FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اہلبیت علیہم السلام

فہرست مضامین

کتاب و سنت کی روشنی میں

حجت الاسلام آقائے

المحمدی الری الشہری

اردو ترجمہ

ذیشان حیدر جوادی

اہلبیت ڈیجیٹل اسلامک لائیبریری پروجیکٹ ٹیم کی منظوری سے اشاعت شدہ

 

 

 

پیش لفظ

عرض تنظیم

عظمت اہلبیت (ع) عالم اسلام کا ایک مسلم مسئلہ ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ عالم اسلام کی اکثریت آج تک اہلبیت (ع) کی صحیح حیثیت اور ان کے واقعی مقام سے ناآشنا ہے … ورنہ… نہ اس طرح کے مہمل اختلافات ہوتے جن میں بلاوجہ مسلمانوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور ان کی اجتماعی طاقت برباد ہو رہی ہے… اور نہ اس طرح کے بیجا سوالات اٹھتے کہ اہلبیت (ع) اور اصحاب میں افضل کون ہے؟ … اور اہلبیت (ع) کا ماننا ضروری بھی ہے یا نہیں ؟

یہ سارے سوالات عالم اسلام کی جہالت اور ناواقفیت کی علامت ہیں ، ورنہ اہلبیت (ع) عظمت و جلالت کی اس منزل پر فائز ہیں جہاں انسان ان سے آشنا ہونے کے بعد کسی بھی قیمت پر ان سے الگ نہیں رہ سکتا ہے، تاریخ کے جس دور میں بھی … اور جس موڑ پر بھی … کسی شخص نے ان کی معرفت حاصل کر لی ہے ان کا کلمہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکاہے۔

حجر اسود سے لے کر سرزمین حل و حرم تک سب ان کی عظمت و جلالت سے باخبر ہیں اور اس کے معترف رہے ہیں ، محروم و معرفت رہا ہے تو صرف نادان انسان جس نے سیاسی مفادات کے لئے دین و مذہب کو بھی قربان کر دیا ہے اور عیش و عشرت کی خاطر ضمیر کے تقاضوں کو بھی پامال کر دیا ہے۔

اہلبیت (ع) کی عظمت و جلالت کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ہر دور میں لکھا گیا ہے، لیکن اس طرح کا کام کبھی منظر عام پر نہیں آسکاہے جس طرح کا کام سرکار حجة الاسلام والمسلمین محمدی الری شہری نے انجام دیا ہے اور یہ آپ کا کمال توفیق ہے کہ قضاوت کے سب سے بڑے عہد ہ پر فائز ہونے کے باوجود اپنی مصروفیات سے اتنا وقت نکال لیا کہ ’ میزان الحکمہ‘ جیسی مفصل کتاب تیار کر دی اور پھر اس تسلسل میں تعارف اہلبیت (ع) کے حوالہ سے زیر نظر کتاب کو مرتب کر دیا۔

اس کتاب میں عظمت اہلبیت (ع) سے متعلق ہزار سے زیادہ اقوال و ارشادات کا ذکر کیا گیا ہے اور نہایت ہی سلیقہ سے کیا گیا ہے کہ انسان زندگی کے جس شعبہ میں بھی ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہے نہایت آسانی سے حاصل کرسکتا ہے اور اس معرفت کے درجہ پر فائز ہوسکتا ہے جس کے بغیر سرکار دو عالم کے الفاظ میں انسان کی موت جاہلیت کی موت بن جاتی ہے۔

کتاب کی تبویت و تصنیف بے مثال ولا جواب ہے اور اس سے مولف کے کمال فن کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

سیکڑوں کتابوں کا خلاصہ ایک کتاب میں جمع کر دیا ہے اور بیشمار دریاؤں کو ایک کوزہ میں بند کر دیا ہے۔

کتاب واقعاً اس بات کی حقدار تھی کہ اردو دال طبقہ اس کے معلومات سے بے خبر نہ رہے لیکن افسوس کہ ’ماہرین ترجمہ‘ کو نہ کتاب کی ہوا لگی اور نہ ان کے توفیقات نے ساتھ دیا اور یہ شرف بھی بالآخر سرکار علامہ جوادی دام ظلہ ہی کے حصہ میں آیا اور آپ نے ایام عزا کی بے پنا ہ مصروفیات کے باوجود جہاں امریکہ جیسے ملک میں ایک ایک دن میں متعدد مجالس سے خطاب کرنا ہوتا ہے، امریکہ و یورپ کے قیام کے دوران ایام عزا میں اس کا ترجمہ مکمل کر لیا اور ملک واپس آنے سے پہلے اس کی فہرست بھی مکمل کر لی کہ ’بقول سرکار موصوف لندن سے واپسی پر جہاز سے اس وقت تک ایرپورٹ پر نہیں اترے جب تک کہ کتاب کی آخری سطر مکمل نہیں کر لی، اگر چہ سارے مسافر اتر چکے تھے اور عملہ کا اصرار اترنے کے لئے جاری تھا، اس لئے کہ آپ نے فرمائش کرنے والوں سے یہ وعدہ کر لیا تھا کہ انشاء اللہ یہ کام دوران سفر امریکہ و یورپ مکمل کر دیا جائے گا۔

بہر حال اب دو ماہ کی یہ کاوش آپ حضرات کے سامنے ہے۔ ادارہ اس کی اشاعت کے سلسلہ میں اپنے قدیم کرم فرما ڈاکٹر حسن رضوی (ڈیٹرائٹ) کا شکر گذار ہے کہ انھوں نے گذشتہ برسوں کی طرح امسال بھی ایک کتاب کی اشاعت کا ذمہ لے لیا اور اپنے مخصوص تعاون سے اسے مرحلہ اشاعت تک پہنچا دیا جس کا ثواب جناب ریاض حسین مرحوم، محترمہ طیبہ خاتون اور جناب عشرت حسین مرحوم کے لئے ہدیہ کیا جا رہا ہے۔

آخر میں ہماری دعا ہے کہ پروردگار علامہ جوادی( دام ظلہ) کے سایہ کو برقرار رکھے اور ہم کو ان کے ہدایات سے مستفید ہونے کی توفیق کرامت فرماتا رہے۔

ذاتی طور پر میں اپنے محترم بزرگ حضرت پیام اعظمی اور اپنے فعال ساتھی ضیغم زیدی کے بارے میں بھی دست بدعا ہوں کہ اول الذکر کی رہنمائی اور ثانی الذکر کی دوڑ دھوپ ہی میرے لئے طباعت و اشاعت کے سارے مراحل کو آسان بنا دیتی ہے۔

والسلام

سید صفی حیدر

 

حرف آغاز

دنیا کا کونسا با شعور مسلمان ہے جو لفظ اہلبیت (ع) یا اس کے مصادیق کی عظمت سے باخبر نہ ہو، قرآن مجید نے اس لفظ کو متعدد بار استعمال کیا ہے اور ہر مرتبہ کسی نہ کسی عظمت و جلالت کے اظہار ہی کے لئے استعمال کیا ہے۔

جناب ابراہیم (ع) کے تذکرہ میں یہ لفظ آیا ہے تو رحمت و برکت کا پیغام لے کر آیا ہے اور جناب موسیٰ (ع) کے حالات کے ذیل میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے تو اسے محافظ حیات نبوت و رسالت کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔

اس کے بعد یہ لفظ سرکاردو عالم کے مخصوص اہل خاندان کے بارے میں استعمال ہوا ہے جس کا مقصد اعلان تطہیر و طہارت ہے اس کے باوجود اس میں جملہ خصوصیات و امتیازات جمع کر دیئے گئے ہیں۔ اہلبیت (ع) مرکز تطہیر و طہارت بھی ہیں اور محافظ حیات رسالت و نبوت بھی اہلبیت (ع) کی زندگی میں رحمت و برکت بھی ہے اور انہیں مالک کائنات نے مستحق صلوات بھی قرار دیا ہے۔

عصمت و عظمت کا ہر عنوان لفظ اہلبیت (ع) کے اندر پایا جاتا ہے اور پروردگار نے کسی بھی غلط اور ناقص انسان کو اس عظیم لقب سے نہیں نوازا ہے اور جب کسی انسان کے کردار پر تنقید کی ہے تو اسے اس کے گھر کا قرار دیا ہے …… نہ اپنے بیت کا اہل قرار دیا ہے اور نہ پیغمبر کے اہلبیت (ع) میں شامل کیا ہے۔

بیت کی عظمت خود اس بات کا اشارہ ہے کہ اہلبیت (ع) کن افراد کو ہونا چاہیئے اور انہیں کن فضائل و کمالات کا مالک ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے بعد بھی مالک کائنات نے آیت تطہیر کے ذریعہ ان کی عظمت و طہارت کا اعلان کر دیا تا کہ ہر کس و ناکس کو اس بیت کے حدود میں قدم رکھنے کی ہمت نہ ہو اور ہر ایک کو یہ محسوس ہو جائے کہ اس میں قدم رکھنے کے لئے ہر طرح کے رجس سے دور رہنا پڑے گا اور گناہ و معصیت کے ساتھ شک و ریب کی کثافت سے بھی پاک و پاکیزہ رہنا پڑے گا اور اس کے بعد اس منزل طہارت پر رہنا ہو گا جسے حق طہارت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جس سے بالاتر کسی منزل طہارت کا امکان نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ تطہیر قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے اور دوبارہ اس کے استعمال کی نوبت نہیں آئی ہے کہ نبوت کے اہلبیت (ع) کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے حق طہارت کی منزل پر فائز کیا جا سکے اور یہ ان کی بلندی کردار اور انفرادیت حیات کی بہترین علامت ہے جس میں خدائے وحدہ لا شریک نے کسی کو بھی شریک نہیں بنایا ہے اور رسول اکرم نے بھی شرکت کی خواہش کرنے والوں کی خواہش کو صفات لفظوں میں مسترد کر دیا ہے اور گوشۂ چادر کو بھی کھینچ لیا ہے، اگر چہ جناب ام سلمہ کو انجام بخیر ہونے کی سند بھی دے دی ہے لیکن ضمناً اس حقیقت کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ جب انجام بخیر ہونے کی سند بھی دے دی ہے لیکن ضمناً اس حقیقت کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ جب انجام بخیر رکھنے والی خاتون اس منزل طہارت میں قدم نہیں رکھ سکتی ہے تو دوسری کسی عورت یا دوسرے کسی مرد کا کیا امکان رہ جاتا ہے۔

یہ عالم اسلام کی بد ذوقی کی انتہا ء ہے کہ منزل تطہیر میں ان افراد کو بھی رکھنا چاہتے ہیں جن کا سابقہ عالم کفر سے رہ چکا ہے اور جن کی زندگی کا ایک حصہ کفر کے عالم میں گذر چکا ہے ، کیا ایسا کوئی انسان اس ارادہ الہی کا مقصود ہوسکتا ہے جس میں ہر رجس کو دور رکھنا بھی شامل ہے اور کمالِ طہارت و عصمت بھی شامل ہے۔

اہلبیت (ع) رسالت سے مراد صرف پنجتن پاک اور ان کی اولاد ہے جن کی عظمت عالم اسلام میں مسلم ہے اور ان کے عہدہ و منصب کا انکار کرنے والوں نے بھی ان کی عظمت و جلالت اور ان کی عصمت و طہارت کا انکار نہیں کیا ہے اور انہیں ہر دور میں خمسہ نجباء یا  پنچتن پاک کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور اسی بنیاد پر بعض اہل نظر کا عقیدہ ہے کہ اہلبیت (ع) رسالت کے منصب کا انکار کرنے والا تو مسلمان رہ سکتا ہے کہ یہ عالم اسلام کا ایک اختلافی مسئلہ بن گیا ہے لیکن ان کی عظمت و جلالت کا انکار کرنے والا مسلمان بھی نہیں رہ سکتا ہے کہ یہ قرآن و حدیث کا مسلمہ ہے اور اس پر عالم اسلام کے تمام با شعور اور با ضمیر افراد کا ہر دور میں اتفاق رہا ہے۔

اور یہ انداز فکر بھی معصومۂ عالم جناب فاطمہ زہرا (ع) کی ایک مزید عظمت کا اشارہ ہے کہ باقی افراد ہیں تو جہتِ اختلاف موجود بھی ہے کہ وہ صاحبان منصب ہیں اور منصب کا انکار ممکن ہوسکتا ہے، لیکن جناب فاطمہ (ع) کو مالک کائنات نے منصب و عہدہ سے بھی الگ رکھا ہے اور اس طرح آپ سے اختلاف کرنے کے ہر راستہ کو بند کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مباہلہ میں رسالت کو گواہی کی ضرورت پیش آئی تو آپ کو مکمل حجاب کے ساتھ میدان میں لے آئی اور خلافت میں امامت کو ضرورت پڑی تو آپ کو فدک کا مدعی بنا کر پیش کر دیا گیا تا کہ آپ کے بیان کو مسترد کر دینے والا اور آپ کی عصمت و طہارت کا انکار کرنے والا خود اپنے اسلام و ایمان کے بارے میں فیصلہ کرے۔

اسلامی روایات میں عظمت اہلبیت (ع) کے حوالہ سے بے شمار اقوال و ارشادات پائے جاتے ہیں ، لیکن ان کی حیثیت بڑی حد تک منتشر تھی اور اہلبیت (ع) کے مکمل کردار اور ہمہ جہت کمالات کا اندازہ کرنے والے کو متعدد کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت پڑتی تھی۔

خدا کا شکر ہے کہ سرکار حجة الاسلام والمسلمین محمدی الری شہری (دام ظلہ) کو یہ توفیق حاصل ہوئی اور انھوں نے اس سلسلہ کی ہزاروں احادیث و روایات اور اس موضوع سے متعلق سینکڑوں بیانات و اعترافات کو ایک مرکز پر جمع کر دیا اور اب قرآن و سنت سے اہلبیت (ع) کی عظمت کے پہچاننے والے کو طویل مشقت کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے، اور صرف ایک کتاب ہی اس ضرورت کو پورا کرسکتی ہے۔

رب کریم سرکار موصوف کے توفیقات میں اضافہ فرمائے اور حقیر کو بھی ان خدمات کو اپنے ہمزبانوں کے سامنے پیش کرنے کی سعادت عطا فرماتا رہے۔ و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

جوادی

۱۳ / جمادی الاولیٰ ۱۴۱۸ء ھ روز وفات معصومہ عالم (ع)

 

مقدّمہ

ساری تعریف خدائے رب العالمین کے لئے اور صلوات و سلام اس کے بندۂ منتخب حضرت محمد مصطفیٰ اور ان کی آل طاہرین (ع) اور ان کے نیک کردار اصحاب کرام کے لئے۔

اما بعد، یہ کتاب جو آپ حضرات کے سامنے ہے، یہ سیکڑوں کتابوں اور ہزاروں حدیثوں کا خلاصہ اور نچوڑ ہے جسے ایک نئے انداز سے عالم حدیث اور دنیائے معارف اسلامیہ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ کتاب در حقیقت برسہا برس کی تحقیق ، تلاش اور جستجو کا نتیجہ ہے جو ’ میزان الحکمة‘ سے الگ مستقل شکل میں پیش کی جا رہی ہے، اس کے مآخذ کی فہرست پر اجمالی نظر ڈالنے والا بھی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ اس کی تالیف میں کس قدر زحمت برداشت کی گئی ہے اور کتنی عرق ریزی سے کام لیا گیا ہے۔

ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ ۳۶۶ء۱ ہجری شمسی میں ’ میزان الحکمة‘ کی مقبولیت نے بھی یہ خیال پیدا کر دیا تھا کہ اس انداز کی ایک جامع پیشکش عالم اسلام کے سامنے پیش کی جائے اور اس کام کے لئے مختلف فضلاء حوزہ علمیہ قم کی امداد سے ۱۳۷۴ء ھ میں ایک ’ مؤسسہ دار الحدیث‘ قائم بھی ہو گیا تھا جس کے ذریعہ اس مفصل کتاب کا ایک بڑا حصہ منظر عام پر آ چکا ہے اور امید ہے کہ فضل و کرم خداوندی سے بہت جلد یہ سلسلہ مکمل ہو جائے گا۔

اس وقت چونکہ عالم اسلام کو اس جامع کتاب کے بہت سے موضوعات کی شدید ترین ضرورت ہے اور ان کی مستقل اشاعت ضروری ہے اس لئے ہم نے مناسب خیال کیا کہ تدریجی طور پر ان موضوعات کو مستقل کتابوں کی شکل میں بھی پیش کر دیا جائے۔

چنانچہ اس سلسلہ کی پہلی کتاب ’ دار الحدیث‘ کی طرف سے معرفت اہلبیت (ع) کے عنوان سے پیش کی جا رہی ہے اور اس حقیر ہدیہ کو معصومہ عالم جناب فاطمہ (ع) کی بارگاہ میں پیش کیا جا رہا ہے تا کہ ان کی دعاؤں کی برکت سے یہ ہدیہ بارگاہ الہی میں قابل قبول ہو جائے اور بعد موت کے منازل اور آخرت کے مراحل کیلئے ذخیرہ بن جائے اور دنیا میں بھی اس کے اثرات اہلبیت (ع) کے تعارف اور امت اسلامیہ کے اتحاد کے سلسلہ میں ہماری توقعات سے زیادہ ہوں۔

آخر کلام میں ہمارا فرض ہے کہ ان تمام عزیزوں کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے اس کتاب کی تالیف میں ہماری امداد کی ہے ، خصوصیت کے ساتھ فاضل عزیز السید رسول الموسوی … جنھوں نے اس میدان میں اپنی تمام کوششیں صرف کر دی ہیں اور بیحد مشقت برداشت کی ہے۔

رب کریم انہیں اہلبیت (ع) طاہرین علیہم السلام کی طرف سے دنیا و آخرت میں بہترین جزا عنایت فرمائے۔

محمدی الری شہری

شعبان المظعم ۱۴۱۷ء ھ

 

﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهِ لِیُذْہبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہلَ بَیْتِ وَ یُطَھَّرَکُمْ تَطْھِیْرَا ﴾ (احزاب ۲۳)

کچھ آیت تطہیر سے متعلق

یہ آیت کریمہ سرکار دو عالم (ع) کے آخر دور حیات میں اس دقت نازل ہوئی ہے جب آپ جناب ام سلمہ کے گھر میں تھے اور اس کے بعد آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع)و حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کر کے ایک خیبری چادر اوڑھا دی اور بارگاہ احدیت میں عرض کی، خدایا یہی میرے اہلبیت (ع) ہیں ، تو ام سلمہ نے گذارش کی کہ حضور میری جگہ کہاں ہے؟ فرمایا تم منزل خیر پر ہو … یا … تمہارا انجام بخیر ہے۔

دوسری روایت کے مطابق ام سلمہ نے عرض کی کہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں ؟

تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو۔

ایک دوسری روایت کی بناپر ام سلمہ نے گوشہ چادر اٹھا کر داخل ہونا چاہا تو حضور نے اسے کھینچ لیا اور فرمایا کہ تم خیر پر ہو۔

مسلمان محدثین اور مورخین نے اس تاریخی عظیم الشان واقع کو اپنی کتابوں میں محفوظ کیا ہے اور بقول علامہ طباطبائی طاب ثراہ اس سلسلہ کی احادیث ستر سے زیادہ ہیں ، جن میں سے اہلسنت کی حدیثیں شیعوں کی حدیثوں کے مقابلہ میں اکثریت میں ہیں ان حضرات نے حضرت ام سلمہ ، عائشہ ، ابوسعید خدری، واثلہ بن الاسقع، ابوالحمراء ، ابن عباس، ثوبان ( غلام پیغمبرِ اکرم) عبداللہ بن جعفر، حسن بن علی (ع) سے تقریباً چالیس طریقوں سے نقل کی ہے جبکہ شیعہ حضرات نے امام علی (ع) ، امام سجاد (ع) ، امام باقر (ع) ، امام صادق (ع) ، امام رضا (ع) ، ام سلمہ ، ابوذر، ابولیلیٰ ، ابواسود دئلی ، عمر ابن میمون اور دی اور سعد بن ابی وقاص سے تیس سے کچھ زیادہ طریقوں سے نقل کیا ہے۔ ( المیزان فی تفسیر القرآن ۱۶ / ۳۱۱)

مؤلف، عنقریب آپ دیکھیں گے کہ ان تمام احادیث کو فریقین نے امام علی (ع) ، امام حسن (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، حضرت ام سلمہ ، عائشہ، ابوسعید خدری ابولیلیٰ انصاری، جابر بن عبداللہ انصاری، سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے اور اس کے بعد خصوصیت کے ساتھ اہلسنت (ع) نے امام حسین (ع) ابوبرندہ، ابوالحمراء، انس بن مالک ، براء بن عازب، ثوبان ، زینب بنت ابی سلمہ ، صبیح، عبداللہ بن جعفر، عمر بن ابی سلمہ اور واثلہ بن الامسقع سے نقل کیا ہے جس طرح کہ اہل تشیع سے امام باقر (ع) امام صادق (ع)، امام رضا (ع)سے نقل کیا ہے اور ان روایات کو بھی نقل کیا ہے جن سے اہلبیت (ع) کے مفہوم کی وضاحت ہو جاتی ہے چاہے آیت تطہیر کے نزول کا ذکر ہو۔

مختصر یہ ہے کہ یہ واقعہ سند کے اعتبار سے یقینی ہے اور دلالت کے اعتبار سے بالکل واضح… بالخصوص اسلام نے اہلبیت (ع) کے موارد کی تعیین بھی کر دی ہے کہ اب اس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے اور نہ عنوان اہلبیت (ع) میں کوئی زوجہ داخل ہوسکتی ہے اور نہ اسے مشکوک بنایا جا سکتا ہے۔

اس واقعہ کے بعد سرکار دو عالم (ع) مسلسل مختلف مواقع اور مناسبات پر لفظ اہلبیت (ع) کو انہیں قرابتداروں کے لئے استعمال کرتے رہے جن کا کوئی خاص دخل ہدایت امت میں تھا اور اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں نظر آئیں گی۔

اس کے علاوہ سورہ احزاب کی آیت ۳۳ کا مضمون بھی ان تمام روایات کی تائید کرتا ہے جو شان نزول کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور ان سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ اہلبیت (ع) کے مصداق کے بارے میں شک و شبہہ کسی طرح کی علمی قدر و قیمت کے مالک نہیں ہے۔

رمز عظمت مسلمین

زیر نظر کتاب میں اہلبیت (ع) کی معرفت، ان کے خصائص و امتیازات، ان کے علوم و حقوق اور ان کی محبت و عداوت سے متعلق جن احادیث کا ذکر کیا گیا ہے… ان سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اکرم نے انتہائی واضح اور بلیغ انداز سے اپنے بعض قرابتدار حضرات کو امت کا سیاسی ،علمی اور اخلاقی قائد بنا دیا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ حقیقی اسلام سے وابستہ رہنے اور ہر طرح کے انحراف و ضلال سے بچنے کے لئے انہیں اہلبیت (ع) سے وابستہ رہیں تا کہ واقعی توحید کی حکومت قائم کی جا سکے اور اپنی عزت و عظمت کو حاصل کیا جا سکے کہ اس عظیم منزل و منزلت تک پہنچنا قرآن و اہلبیت (ع) سے تمسک کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

واضح رہے کہ آیت تطہیر کے اہلبیت (ع) کی شان میں نازل ہونے اور اس سلسلہ میں اٹھائے جانے والے والے شکوک و شبہات کی تفصیل جناب سید جعفر مرتضیٰ عاملی کی کتاب ’ اہل البیت (ع) کی آیہ تطہیر‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے کہ انھوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث درج کر دی ہے۔

غالیوں سے برأت

واضح رہے کہ حقیقی شیعہ کسی دور میں بھی اہلبیت (ع) کے بارے میں غلو کا شکار نہیں رہے ہیں اور انھوں نے ہر دور میں غالیوں سے برأت اور بیزاری کا اعلان کیا ہے۔

اہلبیت (ع) علیہم السلام کی تقدیس و تمجید اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں ان کا عمل تمام تر آیات قرآنی اور معتبر احادیث کی بنیاد پر رہا ہے جس کے بارے میں ایک مستقل باب اس کتاب میں بھی درج کیا گیا ہے۔

داستان مصائب اہلبیت (ع)

عالم اسلام کا سب سے زیادہ المناک باب یہ ہے کہ قرآن مجید کے ارشادات اور سرکار دو عالم (ع) کے مسلسل تاکیدات کے باوجود اہلبیت علیہم السلام ہر دور میں ایسے ظلم و ستم کا نشانہ رہے ہیں جن کے بیان سے زبان عاجز اور جن کے تحریر کرنے سے قلم درماندہ ہیں … بلکہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر سرکار دو عالم نے انہیں اذیت دینے کا حکم دیا ہوتا تو امت اس سے زیادہ ظلم نہیں کرسکتی تھی اور مختصر منظوم میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر غم و الم ، رنج و اندوہ کو مجسم کر دیا جائے تو اہلبیت علیہم السلام کی زندگی کا مرقع دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ مصائب اس قابل ہیں کہ ان پر خون کے انسو بہائے جائیں اور اگر ان کی مکمل وضاحت کر دی جائے تو صاف طور پر واضح ہو جائے گا کہ قرآن مجید کو نظر انداز کر دینے کا نتیجہ اور مسلمانوں کے انحطاط کا سبب اور راز کیا ہے۔

اور حقیقت امریہ ہے کہ یہ داستان مصائب اہلبیت (ع) کی داستان نہیں ہے بلکہ ترک قرآن کی داستان ہے اور دستور اسلامی کو نظر انداز کر دینے کی حکایت ہے۔

امت اسلامیہ کی بیدار مغزی

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دور حاضر میں امت اسلامیہ کے تمام گذشتہ ادوار سے زیادہ بڑھتے ہوئے اسلامی شعور اور اسلامی انقلاب کے زیر اثر اسلامیات سے بڑھتی ہوئی دلچسپی نے وہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ امت علوم اہلبیت علیہم السلام کے چشموں سے سیراب ہو اور مسلمان کتاب و سنت اور تمسک بالثقلین کے زیر سایہ اپنے کلمہ کو متحد بنا لیں۔

قرآن و اہلبیت (ع) کے نظر انداز کرنے کی داستان تمام ہو اور امت رنج و الم، غم و اندوہ کے بجائے سکون و اطمینان کی طرف قدم آگے بڑھائے جس کے لئے زیر نظر کتاب ایک پہلا قدم ہے، اس کے بعد باقی ذمہ داری امت اسلامیہ اور اسلامیہ اور اس کے علماء و زعماء کرام پر ہے!۔


مفہوم اہل البیت (ع)

ازدوا ج پیغمبر ا کرم اور مفہوم اہلبیت (ع)

۱۔ ام سلمہ (ع)

۱۔ عطا ء بن یسار نے جناب ام سلمہ (ع) سے روایت کی ہے کہ آیت ’ اِنّمَا یُرِید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا۔ میرے گھر میں نازل ہوئی ہے، جب رسول اکرم نے علی (ع) فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کو طلب کر کے فرمایا کہ ’خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ‘۔ (مستدرک علی الصحیحین ۳ ص ۱۵۸ / ص ۴۷۰۵ ، سنن کبریٰ ۲ ص ۲۱۴ / ص ۲۸۶۱ )۔

۲۔ عطاء بن یسار راوی ہیں کہ جناب ام سلمہ (ع) نے فرمایا کہ آیت انّما یرید اللہ …… میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جب رسول اکرم نے علی (ع) فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کر کے فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں جس کے بعد ام سلمہ (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا تم ’ اَھلِی خَیْر‘ ہو اور یہ اہلبیت (ع) ہیں خدایا میرے اہل زیادہ حقدار ہیں۔

( یہ لفظ مستدرک میں اسی طرح وارد ہوا ہے حالانکہ بظاہر غلط ہے اور اصل لفظ ہے ’ علیٰ خیر‘ جس طرح کہ دیگر روایات میں وارد ہوا ہے)۔

۳۔ ابوسعید خدری نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ آیت تطہیر میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جس کے بعد میں نے عرض کی کہ یا رسول (ع) اللہ کیا میں اہلبیت میں نہیں ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے اور تم ازدواج رسول میں ہو۔ (تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) ص ۷۰ ، ص ۱۲۷ ، حالات امام حسین (ع) ص ۷۳ ، ص ۱۰۶ تاریخ بغداد ص ۹ ص ۱۲۶ ، المعجم الکبیر ۳ ص ۵۲ / ۲۶۶۲)۔

۴۔ ابوسعید خدری جناب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرم نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کر کے ان کے سرپر ایک خیبری چادر اوڑھا دی اور فرمایا خدایا یہ ہیں میرے اہلبیت (ع) لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور اس طرح پاک رکھنا جو تطہیر کا حق ہے۔ جس کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا میں ان میں سے نہیں ہوں ؟ تو فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے۔( تفسیر طبری ۲۲ ص ۷)۔

۵۔ابوسعید خدری نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت ان کے گھر میں نازل ہوئی ہے اور میں دروازہ پر بیٹھی تھی ، جب میں نے پوچھا کہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں تو فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے اور تم ازواج رسول میں ہو، اس وقت گھر میں رسول اکرم ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، اور حسن (ع) اور حسین (ع) تھے ’ رضی اللہ عنہم‘ ( تفسیر طبری ۲۲ ص ۷)۔

۶۔ ابوہریرہ نے جناب ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول اکرم کے پاس ایک پتیلی لے کر آئیں جس میں عصیدہ (حلوہ) تھا اور اسے ایک سینی میں رکھے ہوئے تھیں ، اور اسے رسول اکرم کے سامنے رکھ دیا۔

تو آپ نے فرمایا کہ تمھارے ابن عم اور دونوں فرزند کہاں ہیں ؟ عرض کی گھر میں ہیں فرمایا سب کو بلاؤ تو فاطمہ (ع) نے گھر آ کر علی (ع) سے کہا کہ آپ کو اور آپ کے دونوں فرزندوں کو پیغمبر اکرم نے طلب فرمایا ہے۔

جس کے بعد ام سلمہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جیسے ہی سب کو آتے دیکھا بستر سے چادر اٹھا کر پھیلادی اور اس پر سب کو بٹھا کر اطراف سے پکڑ کر اوڑھا دیا اور داہنے ہاتھ سے طرف پروردگار اشارہ کیا مالک یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ( تفسیر طبری ۲۲ ص ۷)۔

۷۔ حکیم بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے جناب ام سلمہ کے سامنے علی (ع) کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا کہ آیت تطہیر انہیں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، واقعہ یہ ہے کہ رسول اکرم میرے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا ، اتنے میں فاطمہ (ع) آ گئیں تو میں انہیں روک نہ سکی، پھر حسن (ع) آ گئے تو انہیں بھی نانا اور ماں کے پاس جانے سے روک نہ سکی، پھر حسین (ع) آ گئے تو انہیں بھی منع نہ کرسکی اور جب سب ایک فرش پر بیٹھ گئے تو حضور نے اپنی چادر سب کے سر پر ڈال دہی اور کہا خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا جس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی اور میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ اور میں ؟ تو حضور نے ہاں نہیں کی اور فرمایا کہ تمہارا انجام خیر ہے( تفسیر طبری ۲۲ ص ۸)۔

۸۔ شہر بن حوشب جناب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے علی (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) پر چادر اوڑھا دی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) اور خواص ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انہیں پاک و پاکیزہ رکھنا۔

جس پر میں نے عرض کی کہ کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں ؟ تو فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے ( مسند احمد بن حنبل ۱۰ ص ۱۹۷ / ۲۶۶۵۹ ، سنن ترمذی ۵ ص ۶۹۹ /۳۸۷۱ ، مسند ابویعلیٰ ۶ ص۲۹۰ / ۶۹۸۵ ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ۶۲ / ص۸۸ تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) ۶۵ ص ۱۱۸ )۔

واضح رہے کہ ترمذی میں انا منہم کے بجائے انا معہم؟ ہے اور آخری تین مدارک میں خاصتی کے بجائے حامتی ہے۔

۹۔ شہر بن حوشب ام سلمہ سے راوی ہیں کہ فاطمہ (ع) بنت رسول پیغمبر اکرم کے پاس حسن (ع) و حسین (ع) کو لے کر آئیں تو آپ کے ہاتھ میں حسن (ع) کے واسطے ایک برمہ (پتھر کی بانڈی) تھا جسے سامنے لا کر رکھ دیا تو حضور نے دریافت کیا کہ ابوالحسن (ع) کہاں ہیں ، فاطمہ (ع) نے عرض کی کہ گھر میں ہیں ! تو آپ نے انہیں بھی طلب کر لیا اور پانچوں حضرات بیٹھ کر کھانے لگے۔

جناب ام سلمہ کہتی ہیں کہ حضور نے آج مجھے شریک نہیں کیا جبکہ ہمیشہ شریک طعام فرمایا کرتے تھے ، اس کے بعد جب کھانے سے فارغ ہوئے تو حضور نے سب کو ایک کپڑے میں جمع کر لیا اور دعا کی کہ خدایا ان کے دشمن سے دشمنی کرنا اور ان کے دوست سے دوستی فرمانا۔ (مسند ابویعلی ۶ ص ۲۶۴ / ۶۹۱۵ ، مجمع الزوائد ۹ ص ۲۶۲ / ۱۴۹۷۱ )

۱۰۔ شہر بن حوشب نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ اپنے شوہر اور فرزندوں کو بلاؤ اور جب سب آ گئے تو ان پر ایک فدک کے علاقہ کی چادر اوڑھا دی اور سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا خدایا یہ سب آل محمد ہیں لہذا اپنی رحمت و برکات کو محمد و آل محمد کے حق میں قرار دینا کہ تو قابل حمد اور مستحق مجد ہے۔

اس کے بعد میں نے چادر کو اٹھا کر داخل ہونا چاہا تو آپ نے میرے ہاتھ سے کھینچ لی اور فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے۔ ( مسند احمد بن حنبل ۱۰ ص ۲۲۸ / ۲۶۸۰۸۔ المعجم الکبیر ۳ ص ۵۳ / ۲۶۶۴۔ ۲۳ ص ۳۳۶ / ۷۷۹ ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ۶۴ ص ۹۳، حالات امام حسن (ع) ۶۵ ، ص ۱۱۶ ۶۷ ،ص ۱۲۰ ، مسند ابویعلی ٰ ۶ ص ۲۴۸ / ۶۸۷۶۔

۱۱۔ شہر بن حوشب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم میرے پاس تھے اور علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) بھی تھے، میں نے ان کے لئے غذا تیار کی اور سب کھا کر لیٹ گئے تو پیغمبر اکرم نے ایک عبا یا چادر اوڑھا دی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا ( تفسیر طبری ۲۲ ص ۶ )۔

۱۲۔ زوجہ پیغمبر جناب ام سلمہ کے غلام عبداللہ بن مغیرہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آیت تطہیر ان کے گھر میں نازل ہوئی جبکہ رسول اکرم نے مجھے حکم دیا کہ میں علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کروں اور میں نے سب کو طلب کر لیا ، آپ نے داہنا ہاتھ علی (ع) کے گلے میں ڈال دیا اور بایاں ہاتھ حسن (ع) کے گلے میں ، حسین (ع) کو گود میں بٹھایا اور فاطمہ (ع) کو سامنے، اس کے بعد دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہل اور میری عترت ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طریقہ سے پاک و پاکیزہ رکھنا … اور یہ بات تین مرتبہ فرمائی تو میں نے عرض کی کہ پھر میں ؟ تو فرمایا کہ انشاء اللہ تم خیر پر ہو۔( امالی طوسی (ر) ۲۶۳ / ۴۸۲۔ تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ۶۷ / ۹۷ لیکن اس میں راوی کا نام عبداللہ بن معین ہے جیسا کہ امالی کے بعض نسخوں میں پایا جاتا ہے)

۱۳۔ عطا ابن ابی رباح کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جس نے جناب ام سلمہ کو یہ بیان کرتے سنا تھا کہ رسول اکرم ان کے گھر میں تھے اور فاطمہ (ع) ایک برمہ (ہانڈی) لے کر آئیں جس میں ایک مخصوص غذا تھی اور رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہو گئیں تو حضرت نے فرمایا کہ اپنے شوہر اور بچوں کو بلاؤ اور جب سب آ گئے اور کھانا کھا لیا تو ایک بستر پر لیٹ گئے جس پر خیبری چادر بچھی ہوئی تھی اور میں حجرہ میں مشغول نماز تھی تو آیت تطہیر نازل ہوئی اور آپ نے اس چادر کو سب کے اوپر ڈھانک دیا اور ایک ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کیا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) اور خواص ہیں ، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا ، خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے اس گھر میں سرڈال کر گذارش کی کہ کیا میں بھی آپ کے ساتھ ہوں یا رسول اللہ ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے، تمہارا انجام بخیر ہے۔(مسند احمد بن حنبل ۱۰ ص ۱۷۷ / ۲۶۵۷۰۔ فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ ص ۵۸۷ / ۹۹۴۔ تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) ۶۸ ص ۱۲۳ ، مناقب ابن مغازلی ۳۰۴ / ۳۴۸ ، مناقب امیر المومنین کوفی ۲ ص ۱۶۱ / ۶۳۸ بروایت ابویعلی ٰ کندی)۔

۱۴۔ عمرہ بنت افعلی کہتی ہیں کہ میں نے جناب ام سلمہ کو یہ کہتے سنا کہ آیت تطہیر میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جبکہ گھر میں سات افراد تھے۔

جبرئیل ، میکائیل، رسول اللہ ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع)۔

میں گھر کے دروازہ پر تھی ، میں نے عرض کی حضور کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو لیکن تم ازواج پیغمبر میں ہو ، اہلبیت (ع) میں نہیں ہو ( تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ۶۹ ص ۱۰۲ ، ۶۸ ص ۱۰۱ ، در منثور ۶ ص ۶۰۴ از ابن مردویہ ، خصال ۴۰۳ / ۱۱۳ ، امالی صدوق (ر) ۳۸۱ / ۴ روضة الواعظین ص ۱۷۵، تفسیر فرات کوفی ۳۳۴ / ۴۵۴ ،از ابوسعید)۔

۱۵۔ امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے امام زین العابدین (ع) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جناب ام سلمہ نے فرمایا ہے کہ آیت تطہیر میرے گھر میں اس دن نازل ہوئی ہے جس دن میری باری تھی اور رسول اکرم میرے گھرمیں تھے، جب آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو بلایا اور جبریل بھی آ گئے آپ نے اپنی خیبری چادر سب پر اوڑھا کر فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا جس کے بعد جبریل نے عرض کی کہ میں بھی آپ سے ہوں ؟ اور آپ نے فرمایا کہ ہاں تم ہم سے ہوا ہے جبریل … اور پھر ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ اور میں بھی آپ کے اہلبیت (ع) میں ہوں اور یہ کہہ کر چادر میں داخل ہونا چاہا تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو، تمہارا انجام بخیر ہے ، لیکن تم ازواج پیغمبر میں ہو جس کے بعد جبریل نے کہا کہ یا محمد ! اس آیت کو پڑھو ’ انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا‘ کہ یہ آیت نبی ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کے بارے میں ہے ( امالی طوسی (ر) ۳۶۸ / ۷۸۳ از علی بن علی بن رزین)۔

۲۔ عائشہ

۱۶۔ صفیہ بنت شیبہ عائشہ سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اکرم ایک صبح گھر سے برآمد ہوئے جب آپ سیاہ بالوں والی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور اتنے میں حسن (ع) آ گئے تو آپ نے انہیں بھی داخل کر لیا، پھر حسین (ع) آ گئے اور انہیں بھی لے لیا ، پھر فاطمہ (ع) آ گئیں تو انہیں بھی شامل کر لیا اور پھر علی (ع) آ گئے تو انہیں بھی داخل کر لیا، اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی ( صحیح مسلم ۴ / ۱۸۸۳ / ۲۴۲۴ ، المستدرک ۳ ص ۱۵۹ / ۴۷۰۷ ، تفسیر طبری ۲۲ ص ۶۰ اس روایت میں صرف امام حسن (ع) کا ذکر ہے، السنن الکبری ٰ ۲ ص ۲۱۲ / ۲۸۵۸ ، المصنف ابن ابی شیبہ ۷ ص ۵۰۲ / ۳۹ مسند اسحاق بن راہویہ ۳ ص ۲۷۸ / ۱۲۷۱ ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) ۶۳ / ۱۱۳ )

۱۷۔ عوام بن حوشب نے تمیمی سے نقل کیا ہے کہ میں حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا تو انھوں نے یہ روایت بیان کی کہ میں نے رسول اکرم کو دیکھا کہ آپ نے علی (ع)۔ حسن (ع)۔ حسین (ع) کو بلایا اور فرمایا کہ خدا یہ میرے اہلبیت (ع)ہیں ، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا۔ (امالی صدوق (ر) ۵ ص ۳۸۲)

۱۸۔ جمیع بن عمیر کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ حضرت عائشہ بنت ابی بکر کی خدمت میں حاضر ہوا تو میری والدہ نے سوال کیا کہ آپ فرمائیں رسول اکرم کی محبت علی (ع) کے ساتھ کیسی تھی ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ وہ تمام مردوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے اور میں نے خود دیکھا ہے کہ آپ نے انہیں اور فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کو اپنی ردا میں داخل کر کے فرما یا کہ خدا یا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا۔

جس کے بعد میں نے چاہا کہ میں بھی چادر میں سرڈال دوں تو آپ نے منع کر دیا تو میں نے عرض کی کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں ؟ تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو، بیشک تم خیر پر ہو ، (تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۲ ص ۱۶۴ ، ۶۴۲ ، شواہد التنزیل ۲ ص ۶۱ / ۶۸۲ ، ۶۸۴ ، العمدة ۴۰ / ۲۳ مجمع البیان ۸/ ۵۵۹۔

واضح رہے کہ تاریخ دمشق میں راوی کا نام عمیر بن جمیع لکھا گیا ہے جو کہ تحریف ہے اور اصل جمیع بن عمیر ہے جیسا کہ دیگر تمام مصادر میں پایا جاتا ہے اور ابن حجر نے تہذیب میں تصریح کی ہے کہ جمیع بن عمیر التیمی الکوفی نے عائشہ سے روایت کی ہے اور ان سے عوام بن حوشب نے نقل کیا ہے۔!

آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں

آیت تطہیر کے نزول کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کا جائزہ لیا جائے تو صاف طور پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ آیت جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے اور اس کا خود حضرت عائشہ نے بھی اقرار کیا ہے جیسا کہ ابوعبداللہ الحدبی سے نقل کیا گیا ہے کہ میں حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا اور میں نے سوال کیا کہ آیت ’ انما یرید اللہ ‘ کہاں نازل ہوئی ہے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ بیت ام سلمہ میں ! ( تفسیر فرات کوفی ۳۳۴ / ۴۵۵)

دوسری روایت میں جناب ام سلمہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر خود عائشہ سے دریافت کرو گے تو وہ بھی یہی کہیں گی کہ ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے۔ ( تفسیر فرات الکوفی ۳۳۴)

شیخ مفید ابوعبداللہ محمد بن محمد بن النعمان فرماتے ہیں کہ اصحاب حدیث نے روایت کی ہے کہ اس آیت کے بارے میں عمر سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ عائشہ سے دریافت کرو اور عائشہ نے فرمایا کہ میری بہن ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے لہذا انہیں اس کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم ہے۔ ( الفصول المختارہ ص ۵۳ ، ۵۴)

مذکورہ بالا اور عبداللہ بن جعفر کی روایت سے واضح ہوتا ہے کہ جناب ام سلمہ کے علاوہ عائشہ اور زینب جیسے افراد اس واقعہ کے عینی شاہد بھی ہیں اور انھوں نے ام سلمہ کی طرح چادر میں داخلہ کی درخواست بھی کی ہے اور حضور نے انکار فرما دیا ہے لہذا بعض محدثین کا یہ احتمال دینا کہ یہ واقعہ متعدد بار مختلف مقامات پر پیش آیا ہے ، ایک بعید از قیاس مسئلہ ہے۔

 

اصحاب پیغمبر اور مفہوم اہلبیت (ع)

۱۔ ابوسعید خدری (ع)

۱۹۔ عطیہ نے ابوسعید الخدری سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ یہ آیت پانچ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، میں ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) ،حسین (ع)۔(تفسیر طبری ۱۲ / ۶، در منثور ۶ ص ۶۰۴ ، العمدة ۳۹ ص۲۱)۔

۲۰۔ عطیہ نے ابوسعید خدری سے آیت تطہیر کے بارے میں روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کو جمع کر کے سب پر ایک چادر اوڑھا دی اور فرمایا کہ یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ، خدایا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا۔

اس وقت ام سلمہ دروازہ پر تھیں اور انھوں نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم خیر پر ہو، یا تمہارا انجام بخیر ہے، ( تاریخ بغداد ۱۰ ص ۲۷۸ ، شواہد التنزیل ۲ ص ۳۸ / ۶۵۷۔ ۲ ص ۱۳۹ / ۷۷۴ ، تنبیہ الخواطر ۱ ص ۲۳)۔

۲۱۔ ابوایوب الصیرفی کہتے ہیں کہ میں نے عطیہ کوفی کو یہ بیان کرتے ہوئے سناہے کہ میں نے ابوسعید خدری سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ آیت رسول اکرم ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن اور حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔( امالی طوسی (ر) ۲۴۸ / ۴۳۸۔ المعجم الکبیر ۳ ص ۵۶ / ۲۶۷۳، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ۷۵ / ۱۰۸ ، اسباب نزول قرآن ۳۶۸ / ۶۹۶ )۔

۲۔ ابوبرزہ اسلمی

۲۲۔ ابوبرزہ کا بیان ہے کہ میں نے ، ۱۷ مہینہ تک رسول اکرم کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ اپنے گھر سے نکل کر فاطمہ (ع) کے دروازہ پر آتے تھے اور فرماتے تھے، نماز ! خدا تم پر رحمت نازل کرے اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے ( مجمع الزوائد ۹ ص ۲۶۷ / ۱۴۹۸۶ )۔

۳۔ ابوالحمراء

۲۳۔ ابوداؤد نے ابوالحمراء سے نقل کیا ہے کہ میں نے پیغمبر اسلام کے دور میں سات مہینہ تک مدینہ میں حفاظتی فرض انجام دیا ہے اور میں دیکھتا تھا کہ حضور طلوع فجر کے وقت علی (ع) و فاطمہ (ع) کے دروازہ پر آ کر فرماتے تھے ، الصلٰوة الصلٰوة ، اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔ ( تفسیر طبری ۲۲ ص ۶)۔

۴۔ ابولیلیٰ انصاری

۲۴۔ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اپنے والد کے حوالہ سے پیغمبر اسلام کا یہ ارشا د نقل کیا ہے کہ آپ نے علی (ع) مرتضیٰ سے فرمایا کہ میں سب سے پہلے جنّت میں داخل ہو گا اور اس کے بعد تم اور حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) … خدا یا یہ سب میرے اہل ہیں لہذا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ، خدایا ان کی نگرانی اور حفاظت فرمانا، تو ان کا ہو جا ، ان کی نصرت اور امداد فرما… انہیں عزت عطا فرما اور یہ ذلیل نہ ہونے پائیں اور مجھے انہیں میں زندہ رکھنا کہ تو ہر شے پر قادر ہے۔ ( امالی طوسی (ر) ص ۳۵۲ / ۲۷۲ ، مناقب خوارزمی ۶۲ / ۳۱)۔

۵۔ انس بن مالک

۲۵۔ انس بن مالک کا بیان ہے کہ رسول اکرم ۶ ماہ تک فاطمہ (ع) کے دروازہ سے نماز صبح کے وقت گذرتے تھے، الصلٰوة یا اہل البیت … اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے( سنن ترمذی ۵ ص ۳۵۲ / ۳۲۰۶ ، مسند احمد بن حنبل ۴ ص ۵۱۶ / ۱۳۷۳۰ ، فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲/۷۶۱ / ۱۳۴۰ ، مستدرک ۳ / ۱۷۲ / ۴۷۴۸ ، المعجم الکبیر ۳ / ۶۵ / ۲۶۷۱ ، المصنف ۷/۴۲۷ ، تفسیر طبری ۲۲ ص ۶ اس کتاب میں اذاخرج کے بجائے کلما خرج ہے کہ جب بھی نماز کے لئے نکلتے تھے)۔

۶۔ براء بن عازب

۲۶۔ براء بن عازب کا بیان ہے کہ علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) رسول اکرم کے دروازہ پر آئے تو آپ نے سب کو اپنی چادر اوڑھا دی اور فرمایا کہ خدایا یہ میری عترت ہے ( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۲ / ۴۳۷ / ۹۴۴ ، شواہد التنزیل ۲ / ۲۶ / ۶۴۵)۔

۷۔ ثوبان

۲۷۔ سلیمان المبنہی نے غلام پیغمبر اسلام ثوبان سے نقل کیا ہے کہ حضور جب بھی سفر فرماتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ (ع) سے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ (ع) سے ملاقات کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک غزوہ سے واپس آئے تو دروازہ پر ایک پردہ دیکھا اور حسن (ع) حسین (ع) کے ہاتھوں میں چاندی کے کڑے … تو گھر میں داخل نہیں ہوئے، جناب فاطمہ (ع) فوراً سمجھ گئیں اور پردہ کو اتار دیا اور بچوں کے کڑے بھی اتار لئے اور توڑ دیے، بچے روتے ہوئے پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ نے دونوں سے لے لیا اور مجھ سے فرمایا کہ اسے لے جا کر مدینہ کے فلاں گھر والوں کو دے دو کہ میں اپنے اہلبیت (ع) کے بارے میں یہ پسند نہیں کرتا کہ یہ ان نعمتوں سے زندگانی دنیا میں استفادہ کریں ، پھر فرمایا ثوبان جاؤ فاطمہ (ع) کے لئے ایک عصب (…) کا ہار اور بچوں کے لئے دو عاج ( ہاتھی دانت) کے کڑے خرید کر لے آؤ ( سنن ابی داؤد ۴/ ۸۷ / ۴۲۱۳ ، مسند احمد بن حنبل ۸/ ۳۲۰ / ۲۲۴۲۶، السنن الکبری ٰ ۱ / ۴۱ / ۹۱ ، احقاق الحق ۱۰ /۲۳۴ ، ۲۹۱)۔

واضح رہے کہ روایت کے جملہ تفصیلات کی ذمہ داری راوی پر ہے، مصنف کا مقصد صرف لفظ اہلبیت (ع) کا استعمال ہے، جوادی۔

۲۸۔ ابوہریرہ اور ثوبان دونوں نے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم اپنے سفر کی ابتدا اور انتہا بیتِ فاطمہ (ع) پر فرمایا کرتے تھے ، چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے پدر بزرگوار اور شوہر نامدار کی خاطر ایک خیبری چادر کا پردہ ڈال دیا جسے دیکھ کر حضور آگے بڑھ گئے اور آپ کے چہر ہ پر ناراضگی کے اثرات ظاہر ہوئے اور منبر کے پاس آ کر بیٹھ گئے، فاطمہ (ع) کو جیسے ہی معلوم ہوا انھوں نے ہار۔ بُندے اور کڑے سب اتار دیے اور پردہ بھی اتار کر بابا کی خدمت میں بھیج دیا اور عرض کی کہ اسے راہ خدا میں تقسیم کر دیں ، آپ نے یہ دیکھ کر تین بار فرمایا، یہ کارنامہ ہے۔ فاطمہ (ع) پر ان کا باپ قربان۔ آل محمد کو دنیا سے کیا تعلق ہے، یہ سب آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دنیا دوسرے افراد کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ ( مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۳۴۳)۔

نوٹ: تفصیلات کے اعتبار کے لئے حضرت ابوہریرہ کا نام ہی کافی ہے۔ جوادی

۸۔ جابر بن عبداللہ انصاری

۲۹۔ ابن ابی عتیق نے جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے علی (ع)۔ فاطمہ (ع) اور ان کے دونوں فرزندوں کو بلا کر ایک چادر اوڑھا دی اور فرمایا ، خدا یا یہ میرے اہل ہیں ، یہ میرے اہل ہیں ، (شواہد التنزیل ۲/ ۲۸ / ۶۴۷ ، مجمع البیان ۸/ ۵۶۰ ، احقاق الحق ۲ ص ۵۵ نقل از عوالم العلوم)۔

۳۰۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں ام سلمہ کے گھر میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آیت تطہیر نازل ہو گئی اور آپ نے حسن (ع) حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو طلب کر کے اپنے سامنے بٹھایا اور علی (ع) کو پس پشت بٹھایا اور فرمایا ، خدایا یہ میرے اہلبیت ہیں ، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا۔

ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں بھی ان میں شامل ہوں ؟ فرمایا تمھارا انجام بخیر ہے۔

تو میں نے عرض کی ، حضور ا! اللہ نے اس عترت طاہرہ اور ذریّت طیبہ کو یہ شرف عنایت فرمایا ہے کہ ان سے ہر رجس کو دور رکھا ہے ، تو آپ نے فرمایا ، جابر ایسا کیوں نہ ہوتا، یہ میری عترت ہیں اور ان کا گوشت اور خون میرا گوشت اور خون ہے ، یہ میرا بھائی سید الاولیاء ہے۔

اور یہ میرے فرزند بہترین فرزند ہیں اور یہ میری بیٹی تمام عورتوں کی سردار ہے اور یاد رکھو کہ مہدی بھی ہمیں میں سے ہو گا ( کفایة الاثر ص ۶۶)۔

۹۔ زید بن ارقم

۳۱۔ یزید بن حیان نے زید بن ارقم سے حدیث ثقلین کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ میں نے دریافت کیا کہ آخر یہ اہلبیت (ع) کون ہیں ، کیا یہ ازواج ہیں تو انھوں نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ، عورت تو مرد کے ساتھ ایک عرصہ تک رہتی ہے ، اس کے بعد اگر طلاق دے دی تو اپنے گھر اور اپنی قوم کی طرف پلٹ جاتی ہے ’ اور رشتہ ختم ہو جاتا ہے‘… اہلبیت (ع) وہ قرابتدار ہیں جن پر صدقہ حرام کر دیا گیا ہے ( صحیح مسلم ۴ ص ۳۷ /۱۸۷۴)۔

۱۰۔ زینب بنت ابی سلمہ

۳۲۔ ابن لہیعہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عمرو بن شعیب نے نقل کیا ہے کہ وہ زینب بنت ابی سلمہ کے یہاں وارد ہوئے تو انھوں نے یہ قصہ بیان کیا کہ رسول اکرم ام سلمہ کے گھر میں تھے کہ حسن (ع) و حسین (ع) اور فاطمہ (ع) آ گئیں ، آپ نے حسن (ع) کو ایک طرف بٹھایا اور حسین کو دوسری طرف ، فاطمہ (ع) کو سامنے جگہ دی اور پھر فرمایا کہ رحمت و برکات الہی تم اہلبیت (ع) کے لئے ہے، وہ پروردگار حمید بھی ہے اور مجید بھی ہے(المعجم الکبیر ۲۴ ص ۲۸۱ / ۷۱۳ )۔

۱۱۔ سعد بن ابی وقاص

۳۳۔ عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کر کے فرمایا کہ یہ میرے اہل ہیں ( صحیح مسلم ۴ / ۳۲ / ۱۸۷۱ سنن ترمذی ۵ / ۲۲۵ / ۲۹۹۹ ، مسند ابن حنبل ۱ / ۳۹۱ / ۱۶۰۸ ، مستدرک ۳/ ۱۶۳ / ۴۷۱۹ ، السنن الکبریٰ ۷ ص ۱۰۱ / ۱۳۳۹۲ ، الدرالمنثور ۲ ص ۲۳۳ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۱ ص ۲۰۷ / ۲۷۱ ، امالی طوسی (ر) ص ۳۰۷ / ۶۱۶)۔

۳۴۔ عامر بن سعد نے سعد سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم پر وحی نازل ہوئی تو آپ نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) اور ان کے فرزندوں کو چادر میں لے کر فرمایا کہ خدایا یہی میرے اہل اور اہلبیت (ع) ہیں (مستدرک ۳ ص ۱۵۹ / ۴۷۰۸ السنن الکبریٰ ۷ ص ۱۰۱ / ۱۳۳۹۱، تفسیر طبری ۳۳ / ۸ ، الدرالمنثور ۶ ص ۶۰۵)۔

۳۵۔ سعید بن جبیر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ میں منزل ذی طویٰ میں معاویہ کے پاس موجود تھا جب سعد بن وقاص نے وارد ہو کر سلام کیا اور معاویہ نے قوم سے خطاب کر کے کہا کہ یہ سعد بن ابی وقاص ہیں جو علی (ع) کے دوستوں میں ہیں اور قوم نے یہ سن کر سر جھکا لیا اور علی (ع) کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا ، سعد رونے لگے تو معاویہ نے پوچھا کہ آخر رونے کا سبب کیا ہے؟ سعد نے کہا کہ میں کیونکر نہ روؤں ، رسول اکرم کے ایک صحابی کو گالیاں دی جا رہی ہیں اور میری مجبوری ہے کہ میں روک بھی نہیں سکتا ہوں !

جبکہ علی (ع) میں ایسے صفات تھے کہ اگر میرے پاس ایک بھی صفت ہوتی تو دنیا اور مافیہا سے بہتر سمجھتا!۔

یہ کہہ کر اوصاف علی (ع) کو شمار کرنا شروع کر دیا … اور کہا کہ پانچویں صفت یہ ہے کہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے علی (ع) حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو بلا کر فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہل ہیں ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ( امالی طوسی (ر) ص ۵۹۸ / ۱۲۴۳)۔

۳۶۔ سعد بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ جب معاویہ نے انہیں امیر بنایا تو یہ سوال کیا کہ آخر تم ابوتراب کو گالیاں کیوں نہیں دیتے ہو؟ تو انھوں نے کہا کہ جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد رہیں گی جنہیں رسول اکرم نے فرمایا ہے۔ میں انہیں بر انہیں کہہ سکتا ہوں اور اگر ان میں سے ایک بھی مجھے حاصل ہو جاتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ قیمتی ہوتی … ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کر کے فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہل ہیں۔ (سنن ترمذی ۵ ص ۶۳۸ / ۳۷۲۴ ، خصائص امیرالمؤمنین (ع) للنسائی ۴۴ / ۹ شواہد التنزیل ۳۳۲ / ۳۶ ، تفسیر عیاشی ۱ ص ۱۷۷ / ۶۹)۔

۱۲۔ صبیح مولیٰ ام سلمہ

۳۷۔ ابراہیم بن عبدالرحمن بن صبیح مولی ٰ ام سلمہ نے اپنے جد صبیح سے نقل کیا ہے کہ میں رسول اکرم کے دروازہ پر حاضر تھا جب علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) آئے اور ایک طرف بیٹھ گئے، حضرت باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تم سب خیر پر ہو، اس کے بعد آپ نے اپنی خیبری چادر ان سب کو اوڑھا دی اور فرمایا کہ جو تم سے جنگ کرے میری اس سے جنگ ہے اور جو تم سے صلح کرے میری اس سے صلح ہے ( المعجم الاوسط ۳ / ۴۰۷ / ۲۸۵۴، اسد الغابہ ۳ / ۷ /۲۴۸۱)۔

۱۳۔ عبداللہ بن جعفر

۳۸۔ اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اکرم نے رحمت کو نازل ہوتے دیکھا تو فرمایا میرے پاس بلاؤ میرے پاس بلاؤ … صفیہ نے کہا یا رسول اللہ کس کو بلانا ہے؟ فرمایا میرے اہلبیت (ع) علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن، حسین (ع)۔

چنانچہ سب کو بلا گیا اور آپ نے سب کو اپنی چادر اوڑھا دی اور ہاتھ اٹھا کر فرمایا خدایا یہ میری آل ہے لہذا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور اس کے بعد آیت تطہیر نازل ہو گئی (مستدرک ۳ ص ۱۶۰ / ۴۷۰۹۔ شواہد التنزیل ۲ ص ۵۵ / ۶۷۵ ، اس روایت میں صفیہ کے بجائے زینب کا ذکر ہے)۔

۳۹۔ اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر طیار نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ نے جبریل کو آسمان سے نازل ہوتے دیکھا تو فرمایا کہ میرے پاس کون بلا دے گا ، میرے پاس کون بلا دے گا …؟ زینب (ع) نے کہا کہ میں حاضر ہوں کسے بلانا ہے ؟ فرمایا علی (ع) ، فاطمہ (ع) حسن (ع) اور حسین (ع) کو بلاؤ۔!

پھر آپ نے حسن (ع) کو داہنی طرف ، حسین (ع) کو بائیں طرف اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھا کر سب پر ایک چادر ڈال دی اور فرمایا خدایا ہر نبی کے اہل ہوتے ہیں اور میرے اہل یہ افراد ہیں جس کے بعد آیت تطہیر نازل ہو گئی اور زینب (ع) نے گزارش کی کہ میں چادر میں داخل نہیں ہوسکتی ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو انش تم خیر پر ہو۔ (شواہد التنزیل ۲ ص۵۳ / ۶۷۳ ، فرائد السمطین ۲/ ۱۸ / ۳۶۲ ، العمدة ۰۴ / ۲۴ ، احقاق الحق ۹ ص ۵۲ )۔

۱۴۔ عبدالبہ بن عباس

۴۰۔ عمرو بن میمون کا بیان ہے کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا تھا کہ نو افراد کی جماعت وارد ہو گئی اور ان لوگوں نے کہا کہ یا آپ ہمارے ساتھ چلیں یا یہیں تنہائی کا انتظام کریں ؟ ابن عباس نے کہا کہ میں ہی تم لوگوں کے ساتھ چل رہا ہوں۔ اس زمانہ میں ان کی بینائی ٹھیک تھی اور نابینا نہیں ہوئے تھے، چنانچہ ساتھ گئے اور ان لوگوں نے آپس میں گفتگو شروع کر دی، مجھے گفتگو کی تفصیل تو نہیں معلوم ہے، البتہ ابن عباس دامن جھاڑتے ہوئے اور اف اور تف کہتے ہوئے واپس آئے، افسوس یہ لوگ اس کے بارے میں برائیاں کر رہے ہیں جس کے پاس دس ایسے فضائل ہیں جو کسی کو حاصل نہیں ہیں۔

یہ اس کے بارے میں کہہ رہے ہیں جس کے بارے میں رسول اکرم نے فرمایا تھا کہ عنقریب اس شخص کو بھیجوں گا جسے خدا کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا اور وہ خدا و رسول کا چاہنے والا ہو گا … یہاں تک کہ یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ حضور نے اپنی چادر علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) پر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی۔( مستدرک ۳ / ۱۴۳ / ۴۶۵۲ ، مسند ابن حنبل ۱ / ۷۰۸ / ۳۰۶۲ ، خصائص نسائی ۷۰ / ۲۳ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) / ۱۸۹ / ۲۵۰۔

۴۱۔ عمرو بن میمون نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے حسن (ع) و حسین (ع) اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کو بلا کر ان پر چادر ڈال دی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت اور اقرباء ہیں ، ان سے رجس کو دو رکھنا اور انہیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۱ ص ۱۸۴ / ۲۴۹ ، شواہد التنزیل ۲ / ۵۰ / ۶۷۰ ، احقاق الحق ۱۵ ص ۶۲۸۔ ۶۳۱)۔

۴۲۔ سعید بن جبیر ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ خدا یا اگر تیرے کسی بھی نبی کے ورثہ اور اہلبیت (ع) ہیں تو علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) میرے اہلبیت (ع) اور میرے سرمایہ ہیں لہذا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں کمال طہارت کی منزل پر رکھنا۔

۴۳۔ سعید بن المسیب نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک دن رسول اکرم تشریف فرماتھے اور آپ کے پاس علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) بھی تھے کہ آپ نے دعا فرمائی خدایا تجھے معلوم ہے کہ یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں اور مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں لہذا ان کے دوست سے محبت کرنا اور ان کے دشمن سے دشمنی رکھنا ، جو ان سے موالات رکھے تو اس سے محبت کرنا جو ان سے دشمنی کرتے تو اس سے دشمنی کرنا ، ان کے مددگاروں کی مدد کرنا اور انہیں ہر رجس سے پاک رکھنا ، یہ گناہ سے محفوظ رہیں اور روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کرتے رہا۔

اس کے بعد آپ نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کیا اور فرمایا خدایا میں تجھے گواہ کر کے کہہ رہا ہوں کہ میں ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں ، ان سے صلح رکھنے والے کی مجھ سے صلح ہے اور ان سے جنگ کرنے والے سے میری جنگ ہے، میں ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور ان کے دوستوں کا دوست ہوں۔ (امالی صدوق (ر) ۳۹۳ / ۱۸ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۷۷)۔

۴۴۔ ابن عباس حضرت علی (ع) و فاطمہ (ع) کے عقد کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے دونوں کو سینہ سے لگا کر فرمایا کہ خدایا یہ دونوں مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں … خدایا جس طرح تو نے مجھ سے رجس کو دور رکھا ہے اور مجھے پاکیزہ بنایا ہے، اسی طرح انہیں بھی طیب و طاہر رکھنا۔( معجم کبیر ۲۴ ص ۱۳۴ / ۳۶۲۔۲۲/ ۴۱۲ / ۱۰۲۲ ، المصنف عبدالرزاق ۵/ ۴۸۹ / ۹۷۸۲)۔

۱۵۔ عمر بن ابی سلمہ

۴۵۔ عطاء بن ابی ریاح نے عمر بن ابی سلمہ (پروردۂ رسالتمآب) سے نقل کیا ہے کہ آیت تطہیر رسول اکرم پر ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے، جب آپ نے فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کیا اور سب پر ایک چادر اوڑھا دی اور علی (ع) پس پشت بیٹھے تھے انہیں بھی چادر شامل کر لیا اور فرمایا خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ، ان سے رجس کو دور رکھنا اور پاک و پاکیزہ رکھنا۔

جس کے بعد ام سلمہ نے فرمایا کہ یا نبی اللہ کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھاری اپنی ایک جگہ ہے اور تمھارا انجام بخیر ہونے والا ہے(سنن ترمذی) ۵/۶۶۳ / ۳۷۸۷ اسدالغابہ ۲/ ۱۷ ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ۷۱ / ۱۰۴ ، تفسیر طبری ۲۲ /۸ احقاق الحق ۳ ص ۵۲۸ ۲ ص ۵۱۰)۔

۱۶۔ عمر بن الخطاب

۴۶۔ عیسی بن عبداللہ بن مالک نے عمر بن الخطاب سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اکرم کو یہ کہتے سنا ہے کہ میں آگے آگے جا رہا ہوں اور تم سب میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو، یہ ایسا حوض ہے جس کی وسعت صنعاء سے بصریٰ کے برابر ہے اور اس میں ستاروں کے عدد کے برابر چاندی کے پیالے ہوں گے اور جب تم لوگ وارد ہو گے تو میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا لہذا اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، یاد رکھو سبب اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سرا خدا کے پاس ہے اور ایک تمھارے پاس ہے، اس سے وابستہ رہنا اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہ کرنا اور دوسرا ثقل میری عترت اور میری اہلبیت (ع) ہیں ، خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں حوض کوثر تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔

میں نے عرض کی یا رسول اللہ یہ آپ کی عترت کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا میرے اہلبیت (ع) اولاد علی (ع) و فاطمہ (ع) ہیں ، جن میں سے نو حسین (ع) کے صلب سے ہوں گے ، یہ سب ائمہ ابرار ہوں گے اور یہی میری عترت ہے جو میرا گوشت اور میرا خون ہے۔ (کفایة الاثر ص ۹۱ ، تفسیر برہان ، ۱/۹ نقل از ابن بابویہ در کتاب النصوص علی الائمة)۔

۱۷۔ واثلہ بن الاسقع

۴۷۔ابو عمار نے واثلہ بن الاسقع سے نقل کیا ہے کہ میں علی (ع) کے پاس آیا اور انہیں نہ پا سکا تو فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ وہ رسول اکرم کے پاس انہیں مدعو کرنے گئے ہیں۔ اتنے میں دیکھا کہ حضور کے ساتھ آرہے ہیں ، دونوں حضرات گھر میں داخل ہوئے اور میں بھی ساتھ میں داخل ہو گیا ، آپ نے حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کر کے اپنے زانو پر بٹھایا اور فاطمہ (ع) اور ان کے شوہر کو اپنے سامنے بٹھایا اور سب پر ایک چادر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت کر کے فرمایا کہ یہی میرے اہلبیت (ع) ہیں ، خدایا میرے اہلبیت (ع) زیادہ حقدار ہیں۔( مستدرک ۳ / ۱۵۹ / ۴۷۰۶۔ ۴۵۱ / ۳۵۵۹)۔

۴۸۔ شداد ابوعمار ناقل ہیں کہ میں واثلہ بن الاسقع کے پاس وارد ہوا جبکہ ایک قوم وہاں موجود تھی، اچانک علی (ع) کا ذکر آ گیا اور سب نے انہیں بُرابھلا کہا تو میں نے بھی کہہ دیا ، اس کے بعد جب تمام لوگ چلے گئے تو واثلہ نے پوچھا کہ تم نے کیوں گالیاں دیں۔ میں نے کہا کہ سب دے رہے تھے تو میں نے بھی دے دیں۔ واثلہ نے کہا کیا میں تمھیں بتاؤں کہ میں نے رسول اکرم کے یہاں کیا منظر دیکھا ہے؟ میں نے اشتیاق ظاہر کیا … تو فرمایا کہ میں فاطمہ (ع) کے گھر علی (ع) کی تلاش میں گیا تو فرمایا کہ رسول اکرم کے پاس گئے ہیں ، میں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ حضور مع علی (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کے تشریف لائے اور آپ دونوں بچوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اس کے بعد آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھایا اور حسن (ع) و حسین (ع) کو زانو پر اور سب پر ایک چادر ڈال کر آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی اور دعا کی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں اور میرے اہلبیت زیادہ حقدار۔ (فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ ص ۵۷۷ ، مسند احمد بن حنبل ۶ / ۴۵ ، المصنف ابن ابی شیبہ، العمدة ۴۰ / ۲۵ ، معجم کبیر ۳ / ۴۹ / ۲۶۷۰ ، ۲۶۶۹)۔

۴۹۔ شداء بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے واثلہ بن الاسقع سے اس وقت سنا جب امام حسین (ع) کا سرلایا گیا اور انھوں نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ خداکی قسم میں ہمیشہ علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) سے محبت کرتا رہوں گا کہ میں نے ام سلمہ کے مکان میں حضور سے بہت سی باتیں سنی ہیں ، اس کے بعد اس کی تفصیل اس طرح بیان کی کہ میں ایک دن حضرت کے پاس حاضر ہوا جب آپ ام سلمہ کے گھر میں تھے اتنے میں حسن (ع) آ گئے آپ نے انہیں داہنے زانو پر بٹھایا اور بوسہ دیا ، پھر حسین (ع) آ گئے اور انہیں بائیں زانو پر بٹھا کر بوسہ دیا ، پھر فاطمہ آ گئیں انہیں سامنے بٹھایا اور پھر علی (ع) کو طلب کیا اور اس کے بعد سب پر ایک خیبری چادر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی … تو میں نے واثلہ سے پوچھا کہ یہ رجس کیا ہے ؟ فرمایا۔ خدا کے بارے میں شک۔( فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ / ۶۷۲ / ۱۱۴۹ ، اسدالغابہ ۲ / ۲۷ ، العمدة ۳۴ / ۱۵ )۔

۵۰۔ ابوعمار الشداد واثلہ بن الاسقع سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے علی (ع) کو داہنے بٹھایا اور فاطمہ (ع) کو بائیں ، حسن (ع) و حسین (ع) کو سامنے بٹھایا اور سب پر ایک چادر اوڑھا کر دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں اور اہلبیت (ع) کی بازگشت تیری طرف ہے نہ کہ جہنم کی طرف ( مسند ابویعلی ۶ / ۴۷۹ / ۷۴۴۸ ، نثر الدرا/ ۲۳۶ ، السنن الکبریٰ ۲ /۲۱۷ / ۲۸۷۰)۔

۵۱۔ ابوالازہر واثلہ بن الاسقع سے نقل کرتے ہیں کہ جب رسول اکرم نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو چادر کے نیچے جمع کر لیا تو دعا کی کہ خدایا تو نے اپنی صلوات و رحمت و مغفرت و رضا کو ابراہیم اور آل ابراہیم کے لئے قرار دیا ہے اور یہ سب مجھ سے ہیں ان سے ہوں لہذا اپنی صلوات و رحمت و مغفرت و رضا کو میرے اور ان کے لئے بھی قرار دیدے۔

(مناقب خوارزمی ۶۳ / ۳۲ ، کنز العمال ۱۳ / ۶۰۳ / ۳۷۵۴۴ ، ۱۲ / ۱۰۱ /۳۴۱۸۶)

۵۲۔ موسیٰ بن عبدر بہ کا بیان ہے کہ میں نے امیر المومنین (ع) کی زندگی میں امام حسین (ع) کو مسجد پیغمبر میں یہ کہتے سنا ہے کہ میں نے رسول اکرم سے سنا ہے کہ میرے اہلبیت (ع) تم لوگوں کے لئے باعث امان ہیں لہذا ان سے میری وجہ سے محبت کرو او ران سے متمسک ہو جاؤ تا کہ گمرا ہ نہ ہوسکو۔

پوچھا گیا یا رسول اللہ آپ کے اہلبیت (ع) کون ہیں ؟ فرمایا کہ علی (ع) اور میرے دونوں نواسے اور نو اولاد حسین (ع) جو ائمہ معصوم اور امانتدار مذہب ہوں گے ، آگاہ ہو جاؤ کہ یہی میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت ہیں جن کا گوشت اور خون میرا گوشت اور خون ہے۔ (کفایہ الاثر ص ۱۷۱)۔

۵۳۔ امام صادق (ع) نے اپنے آباء کرام کے واسطہ سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ ے جاتا ہوں ایک کتاب خدا اور ایک میری عترت جو میرے اہلبیت (ع) ہیں ، یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہو جائیں اور اس حقیقت کو دو انگلیوں کو آپس میں جوڑ کر واضح کیا ، جس کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری نے اٹھ کر دریافت کیا کہ حضور آپ کی عترت کون ہے ؟ فرمایا علی (ع) ، حسین (ع) ، حسین (ع) اور قیامت تک اولاد حسین (ع) کے امام ( کمال الدین ص ۲۴۴ معانی الاخبار ۵ / ۹۱)۔

۵۴۔ امام صادق (ع) سے ان کے آباء کرام کے واسطہ سے نقل کیا گیا ہے کہ امیر المؤمنین (ع) سے رسول اکرم کے اس ارشاد گرامی کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ایک کتاب خدا اور ایک عتر ت… تو عترت سے مراد کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں ، حسن (ع) ، حسین (ع) ، نو اولاد حسین (ع) کے امام جن کا نواں مہدی اور قائم ہو گا، یہ سب کتاب خدا سے جدا نہ ہوں گے اور نہ کتاب خدا ان سے جدا ہو گی یہاں تک کہ رسول اکرم کے پاس حوض کوثر پر وارد ہو جائیں۔( کمال الدین ۲۴۰ / ۶۴ ، معانی الاخبار ۹۰ /۴ ، عیون اخبار الرضا ۱ ص ۵۷ / ۲۵۔

۵۵۔ امیر المؤمنین (ع) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم آرام فرما رہے تھے اور آپ نے اپنے پہلو میں مجھے اور میری زوجہ فاطمہ (ع) اور میرے فرزند حسن (ع) و حسین (ع) کو بھی جگہ دے دی اور سب پر ایک عبا اوڑھا دی تو پروردگار نے آیت تطہیر نازل فرما دی اور جبریل نے گذارش کی کہ میں بھی آپ ہی حضرات سے ہوں جس کے بعد وہ چھٹے ہو گئے۔( خصال صدوق (ر) بروایت مکحول)۔

۵۶۔ امیر المؤمنین (ع) کا ارشاد ہے کہ رسول اکرم نے مجھے اور فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کو ام سلمہ کے گھر میں جمع کیا اور سب کو ایک چادر میں داخل کر لیا اس کے بعد دعا کی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انہیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ، جس کے بعد ام سلمہ نے گذارش کی کہ میں بھی شامل ہو جاؤں ؟ تو فرمایا کہ تم اپنے گھر والوں سے ہو اور خیر پر ہو اور اس بات کی تین مرتبہ تکرار فرمائی ( شواہد التنزیل ۲ / ۵۲ )۔

۵۷۔ امیر المؤمنین (ع) ہی کا ارشاد ہے کہ میں رسول اکرم کے پاسس ام سلمہ کے گھر میں وارد ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ یا علی (ع) یہ آیت تمھارے، میرے دونوں فرزند اور تمھاری اولاد کے ائمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(کفایة الاثر ص ۱۵۶ از عیسی بن موسیٰ الہاشمی …)۔

۵۸۔ امام حسن (ع) کا بیان ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت رسول اکرم نے ہم سب کو جناب ام سلمہ کی خیبری چادر کے نیچے جمع فرمایا اور دعا کی کہ خدایا یہ سب میری عترت اور میری اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا۔( مناقب ابن مغازلی ص ۳۷۲ ، امالی طوسی (ر) ۵۵۹ / ۱۱۷۳ ، مجمع البیان ۸/ ۵۶۰ بروایت زاذان)۔

۵۹۔ امام صادق (ع) نے اپنے پدر بزرگوار اور جد امجد کے واسطہ سے امام حسن (ع) سے آیت تطہیر کی شان نزول اس طرح نقل کی ہے کہ رسول اکرم نے مجھے، میرے بھائی ، والدہ اور والد کو جمع کیا اور جناب ام سلمہ کی خیبری چادر کے اندر لے لیا اور یہ دعا کی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں ، یہ میری عترت اور میرے اہل ہیں ، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انہیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ، جس کے بعد جناب ام سلمہ نے گزارش کی کہ کیا میں بھی داخل ہوسکتی ہوں تو آپ نے فرمایا خدا تم پر رحمت نازل کرے، تم خیر پر ہو اور تمہارا انجام بخیر ہے لیکن یہ شرف صرف میرے ا ور ان افراد کے لئے ہے۔

یہ واقعہ ام سلمہ کے گھرمیں پیش آیا جس دن حضور ان کے گھر میں تھے۔ ( امالی طوسی (ر) ۵۶۴ / ۲۲۷۴ بروایت عبدالرحمان بن کثیر ، ینابیع المودہ ۳ / ۳۶۸)۔

۶۰۔ امام حسن (ع) نے اپنے اکی خطبہ میں ارشاد فرمایا ، عراق و الو ! ہمارے بارے میں خدا سے ڈرو۔ ہم تمھارے اسیر اور مہمان ہیں ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن کے بارے میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے… اور اس کے بعد اسقدر تفصیل سے خطبہ ارشاد فرمایا کہ ساری مسجد میں ہر شخص گریہ و زاری میں مشغول ہو گیا۔ معجم کبیر ۳ ص ۹۶ / ۲۷۶۱ ، مناقب ابن مغازلی ۳۸۲ / ۴۳۱ ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) ۱۸۰ / ۳۰۴ بروایت ابی جمیلہ)۔

۶۱۔ امام حسین (ع) نے مروان بن الحکم سے گفتگو کے دوران فرمایا کہ دور ہو جا۔ تو رجس ہے اور ہم اہلبیت (ع) مرکز طہارت ہیں ، اللہ نے ہمارے بارے میں آیت تطہیر نازل کی ہے۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی ۱ ص ۱۸۵ ، الفتوح ۵ ص ۱۷)۔

۶۲۔ ابوالدیلم کا بیان ہے کہ امام زین العابدین (ع)نے ایک مرد شامی سے گفتگو کے دوران فرمایا کہ کیا تو نے سورۂ احزاب میں آیۂ تطہیر نہیں پڑھی ہے تو اس نے کہا کہ کیا آپ وہی ہیں ؟ فرمایا بیشک ( تفسیر طبری ۲۲ / ۸)۔

۶۳۔ ابونعیم نے ایک جماعت کے حوالہ سے نقل کیا ہے جو کربلا کے اسیروں کے ساتھ تھی کہ جب ہم دمشق پہنچے اور عورتوں اور قیدیوں کو بے نقاب داخل کیا گیا تو اہل شام نے کہنا شروع کیا کہ ہم نے اتنے حسین قیدی نہیں دیکھے ہیں ، تم لوگ کہاں کے رہنے والے ہو تو سکینہ (ع) بنت الحسین (ع) نے فرمایا ہم آل محمد کے قیدی ہیں ، جس کے بعد سب کو مسجد کے زینہ پر کھڑا کر دیا گیا اور انہیں کے درمیان حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) بھی تھے، آپ کے پاس ایک بوڑھا آدمی آیا اور کہنے لگا ، خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمھیں اور تمھارے گھر والوں کو قتل کر دیا اور فتنہ کی سینگ کاٹ دی ، اور پھر یونہی بُرا بھلا کہتا رہا ، یہاں تک کہ جب خاموش ہوا تو آپ نے فرمایا تو نے کتاب خدا پڑھی ہے؟ اس نے کہا بے شک پڑھی ہے ! فرمایا کیا آیت مودت پڑھی ہے ؟ اس نے کہا بیشک ! فرمایا ہم وہی قرابتدار ان پیغمبر ہیں۔

فرمایا۔ کیا آیت ’ آت ذا القربیٰ حقہ ‘ پڑھی ہے؟ کہا بیشک !۔ فرمایا ہم وہی اقربا ہیں۔

فرمایا کیا آیت تطہیر پڑھی ہے؟ اس نے کہا بیشک ! فرمایا ہم وہی اہلبیت (ع) ہیں۔

یہ سن کر شامی نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھایا اور کہا خدایا میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور دشمنان آل محمد سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں اور ان کے قاتلوں سے برأت کرتا ہوں ، میں نے قرآن ضرور پڑھا تھا لیکن سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ حضرات وہی ہیں۔(امالی صدوق (ر) ۱۴۱ ، الاحتجاج ۲ / ۱۲۰ ، ملہوف ۱۷۶ ، مقتل خوارزمی ۲ ص ۶۱)۔

۶۴۔ امام محمد باقر (ع) نے آیت تطہیر کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ آیت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کا نزول ام سلمہ کے گھر میں ہوا ہے جب حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کر کے ایک خیبری رداکے اندر لے لیا اور خود بھی اس میں داخل ہو کر دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں جن کے بارے میں تو نے وعدہ کیا ہے لہذا اب ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں حق طہارت کی منزل پر فائز رکھنا ، جس کے بعد ام سلمہ نے درخواست کی کہ مجھے بھی شامل فرمالیں ؟ تو آپ نے فرمایا تمھارے لئے یہ بشارت ہے کہ تمھارا انجام خیر ہے۔

اور ابوالجارود نے جناب زین بن علی (ع) بن الحسین (ع) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بعض جہلاء کا خیال ہے کہ یہ آیت ازواج کے بارے میں ہوئی ہے حالانکہ یہ جھوٹ اور افترا ہے، اگر مقصود پروردگار ازواج ہوتیں تو آیت کے الفاظ ’ عنکن‘ ، ’ یطہرکن‘ ہوتے اور کلام مونث کے انداز میں ہوتا جس طرح کہ دیگر الفاظ ایسے ہیں ’ واذکرون ‘ ، ’ بیوتکن‘ ، ’تبرجن‘ ، ’ لستن‘ …! (تفسیر قمی ۲ ص ۱۹۳ )۔

۶۵۔ امام جعفر صادق (ع) نے ایک طویل حدیث میں آیہ تطہیر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع)تھے جنہیں رسول اکرم نے ام سلمہ کے گھر میں ایک چادر میں جمع کیا اور فرمایا کہ خدا یا ہر نبی کے اہل اور ثقل ہوتے ہیں اور میرے اہلبیت (ع) اور میرا سرمایہ یہی افراد ہیں ، جس کے بعد ام سلمہ نے سوال کیا کہ کیا میں آپ کے اہل میں نہیں ہوں ؟تو آپ نے فرمایا کہ بس یہی میرے اہل اور میرا سرمایہ ہیں۔( کافی ۱ / ۲۸۷ از ابوبصیر)

۶۶۔ابوبصیر کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق (ع) سے دریافت کیا کہ آل محمد کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ذریت رسول !

میں نے پوچھا کہ پھر اہلبیت (ع) کون ہیں ؟ فرمایا ائمہ اوصیاء۔ پھر میں نے دریافت کیا کہ عترت کون ہیں ؟ فرمایا اصحاب کساء پھر عرض کی کہ امت کون ہے ؟ فرمایا وہ مومن جنھوں نے آپ کی رسالت کی تصدیق کی ہے اور ثقلین سے تمسک کیا ہے یعنی کتاب خدا اور عترت و اہلبیت (ع) سے وابستہ رہے ہیں جن سے پروردگار نے رجس کو دور رکھا ہے اور انہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے، یہی دونوں پیغمبر کے بعد امت میں آپ کے خلیفہ اور جانشین ہیں۔( امالی صدوق (ر) ۲۰۰ / ۱۰ ، روضہ الواعظین ص ۲۹۴)۔

۶۷۔ عبدالرحمان بن کثیر کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) سے دریافت کیا کہ آیت تطہیر سے مراد کون حضرات ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت رسول اکرم حضرت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حضرت حسن (ع) و حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رسول اکرم کے بعد حضرت علی (ع) ، ان کے بعد امام حسن (ع) اس کے بعد امام حسین (ع)۔ اس کے بعد تاویلی اعتبارسے تمام ائمہ جن میں سے امام زین العابدین (ع) بھی امام تھے اور پھر ان کی اولاد میں اوصیاء کا سلسلہ رہا جن کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ان کی معصیت خدا کی نافرمانی ہے۔( علل الشرائع ۲ ص ۲۰۵ ، الاماصة و التبصرة ۱۷۷ / ۲۹)۔

۶۸۔ ریان بن الصلت کہتے ہیں کہ امام رضا (ع) مرو میں مامون کے دربار میں تشریف لائے تو وہاں خراسان اور عراق والوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

یہاں تک کہ مامون نے دریافت کیا کہ عترت طاہرہ سے مراد کون افراد ہیں ؟

امام رضا (ع) نے فرمایا کہ جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے، اور رسول اکرم نے فرمایا کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک کتاب خدا اور ایک میری عترت اور میرے اہلبیت (ع) اور یہ دونوں اس وقت تک جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ وارد ہو جائیں۔ دیکھو خبردار اس کا خیال رکھنا کہ میرے اہل کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو اور انہیں پڑھانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ تم سے زیادہ عالم اور فاضل ہیں۔ درباری علماء نے سوال اٹھا دیا کہ ذرا یہ فرمائیں کہ یہ عترت آل رسول ہے یا غیر آل رسول ہے؟ فرمایا یہ آل رسول ہی ہے لوگوں نے کہا کہ رسول اکرم سے تو یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ میری امت ہی میری آل ہے اور صحابہ کرام بھی یہی فرماتے رہے ہیں کہ آل محمد امت پیغمبر کا نام ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔

آپ نے فرمایا ذرا یہ بتاؤ آل رسول پر صدقہ حرام ہے یا نہیں ؟ سب نے کہا بیشک !

فرمایا پھر کیا امت پر بھی صدقہ حرام ہے ؟ عرض کی نہیں۔

فرمایا یہی دلیل ہے کہ امت اور ہے اور آل رسول اور ہے۔

(امالی صدوق (ر) ۱ ص ۴۲۲ ، عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۲۲۹)۔

اہلبیت (ع) پر پیغمبر اکرم کا سلام اور ان کے لئے مخصوص حکم نماز

۶۹۔ ابوالحمراء خادم پیغمبر اسلام کا بیان ہے کہ حضور طلوع فجر کے وقت خانۂ علی (ع) و فاطمہ (ع) کے پاس سے گذرتے تھے اور فرماتے تھے۔

’السلام علیکم اہل البیت‘الصلوة الصلوة اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے ہیں۔( اسد الغابہ ۶/۷۴/۲۷ ۵۸)

اسی کتاب کے صفحہ ۶۶ پر اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں نے مدینہ میں قیام کے دوران چھ ماہ تک یہ منظر دیکھا ہے۔

۷۰۔ ابوالحمراء خادم پیغمبر اکرم کا بیان ہے کہ حضور ہر نماز صبح کے وقت دروازہ زہر ا پر آ کر فرماتے تھے’ السلام علیکم یا اہل البیت (ع) و رحمة اللہ و برکاتہ‘ اور وہ حضرات اندر سے جواب دیتے تھے’ وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ‘ اس کے بعد آپ فرماتے تھے الصلوة رحمکم اللہ اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے ابوالحمراء سے پوچھا کہ اس گھر میں کون کون تھا تو بتایا کہ علی (ع)۔ فاطمہ (ع)۔ حسن (ع)۔ حسین (ع)۔(شواہد التنزیل ۲/۷۴ / ۶۹۴)۔

۷۱۔ امام علی (ع) کا بیان ہے کہ رسول اکرم ہر صبح ہمارے دروازہ پر آ کر فرماتے تھے ’ نماز۔ خدا رحمت نازل کرے۔ نماز اور اس کے بعد آیہ تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔( امالی مفید (ر) ۴/۳۱۸ ، امالی طوسی (ر) ۸۹ / ۱۳۸ بشارة المصطفیٰ ص ۲۶۴ بروایت حارث )۔

۷۲۔ امام صادق (ع) نے اپنے والد اور جد بزرگوار کے واسطہ سے امام حسن (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے معاویہ سے صلح کے موقع پر حالات سے بحث کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ رسول اکرم آیۂ تطہیر کے نزول کے بعد تمام زندگی نماز صبح کے وقت ہمارے دروازہ پر آ کر فرمایا کرتے تھے ’ نماز۔ خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ انما یرید اللہ … ( امالی طوسی (ر)۵۶۵ / ۱۱۷۴ از عبدالرحمٰن بن کثیر۔ ینابیع المودة ۳ ص ۳۸۶)۔

ینابیع المودة میں یہ تذکرہ بھی ہے کہ یہ کام آیت ’ و امرا ھلک بالصلوة‘ کے نزول کے بعد ہوا کرتا تھا۔

۷۳۔ امام صادق (ع)نے اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم ہر صبح کے وقت درواز ہ علی (ع) و فاطمہ (ع) پر کھڑے ہو کر فرماتے تھے کہ ’ تمام تعریفیں احسان کرنے والے۔ کرم کرنے والے۔ نعمتیں نازل کرنے والے اور فضل و افضال کرنے والے پروردگار کے لئے ہیں جس کی نعمتوں ہی سے نیکیاں درجۂ کمال تک پہنچتی ہیں۔ وہ ہر ایک کی آواز سننے والا ہے اور سارا کام اس کی نعمتوں سے انجام پاتا ہے، اس کے احسانات ہمارے پاس بہت ہیں ، ہم جہنم سے اس کی پناہ چاہتے ہیں اور صبح و شام یہی پناہ چاہتے ہیں ، نماز اے اہلبیت (ع) خدا تم سے ہر رجس کو دور رکھنا چاہتا ہے اور تمھیں کمال طہارت کی منزل پر رکھنا چاہتا ہے۔ (امالی صدوق ۱۲۴ / ۱۴ از اسماعیل بن ابی زیاد السکونی)۔

۷۴۔ تفسیر علی بن ابراہیم میں آیت کریمہ ’ و امر اہلک بالصلوة‘ کے بار ے میں نقل کیا گیا ہے کہ پروردگار نے خصوصیت کے ساتھ اپنے اہل کو نماز کا حکم دینے کے لئے فرمایا ہے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ آل محمد کی ایک مخصوص حیثیت ہے جو دوسرے افراد کو حاصل نہیں ہے۔

اس کے بعد جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور ہر نماز صبح کے وقت دروازہ علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) پر آ کر فرماتے تھے’ السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ‘ اور اندر سے جواب آتا تھا ’ و علیک السلام یا رسول اللہ و رحمة اللہ و برکاتہ۔

اس کے بعد آپ دروازہ کا باز و تھام کر فرمایا کرتے تھے’ الصلوة الصلوة یرحمکم اللہ ‘ اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے اور یہ کام مدینہ کی زندگی میں تاحیات انجام دیتے رہے۔ اور ابوالحمراء خادم پیغمبر کا بیان ہے کہ میں اس عمل کا مستقل شاہد ہوں۔( تفسیر طبری ۲۲/ص۷، درمنثور ۶ ص ۴۰۳ ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص ۶۰ ، مختصر تاریخ دمشق ۷/ ۱۱۹ ، کنز العمال ۱۳ ص ۶۴۵ ، شواہد التنزیل ۲ ص ۱۸ ، ینابیع المودة ۱ ص ۲۲۹ ، مناقب خوارزمی ۶۰ فصل پنجم، تفسیر فرات کوفی ص ۳۳۱ ، کشف الغمہ ۱ ص ۴۰ فصل تفسیر آل و اہل ، احقاق الحق ۲ ص ۵۰۱ ، ۵۶۲ ، ۳ ص ۵۱۳ ، ۵۳۱ ص ۱ / ۶۹، ۱۴ ص ۴۰ ، ۱۰۵ ، ۱۸ ص ۳۵۹ ، ۳۸۲ ، بحار الانوار ۳۵ ص ۲۰۶)۔

تحقیق احادیث سلام پیغمبر اسلام

کھلی ہوئی بات ہے کہ اس واقعہ کو اکا بر محدثین نے مختلف شخصیات کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور اس طرح یہ واقعہ تاریخی مسلمات میں شامل ہے جس میں کسی شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں جن شخصیات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان میں خود اہلبیت علیہم السلام شامل ہیں ( امالی صدوق (ر) ۱ ص ۴۲۹ ، عیون اخبار الرضا ۱ ص ۲۴۰ ، ینابیع المودة ۲ ص ۵۹ ، مقتل خوارزمی ۱ ص ۶۷ ، تفسیر فرات کوفی ص ۳۳۹۔

صحابہ کرام میں ابوسعید خدری ہیں۔(درمنثور ۶ ص ۶۰۶ ، المعجمع الکبیر ۳ ص ۵۶ / ۲۶۷۱ ، ۲۶۷۴ ، مناقب خوارزمی ۶۰ ص ۲۸۰ ، شواہد التنزیل ۲ ص ۴۶ ، مجمع البیان ۷ ص ۵۹)۔

انس بن مالک ہیں اور عبداللہ بن عباس ہیں۔( درمنثور ۶ ص ۶۰۶ ، احقاق الحق ۹ ص ۵۶)۔

اس کے بعد یہ مسئلہ کہ یہ واقعہ کتنی مرتبہ پیش آیا ہے۔؟ اس سلسلہ میں تین طرح کی روایات ہیں۔

قسم اول! وہ روایات جن میں روزانہ سرکار دو عالم کا یہ طرز عمل نقل کیا گیا ہے کہ جب نماز صبح کے لئے مسجد کی طرف تشریف لے جاتے تھے تو علی (ع) و فاطمہ (ع) کے دروازہ پر کھڑی ہو کر سلام کر کے ، آیت تطہیر کی تلاوت فرما کر انہیں قیام نماز کی دعوت دیا کرتے تھے۔

قسم دوم ! وہ روایات ہیں جن میں راوی نے متعدد بار اس عمل کے مشاہدہ کا ذکر کیا ہے۔( در منثور ۶ ص ۶۰۶ ، تفسیر طبری ۲۲ / ۶ ، تاریخ کبیر ۸ ص ۷۲۵ امالی طوسی ۲۵۱ ، ۴۴۷ ، شواہد التنزیل ۲ ص ۸۱ / ۷۰۰۔

قسم سوم ! وہ روایات ہیں جن میں روزانہ کے معمول کا ذکر نہیں ہے بلکہ معینہ ایام کا ذکر ہے اور یہ بات قسم اول سے مختلف ہے، معینہ ایام کے بارے میں بھی بعض روایات میں ۴۰ دن کا ذکر ہے۔( در منثور ۶ ص ۶۰۶ ، مناقب خوارزمی ص ۶۰ / ۲۸ ، مالی صدوق (ر) ۱ ص ۴۲۹ )۔

بعض روایات میں ایک ماہ کا ذکر ہے۔( اسدالغابہ ۵ ص ۳۸۱ / ۵۳۹۰ مسند ابوداؤد طیالسی ص ۲۷۴)۔

بعض روایات میں چھ ما ہ کا ذکر ہے۔( تفسیر طبری ۲۲ ص۶، درمنثور ۶ ص ۶۰۶ ینابیع المودة ۲ ص۱۱۹ ، ذخائر العقبیٰ ص ۲۴ ، العمدہ ص ۴۵۔

بعض روایات میں آٹھ ماہ کا ذکر ہے۔( درمنثور ۶ ص ۶۰۶ کفایة الطالب ص ۳۷۷)۔

بعض روایات میں ۹ ماہ کا ذکر ہے۔( مناقب خوارزمی ۶۰ / ۲۹ مشکل الآثار ۱ ص ۳۳۷ ، العمدة ۴۱ /۲۷ ، ذخائر العقبیٰ ص۲۵ ، کفایة الطالب ص ۳۷۶۔

کھلی ہوئی بات ہے کہ پہلی اور دوسری قسم میں کسی طرح کا تضاد نہیں ہے اور انہیں دونوں قسموں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ قسم سوم کی تمام روایات اگر اپنی اصلی حالت پر باقی ہیں اور ان میں کسی طرح کی تحریف نہیں ہوئی ہے تو ان کا مقصد بھی افراد کے مشاہدہ کا تذکرہ ہے۔اعداد کا محدود کر دینا نہیں ہے جو بات عقل و منطق کے مطابق ہے کہ ہر شخص کا مشاہدہ الگ الگ ہوسکتا ہے۔

جس کا مقصد یہ ہے کہ رسول اکرم لفظ اہل البیت (ع) اور لفظ اہل کی وضاحت کے لئے ایک مدت تک روزانہ نماز صبح کے وقت در علی (ع) و فاطمہ (ع) پر آ کر انہیں اہل البیت (ع) کہہ کر سلام کیا کرتے تھے اور آیت تطہیر کی تلاوت کر کے نماز کی دعوت دیا کرتے تھے اور دنوں کا اختلاف صرف رایوں کے مشاہدہ کا فرق ہے، اس سے اصل عدد کے انحصار کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

البتہ بعض روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس عمل کا آیت تطہیر سے نہیں بلکہ آیت ’ و امرا ھلک بالصلوة‘ سے تعلق تھا جیسا کہ ابوسعید خدری سے نقل کیا گیا ہے کہ حضور آیت نماز کے نزول کے بعد آٹھ ماہ تک در فاطمہ (ع) پر آ کر فرمایا کرتے تھے’ الصلٰوة رحمکم اللہ اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔( در منثورہ ص ۶۱۳ ، اخراج ابن مردویہ ، ابن عساکر، ابن النجار)۔

جس کے بارے میں علامہ طباطبائی نے فرمایا ہے کہ اس روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیت ’ و امر اہلک بالصلٰوة ‘ مدینہ میں نازل ہوئی ہے ، حالانکہ یہ کہنے والا کوئی نہیں ہے لہذا واقعہ کا تعلق آیت تطہیر سے ہے آیت نماز سے نہیں ہے… مگر یہ کہ اس واقعہ کی اس طرح تاویل کی جائے کہ آیت مکہ میں نازل ہوئی تھی لیکن حضور نے عمل مدینہ میں کیا ہے جو بات الفاظ روایات سے کسی طرح بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ (تفسیر المیزان ۱۴ ص ۲۴۲)۔

عدد ائمہ اہلبیت (ع)

۷۵۔ جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم سے جمعہ کے دن ’ رجم ِاسلمی کی شام‘ یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہ دین یونہی قائم رہے گا جب تک قیامت نہ آ جائے یا تم پر میرے بارہ خلفاء قائم رہے گا جب تک قیامت نہ آ جائے یا تم پر میرے بارہ خلفا ء نہ گذر جائیں جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔( صحیح مسلم ۳ / ۱۴۵۳ ، مسند ابن حنبل ۷/ ۴۱۰ / ۲۰۸۶۹ ، مسند ابویعلی ٰ ۶ / ۴۷۳ / ۷۴۲۹۔ آخر الذکر دونوں روایات میں ’ یا‘ کے بجائے ’ اور ‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔

۷۶۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم کو یہ کہتے سناہے کہ امت کے بارہ امیر ہوں گے، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں سن نہیں سکا تو میرے والد نے فرمایا کہ وہ کلمہ یہ تھا کہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ (صحیح بخاری ۶ /۲۶۴۰ / ۶۷۹۶)۔

۷۷۔جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے سناہے کہ یہ امر دین یونہی چلتا رہے گا جب تک بارہ افراد کی حکومت رہے گی اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نے سن سکا تو والد سے دریافت کیا اور انھوں نے بتایا کہ ’ کلہم من قریش‘ فرمایا تھا۔ ( صحیح مسلم ۳ ص ۱۴۵۲ خصال ۴۷۳ / ۲۷)۔

۷۸۔ جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ حضور نے فرمایا کہ میرے بعد بارہ امیر ہوں گے، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نہ سمجھ سکا اور قریب والے سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ ’ کلہم من قریش‘ کہا تھا۔( سنن ترمذی ۴ ص۵۰۱ /۲۲۲۳ ، مسند ابن حنبل ۷/ ۴۳۰ / ۲۰۹۹۵)۔

۷۹۔جابر بن سمرہ ! میں نے رسول اکرم کی زبان سے سنا کہ اسلام بارہ خلفاء تک با عزّت رہے گا، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نہ سمجھ سکا تو والد سے دریافت کیا اور انھوں نے فرمایا کہ ’ کلہم من قریش‘ فرمایا تھا۔( صحیح مسلم ۳ ص ۱۴۵۳ ، مسند ابن حنبل ۷/ ۴۱۲ / ۲۰۸۸۲، سنن ابی داؤد ۴ / ۱۰۶ / ۴۲۸۰ )۔

۸۰۔ ابوجحیفہ کا بیان ہے کہ میں اپنے چچا کے ساتھ رسول اکرم کی خدمت میں تھا جب آپ نے فرمایا کہ میرے امت کے امور درست رہیں گے یہاں تک کہ بارہ خلیفہ گذر جائیں ، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نہ سن سکا تو میں نے چچا سے دریافت کیا جو میرے سامنے کھڑے تھے تو انھوں نے بتایا کہ کلہم من قریش فرما یا تھا۔( مستدرک ۷۱۶ / ۶۵۸۹ ، المعجم الکبیر ۲۲ / ۱۲۰ / ۳۰۸ ، تاریخ کبیر ۸/ ۴۱۱ / ۵۳۲۰ ، امالی صدوق(ر) ۲۵۵ /۸)۔

۸۱۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آگاہ ہو جاؤ یہ امر دین تمام نہ ہو گا جب تک بارہ خلیفہ نہ گذر جائیں ، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں سمجھ نہ سکا تو اپنے والد سے دریافت کیا اور انھوں نے بتایا کہ آپ نے کلہم من قریش فرمایا تھا( تاریخ واسط ص ۹۸ ، خصال ص ۱۶۷۰)۔

۸۲۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اکرم کے پاس تھا جب آپ سے یہ ارشاد سنا کہ میرے بارہ خلیفہ ہوں گے ، اس کے بعد آپ کی آواز دھیمی ہو گئی اور میں نہ سن سکا تو بابا سے دریافت کیا کہ یہ دھیرے سے کیا فرمایا تھا تو انھوں نے بتایا کہ ’ کلہم من بنی ھاشم‘ فرمایا تھا۔( ینابیع المودة ۳ ص ۲۹۰ ، احقاق الحق ۱۳ ص ۳۰)۔

۸۳۔ مسروق کا بیان ہے کہ یہ سب عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے تھے اور وہ قرآن پڑھا رہے تھا کہ ایک شخص نے دریافت کر لیا ’ یا ابا عبدالرحمٰان ! کیا آپ نے کبھی حضور سے دریافت کیا ہے کہ اس ا مت میں کتنے خلفاء حکومت کریں گے ! تو ابن مسعود نے کہا کہ جب سے میں عراق سے آیاہوں آج تک کسی نے یہ سوال نہیں کیا لیکن تم نے پوچھ لیا ہے تو سنو ! میں نے حضور سے دریافت کیا تھا تو انھوں نے فرمایا تھا بارہ۔ جتنے بنی اسرائیل کے نقیب تھے۔( مسند ابن حنبل ۲ ص ۵۵ / ۳۷۸۱ ، مستدرک ۴ ص ۵۴۶ / ۸۵۲۹)۔

۸۴۔ابوسعید نے امام (ع) باقر کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ میری اولاد میں بارہ نقیب پیدا ہوں گے جو سب کے سب طیّب و طاہر اور خدا کی طرف سے صاحبان فہم اور محدّث ہوں گے، ان کا آخری حق کے ساتھ قیام کرنے والا ہو گا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بہر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھری ہو گی۔( کافی ۱ ص ۵۳۴/۱۸)۔

۸۵۔ ابن عباس نے ’ والسماء ذات البروج‘ کی تفسیر میں رسول اکرم سے نقل کیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ سماء میری ذات ہے اور بروج میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت کے ائمہ ہیں جن کے اول علی (ع) ہیں اور آخر مہدی ہوں گے اور کل کے کل ۱۲ ہوں گے۔(ینابیع المودة ۳ ص ۲۵۴)۔

۸۶۔ امام باقر (ع) نے اپنے والد کے والد کے حوالہ سے امام حسین (ع) سے نقل کیا ہے کہ میں اپنے برادر امام حسن (ع) کے ساتھ جد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ہم دونوں کو زانو پر بٹھا لیا اور بوسہ دے کر فرمایا کہ میرے ماں باپ قربان ہو جائیں تم جیسے صالح اماموں پر خدا نے تمھیں میری اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کی نسل میں منتخب قرار دیا ہے اور اے حسین (ع) تمھارے صلب سے نو اماموں کا انتخاب کیا ہے جن میں کا نواں قائم ہو گا اور سب کے سب فضل و منزلت میں پیش پروردگار ایک جیسے ہوں گے۔ (کمال ادین ۲۶۹ / ۱۲ از ابوحمزہ ثمالی )۔

۸۷۔ امام (ع) باقر ہی سے نقل کیا گیا ہے کہ آل محمد کے بارہ امام سب کے سب وہ ہوں گے جن سے ملائکہ باتیں کریں گے اور سب اولاد رسول اور اولاد علی (ع) میں ہوں گے، والدین سے مراد رسول اکرم اور حضرت علی (ع) ہی ہیں۔

( کافی ۱ ص ۵۲۵ ، من لا یحضرہ الفقیہ ۴/۱۷۹ /۵۴۰۶ ، خصال ص ۴۶۶، عیون اخبار الرضا ص ۴۰ امالی صدوق (ر) ۹۷ ، کمال الدین ص ۲۰۶ ، ارشاد ۲ ص ۳۴۵ ، کفایة الاثر ۶۹ از انس بن مالک ص ۱۴۳ ، از امام علی (ع) ص ۱۸۷ از عائشہ ص ۱۹۳ از جناب فاطمہ (ع) ص ۱۸۰ از ام سلمہ ص ۲۴۴ از ا امام باقر (ع) ، اعلام الوریٰ ص ۳۶۱ ، الغیبة طوسی (ر) ص ۹۲ ، احتجاج طبرسی (ر) ۱ ص ۱۶۹ کامل الزیارات ص ۵۲ ، روضة الواعظین ص ۱۱۵ ، کتاب سلیم بن قیس الہلالی ۲ ص ۶۱۶ ، الیقین ابن طاؤس ص ۲۴۴ ، فرائد السمطین ۲ ص۳۲۹ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۹۲ ، اختصاص ص ۲۳۳ ، جامع الاخبار ص ۶۱ ، احقاق الحق ۲ ص ۳۵۳ ۴ ص ۱۰۳۷۹۴۔ ۳۵۶ ، ۵ ص ۴۹۳ ۷ ص ۴۷۷ ، ۱۳ ص ۱۔۷۴، ۱۹ ص ۶۲۸ ، ۲۰ ص ۵۳۸۔

 

تحقیق احادیث عدد ائمہ (ع)

ان احادیث کا مضمون ۷۵ ء سے ۸۳ ء تک اہل سنت کے مصادر سے نقل کیا گیا ہے اور انہیں احادیث کا تذکرہ شیعہ مصادر میں بھی پایا جاتا ہے۔ شیخ صدوق (ر) نے خصال میں اس مضمون کی ۳۲ ، احادیث کا تذکرہ کیا ہے جس طرح کہ مسند احمد بن حنبل میں جابر بن سمرہ سے تیس روایتیں نقل کی گئی ہیں اور اس طرح اصل مضمون متفق علیہ ہے اور تفصیلات کا اختلاف غالباً سیاسی مقاصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے۔

# جہاں بعض روایات میں لفظ بعدی حذف کر دیا گیا ہے۔

# بعض میں لفظ کو امیر سے بدل دیا گیا ہے۔

# بعض میں خلیفہ کے بجائے قیّم یا ملک کہا گیا ہے۔(معجم کبیر ۲ ص ۱۹۶ / ۱۷۹۴ ،) خصال ص ۴۷۱ /۱۹۔

# بعض میں قیامت تک اسلام کے مسائل کو بارہ خلفاء سے مربوط کیا گیا ہے اور بعض میں قیامت کا ذکر نکال دیا گیا ہے۔

# بعض میں مصالح امت کو خلفاء کی ولایت سے مربوط کیا گیا ہے اور بعض میں اس نکتہ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

# بعض روایات میں اسلامی سماج کے جملہ معاملات کو ان حضرات کی ولایت سے متعلق کیا گیا ہے اور بعض میں اس کے بیان سے پہلو تھی کی گئی ہے۔

# اور اسطرح مختلف سیاسی حالات نے مختلف طرح کی ترمیم کرا دی ہے لیکن مجموعی طور پر دو باتوں پر اتفاق پایا جاتا ہے۔

۱۔ سرکار دو عالم (ع) نے ان افراد کی تعیین کر دی ہے جو ایک طویل مدت تک اسلامی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں۔

۲۔ جن ائمہ کی قیادت کو سرکار دو عالم کی تائید حاصل ہے۔ ان کی تعداد بارہ ہے، نہ کم ہے اور نہ زیادہ۔

اور اس طرح روایات شیعہ کو دیکھنے کے بعد یہ حقیقت اور واضح تر ہو جاتی ہے کہ ان حضرات نے ائمہ کے اسماء گرامی اور ان کے جملہ صفات و کمالات کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کی وضاحت کا ایک تذکرہ ص ۸۴ سے ۸۷ تک ہو چکاہے اور ایک تذکرہ آئندہ فصل میں کیا جائے گا۔

اس کے بعد اس نکتہ کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ سرکار دو عالم (ع) نے یہ بات حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی ہے۔(مسند ابن حنبل ۷ ص ۴۰۵ / ۲۰۸۴۰)۔

اور میدان عرفات یا منیٰ میں فرمائی ہے یا دونوں جگہ تکرار فرمائی ہے۔(مسند ابن حنبل ۷ ص ۴۲۹ / ۲۰۹۹۱)۔

اور یہی وہ مواقع ہیں جہاں حدیث ثقلین کا بھی تذکرہ فرمایا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ قریش سے مراد یہی ائمہ اہلبیت (ع) ہیں جیسا کہ امیر المؤمنین (ع) نے اپنے خطبہ ص ۱۴۴ میں فرمایا ہے کہ ائمہ قریش بنی ہاشم ہی میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے علاوہ یہ منصب کسی کے لئے نہیں ہے اور نہ کسی قبیلہ میں ایسے صالح حکام پیدا ہوسکتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ روایات میں ان خلفاء کے اوصاف و کمالات کے تذکرہ کا نظر انداز کر دینا صرف سیاسی مصالح کی بنیاد پر تھا جس کی وضاحت اس نکتہ سے بھی ہوسکتی ہے کہ بارہ خلفاء ائمۂ اہلبیت (ع) کے علاوہ اور کسی مقام پر پیدا نہیں ہوئے ہیں اور اگر اس نکتہ کو بحدّ تواتر نقل ہونے والی حدیث ثقلین سے جوڑ دیا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے اور مزید ثابت ہو جاتی ہے کہ سرکار دو عالم نے مستقبل کی قیادت کے جملہ علامات اور نشانات کا تذکرہ کر دیا تھا اور کسی طرح بھی مسئلہ کو مشتبہ نہیں رہنے دیا تھا۔

اور بعض علماء محققین نے اس حقیقت کو اس طرح بھی واضح کیا ہے کہ ائمہ قریش سے مراد ’ خلفاء راشدین ‘ کو لیا جائے تو ان کی تعداد بارہ سے کم ہے اور ان میں خلفاء بنی امیہ کو جوڑ لیا جائے تو یہ عدد بارہ سے کہیں زیادہ ہو جاتا ہے اور ان میں خلافت کی صلاحیت بھی نہیں تھی کہ عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ سب ظالم اور نالائق تھے اور ایسا انسان خلیفۂ رسول نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا شمار بنی ہاشم میں نہیں ہوتا ہے اور بعض روایات میں بنی ہاشم کی تصریح موجود ہے۔

یہی حال اس وقت ہو گا جب ان خلفاء سے مراد خلفاء بنی عباس کو لے لیا جائے کہ ان کی تعداد بھی بارہ سے زیادہ ہے اور ان کے کردار میں بھی ظلم و ستم کی کوئی کم نہیں ہے اور انھوں نے یہ آیت مودت کی کوئی پرواہ کی ہے اور نہ حدیث کساء کی۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ خلفاء قریش سے مراد صرف ائمہ اہلبیت (ع) ہیں جو اپنے زمانہ میں سب سے اعلم، افضل، اکمل، اورع، اتقی، اکمل و اجمل تھے، نہ نسب میں کوئی ان کا جیسا بلند اور نہ حسب میں کوئی ان سے افضل و برتر، یہ خدا کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مقرب اور رسول اکرم سے سب سے زیادہ قریب تر تھے۔

اس حقیقت کی تائید حدیث ثقلین اور دیگر احادیث صحیحہ سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ملاصدرا علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ خلفاء قریش کی روایات برادران اہلسنّت کے صحاح اور اصول میں موجود ہے اور ان کی سندیں بھی مذکور ہیں اور ان کے علاوہ و ہ صحاح و مسانید کی روایات بھی ہیں جن میں اس حقیقت کا ذکر کیا گیا ہے کہ میرے بعد ائمہ میری عترت سے ہوں گے۔ ان کی تعداد نقباء بنی اسرائیل کے برابر ہو گی اور نوحسین (ع) کے صلب سے ہوں گے، جنہیں پروردگار نے میرے علم و فہم کا وارث بنایا ہے اور ان کا نواں مہدی ہو گا۔

اور پھر صحاح ستہ میں یہ روایات بھی ہیں کہ مہدی میری عترت میں اولاد فاطمہ (ع) میں ہو گا اور ہ ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بہر دے گا اور دنیا اس وقت تک فنا نہ ہو گی جب تک عرب میں میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص حکومت نہ کرے جس کا نام میرا نام ہو گا۔

یا اگر عمر دنیا میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو پروردگار اس دن کو طول دے گا یہاں تک کہ میری نسل سے اس شخص کو بھیج دے جس کا نام میرا نام ہو گا اور ہ ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔

چنانچہ شارح مشکٰوة نے بھی لکھا ہے کہ اس قسم کی روایات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ خلافت صرف قریش کا حصہ ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں ہوسکتی ہے اور یہ حکم رہتی دنیا تک جاری رہے گا چاہے دو ہی افراد باقی رہ جائیں۔

جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی عقل میں فتور اور آنکھ میں اندھاپن نہیں ہے تو وہ اس حقیقت کا بہر حال اعتراف کرے گا کہ رسول اکرم کے بعد ان کے خلفاء یہی بارہ امام ہیں جو سب قریش سے ہیں ، انہیں سے دین کا قیام اور اسلام کا استحکام ہے اور یہ عدد اور یہ اوصاف و کمالات ائمہ اثنا عشر کے علاوہ کہیں نہیں پائے جاتے ہیں لہذا یہی سرکار دو عالم کے خلفاء و اولیاء ہیں اور انہیں کا قیام دنیا تک رہنا ضروری ہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی ہے۔

اسماء ائمہ اہلبیت (ع)

۸۸۔جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ میں جناب فاطمہ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے ایک تختی رکھی تھی جس میں آپ کی اولاد کے اولیاء کے نام درج تھے چنانچہ میں نے کل بارہ نام دیکھے جن میں سے ایک قائم تھا اور تین محمد تھے اور چار علی (ع)۔( الفقیہ ۴ ص ۱۸۰ / ۵۴۰۸ ، کافی ۱ ص ۵۳۲ /۹ ، کمال الدین ۲۶۹/ ۱۳ ، ارشاد ۲ /۳۴۶ ، فرائد السمطین ۲ / ۱۳۹ ) ان تمام روایات کے راوی ابوالجارود ہیں جنھوں نے امام باقر (ع) سے نقل کیا ہے اور کافی میں چار علی (ع) کے بجائے تین کا ذکر ہے اور یہ اشتباہ ہے یا اس سے مراد اولاد فاطمہ کے علی ہیں کہ وہ بہر حال تین ہی ہیں اگرچہ اس طرح اولاد فاطمہ (ع) کے اولیاء کے اولیاء بارہ نہیں ہیں بلکہ گیارہ ہی ہیں اور ایک مولائے کائنات ہیں واللہ اعلم۔ جوادی۔

۸۹۔ جابر بن یزید الجعفی کا بیان ہے کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری کی زبان سے سناہے کہ جب آیت اولی الامر نازل ہوئی تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ ہم نے خدا و رسول کو پہچان بھی لیا اور ان کی اطاعت بھی کی تو یہ اولی الامر کون ہیں جن کی اطاعت کو آپ کی اطاعت کے ساتھ ملا دیا گیا ہے؟ تو فرمایا کہ جابر ! یہ سب میرے خلفاء اور میرے بعد مسلمانوں کے ائمہ ہیں جن میں سے اول علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہیں ، اس کے بعد حسن (ع) پھر حسین (ع) پھر علی (ع) بن الحسین (ع) پھر محمد بن علی (ع) جن کا نام توریت میں باقر (ع) ہے اور اے جابر عنقریب تم ان سے ملاقات کرو گے اور جب ملاقات ہو جائے تو میرا سلام کہہ دینا۔ اس کے بعد جعفر (ع) بن محمد (ع)۔ پھر موسی بن جعفر (ع) ، پھر علی (ع) بن موسی ٰ (ع) ، پھر محمد (ع) بن علی (ع) پھر علی (ع) بن محمد ، پھر حسن (ع) پھر میرا ہمنام و ہم کنیت جو زمین میں خدا کی حجت اور بندگان خدا میں بقیة الله ہو گا یعنی فرزند حسن (ع)بن علی (ع) ، یہی دو ہو گا جسے پروردگار مشرق و مغرب پر فتح عنایت کرے گا اور اپنے شیعوں سے اس طرح غائب رہے گا کہ اس غیبت میں ایمان پر صرف وہی افراد قائم رہ جائیں گے جن کے دل کا پروردگار نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو گا۔(کمال الدین ۲۵۳ /۳، مناقب ابن شہر آشوب ۱ ص۲۸۲ ، کفایة الاثر ص۵۳)۔

۹۰۔ جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ جندل بن جنادہ بن جبیر الیہودی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک طویل گفتگو کے دوران عرض کی کہ خدا کے رسول ذرا اپنے اوصیاء کے بارے میں باخبر کریں تا کہ میں ان سے متمسک رہ سکوں۔ تو فرمایا کہ میرے اوصیاء بارہ ہوں گے۔ جندل نے عرض کی کہ یہی تو میں نے توریت میں پڑھا ہے لیکن ذرا ان کے نام تو ارشاد فرمائیں ؟

فرمایا اول سید الاوصیاء ابوالائمہ علی (ع) اس کے بعد ان کے دو فرزند حسن (ع) و حسین (ع) ، دیکھو ان سب متمسک رہنا اور خبردار تمھیں جاہلوں کا جہل دھوکہ میں نہ مبتلا کر دے۔ اس کے بعد جب علی بن الحسین (ع) کی ولادت ہو گی تو تمھاری زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا اور تمھاری آخری غذا دودھ ہو گی۔

جندل نے کہا کہ حضور میں نے توریت میں ایلیا۔ شبر،شبیر پڑھا ہے، یہ تو علی (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) ہو گئے تو ان کے بعد والوں کے اسماء ہیں ؟ فرمایا حسین (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) جن کا لقب زین العابدین (ع) ہو گا۔ اس کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) جن کا لقب باقر (ع) ہو گا۔ اس کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) جن کا لقب تقی (ع) و زکی ہو گا، اس کے بعد ان کے فرزند علی (ع) جن کا لقب نقی (ع) اور ہادی (ع) ہو گا، اس کے بعد ان کے فرزند حسن (ع) جن کا لقب عسکری (ع) ہو گا، اس کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) جن کا لقب مہدی (عج) ، قائم (عج) ہو گا، جو پہلے غائب ہوں گے پھر ظہور کریں گے اور ظہور کے بعد ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بہر دیں گے، خوشا بحال ان کا جو ان کی غیبت میں صبر کرسکیں اور ان کی محبت پر قائم رہ سکیں یہی وہ افراد ہیں جن کے بارے میں پروردگار کا ارشاد ہے کہ یہ حزب اللہ میں اور حزب اللہ کامیاب ہونے والا ہے اور یہی وہ متقین ہیں جو غیبت پر ایمان رکھنے والے ہیں ( ینابیع المودة ۲ ص ۲۸۳ /۲)۔

۹۱۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ ایک یہودی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا جسے نعثل کہا جاتا تھا اور اس نے کہا کہ یا محمد میرے دل میں کچھ شبہات ہیں ، ان کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں … ذرا یہ فرمائیے کہ آپ کا وصی کون ہو گا ، اس لئے کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے جس طرح ہمارے پیغمبر موسیٰ بن عمران نے یوشع بن نون کو اپنا وصی نامزد کیا تھا۔؟ فرمایا کہ میرا وصی اور میرے بعد میرا خلیفہ علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہو گا اور ان کے بعد میرے دو نواسے حسن (ع) و حسین (ع) ہوں گے، اس کے بعد صلب حسین (ع) سے نو ائمہ ابرار ہوں گے۔

اس نے کہایا محمد! ذرا ان کے نام بھی ارشاد فرمائیں ؟ فرمایا کہ حسین (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) ، ان کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) ، ان کے بعد ان کے فرزند جعفر (ع)… جعفر (ع) کے بعد ان کے فرزند موسیٰ (ع)… موسیٰ (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) ، علی (ع) کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) ، محمد (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) ، علی (ع) کے بعد ان کے فرزند حسن (ع) ، اس کے بعد حجت بن الحسن (ع) یہ کل بارہ امام ہیں جن کا عدد بنیاسرائیل کے نقیبوں کے برابر ہے۔

اس نے دریافت کیا کہ ان سب کی جنت میں کیا جگہ ہو گی ؟ فرمایا میرے ساتھ میرے درجہ ہیں۔( فرائد السمطین ۲ ص ۱۳۳ ، ۱۳۴ / ۴۳۰)۔

۹۲۔ نضر بن سوید نے عمرو بن ابی المقدام سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) کو میدان عرفات میں دیکھا کہ لوگوں کو بآواز بلند پکاررہے ہیں اور فرمارہے ہیں ایہا الناس ! رسول اکرم قوم کے قائد تھے ، ان کے بعد علی (ع) بن ابی طالب (ع) تھے، اس کے بعد حسن (ع) پھر حسین (ع) پھر علی (ع) بن الحسین (ع) پھر محمد (ع) بن علی (ع) اور پھر میں ہوں اور یہ باتیں چاروں طرف رخ کر کے تین مرتبہ دہرائی۔ ( کافی ۱ ص ۲۸۶ ، عیون اخبار الرضا ۱ ص ۴۰ ، الفقیہ ۴ ، ص ۱۸۰ / ۵۴۰۸ ، کمال الدین ۱ ص ۲۵۰ ، ۲۸۵ ، الغیبتہ النعمانی ص ۵۷، مناقب ابن المغازلی ص ۳۰۴ ، احقاق الحق ۴ ص ۸۳ ، ۱۳ ص ۴۹ ، کفایة الاثر ص ۱۴۹ ، ۱۵۰ ، ۱۷۷ ، ۲۶۴ ۳۰۰ ، ۳۰۶۔


معرفت اہلبیت (ع)

قیمت معرفت اہلبیت (ع)

 رسول اکرم۔ جس شخص کو پرورگار نے میرے اہلبیت (ع) کی معرفت اور محبت کی توفیق دے دی گویا اس کے لئے تمام خیر جمع کر دیا۔(امالی صدوق (ر) ۳۸۳ /۹ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۸۶)۔

۹۴۔ رسول اکرم۔ معرفت آل محمد جہنم سے نجات کا وسیلہ ہے اور حب آل محمد صراط سے گذرنے کا ذریعہ ہے اور ولایت آل محمد عذاب الہی سے امان ہے۔( ینابیع المودة ۱ ص ۷۸ /۱۶ ، فرائد السمطین ۲ ص۲۵۷ ، احقاق الحق ۱۸ / ۴۹۶۔ ۹/۴۹۴)۔

۹۵۔ سلمان فارسی میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ پروردگار نے ہر نبی اور رسول کے لئے بارہ نقیب معین فرمائے ہیں تو میں نے عرض کی کہ میرے ماں باپ قربان۔ ان بارہ کی معرفت کا فائدہ کیا ہے؟ فرمایا سلمان ! جس نے ان کی مکمل معرفت حاصل کر لی اور اقتدا کر لی کہ ان کے دوست سے محبت کی اور دشمن سے بیزاری اختیار کی وہ خدا کی قسم ہم سے ہو گا اور وہیں وارد ہو گا جہاں ہم وارد ہوں گے اور وہیں رہے گا جہاں ہم رہیں گے۔(بحار الانوار۵۳/۱۴۲۔۱۶۲ ، ۲۵ ص۶ ،۹)۔

۹۶۔ امیر المومنین (ع) ، خوش بخت ترین انسان وہ ہے جس نے ہمارے فضل کو پہچان لیا اور ہمارے ذریعہ خدا کا قرب اختیار کیا اور ہماری محبت میں اخلاص پیدا کیا اور ہماری دعوت پر عمل کیا اور ہمارے روکنے سے رک گیا ، یہی شخص ہم سے ہے اور جن میں ہمارے ساتھ ہو گا۔( غرر الحکم ص ۳۲۹۷)۔

۹۷۔ امام (ع) صادق کا بیان ہے کہ امام حسین (ع) اپنے اصحاب کے مجمع میں آئے اور فرمایا کہ پرودرگار نے بندوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ اسے پہچانیں اس کے بعد جب پہچان لیں گے تو عبادت بھی کریں گے اور جب اس کی عبادت کریں گے تو اغیار کی عبادت سے بے نیاز ہو جائیں گے۔

ایک شخص نے عرض کی کہ معرفت خدا کا مفہوم اور وسیلہ کیا ہے؟ فرمایا ہر زمانہ کا انسان اس دور کے اس امام کی معرفت حاصل کرے جس کی اطاعت واجب کی گئی ہے( اور اس کے ذریعہ پروردگار کی معرفت حاصل کرے) ( علل الشرائع ۹/ ۱ز سلمہ بن عطاء ، کنز الفوائد ۱ ص ۳۲۸ ، احقاق الحق ۱۱/۵۹۴)۔

۹۸۔ امام باقر (ع) ! خدا کو وہی شخص پہچان سکتا ہے اور اس کی عبادت کرسکتا ہے جو ہم اہلبیت (ع) میں سے زمانہ کے امام کی معرفت حاصل کر لے۔ (کافی ۱/۱۸۱ از جابر)۔

۹۹۔ زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ ذرا معرفت امام کے بارے میں فرمائیں کہ کیا یہ تمام مخلوقات پر واجب ہے ؟ فرمایا کہ پروردگار نے حضرت محمد کو تمام عالم انسانیت کے لئے رسول اور تمام مخلوقات کے لئے اپنی حجت بنا کر بھیجا ہے لہذا جو شخص بھی اللہ اور رسول اللہ پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق اور ان کا اتباع کرے اس پر امام اہلبیت (ع) کی معرفت بہر حال واجب ہے۔( کافی ۱ ص ۱۸۰ / ۳)۔

۱۰۰۔ سالم ! میں نے امام محمد باقر (ع) سے اس آیت کریمہ کے بارے میں سوال کیا ’ ہم نے اپنی کتاب کا وارث اپنے منتخب بندوں کو قرار دیا ہے جن میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ، بعض درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں اور بعض نیکیوں کے ساتھ سبقت کرنے والے ہیں ’ کہ ان سب سے مراد کون لوگ ہیں ‘؟

فرمایا سبقت کرنے والا امام ہوتا ہے، درمیانی راہ پر چلنے والا اس کا عارف ہوتا ہے اور ظالم اس کی معرفت سے محروم شخص ہوتا ہے۔(کافی ۱ ص ۲۱۴/۱)۔

۱۰۱۔ زرعہ ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کی کہ معرفت کے بعد سب سے عظیم عمل کونسا ہے؟ فرمایا معرفت کے بعد نماز کے ہم پلہ کوئی عمل نہیں ہے اور معرفت و نماز کے بعد زکٰوة کے برابر کوئی کام نہیں ہے اور ان تینوں کے بعد روزہ جیسا کوئی عمل نہیں ہے اور روزہ کے بعد حج جیسا کوئی عمل نہیں ہے لیکن یہ یاد رکھنا کہ ان سب اعمال کا آغاز و انجام ہم اہلبیت (ع) کی معرفت ہے اور اس کے بغیر کسی شے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ( امالی طوسی (ر) ۶۹۴ / ۱۴۷۸)۔

۱۰۲۔ امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ہم وہ ہیں جن کی اطاعت پروردگار نے واجب قرار دی ہے اور کسی شخص کو ہماری معرفت سے آزاد نہیں رکھا گیا ہے اور نہ اس جہالت میں معذور قرار دیا گیا ہے۔… اگر کوئی شخص ہماری معرفت حاصل نہ کرے اور ہمارا انکار بھی نہ کرے تو بھی گمراہ رہے گا جب تک راہ راست پر واپس نہ آ جائے اور ہماری اطاعت ہیں داخل نہ ہو جائے ورنہ اگر اسی ضلالت پر مرگیا تو پروردگار جو چاہے گا برتاؤ کرے گا۔( کافی ۱ ص ۱۸۷ / ۱۱)۔

۱۰۳۔ امام صادق (ع) نے آیت کریمہ ’ جسے حکمت دے دی گئی اسے خیر کثیر دے دیا گیا‘ کی تفسیر میں ارشاد فرمایا کہ حکمت سے مراد امام کی اطاعت اور اس کی معرفت ہے۔(کافی ۱ ص۱۸۵ /۱۱۔ از ابوبصیر)۔

۱۰۴۔ امام صادق (ع) نے زرارہ کو یہ دعا تعلیم کرائی ، خدایا مجھے اپنے معرفت عطا فرما کہ اگر میں تجھے نہ پہچان سکا تو تیرے نبی کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنے رسول کی معرفت عطا فرمائی کہ اگر انہیں نہ پہچان سکا تو تیری حجت کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنی حجت کی معرفت عطا فرما کہ اگر اس سے محروم رہ گیا تو دین سے گمراہ ہو جاؤ گا۔( کافی ۱ ص ۳۳۷ / ۵ از زرارح)۔

۱۰۵۔ امام رضا (ع) ائمہ معصومین کی قبروں کی زیارت کے ذیل میں فرمایا کرتے تھے کہ سلام ہو ان پر جو معرفت خدا کا مرکز تھے… جس نے ان کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا اور جو ان کی معرفت سے جاہل رہ گیا وہ خدا سے بے خبر رہ گیا۔( کافی ۴ ص ۵۷۸ / ۲ ، کامل الزیارات ص ۳۱۵ از علی بن حسّان)۔

 

مقام اہلبیت (ع)

۱۔ مثال سفینہ نوح

۱۰۶۔ حنش کنانی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابوذر کو در کعبہ پکڑ کر یہ کہتے ہوئے سناہے۔ کہ جس نے مجھے پہچان لیا وہ تو جانتا ہی ہے اور اگر کسی نے نہیں پہچانا تو پہچان لے میں ابوذر ہوں اور میں نے جانتا ہی ہے اور اگر کسی نے نہیں پہچانا تو پہچان لے میں ابوذر ہوں اور میں نے رسول اکرم کی زبان سے سناہے کہ میرے اہلبیت (ع) کی مثال سفینہ نوح کی مثال ہے کہ جو اس پر سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو الگ ہو گیا وہ ڈوب مرا۔( مستدرک ۳ ص ۱۶۳ / ۴۷۲۰ ، فرائد السمطین ۲ ص ۲۴۶۔ ۵۱۹ ، ینابیع المودة ۱ ص ۹۴ /۵ شرح الاخبار ۲ ص ۵۰۱ / ۸۸۷ ، امالی طوسی (ر) ۶ ص ۸۸، ۷۳۳ ، ۱۵۳۲ ، کمال الدین ص ۲۳۹ / ۵۹ ، احتجاج ۱ ص ۳۶۱ ، کتاب سلیم بن قیس ۲ ص ۹۳۷ ، مناقب ابن مغازلی ص ۱۳۲ ، ۱۳۴ ، بشارة المصطفیٰ ص ۸۸ رجال کشی ۱ ص ۱۱۵ / ۵۲)۔

۱۰۷۔ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ ہم سب سفینہ نجات ہیں جو ہم سے وابستہ ہو گیا نجات پا گیا اور جو الگ ہو گیا وہ ہلاگ ہو گیا۔ جس کو اللہ سے کوئی حاجت طلب کرنا ہو وہ ہم اہلبیت (ع) کے وسیلہ سے طلب کرے۔(فرائد السمطین ۱ ص ۳۷ از ابوہریرہ، احقاق الحق ۹ ص ۲۰۳ از ارحج المطالب)۔

۱۰۸۔ امام علی (ع) نے کمیل سے فرمایا کہ کمیل رسول اکرم نے ۱۵ رمضان کو عصر کے بعد مجھ سے یہ بات اس وقت فرمائی جب انصار و مہاجرین کا ایک گروہ سامنے تھا اور آپ منبر پر کھڑے تھے۔ یاد رکھو کہ علی (ع) اور ان کے دونوں پاکیزہ کردار فرزند مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ، یہ سب سفینۂ نجات ہیں جو ان سے وابستہ ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو الگ ہو گیا وہ بہک گیا ، نجات پانے والے کی جگہ جنت ہے اور بہکنے والے کا ٹھکانا جہنم کے شعلے ہیں۔( بشارة المصطفیٰ ص ۳۰ از بصیر بن زید بن ارطاة)۔

۱۰۹۔ امیر المؤمنین (ع) نے اصحاب سے خطاب کر کے فرمایا خدا کی قسم میں نے کسی امر کی طرف اقدام نہیں کیا مگر یہ کہ میرے پاس رسول اکرم کی ہدایت موجود تھی خوشا بہ حال ان کا جن کے دلوں میں ہماری محبت راسخ ہو جائے اور اس کے وسیلہ سے ایمان کو احد سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہو جائے اور یاد رکھو جس کے دل میں ہماری محبت ثابت نہ ہو گی اس کا ایمان اس طرح پگھل جائے گا جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔

خدا کی قسم۔ عالمین میں رسول اکرم کے نزدیک میرے ذکر سے زیادہ محبوب کوئی شے نہیں تھی اور نہ کسی نے میری طرح دونوں قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے۔ میں نے بلوغ سے پہلے سے نماز ادا کی ہے اور یہ فاطمہ بنت رسول جو پارہ جگر پیغمبر ہے یہ میری شریک حیات ہے اور اپنے دور میں مریم بنت عمران کی مثال ہے۔

اور تیسری بات یہ ہے کہ حسن (ع) و حسین (ع) جو اس امت میں سبط رسول ہیں اور پیغمبر کے لئے دونوں آنکھوں کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح میں آپ کے لئے دونوں ہاتھوں کی جگہ پر تھا اور فاطمہ (ع) آپ کے وجود میں قلب کی حیثیت رکھتی تھیں ، ہماری مثال سفینہ نوح کی ہے کہ جو اس پر سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو الگ رہ گیا وہ ڈوب مرا۔(کتاب سلیم بن قیس ۲ / ۸۳۰)۔

۱۱۰۔ امیر المؤمنین (ع) کا ارشاد ہے کہ جس نے ہمارا اتباع کر لیا وہ نیکیوں کی طرف آگے بڑھ گیا اور جو ہمارے علاوہ کسی دوسرے سفینہ پر سوار ہو گیا وہ غرق ہو گیا۔( غرر الحکم ص ۷۸۹۴ ، ۷۸۹۳)۔

۱۱۱۔ امام زین العابدین (ع) ہم ہیں جو شدتوں کی گہرائیوں میں چلنے والے سفینوں کی حیثیت رکھتے ہیں کہ جو ان سے وابستہ ہو گیا وہ محفوظ ہو گیا اور جس نے انہیں چھوڑ دیا وہ غرق ہو گیا۔( ینابیع المودة ۱ ص ۷۶ / ۱۲)۔

۱۱۲۔امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) زوال آفتاب کے وقت نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے اور اس طرح صلوات بھیجتے تھے۔

’ خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جو نبوت کے شجر اور رسالت کے مرکز تھے، ان کے گھر ملائکہ کی آمد و رفت تھی اور وہ علم کے خزانہ دار اور وحی کے اہلبیت (ع) تھے، خدایا آل محمد پر رحمت نازل فرما جو شدتوں کے سمندروں میں نجات کے سفینے تھے کہ جو ان سے وابستہ ہو گیا وہ محفوظ ہو گیا اور جس نے انہیں چھوڑ دیا وہ غرق ہو گیا، ان سے آگے بڑھ جانے والا دین سے نکل جاتا ہے اور ان سے دور رہ جانے والا ہلاک ہو جاتا ہے۔ بس ان سے وابستہ ہو جانے والا ہی ان کے ساتھ رہتا ہے۔(جمال الاسبوع ص ۲۵۱۔

۲۔ مثال باب حِطّہ

۱۱۳۔ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ تمھارے درمیان میرے اہلبیت (ع) کی مثال بنیاسرائیل میں باب حطہ کی ہے کہ جو اس میں داخل ہو گیا اسے بخش دیا گیا۔( المعجم الاوسط ۶ ص ۸۵ / ۵۸۷۰، المعجم الصغیر ۲ ص ۲۲ ، صواعق محرقہ ص ۱۵۲ ، غیبت نعمانی ص ۴۴)۔

۱۱۴۔ رسول اکرم نے فرمایا کہ جو میرے دین کو اختیار کرے اور میرے راستہ پر رہے اور میری سنّت کا اتباع کرے اس کا فرض ہے کہ ائمہ اہلبیت (ع) کو تمام امت پر مقدم رکھے کہ ان کی مثال اس امت میں بنی اسرائیل کے باب حِطّہ جیسی ہے۔( امالی صدوق ۶۹ / ۶ تنبیہ الخواطر ۲ ص ۱۵۶)۔

۱۱۵۔ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں سے نو صلب حسین (ع) سے ہوں گے اور نواں قائم ہو گا ، یاد رکھو ان سب کی مثال سفینہ نوح کی ہے کہ جو سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو الگ رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا اور ان کی مثال بنی اسرائیل کے باب حطہ جیسی ہے۔( مناقب ابن شہر آشوب ۱ ص ۲۹۵ ، کفایة الاثر ص ۳۸ از ابوذر)۔

۱۱۶۔ عباد بن عبد اللہ لا سدی کا بیان ہے کہ میں مقام رحبہ میں امیر المؤمنین (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے آ کر اس آیت کے معنی دریافت کرے … کیا وہ شخص جو پروردگار کی طرف سے دلیل رکھتا ہو اور اس کے ساتھ اس کا گواہ بھی ہو… تو آپ نے فرمایا کہ قریش کے کسی شخص پر لمحات عقیقہ کا گذر نہیں ہوا مگر اس کے بارے میں قرآن میں کچھ نہ کچھ نازل ضرور ہوا ہے۔ خدا کی قسم یہ لوگ ہم اہلبیت (ع) کے فضائل اور رسول اکرم کی زبان سے بیان ہونے والے مناقب کو سمجھ لیں تو یہ ہمارے لئے اس وادی رحبہ کے سونے چاندی سے بہر جانے سے زیادہ قیمتی ہے۔ خدا کی قسم اس امت ہماری مثال سفینہ نوح (ع) کی ہے اور نبی اسرائیل کے باب حطہ کی ہے۔(کنز العمال ۲ ص ۴۳۴ / ۴۴۲۹، امالی مفید ۱۴۵ / ۵ شرح الاخبار ۲ ص ۴۸۰ ، ۸۴۳ تفسیر فرات کوفی ص ۱۹۰ / ۲۴۳)۔

۱۱۷۔ ابوسعید خدری ، رسول اکرم نے نماز جماعت پڑھائی اور اس کے بعد قوم کی طرف رخ کر کے ارشاد فرمایا۔ میرے صحابیو ! میرے اہلبیت (ع) کی مثال تمھارے درمیان کشتی نوح (ع) اور باب حطہ کی ہے لہذا میرے بعد ان اہلبیت (ع) اور میری ذریت کے ائمہ راشدین سے متمسک رہنا کہ اس طرح کبھی بھی گمراہ نہیں ہوسکتے ہو۔

لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ ، آپ کے بعد کتنے امام ہوں گے؟ فرمایا کہ میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت میں بارہ امام ہوں گے۔

فرمایاکہ میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت میں بارہ امام ہوں گے۔(کفایة الاثر ص ۳۳۔ ۳۴)۔

۱۱۸۔ امام علی (ع) ! ہم باب حطہ اور باب السلام ہیں ، جو اس دروازہ میں داخل ہو جائے گا نجات پائے گا اور جو اس سے الگ رہ جائے گا وہ گمراہ ہو جائے گا۔( خصال ۶۲۶ / ۱۰ از ابوبصیر و محمد بن مسلم از امام صاد ق (ع) تفسیر فرات کوفی ۳۶۷ / ۴۹۹ ، غرر الحکم ۱۰۰۰۲)۔

۱۱۹۔ امام علی (ع)۔ آگاہ ہو جاؤ کہ جو علم لے کر آدم آئے تھے اور جو فضائل تمام انبیاء و مرسلین کو دیئے گئے ہیں وہ سب خاتم النبیین کی عترت میں موجود ہیں تو تمھیں کہاں گمراہ کیا جا رہا ہے اور تم کہاں چلے جا رہے ہو؟ اے اصحاب سفینہ کی اولاد ، تمھارے درمیان وہ مثال موجود ہے کہ جس طرح اس سفینہ پر سوار ہونے والے نجات پاگئے تھے اسی طرح عترت سے تمسک کرنے والے نجات پا جائیں گے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، ویل ہے ان کے لئے جو ان سے الگ ہو جائیں ، ان کی مثال اصحاب کہف اور باب حطہ جیسی ہے۔ یہ سب باب السلام ہیں لہذا سِلم میں داخل ہو جاؤ اور خبردار شیطان کے اقدامات کی پیروی نہ کرنا۔( تفسیر عیاشی ۱ ص ۱۰۲ / ۳۰۰ ،از مسعدہ بن صدقہ ، الغیبتہ نعمانی ص ۴۴ ، ینابیع المودة ۱ ص ۳۳۲ / ۴ المستر شدہ ص ۴۰۶)۔

۱۲۰۔ امام محمد باقر (ع) ! ہم تمھارے لئے باب حطہ ہیں۔( تفسیر عیاشی ۱ ص ۴۷ از سلیمان جعفری از امام رضا (ع) ، مجمع البیان ۱ ص ۲۴۷)۔

۳۔ مثال خانۂ خدا

۱۲۱۔ رسول اکرم نے امام علی (ع) سے فرمایا کہ یا علی (ع) تمھاری مثال بیت اللہ کی مثال ہے کہ جو اس میں داخل ہو گیا وہ عذاب الہی سے محفوظ ہو گیا اور اسی طرح جس نے تم سے محبت کی اور تمہاری ولایت کا اقرار کیا وہ عذاب جہنم سے محفوظ ہو گیا اور جس نے تم سے بغض رکھا وہ جہنم میں ڈال دیا گیا۔ یا علی (ع) لوگوں کا فریضہ ہے کہ خانۂ خدا کا ارادہ کریں اگر ان میں استطاعت پائی جاتی ہے لیکن اگر کوئی مجبور ہے تو اس کا عذر اس کے ساتھ ہے یا اگر فقیر ہے تو معذور ہے یا اگر مریض ہے تو معذور ہے لیکن تمھاری محبت اور ولایت میں کوتاہی کرنے والے کو ہرگز معاف نہیں کیا جائیگا چاہے فقیر ہو یا غنی۔ بیمار ہو یا صحیح، اندھا ہو یا بصارت والا۔ (خصائص الائمہ ص ۷۷ از عیسیٰ بن المنصور)۔

۴۔ مثال نجوم فلک

۱۲۲۔ رسول اکرم ! جس طرح ستارے اہل زمین کے لئے ڈوبنے سے بچنے کا ذریعہ ہیں اسی طرح ہمارے اہلبیت (ع) اختلاف سے بچنے کا وسیلہ ہیں لہذا جب بھی عرب کا کوئی قبیلہ ان سے اختلافات کرے گا وہ شیطان کے گروہ میں شامل ہو جائے گا۔( مستدرک ۳ ص ۱۶۲ / ۴۷۱۵)۔

۱۲۳۔ رسول اکرم نے امام علی (ع) سے فرمایا۔ یا علی (ع) ! تمھاری اور تمھاری اولاد کے ائمہ کی مثال سفینہ نوح کی ہے کہ جو اس سفینہ پر سوار ہو گیا نجات پا گیا اور جو اس سے الگ رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا اور پھر تمھاری مثال آسمان کے ستاروں کی ہے کہ جب ایک ستارہ غائب ہوتا ہے تو دوسرا طالع ہو جاتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی قیامت تک جاری رہے گا۔( امالی صدوق (ر) ص ۲۲ / ۱۸ ، کمال الدین ص ۲۴۱ / ۶۵ ، بشارة المصطفیٰ ص ۳۲ ، جامع الاخبار ۵۲ / ۵۹ ، مأتہ منقبہ ص ۶۵ ، فرائد السمطین ص ۲۴۳ ، ۵۱۷ از ابن عباس۔

۱۲۴۔ رسول اکرم ! اہلبیت (ع) کی مثال میری امت میں آسمان کے ستاروں جیسی ہے کہ جب ایک ستارہ غائب ہوتا ہے تو دوسرا نکل آتا ہے یہ سبب امام ہادی اور مہدی ہیں ، انہیں نہ کسی کا مکر نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ کسی کا انحراف بلکہ یہ کام انحراف کرنے والوں ہی کو نقصان پہنچائے گا۔ یہ سب زمین پر اللہ کی حجت ہیں اور اس کی مخلوقات پر اس کے گواہ ہیں۔ جوان کی اطاعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی اور جو ان کی نافرمانی کرے گا اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ یہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔نہ یہ اس سے الگ ہوں گے۔ اور نہ وہ ان سے الگ ہو گا یہاں تک کہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہو جائیں۔ ان ائمہ میں سب سے پہلا میرا بھائی علی (ع) ہے ، اس کے بعد میرا فرزند حسن (ع) ، اس کے بعد میرا فرزند حسین (ع) ، اس کے بعد اولاد حسین (ع) کے نو افراد۔( الغیبتہ النعمانی ۸۴ / ۱۲ ، کتاب سلیم بن قیس ۲/۶۸۶ / ۱۴ ، فضائل ابن شاذان ص ۱۱۴ ، مشارق انوار الیقین ص ۱۹۲)۔

۱۲۵۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہو جاؤ کہ آل محمد کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے کہ جب کوئی ستارہ غائب ہوتا ہے تو دوسرا طالع ہو جاتا ہے۔(نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۰)۔

۱۲۶۔ امام صادق (ع) کوئی عالم ہمارے علاوہ ایسا نہیں ہے جو دنیا سے جائے تو اپنا جیسا خلف چھوڑ جائے۔ البتہ ہم میں سے جب کوئی جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا اس کا جیسا موجود رہتا ہے کہ ہماری مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے۔( جامع الاحادیث قمی ص ۲۴۹ از حصین بن مخارق )۔

۵۔ مثال دو چشم

۱۲۷۔ رسول اکرم ! دیکھو میرے اہلبیت (ع) کو اپنے درمیان وہی جگہ دو جو جسم میں سرکی اور سرمیں دونوں آنکھوں کی ہوتی ہے کہ جسم سر کے بغیر اور سر آنکھوں کے بغیر ہدایت نہیں پا سکتا ہے۔( امالی طوسی (ر) ۴۸۲ / ۱۰۵۳ ، کشف الغمہ ۲ ص ۳۵ از ابوذر ، کفایة الاثر ص ۱۱۱ از واثلہ بن الاسقع)۔

آگاہی از عدم معرفت اہلبیت (ع)

۱۲۸۔رسول اکرم ، جو بغیر امام کے مرتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے، (مسند ابن حنبل ۶ ص ۲۲ / ۱۶۸۷۶ ، المعجم الکبیر ۱۹ ، ص ۳۸۸ /۹۱۰ ، الملاحم والفتن ص ۱۵۳ از معاویہ ، مسند ابوداؤد طیالسی ص ۲۵۹ از ابن عمر ، تفسیر عیاشی ۲ ص ۳۰۳ / ۱۱۹ ، از عمار الساباطی ، الاختصاص ص ۲۶۸ از عمر بن یزید از امام موسی ٰ کاظم (ع))۔

۱۲۹۔ رسول اکرم جو اس حال میں مر جائے کہ اس کے سر پر کوئی امام نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔( کافی ۱ ص ۳۹۷ / از سالم بن ابی حفصہ ، ۸ ص ۱۴۶ / ۱۲۳ از بشیر کناسی، اللمعجم الاوسط ۶ / ص۷۰ /۵۸۲۰ ، مسند ابویعلی ٰ ۱۳ ص ۳۶۶ / ۷۳۷۵ ، از معاویہ ، المعجم الکبیر ۱۰ ص ۲۸۹ / ۱۶۸۷ از ابن عباس )۔ ۱۳۰۔ رسول اکرم جو امام کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔( کافی ۲ ص ۲۰ / ۶ ، ثواب الاعمال ص ۲۴۴ / ۱ ، المحاسن ۱ ص ۲۵۲ / ۴۷۵ از عیسیٰ بن السری)۔

۱۳۱۔ رسول اکرم۔ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اس کی گردن میں کوئی بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ (صحیح مسلم ۳ ص ۱۴۷۸ / ۵۸ ، السنن الکبریٰ ۸ ص ۲۷۰ / ۱۶۶۱۲ از عبداللہ بن عمر، المعجم الکبیر ۱۹ ص ۳۳۴ / ۷۶۹ از معاویہ)۔

۱۳۲۔ رسول اکرم ! جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ اس کے پاس میری اولاد میں سے کوئی امام نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور اس نے جاہلیت یا اسلام میں جو کچھ کیا ہے سب کا حساب لیا جائے گا۔( عیون اخبار الرضا ۲ ص ۵۸ / ۲۱۴ از ابومحمد الحسن بن عبداللہ الرازی التمیمی ، کنز الفوائد ۱ ص ۳۲۷)۔ ۱۳۳۔ ابان بن عیاش نے سلیم بن قیس الہلالی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے سلمان، ابوذر اور مقداد سے یہ حدیث سنی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ جو شخص مر جائے اور اس کا کوئی امام نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے۔

اس کے بعد اس حدیث کو جابر اور ابن عباس کے سامنے پیش کیا تو دونوں نے تصدیق کی اور کہا کہ ہم نے بھی سرکار دو عالم سے سناہے اور سلمان نے تو حضور سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ یہ امام کون ہوں گے ؟ تو فرمایا کہ میرے اوصیاء میں ہوں گے اور جو بھی میری امت میں ان کی معرفت کے بغیر مر جائے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا ، اب اگر ان سے بے خبر اور ان کا دشمن بھی ہو گا تو مشرکوں میں شمار ہو گا اور اگر صرف جاہل ہو گا نہ ان کا دشمن اور نہ ان کے دشمنوں کا دوست تو جاہل ہو گا لیکن مشرک نہ ہو گا۔ ( کمال الدین ۴۱۳ / ۱۵)۔

۱۳۴۔ عیسیٰ بن السری کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) سے سوال کیا کہ مجھے ارکان دین اسلام سے باخبر کریں تا کہ انہیں اختیار کر لوں تو میرا عمل پاکیزہ ہو جائے اور پھر باقی چیزوں کی جہالت نقصان نہ پہنچا سکے ؟ تو فرمایا کہ ’ لا الہ الا اللہ ‘ محمد رسول اللہ کی شہادت اور ان تمام چیزوں کا اقرار جنہیں پیغمبر لے کر آئے تھے اور اموال سے زکوٰة ادا کرنا اور ولایت آل محمد جس کا خدا نے حکم دیا ہے کہ رسول اکرم نے صاف فرمایا ہے جو اپنے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور مالک کائنات بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ’ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور اولی الامر کی اطاعت کرو اور اولیاء امر میں پہلے علی (ع) اس کے بعد حسن (ع) ، اس کے بعد حسین (ع)، اس کے بعد علی (ع) بن الحسین (ع)، اس کے بعد محمد (ع) بن علی (ع) اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا اور زمین امام کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی ہے اور جو شخص بھی امام کی معرفت کے بغیر مر جائے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔

(کافی ۲ ص۲۱ /۹، تفسیر عیاشی ۱ ص۲۵۲ /۱۷۵ ، از یحییٰ بن السّری)۔

۱۳۵۔ امام محمد باقر (ع) ! جو شخص بھی اس امت میں امام عادل کے بغیر زندہ رہے گا وہ گمراہ اور بہکا ہوا ہو گا اور اگر اسی حال میں مرگیا تو کفر و نفاق کی موت مرے گا۔(کافی۱ ص۳۷۵ /۲از محمد بن مسلم)۔

۱۳۶۔ امام صادق (ع) ! رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ جو شخص بھی اپنے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا لہذا تمھارا فرض ہے کہ تم امام کی اطاعت کرو۔ تم نے اصحاب علی (ع) کو دیکھا ہے اور تم ایسے امام کے تابع ہو جس سے بے خبر رہنے میں کوئی شخص معذور نہیں ہے۔ قرآن کے تمام مناقب ہمارے لئے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جن کی اطاعت اللہ نے واجب قرار دی ہے۔ انفاق اور منتخب اموال ہمارا ہی حصہ ہیں۔( محاسن ۱ ص ۲۵۱ / ۴۷۴ از بشیر الدہان)۔

۱۳۷۔ امام صادق (ع) ! جو شخص بھی اس حال میں مر جائے کہ اس کی گردن میں کسی امم کی بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(اعلام الدین ص ۴۵۹) ۱۳۸۔ امام موسیٰ کاظم (ع) ! جو شخص اپنے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور اس سے جملہ اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ (مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص۲۹۵ از ابوخالد)

۱۳۹۔ امام رضا (ع) ! جو شخص بھی ائمہ اہلبیت (ع) کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ (عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۱۲۲ /۱ از فضل بن شاذان، الکافی ۱ ص ۳۷۶ ، محاسن۱ ص ۲۵۱ ، بحار الانوار ۲۳ /۷۶)۔

احادیث تنبیہ کی تحقیق

تمام مسلمانوں کا اس نقطہ پر اتفاق ہے کہ جن روایات نے اس مضمون کی نشاندہی کی ہے کہ امام کے بغیر مرنے والا جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ قطعی طور پر سرکار دو عالم (ع) سے صادر ہوئی ہیں اور ان میں کسی طرح کے شک اور شببہ کی گنجائش نہیں ہے۔

مفہوم اور مقصود میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اصل مضمون میں کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے کہ یہ مضمون اس قدر شہرت اور ا عتبار پیدا کر چکا تھا کہ حکام ظلم و جور بھی اس کا انکار نہ کرسکے اور بدرجۂ مجبوری تحریف و ترمیم پر اتر آئے۔ جیسا کہ علامہ امینی طاب ثراہ نے ان احادیث کو صحاح اور مسانید نے محفوظ کیا ہے لہذا اس کے مضمون کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے اور کسی مسلمان کا اسلام اس کے مقصود کو تسلیم کئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت میں نہ دو رائے ہے اور نہ کسی ایک نے شک و شبہہ کا اظہار کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ بغیر امام مرنے والے کا انجام بدترین انجام ہے اور اس کے مقدر میں کسی طرح کی کامیابی اور فلاح نہیں ہے۔ جاہلیت کی موت سے بدتر کوئی موت نہیں ہے کہ یہ موت در حقیقت کفر و الحاد کی موت ہے اور اس میں کسی اسلام کا شائبہ بھی نہیں ہے۔(الغدیر ۱۰ ص ۳۶۰)۔

رہ گیا حدیث کا مفہوم تو اس کی وضاحت کے لئے دور جاہلیت کی تشریح ضروری ہے اور اس کے بغیر مسئلہ کی مکمل توضیح نہیں ہوسکتی ہے قرآن مجید اور احادیث اسلامی میں رسول اکرم کے دور بعثت کو علم و ہدایت کا دور اور اس کے پہلے کے زمانہ کو جہالت اور ضلالت کا دور قرار دیا گیا ہے، اس لئے کہ اس دور میں آسمانی ادیان میں تحریف و ترمیم کی بناپر راہ ہدایت و ارشاد کا پا لینا ممکن نہ تھا۔ اس دور میں انسانی سماجمیں دین کے نام پر جو نظام چل رہے تھے وہ سب اوہام و خرافات کا مجموعہ تھے اور یہ تحریف شدہ ادیان و مذاہب حکام ظلم و جور کے ہاتھوں میں بہترین حربہ کی حیثیت رکھتے تھے جن کے ذریعہ انسانوں کے مقدرات پر قبضہ کیا جاتا تھا اور انہیں اپنی خواہشات کے اشارہ پر چلایا جا رہا تھا۔

لیکن اس کے بعد جب سرکار دو عالم کی بعثت کے زیر سایہ علم و ہدایت کا آفتاب طلوع ہوا تو آپ کی ذمہ داریوں میں اہم ترین ذمہ داری ان اوہام و خرافات سے جنگ کرنا اور حقائق کو واضح و بے نقاب کرنا تھا، چنانچہ آپ نے ایک مہربان باپ کی اطرح امت کی تعلیم و تربیت کا کام شروع کیا اور صاف لفظوں میں اعلان کر دیا کہ میں تمھارے باپ جیسا ہوں اور تمھاری تعلیم کا ذمہ دار ہوں (مسند ابن حنبل ۳ ص ۵۳ / ۷۴۱۳ ، سنن نسائی ۱ ص ۳۸ ، سنن ابن ماجہ ۱ ص ۱۱۴۔ ۳۱۳ ، الجامع الصغیر ۱ ص ۳۹۴ / ۲۵۸۰)۔

آپ کا پیغام عقل و منطق سے تمام تر ہم آہنگ تھا اور اس کی روشنی میں صاحبان علم کے لئے صداقت تک پہنچنا بہت آسان تھا اور وہ صاف محسوس کرسکتے تھے کہ اس کا رابطہ عالم غیب سے ہے۔

آپ برابر لوگوں کو تنبیہ کیا کرتے تھے کہ خبردار جن چیزوں کو عقل و منطق نے ٹھکرا دیا ہے۔ ان کا اعتبار نہ کریں کہ بغیر علم و اطلاع کے کسی چیز کے پیچھے نہ دوڑ پڑی۔(سورہ اسراء آیت ۳۶)

اس تمہید سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ ہر دور کے امام کی معرفت انسانوں کا انفرادی مسئلہ نہیں تھی کہ اگر کوئی شخص امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مر جائے گا تو صرف اس کی موت جاہلیت کی موت ہو جائے گی بلکہ در اصل یہ ایک اجتماعی اور پوری امت کی زندگی کا مسئلہ تھا کہ بعثت پیغمبر اسلام کے سورج کے طلوع کے ساتھ جو علم و معرفت کا دور شروع ہوا ہے اس کا استمرار اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک مسلمان اپنے دور کے امام کو پہچان کر اس کی اطاعت نہ کر لیں۔

یا واضح الفاظ میں یوں کہا جائے کہ امامت ہی اس عصر علم و عرفان کی تنہا ضمانت ہے جو سرکار دو (ع) عالم کی بعثت کے ساتھ شروع ہوا ہے اور اس ضمانت کے مفقود ہو جانے کا فطری نتیجہ اس دور اسلام و عرفان کا خاتمہ ہو گا جس کا لازمی اثر دور جاہلیت کی واپسی کی صورت میں ظاہر ہو گا اور پورا معاشرہ جاہلیت کی موت مر جائے گا جس کی طرف قرآن مجید نے خود اشارہ کیا تھا کہ مسلمانو۔ دیکھو محمد اللہ کے رسول کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں اور ان سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم الٹے پاؤں جاہلیت کی طرف پلٹ جاؤ گویا مسلمانوں میں جاہلیت کی طرف پلٹ جانے کا اندیشہ تھا اور سول اکرم اس کا علاج معرفت امام کے ذریعہ کرنا چاہتے تھے اور بار بار اس امر کی وضاحت کر دی تھی کہ امت دوبارہ جاہلیت کی دلدل میں پھنس سکتی ہے اور جاہلیت کی موت مرسکتی ہے اور اس کا واحد سبب امامت و قیادت امام عصر (ع) سے انحراف کی شکل میں ظاہر ہو گا۔

کس امام کی معرفت ؟

اگر گذشتہ احادیث میں ذرا غور و فکر کر لیا جائے تو اس سوال کا جواب خود بخود واضح ہو جائے گا کہ سرکار دو عالم نے کس امام اور کس طرح کے امام کی معرفت کو ضروری قرار دیا ہے کہ جس کے بغیر نہ اصلی اسلام باقی رہ سکتا ہے اور نہ جاہلیت کی طرف پلٹ جانے کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ اس معرفت سے مراد ہر اس شخص کی معرفت اور اس کا اتباع ہو جو اپنے بارے میں امامت کا دعویٰ کر دے اور اسلامی سماج کی زمام پکڑ کر بیٹھ جائے اور باقی افراد اس کی اطاعت نہ کر کے جاہلیت کی موت مر جائیں اور اس کے کردار کا جائزہ نہ لیا جائے اور اس ظلم کو نہ دیکھا جائے جو انسان کو ان اماموں میں قرار دے دیتا ہے جو جہنم کی دعوت دینے والے ہوتے ہیں ؟

ائمہ جور نے ہر دور تاریخ میں یہی کوشش کی ہے کہ حدیث کی ایسی ہی تفسیر کریں اور اسے اپنے اقتدار کے استحکام کا ذریعہ قرار دیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس کے راویوں میں ایک معاویہ بھی شامل ہے جسے اس حدیث کی سخت ضرورت تھی اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب روایت بیان کر دیگا تو درباری علماء اس کی ترویج و تبلیغ کا کام شروع کر دیں گے اور اس طرح حدیث کی روشنی میں معاویہ جیسے افراد کی حکومت کو مستحکم و مضبوط بنا دیا جائے گا۔ اگر چہ یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ صرف لفظی بازی گری ہے اور اس کا تفسیر و تشریح حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اسے خطائے اجتہادی کہا جا سکتا ہے اور نہ سوء فہم بھلا کون یہ تصور کرسکتا ہے کہ عبداللہ بن عمر کا بیعت امیر المومنین (ع) سے انکار کر دینا کسی بصیرت کی کمزوری یا فکر کی سطحیت کا نتیجہ تھا اور انہیں آپ کی شخصیت کا اندازہ نہیں تھا اور راتوں رات دوڑ کر حجاج بن یوسف کے دربار میں جا کر عبدالملک بن مروان کے لئے بیعت کر لینا واقعاً اس احتیاط کی بناپر تھا کہ کہیں زندگی کی ایک رات بلا بیعت امام نہ گذر جائے اور ارشاد پیغمبر کے مطابق جاہلیت کی موت نہ واقع ہو جائے جیسا کہ ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ نے پہلے حضرت علی (ع) کی بیعت سے انکا کر دیا اور اس کے بعد ایک رات حجاج بن یوسف کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے تا کہ اس کے ہاتھ خلیفہ وقت عبدالملک بن مروان کے لئے بیعت کر لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک رات بلا بیعت امام گذر جائے جبکہ سرکار دو عالم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی بیعت امام کے بغیر مر جائے تو جاہلیت کی موت مرتا ہے، اور حجاج نے بھی اس جہالت اور پست فطرتی کا اس انداز سے استقبال کیا کہ بستر سے پیر نکال دیا کہ اس پر بیعت کر لو، تم جیسے لوگ اس قابل نہیں ہوکہ ان سے ہاتھ پر بیعت لی جائے۔ (شرح نہج البلاغہ ۱۳ ص ۲۴۲)۔

کھلی ہوئی بات ہے کہ جو حضرت علی (ع) کو امام تسلیم نہ کرے گا اس کا امام عبدالملک بن مروان ہی ہوسکتا ہے جس کی بیعت سے انکار انسان کو جاہلیت مارسکتا ہے اور اس کے ضروری ہے کہ رات کی تاریکی میں انتہائی ذلت نفس کے ساتھ حجاج بن یوسف جیسے جلاد کے دروازہ پر حاضری دے اور عبدالملک جیسے بے ایمان کی خلافت کے لئے بیعت کر لے اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہو کہ اس یزید کو بھی حدیث مذکور کا مصداق قرار دیدے جس کے دونوں ہاتھ اسلام اور آل رسول کے خون سے رنگین ہوں۔

مورخین کا بیان ہے کہ اہل مدینہ نے ۳۶ھء میں یزید کے خلاف آواز بلند کی اور اس کے نتیجہ میں واقعہ حرہ پیش آ گیا جس کے بعد عبداللہ بن عمر نے اس انقلاب میں قریش کے قائد عبداللہ بن مطیع کے پاس حاضر ہو کر کچھ کہنا چاہا تو عبداللہ نے ان کے لئے تکیہ لگوا کر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ابن عمر نے فرمایا کہ میں بیٹھنے نہیں آیا ہوں۔ میں صرف یہ حدیث پیغمبر سنا نے آیا ہوں کہ اگر کسی کے ہاتھ اطاعت سے الگ ہو گئے تو وہ روز قیامت اس عالم میں محشور ہوکا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو گی اور کوئی دلیل نہ ہو گی اور کوئی اپنی گردن میں بیعت امام رکھے بغیر مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ ( صحیح مسلم ۳ / ۱۴۷۸ / ۱۸۵۱)۔

ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ اس ضمیر فروش انسان نے کس طرح حدیث شریف کا رخ بالکل ایک متضاد جہت کی طرف موڑ دیا اور اسے یزید کی حکومت کی دلیل بنا دیا جس موذی مرض کی طرف رسول اکرم نے اس حدیث میں اور دیگر متعدد احادیث میں اشارہ کیا تھا اور آپ کا مقصد تھا کہ لوگ ائمہ حق و ہدایت کی اطاعت کریں لیکن ارباب باطل و تحریف نے اس کا رخ ہی بدل دیا اور اسے باطل کی ترویج کا ذریعہ بنا لیا اور اس طرح اسلامی احادیث ہی کو اسلام کی عمارت کے منہدم کرنے کا وسیلہ بنا دیا اور دھیرے دھیرے اسلام اور علم کا وہ دور گذر گیا اور امت اسلامیہ ائمہ حق و انصاف کی بے معرفتی اور ان کے انکار کے نتیجہ میں جاہلیت کی طرف پلٹ گئی اور جاہلیت و کفر کی موت کا سلسلہ شروع ہو گیا جب کہ روایات کا کھلا ہوا مفہوم یہ تھا کہ آپ امت کو اس امر سے آگاہ فرما رہے تھے کہ خبردار ائمہ اہلبیت (ع) کی امامت و قیادت سے غافل نہ ہو جانا اور اہلبیت (ع) سے تمسک کو نظر انداز نہ کر دینا کہ اس کا لازمی نتیجہ دور علم و ہدایت کا خاتمہ اور دور کفر و جاہلیت کی واپسی کی شکل میں ظاہر ہو گا جس کی طرف حدیث ثقلین، حدیث غدیر اور دوسری سینکڑوں حدیثوں میں اشارہ کیا گیا تھا اور ائمہ اہلبیت (ع) سے تمسک کا حکم دیا گیا تھا۔

روز قیامت منزلت اہلبیت (ع)

۱۴۰۔ رسول اکرم ! سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر میرے اہلبیت (ع) وارد ہوں گے اور امت میں میرے واقعی چاہنے والے۔( السنہ لابن ابی عاصم ۳۲۴ / ۷۴۸ ، کنز العمال ۱۲ / ۱۰۰ / ۳۴۱۷۸)۔

۱۴۱۔ رسول اکرم ! تم میں سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والا اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والا علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہے۔(مستدرک ۳ ص ۱۴۷ / ۲۶۶۲ ، تاریخ بغداد ۲ ص۸۱، مناقب ابن المغازلی ۱۶ / ۲۲ ، مناقب خوارزمی ۵۲ / ۱۵)

۱۴۲۔ امام علی (ع) ! میرے پاس رسول اکرم تشریف لے آئے جب میں بستر پر تھا، آپ سے حسن (ع) یا حسین (ع) نے پانی مانگا اور آپ نے بکری کو دوہ کر دینا چاہا کہ دوسرا بھائی سامنے آیا، آپ نے اسے سامنے سے ہٹا دیا تو فاطمہ زہرا نے کہا کہ کیا وہ آپ کو زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا نہیں بات یہ ہے کہ اس نے پہلے تقاضا کیا ہے اور یاد رکھو کہ میں۔ تم اور بستر پر آرام کرنے والا سب روز قیامت ایک مقام پر ہوں گے۔( مسند ابن حنبل ۱ ص ۲۱۷ / ۷۹۲ از عبدالرحمان ازرق ، المعجم الکبیر ۳ ص ۴۱ / ۲۶۲۲ از ابی فاختہ ، مسند ابوداؤد طیالسی ۲۶ / ۱۹۰ ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) ۱۱۰ / ۱۸۲۔ ۱۱۸ / ۱۹۱ ، اسد الغابہ ۷/ ۲۲۰ ، السنة لابن ابی عاصم ۵۸۴ / ۱۳۲۲ ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ۱۱۱ /۱۱۵ ، کتاب سلیم بن قیس ۲ ص ۷۳۲ / ۲۱)۔

۱۴۳۔ امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اکرم نے فرمایا کہ جنت میں سب سے پہلے ہیں۔ فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) داخل ہوں گے تو میں نے عرض کی اور ہمارے چاہنے والے ؟ فرمایا تمھارے پیچھے پیچھے۔(مستدرک ۳ ص ۱۶۴ / ۴۷۲۳ از عاصم بن ضمرہ ، ذخائر العقبیٰ ص ۱۲۳ ، بشارة المصطفیٰ ص ۴۶ )۔

۱۴۴۔ رسول اکرم ! ہم۔ علی (ع)۔ فاطمہ (ع)۔ حسن (ع) اور حسین (ع) سب روز قیامت زیر عرض الہی ایک قبہ میں ہوں گے۔( کنز العمال ۱۲ ص ۱۰۰ / ۳۴۱۷۷ ، مجمع الزوائد ۹ ص ۲۷۶ / ۱۵۰۲۲ ، شرح الاخبار ۳ ص ۴ / ۹۱۴ از ابوموسیٰ اشعری، مناقب خوارزمی ۳۰۳ / ۲۹۸ ، بشارة المصطفیٰ ص ۴۸۔

۱۴۵۔ رسول اکرم ! وسیلہ ایک درجہ ہیجس سے بالاتر کوئی درجہ نہیں ہے۔ پروردگار سے طلب کرو کہ وہ مجھے وسیلہ عنایت فرما دے۔( مسند ابن حنبل ۴ ص

۱۶۵ / ۱۱۷۸۳ از ابوسعید خدری ۳ ص ۸۶ / ۷۶۰۱ ص ۲۹۲ / ۸۷۷۸ از ابوہریرہ ۲ ص ۵۷۱ / ۶۵۷۹ از عبداللہ بن عمرو ابن العاص ، صحیح بخاری ۱ /۲۲۲ / ۵۸۹ ، صحیح مسلم ۱ ص ۲۸۹ / ۳۸۴ ، سنن ابی داؤد ۱ ص ۱۴۴ / ۵۲۳ ص ۱۴۶ / ۵۲۹ ، سنن ترمذی ۵ ص ۵۸۶ / ۳۶۱۲ ، سنن نسائی ۲ ص ۲۵ / ۶۷۱ ، ص ۲۷ / ۶۷۳ ، سنن ابن ماجہ ۱ ص ۲۳۹ / ۷۲۲۔

۱۴۶۔ رسول اکرم ، جنت میں ایک درجہ ہے جسے وسیلہ کہا جاتا ہے، اگر تمھیں اللہ سے کوئی سوال کرنا ہے تو میرے لئے وسیلہ کا سوال کرو ، لوگوں نے عرض کی کہ اس میں آپ کے ساتھ کون کون رہے گا ؟ فرمایا علی (ع)۔ فاطمہ (ع)۔ حسن (ع) حسین (ع) ( کنز العمال ۱۲ ص ۱۰۳ / ۳۴۱۹۵۔ ۱۳ ص ۱۳۹ / ۳۷۶۱۶ ، تفسیر ابن کثیر ۲ ص ۶۸ ، بشارہ المصطفیٰ ص ۲۷۰ ، معانی الاخبار ۱۱۶ / ۱ ، تفسیر قمی ۲ ص ۳۲۴ ، علل الشرائع ۱۶۴ / ۶ ، بصائر الدرجات ۴۱۶ / ۱۱ ، روضة الواعظین ۲ ص۱۲۷۔

۱۴۷۔رسول اکرم ! جنت کا مرکزی علاقہ میرے اور میرے اہلبیت (ع) کے لئے ہو گا۔ ( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۶۸ / ۳۱۴ از حسن بن عبداللہ التمیمی)۔

۱۴۸۔ حذیفہ ! میری والدہ نے پوچھا کہ تمھارا رسول اکرم کا ساتھ کب سے ہے؟ میں نے عرض کی فلاں وقت سے اس نے مجھے بُرا بھلا کہا تو میں نے کہا للہ خاموش ہو جائیے۔ میں رسول اکرم کے ساتھ نماز مغرب کے لئے جا رہا ہوں ، نماز کے بعد ان سے درخواست کروں گا کہ میرے اور آپ کے لئے دعائے مغفرت کریں۔ یہ کہہ کر میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مغرب و عشاء کی نماز ادا کی ، اس کے بعد آپ جانے لگے تو میں ساتھ ہولیا۔ راستہ میں ایک شخص مل گیا اس سے آپ نے باتیں کیں۔ پھر روانہ ہو گئے اور میں پھر ساتھ چلا، ایک مرتبہ میری آواز سن کر فرمایا کون ؟ میں نے عرض کی حذیفہ۔

فرمایا کیوں آئے ؟ میں نے ماجرا بیان کیا۔ فرمایا خدا تمھیں اور تمھاری ماں کو بخش دے۔ کیا تم نے راستہ میں ملنے والے کو بھی دیکھا ہے؟ عرض کی بیشک ! فرمایا یہ ایک فرشتہ ہے جو آج پہلی مرتبہ آسمان سے نازل ہوا ہے اور یہ خدا سے اجازت لے کر مجھے سلام کرنا چاہتا تھا اور یہ بشارت دینا چاہتا تھا کہ حسن (ع) و حسین (ع) جوانان جنت کے سردار ہیں۔ اور فاطمہ (ع) جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں اور پروردگار ان سب سے راضی ہے۔( مسند احمد بن حنبل ۹/ ۹۱ / ۲۳۳۸۹ ، سنن ترمذی ۵ ص ۳۲۶ / ۳۸۷۰ ، خصائص نسائی ص ۲۳۹ / ۱۳۰ مجمع الزوائد ۹ ص ۳۲۴ / ۱۵۱۹۲ ، حلیة الاولیاء ۴ / ۱۹۰ ، اسد الغابہ ۷ ص ۳۰۴ / ۷۴۱۰۔ المصنف لابن ابی شیبہ ۷ ص ۱۶۴ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۵۱ ص ۷۲ ص ۷۳ ، ذخائر العقبیٰ ص ۱۲۱ ، امالی مفید (ر) ۲۳ / ۴ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۷۷ ، کمال الدین ص ۲۶۳ / ۱۰ ، شرح الاخبار ۳ ص ۶۵ / ۹۹۰ ص ۷۵ / ۹۹۵۔

۱۴۹۔ رسول اکرم ! میں ایک شجر ہوں اور فاطمہ (ع) اس کی شاخ ہے اور علی (ع) اس کا شگوفہ ہے اور حسن (ع) و حسین اس کے پھل ہیں اور ہمارے شیعہ اس کے پتے ہیں ، اس شجر کی اصل جنّت عدن میں ہے اور باقی حصہ سار ی جنّت میں پھیلا ہوا ہے۔( مستدرک علی الصحیحین ۳ ص ۱۷۴ / ۴۷۵۵ از عبدالرحمٰن بن عوف )۔


خصائص اہلبیت (ع)

اہم ترین خصوصیات

۱۔طہارت

﴿ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت و یطھرکم تطھیرا﴾

۱۵۰۔ رسول اکرم ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن سے خدا نے ہر برائی کو دور رکھا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی ( الفردوس ۱ ص ۵۴ / ۱۴۴)

۱۵۱۔ رسول اکرم ! پروردگار نے مخلوقات کو دو قسموں پر تقسیم کیا اور مجھے بہترین قسم میں قرار دیا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ کچھ اصحاب الیمین ہیں اور کچھ اصحاب الشمال ، ہمارا تعلق اصحاب الیمین سے ہے اور میں ان میں بہترین قسم میں ہوں۔

اس کے بعد اس نے دونوں قسموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور مجھے ان کے بہترین حصہ میں قرار دیا جس کی طرف اصحاب میمنہ کے ساتھ ’السابقون السابقون‘ کے ذریعہ اشارہ کیا گیا ہے کہ ہمارا شمار سابقین میں ہے اور میں ان میں بھی سب سے بہتر ہوں۔ اس کے بعد ان تینوں حصوں کو قبائل میں تقسیم کیا گیا اور مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں رکھا گیا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ پروردگار نے تمھیں شعوب اور قبائل میں تقسیم کیا ہے تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکواور تم میں سب سے زیادہ محترم وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔

میں اولاد آدم میں سب سے زیادہ متقی اور پیش پروردگار مکرم ہوں لیکن یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے، یہ مقام شکر ہے، اس کے بعد مالک نے قبائل کو خاندانوں میں تقسیم کیا اور مجھے بہترین گھر میں قرار دیا جسکی طرف آیت تطہیر میں اشارہ کیا گیا ہے تو مجھے اور میرے اہلبیت (ع) سب کو گناہوں سے پاک و پاکیزہ قرار دیا گیا ہے۔( دلائل النبوة بیہقی ۱ ص ۱۷۰ ، البدایة والنہایة ۲ ص ۲۵۷ ، الدرالمنثور ۶ ص ۶۰۵ ، مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی ۱ ص ۱۲۷ / ۷۰ ص ۴۰۶ / ۳۲۴ ، مجمع البیان ۹ ص ۲۰۷ ، اعلام الوریٰ ص ۱۶ ، المعجم الکبیر ۱۲ ص ۸۱ / ۱۲۶۰۴ ، ۳ ص ۵۷ / ۷۴ ۲۶ ، امالی الشجری ۱ ص ۱۵۱ ، امالی صدوق ص ۵۰۳ / ۱ تفسیر قمی ۲ ص ۳۴۷ )۔

۱۵۲۔ رسول اکرم ! میں اور علی (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) اور نو اولاد حسین (ع) سب پاک و پاکیزہ اور معصوم قرار دیے گئے ہیں ( کمال الدین ص ۲۸۰ / ۲۸ ، عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۶۴ / ۳۰ ، مناقب ابن شہر آشوب ۱ ص ۲۹۵ کفایة الاثر ص ۱۹ ، الصراط المستقیم ۲ ص ۱۱۰ ، ینابیع المودة ۳ ص ۲۹۱ / ۹ ، فرائد السمطین ۲ ص ۱۳۳ / ۴۳۰)۔

۱۵۳۔ رسول اکرم ! میرے بعد بارہ امام مثل نقباء بنی اسرائیل ہوں گے اور سب کے سب دین خدا کے امانتدار۔ پرہیزگار اور معصوم ہوں گے۔( جامع الاخبار ۶۲ / ۸۰)۔

۱۵۴۔ رسول اکرم ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جنہیں پروردگار نے پاکیزہ قرار دیا ہے۔ ہم شجرۂ نبوت اور موضع رسالت ہیں۔ ہمارے گھر ملائکہ کی آمد و رفت رہتی ہے۔ ہمارا گھرانہ رحمت کا ہے اور ہم علم کا معدن ہیں۔ (الدرالمنثور ۶ ص ۶۰۶ از ضحاک بن مزاحم)۔

۱۵۵۔ رسول اکرم۔ جو شخص بھی اس سرخ لکڑی کو دیکھنا چاہتا ہے جسے مالک نے اپنے دست قدرت سے بویا ہے اور اس سے متمسک رہنا چاہتا ہے اس کا فرض ہے کہ علی (ع) اور ان کی اولاد کے ائمہ سے محبت کرے کہ یہ سب خدا کے منتخب اور پسندیدہ بندے ہیں اور ہر گناہ اور ہر خطا سے معصوم ہیں۔( امالی صدوق (ر) ص ۴۶۷ / ۲۶ ، عیون اخبار الرضا ص ۵۷ / ۲۱۱ از محمد بن علی التمیمی )۔

۱۵۶۔ امام علی (ع) ! پروردگار نے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اس لئے کہ وہ معصوم اور پاکیزہ کردار ہیں اور کسی معصیت کا حکم نہیں دے سکتے ہیں اس کے بعد اس نے اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے کہ وہ بھی معصوم اور پاکیزہ کردار ہیں اور کسی معصیت کا حکم نہیں دے سکتے ہیں ( خصال ص ۱۳۹ / ۱۵۸ ، علل الشرائع ص ۱۲۳ ، کتاب سلیم بن قیس ۲ ص ۸۸۴ / ۵۴)۔

۱۵۷۔ امام علی (ع)۔ پروردگار نے ہم اہلبیت (ع) کو فضیلت عنایت فرمائی ہے اور کیوں نہ ہوتا جبکہ اس نے ہمارے بارے میں آیت تطہیر نازل کی ہے اور ہمیں تمام برائیوں سے پاکیزہ قرار دیا ہے، چاہے کھلی ہوئی ہوں یا مخفی ہوں ، ہم ہی میں جو حق کے راستہ پر ہیں۔ ( تاویل الآیات الظاہرہ ص ۴۵۰)۔

۱۵۰۔ امام حسن (ع)۔ ہم ہ اہلبیت (ع) ہیں جنہیں مالک نے اطاعت کے ذریعہ محترم بنایا ہے اور ہمیں منتخب اور مصطفیٰ و مجتبی قرار دیا ہے۔ ہم سے ہر رجس کو دور رکھا ہے اور ہمیں مکمل طور پر پاکیزہ قرار دیا ہے۔ اور شک رجس ہے لہذا ہمیں خدایا دین خدا کے بارے میں کبھی شک نہیں ہوسکتا ہے۔ اس نے ہمیں ہر طرح کے انحراف اور گمراہی سے پاکیزہ رکھا ہے۔( امالی طوسی (ر) ص ۵۶۲ / ۱۱۷۴ از عبدالرحمٰان بن کثیر )۔

۱۵۹۔ امام باقر (ع) ! ہماری توصیف ممکن نہیں ہے۔ ان کی توصیف کون کرسکتا ہے جن سے اللہ نے ہر رجس اور شک کو دور رکھا ہے۔( کافی ۲ ص ۱۸۲ / ۱۶)۔

۱۶۰۔ امام صادق (ع) ! انبیاء اور اولیاء کی زندگی میں کوئی گناہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ سب معصوم اور مطہر ہوتے ہیں۔( خصال ص ۶۰۸ / ۹)۔

۱۶۱۔ امام صادق (ع) ! شک اور معصیت کی جگہ جہنم ہے اور ان کا تعلق کسی طرح بھی ہم سے نہیں ہے۔( کافی ۲ ص ۴۰۰ / ۵)۔

۱۶۲۔ امام صادق (ع) ! آیت تطہیر میں رجس سے مراد ہر طرح کا شک ہے۔(معانی الاخبار ۱۳۸ / ۱)۔

۱۶۳۔ امام رضا (ع) ! امامت وہ مرتبہ ہے جسے پروردگار نے جناب ابراہیم (ع) کو نبوت کے بعد عنایت فرمایا ہے اور تیسرا مرتبہ خلت کا ہے، امامت ہی کے ذریعہ انہیں مشرف کیا ہے اور اس ذریعہ سے ان کے ذکر کو محترم بنایا ہے۔’ انی جاعلک للناس اماما‘۔

خلیل خدا نے اس مرتبہ کو پانے کے بعد کمال مسرت سے گزارش کی کہ خدایا اور میری ذریت؟ فرمایا یہ عہدہ ظالموں تک نہیں جا سکتا ہے لہذا آیت کریمہ نے قیامت تک کہ ظالموں کی امامت کو باطل قرار دے دیا ہے اور یہ صرف منتخب افراد کا حصّہ ہو گئی ہے۔ اس کے بعد پروردگار نے اسے ان کی اولاد کے پاکیزہ افراد کا حصہ قرار دیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ ’ ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب جیسی اولاد عطا فرمائی ہے اور سب کو صالح قرار دیا ہے’— پھر ارشاد ہوا‘ ہم نے انہیں امام بنایا ہے کہ ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت دیں اور ان کی طرف وحی کی ہے کہ نیکیاں انجام دیں۔ نماز قائم کریں۔ زکٰوة ادا کریں اور یہ سب ہمارے عبادت گذار بندے تھے۔( کافی ۱ ص ۱۹۹ / ۱ ، کمال الدین ص ۶۷۶ / ۳۱ امالی صدوق (ر) ۵۳۷ / ۱ ، معانی الاخبار ۹۷ / ۲ ، عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۲۱۷ از عبدالعزیز بن مسلم)۔

۱۶۴۔ امام ہادی (ع) زیارت جامعہ میں فرماتے ہیں۔ آپ حضرات سب ائمہ راشدین مہدی ، معصوم اور مکرم ہیں ، پروردگار نے آپ حضرات کو لغزش سے محفوظ رکھا ہے۔ فتنوں سے بچا کر رکھا ہے، برائیوں سے پاک رکھا ہے ارو آپ سے ہر رجس کو دور کر کے پاک و پاکیزہ قرار دیا ہے۔(تہذیب ۶ ص ۹۷ /۱۷۷ ، الفقیہ ۲ ص ۶۱۱ / ۳۲۱۳ ، فرائد السمطین ۲ ص ۱۸۰ ، عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۲۷۳ ، از موسیٰ بن عمران نجفی ، غالباً یہ موسیٰ بن عبداللہ ہیں )۔

۲۔ ہم پلہ قرآن

۱۶۵۔ زید بن ارقم کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم نے مکہ و مدینہ کے درمیان خم نامی مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا اور حمد و ثنائے الہی کے بعد وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! میں بھی ایک بشر ہوں اور قریب ہے کہ میرے پاس داعی الہی آ جائے اور میں اس کی آواز پر لبیک کہتا ہوا چلا جاؤں تو آگاہ رہنا کہ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک کتاب خدا جس میں نور اور ہدایت ہے اسے پکڑے رہو اور اس سے وابستہ رہو۔ یہ کہہ کر اس کے بارے میں ترغیب و تنبیہ فرمائی۔ اس کے بعد فرمایا کہ اور ایک میرے اہلبیت (ع) ہیں جن کے بارے میں تمھیں خدا کو یاد دلا رہا ہوں اور اس جملہ کو تین مرتبہ دہرایا۔ (صحیح مسلم ۴ / ۱۸۷۳۔ ۲۴۰۸ ، سنن دارمی ۲/ ۸۸۹ / ۳۱۹۸ ، مسند ابن حنبل ۷/ ۷۵ / ۱۹۲۸۵ ، سنن کبریٰ ۱۰ / ۱۹۴ / ۲۰۳۳۵ ، تہذیب تاریخ دمشق ۵ ص ۴۳۹ فرائد السمطین ۲ ص ۲۳۴ / ۵۱۳۔

۱۶۶۔ رسول اکرم نے فرمایا کہ میں تمھارے درمیان وہ چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جن سے متمسک رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے، ان میں ایک دوسرے سے بزرگ تر ہے اور وہ کتاب خدا ہے جو ایک ریسمان ہدایت ہے جس کا سلسلہ آسمان سے زمین تک ہے اور ایک میری عترت اور میرے اہلبیت (ع) ہیں اور یہ دونوں اس وقت تک جدا نہ ہوں گے جب تک میرے پاس حوض کوثر پر وارد نہ ہو جائیں۔ دیکھو اس کا خیال رکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ (سنن ترمذی ۵ ص ۶۶۳ / ۳۷۸۸ از زید بن ارقم )۔

۱۶۷۔ زید بن ارقم ! جب رسول اکرم حجة الوداع سے واپسی پر مقام غدیر خم پر پہنچے تو آپ نے درختوں کے نیچے زمین صاف کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا کہ گویا میں داعی الہی کو لبیک کہنے جا رہا ہوں لہذا یاد رکھنا کہ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جن میں ایک دوسرے سے بڑی ہے، کتا ب خدا اور میری عترت لہذا یہ خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہو جائیں اور یہ کہہ کر فرمایا کہ اللہ میرا مولا ہے اور میں تمام مومنین کا مولی ٰ ہوں اور پھر علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی (ع) بھی مولا ہے، خدا اسے دوست رکھنا جو اس سے دوستی رکھے اور اس اپنا دشمن قرار دے دینا جو اس سے دشمنی کرے۔ (مستدرک ۳ ص ۱۱۸ / ۴۵۷۶ ، خصائص نسائی ۱۵۰ / ۷۹ ، کمال الدین ۲۳۴ / ۲۵۰ ، الغدیر ۱ ص ۳۰ ، ۳۴ ، ۳۰۲)۔

۱۶۸۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم کو حج کے موقع پر روز عرفہ یہ خطبہ ارشاد فرماتے دیکھا ہے کہ ایہا الناس ! —میں تم میں انہیں چھوڑے جا رہا ہوں جن سے متمسک رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ کتاب خدا اور میرے عترت و اہلبیت (ع)۔ (سنن ترمذی ۵ ص ۶۶۲ / ۳۷۸۶ )۔

۱۶۹۔ رسول اکرم۔ ایہا الناس میں آگے آگے جا رہا ہوں اور تم سب کو میرے پاس حوض کوثر پر آنا ہے جہاں میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا لہذا اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سراپروردگار کے ہاتھوں میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے لہذا اس سے متمسک رہنا اور ہرگز نہ گمراہ ہونا اور نہ اس میں کوئی تبدیلی پیدا کرنا۔( تاریخ بغداد ۸ ص ۴۴۲ از حذیفہ بن اسید)۔

۱۷۰۔ حذیفہ بن اسید الغفار ی ! جب رسول اکرم حجة الوداع سے فارغ ہو کر چلے تو آپ نے اصحاب کو منع کیا کہ درختوں کے نیچے پناہ نہ لیں اور اس جگہ کو صاف کرا کے آپ نے نماز ادا فرمائی اور پھر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ ایہا الناس ! مجھے خدائے لطیف و خیبر نے خبر دی ہے کہ ہر نبی کی زندگی اس سے پہلے والے سے نصف رہی ہے لہذا قریب ہے کہ میں بلا لیا جاؤں اور چلا جاؤں اور مجھ سے بھی سوال کیا جائے گا اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا تو بتاؤ کہ تم کیا کہنے والے ہو؟ لوگوں نے عرض کی کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے تبلیغ فرمائی اور اس راہ میں زحمت گوارا فرمائی اور ہمیں نصیحت فرمائی۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔

فرمایا کیا اس بات کی گواہی نہ دو گے کہ خدا وحدہ لا شریک ہے اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں ؟ اور جنت و جہنم برحق ہیں اور موت بھی برحق ہے اور موت کے بعد کی زندگی بھی برحق ہے اور بلاشبہ قیامت آنے والی ہے اور خدا لوگوں کو قبروں سے نکالنے والا ہے؟ سب نے عرض کی بیشک ہم گواہی دیتے ہیں ! فرمایا خدا یا تو بھی گواہ رہنا۔

اس کے بعد فرمایا کہ لوگو ! خدا میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان کے نفوس سے اولیٰ ہوں اور جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی (ع) بھی مولا ہے۔ خدایا جو اس سے محبت کرے اس سے محبت کرنا اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کرنا۔

پھر فرمایا ایہا الناس ! میں آگے آگے جا رہا ہوں اور تم سب میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو۔و ہ حوض جس کی وسعت بصرہ اور صنعاء کی مسافت سے زیادہ ہے اور وہاں ستاروں کے عدد کے برابر چاندی کے پیالے رکھے ہوئے ہیں اور میں تمھارے والد ہونے کے بعد تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا کہ تم نے میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا۔ ان میں ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سراخداکے ہاتھوں میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے۔ اس سے وابستہ رہنا کہ گمراہ نہ ہو اور اس میں تبدیلی نہ کرنا۔ دوسرا ثقل میری عترت اور میری اہلبیت (ع) ہیں۔ خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبردی ہے کہ ان کا سلسلہ ہرگز ختم نہ ہو گا جب تک میرے پاس حوض کوثر پر نہ وارد ہو جائیں۔( المعجم الکبیر ۳ ص ۱۸۰/ ۳۵۲)۔

۱۷۱۔ معروف بن خربوذ نے ابوالطفیل عامر بن واثلہ کے حوالہ سے حذیفہ بن اسید الغفاری سے نقل کیا ہے کہ جب رسولاکرم حجة الوداع سے واپس ہوئے تم ہم لوگ آپ ہمراہ تھے۔ جحفہ پہنچ کر آپ نے اصحاب کو قیام کا حکم دیا اور سب اونٹوں سے اتر آئے پھر نماز کی اذان ہوئی اور آپ نے اصحاب کے ساتھ دو رکعت نماز ( ظہر قصر ) ادا فرمائی۔ اس کے بعد ان کی طرف رخ کر کے فرمایا کہ مجھے خدائے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ مجھے بھی مرنا ہے اور تم سب کو مرناہے اور گویا کہ میں اب داعی الہی کو لبیک کہنے والا ہوں اور مجھ سے میری رسالت کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا اور کتاب خدا اور حجت الہی کو چھوڑے جا رہا ہوں اس کے بارے میں بھی سوال ہو گا اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا تو بتاؤ کہ تم لوگ پروردگار کی بارگاہ میں کیا کہو گے ؟ لوگوں نے عرض کی کہ ہم آپ کی تبلیغ ، کوشش اور نصیحت کی گواہی دیں گے خدا آپ کو جزائے خیر دے۔

فرمایا کیا توحید الہی ، میری رسالت ، جنّت و جہنم اور حشر و نشر کے برحق ہونے کی گواہی نہ دو گے؟ عرض کی بیشک گواہی دیں گے ، فرمایا خدا یا تو بھی ان کے بیان پرگواہ رہنا۔

اچھا اب میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں اس امر کا گواہ ہوں کہ خدا میرا مولا ہے اور میں ہر مسلمان کا مولا ہوں اور مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہوں کیا تم لوگ بھی اس کا اقرار کرتے ہو اور اس کی گواہی دیتے ہو؟

سب نے عرض کی۔ بیشک ہم گواہی دیتے ہیں۔

فرمایا تو آگاہ ہو جاؤ کہ جس کا میں مولا ہوں۔ اس کا یہ علی (ع) بھی مولا ہے۔

یہ کہہ کر علی (ع) کو اس قدر بلند کیا کہ سفیدی بغل نمایاں ہو گئی۔ اور فرمایا خدایا اس سے محبت کرنا جو اس سے محبت کرے اور اس سے عداوت رکھنا جو اس سے دشمنی کرے۔ اس کی مدد کرنا جو اس کی مدد کرے اور اسے چھوڑ دینا جو اس سے الگ ہو جائے۔

آگاہ ہو جاؤ کہ میں تم سے آگے آگے جا رہا ہوں اور تم میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو۔ یہی کل میرا حوض ہو گا اور اس کی وسعت بصرہ سے صنعاء کے برابر ہو گی جس پرستاروں کے برابر چاندی کے پیالے رکھے ہوں گے اور میں تم سے اس کے بارے میں سوال کروں گا جس کا آج گواہ بنا رہا ہوں اور پوچھوں گا کہ تم نے میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ لہذا خبردار اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کرو گے اور میرے پاس کس طرح حاضر ہو گے۔

لوگوں نے عرض کی کہ حضور یہ ثقلین کیا ہیں ؟ فرمایا ثقل اکبر کتاب خدا ہے جو ایک ریسمان ہدایت ہے جس کا ایک سرکار تمھارے ہاتھوں میں ہے اور ایک پروردگار کے ہاتھوں میں ہے اس میں تمام ماضی اور قیامت تک کے مستقبل کا سارا علم جود ہے۔

اور دوسرا ثقل قرآن کا حلیف یعنی علی (ع) بن ابی طالب (ع) اور ان کی اولاد ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہو جائیں۔

معروف بن خَرَّبوز کہتے ہیں کہ میں نے اس کلام کو امام ابوجعفر (ع) کے سامنے پیش کیا تو فرمایا کہ ابوالطفیل نے سچ کہا ہے۔ اس حدیث کو میں نے اسی طرح کتاب علی (ع) میں پایا ہے اور ہم اسے پہچانتے ہیں۔ (خصال ص ۶۵ / ۹۸)

۱۷۲۔ رسول اکرم ! میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہو گے ، ایک کتاب خدا ہے اور ایک میری عترت اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہو جائیں۔( مجمع الزوائد ۹ ص ۲۵۶ / ۱۴۵۸ ، کمال الدین ص ۲۳۵ / ۴۷ از ابوہریرہ۔ اس روایت میں کتاب اللہ کے ساتھ نسبتی کے بجائے سنتی ہے)۔

۱۷۳۔ رسول اکرم ! میں نے تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑ دیا ہے جن میں ایک دوسرے سے بزرگ تر ہے۔ کتاب خدا ہے جس کا سلسلہ آسمان سے زمین تک ہے اور میری عترت و اہلبیت (ع) ہیں۔آگاہ ہو جاؤ کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کو ثر پر وارد ہو جائیں۔( مسند ابن حنبل ۴ ص ۵۴ / ۱۱۲۱ از ابوسعید خدری)۔

۱۷۴۔ ابوسعید خدری۔ رسول اکرم نے اپنی زندگی کا آخری خطبہ مرض الموت میں فرمایا تھا جب آپ حضرت علی (ع) اور میمونہ پر تکیہ دیکر تشریف لائے اور منبر پر بیٹھ فرمایا کہ ایہا الناس۔ میں تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑے جا رہا ہوں — اور کہہ کر خاموش ہوئے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ ثقلین کون ہیں ؟ جسے سنکر آپ کو غصہ آ گیا اور چہرہ سرخ ہو گیا۔ فرمایا کہ میں تمھیں ثقلین کے بارے میں باخبر کرنا چاہتا تھا لیکن حالات نے اجازت نہیں دی تو اب سنو۔ ایک وہ ریسمان ہدایت ہے جس کا ایک سرا خدا سے ملتا ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے۔ اس کے بارے میں اس اس طرح عمل کرنا ہو گا اور وہ قرآن حکیم ہے اور دوسرا ثقل میرے اہلبیت (ع) ہیں۔ خدا کی قسم میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور یہ جانتا ہوں کہ کفار کے اصلاب میں ایسے اشخاص موجود ہیں جن سے تم سے زیادہ امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں اور یاد رکھو خدا گواہ ہے کہ جو شخص بھی اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا پروردگار اسے روز قیامت ایک نور عطا کرے گا جس کی روشنی میں حوض کوثر پر وارد ہو گا اور جوان سے دشمنی کرے گا پروردگار اپنے اور اس کے درمیان حجاب حائل کر دے گا۔( امالی مفید (ر) ۱۳۵ / ۳)۔

۱۷۵۔ محمد بن عبداللہ الشیبانی نے اپنے صحیح اسناد کے ذریعہ ثقہ سے ثقہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام مرض الموت کے دوران گھر سے باہر تشریف لائے اور مسجد کے ستون سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو کر یہ خطبہ ارشاد فرمایا کہ ایہا الناس کوئی نبی دنیا سے نہیں گیا مگر یہ کہ اس نے اپنا ترکہ چھوڑا ہے اور میں بھی تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑے جا رہا ہوں ، ایک کتاب خدا ہے اور ایک میرے اہلبیت (ع) ، یاد رکھو جس نے انہیں ضائع کر دیا خدا اسے برباد کر دیگا۔( احتجاج ۱ ص ۱۷۱ / ۳۶)

۱۷۶۔ زید بن علی (ع) نے اپنے آباء کرام کے حوالہ سے امیر المؤمنین (ع) سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ کا مرض الموت سنگین ہو گیا اور آپ کا گھر اصحاب سے بہر گیا تو آپ نے فرمایا کہ حسن (ع) و حسین (ع) کو بلاؤ۔ میں نے دونوں کو طلب کیا اور آپ نے دونوں کو گلے لگا کر بوسہ دینا شروع کر دیا یہاں تک کہ غشی طاری ہو گئی۔ حضرت علی (ع) نے دونوں کو سینہ سے اٹھا لیا تو آپ نے آنکھیں کھول دیں اور فرمایا کہ انہیں رہنے دو تا کہ یہ مجھ سے سکون حاصل کریں اور میں ان سے سکون حاصل کروں۔ اس لئے کہ میرے بعد انہیں قوم کی بدنفسی کا سامنا کرنا ہے۔

پھر فرمایا ایہا الناس ! میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں کو چھوڑا ہے، کتاب خدا اور میری سنت و عترت و اہلبیت (ع) کتاب خدا کو ضائع کرنے والا میری سنت کو برباد کرنے والا ہے اور سنت کو ضائع کرنے والا عترت کو ضائع کرنے والا ہے۔

یاد رکھو کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میں حوض کوثر پر ملاقات کروں۔(مسند زید ص ۴۰۴)۔

۱۷۷۔ سعد الاسکاف ! میں نے امام ابوجعفر (ع) سے اس قول رسول کے بارے میں دریافت کیا کہ میں تم میں ثقلین کو چھوڑے جا رہا ہوں ان سے وابستہ رہنا اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہو جائیں ؟ تو حضرت نے فرمایا کہ کتاب خدا بھی ہمیشہ رہے گی اور ہم میں سے ایک رہنما بھی رہے گا جو اس کی طرف رہنمائی کرتا رہے گا یہاں تک کہ دونوں حوض کوثر پر وارد ہو جائیں۔( بصائر الدرجات ۶ / ۴۱۴)۔

۱۷۸۔ امام علی (ع) نے جناب کمیل کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ کمیل ہم ثقل اصغر ہیں اور قرآن خدا ثقل اکبر ہے اور رسول اکرم نے یہ بات قوم کو بار بار سنادی ہے اور نماز جماعت کے بعد اس کا مسلسل اعلان فرما دیا ہے۔ ایک دن آپ نے سارا مجمع کے سامنے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ لوگو! میں خدا کی طرف سے یہ بات پہنچا رہا ہوں اور یہ میری ذاتی بات نہیں ہے لہذا جو تصدیق کرے گا وہ اللہ کیلئے کرے گا اور اسے صلہ میں جنت ملے گی اور جو تکذیب کرے گا وہ اللہ کی تکذیب کرے گا اور اس کا انجام جہنم ہو گا۔

اس کے بعد حضرت نے مجھے آواز دی اور مجھے اپنے سامنے کھڑا کیا اور اپنے سینہ سے لگا لیا اور حسن (ع) و حسین (ع) کو داہنے بائیں رکھ کر آواز دی ایہا الناس۔ ! جبریل امین نے یہ حکم پروردگار پہنچایا ہے کہ میں تمھیں یہ بتا دوں کہ قرآن ثقل اکبر ثقل اصغر کی گواہی دیتا ہے اور ثقل اصغر ثقل اکبر کا شاہد ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور خدا کی بارگاہ میں حاضری کے وقت تک ساتھ رہیں گے اس کے بعد وہ ان دونوں اور بندوں کے درمیان اپنا فیصلہ سنائے گا۔ (بشارة المصطفیٰ ص ۲۹)۔

۱۷۹۔ عمر بن ابی سلمہ ناقل ہیں کہ امیر المؤمنین (ع) نے انصار و مہاجرین کی جماعت کے سامنے ارشاد فرمایا کہ میں تم سے خدا کو گواہ کر کے دریافت کرتا ہوں کہ کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ رسول اکرم نے آخری خطبہ میں فرمایا میں فرمایا تھا کہ ایہا الناس ! میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جن سے تمسک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ کتاب خدا اور میری عترت اہلبیت (ع)۔ خدائے لطیف و خبیر نے مجھے بتایا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہو جائیں۔ لوگوں نے کہا بیشک ہمیں معلوم ہے اور حضور نے ہمارے سامنے فرمایا ہے۔( کتاب سلیم بن قیس ۲ ص ۷۶۳)

۱۸۰۔ ہشام بن حسّان۔ میں نے امام حسن (ع) کو بیعت خلافت کے بعد یہ خطبہ دیتے سناہے کہ ہم اللہ کے غالب آنے والے گروہ ہیں اور رسول اکرم کی عترت و اقربا ہیں۔ہمیں ان کے اہلبیت (ع) طیبین و طاہرین ہیں اور ثقلین کی ایک فرد ہیں جنہیں رسول اکرم نے اپنی امت میں چھوڑ ا ہے اور دوسری شے کتاب خدا ہے جس میں ہر شے کی تفصیل ہے اور باطل کا اس کی طرف کسی رخ سے گذر نہیں ہے۔ اس کی تفسیر میں ہم پر اعتماد کیا جانا چاہیئے کہ ہم گمان سے بات نہیں کرتے ہیں بلکہ یقین سے بات کرتے ہیں اور اس کے حقائق کا یقین رکھتے ہیں۔( امالی طوسی (ر) ۱۲۱ / ۱۸۸۔۶۹۱ / ۱۴۶۹ ، امالی مفید (ر) ۴ ص ۳۴۹ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۰۶ ، ینابیع المودة ۱ ص ۷۴ ، الاحتجاج ۲ ص ۹۴ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۶۷)۔

۱۸۱۔ثورین ابی فاختہ نے امام ابوجعفر (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے عمرو بن ذرالقاص سے فرمایا کہ تم ان احادیث کے بارے میں کیوں گفتگو نہیں کرتے جو تمھاری طرف ساقط ہوئی ہیں ؟ ابن ذر نے کہا آپ فرمائیں۔ فرمایا انی تارک فیکم الثقلین … میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جن میں ایک دوسرے سے عظیم تر ہے ایک کتاب اللہ ہے اور ایک میری عترت اور اہلبیت (ع) جب تک ان دونوں سے وابستہ رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔

دیکھو ابن ذر ! کل جب رسول اکرم سے ملاقات کرو گے اور انھوں نے پوچھ لیا کہ ثقلین کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے تو کیا جواب دو گے؟ یہ سننا تھا کہ ابن ذر نے رونا شروع کر دیا یہاں تک کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی اور کہا کہ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ اکبر کو پارہ پارہ کر دیا اور اصغر کو قتل کر دیا۔ ( رجال کشی ۲ ص ۴۸۴ / ۳۹۴)۔

۱۸۲۔ امام باقر (ع) فرماتے ہیں کہ مولائے کائنات نے نہروان سے واپسی پر کوفہ میں خطبہ ارشاد فرمایا جب آپ کو یہ اطلاع ملی کہ معاویہ آپ پر لعنت کر رہا ہے اور گا لیاں دے رہا ہے اور آپ کے اصحاب کو قتل کر رہا ہے تو حمد و ثنائے الہی اور صلوات و سلام کے بعد اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر قرآن مجید کا یہ حکم نہ ہوتا کہ نعمت پروردگار کو بیان کرتے رہو تو میں ا س وقت یہ خطبہ نہ دیتا لیکن اب حکم خدا کی تعمیل ہیں یہ کہہ رہا ہوں کہ پروردگار تیرا شکر ہے ان نعمتوں پر جن کا شمار نہیں اور اس فضل و کرم پر جو بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔

ایہا الناس ! میں عمر کی ایک منزل تک پہنچ چکا ہوں اور قریب ہے کہ دنیا سے رخصت ہو جاؤں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے میرے معاملات کو نظر انداز کر دیا ہے اور میں تمھارے درمیان انہیں دو چیزوں کو چھوڑے جا رہا ہوں جنہیں رسول اکرم نے چھوڑا ہے یعنی کتاب اور میری عترت اور یہی عترت ہادی راہ نجات۔ خاتم الانبیاء، سید الانبیاء اور نبی مصطفی کی بھی عترت ہے۔( معانی الاخبار ۵۸ / ۹، بشارة المصطفیٰ ص ۱۲ )

۱۸۳۔ امام علی (ع)۔ پروردگار نے ہمیں پاک اور معصوم بنایا ہے اور ہمیں اپنی مخلوقات کا نگراں اور زمین کی حجت قرار دیا ہے۔ ہمیں قرآن کے ساتھ رکھا ہے اور قرآن کو ہمارے ساتھ۔ نہ ہم اس سے جدا ہوسکتے ہیں اور نہ وہ ہم سے جدا ہوسکتا ہے۔( کافی ۱ ص ۱۹۱ ، کمال الدین ۲۴۰ / ۶۳ ، بصائر الدرجات ۸۳ / ۶ از سلیم بن قیس الہلالی )

تحقیق حدیث ثقلین

۱۔ سند حدیث ثقلین

یہ حدیث ثقلین جس میں رسول اسلام نے اہلبیت (ع) کو قرآن مجید کا شریک اور ہم پلہ قرار دے کر امت اسلامیہ کو ان سے تمسک کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ ان متواتر احادیث میں ہے جس پر تمام رواة اور محدثین نے اتفاق کیا ہے اور قطعی طور پر ۲۳۔ اصحاب رسول نے اسے نقل کیا ہے جن کے اسماء گرامی بالترتیب یہ ہیں۔

ابوایوب انصاری۔ ابوذر غفاری، ابورافع غلام رسول اکرم ابوسعید الخدری ، ابوشریح الخزاعی، ابوقدامہ الانصاری ، ابولیلی انصاری ، ابو المیثم ابن التبیان ، ابوہریرہ، ام سلمہ ،ام ہانی ، انس بن مالک، البراء بن عازب ، جابر بن عبداللہ الانصاری جبیر بن مطعم، حذیفہ بن اسید الغفاری ، حذیفہ بن الیمان، خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین ، زید بن ارقم – زید بن ثابت ، سعد بن ابی وقاص ، سلمان الفارسی ، سہل بن سعد، ضمرہ الاسلمی ، طلحہ بن عبیداللہ التمیمی ، عامر بن لیلیٰ ، عبدالرحمان بن عوف ، عبداللہ بن حنطب ، عبداللہ بن عباس ، عدی بن حاتم ، عقبہ بن عامر ، عمربن الخطاب، عمرو بن العاص ( صحیح مسلم ۴ ص۱۸۷۴، سنن ترمذی۵ /۶۶۲ / ۲۷۸۶ / ۲۷۸۸ ، سنن دارمی ۲ / ۸۸۹ / ۳۱۹۸ ، مسند ابن حنبل ۴/۳۰ / ۱۱۱۰۴ / ۳۶ / ۱۱۱۳۱۔ ۵۴ /۱۱۲۱۱ ، ۷ ص ۸۴ / ۱۹۳۳۲ ، ۸ ص ۱۳۸ / ۲۱۶۳۴ ، ص ۱۵۴ / ۲۱۷۱۱ ، ۱۱۸ / ۱۱۵۶۱ ، مستدرک ۳ ص ۱۱۸ / ۴۵۷۷ ، حصائص نسائی ۱۵۰ / ۷۹ ، تاریخ بغداد ۸ ص ۴۲۲ الطبقات الکبریٰ ۲ ص ۱۹۶ ، المعجم الکبیر ۳ ص ۶۵ ،۶۷ / ۲۶۷۸ ، ۲۶۸۱ ، ۲۶۸۳ ، الدرالمنثور ۲ ص ۶۰ ، کنز العمال ۱ ص ۱۷۲ ، ینابیع المودة ۱ ص ۹۵ / ۱۲۶ ، مجمع الزوائد ۹ ص ۲۵۷ ، اسدالغابہ ۳ / ۱۳۶ / ۲۷۳۹ ص ۲۱۹ / ۲۹۰۷ ، الصواعق المحرقہ ص ۲۲۶ ، البدایتہ والنہایہ ۷ ص ۳۴۹ ، جامع الاصول ۹ ص ۱۵۸ ، احقاق الحق ۹ ص ۳۰۹ ، ۳۷۵ ، نفحات الازہار خلاصہ عبقات الانوار ۲ ص ۸۸ ، ۲۲۷ ، الخصال ۶۵ / ۹۷ ، ۴۵۹ / ۲ ، امالی طوسی (ر) ۱ ص ۲۵۵ ۲ ص ۴۹۰ ، کمال الدین ۲۳۴ ، ۲۴۱ ، معانی الاخبار ۹۰/ ۳ ، امالی مفید ص ۴۶ / ۶ ، امالی صدوق ص ۳۳۹ ارشاد ۱ /۲۳۳ ، کفایتہ الاثر ص ۹۲ ، ۱۲۸ ، ۱۳۷۔

اس کے علاوہ صاحب عبقات الانوار کے بیان کے مطابق ۱۹ تابعین ہیں جنھوں نے اس حدیث شریف کو نقل کیا ہے اور تین سو سے زیادہ علماء و مشاہیر و حافظین احادیث ہیں جنھوں نے دوسری صدی سے چودھویں صدی تک اپنی کتابوں اور اپنے بیانات میں اس کا ذکر کیا ہے۔( نفحات الازہار ۲ ص ۹۰)۔

واضح رہے کہ صاحب نہایتہ نے ثقلین کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ ان کا اختیار کرنا اور ان کے مطابق عمل کرنا بہت سنگین کام ہے اور اس کے علاوہ ہر گرانقدر چیز کو ثقل کہا جاتا ہے اور پیغمبر اکرم نے انہیں ثقلین اسی اعتبار سے قرار دیا ہے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ صاحب عبقات کے بیان کے مطابق سخاوی نے ’ استجلاب ارتقاء الغرف‘ میں اور سہروردی نے ’ جواہر العقدین ‘ میں بیس اصحاب کے روایت کرنے کا اعتراف کیا ہے حالانکہ در حقیقت ان کی تعداد ۳۳ ، ہے جیسا کہ گذشتہ سطروں میں تفیصلی تذکرہ کیا جا چکا ہے۔

صحابہ کرام ، تابعین ، علماء و محدثین کے علاوہ ائمہ اہلبیت (ع) نے بھی اس حدیث مبارک کا مسلسل تذرکہ فرمایا ہے اور اس کی اجمالی فہرست یہ ہے۔

جناب فاطمہ (ع) سے یہ حدیث ینابیع المودة ۱ ص ۱۲۳ ، نفحات الازہار ۲ ص ۲۳۶ میں نقل کی گئی ہے۔

# امام حسن (ع) سے ینابیع المودة ۱ ص ۷۴ ، کفایة الاثر ص ۱۶۲ ، نفحات الازہار ۲ ص۶۷ میں نقل کی گئی ہے۔

# امام حسین (ع) سے کمال الدین ص ۲۴۰ ۶۴ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ / ۶۷ میں نقل کی گئی ہے۔

# امام محمد (ع) باقر سے کافی ۳ ص ۴۳۲ امالی طوسی (ر) ص ۱۶۳ ، روضة الواعظین ص ۳۰۰ میں نقل کی گئی۔

# امام جعفر صادق (ع) سے کافی ۱ ص ۲۹۴ ، کمال الدین ۱ ص ۲۴۴ ، تفسیر عیاشی ۱ ص ۵/۹ میں نقل کی گئی ہے۔

# امام علی (ع) رضا سے عیون الاخبار ۲ ص ۵۸ بحار ۱۰ ص ۳۶۹ میں نقل کی گئی ہے۔

# امام علی (ع) نقی سے تحف العقول ص ۴۵۸ ، الاحتجاج ۲ ص ۴۸۸ میں نقل کی گئی ہے۔

۲۔ تاریخ صدور حدیث

حدیث مبارک کے صدور اور اس کی مناسبت کے بارے میں تحقیق کی جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضور نے اس کی بار بار تکرار فرمائی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ امت اسلامیہ کا سماجی اور سیاسی مستقبل انہیں سے وابستہ ہے اور ان کے بغیر تباہی اور گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ذیل میں ان مقامات کی جمالی نشاندہی کی جا رہی ہے۔

۱۔ حجة الوداع کے موقع پر روز عرفہ ( سنن ترمذی ۵ / ۲۶۲ / ۳۷۸۶)۔

۲۔ مسجد خیف میں۔ اس کے راوی سلیم بن قیس ہیں۔(ینابیع المودة ۱ ص ۱۰۹ / ۳۱)۔

۳۔ غدیر خم میں۔ اس کے راوی زید بن ارقم ہیں۔( مستدرک ۳ ص ۱۱۸ / ۴۵۷۶ / ۳ ص ۶۱۳ / ۶۲۷۲ ، خصائص نسائی ص ۱۵۰ ، کمال الدین ص ۲۳۴ / ۴۵ ص ۲۳۸ / ۵۵)۔

واضح رہے کہ صاحب مستدرک نے دونوں مقامات پر اس امر کی تصریح کی ہے کہ اس حدیث کی سند بخاری اور مسلم دونوں کے اصول پر صحیح ہے مگر ان حضرات نے اسے اپنی کتاب میں جگہ نہیں دی ہے۔

۴۔ مرض الموت کے دوران حجرہ کے اندر جب حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا۔ یہ روایت جناب فاطمہ (ع) سے نقل کی گئی ہے۔( ینابیع المودة ۱ ص ۱۲۴ ، مسند زید ص ۴۰۴)

نوٹ ! صواعق محرقہ ص ۱۵۰ پر ابن حجر کا بیان ہے کہ حدیث تمسک کے مختلف طرق ہیں جن میں اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ کرام سے نقل کیا گیا ہے اور بعض میں یہ تذکرہ ہے کہ حضور نے اسے حجة الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں فرمایا ہے۔ بعض میں مدینہ میں حجرہ کے اندر کا ذکر ہے بعض روایات میں حج سے واپسی پر غدیر خم کا حوالہ ہے اور ان میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ اس بات کا امکان بہر حال پایا جاتا ہے کہ حضور نے یہ بات بار بار ارشاد فرمائی ہو کہ کتاب عزیز اور عترت طاہرہ (ع) دونوں اس قابل ہیں کہ ان کے بارے میں تاکید اور اہتمام سے کام لیا جائے۔

۳۔ خلفاء اللہ

۱۸۴۔ کمیل بن زیاد راوی ہیں کہ امیر المؤمنین (ع) میرا ہاتھ پکڑ کر صحرا کی طرف لے گئے اور وہاں جا کر ایک آہ سرد کھینچ کر فرمایا ’ بیشک زمین حجت خدا کو قائم رکھنے والے سے خالی نہیں ہوسکتی ہے چاہے ظاہر بظاہر ہو یا پردۂ غیب میں ہوتا کہ اللہ کے دلائل و بینات باطل نہ ہونے پائیں۔ مگر یہ کتنے ہیں اور کہاں ہیں ؟ خدا کی قسم عدد کے اعتبار سے بہت تھوڑے ہیں اگر چہ قدر و منزلت کے اعتبار سے بہت عظیم ہیں۔ انہیں کے ذریعہ پروردگار اپنے حجج و بینات کا تحفظ کرتا ہے یہاں تک کہ اپنے امثال کے حوالہ کر دیں اور اپنے جیسے افراد کے دلوں میں ثابت کر دیں۔ انہیں علم نے حقیقت بصیرت تک پہنچا دیا ہے اور روح یقین ان کے اندر پیوست ہو گئی ہے۔ جسے دنیادار سخت سمجھتے ہیں وہ ان کے لئے نرم ہے اور جس سے جاہلوں کو وحشت ہوتی ہے اس سے انہیں انس حاصل ہوتا ہے۔ یہ دنیا میں ان اجسام کے ساتھ زندہ رہتے ہیں جن کی روحیں عالم اعلیٰ سے وابستہ رہتی ہیں۔

یہ زمین میں ’ خلفاء اللہ ‘ اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔ ہائے مجھے کس قدر اشتیاق ہے انہیں دیکھنے کا۔ (نہج البلاغہ حکمت ص ۱۴۷)۔

خصال ص ۱۸۶ / ۲۵۷ کمال الدین ص ۲۹۱ ، تاریخ یعقوبی ۲ ص ۲۰۶ ، خصائص الائمہ ص ۱۰۶ ، حلیة الاولیاء ۱ ص ۷۹ ، کنز العمال ۱۰ ص ۲۶۲ / ۲۹۲۹۱ ، امالی الشجری ۱ ص ۶۶ ، مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی ۲ ص ۹۵)۔

۱۸۵۔ امام زین العابدین (ع) دعائے عرفہ میں فرماتے ہیں۔ خدایا رحمت نازل فرما ان پاکیزہ کردار اہلبیت (ع) پر جنہیں تو نے اپنے امر کے لئے منتخب کیا ہے اور اپنے علم کا خزانہ بنایا ہے اور اپنے دین کا محافظ قرار دیا ہے اور وہ زمین میں ’ تیرے خلفاء‘ اور بندوں پر تیری حجت ہیں۔ انہیں ہر رجس اور کثافت سے پاک بنایا ہے اور اپنی بارگاہ کے لئے وسیلہ اور اپنی جنت کے لئے سیدھا راستہ قرار دیا ہے۔( صحیفہ سجادیہ دعاء ص ۴۷ )۔

۱۸۶۔ امام رضا (ع)۔ ائمہ زمین میں پروردگار کے خلفاء ہوتے ہیں۔ کافی ۱ ص ۱۹۳ )۔

۱۸۷۔ علی بن حسان ! امام رضا (ع) سے امام موسیٰ (ع) کاظم کی زیارت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا اطراف قبر میں جس مسجد میں چاہو نماز ادا کرو اور زیارت کے لئے ہر مقام پر اسی قدر کافی ہے’ سلام ہو اولیاء و اصفیاء پروردگار پر۔ سلام ہو امناء و احباء الہی پر۔ سلام ہو انصار و خلفاء اللہ پر۔( الفقیہ ۲ ص ۶۰۸ ، عیون اخبار الرضا (ع) ص۲ ص ۲۷۱ ، کامل الزیارات ص ۳۱۵ ، کافی ۴ ص ۵۷۹)۔

واضح رہے کہ کافی کی روایت میں زیارت قبر امام حسین (ع) کا ذکر کیا گیا ہے۔

۱۸۸۔ امام علی نقی (ع) نے زیارت جامعہ میں ارشاد فرمایا ہے ’ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ حضرات ائمہ راشدین و مہدیین ہیں۔ خدا نے اپنی روح سے آپ حضرات کی تایید کی ہے اور آپ کو زمین پر اپنا خلیفہ انتخاب فرمایا ہے۔ ( تہذیب ۶ ص ۹۷ / ۱۷۷)۔

۴۔ خلفاء النبی

۱۸۹۔ رسول اکرم ! میرے خلفاء۔ اولیاء اور میرے بعد مخلوقات پر حجت پروردگار بارہ افراد ہوں گے۔ اول میرا برادر اور آخر میرا فرزند ! سوال کیا گیا کہ یہ برادر کون ہیں ؟ فرمایا علی (ع) بن ابی طالب ! اور فرزند کون ہے؟ فرمایا وہ مہدی جو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بہر دیگا۔( کمال الدین ص ۲۸۰ / ۲۷ ، فرائد السمطین ۲ ص ۳۱۲ / ۵۶۲ از عبداللہ بن عباس)۔

۱۹۰۔ امام علی (ع) حضرت مہدی (ع) کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ وہ حکم کی زرہ سے آراستہ ہو گا اور اس کے تمام آداب پر عامل ہو گا کہ اس کی طرف متوجہ بھی ہو گا اور اس کی معرفت بھی رکھتا ہو گا اور اس کے لئے اپنے کو فارغ رکھے گا ، گویا اس کا گمشدہ ہے جس کی تلاش جاری ہے اور ایک ضرورت ہے جس کے بارے میں جستجو کر رہا ہے۔ وہ اس وقت غریب و مسافر ہو جائے گا جب اسلام غربت کا شکار ہو گا اور تھکے ماندہ اونٹ کی طرح سینہ زمین پر ٹیک دیا ہو گا اور دم مار رہا ہو گا۔ وہ اللہ کی باقی ماندہ حجتوں کا بقیہ ہے اور اس کے انبیاء کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۲)۔

۱۹۱۔ امیر المومنین (ع) آل محمد کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ائمہ طاہرین اور عترت معصومین ہیں۔ یہی ذریت محترم ہیں اور یہی خلفاء راشدین ہیں۔( مشارق انوار الیقین ص۱۱۸ از طارق بن شہاب )۔

۱۹۲۔ امام صادق (ع) ، ائمہ رسول اکرم کی منزل میں ہوتے ہیں لیکن رسول نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کے لئے وہ چیزیں حلال ہیں جو صرف پیغمبر کے لئے حلال ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہر مسئلہ میں رسول اکرم کی منزلت میں ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۷۰ از محمد بن مسلم )۔

۵۔ اوصیاء نبی

۱۹۳۔ رسول اکرم ! میں سید الانبیاء والمرسلین اور افضل از ملائکہ مقربین ہوں اور میرے اولیاء تمام انبیاء و مرسلین کے اوصیاء کے سردار ہیں۔( امالی صدوق (ر) ص ۲۴۵ ، بشارة المصطفی ٰ ص ۳۴)۔

۱۹۴۔ رسول اکرم ! میں انبیاء کا سردار ہوں اور علی (ع) بن ابی طالب (ع) اوصیاء کے سردار ہیں اور میرے اوصیاء میرے بعد کل بارہ ہوں گے جن کے اول علی (ع) بن ابی طالب ہوں گے اور آخری قائم۔( کمال الدین ص ۲۸۰ ، عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۶۴ ، فرائد السمطین ۲ ص ۳۱۳۔

۱۹۵۔ رسول اکرم ! ہر نبی کا ایک وصی اور وارث ہوتا ہے اور علی (ع) میرا وصی اور وارث ہے(الفردوس ۳ ص ۳۳۶)۔

تاریخ دمشق حالات امیر المؤمنین (ع) ۳ ص ۵ / ۱۰۲۱ ، ۱۰۲۲ ، مناقب خوارزمی ۸۴/ ۷۴ ، مناقب ابن المغازلی ص ۲۰۰ / ۲۳۸)۔

۱۹۶۔ سلمان ! میں نے رسول اکرم سے عرض کی کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے تو آپ کا وصی کون ہے ؟ آپ خاموش ہو گئے، اس کے بعد جب مجھے دیکھا تو آوازی دی ، میں دوڑ کر حاضر ہوا۔ فرمایا تمھیں معلوم ہے کہ موسی ٰ (ع) کا وصی کون ہے ؟ میں نے عرض کی یوشع بن نون ! فرمایا کیسے ؟ عرض کی کہ وہ سب سے بہتر تھے۔ فرمایا تو میرا وصی اور میرے اس امر کا مرکز اور میری تمام امت میں سب سے بہتر، میرے تمام وعدوں کو پورا کرنے والا اور میرے قرض کا ادا کرنے والا علی (ع) بن ابی طالب ہو گا۔ (المعجم الکبیر ۶ ص ۲۲۱ / ۶۳ ۶۰ ، کشف الغمہ ۱ ص ۱۵۷)۔

۱۹۷۔ رسول اکرم حدیث معراج میں فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی خدایا میرے اوصیاء کون ہیں ؟ ارشاد ہوا۔ اے محمد ! تمھارے اوصیاء کون ہیں ؟ ارشاد ہوا۔ اے محمد ! تمھارے اوصیاء وہی ہیں جن کے نام ساق عرش پر لکھے ہوئے ہیں تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا اور بارہ نور چمکتے ہوئے دیکھے اور ہر نور پر ایک سبز لکیر دیکھی جس پر میرے ایک وصی کا نام لکھا ہوا تھا جس میں پہلے علی (ع) بن ابی طالب تھے اور آخری مہدی (ع)۔

میں نے عرض کی خدایا یہی میرے اوصیاء ہیں ؟ ارشاد ہوا ، اے محمد ! تمھارے اوصیاء وہی ہیں جن کے نام ساق عرش پر لکھے ہوئے ہیں تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا اور بارہ نورچمکتے ہوئے دیکھے اور ہر نور پر ایک سبز لکیر دیکھی جس پر میرے ایک وصی کا نام لکھا ہوا تھا جس میں پہلے علی (ع) بن ابی طالب تھے اور آخری مہدی (ع) میں نے عرض کی خدایا یہی میرے بعد میرے اوصیاء ہیں ؟ ارشاد ہوا اے محمد ! یہی میرے اولیاء ، احباء ، اصفیاء اور تمھارے بعد مخلوقات پر میری حجت ہیں اور یہی تمھارے اوصیاء خلفاء اور تمھارے بعد بہترین مخلوقات ہیں۔(علل الشرائع ۶ ص ۱ ، عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۲۶۴ ، کمال الدین ص ۲۵۶ از عبدالسلام بن صالح الہروی از امام رضا (ع) )۔

۱۹۸۔ رسول اکرم کا وقت آخر تھا اور جناب فاطمہ (ع) فریاد کر رہی تھیں کہ آپ کے بعد میرے اور میری اولاد کے برباد ہو جانے کا خطرہ ہے، امت کے حالات آپ کی نگاہوں کے سامنے ہیں تو آپ نے فرمایا ، فاطمہ (ع) ! کیا تمھیں نہیں معلوم ہے کہ پروردگار نے ہم اہلبیت (ع) کے لئے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی ہے اور تمام مخلوقات کے لئے فناکو مقدر کر دیا ہے، اس نے ایک مرتبہ مخلوقات پر نگاہ انتخاب ڈالی تو تمھارے باپ کو منتخب کر کے نبی قرار دیا اور دوبارہ نگاہ ڈالی تو تمھارے شوہر کا انتخاب کیا اور مجھے حکم دیا کہ میں تمھارا عقد ان کے ساتھ کردوں اور انہیں اپنا ولی اور وزیر قرار دیدوں اور امت میں اپنا خلیفہ نامزد کر دوں تو اب تمھارا باپ تمام انبیاء و مرسلین سے بہتر ہے اور تمھارا شوہر تمام اولیاء سے بہتر ہے اور تم سب سے پہلے مجھ سے ملنے والی ہو۔

اس کے بعد مالک نے تیسری نگاہ ڈالی تو تمھیں اور تمھارے دونوں فرزندوں کا انتخاب کیا، اب تم سردار نساء اہل جنت ہو اور تمھارے دونوں فرزند سرداران جوانان اہل جنّت ہیں اور تمھاری اولاد میں قیامت تک میرے اوصیاء ہوں گے جو ہادی اور مہدی ہوں گے، میرے اوصیاء میں سب سے پہلے میرے بھائی علی (ع) ہیں ، اس کے بعد حسن (ع) اس کے بعد حسین (ع) اور اس کے بعد نو اولاد حسین (ع) یہ سب کے سب میرے درجہ میں ہوں گے اورجنّت میں خدا کی بارگاہ میں میرے درجہ سے اور میرے باپ ابراہیم کے درجہ سے قریب تر کوئی درجہ نہ ہو گا۔( کمال الدین ص ۲۶۳ از سلیم بن قیس الہلالی)۔

۱۹۹۔ امام حسین (ع) ! پروردگار عالم نے حضرت محمد کو تمام مخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے، انہیں نبوت سے سرفراز کیا ہے، رسالت کے لئے انتخاب کیا ہے، اس کے بعد جب انہیں واپس بلا لیا، اس وقت جب وہ بندوں کو نصیحت کر چکے اور پیغام الہی کو پہنچا چکے تو ہم ان کے اہلبیت (ع) اولیاء ، اوصیاء، ورثہ اور تمام لوگوں سے زیادہ ان کی جگہ کے حقدار تھے لیکن قوم نے ہم پر زیادتی کی تو ہم خاموش ہو گئے اور ہم نے کوئی تفرقہ پسند نہیں کیا بلکہ عافیت کو ترجیح دی جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم ان تمام لوگوں سے زیادہ حقدار میں جنھوں نے اس جگہ پر قبضہ کر لیا تھا،۔( تاریخ طبری ۵ ص ۳۵۷ از ابوعثمان نہدی، البداینة والنہایتہ ۸ ص ۱۵۷)۔

۲۰۰۔ امام محمد باقر (ع) ! پروردگار کی بارگاہ میں سب سے زیادہ قریب تر ، لوگوں سے سب سے اعلم اور مہربان حضرت محمد اور ائمہ کرام ہیں لہذا جہاں یہ داخل ہوں سب داخل ہو جاؤ اور جس سے یہ الگ ہو جائیں سب الگ ہو جاؤ، حق انہیں میں ہے اور یہی اوصیاء میں اور یہی ائمہ ہیں ، جہاں انہیں دیکھو ان کا اتباع شروع کر دو( کمال الدین ص ۳۲۸ از ابوحمزہ الثمالی)۔

۲۰۱۔ محمد بن مسلم! میں نے امام صادق (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ اللہ کی کچھ مخصوص مخلوق ہے جسے اس نے اپنے نور اور اپنی رحمت سے پیدا کیا ہے، رحمت سے رحمت کے لئے، یہی خدا کی نگرانی کرنے والی آنکھیں اس کے سننے والے کان، اس کی اجازت سے بولنے والی زبان اور اس کے تمام احکام و بیانات کے امانتدار ہیں ، انہیں کے ذریعہ وہ برائیوں کو محو کرتا ہے، ذلت کو دفع کرتا ہے، رحمت کو نازل کرتا ہے، مردوں کو زندہ کرتا ہے، زندہ کو مردہ بناتا ہے، لوگوں کی آزمائش کرتا ہے، مخلوقات میں اپنے فیصلے نافذ کرتا ہے۔ تو میں نے عرض کی کہ میرے ماں باپ قربان، یہ کون حضرات ہیں ، فرمایا یہ اوصیاء ہیں۔( التوحید ص ۱۶۷ ، معانی الاخبار ص ۱۶)۔

۲۰۲۔ امام ہادی (ع) نے زیارت جامعہ میں فرمایا کہ سلام ہو ان پر جو معرفت الہی کے مرکز۔ برکت الہی کے مسکن، حکمت الہی کے معدن، راز الہی کے محافظ، کتاب الہی کے حافظ ، رسول اللہ کے اوصیاء اور ان کی ذریت ہیں ، انہیں پر رحمت اور انہیں پر برکات۔(تہذیب ۶ ص۹۶ / ۱۷۷)۔

مولف! واضح رہے کہ ائمہ اہلبیت (ع) کے اوصیاء رسول ہونے کی روایات بہت زیادہ ہیں جن کے بارے میں ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی کا ارشاد ہے کہ قوی اسناد کے ساتھ صحیح اخبار میں اس حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے کہ رسول اکرم نے اپنے معاملات کی وصیت حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) کو فرمائی اور انھوں نے امام حسن (ع) کو … اور انھوں نے امام حسین (ع) کو … اور انھوں نے علی بن الحسین (ع) کو … اور انھوں نے محمد بن علی (ع) کو … اور انھوں نے علی بن موسیٰ کو … اور انھوں نے محمد بن علی (ع) کو … اور انھوں نے علی بن محمد (ع) کو … اور انھوں نے حسن (ع) بن علی (ع) کو … اور انھوں نے اپنے فرزند حجت قائم کو فرمائی کہ اگر عمر دنیا میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گا تو خدا اس دن کو اس قدر طول دے گا کہ وہ منظر عام پر آ کر ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بہر دیں ، پروردگار کی صلوات و رحمت ان پر اور ان کے جملہ آباء طاہرین پر۔ (الفقیہ ۴ ص ۱۷۷)۔

۶۔ پیغمبر اسلام کے محبوب ترین

۲۰۳۔ جناب ام سلمہ کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اکرم تشریف فرما تھے کہ اچانک فاطمہ (ع) ایک مخصوص غذا لے کر حاضر ہو گئیں ، آپ نے فرمایا کہ علی (ع) اور ان کے فرزند کہاں ہیں ؟ جناب فاطمہ (ع) نے عرض کی کہ گھر میں ہیں۔

فرمایا انہیں طلب کرو ! اتنے میں علی (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) آ گئے اور آپ نے سب کو دیکھ کر اپنی خیبری چادر کو اٹھایا اور سب کو اوڑھا کر فرمایا خدا یا یہ میرے اہلبیت (ع) اور ’ تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب ‘ ہیں ، لہذا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انہیں کمال طہارت کی منزل پر رکھنا جس کے بعد آیت تطہیر نازل ہو گئی۔( کشف الغمہ ۱ص ۴۵)۔

۲۰۴۔ امام علی (ع) ! ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ حضور سب سے زیادہ محبوب آپ کی نظر میں کون ہے؟ فرمایا کہ یہ (علی (ع)) اور اس کے دونوں فرزند اور ان کی ماں (فاطمہ (ع)) یہ سب مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور یہ جنت میں میرے ساتھ اسی طرح ہوں گے جس طرح یہ دونوں انگلیاں۔(امالی طوسی ص ۴۵۲ / ۱۰۰ از زید بن علی (ع))۔

۲۰۵۔ جمیع بن عمیر التیمی! اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا اور میری پھوپھی نے سوال کیا کہ رسول اکرم کے سب سے زیادہ محبوب شخصیت کون تھی؟ تو انھوں نے فرمایا فاطمہ (ع) ! پھوپھی نے پوچھا اور مردوں میں ؟ فرمایا، ان کے شوہر، وہ ہمیشہ دن میں روزے رکھتے تھے اور رات بہر نمازیں پڑھا کرتے تھے( سنن ترمذی ۵ ص ۷۰۱ / ۳۸۷۴)۔

۲۰۶۔ جمیع بن عمیر ! میں ایک مرتبہ اپنی ماں کے ساتھ حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا اور میری ماں نے یہی سوال تو انھوں نے فرمایا کہ تم محبوب ترین خلائق کے بارے میں دریافت کر رہی ہو تو ان کے محبوب ترین بیٹی کا شوہر ہے، میں نے خود حضور کو دیکھا ہے کہ انھوں نے علی (ع) ، فاطمہ اور حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کر کے ان پر چادر اوڑھا کر یہ دعا کی تھی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) میں ان سے رجس کو دور رکھنا اور انہیں پاک پاکیزہ رکھنا، جس کے بعد میں بھی قریب گئی اور دریافت کیا ، کیا میں بھی اہلبیت (ع) میں شامل ہوں ؟ تو فرمایا دور رہو تم خیر پر ہو۔( مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی ۲ ص ۱۳۲ / ۶۱۷)۔

۷۔ افضل خلائق

۲۰۷۔ رسول اکرم ! تمھارے بزرگوں میں سب سے بہتر علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہیں ، تمھارے جوانوں میں سب سے افضل حسن (ع) و حسین (ع) ہیں اور تمھاری عورتوں میں سب سے بالاتر فاطمہ (ع) بنت محمد ہیں۔(تاریخ بغداد ۴ / ۳۹۲ / ۲۲۸۰)۔

۲۰۸۔ رسول اکرم ! میں اور میرے اہلبیت (ع) سب اللہ کے مصطفی اور تمام مخلوقات میں منتخب بندہ ہیں۔( احقاق الحق ۹/۴۸۳)۔

۲۰۹۔ رسول اکرم نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا۔ فاطمہ (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کو پروردگار نے وہ سات خصال عطا فرمائے ہیں جو نہ ہم سے پہلے کسی کو عطا کئے ہیں اور نہ ہمارے بعد کسی کو عطا کرے گا، مجھے خاتم النبین اور تمام مرسلین میں سب سے بزرگ تر اور تمام مخلوقات میں سب سے محبوب تر قرار دیا ہے میں تمھارا باپ ہوں اور میرا وصی جو تمام اوصیاء سے بہتر اور نگا ہ پروردگار میں محبوب تر ہے وہ تمھارا شوہر ہے، ہمارا شہید بہترینِ شہداء ہے اور خدا کے نزدیک محبوب ترین ہے جو تمھارے باپ اور شوہر کے چچا ہیں ، ہمیں میں سے وہ شخصیت ہے جسے پروردگار نے فضائل جنّت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرنے کے لئے دو سبز پر عنایت فرما دیے ہیں اور وہ تمھارے باپ کے ابن عم اور تمھارے شوہر کے حقیقی بھائی ہیں اور ہمیں میں سے اس امت کے سبطین ہیں یعنی تمھارے دونوں فرزند حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں اور پروردگار کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ان کا باپ ان سے بھی بہتر ہے ، فاطمہ (ع) ! خدائے برحق کی قسم انہیں دونوں کی اولاد میں اس امت کا مہدی بھی ہو گا ( المعجم الکبیر ۳ ص ۵۷ / ۲۶۷۵ از علی المکی الہلالی ، امالی طوسی (ر) ص ۱۵۴ ، ۲۵۶ ، الخصال ص ۴۱۲ ، /۱۶ ، الغیبة طوسی (ر) ص ۱۹۱ ، ۱۵۴ ، کشف الغمہ ۱ ص ۱۵۴ ، کفایة الاثر ص ۶۳)۔

۲۱۰۔ رسول اکرم ، میں سید النبیین ہوں علی (ع) بن ابی طالب (ع) سید الوصیین ہیں حسن (ع) و حسین (ع) سردار جوانان جنت ہیں ، ان کے بعد کے ائمہ سردار متقین ہیں ، ہمارا دوست خدا کا دوست ہے اور ہمارا دشمن خدا کا دشمن ہے، ہماری اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور ہمارا دشمن خدا کا دشمن ہے، ہماری اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور ہماری نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہی ہمارا ذمہ دار ہے( امالی صدوق (ر) ص ۴۴۸ )۔

۲۱۱۔ رسول اکرم ، علی (ع) بن ابی طالب (ع) اور ان کی اولاد کے ائمہ سب اہل زمین کے سردار اور روز قیامت روشن پیشانی لشکر کے قائد ہیں۔(امالی صدوق (ر) ۴۶۶ / ۲۴ از عمرو بن ابی سلمہ )

۲۱۲۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! تم اور تمھاری اولاد کے ائمہ سب دنیا کے سردار اور آخرت کے شہنشاہ ہیں جس نے ہمیں پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا اور جس نے ہمارا انکار کر دیا اس نے خدا کا انکار کر دیا۔( امالی صدوق (ع) ص ۵۲۳ /۶ از سلیمان بن مہران ص ۴۴۸ از حسن بن علی (ع) بن فضال، عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۵۷ / ۲۱۰ ملوک فی الارض)۔

۲۱۳۔ ابن عباس راوی ہیں کہ رسول اکرم نے عبدالرحمٰن بن عوف سے فرمایا کہ تم سب میرے اصحاب ہو اور علی (ع) بن ابی طالب مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ، وہ میرے علم کا دروازہ اور میرے وصی ہیں ، وہ فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) سب اصل و شرف اور کرم کی اعتبار سے تمام اہل زمین سے افضل و برتر ہیں ( ینابیع المودة ۲ ص ۳۳۳ / ۹۷۳ ، مأتہ منقبہ ص ۱۲۲ ، مقتل خوارزمی ۱ ص ۶۰)۔

۲۱۴۔ امیر المؤمنین (ع) رسول اکرم کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ کی عترت بہترین عترت ، آپ کا خاندان بہترین خاندان اور آپ کا شجرہ بہترین شجرہ ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ۹۴)۔

۸۔ مباہلہ میں شرکت

۳۱۵۔ عبدالرحمان بن کثیر نے جعفر بن محمد، ان کے والد بزرگوار کے واسطہ سے امام حسن (ع) سے نقل کیا ہے کہ مباہلہ کے موقع پر آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اکرم نے نفس کی جگہ میرے والد کو لیا، ابنائنا میں مجھے اور بھائی کو لیا، نساء نا میں میری والدہ فاطمہ (ع) کو لیا اور اس کے علاوہ کائنات میں کسی کو ان الفاظ کا مصداق نہیں قرار دیا لہذا ہمیں ان کیا اہلبیت (ع) گوشت و پوست اور خون و نفس ہیں ، ہم ان سے ہیں اور وہ ہم سے ہیں۔(امالی (ع) طوسی (ر) ۵۶۴ / ۱۱۷۴ ، ینابیع المودة ۱ ص ۱۶۵ / ۱)۔

۲۱۶۔ جابر ! رسول اکرم کے پاس عاقب اور طیب ( علماء نصاریٰ) وارد ہوئے تو انہیں اسلام کی دعوت دی ، ان دونوں نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی اسلام لاچکے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ بالکل جھوٹ ہے اور تم چار ہو تو میں بتا سکتا ہوں کہ تمھارے لئے اسلام سے مانع کیا ہے؟ ان لوگوں نے کہا فرمائیے؟

فرمایا کہ صلیب کی محبّت ، شراب اور سور کا گوشت اور یہ کہہ کر آپ نے انہیں مباہلہ کی دعوت دے دی اور ان لوگوں نے صبح کو آنے کا وعدہ کر لیا، اب جو صبح ہوئی تو رسول اکرم نے علی (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) کو ساتھ لیا اور پھر ان دونوں کو مباہلہ کی دعوت دی لیکن انھوں نے انکار کر دیا اور سپر انداختہ ہو گئے۔

آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم جس نے مجھے نبی بنایا ہے کہ اگر ان لوگوں نے مباہلہ کر لیا ہوتا تو یہ وادی آگ سے بہر جاتی ، اس کے بعد جابر کا بیان ہے کہ انہیں حضرات کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے فقل تعالو ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم…

شعب نے جابر کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ انفسنا میں رسول اکرم تھے اور حضرت علی (ع) ، ابنائنا میں حسن (ع) و حسین (ع) تھے اور نسائنا میں فاطمہ (ع) (دلائل النبوة ابونعیم ۲ ص ۳۹۳ / ۲۴۴ ، مناقب ابن المغازلی ص ۲۶۳ / ۳۱۰ العمدة ۱۹۰ / ۱۹۱ ، الطرائف ۴۶ / ۳۸)۔

۲۱۷۔ زمخشری کا بیان ہے کہ جب رسول اکرم نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی تو انھوں نے اپنے دانشور عاقب سے مشورہ کیا کہ آپ کا خیال کیا ہے؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو معلوم ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور انھوں نے حضرت مسیح (ع) کے بارے میں قول فیصل سنا دیا ہے اور خدا گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے کسی نبی بر حق سے مباہلہ کیا ہے تو نہ بوڑھے باقی رہ سکے ہیں اور نہ بچے پنپ سکے ہیں اور تمھارے لئے بھی ہلاکت کا خطرہ یقینی ہے ، لہذا مناسب ہے کہ مصالحت کر لو اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ۔

دوسرے دن جب وہ لوگ رسول اکرم کے پاس آئے تو آپ اس شان سے نکل چکے تھے کہ حسین (ع) کو گود میں لئے تھے، حسن (ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے فاطمہ (ع) آپ کے پیچھے چل رہی تھیں اور علی (ع) ان کے پیچھے۔ اور آپ فرما رہے تھے کہ دیکھو جب میں دعا کروں تو تم سب آمین کہنا۔

اسقف نجران نے یہ منظر دیکھ کر کہا کہ خدا کی قسم میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانا چاہے تو ان کے کہنے سے ہٹا سکتا ہے، خبردار مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور روئے زمین پر کوئی ایک عیسائی باقی نہ رہ جائے گا۔

چنانچہ ان لوگوں نے کہا یا ابا القاسم ! ہماری رائے یہ ہے کہ ہم مباہلہ نہ کریں اور آپ اپنے دین پر رہیں اور ہم اپنے دین پر رہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اگر مباہلہ نہیں چاہتے ہو تو اسلام قبول کر لو تا کہ مسلمانوں کے تمام حقوق و فرائض میں شریک ہو جاؤ!

ان لوگوں نے کہا یہ تو نہیں ہوسکتا ہے!

فرمایا پھر جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ، کہا اس کی بھی طاقت نہیں ہے، البتہ اس بات پر صلح کرسکتے ہیں کہ آپ نہ جنگ کریں نہ ہمیں خوفزدہ کریں ، نہ دین سے الگ کریں ، ہم ہر سال آپ کو دو ہزار حلّے دیتے رہیں گے، ایک ہزار صفر کے مہینہ میں اور ایک ہزار رجب کے مہینہ میں اور تیس عدد آہنی زر ہیں !

چنانچہ آپ نے اس شرط سے صلح کر لی اور فرمایا کہ ہلاکت اس قوم پر منڈ لارہی تھی، اگر انھوں نے لعنت میں حصہ لے لیا ہوتا تو سب کے سب بندر اور سور کی شکل میں مسخ ہو جاتے اور پوری وادی آگ سے بہر جاتی اور اللہ اہل نجرات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتا اور درختوں پر پرندہ تک نہ رہ جاتے اور ایک سال کے اندر سارے عیسائی تباہ ہو جاتے۔

اس کے بعد زمخشری نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ آیت شریف میں ابناء و نساء کو نفس پر مقدم کیا گیا ہے تا کہ ان کی عظیم منزلت اور ان کے بلند ترین مرتبہ کی وضاحت کر دی جائے اور یہ بتا دیا جائے کہ یہ سب نفس پر بھی مقدم ہیں اور ان پر نفس بھی قربان کیا جا سکتا ہے اور اس سے بالاتر اصحاب کساء کی کوئی دوسری فضیلت نہیں ہوسکتی ہے۔( تفسیر کشاف ۱ ص ۱۹۳ ، تفسیر طبری ۳ ص ۲۹۹ ، تفسیر فخر الدین رازی ص۸ ص ۸۸ ، ارشاد ۱ ص ۱۶۶ ، مجمع البیان ۲ ص ۷۶۲ ، تفسیر قمی ۱ ص ۱۰۴۔

واضح رہے کہ فخر رازی نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی صحت پر تقریباً تمام اہل تفسیر و حدیث کا اتفاق و اجماع ہے۔

۹۔ اولو الامر
یا ایہا الذین امنوا اطیعو اللہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم۔( نساء آیت ۵۹)

۲۱۸۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم نے فرمایا کہ اولو الامر وہ افراد ہیں جنہیں خدا نے اطاعت میں اپنا اور میرا شریک قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ جب کسی امر میں اختلاف کا خوف ہو تو انہیں سب کی طرف رجوع کیا جائے۔ تو میں نے عرض کی کہ حضور وہ کون افراد ہیں ؟ فرمایا کہ ان میں سے پہلے تم ہو ( شواہد التنزیل ۱ ص ۱۸۹ / ۲۰۲ ، الاعتقادات ۵ ص ۱۲۱ ، کتاب سلیم ۶ ص ۶۲۶)۔

۲۱۹۔ امیر المؤمنین (ع) نے کوفہ میں وارد ہونے کے بعد فرمایا اہل کوفہ ! تمھارا فرض ہے کہ تقوائے الہی اختیار کرو اور تمھارے پیغمبر کے اہلبیت (ع) جو اللہ کے اطاعت گذار ہیں ان کی اطاعت کرو کہ یہ اطاعت کے زیادہ حقدار ہیں ، ان لوگوں کی بہ نسبت جوان کے ماقبلہ میں اطاعت کے دعویدار ہیں اور انہیں کی وجہ سے صاحبان فضیلت بن گئے ہیں اور پھر ہمارے فضل کا انکار کر دیا ہے اور ہمارے حق میں ہم سے جھگڑا کر کے ہمیں محروم کرنا چاہتے ہیں ، انہیں اپنے کئے کا مزہ معلوم ہو چکا ہے اور عنقریب گمراہی کا انجام دیکھ لیں گے۔( امالی مفید ۱۲۷ / ۵ ، ارشاد ۱ / ۲۶۰)۔

۲۲۰۔ ہشام بن حسان، امام حسن (ع) نے لوگوں سے بیعت لینے کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا کہ ہماری اطاعت کرو یہ اطاعت تمھارا فریضہ ہے، یہ اطاعت خدا و رسول کی اطاعت سے ملی ہوئی ہے’ اطیعو اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم‘ … ( امالی مفید ص ۳۴۹ ، امالی طوسی (ر) ۱۲۲ / ۱۸۸ ، احتجاج ۲ ص ۹۴ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۶۷)۔

۲۲۱۔ امام حسین (ع) نے میدان کربلا میں فوج دشمن سے خطاب کر کے فرمایا ’ ایھا الناس‘ اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور حق کو اس کے اہل کے لئے پہچان لو تو اس میں رضائے خدا زیادہ ہے، دیکھو ہم پیغمبر کے اہلبیت (ع) ہیں اور ان مدعیوں سے زیادہ امر رسالت کے حقدار ہیں جو ظلم و جور کا برتاؤ کر رہے ہیں اور اگر اب تم ہمیں ناپسند کر رہے ہو اور ہمارے حق کا انکار کر رہے ہو تو یہ تمھاری نئی رائے ہے،اس کے خلاف جو تمھارے خطوط میں درج ہے اور جس کا اشارہ تمھارے رسائل نے دیا ہے اور اس بنیاد پر ہیں واپس بھی جا سکتا ہوں۔( ارشاد ۲ ص ۷۹ ، وقعة الطف ص ۱۷۰ ، کامل ۲ ص ۵۵۲)۔

۲۲۲۔ امام زین العابدین (ع) اپنی دعا میں فرماتے ہیں ، خدایا اپنی محبوب ترین مخلوق محمد اور ان کی منتخب عترت پر رحمت نازل فرما جو پاکیزہ کردار ہیں اور ہمیں انکی باتوں کا سننے والا اور ان کی اطاعت کرنے والا قرار دیدے جس طرح تو نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔( صحیفہ سجادیہ دعاء ص ۳۴ ، ینابیع المودہ ۳ ص ۴۱۷)۔

۲۲۳۔ امام محمد باقر (ع) نے اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کے ذیل میں فرمایا کہ اولی الامر صرف ہم لوگ ہیں جن کی اطاعت کا حکم قیامت تک کے صاحبان ایمان کو دیا گیا ہے۔( الکافی ۱ ص ۲۷۶ / ۱ از برید العجلی)۔

۲۲۴۔ ابوبصیر ! میں نے آیت اطاعت کے بارے میں امام صادق (ع) سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ حضرت علی (ع) ، امام حسن (ع) ، امام حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ! میں نے عرض کی کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خدا نے ان کا نام کیوں نہیں لیا؟ فرمایا کہ جب خدا نے نماز کا حکم نازل کیا جب بھی تین رکعت اور چار رکعت کا نام نہیں لیا اور رسول اکرم ہی نے اس کی تفسیر کی ہے، اسی طرح جب زکٰوة کا حکم نازل کیا تو چالیس میں ایک کا ذکر نہیں کیا اور رسول اکرم نے اس کی تفسیر کی ہے، یہی حال حج کا ہے کہ اس میں طواف کے سات چکر کا ذکر نہیں ہے اور یہ بات رسول اکرم نے بتائی ہے تو جس طرح آپ نے تمام آیات کی تفسیر کی ہے، اسی طرح اولی الامر کی بھی تفسیر کر دی ہے اور وقت نزول جو افراد موجود تھے ان کی نشاندہی کر دی ہے۔ ( الکافی ۱ ص ۲۷۶ ، شواہد التنزیل ۱ ص ۱۹۱ ، ۲۰۳ ، تفسیر عیاشی ۱ ص ۲۲۹ / ۱۶۹)۔

۲۲۵۔ امام صادق (ع) نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اولو الامر ائمہ اہلبیت (ع) ہیں اور بس ( ینابیع المودة ۱ ص ۳۴۱ / ۲ ، مناقب ابن شہر آشوب ۳ /۱۵ )۔

۲۲۶۔ ابن ابی یعفور ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ کے پاس بہت سے اصحاب موجود تھے … تو آپ نے فرمایا ، ابن ابی یعفور ! پروردگار نے اپنی، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کا حکم دیا ہے جو صیاء رسول اکرم ہیں ، دیکھو ہم بندوں پر خدا کی حجت ہیں اور مخلوقات پر اس کی طرف سے نگراں ہیں ، ہمیں زمین کے امین ہیں اور علم کے خزانہ دار، اس کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرنے والے، جس نے ہماری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ہماری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔( الزہد للحسین بن سعید ص ۱۰۴ / ۲۸۶ ، الکافی ۱ ص ۱۸۵ ، بحار الانوار ۲۳ / ۲۸۳ ، احقاق الحق ص ۲۲۴ ، ۱۴ ص ۳۴۸)۔

۱۰۔ اہل الذکر

۲۲۷۔ رسول اکرم ! فاسئلوا اہل الذکر کے ذیل میں فرمایا کہ ذکر سے مراد میں ہوں اور اہل ذکر ائمہ ہیں ( الکافی ۱ ص ۲۱۰)۔

۲۲۸۔ امام علی (ع) ! ہم میں اہل ذکر۔( ینابیع المودہ ۱ ص ۳۵۷ ، مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۹۸ ، العمدة ص ۲۸۸ / ۴۶۸ )۔

۲۲۹۔ حارث ! میں نے امام علی (ع) سے آیت اہل الذکر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ہم ہی اہل ذکر ہیں اور ہمیں اہل علم اور ہمیں معدن تنزیل و تاویل ہیں ، میں نے خود رسول اکرم کی زبان سے سناہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں شہر علم ہوں اور علی (ع) اس کا دروازہ ہے، جسے بھی علم لینا ہے اسے دروازہ سے آنا ہو گا(شواہد التنزیل ۱ ص ۴۳۲ / ۴۵۹ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۷۹)۔

۲۳۰۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہو جاؤ کہ ذکر رسول اکرم ہیں اور ہم ان کے اہل میں اور راسخون فی العلم ہیں اور ہمیں ہدایت کے منار ہیں اور تقویٰ کے پرچم ہیں اور ہمارے ہی لئے ساری مثالیں بیان کی گئی ہیں۔( مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۸۹)۔

۲۳۱۔ امام محمد باقر (ع) نے آیت اہل الذکر کی تفسیر میں فرمایا کہ اہل ذکر ہم لوگ ہیں۔( تفسیر طبری ۱۰ / ۱۷ ص ۵ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۷۸ ، تفسیر فرات کوفی ص ۲۳۵ ، ۳۱۵ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۲۵۹ ، تفسیر قمی ۲ ص ۶۸)۔

۲۳۲۔ امام باقر (ع)۔ اہل ذکر عترت پیغمبر کے ائمہ ہیں۔( شواہد التنزیل ۱ ص ۴۳۷ / ۴۶۶)۔

۲۳۳۔ ہشام ، میں نے امام صادق (ع) سے آیت اہل الذکر کے بارے میں دریافت کیا ہے کہ یہ کون حضرات ہیں تو فرمایا کہ ہم لوگ ہیں۔

میں نے عرض کی تو ہم لوگوں کا فرض ہے کہ آپ سے دریافت کریں ؟ فرمایا بیشک۔

تو پھر آپ کا فرض ہے کہ آپ جواب دیں ؟ فرمایا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔(امالی طوسی ۶۶۴ / ۱۳۹۰ ، کافی ۱ ص ۲۱۱)۔

۲۳۴۔ امام صادق (ع) ! ذکر کے دو معنی ہیں ، قرآن اور رسول اکرم اور ہم دونوں اعتبار سے اہل ذکر ہیں ، ذکر قرآن کے معنی میں سورہ نحل ۲۴ میں ہے۔( ینابیع المودہ ۱ ص ۳۵۷ / ۱۴)۔

۲۳۵۔ امام صادق (ع) مالک کائنات کے ارشاد فاسئلوا اہل الذکر … میں کتاب ذکر ہے اور اہلبیت (ع) و آل محمد اہل ذکر ہیں جن سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جاہلوں سے سوال کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۹۵)۔

۲۳۶۔ امام صادق (ع) ، ذکر قرآن ہے اور ہم اس کی قوم ہیں اور ہمیں سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۱۱ ، تفسیر قمی ۲ ص ۲۸۶)۔(بصائر الدرجات ۱ ص ۳۷)۔

۲۳۷۔ ابن بکیر نے حمزہ بن محمد الطیار سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے امام صادق (ع) کے سامنے ان کے پدر بزرگوار کے بعض خطبوں کو پیش کیا تو ایک منزل پر پہنچ کر آپ نے فرمایا کہ اب خاموش رہو!۔

اس کے بعد فرمایا کہ جس بات کے بارے میں تم نہیں جانتے ہو۔مناسب یہی ہے کہ خاموش رہو اور تحقیق کرو اور آخر میں ائمہ ہدی ٰ کے حوالہ کردو تا کہ وہ تمھیں صحیح راستہ پر چلائیں اور تاریکی کو دور کریں اور حق سے آگاہ کریں جیسا کہ آیت فاسئلوا اہل الذکر میں بتایا گیا ہے۔( کافی ۱ ص ۵۰ ، محاسن ۱ ص ۳۴۱ ، تفسیر عیاشی ۲ ص ۲۶۰)۔

۲۳۸۔ امام صادق (ع) نے اپنے اصحاب کے نام ایک خط لکھا، اے دو گروہ جس پر خدا نے مہربانی کی ہے اور اسے کامیاب بنایا ہے، دیکھو ! خدا نے تمھارے لئے خیر کو مکمل کر دیا ہے اور یہ بات امر الہی کے خلاف ہے کہ کوئی شخص دین میں خواہش، ذاتی خیال اور قیاس سے کام لے، خدا نے قرآن کو نازل کر دیا ہے اور اس میں ہر شے کا بیان موجود ہے، پھر قرآن اور تعلیم قرآن کے اہل بھی مقرر کر دئے ہیں اور جنہیں اس کا اہل قرار دیا ہے انہیں بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ اس میں خواہش، رائے اور قیاس کا استعمال کریں اس لئے کہ اس نے علم قرآن دے کر اور مرکز قرآن بنا کر ان باتوں سے بے نیاز بنا دیا ہے، یہ مالک کی مخصوص کرامت ہے، جو انہیں دی گئی ہے اور وہی اہل ذکر ہیں جن سے سوال کرنے کا امت کو حکم دیا گیا ہے( کافی ۸ ص ۵ ص ۲۱۰ ، بحار ۲۳ ص ۱۷۲ ، امالی طوسی ۶۶۴ ، / ۱۲۹۰ ، روضة الواعظین ص ۲۲۴ ، بصائر الدرجات ۵ / ۳۷ ۱ ص ۴۰ ، ۲۳ / ۵۱۱ ، کامل الزیارات ص ۵۴ ، احقاق الحق ۲ ص ۴۸۲ ، ۴۸۳ ، ۱۴ ص ۳۷۱ ۳۷۵)۔

۱۱۔ محافظین دین

۲۳۹۔ رسول اکرم نے امام علی (ع) سے فرمایا، یا علی (ع) ! میں ، تم تمھارے دونوں فرزند حسن (ع) و حسین (ع) اور اولاد حسین (ع) کو نو فرزند دین کے ارکان اور اسلام کے ستون ہیں ، جو ہمارا اتباع کرے گا نجات پائے گا اور جو ہم سے الگ ہو جائے گا اس کا انجام جہنم ہو گا۔( امالی مفید ص ۲۱۷ ، بشارة المصطفی ص ۴۹)۔

۲۴۰۔ رسول اکرم میری امت کی ہر نسل میں میرے اہلبیت (ع) کے عادل افراد رہیں گے جو اس دین سے غالیوں کی تحریف ، اہل باطل کی تزویر اور جاہلوں کی تاویل کو رفع کرتے رہیں گے، دیکھو تمھارے ائمہ خدا کی بارگاہ کی طرف تمھارے قائد ہیں لہذا اس پر نگاہ رکھنا کہ تم اپنے دین اور نماز میں کس کی اقتدار کر رہے ہو۔( کمال الدین ص ۲۲۱ ، قرب الاسناد ۷۷/ ۲۵۰ مناقب ابن شہر آشوب ۱ ص ۲۴۵ ، کنز الفوائد ۱ ص ۳۳۰)۔

۲۴۱۔ امام صادق (ع) ! علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں کہ انبیاء و درہم و دینار جمع کر کے اس کا وارث نہیں بناتے ہیں بلکہ اپنی احادیث کا وارث بناتے ہیں لہذا جو شخص بھی اس میراث کا کوئی حصّہ لے لے گویا اس نے بڑا حصّہ حاصل کر لیا لہذا اپنے علم کے بارے میں دیکھتے رہو کہ کس سے حاصل کر رہے ہو، ہمارے اہلبیت (ع) میں سے ہر نسل میں ایسے عادل افراد رہیں گے جو دین سے غالیوں کی تحریف ، باطل پر ستوں کی جعل سازی اور جاہلوں کی تاویل کو دفع کرتے رہیں گے۔( کافی ۱ ص ۳۲ ، بصائر الدرجات ۱۰/۱)۔

۲۴۲۔ امام رضا (ع) ! امام بندگان خدا کو نصیحت کرنے والا اور دین خدا کی حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۰۲ از عبدالعزیز بن مسل)۔

۱۲۔ ابواب اللہ

۲۴۳۔ رسول اکرم ، ہم وہ خدائی دروازے ہیں جن کے ذریعہ خدا تک رسائی ہوتی ہے اور ہمارے ہی ذریعہ سے طالبان ہدایت ہدایت پاتے ہیں۔( فضائل الشیعہ ۵۰ / ۷ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۴۹۸ از ابوسعید خدری)۔

۲۴۴۔ امام علی (ع) ، ہمیں دین کے شعار اور اصحاب ہیں اور ہمیں علم کے خزانے اور ابواب میں اور گھروں میں دروازہ کے علاوہ کہیں سے داخلہ نہیں ہوتا اور جو دوسرے راستہ سے آتا ہے اسے چور شمار کیا جاتا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص ۱۵۴)۔

۲۴۵۔ امام علی (ع) ، پروردگار اگر چاہتا تو وہ براہ راست بھی بندوں کو اپنی معرفت دے سکتا تھا لیکن اس نے ہمیں اپنی معرفت کا دروازہ اور راستہ بنا دیا ہے اور ہمیں وہ چہرہ حق ہیں جن کے ذریعہ اسے پہچانا جاتا ہے لہذا جو شخص بھی ہماری ولایت سے انحراف کرے گا یا غیروں کو ہم پر فضیلت دے گا وہ راہ حق سے بہکا ہوا ہو گا اور یاد رکھو کہ تمام وہ لوگ جن سے لوگ وابستہ ہوتے ہیں سب ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں بعض گندے چشمے کے مانند ہیں جو دوسروں کو بھی گندہ کر دیتے ہیں اور ہم وہ شفاف چشمے میں جواہر خدا سے جاری ہوتے ہیں اور ان کے ختم ہونے یا منقطع ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔( کافی ۱ ص ۱۸۴ ، مختصر بصائر الدرجات ص ۵۵ ، تفسیر فرات کوفی ص ۱۴۲ / ۱۷۴)۔

۲۴۶۔ امام صادق (ع) ! اوصیاء پیغمبر وہ دروازہ ہیں جن سے حق تک پہنچا جاتا ہے اور یہ حضرات نہ ہوتے تو کوئی خدا کو نہ پہچانتا پروردگار نے انہیں کے ذریعہ مخلوقات پر حجت تمام کی ہے۔( کافی ۱ /۱۹۳ از ابی بصیر )۔

۱۳۔ عرفاء اللہ

۲۴۷۔ رسول اکرم نے امام علی (ع) سے فرمایا یہ تین چیزیں ہیں جن کے بارے میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ برحق ہیں ، تم اور تمھارے بعد کے اوصیاء سب وہ عرفاء ہیں جن کے بغیر خدا کی معرفت ممکن نہیں ہے اور وہ عرفا ء میں جن کے بغیر جنت میں داخلہ ممکن نہیں ہے کہ جنت میں وہی داخل ہو گا جو انہیں پہچانتا ہو گا اور جسے وہ پہچانتے ہوں گے اور یہی وہ عرفاء ہیں کہ جو ان کا انکار کر دے یا وہ اس کا انکار کر دیں اس کا انجام جہنم ہے۔( خصال ۱۵۰ / ۱۸۳ از نصر العطار)۔

۲۴۸۔رسول اکرم نے فرمایا کہ یا علی (ع) ! تم اور تمھاری اولاد کے اوصیاء جنّت و جہنم کے درمیان اعراف کا درجہ رکھتے ہیں کہ جنت میں وہی داخل ہو گا جو تمھیں پہچانے اور تم اسے پہچانو ا ور جہنم میں وہی داخل ہو گا تو تمھارا انکار کر دے اور تم اسے پہچاننے سے انکار کر دو ( دعائم الاسلام ۱ ص ۷۲۵ ، ارشاد القلوب ص ۲۹۸ ، از سلیم بن قیس، مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۲۳۳ ، تفسیر عیاشی ۲ ص ۱۸ / ۴۴ اس روایت میں اولاد کے بجائے تمھارے بعد کے اوصیاء کا لفظ ہے، ینابیع المودہ ۱ ص ۳۰۴ / ۳ از سلمان فارسی)۔

۲۴۹۔ امام علی (ع) ، ائمہ پروردگار کی طرف سے مخلوقات کے نگراں اور بندوں کیلئے عرفاء ہیں کہ جنت میں صرف وہی داخل ہو گا جو انہیں پہچانے اور وہ اس کو پہچانیں اور جہنم میں صرف وہی جائے گا جو ان کا انکار کر دے اور وہ اس کا انکار کر دیں۔( نہج البلاغہ خطبہ ص ۱۵۲ ، غرر الحکم ص ۳۹۱۱)۔

۲۵۰۔ امام علی (ع) قیامت کے حالات کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اوصیاء اصحاب صراط میں جو صراط پر کھڑے رہیں گے اور جنت میں اسی کو داخل کریں گے جو انہیں پہچانے گا اور وہ اسے پہچانیں گے اور جہنم میں وہی جائے گا جو ان کا انکار کرے گا اور وہ اس کا انکار کریں گے۔ یہی عرفاء اللہ ہیں جنہیں خدا نے بندوں سے عہد لیتے وقت پیش کیا تھا اور انہیں کے بارے میں فرمایا ہے کہ اعراف پر کچھ ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے‘۔

یہی تمام اولیاء کے گواہ ہوں گے اور رسول اکرم ان کے گواہ ہوں گے۔(بصائر الدرجات ص ۴۹۸ / ۹ از زربن حبیش ، مختصر بصائر الدرجات ص ۵۳)۔

۲۵۱۔ ہلقام ! میں نے امام باقر (ع) سے ’ علی الاعراف رجال ‘ کے بارے میں دریافت کیا کہ اس سے مراد کیا ہے؟ فرمایا کہ جس طرح قبائل میں عرفاء ہوتے ہیں جو ہر شخص کو پہچانتے ہیں اس طرح ہم عرفاء اللہ میں اور تمام لوگوں کو ان کے علامات سے پہچان لیتے ہیں ( تفسیر عیاشی ۲ ص ۱۸ / ۴۳)۔

۲۵۲۔ ابان بن عمر ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ سفیان بن مصعب العبدی حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میری جان قربان،آیتہ ’ علی الاعراف رجال‘ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ فرمایا یہ آل محمد کے بارہ اوصیاء ہیں کہ جن کی معرفت کے بغیر خدا کا پہچاننا ناممکن ہے۔

عرض کی یہ اعراف کیا ہے ؟ فرمایا یہ مشک کے ٹیلے ہوں گے جن پر رسول اکرم اور ان کے اوصیاء ہوں گے اور یہ تمام لوگوں کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے۔(بحار الانوار ۲۴ / ۲۵۳ / ۱۳ ، مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۲۳۳)۔

۱۴۔ ارکان زمین

۲۵۳۔ امام باقر (ع) ، رسول اکرم وہ دروازہ رحمت میں جس کے بغیر جنت میں داخلہ ممکن نہیں ہے ، وہ راہ ہدایت ہیں کہ جو اس پر چلا وہ خدا تک پہنچ گیا یہی کیفیت امیر المومنین (ع) اور ان کے بعد کے جملہ ائمہ کی ہے، پروردگار نے انہیں زمین کا رکن بنایا ہے تا کہ اپنی جگہ سے ہٹنے نہ پائے اور اسلام کا ستون قرار دیا ہے اور راہ ہدایت کا محافظ بنایا ہے، کوئی راہنما ان کے بغیر ہدایت نہیں پا سکتا ہے اور کوئی شخص اس وقت تک گمراہ نہیں ہوتا ہے جب تک ان کے حق میں کوتاہی نہ کرے ، یہ خدا کی طرف سے نازل ہونے والے جملہ علوم ،بشارتیں ، انذار سب کے امانتدار ہیں اور اہل زمین پر اس کی حجت ہیں ، ان کے آخر کے لئے خدا کی طرف سے وہی ہے جو اول کے لئے ہے اور اس مرحلہ تک کوئی شخص امداد الہی کے بغیر نہیں پہنچ سکتا ہے۔( کافی ۱ ص ۱۹۸ / ۳ ، اختصاص ص ۲۱ ، بصائر الدرجات ۱۹۹/۱)۔

۲۵۴۔ امام باقر (ع) نے امیر المومنین (ع) کی زیارت میں فرمایا آپ اہلبیت (ع) رحمت ، ستون دین ، ارکان زمین اور شجرہ طیبہ ہیں۔( تہذیب ۶ ص ۲۸ ، ۵۳ از موسیٰ بن ظبیان ، الفقیہ ۲ ص ۵۹۱ ، ۳۱۹۷ ، ۳۱۹۷ ، کامل الزیارات ص ۴۵)۔

۲۵۵۔ امام باقر (ع) ، ہم زمین کی بنیادیں ہیں اور ہمارے شیعہ اسلام کے حاصل کرنے کے وسائل ہی۔(تفسیر عیاشی ۲ ص ۲۴۳ / ۱۸ ، از ابوبصیر)۔

۱۵۔ ارکان عالم

۲۵۶۔ رسول اکرم اولاد علی (ع) کے ائمہ کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ سب میرے خلفاء۔ اوصیاء میری اولاد اور میری عترت ہیں انہیں کے ذریعہ پروردگار آسمانوں کو زمین پر گرنے سے روکے ہوئے ہے اور انہیں کے ذریعہ زمین اپنے باشندوں سمیت مرکز سے ہٹنے سے محفوظ ہے۔

(کمال الدین ۲۵۸ / ۳ ، احتجاج ۱ ص ۱۶۸ / ۳۴ ، کفایتة الاثر ص ۱۴۵ ، از علی بن ابی حمزہ از امام صادق (ع) )۔

۲۵۷۔ امام زین العابدین (ع) ! ہم مسلمانوں کے امام اور عالمین پر اللہ کی حجت ہیں ، مومنین کے سردار اور روشن پیشانی لشکر کے قائد ہیں ، ہمیں مومنین کے مولا ہیں اور ہمیں اہل زمین کے لئے باعث امان ہیں جس طرح ستارے آسمان والوں کے لئے باعث امان ہیں ہمیں وہ ہیں جن کے ذریعہ پروردگار آسمانوں کو زمین پر گرنے اور زمین کو اس کے باشندوں سمیت مرکزسے کھسک جنے سے روکتا ہے ، ہمارے ہی ذریعہ باران رحمت کا نزول ہوتا ہے اور ہمارے ہی وسیلہ سے رحمت نشر کی جاتی ہے اور زمین کے برکات باہر آتے ہیں ، اگر زمین کے برکات کا وسیلہ ہم نے ہوتے تو یہ اہل زمین سمیت دھنس جاتی۔(امالی صدوق (ر) ۱۵۶ / ۱۵ ، کمال الدین ۲۰۷ ، ۲۲ ، ینابیع المودة ۱ص ۷۵ /۱۱ فرائد السمطین ۱ ص ۶/۴۵ / ۱۱ روایت اعمش از امام صادق (ع) روضة الواعظین ص ۲۲۰ روایت عمرو بن دینار)۔

۲۵۸۔ امام علی نقی (ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں ، ہمارے آقاؤ ! ہم نے تمھاری مدح و ثنا کا  احصاء کرسکتے ہیں اور نہ تمھاری تعریف کی گہرائیوں تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ تمھاری توصیف کی حدوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں ، تم نیک کرداروں کے لئے نمونہ، نیک انسانوں کے لئے رہنما، اور پروردگار کی طرف سے حجت ہو، تمھارے ہی ذریعہ آغاز ہوتا ہے اور تمھیں پر خاتمہ ہے، تمھارے ہی ذریعہ رحمت کا نزول ہوتا ہے اور تمھارے ہی ذریعہ پروردگار آسمان کو زمین پر گرنے سے روکے ہوئے ہے۔( تہذیب ۶ ص ۹۹)۔

۱۶۔ امان اہل ارض

۲۵۹۔ رسول اکرم ! ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں کہ وہ ختم ہو جائیں تو اہل آسمان کا خاتمہ ہو جائے اور اسی طرح ہمارے اہلبیت (ع) اہل زمین کیلئے امان ہیں کہ ان کا سلسلہ ختم ہو جائے تو سارے اہل زمین فنا ہو جائیں گے، ( فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ص ۶۷۱ / ۱۱۴۵ ، الفردوس ۴ ص ۳۱۱ / ۶۹۱۳ ، ینابیع المودة ۱ ص ۱۷ / ۱ بروایت امام علی (ع) ، امالی طوسی (ر) ۳۷۹ /۸۱۲، جامع الاحادیث قمی ص ۲۵۹ ، بروایت ابن عباس، اس روایت میں اہل زمین کے بجائے امت کا لفظ ہے)۔

۲۶۰۔ رسول اکرم ، ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں ! اور میرے اہلبیت (ع) اہل زمین کے لئے امان ہیں ، اگر اہلبیت (ع) کا سلسلہ ختم ہو جائے تو وہ عذاب نازل ہو جائے جس کی وعید وارد ہوئی ہے۔( ینابیع المودة ۱ ص ۷۱ / ۲ بروایت انس، مستدرک ۲ ص ۴۸۶ / ۳۶۷۶ ، مناقب کوفی ص ۱۴۲ ، ۶۲۳ ، علل الشرائع ص ۱۲۳ / ۲)۔

۲۶۱۔ امام علی (ع) ! ہم نبوت کے گھرانے والے اور حکمت کے معدن ہیں ، اہل زمین کے لئے باعث امان اور طلبگار نجات کے لئے وجہ نجات ہیں۔( نثر الدر ۱ ص ۳۱۰)۔

۱۷۔ معدن رسالت

۲۶۲۔ رسول اکرم ! ہم شجرۂ نبوت کے اہلبیت (ع) اور رسالت کے معدن ہیں ، ہمارے اہلبیت (ع) سے افضل ہمارے علاوہ کوئی نہیں ہے۔( امالی الشجری ۱ ص ۱۵۴ روایت امام علی (ع) ، احقاق الحق ۹ ص ۳۷۸ نقل از مناقب ابن المغازلی)۔

۲۶۳۔ امام حسین (ع) نے عتبہ بن ابی سفیان سے فرمایا، ہم اہلبیت (ع) کرامت ، معدن رسالت اواعلام حق ہیں جن کے دلوں میں حق کو امانت رکھا گیا ہے اور وہ ہماری زبان سے بولتا ہے۔( امالی صدوق ۱۳۰ / ۱ روایت عبداللہ بن منصور از امام صادق (ع))۔

۲۶۴۔ امام حسین (ع) نے والی مدینہ ولید سے فرمایا، اے حاکم ، ہم لوگ نبوت کے اہلبیت (ع) ہیں اور رسالت کے معدن ، ملائکہ کی آمد و رفت ہمارے گھر رہتی ہے اور رحمت کا نزول ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ ہمارے ہی ذریعہ پروردگار نے شروع کیا ہے اور ہمیں پر ہر امر کا خاتمہ ہے۔( مقتل خوارزمی ۱ ص ۱۸۴ الملہوف ص ۹۸)۔

۲۶۵۔امام رضا (ع) (ع)! ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے کتاب میں خود اپنی تعریف کی ہے اور رحمت خدا حضرت محمد پر ہے جو خاتم الانبیاء اور بہترین خلائق ہیں اور پھر ان کی آل پر جو آل رحمت ، شجرۂ نبوت، معدن رسالت اور مرکز رفت و آمد ملائکہ ہیں۔( کافی ۵ ص ۳۷۳ /۷ ، عوالی للئالی ۲ص ۲۹۷ / ۷۷ بروایت معاویہ بن حکمی)۔

۲۶۶۔ ابن عباس ’ فاسئلوا اہل الذکر‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ حضرت محمد و علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) ہیں کہ یہی اہل ذکر و علم و عقل و بیان ہیں یہی نبوت کے اہلبیت (ع) ، رسالت کے معدن اور مرکز نزول ملائکہ ہیں۔( احقاق الحق ۳ ص ۴۸۲ ، ا لطرائف ۹۴ / ۱۳۱ ، نہج الحق ۲۱۰ بروایت حافظ محمد بن موسی الشیرازی از علماء اہلسنت)۔

۲۶۷۔ ابن عباس ! روز وفات پیغمبر ملک الموت نے دروازہ فاطمہ (ع) پر کھڑے ہو کر کہا کہ سلام ہو تم پر اے اہلبیت (ع) نبوت ، معدن رسالت، مرکز نزول ملائکہ اور اس کے بعد اجازت طلب کی جس پر جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ بابا ملاقات نہیں کرسکتے ہیں ، اور ملک الموت نے تین مرتبہ اجازت لی اور رسول اکرم نے التفات کر کے فرمایا کہ یہ ملک الموت ہیں۔( احقاق الحق ۹ ص ۴۰۲از روضة الاحباب)۔

۲۶۸۔ امام علی نقی (ع) زیارت جامعہ میں فرماتے ہیں سلام ہو تم پر اے اہل بیتِ نبوت، معدن رسالت ، مرکز نزول ملائکہ ، منزل وحی الہی اور مصدر رحمت پروردگار۔( تہذیب ۶ ص ۹۶ / ۱۷۷)۔

۱۸۔ ستون حق

۲۶۹۔ رسول اکرم ! یہ سب ائمہ ابرار ہیں ، یہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے۔( کفایة الاثر ص ۱۷۷ ، روایت عطاء از امام حسین (ع) )۔

۲۷۰۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہو جاؤ کہ پروردگار نے انہیں خیر کا اہل ، حق کا ستون اور اطاعت کے لئے تحفظ قرار دیا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ۲۱۴)۔

۲۷۱۔ امام علی (ع) ! ہم حق کے داعی ، خلق کے امام اور صداقت کی زبان ہیں ، جس نے ہماری اطاعت کی سب کچھ حاصل کر لیا اور جس نے ہماری مخالفت کی وہ ہلاک ہو گیا۔( غرر الحکم ۱۰۰۰۱)۔

۲۷۲۔ امام علی (ع) ! ہم نے ستون حق کو قائم کیا اور لشکر باطل کو شکست دی ہے۔( غرر الحکم ۹۹۶۹)۔

۲۷۳۔ امام علی (ع) ! ہم خدا کے بندوں پر اس کے امین اور اس کے شہروں میں حق کے قائم کرنے والے ہیں ، ہمارے ہی ذریعہ دوستوں کو نجات ملتی ہے اور دشمن ہلاک ہوتے ہیں۔(غرر الحکم ۱۰۰۰۴)۔

۲۷۴۔ امام علی (ع) ! خبردار حق سے الگ نہ ہو جانا کہ جو شخص بھی ہم اہلبیت (ع) کا بدل تلاش کرے گا وہ ہلاک ہو جائے گا او ردنیا و آخرت دونوں سے محروم ہو جائے گا۔( غرر الحکم ۱۰۴۱۳ ، خصال ۶۲۶ / ۱۰ ، بروایت ابوبصیر و محمد بن مسلم )۔

۲۷۵۔ امام حسین (ع) ! ہم رسول اللہ کے اہلبیت (ع) ہیں ، حق ہمارے اندر رکھا گیا ہے اور ہماری زبانیں ہمیشہ حق کے ساتھ کلام کرتی ہیں۔( الفتوح ۵ ص ۱۷، مقتل الحسین (ع) خوارزمی ۱ ص ۱۸۵)۔

۲۷۶۔ امام ہادی (ع)! اے ائمہ کرام ! حق آپ کے ساتھ آپ کے اندر آپ سے اور آپ کی طرف ہے اور آپ ہی اس کے اہل اور معدن ہیں۔( تہذیب ۶ ص ۹۷ / ۱۷۷)۔

۱۹۔ امراء الکلام

۲۷۷۔ امام علی (ع) ! ہم کلام کے امراء ہیں ، ہمارے ہی اندر اس کی جڑیں پیوست ہیں اور ہمارے ہی سر پر اس کی شاخیں سایہ افگن ہیں۔( نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۳ ، غرر الحکم ص ۲۷۷۴ ، اس روایت میں عروق و غصون کے بجائے فروغ و اغصان کا لفظ وارد ہوا ہے)۔

۲۷۸۔ امام صادق (ع) ! پروردگار نے ائمہ طاہرین (ع) کو مخلوقات کی زندگی تاریکی کا چراغ اور کلام کی کلید قرار دیا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۰۴ / ۲ روایت اسحاق بن غالب )۔

۲۰۔ صلح و جنگ پیغمبر

۲۷۹۔ زید بن ارقم ! رسول اکرم نے علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) سے خطاب کر کے فرمایا کہ جس سے تمھاری جنگ ہے اس سے میری جنگ ہے اور جس سے تمھاری صلح ہے اس سے میری صلح ہے۔( سنن ترمذی ۵ ص ۶۹۹ / ۳۸۷۰ ، سنن ابن ماجہ ۱ ص ۵۲ / ۱۴۵ ، مستدرک ۳ ص ۱۶۱ / ۴۷۱۴ ، المعجم الکبیر ۳ ص ۴۰ / ۲۶۱۹ ، مناقب کوفی ۲ ص ۱۵۶ / ۶۳۴ ، بشارة المصطفیٰ ص ۶۱ ص ۶۴ ، کشف الغمہ ۲ ص ۱۵۴۔

۲۸۰۔زید بن ارقم ! رسول اکرم نے اپنے مرض الموت میں علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کی طرف جھک کر فرمایا کہ تم سے جنگ کرنے والے کی جنگ مجھ سے ہے اور تم سے صلح رکھنے والے کی صلح مجھ سے ہے۔( تہذیب تاریخ دمشق ص ۳۱۹ ، امالی طوسی ص ۳۳۶ / ۶۸۰)۔

۲۸۱۔ ابوہریرہ ! رسول اکرم نے علی (ع) و حسن (ع) ، حسین (ع) و فاطمہ (ع) کو دیکھ کر فرمایا کہ جو تم سے جنگ کرے اس سے میری جنگ ہے اور جو تم سے صلح رکھے اس سے میری صلح ہے۔( مسند ابن حنبل ۳ ص ۴۴۶ / ۹۷۰۴ ، مستدرک ۳۱ ص ۱۶۱ / ۴۷۱۳ ، تاریخ بغداد ، ص ۱۳۷ ، المعجم الکبیر ۳ ص ۴۰ / ۲۶۲۱ ، البدایة والنہایة ۸ ص ۳۶ ، العمدہ ۵۱ /۴۵ ، روضة الواعظین ص ۱۷۵ ، الغدیر ۲ ص ۱۵۴)۔

۲۸۲۔ زید بن ارقم ! ہم رسول اکرم کی خدمت میں تھے، آپ حجرہ کے اندر تھے اور وحی کا نزول ہو رہاتھا اور ہم باہر انتظار کر رہے تھے، یہاں تک کہ گرمی شدید ہو گئی اور علی (ع) و فاطمہ و حسن (ع) و حسین (ع) بھی آ گئے اور سایہ دیوار میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے ، اس کے بعد جب رسول اکرم برآمد ہوئے تو ان حضرات کے پاس گئے اور سب کو ایک چادر اوڑھا کر جس کا ایک سرا آپ کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا علی (ع) کے ہاتھ میں ، ہمارے پاس آئے اور دعا کی خدایا میں انہیں دوست رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرمانا۔

میں ان سے صلح کرنے والے کا ساتھی ہوں اور ان سے جنگ کرنے والے کا ، دشمن ہوں … اور یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔(اشرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ۳ ص ۲۰۷)۔

۲۸۳۔ رسول اکرم نے مسلمانوں سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا ، مسلمانوا! جو اہل خیمہ کے ساتھ صلح رکھے اس سے میری صلح ہے اور جو ان سے جنگ کرے اس سے میری جنگ ہے، میں ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں ، ان کا دوست صرف خوش نصیب اور حلال زادہ ہوتا ہے اور ان سے دشمنی صرف بدقسمت اور پست نسب انسان کرتا ہے۔( مناقب خوارزمی ص ۲۹۷ / ۲۹۱ ، روایت زید بن یثیع از ابی بکر)۔

واضح رہے کہ اس وقت خیمہ میں صرف علی (ع) و فاطمہ (ع) حسن (ع) و حسین (ع) تھے اور بس۔

۲۸۴۔ امام زین العابدین (ع) ! ایک اور رسول اکرم تشریف فرما تھے اور ان کے پاس حضرت علی (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس نے مجھے بشیر بنا کر بھیجا ہے کہ روئے زمین پر خدا کی نگاہ میں ہم سب سے زیادہ محبوب اور محترم کوئی نہیں ہے ، پروردگار نے میرا نام اپنے نام سے نکالا ہے کہ وہ محمود ہے اور میں محمد ہوں اور یا علی (ع) تمھارا نام بھی اپنے نام سے نکالا ہے کہ وہ علی اعلیٰ ہے اور تم علی (ع) ہو اور اے حسن (ع) ہو اور اے حسین (ع) ! تمھارا نام بھی اپنے نام سے نکالا ہے کہ وہ ذو الاحسان ہے اور تم حسین (ع) ہو اور اے فاطمہ (ع) ! تمھارا نام بھی اپنے نام سے مشتق کیا ہے کہ وہ فاطر ہے اور تم فاطمہ (ع) ہو،

اس کے بعد فرمایا کہ خدایا میں تجھے گواہ کر کے کہتا ہوں کہ جو ان سے صلح رکھے اس سے میری صلح ہے اور جو ان سے جنگ کرے اس سے میری جنگ ہے میں ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمن کا دشمن ہوں۔ ان سے بغض رکھنے والے سے مجھے بغض ہے اور ان سے محبت کرنے والے سے میری محبت ہے۔ یہ سب مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔( معانی الاخبار ۵۵/۳ روایت عبداللہ بن الفضل الہاشمی)۔

۲۱۔ آغاز و انجام دین

۲۸۵۔رسول اکرم ! اللہ نے دین کا آغاز و انجام ہمیں کو قرار دیا ہے اور وہ ہمارے ہی ذریعہ بغض و عداوت کے بعد دلوں میں الفت پیدا کرتا ہے،(امالی مفید ۲۵۱ / ۴ ، امالی طوسی ۲۱ /۲۴ روایت عمر بن علی (ع) )۔

۲۸۶۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم نے اپنے بعد کے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے مہدی کے بارے میں فرمایا تو میں نے عرض کی کہ وہ ہم میں سے ہو گا یا غیروں میں سے ؟ فرمایا ، ہمیں میں سے ہو گا ، پروردگار نے ہمارے ہی ذریعہ دین کا آغاز کیا ہے، اور ہمیں پر تمام کرے گا، ہمارے ہی ذریعہ شرک کے بعد دلوں میں الفت پیدا کی ہے اور ہمارے ہی ذریعہ فتنہ کے بعد الفت پیدا کرے گا ! تو میں نے عرض کی خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ فضل و شرف عنایت فرمایا ہے۔( امالی طوسی (ر) ۶۶ / ۹۶ ، امالی مفید (ر) ۹ ص ۲۹۰ ، شرح نہج البلاغہ معتزلی ۹ ص ۲۰۶)۔

۲۸۷۔ عمر بن علی (ع) نے امام علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے رسول اکرم سے پوچھا کہ مہدی ہم میں ہو گا یا ہمارے غیر میں سے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ ہمیں میں سے ہو گا اللہ ہمارے ہی ذریعہ دین کو مکمل کرے گا جس طرح ہمارے ہی ذریعہ آغاز کیا ہے اور لوگوں کو شرک سے نکالا ہے، اب فتنوں سے نکال کر دلوں میں الفت پیدا کرے گا جس طرح شرک کی عداوت کے بعد الفت پیدا کی ہے۔

میں نے عرض کی کہ یہ لوگ مومن ہوں گے یا کافر ؟ فرمایا کہ فتنہ میں مبتلا اور کافر ( المعجم الاوسط ۱ ص ۵۷ / ۱۵۷ ، الحادی الفتاوی ۲ ص ۲۱۷)۔

۲۸۸۔ امام علی (ع) ، رسول اکرم نے فرمایا کہ یا علی (ع) اس امر کا آغاز بھی تمھیں سے ہے اور اختتام بھی تمھیں پر ہو گا، صبر کرنا تمھارا فرض ہے کہ انجام کار بہر حال صاحبان تقویٰ کے ہاتھوں میں ہے۔( امالی مفید ۱۱۰ / ۹ روایت محمد بن عبداللہ از امام رضا (ع))۔

۲۸۹۔ امام علی (ع) ! اللہ نے ہمیں سے اسلام کا افتتاح کیا ہے اور ہمیں پر اس کا اختتام کرے گا۔( احتجاج ۱ ص ۵۴۴ / ۱۳۱ روایت اصنبع بن نباتہ)۔

۲۹۰۔ امام علی (ع) ، ہمیں سے اللہ افتتاح کرتا ہے اور ہمیں پر کام کا اختتام ہوتا ہے۔( خصال ۶۲۶ / ۱۰ روایت ابو بصیر و محمد بن مسلم )۔

۲۹۱۔ امام علی (ع) ! ایھا النّاس ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن سے خدا نے جھوٹ کو دور رکھا ہے اور ہمارے ہی ذریعہ زمانہ کے شر سے نجات دیتا ہے، ہمارے ہی واسطہ سے تمھاری گردنوں سے ذلت کے پھندے کو جدا کرتا ہے اور ہمیں سے آغاز و اختتام ہوتا ہے۔( کتاب سُلَیم بن قیس ۲ ص ۷۱۷ / ۱۷ )۔

۲۹۲۔ امام باقر (ع) ! ایھا النّاس ! تم لوگ کدھر جا رہے ہو اور تمھیں کدھر لے جایا جا رہا ہے؟ اللہ نے ہمارے ذریعہ تمھارے اول کو ہدایت دی ہے اور ہمارے ہی ذریعہ آخر میں اختتام کرے گا۔( کافی ص ۲۷۱ / ۵ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۸۹ ، ۱۹۰ روایت ابوبکر الخصرمی)۔

۲۹۳۔ امام رضا (ع) ! ہمارے ہی ذریعہ خدا نے دین کا آغاز کیا ہے اور ہمارے ہی ذریعہ ختم کرے گا۔( تفسیر قمی ۲ ص ۱۰۴ از عبداللہ بن جندب)۔

۲۹۴۔ امام ہادی (ع) ! زیارت جامعہ … آپ ہی حضرات کے ذریعہ خدا شروع کرتا ہے اور آپ ہی پر خاتمہ کرتا ہے۔( تہذیب ۶ ص ۹۹ / ۱۷۷ ، کامل الزیارات ص ۱۹۹ ، بحار الانوار ۲۳ ص ۲۱۸ / ۱۹ / ۲۶ ، ۲۴۸ / ۱۸ ، احقاق الحق ۱۳ ص ۱۲۸ ، مجمع الزوائد ص ۶۱۶ / ۱۲۴۰۹ ، کنز العمال ۴ ص ۵۹۸ / ۳۹۶۸۲)۔

۲۲۔ان کا قیاس ممکن نہیں ہے

۲۹۵۔ رسول اکرم ، ہم اہل بیت وہ ہیں جن پر کسی کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے۔( الفردوس ۴ ص ۲۸۳ ، ۶۸۳۸ ، فرائد السمطین ۱ ص۴۵ ، ذخائر العقب ص ۱۷ ، روایت انس ، ینابیع المودہ ۲ ص ۱۱۴/۳۲۲ روایت ابن عباس)۔

۲۹۶۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جن کا مقابلہ کسی شخص سے نہیں کیا جا سکتا ہے، جو ہمارا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے۔( ارشاد القلوب ص ۴۰۴)۔

۲۹۷۔ امام علی (ع) ! آل محمد پر اس امت میں سے کسی شخص کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے اور ان کے برابر اسے نہیں قرار دیا جا سکتا ہے جس پر ہمیشہ ان کی نعمتوں کا سلسلہ رہا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۲، غرر الحکم ۱۰۹۰۲)۔

۲۹۸۔امام علی (ع)، ہم اہلبیت (ع) ہیں ، ہم پر کسی آدمی کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے۔ہمارے گھر میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہمارے یہاں رسالت کا معدن ہے۔(عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۶۶ / ۲۹۷ ، کشف الغمہ ۱ ص ۴۰)۔

۲۹۹۔امام علی (ع) ! ہم نجیب افراد ہیں ، ہماری اولاد انبیاء کی اولاد ہیں اور ہمارا گروہ اللہ کا گروہ ہے ، ہمارا باغی گروہ شیطانی گروہ ہے اور جو ہمارے اور دشمن کے درمیان مساوات قائم کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔( فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ ص ۲۷۹ / ۱۱۶۰ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۳ ص ۱۴۴ / ۱۱۸۹ ، امالی طوسی (ر) ۲۷۰ / ۵۰۲ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۲۸ روایت حبہ عرنی ، مناقب امیر المؤمنین (ع) کوفی ۲ ص ۱۰۷۔

۳۰۰۔ حارث ! امیر المومنین (ع) نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) کا قیاس لوگوں پر نہیں کیا جا سکتا ہے… تو ایک شخص نے ابن عباس سے دریافت کیا۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ انھوں نے کہا بیشک ! جس طرح پیغمبر کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے اور علی (ع) کے بارے میں تو صاف اعلان قدرت ہے‘ جن لوگوں نے ایمان اور عمل صالح اختیار کیا وہ بہترین مخلوقات ہیں۔( مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۶۸ نقل از کتاب ’ ما نزل من القرآن فی علی (ع) ‘ ابونعیم اصفہانی )۔

۳۰۱۔عباد بن صہیب ! میں نے امام صادق سے دریافت کیا کہ ابوذر افضل ہیں یا آپ اہلبیت (ع)! فرمایا ابن صہی ! سال کے کتنے مہینے ہوتے ہیں ؟

میں نے عرض کی بارہ … فرمایا محترم کتنے ہیں ؟

میں نے عرض کی چار

فرمایا کیا ماہ رمضان ان میں ہے؟ میں نے عرض کی نہیں

فرمایا پھر ماہ رمضان افضل ہے یا یہ چار؟

میں نے عرض کی ماہ رمضان

فرمایا اسی طرح ہم اہلبیت (ع) ہیں کہ ہمارا قیاس کسی پر نہیں کیا جا سکتا ہے اور یاد رکھو کہ خود ابوذر اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جب اصحاب میں افضلِ اصحاب کے بارے میں بحث ہو رہی تھی تو ابوذر نے کہا کہ افضلِ اصحاب علی (ع) بن ابی طالب ہیں ، کہ وہی قسیم جنت و نار ہیں اور وہی صدیق و فاروق امت ہیں اور وہی قوم پر پروردگار کی حجت ہیں … جس پر ہر شخص نے منہ پھیر لیا اور ان کی تکذیب کرنے لگا ، یہاں تک کہ ابوامامہ باہلی نے رسول اکرم کو واقعہ کی خبر دی تو آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی ایسے شخص پر آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے اس کا بوجھ نہیں اٹھایا جو ابوذر سے زیادہ صادق القول ہو۔( علل الشرائع ۳ / ۱۷۷)۔

جامع خصوصیات

۳۰۲۔ رسول اکرم ! پروردگار نے مجھ میں اور میرے اہلبیت (ع) میں فضیلت، شرف، سخاوت، شجاعت، علم اور حلم سب کو جمع کر دیا ہے، ہمارے لئے آخرت ہے اور تمھارے لئے دنیا۔ ( ینابیع المودة ۲ ص ۳۰۲ / ۸۶۳ از ابن عمر، احقاق الحق ۱۸ ص ۵۳۲ از مودة القربیٰ )۔

۳۰۳۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) کو سات فضائل دئے گئے ہیں جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیئے گئے ہیں اور نہ ہمارے بعد دیئے جائیں گے صباحت ، فصاحت، سماحت، شجاعت، حلم، علم ، خواتین کی قدردانی و محبت (الجعفریات ص ۱۸۲ ، نوادر راوندی ص ۱۵ ، مناقب ابن مغازلی ۲۹۵ / ۳۳۷)۔

۳۰۴۔ رسول اکرم ! میں نے پروردگار سے دعا کی کہ علم و حکمت کو میری اولاد اور میری کشتِ حیات میں قرار دیدے تو میرے دعا قبول ہو گئی۔( ینابیع المودة ۱ ص ۷۴/ ۹ ، کفایة الاثر ص ۱۶۵ لفظ زرعی تک)۔

۳۰۵۔ رسول اکرم پروردگار عالم نے ہم میں دس خصائل کو جمع کر دیا ہے جو نہ ہم سے پہلے کسی میں جمع ہوئے ہیں اور نہ ہمارے بعد ہوں گے۔

حکمت ، علم ، نبوت، سماحت، شجاعت، میانہ روی ، صداقت، عبادت، عفت … ہم کلمہ تقویٰ ، سبیل ہدایت۔ مثل اعلیٰ ، حجت عظمیٰ ، عروة الوثقیٰ اور حبل المتین میں اور ہمیں وہ ہیں جن کی محبت کا حکم دیا گیا اور ’ ہدایت کے بعد ضلالت کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو تم لوگ کدہر لے جائے جا رہے ہو‘۔( خصال۴۳۲/۱۴ از عبداللہ بن عباس ، تفسیر فرات کوفی ۱۷۸ / ۲۰۳ ، ۳۰۷ / ۴۱۲)۔

۳۰۶۔ رسول اکرم ! دربارۂ علی (ع) ! یہ سید الاوصیاء ہیں ، ان سے ملحق ہو جانا سعادت ہے اور ان کی اطاعت پر مرنا شہادت ہے، ان کا نام توریت میں میرے نام کے ساتھ ہے اور ان کی زوجہ میری دختر صدیقہ کبریٰ ہے اور ان کے فرزند میرے فرزند سرداران جوانان جنت ہیں ، یہ تینوں اور ان کے بعد کے تمام ائمہ انبیاء کے بعد مخلوقات پر اللہ کی حجت ہیں ، یہ سب امت میں میرے علم کے دروازے ہیں ،جو ان کا اتباع کرے گا نجات پائے گا اور جو ان کی اقتدا کرے گا اسے صراط مستقیم کی ہدایت مل جائیگی۔ پروردگار نے کسی شخص کو ان کی محبت نہیں عطا فرمائی مگر یہ کہ وہ داخل جنت ہو گیا۔( امالی صدوق ۲۸ / ۵ ، مشارق انوار الیقین ص ۵۶ ، حلیة الابرار ۱ ص ۲۳۵)۔

۳۰۷۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) شجرۂ نبوت ، محل رسالت ، مرکز رفت و آمد ملائکہ ، بیت رحمت ا ور معدن علم ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۲۱ ، بصائر الدرجات ۱ ص ۵۶ )۔

۳۰۸۔ امام علی (ع) ! پروردگار نے ہمیں پانچ خصوصیات عنایت فرمائے ہیں فصاحت صباحت ، بخشش ، نجدہ ( دلیری) عورتوں کے نزدیک محبت۔(خصال ۲۸۶ / ۴۰ ، نثر الدرر ۱ ص ۲۷۰)۔

۳۰۹۔ امام علی (ع) ! جب آپ سے قریش کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ بنو مخزوم گل قریش ہیں ، ہم ان کے مردوں کی گفتگو کو پسند کرتے ہیں اور ان کی عورتوں سے عقد کو پسندیدہ قرار دیتے ہیں ، لیکن بنو عبد شمس انتہائی بے عقل اور بخیل ہیں اور ہم اہلبیت (ع) اپنی دولت کے عطا کرنے والے، ہنگام موت جان قربان کرنے والے ہیں ، بنوعبد شمس اکثریت میں ہیں لیکن مکار اور بدصورت ہیں اور ہم صاحبان فصاحت و نصیحت و صباحت ہیں۔( نہج البلاغہ حکمت ص ۱۲۰)۔

۳۱۰۔ امام علی (ع) ! اہلبیت (ع) ہی کے گھر میں قرآن کریم کی عظیم آیات ہیں اور یہی رحمان کے خزانے ہیں ، جب بولتے ہیں تو سچ بولتے ہیں اور جب چپ رہتے ہیں تب بھی کوئی ان سے آگے نہیں جا سکتا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص ۱۵۴ )۔

۳۱۱۔ امام علی (ع) (ع)! خدا کی قسم ہمیں تبلیغ رسالت ، ایفائے وعدہ اور تمام کلات کا علم دیا گیا ہے، ہمارے پاس حکم کے پاس حکم کے ابواب اور امر کی روشنی ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص ۱۲۰)۔

۳۱۲۔ امام علی (ع) ہمارے ذریعہ تم نے تاریکیوں میں ہدایت پائی ہے اور بلندیوں کی منزل تک پہنچے ہو اور ہمارے ہی ذریعہ اندھیروں سے روشنی میں آئے ہو۔ وہ کان بہرے ہیں جو حرف حق کو سنن نہ سکیں اور ہلکی آواز کو وہ کیا محسوس کرے گا جسے شور و شعب نے بہرہ بنا دیا ہے مطمئن وہی دل ہے جو مسلسل دھڑکتا رہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص ۴)۔

۳۱۳۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہو جاؤ کہ ہم اہلبیت (ع) حکمت کے ابواب ، ظلمت کے نور ، اور امت کی روشنی ہیں۔( غرر الحکم ص ۲۷۸۶)۔

۳۱۴۔ امام علی (ع) ! ہم زمین و آسمان کے انوار اور نجات کے سفینے ہیں ، ہمارے ہی پاس پوشیدہ ، اسرار علم ہیں اور ہماری ہی طرف امور کی بازگشت ہے ، ہمارے مہدی کے ذریعہ تمام دلائل کو قطع کیا جائے اور وہ خاتم الائمہ۔ہو گا، وہی امت کو تباہی سے نکالنے والا ہو گا اور وہ نور کی انتہا، خدا کا راز سربستہ ہو گا، خوش بخت ہے وہ جو ہم سے متمسک ہو جائے اور ہماری محبت پر محشور ہو۔(تذکرة الخواص ص ۱۳۰ ، مروج الذھب ۱ ص ۳۳)۔

۳۱۵۔ امام علی (ع) ! ایھا الناس ، ہم حکمت کے دروازے ، رحمت کی کلید، امت کے سردار، کتاب کے امین ، حرف آخر کہنے والے ہیں ہمارے ہی وسیلہ سے ثواب ملتا ہے اور ہماری ہی مخالفت میں عذاب ملتا ہے۔( مشارق انوار الیقین ص ۵۱)۔

۳۱۶۔ ابوحمزہ ثمالی کا بیان ہے کہ امیر المومنین (ع) نے خطبہ ارشاد فرمایا تو حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ پروردگار نے حضرت محمد کو رسالت کے لئے منتخب کیا اور وحی کے ذریعہ باخبر بنایا اور لوگوں میں درجہ کمال عنایت فرمایا۔ ہم اہلبیت (ع) کے گھر میں علم کے مرکز ، حکمت کے ابواب اور امور کی وضاحت ہے، جو ہم سے محبت کرے گا اس کا ایمان کارآمد ہو  گا اور عمل بھی مقبول ہو گا اور جو ہم سے محبت نہ کرے گا اس کا ایمان بے فائدہ ہو گا اور عمل بھی قابل قبول نہ ہو گا۔( بصائر الدرجات ۳۶۵ / ۱۲ )۔

۳۱۷۔ جناب فاطمہ (ع) ! ( خطبہ فدک کے ذیل میں ) پروردگار نے ایمان کو لازم قرار دیا تاکہ تمھیں شرک سے پاک کرے اور ہماری اطاعت کو ملت کا نظام اور ہماری امامت کو تفرقہ سے امان کا ذریعہ قرار دیا ، ہماری محبت عزت اسلام ہے ، ہم ہمیشہ حکم دیتے رہے اور تم عمل کرتے رہے یہاں تک کہ اسلام کی چکی ہماری بدولت چلنے لگی اور فوائد حاصل ہونے لگے شرک کا نعرہ دب گیا اور جنگ کی آگ بجھ گئی ، ہنگاموں کی آواز دھیمی پڑ گئی اور دین کا نظام مرتب ہو گیا۔( بلاغات النساء ص ۳۰ روایت زید بن علی (ع) ، احتجاج ۱ ص ۲۵۸ ، ۲۷۱ ، کشف الغمہ ۲ ص ۱۰۹ ، ۱۱۷ ، مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۲۰۷ ، دلائل الامامة ۱۱۳ / ۳۶ )۔

۳۱۸۔ جناب فاطمہ (ع) ! اللہ سے ڈرو جوڈر نے کا حق ہے ، ہم مخلوقات میں اس کا وسیلہ اور اس کے خواص ہیں ، ہم اس کی پاکیزگی کا مرکز اور غیب میں اس کی حجت ہیں اور ہمیں انبیاء کے وارث ہیں۔( شرح نہج البلاغہ ۱۶ ص ۲۱۱ از کتاب ابوبکر احمد بن عبدالعزیز الجوہری ، دلائل الامامة ۱۱۳/ ۳۶)۔

۳۱۹۔ امام حسین (ع) بروز عاشور

ہم اس علی (ع) کے فرزند ہیں جو بنی ہاشم میں سب سے افضل ہے اور یہی ہمارے فخر کے واسطے کافی ہے۔

ہمارا جد رسول اکرم ہے جو روئے زمین پر قدرت کا روشن چراغ ہے۔

ہماری مادر گرامی فاطمہ (ع) بنت رسول ہیں اور ہمارے چچا حضرت جعفر طیار ہیں۔

ہمارے ہی گھر میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہمارے ہی یہاں ہدایت اور وحی کا مرکز ہے۔

ہم مخلوقات کے لئے وجہ امان ہیں اور اس بات کا خفیہ و اعلانیہ ہر طرح وجود پایا جاتا ہے۔

ہم حوض کوثر کے مختار ہیں جہاں اپنے دوستوں کو رسول اکرم کے جام سے سیراب کریں گے۔

ہمارے شیعہ بہترین شیعہ ہیں اور ہماری دشمن روز قیامت خسارہ میں رہیں گے۔( مناقب ابن شہر آشوب ۴ /۸۰ ، احتجاج ۲ ص ۲۵ ، ینابیع المودة ۳ ص ۷۵ ، موسوعہ کلمات الامام الحسین (ع) ۴۹۸ / ۲۸۶)۔

۳۲۰۔ امام زین العابدین (ع) ( خطبہ دربار یزید)

ایھا النّاس ہمیں چھ کمالات دیئے گئے ہیں اور سات اعتبارات سے فضیلت دی گئی ہے ، ہمارے لئے قدرت کے عطایا علم ، حلم ، سماحت ، فصاحت ، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت ہے اور ہماری فضیلت کے جہات یہ ہیں کہ رسول مختار ہمیں میں سے ہیں ، صدیق ( حضرت علی (ع) ) ہمیں میں سے ہیں۔طیار ( جعفر ) ہمیں میں سے ہیں … اسداللہ و اسدالرسول (حمزہ) ہمیں میں سے ہیں و سیدة نساء العالمین فاطمہ (ع) بتول ہمیں میں سے ہیں ، سبطین امت سرداران جوانان اہل جنت ہمیں میں سے ہیں۔( مقتل الحسین خوارزمی ۲ ص ۶۹)۔

واضح رہے کہ ساتویں فضیلت یہ ہے کہ مہدی امت بھی ہمارے ہی گھرانے کی ایک فرد ہے۔(جوادی)

۲۲۱۔ امام زین العابدین (ع) ! اہلبیت (ع) ایک مبارک شجرہ کی شاخیں ہیں اور ان منتخب افراد کی نسل ہیں جنہیں ہر رجس سے دور رکھا گیا ہے اور کمال طہارت کی منزل پر رکھا گیا ہے، اللہ نے انھیں تمام عیوب سے دور رکھا ہے اور ان کی موت کو قرآن میں واجب قرار دیا ہے، یہی عروة الوثقیٰ ہیں اور یہی معدن تقویٰ ہیں ، بہترین ریسمان ہدایت اور مضبوط ترین وسیلۂ  نجات ( ینابیع المودة ۲ ص ۳۶۷ ، کشف الغمہ ۲ ص ۳۱۱ ، صواعق محرقہ ص ص ۱۵۲)۔

۳۳۲۔ امام (ع) باقر ! ہم حجت خدا ، باب اللہ ، لسان اللہ ، وجہ اللہ ، عین اللہ اور بندوں میں والی امر الہی ہیں۔( کافی ۱ ص ۱۴۵ ، بصائر الدرجات ۱ ص ۶۱ ، بحار الانوار ۲۵ ص ۳۸۴)۔

۳۲۳۔ امام محمد باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) رحمت ، شجرۂ نبوت ، معدن حکمت، محل نزول ملائکہ اور مرکز نزول وحی الہی ہیں۔( ارشاد ۲ ص ۱۶۸ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۲۰۶ ، الخرائج و الجرائح ۲ ص ۸۹۲ ، بصائر الدرجات ۵ ص ۵۷ ، حلیة الابرار ۲ ص ۹۵)۔

۳۲۴۔امام باقر (ع) ! ہم وہ ہیں جن سے آغاز ہوتا ہے اور ہم وہ ہیں جن پر اختتام ہوتا ہے، ہم ائمہ ہدی اور تاریکیوں کے چراغ ہیں ، ہمیں ہدایت کے منارے ہیں ، ہمیں سب سے سابق ہیں اور ہمیں سب سے آخر ہیں۔( کمال الدین ص ۲۰۶ / ۲۰ ، امالی طوسی ۶۵۴ /۱۳۵۴ ، بصائر الدرجات ۶۳ / ۱۰ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۲۰۶ ، ارشاد القلوب ص ۴۱۸ روایت خثیمہ الجعفی )۔

۳۲۵۔ امام باقر (ع) ! ہم جب کسی شخص کو دیکھتے ہیں تو اسے حقیقت ایمان اور حقیقت نفاق دونوں کے ذریعہ پہچان لیتے ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۳۸، عیون اخبار الرضا ۲ ص ۲۲۷ ، اختصا ص ۲۷۸ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۸۸ ، بصائر الدرجات ۵ ص ۲۸۸)۔

۳۲۶۔ امام صادق (ع) ! ہم وہ قوم ہیں جن کی اطاعت پروردگار نے واجب قرار دی ہے ، انفاق ہمارے ہی لئے ہیں اور منتخب اموال بھی ہمارا ہی حصہ میں ہمیں راسخوں فی العلم ہیں اور راسخوں فی العلم ہیں اور ہمیں وہ محسود ہیں جن کے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے کیا یہ لوگ ہمارے بندوں سے اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ ہم نے انہیں اپنے فضل سے بہت کچھ عطا کر دیا ہے۔( کافی ۱ ص ۱۸۶ ، تہذیب ۴ ص ۱۳۲ ، تفسیر عیاشی ۱ ص ۲۴۷ ، بصائر الدرجات ص۲۰۲)۔

۲۳۷۔ امام صادق (ع) ! ہم اہلبیت (ع) ہیں ہمارے پاس علم کے مرکز ، نبوت کے آثار ، کتاب کا علم اور فیصلہ کی مکمل صلاحیت ہے۔( اختصاص ص ۳۰۹ ، بصائر الدرجات ۴ ص ۳۶۳)۔

۳۲۸۔ امام صادق (ع) ! پروردگار نے ہم اہلبیت (ع) کے ذریعہ اپنے دین کی وضاحت کی ہے اور ہدایت کے راستہ کو روشن کیا ہے اور علم کے چشموں کو جاری کیا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۰ ، الغیبتہ نعمانی ص ۲۲۴ )۔

۳۲۹۔ امام صادق (ع) ! ہم شجرہ نبوت، بیت رحمت ، مفاتیح حکمت، معدن علم ، محل رسالت، مرکز آمد و رفت ملائکہ ، موضع راز الہی ، بندوں میں اللہ کی امانت، خدا کا حرم اکبر ، مالک کا عہد و پیمان ہیں ، جو ہمارے عہد کو وفا کرے گا اس نے عہد الہی کو وفا کیا ہے اور جس نے ہمارے عہد کی حفاظت کی اس نے عہد الہی کی حفاظت کی ، اور جس نے اسے توڑ دیا اس نے عہد الہی کو توڑ دیا۔( کافی ۱ ص ۲۲۱ ، بصائر الدرجات ۵۷)۔

۳۳۰۔امام صادق (ع) ! ہم شجرہ نبوت، معدن رسالت، مرکز نزول ملائکہ، عہد الہی، امانت و حجت پروردگار ہیں۔( تفسیر قمی ۲ ص ۲۸)۔

۳۳۱۔ امام صادق (ع) ! ہم شجرۂ علم اور اہل بیت النبی ہیں ، ہمارے گھر میں جبریل کا نزول ہوتا تھا، ہم علم کے خزانہ دار اور وحی الہی کے معاون ہیں ، جس نے ہمارا اتباع کیا وہ نجات پا گیا اور جس نے ہم سے علیحدگی اختیار کی وہ ہلاک ہو گیا اور یہ پروردگار کا عہد ہے۔( امالی صدوق (ر) ص ۲۵۳ ، روضة الواعظین ص ۲۹۹ ، بشارة المصطفیٰ ص ۵۴)۔

۳۳۲۔ امام صادق (ع) ! ہم بندوں میں حجت پروردگار اور مخلوقات پر اس کے گواہ ہیں ، وحی کے امانتدار ہیں اور علم کے خزانہ دار، ہم وہ چہرہ الہی ہیں جس کی طرف رخ کیا جاتا ہے اور مخلوقات میں اس کی چشم بینا، زبان گویا اور قلب واعی ہیں ، ہمیں وہ باب ہیں جو اس تک پہنچاتا ہے اور اس کے امر کے جاننے والے، اس کی راہ کی طرف ہدایت کرنے والے ہیں ، ہمارے ہی ذریعہ سے خدا کو پہچانا گیا اور اس کی عبادت کی گئی ہے اور ہمیں اس کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں ، ہم نہ ہوتے تو کوئی عبادت کرنے والا نہ ہوتا۔( توحید ۱۵۲ /۹)۔

۳۳۳۔امام صادق (ع) ! ہم ہر خیر کی اصل ہیں اور ساری نیکیاں ہماری فروع ہیں ، نیکیوں میں عقیدہ توحید، نماز، روزہ ، غصہ کو ضبط کرنا ، خطاکار کو معاف کر دینا ، فقیروں پر رحم کرنا ، ہمسایہ کا خیال رکھنا ، صاحبان فضل کے فضل کا اقرار کرنا سب شامل ہیں ،ہمارے دشمن برائیوں کی جڑ ہیں اور ان کے فروع میں ہر برائی اور بدکاری شامل ہے جس میں سے جھوٹ، بخل ، چغلخوری ، قطع رحم، سود خواری، مال یتیم کا کھا جانا، حدود الہی سے تجاوز کرنا ، فواحش کا ارتکاب، چوری اورا سکے جملہ امثال ہیں۔

جھوٹا ہے وہ شخص جس کا خیال یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے اور پھر ہمارے اغیار کے فروع سے وابستہ ہے۔( کافی ۸ ص ۲۴۲ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۲۲)۔

۳۳۴۔امام صادق (ع) ! ہم کتاب خدا کی کلیدہیں ہمارے ہی ذریعہ اہل علم بولتے ہیں ، ہم نہ ہوتے تو سب گونگے رہ جاتے۔(اختصاص ص ۹۰ ، بروایت حمید بن المثنئ العجل)۔

۳۳۵۔ امام رضا (ع) ! ہم مخلوقات پر اللہ کی حجت اور بندوں میں اس کے خلیفہ ہیں۔اس کے راز کے امانتدار ، کلمہ تقویٰ اور عروة الوثقیٰ ہیں۔( کمال الدین ۶ ص ۲۰۲ ، ارشاد القلوب ص ۴۱۷)۔

۳۳۶۔ امام رضا (ع) ! ہم آل محمد جادۂ وسطیٰ ہیں ، غالی ہم کو پا نہیں سکتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا ہم سے آگے نہیں جا سکتا ہے۔( کافی ۱ ص ۱۰۱ ، ا لتوحید ۱۱۴ / ۱۳)۔

۳۳۷۔امام رضا (ع) ! ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جن کے بچے بزرگوں کے مکمل وارث ہوتے ہیں۔( کافی ۱ ص ۳۲۰، ارشاد ۲ ص ۲۷۶ ، اختصاص ص ۲۷۹ ، بصائر الدرجات ص ۲۹۶ ، الخرائج والجرائح ۲ ص ۸۹۹ / ۴ روایت معمر بن خلاد)۔

۳۳۸۔ امام رضا (ع) ! ہماری آنکھیں دوسرے لوگوں جیسی نہیں ہیں ، ہم میں ایک ایسا نور پایا جاتا ہے جس میں شیطان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔( امالی طوسی (ر) ص ۲۴۵ / ۴۲۷ ، بصائر الدرجات ص ۴۱۹)۔

۲۳۹۔ امام جواد (ع) ! ہم میں جو شخص بھی ہے وہ امر الہی کے ساتھ قیام کرنے والا اور دین خدا کی ہدایت دینے والا ہے۔( کمال الدین ۳۷۸ ، احتجاج ۲ ص۴۸۱)۔

۳۴۰۔ امام جواد (ع) ! حمد سے اس خدا کے لئے جس نے ہمیں اپنے نور اور اپنے دست قدرت سے خلق کیا اور تمام مخلوقات میں منتخب قرار دیا اور تمام کائنات کے لئے اپنا امین بنا دیا۔( دلائل الامة ۳۸۴ / ۳۴۲ روایت محمد بن اسماعیل از عسکری ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ۳۸۷)۔

۳۴۲۔امام ہادی (ع) ! ہم وہ کلمات الہی ہیں جو تمام نہیں ہوسکتے اور ہمارے فضائل کا ادراک نہیں ہوسکتا ہے۔( اختصاص ص ۹۴ ، تحف العقول ص ۴۷۹ از موسی المبرقع ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۴۰۴ ، احتجاج ۲ ص ۴۹۹ / ۳۳۱ ’ بغیر اسناد‘)۔

۳۴۳۔ موسیٰ بن عبداللہ النخعی کہتے ہیں کہ میں نے امام علی نقی (ع) سے گزارش کی کہ مجھے ایک ایسے جامع اور بلیغ کلام کی تعلیم دیں جس کے ذریعہ آپ حضرات میں ہر ایک کی زیارت کرسکوں ؟ فرمایا غسل کر کے حرم کے دروازہ پر جا کر کھڑے ہو جاؤ اور کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کر کے یوں کہو۔

’ سلام ہو آپ حضرات پر اے اہلبیت (ع) نبوت اور معدن رسالت ملائکہ کی رفت و آمد کے مرکز اور وحی کے نزول کی منزل ، رحمت کے معدن اور علم کے خزانہ دار، حلم کی منزل آخر اور کرم کے اصول ، امتوں کے قائد اور نعمتوں کے مالک ،نیک بندوں کی اصل اور نیک کرداروں کے ستون، بندوں کے منتظم اور شہروں کے ارکان، ایمان کے ابواب اور رحمان کے امانتدار، انبیاء کی ذریت اور مرسلین کے منتخب روزگار اور رب العالمین کے پسندیدہ بندہ کی عترت … اور آپ ہی پر تمام رحمتیں اور برکتیں ہوں۔( تہذیب ۶ ص ۹۵ / ۱۷۷)۔

مولف ! اس مقام پر اس مکمل زیارت کا مطالعہ ضروری ہے کہ اس سے تمام خصائص اہلبیت (ع) کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

۳۴۴۔ اما عسکری (ع) ! ہم پناہ کے طلب گاروں کی جائے پناہ، روشنی حاصل کرنے والوں کی روشنی ، تحفظ چاہنے والوں کے لئے وسیلہ حفاظت ہیں ، جو ہم سے محبت کرے گا ہمارے ساتھ بلندترین منزل پر ہو گا اور جو ہم سے انحراف کرے گا اس کی جگہ جہنم ہو گی۔( رجال کشی ۲ ص ۸۱۴ / ۱۰۱۸ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۴۳۵ ، الخرائج والخرائج ۲ ص ۸۴۰ / ۵۴ ، کشف الغمہ ۳ ص ۲۱۱ روایت محمد بن الحسن بن میمون)۔

۳۔ امام مہدی (ع) ! اللہ نے انہیں اوصیاء کے ذریعہ دین کو زندہ رکھا، نور کو تمام کیا اور ان کے اور ان کے تمام برادران ، ابناء عم، قرابتداروں کے درمیان واضح فرق رکھا کہ جس کے ذریعے حجت کو اس سے جس پر حجت تمام کی جائے اور امام کو ماموم سے جدا کر دیا جائے ، انہیں گناہوں سے محفوظ اور عیوب سے پاکیزہ کر دیا ، کثافت سے پاک رکھا اور شبہات سے منزل قرار دیا ، انہیں علم کا خزانہ دار، حکمت کا امانتدار اور اسرار کی منزل قرار دیا اور پھر دلائل سے ان کی تائید کی کہ ایسا نہ ہوتا تو تمام لوگ ایسے جیسے ہو جاتے اور ہر شخص امر آلہی کا دعویدار بن جاتا، نہ حق باطل سے الگ پہچانا جاتا اور نہ عالم و جاہل میں کوئی امتیاز ہوتا۔(الغیبتہ طوسی (ر) ص ۲۸۸ / ۲۴۶، احتجاج ج۲ ص ۵۴۰ / ۳۴۳ روایت احمد بن اسحاق )۔


علم اہلبیت (ع)

خصائص علوم اہلبیت (ع)

۱۔ خزانہ دار علوم الہیہ

۳۴۷۔ رسول اکرم ! پروردگار نے اہلبیت (ع) کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ سب تمھارے بعد میرے علوم کے خزانہ دار ہیں۔( کافی ۱ ص ۱۹۳ / ۴ ، بصائر الدرجات ۱۰۵ / ۱۲ ، روایت ابوحمزہ ثمالی از امام (ع) باقر)۔ ۳۴۸۔ امام باقر (ع) خدا کی قسم ہم زمین و آسمان میں اللہ کے خزانہ دار ہیں لیکن اس کے خزانۂ علم … کے خزانہ دار نہ کہ سونے اور چاندی کے۔( کافی ۱ ص ۱۹۲ / ۲)۔

۳۴۹۔ امام باقر (ع) ! ہم علم خدا کے خزانہ دار اور وحی الہی کے ترجمان ہیں۔

(کافی ۱ ص ۱۹۲ / ۳ روایت سدیر ۱ ص ۲۶۹/۶ اس مقام پر وحی کے بجائے امر کا لفظ ہے، اعلام الوریٰ ص ۲۷۷ روایت سدیر)۔

۳۵۰۔ امام باقر (ع) ! پروردگار کے لئے ایک علم خاص ہے اور ایک علم عام، علم خاص وہ ہے جس کی اطلاع ملائکہ مقربین اور انبیاء مرسلین کو بھی نہیں ہے، اور علم عام وہ ہے جسے اس نے ملائکہ اور مرسلین کو عنایت فرما دیا ہے اور ہم تک یہ علم رسول اکرم کے ذریعہ پہنچا ہے۔( التوحید ۱۳۸ / ۱۴ روایت ابن سنان از امام صادق ، بصائر الدرجات ۱۱۱ / ۱۲ روایت حنان کندی)۔

۳۵۱۔ امام صادق (ع) ! ہم انبیاء کے وارث ہیں اور ہمارے پاس حضرت موسیٰ کا عصا ہے، ہم زمین میں پروردگار کے خزانہ دار ہیں لیکن سونے چاندی کے نہیں۔( تفسیر فرات کوفی ۱۰۷ / ۱۰۱ از ابراہیم )۔

۳۵۲۔ امام صادق (ع) ! ہم علم کے شجر ہیں اور نبی کے اہلبیت (ع) ہمارے گھر میں جبریل کے نزول کی جگہ ہے اور ہم علم الہی کے خزانہ دار ہیں ، ہم وحی خدا کے معدن ہیں اور جو ہمارا اتباع کرے گا وہ نجات پائے گا اور جو ہم سے الگ ہو جائے گا وہ ہلاک ہو جائے گا، یہی پروردگار کا عہد ہے۔( امالی (ر) صدوق ۲۵۲ / ۱۵ ، بشارة المصطفی ص ۵۴ از ابوبصیر ، روضة الواعظین ص ۲۹۹ بصائر الدرجات ص ۱۰۳ باب ۱۹)۔

۲۔ ظرف علم الہی

۳۵۳۔ امام زین العابدین (ع) ! ہم خدا کے ابواب ہیں اور ہمیں صراط مستقیم ہیں ، ہمیں اس کے علم کے ظرف ہیں اور ہمیں اس کی وحی کے ترجمان ، ہمیں توحید کے ارکان ہیں اور ہمیں اس کے اسرار کے مرکز (معانی الاخبار ۳۵ / ۵ ، ینابیع المودة ۳ ص۳۵۹ /۱ روایت ثابت ثمالی)۔

۳۵۴۔ امام صادق (ع) ! ہم امر الہی کے والی ، علم الہی کے خزانہ دار اور وحی خدا کے ظروف ہیں۔( کافی ۱ ص ۱۹۲ /۱ ، بصائر الدرجات ۶۱ / ۳ ، ۱۰۵/۸ روایت عبدالرحمان بن کثیر)۔

۳۵۵۔ امام صادق (ع)۔ پروردگار نے ہمیں اپنے لئے منتخب کیا ہے اور تمام مخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے ، ہمیں وحی کا امین اور زمین میں اپنا خزانہ بنایا ہے ، ہمیں اس کے اسرار کے محل اور اس کے علم کے ظرف ہیں۔(بصائر الدرجات ۶۲ /۷ ، روایت عباد بن سلیمان)۔

۳۵۶۔ وہب بن منبہ راوی ہیں کہ پروردگار نے جناب موسیٰ کی طرف وحی کی کہ محمد اور ان کے اوصیاء کے ذکر سے متمسک رہو کہ یہ سب میرے علم کے خزانہ دار۔ میرے حکمت کے ظروف اور میرے نور کے معدن ہیں۔( بحار ۵۱ / ص ۱۴۹ / ۲۴)۔

۳۵۷۔جناب فاطمہ صغریٰ نے واقعہ کربلا کے بعد اہل کوفہ سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا، اے اہل کوفہ ! اے اہل مکاری و غداری و فریب کاری ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن کے ذریعہ پروردگار نے تمھارا امتحان لیا ہے اور بہترین امتحان لیا ہے، اس نے اپنے علم و فہم کا مرکز ہمیں بنایا ہے اور ہم اس کے علم کا ظرف ، فہم و حکمت کا محل اور زمین میں بندوں پر اس کی حجت میں اس نے ہمیں اپنی کرامت سے مکرم بنایا ہے اور اپنے نبی (ع) کے ذریعہ تمام مخلوقات سے افضل قرار دیا ہے۔( احتجاج ۲ ص ۱۰۶ ، ملہوف ۱۹۵ ، مشیر الاحزان ۸۷ ، بغیر ذکر ظرف فہم)۔

۳۔ ورثہ علوم انبیاء

۳۵۸۔ رسول اکرم ، روئے زمین پر پہلے وصی جناب ہبة اللہ بن آدم (ع) تھے، اس کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں تھا جس کا کوئی وصی نہ رہا ہو، جبکہ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی اور ان میں سے پانچ اولوالعزم تھے نوح (ع) ، ابراہیم (ع) ، موسی ٰ (ع) ، عیسیٰ (ع) ، محمد۔

علی بن ابی طالب محمد کے لئے ہبة اللہ تھے اور انہیں تمام اوصیاء اور سابق کے اولیاء کا ورثہ ملا تھا جس طرح کہ محمد تمام انبیاء کرام کے وارث ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۲۴ / ۲ از عبدالرحمٰان بن کثیر ، بصائر الدرجات ۱۲۱/۱ ، عبدالرحمان بن کبیر ، اعلام الدین ص ۴۶۴)۔

۳۵۹۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہو جاؤ کہ جو علوم لے کر آدم (ع) آئے تھے اور جس کے ذریعہ تمام انبیاء کو فضیلت حاصل ہوئی ہے سب کے سب خاتم النبیین کی عترت میں پائے جاتے ہیں تو آخر تم لوگ کدہر بہک رہے ہو اور کدہر چلے جا رہے ہو؟ (ارشاد ۱ ص ۲۳۲ ، تفسیر عیاشی ۱ ص ۱۰۲ / ۳۰۰ ا ز مسعدہ بن صدقہ تفسیر قمی ۲ ص ۳۶۷ از ابن اذینہ)۔

۳۶۰۔ امام صادق (ع) ! ہم سب انبیاء کے وارث ہیں ، رسول اکرم نے حضرت علی (ع) کو زیر کساء لے کر ایک ہزار کلمات کی تعلیم دی اور ان پر ہر کلمہ سے ہزار کلمات روشن ہو گئے۔ ( خصال ص ۶۵۱ / ۴۹ از ذریح المحاربی )۔

۳۶۱۔امام باقر (ع)! آدم (ع) جو علم لے کر آئے تھے وہ واپس نہیں گیا بلکہ یہیں اس کی وراثت چلتی رہی اور حضرت علی (ع) اس امت کے عالم تھے اور ہم میں سے کوئی عالم دنیا سے نہیں جاتا ہے مگر یہ کہ اپنا جیسا عالم چھوڑ کر جاتا ہے یا جیسا خدا چاہتا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۲۲/ ۲ از زرارہ و فضیل ، کمال الدین ۲۲۳ / ۱۴ از فضیل )۔

کمال الدین میں یہ اضافہ بھی ہے کہ علم وراثت میں چلتا رہتا ہے اور جو علم یا جو آثار انبیاء و مرسلین اس گھر کے باہر سے حاصل ہوں ، وہ سب باطل ہیں۔!

۳۶۲۔ امام باقر (ع) ! ایھا النّاس۔ تمھارے پیغمبر کے اہلبیت (ع) کو پروردگار نے اپنی کرامت سے مشرف کیا ہے اور اپنی ہدایت سے معزز بنا دیا ہے، اپنے دین کے لئے مخصوص کیا ہے اور اپنے علم سے فضیلت عطا کی ہے پھر اپنے علم کا محافظ اور امین قرار دیا ہے۔

اہلبیت (ع) امام ، داعی دین ، قائد، ہادی ، حاکم، قاضی ، ستارۂ  ہدایت، اسوۂ حسنہ، عترت طاہرہ، امت وسط ، صراط واضح ، سبیل مستقیم ، زینت نجباء اور ورثہ انبیاء ہیں ،۔( تفسیر فرات کوفی ص ۳۳۷ ، ۴۶۰ از فضل بن یوسف القصبانی )۔

۳۶۳۔ابوبصیر ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کیا آپ حضرات رسول اکرم کے وارث ہیں ؟ فرمایا بیشک میں نے عرض کی کہ رسول اکرم تو تمام انبیاء کے وارث اور ان کے علوم کے عالم تھے؟ فرمایا بیشک ( ہم بھی ایسے ہی ہی ) ( کافی ۱ ص ۴۷ / ۳ ، رجال کشی ۱ ص ۴۰۸ / ۲۹۸ ، بصائر الدرجات ۲۶۹ / ۱ ، دلائل الامامہ ۲۲۶ / ۱۵۳ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۸۴ ، الخرائج والجرائح ۲ ص ۷۱۱ / ۸ فصول مہمہ ص ۲۱۵۔

۳۶۴۔ امام صادق ! حضرت علی عالم تھے اور علم ان کی وراثت میں چلتا رہتا ہے کہ جب کوئی عالم مرتا ہے تو اس کے بعد اسی علم کا وارث آ جاتا ہے یا جو خدا چاہتا ہے-( کافی ۱ ص ۲۲۱ /۱ ، علل الشرائع ص ۵۹۱ / ۴۰ ، بصائر الدرجات ۱۱۸ / ۲ ، الامامة والتبصرہ ص ۲۲۵ / ۷۵ از محمد بن مسلم کمال الدین ۲۲۳ / ۱۳)۔

۳۶۵۔ امام صادق (ع)! جو علم حضرت آدم (ع) کے ساتھ آیاتھا وہ واپس نہیں گیا اور کوئی بھی عالم مرتا ہے تو اس کے علم کا ورث موجود رہتا ہے ، یہ زمین کسی وقت بھی عالم سے خالی نہیں ہوتی۔( کافی ۱ ص ۲۲۳ / ۸ کمال الدین ۲۲۴ / ۱۹، بصائر الدرجات ۱۱۶ / ۹ از حارث بن المغیرح)۔

۳۶۶۔ ضریس کناسی ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تا اور ابوبصیر بھی موجود تھے کہ حضرت نے فرمایا کہ داؤد علوم انبیاء کے وارث تھے اور ہم حضرت محمد کے وارث ہیں ، ہمارے پاس حضرت ابراہیم (ع) کے صحیفے اور حضرت موسیٰ (ع) کی تختیاں سب موجود ہیں۔

۳۶۷۔ ابوبصیر نے عرض کی کہ حضور یہ تو واقعی علم ہے، فرمایا یہ علم نہیں ہے، علم وہ جو روز و شب روزانہ اور ساعت بہ ساعت تازہ ہوتا رہتا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۲۵ /۴،بصائر الدرجات ۱۳۵/۱)۔

۳۶۸۔ امام ہادی ! در زیارت جامعہ، سلام ہو ائمہ ہدیٰ پر چو تاریکیوں کے چراغ ہدایت ، علم ، صاحبان عقل ، ارباب فکر ، پناہ گاہ خلائق ، ورثہ انبیاء، مثل اعلیٰ ، دعوتِ خیر اور دنیا و آخرت سب پر اللہ کی حجت ہیں اور انہیں پر رحمت و برکات ہوں۔( تہذیب ۶ ص ۹۶ / ۱۷۷)۔

۴۔ ان کی حدیث حدیث رسول ہے

۳۶۹۔ امام باقر (ع) ! سوال کیا گیا کہ اگر آپ کی حدیث کو بلاسند بیان کریں تو اس کی سند کیا ہے؟ فرمایا ایسی حدیث کی سند یہ ہے کہ میں نے اپنے والد سے انھوں نے اپنے والد سے ، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے رسول اکرم سے نقل کیا ہے اور آپ نے جبریل سے نقل کیا ہے۔( ارشاد ۲ ص ۱۶۷ ، الخرائج و الجرائح ۲ ص ۸۹۳ ، روضة الواعظین ص ۲۲۶)۔

۳۷۰۔ امام باقر (ع) ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جنہیں علم خدا سے عالم بنایا گیا ہے اور ہم نے اس کی حکمت سے حاصل کیا ہے اور قول صادق کو سناہے لہذا ہمارا اتباع کرو تا کہ ہدایت حاصل کر لو۔( مختصر بصائر الدرجات ص ۶۳ ، بصائر الدرجات ۵۱۴ / ۳۴از جابر بن یزید)۔

۳۷۱۔ امام باقر (ع) ! اگر ہم اپنی رائے سے حدیث بیان کرتے تو اسی طرح گمراہ ہو جاتے جس طرح پہلے والے گمراہ ہو گئے تھے، ہم اس دلیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں جسے پروردگار نے اپنے پیغمبر کو عطا کیا ہے اور انھوں نے ہم سے بیان کیا ہے۔(اعلام الوریٰ ص ۲۹۴ ، اختصاص ص ۲۸۱ از فضیل بن یسار)۔

۳۷۲۔ جابر ! میں نے امام محمد باقر (ع) سے عرض کیا کہ جب آپ کوئی حدیث بیان کریں تو اس کی سندبھی بیان فرمادیں ؟ فرمایا ہماری ہر حدیث کی سند ، والد محترم جد بزرگوار، ان کے والد محترم، پیغمبر اسلام اور آخر میں جبریل امین ہیں۔(امالی مفید ۴۲ /۱۰ ، حلیة الابرار ۲ ص۹۵)۔

۳۷۳۔ امام صادق (ع) ، ہماری حدیث ہمارے والد کی حدیث ہے ، ان کی حدیث ہمارے جد کی حدیث ہے، ان کی حدیث امام حسین (ع) کی حدیث ہے، ان کی حدیث امام حسن (ع) کی حدیث ہے، ان کی حدیث امیر المؤمنین (ع) کی حدیث ہے، ان کی حدیث رسول اللہ کی حدیث ہے اور رسول اللہ کی حدیث قول پروردگار ہے۔( کافی ۱ ص ۵۳ / ۱۴ از حماد بن عثمان، روضة الواعظین ص ۲۳۳)۔

۳۷۴۔ امام صادق (ع) ! اللہ نے ہماری ولایت کو فرض قرار دیا ہے اور ہماری محبت کو واجب کیا ہے، خدا گواہ ہے کہ ہم اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے ہیں اور نہ اپنی رائے سے کام کرتے ہیں ، ہم وہی کہتے ہیں و ہمارے پروردگار نے کہا ہے۔( امالی مفید ۶۰ / ۴ از محمد بن شریح)۔

۳۷۵۔ امام موسیٰ کاظم (ع) نے خلف بن حماد کوفی کے سخت ترین سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں رسول اکرم اور جبریل کے حوالہ سے بیان کر رہا ہوں۔( کافی ۳ ص ۹۴ / ۱)۔

۳۷۶۔ امام رضا (ع) ! ہم ہمیشہ اللہ اوررسول کی طرف سے بیان کرتے ہیں۔( رجال کشی ۲ ص ۴۹۰ / ۴۰۱ از یونس بن عبدالرحمان)۔

۵۔ اعلم الناس

۳۷۷۔رسول اکرم ! میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر تم ان دونوں کو اختیار کر لو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ ایک کتاب خدا ہے اور ایک میری عترت اہلبیت (ع) ، ایہا الناس ! میری بات سنو! میں نے یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ تم سب عنقریب میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہو گے تو میں سوال کروں گا کہ تم نے ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور یہ ثقلین کتاب خدا اور میرے اہلبیت (ع) ہیں ، خبردار ان سے آگے نہ بڑھ جانا کہ ہلاک ہو جاؤ اور انہیں پڑھانے کی کوشش بھی نہ کرنا کہ یہ تم سب سے زیادہ علم والے ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۹۴ / ۳ از عبدالحمید بن ابی الدیلم از امام صادق (ع) ، تفسیر عیاشی ۱ ص ۲۵۰ / ۱۶۹۔ از ابوبصیر)۔

۳۷۸۔ رسول اکرم ! یاد رکھو کہ میری عترت کے نیک کردار اور میرے خاندان کے پاکیزہ نفس افراد بچوں میں سب سے زیادہ ہوشمند اور بزرگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم ہوتے ہیں ، خبردار انہیں تعلیم نہ دینا کہ یہ تم سب سے اعلم ہیں۔ یہ نہ تمھیں ہدایت کے دروازہ سے باہر لے جائیں گے اور نہ گمراہی کے دروازہ میں داخل کریں گے۔ ( عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۲۰۴ /۱۷۱ احتجاج۲ ص ۲۳۶ ، شرح نہج البلاغہ معتزلی ۱ ص۲۷۶ ازامام صادق (ع) )۔

۳۷۹۔ امام علی (ع) ! اصحاب پیغمبر میں حافظان حدیث جانتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں اور میرے اہلبیت (ع) سب پاک و پاکیزہ ہیں ، ان سے آگے نہ بڑھ جانا کہ گمراہ ہو جاؤ اور ان کی مخالفت نہ کرنا کہ جاہل رہ جاؤ اور انہیں پڑھانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ تم سے اعلم ہیں اور بزرگی میں تمام لوگوں سے اعلم اور کمسنی ہیں تمام بچوں سے زیادہ ہوشمند ہوتے ہیں ۰تفسیر قمی ۱ ص ۴ اثبات الہداة ۱ ص ۶۳۱ / ۷۲۴)۔

۳۸۰۔جابر بن یزید، ایک طویل حدیث کے ذیل میں نقل کرتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ انصاری امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اثنائے گفتگو امام محمد باقر (ع) بھی آ گئے ، بچپنے کا زمانہ تھا اور سر پہ گیسو تھے لیکن جابر نے دیکھا تو کانپنے لگے اور جسم کے رنگٹے کھڑے ہو گئے، غور سے دیکھنے کے بد کہا فرزند ! ذرا آگے بڑھو؟ آپ آگے بڑھے، پھر کہا ذرا پیچھے ہٹیں ،آپ پیچھے ہٹے، جابر نے یہ دیکھ کر کہا کہ رب کعبہ کی قسم بالکل رسول اکرم کا انداز ہے اور پھر سوال کیا کہ آپ کا نام کیا ہے؟…فرمایا محمد (ع) ! میری جان قربان ، یقیناً آپ ہی باقر (ع) ہیں ؟ فرمایا بیشک تو اب اس امانت کو پہنچا دو جو رسول اللہ نے تمھارے حوالہ کی ہے! جابر نے کہا مولا ! حضور نے مجھے بشارت دی تھی کہ آپ کی ملاقات تک زندہ رہوں گا اور فرمایا تھا کہ جب ملاقات ہو جائے تو میرا سلام کہہ دینا لہذا پیغمبر اکرم کا سلام لے لیں۔

امام باقر (ع) نے فرمایا جابر ! رسول اکرم پر میرا سلام جب تک زمین و آسمان قائم رہیں اور تم پر بھی میرا سلام جس طرح تم نے میرا سلام پہنچایا ہے اس کے بعد جابر برابر آپ کی خدمت میں آتے رہے اور آپ سے علم حاصل کرتے رہے، ایک مرتبہ آپ نے جابر سے کوئی سوال کیا تو جابر نے کہا کہ میں رسول اللہ کے حکم کی خلافت ورزی نہیں کرسکتا ہوں ، آپ نے خبر دی ہے کہ آپ اہلبیت (ع) کے تمام ائمہ ہداة بچپنے میں سب سے زیادہ ہوشمند اور بڑے ہو کر سب سے زیادہ اعلم ہوتے ہیں اور کسی کو حق نہیں ہے کہ آپ حضرات کو تعلیم دے کہ آپ سب سے زیادہ اعلم ہوتے ہیں۔

امام باقر (ع) نے فرمایا کہ میرے جد نے سچ فرمایا ہے، میں اس مسئلہ کو تم سے بہتر جانتا ہوں جو میں نے دریافت کیا ہے اور مجھے بچپنے ہی سے حکمت عطا کر دی گئی ہے اور یہ سب ہم اہلبیت (ع) پر پروردگار کا فضل و کرم ہے۔( کمال الدین ۲۵۳ / ۳)۔

۳۸۱۔ جبلہ بن المصفح نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ امام علی (ع) نے فرمایا کہ اے برادر بنی عام جو چاہو مجھ سے سوال کرو کہ ہم اہلبیت (ع) خدا و رسول کے ارشادات کو سب سے بہتر جانتے ہیں۔( الطبقات الکبریٰ ۶ ص ۲۴۰)۔

۳۸۲۔ امام علی (ع) ! ہمارے علم کی گہرائیوں پر غور کرنے والے کے علم کا آخری انجام جہالت ہے۔( الطبقات الکبریٰ ۶ ص ۲۴۰)۔

۳۸۲۔ امام علی (ع) ! ہمارے علم کی گہرائیوں پر غور کرنے والے کے علم کا آخری انجام جہالت ہے۔( شرح نہج البلاغہ معتزلی ۲۰ ص ۳۰۷ / ۵۱۵)۔

۳۸۳۔ امام باقر (ع) نے سلمہ بن کہیل اور حکم بن عتیبہ سے فرمایا کہ جاؤ مشرق و مغرب کے چکر لگا آؤ کوئی علم صحیح ایسا نہ پاؤ گے جو ہم اہلبیت (ع) کے گھر سے نکلا ہو۔( کافی ۱ ص ۲۹۹ / ۳ ، بصائر الدرجات ۱۰ ، ابومریم)۔

۳۸۴۔ ابوبصیر ناقل ہیں کہ امام صادق (ع) نے فرمایا کہ حکم بن عتیبہ ان لوگوں میں سے ہے جس کے بارے میں ارشاد قدرت ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں ، اس سے کہہ دو کہ جائے مشرق و مغرب کے چکر لگائے ، خدا کی قسم کہیں علم نہ ملے گا مگر یہ کہ اسی گھر سے نکلا ہو گا جس میں جبریل کا نزول ہوتا ہے۔( بصائر الدرجات ۹ ص ۲ ، کافی ۱ ص ۲۹۹ /۴ روایت مضمرح)۔

۳۸۵۔ امام باقر (ع) کسی شخص کے پاس نہ کوئی حرف حق ہے اور نہ حرف راست اور نہ کوئی صحیح فیصلہ کرنا جانتا ہے مگر یہ کہ وہ علم ہم اہلبیت (ع) ہی کے گھر سے نکلا ہے اور جب بھی امور میں اختلاف نظر آئے تو سمجھ لو کہ غلطی قوم کی طرف سے ہے اور حرف راست حضرت علی (ع) کی طرف سے ہے۔( کافی ۱ ص ۳۹۹ / ۱ ، بصائر الدرجات ۵۱۹ / ۱۲ ، المحاسن ۱ ص ۲۴۳ / ۴۴۸ ، امالی مفید ۹۶ /۶ روایت محمد بن مسلم)۔

۳۸۶۔ زرارہ ! میں امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک مرد کوفی نے امیر المومنین (ع) کے اس ارشاد کے بارے میں دریافت کیا کہ جو چاہو پوچھ لو ، میں تمھیں بتا سکتا ہوں ! فرمایا کہ بیشک کسی شخص کے پاس کوئی علم نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا مصدر امیر المومنین (ع) کا علم ہے، لوگ جد ہر چاہیں چلے جائیں بالآخر مصدر یہی گھر ثابت ہو گا۔( کافی ۱ ص ۳۹۹ / ۲)۔

۳۸۷۔ امام باقر (ع) ! جو علم بھی اس گھر سے نکلا ہوسمجھ لو کہ باطل اور بیکار ہے۔(مختصر بصائر الدرجات ۶۲ ، بصائر الدرجات ۵۱۱ / ۲۱ از فضیل بن یسار)۔

۳۸۸۔ عبداللہ بن سلیمان ! میں نے امام باقر (ع) کو اس وقت فرماتے سنا ہے جب آپ کے پاس بصرہ کا عثمان اعمیٰ نامی شخص موجود تھا اور آپ نے فرمایا کہ حسن بصری کا خیال ہے کہ جو لوگ اپنے علم کو پوشیدہ رکھتے ہیں ان کی بدبو سے اہل جہنم کو بھی اذیت ہو گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن آل فرعون بھی ہلاک ہو گیا حالانکہ جناب نوح کے زمانہ سے علم ہمیشہ پوشیدہ رہا ہے اور حسن بصری سے کہہ دو کہ داہنے بائیں بائیں ہر جگہ دیکھ لے اس گھر کے علاوہ کہیں علم نہ ملے گا۔( کافی ۱ ص ۵۱ / ۱۵ ، احتجاج ۲ ص ۱۹۳ / ۲۱۲)۔

۳۸۹۔ ابوبصیر ! میں نے امام باقر (ع)سے سوال کیا کہ ولدالزنا کی گواہی جائز ہے یا نہیں ؟ فرمایا نہیں … میں نے عرض کی کہ حکم بن عتبہ تو اسے جائز جانتا ہے؟ فرمایا، خدایا اس کے گناہ کو معاف نہ کرنا ، پروردگار نے قرآن کو اس کے اور اس کی قوم کے لئے ذکر نہیں قرار دیا ہے، اس سے کہہ دو کہ مشرق و مغرب سب دیکھ لے ، علم صرف اس گھر میں ملے گا جس میں جبریل کا نزول ہوتا ہے) کافی ۱ ص ۴۰۰ / ۵)۔

۳۹۰۔ امام صادق (ع) نے یونس سے فرمایا کہ اگر علم صحیح درکار ہے تو اہلبیت (ع) سے حاصل کرو کہ اس کا علم ہمیں کو دیا گیا ہے اور ہمیں حکمت کی شرح اور حرف آخر عطا کیا گیا ہے، پروردگار نے ہمیں منتخب کیا ہے اور وہ سب کچھ عطا کر دیا ہے جو عالمین میں کسی کو نہیں دیا ہے۔( بحار الانوار ۲۶ ص ۱۵۸ /۵ الصراط المستقیم ۲ ص ۱۵۷ ، اثبات الہداة ۱ ص ۶۰۲ از یونس بن ظبیان)۔

۳۹۱۔ امام صادق (ع) کے پاس ایک جماعت حاضر تھی جب آپ نے فرمایا کہ حیرت انگیز بات ہے کہ لوگوں نے رسول اکرم سے علم حاصل کیا اور عالم بن گئے اور ہدایت یافتہ ہو گئے اور ان کا خیال ہے کہ اہلبیت (ع) نے حضور کا علم نہیں لیا ہے، حالانکہ ہم اہلبیت (ع) ان کی ذریت ہیں اور وحی ہمارے ہی گھر میں نازل ہوئی ہے اور علم ہمارے ہی گھر سے نکل کر لوگوں تک گیا ہے! کیا ان کا خیال ہے کہ یہ سب عالم اور ہدایت یافتہ ہو گئے ہیں اور ہم جاہل اور گمراہ رہ گئے ہیں ، یہ تو بالکل امر محال ہے( کافی ۱ ص ۳۹۸ /۱ ، امالی مفید ۱۲۲ / ۶ ، بصائر الدرجات ۱۲ / ۳ روایت یحیئ بن عبداللہ)۔

۳۹۲۔ امام رضا (ع) ! انبیاء اور ائمہ وہ ہیں جنہیں پروردگار توفیق دیتا ہے اور اپنے علم و حکمت کے خزانہ سے وہ سب کچھ عنایت کر دیتا ہے جو کسی کو نہیں دیتا ہے ان کا علم تمام اہل زمانہ کے علم سے بالاتر ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد قدرت ہے ’ کیا جو شخص حق کی ہدایت دیتا ہے وہ زیادہ پیروی کا حقدار ہے یا وہ شخص جو اس وقت تک ہدایت بھی نہیں پاتا ہے جب تک اسے ہدایت نہ دی جائے، آخر تمھیں کیا ہو گیا ہے اور تم کیا فیصلہ کر رہے ہو‘۔(یونس آیت ۳۵)۔

دوسرے مقام پرارشاد ہوتا ہے’ جسے حکمت دے دی جائے اسے خیر کثیر دے دیا گیا ہے۔(بقرہ آیت ۲۶۹)۔

پھر جناب طالوت کے بارے میں ارشا د ہوا ہے کہ ’ اللہ نے انہیں تم سب میں منتخب قرار دیا ہے اور علم و جسم کی طاقت میں وسعت عطا فرمائی ہے اور اللہ جس کو چاہتا ہے ملک عنایت کرتا ہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اور صاحب علم بھی ہے۔بقرہ آیت ۲۴۷ ‘ کافی ۱ ص ۲۰۲ / ۱ ، کمال الدین ۲۸۰ / ۳۱ ، امالی صدوق ۵۴۰ / ۱ عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۲۲۱ /۱ ، معانی الاخبار ۱۰۰ /۲ ، تحف العقول ص ۴۴۱ ، احتجاج ۲ ص ۴۴۵ / ۳۱۰ روایت عبدالعزیز بن مسلم )۔

۶۔ راسخون فی العلم

۳۹۳۔ امام علی (ع) ! کہاں ہیں وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ ہمارے بجائے وہی ’ راسخوں فی العلم‘ ہیں حالانکہ یہ صریحی جھوٹ ہے اور ہمارے اوپر ظلم ہے کہ خدا نے ہمیں بلند بنایا ہے اور انہیں پست قرار دیا ہے، ہمیں علم عنایت فرمایا ہے اور انہیں اس علم سے الگ رکھا ہے، ہمیں اپنی بارگاہ میں داخل کیا ہے اور انہیں دور رکھا ہے، ہمارے ہی ذریعہ ہدایت حاصل کی جاتی ہے، اور تاریکیوں میں روشنی تلاش کی جاتی ہے۔(نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۴ مناقب ابن شہر آشوب ۱ ص ۲۸۵ ، غرر الحکم ص ۲۸۲۶)۔

۳۹۴۔امام علی (ع) ! پروردگار نے امت پر اولیاء امر کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے کہ وہ اس کے دین کے ساتھ قیام کرنے والے ہیں جس طرح کہ اس نے رسول کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے’ اطیعوا للہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم‘ اس کے بعد ان اولیاء امر ، کی منزلت کی وضاحت تاویل قرآن کے ذریعہ کی ہے’ و لو ردوہ الی الرسول و الیٰ اولی الامر منہم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم‘( نساء آیت ۸۳) اگر یہ لوگ مسائل کو رسول اور اولی الامر کی طرف پلٹا دیتے تو دیکھتے کہ یہ حضرات تمام امور کے استنباط کی طاقت رکھتے ہیں۔ اور ان کے علاوہ ہر شخص تاویل قرآن کے علم سے بے خبر ہے، اس لئے کہ یہی راسخون فی العلم‘ آل عمران آیت ۷ ( بحار ۶۹ ص ۷۹ / ۲۹)۔

۳۹۵۔ یزید بن معاویہ ! میں نے امام محمد باقر (ع) سے آیت کریمہ’ و ما یعلم تاویلہ الا اللہ و الراسخون فی العلم‘ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ پورے قرآن کی تاویل کا راز خدا اور راسخون فی العلم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ رسول اکرم ان تمام افراد میں سب سے افضل ہیں کہ پروردگار نے انہیں تمام تنزیل اور تاویل کا علم عنایت فرمایا ہے اور کوئی ایسی شے نازل نہیں کی جس کی تاویل کا علم انہیں نہ دیا اور پھر ان کے اوصیاء کو عنایت فرمایا گیا اور جب جاہلوں نے یہ سوال کیا کہ ہم کیا کریں ؟ تو ارشاد ہوا ’ یقولون امنا بہ کل من عند ربنا ‘ تمھاری شان یہ ہے کہ سب پر ایمان لے آؤ اور کہو کہ سب پروردگار کی طرف سے ہے۔

دیکھو قرآن میں خاص بھی ہے اور عالم بھی، ناسخ بھی ہے اور منسوخ بھی ، محکم بھی ہے اور متشابہ بھی اور راسخون فی العلم ان تمام امور کو بخوبی جانتے ہیں۔( تفسیر عیاشی ۱ ص ۱۶۴ / ۶، کافی ۱ ص ۲۱۳ / ۲ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۱۰۷ ، بصائر الدرجات ص ۲۰۴ /۸ ، تفسیر قمی ۱ ص ۹۶ ، مجمع البیان ۲ ص ۷۰۱)۔

۳۹۶۔امام صادق (ع) ! ہم ہی راسخون فی العلم ہیں اور ہمیں تاویل قرآن کے جاننے والے ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۱۳ / ۱ ، بصائر الدرجات ۵ ص ۲۰۴۔

تفسیر عیاشی ۱ ص ۱۶۴ /۸ تاویل الآیات الظاہرہ ص ۱۰۶ از ابوبصیر)۔

۳۹۷۔ امام صادق (ع) ! راسخون فی العلم امیر المومنین (ع) ہیں اور انکے بعد کے ائمہ۔( کافی ۱ ص ۲۱۳ /۳ روایت عبدالرحمان بن کثیر )۔

۷۔ معدن العلم

۳۹۸۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) رحمت کی کلید، رسالت کا محل ، ملائکہ کے نزول کی منزل اور علم کے معدن ہیں۔( فرائد السمطین ۱ ص ۴۴ /۹ از ابن عباس)۔

۳۹۹۔حمید بن عبداللہ بن یزید المدنی ناقل ہے کہ رسول اکرم کے سامنے ایک فیصلہ کا ذکر کیا گیا جو علی (ع) بن ابی طالب (ع) نے صادر کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم اہلبیت (ع) کے گھر میں حکمت قرار دی ہے۔(فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ ص ۶۵۴/ ۱۱۱۳، شرح الاخبار ۲ ص ۳۰۹ / ۶۳۱)۔

۴۰۰۔ امام علی (ع) ! ہم شجرۂ نبوت ، محل رسالت ، منزل ملائکہ ، معدن علم چشمہ حکمت ہیں ، ہمارا دوست اور مددگار ہمیشہ منتظر رحمت رہتا ہے اور ہمارا دشمن اور بغض رکھنے والا ہمیشہ عذاب کے انتظار میں رہتا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص ۱۰۹ ، غرر الحکم ۱۰۰۰۵)۔

۴۰۱۔ امام علی (ع) نے مدینہ میں ایک خطبہ کے دوران فرمایا، آگاہ ہو جاؤ ! قسم اس پروردگار کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اور ذی روح کو پیدا کیا ہے اگر تم لوگ علم کو اس کے معدن سے حاصل کرتے اور پانی کو اس کی شیرنی کے ساتھ پیتے اور خیر کا ذخیرہ اس کے مرکز سے حاصل کرتے اور واضح راستہ کو اختیار کرتے اور حق کے منہاج پر گامزن ہوتے تو تمھیں صحیح راستہ مل جاتا اور نشانیاں واضح ہو جاتیں اور اسلام روشن ہو جاتا۔( کافی ۸ ص ۳۲ / ۵ )۔

۴۰۲۔امام حسین (ع) ! میں نہیں جانتا کہ لوگ ہم سے کس بات پر عداوت رکھتے ہیں جبکہ ہم رحمت کے گھر ، نبوت کے شجر اور علم کے معدن ہیں۔( نزہة الناظرہ۸۵ / ۲۱)۔

۴۰۳۔ امام زین العابدین (ع) ! لوگ ہم سے کسی بات پر بیزار ہیں ، ہم تو خدا کی قسم کے شجرہ میں ہیں ، رحمت کے گھر ، حلم کے معدن اور ملائکہ کی آمد و رفت کے مرکز ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۲۱ /۱ روایت ابوالجاروڈ، نزہة الناظر ۸۵ / ۲۱)۔

۲۰۴۔ امام باقر (ع) (ع) ! کتاب خدا اور سنت پیغمبر کا علم ہمارے مہدی کے دل میں اسی طرح ظاہر ہو گا، جس طرح بہترین زمین پر زراعت کا ظہور ہوتا ہے لہذا شخص بھی اس وقت تک باقی رہ جائے اور ان سے ملاقات کرے وہ سلام کرے، سلام ہو تو پر اے اہلبیت (ع) رحمت و نبوت و معدن علم و مرکز رسالت ! ( کمال الدین ص ۶۰۳ /۱۸ روایت جابر ، بحار الانوار ۵۲ / ۳۰۷ / ۱۶ نقل از العدد القویہ)۔

۴۰۵۔ امام باقر (ع) ! وہ درخت جس کی اصل رسول اللہ ہیں اور فرع امیر المومنین (ع) ڈالی جناب فاطمہ (ع) ہیں اور پھل حسن (ع) و حسین (ع) … یہ نبوت کا شجر اور رحمت کی پیداوار ہے، یہ سب حکمت کی کلید، علم کا معدن، رسالت کا محل، ملائکہ کی منزل، اسرار الہیہ کے امانتدار ، امانت پروردگار کے حامل، خدا کے حرم اکبر اور اس کے بیت العتیق اور حرم ہیں۔(الیقین ص ۳۱۸ ، تفسیر فرات ۳۹۵ / ۵۲۷ ) اس میں نبت الرحمہ کے بجائے بیت الرحمہ ہے اور حرم کے بجائے ذمہ کی لفظ ہے اور روایت زیاد بن المنذر سے ہے)۔

۴۰۶۔ امام صادق (ع) ! امام علی (ع) بن الحسین (ع) زوال آفتاب کے بعد نماز ادا کر کے یہ دعا پڑھا کرتے تھے ’ خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جو نبوت کے شجر رسالت کامحل ، ملائکہ کی منزل، علم کا معدن اور وحی کے اہلبیت (ع) ہیں (جمال الاسبوع ص ۲۵۰ ، مصباح المتہجد ص ۳۶۱)۔ نوٹ! اس موضوع کے ذیل میں احقاق الحق ۱۰ ص ۴۰۹ کا مطالعہ بھی کیا جا سکتا ہے جہاں امام صادق (ع) ، امام کاظم (ع) اور امام رضا (ع) کے حوالہ سے اس تعبیر کا ذکر کیا گیا ہے۔

۸۔ زندگانی علم

۴۰۷۔ امیر المومنین (ع) آل محمد کے صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، یہ حضرات علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں ، ان کا حلم ان کے علم کی خبر دے گا اور ان کا ظاہر ان کے باطن کے بارے میں بتائے گا اور ان کی خاموشی ان کے نطق کی حکمت کی دلیل ہے، یہ نہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف کرتے ہیں ، اسلام کے ستون ہیں اور تحفظ کے وسائل ، انہیں کے ذریعہ حق اپنی منزل پر واپس آیا ہے اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے۔

اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی ہے۔ انھوں نے دین کو پورے شعور کے ساتھ محفوظ کیا ہے اور صرف سماعت اور روایت پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔ اس لئے کہ علم کی روایت کرنے والے بہت ہیں اور اس کی رعایت و حفاظت کرنے والے بہت کم ہیں۔( نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۹ ، تحف العقول ۲۲)۔

۴۰۸۔ امام علی (ع) (ع)! یاد رکھو کہ تم ہدایت کو اس وقت تک نہیں پہچان سکتے ہو جبتک اسے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور میثاق کتاب کو اس وقت تک اختیار نہیں کرسکتے ہو جب تک اس عہد کے توڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور اس سے متمسک نہیں ہوسکتے ہو جب تک نظر انداز کرنے والوں کی معرفت نہ حاصل کر لو لہذاہدایت کو اس کے اہل سے حاصل کرو کہ یہی لوگ علم کی زندگی ہیں اور جہالت کی موت، یہی وہ ہیں جن کا حکم ان کے علم کی خبر دے گا اور ان کی خاموشی ان کے تکلم کا پتہ دے گی، ان کا ظہر ان کے باطن کی بہترین دلیل ہے ، یہ نہ دین کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں یہ دین ان کے درمیان ایک سچا گواہ اور ایک خاموش ترجمان ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۷ ، کافی ۸ ص ۳۹۰ / ۵۸۶ روایت محمد بن الحسین)۔

ابواب علوم اہلبیت (ع)

۱۔ علم الکتاب

۴۰۹۔ابوسعید خدری ! میں نے رسول اکرم سے آیت شریفہ ’ و من عندہ علم الکتاب‘ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ اس سے میرا بھائی علی (ع) بن ابی طالب مراد ہے۔( شواہد التنزیل ۱ ص ۴۰۰ / ۴۲۲)۔

۴۱۰۔ ابوسعید خدری ! میں نے رسول اکرم سے ارشاد احدیت ’ قال الذین عندہ علم من الکتاب‘ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ میرے بھائی سلیمان بن داود کا وصی تھا، پھر دریافت کیا کہ ’ قل کفی باللہ شہیدا بینئ و بینکم و من عندہ علم الکتاب‘ سے مراد کون ہے تو فرمایا کہ یہ میرا بھائی علی (ع) بن ابی طالب ہے۔( امالی صدوق (ر) ۴۵۳ / ۳)۔

۴۱۱۔ امام علی (ع) نے آیت شریفہ و من عندہ علم الکتاب کے ذیل میں فرمایا کہ میں وہ ہوں جس کے پاس کل کتاب کا علم ہے۔( بصائر الدرجات ۲۱۶ / ۲۱)۔

۴۱۲۔ امام حسین (ع) ! ہم وہ ہیں جن کے پاس کل کتاب کا علم اور اس کا بیان موجود ہے اور ہمارے علاوہ ساری مخلوقات میں کوئی ایسا نہیں ہے اس لئے کہ ہم اسرار الہیہ کے اہل ہیں۔( مناقب ابن شہر آشوب ۴ / ۵۲ از اصبغ بن نباتہ)۔

۴۱۳۔ عبداللہ بن عطاء ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ادھر سے عبداللہ بن سلام کے فرزند کا گذر ہو گیا ، میں نے عرض کی کہ میری جان آپر قربان، کیا یہ مصداق ’الذی عندہ علم الکتاب‘ کا فرزند ہے؟ فرمایا ہرگز نہیں ، اس سے مراد علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہیں جن کے بارے مین بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں۔( مناقب ابن المغازلی ۳۱۴ / ۳۵۸ ، شواہد التنزیل ۱ ص ۴۰۲ / ۴۲۵ ، ینابیع المودہ ۱۱ ص ۳۰۵ ، العمدة ص ۲۹۰ / ۴۷۶ ، تفسیر عیاشی ۲ ص ۲۲۰ ، /۷۷ ، مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۲۹ )۔

۴۱۴۔ امام محمد باقر (ع) ! آیت شریفہ قل کفی کے ذیل میں فرمایا کہ اس سے مراد ہم اہلبیت (ع) ہیں اور علی (ع) ہمارے اول و افضل اور رسول اکرم کے بعد سب سے بہتر ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۲۹ /۶ ، تفسیر عیاشی ۲ ص ۲۲۰ / ۷۶ ، روایت برید بن معاویہ ، بصائر الدرجات ۲۱۴ /۷ روایت عبدالرحمان بن کثیر از امام صادق (ع) )۔

۴۱۵۔ عبدالرحمان بن کثیر نے امام صادق (ع) سے آیت شریفہ ’قال الدی عندہ علم من الکتاب‘ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ہم وہ ہیں جن کے پاس ساری کتاب کا علم ہے۔ ( کافی ۱ ص ۲۲۹ / ۵ ص ۲۵۷ / ۳ از سدیر ، بصائر الدرجات ۲۱ / ۲)۔

۴۱۶۔ ابوالحسن محمد بن یحییٰ الفارسی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابونواس نے امام (ع) رضا کو مامون کے یہاں سے سواری پر نکلتے دیکھا تو قریب جا کر سلام عرض کیا اور کہا کہ فرزند رسول میں نے آپ حضرات کے بارے میں کچھ شعر لکھے ہیں اور چاہتا ہوں کہ آپ سماعت فرما لیں ، فرمایا سناؤ۔

ابونو اس نے اشعار پیش کئے۔

’ یہ اہلبیت (ع) وہ افراد ہیں جن کا لباس کردار بالکل پاک و صاف ہے اور ان کا ذکر جہاں بھی آتا ہے صلوات کے ساتھ آتا ہے۔

جو شخص بھی اپنی نسبت علی (ع) سے نہ رکھتا ہو اس کے لئے زمانہ میں کوئی شے باعث فخر نہیں ہے۔

اے اہلبیت (ع) ! پروردگار نے جب مخلوقات کو خلق کیا ہے تو تمھیں کو منتخب اور مصطفی قرار دیا ہے۔

تمھیں ملاء اعلیٰ ہو اور تمھارے ہی پاس علم الکتاب ہے اور تمام سوروں کے مضامین ہیں ‘۔

یہ سنکر حضرت نے فرمایا کہ ایسے شعر تم سے پہلے کسی نے نہیں کہے ہیں۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۱۴۳ / ۱۰ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۳۶۶)۔

۲۔ تاویل قرآن

۴۱۷۔ رسول اکرم ! میرے بعد علی (ع) ہی لوگوں کو تاویل قرآن کا علم دیں گے اور انہیں باخبر بنائیں گے۔( شواہد التنزیل ۱ ص ۳۹ / ۲۸ از انس)۔

۴۱۸۔ امام علی (ع) ! مجھ سے کتاب الہی کے بارے میں جو چاہو دریافت کر لو کہ کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں مجھے یہ نہ معلوم ہو کہ دن میں نازل ہوئی ہے یا رات میں ، صحرا میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر ( الطبقات الکبریٰ ۲ ص ۳۳۸ ، تاریخ الخلفاء ص ۲۱۸ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۳ ص ۲۱ / ۱۰۳۹ ، تفسیر عیاشی ۲ص ۳۸۳ / ۳۱ روایت ابوالطفیل ، امالی صدوق ۲۲۷ / ۱۳ ، امالی مفید ۱۵۲ /۳)۔

۴۱۹۔ امام علی (ع) ! مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں دریافت کرو، خدا کی قسم کوئی آیت دن میں یا رات میں ، سفر میں یا حضر میں ایسی نازل نہیں ہوئی جسے رسول اکرم نے مجھے سنایا نہ ہو اور اس کی تاویل نہ بتائی ہو۔

یہ سن کر ابن الکواء بول پڑا کہ بسا اوقات آپ موجود بھی نہ ہوتے تھے اور آیت نازل ہوتی تھی۔؟

فرمایا کہ رسول اکرم اسے محفوظ رکھتے تھے یہاں تک کہ جب حاضر ہوتا تھا تو مجھے سنا دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے یا علی (ع) ! اللہ نے تمھارے بعد یہ آیات نازل کی ہیں اور ان کی یہ تاویل ہے اور مجھے تنزیل و تاویل دونوں سے باخبر فرما دیا کرتے تھے(امالی طوسی (ر) ۵۲۳ /۱۱۵۸ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۱۹ از مجاشعی از امام رضا (ع) ، الاحتجاج ۱ ص ۶۱۷ / ۱۴۰ از امام صادق (ع) ، کتاب سلیم بن قیس ص ۲۱۴)۔

۴۲۰۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم پر کوئی بھی آیت قرآن نازل نہیں ہوئی مگر یہ کہ مجھے سنابھی دیا اور لکھا بھی دیا اور میں نے اپنے قلم سے لکھ لیا اور پھر مجھے اس کی تاویل و تفسیر سے بھی باخبر فرما دیا اور ناسخ و منسوخ ، محکم و متشابہ اور خاص و عام بھی بتادئے۔( کافی ۱ ص ۶۴ / ۱ ) ، خصال ص ۲۱۷ / ۱۳۱ ، کمال الدین ۲۸۴ / ۳۷ ، تفسیر عیاشی ۱ ص ۲۵۳ از کتاب سلیم بن قیس)۔

۴۲۱۔ عبداللہ بن مسعود ! قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ہے اور ہر حرف کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور علی (ع) بن ابی طالب (ع) کے پاس ظاہر کا علم بھی ہے اور باطن کا علم بھی ہے۔( حلیة الاولیاء ۱ ص ۶۵ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۳ / ۲۵ / ۱۰۴۸ ، ینابیع المودہ ۱ ص ۲۱۵ / ۲۴)۔

۴۲۲۔ امام حسن (ع) نے معاویہ کے دربار میں فرمایا کہ میں بہترین کنیز خدا اور سیدّہ النساء کا فرزند ہوں ، مجھے رسول اکرم نے علم خدا کی غذا دی ہے اور تاویل قرآن اور مشکلات احکام سے باخبر کیا ہے، ہمارے لئے غالب آنے والی عزت بلند ترین کلمہ اور فخر و نورانیت ہے۔( احتجاج ۲ ص ۴۷)۔

۴۲۳۔ امام باقر (ع) ! کسی شخص کے امکان میں نہیں ہے کہ یہ دعویٰ کرے کہ ہمارے پاس تمام قرآن کے ظاہر و باطن کا علم ہے،سوائے اوصیاء پیغمبر اسلام کے۔( کافی ۱ ص ۲۲۸ / ۲ ، بصائر الدرجات ۱۹۳ از جابر)۔

۴۲۴۔ امام باقر (ع) جس شخص نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ اس نے سارا قرآن تنزیل کے مطابق جمع کیا ہے وہ جھوٹا ہے… قرآن کو تنزیل کے مطابق صرف حضرت علی (ع) بن ابی طالب نے جمع کیا ہے اور ان کی اولاد نے محفوظ رکھا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۲۸ /۱ از جابر)۔

۴۲۵۔ فضیل بن یسار ! میں نے امام باقر (ع) سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ قرآن کی ہدایت میں ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ، آخر ظاہر و باطن سے مراد کیا ہے ؟ فرمایا اس سے مراد تاویل قرآن ہے جس کا ایک حصہ گذرچکاہے اور ایک حصہ مستقبل میں پیش آنے والا ہے، قرآن کا سلسلہ شمس و قمر کی طرح چلتا رہے گا اور جب کوئی واقعہ پیش آ جائے گا قرآن منطبق ہو جائے گا ، پروردگار نے فرمایا ہے کہ اس کی تاویل کا علم صرف خدا اور راسخوں فی العلم کو ہے اور راسخون سے مراد ہم لوگ ہیں۔(تفسیر عیاشی ۱ ص۱۱ /۵ ، بصائر الدرجات ۲۰۳ /۲)۔

۴۲۶۔ ابوالصباح ! خدا کی قسم مجھ سے امام باقر (ع) نے فرمایا ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو تنزیل و تاویل دونوں کا علم دیا ہے اور انھوں نے سب علی (ع) بن ابیطالب (ع) کے حوالہ کر دیا ہے اور پھر یہ علم ہمیں دیا گیا ہے۔( کافی ۷ ص ۴۴۲ / ۱۵ ، تہذیب ۸ ص ۲۸۶ ، ۱۰۵۲ ، تفسیر عیاشی ۱ ص ۱۷ /۱۳)۔

۴۲۷۔ امام علی نقی (ع) نے صاحب الامر کی زیارت کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ خدایا تمام ائمہ راشدین، قائدین ہادیین، سادات معصومین (ع) ، اتقیاء ابرار پر رحمت نازل فرما جو سکون و وقار کی منزل ، علم کے خزانہ دار، حلم کی انتہاء ، بندوں کے منتظم ، شہروں کے ارکان ،نیکی کے راہنما، صاحبان عقل و بزرگی ، شریعت کے علماء ، کردار کے زہاد، تاریکی کے چراغ ، حکمت کے چشمے، نعمتوں کے مالک ، امتوں کے محافظ ، تنزیل کے ساتھی ، تاویل کے امین و ولی ، وحی کے ترجمان و دلائل تھے۔( بحار الانوار ۱۰۲ /۱۸۰)۔

۳۔ اسم اعظم

۴۲۸۔ امام علی (ع) ! قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور جاندار کو پیدا کیا کہ میں زمین و آسمان کے ملکوت میں وہ اختیارات رکھتا ہوں کہ اگر تمھیں اس کے ایک حصّہ کا بھی علم ہو جائے تو تم برداشت نہیں کرسکتے ہو۔ پروردگار کے ۷۲ اسم اعظم ہیں جن میں سے آصف بن برخیا کو ایک معلوم تھا اور اس کے پڑھتے ہی زمینیں پست ہو گئیں اور انھوں نے ملک سبا سے تخت بلقیس اٹھا لیا اور پھر زمینیں برابر ہو گئیں اور ہمارے پاس کل ۷۲ اسماء کا علم ہے، صرف ایک نام ہے جسے خدا نے اپنے علم غیب کا حصہ بنا کر رکھا ہے۔( بحار الانوار ۲۷ / ۳۷ / ۵ ، البرہان ۲ ص ۴۹۰ / ۲ روایت سلمان فارسی)۔

۴۲۹۔ امام صادق (ع) ! جناب عیسیٰ بن مریم کو دو حرف عطا ہوئے تھے جن سے سارا کام کر رہے تھے اور جناب موسیٰ کو چار حرف عطا ہوئے تھے۔

حضرت ابراہیم کو ۸ حرف ملے تھے اور حضرت نوح کو ۱۵ حرف اور حضرت آدم کو ۲۵ حرف اور اللہ نے حضرت محمد کے لئے سب جمع کر دئے مالک کے ۷۳ ، اسم اعظم ہیں جن میں سے ۷۲ ، اپنے پیغمبر کو عنایت فرمائے ہیں اور ایک اپنی ذات کے لئے مخصوص کر لیا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۳۰ /۲) بصائر الدرجات ۲۰۸ / ۲ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۴۷۹ روایت ہارون بن الجہم)۔

۴۳۰۔ امام ہادی (ع) ! اللہ کے اسم اعظم ۷۳ ہیں آصف بن برخیا کے پاس ایک تھا جس کا حوالہ دینے سے ملک سبا تک کی زمینیں پست ہو گئیں اور انھوں نے تخت بلقیس کو اٹھا کر جناب سلیمان کے سامنے پیش کر دیا اور اس کے بعد پھر ایک لمحہ میں برابر ہو گئیں اور ہمارے پاس ان میں سے ۷۲ ہیں ۸ صرف ایک نام خدا نے اپنے لئے مخصوص کرر کھا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۳۰ / ۳ مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۴۰۶ ، اثبات الوصیّہ ۲۵۴ روایت علی بن محمد النوفلی)۔

۴۔ جملہ لغات

۴۳۱۔ امام علی (ع) ! یزدجرد کی بیٹی سے نام دریافت کرنے پر جب اس نے اپنا نام جہاں بانو بتایا تو فرمایا کہ نہیں شہر بانو اور یہ بات بھی فارسی زبان میں فرمائی۔( مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۶۵)۔

۴۳۲۔سماعہ بن مہران نے بعض شیوخ کے حوالہ سے امام باقر (ع) کے اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب دہلیز میں پہنچا تو سنا کہ آپ سریانی زبان میں کچھ پڑھ رہے ہیں اور گریہ فرمارہے ہیں یہاں تک کہ ہم لوگوں پر بھی گریہ طاری ہو گیا۔( مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۹۵)۔

۴۳۳- موسی بن اکیل النمیری کا بیان ہے کہ ہم امام (ع) باقر کے دروازہ پر اذن باریابی کے لئے حاضر ہوئے تو عبرانی زبان میں ایک دردناک آواز سنائی دی اور حاضری کے بعد ہم نے دریافت کیا کہ اس کا قاری کون تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے ایلیا کی منا جات یاد آ گئی تو مجھ پر گریہ طاہری ہو گیا۔( مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۹۵)۔

۴۳۴۔احمد بن قابوس نے اپنے والد کے حوالہ سے امام صادق (ع) کے بارے میں نقل کیا ہے کہ آپ کے پاس اہل خراسان کی ایک جماعت حاضر ہوئی تو آپ نے بغیر کسی تمہید کے فرمایا کہ جو شخص بھی مال جس قدر جمع کرے گا اللہ اس پر اسی اعتبار سے عذاب کرے گا… تو ان لوگوں نے عرض کی کہ ہم عربی زبان نہیں جانتے ہیں تو آپ نے فارسی میں فرمایا:

ہر کہ درم اندوز و جزایش دوزخ باشد․

۴۳۵۔ ابوبصیر ! میں نے حضرت ابوالحسن (ع) سے عرض کی کہ میں آپ پر قربان، امام کی معرفت کا ذریعہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ بہت سے اوصاف ہیں جنمیں پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے پدر بزرگوار کی طرف سے اس کے بارے میں اشارہ ہوتا ہے تا کہ لوگوں پر حجت تمام ہو جائے اور اس سے سوال کیا جائے اور وہ جواب دے گا اور اگر دریافت نہ کیا جائے تو خود ابتدا کرے اور مستقبل کے حالات سے بھی آگاہ کرے اور ہر زبان میں کلام کرسکے!

ابو محمد ! میں تمھارے اٹھنے سے پہلے تم کو ایک علامت دے دینا چاہتا ہوں … چنانچہ ابھی میں اٹھنے بھی نہیں پایا تھا کہ ایک مرد خراسانی وارد ہو گیا اور اس نے عربی میں کلام شروع تو آپ نے اسے فارسی میں جواب دیا۔

مرد خراسانی نے کہا کہ میں نے فارسی میں اس لئے کلام نہیں کیا کہ شائد آپ اسے نہ جانتے ہوں تو آپ نے فرمایا۔ سبحان اللہ !

اگر میں تمھارا جواب نہ دے سکوں تو میری فضیلت ہی کیا ہے۔

دیکھو ! ابومحمد! امام پر کسی انسان، پرندہ ، جانور اور ذی روح کا کلام مخفی نہیں ہوتا ہے اور اگر کسی میں یہ کمالات نہ ہوں تو وہ امام نہیں ہے۔( کافی ۱ ص ۲۸۵ /۷ ، ارشاد ۲ ص ۲۲۴ ، دلائل الامامة ۳۳۷ /۲۹۴ ، قرب الاسناد ۳۳۹ / ۱۲۲۴)۔

۴۳۶۔ ابوالصلت ہروی ! امام رضا تمام لوگوں سے ان کی زبان میں کلام فرماتے تھے اور سب سے زیادہ فصیح زبان بولتے تھے کہ سب سے زیادہ واقف لغات تھے، میں نے ایک دن عرض کیا یا بن رسول اللہ ! مجھے آپ کے اس قدر زبانیں جاننے پر تعجب ہوتا ہے تو فرمایا کہ ابوالصلت ! میں مخلوقات پر خدا کی حجت ہوں اور خدا کسی ایسے شخص کو حجت نہیں بنا سکتا ہے جو قوم کی زبان سے باخبر نہ ہو کیا تم نے امیر المومنین (ع) کا یہ کلام نہیں سنا ہے کہ ہمیں قول فیصل کا علم دیا گیا ہے اور قول فیصل معرفت لغات کے علاوہ اور کیا ہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۲۲۸ / ۳)۔

۴۳۷۔ ابوہاشم جعفری کا بیان ہیں کہ میں مدینہ میں تھا جب واثق باللہ کے زمانہ میں وہاں سے بغاء کا گذر ہوا تو امام ابوالحسن نے فرمایا کہ میرے ساتھ چلو تا کہ میں دیکھوں کہ ان ترکوں نے کیا انتظام کر رکھا ہے۔ ہم لوگ حضرت کے ساتھ باہر نکلے تو اس کی فوجیں گذر رہی تھیں ، ایک نزکی سامنے سے گذرا تو آپ نے اس سے ترکی زبان میں کلام کیا ، وہ گھوڑے سے اتر پڑا اور آپ کی سواری کے قدموں کو چومنے لگا، ہم لوگوں نے اسے قسم دے کر پوچھا کہ اس شخص نے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا کیا یہ نبی ہے؟

ہم لوگوں نے کہا نہیں !

اس نے کہا کہ اس نے مجھے اس نام سے پکارا ہے جو میرے بچپنے میں میرے ملک میں رکھا گیا تھا اور اسے آج تک کوئی نہیں جانتا ہے۔ (اعلام الوریٰ ص ۳۴۳ ، الثاقب فی المناقب ۵۳۸ / ۴۷۸ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۴۰۸)۔

۴۳۸۔ علی بن مہزیار نے امام ہادی (ع) کے حالات میں نقل کیا ہے کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فارسی میں کلام شروع کر دیا۔( بصائر الدرجات ۳۳۳/۱)۔

۴۳۹۔ علی بن مہزیار، میں نے حضرت ابوالحسن ثالت( امام علی نقی (ع) )کی خدمت میں اپنے غلام کو بھیجا جو صقلابی (رومی) تھا، وہ یہاں سے انتہائی حیرت زدہ واپس آیا، میں نے پوچھا خیر تو ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ تو مجھ سے صقلابی زبان کی طرح باتیں کر رہے تھے اور میں سمجھ گیا کہ مجھ سے اس زبان میں اس لئے باتیں کر رہے تھے کہ دوسرے غلام نہ سمجھنے پائیں۔(اختصاص ص ۲۸۹ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۴۰۸ ، کشف الغمہ ۳ ص ۱۷۹)۔

۴۴۰۔ ابوحمزہ نصیر الخادم کا بیان ہے کہ میں نے امام عسکری (ع) کو بارہا غلاموں سے ان کی زبان میں بات کرتے سناہے کبھی رومی کبھی صقلابی تو حیرت زدہ ہو کر کہا کہ آخر ان کی ولادت مدینہ میں ہوئی ہے اور امام نقی (ع) کے انتقال تک باہر نہیں نکلے ہیں تو اس قدر زبانیں کس طرح جانتے ہیں ؟

ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت نے میری طرف رخ کر کے فرمایا پروردگار نے اپنی حجت کو ہر طریقہ سے واضح فرمایا ہے اور وہ اسے تمام لغات، اجل ، حوادث سب کا علم عطا کرتا ہے، ورنہ ایسا نہ ہوتا تو اس میں اور قوم میں فرق ہی کیا رہ جاتا۔( کافی ۱ ص ۵۰۹ /۱۱، روضة الواعظین ص۲۷۳ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۴۲۸ ، الخرائج والجرائح ۱ ص ۴۳۶ /۱۴ ، کشف الغمہ ۳ ص ۲۰۲ ، اعلام الوریٰ ص ۲۵۶ ، بصائر الدرجات ص ۳۳۳)۔

۵۔ منطق الطیر

۴۴۱۔ امام علی (ع) ! ہمیں پرندوں کی زبان کا اسی طرح علم دیا گیا ے جیسے سلیمان بن داؤد کو دیا گیا ہے اور ہم برو بحر کے تمام جانوروں کی زبان جانتے ہیں ،( مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۵۴ ، بصائر الدرجات ۳۴۳ / ۱۲ از زرارح)۔

۴۴۲۔ امام علی (ع) ! ہمیں پرندوں کی گفتگو اور ہر شے کا علم دیا گیا جو خدا کا عظیم فضل ہے۔( اثبات الوصیہ ص ۱۶۰ ، اختصاص ص ۱۹۳ از محمد بن مسلم)۔

۴۴۳۔ علی بن ابی حمزہ ! حضرت ابوالحسن کے غلاموں میں سے ایک شخص نے آ کر حضرت سے درخواست کی کہ میرے ساتھ کھانا نوش فرمائیں ؟

حضرت اٹھے اور اٹھ کر اس کے ساتھ گھر تک گئے، وہاں ایک تخت رکھا تھا، اس پر بیٹھ گئے، اس کے نیچے کبوتر کا ایک جوڑا تھا، نر نے مادہ سے کچھ باتیں کیں ، صاحب خانہ دان، کھانا لانے چلا گیا اور جب پلٹ کر آیا تو حضرت مسکرانے لگے، اس نے عرض کی حضور ہمیشہ خوش رہیں اس وقت ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ یہ کبوتر کبوتری سے باتیں کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تو میری محبوبہ ہے اور مجھے کائنات میں اس شخص کے علاوہ تجھ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ہے ! اس نے کہا کیا حضور اس کی باتیں سمجھتے ہیں ! فرمایا بیشک ہمیں پرندوں کی گفتگو اور دنیا کی ہر شے کا علم دیا گیا ہے۔( بصائر الدرجات ۳۴۶/ ۲۵ ، مختصربصائر الدرجات ص ۱۱۴ ، الخرائج والجرائح ۲ ص ۸۳۳ / ۴۹ اختصاص ص ۲۹۳)۔

۴۳۴۔ علی بن اسباط ! میں حضرت ابوجعفر (ع) کے ساتھ کوفہ سے برآمد ہوا، آپ ایک خچر پر سوار تھے اور ایک بھیڑوں کے گلے کے قریب سے گذرے تو ایک بکری گلہ سے الگ ہو کر دوڑتی ہوئی آپ کے پاس شور مچاتی ہوئی آئی، آپ ٹھہر گئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اس کے چروا ہے کو بلاؤں میں نے اسے حاضر کر دیا، آپ نے اس سے فرمایا کہ یہ بکری تمھاری شکایت کر رہی ہے کہ اس میں دو آدمیوں کا حصّہ ہے اور تو اس پر ظلم کر کے سارا دودھ دوہ لیتا ہے تو جب شام کو گھر واپس جائے گی تو مالک دیکھے گا کہ اس میں بالکل دودھ نہیں ہے اور اذیت کرے گا تو دیکھ خبردار آئندہ ایسا ظلم نہ کرنا ورنہ میں تیری بربادی کی بددعا کردوں گا؟

اس نے فوراً توحید و رسالت کی گواہی کے ساتھ امام کے وصی رسول ہونے کا کلمہ پڑھ لیا اور عرض کیا کہ حضور کو یہ علم کہاں سے ملا ہے فرمایا ہم علم غیب و حکمت الہی کے خزانہ دار ہیں اور انبیاء کے وصی اور اللہ کے محترم بندے ہیں۔( الثاقب فی المناقب ۵۲۲ / ۲۵۵)

۴۴۵۔ عبداللہ بن سعید ! مجھ سے محمد بن علی بن عمر التنونی نے بیان کیا کہ میں نے حضرت محمد بن علی (ع) کو ایک بیل سے بیات کرتے دیکھا جب وہ سرہلارہا تھا تو میں نے کہا کہ میں اس طرح نہ مانوں گا جب تک اسے یہ حکم نہ دیں کہ وہ آپ سے کلام کرے؟

آپ نے فرمایا کہ ہمیں پرندوں کی گفتگو اور ہر شے کا علم دیا گیا ہے، اس کے بعد بیل کو حکم دیا کہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ کہے اس نے فوراً کہہ دیا اور آپ اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔( دلائل الامامة ۴۰ / ۳۵۶)۔

۶۔ ماضی و مستقبل

۴۴۶۔ امام علی (ع) اگر قرآن مجید میں یہ آیت نہ ہوتی کہ ’ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے محو کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے، تو میں تمھیں تمام گذشتہ اور آئندہ قیامت تک ہونے والے حالات سے باخبر کر دیتا۔( التوحید ۳۰۵ /۱ ، امالی صدوق (ر) ص ۲۸۰ /۱ الاختصاص ص ۲۳۵ ، الاحتجاج ۱ ص ۶۱۰ بروایت اصبغ بن نباتہ، تفسیر عیاشی ۲ ص ۲۱۵ /۵۹ ، قرب الاسناد ۳۵۴ / ۱۲۶۶)۔

۴۴۷۔ امام صادق (ع) ! اے وہ خدا جس نے ہم کو تمام ماضی اور آئندہ کا علم دیا ہے اور انبیاء کے علم کا وارث بنایا ہے، ہم پر تمام گذشتہ امتوں کا سلسلہ ختم کیا ہے اور ہمیں وصایت کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔( بصائر الدرجات ۱۲۹ / ۳ بروایت معاویہ بن وہب)۔

۴۴۸۔ معاویہ بن وہب ! میں نے امام صادق (ع) کے دروازہ پر اجازت طلب کی اور اجازت ملنے کے بعد گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضرت مصلیٰ پر ہیں۔ میں ٹھہر گیا جب نماز تمام ہو گئی تو دیکھا کہ آپ نے منا جات شروع کر دی، ’ اے وہ پروردگار جس نے ہمیں مخصوص کرامت عطا فرمائی ہے اور وصیت کے ساتھ مخصوص کیا ہے اور ہم سے شفاعت کا وعدہ کیا ہے اور ہمیں تمام ماضی اور مستقبل کا علم عطا فرمایا ہے اور لوگوں کے دلوں کو ہماری طرف جھکا دیا ہے، خدایا ہمیں اور ہمارے برادران ایمانی کو اور قبر حسین (ع) کے تمام زائروں کو بخش دے۔( کافی ۴ ص ۵۸۲ /۱۱ ، کامل الزیارات ص ۱۱۶)۔

۴۴۹۔ سیف تمار ! میں ایک جماعت کے ساتھ امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے تین مرتبہ خانہ کعبہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ اگر میں موسی ٰ (ع) اور خضر (ع) کے درمیان حاضر ہوتا تو دونوں کو بتاتا کہ میں ان سے بہتر جانتا ہوں اور وہ باتیں بتاتا جو ان کے پاس نہیں تھیں ، اس لئے کہ موسیٰ (ع) اور خضر کو گذشتہ کا علم دیا گیا تھا۔( انہیں مستقبل اور قیامت تک کے حالات کا علم نہیں دیا گیا تھا اور ہمیں یہ سب رسول اللہ سے وراثت میں ملا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۶۰ / ۱ ، بصائر الدرجات ۱۲۹ /۱ ، ۲۳۰ / ۴ ، دلائل الامامة ص ۲۸۰ / ۲۱۸)۔

۴۵۰۔ حارث بن المغیرہ امام صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا کہ میں آسمان و زمین کی تمام اشیاء جنت و جہنم کی تمام اشیاء ، ماشی اور مستقبل کی تمام اشیاء کا علم رکھتا ہوں ، اور پھر یہ کہہ کر خاموش ہو گئے جیسے سننے والے کو یہ بات بری معلوم ہو رہی ہے اور اس کی اس طرح وضاحت فرمائی کہ یہ سب مجھے کتاب خدا سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں ہر شے کا بیان پایا جاتا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۶۱ / ۲ ، بصائر الدرجات ۱۲۸ / ۵ ، ۱۲۸ / ۶ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۲۴۹)۔

۴۵۱۔امام صادق (ع) ! ہم اولاد رسول اس عالم میں پیدا ہوئے ہیں کہ ہمیں کتاب خدا،ابتدائے آفرینش اور قیامت تک کے حالات کا علم تھا، اور اس کتاب میں آسمان و زمین، جنت و جہنم ، ماضی و مستقبل سب کا علم موجود ہے اور ہمیں اس طرح معلوم ہے جس طرح ہاتھ کی ہتھیلی ، پروردگار کا ارشاد ہے کہ اس قرآن میں ہر شے کا بیان موجود ہے۔( کافی ۱ ص ۶۱/۸، بصائر الدرجات ۱۹۷ /۲ ، ینابیع المودة ۱ /۸۰/۲۰ ، روایت عبدالاعلیٰ بن اعین ، تفسیر عیاشی ۲ ص ۲۶۶ / ۶۵)۔

۴۵۲۔ امام رضا (ع) ! کیا خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب کا اظہار صرف اپنے پسندیدہ بندوں پر کرتا ہے اور رسول اکرم اس کے پسندیدہ بندہ تھے اور ہم سب انہیں کے وارث ہیں جن کو خدا نے اپنے غیب پر مطلع فرمایا ہے اور تمام ماضی اور مستقبل کا علم دیا ہے( ا لخرائج و الجرائح ۱ ص ۳۴۳ روایت محمد بن الفضل الہاشمی)۔

۴۵۳ ، عبداللہ بن محمد الہاشمی ! میں مامون کے دربار میں ایک دن حاضر ہوا تو اس نے مجھے روک لیا اور سب کو باہر نکال دیا ، پھر کھانا منگوایا اور ہم دونوں نے کھایا ، اور خوشبو لگائی ، پھر ایک پردہ ڈال دیا اور مجھے حکم دیا کہ صاحب طوس کا مرثیہ سناؤ۔

میں نے شعر پڑھا۔

’ خدا سرزمین طوس پر اور اس کے ساکن پر رحمت نازل کرے جو عترت مصطفی میں تھا اور ہمیں رنج و غم دے کر رخصت ہو گیا ‘ مامون یہ سن کر رونے لگا اور مجھ سے کہا کہ عبداللہ ! میرے اور تمھارے گھرانے والے مجھے ملامت کرتے ہیں کہ میں نے ابوالحسن الرضا (ع) کو ولی عہد کیوں بنا دیا ، سنو میں تم سے ایک عجیب و غریب واقعہ بیان کر رہا ہوں ، ایک دن میں نے حضرت رضا (ع) سے کہا کہ میں آپ پر قربان، آپ کے آباء و اجداد موسیٰ بن جعفر (ع) ، جعفر (ع) بن محمد، محمد بن علی (ع) ، علی بن الحسین (ع) کے پاس تمام گذشتہ اور آئندہ قیامت تک کا علم تھا اور آپ انہیں کے وصی اور وارث ہیں اور آپ کے پاس انہیں کا علم ہے ، اب مجھے ایک ضرور ت ہے آپ اسے حل کریں۔

فرمایا بتاؤ ! میں نے کہا کہ یہ زاہر یہ میرے لئے ایک مسئلہ بن گئی ہے، میں اس پر کسی کنیز کو مقدم نہیں کرسکتا، لیکن یہ متعدد بار حاملہ ہو چکی ہے اور اس کا اسقاط ہو چکا ہے، اب پھر حاملہ ہے، اب مجھے کوئی ایسا علاج بتائیں کہ اب اسقاط نہ ہونے پائے۔

آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں ، اس مرتبہ اسقاط نہیں ہو گا اور ایسا بچہ پیدا ہو گا جو بالکل اپنی ماں کی شبیہ ہو گا اور اس کی ایک انگلی داہنے ہاتھ میں زیادہ ہو گی اور ایک بائیں پیر میں۔

میں نے اپنے دل میں کہا کہ بیشک خدا ہر شے پر قادر ہے۔

اس کے بعد زاہریہ کے یہاں بالکل ویسا ہی بچہ پیدا ہوا جیسا حضرت رضا (ع) نے فرمایا تھا تو بتاؤ اس علم و فضل کے بعد کس کو حق ہے کہ ان کو پرچم ہدایت قرار دینے پر میری ملامت کرسکے۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۲۲۳ / ۴۳ ، الغیبتہ الطوسی ۷۴ / ۸۱ روایت محمد بن عبداللہ بن الحسن الا فطس ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۳۳۳)۔

۷۔ اموات و آفات

۴۵۴۔ امام علی (ع) (ع)! ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جنہیں اموات ، حوادث روزگار اور انساب کا علم عطا کیا گیا ہے کہ اگر ہم میں سے کسی ایک کو بھی پل پر کھڑا کر دیا جائے اور ساری امت کو گذار دیا جائے تو وہ ہر ایک کے نام اور نسب کو بتا سکتا ہے۔( بصائر الدرجات ۲۶۸ / ۱۲ روایت اصبغ بن بناتہ)۔

۴۵۵۔ امام زین العابدین (ع) ! ہمارے پاس جملہ اموات اور حوادث کا علم ہے، حرف آخر ہمارا ہے اور انساب عرب اور موالید اسلام سب ہمیں معلوم ہیں ، (بصائر الدرجات ۲۶۶ / ۳ روایت عبدالرحمان بن ابی بحران عن الرضا (ع) ۲۶۷/۴ روایت عمار بن ہارون عن الباقر (ع) ، تفسیر فرات ۳۹۶ / ۵۲۷ ، الیقین ۳۱۸ / ۱۲۱ روایت زیاد بن المنذر عن الباقر (ع))۔

۴۵۶۔ اسحاق بن عمار ! میں نے عبدصالح کو اپنی موت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے سنا تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ کیا یہ اپنے شیعوں کی موت کے بارے میں بھی جانتے ہیں ، آپ نے غضبناک انداز سے میری طرف دیکھا اور فرمایا اسحاق ! رشید ہجری کو اموات اور حوادث کا علم تھا تو امام تو اس سے اولیٰ ہوتا ہے۔

اسحاق ، دیکھو جو کچھ کرنا ہے کر لو کہ تمھاری زندگی تمام ہو رہی ہے اور تم و سال کے اندر مر جاؤ گے اور تمھارے برادران اور اہل خانہ بھی تمھارے بعد چند ہی دنوں میں آپس میں منتشر ہو جائیں گے اور ایک دوسرے سے خیانت کریں گے یہاں تک کہ دشمن طعنے دیں گے ، یہ تمھارے دل میں کیا تھا؟ میں نے عرض کی کہ میں اپنے غلط خیالات کے بارے میں مالک کی بارگاہ میں استغفار کرتا ہوں۔

اس کے بعد چند دن نہ گذرے تھے کہ اسحاق کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ بنی عمار نے لوگوں کے مال کے ساتھ قیام کیا اور آخر میں افلاس کا شکار ہو گئے۔( کافی ۱ ص ۴۸۴ /۷ ، بصائر الدرجات ۲۶۵ / ۱۳ ، دلائل الامامتہ ۳۲۵ / ۲۷۷ ، الخرائج والجرائح ۲ ص ۷۱۲ ، ۹)۔

۴۵۷۔ امام رضا (ع) نے عبداللہ بن جندب کے خط میں لکھا کہ حضرت محمد اس دنیا میں پروردگار کے امین تھے، اس کے بعد جب ان کا انتقال ہو گیا تو ہم اہلبیت (ع) ان کے وارث ہیں ، ہم زمین خدا پر اس کے اسرار کے امانتدار ہیں اور ہمارے پاس تمام اموات اور حوادث روزگار اور انساب عرب اور موالید اسلام کا علم موجود ہے۔( تفسیر قمی ۲ ص ۱۰۴ ، مختصر بصائر الدرجات ۱۷۴ ، بصائر الدرجات ۲۶۷ /۵)۔

۸۔ ارض و سماء

۴۵۸۔ رسول اکرم ! فضا میں کوئی پرندہ پر نہیں مارتا ہے مگر ہمارے پاس اس کا علم ہوتا ہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۳۲ / ۵۴ روایت داؤد بن سلیمان الفراء عن الرضا (ع) ، صحیفة الرضا (ع) ۶۲ / ۱۰۰ روایت احمد بن عامر الطائ عن الرضا (ع) )۔

۴۵۹۔ ابوحمزہ ! میں نے امام باقر (ع) کی زبان سے یہ سناہے کہ حقیقی عالم جاہل نہیں ہوسکتا ہے کہ ایک شے کا عالم ہو اور ایک شے کا جاہل پروردگار اس بات سے اجلّ و ارفع ہے کہ وہ کسی بندہ کی اطاعت واجب کرے اور اسے آسمان و زمین کے علم سے محروم رکھے، یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔(کافی ۱ ص ۲۶۲ /۶)۔

۴۶۰۔ امام صادق (ع) ! پروردگار اس بات سے اجل و اعلیٰ ہے کہ وہ کسی بندہ کو بندوں پر حجت قرار دے اور پھر آسمان و زمین کے اخبار کو پوشیدہ رکھے۔( بصائر الدرجات ۱۲۶/۶ روایت صفوان)۔

۴۶۱۔ امام صادق (ع) ! اللہ کی حکمت اور اس کے کرم کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ایسے بندہ کی اطاعت واجب قرار دے جس سے آسمان و زمین کے صبح و شام کو پوشیدہ رکھے۔( بصائر الدرجات ۱۲۵ / ۵ روایت مفضل بن عمر)۔

۹۔ حوادث روز و شب

۴۶۲۔ سلمہ بن محرز ! میں نے امام باقر (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ ہمارے علوم میں تفسیر قرآن و احکام قرآن ، علم تغیرات و حوادث زمانہ سب شامل ہیں پروردگار جب کسی قوم کے لئے خیر چاہتا ہے تو انہیں سنادیتا ہے اور اگر کسی ایسے کو سنا دے جو سننا نہیں چاہتا ہے تو منھ پھیر لے گا جیسے کہ سنا ہی نہیں ہے ، یہ کہہ کر خاموش ہو گئے، تھوڑی دیر کے بعد پھر فرمایا اگر مناسب ظرف اور مطمئن ماحول مل جاتا تو میں اور کچھ بیان کرتا لیکن فی الحال اللہ ہی سے طلب امداد کر رہا ہوں۔

۴۶۳۔ ضریس۔ ہم اور ابوبصیر امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ابوبصیر نے علم اہلبیت (ع) کے بارے میں سوال کیا اور آپ نے فرمایا کہ ہمارا عالم خاص غیبت کا علم نہیں رکھتا ہے اور اگر خدا اس کے حوالہ کر دیتا تو تمھارا ہی جیسا ہوتا لیکن اسے دن کو رات کی باتیں بتادی جاتی ہیں اور رات کو دن کے امور سے آگاہ کر دیا جاتا ہے اور یونہی قیامت تک کے حالات سے باخبر کر دیا جاتا ہے۔( مختصر بصائر الدرجات ۱۱۳)۔( بصائر الدرجات ۳۲۵ /۲ ، الخرائج و الجرائح ۲ ص ۸۳۱ /۴۷)۔

۴۶۴۔ حمران بن الحسین ! میں نے امام صادق (ع) سے سوال کیا … کیا آپ کے پاس توریت ، انجیل ، زبور ، صحف ابراہیم (ع) و موسی ٰ (ع) کا بھی علم ہے؟

فرمایا بیشک !

میں نے عرض کیا کہ یہ تو بہت بڑا علم ہے، فرمایا حمران ! شب و روز پیدا ہونے والے حوادث کا علم بھی ہمارے پاس ہے اور یہ اس سے عظیم تر ہے، وہ ماضی ہے اور یہ مستقبل۔( بصائر الدرجات ۱۴۰ / ۵)۔

۴۶۵۔ محمد بن مسلم ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ میں نے ابوالخطاب کی زبانی ایک بات سنی ہے؟

فرمایا وہ کیا ہے؟

میں نے عرض کی ، ان کا کہناہے کہ آپ حضرات حلال و حرام اور قضایا کو فیصل کرنے کا علم رکھتے ہیں۔

آپ خاموش ہو گئے۔ پھر جب میں نے چلنے کا ارادہ کیا تو میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا ، دیکھو محمد ! یہ علم قرآن اور علم حلال و حرام اس علم کے پہلو بہ پہلو ہے جو ہمارے پاس حوادث روز و شب کے بارے میں ہے۔ (بصائر الدرجات ۳۹۴/۱۱ ، اختصاص ۳۱۴)۔

۴۶۶۔ امام صادق (ع)ہمارے یہاں کوئی رات ایسی نہیں آتی ہے جب ساری کائنات کا اور اس کے حوادث کا علم نہ ہو ، ہمارے پاس جنات کا بھی علم اور ملائکہ کے خواہشات کا بھی علم ہے۔( کامل الزیارات ۳۲۸ روایت عبداللہ بن بکر الارجانی)۔

 

منشاء علوم

۱۔ تعلیم پیغمبر اسلام

۴۶۷۔ امام علی (ع) ! میں جب رسول اکرم سے کسی علم کا سوال کرتا تھا تو مجھے عطا فرما دیتے تھے اور اگر خاموش رہ جاتا تھا تو از خود ابتدا فرماتے تھے۔( سنن ترمذی ۵ ص ۶۳۷ / ۳۷۲۲ ، ص ۶۴۰ / ۳۷۲۹ ، مستدرک حاکم ۳ ص ۱۳۵ ، ۴۶۳۰ ، اسدالغابہ ۴ ص ۱۰۴ ، خصائص نسائی ۲۲۱ ، /۱۱۹ ، امالی صدوق (ر) ۲۰۲ /۱۳ روایت عبداللہ بن عمرو بن ہند الحبلی العمدة ۲۸۳ / ۴۶۱ ، کافی ۱ ص ۶۴ /۱ احتجاج ۱ ص ۶۱۶ / ۱۳۹ ، روضة الواعظین ص ۳۰۸ ، غرر الحکم ۳۷۷۹ ، ۷۲۳۶، مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۴۵۔

۴۶۸۔ محمد بن عمر بن علی (ع) ! امام علی (ع) سے دریافت کیا گیا کہ تمام اصحاب میں سب سے زیادہ احادیث رسول آپ کے پاس کیوں ہیں ؟ تو فرمایا کہ میں جب حضرت سے سوال کرتا تھا تو مجھے باخبر کر دیا کرتے تھے اور جب چپ رہتا تھا تو از خود ابتدا فرماتے تھے۔( الطبقات الکبریٰ ۲ ص ۳۳۸ ، الصواعق المحرقہ ص ۱۲۳ ، تاریخ الخلفاء ص ۲۰۲)۔

۴۶۹۔ ام سلمہ ! جبریل امین جو کچھ رسول اکرم کے حوالہ کرتے تھے حضرت اسے علی (ع) کے حوالہ کر دیا کرتے تھے۔( مناقب ابن المغازلی ص ۲۵۳ /۳۰۲)۔

۴۷۰۔ امام علی (ع) ! اصحاب میں ہر ایک کو جرات اور توفیق بھی نہ ہوتی تھی کہ رسول اکرم سے کلام کرسکیں ، سب انتظار کیا کرتے تھے کہ کوئی دیہاتی یا مسافر آ کر دریافت کرے تو وہ بھی سن لیں ، لیکن میرے سامنے جو مسئلہ بھی آتا تھا میں اس کے بارے میں سوال کر لیتا تھا اور اسے محفوظ کر لیتا تھا۔( نہج البلاغہ خطب ص ۲۱۰)۔

۴۷۱۔ امام علی (ع)! جب بعض اصحاب نے کہا کہ کیا آپ کے پاس علم غیب بھی ہے؟ تو مسکرا کر اس مرد کلبی سے فرمایا کہ یہ علم غیب نہیں ہے بلکہ صاحب علم سے استفادہ ہے، علم غیب سے مراد قیامت کا علم ہے اور ان کا علم ہے جن کا ذکر سورۂ  لقمان کی آیت ۱۴ میں ہے۔

’ بیشک خدا کے پاس قیامت کا علم ہے، اور وہی بارش کے قطرے برساتا ہے اور وہی پیٹ کے اندر بچہ کے حالات جانتا ہے اور کسی نفس کو نہیں معلوم کہ کل کیا حاصل کرے گا اور نہ یہ معلوم ہے کہ کس سرزمین پر موت آئے گی‘۔

پروردگار ان تفصیلات کو جانتا ہے کہ پیٹ کے اندر لڑکا ہے یا لڑکی، پھر وہ حسین ہے یا بدصورت، پھر سخی ہے یا بخیل ، پھر شقی ہے یا نیک بخت ، پھر جہنم کا کندہ بنے گا یا جنت میں انبیاء کا رفیق، یہ وہ علم غیب ہے جسے پروردگار کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے، اس کے علاوہ جس قدر بھی علم ہے اسے مالک نے اپنے نبی کو تعلیم کیا ہے اور انھوں نے میرے حوالہ کر دیا ہے اور میرے حق میں دعا کی ہے کہ میرے سینہ میں محفوظ ہو جائے۔اور میرے پہلو سے نکل کر باہر نہ جانے پائے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص ۱۲۸)۔

۴۷۲۔ امام علی (ع) ! اہلبیت (ع) پیغمبر مالک کے راز کے محل ، اس کے امر کی پناہ گاہ، اس کے علم کا ظرف ، اس کے حکم کا مرجع ، اس کی کتابوں کی آماجگاہ، اور اس کے دین کے پہاڑ میں ، انہیں کے ذریعہ اس نے دین کی ہر کجی کو سیدھا کیا ہے اور ا س کے جوڑ بند کے رعشہ کو دور کیا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ص۲)۔

۴۷۳۔ امام باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جنہیں مالک کے علم سے علم ملا ہے اور اس کے حکم سے ہم نے اخذ کیا ہے اور قول صادق سے سناہے تو اگر ہمارا اتباع کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے، (مختصر بصائر الدرجات ص ۶۳ ، بصائر الدرجات ۵۱۴ / ۳۴ روایت جابر بن یزید)۔

۴۷۴۔ امام صادق (ع) ! حضرت علی (ع) بن ابی طالب کا علم رسول اللہ کے علم سے تھا اور ہم نے ان سے حاصل کیا ہے۔( اختصاص ص ۲۷۹ ، بصائر الدرجات ۲۹۵ /۱ روایت ابویعقوب الاحول)۔

۲۔ اصول علم

۴۷۵۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کے پاس علم کی کنجیاں ، حکمت کے ابواب ، مسائل کی روشنی اور حرف فصیل ہے۔( محاسن ۱ ص ۳۱۶ /۶۲۹ روایت ابوالطفیل، بصائر الدرجات ۳۶۴/۱۰)۔

۴۷۶۔ امام باقر (ع) ! اگر ہم لوگوں کے درمیان ذاتی رائے اور خواہش سے فتویٰ دیتے تو ہم بھی ہلاک ہو جاتے، ہمارے فتاویٰ کی بنیاد آثار رسول اکرم اور اصول علم ہیں جو ہم کو بزرگوں سے وراثت میں ملے ہیں اور ہم انہیں اس طرح محفوظ کئے ہوئے ہیں جس طرح اہل دنیا سونے چاندی کے ذخیروں کو محفوظ کرتے ہیں۔( بصائر الدرجات ۳۰۰ / ۴ روایت جابر، الاختصاص ۲۸۰ روایت جابر بن یزید)۔

۴۷۷۔ امام صادق (ع) (ع)! اگر پروردگار نے ہماری اطاعت واجب نہ کی ہوتی اور ہماری مودت کا حکم نہ دیا ہوتا تو نہ ہم تم کو اپنے دروازہ پر کھڑا کرتے اور نہ گھر میں داخل ہونے دیتے ، خدا گواہ ہے کہ ہم نہ اپنی خواہش سے بولتے ہیں ور نہ اپنے رائے سے فتویٰ دیتے ہیں ، ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے پروردگار نے کہا ہے اور جس کے اصول ہمارے پاس ہیں اور ہم نے انہیں ذخیرہ بنا کر رکھا ہے جس طرح یہ اہل دنیا سونے چاندی کے ذخیرہ رکھتے ہیں۔(بصائر الدرجات ۳۰۱ / ۱۰ روایت محمد بن شریح)۔

۴۷۸۔ محمد بن مسلم ! امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا کہ رسول اکرم نے لوگوں کو بہت کچھ عطا فرمایا ہے لیکن ہم اہلبیت (ع) کے پاس تمام علوم کی اصل ، ان کا سرا، ان کی روشنی اور ان کا وہ وسیلہ ہے جس سے علوم کو برباد ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔( اختصاص ص ۳۰۸ ، بصائر الدرجات ۳۱۳ / ۶)۔

۳۔ کتب انبیاء

۴۷۹۔ امام صادق (ع) ! ہمارے پاس موسیٰ کی تختیاں اور ان کا عصا موجود ہے اور ہمیں تمام انبیاء کے وارث ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۳۱ / ۲ ، بصائر الدرجات ۱۸۳ / ۳۴ ، اعلام الوریٰ ص ۲۷۷ روایت ابوحمزہ الثمالی)۔

۴۸۰۔ ابوبصیر ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ اے ابومحمد ! پروردگار نے کسی نبی کو کوئی ایسی چیز نہیں دی ہے جو حضرت محمد کو نہ دی ہو ، انہیں تمام انبیاء (ع) کے کمالات سے سرفراز فرمایا ہے اور ہمارے پاس وہ سارے صحیفے موجود ہیں جنہیں ’ صحف ابراہیم (ع) و موسیٰ (ع) ‘ کہا گیا ہے۔

میں نے عرض کی کیا یہ تختیاں ہیں ؟ فرمایا بیشک۔( کافی ۱ ص ۲۲۵ / ۵ ، بصائر الدرجات ۱۳۶ / ۵)۔

۴۸۱۔ امام کاظم (ع) ! بریہ سے گفتگو کرتے ہوئے جب اس نے سوال کیا کہ آپ کا توریت و انجیل اور کتب انبیاء سے کیا تعلق ہے؟ فرمایا وہ سب ہمارے پاس ان کی وراثت میں محفوظ ہیں اور ہم انہیں اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح ان انبیاء نے پڑھا تھا، پروردگار کسی ایسے شخص کو زمین میں اپنی حجت نہیں قرار دے سکتا جس سے سوال کیا جائے تو وہ جواب میں کہہ دے کہ مجھے نہیں معلوم ہے۔( کافی ۱ ص ۲۲۷ /۲ روایت ہشام بن الحکم)۔

۴۸۲۔ امام صادق (ع)! رسول اکرم تک صحف ابراہیم (ع) و موسیٰ (ع) پہنچائے گئے تو آپ نے حضرت علی (ع) کو ان کا امین بنا دیا اور انھوں نے حضرت حسن (ع) کو بنایا اور انھوں نے حضرت حسین (ع) کو بنایا اور انھوں نے حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) کو بنایا۔ اور انھوں نے حضرت محمد بن علی (ع) کو بنایا اور انھوں نے مجھے بنایا۔ چنانچہ وہ سب میرے پاس رہے یہاں تک کہ میں نے اپنے اس فرزند کو کمسنی ہی میں امانتدار بنا دیا اور وہ سب اس کے پاس محفوظ ہیں۔( الغیبة النعمانی ۳۲۵ /۲ ، رجال کشی ۲ ص ۶۴۳ / ۶۶۳ روایت فیض بن مختار)۔

۴۸۳۔ عبداللہ بن سنان نے امام صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت سے اس آیت کریمہ ’ لقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر‘ کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ زبور اور ذکر کیا ہے؟ تو فرمایا کہ ذکر اللہ کے پاس ہے اور زبور وہ ہے جس کو داؤد پر نازل کیا گیا ہے اور ہر نازل ہونے والی کتاب ، علم کے پاس محفوظ ہے اور ہم اہل علم ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۲۵ / ۶ ، بصائر الدرجات ۱۳۶ /۶)۔

۴۔ کتاب امام علی (ع)

۴۸۴۔ ام سلمہ ! رسول اکرم نے علی (ع) کو اپنے گھر میں بٹھا کر ایک بکری کی کھال طلب کی اور علی (ع) نے اس پر اول سے آخر تک لکھ لیا۔( الامامة والتبصرہ ۱۷۴ /۲۸ مدینتہ المعاجز ۲ ص ۲۴۸ / ۵۲۹ ، بصائر الدرجات ۱۶۳ / ۴)۔

۴۸۵۔ ام سلمہ ! رسول اکرم نے ایک کھا طلب کر کے علی (ع) بن ابی طالب کو دی اور حضرت بولتے رہے اور علی (ع) لکھتے رہے یہاں تک کہ کھال کا ظاہر ، باطن ، سب پُر ہو گیا۔( ادب الاملاء والاستملاء سمعانی ص ۱۲)۔

۴۸۶۔ امام صادق (ع)! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) کو طلب کیا اور ایک دفتر منگوایا اور پھر سب کچھ لکھوا دیا۔( الاختصاص ص ۲۷۵ روایت حنان بن سدیر)۔

۴۸۷۔ امام علی (ع) ! علم ہمارے گھر میں ہے اور ہم اس کے اہل میں اور وہ ہمارے پاس اور سے آخر تک سب موجود ہے اور قیامت تک کوئی ایسا حادثہ ہونے والا نہیں ہے جسے رسول اکرم نے حضرت علی (ع) کے خط سے لکھوانہ دیا ہو یہاں تک کہ خراش لگانے کا تاوان بھی مذکور ہے۔( الاحتجاج ۲ ص ۶۳ /۱۵۵ روایت ابن عباس)۔

۴۸۸۔ امام حسن (ع) ! جب آپ سے تجارت کے معاملہ میں خیار کے ذیل میں حضرت علی (ع) کی رائے دریافت کی گئی تو آپ نے ایک زرد رنگ کا صحیفہ نکالا جسمیں اس مسئلہ میں حضرت علی (ع) کی رائے کا ذکر تھا۔( العلل ابن حنبل ۱ ص ۳۴۶ / ۶۳۹)۔

۴۸۹۔ امام باقر (ع) ! کتاب علی (ع) میں ہر وہ شے موجود ہے جس کی کبھی ضرورت پڑسکتی ہے ، یہاں تک کہ خراش کا تاوان اور ارش کا ذکر بھی موجود ہے۔( بصائر الدرجات ۱۶۴ / ۵ ، روایت عبداللہ بن میمون)۔

۴۹۰۔ امام محمد (ع) باقر ! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ جو کچھ میں بول رہا ہوں تم لکھتے جاؤ… عرض کی یا رسول اللہ ! کیا آپ کو میرے بھول جانے کا خطرہ ہے ؟ فرمایا تمھارے بارے میں نسیان کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں نے خدا سے دعا کی ہے کہ تمھیں حافظہ عطا کرے اور نسیان سے محفوظ رکھے لیکن پھر بھی تم لکھو تا کہ تمھارے ساتھیوں کے کام آئے۔

میں نے عرض کی حضور یہ میرے شرکاء اور ساتھی کون ہیں ؟ فرمایا تمھاری اولاد کے ائمہ ’ جن کے ذریعہ سے میری امت پر بارش رحمت ہو گی اور ان کی دعا قبول کی جائے گی اور بلاؤں کو دفع کیا جائے گا اور آسمان سے رحمت کا نزول ہو گا ، ان میں اول یہ حسن (ع) ہیں ، اس کے بعد حسین (ع) اور پھر ان کی اولاد کے ائمہ (ع) ( امالی صدق (ر) ۳۲۷ / ۱ ، کمال الدین ۲۰۶ / ۲۱ ، بصائر الدرجات۱۶۷ / ۲۲ ، روایات ابو الطفیل)۔

۴۹۱۔ عذا فرالصیرفی ! میں حکم بن عتیبہ کے ساتھ امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا تو حکم نے حضرت سے سوالات شروع کر دیے اور وہ ان کا احترام کیا کرتے تھے ایک مسئلہ پر دونوں میں اختلاف ہو گیا تو آپ نے اپنے فرزند سے فرمایا کہ ذرا کتاب علی (ع) تو لے کر آؤ۔ وہ ایک لپٹی ہوئی عظیم کتاب لے آئے اور حضرت اسے کھول کر پڑھنے لگے، یہاں تک کہ وہ مسئلہ نکال لیا اور فرمایا یہ حضرت علی (ع) کا خط ہے اور رسول اللہ کا املاء ہے۔

اور پھر حکم کی طرف رخ کر کے فرمایا اے ابومحمد ! تم یا سلمہ یا ابوالمقدام جد ہر چاہو مشرق و مغرب میں چلے جاؤ، خدا کی قسم اس قوم سے زیادہ محکم کہیں نہ پاؤ گے جس کے گھر میں جبریل کا نزول ہوتا تھا۔(رجال نجاشی ۲ ص ۲۶۱ /۹۶۷)۔

۴۹۲۔ امام باقر (ع) ! ہم نے کتاب علی (ع) میں رسول اکرم کا یہ ارشاد دیکھا ہے کہ جب لوگ زکٰوة روک لیں گے تو زمین بھی اپنی برکتوں کو روک لے گی۔(کافی ۳ ص ۵۰۵ /۱۷ روایت ابوحمزہ)۔

۴۹۳۔ محمد بن مسلم ! مجھے حضرت امام باقر (ع) نے وہ صحیفہ پڑھوایا جس میں میراث کے مسائل درج تھے اور اسے رسول اکرم نے املاء کیا تھا اور حضرت علی (ع) نے لکھا تھا اور اس میں یہ تصریح تھی کہ سہام میں عول واقع نہیں ہوسکتا ہے اور حصے اصل مال سے زیادہ نہیں ہوسکتے ہیں۔( تہذیب ۹ ص ۲۴۷/ ۵۹۵۹)۔

۴۹۴۔ ابوالجارود نے امام باقر (ع) سے روایت کی ہے کہ جب امام حسین (ع) کا آخری وقت آیا تو آپ نے اپنی دختر فاطمہ بنت الحسین (ع) کو بلا کر ایک ملفوف کتاب اور ایک ظاہری وصیت عنایت کی اور اس وقت حضرت علی بن الحسین (ع) شدید بیماری کے عالم میں تھے، اس لئے جناب فاطمہ (ع) نے بعد میں ان کے حوالہ کر دیا اور وہ بعد میں ہمارے پاس آ گئی۔

میں نے عرض کی میں آپ پر قربان ، آخر اس کتاب میں ہے کیا ؟ فرمایا ہر وہ شے جس کی اولاد آدم کو ابتدائے خلقت سے فناء دنیا تک ضرورت ہوسکتی ہے، خدا کی قسم اس میں تمام حدود کا ذکر ہے یہاں تک کہ خراش لگانے کا تاوان لکھ دیا گیا ہے۔( کافی ۱ ص ۳۰۳ / ۱ ، بصائر الدرجات ۴۸ / ۹ ، الامامة والتبصرہ ۱۹۷ / ۵۱ ، آخر الذکر و کتابوں میں وصیت ظاہر اور وصیت باطن کا ذکر ہے)۔

۴۹۵۔ عبدالملک ! امام محمد باقر (ع) نے اپنے فرزند امام صادق (ع) سے کتاب علی (ع) کا مطالبہ کیا تو حضرت جا کر لے آئے ، وہ کافی ضخیم لپٹی ہوئی تھی اور اس میں لکھا بھی تھا کہ اگر کسی عورت کا شوہر مر جائے تو اسے مرد کی جائیداد میں سے حصہ نہیں ملے گا … اور حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا کہ واللہ اس کتاب کو حضرت علی (ع) نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے اور رسول اللہ نے املاء کیا ہے۔( بصائر الدرجات ۱۶۵ / ۱۴)۔

۴۹۶۔ یعقوب بن میثم التمار( غلام امام زین العابدین (ع)) کا بیان ہے کہ میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کی ، فرزند رسول ! میں نے اپنے والد کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ امیر المومنین (ع) نے میرے والد میثم سے فرمایا تھا کہ میں نے محمد رسول اکرم سے سناہے کہ آپ نے آیت مبارکہ ان الذین آمنوا و عملوا لصالحات اولئک ہم خیر البریہ کے ذیل میں میری طرف رخ کر کے فرمایا تھا کہ یا علی (ع) ! یہ تم اور تمھاری شیعہ ہیں اور تم سب کا آخری موعد حوض کوثر ہے، جہاں سب روشن پیشانی کے ساتھ سرمۂ نور لگائے، تاج کرامت سر پر رکھے ہوئے حاضر ہوں گے۔

تو حضر نے فرمایا کہ بیشک ایسا ہی کتاب علی (ع) میں بھی لکھا ہے۔ (امالی طوسی (ر) ۴۰۵ /۹۰۹ تاویل الآیات الظاہرہ ص ۸۰۱ ، البرہان ۴ ص ۴۹۰ /۲)۔

۴۹۷۔ امام صادق (ع) ! ہمارے پاس وہ علمی ذخیرہ ہے کہ ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں اور تمام لوگ ہمارے محتاج ہیں ، ہمارے پاس ایک کتاب ہے جسے رسول اکرم نے املاء کیا ہے اور حضرت علی (ع) نے لکھا ہے۔ یہ وہ صحیفہ ہے جس میں سارے حلال و حرام کا ذکر ہے اور تم ہمارے سامنے کوئی امر بھی لے آؤ، اگر تم نے لے لیا ہے تو ہمیں وہ بھی معلوم ہے اور اگر چھوڑ دیا ہے تو اس کا بھی علم ہے۔( کافی ۱ ص ۲۴۱ /۶ روایت بکر بن کرب الصیرفی)۔

۴۹۸۔ امام صادق (ع) ! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) کو ایک صحیفہ عنایت فرمایا جس پر بارہ مہریں لگی ہوئی تھیں اور فرمایا کہ پہلی مہر کو توڑو اور اس پر عمل کرو پھر امام حسن (ع) سے فرمایا کہ تم دوسری مہر کو توڑو اور اس پر عمل کرو ، پھر حضرت حسین (ع) سے فرمایا کہ تم تیسری مہر کو توڑ و اور اس پر عمل کرو، پھر فرمایا کہ اولاد حسین (ع) میں ہر ایک کا فرض ہے کہ ایک ایک کو توڑے اور اس پر عمل کرے۔( الغیبتہ النعمانی ۵۴ / ۴ روایت یونس بن یعقوب)۔

۴۹۹۔معلیٰ بن خنیس ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ محمد بن عبداللہ بن الحسن بن الحسن بن علی (ع) آ گئے اور حضرت کو سلام کر کے چلے گئے تو حضرت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، میں نے عرض کی حضور آج تو بالکل نئی بات دیکھ رہا ہوں ؟ فرمایا مجھے اس لئے رونا آ گیا کہ انکھوں ایسے امر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جو ان کا حق نہیں ہے، میں نے کتاب علی (ع) میں ان کا ذکر نہ خلفاء میں دیکھا ہے اور نہ بادشاہوں میں۔( کافی ۸ ص ۳۹۵ ، ۵۹۴ ، بصائر الدرجات ۱۶۸ / ۱) واضح رہے کہ بصائر میں ان کا نام محمد بن عبداللہ بن حسن درج کیا گیا ہے۔

۵۰۰۔ عبدالرحمان بن ابی عبداللہ ! میں نے امام صادق (ع) سے سوال کیا کہ اگر مرد و عورت دونوں کے جنازے جمع ہو جائیں تو کیا کرنا ہو گا؟ فرمایا کہ کتاب علی (ع) میں یہ ہے کہ مرد کا جنازہ مقدم کیا جائے گا۔( کافی ۳ ص ص۱۷۵ /۶ ، استبصار ۱ ص ۴۷۲ /۱۸۲۶۔

۵۰۱۔ امام صادق ! کتاب علی (ع) میں اس امر کا ذکر ہے کہ کتے کی دیت ۴۰ درہم ہوتی ہے، ( خصال۵۳۹/۹ روایت عبدالاعلیٰ بن الحسین)۔

۵۔ مصحف فاطمہ (ع)

۵۰۲۔ ابوبصیر نے امام صادق (ع) کی زبانی نقل کیا ہے کہ ہمارے پا س مصحف فاطمہ (ع) ہے اور تم کیا جانو کہ وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کی حضور یہ کیا ہے؟ فرمایا کہ یہ ایک صحیفہ ہے جو حجم میں اس قرآن کا تین گناہے اور اس قرآن کا کوئی حرف اس میں شامل نہیں ہے۔( کافی ۱ ص ۲۳۹ /۱)۔

۵۰۳۔ امام صادق (ع) ! مصحف (ع) فاطمہ (ع) وہ ہے جس میں اس کتاب خدا کی کوئی شے نہیں ہے بلکہ یہ ایک صحیفہ ہے جس میں وہ الہامات الہیہ ہیں جو بعد وفات پیغمبر جناب فاطمہ (ع) کو عنایت کئے گئے تھے۔( بصائر الدرجات ۱۵۹ / ۲۷ روایت ابو حمزہ)۔

۵۰۴۔ امام صادق (ع) نے ولید بن صبیح سے فرمایا کہ ولید ! میں نے مصحف فاطمہ (ع) کو دیکھا ہے۔اس میں فلاں کی اولاد کے لئے جوتیوں کی گرد سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔( بصائر الدرجات ۱۶۱/ ۳۲)۔

۵۰۵۔ حماد بن عثمان ! میں نے امام صادق (ع) سے سناہے کہ ۱۲۸ ء ھ میں زندیقوں کا دور دورہ ہو گا اور یہ بات میں نے مصحف فاطمہ (ع) میں دیکھی ہے۔

میں نے عرض کی حضور یہ مصحف فاطمہ (ع) کیا ہے؟ فرمایا کہ رسول اکرم کے انتقال کے بعد جناب فاطمہ (ع) بے حد محزون و مغموم تھیں اور اس غم کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جان سکتا تھا تو پروردگار عالم نے ایک ملک کو ان کی تسلّی اور تسکین کے لئے بھیج دیا جو ان سے باتیں کرتا تھا۔

انھوں نے اس امر کا ذکر امیر المومنین (ع) سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اب جب کوئی آئے اور اس کی آواز سنائی دے تو مجھے مطلع کرنا۔ تو میں نے حضرت کو اطلاع دی اور آپ نے تمام آوازوں کو محفوظ کر لیا اور اس طرح ایک صحیفہ تیار ہو گیا۔ پھر فرمایا اس میں حلال و حرام کے مسائل نہیں ہیں بلکہ قیامت تک کے حالات کا ذکر ہے۔( کافی ۱ ص ۲۴۰ /۲ ، بصائر الدرجات ۱۵۷ / ۱۸ ، کافی ۱ ص ۲۳۸ ، باب ذکر صحیفہ و جفر و جامعہ و مصحف فاطمہ (ع) اور بصائر الدرجات، باب صحیفہ جامعہ و باب الکتب و باب اعطاء و جامعہ و مصحف فاطمہ (ع) ، بحار الانوار ۲۶ باب جہالت علوم ائمہ و کتب ائمہ، روضة الواعظین ص ۲۳۲۔

۶۔ جامعہ

۵۰۶۔ابوبصیر امام صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا اے ابومحمد! ہمارے پاس جامعہ ہے اور تم کیا جانو کہ یہ جامعہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کی حضور بتادیں کہ کیا ہے؟

فرمایا کہ ایک صحیفہ ہے جس کا طول رسول اکرم کے ہاتھوں سے ستر ہاتھ ہے اور اس میں وہ سب کچھ ہے جسے حضرت (ع) نے فرمایا ہے اور حضرت علی (ع) نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے، اس میں تمام حلال و حرام اور مسائل انسانیہ کا ذکر ہے یہاں تک کہ خراش کا تاوان تک درج ہے یہ جان قربان، آپ کو اجازت کی کیا ضرورت ہے ، حضرت نے میرا ہاتھ دیا اور فرمایا کہ اس عمل کا تاوان بھی اس کے اندر موجود ہے۔

میں نے عرض کی حضور یہ تو واقعاً علم ہے!

فرمایا بیشک یہ علم ہے لیکن یہ وہ علم نہیں ہے؟( کافی ۱ ص ۲۳۹ /۱ ،بصائر الدرجات ۱۴۳ / ۴)۔

۵۰۷۔ ابوعبیدہ ! ایک شخص نے امام صادق (ع) سے علم جفر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ایک بیل کی کھال ہے جس میں سارا علم بھرا ہوا ہے عرض کی اور جامعہ ؟

فرمایا یہ ایک صحیفہ ہے جس کا طول ستر ہاتھ ہے ، کھال پر لکھا گیا ہے اور اس میں لوگوں کے تمام مسائل حیات کا حل موجود ہے یہاں تک کہ خراش بدن کا تاوان تک لکھا ہوا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۴۱ /۵ ، بصائر الدرجات ۱۵۳ / ۶)۔

۵۰۸ ، امام صادق (ع) ! جامعہ تک آ کے ابن شبرمہ کا علم بھٹک گیا ، یہ رسول اللہ کا املاء ہے اور امیر المومنین (ع) کی تحریر ، جامعہ نے کسی شخص کے لئے مجال سخن نہیں چھوڑ ی ہے اور اس میں سارا حلال و حرام موجود ہے۔

مولف ! مذکورہ روایات میں جامعہ کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں ، یہی اوصاف روایات میں کتاب علی (ع) کے بھی ہیں لہذا عین ممکن ہے کہ جامعہ کتاب علی (ع) ہی کا دوسرا نام ہو۔(واللہ العالم)۔

۵۰۹۔ ابوبصیر ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ ہمارے پاس جفر ہے اور لوگ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے؟ میں نے عرض کی حضور (ع) ! ارشاد فرمائیں فرمایا ایک کھال کا ظرف ہے جس میں تمام انبیاء و اوصیاء کے علوم ہیں اور بنی اسرائیل کے علماء کا علم بھی ہے؟۔

میں نے عرض کی حضور (ع) یہ تو واقعاً علم ہے ! فرمایا بیشک لیکن یہ وہ علم نہیں ہے جو ہمارے پاس ہے۔( کافی ۱ ص ۲۳۹ / ۱)۔

۵۱۰۔حسین بن ابی العلاء ! میں نے امام صادق (ع) سے سنا کہ ہمارے پاس جفر ابیض ہے۔!

تو میں نے عرض کی کہ حضور (ع) ! اس میں کیا ہے؟

فرمایا زبور داؤد (ع) ، توریت موسی ٰ (ع) ، انجیل عیسیٰ (ع) ، صحف ابراہیم (ع) اور جملہ حلال و حرام جو مصحف فاطمہ (ع) اور قرآن مجید نہیں ہیں ، اس میں لوگوں کے ان تمام مسائل کا ذکر ہے جن میں لوگ ہمارے محتاج ہیں اور ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں ، اس میں کوڑا ، نصف ، ربع ، خراش تک کا ذکر ہے۔( کافی ۱ ص ۲۴۰ /۳ ، بصائر الدرجات ۱۵۰ /۱)۔

۵۱۱۔ امام رضا (ع) نے علامات امام کے ذیل میں فرمایا کہ امام کے پاس جفر اکبر و اصغر ہوتا ہے جو بکری اور بھیڑ کی کھال پر ہے اور اس میں کائنات کے تمام علوم یہاں تک کہ خراش کے تاوان تک کا ذکر ہے اور کوڑے نصف ، ربع کا بھی ذکر ہے اور امام کے پاس مصحف فاطمہ (ع) بھی ہوتا ہے۔( الفقیہ ۴ ص ۴۱۹ / ۵۹۱۴ روایت حسن بن فضال)۔

 

۷۔حقیقت جفر

علم جعفر کی حقیقت اور اس کے مفہوم کے بارے میں علماء اعلام میں سجید اختلاف پایا جاتا ہے اور ہر شخص نے ایک نئے اندار سے اس کی تشریح و تفسیر کی ہے جس کے تفصیلات کی یہاں کوئی ضرورت نہیں ہے، خلاصۂ روایات یہ ہے کہ علم جفر اوصیاء پیغمبر اسلام کے علوی کی بنیادوں میں شمار ہوتا ہے اور اس سے مراد وہ صندوق ہے جس میں تمام انبیاء سابقین کے صحیفے، رسول اکرم امیر المومنین (ع) ، جناب فاطمہ (ع) کے کتب و رسائل اور رسول اکرم کے اسلحے محفوظ ہیں ، اس کو جفرا بیض اور جفرا حمر بھی کہا جاتا ہے اور در حقیقت یہ ایک کتب خانہ اور خزانہ ہے جو اہلبیت (ع) کے خصوصیات میں ہے اور انہیں کو یکے بعد دیگرے وراثت میں ملتا ہے، اور آج ام حجت العصر (ع) کے پاس محفوظ ہے۔ (کافی ۱ ص ۲۴۰ / ۳ ، بحار ۲۶ ص ۱۸ / ۱ ، ۲۶ / ۳۷ /۶۸ ، ۴۷ ص ۲۶ /۲۶ ، ۵۲ ص ۳۱۳/۷)۔

کیفیت علوم اہلبیت (ع)

۱۔ اذا شاؤ اعلموا

۵۲۰۔ امام صادق (ع) !امام جب جس چیز کو جاننا چاہتا ہے جان لیتا ہے( کافی ۱ ص ۲۵۸ /۱ ، بصائر الدرجات ۳۱۵ /۳ روایات ابوالربیع و روایت دوم از یزید بنفرقد النہدی)۔

۵۲۱۔ عمار الساباطی ! میں نے امام صادق (ع) سے دریافت کیا کہ کیا امام کے پاس غیب کا علم ہوتا ہے؟ فرمایا جب وہ کسی شے کو جاننا چاہتا ہے تو پروردگار اسے علم عطا کر دیتا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۱۷ /۴ ، بصائر الدرجات ۳۱۵ /۴ ، اختصاص ۲۸۶)۔

۵۲۲۔ امام ہادی (ع) ! پروردگار نے کسی شخص کو اپنے غیب پر مطلع نہیں کیا مگر جس رسول کو اس نے پسند فرما لیا، تو جو کچھ رسول اکرم کے پاس تھا وہ بھی عالم ( امام) کے پاس ہے اور جس پر پروردگار نے اسے مطلع کیا اس کی اطلاع بھی ان کے اوصیاء کے پاس ہے تا کہ زمین حجّت خدا سے خالی نہ رہے جس کا علم اس کے یہاں کی صداقت اور اس کی عدالت کے جواز کی دلیل ہے۔( کشف الغمہ ۳ ص ۱۷۷ روایت فتح بن یزید الجرجانی)۔

۲۔ بست و کشاد

۵۲۳۔ امام صادق (ع)۔ ہمارے علم و عدم علم کی بنیاد خدائی بست و کشاد پر ہے وہ جب چاہتا ہے ہم جان لیتے ہیں اور وہ نہ چاہے تو نہیں جان سکتے ہیں امام دوسرے افراد کی طرح پیدا بھی ہوتا ہے، صحتمند اور بیمار بھی ہوتا ہے۔کھاتا پیتا بھی ہے، اس کے یہاں بول و براز بھی ہوتا ہے، وہ خوش اور رنجیدہ بھی ہوتا ہے، وہ ہنستا اور روتا بھی ہے، وہ مرتا اور دفن بھی ہوتا ہے اور اس کے علم میں اضافہ بھی ہوتا ہے لیکن اس کا امتیاز دو چیزوں میں ہے، ایک علم اور ایک قبولیت دعا، امام تمام حوادث کی ان کے وقوع سے پہلے اطلاع دے سکتا ہے کہ اس کے پاس رسول اکرم کا عہد ہوتا ہے جو اسے وراثت میں ملتا ہے۔( خصال ۵۲۸ /۳)۔

۵۲۴۔ معمر بن خلاد ! ایک مرد فارس نے امام ابوالحسن (ع) سے دریافت کیا کہ کیا آپ حضرات غیب بھی جانتے ہیں ؟ فرمایا خدا ہمارے لئے علم کو کشادہ کر دیتا ہے تو سب کچھ جان لیتے ہیں لیکن وہ روک دے تو کچھ نہیں جان سکتے ہیں ، یہ ایک راز خدا ہے جو اس نے جبریل کے حوالہ کیا اور جبریل نے پیغمبر اسلام تک پہنچا دیا اور انھوں نے جس کے چاہا حوالہ کر دیا۔( کافی ۱ ص ۲۵۶ /۱)۔

۳۔ اضافۂ علم

۵۲۵۔ زرارہ ! میں نے امام محمد (ع) باقر کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر پروردگار ہمارے علم میں مسلسل اضافہ نہ کرتا رہتا تو وہ بھی ختم ہو جاتا۔ میں نے عرض کی تو کیا آپ حضرات کو رسول اکرم سے بھی زیادہ دے دیا جاتا ہے؟ فرمایا خدا جب بھی دینا چاہتا ہے تو پہلے رسول اکرم پر پیش کرتا ہے اس کے بعد ائمہ کو ملتا ہے اور اسی طرح ہم تک پہنچا ہے۔( کافی ۱ ص ۲۵۵ /۳ ، اختصاص ص ۳۱۲ ، بصائر الدرجات ۳۹۴/۸)۔

۵۲۶۔ ابوبصیر! میں نے امام صادق (ع) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر ہمارے علم میں مسلسل اضافہ نہ ہوتا تو اب تک خرچ ہو چکا ہوتا۔

میں نے عرض کی کہ کیا اس شے کا اضافہ ہوتا ہے جو رسول اکرم کے پاس نہ تھی؟ فرمایا کہ جب خدا کو دینا تھا تو پہلے رسول اکرم کو باخبر کیا ، اس کے بعد حضرت علی (ع) اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے ائمہ کو ، یہاں تک کہ معاملہ صاحب الامر تک پہنچ گیا۔( امالی طوسی ۴۰۹ /۹۲۰ ، اختصاص ص ۳۱۳ ، بصائر الدرجات ۳۹۲ /۲ روایات یونس بن عبدالرحمان)۔

۵۲۷۔عبداللہ بن بکیر! میں نے امام صادق (ع) سے دریافت کیا کہ میں نے ابوبصیر کو آپ کی طرف سے بیان کرتے سنا ہے کہ اگر خدا مسلسل ہمارے علم میں اضافہ نہ کرتا تو وہ بھی ختم ہو جاتا۔ فرمایا بیشک۔

میں نے عرض کی تو کیا کسی ایسی شے کا اضافہ ہوتا ہے جو رسول اکرم کے پاس نہ تھی؟ فرمایا ہرگز نہیں ، رسول اکرم کو علم وحی کے ذریعہ دیا جاتا ہے اور ہمارے پاس بذریعہ حدیث آتا ہے۔( امالی الطوسی (ر) ۴۰۹/ ۹۱۹)۔

۵۲۸۔ امام صادق (ع) ! خدا کی بارگاہ سے جو چیز بھی نکلتی ہے پہلے رسول اکرم کے پاس آتی ہے، اس کے بعد امیر المومنین (ع) کے پاس ، اس کے بعد یکے بعد دیگرے ائمہ کے پاس تا کہ ہمارا آخر اول سے اعلم نہ ہونے پائے، (کافی ۱ ص ۲۵۵ /۴ ، اختصاص ص ۳۱۳ ، بصائر الدرجات ۳۹۲ /۲ روایات یونس بن عبدالرحمان)۔

۵۲۹۔ سلیمان الدیلمی ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ میں نے یہ فقرہ بار بار آپ سے سناہے کہ اگر ہمارے یہاں مسلسل اضافہ نہ ہوتا تو سب خرچ ہو گیا ہوتا تو سارا حلال و حرام تو رسول اکرم پر نازل ہو چکاہے، اب اضافہ کس شے میں ہوتا ہے؟ فرمایا حلال و حرام کے علاوہ ہر شے میں۔

میں نے عرض کی تو کیا ایسی شے کا اضافہ ہوتا ہے جو رسول اکرم کے پسا نہ رہی ہو؟ فرمایا ہرگز نہیں ، علم جب بھی خدا کے پاس سے نکلتا ہے تو پہلے ملک رسول اکرم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ اے محمد ! آپ کے پروردگار کا ایسا ایسا ارشاد ہے ! اب آپ ہی اسے علی (ع) کے حوالہ کر دیں ، پھر علی (ع) سے کہا جاتا ہے کہ حسن (ع) کے حوالہ کر دیں اور اسی طرح یکے بعد دیگرے ائمہ کے پاس آتا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ کسی امام کے پاس کوئی ایسا علم ہو جو رسول اکرم یا سابق کے امام کے پاس نہ رہا ہو۔( اختصاص ص ۳۱۳ ، بصائر الدرجات ۳۹۳ /۵ ، کافی ۱ ص ۲۵۴، بحار الانوار ۲۶ ص ۸۶ باب نمبر ۳)۔


مذہب اہلبیت (ع)

دین … اہلبیت (ع) کے نزدیک

۵۳۰۔ ابوالجارود ! میں نے امام باقر (ع) سے عرض کیا ، فرزند رسول۔! آپ کو تو معلوم ہے کہ میں آپ کا چاہنے والا ، صرف آپ سے وابستہ آپ کا غلام ہوں ؟ فرمایا۔بیشک !

میں نے عرض کیا کہ مجھے ایک سوال کرنا ہے، امید ہے کہ آپ جواب عنایت فرما دیں گے ، اس لئے کہ میں نابیناہوں ، بہت کم چل سکتا ہوں اور بار بارآپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتا ہوں ، فرمایا بتاؤ کیا کام ہے؟ میں نے عرض کی آپ اس دین سے باخبر کریں جس سے آپ اور آپ کے گھر والے اللہ کی اطاعت کرتے ہیں تا کہ ہم بھی اس کو اختیار کرسکیں۔

فرمایا کہ تم نے سوال بہت مختصر کیا ہے مگر بڑا عظیم سوال کیا ہے خیر میں تمھیں اپنے اور اپنے گھر والوں کے مکمل دین سے آگاہ کئے دیتا ہوں دیکھو یہ دین ہے توحید الہی، رسالت رسول اللہ ان کے تمام لائے ہوئے احکام کا اقرار ہمارے اولیاء سے محبت ہمارے دشمنوں سے عداوت ، ہمارے امر کے سامنے سراپا تسلیم ہو جانا ، ہمارا قائم کا انتظار کرنا اور اس راہ میں احتیاط کے ساتھ کوشش کرنا۔( کافی ۱ ص ۲۱ /۱۰۔

۵۳۱۔ ابوبصیر ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ سے سلام نے عرض کیا کہ خیثمہ بن ابی خیثمہ نے ہم سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے آپ سے اسلام کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ جس نے بھی ہمارے قبلہ کا رخ کیا ، ہماری شہادت کے مطابق گواہی دی، ہماری عبادتوں جیسی عبادت کی ، ہمارے دوستوں سے حبت کی ، ہمارے دشمنوں سے نفرت کی وہ مسلمان ہے۔

فرمایا خیثمہ نے بالکل صحیح بیان کیا ہے… میں نے عرض کی اور ایمان کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ خدا پر ایمان، اس کی کتاب کی تصدیق اور ان کی نافرمانی نہ کرنا ہی ایمان ہے۔ فرمایا بیشک خیثمہ نے سچ بیان کیا ہے۔( کافی ۲ ص ۳۸ /۵)۔

۵۳۲۔ علی بن حمزہ نے ابوبصیر سے روایت کی ہے کہ میں نے ابوبصیر کو امام صادق (ع) سے سوال کرتے سنا کہ حضور میں آپ پر قربان، یہ تو فرمائیں کہ وہ دین کیا ہے جسے پروردگار نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے اور اس سے ناواقفیت کو معاف نہیں کیا ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئی دین قبول کیا ہے؟

فرمایا ، دوبارہ سوال کرو …انھوں نے دوبارہ سوال کو دہرایا تو فرمایا لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ کی شہادت نماز کا قیام، زکٰوة کو ادائیگی، حج بیت اللہ استطاعت کے بعد ، ماہ رمضان کے روزہ۔

یہ کہہ کر آپ خاموش ہو گئے اور پھر دو مرتبہ فرمایا ولایت ، ولایت ( کافی ۲ ص۲۲ /۱۱)۔

۵۳۳۔ عمرو بن حریث ۱ میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ اپنے بھائی عبداللہ بن محمد کے گھر پر تھے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ! یہاں کیوں تشریف لے آئے؟ فرمایا ذرا لوگوں سے دور سکون کے ساتھ رہنے کے لئے۔

میں نے عرض کی میں آپ پر قربان کیا میں اپنا دین آپ سے بیان کرسکتا ہوں ، فرمایا بیان کرو۔

میں نے کہا کہ میرا دین یہ ہے کہ میں لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ کلمہ پڑھتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ قیامت آنے والی ہے، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، اور پروردگار سب کو قبروں سے نکالے گا، اور یہ کہ نماز کا قیام، زکٰوة کی ادائیگی، ماہ رمضان کے روزے، حج بیت اللہ ، رسول اکرم کے بعد حضرت علی (ع) کی ولایت، ان کے بعد امام حسن (ع) ،امام حسین (ع) ، امام علی (ع) بن الحسین (ع) ، امام محمد (ع) بن علی (ع) اور پھر آپ کی ولایت ضروری ہے، آپ ہی حضرات ہمارے امام ہیں ، اسی عقیدہ پر جینا ہے اور اسی پر مرنا ہے اور اسی کو لے کر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔

فرمایا واللہ یہی دین میرا اور میرے آباء و اجداد کا ہے جسے ہم علی الاعلان اور پوشیدہ ہر منزل پر اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۳ /۱۴)۔

۵۳۴۔ معاذ بن مسلم ! میں اپنے بھائی عمر کو لے کر امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہو اور میں نے عرض کی کہ یہ میرا بھائی عمر ہے، یہ آپ کی زبان مبارک سے کچھ سننا چاہتا ہے، فرمایا دریافت کرو کیا دریافت کرنا ہے۔

کہا کہ وہ دین بتا دیجیئے جس کے علاوہ کچھ قابل قبول نہ ہو اور جس سے ناواقفیت میں انسان معذور نہ ہو، فرمایا لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کی گواہی ، پانچ نمازیں ، ماہ رمضان کے روزے ، غسل جنابت ، حج بیت اللہ ، جملہ احکام الہی کا اقرار اور ائمہ آل محمد کی اقتداء …!

عمر نے کہا کہ حضور ان سب کے نام بھی بتا دیجئے ؟ فرمایا امیر المومنین (ع) علی (ع)، حسن (ع) ، حسین (ع) ، علی بن الحسین (ع) ، محمد (ع) بن علی (ع) ، اور یہ خیر خدا جسے چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے۔

عرض کی کہ آپ کا مقام کیا ہے؟ فرمایا کہ یہ امر امامت ہمارے اول و آخر سب کے لئے جاری و ساری ہے۔( محاسن ۱ ص ۴۵۰ /۱۰۳۷ ، شرح الاخبار ۱ ص ۲۲۴ /۲۰۹ ، اس روایت میں غسل جنابت کے بجائے طہارت کا ذکر ہے)۔

۵۳۵۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ مامون نے فضل بن سہل ذوالریاستیں کو امام رضا کی خدمت میں روانہ کیا اور اس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ حلال و حرام ، فرائض و سنن سب کو ایک مقام پر جامع طور پر پیش کر دیں کہ آپ مخلوقات پر پروردگار کی حجت اور علم کا معدن ہیں۔

آپ نے قلم و کاغذ طلب فرمایا اور فضل سے فرمایا کہ لکھو ہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ہم اس بات کی شہادت دیں کہ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے، وہ احد ہے ، صمد ہے، اس کی کوئی زوجہ یا اولاد نہیں ہے وہ قیوم ہے، سمیع و بصیر ہے، قوی و قائم ہے، باقی اور نور ہے، عالم ہر شے اور قادر علیٰ کل شی ہے۔ ایسا غنی جو محتاج نہیں ہوتا ہے اور ایسا عادل جو ظلم نہیں کرتا ہے، ہر شے کا خالق ہے، اس کا کوئی مثل نہیں ہے، اس کی شبیہ و نظیر اور ضد یا مثل نہیں ہے اور اس کا کوئی ہمسر بھی نہیں ہے۔

پھر اس بات کی گواہی دیں کہ محمد (ع) اس کے بندہ ، رسول ، امین ، منتخب روزگار، سید المرسلین، خاتم النبییّن ، افضل العالمین ہیں ، اس کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، ان کے نظام شریعت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے، وہ جو کچھ خدا کی طرف سے لے کر آئے میں سب حق ہے ، ہم سب کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کے پہلے کے انبیاء و مرسلین اور حجج الہیہ کی تصدیق کرتے ہیں ، اس کی کتاب صادق کی بھی تصدیق کرتے ہیں جہاں تک باطل کا گذر نہ سامنے سے ہے اور نہ پیچھے سے، وہ خدائے حکیم و حمید کی تنزیل ہے۔( فصلت ۴۲)۔

یہ کتاب تمام کتابوں کی محافظ اور اول سے آخر تک حق ہے، ہم اس کے محکم و متشابہ ، خاص و عام ، وعد و وعید، ناسخ و منسوخ، اور اخبار سب پر ایمان رکھتے ہیں ، کوئی شخص بھی اس کا مثل و نظیر نہیں لا سکتا ہے۔

اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ رسول اکرم کے بعد دلیل اور حجت خدا، امور مسلمین کے ذمہ دار، قرآن کے ترجمان، احکام الہیہ کے عالم ان کے بھائی ، خلیفہ ، وصی ، صاحب منزلت ہارون علی (ع) بن ابیطالب امیر المومنین ، امام المتقیم ، قائد لغرا المحجلین، یعسوب المومنین ، افضل الوصیین ہیں اور ان کے بعد حسن (ع) و حسین (ع) ہیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، یہ سب عترت رسول اور اعلم بالکتاب و السنة ہیں۔

سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے اور ہر زمانہ میں امامت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں ، یہی عروة الوثقیٰ ہیں اور یہی ائمہ ہدی میں اور یہی اہل دنیا پر حجت پروردگار ہیں ، یہاں تک کہ زمین اور اہل زمین کی وراثت خدا تک پہنچ جائے کہ وہی کائنات کا وارث و مالک ہے اور جس نے بھی ان حضرات سے اختلاف کیا وہ گمراہ اور گمراہ کن ہے، حق کو چھوڑنے والا اور ہدایت سے الگ ہو جانے والا ہے، یہی قرآن کی تعبیر کرنے والے اور اس کے ترجمان ہیں ، جو ان کی معرفت کے بغیر اور نام بنام ان کی محبت کے بغیر مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔( تحف العقول ص ۴۱۵)۔

۵۳۶۔عبدالعظیم بن عبداللہ الحسنئ کا بیان ہے کہ میں امام علی نقی (ع) بن محمد (ع) بن علی (ع) بن موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) بن محمد (ع) بن علی (ع) بن الحسین (ع) بن علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر مرحبا کہا اور فرمایا کہ تم ہمارے حقیقی دوست ہو۔

میں نے عرض کی کہ حضور میں آپ کے سامنے اپنا پورا دین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر صحیح ہے تو میں اسی پر قائم رہوں ؟

آپ نے فرمایا ضرور۔!

میں نے کہا کہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ خدا ایک ہے، اس کا کوئی مثل نہیں ہے ، وہ ابطال اور تشبیہ دونوں حدودں سے باہر ہے، نہ جسم ہے نہ صورت ، نہ عرض ہے نہ جوہر، تمام اجسام کو جسمیت دینے والا اور تمام صورتوں کا صورت گر ہے، عرض و جوہر دونوں کا خالق ہر شے کا پروردگار ، مالک ، بنانے والا اور ایجاد کرنے والا ہے۔

حضرت محمد اس کے بندہ ، رسول اور خاتم النبیین ہیں ، ان کے بعد قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور ان کی شریعت بھی آخری شریعت ہے جس کے بعد کوئی شریعت نہیں ہے۔

اور امام و خلیفہ و ولی امر آپ کے بعد امیر المومنین (ع) علی ابن ابی طالب ہیں۔ اس کے بعد امام حسن (ع) ، پھر امام حسین (ع) پھر علی بن الحسین (ع) پھر محمد بن علی (ع) پھر جعفر بن محمد (ع) ، پھر موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) ، پھر علی (ع) بن موسیٰ (ع) ، پھر اس کے بعد آپ !۔

حضرت نے فرمایا کہ میرے بعد میرا فرزند حسن (ع) اور اس کے بعد ان کے نائب کے بارے میں لوگوں کا کیا حال ہو گا؟

میں نے عرض کی کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ وہ نظر نہ آئے گا اور اس کا نام لینا بھی جائز نہ ہو گا یہاں تک کہ منظر عام پر آ جائے اور زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھری ہو گی۔

میں نے عرض کی حضور میں نے اس کا بھی اقرار کر لیا اور اب یہ بھی کہتا ہوں کہ جو ان کا دوست ہے وہی اپنا دوست ہے اور جو ان کا دشمن ہے وہی اپنا بھی دشمن ہے، ان کی اطاعت اطاعت خدا اور ان کی معصیت معصیت خدا ہے۔

اور میرا عقیدہ یہ بھی ہے کہ معراج حق ہے اور قبر کا سوال بھی حق ہے اور جنت و جہنم بھی حق ہے اور صراط و میزان بھی حق ہے اور قیامت بھی یقیناً آنے والی ہے اور خدا سب کو قبروں سے نکالنے والا ہے۔

اور میرا کہنا یہ بھی ہے کہ ولایت اہلبیت (ع) کے بعد فرائض میں نماز۔

زکوة، روزہ، حج، جہاد، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر سب شامل ہیں ، حضرت نے فرمایا اے ابوالقاسم ! خدا کی قسم یہی وہ دین ہے جسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے اور تم اس پر قائم رہو، پروردگار تمھیں دنیا و آخرت میں اس پر ثابت قدم رکھے۔( امالی (ر) صدوق ۲۷۸ / ۲۴ ، التوحید ۸۱ / ۳۷ ، کمال الدین ۳۷۹ ، روضة الواعظین ص ۳۹ ، کفایة الاثر ص ۲۸۲ ، ملاحظہ ہو صفات الشیعہ ۱۲۷ / ۶۸)۔

صفات شیعہ

۵۳۷۔ ہمارے شیعہ وہ ہیں جو راہ محبت میں ایک دوسرے پر خرچ کرنے والے، ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور ہمارے دین کو زندہ رکھنے کیلئے ایک دوسرے سے ملاقات کرنے والے ہوتے ہیں ، ان کی شان یہ ہے کہ غصہ آ جائے تو کسی پر ظلم نہیں کرتے ہیں اور خوش حال ہوتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے ہیں ، اپنے ہمسایہ کے لئے برکت اور اپنے ساتھیوں کے لئے مجسمہ سلامتی ہوتے ہیں۔( کافی ۲ ص ۲۳۶ / ۲۴ روایت ابوالمقدام عن الباقر (ع) ، خصال ص ۳۹۷ /۱۵۴ ، صفات الشیعہ ۹۱ / ۲۳ ، تحف العقول ص ۲۰۰ ، مشکٰوة الانوار ص ۶ ، التمحیص ۶۹ / ۶۸ / ۱۶۸ ، شرح الاخبار ۳ ص ۵۰۴ / ۱۴۴۹)۔

۵۳۸۔ امام علی (ع) ! ہمارے شیعہ اللہ کی معرفت رکھنے والے، اس کے حکم پر عمل کرنے والے، صاحبان فضائل سچ بولنے والے ہوتے ہیں ، ان کا کھانا بقدر ضرورت، ان کا لباس درمیانی اور ان کی رفتار متواضع ہوتی ہے، دیکھنے میں مریض اور مدھوش نظر آتے ہیں حالانکہ ایسے ہوتے نہیں ہیں ، انہیں عظمت پروردگار اور جلال سلطنت الہیہ ایسا بنا دیتی کہ دل بے قرار ہو جاتے ہیں اور ہوش و حواس اڑ جاتے ہیں ، اس کے بعد جب ہوش آتا ہے تو نیک اعمال کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ، مختصر اعمال سے راضی نہیں ہوتے ہیں اور زیادہ اعمال کو کثیر نہیں سمجھتے ہیں۔(مطالب السئول ص ۵۴ روایت نوف البکائی)۔

۵۳۹۔ نوف بن عبداللہ البکالی ! مجھ سے ایک دن امام علی (ع) نے فرمایا کہ نوف ! ہم ایک پاکیزہ طینت سے پیدا ہوئے ہیں لہذا جب قیامت کا دن ہو گا تو ہمارے ساتھ ملا دیئے جائیں گے۔

میں نے عرض کی حضور ذرا اپنے شیعوں کے اوصاف تو بیان فرمائیں ؟ تو حضرت رونے لگے، اور پھر فرمایا، نوف ! ہمارے شیعہ صاحبان عقل ، خدا اور دین خدا کے عارف ، اطاعت و امر الہی کے عامل، محبت الہی سے ہدایت یافتہ، عبادت گذار، زاہد مزاج، شب بیدای سے زرد چہرہ ، گریہ سے دھنسی ہوئی آنکھیں ، ذکر خدا سے خشک ہونٹ، فاقوں سے دھنسے ہوئے پیٹ ، خداشناسی ان کے چہروں سے نمودار اور خوف خدا ان کے بشرہ سے نمایاں ، تاریکیوں کے چراغ اور بدترین ماحول کے لئے گل و گلزار ہوتے ہیں …۔

ان کی کمزوریاں پوشیدہ اور ان کے دل رنجیدہ ، ان کے نفس عفیف اور ان کے ضروریات خفیف، ان کا نفس ہمیشہ رنج و تعب میں اور لوگ ان کی طرف سے ہمیشہ راحت و آرام میں ، صاحبان عقل و خرد، خالص شریف، اپنے دین کو بچا کر نکل جانے والے ہوتے ہیں ، محفلوں میں حاضر ہوتے ہیں تو کوئی انہیں پہچانتا نہیں ہے اور غالب ہو جاتے ہیں تو کوئی تلاش نہیں کرتا ہے، یہی ہمارے پاکیزہ کردار شیعہ، ہمارے محترم برادر ہیں ، ہائے میں ان کا کس قدر مشتاق ہوں۔( امالی طوسی (ر) ۱۷۶ /۱۱۸۹)۔

۵۴۰۔ محمد بن الحنفیہ ! امیر المومنین (ع) جنگ جمل کے بعد بصرہ واپس آئے تو احنف بن قیس نے آپ کو دعوت میں بلایا اور کھانا تیار کیا اور اصحاب کو بھی مدعو کیا ، آپ تشریف لے آئے تو فرمایا، احنف ! میرے اصحاب کو بلاؤ ؟ احنف نے دیکھا کہ آپ کے ساتھ ایک جماعت ہے جیسے:

احنف نے عرض کی حضور ! انہیں کیا ہو گیا ہے؟ انہیں کھانا نہیں ملا ہے یا جنگ کے خوف نے ایسا بنا دیا ہے۔

فرمایا احنف ! ایسا کچھ نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو دار دنیا میں اس طرح عبادت کرتے ہیں جیسے انھوں نے روز قیامت کے ہول کو دیکھ لیا ہے اور اپنے نفس کو اس کی زحمتوں پر آمادہ کر لیا ہے۔( صفات الشیعہ ۱۱۸/۶۳)۔

۵۴۱۔امام صادق (ع) ! ہمارے شیعوں کو تین طرح آزماؤ! اوقات نماز کی پابندی کس قدر کرتے ہیں ، ہمارے اسرار کو دشمنوں سے کس طرح محفوظ رکھتے ہیں اور اپنے اموال میں دوسرے بھائیوں سے کس قدر ہمدردی کرتے ہیں۔( خصال ۱۰۳/۶۲ ، روضة الواعظین ص ۳۲۱ ، مشکوة الانوار ص ۷۸، قرب الاسناد ۷۸ /۲۵۳)۔

۵۴۲۔ امام صادق (ع)! یاد رکھو کہ جعفر (ع) بن محمد (ع) کے شیعہ بس وہ ہیں جن کا شکم اور جنسی جذبہ عفیف ہو، محنت زیادہ کرتے ہوں ، پروردگار کے لئے عمل کرتے ہوں اور اس کے ثواب کے امیدوار ہوں اور اس کے عذاب سے خوفزدہ ہوں ، اگر ایسے افراد نظر آ جائیں تو سمجھ لینا کہ یہی ہمارے شیعہ میں ( صفات الشیعہ۸۹/۲۱ ، کافی ۲ ص۲۳۳ /۹ ، خصال ۲۹۶ /۶۳ روایت مفضل بن عمر)۔

۵۴۳۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ وہ ہیں جو اچھا کام کرتے ہوں ، برے کاموں سے رک جاتے ہوں ، ان کی نیکیاں ظاہر ہوں ، مالک کی رحمت کے حصول کے لئے عمل خیر کی طرف سبقت کرتے ہوں ، یہی لوگ ہیں جو ہم سے ہیں ان کی بازگشت ہمارے طرف ہے اور ان کی جگہ ہماری منزل ہے ہم جہاں بھی رہیں۔( صفات الشیعہ ۹۵/۳۲ روایت مسعدہ بن صدقہ)۔

۵۴۴۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ صاحبان تقویٰ و اجتہاد ہوتے ہیں ، اہل وفا و امانتدار ہوتے ہیں ، اہل زہد و عبادت ہوتے ہیں ، دن رات میں اکیاون رکعت نماز پڑھنے والے(۱۷ رکعت فریضہ ۳۴۔ رکعت نوافل) را توں کو قیام کرنے والے، دن میں روزہ رکھنے والے، اپنے اموال کی زکواة ادا کرنے والے حج بیت اللہ انجام دینے والے اور ہر حرام سے پرہیز کرنے والے ہوتے ہیں۔( صفات الشیعہ ۸۱/۱ روایت ابوبصیر)۔

۵۴۵۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ مختلف خصلتوں سے پہچانے جاتے ہیں ، سخاوت، برادران ایمان پر مال صرف کرنا، دن رات مین ۵۱ رکعت نماز۔( تحف العقول ص ۳۰۳)۔

۵۴۶۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ تین طرح کے ہیں ۱) واقعی محبت کرنے والے، یہ ہم سے ہیں ۲) ہمارے ذریعہ اپنی زینت کا انظام کرنے والے، ان کے لئے ہم بہر حال باعث زینت ہیں ۳) ہمارے ذریعہ مال دنیا کمانے والے، ایسے افراد ہمیشہ فقیر رہیں گے۔( خصال ۱۰۳ /۶۱ اعلام الدین ص ۱۳۰ روایت معاویہ بن وہب، روضة الواعظین ص ۳۲۱، مشکوة الانوار ۷۸)۔

۵۴۷۔امام صادق (ع) ! لوگ ہمارے سلسلہ میں تین حصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں ، ایک جماعت ہم سے محبت کرتی ہے اور ہمارے قائم کا انتظار کرتی ہے تا کہ ہمارے ذریعہ دنیا حاصل کرے، یہ لوگ ہمارے کلام کو محفوظ رکھتے ہیں لیکن ہمارے اعمال میں کوتاہی کرتے ہیں ، عنقریب خدا انہیں واصل جہنم کر دے گا۔

دوسری جماعت ہم سے محبت کرتی ہے، ہماری بات سنتی ہے اور عمل میں بھی کوتاہی نہیں کرتی ہے لیکن مقصد مال دنیا ہی کا حصول ہے تو خدا ان کے پیٹ کو آتش جہنم سے بہر دے گا اور ان پر بھوک پیاس کو مسلط کر دے گا۔

تیسری جماعت سے ہم سے محبت کرتی ہے، ہمارے اقوال کو محفوظ رکھتی ہے، ہمارے امر کی اطاعت کرتی ہے اور ہمارے اعمال کے خلاف نہیں کرتی ہے، یہی لوگ ہیں جو ہم سے ہیں ا ور ہم ان سے ہیں ( تحف العقول ۵۱۴ روایت مفضل)۔

۵۴۸۔ امام صادق (ع) ! ایک شخص نے محبت اہلبیت (ع) کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم ہمارے کیسے دوستوں میں ہو، وہ شخص خاموش ہو گیا تو سدیر نے کہا مولا، آپ کے دوستوں کی کتنی قسمیں ہیں ؟ فرمایا ہمارے دوستوں کے تین طبقات ہیں۔

۱۔ وہ طبقہ جو ہم سے بظاہر محبت کرتا ہے لیکن اندر سے محبت نہیں کرتا ہے، ۲) وہ طبقہ جو اندر سے محبت کرتا ہے باہر سے اظہار نہیں کرتا ہے ۳) وہ طبقہ جو ہر حال میں ہم سے محبت کرتا ہے، یہی تیسرا طبقہ قسم اعلیٰ ہے او دوسرا طبقہ جو بظاہر محبت کرتا ہے بادشاہوں کی سیرت پر عمل کرتا ہے کہ زبان ہمارے ساتھ ہوئی ہے اور تلوار ہمارے خلاف اٹھتی ہے، یہ پست ترین طبقہ ہے اور تیسری قسم جہاں اندر سے محبت ہوتی ہے اگر چہ اس کا اظہار نہیں ہوتا ہے یہ درمیانی طبقہ کے چاہنے والے ہیں … میری جان کی قسم اگر یہ لوگ اندر سے ہمارے چاہنے و الے ہیں اور صرف باہر سے اظہار نہیں کرتے ہیں تو یہ دن میں روزہ رکھنے والے، راتوں کو نماز پڑھنے والے ہوں ، ترک دنیاداری کا اثرات کے چہرہ سے ظاہر ہو گا اور مکمل طور پر تسلیم و اختیار والے ہوں گے۔

اس شخص نے عرض کی کہ میں تو ظاہر و باطن ہر اعتبار سے آپ کا چاہنے والا ہوں … فرمایا ہمارے ایسے چاہنے والوں کی علامتیں معین ہیں ، اس نے عرض کی وہ علامتیں کیا ہیں ؟ فرمایا… سب سے پہلی علامت یہ ہے کہ توحید پروردگار کی مکمل معرفت رکھتے ہیں اور اس کے نشانات کو محکم رکھتے ہیں۔( تحف العقول ص ۳۲۵)۔


اخلاق اہلبیت (ع)

ایثار

﴿و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا ، انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاءً اولا شکورا﴾ ( سورہ دہر ۸ ، ۹)۔
﴿و یوثرون علیٰ انفسہم و لو کان بہم خصاصہ و من یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون ﴾ ( سورہ حشر ۹)

۵۴۹۔ ابن عباس ! حسن (ع) وحسین (ع) بیمار ہوئے تو رسول اکرم ایک جماعت کے ساتھ عیادت کے لئے آئے اور فرمایا یا ابا الحسن ! اگر تم اپنے بچوں کے لئے کوئی نذر کر لیتے؟ یہ سن کر علی (ع) ، فاطمہ (ع) و فضہ (کنیز خانہ) سب نے نذر کر لی کہ اگر بچہ صحتیاب ہو گئے تو تین دن روزہ رکھیں گے۔

خدا کے فضل سے بچے صحتیاب ہو گئے لیکن گھر میں روزہ کیلئے کوئی سامان نہ تھا تو حضرت علی (ع) شمعون یہودی کے یہاں سے تین صباع جو قرض لے آئے اور فاطمہ (ع) نے ایک صاع پیس کر ۵ روٹیاں تیار کیں۔

ابھی افطار کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ ایک سائل نے آواز دی۔ اہلبیت محمد ! تم پر میرا سلام، میں مسلمانوں کے مساکین میں سے ایک مسکین ہوں ، مجھے کھانا کھلاؤ، خدا تمھیں دستر خوان جنت سے سیر کرے گا، سب نے ایثار کر کے روٹیاں اس کے حوالہ کر دیں اور پانی سے افطار کر لیا۔

دوسرے دن پھر روزہ رکھا اور اسی طرح افطار کے لئے بیٹھے تو ایک سائل نے سوال کر لیا اور روٹیاں اس کے حوالہ کر دیں ، تیسرے دن پھر یہی صورت حال پیش آئی۔

اب جو چوتھے دن حضرت علی (ع) بچوں کو لئے ہوئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ بچے بھوک کی شدت سے بچۂ پرند کی مانند کانپ رہے ہیں ، یہ دیکھ کر آپ کو سخت تکلیف ہوئی اور بچوں کو لے کر خانہ فاطمہ (ع) میں آئے، دیکھا کہ فاطمہ (ع) محراب عبادت میں ہیں ، لیکن فاقوں کی شدت سے شکم مبارک پیٹھ سے مل گیا ہے اور آنکھیں اندر کی طرف چلی گئی ہیں۔

یہ منظر دیکھ کر آپ کو مزید تکلیف ہوئی کہ جبریل امین آ گئے اور سورہ دہر دیتے ہوئے کہا کہ یامحمد ! مبارک ہو ، پروردگار نے تمھارے اہلبیت (ع) کے لئے یہ تحفہ نازل فرمایا ہے۔( کشاف ۴ ص ۱۶۹ ، کشف الغمہ ۱ ص ۳۰۲)۔

۵۵۰۔ امام صادق (ع) ! جناب فاطمہ (ع) کے پاس کچھ جو تھا جس کا حلوہ تیار کیا اور جب سب گھر والے کھانے کے لئے بیٹھے تو ایک مسکین آ گیا اور اس نے کہا کہ خدا آپ حضرات پر رحمت نازل کرے، حضرت علی (ع) نے ایک تھائی حلوہ اس کے حوالہ کر دیا، چند لمحوں میں ایک یتیم آ گیا اور آپ نے ایک تھائی اس کے حوالہ کر دیا اس کے بعد ایک اسیر آ گیا اور باقی ماندہ اس کے حوالہ کر دیا اور خود کچھ نہیں کھایا تو پروردگار نے ان کی شان میں یہ آیات نازل کر دیں۔( مجمع البیان ۱۰ ص ۶۱۲ ، تفسیر قمی ۲ ص ۳۹۸ روایت عبداللہ بن میمون قداح)۔

نوٹ: اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورۂ دہر کے نزول کے بعد بھی اہلبیت (ع) کا مستقل طریقہ رہا ہے کہ یتیم و مسکین و اسیر کو اپنے نفس پر مقدم کرتے رہے ہیں اور جب بھی یہ عمل انجام دیا ہے۔ سرکار دو عالم نے آیات دہر کی تلاوت فرمائی ہے نہ یہ کہ سورہ بار بار نازل ہوتا رہا ہے۔(جوادی)۔

۵۵۱۔ امام (ع) باقر ! سورۂ دہر کی شان نزول بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ’ علی حبہ ‘ سے مراد یہ ہے کہ انہیں خود بھی ضرورت تھی لیکن اس کے باوجود مسکین و یتیم و اسیر کو مقدم کر دیا اور خدا نے ان آیات کو نازل کر دیا اور یاد رکھو کہ ’ انما نطعمکم لوجہ اللہ ( ہم صرف رضائے الہی کے لئے کھلاتے ہیں اور نہ اس کی کوئی جزا چاہتے ہیں اور نہ شکریہ) یہ قول اہلبیت (ع) نہیں ہے اور نہ ان کی زبان پر ایسے الفاظ آئے ہیں ، یہ ان کے دل کی بات ہے جسے پروردگار نے اپنی طرف سے واضح کر دیا ہے اور ان کے ارادوں کی ترجمانی کر دی ہے کہ یہ نہ جزا کی زحمت دینا چاہتے ہیں اور نہ شکریہ کی تعریف کے خواستگار ہیں ، یہ اپنے عمل کے معاوضہ میں صرف رضائے الہی اور ثواب آخرت کے طلب گار ہیں اور بس ! ( امالی صدوق (ر) روایت سلمہ بن خالد ص ۲۱۵)۔

۵۵۲۔ ابن عباس ! علی (ع) بن ابی طالب نے ایک رات صبح تک باغ کی سینچائی کا کام انجام دیا اور معاوضہ میں کچھ جو لے کر آئے جس کا ایک تھائی پیسا گیا اور حریرہ نام کی غذا تیار ہوئی کہ ایک مسکین نے آ کر سوال کر دیا اور سب نے اٹھا کر اس کے حوالہ کر دیا، پھر دوسرے تھائی کا حریرہ تیار کیا اور اس کا یتیم نے سوال کر لیا اور اسے بھی دے دیا، پھر تیسرے تھائی کا تیار کیا اور اس کا اسیر نے سوال کر لیا تو اسے بھی اس کے حوالہ کر دیا اور بھوک ہی کے عالم میں سارا دن گذار دیا۔( مجمع البیان ۱۰ ص ۶۱۲)۔

بظاہر یہ بھی سورۂ دہر کی ایک تطبیق ہے ورنہ تنزیل کی روایت ابن عباس ہی کی زبان سے اس سے پہلے نقل کی جاچکی ہے، جوادی

۵۵۳۔ ابن عباس !’ یوثرون علی انفسہم ‘ کی آیت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔( شواہد التنزیل ۲ ص۳۳۲ / ۹۷۳)۔

۵۵۴۔ ابوہریرہ ! ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے بھوک کی شکایت کی ، آپ نے ازواج کے گھر دریافت کرایا، سب نے کہہ دیا کہ یہاں کچھ نہیں ہے تو فرمایا کوئی ہے جو آخر رات اسے سیر کرے؟ علی (ع) بن ابی طالب (ع) نے فرمایا کہ میں حاضر ہوں۔! اور یہ کہہ کر خانۂ زہرا (ع) میں آئے ، فرمایا دختر پیغمبر ! آج گھر میں کیا ہے؟

فرمایا کہ بچوں کا کھانا ہے اور کچھ نہیں ہے… لیکن اس کے بعد بھی ہم ایثار کریں گے، چنانچہ بچوں کو سلا دیا، چراغ خانہ کو بجھا دیا اور آنے والے کو سارا کھانا کھلا دیا۔

صبح کو پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات کا قصہ بیان کیا تو فوراً آیت کریمہ نازل ہو گئی ’ یوثرون علی انفسہم و لو کان بہم خصاصہ ( امالی الطوسی (ر) ۱۸۵ /۳۰۹ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۶۵۳ ، شواہد التنزیل ۲ ص ۳۳۱ /۹۷۲ ، مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۷۴)۔

۵۵۵۔ امام باقر ! ایک دن رسول اکرم تشریف فرماتے تھے اور آپ کے گرد اصحاب کا حلقہ تھا کہ حضرت علی (ع) ایک بوسیدہ چادر اوڑھ کر آ گئے اور رسول اکرم کے قریب بیٹھ گئے، آپ نے تھوڑی دیران کے چہرہ پر نگاہ کی اور اس کے بعد آیت ایثار کی تلاوت کر کے فرمایا کہ یاعلی (ع) تم ان ایثار کرنے والوں کے رئیس ،امام اور سردار ہو۔

اس کے بعد فرمایا کہ وہ لباس کیا ہو گیا جو میں نے تم کو دیا تھا؟ عرض کی اصحاب میں سے ایک فقیر آ گیا اور اس نے برہنگی کا شکوہ کیا تو میں نے رحم کھا کر ایثار کیا اور لباس اس کے حوالہ کر دیا اور مجھے یقین تھا کہ پروردگار مجھے اس سے بہتر عنایت فرمائے گا۔

فرمایا تم نے سچ کہا ، ابھی جبریل نے یہ خبر دی ہے کہ پروردگار نے تمھارے لئے جنت میں ایک ریشم کا لباس تیار کرایا ہے جس پر یاقوت اور زمرد کا رنگ چڑھا ہوا ہے اور یہ تمھاری سخاوت کا بہترین صلہ ہے جو تمھارے پروردگار نے دیا ہے کہ تم نے اس پرانی چادر پر قناعت کی ہے اور بہترین لباس سائل کے حوالہ کر دیا ہے، یا علی (ع) ! یہ تحفٴ جنّت مبارک ہو۔( تاویل الآیات الظاہرہ ۲۵۵ روایت جابر بن یزید)۔

۵۵۶۔ احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبئ کا بیان ہے کہ میں نے بعض کتب تفسیر میں دیکھا ہے کہ جب رسول اکرم نے ہجرت کا ارادہ کیا تو حضرت علی (ع) کو مکہ میں یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ انہیں سرکار کے قرضے ادا کرنا ہیں اور لوگوں کی امانتوں کو واپس کرنا ہے، اور اس عالم میں چلے گئے کہ سارا گھر مشرکین سے گھرا ہوا تھا اور حضور کا حکم تھا کہ علی (ع) چادر حضرمی اوڑھ کر بستر پر سوجائیں ، انشاء اللہ پروردگار ہر شر سے محفوظ رکھے گا، چنانچہ آپ نے تعمیل ارشاد کی اور ادھر پروردگار نے جبریل و میکائیل سے کہا کہ میں نے تم دونوں کے درمیان برادری کا رشتہ قائم کر دیا ہے اور ایک کی عمر کو دوسرے سے زیادہ کر دیا ہے اب بتاؤ کون اپنی زیادہ عمر کو اپنے بھائی پر قربان کرسکتا ہے؟ جس پر دونوں نے زندہ رہنے کو پسند کیا تو پروردگار نے فرمایا کہ تم لوگ علی (ع) جیسے کیوں نہیں ہو جاتے ہو، دیکھو میں نے ان کے اور محمد کے درمیان برادری قائم کر دی تو وہ کس طرح ان کے بستر پر لیٹ کر اپنی جان قربان کر رہے ہیں اور ان کا تحفظ کر رہے ہیں ، اچھا اب دونوں افراد جاؤ اور تم ان کا تحفظ کرو۔

چنانچہ دونوں فرشتے نازل ہوئے ، جبریل سرہانے کھڑے ہوئے اور میکائیل پائینتی اور دنوں نے کہنا شروع کیا ، مبارک ہو مبارک ہو ابوطالب (ع) کے لال تمھارا مثل کون ہے کہ خدا تمھارے ذریعہ ملائکہ پر مباہات کر رہا ہے، اور راہ مدینہ میں رسول اکرم پر یہ آیت کریمہ نازل کر دی ’ من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ ‘ بقرہ ۲۰۷ ( اسدالغابہ ۴ ص ۹۸ ، العمدة ۲۳۹ / ۳۶۷ ، تذکرة الخواص ۳۵ ، شاہد التنزیل ۱ ص ۱۲۳ / ۱۳۲، ارشا د القلوب ص ۲۲۴ ، ینابیع المودة ۱ ص ۲۷۴ / ۳ الصراط المستقیم ۱ ص ۱۷۴ ،تنبیہ الخواطر ۱ ص ۱۷۳)۔

تواضع اہلبیت (ع)

۵۵۷۔ رسول اکرم ! میرے پاس آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا جو اس سے پہلے کسی نبی کے پاس نہیں آیا تھا اور نہ اس کے بعد آنے والا ہے اور اس کا نام اسرافیل ہے، اس نے آ کر مجھے سلام کیا اور کہا کہ میں پروردگار کی طرف سے بھیجا گیاہوں اورمجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ کو یہ اختیار دوں کہ چاہے پیغمبر بندگی بن کر رہیں یا ملوکانہ زندگی گذاریں تو میں نے جبریل کی طرف نظر کی اور انھوں نے تواضع کی طرف اشارہ کیا تو میں نے اس اشارۂ  الوہیت کی بنیاد پر بندگی پروردگار کی زندگی کو ملوکانہ آن بان پر مقدم رکھا۔( المعجم الکبر ۱۲ ص ۲۶۷ / ۱۳۳۰۹ روایت ابن عمر)۔

۵۵۸۔ امام محمد باقر (ع) ! پیغمبر اکرم کے پاس جبریل تمام زمین کے خزانوں کی کنجیاں لے کر تین مرتبہ حاضر ہوئے اور آپ کو خزانوں کا اختیار پیش کیا بغیر اس کے کہ اجر آخرت میں کسی طرح کی کمی واقع ہو لیکن آپ نے پرسکون زندگی پر تواضع کو مقدم رکھا۔( کافی ۸ ص ۱۳۰ / ۱۰۰ ، امالی الطوسی ۶۹۲ /۱۴۷۰ روایت محمد بن مسلم)۔

۵۵۹۔ امام صادق (ع) ! جبریل نے رسول اکرم کے پاس حاضر ہو کر آپ کو سارا اختیار دے دیا لیکن آپ نے تواضع کو پسند فرمایا اور اسی بنیاد پر ہمیشہ غلاموں کی طرح بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور بارگاہ الہی میں تواضع کے اظہار کے لئے غلاموں ہی سے انداز سے بیٹھنا بھی پسند فرماتے تھے۔( کافی ۸ ص ۱۳۱ /۱۰۱ روایت علی بن المغیرہ ، کافی ۶ ص ۲۷۰ ، المحاسن ۲ ص ۲۴۴)۔

۵۶۰۔ حمزہ بن عبداللہ بن عتبہ، پیغمبر اسلام میں وہ خصلتیں پائی جاتی تھیں جن کا جہادوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ کو جو سیاہ و سرخ آدمی مدعو کر لیتا تھا اس کی دعوت قبول کر لیتے تھے اور بعض اوقات راستہ میں خرمہ پڑا دیکھ لیتے تھے تو اسے اٹھا لیتے تھے صرف اس بات سے خوفزدہ رہتے تھے کہ کہیں صدقہ کا نہ ہو ، سواری کرتے وقت زین وغیرہ کا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔( الطبقات الکبریٰ ۱ ص ۳۷۰)۔

۵۶۱۔ یزبد بن عبداللہ بن قسیط ! اہل صفّہ پیغمبر کے وہ اصحاب تھے جن کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور مسجد ہی میں رہا کرتے تھے اور وہیں آرام کیا کرتے تھے رسول اکرم رات کے وقت انہیں بلا کر اصحاب کے گھر بھیج دیا کرتے تھے تا کہ ان کے یہاں جا کر کھانا کھالیں اور بہت سے افراد کو خود اپنے ساتھ شریک طعام فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ پروردگار نے اسلام کو مالدار بنا دیا۔( طبقات کبریٰ ۱ ص ۲۵۵)۔

۵۶۲۔ ابوذر ! رسول اکرم اپنے اصحاب کے سامنے اس طرح بیٹھا کرتے تھے کہ باہر سے آنے والا نہیں سمجھ پاتا تھا کہ ان میں پیغمبر کون ہے ، تو ہم لوگوں نے عرض کی کہ حضور کے لئے ایک جگہ معین کر دیں تا کہ مرد مسافر آپ سے سوال کرسکے چنانچہ ایک چبوترہ بنا دیا گیا اور آپ اس پر تشریف فرما ہوتے تھے۔( سنن نسائل ۸ ص۱۰۱ ، مکارم الاخلاق ۱ ص ۴۸ /۸)۔

۵۶۳۔ ابومسعود ! رسول اکرم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے گفتگو شروع کی تو اس کے جوڑ بند کانپ رہے تھے ، آپ نے فرمایا کہ پریشان نہ ہو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں ، میری والدہ گرامی بھی گوشت کے ٹکڑوں ہی پر گذارا کیا کرتی تھیں ( سنن ابن ماجہ ۲ ص ۱۱۰۰ / ۳۳۱۲ ، مکارم الاخلاق ۱ ص ۴۸ /۷)۔

۵۶۴۔ مطرف ! میں بنی عامر کے ایک وفد کے ساتھ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ ہمارے سید و سردار ہیں … فرمایا کہ مالک و مختار پروردگار ہے۔

عرض کی کہ سرکار ہم سب سے افضل و برتر اور عظیم تر تو بہر حال ہیں ، فرمایا کہ جو چاہو کہو لیکن خبردار شیطان تمھیں اپنے ساتھ نہ کھینچ لے جائے، ( سنن ابی داؤد ۴ ص ۲۵۴ /۴۸۰۶ ، الادب المفرد ۷۲ /۲۱۱ ، مسند ابن حنبل ۵ / ۴۹۸ / ۱۶۳۰۷ ، ۴۹۹ / ۱۶۳۱۱ ، کشف الخفاء ۱ ص ۴۶۲ /۱۵۱۴)۔

۵۶۵۔ امام صادق (ع) ! پیغمبر اکرم نے کبھی ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھایا اور آپ بادشاہوں سے مشابہت کو سخت ناپسند فرماتے تھے اور ہم بھی ایسا کوئی کام نہیں کرسکتے ہیں۔( کافی ۶ ص ۲۷۲ /۸ روایت معلی بن خنیس)۔

۵۶۶۔ زاذان ! میں نے حضرت علی (ع) کو دیکھا کہ بازار میں کسی شخص کے جوتے کا تسمہ گر جاتا تھا تو اٹھا کر کر دے دیتے تھے، ہر بھٹکے ہوئے مسافر کو راستہ بتاتے تھے اور مزدوروں کے سامان اٹھانے میں مدد فرمایا کرتے تھے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے، یہ دار آخرت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اس دنیا میں بلندی اور فساد کے طلب گار نہیں ہیں اور آخرت تو بہر حال صاحبان تقویٰ کے لئے ہے،( سورہ قصص ص ۸۳)

اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت حکام اور صاحبان قدرت و اختیار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔( فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ص ۶۲۱ /۱۰۶۴)۔

۵۶۷۔ امام صادق (ع) ! امیر المومنین (ع) ایک دن سوار ہو کر نکلے تو کچھ لوگ آپ کے ہمراہ پیدل چلنے لگے… فرمایا کیا تمھیں کوئی ضرورت ہے؟

لوگوں نے عرض کی کہ آپ کی رکاب میں چلنا اچھا لگتا ہے۔

فرمایا کہ واپس جاؤ پیدل کا سوار کے ساتھ پیدل چلنا سوار کے لئے باعث فساد و غرور ہے اور پیدل کے لئے باعث ذلت و اہانت ہے۔( کافی ۶ ص ۵۴۰ /۱۶ روایت ہشام بن تحف العقول ص ۲۰۹۔

۵۶۸۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام حسن (ع) مساکین کے پہلو میں بیٹھ کر فرمایا کرتے تھے کہ خدا متکبر افراد کو دوست نہیں رکھتا ہے۔( تفسیر طبری ۱۴ ص ۹۴ ، العمدة ص ۴۰۰ /۸۱۲)۔

۵۶۹۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام حسن (ع) فقراء کی ایک جماعت کے پاس سے گذرے، وہ لوگ روٹی کے ٹکڑے کھارہے تھے، انھوں نے آپ کو مدعو کر لیا، آپ بیٹھ گئے اور فرمایا کہ خدا مستکبرین کو دوست نہیں رکھتا ہے۔آپ نے سب کے ساتھ کھانا کھا لیا اور کھانے میں کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی ، اس کے بعد سب کو اپنے گھر بلا کر کھانا بھی کھلا دیا اور کپڑا بھی عنایت فرمایا۔( مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۲۳)۔

۵۷۰۔ محمد بن عمرو بن حزم ! امام حسین (ع) مساکین کی ایک جماعت کے پاس سے گذرے جو صفہ میں بیٹھے کھا رہے تھے، ان لوگوں نے آپ کو مدعو کر لیا، آپ شریک طعام ہو گئے اور فرمایا کہ خدا متکبرین کو دوست نہیں رکھتا ہے اس کے بعد فرمایا کہ میں نے تمہاری دعوت قبولی کر لی، اب تم میرے یہاں آؤ، وہ لوگ آ گئے، آپ نے گھر کے اندر جا کر فرمایا رباب جو کچھ گھر میں ذخیرہ ہے سب ان لوگوں کے حوالہ کر دو۔( تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ۱۵۱ / ۱۹۶ ، تفسیر عیاشی ۲ ص ۲۵۷ /۱۵)۔

۵۷۱۔ ابوبصیر! امام جعفر صادق (ع) حمام میں داخل ہوئے تو صاحب حمام نے کہا کہ آپ کے لئے خاص انتظام کرا دیا جائے اور اسے خالی کرا دیا جائے؟ فرمایا کوئی ضرورت نہیں ہے، مومن ان تکلفات سے سبکتر ہوتا ہے۔( کافی ۶ ص ۵۰۳ /۳۷)۔

۵۷۲۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام رضا (ع) میں داخل ہوئے تو ایک شخص نے پیٹھ رگڑ نے کا مطالبہ کر دیا، آپ نے شروع کر دیا، ایک شخص نے اسے بتا دیا تو وہ معذرت کرنے لگا لیکن آپ اس کی تالیف قلب اور خدمت میں لگے رہے کہ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔( مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۳۶۲)۔

عفو اہلبیت (ع)

۵۷۳۔ رسول اکرم (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی مروت کا تقاضا یہ ہے کہ جو ہم پر ظلم کرے اسے معاف کر دیں اور جو ہمیں محروم رکھے اسے عطا کر دیں۔( تحف العقول ص ۳۸)۔

۵۷۴۔ ابوعبداللہ الجدلی ! میں نے حضرت عائشہ سے رسول اکرم کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت کوئی فحش بات نہ کہتے تھے اور نہ کوئی ایسا کام کرتے تھے، بازاروں کی طرح شور مچانا بھی آپ کا کام نہیں تھا اور برائی کا بدلہ برائی سے بھی نہیں دیتے تھے بلکہ عفو اور گذر سے کام لیا کرتے تھے۔( سنن ترمذی ۴ ص ۳۶۹ /۲۰۱۶، مسند ابن حنبل ۹ ص ۳۲ / ۲۵۴۷۲ ، ۱۰ ص ۷۵ /۲۶۰۴۹ ، ۹۴ / ۲۶۱۵۰۔

۵۷۵۔ عبداللہ ! میں نے پیغمبر اسلام کا یہ پیغمبرانہ طریقہ دیکھا ہے کہ لوگوں نے آپ کو زخمی کر دیا تو آپ چہرہ سے خون صاف کرتے جا رہے تھے اور فرمارہے تھے ، خدایا میری قوم کو معاف کر دینا کہ یہ جاہل ہیں۔( صحیح بخاری ۶ ص ۲۵۳۹ / ۶۵۳۰ ، ۳ ص ۱۲۸۲/۳۲۹۰ ، صحیح مسلم ۳ ص ۱۴۱۷ /۱۷۹۲ ، سنن ابن ماجہ ۲ ص ۱۳۳۵ /۲۰۲۵ ، مسند ابن حنبل ۲ ص۱۲۵ / ۴۰۱۷)۔

۵۷۶۔ امام باقر (ع) ! رسول اکرم کے پاس اس یہودی عورت کو حاضر کیا گیا جس نے آپ کو زہر دیا تھا… تو آپ نے دریافت کیا کہ آخر تو نے ایسا قدم کیوں کیا ؟ اس نے کہا کہ میرا خیال یہ تھا کہ اگر یہ نبی ہیں تو انہیں نقصان نہ ہو گا اور اگر بادشاہ ہیں تو لوگوں کو آرام مل جائے گا۔! یہ سن کر آپ نے اسے معاف کر دیا اور کوئی بدلہ نہیں لیا۔( کافی ۱ ص ۱۰۸ /۹ روایت زرارح)۔

۵۷۷۔ معاذ بن عبداللہ تمیمی ! خدا کی قسم میں نے اصحاب امیر المومنین (ع) کو دیکھا کہ و ہ عائشہ کے اونٹ تک پہنچ گئے ہیں اور کسی نے آواز دی کہ اونٹ کے پیر کاٹ دیئے جائیں اور لوگوں نے کاٹ بھی دیئے اور اونٹ گر پڑا لیکن حضرت نے فوراً آواز بلند کر دی کہ جو اسلحہ رکھ دے گا وہ امان میں ہے اور جو میرے گھر میں آ جائے گا وہ بھی امان میں ہے، خدا کی قسم میں نے ایسا کریم انسان نہیں دیکھا ہے۔( الجمل ص ۳۶۵ ، مروج الذہب ۲ ص ۳۷۸ ، الاخبار الطوال ص ۱۵۱ ، تاریخ یعقوبی ۲ ص ۱۸۲ ، شرح الاخبار ۱ ص ۳۹۵ /۳۳۴)۔

۵۷۸۔ امام علی (ع) ! اہل بصرہ پر فتح پانے کے بعد خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ بے شک پروردگار وسیع رحمت کا مالک اور دائمی مغفرت کا مختار ہے، اس کے پاس عظیم معافی بھی ہے اور دردناک عذاب بھی، اس نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کی رحمت و مغفرت و معافی صاحبان اطاعت کیلئے ہے اور اس کی رحمت سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں … اور اس کا عذاب ، غضب ، عقاب سب اہل معصیت کے لئے ہے اور ہدایت و دلائل کے بعد کوئی گمراہ نہیں ہوسکتا ہے۔

اہل بصرہ ! اب تمھارا کیا خیال ہے جبکہ تم نے میرے عہد کو توڑ دیا ہے اور میرے خلاف دشمن کا ساتھ دیا ہے؟ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہا کہ تو اچھا ہی خیال رکھتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ آپ نے میدان جیت لیا ہے، اب اگر سزا دیں گے تو ہم اس کے حقدار ہیں اور اگر معاف کر دیں گے تو یہ طریقہ پروردگار کو پسند ہے۔ فرمایا جاؤ میں نے معاف کر دیا لیکن خبردار اب فتنہ برپا نہ کرنا کہ تم نے عہد شکنی بھی کی ہے اور امت میں تفرقہ بھی پیدا کیا ہے، یہ کہہ کر آپ بیٹھ گئے اور لوگوں نے بیعت کرنا شروع کر دی۔( ارشاد ۱ ص ۲۵۷ ، الجمل ۴۰۷ روایت حارث بن سریع)۔

۵۸۰۔ امام زین العابدین (ع) ! میں مروان بن الحکم کے یہاں گیا تو کہنے لگا کہ میں نے تمھارے دادا سے زیادہ کریم کوئی انسان نہیں دیکھا کہ انہیں روز جمل ہم پر غلبہ حاصل ہو گیا لیکن انھوں نے منادی کرادی کہ خبردار کسی بھاگنے والے کو قتل نہ کیا جائے اور کسی زخمی کا خاتمہ نہ کیا جائے۔( السنن الکبریٰ ۸ ص ۲۱۴ / ۴۶ ۱۶۷ روایت ابراہیم بن محمد عن الصادق (ع) ، المبسوط ص ۲۶۴ عن الصادق (ع))۔

۵۸۱۔ ابن ابی الحدید ! امیر المومنین (ع) حلم و درگذر کے معاملہ میں تمام لوگوں سے زیادہ معاف کرنے والے اور حلیم تھے جس کا صحیح مظاہرہ روز جمل ہوا ہے جب آپ نے مروان بن الحکم پر قابو حاصل کر لیا جو آپ کا شدید ترین اور بدترین دشمن تھا لیکن اس کے باوجود اسے چھوڑ دیا۔

یہی حال عبداللہ بن زبیر کا تھا کہ برملا آپ کو گالیاں دیا کرتا تھا اور روز جمل بھی اپنے خطبہ میں آپ کو لئیم اور ذلیل جیسیا الفاظ سے یاد کیا تھا اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک یہ بدبخت جو ان نہیں ہوا زبیر ہمارے ساتھ تھا اور اس کے بعد اس نے گمراہ کر دیا، لیکن اس کے باجود جب قبضہ میں آ گیا تو اسے معاف کر دیا اور فرمایا کہ میرے سامنے سے ہٹ جاو، میں تجھے دیکھنا نہیں چاہتا ہوں۔

یہی کیفیت جمل کے بعد سعید بن العاص کی تھی کہ جب وہ مکہ میں پکڑا گیا تو سخت ترین دشمن ہونے کے باوجود آپ نے کچھ نہیں کہا اورا سے نظر انداز کر دیا، پھر عائشہ کے بارے میں تو آپ کا سلوک بالکل واضح ہے کہ آپ نے انہیں بیس عورتوں کے ساتھ مدینہ واپس کر دیا اور عورتوں کو سپاہیوں کا لباس پہنا دیا اور تلواریں ساتھ کر دیں ، لیکن آپ راستہ میں بھی تنقید کرتی رہیں کہ ہمیں مردوں کے لشکر کے حوالہ کر دیا، یہ تو جب مدینہ پہنچ کر ان عورتوں نے فوجی لباس اتارا تو عائشہ کو علی (ع) کے کرم کا اندازہ ہوا اور شرمندہ ہو گئیں۔

خود اہل بصرہ نے آپ سے جنگ کی ، آپ کو اور آپ کی اولاد کو تلواروں کا نشانہ بنایا لیکن جب آپ نے فتح حاصل کر لی تو تلوار نہیں اٹھائی اور اعلان عام کرا دیا کہ خبردار کسی بھاگتے ہوئے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی زخمی کو مارا نہ جائے، کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے اور جو اسلحہ رکھدے یا میرے لشکر کی پناہ میں آ جائے اسے پناہ دے دی جائے، مال غنیمت پر قبضہ نہ کیا جائے، بچوں کو اسیر نہ کیا جائے، حالانکہ آپ کو یہ سب کچھ کرنے کا حق اور اختیار حاصل تھا لیکن آپ نے عفو و درگذر کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کیا اور روز فتح مکہ پیغمبر اسلام کی سیرت کو زندہ کر دیا کہ آپ نے بھی عفو و درگذر سے کام لیا تھا حالانکہ عداوتیں سرد نہیں ہوئی تھیں اور زیادتیاں بھلائی نہیں جا سکی تھیں۔( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۱ ص ۲۲ /۲۳)۔

۵۸۲۔ امام حسن (ع)! ابن ملجم کو گرفتار کر کے امیر المومنین (ع) کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کے باقاعدہ کھانے اور آرام کرنے کا انتظام کیا جائے اس کے بعد میں زندہ رہ گیا تو میں خود صاحب اختیار ہوں چاہے معاف کروں یا بدلہ لوں / لیکن اگر میں نہ بچ سکا تو اسے بھی میرے پاس پہنچا دینا تا کہ خدا کی بارگاہ میں فیصلہ کرایا جا سکے۔( اسدالغابہ ۴ ص ۱۱۳، تاریخ دمشق حالات امام علی ۳ ص ۳۰۰ /۱۴۰۰ ، روایت محمد بن سعد، انساب الاشراف ۲ ص۴۹۵ /۵۲۹ ، الامامة والسیاسة ۱ ص ۱۸۱۔

۵۸۳۔ امام باقر (ع) ! حضرت علی (ع) نے زخمی ہونے کے بعد ابن ملجم کے بارے میں فرمایا کہ اس کے کھانے پینے کا انتظام کرو اور اچھا برتاؤ کرو ، اس کے بعد میں زندہ رہ گیا تو میں اپنے خون کا حقدار ہوں چاہے معاف کروں یا بدلہ لوں اور اگر نہ رہ گیا اور تم نے اسے قتل کر دیا تو خبر دار لاش کے ٹکڑے ٹکرے نہ کرنا۔( السنن الکبریٰ ۸ ص ۳۱۷ /۱۶۷۵۹ روایت ابراہیم بن محمد عن الصادق ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۳ ص ۲۹۷ /۱۳۹۸ ، روایت ابن عیاض ، استیعاب ۳ ص۲۱۹ ، مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۲۱۳ ، الجعفریات ص ۵۳ ، قرب الاسناد ص ۱۴۳ /۵۱۵ روایت ابوالبختری عن الصادق (ع))۔

۵۸۴۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام حسن (ع) کے ایک غلام نے کوئی قابل سزا عمل انجام دیا تو آپ نے اسے مارنے کا حکم دے دیا، اس نے فوراً آیت شریفہ پڑھی ’ والکاظمین الغیظ‘ صاحبان تقویٰ غصہ کو پی جاتے ہیں ؟

فرمایا میں نے ضبط کر لیا، اس نے کہا’ والعافین عن الناس‘ اور لوگوں کی غلطیوں کو معاف کر دیتے ہیں ، فرمایا میں نے معاف کر دیا۔

اس نے تیسرا ٹکڑا پڑھ دیا،’ واللہ یحب المحسنین‘ اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے؟ فرمایا کہ میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کر دیا اور پہلے سے دگنا مال بھی دے رہا ہوں۔(الفرج بعد الشسدة ۱ ص۱۰۱)۔

۵۸۵۔ روز عاشور حر بن یزید نے امام حسین (ع) کی خدمت میں آ کر عرض کی ، خدا مجھے آپ کا فدیہ بنا دے، فرزند رسول ! میں وہی شخص ہوں جس نے آپ کا راستہ روکا تھا اور آپ کو ساتھ لے کر آیا تھا اور اس صحرائے بلاء میں روک دیا تھا، خدائے وحدہ لاشریک کی قسم مجھے نہیں معلوم تھا کہ قوم آپ کے مطالبہ کو ٹھکرا دے گی ، خیر ، اب میں اپنے گناہوں کی توبہ کے لئے حاضر ہوا ہوں اور آپ کے سامنے قربان ہونا چاہتا ہوں۔

فرمائیے کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ فرمایا بیشک خدا توبہ کا قبول کرنے والا ہے اور معاف کرنے والا ہے، تیرا نام کیا ہے؟ حر نے کہا میں حر بن یزید ہوں ! … فرمایا تو واقعاً حر ہے جس طرح تیری ماں نے تیرا نام رکھا ہے، واللہ تو دنیا و آخرت دونوں میں آزاد ہے! اب گھوڑے سے اتر آؤ، حر نے عرض کی کہ حضور اب اسی طرح جہاد کی اجازت دے دیں در اترنے کے لئے نہ فرمائیں یہاں تک کہ گھوڑے سے گرایا جاؤں۔

آپ نے فرمایا تمھیں اختیار ہے، جو چاہو کرو خدا تم پر رحمت نازل کرے گا۔( تاریخ طبری ۵ ص ۴۲۷ ، اعلام الوریٰ ص ۲۳۹)۔

۵۸۶۔ عبداللہ بن محمد ! میں نے عبدالرزاق کو یہ کہتے سنا ہے کہ امام ’ زین العابدین (ع) ‘ وضو کی تیاری میں تھے اور ایک کنیز پانی انڈیل رہی تھی کہ لوٹا اس کے ہاتھ سے گر گیا اور حضرت کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا ، آپ نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھنا چاہا، اس نے فوراً قرآن مجید کے اس کلمہ کی تلاوت کر دی ’ والکاظمین الغیظ‘ … فرمایا میں نے غصہ کو ضبط کر لیا۔

اس نے دوسرا ٹکڑا پڑھا ’ والعافین عن الناس‘ … فرمایا میں نے تجھے معاف کر دیا۔

اس نے کہا ’ واللہ یحب المحسنین‘ … فرمایا کہ جا میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کر دیا۔

(تاریخ دمشق حالات امام زین العابدین (ع) ۵۸ / ۸۹ ، امالی صدوق (ر) ۱۶۸ / ۱۲ ، ارشاد ۲ ص ۱۴۶ ، مجمع البیان ۲ ص ۸۳۸ ، اعلام الوریٰ ص ۲۵۶، کشف الغمہ ۲ ص ۲۹۹ روایت زہری ، شرح الاخبار ۳ ص ۲۵۹ /۱۱۶۱ ، روضة الواعظین ص ۲۲۰ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۵۷)۔

سیرت عبادت اہلبیت (ع)

۱۔ اخلاص عبادت

۵۸۷۔ امام علی (ع) ! خدایا میں نے تیری عبادت نہ تیری جنت کی طمع میں کی ہے اور نہ تیرے جہنم کے خوف سے … بلکہ تجھے عبادت کا اہل پایا ہے تو تیری عبادت کی ہے۔( عوالی اللئالی ۱ ص ۴۰۴/۶۳۔۲ ص۱۱/۱۸،شرح نہج البلاغہ ابن میثم بحرانی ۵ ص۳۶۱ ، شرح مأتہ کلمہ ص ۲۳۵)۔

واضح رہے کہ شرح نہج میں الفاظ اس طرح نقل ہوتے ہیں ’ ما عبدتک خوفا من عقابک ولا طمعاً فی ثوابک…‘۔

۵۸۸۔ امام علی (ع) ! ایک قوم نے اللہ کی عبادت رغبت کی بناپر کی ہے اور یہ تاجروں کی عبادت ہے، دوسری قوم نے خوف کی بناپر کی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے اور ایک قوم نے اس کی عبادت شکر نعمت کی بنیاد پر کی ہے، یہی آزاد اور شریف لوگوں کی عبادت ہے۔( نہج البلاغہ حکمت ۲۳۷، تحف العقول ص ۲۴۶ عن الحسین (ع) ، تاریخ دمشق حالات امام زین العابدین (ع) ص ۱۱۱ /۱۴۱ ، حلیة الاولیاء ص ۱۳۴، روایت ابراہیم علوی از امام صادق (ع)۔

۵۸۹۔ امام صادق (ع) ! عبادت گذاروں کی تین قسمیں ہیں ، ایک قوم نے خوف کی بنیاد پر عبادت کی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے اور ایک قوم نے ثواب کی خواہش میں عبادت کی ہے تو یہ مزدوروں کی عبادت ہے۔ البتہ ایک قوم نے اس کی محبت میں عبادت کی ہے اور یہی آزاد مردوں کی عبادت ہے اور یہی بہترین عبادت ہے۔( کافی ۲ ص ۸۴ /۵ روایت ہارون بن خارجہ)۔

۵۹۰۔ امام زین العابدین (ع) ! مجھے یہ بات سخت ناپسند ہے کہ خدا کی عبادت کروں اور اس کا مقصد ثواب کے علاوہ کچھ نہ ہو اور اس طرح ایک لالچی بندہ بن جاؤں کے اسے طمع ہو تو عبادت کرے اور نہ ہو تو نہ کرے اور یہ بھی ناپسند ہے کہ میرا محرک صرف عذاب کا خوف ہو اور اس طرح بدترین بندہ بن جاؤں کہ خوف نہ ہو تو کام ہی نہ کرے۔

کسی نے دریافت کیا پھر آپ کیوں عبادت کرتے ہیں ؟ فرمایا اس لئے کہ وہ اہل ہے اور اس کے انعامات میری گردن پر ہیں۔(تفسیر منسوب بہ امام عسکری (ع) ص ۳۲۸ /۱۸۰)۔

۲۔ مشقت عبادت

۵۹۱۔ امام محمد باقر (ع) ! رسول اکرم عائشہ کے حجرہ میں تھے تو انھوں نے کہا کہ آپ اس قدر زحمت عبادت کیوں برداشت کرتے ہیں جبکہ خدا نے آپ کے تمام گناہوں کو بخش دیا ہے ؟ فرمایا کیا میں خدا کا بندۂ شکر گذار نہ بنوں !۔

آپ پنچوں کے بھل کھڑے رہتے تھے یہاں تک کہ پروردگار نے سورۂ طہ نازل فرمایا کہ ’ ہم نے قرآن اس لئے نہیں نازل کیا ہے کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔( کافی ۲ ص ۹۵ /۲ روایت ابوبصیر، احتجاج ۱ ص ۵۲۰)۔

۵۹۲۔ عائشہ ! رسول اکرم را توں کو اس قدر قیام فرماتے تھے کہ پیر پھٹنے لگتے تھے تو میں نے عرض کی کہ آپ اس قدر زحمت کیوں کرتے ہیں جبکہ خدا نے آپ کے تمام اول و آخر گناہ معاف کر دیئے ہیں ؟ فرمایا کیا میں بندہ شکر گذار بننا پسند نہ کروں۔( بخاری ۴ ص ۱۸۳۰ / ۳۵۵۷ ، مسلم ۴ ص ۲۱۷۲، ۲۸۲۰، صحیح بخاری ۱ص ۳۸۰ /۱۰۷۸ ، ص ۲۳۷۵ /۸۱۰۶ ، ۴/۱۸۳۰ /۴۵۸۶ ، صحیح مسلم ۴ ص ۲۱۷۱ / ۲۸۱۹ ، سنن ترمذی ۲ ص ۲۶۸ ، ۴۱۲ ، سنن ابن ماجہ ۱ ص ۴۵۶ / ۱۴۱۹ ، سنن نسائی ۳ ص ۲۱۹ ، مسند ابن حنبل ۶ ص ۳۴۸ / ۱۸۳۶۶ ، الزہد ابن المبارک ۳۵ / ۴۷۳۱ روایت مغیرہ تاریخ بغداد ۴ ص ۲۳۱ روایت انس ۷ ، ص ۲۶۵ روایت ابوجحیفہ، فتح الابواب ص ۱۷۰ روایت زہری)۔

۵۹۳۔ بکر بن عبداللہ ! عمر بن الخطاب پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے جب حضرت بیمار تھے اور کہنے لگے کہ آپ کس قدر اپنے کو تھکاتے ہیں ؟ فرمایا مجھے کون سی چیز مانع ہے کل شب میں تیس سوروں کی تلاوت کی ہے جن میں سور طوال بھی شامل تھے۔

کہنے لگے کہ خدا نے آپ کے تمام گناہوں کو معاف کر دیا ہے اس کے بعد بھی اس قدر زحمت کرتے ہیں ؟ فرمایا کیا میں خدا کا بندہ شکر گذار نہ بنوں۔( امالی طوسی (ر) ص۴۰۳ /۹۰۳)۔ ۵۹۴۔ امام صادق (ع)! رسول اکرم مستحب نمازیں فرض نمازوں سے دوگنی ادا کیا کرتے تھے۔( کافی ۳ ص ۴۴۳/۳ ،تہذیب ۲ ص ۴ /۳ ، استبصار ۱ ص ۲۱۸ / ۷۷۰۳ روایت فضیل بن یسار و فضل بن عبدالملک و بکیر)۔

۵۹۵۔ عائشہ ! رسول اکرم لمبی راتوں میں بھی کبھی کھڑے ہو کر نمازیں پڑھتے تھے اور کبھی بیٹھ کر۔( صحیح مسلم ۱ ص ۵۰۴ / ۱۰۵ ، سنن ترمذی ۲ ص ۲۳ /۳۷۵۱ سنن ابن ماجہ ۱ ص ۳۸۸ /۱۲۲۸ ، سنن نسائی ۳ ص ۲۱۹ ، مسند ابن حنبل ۹ ص ۳۹۳ /۲۴۷۲۳ ص ۳۹۷ / ۲۴۷۴۳ ، مستدرک ۱ ص ۳۹۷ /۹۷۶)۔

۵۹۶۔ عائشہ ! آیت کریمہ ’قم اللیل الا قلیلا‘ کے نازل ہونے سے پہلے رسول اکرم بہت ہی کم آرام فرماتے تھے۔( مسند ابویعلی ۴ ص۴۶۶ / ۴۹۱۸ )۔

۵۹۷۔ عائشہ ! رسول اکرم ہر حال میں ذکر خدا کرتے رہتے تھے۔( صحیح مسلم ۱ ص ۲۸۲ /۱۱۷ ، سنن ترمذی ۵ ص ۴۶۳ /۳۳۸۴، سنن ابی داؤد ۱ ص ۵ /۱۸)۔

۵۹۸۔ ا ام علی (ع) ! فاطمہ (ع) نے رسول اکرم سے خادمہ کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے بڑی شے بتا سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ سوتے وقت ۳۴ مرتبہ سبحان اللہ ، ۳۳ مرتبہ الحمدللہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر( دن بھر کی تمام تھکن دور ہو جائے گی) جس کے بعد میں نے کبھی اس تسبیح کو ترک نہیں کیا۔

ایک شخص نے کہا کہ صفین کی رات بھی ؟ فرمایا ہاں صفین کی رات بھی۔) صحیح بخاری ۵ ص ۲۰۴۱ /۵۰۴۴ ، صحیح مسلم ۴ ص ۲۰۹۱ / ۲۷۲۷ ، مسند الحمیدی ۱ ص ۲۴ / ۴۳ ، تاریخ بغداد ۳ ص ۲۴ روایات عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ ، مسند احمد ۱ ص ۳۳۲ / ۱۳۱۲ روایت ابن اعبد)۔

۵۹۹۔ عروة بن الزبیر ! ہم سب مسجد پیغمبر میں بیٹھے ہوئے اصحاب بدر و بیعت رضوان کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے تو ابن درداء نے کہا کہ کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسے شخص کے بارے میں بتاؤں جو ساری قوم میں مال کے اعتبار سے سب سے کمزور ، تقویٰ میں سب سے طاقتور اور عبادت میں سب سے زیادہ رحمت کرنے والا تھا، لوگوں نے کہا کہ یہ کون ہے؟ کہا علی (ع) بن ابی طالب (امالی الصدوق (ر) ۷۲/۹ ، روضة الواعظین ص ۱۲۵ مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۱۲۴)۔

۶۰۰۔ حبّہ عرفی ! ہم نوف و حبة القصر میں سورہے تھے کہ اچانک دیکھا امیرالمومنین (ع) دیوار پر ہاتھ رکھے رات کے سناٹے میں ان فی خلق السماوات والارض … کی تلاوت کر رہے ہیں اور اس کے بعد اسی عالم استغراق میں میری طرف رخ کر کے فرمایا کہ حبہ ! جاگ رہے ہویا سورہے ہو؟

میں نے عرض کی کہ میں تو جاگ رہا ہوں لیکن جب آپ کی بیقراری کا یہ عالم ہے تو ہم گنہگاروں کا کیا حال ہو گا؟ یہ سن کر آپ نے زار و قطار رونا شروع کر دیا، اور فرمایا کہ حبہ ! دیکھو ہمیں بھی پروردگار کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اس سے کسی شخص کے اعمال پوشیدہ نہیں ہیں ، وہ ہم سے اور تم سے رگ گردن سے زیادہ قریب تر ہے اور کوئی شے ہمارے اور اس کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی ہے۔

اس کے بعد نوف کی طرف رخ کر کے فرمایا کہ تم سورہے ہو یا جاک رہے ہو؟ نوف نے عرض کی یا امیر المومنین (ع) ! ویسے تو میں بیدار ہوں لیکن آج کی شب آپ نے بہت رلایا، فرمایا۔ نوف ! اگر اس شب میں تمھارا اگر یہ خوف خدا سے تھا توکل روز قیامت تمھاری آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی۔

نوف ! یاد رکھو خوف خدا میں جو ایک قطرۂ اشک آنکھوں سے نکل آتا ہے وہ جہنم کی آگ کے دریاؤں کو بجھا سکتا ہے، پروردگار کی نگاہ میں اس سے عظیم تر کوئی انسان نہیں ہے جو روئے تو خوف خدامیں روئے اور محبت یا دشمنی کرے تو وہ بھی خدا کے لئے کرے، دیکھو جو خدا کے لئے محبت کرتا ہے وہ اس کی محبت پر کسی محبت کو مقدم نہیں کرتا ہے اور جو برائے خدا دشمنی کرتا ہے اس کے دشمن کے لئے کوئی خیر نہیں ہے، اور ایسی ہی محبت اور عداوت سے انسان کا ایمان کامل ہوتا ہے۔

اس کے بعد حضرت نے دونوں افراد کو موعظہ فرمایا اور آخر میں فرمایا کہ اللہ کی طرف سے ہوشیار رہنا کہ میں نے تمھیں ہوشیار کر دیا ہے، اس کے بعد یہ منا جات کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے کہ خدایا کاش مجھے معلوم ہوتا کہ غفلتوں کی حالت میں بھی تیری نگاہ کرم رہتی ہے یا تو منھ پھیر لیتا ہے؟ اور کاش مجھے یہ اندازہ ہوتا کہ اس طویل نیند اور قلیل شکر کے بعد بھی تو نعمتیں عطا فرما رہا ہے تو اب میرا کیا حال ہونے والا ہے۔

اس کے بعد اسی عالم میں آپ فریاد کرتے رہے یہاں تک طلوع فجر کا وقت آ گیا۔(فلاح السائل ص ۲۶۶)۔

۶۰۱۔ ابوصالح ! ضرار بن ضمرہ کنانی معاویہ کے دربار میں وارد ہوئے تو اس نے کہا کہ ذرا علی (ع) کے اوصافت تو بیان کرو؟ ضرار نے کہا مسلمانوں کے امیر ! مجھے معاف کر دے تو بہتر ہے، معاویہ نے کہا ہرگز نہیں۔!

ضرار نے کہا کہ اگر بیان ضروری ہے تو سن ! خدا گواہ ہے کہ میں نے بعض اوقات اندھیری رات میں جب ستارے ڈوب چکے تھے یہ دیکھا ہے کہ علی (ع) محراب عبادت میں داڑھی پر ہاتھ رکھے ہوئے یوں تڑپ رہے تھے جس طرح مارگزیدہ تڑپتا ہے اور پھر بیقراری کے ساتھ گریہ کر رہے تھے۔

ایسا لگتا ہے کہ میں اس وقت بھی یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ وہ پروردگار کو رو رو کر پکار رہے ہیں اور پھر دنیا کو خطاب کر کے کہہ رہے ہیں … اے دنیا ! تیرا رخ میری طرف کیوں ہو گیا ہے، افسوس کہ تو بلاوجہ زحمت کر رہی ہے، جاکسی اور کو دھوکہ دینا ، میں تجھے تین بار ٹھکرا چکا ہوں تیری عمر بہت مختصر ہے اور تیری منزل بہت حقیر ہے اور تیرا خطرہ بہت عظیم ہے، آہ ، آہ ! زاد سفر کس قدر کم ہے اور سفر کس قدر طولانی ہے اور راستہ بھی کس قدر وحشتناک ہے‘۔

یہ سن کر معاویہ کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو گئے اور اس نے آستینوں سے آنسؤوں کو پونچھنا شروع کر دیا اور سارے دربار پر گریہ طاری ہو گیا اور معاویہ نے کہا کہ یقینا ابوالحسن (ع) ایسے ہی تھے۔

ضراراب علی (ع) کے بعد تمھارا کیا حال ہے ! ضرار نے کہا کہ جیسے کسی ماں کا بچہ اس کی گود میں ذبح کر دیا جائے کہ نہ اس کے آنسو رک سکتے ہیں اور نہ اس کے دل کو سکون مل سکتا ہے، یہ کہہ کر اٹھے اور باہر نکل گئے۔( حلیة الاولیاء ۱ ص ۸۴ ، الصواعق المحرقہ ص ۱۳۱ ، مروج الذہب ۲ ص ۴۳۳ ، الاستیعاب ۳ ص ۲۰۹ ، خصائص الائمہ ص ۷۰ ، کنز الفوائد ۲ ص ۱۰۳ ، مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۱۰۳ ، نہج البلاغہ حکمت ص ۷۷ الفصول المہمہ ص ۱۲۷)۔

۶۰۲۔امام حسن (ع) ! میں نے اپنی مادر گرامی کو دیکھا ہے کہ شب جمعہ محراب عبادت میں مصروف رکوع و سجود رہیں یہاں تک کہ فجر طالع ہو گئی اور یہ سنا کہ آپ مسلسل مومنین اور مومنات کے حق میں نام بنام دعا کرتی رہیں اور ایک حرف دعا بھی اپنے حق میں نہیں کہا۔

میں نے عرض کی کہ مادر گرامی ! آپ دوسروں کے حق میں دعا کرتی ہیں ، اپنے واسطے کیوں دعا نہیں کرتی ہیں ؟ فرمایا بیٹا، پہلے ہمسایہ اس کے بعد اپنا گھر۔( دلائل الامامة ۱۵۲ /۶۵ ، علل الشرائع ۱۸۱ /۱ ، کشف الغمہ ۲ ص ۹۴ ، ضیافة الاخوان ص ۲۶۵ روایت فاطمہ صغری)۔

۶۰۳۔ حسن بصری ! اس امت میں فاطمہ زہرا سے زیادہ عبادت گذار کوئی نہیں گذرا ہے، وہ رابت بھی مصلیٰ پر کھڑی رہتی تھیں یہاں تک کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا۔( مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۳۴۱ ، ربیع الابرار ۲ ص ۱۰۴)۔

۶۰۴۔ عبداللہ بن زبیر نے شہادت امام حسین (ع) کی خبر سن کر یہ کلمات زبان پر جاری کئے، خدا کی قسم تم نے اسے مارا ہے جو راتوں کو اکثر قیام کیا کرتا تھا اور دنوں میں اکثر روزے رکھا کرتا تھا۔( تاریخ طبری ۵ ص ۳۷۵ ، مقتل ابومخنف ص ۲۴۷ روایت عبدالملک بن نوفل)۔

۶۰۵۔ امام زین العابدین (ع) سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے والد محترم کی اولاد اس قدر کم کیوں ہے؟ فرمایا مجھے تو اتنی اولاد پر بھی تعجب ہے کہ رات دن میں ایک ہزار رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے تو انہیں گھر والوں کے ساتھ رہنے کا موقع کب ملتا تھا۔( تاریخ یعقوبی ۲ص ۲۴۷ ، العقدالفرید ۲ ص ۲۴۳ ، فلاح السائل ص ۲۶۹)۔

۶۰۶۔ امام صادق (ع)! حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) عبادات میں بے حد زحمت برداشت کیا کرتے تھے، دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور راتوں میں نمازیں پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ بیمار ہو گئے تو میں نے عرض کی بابا ! کب تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا ؟ فرمایا میں اپنے پروردگار سے قربت چاہتا ہوں شائد وہ اس طرح اپنی بارگاہ میں جگہ دیدے۔( مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۵۵ روایت معتب)۔

۶۰۷۔ امام صادق (ع) ، حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) جب حضرت علی (ع) کی کتاب کا مطالعہ فرماتے تھے اور ان کی عبادتوں کا ذکر دیکھتے تھے تو فرماتے تھے کہ اس قدر عمل کون کر سکتا ہے ، یہ کس کے بس کی بات ہے، اس کے بعد پھر عمل شروع کر دیتے تھے ، مصلیٰ پر نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا اور واضح طور پر اثرات ظاہر ہونے لگتے تھے اور امیر المومنین (ع) جیسی عبادت ان کے گھرانہ میں بھی حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) کے علاوہ کوئی نہیں کرسکا۔( کافی ۸ ص ۱۶۳ / ۱۷۲ روایت سلمہ بیّاع السابری)۔

۶۰۸۔ عمرو بن عبداللہ بن ہند الجملی ، امام محمد (ع) باقر سے رایت کرتے ہیں کہ جب جناب فاطمہ بنت علی (ع) نے اپنے بہتیجے زین العابدین (ع) کو اس شدت اور کثرت سے عبادت کرتے دیکھا تو جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حزام انصاری کے پاس آئیں اور فرمایا کہ تم صحابی رسول ہو، ہمارے تمھارے اوپر حقوق ہیں اور ان میں سے ایک حق یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کو زحمت و مشقت سے ہلاکت ہوتے دیکھو تو اس کی زنگی کا بند وبست کرو، دیکھو یہ علی (ع) بن الحسین (ع) جو اپنے باپ کی تنہا یادگار ہیں ، اس قدر عبادت کر رہے ہیں کہ پیشانی ، ہتھیلی اور گھٹنوں پر گھٹے پڑ گئے ہیں اور اس کے بعد بھی مسلسل نمازیں پڑھتے چلے جا رہے ہیں ؟

جابر بن عبداللہ یہ سن کر امام زین العابدین (ع) کے دروازہ پر آئے اور وہاں امام (ع) باقر کوبنی ہاشم کے نوجوانوں کے ساتھ دیکھا ، جابر نے انہیں آگے بڑھتے دیکھا تو کہا کہ واللہ یہ بالکل رسول اکرم کی رفتار ہے۔ اور پوچھا کہ فرزند آپ کون ہیں ؟

فرمایا میں محمد ! بن علی (ع) بن الحسین (ع) ہوں ! یہ سن جابر رونے لگے اور کہا کہ واللہ آپ ہی علوم کی باریکیاں ظاہر کرنے والے باقر (ع) ہیں ، ذرا میرے قریب آئیے میرے ماں باپ آپ پر قربان ! حضرت آگے بڑھے، جابر نے بند پیراہن کھولے، سینہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر سینہ مبارک کو بوسہ دیا اور اپنا رخسار اور چہرہ جسم مبارک سے مس کیا اور کہا کہ میں آپ کو آپ کے جد رسول اکرم کا سلام پہنچا رہا ہوں اور میں نے وہی سب کچھ کیا ہے جس کا حضرت نے مجھے حکم دیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم اس دنیا میں اس وقت تک زندہ رہو گے کہ میرے ایک فرزند محمد سے ملاقات کرو گے جو علمی موشگافیاں کرنے والا ہو گا… اور دیکھو تم نابینا ہو جاؤ گے تو وہ تمھاری بصارت کا انتظام کر دے گا۔

یہ کہہ کر امام سجاد (ع) کی خدمت میں حاضر ی کی درخواست کی ، آپ گھر کے اندر گئے اور بابا کو اطلاع دی کہ ایک بزرگ دروازہ پر ہیں اور انھوں نے میری ساتھ اس اندازہ کا برتاؤ کیا ہے، فرمایا فرزند یہ جابر بن عبداللہ ہیں اور یہ سارے اعمال کیا انھوں نے خاندان کے بچوں کے سامنے انجام دیئے ہیں اور یہ ساری باتیں سب کے سامنے کی ہیں …؟ عرض کی جی ہاں … فرمایا انا للہ … انھوں نے کوئی برا قصد نہیں کیا لیکن تمھاری زندگی کو خطرہ میں ڈال دیا۔

اس کے بعد جابر کو داخلہ کی اجازت دے دی اور جب جابر گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ آپ محراب عبادت میں ہیں اور جسم انتہائی لاغر ہو چکا ہے آپ نے اٹھ کر نحیف آواز میں جابر سے خیریت دریافت کی اور اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔

جابر نے گزارش شروع کی، فرزند رسول ! کیا آپ کو نہیں معلوم ہے کہ پروردگار نے جنت کو آپ ہی حضرات کے لئے خلق کیا ہے اور جہنم کو آپ کے دشمنوں ہی کے لئے بنایا ہے تو آخر اس قدر زحمت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

فرمایا اے صحابی رسول ! کیا آپ کو نہیں معلوم ہے کہ پروردگار نے میرے جد رسول اکرم کے جملہ محاسبات کو بخش دیا تھا لیکن اس کے بعد بھی انھوں نے عبادت کی مشقت کو نظر انداز نہیں کیا اور اس قدر عبادت کی کہ پیروں پر ورم آ گیا اور جب ان سے یہی گزارش کی گئی کہ آپ کو عبادت کی کیا ضرورت ہے ؟ تو فرمایا کہ کیا میں اپنے پروردگار کا شکر گذار بندہ نہ بنوں ؟ جابر نے جب یہ دیکھا کہ حضرت زین العابدین (ع) پر میری بات کا اثر ہونے والا نہیں ہے اور وہ عبادات میں تخفیف کرنے والے نہیں ہیں تو عرض کی کہ فرزند رسول ! اپنی زندگی کا خیال رکھیں کہ آپ ہی حضرات کے ذریعہ امت کی بلائین دفع ہوتی ہے ، مصیبتوں سے نجات ملتی ہے آسمان سے بارش ہوتی ہے؟

فرمایا ، جابر ؟ میں اس وقت تک اپنے اب وجد کے راستہ پر گامزن رہوں گا جب تک مالک کی بارگاہ میں نہ پہنچ جاؤں ! جابر نے حاضرین کی طرف رخ کر کے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نے اولاد انبیاء میں یوسف بن یعقوب کے علاوہ علی (ع) بن الحسین (ع) جیسا کوئی انسان نہیں دیکھا ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ علی (ع) بن الحسین (ع) کی ذریت یوسف کی ذریت سے کہیں زیادہ بہتر ہے، بلکہ ان میں تو ایک وہ بھی ہو گا جو زمین کو عدل و انصاف سے بہر دے گا ہے، بلکہ ان میں تو ایک وہ بھی ہو گا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا (امالی طوسی (ر) ص ۲۳۶ / ۱۳۱۴ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۴۸ ، بشارة المصطفیٰ ص ۶۶)۔

۶۰۹۔ امام (ع) صادق ! میرے پدر بزرگوار تاریکی شب میں نمازیں پڑھتے پڑھتے جب سجدہ میں طول دیتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے نیند آ گئی ہو۔( قرب الاسناد ۵ ص ۱۵ روایت مسعدہ بن صدقہ)

۶۱۰۔ امام صادق (ع) ! میں پدر بزرگوار کے لئے بستر بچھا کر انتظار کیا کرتا تھا اور جب وہ آرام فرمالیتے تھے تو میں اپنے بستر پر جاتا تھا، ایک شب میں انتظار کرتا رہا اور جب دیر ہو گئی تو آپ کی تلاش میں مسجد کی طرف گیا ، دیکھا کہ آپ تنہا مسجد میں سجدۂ پروردگار میں پڑے ہیں اور نہایت کرب کے عالم میں منا جات کر رہے ہیں ’ خدا یا تو مالک بے نیاز ہے اور یقیناً میرا پروردگار ہے، میں نے یہ سجدہ تیری بندگی اور عبدیت کے اقرار کے لئے کیا ہے، خدایا میرا عمل بہت کمزور ہے اب تو ہی اسے مضاعف کر دے، خدایا اس دن کے عذاب سے محفوظ رکھنا جس دن تمام بندوں کو قبروں سے نکالا جائیگا اور میری توبہ کو قبول کر لینا کہ توبہ کا قبول کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔( کافی ۳ ص ۳۳۳/۹ از اسحاق بن عمار)۔

۶۱۱۔ امام صادق (ع) میرے والد بزرگوار بہت زیادہ ذکر خدا کیا کرتے تھے اور میں جب بھی ان کے ساتھ چلتا تھا یا کھانا کھاتا تھا تو انہیں ذکر خدا کرتے ہی دیکھتا تھا، حد یہ ہے کہ لوگوں سے گفتگو بھی آپ کو ذکر خدا سے غافل نہیں بنا سکتی تھی، میں اکثر اوقات دیکھتا تھا کہ زبان تالو سے چپک جاتی تھی اور لا الہ الا اللہ کہتے رہتے تھے، ہم سب کو جمع کر کے طلوع آفتاب تک ذکر خدا کا حکم دیا کرتے تھے اور جو قرآن پڑھ سکتا تھا اسے تلاوت کا حکم دیتے تھے ورنہ ذکر خدا کا امر فرمایا کرتے تھے۔( کافی ۲ ص ۴۹۹ / ۱ از ابن القداح)۔

۶۱۲۔ یحیٰ العلوی ! حضرت موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) کو ان کی کثرت عبادت کی بناپر عبد صالح کہا جاتا تھا اور ہمارے بعض اصحاب کا بیان ہے کہ انھوں نے مسجد پیغمبر میں جا کر اول شب میں سجدہ شروع کیا اور اس میں یہ منا جات شروع کی کہ خدایا تیرے بندہ کا گناہ عظیم ہے تو تیری معافی کو بھی عظیم ہونا چاہیئے۔ اے صاحب تقویٰ ، اے صاحب مغفرت ! اور اس طرح صبح تک دہراتے رہے۔(تاریخ بغداد ۱۳ ص ۲۷)۔

۶۱۳۔ حفص ! میں نے حضرت موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) سے زیادہ نہ خدا کا خوف رکھنے والا دیکھا ہے اور نہ اس کی رحمت کا امیدوار دیکھا ہے، آپ کی تلاوت کا انداز بھی حرتیہ ہوتا تھا اور اس طرح پڑھتے تھے جیسے کسی انسان سے باتیں کر رہے ہو۔( کافی ۲ ص ۶۰۶ /۱۰)۔

۶۱۴۔ ثوبانی ! حضرت موسیٰ (ع) ابن جعفر (ع) چند سال تک اسی انداز سے عبادت کرتے رہے کہ طلوع آفتاب سے زوال تک سجدہ ہی میں رہا کرتے تھے یہاں تک کہ کبھی کبھی … بلندی پر جا کر قید خانہ میں روشندان سے دیکھتا تھا تو آپ کو سجدہ میں پاتا تھا اور پوچھتا تھا کہ اے ربیع (داروغہ زندان) یہ کپڑا کیسا پڑا ہے؟ تو وہ کہتا تھا کہ امیر المومنین !یہ کپڑا نہیں ہے، یہ موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) ہیں جو روزانہ طلوع آفتاب سے زوال تک سجدہ معبود میں پڑے رہتے ہیں۔

ہارون کہتا کہ بیشک یہ بنی ہاشم کے راہبوں میں سے ہیں تو میں کہتا کہ پھر آپ نے انہیں اس تنگی زندان میں کیوں رکھا ہے ؟ تو کہتا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۹۵ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۳۱۸ از یونانی)۔

۶۱۵۔ عبدالسلام بن صالح الہردی راوی ہے کہ میں مقام سرخس میں اس گھر تک پہنچا جہاں امام رضا (ع) کو قید رکھا گیا تھا اور میں نے نگرانِ زنداں سے اجازت چاہی تو اس نے کہا کہ اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔

میں نے کہا کیوں ؟ اس نے کہا کہ یہ دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے ہیں اور صرف ایک ساعت ابتدائے روز میں اور وقت زوال اور نزدیک غروب نماز روک دیتے ہیں لیکن مصلیٰ پر بیٹھ کر ذکر خدا کرتے رہتے ہیں۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۱۸۳ / ۶)۔

۳۔ نماز اہلبیت (ع)

۶۱۶۔ رسول اکرم ! میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کے اندر رکھی گئی ہے( تاریخ بغداد ۱۲ ص ۳۷۲ از انس بن مالک، المعجم الکبیر ۲۰ / ۱۰۲۳ از مغیرح)۔

۶۱۷۔ عبداللہ بن مسعود ! رسول اکرم تمام ذکر کرنے والوں میں نمایاں ذکر کرنے والے تھے اور تمام نمازیوں میں سب سے زیادہ نماز ادا کرنے والے تھے۔( حلیة الاولیاء ۷ ص ۱۱۲ ، تاریخ بغداد ۱۰ / ۹۴)۔

۶۱۸۔ فضالہ بن عبید ! رسول اکرم جب کسی منزل پر وارد ہوتے تھے یا گھر میں داخل ہوتے تھے تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔( حلیة الاولیاء ۵ ص ۱۴۸)۔

۶۱۹۔ عائشہ ! رسول اکرم ہمارے ساتھ مصروف گفتگو رہتے تھے لیکن جیسے ہی نماز کا وقت آ جاتا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم میں کوئی جان پہچان ہی نہیں ہے۔( عدة الداعی ص ۱۳۹ ، عوالی اللئالی ۱ ص ۳۲۴ /۶۱)۔

۶۲۰۔ مطرّف بن عبداللہ اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا ، دیکھا کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور شدت خوف خدا سے اس طرح لرز ہے جیسے پتیلی میں پانی کھول رہا ہو۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۲۹۹ ، خصال ص ۲۸۳ ، احتجاج ۱ ص ۵۱۹ / ۱۲۷ فلاح السائل ص ۱۶۱)۔

۶۲۱۔ جعفر بن علی القمی ، کتاب زہد النبی میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضور اکرم جب نماز کے لئے آمادہ ہوتے تھے تو اس طرح ساکت و ساکن نظر آتے تھے جیسے کوئی کپڑا زمین پر پڑا ہو۔( فلاح السائل ص ۱۶۱)۔

۶۲۲۔ جابر بن عبداللہ ! رسول اکرم کھانے یا کسی دوسرے کام کے لئے نماز میں ہرگز تاخیر نہیں فرماتے تھے۔( السنن الکبریٰ ۳ ص ۱۰۵ / ۵۰۴۳)۔

۶۲۳۔ امام صادق (ع) ! رسول اکرم غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب پر کسی کام کو مقدم نہیں فرماتے تھے۔( علل الشرائع ص ۳۵۰ /۵ تنبیہ الخواطر ۲ ص ۷۸)۔

۶۲۴۔ مطرف بن عبداللہ بن الشخیر ! میں نے اور عمر ان بن حصین نے کوفہ میں حضرت علی (ع) کے ساتھ نماز پڑھی تو انھوں نے رکوع و سجود کے موقع پر اس انداز سے تکبیر کہی کہ مجھ سے عمران نے کہا کہ میں نے اس نماز سے زیادہ کوئی نماز رسول اکرم کی نماز سے مشابہ نہیں دیکھی ہے۔( مسند ابن حنبل ۷ص ۲۰۰ / ۱۹۸۸۱)۔

۶۲۵۔ امام علی (ع) میدان صفین میں مسلسل جہاد فرما رہے تھے اور آپ کی نگاہیں طرف آفتاب تھیں ، ابن عباس نے کہا کہ یا علی (ع) ! فرمایا کہ وقت نماز دیکھ رہا ہوں تا کہ اول زوال نماز ادا کر لوں !

ابن عباس نے کہا کہ کیا یہ وقت نماز ہے جب کے گھمسان کارن پڑرہا ہے ؟ فرمایا کہ ہم کس چیز کے لئے جہاد کر رہے ہیں ؟ ہمارا جہاد سی نماز کیلئے ہے۔( ارشاد القلوب ص ۲۱۷)۔

۶۲۶۔ امام صادق (ع)! امام علی (ع) جب رکوع فرماتے تھے تو اس قدر پسینہ جاری ہوتا تھا کہ زمین تر ہو جاتی تھی۔( فلاح السائل ص۱۰۹ از ابی الصباح)۔

۶۲۷۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام علی (ع) پر جب وقت نماز آتا تھا تو چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا اور آپ کا نپنے لگتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس امانت کو ادا کرنے کا وقت آ گیا جسے زمین و آسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا تو اس کا بوجھ نہ اٹھا سکے اور انسان نے اٹھا لیا۔ اب خدا جانے میں نے اس کا حق ادا کر دیا ہے یا نہیں۔( مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۱۲۴)۔

عوالی اللئالی ۱ ص ۳۲۴ / ۶۳ ، احقاق الحق ۱۸ ص۴)۔

۶۲۸۔ رسول اللہ ! میری بیٹی فاطمہ جب محراب عبادت میں خدا کے سامنے کھڑی ہوتی ہے تو اس کانور ملائکہ آسمان کے سامنے اسی طرح جلوہ گر ہوتا ہے جس طرح ستاروں کا نور اہل زمین کے لئے، اور پروردگار ملائکہ سے فرماتا ہے کہ دیکھو یہ میری کنیز فاطمہ (ع) میری تمام کنیزوں کی سردار میرے سامنے کھڑی ہے اور اس کا جوڑ جوڑ کانپ رہا ہے اور وہ دل و جان سے میری عبادت کی طرف متوجہ ہے۔( امالی صدوق (ر) ص ۱۰۰ / ۲ ، الفضائل ابن شاذان ص ۸ از ابن عباس)۔

۶۲۹۔ ابن فہد الحلی ، جناب فاطمہ (ع) نماز میں خوف خدا سے کانپنے لگتی تھیں۔( عدة الداعی ص ۱۳۹)۔

۶۳۰۔ امام زین العابدین (ع) ! امام حسن (ع) بن علی (ع) اپنے دور میں سب سے زیادہ عابد، زاہد اور افضل تھے، پیادہ حج فرماتے تھے بلکہ بعض اوقات ننگے پیر چلتے تھے ، جب موت کو یاد کرتے تھے یا قبر کا ذکر کرتے تھے ، یا میدان حشر کا ذکر کرتے تھے، یا صراط پر گذرنے کا ذکر کرتے تھے یا خدا کی بارگاہ میں حاضری کا ذکر کرتے تھے تو اس قدر روتے تھے کہ بیہوش ہو جاتے تھے اور جب نماز میں کھڑے ہوتے تھے تو ایک ایک جوڑ کانپنے لگتا تھا اور جنت و جہنم کا ذکر کرتے تھے اور جہنم سے پناہ مانگتے تھے کتاب خدا میں کسی بھی ’ یا ایہا الذین امنوا‘ کی تلاوت کرتے تھے تو کہتے تھے ’ لبیک اللہم لبیک‘ اور ہر حال میں ہمیشہ ذکر خدا میں مصروف نظر آتے تھے۔( امالی الصدوق (ر) ۱۵۰/۸، فلاح السائل ص ۲۶۸ ، عدة الداعی ص ۱۲۳ روایت مفضل عن الصادق (ع) )۔

۶۳۱۔ امام زین العابدین (ع)! امام حسن (ع) نماز پڑھ رہے تھے، ایک شخص آپ کے سامنے سے گذر گیا تو بعض لوگوں نے اسے ٹوک دیا ، نماز تمام کرنے کے بعد آپ نے دریافت کیا کہ تم نے کیوں ٹوکا؟اس نے کہا کہ یہ آپ کے اور محراب کے درمیان حائل ہو گیا تھا، فرمایا افسوس ہے تیرے حال پر بھلا میرے اور خدا کے درمیان کوئی حائل ہوسکتا ہے جو رگ گردن سے زیادہ قریب ہے۔( التوحید ص۱۸۴ / ۲۲ از منیف عن الصادق (ع))۔

۶۳۲۔ امام حسین (ع) جب وضو کرتے تھے تو آپ کے چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا اور جوڑ بند کانپنے لگتے تھے ، کسی نے دریافت کیا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو فرمایا کہ جو شخص خدائے جبار کے سامنے کھڑا ہوا اس کا حق ہے کہ اس کا رنگ زرد ہو جائے اور اس کے جوڑ بند کانپنے لگیں۔( جامع الاخبار ص ۱۶۶ / ۳۹۷ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۴ رویات فتال، مناقب میں یہ روایت امام حسن (ع) کے بارے میں وارد ہوئی ہے)۔

۶۳۳۔امام باقر (ع)! میرے پدر بزرگوار امام علی (ع) بن الحسین (ع) کے لئے جب وقت نماز آتا تھا تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے اور چہرہ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا اور جوڑ بند کانپنے لگتے تھے، آنسؤوں کا ایک سیلاب امنڈ آتا تھا اور فرماتے تھے کہ اگر بندہ کو معلوم ہو جائے کہ کس سے راز و نیاز کر رہا ہے تو کبھی مصلیٰ سے الگ نہ ہو۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی ۲ ص ۲۴ از حنان بن سدیر)۔

۶۳۴۔ امام صادق (ع) ! امام زین العابدین (ع) جب وضو فرماتے تھے تو آپ کے چہرہ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا، پوچھا گیا کہ آپ کا کیا عالم ہو جاتا ہے؟ فرمایا تمہیں کیا خبر کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کی تیاری کر رہا ہوں۔

( اعلام الوریٰ ص ۲۵۵ از سعید بن کلثوم ، ارشاد ۲ ص ۱۴۳ ، کشف الغمہ ۲ ص ۲۹۸ روایت عبداللہ بن محمد القرشی ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۴۸ ، مکارم الاخلاق ۲ ص ۷۹ / ۲۲۷۷)۔

۶۳۵۔ امام صادق (ع) ! میرے پدر بزرگوار کہا کرتے تھے کہ حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو جیسے درخت کا تنہ کہ جب ہوا ہلادیگی تبھی ہلے گا۔( کافی ۳ ص ۲۰۰ /۴ ، فلاح السائل ص۱۶۱ از جہم بن حمید)۔

۶۳۶۔ ابان بن تغلب ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ امام سجاد (ع) کو دیکھا کہ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو چہرہ کا رنگ بدل جاتا ہے آخر اس کا راز کیا تھا؟ فرمایا انہیں معلوم تھا کہ کس کی بارگاہ میں کھڑے ہیں۔

۶۳۷۔ ابوایول ! امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو ان کے چہرہ کا رنگ کبھی سرخ اور کبھی زرد ہو جاتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ کوئی سامنے ہے جس سے راز و نیاز کر رہے ہیں۔( فلاح السائل ص ۱۶۱ ، دعائم الاسلام ۱ ص ۱۵۹)۔

۶۳۸۔ امام صادق (ع) ! امام باقر (ع) نماز پڑھ رہے تھے تو آپ کے سر پر کوئی شے گڑ پری اور آپ نے اس کو الگ نہیں کیا یہاں تک کہ خو د جعفر نے اسے جدا کر دیا کہ آپ اس حرکت کو تعظیم پروردگار کے خلاف سمجھتے تھے کہ اس نے حکم دیا ہے کہ اپنے رخ کو خدا کی طرف رکھو اور سب سے کترا کر رکھو ( الاصول الستہ عشر جعفر بن محمد الحضرمی ص ۷۰ از جابر)۔

۶۳۹۔ امام صادق (ع) ، حضرت امام باقر (ع) تلاوت کر رہے تھے کہ آپ پر غشی طاری ہو گئی ، جب بیدار ہوئے تودریاف کیا گیا کہ آخر یہ کیا ماجرا تھا؟ فرمایا میں آیات الہی کی تکرار کر رہا تھا کہ اچانک ایسا معلوم ہوا جیسے مالک مجھ سے ہمکلام ہے اور پھر وقت بشریت جلال الہی کے مکاشفہ کی تاب نہ لا سکی۔( فلاح السائل ص ۱۰۷)۔

۴۔ نماز شب

۶۴۰۔ امام باقر (ع) و امام صادق (ع) ! من اللیل فسبحہ وا دبار النجوم کے ذیل میں فرماتے تھے کہ رسول اکرم رات کو تین مرتبہ اٹھ کر آسمان کی طرف دیکھتے تھے اور آخر میں سورۂ  آل عمران کی پانچ آیات ’ انک لا تخلف المیعاد ‘ (آیت ۱۹۴) تک پڑھ کر نماز شب شروع فرماتے تھے( مجمع البیان ۹ ص ۲۵۷ از زرارہ و حمران و محمد بن مسلم ، عوالی اللئالی ۲ ص ۲۶ / ۶۲)۔

۶۴۱۔ عائشہ ! رسول اکرم آخر شب میں آرام فرماتے تھے اور آخر شب تک بیدار رہتے تھے۔( صحیح مسلم ۱ ص ۵۱۰ / ۷۳۹ ، سنن نسائل ۳ ص ۲۱۸ ، سنن ابن ماجہ ۱ ص ۲۳۴ / ۱۳۶۵)۔

۶۴۲۔ عائشہ ! رسول اکرم نماز شب کو ترک نہیں فرماتے تھے اور جب مریض یا خستہ حال ہوتے تھے تو بیٹھ کر ادا فرماتے تھے( سنن ابی داؤد ۲ ص ۳۲ / ۱۳۰۷ ، مسند احمد بن حنبل ۱۰ ص ۹۸ / ۲۶۱۷۴ ، السنن الکبریٰ ۳ ص ۲۱ /۴۷۲۲ از عبداللہ بن ابی موسیٰ النصری)۔

۶۴۳۔ ابن عباس ! رسول اکرم نماز شب کو یاد کرتے تھے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے ’ تتجافی جنوبہم عن المضاجع، سورہ سجدہ ۱۶ ‘ ان کے پہلو بستر سے نہیں لگتے ہیں۔( حلیة الاولیاء ۵ ص ۸۷ ، تفسیر طبری ۲۱ ص ۱۰۳)۔

۶۴۴۔ عبداللہ بن عباس ! میں ایک شب پیغمبر اسلام کی خدمت میں تھا تو دیکھا کہ جب نیند سے بیدار ہوئے تو عبادت فرمائی ، مسواک فرمائی سورۂ آل عمران کی آیت ص ۱۹۰ کی تلاوت فرمائی اور پھروضو کر کے مصلیٰ پر آ کر دو رکعت نماز ادا کی اور پھر بستر پر آ گئے، تھوڑی دیر کے بعد بیدار ہوئے اور پھر یہی عمل کیا اور پھر لیٹ گئے اور پھر بیدار ہو کر یہی عمل کیا ، یہاں تک کہ نماز کا وقت آ گیا۔( سنن ابی داود ۱ ص ۱۵ /۵۸ ، مسند احمد بن حنبل ۱ ص ۷۹۸ / ۳۵۴۱)۔

۶۴۵۔ امام صادق (ع) پیغمبر اسلام کی نمازوں کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ پانی سرہانے رکھا رہتا ہے اور مسواک بھی حاضر رہتی تھی ، تھوڑی دیر سوکر اٹھتے تھے۔ آسمان کو دیکھ کر سورۂ آل عمران آیت ۱۹۰ کی تلاوت فرماتے تھے اوروضو کر کے مصلیٰ پر آ جاتے تھے اور چہار رکعت نماز اس طرح ادا کرتے تھے کہ رکوع کرتے تھے تو لوگ سوچتے تھے کہ یہ کب سر اٹھائیں گے اور سجدہ کرتے تھے تو جیسے اب سر نہ اٹھائیں گے، پھر بستر پر آ کر لیٹ جاتے تھے اور تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر دوبارہ یہی عمل انجام دیتے تھے اور پھر سوجاتے تھے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور پھر نماز صبح کے لئے نکل جاتے تھے۔( تہذیب ۲ / ۳۳۴ / ۱۳۷۷ از معاویہ بن وہب)۔

۶۴۶۔ امام علی (ع) ! میں نے جب سے سرکار دو عالم کا یہ ارشاد سنا ہے کہ نماز شب ایک نور ہے کبھی نماز شب ترک نہیں کی ہے یہ سن کر ابن الکواء نے کہا کہ کیا صفین میں لیلة الہریر بھی ؟ فرمایا ہاں لیلة الہریر بھی ( مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۱۲۳)۔

۶۴۷۔ امام زین العابدین (ع) نماز شب میں وتر میں تین سور مرتبہ العفو العفو کہا کرتے تھے۔( من لا یحضرہ الفقیہ ۱ ص ۴۸۹ / ۱۴۰۸)۔

۶۴۸۔ ابراہیم بن العباس ! امام رضا (ع) راتوں کو بہت کم آرام فرماتے تھے اور زیادہ حصہ بیدار رہا کرتے تھے۔( عیون اخبار الرضا (ع) ص ۱۸۴ / ۷ ، اعلام الوریٰ ص ۳۱۴)۔

۶۴۹۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام علی (ع) نقی (ع) رات کے وقت ہمیشہ رو بقبلہ رہتے تھے، ایک ساعت بھی آرام نہیں کرتے تھے جبکہ آپ کا جبہ اون کا تھا اور مصلیٰ چٹائی کا۔( الخرائج والجرائح ۲ ص ۹۰۱)۔

۵۔ صیام اہلبیت (ع)

۶۵۰۔حماد بن عثمان نے امام صادق (ع)سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے روزہ شروع کیا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اب روزہ ہی رکھتے رہیں گے اور اس کے بعد جب افطار کیا تو افطار کے بارے میں یہی کہنے لگے یہاں تک کہ آپ نے صوم داؤد شروع کر دیا کہ ایک روز روزہ رکھتے تھے اور ایک روز افطار کرتے تھے، اس کے بعد آخر حیات میں مہینہ میں تین روز کی پابندی فرماتے رہے تین روزے ایک ماہ کے برابر ہیں اور ان سے وسوسۂ  نفس کا علاج ہوتا ہے۔

حماد نے عرض کی کہ حضور یہ تین دن کونسے ہیں ؟ فرمایا مہینہ کی پہلی جمعرات، دوسرے عشرہ کا پہلا بدھ اور مہینہ کی آخری جمعرات۔

دوبارہ سوال کیا کہ ان ایام میں کیا خصوصیت ہے؟ فرمایاکہ گذشتہ امتوں میں انہیں دنوں میں عذاب نازل ہوا تھا تو آپ اس عذاب کے خوف سے روزہ رکھتے تھے کہ یہ امت محفوظ رہے۔( کافی ۴ ص ۸۹/۱ الفقیہ ۲ ص ۸۲ / ۱۷۸۶ ، تہذیب ۴ ص ۳۰۲ / ۹۱۳ ، استبصار ۲ ص ۱۳۶ / ۴۴۴ ، ثواب الاعمال ۱۰۵/۶ ، الدروع الواقیہ ص۵۵)۔

۶۵۱۔ ابوسلمہ ! میں نے عائشہ سے رسول اکرم کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ حضرت اس قدر روزے رکھتے تھے کہ لگتا تھا ابن افطار نہ کریں گے اور پھر افطار کرتے تھے تو اس طرح جیسے روزہ نہ رکھیں گے اور سب سے زیادہ روزے ماہ شعبان میں رکھتے تھے بلکہ تقریباً پورہ ماہ شعبان، بلکہ حقیقتاً پورا ماہ شعبان۔( مسند ابن حنبل ۹ ص ۴۷۴ / ۲۵۱۵۵ ، ۲۵۳۷۳ ، صحیح مسلم ۲ ص ۸۱۰ / ۱۱۵۶ ، مسند ابویعلی ٰ ۴ ص ۳۳۹ / ۴۶۱۳)۔

۶۵۲۔امام علی (ع) ! مجھے گرمیوں کے روزے زیادہ محبوب ہیں۔( مستدرک الوسائل، ص ۵۰۵ / ۸۷۵۸ نقلا عن لب اللباب راوندی)۔

۶۵۳۔امام صادق (ع) ! امیر المومنین (ع) گھر میں آ کر سوال فرماتے تھے کہ کھانے کا کوئی سامان ہے یا نہیں۔ اگر کوئی چیز ہوتی تھی تو کھا لیتے تھے ورنہ یونہی روزہ رکھ لیا کرتے تھے۔( تہذیب ۴ ص ۱۸۸ / ۵۳۱، عوالی اللئالی ۳ص ۱۳۵ / ۱۵ از ہشام بن سالم)۔

۶۵۴۔ امام صادق (ع) ! امام زین العابدین (ع) جب روزہ رکھتے تھے تو ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت پکواتے تھے اور وقت افطار صرف اس کی خوشبو سونگھ کر سارا گوشت مختلف غریب گھرانوں میں تقسیم کرا دیا کرتے تھے اور خود روٹی اور کھجور کھا لیا کرتے تھے خدا ان پر اور ان کے آباء طاہرین (ع) پر رحمتیں نازل کرے۔( کافی ۴ ص ۶۸ / ۳ ، المحاسن ۲ ص ۱۵۸ / ۱۴۳۲ ، از حمزہ بن حمران)۔

۶۵۵۔ابراہیم بن عباس ! امام رضا (ع) اکثر ایام میں روزے سے رہا کرتے تھے، خصوصیت کے ساتھ مہینہ میں تین دن کے روزے کبھی ترک نہیں فرماتے تھے اور اسی کو سارے سال کا روزہ قرار دیتے تھے۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۱۸۴ /۷ ، اعلام الوریٰ ص ۳۱۴)۔

۶۵۶۔ علی بن ابی حمزہ ! میں نے امام علی (ع) بن الحسین (ع) کی کنیز سے آپ کے انتقال کے بعد دریافت کیا کہ حضرت کے روزمرہ کے بارے میں بیان کرو تو انھوں نے کہا کہ مفصل یا مختصر ؟ میں نے کہا مختصر !! انھوں نے کہا کہ میں نے دن میں کبھی آپ کے سامنے کھانا پیش نہیں کیا اور نہ رات میں کبھی بستر بچھا یا ہے۔( علل الشرائع ص ۲۳۲ /۹ خصال ص ۵۱۸ / ۱۴ از حمران بن اعین عن الباقر (ع) ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۵۵)۔

۶۔ حج اہلبیت (ع)

۶۵۷۔عبداللہ بن عبید بن عمیر ! امام حسن (ع) بن علی (ع) نے ۲۵ حج پیدل ادا فرمائے ہیں جبکہ ناقے آپ کے ہمراہ رہا کرتے تھے۔(مستدرک حاکم ۳ ص ۱۸۵ / ۴۷۸۸ ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) ۱۴۲ / ۲۳۶ ، السنن الکبریٰ ۴ ص ۵۴۲ / ۸۶۴۵ ، روایت ابن عباس ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۴ از امام صادق (ع) ، تہذیب ۵ ص ۱۱ / ۲۹ ، ۱۲ ص ۳۳ استبصار ۲ ص ۱۴۱ / ۲۶۱۔ ص ۱۴۲ / ۴۶۵ ، علل الشرائع ص ۴۴۷ /۶ ، قرب الاسناد ۱۷۰ / ۶۲۴)۔

۶۵۸۔ مصعب بن عبداللہ ! امام حسین (ع) نے پیدل ۲۵ حج فرمائے ہیں۔( المعجم الکبیر ۲ ص ۱۱۵ / ۲۸۴۴)۔

۶۵۹۔ امام حسین (ع) کو دیکھا گیا کہ طواف کرنے کے بعد مقام ابراہیم (ع) پر دو رکعت نماز ادا کی اور پھر مقام ابراہیم (ع) پر رخسار رکھ کر رونا شروع کیا اور برابر اس کلمہ کی تکرار فرما رہے تھے یا تیرا سائل تیرے دروازہ پر ہے، تیرا مسکین تیرے دروازہ پر ہے، تیرا بندہ تیرے دروازہ پر حاضر ہے۔( ربیع الابرار ۲ ص ۱۴۹)۔

۶۶۰۔ امام باقر (ع) ! حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) کے پاس ایک ناقہ تھا جس پر آپ نے ۲۳ مرتبہ سفر حج کیا لیکن ایک تازیانہ بھی نہیں مارا یہاں تک کہ جب آپ کا انتقال ہو گیا تو ہمیں خبر بھی نہیں ہوئی کہ ناقہ پر کیا اثر ہوا کہ نوکر نے آ کر خبر دی کہ وہ قبر پر بیٹھا ہوا اپنے سینہ کو رگڑ رہا ہے اور فریاد کر رہا ہے، میں نے کہا اسے میرے پاس لے آؤ قبل اس کے لوگوں کو اس امر کی اطلاع ہو، اور ناقہ قبر تک اس عالم میں پہنچ گیا کہ اس نے کبھی قبر کو دیکھا بھی نہیں تھا۔

۶۶۱۔ سفیان بن عینیہ ! امام علی (ع) بن الحسین (ع) بن علی (ع) ابن ابی طالب (ع) نے حج فرمایا تو جب احرام باندھ چکے اور ناقہ پر سوار ہوئے تو چہرہ کا رنگ زرد ہو گیا اور جسم کانپنے یہاں تک کہ لبیک کہنا دشوار ہو گیا، لوگوں نے عرض کی حضور لبیک کیوں نہیں کہتے ہیں فرمایا کہ ڈرتا ہوں کہ میں لبیک کہوں اور ادھر سے آواز آئے مجھے قبول نہیں ہے۔

لوگوں نے کہا کہ حضور یہ تو ضروری ہے آپ نے فرمایا مجھے معلوم ہے، اس کے بعد جیسے ہی لبیک کہا بیہوش ہو گئے اور ناقہ سے گڑ پڑے اور یہی کیفیت آخر حج تک برقرار رہی۔( تاریخ دمشق حالات امام زین العابدین (ع) ۴۰ ص ۶۳ ، کفایتہ الطالب ص ۴۵۰ ، سیر اعلام النبلاء ۴ ص ۳۹۲ ، تہذیب الکمال ۲۰ ص ۳۹۰ ، عوالی اللئالی ۴ ص ۳۵ / ۱۲۱)۔

۶۶۲۔ افلح غلام امام محمد باقر (ع) ! میں حضرت کے ساتھ حج کے لئے نکلا تو آپ جب مسجد الحرام میں داخل ہوئے اور خانہ کعبہ کو دیکھا تو گریہ کرنا شروع کر دیا ، میں نے عرض کی حضور لوگوں کی نظر یں آپ پر ہیں ، ذرا آواز کم کریں ، آپ نے مزید رونا شروع کر دیا اور فرمایا افسوس ! میں کس طرح نہ روؤں جبکہ خیال ہے کہ شاہد مالک اس گریہ پر رحم فرما ہے تو میں کامیاب ہو جاؤں۔

اس کے بعد آپ نے طواف کیا ، نماز طواف ادا کی اور جب سجدہ سے سراٹھایا تو تمام سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی(تذکرة الخواص ص ۳۳۹ صفة الصفوة ۲ ص ۶۴ ، الفصول المہمہ ص ۲۰۹ ، مطالب السئول ص ۸۰ ، کشف الغمہ ۲ ص۳۶۰ نورالابصار ص ۱۵۸)۔

۶۶۳۔ قاسم بن حسین نیشاپوری ! میں نے امام باقر (ع) کو دیکھا کہ آپ نے میدان عرفات میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اسی طرح اٹھائے رہے یہاں تک کہ شام ہو گئی ، اور میں نے آپ سے زیادہ اس طرح کے اعمال پر قدرت رکھنے والا کوئی دوسرا نہیں دیکھا ہے۔(اقبال الاعمال ۲ ص ۷۳)۔

۶۶۴۔ مالک بن انس ! میں جب بھی امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا آپ میرا احترام فرماتے تھے اور مجھے مسند عطا فرما دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں ، میں اس بات سے خوش ہو کر شکر خدا ادا کیا کرتا تھا۔

میں دیکھتا تھا کہ حضرت یا روزہ سے رہتے تھے یا نمازیں پڑھتے رہتے تھے یا ذکر خدا کرتے رہتے تھے، آپ اپنے دور کے عظیم ترین عابد اور بلندترین زاہد تھے، مسلسل حدیثیں بیان کرتے تھے، بہترین اخلاق کے مالک تھے اور بہت منفعت بخش شخصیت کے مالک تھے، اور جب رسول اکرم کا کوئی قول نقل کرتے تھے تو نام لیتے ہی چہرہ کا رنگ اس طرح سبز و زرد ہو جاتا تھا کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا تھا۔

ایک سال میں نے حضرت کے ساتھ حج کیا تو احرام کے موقع پر جب ناقہ پر سوار ہوئے اور تلبیہ کا ارادہ کیا تو آواز گلوگیر ہو گئی اور قریب تھا کہ ناقہ سے گر جائیں ، میں نے عرض کی کہ فرزند رسول ! تلبیہ تو ضروری ہے۔ فرمایا یابن عامر ! کیسے جسارت کروں کہ میں لبیک کہوں اور یہ خوف ہے کہ وہ اسے رد کر دے۔(خصال ص ۱۶۷ / ۲۱۹ ، علل الشرائع ص ۲۳۵ ، امالی الصدوق (ر) ۱۲۳ / ۳ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۲۷۵)۔

۶۶۵۔ علی بن مہزیار ! میں نے امام ابوجعفر ثانی (ع) کو ۲۲۵ ء ھ میں حج کے موقع پر دیکھا کہ آپ نے سورج نکلنے کے بعد جب خانۂ کعبہ کو وداع کرنا چاہا تو پہلے طواف کیا اور ہر چکر میں رکن یمانی کو بوسہ دیا ، پھر آخری چکر میں رکن یمانی اور حجر اسود دونوں کو بوسہ دیا اور اپنے ہاتھوں سے مس کر کے ہاتھوں کو چہرہ پر مل لیا اور پھر مقام ابراہیم (ع) پر دو رکعت نماز ادا کی اور پھر پشت کعبہ پر جا کر ملتزم سے یوں لپٹ گئے کہ شکم مبارک سے کپڑا ہٹا کر اسے بھی مس کیا اور تاویر کھڑے دعائیں کرتے رہے اور پھر باب الحناطین سے باہر نکل گئے۔

یہی صورت حال میں نے ۲۱۷ ء ھ میں رات کے وقت کعبہ کو وداع کرنے میں دیکھی کہ ہر چکر میں رکن یمانی اور حجر اسود کو مس کر رہے تھے اور پھر ساتویں چکر میں پشت کعبہ پر رکن یمانی کے قریب شکم مبارک کو کعبہ سے مس کیا ، پھر حجر اسود کو بوسہ دیا اور ہاتھوں سے مس کیا اور پھر مقام ابراہیم (ع) پر نماز ادا کی اور باہر تشریف لے گئے، ملتزم پر آپ کا توقف اتنی دیر رہا کہ بعض اصحاب نے طواف کے سات شوط پورے کر لئے یا آٹھ ہو گئے ( کافی ۴ ص ۵۳۲ / ۳ ، تہذیب ۵ ص ۲۸۱ / ۹۵۹ تہذیب میں واقعہ کا ۲۱۹ ء ھ نقل کیا گیا ہے)۔

۶۶۶۔ محمد بن عثمان العمری ! خدا گواہ ہے کہ امام عصر (ع) ہر سال موسم حج میں تشریف لاتے ہیں اور تمام لوگوں کو دیکھتے ہیں اور پہچانتے ہیں لیکن لوگ نہ انہیں دیکھتے ہیں اور نہ پہچانتے ہیں۔

(الفقیہ ۲ ص ۵۲۰ ، کمال الدین ص ۴۴۰ / ۸ ، الغیبتہ الطوسی (ر) ص ۳۶۳/ ۳۲۹ ، اثبات الہداة ۳ ص ۴۵۲ /۶۸)۔

سیرت صبر و رضا

۶۶۷۔ امام حسین (ع) ! عراق کے لئے نکلتے ہوئے آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ موت کا نشان اولاد آدم کی گردن سے یونہی وابستہ ہے جس طرح عورت کے گلے میں ہار ، میں اپنے اسلاف کا اسی طرح اشتیاق رکھتا ہوں جس طرح یعقوب کو یوسف کا اشتیاق تھا میری بہترین منزل وہ ہے جس کی طرف میں جا رہا ہوں اور میں وہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ نواویس اور کربلا کے درمیان نبی امیہ کے درندے میرے جوڑ جوڑ کو الگ کر رہے ہیں اور اپنی عداوت کا پیٹ بہر رہے ہیں ، قلم قدرت نے جو دن لکھ دیا ہے وہ بہر حال پیش آنے والا ہے ’ اللہ کی مرضی ہی ہم اہلبیت (ع) کی رضا ہے، ہم اس کی بلاپر صبر کرتے ہیں اور وہ ہمیں صابروں کا اجر دینے والا ہے رسول اکرم سے ان کے پارہ ہائے جگر الگ نہیں رہ سکتے ہیں ، خدا سب کو جنت میں جمع کرنے والا ہے جس سے ان کی آنکھوں کو خنکی نصیب ہو گی اور ان سے کئے گئے وعدہ کو پورا کیا جائے گا، دیکھو جو ہمارے ساتھ اپنی جان قربان کرسکتا ہے اور لقائے الہی کے لئے اپنے نفس کو آمادہ کر چکا ہے وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہو جائے، ہم کل صبح نکل رہے ہیں۔( کشف الغمہ ۲ ص ۲۴۱ ، ملہوف ص ۱۲۶ ، نثر الددر ص ۳۳۳)۔

۶۶۸۔ امام زین العابدین (ع) ! جب امام حسین (ع) کے حالات انتہائی سخت ہو گئے تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے حالات تمام لوگوں کے حالات سے بالکل مختلف ہیں۔ سب کے رنگ بدل رہے ہیں ، اعضاء لرز رہے ہیں ، دل کانپ رہے ہیں لیکن امام حسین (ع) اور ان کے مخصوص اصحاب کے چہرے دمک رہے ہیں ، اعضاء ساکن ہیں اور نفس مطمئن ہیں۔

لوگوں نے آپس میں کہنا شروع کر دیا کہ دیکھو یہ کس قدر مطمئن نظر آتے ہیں جیسے موت کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے، آپ نے فرمایا ، شریف زادو! صبر کرو صبر، یہ موت صرف ایک پل ہے جس کے ذریعہ سختی اور پریشانی سے نکل کر جنت النعیم کے محلول تک پہنچا جاتا ہے، تم میں کون ایسا ہے جو اس بات کو برا سمجھتا ہے کہ زندان سے نکل کر قصر میں چلا جائے، مصیبت تمہاری دشمنوں کے لئے ہے جنہیں محل سے نکل کر زندان کی طرف جاتا ہے،میرے پدر بزرگوار نے رسول اکرم سے روایت کی ہے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت اور موت ایک پل ہے جو مومن کو جنت تک پہنچا دیتا ہے اور کافر کو جہنم تک ، میں نہ غلط بیانی سے کام لیتا ہوں اور نہ کسی نے یہ بات مجھ سے غلط بیان کی ہے۔( معانی الاخبار ۲۸۸ / ۳)۔

۶۶۹۔ ابومخنف ! امام حسین (ع) تین ساعت تک تن تنہا خون میں ڈوبے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ کر یہ منا جات کرتے رہے، خدایا میں تیرے امتحان پر صابر ہوں اور تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، اے فریادیوں کے فریادرس! جس دیکھ کر چالیس سوار بڑھے کہ آپ کے سر مبارک و مقدس و منور کو قلم کر لیں اور عمر سعدیہ آواز دیتا رہا کہ ان کے قتل میں عجلت سے کام لو۔( ینابیع المودة ۲ ث ۸۲)۔

۶۷۰۔ عبیداللہ بن زیاد کا دربان بیان کرتا ہے کہ ابن زیاد نے حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) اور خواتین کو طلب کیا اور سر حسین (ع) بھی سامنے لا کر رکھ دیا ، خواتین کے درمیان حضرت زینب (ع) بنت علی بھی تھیں ، ابن زیاد نے انہیں دیکھ کر کہا کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے تمہیں رسوا کیا ، قتل کیا اور تمھاری باتوں کو جھوٹا ثابت کر دیا ، آپ نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو حضرت محمد کے ذریعہ کرامت عطا فرمائی اور ہمیں پاک و پاکیزہ قرار دیا، رسوائی فاسق کا حصّہ ہے اور جھوٹ فاجر کا مقدر ہے۔

اس نے کہا کہ تم نے اپنے ساتھ پروردگار کا برتاؤ کیسا پایا ؟ فرمایا ہمارے گھر والوں پر شہید ہونا فرض تھا تو وہ گھروں سے نکل کر اپنے مقتل کی طرف آ گئے اور عنقریب خدا تیرے اور ان کے درمیان اجتماع کر کے دونوں کا فیصلہ کر دے گا۔( امالی صدوق ص ۱۴۰ / ۳ ، روضة الواعظین ص ۲۱۰ ، ملہوف ص ۲۰۰ ، اعلام الوریٰ ص ۲۴۷)۔

۶۷۱۔ امام حسین (ع) کے ایک فرزند کا انتقال ہو گیا اور لوگوں نے چہرہ پر رنج و غم کے اثرات نہ دیکھے تو اعتراض کیا، آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) خدا سے سوال کرتے ہیں تو وہ عطا کر دیتا ہے اور پھر جب وہ کوئی ایسی چیزچاہتا ہے جو بظاہر ناگوار ہوتی ہے تو ہم اس کی رضا سے راضی ہو جاتے ہیں۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی ۱ ص ۱۴۷)۔

۶۷۲۔ ابراہیم بن سعدت ! امام سجاد (ع) نے گھر کے اندر نالہ و شیون کی آواز سنی تو اٹھ کر اندر تشریف لے گئے اور پھر واپس آ گئے کسی نے دریافت کیا کیا کوئی حادثہ ہو گیا ہے؟ یقینا لوگوں نے پرسہ دیا لیکن آپ کے صبر پر تعجب کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) جس چیز کو پسند کرتے ہیں اس میں خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور جس بات کو ناپسند کرتے ہیں اس پر بھی اس کا شکر ہی کرتے ہیں۔( حلیة الاولیاء ۳ ص ۱۳۸ ، تاریخ دمشق حالات امام سجاد (ع) ۵/ ۸۸، کشف الغمہ ۲ ص ۳۱۴ عن الباقر (ع) )۔

۶۷۳۔امام باقر (ع) ! جب جس چیز کو پسند کرتے ہیں اس کے بارے میں دعا کرتے ہیں ، اس کے بعد اگر ناخوشگوار امر پیش آ جاتا ہے تو خدا کی مخالفت نہیں کرتے ہیں ، (حلیة الاولیاء ۳ ص ۱۸۷ از عمرو بن دینار، کشف الغمہ ۲ ص ۳۶۳ از احمد بن حمون)۔

۶۷۴۔ علاء بن کامل ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ گھر سے نالہ و فریاد کی آواز بلند ہوئی ، آپ اٹھے اور پھر بیٹھ گئے اور انا للہ کہہ کر گفتگو میں مصروف ہو گئے اور آخر میں فرمایا کہ ہم خدا سے اپنے لئے اپنی اولاد اور اپنے اموال کے لئے عافیت چاہتے ہیں لیکن جب قضاء واقع ہو جاتی ہے تو یہ ممکن نہیں ہوتا ہے کہ جس کو خدا چاہتا ہے اس کو ناپسند کر دیں۔( کافی ۳ ص ۲۲۶ / ۱۳)۔

۶۷۵۔قتیبہ الاعشی ! میں امام صادق (ع) کے گھر آپ کے ایک فرزند کی عیادت کیلئے حاضر ہوا تو دروازہ پر آپ کو مخزون و رنجیدہ دیکھا اور پوچھا بچہ کا کیا حال ہے ، فرمایا وہی حال ہے ، اس کے بعد گھر کے اندر گئے اور ایک ساعت کے بعد مطمئن برآمد ہوئے، میں سمجھا کہ شائد صحت ہو گئی ہے ، میں نے کیفیت دریافت کی ؟ فرمایا مالک کی بارگاہ میں چلا گیا۔

میں نے عرض کی ، میری جان قربان، جب وہ زندہ تھا تو آپ رنجیدہ تھے، اب جب مرگیا ہے تو وہ حالت نہیں ہے؟ فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) مصیبت کے نازل ہونے سے پہلے تک پریشان رہتے ہیں ، اس کے بعد جب امر الہی واقع ہو جاتا ہے تو اس کے فیصلہ پر راضی ہو جاتے ہیں اور اس کے امر کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔( کافی ۳ ص ۲۲۵/۱۱)۔

طلب معاش میں سیرت اہلبیت (ع)

۶۷۶۔ امام صادق (ع) ! خبردار طلب معاش میں سستی اور کاہلی سے کام مت لینا کہ ہمارے آباء و اجداد اس راہ میں تگ و دوکیا کرتے تھے۔(الفقیہ ۳ ص ۱۵۷ / ۳۵۷۶ روایت حماد لحام)۔

۶۷۷۔ جابر بن عبداللہ ! ہم رسول اکرم کے ساتھ دادی مرّ الظہر ان میں اراک کے پھل چنا کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے کہ سیاہ دانے چنو کہ یہ جانور کیلئے زیادہ لذیذ ہوتے ہیں ، ہم نے عرض کی کہ کیا حضور کو بھی بکریاں چرانے کا تجربہ ہے؟

فرمایا بیشک اور کوئی نبی بھی ایسا نہیں ہے جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔( صحیح بخاری ۵ ص ۲۰۷۷ / ۵۱۳۸ ، صحیح مسلم ۳ ص ۱۶۲۱ / ۲۰۵۰ ، مسند ابن حنبل ۵ ص ۷۵ / ۱۴۵۰۴/ مسند ابویعلی ۲ ص ۴۰۴ / ۳۰۵۸)۔

۴۷۸۔ عبداللہ بن حزم ! ایک مرتبہ اونٹ اور بکری کے چرواہوں میں بحث ہو گئی تورسول اکرم نے فرمایا کہ بکریاں جناب موسیٰ ، جناب داؤد نے بھی چرائی ہیں اور بکریاں میں نے بھی چرائی ہیں ! اپنے گھر کی بکریاں مقام اجیاد ہیں۔( الادب المفرد ۱۷۵ / ۵۷۷)۔

۶۷۹۔ امام صادق (ع) ! رسول اکرم نے مال غنیمت تقسیم کیا تو حضرت علی (ع) کے حصّہ میں ایک زمین آئی جس میں زمین کو دی گئی تو ایک چشمہ نکل آیا جس کا پانی باقاعدہ آسمان کی طرف جوش مار رہا تھا اور اسی بنیاد پر اس کا نام ینبع رکھ دیا گیا اور جب بشارت دینے والے نے حضرات کو اس کی بشارت دی تو آپ نے فرمایا کہ صدقہ عام ہے تمام حجاج بیت اللہ اور مسافروں کے لئے، نہ اس کی خرید و  فروخت ہوں گی نہ ہبہ نہ وراثت اور اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو اس پر اللہ ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو گی اور اس سے روز قیامت نہ کوئی صرف قبول کیا جائے گا اور نہ بدل۔( کافی ۷ ص ۵۴ /۹ ، تہذیب ۹ ص ۱۲۸ /۶۰۹ روایت ایوب بن عطیہ الخداء )۔

۶۸۰۔امام علی (ع) ! ایک مرتبہ مدینہ میں شدید بھوک کا ماحول پیدا ہو گیا تو میں تلاش عمل میں عوالی کی طرف نکل پڑا، اتفاق سے دیکھا کہ ایک عورت چند مٹی کے ڈھیلے جمع کئے ہوئے ہے ، میں نے خیال کیا کہ یہ اسے ترکنا چاہتی ہے ، میں نے سودا طے کر لیا کہ ایک ڈول پانی ایک کھجور کے عوض ! اور اس کے بعد سولہ ڈول کھینچے جس کے نتیجہ میں ہتھیلی میں گھٹے پڑ گئے اور پھر اس عورت کو جا کر ہاتھ دکھلائے اور کام بتلایا تو اس نے سولہ کھجوریں دے دیں اور میں انھوں لے کر رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ماجرا بیان کیا تو آپ بھی اس کے کھانے میں شریک ہو گئے ( مسند ابن حنبل ۱ ص ۲۸۶ / ۱۱۳۵ ، فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ ص ۱۷ / ۱۲۲۹ ، صفة الصفوہ ۱ ص ۱۳۵ روایات مجاہد)۔

۶۸۱۔ امیر المومنین (ع) سخت گرمی میں بھی کام کرنے کے لئے نکل پڑتے تھے تا کہ خدا خود دیکھ لے کہ بندہ طلب حلال کے لئے جد و جہد کر رہا ہے۔( الفقیہ ۳ ص ۱۶۳ / ۳۵۹۶ ، عوالی اللئالی ۳ ص ۲۰۰ / ۲۴)۔

۲۸۲۔ امام صادق (ع) ! خدا کی قسم حضرت علی (ع) نے راہ خدا میں ہزار غلام آزاد کئے ہیں اور سب اپنے ہاتھ کی کمائی سے کیا ہے۔( کافی ۸ ص ۱۶۵ / ۱۷۵ روایت معاویہ بن وہب ۵ / ۷۴ / ۲ روایت فضل بن ابی قرّہ، الغارات ۱ ص ۹۲۔

۶۸۳۔امام صادق (ع) ! محمد بن المنکدر کا بیان ہے کہ میرے خیال میں امام سجاد (ع) کے بعد ان کی اولاد میں کوئی ان سے بہتر نہیں ہوسکتا ہے لیکن جب امام باقر (ع) کو دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ میں انہیں موعظہ کرنا چاہتا تھا لیکن انھوں نے مجھے موعظہ کر دیا۔

لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کیا موعظہ کر دیا ؟ ابن المنکدر نے بتایا کہ میں ایک مرتبہ سخت گرمی میں بیرون مدینہ نکلا تو امام باقر (ع) کو دیکھا کہ بھاری جسم کے باوجود دو غلاموں پر تکیہ گئے ہوئے نکل پڑے ہیں ، میں نے کہا اے سبحان اللہ نبی ہاشم کا ایک بزرگ آدمی طلب دنیا میں اس طرح مبتلا ہو جائے کہ اس گرمی میں اس طرح گھر سے نکل پڑے، یہ سوچ کر قریب گیا ، سلام کیا آپ نے جھڑک کر جواب دی اور پسینہ میں تر تھے، میں نے اپنی بات دہرائی اور کہا کہ اس حال میں اگر موت آ گئی تو کیا کریں گے؟

فرمایا اگر اس وقت موت آ گئی تو اس حال میں آئے گی کہ میں اطاعت خدا میں ہوں گا، خدا نہ کرے کہ اس وقت آئے گی کہ میں اطاعت خدا میں ہو گا، خدا نہ کرے کہ اس وقت آئے جب کوئی معصیت خدا کر رہا ہو،تو اس وقت اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو لوگوں کے احسانات سے بچارہا ہوں۔

یہ سننا تھا کہ ابن المنکدر نے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا، خدا آپ پر رحمت نازل کرے، میں نے آپ کو نصیحت کرنا چاہی تھی مگر آپ نے مجھ ہی کو موعظہ فرما دیا۔( کافی ۵ ص ۷۳ / ۱، تہذیب ۶ ص ۳۲۵ / ۸۹۴ ، ارشاد ۲ ص ۱۶۱ روایت عبدالرحمان بن الحجاج)۔

۶۸۵ ، ابوعمرو الشیبانی ! میں نے امام صادق (ع) کو موٹا کپرا پہنے بیچہ لئے اپنے باغ میں یوں کام کرتے دیکھا کہ پسینہ پیروں سے بہہ رہا تھا، میں نے عرض کی میری جان قربان،یہ بیلچہ مجھے دے دیجئے، میں یہ کام کروں گا، فرمایاکہ میں چاہتا ہوں کہ انسان طلب معاش میں حرارت آفتاب کی اذیت برداشت کرے۔( کافی ۵ ص ۷۶ / ۱۳)۔

۶۸۶۔ عبدالاعلی ٰ غلام آل سام ! میں نے شدید گرمی کے زمانہ میں مدینہ کے ایک راستہ پر امام صادق (ع) کو دیکھ کر عرض کی ، حضور میری جان قربان ایک تو خدا کی بارگاہ میں آپ کا مرتبہ پھر رسول اکرم سے آپ کی قرابت، اس کے بعد بھی آپ اس گرمی میں مشقت برداشت کر رہے ہیں۔

فرمایا عبدالاعلی ٰ میں طلب رزق میں نکلا ہوں تا کہ تم جیسے افراد سے بے نیاز ہو جاؤں۔( کافی ۵ ص ۷۴ / ۳)۔

۶۸۷۔ علی بن ابی حمزہ ! میں نے حضرت ابوالحسن (رضا (ع)) کو اپنی ایک زمین میں اس طرح کام کرتے دیکھا کہ پسینہ پیروں سے بہہ رہا تھا تو میں نے عرض کی میری جان قربان، کام کرنے والے سب کیا ہو گئے ؟

فرمایا کہ دیکھو اپنے ہاتھ سے ان لوگوں نے بھی کام کیا ہے جو مجھ سے اور میرے والد سے بھی بہتر تھے۔

میں نے عرض کی یہ کون حضرات ہیں ؟ فرمایا رسول اکرم ، امیر المومنین (ع) اور میرے تمام آباء و اجداد اور یہ کام تو جملہ انبیاء ، مرسلین، اوصیاء اور صالحین نے کیا ہے۔( کافی ۵ ص ۷۵ / ۱۰ ، الفقیہ ۳ ص ۱۶۳ / ۳۵۹۳ ، عوالی اللئالی ۳ ص ۲۰۰)۔

سیرت اہلبیت (ع) در عطایا و ہدایا

۶۸۸۔ رسول اکرم ! ہم غیر مستحق کو بھی دے دیا کرتے ہیں کہ کہیں کوئی مستحق محروم نہ رہ جائے۔( عدة الداعی ص ۹۱)۔

۶۸۹۔ محمد بن الحنفیہ ! میرے بابا جان رات کی تاریکی میں قنبر کے کاندھے پر آٹا اور کھجور لاد کر ان گھروں تک پہنچایا کرتے تھے جنہیں وہ خود جانتے تھے اور کسی کو باخبر نہیں ہونے دیتے تھے ، ایک مرتبہ میں نے عرض کیا کہ یہ کام تو دن میں بھی ہوسکتا ہے فرمایا ’ مخفی صدقہ غضب پروردگار کی آگ کو سرد کر دیتا ہے۔( مناقب الامام امیر المومنین (ع) الکوفی ۲ ص ۶۹ / ۵۵۲ ، ربیع الابرار ۲ ص ۱۴۸)۔

۶۹۰۔ امام صادق (ع) ! امام حسن (ع) نے اپنے پروردگار کی راہ میں سارا مال تین مرتبہ برابر برابر تقسیم کیا تھا یہاں تک لباس، دینار کے ساتھ نعلین میں بھی غریبوں کو برابر کا حصہ دیا تھا۔( تہذیب ۵ ص ۱۱ / ۲۹ ، استبصار ۲ ص ۱۴۱ / ۴۶۱، حلیة الابرار ۳ ص ۵۶ / ۵ ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) (ع)۱۴۲ / ۲۳۶۔ ( ۲۴ ، السنن الکبریٰ ۴ ص ۵۴۲ / ۸۶۴۵ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۴)۔

۶۹۱۔ حسن بصری ! حضرت حسین (ع) بن علی (ع) ایک سی زاہد ، متقی صالح و ناصح اور بہترین اخلاق کے مالک تھے، ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے ایک باغ میں گئے جہاں آپ کا غلام ’صافی ‘ رہا کرتا تھا، باغ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ غلام بیٹھا ہوا روٹی کھا رہا ہے، آپ ایک خرمہ کے درخت کی آڑ میں ٹھہر گئے، دیکھا کہ غلام آدھی روٹی کھاتا ہے اور آدھی کتے کو دے دیتا ہے ، کھانا ختم کرنے کے بعد اس نے کہا کہ شکر ہے خدائے رب العالمین کا پروردگار مجھے اور میرے مولی کو بخش دینا اور انہیں اسی طرح برکت عطا فرمانا جس طرح ان کے والدین کو عطا فرمائی تھی کہ تو بڑا رحم کرنے والا ہے۔

آپ نے سامنے کر غلام کو آواز دی ، وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور کانپنے لگا، کہنے لگا اے میرے اور جملہ مومنین کے سردار میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا اب مجھے معاف فرما دیجیئے؟

فرمایا تم مجھے معاف کر دینا کہ میں تمھارے باغ میں بغیر اجازت کے داخل ہو گیا ، اس نے کہا سرکار ! یہ تو آپ بربنائے شفقت و کرم فرما رہے ہیں ورنہ میں خود ہی آپ کا غلام ہوں۔

فرمایا یہ بتاؤ کہ آدھی روٹی کتے کو کیوں ڈال رہے تھے ؟ عرض کی یہ میری طرف دیکھ رہا تھا تو مجھے حیا آئی کہ میں اکیلے کھالوں اور پھر یہ آپ کا کتا ہے اور میں آپ کا غلام اور دونوں کا کام باغ کی حفاظت ہے لہذا دونوں نے برابر سے مل کر کھا لیا۔

حضرت یہ سن کر رونے لگے اور فرمایا تجھے راہ خدا میں آزاد کر دیا اور دو ہزار درہم بھی عطا کئے، غلام نے کہا جب حضور نے آزاد کر دیا ہے تو کم از کم باغ میں رہنے کی اجازت تو دیجیئے؟ فرمایا مرد وہی ہے جس کے قول و فعل میں فرق نہ ہو، جب میں نے تجھ سے کہہ دیا کہ تیرے باغ میں بلا اجازت داخل ہوا ہوں تو اب یہ باغ بھی تیرا ہے۔

صرف یہ میرے اصحاب میرے ساتھ پھل کھانے آئے ہیں تو انہیں اپنا مہمان بنا لے اور ان کا اکرام کرتا کہ خدا روز قیامت تیرا اکرام کرے اور تیرے حسن اخلاق میں برکت عنایت کرے۔

غلام نے عرض کی جب آپ نے باغ مجھے ہبہ کر دیا ہے تو میں نے اسے آپ کے شیعوں اور چاہنے والوں کے لئے وقف کر دیا ہے۔

حسن بصری کہتے ہیں کہ مرد مومن کا کردار ایسا ہی ہونا چاہیئے اور اولاد رسول کے نقض قدم پر چلنا چاہیئے۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی ۱ ص ۱۵۳)۔

۶۹۲۔ ابوحمزہ الثمالی ! میں نے امام زین العابدین (ع) کو اپنی کنیز سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے دروازہ سے جو سائل بھی گذرجائے اسے کھانا کھلادینا کہ آج جمعہ کا دن ہے، تو میں نے عرض کی کہ تمام سائل مستحق نہیں ہوتے ہیں ، فرمایا میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کسی مستحق کو دروازہ سے واپس کردوں اور وہ بلاء نازل ہو جائے جو حضرت یعقوب پر نازل ہوئی تھی۔( علل الشرائع ۴۵/۱)۔

۴۹۳۔ امام باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) قطع تعلق کرنے والوں سے صلۂ رحم کرتے ہیں اور برائی کرنے والوں کے ساتھ احسان کرتے ہیں اور اس میں حسن عاقبت سمجھتے ہیں۔(کافی ۲ ص ۴۸۸ / ۱ از احمد بن محمد بن ابی نصر عن الرضا (ع) )۔

۶۹۴۔ امام صادق (ع) ! میرے والد کے پاس مال بہت کم تھا اور ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں اور ہر جمعہ کو ایک دینار صدقہ میں دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جمعہ کے دن کا صدقہ اسی اعتبار سے فضیلت رکھتا ہے جس طرح جمعہ کو باقی دنوں پر فضیلت حاصل ہے۔( ثواب الاعمال ۲۰/۱ روایت عبداللہ بن بکیر)۔

۶۹۵۔ سلمیٰ کنیز امام محمد باقر (ع) ! جب حضرت کے پاس برادران مومنین آتے تھے تو بہترین کہائے بغیر اور بہترین لباس پہنے بغیر نہیں جاتے تھے، اور دراہم اوپر سے دیے جاتے تھے، میں نے حضرت سے گزارش کی کہ اس بخشش میں کچھ کمی کر دیں تو فرمایا سلمیٰ ، دنیا کی نیکی صرف اس میں ہے کہ اس سے برادران ایمانی اور جان پہچان والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔( کشف الغمہ ۲ ص ۳۳۰، الفصول المہمہ ص ۲۱۲)۔

۶۹۶۔ حسن بن کثیر ! میں نے امام ابوجعفر محمد (ع) بن علی (ع) سے بعض ضروریات کے لئے شکایت کی تو فرمایا بدترین بھائی وہ ہے جو دولت مندی میں تمھارا خیال رکھے اور غربت میں قطع تعلق کر لے، اس کے بعد غلام کو اشارہ کیا اور وہ سات سو درہم کی تھیلی لے کر آیا، آپ نے فرمایا کہ موجودہ حالات میں انہیں دراہم کو استعمال کرو، اس کے بعد جب یہ خرچ ہو جائیں تو اطلاع کرنا۔( ارشاد ۲ ص۱۶۶ ، روضة الواعظین ص ۲۲۵ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۲۰۷)۔

۶۹۷۔ ہشام بن سالم ! امام جعفر صادق (ع) رات کا ایک حصہ گذر جانے کے بعد ایک ظرف میں روٹی ، گوشت اور کچھ درہم اپنے کاندھے پر رکھ کر نکلتے تھے اور مدینہ کے تمام مساکین کے دروازہ پر جا کر تقسیم کر دیا کرتے تھے اور کسی کو علم بھی نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ جب حضرت کا انتقال ہو گیا اور کوئی دروازہ پر نہ آیا تو اندازہ ہوا کہ یہ شخص امام جعفر صادق (ع) تھے۔( کافی ۴ ص ۸ /۱)۔

۶۹۸۔ معلی بن خنیس ! امام جعفر صادق (ع) ایک رات میں بیت الشرف سے برآمد ہوئے، بارش ہو رہی تھی اور آپ بنی ساعدہ کے چھتہ کی طرف جا رہے تھے اتفاق سے راستہ میں کوئی چیز گر گئی ، آپ نے دعا کی خدایا، ہماری چیز کو ہم تک پلٹا دینا ، میں نے سلام کیا ، فرمایا معلیٰ ؟

میں نے عرض کی سرکار ! حاضر ہوں میری جان قربان، فرمایا ذرا ہاتھوں سے تلاش کرو اور جو کچھ مل جائے میرے حوالہ کر دو۔

میں نے دیکھا کہ بہت سی روٹیاں بکھری پڑی ہیں ، میں نے سب اٹھا کر حضرت کو دے دیں ، مگر دیکھا کہ ٹوکری کابوجھ اتنا ہے کہ میں نہیں اٹھا سکتا ہوں ، میں نے عرض کیا لائیے میں اسے سر پر اٹھالوں ، فرمایا نہیں ، یہ میرا اپنا کام ہے ، بس تم میرے ساتھ رہو۔

میں ساتھ چلا ، جب بنی ساعدہ کے چھتہ میں پہنچا تو دیکھا کہ فقراء کی ایک جماعت سورہی ہے ، آپ نے سب کے سرھانے روٹیاں رکھنا شروع کر دیں اور جب کام تمام ہو گیا تو میں نے سوال کیا : کیا یہ لوگ حق کو پہچانتے ہیں ، فرمایا اگر حق کو پہچانتے ہوتے تو اس سے زیادہ ہمدردی کرتا۔( کافی ۴ ص ۸ /۳ ، ثواب الاعمال ۱۷۳ / ۲ مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۷۵)۔

۶۹۹۔ ابوجعفر الخثعمی ! امام جعفر صادق (ع)نے ایک تھیلی میں پچاس دینار رکھ کر مجھے دیے کہ بنی ہاشم میں فلاں شخص کو پہنچا دینا لیکن یہ نہ بتانا کہ کس نے دیے ہیں ، میں لے کر گیا اور دے دیا تو اس شخص نے کہا کہ یہ کس نے بھیجے ہیں۔ خدا اسے جزائے خیر دے کہ برابر رقم بھیجتا رہتا ہے اور میرا گذرا ہو رہا ہے۔ ورنہ جعفر کے پاس اس قدر پیسہ ہے اور مجھے کچھ نہیں دیتے ہیں ؟ (امالی الطوسی ص ۶۷۷ / ۱۴۳۳، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۲۷۳)۔

۷۰۰۔ الہیاج بن بسطام ! حضرت جعفر بن محمد (ع) اس قدر لوگوں کو کھلاتے تھے کہ گھر والوں کے لئے کچھ نہ بچتا تھا۔( حلیة الاولیاء ۳ ص ۱۹۴ ، تذکرة الخواص ص ۳۴۲ ، سیر اعلام النبلاء ۶ ص ۲۶۲ ، کشف الغمہ ۲ ص ۳۶۹ ، مناقب ابن شہر آشوب۴ ص ۲۷۳ ، احقاق الحق ۱ ص ۵۱۰)۔

۷۰۱۔ امام کاظم (ع) ! ہم سب علم اور شجاعت میں ایک جیسے ہیں اور عطایا میں بقدر امر الہی عطا کرتے ہیں۔( کافی ۱ ص ۲۷۵ / ۲ ، بصائر الدرجات ص ۴۸۰ / ۳ روایت علی بن جعفر )۔

۷۰۲۔الیسع بن حمزہ ! ہم لوگ امام رضا (ع) کی محفل میں باتیں کر رہے تھے اور بے شمار لوگ حلال و حرام کے مسائل دریافت کر رہے تھے کہ ایک لمبا سا نو لا شخص وارد ہو اور اس نے کہا السلام علیک یابن رسول اللہ ! میں آپ کا اور آپ کے آباء و اجداد کا دوست ہوں ، حج سے واپس آ رہا ہوں میرا سارا سرمایہ ختم ہو گیا ہے۔ اب گھر تک پہنچنے کا وسیلہ بھی نہیں ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ مجھے شہر تک پہنچا دیں۔ میں اس قدر رقم خیرا ت کردوں گا جتنی آپ مجھ پر صرف کریں گے اس لئے کہ میں مستحق صدقہ نہیں ہوں۔

آپ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ، خدا تم پر رحم کرے۔

اس کے بعد آپ لوگوں سے باتیں کرنے لگے، یہاں تک تمام لوگ اپنا کام ختم کر کے چلے گئے، صرف امام ، سلیمان ، جعفر بن خیثمہ اور میں باقی رہ گئے آپ نے فرمایا، اجازت ہے کہ میں گھر کے اندر جاؤں ! سلیمان نے کہا کہ آپ خود صاحب اختیار ہیں۔

آپ اٹھ کر حجرہ میں تشریف لے گئے اور ایک ساعت کے بعد دروازہ سے ہاتھ نکال کر فرمایا وہ خراسانی کہاں ہے، اس نے عرض کی کہ میں حاضر ہوں ! فرمایا یہ دو سو دینار لے لے اور اپنے ضروریات میں صرف کر اور اسے برکت قرار دے اور اس کے مقابلہ میں صدقہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اب گھر سے باہر چلا جاتا کہ نہ میں تجھے دیکھوں اور نہ تو مجھے دیکھے۔ اس کے بعد آپ باہر تشریف لائے تو سلیمان نے کہا کہ حضور اس قدر کثیر رقم دینے کے بعد منھ چھپانے کی کیا وجہ ہے ! فرمایا کہ میں اس کے چہرہ پر سوال کی ذلت کا اثر نہیں دیکھ سکتا ہوں ، کیا تم لوگوں نے رسول اکرم کا یہ ارشاد نہیں سنا ہے کہ چھپا کر ایک نیکی کرنا ستر حج کے برابر ہے اور برائی کا اعلام کرنے والا سوا ہوتا ہے لیکن اسے بھی چھپا کر کرنے والا مغفرت کا امکان رکھتا ہے ( کیا تم نے بزرگوں کا یہ مقولہ نہیں سنا ہے کہ جب میں کسی ضرورت سے ان کے دروازہ پر جاتا ہوں تو اس شان سے واپس آتا ہوں کہ میری آبرو برقرار رہتی ہے۔( کافی ۴ص ۲۳ / ۳)۔

۷۰۳۔ محمد بن عیسیٰ بن زیاد ! میں نے ابن عباد کے دربار میں پہنچ کر دیکھا کہ ایک کتاب نقل کر رہے ہیں ، میں نے دریافت کیا کہ یہ کونسی کتاب ہے؟

کہا یہ امام رضا (ع) کا مکتوب ہے ان کے فرزند کے نام۔! میں نے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ یہ مجھے بھل مل جائے، ان لوگوں نے دے دیا تو میں نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہے ’ بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘ فرزند ! خدا تمہیں طول عمر عنایت کرے اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے، میں تمھارے قربان ! میں نے اپنی زندگی میں اپنا سارا مال تمھارے حوالہ کر دیا ہے کہ شائد خدا تم پر یہ کرم کرنے کے تم قرابتداروں کے ساتھ صلۂ رحم کرو اور حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت جعفر (ع) کے غلاموں کے کام آؤ؟ پروردگار کا ارشاد ہے ، کون ہے جو خدا کو قرض حسنہ دے گا کہ وہ دگنا چوگنا کر دے۔( بقرہ ۲۴۵)۔

جس کے پاس وسعت ہے اس پر فرض ہے کہ اس میں سے انفاق کرے اور جو تنگی کا شکار ہے اسے بھی چاہیئے کہ جس قدر ہے اس میں سے انفاق کرے۔( سورہ طلاق ص ۷)۔

خدا نے تمہیں وسعت دی ہے… فرزند تم پر تمھارا باپ قربان … (تفسیر عیاشی ۱ ص ۱۳۱ / ۴۳۶)۔

۷۰۴۔ احمد بن محمد بن ابی نصر بزطنی، میں نے امام رضا (ع) کا وہ مکتوب پڑھا ہے جو امام جواد (ع) کے نام تھا اور جس کا مضمون یہ تھا’ ابوجعفر ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تمھارے موالی تمھیں چھوٹے دروازہ سے باہر لے جاتے ہیں تا کہ لوگ تم سے استفادہ نہ کرسکیں ، یہ ان کے بخل کا نتیجہ ہے ، خبردار ، تمھیں میرے حق کا واسطہ جو تمھارے ذمہ ہے کہ آئندہ تمھارا داخلہ اور خارجہ بڑے دروازہ سے ہونا چاہیئے اور جب سواری باہر نکلے تو تمھارے ساتھ سونے چاندی کے سکہ ہونے چاہئیں اور کوئی بھی آدمی سوال کرے تو اسے محروم نہ کرنا ، اور اگر رشتہ داروں میں کوئی مرد سوال کرے تو پچاس دینار سے کم نہ دینا، زیادہ کا تمھیں اختیار ہے اور اگر کوئی خاتون سوال کرے تو ۲۵ دینار سے کم نہ دینا اور زیادہ تمھارے اختیار میں ہے، میرا مقصد یہ ہے کہ خدا تمھیں بلندی عنایت فرمائے، دیکھو راہ خدا میں خرچ کرو اور خدا کی طرف سے کسی افلاس کا خوف نہ پیدا ہونے پائے(کافی ۴ ص ۴۳ / ۵، عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۸ / ۲۰ ، شکوة الانوار ص ۲۳۳)۔

۷۰۵۔ عبداللہ علی بن عیسیٰ۔ امام جواد (ع) کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ اپنی مروت کے برابر عنایت فرمائیے، فرمایا یہ میرے امکان سے باہر ہے، اس نے کہا پھر میری اوقات کے برابر عنایت فرمائیے؟ فرمایا یہ ممکن ہے اور یہ کہہ کر غلام کو آواز دی کہ اسے سو دینار دے دو۔( کشف الغمہ ۳ ص ۱۵۸)۔

سیرت اہلبیت (ع) خدام کے ساتھ

۷۰۶۔ انس ! جب رسول اکرم وارد مدینہ ہوئے تو آپ کے پاس کوئی خاتم نہ تھا، ابوطلحہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور حضور کے پاس لے گئے ، کہا کہ سرکار ! یہ انس ہوشیار بچہ ہے، یہ آپ کی خدمت کرے گا، جس کے بعد میں سفر و حضر میں ہمیشہ حضور کے ساتھ رہا لیکن نہ کسی کام کے کرنے پر یہ فرمایا کہ ایسا کیوں کیا … اور نہ ترک کرنے پر فرمایا کہ ایسا کیوں نہیں کیا ؟ (صحیح مسلم ۴ ص ۱۸۰۵ / ۲۳۰۹ ، مسند ابن حنبل ۴ ص ۲۰۳/۱۹۸۸، الطبقت الکبریٰ ۷ ص ۱۹)۔

واضح رہے کہ صحیح بخاری ۳ص ۱۰۱۸ / ۲۶۱۶ میں دس سال خدمت کرنے کا ذکر ہے اور صحیح مسلم میں ۹ سال۔

۷۰۷۔ بکیر ! میں نے ام سلمہ کے غلام مہاجر کی زبان سے سنا ہے کہ میں نے دس سال ، یا پانچ سال ، رسول اکرم کی خدمت کی ہے، لیکن نہ کسی کام کے کرنے پر ٹوکا اور نہ ترک کرنے پر۔!( اسدالغابہ ۵ ص ۲۶۶ / ۱۵۳۷ )۔

۷۰۸۔ انس ! رسول اکرم اخلاق کے اعتبار سے ساری کائنات سے بہتر تھے۔ ایک دن مجھے ایک کام سے بھیجا تو میں نے کہا کہ میں نہیں جاؤ گا حالانکہ میرے دل میں یہ تھا کہ جب رسول خدا نے حکم دیا ہے تو بہر حال جانا ہے۔

میں گھر سے نکلا تو راستہ میں بچے کھیل رہے تھے، میں ادھر چلا گیا ایک مرتبہ دیکھا کہ حضرت پشت سے میری گردن پکڑے ہوئے ہیں ، میں نے مڑ کر دیکھا تو مسکرار ہے تھے، فرمایا میں نے جہاں بھیجا تھا گئے؟ میں نے عرض کی جی ہاں ، اب جا رہا ہوں۔( صحیح مسلم ۴ ص ۱۸۰۵ ۲۳۱۰)۔

۷۰۹۔ زیاد بن ابی زیاد نے رسول اکرم کے ایک خادم کے حوالہ سے نقل کیا ہے، کہ حضور نوکروں سے بھی پوچھا کرتے تھے کوئی ضرورت تو نہیں ہے۔( مسند احمد بن حنبل ۵ ص ۲۳۹ / ۱۶۰۷۶ ، مجمع الزوائد ۲ ص ۵۱۵ / ۳۵۰۳)۔

۷۱۰۔ ابوالنوار ، کرباس بیچنے والا راوی ہے کہ حضرت علی (ع) ایک غلام کو لے کر میری دکان پر آئے اور دو پیراہن دکھلا کر فرمایا کہ جو پسند ہو وہ لے لو، اس نے ایک لے لیا اور دوسرا بچا ہوا حضرت نے لے لیا ، اس کے بعد ہاتھ بڑھا کر کہا کہ آستین جس قدر لمبی ہے اسے کم کر دیجئے، آپ نے کم کر دی اور وہ پہن کر چلا گیا ،( فضائل الصحابہ ابن حنبل ۱ ص ۵۴۴ / ۹۱۹ ، اسدالغابہ ۴ ص ۹۷ ) شرح نہج البلاغہ معتزلی ۹ ص ۲۳۵)۔

۷۱۱۔ابومطر البصری ! امیر المومنین (ع) سوق الکرابیس میں داخل ہوئے اور ایک دکاندار سے پوچھا پانچ درہم میں دو کپڑے مل سکتے ہیں ، اس نے مڑ کر دیکھا کہا یا امیر المومنین (ع) بیشک مل سکتے ہیں ، آپ نے دیکھا کہ اس نے پہچان لیا ہے تو آگے بڑھ گئے اور نہیں لیا، دوسری جگہ ایک غلام کو بیچتے دیکھا اس سے سوال کیا ، اس نے کہا بیشک ممکن ہے، ایک اچھا ہے وہ تین درہم کا ہے اور دوسرا قدرے معمولی ہے وہ دو درہم کا ہے آپ نے قنبر سے فرمایا کہ تین درہم و الا تم لے لو، قنبر نے عرض کی حضور ! یہ آپ کا حق ہے، فرمایا تم جو ان ہو اور جوانی میں زینت کی خواہش ہوتی ہے، مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے کہ تم سے بہتر لباس پہنوں جبکہ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ ، غلاموں کو وہی کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو، اس کے بعد آپ نے دوسرا والا پہن لیا اور جب آستین لمبی نظر آئی تو اسے کٹوا دیا لیکن کنارہ سلوانے کی زحمت نہیں کی اور فرمایا کہ معاملہ اس سے زیادہ عجلت کا ہے۔( الغارات ۱ ص ۱۰۶)۔

۷۱۲۔ ابومطر البصری ! حضرت علی (ع) نے ایک غلام کو کئی بار آواز دی لیکن اس نے لبیک نہیں کہی اور جب گھر سے باہر نکلے تو دیکھا کہ وہ دروازہ پر موجود ہے، فرمایا کہ تو نے میری آواز پر آواز کیوں نہیں دی ؟ اس نے کہا کہ ایک تو کاہلی تھی اور دوسرے یہ آواز پر آواز کیوں نہیں دی ؟ اس نے کہا کہ ایک تو کاہلی تھی اور دوسرے یہ کہ آپ سے سزا کا کوئی خطرہ نہیں تھا، یہ سن کر حضرت نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ لوگ میری طرف سے اپنے کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور اس کے بعد اسے راہ خدا میں آزاد کر دیا۔( مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۱۳۳ ، الفخری ص ۱۹)۔

۷۱۳۔ انس ! میں امام حسین (ع) کی خدمت میں تھا آپ کی ایک کنیز نے ایک پھولوں کا گلدستہ آپ کو تحفہ میں پیش کیا اور آپ نے اسے راہ خدا میں آزاد کر دیا، میں نے عرض کیا کہ ایک گلدستہ کی قیمت اس قدر نہیں ہے کہ اسے آزاد کر دیا جائے، فرمایا یہ پروردگار کا سکھلایا ہوا ادب ہے کہ جب تمھیں کوئی تحفہ دیا جائے تو اس سے بہتر واپس کرو اور ظاہر ہے کہ اس بہتر اس کی آزادی ہی ہوسکتی تھی۔

(نثر الدر ر ۱ ص ۳۳ ، نزہة الناظر ۸۳ / ۸ ، کشف الغمہ ۲ ص ۲۴۳ ، احقاق الحق ۱۱ ص ۴۴۴)۔

۷۱۴۔ امام صادق (ع) ! میں نے رسول اکرم کی کتاب میں دیکھا ہے کہ جب اپنے غلام سے کوئی ایسا کام لو جو اس کے بس کا نہیں ہے تو خود بھی اس کے ساتھ شریک ہو جاؤ اور میرے پدر بزرگوار کا یہی طریقہ تھا کہ وہ غلاموں کو کام دینے کے بعد صورت حال کا جائزہ لیتے تھے ، اگر دیکھا کام مشکل ہے تو شریک ہو جاتے تھے ورنہ الگ ہو جاتے تھے۔( اللزہد للحسین بن سعید ۴۴ / ۱۱۷ روایت بداؤد بن فرقد)۔

۷۱۵۔ حفص بن ابی عائشہ ! امام صادق (ع) نے کسی غلام کو کسی کام کے لئے بھیجا اور اس نے دیر لگائی تو آپ اس کی تلاش میں نکل پڑے، دیکھا کہ ایک مقام پر سورہا ہے، آپ اس کے سرھانے کھڑے رہے اور پنکھا جہلتے رہے یہاں تک کہ اس کی آنکھ کھل گئی ، وہ دہشت زدہ ہو گیا ، حضرت نے فرمایا کہ دیکھو دن رات سونا اصول کے خلاف ہے، رات تمھارے لئے ہے اور دن ہمارے لئے۔( کافی ۸ ص ۷۸ / ۵۰ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۲۷۴)۔

۷۱۶۔ سفیان ثوری امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ کے چہر ہ کا رنگ بدلا ہوا ہے ، سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ میں نے گھر والوں کو چھت پر جانے سے منع کیا تھا لیکن میری ایک کنیز ایک بچہ کو لے کر اوپر چڑھ گئی اور جب دیکھنے گیاتو اس قدر گھبرائی کہ بچہ اس کے ہاتھ سے گر کر مرگیا۔

اس وقت میری پریشانی بچہ کی موت کی طرف سے نہیں ہے، اپنے رعب کی طرف سے ہے کہ لوگ مجھ سے اس قدر خوف کھاتے ہیں ، حالانکہ حضرت اس سے پہلے اس کنیز کو اطمینان دلا چکے تھے اور اسے راہ خدا میں آزاد کر چکے تھے۔( مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۲۷۴)۔

۷۱۷۔ یاسر خادم امام رضا (ع) ! امام رضا (ع) کا طریقہ تھا کہ لوگوں کے جانے کے بعد تمام چھوٹے بڑے خدام کو مع کرتے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے بلکہ سائس اور حجام کو بھی اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا لیا کرتے تھے۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۱۵۹ ، حلیة الابرار ۳ ص ۲۶۶)۔

۷۱۸۔ نادر خادم ! امام رضا (ع) کا دستور تھا کہ ہم لوگ جب تک کھانا کھاتے رہتے تھے ہم سے کسی کام کے لئے نہیں فرماتے تھے ( کافی ۶ ص ۲۹۸ /۱۱)۔

۷۱۹۔ یاسر و نادر ! امام رضا (ع) کا حکم تھا کہ اگر میں تمھارے سامنے اس وقت آ جاؤں جب تم کھانا کھارہے ہو تو اس وقت تک کھڑے نہ ہونا جب تک کھانا ختم نہ ہو جائے بلکہ بعض اوقات آپ کسی کو آاوز دیتے تھے اور اگر کہہ دیا کہ وہ کھانا کھارہا ہے، تو فرماتے تھے رہنے دو جب تم تمام نہ ہو جائے۔ ( کافی ۶ ص ۲۹۸ / ۱۰ ، المحاسن ۲ ص ۱۹۹ / ۱۵۸۳)۔

۷۲۰۔ عبداللہ بن المصلت ایک مرد بلخی کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں سفر خراسان میں امام رضا (ع) کے ساتھ تھا، ایک دن دستر خوان پر آپ نے تمام سیاہ و سفید غلاموں کو جمع کر لیا تو میں نے کہا کہ میں آپ پر قربان، کاش آپ انہیں الگ کھلا دیتے، فرمایا خبردار، خدا سب کا ایک ہے اور مادر و پدر ( آدم و حوا) بھی ایک ہیں اور جزا کا تعلق صرف اعمال سے ہے۔( کافی ۸ ص ۲۳۰ / ۲۹۶)۔

جامع مکارم اخلاق

۷۲۱۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم کی توصیف کرتے ہوئے… آپ سب سے زیادہ سخی و کریم، سب سے زیادہ وسیع الصدر ، سب سے زیادہ صادق اللہجہ، سب سے زیادہ نرم دل اور سب سے بہتر معاشرت رکھنے والے تھے، انسان پہلی مرتبہ دیکھتا تو ہیبت زدہ ہو جاتا تھا اور ساتھ رہ جاتا تھا تو محبت کرنے لگتا تھا۔( سنن ترمذی ۵ ص ۵۹۹ / ۳۶۳۸ از ابراہیم بن محمد)۔

۷۲۲۔ امام حسن (ع) ! میں نے اپنے خال ہند بن ابی ہالہ التمیمی سے دریافت کیا کہ پیغمبر اسلام کی گفتگو کے بارے میں کچھ بتائیں تو انھوں نے کہا کہ حضرت ہمیشہ رنجیدہ رہتے تھے، فکر میں غرق رہتے تھے ، کبھی آپ کے لئے راحت نہ تھی لیکن بلاضرورت بات نہیں کرتے تھے اور دیر تک ساکت رہا کرتے تھے ، کلام اس طرح کرتے تھے کہ پورا منھ نہیں کھولتے تھے، نہایت جامع کلمات استعمال کرتے تھے جس میں ہر کلمہ حرف آخر ہوتا تھا کہ نہ فضول اور نہ کوتاہ، اخلاق انتہائی متوازن کہ نہ بالکل خشک اور نہ بالکل جبروت نعمتیں معمولی بھی ہوں تو ان کا احترام کرتے تھے اور کسی شے کی مذمت نہیں کرتے تھے، کسی ذائقہ کی نہ مذمت کرتے تھے اور نہ تعریف ، دنیا اور امور دنیا کے لئے غصہ نہیں کرتے تے لیکن حق پر آنچ آ جاتی تھی تو پھر کوئی آپ کو نہیں پہچانتا تھا او رجب کسی غضب کیلئے اٹھ جاتے تھے تو بغیر کامیابی کے بیٹھتے بھی نہیں تھے، لیکن اپنے معاملہ میں نہ غصّہ کرتے تھے اور نہ بدلہ لیتے تھے، جب کسی کی طرح اشارہ کرتے تھے تو پوری ہتھیلی سے ، تعجب کا اظہار کرتے تھے تو اسے الٹ دیتے اور بات کرتے تھے تو اسے ملا لیتے تھے اور داہنی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے دبا تے تھے، ناراض ہوتے تھے تو بالکل قطع تعلق کر لیتے تھے اور خوش ہوتے تھے تو نظریں نیچی کر لیتے تھے، خوشی میں اکثر اوقات صرف تبسم فرماتے تھے اور دندان مبارک موتیوں کی طرح نظر آتے تھے۔( دلائل النبوة بیہقی ۱ ص ۲۸۶ ، شعب الایمان ۲ ص ۱۵۴ / ۱۴۳۰ ، الطبقات الکبریٰ ۱ ص ۲۲۲ ، تہذیب الکمال ۱ ص ۲۱۴ ، عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۳۱۷ /۱ ، معانی الاخبار ۸۱ / ۱ روایت اسماعیل بن محمد بن اسحاق ، مکارم الاخلاق ۱ ص ۴۳ / ۱ از کتاب محمد بن ابراہیم بن اسحاق ، حلیة الابرار ۱ ص ۱۷۱)۔

۷۲۳۔ امام حسین (ع) ! میں نے اپنے پدر بزرگوار سے رسول اکرم کی مجلس کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہمیشہ ذکر خدا کے ساتھ ہوتا تھا، جہاں دوسروں کو رہنے سے منع کرتے تھے وہاں خود بھی نہیں رہتے تھے، کسی قوم کیساتھ بیٹھ جاتے تھے تو آخر مجلس تک بیٹھے رہتے تھے اور اسی بات کا حکم بھی دیتے تھے ، تمام ساتھ بیٹھنے والوں کو ان کا حق دیتے تھے اور کسی کو یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ دوسرے کا مرتبہ زیادہ ہے۔کسی کی ضرورت میں اس کے ساتھ اٹھتے یا بیٹھتے تھے تو جب تک وہ خود نہ چلا جائے آپ الگ نہیں ہوتے تھے، اگر کوئی شخص کسی حاجت کا سوال کرتا تھا تو اسے پورا کرتے تھے یا خوبصورتی سے سمجھا دیتے تھے ، کشادہ روئی اور اخلاق میں تمام لوگوں کو حصہ دیتے تھے یہاں تک کہ آپ کی حیثیت ایک باپ کی تھی اور تمام لوگ حقوق میں برابر کی حیثیت کے مالک تھے، آپ کی مجلس حلم، حیاء ، صبر اور امانت کی مجلس تھی جہاں نہ آوازیں بلند ہوتی تھیں ، نہ کسی کو برا بھلا کہا جاتا تھا، نہ کسی غلطی کا مذاق اڑایا جاتا تھا ، سب برابر کا درجہ رکھتے تھے فضیلت صرف تقویٰ کی بنا پر تھی ، سب متواضع افراد تھے، بزرگوں کا احترام ہوتا تھا، بچوں پر مہربانی ہوتی تھی ، حاجت مندوں کو مقدم کیا جاتا تھا اور مسافروں کا تحفظ کیا جاتا تھا۔

میں نے عرض کی کہ ہم نشینوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ کیسا تھا؟ فرمایا ہمیشہ کشادہ دل رہتے تھے، اخلاق میں سہل ، طبیعت میں نرم ، نہ ترش رو  بد خلق ، نہ حرف بد کہنے والے ، نہ عیب نکالنے والے، نہ بے تکا مذاق کرنے والے ، جس چیز کو نہیں چاہتے تھے اس سے چشم پوشی فرماتے تھے، نہ مایوس ہوتے تھے اور نہ اظہار محبت فرماتے تھے ، تین چیزوں کو اپنے سے الگ رکھتے تھے ، بیجا بحث ، زیادہ گفتگو، بے مقصد کلام، اور تین چیزوں سے لوگوں کے بارے میں پرہیز فرماتے تھے، نہ کسی کی مذمت اور سرزنش کرتے تھے، نہ کسی کے اسرار کی جستجو فرماتے تھے اور نہ امید ثواب کے بغیر کسی موضوع میں گفتگو فرماتے تھے، جب بولتے تھے تو لوگوں اس طرح خاموش سر جھکا لیتے تھے جیسے سروں پر طائر بیٹھے ہوں اور جب خاموش ہو جاتے تھے تو لوگ بات کرتے تھے لیکن جھگڑا نہیں کرسکتے تھے ، کوئی شخص کوئی بات کرتا تھا و سب سنتے تھے جب تک بات ختم نہ ہو جائے، ہر ایک کو بات کہنے کا موقع ملتا تھا اور سب ہنستے تھے تو آپ بھی مسکراتے تھے اور سب تعجب کرتے تھے تو آپ بھی اظہار تعجب کرتے تھے، کوئی اجنبی بے تکی بات کرتا تھا یا غلط سوال کرتا تھا تو اسے برداشت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جب کی حاجت مند کو سوال کرتے دیکھو تو عطا کرو، مسلمان کے علاوہ کسی سے تعریف پسند نہیں فرماتے تھے کسی کی بات کو قطع نہیں فرماتے تھے اور جب وہ حد سے تجاوز کرتا تو منع فرماتے یا کھڑے ہو کر بات ختم کر دیتے تھے۔( دلائل النبوة بیہقی ۱ ص ۲۹۰)۔

۷۲۴۔ معاویہ بن وہب امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ حضور نے ابتدائے بعثت سے آخر عمر تک کبھی ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھایا اور نہ کسی شخص کے سامنے پیر پھیلا کر بیٹھے، مصافحہ کرتے تھے تو اس وقت تک ہاتھ نہیں کھینچتے تھے جب تک وہ خود نہ کھینچ لے ، کسی کی برائی پر اسے برائی سے بدلہ نہیں دیا کہ پروردگار نے فرما دیا تھا کہ برائی کا دفاع اچھائی سے کرو، کسی سائل کو رد نہیں فرمایا، کچھ تھا تو دے دیا ورنہ کہا انتظار کرو اللہ دے گا ، اللہ کے نام پر جو کہہ یا خدا نے اسے پورا کر دیا یہاں تک کہ جنت کا بھی وعدہ کر لیتے تو خدا پورا کر دیتا۔( کافی ۸ ص ۱۶۴ / ۱۷۵)۔

۷۲۵۔خارجہ بن زید ! ایک جماعت میرے والد زید بن ثابت کے پاس آئی اور اس نے سوال کیا کہ ذرا رسول اکرم کے اخلاق پر روشنی ڈالیں ؟ تو انھوں نے کہا کہ میں آپ کے ہمسایہ میں تھا، جب وحی کا نزول ہوتا تھا تو مجھے لکھنے کے لئے طلب فرمایا کرتے تھے اور میں لکھ دیا کرتا تھا، اس کے بعد ہم لوگ دینا ، دین یا کھانے پینے کی جو گفتگو کرتے تھے آپ ہمارے ساتھ شریک کلام رہا کرتے تھے …( السنن الکبری ۷ ص ۸۳ / ۱۳۳۴۰)۔

۷۲۶۔ ابن شہر آشوب ! رسول اکرم کے پاس جب بھی کوئی شخص آتا تھا اور آپ نماز میں مصروف ہوتے تھے تو نماز کو مختصر کر کے اس سے دریافت کرتے تھے کیا کوئی ضرورت ہے؟( مناقب ۱ ص ۱۴۷)۔

۷۲۷۔ جابر بن عبداللہ ! رسول اکرم سفر میں ہمیشہ پیچھے رہا کرتے تھے تا کہ کمزور کو سہارا دے سکیں اور اپنے ساتھ سوار کرسکیں۔( السنن الکبریٰ ۵ ص ۴۲۲ / ۱۰۳۵۲)۔

۷۲۸۔ ابوامامہ سہل بن حنیف الانصاری ، بعض اصحاب رسول کی زبان سے نقل کرتے ہیں کہ آپ مسلمانوں کے مریضوں کی عیادت اور کمزوروں کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے، جنازہ میں شرکت کرتے تھے اور خود نماز جنازہ ادا کرتے تھے، ایک مرتبہ عوالی کی ایک غریب عورت بیمار ہو گئی آپ برابر اس کا حال دریافت کرتے رہے اورفرمایا کہ اگر اس کا انتقال ہو جائے تو میرے بغیر دفن نہ کرنا ، میں اس کے جنازہ کی نماز پڑھاؤں گا۔

اتفاق سے اس کا ا نتقال رات میں ہوا اور لوگ جنازہ کو مسجد رسول کے پاس لے آئے لیکن جب دیکھا کہ حضور آرام فرمارہے ہیں تو جگانے کے بجائے نماز پڑھ کر دفن کر دیا، دوسرے دن جب رسول اکرم نے خیریت پوچھی تو صورت حال بیان کی گئی ، آپ نے فرمایا کہ ایسا کیوں کیا ؟ اچھا اب میرے ساتھ چلو، سب کو لے کر قبرستان پہنچے اور قبر باقاعدہ نماز جنازہ ادا فرمائی اور چار تکبیریں کہیں۔( السنن الکبر یٰ ۴ ص ۷۹ / ۷۰۱۹)۔

۷۲۹۔انس ! رسول اکرم سب سے زیادہ لوگوں پر مہربان تھے، سردی کے زمانہ میں بھی چھوٹے بڑے ، غلام و کنیز سب کے لئے پانی فراہم کرتے تھے تا کہ سب منھ ہاتھ دھولیں ، جب کوئی شخص کوئی سوال کرتا تھا تو سنتے تھے اور اس وقت تک منھ نہ پھیرتے تھے جب تک وہ خود نہ چلا جائے ، جب کسی شخص نے ہاتھ پکڑنے کا ارادہ کیا تو ہاتھ دے دیا اور اس وقت تک نہ چھڑا یا جب تک اس نے خود نہ چھوڑ دیا۔ ( حلیة الاولیاء ۳ص ۲۶)۔

۷۳۰۔ امام علی (ع)! پروردگار کریم ، حلیم ، عظیم اور رحیم ہے اس نے اپنے اخلاق کی رہنمائی کی ہے اور اس اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور لوگوں کو آمادہ کیا ہے تو ہم نے اس امانت کو لوگوں تک پہنچا دیا اور بلاکسی نفاق کے اس پیغام کو ادا کر دیا اور اس کی تصدیق کی اور بلاکسی شک و شبہہ کے اسے قبول کر لیا(تحق العقول ص ۱۷۵ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۹ روایت کمیل)۔

۷۳۱۔ امام علی (ع)۔ رسول اکرم وہ مظلوم تھے جن کے احسانات کا شکریہ نہیں ادا کیا جاتا تھا حالانکہ آپ کے احسانات قریش ، عرب ، عجم سب کے شامل حال تھے، اور سب سے زیادہ نیکی کرنے والے تھے، یہی حال ہم اہلبیت (ع) کا ہے کہ ہمارے احسانات کا شکریہ نہیں ادا کیا جاتا ہے اور یہی حال تمام نیک مومنین کا ہے کہ وہ نیکی کرتے ہیں لیکن لوگ قدردانی نہیں کرتے ہیں۔( علل الشرائع ۵۶۰ /۳ از حسین بن موسیٰ عن الکاظم (ع) )۔

۷۳۲۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کے سامنے جب بھی حق آ جاتا ہے ہم اس سے متمسک ہو جاتے ہیں۔( مقاتل الطالبین ص ۷۶ از سفیان بن اللیل)۔

۷۳۴۔ مصعب بن عبداللہ ! جب دشمنوں نے چاروں طرف سے امام حسین (ع) کو گھیر لیا تو آپ رکاب فرس پر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خاموش رہنے کی دعوت دی ، اس کے بعد حمد و ثناء الہی کر کے فرمایا کہ مجھے ایک ناتحقیق باپ کے ناتحقیق بیٹے نے دورا ہے پر کھڑا کر دیا ہے کہ یا تلوار کھینچ لوں یا ذلت برداشت کروں اور ذلت برداشت کرنا میرے امکان میں نہیں ہے، اسے نہ خدا پسند کرتا ہے اور نہ رسول اور نہ صاحبان ایمان، نہ پاک و پاکیزہ گودیاں اور طیب و طاہر آباء و اجداد کسی کو یہ برداشت نہیں ہے کہ میں آزاد مردوں کی طرح جان دینے پر ذلیلوں کو اطاعت کو مقدم کروں۔( احتجاج ۲ ص ۹۷ / ۱۶۷)۔

۷۳۵۔ امام زین العابدین (ع) ! پروردگار نے ہمیں حلم، علم ، شجاعت، سخاوت اور مومنین کے دلوں میں محبت کا انعام عنایت فرمایا۔( معجم احادیث المہدی (ع) ۳ ص ۲۰۰ ، منتخب الاثر ۱۷۲ / ۹۶)۔

۷۳۶۔ ابوبصیر ! میں نے امام باقر (ع) سے عرض کی کہ رسول اکرم ہمیشہ بخل سے پناہ مانگا کرتے تھے؟ فرمایا بیشک ہر صبح و شام ہم بھی بخل سے پناہ مانگتے ہیں کہ پروردگار نے فرمایا ہے کہ جو نفس کے بخل سے محفوظ ہو گیا وہی کامیاب ہے۔( علل الشرائع ۵۴۸ / ۴ ، قصص الانبیاء ۱۱۸ / ۱۱۸)۔

۷۳۷۔ امام صادق (ع) ! ہم اہلبیت (ع) جب کسی شخص کے خیر کو خود جان لیتے ہیں تو پھر ہمارے خیال کو لوگوں کی باتیں تبدیل نہیں کرسکتی ہیں۔( بصائر الدرجات ص ۱۳۶۲ از داؤد بن فرقد)۔

۷۳۸۔ حریز ! امام صادق (ع) کی خدمت میں جہینہ کی ایک جماعت وارد ہوئی ، آپ نے باقاعدہ ضیافت فرمائی اور چلتے وقت کافی سامان اور ہدایا بھی دے دیے لیکن غلاموں سے فرما دیا کہ خبردار سامان باندھنے ، سمیٹنے میں ان کی مدد نہ کرنا ، ان لوگوں نے گذارش کی کہ فرزند رسول ! اس قدر ضیافت کے بعد غلاموں کو امداد سے کیوں روک دیا ؟ فرمایا، ہم اپنے مہمانوں کی جانے میں امداد نہیں کرتے ہیں۔( ہمارا منشاء یہی ہوتا ہے کہ مہمان مقیم رہے تا کہ صاحب خانہ میزبانی کی برکتوں سے مستفید ہوتا رہے) ( امالی صدوق ۴۳۷ / ۹ ، روضة الواعظین ص ۲۳۳)۔

۷۳۹۔ اللہ کے صالح اور متقی بندوں کے اخلاق میں تکلف اور تصنع شامل نہیں ہوتا ہے، پروردگار نے پیغمبر سے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اپنی زحمتوں کا کوئی اجر نہیں چاہتا اور میں تکلف کرنے والوں میں نہیں ہوں اور رسول اکرم نے بھی فرمایا ہے کہ ہم گروہ انبیاء وا تقیاء و امنا ہر طرح کے تکلف سے بری اور بیزار رہتے ہیں۔( مصباح الشریعہ ص ۲۰۸)۔

۸۴۰۔ حماد بن عثمان ! ایک مرتبہ مدینہ میں قحط پڑا اور صورت حال یہ ہو گئی کہ بڑے بڑے دولت مند بھی مجبور ہو گئے کہ گند میں جو ملا کر کھائین یا اسے بیچ کر طعام فراہم کریں ، تو امام صادق (ع) نے اپنے غلاموں سے فرمایا کہ جو گندم ابتدائے فصل میں خرید لیا ہے اس میں جو ملا دو یا اسے بیچ ڈالو کہ ہمیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ عوام الناس جو ملا ہوا گیہوں کھائیں اور ہم خالص گیہوں استعمال کریں۔( کافی ۵ ص ۱۶۶ / ۱)۔

۷۴۱۔ امام کاظم (ع) ! جب سندی بن شاہک نے آپ سے کفن دینے کی بات کی تو آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) اپنے ذاتی حج، اپنی عورتوں کا مہر اوراپنا کفن اپنے خالص پاکیزہ مال سے فراہم کرتے ہیں۔( الفقیہ ۱ ص ۱۸۹ / ۵۷۷ ، ارشاد ۲ ص ۲۴۳ ، تحق العقول ص ۴۱۲ ، روضة الواعظین ص ۲۴۳ ، فلاح السائل ص ۷۲ ، الغیبتہ للطوسی (ر) ۳۰ / ۶)۔

۷۴۲۔ امام رضا (ع) ، ہم اہلبیت (ع) کو وراثت میں آل یعقوب (ع) سے عفو ملا ہے اور آل داؤد سے شکر !( کافی ۸ ص ۳۰۸ / ۴۸۰ از محمد بن الحسین بن یزید)۔

۷۴۳۔ امام رضا (ع) ! آپ نے بن سہل کے خط میں تحریر فرمایا کہ ائمہ کے کردار میں تقویٰ ، عفت ، صداقت ، صلاح، جہاد، اداء امانت صالح و فاسق ، طول سجدہ ، نماز شب ، محرمات سے پرہیز ، صبر کے ذریعہ کشائش احوال کا انتظار ، حسنِ معاشرت، حسن سلوک ہمسایہ، نیکیوں کا عام کرنا،اذیتوں کا روکنا، کشادہ روی سے ملنا، نصیحت کرنا اور مومنین پر مہربانی کرنا شامل ہے۔( تحف العقول ص ۴۱۶)۔

۷۴۴۔ امام رضا (ع) ہم اہلبیت (ع) جب کوئی وعدہ کر لیتے ہیں تو اسے اپنے ذمہ ایک قرض تصور کرتے ہیں جیسا کہ سرکار دو عالم کے کردار میں تھا۔( تحف العقول ص ۲۴۶ مشکٰوة الانوار ص ۱۷۳)۔

۷۴۵۔امام رضا (ع) ، ہم اہلبیت (ع) سوتے وقت دس کام انجام دیتے ہیں ، طہارت، داہنے ہاتھ پر تکیہ ، ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ الحمدللہ ، ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر ، استقبال قبلہ ، سورۂ حمد کی تلاوت ، آیة الکرسی کی تلاوت، شہد اللہ انہ لا الہ الا ہو الخ تو جو شخص بھی اس طریقہ کو اپنا لے گا وہ اس رات کی فضیلتیں حاصل کر لے گا۔( فلاح السائل ص ۲۸۰ روایت حسن بن علی العلوی)۔

نوٹ! بظاہر روایت مین قل ہوا للہ یا انا انزلناہ کا ذکر رہ گیا ہے ورنہ مذکورہ اشیاء صرف نو ہیں۔

۷۴۶۔عبید بن ابی عبداللہ البغدادی ! امام رضا (ع) کی خدمت میں ایک مہمان آیا اور رات گئے تک حضرت سے باتیں کرتا رہا،یہاں تک کہ چراغ ٹمٹمانے لگا، اس نے چاہا کہ ٹھیک کر دے، آپ نے روک دیا اور خود ٹھیک کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنے مہمانوں سے کام نہیں لیتے ہیں۔( کافی ۶ ص ۲۸۳ / ۲)۔

۷۴۷۔ ابراہیم بن عباس ! میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ امام رضا (ع) نے کسی شخص سے بھی ایک نامناسب لفظ کہا ہو یا کسی کی بات کاٹ دی ہو جب تک وہ اپنی بات تمام نہ کرے ، یا کسی کی حاجت برآری کا امکان ہوتے ہوئے اس کی بات کو رد کر دیا ہو یا کسی کے سامنے پیر پھیلا کر بیٹھے ہوں ، یا ٹیک لگا کر بیٹھے ہوں یا کسی نوکر اور غلام کو برا بھلا کہا ہو یا تھوک دیا ہو یا سننے میں قہقہہ لگایا ہو بلکہ ہمیشہ تبسم سے کام لیتے تھے ، جب گھر میں دستر خوان لگتا تھا تو تمام نوکروں اور غلاموں کو ساتھ بٹھا لیتے تھے، رات کو بہت کم سوتے تھے اور زیادہ حصہ بیدار رہتے تھے، اکثر راتوں میں تو شام سے فجر تک بیدار رہی رہتے تھے، روزے بہت رکھتے تھے، ہر مہینہ تین روزے تو بہر حال رکھتے تھے اور اسے سارے سال کا روزہ قرار دیتے تھے، نیکیاں بہت کرتے تھے اور چھپا کر صدقہ بہت دیتے تھے خصوصیت کے ساتھ تاریک راتوں میں اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ایسا کوئی دوسرا شخص بھی دیکھا ہے تو خبردار اس کی تصدیق نہ کرنا۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ص ۱۸۴ /۷)۔

۷۴۸۔ امام ہادی (ع) زیارت جامعہ میں فرماتے ہیں ، اے اہلبیت (ع) آپ کا کلام نور ، آپ کام ہدایت ، آپ کی وصیت تقویٰ ، آپ کا عمل خیر ، آپ کی عادت احسان آپ کی طبیعت کرم اور آپ کی شان حق و صداقت و نرم دلی ہے۔ ( تہذیب ۶ ص ۱۰۰ / ۱۷۷)۔


محبت اہلبیت (ع)

فضائل محبت اہلبیت (ع)

۱۔ اسا س الاسلام

۹۲۲۔رسول اکرم ! اسلام کی اساس میری اور میرے اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( کنز العمال ۱۲ ص ۱۰۵ / ۳۴۲۰۶، درمنثور ، ص ۳۵۰)۔

۹۲۳۔ رسول اکرم ! ہر شے کی ایک بنیاد ہے اور اسلام کی بنیاد ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( محاسن ۱ ص ۲۴۷ / ۴۶۱ روایت مدرک بن عبدالرحمن)۔

۹۲۴۔ امام علی (ع)! رسول اکرم نے مجھ سے خطاب کر کے فرمایا کہ اسلام سادہ ہے اور اس کا لباس تقویٰ ہے اور اس کے بال و پر ہدایت ہیں اور اس کی زینت حیاء ہے اور اس کا ستون ورع ہے اور اس کا معیار عمل صالح ہے اور اس کی بنیاد میری اور میرے اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( کنز العمال ۱۳ ص ۶۴۵ / ۳۷۶۳۱)۔

۹۲۵۔ امام باقر (ع) ! رسول اکرم حجة الوداع کے مناسک ادا کر چکے تو سواری پر بلند ہو کر ارشاد فرمایا کہ جنت میں غیر مسلم کا داخلہ ناممکن ہے!

ابوذر (ر) نے عرض کی حضور پھر اسلام کی بھی وضاحت فرما دیں ؟ فرمایا کہ اسلام ایک جسم عریان ہے جس کا لباس تقویٰ، زینت حیاء معیار ورع، جمال دین، ثمرہ عمل صالح اور ہر شے کی ایک اساس ہے، اور اسلام کی اساس ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( امالی طوسی (ر) ۸۴ ص ۱۲۶ روایت جابر بن یزید، کافی ۲ ص ۴۶ / ۲ ، امالی صدوق (ر) ص ۲۲۱ /۱۶ ، محاسن ! ص ۴۴۵ / ۱۰۳۱ ، شرح الاخبار ۳ ص ۸ / ۹۲۷ ، الفقیہ ۴ ص ۳۶۴ /۵۷۶۲ روایت حماد بن عمرو انس بن محمد، تحف العقول ص ۵۲)۔

۹۲۶۔ رسول اکرم ! آیت مودت کے نزول بعد جبریل (ع) نے کہا کہ اے محمد ! ہر دین کی ایک اصل اور اس کا ایک ستون اور ایک شاخ اور ایک عمارت ہوتی ہے اور اسلام کی اصل اور اس کا ستون لا الہ الا اللہ ہے اور اس کی فرع ا ور تعمیر آپ اہلبیت (ع) کی محبت ہے جس میں حق کی ہم آہنگی اور دعوت پائی جاتی ہے۔( تفسیر فرات کوفی ۳۹۷ / ۵۲۸ روایت علی بن الحسین بن سمط)۔

۹۲۷۔ امام باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہی دین کا نظام ہے۔( امالی طوسی (ر) ۲۹۶ / ۵۸۲ روایت جابر بن یزید الجعفی)۔

۲۔ محبت اہلبیت (ع) محبت خدا ہے

۹۲۸۔ امام علی (ع) ! میں نے رسول اکرم کی زبان مبارک سے سنا ہے کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور یا علی (ع) تم اور تمھاری اولاد کے ائمہ میری امت کے سردارہیں جس نے ہم سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے ہم سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی ، جو ہمارا چاہنے والا ہے وہ اللہ کا چاہنے والا ہے اور جو ہم سے عداوت کرنے والا ہے ، وہ اللہ سے عداوت رکھنے والا ہے ، ہمارا مطیع اللہ کا اطاعت گذار ہے اور ہمارا نافرمان اللہ کا نافرمان ہے۔( امالی صدوق (ر) ۳۸۴ / ۱۶ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۵۱ روایت اصبغ بن نباتہ)۔

۹۲۹۔ امام صادق (ع) ! جو ہمارے حق کو پہچانے اور ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے وہ پروردگار سے محبت کرنے والا ہے۔( کافی ۸ ص ۱۲۹ / ۹۸ روایت حفص بن غیاث ، تنبیہ الخواطر ۲ ص ۱۳۷)۔

۹۳۰۔ امام ہادی (ع) ، زیارت جامعہ ، جس نے آپ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے آپ حضرات سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی ، آپ کا موالی اللہ کا چاہنے والا ہے اور آپ سے بغض رکھنے والا اللہ سے بغض رکھنے والا ہے۔( تہذیب ۶ ص ۹۷ / ۱۷۷)۔

۳۔ محبت اہلبیت (ع) محبت رسول اکرم ہے۔

۹۳۱۔ رسول اکرم ! اللہ سے محبت کرو کہ تمھیں اپنی نعمتوں سے فیضیاب فرمایا ہے، اس کے بعد اس کی محبت کی بنا پر ہم سے محبت کرو اور ہماری محبت کی بنا پر ہمارے اہلبیت (ع) سے محبت کرو۔( سنن ترمذی ۵ ص ۶۲۲ / ۳۷۸۹ ، تاریخ بغداد ۴ ص ۱۶۰ ، مستدرک حاکم ۳ ص ۱۶۲ / ۱۶ ۴۷ ، المعجم الکبیر ۳ ص ۴۶ / ۲۶۳۹ ، ۱۰ ص ۲۸۱ /۱۰۶۶۴ ، شعب الایمان ۱ ص ۳۶۶ / ۴۰۸ ، ۲ ص ۱۳۰ / ۱۳۷۸ ، اسد الغابہ ۲ ص ۱۸ ، امالی صدوق (ر) ص ۲۹۸ / ۶ ، علل الشرائع ۱۳۹ / ۱ ، بشارة المصطفیٰ ص ۶۱ ، ۲۳۷ روایت ابن عباس ، امالی طوسی (ر) ص ۲۷۸ / ۵۳۱ روایت عیسی ٰ بن احمد بن عیسی ٰ ، صواعق محرقہ ص ۲۳۰)۔

۹۳۲۔ زید بن ارقم ! میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا جب فاطمہ (ع) ایک ادنی چادر اوڑھے ہوئے اپنے گھر سے حضور کے حجرہ کی طرف جا رہی تھیں اور ان کے ساتھ دونوں فرزند حسن (ع) و حسین (ع) تھے اور پیچھے پیچھے علی (ع)بن ابی طالب (ع) چل رہے تھے کہ آپ نے ان سب کو دیکھ کر فرمایا کہ جس نے ان سب سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ، اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔ ( تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص ۹۱ / ۱۲۶ )۔

۹۳۳۔ امام باقر (ع) ! خدا سے محبت کرو اور اس کی وجہ سے رسول خدا سے محبت کرو اور ان کی وجہ سے ہم سے محبت کرو۔( مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی ۲ ص ۱۶۰ / ۶۳۷ روایت عبیداللہ بن عمر بن علی (ع) ابی طالب (ع) )۔

۴۔ محبت اہلبیت تحفہ الہی ہے

۹۳۴۔ رسول اکرم ! پروردگار نے اسلام کو خلق کرنے کے بعد اس کا ایک میدان قرار دیا اور ایک نور۔ ایک قلعہ بنایا اور ایک مددگار، اس کا میدان قرآن مجید ہے اور نور حکمت، قلعہ نیکی ہے اور انصار ہم اور ہمارے اہلبیت (ع) اور شیعہ، لہذا ہمارے اہلبیت (ع) ، ان کے شیعہ اور ان کے اعوان و انصار سے محبت کرو کہ مجھے معراج کی رات جب آسمان پر لے جایا گیا تو جبریل (ع) نے آسمان والوں سے میرا تعارف کرایا اور پروردگار نے میری محبت، میرے اہلبیت (ع) اور شیعوں کی محبت ملائکہ کے دل میں رکھ دی جو قیامت تک امانت رہے گی ، اس کے بعد مجھے واپس لا کر زمین والوں میں متعارف کرایا کہ میری اور میرے اہلبیت (ع) اور ان کے شیعوں کی محبت میری امت کے مومنین کے دلوں میں امانت پروردگار ہے جس کی تا قیامت حفاظت کرتے رہیں گے۔ ( کافی ۲ ص ۴۶ / ۳ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۵۷ روایت عبدالعظیم بن عبداللہ الحسنئ عن الجواد (ع))۔

۹۳۵۔ امام باقر (ع) میں جانتا ہوں کہ تم لوگ جو ہم سے محبت کر رہے ہو یہ تمھارا کارنامہ نہیں ہے، پروردگار نے ہماری محبت تمھارے دلوں میں پیدا کی ہے۔(محاسن) ص ۲۴۶ / ۴۵۷ روایت ابوبصیر۔

۹۳۶۔امام صادق (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی محبت کو پروردگار اپنے عرش کے خزانوں سے اس طرح نازل کرتا ہے جس طرح سونے چاندی کے خزانے نازل ہوتے ہیں ، اور اس کا نزول بھی ایک مخصوص مقدار میں ہوتا ہے اور مالک اسے صرف مخصوص افراد کو عنایت کرتا ہے، محبت کا ایک مخصوص ابر کرم ہے جب پروردگار کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو اس پر اس ابر کرم کو برسا دیتا ہے اور اس سے شکم مادر میں بچہ بھی فیضیاب ہو جاتا ہے۔( تحف العقول ص ۳۱۳ روایت جعفر محمد بن النعمان الاحوال)۔

۵۔ محبت اہلبیت (ع) افضل عبادت ہے

۹۳۷۔ رسول اکرم ! آل محمد سے ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے اور اس پر مرنے والا جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔( الفردوس ۲ص ۱۴۲ / ۲۷۲۱ ، ینابیع المودة ۳ ص ۱۹۱ روایت ابن مسعود)۔

۹۳۸۔ رسول اکرم ! ابوذر کو وصیت فرماتے ہیں ، دیکھو سب سے پہلی عبادت پروردگار معرفت الہی ہے، اس کے بعد مجھ پر ایمان اور اس امر کا اقرار کہ پروردگار نے مجھے تمام لوگوں کے لئے بشیر و نذیر ، داعی الی اللہ اور سراج منیر بنا کر ارسال کیا ہے، اس کے بعد میرے اہلبیت (ع) کی محبت جن سے خدا نے ہر رجس کو دور رکھا ہے اور کمال طہارت کی منزل پر فائز کیا ہے۔( امالی طوسی (ر) ۵۲۶ / ۱۱۶۲ ، مکارم الاخلاق ۲ ص ۳۶۳ / ۲۶۶۱ ، تنبیہ الخواطر ۲ ص ۵۱ ) اعلام الدین ص ۱۸۹)۔

۹۳۹۔ امام علی (ع) ! تمام نیکیوں میں سب سے بہتر ہماری محبت ہے اور تمام برائیوں میں سب سے بدتر ہماری عداوت ہے۔( غر ر الحکم ص ۳۳۶۳)۔

۹۴۰۔ امام صادق (ع) ! ہر عبادت سے بالاتر ایک عبادت ہے لیکن ہم اہلبیت (ع) کی محبت تمام عبادات سے افضل و برتر ہے۔( المحاسن ۱ ص ۲۴۷ / ۴۶۲ روایت حفص الدہان)۔

۹۴۱۔ فضیل ! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کی کہ قرب خدا کے لئے سب سے بہتر فریضہ کون سا ہے؟ فرمایا بہترین وسیلۂ تقرب خدا کی اطاعت، اس کے رسول کی اطاعت اور اس کے رسول اور اولی الامر کی محبت ہے۔( المحاسن ۱ ص ۲۲۷/ ۴۶۳، کافی ۱ ص ۱۸۷ / ۱۲ روایت محمد بن الفضیل)۔

۶۔ محبت اہلبیت (ع) باقیات صالحات میں ہے

۹۴۲۔ محمد بن اسماعیل بن عبدالرحمان الجعفی ! میں اور میرے چچا حصین بن عبدالرحمان امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں قریب بلا کر بٹھایا اور فرمایا کہ یہ کس کے فرزند ہیں ؟ انھوں نے عرض کی کہ میرے بھائی اسماعیل کے فرزند ہیں !۔

فرمایا خدا اسماعیل پر رحمت نازل کرے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے تم نے انہیں کس عالم میں چھوڑا ہے، انھوں نے عرض کی کہ بہترین حال میں کہ خدا نے ہمیں آپ کی محبت عنایت فرمائی ہے۔

فرمایا حصین ! دیکھو ہم اہلبیت (ع) کی مودت کو معمولی مت سمجھنا یہ باقی رہ جانے والی نیکیوں میں ہے، انھوں نے کہا کہ حضور ہم اسے معمولی نہیں سمجھتے ہیں۔ بلکہ اس پر شکر خدا کرتے ہیں کہ اس سے فیضیاب فرمایا۔( اختصاص ص ۸۶ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۲۱۵)۔

خصائص محبت اہلبیت (ع)

۱۔ علامت ولادتِ صحیح

۹۴۳۔رسول اکرم۔ لوگو ! اپنی اولاد کا امتحان محبت علی (ع) کے ذریعہ لو کہ علی (ع) کسی گمراہی کی دعوت نہیں دے سکتے ہیں اور کسی ہدایت سے دور نہیں کرسکتے ہیں جو اولاد ان سے محبت کرے وہ تمھاری ہے ورنہ پھر تمھاری نہیں ہے۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۲ ص۲۲۵ / ۷۳۰)۔

۹۴۴۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم نے ابوذر سے فرمایا کہ جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت رکھتا ہے اسے شکر خدا کرنا چاہیئے کہ اس نے پہلی ہی نعمت عنایت فرما دی ہے ابوذر نے عرض کی حضور یہ پہلی نعمت کیا ہے ؟فرمایا حلال زادہ ہونا کہ ہماری محبت حلال زادہ کے علاوہ کسی کے دل میں نہیں ہوسکتی ہے۔( امالی طوسی (ر) ص ۴۵۵ / ۱۹۱۸ روایت حسین بن زید و عبداللہ بن ابراہیم الجعفری عن الصادق (ع))۔

۹۴۵۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! جو مجھ سے تم سے اور تمھاری اولاد کے ائمہ سے محبت کرے اسے حلال زادہ ہونے پر شکر خدا کرنا چاہیئے کہ ہمارا دوست صرف حلال زادہ ہی ہوسکتا ہے اور ہمارا دشمن صرف حرام زادہ ہی ہوسکتا ہے، ( امالی صدوق ص ۳۸۴ / ۱۴ ، معانی الاخبار ۱۶۱ / ۳ ، بشارہ المصطفیٰ ص ۱۵۰ روایت زید بن علی (ع) )۔

۹۴۶۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! عرب میں تمھارا کوئی دشمن ناتحقیق کے علاوہ نہیں ہوسکتا ہے۔( مناقب خوارزمی ۳۲۳ / ۳۳۰ ، روایت ابن عباس، فرائد السمطین ۱ ص ۱۳۵ / ۹۷ ، خصال ۵۷۷ /۱ ، علل الشرائع ۱۴۳ / ۷ ، مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۲۶۷۔

۹۴۷۔ امام علی (ع)! کوئی کا فر یا حرامزادہ مجھ سے محبت نہیں کرسکتا ہے۔( شرح نہج البلاغہ ۴ ص ۱۱۰ ، روایت ابن مریم انصاری ،شرح الاخبار ۱ ص ۱۵۲ / ۹۲ ، مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۲۰۸۔

۹۴۸۔ امام باقر (ع)! جو شخص اپنے دل میں ہماری محبت کی خنکی کا احساس کرے اسے ابتدائی نعمت پر شکر خدا کرنا چاہیئے کسی نے سوال کیا کہ یہ ابتدائی نعمت کیا ہے؟ فرمایا حلال زادہ ہونا۔( امالی صدوق (ر) ۳۸۴ / ۱۳ ، علل الشرائع ۱۴۱ / ۲ ، معانی الاخبار ۱۶۱ / ۲ روایت ابومحمد الانصاری)۔

۹۴۹۔ امام صادق (ع) ! جو شخص اپنے دل میں ہماری محبت کی خنکی کا احساس کرے اسے اپنی ماں کو دعائیں دینا چاہئیں کہ اس نے باپ کے ساتھ خیانت نہیں کی ہے۔( معانی الاخبار ۱۶۱ / ۴ ، بشارة المصطفیٰ ص ۹ روایت مفضل بن عمر)۔

۹۵۰۔ ابن بکیر ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ جو شخص ہم سے محبت کرے اور محل عیب میں نہ ہو اس پر اللہ خصوصیت کے ساتھ مہربان ہے میں نے عرض کی کہ محل عیب سے مراد کیا ہے؟ فرمایا۔ حرام زادہ ہونا۔( معانی الاخبار ۱۶۶ /۱)۔

۹۵۱۔ امام صادق (ع) ! خدا کی قسم عرب و عجم میں ہم سے محبت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو اہل شرف اور اصیل گھر والے ہیں اور ہم سے دشمنی کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کے نسب میں نجاست، گندگی اور غلط نسبت پائی جاتی ہے۔( کافی ۸ ص ۳۱۶ / ۴۹۷)۔

۹۵۲۔عبادة بن الصامت ! ہم اپنی اولاد کا امتحان محبت علی (ع) کے ذریعہ کیا کرتے تھے کہ جب کسی کو دیکھ لیتے تھے کہ وہ علی (ع) سے محبت نہیں کرتا ہے تو سمجھ لیتے تھے کہ یہ ہمارا نہیں ہے اور صحیح نکاح کا نتیجہ نہیں ہے۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ص ۲۲۴ / ۷۲۷ ، نہایة ۱ ص ۱۶۱ ، لسان العرب ۴ ص ۸۷)۔ تاج العروس ۶ ص ۱۱۸ ، مجمع البیان ۹ ص ۱۶۰ ، شرح الاخبار ۱ ص ۴۴۶ / ۱۲۴ ، رجال کشی ۱ ص ۲۴۱ ، مناقب ابن شہر آشوب ۳ص ۲۰۷۔

۹۵۳۔ محبوب بن ابی الزناد ! انصار کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کے حرامزادہ ہونے کو بغض علی (ع) کے ذریعہ پہچان لیا کرتے تھے۔

مولف ! عیسی بن ابی دلف کا بیان ہے کہ ان کا بھائی ولف جس کے نام سے ان کے والد کو ابودلف کہا جاتا تھا، حضرت علی (ع) اور ان کے شیعوں کی برابر برائی کیا کرتا تھا اور انہیں جاہل قرار دیا کرتا تھا، ایک دن اس نے اپنے والد کی بزم میں ان کی عدم موجودگی میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ علی (ع) کی تنقیص کرنے والا حرامزادہ ہوتا ہے حالانکہ تم لوگ جانتے ہو کہ میرا باپ کس قدر غیرت دار ہے اور وہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کی زوجہ کے بارے میں کوئی شخص زبان کھول سکے اور میں برابر علی (ع) سے عداوت کا اعلان کر رہا ہوں جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ بات بے بنیاد ہے۔

اتفاق امر کہ اچانک ابودلف گھر سے نکل آئے، لوگوں نے ان کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلف کا بیان تو سن لیا، اب بتائیے کیا حدیث معروف غلط ہے جبکہ اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، تو ابودلف نے کہا کہ یہ ولد الزنا بھی ہے اور ولد الحیض بھی ہے اور اس کا واقعہ یہ ہے کہ میں بیمار تھا، میری بہن نے اپنی کنیز کو عیادت کے لیے بھیجا، مجھے وہ پسندتھی ، میں نے اپنے نفس کو بے قابو دیکھ کر اس سے تعلقات قائم کر لئے جبکہ وہ ایام حیض میں تھی اور اس طرح وہ حاملہ بھی ہو گئی اور بعد میں اس نے بچہ کو میرے حوالہ کر دیا۔ جس کے بعد دلف اپنے باپ کا بھی دشمن ہو گیا کہ اس کا رجحان تشیع اور محبت علی (ع) کی طرف تھا اور باب کے مرنے کے بعد مسلسل اسے بُرا بھلا کہنے لگا۔( مروج الذہب ۴ ص ۶۲ ، کشف الیقین ۲۷۶ / ۵۷۳)۔

۲۔ شرط توحید

۹۵۴۔ جابر بن عبداللہ انصاری ! ایک اعرابی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ حضور کیا جنت کی کوئی قیمت ہے؟ فرمایا، بیشک اس نے کہا وہ کیا ہے ؟ فرمایا لا الہ الا اللہ جسے بندہ مومن خلوص دل کے ساتھ زبان پر جاری کرے۔

اس نے کہا کہ خلوص دل کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا میرے احکام پر عمل اور میرے اہلبیت (ع) کی محبت۔

اس نے عرض کیا اہلبیت (ع) کی محبت بھی کلمہ توحید کا کوئی حق ہے؟ فرمایا یہ سب سے عظیم ترین حق ہے۔( امالی طوسی (ر) ص ۵۸۳ / ۱۲۰۷)۔

۹۵۵۔ امام علی (ع) ! کلمہ لا الہ الا اللہ کے بہت سے شروط ہیں اور میں اور میری اولاد انہیں شروط میں سے ہیں۔( غر ر الحکم ص ۳۴۷۹)۔

۹۵۶۔ اسحاق بن راہویہ ! جب امام علی رضا (ع) نیشاپور پہنچے تو لوگوں نے فرمائش کی کہ حضور ہمارے درمیان سے گذر جائیں اور کوئی حدیث بیان نہ فرمائیں یہ کیونکر ممکن ہے۔؟

آپ نے محمل سے سر باہر نکالا اور فرمایا کہ مجھ سے میرے والد بزرگوار موسیٰ بن جعفر (ع) نے فرمایا کہ انھوں نے اپنے والد بزرگوار حضرت جعفر بن محمد (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت محمد بن علی (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن الحسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد امام حسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) سے اور انھوں نے رسول اکرم سے اور انھوں نے جبریل کی زبان سے یہ ارشاد الہی سنا ہے کہ لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے اور جو میرے قلعہ میں داخل ہو جائے گا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہو جائیگا۔

یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے اور پھر ایک مرتبہ پکارکر فرمایا لیکن اس کی شرائط ہیں اور انہیں میں سے ایک میں بھی ہوں۔( التوحید ۲۵/۲۳ ، امالی صدوق (ر) ص ۱۹۵ /۸ عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۱۳۵ / ۴ ، معانی الاخبار ص ۳۷۱ /۱ ، ثواب الاعمال ص ۲۱ / ۱ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۶۹ ، روضة الواعظین ص ۵۱)۔

۳۔ علامت ایمان

۹۵۷۔ رسول اکرم ! مجھ سے میرے پروردگار نے عہد کیا ہے کہ میرے اہلبیت (ع) کی محبت کے بغیر کسی بندہ کے ایمان کو قبول نہیں کرے گا۔ ( احقاق الحق ۹ ص ۴۵۴ نقل از مناقب مرتضویہ و خلاصة الاخبار)۔

۹۵۸۔ رسول اکرم ! کوئی انسان صاحب ایمان نہیں ہوسکتا ہے جب تک میں اس کے نفس سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور میرے اہل اس کے اہل سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور میری عترت اس کی عترت سے زادہ محبوب نہ ہو اور میری ذات اس کی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو۔( المعجم الاوسط ۶ ص ۵۹ / ۵۷۹۰ ، المعجم الکبیر ۷ ص ۷۵ ، ۶۴۱۶ ، الفردوس ۵ ص ۱۵۴ ، ۷۷۶۹، امالی صدوق (ر) ص ۲۷۴ / ۹ ، علل الشرائع ص ۱۴۰ / ۳ ، بشارة المصطفیٰ ص ۵۳ ، روایت عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ روضة الواعظین ص ۲۹۸)۔

۹۵۹۔ رسول اکرم ! ایمان ہم اہلبیت (ع) کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ہے ( کفایة الاثر ص ۱۱۰ روایت واثلہ بن الاسقع)۔

۹۶۰۔ امام علی (ع) ! کسی بندہ مومن کا دل ایمان کے ساتھ آزمایا ہوا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اپنے دل میں ہماری محبت کو پا کر ہمیں دوست رکھتا ہے اور کسی بندہ سے خدا ناراض نہیں ہوتا ہے مگر یہ کہ ہمارے بغض کو اپنے دل میں جگہ دے کر ہم سے دشمنی کرتا ہے ، لہذا ہمارا دوست ہمیشہ منتظر رحمت رہتا ہے اور گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور ہمارا دشمن ہمیشہ جہنم کے کنارہ رہتا ہے، خوش بختئ ہے اہل رحمت کے لئے اس رحمت کی بنیاد پر اور ہلاکت و بدبختی ہے اہل جہنم کیلئے اس بدترین ٹھکانہ کی بنا پر( امالی طوسی (ر) ۴۳ / ۳۴ ، امالی مفید ص ۲۷۰ / ۲ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۵ ، کشف الغمہ ۱ ص ۱۴۰ روایات حارث اعور)۔

۹۶۱۔ رسول اکرم ! جس نے علی (ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے خدا سے بغض رکھا اور اے علی (ع) تمھارا دوست مومن کے علاوہ کوئی نہ ہو گا اور تمھارا دشمن کافر اور منافق کے علاوہ کوئی نہ ہو گا۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۲ ص ۱۸۸ / ۶۷۱ از یعلیٰ بن مرة الثقفی)۔

۹۶۲۔ امام علی (ع) ! مجھ سے رسول اکرم کا یہ عہد ہے کہ مجھ سے مومن کے علاوہ کوئی محبت نہ کرے گا اور منافق کے علاوہ کوئی دشمنی نہ کرے گا۔( سنن نسائی ۸ ص ۱۱۷ ، مسند احمد بن حنبل ۱ ص ۲۰۴ / ۷۳۱ ، فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ ص ۵۶۴ / ۹۴۸ ، کنز الفوائد ۲ ص ۸۳ ، الغارات ۲ ص ۵۲۰ ، تاریخ بغداد ۲ ص ۲۵۵ / ۱۴ ص ۴۲۶ روایات زرّ بن جیش ۸۰ ص ۴۱۷ روایت علی بن ربیعہ الوالبی)۔

۹۶۳۔ ام سلمہ ! میں نے رسول اکرم کو علی (ع)سے یہ فرماتے سنا ہے کہ مومن تم سے دشمنی نہیں کرسکتا ہے اور منافق تمھارا دوست نہیں ہوسکتا ہے۔( مسند احمد بن حنبل ۱۰ ص ۱۷۶ / ۲۶۵۶۹ ، سنن ترمذی ۵ ص ۶۳۵ / ۳۷۱۷ ، البدایة والنہایة ۷ ص ۵۵۔۳ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع)۲ ص ۲۰۸ /۹۹ ، محاسن ۱ ص ۲۴۸ / ۴۵۶ ، اعلام الدین ص ۲۷۸ ، عوالی اللئلالی ۴ ص ۸۵ / ۹۵ ، احتجاج ۱۰ ص ۱۴۹ ، شرح نہج البلاغہ معتزلی ۴ ص ۸۳)۔

۹۶۴۔ ابوذر ! میں نے رسول اکرم کو حضرت علی (ع) سے فرماتے سنا ہے کہ اللہ نے مومنین سے تمھاری محبت کا عہد لے لیا ہے اور گویا منافقین سے تمھاری عداوت کا عہد ہو گیا ہے ، اگر تم مومن کی ناک بھی کاٹ دو تو تم سے دشمنی نہیں کرے گا اور اگر منافق پر دینا ر نچھاور کر دو تو بھی تم سے محبت نہیں کرے گا یا علی (ع) تم سے محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور تم سے عداوت نہیں کرے گا مگر منافق۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۲ ص ۲۰۴ / ۶۹۵ ، الغارات ۲ ص ۵۲۰ /وایت حبة القرتی)۔

۹۶۵۔ امام علی (ع) ! اگر میں مومن کی ناک بھی تلوار سے کاٹ دوں کہ مجھ سے عداوت کرے تو نہیں کرے گا اور اگر منافق پر ساری دنیا انڈیل دوں کہ مجھ سے محبت کر لے تو نہیں کرے گا اس لئے کہ یہ فیصلہ رسول اکرم کی زبان سے ہو چکا ہے کہ یاعلی (ع) ! مومن تم سے دشمنی نہیں کرسکتا ہے اور منافق تم سے محبت نہیں کرسکتا ہے(نہج البلاغہ حکمت ص ۴۵ ، امالی طوسی (ر) ص ۲۰۶ / ۳۵۳ ، روایت سوید بن غفلہ ، روضة الواعظین ص ۳۲۳ ، کافی ۸ ص ۲۶۸ / ۳۹۶)۔

۹۶۶۔ امام باقر (ع) ! ہماری محبت ایمان ہے اور ہماری عداوت کفر ہے۔( کافی ۱ ص ۱۸۸ /۱۲ محاسن ۱ ص ۲۴۷ / ۴۶۳ روایت محمد بن الفضل ، تفسیر فرات کوفی ص ۲۲۸ / ۵۶۶ زیاد بن المنذر )۔

۹۶۷۔ امام باقر (ع) ! اے ابا ابورد اور اے جابر ! تم دونوں قطعیت تک جب بھی کسی مومن کے نفس کی تفتیش کرو گے تو علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی محبت ہی پاؤ گے اور اسی طرح قیامت تک اگر منافق کے نفس کی جانچ کرو گے تو امیر المومنین (ع) کی دشمنی ہی پاؤ گے، اس لئے کہ پروردگار نے رسول اکرم کی زبان سے یہ فیصلہ سنا دیا ہے، کہ یا علی (ع) ! تم سے مومن دشمنی نہیں کرے گا اور کافر یا منافق محبت نہیں کرے گا اور ظلم کا حامل ہمیشہ خائب و خاسر ہی ہوتا ہے ، دیکھو ہم سے سمجھ بوجھ کر محبت کرو تا کہ راستہ پا جاؤ اور کامیاب ہو جاؤ ہم اسلامی انداز کی محبت کرو۔( تفسیر فرات کوفی ص ۲۶۰ / ۳۵۵ روایت جابر بن یزید و ابی الورد)۔

۹۶۸۔امام باقر (ع) ! جو شخص یہ چاہتا ہے کہ یہ معلوم کرے کہ وہ اہل جنّت میں سے ہے اسے چاہیئے کہ ہماری محبت کو اپنے دل پر پیش کرے، اگر دل اسے قبول کر لے تو سمجھے کہ مومن ہے۔( کامل الزیارات ص ۱۹۳ از ابوبکر الخصرمی)۔

۹۶۹۔ علی بن محمد بن بشر ! میں محمد بن علی (ع) کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک سوار آیا اور اپنے ناقہ کو بٹھا کر آپ کے پاس آیا اور ایک خط دیا ، آپ نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا کہ مہلب ہم سے کیا چاہتا ہے ؟ خدا کی قسم کہ ہمارے پاس نہ کوئی دنیا ہے اور نہ سلطنت۔

اس نے کہا کہ میری جان آپ پر قربان ، اگر کوئی شخص دنیا و آخرت دونوں چاہتا ہے تو وہ آپ اہلبیت (ع) ہی کے پاس ہے۔

آپ نے فرمایا کہ ماشاء اللہ ، یاد رکھو کہ جو ہم سے برائے خدا محبت کرے گا اللہ اسے اس محبت کا فائدہ دے گا اور جو کسی اور کے لئے محبت کرے گا تو خدا جو چاہتا ہے فیصلہ کرسکتا ہے، ہم اہلبیت (ع) کی محبت ایک ایسی شے ہے جسے پروردگار دلوں پر ثبت کر دیتا ہے اور جس کے دل پر خدا ثبت کر دیتا ہے اسے کوئی مٹا نہیں سکتا ہے، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی ہے ’ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے دل میں خدا نے ایمان لکھ دیا اور ان کی اپنی روح سے تائید کر دی ہے‘ … ہم اہلبیت (ع) کی محبت ایمان کی اصل ہے۔( شواہد التنزیل ۲ ص ۳۳۰ / ۹۷۱ ، تاویل الآیات الظاہرة ص ۶۵۰۔

۴۔ قیامت کا سب سے پہلا سوال

۹۷۰۔ رسول اکرم ! قیامت کے دن سب سے پہلے ہم اہلبیت (ع) کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۶۲ / ۲۵۸ روایت حسن بن عبداللہ بن محمد بن العباس الرازی التمیمی)۔

۹۷۱۔ ابوبرزہ رسول اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن کسی بندہ کے قدم آگے نہیں بڑھیں گے جب تک چار باتوں کا سوال نہ کر لیا جائے، اپنی عمر کو کہاں صرف کیا ہے، اپنے جسم کو کہاں استعمال کیا ہے، اپنے مال کو کہاں خرچ کیا ہے اور کہاں سے حاصل کیا ہے اور پھر ہم اہلبیت (ع) کی محبت ! ( المعجم الکبیر ۱۱ ص ۸۴ / ۱۱۱۷۷ ، المعجم الاوسط ۹ ص ۱۵۵ / ۹۴۰۶ ، مناقب ابن المغازلی ص ۱۲۰ /۱۵۷ روایات ابن عباس ، فرائد السمطین ۲ ص ۳۰۱ / ۵۵۷ روایت داؤد بن سلیمان، امالی صدوق (ر) ۴۲ / ۹ ، خصال ۲۵۳ / ۱۲۵ ، روایت اسحاق بن موسیٰ عن الکاظم (ع) ، تحف العقول ص ۵۶ ، امالی طوسی (ر) ص ۵۹۳ / ۱۲۲۷ ، تنبیہ الخواطر ۲ ص ۷۵ روایت ابوبریدہ الاسلمی ، جامع الاخبار ص ۴۹۹ / ۱۳۸۴ عن الرضا (ع) ، روضة الواعظین ص ۵۴۶ ، شرح الاخبار ۲ ص ۵۰۸ / ۸۹۸ روایت ابوسعید خدری )۔

۹۷۲۔ ابوہریرہ ! رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ کسی بندہ کے قدم روز قیامت آگے نہ بڑھیں گے جب تک چار باتوں کا سوال نہ کر لیا جائے ، جسم کو کہاں تھکایا ہے؟ عمر کو کہاں صرف کیا ہے ؟ مال کو کہاں سے حاصل کیا ہے اور کہاں خرچ کیا ہے ؟ اور ہم اہلبیت (ع) کی محبت۔

کسی نے عرض کیا کہ حضور آپ حضرات کی محبت کی علامت کیا ہے؟ آپ نے علی (ع) نے کاندھے پر رکھ کر فرمایا … یہ … (المعجم الاوسط ۲ ص ۳۴۸ / ۱۲۹۱ ، مناقب خوارزمی ص ۷۷ / ۵۹)۔

۹۷۳۔ حنان بن سدیر ! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ہے کہ میں امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے ایسا کھانا پیش فرمایا جو میں نے کبھی نہیں کھایا تھا اور اس کے بعد فرمایا کہ سدیر ! تم نے ہمارے کھانے کو کیسا پایا؟ میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ، ایسا کھانا تو میں نے کبھی نہیں کھایا ہے، اور نہ شائد کبھی کھا سکوں گا، اس کے بعد میری آنکھوں میں آنسو آ گئے!

فرمایا سدیر ! کیوں رورہے ہو؟ میں نے عرض کی ، فرزند رسول قرآن مجید کی ایک آیت یاد آ گئی !

فرمایا وہ کونسی آیت ہے؟ میں نے عرض کی کہ ’ قیامت کے دن تم لوگوں سے نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ‘ مجھے خوف ہے کہ یہ کھانا بھی اسی نعمت میں شمار ہو جس کا حساب دینا پڑے۔

امام ہنس پڑے اور فرمایا کہ سدیر ! تم سے نہ اچھے کھانے کے بارے میں سوال ہو گا اور نہ نرم لباس کے بارے میں اور نہ پاکیزہ خوشبو کے بارے میں۔ یہ سب تو ہمارے ہی لئے خلق کئے گئے ہیں اور ہم مالک کے لئے خلق ہوئے ہیں تا کہ اس کی اطاعت کریں۔

میں نے عرض کی تو حضور ! یہ نعمت کیا ہے ؟ فرمایا علی (ع) اور ان کی اولاد کی محبت ! جس کے بارے میں خدا روز قیامت سوال کرے گا کہ تم نے اس نعمت کا کس طرح شکریہ ادا کیا ہے اور اس کی کس قدردانی کی ہے۔( تفسیر فرات الکوفی ص ۶۰۵ / ۷۶۳)۔

تربیت اولاد بر حب اہلبیت (ع)

۹۷۴۔ رسول اکرم ! اپنی اولاد کی تربیت کرو میری محبت ، میری اہلبیت (ع) کی محبّت اور قرآن کی تعلیم پر۔(احقاق الحق ۱۸ / ۴۹۸)۔

۹۷۵۔ رسول اکرم ! اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت دو، اپنے پیغمبر کی محبّت پیغمبر کے اہلبیت (ع) کی محبت اور قرأت قرآن ، اس لئے کہ حاملان قرآن انبیاء و اولیاء کے ساتھ اس دن بھی سایہ رحمت میں ہوں گے جس دن سایہ رحمت الہی کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا۔( کنز العمال ۱۶ / ۴۵۶ / ۴۵۴۰۹ نقل از فوائد عبدالکریم الشیرازی ، والدیلمی و ابن النجار، فرائد السمطین ۲ص ۳۰۴ / ۵۵۹ از مخارق بن عبدالرحمان ، صواعق محرقہ ص ۱۷۲ ، احقاق الحق ۱۸ / ۲۹۷ نقل از ابویعلیٰ )۔

۹۷۶۔ ابوالزبیر المکی ! میں نے جابر کو دیکھا کہ انصار کے راستوں اور اجتماعات کا دورہ کر رہے ہیں عصا کا سہارا لئے ہوئے … اور کہتے جا رہے ہیں اپنی اولاد کو محبت علی (ع) کی تربیت دو اور اگر قبول نہ کریں تو ان کی ماں کے بارے میں تحقیق کرو۔( علل الشرائع ص ۱۴۲ ، الفقیہ ۳ ص ۴۹۳ / ۴۷۴۴ ، رجال کشی ۱ ص ۲۳۶ ، الثاقب فی المناقب / ۱۲۳)۔

۹۷۷۔ ابوالزبیر ، عطیہ کو فی جواب ! ہر ایک کا بیان ہے کہ ہم نے جابر کو عصا کا سہارا لے کر مدینہ کی گلیوں اور محفلوں کا دورہ کرتے ہوئے دیکھا ہے جب وہ اس روایت کا اعلان کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے اے گروہ انصار ! اپنی اولاد کو محبت علی (ع) کی تربیت دو اور جو انکار کر دے اس کی ماں کے بارے میں غور کرو۔( مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۶۷)۔

نوٹ ! روایت سے مراد حدیث ’ علی خیر البشر فمن ابیٰ فقد کفر ‘ علی (ع) تمام انسانوں سے افضل ہیں اور جو اس کا انکار کر دے وہ کافر ہے‘

۹۷۸۔ امام صادق (ع) (ع)! اے میرے شیعو ! اپنی اولاد کو عبدی کے اشعار سکھاؤ کہ وہ دین خدا پر ہیں۔( رجال کشی ۲ ص ۷۰۴ / ۷۴۸ از سماعة)۔

نوٹ ! ابومحمد سفیان بن مصعب العبدی الکندی کا شمار ان شعراء اہلبیت (ع) میں ہوتا ہے جو ہر اعتبار سے ان سے قربت اور اخلاص رکھتے تھے اور انھوں نے بے شمار اشعار امیر المومنین (ع) اور ان کی ذریت کے بارے میں لکھے ہیں جن میں ان حضرات کی مدح بھی کی ہے اور ان کے مصائب کا تذکرہ بھی کیا ہے اور اہلبیت (ع) کے علاوہ کسی کے بارے میں ایک شعر بھی نہیں لکھا ہے۔

شیخ الطائفہ نے انہیں امام صادق (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے لیکن یہ صحابیت صرف محبت ، آمد و رفت یا ہم زمان ہونے کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد حضرت کی بارگاہ میں تقرب ، ان سے اخلاص اور اہلبیت (ع) سے صحیح قلب سے محبت ہے یہاں تک کہ امام (ع) نے اپنے شیعوں کو ان کے اشعار کی تعلیم دینے کا حکم دیا ہے اور ان اشعار کو دین خدا پر مبنی قرار دیا ہے جیسا کہ کشی نے اپنے رجال ص ۲۵۴ میں نقل کیا ہے۔

ان کی صداقت اور ان کے اخلاص و استقامت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ امام (ع) نے انہیں وہ مراثی لکھنے کا حکم دیا تھا جو خواتین اپنے اجتماعات غم میں پڑھا کریں۔

افسوس کہ مورخین نے ان کی تاریخ ولادت و وفات کا تذکرہ نہیں کیا ہے، البتہ ان کا امام جعفر صادق (ع) سے روایت کرنا اور سید حمیری کے ساتھ اجتماع جن کی ولادت ۱۰۵ ء ھ میں ہوئی ہے اور ۱۷۸ ء ھ میں وفات ہوئی ہے اور اسی طرح ابوداؤد المسترق کے ساتھ جمع ہونا اس بات کی علامت ہے کہ عبدی کی زندگی کا سلسلہ سید حمیری کے سال وفات تک باقی تھا۔

فہرست نجاشی کی بنا پر ابوداؤد کا انتقال ۲۳۱ ء ھ میں ہوا ہے اور کشی کی بنا پر ۱۶۰ ء ھ میں ہوا ہے اور عبدی سے روایت کرنے کے لئے کم سے کم اتنی عمر تو بہر حال درکار ہے جس میں انسان روایت کرنے کے قابل ہو جائے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عبدی کی زندگی کا سلسلہ سید حمیری کی وفات تک باقی تھا لہذا اعیان الشیعہ ۱ ص ۳۷۰ کا یہ بیان کہ عبدی کا انتقال تقریباً ۱۲۰ ء ھ میں ابوداؤد المسترق کی ولادت سے تقریباً ۴۰ سال پہلے ہو گیا ہے خلاف تحقیق اور خلاف قرائن ہے۔(الغدیر ۲ ص ۲۹۰۔ ۳۲۸ حالات عبدی کوفی)۔

واضح رہے کہ عبدی کا قصیدہ بائیہ بہت طویل ہے جس کے مدحیہ اشعار کا خلاصہ یہ ہے۔

میرا سلام اس قبر تک پہنچا دو جو مقام غری ( نجف) میں ہے اور جس میں عرب و عجم کا سب سے زیادہ وفادار انسان آرام کر رہا ہے۔

اور اپنا شعار ان کی بارگاہ میں خشوع کو قرار دو اور آواز دو اے بہترین پیغمبر کے بہترین وصی۔

تو نبی ہادی کا بھائی بھی ہے اور مددگار بھی ، تو حق کا اظہار کرنے والا بھی ہے اور تمام کتب سماویہ کا ممدوح بھی۔

تو بضعة الرسول فاطمہ زہرا کا شوہر بھی ہے اور منتخب روزگار اولاد رسول کا باپ بھی ہے۔

وہ اولاد رسول جن میں سب راہ خدا میں زحمت برداشت کرنے والے دین خدا کی مدد کرنے والے اور اللہ کے لئے کام کرنے والے افراد ہیں۔

یہ سب گمراہی کی تاریک راتوں کے راہنما ہیں اور ان کا نور ہدایت ستاروں سے زیادہ جگمگا رہا ہے۔

میں نے ان کی محبت کا اظہار کیا تو مجھے رافضی کا لقب دے دیا گیا اور مجھے اس راہ میں یہ لقب کس قدر پیارا ہے۔

صاحب عرش کی صلوات و رحمت ہر آن فاطمہ (ع) بنت اسد کے اس لال پر ہے جو تمام رنج و غم کا دور کرنے والا ہے۔

اور ان کے دونوں فرزندوں پر جن میں سے ایک زہر دغا سے شہید ہونے والا اور دوسرا خاک کربلا پر شہید ہونے والا ہے۔

اور اس عابد (ع) و زاہد پر جو اس کے بعد ہے اور اس باقر (ع) العلم پر جو منتہائے مطلوب سے قریب تر ہے۔

اور جعفر (ع) پر اور ان کے فرزند موسیٰ (ع) پر اور ان کے بعد رضا (ع) نیک کردار پر اور جواد (ع) شب زندہ دار پر۔

اور عسکر یین (ع) پر اور اس مہدی پر جو قائم ، صاحب (ع) الامر اور لباس ہدایت سے آراستہ و پیراستہ ہے۔

جو زمین کو ظلم سے بھرنے کے بعد انصاف سے بہر دے گا اور اہل فتنہ و فساد کا قلع قمع کر دے گا۔

اور بہترین مجاہدین راہ خدا کی قیادت کرنے ولا ا ہے اس جنگ میں جو سرکش باغیوں کے خلاف ہونے والی ہے۔

عبدی نے دوسرے قصیدہ میں اپنی محبت آل (ع) کا اظہار اس انداز سے کیا ہے۔

اے میرے سردارو ! اے اولاد علی (ع) اے آل طہ اور آل ص کون تمھارا مثل ہوسکتا ہے جبکہ تم زمین میں اللہ کے جانشین ہو۔

تم وہ نجوم ہدایت ہو جن کے ذریعہ خدا ہر ہادی کو ہدایت دیتا ہے۔

اگر تمھاری راہنمائی نہ ہوتی تو ہم گمراہ ہو جاتے اور ہدایت و گمراہی مخلوط ہو کر رہ جاتے۔

میں ہمیشہ تمھاری محبّت میں محبت کرتا ہوں اور تمھارے دشمنوں سے دشمنی کرتا ہوں۔

میں نے تمھاری محبت کے علاوہ کوئی زاد راہ نہیں فراہم کیا ہے اور یہی بہترین زاد راہ ہے۔

یہی وہ ذخیرہ ہے جس پر روز قیامت میرا اعتماد اور بھروسہ ہے۔

آپ حضرات کی محبت اور آپ کے دشمنوں سے برأت ہی میرا کل دین و ایمان ہے!۔

ترویج محبوبیت اہلبیت (ع)

۹۷۹۔ امام صادق (ع) ! اللہ اس بندہ پر رحم کرے جو ہمیں لوگوں میں محبوب بنائے اور مبغوض نہ بنائے۔( کافی ۸ ص ۲۲۹ / ۲۹۳ ، تنبیہ الخواطر ۲ص ۱۵۲ روایت ابوبصیر، مشکٰوة الانوار ص ۱۸۰ روایت علی بن ابی حمزہ ، الاعتقادات و تصحیح الاعتقادات ص ۱۰۹ ، دعائم الاسلام ۱ ص ۶۱ ، فقہ الرضا (ع) ص ۳۰۶)۔

۹۸۰۔ امام صادق (ع) ! اللہ اس بندہ پر رحمت کرے جو لوگوں کی محبت کو ہماری طرف کھینچ کر لے آئے اور ان سے وہ بات کرے جو انہیں پسندیدہ ہو اور وہ بات نہ کرے جو ناپسند ہو۔( امالی صدوق (ر) ۸۸/ ۸ روایت مدرک بن زہبیر ، الخصال ۲۵ / ۸۹ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۵ ، شرح الاخبار ۳ ص ۵۹۰ / ۱۴۵۶ ، روایت مدرک بن الہزہاز)۔

۹۸۱۔ علقمہ ! میں نے امام صادق (ع) سے گذارش کی کہ میں آپ کے قربان کوئی نصیحت فرمائیے ؟ فرمایا کہ میں تمھیں تقوائے الہی ،احتیاط ، عبادت، طول سجدہ ، ادائے امانت ، صدق حدیث ، ہمسایہ کے ساتھ بہترین سلوک کی وصیت کرتا ہوں ، دیکھو اپنے قبیلہ کے ساتھ تعلقات ٹھیک رکھنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، جنازوں کی مشایعت کرنا اور ہمارے واسطے باعث زینت بننا باعث ننگ و عار نہ بننا ہمیں لوگوں کے نزدیک محبوب بنانا اور مبغوض نہ بنانا، ہماری طرف ہر مودت کو کھینچ کر لے آؤ اور ہر برائی کو ہم سے دور رکھو ہمارے بارے میں جو خیر کہا جائے ہم اس کے اہل ہیں اور جس شرکی نسبت دی جائے اس سے یقیناً پاکیزہ ہیں ، ہمارا کتاب خدا اور قرابت رسول اور پاکیزہ ولادت کی بنا پر ایک حق ہے لہذا ہمارے بارے میں ایسی ہی بات کرو ! ( بشارة المصطفیٰ ص ۲۲۲)۔

علامات محبت اہلبیت (ع)

۱۔ کوشش عمل

۹۸۲۔ امام علی (ع) ! میں رسول اکرم کے ساتھ ہوں گا اور میرے فرزند میرے ساتھ حوض کوثر پر ہوں گے لہذا جسے میرے ساتھ رہنا ہے اسے میری بات کو اختیار کرنا ہو گا اور میرے عمل کے مطابق عمل کرنا ہو گا۔( خصال ص ۶۲۴ /۱۰ روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم ، تفسیر فرات ص ۳۶۷ / ۴۹۹ ، جامع الاخبار ۴۹۵ / ۱۳۷۶ ، غر ر الحکم حاشیہ ص ۳۷۶۳)۔

۹۸۳۔ حماد لحام امام صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد محترم نے فرمایا کہ اگر تم نے میرے خلاف عمل کیا تو میرے ساتھ آخرت میں نہیں رہ سکتے ہو پروردگار اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ ہمارے اعمال کے خلاف عمل کرنے والے ہماری منزل میں نازل ہوں ، پروردگار کعبہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔( کافی ۸ ص ۲۵۳ / ۳۵۸ ، تنبیہ الخواطر ۲ ص ۱۷۶)۔

۹۸۴۔ امام علی (ع)! جو ہم سے محبت کرے اسے ہمارا جیسا عمل بھی کرنا ہو گا اور اس راہ میں تقویٰ کو ردا کو اوڑھنا ہو گا۔( غر ر الحکم ص ۸۴۸۳)۔

۹۸۵۔ امام علی (ع) ! جو ہم سے محبت کرے وہ ہمارا جیسا عمل بھی کرے اور اس راہ میں تقویٰ سے مددلے کہ دنیا و آخرت کا سب سے بڑا مددگار تقویٰ الہی ہی ہے۔(خصال ۶۱۴ /۱۰ روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم عن الصادق (ع) ، تحف العقول ص ۱۰۴)۔

۹۸۶۔ امام صادق (ع) ! میں والد بزرگوار کے ساتھ نکل کر مسجد رسول میں گیا ، قبر و منبر کے درمیان شیعوں کی ایک جماعت موجود تھی ، آپ نے انہیں سلام کیا ، ان لوگوں نے جواب دیا تو آپ نے فرمایا کہ میں تمھاری روح اور تمھاری خوشبو کو دوست رکھتا ہوں لہذا اپنے تقویٰ اور ورع سے میری مدد کرو اور یہ یاد رکھو کہ ہماری محبت ورع اور سعی عمل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے اور اگر کوئی شخص کسی بندہ کے پیچھے چلے تو اسے اس کے مطابق عمل بھی کرنا چاہیئے۔( کافی ۸ ص ۲۱۲ / ۲۵۹ روایت عمرو بن المقدام، امالی صدوق ص ۵۰۰ / ۴ روایت ابوبصیر ، فضائل الشیعہ ۵۱ / ۸ از محمد بن عمران)۔

۹۸۷۔ امام مہدی (ع) ! جناب شیخ مفید (ر) کے خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر شخص کو وہ عمل کرنا چاہیئے جو ہماری محبت سے قریب بنا دے اور ہر اس عمل سے پرہیز کرنا چاہئے جو ہم سے کراہت اور بیزاری کا سبب بنے کہ ہمارا ظہور اچانک ہو گا اور اس وقت نہ کوئی توبہ کار آمد ہو گی اور نہ ہمارے عتاب سے کوئی شرمندگی بچا سکے گی ( احتجاج ۲ ص ۵۹۹)۔

۲۔ محبان اہلبیت (ع) سے محبت

۹۸۸۔ حنش بن المعتمر ! میں امیر المومنین علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے سلام کر کے مزاج دریافت کیا تو فرمایا کہ میری شام اس عالم میں ہوئی ہے کہ میں اپنے دوستوں کا دوست اور دشمنوں کا دشمن ہوں اور ہمارا دوست اس رحمت خدا پر مطمئن ہے جس کا انتظار کر رہا تھا اور ہمارا دشمن اپنی تعمیر جہنم کے کنارہ کر رہا ہے جس کا انجام جہنم میں گر جانا ہے اور گویا کہ اہل رحمت کیلئے رحمت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور انہیں رحمت مبارک ہے اور اہل جہنم کیلئے جہنم کی ہلاکت حاضر ہے۔

حنش ! جو شخص یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ میرا دوست ہے یا دشمن ؟ اسے چاہئے کہ اپنے دل کا امتحان کرے، اگر ہمارے دوستوں کا دوست ہے تو ہمارا دشمن نہیں ہے اور ہمارے دوستوں کا دشمن ہے تو پھر ہمارا دوست نہیں ہے ، خدا نے ہمارے دوست کی دوستی کا عہد لیا ہے اور ہمارے دشمنوں کا نام کتاب میں ثبت کر دیا ہے، ہم نجیب اور پاکیزہ افراد ہیں اور ہمارا گھرانہ انبیاء کا گھرانہ ہے۔( امالی طوسی (ر) ۱۱۳ / ۱۷۲ ، امالی مفید (ع) ص ۳۳۴ / ۷۴ ، بشارة المصطفیٰ ص ۴۵ ، کشف الغمہ ۲ ص ۸ ، الغارات ۲ ص ۵۸۵)۔

۹۸۹۔ امام علی (ع) ! جس نے اللہ سے محبت کی اس نے نبی سے محبّت کی اور اس نے ہم سے محبت کی اور جس نے ہم سے محبّت کی وہ ہمارے شیعوں سے بہر حال محبّت کرے گا۔( تفسیر فرات کوفی ص ۱۲۸ / ۱۴۶ روایت زید بن حمزہ بن محمد بن علی بن زیاد القصار)۔

۹۹۰۔ امام صادق (ع) ! جس نے ہمارے دوست سے محبّت کی اس نے ہم سے محبتّ کی( بحار الانوار ۱۰۰ / ۱۲۴ / ۳۴ روایت عبدالرحمان بن مسلم ( المزار الکبیر)۔

۳۔ دشمنان اہلبیت (ع) سے دشمنی

۹۹۱۔ صالح بن میثم التمار ! میں نے حضرت میثم کی کتاب میں دیکھا ہے کہ ہم لوگوں نے ایک شام امیر المومنین (ع) کی خدمت میں حاضری دی تو آپ نے فرمایا کہ جس مومن کے دل کا بھی خدا نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا وہ ہماری مودت کو اپنے دل میں ضرور پائے گا اور جس پر خدا کی ناراضگی ثبت ہو گئی ہے وہ ہماری دشمنی ضرور رکھے گا ، ہم اس بات پر خوش ہیں کہ مومن ہم سے دوستی رکھتا ہے اور دشمن کی دشمنی کو ہم پہچانتے ہیں۔

ہمارا دوست رحمت خدا کی بنا پر خوشحال ہے اور ہر روز اس کا منتظر رہتا ہے اور ہمارا دشمن اپنی تعمیر جہنم کے کنارے پر کر رہا ہے جس کا انجام ایک دن اس میں گر جانا ہے، گویا اہل رحمت کے لئے رحمت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور وہ اس میں خوشحال ہے اور اہل جہنم کا انجام ہلاکت ہے۔

جس بندہ کے دل میں خدا نے خیر قرار دے دیا ہے وہ ہماری محبت میں کوتاہی نہیں کرسکتا ہے اور جو ہمارے دشمن سے محبت کرتا ہے وہ ہمارا دوست نہیں ہوسکتا ہے، دو طرح کی چیزیں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتی ہیں اور ’ خدا نے کسی سینہ میں دو دل نہیں قرار دیے ہیں۔ سورہ احزاب آیت ۱۲۴ کہ ایک سے اس قوم سے محبت کرے اور دوسرے سے اس قوم سے ، جو ہمارا محب ہے وہ اتنا ہی خالص ہے جس قدر بغیر ملاوٹ والا سونا ہوتا ہے۔

ہم نجیب و پاکیزہ افراد ہیں اور ہمارا گھرانہ انبیاء کا گھرانہ ہے، ہم اوصیاء کے وصی اور اللہ و رسول کے گروہ والے ہیں ، ہمارا باغی گروہ حزب الشیطان ہے، جو ہماری محبت کا حال آزمانا چاہے وہ اپنے دل کا امتحان کر لے، اگر ہمارے دشمنوں کی محبت بھی پائی جاتی ہے تو اسے معلوم رہے کہ خدا، جبریل اور میکائیل سب اس کے دشمن ہیں اور خدا تمام کافروں کا دشمن ہے ( امالی طوسی (ر) ۱۴۸ / ۲۴۳ ، بشارة المصطفیٰ ص ۸۷ کشف الغمہ ۲ / ۱۱ ، تاویل الآیات الظاہرة ص ۴۳۹ روایت ابی الجارود و عن الصادق (ع))۔

۹۹۲۔ ابوالجارود نے امام باقر (ع) سے آیت شریفہ ’ ’ ما جعل اللہ لرجلٍ من قلبین فی جوفہ ‘ کے بارے میں امیر المومنین (ع) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ہماری اور ہمارے دشمن کی محبت ایک سینہ میں جمع نہیں ہوسکتی ہیں کہ خدا نے کسی کے سینہ میں دو دل نہیں رکھے ہیں کہ ایک سے اس سے محبت کرے اور دوسرے سے اس سے دشمنی کرے، ہمارا محبت کرنے والا اتنا ہی مخلص ہوتا ہے جیسے خالص سونا جس میں کسی طرح کی ملاوٹ نہ ہو، جو شخص ہماری محبت کا اندازہ کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے دل کا امتحان کر لے، اگر ہماری محبت میں دشمن کو شریک پاتا ہے تو نہ وہ ہم سے ہے اور نہ ہم اس سے ہیں اور اللہ بھی اس کا دشمن ہے اور جبریل و میکائیل بھی اور اللہ تمام کافروں کا دشمن ہے۔( تفسیر قمی ۲ص۱۷۱)۔

۹۹۳۔ امام صادق (ع) نے ایک شخص کے جواب میں فرمایا جس کا سوال یہ تھا کہ ایک شخص آپ کا دوست تو ہے لیکن آپ کے دشمن سے برأت میں کمزوری محسوس کرتا ہے، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ … فرمایا، افسوس ، جو ہماری محبت کا دعویٰ کرے اور ہمارے دشمن سے برأت نہ کرے وہ جھوٹا ہے۔( مستطرفات السرائر ۱۴۹ / ۲)۔

۴۔ بلاؤں کے لئے آمادگی

۹۹۴۔ ابوسعید خدری نے رسول اکرم سے ایک حاجت کے بارے میں فریاد کی تو آپ نے فرمایا کہ ابوسعید صبر کرو کہ فقر و فاقہ میرے چاہنے والوں تک پہاڑوں کی بلندیوں سے وادیوں کی طرف آنے والے سیلاب سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آتا ہے۔( مسند ابن حنبل ۴ ص ۸۵ / ۱۱۳۷۹ ، شعب الایمان ۷ ص ۳۱۸ / ۱۰۴۴۲ ، ۲ ص ۱۷۴ / ۱۴۷۳ ، الفردوس ۳ ص ۱۵۵ / ۴۴۲۱)۔

۹۹۵۔ ابوذر رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں آپ کے گھرانہ کا چاہنے والا ہوں تو فرمایا کہ ہوشیار رہو اور فقر کی سواری تیار رکھو کہ فقر ہمارے چاہنے والوں کی طرف سیلاب کی تیز رفتاری سے زیادہ روانی کے ساتھ آتا ہے۔( مستدرک حاکم ۴ ص ۳۶۷ / ۹۴۴ ، سنن ترمذی ۴ ص ۵۷۶ / ۲۳۵۰ شعب الایمان ۲ ص ۱۷۳/۱۴۷۱)۔

۹۹۶۔ ابن عباس ! رسول اکرم کو سخت پریشانی کا سامنا ہو گیا اور علی (ع) کو اس کی خبر مل گئی تو وہ کام کی تلاش میں نکل پڑے تا کہ کچھ سامان حاصل کر کے رسول اکرم کی خدمت میں پیش کر دیں ، اتفاق سے ایک یہودی کے باغ میں سینچائی کا کام مل گیا اور سترہ کھجور کے عوض سترہ ڈول پانی نکالا اور وہ کھجور لے کر رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے فرمایا کہ یا ابا الحسن یہ کہاں سے ؟ عرض کی کہ مجھے آپ کی پریشانی کا علم ہوا تو میں کام کی تلاش میں نکل پڑا اور یہ کھجور لے حاضر ہوا ہوں۔

فرمایا کہ یہ تم نے خدا و رسول کی محبت میں کیا ہے ؟ عرض کی بیشک ! فرمایا کہ جب کوئی بندہ خدا و رسول سے محبت کرتا ہے تو فقر و فاقہ اس کی طرف سیلاب کی روانی سے تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتا ہے خدا و رسول سے محبت کرنے والے کو صبر کی سواری کو تیار رکھنا چاہئے۔ ( السنن الکبریٰ ۶ ص ۱۹۷ / ۱۱۴۹ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۲ ص ۴۴۹ / ۹۶۶)۔

۹۹۷۔ عنمة الجہنئ ! ایک دن رسول اکرم گھر سے برآمد ہوئے تو انصار کے ایک شخص نے ملاقات کر کے عرض کی کہ میرے ماں باپ قربان، آپ کے چہرہ پر کبیدگی کے آثار اچھے نہیں لگتے ہیں ، آخر اس کا سبب کیا ہے ؟ آپ نے تاویر اس شخص پر نظر کرنے کے بعد فرمایا کہ بھوک !

وہ شخص یہ سن کر رو پڑا اور گھر میں کھانا تلاش کرنے لگا اور جب کچھ نہ ملا تو بنی قریظہ میں جا کر ایک کھجور ایک ڈول پانی کھینچنے کا کام کرنے لگا اور جب کچھ کھجور جمع ہو گئے تو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور نوش فرمائیں۔

آپ نے فرمایا کہ یہ کھجور کہاں سے آئے؟

اس نے ساری داستان بیان کی۔

آپ نے فرمایا کہ شائد تم اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہو؟ اس نے عرض کی کہ بیشک ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایا ہے کہ آپ میری نظر میں میری جان اور میرے اہل و عیال اور اموال سے زیادہ عزیز ہیں۔

فرمایا اگر ایسا ہے تو فقر اور بلاء کے لئے تیار ہو جاؤ کہ ذات واجب کی قسم، فقر اور بلا کی رفتار میرے چاہنے والوں کی طرف بلندی کوہ سے سیلاب کی رفتار سے زیادہ تیز تر ہے۔( المعجم الکبیر ۱۸ ص ۸۴ / ۱۵۵ ، اصابہ ۴ ص ۶۱۱ / ۶۰۹۷ ، اسد الغابہ ۴ ص ۲۹۴ / ۴۱۱۲)۔

۹۹۸۔ امام علی (ع)! جو شخص بھی ہم سے محبت کرے وہ بلاء کی چادر تیار کر لے۔(غر ر الحکم ص ۹۰۳۷)۔

۹۹۹۔ امام علی (ع)! جو ہم سے محبت کرے اسے رنج و محن کی کھال اوڑھ لینی چاہیئے۔ ( غر ر الحکم ص ۹۰۳۸)۔

۱۰۰۰۔ امام علی (ع) ! جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے اسے سامان بلاء کو تیار کر لینا چاہیئے (الغارات ۲ ص ۵۸۸ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۷۷۵)۔

۱۰۰۱۔ امام علی (ع)! جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے اسے فقر کی چادر مہیار کر لینی چاہیئے۔( نہج البلاغہ حکمت ص ۱۱۲)۔

۱۰۰۲۔ اصبغ بن نباتہ! میں امیر المومنین (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص وارد ہوا اور اس نے کہا کہ خدا گواہ ہے میں آپ سے محبت کرتا ہوں ، فرمایا تم صحیح کہتے ہو، ہماری طینت خزانہ قدرت میں محفوظ ہے اور اللہ نے اس کا عہد صلب آدم (ع) میں لیا ہے لیکن اب چادر فقر اختیار کر لو کہ میں نے رسول اکرم سے سنا ہے کہ خدا کی قسم یا علی (ع) ! فقر کی رفتار تمھارے چاہنے والوں کی طرف سیلاب کی رفتار سے زیادہ تیزتر ہے۔( المومن ۱۶ ص ۵ ، اعلام الدین ص ۴۳۲)۔

۱۰۰۳۔ اصبغ بن نباتہ ! میں امیر المومنین (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے آ کر عرض کی کہ میں آپ سے خفیہ، علانیہ ہر حال میں محبت کرتا ہوں ! امیر المومنین (ع) نے یہ سن کر ایک لکڑی سے زمین کو کھودنا شروع کر دیا، اس کے بعد سر اٹھا کر فرمایا کہ تو جھوٹا ہے، میں نے نہ تیری شکل اپنے چاہنے والوں کی شکلوں میں دیکھی ہے اور نہ تیرا نام ان کے ناموں میں دیکھا ہے۔

مجھے اس کلام سے بے حد تعجب ہوا اور میں خاموش بیٹھا رہا یہاں تک کہ ایک دوسرے شخص نے آ کر یہی بات دہرائی ! آپ نے پھر زمین کو کریدا اور فرمایا کہ تو سچ کہتا ہے ، ہماری طینت طینتِ مرحومہ ہے، اس کا عہد پروردگار نے روز میثاق لے لیا ہے اور اس سے کوئی شخص الگ نہیں ہوسکتا ہے اور نہ اس میں کوئی شخص باہر سے داخل ہوسکتا ہے، لیکن اب فقر کی چادر تیار کر لے کہ میں رسول اکرم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ یا علی (ع) ! فاقہ کی رفتار تمھارے چاہنے والوں کی طرف سیلاب کی رفتار سے تیزتر ہے۔( امالی طوسی (ر) ص ۴۰۹) / ۹۲۱ ، بصائر الدرجات ص ۳۹۰ / ۳۹۱ ، اختصاص ص ۳۱۱ / ۳۱۲۔

۱۰۰۴۔ محمد بن مسلم ! میں بیماری کی حالت میں مدینہ وارد ہوا تو کسی نے امام باقر (ع) کو میرے حالات کی اطلاع کر دی ، آپ نے ایک غلام کے ہمراہ رومال سے ڈھانک کر ایک شربت ارسال فرمایا اور غلام نے کہا کہ حضرت نے فرمایا ہے کہ اپنے سامنے پلادینا، میں نے اسے دیکھا کہ انتہائی خوش ذائقہ اور خوشبودار ہے اور فوراً پی لیا۔

غلام نے کہا کہ اب اجازت دیجئے کہ حضرت نے فرمایا ہے کہ جب پی لیں تو تم واپس آ جانا، میں غور کرنے لگا کہ ابھی تو میں اٹھنے کے قابل نہیں تھا اور اب یکبارگی اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور حضرت کے دروازہ پر حاضر ہو کر اذن طلب کیا، آپ نے اندر سے آواز دی کہ ٹھیک ہو گئے؟ اچھا اب اندر آ جاؤ ! میں روتا ہوا داخل ہوا، سلام کر کے دست مبارک کو بوسہ دیا ، فرمایا رونے کا سبب کیا ہے؟

عرض کی ، میں آپ پر قربان، منزل اس قدر دور ہے کہ برابر حاضر نہیں ہوسکتا اور حالات ایسے ہیں کہ مدینہ میں قیام نہیں کرسکتا، یہ رونا اپنی غربت اور بدقسمتی کا ہے۔

فرمایا کہ جہاں تک بلاء کا سوال ہے، پروردگار نے میرے چاہنے والوں کو ایسا ہی بنایا اور بلاء کو ان کی طرف تیز رفتار بنا دیا ہے اور جہاں تک غربت کا سوال ہے تو حضرت ابوعبداللہ سے سبق لینا چاہیئے جو شط فرات پر ہم سب سے دور ہیں۔

رہ گیا تمھاری منزل کا ہم سے دور ہونا تو مومن ہمیشہ اس دار دنیا میں غریب رہتا ہے یہاں تک کہ جوار رحمت الہیہ میں پہنچ جائے۔

اور تم نے ہم سے قریب رہنے اور ہمیں دیکھنے کی خواہش کا جو اظہار کیا ہے تو اللہ تمھاری نیت سے باخبر ہے اور تمھیں اس جذبہ پر اجر عنایت کرنے والا ہے۔( رجال کشی ۱ ص ۳۹۱ / ۲۸۱ ، کامل الزیارات ص ۲۷۵ ، اختصاص ص۵۲ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۸۱)-

آثار محبت اہلبیت (ع)

۱۔ گناہوں کا محو ہو جانا

۱۰۰۵۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) کی محبت گناہوں کو محو کر دیتی ہے اور نیکیوں کو دگنا کر دیتی ہے۔( امالی طوسی (ر) ص ۱۶۴ / ۲۷۴ روایت علی بن مہدی ، ارشاد القلوب ص ۲۵۳)۔

۱۰۰۶۔ امام حسن (ع) ! خدا کی قسم ہماری محبت ہر ایک کو فائدہ پہنچا دیتی ہے چاہے وہ ارض دیلم کا قیدی غلام کیوں نہ ہواور ہماری محبت اولاد آدم (ع) کے گناہوں کو اس طرح گرا دیتی ہے جس طرح ہوا درخت سے پتے گرا دیتی ہے۔( اختصاص ص۸۲ ، رجال کشی (ر) ۱ ص ۳۲۹ / ۱۷۸ روایت ابوحمزہ ثمالی )۔

۱۰۰۷۔ امام زین العابدین (ع)! جو ہم سے برائے خدا محبت کرے گا اسے محبت ضرور فائدہ پہنچائے گی چاہے دیلم کے پہاڑوں پر کیوں نہ ہو اور جو کسی اور غرض سے محبّت کرے گا تو اس کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہم اہلبیت (ع) کی محبت گناہوں کو یوں گرا دیتی ہے جس طرح ہوا درخت کے پتوں کو گرا دیتی ہے۔ (بشارة المصطفیٰ ص ۳ ابوزرین ، شرح الاخبار ۲ ص ۵۱۳ / ۹۰۶ روایت علی بن حمزہ عن الحسین (ع) )۔

۱۰۰۸۔ امام باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی محبت سے گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔( امالی طوسی (ر) ص ۴۵۲ / ۱۰۱۰ ، بشارة المصطفیٰ ص ۶۷ روایت خالد بن طہاز ابوالعلاء الخفاف)۔

۱۰۰۹۔ امام صادق (ع) (ع)! ہم اہلبیت (ع) کی محبت بندوں کے گناہوں کو اسی طرح گرا دیتی ہے جس طرح تیز ہوا درخت کے پتوں کو گرا دیتی ہے۔( ثواب الاعمال ص ۲۲۳/۱ ، قرب الاسناد ص ۳۹ / ۱۲۶ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۷۰ روایات بکر بن محمد ازدی)۔

۱۰۱۰۔ امام صادق (ع) ! جو شخص خدا کے لئے ہم سے اور ہمارے دوستوں سے محبت کرے اور اس کی کوئی دنیاوی غرض نہ ہو یا اسی طرح ہمارے دشمنوں سے صرف برائے خدا دشمنی کرے اور اس کی کوئی ذاتی عداوت نہ ہو اور اس کے بعد روز قیامت بقدر ریگ صحرا و زبد در یا گناہ لے کر آئے تو بھی خدا اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا۔( امالی طوسی (ر) ۱۵۶ / ۲۵۹ ، بشارة المصطفیٰ ص ۹۰ ، روایت حسین بن مصعب ، ارشاد القلوب ص ۲۵۳ اعلام الدین ص ۴۴۸ ، ثواب الاعمال ص ۲۰۴ /۱ روایت صالح بن سہل ہمدانی)۔

۲۔ طہارت قلب

۱۰۱۱۔ امام باقر (ع) ! جو شخص بھی ہم سے محبت کرتا ہے، اللہ اس کے دل کو پاک کر دیتا ہے اور جس کے دل کو پاک کر دیتا ہے وہ ہمارے لئے سراپا تسلیم ہو جاتا ہے اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو پروردگار اسے سختی حساب اور ہول قیامت سے محفوظ بنا دیتا ہے۔( کافی ۱ ص ۱۹۴ / ۱ ابوخالد کابلی )۔

۱۰۱۲۔ امام صادق (ع) ! کوئی شخص بھی ہم سے محبت نہیں کرے گا مگر یہ کہ روز قیامت ہمارے ساتھ ہماری منزل میں اور ہمارے زیر سایہ ہو گا، خدا کی قسم جو شخص بھی ہم سے محبت کرے گا پروردگار اس کے دل کو پاکیزہ بنا دے گا اور جب ایسا کر دے گا تو وہ سراپا تسلیم ہو جائے گا اور جب ایسا ہو جائے گا تو اسے سختی حساب اور ہول قیامت سے محفوظ بنا دے گا اور اس امر کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہو گا جب سانس حلق تک پہنچ جائے گی۔( دعائم الالسلام ۱ ص ۷۳ ، شرح الاخبار ۳ ص ۴۷۱ / ۱۳۶۷ روایت عبدالعلی بن الحسین )۔

۳۔ اطمینان قلب

۱۰۱۳۔ امام علی (ع) ! جب آیت کریمہ ’ الا بذر اللہ تطمئن القلوب‘ نازل ہوئی تو رسول اکرم نے فرمایا کہ یہ وہ شخص ہے جو خدا و رسول اور میرے اہلبیت (ع) سے سچی محبت کرتا ہے اور جھوٹ نہیں بولتا ہے اور مومنین سے بھی حاضر و غائب ہر حال میں محبت کرتا ہے کہ مومنین ذکر خدا ہی سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔( کنز العمال ۲ ص ۴۴۲ / ۴۴۴۸، در منثور ۲ ص ۶۴۲ ، جعفریات ص ۲۲۴)۔

۱۰۱۴۔ امام صادق (ع) ! آیت کریمہ کے نزول کے بعد رسول اکرم نے حضرت علی (ع) سے فرایا کہ تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟

عرض کی کہ خدا اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے ! فرمایا جو شخص میرے اقوال کی تصدیق کرے ، مجھ پر ایمان لے آئے اور تم سے اور تمھاری اولادسے محبت کرے اور سارے امور کو تم لوگوں کے حوالہ کر دے۔( تفسیر فرات کوفی ص ۲۰۷ / ۳۷۴ روایت محمد بن القاسم بن عبید)۔

۱۰۱۵۔ انس بن مالک ! رسول اکرم نے مجھ سے آیتہ ’ الا بذکر اللہ ‘ کے بارے میں دریافت کیا کہ فرزند ام سلیم تمھیں معلوم ہے کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں ؟

میں نے عرض کی حضور آپ فرمائیں ؟ فرمایا ہم اہلبیت (ع) اور ہمارے شیعہ۔( بحارا النوار ۳۵ ص ۴۰۵ / ۲۹ / ۲۳ ص ۱۸۴ / ۴۸ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۲۳۹ ، البرہان ۲ ص ۲۹۱ / ۲ روایت ابن عباس )۔

نوٹ ! بظاہر ابن عباس کا نام سہواً درج ہو گیا ہے اس لئے کہ ابن عباس ام سلیم سے مراد انس بن مالک ہے جیسا کہ تہذیب الکمال ۳ ص ۳۵۳ / ۵۶۸ میں واضح کیا گیا ہے۔؟

۴۔ حکمت

۱۰۱۶۔ امام صادق (ع) ! جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا اور ہماری محبت کو اپنے دل میں ثابت کرے گا اس کی زبان سے حکمت کے چشمے جاری ہوں گے اور اس کے دل میں ایمان ہمیشہ تازہ رہے گا۔( محاسن ۱ ص ۱۳۴ / ۱۶۷ روایت فضیل بن عمر)۔

۵۔کمال دین

۱۰۱۷۔ رسول اکرم ! میرے اہلبیت (ع) اور میری ذریت کی محبت کمال دین کا سبب بنتئ ہے۔( امالی صدوق (ر) ص ۱۶۱ / ۱ روایت حسن بن عبداللہ )۔

۱۰۱۸۔ رسول اکرم ! میرے قبیلہ ، میرے اہلبیت (ع) اور میری ذریت کی فضیلت ویسی ہی ہے جیسے دنیا کی ہر شے پر پانی کی فضیلت ہے کہ ہر شے کی زندگی کا دارو مدار پانی پر ہے۔( اسی طرح میرے اہلبیت (ع) ، عشیرہ اور ذریت کی محبت سے کمال دین حاصل ہوتا ہے۔ (اختصاص ص ۳۷)۔

۶۔مسرت و اطمینان وقت موت

۱۰۱۹۔ عبداللہ بن الولید ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں مروان کے دور حکومت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں اہل کوفہ میں سے ہوں !

فرمایا کہ کوفہ سے زیادہ ہم سے محبت کرنے والا کوئی شہر نہیں ہے خصوصاً یہ ایک جماعت جسے خدا نے ہمارا عرفان عنایت فرمایا ہے جبکہ تمام لوگ جاہل تھے۔ تم لوگوں نے ہم سے محبت کی جب لوگ نفرت کر رہے تھے، ہمارا اتباع کیا جب لوگ مخالفت کر رہے تھے، ہماری تصدیق کی جب لوگ تکذیب کر رہے تھے، خدا تمھیں ہماری جیسی حیات و موت عنایت کرے۔

یاد رکھو کہ میرے والد بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے ہر شخص اپنی خنکی چشم اور سکون قلب کو اس وقت دیکھے گا جب سانس آخری مرحلہ تک پہنچ جائے گی ، پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ہر رسول کے لئے ازواج اور ذریت قرار دی ہے۔رعد ص ۳۸ اور ہم ذریت رسول اللہ میں۔( کافی ۸ ص ۸۱ / ۳۸ امالی طوسی (ر) ص ۱۴۴ / ۲۳۴ ، بشارة المصطفیٰ ص ۸۲)۔

واضح رہے کہ بشارة المصطفیٰ میں مروان کے بجائے بنی مروان کا ذکر ہے اور یہی صحیح ہے کہ امام صادق (ع) کی ولادت عبدالملک بن مروان کے دور میں ہوئی ہے۔!

۷۔ شفاعت اہلبیت (ع)

۱۰۲۰۔ رسول اکرم۔ میری شفاعت میری امت میں صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو میرے اہلبیت (ع) سے محبت کرنے والے ہیں اور میرے شیعہ ہیں۔( تاریخ بغداد ۲ ص ۱۴۶)۔

۱۰۲۱۔ رسول اکرم ، ہم اہلبیت (ع) کی محبت اختیار کرو کہ جو ہماری محبت لے کر میدان قیامت میں وارد ہو گا ، وہ ہماری شفاعت سے داخل جنت ہو جائے گا ، (المعجم الاوسط ۲ ص ۳۶۰ / ۲۲۳۰ روایت ابن ابی لیلیٰ ، امالی مفید (ر) ۱۳ / ۱ ، امالی طوسی (ر) ۱۸۷ / ۳۱۴ ، المحاسن ۱ ص ۱۳۴ / ۱۶۹ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۰۰ ، ارشاد القلوب ص ۲۵۴)۔

۱۰۲۲۔ امام علی (ع)! روز قیامت اپنے اعمال کی بنا پر شفاعت کے لئے ہماری تلاش میں پریشان نہ ہونا، ہمیں بھی حق شفاعت حاصل ہے اور ہمارے شیعوں کو بھی ہم سے حوض کوثر پر ملاقات کرنے میں سبقت کرو کہ ہم اپنے دشمنوں کو وہاں سے ہنکا دیں گے اور اپنے دوستوں کو سیراب کریں گے۔ (الخصاص ۶۱۴ / ۶۲۴ / ۱۰ روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم عن الصادق (ع))۔

۸۔ نورِ روز قیامت

۱۰۲۳۔ رسول اکرم ! تم میں سب سے زیادہ نورانیت کا حامل وہ شخص ہو گا جو سب سے زیادہ اہلبیت (ع) سے محبت کرنے والا ہو گا۔ (شواہد التنزیل ۲ ص ۳۱۰ / ۹۴۸ از سالم )۔

۱۰۲۴۔ رسول اکرم ! آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کی قسم کوئی بندہ میرے اہلبیت (ع) سے محبت نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ پروردگار اسے ایک نور عطا کر دیتا ہے جو حوض کوثر تک ساتھ رہتا ہے اور اسی طرح دشمن اہلبیت (ع) کے اور اپنے درمیان حجاب حائل کر دیتا ہے۔( شواہد التنزیل ۲ ص ۳۱۰ / ۹۴۷ روایت ابوسعید خدری)۔

۹۔ امن روز قیامت

۱۰۲۵۔ رسول اکرم ! جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا پروردگار اسے روز قیامت مامون و محفوظ اٹھائے گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۵۸ / ۲۲۰ از ابومحمد الحسن بن عبداللہ بن محمد بن العباس الرازی التمیمی عن الرضا (ع) )۔

۱۰۲۶۔ رسول اکرم ! آگاہ رہو کہ جو آل محمد سے محبت کرتا ہے وہ حساب، میزان اور صراط سے محفوظ ہو جاتا ہے، فضائل الشیعہ ۲۷ / ۱ ، بشارة المصطفیٰ ص ۳۷ ، مأئة منقبة ص ۱۴۹ ، اعلام الدین ص ۲۶۴ ، ارشاد القلوب ص ۲۳۵ ، مناقب خوارزمی ۷۳ / ۵۱ ، مقتل خوارزمی ۱ص ۴۰ ، فرائد السمطین ۲ ص ۲۵۸ / ۵۲۶ روایات ابن عمر)۔

۱۰۲۷۔ رسول اکرم ! میری اور میرے اہلبیت (ع) کی محبت سات مقامات پر کام آنے والی ہے جن کا ہوں انتہائی عظیم ہے، وقت مرگ ، قبر ، وقت نشر ، وقت نامۂ اعمال ، وقت حساب، میزان ، صراط۔( خصال ۳۶۰ / ۴۹ ، امالی صدوق (ر) ۱۸ / ۳ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۷ روایت جابر عن الباقر (ع) ، روضة الواعظین ص ۲۹۷ ، جامع الاخبار ۵۱۳ / ۱۴۴۱، کفایة الاثر ص ۱۰۸ روایت واثلہ بن الاسقع)۔

۱۰۲۸۔ امام صادق (ع)! ہم اہلبیت (ع) کی محبت سے مقامات پر فائدہ ہونے والا ہے، خدا کے سامنے، موت کے وقت ، قبر میں ، روز حشر، حوض کوثر پر ، میزان پر ، صراط پر۔( المحاسن ۱ ص ۲۵۰ / ۴۷۱ روایت محمد بن الفضل الہاشمی)۔

۱۰۔ ثباتِ قدم بر صراط

۱۰۲۹۔ رسول اکرم ! تم میں سب سے زیادہ صراط پر ثبات قدم والا وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھے سے اور میرے اہلبیت (ع) سے محبت کرنے والا ہو گا۔( جامع الاحادیث قمی ص ۲۳۱)۔

۱۰۳۰۔ رسول اکرم ! تم میں سب سے زیادہ صراط پر ثابت قدم سب سے زیادہ میرے اہلبیت (ع) سے محبت کرنے والا ہو گا۔( فضائل الشیعہ ۴۸ /۳ روایت اسماعیل بن مسلم الشعیری، الجعفریات ص ۱۸۲ ، نوادر راوندی ص ۹۵ ، کامل ابن عدی ۶ / ۲۳۰۴ روایت موسیٰ بن اسماعیل ، کنز العمال ۲ص ۹۷ / ۶۳ ۳۴۱ ، صواعق محرقہ ص ۱۸۷ ، احقاق الحق ۱۸ / ۴۵۹)۔

۱۰۳۱۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) سے جس نے بھی محبت کی اس کا ایک قدم پھسلنے لگے گا تو دوسرا ثابت ہو جائے گا یہاں تک کہ خدا اسے روز قیامت نجات دیدے۔( در الاحادیث النبویہ ص ۵۱)۔

۱۰۳۲۔ امام صادق (ع) ! ہمارا کوئی دوست ایسا نہیں ہے جس کے دونوں قدم پھسل جائیں بلکہ جب ایک قدم پھسلنے لگتا ہے تو دوسرا ثابت ہو کر اسے سنبھال لیتا ہے۔( دعائم الاسلام ص ۱۶۳)۔

۱۱۔ نجات از جہنم

۱۰۳۳۔ رسول اکرم ! روز قیامت پروردگار فاطمہ (ع) کو آواز دے گا کہ جو چاہو مانگ لو میں عطا کر دوں گا ! تو فاطمہ (ع) کہیں گی کہ خدایا تجھ ہی سے ساری امیدیں وابستہ ہیں اور تو امیدوں سے بھی بالاتر ہے، میرا سوال صرف یہ ہے کہ میرے اور میری عترت کے محبون پر جہنم کا عذاب نہ کرنا ؟ تو آواز آئے گی ، فاطمہ (ع) ! میری عزّت و جلال اور بلندی کی قسم، میں نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ تیرے اور تیری اولاد کے دوستوں پر جہنم کا عذاب نہیں کروں گا۔( تاویل الآیات الظاہرہ روایت ابوذر)۔

۱۰۳۴۔ بلال بن حمامہ ! ایک دن رسول اکرم ہمارے درمیان مسکراتے ہوئے تشریف لائے تو عبدالرحمان بن عوف نے عرض کی کہ حضور آپ کے مسکرانے کا سبب کیا ہے؟

فرمایا میرے پاس پروردگار کی بشارت آئی ہے کہ مالک نے جب علی (ع) و فاطمہ (ع) کا عقد کرنا چاہا تو ایک فرشتہ کو حکم دیا کہ درخت طوبیٰ کو ہلائے-اس نے ہلایا تو بہت سے اوراق گر پڑے اور ملائکہ نے انہیں چن لیا، اب روز قیامت ملائکہ تمام مخلوقات کو دیکھیں گے اور جسے محبت اہلبیت (ع) پائیں گے اسے یہ پروانہ دے دیں گے جس پر جہنم سے برأت لکھی ہو گی میرے بھائی ، ابن عم اور میری بیٹی کی طرف سے جو میری امت کے مرد و زن کو عذاب جہنم سے آزادی دلانے والے ہوں گے۔( تاریخ بغداد ۴ ص ۴۱۰ ، اسدالغابہ ۱ ص ۴۱۵ / ۴۹۲ ، ینابیع المودہ ۲ ص ۴۶۰ / ۲۷۸ ، مناقب خوارزمی ۲۳۱ /۳۶۱ ، مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۳۴۶ ، مائئہ منقبہ ص ۱۴۵ ، الخرائج والجرائح ۲ ص ۳۵۶ / ۱۱)۔

۱۰۳۵۔امام صادق (ع)! خدا کی قسم کوئی بندہ اللہ و رسول کا چاہنے والا اور ائمہ سے محبت کرنے والا ایسا نہیں ہوسکتا ہے جسے آتش جہنم مس کرسکے۔( رجال نجاشی ۱ ص ۱۳۸ روایت ا لیاس بن عمرو البحلئ، شرح الاخبار ۳ ص ۴۶۳ / ۱۳۵۵ روایت حضرمی)۔

۱۲۔ اہلبیت (ع) کے ساتھ حشر و نشر

۱۰۳۶۔ امام علی (ع)! رسول اکرم نے حسن (ع) و حسین (ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ جو مجھ سے ، ان دونوں سے اور ان کے والدین سے اور ان کے والدین سے محبت کرے گا وہ روز قیامت میرے ساتھ درجہ میں ہو گا۔( سنن ترمذی ۵ ص۶۴۱ / ۳۷۷۳۳ ، مسند احمد بن حنبل ۱ ص ۱۶۸ / ۵۷۶ ، فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ ص ۶۹۴ /۱۱۸۵ ، تاریخ بغداد ۱۳ / ۲۸۷ ، مناقب خوارزمی ص ۱۳۸ / ۱۵۶ ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ر) ص ۵۲ / ۹۵ ، ۹۶ ، امالی صدوق (ر) ص ۱۹۰ / ۱۱ ، بشارة المصطفیٰٰ ص ۳۲ روایت علی بن جعفر عن الکاظم (ع) ، احقاق الحق ۹ ص ۱۷۴)۔

۱۰۳۷۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم نے فرمایا کہ ہم فاطمہ (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) اور ہمارے دوست ایک مقام پر جمع ہوں گے اور کھانے پینے میں مصروف رہیں گے یہاں تک کہ تمام بندوں کا حساب ہو جائے ، ایک شخص نے یہ سنا تو کہنے لگا کہ پھر حساب و کتاب کا کیا ہو گا؟ تومیں نے کہا صاحب یاسین کے بارے میں کیا خیال ہے جو اسی ساعت داخل جنت کر دیے گئے۔( المعجم الکبیر ۳ ص ۴۱ / ۲۶۲۳ از عمر بن علی ، تہذیب تاریخ دمشق ۴ ص ۲۱۳)۔

۱۰۳۸۔ رسول اکرم میرے پاس حوض کوثر پر میرے اہلبیت (ع) اور ان کے چاہنے والے برابر سے وارد ہوں گے۔( مقاتل الطالبیین ص۷۶ ، شرح نہج البلاغہ معتزلی ۱۶ ص ۴۵ روایت سفیان، ذخائر العقبئص ۱۸، کتاب الغارات ۲ ص ۵۸۶ ، مناقب امیر المومنین (ع) کوفی ۲ ص ۱۹۲ / ۶۱۴)۔

۱۰۳۹۔ رسول اکرم ! جو مجھ سے اور میرے اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا وہ میرے ساتھ دو برابر کی انگلیوں کی طرح رہے گا۔( کفایة الاثر ص ۳۵ روایت ابوذر)۔

۱۰۴۰۔ رسول اکرم ! جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا وہ قیامت میں ہمارے ساتھ محشور ہو گا اور ہمارے ساتھ داخل جنّت ہو گا۔ (کفایة الاثر ص ۲۹۶ از محمد بن ابی بکر از زید بن علی )۔

۱۰۴۱۔ رسول اکرم ! جوہم سے محبت کرے گا وہ قیامت میں ہمارے ساتھ ہو گا اور اگر کوئی انسان کسی پتہر سے بھی محبت کرے گا تو اسی کے ساتھ محشور ہو گا، (امالی صدوق (ر) ص ۱۷۴ / ۹ روایت نوف ، روضة الواعظین ص ۴۵۷ ، مشکٰوة الانوار ص ۸۴)۔

۱۰۴۲۔ ابوذر ! میں نے عرض کی یا رسول اللہ میں ایسے افراد سے محبت کرتا ہوں جن کے اعمال تک نہیں پہنچ سکتا ہوں تو اب کیا کروں ؟ فرمایا ، ابوذر ! ہر انسان اپنے محبوب کے ساتھ محشور ہو گا اور اعمال کے مطابق جزا پائے گا۔

میں نے عرض کی کہ میں اللہ ، رسول اور اس کے اہلبیت (ع) سے محبت کرتا ہوں ؟ فرمایا تمھارا انجام تمھارے محبوبوں کے ساتھ ہو گا۔ (امالی طوسی (ر) ۶۳۲ / ۱۳۰۳ ، کشف الغمہ ۲ ص ۴۱)۔

۱۰۴۳۔ امام حسین (ع) ! جو ہم سے دنیا کے لئے محبت کرے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ دنیا دار ہیں جن کے دوست نیک اور فاجر سب ہوتے ہیں اور جو ہم سے اللہ کے لئے محبت کرے اسے معلوم رہنا چاہیئے کہ قیامت کے دن ہمارے برابر میں ہو گا جس طرح کی ہاتھ کی دو انگلیاں۔( المعجم الکبیر ۳ ص ۱۳۵ /۲۸۸۰ روایت بشر بن غالب)۔

۱۰۴۴۔ امام حسین (ع) ! جو ہم سے اللہ کے لئے محبت کرے گا وہ ہمارے ساتھ دو برابر کی انگلیوں کی طرح رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہو گا اور جو ہم سے دنیا کیلئے محبت کرے گا تو دنیا نیک و بد سب کے لئے ہے۔( امالی طوسی ۲۵۳ / ۴۵۵)۔ بشارة المصطفیٰ ص ۱۲۳ روایت بشر بن غالب)۔

۱۰۴۵۔ امام حسین (ع) ! جو ہم سے محبت کرے اور صرف خدا کے لئے کرے وہ ہمارے ساتھ برابر سے روز قیامت محشور ہو گا اور جو ہم سے صرف دنیا کے لئے محبت کرے گا اس کا حساب ایسے ہی ہو گا جیسے میزان عدالت میں ہر نیک و بد کا حساب ہو گا۔( محاسن ۱ ص ۱۳۴ /۱۶۸)۔

۱۰۴۶۔ امام زین العابدین (ع)! مختصر سی بات یہ ہے کہ جو ہم سے بغیر دنیاوی لالچ کے محبت کرے گا اور ہمارے دشمن سے بغیر ذاتی کدورت کے دشمنی رکھے گا وہ روز قیامت حضرت محمد ، حضرت ابراہیم (ع) اور حضرت علی (ع) کے ساتھ محشور ہو گا۔ ( محاسن ۱ ص ۲۶۷ / ۵۱۷ روایت ابوخالد کابلی)۔

۱۰۴۷۔ برید بن معاویہ البجلی ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ اچانک ایک شخص خراسان سے پیدل چل کر وارد ہوا اس طرح اس کے دونوں پیر زخمی ہو چکے تھے، کہنے لگا کہ میں اس عالم میں صرف آپ اہلبیت (ع) کی محبت میں حاضر ہوا ہوں۔

فرمایا خدا کی قسم ہم سے کوئی پتہر بھی محبت کرے گا تو روز قیامت ہمارے ہی ساتھ محشور ہو گا کہ دین محبت کے علاوہ اور کیا ہے۔ (تفسیر عیاشی ۱ ص ۱۶۷ / ۲۷)۔

۱۰۴۸۔ امام صادق (ع)! جو ہم سے اس طرح محبت کرے کہ اس کی بنیاد نہ کوئی قرابتداری ہو اور نہ ہمارا کوئی احسان، صرف خدا و رسول کے لئے محبت کرے تو روز قیامت ہمارے ساتھ ہاتھ کی دو انگلیوں کی طرح محشور ہو گا۔ (اعلام الدین ص ۲۶۰ روایت عبیدہ بن زرارح)۔

۱۰۴۹۔ یوسف بن ثابت بن ابی سعید ، امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ جب لوگوں نے آپ کے پاس حاضر ہو کر عرض کی کہ ہم آپ سے قرابت رسول اور حکم خدا کی بنا پر محبت کرتے ہیں اور ہمارا مقصد ہرگز کسی دنیا کا حصول نہیں ہے، صرف رضاء الہی اور آخرت مطلوب ہے اور ہم اپنے دین کی اصلاح چاہتے ہیں۔

تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے یقیناً سچ کہا ہے، اب جو ہم سے محبت کرے گا وہ روز قیامت دو انگلیوں کی طرح ہمارے ساتھ ہو گا۔ (کافی ۸ ص ۱۰۶ / ۸۰ ، تفسیر عیاشی ۲ ص ۶۹/ ۶۱)۔

۱۰۵۰۔ حکم بن عتیبہ، میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو گھر حاضرین سے چھلک رہا تھا کہ ایک مرد بزرگ عصا پر تکیہ کئے ہوئے حاضر ہوئے اور دروازہ پر کھڑے ہو کر آواز دی ، سلام ہو آپ پر اے فرزند رسول اور رحمت و برکات الہیہ آپ پر ، اس کے بعد خاموش ہو گئے تو امام نے فرمایا علیک السلام و رحمة اللہ و برکاتہ ، اس کے بعد مرد بزرگ نے تمام حاضرین کو سلام کیا اور چپ ہو گئے تو حاضرین نے جواب سلام دیا۔

اس کے بعد امام کی طرف رخ کر کے عرض کی فرزند رسول ! میں آپ پر قربان ! مجھے قریب جگہ دیجیئے کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور آپ کے دوستوں سے محبت کرتا ہوں اور خدا گواہ ہے کہ اس میں کوئی طمع دنیا شامل نہیں ہے اور اسی طرح آپ کے دشمنوں سے اور آپ کے دوستوں کے دشمنوں سے نفرت کرتا ہوں اور اس میں کوئی ذاتی عداوت شامل نہیں ہے ، میں آپ کے حلال و حرام کا پابند اور آپ کے حکم کا منتظر رہتا ہوں کیا میرے لئے کوئی نیکی کی امید ہے۔

فرمایا۔ میرے قریب آؤ، اور قریب آؤ، یہ کہہ کر اپنے پہلو میں جگہ دی اور فرمایا کہ ایسا ہی سوال میرے پدر بزرگوار سے ایک بزرگ نے کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ اگر تم اسی عالم میں دنیا سے چلے گئے تو رسول اکرم ، حضرت علی (ع) ، حضرت حسن (ع) و حسین (ع) اور علی بن الحسین (ع) کے پاس وارد ہو گے۔ تمھارا دل ٹھنڈا ہو گا، روح مطمئن ہو گی اور آنکھیں خنک ہوں گی ، تمھارا استقبال راحت و سکون کے ساتھ نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا، اور اگر زندہ رہ گئے تو وہ کچھ دیکھو گے جس میں خنکی چشم ہو اور ہمارے ساتھ بلندترین منزل پر ہو گے۔

اس بزرگ نے کہا حضور دوبارہ فرمائیں … آپ نے تکرار فرمائی … اس نے کہا اللہ اکبر ، اے ابوجعفر ، میں مرکز رسول اکرم حضرت علی (ع) امام حسن (ع) و حسین (ع) اور علی بن الحسین (ع) کی خدمت میں وارد ہوں گا اور خنکی چشم ، راحت روح کے ساتھ حاضر ہوں گا اور اس سارے اجر کا حقدار ہوں گا جو آپ نے بیان فرمایا ہے اور یہ کہہ کر رونا شروع کیا یہاں تک کہ بیہوش ہو کر گر پڑ ا اور تمام گھر والوں نے رونا شروع کر دیا اور سب کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

حضرت (ع) نے اپنے دست مبارک سے آنکھوں کو پوچھنا شروع کیا تو مرد بزرگ نے سر اٹھا کر امام (ع) سے عرض کیا ، فرزند رسول ، ذرا اپنا دست مبارک بڑھائیے، آپ نے ہاتھ بڑھائے، اس نے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اپنے رخسار اور اپنی آنکھوں سے لگایا اور پھر اپنے شکم و سینہ پر رکھا اور سلام کر کے رخصت ہو گیا۔

امام علیہ السلام اس کو تا دیر دیکھتے رہے، اس کے بعد لوگوں سے فرمایا کہ جو شخص کسی جنتی شخص کو دیکھنا چاہے، اسے اس شخص کو دیکھنا چاہیئے‘۔

حکم بن عتیبہ کا بیان ہے کہ میں نے اس اجتماع جیسا کوئی ماتم نہیں دیکھا ہے۔( کافی ۸/۷۶ / ۳۰)۔

۱۳۔ جنّت

۱۰۵۱۔ حذیفہ ! میں نے رسول اکرم کو دیکھا کہ امام حسین (ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرما رہے ہیں کہ ایھا الناس۔ اس کا جد یوسف بن یعقوب کے جد سے افضل ہے اور یاد رکھو کہ حسین (ع) کی منزل جنّت ہے، اس کے باپ کی منزل جنّت ہے، اس کی ماں کی جگہ جنّت ہے۔اس کا بھائی جنتی ہے اور اس کے تمام دوست اور ان کے چاہنے والے سب جنتی ہیں۔( مقتل الحسین خوارزمی ۱ ص ۶۷)۔

۱۰۵۲۔ امام صادق (ع) رسول اکرم ایک سفر میں جا رہے تھے، ایک مقام پر رک کر آپ نے پانچ سجدے کئے اور روانہ ہو گئے تو بعض اصحاب نے عرض کی کہ حضور ! آج تو بالکل نئی بات دیکھی ہے؟

فرمایا کہ جبریل امین نے آ کر یہ بشارت دی ہے کہ علی (ع) جنتی ہیں تو میں نے سجدہ شکر کیا، پھر کہا کہ فاطمہ (ع) جنتی ہیں تو میں نے پھر سجدۂ  شکر کیا تو کہا کہ حسن و (ع) و حسین (ع) بھی جنتی ہیں تو میں نے سجدۂ شکر کیا ، پھر کہا کہ ان سب کا دوست بھی جنتی ہے تو میں نے پھر سجدۂ شکر کیا تو کہا کہ ان کے دوستوں کا دوست بھی جنتی ہے تو میں نے پھر سجدۂ شکر کیا۔( امالی مفید (ر) ۲۱ / ۲ روایت ابوعبدالرحمٰن)۔

۱۰۵۳۔ جابر بن عبداللہ انصاری ! ہم مدینہ میں مسجد رسول میں حضور کی خدمت حاضر تھے کہ بعض اصحاب نے جنت کا ذکر شروع کر دیا، آپ نے فرمایا کہ خدا کے یہاں نور کا ایک پرچم اور زمرد کا ایک ستون ہے جسے خلقت آسمان سے دو ہزار سال قبل خلق کیا ہے اور اس پر لکھا ہوا ہے’ ’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، ال محمد خیر البریة ، اور یا علی (ع) تم اس قوم کے بزرگ ہو۔

یہ سن کر حضرت علی (ع) نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس مرتبہ کی ہدایت دی اور آپ کے ذریعہ شرافت و کرامت عنایت فرمائی ، آپ نے فرمایا یا علی (ع) ! کیا تمھیں نہیں معلوم ہے کہ جو ہم سے محبت کرے اور ہماری محبت کو اختیار کرے پروردگار اسے ہمارے ساتھ جنت میں ساکن کرے گا جیسا کہ کہ سورۂ قمر کی آیت نمبر ۵۵ میں بیان کیا گیا ہے۔( فضائل ابن شاذان ص ۱۰۴ ، احقاق الحق ۴ ص ۲۸۴)۔

۱۰۵۴۔ رسول اکرم ! یا علی (ع)! جس نے تمھاری اولاد سے محبت کی اس نے تم سے محبت کی اور جس نے تم سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے خدا سے محبت کی وہ داخل جنت ہو گیا اور جس نے تمھاری اولاد سے دشمنی کی اس نے تم سے دشمنی کی اور جس نے تم سے دشمنی کی اس سے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے خدا سے دشمنی کی اور جس نے خدا سے دشمنی کی وہ اس بات کا سزاوار ہے کہ خدا اسے داخل جہنم کر دے۔( در ر الاحادیث ص ۵۱)۔

۱۰۵۵۔رسول اکرم ! جس نے دل سے ہم سے محبت کی اور ہاتھ اور زبان سے ہماری امداد کی وہ ہمارے ساتھ جنت کی بلندترین منزل میں ہو گا اور جو ہم سے محبّت کر کے زبان سے ہماری امداد کرے گا اور ہاتھ روک لے گا وہ اس سے کمتر درجہ میں ہو گا اور جو صرف دل سے محبت کرے گا وہ اس سے کمتر درجہ میں ہو گا۔( احقاق الحق ۹ ص ۴۸۴ عن الامام علی (ع) )۔

۱۰۵۰۔ رسول اکرم ! جنت میں تین درجہ ہیں اور جہنم میں تین طبقے ہیں ، جنّت کا اعلیٰ درجہ ہمارے اس دوست کے لئے ہے جو زبان اور ہاتھ سے ہماری امداد بھی کرے اور اس کے بعد کا درجہ اس کے لئے ہے جو صرف زبان ، سے قدر کرے اور اس کے بعد کا درجہ اس کے لئے ہے جو صرف دل سے محبت کرے۔( محاسن ۱ ص ۲۵۱ / ۴۷۲ روایت ابوحمزہ ثمالی )۔

۱۰۵۷۔ امام علی (ع) ! جو ہم سے دل سے محبت کرے اور زبان سے ہماری مدد کرے اور ہاتھ سے ہمارے دشمنوں سے جہاد کرے وہ جنّت میں ہمارے درجہ میں ہو گا اور جو صرف دل اور زبان سے محبّت کرے اور جہاد نہ کرے وہ اس سے کمتر درجہ میں ہو گا اور جو صرف دل سے محبت کرے اور ہاتھ اور زبان سے ہماری امداد نہ کرے وہ بھی جنت ہی میں رہے گا۔( خصال ص ۶۲۹ / ۱۰ روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم ، جامع الاخبار ص ۴۹۶ /۱۳۷۷ ، امالی مفید ۳۳ /۸ روایت عمر بن ابی المقدام، غر ر الحکم ۸۱۴۶ ، ۸۱۴۷ ، ۸۱۷۳، تحف العقول ص ۱۱۸)۔

۱۰۵۸۔ امام زین العابدین (ع) بیمار تھے، ایک قوم عیادت کے لئے حاضر ہوئی ، عرض کیا فرزند رسول صبح کیسی ہوئی ؟ فرمایا عافیت کے عالم میں اور اس پر خدا کا شکر ہے، تم لوگوں کا کیا عالم ہے ، عرض کی کہ حضور آپ حضرات کی محبت و مودت میں صبح کی ہے۔

فرمایا جو ہم سے اللہ کے لئے محبت کرے گا اللہ اس کو اپنے سایہ رحمت میں رکھے گا جس دن اس کی رحمت کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا، اور جو ہم سے محبت میں منتظر جزا رہے گا خدا اسے جنت میں ہماری طرف سے جزا دے گا اور جو دنیا کے لئے ہم سے محبت کرے گا خدا اسے بھی بے وہم و گمان روزی عطا کر دے گا۔( نور الابصار ص ۱۵۴ ، الفصول المہمہ ص ۲۰۳)۔

۱۰۵۹۔یونس ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ آپ حضرات کی محبت اور آپ کے حق کی معرفت میری نگاہ میں تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہے، تو میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر غضب کے آثار نمودار ہو گئے۔

فرمایایونس ! تم نے بڑا غلط حساب کیا ہے۔ کہاں دنیا اور کہاں ہم ، اس دنیا کی حقیقت ایک غذا اور ایک لباس کے علاوہ کیا ہے جبکہ ہماری محبت کا اثر حیات دائمی ہے۔( تحف العقول ص ۳۷۹)۔

۴۔ خیر دنیا و آخرت

۱۰۶۰۔ رسول اکرم۔ جو خدا پر توکل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ میرے اہلبیت (ع) سے محبت کرے اور جو عذاب قبر سے نجات چاہتا ہے اس کا بھی فرض ہے کہ میرے اہلبیت (ع) سے محبت کرے اور جو حکمت چاہتا ہے اواس کا بھی فرض ہے کہ اہلبیت (ع) سے محبت کرے اور جو جنت میں بلاحساب داخلہ چاہتا ہے اسے بھی چاہئے کہ اہلبیت (ع) سے محبت کرے کہ خدا کی قسم جو بھی ان سے محبت کرے گا اسے دنیا و آخرت کا فائدہ حاصل ہو گا۔( مقتل الحسین خوارزمی ۱ ص ۵۹ مأتہ منقبہ ص ۱۰۶ ، فرائد السمطین ۲ ص ۲۹۴ / ۵۵۱ ، ینابیع المودہ ۲ ص ۳۳۲ / ۹۶۹ ، جامع الاخبار ص ۶۲ / ۷۷ روایات ابن عمر)۔

جوامع آثار محبت اہلبیت (ع)

۱۰۶۱۔ رسول اکرم ! پروردگار جس شخص کو ہم اہلبیت (ع) کے ائمہ کی محبت عنایت کر دے گویا کہ اسے دنیا و آخرت کا سارا خیر حاصل ہو گا لہذا کوئی شخص اپنے جنتی ہونے میں شک نہ کرے کہ ہم اہلبیت (ع) کی محبت میں بیس خصوصیات پائی جاتی ہیں ، دس دنیا میں اور دس آخرت میں۔

دنیا کی دس خصوصیات میں زہد، حرصِ عمل، دین میں تقویٰ ، عبادت میں رغبت، موت سے پہلے توبہ ، نماز شب میں دلچسپی، لوگوں کے اموال کی طرف سے بے نیازی، اوامر و نواہی پروردگار کی حفاظت، دنیا سے نفرت اور سخاوت شامل ہیں کہ ان صفات کے بغیر محبت اہلبیت (ع) ایک لفظ بے معنی ہے۔

اور آخرت کے دس فضائل میں یہ ہے کہ

اس کا نامہ اعمال نشر نہ ہو گا۔

اسے میزان کا سامنا نہ ہو گا۔

اس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔

اسے جہنم سے نجات کا پروانہ دیا جائے گا۔

اس کا چہرہ سفید اور روشن ہو گا۔

اسے لباس جنت پنھایا جائے گا۔

اسے سو افراد کی شفاعت کا حق دیا جائے گا۔

خدا اس کی طرف رحمت کی نگاہ کرے گا۔

اسے جنت کا تاج پہنایا جائے گا۔

وہ جنت میں بلاحساب داخل کیا جائے گا۔

کیا خوش نصیب ہیں میرے اہلبیت (ع) کے چاہنے والے۔( خصال ص ۵۱۵/۱ ) روایت ابوسعید خدری، روضہ الواعظین ص ۲۹۸)۔

۱۰۶۲۔ رسول اکرم ! جو آل محمد کی محبت پر مر جائے وہ شہید مرتا ہے، جو

جو آل محمد کی محبت پر مر جائے اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

جو آل محمد کی محبت پر مر جائے وہ توبہ کر کے دنیا سے جاتا ہے۔

جو آل محمد کی محبت پر مر جائے وہ مومن کامل الایمان مرتا ہے۔

جو آل محمد کی محبت پر مر جائے اسے ملک الموت اور اس کے بعد منکر و نکیر جنت کی بشارت دیتے ہیں۔

آگاہ ہو جاؤ جو آل محمد کی محبت پر مر جائے وہ جنت کی طرف اس شان سے لے جایا جاتا ہے جیسے عورت اپنے شوہر کے گھر کی طرف۔

آگاہ ہو جاؤ جو آل محمد کی محبت پر مر جاتا ہے اس کی قبر میں جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

آگاہ ہو جاؤ جو آل محمد کی محبت میں مر جاتا ہے پروردگار اس کی قبر کو ملائکہ رحمت کی زیارت گاہ بنا دیتا ہے۔

آگاہ ہو جاؤ جو آل محمد کی محبت میں مر جاتا ہے وہ سنت رسول اور جماعت ایمان پر دنیا سے جاتا ہے۔( کشاف ۳ ص ۴۰۳ ، فرائد السمطین ۲ ص ۲۵۵ / ۵۲۴ ، ینابیع المودة ۲ ص ۳۳۳ / ۹۷۲ ، العمدہ ص ۵۴ / ۵۲، بشارة المصطفیٰ ص ۱۹۷ روایت جریر بن عبداللہ ، جامع الاخبار ص ۴۷۳ / ۱۳۳۵، احقاق الحق ۹ ص ۴۸۷ روایت جریر بن عبیداللہ البجلی)۔

۱۰۶۳۔ امام علی (ع) ، حارث ! تمھیں ہم اہلبیت (ع) کی محبت تین مقامات پر فائدہ پہنچائے گی ، ملک الموت کے نازل ہوتے وقت قبر میں سوال و جواب کے وقت اور خدا کے سامنے حاضری کے وقت (اعلام الدین ص ۴۶۱ روایت جابر جعفی عن الباقر (ع))۔

۱۰۶۴۔ امام علی (ع)! جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا، اس کا حسن عمل عظیم اور میزان حساب کا پلہ سنگین ہو گا ، اس کے اعمال مقبول ہوں گے اور اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے اور جو ہم سے بغض رکھے گا اس کا اسلام بھی کام نہ آئے گا۔( مشارق انوار الیقین ص ۵۱ روایت ابوسعید خدری)۔


بغض اہلبیت (ع)

بغض اہلبیت (ع) پر تنبیہ

۱۰۶۵۔ رسول اکرم ! میرے بعد ائمہ بارہ ہوں گے جن میں سے نوصلب حسین (ع) سے ہوں گے اور ان کا نواں قائم ہو گا، خوشا بحال ان کے دوستوں کے لئے اور ویل ان کے دشمنوں کے لئے۔( کفایة الاثر ص ۳۰ روایت ابوسعید خدری)۔

۱۰۶۶۔ رسول اکرم ! میرے بارہ ائمہ مثل نقباء بنی اسرائیل کے بارہ ہوں گے، اس کے بعد حسین (ع) کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ نو اس کے صلب سے ہوں گے جن کانواں مہدی ہو گا جو زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بہر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھری ہو گی ، ویل ہے ان سب کے دشمنوں کے لئے۔ ( مناقب ابن شہر آشوب ۱ ص ۱۹۵)۔

۱۰۶۷۔ رسول اکرم ! اگر کوئی بندہ صفاء و مروہ کے درمیان ہزار سال عبادت الہی کرے پھر ہزار سال دوبارہ اور ہزار سال تیسری مرتبہ اور ہم اہلبیت (ع) کی محبت حاصل نہ کرسکے تو پروردگار اسے منہ کے بھل جہنم میں ڈال دے گا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ’ میں تم سے محبّتِ اقربا کے علاوہ اور کوئی سوال نہیں کرتا ہوں ‘ ( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۱ ص ۱۳۲ / ۱۸۲ روایت ابوامامہ باہلی ، مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۱۹۸)۔

۱۰۶۸۔ رسول اکرم ! اگر کوئی شخص ہزار سال عبادت الہی کرے اور پھر ذبح کر دیا جائے اور ہم اہلبیت (ع) سے دشمنی لے کر خدا کی بارگاہ میں پہنچ جائے تو پروردگار اس کے سارے اعمال کو واپس کر دے گا۔ ( محاسن ۱ ص ۲۷۱/ ۵۲۷ روایت جابر عن الباقر (ع) )۔

۱۰۶۹۔ رسول اکرم ! پروردگار اشتہاء سے زیادہ کھانے والے ، اطاعت خدا سے غفلت برتنے والے، سنت رسول کو ترک کرنے والے عہد کو توڑ دینے والے، عترت پیغمبر سے نفرت کرنے والے اور ہمسایہ کو اذیت دینے والے سے سخت نفرت کرتا ہے۔( کنز العمال ۱۶ / ۴۴۰۲۹ ، احقاق الحق ۹ ص ۵۲۱)۔

۱۰۷۰۔ رسول اکرم ، ہم سے عداوت وہی کرے گا جس کی ولادت خبیث ہو گی۔( امالی صدوق (ر) ص ۳۸۴ / ۱۴ ، علل الشرائع ص ۱۴۱ / ۳ روایت زید بن علی ، الفقیہ ۱ ص ۹۶ / ۲۰۳۔

۱۰۷۱۔ امام علی (ع) ! بدترین اندھا وہ ہے جو ہم اہلبیت (ع) کے فضائل سے آنکھیں بند کر لے اور ہم سے بلا سبب دشمنی کا اظہار کرے کہ ہماری کوئی خطا اس کے علاوہ نہیں ہے کہ ہم نے حق کی دعوت دی ہے اور ہمارے غیر نے فتنہ اور دنیا کی دعوت دی ہے اور جب دونوں باتیں اس کے سامنے آئیں تو ہم سے نفرت اور عداوت کرنے لگا۔( خصال ص ۶۳۳ / ۱۰ روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم، غر ر الحکم ۳۲۹۶)۔

۱۰۷۲۔ امام علی (ع)! ہر بندہ کے لئے خدا کی طرف سے چالیس پردہ داری کے انتظامات ہیں یہاں تک کہ چالیس گناہ کبیرہ کر لے تو سارے پردہ اٹھ جاتے ہیں اور پروردگار ملائکہ کو حکم دیتا ہے کہ اپنے پروں کے ذریعہ میرے بندہ کی پردہ پوشی کرو اور بندہ اس کے بعد بھی ہر طرح کا گناہ کرتا ہے اور اسی کو قابل تعریف قرار دیتا ہے تو ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ خدایا یہ تیرا بندہ ہر طرح کا گناہ کر رہا ہے اور ہمیں اس سے اعمال کے حیا  آ رہی ہے۔

ارشاد ہوتا ہے کہ اچھا اپنے پروں کو اٹھا لو ، اس کے بعد وہ ہم اہلبیت (ع) کی عداوت میں پکڑا جاتا ہے اور زمین و آسمان کے سارے پردے چاک ہو جاتے ہیں اور ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ خدایا اس بندہ کا اب کوئی پردہ نہیں رہ گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کو اس دشمن اہلبیت (ع) کی کوئی بھی پرواہ ہوتی تو تم سے پروں کو ہٹانے کے بارے میں نہ کہتا۔( کافی ۲ ص ۲۷۹ / ۹ ، علل اشرائع ص ۵۳۲ / ۱ روایت عبداللہ بن مسکان عن الصادق (ع) )۔

۱۰۷۳۔ جمیل بن میسر نے اپنے والد نخعی سے روایت کی ہے کہ مجھ سے امام صادق (ع) نے فرمایا، میسر ! سب سے زیادہ محترم کونسا شہر ہے؟

ہم میں سے کوئی جواب نہ دے سکا تو فرمایا ، مکہ اس کے بعد فرمایا اور مکہ میں سب سے محترم جگہ؟

اور پھر خود ہی فرمایا رکن سے لے کر حجر اسود کے درمیان ، اور دیکھو اگر کوئی شخص اس مقام پر ہزار سال عبادت کرے اور پھر خدا کی بارگاہ میں ہم اہلبیت (ع) کی عداوت لے کر پہنچ جائے تو خدا اس کے جملہ اعمال کو رد کر دے گا۔( محاسن ۱ ص ۲۷ / ۲۸،)۔

بغض اہلبیت (ع) کے اثرات

۱۔ پروردگار کی ناراضگی

۱۰۷۴۔ رسول اکرم ! شب معراج میں آسمان پر گیا تو میں نے دیکھا کہ در جنت پر لکھا ہے۔ لا الہ الا اللہ۔ محمد رسول اللہ ، علی حبیب اللہ الحسن والحسین (ع) صفوة اللہ ، فاطمة خیرة اللہ اور ان کے دشمنوں پر لعنة اللہ۔( تاریخ بغداد ۱ ص ۲۵۹ ، تہذیب دمشق ۴ ص ۳۲۲ ، مناقب خوارزمی ص ۳۰۲ / ۲۹۷ ، فرائد السمطین ۲ ص ۷۴ / ۳۹۶ ، امالی طوسی (ر) ص ۳۵۵ / ۷۳۷ ، کشف الغمہ ۱ ص ۹۴ ، کشف الیقین ص ۴۴۵ / ۵۵۱ ، فضائل ابن شاذان ص ۷۱)۔

۱۰۷۵۔ رسول اکرم ! جب مجھے شب معراج آسمان پر لے جایا گیا تو میں نے دیکھا کہ در جنت پر سونے کے پانی سے لکھا ہے، اللہ کے علاوہ خدا نہیں۔ محمد اس کے رسول ہیں ، علی (ع) اس کے ولی ہیں ، فاطمہ (ع) اس کی کنیز ہیں ، حسن (ع) و حسین (ع) اس کے منتخب ہیں اور ان کے دشمنوں پہ خدا کی لعنت ہے۔( مقتل خوارزمی ۱ ص ۱۰۸ ، خصال ص ۳۲۴ / ۱۰، مأتہ منقبہ ۱۰۹ / ۵۴ روایت اسماعیل بن موسیٰ (ع) )۔

۱۰۷۶۔ رسول اکرم ! ہر خاندان اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتا ہے سوائے نسل فاطمہ (ع) کے کہ میں ان کا ولی اور وارث ہوں اور یہ سب میری عترت ہیں ، میری بچی ہوئی مٹی سے خلق کئے گئے ہیں ، ان کے فضل کے منکروں کے لئے جہنم ہے، ان کا دوست خدا کا دوست ہے اور ان کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔( کنز العمال ۱۲ ص ۹۸ / ۳۴۱۶۸ روایت ابن عساکر، بشارة المصطفیٰ ص ۲۰ روایت جابر)۔

۱۰۷۷۔ رسول اکرم ! آگاہ ہو جاؤ کہ جو آل محمد سے نفرت کرے گا وہ روز قیامت اس طرح محشور ہو گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا ’رحمت خدا سے مایوس ہے‘( مناقب خوارزمی ص ۷۳ ، مقتل خوارزمی ۱ ص ۴۰ ، مأتہ منقبہ ۱۵۰ / ۹۵ ، روایت ابن عمر ، کشاف ۳ ص ۴۰۳ ، فرائد السمطین ۲ ص ۲۵۶ / ۵۲۴ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۹۷ ، العمدة ۵۴ / ۵۲ ، روایت جریر بن عبداللہ، احقاق الحق ۹ ص ۴۸۷)۔

۱۰۷۸۔ امام علی (ع)! ہمارے دشمنوں کے لئے خدا کے غضب کے لشکر ہیں۔( تحف العقول ص ۱۱۶ ، خصال ص ۶۲۷ / ۱۰ روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم ، غر ر الحکم ص ۷۳۴۲)۔

۲۔ منافقین سے ملحق ہو جانا

۱۰۷۹۔ رسول اکرم ! جو ہم اہلبیت (ع) سے نفرت کرے گا وہ منافق ہو گا۔(فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ ص۶۶۱ ، ۱۱۶۶ ، درمنثور ۷ ص ۳۴۹ نقل از ابن عدی ،مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۲۰۵ ، کشف الغمہ ۱ ص ۴۷ روایت ابوسعید)۔

۱۰۸۰۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) کا دوست مومن متقی ہو گا اور ہمارا دشمن منافق شقی ہو گا۔( ذخائر العقبئص ۱۸ روایت جابر بن عبداللہ ، کفایة الاثر ص ۱۱۰ واثلہ بن الاسقع)۔

۱۰۸۱۔ رسول اکرم ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ انسان کی روح اس وقت تک جسم سے جدا نہیں ہوتی ہے جب تک جنّت کے درخت یا جہنم کے زقوم کا مزہ نہ چکھ لے اور ملک الموت کے ساتھ مجھے علی (ع) ، فاطمہ ، حسن (ع) اور حسین (ع) کو نہ دیکھ لے ، اس کے بعد اگر ہمارا محب ہے تو ہم ملک الموت سے کہتے ہیں ذرا نرمی سے کام لو کہ یہ مجھ سے اور ہمارے اہلبیت (ع) سے محبت کرتا تھا اور اگر ہمارا اور ہمارے اہلبیت (ع) کا دشمن ہے تو ہم کہتے ہیں ملک الموت ذرا سختی کرو کہ یہ ہمارا اور ہمارے اہلبیت (ع) کا دشمن تھا اور یاد رکھو ہمارا دوست مومن کے علاوہ اور ہمارا دشمن منافق بدبخت کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔ (مقتل الحسین (ع) خوارزمی ۱ ص ۱۰۹ روایت زید بن علی (ع))۔

۱۰۸۲۔ رسول اکرم ! میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں سے نوحسین (ع) کے صلب سے ہوں گے اور نواں ان کا قائم ہو گا، اور ہمارا دشمن منافق کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔(کفایة الاثر ص ۳۱ روایت ابوسعید خدری)۔

۱۰۸۳۔ رسول اکرم ! جو ہماری عترت سے بغض رکھے وہ ملعون، منافق اور خسارہ والا ہے۔( جامع الاخبار ص ۲۱۴ / ۵۲۷)۔

۱۰۸۴۔ رسول اکرم ! ہوشیار رہو کہ اگر میری امت کا کوئی شخص تمام عمر دنیا تک عبادت کرتا رہے اور پھر میرے اہلبیت (ع) اور میرے شیعوں کی عداوت لے کر خدا کے سامنے جائے تو پروردگار اس کے سینے کے نفاق کو بالکل کھول دے گا۔( کافی ۲ ص ۴۶ / ۳ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۵۷ روایت عبدالعظیم الحسنئ)۔

۱۰۸۵۔ابوسعید خدری ! ہم گروہ انصار منافقین کو صرف علی (ع) بن ابی طالب کی عداوت سے پہچانا کرتے تھے۔( سنن ترمذی ۵ ص ۶۳۵ / ۳۷۱۷ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۲ ص ۲۲۰ / ۷۱۸ ، تاریخ الخلفاء ص ۲۰۲ ، المعجم الاوسط ۴ ص ۲۶۴ / ۴۱۵۱، مناقب خوارزمی ۱ ص ۳۳۲ / ۳۱۳ عن الباقر (ع) ، فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ ص ۲۳۹ / ۱۰۸۶ ، مناقب امیر المومنین (ع) کوفی ۲ ص ۴۷۰ / ۹۶۵ روایت جابر ابن عبداللہ تذکرة الخواص ص ۲۸ از ابودرداء ، عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۶۷ / ۳۰۵ روایت امام حسین (ع) ، کفایة الاثر ص ۱۰۲ روایت زید بن ارقم ، العمدہ ص ۲۱۶ / ۳۳۴ روایت جابر بن عبداللہ مناقب ابن شہر آشوب ۳ ص ۲۰۷ ، مجمع البیان ۹ص ۱۶۰ روایت ابوسعید خدری ، قرب الاسناد ۲۶ / ۸۶ روایت عبداللہ بن عمر)۔

۳۔ کفار سے الحاق

۱۰۸۶۔ رسول اکرم ! ہوشیار ہو کہ جو بغض آل محمد پر مر جائے گا وہ کافر مرے گا، جو بغض آل محمد پر مرے گا وہ بوئے جنت نہ سونگھ سکے گا۔( کشاف ۳ ص ۴۰۳ ، مأتہ منقبہ ۹۰ / ۳۷ روایت ابن عمر، بشارة المصطفیٰ ص ۱۹۷ ، فرائد السمطین ۲ ص ۲۵۶ / ۲۵۴ روایت جریر بن عبداللہ ، جامع الاخبار ۴۷۴ / ۱۳۳۵ ، احقاق الحق ۹ ص ۴۸۷)۔

۱۰۸۷۔ رسول اکرم ! جس شخص میں تین چیزیں ہوں گی وہ نہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں ، بغض علی (ع) بن ابی طالب (ع) عداوت اہلبیت (ع) اور ایمان کو صرف کلمہ تصور کرنا۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۲ ص ۲۱۸ / ۷۱۲ ، الفردوس ۲ ص ۸۵ / ۲۴۵۹ ، مقتل خوارزمی ۲ ص ۹۷ ، مناقب کوفی ۲ ص ۴۷۳ / ۹۶۹ روایت جابر)۔

۴۔ یہود و نصاریٰ سے الحاق

۱۰۸۸۔ جابر بن عبداللہ رسول اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، لوگو! جو ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا اللہ اسے روز قیامت یہودی محشور کرے گا۔

میں نے عرض کی حضور ! چاہے نماز روزہ کیوں نہ کرتا ہو؟ فرمایا چاہے نماز روزہ کا پابند ہوا اور اپنے کو مسلمان تصور کرتا ہو۔(المعجم الاوسط ۴ ص ۲۱۲ / ۴۰۰۲ ، امالی صدوق (ر) ۲۷۳ / ۲ روایت سدیف ملکی، روضة الواعظین ص ۲۹۷)۔

۱۰۸۹۔ امام باقر (ع) ! جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم منبر پر تشریف لے گئے جبکہ تمام انصار و مہاجرین نماز کے لئے جمع ہو چکے تھے اور فرمایا :

ایہا الناس ! جو ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا ، پروردگار اس کو یہودی محشور کرے گا۔

میں نے عرض کی حضور ! چاہے توحید و رسالت کا کلمہ پڑھتا ہو؟ فرمایا بیشک !

یہ کلمہ صرف اس قدر کارآمد ہے کہ خون محفوظ ہو جائے اور ذلت کے ساتھ جزیہ نہ دینا پڑے۔

اس کے بعد فرمایا ، ایہا الناس جو ہم اہلبیت (ع) سے دشمنی رکھے گا پروردگار اسے روز قیامت یہودی محشور کرے گا اور یہ دجال کی آمد تک زندہ رہ گیا تو اس پر ایمان ضرور لے آئے گا اور اگر نہ رہ گیا تو قبر سے اٹھایا جائے گا کہ دجال پر ایمان لے آئے اور اپنی حقیقت کو بے نقاب کر دے۔

پروردگار نے میری تمام امت کو روز اول میرے سامنے پیش کر دیا ہے اور سب کے نام بھی بتادیے ہیں جس طرح آدم کو اسماء کی تعلیم دی تھی۔ میرے سامنے سے تمام پرچمدار گذرے تو میں نے علی (ع) اور ان کے شیعوں کے حق میں استغفار کیا۔

اس روایت کے راوی سنان بن سدیر کا بیان ہے کہ مجھ سے میری والد نے کہا کہ اس حدیث کو لکھ لو، میں نے لکھ لیا اور دوسرے دن مدینہ کا سفر کیا ، وہاں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میری جان قربان، مکہ کے سدیف نامی ایک شخص نے آپ کے والد کی ایک حدیث بیان کی ہے فرمایا تمھیں یاد ہے؟ میں نے عرض کی میں نے لکھ لیا ہے۔

فرمایا ذرا دکھلاؤ، میں نے پیش کر دیا، جب آخری نقرہ کو دیکھا تو فرمایا سدیر ! یہ روایت کب بیان کی گئی ہے؟

میں نے عرض کی کہ آج ساتواں دن ہے۔

فرمایا میرا خیال تھا کہ یہ حدیث میرے والد بزرگوار سے کسی انسان تک نہ پہنچے گی ، (امالی طوسی (ر) ص ۶۴۹ / ۱۳۴۷ ، امالی مفید (ر) ۱۲۶ / ۴ روایت حنان بن سدیر از سدیف مکی، محاسن ۱ ص ۱۷۳ / ۲۶۶ ، ثواب الاعمال ۲۴۳ /۱ ، دعائم الاسلام ۱ ص ۷۵)۔

۱۰۹۰۔ امام باقر (ع) ! ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! کیا ہر لا الہ الا اللہ کہنے والا مومن ہوتا ہے؟

فرمایا ہماری عداوت اسے یہود و نصاریٰ سے ملحق کر دیتی ہے، تم لوگ اس وقت تک داخل جنت نہیں ہوسکتے ہو جب تک مجھ سے محبت نہ کرو، وہ شخص جھوٹا ہے جس کا خیال یہ ہے کہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور وہ علی (ع) کا دشمن ہو۔( امالی صدوق (ر) ۲۲۱ / ۱۷ روایت جابر بن یزید الجعفی ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۲۰)۔

۵ روز قیامت دیدار پیغمبر سے محرومی

۱۰۹۱۔ عبدالسلام بن صالح الہروی از امام رضا (ع) … میں نے عرض کی کہ فرزند رسول ! پھر اس روایت کے معنی کیا ہیں کہ لا الہ الا اللہ کا ثواب یہ ہے کہ انسان پروردگار کے چہرہ کو دیکھ لے؟

فرمایا کہ اگر کسی شخص کا خیال ظاہری چہرہ کا ہے تو وہ کافر ہے۔ یاد رکھو کہ خدا کے چہرہ سے مراد انبیاء مرسلین اور اس کی حجتیں ہیں جن کے وسیلہ سے اس کی طرف رخ کیا جاتا ہے اور اس کے دین کی معرفت حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے کہ اس کے چہرہ کے علاوہ ہر شے ہلاک ہونے والی ہے، انبیاء و مرسلین اور حجج الہیہ کی طرف نظر کرنے میں ثواب عظیم ہے اور رسول اکرم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت سے بغض رکھے گا وہ روز قیامت مجھے نہ دیکھ سکے گا اور میں بھی اس کی طرف نظر نہ کروں گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۱۱۵ / ۳ ، امالی صدوق (ر) ۳۷۲ / /۷ التوحید ۱۱۷ / ۲۱ ، احتجاج ۲ ص ۳۸۰ / ۲۸۶)۔

۶۔ روز قیامت مجذوم ہونا

۱۰۹۲۔ رسول اکرم ! جو بھی ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا، خدا اسے روز قیامت کوڑھی محشور کرے گا۔( ثواب الاعمال ۲۴۳ / ۲ ، محاسن ۱ص ۱۷۴ / ۲۶۹ روایت اسماعیل الجعفی ، کافی ۲ ص ۳۳۷ / ۲)۔

۷۔ شفاعت سے محرومی

۱۰۹۳۔ انس بن مالک ! میں نے رسول اکرم کو علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی طرف رخ کر کے اس آیت کی تلاوت کرتے دیکھا ’ رات کے ایک حصہ میں بیدار ہو کر یہ خدائی عطیہ ہے وہ اس طرح تمھیں مقام محمود تک پہنچانا چاہتا ہے‘ ( اسراء ص ۷۹)۔

اورپھر فرمایا۔ یا علی (ع)! پروردگار نے مجھے اہل توحید کی شفاعت کا اختیار دیا ہے لیکن تم سے اور تمھاری اولاد سے دشمنی رکھنے والوں کے بارے میں منع کر دیا ہے۔( امالی طوسی (ر) ۴۵۵ / ۱۰۱۷ ، کشف الغمہ ۲ ص ۲۷ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۲۷۹)۔

۱۰۹۴۔ امام صادق (ع) ! بیشک مومن اپنے ساتھی کی شفاعت کرسکتا ہے لیکن ناصبی کی نہیں اور ناصبی کے بارے میں اگر تمام انبیاء و مرسلین مل کر بھی سفارش کریں تو یہ شفاعت کارآمد نہ ہو گی ، ثواب الاعمال ۲۵۱ / ۲۱ ، محاسن ۱ ص ۲۹۶ / ۵۹۵ روایت علی الصائغ)۔

۸۔ داخلہ جہنم

۱۰۹۵۔ رسول اکرم ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ہم اہلبیت (ع) سے جو شخص بھی دشمنی کرے گا اللہ اسے جہنم میں جھونک دے گا، (مستدرک حاکم ۳ ص ۱۶۲ / ۴۷۱۷ ، موارد الظمان ۵۵۵ / ۲۲۴۶، مناقب کوفی ۴ ص ۱۲۰/۶۰۷ ، درمنثور ص ۳۴۹ نقل از احمد ابوحبان)۔

۱۰۹۶۔ رسول اکرم ! قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جو بھی ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا پروردگار اسے جہنم میں منھ کے بھل ڈال دے گا۔( مستدرک ۴ ص ۳۹۲ / ۸۰۳۶ ، مجمع الزوائد ۷ ص ۵۸۰ / ۱۲۳۰۰ ، شرح الاخبار ۱ ص ۱۶۱ / ۱۱۰ ، امالی مفید ۲۱۷ / ۳ روایت ابوسعید خدری)۔

۱۰۹۷۔ رسول اکرم ! اے اولاد عبدالمطلب ، میں نے تمھارے لئے پروردگار سے تین چیزوں کا سوال کیا ہے، تمھیں ثبات قدم عنایت کرے، تمھارے گمراہوں کو ہدایت دے اور تمھارے جاہلوں کو علم عطا فرمائے اور یہ بھی دعا کی ہے کہ وہ تمھیں سخی، کریم اور رحم دل قرار دیدے کہ اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان کھڑا رہے نماز، روزہ، ادا کرتا رہے اور ہم اہلبیت (ع) کی عداوت کے ساتھ روز قیامت حاضر ہو تو یقیناً داخل جہنم ہو گا۔( مستدرک ۳ ص ۱۶۱ / ۴۷۱۲ ، المعجم الکبیر ۱۱ ص ۱۴۲ / ۱۱۴۱۲ ، امالی طوسی (ر) ۲۱ / ۱۱۷ /۱۸۴ / ۲۴۷ / ۴۳۵ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۶۰ روایات ابن عباس)۔

۱۰۹۸۔ معاویہ بن خدیج ! مجھے معاویہ بن ابی سفیان نے حضرت حسن (ع) بن علی (ع) کے پاس بھیجا کہ ان کی کسی بیٹی یا بہن کے لئے یزید کا پیغام دوں تو میں نے جا کر مدعا پیش کیا ، انھوں نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) بچیوں کی رائے کے بغیر ان کا عقد نہیں کرتے لہذا میں پہلے اس کی رائے دریافت کر لوں۔

میں نے جا کر پیغام کا ذکر کیا تو بچی نے کہا کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ظالم ہمارے ساتھ فرعون جیسا برتاؤ نہ کرے کہ تمام لڑکوں کو ذبح کرے اور صرف لڑکیوں کو زندہ رکھے۔ میں نے پلٹ کر حسن (ع) سے کہا کہ آپ نے تو اس قیامت کی بچی کے پاس بھیج دیا جو امیر المومنین (معاویہ) کو فرعون کہتی ہے۔

تو آپ نے فرمایا معاویہ ! دیکھو ہم اہلبیت (ع) کی عداوت سے پرہیز کرنا کہ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ جو شخص بھی ہم اہل بیت (ع) سے بغض و حسد رکھے گا وہ روز قیامت جہنم کے کوڑوں سے ہنکایا جائے گا۔( المعجم الکبیر ۳ ص ۸۱ / ۲۷۲۶ ، المعجم الاوسط ۳ ص ۳۹ / ۲۴۰۵)۔

۱۰۹۹۔ امام باقر (ع) ! اگر پروردگار کا پیدا کیا ہوا ہر ملک اور اس کا بھیجا ہوا ہر نبی اور ہر صدیق و شہید ہم اہلبیت (ع) کے دشمن کی سفارش کرے کہ خدا اسے جہنم سے نکال دے تو ناممکن ہے، اس نے صاف کہہ دیا ہے، یہ جہنم میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ، سورۂ کہف آیت ۳۔( ثواب الاعمال ۲۴۷ / ۵ از حمران بن الحسین )۔

۱۱۰۰۔ امام صادق (ع)! جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ اس سے محبت کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ اس کی اطاعت کرے اور ہمارا اتباع کرے، کیا اس نے مالک کا یہ ارشاد نہیں سنا ہے کہ ’ پیغمبر کہہ دیجئے اگر تم لوگوں کا دعویٰ ہے کہ خدا کے چاہنے والے ہو تو میرا اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔(آل عمران آیت ۳۱)۔

خدا کی قسم کوئی بندہ خدا کی اطاعت نہیں کرے گا مگر یہ کہ پروردگار اپنی اطاعت میں ہمارا اتباع شامل کر دے۔

اور کوئی شخص ہمارا اتباع نہیں کرے گا مگر یہ کہ پروردگار اسے محبوب بنا لے اور جو شخص ہمارا اتباع ترک کر دے گا وہ ہمارا دشمن ہو گا اور جو ہمارا دشمن ہو گا وہ اللہ کا گناہگار ہو گا اور جو گنہگار مر جائے گا اسے خدا رسوا کرے گا اور منہ کے بھل جہنم میں ڈال دے گا، والحمدللہ رب العالمین ( کافی ۸ ص ۱۴ / ۱ روایت اسماعیل بن مخلدو اسماعیل بن جابر)۔

 ۱۰۰۱۔ امام کاظم (ع) ! جو ہم سے بغض رکھے، وہ حضرت محمد کا دشمن ہو گا اور جو ان کا دشمن ہو گا وہ خدا کا دشمن ہو گا اور جو خدا کا دشمن ہو گا اس کے بارے میں خدا کا فرض ہے کہ وہ اسے جہنم میں ڈال دے اور اس کا کوئی مددگار نہ ہو ( کامل الزیارات ص ۳۳۶ روایت عبدالرحمان بن مسلم)۔


اہلبیت (ع) پر ظلم

ظلم پر تنبیہ

۱۱۰۲۔ رسول اکرم ! ویل ہے میرے اہلبیت (ع) کے دشمنوں کے لئے جو ان پر اپنے کو مقدم رکھتے ہیں ، انہیں نہ میری شفاعت حاصل ہو گی اور نہ میرے پروردگار کی جنت کو دیکھ سکیں گے۔( امالی شجری ۱ ص ۱۵۴)۔

۱۱۰۳۔ رسول اکرم (ع)! اس پر اللہ کا شدید غضب ہو گا جو میری عترت کے بارے میں مجھے ستائے گا۔( کنز العمال ۱۲ ص ۹۳ / ۳۴۱۴۳، الجامع الصغیر ۱ ص ۱۵۸ / ۱۰۴۵)۔

۱۱۰۴۔ رسول اکرم ! اس پر میرا اور اللہ کا غضب شدید ہو گا جو میرا خون بہائے گا اور مجھے میری عترت کے بارے میں ستائے گا۔( امالی صدوق (ر) ص ۳۷۷ / ۷ ، الجعفریات ص ۱۸۳ روایت اسماعیل بن موسیٰ ، عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۲۷ / ۱۱ ، مقتل الحسین خوارزمی ۲ ص ۸۴ ، صحیفة الرضا (ع) ص ۱۵۵ / ۹۹، روایت احمد بن عامر الطای ، مسند زید ص ۴۶۵ ، ذخائر العقبئ ص ۳۹ )۔

۱۱۰۵۔ رسول اکرم۔ ایہا الناس ! کل میرے پاس اس انداز سے نہ آنا کہ تم دنیا کو سمیٹے ہوئے ہو اور میرے اہلبیت (ع) پریشان حال ، مظلوم ، مقہور ہوں اور ان کا خون بہہ رہا ہو۔( خصائص الائمہ ص ۷۴)۔

۱۱۰۶۔ رسول اکرم ! جس نے میرے اہلبیت (ع) کو برا بھلا کہا میں اس سے بری اور بیزار ہوں۔( ینابیع المودہ ۲ ص ۳۷۸ / ۷۴)۔

۱۱۰۷۔ رسول اکرم ! جس نے مجھے میرے اہل کے بارے میں اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی ہے۔( کنز العمال ۱۲ ص ۱۰۳ / ۳۴۱۹۷ از ابونعیم)۔

۱۱۰۸۔ رسول اکرم ! چھ افراد ہیں جن پر میری بھی لعنت ہے اور خدا کی بھی لعنت ہے اور ہر نبی کی لعنت ہے، کتاب خدا میں زیادتی کرنے والا ، قضا و قدر کا انکار کرنے والا، لوگوں پر زبردستی حاکم بن کر صاحب عزت کو ذلیل اور ذلیلوں کو صاحب عزّت بنانے والا، میری سنت کو ترک کر دینے والا، میری عترت کے بارے میں حرام خدا کو حلال بنا لینے والا اور حرم خدا کی بے حرمتی کرنے والا۔( مستدرک حاکم ۲ ص ۵۷۲ / ۳۹۴۰ روایت عبیداللہ بن عبدالرحمان بن عبداللہ بن موہب ، المعجم الکبیر ۳ ص ۱۲۶ / ۲۸۸۳ ، المعجم الاوسط ۲ص ۱۸۶ / ۱۶۶۷ ، روایت عائشہ، شرح الاخبار ۱ ص ۴۹۴ / ۸۷۸ روایت سفیان ثوری، خصال صدوق (ر) ۳۳۸ / ۴۱ روایت عبداللہ بن میمون)۔

۱۱۰۹۔ رسول اکرم ! پانچ افراد ہیں جن پر میری بھی لعنت ہے اور ہر نبی کی لعنت ہے، کتاب خدا میں زیادتی کرنے والا، میری سنت کا ترک کرنے والا ، قضائے الہی کا انکار کرنے والا میری عترت کی حرمت کو ضائع کرنے والا، مال غنیمت پر قبضہ کر کے اسے حلال کر لینے والا۔( کافی ۲ ص۲۹۳ / ۱۴ روایت میسّر)۔

۱۱۱۰۔ زید بن علی (ع) ! اپنے والد بزرگوار کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ امام حسین (ع) نے مسجد میں روز جمعہ عمر بن الخطاب کو منبر پر دیکھا تو فرمایا کہ میرے باپ کے منبر پر سے اتر آ۔ تو عمر رونے لگے اور کہا فرزند سچ کہتے ہو، یہ تمھارے باپ کا منبر ہے، میرے باپ کا نہیں ہے۔

حضرت علی (ع) نے واقعہ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ میں نے نہیں سکھایا ہے! عمر نے کہا یہ سچ ہے، ابوالحسن ! میں آپ کو الزام نہیں دے رہا ہوں ، یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے اور آپ کو منبر پر لے جا کر پہلو میں بٹھایا اور خطبہ شروع کیا اور کہا ! ایہا الناس ! میں نے تمھارے پیغمبر کو یہ کہتے سنا ہے کہ مجھے میری عترت و ذریت کے ذیل میں محفوظ رکھو، جو ان کے ذیل میں مجھے محفوظ رکھے گا خدا اس کی حفاظت کرے گا اور جو ان کے بارے میں مجھے اذیت دے گا اس پر خدا کی لعنت، خدا کی لعنت، خدا کی لعنت۔( امالی طوسی (ر) ص ۷۰۳ / ۱۵۰۴)۔

۱۱۱۱۔ رسول اکرم ! پروردگار کا غضب یہودیوں پر شدید ہوا کہ عزیز کو اس کا بیٹا بنا دیا اور نصاریٰ پہ شدید ہوا کہ مسیح کو بیٹا بنا دیا اور اس پر بھی شدید ہو گا جو میرا خون بہائے گا اور مجھے میری عترت کے بارے میں ستائے گا۔( کنز العمال ۱ ص ۲۶۷ / ۱۳۴۳ روایت ابوسعید خدری)۔

۱۱۱۲۔ ابوسعید خدری ! جب جنگ احد میں رسول اکرم کا چہرہ زخمی ہو گیا اور دندان مبارک ٹوٹ گئے تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر فرمایا خدا کا غضب یہودیوں پر شدید ہوا جب عزیز کو اس کا بیٹا بنا دیا اور عیسائیوں پر شدید ہوا جب مسیح کو اس کا بیٹا بنا دیا اور اب اس پر شدید ہو گا جس نے میرا خون بہایا اور مجھے میری عترت کے بارے میں اذیت دی۔( امالی طوسی (ر) ۱۴۲ / ۲۳۱ ، تفسیر عیاشی ۲ص ۸۶ / ۴۳ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۸۰ روایت فضل بن عمرو، کنز العمال ۱۰ ص ۴۳۵ / ۳۰۰۵۰ نقل از ابن النجار)۔

ظالم پر جنّت کا حرام ہونا

۱۱۱۳۔ رسول اکرم ! پروردگار نے جنت کو حرام قرار دے دیا ہے اس پر جو میرے اہلبیت (ع) پر ظلم کرے۔ ان سے جنگ کرے ، ان پر حملہ کرے یا انہیں گالیاں دے۔ (ذخائر العقبئص ۲۰ ، ینابیع ا لمودہ ۲ ص ۱۱۹ / ۳۴۴)۔

۱۱۱۴۔ رسول اکرم ! میرے اہلبیت (ع) پر ظلم کرنے والوں اور میری عترت کے بارے میں مجھے اذیت دینے والوں پر جنت حرام ہے۔( تفسیر قرطبی ۱۶ ص ۲۲ ، کشاف ۳ ص ۴۰۲ ، سعد السعود ص ۱۴۱ ، کشف الغمہ ۱ ص ۱۰۶ ، لباب الانساب ۱ ص۲۱۵ ، العمدة ص ۵۳ ، فرائد السمطین ۲ ص ۲۷۸ / ۵۴۲۔

واضح رہے کہ کشف الغمہ نے عترتی کے بجائے عشیرتی نقل کیا ہے جو غالباً اشتباہ ہے۔

۱۱۱۵۔ رسول اکرم ، جنت حرام کر دی گئی ہے اس پر جو میرے اہلبیت (ع) پر ظلم کرے، ان سے جنگ کرے، ان کے خلاف کسی کی مدد کرے اور انہیں برا بھلا کہے ’ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصّہ نہیں ہے اور نہ خدا ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف رخ کرے گا اور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا، آل عمران آیت ۷۷ ( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۳۴ / ۶۵ امالی طوسی ۱۶۴ / ۲۷۲ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۱۲۰۔

۱۱۱۶۔ امام علی (ع) ! خدا کی قسم میں اپنے انہیں کوتاہ ہاتھوں سے تمام اپنے دشمنوں کو حوض کوثر سے ہنکاؤں گا اور تمام دوستوں کو سیراب کروں گا۔( بشارة المصطفیٰ ص ۹۵ روایت ابوالاسود الدئلی ، کشف الغمہ ۲ / ۱۵)۔

۱۱۱۷۔ امام علی (ع) ! میں رسول اکرم کے ہمراہ حوض کوثر پر ہوں گا اور میری عترت میرے ہمراہ ہوں گی اور ہم سب اپنے دشمنوں کو ہنکائیں گے اور اپنے دوستوں کو سیراب کریں گے اور جو شخص ایک گھونٹ پی لے گا وہ پھر کبھی پیاسا نہ ہو گا۔( غر ر الحکم ص ۳۷۶۳ ، تفسیر فرات کوفی ۳۶۷ / ۴۹۹)۔

۱۱۱۸۔ انس بن مالک ! میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا جب سورۂ کوثر نازل ہو چکا تھا اور میں نے دریافت کیا حضور یہ کوثر کیا ہے؟ فرمایا جنت میں ایک نہر ہے جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے، کوئی اس سے پینے والا پیاسا نہ ہو گا اور کوئی اس سے منہ دھونے والا غبار آلود نہ ہو گا لیکن وہ شخص سیراب نہیں ہوسکتا جس نے میرے عہد کو توڑ دیا ہے اور میرے اہلبیت (ع) کو قتل کیا ہے۔( المعجم الکبیر ۳ ص ۱۲۶ / ۲۸۸۲)۔

۱۱۱۹۔ علی بن ابی طلحہ غلام بنی امیہ ! معاویہ بن ابی سفیان نے حج کیا اور اس کے ساتھ معاویہ بن خدیج بھی تھا جو سب سے زیادہ علی (ع) کو گالیاں دیا کرتا تھا مدینہ میں مسجد پیغمبر کے پاس سے گذرا تو حسن (ع) چند افراد کے ساتھ بیٹھے تھے، لوگوں نے کہا کہ یہ معاویہ بن خدیج ہے جو حضرت علی (ع) کو گالیاں دیتا ہے فرمایا اسے بلاؤ؟ ایک شخص نے آ کر بلایا، اس نے کہا کس نے بلایا ہے؟ کہا حسن (ع) بن علی (ع) نے۔

وہ آیا اور آ کر سلام کیا، حضرت حسن (ع) بن علی (ع) نے کہا کہ تیرا ہی نام معاویہ بن خدیج ہے؟

اس نے کہا بیشک …؟

فرمایا تو ہی حضرت علی (ع) کو گالیاں دیتا ہے؟

وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا

آپ نے فرمایا ، آگاہ ہو جا کہ اگر تو حوض کوثر پر وارد ہوا جس کا کوئی امکان نہیں ہے تو دیکھے گا کہ حضرت علی (ع) کمر کو کسے ہوئے منافقین کو یوں ہنکار ہے ہوں گے جس طرح چشمہ سے اجنبی اونٹ ہنکائے جاتے ہیں جیسا کہ پروردگار نے فرمایا ہے کہ ’ رسوائی اور ناکامی افترا پردازوں کا مقدر ہے‘۔ سورہ طٰہ آیت ۶۱ ( المعجم الکبیر ۳ ص ۹۱/ ۲۷۵۸ ، سیر اعلام النبلاء ۳ ص ۳۹)۔

ظالم کا عذاب

۱۱۲۰۔ رسول اکرم ! ویل ہے میرے اہلبیت (ع) کے ظالموں کے لئے ، ان پر درک اسفل میں منافقین کے ساتھ عذاب کیا جائے گا۔ (صحیفة الرضا (ع) ۱۲۲/ ۸۰ ، عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۴۷ / ۱۷۷ ، مقتل الحسین (ع) خوارزمی ۲ ص ۸۳ ، مناقب ابن المغازلی ۶۶ / ۹۴ ، جامع الاحادیث قمی ص ۱۲۸ ، ینابیع المودة ۲ ص ۳۲۶ / ۹۵۰ ، ربیع الابرار ۲ ص ۸۲۸ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۷۴۳)۔

۱۱۲۱۔ رسول اکرم ! جنت میں تین درجات ہیں اور جہنم میں تین طبقات … جہنم کے پست ترین طبقہ میں وہ ہو گا جو دل سے ہم سے نفرت کرے اور زبان اور ہاتھ سے ہمارے خلاف دشمن کی مدد کرے اور دوسرے طبقہ میں وہ ہو گا جو دل سے نفرت کرے اور صرف زبان سے مخالفت کرے اورتیسرے طبقہ میں وہ ہو گا جو صرف دل نفرت کرے۔( محاسن ص ۲۵۱ / ۴۷۲ روایت ابوحمزہ ثمالی)۔

۱۱۲۲۔ امام علی (ع) ! جو ہم سے دل سے بغض رکھے گا اور زبان اور ہاتھ سے ہمارے خلاف امداد کرے گا وہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ جہنم میں ہو گا اور جو بغض رکھ کر صرف زبان سے ہمارے خلاف امداد کرے گا وہ بھی جہنم میں ہو گا اور جو صرف دل سے بغض رکھے گا اور زبان یا ہاتھ سے مخالفت نہ کرے گا وہ بھی جہنم ہی میں ہو گا۔( خصال ۶۲۹ / ۱۰ روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم ، تحف العقول ص ۱۱۹ ، شرح الاخبار ۱ ص ۱۶۵ / ۱۲۰ / ۳ ص ۱۲۱ ، جامع الاخبار ۴۹۶ / ۱۳۷۷ ، ص ۵۰۶ / ۱۴۰۰)۔

۱۱۲۳۔ امام زین العابدین (ع) ! کربلائے معلیٰ اور امام حسین (ع) کی زیارت کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے ، پروردگار آسمان، زمین، پہاڑ ، دریا اور تمام مخلوقات کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ میری عزت و جلال کی قسم ! میں اپنے رسول کا خون بہانے والوں ، اس کی توہین کرنے والوں ، اس کی عترت کو قتل کرنے والوں ، اس کے عہد کو توڑنے والوں اور اس کے اہلبیت (ع) پر ظلم کرنے والوں پر ایسا عذاب کروں گا جو ظالمین میں کسی پر نہ کیا ہو گا۔( کامل الزیارات ص ۲۶۴ ، روایت قدامہ بن زائدہ)۔

مظالم کے بارے میں اخبار رسول

۱۱۲۴۔ رسول اکرم ! افسوس آل محمد کے بچوں پر کیسا ظلم ہونے والا ہے اس حاکم کی طرف سے جسے دولت کی بنیاد پر حاکم بنا دیا جائے گا۔( الفردوس ۴ ص ۳۰۷ / ۷۱۴۷ ، الجامع الصغیر ۲ ص ۷۱۸ / ۶۹۳۹ نقل از ابن عسا کر روایت سلمہ بن الاکوع، کنز العمال ۱۴ ص ۵۹۳ / ۳۹۶۷۹ روایت اصبغ بن نباتہ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۰۳ روایت ابوطاہر)۔

۱۱۲۵۔ رسول اکرم ! روز قیامت قرآن ، مسجد اور عترت اس طرح فریاد کریں گے کہ قرآن کہے گا خدایا ان لوگوں نے پارہ پارہ کیا ہے اور جلایا ہے اور مسجد کہے گی خدایا انہوں نے مجھے خراب بنا دیا ہے اور غیر آباد چھوڑ دیا ہے اور عترت کہے گی خدایا انہوں نے مجھے نظر انداز کیا ہے ، قتل کیا ہے اور آوارہ وطن کر دیا ہے اور میں سب کی طرف سے وکالت کے لئے گھٹنہ ٹیک دوں گا تو آواز آئے گی کہ یہ میرے ذمہ ہے اور میں اس محاسبہ کے لئے تم سے اولیٰ ہے۔( کنز العمال ۱۱ ص ۱۹۳ / ۳۱۱۹۰ نقل از طبرانی و ابن حنبل و سعید بن منصور، خصال صدوق (ر) ۱۷۵ / ۲۳۲ روایت جابر)۔

۱۱۲۶۔ رسول اکرم ! عنقریب میرے اہلبیت (ع) میرے بعد میری امت کی طرف سے قتل اور آوارہ وطنی کا شکار ہوں گے اور ان کے سب سے بدتر دشمن بنوامیہ ، بنو مغیرہ اور بنو مخروم ہوں گے۔( مستدرک حاکم ۴ ص ۵۳۴ / ۸۵۰۰ ، الملاحم والفتن ص ۲۸ روایت ابوسعید خدری، اثبات الہداة ۲ ص ۲۶۳ / ۱۷۷)۔

۱۱۲۷۔ جابر از امام باقر (ع) ! جب آیت ’ یوم ندعو کل اناس بامامہم ‘ نازل ہوئی تو مسلمانوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ تمام لوگوں کے امام نہیں ہیں ؟ فرمایا میں تمام لوگوں کے لئے رسول ہوں اور میرے بعد میرے اہلبیت (ع) میں سے اللہ کی طرف سے کچھ امام ہوں گے جو لوگوں میں قیام کریں گے تو لوگ انہیں جھٹلائیں گے اور حکام کفر و ضلالت اور ان کے مرید ان پر ظلم کریں گے۔

اس وقت جو ان سے محبت کرے گا، ان کا اتباع کرے گا اور ان کی تصدیق کرے گا وہ مجھ سے ہو گا، میرے ساتھ ہو گا، مجھ سے ملاقات کرے گا اور جو ان پر ظلم کرے گا، انہیں جھٹلائے گا وہ نہ مجھ سے ہو گا اور نہ میرے ساتھ ہو گا بلکہ میں اس سے بری اور بیزار ہوں۔ ( کافی ۱ ص ۲۱۵ /۱ محاسن ۱ص ۲۵۴ / ۴۸۰ ، بصائر الدرجات ۳۳/۱)۔

۱۱۲۸۔ رسول اکرم ! حسن (ع) و حسین (ع) اپنی امت کے امام ہوں گے اپنے پدر بزرگوار ہے کہ بعد اور یہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کی والدہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں اور ان کے باپ سید الوصیین ہیں اور حسین (ع) کی اولاد میں نو امام ہوں گے جن میں نواں ہماری اولاد کا قائم ہو گا ان سب کی اطاعت میری اطاعت اور ان کی معصیت میری معصیت ہے۔میں ان کے فضائل کے منکر اور ان کے احترام کے ضائع کرنے والوں کے خلاف روز قیامت فریاد کروں گا اور خدا میری ولایت اور میری عترت اور ائمہ امت کی نصرت کے لئے کافر ہے اور وہی ان کے حق کے منکرون سے انتقام لینے والا ہے و سیعلم الذین ظلموا ایَّ منقلب ینقلبون ( شعراء ص ۲۲۷ ،( کمال الدین ص ۲۶۰ /۶ فرائد السمطین ۱ ص ۵۴ / ۱۹ روایت حسین بن خالد)۔

۱۱۲۹۔ جنادہ بن ابی امیہ ! میں حضرت حسن (ع) بن علی (ع) کے پاس مرض الموت میں وارد ہوا جب آپ کے سامنے طشت رکھا تھا اور معاویہ کے زہر کے اثر سے مسلسل خون تھوک رہے تھے میں نے عرض کی حضور ! یہ کیا صورت حال ہے، آپ علاج کیوں نہیں کرتے؟

فرمایا: عبداللہ! موت کا کیا علاج ہے؟

میں نے کہا ’ اِنَّا للہ ِ وَ اِنَّا اِلَیْہ راَجِعُون‘ اس کے بعد آپ نے میری طرف رخ کر کے فرمایا یہ رسول اکرم کا ہم سے عہد ہے کہ اس امر کے مالک علی (ع) و فاطمہ (ع) کی اولاد سے کل بارہ امام ہوں گے اور ہر ایک زہر یا تلوار سے شہید کیا جائے گا، اس کے بعد طشت اٹھا لیا گیا اور آپ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔(کفایةالاثر ص ۲۲۶ ، الصراط المستقیم ۲ ص ۱۲۸)۔

۱۱۳۰۔ امام صادق (ع) ! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) حسن (ع) اور حسین (ع) کو دیکھ کر گریہ فرمایا اور فرمایا کہ تم میرے بعد مستضعف ہو گے۔ (معانی الاخبار ۷۹ / ۱)۔

۱۱۳۱۔ امام صادق (ع)! رسول اکرم کا آخری وقت تھا، آپ غش کے عالم میں تھے تو فاطمہ (ع) نے رونا شروع کیا ، آپ نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ فاطمہ (ع) کہہ رہی ہیں ، آپ کے بعد میرا کیا ہو گا ؟ تو فرمایا کہ تم سب میرے بعد مستضعف ہو گے۔( دعائم الاسلام ۱ ص ۲۲۵ ، ارشاد ۱ ص ۱۸۴ ، امالی مفید (ر) ۲۱۲/۲ ، مسند ابن حنبل ۱ ص ۲۵۷ / ۲۶۹۴۰ ، المعجم الکبیر ۲۵ ص ۲۳ / ۳۲)۔

۱۱۳۲۔ رسول اکرم نے بنی ہاشم سے فرمایا کہ تم سب میرے بعد مستضعف ہو گے(عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۶۱ / ۲۴۴ روایت حسن بن عبداللہ از امام رضا (ع) ، کفایتہ الاثر ص ۱۱۸ روایت ابوایوب)۔

۱۱۳۳۔ ابن عباس ! حضرت علی (ع) نے رسول اکرم سے عرض کی کہ کیا آپ عقیل کو دوست رکھتے ہیں ؟ فرمایا دوہری محبت ! اس لئے بھی کہ ابوطالب ان سے محبت کرتے تھے اور اس لئے بھی کہ ان کا فرزند تمھارے لال کی محبت میں قتل کیا جائے گا اور مومنین کی آنکھیں اس پر اشکبار ہوں گے اور ملائکہ مقربین نماز جنازہ ادا کریں گے، یہ کہہ کر حضرت نے رونا شروع کیا ، یہاں تک کہ آنسؤوں کی دھار سینہ تک پہنچ گئی اور فرمایا کہ میں خدا کی بارگاہ میں اپنی عترت کے مصائب کی فریاد کروں گا۔( امالی صدوق (ر) ۱۱۱/۳)۔

۱۱۳۴۔ انس بن مالک ! میں رسول اکرم کے ساتھ علی (ع) بن ابی طالب (ع) کے پاس عیادت کے لئے گیا تو وہاں ابوبکر و عمر بھی موجود تھے، دونوں ہٹ گئے اور حضور بیٹھ گئے تو ایک نے دوسرے سے کہا عنقریب یہ مرنے والے ہیں ! حضرت نے فرمایا یہ شہید ہوں گے اور اس وقت تک دنیا سے نہ جائیں گے جب تک ان کا دل رنج و الم سے مملو نہ ہو جائے۔( مستدرک حاکم ۳ ص ۱۵۰ / ۴۶۷۳ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۳ص ۷۴ / ۱۱۱۸ ص ۲۶۷ / ۱۳۴۳ )۔

۱۱۳۵۔ جابر ! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ تم کو خلیفہ بنایا جائے گا ، پھر قتل کیا جائے اور تمھاری داڑھی تمھارے سر کے خون سے رنگین ہو گی۔( المعجم الکبیر ۲ ص ۲۴۷ / ۲۰۳۸ ، المعجم الاوسط ۷ ص ۲۱۸ / ۷۳۱۸ ، دلائل النبوة ابونعیم ص۵۵۳ / ۴۹۱ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ۳ ص ۲۶۸ / ۱۳۴۵)۔

۱۱۳۶۔ عائشہ ! میں نے رسول اکرم کو دیکھا کہ آپ نے علی (ع) کو گلے سے لگایا ، بوسہ دیا اور فرمایا ، میرے ماں باپ قربان اس یکتا شہید پر جو تنہائی میں شہید کیا جائے گا۔( مسند ابویعلی ٰ ۴ ص ۳۱۸ / ۴۵۵۸ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع)۳ ص ۲۸۵ / ۱۳۷۶ ، مناقب خوارزمی ص ۶۵ / ۳۴ ، مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۲۲۰)۔

۱۱۳۷۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم میرے ہاتھ کو پکڑے ہوئے مدینہ کی گلیوں میں چل رہے تھے کہ ہمارا گذرا ایک باغ کی طرف سے ہوا، میں نے عرض کی کہ حضور کس قدر حسین یہ باغ ہے؟

فرمایا ، تمھارے لئے جنت میں اس سے بہتر ہے ، پھر دوسرے باغ کو دیکھ کر میں نے پھر تعریف کی اور آپ نے پھر وہی فرمایا، یہاں تک کہ ہمارا گذر سات باغات کے پاس سے ہوا اور ہر مرتبہ میں نے بھی وہی کہا اور حضرت نے بھی وہی جواب دیا۔

یہاں تک کہ جب تنہائی کی منزل تک پہنچ گئے تو آپ نے مجھے گلے سے لگایا اوربیساختہ رونے لگے ، میں نے عرض کی حضور ! یہ رونے کا سبب کیا ہے؟ فرمایا لوگوں کے دلوں میں کینے ہیں ، جو میرے بعد ظاہر ہوں گے ؟

میں نے عرض کی حضور ! میرا دین سلامت رہے گا ؟

فرمایا بیشک ! ( سنن ابویعلی ۱ ص ۲۸۵ / ۵۶۱ ، تاریخ بغداد ۱۲ ص ۳۹۸ ، مناقب خوارزمی ص ۶۵ / ۳۵ ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع)ص ۳۲۱ / ۸۲۷ ، ۸۳۱ ، ایضاح ص ۴۵۴ ، فضائل الصحابہ ابن حنبل ۲ ص ۶۵۳ / ۱۱۰۹)۔

۱۱۳۸۔ رسول اکرم ! میرا فرزند حسن (ع) زہر سے شہید کیا جائے گا۔( کتاب سلیم بن قیس ۲ ص ۸۳۸ روایت عبداللہ بن جعفر ، الخرائج و الجرائح ۳ ص ۱۱۴۳ / ۵۵ ، عوالی اللئالی ۱ ص ۱۹۹ / ۱۴)۔

۱۱۳۹۔ ام سلمہ ! رسول اکرم ایک دن سونے کے لئے لیٹے اور پھر گھبرا کر اٹھ گئے۔

پھر لیٹ کر سوگئے پھر چونک کر اٹھ گئے ، پھر تیسری مرتبہ ایسا ہی ہوا اور اب جو اٹھے تو آپ کے ہاتھوں میں ایک سرخ مٹی تھی جسے بوسہ دے رہے تھے ، میں نے عرض کی حضور ! یہ خاک کیسی ہے؟

فرمایا مجھے جبریل نے خبردی ہے کہ میرا یہ حسین (ع) سرزمین عراق پر قتل کیا جائے گا ، میں نے جبریل سے کہا کہ مجھے وہ خاک دکھلادو تو انھوں نے یہ مٹی دی ہے۔( مستدرک حاکم ۴ ص ۴۴۰ / ۸۲۰۲ ، المعجم الکبیر ۳ ص ۱۰۹ / ۲۸۲۱ ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص ۱۷۳ / ۲۲۱ ، اعلام الوریٰ ص ۴۳)۔

۱۱۴۰۔ سحیم از انس بن حارث ، میں نے رسول اکرم سے سنا ہے کہ میرا یہ فرزند سرزمین عراق پر قتل کیا جائے گا لہذا جو اس وقت تک رہے اس کا فرض ہے کہ اس کی نصرت کرے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انس بن حارث امام حسین (ع) کے ساتھ شہید ہو گئے۔( دلائل النبوة ابونعیم ۵۵۴ / ۴۹۳ ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ۲۳۹ / ۲۸۳ ، اصابہ ۱ ص ۲۷۱ / ۲۶۶ ، اسدالغابہ ۱ ص ۲۸۸ / ۲۴۶ ، البدایتہ والنہایتہ ۸ ص ۱۹۹ ، مقتل الحسین خوارزمی ۱ ص ۱۵۹ ، ذخائر العقبیٰ ص ۱۴۶)۔

۱۱۴۱۔ انس بن مالک ! فرشتہ باران نے مالک سے اذن طلب کیا کہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب اذن مل گیا تو آپ نے ام سلمہ سے فرمایا کہ دیکھو دروازہ سے کوئی داخل نہ ہونے پائے، اتنے میں حسین (ع) آ گئے ام سلمہ نے روکا لیکن وہ داخل ہو گئے اور کبھی حضور کی پشت پر ، کبھی کاندھوں پر کبھی گردن پر۔!

فرشتہ نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟

فرمایا بیشک ، کہا لیکن اسے تو آپ کی امت قتل کر دے گی اور آپ چاہیں تو میں وہ جگر بھی دکھلا دوں ؟

یہ کہہ کر ہاتھ مارا اور ایک سرخ مٹی لا کر دے دی، ام سلمہ نے آپ سے لے کر چادر میں رکھ لیا۔

اس روایت کے ایک راوی ثابت کا بیان ہے کہ وہ خاک کربلا کی خاک تھی۔( مسند ابن حنبل ۴ ص ۴۸۲ / ۱۳۵۳۹ ، المعجم الکبیر ۳ ص ۱۰۶ / ۲۸۱۳ ،مسند ابویعلی ٰ ۳ ص ۳۷۰ / ۳۳۸۹ ، دلائل النبوة ابونعیم ۵۵۳ / ۴۹۲ ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ۱۶۸ / ۲۱۷ ، مقتل الحسین (ع) خوارزمی ۱ ص ۱۶۰ ، ذخائر العقبیٰ ص۱۴۶)۔

۱۱۴۲۔ام سلمہ ! ایک دن پیغمبر اسلام میرے گھر میں تشریف فرما تھے کہ آپ نے فرمایا خبردار کوئی گھر میں آنے نہ پائے، میں دیکھتی رہی کہ اچانک حسین (ع) داخل ہو گئے اور میں نے رسول اکرم کی صدائے گریہ سنی ، اب جو دیکھا تو حسین (ع) آپ کی گود میں تھے اور پیغمبر ان کی پیشانی کو پونچھ رہے تھے، میں نے عرض کی کہ مجھے نہیں معلوم ہوسکا کہ یہ کب آ گئے، آپ نے فرمایا کہ جبریل یہاں حاضر تھے، انھوں نے پوچھا کیا آپ حسین (ع) سے محبت کرتے ہیں ؟

میں نے کہا بیشک !

جبرئیل نے کہا مگر آپ کی امت اسے کربلا نامی زمین پر قتل کر دے گی اور انھوں نے یہ خاک بھی دکھلائی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب حسین (ع) نرغہ میں گھر کر اس سرزمین پر پہنچے تو دریافت کیا کہ اس زمین کا نام کیا ہے؟

اور جب لوگوں نے کربلا بتایا تو فرمایا کہ خدا و رسول نے سچ فرمایا ہے’ یہ کرب و بلا کی زمین ہے‘۔( المعجم الکبیر ۳ ص ۱۰۸ / ۲۸۱۹)۔

۱۱۴۳۔ عبداللہ بن بخی نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ حضرت علی (ع) کے ہمراہ سفر تھے اور طہارت کے منتظم تھے، جب صفین جاتے ہوئے آپ نینویٰ پہنچے تو آپ نے فرمایا۔ عبداللہ صبر ، ابوعبداللہ صبر !

میں نے عرض کی حضور یہ کیا ہے ؟

فرمایا کہ میں ایک دن رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ، میں نے عرض کی حضور خیر تو ہے کیا کسی نے اذیت دی ہے؟

فرمایا ابھی میرے پاس سے جبریل گئے ہیں اور یہ بتا کر گئے ہیں کہ میرا حسین (ع) فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا اور اگر آپ چاہیں تو میں وہ خاک دکھلا سکتا ہوں اور یہ کہہ کر ایک مٹھی خاک مجھے دی اور میں اسے دیکھ کر ضبط نہ کرسکا۔( مسند احمد بن حنبل العقبئ ص ۱۸۴ /۶۴۸ ، المعجم الکبیر ۳ ص ۱۰۵ / ۲۸۱۱ ، مسند ابویعلی ٰ ۱ ص ۲۰۶ / ۳۵۸ ، ذخائر العقبئٰ ص ۱۴۸، مناقب کوفی ۲ص ۲۵۳ /۱۹ ، الملاحم والفتن ص ۱۰۴ باب ۲۴ ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص۱۶۵۔ ۱۷۱)

۱۱۴۴۔ محمد بن عمرو بن حسن ! میں حسین (ع) کے ساتھ نہر کربلا کے کنارہ تھا کہ آپ نے شمر کو دیکھ کر فرمایا کہ خدا و رسول نے سچ فرمایا تھا جب رسول اکرم نے خبر دی تھی کہ میں کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اہلبیت (ع) کے خون کو چاٹ رہا ہے، اور شمر مبروص تھا۔( الخصائص الکبریٰ السیوطی ۲ ص ۱۲۵)۔

۱۱۴۵۔ امام علی (ع)! رسول اکرم ہمارے گھر تشریف لے آئے تو ہم نے حلوہ تیار کیا اور ام سلمہ نے ایک کاسہ شیر ، مکھن اور کھجور فراہم کیا ، ہم سب نے مل کر کھایا ، میں نے حضرت کا ہاتھ دھلایا، آپ نے رو بقبلہ ہو کر دعا فرمائی اور پھر زمین کی طرف جھک کر بے ساختہ رونے لگے، ہم گھبرا گئے کہ کس طرح دریافت کریں اچانک حسین (ع) آ گئے اور بڑھ کر کہا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟

فرمایا آج تمھارے بارے میں وہ سنا ہے جو کبھی نہ سنایا گیا تھا۔

ابھی جبریل امین آئے تھے اور انھوں نے بتایا کہ تم سب قتل کئے جاؤ گے اور سب کے مقتل بھی الگ الگ ہوں گے ، میں نے تمھارے حق میں دعا کی اور میں اس خبر سے مخزون ہو گیا۔

حسین (ع) نے عرض کی کہ جب سب الگ الگ ہوں گے تو ہماری قبر کی زیارت اور نگرانی کون کرے گا ؟

فرمایا میری امت کا ایک گروہ ہو گا جو میرے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہے گا اور جب روز قیامت ہو گا اس گروہ کو دیکھ کر اس کا بازو تھام کر اسے ہول و مصیبت محشورسے نجات دلاؤں گا۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی ۲ ص ۱۶۶ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۹۵ روایت محمد بن الحسین از امام زین العابدین (ع) ، اعلام الوریٰ ص ۴۴)۔

مظالم بر اہلبیت (ع)

۱۱۴۶۔ امام حسن (ع)! امیر المومنین (ع) کی شہادت کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے میرے جد رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ اسرار امامت کے ذمہ دار میرے اہلبیت (ع) میں سے بارہ افراد ہوں گے اور سب قتل کئے جائیں گے یا انہیں زہر دیا جائیگا ، (کفایتہ الاثر ص ۱۶۰ روایت ہشام بن محمد)۔

۱۱۴۷۔ امام علی (ع)! … یہاں تک کہ جب پروردگار نے اپنے رسول کو بلا لیا تو ایک قوم الٹے پاؤں پلٹ گئی اور انہیں مختلف راستوں نے ہلاک کر دیا اور انھوں نے اندرونی جذبات پر اعتماد کیا اور غیر قرابتدار کے ساتھ تعلق پیدا کیا اور جس سے مودت کا حکم دیا گیا تھا اسے نظر انداز کر دیا، عمارت کو جڑ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ تعمیر کر دیا، یہ لوگ ہر غلط بات کا معدن تھے اور ہر ہلاکت میں پڑ جانے والے کے دروازہ تھے۔( نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۰)۔

۱۱۴۸۔ منہال بن عمرو ! معاویہ نے امام حسن (ع) سے مطالبہ کیا کہ منبر پر جا کر اپنا نسب بیان کریں ، آپ نے منبر پر جا کر حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا۔

’ قریش سارے عرب پر فخر کرتے ہیں کہ محمد ان میں سے ہیں اور عرب عجم پر فخر کرتے ہیں کہ محمد ان میں سے ہیں اور عجم بھی عرب کا احترام کرتے ہیں کہ محمد ان میں سے ہیں لیکن افسوس کہ سب دوسروں سے ہمارے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں اور خود ہمارا حق نہیں دے رہے ہیں۔( مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۲)۔

۱۱۴۹۔ حبیب بن یسار ! امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد زید بن ارقم دروازہ مسجد پر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ تم لوگوں نے یہ کام کیا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے خود رسول اکرم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ میں تم دونوں (حسن (ع) و حسین (ع) ) اور صالح المومنین کو خدا کے حوالہ کر رہا ہوں۔

لوگوں نے ابن زیاد سے کہا کہ زید بن ارقم یہ حدیث بیان کر رہے ہیں ؟ اس نے کہا کہ بوڑھے ہو گئے ہیں اور عقل چلی گئی ہے۔( المعجم الکبیر ۵ ص ۱۸۵ / ۵۰۳۷ امالی طوسی (ر) ص ۲۵۲ / ۴۵۰ ، شرح الاخبار ۳ ص ۱۷۰ / ۱۱۱۶۔ ۱۱۱۷)۔

۱۱۵۰۔ یعقوبی جناب فاطمہ (ع) کی وفات کے ذیل میں بیان کرتا ہے کہ زنان قریش اور ازواج پیغمبر آپ کے پاس آئیں اور مزاج دریافت کیا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں تمھاری دنیا سے بیزار ہوں اور تمھارے فراق سے خوش ہوں ، میں خدا و رسول سے ملاقات کروں گی اس حال میں کہ تمھاری طرف سے رنج و غم لے کر جا رہی ہوں ، میرے حق کا تحفظ نہیں کیا گیا اور میرے ذمہ کی رعایت نہیں کی گئی ، نہ وصیت پیغمبر کو قبول کیا گیا ہے اور نہ ہماری حرمت کو پہنچانا گیا ہے۔( تاریخ یعقوبی ۲ ص۱۱۵)۔

۱۱۵۱۔ امام حسین (ع) جب جناب فاطمہ (ع) کا انتقال ہوا اور امیر المومنین (ع) نے خاموشی سے انہیں دفن کر کے نشانِ قبر کو مٹا دیا تو مڑ کر قبر رسول کو دیکھا اور آواز دی ’ سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول ، میرا اور آپ کی اس دختر کا جو آپ کے پاس آرہی ہے اور آپ سے ملاقات کے لئے تہہ خاک آرام کر رہی ہے پروردگار نے بہت جلد اسے آپ سے ملا دیا ، لیکن اب میرا صبر بہت دشوار ہے اور میری قوت برداشت ساتھ چھوڑ رہی ہے ، میں صرف آپ کے فراق کو دیکھ کر دل کو تسلی دے رہا ہوں کہ میں نے آپ کو بھی سپرد خاک کیا ہے اور آپ نے میرے سینہ پر سر رکھ کر دنیا کو خیر باد کہا ہے۔ اِنَّا للہ ِ وَ اِنَّا اِلَیْہ رَاجِعُونْ لیجئے آپ کی امانت واپس ہو گئی اور فاطمہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئیں۔ اب یہ آسان و زمین کس قدر بڑے نظر آرہے ہیں یا رسول اللہ ! اب میرا حزن و ملال دائمی ہے اور میری راتیں صرف بیداری میں گذریں گی، یہ رنج میرے دل سے جانے والا نہیں ہے جب تک میں بھی آپ کے گھر نہ آ جاؤں بڑا دردناک غم ہے اور بڑا دل دکھانے والا درد ہے، کتنی جلدی ہم میں جدائی ہو گئی ، اب اللہ ہی سے اس کی فریاد ہے، عنقریب آپ کی بیٹی بیان کرے گا کہ آپ کی امت نے اس کا حق مارنے پر کس طرح اتفاق کر لیا تھا، آپ اس سے دریافت کریں اور مکمل حالات معلوم کر لیں ، کتنے ہی ایسے رنجیدہ دستم رسیدہ ہیں جن کے پاس عرض حال کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے ، عنقریب فاطمہ (ع) سب بیان کریں گی اور خدا فیصلہ کرے گا کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

یہ الوداع کہنے والے کا سلام ہے جو نہ رنجیدہ ہے اور نہ بیزار ، اب اگر آپ سے رخصت ہو رہا ہے تو کسی ملال کی بنا پر نہیں ہے اور اگر یہیں رہ جاؤں تو یہ صابرین سے ہونے والے وعدہ سے بد ظنی کی بنا پر نہیں ہے۔( کافی ۱ ص ۴۵۹ / ۳ ، امالی مفید (ر) ص ۲۸۱ / ۷، امالی طوسی (ر) ۱۰۹ / ۱۶۶ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۵۸ روایت علی بن محمد الہرمزانی ، نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۲۰۲)۔

۱۱۵۲۔ عبدالرحمان بن ابی نعم ! ایک مرد عراقی نے عبداللہ بن عمر سے سوال کیا کہ اگر کپڑے میں مچھر کا خون لگ جائے تو کیا کرنا ہو گا؟ تو ابن عمر نے کہا کہ ذرا اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کے بارے میں دریافت کر رہا ہے جبکہ ان عراقیوں نے فرزند رسول کا خون بہا دیا ہے جس کے بارے میں میں نے خود رسول اکرم سے سنا ہے کہ حسن (ع) و حسین (ع) اس دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔( سنن ترمذی ۵ ص ۶۵۷ / ۳۷۷۰ ، مسند ابن حنبل ۲ ص ۴۰۵ / ۵۶۷۹ ، ص ۴۵۲ / ۵۹۴۷ ، الادب المفرد ۳۸ / ۸۵ ، المعجم الکبیر ۳ ص ۱۲۷ / ۲۸۸۴ ، ذخائر العقبئ ص ۱۲۴ ، مسند ابویُعلیٰ ۵ ص ۲۸۷ / ۵۷۱۳ ، اسد الغابہ ص ۲ / ۲۶ ، امالی صدوق ۱۲۳ /۱۲ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۷۵ ، صحیح بخاری ۳ ص ۳۷۱ / ۳۵۴۳ ، خصائص نسائی ص ۲۵۹ / ۱۴۴ ، الادب المفرد ۲۵۹ / ۱۴۴ ، انساب الاشراف ۳ ص ۲۲۷ / ۸۵ ، حلیة الاولیاء ۵ ص ۷۰ ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ۳۶ / ۵۸ ، ۶۰)۔

۱۱۵۳۔ منہال بن عمرو ! میں امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کر کے مزاج دریافت کیا تو فرمایا کہ تم شیعہ ہوکہ ہمارے صبح و شام سے باخبر نہیں ہو؟ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم آل فرعون کے درمیان بنی اسرائیل کی مثال ہیں کہ ان کے بچوں کو ذبح کیا جا رہا تھا اور عورتوں کو زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا اور آج یہ عالم ہے کہ رسول اکرم کے بعد بہترین خلائق کو منبروں سے گالیاں دی جا رہی ہیں اور ان کے سب و شتم پر اموال عطا کئے جا رہے ہیں ، ہمارے چاہنے والوں کے حقوق اس محبت کے جرم میں پامال کئے جا رہے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ سارے عرب کے درمیان قریش کا احترام ہو رہا ہے کہ پیغمبران میں سے ہیں اور اس طرح لوگوں سے ہمارا حق لیا جا رہا ہے اور ہمیں ہمارا حق نہیں دیا جا رہا ہے آؤ ، آؤ دیکھو یہ ہیں ہمارے صبح و شام ( جامع الاخبار ۲۳۸ / ۶۰۷ ، تفسیر قمی ۱ص ۱۳۴ روایت عاصم بن حمید عن الصادق (ع) ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۶۹ ، مشیر الاحزان ص ۱۰۵)۔

۱۱۵۴۔ امام باقر (ع) ! جو شخص بھی ہمارے اوپر ہونے والے ظلم ، ہمارے حق کی پامالی اور ہماری پریشانیوں کو نہ پہچانے وہ بھی ان لوگوں کا شریک ہے جنھوں نے ہمارے اوپر ظلم ڈھائے ہیں۔( ثواب الاعمال ص ۲۴۸ / ۶ روایت جابر)۔

۱۱۵۵۔ منہال بن عمرو ! میں امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں تھا کہ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے سلام کر کے مزاج دریافت کیا ؟ فرمایا کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ تم ہمارے حالات کا اندازہ کرسکو جب کہ ہماری مثال امت میں بنی اسرائیل جیسی ہے جن کے بچے ذبح کر دیے جاتے تھے اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا اور یہی حال اب ہمارا ہے کہ ہمارے بچوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ عرب نے عجم پر برتری کا اظہار کیا اور جب انھوں نے دلیل پوچھی تو کہا کہ محمد عرب تھے اور سب نے تسلیم کر لیا، اس کے بعد قریش نے عرب پر اپنی فضیلت کا اظہار کیا اور انھوں نے بھی یہی دلیل بیان کی کہ محمد ہم میں سے تھے اور سب نے مان لیا، تو اگر بات یہی ہے تو گویا ہمارا سب پر احسان ہے کہ ہم رسول اکرم کی ذریّت اور ان کے اہلبیت (ع) ہیں اور اس میں ہمارا کوئی شریک نہیں ہے۔

یہ سن کر اس شخص نے کہا کہ خدا کی قسم میں تو آپ اہلبیت (ع) سے محبت کرتا ہوں ، فرمایا اگر ایسا ہے تو بلاء کی چادر اختیار کر لو کہ بلاء کی رفتار ہماری اور ہمارے چاہنے والوں کی طرف وادی کے سیلاب سے زیادہ تیز تر ہے، بلائیں پہلے ہم پر نازل ہوتی ہیں اور اس کے بعد تم پر اور سکون و آرام کا آغاز بھی پہلے ہم سے ہو گا ، اس کے بعد تم کو حاصل ہو گا۔( امالی طوسی (ر) ۱۵۴ / ۲۵۵ ، بشارة المصطفیٰ ص ۸۹)۔

۱۱۵۶۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں رقمطراز ہیں کہ حضرت ابوجعفر محمد بن علی (ع) نے بعض اصحاب سے فرمایا کہ تمھیں اندازہ ہے کہ قریش نے ہم پر کس طرح ظلم اور ہجوم کیا ہے اور ہمارے شیعوں اور دوستوں نے کس قدر مظالم کا سامنا کیا ہے؟ رسول اکرم یہ فرما کر دنیا سے گئے تھے کہ ہم تمام لوگوں سے اولیٰ ہیں لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام قریش نے ہمارے خلاف اتفاق کر لیا اور خلافت کو اس کے مرکز سے جدا کر دیا ، ہمارے حق اور ہماری محبت کے ذریعہ انصار کے سامنے استدلال کیا اور پھر خود ہی قبضہ کر لیا اور ایک دوسرے کے حوالہ کرتا رہا یہاں تک کہ جب خلافت پلٹ کر ہمارے گھر آئی تو قریش نے بیعت کر توڑ کر جنگ کا بازار گرم کر دیا اور صاحب امر انہیں مصائب کا سامنا کرتے کرتے شہید کر دیا گیا۔

اس کے بعد امام حسن (ع) کی بیعت کی گئی اور ان سے عہد کیا گیا لیکن ان سے بھی غداری کی گئی اور انہیں بھی تنہا چھوڑ دیا گیا ، یہاں تک کہ عراق والوں نے حملہ کر کے خنجر سے ان کے پہلو کو زخمی کر دیا اور ان کا سارا سامان لوٹ لیا اور گھر کی کنیزوں کے زیور ات تک لے لئے، جس کے نتیجہ میں آپ نے معاویہ سے صلح کر لی تا کہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی کا تحفظ کرسکیں جو کہ تعداد میں انتہائی قلیل تھے۔

اس کے بعد ہم اہلبیت (ع) کو مسلسل حقیر و ذلیل بنایا جاتا رہا، ہمیں وطن سے نکالا گیا اور مبتلائے مصائب کیا گیا ، نہ ہماری زندگی محفوظ رہی اور نہ ہمارے چاہنے والوں کی زندگی۔! جھوٹ بولنے والے اور ہمارے حق کا انکار کرنے والے اپنے کذب و انکار کی وجہ سے بلندترین درجات حاصل کرتے رہے اور ہر مقام پر حکام ظلم کے یہاں تقرب حاصل کرتے رہے، جھوٹی حدیثیں تیار کیں اور ہماری طرف سے وہ باتیں نقل کیں جونہ ہم نے کہی تھیں اور نہ کی تھیں تا کہ لوگوں کوہم سے متنفر اور بیزار بنا سکیں۔

یہ کام زیادہ تیزی سے معاویہ کے دور حکومت میں امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد ہوا اور ہمارے شیعوں کا ہر مقام پر قتل عام ہوا، ان کے ہاتھ پاؤں تہمتوں کی بنا پر کاٹ دئے گئے اور جو بھی ہماری محبت کا نام لیتا تھا اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اس کے اموال کو لوٹ کر گھر کو گرا دیا جاتا تھا۔

اس کے بعد بلاؤں میں اور اضافہ ہوتا رہا ، یہاں تک کہ عبیداللہ بن زیاد کا دور آیا اور پھر حجاج کے ہاتھ میں حکومت آئی جس نے طرح طرح سے قتل کیا اور تہمتوں پر زندانوں کے حوالہ کر دیا اور حالت یہ ہو گئی کہ کسی بھی انسان کے لئے زندیق اور کافر کہا جانا شیعہ علی (ع) کہے جانے سے زیادہ بہتر اور محبوب عمل تھا۔( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۱۱ ص ۴۳)۔

۱۱۵۷۔ حمزہ بن حمران ! میں امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ میں نے عرض کی کوفہ سے ! آپ نے گریہ شروع کر دیا یہاں تک کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی ، میں نے عرض کی فرزند رسول (ع) ! اس قدر گریہ کا سبب کیا ہے؟

فرمایا مجھے میرے چچا  زید اور ان کے ساتھ ہونے والے مظالم یاد آ گئے۔

میں نے عرض کی کہ وہ کیا مظالم یاد آ گئے ؟

فرمایا کہ ان کی شہادت کا وہ منظر یاد آ گیا جب ان کی پیشانی میں تیر پیوست ہو گیا اور بیٹا آ کر باپ سے لپٹ گیا کہ بابا مبارک ہو، آپ اس شان سے رسول اکرم ، حضرت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ فرمایا بیشک۔

اس کے بعد یحیٰ نے لوہار کو بلا کر پیشانی سے تیر نکلوا یا اور جناب زید کی روح جسم سے پرواز کر گئی اور یحیئ نے لاش کو ایک نہر کے کنارہ سپرد لحد کر کے اس پر نہر کا پانی جاری کر دیا تا کہ کسی کو اطلاع نہ ہونے پائے لیکن ایک سندی غلام نے یہ منظر دیکھ لیا اور یوسف بن عمر کو اطلاع کر دی اور اس نے لاش کو قبر سے نکلوا کر سولی پر لٹکا دیا اور اس کے بعد نذر آتش کر کے خاکستر کو ہوا میں اڑا دیا ، خدا ان کے قاتل اور انہیں تنہا چھوڑ دینے والوں پر لعنت کرے۔

ہم تو ان مصائب کی فریاد خدا کی بارگاہ میں کرتے ہیں جہاں اولاد رسول کو مرنے کے بعد بھی نشانہ ستم بنایا گیا اور پھر پروردگار ہی سے دشمنوں کے مقابلہ میں طالب امداد ہیں کہ وہی بہترین مدد کرنے والا ہے۔( امالی صدوق (ر) ۳۲۱ / ۳ ، امالی طوسی (ر) ۴۳۴ / ۹۷۳)۔

۱۱۵۸۔ محمد بن الحسن ، محمد بن ابراہیم کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ اولاد حسن (ع) میں بعض افراد کو منصور کے سامنے لایا گیا تو اس نے محمد بن ابراہیم کو دیکھ کر کہا کہ تم ہی دیباج اصغر کہے جاتے ہو؟ فرمایا بیشک۔

اس نے کہا کہ خدا کی قسم تمھیں اس طرح قتل کروں گا جس طرح اب تک کسی کو قتل نہیں کیا ہے… اور یہ کہہ کر ایک کھوکھلے ستون کے اندر کھڑا کر کے ستوں کو بند کرا دیا اور وہ زندہ دفن کر دئے گئے۔( تاریخ طبری ۷ ص ۵۴۶ ، مقاتل الطالبیین ص ۱۸۱)۔

۱۱۵۹۔ محمد بن اسماعیل ! میں نے اپنے جد موسیٰ بن عبداللہ سے سنا ہے کہ ہمیں ایسے اندھیرے قید خانہ میں رکھا گیا تھا کہ اوقات نماز کا اندازہ بھی علی بن الحسن بن الحسن بن الحسن (ع) کی قرآن کے پاروں کی تلاوت سے کیا جاتا تھا۔( مقاتل الطالبیین ص ۱۷۶)۔

۱۱۶۰۔ موسیٰ بن عبداللہ بن موسیٰ ! علی بن الحسن کا انتقال منصور کے قید خانہ میں حالت سجدہ میں ہوا ہے جب عبداللہ نے کہا کہ میرے بھتیجے کو جگاؤ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ میں نیند آ گئی ہے اور لوگوں نے حرکت دی تو معلوم ہوا کہ روح جسم سے جدا ہو چکی ہے اور عبداللہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ اللہ تم سے راضی رہے، میرے علم کے مطابق تمھیں اس طرح کی موت کا خوف تھا۔( مقاتل الطابیین ص ۱۷۶)۔

۱۱۶۱۔ محمد بن المنصور نے یحیئ بن الحسین بن زید کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ میں اپنے چچا عیسیٰ بن زید کو دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرے جیسے انسان کے لئے یہ بڑا عیب ہے کہ اپنے ایسے محترم بزرگ سے ملاقات نہ کرے تو انھوں نے ٹال دیا اور ایک مدت تک یہ کہہ کر ٹالتے رہے کہ مجھے یہ خوف ہے کہ انہیں یہ ملاقات گراں گذرے اور ا س کے زیر اثر وہ جگہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں جہاں ان کا قیام ہے۔

لیکن میں برابر اصرار کرتا رہا اور اپنے اشتیاق کا اظہار کرتا رہا یہاں تک کہ وہ راضی ہو گئے اور مجھے تیار کر کے کوفہ روانہ کر دیا اور فرمایا کہ کوفہ پہنچ کر نبی حیّ کے مکانات دریافت کرنا اور وہاں فلاں کوچہ میں جا کر دیکھنا کہ درمیان کوچہ ان ان صفات کا ایک گھر نظر آئے گا مگر تم اس گھر کے پاس نہ ھہرنا بلکہ دور جا کر کھڑے ہو جانا ، عنقریب تم دیکھو گے کہ مغرب کے وقت ایک ضعیف آدمی آ رہا ہے اور اس کا چہرہ چمک رہا ہے، پیشانی پر سجدہ کا نشان ہے اور ایک اونی کرتا پہنے ہوئے ایک اونٹ پر سقائی کا کام انجام دے رہا ہے اور جب بھی کوئی قدم اٹھاتا ہے برابر ذکر خدا کرتا رہتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ، تم یہ دیکھ کر سلام کرنا اور معانقہ کرنا۔

وہ تم سے گھبرائیں گے اور خوف زدہ ہوں گے لیکن تم فوراً اپنا شجرۂ نسب بیان کر دینا، انہیں یہ سن کر سکون ہو گا اور تم سے تاویر گفتگو کرتے رہیں گے اور ہم لوگوں کے بارے میں تفصیلات دریافت کریں گے اور اپنے حالات بتائیں گے لیکن تم ان کے پاس زیادہ دیر نہ ٹھہرنا اور نہ لمبی گفتگو کرنا بلکہ فوراً خدا حافظ کہہ دینا کہ وہ تم سے معذرت کریں گے کہ آئندہ ملاقات کے لئے نہ آنا اور تم اس کے مطابق عمل کرنا ورنہ وہ تم سے چھپ جائیں گے اور گھبرا کر جگہ بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے جو ان کے لئے باعث مشقت عمل ہو گا۔

میں اپنے دل میں یہ عزم لے کر روانہ ہوا کوفہ پہنچ کر عصر کے بعد بنیحی کے علاقہ میں گیا اور گلی کے کنارہ دروازہ کو پہچان کر دور بیٹھ گیا کہ غروب کے بعد ایک اونٹ ہنکانے والے کو دیکھا جس میں بابا کے بیان کر وہ تمام صفات موجود تھے اور ہر قدم پر مسلسل ذکر خدا کر رہا تھا اور آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے۔

میں نے اٹھ کر معانقہ کیا، وہ خوفزدہ ہو گئے، میں نے کہا کہ چچا میں یحیئ بن الحسین بن زید، آپ کا بہتیجا ہوں۔

انھوں نے کلیجہ سے لگا لیا اور رونے لگے اور اس قدر روئے جیسے ہلاک ہو جائیں گے، اس کے بعد اونٹ کو بٹھا دیا اور میرے پاس بیٹھ کر ایک ایک فرد خاندان مرد، عورت ، بچہ کے بارے میں دریافت کرنے لگے، میں نے سب کا حال بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ فرزند ! میں اسی اونٹ پر سقائی کا کام کر رہا ہوں ، جس قدر اجرت ملتی ہے، اونٹ کا کرایہ دے کر باقی سے بچوں کی پرورش کرتا ہوں اور اگر کسی دن کچھ نہیں بچتا ہے تو آبادی کے باہر جا کر جو سبزی وغیرہ لوگ پھینک دیتے ہیں ، اس کو اٹھا کر کھا لیتا ہوں۔

میں نے یہیں ایک شخص کی لڑکی سے شادی کی ہے لیکن اسے نہیں معلوم ہے کہ میں کون ہوں اور اس سے ایک بیٹی بھی پیدا ہو چکی ہے جو اب بلوغ کی منزل میں ہے لیکن اسے بھی نہیں معلوم کہ میں کون ہوں ؟

ایک مرتبہ اس کی ماں نے کہا کہ محلہ کے فلاں سقاء کے بیٹے نے پیغام دیا ہے لہذا اس بچی کا عقد کر دیجئے، اس کے حالات ہم لوگوں سے بہتر ہیں اور پھر اصرار بھی کیا لیکن میں نہ بتا سکا کہ یہ بات ہمارے لئے جائز نہیں ہے اور وہ ہمارا کفو نہیں ہے، وہ برابر اصرار کرتی رہی اور میں خدا سے دعا کرتا رہا کہ اس مشکل سے نجات دلا دے کہ اتفاقاً اس بچی کا انتقال ہو گیا اور آج مجھے اس سے زیادہ کسی امر کا صدمہ نہیں ہے کہ اسے رسول اکرم سے اپنی قرابت کا علم بھی نہ ہوسکا۔

اس کے بعد مجھے قسم دلائی کہ میں واپس چلا جاؤں اور دوبارہ پھر ان کے پاس نہ جاؤں اور یہ کہہ کر مجھے رخصت کر دیا ، اس کے بعد جب بھی میں انہیں دیکھنے اس جگہ پر گیا وہ نظر نہیں آئے اور یہی میری آخری ملاقات تھی۔ ( مقاتل الطالبیین ص ۳۴۵)۔

واضح رہے کہ اسلام میں کفو ہونے کے لئے اتحاد حیثیت و مذہب ضروری ہے اور جہت ممکن ہے کہ وہ بچہ سقا اہلبیت (ع) کے مسلک پر نہ رہا ہو یا اس میں کوئی ایسا نقص رہا ہو جو اس بچی کے کفو بننے سے مانع رہا ہو ورنہ اس بچی کی ماں بھی خاندان اہلبیت (ع) سے نہیں تھی۔!

۱۱۶۲۔ منذر بن جعفر العبدی نے اپنے والد کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں صالح بن حیّ کے دونوں فرزند حسن اور علی (ع) ، عبدر بہ بن علقمہ اور جناب بن نسطا س سب عیسیٰ بن زید کے ہمراہ حج کے سفر پر نکلے اور عیسیٰ جمالوں کے لباس میں تقیہ کی زندگی گذار رہے تھے، ایک رات ہم لوگ مکہ میں مسجد الحرام میں جمع ہوئے تو عیسیٰ بن زید اور حسن بن صالح نے سیرت کے مسائل پر گفتگو شروع کر دی اور ایک مسئلہ میں دونوں میں اختلاف ہو گیا، دوسرے دن عبدر بہ بن علقمہ آئے تو کہا کہ تمھارا مسئلہ حل ہو گیا ہے سفیان ثوری آ گئے ہیں ان سے دریافت کر لو، چنانچہ اٹھ کر مسجد میں ان کے پاس آئے اور سلام کر کے مسئلہ دریافت کیا تو سفیان نے کہا کہ اس کا جواب میرے بس سے باہر ہے کہ اس کا تعلق سلطان وقت سے ہے۔

حسن نے انہیں متوجہ کیا کہ یہ سوال کرنے والے عیسیٰ بن زید ہیں ، انھوں نے جناب بن نسطاس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور انھوں نے بھی تصدیق کر دی کہ یہ عیسیٰ بن زید ہیں توسفیان ثوری نے انہیں سینہ سے لگا لیا اور بے تحاشہ رونا شروع کر دیا اور آخر میں اپنے انداز جواب کی معذرت کی اور روتے روتے مسئلہ کا جواب دے دیا اور پھر ہم لوگوں کی طرف رخ کر کے فرمایا کہ اولاد فاطمہ سے محبت اور ان کے مصائب پر گریہ ہر اس انسان کیلئے لازم ہے جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان پایا جاتا ہے، اور اس کے بعد پھر عیسی بن زید سے کہا کہ جاؤ اپنے کو ان ظالموں سے پوشیدہ کرو کہیں تم پر کوئی مصیبت نازل نہ ہو جائے، یہ سن کر ہم لوگ اٹھ گئے اور سب متفرق ہو گئے۔ (مقاتل الطالبیین ص ۳۵۱)۔

۱۱۶۳۔ علی بن جعفر الاحمر ! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ ہم لوگ ( میں ، عیسیٰ بن زید، حسن بن صالح ، علی بن صالح بن حیّ، اسرائیل بن یونس، بن ابی اسحاق ، جناب بن نسطاس) زید یوں کی ایک جماعت کے ساتھ کوفہ میں ایک گھر میں جمع ہوتے تھے کہ کسی شخص نے مہدی کے یہاں جاسوسی کر دی اور اس نے کوفہ کے عامل کو پیغام بھیج دیا کہ ہماری کڑی نگرانی کی جائے اور اگر ایسے کسی اجتماع کی اطلاع ملے تو سب کو گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دیا جائے۔

ایک رات ہم لوگ سب جمع تھے کہ عامل کوفہ کو خبر ہو گئی اور اس نے ہمارے اوپر حملہ کر دیا اور قوم نے یہ محسوس کرتے ہی چھت سے چھلانگ لگا دی اور میرے علاوہ سب فرار کر گئے، ظالموں نے مجھے گرفتار کر کے مہدی کے پاس بھیج دیا، میں اس کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے مجھے دیکھتے ہی حرام زادہ کہہ کر خطاب کیا اور کہا کہ تو عیسیٰ بن زید کے ساتھ اجتماع کرتا ہے اور انہیں میرے خلاف اقدام پر آمادہ کرتا ہے۔

میں نے کہا مہدی ! تجھے خدا سے شرم نہیں آتی ہے اور نہ اس کا خوف ہے، تو شریف زادیوں کی اولاد کو حرام زادہ کہتا ہے اور ان پر تہمت زنا لگاتا ہے جبکہ تیرا فرض تھا کہ تیرے سامنے کوئی جاہل اور احمق اس طرح کے کلمات استعمال کرے تو اسے منع کرے۔

اس نے دوبارہ وہی گالی دی اور اب اٹھ کر مجھے زمین پر پٹک دیا اور ہاتھ پاؤں سے گھونسہ لات کرنے لگا اور گالیاں دینے لگا میں نے کہا کہ واقعاً بہت بہادر آدمی ہے کہ مجھ جیسے بوڑھے کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرتا ہے جس میں اپنے دفاع کی بھی طاقت نہیں ہے۔

اس نے مجھے قید خانہ میں ڈال دیا اور سختی کرنے کا حکم دے دیا، مجھے زنجیروں میں جکڑ کر قید کر دیا گیا اور میں برسوں قیدخانہ میں رہا، یہاں تک کہ جب اسے اطلاع ملی کہ عیسیٰ بن زید کا انتقال ہو گیا ہے تو مجھے طلب کیا اور کہنے لگا کہ تو ہے کون؟

میں نے کہا کہ مسلمان ہوں۔

اس نے کہا اعرابی ؟

میں نے کہا نہیں

اس نے کہا پھر کیا ہے؟

میں نے کہا کہ میرا باپ کوفہ کے کسی شخص کا غلام تھا، اس نے اسے آزاد کر دیا تھا۔

کہا کہ عیسیٰ بن زید مر گئے!

میں نے کہا کہ یہ عظیم ترین مصیبت ہے، اللہ ان پر رحمت نازل کرے، واقعاً بڑے عابد ، زاہد، اطاعت خدا میں زحمت برداشت کرنے والے اور اس راہ میں انتہائی نڈر تھے۔

اس نے کہا کہ کیا تمھیں ان کی وفات کا علم نہیں تھا؟

میں نے کہا کہ معلوم ہے۔

کہا کہ پھر مجھے مبارکباد کیوں نہیں دی ؟

میں نے کہا کہ میں ایسی بات کی مبارکباد کس طرح دیتا کہ اگر رسول اکرم زندہ ہوتے تو ہرگز اس بات کو پسند نہ کرتے وہ تا دیر سر جھکائے خاموش رہا اور پھر کہنے لگا کہ تمھارے جس میں سزا کی طاقت نہیں ہے اور میں کوئی ایسی سزا دینا نہیں چاہتا جس سے تم مر جاؤ اور اللہ نے مجھے میرے دشمن عیسئ بن زید سے بچا لیا ہے لہذا جاؤ یہاں سے چلے جاؤ لیکن خدا تمھارا نگہبان نہ ہو گا۔

اور یاد رکھو کہ اگر مجھے اطلاع ملی کہ تم نے پھر وہی کام شروع کر دیا ہے تو خدا کی قسم تمھاری گردن اڑا دوں گا۔

میں یہ سن کر کوفہ چلا آیا اور مہدی نے ربیع سے کہا کہ دیکھتے ہو یہ شخص کس قدر بے خوف اور با ہمت ہے۔ خدا کی قسم صاحبان بصیرت ایسے ہی ہوتے ہیں۔( مقاتل الطالبیین ص ۳۵۲)۔ ۱۱۶۴۔ امام کاظم (ع)! دعا کرتے ہیں … خدایا پیغمبر اسلام کے اہلبیت (ع) پر رحمت نازل فرما جو ہدایت کے امام ، اندھیروں کے چراغ ، مخلوقات پر تیرے امین ، بندوں میں تیرے مخلص، زمین پر تیری حجّت، شہروں میں تیرے منارۂ ہدایت، بلاؤں میں صبر کرنے والے، رضاؤں کے طلب کرنے والے، وعدہ کو وفا کرنے والے، عبادتوں میں شک یا انکار نہ کرنے والے، تیرے اولیاء اور تیرے اولیاء کی اولاد، تیرے علم کے خزانہ دار، جنہیں تو نے ہدایت کی کلید، اندھیروں کا چراغ قرار دیا ہے، تیری صلوات و رحمت و رضا انہیں کے لئے ہے۔

خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما … اور اپنے بندوں میں منارۂ ہدایت، اپنی ذات کی طرف دعوت دینے والے تیرے امر کے ساتھ قیام کرنے والے اور تیرے رسول کا پیغام پہنچانے والے پر بھی ، اور خدایا جب اسے ظاہر کرنا تو اس کے وعدہ کو پورا کر دینا اور اس کے اصحاب و انصار کو جمع کر دینا ا ور اس کے مددگاروں کو طاقت عطا فرمانا اور اسے آخری منزل امید تک پہنچا دینا اور اس کے سوالات کو عطا کر دینا اور اس کے ذریعہ محمد و آل محمد کے حالات کی اصلاح کر دینا اس ذلت، توہین اور مصائب کے بعد جو رسول اکرم کے بعد نازل ہوئی ہیں کہ انہیں قتل کیا گیا ، وطن سے باہر نکالا گیا ، خوفزدہ حالت میں منتشر کر دیا گیا ، انھوں نے تیری رضا اور اطاعت کی خاطر اذیت اور تکذیب کا سامنا کیا اور تمام مصائب پر صبر کیا اور ہر حال میں راضی رہے اور تیری بارگاہ میں ہمیشہ سراپا تسلیم رہے۔

خدایا ان کے قائم کے ظہور میں تعجیل فرما، اس کی امداد فرما اور اس کے ذریعہ اس دین کی امداد فرما جس میں تغیر و تبدل پیدا کر دیا گیا ہے اور ان امور کو پھر سے زندہ کر دے جو مٹا دئے گئے ہیں اور نبی اکرم کے بعد بدل دئے گئے ہیں۔( جمال الاسبوع ص ۱۸۶)۔

۱۱۶۵۔ ابوالصلت عبدالسلام بن صالح الہروی ، میں نے امام رضا (ع) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خدا کی قسم ہم میں کا ہر شخص شہید کیا جانے والا ہے… تو کسی نے دریافت کر لیا کہ آپ کو کون قتل کرے گا ؟

فرمایا کہ میرے زمانہ کا بدترین انسان، جو مجھ کو زہر دے گا اور پھر بلا و غربت میں دفن کیا جاؤں گا۔( الفقیہ ۲ ص ۵۸۵ / ۳۱۹۲، امالی صدوق (ر) ۶۱ / ۸، عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۲۵۶ / ۹ ، جامع الاخبار ۹۳ / ۱۵۰ روضة الواعظین ص ۲۵۷ ،مناقب ابن شہر آشوب ۲ ص ۲۰۹)۔

۱۱۶۶۔ امام رضا (ع) ! خدا کا شکر ہے جس نے ہم میں اس کو محفوظ رکھا ہے جس کو لوگوں نے برباد کر دیا ہے اور اسے بلند رکھا ہے جسے لوگوں نے پست بنا دیا ہے، یہاں تک کہ ہمیں کفر کے منبروں پر اسی سال تک گالیاں دی گئیں ، ہمارے فضائل کو چھپایا گیا ، ہمارے خلاف جھوٹ بولنے کے لئے اموال خرچ کئے گئے، مگر خدا نے یہی چاہا کہ ہمارا ذکر بلند رہے اور ہمارے فضائل آشکار ہو جائیں ، خدا کی قسم ایسا ہماری وجہ سے نہیں ہوا ہے، رسول اکرم اور ان کی قرابت کی برکت سے ہوا ہے کہ اب ہمارا مسئلہ اور ہماری روایات ہی ہمارے بعد پیغمبر کی بہترین دلیل ہوں گی۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۱۶۴ / ۲۶ روایت محمد بن ابی الموج بن الحسین الرازی )۔

۱۱۶۷۔ امام عسکری (ع) ! بنی امیہ نے اپنی تلواریں ہماری گردنوں پر دو وجہوں سے چلائی ہیں۔

ایک یہ کہ انہیں معلوم تھا کہ خلافت میں ان کا کوئی حق نہیں ہے اور ہم نے دعویٰ کر دیا اور وہ اپنے مرکز تک پہنچ گئی تو ان کا کیا ہو گا۔

اور دوسرے یہ کہ انھوں نے متواتر اخبار سے یہ معلوم کر لیا تھا کہ ہمارے قائم کے ذریعہ ظالموں اور جابروں کی حکومت کا خاتمہ ہونے والا ہے اور انہیں یقین تھا کہ وہ ظالم و جابر ہیں ، چنانچہ انھوں نے کو شش کی کہ اہلبیت (ع) رسول کو قتل کر دیا جائے، ان کی نسلوں کو فنا کر دیا جائے تا کہ اس طرح ان کا قائم دنیا میں نہ آنے پائے مگر پروردگار نے طے کر لیا کہ بغیر کسی اظہار و انکشاف کے اپنے نور کو مکمل کر دے گا چاہے یہ بات کفار کو کسی قدر ناگوار کیوں نہ ہو۔( اثبات الہداة ۳ ص ۵۷۰ / ۶۸۵ روایت عبداللہ بن الحسین بن سعید الکاتب)۔ ۱۱۶۸۔ دعائے ندبہ ، حضرت محمد و علی (ع) کے گھرانہ کے پاکیزہ کردار افراد پر گریہ اور ندبہ کرنے والوں کو ندبہ کرنا چاہئے، ان کے غم میں آنسؤوں کو بہنا چاہئے، صدائے نالہ و شیون کو بلند ہونا چاہئے، آواز فریاد کو سنائی دینا چاہئے۔

کہاں ہیں حسن (ع) ؟

کہاں ہیں حسین (ع) ؟

کہاں ہیں اولاد حسین (ع) ؟

ایک کے بعد ایک نیک کردار اور ایک کے بعد ایک صداقت شعار ،

کہاں ہیں ایک کے بعد ایک سبیل ہدایت اور ایک کے بعد ایک منتخب روزگار۔

کہاں ہیں طلوع کرنے والے سورج؟

اور کہاں ہیں چمکنے والے چاند؟

کہاں ہیں روشن ستارے؟

اور کہاں ہیں دین کے پرچم اور علم کے ستون؟

(بحار الانوار ۱۰۲ / ۱۰۷ نقل از مصباح الزائر ( مخطوط) محمد بن علی بن ابی قرة از کتاب محمد بن الحسین بن سفیان البزوفری)۔

اس مقام پر تصریح کی گئی ہے کہ یہ دعا امام عصر (ع) سے نقل کی گئی ہے اور اس کا چاروں عیدوں میں پڑھنا مستحب ہے۔

عیدالفطر

عیدالاضحیٰ

عید غدیر

روز جمعہ !


حکومت اہلبیت (ع)

بشارات حکومت اہلبیت (ع)

’ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ان بندوں پر احسان کریں جنہیں اس زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے اورانہیں قائد و امام بنا کر زمین کا وارث بنا دیں ‘۔( سورۂ قصص آیت ۵)۔

’ اس پروردگار نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب بنا دے چاہے یہ بات مشرکین کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو‘ ( سورۂ صف آیت ۹)۔

’ پروردگار نے تم میں سے ایمان و کردار والوں سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین پر اسی طرح اپنا جانشین بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنا دے گا جسے ان کیلئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن میں تبدیل کر دے گا اور یہ سب ہماری عبادت کریں گے اور کسی شے کو ہمارا شریک نہ قرار دیں گے اور اگر کوئی شخص اس کے بعد بھی انکار کرے تو اس کا شمار فاسقین میں ہو گا‘۔( سورۂ نور نمبر ۵۵)۔

۱۱۶۹۔ رسول اکرم ! قیامت اس وقت تک برپا نہ ہو گی جب تک میرے اہلبیت (ع) میں سے ایک شخص حاکم نہ ہو جائے جس کا نام میرا نام ہو گا۔( مسندابن حنبل ۲ ص ۱۰ / ۳۵۷۱ از عبداللہ بن مسعود)۔

۱۱۷۰۔ رسول اکرم ! یہ دنیا اس وقت تک فنا نہ ہو گی جب تک عرب کا حاکم میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص نہ ہو جائے جس کا نام میرا نام ہو گا۔( سنن ترمذی ۴ ص ۵۰۵ / ۲۲۳۰ ، سنن ابی داؤد ۳ ص ۱۰۷ / ۴۲۸۲ ، مسند ابن حنبل ۲ ص ۱۱ / ۳۵۷۳ ، المعجم الکبیر ۱۰ ص ۱۳۱ /۱۰۲۰۸ ، الملاحم والفتن نمبر ۱۴۸ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۸۱)۔

۱۱۷۱۔ ابولیلیٰ ! رسول اکرم نے علی (ع) سے فرمایا کہ تم میرے ساتھ جنّت میں ہو گے اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں … میں ، تم ، حسن (ع) حسین (ع) اور فاطمہ (ع) ہوں گے۔

یا علی (ع) ! ان کینوں سے ہوشیار رہنا جو لوگوں کے دلوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ان کا اظہار میری موت کے بعد ہو گا، یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی بھی لعنت ہے اور تمام لعنت کرنے والوں کی بھی لعنت ہے۔

یہ کہہ کر آپ نے گریہ فرمایا … اور فرمایا کہ جبریل نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ لوگ علی (ع) پر ظلم کریں گے اور یہ سلسلۂ ظلم قیام قائم (ع) تک جاری رہیگا اس کے بعد ان کا کلمہ بلند ہو گا اور لوگ ان کی محبت پر جمع ہو جائیں گے اور دشمن بہت کم رہ جائیں گے اور انہیں برا سمجھنے والے ذلیل ہو جائیں گے اور ان کی مدح کرنے والوں کی کثرت ہو گی اور یہ سب اس وقت ہو گا جب زمانہ کے حالات بالکل بدل جائیں گے، بندگان خدا کمزور ہو جائیں گے لوگ راحت و آرام سے مایوس ہو جائیں گے اور پھر ہمارا قائم مہدی قیام کرے گا ایک ایسی قوم کے ساتھ جن کے ذریعہ پروردگار حق کو غالب بنا دے گا ، باطل کی آگ کو ان کی تلوار کے پانی سے بجھا دے گا اور لوگ رغبت یا خوف سے بہر حال ان کا اتباع کرنے لگیں گے۔

اس کے بعد فرمایا، ایہا الناس ! کشائش حال کی خوشخبری مبارک ہو کہ اللہ کا وعدہ بہر حال سچا ہے، وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ہے اور اس کا فیصلہ رد نہیں ہوسکتا ہے، وہ حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے اور خدا کی فتح بہت جلد آنے والی ہے۔

خدایا یہ سب میرے اہل ہیں ، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انہیں پاک و پاکیزہ رکھنا، خدایا ان کی حفاظت و رعایت فرمانا اور تو ان کا ہو جانا اور ان کی مدد کرنا، انہیں عزت دینا اور ذلت سے دوچار نہ ہونے دینا اور مجھے انہیں کے ذریعہ باقی رکھنا کہ تو ہر شے پر قادر ہے۔ (ینابیع المودہ ۳ ص ۲۷۹ / ۷۲ ، مناقب خوارزمی ۶۲ / ۳۱ ، امالی طوسی (ر) ۳۵۱ / ۷۲۶)۔

۱۱۷۲۔ رسول اکرم ! لوگو مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو، میری امت کی مثال اس بارش کے جیسی ہے جس کے بار ے میں نہیں معلوم ہے کہ اس کی ابتدا زیادہ بہتر ہے یا انتہا۔

میری امت کی مثال اس باغ جیسی ہے جس سے اس سال ایک جما عت کو سیر کیا جائے اور دوسرے سال دوسری جماعت کو سیر کیا جائے اور شائد آخر میں وہ جماعت ہو جو وسعت میں سمندر، طول میں عمیق تر اور محبت میں حسین تر ہو اور بھلا وہ امت کس طرح تباہ ہوسکتی ہے جس کی ابتدا میں میں ہوں اور میرے بعد بارہ صاحبان بخت اور ارباب عقل ہوں اور مسیح عیسی بن مریم بھی ہوں ، ہاں ان کے درمیان وہ افراد ہلاک ہو جائیں گے جو ہرح و مرج کی پیداوار ہوں گے کہ نہ وہ مجھ سے ہوں گے اور نہ میں ان سے ہوں گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۱/۵۲ / ۱۸ ، خصال ۴۷۶ / ۳۹ ، کمال الدین ۲۶۹ / ۱۴ روایت حسین بن زید، کفایتہ الاثر ص ۲۳۱ ، روایت یحییٰ بن جعدہ بن ہبیرہ ، العمدة ۴۳۲ / ۹۰۶ روایت مسعدہ عن الصادق (ع))۔

۱۱۷۳۔ حذیفہ ! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اس امت کے لئے باعث افسوس ہے کہ اس کے حکام جابر و ظالم ہوں گے اور لوگوں کو قتل کریں گے ، اطاعت گذاروں کو خوفزدہ کریں گے علاوہ اس کے کہ کوئی انہیں کی اطاعت کا اظہار کر دے ، نتیجہ یہ ہو گا کہ مومن متقی بھی زبان سے ان کے ساتھ دے گا اور آل سے دور بھاگے گا ، اس کے بعد جب پروردگار چاہے گا کہ اسلام کو دوبارہ عزت عنایت کرے تو تمام جابروں کی کمر توڑ دے گا کہ وہ جو بھی چاہے کرسکتا ہے اور کسی بھی امت کو تباہی کے بعد اس کی اصلاح کرسکتا ہے۔

اس کے بعد فرمایا۔ حذیفہ ! اگر اس دنیا میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گا تو پروردگار اس دن کو طول د ے گا یہاں تک کہ میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص حاکم ہو جس کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہو اور وہ اسلام کو غالب بنا دے کہ خدا اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ہے اور وہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔( عقد الدر ر ص ۶۲ ، کشف الغمہ ۳ ص ۲۶۲ ، حلیة الابرار ۲ ص ۷۰۴ ، ینابیع المودہ ۳ ص ۲۹۸ / ۱۰)۔

۱۱۷۴۔ رسول اکرم ! قیامت اس وقت تک بر پا نہ ہو گی جب تک ہمارا قائم حق کے ساتھ قیام نہ کرے اور یہ اس وقت ہو گا جب خدا اسے اجازت دے دے گا اس کے بعد جو اس کا اتباع کرے گا نجات پائے گا اور جو اس سے الگ ہو جائے گا وہ ہلاک ہو جائے گا ، بندگان خدا، اللہ کو یاد رکھنا اور اس کی بارگاہ میں پہنچ جانا، چاہے برف پر چلنا پڑے کہ وہ خدائے عزوجل کا اور میرا جانشین ہو گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) ص ۵۹ / ۲۳۰ ، دلائل الامامة ص ۴۵۲ / ۴۲۸ روایت حسن بن عبداللہ بن محمد الرازی ، کفایتہ الاثر ص ۱۰۶ روایت ابوامامہ)۔

۱۱۷۵۔ سلمان ! جب رسول اکرم پر مرض کا غلبہ ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ باہر جاؤ میں گھر والوں کے ساتھ تخلیہ چاہتا ہوں ، سب لوگ باہر نکل گئے ، میں نے بھی جانا چاہا تو فرمایا کہ تم میرے اہلبیت (ع) میں ہو۔

اس کے بعد حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا ، دیکھو میری عترت اور میرے اہلبیت (ع) کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا کہ دنیا نہ پہلے کسی کے لئے باقی رہی ہے، نہ بعد میں رہے گی اور نہ ہمارے لئے رہنے والی ہے۔

اس کے بعد علی (ع) سے فرمایا کہ سب سے اچھی حکومت حق کی حکومت ہے اور دیکھو تم لوگ ان لوگوں کے بعد حکومت ہے اور دیکھو تم لوگ ان لوگوں کے بعد حکومت کرو گے ایک دن کے بدلے دو دن، ایک مہینہ کے بدلے دو مہینے اور ایک سال کے بدلے دو سال، (مناقب امیر المومنین (ع) کوفی ۲ ص ۱۷۱ / ۲۵۰)۔

۱۱۷۶۔ امام علی (ع)! آل محمد ہی کے ذریعہ حق اپنے مرکز پر واپس آنے والا ہے اور باطل اپنی جگہ سے زائل ہونے والا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۹)۔

۱۱۷۷۔ امام علی (ع) ! میں بار بار حملہ کرنے والا اور صاحب حکومت حق ہوں ، میرے پاس عصا بھی ہے اور مہر بھی ہے، میں وہ زمین پر چلنے والا ہوں جو لوگوں سے روز محشر کلام کروں گا۔( کافی ۱ ص ۱۹۸ / ۳ روایت ابوالصامت الحلوانی عن الباقر (ع))۔

۱۱۷۸۔ امام علی (ع) ! نرید ان نمّن علی الذین استضعفوا … کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آل محمد ہیں جن کے مہدی کو پروردگار سامنے لائے گا، اور اس کے ذریعہ انہیں عزت اور دشمنوں کو ذلت نصب فرمائے گا۔( الغیبتہ الطوسی (ر) ص ۱۸۴ / ۱۴۳ روایت محمد بن الحسین )۔

۱۱۷۹۔ امام صادق (ع) ! امیر المومنین (ع) نے فرمایا ہے کہ یہ دنیا بیزاری کے بعد ہم پر ویسے ہی مہربان ہو گی جیسے کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچہ پر مہربان ہوتی ہے اور اس کے ذیل میں آپ نے آیت ’ نرید ان نمنّ‘ کی تلاوت فرمائی ہے۔( خصائص الائمہ ذیل میں آپ نے آیت ’نرید ان نمنّ‘ کی تلاوت فرمائی ہے۔( خصائص الائمہ ص ۷۰ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۴۰۷ ، شواہد التنزیل ۱ص ۵۵۶ / ۵۹۰ روایات ربیعہ بن ناجذ، نہج البلاغہ حکمت نمبر ۲۰۹ ، تفسیر فرات کوفی ۳۱۴ / ۴۲۰)۔

۱۱۸۰۔ امام علی (ع)! ’ نرید ان نمن‘ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آل محمد ہیں جن کے مہدی کو پروردگار مشقتوں کے بعد اقتدار دے گا اور وہ آل محمد کی عزت اور دشمنوں کی ذلت کا سامان فراہم کرے گا، ( الغیبتہ الطوسی (ر) ۱۸۴ / ۱۴۳ روایت محمد بن الحسین بن علی )۔

نوٹ! یہ روایت بعینہ نمبر ۱۱۷۸ میں بیان ہو چکی ہے، اس مقام پر مولف محترم سے اعداد و شمار میں اشتباہ ہو گیا ہے، جوادی

۱۱۸۱۔ محمد بن سیرین ! میں نے بصرہ کے متعدد شیوخ سے یہ بات سنی ہے کہ حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) جنگ جمل کے بعد بیمار ہو گئے اور جمعہ کا دن آ گیا تو آپ نے اپنے فرزند حسن (ع) سے کہا کہ تم جا کر نماز جمعہ پڑھا دو۔

وہ مسجد میں آئے اور منبر پر جا کر حمد و ثنائے پروردگار اور شہادت و صلوات کے بعد فرمایا۔

ایہا الناس ! پروردگار نے ہمیں نبوت کے ساتھ منتخب کیا ہے اور تمام مخلوقات میں مصطفیٰ قرار دیا ہے، ہمارے گھر میں کتاب اور وحی نازل کی ہے اور خدا گواہ ہے کہ جو شخص بھی ہمارے حق میں ذرا کمی کرے گا پروردگار اس کی دنیا و آخرت دونوں کم کر دے گا اور ہمارے سر پر جو حکومت چاہے قائم ہو جائے، آخر کا ہماری ہی حکومت ہو گی ’ اور یہ بات تمھیں ایک عرصہ کے بعد معلوم ہو جائے گی ‘۔ سورۂ ص آیت ۸۸)۔

اس کے بعد نماز پڑھائی اور اس واقعہ کی خبر حضرت علی (ع) تک پہنچا دی گئی ، نماز کے بعد جب حضرت حسن (ع) باپ کے پاس پہنچے تو حضرت دیکھ کر بیساختہ رونے لگے اور فرزند کو کلیجہ سے لگا کر پیشانی کا بوسہ دیا، فرمایا ’ یہ ایک ذریت ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ملا ہوا ہے اور پروردگار بہت سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘ آل عمران آیت ۳۴ ( امالی طوسی (ر) ۸۲ /۱۲۱ / ۱۰۴ / ۱۵۹ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۶۳ ، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۱۱)۔

۱۱۸۲۔ امام حسن (ع) نے سفیان ابی لیلیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا سفیان مبارک ہو، یہ دنیا نیک و بد سب کیلئے یونہی رہے گی یہاں تک کہ پروردگار آل محمد کے امام برحق کو منظر عام پر لے آئے۔( شرح نہح البلاغہ معتزلی ۱۶ / ۴۵ روایت سفیان بن ابی لیلیٰ ، مقاتل الطالبیین ص ۷۶ ، الملاحم والفتن ص ۹۹)۔

۱۱۸۳۔ امام حسن (ع) نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ پروردگار نے جب بھی کسی نبی کو بھیجا ہے تو اس کے لئے نقیب ، قبلہ اور گھر کا بھی انتخاب کیا ہے، قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت محمد کو نبی برحق بنایا ہے، جو شخص بھی ہم اہلبیت (ع) کے حق میں کمی کرے گا خدا اس کے اعمال میں کمی کر دے گا اور ہم پر جو بھی حکومت گذر جائے، آخر کارحکومت ہماری ہی ہو گی اور یہ بات تھوڑے عرصہ کے بعد معلوم ہو جائے گی۔ (مروج الذہب ۳ ص ۹ ، نثر الدر ۱ ص ۳۲۸)۔

۱۱۸۴۔ امام باقر (ع) ! میں نے کتاب علی (ع) میں دیکھا ہے کہ ’ ان الارض اللہ …( سورہ اعراف آیت ۱۲۸ ) سے مراد ہیں اور میرے اہلبیت (ع) ہیں کہ پروردگار نے ہمیں اس زمین کا وارث بنایا ہے اور ہمیں وہ متقی ہیں جن کے لئے انجام کار ہے، یہ ساری زمین ہمارے لئے ہے لہذا جو بھی کسی زمین کو زندہ کرے گا اس کا فرض ہے کہ اسے آباد رکھے اور اس کا خراج امام اہلبیت (ع) کو ادا کرتا رہے اور باقی خود استعمال کرے لیکن اگر زمین کو بیکار چھوڑ دیا اسے خراب کر دیا اور دوسرے مسلمان نے لے کر آباد کر لیا اور زندہ کر لیا تو وہ چھوڑ دینے والے سے زیادہ صاحبِ اختیار ہے اور اسے امام اہلبیت (ع) کو اس کا خراج ادا کرنا پڑے گا اور باقی اس کے لئے حلال رہے گی یہاں تک کہ ہمارے قائم کا ظہور ہو جائے اور وہ تلوار اٹھا کر ساری زمینوں پر قبضہ کر لے اور انہیں اغیار کے قبضہ سے نکال لے تو صرف جس قدر زمین ہمارے شیعوں کے قبضہ میں ہو گی اسے انہیں دے دیا جائے گا اور باقی امام کے قبضہ میں ہو گی۔( کافی ۱ ص ۴۰۷ /۱ روایت ابوخالد کابلی)۔

۱۱۸۵۔ ابوبکر الحضرمی ! جب حضرت ابوجعفر باقر (ع) کو شام سے عبدالملک بن ہشام کے پاس لایا گیا اور دروازہ پر لا کر روک دیا گیا تو ہشام نے درباریوں سے کہا کہ جب تم لوگ دیکھو کہ میں محمد (ع) بن علی (ع) کو برا بھلا کہہ رہا ہوں تو سب کے سب انہیں برا بھلا کہنا اور اس کے بعد آپ کو دربار میں طلب کیا گیا ، آپ نے داخل ہو کر تمام لوگوں کو سلام کیا اور بیٹھ گئے، ہشام کو یہ بات سخت ناگوار گذری کہ نہ حاکم کو خصوصی سلام کیا اور نہ بیٹھنے کی اجازت طلب کی چنانچہ اس نے سرزنش شروع کر دی اور کہا کہ تم لوگ ہمیشہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرتے ہو اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے کر جہالت اور نادانی کی بنا پر امام بننا چاہتے ہو؟

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا تو درباریوں نے وہی کام شروع کر دیا، جب سب خاموش ہوئے تو حضرت نے فرمایا کہ لوگو! تم کدھر جا رہے ہو اور تمھیں کہاں گمراہ کیا جا رہا ہے، ہمارے ہی اول کے ذریعہ تمھیں ہدایت دی گئی ہے اور ہمارے ہی آخر پر تمھارا خاتمہ ہونے والا ہے ، اگر تمھارے پاس دنیا کی حکومت ہے تو آخری اقتدار ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے جس کے بعد کوئی ملک نہیں ہے کہ عاقبت صرف صاحبان تقویٰ کے لئے ہے۔( کافی ۱ ص ۴۷۱ /۵)۔

۱۱۸۶۔ امام باقر (ع) ! یاد رکھو کہ بنی امیہ کے واسطے بھی ایک ملک ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا ہے اور اہل حق کو بھی ایک دولت ہے جسے پروردگار ہم اہلبیت (ع) میں سے جسے چاہے گا عطا کر دے گا لہذا جو اس وقت تک باقی رہ گیا ، وہ بلند ترین منزل پر ہو گا اور اگر اس سے پہلے مرگیا تو خدا اسی میں خیر قرار دے گا۔ (الغیبتہ النعمانی ص ۱۹۵ / ۲ ، روایت ابوالجارود )۔

۱۱۸۷۔ امام باقر (ع) ! ’ قل جاء الحق و زہق الباطل کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ جب قائم آل محمد قیام کریں گے تو باطل کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ ( کافی ۸ ص ۲۸۷ / ۴۳۲ روایت ابوحمزہ)۔

۱۱۸۸۔ امام صادق (ع)! ہمارے بھی دن ہیں اور ہماری بھی حکومت ہے خدا جب چاہے گا اسے بھی لے آئے گا۔( امالی مفید ۲۸ / ۹ روایت حبیب بن نزار بن حیان)۔

۱۱۸۹۔ امام صادق (ع)! بلاؤں کا آغاز ہم سے ہو گا پھر تمھاری نوبت آئے گی اور اسی طرح سہولتوں کی ابتدا ہم سے ہو گی پھر تمھیں وسیلہ بنایا جائے گا اور قسم ہے ذات پروردگار کی کہ پروردگار تمھارے ذریعہ ویسے ہی انتقام لے گا جیسے پتھر کے ذریعہ سزا دی ہے۔( امالی مفید ۳۰۱ / ۲ ، امالی طوسی (ر) ۷۴ / ۱۰۹ روایت سفیان بن ابراہیم الغادمی القاضی )۔

۱۱۹۰۔ امام صادق (ع) ! میرے والد بزرگوار سے دریافت کیا گیا کہ قاتلوا لامشرکین کافةً۔ توبہ نمبر ۳۶ اور ’ حتی لا تکون فتنہ‘۔ سورہ انفال ۳۹ کا مفہوم کیا ہے؟

تو فرمایا کہ اس کی ایک تاویل ہے جس کا وقت ابھی نہیں آیا ہے اور جب ہمارے قائم کا قیام ہو گا تو جو زندہ رہے گا وہ اس تاویل کو دیکھ لے گا جب دین پیغمبر وہاں تک پہنچ جائے گا جہاں تک رات کی رسائی ہو گی اور اس کے بعد روئے زمین پر کوئی مشرک نہ رہ جائے گا۔ (تفسیر عیاشی ۲ ص ۵۶ / ۴۸ روایت زرارہ ، مجمع البیان روایت زرارہ ۴ ص ۸۳ ، ینابیع المودة ۳ ص ۲۳۹ / ۱۳)۔

۱۱۹۱۔ امام صادق (ع) نے ’ وعد اللہ الذین امنوا منکم و عملوا الصالحات … سورہ نور آیت ۵۵ کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت قائم اور ان کے اصحاب کے بارے میں ہے۔( الغیبتہ للنعمانی ۲۴۰ / ۳۵ از ابوبصیر، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۳۶۵ ، ینابیع المودہ ۳ ص ۳۴۵ / ۳۲ ، از امام باقر (ع))۔

۱۱۹۲۔ دعائے ندبہ آل محمد کے بارے میں پروردگار کا فیصلہ اسی طرح جاری ہوا ہے جسمیں بہترین ثواب کی امیدیں ہیں اور زمین اللہ کی ہے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام کا بہر حال متقین کے لئے ہے اور ہمارا پروردگار پاک و پاکیزہ ہے اور اس کا وعدہ سچا اور برحق ہے اور وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرسکتا ہے کہ وہ صاحب عزت و غلبہ بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے۔( بحار الانوار ۱۰۲ / ۱۰۶ از مصباح الزائر از محمد بن علی بن ابی قرہ از کتاب محمد بن الحسین بن سفیان البزوفری)۔

تمہید حکومت اہلبیت (ع)

۱۱۹۳۔ رسول اکرم ! کچھ لوگ مشرق سے برآمد ہوں گے جو مہدی کے لئے زمین ہموار کریں گے۔(سنن ابن ماجہ ۲ ص۱۳۶۸ / ۴۰۸۸ ، المعجم الاوسط ۱ ص ۹۴ / ۲۸۵ ، مجمع الزوائد ۷ ص ۶۱۷ / ۱۲۴۱۴ ، عقق الدر ر ص ۱۲۵ ، کشف الغمہ ۳ ص ۲۶۷ روایت عبداللہ بن الحارث بن جزوالزبیدی)۔

۱۱۹۴۔ عبداللہ ! ہم لوگ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی ہاشم کے کچھ نوجوان آ گئے، آپ نے انہیں دیکھا تو آنکھوں میں آنسو بہر آئے میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کے چہرہ پر افسردگی کے آثار دیکھ رہا ہوں ؟ فرمایا ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جن کے پروردگار نے آخرت کو دنیا پر مقدم رکھا ہے اور میرے اہلبیت (ع) عنقریب میرے بعد بلاء ، آوارہ وطنی اور دربدری کی مصیبت میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ ایک قوم سیاہ پرچم لئے مشرق سے قیام کرے گی اور وہ لوگ خیر کا مطالبہ کریں گے لیکن انہیں نہ دیا جائے گا تو قتال کریں گے اور کامیاب ہوں گے اور مطلوبہ اشیاء مل جائیں گے مگر خود قبول نہ کریں گے بلکہ میرے اہلبیت (ع) میں سے ایک شخص کے حوالہ کر دیں گے جو زمین کو عدل و انصاف سے ویسے ہی بہر دے گا جیسے ظلم و جور سے بھری ہو گی ، دیکھو تم سے جو بھی اس وقت تک باقی رہ جائے اس کا فرض ہے کہ ان تک پہنچ جائے چاہے برف پر چل کر جانا پڑے۔( سنن ابن ماجہ ۲ ص ۱۳۶۶ / ۴۰۸۲ ، الملاحم والفتن ص ۴۷ ، المصنف ابن ابی شیبہ ۸ ص ۶۹۷ / ۷۴ ، دلائل الامامہ ص ۲۴۲ / ۴۱۴ ، مناقب کوفی ۲ ص ۱۱۰ / ۵۹۹ روایت عبداللہ بن مسعود، کشف الغمہ ۳ ص ۲۶۲ روایت عبداللہ بن عمر، مستدرک حاکم ۱ ص ۵۱۱ / ۸۴۳۴ ، العدد القویہ ۹۱ / ۱۵۷ ، ذخائر العقبئٰ ص ۱۷)۔

۱۱۹۵۔ رسول اکرم ! مشرق کی طرف سے سیاہ پرچم والے آئیں گے جن میں دل لوہے کی چٹانوں جیسے مضبوط ہوں گے لہذا جو ان کے بارے میں سن لے اس کا فرض ہے کہ ان سے ملحق ہو جائے چاہے برف کے اوپر چل کر جائے۔ ( عقد الدر ر ص ۱۲۹ روایت ثوبان)۔

۱۱۹۶۔ امام باقر ! میں ایک قوم کو دیکھ رہا ہوں جو مشرق سے برآمد ہوئی ہے اور حق طلب کر رہی ہے لیکن اسے نہیں جا رہا ہے اور پھر بار بار ایسا ہی ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ لوگ کاندھے پر تلوار اٹھا لیں گے اور پھر جو چاہیں گے سب مل جائے گا لیکن اسے قبول نہ کریں گے بلکہ تمھارے صاحب کے حوالہ کر دیں گے اور ان کے مقتولین شہداء کے درجہ میں ہوں گے، اگر میں اس وقت تک باقی رہتا تو اپنی جان کو بھی صاحب الامر کے لئے باقی رکھتا۔( الغیبتہ النعمانی ص ۲۷۳ / ۵۰ روایت ابوخالد)۔

۱۱۹۷۔ امام علی (ع)! اے طالقان ! اللہ کے تیرے یہاں خزانہ ہیں جو سونے چاندی کے نہیں ہیں بلکہ ان صاحبان ایمان کے ہیں جو مکمل معرفت رکھنے والے ہوں گے اور آخر زمانہ میں مہدی کے انصار میں ہوں گے۔ ( الفتوح ۲ ص ۳۲۰ ، کفایة الطالب ص ۴۹۱ روایت اعثم کوفی ینابیع المودہ ۳ ص ۲۹۸ / ۱۲)۔

۱۱۹۸۔ امام حسن (ع)! رسول اکرم نے اہلبیت (ع) پر وارد ہونے والی بلاؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے بعد خدا مشرق سے ایک پرچم بھیجے گا اور جو اس کی مدد کرے گا خدا اس کی مدد کرے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا خدا اسے چھوڑ دے گا یہاں تک کہ وہ لوگ اس شخص تک پہنچ جائیں جس کا نام میرا نام ہو گا اور سارے امور حکومت اس کے حوالہ کر دیں اور اللہ اس کی تائید اور نصرت کر دے۔( عقد الدر ر ۱ ص ۱۳۰ ، الملاحم و الفتن ص ۴۹ روایت علاء بن عتبہ )۔

۱۱۹۹۔ محمد بن الحنفیہ ! ہم حضرت علی (ع) کی خدمت میں حاضر تھے جب ایک شخص نے مہدی (ع) کے بارے میں سوال کر لیا تو آپ نے فرمایا افسوس … اس کے بعد اپنے ہاتھ سے سات گر ہیں باندھیں اور پھر فرمایا کہ وہ آخر زمانے میں خروج کرے گا جب حال یہ ہو گا کہ اگر کوئی شخص خدا کا نام لے گا تو قتل کر دیا جائے گا۔ پھر خدا اس کے پاس ایک قوم کو جمع کر دے گا جو ابر کے ٹکڑوں کی طرح جمع ہو جائیں گے اور ان کے دلوں میں محبت ہو گی کوئی دوسرے سے گھبرائے گا نہیں اور وہ کسی کے آنے سے خوش بھی نہیں ہوں گے، ان کی تعداد اصحاب بدر جیسی ہو گی ، نہ اولین ان سے آگے جا سکتے ہیں اور نہ بعد والے انہیں پا سکتے ہیں ، اصحاب طالوت کے عدد کے برابر، جنھوں نے نہر کو پار کر لیا تھا۔( مستدرک حاکم ۴ ص ۵۹۷ / ۸۶۵۹ ، عقد الدر ر ۱ ص ۱۳۱)۔

۱۲۰۰۔ عفان البصری راوی ہیں کہ امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا کہ تمھیں معلوم ہے کہ قم کانام قم کیوں ہے؟ میں نے عرض کی خدا ، رسول اور آپ بہتر جانتے ہیں ! فرمایا اس کا نام قم اس لئے ہے کہ یہاں والے قائم آل محمد کے ساتھ قیام کریں گے اور اس پر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قائم کی مدد کریں گے( بحار الانوار ۶۰ ص ۲۱۸ / ۳۸ نقل از کتاب تاریخ قم )۔

 ۱۲۰۱۔ امام صادق (ع)۔ قم کی خاک مقدس ہے اور اس کے باشندے ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں ، کوئی ظالم اس سرزمین کا ارادہ نہیں کرے گا مگر یہ کہ خدا فوراً اسے سزا دے گا جب تک کہ خود وہاں والے خیانت نہ کریں گے ورنہ اگر ایسا کریں گے تو خدا ان پر ظالم حکام کو مسلط کر دے گا۔

اہل قم ہمارے قائم کے انصار ہیں اور ہمارے حق کے طلبگار ، یہ کہہ کر آپ نے آسمان کی طرف رخ کیا اور دعا کی خدایا، انہیں ہر فتنہ سے محفوظ رکھنا اور ہر ہلاکت سے نجات دینا۔( بحار الانوار ۶۰ ص ۲۱۸ / ۴۹)۔

۱۲۰۲۔ امام صادق (ع)۔ عنقریب کوفہ اہل ایمان سے خالی ہو جائے گا اور علم اس میں مخفی ہو جائے گا جس طرح کہ سانپ اپنے سوراخ میں چھپ جاتا ہے اور پھر علم ایک قم نامی شہر میں ظاہر ہو گا جو علم و فضل کا معدن ہو گا اور پھر زمین پر کوئی دینی اعتبار سے مستضعف اور کمزور نہ رہ جائے گا، یہاں تک کہ پردہ دار خواتین بھی صاحب علم و فضل ہو جائیں گی اور یہ سب ہمارے قائم کے ظہور کے قریب ہو گا جب تک خدا قم اور اہل قم کو حجت کا قائم مقام قرار دیدے گا کہ ایسا نہ ہوتا تو زمین اہل زمین کو لے کر دھنس جاتی اور زمین میں کوئی حجت خدا نہ رہ جاتی، پھر تم سے تمام مشرق و مغرب تک علم کا سلسلہ پہنچے گا اور اللہ کی حجت مخلوقات پر تمام ہو جائے گی اور کوئی شخص ایسا باقی نہ رہ جائیگا جس تک علم اور دین نہ پہنچ جائے اور اس کے بعد قائم کا قیام ہو گا۔ ( بحار الانورا ۶۰ ص ۲۱۳ / ۲۳ نقل از تاریخ قم )۔

۱۲۰۳۔ امام صادق (ع) ! پروردگار نے کوفہ کے ذریعہ تمام شہروں پر حجت تمام کی اور مومنین کے ذریعہ تمام غیر مومنین پر اور پھر قم کے ذریعہ تمام شہروں پر اور اہل قم کے ذریعہ تمام اہل مشرق و مغرب کے جن و انس پر ، خدا قم اور اہل قم کو کمزور نہ رہنے دے گا بلکہ انہیں توفیق دے گا اور ایک زمانہ آئے گا جب قم اور اہل قم تمام مخلوقات کے لئے حجت بن جائیں گے اور یہ سلسلہ ہمارے قائم کی غیبت کے زمانہ میں ظہور تک رہے گا کہ اگر ایسا نہ ہو گا تو زمین اہل سمیت دھنس جاتی ، ملائکہ قم اور اہل قم سے بلاؤں کو دفع کرتے ہیں اور کوئی ظالم اس کی برائی کا ارادہ نہیں کرتا ہے کہ پروردگار اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔( بحار الانوار ۶۰ ص ۲۱۲ / ۲۲)۔

۱۲۰۴۔ امام صادق (ع) ’ آیت شریفہ ’ بعثنا علیکم عباد النا‘ … سورہ اسراء آیت ۵ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ یہ ایک قوم ہے جسے پروردگار خروج قائم سے پہلے پیدا کرے گا اور یہ آل محمد کے ہر خون کا بدلہ لے لیں گے۔( کافی ۸ ص ۲۰۶ / ۲۵۰ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۲۷۲ روایت عبداللہ بن القاسم البطل، تفسیر عیاشی ۲ ص ۲۸۱ / ۲۰ روایت صالح بن سہل)۔ ۱۲۰۵۔ امام کاظم (ع)! اہل قم میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی دعوت دے گا اور اس کے ساتھ ایک قوم لوہے کی چٹانوں کی طرح جمع ہو جائے گی جسے تیز و تند آندھیاں بھی نہ ہلا سکیں گی ، یہ لوگ جنگ سے خستہ حال نہ ہوں گے اور بزدلی کا بھی اظہار نہ کریں گے بلکہ خدا پر بھروسہ کریں گے اور انجام کار بہر حال صاحبان تقویٰ کے لئے ہے۔( بحار الانوار ۶۰ص ۲۱۶ /۳۷ نقل از تاریخ قم روایت ایوب بن یحییٰ الجندل)۔

آخری حکومت

۱۲۰۶۔ امام باقر (ع)! ہماری حکومت آخری حکومت ہو گی اور دنیا کا کوئی خاندان نہ ہو گا جو ہم سے پہلے حکومت نہ کر چکا ہو اور ہماری حکومت اس لئے آخری ہو گی کہ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں موقع ملتا تو ہم بھی یہی طریقہ اختیار کرتے اور اس نکتہ کی طرف پروردگار نے اشارہ کیا ہے کہ عاقبت صاحبان تقویٰ کے لئے ہے۔( الغیبتة الطوسی (ر) ۴۷۲ / ۴۹۳ روایت کسیان بن کلیب ، روضة الواعظین ص ۲۹۱)۔

۱۲۰۷۔ امام صادق (ع)! ہر قوم کی ایک حکومت ہے جس کا وہ انتظار کر رہی ہے لیکن ہماری حکومت بالکل آخر زمانہ میں ظاہر ہو گی۔ (امالی صدوق (ر) ۳۹۶ / ۳ ، روضة الواعظین ص ۲۳۴)۔

۱۲۰۸۔ امام صادق (ع) ! یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا یہاں تک کہ کوئی صنف باقی نہ رہ جائے جس نے حکومت نہ کر لی ہو اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ رہ جائے کہ اگر ہمیں حکومت مل جاتی تو ہم انصاف سے کام لیتے ، اس کے بعد ہمارا قائم حق و عدل کے ساتھ قیام کرے گا۔(الغیبتہ النعمانی ص ۲۷۴ / ۵۳ روایت ہشام بن سالم )۔

انتظار حکومت

۱۲۰۹۔ اسماعیل الجعفی ! ایک شخص امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے پاس ایک صحیفہ تھا جس کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ یہ مخاصم کا صحیفہ ہے جس میں اس دین کے بارے میں سوال کیا گیا ہے جس میں عمل قبول ہو جاتا ہے اس نے کہا خدا آپ پر رحمت نازل کرے میں بھی یہی چاہتا تھا؟

فرمایا لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و ان محمداً عبدہ و رسولہ کی شہادت اور تمام احکام الہیہ اور ہم اہلبیت (ع) کی ولایت کا اقرار اور ہمارے دشمنوں سے برأت اور ہمارے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دینا اور احتیاط و تواضع اور ہمارے قائم کا انتظار یہی وہ دین ہے جس کے ذریعہ سے اعمال قبول ہوتے ہیں اور یہ انتظار اس لئے ضروری ہے کہ ہماری بھی ایک حکومت ہے اور پروردگار جب چاہے گا اسے منظر عام پر لے آئے گا۔( کافی ۲ ص ۲۲ / ۱۳ ، امالی طوسی (ر) ۱۷۹ / ۲۹۹)۔

۱۲۱۰۔ امام علی (ع)! ہمارے امر کا انتظار کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے کوئی راہ خدا میں اپنے خون میں لوٹ رہا ہو۔( خصال ۶۲۵ / ۱۰ ، کمال الدین ۶۴۵ / ۶ روایت محمد بن مسلم عن الصادق (ع) ، تحف العقول ص ۱۱۵)۔

۱۲۱۱۔ زید بن صوحان نے امیرالمومنین (ع) سے دریافت کیا کہ سب سے زیادہ محبوب پروردگار کونسا عمل ہے؟ فرمایا انتظار کشائش حال۔ ( الفقیہ ۴ / ۳۸۳ / ۵۸۳۳ روایت عبداللہ بن بکر المرادی)۔

۱۲۱۲۔ امام باقر (ع)! تم میں جو شخص اس امر کی معرفت رکھتا ہے اور اس کا انتظار کر رہا ہے اور اس میں خیر سمجھتا ہے وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے راہ خدا میں قائم آل محمد کے ساتھ تلوار لے کر جہاد کر رہا ہو۔(مجمع البیان ۹ ص ۳۵۹ روایت حارث بن المغیرہ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص ۶۴۰)۔

۱۲۱۳۔ امام باقر (ع)! تمھارے مضبوط کو چاہئے کہ کمزور کو طاقتور بنائے اور تمھارے غنی کا فرض ہے کہ فقیر پر توجہ دے اور خبردار ہمارے راز کو فا ش نہ کرنا اور ہمارے امر کا اظہار نہ کرنا اور جب ہماری طرف سے کوئی حدیث آئے تو اگر کتاب خدا میں ایک یا دو شاہد مل جائیں تو اسے قبول کر لینا ورنہ توقف کرنا اور اسے ہماری طرف پلٹا دینا تا کہ ہم اس کی وضاحت کرسکیں اور یاد رکھو کہ اس امر کا انتظار کرنے والا نماز گذار اور روزہ دار کا ثواب رکھتا ہے اور جو ہمارے قائم کا ادراک کر لے اور ان کے ساتھ خروج کر کے ہمارے دشمن کو قتل کر دے اسے بیس شہیدوں کا اجر ملے گا اور جو ہمارے قائم کے ساتھ قتل ہو جائے گا اسے ۲۵ شہیدوں کے اجر سے نوازا جائے گا۔ (کافی ۲ ص ۲۲۲/ ۴ روایت عبداللہ بن بکیر ، امالی طوسی (ر) ۲۳۲ / ۴۱۰ ، بشارة المصطفیٰ ص ۱۱۳ روایت جابر )۔

۱۲۱۴۔ امام باقر (ع)! اگر کوئی شخص ہمارے امر کے انتظار میں مر جائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہے جبکہ اس نے امام مہدی (ع) کے خیمہ اور آپ کے لشکر کے ساتھ موت نہیں پائی ہے۔( کافی ۱ ص ۳۷۲ / ۶ روایت ہاشم )۔

۱۲۱۵۔ امام صادق (ع)! جو ہمارے امر کا منتظر ہے اور اس راہ میں اذیت و خوف کو برداشت کر رہا ہے وہ کل ہمارے زمرہ میں ہو گا۔( کافی ۸ ص ۳۷ / ۷ روایت حمران )۔

 ۱۲۱۶۔ امام صادق (ع) ! ہمارے بارھویں کا انتظار کرنے والا رسول اکرم کے سامنے تلوار لے کر جہاد کرنے والے کے جیسا ہے جبکہ وہ رسول اکرم سے دفاع بھی کر رہا ہو۔( کمال الدین ۳۳۵/ ۵ ، الغیبتہ النعمانی ۹۱ / ۲۱ ، اعلام الوریٰ ص ۴۰۴ روایت ابراہیم کوفی)۔

۱۲۱۷۔ امام صادق (ع)! جو اس امر کے انتظار میں مر جائے وہ ویسا ہی ہے جیسے قائم کے ساتھ ان کے خیمہ میں رہا ہو بلکہ ایسا ہے جیسے رسول اکرم کے سامنے تلوار لے کر جہاد کیا ہو۔( کمال الدین ۳۳۸ / ۱۱ روایت مفضل بن عمر)۔

۱۲۱۸۔ امام صادق (ع) ! جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا شمال حضرت قائم (ع) کے اصحاب میں ہو اس کا فرض ہے کہ انتظار کرے اور تقویٰ اور حسن اخلاق کے ساتھ عمل کرے کہ اس حالت میں اگر مر بھی جائے اور قائم کا قیام اس کے بعد ہو تو اس کو وہی اجر ملے گا جو حضرت کے ساتھ رہنے والوں کا ہو گا لہذا تیاری کرو اور انتظار کرو تمھیں مبارک ہو اے وہ گروہ جس پر خدا نے رحم کیا ہے۔( الغیبتہ للنعمانی ۲۰۰ / ۱۶ روایت ابوبصیر)۔

۱۲۱۹۔ امام جواد (ع) ! خدایا اپنے اولیاء کو اقتدار دلوا دے ان ظالموں کے ہاتھ سے جنھوں نے میرے مال کو اپنا مال بنا لیا ہے اور تیرے بندوں کو اپنا غلام بنا لیا ہے تیری زمین کے عالم کو گونگے، اندھے، تاریک ، اندھیرے میں چھوڑ دیا ہے جہاں آنکھ کھلی ہوئی ہے لیکن دل اندھے ہو گئے ہیں اور ان کے لئے تیرے سامنے کوئی حجت نہیں ہے، خدایا تو نے انہیں اپنے عذاب سے ڈرایا، اپنی سزا سے آگاہ کیا، اطاعت گذاروں سے نیکی کا وعدہ کیا ، برائیوں پر ڈرایا دھمکایا تو ایک گروہ ایمان لے آیا، خدایا اب اپنے صاحبان ایمان کو دشمنوں پر غلبہ عنایت فرما کہ وہ سب جاہل ہو گئے ہیں اور حق کی دعوت دے رہے ہیں اور امام منتظر قائم بالقسط کا اتباع کر رہے ہیں۔( نہج البلاغہ)۔

۱۲۲۰۔ امام ہادی (ع)! زیارت جامعہ ، میں خدا کو اور آپ حضرات کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں آپ کی واپس کا ایمان رکھتا ہوں ، آپ کی رجعت کی تصدیق کرتا ہوں اور آپ کے امر کا انتظار کر رہا ہوں اور آپ کے حکومت کی آس لگائے بیٹھا ہوں۔( تہذیب ۶ ص ۹۸ / ۱۷۷)۔

دعاء حکومت

۱۲۲۱۔ امام زین العابدین (ع)! پروردگار ! اہلبیت (ع) پیغمبر کے پاکیزہ کردار افراد پر رحمت نازل فرما جنہیں تو نے اپنے امر کے لئے منتخب کیا ہے۔ اور اپنے علم کا مخزن ، اپنے دین کا محافظ ، اپنی زمین میں اپنا خلیفہ اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قرار دیا ہے، انہیں اپنے ارادہ سے ہر رجس سے پاکیزہ بنایا ہے اور اپنی ہستی کا وسیلہ اور اپنی جنت کا راستہ قرار دیا ہے۔

خدایا اپنے ولی کو اپنی نعمتوں کے شکریہ کی توفیق کرامت فرما اور ہمیں بھی ایسی ہی توفیق دے، انہیں اپنی طرف سے سلطنت و نصرت عطا فرما اور بآسانی فتح مبین عطا فرما، اپنے محکم رکن کے ذریعہ ان کی امداد فرما، ان کی کمر کو مضبوط اور ان کے بازو کو قوی بنا، اپنی نگاہوں سے ان کی نگرانی اور اپنی حفاظت سے ان کی حمایت فرما، اپنے ملائکہ سے ان کی نصرت اور اپنے غالب لشکر سے امداد فرما، ان کے ذریعہ کتاب و حد و شریعت و سنن رسول کو قائم فرما اور جن آثار دین کو ظالمین نے مردہ بنا دیا ہے انہیں زندہ بنا دے، اپنے راستہ سے ظلم کی کثافت کو دور کر دے اور اپنے طریق سے نقصانات کو جدا کر دے راہ حق سے منحرف لوگوں کو زائل کر دے اور کجی کے طلبگاروں کو محو کر دے، ان کے مزاج کو چاہنے والوں کے لئے نرم کر دے اور ہاتھوں کو دشمنوں پر غلبہ عنایت فرما ہمیں ان کی رافت ، رحمت ، مہربانی اور محبت عطا فرما اور ان کا اطاعت گذار اور خدمت شعار بنا دے کہ ہم ان کی رضا کی سعی کریں ، ان کی امداد اور ان سے دفاع کے لئے ان کے گرد رہیں اور اس عمل کے ذریعہ تیرا اور تیرے رسول کا قرب حاصل کرسکیں۔ (صحیفہ سجادیہ دعاء نمبر ۴۷ ص ۱۹۰۔۱۹۱ ، اقبال الاعمال ۲ ص ۹۱)۔

۱۲۲۲۔ امام باقر (ع) ! نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ کی تعلیم دیتے ہوئے، پروردگار ! ہم تجھ سے با عزت حکومت کے طلبگار ہیں جس کے ذریعہ اسلام اور اہل اسلام کو عزت نصیب ہو اور نفاق و اہل نفاق ذلیل ہوں ، ہمیں اپنی اطاعت کا داعی اور اپنے راستہ کے قائدین میں قرار دیدے اور اسی حکومت کے ذریعہ دنیا و آخرت کی کرامت عطا فرما۔( کافی ۳ ص ۴۲۴ / ۶ روایت محمد بن مسلم)۔

۱۲۲۳۔ امام صادق (ع)! خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور امام مسلمین پر رحمت نازل فرما اورانہیں سامنے ، پیچھے، داہنے، بائیں ، اوپر ، نیچے ہر طرف سے محفوظ رکھ انہیں آسان فتح عنایت فرما اور باعزت نصرت عطا فرما، ان کے لئے سلطنت و نصرت قرار دیدے ، خدایا آل محمد کے سکون و آرام میں عجلت فرما اور جن و انس میں ان کے دشمنوں کو ہلاک کر دے۔ ( مصباح المتہجد ص ۳۹۲ ، جمال الاسبوع ص ۲۹۳)۔

۱۲۲۴۔ امام کاظم (ع)! سجدہ شکر کا ذکر کرتے ہوئے۔

خدایا میں واسطہ دیتا ہوں اس وعدہ کا جو تو نے اپنے اولیاء سے کیا ہے کہ انہیں اپنے اور ان کے دشمنوں پر فتح عنایت فرمائے گا کہ محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور آل محمد کے محافظین دین پر رحمت نازل فرما۔ خدایا میں ہر تنگی کے بعد سہولت کا طلب گار ہوں۔( کافی ۳ ص ۲۲۵ / ۱۷ روایت عبداللہ بن جندب)۔

۱۲۲۵۔ امام رضا (ع) ! امام زمانہ (ع) کے حق میں دعا کی تعلیم دیتے ہوئے۔

خدایا اپنے ولی ، خلیفہ، مخلوقات پر اپنی حجت، اپنے حکم کے ساتھ بولنے والے اور اپنے مقاصد کی تعبیر کرنے والی زبان، اپنے اذن سے دیکھنے والی آنکھ ، اپنے بندوں پر اپنے شاہد، سردارمجاہد، اپنی پناہ میں رہنے والے اور اپنی عبادت کرنے والے سے دفاع فرما، اسے تمام مخلوقات کے شر سے اپنی پناہ میں رکھنا اور سامنے، پیچھے، داہنے، بائیں ، اوپر نیچے سے اس کی ایسی حفاظت فرما جس کے بعد بربادی کا اندیشہ نہ رہے اور اس کے ذریعہ اپنے رسول اور اس کے آباء و اجداد کا تحفظ فرما جو سب تیرے امام اور تیرے دین کے ستون تھے، اسے اپنی امانت میں قرار دیدے جہاں بربادی نہیں اور اپنے ہمسایہ میں قرار دیدے جہاں تباہی نہیں اور اپنی پناہ میں قرار دیدے جہاں ذلت نہیں اور اپنی امان میں لے لے جہاں رسوائی کا خطرہ نہیں ، اپنے زیر سایہ قرار دیدے جہاں کسی اذیت کا امکان نہیں ، اپنی غالب نصرت کے ذریعہ اس کی امداد فرما اور اپنے قوی لشکر کے ذریعہ اس کی تائید فرما، اپنی قوت سے اسے قوی بنا دے اور اپنے ملائکہ کو اس کے ساتھ کر دے، اس کے دوستوں سے محبت فرما اور اس کے دشمنوں سے دشمنی کر، اسے اپنی محفوظ زرہ پہنا دے اور ملائکہ کے حلقہ میں رکھ دے۔

اس کے ذریعہ انتشار کو دور کر دے، شگاف کو پر کر دے، ظلم کو موت دیدے، عدل کو غالب بنا دے، اس کے طول بقاء سے زمین کو موت دیدے، عدل کو غالب بنا دے، اس کے طول بقاء سے زمین کو زینت دیدے اور اپنی نصرت سے اس کی تائید فرما ، اپنے رعب سے اس کی امداد فرما، اس کے مددگاروں کو قوی بنا دے، اس سے الگ رہنے والوں کو رسوا کر دے، جو دشمنی کرے اسے تباہ کر دے اور جو خیانت کرے اسے برباد کر دے، اس کے ذریعہ کا فر و جابر حکام، ان کے ستون و ارکان سب کو قتل کر دے اور گمراہوں کی کمر توڑ دے جو بدعت ایجاد کرنے والے، سنت کو مردہ بنا دینے والے اور باطل کو تقویت دینے والے ہیں ، اس کے ہاتھوں جابروں کو ذلیل، کافروں اور ملحدوں کو تباہ و برباد کر دے وہ شرق و غرب میں ہوں یا برو بحر میں یا صحرا و بیابان میں ، یہاں تک کہ نہ ان کا کوئی باشندہ رہ جانے اور نہ ان کے کہیں آثار باقی رہ جائیں۔

خدایا ان ظالموں سے اپنے شہروں کو پاک کر دے اور اپنے نیک بندوں کو انتقام عطا فرما، مومنین کو عزت دے اور مرسلین کی سنت کو زندہ بنا دے انبیاء کے بوسیدہ ہو جانے والے احکام کی تجدید فرما اور دین کے جو احکام محو ہو گئے ہیں یا بدل دیئے گئے ہیں انہیں تازہ بنا دے تا کہ اس کے ہاتھوں دیں تازہ و زندہ خالص اور صریح ہو کر سامنے آئے نہ کسی طرح کی کجی ہو اور نہ بدعت اور اس کے عدل سے ظلم کی تاریکیوں میں روشنی پیدا ہو جائے اور کفر کی آگ بجھ جائے اور حق و عدل کے عقدے کھل جائیں کہ وہ تیرا ایسا بندہ ہے جسے تو نے اپنے بندوں میں مصطفی قرار دیا ہے، گناہوں سے محفوظ اور عیب سے بری رکھا ہے اور ہر رجس اور گندگی سے پاک و سالم قرار دیا ہے۔

خدایا ہم اس کے لئے روز قیامت گواہی دیں گے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے اور کسی برائی کا ارتکاب نہیں کیا ہے، کسی اطاعت کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور کسی حرمت کو برباد نہیں کیا ہے، کسی فریضہ کو بدلا نہیں ہے اور کسی شریعت میں تغیر نہیں پیدا کیا ہے، وہ ہدایت یافتہ ، ہادی ، طاہر ، متقی ، پاکیزہ، پسندیدہ اور طیب و طاہر انسان ہے۔

خدایا اسے اس کی ذات، اس کے اہل و اولاد، ذریت و امت اور تمام رعایا میں خنکی چشم، سرور نفس عنایت فرما، تمام مملکتوں کو جمع کر دے قریب ہوں یا دور ، عزیز ہوں یا ذلیل، تا کہ اس کا حکم ہر حکم پر جاری ہو جائے اور اس کا حق ہر باطل پر غالب آ جائے۔

خدایا ہمیں اس کے ہاتھوں ہدایت کے راستہ اور دین کی شاہراہ اعظم اور اس کی معتدل راہوں پر چلا دے جہاں ہر غالی پلٹ کر آتا ہے اور ہر پیچھے رہ جانے والا اس سے ملحق ہو جاتا ہے، ہمیں اس کی اطاعت کی وقت اور اس کی پیروی کا ثبات عطا فرما، اس کی متابعت کا کرم فرما اور اس کے گروہ میں شامل کر دے جو اس کے امر سے قیام کرنے والے۔ اس کے ساتھ صبر کرنے والے اور اس کی رضا کے مخلص طلب گار ہیں ٹا کہ ہمیں روز قیامت اس کے انصار و اعوان اور اس کی حکومت کے ارکان میں محشور کرے۔

خدایا ہمارے لئے اس مرتبہ کو ہر شک و شبہ سے خالص اور ہر ریاء و سمعہ سے پاکیزہ قرار دیدے تا کہ ہم تیرے غیر پر اعتماد نہ کریں اور تیری رضا کے علاوہ کسی شے کے طلبگار نہ ہوں ، ان کی منزل میں ساکن ہوں اور انکے ساتھ جنت میں داخل ہوں۔

ہمیں ہر طرح کی کسلمندی ، کاہلی ، سستی سے پناہ دے اور ان لوگوں میں قرار دیدے جن سے دین کا کام لیا جاتا ہے اور اپنے ولی کی نصرت کا انتظام کیا جاتا ہے اور ہماری جگہ پر ہمارے غیر کو نہ رکھ دینا کہ یہ کام تیرے لئے آسان ہے اور ہمارے لئے بہت سخت ہے۔

خدایا اپنے اولیاء عہد اور اس کے بعد کے پیشواؤں پر بھی رحمت نازل فرما اور انہیں ان کی امیدوں تک پہنچا دینا، انہیں طول عمر عطا فرما اور ان کی امداد فرما، جو امر ان کے حوالہ کیا ہے اسے مکمل کر دے اور ان کے ستونوں کو ثابت بنا دے، ہمیں ان کے اعوان اور ان کے دین کے انصار میں قرار دے دے کہ وہ سب تیرے کلمات کے معدن، تیرے علم کے مخزن تیری توحید کے ارکان اور تیرے دین کے ستون اور تیرے اولیاء امر ہیں۔

بندوں میں تیرے خالص بندے اور مخلوقات میں تیرے منتخب اولیاء اور تیرے اولیاء کی اولاد اور اولاد پیغمبر کے منتخب افراد ہیں ، میرا سلام پیغمبر پر اور ان کی تمام اولاد پر اور صلوات و برکات و رحمت۔

( مصباح المتہجد ص ۴۰۹ ، مصباح کفعمی ص ۵۴۸ ، جمائل الاسبوع ص ۳۰۷ روایات یونس بن عبدالرحمان)۔

۱۲۲۶۔ امام ہادی (ع) زیارت امام مہدی (ع) میں فرماتے ہیں ، پروردگار جس طرح تو نے اپنے پیغمبر پر ایمان لانے اور ان کی دعوت کی تصدیق کرنے کی توفیق دی اور یہ احسان کیا کہ میں ان کی اطاعت کروں اور ان کی ملت کا اتباع کروں اور پھر ان کی معرفت اور ان کی ذریت کے ائمہ کی معرفت کی ہدایت دی اور ان کی معرفت سے ایمان کو کامل بنایا اور ان کی ولایت کے طفیل اعمال کو قبول کیا اور ان پر صلوات کو وسیلہ عبادت قرار دے دیا اور دعا کی کلی اور قبولیت کا سبب بنا دیا، اب ان سب پر رحمت نازل فرما اور ان کے طفیل مجھے اپنی بارگاہ میں دنیا و آخرت میں سرخرو فرما اور بندۂ مقرب بنا دے…

خدایا ان کے وعدہ کو پورا فرما، ان کے قائم کی تلوارسے زمین کی تطہیر فرما، اس کے ذریعہ اپنے معطل حدود اور تبدیل شدہ احکام کے قیام کا انتظار فرما، مردہ دلوں کو زندہ کر دے اور متفرق خواہشات کو یکجا بنا دے راہ حق سے ظلم کی کثافت کو دور کر دے تا کہ اس کے ہاتھوں پر حق بہترین صورت میں جلوہ نما ہوا ور باطل و اہل باطل ہلاک ہو جائیں اور حق کی کوئی بات باطل کے خوف سے پوشیدہ نہ رہ جائے۔( بحار ۱۰۲ ص ۱۸۲ از مصباح الزائر)۔

۱۲۲۷۔ امام عسکری (ع) ، ولی امر امام (ع) منتظر پر صلوات کی تعلیم دیتے ہوئے۔

خدایا اپنے ولی ، فرزند اولیاء پر رحمت نازل فرما جن کی اطاعت تو نے فرض کی ہے اور ان کا حق لازم قرار دیا ہے اور ان سے رجس کو دور کر کے انہیں طیب و طاہر قرار دیا ہے۔

خدایا اس کے ذریعہ اپنے دین کو غلبہ عطا فرما، اپنے اور اس کے دوستوں ، شیعوں اور مددگاروں کی امداد فرما اور ہمیں انہیں میں سے قرار دیدے، خدایا اسے ہر باغی، طاغی اور شریر کے شر سے اپنی پناہ میں رکھنا اور سامنے، پیچھے ، داہنے بائیں ہر طرف سے محفوظ رہنا، اسے ہر برائی کی پہنچ سے دور رکھنا اور اس کے ذریعہ رسول اور آل رسول کی حفاظت فرمانا ، اس کے وسیلہ سے عدل کو ظاہر فرما، اپنی مدد سے اس کی تائید فرما، اس کے ناصروں کی امداد فرما، اس سے الگ ہو جانے والوں کو بے سہارا بنا دے اس کے ذریعہ کا فر جابروں کی کمر توڑ دے اور کفار و منافقین و ملحدوں کو فنا کر دے چاہے مشرق میں ہوں یا مغرب میں ، بر میں ہوں یا بحر میں ، زمین کو عدل سے معمور کر دے اور اپنے دین کو غلبہ عنایت فرما، ہمیں ان کے انصار و اعوان، اتباع و شیعیان میں سے قرار دیدے اور آل محمد کے سلسلہ میں وہ سب دکھلا دے جس کی انہیں خواہش ہے اور دشمنوں کے بارے میں وہ سب دکھلا دے جس سے وہ لوگ ڈر رہے ہیں ، خدایا آمین، ( مصباح المتہجد ص ۴۰۵ ، جمال الاسبوع ص ۳۰۰ روایت ابومحمد عبداللہ بن محمد العابد)۔

۱۲۲۸۔ ابوعلی ابن ہمام، کا بیان ہے کہ حضرت کے نائب خاص شیخ عمری نے اس دعا کو ملاء کرایا ہے اور اس کے پڑھنے کی تاکید کی ہے، جو دور غیبت امام قائم کی بہترین دعا ہے۔

خدایا مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کہ اپنی معرفت نہ دے گا تو میں رسول کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنے رسول کی معرفت عطا فرما کہ اگر ان کی معرفت نہ دے گا تو میں تیری حجت کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنی حجت کی معرفت بھی عطا فرما کہ اگر اسے نہ پہچان سکا تو دین سے بہک جاؤ گا۔

خدایا مجھے جاہلیت کی موت نہ دینا اور نہ ہدایت کے بعد میرے دل کو منحرف ہونے دینا۔

خدایا جس طرح تو نے ان لوگوں کی ہدایت دی جن کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے اور جو تیرے رسول کے بعد تیرے اولیاء امر ہیں اور میں نے تیرے تمام اولیاء امیر المومنین (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) ، علی (ع) ، محمد ، جعفر (ع) ، موسیٰ (ع) ، علی (ع) ، محمد (ع) ، علی (ع) ، حسن (ع) حجت قائم مہدی (عج) سے محبت اختیار کی ہے۔

خدایا اب حضرت قائم (ع) کے ظہور میں تعجیل فرما، اپنی مدد سے ان کی تائید فرما، ان کے مددگاروں کی امداد فرما، ان سے الگ رہنے والوں کو ذلیل فرما، ان سے عداوت کرنے والوں کو تباہ و برباد کر دے، حق کا اظہار فرما، باطل کو مردہ بنا دے، بندگان مومنین کو ذلت سے نجات دیدے شہروں کو زندگی عطا فرما دے، کفر کے جباروں کو تہ تیغ کر دے، ضلالت کے سربراہوں کی کمر توڑ دے، جابروں اور کافروں کو ذلیل کر دے، منافقوں عہد شکنوں اور شرق و غرب کے ملحدوں ، مخالفوں کو ہلاک و برباد کر دے چاہے وہ خشکی میں ہوں یا دریاؤں میں ، بیابانوں میں ہوں یا پہاڑوں پر۔ تا کہ ان کی کوئی آبادی نہ رہ جائے اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے، زمین کو ان کے وجود سے پاک کر دے اور اپنے بندوں کے دلوں کو سکون عطا فرما، جو دین مٹ گیا ہے اس کی تجدید فرما اور جو احکام بدل دیے گئے ہیں ان کی اصلاح فرما، جو سنت بدل گئی ہے اسے ٹھیک کر دے تا کہ دین دوبارہ اس کے ہاتھوں ترو تازہ ہو کر سامنے آئے نہ کوئی کجی ہو نہ بدعت نہ انحراف کفر کی آگ بجھ جائے اور ضلالت کا شعلہ خاموش ہو جائے کہ وہ تیرا وہ بندہ ہے کہ جسے تو نے اپنا بنایا ہے، اور اسے دین کی نصرت کے لئے منتخب کیا ہے اور اپنے علم سے چنا ہے اور گناہوں سے محفوظ رکھا ہے اور عیوب سے پاک رکھا ہے، غیب کا علم دیا ہے اور نعمتوں سے نوازا ہے، رجس سے دور رکھا ہے اور پاک و پاکیزہ بنایا ہے۔

خدایا ہم اس بات کے فریادی ہیں کہ تیرے نبی جاچکے ہیں ، تیرا ولی بھی پردہ غیب میں ہے، زمانہ مخالف ہو گیا ہے ، فتنے سر اٹھا رہے ہیں ، دشمنوں نے ہجوم کر رکھا ہے اور ان کی کثرت ہے اور اپنی قلت ہے۔

خدایا ان حالات کی اصلاح فرما فوری فتح کے ذریعہ، اور اپنی نصرت کے ذریعہ، اور امام عادل کے ظہور کے ذریعہ، خدائے برحق اس دعا کو قبول کر لے۔

خدایا اپنے ولی کے ذریعہ قرآن کو زندہ کر دے اور اس کے نور سرمدی کی زیارت کرا دے جس میں کوئی ظلمت نہیں ہے، مردہ دلوں کو زندہ بنا دے اور سینوں کی اصلاح کر دے، خواہشات کو ایک نقطہ پر جمع کر دے معطل حدوداور متروک احکام کو قائم کرا دے تا کہ ہر حق منظر پر آ جائے اور ہر عدل چمک اٹھے، خدایا ہمیں ان کے مددگاروں اور حکومت کو تقویت دینے والوں میں قرار دیدے کہ ہم ان کے احکام پر عمل کریں ، اور ان کے عمل سے راضی رہیں ، ان کے احکام کے لئے سراپا تسلیم رہیں اور پھر تقیہ کی کوئی ضرورت نہ رہ جائے۔

خدایا تو ہی برائیوں کو دور کرنے والا ، مضطر افراد کی دعاؤں کا قبول کرنے والا اور کرب و رنج سے نجات دینے والا ہے لہذا اپنے ولی کے ہر رنج و غم کو دور کر دے اور اسے حسب وعدہ زمین میں اپنا جانشین بنا دے۔

خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور مجھے ان کے طفیل دنیا و آخرت میں کامیابی اور تقرب عنایت فرما۔( کمال الدین ۵۱۲ / ۴۳ ، مصباح المتہجد ص ۴۱۱ ، جمال الاسبوع ص ۳۱۵)۔

۱۲۲۹۔ دعائے افتتاح۔… خدایا ہم ایسی با عزت حکومت کے خواہشمند ہیں جس سے اسلام و اہل اسلام کو عزت اور نفاق و اہل نفاق کو ذلت نصیب ہو ہمیں اپنی اطاعت کے داعیوں اور اپنے راستہ کے قائدوں میں قرار دیدے اور پھر دنیا و آخرت کی کرامت عطا فرما۔

خدایا جو حق ہم نے پہچان لیا ہے اسے اٹھانے کی طاقت دے اور جسے نہیں پہچان سکے ہیں اس تک پہنچا دے۔

خدایا اس کے ذریعہ ہماری پراگندگی کو جمع کر دے، ہمارے درمیان شگاف کو پڑ کر دے، ہمارے انتشار کو جمع کر دے۔ہماری قلت کو کثرت اور ہماری ذلت کو عزت میں تبدیل کر دے، ہماری غربت کو دولت میں بدل دے اور ہمارے قرض کو ادا کر دے، ہمارے فقر کا علاج فرما اور ہماری حاجتوں کو پورا فرما۔

ہماری زحمت کو آسان کر دے اور ہمارے چہروں کو نورانی بنا دے، ہمیں قید سے رہائی عطا فرما اور ہمارے مطالب کو پورا فرما، ہمارے وعدوں کو مکمل فرما اور ہماری دعاؤں کو قبول کر لے، ہمیں تمام امیدیں عطا فرما اور ہماری خواہش سے زیادہ عطا فرما۔

اے بہترین مسئول اور وسیع ترین عطا کرنے والے ، ہمارے دلوں کو سکون عطا فرما اور ہمارے رنج و غم کا علاج فرما، جہاں جہاں حق کے بارے میں اختلاف ہے ہمیں ہدایت فرما کہ تو جسے چاہے صراط مستقیم کی ہدایت دے سکتا ہے، اپنے اور ہمارے دشمنوں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما اور اے خدائے برحق ! ہماری اس دعا کو قبول کر لے۔

خدایا ہماری فریاد یہ ہے کہ تیرے نبی جا چکے، تیر اولی غیب میں ہے، دشمنوں کی کثرت ہے، فتنوں کی شدت ہے ، زمانہ کا ہجوم ہے، اب تو محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور ان حالات میں ہماری فوری فتح کے ذریعہ امداد فرما تا کہ رنج و غم دور ہو جائیں ، با عزت امداد دے اور حکومت حق کو ظاہر فرما، رحمت کی کرامت عطا فرما اور عافیت کا لباس عنایت فرما دے اپنی رحمت کے سہارے اے بہترین رحمت دینے والے۔( اقبال الاعمال ۱ص ۱۴۲ روایت محمد بن ابی قرّہ)۔

واضح رہے کہ یہ دعا امام زمانہ عج کی طرف سے ہے جسے نائب دوم محمد بن عثمان بن سعید العمری کے بہتیجہ نے ان کی کتاب سے نقل کیا ہے اور یہ ماہ رمضان کی شبوں میں پڑھی جاتی ہے۔!


اہلبیت (ع) کے بارے میں غلو

غلو پر تنبیہ

۱۲۳۰۔ امام علی (ع)! خبردار ہمارے بارے میں غلو نہ کرنا، یہ کہو کہ ہم بندہ ہیں اور خدا ہمارا رب ہے، اس کے بعد جو چاہو ہماری فضیلت بیان کرو، (خصال ۶۱۴ /۱۰ روایت ابوبصیر و محمدبن مسلم عن الصادق (ع) ، غر ر الحکم نمبر ۲۷۴۰ ، تحف العقول ۱۰۴ ، نوادر الاخبار ص ۱۳۷)۔

۱۲۳۱۔ امام حسین (ع)! ہم سے اسلام کی محبت میں محبت رکھو کہ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ خبردار میرے حق سے زیادہ میری تعریف نہ کرنا کہ پروردگار نے مجھے رسول بنانے سے پہلے بندہ بنایا ہے۔( المعجم الکبیر ۳ ص ۱۲۸ / ۲۸۸۹ روایت یحییٰ بن سعید)۔

۱۲۳۲۔ امام صادق (ع)! جس نے ہمیں نبی قرار دیا اس پر خدا کی لعنت ہے اور جس نے اس مسئلہ میں شک کیا اس پر بھی خدا کی لعنت ہے۔( رجال کشی (ر) ۲ ص ۵۹۰ / ۵۴۰ روایت حسن وشاء)۔

۱۲۳۳۔ امام صادق (ع)! ان غالیوں میں بعض ایسے جھوٹے ہیں کہ شیطان کو بھی ان کے جھوٹ کی ضرورت ہے۔( رجال کشی (ر) ۲ ص ۵۸۷ / ۵۳۶ روایت ہشام بن سالم )۔

۱۲۳۴۔ مفضل بن عمر ! میں اور قاسم شریکی اور نجم بن حطیم اور صالح بن سہل مدینہ میں تھے اور ہم نے ربوبیت کے مسئلہ میں بحث کی تو ایک نے دوسرے سے کہا کہ اس بحث کا فائدہ کیا ہے، ہم سب امام سے قریب ہیں اور زمانہ بھی تقیہ کا نہیں ہے، چلو، چل کر انہیں سے فیصلہ کرا لیں۔

چنانچہ جیسے ہی وہاں پہنچے حضرت بغیر رداء اور نعلین کے باہر نکل آئے اور عالم یہ تھا کہ غصہ سے سرکے سارے بال کھڑے تھے۔

فرمایا ، ہرگز نہیں۔

ہرگز نہیں ، اے مفضل ، اے قاسم، اے نجم، ہم خدا کے محترم بندے ہیں جو کسی بات میں اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔( کافی ۸ ص ۲۳۱ / ۳۰۳)۔

۱۲۳۵۔ امام صادق (ع)! غالیوں کی مذمت کرتے ہوئے۔

خدا کی قسم، ہم صرف اس کے بندہ ہیں جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور منتخب کیا ہے، ہمارے اختیار میں نہ کوئی نفع ہے اور نہ نقصان، مالک اگر رحمت کرے تو یہ اس کی رحمت ہے اور اگر عذاب کرے تو یہ بندوں کا عمل ہے، خدا کی قسم ہماری خدا پر کوئی حجت نہیں ہے اور نہ ہمارے پاس کوئی پروانہ برأت ہے، ہمیں موت بھی آتی ہے، ہم دفن بھی ہوتے ہیں ہم قبر سے دوبارہ نکالے بھی جائیں گے، ہمیں عرصہ محشر میں کھڑا کر کے ہم سے حساب بھی لیا جائے گا۔( رجال کشی ۲ ص ۴۹ / ۴۰۳ روایت عبدالرحمان بن کثیر )۔

۱۲۳۶۔ صالح بن سہل، میں امام صادق (ع) کے بارے میں ان کے رب ہونے کا قائل تھا تو ایک دن حضرت کے پاس حاضر ہوا تو دیکھتے ہی فرمایا صالح ! خدا کی قسم ہم بندۂ مخلوق ہیں اور ہمارا ایک رب ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اور نہ کریں تو وہ ہم پر عذاب بھی کرسکتا ہے۔( رجال کشی ۲ ص ۶۳۲ / ۶۳۲، مناقب ابن شہر آشوب ۴ ص ۲۱۹)۔

۱۲۳۷۔ اسماعیل بن عبدالعزیز ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ اسماعیل وضو کیلئے پانی رکھو میں نے رکھدیا تو حضرت وضو کے لئے داخل ہوئے ، میں سوچنے لگا کہ میں تو ان کے بارے میں یہ خیالات رکھتا ہوں اور یہ وضو کر رہے ہیں۔

اتنے میں حضرت نکل آئے اور فرمایا اسماعیل ! طاقت سے اونچی عمارت نہ بناؤ کہ گر پڑے، ہمیں مخلوق قراردو، اس کے بعد جو چاہو کہو۔( بصائر الدرجات ۲۳۶ / ۵ ، الخرائج والجرائح ۲ ص ۷۳۵ / ۴۵ ، الثاقب نی المناقب ۴۵۲ / ۳۳۰ ، کشف الغمہ ۲ ص ۴۰۳)۔

۱۲۳۸۔ کامل التمار ! میں ایک دن امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ آپ نے فرمایا، کامل ! ہمارا ایک رب قرار دو جس کی طرف ہماری بازگشت ہے، اس کے بعد جو چاہو بیان کرو۔

میں نے کہا کہ آپ کا بھی رب قرار دیں جو آپ کا مرجح ہو اور اس کے بعد چاہیں کہیں تو بچا کیا ؟

یہ سن کر آپ سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آخر کیا کہنا چاہتے ہو، خدا کی قسم ہمارے علم میں سے ایک الف سے زیادہ تم تک نہیں پہنچا ہے۔(مختصر بصائر الدرجات ص ۵۹ ، بصائر الدرجات ۵۰۷ / ۸)۔

۱۲۳۹۔ امام صادق (ع) ! خبردار غالی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا چاہے وہ تمھاری جیسی بات کرتا ہو اور مجھول الحال کے پیچھے اور کھلم کھلا فاسق کے پیچھے چاہے میانہ روہی کیوں نہ ہو۔( تہذیب ۳ ص ۳۱ / ۱۰۹ روایت خلف بن حماد ، الفقیہ ۱ ص ۳۷۹ / ۱۱۱۰)۔

۱۲۴۰۔ امام صادق (ع) !اپنے نوجوانوں کے بارے میں غالیوں سے ہوشیار رہنا یہ انہیں برباد نہ کرنے پائیں کہ غالی بدترین خلق خدا ہیں ، جو خدا کی عظمت کو گھٹاتے ہیں اور بندوں کو خدا بناتے ہیں ، خدا کی قسم ، غالی یہود و نصاریٰ اور مجوس و مشرکین سے بھی بدتر ہیں۔( امالی طوسی (ر) ۶۵۰/ ۱۳۴۹ روایت فضل بن یسار)۔

۱۲۴۱۔ امام رضا (ع)! ہم آل محمد وہ نقطۂ اعتدال ہیں جسے غالی پانہیں سکتا ہے اور پیچھے رہنے والا اس سے آگے جا نہیں سکتا ہے۔( کافی ۱ ص ۱۰۱ / ۳ روایت ابراہیم بن محمد النخزار و محمد بن الحسین )۔

غالیوں سے برأت

۱۲۴۲۔ امام علی (ع)! خدایا میں غالیوں سے بری اور بیزار ہوں جس طرح کہ عیسیٰ (ع) بن مریم نصاریٰ سے بیزار تھے۔

خدایا انہیں بے سہارا کر دے اور ان میں سے کسی ایک کی بھی مدد نہ کرنا (امالی طوسی (ر) ۶۵۰ / ۱۳۵۰ روایت اصبغ بن نباتہ، مناقب ابن شہر آشوب ! ص ۲۶۳)۔

۱۲۴۳۔ امام علی (ع)۔ خبردار ہمارے بارے میں بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرنا، اس کے بعد ہمارے بارے میں جو چاہو کہہ سکتے ہو کہ تم ہماری حد تک نہیں پہنچ سکتے ہو اور ہوشیار رہو کہ ہمارے بارے میں اس طرح غلو نہ کرنا جس طرح نصاریٰ نے غلو کیا کہ میں غلو کرنے والوں سے بری اور بیزار ہوں۔(احتجاج ۲ ص ۴۵۳ / ۳۱۴ ، تفسیر عسکری ۵۰ / ۲۴)۔

۱۲۴۴۔ زین العابدین (ع)! یہودیوں نے عزیر سے محبت کی اور جو چاہا کہہ دیا تو نہ ان کا عزیز سے کوئی تعلق رہا اور نہ عزیر کا ان سے کوئی تعلق رہا، یہی حال محبت عیسیٰ میں نصاریٰ کا ہوا ، ہم بھی اسی راستہ پر چل رہے ہیں ، ہمارے چاہنے والوں میں بھی ایک قوم پیدا ہو گی جو ہمارے بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں جیسی بات کہے گی تو نہ ان کا ہم سے کوئی تعلق ہو گا اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہو گا۔( رجال کشی (ر) ۱ ص ۳۳۶ / ۱۹۱ روایت ابوخالد کابلی)۔

۱۲۴۵۔ الہروی ! میں نے امام (ع) رضا سے عرض کیا کہ فرزند رسول ! یہ آخر لوگ آپ کی طرف سے کیا نقل کر رہے ہیں ؟

فرمایا کیا کہہ رہے ہیں ؟

عرض کی کہ لوگ کہہ رہے ہیں آپ حضرات لوگوں کو اپنا بندہ تصور کر رہے ہیں ! آپ نے فرمایا کہ خدایا، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے اور حاضر و غائب کے جاننے والے ! تو گواہ ہے کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی اور نہ میرے آباء و اجداد نے کہی ہے ، تجھے معلوم ہے کہ اس امت کے مظالم ہم پر کس قدر زیادہ ہیں یہ ظلم بھی انہیں میں سے ایک ہے۔

اس کے بعد میری طرف رخ کر کے فرمایا، عبدلاسلام ! اگر سارے بندے ہمارے ہی بندے اور غلام ہیں تو ہم انہیں کس کے ہاتھ فروخت کریں گے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ نے سچ فرمایا۔

اس کے بعد فرمایا کہ خدا نے جو ہمیں حق ولایت دیا ہے کیا تم اس کے منکر ہو؟

میں نے عرض کیا کہ معاذ اللہ۔ میں یقیناً آپ کی ولایت کا اقرار کرنے والا ہوں۔( عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۱۸۴ / ۶)۔

گویا ظالموں نے اس حق ولایت الہیہ کی غلط توجیہہ کر کے اس کا مطلب یہ نکال لیا اور اسے اہلبیت (ع) کو بدنام کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جوادی

۱۲۴۶۔ الحسن بن الجہم ! میں ایک دن مامون کے دربار میں حاضر ہوا تو حضرت علی بن موسی الرضا (ع) بھی موجود تھے اور بہت سے فقہاء ور علماء علم کلام بھی موجود تھے، ان میں سے بعض افراد نے مختلف سوالات کئے اور مامون نے کہا کہ یا ابا الحسن ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ ایک قوم آپ کے بارے میں غلو کرتی ہے اور حد سے آگے نکل جاتی ہے۔

آپ نے فرمایا کہ میرے والد بزرگوار حضرت موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) نے اپنے والد جعفر (ع) بن محمد (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد محمد (ع) بن علی (ع)سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن الحسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حسین بن علی (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن ابی طالب (ع) سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ خبردار مجھے میرے حق سے اونچا نہ کرنا کہ پروردگار نے مجھے نبی بنانے سے پہلے بندہ بنایا ہے اور اس کا ارشاد ہے ’ کسی بشر کی یہ مجال نہیں ہے کہ خدا اسے کتاب و حکمت و نبوت عطا کرے اور وہ بندوں سے یہ کہہ دے کہ خدا کو چھوڑ کر میری بندگی کرو، ان سب کا یپغام یہ ہوتا ہے کہ اللہ والے نبو کہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور اسے پڑھتے ہو اور وہ یہ حکم بھی نہیں دے سکتا ہے کہ ملائکہ یا انبیاء کو ارباب قرار دیدو، کیا وہ مسلمانوں کو کفر کا حکم دے سکتا ہے۔( آل عمران آیت ۷۹ ، ۸۰)۔

اور حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے کہ میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہو جائیں گے اور اس میں میرا کوئی قصور نہ ہو گا، حد سے آگے نکل جانے والا دوست اور حد سے گرا دینے والا دشمن اور میں خدا کی بارگاہ میں غلو کرنے والوں سے ویسے ہی برأت کرتا ہوں جس طرح عیسٰی نے نصاریٰ سے برأت کی تھی۔

جب پروردگار نے فرمایا کہ ’ عیسیٰ (ع)! کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا ہے کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو اور انھوں نے عرض کی کہ خدایا تو خدائے بے نیاز ہے اور میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں کوئی خلاف حق بات کہوں ، اگر میں نے ایسا کہا ہے تو تجھے خود ہی معلوم ہے کہ تو میرے دل کے راز بھی جانتا ہے اور میں تیرے علم کو نہیں جانتا ہوں ، تو تمام غیب کا جاننے والا ہے، میں نے ان سے وہی کہا ہے جس کا تو نے حکم دیا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی رب ہے اور میں ان کا نگراں تھا جب تک ان کے درمیان رہا، اس کے بعد جب تو نے میری مدت عمل پوری کر دی تو اب تو ان کا نگراں ہے اور ہر شے کا شاہد اور نگراں ہے‘۔ (مائدہ نمبر ۱۱۶ ، ۱۱۷)۔

اور پھر مالک نے خود اعلان کیا ہے کہ مسیح بن مریم صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ ہیں اور یہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔( مائدہ نمبر ۷۵)۔ ’ مسیح بندہ خدا ہونے سے انکار نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ملائکہ مقربین اس بات کا انکار کرسکتے ہیں۔( نساء ۱۷۲)۔

لہذا جو بھی انبیاء کے بارے میں ربوبیت کا ادعا کرے گا یا ائمہ کو رب یا نبی قرار دے گا یا غیر امام کو امام قرار دے گا ہم اس سے بری اور بیزار رہیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔(عیون اخبار الرضا (ع) ۲ ص ۲۰۰ / ۱)۔

۱۲۴۷۔ امام رضا (ع) مقام دعا میں ! خدایا میں ہر طاقت و قوت کے ادعاء سے بری ہوں اور طاقت و قوت تیرے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے میں ان تمام لوگوں سے بھی بری ہوں جو ہمارے حق سے زیادہ دعویٰ کرتے ہیں اور ان سے بھی بری ہوں جو وہ کہتے ہیں جو ہم نے اپنے بارے میں نہیں کیا ہے۔

خدایا خلق و امر تیرے لئے ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

خدایا ! تو ہمارا بھی خالق ہے اور ہمارے آباء و اجداد کا بھی خالق ہے۔

خدایا ربوبیت کے لئے تیرے علاوہ کوئی سزاوار نہیں ہے اور الوہیت تیرے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے۔

خدایا ان نصاریٰ پر لعنت فرما جنھوں نے تیری عظمت کو گھٹا دیا اور ایسے ہی تمام عقیدہ والوں پر لعنت فرما۔

خدایا ہم تیرے بندے اور تیرے بندوں کی اولاد ہیں ، تیرے بغیر اپنے واسطے نفع، نقصان، موت و حیات اور حشر و نشر کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں۔

خدایا ! جس نے یہ خیال کیا کہ ہم ارباب ہیں ہم ان سے بیزار ہیں اور جس نے یہ کہا کہ تخلیق ہمارے ہاتھ میں ہے یا رزق کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے ہم اس سے بھی بیزار ہیں جس طرح عیسیٰ (ع) نصاریٰ سے بیزار تھے۔

خدایا ہم نے انہیں ان خیالات کی دعوت نہیں دی ہے لہذا ان کے مہملات کا ہم سے مواخذہ نہ کرنا اور ہمیں معاف کر دینا۔

خدایا زمین پر ان کافروں کی آبادیوں کو باقی نہ رکھنا کہ اگر یہ رہ گئے تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی اولاد بھی فاجر اور کافر ہو گی۔( الاعتقادات ، صدوق (ر) ص ۹۹)۔