کا طالب ہے

کس آسمان کے کنارے پہ بیٹھا ہوا

کیسی باتوں پہ ہنستا ہے

اور ہنستا ہوا کیسا لگتا ہے

کس رنگ کی روشنی سے بھرا دیپ

جگتا ہے

مرکز کے ابعاد کتنے ہیں

اربوں سے زائد ہے مخلوق اس کی

مگر نام سے یاد کتنے ہیں

کیا عرش پر کوئی بازار ہے

کوئی بستی ہے

کیا عرش پر تیز بارش برستی ہے

فیڈر سے گرتے ہوئے

دودھ کے چند قطرے

کوئی راز ہیں

ایک ماں چند گرتے ہوئے قطروں کی راز داں ہے

یہ نوزائیدہ

پھول کی پتی ہے

برف کا گالا ہے

سات افلاک کا رہنے والا ہے

افلاک والے کو بس

وہی جاننے والا ہے!!

چوک

گفتگو کو درمیان سے ختم کر کے

چیر کر دبیز خامشی

میں عین آدھی رات کو

نکل پڑا ہوں اپنے آپ سے

کسی طرف تو موڑنا تھا اپنے آپ کو

رات کے لباس میں

حسین لگ رہی تھی رس بھری

بہت تھا گرم سانس

رس بھری کا

اک ردائے خاص سے ڈھکا ہوا

روئے پاک

کہہ رہی تھی

لوٹنا ہے رات کا خمار ٹوٹنے سے قبل

صبح پھوٹنے سے قبل

چوک سے

جہاں پہ اتنے راستے نکل رہے ہوں

اُس جگہ پہ

خود کو روکنا ہے امتحان اصل

سن رہا تھا

اور جیسے ڈولتا تھا

ایسے لگ رہا تھا

کوئی مجھ سے بولتا تھا

خود کو خود سے جوڑ کر

میں سارے رشتے توڑ کر

نکل پڑا

میں اپنے آپ سے ابل پڑا

وہ کہہ رہی تھی

تیز ہوتی نیند میں

کوئی تو ایسی بات کر

کہ جس کو سن کے مسکرا سکوں

کوئی تو ایسی رات ہو مبہم

کہ خود کو میں بھی پاسکو

نہ ایسا ہو

کہ دونوں اپنے آپ سے نکل پڑیں

اک اشک کی تلاش میں

ہم

ایک دوسرے کی آنکھ سے اُبل پڑیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

سات بازاروں کا شہر

 

میں رونق بھرے

سات بازاروں کا شہر ہوں

میری آنکھوں میں پُر پیچ گلیوں کے خم ہیں

جہاں دھوپ پوری نہیں پڑ رہی

سینکڑوں ہیں دکانیں

جہاں نرم چھجوں کے نیچے

چمکدار بارش کا پانی نہیں رُک رہا

شہر کا مین بازار

چھل چھل چھلکتی دکانیں

فلک زار ہوٹل

کھلونوں بھرے راستے

میری آنکھوں میں آباد ہیں

پیچ کھاتی سیہ رنگ سڑکیں

جہاں اب کے بجری بچھانی نہیں

ریت چھلنی کے اوپر نہیں چھاننی

اور پانی کی بنیاد اوپر اٹھانی نہیں

باغ کے تازہ پھولوں سے

پانی میں بہتی ہوئی پتیوں سے

اٹھانا ہیں رستے

ابھی راستے میں ہے

پھولوں سے نازک زمانہ

یہاں پتوں والی

ہرے ٹائروں والی گاڑی کو آ کر ہے رُکنا

زمیں کو مقام مقرر سے اوپر ہے اٹھنا

فلک کو مقام مقرر سے

نیچے ہے جھکنا

یونہی سالہا سال ہے شہر کو زندہ رہنا

جوانوں کے ہمراہ

رنگیں کناروں، ستاروں بھری کشتیوں کو

ہے بہنا

اسی ایک دریا کے گیلے کناروں پہ

اُگنے ہیں باغات

بننے ہیں اونچے مکانات

اٹھنے ہیں مینار

میں نے فلک بوس مینار کی طرح

پھولوں بھرے شہر میں

سات بازاروں سے

سات رستوں سے

سیاحوں کو

راہبوں کو

نظر آنا ہے

شہر سے جانے والوں نے

جب لوٹ کر اپنے گھر آنا ہے

ایک میں نے نظر آنا ہے

سات بازاروں میں منقسم، متحد ۔

سیلِ آب

رات میری آنکھ جب کھلی

تو کھاٹ میری ہل رہی تھی

ہل رہی تھی ناؤ

سیلِ آب کے مقامِ اصل پر

ستارے جھڑ رہے تھے آسمان سے

خلا بذاتِ خود سیاہ ہول تھا بنا ہوا

پہاڑ سے نکل رہی تھی

تیز دھار کی طرح ہوا

اُبل رہا تھا پانی

جیسے سیلِ آب کے مقام سے

اندھیرا آبِ سرد کو لپیٹتا

نگل رہا تھا روشنی کی زرد سی لکیر کو

اُلٹ رہی تھی کائنات

اک طرف

کسی کا دستِ نازنیں

جبین پر رُکا

شفق سے سُرخ ہونٹ

خشک ہونٹوں سے ملے

میں جی اٹھا

میں مسکرا کے جاگ اٹھا

اُفق کے دشت میں

طلسمِ احمریں چہار سمت تھا

اسی طرح

معاًسفید دن نکل پڑا

نظامِ کائنات پھر سے چل پڑا ۔

ناشتے کی میز پر

پلک نواز

بوڑھے والدین کی نگاہ

اہلِ خاندان پر پڑے

تو

دور

افق کی گہری گھاٹیوں سے

صبح اپنے رنگ و نور سے لدی پھندی

نکل پڑے

مکاں، جہاں مقیم بوڑھے والدین ہوں

وہاں رُکے

رُکے تو اپنا سونے جیسا روپ

اس مکاں پہ وار دے

مکاں کے سارے رنگ کو اُتار دے

یہ لوگ تو عظیم شہر ہیں

عظیم شہر کا قدیم اندرون ہیں

یہاں وہاں تھڑے ہیں

جن پہ لوگ بیٹھ کر

تمام دن کی راکھ اُڑا سکیں

کسی کے ساتھ بیٹھ کر

ذرا سا مسکرا سکیں

ذرا سا اپنے آپ کو رُلا سکیں

یہ لوگ تو سرائے کی کلید ہیں

جہاں پہ دنیا والے

اک سکوں کی رات کاٹ لیں

جو چاروں اور گھیرتا ہے

وہ محیط پاٹ لیں

یہ لوگ تو خلا کی ثقل ہیں

فلک کا رنگ ہیں

اگر نہ ان کا ساتھ ہو

نہ دھوپ ہو کرن بھری

فلک نہ نیل رنگ ہو

یہ کون ہیں

کہ جن کا عطر سے بھرا وجود

عکس ریز ہے

کہاں سے آ رہی ہیں

ارغنوں کی یہ دھنیں

یہ ارغوانی باغ ہے

کہ ناشتے کی میز ہے

نزار کم بدن

جو ایک قاش سنگترے کی

ناشتے کی میز سے اٹھائیں تو

پھلوں میں رس پڑے

جو دھیرے سے ذرا سا مسکرائیں

سارا خاندان ہنس پڑے!

