FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اردو میں افسانچہ کی روایت۔  تنقیدی مطالعہ

ڈاکٹر عظیم راہی

انتساب

ان تمام افسانچہ نگاروں کے نام

 جنھوں نے اس صنف کو اپنا خونِ جگر دے کر پروان چڑھایا

 اور اسے پھلنے پھولنے میں اپنی بھرپور معاونت سے، اس کے

 بام عروج تک پہنچنے کے امکانات روشن کئے۔

 

مصنف ایک نظر میں

 پورا نام: ڈاکٹر محمد عظیم الدین (ولد محمد سلیم الدین صاحب مرحوم)

 قلمی نام: ڈاکٹر عظیم راہی

 تاریخ پیدائش : ۱۹جون۱۹۵۸ء

 تعلیمی لیاقت : ۱) بی ایس سی (ریاضی) ۲) ایم۔ اے (اردو) مرہٹواڑہ یونیورسٹی اورنگ آباد

 ۳) پی ایچ ڈی ، سنت گاڑگے بابا امراؤتی یونیورسٹی، امراؤتی

 مصروفیت: سرکاری ملازمت۔ بحیثیت جونیئر ٹیلیکام آفیسرمحکمۂ مواصلات، اورنگ آباد

 تصانیف: ۱) ’’پھول کے آنسو‘‘ (افسانچے)

 ۲) ’’اگلی صدی کے موڑ پر‘‘ (افسانے)

 ۳) ’’درد کے درمیاں ‘‘ (افسانچے)

 ۴) ’’ریزہ ریزہ دل‘‘ (افسانچے) از نذیر فتح پوری۔ مرتب عظیم راہی۔

 زیر ترتیب کتابیں : ۱) اپنے دائرے کا قیدی (افسانے) ۲)کل اور آج کا غم (افسانچے)

 ۳) مرہٹواڑہ میں اردو افسانہ، ایک انتخاب

 ۴) آبگینے۔ (تبصرے، تجزیے)

 ۵) شخصیت۔ فن کے آئینے میں (تاثراتی مضامین)

 ۶) دکھ بولتے ہیں۔  (نثری نظمیں )۔  ۷) بن بلایا مہمان۔ (طنز و مزاح)

 ۸) جدید اردو افسانہ۔ ۱۹۷۰ء کے بعد۔ تنقیدی مطالعہ

 انعامات  و اعزازات: ۱) کالج میگزین کمپٹیشن، میں مرہٹواڑہ یونیورسٹی کی جانب سے افسانہ ’’جاگتی آنکھوں کے خواب‘‘ کو انعام اول۔

 ۲) مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کی جانب سے افسانوی مجموعہ ’’اگلی صدی کے موڑ پر‘‘ کو پہلا انعام۔

 ۳) غالب کلچرل اکیڈمی (بنگلور) سے کرشن چندر اعزازی ادبی ایوارڈ۔

 

پیش لفظ

لمبی چوڑی انسانی قدروں کو اگر افسانوی ادب میں چھوٹی سی فنی اور وارداتی لَے میں باندھا جاسکے تو ہمارے کان جلوسی پٹاخوں کے شور سے بچے رہتے ہیں۔  ظاہر ہے، قدروں کی پال پوس کی ذمہ داری کے بغیر بھی افسانوی ادب کو چارہ نہیں ، تاہم قدریں تو کہانی کے اَن دیکھے باطن میں باشندگی اختیار کیے ہوتی ہے اور انھیں وہاں سے نکال کر ہونٹوں پر بٹھا دیا جائے تو ان کی ہمہ وقت خارجی پنڈتائی کے شور سے ماحولیاتی آلودگی کے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔

 اس خصوص میں افسانچے کی مقبولیت کا ایک اہم تر سبب اس کے پرگو اختصار کی بہم کردہ فنی آسودگی کی یہی وارداتی لَے ہے جس کی بدولت ریڈر کو اپنے ذاتی معانی تک آپ ہی آپ پہنچ پانے کا ایک آزاد تخلیقی موقع فراہم ہو لیتا ہے۔ اسی موقع کی راہ کی ہمواری کے لیے افسانچے کی برتر اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن مصنفین اور قارئین میں سے کوئی کیونکر اور کہاں تک اس موقع کا اہل ہو پاتا ہے، اس کا انحصار اس کی اپنی شخصی استعداد پر ہے۔

 اسی باب میں یہ سمجھ لینا بھی لازم ہے کہ تخلیقی صلاحیت صرف لکھ پانے تک ہی محدود نہیں ہوتی، پڑھ پانا بھی تخلیقی صلاحیت کا ہی خاصہ ہے، اور اگر ایسا ہوسکے تو افسانچے کے مصنف اور قاری ہر دو بخوبی سمجھ جاتے کہ اس صنف کے عطا کردہ لازمی اختصار اور تخلیقی ساجھے داری کے باعث وہ کیونکر اپنی تبلیغی باتونی پن کی ترغیب سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

 عظیم راہی نے اپنے سالہا سال کی محنت اور لگن سے افسانچے کی روایت کا یہ نہایت مفید تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے اس مطالعۂ میں جہاں بیشتر نکات کی وضاحت بڑے استناد سے کی گئی ہے وہاں ایک آدھ مقام پر شاید بات کو مزید تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہے، مثلاً بعض قارئین کی یہی شکایت، کہ کئی ایک افسانچہ نگار اپنے افسانچے میں لطیفہ سا پیش کر کے رہ جاتے ہیں۔  اس تعلق سے ہمیں لطیفے کے تار و پود پر بھی غور کرنا ہو گا۔ لطیفے کے حسن میں بھی افسانچے کے مانند اس کا چست بیان اور وقوعی اختصار کارفرما ہوتا ہے، مگر یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ لطیفے اور افسانچے کے اس یکساں پہلو کے با وصف ہم صرف افسانچے کے چبھتے اور چوبند اختصار میں ہی اپنے دکھ وسکھ، یا صرف دُکھ کی جھلملاتی روشنی میں اَن کہے آگے پیچھے کو بھی جا لیتے ہیں۔

 بہرحال عظیم راہی کی یہ کتاب افسانچے کے مطالعۂ میں پہلا باقاعدہ تنقیدی باب ہے، اور یہ تنقیدی باب اتنی سرگرم ذمہ داری سے لکھا گیا ہے کہ اس کی ستائش میں بخل سے کام لینا کوتاہی کے مترادف ہو گا۔ راہی خود آپ بھی ایک اچھے افسانچہ نگار ہیں اور یوں اُن کا راست تخلیقی تجربہ بھی اُن کی ناقدانہ دریافت میں اُن کا معاون رہا ہے، …. اور اس سے بھی بڑھ کے، اُن کی یہ نہایت محبوب چاہ اور چاہ میں اس گنجائش کا پورا اہتمام، کہ آپ بھی اُن کے ساتھ سر جوڑ کر سوچیں اور اپنے نتائج خود آپ اخذ کریں ……..

 مبارکباد، عظیم راہی!

 ۱۰ مئی ۲۰۰۶ء جوگیندر پال

۲۰۴،  منداکنی، نئی دہلی، ۱۱۰۰۱۹

 

افسانچہ پر ،عظیم راہی کا ایک اہم کارنامہ

 عظیم راہی، ادب کے ایک سنجیدہ قاری ہیں۔  وہ خود تخلیق کار ہیں۔  جن کے افسانوں اور افسانچوں سے اردو کے قاری کو گہری واقفیت ہے۔ وہ اردو کے واحد افسانہ نگار ہیں جن کے تین افسانچوں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔  ان کے کھاتے میں ایک افسانوں کا مجموعہ ’’اگلی صدی کے موڑ پر‘‘ بھی ہے جو۱۹۹۶ء  میں منظر عام پر آ چکا ہے۔ ایک تخلیق کار کے لیے یہ بڑے چیلنج اور حوصلے کی بات ہوتی ہے کہ وہ اس صنف کی تاریخ اور فن کی چھان پھٹک بھی کرے، جس میں وہ خود لکھتا چلا آ رہا ہے۔ چوں کہ عظیم راہی، آپ اپنے میں ایک اہم اور قابل ذکر افسانچہ نگار ہیں۔  گذشتہ کم و بیش ۵۲ برسوں سے جس صنف کے ساتھ تخلیقی وابستگی برقرار رکھی ہے وہ افسانچہ ہی ہے۔ انھیں اس صنف کے سارے رموز کا گہرا علم ہے۔ ان کے تجربات عملی نوعیت کے ہیں۔  اس لیے وہ زیادہ ہماری توجہات کو برانگیخت کرتے ہیں نیز یہ کہ عظیم راہی کا طریق استدلال شبہات کو رفع ہی نہیں کرتا بلکہ مناسب حوالوں کے ذریعے اطمینان بخش حد تک قائل معقول کرنے کی قوت بھی رکھتا ہے۔ انھوں نے تاریخ اور فن کے تعین میں کہیں بھی متمرد رویہ اختیار نہیں کیا ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک تخلیق کار بلکہ اعلیٰ پائے کے تخلیق کار ہیں۔  اس بنا پر ان کی تنقید، منبر کی خطابت سے دہ چند دور ہے۔ وہ ہمارے بعض پیشہ ور نقادوں کے اس عصا کو کام میں لینے سے گریز کرتی ہے جو صرف ڈرانے دھمکانے کے کام آتا ہے۔ عظیم راہی نے اس صنف کو موضوع بحث بنایا ہے، جس پر گفتگو تو ہوتی رہی، مجموعاً اس کے تاریخی اور فنی پہلوؤں کو بنیاد بنا کر کسی نے اتنے بڑے کام کا منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ یوں بھی GENRE CRITICISM اصنافی تنقید کا باب ہمارے یہاں خالی ہے۔ ایک سطح پر بعض اجزاء کے اعتبار سے تمام ادبی اصناف ایک دوسرے میں خلط ملط ہیں۔  اسلوب کے لحاظ سے بھی جن فنی تدابیر کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، ان کا اطلاق کم و بیش ہر صنف پر ہوتا ہے۔ تکنیک ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی روشنی میں ہم مختلف اصناف کے مابین مغائرتوں کا ایک خاکہ مرتب کرسکتے ہیں۔  عظیم راہی نے افسانچے کے فنی لوازمات کے ضمن میں تکنیک کو بنیادی حوالہ بنایا ہے۔ موضوع و مواد یا پلاٹ کے عمل کی روایتی بحثوں کے بجائے ان تقاضوں پر غور کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ جن کی نوعیت میں ہر صنف کے ساتھ فرق واقع ہو جاتا ہے۔ عظیم راہی یہ بخوبی جانتے ہیں کہ تفصیل کے مقابلے میں اختصار اور ایجاز کا فن نسبتاً آزمائشی ہوتا ہے۔ تصویر کے مقابلے میں تصویرچہ کے فن کو بھی اسی بناء پر دشوار گذار کہا گیا ہے کہ وہ جتنا ظاہر میں اپنے آپ کو نمایاں کرتا ہے اس سے زیادہ وہ اپنے باطن میں ہوتا ہے۔ افسانچہ بھی ایک ایسا ہی مختصر کاری کا فن ہے جو کم سے کم لفظوں میں قاری کی سوئی ہوئی تخلیقیت کو زیادہ سے زیادہ تحریک بخشتا ہے۔ اس میں ان کہے عناصر Unsaid elements کی بہتات ہوتی ہے۔ اسی لیے متن کے بجائے اس کا تحت المتن sub-text زیادہ توجہ خیز ہوتا ہے۔ یہ تحت المتن وہ ہوتا ہے جو صرف اور صرف قاری کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس معنی میں ہر اچھا افسانچہ کسی نہ کسی سطح پر منصفانہ متن کا حامل ہوتا ہے اور قاری کے لیے اس میں از سرنو خلق کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔

 عظیم راہی کا یہ ایک اہم کارنامہ ہے۔ اس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ ان کی طبیعت میں جو تحمل، جستجو میں جو استقلال اور جذبات میں جو یکسوئی، ارتکاز اور معصومیت پائی جاتی ہے ، دوسروں میں ان چیزوں کا بڑا فقدان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی محنت رائگاں نہیں جائے گی۔ انھوں نے جو سوالات قائم کیے ہیں مدتوں وہ بحث کا موضوع بنے رہیں گے۔

 پروفیسر عتیق اﷲ

 صدر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی، دہلی110007-

 

میں چشم دید گواہ ہوں کہ

 یہ کتاب، منی افسانے پر پہلا بڑا کام ہے۔ جس پر مجھے چند سطریں لکھنے کا موقع میسّر آیا ہے۔ مصنف کی کم و بیش ایک چوتھائی صدی کی مسلسل تلاش وجستجو، محققانہ عرق ریزیوں ، مخلصانہ کاوشوں ، عاشقانہ سرگرمیوں ، منفرد تخلیقی تجربوں ، برسہا برس کے عمیق مطالعے کے نتیجے میں حاصل شدہ تنقیدی بصیرتوں کے دیانتدارانہ تجزیوں نیز مسلسل متجسس افتاد طبع کا ثمر شیریں ہے کہ موصوف تخلیقی راستوں پر میرے بے حد دیرینہ ہمسفر ہیں اور میں تخلیق ، تحقیق اور تنقید کے اوبڑ کھابڑ، پیچ در پیچ اور سنگلاخ راستوں پر قدم قدم ان کی ماہرانہ اور محتاط تیز گامی نیز نئی نئی منزلوں کی جستجومیں ان کی مسلسل پیشقدمی کا برسوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں۔  یہ اور بات ہے اور ہم دونوں کے حق میں مفید بھی کہ ہم دونوں دو متوازی راستوں کے راہی ہیں۔  میں شاعری کی شاہراہ عام پر انبوہِ کثیر میں اپنی منفرد شناخت کی تشکیل کے لیے تگ و دو میں مگن بے شماروں میں ایک جبکہ عظیم راہی فکشن کی رہگذر پر چلنے والے چند انفرادیت پسندوں میں محتاط روی، اعتدال پسندی، استقلال، اولوالعزمی اور ثابت قدمی کے ساتھ کامرانی اور سرخروئی کی منزلوں کی جانب مسلسل پیش قدمی کرنے والے اسم بامسمّیٰ عظیم راہی جو اپنی منفرد فکری و فنی عظمتوں کے نقوش رہگذارِ ادب پر قدم بہ قدم روشن کرتے ہوئے نیز ہر موڑ پر فتح مندیوں کے پرچم نصب کرتے ہوئے فکر و فن کی نو بہ نو منزلوں کی کھوج میں ہمہ وقت سرگرم سفر ہیں اور جلد ہی ارباب نقد و نظر میں یکے بعد دیگرے کئی معرکے سر کر کے افسانوی ادب کے کولمبسوں میں سرفہرست اپنا نام درج کروانے والے ہیں۔

 کاتب تقدیر نے جن اہم اور منفرد خوبیوں سے عظیم راہی کو نواز رکھا ہے اور جن کی بنا پر وہ اپنے ہم عصروں میں بہتروں سے ممتاز و ممیز حیثیت حاصل کر چکے ہیں ان کی حصول علم و فن کے لیے انتھک محنت، قابل تقلید لگن اور قابل رشک جذبۂ تلاش وجستجو ہے۔

 کوئی پچیس برس کا عرصہ ہو رہا ہو گا جب عظیم راہی مجھ سے پہلی بار ملے تھے۔ اخبارات ورسائل میں ان کے افسانچے خاصے تسلسل اور تیز رفتاری کے ساتھ شائع ہونے لگے تھے۔ میں اس میدان میں ان سے کم و بیش ڈیڑھ دہائی سینئر تھا ذرائع ترسیل و ابلاغ کے پر جوش استعمال کے معاملے میں چونکہ وہ بڑی حد تک میرے ہم خیال، ہم مزاج اور کم و بیش ہم رفتار بھی تھے لہٰذا طبائع کی ہم آہنگی دوچار ملاقاتوں میں صدیوں کے فاصلے طے کرانے میں معاون ثابت ہوئی اور عمروں کے واضح فرق کے باوجود دونوں کے مابین وابستگیوں نے دوستی کے مستحکم اور پائیدار رشتوں کی شکل اختیار کر لی۔ عمروں اور چند ادبی رویوں میں مماثلت کے علاوہ ہمارے درمیان ایک واضح فرق یا فصل ادبی رجحانات کی ہم آہنگیوں کا تھا۔ میں ٹھہرا خالصتاً کلاسیکی مزاج کا حامل، روایت کا پاسدار۔ جدیدیت سے ہم رشتگی محض خیالات اور لب و لہجے کی حد تک۔ جدیدیت کے نام پر تجریدیت اور مجنونانہ علامت نگاری سے برگشتگی نے مجھے ہر نئے تجربے سے تقریباً متنفر کر رکھا تھا اور میں اپنے اس انتہا پسندانہ رویے کے تحت علامتی افسانے کے ساتھ ساتھ افسانچے سے بھی دوری بنائے ہوئے تھا۔ صورت حال کا ایک عجیب پہلو یہ بھی تھا کہ افسانچے سے ناپسندیدگی کے باوجود عظیم راہی جیسے اہم اور قابل ذکر افسانچہ نگار سے نبھ رہی تھی اور خوب نبھ رہی تھی اور اس نبھاؤ کی بنیادی وجہ تھی عظیم راہی کے افسانچوں میں افسانویت یا کہانی پن۔ بالفاظ دگر افسانے کے ان تمام لوازمات کا اہتمام جو بچپن ہی سے میرے ذہن و شعور پر کہانیوں ، افسانوں ، ناولوں یا داستانوں نے اپنی گرفت قائم رکھی تھی۔ میں افسانہ نگار تو خیر معمولی درجہ کا بھی نہیں البتہ افسانے کے قاری کا بھی اگر کوئی مقام و معیار ہوسکتا ہے تو میں انشاء اﷲ ایک اعلیٰ درجے کے معیاری قاری کو کسوٹی پر بہ ہر اعتبار پورا اتروں گا۔ اس لیے کہ سب افسانے کم و بیش تمام بنیادی لوازمات یا عناصر ترکیبی مثلاً پلاٹ، کردار، فارم، موضوع، داد، تمثیل، علامت، اساطیر، تکنیک، تھیم، امیج، استعارہ، مرقع، منظر نگاری، مقام، ماحول، فضا، پس منظر، ڈرامائیت، لب و لہجہ، اسلوب اور لسانی ساخت وغیرہ کہاں کہاں۔  کس کس مناسبت سے رو بہ عمل لانے میں کیا کیسی اور کتنی فنّی مہارت درکار ہوتی ہے اس کا تھوڑا بہت علم و ادراک ضرور رکھتا ہوں اور وہ عنصر جو کہانی کی جان ہوتا ہے اور جس کا میں دل و جان سے والہ و شیدا ہوں وہ ہے کہانی پن اور یہ کہانی پن چاہے داستان میں ہو، ناول میں ہو، افسانے میں یا افسانچہ میں اس کی مثال ریشم کے کیڑے کی سی ہے جو اپنے ارد گرد تھان کے تھان ریشم بن کر اسی میں اندر ہی اندر اپنے وجود کو ضم کر دیتا ہے۔ یہ کہانی پن کہانی کے ایک باب ، ایک صفحے، ایک پیرا گراف یا ایک جملے میں بھی سمویا ہوسکتا ہے اس کے آس پاس واقعاتی تسلسل کے ساتھ چند حقائق، کچھ زیب داستاں کے لیے ان تمام کے متناسب اور متوازن اشتراک باہم سے افسانچہ، طویل افسانہ، ناول یا داستان کے تانے بانے بنے جاتے ہیں ورنہ کہانی کی دنیا تو اسی ایک باب ، صفحے، پیراگراف یا جملے میں آباد ہے۔

 یہ کہانی پن عظیم راہی کے ہر افسانچہ میں زندگی کی تمام تر حقیقتوں ، زمینی سچائیوں اور جذباتی حرارتوں کے تمام تر لوازمات سمیت نیز تمام تر فنّی دروبست کے ساتھ اس کی رگ و پے میں خون کی طرح رواں دواں ہوتا۔  ان کے فن پاروں سے میری قربت، وابستگی اور پسندیدگی کا سبب ہوا ورنہ سچائی تو یہ ہے کہ میں بھی ادبی فضاؤں میں گونجتی اس رائے عامّہ میں برابر کا شریک تھا جو افسانچہ کو محض ایک لطیفہ یا اخباری خبر قرار دے کر نیز اسے یکسر رد کرتے ہوئے اس کے ادب میں شمولیت کے سراسر خلاف تھی۔ اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ یہ عوامی رائے بڑی حد تک مبنی بر صداقت بھی تھی کہ بیشتر بوالہوسوں اور سہل پسندوں نے اپنی بے صلاحیتی کے با وصف انگلی کٹا کر شہیدوں میں اپنا نام درج کروانے کی ہوس میں معمولی اخباری خبروں اور بھونڈے بھدّے لطیفوں پر افسانچوں کی سرخیاں چسپاں کر کے اخبارات ورسائل میں پکّی روشنائی میں اپنے نام چھپوا لیے اور اس طرح افسانچہ کی رسوائی اور بے توقیری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن عظیم راہی کا معاملہ قطعی مختلف تھا اور ہے۔ خالق حقیقی نے ان کے ذہن کو جن منفرد تحقیقی صلاحیتوں سے معمور کر رکھا ہے۔ ان کی نظر کو جو وسعت اور کشادگی عطا کر رکھی ہے۔ ان کی فکر کو جو گہرائی اور گیرائی دے رکھی ہے ان تمام کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ اپنے تحقیقی سفر کے ابتدائی مراحل سے اپنی فطری تخلیقی صلاحیتوں کے دم پر جوہر دکھلا رہے ہیں۔  دس بارہ برس اخبارات ورسائل میں متواتر شائع ہوتے رہنے والے اپنے افسانچوں سے دنیائے ادب میں اپنی تخلیقی شناخت کے ابتدائی نقوش مرتسم کرنے کے بعد ۱۹۸۷ء میں عظیم راہی نے چند منتخب خوبصورت افسانچوں کو ’’پھول کے آنسو‘‘ عنوان کے تحت کتابی صورت میں پیش کر دیا جس کی خاطر خواہ پذیرائی بھی ہوئی لیکن افسانچے کے تعلق سے ادبی فضاؤں میں غلط فہمیوں اور افواہوں کے تکدّر کی جو آلودگی پھیل چکی تھی اس کے اثرات ابھی تک مکمل طور پر زائل نہیں ہوئے تھے۔ بے صلاحیت، بوالہوس، شہرت پسند گھس پیٹھیے تو برساتی مینڈکوں کی طرح چند روز ٹرّانے کے بعد خاموش ہو رہے لیکن جن اچھے تخلیق کاروں نے افسانچے کے تئیں پیدا شدہ غلط فہمیوں کا ازالہ کر کے اسے فنی استحکام اور صنفی شناخت عطا کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھی ان میں عظیم راہی کا نام سرفہرست آتا ہے جن کی تخلیقی معرکہ آرائیوں ، تحقیقی کارناموں اور تنقیدی سرگرمیوں نے کم و بیش دو دہائیوں تک ادبی ماحول کو گرمائے رکھا، موصوف نے طویل افسانوں کے ساتھ ساتھ افسانچوں کی تخلیق وترسیل کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مدتوں علاقائی اخبارات میں مراٹھواڑہ کے افسانہ نگاروں کے تعارف ناموں کے ساتھ ساتھ افسانچہ نمبروں وغیرہ کی تکمیل میں بھی معاونت کی نیز افسانچہ کی حمایت اور مدافعت میں نہایت تسلسل کے ساتھ مضامین لکھنے اور انھیں چھپوانے کے سلسلوں کو بھی زندہ رکھا۔

 تحقیق و تنقید کے خارزاروں میں فکر کے تلوے مسلسل لہولہان کرتے ہوئے عظیم راہی کے پاس افسانچوں کے مجموعوں ، اس صنف پر اخبارات ورسائل کے خصوصی نمبروں ، مضامین، مباحث اور مکاتیب کا معتدبہ ذخیرہ یکجا ہو گیا تو ایک لمبی جست لگا کر تمام تر امکانی بلندیاں سرکرنے اور افسانچہ کے فن کو دنیائے ادب میں مقام ، وقار و اعتبار عطا کرنے کی دھن ان کے سر میں سمائی اور انھوں نے زیر نظر کتاب ’’اردو میں افسانچہ کی روایت‘‘ ترتیب دے کر منظر عام پر لانے کا بیڑہ اٹھایا۔ دل میں خلوص تھا، اپنی صلاحیتوں پر اعتماد تھا، اپنے مطالعہ کا اعتبار تھا، ارادوں میں پختگی تھی، حوصلوں میں توانائی تھی لہذا وسائل کے فقدان کے باوجود محض اﷲ کے بھروسے کشتی مسائل کے منجدھار کے حوالے کر دی جو متذکرہ مثبت اوامر کی بنا پر اس منفرد اور بے مثال کتاب کی صورت میں کامرانیوں سے انھیں ہمکنار کرنے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اس کتاب کے وسیلے سے عظیم راہی نے افسانچہ کے تعلق سے عام غلط فہمیوں اور تہمتوں بالخصوص اسے لطیفہ یا اخباری خبر کہہ کر مطعون کرنے کے الزامات کے سدباب کے لیے مضبوط، ٹھوس اور ناقابل تردید دلائل کی روشنی میں صحت مند بحثیں کی ہیں۔  بے شمار مثالوں کی مدد سے اپنے دلائل کی صحت مندی، معقولیت اور مبنی بر صداقت ہونے کے جواز عظیم راہی نے پیش کیے اس کتاب کی روشنی میں افسانچہ کی وجودیت کا منکر اور اس کا کٹّر سے کٹّر مخالف بھی اس کی اہمیت اور افادیت کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو گا۔

 عظیم راہی کی ان تحریروں کا ہر منظر ان کی محنت شاقہ کا گواہ ہے۔ ہر جملہ ان کی محققانہ دیانتداری کا آئینہ دار ہے۔ ہر سطح سے ان کی تنقیدی بصیرت مترشح ہے اور پھر تخلیقی شان ان سب پر مستزاد۔ یہ سارے اوصاف ان کی برسہا برس کی انتھک جدوجہد، پر خلوص محنت اور خداداد غیر معمولی اور ہمہ جہت صلاحیتوں کے نتیجے میں عالم ظہور میں آتے ہیں۔  یہ سب کچھ میں مکمل اعتبار اور کامل اعتماد کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ اس تمام منظر نامے کا میں چشم دید گواہ ہوں۔

 اپنے آپ میں منفرد اور مکمل اردو شعر و ادب میں افسانچہ کے فن پر اس اولین تنقیدی و تحقیقی کارنامے پر میں عظیم راہی کو بہ صمیم قلب ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں اس پر خلوص دعائیہ پیش گوئی کے ساتھ کہ یہ کتاب انھیں اس فن پر اولیت کا شرف عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر نقد و بصیرت کی نو بہ نو راہیں کھولنے کا موجب بھی ہو گی۔

 (ڈاکٹر) محبوب راہی

 بارسی ٹاکلی ضلع اکولہ444401 ،(مہاراشٹر)

 

افسانچہ۔ نئی صنفی حیثیت

کسی بھی نوعیت کے مادی تجربہ کی تقلیب جب تخئیلی تجربہ میں ہوتی ہے تو وہ فنی تجربہ میں منقلب ہو جاتا ہے۔ہر میڈیم کے اپنے مطالبات اور آداب ہوتے ہیں جو ہر دور کے اصول حقیقت کے مطابق تبدیل ہوتے ہیں اور وہی لاگو ہوتے ہیں۔

 بغیر تخلیقی جست کے فنون لطیفہ میں کوئی نئی بات پیدا نہیں ہوسکتی اردو افسانہ میں ابھی تک جتنے موزوں اور متوازن تخلیقی تجربات ہوئے ہیں وہ اپنی زمینی خوشبو، عصری تازگی، نئے تخلیقی رویہ، برتاؤ کی توانائی اور نئے موضوعاتی پھیلاؤ کے ذائقوں ، رنگوں اور پہلوؤں کو سموئے ہوئے ہیں۔ لیکن اردو افسانہ میں ہئیتی تجربہ بہت بعد میں ہوا جسے ’’افسانچہ‘‘ کا نام دیا گیا۔

 اردو میں ’’افسانچہ‘‘ کی روایت باضابطہ طور پر سعادت حسن منٹو سے شروع ہوتی ہے۔ جوگندر پال نے اس صنف کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ خواجہ احمد عباس، رام لعل، بشیشر  پردیپ، ش مظفر پوری، رتن سنگھ، عطیہ پروین، الیاس احمد گدی، انجم عثمانی، عظیم راہی، نذیر فتح پوری، مناظر عاشق ہرگانوی اور درجنوں افسانہ نگاروں نے افسانچے لکھے ہیں۔

 افسانچہ ایک قوس قزحی صنف ہے۔ سورج کے سات رنگوں کی طرح کیونکہ جب ہم دھوپ کے ٹکڑے کو پرزم میں سے گذارتے ہیں تو اس کے الگ الگ سات رنگ نظر آتے ہیں جبکہ بغیر پرزم کے یہ صرف دھوپ کے سنہرے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔  افسانہ اور افسانچہ کے کہانی پن میں یہی فرق ہے۔ افسانہ کے کہانی پن میں مصنف ان سات رنگوں کو الگ الگ زاویے سے تفصیل کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ لیکن افسانچے کا کہانی پن وہ پرزم ہے جو ان سات رنگوں کو اپنے میں سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ جس میں کہانی پن، کردار، مکالمہ، ماحول، فضا، اسلوب بیان اور مقصد پوشیدہ ہوتا ہے اور جس میں شعوری استدلال، جامع اور محدود وقت کی قید، ترتیب، امتزاج و تزئین، ہدایت اور قاری کی توجہ کے مرکز کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔

 اردو افسانچہ کی صنفی حیثیت متعین نہیں تھی جبکہ چھ درجن سے زیادہ افسانہ نگاروں نے افسانچے لکھے ہیں اور تقریباً پچاس مجموعے اس صنف کے منظر عام پر آ چکے ہیں۔  عظیم راہی نے پہلی بار افسانچہ پر سنجیدگی سے خصوصی توجہ دی ہے اور تحقیقی و تنقیدی مطالعہ و مکاشفہ پیش کیا ہے۔ تخلیقی حسّیت اور بصیرت سے بھرپور اردو میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کتاب مشعل راہ ثابت ہو گی اور محرک بنے گی۔

 میں اس کتاب کا خیر مقدم کرتا ہوں اور عظیم راہی کو ڈھیروں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

 ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی

 یونیورسٹی پروفیسر،شعبۂ اردو، بھاگلپور یونیورسٹی، بھاگلپور۔812007 (بہار)

 

کچھ اس کتاب کے بارے میں ….!

میں نے ۱۹۷۵ء میں افسانچہ لکھنا شروع کیا۔ اس وقت میرے افسانچے مقامی اخبارات کے ادبی صفحات کے علاوہ رسائل میں بھی چھپنے لگے تھے۔ ۱۹۸۰ء کے آس پاس افسانچہ / منی افسانہ بڑی تعداد میں لکھا جانے لگا۔ خاص طور پر اس نئی صنف میں نئی نسل کے لکھنے والوں نے خوب طبع آزمائی کی اور حسب استعداد مقبولیت بھی ان کے ہاتھ آئی۔ افسانچہ کی اشاعت کے رجحان کو اس قدر بڑھاوا ملا کہ ’’روبی‘‘ جیسے نیم ادبی رسالہ نے ۱۹۷۹ء میں ’’منی کہانی نمبر‘‘ انعامی مقابلہ کے ساتھ بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ اخبارات کے ساتھ رسائل و جرائد بھی اسے خوب چھاپنے لگے۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے نئے لکھنے والوں کی ایک کھیپ تیار ہو گئی اور انھیں شاعری کی داد کی طرح مقبولیت ملتی رہی۔ لیکن ہر معاملے کے دو رخ ہوتے ہیں۔  افسانچہ کی بے تحاشہ اشاعتوں نے افراط و تفریط کی فضا پیدا کر دی۔ ہر کوئی افسانچہ لکھنے لگا اور نتیجہ یہ ہوا کہ افسانچہ کے نام پر لطیفہ گوئی شروع ہو گئی تو چند نے اقوال زرین اور حکایتوں کے ٹکڑوں کو افسانچہ سمجھ لیا۔ نئی نسل کی تن آسانی ، سہل پسندی اور ساتھ ہی اخبارات نے اپنی سہولت کے پیش نظر اسے مسلسل چھاپ کر ایک ایسی فضا قائم کر دی۔ جس کے سبب افسانچہ مقبول ہونے کے ساتھ معتوب بھی ہونے لگا اور پھر اس کی مخالفت میں کچھ لکھنے والوں نے اس قسم کی بے معنی بحث چھیڑ دی کہ افسانچہ / منی افسانہ بھی کوئی صنف ادب ہے۔ یا نئی نسل کا محض وقت گزاری اور سستی شہرت کا ایک ذریعہ۔ اس لا یعنی بحث نے اتنا طول پکڑا کہ تقریباً چھ ماہ تک روزنامہ ’’اردو ٹائمز‘‘ (ممبئی) میں یہ سلسلہ (ستمبر ۱۹۸۴ء تا جنوری ۱۹۸۵ء) جاری رہا۔ اس بحث میں افسانچہ نگاروں نے تو حصہ لیا ہی ان لوگوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جو اس فن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ جو محض اس کے لکھنے والوں کی مخالفت میں انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہو گئے تھے۔ اس پر طرّہ یہ کہ جس کے منہ میں جو آیا کہہ دیا، جو سمجھ میں آیا لکھ دیا۔ کچھ لوگوں نے ادبی زُعم میں اسے فیشن کے منی اسکرٹ سے تعبیر کیا تو کسی نے یہ لکھنے سے بھی گریز نہیں کیا افسانچہ کا چلن عام ہوا تو ادب ہی مر جائے گا۔ بہر کیف، جتنے منہ اتنی باتیں لیکن بحث بے سود اور نتیجہ صفر رہا۔

 جب میں نے افسانچہ کا یہ حال دیکھا تو اس نئی تخلیقی صنف کا یہ حشر مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ میں نے افسانچہ کی ابتداء و ارتقاء اور اس کے فن کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔  اس طرح اس موضوع پر لکھنے کی شروعات ہوئی اور بہت جلد ایک تفصیلی مضمون ترتیب پا گیا جو تقریباً ۲۰صفحات پر مشتمل تھا۔ جس میں ۴۸ حواشی شامل تھے۔ مرحوم قمر اقبال نے اس قدر ادبی حوالوں سے مزین مضمون کو بہترین قرار دے کر بڑی حوصلہ افزائی کی تھی۔ چونکہ مضمون کافی طویل تھا۔ اس لیے کسی اخبار میں اس کا چھپنا محال تھا۔ فوری طور پر کسی رسالے کو بھجوانے کا خیال بھی اس وقت میرے ذہن میں نہیں آیا اور پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ حالانکہ وہ بے معنی بحث افسانچہ کی صورتحال اور فن کی ضروریات پر ایک طویل مضمون کے محرک بن کر مجھے مسلسل ترغیب دلاتی رہتی کہ اس مضمون کے سلسلے کو اور آگے بڑھاؤں۔  لیکن کچھ ذمہ داریاں ایسی آن پڑیں کہ وقتی طور پر یہ کام التواء میں پڑ گیا۔ البتہ میری تخلیقی سرگرمیاں جاری رہیں۔  جس کے نتیجے میں ۱۹۸۷ء میں میرے افسانچوں کا پہلا مجموعہ ’’پھول کے آنسو‘‘ منظر عام پر آیا۔ جس کی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی اور اس نئی صنف پر مبنی کتاب کی مقبولیت دیکھ کر میں ایک بار پھر اس صنف پر تحقیقی و تنقیدی کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔ افسانچہ پر کسی مضمون یا کوئی مجموعہ شائع ہونے کی خبر ملتے ہی میں انھیں حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتا…. اس کوشش میں میرے پاس افسانچوں کے کئی مجموعے جمع ہو گئے(جن کی تعداد آج ۴۰ ہے) بعد میں برادرم عارف خورشید کے ساتھ روز نامہ ’’مفسر‘‘ کے ادبی صفحہ ’’فن و فنکار‘‘ میں ’افسانچہ نمبر‘ کی اشاعت میں ان کی معاونت کی۔ دس قسطیں اس نمبر کی مسلسل شائع ہوتی رہیں اور مقبول بھی ہوئیں۔  اس ’’خاص نمبر‘‘ کے لیے ملک بھر کے لکھنے والوں کی تخلیقات موصول ہوئیں اور مختلف ممتاز اہل قلم سے اس موضوع پر مضامین بھی لکھوائے گئے۔ ساتھ ہی اپنے کئی ہم عصر لکھنے والوں کو افسانچے کے مجموعوں کی اشاعت کی تحریک دلائی جنھوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے تھے۔ جس کے مثبت نتیجے سامنے آئے۔ کئی مجموعے جلد ہی چھپ کر منظر عام پر آنے لگے۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں مرحوم اقبال بلگرامی کا مجموعہ ’’آب جو‘‘ خود دوبارہ ترتیب دے کر اس کی تدوین کی اور اسے عارف خورشید کے مشترکہ مجموعہ ’’آنکھوں کی زبان‘‘ میں شامل کروایا۔ اسی مجموعہ میں عارف خورشید کے افسانچوں پر ’سفر ہے شرط….‘کے عنوان سے پیش لفظ لکھا۔ بعد میں متین قادری کے افسانوی مجموعہ ’’فاصلوں کا ہمنشیں ‘‘ ترتیب دے کر افسانوں کے ساتھ ان کے چند افسانچے بھی شامل کیے اور افسانہ نگار کا تعارف بھی تحریر کیا۔ اس طرح میرے متحرک ذہن میں اس موضوع پر ایک کتاب ترتیب دینے کا خیال دن بدن شدّت اختیار کرتا گیا۔ میں پوری سنجیدگی سے اس کام میں جٹ گیا۔ اسی دوران راز کرہلوی نے اپنے ماہنامہ ’’سلگتی لکیریں ‘‘ (لکھنؤ) کا ’افسانچہ نمبر‘ شائع کیا۔ ہفت روزہ ’’تاریخ‘‘ (ناندیڑ) نے بھی ’منی کہانی نمبر، بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ مناظر عاشق ہرگانوی نے افسانچوں کا (۴ زبانوں میں ترجمے کے ساتھ ) انتخاب ’قوس قزح‘ کے نام سے چھاپ کر متوجہ کیا۔ اسی طرح ’’اردو ٹائمز‘‘ (ممبئی) کا ’منی کہانی ضمیمہ (مئی ۲۰۰۰ء) منظر عام پر آیا۔ یہ سب ’نمبر‘ میرے اس کام کے لیے مزید تقویت کا باعث بنتے گئے۔ اس طرح تقریباً دس برس سے جاری اس کام کو میں نے اپنے طور پر پوری طرح انجام دینے میں مزید دس سال لگا دیے اور آخر ۲۰۰۶ء میں میری یہ کتاب تیار ہو گئی۔

 چونکہ یہ کام بہت پھیلا ہوا تھا اور مقالہ بھی کافی طویل ہو چکا تھا۔ لہذا اسے کتابی شکل دینے کے لیے ترتیب و تزئین اور تدوین کی ضرورت تھی۔ اس میں بھی اچھا خاصہ وقت لگ گیا۔ اس اہم کاز میں میرے ہم عصر ممتاز و معروف افسانہ نگار اور اچھے دوست نورالحسنین، عارف خورشید اور میرے کرم فرما مقبول و معروف شاعر و ادیب ڈاکٹر محبوب راہی کی معاونتیں بھی شامل حال رہیں۔  ان کے ساتھ ہی فکشن کی ایک بڑی اہم سینئر اور معتبر شخصیت محترم جوگندر پال نے میری ہر وقت ، ہر طرح سے مدد فرمائی۔ جب کبھی وہ یہاں تشریف لاتے میں ان سے ضرور شرف نیاز حاصل کرتا اور ان سے ہر ملاقات میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ وہ اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے اور میری حوصلہ افزائی کرتے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ایک طرح سے اس کام کو میں ان کی رہنمائی میں انجام دے پایا ہوں تو بے جا نہ ہو گا۔ میری خواہش پر انھوں نے کتاب کا مسودہ بڑے انہماک ودلچسپی سے پڑھ کر اپنے گرانقدر پیش لفظ سے نوازا اور میرے کام کی پذیرائی کی۔ جس کے لیے میں تہہ دل سے ان کا ممنون و مشکور ہوں۔  میرے چند ہم عصر افسانہ نگار احباب محمد طارق (کھولا پوری)، ایم مبین، مظہر سلیم اور معین الدین عثمانی بھی اکثر و بیشتر اپنے زرین مشوروں سے مجھے نوازتے رہے اور اس کام کو پورا کرنے میں ہمیشہ حوصلہ بڑھایا۔ یہ سب میرے شکریہ کے مستحق ہیں۔  اسی طرح عبدالرحیم نشتر کی کتاب ’’نور نثراد، ودربھ میں اردو افسانہ‘‘ اور ’’شاہین‘‘ (جلگاؤں ) کا شمارہ نمبر۶ جو زیادہ تر خاندیش کے منی افسانہ نگاروں پر مشتمل تھا، میرے بہت کام آئے۔ان دونوں حضرات کا شکریہ ادا نہ کرنا بڑی ناسپاسی ہو گی کہ ان دونوں کتابوں سے مجھے بڑا فیض پہنچا۔ ان دونوں علاقوں میں افسانچے بہت زیادہ لکھے گئے کہ یہاں کے سینئر لکھنے والوں میں اردو افسانہ کا کوئی بڑا اور معتبر (سوائے قاضی مشتاق احمد اور بانو سرتاج کے) نام نہیں ملتا ہے اور ۱۹۷۰ء کے بعد جو لکھنے والے ابھرے وہ سب کے سب افسانچہ کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے کہ جدید اردو افسانہ کی گنجلک، ابہام بھری فضا سے ہٹ کر قاری کو قریب کرنے کی جو کوششیں ہوئیں ان میں افسانچہ پیش پیش تھا اور اسے پیش کرنے میں نئی نسل پوری طرح مستعد اور سرگرم تھیں۔  البتہ مرہٹواڑہ میں صورتحال اس کے برعکس تھی۔ یہاں افسانے کے بڑے نام جیسے رفعت نواز، الیاس فرحت، محمود شکیل، اثر فاروقی اور رشید انور وغیرہ نے افسانچے نہیں لکھے۔ یہ لوگ اگرچہ افسانچہ کے راست خلاف نہیں تھے تو اس کے حق میں بھی نہیں تھے۔ ان سینئر اور ممتاز افسانہ نگاروں نے اس صنف کو قابلِ تخلیق سمجھا اور نہ ہی ادبی اعتبار سے قابل اعتنا جانا۔ جبکہ ۱۹۷۰ء کے بعد یہاں جو نسل ابھری انہوں نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بڑی تعداد میں لکھے۔ ان لکھنے والوں کو جوگندر پال جیسے سینئر ادیب کی رہنمائی حاصل تھی۔ ان دنوں جوگندر پال کا قیام اورنگ آباد میں تھا جو افسانچہ کی فضا کو نئی نسل میں مقبول عام بنانے میں خوب راس آیا۔ جس نے قاری کو قریب لا کر اس کی مقبولیت کے نئے راستے پیدا کیے اور یہ ثابت کر دیا کہ قاری کی دلچسپی اور اس کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے جو ادب تخلیق کیا جائے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ یہ کارنامہ نئی نسل کے لکھنے والوں کے علاوہ قدرے سینئر افسانہ نگاروں نے بھی انجام دیا جنھوں نے ۱۹۷۰ء کے بعد جدید اردو افسانہ میں کہانی کی بازیافت کے عمل سے اردو افسانہ کو ایک نیا موڑ دیا جہاں ایک بار پھر افسانہ کو قاری بھی ملے اور مقبولیت کی منزل بھی۔ ان افسانہ نگاروں کے اس قابل قدر کارنامہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جن میں سلام بن رزاق، انور خاں ، انور قمر، عبدالصمد، شوکت حیات، حسین الحق وغیرہ کے نام اہم ہیں۔  ان لوگوں نے افسانچے تو نہیں لکھے لیکن اس نئی صنف میں نئے لکھنے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ جس کے نتیجے میں یہ صنف پروان چڑھ کر پھلنے پھولنے لگی۔

 جہاں تک میرے اس مقالے کا تعلق ہے میں نے باقاعدہ تحقیق کر کے اپنی بات کو مدلل انداز میں منوانے کی پوری کوشش کی ہے۔ اپنے استدلال کو جہاں ضرورت محسوس ہوئی اسناد کے ساتھ پیش کیا اور اپنے موقف کے اظہار میں دلائل کے ساتھ مختلف مقتدر اہل قلم کی آراء کو اہمیت دی ہے۔ عام طور پر افسانچہ پر جو سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور جو بحث ہوتی ہے ان تمام کو یہاں پیش کر کے ان کا حتی الامکان جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے ساتھ ہی ان سوالوں اور بحثوں سے مثبت پہلو اور تعمیری راہ نکالنے کی سعی کی گئی ہے۔ افسانچہ کی ابتداء اور ارتقاء کے ساتھ اس کے فنی لوازمات، موضوعات اور دیگر باریکیوں کو بیان کرتے ہوئے اس کا مہاراشٹر کے ساتھ پورے برصغیر میں مفصل جائزہ لیا گیا ہے۔ اور اس کے مستقبل کے بارے میں بھی اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ وہیں پڑھنے والوں کی سہولت کے پیش نظر اسے مختلف ابواب میں منقسم کر دیا ہے تاکہ اس کے ارتقائی سفر کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔

 افسانچہ کی ابتداء اور فنی نکات کا تفصیلی تنقیدی جائزہ کتاب میں آ چکا ہے لہذا اس کے اعادہ کی یہاں گنجائش نہیں ہے البتہ دو ایک باتوں کی وضاحت لازمی سمجھتا ہوں جیسے بنیادی بات افسانچہ کی ابتداء اردو میں کس کے فن پارے سے ہوئی ہے تو میں حتمی طور پر یہ ثابت کر چکا ہوں کہ اردو میں منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘سے ہی ہوئی ہے۔ اپنے اس موقف کے اظہار میں تقریباً ایک درجن ممتاز و معروف ارباب نقد و بصیرت کی آراء کی روشنی میں اس اولیت کو ثابت کیا گیا ہے۔ تاہم کچھ لوگ افسانچہ کے ڈانڈے عربی ادب، خلیل جبران کے مقولوں ، شیخ سعدی کی مختصر حکایتوں ، مراٹھی کے شنک کتھا اور ہندی کے لگو کتھا سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔  اسی طرح کچھ لوگ مغربی ادب کا ذکر کرتے ہیں اور ایسی مرعوب ذہنیت کے لوگ O’Henry اور دیگر ناموں کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔  یہ صحیح ہے کہ اردو میں مختصر افسانہ مغرب کے زیر اثر وجود میں آیا ہے۔ لیکن افسانچہ اردو کی اپنی اپجی صنف ہے۔ اس کی تحریک کسی اور زبان سے نہیں ملتی ہے۔ اس خصوص میں منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو ہی اولیت حاصل ہے اور حق بہ حق دار رسید کے مصداق یہ حق منٹو کو ملنا ہی چاہیے۔

 دوسری اہم بات جس نے افسانچہ کے فن کو نقصان پہنچایا۔ جس کے سبب ناقدین نے اسے وہ اہمیت نہیں دی اور سینئر لکھنے والوں نے بھی اسے مستقل صنف کے طور پر نہیں اپنایا۔ وہ اس کا لطیفہ سے قریب ہو جانا یا محض لطیفہ بن جانا ہے۔ حالانکہ افسانچہ کے فن میں لطیفہ پن کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔ کسی فن پارے میں ایک لطیف سے خیال اور لطیفہ سے حسن کے احساس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اس لطیف سے احساس کی سطح مزاح کی صورت ہرگز اختیار نہیں کرسکتی۔ ہاں ، اس لطیف سے احساس میں طنز کا عنصر مل جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اس سے افسانچہ کے تاثر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثر میں اور بھی شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ احساس اگر طنز کے بجائے مزاح سے گھل مل جائے تو پورے افسانچہ کی صحت پر اثر انداز ہو کر اسے محض لطیفہ بنا دے گا۔ دراصل افسانچہ کو اس فنی خامی کے سبب کافی گزند پہنچا ہے۔ اس فن میں لطیفہ پن در آنے سے بحیثیت صنف اسے وہ قدر و منزلت اور اہمیت نہیں مل سکی ہے جس کی بجا طور پر یہ مستحق رہی ہے۔ اصل میں افسانچہ کوئی چٹکلہ یا لطیفہ ہرگز نہیں ہے کہ جسے پڑھ کر یا سن کر آپ مسکرادیں ، ہنس دیں یا پھر قہقہہ لگا دیں یہ تو جھنجھوڑ کر رکھ دینے، آپ کو چونکا کر حیرتوں کے سمندر میں غرق کر دینے، بم پھٹنے جیسی کیفیت میں مبتلا کر دینے والا فن ہے۔ بقول جوگندر پال (اس کیفیت میں ) اس کے ختم ہوتے ہی ایک طویل کہانی پڑھنے والے کے ذہن میں شروع ہو جائے، یہی افسانچہ اور لطیفہ پن کا نمایاں فرق ہے اور بنیادی وصف بھی۔ اگر افسانچہ میں بالفرض محال طنز و مزاح کے دونوں پہلو یکساں ہوں تب بھی اس صنف کے لیے لازمی ہو جاتا ہے کہ یہ اپنا رد عمل، اپنا تاثر، اپنا انجام اس قدر غیر یقینی اور چونکا دینے والا بجلی سے جھٹکا دینے والا اور بم پھٹ پڑنے کی کیفیت (پیدا کرنے) والا ہو کہ آپ یکایک ہنسنے کے بجائے اگر رو نہ سکیں تو کم از کم رونے کی کیفیت ضرور محسوس کریں اور اس کیفیت کو دیر تک اپنے اندر قائم رکھ سکیں۔  یہی تاثر افسانچہ کو لطیفہ سے الگ کر کے نمایاں بھی کرتا ہے اور فنی اعتبار سے اسے منفرد بناتا ہے۔ تاہم یہ ایک مشکل کام ہے۔ اسی لیے افسانچہ لکھنا مشکل ہے کہ یہ کوئی لطیفہ گھڑ لینے والی بات نہیں ہے۔ یہاں تو معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے کہ افسانچہ سن کر یا پڑھ کر آپ دیر تک عالم تحیّر میں ، ایک سکتے کے عالم میں بس سوچتے رہ جائیں کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے۔ کیا ایسا ہوا ہے؟ اور کیا ایسا ہمارے ساتھ وقوع پذیر نہیں ہو رہا ہے؟! شاید اسی لیے افسانچہ میں لطیف پن سے زیادہ طنز کے نشتر کی ضرورت پڑتی ہے اور نشتر کو استعمال کرنے کی صلاحیت اسے فن کی مشاقی سکھاتی ہے کہ افسانچہ دراصل اس قدر compact (مختصر) ہونا چاہیے کہ اس کا Impact (تاثر) پوری شدت سے قاری کے ذہن پر اثر انداز ہو کر تا دیر قائم رہ سکے۔ بنیادی طور پر یہ فن پارے کی اولین شرط ہے لیکن جب بات بہت مختصر لفظوں میں مکمل طور پر کہنی ہو تب یہ شرط اور بھی کڑی ہو جاتی ہے۔

 بنیادی بات یہ ہے کہ افسانچہ اور لطیفہ کو شروع سے ہی ہمارے ناقدین نے خلط ملط کر دیا ہے اور اتفاق دیکھیے اس غلط بات کی راہ بھی منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے دیباچے ’’حاشیہ آرائی‘‘ سے پڑی یعنی ابتدا میں ہی یہ غلط رجحان پنپ گیا۔ اسے محمد حسن عسکری نے چھوٹے چھوٹے افسانے بھی کہا ہے اور لطیفے بھی۔ جبکہ بقول محمد حسن عسکری ’’فسادات کے متعلق جتنا لکھا گیا ہے اس میں اگر کوئی چیز انسانی دستاویز کہلانے کی مستحق ہے تو یہ چھوٹے چھوٹے افسانے ہیں ‘‘ تو پھر بتائیے بھلا یہ لطیفے کیسے ہوسکتے ہیں ؟! ایک اور جگہ وہ یوں لکھتے ہیں ’’فسادات کے متعلق جتنے بھی افسانے لکھے گئے ہیں ان میں منٹو کے یہ چھوٹے چھوٹے لطیفے سب سے زیادہ ہولناک اور سب سے زیادہ رجائیت آمیز ہیں ‘‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لطیفے ہیں تو بیک وقت ہولناک اور رجائیت آمیز کیسے ہوسکتے ہیں ؟!جبکہ آگے وہ خود لکھتے ہیں۔  ’’منٹو کے ان افسانوں میں یہ دونوں پہلو موجود ہیں ، خوف بھی اور دلاسا بھی۔ ان لطیفوں میں انسان، اپنی بنیادی بے چارگیوں ، حماقتوں ، نفاستوں اور پاکیزگیوں سمیت نظر آتا ہے‘‘۔ پھر آگے لطیفہ قرار دیتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ ’’منٹو کے قہقہہ میں بڑا زہر ہے مگر یہ قہقہہ ہمیں تسلی بھی بہت دلاتا ہے‘‘۔ اب اگر یہ مان لیا جائے یہ قہقہہ ہے تو اس میں زہر کیسا اور لطیفہ ہے تو پھر اس میں خوف اور دلاسا کیسے اور کیونکر در آیا ہے۔ اور لطیفہ تسلی کیسے دے سکتا ہے۔ ثابت ہوا کہ یہ چھوٹے چھوٹے افسانے ہی ہیں لطیفے ہرگز نہیں ہیں ورنہ یہ تاثر، کیفیت اور کمیت کیسے اپنے اندر رکھ پاتے۔ اسی تحریر میں عسکری آگے خود ان لطیفوں کو افسانہ کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں۔  اس کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے زندگی سے جڑے ہونے کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’منٹو کے ان افسانوں میں سب سے بڑا وصف معمول زندگی کی قوت اور عظمت کا یہی اعتراف ہے‘‘۔ اس پوری تحریر میں عسکری نے ان چھوٹے چھوٹے افسانوں کو لطیفہ سے گڈمڈ کر دیا ہے اور انھیں لطیفہ کہہ کر خود اپنی ہی بات میں رد و قبول کی ایک ایسی غلط فہمی پیدا کر دی ہے جو ایک غلط بات کو راہ دینے کا سبب بن گئی ہے اور آگے چل کر ایک بڑی متضاد بات کی بنیاد بن گئی۔ ڈاکٹر ظفر سعید کے الفاظ میں عسکری صاحب نے جا بجا لفظ افسانہ کے ساتھ لطیفہ بھی استعمال کیا ہے جس سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ شاید وہ خود بھی یہ طے نہیں کر پائے کہ یہ تخلیقات افسانہ ہیں یا لطیفہ۔یہی وجہ ہے کہ بعد میں وارث علوی جیسے اعلیٰ پایہ کے نقاد نے اسے (منٹو کے سیاہ حاشیے) چٹکلے سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔  پاکستان کے ناقد ممتاز حسین نے بھی اسے لطیفے قرار دیا ہے اور سید محمد عقیل نے بھی اسے چھوٹے چھوٹے افسانے کے ساتھ لطیفے سے قریب کہہ دیا ہے۔ اسی طرح اکثر سینئر لکھنے والوں کے پاس بھی غیر شعوری طور پر یہ غلط فہمی راہ پا گئی ہے جسے نئی نسل نے تقلیدی انداز میں اپنا کر اسے مزید ہوا دی ہے۔ اکثر نے حکایات، مقولے، کوئی اخباری اطلاع، خبر، لطیفہ یا فلسفیانہ موشگافی کو افسانچہ سمجھ لیا اور بنا دیا جس کے سبب پڑھنے والے بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوئے اور اس کے قبول عام میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں لیکن اب مسلسل اس کی وضاحتوں سے افسانچہ کے آسمان سے لطیفہ کا ابرآلود مطلع صاف ہو گیا ہے اور قوی امید ہے کہ افسانچہ اپنے فن کے اس اہم عنصر سے لیس ہو کر خود اپنے روشن مستقبل کے امکانات کی گواہی دے گا۔

 جہاں تک افسانچہ کے موضوعات کا تعلق ہے تو یہ ابتداءسے ہی اپنے عصر اور سماج سے جڑا ہوا ہے۔ آج جبکہ انفارمیشن تکنالوجی کی ترقی کے سبب پوری دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہو گئی ہے اور اس عالمی گاؤں میں صارفیت کے نظام کا بول بالا ہو گیا ہے جس کے سبب انسان مشین بن کر رہ گیا ہے۔ بے حسی، خود غرضی، نفسانفسی، بے ایمانی اور بے راہ روی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ظلم و جبر نے دہشت گردی کو ہوا دی ہے اور دہشت گردی پھیل کر سپرپاور کی ایک ایسی طاقت بن گئی ہے جو دہشت گردی کی دہائی دے کر خود اس کے بل بوتے پر اپنی طاقت آزماتا رہا ہے۔ فرقہ پرستی کا زہر پوری فضا میں ہر جگہ پھیل گیا ہے۔ اقتدار کی بے جا ہوس میں ہمارے لیڈروں نے اسے اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔ انسانوں کے بیچ ذات پات، مذہب، زبان اور علاقائی تقسیم کے نام پر اپنی دوکانیں خوب چمکائی ہیں۔  اعلیٰ قدروں کی ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے اور تہذیبوں کے تصادم کے نتیجے میں انسان اپنے سماج اور معاشرے سے کٹ کر صرف اپنے گھر کی حد تک ، اکثر صورتوں میں اپنی ذات کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اسے سوائے اپنے کچھ نظر نہیں آتا۔ اس طرح خونی رشتوں کی بھی شکست و ریخت ہو چکی ہے۔ مفلسی، غریبی، بے روزگاری نے کئی مسئلوں کو جنم دیا ہے وہیں اس کے عفریت نے اخلاقی قدروں اور تہذیب کی اعلیٰ بلندیوں کو نگل کر کئی برائیاں پیدا کر دی ہیں جس کی ایک بڑی مثال آج معاشرے میں پھیلی جنسی بے راہ روی سے دی جاسکتی ہے۔ جھوٹ مکر و فریب، وعدہ خلافی اور اس قبیل کی بہت ساری برائیاں معاشرہ کا روز مرہ بن چکی ہے۔ معاشرے میں جہیز کی بیماری لاعلاج مرض بن کر وبا کی طرح پھیل گئی ہے۔بے ایمانی ہمارا ایمان بن چکی ہیں۔  لوٹ مار، رشوت خوری عام ہو چکی ہیں۔  دھوکہ دہی فیشن ہو گیا ہے۔ منافقت تہذیب بن گئی ہیں۔  غرض یہ تمام برائیاں عام ہو کر رفتہ رفتہ ہمارے معاشرے کا چلن بنتی جا رہی ہیں اور پھر رہی سہی کسر ذرائع ابلاغ نے پوری کر دی ہے۔ اس نے تو نئی نسل کی اخلاقی اور معاشرتی تہذیب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ پورے معاشرے کے ساتھ میڈیا کا کھلواڑ بڑی شدت سے جاری ہے۔ ان تمام حالات اور ان تمام عوامل کو اس کے وسیع تر پس منظر میں تقریباً سبھی افسانچہ نگاروں نے اپنے اپنے افسانچوں میں پیش کیا ہے اور عصری آگہی، عصری حسیت کی اصطلاح ان معنوں میں وسیع سے وسیع تر ہو کر ان تخلیقات میں جا بجا نظر آتی ہے۔ جو پڑھنے والوں کو اپنے اختصار اور ایجاز کے سبب متاثر کرتی ہے اور متوجہ بھی۔ اس طرح اب اس بات کی قوی امید کی جاسکتی ہے کہ ان مختصر تحریروں کے حوالے سے ایک بار پھر پرنٹ میڈیا سے نئی نسل کا ایک بڑا حلقہ جڑ سکتا ہے۔ جو آج کے میڈیا کے دور میں یقیناً اپنی اہمیت منوانے میں کامیاب ہو گا۔

 اپنے اس تحقیقی کام کے اواخر میں خیال ہوا کہ اس سلسلے میں چند سینئر افسانہ نگاروں کو، جو اس صنف میں اپنی نمایاں خدمات رکھتے ہیں۔  ان کی گرانقدر آراءسے استفادہ کیا جائے۔ میرے اس خیال کو اس وقت بڑی تقویت ملی جب میں نے ان سے آراء طلب کیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے خطوط کا تانتا بندھ گیا۔ یہ دیکھ کر بےحد مسرت ہوئی اور میرے اس کام کو ایک نئی سمت و رفتار اور مجھے ایک نئی توانائی کا احساس ہوا کہ ان حضرات نے مجھے اپنے افسانوی مجموعے روانہ کیے اور اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پر خلوص تاثرات کے ساتھ ساتھ گرانقدر آراء و مفید مشوروں سے نوازا اور ان ہی رہنما خطوط کی روشنی میں اپنے اس کام کو میں پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوسکا ان تمام کا شکریہ ادا کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں۔  ان میں خاص طور پر محترم طالب زیدی (میرٹھ) اور اقبال انصاری (دہلی) جیسے مقبول و معروف افسانہ نگار جنھوں نے اس صنف میں اپنے مجموعے بالترتیب ’’پہلا پتھر‘‘ اور ’’ابھی‘‘ کی کوئی جلد فاضل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زیراکس کاپی بطور خاص روانہ کی۔ وریندر پٹواری نے اپنے مصر کے دوران قیام شہر قاہرہ سے اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے خلوص نامے سے نوازا اور دہلی پہنچنے کے بعد پہلی فرصت میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ افسانچوں کے ساتھ گرانقدر مشوروں سے فیض یاب کیا۔ اور افسانچوں کا علیحدہ مجموعہ شائع کرنے کا وعدہ بھی کیا۔اسی طرح آنند لہر (جموں ) ، کوثر صدیقی (بھوپال)، نسیم محمد جان (موتیہاری)، علیم صبا نویدی (مدراس)، ڈاکٹر خان ارمان (کان پور) اور ڈاکٹر اسلم جمشید پوری (میرٹھ) اور دیگر کئی نامور اہل قلم نے اپنے مجموعے فوری طور پر بھیج کر میری بھرپور معاونت کی۔ اسی طرح آنند لہر اور مناظر عاشق ہرگانوی نے اس صنف میں اپنے مجموعہ شائع کرنے کی میری تحریک کو بڑی محبت سے قبول کیا اور جلد ہی مجموعہ شائع کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ اس کے ساتھ ہی مناظر عاشق ہرگانوی صاحب نے اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروانے کا وعدہ کیا (جواب محترمہ نظیر فاطمہ اردو میں افسانچہ نگاری کے موضوع پر تحقیقی کام کر کے پورا کر رہی ہیں ) اور اپنے گرانقدر رشحات قلم سے بھی نوازا (جو اس کتاب میں شامل ہیں )۔ ممتاز شاعر اور مدیر اسباق نذیر فتح پوری نے میری تحریک پر اپنا مجموعہ ’’ریزہ ریزہ دل‘‘ کے نام سے شائع کیا، جسے احقر نے مرتب کیا ہے۔ جو ادبی حلقہ میں کافی مقبول ہو رہا ہے۔ اسی طرح محمد خالد عبادی، اکبر عابد، محمد ارشد صدیقی اور فیروز خاں نے اپنے ترتیب شدہ مجموعوں کے مسودے پیش لفظ لکھنے کے لیے مجھے روانہ کیے۔  میں ان کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔  اسی طرح نور شاہ(کشمیر)، احمد صغیر(گیا)، اقبال حسن آزاد (مونگیر)، مشتاق اعظمی، نذیر احمد یوسفی(اسنسول کلکتہ)، سکندر حمید عرفان (کھنڈوہ)، رونق جمال (چھتیس گڑھ) نے اپنے اس زیر ترتیب مجموعوں سے اپنے منتخب افسانچے روانہ کیے ان سب کا بھی میں مشکور ہوں۔  ایک بار پھر ان تمام افسانہ نگاروں / افسانچہ نگاروں اور دیگر احباب کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں اور اس پورے سلسلے کو اپنے کام کی پذیرائی کا بین ثبوت سمجھتا ہوں جو بعد میں یقیناً اس صنف کو مزید مستحکم کر کے اس کی مقبولیت میں اور بھی زیادہ اضافہ کا جواز پیش کرے گا انشاء اﷲ۔

 ایک بات اور…. میں نے ملک بھر کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں شائع ہوئے تقریباً سبھی لکھنے والوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے اور مجموعی اعتبار سے برصغیر کے پس منظر میں اپنے اس جائزہ کو پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی برصغیر کے حوالے سے دیار غیر میں (مشرق وسطیٰ و مغربی ممالک) آباد اردو کی نئی بستیوں کے قلمکاروں کی شمولیت سے اسے عالمی انتخاب کی سطح پر ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔ جو اس کی ابتدا یعنی ۱۹۸۴ءسے ۲۰۰۸ء تک کے طویل عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ تاہم ایک آدھ مجموعے کا نام چھوٹ جانے یا کسی کا ذکر نہ ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔ محترم جوگندر پال کے بقول ’اس صنف پر میرا یہ پہلا کام ہے اور اس بات سے انکار کی گنجائش اس لیے بھی نہیں ہے کہ اس موضوع پر باقاعدہ کوئی کتاب اب تک منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ اس اولیت کا اعتراف میرے ساتھ کے سبھی لکھنے والوں نے بھی کیا ہے اور پال صاحب نے تو مجھے اس سند سے نواز دیا ہے۔ تاہم میں امید کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ اور آگے بڑھے گا اور تحقیق و تنقید کی نئی راہیں کھلیں گی کہ بقول ولی اورنگ آبادی

 راہ مضمون تازہ بند نہیں ::تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

 لہذا اس صنف کے فروغ سے تحقیق و تنقید کے نئے باب بھی وا ہو گے کہ ہر صنف از خود اپنا جواز فراہم کرتی ہے۔ اپنے پھلنے پھولنے کے اسباب بھی مہیا کرتی ہے۔ بہرحال اس طرف ناقدین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

 آخر میں ان تمام احباب کا ایک بار پھر تہہ دل سے ممنون ہوں جن کی معاونت کے بغیر اس کتاب کی اشاعت ممکن نہ ہوتی۔ اپنی اس کتاب پر جو میری پہلی تحقیقی و تنقیدی کتا ب ہے آپ کی گرانقدر رائے اور دلی تاثرات کا منتظر رہوں گا تاکہ ان آراء کی روشنی میں اپنے تخلیقی اور تنقیدی سفر کو مزید آگے بڑھاسکوں۔

۳۰جون ۲۰۰۸ءعظیم راہی

 اورنگ آباد

 

محترم عظیم راہی صاحب! سلام مسنون

 تاخیر سے مخاطب ہو رہا ہوں۔

 ممکن ہے آپ کی کتاب میں شمولیت کا وقت نکل چکا ہو۔ بہرحال …. یہ پندرہ افسانچے ملاحظہ کریں۔

 آپ کا سجھاؤ پسند آیا کہ اپنے افسانچوں کا مجموعہ شائع کراؤں …. ۲۰۰۷ء کے پروجیکٹ میں شامل کر لیا ہے۔

 ایک اور ارادہ کو جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچاؤں گا۔ یہ آئیڈیا آپ بھی پسند کریں گے کہ اردو افسانچوں پر کسی کو پی ایچ ڈی کراؤں۔

 اردو افسانچوں کے فروغ میں ’کوہسار‘‘ ’زاویہ، اور دیگر رسائل کے ذریعہ میں نے حصہ لیا ہے۔ ’کوہسار‘ کے ۱۶۴ شمارے منظر عام پر آ چکے ہیں۔  تقریباً سبھی شماروں میں افسانچے شامل ہیں۔  اسی طرح ’زاویہ‘ کے ہر شمارہ میں افسانچے شامل کیے ہیں۔

 افسانچوں کے ایک اور انتخاب پر غور کروں گا۔

 آپ کے افسانچے ’کوہسار‘ اور ’زاویہ‘ میں شامل رہیں گے۔ کتاب پر تبصرہ جلد ہی شائع کروں گا۔

 افسانچے پر اپنی رائے منسلک کر رہا ہوں۔

 امید ہے جلد ہی نغمہ بار ہوں گے۔

تاریخ: 06-09-2006 مناظر عاشق ہرگانوی

 

کرم فرما عظیم راہی صاحب سلام مسنون

 آپ کا خط ملا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ منی افسانہ کی روایت پر تحقیقی و تنقیدی کتاب ترتیب دے رہے ہیں۔  اس موضوع پر ابھی تک اردو میں کتاب نہیں آئی ہے۔

 میں نے تقریباً ایک سو افسانچے لکھے ہیں جو ہندوستان اور پاکستان کے رسائل میں شائع بھی ہوئے ہیں۔  پچاسوں افسانچے لگوکتھا کی صنف کے تحت ہندی میں بھی الگ الگ رسائل اور انتخاب میں شائع ہوئے ہیں۔  میرے افسانچوں کا ترجمہ انگریزی میں Tales of Trines کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا ہے۔ بنگلہ کے قلمکار سوشوبھن سین گپتا نے یہ ترجمہ کیا ہے۔ کتاب میں کمپوزنگ کی چند غلطیاں راہ پا گئی ہیں۔  اس کے باوجود کتاب پسند کی گئی ہے۔ آپ کے ملاحظہ کے لیے رسالہ روانہ کر رہا ہوں۔

 ’کوہسار، تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔ اس سال آپ کا بھی شمارہ آیا تھا۔ زیر ترتیب شمارہ میں آپ کی کہانی انجام شامل ہے۔ کمپوزنگ ہو چکی ہے۔ جلد ہی بھیجوں گا۔

 ’’زاویہ‘‘ پابندی سے نکل رہا ہے۔ آپ کو باقاعدگی سے مل جائے گا۔

 میرے احباب میں سے کسی کا افسانچوں کا مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے۔ جوگندر پال کے ہی مجموعے چھپتے ہیں۔

 آپ کا یہ پروجیکٹ جلد ہی اشاعت پذیر ہو گا! میرے افسانچوں کی ضرورت ہو تو لکھ بھیجیں !

 امید ہے نغمہ بار ہوں گے!

 تاریخ: 29-06-2006 مناظر عاشق ہرگانوی

 

صنفِ افسانچہ پہ چند اہل قلم کے تاثرات

میں منی افسانے کو ایک صنف مانتا ہوں جسے ایک ابتداء ارتقاء اور انتہا کا حامل ہونا چاہیے۔ یہاں طوالت سے فنی گریز از بس ضروری ہے تاکہ منی افسانے کی انفرادیت نمایاں ہوسکے۔ اجمال متاثر کن اور تخلیق ایک وزنی حسن سے ہم آہنگ ہوسکے….

 (اقبال انصاری، دہلی)

 ٭٭

 یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنی کتاب میں میری منی کہانی ’’ہم شکل‘‘ شامل کی ہے۔ دراصل منی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جناب جوگندر پال نے شروع کیا تھا اور وہ چند سطور میں ایک مکمل کہانی لکھنے میں مہارت حاصل کر چکے ہیں۔  آج چند کہانی کار ان کے نقش قدم پر چل کر سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی بجائے چند لہروں کا ذکر کر کے یہ ظاہر (Convey) نہیں کر پاتے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں پھر کہانی ایک چٹکلہ بن جاتی ہے۔

 ………… اسی طرح ہر کہانی اپنے موضوع کے لیے اپنی ضرورت قلم کار کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ چھوٹا بڑا یا بہت بڑا کینواس، منی کہانی ، لمبی کہانی یا ناول سبھی موضوع کو اجاگر کرنے کے ایک کینواس ہوتا ہے۔ منی کہانی کا کینواس بہت چھوٹا ہوتا ہو مگر ناظر کو کسی اسٹروک یا رنگ کی کمی محسوس نہ ہو۔

 (ویریندر پٹواری، دہلی)

 ٭٭

 اس اطلاع سے خوشی ہوئی کہ آپ افسانچوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔  افسانوں پر تنقید نگاروں نے کم توجہ دی ہے افسانچوں پر تو اور کم لکھا گیا ہے۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ اس کمی کو پورا کر رہے ہیں۔  افسانچے تو بہت لکھے جا رہے ہیں مگر کیا ان سب کو افسانچہ کہا جاسکتا ہے؟۔ پہلی شرط تو کہانی پن ہے۔ مگر لوگ اس پہلی شرط ہی کا خیال نہیں رکھتے….

 (نسیم محمد جان، موتہاری، بہار)

 ٭٭

 افسانچوں ، منی کہانیوں پر آپ کام کر رہے ہیں بہت اچھا ہے۔ ۷۸ء میں میں نے پشاور پریس کلب میں اس کتاب سے چند تحریریں سنائی تھیں۔  اس سے پیشتر میں اپنی غزلیں اور نظمیں سنا چکا تھا۔ وہاں ادیب اور شاعروں کا یہ جملہ تھا کہ ہم تو سمجھتے تھے جو شخص شاعری نہیں کرسکتا وہ نثری نظموں کی پناہ لیتا ہے۔ یعنی ان تحریروں کو نثری نظموں کے ذیل میں بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ مگر میری نظر میں جہاں نظم آ جائے وہاں کہیں نہ کہیں موسیقیت اور غیر محسوس طور پر ایک طرح کا وزن اور نظم پیدا ہو جاتا ہے۔ بہرحال اب تحقیق کر رہے ہیں اس کی ہئیت کو بھی واضح کرنے کی کوشش کریں۔  میں نے جس زمانے میں یہ تحریریں لکھنی شروع کیں تھیں۔  میری نظر میں اس بھاگتی دوڑتی دنیا میں جہاں کتابیں پڑھنے کی فرصت اور سعادت نہیں ہے اگر مختصر تحریریں ہوں تو ان کے ذریعہ اپنا ما فی الضمیر ادا کیا جاسکتا ہے۔…………

 (طالب زیدی، میرٹھ)

 

باب اول

 افسانچہ کی ابتداء و ارتقاء

۷۰ء کے بعد بڑی افراتفری کا عالم تھا۔ چھٹی دہائی میں اردو افسانہ تجرید کی پیچیدگیوں میں اس قدر الجھ کر رہ گیا تھا کہ قاری اس سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ دراصل جدیدیت کے زیر اثر لکھے جانے والے علامتی تجریدی افسانوں سے کہانی پن نکل جانے کے باعث قاری ان سے تنگ آ چکے تھے۔ لہذا جدید اردو افسانہ میں کہانی کی واپسی ایک نئے انداز میں ہو رہی تھی جبکہ کچھ لوگ اسی روایتی انداز میں افسانے لکھ رہے تھے۔ ایسے دور میں نئی نسل میں مختصر ترین افسانے یعنی افسانچے منی افسانے لکھے جانے کا رجحان شروع ہوا جو وقت کا جائز تقاضہ اور مشینی دور میں قاری کو اپنے طرف راغب کرنے کا ذریعہ بھی ثابت ہوا۔ افسانچہ جو کہ افسانہ میں ہئیت اور فارم کا تجربہ تھا۔  یہ تجربہ اردو میں منٹو نے بہت پہلے کیا تھا۔ ۱۹۴۸ء میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی شکل میں افسانچے منظر عام پر آئے تھے۔ اس کے بعد ۱۹۶۲ء میں جوگندر پال نے اپنے افسانوی مجموعہ ’’میں کیوں سوچوں ‘‘ میں ’’۳۵ افسانچے‘‘ کے نام سے مختصر ترین افسانے شامل کئے تھے اور اس کے بعد سے مختصر ترین افسانے خوب لکھے جانے لگے۔  جوگندر پال کی تقلید میں ۷۰ء کے بعد افسانچہ لکھنے کا چلن عام ہوا اور پھر یہ رجحان آٹھویں دہائی کے آغاز سے زور پکڑنے لگا۔ قارئین کی دلچسپی بڑھنے لگی ، اخبارات نے کثرت سے انھیں چھاپنا شروع کیا جو آہستہ آہستہ وقت کا جائز تقاضہ بنتا گیا۔ جدید افسانہ میں اسلوب اور ہئیت کے جو تجربے ہوئے ان کا اثر افسانچہ کی شکل میں رونما ہوا اور بعض نے اسے صرف افسانے کے سکڑنے سے تعبیر کیا۔  لیکن مختصر ترین افسانہ دراصل جدید اردو افسانہ میں ہئیت کی تبدیلی کا ایک کامیاب تجربہ ہے۔ ویسے اردو میں اس تجربہ کا آغاز منٹو کے سیاہ حاشیے سے ہی ہوتا ہے۔ اتفاق دیکھئے تجریدی اور علامتی افسانہ کی شروعات بھی اردو میں منٹو کے افسانے ’’سڑک کے کنارے‘‘ اور ’’پھندنے،’ سے ہوئی ہے۔ اکثر لوگ اسے رد کرتے ہیں اور کچھ اعتراف کرتے ہیں لیکن سچ تو یہی ہے کہ باقاعدہ۱۹۶۰ءسے قبل ہی جدید اردوافسانہ کا آغاز ہو چکا تھا اور اس سلسلے کی شروعات منٹو کے ان افسانوں سے ہی ہوئی ہے۔ اس طرح جدید اردو افسانے کے تجربوں کا سہرا منٹو کے سر ہی بندھتا ہے۔

 اردو میں منٹو نے سب سے پہلے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے عنوان سے مختصر ترین افسانے لکھ کر اس صنف کی بنیاد ڈالی۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ منٹو کو اس کی تحریک مغرب سے ملی ہو کیونکہ منٹو کی ادبی زندگی کا آغاز ہی روسی کہانیوں کے مترجم کی حیثیت سے ہوا تھا۔ ہوسکتا ہے اس زبان یا دیگر مغربی زبانوں کے زیر اثر انھوں نے لکھا ہو۔ لیکن افسانچہ کو سرے سے صرف مغرب سے متاثر ہونے کا نتیجہ سمجھنا قطعی مناسب نہیں ہے کہ افسانچہ بھی اردو کی خالص اپجی صنف ہے۔ اس سلسلے میں جو نظریات ملتے ہیں وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔  اس نظریے کے تحت افسانچہ کی روایت پرانی حکایات اور خلیل جبران کے مقولوں سے شروع ہوتی ہے۔سید محمد عقیل کہتے ہیں کہ خلیل جبران کے فکر پارے کو عالمی ادب میں سب سے چھوٹی کہانی یعنی افسانچہ کا نام دیا گیا ہے۔ عربی ادب میں بھی باقاعدہ اس صنف کی روایت موجود ہے۔  یہ بھی ممکن ہے کہ اردو والوں نے قصیدہ کی طرح اس صنف کی ایجاد میں عربی ادب سے استفادہ کے نتیجے میں راہ ہموار کی ہو۔البتہ ہندی میں بھی ’’’لگوکتھا‘‘ اور مرہٹی زبان میں ’’شنک کتھا‘‘ کے نام سے افسانچہ کی یہ روایت ملتی ہے۔پنجابی میں بھی بہت پہلے سے افسانچے لکھے جا رہے ہیں لیکن وہاں اسے لطیفے سے قریب کر دیا گیا ہے۔

 دوسرے نظریے کے تحت کہا جاتا ہے کہ مختصر افسانہ کی طرح افسانچہ کا غالب رجحان مغربی ادب سے متاثر ہونے کے نتیجے میں ہی آیا ہے مختصر افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے جتنے تجربے ہوئے ہیں وہ سب مغرب کے ہی مرہون منت ہیں۔  اس لئے افسانچہ بھی اسی رجحان کے زیر اثر اردو میں لکھا گیا ہو، بعید از قیاس بھی نہیں لگتا ہے۔

 افسانچہ کی ایجاد کے تعلق سے پہلا نظریہ رکھنے والوں میں کئی ممتاز ناقد و ادیب شامل ہیں۔  ممتاز شاعر قاضی سلیم اس سلسلے میں رقم طراز ہیں :

 ’’پرانی حکایات ، لطائف سے منی کہانی اور افسانچوں کو جوڑ لیں تو ان کی جڑیں اپنی روایات میں دھنسی ہوئی مل جائیں گی۔ تازہ بہ تازہ یورپ سے درآمد کئے جانے کا الزام اپنے سر کیوں لیا جائے۔‘‘ (عظیم راہی اور منی افسانے کا فن۔’’ پھول کے آنسو‘‘ کے اجراء کے موقع پر پڑھا گیا ایک مضمون)

 اس ضمن میں معروف ناقد اور ادیب و شاعر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی رائے بھی اہم ہے ، وہ لکھتے ہیں :

 ’’افسانچوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ صنف خلیل جبران سے شروع ہوتی ہے۔ اردو میں باضابطہ طور پر اس کی روایت منٹو سے شروع ہوتی ہے۔ منٹو کے بعد جوگندر پال نے اس صنف کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔‘‘ ( قوس قزح۔ مرتب مناظر عاشق ہرگانوی ۱۹۹۲ء۔ ص۴)

 اسی نظریے کے تحت جدید افسانہ نگار م۔ناگ بڑے وثوق سے یوں اظہار خیال کرتے ہیں :

 ’’منی افسانہ ہندوستان کی ادبی زمین میں تیل کی صورت میں موجود ہے۔ دیش اور جاتک کتھائیں ، چھوٹی چھوٹی حکایتیں ، پند و نصائح کی ننھی منی کہانیاں ہمارے انمول خزینے ہیں۔  اس وقت سے یہ کہانیاں سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں۔  جب آدمی لکھنا نہیں جانتا تھا ، یہ ہماری ادبی میراث ہے۔‘‘ (’یہ دھواں کہا ں سے اٹھتا ہے‘۔ اشفاق احمد۔ پیش لفظ م ناگ ص۴۱)

 آگے حتمی طور پر اپنی رائے دیتے ہیں :

 ’’ منی افسانہ باہر سے نہیں آیا ہے۔ یہ ہماری اپنی پیداوار ہے۔ اسی زمین سے اُپجا ہے۔  آج جبکہ ویڈیو نے چھپے ہوئے لفظ کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ آج جبکہ آدمی بین الاقوامیت کا گرین کارڈ حاصل کرنا چاہتا ہے ایسے دور میں منی کہانی آج کے قاری کی ضرورت بن سکتی ہے۔ (یہ دھواں کہا ں سے اٹھتا ہے۔ اشفاق احمد۔ پیش لفظ م ناگ ص۴۱)

 افسانچہ کی روایت کے تعلق سے عام طور پر دوسرا نظریہ رکھنے والے صرف ہوا میں بات کرتے ہیں۔  کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہینمگ وے ، لچنگ ولے اور ایڈگریلین کے اثر سے اردو میں منی افسانے لکھے گئے لیکن حتمی طور پر اپنی رائے کے جواز میں ان کے پاس کوئی واضح ثبوت نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کا نظریہ اور رویہ رکھنے والے اس بات سے انکار بھی نہیں کرتے کہ اردو میں سب سے پہلے افسانچے یا مختصر ترین افسانے منٹو نے ہی لکھے ہیں۔  دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس بات کی کہیں کوئی وضاحت نہیں ملتی ہے کہ منٹو نے یہ چراغ مغرب کے کس ادیب سے متاثر ہو کر روشن کیا تھا اور نہ ہی منٹو نے خود کہیں اس تعلق سے کوئی بات کہی ہے۔ جوگندر پال نے بھی اس صنف کے موجد کی حیثیت سے منٹو کا نام تسلیم کیا ہے اور ’’سیاہ حاشئے‘‘ کو ہی اولیت دیتے ہیں۔  مزید اس سلسلے میں تقریباً نصف درجن ناقدین اور افسانہ نویس اردو میں افسانچہ نگاری کو منٹو کی سب سے پہلی کوشش قرار دیتے ہوئے ان کی اولیت کو تسلیم کرتے ہیں۔  ملاحظہ فرمائیں :

 ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں :

 ’’مختصر ترین افسانوں کا رواج اب عام ہو گیا ہے۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کی کامیاب بنیاد اردو کے نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے ڈالی تھی۔ ان کا ایک پورا مجموعہ حد درجہ مختصر کہانیوں پر مشتمل ہے۔ ( حرفوں کے ناسور۔ ڈی ایچ شاہ۔ پیش لفظ۔ص۹)

 سید محمد عقیل کی رائے بھی اس بات کی پُر زور تائید کرتی ہے:

 ’’بیسویں صدی میں نئی چھوٹی کہانیاں مجموعی طور پر سب سے پہلے منٹو نے شروع کیں جو جدید زندگی خصوصاً تقسیم ہند کے فسادات سے متعلق تھیں۔ ‘‘ (منی کہانیاں سید محمد عقیل مطبوعہ روح ادب کلکتہ ص۵۶)

 نثار اعظمی بڑے وثوق سے اپنی رائے پیش کرتے ہیں :

 ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ منی افسانوں کی روایت کی داغ بیل سعادت حسن منٹو نے ڈالی۔‘‘ (’’پھول کے آنسو‘‘۔ مبصر:نثار عظمی، مطبوعہ معلم اردو لکھنؤ۔ اپریل ۱۹۸۸ء)

 معتبر جدید افسانہ نگار سلام بن رزاق لکھتے ہیں :

 ’’غالباً سب سے پہلے منٹو نے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے عنوان سے کامیاب منی افسانے لکھے ہیں۔ ‘‘ (تعارف رشید قاسمی۔ سلام بن رزاق۔ مجلہ شاہین ۶۔  جلگاؤں )

 معروف نقاد نظام صدیقی کی رائے میں بھی منٹو کو اولیت حاصل ہے۔  جوگندر پال کے افسانچوں کے مجموعہ ’کتھا نگر،پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف رقمطراز ہیں :

 ’’اردو فکشن میں منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے بعد پہلی بار جوگندر پال نے اعلیٰ سنجیدگی سے اس مختصر ترین صنف کو اپنے بہترین تخلیقی لمحات ایک خاص تخلیقی رویہ اور برتاؤ کے ساتھ نذر کئے ہیں۔  (کتھا نگر۔ تبصرہ مطبوعہ ماہنامہ آج کل۔ اکتوبر ۷۸)

 ڈاکٹر ہارون ایوب نے بھی اس خصوص میں منٹو کی اولیت کا اعتراف کیا ہے وہ لکھتے ہیں

 ’’اردو ادب میں افسانچہ کی روایت کو سب سے پہلے منٹو نے متعارف کیا اور پہلا افسانچوں کا مجموعہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے نام سے پیش کیا۔ منٹو کے اس مجموعہ سے افسانچوں کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی اور بہت سے افسانہ نگار، افسانچہ کی جانب متوجہ ہوئے‘‘۔ص۳۴، ماہنامہ پرواز ادب (پٹیالہ) نومبر دسمبر۱۹۹۷ء

 اسی کتاب کے تبصرہ میں مناظر عاشق ہرگانوی بھی منٹو کے سیاہ حاشیے کا حوالہ دیتے ہیں۔  قاضی سلیم بھی منٹو کو ہی اولیت دیتے ہیں۔  ان تمام بیانات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اردو میں سب سے پہلے منٹو نے ہی ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی شکل میں افسانچے لکھے ہیں۔  حالانکہ کچھ لوگ چند ان مختصر کہانیوں کا بھی حوالہ دیتے ہیں جو انگریزی فرانسسی اور روسی زبانوں کے ادب سے متاثر ہو کر لکھی گئیں۔  اسی طرح ابراہیم جلیس نے ’’اوٹ پٹانگ‘‘ کے نام سے مختصر مختصر افسانے لکھے ہیں جو اپنے نام کی طرح اوٹ پٹانگ ہیں اور یہ انگریزی ادب سے متاثر ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ اور ان کا صنف افسانچہ سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس اعتبار سے اس صنف کی اولیت کا سہرا منٹو کے سر بندھتا ہے اور اردو کے ہر بڑے نقاد نے افسانچے کی تخلیق کے موجد کے طور پر انھیں تسلیم کیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے وہ بھی سیاہ حاشیے کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔  چاہے ان کی نظر میں افسانچہ یا افسانچہ کوئی جدید صنف نہ رہی ہو اور کچھ دوسرے مخالفین بھی جو اسے صنف کے طور پر قبول نہیں کرتے، اس باب میں منٹو کی اہمیت کے قائل ہیں۔  مجموعی اعتبار سے منٹو کو جو اولیت حاصل ہے اس سے کسی طور پر انکار ممکن نہیں کہ آج کے تمام معتبر اور نامور نقادوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔اور اس خصوص میں منٹو کی اولیت کا تقریباً سب نے اعتراف کیا ہے۔

 اس مختصر سے جائزے سے یہ بات آئینہ کی طرح صاف ہو جاتی ہے کہ اردو میں سب سے پہلے اس روایت کی بنیاد منٹو نے ڈالی اور ان کے بعد جوگندر پال جیسے ہمہ جہت فنکار نے اسے اعتبار اور وقار بخشا ہے جو یقیناً قابل قدر ہے۔ اس سلسلے میں نثار اعظمی رقمطراز ہیں :

 ’’منٹو کے بعد موجودہ دور میں جوگندر پال نے اس صنف میں قابل قدر تخلیقی کام انجام دیا ہے۔‘‘ (پھول کے آنسو۔ تبصرہ مطبوعہ معلم اردو لکھنؤ۔ اپریل ۱۹۸۸ء)

 مناظر عاشق ہرگانوی کے مطابق جوگندر پال منی افسانے کی فہرست میں وہ نام ہے جنھوں نے اس صنف کو ہر جہت سے فروغ دیا ہے اور اعتبار بخشا ہے۔  (کتھا نگر۔ مبصر مناظر عاشق ہرگانوی۔ توازن مالیگاؤں۔  ۹ ۱۹۸۶ء)

 یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کے بعد کسی بڑے افسانہ نگار نے اس صنف میں طبع آزمائی نہیں کی۔ اکثر نے تو اسے صنف ہی تسلیم نہیں کیا۔ افسانچے کا المیہ ہے کہ اس پر  کہنہ مشق ادیبوں نے کم توجہ دی ہے۔  جوگندر پال کے بعد رتن سنگھ اور ان کے ساتھ صرف دو چار بڑے نام ملتے ہیں جنہوں نے گنتی کے چندافسانچے تحریر کیے ہیں۔  اسی طرح ہمارے ناقدین نے بھی اسے اچھوت سمجھ کر ہاتھ نہیں لگایا۔ اس پر کچھ لکھنے اوراسے اہمیت دینے سے شعوری طور پر گریز کیا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ نئی نسل میں نئے لکھنے والوں نے اسے باقاعدہ صنف کے طور پر برتنا شروع کر دیا تھا۔اسی سبب آج اس صنف میں ناموں کی ایک طویل فہرست ملتی ہے۔اس کے ساتھ ہی کچھ ناقدین کا رویہ بڑا عجیب لگتا ہے۔ محمد حسن عسکری، منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو مختصر افسانے بھی لکھتے ہیں اور لطیفے بھی…. دوسری طرف ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’فسادات کے متعلق جتنا بھی لکھا گیا ہے اس میں اگر کوئی چیز انسانی دستاویز کہلانے کی مستحق ہے تو یہ افسانے ہیں ‘‘۔

 لیکن اس کے برعکس، دوسرے ترقی پسند نقاد اس رائے کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں۔  ممتاز حسین نے اپنی کتاب ’’نقد حیات‘‘ میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو افسانوی مجموعہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے لکھا تھا۔

 ’’یہ (سیاہ حاشیے) افسانوں کی کتاب نہیں بلکہ لطیفوں ، چٹکلوں اور پہیلیوں کی کتاب ہے۔ یہ لطیفے، چٹکلے فسادات کے واقعات مرتب کیے گئے ہیں ‘‘۔ (ص۱۷۷)

 اسی طرح خلیل الرحمن اعظمی نے اسے منفی کوشش کا نمونہ قرار دیتے ہوئے لکھا تھا۔

 ’’اس نوع کی منفی کوشش کا نمونہ وہ لطیفے ہیں جو سیاہ حاشیے کے نام سے فسادات پر لکھے گئے ہیں ‘‘۔ (ترقی پسند تحریک۔ ص۳۲۳)

 دراصل اس زمانے میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ سے منٹو کا باغیانہ رجحان کھل کر سامنے آگیا تھا اور ترقی پسند حلقے میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ اسی لیے ترقی پسند نقادوں نے منٹو کے خلاف کئی اور شوشے چھوڑے۔ منٹو کو رجعت پسند کہا گیا۔ اور ’سیاہ حاشیے‘ کو افسانوی مجموعہ ماننے سے انکار کیا گیا۔ اسے لطیفے سے قریب قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ حتیٰ کہ بعد میں منٹو کے ایک بڑے معترف اور ممتاز نقاد وارث علوی نے بھی ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو صرف چٹکلے کہا ہے وہ لکھتے ہیں۔

 ’’…. اور سیاہ حاشیے جو ہیں وہ افسانے نہیں لطیفے ہی ہیں۔  چٹکلے بھی ہیں۔  بہت کم اہم…. بہت اچھے، …. لیکن چٹکلے ہیں ….‘‘۔ (سیل گفتگو۔ عصری افسانے پر وارث علوی سے بات چیت ، ش۔ک۔نظام۔مطبوعہ ماہنامہ شاعر بمبئی افسانہ نمبر۱۹۸۱ء۔ص۱۲۹۔۱۳۰)

 جبکہ سید محمد عقیل ، منٹو کے سیاہ حاشیے کی ان مختصر کہانیوں میں بہت زیادہ اثر انگیزی محسوس کرتے ہیں۔  وہ لکھتے ہیں۔

 ’’یہ کہانیاں اپنی کاٹ، اثر انگیزی اور دھماکہ خیز اثرات کا مرقع معلوم ہوئی اور بعض اوقات تو یہ محسوس ہوا کہ ان کہانیوں میں واقعات اور حادثات کا سچ نچوڑ کر رکھ دیا گیا ہے‘‘۔ (ص۶۶۔ منی کہانیاں۔  سید محمد عقیل۔ روح ادب کلکتہ)

 یہاں یہ امر مسلم ہے کہ تقسیم ہند کے فسادات کا کرب ہی ان مختصر کہانیوں کا اصل مدعا ہے۔ اس لیے یہ لطیفے ہرگز نہیں ہیں بلکہ ان مختصر ترین کہانیوں میں ان واقعات کی شدید تر کیفیات شدت تاثر کے ساتھ موجود ہیں۔  ان ہی کیفیات کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے سید محمد عقیل اپنے اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں

 ’’ان کہانیوں میں واقعات بھی ہیں ، حادثات بھی…. اور کہیں کہیں تو ایسا دھچکا لگتا ہے کہ قاری تھوڑی دیر کے لیے ان کی تاثیر اور ان کے غم کے بھنور سے نکل نہیں پاتا۔ جیسے اس کے خیالات کی رو تھوڑی دیر کے لیے یہ سوچ کر رک جاتی ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ !‘‘ (ص۶۶۔منی کہانیاں۔  سید محمد عقیل۔ روح ادب کلکتہ)

 یہ چونکا دینے والی ڈرامائی کیفیت، جو ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے منٹو کے ان افسانوں میں موجود ہے۔ کیونکہ یہ کہانیاں ڈاکٹر ظفر سعید کے لفظوں میں ’’محض تفنن طبع کے لیے نہیں لکھی گئی ہیں اور نہ ہی صرف انشراح قلب ان کا مقصود ہے۔ ان کہانیوں میں انسانی فطرت کا جو گہرا راز ہے زندگی کی جو بوقلمونی ہے۔ دہشت کی جو فضا ہے۔ حالات کے جبر کا جو شدید مایوس کن ماحول ہے۔  بے بسی، بے حسی اور نامرادی کی جو یاس انگیز کیفیت ہے وہ لطیفے اور چٹکلے سے بہت اونچی چیز ہے۔ لطیفہ اور چٹکلہ اس ماحول اور اس کیفیت کا متحمل ہو بھی نہیں سکتا‘‘۔ لطیفہ اور افسانہ ان دونوں کے مابین امتیازی فرق کو محسوس کرتے ہوئے وہ آگے لکھتے ہیں۔

 ’’افسانے کی سحر انگیزی زندگی کے آب و تاب کی پیدا کردہ ہوتی ہے۔ اور خود زندگی جیسی انمول پیچیدہ اور بے کراں ہوتی ہے۔ افسانہ بھی ویسا ہی انمول پیچیدہ اور بے کراں ہوتا ہے۔ افسانہ تہذیب کا نمائندہ بھی ہوتا ہے اور تاریخی دستاویز بھی وقت اور زمانے کا نباض بھی ہوتا ہے۔ اور زندگی کے سیل رواں کا تناور بھی۔ لطیفہ ان سب خصائص میں قطعی معرا ہوتا ہے۔ لہذا افسانہ خواہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو۔ لطیفہ کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ اور افسانے کی فنی خامی اسے لطیفے کے درجے پر نہیں پہنچا سکتی‘‘۔ (ص۲۱۔سیاہ حاشیے۔ افسانہ یا لطیفہ۔ ڈاکٹر ظفر سعید مطبوعہ زبان و ادب ’پٹنہ، جلد ۳۲ شمارہ۲)

 چونکہ محمد حسن عسکری جیسے بالغ نظر نقاد نے بھی منٹو کے سیاہ حاشیے کے ان مختصر افسانوں کو کہیں لطیفے کہا ہے اور کہیں افسانے بھی…. شاید یہیں سے یہ غلط فہمی راہ پاگئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر نے اس صنف کو لطیفے سے قریب سمجھنے کی اس غلط فہمی کو تقویت دینے کی کوشش کی ہے مثلاً سید ظفر ہاشمی جیسے سلجھے ہوئے افسانہ نگار بھی افسانچہ کو نئی صنف کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے اور اسے لطیفہ سے قریب محسوس کرتے ہیں۔  وہ لکھتے ہیں :

 ’’اور یہ صنف لطیفے اور پہیلی سے قریب لگتی ہے۔ اس لیے اسے کوئی نیا نام دینا چاہئے…. افسانوں سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ‘‘۔(تبصرہ پھول کے آنسو۔ مطبوعہ گلبن۔  احمدآباد۔۱۹۸۸ء)

 غرض ڈاکٹر سعید کے لفظوں میں ’’سیا حاشیے‘‘ کی تخلیقات کے لیے افسانہ اور لطیفہ دونوں الفاظ کو استعمال کرنا سخت غلطی ہے‘‘۔ جس کا بار بار اعادہ کرنا اسے مزید بڑی غلطی بنا دینے کے مترادف ہے۔ دراصل ہماری تنقید کے اس متضاد رویے کی وجہ سے اکثر نئی اصناف کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا صحیح موقع نہیں مل سکا ہے شاید اسی وجہ سے نثری نظم اور آزاد غزل کا تجربہ ناکام رہا۔ لیکن یہ صنف (افسانچہ) بڑی سخت جان ثابت ہوئی ہے۔ ان مخالف رویوں منفی رجحان اور تنقیدی تضاد کے باوجود اپنی صنفی حیثیت کو تسلیم کروانے میں پوری طرح کامیاب ہوئی ہے اور دن بدن مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ مقام شکر ہے کہ اس صنف کی تعریف، ہئیت، خدوخال اور فن کا تعین صحیح طور پر بہت پہلے ہو چکا ہے اور بیسوی صدی کی آخری تین دہائیوں سے افسانچہ بطور صنف اپنی اہمیت کا لوہا منوا چکا ہے جو وقت کے ساتھ چل کر، وقت کی ضرورت بھی بن گیا ہے اور بدلتے وقت کے ساتھ اور بھی زیادہ مقبول عام ہوا ہے اس بات کا اندازہ آپ کو اس کتاب کے مطالعے سے بآسانی ہو جائے گا۔

 

باب دوم

 افسانچہ کی تعریف و دیگر فنی لوازمات

اردو ادب میں دوسرے اصناف کے مقابلے میں افسانہ کی عمر بہت کم ہے لیکن تمام اصناف ادب میں افسانہ ہی واحد صنف ہے جس نے ہر اعتبار سے ترقی کی ہے اور شاعری کے مدمقابل کھڑے ہونے میں کامیاب ہوا ہے حالانکہ شاعری کی عمر افسانہ سے چار گنا زائد ہے۔ اس لحاظ سے بھی کم وقت میں افسانے کی ترقی بے مثال ہے۔ ترقی پسندوں کے زمانے میں طویل مختصر افسانے ناولٹ کہلائے اور پھر مختصر افسانے کا چلن عام ہوا۔  یہی دور اردو افسانے کا سنہری دور بھی کہلایا اور پھر جب جدید افسانہ کا دور شروع ہوا تو علامتی تجریدی اور تمثیلی افسانے لکھے گئے جو خاص طور پر تکنیک اور ہئیت کے اعتبار سے بے حد کامیاب رہے جبکہ غزل ہئیت کے تجربوں (گو موضوع کے اعتبار سے بہت زیادہ ترقی یافتہ اور مقبول ہے) کی زد میں آ کر آزاد غزل کی شکل میں بری طرح ناکام رہی۔ لیکن افسانہ طویل مختصر افسانہ سے مختصر افسانہ بن کر نہ صرف کامیاب رہا بلکہ اب مسلسل پچھلی تین دہائیوں سے مختصر ترین افسانہ ، منی افسانہ افسانچہ کے نام سے ہئیت کی تبدیلی کا بین ثبوت بن کر ، ایک صنف کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا ہے۔افسانے کے خدوخال میں تبدیلی کو افسانچہ قرار دیتے ہوئے عصر حاضر میں اس کی مقبولیت کے بارے میں ڈاکٹر طیب انصاری گلبرگہ لکھتے ہیں :

 ’’یہ صحیح ہے کہ افسانے کے خد و خال میں تبدیلی آتی رہی ہے۔  افسانہ کبھی طویل ہوا کرتا تھا اور کبھی مختصر۔ آج پھر طویل افسانہ فیشن بنتا جا رہا ہے اس طرح افسانے کے بارے میں یہ کہنا کہ تین ہی صفحوں میں لکھا جائے یا دس منٹ میں سنا جائے صحیح نہیں رہا۔جہاں آج طلسماتی یا داستانی افسانے کو عصر حاضر میں مقبولیت حاصل ہوتی جا رہی ہے وہیں منی کہانی کو بھی دلچسپی سے پڑھا جا رہا ہے اور پھر یہ تاثر کے اعتبار سے طویل افسانے کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ثابت ہو رہی ہے۔ منی کہانی کی پسندیدگی کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ طویل افسانے کے مقابلے میں یہ کہیں زیادہ قابل فہم ہے‘‘۔

 (جدید افسانہ۔ ہیئت ومسائل۔  ص۷۴ مطبوعہ ماہنامہ شاعر (بمبئی) افسانہ نمبر۱۹۸۱ء)

 واضح ہو کہ افسانچہ جدید اردو افسانے میں ہئیت کی تبدیلی کا ایک کامیاب تجربہ ہے۔ جس طرح جدید اردو افسانے میں علامتی ، تجریدی اور تمثیلی افسانوں کے تجربے ہوئے۔ تقریباً اسی دور میں افسانے میں ہئیت کی تبدیلی کے نام پر افسانچہ کا تجربہ بھی عام ہوا۔ ادب میں بھی زندگی کی طرح تجربے ناگزیر ہیں جو وقت کے تقاضے بھی ہوتے ہیں۔  اس سلسلے میں ڈاکٹر عصمت جاوید کی رائے بڑی اہم ہے:

 ’’ادب کے ہر شعبے کی طرح فن افسانہ نگاری میں بھی مختلف تجربے ہوتے رہے ہیں۔  تجربہ زندگی کی علامت ہے ، کون سا تجربہ فیشن ہے اور کون سا فنی ضرورت، کون سا ضروری ہے اور کون سا غیر ضروری۔  کون سا بغاوت اور کون سا زندہ روایات کی توسیع ، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا جو انتہائی غیر جانبدارانہ اور بے رحم نقاد ہے۔‘‘ (پھول کے آنسو،ص مقدمہ ڈاکٹر عصمت جاوید)

 موصوف افسانچہ کو ہئیت کا تجربہ تسلیم کرتے ہوئے آگے لکھتے ہیں :

 ’’جہاں تک فکشن کا تعلق ہے کہانی کو لیجئے تو وہ مختلف ہئیتوں میں ہمارے سامنے آتی رہی ہے جہاں تک مختصر افسانے کا تعلق ہے تو وہ لمبائی میں کبھی طویل مختصر افسانہ بن کر ناولٹ میں ضم ہو گیا تو کبھی طویل مختصر افسانہ بنا اور ناولٹ سے الگ اپنی شناخت قائم رکھی۔ کم ہونے کی طرف مائل ہوا تو افسانچہ بنا۔‘‘ (پھول کے آنسو،ص مقدمہ ڈاکٹر عصمت جاوید)

 عارف خورشید بھی اسے افسانے کی ہئیت میں تبدیلی کا تجربہ مانتے ہوئے لکھتے ہیں۔

 ’’افسانے کی ہئیت میں تبدیلی کا ہر تجربہ کامیاب ثابت ہوا اور مصروفیت سے تھوڑی سی مہلت مستعار لے کر آج کے مشینی انسانوں کے تیز قدموں کی آہٹیں افسانہ نگاروں نے محسوس کی ، افسانچہ اسی کا نتیجہ ہے‘‘۔

 (روز نامہ مفسر(اورنگ آباد)۔ افسانچہ نمبر قسط نمبر ایک ۱۱اکتوبر ۱۹۸۷ء)

 اس ضمن میں محمداحسن فاروقی نے تجزیاتی انداز میں لکھا ہے:

 ’’کسی صنفِ ادب کا مطالعہ ، علمی اصول پر اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ہم اس کی ضرورت ، ہئیت ،نوعیت اور زندگی کے اس کے تعلق کو اچھی طرح نہ سمجھ لیں۔ ‘‘ (اردو مرثیہ اور میر انیس، ڈاکٹر محمد احسن فاروقی، مطبوعہ ادیب ،علی گڑھ، جلد۱، شمارہ۱۰)

 کسی بھی صنف ادب کو عملی اصولوں پر پرکھنا مناسب لگتا ہے۔ ڈاکٹر ارتکاز افضل بھی یہی جواز پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

 ’’ادب میں ہئیت کے تجربے بنیادی طور پر زندگی کے تئیں نظریاتی مفکرانہ تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔  ترقی پسند دور میں نظم کی مقبولیت ، جدیدیت کے زیر اثر نظم ، افسانہ وغیرہ میں ہئیت و اسلوب کے بے شمار تجربے اس کی واضح مثالیں ہیں ‘‘۔ (رو میں ہے رخش۔ ڈاکٹر ارتکاز افضل۔ روزنامہ مفسر، فن و فنکار، قسط ۳۔ یکم نومبر ۱۹۸۷ء)

 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ منی افسانہ آج کے مشینی زندگی کی دین ہے جو تیز رفتار زندگی نے انسان سے وقت کی فراوانی چھین لی ہے اور سکون کی جگہ بے سکونی، و اضطراب نے لے لی ہے۔ ان حالات میں طویل تر کہانیوں کو پڑھنا قاری کے لئے تضیع اوقات کے مترادف ہے۔ ان حالات میں طویل کہانیوں کا سمٹ کر افسانچہ میں تبدیل ہو جانا کچھ عجب نہیں۔  اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے نثار اعظمی لکھتے ہیں :

 ’’جس طرح داستانوں کے بعد ناول ، ناول کے بعد مختصر افسانہ وقت کی ضرورت ثابت ہوئے اسی طرح منی افسانہ بھی افسانہ کے بعد موجودہ دور میں زندگی کی ایک ضرورت اور حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ (پھول کے آنسو۔ تبصرہ مبصر نثار اعظمی، معلم اردو لکھنؤ، اپریل ۱۹۸۸ء)

 اس ضمن میں سلام بن رزاق کی بھی یہی رائے ہے:

 ’’آج زندگی کے ہر شعبے میں رفتار کے ساتھ اختصار پسندی کا رجحان بھی عام ہے۔ فکشن میں پہلے مختصرافسانہ اور اب منی افسانہ بھی آج کے عہد کی تیز رفتاری اور اختصار پسندی کی ہی عطا ہے۔‘‘ (رشید قاسمی، مجلہ شاہین، جلگاؤں ،۶، جلگاؤں ، ص۱۷۳)

 ڈاکٹر منشاء کے لفظوں میں بھی منی افسانہ دور جدید کا تازہ ترین تقاضہ ادب ہے۔ بقول اطہر پرویز ہر ادبی تخلیق زندگی سے زندگی حاصل کرتی ہے اور اس کے مطالعے سے ہم اپنے آپ کو زندگی سے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں۔  آج منی افسانہ کی کامیابی کا سب سے بڑا راز اس کا زندگی سے راست تعلق اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔دراصل منی افسانہ کم سے کم لفظوں میں اپنے تجربے اور مشاہدے کے بھرپور تاثر کو کہانی کی شکل میں پیش کرنا ہوتا ہے۔آیئے اب ہم دیکھیں کہ افسانچہ اربابِ نقد و بصیرت کی نظر میں کیا ہے۔

 ڈاکٹر منشاء منی افسانہ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں :

 ’’کسی موضوع کو کم لفظوں میں بیان کر کے اس میں طویل کہانی کا تاثر پیدا کر دینا اس فن کا بین کرشمہ ہے جو افسانے کے مقابلے میں ذرا مشکل ہوتا ہے۔‘‘ (قتل کا موسم، نواب رونق جمال پیش لفظ )

 ممتاز افسانہ نگار اور جاسوسی ناول نگار اظہار اثر لکھتے ہیں :

 ’’مختصر کہانی صرف بات کو مختصر کہنے سے نہیں بنتی بلکہ اس کا نقطۂ عروج ایسا ہونا چاہیے کہ تخلیق کار کی بات قاری کے دل میں تیر کی طرح اترتی چلی جائے‘‘۔ (مطبوعہ گونج، رحیم انور نمبر۔ ستمبر۱۹۹۶ء)

 ڈاکٹر مجید بیدار نے منی افسانہ ، افسانچہ کی تعریف سائنسی اصطلاح میں ذرا مختلف انداز میں یوں کی ہے:

 ’’جس طرح ایک بم تین اہم عناصر الیکٹرون پروٹون اور نیوٹران سے مل کر بنتا ہے اور ایک بہت بڑے دھماکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے اس طرح افسانہ احساس ، افسانویت اور تاثر سے مرکب ہے جس کا مناسب انداز سے مخلوط ہو جانا دھماکہ ثابت ہوتا ہے۔ بم کا دھماکہ زمین یا فضا میں ہوتا ہے چنانچہ افسانہ کا دھماکہ قاری کے ذہن اور سوچ کے ماحول پر اثر انداز ہوتا ہے۔‘‘ (افسانچہ کا فن اور اس کی تخلیقی حیثیت۔ ڈاکٹر مجید بیدار، مطبوعہ کتاب نما، دہلی فروری ۱۹۸۸ء، ص۴۵)

 اختصار کو افسانچہ کا لازمی جز قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر ہارون ایوب، افسانچہ کی ان الفاظ میں تعریف کرتے ہیں

 ’’افسانچہ کا لازمی جزو اختصار ہے ایک افسانچہ نگار چند الفاظ اور کچھ جملوں میں وہ بات کہہ جاتا ہے جسے کہنے کے لیے ایک دوسرے افسانہ نگار کو سینکڑوں الفاظ درکار ہوتے ہیں۔  لیکن ان جملوں میں زندگی کے صرف ایک مختصر سے حصے پر روشنی پڑتی ہے۔ اور بہت کچھ با شعور قاری کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے‘‘۔ (ص۴۴ ماہنامہ پرواز ادب۔ نومبر دسمبر ۱۹۹۷ء پٹیالہ پنجاب)

 با الفاظ دیگر افسانچہ ، اسی طرح انسانی ذہن پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ جس طرح کوئی تفصیلی واقعہ۔۔لیکن شرط یہ ہے کہ افسانہ نگار دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتا ہو۔

 م۔ناگ منی افسانہ کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں :

 ’’منی افسانہ کسی حادثہ کا فوری رد عمل ہے اس میں نقطہ عروج کے بعد سیدھے انجام جگہ پاتا ہے اور انجام چونکا دینے والا ، جھٹکا دینے والا اور کچھ سوچنے پر مجبور کرنے والا ہونا چاہئے۔‘‘ (منی افسانہ، م ناگ، مجلہ شاہین ، ۶، جلگاؤں ۲۷)

 پروفیسر علیم اللہ حالی کے لفظوں میں منی کہانی دراصل چھوٹے پیمانے پر بڑی بات کہنے کا فن ہے۔ خود جوگندر پال کا کہنا ہے۔ ’’ منی افسانے کا کمال یہ ہوتا ہے کہ چند ہی سطروں میں قاری ایک طویل کہانی کا تانا بانا آپ ہی اپنے ذہن میں بُن لے‘‘۔

 منی افسانہ کے تعلق سے پیش کردہ آراء کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ منی افسانہ ایک مشکل فن ہے کیونکہ منی افسانہ کم لفظوں کی کثرت میں ایک پوری کہانی کی وحدت کا نام ہے۔ با الفاظ دگر افسانچہ نگار کو بہت ہی محتاط انداز میں کم سے کم لفظوں میں کہانی پن کا تاثر یوں دینا ہوتا ہے کہ افسانچہ ختم ہونے کے بعد قاری کے ذہن میں اپنا اثر دکھانے لگے۔ افسانچہ کے لئے لازمی ہے کہ اس کا آخری جملہ جو یقیناً کلائمکس ہوتا ہے کسی دھماکے سے کم نہیں ہونا چاہئے۔

 اس لئے م۔ناگ منی افسانے کے فن کو مشکل گردانتے ہیں اور یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اچھا افسانہ لکھنا مشکل ہے اور اچھا افسانچہ لکھنا بہت مشکل ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ عبدالرحیم نشتر اس مشکل فن میں پورا اترنے کے لئے یہ شرط لازمی مانتے ہیں :

 ’’افسانچہ وہی قلمکار لکھ سکتا ہے جس نے افسانہ کے رموز و اسرار کو بہتر طریقے سے جانا پرکھا اور برتا ہو۔ منی افسانہ نگاری انگلی سے پربت اٹھانے کا فن ہے۔‘‘ (ودربھ میں اردو افسانہ، عبدالرحیم نشتر، ص۱۳)

 کامیاب افسانچہ کی تعریف، سلیمان اطہر جاوید ان الفاظ میں کرتے ہیں :

 ’’افسانچے اسی وقت نکھرتے اور کامیاب ہوتے ہیں جب افسانچہ نگار لفظوں کی قدر و قیمت ان کی معنوی تہ داری اور ان کے درون کے اسرار سے واقف ہو اور کفایت لفظی کا ہنر جانتا ہو کہ کم از کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ کہنے پر قادر ہو۔ گویا لفظ کو گنجینۂ معنی کا طلسم بنا دے۔ زبان کا تخلیقی استعمال ہو تو اور کیا چاہئے۔ ‘‘ (گوشۂ عارف خورشید، توازن ،مالیگاؤں ، ۳۶ تا ۳۷، مئی تا دسمبر ۲۰۰۱ء)

 یعنی افسانچہ کی نزاکت یہ ہوتی ہے کہ افسانچہ نگار کی ذراسی لغزش اسے خبر یا لطیفے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر عصمت جاوید اس ضمن میں یوں رقمطراز ہیں :

 ’’منی افسانہ مختصر افسانے کے مقابلے میں ایک جداگانہ مہارت کا طالب ہوتا ہے۔ یہاں اسے مختصر افسانے کی طرح وار کر نے کے مواقع حاصل نہیں ہوتے۔ اسے تو صرف ایک وار کرنا ہے اور فوراً۔ اس لئے وار کے خالی جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔ ‘‘ (پھول کے آنسو، مقدمہ، ص۵۱۔۶۱)

 دراصل وار کا یہی خالی جانا اسے کہانی پن کی خوبی سے عاری کر دیتا ہے اور محض خبر یا لطیفہ بنا دیتا ہے۔ یہاں یہ بات خالی از دلچسپی نہیں ہو گی کہ جوگندر پال جیسے مشاق فنکار بھی اس سقم سے اپنے افسانچے کو بچا نہیں سکے ہیں اور شاید اسی لئے وہ اسے معیوب نہیں گردانتے ہیں کہ ان کے اکثر افسانچے لطیفہ پن کا شکار ہوئے ہیں۔ جس سے پڑھنے والے بھی غلط فہمی کا شکار ہوئے اور انھوں نے بھی اسے لطیفے سے قریب سمجھ لیا ہے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حالانکہ ثابت تو یہ ہوا ہے کہ منی افسانہ کا فن مشکل ہے اور غزل کے فن سے مشابہ ہے۔ چنانچہ منی افسانہ کا فن دریا کو کوزے میں بھر دینے کا عمل ہے جو ظاہر ہے آسان نہیں ہوسکتا۔ منی افسانہ لکھنا ایک دقت طلب فن ہے۔ جس کے لئے یقیناً سخت محنت ، ریاض لگن و توجہ کے ساتھ وسیع مطالعے کے ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر انور سدید نے ایک جگہ لکھا ہے:

 ’’کتھانگر کے افسانچوں میں جوگندر پال نے غزل کی تکنیک استعمال کرنے کی سعی کی ہے۔‘‘ (کتھا نگر، تبصرہ۔ انور سدید۔ مطبوعہ توازن مالیگاؤں۔  ۶۸۹۱ئ)

 ڈاکٹر منشاء کا بھی یہی خیال ہے وہ لکھتے ہیں :

 ’’منی افسانہ ، ندرت اور نزاکت کے اعتبار سے غزل ہی کی شیشہ گری کی مانند ہے۔‘‘ (قتل کا موسم۔ پیش لفظ۔ ص۸)

 قاضی سلیم اس سلسلے میں رقم طراز ہیں :

 ’’افسانچہ کے مزاج میں وہی حسیت ہوتی ہے۔ جو شاعری میں غزل کے ایک شعر کی طرح اسے غزل کے شعر کا ہی اثر دکھانا ہو گا۔‘‘ (عظیم راہی اور منی کہانی کا فن۔ قاضی سلیم۔ پھول کے آنسو، کی اجراء پر پڑھے گئے مضمون سے ایک اقتباس)

 ممتاز جدید افسانہ نگار حمید سہروردی بھی اسی بات کو یوں کہتے ہیں :

 ’’افسانچہ ، ایسا ہے جیسا غزل کا ایک شعر جس کی اپنی تخلیقی موضوع کی معنویت ہوتی ہے۔‘‘ (مفسر کا افسانچہ نمبر۔ یکم نومبر ۱۹۸۷ء)

 جوگندر پال کے لفظوں میں ’’افسانچہ کا فن سرچ لائٹ ورک ہے جو لگاتار ریاض اور کڑی محنت سے پیدا ہوسکتا ہے اور جس کے لئے عمیق مطالعہ اور گہرے مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس تناظر میں نور الحسنین کی رائے بھی قابل لحاظ ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

 ’’جس لفظ سے افسانچہ کاغذ کی سطح پر شروع ہوتا ہے وہ اس کا نقطہ آغاز نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا آخری لفظ اس کا نقطہ اختتام بلکہ اصل کہانی تو ان مختصر ترین الفاظ کے پس پردہ قاری کے ذہن میں گردش کرتی ہے جو بظاہر سامنے نہیں ہوتی۔ اسی طرح اس کے کردار بھی کہانی سے غائب ہوتے ہوئے بھی اپنی شناخت کرواتے ہیں۔  (افسانہ نگاری ایک مشکل فن۔ مطبوعہ روزنامہ اورنگ آباد ٹائمز، ۱۹۸۷ء)

 ثابت ہوا کہ افسانچہ میں بھی ابتداء و نفس مضمون اور اختتام عام افسانوں کی طرح پایا جاتا ہے لیکن اس میں وحدت کا خاص خیال رکھا جانا لازمی ہوتا ہے۔ ان تمام آراء کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ منی افسانہ تخلیق کار سے فنی پختگی ، کہنہ مشقی کے ساتھ گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے کا مطالبہ کرتا ہے۔ کم لفظوں میں ایک مکمل کہانی بیان کر دینے کے ساتھ ہی اختتام پر قاری کا چونکنا اور متاثر ہونا نہایت لازمی ہوتا ہے ورنہ منی افسانہ افسانچہ کے لطیفہ پن میں تبدیل ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔

 ڈاکٹر انور سدید بھی جوگندر پال کی کتاب ’کتھا نگر، پر تبصرہ لکھتے ہوئے تاثر کو ہی مقدم سمجھتے ہیں اس خصوص میں وہ لکھتے ہیں :

 ’’ان افسانچوں میں مثبت حقیقت اور منفی حقیقت پوری سج دھن کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ لیکن جوں ہی یہ آپس میں ملتی ہیں ایک ننھا سا شعلہ بیدار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہ کتاب اس قسم کے صدہا شعلوں کا مجموعہ ہے۔ (توازن سلسلہ۱۰ ۸۶ ء ص۱۱)

 قارئین خود دیکھ سکتے ہیں کہ منی افسانہ یا افسانچہ یا تو بم ہے ایک دو دھاری تلوار یا شعلہ، کسی بھی ناقد نے افسانچہ کی جدلیات و جمالیات سے بحث نہیں کی البتہ کچھ لوگوں نے نہیں ، بلکہ اکثر نے اس کے لئے ایک ہی جواز فراہم کیا ہے کہ اسے مختصر ہونا چاہئیے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افسانچہ یا منی افسانہ کتنا مختصر ہوسکتا ہے یا کتنے الفاظ میں لکھا جاسکتا ہے۔ اس کا جواب یہی دیا جاسکتا ہے کہ بچہ اپنا چہرہ خود لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی تخلیق اپنی ہئیت خود لے کر نمودار ہوتی ہے۔ بشر نواز کے لفظوں میں ’’وہ اپنا اظہار اسی ہئیت میں کرتا ہے۔ موضوع جس ہئیت کا متقاضی ہوتا ہے‘‘۔ بات معقول لگتی ہے۔ اس سلسلے میں جوگندر پال کی رائے بھی اہم ہے جو انھوں نے ان کے افسانچوں کے مجموعے ’’کتھا نگر‘‘ کے پیش لفظ میں تحریر کی ہے:

 ’’کوئی کہانی اتنی طویل بھی ہوسکتی ہے کہ پورا ناول بن جائے تاہم زندگی کی بے کرانی جب اپنی چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں بٹی ہوئی معلوم ہو تو اس کیفیت کے سراغ کے لئے فنکار کو شاید نظریں دوڑانے کی بجائے گاڑنا پڑ جاتی ہیں اور یوں وسعت جو بذات خود ویران ہوتی ہے ننھے منے پیمانوں میں سمٹ کر بستیوں کا سماں باندھی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ ‘‘

 اس سلسلے میں خاور حسن کہتے ہیں :

 ’’افسانچے کی ہئیت کے مطابق کہانی کہنے کا اندازہ بدل جاتا ہے۔ کہانی افسانے کی ہئیت کے مطابق کبھی واضح ہوتی ہے اور کبھی کچھ واضح کچھ غیر واضح ، اس طرح کے افسانچے میں کہانی ، چلمن کے پیچھے کھڑی اس دوشیزہ کی طرح ہوتی ہے جو کچھ دکھائی دیتی ہے کچھ نہیں۔  جیسے دوربین سے نظر آنے والا منظر کچھ صاف و شفاف دکھائی دیتا ہے۔ کچھ دھندلا ، دھندلا منظر ، افسانے کے قاری کو اس کے متعلق سوچنے پر بے چین کر دیتا ہے اور وہ اپنے خیالات کی روشنی کے سہارے اسے روشن کرتا چلا جاتا ہے۔ پھر وہ جو کچھ دیکھتا ہے اور جو تاثر لیتا ہے اس میں افسانچہ نگار کی سوچ کے ساتھ اس کی اپنی سمجھ شامل ہوتی ہے۔‘‘ (منی کہانی۔ خصوصی ضمیمہ۔ مطبوعہ روزنامہ اردو ٹائمز۔ ممبئی۔ ۱۰مئی ۲۰۰۰ء)

 ڈاکٹر ارتکاز افضل نے مختصر لفظوں میں بڑی جامعیت کے ساتھ یہی بات یوں کہی ہے :

 ’’افسانچہ کا فن سرعت تاثیر اختصار اظہار اور چست فوکس کا متقاضی ہوتا ہے‘‘۔ (رو میں ہے رخش…. مطبوعہ روزنامہ مفسر، ادبی صفحہ۔ یکم نومبر ۱۹۸۷ء)

 با الفاظ دگر افسانچہ منی افسانہ کا فن قدرت چاہتا ہے۔ مشاقی کا ہنر چاہتا ہے کہ یہاں تاثیر کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کثرت کو وحدت تاثر میں بدلنے کا عمل لازمی ہوتا ہے۔

 عارف خورشید کے افسانچوں کے مجموعہ ’آتشیں لمحوں میں ، کے پیش لفظ میں جوگیندر پال لکھتے ہیں :

 ’’افسانچوں کے اختصار کو تاثر کی طویل ترین کیفیت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ (ص۷)

 اسی طرح ناول ،افسانہ اورافسانچہ کا فرق بھی بآسانی سمجھ میں آسکتا ہے۔ ناول پوری زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ افسانہ صرف زندگی کے ایک پہلو پر روشنی ڈالتا ہے اور افسانچہ زندگی کے کسی ایک چھوٹے سے لمحے کی تصویر یوں دکھاتا ہے کہ ساری زندگی کی کہانی پل بھر اس کے ذہن میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک مشکل کام ہے۔ لیکن یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ اتنے مشکل فن کو نئی نسل نے بالکل آسان اور سہل سمجھ کر من چاہے برتنا شروع کر دیا۔ جس کے سبب وہ خود تو ناکام ہوئے ہی، اس تجربے کو بھی کافی نقصان پہنچایا اور بحیثیت صنف اس کی شناخت قائم کرنے، اس کے وقار و اعتبار کو بحال کرنے میں دشواریاں پیدا کر دیں۔  جس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔  یعنی خود بھی ناکام ہوئے اور اس صنف کو بھی نقصان پہنچایا۔

 اس بات پر غور کریں تو بہت سے حقائق سامنے آتے ہیں۔  اول نئے لکھنے والوں نے منی افسانچہ کے فن کو سہل سمجھ لیا اور افسانچے منی افسانے کے نام پر اوٹ پٹانگ تحریریں لکھنے لگے اور اس پر ستم یہ رہا کہ اخبارات انھیں دھڑا دھڑ چھاپنے لگے۔ اخبارات کو خانہ پری کے لئے ایسی چیزوں کی ضرورت تھی جس طرح قاری کم وقت میں زیادہ پڑھ سکتا ہے وہیں کم جگہ بہت ساری ایسی چیزوں کو کھپایا بھی جاسکتا تھا۔ منی افسانے کے نام پر اتنا کچھ لکھا گیا کہ ان میں لطائف ،اقوال زرین اور حکایات کے ٹکڑے بھی شامل کر دیئے گئے اور اخبارات نے بغیر کسی چھان پھٹک کے معیار اور فن کا لحاظ کئے بغیر انہیں قابل اشاعت سمجھ لیا۔اس طرح نئے لکھنے والوں کی ایک بھیڑ نے اسے سہل جان کر اور محض سستی شہرت کا ذریعہ سمجھ کر لطیفہ یا اخباری خبر کا حصہ بنا دیا تو کبھی کوئی خیال یا مقولے کا ٹکڑا۔ جبکہ حسب بالا سطروں میں تفصیلی طور پر بتایا جا چکا ہے کہ افسانچہ منی افسانہ کا فن کہانی پن کے تاثر کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ جس طرح شاعری میں شعریت کے بغیر کوئی شعر ، شعر نہیں کہلایا جاسکتا بالکل اسی طرح کہانی پن کے تاثر یعنی افسانویت کے تاثر کے بغیر منی افسانہ افسانچہ کیسے ہوسکتا ہے۔ افسانہ چاہے طویل ہو یا مختصر یا پھر مختصر ترین یعنی افسانچہ۔  اس کا کہانی پن ہی ہمیں پڑھنے پر مائل کرتا ہے۔ قاری کی یہی دلچسپی اس صنف کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔

 دراصل ادب میں جب بھی کوئی تجربہ کیا جاتا ہے تو عموماً یہی ہوتا ہے کہ ہر شخص اسے اپنے طور پر برتنے کی بساط بھر کوشش کرتا ہے اور بعض تو محض اس تجربے میں اپنی شرکت کو لازمی سمجھ لیتے ہیں چاہے وہ اس کے اہل ہوں یا نہ ہوں۔  جبکہ حقیقت تو یہی ہوتی ہے کہ ہر تجربہ میں شرکت سے زیادہ لکھنے والے کو اس امر پر خوب توجہ دینی چاہئے کہ وہ اپنی تخلیق میں قاری کو اپنے ساتھ شریک کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوسکتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی فن پارے کا قاری کو اپیل کرنا یعنی تخلیق میں قاری کو اس طرح شریک کر لینا کہ وہ افسانہ یا محض کہانی نہیں بلکہ اس کی اپنی آپ بیتی ہو۔  اپنے سکھ دکھ کی تصویر اسے اس تخلیق میں نظر آ جائے یہی لکھنے والے کی کامیابی ہوتی ہے۔ اس کیفیت اور تاثر کو پیدا کرنا ہی دراصل ہر فن پارے کا تقاضہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ تقاضہ اس وقت اور بھی شدید ہو جاتا ہے جب ہم کم لفظوں میں پوری بات قاری تک پہنچانا چاہتے ہوں یہ احتیاط لازمی ہوتی ہے۔

 جدید افسانے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ترقی پسندی کے رد عمل کے طور پر اور بعضوں کی نظر میں ترقی پسندی کی توسیع کے نام پر وجود میں آنے والے جدید افسانہ کی تحریک نے اردو ادب کو بلاشبہ بہت اچھے افسانے دیئے لیکن اس وقت بھی یہی ہوا کہ جب کچھ لکھنے والوں نے محض اس تجربہ میں شامل ہونے کی غرض سے،بلکہ زیادہ مناسب لفظوں میں محض جدیدیت کے ٹرینڈ کے چکر میں پڑ کر نئے افسانے کی فضا کو بوجھل بنا دیا اور چند افسانہ نگاروں نے انتہا پسندی کی انتہا کر دی، اس طرح اس تجربے میں ایسے لوگوں کی شمولیت سے افسانہ کی پوزیشن مستحکم ہونے کے بجائے کمزور ہوتی گئی۔ جدید افسانہ کے نام پر اول فول ،انمل ، بے جوڑ اور بے رس تحریریں اس قدر پیش کیں کہ وہ سب کچھ تو بن گیا لیکن افسانہ ہی نہیں رہا۔ اس انتہا پسندی کے نتیجے میں افسانہ اپنے اصل سے کٹ کر رہ گیا۔ یعنی افسانہ سے کہانی غائب ہو گئی اور اردو ادب کا قاری اپنی ہی زبان کی کہانیوں سے دور ہوتا چلا گیا۔ اس ٹرینڈ کے چکر میں پڑ کر اس تجربے میں شامل ہوئے افسانہ نگاروں کے سبب جدید افسانہ ، معتوب ہوا اور قاری بھی ادب سے دور ہوتا گیا۔ لیکن وہیں یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ افسانہ کسی ڈھنگ سے لکھیں۔  کوئی اسلوب ہو ، انداز تحریر کچھ بھی رہا ہو، ہر حال میں اس میں کہانی پن کا ہونا لازمی ہے۔ کہانی کا تاثر آخر تک قائم رکھنا نہایت ضروری ہے۔ بقول پاکستان کے مقبول افسانہ نگار کرامت اللہ غوری ’’اردو افسانہ کی ہئیت اور فارم خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو لیکن افسانہ میں اس کا افسانوی عنصر یا کہانی پن کا برقرار رہنا ضروری ہے‘‘۔ اسی لئے ممتاز جدید شاعر قاضی سلیم کو بھی آخر یہ کہنا پڑا :

 ’’سیکڑوں تجربوں کی قلا بازیوں کے بعد جدید افسانہ نگار اب پھر اس منزل پر لوٹ آئے ہیں کہ افسانے میں کہانی پن ہی پڑھنے والوں کے لئے ترغیب کا سامان پیدا کرتا ہے۔‘‘ (’پھول کے آنسو ، کی رسم اجراء پر پڑھے گئے مضمون سے)

 لیکن جدید افسانے کے تجربے کے بعد منی افسانہ افسانچہ کے ساتھ بھی کم و بیش یہی ہوا کہ ہر کوئی منی افسانہ لکھنے لگا۔ وہ بھی جو اس کے فن کے بارے میں کچھ معلومات رکھتا ہے اور نہ ہی اسے اس فن پر دسترس حاصل ہوئی ہو۔ اس کے باوجود ایسے قلمکاروں نے منی افسانے بڑی تعداد میں لکھے اور اخبارات کے مدیروں نے اپنی وقتی ضرورت کے ساتھ شائع بھی کر دیئے۔  معاملہ کچھ بھی رہا ہو۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس ٹرینڈ کو عام کرنے میں اخبارات کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ اس اعتبار سے اخبارات کا رول قابل تعریف ہے کہ اس رجحان کو مقبول عام بنانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن وہیں افراط و تفریط کے سبب منی افسانہ افسانچہ کو بحیثیت صنف کے بے حد نقصان بھی پہنچا۔ یہ لوگ اخباری ضرورت کے تحت ہر مختصر تحریر کو منی افسانہ افسانچہ کے نام سے چھاپتے رہے۔ ادھر نئے لکھنے والوں نے منی افسانہ کو سہل سمجھ لیا۔ اور نئے لکھنے والے کسی دلچسپ خبر ، لطیفہ اور اقوال زرین کو بھی اس صنف میں پیش کرنے لگے۔ اس سے صنف بدنام ہوئی اور اسے بہ حیثیت صنف اپنے آپ کو منوانے میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ساتھ ہی اس صنف میں طبع آزمائی کرنے والے معتبر لکھنے والے بھی معتوب ہوئے اور پھر یوں ہوا کہ غیر ضروری بحث شروع ہو گئی۔ کسی نے کچھ کہا تو کسی نے کچھ اور ہر ایرے غیرے کو انگشت نمائی کا موقع مل گیا۔  اس طرح غیر ضروری مباحث کا سلسلہ چل پڑا۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس طرح کچھ بھی کہنے والے اور لا یعنی بحث کرنے والے خود اس صنف کی طبع آزمائی میں مصروف تھے۔ انھیں کم از کم اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتی تھیں۔  یہاں اس طرح کی باتوں کو طول دے کر بحث کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مدعا یہ ہے کہ منی افسانے کی فضاء کو وبا کی طرح پھیلنے کا ماحول پیدا کر دیا گیا جس کے سبب اس صنف کے وقار کو ٹھیس پہنچی وہیں بطور صنف اس کے قبول عام میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔  اس صورتحال کی بڑی وجہ یہی تھی کہ نئی نسل نے اس فن کو سہل سمجھ لیا تھا۔ حالانکہ پہلے ہی بتا دیا گیا ہے کہ منی افسانہ کا فن بہت مشکل ہے۔ لیکن اخبار میں نام جلد چھپ جانے اور اس کے کم صفحات میں زیادہ مواد مل جانے کی وجہ سے افسانچوں کا ٹریڈ چل پڑا۔ اور نئے لکھنے والے یہ سمجھ بیٹھے کہ اگر کوئی کچھ نہیں لکھ سکتا تو افسانچہ ضرور لکھ سکتا ہے اور افسانچہ نگار بغیر کسی تکلیف کے پکی سیا ہی میں اپنا نام نمایاں طور پر چھپا سکتا ہے۔  اس طرح کا ذہن رکھنے والے اور فیشن کی طرح اس فن کو برتنے والوں نے اس تجربہ کو کامیابی سے ہمکنار کروانے کے بجائے الٹا اس صنف کو نقصان پہنچایا۔اس صورتحال کا صحیح تجزیہ سلام بن رزاق نے ان الفاظ میں کیا ہے :

 ’’ادب میں جب کوئی تجربہ عمل پذیر ہوتا ہے۔ فیشن پرست ، تہی ذہن اور چھٹ بھئے کے قسم کے قلمکار اس تجربے کی اس قدر جگالی کرتے ہیں کہ تجربہ چوسے ہوئے گنے کی پھوگ کی طرح بے رس ہو جاتا ہے۔ کسی بھی نئے تجربے کو برتنا آسان ہے مگر تجربے کی روایت کا وقار رکھنا زیادہ مشکل امر ہے‘‘۔

 (رشید قاسمی۔ سلام بن رزاق۔ شاہین۔۶، جلگاؤں۔  ص۳۷۱)

 یعنی اس نئی صنف کو نئی نسل کے قلمکاروں کو آسان سمجھ کر کو خوب برتا۔ جبکہ افسانچہ کا فن نہ صرف مشکل ہے بلکہ بڑی مہارت کا طالب ہے۔ کوزے میں دریا کو بند کرنے کا عمل ہے جو فنی ریاضت اور کڑی محنت چاہتا ہے لیکن نئے قلمکاروں کو جلدی چھپنے اور پکی سیاہی میں اپنا نام دیکھنے کی عجلت میں اس صنف کو گزند پہنچایا۔ اسے مقبولیت تو ملی لیکن بطور صنف قبولیت کا درجہ ملنے میں دشواری پیش آنے لگی۔ ڈھیر سارے افسانچے لکھے جانے کے باوجود اس پورے ذخیرے میں چند افسانے ہی ایسے ملتے ہیں جو فن کے معیار پر پورے اترتے ہوں۔  اس سلسلے میں واقعی بڑے کڑے انتخاب کی ضرورت ہے۔کہ اخبارات بغیر کسی انتخاب کے افسانچہ مسلسل شائع کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے نئے ناموں کا اضافہ تو ہوا ہے لیکن لکھنے والے کو وہ مقبولیت نہیں مل پائی ہے جو اسے ملنی چاہیے یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں افسانچوں میں بہت کم ایسی کاوشیں ملتی ہیں جنہیں فن پارہ کہا جاسکے۔

 مہاراشٹر میں نووارد افسانہ نگار بھی افسانچے خوب لکھتے رہے ہیں جنھیں روزنامہ انقلاب ، اردو ٹائمز (ممبئی) اور ماہنامہ فلمی تصویر (حیدرآباد) اور دیگر اخبارات و رسائل جگہ بھی دیتے رہے ہیں۔  ویسے مختصر ترین افسانوں کی اشاعت کا سلسلہ سب سے پہلے ماہنامہ شمع دہلی نے شروع کیا تھا۔ ’’مختصر مختصر کہانی اسی صفحہ پر مکمل‘‘ کے عنوان کے تحت ’’شمع‘‘ نے کئی خوبصورت افسانچے شائع کئے تھے۔ بعد میں دوسرے فلمی اور ادبی رسائل نے بھی اس سلسلے کو بڑھاوا دے کر اسے پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کیے اور اس طرح اردو افسانے میں ہئیت کی تبدیلی کا یہ تجربہ ہر اعتبار سے کامیاب رہا ہے۔منی افسانہ کی مقبولیت کے ساتھ ہی ادھر کچھ دنوں سے یہ بحث چل پڑی ہے کہ منی افسانہ ،افسانچہ سے مختلف ہے اور دونوں کی علیحدہ علیحدہ اصناف ہیں۔  اس سلسلے میں ممتاز جدید افسانہ نگار نورالحسنین حتمی طور پر لکھتے ہیں

 ’’افسانچہ اور منی کہانی یا منی افسانہ نثر کی علیحدہ علیحدہ شاخیں ہیں۔  دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں کا اسلوب جدا جدا ہے۔ دونوں کی تعریفیں الگ الگ ہیں۔  دونوں کی تکنیک علیحدہ ہے۔ منی کہانی افسانے سے بہت قریب ہے۔ جبکہ افسانچہ نظم کے قریب ہے‘‘۔ (افسانہ نگاری، ایک مشکل فن…. نورالحسنین، مطبوعہ اورنگ آباد ٹائمز۔ ۵جولائی ۱۹۸۷ء)

 ممتاز جدید شاعر قاضی سلیم نے بھی دو ایک امتیازی فرق تلاش کر کے افسانچہ اور منی افسانہ و منی کہانی کو دو الگ الگ اصناف کی شکل میں قبول کر لیا ہے۔ خود ان کے لفظوں میں

 ’’دو ایک فرق ڈھونڈ لیے ہیں تاکہ فرق کیا جاسکے۔ لیکن خود کار اور میکانکی عمل، دوسرا داخلی اور خارجی طریقہ کار کا فرق۔  زیادہ واضح لفظوں میں ان کی بات کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ منی افسانہ میں خارجیت ہوتی ہے اور افسانچہ میں غزل کے شعر سی کیفیت، اس لیے افسانچہ میں داخلیت کا ہونا لازمی ہے‘‘۔

 (’پھول کے آنسو، کے رسم اجرا کے موقع پر پڑھے گئے مضمون سے)

 م ناگ اس ضمن میں اپنی رائے ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں ….

 ’’منی افسانہ کا کمال یہ ہوتا ہے کہ چند سطریں پڑھنے کے بعد پوری کہانی کا تانا بانا ذہن میں یوں پھیل جائے…. اور افسانچہ کا آخری جملہ قاری کو اپنی گرفت میں اس طرح لے لیں کہ بم پھٹ پڑنے کا گمان ہو‘‘۔ (مطبوعہ مجلہ شاہین ۶ جلگاؤں ص۲۷)

 اپنے اسی مضمون میں قاضی سلیم آگے یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’اگر یہ عمل افسانچہ میں ہوتا ہے تو منی کہانی کار خود تحریر میں ٹائم بم چھپا دیتا ہے۔ کہانی کی دلچسپی ترغیب دیتی ہے کہ وہ کہانی پڑھنا شروع کریں اور وقت مقررہ پر بم پھٹ جاتا ہے‘‘۔ اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ منی افسانہ کا اختتام بھی ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے یعنی چونکا کر متاثر کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ لیکن یہاں افسانے کی طرح کہانی اندر اتر کر ذہن کے دریچوں میں پھیلتی جاتی ہے۔ جبکہ افسانچہ…. قاضی رئیس کے لفظوں میں …. ’’آخری دو تین جملوں میں ہی پورا ہوتا ہے اور پوری بات اجالا بن کر دل میں اتر جاتی ہے۔ جبکہ منی کہانی کے اختتام پر قاری یہ محسوس کرتا ہے وہ ریشم کی ڈور میں پڑی گرہوں میں سے کچھ کو کھولنے میں کامیاب ہو گیا‘‘…. لیکن جوگندر پال تو قطعی طورسے یہ کہتے ہیں کہ منی افسانہ ہو یا افسانچہ جہاں وہ ختم ہوتا ہے وہیں سے پڑھنے والے کے ذہن میں شروع ہو جاتا ہے اسی لیے وہ دونوں میں کوئی فرق نہیں مانتے۔ اب اگر کچھ دیر کے لیے تسلیم بھی کر لیا جائے کہ منی افسانہ ، منی کہانی اور افسانچہ ادب کی دو علیحدہ علیحدہ اصناف ہیں۔  تاہم یہ امتیازی فرق اس وقت تک واضح نہیں ہوسکتا جب تک لکھنے والا خود، ذہن میں اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے قطعی طور پر یہ طے نہ کرے کہ آیا وہ منی افسانہ لکھ رہا ہے یا افسانچہ، اور دونوں کے اس بنیادی فن کو اس نمایاں فرق کو صحیح طور پر پیش کرسکے تاکہ پڑھنے والا بھی بہ آسانی سمجھ سکے وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ افسانچہ یا منی افسانہ یا پھر منی کہانی …. شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ابتداء میں منٹو نے مختصر ترین افسانے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے نام سے لکھ کر اپنے مجموعہ میں شامل کیے تھے۔ جو تقسیم ہند اور اس کے بعد رونما ہونے والے ہولناک فسادات کے پس منظر میں لکھے گئے تھے۔ اسی تقلید میں بعد میں کسی نے ’’سرخ حاشیے‘‘ کے عنوان سے کچھ لطیفے لکھے اور چند نے اسے ’’نمک پارے‘‘ کا نام دیا اور کچھ اخبارات نے ’’نئی حکایتیں ‘‘ تو چند اسے ’’ نئی وارداتیں ‘‘ کے نام سے شائع کرنے لگے۔ ہوسکتا ہے اخبارات کے مرتبین اور رسائل کے مدیران نے اپنی سہولت کے اعتبار سے مختلف عنوان دے دیے ہو…. لیکن ادھر کچھ دنوں سے قلمکار شاید جدت طرازی کے تحت منی افسانہ افسانچہ کو اس کے اصل نام کے بجائے الگ الگ شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کرنے لگے ہیں۔  جیسے محمد طارق، منی افسانے ’’آتش پارے‘‘ کے نام سے لکھ رہے ہیں۔  اشفاق احمد کے منی افسانے ’’پنکھڑیاں ‘‘ کے نام سے چھپ رہے ہیں۔  آج کل تو جوگندر پال بھی ’’نہیں رحمن بابو‘‘ کے نام سے افسانچوں کی سیریز شائع کر رہے ہیں۔  ایسے حالات میں جب پہلے سے ہی افسانچہ کو منی کہانی اور منی افسانہ جیسے علیحدہ نام دے دیے گئے اور ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ صنف قرار دیے جانے کی نئی نئی تاویلیں بھی پیش کی جانے لگیں۔  دو ایک امتیازی فرق بھی ڈھونڈ کر نکالے گئے ہیں۔  اس صورتحال میں اگر مختلف عنوانات کے سبب اس کے گنجلک ہونے کے ساتھ ہی اس کی تسلیم شدہ حیثیت بھی مشکوک ہو جائے گی۔ ایسے حالات میں منی افسانہ نگاروں افسانچہ نگاروں پر یہ دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس صنف کو اس کے اپنے صحیح نام یعنی ’’افسانچہ‘‘ کے نام سے شائع کروائیں۔  یہ اس صنف کے حق میں بہتر رہے گا اور خود لکھنے والے کے لیے بھی اطمینان کا باعث ہو گا۔ ورنہ پہلے ہی تین ناموں (منی کہانی، منی افسانہ، افسانچہ) نے غلط فہمی کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اور کچھ لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ غلط فہمی کے بادل اس صنف پر اور گہرے ہوتے جائیں تا کہ اس کے قبول عام ہونے میں مزید دشواریاں پیدا ہوں۔  شعوری طور پر بھی اس کے کچھ مخالفین نے اسے متنازعہ فیہ بنانے کی کوشش کی ہے کہ اس صورت میں اس کا لکھنے والا افسانچہ نگار کہلانے کے بجائے کچھ اور مختلف ناموں سے پکارا جائے۔جو کچھ عجب نہیں ، لہذا ان حالات میں جبکہ اس صنف کا نام پہلے ہی متعین ہو چکا ہے کیوں نہ ہم اسے اس کے اصل نام سے شائع کریں۔  یہاں جوگندر پال کا یہ استدلال قابل قبول ہونا چاہیے کہ جب افسانچہ کا اتنا اچھا اردو نام مل گیا ہو تو پھر کسی دوسرے نام کے دیے جانے کی کیا ضرورت ہے؟۔

 جس طرح افسانہ ، پہلے طویل مختصر افسانہ ہوا پھر مختصر افسانہ کہلایا اور پھر مختصر افسانہ سے مختصر کا دم چھلہ از خود نکل گیا اور طویل مختصر کے ضمنی نام نکل کر صرف افسانہ بن گیا۔ اسی طرح منی کہانی، منی افسانہ وافسانچہ سے صرف افسانچہ بن کر مقبول اور معتبر ہوا ہے لیکن اب شرط یہی ہے کہ اسے دوسرے الگ نام ہرگز نہ دیے جائیں۔  مدیران بھی الگ الگ سرخیوں سے انھیں شائع کرنے کے بجائے صرف ’’افسانچہ‘‘ کے عنوان سے ہی چھاپیں تو یہ اس صنف کے حق میں بہتر ہو گا۔ اس کی صنفی حیثیت بھی برقرار رہے گی اور اسے مستقبل قریب میں مزید اعتبار اور وقار بھی حاصل ہو گا…. لیکن اس کے لیے اخبارات ورسائل کے مدیران کے ساتھ سب سے اہم رول تخلیق کار کو نبھانا چاہیے تاکہ اس صورتحال میں آخر مدیران کس طرح یہ طے کریں گے کہ آیا یہ منی کہانی ہے منی افسانہ یا پھر افسانچہ۔ اسی طرح قاری کو بھی یہ علم کیسے ہو گا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے منی افسانہ ،منی کہانی یا افسانچہ…. اس تشویش بھری صورتحال کو ڈاکٹر مجید بیدار نے بھی شدت سے محسوس کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

 ’’دور حاضر میں انسان کے لمحوں کی بے فرصتی اور مصروفیات کے بوجھل لمحات سے ایک ایسی نثری صنف عالم وجود میں آ چکی ہے۔ جس کو کسی ایک نام سے یاد کرنے کے معاملے میں خود تخلیق کار تذبذب کا شکار ہیں۔  چنانچہ اس فن کو کبھی افسانچہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے…. تو کبھی منی افسانہ، بعض تخلیق کار تو اسے مختصر افسانے کی سرشت میں شمار کرتے ہیں۔  اب یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب لکھنے والے دونوں کے فن سے پوری طرح واقفیت کے ساتھ ان کو برت کر افسانے اور منی کہانی یا منی افسانہ تخلیق کریں تو وہ دن دور نہیں جب یہ دونوں علیحدہ علیحدہ اصناف کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔  ورنہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس تجربہ کے ذریعے عمل میں آنے والے اصناف کو اگر صحیح طور پر واضح فرق کے ساتھ نہ برتا گیا تو اس تجربہ کا حشر بھی نثری نظم جیسا ہوسکتا ہے اور یہ بھی آزاد غزل کے نام پر ایک تماشہ بن سکتا ہے…. ساتھ ہی ایک صنف کی تسلیم شدہ حیثیت خطرے میں پڑسکتی ہے‘‘۔ (افسانچہ کا فن اور اس کی تخلیقی حیثیت۔ ڈاکٹر مجید بیدار، مطبوعہ کتاب نامہ۔ نئی دہلی فروری ۱۹۸۸ء ص۴۵)

 یہاں ڈاکٹر مجید بیدار کی اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ اگر یہی حال رہا ہو تو اس صنف کی تسلیم شدہ حیثیت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اور علیحدہ علیحدہ اصناف کی حیثیت سے پیش کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہو گا جیسا کہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کا تجزیہ مکمل طور پر سطور بالا میں آ چکا ہے۔

 اس پوری صورتحال پر جوگندر پال کا موقف نہایت منصفانہ ہے اور ان کی قیمتی رائے کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو یہ مسئلہ ہی حل ہو جاتا ہے کہ مختصر ترین افسانہ منی افسانہ منی کہانی نہیں بلکہ افسانچہ ہے۔ یہ سب ایک ہی صنف کے الگ الگ نام ضرور ہیں لیکن اسے افسانچہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ان میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے مختلف ناموں کے خانوں میں اس صنف کو بانٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور امتیازی فرق کی باتوں کو وہ بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔  چونکہ اردو میں مختصر ترین افسانہ کے لیے افسانچہ کا اتنا اچھا لفظ دستیاب ہو چکا ہے تو پھر ہمیں انگریزی کے مخفف منی لفظ (جو minimum سے بنا ہے) کو استعمال کرنے اور انگریزی لفظ کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے۔

 اس تعریف کے ساتھ ہی کچھ لوگوں نے اس طرح کا شوشہ بھی چھوڑ دیا ہے کہ اگر دوسطر کی تحریر ہو تو افسانچہ ہوا اور دو صفحے کی تخلیق ہو تو منی افسانہ ہو گا۔

 حالانکہ جیسا کہ ابتداء میں افسانچہ کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ افسانچہ ادب کی وہ نثری صنف ہے جس میں کم سے کم لفظوں میں کم سے کم سطروں میں ایک طویل کہانی کو مکمل کر لیں چونکہ ناول، افسانہ اور افسانچہ کا فرق پہلے ہی اس طرح بتایا گیا ہے کہ ناول پوری زندگی کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ جبکہ افسانہ زندگی کے صرف ایک پہلو پر روشنی ڈالتا ہے اور افسانچہ زندگی کے کسی چھوٹے سے لمحے کی تصویر دکھا کر ایک مکمل کہانی قاری کے ذہن میں شروع کر دینے کا نام ہے تو افسانہ اور افسانچہ کے اس امتیازی فرق کی روشنی میں جوگندر پال کی یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے جو انہوں نے ایک جگہ کہی ہے

 ’’کوئی تحریر، تخلیق اپنی مناسب جسامت لے کر تخلیق کار کے ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ شاید یہی مناسبت اور تناسب کی صلاحیت ایک قلمکار کو ناول، افسانہ یا افسانچہ تخلیق کرنے کی قدرت عطا کرتی ہے۔ یعنی کسی بھی تخلیق کا نقش اس وقت مکمل اور جاندار نہیں ہوسکتا جب تک تخیل کی شکل و صورت تخلیق کار کے ذہن میں مناسب نہ ہو…. تناسب کا یہی ہنر اسے منی افسانہ یا افسانچہ تخلیق کرنے کا ہنر سکھاتا ہے‘‘۔

 اسی لیے جب کچھ تخلیق کار، منی کہانی، منی افسانہ یا افسانچہ کی تفریق کی بات اس انداز میں کرتے ہیں کہ اگر ایک سے دو صفحے تک ہو تو منی افسانہ و منی کہانی کا نام دیا جاسکتا ہے …. لیکن یہ فرق بھی بڑا عجیب لگتا ہے۔ جوگندر پال سرے سے ہی اس طرح کی درجہ بندی کے قائل نہیں ہیں …. ان کے افسانچوں کے مجموعے چاہے وہ ’سلوٹیں ، ہو یا ’کتھا نگر، اور اب بعد میں ’پرندے، کچھ تو دو صفحات پر مشتمل ہیں اور چند محض دو سطروں میں ، رتن سنگھ کے ’مانک موتی، میں بھی یہی کیفیت اور کمیت ملتی ہیں۔  اور یہ بات صرف انھیں تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے کئی لکھنے والوں کے پاس ایسی مثالیں بڑی تعداد میں نظر آتی ہیں۔  اس بات کا جواز ’سلوٹیں ، کے پیش لفظ میں آگے وہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں ….

 ’’یہ کرشمہ ہے ایک چھ فٹ لمبے نوجوان کا سالم بت ہمیں اسی طرح متاثر کرتا ہے جیسے اس بات کی انچ بھری عکسی تصویر۔ مگر یہ اس وقت ممکن ہے۔ اس تناسب پر تخلیق کار کو پوری قدرت حاصل ہو….‘‘۔

 لہذا افسانچہ دوسطر میں مکمل ہو یا دو صفحے میں دراصل یہ لکھنے والے کی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے۔  وہیں اس کہانی کو پیش کرنے کے تناسب پر اس کا انحصار ہوتا ہے۔ جو تخلیق کار کو یہ قدرت عطا کرتا ہے کہ کتنے جملوں یا کتنی سطروں میں وہ اپنی بات (کہانی) مکمل طور پر بیان کرسکتا ہے۔ یہاں جوگندر پال بھی تناسب پر زور دیتے ہیں۔  نہ کہ دو صفحے یا دوسطر کی بات کرتے ہیں۔  بلکہ افسانچہ میں موضوع کی اہمیت کے اعتبار سے اس کا انحصار ہر صورت میں تناسب پر ہوتا ہے چونکہ تخلیق کار کو اس بات پر قدرت حاصل ہونی چاہیے کہ وہ کس موضوع کو کس صنف میں پیش کرسکتا ہے اگر بات صنفِ افسانچہ کی ہو تو یہاں کسی موضوع کو مکمل کہانی کے طور پر کتنے لفظوں میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ اس اہتمام کے لیے اس کی تحریر کتنے صفحے یا کتنی سطروں کی متحمل ہوسکتی ہے یہ فیصلہ تخلیق کار کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کوئی کہانی محض دو سطروں میں مکمل ہو جاتی ہے تو کبھی کسی کہانی کا تقاضہ اسے دو صفحے تک لے جاسکتا ہے۔

 بہرحال یہ امر تخلیق کار کی مشاقی کا مظہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے موضوع کو کس حد تک مختصر انداز میں مگر مکمل طور پر پیش کرسکتا ہے۔

 اس ضمن میں وارث علوی کا یہ کہنا درست لگتا ہے کہ آپ تین سطروں سے تین سو سطروں کا افسانہ لکھ سکتے ہیں۔  مگر اسے لطیفہ نہیں ہونا چاہیے (شاید اسی لیے وہ منی افسانہ افسانچہ کو بطور صنف تسلیم نہیں کرتے ہیں ) اس سلسلے میں غضنفر اقبال نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ افسانچہ کتنا مختصر ہوسکتا ہے یا کتنی طویل کہانی ہوسکتی ہے…. اس کا جواب تو یہی ہوسکتا ہے کہ نوزائیدہ بچہ اپنا چہرہ مہرہ خود لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی تخلیق اپنی ہئیت خود لے کر نمودار ہوتی ہے۔

 متذکرہ بالا بحث سے یہ بات بالکل آئینہ کی طرح صاف ہو جاتی ہے کہ منی افسانہ منی کہانی اور افسانچہ فکشن کی الگ اصناف نہیں بلکہ ایک ہی صنف ہے۔ ان میں نہ کوئی امتیازی فرق ہے اور نہ ہی کسی قسم کی درجہ بندی مناسب لگتی ہے۔ البتہ اس کے بے حد مقبول عام ہونے کے سبب یہ ضرور ہو گیا ہے کہ اس ایک ہی صنف کے تین الگ نام پڑ گئے ہیں …. ابتداء میں ایسا ہونا گوارا تھا لیکن اب جبکہ بطور صنف اس کی حیثیت متعین ہو چکی ہے اس کے فنی لوازمات اور تعریف کھل کر سامنے آ چکی ہیں تو کم از کم قلمکاروں کو اس قسم کی تفریق اور درجہ بندی سے احتراز کرتے ہوئے صنفِ افسانچہ کو زیادہ مقبول عام بنانے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں اسے مزید اعتبار حاصل ہوسکے۔ ویسے بھی آج افسانچہ ہر اعتبار اور ہر لحاظ سے اپنی صنفی حیثیت کا منہ بولتا ثبوت بن گیا ہے…. جسے برقرار رکھنا افسانچہ نگاروں کی اولین ذمہ داری ہے۔

 

باب سوم

 مہاراشٹر میں افسانچہ کی مقبولیت اور صورتحال

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ منی افسانوں کی تخلیق و اشاعت میں مہاراشٹر کو دیگرریاستوں کے مقابلے فوقیت حاصل رہی ہے۔ منٹو نے تقسیم ہند کے نتیجے میں برپا فسادات کے پس منظر میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے نام سے جو مختصر ترین افسانچے تخلیق کیے تھے اس وقت وہ ممبئی ہی میں قیام پذیر تھے۔ ان کے بعد اس فن کو جلا بخشنے والے واحد سینئر فنکار جوگندر پال کا نام آتا ہے۔ اسے بھی اتفاق سمجھئے جوگندر پال نے قیام اورنگ آباد کے دوران بڑی تعداد میں افسانچے لکھے اور ان کے افسانچوں کا باقاعدہ مجموعہ ’’سلوٹیں ‘‘ عنوان سے ۱۹۷۰ء اورنگ آباد سے شائع ہوا۔ اس اعتبار سے مہاراشٹر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جوگندر پال نے اپنے قیام اورنگ آباد کے دوران افسانچوں کے لئے نہ صرف فضا ہموار کی بلکہ انہوں نے کئی افسانچہ نگاروں سے اچھے افسانچے لکھوائے۔ ان میں سے کئی ایک نے باقاعدہ افسانچوں کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا۔ اس سلسلے میں پہلا نام اقبال بلگرامی کا ملتا ہے۔ انھوں نے ’’آب جو‘‘ کے نام سے اپنا مجموعہ ترتیب دیا۔ (لیکن وہ اسے اپنی زندگی میں شائع نہیں کرواسکے بعد میں ان کے افسانچے عارف خورشید کے مشترکہ مجموعہ ’’آنکھوں کی زبان‘‘ میں شامل اشاعت ہو کر منظر عام پر آئے۔) ان کے بعد رعنا معین الدین کا نام بھی آتا ہے۔ اب اسے اتفاق ہی کہئے کہ اول الذکر افسانہ کے ساتھ مزاحیہ اور دیگر مضامین بھی لکھا کرتے تھے۔ اسی لئے افسانچے پر پوری طرح توجہ نہ دے سکے اور آخر الذکر بنیادی طور پر شاعر ہونے کے سبب افسانچہ پر وہ توجہ نہیں دے سکے جیسا کہ اس کا حق تھا ویسے انھوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے ہیں۔  اگر وہ چاہیں تو افسانچوں کا ایک انتخاب شائع کرسکتے ہیں۔  ان کے اندر ایک اچھے افسانہ نگار کی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔  ان کے بعد ابھرنے والوں میں نورالحسنین ، عارف خورشید اور عظیم راہی نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے اور اس فن سے اپنی گہری واقفیت کا پورا ثبوت دیا ہے۔ ان تینوں میں عارف خورشید اس اعتبار سے سبقت لے گئے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے اور جن کے اب تک چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔  اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ مرہٹواڑہ میں آج افسانچہ انھیں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ افسانچے کی اشاعت کے ضمن میں ان کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مرہٹواڑہ کے دیگر لکھنے والوں میں متین قادری ،قدیر سیفی، معیز ہاشمی، حسینی جاوید، حمید اختر، محمد الیاس، ندیم فردوسی، مجید جمال، مجتبیٰ نجم، ظفر خاں ناز،شجاع کامل، اےاین مرزا، ایم صدیق، انیس اختر، ایس رضا جالنوی، سلیم احمد، باقر علی، نورالامین، ضیاءالحسن ضیاء، حمید اختر ، وحید بابر ، علیم کھامگانوی ، شیخ حسین ، مقصود ندیم ، عارف عزیز اور دیگر کئی نوجوان افسانہ نگار ہیں جن میں سے چند آج بھی فعال ہیں اور کئی نوجوان ایسے بھی ہیں۔ جن میں اکثر اب نہیں لکھ رہے ہیں۔ حالانکہ جنھوں نے افسانچے بڑی تعداد میں لکھے جو اخبارات میں کثرت سے شائع ہوئے۔ اس بات کا احساس جوگندر پال کو بھی رہا ہے۔ وہ عارف خورشید کے ’’آتشیں لمحوں میں ‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :

 ’’بڑی مسرت کا مقام ہے کہ اورنگ آباد کے نئے لکھنے والے نہایت دلجمعی سے افسانچے کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور ان کے افسانچے جہاں واقعی کارگر ہوتے ہیں۔  وہاں ان کی فراوانی اور اثر پذیری سے انکار ممکن نہیں۔ ‘‘ (ص۷)

 اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ جوگندر پال کے قیام اورنگ آباد کے دوران کئی نوجوان لکھنے والے اس طرف متوجہ ہوئے اور ان کی مناسب حوصلہ افزائی سے کچھ اس میدان میں نمایاں طور پر ابھرے اور ان کے مجموعے بھی شائع ہوئے تقریباً ہر مجموعے کا پیش لفظ یا فلیپ جوگندر پال نے بڑی محبت سے لکھ کر ان تمام کی حوصلہ افزائی بھی کی جبکہ ڈاکٹر ارتکاز افضل نے اسے اورنگ آباد کے ساتھ جوگندر پال کی شرارت سے تعبیر کیا ہے ، یہ ایک الگ اور غیر ضروری بحث ہے۔جس سے احتراز کرتے ہوئے ہم اس صنف کے ارتقاء کی بات کرتے ہیں۔

 جوگندر پال کا پہلا افسانچوں کا مجموعہ ’’سلوٹیں ‘‘ ۱۹۷۵ء میں اورنگ آباد کے دوران قیام دہلی سے شائع ہوا تھا۔ اس میں جملہ ۱۹۶ افسانچے شامل ہیں۔  اسے مرہٹواڑہ کا ہی نہیں مہاراشٹر کا پہلا افسانچوں کا مجموعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ’’سلوٹیں ‘‘ کی اشاعت کے تقریباً ۱۱ سال بعد مرہٹواڑہ میں اورنگ آباد سے عارف خورشید کے افسانچوں کا پہلا مجموعہ ’’یادوں کے سائباں ‘‘ ۱۹۸۶ء میں چھپ کر آیا جو نئی نسل میں صرف اورنگ آباد کا نہیں بلکہ مرہٹواڑہ میں افسانچوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ ستمبر ۱۹۸۷ء میں عظیم راہی کا ’’پھول کے آنسو‘‘ ۱۹۸۸ء میں اقبال بلگرامی ، عارف خورشید اور مقصود ندیم کے افسانچوں کا مشترکہ مجموعہ ’’آنکھوں کی زبان‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا اور ادبی حلقے کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہا اور اس کے بعد ۸۹ء میں عارف خورشید کا تیسرا افسانچوں کا مجموعہ ’’آتشیں لمحوں میں ‘‘ اور اب ۲۰۰۰ء میں ’’اور کچھ بھی نہیں کہانی میں ‘‘ کے نام سے چوتھا مجموعہ بھی منظر عام پر آیا ہے۔ ایک طرح سے یہ ان کا قابل ذکر ریکارڈ ہے کہ نئی صنف افسانچے میں ان کے کئی مجموعے شائع ہو کر ادبی حلقے میں پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔  بعد میں عظیم راہی کا ’’درد کے درمیان‘‘ ساحر کلیم کا مجموعہ، ’’موم کی گڑیا‘‘ اور محمد اظہر فاضل جالنوی کا’’مجسموں کا درد ‘‘ اور ’’آنسوؤں کی چیخ‘‘ ابھی منظر عام پر آئے ہیں اور مزید مجموعے شائع ہونے کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔  اس لحاظ سے مرہٹواڑہ میں افسانچے کی اشاعت اور مقبولیت میں خوب اضافہ ہوا۔ مہاراشٹر کے ودسرے اہم حصہ علاقہ ودربھ میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ لگ بھگ ان ہی دنوں بلکہ اس سے ذرا قبل یہاں بھی منی افسانہ نگاری کا آغاز ہو چکا تھا۔ جس وقت اورنگ آباد اور اس کے نواحی علاقے میں بڑی شدت سے افسانچے لکھے جا رہے تھے۔ علاقہ ودربھ میں بھی افسانچے کی اشاعت اخبارات اور رسائل کی حد تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ان کے مجموعے بھی چھپنے لگے تھے۔ ودربھ کے قابل ذکر افسانچہ منی افسانہ نگاروں میں ڈاکٹر ایم آئی ساجد ، شیخ رحمن آکولوی ، نواب رونق جمال ، غنی غازی ،حبیب ریت پوری، عبدالقدیر صدیقی، عاجز ہنگن گھاٹی، غلام رسول اشرف، حفیظ حارث، سلام وفا ذکر، اظہر حیات، غازی شہاب، اکبر عابد، شکیل شاہ جہاں ، طفیل سیماب ، محمد طارق ، ایس ایس علی ، عمر حنیف ، وکیل نجیب، اشفاق احمد ، محمد اسد اﷲ اور رفیع الدین مجاہد وغیرہ شامل ہیں۔  ان کے منی افسانے اردو ٹائمز ، انقلاب ممبئی اور فیملی میگزین ’’فلمی تصویر‘‘ میں کثرت سے شائع ہوئے۔ اکتوبر ۷۸ء میں ڈاکٹر ایم آئی ساجد کا مجموعہ ’’آواز کے پتھر‘‘ شائع ہوا جو ودربھ میں منی افسانوں کا پہلا مجموعہ تھا۔ اس کے بعد شیخ رحمن آکولوی ’’عکس شعور‘‘ دسمبر ۷۸ء میں دوسرا مجموعہ آکولہ سے شائع ہوا۔

 ودربھ میں اردو افسانہ۔  نور نژاد میں عبدالرحیم نشتر اس پس منظر میں لکھتے ہیں :

 ’’۷۰ء کے آس پاس اور۷۰ء کے بعد نوجوان افسانہ نگاروں کی نسل نے جو اپنے افسانے تحریر کئے وہ اپنے ماضی قریب کے افسانہ نگاروں سے مختلف تھے۔ ان میں ہئیتی تبدیلیاں بھی نظر آتی ہیں اور موضوعات کا تنوع بھی۔ یہ نئے افسانہ نگار جو موجودہ نسل سے متعلق ہیں اور عصری ادب کا مطالعہ کرتے ہیں اپنی فکر ، احساس اور تجربے کی بنیاد پر جذبے کی صداقت کے ساتھ تخلیقی عمل میں گتھے رہے۔‘‘ص۳۴

 اسی کتاب میں ایک جگہ ودربھ کی منی افسانے نگاری پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں۔

 ’’ودربھ کا اردو افسانہ زیادہ تر منی افسانہ نگاری کی طرف مائل ہے اور ایک حد تک کامیاب بھی۔ بلکہ اس کے روشن ہونے اور فروغ پانے کے مزید قوی امکانات ہیں۔  م ناگ ، ایس ایس علی ، ایم آئی ساجد ، محمد طارق کولہاپوری اور غنی غازی نے منی افسانے کو آگے لے جانے اور اونچا اٹھانے کی پوری کوشش کی ہے اور اس کوشش میں ان فنکاروں کی عصر بینی بھی کارگر ہے اور دروں بینی بھی۔ یہ تازہ کار افسانہ نویس منی افسانے کے فارم اور تکنک کو بہتر سلیقے سے برتنا جانتے ہیں۔ ‘‘ (ص۴۳)

 اس طرح وردبھ میں بھی منی افسانے کا خوب زور و شور رہا اور منی افسانے کے مجموعے بھی یکے بعد دیگر پورے تواتر سے چھپنے لگے۔ ڈاکٹر ایم آئی ساجد اور شیخ رحمن آکولوی کے بعد طفیل سیماب کا ’’لمحوں کی حرکت‘‘ (۱۹۸۳ء) نواب رونق جمال کا ’’قتل کا موسم‘‘ (۱۹۸۴ء) اور ڈاکٹر اشفاق احمد کا ’’یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے‘‘ (۱۹۹۳ء) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔  مہاراشٹر کے دو اہم خطوں یعنی مرہٹواڑہ اور ودربھ کے علاوہ خاندیش ، مغربی مہاراشٹر علاقہ کوکن اور ممبئی میں بھی کئی نئے لکھنے والوں نے اس طرف پوری دل جمعی سے توجہ کی اور شدت سے افسانچے لکھ کر کثرت سے اخبارات و رسائل میں چھپنے لگے۔ البتہ ان علاقوں سے ایک عرصے تک کوئی مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا۔ بعد میں کچھ مجموعے ضرور شائع ہوئے ہیں۔  خاندیش کے لکھنے والوں میں عزیز رحیمی ، قیوم اثر ، معین الدین عثمانی ، رشید قاسمی ، صغیر احمد ، سعید پٹیل ، سید ذاکر حسین، ایم رفیق ، شکیل سعید ،رحیم رضا کے ساتھ احمد کلیم فیض پوری اور قاضی مشتاق احمد جیسے سینئر لکھنے والوں نے بھی بڑی تعداد میں منی افسانے لکھے ہیں بلکہ قاضی مشتاق احمد کا تو ایک مجموعہ ’’قطرہ قطرہ‘‘ بھی۱۹۹۶ء میں شائع ہوا۔ اسی طرح نئی نسل میں شکیل سعید کا ’’ایک ادھوری نظم‘‘ بھی قابل ذکر ہے۔

 دراصل کسی بھی صنف کی شروعات میں بسیار نویسی کے ساتھ ایک ایسی اندھی دوڑ شروع ہو جاتی ہے جس میں سبھی شریک ہو جاتے ہیں لیکن ایک عرصے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان میں لعل و گہر کتنے ہیں اور رخاروخس کتنے۔ یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ چند اچھے لکھنے والوں نے بہرحال اسے بطور صنف اعتبار بخشا اور اس کے وقار کو قائم رکھتے ہوئے خود اپنا نام اور اپنی شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ بقول ڈاکٹر عصمت جاوید افسانچہ کا مستقبل اچھے لکھنے والوں کے ہاتھ میں محفوظ ہے۔ ایسے ہی چند معتبر لکھنے والوں کا یہاں تفصیلی ذکر آئے گا۔  ویسے بھی بھیڑ چال کے سبب اس صنف میں بہت سارے لکھنے والوں نے طبع آزمائی کی ہے لیکن ہر ایک کی تخلیقات کا تجزیہ پیش کیا جانا نہ تو ممکن ہے اور نہ ضروری لگتا ہے۔ لہذا یہاں ایسے منی افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جن کے اس صنف میں باقاعدہ مجموعے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔

 افسانچے کے باب میں منٹو کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔اردو کے افسانوی ادب میں پریم چند کے بعد سعادت حسن منٹو کا نام سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ منٹو نے زندگی کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل اور حقیقی واقعات کو جس فنکارانہ مہارت اور بیباکی کے ساتھ افسانے کی شکل میں پیش کیا ہے وہ یقیناً ان ہی کا حصہ ہے۔

 منٹو کے فن اور شخصیت کے متعلق پروفیسر اطہر پرویز نے لکھا ہے۔

 ’’پریم چند کے بعد افسانہ نگاروں کی نسل میں سعادت حسن منٹو کا نام کئی اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ منٹو اردو کے سب سے بدنام افسانہ نگار ہے۔ منٹو پر سب سے زیادہ مقدمے چلے۔ منٹو نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جہاں پہنچنے کے لیے فرشتوں کے پر بھی جلتے ہیں۔  جن کو بہت سے لوگ ممنوعات میں شمار کرتے ہیں۔  منٹو بڑے بے باک افسانہ نگار ہے‘‘۔ (ص۷، پیش لفظ منٹو کے نمائندہ افسانے مرتبہ اطہر پرویز، علی گڑھ)

 یہ سچ ہے کہ منٹو اردو کے سب سے زیادہ بدنام افسانہ نگار رہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اردو فکشن کی تاریخ میں سب سے زیادہ مقبول افسانہ نگار کی حیثیت بھی انھیں حاصل رہی ہے۔ حالانکہ ان پر فحاشی کے مقدمے چلے، پاگل پن کے دورے پڑے، تو ترقی پسندوں نے اپنے دور میں انھیں رجعت پسند کہہ کر ان کی اہمیت کم کرنا چاہی۔ انھیں افسانہ نگار کے بجائے جنس نگار کہا گیا۔ لیکن منٹو نے حقیقت بیانی کو نہیں چھوڑا اور وہ آخری وقت تک اپنے نوک قلم سے زندگی کی گہری سچائیوں اور تلخ حقیقتوں کو اس کی تمام تر کڑواہٹ کے ساتھ افسانوں کے قالب میں ڈھالتے رہے۔ تقسیم ہند اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے فسادات کے پس منظر میں منٹو کے ہم عصروں میں تقریباً سب نے کچھ نہ کچھ لکھ کر اپنے بیدار ادیب ہونے کا ثبوت دیا لیکن منٹو نے اس موضوع پر سب سے زیاد ہ لکھا اور متاثر بھی کیا۔ اس کی واضح مثالوں میں ٹھنڈا گوشت، کھول دو، سہائے، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور سیاہ حاشیے کے تمام افسانچے شامل ہیں۔  منٹو نے افسانوں کے ایک درجن سے زائد مجموعے ،ناول اور کئی لازوال خاکے تخلیق کیے۔ ان کتابوں کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے اور اپنی کم عمر زندگی میں انھوں نے اتنی طویل ادبی زندگی پائی ہے کہ ہر پہلو اور ہر انداز سے ان پر خوب سے خوب لکھے جانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ان کی ہمہ جہت شخصیت اور فن کے مختلف رنگ و روپ ہیں۔

منٹو نے جہاں ڈھکے چھپے پہلوؤں کو اپنے قلم کی روشنی سے اجاگر کیا۔ انسانی نفسیات کی گتھیوں کو سلجھایا وہیں منٹو نے تکنیک اور ہئیت کے کامیاب تجربوں کے ذریعے افسانوی ادب میں گرانقدر اضافے کیے جن کی بنیاد پر آج کا جدید افسانہ کھڑا ہے۔ لہٰذا علامتی اور تجریدی افسانہ کا سہرا بھی منٹو کے سر بندھتا ہے۔ ’پھندنے، اور ’سڑک کے کنارے، وغیرہ اس کا بین ثبوت ہیں اور بطور خاص افسانے کی ہئیت میں تبدیلی کے کامیاب تجربے کے نتیجے میں ’سیاہ حاشیے، کے چھوٹے چھوٹے افسانے عالم وجود میں آئے۔ جو بعد میں افسانچے کی بنیاد ثابت ہوئے اور بلاشبہ آج کا افسانچہ منٹو کی اسی جدت طرازی کا نتیجہ ہے جو وقت کی ضرورت بن کر، اب روز افزوں ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔ اس خصوص میں بھی منٹو کی اولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

 پچھلے باب میں تقریباً درجن بھر ممتاز ناقدین ادب اور معروف افسانہ نگاروں نے اس اولیت کو تسلیم کر کے صداقت کی مہر ثبت کی ہے اور جو اسے بطور صنف قبول نہیں کرتے۔ ایسے مخالفین بھی اس اولیت کے معترف ہیں اور قائل بھی۔ دراصل سعادت حسن منٹو کی ہمہ جہت شخصیت کی فطرت میں اختراع پسندی اور جدت طرازی یوں گھل مل گئی تھی کہ ان کی بے پناہ ذہانت اور حساس طبیعت نے قلم کی جولانی میں جدت اور ندرت کی ایک نئی دنیا آباد کر کے رکھ دی ہے۔’’سیاہ حاشیے‘‘ کی کہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے سید محمد عقیل لکھتے ہیں :

 ’’بیسوی صدی میں نئی چھوٹی کہانیاں ، مجموعی طور پر سب سے پہلے منٹو نے شروع کیں۔  جو جدید زندگی خصوصاً تقسیم ہند کے فسادات کے متعلق تھیں۔  جب کرشن چندر، عصمت، بیدی، احمد ندیم قاسمی اور خواجہ احمد عباس وغیرہ نے فسادات پر طویل کہانیاں لکھنی شروع کیں تو منٹو نے طویل کہانیاں بھی لکھیں اور ایک مجموعہ چھوٹی کہانیوں کا بھی ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے نام سے پیش کیا۔ یہ کہانیاں اپنی کاٹ، اثر انگیزی اور دھماکہ خیز اثرات کا مرقع معلوم ہوئیں اور بعض وقت تو یہ محسوس ہوا کہ ان کہانیوں میں واقعات اور حادثات کا سب نچوڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ ان کہانیوں میں واقعات بھی ہیں اور حادثات بھی اور کہیں کہیں ایسا دھچکہ لگتا ہے کہ قاری تھوڑی دیر کے لیے ان کی تاثیر اور ان کے غم کے بھنور سے نکل نہیں پاتا ہے جیسے اس کے خیالات کی ڈور تھوڑی دیر کے لیے یہ سوچ کر رک جاتی ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟!‘‘

 ۱۔

 ’’دیکھو یار تم نے بلیک مارکیٹ کے دام بھی لیے اور ایسا ردی پٹرول دیا کہ ایک دکان بھی نہ جلی…. (الہنا)

 ۲۔

 چھری پیٹ چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچے تک چلی گئی۔ ازاربند کٹ گیا۔ چھری مارنے والے کے منہ سے دفعتاً کلمۂ تاسف نکل گیا ’’مشٹیک ہو گیا‘‘۔…. (سوری)

 ۳۔

 آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا…. صرف ایک دوکان بچ گئی….

 جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا۔

 ’’یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے‘‘۔….(دعوت عمل)

 ۴۔

 ’’مرا نہیں …. دیکھو ابھی جان باقی ہے‘‘۔

 ’’رہنے دو یار…. میں تھک گیا ہوں ‘‘۔….(آرام کی ضرورت)

 واقعات اور حادثات ان چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں کس طرح لپٹے ہوئے ہیں اور ان کہانیوں کے نہاں خانوں سے حیرت غم و غصہ اور زہر خند کے کتنے ذخیرے برآمد ہوتے ہیں۔  اس تیز رفتار زندگی میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہانی کا پھیلاؤ، سمٹنے اور سمیٹنے کا متقاضی ہے کہ کہانی سننے والا انجام کی تلاش پہلے کرتا ہے اور پھر کہانیوں کے دامن میں لپٹے ہوئے دوسرے عناصر یا ڈیکورشن وغیرہ کی بات بعد میں نکلتی ہے….؟ (ص۵۶، منی کہانیاں۔  سید محمد عقیل، مطبوعہ روح ادب ،کلکتہ)

 ’آتش پارے، اور ’سیاہ حاشیے، کے نام سے منٹو کا دراصل یہ ایک مشترکہ افسانوی مجموعہ ہے۔ ’سیاہ حاشیے، کا دیباچہ ’حاشیہ آرائی، کے عنوان سے محمد حسن عسکری نے تحریر کیا تھا۔ ’سیاہ حاشیے، میں جملہ ۲۳ افسانچے شامل ہیں اور ہر افسانچے سے تقسیم ہند و پاک کے بعد جاری ہولناک فسادات کے منظر آنکھوں کے سامنے یوں گھومنے لگتے ہیں کہ اس بد ترین تاریخ کی ہر تصویر زندہ ہو جاتی ہے۔ محمد حسن عسکری نے اپنے دیباچہ میں جگہ جگہ منٹو کے ان چھوٹے چھوٹے افسانوں میں ان واقعات کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے ان کے فن کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔  ملاحظہ کیجئے۔

 ’’….منٹو کے افسانے سچی ادبی تخلیقات ہیں اس لیے یہ افسانے ذاتی طور پر بھی چونکاتے ہیں ‘‘ اور …. ’’فسادات کے متعلق جتنا بھی لکھا گیا اس میں اگر کوئی چیز انسانی دستاویز کہلانے کی مستحق ہے تو یہ افسانے ہیں ‘‘۔…. ’’فسادات کے متعلق جتنے بھی افسانے لکھے گئے ہیں ان میں منٹو کے یہ چھوٹے چھوٹے لطیفے، سب سے زیادہ ہولناک اور سب سے زیادہ رجائیت آمیز ہیں ‘‘۔

 دیباچہ کے آخر میں انھوں نے ان تخلیقات کا نچوڑ لکھ دیا ہے ’’منٹو کے ان افسانوں کا سب سے بڑا وصف معمول زندگی کی قوت اور عظمت کا یہی اعتراف ہے۔ جو ان کے فن کے تئیں بھی سچا اعتراف ہے‘‘۔دراصل بقول ڈاکٹر ظفر سعید۔  ’’سیاہ حاشیے ‘‘ میں فسادات کے دوران پیش آنے والے واقعات کے ایسے ہی سارے خاکے ہیں جن میں فسادات کا پورا المیہ مجسم ہو گیا ہے۔ ‘‘ (ص۳۱، مطبوعہ زبان و ادب، پٹنہ۔ جلد۳۲، شمارہ ۲)

 چند افسانچے اس مجموعے سے مزید ملاحظہ کریں۔

 رعایت

 ’’میری آنکھوں کے سامنے میری جوان بیٹی کو نہ مارو‘‘۔

 ’’چلو اسی کی مان لو…. کپڑے اتار کر ہانک دو ایک طرف‘‘۔(ص۱۸۱)

 ٭

 صدقے اس کے

 مجرا ختم ہوا….تماشائی رخصت ہو گئے تو استاد جی نے کہا

 ’’سب کچھ لٹا پٹا کر یہاں آئے تھے۔ لیکن اﷲ میاں نے چند دنوں ہی میں وارے نیارے کر دیے‘‘۔ (ص۴۸۱)

 کرامات

 لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لیے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے۔ لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکے لگے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنا مال بھی موقع پا کر اپنے سے علیحدہ کر دیا تاکہ قانونی گرفت سے بچ سکیں۔  ایک آدمی کو بہت دقت پیش آئی۔ اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دوکان سے لوٹی تھیں۔  ایک تو وہ جوں توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنوئیں میں پھینک دیا لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود ہی ساتھ ساتھ چلا گیا…. شور سن کر لوگ اکٹھے ہو گئے کنوئیں میں رسیاں ڈالی گئیں۔  دو جوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مرگیا۔

 دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کے لیے اس کنوئیں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا۔

 اسی رات اس آدمی کی قبر پر دیے جل رہے تھے۔ (ص۱۶۱)

 پیش بندی

 پہلی واردات ناکے کے ہوٹل کے پاس ہوئی۔ فوراً ہی وہاں ایک سپاہی کا پہرہ لگا دیا گیا۔

 دوسری واردات دوسرے ہی روز شام کو اسٹور کے سامنے ہوئی۔ سپاہی کو پہلی جگہ سے ہٹا کر دوسری واردات کے مقام پر متعین کر دیا گیا۔

 تیسرا کیس رات کے بارہ بچے لانڈری کے پاس ہوا۔ جب انسپکٹر نے سپاہی کو اس نئی جگہ پہرہ دینے کا حکم دیا تو اس نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔….

 ’’مجھے وہاں کھڑا کیجئے جہاں نئی واردات ہونے والی ہے‘‘۔(ص۱۷۹)

 اشتراکیت

 وہ اپنے گھر کا تمام ضروری سامان ایک ٹرک میں لاد کر دوسرے شہر میں جا رہا تھا کہ راستے میں لوگوں نے اسے روک لیا۔ ایک نے ٹرک کے مال واسباب پر حریصانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو یار کس مزے سے اتنا مال اکیلا اڑائے چلا جا رہا تھا‘‘۔

 اسباب کے مالک نے مسکرا کر کہا ’’جناب یہ مال میرا اپنا ہے‘‘۔

 دو تین آدمی ہنسے…. ’’ہم سب جانتے ہیں ‘‘۔

 ایک آدمی چلایا۔ ’’لوٹ لو یہ امیر آدمی ہے۔ ٹرک لے کر چوریاں کرتا ہے‘‘۔

 ٭

 کسر نفسی

 چلتی گاڑی روک لی گئی۔ جو دوسرے مذہب کے تھے۔ ان کو نکال نکال کر تلواروں گولیوں سے ہلاک کر دیا گیا۔ اس سے فارغ ہو کر گاڑی کے باقی مسافروں کی حلوے دودھ اور پھلوں سے تواضع کرنے والوں کے منتظم نے مسافروں کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’بھائیو اور بہنو، ہمیں گاڑی کی آمد کی اطلاع بہت دیر میں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جس طرح چاہتے تھے اس طرح آپ کی خدمت نہ کرسکے‘‘۔(ص۱۷۵)

 ٭

 مناسب کاروائی

 جب حملہ ہوا تو محلے میں سے اقلیت کے کچھ آدمی تو قتل ہو گئے۔ جو باقی تھے جانیں بچا کر بھاگ نکلے۔ ایک آدمی اور اس کی بیوی البتہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپ گئے۔ دو دن اور دو راتیں پناہ یافتہ میاں بیوی نے قاتلوں کی متوقع آمد میں گزار دیں مگر کوئی نہ آیا۔ دو دن اور گزر گئے۔ موت کا ڈر کم ہونے لگا۔ بھوک اور پیاس نے زیادہ ستانا شروع کیا۔

 چار دن اور بیت گئے۔ میاں بیوی کو زندگی اور موت سے کوئی دلچسپی نہ رہی۔ دونوں جائے پناہ سے باہر نکل آئے۔ خاوند نے بڑی نحیف آواز میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا۔ ہم دونوں اپنا آپ تمھارے حوالے کرتے ہیں۔  ہمیں مار ڈالو‘‘۔

 جن کو متوجہ کیا گیا تھا وہ سوچ میں پڑ گئے۔ ہمارے دھرم میں تو جیو ہتیا پاپ ہے‘‘۔

 وہ سب جینی تھے لیکن انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور مناسب کاروائی کے لیے دوسرے محلے کے آدمیوں کے سپرد کر دیا۔(ص۱۶۰۔۱۵۹)

 ٭

 ہمیشہ کی چھٹی

 پکڑ لو….پکڑ لو…. دیکھو جانے نہ پائے۔

 شاید تھوڑی سی دوڑ دھوپ کے بعد پکڑ لیا گیا

 جب نیزے اس کے آر پار ہونے کے لیے آگے بڑھے

 تو اس نے لرزاں آواز میں گڑ گڑا کر کہا….

 مجھے نہ مارو، مجھے نہ مارو۔ تعطیلوں میں اپنے گھر جا رہا ہوں …. (ص۱۶۹)

 ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی ان کہانیوں کے متعلق ڈاکٹر ظفر سعید لکھتے ہیں :

 ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کے افسانے محدب شیشے ہیں جن کے ذریعہ انسان کی ذات اور شخصیت کے باریک اور دھندلے نقوش بھی واضح اور صاف دکھائی دیتے ہیں۔  منٹو نے ان افسانوں میں کرداروں کے صرف کسی مخصوص رویہ یا مخصوص ذہنی کیفیت کو پیش کیا ہے اور کہانی اس طرح تیار کی ہے جس طرح جنگی جہاز کے عرشے پر کوئی زائد چیز نہیں رکھی جاتی۔ ان کہانیوں میں ایک ڈرامائی کیفیت موجود ہے اور ہر افسانہ ڈرامے کا ایک سین معلوم ہوتا ہے۔ یہاں کہانی افسانہ نگار کے خارج میں وجود میں آتی ہے اور افسانہ نگار اسی خارجیت کے ساتھ کہانی پیش کر دیتا ہے۔ لیکن کہانی کے مرکزی تاثر اور لہجے کی زبردست کاٹ کے پس پردہ افسانہ نگار کی اپنی فکر اور اس کا اپنا احساس کار فرما ہے چنانچہ کہانی مجموعی طور پر کہیں طنز کی بھرپور علامت بن گئی ہے، کہیں درد و کرب میں ڈوبی ہوئی ہے اور کہیں زندگی کے گوناگوں تضادات کا اشاریہ بن گئی ہے اور یہ سب کچھ تقسیم ملک اور فسادات کے تئیں منٹو کے الم ناک رد عمل کا نتیجہ ہے‘‘۔(ص۱۲، مطبوعہ زبان و ادب، پٹنہ۔ جلد۲۳، شمارہ ۲)

 غرض ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں منٹو کے تقریباً سبھی افسانچے بے حد متاثر کرتے ہیں قاری کو چونکانے کے ساتھ اس کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور اس وقت کی ساری تصویریں ذہن پر جیسے نقش ہو جاتی ہیں ….

 منٹو کے بعد ، صنف افسانچہ میں جوگندر پال کا نام اولیت کے ساتھ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ بقول نظام صدیقی، جوگندر پال نے اعلیٰ سنجیدگی سے اس مختصر صنف کو اپنے بہترین تخلیقی لمحات ایک خاص تخلیقی رویہ اور برتاؤ کے ساتھ نذر کئے ہیں۔  افسانچہ کو باقاعدہ صنف کی شکل میں پیش کیا۔ جوگندر پال نے اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے باعث اسے خوب بار آور کیا اور بڑی جدت اور ندرت کے ساتھ اس صنف کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کیا اور اسے افسانچہ کا خوبصورت نام بھی عطا کیا۔ ساتھ ہی نئی نسل کو اس سمت متوجہ کر کے ان کی مناسب حوصلہ افزائی بھی کی۔ جس کے نتیجے میں آج کئی نئے لکھنے والوں نے اس صنف میں اپنا نام اور پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ ان کی تحریروں کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ناول اور طویل افسانوں کے ساتھ مختصر ترین افسانے یعنی افسانچے بھی خوب لکھے جو اپنی انفرادیت رکھتے ہیں اور ان کے ہم عصروں میں انھیں ممتاز بھی کرتے ہیں۔

 جوگندر پال کے ابتدائی افسانچے ان کے افسانوی مجموعے ’’میں کیوں سوچوں ‘‘ میں ملتے ہیں۔  جس میں کتاب کے دوسرے حصے میں اسی نام سے 32 افسانچے شامل ہیں جو ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا تھا اس کے بعد باقاعدہ ان کے افسانچوں کا پہلا مجموعہ ’سلوٹیں‘ ۱۹۷۵ء میں منظر پر آیا جو اردو کا افسانچوں کا پہلا مجموعہ کہا جاسکتا ہے۔ جس میں ۱۹۶ افسانچے شامل ہیں۔  اسی سبب اکثر ناقدین جوگندر پال کو افسانچے کا خالق اور موجد قرار دیتے ہیں۔  ان افسانچوں میں اسلوب و تکنک کی جدت کے ساتھ موضوعات کا زبردست تنوع ملتا ہے۔ خاص طور سے طبقاتی ، کشمکش ، عریبی ، ناداری اور افلاس سے پیدا ہوئے مسائل پر بڑے خوبصورت افسانچے ملتے ہیں۔  غریب طبقہ کی ناداری اور مفلسی پر طنزیہ انداز میں ان کا ایک افسانچہ ’’بیچارہ‘‘ ملاحظہ فرمایئے:

 ’’مفلوک الحال والدین کے پاس بیٹھا بچہ اپنے اسکول کورس کی کتاب پڑھ رہا ہے۔‘‘

 ’’اچھے لوگ ہمیشہ اچھی خوراک کھاتے ہیں۔  اجلے کپڑے پہنتے ہیں۔  ہوا دار مکانات میں رہتے ہیں۔ ‘‘

 ’’بکواس بند کرو‘‘ اس کے مفلس باپ سے نہ رہا گیا۔

 ’’بگڑتے کیوں ہو؟‘‘ لڑکے کی ماں نے اپنے شوہر کو سمجھایا ’’بچہ ہے بیچارہ‘‘ (ص۱۷)

 ’’بچہ ہے بیچارہ‘‘ افسانچہ کا اختتام یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ بیچارہ بچہ ہی تو ہے جو لکھا ہے وہی پڑھ رہا ہے جب سمجھ پیدا ہو گی تو اس بات کی حقیقت کو سمجھے گا اور اس کے خلاف آواز اٹھائے گا۔ اس افسانچے میں دراصل جوگندر پال نے سرمایہ دارانہ نظام پر زبردست طنز کیا ہے۔

 ان کا دوسرا افسانچہ ’’بھوکا‘‘ بھی سماج کی اسی طبقاتی تقسیم کو ظاہر کرتا ہے جہاں ایک طبقہ تو خوش حال زندگی گزار رہا ہے تو دوسرا طبقہ فاقوں پر بسر کرتا ہے۔ جو سرمایہ داروں کی بالادستی کو پیش کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

 ’’جب میری جیب پیسوں سے بھری ہوتی ہے تو میں مزے سے ہوٹل امپریل میں جا کر نہایت تہذیب سے کھانا کھاتا ہوں۔ ‘‘

 ’’اور جب خالی ہوتی ہے تو متمدن لوگوں سے چھین جھپٹ کر ان کی تہذیب کھا لیتا ہوں۔ ‘‘ (ص۹۳)

 اس طرح ’’سلوٹیں ‘‘ کے کئی افسانچے طبقاتی کشمکش کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جن میں غریبوں کی بھوک بھی ہے اور امیروں کے عیش و عشرت کی زندگی کے مرقعے بھی ملتے ہیں اور ان کے خلاف غریبوں کے غم و غصے کا برملا اظہار بھی نظر آتا ہے۔  ایک اور افسانچہ ’’کیڑے‘‘ دیکھئے :

 ’’اس عالی شان عمارت کے اندر سیٹھ کے پیٹ سے کیڑے برآمد ہوئے۔ باہر کوئی بڈھا بھوک سے تڑپ تڑپ کر کہہ رہا تھا ،جی چاہتا ہے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اس سیٹھ کے پیٹ میں جاگھسوں۔ ‘‘ (ص۱۷)

 اس افسانچے میں بڑا گہرا طنز چھپا ہوا ہے۔ جوگندر پال کے یہ چھوٹے چھوٹے افسانچے سماجی حقیقت نگاری کا بہترین عکس پیش کرتے ہیں۔  اس کے علاوہ بھی دیگر موضوعات کو مختصر لفظوں میں جوگندر پال نے بڑی ہنر مندی سے اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ پڑھنے والے کو چونکا کر یوں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں کہ افسانچہ کے اختتام کے ساتھ ہی ایک طویل کہانی قاری کے ذہن میں شروع ہو جاتی ہے۔ یہی دراصل افسانچہ کا فن ہے۔

 اسی طرح آج کی تیز رفتار زندگی نے کس طرح اس کی معاشرتی زندگی کو متاثر کر رکھا ہے اور وہ رشتوں ناطوں کی اہمیت سے بے نیاز وہ اپنی مشینی زندگی سے جوجھ رہا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے۔ اس پس منظر میں ان کا یہ افسانچہ دیکھئے:

 ’’فاصلے‘‘

 میں ان دنوں کئی بار اپنے راکٹ میں بیٹھ کر چاند تک ہو آیا ہوں ، لیکن ایک مدت ہو گئی دس قدم چل کر اپنے بھائی سے ملنے نہیں گیا۔‘‘ (ص۶۸۔۶۹)

 جوگندر پال اپنے ایک افسانچے میں کہانی کی حقیقت ’’فن اور حقیقت ‘‘ کے عنوان سے اس طرح لکھتے ہیں :

 ’’کہانی اس وقت دلچسپی سے پڑھی جاتی ہے جب وہ سچا واقعہ معلوم ہو اور سچا واقعہ اس وقت جب وہ کہانی سی لگے‘‘۔ (ص۱۰۔سلوٹیں )

 ۱۹۸۶ء میں جوگندر پال کے افسانچوں کا دوسرا مجموعہ ’’کتھا نگر‘‘ کے نام سے دہلی سے شائع ہوا۔ اس مجموعہ میں تقریباً ۳۰۰ افسانچے شامل ہیں۔  اس مجموعہ میں زیادہ تر علامتی اور تجریدی انداز میں افسانے ملتے ہیں اور اکثر افسانچوں کا ان کا مخصوص فلسفیانہ انداز نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔  البتہ اسلوب کی ندرت ان دونوں مجموعوں میں موجود ہے۔ جو دراصل منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے طرز پر لکھے گئے ہیں۔  ان مختصر ترین کہانیوں میں آغاز وسط اور انجام نیز کردار نگاری میں منطقی اور روایتی اصولوں کی پابندی سے گریز کی کوشش شعوری طور پر دکھائی دیتی ہے۔ منطقی ربط و تسلسل اور داخلی آہنگ کے شکل میں بھی چند افسانچے ملتے ہیں۔  ایسے افسانچے سوز و گداز اور ڈرامائیت سے قطعی عاری نظر آتے ہیں اور ان میں فلسفہ کا اثر زیادہ دکھائی دیتا ہے جو ان کی خاص پہچان کی نشاندہی کرتے ہیں۔  بیشتر افسانچوں پر افسانہ نگار کی مخصوص چھاپ صاف دکھائی دیتی ہے وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ سچا واقعہ کہانی میں اس طرح ڈھل جائے کہ پڑھنے والے کی دلچسپی برقرار رہے۔

 ان کے اکثر افسانچوں میں یہ وصف موجود ہے اور ساتھ ہی کیفیت آفرینی کا جوہر جو قاری کو بے حد متاثر کرتا ہے اس ضمن میں ان کے کئی افسانچے پیش کئے جاسکتے ہیں۔  مثلاً عظمت ، ہجوم ، سانپ ، یا خدارا ، معراج ، نیم وا ، خدا کی زبان ، آزادی ¿ خیال ، ارتقاء، میرا نام ، جوگن ، سٹیلائٹس ، ایک طویل کہانی اور علم کا بوجھ وغیرہ پیش کی جاسکتی ہیں۔  جس میں کہانی پن کا عنصر موجود ہے جو اپنے چند سطری اظہار میں ہر طرح مکمل اور جامع نظر آتی ہے۔ یہی جوگندر پال کے مشاق قلم کا کمال ہے۔ وہ خود اس سلسلے میں کہتے ہیں :

 ’’اگر بات صرف دو جملوں میں اداہوسکتی ہے تو کہانی بڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

 ان کے اکثر افسانچوں میں اقوال Comments اور ان کی اظہار ذات کے خیالات کے پرتو بھی ملتے ہیں کہیں گہرا طنز نظر آتا ہے تو اس قدر لطیف انداز کہ لطیفے کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن وہ اسے معیوب نہیں گردانتے ہیں۔  ’’کتھا نگر‘‘ سے چند افسانچے دیکھئے :

 ’’کچا پن‘‘

 : ’’بابا تم بڑے میٹھے ہو۔‘‘

 یہی تو میری مشکل ہے بیٹا! ابھی ذرا کچا اور کھٹا ہوتا تو جھاڑ سے جڑا رہتا۔‘‘

 ’’نقطہ نظر‘‘

 میں اندھا تھا۔

 لیکن جب ایک برٹش آئی بنک سے حاصل کی ہوئی آنکھیں میرے ساکٹس میں فٹ کر دی گئیں تو مجھے دکھائی دینے لگا اور میں سوچنے لگا کہ غیروں کا نقطۂ نظر اپنا لینے میں بھی اندھا پن دور ہو جاتا ہے۔‘‘

 ’’بابا ‘‘

 بابا تم اپنی آنکھیں ہر دم بند کیوں رکھتے ہو۔‘‘

 ’’باہر اندھیرا ہو بابا ، تو کھلی آنکھوں سے بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ مگر باہر روشنی ہو تو بند آنکھیں ہو تو بند بند آنکھوں میں بھی محسوس ہوتی رہتی ہے۔‘‘ (ص۲۹)

 جوگندر پال کے افسانچوں کا تیسرا مجموعہ ’’پرندے‘‘ کے نام سے ۲۰۰۰ء میں تخلیق کار پبلشرز دہلی کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس مجموعہ میں تقریباً ۲۵۰افسانچے شامل ہیں۔  اس میں چند افسانچے پچھلے دو مجموعوں سے بھی شامل کیے گئے ہیں۔  ان افسانچوں میں جوگندر پال کا مخصوص انداز اپنی انفرادیت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اکثر ان مختصر ترین کہانیوں میں محض خیال یا فلسفہ ملتا ہے۔ البتہ ان افسانچوں کے موضوعات میں زبردست تنوع بھی ہے۔ عصر حاضر کے تمام مسائل ، مشینی زندگی کے ہنگامے ، نئی تکنالوجی کی ترقی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر منفرد انداز میں افسانچے شامل ہیں۔  جن میں کہیں گہرا طنز چھپا ہوا ہے تو کہیں نہایت لطیف انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اور قاری اکثر سوچتا رہ جاتا ہے کہ زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے اور اکثر پڑھنے والے کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے وہ اپنا تجربہ پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ چند افسانچے نمونے کے طور پر ان کے مجموعہ سلوٹیں اور کتھا نگر سے پیش کئے جا رہے ہیں :

 ’’اصل و نقل‘‘

 ’’میری ماں کو مرے پندرہ برس ہو لئے تھے۔

 آج میں نے اس کی تصویر دیکھی اور رنجیدہ ہو کر سوچنے لگا۔

 تصویریں ہی اصل ہوتی ہیں جو رہ جاتی ہے۔ ماں تو محض ایک گمان تھی جو گزر گئی۔‘‘

 ’’میل ملاپ‘‘

 ’’میرے کئی غرض مند جان پہچان والوں کو مجھ سے شکایت ہے کہ وہ جب بھی ٹیلی فون پر مجھ سے رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں میرا ٹیلی فون اس وقت لگا ہوا ہوتا ہے۔

 میں انھیں کیسے سمجھاؤں کہ اس سارے دوران میں بھی اپنی کسی غرض کی خاطر کسی اور سے رابطے کی کوشش میں جٹا ہوتا ہوں اور حد یہ ہے کہ اس کا فون بھی مجھے سدا ویسے ہی لگا ہوا ملتا ہے۔ شاید وہ بھی!‘‘

 ’’غرقاب‘‘

 ’’میں ایک عرصہ سے ایک سمندری جہاز میں نوکری کرتا ہوں۔

 پہلے پہل جب میرا سمندر سے رابطہ ہوا تو مجھے لگتا تھا میں اس میں ڈوب جاؤں گا۔

 مگر اب مجھے لگتا ہے کہ سمندر ہی میرے اندر ڈوب گیا ہے۔‘‘

 ’’محمد غوری‘‘

 ’’اس نے ہندوستان پر کئی حملے کئے اور ہر بار اپنی منہ توڑ ناکامی کے باوجود ہمت نہ ہاری اور بالآخر اپنے تازہ حملے میں دہلی سر کر لی اور یہاں سکریٹریٹ میں کلرک پکی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘

 ’’ایک طویل کہانی‘‘

 ’’آج بھی میرے ساتھ وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔  آج بھی میرے ساتھ کچھ نہ ہوا۔‘‘

 ان کے علاوہ ’’پرندے‘‘ میں کئی ایسے موضوعات بکھرے پڑے ہیں جو موجودہ دور کی تصویر پیش کرتے ہیں۔  ان میں تال ، کارگل ، ہیڈ لائٹس ، گرین ہاؤس ایفکیٹ ، ایٹمی جنگ ، پرامن فیصلے ، پولیوشن ، اکیسویں صدی ، دھڑکن ، مارکٹ اکانومی ، سہولتیں ، فارن ایکسچنج ، بائیولوجی ٹائمز ، فیملی پلاننگ اور ساپرکنسز ڈیزیز وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

 جوگندر پال کے بعد ان کے ہم عصروں میں اگر کسی نے سنجیدگی سے اس صنف کو برتا ہے تو وہ بے شک رتن سنگھ ہیں جنھوں نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی خوب لکھے ہیں۔  ان کے افسانچوں کا مجموعہ ’’مانک موتی‘‘ ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا جس میں ۱۰۱ افسانچے شامل ہیں۔  ان کا تفصیلی ذکر اگلے باب میں یعنی دیگر ریاستوں میں افسانچے کی صورتحال کے تحت آئے گا۔

 جوگندر پال ، رتن سنگھ کے بعد کسی سینئر افسانہ نگار نے پوری توجہ کے ساتھ افسانچے نہیں لکھے۔ حالانکہ خواجہ احمد عباس، رام لعل ، ہرچرن چاولہ ،اثر فاروقی ، بشیشر پردیپ، احمد عثمانی ،سیف الرحمٰن عباد، اکرام باگ ، حمید سہروردی ، م ق خان ،بدنام بشر، مشکور احمد قریشی، بانو سرتاج، اکرام الدین، نسیم محمد جان، نورالحسنین اور دیگر معتبر افسانہ نگاروں نے کبھی کبھار افسانچے ضرور لکھے ہیں لیکن مستقل طور پر اس صنف کو اپنی صلاحیتوں سے بار آور نہیں کیا۔اورنگ آباد کے سینئر افسانہ نگاروں میں اثر فاروقی ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہے جنھوں نے افسانوں کے ساتھ مختصر ترین افسانے بھی لکھے ہیں۔  وہ ایک ممتاز صحافی ہونے کے علاوہ ایک اچھے ناقد بھی ہیں۔  ان کی ایک مختصر ترین کہانی یہاں بطور ثبوت پیش کی جا رہی ہے جو انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا اور انور سدید کی اورنگ آباد آمد کے موقع پر منعقدہ شب افسانہ میں بطور خاص سنائی تھی۔ملاحظہ کیجئے۔

 ازل تا ابد

 ’’قابل تم اسے قتل کیوں نہیں کر دیتے؟‘‘۔ اقلیما نے کہا۔ ’’تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی۔ تمہارے لیے آسمان سے پہاڑ پر آگ نہیں برسی‘‘۔

 اقلیما کی اس دردمندانہ عاجزی اور منت سماجت کے جواب میں ایک مردہ وہ بے ضمیر سکوت پہاڑ کے چاروں طرف پھیل گیا۔

 ’’یہ کیا تم مجھے اسی کے حوالے کر رہے ہو جسے تمہیں قتل کرنا تھا‘‘۔ اقلیما نے ایک بھیانک چیخ کے ساتھ کہا جیسے اسے ذبح کیا جا رہا ہو۔ جواب میں پھر ایک سفاک خاموشی۔

 ایک نہایت حسین و جمیل کار جس کے سر پر سرخ روشنی کا فوارہ ابل رہا تھا۔ اس خاموشی کے عمیق پاتال سے نکل کر پہاڑ کی اوٹ میں غائب ہو گیا۔

 ’’حضور آپ کی قربانی مقبول ہوئی۔‘‘ محافظ سنہرا طشت لے کر آگے بڑھا جس میں اقتدار کے الماس و یاقوت جگ مگ جگ مگ کررہے تھے۔

 ’’محافظ چلو جلدی کرو‘‘۔ اس نے پہلی بار زبان کھولی اور کہا۔  ’’ہمیں شاہی محل چلنا ہے جہاں مجھے وفاداری کا حلف لینا ہے‘‘۔

 ایک بار پھر نہایت حسین و خوبصورت کار برآمد ہوئی جس کے سر پر پہلی کار کی مانند آگ کا فوارہ اپنی سرخ روشنی کی آب و تاب دکھا رہا تھا۔

 (مطبوعہ اردو چینل ممبئی مئی ۲۰۰۰ء)

 یہی حال دوسرے علاقوں کے سینئر لکھنے والوں کا رہا ہے۔ البتہ نئی نسل میں لکھنے والوں میں بے شمار نام ایسے ملتے جنھوں نے اسے مستقل طور پر اپنایا اور خوب لکھ کر کثرت سے چھپتے رہے اور اس نئی صنف میں اپنے مجموعے بھی شائع کئے۔ ۷۰ء کے بعد آٹھویں دہائی میں ریاست مہاراشٹر میں ایسے بہت سارے نام ملتے ہیں ان ہی میں ایک نام ڈاکٹر ایم آئی ساجد کا ہے۔ ان کی ابتدائی دور کی افسانہ نگاری کے بارے میں عبدالرحیم نشتر اپنی کتاب ’’ودربھ میں اردو افسانہ ‘‘۔ میں لکھتے ہیں :

 ’’ایم آئی ساجد نے۱۹۶۵ءسے افسانہ نگاری شروع کی اور ان کا سب سے پہلا افسانہ ’’انجام تکبر‘‘ مارچ ۱۹۶۵ء میں صحیفۂ انجمن کھامگاؤں میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ’’سب سے بڑا انعام‘‘ کے عنوان سے اردو ٹائمز بمبئی میں دوسرا افسانہ ۱۷جون ۱۹۶۵ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ ساجد کے سب سے زیادہ افسانے اسی اخبار میں شائع ہوئے۔ اگرچہ ان کی تخلیقات روزنامہ انقلاب ، ماہنامہ رگِ سنگ (کانپور) اور پندرہ روزہ رقیب کامٹی میں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔ ‘‘(ص۳۲)

 ایم آئی ساجد نے منی افسانے کے رجحان سے متاثر ہو کر بڑی تعداد میں منی افسانے لکھے جو اخبارات میں خوب چھپے اور ان کے منی افسانوں کا ایک مجموعہ جو کتابچے کی شکل میں پاکٹ سائز میں ہے ’’آواز کے پتھر‘‘ کے نام اکتوبر ۱۹۸۷ء میں شائع ہوا۔ جس میں جملہ ۰۳ منی افسانے شامل ہیں۔  اگر دیکھا جائے تو جوگندر پال کے بعد نئی نسل میں منی افسانوں کا پہلا مجموعہ قرار دیا جاسکتا ہے جو مہاراشٹر سے شائع ہو کر اس معاملے میں دیگرریاستوں پر اپنی سبقت رکھتا ہے۔ ساجد کے افسانے زندگی سے قریب ہیں جو اپنی روزمرہ کی زندگی کے معمولی سے واقعات کو کہانی کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔  اپنے اطراف کے ماحول کی عکاسی بھی ان منی افسانوں میں ملتی ہے وہ ان کے افسانوں میں روایتی انداز سے گریز کے ساتھ جدید رجحان سے وابستگی ، کم الفاظ میں گہرا تاثر پیدا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔  وہ خود اپنی منی افسانہ نگاری کے بارے میں اپنے اس مجموعے میں لکھتے ہیں :

 ’’ان افسانوں میں ، میں نے زندگی کی دکھتی رگوں اور کربناک پہلوؤں پر بھی لکھا ہے جیسے ’آواز کے پتھر، روٹی کا سوال ، بلندی وغیرہ دیگر افسانے بھی آپ کو کسی نہ کسی صورت میں ضرور متاثر کریں گے۔‘‘ (دو باتیں۔  آواز کے پتھر۔ ایم آئی ساجد۔ ص۸)

 ایم آئی ساجد کئی برسوں سے لکھ رہے ہیں انھوں نے افسانوں پر طبع آزمائی کے ساتھ شاعری بھی کی ہے اور تنقیدی و تحقیقی مضامین بھی لکھے ہیں۔  ویسے تو ساجد کئی برسوں سے لکھ رہے ہیں لیکن ابھی تک افسانہ میں اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ علاقائی سطح پر وہ خاصے مشہور و معروف رہے اور ودربھ کے افسانہ نگاروں میں اہمیت کے حامل ہیں۔  ایک عرصے سے علاقہ خاندیش کے تعلقہ بیاول میں برسرکار اور ادب میں سرگرم عمل رہے ہیں ریٹائرڈ منٹ کے بعد مستقل طور پر اپنے وطن کھام گاؤں میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔انھوں نے افسانوں کے مقابلے میں مختصر ترین افسانچے زیادہ لکھے ہیں۔  لیکن وہ اس صنف میں زیادہ ہنر مندی کے جوہر نہیں دکھا سکے۔ ان کی منی افسانہ نگاری پر عبدالرحیم نشتر ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں :

 ’’افسانہ اگر دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتا ہو تو ایک منی کہانی بھی کسی تفصیلی واقعہ کی طرح ذہن پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ ساجد کے افسانوں میں یہ ہنر مندی ابھی زیادہ نہیں ابھر سکی ہے کیونکہ وہ صرف تسکین ذوق کے لئے نہیں بلکہ ادب کی مقصدی تشہیر کے لئے بھی لکھتے ہیں۔ ‘‘(ص۳۲)

 نمونہ کے طور پر ان کا ایک منی افسانہ بعنوان ’’بھوکا‘‘ ملاحظہ فرمائیں :

 ورلی کنگسٹن کے چوراہے پر لوگوں کا ہجوم مختلف قیاس آرائیوں میں مصروفِ کار تھا ، کئی آوازیں ہوا میں گردش کر رہی تھیں۔

 ارے۔ ۔ ارے۔ ۔ بے چارہ۔ ۔ شاید کوئی اجنبی ہے۔

 بھلا آدمی لگتا ہے۔ ۔ ایک نئی آواز ابھری۔

 مجھے تو کوئی قاتل لگتا ہے۔  چور بھی تو ہوسکتا ہے؟

 کتنی بے بسی سے پڑا ہے بے چارہ۔  آخر یہ مرا کیسے ، بھگوان کی بھی کیسی لیلا ہے۔

 پتہ نہیں کون بندۂ خدا ہے غریب۔

 صلیب کے نشان والی پولس وین آئی اور چوراہے پر پڑی لاش کو اٹھا کر چلی گئی۔

 ہجوم۔  منتشر ہو گیا۔ دو دن بعد اخبار کی ایک سرخی تھی۔

 ’’ورلی کنگسٹن کے چوراہے پر ۲۲ دسمبر کی دوپہر میں ایک گمنام لاش ملی۔ وارث کا اب تک پتہ نہیں چل سکا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق مرنے والا پانچ دن کا بھوکا تھا۔ بھوک ہی موت کا سبب بنی۔ (آواز کے پتھر۔ ایم آئی ساجد۔ ص۲۰۔۲۱)

 ڈاکٹر ایم آئی ساجدکے منی افسانے اپنے اطراف کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔  انھوں نے منی افسانے پر کئی مضامین بھی لکھے ہیں۔  جو ان کے علمی ادبی تحقیقی مضامین کے مجموعے ’’آبشار‘‘ میں شامل ہیں۔  ڈاکٹر ایم آئی ساجد شاعر بھی ہیں اور اس صنف میں بھی ان کا مجموعہ ’’انحراف‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ مختلف الجہات ہونے کے سبب وہ منی افسانے پر خاص توجہ نہیں دے سکے ہیں۔  اس صنف کو وہ اگر سنجیدگی سے برتتے تو آج ان کا بڑا نام ہوتا کہ مہاراشٹر میں جوگندر پال کے بعد ان کے منی افسانے کے مجموعے کو اولیت حاصل ہے جو جیبی سائز میں شائع ہوا تھا۔ عبدالرحیم نشتر کی کتاب ’ودربھ میں اردو افسانہ‘ میں ان کے مکمل تعارف افسانچے منی افسانے شامل ہیں۔  ان کے تعارف میں عبدالرحیم نشتر لکھتے ہیں :

 ایم آئی ساجد نے اپنی توجہ منی افسانوں پر مرکوز کی ہے۔ بڑی بات کو سمیٹ لینا بڑا فن ہے اور بہت کم قلمکار اس فن میں اپنی مہارت اور تخلیقی صلاحیت کا لوہا لے سکتے ہیں۔ ۔۔ ساجد۱۵  برسوں سے مسلسل لکھ رہے ہیں مگر ابھی تک وہ افسانہ نگاری میں اپنی علیحدہ پہچان نہیں بناسکے۔ یوں علاقائی سطح پر خاصے مشہور بھی ہیں اور معروف بھی۔‘‘ (ص۳۲)

 ایم آئی ساجدکے بعد ودربھ میں شیخ رحمن آکولوی اس لحاظ سے دوسرے منی افسانہ نگار قرار پائے ہیں کہ ان کے منی افسانوں کا مجموعہ ’’عکس شعور‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ شیخ رحمن آکولوی نے اپنے ماحول کی کامیاب تصویر کشی کی ہیں۔  بقول عبدالرحیم نشتر شیخ رحمن نے چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے وسیلے سے اپنے ارد گرد بکھری زندگی کے ان ہموار پہاڑوں کی نشاندہی کی ہے جن پر نگاہ ظاہر بیں کی دسترس نہیں ہو پاتی۔ ان کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جدت کے باوجود ان کے یہاں سماجی معنویت کی واضح جھلکیاں ملتی ہیں۔  ’عکس شعور، میں ان کے ۲۷ منی افسانے شامل ہیں۔  ان منی افسانوں پر ممتاز مشاہیر اہل قلم نے اپنے تاثرات بیان کئے ہیں جو کتاب میں ’’مشاہیر کی نظر میں ‘‘ کے عنوان سے بعد میں شامل کئے گئے ہیں۔  ان میں کوثر چاند پوری ، جوگندر پال ، رام لعل ، قمر رئیس ، ڈاکٹر مظفر حنفی اور ڈاکٹر محبوب راہی قابل ذکر ہیں۔ ’’عکس شعور‘‘ پر جوگندر پال لکھتے ہیں :

 ’’عکس شعور کی منی کہانیاں دلچسپ اور متنوع ہیں اور عصری زندگی کے مسائل کے تعلق سے مصنف کے دردمند احساس و شعور کی حامل شیخ رحمن صاحب کے شوق و ریاض کو دیکھتے ہوئے امید بندھتی ہے کہ وہ انگلی سے پربت اٹھا لینے کے اس فن پر پوری طرح حاوی ہو کر ہی دم لیں گے۔‘‘

 ڈاکٹر قمر رئیس کی رائے میں :

 ’’آپ کی منی کہانیاں میں نے پڑھیں ، اصلی نقلی ، سمجھوتہ ، آئینہ اور پرموشن وغیرہ کہانیاں مجھے پسند آئیں۔  ان میں افسانوی کیفیت بھی ہے اور معنویت بھی۔ کہانی کہنے کا ہنر آپ کو آتا ہے۔‘‘

 اور مظفر حنفی رقمطراز ہیں :

 ’’شیخ رحمن صاحب نے چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے وسیلے سے اپنے ارد گرد بکھری ہوئی زندگی کے ان ہموار پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے جن تک نگاہِ ظاہر سب کی دسترس نہیں ہو پاتی۔ بڑی بات یہ ہے کہ جدت کے باوجود ان کے ہاں سماجی معنویت کی واضح جھلکیاں ملتی ہیں۔ ‘‘

 ڈاکٹر محبوب راہی لکھتے ہیں :

 ’’منی افسانوں کے خالقین میں جو نئے فنکار اس دقت طلب اور جان لیوا صنف کے ساتھ پورا پورا انصاف برتنے کی وجہ سے منفرد نمایاں اور قد آور نظر ہیں ان میں شیخ رحمن صاحب آکولوی بلا مبالغہ سرفہرست ہیں۔

 عکس شعور کے آئینے میں ان کے شعور کے تیکھے خد و خال ، دلکش دل آویز اور جاذب نظر ہیں۔ ‘‘

 ڈاکٹر شیخ رحمن آکولوی نے جس اہتمام سے اپنے اس مجموعے کو شائع کیا جو ان کی پہلی ہی کتاب تھی اور جس کی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی اور مشاہیر اہل قلم نے اپنی گرانقدر آراء پیش کی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے بعد شیخ رحمن نے اپنے قلم کا رخ طنزو مزاح کی طرف موڑ دیا اور اس صنف میں ان کی تین کتابیں شائع ہو کر مقبول ہوئیں اور پھر انھوں منی افسانے کی طرف وہ توجہ نہیں دی جس کا یہ فن متقاضی تھا۔ دراصل آٹھویں دہائی میں نئی نسل میں منی افسانوں کی جو لہر اٹھی تھی اسی بہاؤ میں شیخ رحمن آکولوی بھی آ گئے۔ کئی منی افسانے لکھے اور اخبارات میں خوب چھپے اور اسی بہاؤ کی رو میں مجموعہ بھی شائع کر دیا لیکن بعد میں منی افسانے کی طرف سے ان کی توجہ کم ہو گئی جو وقت کے ساتھ معدوم ہوتی گئی ، اسی طرح منی افسانے کی فنی صلاحیتوں کا حامل قلمکار اس صنف سے دور ہوتا گیا۔ اس سبب منی افسانے کی صنف کو خاصا نقصان پہنچا۔ غرض شیخ رحمن منی افسانے کی دنیا کا ایسا نام ہے جس نے بڑی تیزی سے اس صنف میں مقبولیت اور شہرت حاصل کی لیکن اپنی اس مقبولیت کو سنبھال کر نہیں رکھ سکے۔ بعد میں انھوں نے نہ منی افسانے لکھے اور نہ ہی اس صنف کو آگے بڑھانے میں نمایاں رول ادا کیا۔نمونہ کے طور پر ان کے مجموعہ ’’عکس شعور‘‘ سے ایک افسانچہ دیکھئے:

 سمجھوتہ

 ان کی شادی ہوئے دوبرس بیت گئے تھے۔ وہ بات بات میں ایک دوسرے سے الجھ پڑتے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے جھگڑوں کی بنیاد خیالی ٹکراؤ ہے۔ اس ضمن میں وہ دونوں خاموش تھے۔

 آخر کار ایک دن روزانہ کے جھگڑوں سے تنگ آ کر انھوں نے ایک سمجھوتہ کر لیا۔ قانون اور سماج نے اس سمجھوتے کو طلاق کا نام دیا۔ اب وہ دونوں پرسکون زندگی گذار رہے ہیں ….

 مرد نے اپنی معشوقہ سے اور عورت نے اپنے عاشق سے شادی کر لی ہے۔ (ص۲۶)

 شیخ رحمن آکولوی کے بعد طفیل سیماب کا نام آتا ہے۔ ان کے منی افسانوں کا مجموعہ ’’لمحوں کی حرکت‘‘ ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا۔ جس میں ۲۶ افسانے شامل ہیں۔  کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر منشاءافسانہ نگار کے تعلق سے ان الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں :

 ’’طفیل سیماب نے ’’حسن افسانہ اختصار میں ہے‘‘ کو اپنا طرہ امتیاز بنا کر مختصر ترین افسانہ نگاری کی روش کو اپنایا اور گذشتہ چھ سال کے مختصر عرصہ میں ملک کے کئی اخبارات و رسائل میں اپنی تخلیقات پیش کر کے اپنی فنکاری کا سکہ بھی لوگوں کے دلوں پر بٹھا دیا۔‘‘ (ص۵)

 موضوعات کے تعلق سے وہ آگے لکھتے ہیں :

 ’’اس پیش نظر مجموعہ لمحوں کی حرکت میں مختلف موضوعات پر مبنی ۲۶ افسانے ملتے ہیں۔  ان میں لمحوں کی حرکت اور فسانہ ہوا ، دائرہ زندگی ، کفن چور ، موت کا جشن ، جعلی نوٹ کا انتقام ، کنارا ، ایسے افسانے ہیں جو جدید لب و لہجہ میں نفسیات انسانی کی جدید تفسیریں پیش کی گئی ہیں۔ ‘‘(ص۶)

 اس مجموعہ پر سلمی صدیقی اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں :

 ’’لمحوں کی حرکت‘‘ طفیل سیماب کے افسانوں بلکہ مختصر ترین افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ان افسانوں میں ادبی رنگ بھی ہے اور تجرباتی آمیزش تھی۔ تمام کہانیاں زندگی کے کسی ایک لمحہ کسی ایک واقعہ یا کسی ایک احساس پر مبنی ہے۔ افسانہ نگار نے کم سے کم وقت اور کم سے کم الفاظ میں کائنات کے درد کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی ہے۔‘‘(ص۸)

 اس مجموعہ میں انجم رومانی اور ڈاکٹر ایم آئی ساجد کے تاثرات بھی شامل ہیں۔  طفیل سیماب نے ۱۹۸۴ء میں منی افسانہ منی کہانی پر ایک بحث کا آغاز کیا اور اخبارات میں ان کے منی افسانے بھی خوب شائع ہوئے لیکن شاید بعد میں ان کا جوش کم ہو گیا۔ تقریباً ۱۲ سال بعد ان کے مختصر ترین افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’نیم کے پتے‘‘ شائع ہوا۔  لیکن اس عرصہ میں انھوں نے اس صنف میں اپنا کوئی مقام نہیں بنایا اور نہ ہی اس صنف کو سنجیدگی سے برت کر کوئی فائدہ پہنچایا۔ فساد کے موضوع پران کا ایک منی افسانہ دیکھئے عنوان ہے ’اعتماد‘۔

 ’’تمام شہر میں چراغاں کیا گیا تھا۔ کسی اہم مذہبی تہوار کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں لیکن نہ جانے کیوں فکرمند اور خوفزدہ تھے۔

 نوجوانوں کے سینوں میں خوف کی لہر کے ساتھ ایثار و قربانی کے ملے جلے جذبات انگڑائیاں لے رہے تھے۔ عورتیں اور بچے کسی سفر کی تیاری میں مصروف تھے۔ بوڑھی اور کمزور آنکھیں حسرت سے اپنے نوجوان بیٹوں کو تک رہی تھیں۔

 آہستہ آہستہ شہریوں کی تعداد کم ہوتی گئی اور ہر سمت خاکی وردیاں نظر آنے لگیں۔  شہر میں موجود لوگ سہم جاتے۔ ان وردیوں کو دیکھ کر جو اپنا اعتماد کھو چکی ہیں۔  (لمحوں کی حرکت۔ص۲۹)

 طفیل سیماب کے ہم عصروں میں کئی نئے لکھنے والے شامل تھے جنھوں نے بڑی تعداد میں منی افسانے لکھے جو زیادہ تر اخبارات کے ادبی صفحوں کی زینت بنے لیکن ان میں ایک نمایاں نواب رونق جمال کا ہے جن کا مجموعہ ’’قتل کا موسم‘‘ اگست ۱۹۸۴ء میں امراؤتی سے شائع ہوا۔ اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر منشاء نے لکھا ہے وہ نواب رونق جمال کے موضوعات کے بارے میں یوں لکھتے ہیں :

 ’’موضوعات کی رنگا رنگی کے باعث ان کے افسانوں کے مجموعے ’’قتل کاموسم‘‘ میں بھی خوبصورت اور شفاف دھنک سی رنگا رنگ پیدا ہو گئی ہے۔ اس مجموعے کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع اور مختلف الجہت ہے۔ ان کے شامل شدہ افسانوں میں طنز کی تیز چٹکیاں اور بیان کی شیرینی عجیب سا مزا دے جاتی ہے۔ تحریر کی بے ساختگی اور دلچسپ انداز بیان کی وجہ سے قارئین کسی قسم کی ذہنی الجھن کا شکار نہیں ہو پاتے۔ (ص۹)

 اس مجموعہ میں ڈاکٹر منشاء کے علاوہ جوگندر پال اور نذیر فتح پوری کے تاثرات کے ساتھ طفیل سیماب کے اپنے ہم عصر قلمکار کی تعارفی تحریر بھی شامل ہے۔ زیر نظر مجموعہ۶۰ منی افسانوی پر مشتمل ہے جن میں تعریف ، قیامت ، منزل ، وہ ، دشمن اور ٹائٹل کہانی قتل کا موسم متاثر کرتے ہیں۔  دیگر منی افسانے بھی اچھے ہیں لیکن ان منی افسانوں میں طنز کی کاٹ بڑی زبردست ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر کے جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔نمونے کے طور پر دو منی افسانے دیکھئے:

 تعریف

 ’’ارے بھائی۔  یہ تو دنیا کا اصول ہے۔  تم اچھے آدمی کی تعریف کی بات کر رہے ہو۔ یہ دنیا تو نہایت ہی بدکردار ، بد اخلاق ، نالائق آدمی کی بھی اتنی ہی تعریف کرتی ہے۔ معمولی سے معمولی آدمی کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھا دیتی ہے۔ دوسری تو دوست دشمن بھی تعریف کرنے لگتے ہیں۔  اگر یقین نہ ہو تو۔ ۔۔ مر کر دیکھ لو۔ ۔۔!‘‘ص۲۲

 ٹوہ

 بوڑھا ضعیف باپ اس فکر میں تھا کہ جوان بیروزگار بیٹا برسرروزگار ہوں گے تو وہ اس کی جانب سے مطمئن ہو کر زندگی کی بقیہ سانس سکون سے پوری کر لے گا اور۔ ۔۔ بیٹا اس ٹوہ میں تھا کہ باپ جلد سے جلد دنیا سے پردہ کرے تو وہ بے لگام ہو کر باپ کی دولت کے سہارے دنیا کے تمام عیش کرسکے۔ ص۷۵

 رونق جمال نے بقول خود ان کے تقریباً ۵۰۰کہانیاں ۷۸ءسے ۸۴ء کے درمیانی عرصے میں لکھی ہیں۔  ۲۰۰ سے زائد مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہو چکی ہیں لیکن یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ مجموعے کی اشاعت کے بعد انھوں نے نہیں کے برابر لکھا۔ حالانکہ مجموعہ کی ادبی حلقے میں اچھی خاصی پذیرائی ہوئی۔ دراصل ۸۰ ء کے بعد منی افسانے کی جو لہر اٹھی تھی اس میں نئے لکھنے والوں کی بڑی تعداداس کی زد میں آ گئی اور جب لہر کا زور کم ہو گیا تو ان لکھنے والوں کا جوش بھی کم ہو گیا۔ اسی ایک چیز نے منی افسانہ افسانچہ کو مقبولیت تو عطا کی لیکن نقصان زیادہ پہنچایا۔ مذکورہ چاروں صاحب کتاب منی افسانہ نگاروں میں نواب رونق جمال میں کچھ زیادہ امکانات تھے جن کے ہاں منی افسانہ افسانچہ کے فن کو برتنے کی مہارت اور موضوعات کا تنوع بھی ملتا ہے۔ اسی لئے جوگندر پال نے نواب رونق جمال کے بارے میں لکھا تھا :

 ’’میں نے نواب رونق جمال کے یہ افسانچے نہایت دلچسپی سے پڑھے ہیں اور مذکورہ تناسب پران کے حاوی ہونے کی صلاحیت کے باعث ان کی ان چھوٹی چھوٹی چھلانگوں میں اکثر اوقات مجھے ایک لمبی جست کا احساس ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کے لگاتار ریاض اور انہماک کی بدولت اردو افسانے کی پر گوئی کی روایت کو تقویت پہنچے گی۔‘‘ (قتل کا موسم۔ ص۵)

 لیکن بعد میں نواب رونق جمال نے جوگندر پال کی امید پر پوری طرح اترنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اردو افسانے کی پر گوئی کی روایت کو تقویت پہنچائی۔ یعنی آگے جس ریاض اور لگن کے ساتھ لکھنا چاہئے وہ تسلسل برقرار نہیں رکھ سکے۔  بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مناسب ہو گا کہ انھوں نے ایک عرصہ تک کچھ نہیں لکھا۔ بقول عبدالرحیم نشتر:

 ’’ودربھ میں اردو افسانہ زیادہ تر منی افسانہ نگاری کی طرف مائل ہے اور ایک حد تک کامیاب بھی بلکہ اس کے روشن ہونے اور فروغ پانے کے مزید قوی امکانات ہیں۔ ‘‘ (ص۳۴)

 اس امید کے باوجود انھیں اس بات کا بھی احساس ہے وہ لکھتے ہیں :

 ’’آج کل اخبارات و رسائل میں منی افسانوں پر نئے نئے نام نظر آرہے ہیں۔  نوآموز اور نوواردافسانہ نگاروں نے منی افسانے کو آسان کام سمجھ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں منی افسانوں میں بہت کم تحریریں ایسی مل پاتی ہیں جنھیں فن پارہ کہا جائے۔‘‘ (ص۳۱۔۳۲)

 عبدالرحیم نشتر کا یہ بیان، ودربھ کے ان منی افسانہ نگاروں پر صادق نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لکھنے والوں میں کچھ نام ایسے بھی ملتے ہیں جنھوں نے اپنی پہچان بنائی۔ اب یہ بھی اتفاق ہے کہ وہ نام ہیں جن کے مجموعے شائع نہیں ہوئے لیکن وہ منی افسانے کے باب میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔  ان میں محمد طارق ، م۔ناگ اور ایس ایس علی کے نام بلا تردد لئے جاسکتے ہیں۔  اور ۷۷ سے ۸۷ء کے دس سال کے طویل عرصے میں یہ چار مجموعے شائع ہوئے جو آج منی افسانے کے ارتقاء میں حوالے کے طور پر تو پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن ان کے خالق منی افسانہ نگار کے طور پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کی مجموعی وجہ اس فن کے تئیں سنجیدگی کی کمی اور لگاتار ریاضت اور تواتر کے ساتھ انہماک کی عدم موجودگی رہی ہے۔ بہرکیف منی افسانے کی فضا کو سازگار بنانے اور اس رجحان کو قارئین میں عام کرنے میں ودربھ کی نئی نسل میں ان لکھنے والوں نے ضرور اپنا حصہ بنایا ہے اور اس کار میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ اس طرح ۷۸ءسے                     ۸۴ء کے درمیان ودربھ کے علاقے سے یکے بعد دیگرے منی افسانوں کے چار مجموعے منظر عام پر آئے۔ ممبئی کے روزنامہ ’اردو ٹائمز، میں منی افسانہ موضوع بحث رہا۔ منی افسانہ لکھنے والوں نے موافقت میں لکھا اور اس کے خلاف رہنے والوں نے مخالفت میں۔  بالآخر یہ بحث شخصی نوعیت کی ہو کر ختم ہو گئی۔ نتیجے کے رد عمل کے طور پر نئی نسل نے بڑی تعداد میں منی افسانے افسانچے لکھ کر خوب اخبارات میں چھپوائے اور مجموعوں کی اشاعتوں سے منی افسانے کے بڑھتے رجحان کو اور بھی تقویت ملی لیکن ۸۵ء کے بعد یہ رفتار کسی قدر دھیمی پڑنے لگی۔ یہ بھی محض ایک اتفاق ہے کہ ودربھ میں منی افسانوں کی اشاعتوں میں وقتی طور پر تعطل آیا لیکن اسی دوران مرہٹواڑہ کے علاقے میں منی افسانوں کے مجموعوں کی اشاعتوں کی رفتار میں اضافہ ہوا۔ چونکہ یہاں ۶۵ءسے جوگندر پال کی آمد کے سبب منی افسانوں کی فضاء ہموار ہوئی تھی اور نوجوان قلمکار بڑی تندہی سے اس نئی صنف میں طبع آزمائی کر رہے تھے۔ جوگندر پال جیسے سینئر افسانہ نگار کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کے نتیجے میں افسانچے لکھنے کا رجحان عام ہو رہا تھا۔ مرہٹواڑہ کی نئی نسل بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ انھوں نے بھی بڑی تعداد میں افسانے افسانچے لکھے اور اخبارات و رسائل میں بھی کثرت سے چھپنے لگے۔ البتہ مجموعہ کسی کا بھی شائع نہیں ہوا تھا ۱۹۷۵ء میں جوگندر پال کا منی افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’سلوٹیں ‘‘ اورنگ آباد کے دوران قیام شائع ہو کر مقبول عام ہوا۔ اور اس کے بعد جیسے مجموعوں کی اشاعتوں کا راستہ ہموار ہوتا گیا۔ جنوری ۱۹۸۷ء میں عارف خورشید کے افسانچوں کا پہلا مجموعہ ’’یادوں کے سائباں ‘‘ شائع ہوا۔ جو نئی نسل میں افسانچوں کا مرہٹواڑہ سے پہلا مجموعہ تھا۔ اسی سال اکتوبر میں عظیم راہی کے منی افسانوں کا انتخاب ’’پھول کے آنسو‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ جس کا مقدمہ ڈاکٹر عصمت جاوید نے لکھا تھا۔ اور فلیپ پر جوگندر پال نے۔  ادبی حلقے میں اچھی خاصی بحث کا موضوع بن کر ان دونوں مجموعوں نے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اور اسی دوران عارف خورشید نے افسانچوں کا ایک مشترکہ مجموعہ ’’آنکھوں زبان‘‘ کے نام سے شائع کیا جس میں ایک ان سے قدرے سینئر اقبال بلگرامی اور دوسرے ان سے ذرا جونیئر مقصود ندیم کو شامل کیا ان تینوں کے ۲۵،۲۵افسانچے انتخاب کی صورت میں شامل ہیں۔  اقبال بلگرامی مرحوم اورنگ آباد کے ایک سینئر قلم کار تھے انھوں افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی لکھے، طنزیہ ، مزاحیہ اور تنقیدی و تحقیقی مضامین بھی۔ ان کے ایسے ہی مضامین کا مجموعہ ’’زاویے‘‘ کے نام سے مرہٹواڑہ یونیورسٹی کے مالی تعاون سے شائع ہوا تھا لیکن افسانچوں کا مجموعہ ’’آب جو‘‘ کے نام سے انھوں نے ترتیب دیا تھا جو ان کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکا۔  بعد میں ان کی اہلیہ محترمہ صفیہ بلگرامی نے اس مشترکہ مجموعہ کے توسط سے شائع کروایا جسے راقم الحروف نے مرتب کیا تھا۔ اس مجموعہ سے ان کا ایک افسانچہ ملاحظہ کیجئے:

 ایمان کی حرارت

 مسجد کے نیچے ہوٹل میں گراموفون بہت زور سے بج رہا تھا۔

 ’’سجدے میں گردن کٹا لی‘‘….

 لوگ بیڑی سگریٹ اور چائے کی چسکیوں میں مست جھوم رہے تھے۔

 ہوٹل کے اوپر مسجد میں مؤذن اذان دے رہا تھا۔

 …. اور حوض پر تنہا پیش امام صاحب وضو فرما رہے تھے۔(ص ۶۲)

 اسی مجموعہ سے ایک اور افسانچہ نگار مقصود ندیم کا افسانچہ ملاحظہ کریں :

 ٹی وی

 ’’تمھارے گھر میں …….. مناسب نہیں ……..

 کسی ہوٹل میں کمرہ بک کروا لیں گے۔ اگر تمھارے شوہر آ گئے تو گھر کی عزت خاک میں مل جائے گی‘‘۔

 ’’ان کا خیال ہے کہ گھر کی عزت ٹی وی، ایر کنڈیشن، فرنیچر وغیرہ سے ہے جو میں خرید کر لایا کرتی ہوں ‘‘۔ (ص۴۱)

 اس طرح علاقہ مرہٹواڑہ میں بھی افسانچے کو فروغ حاصل ہوا۔ اس کا نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوا کہ مرہٹواڑہ میں مجموعوں کی اشاعتوں کے ساتھ ساتھ افسانچہ نمبر بھی مختلف اخبارات اور رسائل نے شائع کئے جو اس وقت میں اس رجحان کے بڑھاوا کی نشاندہی کرتے ہیں۔  جن میں روزنامہ ’آج، ، ’مفسر، کا افسانچہ نمبر اور ہفتہ روزہ ’تاریخ‘ (ناندیڑ) کا مرہٹواڑہ منی کہانی نمبر قابل ذکر ہیں۔

 عارف خورشید ایک ہمہ جہت فنکار ہیں وہ بیک وقت شاعر ، افسانہ نگار اور افسانچہ نگار ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ افسانہ کے آدمی ہیں۔  ان کے افسانوں کے تین مجموعے بالترتیب ’’سنہری رت کا فریب ، احساس کا زخمی مجسمہ، اور ’قافلہ والو سچ کہنا‘‘ شائع ہو کر مقبول ہوئے۔ افسانوں کے ساتھ ہی انھوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے ہیں۔  مرہٹواڑہ کے وہ واحد افسانہ نگار ہیں جو کتابوں کی اشاعتی تعداد کے علاوہ افسانچہ نگار کے لحاظ سے بھی ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔  اس صنف میں بھی ان کے ۴ مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ایک مشترکہ مجموعہ ’’آنکھوں کی زبان‘‘ (۸۷ء) شامل ہے۔ پہلے تین مجموعے ’’یادوں کے سائے‘‘ ۷۸ء’ آتش لمحوں میں‘ (۹۸ء) اور ۲۰۰۰ء میں ’’اور کچھ بھی نہیں کہانی میں ‘‘ منظر عام پر آ کر مقبول ہوئے۔ ان کے افسانچوں میں اختصار بھی ہے اور جامعیت بھی۔ ان کے موضوعات بڑے متنوع ہیں۔  زندگی کے تمام تر مسائل موضوعات بن کران میں در آئے ہیں۔  ان کے قلم نے کہیں طنز کے گہرے نشتر لگائے ہیں تو کہیں لطیف پیرائے میں زندگی کی سچائیوں کو کم سے کم لفظوں میں پیش کر دیا ہے کہ پڑھنے والا چونکے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان کا ایک افسانچہ دیکھئے :

 ’’سوالیہ نشان‘‘

 ’’جنت میں غلطی کی سزا۔  دنیا۔

 دنیا میں غلطی کی سزا۔ ۔؟ شوہر دوبئی میں خودہندوستان میں ،

 دونوں اپنی اپنی آگ میں ‘‘ (آتشیں لمحوں میں : ص۔  ۵۳ )

 افسانچہ کے فن کو انھوں نے اعتبار بخشا ہے اور اسے قبولیت کا درجہ دلانے میں ان کا اہم رول رہا ہے ان کے پاس بہت امکانات ہیں ان کے مجموعہ ’’آتشیں لمحوں میں ‘‘ کے پیش لفظ میں جوگندر پال لکھتے ہیں :

 ’’بڑی مسرت کا مقام ہے کہ اورنگ آباد کے نئے لکھنے والے نہایت دلجمعی سے افسانچے کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور ان کے افسانچے جہاں واقعی کارگر ہوتے ہیں وہاں ان کی فراوانی اور اثرپذیری سے انکار ممکن نہیں۔

 مثلاً عارف خورشید کا یہ افسانچہ پڑھئے:

 ’’وہ خود اپنے ہاتھوں کی چوڑیاں کیوں توڑ رہی ہے؟

 کلائی دبا کر چوڑیاں توڑنے والا ہاتھ باقی نہیں رہا۔۔۔!‘‘

 آگے لکھتے ہیں :

 ’’الفاظ دراصل بذات خود بے ضمیر ہوتے ہیں اور لکھنے والے کو اپنے اظہار پر عبور نہ ہو تو وہ خود ہی اپنی نفی کرنے لگتے ہیں۔  اسی لئے افسانچوں کے اختصار کو تاثر کی طویل ترین کیفیات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔مندرجہ بالا دو سطری کہانی اسی طرح ہمارے تلازموں سے جڑ کر ذہن میں اتنی طویل ہوتی جاتی ہے جتنی ہماری عمر بھر کی واردات۔ ۔۔ ‘‘ ص۷

 ’’آتشیں لمحوں میں ‘‘ میں ۸۲ افسانچے شامل ہیں۔  اس مجموعہ سے ایک افسانچہ ملاحظہ کیجئے:

 بازگشت : آخری گاہک بھی چلا گیا تو اس نے سوچا۔۔۔

 شوہر کے ساتھ ایک بار ستی ہو جاتی تو اچھا تھا۔ ۔۔!ص۹

 پہلے مجموعے ’’یادوں کے سائباں ‘‘ میں۱۲۰ صفحات پر ۱۰۲ افسانچے شامل ہیں۔  جس کا پیش لفظ ’بڑی بات‘ کے عنوان سے ممتاز افسانہ نگار نورالحسنین نے لکھا ہے۔ ان کے افسانچوں کی تعریف وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :

 ’’عارف خورشید کے افسانچے فلسفیانہ اور ناصحانہ انداز سے پاک ہیں۔  ان کے پاس خواہ مخواہ کی خود کلامی بھی نہیں ہے۔ مذہبی ملا ہو یا مشرق وسطی میں روزگار کی خاطر بکھرے ہوئے افراد یا گھر کی چار دیواری میں مقید سانسیں ، انھوں نے جس پر بھی قلم اٹھایا پوری بے باکی اور دیانت داری سے کاغذ پر منتقل کیا اور ایسا تاثر قائم کیا کہ دل و دماغ ایک جھٹکا سا محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘‘ (ص۱۰)

 عارف خورشید نے مرد اور عورت کے رشتے اور جنسی بے راہ روی کو بھی اپنا خاص موضوع بنایا ہے۔ ایم مبین اسی سبب انھیں منفی کرداروں اور رجحانات کا افسانہ نگار بتاتے ہیں اور کہتے ہیں عارف عورت کی طرف صرف ایک نظریے سے دیکھتے ہیں اور وہ صرف جنس کا نظریہ ، ان کو عورت میں اس کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا اس لیے ان کے بیشتر افسانچوں میں عورت اور جنسیات کے موضوع کو بڑی بیباکی سے ابھارا گیا ہے۔جب کہ نورالحسنین موضوع کی سطح پر ان کے اس رجحان کو ان کی انفرادیت قرار دیتے ہیں اور اسے تیسری سچائی سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 ’’ان کے پاس تیسرا مرد تیسری عورت بلکہ تیسری سچائی اور جرا ¿ت کے ساتھ سامنے آئی ہے کہ جس کا سامنا رات کا اندھیارا تو کیا دن کا اجالا بھی نہیں کرسکتا۔ یہی بینائی انھیں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔‘‘ (ص۱۰)

 مشترکہ مجموعہ ’’آنکھوں کی زبان‘‘ میں ان کے ۲۵ افسانچے شامل ہیں۔  پیش لفظ عظیم راہی نے لکھا ہے۔ عارف خورشید کے پاس موضوعات کی کمی نہیں وہ چھوٹی سی بات کو بھی اپنے افسانچے کا موضوع بنا لیتے ہیں۔  وہ راست ماحول سے کہانی کا مواد حاصل کرتے ہیں۔  اس لئے جہاں ان کی کہانیاں زندگی سے قریب ہوتی ہیں وہیں اپنی ذات کا روپ بن کر آئینہ بن جاتی ہیں۔  پل پل مٹتی قدریں ، نسلی تفاوت ، سماجی منافقت ، ریاکاری ، مصلحت پسندی ، استحصال ، فراریت ، حالات کی ستم ظریفی اور ایسے سارے مسائل جن سے آج کا انسان دوچار ہے۔ عارف خورشید کا اپنا احساس بن کر تخلیق پاتے ہیں تو جیتی جاگتی زندگی بن جاتے ہیں وہ زندگی جہاں آدمی جینے کے لئے سمجھوتے کرتا ہے تو کبھی ان ہی سمجھوتوں کے خلاف آواز بھی اٹھاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو پوری سچائی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

 ’’اور کچھ بھی نہیں کہانی میں ‘‘ ان کے افسانچوں کا چوتھا مجموعہ ہے جو ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا ہے۔ اس مجموعہ میں ۸۵ افسانچے شامل ہیں۔

 عارف خورشید کے پاس مرد اور عورت کے مابین رشتوں پر بہت سارے افسانچے ملتے ہیں۔  ایک ہی موضوع پر اتنی ساری تخلیقات جہاں ان کے کمال کو ظاہر کرتی ہیں وہیں موضوع کی یکسانیت قارئین پر گراں گزرتی ہے۔ لیکن قمر اقبال اس یکسانیت کو عیب نہیں خوبی گردانتے ہیں۔  اس سلسلے میں ان کی رائے بڑی اہم ہے وہ ’’یادوں کے سائباں ‘‘ پر تبصرے میں یوں بیان کرتے ہیں۔

 ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کتاب کی بیشتر کہانیوں میں موضوعاتی یکسانیت ہے اور ایک ہی موضوع کو بیشتر کہانیوں میں مختلف انداز سے برتنے سے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ کہانی کار خود اپنی بات سے مطمئن نہیں ہے۔ اصل میں ایسا نہیں ہے کیونکہ تخلیق کار کا مزاج پارہ صفت ہوتا ہے اور تخلیقی اضطراب ہی اس کے ارتقائی سفرکا ضامن ہے۔ لہذا عارف خورشید کی موضوعاتی یکسانیت بھی عیب کی بجائے خوبی بن کر سامنے آتی ہے کوئی بھی تخلیق کار جب تک بے چین ہے تب تک اس کا قلم اور ذہن متحرک ہے جیسا کہ دل کا دھڑکنا زندگی کی علامت ہے۔‘‘ (سہ ماہی توازن۔ مالیگاؤں ، شمارہ نمبر ۳۷۔۳۶۔ ص۲۸۔ مئی تا دسمبر ۲۰۰۱ء)

 افسانچہ کے اسلوب میں ڈرامائی کیفیت کو اکثر ناقدین نے لازمی قرار دیا ہے اور ایک افسانچے کی تعریف میں اس کیفیت کے ساتھ کو بڑی اہمیت دی ہے۔ ظفر ہاشمی بھی Impact یعنی تاثر کو لازمی سمجھتے ہیں۔  اس مجموعے میں شامل عارف خورشید کے بیشتر افسانچوں میں امپیکٹ بہت گہرا نظر آتا ہے۔ اس اعتبار سے عارف خورشید کو ایک کامیاب افسانچہ نگار کہتے ہیں۔  وہ لکھتے ہیں :

 ’’افسانچہ چند سطور پر مبنی ہوتا ہے اور اس کا اختتام قاری کے ذہن کو ایک خوشگوار جھٹکا دیتا ہے۔ آخری جملہ میں افسانچہ نگار کسی اہم سماجی معاشی یا تہذیبی مسئلہ پر ضرب لگاتا ہے اور یہی آخری جملہ پوری تحریر کا حاصل ہوتا ہے۔ جسے پڑھ کر قاری محظوظ ہوتا ہے۔ مسکراتا ہے غمزدہ ہوتا ہے یا سنجیدگی سے سوچنے پرمجبور ہو جاتا ہے۔ افسانچے کی کامیابی اسی امپیکٹ پر منحصر ہوتی ہے۔ اس مجموعہ میں شامل عارف خورشید کے بیشتر افسانچوں میں یہ امیپکٹ بہت گہرا ہے اور اسی لئے انھیں کامیاب افسانچہ نگار کہا جائے گا۔‘‘ (سہ ماہی توازن۔ مالیگاؤں ، شمارہ نمبر ۳۷۔۳۶۔ ص۳۰)

 عارف خورشید کے ہمعصروں میں م۔ناگ بھی ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے خود بھی بڑی تعداد میں افسانچے لکھے ہیں اور اس صنف پر مضامین بھی خوب لکھے ہیں۔  افسانچے کے اسلوب اور فن پر ان کی گہری نظر ہے۔ انھوں نے عارف خورشید کے چاروں مجموعوں پر بڑے سیر حاصل تبصرے کئے ہیں جو خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔  ان کے چوتھے مجموعے ’’اور کچھ بھی نہیں کہانی میں ‘‘ کے تبصرہ میں وہ لکھتے ہیں :

 ’’اور کچھ بھی نہیں کہانی میں ، وہ پوری خود اعتمادی کے ساتھ بڑے dashing انداز میں سامنے آتے ہیں۔  ان میں بہت سے افسانچے ایسے جنھیں اچھے اور نمائندہ افسانچے کہا جاسکتا ہے۔یہ نہ صرف ان کی فنی خصوصیت کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ افسانہ نگاری کی عمدہ مثالیں بھی بن جاتے ہیں۔  ان کے افسانچوں میں اتنا دم خم تو نظر آتا ہی ہے کہ انھیں ہندوستان کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں پورے اعتماد کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے اور کچھ بھی نہیں ، کہانی میں ’’بیت الخلاء، بے گناہ ، ورثاء کو ثواب ، بے شرم ، جھوٹی کہیں کی ، مفکرین اسلام ، حصار بندی ، جذبہ گناہ ‘‘ ہمیں متوجہ کرتے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً ص۶۸)

 ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید ان افسانچوں کے موضوعات کے بارے میں لکھتے ہیں :

 ’’عارف خورشید (اس مجموعہ میں شامل) اپنے زیادہ تر افسانچوں میں کامیاب ہیں۔  انھوں نے مذہبی رہنماؤں کی بے بصری ، ان کے کردار کی گراوٹ ، مذہب کے نام پر عوام کا استحصال ، اخلاقی بے راہ روی اور بگاڑ ، معاشرتی رغبت انتشار اور خلفشار اور زندگی کے کھوکھلے پن کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کے افسانچوں میں دلچسپی کا عنصر شامل ہے۔ لیکن انھوں نے محض دلچسپی کے لئے یہ افسانچے نہیں لکھے۔  پڑھنے کے بعد قاری سوچنے لگتا ہے کہ آیا ہمارے معاشرے میں ایسا بھی ہوتا ہے۔  ایسا ہونا چاہئے یہی افسانچوں اور افسانچہ نگار دونوں کی کامیابی کی دلیل ہے۔‘‘ (ایضاً ص۱۸)

 عارف خورشید کے بعد مرہٹواڑہ میں عظیم راہی کا نام افسانچہ نگار کے طور پر آتا ہے۔عظیم راہی کا تعارف ڈاکٹر محبوب راہی ان الفاظ میں کرتے ہیں :

 ’’عظیم راہی کی تخلیقی توانائیاں مختلف جہتوں میں برسرکار ہیں۔  ان کا تخلیقی سفر شعر و ادب کی کئی سمتوں میں جاری ہے۔ وہ ایک سلجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔  مروجہ اصناف نظم و نثر کے حسن و قبح پر خاصی نگاہ رکھتے ہیں۔  لہذا مختلف موضوعات پر ان کے تنقیدی تحقیقی اور تاثراتی مضامین آئے دن اخبارات ورسائل میں اشاعت پذیر ہوتے رہتے ہیں۔  تا حال اپنے دو افسانوی مجموعہ کے وسیلے سے ادبی حلقوں میں وہ اپنی شناخت مستحکم کروا چکے ہیں۔  ’پھول کے آنسو، ان کی اولین پیشکش ہیں جس میں ان کے منی افسانے شامل تھے۔ ادبی حلقوں میں اسے خاصی پذیرائی حاصل ہوئی اور ہر جانب اسے گلہائے داد وتحسین سے نوازا گیا۔ ان کی دوسری تصنیف ان کے طویل افسانوں کا مجموعہ ’اگلی صدی کے موڑ پر‘ سنجیدہ ادبی حلقوں اور ارباب نقد و نظر میں ان کے وقار و اعتبار سے استحکام کا موجب قرار پایا۔ اس کتاب پر ادبی رسائل میں درجنوں مثبت تبصرے شائع ہوئے۔ نیز مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادیمی نے اس کے لیے انھیں پہلا انعام کا مستحق قرار دیا‘‘۔ (تبصرہ درد کے درمیاں۔  مطبوعہ قرطاس ناگپور جولائی اگست ۲۰۰۳ء)

 عظیم راہی کا پہلا منی افسانوں کا مجموعہ ’’پھول کے آنسو‘‘ کے نام سے اکتوبر ۸۷ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کتاب کے مقدمہ میں ڈاکٹر عصمت جاوید ، عظیم راہی کے منی افسانوں میں تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 ’’منی افسانچہ مختصر افسانے کے مقابلے میں جداگانہ مہارت کا طالب ہوتا ہے۔ عظیم راہی اس کے ماہر نظرآتے ہیں۔ ‘‘(ص۱۶)

 آگے موضوعات کے متعلق وہ لکھتے ہیں :

 ’’ان کے منی افسانوں کا کینوس سماجی زندگی کے اکثر پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ ان افسانوں کے مختلف کردار ہیں۔  کوئی لیڈر ہے کوئی سوشل ورکر ، کوئی امیر ہے کوئی غریب ، کوئی بیوہ ہے کوئی طوائف ، کوئی وفادار محبوبہ ہے اور کوئی ایکٹریس۔  کوئی دولتمند جاہل ہے اور کوئی بے کار گریجویٹ۔‘‘ (ص۱۶)

 اور یہ امید ظاہر کرتے ہیں :

 ’’عظیم راہی کے اس مجموعہ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ منی افسانوں کا مستقبل آج کے اچھے منی افسانہ لکھنے والوں کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔‘‘(ص۱۵)

 ’’پھول کے آنسو‘‘ میں جملہ ۸۰منی افسانچے شامل ہیں۔  ہر منی افسانہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کرتا ہے۔  اپنے اطراف کے حالات کی عکاسی ملتی ہے۔ ٹوٹتی قدروں ، اور تہذیب کی پائمالی کا نوحہ اور مشینی زندگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے حسی ان کے منی افسانوں کے خاص موضوعات ہیں۔  ان منی افسانوں پر جوگندر پال نے پیش گوئی کرتے ہوئے یہ امید ظاہر کی ہے کہ :

 ’’اس کتاب کے بعض افسانچے اس امید کا جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیہم مطالعہ مشاہدہ اور شرکت سے افسانچہ کے فنی رموز سے بخوبی آشنا ہو کر اپنی مختصر تحریروں میں نہایت پرگو معلوم ہونے لگے گا۔‘‘(فلیپ کی تحریر سے ایک اقتباس)

 قاضی سلیم ’’پھول کے آنسو‘‘ کی ان لفظوں میں تعریف کرتے ہیں :

 دراصل ضمیر کو جھنجھوڑنے کا کام جدید ادیبوں نے شروع کیا تھا اب جدید ادیبوں نے اس سے زیادہ aggressive انداز اپنا لیا ہے۔ عظیم راہی کے منی افسانے ادب کا یہی فکشن پورا کرتے ہیں۔  تضادات کی نقاب کشائی اور آئینہ بھی دکھانے کا کام بڑی بے دردی سے کرتے ہیں۔ ‘‘(’’پھول کے آنسو‘‘ کے رسم اجراء کے موقع پر پڑھے گئے مضمون سے،جو بعد میں ماہنامہ اسباق، پونا کے سلور جبلی نمبر جولائی تا دسمبر ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ص۱۹۱)

 نثار اعظمی کے رائے میں :

 ’’فنی اور نظریاتی بحث کی قطع نظر ’’پھول کے آنسو‘‘ خاصے کی چیز ہے ، جن منی افسانوں کو توجہ اور دلچسپی سے پڑھا جائے گا ، ان کہانیوں میں بے شک فنکار کے عمیق مطالعہ اور گہرے مشاہدے کو دخل ہے اور اس کی پیشکش بری نہیں ، بلکہ اپنی کوشش میں وہ کامیاب ہے۔‘‘ (تبصرہ۔ ’’پھول کے آنسو‘‘ مطبوعہ معلم اردو، لکھنؤ،اپریل ۱۹۸۸ء)

 ’’پھول کے آنسو‘‘ کے بعد عظیم راہی کے افسانوں کا مجموعہ ’اگلی صدی کے موڑ پر‘‘ شائع ہو کر کافی مقبول ہوا اور اس کے بعد ان کے منی افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’درد کے درمیاں ‘‘ منظر عام پر آیا جو پہلے مجموعے کے تقریباً ۱۵ سال بعد شائع ہوا۔ اس دوران ان کے فن میں مزید نکھار آیا اور افسانچہ کے فنی رموز سے پوری واقفیت کا ثبوت دیا۔ اس مجموعہ پر کئی سیر حاصل تبصرے ہوئے اور ادبی حلقے میں خوب پذیرائی بھی ہوئی۔ اس مجموعے پر سلیم انصاری کے تبصرے ماہنامہ اسباق اور تکمیل میں شائع ہوئے۔ ایک جگہ وہ یوں لکھتے ہیں :

 ’’میرے نزدیک عظیم راہی انسانی ہمدردیوں کے تخلیق کار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں درد کے درمیان ایک لذت آگیں تخلیقی سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم بھی انھیں کہانیوں سے روز و شب گزر رہے ہیں اور نہ صرف گزر رہے ہیں بلکہ انھیں کہانیوں کا حصہ ہیں۔ ‘‘

 آگے وہ یوں لکھتے ہیں :

 عظیم راہی کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ احساس کی شدت ہے۔ اظہار کی بے ساختگی اور برجستگی ہے۔ اسلوب کا اچھوتا پن ہے۔ اور یہ تمام ایسی خوبیاں ہیں جو کسی تخلیق کار کو نئے تخلیقی موسموں اور منظروں سے ہمکنار کرتی ہیں۔  عظیم راہی ’’درد کے درمیاں ‘‘ کے منی افسانوں کو برتنے میں اس اعتبار سے کامیاب ٹھہرے ہیں کہ ان کے یہاں کہنے کو بہت کچھ ہے اور کہنے کے لیے اظہار کی سلیقہ مندی بھی ہے‘‘۔ (اسباق ’پونہ، مطبوعہ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۴ء)

 ڈاکٹر سید یحیٰ نشیط اس مجموعہ پران الفاظ میں اظہار خیال کرتے ہیں :

 ’’عظیم راہی اسی طرح اخلاص کے ساتھ دامن افسانچہ کو تھامے رہیں گے تو کل یقیناً اثر آفرینی میں ان کے منی افسانوں کو شبنم سے آتش پارے بننے میں دیر نہیں لگے گی۔‘‘ (عظیم راہی۔ بحیثیت افسانہ نگار، مطبوعہ ماہنامہ تکمیل، بھیونڈی، جنوری تا مارچ ۲۰۰۵ء)

 اس کتاب پر م۔ناگ ان الفاظ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 ’’چھوٹے چھوٹے افسانوں میں بڑی بات کہی جانے کا ہنر انھیں آتا ہے۔ افسانہ ختم ہونے کے بعد منی افسانوں میں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کہانی پن سے جگنو۔  جگہ جگہ ٹم  ٹم کر رہے۔ قول اور لطیفے کو انھوں نے منی افسانوں کا خام مواد نہیں بنایا۔ یہ ایک خو ش آئند قدم ہے۔ ’’درد کے درمیاں ‘‘ کی اشاعت سے شاید کہانی پن کے ساتھ افسانچوں کا دور پھر آ جائے۔‘‘ (تبصرہ۔ مطبوعہ روزنامہ تعمیر بیڑ۔ ۹۱ستمبر ۲۰۰۳ء)

 ممتاز افسانہ نگار نورالحسنین ’’درد کے درمیاں ‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔

 ’’میں عظیم راہی کا شمار ان فنکاروں میں کرتا ہوں۔  جن کا مشاہدہ بہت وسیع ہے۔ وہ معاشرے کے نکڑ سے کبھی آنکھ بند کر کے گزرنے کے قائل نہیں ہیں۔  انھیں جہاں بھی، جو بھی بات نظر آتی ہے اسے وہ کبھی افسانے کی صورت اور کبھی منی کہانی کے روپ میں کاغذ کی سطح پر محفوظ کر لیتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں زندگی کے ہر پہلو اور سماج کی ہر کروٹ کی نشاندہی کرتی ہیں۔  خصوصاً منی کہانیوں کے لمحوں میں سانس لینے والے انسان ہر قیمت پر انسان ہی نظر آتے ہیں۔  یہ انسان کبھی تو تنہائی کے کرب میں ڈوبے ہوئے ہیں ، کہیں ذمہ داریوں کے بوجھ سے لدے ہوئے ہیں ، کہیں فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہیں ، کہیں تجربوں کے شکار ہو رہے ہیں اور کہیں خود تجربہ کررہے ہیں۔  کہیں بے حسی ہے اور کہیں اس قدر ذی حس کہ ذراسی نا انصافی اور عدم توجہی برداشت نہیں کرسکتے۔ کہیں بے باکی ہے کہیں سفاکیت، بے مروتی، بے غیرتی اور مفاد پرستی کی انتہا ہے۔ غرض عظیم راہی کے کرداروں کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ٹوٹے پھوٹے مستحکم تعلیم یافتہ، ان پڑھ، جاہل، سچے جھوٹے مہذب، غیر مہذب انسانوں کی ایک ایسی تمثیل ہے جسے انھوں نے ایک حساس فنکار کی طرح اجنٹہ اور ایلورہ کے سنگتراشوں کے مانند اپنے قلم کی جنبش سے تخلیق کیا ہے اور زندگی کے تمام تر آباد لمحوں کو کاغذ کی سطح پر زندہ و جاوید کر دیا ہے‘‘۔ (ص۹)

 عظیم راہی اپنے مجموعے ’’درد کے درمیان ‘‘ میں ’’اپنی بات‘‘ کے تحت لکھے مضمون میں افسانچوں کے موضوعات کے متعلق لکھتے ہیں :

 ’’جہاں تک میرے لکھنے کا تعلق ہے میں نے ہمیشہ غمِ ذات کو غمِ کائنات کے حوالے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے اطراف کی زندگی میں بے حسی ، نفسا نفسی اقدار کی ٹوٹ پھوٹ ، رشتوں کی شکست و ریخت ، خود غرضی ، منافقت اور کرپشن کے پھیلے ماحول نے مجھے اختیار لکھنے پر مجبور کیا ہے اور یہی سبب میرے لکھنے کا ہمیشہ سے محرک رہا ے۔‘‘(اپنی بات۔ درد کے درمیاں۔ ص۱۴)

 ان موضوعات کے پس منظر ان کے دو منی افسانے ملاحظہ کیجئے:

 چلن

 وہ شخص جس نے میرے قتل کی سازش رچی تھی

 معجزاتی طور پر۔ ۔۔ میرے بچ جانے پر۔ ۔۔

 مبارکباد دینے والوں میں وہی سب سے آگے تھا۔ص۲۰

 دردِ مشترک

 دونوں دوست ایک عرصے کے بعد مل رہے تھے۔ مسرتوں کی سرشاری میں مدتوں سے نہ ملنے کی شکایتیں تھیں اور پھر سکھ دکھ کے ملے جلے اظہار کے ساتھ پرانی باتیں نکلیں۔  ماضی کے قصے تازہ ہوئے اور کچھ نئے تذکروں کے ساتھ خوش گپیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔  چائے کے دوران اچانک انھیں اپنے بچوں کا خیال آیا اور ان دونوں کے چہرے مایوس اور فکر مندی کے غبار میں جیسے اٹ گئے۔ پہلے نے بے حد فکرمند لہجے میں کہا۔

 ٹی وی دیکھ کر ہمارے بچے تو وقت سے پہلے ہی جوان ہوتے جا رہے ہیں۔

 اور ان کے پیچھے پڑ کر۔ ۔۔ ان کے لئے پریشان رہ کر ہم وقت سے پہلے بوڑھے۔۔۔

 دوسرے نے فورا کہا

 اور پھر وہ دونوں اپنے بالوں میں بڑھتی سفیدی اور چہرے پر پڑی جھریوں کے درمیان ایک دوسرے کو تلاش کرنے لگے۔ ص ۱۸

 ’’پھول کے آنسو‘‘ سے ایک منی افسانہ ’’زر مبادلہ‘‘ دیکھئے:

 تم تو بہت اصول پسند تھے اور وضعدار بھی۔ ۔۔

 لیکن آج جو تم نے کیا ہے یہ سب دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور افسوس بھی

 اس کے آفس کے ساتھی نے یوں کہا جیسے طنز کر رہا ہو۔۔۔

 ہاں ، میری اصول پسندی ہی تھی جو دیمک کی طرح چاٹتی رہی اور اندر ہی اندر مجھے کھوکھلا کرتی رہی۔

 اور وضعداری کی سچائیاں زہر بن کر قطرہ قطرہ میرے لہو میں اترتی گئیں اور پھر آخر میں کرتا بھی تو کیا ؟ وہ قدرے جذباتی ہو گیا

 ’ہاں ، میں نے اپنی جوان بیٹی کو اپنی آنکھوں کے سامنے ، بہت دور سمندروں کے اس پار بوڑھے شیخ کے ہاتھ شادی کے نام پر فروخت کر دیا ہے۔

 جذبات کی شدت سے اس کی آواز بھرا گئی۔ وہ ایک لمحے کے لئے رک گیا۔  پھر ایکدم رندھے ہوئے گلے سے بولا۔

 مگر صرف اس لئے کہ دوسری دو جوان بیٹیوں کو یہاں اپنے ملک میں بیاہ سکوں ! (ص ۱۰۴)

 عظیم راہی کے بعض افسانچوں میں نثری نظم کا گمان ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر سیدیحیٰ نشیط لکھتے ہیں :

 عظیم راہی کے بعض افسانچوں کے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر انھیں نظم کے پیرائے میں لکھ دیا جائے تو وہ منی افسانہ نظم کے طور پر قبول کر لیا جائے گا۔ بطور مثال انھوں نے منی افسانہ ’’اثر‘‘ کو نظم کے فارم میں پیش کر کے دکھایا ہے۔

 (عظیم راہی۔ بحیثیت افسانہ نگار، مطبوعہ ماہنامہ تکمیل، بھیونڈی، جنوری تا مارچ ۲۰۰۵ء)

 اسی بات کو ایم مبین بھی محسوس کرتے ہیں۔  وہ لکھتے ہیں :

 ’’کبھی کبھی عظیم راہی افسانچوں میں نثری نظموں کا تجربہ کرتے ہیں اور ان افسانچوں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کوئی منی افسانہ نہیں پڑھ رہے ہیں بلکہ کوئی نثری نظم پڑھ رہے ہیں۔  اس قسم کا ایک منی افسانہ ’’تنہائی کا درد‘‘ ہے۔ منی افسانہ عظیم راہی کے نثری نظم کی تکنک میں لکھا ہے ان کا یہ تجربہ کہاں تک درست ہے اور اس میں وہ کہاں تک کامیاب رہے۔ ادب کے تنقید نگار اگر اس پر سنجیدگی سے توجہ دیں تو شاید وہی اس کا فیصلہ کرسکیں ‘‘۔(ایم۔ مبین کے غیر مطبوعہ مضمون سے ایک اقتباس)

 محمد ابوذر اسی مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 ’’اس کتاب کو سبھی منی کہانیاں انسان کے ارد گرد بکھرے ہوئے مسائل اور زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو آشکار کرتی ہیں۔  اس کے علاوہ دور حاضر میں ٹوٹتی بکھرتی سماجی قدروں ، معاشرے میں ہونے والی سفاکی ، بے مروتی ، بے غیرتی اور مفاد پرستی جیسی برائیوں کے عکاس ہیں۔  مجموعے کے بیشتر منی افسانے پرکشش اور مؤثر ہیں۔  مختصر ہونے کے باوجود یہ منی کہانیاں قاری کے دل و دماغ پر ایک اچھا تاثر چھوڑ جاتی ہیں ‘‘۔ (ص۳۴۔۴۴۔ماہنامہ آجکل۔ نئی دہلی۔ اکتوبر ۲۰۰۴ء)

 ممتاز افسانہ نگار شراون کمار ورما ’’درد کے درمیاں ‘‘ پر اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں :

 ’’زندگی کی مصروفیت ، بھاگ دوڑ اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش اور حالات میں زبردست تبدیلی نے آدمی کی سوچ رویہ اور فکری انداز کو سرے سے ہی بدل دیا ہے۔ ادب زندگی سے الگ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مختصر افسانہ، غزل ہو یا منی افسانہ ہر صنف ادب زندگی سے متاثر ہو کر زندگی کی ہی بات کرتی ہے۔  تیزی سے بدلتی ہوئی سماجی اقدار نے قلم کا ر کو بھی متاثر کیا ہے۔ راہی کی یہ کہانیاں اسی تبدیلی اور مصروف زندگی کا آئینہ ہیں۔

 راہی کی یہ منی کہانیاں بھی قاری کی توجہ اور سمجھ بوجھ چاہتی ہیں۔  بدلتی ہوئی زندگی اور اس کی تیز رفتاری کے تقاضے الگ ہی ہوتے ہیں۔  آپ ان کہانیوں کو پڑھئے اور اپنے ذہن میں ان چھوٹی چھوٹی تصویروں کو انلارج کیجئے بات صاف ہوتی چلی جائے گی‘‘۔ (پرواز ادب۔ جولائی اگست ۲۰۰۴ء)

 بسمل عارفی نے ’’درد کے درمیاں ‘‘ کی کہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اور منی افسانوں کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

 ’’منی افسانوں میں ’لفظ، بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور افسانہ نگار کو اس کے استعمال کا ہنر آنا چاہیے کیونکہ کم جملوں میں اپنی بات کرنے کے علاوہ اختتام پر چونکنے کی کیفیت پیدا نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔  خوشی کی بات ہے کہ عظیم راہی اس گر سے واقف ہے۔

 عظیم راہی کھلی آنکھوں سے زندگی کا معائنہ کرنے والے افسانہ نگار ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں زندگی کروٹ لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ’درد کے درمیان‘‘ میں کامیاب منی افسانوں کی ایک لمبی فہرست میں ہے۔  جن میں بطور خاص ’لاجواب، ،’خراج عقیدت،، ’فطرت،، ’آئینے کے باہر، ، ’مردانگی، اور کنسیشن وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے‘‘۔(مطبوعہ ماہنامہ ’آج کل، نئی دہلی ، دسمبر ۲۰۰۵ء)

 ڈاکٹر آغا  غیاث الرحمن ’’درد کے درمیاں ‘‘ کے افسانچوں کی خصوصیت ان الفاظ میں بیا ن کرتے ہیں :

 عظیم راہی افسانے کی فنی رموز سے واقف ہیں۔  ساتھ ہی وہ قاری کے ذوق اور اس کے نفسیات سے بھی واقف ہیں۔  اس لیے انھوں نے علامتی اور تجریدی تجربات اور کسی الجھاؤ کے بجائے اپنے افسانوں کو صاف ، سلیس اور عام فہم زبان کا اسلوب دیا ہے۔ یہی خصوصیت ان کو اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں میں ممتاز اور نمایاں کر دیتی ہے۔ ’’درد کے درمیاں ‘‘ تقریباً ۰۰۱ منی افسانوں پر مشتمل ہے اور بقول افسانہ نگار یہ مجموعہ ان کے احساسات اور جذبات کا آئینہ دار ہے۔ مشاہدوں کا عکس اور زندگی کے انگنت تجربوں کا ترجمان ہے۔ (تبصرہ۔ مطبوعہ اردو میلہ۔ ناگپور۔ اپریل مئی ۲۰۰۴ء ص۷۳)

 ’’درد کے درمیاں ‘‘ کے منی افسانوں کی خاص بات یہ رہی ہے کہ مختلف اخبارات ورسائل نے اسے اپنے طور پر انتخاب کی شکل میں شائع کیا ہے۔ روز نامہ ’’اردو ٹائمز‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ (ممبئی) ۲۰۰۳ء میں تین، تین منی افسانے منتخب کر کے شائع کیے تو وہیں ماہ نامہ ’’گونج‘‘ (نظام آباد)نے مارچ ۲۰۰۴ء میں ۱۵ منتخب منی افسانوں کو شائع کیا تو اسی طرح روز نامہ ’’اعتماد‘‘ (حیدرآباد) نے ۳۱مارچ ۲۰۰۶ء کی اشاعت میں ۴۱ منی افسانے منتخب کر کے بڑے اہتمام سے شائع کیے۔ اور پڑھنے والوں کو متوجہ کیا۔  اس طرح کے انتخاب سے ان منی افسانوں کی پسندیدگی کا پتہ چلتا ہے اور مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہو گی کہ راقم الحروف کے پہلے افسانچوں کے مجموعہ ’’پھول کے آنسو‘‘ (۱۹۸۷ء) پر دس تبصرے ہوئے اور کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر تقریباً اتنے ہی مضامین پڑھے گئے۔ مضامین پڑھنے والوں میں قاضی سلیم، قاضی مشتاق احمد، احمد عثمانی، نذیر فتح پوری، نورالحسنین ،اور اسی طرح مبصرین میں قمر اقبال،نذیر فتح پوری، احمد عثمانی، ڈاکٹر عصمت جاوید، سید ظفر ہاشمی، نثار اعظمی ،سید احمد قادری ، اقبال شیدائی، وغیرہ کے نام شامل ہیں۔  وہیں ’’درد کے درمیاں ‘‘ (۲۰۰۲ء) پر ملک کے مختلف اخبارات اور معتبررسائل میں جملہ ۱۷ تبصرے شائع ہوئے۔ مبصرین میں پروفیسر ابو محمد ذر، شرون کمار ورما،ڈاکٹر محبوب راہی، بسمل عارفی، سلیم انصاری، ڈاکٹر یحیٰ نشیط، ڈاکٹر منور حسن کمال، احمد عثمانی، ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن ، قاضی روؤف انجم، قاضی رئیس اور م۔ ناگ وغیرہ شامل ہیں۔  یہاں ان اعداد و شمار کو پیش کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ اپنے پڑھنے والوں میں یہ صنف کس قدر مقبول عام رہی ہے۔ جو اس کی پذیرائی اور مقبولیت کا بین ثبوت ہے۔ اسی طرح دیگر افسانچہ نگاروں کے مجموعہ پر تبصرے و تنقیدی مضامین بھی اس صنف کو قبولیت کی سند عطا کرتے ہیں۔

 نورالحسنین ممتاز جدید افسانہ نگاروں میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔  وہ بیک وقت ایک اچھے افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور خاکہ نگار ہیں۔  اور وہ ریڈیو فیچر نگاری میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔  ساتھ ہی انھوں نے بہترین افسانچے بھی لکھے ہیں۔  ان کے افسانوں میں کئی ڈائمینشن ملتے ہیں اور علامتوں کا استعمال بھی وہ خوب کرتے ہیں۔  انھوں نے اپنے افسانچوں میں بھی اس جدت کو بڑی ندرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔وہ خود لکھتے ہیں :

 ’’افسانچہ میں کہانی ، فلسفہ، تاریخ، واقعہ سب کچھ ہوتا ہے۔  یہ اس وقت اور بھی دلکش ہو جاتا ہے جب اسے تلمیحات اور استعاروں سے مزین کر دیا جائے۔ میرے افسانچے آپ کو یہ سب تاثر دے سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مجھے جہاں اپنے افسانوں پر بھرپور اعتماد ہے۔ وہیں افسانچوں پر بھی‘‘۔

 لیکن اس اعتماد کے باوجود انھوں نے اپنی افسانچہ نگاری پر اس قدر دھیان نہیں دیا جس کی وہ مستحق ہے۔ اس کے باوجود ان کے پاس بہت اچھے افسانچے ملتے ہیں۔  جو بقول ان کے تلمیح، علامت، استعارہ سے ہم آہنگ ہو کر افسانچے کے فن کو ایک نیا موڑ دیتے ہیں۔ بہت پہلے انھوں نے ’’چنگاریاں ‘‘ نام سے اپنے افسانچوں کا مجموعہ ترتیب دیا تھا۔ پتہ نہیں کب اشاعت کے مرحلوں سے گذر کر منظر عام پر آئے فی الحال ان کے اسی مجموعہ سے ایک افسانچہ ملاحظہ کیجئے۔

 اطمینان

 ’’فطرت کے فانی نظاروں سے اکتا کر میں نے اپنی تسلی کے لیے ایک علیحدہ دنیا قائم کر لی ہے۔ اور اسے طرح طرح کے پھل، پھول اور پودوں سے آراستہ کر لیا ہے۔ جنھیں نہ تو خزاں میں جھڑ جانے کا خدشہ ہے اور نا ہی موسمی تغیر کے باعث رنگوں کے تبدیل ہونے کا خوف…. کیونکہ وہ سب کے سب نقلی ہیں ….!‘‘

 تلمیح سے بھرپور ایک اور افسانچہ دیکھئے:

 تقلید

 لڑکیوں کو فلرٹ کرنے کے سلسلے میں جب وہ سزا کاٹ کر جیل سے باہر نکلا تو ایک پیڑ کے سائے تلے ایک گیانی مہاراج بیٹھے بھگوان کرشن اور ان کی گوپیوں کے چرتر پر روشنی ڈال رہے تھے اور سارے لوگ ادب و احترام کے ساتھ داد ستائش دے رہے تھے۔

 مجید جمال (مرحوم) نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے تھے جو مختلف اخبارات کے علاوہ ’’شاعر‘‘ جیسے معیاری پرچے میں بھی شائع ہوئے تھے۔ ان کے مشترکہ مجموعہ ’’دخل در معقولات‘‘ میں افسانچے بھی شامل ہیں جو ان کی موت کے بعد ان کی اہلیہ نے شائع کیا تھا۔ مجید جمال دراصل بنیادی طور پر طنز و مزاح نگار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانچوں کے طنز کی کاٹ بہت نمایاں ہے لیکن کہیں کہیں مزاح کے انداز نے اسے لطیفہ سے قریب کر دیا ہے۔ ان کے افسانچوں میں سماج کی ناہمواریوں اور نابرابریوں کے علاوہ اپنے اطراف کے ماحول کی عکاسی ملتی ہے ان کے دو افسانچے دیکھئے:

 ۱) مجبوری

 اسے ایک خوبصورت بنگلہ میں نوکری ملی تو وہ بہت خوش ہوا۔ بنگلے کے پچھلے حصے میں آکڑے کا پودا دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو ابل پڑے۔ وہ دکھ بھرے لہجے میں بولا ’’تو ظالم تجھے بھی پکڑ لائے‘‘ مگر تو کیوں آیا ، تجھے کیا مجبوری تھی۔

 ۲) ہاتھ سے جنت نہ گئی

 محمد بھائی نے مسجد کی تعمیر کے لئے بنائے ہوئے ایک نقشہ کو اس لئے رد کر دیا کہ وہ ایک ایسے آرکیٹکٹ کا بنا ہوا ہے جس نے غیر مذہب کی عورت سے شادی کی ہے لیکن جب محمد بھائی نے اپنی ذاتی بلڈنگ بنوانا شروع کی تو اسی آرکیٹکٹ کی خدمات حاصل کیں۔

 مجید جمال میں ایک اچھے افسانچہ نگار کی تمام خوبیاں موجود تھیں لیکن ان کی زندگی نے وفا نہیں کی اور اس طرح مرہٹواڑہ کی سرزمین ایک اچھے افسانچہ نگار سے محروم ہو گئی۔

 نویں دہائی کی تازہ کار نسل میں نمایاں طور پر ایک نام ساحر کلیم کا ہے جو بنیادی طور پر شاعر ہیں اور ساتھ ہی افسانے بھی لکھتے ہیں اورافسانچے تو انھوں نے کثیر تعداد میں لکھے ہیں بعد میں انھیں اپنے مجموعہ ’’موم کی گڑیا‘‘ کی شکل میں ۲۰۰۰ء میں شائع کیا۔ جس کا پیش لفظ ممتاز جدید افسانہ نگار نورالحسنین نے لکھا ہے مجموعے کے کور پیج پر بشر نواز اور عارف خورشید نے اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ خود ساحر کلیم اپنے افسانچوں کے بارے میں کتاب میں لکھتے ہیں :

 ’’میرے افسانچے خارجی حالات ، داخلی محسوسات اور اظہار کی خلش کا نتیجہ ہیں۔  میں نے کھلی آنکھ کے مشاہدے ، بند پلکوں کی اذیت و کرب اور دن رات کے شخصی و غیر شخصی تجربوں سے گزرے لمحات کو رقم کیا ہے۔ ان سنگلاخ راہوں سے گذر کر جو بات قلم کے نوک پر ٹھہری بس اس کو دیانت و خلوص کے ساتھ پیشانی قرطاس پر رکھ دیا ہے اور یہی میرے افسانوی رویے کا مقدمہ ہے۔‘‘

 زیر نظر مجموعہ میں جملہ ۰۸افسانے شامل ہیں جو ۹۶ صفحات پر مشتمل کتاب کے صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔  ڈاکٹر سید معصوم رضا اس مجموعہ پر ان الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی انھوں نے مثال کے طور پر دو منی افسانے بھی اخذ کیے ہیں۔

 ’’اگر ہم ساحر کلیم کے افسانچوں کا سرسری جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور اس کے نشیب و فراز پران کی اپنی نظر ہے کوئی بھی ادیب یا فنکار عام افسانوں سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی نظروں میں روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والے حادثات سانحات اور واقعات کی عکاسی ایک نئے زاویے کے ساتھ ہوتی ہے۔ جسے صفحہ قرطاس پر لفظوں کی تراش خراش کے ساتھ پیش کر دیتا ہے۔ ساحر کلیم نے بھی اپنے افسانچوں (منی) کہانیوں میں ان باتوں کا خاص خیال رکھا ہے اور بہت اہتمام کے ساتھ اسے قاری تک پہنچانے میں کامیاب ہیں۔  ملاحظہ ہو یہ افسانچے:

 ۱) کیئر آف

 لوگ میرے وزٹنگ کارڈ پر فون نمبر ڈھونڈ رہے تھے۔ جبکہ میں نے اپنا پتہ بھی کیئر آف دیا تھا۔

 ۲) پردہ

 پردہ ضروری ہے۔۔۔ کیونکہ مرد کی آنکھوں سے شیطان جھانکتا ہے۔  عورت کے جسم میں۔

 آگے وہ ان افسانچوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 دونوں افسانچوں کا اگر ہم تجزیہ کریں تو یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ کیئر آف سوسائٹی کی ذہنیت کی طرف اشارہ ہے تو پردہ میں معاشرے کی بدلتے ذہنیت کی طرف اشارہ ہے۔ جہاں عورتوں کا تقدس ، ماں بہن ، بیٹی اور بیوی کے رشتے میں محفوظ نہیں ہے کیونکہ آج کا ہر مرد عورتوں کو مشکوک نظروں سے دیکھنے کا عادی ہو گیا ہے۔ ساحر کلیم نے بھوک کی تڑپ کو لے کر مختلف زاویے سے پیش کر کے انسانی مجبوری اور پولس کے سخت رویے پر بھی نکتہ چینی کی ہے۔  ملاحظہ ہو : ایک افسانچہ۔ ’’ کرفیو‘‘

 پیٹ کی آگ جب فقیر کو سڑک پر لے آئی تو اس کے پیٹ میں بندوقوں کی آگ بھر دی گئی‘‘۔اس کے علاوہ تدبیر، امرت، قیامت صغریٰ، نئی قدریں اور متبادل مقام وغیرہ بھی حساس ذہنوں کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ (تبصرہ۔ مطبوعہ اردو بک ریویو۔ نئی دہلی ستمبر اکتوبر ۲۰۰۰ء)

 نورالحسنین کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :

 ’’ساحر کلیم اس فن سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ کہاں اپنی بات کی ترسیل کی خاطر تشبیہ و استعارے کا سہارا لیا جائے اور کہاں راست بیانہ دلوں پر ضرب لگا سکتا ہے ان کے پاس موضوعات میں تنوع ہے اور وہ سماج کی ہر برائی پر سلیقے سے انگلی رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ‘‘(ص۹)

 ایک جگہ وہ لکھتے ہیں :

 ’’بدلتی قدروں نے انسان سے صرف تہذیب و تمدن کے تقاضے ہی نہیں چھینے بلکہ اس سے مروت اور ہمدردی کا لباس بھی اتروا لیا۔ ان کے افسانچوں کا مطالعہ جہاں فرد کی سفاکیت کا پردہ چاک کرتا ہے وہیں اس کے احساس تنہائی ، محرومی ، شکست خوردنی اور بے چارگی کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے۔‘‘(ص۷)

 دو افسانچے ملاحظہ کیجئے :

 بے خواب

 کچھ لوگ اپنے نرم گرم بستروں میں سوتے ہیں تو کچھ فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر۔ مگر۔ ۔۔ کچھ ایسے بھی ہیں۔ ۔ جنھیں۔ ۔۔۔ کہیں بھی نیند نہیں آتی۔(ص۱۳)

 نعم البدل

 ان لالچیوں نے زیبا کو اپنے والدین سے صوفہ، فریج ، و ی سی آر کے علاوہ موٹر سائیکل بھی لانے کو کہا تھا اور جب زیبا کے والدین یہ سب نہ دے سکے تو زیبا نے ان کے عوض اپنی جان دے دی۔ص۲۵

 غرض ساحر کلیم کے افسانچے زندگی کے سچائیوں اور حقیقتوں سے بے حد قریب ہیں۔  موضوع اور مقصد دونوں اعتبار سے بہت اہم ہیں۔  چونکہ وہ شاعر بھی ہیں اس لئے ان کے افسانچوں میں تشبیہات اور استعاروں کا بھی خوب استعمال ملتا ہے اور ان کے اکثر افسانچوں پر شاعری کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ اسلوب اور انداز بیان کے علاوہ شاعرانہ سلیقہ مندی، انھیں ان کے ہم عصر نوجوان لکھنے والوں میں ممتاز کرتی ہے۔ ساحر کلیم کی تخلیقی اٹھان کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب میں ان سے خوب ترکی امید کی جاسکتی ہے کہ ابھی ان کا تخلیقی سفر ارتقائی مرحلوں سے گزر رہا ہے۔

 متین قادری نے افسانوں کے ساتھ ساتھ کئی افسانچے بھی لکھے ہیں جو اخبارات کے علاوہ رسائل میں بڑے اہتمام سے چھپے ہیں۔  مجید جمال کی طرح انھوں نے پہلے افسانوی مجموعہ میں افسانچے بھی شامل کئے ہیں۔  ’’فاصلوں کا ہمنشیں ‘‘ ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا۔ جس میں ۱۴افسانوں کے ساتھ ۱۲ منی افسانے بھی شامل ہیں۔  متین قادری نے افسانوں کے ساتھ طنز و مزاح سے بھرپور مضامین بھی لکھے اور عصری حسیت کے حامل افسانچے بھی۔ ان کے افسانچوں میں بڑے غضب کا طنز ملتا ہے جو سماج کے کھوکھلے نظام اور سماج کے ٹھیکیداروں کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کرتا ہے۔ انھوں نے غریب کی زندگی اور غربت کے مارے افلاس سے بلکتے افسانوں کی سچی تصویر کشی کی ہے۔  ان کا اسلوب سادہ اور زبان بھی سادگی اور سلاست لئے ہوئے ہیں لیکن موضوع کی سنجیدگی سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ ان کا ایک منی افسانہ بطور نمونہ پیش ہے:

 جواب

 وہ موسم سرما کی ایک سرد ترین شام تھی۔ نہایت پیش قیمت سوٹ پہنے جب وہ وہسکی کی نصف بوتل اپنے معدہ میں انڈیل کر نائٹ کلب سے باہر نکلا تو اس نے ایک نیم برہنہ اور غریب آدمی کو دیکھ کر حیرت سے پوچھا ’کیا تمھیں سردی محسوس نہیں ہوتی ہے؟،

 نہیں۔ ۔۔ غریب آدمی نے انکار میں سر ہلایا۔

 ’اور گرمی،۔ ۔۔ وہ بھی نہیں۔ ۔۔

 یعنی بارش اور طوفان کا بھی تم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بالکل نہیں

 امیر آدمی جھنجھلا کر بولا ’’تو پھر کیا محسوس ہوتا ہے؟‘‘

 غریب آدمی نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔ ۔۔ غریبی اور بھوک‘‘۔(ص۹۷)

 اورنگ آباد میں نورالحسنین، عارف خورشید اور عظیم راہی کے بعد کی نسل میں جو نام بڑی تیزی سے افسانے کے افق پر ابھرے ان میں سلیم احمد ، شیخ حسین اور وجاہت قریشی کے نام قابل ذکر ہیں۔  ان نئے لکھنے والوں نے بھی افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی لکھے جو مقامی اخبارات میں شائع ہوئے۔ اور سلیم احمد نے اپنے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’اندھے سفر کا مسافر‘‘ شائع کیا۔ جس میں چار افسانچے بھی شامل ہیں۔  ایک افسانچہ مثالاً پیش ہے:

 لاحول اور ماحول

 بیٹے کی دن بدن بد اخلاقیوں اور سنگین غلطیوں سے تنگ آ کر باپ نے عالم صاحب سے رجوع کیا کہ میرے بیٹے کو نصیحت کیجئے۔ اس کی بد معاشیاں ناقابل برداشت ہو گئی ہیں۔

 تمام حالات جاننے اور کچھ سوچنے کے بعد عالم صاحب سنجیدگی سے بولے….

 ’’یہ شیطان لاحول سے نہیں بھاگے گا…. کیونکہ گھر کے ماحول نے اس ابلیس کو جنم دیا ہے۔ اس لیے لاحول سے ماحول نہیں بلکہ ماحول سے ماحول بدلنے کی سعی کریں ‘‘…. (ص۱۲۸)

 محمد اظہر فاضل نے بھی اپنے افسانچوں کا مجموعہ ’’مجسموں کا درد‘‘ شائع کیا ہے۔ یہ ایک ایسے نوجوان قلمکار ہیں جنھوں نے خاموشی کے ساتھ اپنی ذاتی لگن اور دلچسپی سے کئی افسانچے لکھے لیکن انھیں کہیں شائع نہیں کروایا۔ وہ نہ کبھی اخبارات میں چھپے اور نہ کسی رسالے میں۔  یکلخت سارے افسانچوں کو کتابی شکل میں چھاپ کر منظر عام پر لے آئے۔ ان کے افسانچوں میں اپنے اطراف کے ماحول کی عکاسی ملتی ہے اور سماج کے کھوکھلے نظام پر گہرا طنز نظر آتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں انھوں نے بڑی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانچوں پر عارف خورشید کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔لیکن کہیں کہیں افسانچہ ان کے پاس لطیفے سے قریب ہو گیا ہے۔ اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ان کے افسانچوں کے دو مجموعے ’’مجسموں کا درد‘‘ اور ابھی حال ہی میں دوسرا مجموعہ ’’آنسوؤں کی چیخ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔  عورت ان کا محبوب موضوع ہے شاید اسی لیے انھوں نے اپنی دوسری کتاب کا انتساب ان عورتوں کے نام کیا ہے جن کو ان کی خوبیوں نے تباہ کر دیا ہے لیکن اظہر فاضل نے یہاں ان کی خامیوں کو ہی پیش کیا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانچوں میں عورت کی بے راہ روی ، بد چلنی اور اس کے استحصال کے منظر جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس معاشرتی زندگی کے دیگر مسائل بھی ملتے ہیں جیسے بیکاری، بے روزگاری ، بد اخلاقی، اقلیتوں کی بدحالی اور ان کی بے اعمالی اور فسادات کو بھی اظہر فاضل نے پیش کیا ہے لیکن غالب موضوع بن کر، ’عورت، ہی ان کے افسانچوں میں ابھرتا ہے۔ بقول رفعت سعید قریشی ’’اظہر فاضل کے افسانچوں میں عورت کا ذکر مختلف صورتوں میں مختلف پہلو لیے ہوئے ہے۔  ان میں بیوی بھی ہے ، والدہ بھی ہے نانی بھی اور نانی کی نواسی بھی ‘‘۔لیکن ہر جگہ عورت کی خامی کو ہی انھوں نے موضوع بنایا ہے۔ یہاں میں نے آج کی معاشرتی زندگی سے ان کا ایک افسانچہ منتخب کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

 احسان فراموش

 بیوی کی آرزوؤ، خواہشات، بچوں کو کھلونے، اپنی زندگی، دوستوں کی محفلیں اور اہتمام…. والدہ کے کمرے سے ان کی تنہائی پکاری…. (’’آنسوؤں کی چیخ‘‘۔ ص۳۵)

 محمد ارشد صدیقی بیڑ کے ایک نوجوان افسانہ نگار ہیں جنھوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے ہیں جو اخبارات میں بڑے تواتر اور تسلسل سے چھپتے رہے ہیں۔  حال ہی میں انھوں نے اپنے افسانچوں کا مجموعہ ’’گردشِ رواں ‘‘ کے نام سے ترتیب دیا ہے۔ارشد صدیقی ۱۹۷۵ءسے لکھ رہے ہیں۔  اور مسلسل لکھ کر اخبارات میں خوب چھپتے رہے ہیں اب اپنے اس ۲۵سالہ ادبی ریاض کی ایک جھلک ’’گردش رواں ‘‘ کی شکل میں ادبی حلقوں میں پیش کر رہے ہیں۔  ارشد صدیقی کے منی افسانوں میں بھی زندگی جینے کا چلن غالب رجحان کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔ اپنی زمین سے جڑے رہ کر اپنے عصر کے مسائل سے ہمیشہ نبرد آزما رہنے کا جذبہ انھیں سرگرم عمل رکھتا ہے اور زندگی کے تئیں فکر مند بھی۔ فکر مندی کی یہی علامات آگے چل کر ان کے موضوعات کو وسیع تناظر میں اور بھی متنوع بنائے رکھنے میں یقیناً انھیں نئی کامرانیوں سے ہمکنار کرے گی۔ ان کے زیر ترتیب مجموعے سے دو افسانچے ملاحظہ کیجئے:

 نس بندی

 ’’ہاں ! میں واقعی تم سے سچا پیار کرتا ہوں ، مگر تم سے شادی نہیں کرسکتا‘‘

 کیوں ؟

 ’’۔۔۔ میری ایمرجنسی کے دوران نس بندی ہو چکی ہے۔‘‘

 بے حرکت

 وہ زندگی کا توازن برقرار رکھنے کے لئے حرکت کرتا رہا۔

 مسلسل حرکت۔  لیکن جب توازن برقرار نہ رکھ سکا تو بے حرکت ہو گیا۔

 عظمت چار یار نے بھی افسانچے بڑی تعداد میں لکھے ہیں جو اخبارات کے علاوہ مختلف رسائل میں شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔  لیکن ان کے افسانچوں کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے۔عظمت چار یار کے افسانچوں میں بھی زندگی کے مسائل کی عکاسی ملتی ہے اور ان کے افسانچوں میں لہجے کی کاٹ ، طنز کا غضب، پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ادھر وہ کئی دنوں سے خاموش ہیں۔

 اسی طرح علاقہ ودربھ کے معروف افسانہ نگار محمد طارق کولہاپوری نے کثیر تعداد میں افسانچے لکھے ہیں اور بہت کثرت سے اخبارات و رسائل میں چھپتے رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے افسانچوں کا مجموعہ بڑی تاخیر سے ابھی حال ہی میں ترتیب دیا ہے حالانکہ ان کا مجموعہ علاقہ ودربھ سے بہت پہلے چھپ جانا چاہئے تھا کہ اس علاقہ میں ان کی اولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کا تعارف کرواتے ہوئے عبدالرحیم نشتر لکھتے ہیں :

 ’’ودربھ کے معروف ترین نوجوان افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام محمد طارق کا بھی ہے۔ امراوتی ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبے کھولاپور میں رہنے والے اس افسانہ نگار کا شعور بیدار ہے اور وہ اپنے ماحول کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہیں۔  چنانچہ انھوں نے دیہاتی زندگی کے کونے کھدروں سے بھی کچھ بڑی اچھی کہانیاں چنی ہیں۔  جن کے موضوعات روزمرہ زندگی کی ہلاکت خیزیوں سے عبارت ہیں۔  م۔ناگ اور ایس ایس علی کی طرح محمد طارق بھی علامات کو برتنے کا شعور رکھتے ہیں۔  ان کی افسانہ نگاری کا آغاز بھی ۷۰ء کے آس پاس ہوتا ہے۔ اخبارات کے علاوہ ان کے افسانے بعض رسائل میں بھی شائع ہوئے ہیں۔  (ص۳۶۔ودربھ میں اردو افسانہ)

 ان کے فن کے تعلق سے آگے یوں رقمطراز ہیں :

 ’’ان کے یہاں عصری ادب سے آگاہی کا پتہ بھی ملتا ہے اور عصری حسیت و عصری آگہی کے نشانات بھی وہ ایک کامیاب اور مؤثر تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔  ان کے افسانوں میں روح عصر جیتی جاگتی نظر آتی ہے۔ افسانوں میں واقعیت ، داخلی وابستگی کے ساتھ موجود ہے اور ان کے اپنے تجربات کی ناشر بھی۔ طنز کی چبھن ان کے یہاں بھی پائی جاتی ہے اور دل دردمند کی تڑپ سے ان کے افسانے یکسر خالی نہیں اگرچہ مختصر افسانے کی طرح منی افسانہ بھی اپنا فارم اور مخصوص تکنک رکھتا ہے بلکہ منی افسانہ لکھنا ایک دقّت طلب مرحلہ ہے جس کے لئے سخت محنت ریاض لگن اور وسیع مطالعہ و تجربہ کی ضرورت ہے۔ محمد طارق کے افسانوں کو پڑھ کر لگتا ہے کہ انھوں نے منی افسانے کے اس چیلنج کا جواب احسن و خوبی سے دینے کی کوشش کی ہے اور آئندہ کے لئے بھی ان سے اچھی امیدیں کی جاسکتی ہیں۔ ‘‘ (ص۳۶ )

 نورالحسنین ، محمد طارق کے بارے میں یوں رائے دیتے ہیں :

 ’’محمد طارق بھی مہاراشٹر کے خاصے سینئر افسانہ نگار ہیں۔  ان کے افسانوں پر مقصدیت کی چھاپ ہے لیکن اس انداز سے کہ بات نعرہ نہ بن جائے۔ طارق کے افسانوں میں عصر کی روح جھانکتی ہے ان کی زبان سیدھی سادی اور عام فہم ہے۔ انھوں نے ہمیشہ افسانے ہی لکھنے کی کوشش کی ہے۔

 گونج۔ فن اور شخصیت نمبر (نظام آباد)ص۲۷

 محمد طارق حقیقی زندگی کے پس منظر میں اپنے عہد کے مسائل پیش کرتے ہیں۔  محمد طارق نے زود نویسی کی حد تک لکھا ہے۔ انھوں نے منی افسانچے بڑی تعداد میں لکھے ہیں۔  اگر وہ سخت انتخاب بھی کریں تو ان کے کئی مجموعے چھپ سکتے ہیں۔  یہاں ہم ان کا ایک افسانچہ نمونے کے طور پر عبدالرحیم نشتر کی کتاب ’ودربھ میں اردو افسانہ‘سے اخذ کر رہے ہیں :

 ۱) تقلید

 منزل تک پہنچنے کے لئے رہبر کی ضرورت ہے۔

۔ ۔۔۔ انھوں نے اپنے ہی فرقے سے ایک رہبر چنا۔ ۔۔ جو کافی عقل مند اور ہوشیار آدمی تھا۔ ۔۔ اسے منزل کا بھی پتہ تھا۔ ۔۔

۔ ۔۔ اس کے پیچھے پیچھے وہ چلنے لگے۔ ۔۔

 راستہ تنگ تھا۔ دونوں طرف گہری کھائیاں تھیں۔  رہبر کا پاؤں پھسل گیا۔ وہ گر پڑا۔ گہری کھائی میں۔ ۔۔ اور اس کے پیچھے چلنے والے بھی کھائی میں کود پڑے۔۔۔(ص۵۸)

 جوگیندر پال ادھر کچھ دنوں سے ’’رحمن بابو‘‘ کے نام سے افسانچے لکھ رہے ہیں۔  اسی طرح محمد طارق کھولاپوری بھی آج کل ’’آتش پارے‘‘ کے عنوان سے افسانچے لکھ رہے ہیں۔  اس سلسلے میں میری ایک تحریر کے جواب میں یوں رقم طراز ہیں :

 ’’ادیب سماج کا ضمیر ہوتا ہے۔ سماج جس کیفیت اور جیسی حالت سے دوچار ہوتا ہے ادیب اس کیفیت کے کرب کو پوری شدت سے سہہ کر اپنے فن کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ آج ہماری دنیا ، نفرت ، بغض، عداوت ، منافقت ، کرپشن ، کرائس کی آگ میں جل رہی ہے۔ ہمارا سماج اس جہنم کے طبقوں میں بٹ چکا ہے۔ جس جہنم کو اس نے خود دہکایا ہے۔ مجھے اس جہنم سے ’’آتش پارے‘‘ مل رہے ہیں۔  جسے میں اپنے بے حس سماج کو جو کلچر کے نام پر کی جا رہی ناقابل برداشت ، بے ہودگیوں کو خموش سہ رہا ہے۔ اپنے فن کے سانچے کے ڈھال کر ’’آتش پارے‘‘ عنوان سے انھیں لوٹا رہا ہوں۔ ‘‘ (ایک خط سے اقتباس)

 ودربھ میں ۱۹۸۵ء تک منی افسانوں کی مجموعوں کی بڑی دھوم تھی لیکن ۸۶ءسے کے بعد منی افسانوں کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ حالانکہ اس سے پہلے مجموعے پورے تواتر سے چھپ رہے تھے اور اس صنف میں لکھنے والے بھی بڑے اہتمام سے اخبارات و رسائل میں مسلسل چھپ رہے تھے۔ اس تام جھام اور اہتمام میں ذرا کمی آئی اور صرف چند اچھے لکھنے والے باقی رہ گئے۔ باقی وقتی شہرت اور فیشن کی زد میں آ کر گمنام ہو گئے۔اس طرح ۸۶ءسے ۹۱ء تک کوئی قابل ذکر افسانچوں کا مجموعہ شائع نہیں ہوا۔البتہ ناگپور کے اشفاق احمد نے پوری لگن اور مسلسل انہماک و توجہ کے ساتھ منی افسانے لکھے اور اس صنف میں مستقل طبع آزمائی کرتے ہیں۔  اب تک ان کے دو سو سے زائد منی افسانے ملک کے مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ کر مقبولیت کی سند حاصل کر چکے ہیں۔  ویسے بچوں کے ادیب کی حیثیت سے بھی خاصے مشہور ہیں اور بچوں کی کہانیوں پر مشتمل ان کی کتاب ’’صبح کا بھولا‘‘ اور ’’خوشبو کی واپسی‘‘ شائع ہو چکی ہیں لیکن منی افسانہ نگاری ان کا اصل میدان ہے۔ ان کے منی افسانوں کا مجموعہ ’’یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے‘‘ کے نام سے ۹۳ء میں شائع ہوا ہے۔ اس کے بعد سے بھی وہ مسلسل پوری لگن کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔  جس کی جھلکیاں اخبارات اور رسائل میں جا بجا نظر آتی ہیں۔  ان کے اس مجموعے میں جملہ ۸۰ منی افسانے شامل ہیں۔  کتاب کا پیش لفظ معتبر افسانہ نگار ’م۔ناگ‘ نے لکھا ہے۔ جن کی افسانچہ کے فن پر گہری نظر ہے۔ یہ مضمون اس کا بین ثبوت ہے انھوں نے افسانہ نگار پر کم اور منی افسانہ کے خد و خال اور فن پر زیادہ لکھا ہے۔ اشفاق احمد کے منی افسانوں میں وہی موضوع نظر آتے ہیں جو عام طور پر سب منی افسانہ نگاروں کے ہاں موجود ہے۔ اس سلسلے میں وہ خود یوں لکھتے ہیں :

 ’’میری مختصر سی زندگی کے سفرمیں تجربات کی راہ پر قسمت کی سیاہی ہمیشہ میرا پیچھا کرتی رہی۔ قدم قدم پر حالات کی ستم ظریفی اپنوں اور غیروں کی بے اعتنائیاں ، سچائی اور ایمانداری کا استہزا ، زندگی کے مسائل سماج کے کھوکھلے اصول ، قانون کی بے بسی ، سفاکی اور ریاکاری کے مظاہرے ، میرے احساس کی کوکھ میں پلتے رہے اور پھر ایک دن یہ لاوا تخلیقی اظہار کی شکل میں پھٹ پڑا۔‘‘ (’حرف چند،۔ ص۱۹)

 ان کی منی افسانہ نگاری کے متعلق ’م۔ناگ ، ان لفظوں میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں :

 ’’اشفاق احمد ایک طویل عرصے سے منی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔  ان کے یہاں عصری مسائل کا دلپذیر اظہار ہوا ہے۔ وہ منی کہانی کو پروجکٹ کرنا جانتے ہیں۔  میں سمجھتا ہوں ایک شاہکار منی افسانے کی تخلیق کے لئے اشفاق احمد کا پیدا کردہ ماحول اور فضا سازی کی بہت اہمیت ہے۔‘‘ (ص۱۰)

 ممتاز افسانہ نگار سلطان سبحانی ، اشفاق احمد کے منی افسانوں پریوں رقم طراز ہیں :

 ’’اشفاق احمد کی کہانیوں کا تعلق حقیقت سے ہے اور یہ عصر حاضر سے جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔  ان مختصر کہانیوں کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ماجرائی کیفیت کو بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں اور کہانی کی بہت سی طلسمی کیفیات کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔  شاید اسی وجہ سے ان کی بعض کہانیوں میں تجسس اور چونکانے کی خصوصیت موجود ہے۔‘‘ (ص۱۲)

 اشفاق احمد کی کتاب پر جوگندر پال رائے دیتے ہیں :

 ’’تصنیفی سطح پر افسانچہ کا فن بہت لگن اور ریاض کا متقاضی ہے۔ اشفاق احمد کی موجودہ شرکتیں نہایت حوصلہ افزاء ہیں اور اس امر کی شہادت پیش کرتی ہیں کہ فن پر مزید حاوی ہو کر وہ دور دور نکل جانے کے اہل ہیں۔  خدا ان کی مدد کرے۔ ‘‘(’یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے،۔ فلیپ کی تحریر سے ایک اقتباس)

 ڈاکٹر منشاء اشفاق احمد کی کہانیوں کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں :

 ’’اشفاق صاحب فن قصہ گوئی اور قصہ تراشی کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔  حقیقت پسندانہ انداز میں لکھتے ہیں۔  عام طور پر ان کی کہانیاں مختصر ضرور ہوتی ہیں۔  مگر سادہ والہانہ انداز کی تحریر کے باعث دلکش و دلپذیر ہوتی ہیں۔  یہ مبالغہ آرائی سے ہرگز کام نہیں لیتے۔ اعتدال و توازن کی راہ اختیار کرتے ہوئے نہایت پنے تلے انداز میں اپنی کہانی کو آگے بڑھا کر کوئی نہ کوئی نتیجہ خیز اور سبق آموز انجام تک پہنچا دیتے ہیں۔ ‘‘ (تازہ دم قلمکار۔ اشفاق احمد۔ مطبوعہ گونج۔ نظام آباد۔ فن وشخصیت نمبر،)

 حال ہی میں ان کے منی افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’ایک زخم اور سہی‘‘ شائع ہوا ہے جس کا پیش لفظ مقبول افسانہ نگار ایم مبین نے تحریر کیا ہے۔  اس تازہ مجموعہ سے ایک منی افسانہ ملاحظہ فرمایئے :

 فرق

 دونوں بھائیوں نے جب ایک دوسرے کی بغل میں مکانات بنائے تو ایک نے تین منزلہ عمارت کھڑی کر دی اور دوسرا بھائی تین کمروں پر مشتمل سادہ سا مکان بڑی مشکلوں سے بنا سکا۔ یوں تو دونوں بھائی ایک ہی محکمہ میں کلرک کے عہدے پر فائز تھے۔ فرق صرف ٹیبل کا تھا۔ (ص۲۷ )

 ڈاکٹر اشفاق احمد سے مستقبل قریب میں امید وابستہ کی جاسکتی ہیں کہ وہ اس صنف کو مزید وقار بخشنے میں کامیاب ہوں گے۔ منی افسانوں سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ علاقہ ودربھ میں منی افسانوں کا ایک انتخاب ’’کپاس کے پھول‘‘ کے نام سے عنقریب شائع کر رہے ہیں۔

 محمد طارق کی طرح ممبئی کے ممتاز افسانہ نگار عبدالعزیز خان نے بھی بڑی تعداد میں منی افسانے تحریر کئے ہیں۔  ایک ملاقات میں انھوں نے بتایا تھا کہ وہ ۶۰۰ کے قریب منی افسانے افسانچے تخلیق کر چکے ہیں جو مختلف اخبارات اور رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔  لیکن بہت دنوں تک کتابی شکل میں وہ شائع نہیں کرسکے۔ ابھی حال ہی میں ان کے منی افسانوں کا مجموعہ ’’فساد، کرفیو اور کرفیو کے بعد‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔اس مجموعہ کی کہانیوں کا تجزیہ ندیم صدیقی نے ان الفاظ میں کیا ہے:

 ’’عبدالعزیز کی یہ کہانیاں دراصل نام کی کہانیاں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے مکالمے ہیں جو عبدالعزیز خاں نے۱۳برس تک اپنے آپ سے کیے ہیں جن میں ان کے مشاہدات اور احساسات چنگاری بنے ہوئے ہیں شعلہ نہیں۔  وہ اس ہلکی ہلکی آنچ میں جلے نہیں بلکہ روشن ہو گئے ہیں اب اس کی روشنی پڑھنے والے کے ضمیر تک پہنچ رہی ہے یہ اور بات ہے کہ یہ روشنی ہمارے باطن کو برہنہ بھی کرتی جاتی ہے۔  آدمی کا باطن ہی تو ہے جو بسااوقات اس دنیا کو جہنم بنانے پر تل جاتا ہے۔ عبدالعزیز خاں کی باتوں سے بنی یہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں بڑے بڑے موضوعات کو سمیٹے ہوئے ہیں ‘‘۔

 (تبصرہ۔ اردو بک ریویو، نئی دہلی۔ جنوری فروری ۲۰۰۶ء)

 نمونے کے طور پر ان کے دو افسانچے دیکھئے:

 ڈونیشن

 ’’کرفیو لگا ہے، کیوں تیسرے فرقے کی دوکان جلانے جا رہے ہو؟‘‘

 ’’فساد سے پہلے اس نے ہمیں ڈونیشن دینے سے انکار کر دیا تھا‘‘۔(ص۴۴)

 رشتہ

 ’’فساد میں اور لوگوں کے گھر جلے لیکن تمھارا گھر کیسے بچ گیا؟‘‘

 اس لیے بچ گیا کہ ہمارے پڑوسی فسادیوں کے فرقہ تھے۔!‘‘ (ص۸۸)

 عبدالعزیز خاں کے اس سے قبل دو افسانوی مجموعے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔  یہی حال نذیر فتح پوری کا ہے۔ بنیادی طور پر تو وہ شاعر ہیں لیکن انھوں نے افسانے ڈرامے اور منی افسانے بھی خوب لکھے ہیں۔  ان کے منی افسانے بھی اخبارات کے علاوہ مؤقر رسائل میں چھپ چکے ہیں۔  وہ خود بھی ایک معیاری ادبی پرچے اسباق کے مدیر کی حیثیت سے کافی مقبول ہیں۔  انھوں نے منی افسانوں کو مقبول بنانے میں اپنے اس پرچے کے ذریعے ایک اہم رول بھی نبھایا ہے۔ اسباق کے سال اولین کے سالنامے میں زیادہ تر افسانوی تخلیقات منی افسانوں پر مشتمل تھیں۔ انہوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے ہیں ان کو انتخاب کی شکل میں ’’ریزہ ریزہ دل‘‘ کے نام سے احقر نے مرتب کیا ہے۔ ان کے اس مجموعہ کے پیش لفظ میں ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے لکھا ہے:

 نذیر فتح پوری کے یہ افسانچے خود کو پڑھوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔  ان میں زیادہ تر افسانچے مختصر ترین ہونے کے باوجود مکمل ہیں اور ترسیل میں بے حد کامیاب ہیں۔  زندگی ایک لطیفہ، میں اکیلا ہوں ، پرانی بات، ایسا بھی ہوتا ہے، تیسری آنکھ، آئینہ ، تنخواہ کا دن، بہروپ، نیا وعدہ، تعاقب وغیرہ ایسے ہی افسانچے ہیں جو عمدہ ہیں۔  مجھے قوی امید ہے کہ نذیر فتح پوری اپنی اس کوشش کو جاری رکھیں گے۔

 پروفیسر عبدالوہاب جذب ’’ریزہ ریزہ دل‘‘ کے مصنف نذیر فتح پوری کا تعارف ان الفاظ میں کرواتے ہیں :

 ’’ریزہ ریزہ دل، نذیر فتح پوری کے ۹۸ منی افسانوں کا مجموعہ ہے جسے عظیم راہی نے مرتب کیا ہے۔ مرتب اور مصنف دونوں ہی معروف منی افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اس صنف کو بام عروج پر پہنچایا ہے۔ نذیر فتح پوری تو شاعر بھی ہیں جو ایک شعر میں ،صرف دو مصرعوں میں معنی کا ایک جہاں آباد کر دیتے ہیں۔  افسانہ تو پھر افسانہ ہے۔ پھر نثر میں وضاحت کی گنجائش تو بہت ہوتی ہے۔ میر نے کہا تھا:

 سرسری تم جہاں سے گزرے

 ورنہ ہر جا جہاں دیگر تھا

 تو یہ منی افسانے ایسے نہیں کہ ہم ان سے سرسری گذر جائیں۔  ہر افسانے میں معنی کی ایک دنیا آباد ہے۔

 تبصرہ کے آخر میں جذب صاحب لکھتے ہیں :

 ادب زندگی کا آئینہ دار ہے اور زیر نظر مجموعہ ’’ریزہ ریزہ دل ‘‘ کی تصنیف سے مزین ہے۔ عظیم راہی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے عرق ریزی اور دیدہ ریزی سے ایک اچھا کہانیوں کا مجموعہ ترتیب دیا ہے جو اردو ادب میں ایک خاصے کی چیز متصور ہو گا۔ (مطبوعہ روزنامہ اورنگ آباد ٹائمز مورخہ ۶مئی ۲۰۰۶ء)

 ڈاکٹر انور سدید اس مجموعہ کی کہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 ’’ان مختصر ترین افسانوں میں نذیر فتح پوری نے زندگی کے مشاہدات کو اپنے احساس کی جوالا سے سلگا کر پیش کیا ہے۔ ان افسانچوں کو جلتا ہوا سگریٹ سمجھئے جس کا دھواں آپ کے دل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دوسرا رشتہ، بہادری، تنکا، تیسری آنکھ، لاحاصل، وجود لا وجود، بے موسم کا ستم جیسے افسانچے ایسی قوسوں کا درجہ رکھتے ہیں جن کے ٹوٹے ہوئے سلسلے تاثر کا دائرہ مکمل کر دیتے ہیں۔  اور حقیقی زندگی کے بارے میں پختہ تاثر پیدا کرتے ہیں۔  قریباً ایک سو افسانچوں کا یہ مجموعہ نذیر فتح پوری کے فن کا اچھا نقش سامنے لاتا ہے اور دانش کے چراغ جلا کر دور تک روشنی پھیلاتا ہے۔ (مطبوعہ تخلیق ’لاہور، جون ۲۰۰۸ء جلد ۳۹ شمارہ ۶)

 اسی مجموعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے وصیل خاں یوں رقم طراز ہیں :

 ’’نذیر فتح پوری چونکہ زمین سے جڑے ہیں۔  اس لیے ان کے یہاں تصنع اور بناوٹ سے گریز صاف دکھائی دیتا ہے۔ معاشرے اور سماجی مد و جذر کا انھوں نے بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ اس لیے ان کے افسانوں میں تیر و نشتر کی بھرمار دکھائی پڑتی ہے۔ سماجی ناموزونیت اور قدروں کے زوال سے وہ کبیدہ خاطر تو نظر آتے ہیں لیکن مایوس ہرگز نہیں ہوتے۔ بلکہ مثبت انداز میں قابل قبول حل تلاش کرتے ہیں۔  زود گوئی کے باوجود ان کے یہاں معیار اور فن متاثر نہیں ہوتا۔ لیکن کہیں کہیں جدت پسندی ان کے اور قاری کے مابین فاصلہ تو بڑھا دیتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ریزہ ریزہ دل‘‘ کے بیشتر افسانے مؤثر ، مکمل اور ترسیل میں پوری طرح ہیں۔  پرانی بات، ایسا بھی ہوتا ہے، تعاقب، وعدہ، آئینہ، تنخواہ کا دن، بہروپ، تیسری آنکھ اور زندگی ایک لطیفہ ان کے ایسے منی افسانے ہیں جن سے لہو میں حدت پیدا ہوتی ہے۔ اور ذہن و دل کے کئی دریچے کھلنے لگتے ہیں۔  امید ہے کہ یہ کتاب ادبی حلقوں کے ساتھ ہی عوامی سطح پر مقبول ہو گی‘‘۔ (مطبوعہ روزنامہ ’’اردو ٹائمز‘‘ ’ممبئی، ۱۱جون ۲۰۰۶ء)

 نذیر فتح پوری کے اس مجموعہ سے بطور نمونہ ایک افسانچہ ملاحظہ کیجئے:

 ترقی

 آدمی نے کمپیوٹر بنایا۔

 اور کمپیوٹر بننے کے بعد آدمی خود بگڑ گیا۔

 کمپیوٹر کی خرابی آدمی دور کرسکتا ہے۔ لیکن آدمی کے بگاڑ کا علاج؟؟؟….

 ممبئی میں عبدالعزیز خان کے ساتھ کے اور بعد کے لکھنے والوں میں م ناگ، ایم مبین، مقصود اظہر، اسلم پرویز، اقبال نیازی، مظہر سلیم، اشتیاق سعید، رحمان عباس، خاور حسین کے علاوہ اور کئی نام ملتے ہیں جن کے افسانچے مختلف اخبارات اور رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں لیکن کسی کا بھی افسانچوں کا مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے۔ البتہ اکبر عابد اور مظہر سلیم نے اس طرف بڑی سنجیدگی سے توجہ کی ہے۔مظہر سلیم جو بمبئی کے ایک جدید افسانہ نگار کی حیثیت سے معروف ہیں۔  انھوں نے بھی افسانوں کے ساتھ افسانچے بڑی تعداد میں لکھے ہیں جو مختلف اخبارات ورسائل میں شائع بھی ہوئے ہیں۔  وہ خود بھی ایک ادبی رسالہ ’’تکمیل‘‘ کے مدیر ہیں۔  ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’جہاد، اور ’اپنے حصے کی دھوپ‘ منظر عام پر آ چکے ہیں۔  ابھی حال ہی میں انھوں نے اپنے افسانچوں کا مجموعہ بھی ’فساد کے بعد، کے عنوان سے ترتیب دیا ہے۔ ان کے افسانچوں میں زندگی کے مسائل کی عکاسی کے ساتھ اپنے اطراف کے ماحول عروس البلاد کی مشینی زندگی کے اثر ات نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔  افسانچہ کی خوبی یعنی چونکانے والی ڈرامائی کیفیت اور طنز کی کاٹ بھی بڑے موثر انداز میں ملتی ہے۔ ان کے زیر ترتیب مجموعہ سے ایک افسانچہ دیکھئے:

 قانون کے سائے میں

 فساد کی وجہ سے شہر میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ لوگ اپنے ہی گھروں میں چوروں کی طرح چھپے ہوئے تھے۔ شہر کی ساری دکانیں بند تھیں …. لیکن اس کرفیو کے ماحول میں صرف ایک دوکان کھلی تھی۔ جس پر جلی حرفوں میں لکھا تھا۔

 ’’دیسی شراب کی دوکان….‘‘

 اور اس دوکان میں شہریوں کے محافظ بھرے پڑے تھے!

 اکبر عابد بمبئی کے ایسے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی بڑی تعداد میں لکھے ہیں لیکن چھپنے چھپانے کی طرف ذرا کم ہی توجہ دی ہے ان کا تعلق بھی شہر عروس البلاد سے ہے ویسے ان کا آبائی وطن ودربھ کا شہر ملکا پور ہے لیکن ایک عرصے سے وہ مشینوں کے شہر ممبئی میں مستقل سکونت اختیار کر چکے ہیں۔  حال ہی میں ان کے منی افسانوں کا مجموعہ ’’چپ چاپ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔’’چپ چاپ‘‘ پر جوگیندر پال کی رائے جو کتاب کے فلیپ پر چھپی ہے، بڑی اہم لگتی ہے۔  جو افسانچے کے فن کی دو اہم خصوصیات پر روشنی ڈالتی ہیں۔

 ’’چھوٹی کہانیوں کے فن کے دو اہم پہلو یہ ہیں کہ قاری کو کہانی کی تخلیق میں شامل ہو کر اپنے معنی تک پہنچنا ہوتا ہے کہ ہر کہانی اپنے کہے باب میں بھی کچھ کہہ رہ جاتی ہے۔ ’’چپ چاپ‘‘ (بڑا اچھا نام ہے) میں نے بڑی دلچسپی سے پڑھی ہے۔ اس کتاب کی کئی کہانیاں مندرجہ بالا اوصاف سے عاری نہیں اور ان میں شریک ہو کر خوشی ہوتی ہے‘‘۔

 احمد عثمانی اس مجموعہ پر تبصرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :

 ’’چپ چاپ، ۹۵ صفحات کا مختصر مجموعہ ہے۔  اس میں تقریباً ۳۷ کہانیاں ہیں۔  کچھ چند سطری اور کچھ دو صفحاتی۔  مدفن ، اور ’ماضی اور حال‘ دونوں کہانیاں ایک ہی موضوع پر ہے لیکن دونوں کا تاثر علیحدہ ہے۔ یہ دونوں کہانیاں عصر کے اہم موضوعات پر بڑی اپیلنگ ہیں۔  ’سازش، اور ’کسوٹی، چھوٹی چھوٹی کہانیاں اپنے اندر بڑی گہرائی رکھتی ہیں ‘‘۔ (ماہنامہ بیباک۔ اگست ۲۰۰۸ء)

 جہاں تک ان منی افسانوں کے موضوع کا تعلق ہے تو ان کے پاس بھی تقریباً وہی سب موضوعات نظر آتے ہیں جن سے ایک عام آدمی جوجھتا ہے۔ ان کا سامنا کرتا ہے، ٹوٹ کر بکھرتا ہے اور پھر مقابلہ کرتا ہے۔ اور کبھی مصلحت کا شکار ہو کر سمجھوتے بھی کر لیتا ہے۔ جو زندگی کے عام مگر بے حد سلگتے مسائل ہیں جیسے بے کاری، بے روز گاری، مفلسی، لاچاری، جسم کی خاطر جسم بیچنے کی مجبوری، جہیز کی لعنت اور فسادات کے مسلسل جبر وقہر کے عذاب، جسے ہر شخص جھیل رہا ہے اور نبرد آزما بھی ہے۔ لیکن ان کے علاوہ دوستی اور دوستی میں دھوکہ دہی، محبت اور محبت میں بے وفائی، آپسی رشتے اور ان رشتوں میں پڑی دراڑیں ، اپنوں کی خود غرضی ،بے حسی اور اس کی اپنی بے بسی وغیرہ غالب موضوع بن گئے ہیں۔ نمونے کے طور پر ان کے اس مجموعہ سے ایک افسانچہ ملاحظہ کیجئے۔

 ماضی اور حال

 جب میری شادی ہوئی۔ تو میں جہیز نہیں لینا چاہتا تھا…. بڑوں نے مجھے ایسا کرنے نہ دیا اور میرے نہ چاہتے ہوئے بھی جہیز کی لمبی چوڑی لسٹ میری سسرال والوں کے سامنے پیش کر دی تھی جو بخوشی قبول کر لی گئی۔

 اور آج میری بیٹی جوان ہو گئی تو مجھے اس کی شادی کی فکر لاحق ہے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ …. میرے بڑوں نے جہیز کی لمبی چوڑی (فہرست) لسٹ پیش کر کے کوئی غلطی و گناہ نہیں کیا تھا….

 کیونکہ آج مجھ سے اس وقت کے جہیز سے زیادہ کی مانگ کی جا رہی ہے۔(ص ۶۳)

 ۲۰۰۶ء میں فیروز خاں (پاتور ،ضلع آکولہ)نے اپنے افسانچوں کا مجموعہ ’’تیر نیم کش‘‘ شائع کیا۔ فیروز خاں بالکل نئے لکھنے والے بھی نہیں کہے جاسکتے ہیں کہ وہ ایک عرصے سے فکشن کی اس نئی مقبول صنف میں طبع آزمائی کر رہے ہیں اور اخبارات اور رسائل میں چھپنے چھپانے کے بجائے راست اپنے افسانچوں کا مجموعہ لے کر آئے ہیں۔ فیروز خاں بھی ایک حساس ادیب کی طرح اپنے اطراف کے حالات اور مسائل کو پیش کیا اور اکثر جگہ ان حالات پر ان کا طنز احتجاج بن کر ابھرتا ہے اس احتجاج کا نتیجہ بصورت طنز ان کے کئی افسانچوں میں نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے اس ضمن میں ان کا ایک افسانچہ بعنوان ’’لیڈر‘‘ جو ان کی کتاب کے ٹایٹل کور کے آخری صفحہ پر شائع کیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

 ’’کوئے کائیں کائیں کرتے ہوئے ایک سے دو اور دوسے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو گئے تھے۔ جنگل میں سوائے کووّں کے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہاں ایک لاش پڑی ہوئی تھی۔ جب وہاں چیلیں آ گئی تو سب کوے اڑ گئے تھے۔ پھر وہاں …. کچھ گدھ بھی آ گئے۔ چیلوں اور گدھوں نے لاش کو دیکھا۔

 تو وہ بھی مایوس لوٹ گئے۔

 کچھ دیر بعد…. وہاں پولیس پہنچی….

 پولیس نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ لاش ایک لیڈر کی ہے….!‘‘

 خاندیش کے علاقے میں بھی کئی نئے لکھنے والوں نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان میں کافی سینئر لکھنے والے بے حد مقبول افسانہ نگار ، قاضی مشتاق احمد بھی شامل ہیں۔  جن کے منی افسانوں کا مجموعہ قطرہ قطرہ ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا ہے اور ان کے بعد ایکدم نئے لکھنے والوں میں شکیل سعید کا مجموعہ ’’ایک ادھوری نظم‘‘ ملتا ہے جبکہ یہاں شکیل سے قدرے سینئر اور اچھے منی افسانہ نگار موجود ہیں جنھوں نے بڑی تعداد افسانچے لکھے ہیں جو مختلف اخبارات و جرائد کی زینت بھی بنے ہیں لیکن ان قلمکاروں نے کبھی مجموعہ کی طرف توجہ نہیں دی۔ ایسے لکھنے والوں میں فخر پرواز (کلیان) ، عزیز رحیمی ، احمد کلیم فیض پوری ، قیوم اثر ، معین الدین عثمانی ،قریشی جلال بھڑگانوی، رشید قاسمی ، صغیر احمد ، رحیم اثر ، مشتاق کریمی وغیرہ شامل ہیں۔

 قاضی مشتاق خاندیش کے سب سے سینئر اور بے حد مقبول افسانہ نگار ہیں۔  انھوں نے افسانوں کے ساتھ منی افسانے بھی خوب لکھے ہیں۔ ان کے منی افسانوں کا مجموعہ ’’قطرہ قطرہ‘‘ اسباق پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے جس میں جملہ ۶۶ منی افسانے شامل ہیں۔  پیش لفظ جوگندر پال نے لکھا ہے۔ قاضی مشتاق احمد کی منی افسانہ نگاری کے سلسلے میں وہ یوں رقمطراز ہیں :

 ’’قاضی مشتاق احمد مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ فکشن کی اس نہایت دلآویز مگر کٹھن صنف کی جانب اتنے شوق و انہماک سے متوجہ ہوئے ہیں۔  ان کے چند افسانچے پڑھ کر میں نے نمایاں طور پر محسوس کیا ہے کہ وہ کیوں اس صنف کے تقاضوں سے بے خبر نہیں اور انھوں نے کتنے فیاض رکھ رکھاؤ سے اپنے قارئین کو تخلیقی دریافت کے شخصی تعین کا موقع فراہم کیا ہے۔ مثلاً ان کا یہی افسانچہ لیجئے :

 ’’وصیت‘‘

 ایک لیڈر کا آخری وقت قریب آگیا۔ اس نے اپنے بڑے بیٹے کو بلا کر ہدایت کی۔ میرے مرنے کے بعد سب سے پہلے آل انڈیا ریڈیو کو مطلع کرنا، دور درشن کو بھی فون کر دینا۔ ۔۔ اچھا؟ اور پھر اخبارات کے نمائندوں کو شمشان بلا لینا۔ ۔ سن رہے ہو نا؟ وہاں کے چائے ٹھنڈے کا انتظام ضرور کر دینا۔

 کتنی مضحکہ خیز صورتحال ہے۔ مگر مضحک پہلو کے با وصف کتنی المناک ، کتنی حسبِ حال۔ ۔۔ افسانچہ نگار نے بڑے مزے سے اتنے میں ہی سبھی نام نہاد بڑوں کو جا پکڑا ہے۔ اب آپ جیسے کبھی چاہیں کہانی کے آگے پیچھے بنت کر لیں ‘‘۔

 ان منی افسانوں کے تعلق سے نذیر فتح پوری ، قاضی مشتاق احمد کے منی افسانے کے اسلوب اور موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

 ’’اس مختصر مجموعہ میں شاذ ہی کوئی افسانچہ ایسا ہو جو رونما نہ ہوا ہو یا رونما نہ ہوتا ہو۔ یا رونمائی کی صلاحیت سے عاری ہو۔ یہاں مثال کے لئے کئی افسانچے پیش کئے جاسکتے ہیں۔  مگر یہ ضروری نہیں ہے۔ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ افسانچوں میں طنز بھی ہے اور مزاح بھی، تلخی بھی ہے اور شیرینی بھی، حقائق بھی ہیں اور تخیل بھی ، آنسو بھی ہیں اور ہنسی بھی۔ دھوپ بھی ہے اور چھاؤں بھی۔ چھوٹے چھوٹے غم اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے تناظر میں تخلیق کئے گئے یہ چھوٹے چھوٹے افسانچے اپنی لطیف مسکراہٹ کے سبب ضرور پسند کئے جائیں گے۔‘‘

 قاضی مشتاق احمد کے اس مجموعہ میں شامل اکثر افسانچوں میں جہاں طنز کی کاٹ موجود ہے وہاں یہ بہت متاثر کرتے ہیں جیسا کہ درج بالاافسانچہ۔ لیکن کہیں کہیں یہ طنز لطیف پیرائے میں آگیا ہے۔ نذیر فتح پوری نے بھی طنز کے ساتھ مزاح کی موجودگی کا ذکر کیا ہے لیکن افسانچے کے لئے مزاح سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا جہاں جہاں طنز مزاح کے ساتھ آیا ہے وہ اپنے افسانچوں کو لطیفہ پن سے بچانے میں ناکام رہے ہیں۔  اگر وہ صورتحال پر قابو پالیں تو ان سے زیادہ اچھے افسانچوں کی امید کی جاسکتی ہے۔

 اس طرح خاندیش میں ایک سینئر لکھنے والے کا مجموعہ شائع ہوا ہے تو ایک ایکدم نئے لکھنے والے جونیئر جن کا نام شکیل سعید ہے بقول معین الدین عثمانی علاقہ خاندیش سے مختصر افسانہ لکھنے والوں میں ایک نام شکیل سعید کا بھی آتا ہے جن کے یہاں کچھ کہنے کی امنگ اور تڑپ موجود ہے۔ ان کی تحریروں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زبان و بیان کی خوبیوں کے علاوہ فنی لوازمات کو برتنے کا سلیقہ بھی کچھ حد تک ہے۔ ’’ایک ادھوری نظم‘‘ کے عنوان سے شکیل سعید کے منی افسانوں کا مجموعہ ۹۳ء میں منظر عام پر آیا ہے جن میں ایم آئی ساجد ، رشید قاسمی اور معین الدین عثمانی کے علاوہ فلیپ پر رفیق عادل کے تاثرات شامل ہیں۔  اس مجموعے میں تقریباً ۱۰۰ منی افسانے شامل کئے گئے ہیں۔  شکیل سعید نے اپنے اطراف کے ماحول میں جو کچھ دیکھا ہے اسے محسوس کیا ہے اور منی افسانے میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اکثر منی افسانوں پر شاعری کا اثر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ رفیق عادل ان کے منی افسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں :

 ’’شکیل سعید کی کہانیوں کا خمیر نہایت مربوط طریقے سے ہماری سماجی زندگی کی تیزی سے بدلتی ہوئے قدروں کے بیچ سے اٹھایا گیا ہے۔ بعض کہانیاں بالخصوص جہیز کے موضوع پر انہوں نے دلدوز حقائق کو نہایت چابکدستی سے قلم بند کیا ہے۔‘‘

 یہ صحیح ہے کہ فساد ، جہیز اور بیروزگاری کے موضوع پر انھوں نے کئی اچھے منی افسانے قلمبند کئے ہیں لیکن ابھی فنی پختگی کی کمی ہے جو مشاقی کی متقاضی ہوتی ہے۔ انھیں مسلسل انہماک ، لگن اور توجہ سے محنت کی ضرورت ہے۔ افسانچہ کے نام پر کہیں کہیں صرف خیالات ملتے ہیں اور کہیں تاثراتی رد عمل کی تحریر۔ اس سے اجتناب کے ساتھ خاص احتیاط کرنی چاہئے کہ منی افسانہ کا بنیادی وصف کہانی پن ہے۔ ان منی افسانوں کو پڑھتے ہوئے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی انتخاب اور ترتیب و تدوین کے بغیر مجموعہ شائع کر دیا ہے۔ اس لئے بقول رشید قاسمی مشاہدے اور تجربے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کسی حد تک شاعرانہ نثر ، اپنا رنگ دکھا سکتی ہے۔ منی افسانہ میں قاری کو تاثر دینا بے حد لازمی ہوتا ہے۔ یہ کمی منی افسانے کو کمزور بنا دیتی ہے۔ شکیل سعید کی پہلی کاوش کے اعتبار سے ’’ایک ادھوری نظم‘‘ کو گوارا کیا جاسکتا ہے لیکن اس امید کے ساتھ کہ مستقبل قریب میں منی افسانے کے فنی لوازمات کو برتنے کی پوری کوشش کریں گے۔ جو مسلسل ریاض اور انہماک سے پیدا ہوتی ہے۔ تاہم چند منی افسانے متاثر کرتے ہیں۔ ان میں آس کے پتے ، آن ڈیوٹی ، سوچ ، تیاگ ، کہانی دیوار ، غریب ، تعاقب ، سوال ، اسٹو اور ٹائم اور سحر ہونے تک وغیرہ شامل ہیں۔  ان میں سے ایک بیان ملاحظہ فرمایئے:

 اسٹو

 زخموں سے تلملاتی ہوئی نندہ ، سسکتے سسکتے پولس کو بیان دے رہی تھی۔ کہ اسے رات کے اندھیرے میں ساس ، نند اور شوہر نے جلا ڈالا۔ وہ سسک رہی تھی اور پولس کا قلم چلتے ہوئے بھی رکا ہوا تھا۔ ایک لمحے میں نیچے سے لکھے ہوئے کاغذ کو اوپر آتا ہوا دیکھا۔ اس پر ایک اور لکھا ہوا کاغذ رکھ دیا گیا۔ اس پر لکھا تھا ’’میں خود جل کر مر رہی ہوں مجھے کسی نہ نہیں جلایا یہ سارا قصور اس اسٹو کا ہے جو میرے باپ نے مجھے جہیز میں دیا تھا، نندہ نے سرد ہونے سے پہلے اس پر دستخط کر دی۔ ص ۲۴ (ایک ادھوری نظم۔شکیل سعید)

 علاقہ خاندیش میں ایم رفیق، رحیم رضا (بیاول) ، قریشی جلال بھڑگانوی ، سید ذاکر حسین (ارنڈول)،سعید پٹیل ، مشتاق کریمی وغیرہ کے ساتھ دیگر کئی لکھنے والوں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مستقل میں اس صنف کی طرف پورے انہماک سے متوجہ ہو کر کڑے انتخاب کے ساتھ اپنے مجموعوں کا اہتمام کریں گے۔مالیگاؤں مہاراشٹر کا ادبی اعتبار سے بڑا زرخیز شہر ہے۔  یہ شاعروں کا گڑھ ہے تو افسانہ نگاروں کی جائے پناہ۔ اس شہر کے ترقی پسند اور جدیدیت کے حامل دونوں قسم کے افسانہ نگاروں نے ملک اور بیرون ملک بہت نام روشن کیا ہے۔ جدیدیت کی لہر کو عام کرنے میں بھی اس شہر کے قابل ذکر ادبی پرچوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ ’نشانات،جواز، توازن جیسے ادبی رسائل کی شہر ت و مقبولیت اور ان کی کارکردگی سے اردو کا کون سا شخص واقف نہیں ہے۔ اب ’بیباک‘ بھی اپنی انفرادیت قائم کرنے میں کامیاب ہے۔ اس شہر کے افسانہ نگاروں نے بھی افسانوں کے ساتھ افسانچے بڑی تعداد میں لکھے ہیں جو مختلف اخبارات ورسائل میں چھپتے رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے لکھنے والوں نے اس صنف پر خصوصی توجہ دی ہے اور اسے مقبول عام بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ سلطان سبحانی، احمد عثمانی، آصف ہاشمی، مجید انور،خیال انصاری، سجاد عزیز اور کئی سینئر افسانہ نگاروں نے افسانچے بھی لکھے ہیں۔  اور ان کی بعد کے نسل میں کئی نئے نام ملتے ہیں جنھوں نے اس صنف کو سلیقے سے برتا ہے اور مقبول ہوئے ہیں۔  جن میں ارشد نظر، محمد اکرام الدین، طاہر انجم صدیقی، آصف اقبال مرزا، ہارون اختر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ البتہ یہاں سے افسانچوں کا باقاعدہ کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے۔ احمد عثمانی ہی ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے پہلے افسانوی مجموعہ میں کئی افسانچے ملتے ہیں۔  احمد عثمانی ایک سینئر جدید افسانہ نگار کی حیثیت سے اردو فکشن کی دنیا میں کافی معروف ہیں۔  ان کے افسانوں کے اب تک تین مجموعہ چھپ کر مقبول ہو چکے ہیں۔  ان کے پہلے افسانوی مجموعہ ’اپنے آپ کا قیدی، میں کئی افسانچے شامل ہیں۔  یہ مجموعہ ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا تھا جس کا پیش لفظ راجندر سنگھ بیدی نے لکھا تھا۔ بقول احمد عثمانی:

 ’’ میں نے دور تخریب میں آنکھ کھولی۔  مجھے نہیں معلوم کہ امن وسکون کسے کہتے ہیں۔  یہ دونوں چیزیں آج تک مجھے میسر نہیں آئیں ، آئندہ بھی میسر نہیں آئیں گی شاید۔ اس لیے مجھے جنگ سے شدید نفرت ہے۔ فلسطین، ویتنام، ہند و پاک، ہند و چین، قحط وافلاس( میں انھیں بھی جنگ ہی سمجھتا ہوں ) یہ سب انسانوں کی دین ہے‘‘۔(’اپنی بات، ص۶)

 اسی پس منظر میں احمد عثمانی نے کئی افسانچے تخلیق کیے ہیں۔  اسی مجموعہ سے ایک افسانچہ یہاں دیکھئے:

 درد کا در

 مجھے محسوس ہوا، زمین کے کسی حصے سے بارود اور ہوا کی ملی جلی بو آ رہی ہے۔ زمین کا کوئی ٹکڑا بھاری بھرکم بوٹوں اور لوہے کے وزن سے کراہ رہا ہے۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ کون سا حصہ ہے۔ میں نے گلوب گھمایا۔ ہر طرف لوگ باگ کام میں منہمک تھے۔ کہیں چہرے بگڑے ہوئے تھے۔ ماتھا کسا ہوا تھا۔ آنکھیں سرخ سرخ تھیں۔  یہ صرف میلے کچیلے حصوں میں تھا۔ جیسے جیسے میں گلوب کو گھما رہا تھا مشینوں کی آواز، بارود اور لہو کی بو، تیز ہوتی جا رہی تھی۔ جب میں نے چین کے نیچے جھانک کر دیکھا تو وہاں کا نقشہ جگہ جگہ سے زخمی تھا۔ ایسا لگتا تھا یہاں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ میں نے لہو کے چھینٹوں کے درمیان بڑی مشکل سے لکھا ہوا دیکھا ’’ویت نام‘‘۔(ص۱۱)

 اس پورے جائزے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ صنف افسانچہ کی ابتداء بھی مہاراشٹر میں ہوئی اور اسے فروغ بھی یہیں ملا۔ اور مہاراشٹر میں افسانچہ کی صورتحال نہایت اطمینان بخش ہے۔  اور اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا۔بلکہ یہ ثابت بھی ہوتا ہے کہ سب سے پہلے منٹو نے اردو میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے عنوان سے مختصر ترین افسانے لکھے (جسے جوگندر پال نے بعد میں افسانچہ کا نام دیا) بھلے ہی ان کا تعلق امرتسر پنجاب سے رہا ہو لیکن عمر کا بیشتر حصہ ممبئی میں گزرا اور ان کا تخلیقی سرمایہ اسی قیام کے دوران منظر عام پر آیا۔ یہ افسانچے بھی تقسیم ہند کے پس منظر میں انھوں نے بمبئی میں ہی لکھے تھے جو ۱۹۴۸ء میں یہیں سے شائع ہوا۔ اس لحاظ سے مہاراشٹر میں افسانچے کی ابتداء ہوتی ہے۔ اس کے بعد جوگندر پال کا اہم نام آتا ہے جنھوں نے اس کو باقاعدہ صنف کا درجہ دلانے میں اہم رول ادا کیا۔ اسے اعتبار اور وقار بخشا۔ ان کا تعلق بھی حالانکہ سیالکوٹ سے رہا ہے اور اب وہ دلی میں مستقل سکونت کر چکے ہیں لیکن ان کے افسانوی مجموعہ ’’میں کیوں سوچوں ‘‘ میں ۳۵افسانچے بھی شامل ہیں جو ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا تھا۔ جسے ان کے افسانچوں کا پہلا مجموعہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کے قیام کے دوران باقاعدہ افسانچوں کا پہلا مجموعہ ’’سلوٹیں ‘‘ کے نام سے ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا جو پورے ملک میں اس صنف میں افسانچوں کا پہلا مجموعہ قرار دیا جاسکتا ہے جو مہاراشٹر میں ان کے قیام کے دوران شائع ہوا۔ یہ اولیت اسی ریاست کے حصے میں آئی ہے۔ اس کے بعد تو جیسے افسانچوں کے مجموعوں کی اشاعت کا راستہ ہموار ہوتا گیا اور یہاں کے کثیر الاشاعت اخبارات انقلاب ، اردو ٹائمز وغیرہ نے اس صنف کو پھلنے پھولنے میں معاونت کی اور اسے مقبول عام بنانے اور نئی نسل کو اس سمت متوجہ کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ ساتھ ہی اس صنف پر کے خصوصی گوشے اور خصوصی نمبر بھی شائع ہوئے۔ دیگر ریاستوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس صنف میں خال خال ہی کچھ نام ملتے ہیں مجموعے تو نہیں کے برابر شائع ہوئے ہیں۔  بڑی مشکل سے دو ایک مجموعے ملتے ہیں۔ جیسے طالب زیدی کا ’’پہلا پتھر‘‘ اور محمد قیوم میؤ کا ’’رشتوں کا کرب‘‘ حسن اتفاق سے وہ بھی کاروبار کے سلسلے میں مہاراشٹر میں منتقل ہو چکے ہیں۔  ماہنامہ ’روبی‘ (دہلی) اور ’’سلگتی لکیریں ‘‘ (لکھنؤ) کے علاوہ دیگر ریاستوں سے شائع ہونے والے کسی رسالے نے کوئی خاص نمبر اس صنف میں شائع کیا اور نہ ہی کتابیں چھپیں۔  اس مختصر سے تجزیے سے اس بات کا اندازہ باآسانی ہو جاتا ہے کہ افسانچہ کی اولیت کا سہرا ریاست مہاراشٹر کے سر بندھتا ہے۔

 

چوتھا باب

 مہاراشٹر کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوں میں افسانچہ کی صورتحال کا جائزہ

 مہاراشٹر کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوں میں افسانچہ لکھنے والوں میں وہ سرگرمی اور گرمجوشی دکھائی نہیں دیتی جو مہاراشٹر کا خاصہ رہی ہے البتہ اتر دیش اور بہار میں لکھنے والوں کی تعداد قابلِ لحاظ حد تک موجود ہے لیکن یہاں بھی معاملہ وہی ہے کہ زیادہ تر لکھنے والے نئی نسل کے ابھرتے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔  سینئر اور معتبر افسانہ نگاروں نے افسانچے لکھے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں کا اس سمت کوئی مثبت رجحان نظر آتا ہے۔

 چونکہ اتر پردیش ملک کی ایک بڑی ریاست ہے لہذا یہاں لکھنے والوں کی تعداد بھی دوسری ریاستوں کی بہ نسبت اچھی ہے لیکن اس صنف میں زیادہ تر لکھنے والوں کا تعلق نئی نسل سے ہے جو ۱۹۸۰ء کے بعد ابھر کر سامنے آئی۔ اس صنف میں زیادہ تر وہ افسانہ نگار شامل ہیں جنہوں نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی لکھے ہیں لیکن مجموعوں کی اشاعت یہاں بھی نہیں کے برابر ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنی بڑی ریاست اتر پردیش میں صرف دو مجموعے ملتے ہیں۔  ایک میرٹھ کے طالب زیدی کا مجموعہ ’’پہلا پتھر‘‘ اور دوسرا آگرہ کے محمد قیوم میؤ کا ’’رشتوں کا کرب‘‘ ان میں ثانی الذکر بھی ملک کی تجارتی راجدھانی، ریاست مہاراشٹر کے دارالخلافہ، شہر عروس البلاد، ممبئی میں روزگار کے سلسلے میں قیام پذیر ہیں۔  اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو پوری ریاست یو پی میں افسانچوں کا صرف ایک ہی مجموعہ ملتا ہے۔ البتہ کچھ مشترکہ مجموعوں میں افسانچے ضرور ملتے ہیں۔  بہرحال یہاں بھی لکھنے والوں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

 طالب زیدی کے افسانچوں کا مجموعہ ’’پہلا پتھر‘‘ اکتوبر ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا تھا۔ ان کے افسانچے ان کی قوت مشاہدہ اور فنی مہارت کا پتہ دیتے ہیں۔  جن میں سے اکثر پر نثری نظم کا گمان ہوتا ہے یہ بات جدید افسانہ نگاروں کی طرح اکثر افسانچہ نگاروں کے پاس بھی ملتی ہیں۔  نیا افسانہ جس طرح شاعری سے قریب ہوتا گیا اسی طرح افسانہ میں ہئیت کی تبدیلی کے تحت وجود میں آئی اس صنف پر یہ اثر نمایاں طور پر ملتا ہے۔ طالب زیدی کے افسانچوں کا تجزیہ طارق سعید ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

 ’’عصر رواں میں طالب چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی چیزوں کو پرونے میں ماہر ہیں۔  مختصر فقروں میں باریک باتوں کے کہنے کا سلیقہ طالب زیدی کی انفرادیت ہے۔  آج فکشن کی دنیا میں ہم جس چیز کو افسانچہ یا منی کہانی کہتے ہیں۔  اس کی بہترین مثال زیدی کے فن میں موجود ہے۔ ان کی منی کہانیوں کا مجموعہ ’’پہلا پتھر‘‘ اردو میں تحسین کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے‘‘۔ (ص۴۰۔نئی کہانی۔ طارق سعید مطبوعہ ماہنامہ شاعر۔ بمبئی۔ افسانہ نمبر ۱۹۸۱ء۔ شمارہ۱۱۔۱۲)

 طالب زیدی نے بھی زندگی کی سچائیوں کو تمام تر حقیقتوں کے ساتھ پیش کیا ہے اور سماج کے سفاکانہ نظام اور معاشرہ میں پھیلی بے حسی، خود غرضی کی بڑی ہنر مندی سے عکاسی کی ہے۔ نئے لہجے، نیز علامتی پیرائے الفاظ میں اور کہیں خوبصورت جملوں میں گہرا طنز پوشیدہ ہوتا ہے۔ اور کہیں کہیں احتجاج کا دھیما لہجہ، شاعری سے قریب ہو کر ایک نئی فرحت کا احساس بخشتا ہے۔ ساتھ ہی پڑھنے والے کو کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر دو افسانچے دیکھیے۔

 (۱)محرومی

 ’’جب سے دشمنوں کی پہچان ہوئی ہے۔

 دوستوں سے محروم ہو گیا ہوں۔ !‘‘ (ص۱۷)

 (۲)شگون

 وزنی ٹرک کے نیچے آ کر سیاہ بلّی تار کول کی سڑک پر بچھ گئی تھی۔

 خدا جانے اس کا راستہ، کس نے کاٹا تھا۔ !‘‘ (ص۱۰)

 طالب زیدی کا یہ مجموعہ کافی مقبول ہوا تھا اور ایک عرصے تک ادبی حلقوں میں زیر بحث رہا۔ لیکن بعد میں طالب زیدی شاعری کی طرف متوجہ ہو گئے کہ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں لیکن افسانچہ نگاری کی بہترین صلاحیتیں ان میں موجود ہیں۔  لہذا اس بات کی قوی امید کی جاسکتی ہیں کہ مستقبل قریب میں وہ ضرور اس طرف سنجیدگی سے توجہ دیں گے۔

 یوسف جمال نے بھی مختصر مختصر کہانیاں لکھی ہیں جو زندگی سے قریب ہیں اور زندگی کی کڑوی سچائیوں کو بڑی بے رحمی سے بے نقاب کرتی ہیں۔  ان کے افسانچوں میں بھی طالب زیدی کی طرح نثری نظم کا رنگ ملتا ہے۔ اس ضمن میں طارق سعید رقم طراز ہیں۔

 ’’….یوسف جمال کا نام لینا حق بجانب ہو گا۔ جنہوں نے ویریندر پٹواری کی طرح منی کہانیوں بلکہ نثری نظموں میں کہانی کے فارم کو تشکیل دے کر افسانوی ادب کو بحث کا ایک موضوع دے دیا ہے۔ ساتھ ہی منی کہانیوں میں کہانی پن کی روح قائم رکھنا یوسف جمال کی فنکارانہ صلاحیتوں کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔ ایک منی کہانی ملاحظہ کریں۔

 انٹرویو کے آخر میں ڈاکٹر نے پوچھا۔ ’’ورثے میں کچھ پروپرٹی‘‘۔

 جواب سے قبل ہی اچانک کھانسی شروع ہوئی۔ وہ زمین پر بے دم ہو کر بیٹھ گیا۔ اور خون کی قے کرنے لگا۔ فرش پر گاڑھا خون جم گیا۔‘‘ (ص۴۰۔نئی کہانی۔ طارق سعید مطبوعہ ماہنامہ شاعر۔ بمبئی۔ افسانہ نمبر ۱۹۸۱ء۔ شمارہ۱۱۔۱۲)

 یوسف جمال نے نہایت مختصر لفظوں میں مفلس آدمی کی زندگی کی مکمل کہانی کو اس طرح سمیٹ کر رکھ دیا ہے کہ افسانچہ ختم ہونے کے بعد کہانی پڑھنے والے کے ذہن میں پرت پرت اتر کر پھیلی جاتی ہے جو افسانچہ کا اصل فن ہے۔ یوسف جمال کے افسانچے اس مشکل فن پر پورے اترتے ہیں۔

 منفرد لب و لہجے کے ممتاز و معروف شاعر اور ناقد ڈاکٹر مظفر حنفی نے بھی پہلے پہل بڑی تعداد میں افسانوں کے ساتھ چند افسانچے لکھے تھے۔ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک یہ زمانہ ان کے افسانوں کے عروج کا دور تھا۔ جب وہ مظفر حنفی ہسوی کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں اپنے دوست حسن بشیر کے رسالہ ’نئے چراغ‘ (جس کی ادارت انہی کے ذمہ تھی)، میں ’ارسطو ثانی‘ کے نام سے ’مشاہدات ارسطو‘ کے تحت افسانچے تخلیق کیے تھے۔ اس مستقل کالم کے ذریعہ ایک طرح سے انھوں نے منٹو کے ’سیاہ حاشیے‘ کی روایت کی تشکیل نو کی۔ یہ ۱۹۵۹ء کی بات ہے اس سال جنوری تا دسمبر منظر حنفی کے بیس افسانچے شائع ہوئے جو ان کے تیسرے مجموعے ’دیدۂ حیراں‘ میں شامل ہیں۔  اس بات کی تصدیق ڈاکٹر محبوب راہی اپنے تحقیقی مقالہ میں ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

 ’’مظفر حنفی کے افسانوں کی (ان کے دور افسانہ نگاری میں ) جدید ہونے کی عمدہ مثال ان کے منی افسانے ہیں۔  جن میں سے کچھ ان کے اپنے افسانوی مجموعہ ’دیدۂ حیراں ، میں افسانچے عنوان کے تحت شریک کیے گئے ہیں یہ افسانچے سب سے پہلے انھوں نے اپنی ادارت میں نکلنے والے رسالہ ’نئے چراغ، (کھنڈوہ)میں ایک مستقل کالم ’مشاہدات ارسطوثانی‘ کے تحت شائع کیے تھے۔ یہ افسانچے مظفر حنفی اور ان کے دوست نائب مدیر حسن بشیر مرحوم لکھا کرتے تھے۔ اس اعتبار سے مظفر حنفی اور حسن بشیر مرحوم کے نام منی افسانے کے فن کو اعتبار واستحکام بخشنے والوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں ‘‘۔ (ڈاکٹر مظفر حنفی۔ حیات، شخصیت اور کارنامے۔۱۹۹۹ء ص۱۴۳)

 مظفر حنفی کے یہ افسانچے مختصر ترین ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ ، متاثر کن اور طنز سے لبریز ہیں اور ہر افسانچہ کو برجستہ عنوان دیا گیا ہے۔ بطور نمونہ چند افسانچے ملاحظہ کیجئے۔

 پاگل اور پولیس

 پاگل ڈنڈے سے کھمبے کو پیٹ رہا تھا۔ ایک لمبا آدمی آ کر پاگل کو پیٹنے لگا۔ پاگل نے پوچھا۔

 ’’تم مجھ کو کیوں پیٹ رہے ہوں ؟…. میں تو پاگل آدمی ہوں ‘‘۔

 ’’اور میں پولیس کا آدمی ہوں !‘‘۔

 ٭

 اخلاقیات

 وہ دونوں فوارے کے کارنس پر بیٹھے بڑی دیر سے اخلاقیات پر بحث کر رہے تھے۔ ’’دیکھئے نا! کیا زمانہ آگیا ہے۔ شارع عام پر اس قسم کے مجسمے نصب کرنا کہاں کی تہذیب ہے‘‘۔

 ’’اجی صاحب، کیا عرض کرو۔ ابھی کل ہی …. ارے ….‘‘

 اور وہ دونوں سامنے سے گزرتی ہوئی برہنہ پگلی کو ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگے۔

 ٭

 دیا دھرم

 تین فاقے ہو گئے تو ارسطو اپنا ہینڈ بیگ گروی رکھنے چلا۔ بنیا اس وقت اپنی چارپائی کے کھٹمل مار رہا تھا۔ ہینڈ بیگ کو دیکھ کر دور سے ہی چھی چھی کرنے لگا…. ’’رام رام ، اپن چمڑے کی چیز نہیں چھوتے۔ جیو ہتیا کے بھاگی ہو جائیں گے‘‘۔

 مظفر حنفی نے تمام مروجہ تکنیکوں کے علاوہ کچھ جدتیں اور اضافے بھی کیے اور کچھ ایسی نئی کامیاب تکنیک میں افسانے اور افسانچے لکھے جن پر بہت کم توجہ دی گئی۔ اس خصوص میں جوگندر پال کے ساتھ مظفر حنفی کا نام تھی بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے لیکن بعد میں انھوں نے شاعری کی طرف مراجعت کی اور تحقیق و تنقید کی دنیا میں ایسے مگن ہوئے کہ پھر افسانہ اور افسانچہ کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اس سلسلے میں وہ خود کہتے ہیں۔

 ’’میں نے ابتداء میں افسانے ہی لکھے اور غزلیں منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے کبھی کبھار کہہ لیتا تھا۔ تین افسانوی مجموعہ شائع ہوئے۔ لیکن وہ ان ہی خصوصیات کے حامل ہیں جو جدیدیت سے پیش تر رائج تھیں اور آگے جا کر جنھیں معتوب قرار دیا گیا۔ میں نے سن ساٹھ کے بعد سے افسانہ کہنا ہی ترک کر دیا تھا اور پوری توجہ سے شاعری کی جانب راغب ہو گیا‘‘۔ (مظفر حنفی سے بات چیت۔ متکلم۔ ڈاکٹر راشد عزیز۔  مطبوعہ اردو دنیا۔ دہلی۔ ستمبر ۲۰۰۸ء)

 مظفر حنفی کے افسانوں کے تین مجموعے ’اینٹ کا جواب، (۱۹۶۷ء)، ’دو غنڈے، (۱۹۶۹ء) اور ۱۹۷۰ء میں تیسرا مجموعہ ’دیدۂ حیراں‘ شائع ہوئے اور آخری مجموعہ میں افسانوں کے ساتھ بیس افسانچے بھی شامل ہیں۔ فکشن کی تنقید میں بھی ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آئیں لیکن انھوں نے افسانچہ کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اور اپنی تحقیق و تنقید میں اسے کہیں جگہ دی اور نہ ہی بعد میں تخلیقی سطح پر افسانچہ کو اہمیت دینا گوارہ کیا۔ لیکن اس کے باوجود افسانچہ کے ارتقاء میں ان کی اولین کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ البتہ مظفر حنفی اگر مستقل طور پر پوری سنجیدگی سے اس سمت توجہ دیتے تو اپنی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کے سبب اسے مزید بار آور کرسکتے تھے اور کم از کم صنف افسانچہ کو اپنی تنقیدوں تحریروں میں مناسب جگہ دیتے تو اس کی صنفی حیثیت بہت پہلے متعین ہو جاتی اور اس طرح منٹو کے بعد اس صنف میں اولیت کا سہرا جوگندر پال کے ساتھ مظفر حنفی کے سر بھی بندھتا اور شاعری کی طرح ادھر بھی انہیں وہی اہمیت حاصل ہوتی۔ چونکہ جوگندر پال بنیادی طور پر افسانہ کے آدمی تھے۔ انھوں نے مختصر ترین افسانہ یعنی افسانچہ پورے تسلسل کے ساتھ لکھا اور باقاعدہ اسے صنف کی حیثیت سے اردو ادب میں متعارف کروایا۔  اس کی خوب پذیرائی کے التزام کیے۔ اسے اعتبار اور وقار بخشا اور نئی نسل کے لکھنے والوں کو ترغیب و تحریک دلائی۔ ساتھ ہی فکشن پر لکھی گئیں اپنی تنقیدی تحریروں میں بھی افسانچہ کو نمایاں طور پر پیش کیا۔ اور اس کی فنی خوبیوں کا تجزیہ کیا۔ ان کے افسانچے ابتداءسے ملتے ہیں جو سب سے پہلے ان کے افسانوی مجموعہ ’میں کیوں سوچوں‘ میں ۳۲ افسانچے شامل ہیں جو ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا تھا۔ اس لحاظ سے منٹو کے بعد جوگندر پال کو ہی اولیت کا درجہ حاصل ہے اور اس خصوص میں ان کی ایک امتیازی حیثیت ہے۔جو بڑی اہمیت کی حامل ہے۔اس اہم اور بنیادی افسانچہ نگار کا تفصیلی تعارف ریاست مہاراشٹر کے باب میں آ چکا ہے۔ گو کہ اب وہ ایک عرصہ سے دہلی میں منتقل ہو کر وہیں مستقل سکونت اختیار کر چکے ہیں۔

 جوگندر پال کے بعد ان کے ہم عصروں میں اگر کسی نے سنجیدگی سے اس صنف کو بخوبی برتا ہے تو وہ بے شک رتن سنگھ ہیں۔  جنہوں نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی خوب لکھے ہیں۔ دیگر سینئر افسانہ نگاروں میں رام لعل، بشیشر پردیپ، عطیہ پروین، فاروق ارگلی، ساحل احمد، سیف الرحمن عباد، انجم عثمانی، اظہار عثمانی، اقبال انصاری، ویریندر پٹواری، اشوک پٹواری، بلراج ورما، خورشید ملک وغیرہ کے نام نمایاں ہیں جنہوں نے افسانچے بھی لکھے ہیں جو ممتاز ادبی رسائل و جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔  ان کے بعد کی نسل میں اس ریاست میں جو نام تیزی سے ابھرے اور صنف افسانچہ کو بڑھاوا دیا ان میں مستحسن عزم، صغیر اشرف (نینی تال)، فضل امام ملک (دہلی)، سمن مچھانوی، اشفاق برادر، خان حفیظ(کانپور)، سعید ریاض(رام پور)،احسان ثاقب (نوئیڈا)،سہیل جامعی، ڈاکٹر شبیر صدیقی، خان شاداب خسرو متین، وقار انور (دہلی)، ایس ایم فضیلت (رام پور)، شکیل جاوید( امروہی)، اظہرالہادی امروہوی، ظہیر کیفی امروہی (دہلی)، محمد اظہر مسعود خاں (رام پور)، سعید فریدی (بنارس)، خاں حشمت شاہین، نسیم بن آسی(الہ آباد)، سمیہ رضوی (لکھنؤ)، عبید الرحمن اعظمی (دہلی)، نیل آکاش (علی گڑھ)، محمد شبیر علی محمدوی وغیرہ نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے ہیں جو ملک کے معتبر اور مقبول ادبی رسائل میں تواتر کے ساتھ چھپتے ہیں۔  ملک کی راجدھانی دہلی میں اس صنف کے لکھنے والے بھی بہت ہیں اور انہیں مقبول عام بنانے والے رسائل و جرائد اور اخبارات بھی بڑی تعداد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔  جیسے ماہنامہ شمع، (جو ۰۰۰۲ء میں بند ہو چکا ہے) روبی، گلفام جو بند ہو چکے ہیں فلمی ستارے، پیش رفت، ماہنامہ راشٹریہ سہارا اور عالمی سہارا (ہفتہ روزہ) ان تمام نے افسانچے چھاپ کر اس صنف کو قبول عام بنانے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔

 محمد قیوم میؤ بھی ایک طویل عرصے سے منی افسانے لکھ رہے ہیں۔  بقول خود ان کے اب تک تین سو سے زائد مختصر افسانے شائع ہو چکے ہیں۔  اس سے ان کی زود نویسی کا پتہ چلتا ہے انہیں اچھا ادبی ماحول بھی میسر آیا ہے۔ جس کے سبب ان کے تخلیقی سوتے خوب رواں دواں ہو گئے ہیں۔  کسی مفصل کہانی کو مختصر لفظوں میں سمو دینے کے فن سے وہ واقف ہیں۔  اور اختصار بیان کے اس وصفِ خاص کو اپنے انداز میں برتنے میں کامیاب ہیں۔  ان کے منی افسانوں کا ایک مجموعہ ’’رشتوں کا کرب‘‘ کے نام سے ۱۹۹۴ء میں چھپ کر مقبول ہو چکا ہے۔ جس میں جملہ ۵۷ منی افسانے شامل ہیں۔  اس مجموعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سلطان انجم مدیر تعمیر ہریانہ لکھتے ہیں۔

 ’’رشتوں کا کرب کے بیشتر مختصر افسانوں میں لمحاتی گرفت کا فی مضبوط ہے۔ افسانہ نگار نے بظاہر عام سے موضوعات پر قلم آرائی کی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ان تحریروں کا کینوس نہایت وسیع ہے۔ یہ مختصر افسانے سماجی اقدار کی شکست و ریخت، مغرب کی اندھا دھند نقالی کے اس شوق میں نئی نسل کی بے راہ روی اور مادہ پرستی کے اس دور میں رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے والے عوامل کی عکاسی کے ساتھ ساتھ اپنی سادگی اور مقصدیت کی بدولت کافی کامیاب ہیں ‘‘۔ ص۳۹ مطبوعہ تعمیر ہریانہ مئی ۱۹۹۴ء

 محمد قیوم میؤ نے اپنے اطراف پھیلے مسائل کو ان مختصر افسانوں میں پیش کیا ہے اور معاشرے کے کئی سلگتے مسئلوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کے موضوعات کے تعلق سے پروین سلطانہ یوں روشنی ڈالتی ہے۔

 ’’ان کے افسانوں میں جو مشترک بات پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ سماج جنس زدہ ہو چکا ہے اور جنسی جرائم نکتہ کمال تک پہنچ چکے ہیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے میں جرائم جڑ مضبوط کر چکا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے بہت قریب سے معاشرے کی چھوٹی بڑی برائیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس کا بھی احساس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کی ذات اور ان کی نفسیات بھی ان جرائم سے بڑی حد تک متاثر ہوئی ہے۔ ان کے افسانوں میں جگہ جگہ جنسی آوارگی ، بے وفائی، نفرت اور عبرت کے نشانات نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں ‘‘۔(تبصرہ …. مطبوعہ اردو بک رویو دہلی۔ ستمبر اکتوبر ۱۹۹۷ء۔ ص۲۸)

 ان موضوعات کے علاوہ جہیز کے مسئلے پر کئی افسانے ملتے ہیں معاشرہ، سیلاب، بنیادی فرق اور پیار کا صلہ ان میں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔  ’انوکھا جہیز، تو نام سے ظاہر ہے کہ جہیز کے موضوع پر ایسا منی افسانہ ہے جو اس رسم کی گھناؤنی تصویر کو بڑے مؤثر ڈھنگ میں پیش کرتا ہے۔ جو موضوع کے ساتھ ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے بھی ایک اچھوتی تخلیق قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کا غیر متوقع انجام پڑھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ جو کسی تازیانہ سے کم نہیں۔  معاشرے کی ایسی سچی اور حقیقی تصویریں ان کے مختصر افسانوں میں جا بجا نظر آتی ہیں۔  مثال کے طور پر ان کا ایک منی افسانہ بعنوان ’’سیلاب‘‘ دیکھیے۔

 وہ بوڑھا شخص آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے شدید بارش کے لیے دعائیں مانگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ ٹپک رہے تھے۔ دوسرے بوڑھے نے دریافت کیا۔ ’’ارے جمن میاں ، کل رات ہی موسلادھار بارش ہوئی ہے۔ جس سے سارا گاؤں پانی میں ڈوب گیا ہے اور آپ پھر دعائیں کر رہے ہیں۔  بھلا ایسی کیا بات ہے؟!‘‘

 جمن میاں نے ایک اچٹتی سی نظر فرماں چچا پر ڈالیں اور کچھ یوں گویا ہوئے۔

 ’’میں بارش کے لیے نہیں بلکہ آندھی طوفان کے لیے دعائیں مانگ رہا تھا۔ کیا تم نہیں جانتے، ابھی چند روز قبل ہمارے گاؤں میں جب زبردست سیلاب آگیا تھا۔ جہاں پورا گاؤں برباد ہو گیا۔ حکومت نے ہر گھر کو پچاس پچاس ہزار فی گھر مالی امداد دی تھی۔ کاش وہی بھیانک سیلاب ہمارے گاؤں میں آ جائے تو اس سے ملنے والی امداد سے میں اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کروں جواب تک پچیس بہاریں دیکھ چکی ہے‘‘۔

 فرمان چچا نے جو ان کی باتیں سنیں تو بوجھل بوجھل قدموں سے گھٹنے گھٹنے پانی میں اپنے اس خستہ وشکستہ جھونپڑے کی جانب چل دیے۔ ص۶۴

 موضوع کی پیشکش کے اعتبار سے محمد قیوم میؤ بے حد کامیاب ہیں لیکن فنی لحاظ سے ان کے پاس پختگی کی کمی نظر آتی ہے۔ اسی بات کو پروین سلطانہ محسوس کرتے ہوئے اس کتاب کے تبصرے میں ایک جگہ لکھتی ہیں۔

 ’’جہاں تک ادبی چاشنی کا سوال ہے اس میزان پر افسانہ نگار کہیں کھڑے نظر نہیں آتے۔ کاش افسانہ نگار ابتدا سے چھپنے سے زیادہ سیکھنے پر توجہ دیتے تو آج ان کا شمار بہترین افسانہ نگاروں میں ہوتا کیونکہ ان کے اندر عصری آگاہی اور حقیقت پسندی بدرجہ اتم موجود ہے اور جرا ¿ت اظہار بھی ہے۔ اگر افسانہ نگار منفی پلاٹ کے بجائے اپنے افسانوں میں مثبت پلاٹ کو جگہ دے تو ان کے فن میں مزید نکھار آسکتا ہے‘‘۔(مطبوعہ اردو بک رویو۔ ستمبر اکتوبر ۱۹۹۷ء)

 واقعی اگر وہ اپنے افسانچوں کو مزید مختصر کر لیں اور غیر ضروری وضاحتوں سے بچتے ہوئے اختصار کو اپنا لیں تو ان سے مستقبل میں مزید اچھے افسانچوں کی امید کی جاسکتی ہے۔

 اسلم جمشیدپوری کے ’کتاب نما‘ (نئی دہلی۔ اگست ۲۰۰۰ء) میں چھپے تبصرے سے معلوم ہوتا ہے کہ سمن مچھانوی اور سہیل جامعی کے افسانوی مجموعوں میں افسانچے ملتے ہیں۔  سمن مچھانوی کے مجموعے میں کئی افسانچے شامل ہیں۔  اسی طرح سہیل جامعی کے مجموعے ’لکیر‘ اور ’دہلیز‘ میں کئی مختصر افسانے جو افسانچے کے زمرے میں آتے ہیں مثلاً وجود، سچائی، سلسلہ، اتحاد، سونے کی چڑیا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔  لیکن یہ مجموعے دستیاب نہ ہونے کے سبب مثالاً افسانچے پیش نہیں کیے جاسکے۔

 رام پور کے محمد اطہر مسعود خان کا مجموعہ ٹھنڈا خون کے نام سے جو ۱۹۹۴ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ اس میں جملہ ۳۸ مختصر افسانے شامل ہیں جس میں سے اکثر مختصر ترین یعنی افسانچے ہیں۔ اس مجموعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے سید آفتاب علی لکھتے ہیں :

 ’’فاضل افسانہ نگار نے نہایت خوبصورتی اور چابکدستی سے بھوک ،قتل، لوٹ مار، فسادات کرفیو اور گروہی عصبیت سے پیدا ہوئے تشدد کی الفاظ میں تصویر گری کی ہے۔ اختصار کا خیال رکھا گیا ہے۔ معاشرہ کو درپیش مسائل ، پس پردہ اسباب وجوہ پر تمثیلی بیانیہ اور مکالمہ جاتی تجزیہ کرنے کے لیے کسی طویل پلاٹ کے تابع نہ ہو کر کسی معمولی حادثہ یا سانحہ کے گرد کہانی کا تانا بانا بنا ہے ایسا کرتے ہوئے مصنف کی کہانی نگاری کے بنیادی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے بھی قوت متخیلہ کی بلندی مشاہدہ کی گہرائی اور انداز بیان کی ہمہ گیری کا دامن مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے اور تقریباً ہر کہانی ’جو سنتا ہے اسی داستان معلوم ہوتی ہے، کی مصداق ہے‘‘۔ (مطبوعہ اردو بک رویو۔نئی دہلی۔ ستمبر تا دسمبر ۲۰۰۲ء ص۱۰۰)

 اس مجموعے سے ایک افسانچہ دیکھیے

 پیشگی شکریہ

 ’’سنو….!‘‘

 ’’جی ….!‘‘

 ’’لو یہ سامان رکھ لو….!‘‘

 ’’کیسا سامان؟!‘‘

 ’’یہ برے وقت کام دے گا….!‘‘

 ’’لیکن یہاں تو ایسی کوئی بات نہیں !‘‘

 ’’ہاں یہ پیشگی راحت کا سامان ہے!‘‘

 ’’مگر بھئی! یہاں پر تو کوئی آفت نہیں ٹوٹی!‘‘

 ’’ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن ایک فرقے کا مذہبی جلوس نکل رہا ہے اور ہمارے فرقے نے اس پر پتھراؤ کا پلان بنا لیا ہے جس سے یقیناً فساد پھوٹ پڑے گا!‘‘

 ’’تو پھر…. پیشگی شکریہ!‘‘(ص۵۴)

 ان لکھنے والوں کا اسلوب نگارش سیدھا سادہ، زبان عام فہم اور انداز راست دل میں اتر جانے والا ہے جو متاثر کرتا ہے۔ ان مشترکہ مجموعوں کے علاوہ کئی اور لکھنے والوں نے افسانچوں کے مجموعے بھی ترتیب دیے ہیں۔  ان میں بنارس کے سعید فریدی وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اقبال انصاری آج کے عہد کے مقبول اور زود نویس افسانہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ موصوف تقریباً ہر رسالے میں مسلسل چھپتے رہتے ہیں۔ اب تک ان کے افسانوں کے ۲۱ مجموعے اور کئی ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔  افسانوں اور ناولوں کے ساتھ انھوں نے بڑی تعداد میں افسانچے بھی لکھے ہیں ان کے افسانچوں کا ایک مجموعہ ’’ابھی ‘‘ کے نام سے ۲۰۰۳ء میں شائع ہوا ہے۔  جس میں جملہ ۵۸افسانچے شامل ہیں۔

 شراون کمار ورما اقبال انصاری کے اس مجموعہ کی کہانیوں کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں :

 ’’مصنف کا گہرا مطالعہ، تجزیاتی سوجھ بوجھ، تجربہ، مشاہدہ اور ادبی سنجیدگی انھیں ایک الگ شناخت دیتی ہے۔ اکثر فیشن کے طور پر لکھی گئی یا یوں کہیے کہ جینے کے شوق میں لکھی گئیں کہانیاں لطیفے بن کر رہ جاتی ہے۔منی کہانی کا فن تیز دھار والی تلوار پر چلنا ہے اور اس بات کو اقبال انصاری نے پوری طرح سمجھ لیا ہے۔وہ اپنی منی کہانی میں بڑے کام کی بات نہایت آسانی سے کہہ جاتے ہیں ‘‘۔ (تبصرہ مطبوعہ ماہنامہ ’’پیش رفت‘‘ نئی دہلی۔ نومبر ۲۰۰۵ء)

 اقبال انصاری کے ان افسانچوں میں سماج کے مسائل کی بڑے موثر انداز میں عکاسی ملتی ہے ان میں ان کا طنزیہ لہجہ اپنی ایک انفرادیت رکھتا ہے۔  کہیں کہیں بڑے لطیف انداز میں طنز در آیا ہے لیکن اقبال انصاری نے اسے لطیفہ بننے سے بچا لیا ہے یہ واقعی ان کا کمال ہے۔ ’’ابھی‘‘ سے ان کا ایک افسانچہ دیکھیے

 وحشت

 ’’جی، اس نے تعلیم حاصل کر لی ہے۔ فلسفہ پڑھ لیا ہے۔ سائنس پڑھ لی ہے۔ قدرت کے بہت سے اسرار کھول لیے ہیں۔  بہت سی ایجادات کر لی ہیں۔  پہیہ بنا لیا ہے۔ دنیا کو چھوٹا کر لیا ہے۔ ادویات بنا لی ہیں۔  وائرلیس بنا لیا ہے۔ ٹی وی بنا لیا ہے۔ کمپیوٹر بنا لیا ہے۔ راکٹ بنا لیا ہے۔ خلاء کی سیر کر آیا ہے۔ صاف ستھرے شہر بنا لیے ہیں۔  پختہ عمارتیں ، تہذیب گاہیں ، ثقافتی مراکز، تمدنی….‘‘

 ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ وحشی اب….؟!‘‘

 ’’جی ہاں ،! وحشی اب بیحد مہذب اور شائستہ ہے۔بس، اس کی وحشت جوں کی توں ہے‘‘۔(ص۸۷)

 کانپور کے ڈاکٹر خان حفیظ نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے ہیں جو مختلف رسائل و جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔  خود بقول ان کے اب تک ۰۰۵ سے زائد مختصر مختصر کہانیاں لکھ چکا ہوں جس میں سے تقریباً ۲۰۰ کہانیاں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔  خان حفیظ نے اپنے اطراف کے ماحول سے موضوعات کو اٹھایا ہے چونکہ وہ مختلف ڈگریاں رکھتے ہیں۔  ایک فارماسسٹ ایک لکچرر اور پرنسپل کے اعلیٰ عہدے پر برسرکار رہ کر انھوں نے زندگی کے مختلف شعبوں کا تجربہ حاصل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانچوں میں موضوعات کے تنوع کے ساتھ ہئیت اور تکنیک کے تجربے بھی ملتے ہیں۔  انھوں نے بے روزگاری ، بے کاری، جنسی بے راہ روی اور فسادات جیسے عام موضوعات کو اپنے افسانچوں میں بڑے مؤثر ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔  ان کے افسانچوں کا ایک مجموعہ ’’پیوند‘‘ بہت پہلے یعنی نومبر ۱۹۸۱ء میں چھپ چکا ہے جس میں ۶۳افسانچے شامل ہیں۔  اسی مجموعہ سے ایک افسانچہ دیکھیے:

 مندر کی گھنٹی

 گزشتہ سال پانی نہ برسنے کے باعث سوکھا پڑ گیا تھا۔

 ہزاروں لوگ بھوک پیاس سے مر گئے تھے۔

 اس سال بھگوان کو خوش کرنے کے لیے لوگوں نے سال بھر تک مندروں میں گھنٹے بجائے، پوجائیں کیں۔

 بھگوان خوش ہوئے….

 برسات کا موسم شروع ہوتے ہی کالی کالی گھٹائیں اٹھنے لگیں۔

 سب لوگوں کے چہرے کھل اٹھے….

 اس سال اتنا پانی برسا….

 اتنا پانی برسا کہ گاؤں کے گاؤں بہہ گئے….! (ص۲۴)

 وریندر پٹواری اردو فکشن کا ایک معتبر نام ہے۔ بقول دیپک بدکی ’’وریندر پٹواری کے قلم سے ۲۰۰ سے زائد افسانے نکلے ہیں جو ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔  ان افسانوں کو انھوں نے ’فرشتے خاموش ہیں ،، دوسری کرن، بے چین لمحوں کا تنہا سفر، آواز سرگوشیوں کی ، ایک ادھوری کہانی اور افق، مجموعہ میں پیش کیا۔  ان کی کہانیاں مختصر ہوتی ہیں جن میں مقصدیت صاف جھلکتی ہے۔  وہ غریب عوام کے مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں اور سماجی بدعنوانیوں کے خلاف بھی۔  جو قاری کے ذہن پر اپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں ‘‘۔بقول محمود ہاشمی ’’وریندر پٹواری نے عصری آگاہی کے سلگتے ہوئے احساس کو دوسرے افسانہ نگاروں سے مختلف پیرائے میں اپنے فن کا محور بنایا ہے‘‘۔ (گوشۂ وریندر پٹواری، مطبوعہ ماہنامہ شاعر فروری ۲۰۰۶ء۔ ص۱۸،۱۹)

 وریندر پٹواری نے افسانوں کے ساتھ ڈرامے ، ناولٹ اور افسانچے بھی بڑی تعداد میں لکھے ہیں جو طویل عرصے تک ادبی و نیم ادبی رسائل میں چھپتے رہے لیکن انھوں نے اپنے افسانچوں کے مجموعہ کی اشاعت پر توجہ نہیں دی۔  امید کہ آئندہ وہ اس صنف میں اپنا مجموعہ ضرور شائع کریں گے۔ یہاں ہم ان کے ایک افسانوی مجموعہ ’’آواز سرگوشیوں کی‘‘ سے ایک افسانچہ پیش کر رہے ہیں۔

 ہم شکل

 جن کی جیت ہوئی تھی ان کا جلوس قریب آ رہا تھا اور جن کی ہار ہوئی تھی وہ جانے کی تیاری کر رہے تھے مگر چوراہے پر پچھلے کئی گھنٹوں سے جام لگا تھا کیونکہ چوراہے پر دو لاشیں تھیں۔

 رکی ہوئی ٹریفک میں وہ بیمار بھی تھا جسے ہسپتال پہنچانے کی خاطر سائیکل رکشہ والے کی قمیص پسینے سے بھیگ کر چمٹ گئی تھی۔ اس کی سانسیں پھول رہی تھی۔  وہ مزدور بھی تھا جس کی سانسیں اس لیے رکی جا رہی تھیں کہ دیر سے پہنچنے پر فیکٹری کا مالک اس کی چھٹی نہ کر دے۔ وہ پریشان تھا۔ وہ طالب علم بھی تھا جس کے امتحان شروع ہونے میں چند منٹ باقی تھے۔ وہ حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔

 دونوں لاشیں کی شناخت ہو چکی تھی۔ اتفاقاً دونوں کا نام روشن بتایا گیا تھا ایک روشن لال اور دوسرا روشن علی، دونوں غریب اور دونوں جوان تھے۔ ایک مندر بنانے کے لیے سرپرکفن باندھ کر نکلا تھا۔ اور دوسرا مسجد بچانے کی خاطر سر ہتھیلی پر رکھ کر چوراہے پر آیا تھا دراصل آئے تھے یا بھیجے گئے تھے یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ دونوں کو کب کس نے اور کیسے مارا یہ سوال کوئی کرتا تو شاید جواب ملتا مگر چوراہے پر رکی ٹریفک یہ جاننے کے لیے بے تاب تھی کہ کب یہ معلوم ہوسکے کہ دونوں میں روشن لال کون ہے اور روشن علی کون ہے تاکہ لاشوں کو وارثوں کے حوالے کر دیا جائے۔

 پولیس کو یہ پریشانی تھی کہ کہیں ابلتے پانی کا ڈھکن اڑ نہ جائے اور فسادات شروع ہو جائیں۔  مگر وہ بھی کیا کرسکتے تھے۔ دونوں لاشیں ہم شکل تھیں۔  دو جڑواں بھائیوں کی طرح۔ ظاہر ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے اور یوں ٹریفک رکی رہی۔ جانے کب تک….!(ص۱۲۰)

 شمیم حیدر جونپوری کے افسانوی مجموعہ ’’پڑاؤ‘‘ میں کئی افسانچے شامل ہیں۔  اسی طرح یو پی کے کئی لکھنے والوں کے افسانوی مجموعوں میں افسانچے ملتے ہیں لیکن مجموعوں کی عدم دستیابی کے سبب انھیں شامل نہیں کیا جاسکا ہے۔

 ریاست بہار جو اب دو ریاستوں میں تقسیم ہو کر بہار اور جھارکھنڈ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ بہار اردو افسانہ نگاری کا گڑھ رہی ہے۔ جس طرح یوپی شاعری میں اسی طرح بہار افسانہ نگاری میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں افسانچے بڑی تعداد میں لکھے گئے۔  لیکن یہاں بھی سینئر اور نامور افسانہ نگاروں نے اسے کم ہی ہاتھ لگایا۔ نئی نسل کے لکھنے والوں میں یہ صنف مقبول عام رہی ہے البتہ یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ اس صنف میں یہاں سے باقاعدہ ایک بھی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔  افسانوں کے مجموعوں میں ادھر ادھر چند افسانچے ضرور ملتے ہیں۔  اس طرح مشترکہ مجموعے تو نظر آتے ہیں۔  ان میں نسیم محمد جان کا ’’گھڑی کی سوئیاں ‘‘ اسلم جمشید پوری کی ’’افق کی مسکراہٹ‘‘ احمد صغیر کا ’’منڈیر پر بیٹھا پرندہ‘‘ اور اب ۲۰۰۷ میں ڈاکٹر ایم۔ اے۔ حق کا مجموعہ ’نئی صبح‘ منظر عام پر آیا ہے ، قابل ذکر ہیں۔  لیکن مہاراشٹر کی طرح یہاں علیحدہ سے افسانچوں کا مجموعہ شائع کرنے کا رواج عام نہیں ہوا ہے۔ ہمہ جہت فنکار مناظر عاشق ہرگانوی نے سو سے بھی زائد افسانچے لکھے ہیں جو ملک اور بیرون ملک کے معتبر ادبی رسائل و جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔  ہندی میں بھی ’’لگھوکتھا‘‘ کے نام سے ان کے افسانچے چھپتے رہتے ہیں۔  ان کے افسانچوں کا مجموعہ انگریزی میں Tale of Time کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ انگریزی میں ترجمہ ان کے ادیب دوست سُوبھوسین گپتا نے کیا ہے لیکن اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے اردو میں اپنا یہ مجموعہ شائع نہیں کیا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو اس صنف میں بہار سے افسانچوں کا یہ پہلا مجموعہ ہوسکتا تھا۔تاہم اب عنقریب وہ اردو میں اپنے افسانچوں کا مجموعہ شائع کرنے والے ہیں۔  اسی مجموعہ سے ان کا ایک افسانچہ ملاحظہ کیجئے۔

 فیصلہ

 ماں نے تینوں بیٹوں کو خط لکھا۔ پھر فون کیا کہ پاپا سخت بیمار ہیں۔  بستر سے لگ گئے ہیں۔  جلد آ جاؤ اور میری پریشانیوں میں ساتھ دو‘‘….

 تینوں بیٹے آ پہنچے….

 ماں نے بتایا کہ ’’ڈاکٹر کا کہنا ہے بڑے شہر لے جاؤ۔ یہاں علاج ممکن نہیں ہے۔ تم تینوں بڑے بڑے شہروں میں ہو۔ فیصلہ کرو کہ پاپا کو کہاں لے جانا مناسب ہے‘‘….

 تینوں بیٹے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے….

 رات کھانے کے ٹیبل پر گرما گرم بحث ہوئی….

 لیکن فیصلہ نہیں ہوسکا کہ کون ساتھ شہر لے جائے گا….

 صبح ناشتے کے وقت ماں نے بڑے دکھ سے کہا….

 ’’تم تینوں نہیں لے جانا چاہتے ہو، ٹھیک ہے۔ میں لے جاؤں گی لیکن تمھارے شہر نہیں۔  کسی کمپونڈر یانرس کو ساتھ چلنے کے لیے راضی کر لوں گی۔ تم تینوں فکر مت کرو۔ لیکن خرچ….؟!….

 تینوں بیٹوں نے اطمینان کی سانس لے کر دس دس ہزار ماں کے حوالے کیے اور اسی روز وہ اپنے اپنے شہر لوٹ گئے۔

 نسیم محمد جان بہار کے سینئر لیکن نسبتاً کم معروف افسانہ نگار ہیں انھوں نے بڑی تعداد میں افسانے لکھے ہیں۔  جن کی تعداد تقریباً ۱۰۰ ہے۔ ملازمت کے اعتبار سے ان کا رشتہ سائنس کے مضامین سے رہا۔ لیکن شوق کے لحاظ سے ادب ان کا مرغوب مشغلہ رہا ہے۔ خود ان کے لفظوں میں انھوں نے افسانے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر لکھے ہیں۔ وہ خود لکھتے ہیں۔

 ’’کبھی اخبار کی چھوٹی سی خبر، کبھی کسی کی زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ، کبھی کوئی مشاہدہ، کبھی کوئی تجربہ کہانی کو جنم دیتا ہے پھر جس طرح بیج سے درخت جنم لیتا ہے ٹھیک اسی طرح اندر ہی اندر کہانی بن جاتی ہے۔‘‘ (ص ۱۰)

 ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’گھڑی کی سوئیاں ‘‘ (۲۰۰۲ء)حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے جس میں افسانوں کے ساتھ ستائیس افسانچے بھی شامل ہیں۔  ’’گھڑی کی سوئیاں ‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر رئیس انور لکھتے ہیں :

 ’’اس مجموعہ میں موجود افسانوں اور افسانچوں کے مطالعہ سے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ ان کے مواد میں خاصا تنوع ہے۔‘‘

 ممتاز نقاد پروفیسر محمد حسن نے ان کے افسانوں کی خوبیوں کی بنا پر انھیں اردو ادب میں ’’تیسری آواز‘‘ کے نمائندوں میں شمار کیا ہے۔ان کے منی افسانوں میں موضوع کا تنوع ملتا ہے اور طنز کا تیور بھی دیدنی ہے جو راست پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتا ہے اور اسے سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ان کے اس مجموعہ سے ایک افسانچہ دیکھیے

 آدم خور

 ’’بھئی یہاں تو چھ کاؤنٹرز تھے‘‘۔

 ’’ہاں ‘‘….

 ’’کہاں چلے سب لوگ؟!‘‘….

 ’’آدم خور کھا گیا‘‘….

 ’’کیا؟!‘‘….

 ’’سامنے دیکھو…. ایک کمپیوٹر لگ گیا ہے‘‘…. (ص۱۴۶)

 رانچی کے ڈاکٹر ایم۔ اے۔حق نے اپنے لکھنے کی شروعات۱۹۶۷ء میں کی تھی لیکن بقول ان کے ،ابتدائی دور کے زیادہ تر افسانے جذباتی حسن و عشق کے موضوع پر ہوتے تھے۔ بعد میں تعلیم کے حصول اور مقابلہ جاتی امتحانات کے سبب انھوں نے اس زمانے کے اپنے افسانے کہیں شائع کرنے کے لیے نہیں بھیجے اور نہ ہی محفوظ رکھ سکے۔ اس طرح ملازمت میں اعلیٰ عہدہ کی ذمہ داریوں کو سنبھالتے ہوئے وہ اپنی ادبی سرگرمیوں کو جاری نہ رکھ سکے۔ لیکن بعد میں پروفیسر مناظر عاشق ہر گانوی کے زیر سرپرستی ان کی ادبی ذوق و شوق کی دوبارہ باقاعدہ شروعات ہوئی۔ انھوں نے آج کی مشینی زندگی اور الیکٹرانک میڈیا کے دور میں لوگوں کے ذوق کو دیکھتے ہوئے فکشن میں زیادہ تر افسانچوں کو اپنے اظہار کا پیرایہ بنایا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔اب مناظر صاحب کے اصرار پر انھوں نے اپنا مجموعہ ’’نئی صبح ‘‘کے نام سے ۲۰۰۷ء میں شائع کیا۔جس میں ۱۵ افسانوں کے ساتھ جملہ ۴۰ افسانچے شامل ہیں۔  کتاب کے پیش لفظ میں جوگیندر پال نے ان کی افسانچہ نگاری کے بارے میں روشن مستقبل کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے:

 ’’مجھے یقین ہے کہ حق کی تخلیقی بے چینیوں کے اسباب ہمیں سدا اسی مانند متجسس کرتے رہیں گے اور یوں وہ اپنے پرگو اور ذو معنی اختصار کو کام میں لا لا کر اپنی افسانچہ نگاری کے باب میں فکر و فن کے اور بھی کئی نازک مقام سر کرتے چلے جائیں گے‘‘۔(ص۱۰)

 کتاب کے فلیپ میں ڈاکٹر مناظر عاشق نے ایم۔ اے۔ حق کے افسانچوں کی خصوصیات یوں بیان کی ہیں :

 ’’ڈاکٹر ایم۔ اے۔ حق کے افسانچوں اور افسانوں میں نئی تخلیقیت فنی اقدار کے پس منظر میں رونما ہوتی ہے اور وسیع منظر نامے کو سامنے لاتی ہے جو اپنے دور کی ترجمانی ہے، عصر زندگی کا اظہار ہے اور ذہنی بیداری ، اصلاح اور تعمیر کے اجتماعی میلانات کے واضح نشانات ہیں ، حقیقت کا انکشاف ہے اور تخلیقی کائنات کی تلاش اور تعبیر ہے۔ نئی سچائی کا دروازہ وہ تفکر اور بصیرت کے نئے زاویے سے کھولتے ہیں اور مظاہر اور محسوسات کو منظر اور جزئیات کا حصہ بناتے ہیں۔  ایسی خصوصیات کے افسانے اور افسانچے یقیناً اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ‘‘۔

 اسی خصوصیت کا حامل ایک افسانچہ دیکھئے:

 سلسلہ

 میں نے تین کے بعد جب چوتھی اور آخری بہن کی شادی کی تو سوچا کہ اب میں فکر و تردد کے بندھن سے مکمل طور پر آزاد ہو جاؤں گا۔ لیکن یہ میرا خام خیال تھا۔ تب تک میری بیٹی جوان ہو چکی تھی۔

 (نئی صبح۔ ص۱۰۵)

 بہار میں نئی نسل کے لکھنے والوں میں احمد صغیر کا نام بھی ایک اچھے افسانہ نگار کی حیثیت سے کافی معروف ہے۔  ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’انا کو آنے دو‘‘ ،’’منڈیر پر بیٹھا پرندہ‘‘ اور فکشن کی تنقید پر ایک کتاب چھپ کر مقبول ہو چکی ہیں۔  انھوں نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی کافی تعداد میں لکھے ہیں۔  وہ پہلے ملازمت کے سلسلے میں دہلی میں مقیم تھے اور کافی فعال تھے۔ آج کل اپنے وطن گیا میں واپس آ گئے ہیں اور یہاں بھی کافی سرگرم ہیں۔ بقول اسلم جمشید پوری ’’ان کے موضوعات اور ان کا ٹریٹمنٹ بالکل ان کا اپنا ہے اور ان کے یہاں زندگی مختلف اشکال میں نظر آتی ہے ساتھ ہی ان کے افسانوں میں عصری آگاہی کا احساس بہتر انداز میں ملتا ہے اور احتجاج کی لے تیز آنچ کی صورت میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے افسانچوں کا ایک مجموعہ ترتیب دیا ہے جو اب تک شائع نہیں ہوا ہے۔ اسی مجموعہ سے ایک افسانچہ بطور نمونہ یہاں دیکھیے:

 امیدوار

 ایک ہوٹل!

 اور اس ہوٹل کے باہر لوگوں کا ہجوم۔

 لوگ قطار در قطار کھڑے ہیں۔

 میں سوچتا ہوں اور قریب پہنچ جاتا ہوں۔

 ’’بھائی صاحب‘‘۔

 ’’کیا بات ہے؟‘‘

 ’’یہ بھیڑ کیسی ہے؟ یہاں کوئی فلم اسٹار یا منتری تو نہیں آیا ہے کہ لوگ یوں بارش کی بوند کی طرح ٹپک رہے ہیں ‘‘۔

 ’’نہیں ‘‘۔

 ’’تو پھر؟‘‘۔

 ’’اس ہوٹل میں ایک بیرے کی جگہ خالی ہوئی ہے اور یہ سب اس کے امیدوار ہیں ‘‘۔

 ’’او…. ایک بیرے کی جگہ!…. اور میں بھی لائن میں کھڑا ہو جاتا ہوں ‘‘۔

 اسلم جمشید پوری جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ان کا تعلق جمشید پور سے ہے لیکن ایک عرصہ سے وہ دہلی میں مقیم ہیں۔  انھوں نے بھی بڑی تعداد میں افسانوں کے ساتھ افسانچے لکھے ہیں لیکن ان کا علیحدہ سے مجموعہ شائع نہیں کیا ہے البتہ ان کے افسانوی مجموعہ ’’افق کی مسکراہٹ‘‘ میں کئی افسانچے بھی ملتے ہیں۔  انھوں فکشن کی تنقید پر بھی کئی کتابیں لکھی ہیں۔  آج کل وہ دہلی سے میرٹھ آ گئے ہیں اور وہاں چرن سنگھ آزاد کالج میں بحیثیت صدر شعبہ اردو اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔  اگر وہ توجہ دیں تو ان کے افسانچوں کا ایک مجموعہ علیحدہ سے شائع ہوسکتا ہے۔ ان سے مستقبل میں اردو افسانچہ نگاری کو کافی امیدیں وابستہ ہیں۔  موصوف کے پاس موضوعات کے تنوع کے ساتھ افسانچے کا صحیح فارم اپنے مخصوص انداز میں ملتا ہے۔ ڈرامائی کیفیت کا اظہار بڑے مؤثر انداز میں ملتا ہے۔ اور طنز کا تیر راست پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتا ہے۔ ان کے مجموعہ ’’افق کی مسکراہٹ‘‘ کے مختصر ترین افسانوں کی تعریف پروفیسر عظیم الشان صدیقی ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

 ’’اس مجموعہ میں شامل بعض مختصر افسانے بھی اس ذہنی اور تخلیقی رویے کی نشاندہی کرتے ہیں جن میں تکنیک کا تنوع انھیں یکسانیت سے محفوظ رکھتا ہے۔ اور ان کے تخلیقی سفر کے جاری رہنے کا یقین دلاتا ہے‘‘۔

 اسی طرح محترمہ انور نزہت ان کی افسانہ نگاری میں اختصار پسندی پر یوں روشنی ڈالتی ہیں۔

 ’’اسلم جمشید پوری نے جس ماحول اور سوسائٹی میں رہ کر اپنی کہانیوں کا مواد لیا ہے اس پر بہت کم افسانہ نگاروں نے توجہ دی ہے…. ان کے یہاں جبر و تشدد، انتشار، خود غرضی اور فریب کاری کے موضوعات فرضی اور تصوراتی نہیں ہیں۔  ان کی حقیقت نگاری کھردری اور سطحی نہیں ہے۔ انھوں نے محض کہانیاں نہیں لکھی ہیں۔  انھیں فکشن اور افسانہ بنایا ہے۔ ان کے یہاں اختصار پسندی پائی جاتی ہے اور یہی افسانہ کی خوبی ہے وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں کم لفظوں میں کہہ دیتے ہیں …. اور ہر کہانی مکمل ہے اور اپنا تاثر چھوڑتی ہے….‘‘۔

 ’’افق کی مسکراہٹ‘‘ سے ایک افسانچہ ملاحظہ کیجئے۔

 صدر

 آج پورے دس سال بعد وہ اپنے دوست نوشاد کے گھر جا رہا تھا۔ راستے بھر طرح طرح کے خیال اس کے ذہن میں آرہے تھے …. آخر اس طرح سوچتا وہ نوشاد کے گھر پہنچ گیا۔ عالیشان عمارت دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا…. دس برس قبل اس کے دوست کا ٹوٹا سا کچا مکان تھا۔ آواز دینے پر نوشاد باہر آیا۔ اسے دیکھتے ہی دوڑ کر اس سے لپٹ گیا اور اسے اندر لے گیا۔ طعام سے فارغ ہونے پر نوشاد نے اسے اپنا گھر اور سامان دکھانا شروع کیا…. ’’دیکھو شکیل یہ ڈرائینگ روم ہے۔ یہ بیڈ روم ہے۔ یہ ریڈنگ روم ہے۔ یہ کچن…. کار…. ٹیلی فون….‘‘۔

 نوشاد اتنا بڑا آدمی کیسے بن گیا….؟

 شکیل کے دماغ میں یہ سوال بار بار ابھر رہا تھا۔ جب اس سے نہ رہا گیا تو اس نے نوشاد سے پوچھ ہی لیا۔ نوشاد نے مسکرا کر جواب دیا۔

 ’’اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟…. گذشتہ دس برسوں سے اس بستی کی کمیٹی کا صدر میں ہی چنا جاتا ہوں ‘‘۔ (ص۸۱)

 ڈاکٹر اقبال حسن آزاد بھی بہار کے ایک مقبول افسانہ نگار ہیں انھوں نے بھی افسانوں کے ساتھ افسانچے بڑی تعداد میں لکھے ہیں جو مختلف رسائل و جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔  ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’قطرہ قطرہ احساس‘‘ (۱۹۸۷ء) اور ’’مردم گزیدہ‘‘ (۲۰۰۵ء) کے نام سے چھپ کر ادبی حلقوں سے داد وتحسین وصول کر چکے ہیں۔  اقبال حسن آزاد نے اپنے اطراف کے ماحول سے موضوعات کا انتخاب کیا ہے اور نہایت سادہ لفظوں میں اور بڑی پرکاری کے ساتھ اپنی بات یوں کہہ دی ہے کہ قاری کے دل میں راست اترتی چلی جاتی ہے۔ ان سے مستقبل قریب میں اس صنف میں بڑی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔  ان کے افسانچوں کا علیحدہ سا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے لیکن ان کے مجموعوں میں چند افسانچے ملتے ہیں۔ ان کا ایک افسانچہ’ لامکاں ، دونوں مجموعوں میں شامل ہے۔ حالانکہ پہلی بار یہ ایک نیم ادبی رسالہ روبی نئی دہلی (۱۹۸۴ء) میں شائع ہوا تھا۔ڈاکٹر آفتاب احمد کے لفظوں میں۔

 ’ ’لامکاں ، میں جدید تہذیب کے روحانی افلاس پر طنز کیا گیا ہے۔سجے سجائے فلیٹ میں جہاں ضرورت کی ہر شئے کے لیے ایک جگہ ہے۔  وہاں ایک مقدس کتاب کے لیے کسی معقول جگہ کا نہ ملنا اور مجبوراً اسے مسجد بھیج دینا آج کی ماڈرن تہذیب کے کھوکھلے پن کو اجاگر کرتا ہے‘‘۔(مطبوعہ ماہنامہ ایوان اردو۔نئی دہلی۔ ستمبر ۱۹۹۵ء)

 ملاحظہ کیجئے۔

 لامکاں

 اس چھوٹے سے گھر میں صرف دو کمرے تھے۔ ایک کمرے کو ان لوگوں نے بیڈروم بنا دیا اور دوسرے کو ڈرائنگ روم۔ دونوں کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور دونوں ہی کو گھر کو سجا کر رکھنے کا شوق تھا۔ جب اس چھوٹے سے گھر میں ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی جاچکی تو ان دونوں نے ناقدانہ نظروں سے پورے گھر کا جائزہ لینا شروع کیا۔ بیڈروم میں ایک مسہری ، ایک سنگار میز اور ایک لوہے کی الماری تھی۔ الماری کے اوپر ان لوگوں نے کپڑوں کا بکس رکھ دیا تھا اور اسے ایک خوبصورت کپڑے سے ڈھک دیا تھا۔ ڈرائنگ روم میں ایک صوفہ سیٹ تھا اور ڈائننگ ٹیبل رکھا تھا۔ کونے میں رکھا ٹی وی کمرے کی شوبھا کو اور بڑھا رہا تھا۔ اس کے اوپر دیوار سے لگے فریم میں دونوں کی مسکراتی ہوئی تصویریں تھیں۔  دیوار سے لگی ایک الماری تھی جس میں کچھ ناول، چند شعراء کے دیوان اور جنس کے موضوع پر کچھ کتابیں تھیں۔  دروازوں اور کھڑکیوں پر پردے لگ جانے کے بعد تو کمرے کی خوبصورتی کچھ اور ہی بڑھ گئی تھی۔ غرض کہ یہ چھوٹا سا مکان ہر طرح سے سیٹ ہو چکا تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی جاچکی تھی اور اگر کوئی مسئلہ تھا تو وہ مقدس کتاب جسے عورت اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئی تھی۔ بیڈروم میں تو سوائے الماری کے کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں اسے رکھا جاسکتا تھا اور اس کے اوپر کپڑوں کا بکس رکھا تھا۔ ڈرائنگ روم میں یا تو اسے ٹی وی کے اوپر رکھا جاسکتا تھا یا پھر کتابوں کی الماری میں لیکن دونوں ہی جگہوں پر اس کی بے حرمتی ہوتی کیونکہ ٹی وی پر تصویریں آتی ہیں اور الماری میں جنسی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔  دونوں کافی دیر تک سر جوڑے اس مسئلے کا حل سوچتے رہے۔ آخر میں عورت نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔

 ’’کیوں نہ اسے مسجد میں بھیج دیا جائے۔‘‘

 مرد نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے پاس کہنے کو اب رہا ہی کیا تھا۔(ص۲۹)

 بہار کے دیگر لکھنے والوں میں جنہوں نے افسانچے لکھے ہیں ان میں قاسم خورشید، فاروق راہب، نوشاد آزاد عالم، سید احمد قادری، نوشابہ خاتون، جابر حسین(پٹنہ)، بدنام بشر، منظر ظفر پوری، امتیاز فاطمی، تنویر اختر رومانی، اختر آزاد، حسن نظامی کیراپی، میر قنبر علی، محمد اشرف، مجیر احمد آزاد (دربھنگہ)، فخرالدین عارفی، حسن رہبر، رحمن حمیدی، احسان ثاقب(گوند پور ، نیواڑا)، صغیر رحمانی اور ڈاکٹر ایم۔ اے۔ حق وغیرہ شامل ہیں۔  ۱۹۸۰ء کے بعد ابھرنے والے ان افسانہ نگاروں نے صنف افسانچہ کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اس مقبول صنف میں بڑے تواتر سے لکھ کر مسلسل چھپتے رہے ہیں ان سے مستقبل قریب میں مزید بہتر کی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔  البتہ یہاں کے معروف اور اہم افسانہ نگاروں جیسے شوکت حیات، رضوان احمد، عبدالصمد، حسین الحق وغیرہ نے افسانچے نہیں لکھے اور نہ ہی اس سمت میں کبھی کوئی توجہ کی ہے۔ فکشن کے ناقدین بھی بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں لیکن کسی نے بھی اس کا ذکر کیا اور نہ اہمیت دی جس کی یہ صنف مستحق رہی ہے۔ ویسے بھی فکشن کی تنقید میں افسانچہ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

 افسانچوں کی صورتحال بہار اور یوپی کی طرح مغربی بنگال میں بھی نظر آتی ہے۔  مغربی بنگال کے خاص شہر کلکتہ میں بھی نئی نسل کے لکھنے والوں میں افسانچہ نگاری کا خاصہ رجحان نظر آتا ہے۔ ان میں عشرت بیتاب، فیروز عابد، عابد ضمیر، سلیم خاں ہمراز، فروغ روہوی، نذیر احمد یوسفی، مشتاق اعظمی، مشتاق انجم، ساجدہ عندلیب، شبیر احمد اصغر، عشرت جلیل، رفیع حیدر انجم، صدیق عالم اور ف۔س۔اعجاز وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔  یہاں سے نکلنے والے رسالوں نے افسانچوں کی اشاعت میں خاص دلچسپی دکھائی ہے۔ ان میں انشاء، ترکش، اثبات و نفی اور روح ادب قابل ذکر ہیں۔  لیکن یہاں بھی باقاعدہ افسانچوں کا کوئی مجموعہ نہیں شائع ہوا ہے تاہم افسانوں کے مجموعوں میں چند افسانچے ادھر ادھر نظر آتے ہیں جیسے مشتاق اعظمی کے مجموعہ’’ آدھا آدمی‘‘ میں چند افسانچے ملتے ہیں۔  اس مجموعہ میں ان کی افسانہ نگاری کے بارے میں پروفیسر اعزاز افضل لکھتے ہیں

 ’’مشتاق اعظمی روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو ایک حساس فنکار کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس مشاہدے کے جو اثرات ان کے لوح و دل پر مرتسم ہوتے ہیں۔  ان کو کہانی کا روپ دینا ان کے سحرنگار قلم کا محبوب مشغلہ ہے۔ لیکن ان کے سحر نگار قلم کا جوہر افسانچوں میں زیادہ نکھر آیا ہے‘‘۔(مطبوعہ کتاب نما۔ نئی دہلی۔ جنوری ۲۰۰۱ء)

 مشتاق اعظمی کی افسانہ نگاری میں افسانچہ نگاری کے اس پہلو کی نشاندہی پروفیسر اعزاز افضل نے کی ہے اور اسی خوبی کو پروفیسر رضوان اﷲ آروی بھی محسوس کرتے ہیں۔  ملاحظہ کریں

 ’’مشتاق اعظمی کا فن مختصر افسانوں سے زیادہ مختصر ترین افسانوں میں نکھر کر سامنے آیا ہے۔ بنیادی طور پروہ افسانوں میں فکری جہت کے قائل نظر آتے ہیں۔  لیکن ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی فکر ایک تو صنف میں فن کا روپ لے کر سامنے آئے اور اپنی اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب ہیں ‘‘۔ (تبصرہ۔ اردو بک ریویو۔ نئی دہلی۔ نومبر دسمبر ۲۰۰۱ء۔ ص۴۴)

 نمونہ کے طور پر ان کے افسانوی مجموعہ ’’آدھا آدمی‘‘ سے ایک افسانچہ دیکھیے

 خدا کا بندہ

 وہ شہر کی ایک عظیم الشان مسجد تھی۔ ایمان کی حرارت والوں کی شب و روز محنت اور عزم و حوصلے کا نادر کارنامہ۔ آج سے کوئی پچاس برس پہلے اس کی تعمیر میں پورے تین لاکھ روپئے خرچ ہوئے تھے۔ مسجد کی دیواروں اور محرابوں پر جا بجا لال، ہرے ، پیلے اور نیلے رنگوں کی گلکاریاں تھیں۔  بیرونی لوگ اس شہر میں آتے تو مسجد کی آرائش و زیبائش اور اس کے چھوٹے بڑے گنبد والے میناروں کو دیکھ کر مسلمانان شہر کی اعلیٰ ذوقی کی تعریف کیا کرتے تھے۔

 مسجد کے وسیع و عریض صحن میں ہوا بھی خوب آتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے قدرت نے باغ جنت کا کوئی دریچہ اسی رخ کھول دیا ہو۔ پڑوس اور اطراف کے اکثر لوگ ہر شب تکیہ بستر بغل میں دبائے اس صحن میں پہنچ جاتے تھے۔ کبھی کبھی کوئی بھولا بھٹکا مسافر بھی شب گذاری کی نیت سے وہاں آ جاتا تھا۔

 صبح کی اذان کے بعد موذن سونے والوں کے پاس آتا اور ایک ایک کو جھنجھوڑ کر جگایا کرتا تھا کیوں کہ ان میں سے کچھ لوگ صبح کی نماز بھی پڑھا کرتے تھے۔

 ایک دن صبح کی اذان کے بعد موذن نے حسب معمول لوگوں کو جگانا شروع کیا اور جب اس نے ایک اجنبی مسافر کو جگانے کی کوشش کی تو اس نے ’’اوں …. اوں ….‘‘ کرتے ہوئے دوسری کروٹ لے لی۔ موذن نے کہا ’’اﷲ کے بندے اٹھو بھی …. نماز پڑھ لو۔ چاہے پھر سوجانا!‘‘

 ’’ن….ما….ج‘‘ مسافر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ’’کیا یہ مسجد ہے!؟‘‘

 مسافر کے سوال میں حیرانی تھی۔ ’’ہاں ! تم نے کیا سمجھا تھا؟‘‘ موذن کے جواب میں استفسار شامل تھا۔ ’’دھرم شالہ!‘‘…. سادہ لوح مسافر انگوچھا اپنے کندھے پر رکھتے ہوئے اٹھا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ (ص۱۰۵)

 نذیر احمد یوسفی آسنسول کے ایک سینئر افسانہ نگار کی حیثیت سے مشہور ہیں۔  ان کے افسانے اور افسانچے پابندی کے ساتھ ادبی رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔  ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’’چپ فضا میں آواز‘‘ ۱۹۹۴ء میں چھپ کر مقبول ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے بھی انھوں نے بڑی تعداد میں کہانیاں لکھیں ہیں جو ’’ادبی کہانیاں ‘‘ اور ’’قصے کہانیاں ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔  ان کے افسانچے بھی مختلف رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔  لیکن ابھی تک علیحدہ افسانچوں کا مجموعہ شائع نہیں کیا ہے البتہ اتنی بڑی تعداد میں انھوں نے افسانچے لکھے ہیں کہ ایک مجموعہ بآسانی چھپ سکتا ہے۔ ان کے پاس بھی مختلف موضوعات کے ساتھ افسانچے کا ٹریٹمنٹ بدرجہ اتم دکھائی دیتا ہے۔ ان کے زیر ترتیب مجموعہ سے ایک افسانچہ دیکھیے۔

 ہمدرد

 شیلا اگروال کو ڈاکٹر اُپادھیا کی بات سچ معلوم ہو رہی تھی اس نے کہا تھا کہ اگروال اس مرتبہ کولکتہ کے دورے سے واپس آتے ہی دوسری شادی کر لے گا اس نے طے کر رکھا ہے۔ تم اب اور ماں نہیں بن سکوگی…. وہ زیادہ انتظار نہیں کرسکتا…. شادی کے چھ سال ہو گئے اور کب؟!….

 ’’ہاں ‘‘ شیلا اگروال نے سوچا…. میں تو بالکل ٹھیک ہوں ڈاکٹر، وہ تو خود ہی….!‘‘

 ’’میں سمجھ رہا ہوں ، مگر وہ اپنی کمزوری تسلیم نہیں کرتا دیکھ لو،۔ ایک طرف عزت، عشرت اور ایک طرف نفرت اور گھٹن…. کون سی زندگی پسند ہے….؟!‘‘

 ’’تو میں کیا کروں …. شیلا اگروال نے مایوسی سے کہا،…. اس کے چہرے پر مستقبل کا اندھیرا تھا….

 ڈاکٹر اُپادھیائے میز پر پڑے پیپرویٹ سے کھیلتے ہوئے کہا۔

 ’’ڈاکٹر کا کام ہی ہے دوسروں کا درد دور کرنا، اس کا دل قبرستان ہوتا ہے۔ جس میں نہ جانے کتنے راز دفن ہوتے ہیں ‘‘۔

 ’’تو کیا….؟!‘‘

 ’’ہاں ، ہاں …. میں ہوں نا….!‘‘

 راجستھان میں فکشن لکھنے والوں میں بہت کم نام ملتے ہیں۔  حبیب کیفی، مہدی ٹونکی، حسن جمال، مختار ٹونکی، خلیل تنویر، فرخندہ ضمیر، شہناز فاطمہ رشید اور آج کل ثروت جہاں کے نام افسانہ نگار کی حیثیت سے خاصے معروف ہیں۔  لیکن ان لوگوں نے افسانچے نہیں لکھے اور نہ ہی اس صنف کی طرف کوئی توجہ کی۔ ان میں صرف حسن جمال (جودھپور) افسانچے لکھتے ہیں۔  لیکن انہوں نے بھی زیادہ تر ہندی میں ’’لگھوکتھائیں ‘‘ لکھی ہیں۔  افسانچے اردو میں کے کم کم ہی چھپے ہیں۔

 ریاست گجرات کی بھی یہی صورتحال ہے اول تو یہاں افسانہ نگاروں کے نام انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں اور جو دو چار نام ملتے ہیں ان کے پاس افسانچے لکھنے کا کوئی رجحان دکھائی نہیں دیتا ہے۔صرف مشکور احمد قریشی (پالن پور) ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے افسانچے لکھے ہیں جو مختلف رسائل و جرائد میں چھپتے بھی رہے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں کوئی قابل ذکر نام اس صنف میں نظر نہیں آتا ہے۔شاید اس کی وجہ یہ بھی رہی ہو کہ ممتاز فکشن نقاد وارث علوی افسانچے کو لطیفہ سمجھتے ہیں اور مدیر گلبن سید ظفر ہاشمی جو کہ خود افسانہ نگار ہیں افسانچہ سے افسانے کا کوئی رشتہ نہیں سمجھتے اور یہ صنف انھیں لطیفے یا پہیلی سے قریب لگتی ہے۔  شاید اسی لیے وہ افسانچہ کو اپنے رسالے میں قابل اشاعت نہیں سمجھتے۔  دونوں کا تعلق گجرات کے شہر احمد آباد سے ہے۔ یہ بات تو جملہ معترضہ کے طور پر آ گئی ہے لیکن واقعی ریاست گجرات میں اس صنف کی صورتحال بہرحال تشویشناک ہے۔اس سمت توجہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

 ریاست تامل ناڈو اور کیرالا میں بھی اس صنف کا تقریباً یہی حال ہے ہمہ جہت فنکار علیم صبا نویدی اور سید صفی اﷲ نے بھی افسانوں کے ساتھ چند افسانچے ضرور لکھے ہیں۔  مدراس کے مرحوم شبیب احمد کاف نے بھی کافی افسانچے لکھے تھے۔ ان میں سے کچھ ان کے افسانوی مجموعہ ’’حق تو یہ ہے کہ‘‘ میں شامل ہیں جو ان کی اہلیہ نے بعد از مرگ شائع کیا ہے۔مجموعہ دستیاب نہ ہونے کے سبب بطور نمونہ افسانچہ پیش نہیں کیا جاسکا۔

 علیم صبا نویدی ایک ممتاز شاعر ، ادیب ، محقق و نقاد اور کثیر الجہت فنکار ہیں انھوں نے مختلف اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے شاعری کے ساتھ فکشن میں بھی افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی لکھے ہیں۔  ان کے افسانچوں میں زندگی کا گہرا فلسفہ ، خیالات کا تصادم ، فکر و آگہی کی آمیزش نمایاں طور پر ملتی ہے۔  ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’اجلی مسکراہٹ (فروری ۱۹۹۲ء) اور ’’سفر لا سفر‘‘ (۲۰۰۵ء) چھپ کر مقبول عام ہو چکے ہیں۔  ان کے دونوں مجموعوں میں افسانوں کے انتخاب شامل ہیں اور کئی افسانچے بھی شریک ہیں۔  بقول پروفیسر عابد صفی،

 ’’آج وہ ایک جدید افسانہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔  ان کے متعدد افسانے ملک کے مختلف جرائد میں جگہ پا چکے ہیں۔  علیم صبا مختصر افسانے میں اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔  پھیلے ہوئے منظر کو مختصر کینوس میں سمیٹ لینا ان کا کمال ہے‘‘۔

 بقول مناظر عاشق ہرگانوی، علیم صبا نویدی نے اعتدال پسندی کو اپنایا ہے اور موضوع اور مواد کے لحاظ سے نئی آویزشوں کے مابین زندگی کی حرارت اور بوقلمونی پیدا کی ہے۔ پروفیسر یوسف سرمست کے الفاظ میں ان کے مختصر افسانے میں اس کا اختتام بڑی اہمیت رکھتا ہے۔  یہ اختتام ہی ہوتا ہے جو سارے افسانے کو روشن کر دیتا ہے اور پورے افسانے پر ایک نئی روشنی ڈالتا ہے۔

 ’’سفر لا سفر‘‘ کے مختصر ترین افسانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے عظیم الشان صدیقی لکھتے ہیں۔

 ’’اس مجموعہ میں ایسے افسانے بھی شامل ہیں جو اپنے اختصار کے باعث منی کہانی کے زمرے میں آتے ہیں ایسے افسانے لمحاتی کیفیات، وقتی احساس خیال کی کسی رو کی دین ہیں۔  ان میں محرومی ، ناآسودگی ، تنہائی ، شناخت اور کرب آگہی کا پہلو بھی موجود ہے‘‘۔

 ان کے اس مجموعہ سے ایک افسانچہ دیکھیے۔

 تخلیق کا حشر

 آج اس کی مانگ کا سیندور اجڑ گیا تھا…. وہ چہرہ، وہ آنکھیں جو کل تک روشن تھیں۔  آج اس میں اداس پن کے گہرے نقوش اجاگر ہو چکے تھے۔ اور بولتے ہوئے بدن کے خد و خال بھی پگھل کر اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں۔  اور وہ زلفیں جن کا شکار اور کمار اور گپت ہو چکے گویا بڑھاپے سے پہلے بڑھاپے کو اس نے دعوت دی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی خوش گوار زندگی میں ایک ایسا موڑ بھی آئے گا جس موڑ کو وہ اپنی بیوگی کا نام بھی نہیں دے سکے گی….

 وہ سوچ رہی تھی کہ آخرش اس موڑ کا انت کیا ہے؟! کمار اور گپت اس کی زندگی میں کیوں آئے گی؟! خالق نے اس کو جنم کیوں دیا…. اور جنم دینے کے بعد اس نے اپنی تخلیق کے حشر کو دیکھنے کی تمنا کیوں کی تھی؟!…. کاش اس نے اسے جنم دینے کے بعد اس کی آنکھوں کی خوبصورت جیوتی اور جسم کے نمایاں خد و خال اپنے لیے رکھ لیے ہوتے…. (ص۱۱۶)

 اروناچل پردیش، ہماچل پردیش، اڑیسہ اور آسام میں اردو زبان و ادب کا چلن کم کم نظر آتا ہے۔ ایسے عالم میں اس نئی صنف میں لکھنے والوں کا میسر آنا ویسے بھی محال لگتا ہے۔ البتہ آسام اور اڑیسہ میں فکشن کے میدان میں دو ایک نام ادھر ادھر سے ضرور ملتے ہیں جنہوں نے افسانچے بھی لکھے ہیں۔  اڑیسہ میں محمود بالسیری ایک نامور افسانہ نگار ہیں جو افسانوی دنیا میں اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔  ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’پتھروں کے گیت‘‘ اور ’’سنسکار‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔  ’’سنسکار‘‘ میں زیادہ تر مختصر ترین افسانے شامل ہیں بعض پر افسانچوں کا گمان ہوتا ہے۔لیکن انھیں افسانچے نہیں کہا جاسکتا ہے۔البتہ اڑیسہ کے ابھرتے ہوئے شاعر و ادیب منیر ارمان نسیمی نے شاعری اور انشائیوں کے ساتھ افسانچے بھی لکھے ہیں۔  ان کے انشائیے ملک کے معتبر رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔  ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کے نام سے ان کے انشائیوں کا مجموعہ ابھی حال ہی میں جنوری ۲۰۰۸ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ اس مجموعہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں انشائیوں کے ساتھ دس افسانچے بھی شامل ہیں۔  عصری حسیت سے مزین افسانچے اپنے پڑھنے والے کو متاثر کرتے ہیں۔  ارمان نسیمی کی تحریر صاف رواں اور سلیس ہونے کے ساتھ اس میں بلا کا طنز ملتا ہے جو افسانچہ کا بنیادی وصف بن کر، ان میں ڈرامائی کیفیت بھی پیدا کرتا ہے۔ اس کتاب سے بطور نمونہ ایک افسانچہ ملاحظہ کریں

 مہنگائی

 وہ ہاتھ جوڑے ٹیوشن ماسٹر کے آگے گڑگڑا رہا تھا۔

 ’’ماسٹر جی! میں غریب آدمی ہوں۔  مجھ پر رحم کیجئے۔ مدن کی ماں بیمار ہو گئی تھی۔ میری ساری تنخواہ اس کی دوائی میں خرچ ہو گئی۔ میں اس ماہ آپ کی فیس نہیں دے پاؤں گا،….اگلے ماہ کہیں سے بھر لا دوں گا۔ میرے بچے کو پڑھنے دیجئے۔ اسے ٹیوشن سے مت نکالیے‘‘۔

 مگر پروفیسر شرما نہیں مانے اور انھوں نے مدن کا ہاتھ پکڑ کر روم سے باہر نکال دیا اور کہا ….’’جاؤ اپنے باپ کے ساتھ اور جب پانچ سو روپئے کا جگاڑ ہو جائے تو ٹیوشن آ جانا‘‘۔

 غصے سے کواڑ بند کر کے پروفیسر جیسے ہی پلٹے۔ اپنی دھرم پتنی سے ٹکراتے ٹکراتے بچے۔ وہ تنک کر بولی۔ ’’کہاں چلے جاتے ہو۔ کب سے ڈھونڈ رہی ہوں جلدی سے ایک ہزار کا نوٹ دینا تو،….آج ماریا کو ڈاکٹر کو دکھانا ہے کل رات بھر درد سے بلبلا رہی ہے بیچاری‘‘۔ پروفیسر صاحب نے جلدی سے پرس نکال کر ہزار کا نوٹ پکڑا دیا اور بولے…. ’’جانو! مہنگائی کا زمانہ ہے، اپنی کتیا کو کسی لوکل ڈاکٹر سے ٹریٹمنٹ کروانا…. پلیز!‘‘ (ص۱۱۹)

 مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اس صنف میں لکھنے والوں کے چند اہم نام ضرور ملتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم نام رتن سنگھ کا ہے جنھوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے ہیں ان کے افسانچوں کا مجموعہ ’’مانک موتی‘‘ کے نام سے ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا جس میں ۱۰۱ افسانچے شامل ہیں۔  کتاب میں پیش لفظ کے طور پر انھوں نے بالکل افسانچہ کے انداز میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ انھیں اس مختصر ترین صنف میں لکھنے کی تحریک کہاں اور کس طرح سے ملی۔ ملاحظہ فرمایئے:

 ’’میں گہری نیند سورہا تھا۔

 اتنے میں ٹوبہ ٹیک میرے پاس آیا اور بولا ’’منٹو صاحب نے عرش سے آپ کے لئے یہ قلم بھیجا ہے۔

 ابھی میں ایک خوبصورت قلم مل جانے پر خوش ہو رہا تھا کہ اپنے سامنے ایک حبشی کو کھڑا پایا۔

 جی جوگندر پال صاحب نے فرش سے آپ کے لئے روشنائی بھیجی ہے۔

 میں نے روشنائی لے کر اپنے پاس رکھ لی۔

 صبح جب نیند کھلی تو میری ہتھیلی پر ’’مانک موتی‘‘ چمک رہے تھے۔‘‘(ص۱)

 اس طرح رتن سنگھ نے افسانچے کی روایت کا سہرا منٹو اور جوگندر پال کے سر باندھ کر اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے ان دونوں کی تحریک سے انھوں نے مانک موتی کے افسانچے تخلیق کئے ہیں۔  ان افسانچوں میں زندگی کے مختلف موضوعات ملتے ہیں جنھیں رتن سنگھ نے اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کے پاس بھی کہیں کہیں جوگندر پال کی طرح فلسفہ طرازی اقوال اور مکالموں کا انداز نظر آتا ہے اور کہیں گہرے طنز کے ساتھ لطیف انداز بھی۔ جو کبھی متاثر کن کیفیتوں سے دوچار کر دیتا ہے ان کیفیتوں میں چونکا دینے والی کیفیت بھی ہے اور کبھی حیران کن صورتحال بھی رتن سنگھ نے اپنے افسانچوں کے عنوانات نہیں دیئے ہیں بلکہ نمبر درج کر کے ایک جدت پیدا کی ہے۔ ’’مانک موتی‘‘ سے چند منتخب افسانچے ملاحظہ فرمایئے:

 (۳) ’’ایک چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے محلے کی ایک تنگ سی گلی میں کسی چھوٹی سی بات پر دو فرقوں کے درمیان فساد ہو گیا۔ آگ ایسی لگی ، اتنی پھیلی کہ ایک بڑا ملک برباد ہو گیا۔‘‘

 (۴) ’’برلن کی دیوار ٹوٹنے پر مشرقی جرمنی میں رہ رہا ایک ہندوستانی ، مغربی جرمنی میں رہ رہے پاکستانی سے اس جوش سے بغل گیر ہوا جیسے ان کے اپنے ملکوں کو تقسیم کرنے والی واہگھے کی دیوار ٹوٹ گئی ہو۔‘‘

 (۱۲) ’’جب میں خیمہ گاڑ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک آدمی جو میرے باپ سا لگتا تھا ، اپنا خیمہ اکھاڑ رہا تھا اور جب میں کوچ کی تیاریاں کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جو میرے بیٹے سے لگتا تھا اپنا خیمہ ایسی مضبوطی سے گاڑ رہا تھا جیسے وہ یہاں ہمیشہ کے لئے رہنے کے لئے آیا ہو۔‘‘

 (۴۴) ’’ایک دن اپنے آپ سے لڑتے ہوئے مجھے احسا س ہوا کہ میں خود ہی اپنا سب سے بڑا دشمن ہوں۔  اسی طرح ایک دن شانت چت بیٹھے بیٹھے یہ احساس ہوا کہ میں خود ہی اپنا سب سے اچھا دوست بھی ہوں۔  ایک دن خیالوں کی دنیا آباد تھی تو ایسے لگا جیسے ساری دنیا ساری کائنات میرے اپنے اندر ہی موجود ہے۔ دوسرے دن جب ذہن بالکل خالی تھا اور کوئی بات نہیں سوجھ رہی تھی تو میں نے خود کو بے حد تنہا محسوس کیا۔‘‘

 (۳۶) ’’ہنستے ناچتے خوشیاں مناتے ایک ہجوم کو قریب آتا دیکھ کر ایک بھکارن نے اپنے تین چار سال کے بچے کو جلدی سے گود میں اٹھا لیا اور ایسی آڑ میں لے گئی جہاں سے بچہ ان رنگ رلیاں منانے والوں کو نہ دیکھ سکے ’نا بابا نا، وہ بڑبڑاتے جا رہی تھی۔

 ’’میرے ننگے بھوکے بچے نے اگر ہنسنا سیکھ لیا تو کل کو اسے بھیک کون دے گا۔‘‘

 (۲5) ’’دو بڑی طاقتوں کے بحری بیڑے سمندر میں ایسی جگہ پر لنگر ڈالے پڑے تھے جہاں ان کے بیچ ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا۔ کسی سوال کو لے کر دونوں بڑی طاقتوں کے مقاصد ٹکرا گئے۔ بڑی طاقتوں کا تو کوئی نقصان نہ ہوا ، ہاں وہ چھوٹا سا جزیرہ مفت میں مارا گیا۔‘‘

 غرض رتن سنگھ کے افسانچوں میں کہانی پن کے ساتھ زندگی کے کئی رنگ ملتے ہیں جو اپنے اطراف کے ماحول سے عبارت ہیں۔  ’’مانک موتی‘‘ کے بعد ان کا کوئی دوسرا مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا۔ البتہ ان کے افسانچے کبھی کبھار ملک کے مؤقر رسائل میں چھپتے رہتے ہیں جو صنف افسانہ کے تئیں ان کی دلچسپی اور سنجیدگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ مانک موتی کے حوالے سے ڈاکٹر ہارون ایوب ان کی افسانچہ نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

 ’’رتن سنگھ کے یہ افسانچے حد درجہ حقیقی ہیں اور موضوع کے انتخاب میں بھی انہوں نے ہر خاص و عام کی دلچسپی کا خیال رکھا ہے۔ اسی لیے قارئین انھیں بہت شوق اور لگن سے پڑھتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ ان افسانچوں میں انھیں اپنے مسائل کا جواب مل جاتا ہے، جس کے متلاشی ہوتے ہیں اور یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ افسانچہ کوئی الگ صنف نہیں ہے بلکہ افسانوی ادب یا فکشن کی ہی ایک شاخ ہے‘‘۔ (ص۵۴، پرواز ادب، پنجاب نومبر دسمبر ۱۹۹۷ء)

 ڈاکٹر نعمان فکشن کی اس شاخ میں رتن سنگھ کی فنکاری کے بارے میں یوس رقم طراز ہیں :

 ’’رتن سنگھ کی منی کہانیوں میں طنز کی نشتریت کے علاوہ اخلاق اور عبرت کا سامان فراہم کیا گیا ہے۔ انہوں نے چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے ذریعہ انسان دوستی کا پیغام قارئین تک پہنچانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ لیکن اس میدان میں وہ منٹو اور جوگندر پال سے آگے نہیں جاسکے ہیں ‘‘ (ص۵۷ ، پرواز ادب، پنجاب نومبر دسمبر ۱۹۹۷ء)

 رتن سنگھ نے اس روایت کو آگے ضرور بڑھایا ہے کہ ان کی اپنی الگ تخلیقی اپج ہے اور ان کا اپنا انفرادی لہجہ ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مانک موتی کے مطالعہ کا نچوڑ سلیم انصاری ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :

 ’’مانک موتی کے حوالے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے یہاں موضوعات کا تنوع زندگی کے تجربات کا نچوڑ اور کہانی کہنے کا فن بدرجہ اتم موجود ہے۔ جس طرح چھوٹے چھوٹے حادثات بڑے بڑے نقصانات اور نتائج کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔  اس طرح منی کہانیاں بھی قارئین کے ذہنوں میں طویل کہانیوں اور تجربوں کے جال بنتی رہتی ہیں۔  یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے منی کہانیاں اپنے اختتام کے بعد بھی ذہن کے پردے پر چلتی رہتی ہیں۔  جس طرح مختصر نظموں میں ڈرامائیت اور ایجاز و اختصار نظم کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔  اسی طرح مختصر ترین افسانوں یا منی کہانیوں میں موضوع کی انفرادیت اور کہانی کے اسلوب کے انوکھے پن کے امتزاج سے ایک نئی تخلیقی فضا قائم ہو جاتی ہے…. رتن سنگھ انوکھے اور اچھوتے موضوعات کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے وسیلے سے بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں لہذا قاری کو آخر دم تک منی کہانیوں کی گرفت سے آزاد نہیں ہونے دیتے۔ رتن سنگھ کی منی کہانیوں میں اظہار کا تنوع پایا جاتا ہے‘‘۔(ص۷۲ ، پرواز ادب، پنجاب نومبر دسمبر ۱۹۹۷ء)

 رتن سنگھ کا تخلیقی سفر ابھی جاری ہے لہذا اس بات کی قوی امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے مزید بہتر افسانچوں سے اس صنف کو مالا مال کریں گے۔  اور اسے وقار اور اعتبار بخش کر اپنی انفرادیت برقرار رکھیں گے۔

 رتن سنگھ کے بعد علی عباس امید، کوثر صدیقی، نثار راہی نثار صدیقی، سکندر حمید عرفان اور خالد عبادی وغیرہ شامل ہیں۔  علی عباس امید اور کوثر صدیقی ہمہ جہت فنکار ہیں یہ دونوں بنیادی طور پر شاعر ہیں لیکن ان دونوں نے بڑی تعداد میں افسانچے بھی لکھے ہیں۔  علی عباس امید نے کئی مختصر مختصر کہانیاں بچوں کے لیے بھی لکھی ہیں جو کتابچہ کی شکل میں شائع ہوئی ہیں۔  لیکن افسانچوں کا کوئی مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا ہے۔کوثر صدیقی اردو کے مقبول شاعر ، ادیب، بے باک صحافی اور ایک اچھے افسانہ نگار ہیں۔ مختلف اصناف پر مشتمل ان کی سات کتابیں اب تک منظر عام پر آ چکی ہیں انھوں نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی تخلیق کیے ہیں جو رسائل و جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔  گجرات کے فسادات کے پس منظر میں شائع ہوئے ان کے مشترکہ مجموعہ ’’آگ‘‘ (۲۰۰۲ء)میں افسانے اور نظموں کے ساتھ ۲۶ افسانچے بھی شامل ہیں جو اس مجموعہ کے تیسرے اور آخری حصے میں رکھے گئے ہیں جو دراصل ’’فسانہ بھی، حقیقت بھی‘‘ کے عنوان سے ترتیب دیے ہوئے مجموعہ کے لیے مختص تھے لیکن زیر نظر مجموعہ کی ضخامت بڑھ جانے کی وجہ سے اسی مجموعے میں شامل کر لیے گئے ہیں۔  ان میں عصری حسیت نمایاں طور پر موجود ہے۔ اور ڈاکٹر محمد معظم الدین کے لفظوں میں

 ’’زندگی کے دیگر مسائل کو انھوں نے بڑی خوبی سے ان چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں بیان کیا ہے اور گجرات کے سانحہ کے پس منظر میں گہری سماجی معنویت رکھتی ہیں ‘‘ (مطبوعہ کتاب نما۔ نئی دہلی۔ فروری ۲۰۰۳ء)

 ان مختصر کہانیوں کے تعلق سے کتاب کے پیش لفظ میں اقبال انصاری لکھتے ہیں۔

 ’’کچھ کہانیاں بہت مختصر اور بہت خوبصورت ہیں دراصل ان کا اختصار ہی ان کی خوبصورتی ہے حقیقتوں کو کہانی بڑا آسان ہے لیکن حقیقتوں کی کہانی پوری غیر جانبداری کے ساتھ لکھنا بہت مشکل ہے۔ یہ سب مشکل کام کوثر صدیقی نے ان کہانیوں میں بڑی خوبی کے ساتھ کیا ہے‘‘۔ (ص۶)

 ان کا افسانچہ بطور نمونہ دیکھیے

 جائداد

 میرے کمرے میں ایک چڑیا کے جوڑے نے گھونسلہ بنا رکھا تھا….

 میں دیکھتا ہوں ہر چھٹویں مہینے چڑیا انڈے دیتی تھی….

 بچے نکلتے تھے۔

 پھر دونوں مل کر دن رات محنت کر کے انھیں پالتے تھے….

 پھر اڑنا سکھاتے تھے….

 پر آنے کے بعد ایک دن پھر سے اڑ جاتے۔  اور ماں باپ کو پلٹ کر بھی نہ دیکھتے۔ ایک دن میں نے چڑیا سے پوچھا کہ تمہارے بچے تمہارے ساتھ کیوں نہیں رہتے۔ چڑیا نے جواب دیا…. ہمارے پاس کوئی جائداد ہے نہ اثاثہ….

 میں اپنے بچوں کی طرف دیکھنے لگا….(آگ، کوثر صدیقی، ص۱۰۲)

 کوثر صدیقی کے بعد کی نسل میں ایک اور شاعر ہیں جو افسانہ نگار بھی ہیں نام سکندر حمید عرفان ، جن کا تعلق کھنڈوہ سے ہے۔ مصنف کے افسانچے مختلف ادبی رسائل میں چھپتے رہے ہیں جن کی وجہ سے وہ ادبی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں کہ وہ بیک شاعر، افسانہ نگار اور افسانچہ نگار بھی ہیں۔

 ان کے دو شعری مجموعے اور بچوں کی نظموں اور کہانیوں کے مجموعے چھپ چکے ہیں۔  بقول سکندر عرفان ’’طویل افسانوں کی بہ نسبت منی کہانیاں لکھنا مجھے زیادہ مرغوب ہے۔ منی کہانیوں میں مجھے اپنی بات کے اظہار میں زیادہ سہولت نظر آئی۔ اس لیے میں نے اسے نسبتاً زیادہ آلہ کار بنایا‘‘۔  (ص۳یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں ، ۲۰۰۸ء)منظر عام پر آیا ان کا افسانوی مجموعہ ’’چیختی خاموشی‘‘ میں افسانوں کے مقابلے میں زیادہ افسانچے شامل ہیں۔  کتاب کا پیش لفظ ممتاز و معروف افسانہ نگار نعیم کوثر نے تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

 ’’یہ سارے افسانے مختصر کہانیوں کے مروجہ فارم لکھے گئے ہیں۔  یہ کہانیاں مختصر بھی ہیں اور بعض مختصر ترین بھی۔ لیکن اپنے آپ میں مکمل۔ سکندر عرفان کے ان مختصر افسانوں میں ان تیشہ نما قلم کا وصف موجود ہے جس نے کسی خارجی کیفیات کو جملوں کی تصدیق کے پیکر میں ڈھال دیا ہے اور وہ کہانی اپنے وژن کی وجہ سے قاری کے مابین رشتہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ سکندر عرفان نے کسی تمہید کے بغیر کہانی کو جرا ¿ت مندانہ اظہار دیا ہے‘‘۔

 ’’چیختی خاموشی‘‘ کی چند کہانیوں کا تجزیہ احمد عثمانی نے یوں کیا ہے۔

 ’’لہولہان حسرت، میں انھوں نے زندگی کی حقیقت بیان کی ہے۔ نقش پا، اور المیہ، روحانی کہانیاں ہیں۔  ’نیا سال نیا کلینڈر، سکندر عرفاں کی کہانی کے سوالات اٹھائی ہے۔ ’فرق، اور ’عروج، آج کا المیہ بیان کرنے والی کہانیاں ہیں۔  سکندر عرفان نے ان کہانیوں کو بہت ہی مختصر الفاظ سے مزین کیا ہے۔ چیختی خاموشی دہشت گردی کے خلاف مؤثر احتجاج ہے….‘‘ (ماہنامہ۔  بیباک،مالیگاؤں۔  اگست ۲۰۰۸ء)

 ان کے افسانچوں میں عصری تقاضوں کے ساتھ انسانی نفسیات اور فطری حسیت کا عکس نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ان کے افسانچوں کے موضوعات میں رنگا رنگی کے علاوہ پیش کش کی انفرادیت بھی ملتی ہے اور ان کی طنز کی کاٹ ان کے لہجہ کو نیا پن عطا کرتی ہے۔ ان کے زیر ترتیب مجموعہ سے ایک افسانچہ ملاحظہ کیجئے:

 علاج

 وزیر صحت اپنے معائنہ کے دوران مریضوں سے ان کی خیریت پوچھ رہے تھے۔ ان کے ساتھ ان کا پورا عملہ، ڈاکٹر اور نرسیز بھی تھے۔ مریض از راہ اثر اثبات میں سر ہلا کر اپنی کیفیات کا اظہار کر رہے تھے۔

 ایک مریض نے بہ مشکل تمام بستر سے اٹھ کر وزیر موصوف کے حضور ڈاکٹر اور نرسوں کی غلط کارکردگی کے بارے میں بآواز بلند چند جملے کہے۔ وزیر صحت اس مریض کو تسلی دے کر رخصت ہو گئے۔

 تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے اس مریض کے ایک انجکشن لگایا۔ اور …. اور اس مریض کی آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی۔

 شاید اس کی شکایت دور کر دی گئی۔(ص۸۳)

 کوثر صدیقی کے ساتھ خالد عبادی بھی آج کل بہت تیزی سے افسانچے لکھ رہے ہیں جو مختلف رسائل میں چھپ رہے ہیں۔  ان کے افسانچوں میں زندگی کا پورا دکھ اتر آیا ہے۔ بقول مناظر عاشق ہرگانوی:

 ’’ محمد خالد عبادی کے افسانچے اپنی اثر پذیری کی وجہ سے متاثر کرتے ہیں۔  موضوع کی نوک پر تھرتھراہٹ ، بے کلی اور بے بسی سے بھرے افسانچوں میں تیکھا پن دیکھا جاسکتا ہے‘‘۔

 خالد عبادی کے افسانچے معاشرتی اور تہذیبی زندگی کے نت نئے مسائل کی جہاں بڑی خوبصورت عکاسی کرتے ہیں۔  وہیں سماج میں پھیلی نا برابری، ناانصافی، تعصب اور فرقہ پرستی کی بنیادی وجہ یعنی اس مرض کی نبض کو پکڑنے میں کامیاب ہیں۔  اس تشخیصی عملِ تخلیق میں ان کی بے باکی اور بے ساختگی دیدنی ہے۔ ساتھ ہی طنز کا انداز اس موضوع کی شدتِ تاثر کو اور سوا کرتا ہے۔انھوں نے حال ہی میں ’’ نقطۂ نو گریز‘‘ کے عنوان سے اپنے افسانچوں کا مجموعہ ترتیب دیا ہے۔ اس مجموعہ سے ایک افسانچہ دیکھئے:

 دھوپ کا موسم

 کچھ دنوں سے اس بستی میں گھاسلیٹ کی افراط ہو گئی تھی…. جھونپڑیوں میں دیوالی اتر آئی تھی۔ لاش کی مٹھی کھل گئی تھی۔ نلوں سے تیز دھار میں پانی آنے لگا تھا۔

 ….زندگی کی تعریف بدل گئی تھی….

 شاید ان بستیوں میں خدا اتر آیا تھا….

 اور دیواریں الیکشن کے پوسٹر پہنے ہوئے تھیں۔  (ص۱۴ )

 رونق جمال کا تعلق اگرچہ برار کے ضلع امراؤتی سے ہے اور مہاراشٹر کے ضلع ودربھ میں ان کا تفصیلی ذکر آ چکا ہے۔ لیکن اب ایک عرصہ سے پہلے وہ ایم پی کے شہر راجنند گاؤں اور پھر چھتیس گڑھ کے درگ شہر میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔  ادھر کئی دنوں سے وہ ادبی اعتبار سے کافی فعال اور سرگرم ہو گئے ہیں۔  انھوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے ہیں۔  ان کے افسانچوں کے مجموعے ’’قوس قزح‘‘ اور ابھی ۲۰۰۷ء میں ’’پنجرے کا آدمی ‘‘ (دیوناگری میں ) منظر عام پر آئے ہیں۔  آج کل وہ خوب لکھ رہے ہیں اور تقریباً ہر رسالہ میں چھپ بھی رہے ہیں۔  ان کے پاس موضوع کا تنوع بھی ہے اور انداز پیش کش بھی اپنی انفرادیت لیے ہوئے ہے۔ عصری مسائل کی عکاسی بڑے مؤثر ڈھنگ سے کرتے ہیں۔  طنز کی کاٹ بھی غضب کی ہے۔ ان کے تازہ مجموعہ سے ایک افسانچہ دیکھئے:

 اچھا موقع

 ’’اس غریبی میں …. اتنا قیمتی ٹی وی کیوں خریدا تم نے!؟‘‘

 ’’خریدا نہیں ہے بھائی۔! شہر میں آئے سیلاب کی بھاگم بھاگ اور افراتفری میں سارے شہر میں لوٹ پاٹ مچی ہوئی تھی۔ میں ایک ٹی وی کی دکان کے قریب سے گذر رہا تھا۔ دیکھا لوگ دکان کے اندر گھس کر لوٹ پاٹ میں مصروف و مشغول ہیں۔  اچھا موقع دیکھ کر میں بھی یہ ٹی وی اٹھا لایا۔!!!‘‘

 نثار راہی بھی مدھیہ پردیش کے ایک مقبول افسانہ نگار ہیں۔  ان کے افسانوں کے تین مجموعے ’پت جھڑ‘ ’رائفل‘ اور ’تیشۂ دل‘ کے نام سے چھپ کر مقبول ہو چکے ہیں۔  انھوں نے بھی افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی کافی تعداد میں لکھے ہیں جو مختلف ادبی رسائل میں شائع بھی ہوئے ہیں۔  لیکن انھوں نے افسانچوں کے علیحدہ مجموعہ کی اشاعت پر توجہ نہیں کی ہے۔ امید کہ وہ اس طرف دھیان دیں گے۔ یہاں ان افسانہ نگاروں و افسانچہ نگاروں کے بعد اور بھی کئی نام ملتے ہیں۔  لیکن ان لکھنے والوں کے پاس اتنی سرگرمی نہیں دکھائی دیتی ہے جس کی ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ اس ریاست کی صورتحال اطمینان بخش نہ سہی غنیمت ضرور ہے۔

 مہاراشٹر اور بہار کی طرح آندھرا پردیش میں بھی کئی سینئر اور معتبر افسانہ نگاروں نے افسانچے نہیں لکھے جیسے قدیرالزماں ، بیگ احساس، مظہر الزماں خاں ، یٰسین احمد وغیرہ نے افسانچے لکھے ہیں اور نہ ہی اس سمت ان کا کوئی رجحان نظر آتا ہے۔اردو کی ایک اہم ممتاز ادیبہ محترمہ جیلانی بانو جنھوں نے افسانوں کے ساتھ ناول اور ناولٹ بھی لکھے ہیں۔  ادھر کئی دنوں سے محترمہ نے بھی مختصر ترین کہانیاں لکھی ہیں۔  اور ’’کن‘‘ کے نام سے ان کی ان مختصر ترین کہانیوں کا مجموعہ بھی چھپ رہا ہے۔ ان کی چند مختصر کہانیاں ’’بے باک‘‘ (مالیگاؤں )کے سالنامہ ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی ہیں۔  ان میں سے ایک یہاں بطور نمونہ پیش کی جا رہی ہے۔

 ’’کن‘‘

 میرے اوپر ایٹمی ہتھیاروں کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

 کیا آنے والے پل میں یہ دنیا مٹ جائے گی؟

 میں سراٹھائے آسمان کی طرف دیکھ رہی ہوں۔

 کوئی وعدہ …………….؟! کوئی معجزہ …………؟!

 پھر ایک بار ’’کن‘‘ کی صدا کیوں نہیں آتی۔

 ننھی رمشاء نے میرے ہاتھ سے قلم چھین لیا ہے۔وہ سفید کاغذ پر جھکی کچھ لکھ رہی ہے۔

 کچھ تو لکھو کہ حرف چمک اٹھیں۔  کچھ تو بولو کہ حرف چمک اٹھیں۔

 کچھ تو بولو کہ روشنی ہو جائے۔…………(صفحہ ۸۴)

 البتہ جیلانی بانو کے ہمعصروں میں کسی نے بھی اس سمت توجہ نہیں کی۔ لیکن ان کے بعد کی نسل کے کئی نئے لکھنے والوں نے اسے مستقل صنف کے طور پر اپنایا اور اس طرف پورے انہماک اور دلچسپی کے ساتھ متوجہ ہوئے اور اس صنف میں طبع آزمائی کی۔ ان قلمکاروں میں رفیق جعفر م ق سلیم، طٰہٰ آفندی، مجید سلیم (جو آج کل بحرین اور دمام میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں ) جلیس بھارتی، رحیم انور، عبدالقدوس رضوان، ضامن علی حسرت، مجتبیٰ فہیم، مقیت فاروقی، محمد انیس فاروقی اور قدیر دانش وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل نظر آتے ہیں نظام آباد سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’گونج‘‘ نے بھی اس صنف کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ مدیر گونج جمیل نظام آبادی کی نئے لکھنے والوں کے تئیں مسلسل ہمت افزائی اور مناسب رہنمائی کے نتیجے میں آج کئی نام اعتبار پا چکے ہیں۔  ان میں رحیم انور بطور خاص قابل ذکر ہیں جن کے اب تک اس صنف میں چھ مجموعے چھپ چکے ہیں۔  اور انہوں نے خالصتاً افسانچے ہی لکھے ہیں گویا اسی ایک صنف میں طبع آزمائی کر کے خود کو اس کے لیے وقف کر دیا ہے۔  رحیم انور اس لحاظ سے بھی نظام آباد کے اہم افسانچہ نگار ہیں کہ ان کے نصف درجن مجموعوں کے حوالے سے وہ مختلف اہل نقد و نظر سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔  ان کی خدمات کے اعتراف میں ماہنامہ گونج نے رحیم انور نمبر بھی شائع کیا ہے۔ آندھرا پردیش اردو اکیڈمی نے ان کے کئی مجموعوں کو ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔

 جمیل نظام آبادی ان کے بارے میں لکھتے ہیں :

 ’’منی کہانیاں لکھنا بھی ایک فن ہے اور اس فن سے مصنف واقف ہیں۔  رحیم انور کی کہانیاں گزشتہ ۲۰ برس سے ملک کے نامور رسائل میں شائع ہوئی ہیں اس دوران ان کی منی کہانیوں کے ۶ مجموعے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔  ان کی کہانی ہمارے دل و دماغ پر اپنا تاثر چھوڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ نہ زبان و بیان کا الجھاؤ نہ گھماؤ پھراؤ۔ سب کچھ نہایت آسان اور یہی سیدھا سادا انداز ان کی کہانیوں کی مقبولیت کا باعث ہے۔ رحیم انور نے ایک منی افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت مستحکم کر لی ہے‘‘۔

 (’احساس کا سفر‘ سے)

 ضیاء جبلپوری ان کا تعارف ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

 ’’ایک کامیاب افسانہ نگار کہانی کو زندگی اور فن بنانے کا ہنر جانتا ہے۔ اس کے یہاں زندگی اور انسانی اقدار کا ادراک زیادہ عمیق ہوتا ہے۔ وہ اچھائی برائی خوشی غم محبت نفرت اور انسانی قد کی الجھنوں کو زیادہ سمجھتا ہے۔ عمل تخلیق کے دوران کرب و آگہی کی منزلوں سے گزرتا بھی ہے۔ وہ ایک اچھے منی کہانی رائٹر ہیں۔  چھوٹی چھوٹی کہانیاں تیز رفتاری سے لکھتے ہیں۔  یہ تیز رفتاری انہیں ضخامت کی دین ہے۔ ملک کے مشہور رسائل و جرائد میں تقریباً ۳۰۰ کے لگ بھگ منی کہانیاں چھپ چکی ہیں۔  مختصر کہانیوں کے میدان میں یہ اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔  ان کی کہانی کہیں درمیان سے شروع ہوتی ہے نقطہ عروج کو پہنچتے پہنچتے اچانک ختم ہو جاتی ہے وہ اپنی تخلیق کو بھی کبھی کبھی قاری بنا دیتے ہیں کبھی قاری کو تخلیق کے کردار میں ڈھال دیتے ہیں۔  ان کی کہانی سے ایک عام قاری سرور حاصل کرتا ہے‘‘۔ (’احساس کے سفر‘ سے)

 رحیم انور کے فکر و فن پر جن اہل نقد و نظر نے سیر حاصل تبصرے کیے ہیں۔  ان میں ضیاء جبل پوری، جمیل نظام آبادی کے علاوہ جوگندر پال ، قاضی مشتاق، اقبال شیدائی، شاغل ادیب، عبدالقدیر مقدر اور ڈاکٹر محبوب راہی شامل ہیں۔  رحیم انور پورے جوش اور ایک نئے عزم کے ساتھ اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔  ان کے چھ مجموعے بالترتیب ’’یادوں کے سائے، ۱۹۸۶ء، آواز کا درد ۱۹۸۹ء، اس موڑ سے ۱۹۹۴ء، ہم کہاں کہاں گزرے ۱۹۹۹ء، بوند بوند سمندر ۲۰۰۱ء، احساس کا سفر ۲۰۰۳ء‘‘ تواتر کے ساتھ منظر عام پر آئے ہیں جو ان کے روشن مستقبل کی گواہی دیتے ہیں۔

 رحیم انور نے تقریباً ہر موضوع کو اپنے منی افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے اطراف کے مسائل اور اپنے عصر سے جڑے ہونے کا ثبوت ان کے ہر منی افسانوی مجموعے میں ملتا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات، عدم تحفظ کا احساس، رہنماؤں کا دوغلاپن، منافقت، سماج کے کھوکھلے نظام، بیروزگاری، جہیز کی لعنت اور اس طرح کے دیگر مسائل کو انہوں نے اپنے ان منی افسانوں میں سمودیا ہے۔ ان کے منی افسانوں میں طنز کا عنصر ملتا ہے جو احتجاج کی لے پیدا کرتا ہے اور ان کے درد مند دل کی آواز اور بیدار ذہن کی علامت بن کر ابھرتا ہے۔

 چونکہ منی افسانے کا فن کم سے کم لفظوں میں غیر ضروری وضاحتوں سے بچنے کا نام ہے لیکن کہیں کہیں وہ تفصیل میں الجھ جاتے ہیں۔  جہاں انہوں نے غیر ضروری وضاحتوں سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ وہاں وہ زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔  جوگندر پا ل یہ بات محسوس کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں

 ’’آپ کو پڑھ کر اچھا لگا۔ اس کے وقوعی اہتمام میں قدروں کا رس جس اور اس سے پیدا شدہ تناؤ بے اختیار متوجہ کرتا ہے۔ وضاحتوں کا کام قاری پر چھوڑ دینے سے افسانچہ بڑا سڈول نکل آتا ہے۔ آپ کے یہاں بھی وہ افسانچے زیادہ چست اور بہتر ہیں جہاں آپ نے وضاحت سے احتراز برتا ہے اور اپنی بات چپ چاپ کر جانے پر حاوی ہیں ‘‘۔ (تاثرات ص۴ ’بوند بوند سمندر)

 جوگندر پال کے اس رہنما اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے رحیم انور منی افسانہ لکھتے رہے تو اس صنف سے پورا پورا انصاف کر سکیں گے۔ اور مستقبل قریب میں زیادہ کامیاب رہیں گے۔  ان کے دو منی افسانے یہاں مثال کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں۔

 مکھوٹا

 پولیس نے فرض شناسی سے ایک معمولی چور کو گرفتار کر کے لایا تھا۔ اور اسے آہنی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا۔ لیکن اس خطرناک مجرم کو پکڑ نہ سکی۔ جو اپنے چہرے پر سیاسی مکھوٹا لگائے سفید پوشاک اور عزت دار شہری کی حیثیت سے سماج کے درمیان موجود تھا‘‘۔

 دعا

 بوڑھے فقیر نے صدا لگائی۔ ’’تھوڑا کھانا لادو۔ دو دن سے بھوکا ہوں ‘‘۔ گھر کے مکین نے کہا۔ ’’لیکن تمہاری صدا میں دعا شامل نہیں ہے جبکہ پہلے کے درویش دعا پہلے دیتے تھے اور خیرات بعد میں حاصل کرتے تھے‘‘۔

 ’’لیکن اب دعا کے بدلہ خیرات ملنا بھی کیا یقینی ہے؟!‘‘

 بوڑھے فقیر کی اس بات پر گھر کا مکیں حیرت سے اس کا چہرہ دیکھے جا رہا تھا….! مطبوعہ ماہنامہ گونج (نظام آباد) ص۲۲ جولائی ۲۰۰۴ء

 رحیم انور کے ہم عصروں میں ضامن علی حسرت، مجتبیٰ فہیم ،محمد انیس فاروقی، قدیر دانش اور عبدالقدوس رضوان سے مزید بہتر منی افسانوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔ عبدالقدوس رضوان نے اپنا مجموعہ ’’اپنے وطن تیرے لیے‘‘ کے نام سے ترتیب دیا ہے۔ان کا ایک افسانچہ بطور نمونہ دیکھئے:

 بم دھماکہ

 وہ ایک پولنگ بوتھ میں رات کی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ صبح آٹھ بجے سے پولنگ شروع ہونے والی تھی۔ یہ رات انھیں گاؤں کے ایک مدرسہ کے بوسیدہ کمرہ میں گذارنی تھی۔ وہ سونے کی کوشش کرنے لگے۔ رات کا ایک بجا ہو گا۔ معاً ان کے کانوں میں دھماکے کی آواز آئی۔ وہ سب اٹھ کر باہر بھاگے۔ پولیس کے جوان ، پولنگ آفیسر اور ان کے ماتحت سب کا ہیبت سے برا حال تھا۔ کچھ دیر بعد وہ ڈرتے ڈرتے وہ اندر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں دو بلیاں لڑ رہی ہیں۔  اور دو خالی ٹین کے ڈبے گر پڑے ہیں۔  اب وہ ایک دوسرے کو ڈرپوک کہہ کر آپس میں مذاق کرنے لگے۔

 (مطبوعہ گونج نظام آباد)

 مجید سلیم کا تعلق بھی حیدرآباد سے ہے۔  وہ اپنے طالب علمی کے زمانے سے افسانے لکھ رہے ہیں۔  ان کے افسانے و افسانچے مختلف جرائد ورسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔  انھوں نے ناول بھی لکھا ہے۔ ادھر ایک عرصے سے ملازمت کے سلسلے میں وہ کویت میں مقیم ہے لیکن انھوں نے قلم سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ہے۔ مجید سلیم نے وہاں کے مسائل کو اپنے مشاہدات و تجربات کو جذبوں اور احساسات کی شدت کے ساتھ اس طرح پیش کیا ہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان کے منی افسانوں کا مجموعہ تو ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے البتہ ان کے افسانوی مجموعہ ’’پیاسا سمندر‘‘ (۱۹۸۴ء) میں کچھ مختصر ترین افسانے ضرور ملتے ہیں جنھیں افسانچے کہا جاسکتا ہے ان میں ’مونا  لیزا کی واپسی‘ قابل ذکر ہے۔ بقول ڈاکٹر مغنی تبسم

 ’’مجید سلیم کو زبان پر خاصا عبور حاصل ہے۔ وہ اپنے ما فی الضمیر کو بڑی خوبی کے ساتھ الفاظ کا پیرہن عطا کرتے ہیں اور ان کی اعلیٰ فنکاری کا نمونہ مختصر ترین افسانہ ’مونا  لیزا اک واپسی‘ ہے۔ جس میں انھوں نے ایک کہانی کو جسے کئی صفحوں پر پھیلایا جاسکتا تھا ایما و اشارے سے کام لے کر چند سطروں میں پیش کر دیا ہے‘‘۔ (کتاب نما۔ نئی دہلی۔ فروری ۲۰۰۵ء)

 آندھرا پردیش کے لکھنے والوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس صنف کو پروان چڑھانے میں سنجیدگی سے توجہ دیں گے۔  اس لحاظ سے آندھرا پردیش میں منی افسانہ کی صورتحال کسی حد تک اطمینان بخش نظر آتی ہے اور مستقبل میں مزید بہتری کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

 کرناٹک میں حمید سہروردی، انل ٹھکّر، اکرام باگ جیسے سینئر جدید افسانہ نگاروں نے بھی افسانچے تخلیق کیے ہیں جو ملک کے معتبر ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔  ان کے بعد کی نسل میں وحید انجم، شاہد فریدی، شکیب انصاری، جلیل تنویر، ناظم خلیلی، سمیرا حیدر، ضیاء جعفر، حنا روحی اور محمد رحیم یوسف بیدری وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔  ان کے علاوہ تازہ کار نسل میں اطہر معیز، آصف درویش، خرم عماد سہر وری، منظور وقار، اکرام نقاش، مشتاق سعید، محمد ہارون سلیم سیٹھ ، کوثر پروین وغیرہ کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔  ان نئے لکھنے والے کے افسانچے مختلف اخبارات اور رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔  البتہ کوئی منی افسانوی مجموعہ ابھی تک یہاں سے نہیں شائع ہوا ہے۔ اور نہ ہی کسی افسانچے کے مجموعہ کے منظر عام پر آنے کی اطلاع ہے۔

 ریاست جموں و کشمیر میں منی افسانہ لکھنے والوں میں کافی نمایاں نام ملتے ہیں ان میں نور شاہ، آنند لہر، ویریندر پٹواری، اشوک پٹواری، رمیش کنول، عمر مجید، ایس ایم قمر، وحشی سعید ، ڈی کے کنول، حسن ساہو، مشتاق احمد وانی، زاہد مختار وغیرہ کے ساتھ لداخ کے عبدالغنی شیخ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔  آنند لہر،  ویریندر پٹواری اور اشوک پٹواری مقبول افسانہ نگار کی حیثیت سے فکشن کی دنیا میں اعتبار پا چکے ہیں اور دونوں افسانہ نگار دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر چکے ہیں۔  ان افسانہ نگاروں نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی بڑی تعداد میں لکھے ہیں جو مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔  لیکن اس علاقے سے بھی باقاعدہ افسانچوں کا کوئی مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا ہے۔ البتہ اسلم جمشید پوری کے کتاب نما (نئی دہلی مطبوعہ جنوری ۲۰۰۱ء) میں چھپے تبصرے سے معلوم ہوتا ہے کہحسن ساہو کے ایک افسانوی مجموعہ ’’اندھا کنواں ‘‘ میں کچھ افسانچے ملتے ہیں۔  ان کے افسانوں کے دو مجموعے بعنوان ’’پھولوں کا ماتم‘‘ اور ’’بستی بستی صحرا‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔  ان میں افسانچے بھی شامل ہیں۔  حسن ساہو کے افسانوں کا بنیادی موضوع ان کے آس پاس کا وہ ماحول ہے جس سے وہ اپنے افسانوں کے لیے مواد حاصل کرتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں انسانی زندگی کی حقیقی عکاسی ملتی ہیں۔  اسی طرح وحشی سعید نے بھی افسانوں کے ساتھ کئی افسانچے لکھے ہیں ان کے ابتدائی افسانوی مجموعے کا ٹائٹل ’’کنوارے الفاظ کا جزیرہ‘‘ ایک بہترین افسانچہ ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

 کنوارے الفاظ کا جزیرہ

 یہ جانتے ہوئے بھی کہ شیشے کے محل میں رہنا خود اپنے آپ کو تیر و نشتر کا نشانہ بنانا ہو گا۔ میں نے پھر بھی زندگی میں کچھ حاصل کرنے کی ٹھان لی۔

 اچانک سب ایک خواب کی کیفیت میں تبدیل ہوتا رہا۔

 اب میں رات کے اندھیرے میں اپنے آپ کا تعاقب کرتا رہتا ہوں۔  اس اندھیرے میں بار بار وہ آواز سنائی دیتی ہے۔

 ’’یہ سب ڈھونگ کس لیے؟‘‘

 ’’کیا مطلب؟‘‘ میں بول پڑتا۔

 ’’سوچ….!…. انجام….‘‘

 زندگی کی جو ساعتیں میں نے سکون کے لیے وقف کی تھیں اب ان ساعتوں میں بھی اپنے آپ کو سوچ و فکر کے زنداں میں قید پاتا ہوں۔  رات کے اندھیرے میں جب جب میری گہری نیند ٹوٹ جاتی ہے، میں اپنی بند مٹھی میں ایک جزیرہ پناہ گزیں پاتا ہوں۔  اور میں اس جزیرے پر ان کنوارے الفاظ کی شناخت کی جستجو میں لگ جاتا ہوں۔  جو مجھ میں جذب ہو کر بھی مجھ سے بہت دور ہے!

 اردو فکشن میں آنند لہر ایک جانا پہچانا نام ہے۔ فکشن کی ہر صنف میں انھوں نے خوب طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے کئی افسانوں مجموعے چھپ کر مقبول ہو چکے ہیں۔  اسی طرح ان کا ناول ’’اگلی عید سے پہلے‘‘ اور ڈرامہ ’’تپسوی کون‘‘ کافی مقبول ہوئے ہیں۔  چونکہ وہ ریاست کشمیر کے علاقہ جموں میں رہتے ہیں۔  لہذا اپنے ریاست کے مسائل کو اپنے افسانوں میں بخوبی پیش کیا ہے۔ سرحد کے پاس رہنے والوں کا دکھ ان میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دو افسانوی مجموعوں کے نام ’’سرحد کے پار‘‘(۲۰۰۱ء) ’’سرحدوں کے بیچ‘‘ اور ’’کورٹ مارشل‘‘ (۲۰۰۵ء) ہیں۔  پیشے کے اعتبار آنند لہر ایک سینئر ایڈوکیٹ ہیں یہی وجہ ہے کہ انصاف کا یہ رنگ ان کی اکثر تحریروں میں دکھائی دیتا ہے۔ مصنف نے جنگ کے خلاف بھی آواز اٹھائی ہے۔ ویسے قومی یکجہتی اور انسان دوستی ان کے خاص موضوعات ہیں وہیں انھوں نے پیڑ اگاؤ مہم، پولوشن،کرپشن اور دیگر ایسے کئی موضوعات پر روشنی ڈالی ہے جن پر اردو افسانہ نگاروں کی نگاہ کم کم گئی ہے۔

 طارق سعید آنند لہر کی مختصر کہانیوں کا تجزیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

 ’’آنند لہر نے طالب زیدی کی طرح چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھی ہیں۔  لیکن آنند لہر کے یہاں معنویت کا دائرہ اور ذخیرہ زیادہ وسیع ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کی منی کہانیوں میں جدیدیت کا مکمل رجحان ملتا ہے ساتھ ہی تخلیقی رویہ کی جلوہ گری میں علامتی الفاظ اور پیکر تلاشی کی بوقلمونی موجود ہے۔جو آنند لہر کی کامیابی کا راز ہے‘‘۔

 (نئی کہانی۔  طارق سعید مطبوعہ ماہنامہ شاعر افسانہ نمبر ۱۹۸۱ء)

 انھوں نے افسانوں کے ساتھ مختصر ترین کہانیاں بڑی تعداد میں لکھی ہیں جو افسانچے کے زمرے میں آتی ہیں۔ لیکن باقاعدہ افسانچوں کا مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے۔ البتہ حال ہی میں شائع ہوئے ان کے ایک افسانوی مجموعہ ’’انحراف‘‘ جس میں زیادہ تر تجریدی انداز کے افسانے ہیں ،افسانچے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔  اس مجموعہ سے ایک افسانچہ بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے:

 ریت کا چشمہ

 جس برتن میں تم نے سورج کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس سے اندھیروں کا ایک ایسا دریا بہہ نکلا ہے جو اپنے سمندر کی تلاش میں پہاڑوں کے معصوم بچوں کو بہا کر لے جائے گا…. اندھی صدی بچھڑے ہوئے لمحوں کو پکڑنے کی جب بھی کوشش کرے گی اس کے ہاتھوں ایسے زہریلے ناگ آئیں گے۔  جو آسمان کے اس حصے کو ڈسیں گے جسے سونگ بتا کر خلاؤں نے جنگیں رچائی تھیں اور پھر تپتی ہوئی برف سے ایک ایسا ٹھنڈا ریگستان پیدا ہو گا جو چاند کے سینے پر ایسے زخم لگائے گا کہ ہواؤں کے قاتلوں کو قبروں سے نکال کر زمین کی چھت کے اوپر بکھیر دیا جائے گا اور پھر ان بچوں کو سکون میّسر ہو گا جن کے بچپن کو زمین کی گردش لے کر بھاگ گئی تھی۔ جن کی چاہ درختوں کی چھال نے چھپائی تھی۔

 (ص۵۳، انحراف…. آنند لہر)

 ریاست جموں کشمیر میں نور شاہ کا نام اردو فکشن کی دنیا میں کافی معروف رہا ہے۔ انھوں نے بڑی تعداد میں افسانے لکھے ہیں۔  ساتھ ہی کئی افسانچے بھی تخلیق کیے ہیں۔  لیکن ان کے افسانچوں کا مجموعہ ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے۔ ان سے امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں وہ اس طرف ضرور توجہ دیں گے۔

 اردوافسانہ نگاری میں ریاست پنجاب کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ یہاں تک کہ اردو کے صف اول کے افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی ، منٹو اور کرشن چندر بھی پنجاب کی سرزمین کے پروردہ تھے۔ جدید دور میں رتن سنگھ ، جوگندر پال، شراون کمار ورما، ہیرا نند سوز، ہرچرن چاؤلہ، ڈاکٹر کیول دھیر، ڈاکٹر نریش اور سلطان انجم جیسے نامور پنجابی افسانہ نگاروں نے اردو افسانے میں اپنا گراں قدر مقام بنایا۔ وہیں ریاست پنجاب اور ہریانہ میں بھی افسانچہ لکھنے والوں میں کئی نام موجود ہیں جو نمایاں طور پر ہند و پاک کے ادبی رسائل و جرائد میں چھپتے رہے ہیں ان میں کرشن پرویز، کیدار ناتھ شرما، جے ایس جوہر، ہرچند کوشک، آر ڈی شرما تاثیر، راجیش بھاٹیہ، کے کے نندا اشک، انوار احمد انصاری، ڈاکٹر طارق کفایت، راجندر ورما، محمد بشیر مالیر کوٹلوی اور سالک جمیل براڑ کے نام اہم ہیں۔ اور ڈاکٹر رینو بہل پنجاب کی واحد خاتون افسانہ نگار ہے جو بہت کم عرصے میں صنف افسانہ کی افق پر بڑی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہیں۔  البتہ یہاں بھی کچھ سینئر افسانہ نگاروں جیسے کشمیری لال ذاکر، شراون کمار ورما، اوم کرشن راحت اور ہیرا نند سور وغیرہ نے افسانچے نہیں لکھے ہیں۔  اس صنف میں صرف ہرچرن چاؤلہ ہی ایک ایسے افسانہ نگار رہے ہیں جنہوں نے بڑی تعداد میں افسانچے تخلیق کیے جو ان کے افسانوی مجموعے ’’گریباں جھوٹ بولتا ہے‘‘ اور ’’گھوڑے کا کرب‘‘ میں شامل ہیں۔  چونکہ وہ ایک طویل عرصہ سے ناروے میں مستقل سکونت اختیار کر چکے ہیں لہذا ان کا ذکر دیار مغرب کے لکھنے والوں میں تفصیل سے آئے گا۔

 پنجاب کے محمد بشیر مالیر کوٹلوی اس صنف میں ایک ممتاز و مقبول نام ہے۔ انہوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے ہیں۔  ان کے افسانچوں سے عصری حسیت جھلکتی ہے۔ انہوں نے بھی اپنے قریب کے ماحول سے مسائل کو اٹھایا ہے اور مختصر الفاظ میں بڑے موثر ڈھنگ سے پیش کیا ہے اور صنف کو پروان چڑھانے میں مدد کی ہے۔ بشیر مالیر کوٹلوی نے افسانوں کے ساتھ زیادہ تر افسانچے بھی لکھے ہیں۔  ان کے دو مجموعے بالترتیب ’’قدم قدم دوزخ‘‘(۱۹۸۸ء) اور ’’سلگتے لمحے‘‘ (۱۹۹۶ء) منظر عام پر آ کر مقبول ہو چکے ہیں۔  ان دونوں میں افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی شامل ہیں۔  اپنے ان منی افسانوں میں زندگی کے دیگر مسائل کی بھی انہوں نے خوب عکاسی کی ہے جیسے سیاسی واقعات، رہنماؤں کے سماجی رویے، اقلیتوں کے خوف و دہشت کے سائے، حکومتوں کا جبر و ظلم عورتوں کا استحصال غریبی مفلسی بے روزگاری اور اخلاقی قدروں کا زوال اور ایسے ہی کئی سلگتے موضوعات کو انہوں نے بڑی ہنر مندی سے چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں یوں ڈھال دیا ہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ منی افسانے ان حقیقتوں کا آئینہ بھی دکھاتے ہیں اور کبھی خود آئینہ بھی بن جاتے ہیں ، ان حالات کا جن کے کرب سے تخلیق کار گزرا ہے۔ اور ان کا مشاہدہ بھی بڑا غضب کا ہے۔  ان کے افسانچوں کے موضوعات اور فن کے تعلق سے جوگندر پال لکھتے ہیں۔

 ’’بشیر مالیر کوٹلوی کی لمبی کہانیاں بھی مختصر ہوتی ہیں اپنی اختصار پسندی کی وجہ سے ہی وہ جب اپنے افسانچوں میں خوش باش بود و باد کیے ہوتا ہے تو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے اپنے ایک ہی بھرے پورے چھوٹے سے کمرے کے گھر میں ….

 پروفیسر قمر رئیس ان کے افسانچوں کے موضوعات اور خوبیوں کے بارے میں لکھتے ہیں

 ’’محمد بشیر کی منی کہانیوں میں بھی ان کا سیاسی اور سماجی شعور نکھر کر سامنے آتا ہے۔ بعض دوسرے کہانی کاروں کی طرح ان کی منی کہانیاں لطیفہ نہیں بنتیں۔  ان میں دلچسپی اور تحیر خیزی کے ساتھ ایک فضا بھی ہوتی ہے اور اس سے اہم وہ معنویت جو کہانی کے آخری جملوں سے روشنی کی طرح پھوٹتی ہے۔ طنزیہ پیرایہ وہ یہاں بھی بڑا کام لیتے ہیں ‘‘۔مثلاً ’شناخت‘، میں ایک تھانہ میں پیشہ ور مجرموں کے بجائے شرفاء اور معزز آدمیوں کی تصویریں لگائی جاتی ہیں۔  اس لیے کہ علاقے کے مجرموں کی تصویریں لگانے کے لیے دسیوں بورڈ بھی ناکافی ہوئے۔ طنز کا یہی بھرپور وار ’تنخواہ‘ اور دوسری منی کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ یہ کہانیاں لطیفہ اس لیے بھی نہیں بن پاتیں کہ یہ گہری واقعیت اور زندگی کی ایسی صداقت سے معمور ہیں جسے ہم صرف محسوس کرسکتے ہیں ‘‘۔

 (ص۹۱۔ماہنامہ اسباق۔ پونا۔ جنوری تا جون ۲۰۰۳ء)

بشیر مالیر کوٹلوی کے فن اور شخصیت پر ماہنامہ اسباق پونا نے اپنا خاص نمبر شائع کیا ہے جو جنوری تا جون ۲۰۰۳ء کا مشترکہ شمارہ ہے ان کے فن پر جوگندر پال، پروفیسر قمر رئیس کے علاوہ قاضی مشتاق احمد پروفیسر زینت اﷲ جاوید، شرون کمار ورما وغیرہ نے روشنی ڈالی ہے۔ اس خاص نمبر میں ان کے افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی شامل ہیں ان میں سے ایک افسانچہ ’’تنخواہ‘‘ ملاحظہ کریں۔

 ’’چند ماہ قبل جب اس کی ماں کو بلڈ پریشر کا دورہ پڑا تو ڈاکٹر نے اسے ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی ماں کو ان تمام مسائل سے دور رکھے جن کی وجہ سے اس کے دماغ پر بوجھ پڑتا ہو۔ قلیل آمدنی اور خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اس نے اگلے ہی مہینے سے ماں کے بجائے اپنی بیوی کے ہاتھ میں تنخواہ کی رقم دے کر گھر کے تمام اخراجات کی ذمہ داری اس پر ڈال دی تھی۔ اس کے باوجود اس کی ماں ابھی مکمل رو بہ صحت نہ ہوسکی تھی کہ آج بیٹھے بیٹھے اچانک اس کی بیوی کا دل ڈوبنے لگا اور وہ بے ہوشی کے عالم میں پسینے سے تر ہو گئی۔ فوری طبی امداد کے لیے وہ اسے لے کر اسپتال پہنچا۔ ضروری انجکشن وغیرہ دینے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ مریضہ کو ہلکا دل کا دورہ پڑا تھا۔ اس کے مزید پوچھنے پر ڈاکٹر نے اس پر واضح کیا کہ سخت ذہنی تناؤ کی وجہ سے ہی ایسا ہوتا ہے اگر مریضہ کی دماغی پریشانیاں بدستور قائم رہیں تو اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔

 اس کے ذہن میں تیز آندھیوں کا شور سما چکا تھا۔ وہ ایک اذیت ناک کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ گھر میں ماں بیوی اور اس کے علاوہ اس کا ضعیف العمر باپ ایک نابینا بہن اور چھوٹے بچے ہیں وہ خود تو سارا دن فیکٹری میں مشین سے سردھنتا ہے اس بار وہ کس کو موت کی راہ پر چلنے کی دعوت دے ؟! اگلے مہینے سے وہ کس کے ہاتھ میں اپنی تنخواہ سونپے!۔

 ڈاکٹر قمر رئیس کے لفظوں میں ’’جس سنجیدہ انہماک اور عوام دوستی کے جس نقطہ نگاہ سے گرد و پیش کی زندگی کا مطالعہ کر رہے ہیں اور جس خوبی سے وہ معاشرتی حقائق کو افسانہ کے معنی آفریں پیکر میں ڈھال رہے ہیں اس سے بجا طور پر امید کی جاسکتی ہے کہ ان کا مستقبل درخشاں ہے۔ شرط یہی ہے کہ یہ انہماک اور لگن جاری رہے‘‘۔

 سنام (پنجاب) کے ایس کے جوہر بھی ایک طویل عرصے سے افسانچے لکھتے رہے ہیں۔  ایک زمانے میں ان کے یہ مختصر ترین افسانے شمع (دہلی) میں مختصر مختصر کہانی اسی صفحہ پر مکمل کے عنوان سے شائع ہوا کرتے تھے۔ سلگتے ہوئے موضوعات کو مختصر کہانی کے روپ میں پیش کرنا ان کا خاص انداز رہا ہے۔ ان کے افسانچوں کے موضوعات عصری آگہی اور سلگتے مسائل سے عبارت رہے ہیں۔  افسانچہ کا چونکا دینے والا کلائمیکس ،بڑی ہنر مندی سے نظر آتا ہے لیکن ان کے افسانچوں کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے اگر وہ اس طرف توجہ دیں تو مناسب رہے گا۔ صنف افسانچہ کو فروغ دینے والوں میں ان کا نام ایک انفرادی اہمیت کا حامل ہے۔پنجاب کی افسانہ نگارہ  رینوبہل نے بھی افسانوں کے ساتھ کئی افسانچے تخلیق کیے ہیں۔  ادھر ادھر ان کی یہ کہانیاں نظر آتی ہیں۔  ان کے افسانوں کے دو مجموعے آئینہ ۲۰۰۱ء اور آنکھوں سے دل تک ۲۰۰۴ء منظر عام پر آ چکے ہیں۔  ان مجموعوں میں کچھ مختصر ترین کہانیاں جنہیں افسانچہ کہا جاسکتا ہے شامل ہیں۔  انکی کہانیاں صاف ستھری اور سیدھی سادی ہوتی ہیں جو آنکھوں سے دل میں اترنے کی خوبی رکھتی ہیں۔  نئی صدی میں سماجی اعتبار سے آزاد اور متوسط طبقے کے مسائل کو بڑے اچھوتے انداز میں وہ پیش کرتی ہیں۔  ان سے مستقبل میں مزید اچھے افسانچوں کی امید کی جاسکتی ہے۔اسی طرح کیدار ناتھ شرما کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ان میں افسانچے بھی شامل ہیں البتہ اس ریاست میں بھی باقاعدہ افسانچوں کا کوئی مجموعہ ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے۔ سالک جمیل براڑ مالیر کوٹلہ کے نوجوان افسانہ نگار ہیں۔  جنھوں نے بہت کم عرصے میں بڑی تعداد میں افسانے لکھ کر مقبولیت حاصل کی ہے۔ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’’لمحے‘‘ (۲۰۰۶ء) کے نام سے شائع ہوا ہے۔ بقول محمد بشیر مالیر کوٹلوی ’’سالک جمیل براڑ اپنی نگارشات کو لے کر افسانوی ادب میں بہت پہلے داخل ہو چکا ہے۔ اس کی تخلیقات ملک کے معیاری پرچوں میں شائع ہو کر داد حاصل کر چکی ہیں۔  اب اس نوجوان نے اپنے پہلے مجموعہ ’لمحے، کو شائع کروایا ہے۔ اس سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ‘‘۔ سالک جمیل نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی لکھے ہیں۔  اس مجموعہ میں بھی ان کے پانچ افسانچے شامل ہیں۔  اس میں سے ایک بطور مثال یہاں دیکھئے:

 غلطی کا احساس

 دیکھتے ہی دیکھتے عارف اور عمران کی بیس سال پرانی دوستی دشمنی میں بدل گئی….

 ’’آخر اس کی کیا وجہ تھی….!‘‘ عارف نے کسی سے پوچھا۔

 ’’یار …. مجھ سے ایک غلطی ہو گئی تھی؟!‘‘…. عارف نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا….

 ’’غلطی …. کیسی غلطی؟!‘‘…. پوچھنے والے نے وضاحت چاہی۔

 تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے۔ عمران بہت پریشان تھا۔ اس کی بیوی کا آپریشن ہونا تھا۔ اسے پچاس ہزار روپئے کی فوری ضرورت تھی…. اور وہ مجھ سے ادھار مانگنے آیا تھا….!‘‘

 تو پھر…. کیا تم نے اسے روپئے دینے سے انکار کر دیا تھا۔

 ’’کاش…. اگر میں ایسا ہی کرتا….!‘‘ (لمحے، ص۱۰۹)

 ملک کی دیگر ریاستوں کے اس پورے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مہاراشٹر کے دیگر علاقوں کی طرح معروف و نامور افسانہ نگاروں نے افسانچے بہت کم لکھے ہیں اور زیادہ تر نئی نسل کے لکھنے والوں نے اسے بحیثیت صنف اپنایا اور اس پر اپنا پورا زور آزمایا ہے۔ ناقدین نے بھی اس صنف پر کچھ خاص توجہ نہیں دی ہے۔ البتہ ایک معاملے میں یہ ریاستیں مہاراشٹر سے پیچھے رہ جاتی ہیں کہ یہاں علیحدہ افسانچوں کے مجموعے شائع نہیں ہوئے ہیں جبکہ مہاراشٹر میں بڑی کثرت سے باقاعدہ افسانچوں کے مجموعے چھپ کر منظر عام پر آتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اسی تواتر سے جاری ہے۔ بہرکیف مجموعی اعتبار سے ملک کی دیگر ریاستوں میں افسانچہ کی صورتحال غنیمت ہے اور مستقبل میں مزید بہتری کے امکانات کی امید کی جاسکتی ہے۔ تاہم کچھ افسانوی مجموعوں میں چند افسانچے شامل ہیں۔  اس طرح ملک کی دیگر ریاستوں میں مشترکہ مجموعوں کا رجحان ضرور ملتا ہے۔

 

پانچواں باب

 برصغیر، مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک میں   افسانچہ کی صورتحال اور مستقبل

 افسانچے کی مقبولیت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا ہے اور اسے اچھی خاصی مقبولیت بھی حاصل ہوئی ہے۔ اس صنف کو صرف ہند و پاک اور بنگلہ دیش میں بلکہ سات سمندر پار بھی کافی پذیرائی ملی ہے۔ جسے اس کے تابناک مستقبل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جو ایک خوش آئند بات ہے۔ پاکستان میں بھی ہندوستان کی طرح افسانچے لکھے گئے ہیں لیکن یہاں بھی معاملہ بالکل ہند کی طرح نظر آتا ہے کہ سینئر افسانہ نگاروں نے افسانچے نہیں لکھے اور فکشن کے ناقدین نے بھی اس سمت کوئی خاص توجہ نہیں کی اور نہ ہی بحیثیت صنف اسے اہمیت دی گئی۔البتہ ۱۹۸۰ء کے بعد کچھ لکھنے والوں کے نام ضرور ملتے ہیں جن میں ڈی ایچ شاہ، طاہر نقوی، علی حیدر ملک، احمد داؤد، ظفر خان بہاری، افتخار ایلی، علی تنہا اور عباس خاں (ملتان) وغیرہ شامل ہیں۔  ۱۹۸۰ء میں پاکستان کے شہر کراچی سے ڈی ایچ شاہ کے منی افسانوں کا مجموعہ ’’حرفوں کے ناسور‘‘ شائع ہوا جس کا پیش لفظ فرمان فتح پوری نے لکھا ہے وہ ان کے ان مختصرافسانوں کے موضوعات کے بارے میں لکھتے ہیں :

 ’’حرفوں کے ناسور کی مختصر کہانیاں موضوعات کے اعتبار سے حد درجہ متنوع ہیں۔  ہم سب صنعتی شہروں میں رہتے ہیں یہاں کی مصروف ترین زندگی اور آئے دن کے ہنگاموں میں کس کو ہوش رہتا ہے کہ ہمارے مسائل کیا ہیں۔ ‘‘ (ص۱۰)

 موضوعات کے بعد وہ ان کے انداز فن پر یوں روشنی ڈالتے ہیں :

 ’’وہ لفظوں کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔  فقروں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اختصار نویسی کے آداب سے واقف ہیں۔  اپنی بات کم سے کم الفاظ میں کہنے کا فن انھیں خوب آتا ہے ، دریا کو کوزے میں بند کام کرنے کا محاورہ صبح سے شام تک سبھی بولتے اور استعمال کرتے ہیں لیکن ادبیات میں مثال دے کر بتانا یا عملاً اس کا نمونہ پیش کرناآسان نہیں ہوتا۔ اس کے لئے بڑی جانکاہی سے کام لینا پرتا ہے۔ یقیناً اس جاں کا ہی کی بدولت ڈی ایچ شاہ کو کامیابی ہوئی ہے۔‘‘ (ص۱۱)

 ’’حرفوں کے ناسور‘‘ میں ۸۱ افسانچے شامل ہیں۔  ڈی ایچ شاہ نے اپنے اطراف کے ماحول ، اپنے قریب کی زندگی اور معاشرے کے مسائل بڑے مؤثر انداز میں کم سے کم لفظوں میں بڑی ہنر مندی سے پیش کیا ہے۔ پاکستان میں حرفوں کے ناسور ، کے علاوہ عباس خان (ملتان) کے افسانچوں مجموعہ ’’ریزہ ریزہ کائنات‘‘ (۱۹۹۲ء)شائع ہوا ہے۔ عباس کی کئی ایسی مختصر ترین کہانیاں ماہنامہ ’’شاعر‘‘ میں شائع ہوئی ہیں۔  ان میں بیٹی ، صحت ، ظاہر و باطن ، خدا کے نزدیک قابل ذکر ہیں۔

 علاوہ ازیں پاکستان میں احمد داؤد، منشاء یاد، ظفر خاں نیازی اور افتخار ایلی کے علاوہ دیگر کئی افسانہ نگاروں نے بھی افسانچے لکھے ہیں اور کئی مجموعے اس صنف کے شائع ہوئے ہیں لیکن ہمیں باوجود کوشش کے انہیں حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ملی۔

 کتاب کے پیش لفظ میں ممتاز ناقد فرمان فتح پوری، ان کہانیوں کے موضوعات پر یوں روشنی ڈالتے ہیں :

 ’’حرفوں کے ناسور کی مختصر کہانیاں ، موضوعات کے اعتبار سے حد درجہ متنوع ہیں۔  ہم سب صنعتی شہروں میں رہتے ہیں۔  یہاں کی مصروف ترین زندگی اور آئے دن کے ہنگاموں میں کس کو ہوش رہتا ہے کہ ہمارے مسائل کیا ہیں۔  ہم کس طرف جا رہے ہیں اور گرد و پیش کے حالات کیا رخ اختیار کرتے والے ہیں۔  ڈی ایچ شاہ ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ ان کی بالغ نظری نے زندگی کے تیز تیز لمحات کو اپنی گرفت میں لے کر ہمارے سامنے کچھ اس طرح پر پیش کر دیا کہ…. میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے کہ مصداق آج کی زندگی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے‘‘۔ (ص۱۰)

 آگے ان کے افسانچوں میں اختصار اور فنی نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

 ’’موضوعات کی رنگارنگی کے ساتھ ساتھ جب ڈی ایچ شاہ کے انداز بیان پر غور کرتا ہوں تو کہنا پڑتا ہے کہ ’وہ، لفظوں کی قیمت جانتے ہیں فقروں کی اہمیت سمجھتے ہیں اور اختصار نویسی کے آداب سے واقف ہیں۔  اپنی بات کم سے کم الفاظ میں کہنے کا فن انھیں خوب آتا ہے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا محاورہ صبح سے شام تک سبھی بولتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں لیکن ادبیات میں مثال دے کر بتانا یا عملاً اس کا نمونہ پیش کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بڑی جاں کاہی سے کام لینا پڑتا ہے یقیناً اس جاں کاہی کی بدولت ڈی ایچ شاہ کو کامیابی ہوئی ہے۔ اور ’حرفوں کے ناسور‘ نے ادب کا روپ پایا ہے‘‘۔ ص۱۱

 ڈی ایچ شاہ نے اپنے افسانچوں میں اپنے اطراف کے ماحول کی خوب عکاسی کی ہے۔ زندگی کے دوڑتے بھاگتے لمحات کو ان میں قید کر دیا ہے۔ نہایت مختصر لفظوں میں کہانی پن کے ساتھ افسانچوں کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان کے قابل ذکر افسانچوں میں مقالہ، سہارا، سیاہی، پہچان، تلاش، شکریہ، اطمینان، ہمسایہ، روانگی، بھوکا، حوصلہ افزائی اور فن وغیرہ شامل ہیں۔  بقول فرمان فتح پوری ’’ان کی یہ مختصر کہانیاں موضوعات کے اعتبار سے حد درجہ متنوع ہیں اور موضوعات کی رنگارنگی کے ساتھ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بڑے اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے‘‘۔ ان موضوعات کے ساتھ انہوں نے ادبی دنیا کی بے اعتدالیوں پر بڑی گہری چوٹ کی ہے۔ مثال کے طور پر ان کے دو منی افسانے دیکھئیے۔

 حوصلہ افزائی

 اس کا مقالہ واپس کرتے ہوئے اس نے کہا….

 ’’میں نے ایک ہفتہ تک اس کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ اچھی کاوش ہے۔ لیکن میں مجبور ہوں۔  یہ ہماری پالیسی کے خلاف ہے‘‘۔ اس نے مقالہ لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ چلتے ہوئے اس نے کہا۔ یہ معیار نہیں سمجھ سکا۔ وہ بولا۔ لکھتے رہئے اور دکھاتے رہئیے۔  جو بھی مقالہ معیار پر پورا اترا شائع کر دوں گا۔ یہ تو مجبوری تھی۔ ورنہ ہم ادیبوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ‘‘۔

 کچھ دنوں کے بعد اسے کتابوں کی دوکان پر ایک نئی کتاب نظر آئی۔ دوکاندار نے کتاب دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’مصنف بڑا زیرک اور کہنہ مشق ہے۔ اس نے کتاب دیکھی۔ آہستہ سے بولا واقعی خوب تحقیق کی ہے کافی مواد ہے۔ کتاب کا مصنف وہی تھا جس نے مقالہ واپس کیا تھا اور مضامین بھی ان ہی نکات پر مشتمل تھے جو اس نے اپنے اس مقالہ میں اٹھائے تھے۔ جو اس نے واپس کر دیا تھا۔ اس نے کتاب خریدی اور دوکان سے اتر آیا۔ وہ سوچ رہا تھا۔

 مقالہ اور کتاب میں بس فرق نام کا ہی تو ہے یہ کیا کم حوصلہ افزائی ہے۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی روح مصنف کے جسم میں داخل ہو گئی ہو،۔ اور وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی زندگی کو ترس رہا ہو۔‘‘ (ص۸۵)

 فن

 اس نے نیا نیا چارج لیا تھا۔ کاغذات کھنگالتے ہوئے ایک لفافہ اس کے ہاتھ لگا۔ اس نے لفافہ دیکھا۔ لیکن اس میں خط موجود تھا۔ اس نے خط نکالا۔ یہ کس افسانہ نگار کا خط تھا۔ اس نے پڑھنا شروع کر دیا لکھا تھا۔ ’’اگر میرا مختصر افسانہ معیار پر پورا اترتا تو ضرور شائع ہو جاتا۔ آپ کا طویل افسانہ جو اس ماہ کے شمارے میں چھپا ہے۔ وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دوستوں نے اسے بہت کیا ہے۔ مجھے تو بہت ہی اچھا لگا ہے۔ اختصار کو عمدگی سے وسعت دینا بڑے فن کی بات ہے۔ ایک اور مختصر افسانہ حاضر خدمت ہے شاید پھر کوئی اچھا سا افسانہ پڑھنے کو مل جائے۔ میں واقعی آپ کے فن کا قائل ہو گیا ہوں۔

 اس نے خط کو الٹ پلٹ کر دیکھا، خط دو سال پرانا تھا لیکن وہ افسانہ؟!۔ اس کا تو عنوان بھی بدل گیا ہو گا۔ اس نے سوچا اور خط کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کی بہت بڑی مشکل آسان ہو گئی ہو….! (ص۶۷)

 ’حرفوں کے ناسور، کے بعد عباس خاں (ملتان) کے افسانچوں کا مجموعہ ’ریزہ ریزہ کائنات، ۱۹۹۲ء میں منظر عام پر آ چکا ہے۔جس میں ۶4 افسانچے شامل ہیں۔  ان کے افسانچوں کا دوسرا مجموعہ ’’پل پل‘‘ ۱۹۹۶ء میں چھپ کر کافی مقبول ہوا ہے اور تیسرا مجموعہ زیر ترتیب ہے۔ عباس خان نے افسانچوں کے ساتھ افسانے اور ناول بھی لکھے ہیں لیکن افسانچہ نگاری میں ان کے قلم کی رفتار کافی تیز ہے اور وہاں کے لکھنے والوں میں وہ اس صنف میں سب سے زیادہ فعال ہیں جس کا ثبوت ان کے یہ مجموعے ہیں۔  ان کے افسانچے بڑی تعداد میں مختلف ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔  ماہنامہ ’شاعر‘ (ممبئی) میں ان کے افسانچے اکثر چھپتے رہتے ہیں۔  ماہنامہ شاعر (ممبئی) دسمبر ۲۰۰۷ء میں ان کے فن و شخصیت پر گوشہ بھی شائع ہوا ہے جس میں دو افسانوں کے ساتھ گیارہ افسانچے بھی شامل ہیں۔  عباس خان کے افسانچوں میں موضوعات کا زبردست تنوع ملتا ہے۔  انہوں نے زندگی کے مسائل کو کم سے کم لفظوں میں بڑی ہنر مندی سے پیش کیا ہے۔ ان افسانچوں میں اصل انقلاب بیٹی، باطن، صحت، ہر طرف، ابدی کتاب، سکون، بڑائی، خدا کے نزدیک، ظاہر و باطن، رہائش گاہ، جنس، چاہت کا یقین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔  ان کا ایک افسانچہ بطور نمونہ دیکھیے :

 باطن

 ’اُف، کتنی خوفناک جنگ ہے اور اس کے ختم ہونے کا امکان بھی نہیں۔

 اقوام متحدہ اس کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

 ’’میں اس جنگ کی بات نہیں کر رہا ہوں جو ہمارے ملک پر مسلط کی گئی‘‘۔

 ’’تو پھر آپ کس جنگ کی بات کر رہے ہیں ‘‘۔

 ’’وہ جو انسان کے اندر جاری ہے!‘‘۔

 (مطبوعہ ماہنامہ شاعر ممبئی جولائی ۲۰۰۶ء)

 عباس خاں کی افسانچہ نگاری پر محمد افسر ساجد ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں

 ’’…. فقرے جامع اور حسب حال ہیں۔  اس کے طنز کی بنیاد تضادات پر قائم ہے بناوٹ کے لحاظ سے یہ کہانیاں روایتی انداز سے ہٹ کر ہیں۔  ان کہانیوں میں نقطہ عروج موجود ہے جو اختتام کے ساتھ ملا کر کہانی میں تجسس کو قائم کرتا ہے اور ان کے اخلاقی تاثر کو بھرپور مدد پہنچاتا ہے۔ وہ خوشامد منافقت احسان فراموشی اخلاقی و مالی بددیانتی دھوکے غصب اقربا پروری اسمگلینگ اور ایسی دوسری خرابیوں پر مجاز کے پردے میں فقرے کستا ہے بلاشبہ اس کی کہانیوں کا اختصار اس کی دانش کی جان ہے‘‘۔ (شاعر۔ممبئی۔ دسمبر ۲۰۰۷ء)

 چھوٹے چھوٹے مکالموں میں انہوں نے زندگی کے گوناگوں مسائل کو مؤثر ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ سیاسی موضوعات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی نئے موضوعات جیسے عالمی صارفیت نظام کے تحت پیدا شدہ صورتحال گلوبلائزیشن اور عالمی سطح کے مسائل کو بھی اپنے افسانچوں میں جگہ دی ہے۔ ایسے افسانچوں میں ان کے طنز کے نشتر اور لہجے کی کاٹ دیدنی ہے۔ عباس خاں نے بڑی ہنر مندی سے ان افسانچوں میں اپنا کمال دکھایا ہے۔ مثال کے طور پر ان کے یہ افسانچہ ملاحظہ کریں :

 سکون

 ’’آپ آج کل کیا لکھ رہے ہیں ؟!‘‘

 ’’آپ جانتے ہیں کہ انسان کے لیے سکون کی تلاش میں ہوں۔  سکون کا تہائی رشتہ میں نے تلاش کر لیا ہے۔ اس کے متعلق لکھ رہا ہوں ‘‘۔

 ’’وہ کون سا راستہ ہے؟!‘‘

 ’’دنیا میں صنعت اشتہار بازی کو ختم کر دیا جائے‘‘۔

 مطبوعہ شاعر (ممبئی) مارچ ۲۰۰۵ء

 پاکستان میں ان دو افسانچوں کے مجموعوں کی اشاعت کے علاوہ کسی اور مجموعہ کے چھپنے کی اطلاع نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کے رسائل و جرائد میں منی افسانوں ، افسانچوں کی اشاعت کا کوئی خاص اہتمام نظر آتا ہے۔ پاک کے معتبر اور مقبول ادبی رسائل جیسے فنون، اوراق، بادبان، روشنائی، آج، تخلیق اور سخنور وغیرہ میں افسانچوں کی اشاعت نہیں کے برابر ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا تاہم یہاں کے لکھنے والوں کے افسانچے ہند کے رسائل میں اکثر نظر آتے ہیں۔  تقریباً یہی صورتحال بنگلہ دیش میں بھی ہے۔ اس صنف میں لکھنے والوں کے نہ نام ملتے ہیں۔  اور نہ ہی افسانچوں کی اشاعت کا اہتمام نظر آتا ہے۔ بنگلہ دیش کے دو معتبر اور معروف افسانہ نگار شام بارکپوری اور ایوب جوہر (ڈھاکہ) نے افسانوں کے ساتھ کچھ افسانچے ضرور لکھے ہیں جو ادھر اُدھر رسائل میں چھپتے رہے ہیں۔  دیگر لکھنے والوں میں ارمان شمسی، لطیف احمد وغیرہ کے افسانچے ادھر اُدھر دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس صنف میں مستقل یہاں کو ئی پیش رفت نہیں ملتی ہے اور باقاعدہ منی افسانوں کی اشاعت کا رجحان بھی نہیں دکھائی دیتا ہے۔ اور نہ ہی قلمکاروں کا مجموعوں کی اشاعت کی طرف کوئی دھیان ہے۔

 پاک اور بنگلہ دیش کے چند قلمکاروں کے افسانچے ہند کے معتبر رسائل جیسے شاعر(ممبئی) اور انشاء( کلکتہ) میں چھپتے رہے ہیں۔  لیکن وہاں کے رسائل میں ان کی اشاعت کا رجحان دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی مجموعوں کی اشاعتوں کا کوئی اہتمام ملتا ہے۔ البتہ پاک اور بنگلہ دیش کے بہت سارے قلمکار جو اردو کی نوآباد بستیوں جیسے مشرق وسطیٰ اور امریکہ و یورپی ممالک میں بسے ہوئے ہیں۔  ان کے پاس ضرور افسانچے ملتے ہیں اور اس سمت ان لوگوں کا جھکاؤ مثبت انداز میں ملتا ہے اس کی اشاعت میں بھی ان لکھنے والوں کی دلچسپی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اردو کی ان نئی بستیوں میں افسانچے بڑی تعداد میں لکھے گئے ہیں اور ان کی اشاعتوں کا اہتمام بھی پورے التزام کے ساتھ موجود ہے۔ ہند و پاک کے علاوہ اب دیگر ممالک میں اردو کے اہم مراکز جیسے خلیجی ممالک اور مغربی ممالک بن گئے ہیں۔  اردو زبان کی توسیع و تبلیغ میں ہندو پاک کے ایسے بہت سے ادباء و شعراء نے حصہ لیا ہے جو ہجرت کر کے ان ممالک جیسے امریکہ ، برطانیہ، کناڈا، جرمنی اور خلیجی ممالک میں رہائش اختیار کر چکے ہیں۔  ان حضرات نے وہاں اردو کے چراغ کو نہ صرف روشن کیا ہے بلکہ اسے زمانے کی تیز  و تند مخالف ہواؤں سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی ہے اور جن کے وجود سے اردو کی نئی بستیاں ان علاقوں میں آباد ہو گئی ہیں۔  ان لوگوں کے دیار غیر میں قیام سے اردو کی ان نئی بستیوں میں اردو زبان و ادب کو خوب فروغ حاصل ہوا ہے۔

 ان مہاجرین قلمکاروں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے شعر  و ادب کی تخلیق کے ساتھ اس کے لیے درکار سازگار ماحول اور خوشگوار ادبی فضا بنائے رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ لکھنے پڑھنے کے اس ماحول سے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور زبان و ادب کے روشن مستقبل کے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔  اردو زبان کو روزگار سے جوڑنے کے لیے یہاں ساز گار ماحول اور درکار وسائل دستیاب ہوئے ہیں اور عالمی منظر نامہ میں اردو میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راز بھی اس میں پوشیدہ ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کوپن ہیگن، سویڈن، ناروے، جرمنی اور کینڈا سے بڑی تعداد میں اردو اخبارات شائع ہو رہے ہیں۔  اس کے علاوہ کئی ادبی رسائل و جرائد اور کتابیں بھی چھپ رہی ہیں۔  اردو صحافت کے اس بڑھتے رجحان نے ان مغربی ممالک میں اردو زبان و ادب کی اشاعت میں خاطر خواہ دلچسپی دکھائی ہے اور اس کے فروغ کے لیے ذرائع ابلاغ کا کام کیا ہے۔اس طرح یہاں شائع ہونے والے اردو اخبارات اور رسائل و جرائد کے اعداد و شمار اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ آج مغرب میں اردو زبان مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ اردو کی ان بستیوں کے آباد ہونے اور زبان و ادب کی صورتحال پر عطا الرحمن صدیقی ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں :

 ’’ہندوستان میں جب اردو بے روزگار ہوئی اور پاکستان میں بھی اردو کا رشتہ روزگار سے کمزور پڑنے لگا تو اردو داں طبقے نے اقتصادی ہجرت کے لیے رخت سفر باندھا اور دنیا کے مختلف گوشوں میں سکونت اختیار کی۔ معاشی تگ و دو کے کچھ عرصے کے بعد اقتصادی ہجرت درہم ، دینار، ڈالر اور ریال کے سہارے کامیابی سے ہمکنار ہوتی نظر آئی۔ اور قدرے اطمینان نصیب ہوا تو اردو کے با ذوق مہاجرین نے ابتداء وقت گزاری، دلچسپی کی خاطر شعر و ادب کی محفلیں آراستہ کی۔ رفتہ رفتہ اردو کے راستے سے باہمی تعارف کا حلقہ وسیع ہوتا گیا۔ اور سیاسی جغرافیائی حدود و قیود سے بلند ہو کر اردو نے ایک نیا علاقہ تشکیل دینا شروع کیا۔ اس طرح معاشی جدوجہد کے سہارے عالمی سطح سمندر پر اردو کے نئے نئے جزیرے ابھرنے لگے‘‘۔

 ان علاقوں میں اردو زبان و ادب کی تشکیل ترویج اور فروغ کے جواز پر آگے یوں روشنی ڈالتے ہیں :

 ’’یوں تو یہ سلسلہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی سے شروع ہو چکا تھا۔ لیکن ادھر کچھ عرصے سے اردو کی ان نئی بستیوں کا تعارف اور ان کی ادبی خدمات کا ذکر بڑے زور و شور کے ساتھ ہونے لگا ہے اور اردو کی ان بستیوں نے نہ صرف ہند و پاک کے اردو داں طبقے کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے بلکہ انہیں حیران و انگشت بدنداں بھی کر دیا ہے اور یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ یہ نوآبادبستیاں بڑے پیمانے پر اردو کی خدمت انجام دے رہی ہیں اور اردو ان کی خدمات سے ’مال مال، ہو رہی ہے‘‘۔

 (ص۸،مطبوعہ شاعر (ممبئی) جون جولائی ۱۹۹۹ء)

 اس تجزیے سے یہ اہم بات سامنے آتی ہے کہ معاشی جدوجہد کے سہارے عالمی سطح پر اردو زبان و ادب کے فروغ سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ اس طرح روزگار کے سلسلے میں برصغیر کے قیام پذیر ان افراد نے اردو کی یہ نئی بستیاں آباد کی ہیں۔  جنہوں نے اردو کے فروغ کے لیے ادبی سرگرمیوں کو تیز تر کر دیا ہے ان لکھنے والوں نے قارئین کا ایک بڑا حلقہ پیدا کیا۔ اخبارات ورسائل کی اشاعت کے لیے ماحول سازگار ہوا اور اردو میں پہلی بار عالمی سطح پر قارئین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ اور گلوبل ریڈرشپ کا تصور حقیقت سے قریب تر ہوا ہے۔ اردو کی ان نوآباد بستیوں کے قلمکاروں نے اپنے ذاتی تجربوں اور مشاہدوں سے اپنی تخلیقات کو مزین کیا ہے۔ وہیں ان بستیوں کے قلمکاروں کے پاس کئی مسائل بھی درپیش ہیں جیسے وہاں کے رہن سہن، طرز زندگی، معاشرت اور تہذیب پر جو اثر انداز ہوئے ہیں۔  جس کے سبب کئی نئی مشکلات اور پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیا ماحول ، مختلف معاشرتی قدریں اور ہر سرزمین کے اپنے حالات بھی ہوتے ہیں۔  ویسے بھی مختلف زبان، رنگ ، کلچر اور الگ رنگ ونسل کے لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی ایک علیحدہ شناخت بنائے رکھنا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا ہے۔ لیکن ان تمام دشواریوں ، پیچیدگیوں اور پابندیوں کے باوجود یہ لوگ اردو زبان و ادب اور صحافت کی خدمات میں ہمہ تن منہمک و مصروف رہ کر ہمہ وقت اپنی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کی پہچان کے لیے سرگرداں و کوشاں ہیں۔  ان تمام مسائل کو جھیلنے کے باعث ان قلمکاروں کے پاس ان تمام مسائل کی عکاسی سے موضوعات کا تنوع بھی پیدا ہوا ہے۔ اور ان تخلیقات میں عالمی سطح کے نئے موضوعات کی مؤثر نمائندگی سے اردو ادب کے دامن کو مزید وسعت ملی ہے۔ بالفاظ دگر اردو کی نئی بستیوں کے حوالے سے ان موضوعات کی پیشکش سے عالمی پیمانے پر زبان و ادب کی نمائندگی ہوئی ہے اور اردو کی گلوبل ریڈرشپ میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے جس نے اردو کو ایک نیا ماحول ایک نئی فضا اور ایک نیا علاقہ عطا کیا ہے۔

 مدیر شاعر افتخار امام کے لفظوں میں۔

 ’’ہند و پاک کے اردو قلم کار معاشی تگ و دو میں ان ممالک کو اپنا مستقر کر چکے ہیں۔  اردو تہذیب و ادب ان کے ساتھ ہی ان ممالک میں رچ بس گیا ہے۔ اور روز افزوں ہے۔ ہجرت درہجرت شعر و ادب اور اردو ابھر رہی ہے‘‘۔ (مطبوعہ شاعر۔ممبئی۔ مئی ۶۰۰۲ئ)

 ان تمام علاقوں کے لکھنے والوں نے تقریباً سبھی اصناف پر طبع آزمائی کی ہے اور شاعری یہاں بھی بہت ہوئی ہے۔ چونکہ نئی صدی، فکشن کی صدی ہونے کے سبب، فکشن میں اور زیادہ امکانات لے کر آئی ہے۔ یہاں ڈرامے ، افسانے کے ساتھ افسانچے بھی خوب لکھے گئے ہیں۔  جو ہند کے معتبر و ممتاز ادبی رسائل میں بڑے اہتمام سے شائع ہوتے رہے ہیں ماہنامہ ’شاعر، میں مغرب و مشرق میں بسنے والے مہاجرین قلمکاروں کی تخلیقات ایک عرصے سے شائع ہو رہی ہیں۔  اردو کی ان نوآباد بستیوں کو بڑھاوا دینے کا اہم کام ’شاعر ، نے بخوبی انجام دیا ہے۔ اس سے شاعر کی ریڈرشپ کا دائرہ بھی عالمی سطح پر وسیع ہوا ہے اور اردو کی نئی بستیوں کے قلمکار ہند کے دیگر کئی پرچوں سے بھی وابستہ ہوئے ہیں۔

 مختصر ترین کہانیوں کی اشاعت کا سلسلہ سب سے پہلے ماہنامہ ’شمع‘ (دہلی) سے شروع ہوا تھا۔ ماہنامہ شمع نے ایک زمانے میں مختصر مختصر کہانی اسی صفحہ پر مکمل اس عنوان کے تحت چھاپنے کا رواج ڈالا تھا۔ حالانکہ یہ ایک فلمی پرچہ تھا۔ لیکن اس کا ادبی حصہ اس قدر وقیع اور معیاری ہوتا تھا کہ وہ کسی بھی معیاری ادبی پرچے سے کم نہیں تھا۔  اس عنوان کے تحت دیار غیر میں آباد قلمکاروں کی تخلیقات بھی بڑے اہتمام سے شائع ہونے لگیں۔  ’شمع، کی اس روایت کو تقلیدی انداز میں دوسرے فلمی پرچوں نے بھی اپنایا جیسے ’روبی‘ (دہلی)، فلمی تصویر (حیدرآباد) اور فلمی ستارے (دہلی) وغیرہ ان پرچوں نے اس سلسلے کو خوب بڑھاوا دیا۔ بعد میں شاعرجیسے معیاری خالص ادبی رسالے میں بھی افسانچے جگہ پانے لگے۔ اور ’مختصر مختصر کہانیاں‘ کے عنوان سے بڑے اہتمام سے شائع ہونے لگیں جن میں زیادہ تر تخلیق کاروں کا تعلق اردو کی ان نئی بستیوں سے رہا ہے اس طرح یہاں کے افسانہ نگاروں نے افسانوں کے ساتھ افسانچے بھی خوب لکھے ہیں اور یہاں کے اکثر فکشن رائٹرس کا جھکاؤ اس سمت مثبت انداز میں نظر آتا ہے۔ شاعر کے بعد ماہنامہ انشاء(کلکتہ) کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ مدیر انشاء نے بھی مشرق وسطیٰ اور مغرب میں آباد ان بستیوں کے قلمکاروں کی ایک طرح سے سرپرستی کی ہے۔ انشاء نے ’’عالمی اردو افسانہ نمبر‘‘ اور’’ اسکنڈے نیوبا ‘‘نمبر بھی شائع کر کے اردو کی ان نئی بستیوں کا بھرپور تعارف کروا کر یہاں نمائندہ رسالہ کی حیثیت حاصل کی ہے۔ ساتھ ہی انشاءنے کئی ایسے قلمکاروں کی کتابیں بھی بڑے اہتمام سے شائع کی ہیں اور ماہنامہ شاعر نے تو اردو کی ان نئی بستیوں کے فروغ کے لیے اس قدر کام کیا ہے کہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ شاعر نے عالمی ادب نمبر، خلیجی ممالک نمبر وغیرہ شائع کر کے اپنی مثال آپ قائم کی ہے۔  غرض یہاں لکھنے والوں کے افسانچے ہند کے معتبر ادبی رسائل وجرائد میں بڑے تواتر سے چھپتے رہے ہیں۔  جس سے اس نئی صنف کے تئیں ان لکھنے والوں کی دلچسپی ، توجہ اور اس کی مقبولیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ البتہ یہاں بھی افسانچوں کے مجموعوں کی اشاعت نہیں کے برابر ہے۔ تاہم چند افسانوی مجموعے ضرور ایسے ملتے ہیں جن میں کچھ افسانچے بھی شامل ہیں۔ ناروے کے ممتاز ومعروف افسانہ نگار ہرچرن چاؤلہ اس لحاظ سے ایک ایسے منفرد افسانہ نگار ہیں جن کے افسانوی مجموعے ’’گریباں جھوٹ بولتا ہے ‘‘ (۱۹۹۶ء) ۱۱ افسانچے اور ’’گھوڑے کا کرب‘‘ (۲۰۰۱ء) میں ۱۸ افسانچے شامل ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھے ہیں اور ان کو اپنے افسانوی مجموعوں میں جگہ دی ہے۔  یہاں اس بات سے صنف افسانچے کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ ہرچرن چاؤلہ کا تعلق ویسے تو ہند کی ریاست پنجاب سے ہے۔ لیکن ایک عرصے سے وہ ناروے میں قیام پذیر ہو کر مستقل سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ ان کے اب تک ایک درجن افسانوی مجموعے چھپ کر مقبول عام ہو چکے ہیں۔  ان کے پاس بھی وہاں پیش آنے والے مسائل اور موضوعات کی بڑی خوبصورت عکاسی ملتی ہے۔ اپنی فنکارانہ چابکدستی سے انہوں نے ان نئے موضوعات میں ندرت پیدا کی ہے۔ افسانچہ کا ڈرامائی انداز جو چونکا دینے والا اور غیر متوقع انجام ہوتا ہے اور گہرے طنز میں احتجاج کی آمیزش رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مختصر لفظوں میں پوری بات کہہ دینے کی مشاقی کا نام ہی افسانچہ نگاری ہے۔  افسانچہ کی ایسی خوبیاں ہرچرن چاؤلہ کے پاس بدرجہ اتم ملتی ہیں۔  ’’گریباں جھوٹ بولتا ہے‘‘ اس مجموعہ کے حوالے سے ممتاز افسانہ نگار ہیرانند سنور لکھتے ہیں :

 ’’اس مجموعے میں شامل افسانے نہ صرف ہندوستان کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کی تصویر کشی کرتے ہیں۔  بلکہ مغرب کی تیزی سے بدلتی ہوئی معاشرتی قدروں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ہرچرن چاؤلہ نے غریب الوطنی کی قیمت پر زندگی کا تجربہ حاصل کیا ہے۔ جس کا عکس اس مجموعے کی بیشتر کہانیوں میں نظر آتا ہے‘‘۔

 ہر چرن چاؤلہ نے مغرب کی متنوع زندگی کو اپنے افسانوں میں قارئین کی دلچسپیوں اور نیرنگیوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔نمونہ کے طور پر دو افسانچے دیکھیے :

 (۱) بے وقت کی راگنی

 میں نے کہا۔ ’’آج میں سارا دن سچ بولوں گا‘‘۔

 بیوی نے سمجھایا۔ ’’رہنے دیں ، جس قسم کا آپ سچ بولتے ہیں وہ آج کل کے زمانے کو سوٹ نہیں کرتا‘‘۔

 میں نے کہا۔ ’’اب تو میں نے تہہ کر لیا ہے اور تم جانتی ہو کہ میں کس قدر ضدی انسان ہوں ‘‘۔

 ’’آپ کی ضد گھر کی حد تک تو ٹھیک ہے۔ چل جاتی ہے۔ باہر کی بات اور ہے۔ میں نیک و بد آپ کو سمجھائے دیتی ہوں ‘‘۔

 ’’چلو چلینج ہی سہی، جو ہو گا دیکھا جائے گا‘‘۔

 ’’یہ کیسا چلینج ہے جو خود ہی خود کو دیا جا رہا ہے‘‘۔

 میں نے بیوی کی ایک نہیں سنی اور کام چلا گیا۔ کام، لنچ، دوستی، سینما، گپ شپ، دن بھر ہر جگہ سچ بولتا رہا مگر شام کو جب گھر لوٹا تو میرے کپڑے کہیں کہیں سے مسخ ہو چکے تھے اور جسم پر بھی کچھ خراشیں آئی تھیں ‘‘۔ ص۳۴۱ ’گھوڑے کا کرب، ۲۰۰۱ء

 (۲) لائیسنس یافتہ

 ’’عجیب بات ہے۔ ہم آپ پر جان دیتے ہیں اور آپ اُس پر فدا ہیں۔  جو کسی طرح بھی آپ کے ہاتھ نہیں آسکتی‘‘۔ محفل میں بار بار مجھے اس کی طرف دیکھتے دیکھ کر وہ بولی۔

 ’’کیوں ، ایسی کیا بندش ہے؟!‘‘ میں نے سوال کیا۔

 آپ شادی شدہ ہیں اور وہ طلاق یافتہ اور دو بچوں کی ماں ہے۔ ذرا اس کے نزدیک تو جا کر دیکھو، سب کی نظریں آپ دونوں کو چھید ڈالیں گی۔ جبکہ میں کسی کی بیوی ہوں ‘‘۔

 ’’کسی کی بیوی کے ساتھ ایسے ویسے تعلقات یہ تو اور بھی خطرناک معاملہ ہے‘‘۔

 ’’بالکل نہیں ‘‘۔  وہ بولی۔ ماتھے پر کسی کے نام کی بندیا کا لائیسنس مجھے کہیں بھی، کسی سے بھی، سر بازار بات کرنے کا حق عطا کرتا ہے‘‘۔ ص۱۵۵

 لونڈ سوئیڈن کے زبیر وارثی نے بھی افسانچے خوب لکھے ہیں۔  وہ وہاں سے ایک چھوٹا سا رسالہ ’’زاویہ‘‘ مناظر عاشق ہرگانوی کی نگرانی میں پابندی سے شائع کرتے ہیں۔  ان کی ادارتی خوبیاں تو پرچے میں نظر آتی ہیں۔  لیکن اس کے ساتھ ہی وہ افسانچے کی ترویج و اشاعت میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے پرچہ ’’زاویہ‘‘ نے صنف افسانچہ کو مقبول بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا کہ ہر شمارہ میں وہ تین مختلف افسانچہ نگاروں کے افسانچے باقاعدگی سے شائع کرتے ہیں۔  زبیر وارثی کے افسانچوں میں وہاں کی تہذیب اور ماحول کا اثر بڑے مؤثر انداز میں ملتا ہے۔ قدروں کے زوال اور پائمال تہذیب کا نوحہ وہ اپنے افسانچوں میں اکثر پیش کرتے ہیں۔  ان کے افسانچوں میں طنز بھی بڑا گہرا ہوتا ہے۔ جو پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ زبیر وارثی نے ’’جو سچ کہہ دوں ‘‘ کے نام سے اپنے افسانوں کا مجموعہ ترتیب دیا ہے جس میں افسانچے بھی شامل ہیں۔  ان کا ایک افسانچہ بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے:

 چھلانگ

 میں میلبورن جانے لگا تب پاپا نے ہدایتیں شروع کر دیں …. ٹھنڈ سے بچنا…. زیادہ لوگوں سے دوستی مت کرنا۔ ادھر اُدھر گھومنا مت۔ کھانے پر خاص دھیان دینا…. یہ مت کرنا…. وہ ضرور کرنا…. وغیرہ۔

 پاپا ٹہلتے سوچتے…. پھر میرے پاس آ کر پھسپھساتے…. روانگی کے دن پاپا رونے لگے تھے۔ میری آنکھوں میں بھی آنسو تھے….

 آج میرا بیٹا کناڈا جا رہا ہے۔ میں پچھلے کئی دنوں سے اسے سمجھا رہا ہوں …. ہدایتیں دے رہا ہوں ، لیکن وہ ہے کہ میری باتوں کو اہمیت نہیں دے رہا ہے…. آخر روانگی کا وقت آگیا ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لیکن میرا بیٹا ہنس رہا تھا۔ خوشی سے جھوم رہا تھا …. پھر ٹاٹا…. بائی بائی کہتا وہ روانہ ہو گیا…. جیسے ہمارا رشتہ کچے دھاگے سے بنا ہو….

 ( مطبوعہ ماہنامہ ،زاویہ، (سویڈن) نومبر ۲۰۰۵ء)

 کناڈا کے خالد سہیل کے افسانوں میں مشرق و مغرب کے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کے افسانوں میں جنس کا کھلا اظہار ہوا ہے جو مغرب کے ماحول کی دین ہے۔ خالد پیشے کے اعتبار سے ایک ماہر نفسیات اور ڈاکٹر ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے افسانوں میں کرداروں کی نفسیات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔  اس خصوص میں شکیلہ رفیق رقم طراز ہیں۔

 ’’چونکہ وہ پیشے کے اعتبار سے ماہر نفسیات ہیں اس لیے ان کے لکھنے میں ان کے پیشے کی مدد شامل رہتی ہے۔ بالخصوص افسانہ نگاری میں انھیں موضوعات کو تلاش کرنے کی سعی نہیں کرنی پڑتی ان کی اکثر کہانیوں میں نفسیاتی مسائل و ذہنی الجھن نظر آتی ہیں۔  یوں ان کا پیشہ ان کے لکھنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے ان کی ایک کتاب دو کشتیوں میں سوار ہیں ان افراد کے ذہنی کشمکش کی عمدہ مثال پیش کی گئی ہے جو اپنا وطن چھوڑ کر مغربی ممالک میں آبسے ہیں ‘‘۔ (مطبوعہ شاعر۔ ممبئی۔ اگست ۲۰۰۶ء)

 خالد سہیل نے افسانوں کے ساتھ کئی افسانچے بھی لکھے ہیں۔  جو ان کے افسانوی مجموعہ ’’دو کشتیوں میں سوار‘‘ (۱۹۹۴ء)میں چنگاریاں اور کرچیاں کے عنوان سے شامل ہیں۔ چنگاریاں کے نام سے دس اور کرچیاں کے عنوان سے ۱۸افسانچے شامل ہیں۔  اول الذکر کے تحت انہوں نے برصغیر اور یورپی ممالک کا تعارف کروایا ہے تو آخرالذکر عنوان کے تحت انہوں نے ان ملکوں کی تہذیب ، عورتوں کی فطرت اور نفسیات کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ ان مختصر تحریروں میں طنز کے نشتر شدت سے محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ اس طرح اس مشترکہ مجموعہ میں ان کے جملہ ۲۸افسانچے شامل ہیں۔  جو وہاں کے مسائل کی بڑی خوبصورت تصویر پیش کرتے ہیں۔ خالد سہیل اپنے افسانوں میں مشرق اور مغرب کے امتزاج رنگ کو کمال ہنر مندی سے بیان کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ خود یوں لکھتے ہیں :

 ’’میں جب اپنے بارے میں سوچتا ہوں تو اپنے کو اس وجہ سے خوش قسمت محسوس کرتا ہوں کہ مجھے مشرق اور مغرب کے دونوں معاشرے میں زندگی گزارنے اور ان کی اقدار کو جذب کرنے کا موقع ملا اور پر امید بھی کہ مجھے ذاتی اور اجتماعی طور پر مختلف روایات اور طرز زندگی کے خوشگوار امتزاج کے امکانات روشن نظر آتے ہیں ‘‘۔(کشتیوں میں سوار)

 خالد سہیل کے فن و شخصیت کے اعتراف میں ماہنامہ شاعر ممبئی نے اگست ۲۰۰۶ء میں ان کا گوشہ شائع کیا ہے۔خالد سہیل کی افسانہ نگاری پر جوگندر پال اپنی آراء ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔

 ’’خالد سہیل کے افسانے بھی برصغیر کی مہاجر زندگی سے وابستہ ہیں۔  اور ان کا مصنف بڑی ہمدردانہ حسیت سے وہ سارے تناؤ ملحوظ رکھتا ہے جو پردیس میں بسے ایشائیوں کو اپنی باز آبادکاری کے عمل میں درپیش ہیں ‘‘۔(ص۴۱۔مطبوعہ ماہنامہ شاعر۔ ممبئی۔ اگست ۲۰۰۶ء)

 یہاں نمونہ کے طور پر دو افسانچے پیش کئے جا رہے ہیں :

 (۱)

 میں نے ایک ہندوستانی خاندان کو سوگ مناتے دیکھا….

 چاروں طرف خاموشی تھی۔

 سب رشتہ داروں کے چہرے ڈھلکے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

 ایک ہمسائے نے بتایا کہ ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔

 (۲)

 لاہور میں ایک لڑکی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔ میں رونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگی۔

 ’’میرے سب بھائی بہن گلی میں کھیل رہے ہیں لیکن میرے ابو مجھے باہر نہیں جانے دیتے‘‘۔

 ’’وہ کیوں ؟!‘‘

 ’’کہتے ہیں تم لڑکی ہو‘‘!

 ان دونوں افسانچوں میں خالد سہیل نے دو ملکوں کی تہذیب اور وہاں کی حد بندیوں پر بڑا گہرا طنز کیا ہے۔ہر چرن چاؤلہ اور خالد سہیل کے افسانچوں میں کہانی پن بھی پوری طرح موجود ہوتا ہے جو پڑھنے والے کی دلچسپی برقرار رکھتا ہے۔

 ناروے کے ممتاز افسانہ نگار سعید انجم نے بھی افسانوں کے ساتھ کئی افسانچے تخلیق کیے ہیں۔  ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’میں اچھا ہوں ‘‘ (۱۹۸۱ء) اور ’’سوتے جاگتے خواب‘‘ (۱۹۹۴ء) شائع ہو کر مقبول عام ہو چکے ہیں۔  ان کے اس مشترکہ دوسرے مجموعہ میں تقریباً ۱۲افسانچے شامل ہیں۔  دراصل شاعر و ادیب جس ماحول میں رہتا ہے بستا ہے اس سے متاثر ہونا لازمی ہوتا ہے اس کا یہی تاثر اور احساس پھر اس کی ذات تک محدود نہ ہو کر پورے سماج کے افراد کے احساس و کرب کی اپنے قلم کے ذریعے ترجمانی اور اس کی نمائندگی کرنے لگتا ہے۔سعید انجم کا بھی یہی حال ہے۔ انھوں نے بھی اپنے افسانوں میں دیار غیر میں نسلی تعصب بادلوں ، ناانصافیوں کے کہرے اور ، نارویجن زندگی میں پھیلے گہرے دھند بھرے ماحول کو پیش کیا ہے۔ اصل میں پاکستان سے ہجرت کر کے جو لوگ ناروے اور دیگر مغربی ممالک میں مقیم پذیر ہیں ان کے مسائل کو انھوں نے نے بڑی عمدگی سے عکاسی کی ہے۔ وہاں کے معاشرے درپیش مسائل کی پیشکشی ان کا خاص موضوع ہے۔ اس پس منظر میں رام لعل کی رائے بڑی اہم لگتی ہے وہ لکھتے ہیں

 سعید انجم کی ان کہانیوں میں دو بنیادی سوچیں ہیں۔  اپنے وطن میں پھیلی ہوئی معاشی بے اطمینانی اور وطن سے دور ناروے جیسے چھوٹے سے ترقی یافتہ ملک میں پہنچ کر با عزت رہنے کی جمہوری جدوجہد…. (فلیپ کی تحریر سے ایک اقتباس)

 موضوع کے اسی تناظر میں ان کا ایک افسانچہ ’’سوتے جاگتے خواب‘‘ سے بطور نمونہ ملاحظہ کریں

 کھیل

 آپ گھر سے باہر نہیں جاسکتے۔ نرسری سے آتے ہی میرے بیٹے نے مجھے نارویجن زبان میں حکم دیا۔

 ’’کیوں ؟!‘‘ اردو بولتے ہوئے میں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو اسے لے کر آئی تھی۔

 ’’ آپ میرے ساتھ کھیلیں گے!‘‘۔  بچے نے کہا اور ماں اس کی بات مان لینے کا اشارہ کر رہی تھی۔

 ’’ہم کیا کھیلیں گے !‘‘۔  باہر جانے کا پروگرام ملتوی کرتے ہوئے میں نے پوچھا۔

 ’’ریڈ انڈین اور کاؤ بوائے‘‘۔ بچے نے مجھے بتایا۔ اس شام اپنے کاؤ بوائے بیٹے کے ہاتھوں میں کئی دفع قتل ہوا۔

 ’’کیا اسے نرسری میں کھیلنے کا موقع نہیں ملتا؟‘‘ میں نے بعد میں اپنی بیوی سے پوچھا۔

 ’’ملتا تو ہے‘‘۔ میری بیوی نے مجھے بتایا۔ ’’لیکن نارویجن بچے اسے سارا دن ریڈ انڈین بنائے رکھتے ہیں ‘‘۔ (ص۱۵۳)

 سعید انجم نے مغرب کے اردو افسانے نامی کتاب بھی مرتب کی ہے اس کے علاوہ ان کی کئی اور کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ایک ادبی رسالہ کے وہ مدیر بھی رہ چکے ہیں۔  ان کے افسانے ہند و پاک کے معتبر رسائل و جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ ۲۳اپریل ۲۰۰۰ء میں ، ان کے انتقال سے ان کا تخلیقی سفر تو ختم ہو چکا ہے لیکن انھوں نے اپنے خون جگر سے سینچ کر جو تخلیقات اردو ادب کے لیے چھوڑی ہیں وہ اثاثہ یقیناً ان کا نام ادب میں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

 برطانیہ کے ایک اور ممتاز افسانہ نگار اور مدیر راوی مقصود الٰہی شیخ نے بھی افسانچے لکھے ہیں۔  یہاں ان کا ایک افسانچہ بطور ثبوت پیش کیا جا رہا ہے کہ مغربی وسطیٰ اور مشرقی وسطیٰ دونوں خطوں کے لکھنے والوں نے اسے بطور صنف اپنایا ہے۔افسانچہ دیکھئے۔

 آخری ایکٹ

 تم نے کبھی ہارتے ہوئے جواری کو دیکھا ہے؟ داؤ پر داؤ لگاتا چلا جاتا ہے لیکن گراوٹ کی روک اور بندش کا خیال تک اسے نہیں آتا۔ اس کی سوچ اس سے چھین چکی ہوتی ہے۔

 یہ ہماری تنہائیاں ، اکیلا پن کون سا روپ بھرنے لگا ہے؟

 محبت بے وفائی کا نام نہیں۔  محبت چوری چکاری سے ملنے کی بات نہیں۔  زمانے بھر سے ڈر، چھپ کر گود میں انگارے بھرنے کو نہیں کہتے۔ یہ بیمار محبت، یہ ناصبوری، یہ حضوری، یہ سب کیا ہے؟ جو ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔

 میں تم سے دور ہو جاتا ہوں۔  تم مجھ سے نہ ملا کرو۔

 میں نے پا لیا ہے تمہارا وصل راحت، نہیں ، کرب کا ان چاہا تحفہ ہے۔ ایک کوڑھ ہے۔ ہجر کی لذت اور انتظار کا لطف جاتا رہا۔

 ایک تم ہو۔ ایک میں ہوں۔  اور فریب کی دنیا ہے۔ وقت کا دھوکا ہے۔ ہم کب تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں گے؟ اخلاق باختگی کاٹنے سے نیا معیار توڑتے چلے جائیں گے۔ جس روز ہم پکڑے گئے، ہمارا پردہ فاش ہو گیا تو ہم منہ چھپانے کہاں جائیں گے۔

 سوچتا ہوں۔  جذبوں کی پاکیزگی کی کوئی دھجی بھی ہو گی جو ہماری ستر پوشی میں ہماری ساتھی بن سکے گی!

 کبھی کبھی میرے تصور میں دو تصویریں ابھرتی ہیں۔  ایک دولہا کی دوسری کوئی دلہن ہوتی ہے۔ ان کے چہرے اپنے چہرے نہیں ہے۔ یہ تمھارا اور میرا چہرہ ہے پھر یہ چہرے میرے تمھارے نہیں رہتے ان کے نقوش بدل جاتے ہیں۔  دو متحرک پتلے، دو بے قرار روحیں ایک بھیڑ میں نظروں کے پیاموں کا تبادلہ کرتے ہیں۔  پھر سب سے نظریں چرا کر کچھ وعدے ، کچھ پیمان کرتے ہیں اور جدا ہو جاتے ہیں۔  ان کے ملن اور جدائی کے منظروں سے میری پیاس کچھ اور بڑھ جاتی ہے پھر مجھے احساس کی پہچان ملتی ہے۔ یہ دو چہرے اتنے غیر نہیں۔  میرے کانوں سے دور کی آواز ٹکراتی ہے۔ یہ میرے دو نین جل سے نکلی مچھلی کی آنکھیں بن جاتے ہیں جن میں رتی بھر نمی نہیں۔  خشک پھٹی پھٹی آنکھوں سے میں دیکھ رہا ہوں۔

 ایئرپورٹ ہے۔  وہ تمہارا منگیتر ہے۔ یہ میری منگیتر ہے۔

 میں اور تم ان کا استقبال کر رہے ہیں۔

 (مطبوعہ۔ کتاب نما۔ نئی دہلی، مئی ۱۹۹۶ء)

 اسی طرح سرور ظہیر کے افسانے وافسانچے ہند و پاک کے ادبی رسائل میں اکثر و بیشتر چھپتے رہتے ہیں۔  سید سرور ظہیر کراچی میں پیدا ہوئے۔  مگر دیار غیر میں ہجرت کر کے جرمنی میں بس گئے۔ ایک عرصہ سے مختلف ممالک میں صحرا نوردی کرنے کے بعد سرزمین جرمنی میں زبان و ادب کی خدمت بڑی دلجمعی سے کر رہے ہیں اور اپنے افسانوں کے ذریعہ وہاں کے ماحول اور حالات کی عکاسی کی ہے اور اپنے افسانوں میں وہاں کے مسائل کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ ’بکھرے پتے، کے نام سے ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ابھی حال ہی میں شائع ہوا ہے جس میں دس افسانوں کے ساتھ ۳۰ افسانچے بھی شامل ہیں۔  ڈاکٹر فراز حامدی اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

 ’’سرور ظہیر کے مختصر مختصر افسانے بھی بلاشبہ وقیع حیثیت کے حامل ہیں۔  اختصار نویسی میں انھوں نے کمال کیا ہے کہ ہر افسانچہ کو بڑی خوبی سے طویل افسانے کا ہم پلہ بنا دیا ہے اور یہ اس لیے بھی کہ کسی بھی جذبہ احساس کو انھوں نے افسانچہ میں تبدیل کر دیا ہے یعنی یہ منی کہانیاں اگرچہ تاثراتی ہیں مگر گہری فکر میں مبتلا کر دیتی ہیں اور معاشرہ کے مسائل کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے‘‘۔ (سرور ظہیر کی افسانہ نگاری۔ مطبوعہ ماہنامہ قرطاس۔ ناگپور۔ نومبر دسمبر ۲۰۰۸ء۔ ص۵۴۔۵۵)۔

 مجموعہ دستیاب نہ ہونے کے سبب یہاں بطور نمونہ ان کا افسانچہ پیش نہیں کیا جاسکا۔

 مغرب میں آباد دیگر قلمکاروں میں رضاء الجبار، جمشید مسرور، جاوید دانش، شکیلہ رفیق(کینڈا)،سلطان جمیل، نسیم ، شاہدہ وسیم(ناروے)، افتخار نسیم(شکاگو)، محمد اشرف آتشی(ہالینڈ)، ظفر امام نظام پوری، سلطانہ مہر(امریکہ)،مصطفی کریم، گلشن کھنہ(لندن) صفیہ صدیقی، احمد سہیل، خالد سہیل، مقصود الٰہی شیخ(برطانیہ)، حیدر قریشی، نعیمہ ضیاءالدین(جرمنی)، زبیر وارثی(سویڈن)، محمد عمر میمن(امریکہ) بانو ارشد(یوکے) وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔  ان میں سے اکثر نے افسانچے بڑی تعداد میں لکھ کر اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو پیش کیا ہے۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ کے قلمکاروں میں طٰہٰ آفندی(بحرین)، شہباز صدیقی(ریاض)، عذرا نقوی(جدہ)، مرزا عمر بیگ، نور پرکار(کویت)، محمد شاہد(KSA)، شاہین نظر(جدہ)، مجید سلیم(دمام)، شمیم حیدر(قطر)، گلزار احمد شاد(بحرین)، نجم الحسن رضوی(دبئی)، کرامت اﷲغوری، اسلم عمادی، کاوش عباسی(کویت) وغیرہ کے نام نمایاں حیثیت کے حامل ہیں جنہوں نے افسانچے بھی لکھے ہیں جو مختلف رسائل و جرائد میں چھپتے بھی رہے ہیں۔  لیکن افسانچوں کا باقاعدہ کوئی مجموعہ یہاں سے شائع نہیں ہوا ہے۔

 مشرق وسطیٰ کے ان لکھنے والوں نے بھی اپنے اپنے مسائل کو اپنی تخلیقات میں بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے جو مغرب سے دیگر ہیں۔  ان کے افسانوں میں وہ آزادی ، بے راہ روی اور مذہب بیزاری نہیں ملتی ہے جو مغرب کے لکھنے والوں کا خاصہ رہا ہے۔ جبکہ مشرق وسطیٰ کے لکھنے والوں کے پاس اپنی حد میں رہنے کی خو اپنی مٹی کی بو باس اپنی تہذیب سے اٹوٹ محبت، مذہب کی اہمیت اور اپنے اسلاف کے کارناموں سے گہری رغبت و تعلق کے جذبے کو بطور خاص محسوس کیا جاسکتا ہے گو کہ ان قلمکاروں نے بھی اپنے اپنے مسائل کی عکاسی کے ذریعے اردو ادب کے دامن کو مزید وسعت بخشی ہے۔ متحدہ عرب امارت اور سعودی عرب میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کوشاں اور سرگرداں رہ کر ان لکھنے والوں نے بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور ان علاقوں میں اردو زبان و ادب کے ماحول کو سازگار بنانے میں نمایاں رول ادا کیا ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ان قلمکاروں کے متعلق سید قمر حیدر لکھتے ہیں :

 ’’برصغیر پاک و ہند کے مختلف علاقوں سے اردو بولنے لکھنے اور سمجھنے والے جو لوگ بسلسلہ معاش نقل مکان یا حصول علم کی غرض سے دنیا کے قابل ذکر ممالک میں پہنچے وہ اپنا مزاج اپنی ثقافت اور اپنے زبان و ادب کو اپنے ساتھ لے کر آئے اور یہی چیز دیار غیر میں ان کی پہچان بنی۔ اسے اپنے روزگار کی مصروفیت سے فراغت کے بعد سامان طمانیت یہی ہوتا ہے کہ اپنے لوگوں سے ملا جائے اور اپنی زبان میں اپنے دل کی باتیں کی جائیں اور اپنی زبان میں اپنے دل کی باتیں کرنے کا نام ہی ادب ہے۔ یوں تو دنیا کے سارے ممالک میں موجود اردو کے شاعروں اور ادیبوں نے قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں مگر مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں مقیم قلمکاروں نے بھی مثالی کارنامہ انجام دیا ہے اور ان کی نگارشات اردو ادب میں ایک صحت مند اضافہ نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں پائے جانے والے ایک مخصوص قسم کے ماحول میں رہنے کے باعث زندگی کی کچھ ایسی جہتیں اور رویے بھی قلمبند ہوئے ہیں جو اپنے اپنے ملک میں رہ کر کسی بھی گرفت اظہار میں نہیں آسکتے تھے۔ ابلاغ کے انہی اچھوتے آسمان کی تلاش و حصول نے یہاں کی تخلیقات کو ایک منفرد و تیکھی اور گراں بہار حیثیت دے دی ہے‘‘۔

 (ص۱۸۔۱۷ مطبوعہ شاعر (ممبئی) جون جولائی ۱۹۹۹ء)

 سید قمر حیدر قمر کے اس تجزیے سے مشرق وسطیٰ کے قلمکاروں کی تخلیقی سرگرمیوں کی مختلف جہتوں پر روشنی پڑتی ہے اور وہاں اردو زبان و ادب کی صورتحال کا صحیح سمت میں ہونے اور اس کی پیش رفت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

 مجموعی اعتبار سے برصغیر اور اردو زبان و ادب کے حوالے سے مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک میں آباد ان نئی بستیوں میں بڑے پیمانے پر اردو کی ترویج و اشاعت کا کام ہو رہا ہے۔ اور یہ کاز مختلف سمتوں میں اپنے نئے پڑاؤ کے ساتھ پھیلا ہوا ہے۔  مختلف ادبی اصناف کا تنوع زبردست انداز میں تخلیق کی نئی سمتوں کے تعین میں لگا ہوا ہے اور تازہ کار نسل اپنی نو بہ نو تخلیقات کے ذریعے اپنے اس نوآباد علاقے کا بھرپور تعارف پیش کر رہی ہے۔ دیگر اصناف کی اشاعتوں کے ساتھ وہاں کے ادبی رسائل و جرائد میں افسانچہ کو بھی خاطر خواہ پذیرائی مل رہی ہے جو اس کے مستقبل کے لیے نئے امکانات کے در وا  کر رہی ہے۔ یقیناً مستقبل قریب میں مزید بہتر کی امید کی جاسکتی ہے کہ یہاں اردو کا مستقبل روشن ہے تو صنف افسانچہ کا مستقبل بھی محفوظ ہے۔ اسے قبول عام کا درجہ حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی اور قلمکاروں کی اس پیش رفت سے اس کا مستقبل مزید بہتری کی سمت گامزن رہے گا۔

 

باب ششم

 مجموعی تاثر

 اردو فکشن میں افسانچہ پچھلی صدی کی آخری تین دہائیوں سے افسانہ کی ہئیت میں تبدیلی کا تجربہ بن کر ابھرا اور وقت کی ضرورت کا مظہر بھی ثابت ہوا۔ اردو میں افسانچہ کی مجموعی صورتحال پر اس کتاب میں مختلف ابواب میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ پہلے باب میں اردو میں ، افسانچہ کی ابتداء اور ارتقائی سفر کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ تقریباً سبھی ناقدین اور افسانہ نگاروں نے اس خصوص میں منٹو کے ’سیاہ حاشیے، کی مختصر ترین کہانیوں کا حوالہ دیا ہے اور اس بات کا کھل کر اعتراف بھی کیا ہے کہ اردو میں افسانچہ کا آغاز منٹو کی ان چھوٹی چھوٹی کہانیوں سے ہوا ہے۔ جبکہ چند نے انھیں محض چٹکلے سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں دیگر زبانوں کے ادب سے حوالے بھی دیے گئے ہیں لیکن ان چند منفی رجحانات کے باوجود افسانچہ کی مقبولیت میں کوئی کمی واقعی نہیں ہوئی اور منٹو کے ’سیاہ حاشیے‘ کی اولیت ہر حال میں برقرار رہی ہے…. میں نے اپنے اس استدلال کے ثبوت میں تقریباً ایک درجن سے بڑھ کر اہل علم و دانش کی آراء پیش کی ہیں۔

 منٹو کے بعد جوگندر پال نے اس صنف کو آگے بڑھا کر باقاعدہ صنف کے طور پر برت کر اسے اعتبار اور وقار بخشا ہے اور نئی نسل کو اس کی سمت پوری طرح متوجہ کر کے اسے قبول عام بنانے میں اپنی بھرپور معاونت کرتے ہوئے اس کی ترویج و اشاعت میں بھی بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ اس کے ارتقائی سفر میں تقریباً سبھی سینئر ممتاز و معروف افسانہ نگاروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ تو نہیں لیا لیکن منٹو کے ساتھ کرشن چندر، خواجہ احمد عباس جیسے اردو افسانے کے چند اہم ستون نے بھی اسے قابل تخلیق سمجھا یہ اور بات رہی ہے کہ وہ لوگ اس سمت پوری طرح متوجہ نہ ہوسکے۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ مستقل طور پر اسے باقاعدہ ایک صنف کا درجہ دلایا اور اس کی بار آوری کی کوشش کرتے رہے۔ نئے لکھنے والوں کی مناسب حوصلہ افزائی کے ساتھ مسلسل ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ جس کا نتیجہ اس صورت میں سامنے آیا کہ نئے نام بھی اس صنف میں اعتبار کا درجہ پانے میں کامیاب ہوتے گئے۔ اس صنف میں اپنا مجموعہ شائع کروانے کا حوصلہ بھی بخشا اور بڑی فراخدلی سے ان کتابوں کے پیش لفظ و فلیپ کی تحریریں لکھیں جس کے نتیجہ میں افسانچہ کے فن، موضوعات اور دیگر فنی التزامات کے بارے میں بڑی کار آمد باتیں سامنے آئیں۔  ان تحریروں سے غیر شعوری طور پر افسانچہ کے فن پر مسلسل روشنی پڑتی رہی اور ان رشحات قلم نے ناقدین کی اس کمی کو بھی کسی حد تک پورا کر دیا جو اس صنف کی کامیابی کے لیے نہ صرف اہمیت کی حامل بلکہ بے حد لازمی تھی۔

 جوگندر پال کے معاصرین میں رام لعل، رتن سنگھ، بشیشر پردیپ، جیلانی بانو، ہرچرن چاؤلہ کے ساتھ وریندر پٹواری، آنند لہر، نسیم محمد جان، محمود بالسیری، مناظر عاشق ہرگانوی، اقبال انصاری، علیم صبا نویدی، کوثر صدیقی اور دیگر کئی سینئر ادیبوں نے بڑی تعداد میں افسانچے لکھ کر اس صنف کو خوب بڑھاوا دیا۔ وہیں ان کے بعد کے لکھنے والوں میں نئی نسل میں ہر علاقے سے اتنے نام ابھرے کہ ان تمام کے نام درج کرنے میں کئی صفحات درکار ہوں گے۔ اس طرح کی فہرست پیش کرنا یہاں مقصود بھی نہیں ہے کہ کتاب کے مختلف ابواب میں ان تمام کے نام، اس صنف میں ان کی کارکردگی کے لحاظ سے مفصل طور پر آ گئے ہیں۔

 اردو کے تقریباً ہر علاقے کے جائزے سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ زیادہ تر اس صنف کی اشاعت و فروغ میں نئے نسل کے لکھنے والوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر اسے قبول عام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس مثبت پہلو کے ساتھ وہیں ان میں اکثر نے اسے اپنی کم علمی کے سبب محض اقوال زریں اور فلسفیانہ خیالات کی حد تک محدود کر دیا۔ کسی نے اخباری خبر کے رد عمل کو افسانچہ سمجھ لیا۔ کئی ایک نے اسے لطیفہ سے قریب کر دیا اور اکثر نے اسے سہل جان کر محض فیشن کے طور پر لکھا۔ جہاں ان نئے لکھنے والوں کو وقتی طور پر مقبولیت حاصل ہوئی وہیں اس کے فن کو گزند بھی پہنچی اور اس کے مخالفین کو حاشیہ آرائی کا موقع مل گیا۔ کسی نے اسے لطیفے اور پہیلی سے قریب کہہ کر صنف ماننے سے انکار کر دیا۔ چونکہ افسانچہ کا فن بہت مشکل ہوتا ہے جو کڑی محنت اور بڑی ریاضت کا طالب ہوتا ہے۔ لیکن نئی نسل نے جب اسے آسان سمجھ لیا اور ان کی اس تن آسانی نے اسے نقصان بھی پہنچایا۔ ساتھ ہی اس کے اچھے لکھنے والے معتوب بھی ہوئے۔ سلام بن رزاق کے لفظوں میں ’’کسی بھی تجربے کو برتنا آسان ہوتا ہے مگر تجربے کی روایت کو برقرار رکھنا مشکل امر ہے چونکہ افسانچہ اردو افسانہ میں ہئیت کی تبدیلی کا ایک کامیاب تجربہ رہا ہے لیکن جدید افسانہ کی طرح اس تجربہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا کہ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے افسانچہ کے تجربے میں شامل ہو گئے اور محض ٹرینڈ کے چکر میں پڑ کر لکھنے لگے۔جہاں تک اخبارات کے مدیران کا تعلق ہے انھوں نے بھی اپنی وقتی ضرورت کے تحت بغیر کسی چھان پھٹک اور کڑے انتخاب کے اسے شائع کرنے لگے وہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس ٹرینڈ کو عام کرنے میں اخبارات کا بڑا اہم رول رہا ہے لیکن رابطہ عامہ کی اس اہم کڑی نے فنی اعتبار سے اس پر سنجیدگی سے کوئی توجہ نہیں کی۔ اس افراط و تفریط کے سبب افسانچہ کو صنف کے طور پر اپنے آپ کو منوانے میں دشوار کن مرحلوں سے گزر کر بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ادھر اس صنف کے کئی نام ہونے کی وجہ سے انہیں علیحدہ علیحدہ صنف قرار دیے جانے کے لیے نئی نئی تاویلیں پیش کی جانے لگیں۔  چند ایک فرق ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے گئے اور پھر کسی نے یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا کہ اگر دو سطر میں ہو تو افسانچہ اور دو صفحے تک ہو تو منی افسانہ…. اس تفریق اور درجہ بندی کے ماحول نے اس صنف کے لکھنے والوں کو ایک نئی الجھن میں ڈال دیا۔ ساتھ ہی مختلف اخبارات ورسائل اسے الگ الگ نام سے چھاپنے لگے۔ جس نے تذبذب کی ایک ایسی کیفیت ضرور پیدا کر دی تھی کہ پڑھنے والے سوچنے لگے کیا واقعی منی افسانہ افسانچہ میں کوئی فرق ہے جبکہ افسانچہ کی تعریف کے بعد کسی جواب یا جواز کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے کہ یہ صنف مختصر ترین لفظوں میں یعنی کم سے کم لفظوں میں ایک مکمل کہانی بیان کر دینے کا نام ہے۔ جوگندر پال کے اس استدلال کا بھی کوئی جواب نہیں ہے کہ جب اردو میں مختصر ترین کہانی کے لیے خالص اردو لفظ ’افسانچہ، موجود ہے تو انگریزی لفظ minimum کے مخفی ’منی، کا سہارا لینے کی ضرورت ہے؟! ان دونوں ابواب میں افسانچہ کی ابتداء، تعریف ، ارتقائی سفر کے ساتھ اس کے فنی لوازمات کو پیش کرتے ہوئے درج بالا نکات پر مدلل بحث کی گئی ہے۔ اور افسانچہ کے تئیں مخالفین کی سازشوں کو طشت از بام کر دیا گیا۔ ویسے بھی افسانچہ کی تنقید پر ہمارے ناقدین نے بہت کم توجہ کی ہے۔ اکثر نے اسے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔  کسی نے اسے صنف کا درجہ نہیں دیا۔ اگرچہ کچھ تنقیدیں سامنے آئیں مگر اس قدر منفی انداز میں کہ بجائے اس سے کچھ فیض پہنچتا، اس کے حق میں یہ سم قاتل ثابت ہوئی۔ ان مخالفتوں کے باوجود اس صنف نے اپنے آپ کو تسلیم کروایا اور سینئر افسانہ نگاروں کے ساتھ ناقدین کو اس طرف راغب کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کمی کی ایک بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ اب تک صنف افسانچہ پر باقاعدہ کوئی تحقیقی و تنقیدی کتاب منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ اس اعتبار سے اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ یہ اردو میں افسانچہ نگاری کی روایت پر ایک مسبوط و مربوط کتاب کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کا ایک افادی پہلو یہ ہے کہ اردو میں افسانچہ نگاروں کا ایک ایسا انتخاب بن گئی ہے جو نہ صرف ہندوستان کی ریاستوں تک محدود ہے بلکہ پاک اور بنگلہ دیش بلکہ مشرق وسطیٰ ، خلیجی ممالک اور مغربی ممالک میں آباد اردو کی نئی بستیوں میں افسانچہ لکھنے والوں کی کارکردگی اور صورتحال کا مفصل جائزہ بھی پیش کرتی ہے جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے۔ مہاراشٹر کے علاوہ ملک کی دیگر تمام اہم ریاستوں میں افسانچے بڑی تعداد میں لکھے گئے ہیں اور اس صنف میں باقاعدہ کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں۔  اگرچہ ان ریاستوں میں مہاراشٹر جیسی پیش رفت نہیں رہی ہے تاہم افسانچہ نگاری کا غالب رجحان ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ ویسے تو تقریباً پورے ملک میں افسانچے بڑی تعداد میں لکھے گئے جو معتبر ادبی رسائل و جرائد اور نیم ادبی و فلمی رسائل میں چھپتے رہے ہیں اور اس کے علاوہ ملک کے کئی اخبارات میں بھی کثرت سے شائع ہوتے رہے ہیں۔  لیکن ریاست مہاراشٹر کو ان تمام ریاستوں پر اس اعتبار سے فوقیت حاصل رہی ہے کہ یہاں افسانچوں کے مجموعے بڑی تعداد میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر مقبول ہوئے ہیں۔  میرے پاس جمع شدہ مجموعوں کی تعداد ۴۲ہے جو ملک بھرسے شائع ہوئے ہیں لیکن ان میں سے تقریباً نصف یعنی ۲۱ مجموعے صرف ریاست مہاراشٹر سے چھپے ہیں اور ابھی یہاں زیر ترتیب مجموعوں کی قابل لحاظ تعداد موجود ہے جن کے جلد منظر عام پر آنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سے افسانچوں پر ملک گیر سطح پر خصوصی نمبر اور ضمیمہ بھی بڑی تعداد میں شائع ہو کر اس صنف کی ترویج و اشاعت میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔  مجموعی اعتبار سے پورے ملک میں مہاراشٹر ہی ایک ایسی ریاست قرار پاتی ہے جہاں افسانچہ نگاری کے رجحان کو خوب فروغ حاصل ہوا اور لکھنے والوں نے بڑے سرگرم انداز میں اس کی اشاعت میں دلچسپی لے کر قابل لحاظ تعداد میں اس صنف میں مجموعے اور خاص نمبر شائع کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

 منی افسانوں کی مقبولیت اور پذیرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ منی افسانوں کے مجموعوں کے ساتھ ساتھ اس نئی صنف پر کئی خاص نمبر ملک گیر سطح پر شائع ہوئے۔ ان میں سب سے پہلے شائع ہونے والا ماہنامہ ’’روبی‘‘ (دہلی) کا ’’منی کہانی نمبر‘‘ (اپریل ۱۹۷۸ء) بڑی اہمیت کا حامل ہے۔جو انعامی مقابلے کے ساتھ شائع کیا گیا تھا جو اس رجحان کو بڑھانے میں کامیاب رہا۔ اسی انعامی مقابلے میں ممتاز و مقبول افسانہ نگار بشیشر پردیپ کی منی کہانی ’ڈرپوک‘ کو پہلے انعام کا مستحق قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس قسم کے خصوصی نمبر نکلنے کا چلن عام ہوا۔ ماہنامہ ’’سلگتی لکیریں ‘‘ (لکھنؤ) اور مرہٹواڑہ منی کہانی نمبر ہفتہ روزہ تاریخ (ناندیڑ) نے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ روزنامہ ’’مفسر‘‘ اورنگ آباد نے منی افسانہ افسانچہ نمبر کی خصوصی اشاعت (اکتوبر تا دسمبر۱۹۸۷ء)اپنے ادبی صفحہ ’’فن و فنکار‘‘ میں مرتب عارف خورشید نے بڑے اچھوتے انداز میں کی۔ یہ سلسلہ مسلسل دس ہفتوں تک چلتا رہا۔جس کی اشاعت میں راقم الحروف نے بھی معاونت کی تھی۔ جس میں پورے ہندوستان میں اس صنف میں طبع آزمائی کرنے والے منی افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو پیش کیا گیا۔ ساتھ ہی منی افسانے اور افسانچے پر مضامین کا سلسلہ بھی جاری ہوا۔مناظر عاشق ہرگانوی نے ’قوس قزح‘ کے نام سے افسانچوں کا انتخاب (جو چار زبانوں ہندی ، بنگلہ ، انگریزی ، اردو میں ہے۔) ۱۹۹۲ء میں بہار سے شائع کیا۔انتخاب کی ترتیب تو صحیح ہے یعنی سعادت حسن منٹو، جوگندر پال، خواجہ احمد عباس، رتن سنگھ، رام لعل وغیرہ سے کی گئی ہے لیکن زیادہ تر ایسے لکھنے والوں کو شامل کیا گیا ہے جنھوں نے کبھی کبھار افسانے یا افسانچے لکھے ہیں اور اس انتخاب میں کثرت سے افسانچہ لکھنے والوں کو جنھوں نے، اس صنف کو مقبول عام بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ چونکہ اس صنف کا یہ پہلا انتخاب ہے اس لحاظ سے اسے بہتر بنانے اور ہر طرح سے مکمل طور پر پیش کرنے کی ضرورت تھی لیکن دیگر زبانوں کے ترجمے کے سبب شاید ایسا نہیں ہوسکا ہے۔ ورنہ تقریباً ۸۰ افسانچے اس کتاب میں شامل ہوسکتے تھے۔ بہرکیف اس صنف میں یہ پہلا انتخاب ہونے کے لحاظ سے اس کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ روزنامہ ’آج‘ (اورنگ آباد) اور ’اردو ٹائمز‘ (ممبئی) نے بھی منی افسانہ نمبر خصوصی ضمیمہ کے طور پر شائع کئے ہیں۔  آج کل بڑے رسائل کے مدیران بھی افسانچے منی افسانے کو اہمیت دے رہے ہیں اور بڑے اہتمام سے شائع کر رہے ہیں۔  ان رسائل میں شاعر، انشاء، رنگ،ترکش، اسباق، توازن، قرطاس، سب رس جیسے کئی معتبررسائل شامل ہیں۔ ان ادبی رسائل کے علاوہ نیم ادبی و فلمی رسائل میں شمع، روبی، فلمی تصویر، فلمی ستارے وغیرہ نے اس صنف کو نمایاں طور پر چھاپ کر پہلے ہی مقبول بنا دیا تھا۔صنف افسانچہ پر خصوصی نمبروں کی اشاعت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کئی رسائل اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔  روزنامہ ’سالاردکن، گلبرگہ ، کے علمی و ادبی صفحہ میں ’ایک شمارہ افسانچے کے نام، (۲۸ستمبر ۲۰۰۳ء) ،ڈاکٹر غضنفر اقبال نے ترتیب دیا ہے۔ اسی طرح م ناگ نے روزنامہ ’تعمیر‘ (بیڑ ) کے علمی و ادبی صفحہ میں خصوصی طور پر منی افسانوں افسانچوں کا انتخاب (۹۱ستمبر ۲۰۰۳ء)شائع کیا ہے۔  اس کے علاوہ ودربھ میں ڈاکٹر اشفاق احمد نے اپنے علاقے کا انتخاب ’’کپاس کے پھول‘‘ کے نام سے ترتیب دیا ہے۔ یہ سارے اعداد و شمار افسانچہ کی مقبولیت کے بین ثبوت ہیں۔

 غرض ہر اعتبار سے صنف افسانچہ نے یہاں ترقی کی منزلیں طے کر کے ایک منفرد مقام بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بہ ہر اعتبار سے اس خصوص میں ریاست مہاراشٹر کو اولیت کا اعزاز حاصل ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا اور اس حقیقت کے اظہار پر کسی جانب داری کا الزام اس لیے بھی عائد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اپنی ریاست کی طرف داری سے کام نہ لیتے ہوئے میں نے بڑی سچائی کے ساتھ حقیقت کا اظہار کیا ہے۔ جو روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ واقعتاً ریاست مہاراشٹر میں افسانچہ پر تخلیقی کام خوب ہوا ہے او ر مستقبل قریب میں اردو کی کوئی تحقیق اسے نظر انداز نہیں کرسکتی ہے اب اسے ایک اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس نئی صنف پر تحقیق و تنقید کا کام بھی پہلی بار اسی ریاست سے کتاب کی شکل میں منظر عام پر آیا ہے۔ جسے صنف افسانچہ پر عالمی انتخاب کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور یہ جائزہ اردو فکشن کے ایک روشن باب کی نمایاں خوبیوں کا پوری طرح احاطہ کرتا ہے۔اس طرح آج صنف افسانچہ جدید دور کا ترجمان بن کر روز بروز مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھوتے ہوئے وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔ بقول م ناگ ادب کا کوئی ٹرنیڈ ٹائم باؤنڈ نہیں ہوتا۔ سارے ٹرنیڈ ہمیشہ سے چلتے رہے اور چلتے رہیں گے۔ بس شدت کم زیادہ ضرور ہوتی رہتی ہے۔ لیکن افسانچہ کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ جو نئی صدی میں وقت کے ساتھ چل کر خوب سے خوب تر کی جستجو کا روشن آئینہ بن گئی ہے۔ اردو افسانچہ نگاری کا یہ سفر دور جدید میں نئی تکنالوجی کی نت نئی تبدیلیوں کے دوش بدوش بڑی کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ اس نئی صدی کے تناظر میں جوگندر پال ، اس کی اہمیت، ضرورت، نمایاں ترقی اور مستقبل کے سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں :

 ’’ایٹم کی بے پناہ قوت نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ جسامت (ضخامت) بذات خود اہم نہیں ہوتی۔ مزید انسان کی بڑھتی ہوئی مصروفیات اور ہٹتی توجہ کے پیش نظر میری رائے میں افسانچے کی اہمیت بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ اور یہ بھی کہ ادب میں خاموشیوں اور وقفوں کی یہ دولت قارئین کو اس میں تخلیقی طور پر شامل ہونے کی زیادہ گنجائش فراہم ہو جاتی ہے۔ اس سیاق میں ہوسکتا ہے کہ چند سطر کی کہانی ان کے ذہن میں آپ ہی آپ ان کہے آگے پیچھے بھی کھینچ آئے اور جسے وہ ذہنی طور پر ایک پوری کتاب میں پھیلائے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ صرف وہی اہم نہیں جو فنکار لکھ دیتا ہے…. اہم تو فنکاروں کی تحریروں میں ان لکھا زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے….‘‘۔(جوگیندر پال کے انٹرویو سے ایک اقتباس۔ مطبوعہ اردو دنیا نئی دہلی۔ فروری ۲۰۰۰ء۔ ص۴۵)

 غرض افسانچہ کی اس خوبی کے سبب اس کے مزید پھلنے پھولنے کے امکانات روشن نظر آتے ہیں اور صنف افسانچہ کے اس پورے جائزے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اس کی پذیرائی اور مقبولیت کے لیے ماحول نہایت امید افزائ، اور مجموعی اعتبار سے صورتحال اطمینان بخش ہے۔  موجودہ نئی صدی میں اس کے تابناک مستقبل اور مزید مقبولیت کی بجا طور پر توقع کی جاسکتی ہے۔

۱           سیاہ حاشیے          سعادت حسن منٹو            اکتوبر ۱۹۴۸ء

 ۲         سلوٹیں               جوگندر پال                     ۱۹۷۵ء

 ۳        پہلا پتھر طالب زیدی (میرٹھ)    اکتوبر ۱۹۸۷ء

 ۴        آواز کے پتھر      ایم آئی ساجد        اکتوبر ۸۷۹۱ء

 ۵        عکسِ شعور         شیخ رحمٰن آکولوی دسمبر ۸۷۹۱ء

 ۶         حرفوں کے ناسور ڈی ایچ شاہ (کراچی) ۱۹۸۰ء

 ۷        پیوند     ڈاکٹر خان حفیظ (کانپور) نومبر ۱۹۸۱ء

 ۸        لمحوں کی حرکت  طفیل سیماب      اکتوبر ۱۹۸۳ء

 ۹         قتل کا موسم       نواب رونق جمال اگست ۱۹۸۴ء

 ۱۰        کتھا نگر  جوگندر پال         ۱۹۸۶ء

 ۱۱         یادوں کے سائے            رحیم انور (کاماریڈی) فروری ۱۹۸۶ء

 ۱۲        قوس قزح          رونق جمال         ۲۰۰۶ء

 ۱۳       یادوں کے سائبان عارف خورشید جنوری ۱۹۸۷ء

 ۱۴       پھول کے آنسو    عظیم راہی         اکتوبر ۱۹۸۷ء

 ۱۵       آنکھوں کی زبان(مشترکہ مجموعہ)  اقبال بلگرامی۔ مقصود ندیم۔عارف خورشید ۱۹۸۷ء

 ۱۶

آتشیں لمحوں میں             عارف خورشید ۱۹۸۹ء

 ۱۷       آواز کا درد          رحیم انور           ۹۸۹۱ء

 ۱۸       مانک موتی        رتن سنگھ           ۱۹۹۰ء

 ۱۹        ریزہ ریزہ کائنات            عباس خان (ملتان) ۱۹۹۲ء

 ۲۰       ایک ادھوری نظم            شکیل سعید ۱۹۹۳ء

 ۲۱ یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے    اشفاق احمد         اگست ۱۹۹۳ء

 ۲۲       رشتوں کا کرب   محمد قیوم میؤ        ۱۹۹۴ء

 ۲۳      اس موڑسے      رحیم انور            ۱۹۹۴ء

 ۲۴      قطرہ قطرہ          قاضی مشتاق احمد ۱۹۹۶ء

 ۲۵      پل پل  عباس خان (ملتان) ۱۹۹۶ء

 ۲۶       ہم کہاں کہاں سے گزرے           رحیم انور ۱۹۹۹ء

 ۲۷      موم کی گڑیا        ساحر کلیم(سلوڑ) ۲۰۰۰ء

 ۲۸      اور کچھ بھی نہیں کہانی میں             عارف خورشید۲۰۰۰ء

 ۲۹       پرندے            جوگندر پال         ۲۰۰۰ء

 ۳۰      بوند بوند            رحیم انور  ۲۰۰۱ء

 ۳۱       درد کے درمیاں  عظیم راہی         اگست ۲۰۰۲ء

 ۳۲      ابھی     اقبال انصاری (دہلی)      ۳۰۰۲ء

 ۳۳     مجسموں کا درد       محمد اظہر فاضل    ۳۰۰۲ء

 ۳۴     احساس کا سفر      رحیم انور            ۲۰۰۴ء

 ۳۵     فساد ،کرفیو اور کرفیو کے بعد          عبدالعزیز خان (ممبئی) جون ۲۰۰۵ء

 ۳۶      نہیں رحمن بابو   جوگیندر پال (دہلی) ۲۰۰۵ء

 ۳۷     تیر نیم کش        فیروز خان          ۲۰۰۵ء

 ۳۸     ایک زخم اور سہی            ڈاکٹر اشفاق احمد (ناگپور) جولائی ۲۰۰۵ء

 ۳۹      آنسوؤں کی چیخ    محمد اظہر فاضل (جالنہ) ۲۰۰۶ء

 ۴۰      ریزہ ریزہ دل     نذیر فتح پوری (پونا)        ۲۰۰۶ء

 ۴۱       چپ چاپ          اکبر عابد (ممبئی) ۲۰۰۶ء

زیر ترتیب مجموعے

 ۱          نقطۂ نو گریز       خالد عبادی(بھوپال)

 ۲         اے وطن تیرے لیے      عبدالقدوس رضوان (نظام آباد)

 ۳        کُن       جیلانی بانو (حیدرآباد)

 ۴        فساد کے بعد       مظہر سلیم (ممبئی)

 ۵        سورج کی موت  احمد صغیر (گیا)

 ۶         چنگاریاں             نورالحسنین (اورنگ آباد)

 ۷        گردش رواں       محمد ارشد صدیقی (بیڑ)

 ۸        آتش پارے      محمد طارق کھولاپوری (امراؤتی)

 ۹         کل اور آج کا غم  ڈاکٹر عظیم راہی (اورنگ آباد)

 ۱۰        سلگتے لمحے          رحیم انور (کاما ریڈی)

منی افسانہ، منی کہانی ، افسانچہ نمبر

 ۱          منی کہانی نمبر     ماہنامہ روبی (نئی دہلی)۱۹۷۹ء

 ۲         مرہٹواڑہ منی کہانی نمبر    ہفت روزہ تاریخ (ناندیڑ) ۱۹۸۶ء

 ۳        افسانچہ نمبر        روزنامہ مفسر (اورنگ آباد) اکتوبر تا دسمبر ۱۹۸۷ء

 ۴        افسانچہ نمبر ماہنامہ سلگتی لکیریں (لکھنؤ) جولائی ستمبر ۱۹۸۶ء

۵         قوس قزح          (افسانچوں کا انتخاب) مناظر عاشق ہرگانوی

 ۶         منی افسانہ ’خصوصی ضمیمہ، روزنامہ اردو ٹائمز مئی ۲۰۰۰ء

۷         گوشہ منی افسانہ افسانچہ   مرتب م ناگ روزنامہ تعمیر بیڑ ۹۱ستمبر ۲۰۰۳ء

 ۸        ایک شمارہ افسانچہ کے نام  مطبوعہ روزنامہ سالار دکن (گلبرگہ) کا علمی و ادبی صفحہ القلم۔ مرتب ڈاکٹر غضنفر اقبال مورخہ ۲۸ستمبر ۲۰۰۳ء

 ۹         افسانچہ نمبر        روزنامہ اورنگ آباد ٹائمز

 ۱۰        کپاس کے پھول  (زیر ترتیب) ’’ودربھ کے منی افسانہ نگاروں کا انتخاب ‘‘ڈاکٹر اشفاق احمد

مشترکہ افسانوی مجموعے

 افسانچہ کے باب میں ، سینکڑوں کی تعداد میں افسانچہ لکھنے والوں کے نام ملتے ہیں۔  لیکن ان تمام کے نام لکھ کر صرف فہرست سازی کرنا مقصود نہیں ہے۔ بلکہ یہاں ان لکھنے والوں کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے جن کے اس صنف میں باقاعدہ مجموعے چھپ چکے ہیں۔  اور ساتھ ہی ان افسانچہ نگاروں کا ذکر بھی لازمی سمجھا گیا ہے جنھوں نے بڑی تعداد میں افسانچے تخلیق کیے لیکن اپنا مجموعہ شائع نہیں کرواسکے ہیں۔  البتہ ان میں سے چند ایک نے اپنے مجموعے ترتیب دے رکھے ہیں جو بہت ممکن ہے عنقریب شائع ہو جائیں۔  اس کے علاوہ ان افسانچہ نگاروں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جن کے مشترکہ افسانوی مجموعوں میں چند افسانچے ملتے ہیں۔  ایسے تخلیق کاروں کا شامل کرنا بھی ضروری محسوس ہوا۔ اور ان تمام کے بطور نمونہ ایک یا دو منتخب افسانچے (طوالت کے اعتبار سے) کتاب میں شریک کیے گئے ہیں۔  بہرحال، ہر صورت میں افسانچہ بطور نمونہ شامل کیے جانے کے لیے مجموعہ کی شرط کو لازمی رکھا گیا ہے ایسے تقریباً ۴۰ مجموعے بھی میں نے یہاں ڈھونڈ نکالے ہیں۔  جنھیں مشترکہ مجموعے کہا جاسکتا ہے۔  جو مجھے دستیاب ہوسکے ہیں۔ ان کی فہرست دیگر تفصیلات کے ساتھ شائع کی جا رہی ہیں۔  اس کے علاوہ ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں چھپے چند تبصروں سے معلوم ہوا کہ ان مشترکہ افسانوی مجموعوں میں بھی کچھ افسانچے شامل ہیں۔  لیکن باوجود رابطے کے وہ مجموعے حاصل نہیں ہوسکے۔ تاہم ایسے چند مجموعوں کے نام بھی اس فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔

 ۱) آتش پارے اور سیاہ حاشیے…….. سعادت حسن منٹو ۱۹۴۸ء(۳۰افسانچے)

 ۲) میں کیوں سوچوں ………… جوگندر پال ۱۹۶۲ء(۳۲ افسانچے)

 ۳) اینٹ کا جواب ………… مظفر حنفی ۱۹۶۷ء

 ۴) اپنے آپ کا قیدی …….. احمد عثمانی (مالیگاؤں ) ۱۹۷۵ء(چھ افسانچے)

 ۵) کنوارے الفاظ کا جزیرہ ……..وحشی سعید (سری نگر) ۱۹۸۳ء(ایک افسانچہ)

 ۶) پیاسا سمندر…….. مجید سلیم (حیدرآباد) ۱۹۸۴ء(۲افسانچے)

 ۷) قطرہ قطرہ احساس …….. اقبال حسن آزاد (دربھنگہ) ۱۹۸۷ء(۲افسانچے)

 ۸) قدم قدم دوزخ …….. محمد بشیر مالیر کوٹلوی (پنجاب) ۱۹۸۸ئ

 ۹) دخل در معقولات …….. مجید جمال (اورنگ آباد) ۱۹۹۰ء(۲۵ افسانچے)

 ۱۰) آواز سرگوشیوں کی …….. ویریندر پٹواری (جموں ) ۱۹۹۴ء(ایک افسانچہ)

 ۱۱) کشتیوں میں سوار…….. ڈاکٹر خالد سہیل (کناڈا) ۱۹۹۴ء(۲۸ افسانچے)

 ۱۲) سوتے جاگتے خواب …….. سعید انجم (ناروے) ۱۹۹۴ء(۱۱افسانچے)

 ۱۳) ٹھنڈا خون …….. محمد اطہر مسعود خان (رامپور) ۱۹۹۴ء(۱۲افسانچے)

 ۱۴) نیم کے پتے ……..طفیل سیماب (کھام گاؤں ) ۱۹۹۶ء(۳۳افسانچے)

 ۱۵) گریباں جھوٹ بولتا ہے ………… ہر چرن چاؤلہ(ناروے) ۱۹۹۶ء(۱۱افسانچے)

 ۱۶) حق تو یہ ہے کہ …….. شبیب احمد کاف (تامل ناڈو) ۱۹۹۶ء

 ۱۷) سلگتے لمحے …….. محمد بشیر مالیر کوٹلوی (پنجاب) ۱۹۹۶ء

 ۱۸) افق کی مسکراہٹ …….. اسلم جمشید پوری (دہلی) ۱۹۹۷ء(۱۰افسانچے)

 ۱۹) فاصلوں کا ہمنشیں …….. متین قادری (اورنگ آباد) ۹۹۹۱ء(۱۲افسانچے)

 ۲۰) بابل کا مینار …….. اختر آزاد (بہار) ۲۰۰۰ء

 ۲۱) دہلیز …….. سہیل جامعی (دربھنگہ) ۲۰۰۰ء

 ۲۲) اندھا کنواں …….. حسن ساہو (سری نگر) ۲۰۰۰ء

 ۲۳) گھوڑے کا کرب ………… ہر چرن چاؤلہ (ناروے) ۲۰۰۱ء(۱۸افسانچے)

 ۲۴) آدھا آدمی …….. مشتاق اعظمی (آسنسول) ۲۰۰۱ء(۲افسانچے)

 ۲۵) گھڑی کی سوئیاں ………… نسیم محمد جان(موتیہار) ۲۰۰۲ء(۲۳افسانچے)

 ۲۶) انحراف …….. آنند لہر (جموں ) ۲۰۰۲ء(۱۰افسانچے)

 ۲۷) پڑاؤ …….. شمیم حیدر جونپوری ۲۰۰۲ء

 ۲۸) آگ …….. کوثر صدیقی (بھوپال) ۲۰۰۲ء(۲۶افسانچے)

 ۲۹) اندھے مسافر کا سفر…….. سلیم احمد (اورنگ آباد) ۲۰۰۳ء(۴افسانچے)

 ۳۰) سفر لاسفر ……..علیم صبا نویدی (مدراس) ۲۰۰۵ء(۲۷افسانچے)

 ۳۱) مردم گزیدہ …….. اقبال حسن آزاد (دربھنگہ) ۲۰۰۵ء

 ۳۲) لمحے …….. سالک جمیل براڑ (مالیر کوٹلہ) ۲۰۰۶ء(۶افسانچے)

 ۳۳) جہلم کا تیسرا کنارہ …….. زاہد مختار (اننت ناگ،کشمیر) ۲۰۰۷ء

 ۳۴) پھول کھلنے دو…….. رونق جمال (چھتیس گڑھ) ۲۰۰۷ء

 ۳۵) چنگاریاں …….. محمد بشیر مالیرکوٹلوی (پنجاب) ۲۰۰۷ء

 ۳۶) آ بیل مجھے مار…….. منیر ارمان نسیمی (بھدرک، اڑیسہ) ۲۰۰۸ء(۱۰افسانچے)

 ۳۷) چیختی خاموشی…….. سکندر عرفان (کھنڈوہ) ۲۰۰۸ء(۱۰افسانچے)

 ۳۸) نقار خانہ …….. نوشابہ خاتون (پٹنہ)

 ۳۹) کرچیاں …….. شہناز فاطمہ رشید (ٹونک، راجستھان)

 ۴۰) لکیر …….. سہیل جامعی (دربھنگہ)

 ۴۱) سوکھے پتے…….. سید سرور ظہیر (جرمنی)

 ویسے ان مشترکہ مجموعوں کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن جہاں تک میری رسائی ہوسکی ہے اور جو دستیاب ہوسکے ہیں ان کا احاطہ کیا گیا ہے اور جو مسلسل سعی اور کئی بار رابطے کے باوجود حاصل نہیں ہوسکے ہیں ان کا ذکر کیسے کیا جاتا ہے کہ کچھ لکھنے والوں نے تعاون نہیں کیا(شاید جواب دینا مناسب نہیں سمجھا) اور بعض کے پاس خود ان کے مجموعے کی ایک کاپی بھی موجود نہیں تھی۔ ایسی صورتحال میں تمام مشترکہ مجموعوں کے ذکرسے میں قاصر رہا۔ لہذا ایسے تمام قلمکاروں سے صرف معذرت کرسکتا ہوں کہ اسی سبب ان کے افسانچے بطور نمونہ پیش نہیں کیے جاسکے۔ امید کہ میری مجبوری کو میری کم مائیگی پر محمول کریں گے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://afsanchanama.blog.com/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید