FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ان کہے لفظوں کے مدفن

شبنم رحمٰن

 

آؤ کچھ دور چلیں

آؤ کچھ دور چلیں درد کے صحرا سے جہاں

شور ہی شور ہے بس چیختے سناٹوں کا

دور تک پھیلا ہے احساس کا جلتا جنگل

آؤ کچھ بات کریں

یا یونہی چلتے جائیں

تیری آنکھوں سے رواں ہے جو رو پہلا جھرنا

اسکی ہر بوند میری روح کو سیراب کرے

تیری معصوم شرارت کے حسیں نازک تن

وقت کے ناگ نا ڈس کے جائیں

آؤ کچھ دور چلیں درد کے صحرا سے پرے

 

 

ان کہے لفظوں کا مدفن

وہ دیکھو

دور تک پھیلی ہوئی چھوٹی بڑی قبریں

کہ جن میں دفن ہیں وہ ساری باتیں

جو میرے دل کے زنداں سے کبھی باہر نہیں آئیں

وہ سارے لفظ

جو تم تک پہنچ پانے کی حسرت میں

کہیں رستے میں ہی دم توڑ بیٹھے ہیں

یہیں پہ دفن ہیں

 الفاظ کے وہ قافلے سارے

میری مجبوریاں قاتل

تیری بینائیاں غافل

اس دشتِ نا رسائی میں کہیں شاید

خبر تم کو کبھی بھی ہو نہ پائے گی

کہ بے بس خاموشی میری

میرے ان کہے لفظوں کا مدفن ہے

بستی  بستی پربت  پربت  سانجھ  جب  گہرا  جائے  ہے

نین  جھروکے  دھیرے  دھیرے  دیپ  کوی  جل  جائے  ہے

میرے  آنگن  کے بیلے  میں  پھول  کھلے  ہونگے  شائد

گھر سے  دور  بدیسوں  میں  بھی  خوشبو  مجھ  کو  آئے  ہے

شا م  ہو ی  اور  سارے  پنچھی  گھر کو  اپنے  لوٹ  گے

دیکھو  من  کا  پاگل  پنچھی  لوٹ  کے  گھر  کب  آئے  ہے

جس  مو سم  میں  ڈالی  ڈالی  پھول  کھلے  ارمانوں  کے

جا نے  اب  وہ  موسم  پھر  سے  آئے   یا   نا  آئے  ہے

 بھولی   بسری   یادیں  آنسو  ٹکڑے  ٹوٹے  سپنوں  کے

شام ڈھلے  کیوں  رات  کی  دلہن  آنچل  میں  بھر  لائے  ہے

 

بساطِ جان میں نے خود سمیٹی ہے

بساطِ جان میں نے خود سمیٹی ہے

بہت مشکل تھا میرے واسطے یہ فیصلہ کرنا

کہ جیسے بے گناہ خود چلتے چلتے دار تک جائے

کہ جیسے خود خزاؤں کو کوئی پیغام بھجوائے

مگر اس سے بھی مشکل تھا

ہمارے بیچ آتی دوریوں کو بے بسی سے دیکھتے رہنا

تمہارے مہرباں لہجے میں گھلتی بے رخی کے وار کو سہنا

مجھے تسلیم ہے منھ زور جذبوں کی لگامیں میں نے کھینچی ہے

بساطِ جان میں نے خود سمیٹی ہے

 

درد کا آتش فشان

اچانک درد کا آتش فشاں

پھر پھٹ پڑا ہے

ہر طرف اب دل کے زنداں میں

برستی آگ ہے

اور ضبط کا آہن پگھلتا  ہے

وہ ساری خواہشیں میں نے جنہیں

مشکل سے زنجیروں میں جکڑا تھا

ہوئیں آزاد تو

تو ہر سمت اک محشر بپا ہے

بلکتی چیختی اور بیں کرتی خواہشیں

جتنا بھی چاہیں شور کر لیں

ان دیواروں میں

کوئی در کوئی روزن نہیں ہے

 

دریا اور صحرا

مجھے معلوم تھا

میرے اندر کہیں اک دریا بہتا ہے

کہ جس کی دھیمی کل کل میں

میری خوشیوں کے سُرپنہاں

میری خواہش کے طائر جس کے اُوپر چہچہاتے ہیں

حسیں سپنوں کی ڈالی جس کو آئینہ بناتی ہے

میرے جیون کے سارر رنگ جس میں بہتے رہتے ہیں

مجھے معلوم کیا تھا

تم مگر اک ایسا صحرا ہو

میرے دریا کی ایک ایک بوند تک

جو جذب کر لے گا

 

ہر طرف بس عکس اسکا ڈھونڈنا اچھا لگا

چاہتوں کی چاندنی میں گھومنا اچھا لگا

دو گھڑی کو بند کر کے سارے اندیشوں کے در

دیکھنا تجھ کو تجھی کو سوچنا اچھا لگا

نالہ ہو  وہ نیم شب کایا عبادت ہو کوئی

ہر دعاء میں بس تمہیں کو مانگنا اچھا لگا

دور تک چھائی ہوئی تھی تیری یادوں کی گھٹا

ہلکی ہلکی بارشوں میں بھیگنا اچھا لگا

مدتوں سے قید تھی میں جس انا کے خول میں

آج اس کو تیری خاطر توڑنا اچھا لگا

دل نشیں لہجہ تھا اسکا منفرد انداز تھا

کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا

 

ہوائیں لوٹ آئی ہیں

ہوائیں لوٹ آئی ہیں

اداسی اوڑھے سارے اونگھتے موسم

چونک کر جاگ اٹھے ہیں

ہمارے شہرِ دل کی حبس زدہ سنسان گلیوں میں

چلی ہے پھر سے پروائی

کسی کے لمس کا احساس لے کر

پھر ہوائیں لوٹ آئی ہیں

 

ہمارے بیچ جو اک رابطے کا پل تھا

ہمارے بیچ جو اک رابطے کا پل تھا

کیسے کھو گیا

بے اعتباری کے گھنے کہرے میں

اس کے پار میں کچھ دیکھنا چاہوں

نگاہیں لوٹ آتی ہیں

 تھکی بے بس

نظر کچھ بھی نہیں آتا

سمجھ کچھ بھی نہیں آتا

ہمارے بیچ جو اک رابطے کا پل تھا

کیسے کھو گیا

 

اک خوابِ نا تمام کو تعبیر دے گیا

یہ کون مجھ کو ریشمی زنجیر دے گیا

ٹکڑے ہوئے ہیں رات کی ناگن کے دیکھئے

دستِصبح میں کرنوں کی شمشیر دے گیا

وہ نرم نرم لہجہ میں اسکا پکارنا

کتنی میری دعاؤں کو تاثیر دے گیا

اسکا خیال روشنی کا اک منار ہے

بے نور منظروں کو جو تنویر دے گیا

پت جھڑ کے زرد پتوں پہ لکھا ہے میرا نام

پھولوں کا دیوتا مجھے تحریر دے گیا

 

کہوں کیسے

کہوں کیسے

کہ میرے پاس اب کچھ بھی نہیں باقی

میرے چاروں طرف دیکھو تو کتنی روشنی سی ہے

اندھیرا جب دبے پاؤں میری جانب لپکتا ہے

تیرے الفاظ کے جگنو فضا میں پھیل جاتے ہیں

ہمارے دل کے آنگن میں خزاں آئے بھی تو کیسے

تمھاری بات کی خشبو کبھی دھیمی نہیں پڑتی

کبھی میلی نہیں ہوتی

وہ رنگوں سے بھری چادر

تمھارے ان کہے لفظوں نے میرے ٹوٹتے زخمی تھکے من پر

بہت ہولے سے ڈالی تھی

کہوں کیسے

کہ میرے  پاس اب کچھ بھی نہیں باقی

 

کتنے جادوئی سے منظر ہو گئے

مڑ کے دیکھا ہم نے پتھر ہو گئے

تم جو بدلے تو نہ جانے کس طرح

پھول جتنے تھے وہ خنجر ہو گئے

کیسی یہ بارش ہوئی اب کے برس

خواہشوں کے کھیت بنجر ہو گئے

سکھ تو جیسے قرض تھے اس کے مگر

دکھ ہمارے تھے مقدر ہو گئے

شبنمی لہجہ یہ کس کا سن لیا

جتنے صحرا تھے سمندر ہو گئے

تم سے مل کے کتنے عرصہ بعد پھر

یوں لگا خود کو میسر ہو گئے

 

لو ساون پھر سے آیا ہے

لو ساون پھر سے آیا ہے

برستی ٹوٹتی بوندیں لئے

وہ بوندیں

جو میرے اندر

بہت اندر کہیں ہر دم برستی ہیں

میرے اندر کا صحرا اور بھی بنجر بناتی ہیں

تسلسل سے برستی بوند

جس کے شور سے باہر

کوئی آواز سُن بھی لوں

سمجھنے میں بہت ہی دیر لگتی ہے

میرے دل کی فضاؤں پر

سلیٹی بادلوں کا

سرمئی ہی رنگ طاری ہے

مگر میں محوِ حیرت ہوں

تمہاری مہربان ہستی کی

جادوئی شعاعوں کا گزر جب سے ہوا

اطراف میں میرے

عجب قوس قزح کے رنگ بکھرے ہیں

لو ساون پھر سے آیا ہے

برستی ٹوٹتی بوندیں لئے

تمہارے ساتھ مل کر

میری ہستی کے سبھی صحراؤں کو  سیراب کرنے کو

 

معصومیت بھی ہو ہنسی بے ساختہ بھی ہو

اس عہدِ گمشدہ سے کوئی رابطہ بھی ہو

مایوسیوں کے اندھے گھنے جنگلوں کے بیچ

امید کی کرن کا کوئی راستہ بھی ہو

آنکھوں میں خواب ہونٹوں پہ لے کر دعا کے پھول

اپنے خدا سے کوئی مجھے مانگتا بھی ہو

خوشیاں ہوں ہمرکاب سدا میرے بعد بھی

میری طرح سے کوئی اسے چاہتا بھی ہو

 

موجد

میری آنکھوں میں پیوستہ

یہ اعتبار کے ٹکڑے

میرے ہر دکھ کے موجد ہیں

 

میرا چرچا جو گھر گھر میں ہوا ہے

یہ نا کردہ گناہوں کی سزا ہے

گزارے تھے جو تیرے ساتھ لمحہ

میرا دل ان کو اکثر ڈھونڈھتا ہے

ہوئی ہے برہنہ شاخِ تمنا

جدا یوں آخری پتہ ہوا ہے

جہاں یہ کربِ تنہائی نہیں ہو

کوئی ایسا شہر تم کو پتا ہے

افق پہ دور تک پھیلی ہے لالی

یا میرے ہاتھ کی رنگِ حنا ہے

میرا دل آج بھی تنہا نہیں ہے

ہجومِ درد کا خیمہ گڑا ہے

پکاریں بھی تمہیں تو کس طرح ہم

ہمارے بیچ دیوارِ انا ہے

 

میری تنہائی

میرے وجود کی کچی دیواروں پر

درد کے قلم سے

ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچا کرتی ہے

پہروں میرے دل کے آنگن میں کھیلا کرتی ہے

تمہارے سامنے اس کو تھپک کر میں سلاتی ہوں

تمہارے جاتے ہی لیکن

چونک کر جاگ اٹھتی ہے

لپٹ جاتی ہے مجھ سے

کسی ضدی بچے کی مانند

میری تنہائی

 

پلکوں  پہ  اُس  کے  ایک  ستا را  اور  بس

زادِ  سفر   یہی   تو   ہمارا    تھا    اور    بس

بنجر  سماعتوں  کی  زمین  کیسے  کھِل  اُٹھی

تم  نے  تو  میرا  نام  پکارا  تھا  اور  بس

میری  فصیلِ  ذات  پہ  چھا یا  کُہر  چھٹا

آنکھوں  میں  اسکے  ایک  شرارا  تھا  اور  بس

اِک  عمر   میری  ذات   پہ  سا یہ  فگن  رہا

کچھ  وقت  ہم  نے  سا تھ  گزارا  تھا  اور  بس

تاریکیوں  میں  نُور  کی  بارش  سی  ہو  گی

 آنکھوں  میں  تیرا  عَکس  اُتارا  تھا  اور  بس

مجھ  تک  پہنچتا  غم  کا  ہر  دریا  پلٹ  گیا

شانے  پہ  میرے  ہاتھ  تمھارا  تھا  اور  بس

 

ایک نظم

میرے  چاروں  طرف  کتنا

حسیں  خوابوں  سا  منظر  ہے

مگر  یہ  خوشنما  منظر

مری آنکھوں کو  رعنائی  نہیں  تکلیف  دیتا  ہے

کوی  خوشبو  بھرا  جھونکا

مجھے  چھُونا  اگر  چاہے

میرے  زنداں  کی  نا دیدہ  دیواریں  روک  دیتی  ہیں

ہماری  روح  کے  جلتے  ہوے  صحرا  پہ

کو ی  مہرباں  بادل

اگر بھولے  سے  آ  جائے

میں  آنکھیں  میچ  لیتی  ہوں

نہ  جانے  کب  تلک  مجھ  کو

پرانے خواب کا  تاوان  بھرنا  ہے

 

سونی حویلی

یہ میرا دل ہے یا

اجڑی ہوئی سونی حویلی ہے

کہ جس میں ہر طرف

جالے لگے ہیں تیری یادوں کے

کبوتر کی گٹر گوں کی طرح سے گونجتے ہیں وہ سبھی لمحے

تمھارے ساتھ جو گزرے

اکیلے لمبے دالانوں میں آ کر

جب ہوائیں سر سراتی ہیں

تو یہ محسوس ہوتا ہے

کہا ہے تم نے ہولے سے

کہ تم دہلیز پہ رکھے دئے کی لو

کبھی مدھم نہیں کرنا

یقین رکھنا

کہ پھر سے لوٹ آئے گی سبھی رونق

یہ سونی سی حویلی مسکرائے گی دلہن بن کر

 

تعبیر

اس حسیں خواب کی تعبیر ملی ہے مجھ کو

جو میری آنکھ کی پتلی میں کہیں زندہ تھا

سہمے بچے کی طرح

بند ہونٹوں میں دبی ایک مقدس سی دعاء کی مانند

اس حسیں خواب کی تعبیر ملی ہے لیکن

پھول زخموں کے کھلے ہیں اتنے

اب تو پت جھڑ کی دعاء لب پہ رکی ہے میرے

 روشنی اتنی ہوئی آخرش بینائی گئی

اک حسیں خواب کی تعبیر ملی ہے مجھ کو

 

تنہا ئی

سکوتِ شب ہے

تنہائی ہے ۔

لیکن ایسی تنہائی

کہ جس میں گونجتی رہتی ہیں ساری ان کہی باتیں

جو دل میں شور تو کرتی ہیں

لیکن کہہ نہیں پاتے

کِسی کے دور جاتے پاؤں کی ہلکی سی وہ آہٹ

کبھی پتوں کی کھڑ کھڑ میں

کِسی کے لوٹنے کا شک

کبھی بیتے پلَوں کی گونج

کبھی مدھم سی سرگوشی

کبھی اپنے ہی اندر چل رہی آندھی کی آوازیں

سکوتِ شب ہے تنہائی ہے ۔

لیکن ایسی تنہائی

 کہ جسے دور تک پھیلا ہو آوازوں کا اِک جنگل۔

 

 تمہارا خط اگر ہوتا

تمہارا ای میل آیا ہے

نظر اسکرین پہ  گاڑے

یہ  سوچے جا رہی ہوں میں

تمہارا خط اگر ہوتا

اسے چھو کر تمہارا لمس ہم محسوس کر لیتے

کبھی بے چین راتوں میں

اسے تکیے پہ رکھ کر

لیٹ کر چھت کو تکا کرتے

تو یوں لگتا

ہمارے پاس ہی ہو تم

تمہارے ہجر کا سورج

چمکتے تیز نیزوں سے

ہمیں زخمی جو کرتا تو

اسے ہم آنکھ پر رکھ کر

کبھی سوتے            کبھی روتے

تمہارا خط اگر ہوتا

 

تمہاری یاد میرے دل سے جب گزرتی ہے

تو ہولے ہولے کوئی بانسری سی بجتی ہے

جھلسی سوکھتی ان زرد کھیتیوں سے پرے

گھٹا کیوں آج سرِشام سے برستی ہے

اتر رہی ہے یہ رات میرے آنگن میں

یا بال کھولے کوئی اپسرا اترتی ہے

تمام رات مجھے اس کا انتظار رہا

وہ خواب جس کے لئے چشمِ نم ترستی ہے

تمہارا پیار ہے یا نرم چاندنی ہمدم

ہماری روح کے کشکول میں برستی ہے

 

وقت پھر وار کر  نہ جائے کہیں

خواب آنکھوں میں مر نہ جائے کہیں

میری آنکھوں پہ تیرے ہاتھ کا لمس

یہ بھی سپنا بکھر نہ جائے کہیں

تجھ کو یہ خوف کیوں ہے ائے جاناں

تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

تیرے جانے سے میرے دل کا نگر

خشک پتوں سے بھر نہ جائے کہیں

ضبط کرنا مجھے بھی مشکل ہے

آنکھ تیری بھی بھر نہ جائے کہیں

 

وہ لڑکی

وہ لڑکی کتنی پیاری ہے

کبھی جو کھلکھلائے تو لگے

صحرا کی تپتی ریت پر

ساون کی رم جھم ہو

جو لب کھولے تو یوں جیسے

دلوں کے روح کے زخموں پہ

ہولے سے

کوئی دستِشفاء رکھ دے

نظر جس سمت اٹھ جائے

وہاں موسم بدل جائے

خزاں کی خوشک ٹہنی پر

نئی کونپل نکل آئے

مگر اس موہنی پیاری سی لڑکی میں

کہیں اک بچی رہتی ہے

جو اُس کی ذات کی پرتوں کے اندر

چھپ کے بیٹھی ہے

جو ہنسنا چاہتی تو ہے

مگر مُسکان

آنکھوں اور لبوں کاراستہ بھول بیٹھی ہے

نظر جس سمت بھی جائے

وہی تنہائی کا موسم

کوئی اپنا نہیں دکھتا

کوئی اپنا

کہ جس کی اُنگلی تھامے جب چلے تو

سارے خطرے سارے خدشے دور ہو جائیں

نہ کھونے کا کوئی خطرہ

نہ ہونٹوں پہ کوئی سسکی

وہ سارے اشک اُس کے خوشنما رنگوں میں ڈھل جائیں

جو اُس کی سہمی سہمی آنکھ سے

بہتے ہی رہتے ہیں

وہ لڑکی کتنی پیاری ہے

ہمیشہ ہنستی رہتی ہے

 

یہ میرے خالی ہاتھ ہیں

میں کب سے

بے یقینی اور دکھ کی آخری حد پہ کھڑی

بس تک رہی ہوں اپنے ہاتھوں کو

کہ جس میں

بس ذرا سی دیر پہلے ہی

ہماری دوستی کے کتنے خوش رنگ

اور

کتنے قیمتی موتی دھرے تھے

ہمارے بیچ پھیلے

اعتماد اور پیار کے موسم کا ہر ایک رنگ

سجا تھا میرے ہاتھوں میں

(یا شاید وہم تھا میرا)

مگر اب

کچھ نہیں

بس ہاتھ خالی ہیں

 

زخم مسیحائی

کب سے خاموش سی گم سم سی یونہی بیٹھی ہوں

سامنے خط ہے تیرا

اور دل کے آنگن میں

موسمِدرد دبے پاؤں چلا آیا ہے

اور زخموں کی فصل اب کے بہت اچھی ہے

باتوں باتوں میں لگے دل پہ جو

اُس بات کا زخم

دل کی منڈیروں پہ جم جائے جو

اُس رات کا زخم

اس سیاہی میں جو گم ہو گیا

اس ساتھ کا زخم

جو یقین ٹوٹ کے تبدیل ہوا ریزوں میں

روح میں چبھتے کھٹکتے ہوئے ذرات کا زخم

تم نے لکھا ہے کہ

تم بات کے زخموں کو سہنا سیکھو

تم بھی اوروں کی طرح دنیا میں رہنا سیکھو

مشورہ ہے تو بہت خوب

مگر………..

ایسی دنیا سے کہاں میری شناسائی ہے

یہ ترا خط ہے یا زخمِ مسیحائی ہے

٭٭٭٭

ماخذ اور تشکر:

شبنم رحمان

پروف