شہرِ خوش بخت میں

شہرِ خوش بخت میں

جب تو گھر سے نکلتی ہے

گلیاں دمکتی ہیں

رستہ چمکتا ہے

مہکار اڑتی ہے

بازار سجتے ہیں

سینوں میں لذت اُترتی ہے

لوگوں میں جذبے ہمکتے ہیں

جب بھاری پلکیں اٹھاتی ہے

ماتم کی مجلس بپا کر کے

صدیوں کو بھوبل بناتی ہے

ملاح

کشتی کو کھیتے ہیں

دریا کا پانی لرزتا ہے

پانی کے سینے میں

چپو اُترتا ہے

سورج اُبھرتا ہے

کرنیں بکھرتی ہیں

پیڑوں کی شاخیں نکھرتی ہیں

میدان

سیال سونے سے بھر جاتے ہیں۔ شہرِ خوش بخت میں

تو جو گھر سے نکلتی ہے

اسطور کی جو حقیقت ہے

ایمان کا جو تقاضا ہے

باغی جو نعرہ لگاتا ہے

مذہب جو تعلیم دیتا ہے

سائنس جو انکار کرتی ہے

شاعر جو کہتا

ہے

ان سب کی تصدیق ہوتی ہے

تو اپنی پلکیں جھکاتی ہے

اور رات آتی ہے

پیڑوں کے خیموں میں

خاموشی ہوتی ہے

پتوں کی لمبی زبانیں لٹک جاتی ہیں

اک ستارے کی لو سے

الجھتا ہوا دل مچلتا ہے

آفاق گھل جاتے ہیں

موم بتی کی چوٹی سے

شعلہ نکلتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

ذات باہر

 

 

میں نے اپنی شخصیت خود سے جدا کی

اور الف ننگا ہوا

جو آہنی پردہ تھا میرے اور میری شخصیت کے درمیاں

آخر ہٹا، جس اجنبیت نے مجھے

خود سے بھی اوجھل کر رکھا تھا، وہ اُڑی

میں خود پہ سارا آشکارا ہو گیا

خود سے سوالوں کا میں جویا، گنگ تھا

مجھ سے جدا اک بے حیا تن کر کھڑا تھا

میں سوالوں کے پرانے مستقل آزار سے آزاد

لب بستہ کھڑا تھا

خود سے کیا میں پوچھتا، اک شرم تھی

میں جس میں لحظہ لحظہ ڈوبتا جاتا تھا

جیسے سوچتا تھا کیسے اپنی شخصیت کو کھینچ کر لاؤں

کہیں سے اور اس میں اپنا ننگا پن چھپا دوں

کیسی بخت آور گھڑی تھی

دست بستہ جس کے آگے میں کھڑا تھا، کہہ رہا تھا

منکشف ہونا خود اپنے آپ پر

اک ننگے پن پر منحصر ہے؟ شخصیت محتاج ہے

اک ننگے پن کی، ڈوب مرنے کی گھڑی ہے

دست بستہ جس کے آگے میں کھڑا ہوں

کیسی بخت آور گھڑی ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

آدمی رقص کر سکتا ہے

 

تیری مخروطی ہیروں سے جھلمل بھری انگلیوں نے

ذرا تار چھیڑے تو دکھ کیسے رِس رِس کے

تاروں سے بہنے لگا، اک ترے ساتھ رہنے سے

مجھ پر کھُلا کس طرح صبح ابھرنے سے پہلے

کہیں خود کو دھوتی ہے، دُھل کے تری سمت

کیسے لپکتی ہے! جب فصل پکتی ہے

بوڑھے کسانوں کے مجمع پہ کس رنگ کے پھول گرتے ہیں

کیسے بھلا آدمی اپنی تفہیم کرتا ہے

کیا چیز ایسی چمکتی ہے، وہ اپنی تعظیم کرتا ہے

جو کچھ فلک کے علاقوں میں پوشیدہ ہوتا ہے

ان پر وہ ایمان لاتا ہے، اک سینہ افگار

حلّاف ہنس ہنس کے حالت بتاتا ہے

آپے سے باہر نکل جاتا ہے، باغ میں

باغ کی پاک راہداریوں میں بھٹکتا ہے

پھولوں کی جانب نکلتا ہے، پتّوں کی گہری لکیروں کو

تکتا ہے، جھیلوں پہ جاتا ہے، گہری دوپہروں میں

جب پانی جلتا ہے، تب آدمی اپنے ہاتھوں سے

جھیلوں کو ڈھکتا ہے، اس کی نظر

پانی میں عکس پر پڑتی ہے، اور وہ جان لیتا ہے

پانی کے سیّال آئینے میں آدمی رقص کر سکتا ہے!!

٭٭٭

 

 

 

 

صبح

 

صبحِ ماہ رُو، دھیرے دھیرے اک دلہن کی طرح

سج کے آ گئی اور اپنے ساتھ کتنے رنگ روپ لے کے آ گئی

فضا کو بھی دلہن بنا گئی، کہاں پہ تھی یہ سُرخ رو

ماہتاب کی عزیز رشتے دار ہے جو اتنی گلزار ہے

کہاں پہ اس کا رنگ سے لدا پھندا دیار ہے

یہ لاڈلی نشوں بھری ہوا کے ساتھ آئی ہے

نشوں بھری کی تھپکیوں سے پھول بے سکون ہیں مری طرح

عجیب ان کے بھی بطون ہیں

دلہن نقاب اتارنے لگی تو سڑے دھوئیں کی طرح

اپنا آپ کھولتی ہوا، زبانِ یار بولتی ہوا

معاً، ہلا، ہزار شاخچوں نے جھرجھری سی لی

تو پیڑ میں طیور جاگنے لگے

طیور مذہبی الاپ پیڑ کی کنشت میں

الاپنے لگے

ہوا جو پیڑ کے قریب آئی تو ہزار

شاخچوں سے برگِ سبز سے نفیس اوس

اک ادائے خاص سے ٹپک پڑی

ہوا نے پھول کو چھوا تو پھول

ایک سے ہزار ہو گیا، کنوئیں میں ڈول

اک جھپاک سے گرا، کنوئیں کی تہہ پھٹی

تو میں نثار ہو گیا!!

٭٭٭

 

 

 

 

جو مرا خواب ہے

 

 

جو مرا خواب ہے

ایک چشمے سے لایا ہوا

کاسہ آب ہے

جو مرا خواب ہے

کتنا نایاب ہے

دن کو بیکار پھرتا ہوں

میں خود میں گرتا ہوں

جب رات آتی ہے

شمعیں جلاتی ہے

دھاگے اٹھاتا ہوں

گولے بناتا ہوں

تکلے کا خم ٹھیک کرتا ہوں

چرخہ گھماتا ہوں

ماں میری روتی ہے

اور خواب بنتی ہے

میرے لیے پھول چننا

مری ماں کا آنکھیں بھگوتا ہوا

اولیں خواب ہے

جو مرا خواب ہے

اک کناروں سے باہر اچھلتا ہوا

گہرا تالاب ہے

گہرے تالاب میں

اک گھنا پیڑ ہے

جس کا گہرا گھنا سایہ

راتوں کو کچھ اور تاریک کرتا ہے

تصدیق کرتا ہے

پردے اٹھاتا ہے

مجھ کو بتاتا ہے

پتوں کے نیچے

دمکتا ہوا ایک مہتاب ہے

جو مرا خواب ہے

جو مرا خواب ہے

شہر احباب ہے

جس کی مصروف سڑکوں کے پیچھے

چمکدار گلیاں ہیں

نو رنگ پانی میں ڈوبی ہوئی گویا کلیاں ہیں

گلیوں میں کلیوں سے

احباب بستے ہیں

خوابوں میں ہنستے ہیں

اودھم مچاتے ہیں

اودھم مچاتے ہوئے جان جاتے ہیں

یہ شہر احباب ہے

باطن میں بے تاب ہے

جو مرا خواب ہے

راج گیروں کی ٹولی ہے

جو صبح کے وقت

گھر سے نکلتی ہے

نیلے فلک پر پری کوئی چلتی ہے

کیسے سے نقشے نکلتے ہیں

رنگین مکانوں میں ڈھلتے ہیں

دیواریں اٹھتی ہیں

دیواروں کے بیچ کھڑکی نکلتی ہے

کھڑکی میں بالوں کو جھٹکاتی لڑکی ہے

سینے کے اندر کوئی چیز اڑتی ہے

تپتی دوپہریں ہیں

تپتی دوپہروں میں

یہ آگ بھڑکی ہے

گرجا گھروں کے

خموشی میں ڈوبے احاطے ہیں

ڈوبے احاطوں میں آگے

فلک بوس مینار ہیں

قہقہوں کی صدائیں ہیں

بھاری تغارے اٹھاتے ہوئے

نوجوانوں کی ٹولی ہے

باتیں ہیں

باتوں میں خوش رنگ محراب ہے

جو مرا خواب ہے

ایک دریا ہے روشن ستاروں بھرا

کشتیوں والا دریا

ابد زار کی سمت بڑھتا

کناروں سے باہر ابلتا

علاقوں کو لقموں کی صورت نگلتا

اٹھا تاہوا ایک طوفان

قلعے کے نزدیک

صدیوں سے بہتا ہوا ایک دریا

اسی بہتے دریا کو گھیرے میں لیتا ہوا

ایک گرداب ہے

جو مرا خواب ہے

جو مرا خواب ہے

ان کتابوں میں مذکور ہے

جن کے کاتب زمانہ میں ناپید ہیں

جن کا مفہوم دنیا پہ روشن نہیں

وہ کتابیں جو اب چھاپہ خانوں میں چھپتی نہیں

جن کی فرہنگیں نابود ہیں

ان کتابوں کی وقعت بڑھاتا ہوا آخری باب ہے

جو مرا خواب ہے۔

تم وہی صبح ہو

تم وہ رنگوں بھری صبح ہو

آخر کار جس نے

رو پہلے افق سے نمودار ہونا ہے

یوں روشنی پھیلنی ہے

کہیںراستہ ملنا دشوار ہونا ہے

تازہ کئی رنگ ہونے ہیں

رنگوں کا انبار ہونا ہے

اٹھتی ہے اندر کوئی آگ

سانسوں سے بیزار ہونا ہے

پانچوں حسوں نے ہے اڑنا

چھٹی نے نہ بیدار ہونا ہے

ہونے ہیں دُونے نمکیات

مغلائی کھانا مزیدار ہونا ہے

ہوتی نہیں بات کوئی

زمانہ پراسرار ہونا ہے

گھرنا ہے منجدھار کے بیچ

دریا کہاں پار ہونا ہے

آنکھوں نے جنبش نہیں کرنی

آنکھوں نے تکنے سے لاچار ہونا ہے

آخر نکلنا ہے پہلی طلسماتی دنیا سے

اور آخر ی میں گرفتار ہونا ہے

رنگوں کی رنگت ہے اڑ جانی

رنگوں نے بیکار ہونا ہے

کھلا ہی نہیں ہے کسی پر

کہ رد کس کو کرنا ہے

کس سے سروکار ہونا ہے۔

٭٭٭

زتراجم

 

میری نئی نظم

 

قصيدتي الجديدة

ادیب کمال الدین

میں نے خواہش بھرے کانپتے ہاتھوں سے

ساتھ کی سیٹ پر

بس میں بیٹھی ہوئی لڑکی کو

نظم اپنی نئی نظم دی

میں نے اس سے کہا

نظم کو سینے کی تنگ لائن میں رکھ لو

مری نظم پر اس کے معنی کھلیں

ابدی معنی کھلیں

وہ مگر لال رنگت بھرے بیگ میں

اپنی چیزوں کو تکنے میں مصروف تھی

اس کے موبائل پر کتنے پیغام تھے

میں نے پھر پارک میں کھیلتے ایک بچے کو

وہ نظم دی

اور کہا

نظم سے کھیلو

اس سے کئی

نا مختمم

رنگوں والے کھلونے بنیں گے

مگر لڑکا جیسے ڈرا!

میں نے وہ نظم دریا کو دی اور کہا

خود خدا اس زمیں پر اتر آیا ہے

یہ نظم بیٹی ہے’اس کو دعا دو

اے دائم

کہ اس نظم کے دائمی معنی وا ہوں

مگر تیز روکی نگاہیں

بہت دور کی منزلوں پر جمی تھیں

تب اک پلسیا

مرے نزدیک آیا

رعونت سے پوچھا یہ کیا ہے

تو میں نے کہا نظم ہے

اس کی قرات کرو

اس کے معنی ذرا آشکارا ہوں

وہ پلیسا نظم کو لے گیا

اندھے تہہ خانے میں

نظم کو کرسی سے باندھا’ اور کوڑے مارے

تو تہہ خانے کا فرش یکبارگی

خون آلود لفظوں سے اور نقطوں سے بھر گیا

منحرف ہو گئی اپنے معنی سے وہ نظم

معنی بھری نظم !!

٭٭٭

 

 

 

 

بہت ساری تصاویر

 

الكثير من الصور

ادیب کمال الدین

 

مرے حرف دوست

یادگار ہم نے تصویریں کھینچیں تھیں

اس پل پہ

اسکول کے گیٹ پر

دور اسٹیشنوں پر

جہاں سے ٹرینیں

جہنم کی جانب لڑھکتی ہیں

اور

نقطے کی میز پر

جب وہ مستی میں تھی

ہم نے عریاں تصاویر لیں

ایک تو جانتی ہے

کہ عریاں تصاویر میں

رات کی چیخیں ہوتی ہیں دکھ اور کسک اور

خدا کی (چمک دار) پوشاک ہوتی ہے

بہت کھینچیں رنگوں بھری ہم نے تصویریں

ساحل پہ پھیلے

کبودی سمندر پہ پھیلے شفق رنگ سے لے کے

گرمائی ملکوں کی بارش کے رنگوں سے

عورت کے سائے بھرے رنگوں سے

آفتابی دمک سے

وہ جب بے کنار ہوتے لمبے سمندر

یہ چمکی

اسے کون تصویریں کہتا ہے

یہ سات رنگوں کی نظمیں ہیں

تو کتنی شاداں تھی

جب یہ تصاویر کھینچیں تھی

تو نظم تھی

نظم کی اصل تھی

میں مگر نظم لکھنے سے پہلے بی مر جاؤں گا

جس میں اک ننگا سچ ہوتا ہے

جس میں تصویریں ہوتی نہیں ہیں!!

٭٭٭

 

 

انڈا، سمندر اور چاند

 

البيضة والبحر والقمر

ادیب کمال الدین

 

۱ ماضی گرا

تو ہوا معترض حال

ڈوبا اندھیرے میں آئندہ کا وقت

 

۲ انڈا گرا

تو پرندے کی آنکھیں بھر آئیں

زمیں پر مگر ننھے کیڑے مکوڑوں کی قسمت کھلی

جشن مل کر منایا

 

۳ سمندر گرا

تو ہوئیں کشتیاں اوندھی

نکل آئیں ساحل پہ ننگی چڑیلیں

خوشی سے وہ ناچیں

اٹھائے ہوئے مشعلیں

 

۴ چاند نیچے گرا

تو ہوا آفتاب اوجھل

روئے ندامت کے آنسو لئے سارا دن

سارے عشاق

 

۵ آمر گرا

تخت بھی رویا

اور بھونکے آمر کے کتے

بڑی جیل کے گیٹ بھی رو پڑے

٭٭٭

 

 

 

 

باہم ایک بستر پر

 

معاً على السرير

ادیب کمال الدین

 

 

دھرا ہے

میرے دائیں ہاتھ پہ ایک سمندر

بائیں ہاتھ پہ موت

تھک جاؤں تو

دائیں ہاتھ پہ موت

سمندر بائیں پہ رکھ لیتا ہوں

جب سوتا ہوں

تو بستر پر میرے ہمراہ سمندر سوتا ہے

پر موت نہیں ہوتی

وہ میرے سانسوں کو گنتی گنتی

پہرہ دیتی ہے

میری جانب تکتے چلے جاتی ہے

جب ساتھ مرے بستر پہ

وہ لیٹی ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

کایا کلپ

 

تحوّلات

ادیب کمال الدین

 

تجھ کو پہلی بار جو چوما

تیرے پیٹ پہ اک گلاب کا پھول کھلا

دوبارہ چوما

ایک پرندہ

تیرے اور میرے عریاں جسموں کے اوپر اڑا

پھر چوما اک طوفاں اٹھا

جب چوتھی بار تجھے چوما

بجلی کے کڑکوں نے آ گھیرا

خوشی میں ڈوبے جسم

اڑے

اک راکھ کی صورت

تو اک سرخ گلاب کی صورت

جیون کی اور چلی

میں ایک سفید پرندے کی مانند

موت کی سمت بڑھا

٭٭٭

ماخذ: فیس بک، مصنف کے نوٹس، ظفر اقبال کے کالمس اور ادیب کمال الدین کے بلاگس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل