FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

اسلام کے ننھے شاہین

بچوں کی دینی کہانیاں

               مختلف مصنفین

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن

               طالب ہاشمی

ہماری رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا۔ تین دن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز تک بی بی ثوبیہ رضی اللہ تعالی عنہ کا دودھ پیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کی لونڈی تھیں۔

                بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

ان دنوں مکہ میں رہنے والے شریف عرب گھرانوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو پیدا ہوئے ہی دیہات میں بھیج دیتے تھے ۔ وہاں وہ دیہاتی عورتوں کا دودھ پی کر پرورش پاتے اور صحرا کی کھلی ہوا میں کھیل کود کر ان کی صحت بہت اچھی ہو جاتی۔ ساتھ ہی وہ خالص عربی زبان بھی سیکھ لیتے ۔ دیہاتی عورتیں سال میں دو مرتبہ مکہ آتیں اور شریفوں کے بچوں کو پالنے کے لیے اپنے گھروں کو لے جاتیں۔ جب واپس لاتیں تو بچوں کے والدین ان کو بہت انعام و اکرام دیتے ۔ اسی دستور کے مطابق محمد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قبلہ بنو سعد کی ایک خوش نصیب بی بی اپنے قبیلے لے گئیں۔ ان کا نام حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہ تھا اور ان کا گاؤں مکہ سے بہت دور نجد کے علاقے میں تھا۔

               برکت کا خزانہ

دیہاتی عورتیں یتیم بچوں کو نہیں پالا کرتی تھیں، لیکن بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ننھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی سے لے لیا۔ اس طرح اس کی قمست جاگ اٹھی۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے برکت کا خزانہ نکلے ۔ وہ خود کہتی کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو لے کر واپس جانے لگے تو ہماری کم دودھ دینے والی اونٹنی خوب دودھ دینے لگی اور ہماری مریل گدھی اتنی تیز چلنے لگی کہ اس نے قافلے کے سب گدھوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہم وطن پہنچے تو چند دنوں کے اندر ہماری زمین میں ہریالی ہی ہریالی ہو گئی اور ہماری بکریاں خوب دودھ دینے لگیں۔ اس طرح ہماری غریبی دور ہو گئی۔ دو سال کے بعد بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہ ننھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت آمنہ سے ملانے لے گئیں اور پھر اصرار کر کے واپس لے گئیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتی تھیں اور اپنی اولاد کی طرح چاہتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھائی بکریاں چرانے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ساتھ لے جاتے ۔ وہ گھر واپس آ کر اپنی ماں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عجیب و غریب باتیں بتاتے ۔

ایک روز دوڑتے دوڑتے آئے اور بتایا کہ دو آدمیوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ چاک کر دیا۔ حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے شوہر کے ساتھ دوڑ کر وہاں گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلے چنگے کھڑے تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ سفید کپڑوں والے دو آدمی آئے ، مجھے لٹا کر میرا پیٹ چاک کیا، اس میں سے کوئی چیز نکال کر پھینک دی اور پیٹ کو پہلے جیسا کر دیا۔ بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر گھبرا گئیں اور مکہ جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت آمنہ کے سپرد کر دیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تقریباً پانچ برس کی تھی۔

               حضرت آمنہ کی وفات

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ برس سے کچھ اوپر ہوئی تو حضرت آمنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر یثرب (مدینہ) گئیں اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پردادی (عبدالمطلب کی والدہ) کے خاندان (بنو نجار) میں ایک مہینہ تک رہیں۔ وہ اپنے شوہر کی قبر پر بھی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کی قبر دکھائی۔ یثرب سے واپس ہوئیں تو راستے میں بیمار ہوئیں اور ابواء کے مقام پر وفات پا گئیں اور وہیں دفن ہوئیں۔ وفادار لونڈی ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہ ساتھ تھیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر مکہ پہنچیں۔

               دادا کے پاس

ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا جناب عبدالمطلب کے سپرد کر دیا۔ بوڑھے دادا نے اپنے بن ماں بات پوتے کو سینے سے لگایا اور نہایت محبت اور شفقت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کرنے لگے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تمام اولاد سے بڑھ کر چاہتے ۔ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ رکھتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کھانا نہ کھاتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنی مسند پر بٹھاتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منھ چومتے اور کہا کرتے کہ خدا کی قسم میرے اس پوتے کی شان ہی کچھ اور ہے ۔ یہ اتنے اونچے مرتبے پرپہنچے گا جس پر اس سے پہلے کوئی عرب نہیں پہنچا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دادا کی اتنی محبت دیکھ کر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن عبدالمطلب کہنے لگے ، لیکن افسوس آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ سال کے تھے کہ شفیق داد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔

               جناب ابو طالب کے پاس

دادا کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جناب ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپرست بنے ، انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی محبت اور پیار سے اپنے پاس رکھا اور ہمیشہ اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کا خیال رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ چچا کی مالی حالت کمزور ہے تو خود کمانے کی فکر کی اور کچھ عرصے تک لوگوں کی بکریاں اجرت پر چراتے رہے ۔ اس زمانے میں عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چچا سے تجارت کا تجربہ حاصل کرتے رہے ۔

               شام کا پہلا سفر

ایک دفعہ ابو طالب اپنا تجارتی سامان لے کر شام جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ساتھ لے لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ سال کے تھے ۔ راستے میں بصریٰ کے مقام پر پہنچے تو وہاں ایک عیسائی راہب بحیرا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ابو طالب سے کہا کہ تم اپنے بھتیجے کو واپس لے جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی دشمن ان کو نقصان پہنچائے ، کیوں کہ ان میں وہ نشانیاں پائی جاتی ہیں جو آخری نبی کی ہیں۔ چناں چہ ابو طالب اپنا کام جلد جلد ختم کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لے آئے ۔

               تجارت

شام کے پہلے سفر سے واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام میں اپنے چچا کا ہاتھ بٹانے لگے ، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاروبار میں بڑی مہارت حاصل ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزی کمانے کے لیے تجارت کا پیشہ ہی اختیار کیا۔ ویسے بھی قریش کے شریفوں کا سب سے با عزت پیشہ تجارت اور سوداگری تھا۔

               بری باتوں سے نفرت

ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن اس حالت میں گزار کہ ان دنوں ہر طرف برائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت شرمیلے اور نیک تھے ۔ اکثر خاموش رہتے تھے اور ہر قسم کی برائیوں سے نفرت کرتے تھے ۔ کھیل تماشوں اور میلوں ٹھیلوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بت پرستی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت برا سمجھتے تھے اور آپس کی لڑائیوں سے بھی دور رہتے تھے ۔ ایک بار قریش اور ایک دوسرے قبیلے قیس عیلان کے درمیان لڑائی چڑھ  گئی۔ اسے حرب فجار کہا جاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجبوراً اپنے چچاؤں کے ساتھ لڑائی کے میدان میں جانا پڑا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی میں صرف اس حد تک شریک ہوئے کہ جو تیر دشمن کی طرف سے آتے تھے ، وہ اٹھا کر اپنے چچاؤں کو پکڑا دیتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں شوخی اور ضد نام کو بھی نہ تھی۔

٭٭٭

 

پانی دیکھ کر پیو

ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو سنت سکھا رہے تھے کہ پانی ہمیشہ دیکھ کر پینا چاہیے اور تین سانسوں میں پیؤ، اتفاق سے ایک یہودی بھی چھپ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ باتیں سن رہا تھا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہماری جانیں، ہمارا مال سب کچھ قربان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں تاثیر ہی ایسی تھی کہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے متاثر ضرور ہوتے ۔

رات کو سوتے سوتے اس یہودی کو جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن رہا تھا، پیاس لگی، بہت زور کی پیاس محسوس ہوئی، جب اس یہودی کو پیاس لگی تو وہ اپنی بیوی سے بولا کہ مجھے اچھی طرح دیکھ کر پانی پلاؤ۔ بیوی بولی: آپ کیسی باتیں کرتے ہیں، چراغ بجھا چکی ہوں، رات کا وقت ہے کیا دیکھ کے پانی پلاؤں ؟ ایسے ہی پی لیجیے ، پانی تو صاف ستھرا ہوتا ہے گھر کا ہمارے ۔ "

یہودی کو بڑا غصہ آیا، بیوی سے بولا کہ "چراغ جلاؤ” اور روشنی میں مجھے پانی دیکھ کر پلاؤ، بیوی بک جھک کرتی اٹھی، سمجھی کہ شوہر پاگل ہو گیا ہے ۔

آخر یہودی خود اٹھا اور چراغ روشن کیا، چراغ کی روشنی میں اس کی بیوی نے دیکھا کہ اندھیرے میں وہ جو پانی اپنے شوہر کے پینے کے لیے لائی تھی اس میں ایک سیاہ بچھو (عقرب) تیر رہا ہے ، یہودی بھی دیکھ کر حیران رہ گیا، اس پانی میں سیاہ بچھو تیر رہا تھا۔

بیوی کو اس نے تمام ماجرا کہہ سنایا کہ کس طرح اس نے چھپ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنی تھیں کہ "پانی ہمیشہ دیکھ کر پینا چاہیے "۔

صبح کو وہ یہودی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور رات کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا۔ یہودی بولا: "اے اللہ کے رسول! جس مذہب کی احتیاط انسان کی جان بچا لے تو وہ مذہب خود پورے انسان کو دوزخ کی آگ سے کیوں کر نہ بچائے گا”۔ اتنا کہا اور وہ یہودی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔

اللہ اللہ…. میرے بچو! پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تو دیکھو۔

٭٭٭

 

محسن انسانیت

               حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلکش شخصیت کو دیکھنے کا جن خوش قسمت لوگوں کو شرف حاصل ہوا ان کا کہنا ہے کہ مطمئن رہو، میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا جو چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔

خوش میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ایسا چمکتا گویا چاند کا ٹکڑا ہے ، اس چمک کو دیکھ کر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کو پہچان جاتے ۔

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔

جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیقی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کے لیے نکلے اور مدینہ کی طرف سفر کا آغاز کیا تو راستے میں پہلے ہی روز قوم خزاعہ کی ایک نیک عورت کا خیمہ نظر آیا، اس کا نام ام معبد رضی اللہ عنہا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو پیاس لگ رہی تھی، انہوں نے ام معبد رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کچھ کھانے کو ملے گا تو اس نے ایک مریل سی بکری کی طرف اشارہ کیا کہ یہ دودھ نہیں دیتی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو خدا کے فضل سے بکری نے بہت سا دودھ دیا، ان مہمانوں نے دودھ خوب سیر ہو کر پیا اور دودھ بچ بھی گیا۔ مہمان چلے گئے ، کچھ دیر بعد عورت کا شوہر گھر کے اندر آیا اور وہاں دودھ دیکھ کر حیران ہوا، ام معبد رضی اللہ عنہا نے تمام واقعہ بتایا، وہ پوچھنے لگا، اس قریشی نوجوان کا نقشہ تو بیان کرو یہ وہی تو نہیں جس کی تمنا ہے ، اس پر ام معبد رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا جو نقشہ کھینچا وہ یوں ہے ۔ پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، پیٹ ہموار، نہ سر کے بال گرے ہوئے ، زیباا، صاحب جمال صاحب کمال، آنکھیں سیاہ و فراخ، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں بھاری پن، بلند گردن، روشن مردمک، سرمگیں چشم، باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگریالے بال، خاموش وات کے ساتھ، گویا دلبستگی لیے ہوئے ، دور سے دیکھنے میں زیب دہ دلفریب، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین، شیریں کلا، واضح الفاظ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے معرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد کہ کوتاہیِ نظر سے حقیر نظر نہیں آتے ، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی۔

زیب بندہ نہال کی تاریخ مثاخ، زیب بندہ منظر والا قد، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں جب حکم دیتا ہے تو تعمیل کے لیے جھپٹتے ہیں، مخدوم مطاع، نہ کوتاہ سخت نہ فضول گو۔ یہ ام معبد رضی اللہ عنہا کے تاثرات تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو ایسے تھے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔

٭٭٭

 

سیرت النبی

               حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس اطہر

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عام لباس چادر، قمیض اور تہبند تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی کے بازار سے پاجامہ بھی خریدا تھا، خیال کیا جاتا ہے کہ اسے زیب تن فرمایا ہو گا، آپ کو کرتا ایسا پسند تھا کہ جو نہ زیادہ تنگ ہو نہ بہت ڈھیلا، کرتا پہنے ہوئے پہلے سیدھا ہاتھ ڈالتے پھر الٹا۔

سر پر عمامہ باندھنا پسند تھا، سفید اور زردی مائل رنگ اور سیاہ رنگ کا عمامہ استعمال فرمایا، اس کے ساتھ ٹوپی بھی پہنتے تھے ، چادر بھی اوڑھتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یمن کی چادر جس میں سرخ یا سبز دھاریاں ہوتی تھیں، جبرہ کہلاتی تھی بہت پسند تھی، نیا کپڑا خدا کی حمد اور شکر کے ساتھ جمعہ کے روز زیب تن فرماتے ، فاضل جوڑے بنوا کر نہیں رکھتے تھے ، کپڑا پھٹ جاتا تو پیوند لگا لیتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی عطا کردہ نعمت کا اثر اس کے بندے سے ظاہر ہو۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھار اچھا لباس بھی زیب تن کیا، تنگ آستین کا رومی جبہ، سرخ دھاری کا اچھا جوڑا، ریشمی گوٹ والا کسروانی جبہ بھی پہنا۔

کپڑوں کے لیے سفید رنگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا، سفید کے بعد سبز رنگ بھی پسند تھا، شوخ سرخ رنگ بہت پسند تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جوتا، چپل یا کھڑاؤں کی شکل کا ہوتا تھا جس کے دو تسمے تھے ، جرابیں بھی استعمال کرتے تھے ، سب سے چھوٹی انگلی میں چاندی کی انگوٹھی پہنتے تھے ، جس میں چاندی کا نگینہ ہوتا تھا کبھی حبشی پتھر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرکاری کاموں کی غرض سے انگوٹھی بنوائی جس پر اللہ، رسول، محمد اوپر سے نیچے کی ترتیب سے لکھا ہوتا اسے مہر کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔

               حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وضع قطع اور آرائش

حضور صلی اللہ علیہ وسلم بالوں میں تیل کثرت سے ڈالتے ، کنگھا کرتے اور سیدھی مانگ نکالتے ، داڑھی کو ہموار رکھتے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سات چیزیں ہمیشہ ساتھ رہتیں، تیل کی شیشی، کنگا، سرمہ دانی سیاہ، قینچی، مسواک، آئینہ اور لکڑی کی پتلی ڈنڈی۔

سرمہ رات کو سوتے وقت لگاتے ، تین تین سلائیاں دونوں آنکھوں میں لگاتے ، خوشبو بہت مرغوب تھی، مشک اور عود کی خوشبو کے علاوہ ریحان کی خوشبو اور مہندی کے پھول اپنی بھینی بھینی خوشبی کی وجہ سے بہت پسند تھے ۔ ایک عطر دان میں بہترین خوشبو ہمیشہ موجود رہتی، اکثر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگاتیں۔ کوئی شخص خوشبو کا تحفہ دیتا تو ضرور قبول فرماتے ۔

               حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چال

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چال عظمت، وقار، شرافت اور احساس ذمہ داری کی ترجمان تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب چلتے تو پاؤں کو مضبوطی سے جما کر چلتے ، بدن سمٹا ہوا رہتا اور دائیں بائیں دیکھے بغیر چلتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے ہرگز کسی غرور اور نخوت کا اظہار نہ ہوتا۔

               حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا انداز

گفتگو کے وقت چہرے انور پر عموماً مسکراہٹ شامل رہتی، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنجیدگی کی خشونت سے بچاتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکروہ، فحش اور بے حیائی کی باتوں سے سخت نفرت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا ضرورت بات چیت نہ کرتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: میری لسانی تربیت خود اللہ عزوجل نے فرمائی ہے اور میرے ذوق ادب کو خوشتر بنا دیا، نیز میں نے بچپن میں قبیلہ سعد کی فصاحت آموز فضا میں پرورش پائی ہے ۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کلام فصیح کسی اور سے نہیں سنا۔

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اے اللہ کے رسول! کیا بات ہے کہ آپ فصاحت میں ہم سب سے بالاتر ہیں ؟۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری زبان حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زبان ہے جسے میں نے خاص طور پر سیکھا ہے اسے حضرت جبرئیل علیہ السلام مجھ تک لائے اور میرے ذہن نشین کرا دی۔

               پسندیدہ خوراک اور مشروب

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت کا شوربہ بہت پسند تھا، خصوصاً ایک کھانا جیسے ثرید کہا جاتا تھا یہ ایک قسم کا شوربہ ہوتا تھا جس میں روٹی کو چور کر ڈالا جاتا تھا، کھانے کی پسندیدہ چیزوں میں شہد، کھجوریں، سرکہ، خربوزہ، ککڑی، لوکی، زیتون، کھچڑی، دودھ اور مکھن شامل ہیں۔

جو کا ستو اور انجیر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھے ۔

میٹھا پانی، دودھ میں پانی ملا کر لسی تیار کی جاتی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھی، شہد کا شربت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغوب تھا۔

کلونجی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں ہر مرض کا علاج ہے سوائے مرض الموت کے ۔

٭٭٭

 

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا مہربان، بے پناہ شفیق، بے حد مخلص اور مسلمانوں پر تو تھے ہی تھے لیکن کافروں پر بھی بے پناہ رحیم و کریم شخص تھے ۔ یہ تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا باطنی سخن و جمال تھا مگر ظاہری طور پر بھی ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے پناہ حسن والے انسان تھے ۔

اللہ تعالیٰ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی درجے کے حسن و جمال سے نوازا تھا، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے زیادہ حسین و جمیل تھے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص، کوئی ذی روح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حسن و جمال کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جس خوبصورتی اور محبت کے ساتھ بغیر کسی مبالغہ آرائی کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کو بیان کیا ہے وہ رہتی دنیا تک ہماری کتب احادیث میں محفوظ رہے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال اور ان کے حلیہ مبارک کے متعلق چند روایات یہ ہیں۔

حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا کے خیمے پر سے ہجرت کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد ان صحابیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک اس طرح بتایا کہ چمکتا ہوا رنگ، تابناک چہرہ، خوبصورت ساخت جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر، سرمگیں آنکھیں، لمبی پلکیں، باریک اور باہم مل ہوئے ابرو (بھویں )، بھاری آواز، لمبی گردن، سفید و سیاہ آنکھیں، سیاہ سرمگیں پلکیں، چمک دار کالے بال، خاموش ہوں تو با وقار، بات کریں تو پرکشش، دور سے دیکھنے میں سب سے زیادہ تابناک و پر جمال، قریب ہوں تو سب سے زیادہ خوبصورت اور شیریں گفتگو میں چاشنی، بات واضح اور دو ٹوک، نہ مختصر نہ فضول، اندازایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں، درمیانہ قد، نہ ناٹک نگاہ میں نہ جچے نہ لمبا کہ ناگوار لگے ، دو شاخوں کے درمیان اس شاخ کی طرح جو سب سے زیادہ تر و تازہ اور خوش منظر ہو، رفقاء اور ساتھی آپ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے کچھ کہیں تو غور سے سنتے ہیں کوئی حکم دیں تو لپک کر بجا لاتے ہیں، مطاع و مکرم، نہ ترش رو نہ لغو گو۔

ایک حدیث جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر بڑا تھا، جوڑوں کی ہڈیاں بھاری بھاری تھیں، سینے پر بالوں کی لمبی لکیر تھی، جب نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تو قدرے جھک کر چلتے گویا کسی ڈھلوان سے اتر رہے ہوں۔

ایک اور روایتی جو کہ ابو طفیل کی ہے فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم گورے رنگ، پر ملاحت چہرے اور میانہ قدو قامت کے تھے ۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: آپ کا دہانہ کشادہ تھا، آنکھیں ہلکی سرخی لیے ہوئے اور ایڑیاں مبارک باریک تھیں۔

حضرت ابن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھی، رنگ چمک دار، نہ خالص سفید نہ گندم گوں، وفات کے وقت تک سر اور چہرے کے بیس بال بھی سفید نہ ہوئے تھے صرف کنپٹی کے چند بالوں میں سفیدی تھی اور چند بال سر کے سفید تھے ۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیکر مبارک درمیانہ تھا، دونوں کاندھوں کے درمیان دوری تھی، بال دونوں کانوں کی لو تک آتے تھے ، میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ (دھاری دار) جوڑا زیب تن کیے ہوئے دیکھا کبھی کوئی چیز ان سے زیادہ حسین نہ دیکھی۔

اسی طرح ایک اور روایت میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سب سے زیادہ بہتر تھے ان سے دریافت کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تلوار جیسا تھا، انہوں نے کہا: نہیں بلکہ چاند اور سورج جیسا تھا۔

ایک روایت میں ہے کہ گولائی لیے ہوئے تھا۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے ایک مرتبہ چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت سرخ دھاریوں والا جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا، میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں۔

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش ہوتے تھے تو چہرہ مبارک دمک اٹھتا تھا گویا چاند کا ٹکڑا ہے ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہوتے تو چہرہ انور سرخ ہو جاتا گویا دونوں رخساروں میں دانہ انار نچوڑ دیا گیا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حسن و جمال تھا جو چند روایات میں بیان ہوا ہمیں پڑھنے میں اتنا زیادہ حسن و جمال معلوم ہوتا ہے تو اصل میں دیکھنے والوں کی کیا شان ہو گی۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لمس یعنی ان کا چھونا ان کے جسم کی نرمی حریر و ریشم سے بھی زیادہ نرم تھی اور ان کے پسینے کی خوشبو مشک و عنبر کی خوشبو سے بھی زیادہ عمدہ اور بہترین تھی۔

حضرت صحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ لے کر اپنے چہرہ پر رکھا تو وہ مشک سے زیادہ خوشبودار تھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈا تھا۔

یہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیکر مبارک تھا اتنے زیادہ خوبصورت تھے مگر پھر بھی بے انتہا تواضع کرنے والے انسان تھے ، سب سے زیادہ منکسر المزاج، سب سے زیادہ عاجزی بھی ان میں موجود تھی، چال میں بھی انکساری تھی کہ جھک کر چلتے تھے اور پھر بھی غرور و تکبر سے بالکل پاک و صاف اور گناہوں اور خطاؤں سے بالکل معصوم بے انتہا شفیق ذات صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔

اللہ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت و عقیدت رکھنے والا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح معنوں میں پیروی کرنے والا بنائے ۔ آمین

٭٭٭

 

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن

السلام و علیکم پیارے بچو! استانی نے کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہوئے کہا تو وعلیکم السلام بچوں کی ایک ساتھ بلند ہوتی ہوئی آواز سے کلاس گونج اٹھی۔

شاباش، استانی نے بچوں کی اس اچھی عادت پر شاباشی دی۔

آپ میں سے کسی کو معلوم ہے کہ ہمیشہ کلاس میں داخل ہونے سے پہلے میں ہی کیوں سلام کرتی ہوں ؟۔

حالاں کہ میں آپ سے بڑی ہوں پھر بھی سلام میں ہی کرتی ہوں، آپ لوگ سلام نہیں کرتے ۔ سلام تو بچوں کی طرف سے ہونا چاہیے ۔

عمر! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایسا کیوں ؟ استانی نے عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

مس، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ بھی ہے کہ ہر آنے والا سلام کرے اگرچہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ عمر نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔

شاباش عمر بیٹا، شاباش ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے سلام کرنا اور اس کا جواب دینا ہم پر واجب ہے ، اگر ہم سلام کا جواب نہ دیں گے تو ہم کو گناہ ملے گا۔

استانی نے بچوں کو سلام اور اس کے جواب کی مزید اہمیت دلاتے ہوئے کہا۔

چلو شاباش، اب کتابیں نکالو، ہم اپنا اگلا سبق پڑھتے ہیں، استانی نے کہا۔

نہیں، سب بچوں نے با آواز بلند یہ جملہ دہرایا۔

کیوں، استانی نے غصیلے انداز میں پوچھا۔

مس، آپ آج ہمیں ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے بارے میں کچھ بتائیں، ان کی سچائی، ان کی امانت داری کے کچھ واقعات سنائیں۔ عبداللہ نے کہا۔

تمام بچوں نے عبداللہ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے ٹیچر کو اس موضوع پر گفتگو کرنے کو کہا۔

ٹھیک ہے بچو، آپ لوگوں کا اتنا اصرار ہے تو میں ضرور نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کی کچھ جھلکیوں پر گفتگو کرنا پسند کروں گی لیکن۔

لیکن کیا مس، تمام بچوں نے پھر سے بلند آواز میں کہا۔

لیکن یہ کہ صرف میں نہیں بلکہ آپ لوگ بھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے واقعات سنائیں گے ۔ ٹھیک ہے ناں۔ استانی نے بچوں کی دلچسپی بڑھاتے ہوئے کہا۔

تمام بچوں نے مس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

تو سنو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن انتہائی دلکش، بہت مثالی کردار اور سب سے الگ ہے ۔

آپ کو پتا ہے کہ انسان جب بچہ ہوتا ہے تو وہ بالکل ہی تربیت یافتہ نہیں ہوتا، اس کا ذہن کچا ہوتا ہے جو کچھ اس کے ذہن میں ڈالا جائے وہ اسی کے مطابق عمل کرنے لگ جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جو والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہیں کرتے ان کو غلط صحبت میں چھوڑ دیتے ہیں تو بچے بالکل بگڑ جاتے ہیں، جھوٹ، چوری، ضد اور دیگر غلط حرکتوں کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں۔

لیکن ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن ان سب سے بالکل الگ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہونے سے پہلے ہی والد محترم کی تربیت و محبت سے محروم ہو گئے تھے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھ سال کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ بھی انتقال فرما گئیں، آٹھ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے ۔

سوچو اتنی چھوٹی سی عمر میں والدین اور داد کا سایہ سر سے اٹھ جانا اور اس لاڈ پیار کی عمر میں تن تنہا ہو جانا، تربیت و محبت سے دور ہو جانا، کتنی مشکلات والی باتیں ہیں، ایک ساتھ غم پر غم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو زخم سے بھر چکے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اکثر نم ہو جایا کرتیں، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے زیر تربیت ہو گئے ، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی اچھی تربیت کی، مالی حالات نا مناسب ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں کمی نہ آنے دی۔

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے انتہائی خوش مزاج اور من کے سچے تھے ، بچپن ہی سے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرافت، صداقت، دیانت اور امانت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، یہی وجہ تھی کہ جوانی میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کا لقب مل گیا، ہر شخص صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شرافت سے بے حد متاثر ہوا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی جھوٹ کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

مس، اگر میں بھی سچ بولوں، والدین کا کہنا مانوں، ان سے ضد نہ کروں تو کیا میں بھی لوگوں کا پسندیدہ بن جاؤں گا۔ کیا سب مجھ سے بھی محبت کرنے لگیں گے ۔

کلاس کے کونے سے آواز آئی اور سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔

جی ہاں میرے بیٹے ، اگر آپ بھی سچ بولو گے ، والدین سے ضد نہ کرو گے ، سب کا کہنا مانو گے تو ضرور سب آپ کو پسند کریں گے ۔ سب آپ سے محبت کریں گے ، ہر کوئی آپ کی تعریف کرے گا۔

ہاں تو بیٹا خبیب، آپ کچھ بتائیں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں، استانی نے عارف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

مس، مجھے میری امی جان نے بتایا تھا کہ پہلے عرب میں بہترین تربیت کے لیے بچوں کو دیہاتی علاقوں میں بھیجا جاتا تھا، وہاں بچے ایک اچھے ماحول میں رہ کر تربیت یافتہ شخصیت بن جاتے تھے ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حلیمہ سعدیہ کے زیر تربیت رہے ، بی بی حلیمہ انتہائی غریب تھیں، ان کے پاس ایک بکری تھی وہ بھی کمزور، انتہائی غربت کی حالت میں بھی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گود لے لیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں آن پڑیں، وقتاً فوقتاً ان کی تمام تر مشکلات دور ہو گئیں، ان کی غریبی خوشحالی میں بدل گئی اور بہترین گزر بسر ہونے لگی۔ خبیب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور پیدائش پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مختصر واقعہ سنایا۔

دیکھا بچو آپ نے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے کتنی رحمتوں اور برکتوں والے تھے کہ کئی سالوں سے تنگ حال خاندان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے خوشحال بن گیا۔

پھر استانی نے تمام بچوں کے چہروں کی طرف نظر دوڑاتے ہوئے زاہد کو مخاطب کیا۔ بیٹا زاہد، آپ بھی کچھ سنانا پسند کریں گے ۔

زاہد اپنی باری آنے پر بہت خوش ہو گیا کیوں کہ وہ اسی لمحہ کا انتظار کر رہا تھا کہ مس بولیں اور وہ ایک واقعہ سنا دے۔

مس، میں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب میں پڑھا تھا کہ ایک دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رضاعی بھائی عبداللہ کے ساتھ بکریاں چرانے کے لے گئے ، جب ان کے بھائی چلتے چلتے آگے بڑھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تو اچانک سفید کپڑے پہنے ہوئے دو آدمی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لٹا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ چاک کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ سے خون کا ایک ٹکڑا نکالا اور اسے آب زم زم سے دھو کر دوبارہ اسی جگہ پر لگا دیا۔

عبداللہ نے بھی دور کھڑے یہ واقعہ دیکھ لیا اور دوڑ کر گھر کی طرف پلٹے اور سارا واقعہ حلیمہ سعدیہ سے بیان کیا، آپ گھبراہٹ میں بھاگی بھاگی آئیں اور چھوٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح اور تندرست پا کر فوراً گلے لگا لیا۔

زاہد کے چپ ہوتے ہی عبید بول پڑا۔ مس میری دادی نے مجھے بتایا تھا کہ مکہ کے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی بڑی جنگیں لڑا کرتے تھے ۔ اسی بات سے جڑا ہوا انہوں نے مجھے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں شدید بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے مکہ میں سیلاب آ گیا اور کافی تباہی کا سامنا مکہ والوں کو پیش آیا، اس موقع پر خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر بھی ہوئی لیکن جب حجر اسود کو نصب کرنے کا معاملہ آیا تو مکہ کے لوگوں میں جنگ چھڑ گئی، ہر قبیلہ یہ اعزاز حاصل کرنا چاہ رہا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت دیانتداری اور ہوشیاری سے اس بڑے جھگڑے کو ختم کر دیا اور بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے حجر اسود نصب کر دیا گیا۔

شاباش، مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ بچے شوق سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کروں گی کہ اللہ ہمیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

چلو بچو! اب چھٹی کا وقت ہو گیا ہے سب اپنے اپنے بستے تیار کر لو اور اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑو۔

اور ہاں ! سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا مت بھولنا۔

٭٭٭

 

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم

دادی جان، ہمیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مزید کچھ باتیں بتائیں۔

عائشہ، عمیر اور زبیر نے یک زبان ہو کر کہا۔

بچو، بتاتی ہوں، لیکن کل جو باتیں میں نے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ کو بتائی تھیں، کیا وہ آپ تینوں کو یاد ہیں۔

جی دادی جان، یاد ہیں۔

عائشہ، آپ بتاؤ کہ ظہور اسلام سے پہلے عربوں کی کیا حالت تھی۔

دادی جان، ظہور اسلام سے پہلے عرب میں لوگ بہت سی برائیوں میں مبتلا تھے ، بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے ، ان میں معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا ہو جاتا جو بڑھتے بڑھتے قبائلی دشمنی کی صورت اختیار کر لیتا اور عرصہ تک جاری رہتا، شراب پینا، جوا کھیلنا اور ناچنا گانا ان میں عام تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں آخری نبی بنا کر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو نازل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عرب کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے ایک اللہ کی عبادت کرنے کو کہا اور دین اسلام کی دعوت دی۔

زبیر، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کب اور کہاں پیدا ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا کیا نام تھا۔

دادی جان، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول کو صبح صادق کے وقت عرب کے شہر مکہ کے قبیلہ بنو قریش میں پیدا ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا۔

عمیر، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے ۔

دادی جان، بچوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت محبت کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے قریب سے گزرتے تو کمال شفقت سے ان کو سلام کرنے میں پہل کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ، وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بچوں پر رحم نہ کرے ۔

ماشاءاللہ آپ تینوں کو کل والی تمام باتیں یاد ہیں، اب میں آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مزید باتیں بتاتی ہوں، غور سے سنو گے اور اس پر عمل بھی کرو گے ، وعدہ۔

جی دادی جان، وعدہ! تمام بچوں نے مل کر کہا۔ تو سنو۔ اللہ تعالیٰ نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حسن و جمال دیا تھا، اس کے متعلق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا، آپ کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا گویا سورج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس میں رواں دواں ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سفید روشن تھا، پسینے کی بوند آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ایسی نظر آتی تھی جیسے موتی۔

کفار مکہ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے ، پھر بھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جھوٹ نہ بولا اور سچ بولنے کی تاکید فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سچائی نجات دلاتی ہے اور جھوٹ ہلاکت میں ڈالتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹ سے سخت نفرت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن سے ہی جھوٹ بولنے والوں سے ملنا جلنا پسند نہ فرماتے تھے ۔ پیارے بچو، گالی دینا بھی بہت بری عادت ہے ، اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر و شکر کی حالت یہ تھی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بقول بعض دفعہ ایک ہفتے تک گھر میں چولہا نہ جلتا تھا صرف کھجور اور پانی پر گزارا ہوتا تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر بھی صبر کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا خوش اخلاق تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کے بھی بہت سے واقعات ہیں۔

غرض کہ اللہ تعالیٰ نے وہ تمام خوبیاں اور اچھائیاں جو پہلے انبیاء علیہم السلام میں تھیں وہ خوبیاں اور اچھائیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع کر دی تھیں۔

پیارے بچو، ہمیں چاہیے کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر چلیں، جس کام کو کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے خود بھی اس کام سے بچیں اور دوسروں کو بھی اس کام سے بچنے کی تلقین کریں، اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

٭٭٭

 

چڑیا بی کے بچے

               فصیح اللہ حسینی

گھنے جنگل کے پار افق پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سو اجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگاہوں میں میٹھی اور معصوم سی انگڑائی لے کر بیدار ہو چکے تھے ، وہ سب اپنی سریلی اور خوب صورت آواز میں خدائے واحد کی حمد و ثناء میں مصروف تھے ۔

درختوں پر بسیرا کیے پرندے بھی اپنے اپنے بچوں کو بیدار کر کے گزشتہ رات کے جمع کیے دانوں سے ان کو ناشتہ کرارہے تھے ، ننھے ننھے پرندوں کے بابا جان آج کے دن کے لیے راشن تلاش کرنے نکل پڑے تھے ۔ جب کہ ماما جان اپنے اپنے گھونسلوں کی صفائی ستھرائی کر رہی تھیں، انہی درختوں میں سے ایک درخت پر چڑیا بی اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں، بچوں کے ابا یعنی چڑے میاں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دانہ کی تلاش میں نکل پڑے تھے ، معمول کے مطابق چڑیا بی نے اپنے بچوں کو نہلایا دھلایا اور دیگر کام کاج سے فارغ ہو کر اب وہ پڑوس کے درخت پر بی فاختہ کے بچوں کی طبیعت دریافت کرنے گئی ہوئی تھیں۔ بی فاختہ کے بچے کئی روز سے سرد موسم کے باعث بیمار ہو گئے تھے ۔

جاتے جاتے چڑیا بی اپنے بچوں کو کہہ کر گئی تھیں کہ دیکھو شرارتیں نہ کرنا ورنہ شیطان کے چیلے کوے آ کر تمہیں کچا کھا جائیں گے ، ادھر چڑیا بی کے جاتے ہی بچوں پر کووں کا خوف طاری تھا مگر یہ ڈر ان کی شرارتی اور بے چین طبیعت پر زیادہ دیر حاوی نہ رہ سکا اور دونوں بچوں نے کھیل کود شروع کر دیا۔ کھیل یہ تھا کہ دونوں بچے بیک وقت اپنے گھونسلے سے اڑان بھرتے اور زمین پر آ کر ایک تنکا اٹھا کر واپس گھونسلے میں لے جاتے ۔ جو پہلے واپس آتا وہ جیت جاتا

دو دفعہ تنکے اٹھا کر لانے کے بعد تیسری دفعہ آخری بار مقابلہ کے لیے دونوں نے اپنے پر تولے اور زمین پر آنے لگے ، ابھی وہ زمین سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ یکایک کسی چیز نے انہیں آ گھیرا اور وہ دونوں ایک مضبوط شکنجے میں پھنس گئے ، ننھے ننھے بچوں کے جب حواس بحال ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ دونوں کسی انسانی قافلے کے ہاتھوں جکڑ لیے گئے ہیں، جب انہوں نے سوچا کہ یہ شکاری ہمیں پکڑ کر لے جائیں گے ، بس یہ جاننا تھا کہ دونوں اپنے بچاؤ کے لیے چیخ و پکار شروع کر دی۔

ادھر چڑیا بی کو جب کسی کی چیخ و پکار سنائی دی تو وہ پریشان ہو گئیں کہ اللہ خیر کرے کہیں یہ میرے بچے تو نہیں رو رہے ، جب چڑیا بی نے اپنے درخت کے قریب آ کر یہ منظر دیکھا کہ ان کے دونوں ننھے ننھے معصوم سے روئی کے گالے بچے انسانی شکار بننے جا رہے ہیں تو ان سے رہا نہ گیا، حلیہ سے یہ انسان تو بہت اچھے معلوم ہوتے تھے مگر چڑیا بی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر انہوں نے ان کے بچوں کو کیوں پکڑ لیا ہے ، اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہ ان چند آدمیوں کے گرد اپنے پر پھیلا کر ان کے سروں پر منڈلانے لگیں اور ساتھ ساستھ اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو ان نیک بختوں سے نجات دلا دے ، یہ تو بے قصور ہیں، ابھی چڑیا بی اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ ہی رہی تھیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک اور شخص اس انسانی قافلہ کے ساتھ آملے ۔ یہ شخص ان سب میں بہت با اخلاق، شریف اور بھلے معلوم ہوتے تھے اور اس پورے گروہ کے سردار بھی شاید یہی تھے ۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ چڑیا بی کے دو ننھے ننھے معصوم بچے ان کے ساتھیوں کے قبضے میں ہیں اور ان بچوں کی ماں پریشان ان کے گرد منڈلا رہی ہے تو وہ فکر مند ہو گئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کس نے ان معصوم بچوں کو پکڑ کر بے زبان چڑیا کو تکلیف پہنچائی ہے ، قافلہ کے لوگوں نے اپنے سردار کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ جب آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے تو ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، جب سے یہ چڑیا اپنے بچوں کے پیچھے ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے ۔

اس قافلہ کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ فوراً ان معصوم بچوں کو چھوڑ دیا جائے ، چنانچہ ساتھیوں نے فوراً حکم کی تعلیم کی اور یوں چڑیا بی نے ان کے سردار کو تشکر آمیز نظروں سے دیکھا اور خوشی خوش اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھونسلے کی جانب اڑ گئیں۔

پیارے بچو! کیا آپ جانتے ہیں یہ نیک لوگ کون تھے ، یہ نیک لوگ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے اور اس قافلہ کے سردار خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو کہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے ۔

٭٭٭

 

کارنامے بہادری کے

شوال تین ہجری ہے ، میدان جنگ گرم ہے ، مجاہدین اور کفار کی فوج نے اپنے گھوڑوں کے قدموں اور اپنے قدموں سے میدان جنگ میں دھول اور گرد کا طوفان پیدا کیا ہوا ہے اور اس گرد کے طوفان میں نظر آ رہا ہے کہ میدان کے پیچھے احد کا پہاڑ اپنی شان و شوکت سے کھڑا ہے اور اس کے دامن میں مجاہدین و کفار ایک دوسرے پر حملے پر حملے کر رہے ہیں۔ تلواروں سے ، تیروں سے ، نیزوں سے اور پتھروں سے …. ایک طرف مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو ہے تو دوسرے طرف کفار کا لشکر تین ہار لوگوں پر مشتمل ہے ، جو ہر طرح کے اسلحوں، گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ مقابلے کے لیے آئے تھے ، جنگ کی اس گرمی میں جہاں حق و باطل ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے ہیں وہیں چند مسلمان سپاہیوں کی مرہم پٹی اور پانی پلانے کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ مسلمانوں نے اس بہادری سے مقابلہ کیا کہ جنگ کی ابتداء ہی میں کفار کے سات بہادر جنگجو مارے گئے اور ایک یقینی فتح مسلمانوں کو نظر آنے لگی اور ایسے میں کفار میدان جنگ سے بھاگنے لگے ، ان کے پیچھے ان کی خواتین جو کچھ دیر پہلے دف بجا بجا کر کفار کو مقابلے کے لیے ابھار رہی تھیں دف پھینک کر بھاگ رہی تھیں۔ مسلمانوں نے میدان میں موجود بقیہ کفار کو قیدی بنانا اور مال غنیمت جمع کرنا شروع کیا۔ ایسے میں ایک پہاڑی درہ جہاں سے کفار کے حملے کا خطرہ تھا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کو حفاظت کے لیے اس تاکید کے ساتھ مقرر کیا کہ جنگ کے حالات کچھ بھی ہوں جب تک انہیں مدد کے لیے یا مال غنیمت کے لیے بلایا نہ جائے وہ ہر گز اپنی جگہ سے نہ ہلیں۔ مگر ان تیر اندازوں نے جب میدان میں مسلمانوں کو مال غنیمت سمیٹتے دیکھا تو وہ بھی میدان کی طرف بھاگے اور اپنے کمانڈر کی بات کو بھول بیٹھے ، اب اس پہاڑی درے پر کمانڈر سمیت صرف دس تیر انداز رہ گئے ۔ کفار کا ایک دستہ جو بار بار درے کی طرف حملے کر رہا تھا اب جگہ خالی دیکھ کر درے کی طرف لپکا اور باآسانی اس دس لوگوں سے مقابلہ کرتے ہوئے میدان جنگ میں مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کیا۔ اس اچانک حملے سے مسلمان بدحواس ہو کر ادھر ادھر بکھرنے لگے ، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز سنائی نہیں دی اور کفار نے شور مچا دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے ۔ اب مسلمانوں کے حوصلے اور بھی کم ہو گئے مگر چند اصحاب ایسے بھی تھے جو اب بھی بھرپور لڑائی کر رہے تھے ، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ بے تاب ہو کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے لگے اور بالآخر خود جنگی ٹوپی کے اندر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پر نور آنکھوں سے پہچان لیا اور یہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لپکے اور کفار کی طرف سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے والے تیروں اور تلواروں کے وار کو اپنے جسم پر روکنے لگے ۔ ایسے میں پانی پلانے والی عورتوں میں سے ایک عورت نے یہ منظر دیکھا تو اپنا مشکیزہ پھینک کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑیں جہاں ان خاتون کا بیٹا پہلے ہی سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں مصروف تھا۔ خاتون نے بھاگتے ہوئے ایک مشرک کی تلوار اور ڈھال جو وہ پھینک کر بھاگ رہا تھا اپنے ساتھ لے لیا اور کفار کے حملے روکنے کی کوشش کی۔ یہ خاتون ایک طرف تلوار سے بھی دشمنوں کے قریب آنے سے روکتیں تو دوسرے طرف تیر سے بھی حملے کرتیں۔ اسی دوران خاتون کے بازو پر ایک مشرک کی تلوار سے گہرا زخم لگا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو یہ تمام کارنامہ اپنی نظر سے دیکھ رہے تھے ۔ فوراً ان کے بیٹے کو حکم دیا کہ اپنی ماں کو سنبھالو اور ان کی مرہم پٹی کرو۔ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے خاندان والو اللہ تم پر رحمت کرے ، اے خاندان والوں اللہ تم پر رحم کرے ۔ اور خود اپنی نگرانی میں ان کی مرہم پٹی کروائی اور ان خاتون کو کہا کہ آج تم نے بہت بہادری دکھائی جس پر خاتون نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان میرے لیے دعا فرمائیے کہ جنت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرائی۔ دعا سن کر خاتون کو بے حد خوشی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اب مجھے دنیا میں کسی مصیبت کی پروا نہیں۔ یہ بہادر خاتون جنہوں نے اپنی جان سے بڑھ کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے نازک وقت میں حفاظت کی اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بہادری کی تعریف کی۔ حضرت ام عمارہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کا نام نسیبہ بنت کعب تھا لیکن اپنی کنیت ام عمارہ ہی سے مشہور ہوئیں اور احد کے دن بہادری کے کارنامہ کے بعد لوگ انہیں خاتون احد کے نام سے یاد کرنے لگے ۔

٭٭٭

 

جنگی چال

میں سو سے زیادہ جنگوں میں شریک ہوا، میرے جسم میں ایک بالشت برابر بھی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں تیر، تلوار یا نیزے کا زخم نہ ہو، اس کے باوجود میں اپنے بستر پر مر رہا ہوں، بزدلوں کی آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوں اور میرے لیے لا الہ الا اللہ سے زیادہ کوئی عمل بھی امید افزا نہیں، میں اسی کو ڈھال بنائے ہوئے ہوں۔

یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو مرنے سے پہلے ایک ایسے بہادر سپاہی کی زبان سے ادا ہوئے جس کی ساری زندگی اسلام کی خاطر جہاد کرتے ہوئے بسر ہوئی جنہوں نے جنگ موتہ میں مسلمانوں کی فتح میں اہم کردار ادا کیا جس میں ان کے ہاتھوں سے نو تلواریں ٹوٹیں، جنہوں نے مسلمہ کذاب کا خاتمہ کیا جنہوں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عزی نامی بت کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور یہی وہ صاحب ہیں جنہیں سریہ موتہ کے موقع پر سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا لقب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا، یہ مبارک ذکر ابو سلیمان حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت بہادری اور جرات سے نوازا تھا۔

اپنے قبول اسلام کا واقعہ خود حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہم جمع ہو کر مدینہ پہنچے ، یہ ہجرت کا آٹھواں سال اور صفر کی یکم تاریخ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری آمد کی اطلاع ہو چکی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش تھے ، میں نے عمدہ کپڑے پہنے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا، راستے میں میرا بھائی ملا اور کہنے لگا جلدی کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے آنے کی اطلاع ہو چکی ہے اور وہ تمہارا انتظار کر رہے ہیں، میں تیزی سے چلا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت محبت سے جواب دیا، پھر میں نے کلمہ پڑھا، پھر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ جس نے تمہیں ہدایت دی۔ مجھے تمہاری عقل کے متعلق یہی خیال تھا کہ وہ خیر کی طرف تمہاری رہنمائی کرے گی۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو معلوم ہے کہ میں جنگوں میں حق سے منہ موڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرتا رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے معاف فرمائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسلام پہلے کی تمام غلطیوں کو معاف فرمادیتا ہے لیکن حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے ان کے لیے دعا فرمائی۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے والدین کا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا تھا، والد کا تعلق قبیلہ بنو مخزوم سے تھا، اسی قبیلہ کے پاس زمانہ جاہلیت میں جنگی سامان اور جنگی گھوڑوں کی حفاظت و دیکھ بھال کی ذمہ داری تھی، اسی وجہ سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جاہلیت اور اسلام دونوں ادوار میں اہم جنگوں میں شریک رہے اور جنگی لشکروں کی کامیاب قیادت بھی کرتے رہے ۔

آپ رضی اللہ عنہ کا حلیہ مبارک سیرت کی کتابوں میں جو بتایا گیا ہے اس کے مطابق حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ لمبے قد، بھاری جسم، چوڑے اور کشادہ سینہ کے مالک تھے اور لوگوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے ، گویا ایک طرف تو بچپن ہی سے جنگی طور طریقوں سے واقفیت تھی تو دوسری طرف ایک مضبوط جسم کے مالک بھی، مگر ایک اور چیز جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام میں نمایاں کرتی ہے وہ ان کی بہادری اور شجاعت ہے ، حضرت قیس رضی اللہ عنہ بن حازم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جہاد نے مجھے کثرت قرات قرآن سے باز رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی بہادری کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان کے پاس ایک زہر لایا گیا، پوچھا یہ کیا ہے ۔ لوگوں نے بتایا زہر ہے ۔ بسم اللہ پڑھ کر اسے پی گئے جسے کسی نے اپنے اشعار میں اس طرح بیان کیا ہے کہ:

بن ولید سم قاتل کو اس طرح پی گئے جس طرح پیاسا انسان ٹھنڈے خوشگوار پانی کو منہ سے لگا کر پیتا ہے ۔

جس طرح جنگی معرکوں میں بہادری سے لڑنا اچھا سمجھا جاتا ہے اسی طرح دشمن کو شک و شبہات میں ڈالنا بھی ایک کامیاب جنگی چال سمجھی جاتی ہے ، جیسا کہ سریہ موتہ میں پیش آیا، اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر بنایا اور فرمایا اگر زید رضی اللہ عنہ شہید ہو جائیں تو جعفر رضی اللہ عنہ امیر ہوں گے اگر جعفر رضی اللہ عنہ شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ امیر لشکر ہوں گے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک سفید جھنڈا بنا کر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو دیا۔ موتہ کے مقام پر دونوں لشکروں کا آپس میں ٹکراؤ ہوا اور زبردست مقابلہ ہوا، مسلمانوں کی تعداد تین ہزار تھی اور ان کے مقابلے میں کفار کی تعداد دو لاکھ تھی لیکن مسلمان کبھی زیادہ تعداد میں ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ایمان کی طاقت پر فتح مند ہوئے ۔

مقابلہ میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے پھر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے ، انہوں نے جھنڈا لیا تو وہ بھی شہید ہو گئے ، جب عبداللہ بن رواحی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے تو مسلمان پریشان ہو گئے اور پیچھے ہٹنے لگے ، ایسے میں حضرت ثابت بن اقرم نے آگے بڑھ کر جھنڈا اٹھایا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تھما دیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا لیا اور حملہ آور ہوئے اور ثابت قدمی سے مقابلہ کیا، مشرکین کی ایک بڑی تعداد کو حضرت خالد بن ولید اور ان کے ساتھیوں نے ختم کر ڈالا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے اس دن نو تلواریں ٹوٹیں۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنگی مہارت کو کام میں لا کر لشکر اسلام کو علیحدہ کر کے آنے والی شکست سے بچالیا، ہوا کچھ یوں کہ رات ہو چکی تھی، اس فرصت میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لشکر کی ترتیب بدل دی۔ جب صبح ہوئی دشمن نے مسلمانوں کی ترتیب بدلی ہوئی دیکھی اور شور اور ہتھیاروں کی جھنکار سنی تو سمجھے کہ مدد آ گئی، مشرکین خوفزدہ ہو کر بھاگنے لگے ، مشرکین کے بھاگنے کے دوران بھی مسلمان ان سے لڑتے رہے ، اس طرح مشرکین بڑی تعداد میں مارے گئے اور باقی نے میدان جنگ سے بھاگ کر اپنی جان بچائی، جنگ ختم ہوئی، جنگ کے اس دانشمندانہ طریقے پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی بہادری کا اظہار بھی فرمایا اور حوصلہ افزائی بھی کی۔ اسی طرح فتح مکہ میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ شریک رہے اور میمنہ (دائیں بازو کی فوج) کے قائد تھے ، اس موقع پر انہوں نے بعض مشرکین سے لڑائی بھی کی جو اسلامی لشکر کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنا چاہتے تھے ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہمیشہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے غزوہ حنین میں شرکت کی، پھر ہجرت کے نویں سال پانچ رجب کو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے گئے اس کے بعد غزوہ طائف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے ۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی اور جہاد جاری رہا، اس دور میں ایک شخص مسلمہ بن کذاب نے نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم پر یمامہ کی جانب بڑھے جہاں مسلمہ کذاب رہتا تھا۔ دونوں گروہوں میں مقابلہ ہوا، پہلے تو مسلمانوں کو شکست ہوئی مگر مسلمانوں نے پھر بھرپور حملہ کیا اور مقابلہ کرتے ہوئے اس باغ میں داخل ہوئے جس میں مسلمہ کذاب اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور سب کو جہنم رسید کیا۔ اسی طرح بے شمار فتوحات اور جہادی تحریکوں میں مصروف رہے ، آپ کے ہاتھوں تیس سے زائد شہر فتح ہوئے ۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی، جب پیاری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کے موقع پر اپنے سر کے بال اتروائے اور لوگ بال لینے کے لیے جھپٹ پڑے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کے بال لیے اور انہیں اپنی ٹوپی میں سی لیا، جنگ یرموک میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی یہ ٹوپی گم ہو گئی مگر تلاش کرنے پر مل گئی، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس جنگ میں میرے پاس یہ ٹوپی ہوتی ہے اللہ اس میں مجھے فتح عطا فرماتے ہیں، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی آپ کی قدر دانی فرماتے تھے اور لوگوں کو بھی ان کا لحاظ رکھنے کی ہدایت کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا۔ خالد کو تم لوگ کسی قسم کی تکلیف نہ دو کیوں کہ وہ خدا کی تلوار ہے جس کو اس نے کفار پر کھینچا ہے ۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ایک سو اٹھارہ احادیث مروی ہیں چوں کہ شروع ہی سے بطور سپاہی زندگی بسر کی اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے پاس جنگی ساز و سامان بہت تھا جسے اسلام لانے کے بعد راہ خدا میں وقف کر دیا تھا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی وفات اکیس ہجری حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ہوئی۔ ساٹھ سال زندہ رہے سواسو جنگوں میں شرکت کی اور بہادروں کی ایک بڑی جماعت کو قتل کیا، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو اپنا گھوڑا، اسلحہ اور غلام بھی اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابو سلیمان پر اللہ اپنا رحم فرمائے ۔ وہ بالکل ہمارے گمان کے مطابق تھے ۔

٭٭٭

 

 

آخری قیمت

آج میں ابو بکر رضی اللہ عنہ سے وہ کھیل کھیلوں گا جو کسی کے ساتھ نہ کھیلا ہو گا۔ امیہ بن خلف نے ایک وحشیانہ قہقہہ کی گرج کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے کہا۔

وہی امیہ جس کے غلام حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ تھے جس نے شروع میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے دعویٰ ایمان کو ریت کا محل اور بچوں کا کھیل سمجھ رکھا تھا، جس نے ایک غلام کے نغمہ توحید کو کچلنے کے لیے بدترین ظلم و ستم کیے ۔

اسے جانتے ہو، امیہ بن خلف کی دونوں آنکھوں میں وحشت و عیاری کی چمک کوندنے لگی۔

تم جانتے ہو بلال رضی اللہ عنہ میرا غلام ہے اور غلام کی حیثیت ہوتی ہی کیا ہے پھر جب وہ احد، احد کی رٹ لگانا شروع کر دے تو میرے لیے تو سیاہ گوشت کا نفرت انگیز ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے ۔

میں نے کہا تھا میری پہلی ہی جھڑکی میں اس کے نئے دین کا بھوت اتر جائے گا مگر نہیں اترا پھر میں نے کون سا ظلم اس پر نہیں کیا۔ آتشیں رت پر تنور میں ڈال کر اس کے دین کا بھوت بھسم کر دینا چاہا، پھر اس کے سینے پر بھاری پتھر رکھ کر دیکھا مگر وہ اپنے مذہب سے ہٹ نہ سکا۔

اف محمد کا یہ جادو، اسے اتارنا میرے بس کی بات نہیں۔

مگر تم تو ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کھیل کھیلنے کی بات کر رہے ہو، لوگوں نے چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

ہاں، امیہ بن خلف غرایا، ہاں یہ کھیل ہے جو تم دیکھ لو گے ، کیا یہ بات دلچسپ نہیں کہ ابو بکررضی اللہ عنہ کو اس سیاہ فام سے محبت ہو رہی ہے ، امیہ بن خلف کا ایک اور وحشت ناک قہقہ بلند ہوا۔

وہ کہتا ہے کہ یہ وحشی غلام میرا بھائی ہے ، وہ میرے ظلم و ستم سے آزاد کرانے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے پر تیار ہے ۔

تو اس میں کھیل کی کیا بات ہے ، لوگوں نے پھر چھیڑا۔

کھیل، امیہ بن خلف غصے سے بولا۔

سیاہ فام کا مول تول کیا کوئی کھیل نہیں، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ بے کار چیز کی کتنی بڑی قیمت چکانے کی ہمت رکھتے ہیں، میں اس غلام کی قیمت اتنی بتاؤں گا کہ بہ بھاگ جانے پر مجبور ہو جائیں گے یا پھر اس بے کار چیز کے بدلے مجھے وہ چمکتی دمکتی چیز ہاتھ آئے گی۔

سونا، سونا۔

کیا عجیب کھیل ہے جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہار یقینی اور میری جیت…. ہاہاہاہاہاہا۔ لوگ کھکھلا کر ہنس پڑے ۔

اچھا تو یہ بات ہے ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی سخت جانی کے بعد اب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ہمدردی کو آزماؤ گے ۔

ہاہاہا…. ہاہاہاہا….، امیہ بن خلف کا قہقہہ کسی بد روح کی بے ہنگم چیخ و پکار کے انداز میں گرجتا رہا۔ گرم گرم ریت پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھونا جا رہا تھا۔ پتھروں کے اوپر گھسیٹا جا رہا تھا، کوڑے پڑ رہے تھے ۔

احد…. احد، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی کراہ تھی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ آواز سنی تو تیزی سے جھپٹے ، جیسے بلال رضی اللہ عنہ کی مظلومیت کی تمام ٹیسیں …. تمام درد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے قلب میں اتر آیا ہو، وہ سچ مچ تڑپ اٹھے ۔

اس غریب کے سلسلے میں تجھے خدا کا ڈر نہیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ کی حالت زار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

اس تمام دکھ کی ذمہ داری تم لوگوں پر ہے ۔ امیہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا۔ تم نے ہی اس کو بگاڑا اور پھر اس حالت زار تک پہنچنے پر مجبور کیا ہے ۔ بتاؤ اسے خریدتے ہو، بولو۔

ہاں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ ہاں ہر قیمت پر تیار ہوں۔

کیا قیمت دو گے ، امیہ نے عجیب نظروں سے دیکھا۔

قسطاس، ابو بکررضی اللہ عنہ نے چھوٹتے ہی اپنے غلام کا نام پیش کیا۔ میرے  مضبوط و قوی غلام قسطاس کے بدلے جس کے کفر سے میں بیزار ہوں اور تم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ایمان سے بیزار ہو۔ مجھے بلال رضی اللہ عنہ سے محبت ہے تمہیں قسطاس سے محبت ہونی چاہیے ۔

ایک غلام سے محبت کرنے کی بات سنتے ہی امیہ بن خلف نے منہ بنایا، کچھ سوچا اور فوراً بولا۔

منظور ہے ، لیکن فوراً ہی قہقہہ مارا۔

نہیں۔

وہ ہنستے ہوئے بولا، اس کی آنکھوں میں شیطانیت کوند رہی تھی۔

قسطاس ہی نہیں اس کی بیوی بھی دینا ہو گی۔

مجھے منظور ہے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا۔

اس نے قہقہہ مارتے ہوئے ساری گفتگو پر پانی پھیرتے ہوئے کہا۔

قسطاس اور اس کی بیوی کے ساتھ اس کی بیٹی بھی لوں گا۔

اوہ…. بیٹی۔

ہاں …. اس کی بیٹی۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر کہا۔ چلو دی۔

لیکن اس بار بھی امیہ بن خلف کا ہولناک قہقہہ بلند ہوا۔

میں خدا کی قسم، قسطاس، اس کی بیوی، اس کی بیٹی کے ساتھ دو سو دینار بھی لوں گا۔ بولو…. بولو بلال رضی اللہ عنہ خریدتے ہو۔

شرم کر شرم۔ بار بار زبان بدلنے کی شرارت سے بیزار آ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ کیا جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہیں آتی۔

لات و عزیٰ کی قسم، امیہ نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ آخری قیمت پھر بات طے شدہ سمجھو۔

چل او کافر مجھے یہ بھی منظور ہے ۔ مسلمان بھائی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی غمخواری سے سرشار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سینہ تان کر کہا۔

سودا ختم ایک عظیم آزمائش میں دونوں مومن کھرے اترے تھے ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی جان اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال پر سے طوفانی آزمائش پوری طرح سے گزری اور دونوں فاتحانہ نکلے ، فقط اس لیے کہ اللہ دونوں کو ان کے مال و جان سے پیارا تھا۔

٭٭٭

 

سونے کا تاج

معاذ جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بھی زیادہ ہو گی اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو پس کیا گمان ہے تمہارا اس شخص کے متعلق جو خود عامل ہو (احمد)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن ایک حافظ قرآن اپنے خاندان میں سے دس ایسے افراد کی سفارش کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی (یعنی ان کا جہنم میں جانے کا فیصلہ ہو چکا ہو گا) اور اللہ تعالیٰ اس کی سفارش قبول کریں گے اور ان دس افراد کو اس حافظ قرآن کے ساتھ جنت میں داخلہ نصیب فرمائیں گے ۔ ترمذی۔ احمد

سبحان اللہ۔ یہ احادیث مبارکہ سنتے ہی میرے منہ سے بے اختیار نکلا میری آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک موٹی لڑی نکلی اور زمین پر گر کر جذب ہو گئی۔ آہ۔ میں کتنا بدنصیب باپ ہوں میرے بچے آہ۔ میرے نالائق بچے ۔ آج میرے کسی کام کے نہیں میں نے انہیں پالا پوسا جوان کیا۔ ان کی شادیاں کیں آج جب میرے بوڑھے جسم میں طاقت ختم ہو گئی ہے کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا تو میرے بچوں نے مجھے گھر سے نکل جانے کی دھمکی دے دی۔ اے خدا کاش مجھے ایسے اولاد نصیب نہ کرتا اولاد تو ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے ان کے جگر کا ٹکڑا ہوتی ہے لیکن میری اولاد۔ کاش میری اولاد بھی نیک ہوتی۔ اے کاش۔ ایک ٹھنڈی سانس بھر کے میں نے اپنا سر اوپر کیا چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو مسجد خالی ہو چکی تھی۔ شاید نمازی نماز پڑھ کر گھروں کو چلے گئے تھے امام صاحب بھی اپنی حدیثوں والی کتاب الماری میں رکھ کر جا رہے تھے ۔ میں بھی دیوار کے سہارے سے اٹھا اور مسجد سے باہر نکل آیا۔

گھر پہنچ کر میں سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا، کچن میں میری بڑی بہو کھانا پکانے میں مشغول تھی جب کہ چھوٹی بہو آج اپنے میکے گئی ہوتی تھی۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے جو کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہے تھے ۔ ایک غم تھا جو کہ اندر ہی اندر مجھے کھائے جا رہا تھا ایک چوٹ تھی جو کہ مجھ سے برداشت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ کاش کہ میں نے اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے بھی روشناس کرایا ہوتا کاش انہیں دین اسلام کی کچھ باتیں ہی سکھادی ہوتیں، انہیں زندگی گزارنے کے کچھ طریقے ہی سکھادئیے ہوتے تو شاید میرے ساتھ یہ حال نہ ہوتا۔ ہاں غلطی میری ہی تھی میں نے انہیں شروع سے ہی شہر کے اونچے اور انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرا دیا تھا ان کا سارا نصاب تو انگلش میں تھا ہی ماحول بھی انگلش والا تھا گویا جیسے اردو لکھنا پڑھنا جانتے ہی نہ ہوں، بڑا بیٹا تھا جو تھوڑی بہت اردو سمجھ لیتا تھا چھوٹے کو تو بالکل ہی نہیں آتی تھی۔ گھر میں وہ میرے ساتھ بھی انگلش بولنے کی کوشش کرتے لیکن میں ان کو جواب اردو میں ہی دیتا تھا کتنا فخر تھا مجھے اپنے بیٹوں پر جب وہ انگلش بولتے تو میرا دل خوشی سے لبریز ہو جاتا اور میں جھوم جھوم کر ان کی اور زیادہ حوصلہ افزائی کرتا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ میرے چھوٹے بیٹے نے مجھے سے انگلش میں میرا حال احوال پوچھا تو میں نے خوشی سے اسے گلے لگا لیا اور ایک چھوٹا سا انعام بھی دیا، انعام لے کر وہ خوش ہو گیا لیکن آج جب یہ واقعہ یاد آیا تو میں بری طرح رونے لگ گیا ہائے میرے بچے ۔ میرے بچوں نے مجھے چھوڑ دیا صاف ظاہر ہے جب میں نے انہیں انگریزوں والی تعلیم دلوائی تو انہوں نے میرے ساتھ سلوک بھی انگریزوں والا ہی کرنا تھا۔ مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے بچپن میں میرے بچوں کو اسکول سے دو بجے چھٹی ہوا کرتی تھی اور تین بچے انہیں نے اکیڈمی پڑھنے جانا ہوتا تھا اور پھر اکیڈمی سے رات گئے واپس آتے تھے میری بیوی کچھ دین دار، سلیقہ شعار اور سمجھ رکھنے والی خاتون تھی۔ ایک دفعہ مجھے کہنے لگی۔

صائم کے پاپا، بچوں کو قرآن مجید بھی پڑھنا چاہیے میں چاہتی ہوں کہ ہمارے بچے قرآن مجید بھی پڑھیں۔

میں اپنی بیوی کی بات سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ ان کو تو ٹائم ہی نہیں ملتا، قرآن کریم کی تعلیم وہ کیسے حاصل کریں گے ۔ میں نے اپنی بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ بولی۔ بچوں کے پاس دو سے تین بجے تک کا وقفہ ہوتا ہے اس دوران قاری صاحب سے بات کر آئیں تو وہ آدھا گھنٹہ دے دیا کریں۔

مجھے یہ تجویز بھلی لگی میرے گھر کے ساتھ ہی ایک اچھا سا مدرسہ تھا میں اسے مدرسے میں گیا قاری صاحب سے ملاقات کی اور اپنے بچوں کے بارے میں ان کو بتایا اور ساتھ قرآن مجید پڑھانے کی آفر بھی کی، انہوں نے وقت پوچھا تو میں نے ان کو وقت بھی بتا دیا بس وقت کا سننا تھا کہ قاری صاحب نے مجھ سے معذرت کر لی کہ ہم بچوں کو کم از کم ایک گھنٹہ پڑھاتے ہیں، اس سے کم وقت میں نہیں پڑھا سکتے ، میں قاری صاحب سے آدھے گھنٹے پر ہی اصرار کرتا رہا لیکن جب وہ نہ مانے تو آخر تنگ آ کر انہں نے مجھے کچھ ایسی باتیں کہیں جو کہ آج مجھے شدت سے یاد آ رہی تھیں کتنی سچائی تھی ان کے کہتے ہوئے ایک لفظ میں۔ کتنی مٹھاس تھی ان کی باتوں میں ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ثابت ہو رہا تھا کاش میں نے ان کی باتوں پر تھوڑا سا عمل کیا ہوتا، ان کی باتوں کو ٹھنڈے دماغ سے سوچا تو ہوتا جی چاہ رہا تھا کہ دوڑ کر جاؤں اور ان کے پاؤں چوم لوں لیکن اب تو وقت گزر گیا تھا، قاری صاحب وقت کے ساتھ ساتھ خود بھی گزر گئے تھے میں غم سے نڈھال ہو گیا اپنے آپ کو ہلکا کر لیا تھا، ہاں واقعہ قاری صاحب نے ٹھیک کہا تھا کہ دنیاوی تعلیم کو تو دیں آپ بارہ گھنٹے اور دینی تعلیم کو صرف آدھا گھنٹہ، کامیاب انسان تو وہی ہے جس کے پاس دونوں تعلیمات ہوں جتنا وہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے اتنا وہ دینی تعلیم کو بھی حاصل کرے آپ نے اپنے بچوں کو انگلش اسکولوں میں تو داخل کرایا ہوا ہے بے شک آپ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم سے روشناس کرا رہے ہیں لیکن یہ تعلیم تو اس وقت تک ہمارا ساتھ دے گی جب تک ہم زندہ رہیں گے ، مرنے کے بعد تو قبر میں صرف دینی تعلیم ہی کام آئے گی کل جب ہم مر جائیں گے تو ہمارے بچے ہمیں قرآن کریم پڑھ کر ایصال ثواب تو کر سکیں گے ہمیں کفن پہنا کر دفن تو کر سکیں گے ، کتنے بدنصیب ہوں گے وہ والدین جنہیں مرنے کے بعد بچوں سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، بچوں کو ان کی نماز جنازہ پڑھنے کا طریقہ ہی نہیں آتا ہو گا، انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ ہم نے اپنے والدین کو قبر میں کیسے اتارنا ہے انہیں کیسے نہلا کر کفن پہنانا ہے ۔

ہائے استغفر اللہ، میں زار و قطار رونے لگا میں ابھی زندہ ہوں، زندہ ہونے کی حالت میں بھی میرے بچوں سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہے ، بعد مرنے کے کیا ہو گا۔ قاری صاحب کی باتیں میرے دل پر تیر بن کر چبھ رہی تھیں آج مجھے معلوم ہو رہا تھا کہ قاری صاحب نے وہ باتیں میرے فائدے کے لیے ہی کہی تھیں، اس وقت تو میں نے قاری صاحب کی ان باتوں پر توجہ ہی نہیں دی تھی ایک خیالی ذہن جیسی باتیں سمجھ کر واپس آ گیا تھا۔ اگلے روز میں پھر قاری صاحب کے پاس نہ گیا میں اپنے بچوں کو اسکول باقاعدگی اور پابندی کے ساتھ بھیجا کرتا تھا کیوں کہ مجھے معلوم تھا بلکہ میرا خیال تھا کہ میرے بچے اچھی تعلیم حاصل کر کے کل کو اچھے شہری اچھے انسان بن جائیں گے میرا ارادہ تھا کہ میں اپنے بڑے بیٹے کو ڈاکٹر بناؤں گا جو کہ بڑھاپے کی حالت میں میری خدمت کرے گا چھوٹے بیٹے کو بھی کسی بڑے عہدے پر فائز کرا دوں گا لیکن آج جب میری خدمت کا وقت آیا تو بچوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا اور ایسے ناطہ توڑا کہ پھر بیویوں کے ہو کر رہ گئے ، بڑی بہو تو مجھے گھر میں ایک بوجھ سمجھتی تھی چھوٹی بہو جب سے بیا کر آئی تو اس نے آج تک مجھ سے بات تک نہیں کی تھی اسے تو میں شروع سے ہی برا لگنے لگا تھا میری شریک حیات بھی اس صدمے سے اس دنیا سے چل بسی تھی چھوٹے بیٹے کو تو اپنے بزنس سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی اس نے تو آج تک میری خدمت بھی صحیح طرح نہ کی ہر وقت پیسہ کمانے کے چکر میں پڑا رہتا، بڑا بیٹا بھی اپنی مصروفیت کے باعث مجھ سے نہ مل سکتا تھا اے خدائے پاک میں کیا کروں۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے میں صدمے سے پاگل ہوا جا رہا تھا اسے کاش جب میں مر جاؤں گا میرے بچوں کو اتنی بھی فرصت نہیں ہو گی کہ میری نماز جنازہ پڑھ سکیں اور مجھے صحیح طرح سے دفنا سکیں اے کاش، پچھتانے کے سوا اب تو کوئی چارہ ہی نہیں وقت تو گزر گیا تھا مجھے بار بار وہ احادیث مبارکہ یاد آ رہی تھی جو کہ میں نے مسجد میں سنی تھیں جس میں یہ ذکر تھا کہ قرآن مجید پڑھنے والا شخص جس پر وہ عمل بھی کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے زیادہ ہو گی۔ آہ کتنے خوش نصیب ہوں گے وہ والدین جس کے بچوں نے قرآن مجید پڑھا ہو گا۔ اسے یاد کیا ہو گا اور اس پر عمل کیا ہو گا میں ہی بدنصیب ہوں جو کہ اپنے بچوں کو قرآن کرایم نہیں پڑھا سکا۔ آج ان کی یہ تعلیم میرے کس کام کی میرے بڑے بیٹے کا ڈاکٹر بننا میرے کس کام کا کہ میں بیمار ہو جاؤں اور وہ میرا علاج نہ کر سکے ، چھوٹے بیٹے کا بزنس سنبھالنا میرے کس کام کا مجھے تو آج تک یہ بھی یاد نہیں کہ اس نے مجھ پر کچھ خرچ بھی کیا یا کوئی مجھے پھوٹی کوڑی دی ہوں حالاں کہ اس کا کاروبار کتنا وسیع تھا۔ کاش میں نے انہیں دین اسلام کی کچھ باتیں ہی سکھادی ہوتیں انہی یہ تو سمجھاد ہی دیا ہوتا تاکہ والدین کی خدمت کرنے پر اللہ تعالیٰ نے کیا کیا انعامات رکھے ہیں تو شاید آج میرا یہ حال نہ ہو گا۔

اے خدا مجھے معاف فرما۔ آمین

٭٭٭

 

عظمت کے مینار

اسلام کی روشنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں پھیل چکی تھی، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پتا پوچھا، کوہ صفا میں دعوت اسلام کے مرکزی دار ارقم پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے دروازے کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو عمر رضی اللہ عنہ ننگی تلوار ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں۔ پلٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی، اس مجلس میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ، انہوں نے کہا کہ آنے دو، اگر اچھی نیت سے آیا ہے تو ٹھیک ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا کام تمام کر دوں گا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے صحابہ رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا "عمر! کس نیت سے آئے ہو؟ کیا تم باز نہیں آؤ گے ، یہاں تک کہ اللہ تم پر کوئی آفت نازل کر  دے ” حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہایت عاجزی اور انکساری سے بولے "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں ایمان لانے کے لیے آیا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے اور برحق رسول ہیں "۔ ۔ آپ رضی اللہ علیہ کی زبان سے قبول اسلام کا اعلان سن کر صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ وادی مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔

قبول اسلام کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم حق ہر نہیں ؟”۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ عرض کیا "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جب ہم حق پر ہیں تو اپنا دین کیوں چھپائیں ؟”۔

اس وقت تک مسلمان چھپ کر نماز پڑھا کرتے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت کو یہ بات گوارہ نہ تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ مسلمان علی الاعلان بیت اللہ میں نماز ادا کریں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں مسلمانوں کی کم تعداد اور کمزوری کا ذکر کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ "خدا کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے ، میں کوئی ایسی مجلس نہ چھوڑوں گا جہاں میں پہلے کفر کے ساتھ بیٹھا تھا اور اب اسلام کے ساتھ نہ بیٹھوں "۔

پھر ایسا ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بیت اللہ شریف تشریف لے گئے ، وہاں مشرکین مکہ مجلس لگائے بیٹھے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قریش کے اس مجمع میں اعلان کیا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں اور یہاں نماز پڑھنے آیا ہوں، جسے اپنے بچوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ بنانا پسند ہو تو وہ مقابلے پر آ جائے "۔ عمر رضی اللہ عنہ کی بات سن کر اہل قریش بہت تلملائے لیکن کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ مقابلے پر آئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر بیت اللہ میں نماز ادا کی۔ یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے کھل کر بیت اللہ شریف میں نماز ادا کی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے مسلمانوں کی قوت میں اضافہ ہوا اور اسلام کی دعوت کھل کر دی جانے لگی، جس کی بدولت اسلام تیزی سے پھیلنے لگا اور قریش کے ظلم و ستم کے مقابلے میں کمزور مسلمانوں میں عزم و حوصلہ پیدا ہوا، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو "فاروق اعظم” کا لقب عطا کیا جس کے معنی حق اور باطل میں فرق کرنے والا ہے ۔

جب نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیا تو اس موقع پر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چھپ کر ہجرت کرنے کے بجائے علی الاعلان ہجرت کی اور کسی کو آپ رضی اللہ عنہ کو روکنے کی ہمت نہ ہوئی، مدینہ پہنچ کر آپ رضی اللہ عنہ نے کاروباری سرگرمیاں شروع کیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے روز و شب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر اور مشوروں میں شامل رہنے لگے ، کئی موقع پر آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کو تائید خداوند حاصل ہوئی، ایسے ہی کسی موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا”۔ آپ رضی اللہ عنہ کے مشورے بڑے کارآمد ہوتے ، چنانچہ ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے دو آسمانی وزیر جبرئیل اور میکائیل ہیں، جب کہ دو زمینی وزیر ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ہیں "۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام غزوات میں شرکت کی اور بہادری اور شجاعت کے نمایاں کارنامے سر انجام دیے ، غزوہ بدر، احد، خندق، خیبر، ہر ایک غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ رہے ، غزوہ تبوک میں جب مسلمانوں کو مال اسباب کی ضرورت پڑی تو حضرت عمر فاروق نے اپنے گھر کا آدھا سامان اللہ کی راہ میں دے دیا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی اور آپ رضی اللہ عنہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر تمام صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے لیے ناقابل یقین اور دکھ کا باعث تھی، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ روح فرسا خبر سنی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اسی گہری عقیدت اور محبت کی بناء پر تلوار ہاتھ میں لی اور کہنے لگے کہ جو یہ کہے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اس کا سر قلم کر دوں گا، لیکن جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں اور تقریر کی تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہ نے یقین کر لیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ غم سے نڈھال ہو کر بیٹھ گئے ۔

جب حضرت ابو بکر صدیقی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہیں کئی مسائل کا سامنا تھا، ان حالات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے بھرپور تعاون کیا اور ہر موقع پر انہیں مخلصانہ اور انتہائی قیمتی مشورے دیتے رہے ۔ خاص طور پر قرآن مجید کی جمع اور تدوین کرنے کا مشورہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اصرار کر کے اس کام کو مکمل کروایا اور بھرپور انداز میں اس سارے کام میں حصہ لیا۔

حضرت ابو بکر صدیقی رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کر دیا تھا، چنانچہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد خلافت کی بھاری ذمہ داریاں آپ رضی اللہ عنہ کو سنبھالنا پڑیں۔ بیعت کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور فرمایا "لوگو! میں تمہی میں سے ہوں، اب میں تمہارے معاملات کا ذمہ دار بنا دیا گیا ہوں، نیکی کے کاموں میں میرے ساتھ تعاون کرو اور برائی کو روکنے میں میری مدد کرو”۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت مسلمانوں کی تاریخ کا زریں دور تھا، اس دور میں خلافت اسلامیہ کی سرحدیں چہار سو پھیل گئیں اور مسلمان فوجوں نے کئی فتوحات حاصل کیں، جن میں عراق، ایران، مصر، شام اور فلسطین کی فتوحات نمایاں ہیں، اسی دور میں موجودہ پاکستان کا علاوہ مکران فتح ہوا اور یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمان گورنر مقرر کیا، ان فتوحات کے اثرات سے نہ صرف کئی علاقے مسلمانوں کے زیر اثر آ گئے ، بلکہ بڑی تعداد میں لوگ مسلمان بھی ہوئے ۔

خلافت فاروقی اس حوالے سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اپنے دور خلافت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کئی ادارے اور محکمے قائم کیے ، جن میں فوج کی تنظیم، پولیس اور ڈاک کے محکمے کو مربوط کرنا شامل ہے ، اس کے علاوہ مسلمان بچوں اور غریب غرباء کے لیے وظائف شامل ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے مرکزی بیت المال کو مضبوط کیا اور آب پاشی کے نظام کو ترقی دی، آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کی نمایاں خصوصیات میں نئے شہر بسانا بھی ایک اہم قدم ہے ۔ بصرہ، کوفہ، فسطاط، موصل آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلاف میں آباد ہوئے ، آپ رضی اللہ عنہ ہی کے دور بابرکت میں حرم کعبہ اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں توسیع کرائی گئی، آپ رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں جہاں مسلمانوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا، وہیں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق اور ان کی جان و مال کا بھی خاص خیال رکھا جاتا، آپ رضی اللہ عنہ کے حسن انتظام اور اللہ کے احکامات کے مطابق حکومت کرنے کا نتیجہ تھا کہ اللہ کی رحمتوں کا نزول آسمان سے بھی ہو رہا تھا اور زمین بھی اپنے خزانے اگل رہی تھی، لوگ معاشی حوالے سے اس قدر خوشحال ہو گئے تھے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم لے کر نکلتے ، لیکن انہیں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا، آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں امن و امان کا دور دورہ تھا، عدل اور انصاف کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی شخص کھڑا ہو کر خلیفہ سے سوال کر سکتا تھا اور کوئی اسے روکنے والا نہ تھا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا گیارہواں سال تھا۔ ذی الحجہ ۳۲ہجری کے آخری ایام تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حج ادا کیا۔ حج سے واپس ہوئے تو ایک روز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں فجر کی نماز کی امامت کرنے کھڑے ہوئے ، ابھی تکبیر کہی تھی کہ "ابو لولو فیروز” جو ایک ایرانی النسل غیر مسلم غلام تھا، صفوں کو چیرتا ہوا آپ رضی اللہ عنہ پر ایک خنجر سے حملہ آواز ہوا، آپ رضی اللہ عنہ پر خنجر کے پے در پے وار کیے اور پھر اسی خنجر سے خودکشی کر لی، اس حملہ سے آپ رضی اللہ عنہ کے جسم پر چھ زخم آئے ، اس واقعہ سے مسلمان بڑے غمگین اور دل گرفتہ ہوئے ، آپ رضی اللہ عنہ کچھ دن زخمی رہے اور بالآخر انہی زخموں کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی، حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے قبر میں اتارا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قبر کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔

٭٭٭

 

تاریخ کے جھروکوں سے

مغرب کی نماز ہو چکی ہے ، کچھ نمازی رخصت ہو گئے ہیں اور کچھ بیٹھے ذکر و اذکار میں محو ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابھی مسجد میں تشریف فرما ہیں کہ ایک شخص بارگاہ اقدس میں حاضر ہوتا ہے ۔ خستہ حال، چہرے پر زندگی کی سختیوں کے نقوش…. عرض کرتا ہے "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” میں مفلس اور مصیبت زدہ ہوں۔ وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہے مگر شاید زبان ساتھ نہیں دیتی، مسجد میں پھیلی ہوئی خاموشی اور گھمبیر ہو جاتی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چند لمحے اس کے سراپا کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر ایک شخص سے فرماتے ہیں "ہمارے ہاں جاؤ اور اس مہمان کے لیے کھانا لے آؤ” وہ خالی ہاتھ واپس آ جاتا ہے اور زوجہ محترمہ کا پیغام دیتا ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے ، میرے پاس اس وقت پانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مسافر پیغام سن کر دم بخود رہ جاتا ہے ، وہ جس بابرکت ہستی کے پاس اپنے افلاس کا رونا لے کر آیا ہے خود ان کے گھر کا یہ حال ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیغام سن کر دوسری زوجہ مطہرہ کے پاس بھیجتے ہیں مگر وہاں بھی یہی جواب ملتا ہے ، ایک ایک کر کے سب ازواج مطہرات سے پچھواتے ہیں لیکن سب کا جواب یہی ہے ۔ "اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے ہمارے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں "۔

نووارد کی حالت دیدنی ہے ، افلاس اور فاقہ کشی سے بھاگ کر اس پاک ہستی کے دامن میں پناہ لینے آیا تھا جو تنگ دستوں اور محتاجوں کا ملجا و ماویٰ ہے ، اس تاجدارِ دو عالم اور مقدس ہستی کے ہاں بھی بس اللہ کا نام ہے ، اسے اپنے گھر کا خیال آ جاتا ہے ، وہاں اتنی احتیاج تو نہ تھی، جب اس نے گھر چھوڑا تھا اس وقت بھی اس کے ہاں دو تین دن کی خوراک موجود تھی، پھر ایک بکری بھی اس کے پاس تھی، جس کا دودھ زیادہ نہ سہی بچے کے لیے کافی ہو رہتا تھا، وہ تو اس خیال سے حاضر ہوا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے دامن احتیاج پھیلائے ، جن کا جود و کرم ہوا سے بھی زیادہ بے پایاں ہے ، اور ان کے فیض کرم سے کٹھن زندگی آسان ہو جائے گی، لیکن یہاں تو عالم ہی اور ہے ، اسے اپنے وجود پر شرم آنے لگتی ہے اور ندامت کے قطروں سے پیشانی بھیگ جاتی ہے ، اچانک اسے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں "آج کی رات اس شخص کی کون میزبانی کرے گا؟” ابو طلحہ رضی اللہ عنہ انصاری اٹھ کر عرض کرتے ہیں "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرا گھر حاضر ہے "۔ پھر اس شخص کو ساتھ لے کر گھر آتے ہیں، بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہیں "کھانے کو کچھ ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مہمان ساتھ آئے ہیں "۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں "میرے پاس تو بچوں کے کھانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں "۔

ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "بچوں کو سلادو اور کھانا دسترخوان پر چن کر چراغ گل کر دو۔ ہم مہمان کے ساتھ بیٹھے یونہی دکھاوے کا منہ چلاتے رہیں گے اور وہ پیٹ بھر کر کھا لے گا”۔

ام سلیم رضی اللہ عنہا ایسا ہی کرتی ہیں۔ اندھیرے میں مہمان یہی سمجھتا ہے کہ میزبان بھی اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں، مہمان کو کھانا کھلا کر سارا گھر فاقے سے پڑا رہتا ہے ، صبح ہوتی ہے تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر تبسم فرماتے ہیں اور کہتے ہیں تم دونوں میاں بیوی رات مہمان کے ساتھ جس حسن سلوک سے پیش آئے ، اللہ تعالیٰ اس سے بہت خوش ہوا ہے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ آیت تلاوت فرماتے ہیں جو اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔

ترجمہ: "اور وہ (دوسروں کی ضروریات کو) اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیں خواہ انہیں خود احتیاج نہ ہو” اس طرح ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گھر والوں کے ایثار کی داستان رہتی دنیا تک کلام الٰہی میں ثبت ہو جاتی ہے ۔

٭٭٭

 

 

بچہ ہوں میں لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

               اسامہ یونس

عمیر بیٹا ہوش کے ناخن لو یہ کس کو بغیر اطلاع کیے گھر میں لا رہے ہو، گھر میں تمہاری بہنیں موجود ہیں، تمہاری ماں موجود ہے اتنی احمقانہ حرکت کہ ایک اجنبی نوجوان کو منہ اٹھائے اندر لے آئے ہو، دروازے کے ساتھ ہی گھنٹی کا بٹن ہے اسے دبانے کی بھی تمہیں توفیق نہ ہوئی، عمیر کے ابو نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

ابو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ، عمیر نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔

اوہ احمق، اگر کسی غیر آدمی کو گھر میں لانا ہو تو خواتین سے کہتے ہیں کہ دوسرے کمرے میں چلی جائیں یا پردہ کر لیں۔ ابو نے سمجھایا۔

ابو، بجا فرمایا آپ نے کہ کسی غیر محرم نوجوان کو گلی سے پکڑ کر یوں اچانک گھر لے آنا بہت نازیبا حرکت ہے لیکن اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے یہ تدبیر سمجھائی۔

جب رات کو آپ دفتر سے آتے ہیں اور آتے ہی ٹی وی آن کر دیتے ہیں اچانک کوئی نہ کوئی غیر محرم نوجوان پینٹ شرٹ پہنے ، باقاعدہ میک اپ کیے ٹی وی اسکرین پر نمودار ہو کر ہمارے گھر آ جاتا ہے ، اس وقت بھی میری ماں بہنیں گھر میں موجود ہوتی ہیں، اس وقت تو آپ نے انہیں کبھی نہیں کہا کہ دوسرے کمرے میں چلی جائیں یا پردہ کریں وہ بھی بغیر اطلاع کیے آ دھمکتا ہے ۔ عمیر نے کہا۔

عمیر بیٹا یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کرنا شروع کر دیں تم نے ، اس میں اطلاع کی کون سی بات ہے یا پردہ کی کیا ضرورت ہے ، ٹی وی والے کون سا ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں، ابو نے کہا۔

مگر ابو میری امی اور بہنیں تو دیکھ رہی ہیں۔

بیگم، سن لو اپنے اس نابالغ ملا کی تقریر، ہزار دفعہ تمہیں تاکید کی ہے کہ اس کا دھیان رکھا کرو یہ صبح نماز پڑھنے جاتا ہے اور دن چڑھے واپس آتا ہے تم چپکے سے کہہ دیتی ہو کہ درس سننے بیٹھ گیا ہو گا، اب دو جواب اس مذہبی جنونی کے سوال کا، باپ سے بات کرنے کا سلیقہ تک نہیں آتا اور بننے چلا ہے ، ننھا مبلغ، بے ادب کہیں کا۔ ابو نے ذرا غصیلے انداز میں کہا۔

ابو اللہ نہ کرے میری زندگی میں وہ دن آئے کہ میں آپ کے ساتھ بے ادبی سے پیش آؤں، اللہ گواہ ہے میں آپ سے کوئی مناظرہ نہیں کر رہا پر مجھے اس بات کا بھی علم ہے کہ جس کا باپ ناراض اس کا رب ناراض۔

میں تو روزانہ پانچ وقت کی نمازوں میں با وضو، دو زانو بیٹھ کر بڑی عاجزی کے ساتھ اللہ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ اے ہمارے رب، میرے ماں اور باپ کو بخش دے ، اکثر رو رو کر یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اے میرے رب، میرے والدین پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔

یا اللہ، ان دونوں نے میرے ساتھ بچپن سے لے کر اب تک بڑی شفقت برتی ہے ، آج ان دونوں پر وقت ہے تو بھی ان پر شفقت برت۔ یا اللہ مجھے اپنی ماں اور باپ کا خدمت گزار بنا کر جنت کا حقدار کر دے ، ابو میں یہ کوئی احسان نہیں جتا رہا بلکہ اولاد پر حق ہی یہی ہے ۔ بات ہو رہی تھی کہ ٹی وی والے کون سا ہمیں دیکھتے ہیں جبکہ میرا موقف ہے کہ امی اور بہنیں تو انہیں دیکھتی ہیں۔ آپ شاید مجھے چھوٹا سمجھ کر میری بات کو رد کر دیں مگر میں آپ کو ان کی بات سنتا ہوں جن کی بات کو دنیا کی کوئی طاقت رد نہیں کر سکتی۔ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے حق میں فیصلہ فرما دیں پھر تو بحث کی کوئی گنجائش نہیں، ابو ایک دن کلاس میں اسلامیات کے ٹیچر سراشرف نے لیکچر کے دوران ایک حدیث سنائی جو اسی دن سے میرے ذہن میں نقش ہو گئی۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں، اسی اثناء میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ (نابینا صحابی) تشریف لائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دونوں ان سے پردہ کرو، ہم نے کہا۔ اے اللہ کے رسول، یہ تو نابینا ہیں، یہ نہ ہم کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی پہچانتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم بھی نابینا ہو، کیا تم ان کو نہیں دیکھتیں۔

ابو اب آپ ہی انصاف کیجیے اگر ٹی وی والے ہمیں نہیں دیکھتے تو ہمارے خواتین تو انہیں دیکھ رہی ہوتی ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ شیطان دھوکے باز یہ بات ہمارے ذہن میں آنے ہی نہیں دیتا، وہ یہی کہتا ہے کہ ٹھیک ہے یہ فلم انتہا درجے کی غلیظ ہے مگر تو اس سے پورا پورا لطف اٹھا۔

بالکل اسی طرح جیسے شروع میں جب اس ٹی وی کو گھر لایا گیا تو آپ نے یہ کہا تھا کہ خبرنامہ اور زیادہ سے زیادہ پاکستانی ڈرامے اس سے زیادہ دیکھنے کی کسی کو اجازت نہیں ہو گی، رہے فلمی چینلز اور بے ہودہ ڈرامے وہ تو آپ کے ہوتے ہوئے کوئی دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اس وقت حالت یہ تھی کہ اگر کسی بچے سے اچانک کوئی بٹن دب جاتا تو سارے گھر میں شور برپا ہو جاتا کہ بند کرو فلمی چینل لگ گیا ہے ، کہیں ابو نہ آ جائیں، مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے کہ شام ہوتے ہی سارا محلہ ہمارے گھر امڈ آتا اس لیے کہ اس نیک کام کی ابتداء ہمارے گھر سے ہوئی، اب پورے محلے میں پھیلے ہوئے اس صدقہ جاریہ میں ہمارا اچھا خاصا حصہ بنتا ہے ، جب آپ گھر پر نہیں ہوتے تھے تو سب بیٹھ کر فلمی چینلز دیکھتے تھے جونہی آپ کی انگلی گھنٹی کے بٹن کو چھوتی، فوراً چینل تبدیل ہو جاتا، اتنا خوف اور دبدبہ تھا کہ کہیں آپ کو پتا نہ چل جائے مگر آج کیا ہو گیا ہے ، اب تو ہمارے گھر میں اتنی بڑی ڈش لگی ہوئی ہے اور گھر میں ہر روز نئی نئی فلمیں آتی ہیں اور ان میں فحش فلموں میں انتہا درجے کے فحش گیت، اتنے عریاں اور بے حیا مناظر کہ سن کر اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن آج آپ کی موجودگی میں پہلے سے ہزار گنا زیادہ فلمیں دیکھتے ہیں کہ خدا کی پناہ، اب کہاں گیا آپ کا وہ حکم کہ صرف خبرنامہ اور پاکستانی ڈرامہ؟ کہاں گیا وہ رعب اور دبدبہ؟ ابو خدا کے لیے ہم سب کدھر بہکے جا رہے ہیں یہ بھی شیطان کا بہت بڑا فریب ہے ۔

پھر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بہت سے رشتوں کی تذلیل کی جا رہی ہے ، ایک فلم یا ڈرامے میں ایک عورت کسی کی ماں ہوتی ہے تو دوسری جگہ وہی عورت اس کی بیوی ہوتی ہے ، کبھی بہن ہوتی ہے اور کبھی کچھ اور، کیا یہ انسانیت ہے ، بہن بھائی ایک دوسرے سے یار کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔

ابو، یقین کیجیے ان پاکیزہ رشتوں کا تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے پھر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس سارے لچڑپن کو ثقافت کا نام دے کر فخر کیا جا  رہاہے ، اگر یہی ثقافت ہے تو علی الاعلان میں یہ کہوں گا کہ یہ انتہائی مکروہ، غلیظ اور عذاب الٰہی کو دعوت دینے والی ثقافت ہے ۔ عمیر شدت جذبات سے بولتا چلا گیا۔

عمیر کی بات سنتے ہی ابو جان شرم سے پانی پانی ہو گئے اور بیٹے کو گلے لگا لیا۔

٭٭٭

 

آنسو

               جدون ادیب

یار اورنگزیب ایک بات پوچھوں سچ سچ بتاؤ گے ۔ مشتاق نے اپنے بے تکلف دوست سے پوچھا۔

اورنگزیب نے حیرت سے مشتاق کو دیکھا اور بولا۔

اب مجھ سے اجازت لیا کرو گے بات پوچھنے کی بھی۔

یار وہ بات ہی ایسی ہے مجھے ڈر ہے کہیں تم ناراض نہ ہو جاؤ۔ مشتاق نے جھجک کر کہا۔ اللہ کے بندے اب کہہ بھی ڈالو۔ اورنگزیب جھلا گیا۔

کل بھی میں نے تمہیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور پھر تم رو رو کر دعا بھی مانگ رہے تھے میں حیران ہوں کہ تم نے کب سے نماز شروع کر دی اور پھر یہ رو رو کر نماز پڑھنا میری سمجھ میں نہیں آیا، دعا تو ہر نمازی مانگتا ہے مگر میں نے کسی کو روتے ہوئے دعا مانگتے نہیں دیکھا۔ مشتاق کہتا چلا گیا۔

اورنگزیب کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی اس نے پیار بھری نظروں سے مشتاق کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا۔ میں نے چند دن قبل سے باقاعدہ نماز پڑھنی شروع کر دی تھی، ایک دن اتفاق سے میرے سر میں درد تھا اور میں لیٹا ہوا تھا بس سوچتے سوچتے میں اپنی سابقہ زندگی کا سدباب کر بیٹھا تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ میں نے تو آخرت کے لیے کچھ بھی نہیں کمایا سوائے گناہوں کے ، مجھے یہ احساس ہوا کہ ہر آدمی صبح اٹھ کر کسی نہ کسی صورت میں روزگار کے لیے نکلتا ہے اسی طرح ہم بھی دنیا میں ایک خاص مقصد کے لیے آئے ہیں، بس یہ وہی لمحہ تھا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق گزاروں گا۔ اورنگزیب چپ ہو گیا مشتاق بہت متاثر نظر آ رہا تھا۔

اورنگزیب پھر بولنے لگا۔ مشتاق یار، بس کیا بتاؤں میں نے جہنم کا تصور کیا اللہ کے عذاب کے بارے میں سوچا تو مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی اب میں جب بھی نماز ادا کرتا ہوں اللہ کے خوف سے میری آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ اورنگزیب کا لہجہ کہتے کہتے بھر گیا تھا۔

چند لمحے خاموشی میں بیت گئے پھر مشتاق بولا۔ کیا اللہ ہمارا اس طرح رونا پسند کریں گے ۔

اورنگزیب جذباتی لہجے میں بولا۔ اللہ کو دو قطرے بہت پسند ہیں، ایک آنسو کا قطرہ جو اس کے خوف سے نکلے اور دوسرے خون کا وہ قطرہ جو جہاد میں کسی زخم سے ٹپکے ۔

چند لمحے توقف کے بعد وہ مزید بولا، جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ پاس سے گزرتے سر حیدر نے اورنگزیب کی گفتگو کا آخری جملہ سنا تو وہ رک گئے ۔ انہیں بہت خوشی ہوئی کہ اسکول کے ہاف ٹائم میں جب سارے بچے کھیل رہے تھے یا دیگر تفریحات میں مصروف ہیں دو ذہین اور اچھے طالب علم دین کی باتوں میں مصروف ہیں وہ بھی ان دونوں کے نزدیک گھاس پر بیٹھ گئے ۔ ان دونوں کو سر حیدر کی آمد سے خوشی ہوئی، مشتاق نے قدرے اختصار کے ساتھ ساری بات سنائی۔ سر حیدر نے کہا۔ اگر میں کچھ کہوں تو آپ لوگوں کو یہ مداخلت بری تو نہیں لگے گی۔ نہیں سر، دونوں کہہ اٹھے ۔

سر حیدر بولے ، تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک انصاری پر خدا کا خوف اس قدر غالب ہو گیا تھا کہ ہر وقت رویا کرتے تھے ۔ جب وہ آگ کا ذکر سنتے تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے دل میں ڈر اتنا بیٹھ گیا تھا کہ وہ گھر میں پڑے رہتے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر سنا تو ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور جا کر ان کو گلے لگالیا۔ انصاری پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ وہ گر پڑے اور روح پرواز کر گئی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لوگوں اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرو خدا کے خوف نے اس کا دل پاش پاش کر دیا۔ سر حیدر کی بات ختم ہوئی اور ادھر ہاف ٹائم کے ختم ہونے کی بیل بجی۔ شام کو اورنگزیب مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا کہ اس نے سسکیوں کی آواز سنی، سلام پھیر کر دیکھا تو مشتاق روتے ہوئے اپنی سابقہ غلطیوں اور گناہوں پر اللہ کے حضور رو رو کر معافیاں طلب کر رہا تھا۔ بے اختیار اورنگزیب کی بھی آنکھیں بھرا گئیں اور آنسو گرنے لگے ۔ کتنے مبارک اور مقدس آنسو ہوتے ہیں جو اللہ کے لیے گریں، اللہ کے خوف سے آنکھوں سے نکلیں۔

٭٭٭

 

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی

ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مبارک میں بہت سادگی تھی، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں سارے عرب کی حکومت دی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں ذرا بھی غرور اور گھمنڈ نہ تھا، گھر کا کام کاج خود ہی کر لیتے ، اپنے کپڑوں میں پیوند لگا لیتے ، اپنا جوتا گانٹھ لیتے ، گھر میں جھاڑو دے لیتے اور خود ہی دودھ دوہ لیتے تھے ، زمین پر، چٹائی پر، فرش پر جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے تھے ، مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھے تھے ، چھوٹا یا بڑا اسے سلام کرنے میں خود پہل کرتے تھے ، غریبوں اور غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالیتے اور غریب سے غریب آدمی کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جاتے تھے ، خچر اور گدھے پر بھی خوشی سے سوار ہو جاتے اور کبھی کبھی دوسروں کو بھی اپنے ساتھ بٹھا لیتے ، صحابہ رضی اللہ کے ساتھ گھل مل کر بیٹھ جاتے ، ان سے الگ یا اونچی جگہ پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے ، مجلس میں کوئی اجنبی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسانی سے نہ پہچان سکتا تھا، بازار سے خود سودا خرید کر لے آتے اور اپنے جانوروں کو خود چارا ڈالتے تھے ۔

ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے ، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ادب سے کھڑے ہو گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا کہ میرے آنے پر کھڑے نہ ہوا کرو۔

٭….٭….٭

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے گئے تو میں نے دیکھا کہ جو چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوڑھ رکھی تھی اس کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ تھی۔

٭….٭….٭

ایک دن دو صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر گئے ۔ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے مکان کی مرمت کر رہے ہیں، وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ بٹانے لگے ، کام ختم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو بہت دعائیں دیں۔

٭….٭….٭

ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دکان سے پاجامہ خریدا، وہاں سے اٹھنے لگے تو دکان دار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ چومنا چاہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا اور فرمایا، یہ تو عجم کے لوگوں کا طریقہ ہے ، میں بادشاہ نہیں ہوں تم ہی سے ایک ہوں۔

٭….٭….٭

ایک دفعہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کانپنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ڈرو نہیں، میں بادشاہ نہیں ہوں، ایک قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت پکا کر کھایا کرتی تھی۔

٭….٭….٭

جس دن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ نے وفات پائی، اتفاق سے اسی دن سورج گرہن تھا، لوگوں نے خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدمے کا اثر سورج پر بھی ہوا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور فرمایا۔ لوگو، کسی کی موت سے سورج یا چاند میں گرہن نہیں لگتا، یہ تو خدا کی قدرت کا ایک نشان ہے ۔

٭….٭….٭

ایک دفعہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے باتیں کرتے کرتے کہہ دیا، جو اللہ چاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم نے مجھے خدا کا شریک بنا دیا، یوں کہو جو اللہ تعالیٰ (اکیلا) چاہے ۔

٭….٭….٭

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ لوگو، میری حد سے زیادہ تعریف نہ کرنا، جس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حد سے زیادہ تعریف کرتے تھے (ان کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں )۔ میں تو خدا کا ایک بندہ ہوں، اس لیے تم مجھ کو خدا کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔

٭٭٭

 

اسلام کے ننھے شاہین

فوجوں کی روانگی کا وقت ہو چلا تھا اسلام کے جاں نثاروں پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نظر ڈالی آپ کی نظر ایک ضعیفہ پر پڑی جو اپنے دو کمسن بچوں کو لے کر آ رہی تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کیسے آنا ہوا، ضعیفہ کہنے لگی یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان میرے ان دونوں بچوں کو جنگ میں شرکت کی اجازت فرمائیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک محبت بھری نظر ان بچوں پر ڈالی جو کہ ابھی بہت چھوٹے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ بچے جنگ میں شامل نہیں ہوسکتے کیوں کہ یہ ابھی چھوٹے ہیں، یہ سنتے ہی وہ دونوں بچے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اپنا قد بڑھاتے ہوئے بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھئے اب تو ہم کافی بڑے لگتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضد اور جذبے کو دیکھتے ہوئے انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔

یہ جنگ تاریخ اسلام کی عظیم جنگ تھی تاریخ میں اسی جنگ کو جنگ بدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جو کم عمر بچے اس جنگ میں شریک ہوئے تھے عضرعہ نامی خاتون کے بچے معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ تھے ، جنگ شروع ہوئی تو سرداران کفار کے علاوہ بڑے بڑے ماہر جنگجو سپہ سالار بہ یک وقت اسلامی لشکر کے خلاف برسر پیکار تھے یہی وہ جنگ تھی جس میں اسلام کا مشہور دشمن ابو جہل بھی شامل تھا اور اپنے لشکر کی نمائندگی کر رہا تھا۔

جنگ شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ زور پکڑتی گئی تلواروں کی آوازیں زخمیوں کی چیخیں عجیب خوفناک سماں تھا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی اسی جنگ میں شریک تھے ان کے دائیں بائیں معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں میں تلواریں لیے دشمن کا صفایا کر رہے تھے ۔

عالم کمسنی میں نوجوانوں جیسے کام کرنے والے ان بچوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ ابو جہل کہا ہے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم ابو جہل کو کیوں پوچھ رہے ہو، معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم نے سنا ہے کہ وہ بدبخت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے ہم اسے جہنم رسید کرنا چاہتے ہیں۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ابو جہل کفار مکہ کا بڑا جنگجو سپہ سالار ہے وہ بڑا ہی چالاک اور مکار ہے تم اسے تک کیسے پہنچو گے ، معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے زیادہ ضد کی تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں ابو جہل کے آنے پر اطلاع دوں گا۔

لڑائی کے دوران اچانک ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی نظر ابو جہل پر پڑی تو انہوں نے معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ کو خبردار کیا کہ وہ سامنے ابو جہل آ رہا ہے ۔

ابو جہل کو دیکھتے ہی کم عمر معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ تلواریں ہاتھ میں لیے عقاب کی مانند ابو جہل پر جھپٹے ، اتنا بڑا جنگجو سردار اچانک اس حملے سے گھبرا گیا وہ ابھی سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ دونوں بچوں نے اپنی تلواریں ابوجہل کے پیٹ میں گھونپ دیں ابو جہل شدید زخمی حالت میں نیچے گرا اور زخموں کی شدت سے تڑپنے لگا، اسی عالم میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے اور ابو جہل کا سر تن سے جدا کر دیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو جہل میری امت کا سب سے بڑا فرعون تھا۔

 

غار والوں کی کہانی

ہزاروں سال پہلے کا ذکر ہے کہ روم میں دقیانوس نامی بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا وہ بہت ہی ظالم اور درندہ صفت آدمی تھا۔ اللہ پر یقین نہیں رکھتا تھا اور بتوں کی پوجا کرتا تھا، اس کی پوری قوم اللہ کی عبادت سے ناواقف تھی بلکہ سب کے سب بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔ اسی بت پرست قوم میں کچھ سمجھدار لوگ بھی رہتے تھے ۔ وہ آپس میں اکثر یہ تذکرہ کرتے تھے کہ یہ مٹی کے بت ہیں جنہیں قوم والے خدا سمجھتے ہیں۔ یہ پتھر کی مورتیاں تو اپنی ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی بھی نہیں ہٹا سکتیں۔ بھلا انسان کو کیا فائدہ یا نقصان دیں گی، کم عقل لوگ ہیں، اتنی سی بات نہیں سمجھتے پھر بادشاہ بھی عجیب آدمی ہے لوگوں کو سختی کے ساتھ ان کی پوجا کرنے پر زبردستی مجبور کرتا ہے ۔ بچو! جو لوگ بتوں کی عبادت سے انکار کرتے تھے ، بادشاہ ان کو آگ میں ڈال دیتا تھا، ان کے ناخن کھینچ لیتا تھا۔

اس قوم میں ہر سال عید کا میلہ لگتا تھا جس میں تمام لوگ شرکت کے لیے جاتے تھے ، یہاں کُشتیاں ہوتی تھیں، دوڑ کے مقابلے ہوتے اور طرح طرح کے کھیل تماشے ہوتے تھے ، سارے انعام تقسیم ہونے کے بعد بتوں کی پوجا ہوتی اور مٹھائی تقسیم کی جاتی تھی، ان تمام تمام فضول تماشوں سے تنگ آ کر چند لوگ ایک درخت کے سائے میں آ کر بیٹھ گئے ، ان میں سے کوئی کسی کو نہیں جانتا تھا، آخر ایک نے دوسرے سے تعارف کرایا اور پوچھا بھائی تم سب یہاں کیوں بیٹھ گئے ، پہلے نے کہا مجھے بت پرستی سے نفرت ہے ، دوسرا بولا ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی عبادت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ، تیسرے نے کہا، پوری قوم جاہل ہو چکی ہے ، کوئی بھی خدا کو نہیں جانتا۔

بچو! سب نے مل کر عہد کیا کہ وہ ہرگز بتوں کی پوجا نہیں کریں گے بلکہ صرف اس خدا کی پرستش کریں گے جو سب کا مالک ہے ۔

جس نے چاند، تارے ، زمین، آسما، پانی اور انسان سب کو پیدا کیا ہے وہی سب کو کھلاتا ہے ، پیدا کرتا ہے اور موت دیتا ہے ، ان چند ساتھیوں نے مل کر مکان خرید لیا اور وہاں رہنے لگے اور اپنے میں خدا کی عبادت شروع کر دی۔ اڑتے اڑتے یہ خبر ان کی قوم میں پھیل گئی کہ چند نوجوان بتوں سے باغی ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں، چند چغل خوروں نے یہ خبر بادشاہ کو بھی پہنچا دی۔ بادشاہ نے یہ سنا تو غصے سے لال پیلا ہو گیا اور کہنے لگا میں اس ملک میں بتوں کے خلاف بولنے کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتا، اس نے حکم دیا کہ نوجوانوں کو گرفتار کر لیا جائے اور اس کے سامنے پیش کیا جائے ، جب یہ نوجوان گرفتار ہو کر محل میں گئے تو کیا دیکھا کہ بہت ہی خوب صورت محل ہے ، اونچے اونچے کمرے ، وسیع دالان، خوبصورت باغیچے ، جگہ جگہ قیمتی قالین بچھے ہیں، دیواروں پر خوبصورت اور ریشمی پردے لٹک رہے ہیں، درجنوں نوجوان ہاتھوں میں تلواریں لیے محل کی حفاظت کر رہے تھے لیکن اللہ پر ایمان رکھنے والا یہ نوجوان کسی چیز سے متاثر نہیں ہوئے کیوں کہ وہ صرف اللہ کو بڑا طاقت والا مانتے تھے اور جو اللہ کو بڑا سمجھتے ہیں وہ کسی دوسرے سے قطعی نہیں ڈرتے اور نہ کسی کے سامنے جھکتے ہیں۔ یہ نوجوان بھی بے خوف بادشاہ کے سامنے گئے بادشاہ نے ان سے کہا، میرے ہم وطنوں میں نے سنا ہے کہ تم قوم کے خداؤں کو برا بھلا کہتے ہو اور ایک ایسے خدا کو مانتے ہو جسے کبھی آنکھ سے دیکھا بھی نہیں شاید تم جوان ہو اسی لیے اپنے مذہب سے بھٹک گئے ہو، دیکھو تم ان باتوں سے باز آ جاؤ میں تمہیں اچھے اچھے عہدے اور انعام دوں گا۔

بچو! بادشاہ نے جب اپنی بات ختم کی تو ایک قیدی نوجوان نے کہا بادشاہ سلامت ہم اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت ہرگز نہیں کر سکتے ۔ ہمارا خدا بڑی طاقت والا ہے ، پھر آپ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ آپ بھی جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر سب سے بڑے اور سچے خدا کی بندگی کریں جو مارتا بھی ہو اور زندہ بھی کرتا ہے ، سب کو وہی رزق دیتا ہے ، پانی برساتا ہے ، فصل اگاتا ہے اور اولاد دیتا ہے ۔

بچو! بادشاہ نے جب دیکھا کہ نوجوان خدا کی تعریفیں کیے جا رہے ہیں تو زور سے چلایا کہ بکواس بند کرو اور غصے سے کانپنے لگا۔ اس نے نوجوانوں سے کہا کہ میں تمہارے باپ دادا کی عزت کرتا ہوں ورنہ تمہیں ابھی اور اسی جگہ قتل کر دیتا، تمہیں سوچنے کا موقع دیتا ہوں اگر تم اپنے ارادوں سے باز نہیں آئے تو گردن اڑا دوں گا اور اگر بتوں کو مان لیا تو دربار میں جگہ دوں گا۔ یہ مسلمان نوجوان بادشاہ کے دربار سے نکل کر سیدھے اپنے عبادت خانے میں آئے یہ وہی مکان تھا جو انہوں نے خریدا تھا۔ سب نے مل کر مشورہ کیا کہ ہم شہر سے دور کسی پہاڑ کے غار میں چل کر رہتے ہیں۔ وہاں اللہ کی عبادت کریں گے اور جب تک اس ظالم بادشاہ کی حکومت ختم نہیں ہو جاتی ہم اسی جگہ رہیں گے ۔

رات کو جب سب لوگ سوگئے اور ہر طرف اندھیر چھا گیا تو یہ نوجوان خاموشی کے ساتھ اٹھے اپنا سامان باندھ کر کندھے پر رکھا اور شہر سے پہاڑ کی طرف چل دیے ۔ انہوں نے ایک کتا پال رکھا تھا وہ کتا بھی ان کے ساتھ چل دیا، چلتے چلتے دوسرے دن دوپہر کو یہ ایک پہاڑ کے پاس پہنچے وہاں ایک غار تھا ان نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں سے اس غار کو صاف کیا اور غار میں بیٹھ کر سستانے لگے ۔ طویل فاصلہ پیدا چلنے کی وجہ سے یہ بہت تھک چکے تھے کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹ گئے ، ان کا کتا غار کے منہ پر بیٹھ کر پہرہ دینے لگا۔ تھکن اور رات بھر پیدل چلنے کی وجہسے انہیں نیند آنے لگی اور ایک ایک کر کے سب سوگئے ، کتا ہوں ہی پہرہ دیتا رہا۔

بچو آپ کو حیرت ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی نیند سلایا کہ وہ غار کے اندر تین سو سال تک سوتے رہے ۔ نہ انہیں بھوک لگی اور نہ بیمار ہوئے ، تین سو سال کے بعد سب ایک ایک کر کے اٹھ گئے ، ایک دوسرے سے پوچھنے لگے بڑی گہری نیند تھی، ہم کتنی دیر تک سوتے رہے ، دوسرے نے جواب دیا، آج ہم سارا دن سوئے ، آج شاید دوسرا دن نکل آیا ہے ، ایک ساتھی کہنے لگا دو دن ہو گئے ہمیں سوتے ہوئے اب بہت بھوک لگ رہی ہے ، انہوں نے کہا ہم میں سے ایک آدمی جا کر بازار سے کھانا لے آئے ، ان میں سے یملیخا نامی نوجوان کچھ پیسے لے کر کھانے کا سامان لینے شہر کی طرف جانے لگا سب نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا کہ کسی کو ہمارے بارے میں مت بتانا ورنہ ظالم بادشاہ گرفتار کر کے قتل کر دے گا۔ جب سب نے یملیخا کو اچھی طرح سمجھا دیا تو وہ شہر چلا گیا۔ اس نے دیکھا کہ شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے اور اونچی اونچی عمارتیں، سڑکیں، گلیاں سب کچھ تبدیل ہو گیا یہاں تک کہ ملک میں چلنے والا سکہ بھی بدل گیا، جب یملیخا کھانے کی ایک دکان پر گیاا ور ظالم بادشاہ کے زمانے کا سکہ پیش کیا تو دکاندار حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ تو بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا سکہ ہے تمہیں کہاں سے ملا، چند اور لوگ بھی جمع ہو گئے اور کہنے لگے اس نوجوان کو قدیم خزانہ مل گیا ہے جس میں سے یہ سکہ نکال لایا ہے ، نوجوان حیران و پریشان لوگوں کو سمجھانے لگا کہ میرے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے ۔ یہ میرا اپنا سکہ ہے لیکن لوگوں نے اسے گرفتار کر کے بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا۔ اس نئے بادشاہ کا نام بیدوسس تھا، یہ بہت نیک دل اور ایماندار بادشاہ تھا، جب اسے یہ سکہ دکھایا گیا تو اس نے وزیر سے مشورہ کیا، وزیر نے بتایا کہ تین سو سال قبل جب دقیانوس بادشاہ حکمران تھا یہ سکہ جب چلتا تھا بادشاہ نے نوجوان سے نام پوچھا تو نوجوان نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا کہ وہ چند ساتھی اپنا ایمان بچانے کی غرض سے فرار ہو گئے تھے ۔

بادشاہ ساری کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گیا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان نوجوان کو تین صدیوں تک سلائے رکھا، اس عرصے میں کئی بادشاہ تبدیل ہو گئے تھے ، یملیخا نے بادشاہ سلامت سے اجازت لی اور اپنے ساتھیوں سے ملنے گیا، ساتھیوں سے مل کر اس نے سارا حیرت انگیز واقعہ سنایا اور بتایا کہ بادشاہ بھی مسلمان ہے ، ابھی وہ اپنے ساتھیوں کو یہ باتیں بتا ہی رہا تھا کہ بادشاہ خود اپنے حفاظتی عملے کے ساتھ غار تک پہنچ گیا۔ سب ساتھیوں نے بادشاہ کا استقبال کیا۔ کچھ دیر بادشاہ ساتھ رہ کر رخصت ہو گیا۔

یہ سب ساتھی غار کے اندر چلے گئے اور اللہ کے حکم سے سب کے سب انتقال کر گئے ۔ سب لوگ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ تین سو سال تک بغیر کھائے پیئے انہیں سلا کر دوبارہ اٹھا سکتا ہے تو مرنے کے بعد بھی اپنے بندوں کو قیامت کے دن زندہ کر دے گا اور اب تک جتنے بھی جاندار مرے ہیں سب کو اٹھا کر اللہ اپنے سامنے پیش کرے گا اور نیکی اور بدی کا فیصلہ کرے گا۔

 

نیکی

ککڑیاں تو آپ نے کھائی ہوں گی؟ آپ کہیں گے ، جی ہاں کئی مرتبہ

تو بھئی ککڑیاں آج ہی نہیں آج سے تیرہ سو سال پہلے بھی بڑے شوق سے کھائی جاتی تھیں اور بچے تو انہیں بہت پسند کرتے تھے ایسے ہی بچوں میں ایک چھوٹی سی بچی تھی جو عراق کے شہر کوذ میں رہا کرتی تھی۔

ایک دن بچی نے گھر کے باہر تازہ تارہ ککڑیاں بکتی دیکھیں، بچی کا بڑا جی چاہا کہ ککڑیاں کھائے لیکن پیسوں کے بغیر تو ککڑی والا اسے ککڑی نہ دیتا، خود اس کے پاس پیسے نہ تھے ۔ وہ روتی ہوئی گھر آ گئی اور امی سے ضد کرنے لگے کہ ککڑیاں کھاؤں گی، بچی کے ابو ان دنوں خاصی پریشانیوں سے دوچار تھے ۔ امی تو بڑی مشکل میں پڑ گئیں، پیسے کہاں سے لائیں ؟ ادھر بچی تھی کہ ضد کیے جا رہی تھی، امی نے منع کیا تو چیخ چیخ کر رونے لگی۔

بچی کے ابو بیٹھے دیکھ رہے تھے ان سے معصوم بچی کا رونا دیکھا نہ گیا، انہوں نے سوچا کہ کہیں سے مدد مانگ لی جائے ، کوئی تھوڑی سی رقم دے دے تو گھر میں کھانے پینے کا کچھ سامان آ جائے گا اور بچی کو ککڑیاں بھی مل جائیں گی۔

وہ اٹھے اور ایک بہت بڑے بزرگ کی مجلس کی طرف چل دیے ، یہ مجلس البرکۃ کہلاتی تھی، آنے کو تو بچے کے ابو مجلس میں آ گئے لیکن بزرگ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے انہیں بہت شرم آئی، انہوں نے کبھی کسی سے مانگا نہ تھا، وہ مانگنا پسند بھی نہیں کرتے تھے اور ہے بھی صحیح بات کسی سے مانگنا، ہاتھ پھیلانا کوئی اچھی بات تو نہیں ہے ، اللہ کے نیک بندے ضرورت پڑنے پر بھی کسی سے مانگتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے تھے ، تو بھئی بچی کے ابو کا بھی یہی حال تھا وہ بار بار کچھ کہنے کا ارادہ کرتے لیکن پھر رک جاتے ، آخر وہ مجلس سے اٹھ کر چلے گئے ۔

بزرگ انہیں بہت غور سے دیکھ رہے تھے ، وہ سمجھ گئے کہ شخص سخت ضرورت مند ہے لیکن غیرت والا آدمی ہے اس لیے کچھ کہتے ہوئے اسے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے ، بزرگ اپنی جگہ سے اٹھے اور بچی کے ابو کے پیچھے پیچھے چل دیے ، بچی کے ابو اپنے مکان میں چلے گئے تو بزرگ ان کا مکان دیکھ کر واپس آ گئے ۔

رات ہوئی تو بزرگ اس بچی کے مکان پر پہنچے ، خاصی دیر ہو چکی تھی اور اندھیرا چھایا ہوا تھا، بزرگ نے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا، بچی کے ابو باہر نکلے ، اندھیرے میں پہچان نہ سکے کہ کون آیا ہے ، اتنی دیر میں بزرگ نے مکان کے دروازے پر ایک تھیلی رکھی اور یہ کہتے ہوئے فوراً واپس چلے گئے ۔

دیکھو تمہارے دروازے پر تھیلی پڑی ہوئی ہے ، یہ تمہارے لیے ہے ۔

بچی کے ابو نے تھیلی اٹھا لی لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ کون صاحب تھے جو یہ تھیلی دے کر چلے گئے ، اندر جا کر تھیلی کھولی تو اندر پانچ سو درہم اور ایک پرچہ رکھا ہوا تھا، پرچہ پر لکھا تھا۔

ابو حنیفہ اس رقم کو لے کر آپ کے پاس آیا تھا یہ رقم حلال ذریعہ سے حاصل کی گئی ہے ۔

کچھ سمجھے آپ، ابو حنیفہ کون تھے ۔ یہ مسلمانوں کے فقہ کے مشہور امام ابو حنیفہ رحمُ اللہ علیہ تھے جن کو امام اعظم بھی کہا جاتا ہے ، آپ نے دیکھا کہ امام صاحب نے کتنے چپکے سے بچی کے ابو کی مدد فرمائی، ایسا آپ نے اس لیے کیا کہ دوسرے اگر آپ کے نیک عمل کو دیکھتے تو واہ واہ کرنے لگتے ، اس طرح آپ کی نیکی کا ثواب ضائع ہو جانے کا خطرہ تھا۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ کوئی شخص اگر نیک کام دوسروں کو دکھانے کے لیے کرتا ہے تو اس کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے بلکہ اس شخص کو ریا کاری کا گناہ الگ ملتا ہے ۔

٭٭٭

 

بہادر نوجوان

 بہت زمانے کی بات ہے کہ ایک غلام قوم میں ایک بچہ پیدا ہوا جب یہ بچہ جوان ہوا تو اس نے دیکھا کہ برابر والی سلطنت کا بادشاہ زبردستی ان کی قوم سے خراج وصول کرتا ہے کیوں کہ اس کے پاس بہت بڑا لشکر تھا اور وہ بادشاہ ظالم بھی بہت تھا، طاقت کی بنیاد پر وہ اس نوجوان کی قوم سے بہت سی رقم، غلہ اور دوسری چیزیں حاصل کر لیا کرتا تھا، آخر کار اس نوجوان سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ اس بادشاہ کے آدمیوں کو خراج دینا بند کر دو، لوگوں نے جب یہ بات سنی تو نوجوان کا خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ ابھی نا تجربہ کار ہے اسے کیا معلوم کہ خراج روک لیا تو بادشاہ ہمارے ملک پر چڑھائی کر دے گا اور ہمیں برباد کر دے گا، نوجوان نے لاکھ سمجھایا کہ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لیکن لوگ ایک نہ مانے ، آخر نوجوان نے خاموشی اختیار کر لی، وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ قوم صرف اس لیے بزدل ہو گئی ہے کہ یہ اپنی طاقت پر بھروسہ کرتی ہے اور طاقت دینے والے خدا پر اس کا اعتماد کمزور ہو چکا ہے لہٰذا اس نے ایک پروگرام بنایا کہ وہ پہلے ان لوگوں کو اس بات پر راضی کرے گا کہ خدا پر ایمان لایا جائے ، چنانچہ نوجوان نے اس کام پر اپنی ساری محنت لگا دی، وہ لوگوں کو جمع کر کے نصیحتیں کرتا اور سمجھاتا کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت صرف اللہ کی طاقت ہے ، وہ اگر چاہے تو چیونٹی سے ہاتھی جیسے بھاری بھرکم جانور کو ہلاک کرا دے ۔

بچو! نوجوان کی محنت کا یہ نتیجہ نکلا کہ لوگ آہستہ آہستہ اس کی بات پر یقین کرنے لگے اور اللہ پر ایمان لانے لگے ، پھر رفتہ رفتہ ایمان لانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور کچھ ہی سالوں میں ایک بہت بڑی جماعت بن گئی، اب جو ظالم بادشاہ کے آدمی خراج وصول کرنے کے لیے آئے تو اس جماعت نے خراج دینے سے صاف انکار کر دیا۔ بادشاہ کو یہ سن کر بہت غصہ آیا اور اس نے دھمکی بھجوا دی کہ میں تمہاری قوم سے جنگ کرنے آ رہا ہوں تیار ہو جاؤ، جب نوجوان کی قوم کو جنگ کا پیغام ملا تو وہ گھبرائے لیکن نوجوان نے ہمت بندھائی اور کہا کہ اس وقت تمہارے پاس ایمان کی قوت ہے اور اللہ تمہاری حمایت کرنے والا ہے تم سب جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ، تمام بستی والے جنگ کے لیے تیار ہو گئے جوں ہی اس ظالم بادشاہ نے ان کے ملک میں فوج داخل کرنا چاہی تو انہوں نے اسے للکارا اور مقابلے پر آ گئے اور جنگ شروع کر دی۔

ظالم بادشاہ کے آدمی اس جنگ کے لیے تیار نہ تھے وہ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ بزدل ہیں بھاگ جائیں گے ، لیکن جب زبردست حملہ ہوا تو بادشاہ کے آدمی واپس بھاگے لیکن اس قوم نے دور تک ان کا تعاقب کیا، آخر کار ان کے ملک کو فتح کر لیا اور ظالم بادشاہ کو ہلاک کر دیا۔

اب یہ نوجوان اپنی قوم کو لے کر آگے بڑھا اور مغربی حصے کو آخری کونے تک فتح کر لیا وہاں بھی ایک کافر قوم آباد تھی، نوجوان نے اس قوم کو بھی اللہ کا پیغام سنایا اور لوگوں کو خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ لوگ راضی ہو گئے ، وہاں مسجد تعمیر کی گئی اور خدا کی عبادت شروع ہو گئی، اس کے بعد یہ نوجوان اپنے لشکر کو لے کر پرچم لہراتا ہوا چین تک چلا گیا، یہاں پہنچا تو کیا دیکھا کہ پہاڑ کے دامن میں ایک غریب قوم آباد ہے ، اس قوم نے فریاد کی کہ یہاں یاجوج ماجوج نامی دو ظالم قومیں آباد ہیں جس کے افراد ہر سال ہماری قوم میں آ کر لوٹ مار کرتے ہیں، فصلیں تبادہ کر دیتے ہیں، غلہ اٹھا کر لے جاتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں، ہمیں ان سے نجات دلادیں، ہم آپ کو بہت سی دولت جمع کر کے پیش کریں گے ، نوجوان نے ان کی فریاد سنی تو کہا مجھے اللہ نے بہت کچھ دیا ہے ، تم میرے ساتھ مل کر راستے میں ایک پتھر کی دوار قائم کرو، سب سے مل کر دیوار قائم کی، کئی مہینے بعد جب بستی کے چاروں طرف دیوار بن گئی تو نوجوان نے کہا لوہے کی چادریں لاؤ اور انہیں خوب آگ میں تپاؤ، چنانچہ تمام بستی سے لوہے کی چادریں جمع کر کے آگ پر خوب تپائی گئیں یہاں تک کہ وہ سرخ ہو گئیں تو کہا چادریں دیوار پر ڈال دو، وہ ظالم ہرگز اسے نہیں توڑ سکیں گے ، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، کچھ مہینے کے بعد وہاں ایک بہت بڑی مضبوط دیوار تعمیر ہو گئی تو ظالم یاجوج ماجوج پھر اس قوم کی طرف نہ آسکے ۔

بچو! یہ نوجوان اللہ کے بندے اور نبی ذوالقرنین علیہ السلام تھے جنہیں دولت کی پروا نہ تھی بلکہ وہ توحید پرچم بلند کرنے کی غرض سے دور دراز تک علاقوں کو فتح کرتے چلے گئے تھے ۔

٭٭٭

 

 

قرآن کریم کا معجزہ

               نجمہ نور

قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی آیت نے مجھے عیسائی سے مسلمان بنا دیا۔ یہ ڈاکٹر غرینیہ تھے جو پیرس کے ایک کامیاب طبیب ہونے کے علاوہ فرانسیسی حکومت کے رکن تھے ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ حکومت سے الگ ہو گئے اور پیرس چھوڑ کر فرانس کے ایک چھوٹے گاؤں میں سکونت اختیار کر لی اور خدمت خلق میں مصروف ہو گئے ۔

محمود مصری نے ان سے ان کے مکان پر مل کر ان کے اسلام قبول کرنے کا سبب دریافت کیا۔

قرآن کی ایک آیت، ڈاکٹر نے جواب دیا۔

کیا آپ نے کسی مسلمان عالم سے قرآن پڑھا ہے ، نہیں میری اب تک کسی مسلمان عالم سے ملاقات نہیں ہوئی۔

پھر یہ واقعہ کیوں کر پیش آیا۔

ڈاکٹر غرینیہ نے جواب دیا۔ مجھے اکثر سمندری سفروں میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے ، میری زندگی کا بڑا حصہ پانی اور آسمان کے درمیان بسر ہوا ہے ۔ اسی طرح ایک سفر میں ایک بار مجھے قرآن کا فرانسیسی ترجمہ ملا۔ یہ موسیو قاری کا ترجمہ تھا، میں نے اسے کھولا تو سورہ نور کی ایک آیت سامنے تھی جس میں ایک سمندری نظارے کی کیفیت بیان کی گئی۔

ترجمہ: جیسے اندھیرا گہرے سمندر میں، اس کا ڈھانپ لیا ہو موج نے ، لہر کے اوپر لہر، اس کے اوپر بادل۔ اندھیرے پر اندھیرا اس حالت میں ایک شخص اپنا ہاتھ نکالے تو توقع نہیں کہ وہ اس کو دیکھ سکے اور جس کو خدا نور نہ دے اس کے لیے کوئی روشنی نہیں۔

میں نے اس آیت کو نہایت دلچسپی سے پڑھا جس میں سمندری نظارے کی کیفیت بیان کی گئی تھی، جب میں نے آیت پڑھی تو میں تمثیل کی عمدگی اور انداز بیاں کی واقفیت سے بے حد متاثر ہوا، میں نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ایک ایسے شخص ہوں گے جن کے رات اور دن میری طرح سمندری سفروں میں گزرے ہوں گے ، پھر بھی مجھے حیرت تھی کہ انہوں نے گمراہیوں کی آوارگی اور ان کی جدوجہد کی بے حاصلی کو کیسے مختصر الفاظ میں بیان کیا ہے گویا کہ وہ رات کی سیاہی، بادلوں کی تاریکی اور موجوں کے طوفان میں ایک جہاز پر کھڑے ہیں اور ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی بدحواسی کو دیکھ رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ سمندری خطرات کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر بھی اتنے کم الفاظ میں اتنے کامیاب طور پر خطرات بحر کی تصویر کشی نہیں کر سکتا۔

لیکن اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی نے کبھی زندگی بھر میں سمندر کا سفر نہیں کیا، اس انکشاف کے بعد میرا دل روشن ہو گیا۔ میں نے سمجھا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہیں ہے بلکہ اس خدا کی آواز ہے جو رات کی تاریکی میں ہر ڈوبنے والے کے ہی حوصلہ کو دیکھ رہا ہوتا ہے ، اس کے بعد میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں مسلمان ہو جاؤں۔

٭٭٭

 

آخری کلمہ

               صبا خان

شتیلہ کیمپ پر آج اسرائیلی طیاروں کی جانب سے ہونے والی یہ تیسری بمباری تھی۔ لوگ جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ، ان کی چیخ و پکار نے دس ہزار افراد کی آبادی والے کیمپ میں قیامت برپا کر دی تھی۔ ہراساں وحشت زدہ مائیں اپنے ننھے منے بچوں کو سینے سے چمٹائے کسی محفوظ مقام کی تلاش میں تھیں۔ ہر طرف آگ کی بارش ہو رہی تھی اور بے شمار جسم خاک و خون میں لتھڑے ہوئے تڑپ رہے تھے ۔

اسرائیلی طیارے پانچ منٹ تک تباہی پھیلانے کے بعد چلے گئے اور کچھ دیر کے لیے ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ پھر ادھر ادھر سے زخمیوں کی کراہیں بلند ہونے لگیں۔

بارہ سالہ قاسم کیمپ کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا ان بچوں کو ٹک ٹک دیکھے جا رہا تھا، جو اپنی ماؤں کی آغوش میں کتنے مزے میں تھے ، اسے اپنی ماں کی محفوظ اور مہربان آغوش شدت سے یاد آ رہی تھی اور وہ چاروں طرف اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے بہت خوفزدہ ہو۔

اسی اثناء میں اس کے دوست عبداللہ کی ماں ادھر سے گزری تو اس کی نظر کونے میں سہم کر اکڑوں بیٹھے ہوئے قاسم پر پڑی اور وہ لمحہ بھر ٹھٹکنے کے بعد بے اختیار قاسم کی طرف دوڑ پڑی۔

اے میرے پاک پروردگار، مجھے معاف کر دے ۔ ۔ ۔ ۔ میں اس یتیم کو بھول گئی۔ ۔ ۔ آ۔ ۔ ۔ ۔ قاسم میرے پاس آ۔ ۔ ۔ تو بھی تو میرے عبداللہ جیسا ہی ہے ، یہ کہہ کر اس نے قاسم کو اپنے بازوؤں کے حلقے میں لے کر بھینچ لیا۔ بے آسرا قاسم کو یوں محبت ملی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔

فلسطینی مہاجرین کی بستی شتیلہ، لبنان سے فلسطینی مجاہدین کے نکلنے کے بعد یہودی فوجیوں کے قبضے میں آ گئی تھی اور ان فوجیوں نے شتیلہ کیمپ پر قبضہ کے بعد بستی میں ہر طرح کے امدادی سامان کی آمد پر پابندی عائد کر دی تھی، غذا، دودھ، پھل فروٹ، کھانے پینے کی اشیاء غرض یہ کہ وہ ساری چیزیں جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں ان کا داخلہ اس کیمپ میں منع تھا، اس پابندی کو آج بارہ دن ہو چکے تھے ۔ کیمپ میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی اور اب بچے ، بوڑھے ، جوان عورتیں کئی روز سے بھوکے تھے ۔ ان کے پیٹ کی پسلیاں باہر کو نکل آئی تھیں، ان کے چہروں پر زردی اور آنکھوں کے گرد سیال حلقے پڑ چکے تھے ۔ وہ زندہ رہنا چاہتے تھے ، لیکن زندہ کیسے رہتے ۔ ان میں سے کئی ایک دم توڑ چکے تھے ، لیکن غذا پہنچنے پر پابندیاں نرم ہونے کے بجائے روز بہ روز سخت ہوتی جا رہی تھیں۔

پھر کچھ اور وقت گزر گیا اور بالآخر آسمان نے اس کیمپ میں وہ نظارے دیکھا کہ اگر وہ ستونوں پر قائم ہوا ہوتا تو ضرور ٹوٹ کر گر جاتا۔ بھوک سے بے حال ہو کر لوگوں نے شتیلہ کیمپ کے کتوں اور بلیوں کو مار مار کر کھانا شروع کر دیا صیہونی فوجی جب  لوگوں کو کتے یا بلی کے پیچھے بھاگتے دیکھتے تو ان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی، ایک ایسی مسکراہٹ جو قطعی طور پر غیر انسانی تھی اور وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنس دیتے یا پھر زمین پرتھوک دیتے ، ایسے لمحے ایک دن میں کئی بار آتے ۔

رفتہ رفتہ شتیلہ کیمپ میں کتے اور بلیاں بھی ناپید ہونے لگے اور لوگ اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے دوسروں کی زندگیوں پر حملہ آور ہونے لگے ۔

قاسم کئی روز سے اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کی نظروں کو بدلا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ ابھی کل ہی جب وہ نقاہت کے باعث نیم بے ہوشی کے عالم میں ایک ٹوٹے ہوئے گھر کے فرش پر پڑا تھا تو سعد اور نور اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے تھے ۔ ان کی آمد پر جب قاسم نے آنکھیں کھول کر ان کی جانب دیکھا تو فوراً ہی بغیر کچھ کہے بدحواس ہو کر وہاں سے بھاگ نکلے تھے اور قاسم نے اٹھ کر بڑی حیرت سے ان کی طرف دیکھا تھا۔

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ قاسم عبداللہ کی ماں کے پاس لیٹا ہوا جاگنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یکایک اسے عبداللہ کی ماں کی مدھم آواز سنائی دی۔ وہ یاسر کی ماں سے کہہ رہی تھی۔

خدا رحم کرے ۔ سنا ہے کچھ لوگوں نے فتویٰ دے دیا ہے کہ اگر زندگی بچانے کے لیے ضروری ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ، اس کے آگے قاسم کچھ نہ سن سکا کیوں کہ اسی وقت صیہونی فوجیوں نے قریب کی کسی گلی میں زبردست فائرنگ شروع کر دی تھی۔ فائرنگ تھوڑی دیر تک جاری رہی اور پھر اس کے بعد ہر طرف مانوس سی خاموشی نے اپنے پر پھیلا دیے ۔

قاسم سو چکا تھا۔ عبداللہ کی ماں کچھ دور فرش پر لیٹی ہوئی بھوک کی شدت کے باعث نیم بے ہوشی کے عالم میں ادھر ادھر کروٹیں بدل رہی تھی۔ ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔

یکایک چہروں پر نقاب ڈالے ہوئے تین افراد اس ٹوٹے ہوئے گھر کے آنگن میں نمودار ہوئے اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے قاسم کے پاس آ گئے ۔ ان میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر قاسم کے منہ پر سختی سے ہاتھ رکھ دیا۔ ہاتھ کا دباؤ اتنا شدید تھا فوراً ہی قاسم کی آنکھ کھل گئی اور اس نے اس ہاتھ کی گرفت سے نکلنے کے لیے جھٹکے کے ساتھ اٹھنا چاہا۔ تبھی وہاں موجود دوسرے دو افراد میں سے ایک نے اس کے دونوں پاؤں کسی چیز سے کس کر باندھ دیے اور قاسم بے بس ہو کر رہ گیا۔ تبھی قریب کی کسی گلی میں صیہونیوں نے ایک مرتبہ پھر فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کی آواز سے تھوڑے فاصلے پر لیٹی ہوئی عبداللہ کی ماں یا خدا خیر کہتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔ اس نے قریب ہی مدھم سا شور سن کر ادھر توجہ کی اور پل بھر میں سب کچھ سمجھ کر چیختی ہوئی اس سمت دوڑی لیکن اس سے پہلے کہ وہ وہاں پہنچتی دو مضبوط ہاتھوں نے اس کو ایک طرف دھکیل دیا۔

خدا کے لیے اسے چھوڑ دو ظالمو۔

قاسم نے عبداللہ کی ماں کی آوازیں سن کر ایک مرتبہ پھر اس مضبوط ہاتھ سے نکلنے کی کوشش کی۔ اب تک اس کی سمجھ میں سب کچھ آچکا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے عبداللہ کی ماں نے یاسر کی ماں سے جس فتویٰ کا ذکر سنا تھا۔ وہ جان چکا تھا کہ وہ انسانی گوشت کھانے کے سلسلے میں ہے ۔

یکایک قاسم نے اپنے گلے کی نرم کھال پر کسی آلے کی تیز دھار کو محسوس کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی وقت آنگن کے کونے میں دو مضبوط بازوؤں کی گرفت میں جکڑی عبداللہ کی ماں کی آواز اس کے کانوں میں پڑی وہ چیخ کر کہہ رہی تھی۔

کلمہ پڑھو میرے لعل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کلمہ پڑھو۔ ۔ ۔ ۔

اور ننھے قاسم نے دل ہی دل میں کلمہ شہادت پڑھنا شروع کر دیا۔

لا الہ الا اللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لا الہ الا اللہ۔

٭٭٭

 

پیغمبر کی ماں

               ڈاکٹر سید فرحت حسین

قمری سال کا آخری مہینہ حج کا ہے ۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، اسی لیے حج کے دوران کیے جانے والے بعض ارکان کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کے واقعات سے ہے ۔ ان میں حج کے دوران صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا بھی شامل ہے ۔ سعی کے معنی دوڑنا اور کوشش کرنا ہیں۔ اس کا تعلق اس مامتا سے ہے جو ایک ماں کو اپنے بچے سے ہوتی ہے ۔

حضرت بی بی ہاجرہ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ تھیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام ان کی اکلوتی اولاد تھے ۔ جب وہ پیدا ہوئے تو انتہائی حسین و جمیل اور خوب صورت تھے ، آنکھیں روشن اور پر نور۔ بہت دعاؤں اور تمناؤں کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلی اولاد عطا کی تھی اور حضرت ہاجرہ کو ایک پیغمبر کی بیوی کے علاوہ ایک پیغمبر کی ماں ہونے کا شرف عطا کیا تھا۔ باپ انتہائی مسرور تھے اور انہیں ایک لمحے کے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے ۔ ماں ان پر جان نچھاور کرتی تھیں ور ان کو دیکھ کر جیتی تھیں۔ پیغمبر ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بی بی ہاجرہ کو ایک امتحان اور آزمائش سے گزارا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بی بی ہاجرہ اور نومولود اسماعیل کو بیت المقدس سے دور عرب کے ویران ریگستان میں چھوڑ آئیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا، اس لیے اس کا ماننا اور اس پر عمل کرنا فرض تھا۔ انسان ہونے کے ناتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دکھ ہوا۔ مگر اللہ کی رضا کے لیے اپنی خوشیاں قربان کرنا ہر انسان کا فرض ہے ۔ اصل خوشی اللہ کو راضی رکھنا ہے ۔ چناں چہ انہوں نے اپنے بیٹے اور بیوی کو ساتھ لیا۔ ماں، بیٹے کو ایک الگ اونٹ پر سوار کرایا، خود دوسرے اونٹ پر بیٹھے اور نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئے ۔ کئی روز تک سفر کرتے رہے ۔ آخر لمبے سفر کے بعد ایک جگہ رک گئے ۔ یہ ایک اجاڑ اور ویران ریگستان تھا۔ ماں اور بیٹے کو ایک محفوظ سی جگہ پر بٹھا دیا۔ خود کسی سوچ میں ڈوبے رہے ۔ آخر حکم الٰہی کے مطابق کچھ دیر کے بعد بیوی بچے کو ریگستان میں تنہا چھوڑ کر وہاں سے واپس چلے آئے ۔ یہ ریگستان کوہ صفا و مروہ کے قریب واقع تھا، جہاں تک نظر جاتی تھی نہ کوئی سایہ نہ کوئی درخت۔ دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں تھا۔ وہی جگہ ہے جہاں آج خانہ کعبہ ہے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کی بات بی بی ہاجرہ کو نہیں بتائی تھی۔ وہ ننھے اسماعیل کو گود میں لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی واپسی کا انتظار کرتی رہیں۔ جب کافی دیر ہو گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس نہیں آئے تو ان کو بڑی حیرانی ہوئی اور چہرے پر مایوسی اور پریشانی چھانے لگی۔

دن کا وقت تھا۔ سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ریگستان کی تپش اور سورج کی تیزی نے گرمی کو اور بڑھا دیا تھا۔ بی بی ہاجرہ کو پیاس نے ستایا تو انہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس کی فکر ہوئی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام پیاس کی وجہ سے بہت بے چین ہو رہے تھے اور نڈھال ہوئے جا رہے تھے ۔ بی بی ہاجرہ اپنی پیاس کو تو کسی نہ کسی طرح برداشت کر رہی تھیں، لیکن ننھے بچے کا پیاس سے تڑپنا اور ایڑیاں رگڑنا ان کی برداشت سے باہر تھا۔ جب وہ مامتا کی وجہ سے بے قابو ہو گئیں تو خود پانی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئیں۔ ننھے بچے کو اس لق و دق صحرا میں تنہا چھوڑ کر جانا بھی ماں کو گوارا نہ تھا اور بچے کے لیے پانی کی تلاش بھی ضروری تھی۔ کبھی وہ صفا پہاڑی کی طرف پانی کی تلاش میں جاتیں، لیکن مامتا انہیں بچے کو تنہا چھوڑ دینے پر وسوسوں میں گھیر لیتی تو اسے دیکھنے کے لیے واپس آ جاتیں۔ بچے کو پیار سے بے تاب دیکھ کر پھر ہمت کرتیں اور اپنی تلاش کرنے کے لیے مروہ پہاڑی کی طرف چلی جاتیں۔ بچے کی تنہائی کا خیال آتا تو بے چین ہو کر پھر واپس آ جاتیں۔ اس طرح بی بی ہاجرہ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کی غرض سے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگائے ، لیکن انہیں پانی کی تلاش میں کامیابی نہیں ہوئی۔

آخر مامتا کی بے تابی پر قدرت کو رحم آ گیا۔ ساتویں مرتبہ جب بی بی ہاجرہ مایوسی اور فکر کے عالم میں بچے کو دیکھنے واپس آئیں تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ننھے اسماعیل پیاس کی شدت سے بے تاب ہو کر جس جگہ ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں اللہ کے حکم اور مہربانی سے صاف شفاف پانی کا چشمہ جاری ہے ۔ اس لق و دق صحر میں اتنا صاف اور میٹھا پانی پا کر ماں کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور ان کے دل کو قرار و سکون مل گیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکرا ادا کیا۔ پہلے بچے کو پانی پلایا۔ جب ان کو قرار آ گیا اور ان کی پیاس بجھ گئی تو پھر خود بھی سیر ہو کر پانی پیا۔

بی بی ہاجرہ نے پانی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے چاروں طرف مٹی اور پتھر لا کر جمع کر دیے ۔ یہ چشمہ آب زم زم کے نام سے آج تک جاری ہے ۔ اسی موقع پر بی بی ہاجرہ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز کیے جانے کی خوش خبری دی گئی۔

قدرت کو بچے کے لیے ماں یہ تڑپ اور جدوجہد بہت پسند آئی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماں کی اس مامتا کا اعتراف اس طرح کیا گیا کہ اللہ نے اپنے گھر خانہ کعبہ کے طواف کے ساتھ ساتھ صفا و مروہ کے درمیان "سعی” یعنی سات چکر لگانے کو حج کے ارکان میں شامل کیا اور حضرت ہاجرہ کی روایت کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایڑیاں رگڑنے سے جو پانی جاری ہوا اسے پاکیزگی عطا کی گئی اور آب زم زم پینے اور اس کا احترام کرنے کو کار ثواب اور وجہ فیض قرار دیا۔

٭٭٭

 

اللہ تعالی خوش ہوئے

ہمارے پیاری نبی صلی اللہ علیہ وسلم مہمانوں کا بہت خیال رکھتے تھے ۔ ان کے لیے اپنے گھر سے کھانا منگواتے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ نہ ہوتا تو مہمان کو کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کے گھر بھیج دیتے ۔

ایک دفعہ ایسا ہی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے اپنے گھر سے کھانا منگوایا۔ پتہ چلا گھر میں کچھ نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے کہا: آج ہمارے مہمان کو کون اپنے گھر لے جائے گا۔ اس زمانے میں سب ہی مسلمان غریب تھے ۔ اپنے کھانے کو بھی کم ہوتا تھا مگر ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے ۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ جھٹ سے بولے : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کو میں اپنے گھر لے جاؤں گا۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کو ان کے ساتھ کر دیا۔ وہ مہمان کو لیے گھر پہنچے اور اندر جا کر بیوی سے کہا: آج میں بہت خوش ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کو اپنے گھر لایا ہوں۔ ان کی بیوی بھی خوش تو ہوئیں مگر کہنے لگیں : لیکن گھر میں کھانا تو بس اتنا ہے کہ بچے کھالیں۔ مہمان کو کیا کھلائیں گے ۔ وہ کہنے لگے : ایسا کرو بچوں کو آج بہلا کر باتوں میں لگا کر سلادو۔ کھانا جو کچھ بھی ہے وہ ہم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کو کھلائیں گے ۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہمارے گھر روز روز تھوڑا ہی آتا ہے ۔ پھر انہوں نے مہمان کو گھر میں بلا لیا۔ بیوی نے بچوں کو بہلا کر سلا دیا اور کھانا مہمان کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ انہوں نے اپنی بیوی سے کان میں کہا: کھانا تھوڑا ہے اگر ہم لوگ بھی کھائیں گے تو مہمان بھوکا رہ جائے گا۔ اگر ہم لوگ نہیں کھائیں گے تو وہ بھی کھانے سے انکار کر  دے گا۔ کہے گا تم بھی کھاؤ۔ بیوی نے کہا: پھر کیا کریں۔

وہ بولے ۔ ایسا کرنا جب ہم لوگ کھانا کھانے بیٹھیں تو چراغ ٹھیک کرنے کے بہانے اسے بجھا دینا۔ پھر ہم جھوٹ موٹ منہ چلاتے رہیں گے ۔ مہمان سمجھے گا ہم بھی اس کے ساتھ کھا رہے ہیں۔ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا لے گا۔

ان کی بیوی نے ایسا ہی کیا۔ مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھالیا اور یہ دونوں میاں بیوی اور ان کے بچے بھوکے ہی سوگئے ۔ صبح جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہارے رات کے کام سے بہت خوش ہوئے ۔

٭٭٭

 

اللہ کے شیر

حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی بھی تھے اور داماد بھی۔ بچپن میں وہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس رہتے تھے ۔ اس لیے بھی آپ کو ان سے بہت محبت تھی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت بہادر تھے ۔ اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے تھے ۔ ان کی بہادری کا ایک واقعہ تو یہ ہے کہ جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف چھوڑ کر مدینہ شریف جا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: آج رات تم میرے بستر پر سونا اور صبح لوگوں کی امانتیں واپس کر کے مدینہ چلے آنا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ آج رات بہت سے کافر مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوتے میں قتل کرنا چاہتے ہیں مگر آپ رضی اللہ عنہ ڈرے نہیں، بے خوف ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سوگئے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہادری کا ایک واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے جنگ خندق کے موقع پر ایک ایسے کافر کو مارا تھا جو ایک ہزار انسانوں کے برابر طاقت رکھنے والا کہلاتا تھا۔ اس کا نام عمرو ابن عبدود تھا۔

ہوا یہ تھا کہ مکہ کے کافروں نے ہزاروں کے لشکر کے ساتھ مدینہ شریف پر حملہ کر دیا تھا۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بچاؤ کے لیے مدینہ کی تین طرف (بہت گہری اور چوڑی نالی) کھودی تھی۔ ایک دن عمرو بن عبدود اپنے گھوڑے کو چھلانگ لگوا کر خندق کے اس طرف آ گیا اور کہنے لگا: ہے کسی میں ہمت جو میرے سامنے آئے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مقابلے کی اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی جانتے ہو یہ عمرو بن عبدود ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں جانتا ہوں۔ پھر آگے بڑھے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا خاتمہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بہادری کی وجہ سے انہیں اسد اللہ یعنی اللہ کا شیر کہا کرتے تھے ۔

٭٭٭

 

ستر گنا نفع

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص دوستوں میں ایک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ وہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داما بھی تھے ۔ وہ شروع شروع کے زمانے میں مسلمان ہوئے تھے ۔ مسلمان ہونے پر ان کا کافر چچا ان کو بہت تکلیف دیتا تھا مگر آپ رضی اللہ عنہ اسلام کے لیے تکلیف سہتے تھے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک تاجر تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی دولت دی تھی جو وہ اسلام پر خرچ کرتے تھے ۔ ایک بار ایسا ہوا کہ مدینہ شریف میں اناج ختم ہو گیا۔ لوگوں کا بھوک سے برا حال ہو گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوسرے شہر سے اناج منگوایا۔ جب اناج سے لدے ہوئے اونٹ مدینہ شریف پہنچے تو شہر کے دکان دار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑے دوڑے آئے اور کہا: آپ یہ اناج زیادہ پیسے لے کر ہمارے ہاتھ بیچ دیں۔ ہم اپنی دکانوں پو لوگوں کے ہاتھ بیچ دیں گے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ن پوچھا: آپ لوگ اس اناج پر مجھے کتنا نفع یعنی فائدہ دیں گے ۔

دکان دار جانتے تھے کہ آج کل اناج کی بہت کمی ہے ۔ ہم اس سودے میں خوب نفع کمائیں گے ، کہنے لگے : ہم آپ رضی اللہ عنہ کو دگنا نفع دیں گے (یعنی آپ نے جو اناج دس روپے کا خریدا ہے اس کے ہم بیس روپے دیں گے )۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ یہ لوگ مجھے دگنے پیسے دیں گے تو لوگوں سے تگنے اور چوگنے پیسے لیں گے ۔ غریب لوگ اتنا مہنگا کیسے خریدیں گے ۔ آپ رضی اللہ عنہ تو چاہتے تھے کہ شہر کے غریب سے غریب آدمی کو بھی اناج مل جائے ۔

آپ رضی اللہ عنہ نے ان دکانداروں سے کہا: آپ مجھے دگنا نفع دے رہے ہیں مگر مجھے اس سے بھی زیادہ نفع مل رہا ہے ۔

انہوں نے پوچھا: کتنا۔

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ستر گنا!

دکان دار کہنے لگے : بھلا ستر گنا نفع کون دے گا۔

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ۔

آپ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں مجھے ستر گنا ثواب دیں گے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ شریف میں اعلان کر دیا کہ اناج آ گیا ہے جو لوگ خرید نہیں سکتے وہ مفت لے جائیں۔

غریب لوگ آئے اور اناج لے کر آپ رضی اللہ عنہ کو دعائیں دیتے ہوئے گئے ۔

٭٭٭

 

سُنیں گے اور مانیں گے

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی تھی۔ وہ کافروں سے جنگ جیتے تھے ۔ جنگ میں ان کے ہاتھ بہت سا مال آیا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن نماز پڑھانے آئے تو نماز سے پہلے تقریر کرنے کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے کہا: سُنو! اور بات مانو!

نمازیوں میں سے ایک آدمی اٹھا اور بولا: نہیں، نہ ہم سُنیں گے نہ مانیں گے ۔ پہلے یہ بتاؤ کہ آپ رضی اللہ عنہ کا کرتا کیسے بن گیا۔ کافروں سے لڑنے والے ہر آدمی کو ایک ایک چادر ملی تھی۔ میرا قد تو آپ رضی اللہ عنہ سے بھی چھوٹا ہے ۔ ایک چادر میں تو میرا کرتا بھی نہیں بنا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قد تو مجھ سے لمبا ہے ۔ کیا آپ رضی اللہ عنہ نے ایک سے زیادہ چادریں لے لی ہیں۔ جب تک آپ رضی اللہ عنہ میری اس بات کا جواب نہیں دیں گے ، نہ ہم آپ رضی اللہ عنہ کی بات سنیں گے نہ مانیں گے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تقریر روک دی اور کہا: تمہارے سوال کا جواب میرا بیٹا دے گا۔

یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے اپنی جگہ سے اٹھے ، کہنے لگے : ایک چادر ابا جان کو ملی تھی ایک مجھے ملی تھی۔ ایک چادر میں کرتا نہیں بن رہا تھا۔ میں نے اپنی چادر ابا جان کو دے دی اور دونوں چادروں سے ابا جان کا کرتا بن گیا۔

جب سوال کرنے والے نماز کو معلوم ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوسروں کی طرح خود بھی ایک ہی چادر لی ہے تو کہنے لگا: ہاں اب آپ رضی اللہ عنہ کو کہنے کا حق ہے ۔ اب ہم آپ رضی اللہ عنہ کی بات سنیں گے بھی اور مانیں گے بھی۔

ایسی ہی باتوں سے رعایا کے دل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عزت تھی اور لوگ ان کا حکم مانتے تھے ۔

٭٭٭

 

رعایا کی خدمت

بچو! تم نے پڑھا ہو گا کہ بادشاہ اور حاکم اپنے سارے کام اپنے نوکروں سے کراتے ہیں، خود آرام کرتے ہیں۔ مگر مسلمان حاکم ایسے نہیں ہوتے ۔ وہ خود کام کر کے رعایا کو آرام پہنچاتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ بھی۔ ہم تمہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خاص صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قصہ سناتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ شریف کی گلیوں میں چکر لگا کر یہ دیکھا کرتے تھے کہ کسی گھر میں کوئی تکلیف تو نہیں۔ ایک بار وہ چکر لگا رہے تھے کہ ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آئی۔ وہ اجازت لے کر گھر کے اندر گئے اور بچوں کی ماں سے پوچھا: یہ بچے کیوں رو رہے ہیں۔

بچوں کی ماں نے جواب دیا: بھوک کے مارے رو رہے ہیں۔

انہوں نے پوچھا: تم نے دن ہی سے کھانا پکا ر انہیں کیوں نہیں کھلایا۔

وہ بولی: آج میرے گھر میں پکانے کو کچھ نہیں تھا۔

انہوں نے پوچھا: مگر چولہے پر ہانڈی تو چڑھی ہوئی ہے ۔

اس نے جواب دیا: ہانڈی تو میں نے بچوں کو بہلانے کو چولہے پر رکھ دی ہے ۔ اس میں پانی کے سوا کچھ نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیت المال آئے جہاں غریبوں کی مدد کے لیے سامان رکھا رہتا تھا۔ وہاں سے کھانے پینے کا سامان لیا اور اٹھا کر چلنے لگا۔

بیت المال کے نوکر نے کہا: لائیے یہ سامان میں اٹھا کر چلوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم دنیا میں تو میرا بوجھ اٹھا لو گے ، آخرت میں کیسے اٹھاؤ گے ۔ مطلب یہ تھا کہ رعایا کی خدمت کرنا میرا کام ہے ۔ یہ میں خود کروں گا۔

ٌپھر آپ رضی اللہ عنہ جلدی جلدی اس عورت کے گھر پہنچے ۔ اسے کھانے کا سامان دیا۔ چولہے کی آگ دھیمی ہو گئی تھی۔ پھونکیں مار مار کر تیز کی۔ جب عورت نے کھانا پکا کر بچوں کو کھلا دیا تب آپ رضی اللہ عنہ وہاں سے واپس آئے ۔

٭٭٭

 

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری

 جو آدمی اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے اسے بہادر کہتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت بہادر تھے ۔ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے ۔ جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف چھوڑ کر مدینہ شریف جا رہے تھے ، اس رات کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو گھیر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوتے میں قتل کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں سے نہیں ڈرے ۔ قرآن شریف پڑھتے ہوئے باہر آ گئے ۔ کافروں کو اللہ کے حکم سے نیند آ گئی۔ وہ آپ کو جاتے ہوئے دیکھ ہی نہ سکے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچا لیا۔ سورج نکلنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک غار میں پناہ لی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار سے نکل کر مدینہ شریف کے راستے پر جا رہے تھے تو ایک کافر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا۔ وہ گھوڑا دوڑا کر آگے بڑھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! دشمن تو بالکل پاس آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا نہ ڈرے ، فرمایا، فکر نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دشمن کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرا۔ پھر اٹھا تو پاؤں زمین میں دھنس گئے ۔ وہ کافر سمجھ گیا کہ آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہیں۔ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچا رہا ہے ۔ وہ کافر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچا لیا۔

ایک بار مسلمانوں اور کافروں میں جنگ ہو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے میدان میں ایک طرف پیٹر کے نیچے لیٹے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ ایک کافر ادھر آنکلا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پیٹر سے اتاری اور بولا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا نہ ڈرے ۔ فرمایا: اللہ!

کافر اللہ کا نام سن کر خود ڈر گیا اور اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچا لیا۔

بچو! تم بھی اللہ پر بھروسہ کرو اور بہادر بنو تو تمہارا بھی کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ۔

٭٭٭

 

دوسروں کے کام آنا

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے بندوں کے کام آئیں۔ ہمارے پیاری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دوسروں کے کام آتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بھی جنہیں ہم صحابی کہتے ہیں سب کے کام آتے تھے ۔

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پکے دوست حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی سب کے کام آتے تھے ۔ ان کے گھر کے پاس ایسی بچیوں کا گھر تھا جن کے ماں باپ اللہ میاں کے پاس چلے گئے تھے ۔ بچیاں اتنی چھوٹی تھیں کہ اپنی بکریوں کا دودھ بھی نہیں دوہ سکتی تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیقی رضی اللہ عنہ ان کے گھر جاتے اور ان کی بکریوں کا دودھ دوہ دیتے ۔ جب ہمارے پیاری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو پیارے ہوئے تو سب لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ اپنا حاکم یعنی خلیفہ بنایا۔ جب ان بچیوں کو پتہ چلا کہ حضرت ابو بکر صدیقی رضی اللہ عنہ خلیفہ بن گئے ہیں تو وہ فکر میں پڑ گئیں۔ کہنے لگیں :

اب ہماری بکریاں کون دوہے گا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

میں خلیفہ ہو گیا ہوں تو کیا ہوا۔ میں پہلے کی طرح تمہاری بکریاں دوہا کروں گا۔

بچیاں یہ سن کر خوش ہو گئیں۔

مدینہ میں ایک اندھا آدمی رہتا تھا۔ اس کے لیے اپنا کام کرنا مشکل ہوتا تھا۔ ایک دن ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ میں کل سے اس آدمی کا کام کر دیا کروں گا۔

دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس آدمی کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ اس کا کام تو پہلے ہی کوئی کرگیا ہے ۔ ا سے اگلے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ صبح سویرے وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلیفہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کے گھر کا کام کر رہے ہیں۔ ایسے ہی کاموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ صحابہ رضی اللہ عنہ سے خوش تھے اور اس نے انہیں عزت دی تھی۔

٭٭٭

 

جھوٹ کھل گیا

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بہت اچھی عادتوں کا مالک بنایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک اچھی عادت یہ بھی تھی کہ کمزوروں کو سہارا دیا کرتے تھے ۔ اس اچھی عادت کی وجہ سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند کرتے تھے اور مسلمان ہو جاتے تھے ۔

مکے کے کافر نہیں چاہتے تھے کہ لوگ بتوں کی پوجا چھوڑیں اور مسلمان ہو جائیں۔ وہ سب سے کہتے پھرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مت سننا۔ یہ جادوگر ہیں تم پر جادو کر دیں گے ۔ وہ جھوٹ بول کر لوگوں کو اسلام سے دور رکھنا چاہتے تھے ۔

ایک بار کیا ہوا کہ ایک بوڑھی عورت ایک گٹھڑی سامنے رکھے کھڑی تھی۔ اس نے ہماری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پاس سے گزرتے دیکھا تو کہا: بیٹا ذرا یہ میری گٹھڑی اٹھوا کر میرے سر پر رکھوا دے ۔

ہماری پیاری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بڑھیا کمزور ہے ۔ اسے گٹھڑی اٹھانے میں تکلیف ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی گٹھڑی خود اٹھا لی اور جس جگہ اسے جانا تھا وہاں لے گئے ۔ بڑھیا راستے بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعائیں دیتی رہی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے گھر پہنچا کر واپس آنے لگے تو کہنے لگی: تم بہت اچھے انسان ہو۔ دیکھو! میں نے سنا ہے ہمارے شہر میں ایک جادوگر رہتا ہے اس کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے ۔ وہ اپنے آپ کو نبی کہتا ہے ۔ اس سے ہرگز بات مت کرنا۔ نہیں تو وہ تم پر جادو کر دے گا۔

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھیا کی یہ بات سن کر فرمایا: اماں میں ہی تو محمد ہوں۔ ۔

بڑھیا کہنے لگی:

اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو تو تم جادوگر نہیں ہوسکتے ۔ تم تو بہت اچھے انسان ہو۔ پھر وہ بوڑھی عورت کلمہ بڑھ کر مسلمان ہو گئی۔

٭٭٭

 

سب سے بڑا حج

               میرزا ادیب

ذوالنون مصر کے ایک بڑے عالم فاضل درویش تھے ۔ صرف مصر کے شہر ہی نہیں مصرف کے باہر بھی لاکھوں لوگ ان کی بڑی عزت و احترام کرتے تھے ۔ ایک بار وہ حج کے لیے گئے ۔ حج سے فارغ ہو کر ایک جگہ اکیلے بیٹھے تھے کہ ان کے کانوں میں ایک آواز آئی: "اس مرتبہ سب سے پہلے احمد اشکاک کا حج قبول ہوا ہے "۔

ذوالنون نے یہ آواز سنی تو حیران رہ گئے ، کیوں کہ وہ احمد اشکاک کو اچھی طرح پہچانتے تھے ۔ یہ آدمی مصرف میں ایک موچی تھا۔ دن بھر کام کر کے گھر کا خرچ چلاتا تھا۔ یہ موچی حج کے اخراجات کیوں کر پورے کر سکتا تھا ان میں احمد اشکاک موجود نہیں تھا۔ اس صورت میں جب کہ وہ حج کے لیے آیا ہی نہیں تھا، اس کا حج کیسے قبول ہو گیا تھا، لیکن ذوالنون اس حقیقت سے بھی بہ خوبی واقف تھا کہ جو آواز ان کے کانوں میں آئی ہے وہ کبھی جھوٹ بات نہیں ہوسکی۔

وہ اسی حیرت کی حالت میں واپس مصر چلے آئے اور آتے ہی اپنے ایک مرید کو بھیجا کہ احمد اشکاک کو بلا لائے ۔ احمد اشکاک فوراً ان کی خدمت میں حاض ہو گیا۔

ذوالنون نے پوچھا: "احمد! یہ بتاؤ، کیا اس مرتبہ تم حج پر گئے تھے "۔

احمد اشکاک نے جواب دیا: "جناب ! آپ کو خبر ہے کہ مصر کے جو لوگ حج کے لیے روانہ ہوئے تھے وہ سب کے سب آپ کے ساتھ گئے تھے "۔

ذوالنون نے کہا: "میں جانتا ہوں تم ان لوگوں میں شامل نہیں تھے :۔

احمد اشکاک نے کہا: "جی، میں حج پر نہیں گیا تھا”۔

ذوالنون، احمد اشکاک کو غور سے دیکھ رہے تھے کہ وہ بولا: "جناب ! آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں، معاملہ کیا ہے "۔

ذوالنون نے اس آواز کی بات بتائی تو وہ کہنے لگا: "اگر آپ اجازت دیں تو میں سارا قصہ آپ کو سنادیتا ہوں "۔

ذوالنون نے اسے سب کچھ سنانے کی اجازت دے دی۔ اس پر وہ یوں گویا ہوا: "جناب! حج کرنے کی آرزو میرے دل میں اس وقت پیدا ہوئی جب میری عمر بیس برس بھی نہیں تھی۔ میرے دل نے کہا کہ احمد اشکاک! تو ایک غریب موچی ہے ۔ صبح سے شام تک کام کرتا ہے ، پھر کہیں جا کر کچھ پیسے کماتا ہے ۔ حج پر جانے کے لیے آدمی کے پاس اتنی رقم تو ہونی چاہیے کہ وہ راستے کے خرچ پورے کر سکے ۔ تو حج کیسے کر سکتا ہے ۔ یہ خیال چھوڑ دے ، مگر میں نے دل کی بات رد کر دی”۔

ذوالنون نے پوچھا: ” تم نے دل کی بات رد کر کے کیا کیا”۔

احمد اشکاک کہنے لگا: ” جناب! میں نے سوچ لیا کہ ہر روز کچھ نہ کچھ جمع کروں گا اور جب اتنی رقم ہو جائے گی جو حج کے لیے کافی ہو تو اپنی یہ آرزو پوری کر لوں گا۔ چناں چہ میں نے زیادہ محنت سے کام شروع کر دیا۔ ہر سال جب حج کا موقع آتا تھا تو اپنے جمع کیے ہوئے پیسوں پر نظر ڈالتا تھا، مگر یہ پیسے بہت ہی کم ہوتے تھے ، اس طرح چالیس برس گزر گئے "۔

ذوالنون نے پوچھا: "تم چالیس برس تک پیسے جمع کرتے رہے "۔

احمد اشکاک نے جواب دیا: "جی ہاں، میں نے ایسا ہی کیا۔ اس سال جب میں نے اپنی جمع کی ہوئی رقم کو دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ یہ ایک اچھی خاصی رقم تھی اور میں اس سے بغیر کسی وقت کے حج کا فریضہ ادا کر سکتا تھا”۔

ذوالنون بولے : "لیکن تم حج پر تو نہیں گے تھے "۔

احمد اشکاک نے کہا: "ہاں، میں حج پر نہیں گیا تھا، حج پر روانہ ہونے سے پہلے میرا چھوٹا بیٹا دیر تک گھر سے باہر کھیلتا رہا۔ جس وقت آیا تو اسے سخت بھوک لگی تھی اور گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کی ماں نے کہا: "بیٹا! ناصر کے گھر چلا جا، ناصر کی ماں تجھے روٹی اور سالن دے دے گی۔ میرا بیٹا میرے ہمسائے کے گھر میں چلا گیا اور جب واپس آیا تو بہت مایوس دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے پوچھا: "کیا ہوا”۔

میرا بیٹا بولا: "ابا جان! ناصر اور اس کے گھر والے گوشت کھا رہے تھے ۔ میں نے مانگا تو دینے سے انکار کر دیا:۔

میں نے اپنے بیٹے کی زبانی یہ الفاظ سنے تو سخت غصہ آیا۔ بلند آواز میں کہا: "کیسے سنگ دل ہمسائے ہیں۔ خود گوشت کھا رہے ہیں اور بھوکا بچہ مانگتا ہے تو اسے ایک بوٹی بھی نہیں دیتے "۔

ناصر کے باپ نے یہ الفاظ سن لیے ۔ تھوڑی دیر بعد آیا اور بولا: "احمد اشکاک! میں ایک مردہ بکری کا گوشت تمہارے بیٹے کو کیوں کر سے سکتا تھا۔ میں اور میرا کنبہ کئی روز سے بھوکے تھے ۔ میری پہلی نوکری ختم ہو گئی ہے اور دوسری ابھی ملی نہیں۔ گھر میں ایک پیسہ بھی نہیں۔ آج میں مردہ بکری کا گوشت لے آیا تھا، تاکہ کچھ سہارا تو ملے "۔

میں نے کہا: "ناصر کے ابا! تم نے اپنے آپ پر اور اپنے ہمسایوں پر ظلم کیا ہے ۔ اپنی حالت بتادیتے ۔ کیا ہم ایسے بخیل آدمی تھے کہ تمہاری مدد ہی نہ کرتے "۔

وہ بولا: "یہ میری غیرت نے گوارا نہ کیا”۔

رات کو میں بستر پر سو نہ سکا۔ دل سخت بے چین تھا۔ یہ ساری رات میں نے بڑی بے تابی سے گزاری۔ صبح میں نے وہ ساری رقم جو حج کے لیے جمع کر رکھی تھی، صندوق سے نکالی اور ناصر کے ابا کے پاس جا کر کہا: "لے میرے بھائی! اس سے گھر کا خرچ چلا”۔

"وہ پیسے نہیں لیا تھا۔ میں نے اسے لینے پر مجبور کر دیا”۔ یہ کہہ کر احمد اشکاک خاموش ہو گیا۔

ذوالنون نے یہ ساری کہانی سنی تو کہنے لگے : "احمد اشکاک! مکے میں جو آواز میرے کانوں میں آئی تھی اس نے بالکل درست کہا تھا۔ اللہ نے سب سے پہلے تیرا حج قبول کیا ہے ۔ بے شک تو نے جس قسم کا حج کیا ہے وہ سارے حاجیوں کے حج سے افضل ہے ۔ یہ سب سے بڑا حج ہے "۔

٭٭٭

 

ماخذ:

http://www.vshineworld.com/urdu/library/stories/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید