FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               مختلف  مصنفین

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ماخذ: اخبارِ اردو

 

 

الفاظ معانی بدلتے ہیں

               پروفیسر غازی علم الدین

یہ ایک فطری عمل ہے کہ الفاظ ایک زبان سے دوسری زبان میں  منتقل ہوتے وقت اپنے اصل معانی اور مفاہیم بدل لیتے ہیں۔ اس کا سبب لسانی انجذاب، قوموں  کا اختلاط، طرزِ معاشرت، ثقافتوں  اور موسموں  کا اختلاف ہوسکتا ہے۔ یہی صورتِ حال کئی سارے عربی الفاظ کی ہے جو اردو میں  استعمال ہوتے وقت اپنے بنیادی معانی بدل لیتے ہیں۔

اپنی قومی زبان اردو کے بارے میں  یہ کہنا کہ ’’گیسوئے اُردو ابھی مِنّت پذیرِ شانہ ہے‘‘ ذہن پر قدرے گراں  گزرتا ہے۔ یہ ہمارا جذباتی شعور توہوسکتا ہے لیکن امرِ واقع یہ ہے کہ اردو زبان ابھی اپنے تشکیلی اور تکمیلی مراحل طے کر رہی ہے۔ یہ کوئی مستقل اور قائم بالذات زبان نہیں  رہی۔ برصغیر پاک و ہند میں  باہر سے آنے والے فاتحین کی فوجی چھاؤنیوں  میں  فارسی بولنے والے غیر ملکیوں  اور ہندی بولنے والے ملکی باشندوں  کے درمیان میل ملاپ سے یہ زبان ازخود پیدا ہوئی۔ چوں  کہ مقامی لوگوں  کی تعداد زیادہ تھی لہٰذا اس کی بنیاد ہندی ہی رہی البتہ اس کا دیو ناگری رسم الخط فارسی رسم الخط میں  بدلنے اور فارسی و عربی الفاظ و تراکیب کے شامل ہونے سے یہ زبان اردو کہلائی۔ اردو کا لفظی معنی بھی لشکرگاہ ہے، اس نسبت سے بھی اس کا نام اردو پڑ گیا۔ یہ زبان لشکرگاہوں  میں  پروان چڑھ کر ہندوستان میں  پھیلی اور مغلوں  کی سرپرستی کی وجہ سے شاہی قلعہ پہنچ کر اُردوئے معلّٰی کہلائی۔

اردو میں  جذب ہونے والے عربی کے اکثر الفاظ قرینے کے مطابق اپنے اصل معانی دیتے ہیں  لیکن کچھ الفاظ ایسے مستعمل ہیں  جو خلافِ قرینہ اپنے بنیادی معانی بدل لیتے ہیں۔ ذیل میں  ایسے ہی الفاظ کی ایک فہرست مرتب کی گئی ہے جن کے معانی عربی زبان سے اردو زبان میں  منتقل ہو کر بدل گئے ہیں۔ بعض الفاظ تو اصل معانی کے بالکل اُلٹ ہو گئے ہیں۔ میرے نقطۂ نظر سے یہ قلبِ ماہیّت اپنے اندر ایک دل چسپی رکھتی ہے، اس لیے اسے قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

اردو میں  مستعمل الفاظ

عربی الفاظ کے اصل معانی اور مشتقات

اردو میں  معانی اور استعمال

اِحتجاج

دلیل پیش کرنا(حج، حجّت، حُجیّت، الحاج، حجّاج، حجیج، محجوج، ذوالحجہ اسی سے مشتق ہیں

اعتراض، انکار، مخالفانہ آواز، اظہار ناپسندیدگی، عذر، بحث کرنا، پروٹیسٹ

اِستِقلال

اس کا مادہ ’’قلل‘‘ ہے جس کا معنی ہے کمی اور قلّت(قلّت، قلیل، اقلّ، قُلہّ، قِلال، قَلّہ اور مستقل اسی سے مشتق ہیں )

ثابت قدمی، پامردی، ڈٹے رہنا، قائم رہنا، ٹھہراؤ، قرار، اطمینان، قیام، مضبوطی، استحکام، مستقل مزاجی، سلطنت یا قوم کا خود مختار ہونا، آزادی

اِنحِراف

اس کا مادہ ’’حرف‘‘ ہے جس کا معنی ہے کنارہ، دھار، پیشہ اختیار کرنا، پھرنا، جھکنا۔ (حرف، حریف، حرفت، حراف، حرافہ، حرفہ، منحرف، تحریف، مُحرِف  اور اَحرف اسی سے مشتق ہیں

انکار، مخالفت، روگردانی، تجاوز، خلاف ورزی، نافرمانی، حکم عدولی، بغاوت، برگشتگی، مُکرجانا، پھر جانا، خلاف ہو جانا۔

اِنِحصار

گھرنا، محصور ہونا، (منحصر، حصار، حصیر، حصر، محاصِر، محاصرہ، محصور اور حصور اسی سے مشتق ہیں )

دارو مدار، بھروسا، آسرا، اعتبار، موقوف، مشروط

باعِث

اٹھانے والا، اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام (بعث، مبعوث، بعوث، باعوث، بعیث، بعاث، تباعث اور بعثت اسی سے مشتق ہیں ) سبب، وجہ، علّت، مقصد، حقیقت، اصل، بنیاد

؂ گردشِ گردوں  کا باعث اور کچھ کھلتا نہیں

بھاگتا پھرتا ہے یہ تیری جفا کو دیکھ کر

تجویز

جائز سمجھنا، جائز قرار دینا۔ (اجازت، مجوّزہ، جائز، جواز، مجاز، تجاوز تجزیہ اور جائزہ اسی سے مشتق ہیں )

مشورہ، رائے، تدبیر، راہ نکالنا، روا رکھنا، صلاح، انتظام، بندوبست، غور، فکر، سوچ بچار، منصوبہ، ڈھنگ، جتن، فیصلہ، وہ معاملہ جو کسی مجلس میں  پیش کیا جائے تاکہ اس کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد ہو۔

تحَمُّل

بوجھ اٹھانا۔ (حمل، حامل، محمول، حماّل، حماّلہ، تحمّل حملہ، حمائل، محمل اور حمالہ اسی سے مشتق ہیں  (

صبر، بُردباری، حِلم، برداشت، نرمی

تخلُّص

نجات پانا، جدا ہونا۔ (خلوص، خلاص، اخلاص، خالص، مخلِص، تخلیص، استخلاص، متخلِص، خالصہ اور خلاصہ اسی سے مشتق ہیں)

شاعر کا وہ مختصر اور قلمی نام جو شعر میں  استعمال کیا جاتا ہے۔

تفصیل

ٹکڑے ٹکڑے کرنا، ممیز کرنا (فصل، فصول، فصیل، فاصلہ، فاصِل، فواصِل، فیصلہ، فیصل، مفصّل، منفصل اور اِنفِصال اسی سے مشتق ہیں)

تشریح، وضاحت، صراحت، فہرست، بیان، تذکرہ

تمہید

ٍبستر بچھانا، درست کرنا، ہموار کرنا۔ (مھد (گہوارہ) اور مھاد(بستر) اسی سے مشتق ہیں)

کسی بات کی ابتداء، تقریب کا آغاز، آغاز، ابتدا، پیش لفظ، کسی مضمون کی اٹھان، دیباچہ، عنوان، مقدمہ۔

؂ خموشی شرم کی ہے اس کو کچھ کہنا نہیں  آتا

وکالت کی نگاہِ شوق نے تمہید اٹھائی ہے

ثابِت

ٹھہرنے والا، ایک جگہ پر قائم رہنے والا(ثبت، مُثبت، ثبوت، ثبات، اثبات، ثوابت، تثبیت اسی سے مشتق ہیں )

سالم، صحیح سلامت، جس کا کو ئی جزو الگ نہ ہو، سارا، پورا، مصدّقہ، پایۂ ثبوت کو پہنچا ہوا، برقرار، مستقل، مضبوط، پائے دار، مانا ہوا، یقینی، درست

جناب

صحن، گوشہ، کنارہ، جانب، دہلیز(جنوب، جانب، جنبہ، جوانب، اجتناب، مجتنب، جنابت، جُنبی، اَجنب، اجنبی، تجَنُّب)

کلمۂ خطاب، بطور تعظیم و القاب، حضرت، قبلہ، حضور، آستانہ، بارگاہ، چوکھٹ، جائے پناہ، صاحب، درگاہ، دربار، خود بدولت، خداوند

حریف

ہم پیشہ(حرف، حروف انحراف، حرفت، حراف، حرافہ، حرفہ، منحرف، تِحریف، محرِّف اور احرف اسی سے مشتق ہیں )

مقابل، دشمن، رقیب، مدّمقابل، بدخواہ، چالاک، مقابلہ کرنے والا

حُلیہ(اصل میں  حِلیہ)عربی میں  بکسرِ اوّل اور اردو میں  بضّمِ اوّل مستعمل ہے۔

عربی میں  حُلیہ اور حِلیہ دو مختلف لفظ ہیں۔ حُلیہ کا معنیٰ میٹھا اور خوب صورت ہے جیسے عربی میں  کہتے ہیں  ناقۃ حُلیہ (خوب صورت اونٹنی) اور حِلیہ کے دو معانی ہیں  پہلا معنی زیو رہے اور دوسرا حِلیۃ الاِنسان یعنی انسان سے جو رنگ اور ہیئت دکھلائی دے۔ اس اعتبار سے اردو میں  حُلیہ غلط العوام ہے جب کہ اس کا درست تلفظ حِلیہ ہے

کسی شخص کا سراپا، صورت، رنگ و روپ، قد، چہرہ مہرہ، شکل و صورت، خدوخال

حملہ

اس کا مادہ ’’حمل‘‘ ہے جس کا معنی بوجھ اٹھانا ہے۔ (حمل، حامل، حاملہ، محمول، حماّل، حماّلہ، تحمّل، حملہ، حمائل محمل اور حِمالہ اسی سے مشتق ہیں)

چڑھائی، دھاوا، وار، ضرب، یُورش، ہلاّ، حربہ، چوٹ

خَاتِمہ

ختم کرنے والی۔ اسم فاعل خاتِم کا صیغۂ مؤنث ہے لیکن اردو میں  مذکرّ بولا جاتا ہے۔ (ختم، خاتِم، مختوم، خاتَم، ختمہ، اختتام، ختام، مختتم، اختتامیہ اور ختمی اسی سے مشتق ہیں)

انجام، اختتام، نتیجہ، کسی کتاب کا آخری حِصہ، وہ عبارت جو کتاب ختم ہونے کے بعد لکھی جائے۔ تتمہّ، عاقبت، اخیر، موت، رحلت، انتقال۔

؂ ذوقؔ عاصی ہے تو اس کا خاتمہ کیجو بخیر

یا الٰہی اپنے ختمِ مرسلین کے واسطے

خاطِر

دل میں  گزرنے والا خیال(خطیر، خطرہ، تخاطر، مخاطِر، خطر، مخاطرہ، مخطور اور مخطورات اسی سے مشتق ہیں)

لحاظ، مروّت، خوشی، کے لئے، دھیان، خیال، تواضع، مدارات، آؤ بھگت، ذہن، حافظہ، دل، طرف داری، واسطے، سوچ، بچار، تفکرّ، تصوّر، طبیعت، مزاج، پاس داری، قصد، ارادہ

؂ نیک ہوتی میر ی حالت تو نہ دیتا تکلیف

 جمع ہوتی میری خاطر تو نہ کرتا تعجیل

خَصم

دشمن، مخالف، بَیری(خصومت، مخاصمت، خصیم، متخاصِم، اختِصام، خصوم اور خصومات اسی سے مشتق ہیں)

اپنے اصل معانی کے علاوہ اردو میں  مندرجہ ذیل معانی میں  استعمال ہوتا ہے۔ مالک، آقا، خاوند، شوہر، فریق۔ اس کے علاوہ اردو زبان و ادب میں  خصم سے تشکیل پانے والے کئی محاورے مستعمل ہیں  مثلاً خصموں  جلی، خصم مار کر ستی ہوئی، خصم کرنا، خصم پیٹی، خصم روئی، خصم موئی، خصم کا کھائیں  بھائی کا گائیں  وغیرہ

داخِلہ

داخل ہونے والی عورت یا چیز۔ یہ اسم فاعل داخِل کا صیغۂ مؤنث ہے۔ (دخل، داخل، دخیل، ادخال، مداخلت، تداخل، مدخول، مدخولہ، مداخل، دخول اسی سے مشتق ہیں)

شمولیت، شرکت، کسی ادارے میں  رجسٹریشن ہونا، داخل ہونا، سپردگی، حوالگی، تفویض، روپے کی رسید، مال گزاری کی رسید، محصول یا چونگی کی رسید، دخل، گزر، باریابی، رسائی، پہنچ، داخل کرنے کی فیس، اجرت، اندرونی، خارجہ کی ضِد، محکمہ کا نام جیسے محکمہ داخلہ اور محکمہ خارجہ :

؂ قابلِ دید تماشا حَشَم و جاہ کا ہے

داخلہ تخت گہِ دل میں  شہنشاہ کا ہے

دائِرہ

گھومنے والی، گردش کرنے والی، چکر کاٹنے والی، اسم فاعل دائر کا صیغۂ مونث ہے لیکن اردو میں  مذکر بولا جاتا ہے۔

گول شکل جس کے گھیرے پر ہر نقطہ مرکز سے برابر فاصلے پر ہوتا ہے، خطِ گِرد، گردشِ زمانہ، حلقہ، کنڈل، دَ ور، محیط، حدود، احاطہ، میدان، چکّر، منڈلی، مجلس، ڈیرہ، محلہ، ٹولہ، ڈفلی (ایک باجے کا نام )، حروف کی گولائی جیسے ع ح س وغیرہ کا دائرہ۔

؂ لوگوں  سے بھرا وہ دائرہ تھا

پُر صوت و صدا وہ دائرہ تھا

دفعہ

ہٹانا، دُور کرنا(دفع، مدافعت، دافع، دفیع، دفعیہّ، مدفع، دفاع، دُفعہ، دفعۃً، تدافع، استدفاع اور اندفاع اسی سے مشتق ہیں )

باری، نوبت، قانون کی شق، ضابطہ، مجموعہ، جماعت، زُمرہ، قانون کا فقرہ، نمبر، ایک بار، بار، نمبر مضمون، درجہ۔

ذاءِقہ

چکھنے والی۔ اسم فاعل ذاءِق کا صیغۂ مونث لیکن اردو میں  مذکر بولا جاتا ہے۔

مزہ، لذّت، سواد، لطف، چسکا، خوش مزہ

رقبہ

گردن، بچاؤ، نگہبانی (رقیب، رقابت، تراقب، راقِب، مراقبہ اور مِرقب (دُور بین) اسی سے مشتق ہیں)

احاطہ، گھِری ہوئی زمین، گاؤں  سے متعلق زمین، ریاضی کا قاعدہ یعنی طول و عرض کو ضرب دینے کا حاصل۔

رُقعہ

کپڑے کا پیوند(مرقع، ترقیع، رقیع، ترقّع اور مُرتِقع اسی سے مشتق ہیں

چٹھی، خط، پرچہ، پُرزہ، وہ کاغذ جو پیامِ نسبت کے واسطے حسب نسب لکھ کر لڑکی کے گھر بھیجتے ہیں۔ رقعہ آنا اور رقعہ لکھوانا ا سی سے محاورے تشکیل پاتے ہیں۔

سُلُوک

راستہ پر چلنا۔ سالک (اسم فاعل )، مسلک (اسم ظرف)، منسلک، انسلاک اسی سے مشتق ہیں۔

اچھا برتاؤ کرنا، اصطلاحِ تصوّف، منازلِ تصوّف طے کرنا، حق تعالیٰ کا قرب چاہنا، تلاشِ حق، عمل، رویّہ، بھلائی، نیکی، خیرخواہی، خبرگیری، برتاؤ، طریقہ، ملاپ اور  پیار، دوستی، محبت، صلح، آشتی

شوکت

کانٹا۔ بِچھُو کا ڈنک (شوکۃ العقرب) سرخ رنگ کی پھِنسی، تیز ہتھیار، تکلیف، کھردرا پن

شان و شوکت، دبدبہ، رعب، قوّت، زور، بَل، مرتبہ، شکوہ، جاہ وجلال، شدّت، ہیبت، صولت، حشمت، کرّوفر۔

صِلہ

جوڑنا، احسان کرنا، صلہ رحمی کرنا(وصل، وصال، وصول، موصول، واصل، موصل، مواصلت، مواصل، مواصلات، اِتصال اور مُتّصل اسی سے مشتق ہیں )

اردو زبان و ادب میں  جوڑنا اور احسان کرنا کے علاوہ اس کے کئی معانی ہیں  مثلاً انعام، عطا، بخشش، تحفہ، ہدیہ، بدلہ، اجر، جزائے نیک، عوض، پاداش اور حق ِ محنت وغیرہ

ضابطہ

مضبوط پکڑنے والی، حفاظت میں  رکھنے والی، قوی، ضبط سے کام لینے والی، متحمّل، بردبار، مستقل مزاج، اسم فاعل ضابط کا صیغۂ مونث ہے جو اردو میں  مذکر بولا جاتا ہے۔ (ضبط، انضباط، منضبط، مضبوط اور ضابطہ اسی سے مشتق ہیں)

اُصول، قاعدہ، دستور، آئین، قانون، دستور العمل، انتظام، بندوبست، ربط و ضبط، کام کرنے کا طریقہ

طعنہ

نیزے کی ضرب (طعن، طاعون، مطعن، مطعون اور طعین اسی سے مشتق ہیں)

طنز و تشنیع، آوازہ، عیب جوئی، ملامت، حرف گیری

عارِض

پیش کرنے والا(عَرض، عوارض، معروض، معروضی، معروضات، عریضہ، اِعراض، اعتِراض، معترض، تعریض، عُروض، تعرّض، عرضی، عریض، عارِضہ، تعارُض، معارضہ، متعارِض اور عِرض )آبرو ) اسی سے مشتق ہیں )

درخواست دینے والا اور پیش کرنے والا کے علاوہ مندرجہ ذیل معانی اردو میں  مستعمل ہیں  :

رخسار، گال، رُخ

؂ کہتے ہیں  جس کو مردمک چشم آفتاب

مجھ کو گماں  ہے وہ تیرے عارض کا تِل نہ ہو

عزیز

طاقت ور، غالب، زبردست

پیارا، محبوب، رشتہ دار، قرابت رکھنے والا، کمیاب، نا یاب، یار، دوست، قابلِ عزّت، دل پسند، لائق، عُمدہ، مرغُوب، لاڈلا، دُلارا، بیش بہا۔

؂ کوئی جان ایسی نہیں  جس کو نہ ہو جسم عزیز

تجھ کو یہ کس لئے نفرت ہے میری جاں  مجھ سے

عِلاقہ

تعلق، لگاؤ، سروکار(علائق، معلّقِ، معلقہ، معلقات، تعلق، تعلیق، تعلیقہ، متعلق، متعلقہ اسی سے مشتق ہیں )

اردو زبان و ادب میں  تعلق اور سروکار کے علاوہ مندرجہ ذیل معانی بھی مستعمل ہیں۔ مخصوص حصّۂ زمین، ملکیت، قبضہ، ضلع، صوبہ، پرگنہ، احاطہ، نوکری، ملازمت، زمین داری، قلم رَو، عمل داری، حد۔

غُصّہ

پھندا، غم، گلا گھُٹنا

برہمی، خفگی، ناراضی، عتاب، رنجش، طیش، خشم، غضب، اندوہِ گُلوگیر

فِتنہ

آزمائش، دیوانگی، گمراہی

فساد، جھگڑا، ہنگامہ، بلوہ، بغاوت، سرکشی، نہایت شریر، شوخ، آفت کا پرکالہ، غوغا، آشوب، ہڑبونگ، فتور، شرارت، غضب، قیامت، عاشق، معشوق، دل بر۔

فرضی

فرض سے متعلق، علم الفرائض کا جاننے والا (فرض، فرائض، مفروض، مفروضہ، فریضہ اسی سے مشتق ہیں )

خیالی، قیاسی، بے اصل، نام کو، برائے نام، مصنوعی، نقلی، جعلی۔

؂ مثلِ کمرِ بتاں  ہے فرضی میرا تنِ زار پیرہن میں (۲۲)

فقرہ

ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ

عبارت کا ٹکڑا، جُملہ، کلام، دھوکا، جھانسہ، فریب، جھوٹی بات، جھوٹا وعدہ۔ فقرہ سے کئی محاورات اردو میں  مستعمل ہیں۔ مثلاً فقرہ چلنا، فقرہ بازی، فقرہ بنانا، فقرہ دینا، فقرے بتانا، فقرے تراشنا، فقرے ڈھالنا اور فقرے سنانا وغیرہ۔

قابِل

آگے بڑھنے والا، قبول کرنے والا(قبول، مقبول، قبیل، قبیلہ، قِبلہ، مُقبل، استقبال، مستقبل، قبل، قبالہ، قبولیت، مقبولیت، تقابل، قابلہ، تقبیل، قُبلہ، اقبال، مقابلہ، مقابل اور قُبلہ اسی سے مشتق ہیں  (

لائق، اہل، سزاوار، دانا، عقل مند، ہوشیار، تجربہ کار، استعداد رکھنے والا، عالِم، فاضِل، مناسِب، پسندیدہ، مستوجب

؂ کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والوں  کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

قاصِد

ارادہ کرنے والا(قصد، قصیدہ، مقصد، مقاصد، اقتصاد، مقتصِد، مقصود اسی سے مشتق ہیں)

نامہ بر، چٹھی رساں، پیام بر، ایلچی

؂ قاصِد آیا گویا عیسا آیا

دلِ بیمار میں  جی سا آیا

قسط

انصاف، عدل

حِصہّ، جُز، ٹکڑا، وہ رقم جو حسبِ قرارداد تھوڑی تھوڑی ادا کی جائے۔

؂ آخر کو قطرہ قطرہ ٹپکنے لگے سرشک

قسطوں  میں  زر وصول ہوا خشک سال کا

لحاظ

گوشۂ چشم، کنپٹی سے ملحق آنکھ کا کنارہ، آنکھ کے نیچے کا داغ، گھر کا صحن۔ (لاحظ، ملحوظ، لحظہ اورملاحظہ اسی سے مشتق ہیں)

پاسِ خطر، خیال، دھیان، توجہ، شرم، حیا، پاس داری، رعایت، مروّت، غیرت، حمیت، پاسِ ادب، حفظِ مراتب۔

؂ فلک پہ کیوں  رہے ہر ماہ سرخ رُو مہِ نَو

جو ہو نہ اس کو تیرے نعلِ کفشِ پا کا لحاظ

مَدِیر

گھُمانے والا

اخبار کا ایڈیٹر، ادارے کو چلانے والا، انتظام کرنے والا۔

مذاق

ذوق، مزہ

ہنسی، ٹھٹھا، دل لگی، ظرافت، خوش طبعی، زندہ دلی، تمسخر، مزاح

؂ لیا پھسلا کے اوّل اس نے میرا دل مذاقوں  میں

ہوا پھر دشمنِ جاں  میرا وہ قاتل مذاقوں  میں

مزاج

ایک سے زائد چیزوں  کو ایک دوسری میں  ملانا، آمیزش (امتزاج اسی سے مشتق ہے )

طبیعت، سرشت، خمیر، کیفیت، عادت، خُو، گُن، خصلت، اثر، طینت، ماہیّت، اصلّیت، جوہر، غرور، دماغ، کِبر، نخوت، ناز، نخرہ، چونچلا

؂ آتے ہی فصلِ گُل کے جنوں  ہو گیا ہمیں

بدلی جو رُت مزاج برابر بدل گیا

مُستقل

اس کا مادہ ’’قلل‘ ‘ ہے جس میں  کم ہونا، کم کرنا اور کم سمجھنا کا معنی پایا جاتا ہے۔ (قلیل، قلّت، اقلّ، استقلال، تقلّل، اقلہ اور مقلّل اسی سے مشتق ہیں)

اٹل، برقرار، پائیدار، پکا، مضبوط، استوار، قائم، ہمیشہ، مدام، استمرار

مصروف

جس چیز کو خرچ کیا جائے۔ (یہ اسم مفعول ہے) (صارف، صرَف، صِرف، صَرفہ، مَصرَف، مصارف، مُصرِف، مصاریف، مصرفیہ، تصرّف اور تصریف اسی سے مشتق ہیں  (

مشغول، کام میں  لگا ہوا، منہمک۔

مضمون

جس کی ضمانت اور ذمہ لیا گیا ہو۔ یہ اسم مفعول ہے۔ اس کا اسم فاعل ضامن ہے (ضِمن، ضمانت، ضامن، تضمین، مُضمِّن اور مضَمَّن اسی سے مشتق ہیں)

متن، تحریر، معنی، مطلب، بیان، عبارت، آرٹیکل، ایڈیٹوریل، انشاء، بات، سخن۔

مغرور

بہکاوے اور دھوکے میں  آیا ہوا۔ (غرور، مغرور، مغروری، غَرَّہ اور غُرَّہ اسی سے مشتق ہیں)

تکبرّ کرنے والا، خود بیں، خود پرست، اِترانے والا، گھمنڈی، شیخی میں  آنے والا، نخوت شعار

مقالہ

گفتگو(قول، اقوال، مقولہ، قائل، قوّال، قوّالی اور مِقال اسی سے مشتق ہیں)

کتاب کا باب، تحقیقی مضمون، Thesis، فصل، تحریر، آرٹیکل

منظور

جس چیز کو دیکھا جائے۔ اسم فاعل ناظِر کا صیغۂ مفعول ہے۔

پسندیدہ، قبول کیا گیا، مقبول، مانا گیا، تسلیم کیا گیا، اجازت دیا گیا، پسندِ خاطر، مرغوب، محبوب، عزیز، پیارا۔

؂ لے لیجیے جو آپ کے منظورِ نظر ہے

یہ جان یہ ایمان ہے یہ دل یہ جگر ہے

موسم

لوگوں  کے جمع ہونے کی جگہ اور وقت( اسم ظرف ) عرب میں  حج کے موقع اور وقت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

موقع، وقت، گرمی سردی کے اعتبار سے سال کی تقسیم کا ایک حصّہ، ہنگام، سماں، ایاّم، دِن، زمانہ، کسی مقام کے خاص وقت یا خاص مدّت میں  درجۂ حرارت، ہوا کے رُخ اور بارش کے اثر سے پیدا ہونے والی کیفیت، رُت، فصل۔

موقف

ٹھہرنے کی جگہ( ظرفِ مکاں  )(وقف، واقف، وقوف، موقوف، وقفہ، توقیف، متوقّفِ، اوقاف، واقفیت، توقیفی، وقیف، تواقف اور متواقف اسی سے مشتق ہیں)

نقطۂ نظر، دلیل، اندازِ فکر، مرکزِ خیال، نظریہ

مُہمّ

غم و اندوہ میں  ڈالنے والا۔ نہایت ضروری، سنجیدہ بات یا کام

معرکہ، جنگ، لڑائی، جدال و قتال، دشوار کام، کارِ عظیم، امرِ دشوار، سخت کام۔

؂ یوں  ہی عمر اپنی بسر ہو گئی

ناظِرہ

دیکھنے والی آنکھ، اسم فاعل ناظر کا صیغۂ مونث

قرآن مجید کو دیکھ کر پڑھنا۔

نصاب

سورج غروب ہونے کی جگہ، اصل، مرجع، چھُری کا دستہ، مال کی وہ مقدار جس پر زکوٰۃ واجب ہو۔ ہدف

پڑھائی کا کورس، متعیّن درس، کُتب درسیہ، سلیبس، زر، سرمایہ، پُونجی، معیار، کسوٹی

نِقاب

سوراخ، پہلو کا زخم، پہاڑی راستہ

بُرقع، پردہ، گھونگھٹ، چہرۂ پوش

؂ غفلت سے مارا مجھ کو تو دل کو حجاب سے

اب تو نکال منہ کہیں  باہر نقاب سے

واقِف

رکُنے والا، ٹھہرنے والا، فی سبیل اللہ وقف کرنے والا۔ (وقف، وقوف، واقف، موقوف، وقفہ، توقُّف، تواقف، توقیف، توقیفی، موقف مواقف اور اوقاف اسی سے مشتق ہیں)

شناسا، جان پہچان والا، جاننے والا، آگاہ، مطلع، ماہر، تجربہ کار، چابک دست، خبردار، ہوشیار، ہم راز۔

وجہ

چہرہ، مُنہ، سامنے کا حصّہ(وجیہہ، وجاہت، توجیہہ، مواجہہ، توجُّہ، متوّجہ، وجوہ، جہت، جہات اسی سے مشتق ہیں)

سبب، موجب، علّت، کارن، باعث، دلیل، طریقہ، ڈھنگ، ذریعہ، وسیلہ۔

؂ جو وجہ دیر کی پُوچھی کہا یہ قاصد نے

گزارنے تھے مصیبت کے دن گزار آیا

ہمّت

قصد، ارادہ، خواہش

بہادری، جرات، شجاعت، دلیری، اعلیٰ حوصلگی، توفیق، اولوالعزمی، دسترس، طاقت۔

؂ شو ق کہتا ہے ابھی عرضِ تمّنا کیجیے

دل یہ کہتا ہے کہ پڑتی نہیں  ہمّت

حوالہ جات

* داغ دہلوی، مرزا، مہتابِ داغ(لاہور: مکتبہ شعر و ادب، سن ندارد)، ص ۶۷۳

* برقؔ، بحوالہ نور اللغات، جلد اوّل، ص۶۰۶

* غالب، اسد اللہ خان مرزا، دیوانِ غالب(لاہور: الفیصل ناشران، ۲۰۰۳ ء)، ص۳۳

* منیرؔ بحوالہ نور اللغات، جلد اوّل، ص ۹۹۲

* ظالیسوعی، لویس معلوف، المنجد(بیروت: دار المشرق، ۱۹۷۳ ء )، ص ۱۵۰

* دیوانِ غالب، ص ۲۲۲ * امیرؔ، بحوالہ نور اللغات، جلد سوم، ص۴

* نسیم ؔ، بحوالہ نوراللغات، جلد سوم، ص ۱۸ * قلق ؔ بحوالہ نور اللغات، جلد سوم، ص ۱۶۱

* مصحفیؔ بحوالہ، فرہنگِ آصفیہ، جلد سوم، ص۲۵۷ * احسن ؔ بحوالہ، ایضاً، ص ۲۵۷

* منیرؔ بحوالہ نور اللغات، جلد سوم، ص ۵۴۹ * عارفؔ بحوالہ فرہنگِ آصفیہ، جلد سوم، ص ۲۷۲

* سالکؔ بحوالہ نور اللغات، جلد سوم، ص ۵۷۸ * رشکؔ بحوالہ نور اللغات، جلد سوم، ص ۶۱۵

* اقبال، علامہ محمد، بانگِ درا(لاہور: سعد پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء)، ص ۲۴۳ * ناظم ؔ بحوالہ فرہنگِ آصفیہ، جلد سوم ص ۳۶۸

* میر تقی میرؔ، کلیاتِ میرؔ (لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۹ ء)، ص * کلیاتِ ظفرؔ، جلد دوم، ص ۵۲۰

* صہباؔ بحوالہ فرہنگِ آصفیہ، جلد چہارم، ص ۳۳۸ * بازغؔ بحوالہ، ایضاً، ص ایضاً

* زکی ؔ بحوالہ، ایضاً، ص ۴۶۶ * فرہنگِ آصفیہ، جلد چہارم، ص ۵۸۳

* مجروحؔ بحوالہ، ایضاً، ص ۴۹۳ * تسلیم ؔ بحوالہ نوراللغات، جلد چہارم، ص ۱۵۲۵

* داغ دہلوی، مرزا، مہتابِ داغ(لاہور مکتبۂ شعرو ادب، سن ندارد)، ص ۶۱۹ * یادگارِ داغ، ص ۱۲۳۲

٭٭٭

ماخذ:

http://www.nla.gov.pk/uakhbareurdu/october2011/oct_3.html

 

 

الفاظ کے اخلاقی انحطاط کا نفسیاتی پس منظر

               پروفیسر غازی ولی الدین

زبان کسی قوم کا پیمانۂ اخلاق ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کے ساتھ زبان بھی عُلُوّ مرتبت پر فائز اور اخلاقی انحطاط کا شکار رہتی ہے۔ الفاظ اخلاقی اور غیر اخلاقی حقائق کے شاہد ہوتے ہیں  جو انسان کے اخلاقی انحطاط اور عروج کی داستان سناتے ہیں۔ جس طرح انسان عروج و زوال کی منزلیں  طے کرتا ہے اُسی طرح الفاظ بھی سرگرمِ سفر رہتے ہیں۔

الفاظ و محاورات اپنے اندر سماجی رس لیے ہوتے ہیں  کیوں  کہ یہ تہذیب کا جھنڈ ا اور تاریخ کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اکثر الفاظ و محاورات اور کہاوتیں  سماجی اور تہذیبی واقعات کی ہی پیدا وار ہوتی ہیں۔ قوموں  کی ثقافت، معاشرت، تاریخ، رسوم و رواج، ترقی اور تنزّل انہی الفاظ اور ان کے استعمال سے ہی مترشح ہوتے ہیں۔

زبان کے اخلاقی تنزّل و انحطاط میں  برصغیر کے طبقاتی پس منظر کو نظرانداز نہیں  کیاجا سکتا۔ پیٹ کے مسائل نے پیشوں  کو جنم دیا اور پیشوں  نے عوامی روّیہ کے الفاظ جنم دیئے۔ انہی الفاظ سے محاورات اور کہاوتیں  بنیں  جو اس وقت کے معاشرے کی سوچ کی عکاس ہیں۔ اُمراء اور حکم ران طبقے کی خوش آمد اور منت و سماجت کے لئے الفاظ وضع کیے گئے۔ ذات پات، اونچ نیچ اور متعصبانہ رویوں  کے اظہار کے لئے بھی اردو زبان و ادب کی لغت کو ’’مالا مال‘‘ کیا گیا۔ طاقت ور اور کم زور کو مدّ مقابل لا کر حفظِ مراتب، نفرت کے اظہار اور غیبت کی عادت جیسے رذیل رویّے تخلیق کیے گئے۔ حق بات کہنے کی جرات کے فقدان کے پیشِ نظر رمز و ایماء اور اشاروں  کنایوں  پر مبنی ذومعنی الفاظ و محاورات کا استعمال انسان کی نفسیاتی، معاشرتی اور اخلاقی پستی کی واضح دلیل ہے۔

زبان کے اخلاقی انحطاط کے پس منظر میں  ہمیں  بھوک، ننگ، افلاس، ناداری، کمزوری، جہالت، نفرت و حقارت اور ایسی کئی کہانیاں  اور جذبات نظر آئیں  گے۔ معاشی ناہمواری نے غریب اور مفلس کو مجبور کر دیا کہ وہ امیر طبقے کے کمّی بنیں  اور نمک حلالی کرنے کے لئے ان کی تفریح طبع کے لئے اُوٹ پٹانگ باتیں  اور اخلاق سے گری حرکتیں  کریں۔ کئی مستعمل الفاظ و محاورات ان واقعات کی تصدیق کرتے ہیں۔ مجبور و مقہور عوام بے بس تھے۔ الفاظ کی حد تک نفرت و انتقام کے جذبات رکھتے اور اپنی بھڑاس نفرت کے خمیر سے بنے محاورات کے ذریعے نکالتے تھے۔

بارک اللہ : اس کا لفظی معنی ہے اللہ برکت دے،

لیکن اس کا استعمال کسی شخص کی مذّمت اور ہجو کے لئے بھی ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک دعا ہے۔ بارک اللہ کی ترکیب شعائرِ اسلام میں  اس طرح شامل ہے جیسے السّلام علیکم، الحمدللہ، ماشا ء اللہ، سبحان اللہ اور ان شاء اللہ وغیرہ۔ ہجو اور مذّمت کے معنی میں  اس کا استعمال یقیناً شعائرِ اسلام کی توہین کے زمرہ میں  آتا ہے۔

بسم اللہ ہی غلط : اس سے مراد ابتدا ہی غلط ہو جانا یا چھوٹتے ہی غلطی کا ارتکاب کرنا ہے۔

اس محاورے کے پس منظر میں  انسانی اخلاقی انحطاط، ذہنی خباثت اور دینِ اسلام کے خلاف سازش واضح اور عیاں  ہے۔

جنم جنم کا ساتھ دینا : اس محاورے کا مفہوم ہے وفاداری کو مرتبۂ کمال تک پہنچانا۔

لیکن محاورے کے الفاظ اور اس کی ترکیب میں  آواگون کے مذہبی نظریے کو واضح کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ دراصل یہ عقیدۂ تناسخ اور حُلولِ باری کا اظہار ہے۔ آواگون کو Incarnationاور Transmigration of Soulبھی کہتے ہیں۔ یہ اسلامی نظریۂ حیات و ممات اور آخرت کی ضد ہے۔ اردو زبان و ادب میں  اس کے استعمال سے ایک مشرکانہ اور کافرانہ نظریے کی ترویج ہوتی ہے جس کا عام اردو بولنے والے ادراک نہیں  رکھتے۔

حِکمتی : اس سے مراد چالاک، مکار اور عیّار شخص ہے۔

یہ حکمت جیسے مقدس لفظ کی توہین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ مَن یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً (۲۱) (اور جسے حکمت ملی، اسے حقیقت میں  خیر کثیر یعنی بڑی دولت مل گئی )

خدمتی : اس سے مراد نوکر چاکر ہے۔

اس لفظ کے مفہوم کے تعیّن اور استعمال کے پس منظر میں  ذات پات، اونچ نیچ اور طبقاتی سوچ کارفرما ہے۔ اسلام کی نظر میں  خدمت کرنے والے انسان کی عظمت مسلمہ ہے۔ فرمانِ رسول ﷺ ہے۔ سَیّدُِ القَومِ خَادِمھُم (۲۲)(قوم کا سردار درحقیقت اپنی قوم کا خدمت گار ہی ہوتا ہے )

داڑھی نوچ ڈالنا : ذلیل و رسوا کرنا۔

کسی کو ذلیل کرنے اور دھوکا دینے کے لئے داڑھی پر ہاتھ صاف کرنا اور اُسے نجاست سے آلودہ کرنا معاشرتی اخلاقی پستی کا مظہر ہے۔ داڑھی جو شعائرِ اسلام میں  شامل اور ایمان کی علامت ہے، کس توہین آمیزطریقہ سے اسے محاوروں  میں  استعمال کر کے اردو زبان و ادب کو ’’ثروت مند‘‘ اور ’’مزیّن ‘‘ کیا گیا ہے۔

رِیشِ قاضی : لفظی معنی ہے قاضی کی داڑھی۔

لیکن اصطلاحاً شراب کی بوتل کے ڈاٹ (ڈھکن) اور بھنگ چھاننے کے کپڑے کو کہا جاتا ہے۔

ریِشِ بابا : لفظی معنی ہے بابا کی داڑھی۔

لیکن اصطلاحاً شراب بنانے کے لئے انگور کی ایک قسم کو کہا جاتا ہے۔

شیخ چِلّی : بے وقوف، مسخرا اور احمق۔

شیخی باز : مغرور، ڈینگیں  مارنے والا اور گھمنڈ کرنے والا۔

شیخی بگھارنا : بڑائی ظاہر کرنا، نمود و نمائش کرنا۔

شیخی جھاڑنا : نیچا دکھانا۔

شیخی مارنا : اِترانا

یہ الفاظ و محاورات شیخ کی نسبت سے تشکیل پائے ہیں۔ عربی میں  شیخ کا معنی علم و عُمر اور مرتبہ کے اعتبار سے بلند شخص کے ہیں۔ گویا شیخ جو عزت و احترام اور تقدس کا حامل لفظ ہے، اُسے بے وقوفی، تکبرّ، بُرائی، عزّت و آبرو کو پامال کرنے، نمود و نمائش اور غرور جیسے خصائل سے متصف کیا گیا ہے۔ معاشروں  کی خفّتِ عقل اور ضُعفِ ایمان کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس مقدس لفظ کو ذلیل حرکتِ انسانی سے وابستہ کر دیا گیا۔

صَفاًّ صَفاَّ : بے نام و نشان، منہدم اور ویران

صَفاًّ صَفاّ کرناَ : نیست و نابود کرنا، استیصال کرنا۔

صَفاًّ صَفاَّ ہونا : ویران ہونا، تہس نہس ہونا۔

صَفاًّ صَفاّ کی ترکیب قرآنی آیت کا حصّہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَجَاء رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً (۲۳) (اور تمہارا رب جلوہ فرما ہو گا اس حال میں  کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں  گے )۔

صَفاًّ صَفاّ کا ترجمہ صف در صف اور منظم ہے جب کہ محاورے میں  اس کا بالکل الٹ معنی کر دیا گیا ہے۔ ان محاورات کی تشکیل کے پس منظر میں  جہاں  قرآنی الفاظ کی تضحیک ہے وہاں  اسلام کے اُصولِ عمل، نظم و ضبط اور ڈسپلن پر زد پڑتی ہے۔

صلوات سنانا : کوسنا، دشنام دینا، بُرا بھلا کہنا۔

علیک سلیک : مراد ہے معمولی ملاقات، محض جان پہچان اور واجبی شناسائی۔

السلام علیکم جو امنِ عالم کے قیام کے لئے اسلام کا منشور ہے، ایک دوسرے سے پیار، محبت اور خلوص میں  اضافے کا موجب ہے، اُسے لفظی طور پر بگاڑ کر انتہائی سطحی معنوں  میں  استعمال کیا گیا ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.nla.gov.pk/uakhbareurdu/february2012/Feb_11.html

 

 

صوتیات اور زبان کی ترکیبی اہمیت

               قاسم یعقوب

اُردو صوتیات (فونیمز) کی بنیادی تقسیم کے حوالے سے متعدد آرا ء موجود ہیں۔ بنیادی طور پر صوتیات کی تقسیم زبان میں  عمل پیرا مختلف آوازوں  کے اُتار چڑھاؤ سے وقوع پذیر صوتیاتی تبدیلیوں  سے ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اُردو صوتیات کو مصمتی، مصوّتی اور نیم مصوّتی درجہ بندیوں  میں  امتیاز کرتے ہوئے کل ۴۱ صوتیات (فونیمز) کی فہرست پیش کی ہے، جس میں  و، ن، ہ، ی، ے، کو مزید ذیلی اصوات میں  تقسیم کیا گیا۔ (۱) اسی طرح مختلف لہجوں  کے فرق سے فونیمز میں  تبدیلی اور زیر، زبر اور پیش سے آوازوں  کی صوتی تبدیلی سے معنیاتی کیفیت پر اثرات بھی دراصل فونیمز کے بنیادی امتیازی عناصر کے قریب تر عمل ہے۔ یہاں  یہ بات یاد رہے کہ حروفِ تہجی ہی کسی زبان میں  مصمتی اور نیم مصوّتی فونیمز کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں، جیسے انگریزی میں  A, B, C, D اور اُردو میں  ا، ب، پ وغیرہ۔ ان کو بنیادی آوازیں  (Segmental Phonemes) کہا جاتا ہے مگر جب مختلف بنیادی فونیمز آپس میں  مل کر زبان میں  مختلف لسانی تصورات کی تشکیل کرنے لگتے ہیں  تو کچھ آوازیں  ایسی بھی پیدا ہوتی ہیں  جو Segmental فونیمز کے زمرے میں  نہیں  آتیں۔ یہ عمل عموماً ہر زبان کی عملی سطح پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اُردو میں  بنیادی فونیمز کی تقسیم عربی اور فارسی کے لسانی نظام سے مستعار ہے، جس کی وجہ سے گرافک سطح پر موجود فونیمز اکثر اوقات دھوکہ دیتے ہیں۔ مثلاً :

۰ س، ص، ث ۰ ز، ذ، ض، ظ، ژ ۰ ت، ط ۰ ح، ہ

کیا ہمارے لسانی ماہرین نے اُردو کے بنیادی فونیمز کی چنداں  تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں  کی اور ایسی بہت سی آوازیں  جو بالاصوت امتیازی فونیمز (Supra Segmental Phonemes) کے زمرے میں  رکھی جاتی رہی ہیں، کیا اُردو کے بنیادی حروفِ تہجی قرار نہیں  پائی جا سکتیں ؟

اُوپر پیش کردہ ایک ہی بنیادی آواز کے نمائندہ مختلف صوری امیجز اب اُردو رسم الخط کا ایسا لازمی حصہ بن چکے ہیں  کہ اُردو کی صوری شناخت کی بنیادی اکائی تصور ہوتے ہیں۔ لہٰذا مذکورہ ایک ہی فونیم کی مختلف اشکال کا خاتمہ یا تبدیلی پورے اُردو رسم الخط کے انہدام کی طرف اقدام ہو گا۔

یہاں  شان الحق حقی صاحب کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :

’’کہتے ہیں  کہ وی وڈ مچ را ور لائک ٹو اڈائپ دی اُردو سکرپٹ۔۔۔ ان الفاظ کو پڑھنے میں  آپ کو کتنی دقّت ہوئی اور یہ الفاظ صوتی اعتبار سے اچھی طرح ادا بھی نہیں  ہوئے کیوں  کہ یہ رسم الخط ان کے لیے بنا ہی نہیں۔ لیکن غورکیجیے تو الفاظ کا مفہوم بھی بعینہٖ وہ نہیں  رہا۔ جتنا کچھ بھی فرق واقع ہوا ہے وہ جمالیاتی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ فقط ’’ایکسکوئزٹ‘‘ کی مکمل قیمت وہ نہیں  ہو سکتی جو Exquisite کی ہے۔ جس طرح لہجے کے فرق سے بعض اوقات الفاظ کا مفہوم کچھ سے کچھ ہو سکتا ہے، اسی طرح رسم الخط کا اختلاف بھی وہی حکم رکھتا ہے جو تلفظ یعنی مخرج، لہجے، لحن اور حرکت و سکون کا۔ لفظ دوشیزہ کو ’’دو شے زا‘‘ کر دیجیے تو مفہوم غائب ہو جاتا ہے۔ جس طرح تقریر میں  الفاظ کی ایک صوتی حیثیت ہوتی ہے۔ اسی طرح تحریر میں  ان کی ایک صوری حیثیت بھی ہے، جس کا قائم رہنا نہ صرف مستحسن بلکہ لازم ہے۔ ‘‘(۲ )

لفظوں  کی تحریری شکل بھی دراصل زبان کی طرح ثقافت کے برسوں  کے ثقافتی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے، چوں  کہ لفظ کے Signifier کے صوری اور صوتی امیجز میں  Signified یا تصورِ شے کا عکس من مانا یا اختراعات پر مبنی نظام ہے۔ اصل میں  اس (Structural Reality) کے ساتھ ساتھ ایک مانوسیت کی من مانی حقیقت بھی موجود ہوتی ہے جو حقی صاحب کو مذکورہ اقتباس میں  معنی خیزی (Signification) کے عمل سے دور کر رہی ہے۔ ’’ایکسکوئزٹ‘‘ کیوں  مکمل قیمت ادا نہیں  کر رہا؟ اس لیے نہیں  کہ یہ انگریزی کا لفظ ہے بلکہ اس کے تصور کی ثقافتی عمر اُردو کیassociation structural میں  نہیں  موجود، لہٰذا اس لفظ کا صوتی اور صوری ساختیہ دوسرے لفظوں  سے اختلافی سطح پر کوئی معنی خیزی پیدا کرنے میں  ناکام ہے۔ زبان میں  بنیادی فونیمز کی ادائیگی سے قاصر الفاظ ہی اُس زبان کا حصہ نہیں  بن سکتے ورنہ ہر لفظ اپنے مخصوص ثقافتی استعمال کے بعد زبان کے ساختیاتی نظام میں  جگہ پا سکتا ہے۔

اُردو زبان تو اس حوالے سے بہت زرخیز ہے کہ اس میں  غیر زبان کا لفظ دیسی ساخت کو قبولنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اُردو میں  افعال اور ان کے مصادر مثلاً، اٹھنا، پڑھنا، چلنا، پھرنا وغیرہ، حرف جار مثلاً، تک، کو، سے، میں، پر وغیرہ، اور تذکیر و تانیث، واحد/ جمع کے اُصول دیگر زبانوں  کے لفظوں  کو خالص مقامی سطح (ثقافتی اور لسانی) پر رَچ بسنے میں  مدد فراہم کرتے ہیں۔ کیا انگریزی کا ہر لفظ اُردو میں  نامانوس ہو گا، مثلاً سکول، یونیورسٹی، یوٹرن وغیرہ حقی صاحب کے بقول رسم الخط کے اختلاف میں  آنے کے باوجود کیا کوئی معنی نہیں  دے رہے؟ کیا ان الفاظ کی کوئی جمالیاتی قدر متعیّن نہیں  ہوتی؟ یہ الفاظ، دراصل اُردو کے ثقافتی عمل کا حصہ بن چکے ہیں۔

فونیمز کی تقسیم کے ساتھ ساتھ لفظوں  کی جمالیاتی حیثیت (جو زبان کے ساختیاتی پھیلاؤ سے مانوسیت ہوتی ہے) بھی معنی خیزی کے قریب ترین تصور کو پیش کرتی ہے اسی لیے ’’دوشیزہ‘‘ کی بجائے ’’دو شے زا‘‘ غیر مانوس ہونے سے اپنے قریب ترین Trace سے ہٹ گیا حالاں  کہ فونیمز کی ادائیگی دونوں  صورتوں  میں  یکساں  ہے۔

تحریر کو پڑھتے ہوئے صوری امیجز، فونیمز کی تقسیم کا کام کر رہے ہوتے ہیں، لہٰذا تحریری شکل میں  موجود الفاظ کو اُن کی جمالیاتی مانوس اشکال میں  قرات کے دوران فونیمز کی درست ادائیگی کا نمائندہ ہونا چاہیے۔

اُردو میں  بہت سے الفا ظ مرکب شکل میں  نئے تصور کو جنم دیتے ہیں۔ جیسے یکساں، دلچسپ، بلکہ، راہنمائی، پسپائی وغیرہ، جو اصل میں  بالترتیب یک ساں، دل چسپ، بل کہ، راہ نمائی، پس پائی کو یکجا کرنے کا عمل ہے۔ یہ الفاظ دیگر مختلف لفظوں  کی مرکب شکل ہیں، ان کو جدا یا اکٹھے لکھنے کے لیے زبان کی ساختی صوری تقسیم (Typological Classification) کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ جو دراصل زبان کے ارتقا کے تدریجی پھیلاؤ میں  Intonation System کا لازمہ ہوتی ہے۔ یہ Intonation System زبان کی ساختیاتی سطح پر لفظوں  کی صوتیاتی توڑ

کے طرے انشا پر لغُwhy shed cop پھوڑ سے نئے صرفیے (Morphemes) پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ یہ عمل کسی خاص وقت میں  شروع ہو کر مکمل نہیں  ہو جاتا، بلکہ زبان کے استعمال کرنے والوں  میں  مسلسل جاری رہتا ہے۔ فونیمز کی طرح مارفیمز بھی زبان کی معنی خیزی میں  اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کی ابتدائی شکل تحلیلی (Analytic) ہوتی ہے۔ (۳) اپنے خودکار نظام کی ترقی یافتہ شکل میں  آنے تک ترکیبی سطح (Synthetic) پر پہنچ جاتی ہے۔ زبان کی ساختی یا صوری (Typological) تقسیم اصل میں  فونیمز کے آپس میں  ادغام اور تفریق سے نئے لفظوں  کی صوتیاتی تقسیم ہی کا نام ہے۔ مثلاً جدا سے جدائی، آنا سے آہٹ وغیرہ کی تبدیلیاں  پابند صرفیے (Bound Morpheme) اور آزاد صرفیے (Free Morpheme) سے ترکیب پاتی ہیں۔ لفظوں  کی ترکیبی (Synthetic) شکل کو توڑ کر تحلیلی سطح میں  تقسیم مجموعی معنی خیزی سے دور کرنے کا عمل ہوتا ہے۔

ہر لفظ زبان میں  اپنے مخصوص تصور کا قریب ترین نمائندہ ہوتا ہے۔ ڈریڈا کے ہاں  تصورِ معنی (Signified) کا یک معیناتی انکار اصل میں  لفظ کی من مانی حیثیت اور کسی حد تک فونیمز سے مارفیمز تک صوتی اور صوری شکل بھی ہے۔ ایک لفظ اپنی ’’تخلیقی‘‘ درجہ بندی میں  اپنے مادے کی مختلف حالتوں  یا سماجی تناظرات سے گزر کے ساختی نظام کا حصہ بنتا ہے۔ (۴ )

گھر سے گھریلو بناتے ہوئے گھر کا Trace ناگزیر ہے۔ جھگڑا سے جھگڑالو، مکتب میں  کتاب، ادب میں  ادیب، آداب کے Trace لفظی یا صوری سطح پر بھی موجود ہیں۔ متن کا مطالعہ کرتے ہوئے تحریری سطح پر موجود لفظیات کا گرافک تاثر ہی فونیمز کی تقسیم میں  مدد دیتا ہے۔ ایک ہی لفظ مختلف طریقوں  سے لکھا گیا ہو تو پڑھتے ہوئے آواز کی بنیادی تبدیلیوں  کا باعث بنتا ہے، لہٰذا ’’پس پائی‘‘ میں  پس اور پائی اُردو زبان کی ساختی ترتیب میں  الگ الگ تصورات کو لیے موجود ہیں۔ پسپائی کی ترکیبی شکل کی دو حصوں  میں  تقسیم پس اور پائی دراصل پسپائی کے تصور معنی (Signifier) کو دو واضح اور ناگزیر Trace میں  تقسیم کرنے کا عمل ہے اور ہر ان دو کے مزید دیگر Traces، جو لفظ کی ترکیبی حالت سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں، میں  بھی جھانکنے کا باعث ہو سکتے ہیں۔ یوں  یہ زبان کے قریب ترین معیناتی عمل سے دور لے جانے کی کوشش ہے۔

فونیمز کی درست ادائیگی کے قریب جانے کی کوشش میں  مارفیمز کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ زبان کی ترکیبی سطح (Synthetic) فونیمز کی اُلٹ پلٹ (Permutation) کے بعد کا عمل ہوتا ہے۔ اگر مارفیمز کی ارتقائی اہمیت سے انکار کرتے ہوئے صوتیے (phonemes)کے قریب ترین تقسیم سے زبان کا عمل آسان اور درست ہو سکتا ہے تو ایسے صوتیے (Phonemes) رکھنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے جو ایک ہی بنیادی آواز کی کئی شکلوں  میں  نمائندگی کر رہے ہیں۔ اگر صابر کو سابر لکھنے کے عمل کو زبان کے صوری نظام (Graphic Structure) میں  بگاڑ کہا جا سکتا ہے تو دلچسپ، راہنمائی وغیرہ کو مادے کے قریب کرنے سے مارفیمز کے ارتقائی، غیرشعوری اور تاریخی سطح پر کانٹ چھانٹ سے تعمیر نظام میں  بگاڑ کیوں  نہیں  کہا جا سکتا۔

زبان کی ترکیبی بُنت، اس میں  موجود تجربات کی ثقافتی معنی خیزی کو زیادہ پُراثر بنانے کی جہت ہوتی ہے۔ ثقافتی عمل سے وجود پانے والے تصورات اپنے صوری اور صوتی ساختیے خود تخلیق کرتے ہیں  جو زبان کے اندر توڑ پھوڑ سے بھی اور زبان سے باہر پڑے الفاظ کو جوں  کا توں  اُٹھا کے زبان کا خمیر بنا لینے سے وجود میں  آتے ہیں۔ ہمیں  زبان کے اس ثقافتی ڈھانچے کا لسانی احترام کرتے ہوئے انہیں  خوش آمدید کہناچاہیے۔

حواشی

( ۱ ) گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر:اردو کی بنیادی اور ذیلی آوازیں، مشمولہ مقالہ در’اردو املا و قواعد‘ مرتّب:ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، ۱۹۹۰ء

( ۲ ) حقی، شان الحق:رسم الخط کی الجھن، مشمولہ مقالہ در’اردو رسم الخط‘، مرتّب:شیما مجید، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، ۱۹۸۹ء

( ۳ ) البتہ کچھ زبانیں  ایسی بھی ہیں  جن میں  الفاظ اپنے مادے ) roots (کے قریب یامادے ہی ہوتے ہیں۔ مادہ لفظ ہی جملے میں  مختلف حالتوں  کے استعمال سے مختلف معنی پیدا کرتا ہے۔ ایسی زبانیں  عموماً پابند اور آزاد صرفیوں  سے ماورا ہوتی ہیں۔ چینی زبان اور اس سے ملتی جلتی بولیاں  اس کی مثال ہیں۔

( ۴ ) ڈریڈا نے معنی کی عدم قطعیت کی بجائے کثیرالمعنیت پر زور دیتے ہوئے لفظ کے حاضر اور غائب tracesکا نظریہ پیش کیا ہے۔ کثیر المعنیت کا مطلب یہ نہیں  کہ لفظ کا معنی آزاد پرواز کرتا خطوں  کی حدود سے ماورا ہو جائے۔ اس کے لیے وہ استعمال شدہ لفظ کے تناظرات کا خیال رکھتا ہے۔ کوئی بھی لفظ اپنے تہذیبی، تاریخی اور زبان میں  موجود اپنی نحوی (syntex) درجہ بندی کے تناظرات سے بھی ماورا ہو کے کوئی معنی نہیں  پیدا کر سکتا۔ معنی خیزی کے عمل میں  وہ معنی پیدا کر رہا ہوتا ہے مگرحتمی نہیں  بلکہ اپنے تناظر کے پھیلاؤ میں  اپنی موجودگی کے اثبات کے حد تک۔

وہ اپنی کتاب Of Grammatology میں  لکھتا ہے:۔

"why of the trace?what led us to the choise of this word?I have begun to answer this question.but this question is such the nature of my answer,that the place of the one and of the other must constanly be in movement.If words and concepts receive meaning only in sequences of differences.one can justify one’s language,and one’s choise of terms,only within a topic(an orientation in space)and an historical strategy.the justification can therefore never be absolute and definite”/

Derrida,jacques:Of Grammatology (translated by bayatri chakrroth), johan hopkins university press,1976.

٭٭٭

ماخذ:

http://www.nla.gov.pk/uakhbareurdu/march2012/March_2.html

 

 

نوشتہ دیوار — مفہوم اور پس منظر

               ڈاکٹر محمد امین

نوشتہ دیوار سے کیا مراد ہے؟ اردو میں  یہ ترکیب بالعموم ایسے مقام پر استعمال کی جاتی ہے جب کسی چیز یا واقعے کے رونما ہونے کے امکانات قوی تر تقریباً یقینی ہوں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اب تو یہ بات دیوار پر لکھی جا چکی ہے، اس کا وقوع پذیر ہونا یقینی ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ نعرے اور مطالبات (خاص طور پر سیاسی) دیواروں  پر لکھے جاتے ہیں  اور یہ تحریریں  عوامی خیالات کا اظہار ہوتی ہیں۔ جب ان میں  سے کوئی بات سچ ثابت ہو جائے تو نوشتۂ دیوار کہلاتی ہے۔

بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں  نوشتۂ دیوار اور کسی واقعے کے رونما ہونے میں  کیا تعلق ہے۔ یہ ترکیب کیسے معرض وجود میں  آئی۔ یہ تخیلاتی ہے اور کسی ادیب کی تخلیق ہے، تلمیح ہے، ضرب المثل ہے یا محاورہ ہے۔ دیواروں  پر لکھنے کا عمل ماضی قریب کی بات ہے۔ اس کی تاریخ پچاس ساٹھ سال سے زیادہ نہیں۔ قدیم زمانے میں  کوئی شخص بھی دیوار پر لکھنے کی جرات نہیں  کر سکتا تھا اور نہ ہی انسان کو ایسی آزادی حاصل تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوشتۂ دیوار کسی واقعے کی طرف اشارہ ہے جو نوشتۂ دیوار ہوا۔

تاریخ میں  ایک واقعہ ملتا ہے بائیبل میں  دانی ایل کے باب میں  مذکور ہے۔ بابل کے بادشاہ بتوکد نضر نے یروشیلم پر حملہ کر دیا اور وہاں  سے سونے چاندی کے قیمتی برتن لوٹ کر لے آیا۔ یہ برتن خاص طور پر مذہبی تہواروں  پر کھانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہ قیمتی برتن صرف اور صرف ان ہی کھانوں  کے لیے مخصوص تھے۔ بتوکدنضر کی سلطنت کے اختتام پر اس کا بیٹا بیلشضر تخت نشین ہوا۔ بیلشضر نے امرا کی بہت بڑی ضیافت کی۔ بیلشضر نے ان برتنوں  میں  جو اس کا باپ بتوکد نضر یروشیلم سے لوٹ کر لایا تھا مے نوشی کی۔ جس سے ان برتنوں  کا تقدس پامال ہوا۔ بیلشضر نے نشے میں  بتوں  کی تعریف کی۔ یوں  وہ گناہ گار ہوا۔ اسی دوران غیب سے ایک ہاتھ نمودار ہوا، اور اس نے دیوار پر لکھا، مئے مئے تقیل و فرسین۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا نے تیری سلطنت کا حساب کیا اور اسے تمام کر ڈالا۔ اس تحریر سے بیلشضر خوف زدہ ہو گیا اور اس نوشتہ ٔ دیوار کو حضرت دانیال علیہ السلام نے پڑھا۔ بیلشضر کی سلطنت جلد ہی ختم ہو گئی۔

اس واقعے کے پس منظر میں  نوشتۂ دیوار کا مفہوم سمجھ میں  آتا ہے یعنی اس سے مراد کسی سلطنت، حکومت اور اقتدار کا زوال یا اختتام ہے۔ حالات و واقعات اس قدر خراب ہو جائیں  کہ حکومت کا جانا یقینی نظر آنے لگے۔ تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کا جانا نوشتۂ دیوار ہے۔ میرے خیال میں  یہی مناسب اور موزوں  معانی ہیں۔ میرا قیاس ہے کہ یہی واقعہ نوشتۂ دیوار کا پس منظر ہے۔ ممکن ہے ایسا نہ ہو۔ کوئی اور واقعہ اس کا محرک ہو، یا یہ ترکیب محض تخیلاتی ہو۔ فرہنگ آصفیہ اور فیروز اللغات میں  یہ ترکیب نہیں  ملتی۔ البتہ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں  موجود ہے اور اس کے معانی میں  اشارۂ غیب کے معنی بھی درج ہیں۔ اشارۂ غیبی کے حوالے سے متذکرہ پس منظر کو تقویت ملتی ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

اخبارِ اردو

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید