FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

روزے اور حج کے مسائل

(فتاویٰ)

فیض الابرار صدیقی

فہرست مضامین

جمع و ترتیب

اعجاز عبید

فہرست

رمضان المبارک کے احکام و مسائل.. 3

    عمومی. 3

     خصوصی فتاویٰ. 12

    مرد اور عورت کے لئے اعتکاف کا حکم اور آداب.. 21

حج سے متعلق اہم فتاوے.. 23

رمضان المبارک کے احکام و مسائل

عمومی

رمضان کی فرضیت

رمضان کے روزے ہر مکلف مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں اور جو بچے اور بچیاں سات سال کے ہو جائیں اور وہ روزے رکھ سکتے ہوں تو ان کے لئے رمضان کے روزے رکھنا مستحب ہے اور ان کے سرپرست کا یہ فرض ہے کہ طاقت رکھنے کی صورت میں انہیں نماز کی طرح روزے کا بھی حکم دیں۔  اس مسئلہ کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم اللہ کا تقویٰ  اختیار کرو روزے کے چند گنتی کے دن ہیں تو جو شخص تم میں سے مریض ہو یا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔ ( البقرۃ:183۔184)

 اور اسی طرح ارشاد فرمایا: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا  جو لوگوں کو راہ بتلاتا ہے اور اس میں ہدایت کی اور حق کو ناحق سے پہچاننے کی کھلی کھلی نشانیاں ہیں  پس تم میں سے جو شخص یہ مہینہ پائے وہ اس کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں اس کی گنتی پوری کرے۔ (سورۃ البقرۃ:185)

 اور سیدناعبداللہ بن عمرؓ کی حدیث ہے کہ رسولﷺ للہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم  اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکاۃ دینا اور رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔(متفق علیہ)

نیز جبرائیل علیہ السلام نے جب رسول  صلی اللہ علیہ و سلم سے اسلام کے بارے میں سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی شہادت دوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد  صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور استطاعت  ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔

نیز صحیحین میں سیدناابوہریرہؓ سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ نبی محترم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ اجر و ثواب طلب کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ تمام صغیرہ گناہ معاف کر دیئے گئے۔

دوسری حدیث میں آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ آدمی کا ہر عمل اسی کے لئے ہے ایک نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سوگنا تک ہے البتہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اسے اس کا بدلہ دونگا اس نے میرے لئے اپنی شہوت سے کنارہ کشی کی اور کھانا پینا ترک کیا اور روزہ دار کے لئے خوشی کے دو موقع ہیں ایک موقع وہ ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسراموقع وہ ہو گا جب وہ اپنے پروردگارسے ملاقات کرے گا۔  اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔ (متفق علیہ)

نابالغ بچوں کے لیے رمضان کا حکم

بچے اور بچیاں جب سات سال یا اس سے زیادہ کے ہو جائیں تو عادت ڈالنے کے لئے ان سے روزے رکھوائے جائیں اور ان کے سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ نماز کی طرح انہیں روزے کا بھی حکم دیں اور جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں تو پھر ان پر روزہ واجب ہو جاتا ہے  اور اگر دن میں روزہ کے دوران ہی بالغ ہو جائیں تو ان کا یہ روزہ فرض روزہ کی طرف سے کفایت کر جائے گا۔بچی کے بارے میں بھی بالکل یہی حکم ہے البتہ اس کے تعلق سے ایک چوتھی علامت حیض بھی ہے جس سے اس کے بالغ ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔

مسافر کے لیے رمضان کا حکم

مسافرکے لئے سفرمیں مطلقاً روزہ نہ رکھنا بہتر ہے لیکن اگر کوئی شخص بحالت سفرروزہ رکھ لے تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دونوں عمل ثابت ہیں لیکن اگر سخت گرمی ہو اور مشقت زیادہ محسوس ہو تو روزہ نہ رکھنا ہی موکد ہو جاتا ہے اور ایسی صورت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ نبی رحمت  صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سفرمیں روزے سے ہے اور سخت گرمی کی وجہ سے اس کے اوپرسایہ ڈال دیا گیا ہے تو آپؐ نے فرمایا:سفرمیں روزہ رکھنا بھلائی نہیں ہے اور اس لئے بھی ایسی حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے کہ رسولﷺ للہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی دی ہوئی رخصت کو قبول کیا جائے جس طرح اسے یہ بات ناپسند ہے کہ اس کی نافرمانی کی جائے دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں : جس طرح اسے یہ بات  پسند ہے کہ اس کے فرائض پر عمل کیا جائے اس سلسلہ میں گاڑی یا اونٹ یا کشتی یا پانی کے جہازسے سفرکرنے والے میں اور ہوائی جہاز سے سفرکرنے والے میں کوئی فرق نہیں کیونکہ سفرکا لفظ ہر ایک کو شامل ہے اور وہ سفرکی رخصت سے فائدہ اٹھائیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے سفر اور اقامت کے احکام رسول  صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں تا قیامت آنے والوں کے لئے مشروع فرمائے اور اسے اس بات کا بخوبی علم تھا کہ بعد میں حالات میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں گی اور کیسے کیسے وسائل سفرایجاد ہوں گے  اس لئے اگر حالات اور وسائل سفرکے مختلف ہونے سے احکام بھی بدل جاتے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس بات پر متنبہ کیا ہوتا۔

جیسا کہ ارشاد ہے :ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جو ہر چیز کو بیان کرنے والی ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔ (سورۃ النحل:89)

نیز فرمایا : اور اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے تمہاری سواری اور زینت کے لئے پیدا کئے  اور وہ چیزیں پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے۔ (سورۃ النحل:8)

ماہ رمضان کے آغاز کا ثبوت

ماہ رمضان کا شروع ہونا اور ختم ہونا دویا دو سے زیادہ عادل گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے البتہ اس ماہ کے شروع ہونے کے لئے صرف ایک گواہ کی گواہی کا فی ہے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : اگر دو گواہ گواہی دیدیں تو روزہ رکھو اور افطار کرو۔نیزرسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ نے صرف ابن عمر کی شہادت اور ایک موقع پر صرف ایک دیہاتی کی شہادت کی بنیاد پر لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا  اور مزید کوئی شہادت نہیں طلب کی تھی  اس کی حکمت یہ ہے کہ اس ما ہ کے شروع ہونے اور اختتام کو پہنچنے میں دین کے لئے احتیاط کو ملحوظ رکھا جائے جیسا کہ اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے۔

اگرکسی شخص نے رمضان کے شروع یا اختتام کے وقت اکیلے چاند دیکھا اور اس کی شہادت پر عمل نہ کیا گیا تو اہل علم کے صحیح ترین قول کے مطابق وہ عام لوگوں کے ساتھ روزہ رکھے اور افطار کرے اور خود اپنی شہادت پر عمل نہ کرے کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

روزہ اس دن کا ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو  اور افطاراس دن ہے جس دن تم سب افطار کرتے ہو  اور قربانی اس دن ہے جس دن تم سب قربانی کرتے ہو۔

 کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم نے رؤیت ہی پراعتماد کرنے کا حکم دیا ہے اور اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں فرمائی جیساکہ صحیح حدیث میں آپ کا یہ ارشاد ثابت ہے :چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اور اگر ابرکی وجہ سے تم پر چاند ظاہر نہ ہو تو تیس کی گنتی پوری کرو۔ (متفق علیہ)

 اور آپ  صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حدیث بھی ثابت ہے :تم روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو یا (شعبان کی) گنتی پوری کر لو اور افطار نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو یا (رمضان کی) گنتی پوری کر لو

اس معنیٰ کی اور بھی بہت سی احادیث وارد ہیں۔ ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جاننے کے باوجود اختلاف مطلع کی جانب کوئی اشارہ نہیں فرمایا لیکن کچھ اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ مطلع بدل جانے کی صورت میں ہر شہر والوں کے لئے چاند دیکھنے کا  اعتبار ہو گا ان کی دلیل سیدناابن عباسؓ کا یہ اثر ہے کہ وہ مدینہ طیبہ میں تھے اور انہوں نے اہل شام کی رویت کا اعتبار نہ کیا ملک شام والوں نے سیدنا معاویہؓ  کے زمانہ میں جمعہ کی رات رمضان کا چاند دیکھا اور اسی کے مطابق روزہ رکھا لیکن اہل مدینہ نے وہی چاند ہفتہ کی رات دیکھا اور جب کریب نے ابن عباس سے اہل شام کے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے کا تذکرہ کیا تو ابن عباس نے فرمایا کہ ہم نے ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے  اس لئے ہم روزہ رکھیں گے یہاں تک کہ (عید کا) چاند دیکھ لیں یا پھر(رمضان کی ) گنتی پوری کر لیں ابن عباس نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث سے استدلا ل کیا : چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔

جن ممالک میں دن اور رات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پوری ہو جاتی ہے وہاں کے لوگ دن میں روزہ رکھیں گے خواہ دن چھوٹا ہویا بڑا اور یہ ان کے لئے کفایت کر جائے گا بھلے ہی دن چھوٹا ہو۔ البتہ وہ ممالک جہاں دن اور رات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندر پوری نہیں ہوتی بلکہ رات یا دن چھ چھ ماہ تک لمبے ہوتے ہیں وہاں کے لوگ نماز اور روزہ کے وقت کا اندازہ متعین کر کے اسی حساب سے نماز پڑھیں گے اور روزے رکھیں گے جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دجال کے ظاہر ہونے کے ایام کے بارے میں حکم دیا ہے جس کا پہلا دن ایک سال کے اور دوسرادن ایک ماہ کے اور تیسرادن ایک ہفتہ کے برابر ہو گا کہ نماز کے وقت کا اندازہ کر کے نماز پڑھ لیں۔ جن ممالک میں دن اور رات ایک دوسرے سے جدا جدا ہوں بایں طور کہ وہاں فجر طلوع ہوتی ہو اور آفتاب غروب ہوتا ہو البتہ موسم گرما میں دن بہت ہی طویل ہوتا ہو اور اس کے برعکس موسم سرما میں بہت ہی چھوٹا ہوایسے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انہی اوقات میں نماز ادا کریں جو شرعاً متعین اور معروف ہیں کیونکہ اللہ تعالی کا یہ حکم عام ہے :سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو اور فجر کے وقت قرآن پڑھنا بھی یقیناً فجر میں قرآن پڑھنے کے وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ (سورۃ بنی اسرائیل:78)

ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کے اوقات

 ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کے اوقات کی تعین کی تو جن ممالک میں دن اور رات ایک دوسرے سے جدا جدا ہوں اور ان کا مجموعی وقت چوبیس گھنٹے ہو وہاں کے مکلف مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ پورے دن یعنی طلوع فجرسے لے کر آفتاب غروب ہونے تک کھانے پینے اور دیگر تمام مفطرات سے رکے رہیں اور صرف رات میں خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو کھانا  پینا اور بیوی سے ہمبستری وغیرہ حلال جانیں کیونکہ شریعت اسلامیہ ہر ملک کے باشندوں کے لیے عام ہے اور اللہ تعالیٰ کا  ارشاد ہے : اور کھاتے اور پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی کالی دھاری سے تم کو صاف دکھائی دینے لگے۔ (سورۃ البقرۃ:187)

البتہ وہ شخص جو دن کے طویل ہونے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتاہو یا آثار و علامات سے یا تجربہ سے یا کسی معتبر ماہر ڈاکٹر کے بتانے سے یا اپنے گمان غالب سے یہ جانتا ہو کہ روزہ رکھنا اس کی ہلاکت کا یا شدید مرض میں مبتلا ہو جانے کا سبب بن سکتا ہے یا روزہ رکھنے سے اس کا مرض بڑھ جائے گایا اس کی شفا یابی کمزور پڑ جائے گی تو ایسا شخص روزہ نہ رکھے اور ان کے بدلے دوسرے مہینہ میں جس میں اس کے لئے روزہ رکھنا ممکن ہو قضا کر لے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :جو شخص رمضان کا مہینہ پائے وہ اس کا روزہ رکھے اور جو مریض ہویا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔ (سورۃ البقرۃ:185)

نیز اللہ تعالی نے فرمایا:اللہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔(سورۃ البقرۃ:286)

 اور فرمایا : اور اس اللہ نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی حرج و تنگی نہیں رکھی۔(سورۃ الحج:78)

اسی طرح رمضان کے روزے کا مسئلہ بھی ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں دن اور رات جدا جدا ہوں اور ہرچوبیس گھنٹے کے اندر ان کی گردش مکمل ہو جاتی ہو اس ملک کے اوقات کے اعتبارسے ماہ رمضان کی ابتداء اور اس کے اختتام  اوقات سحروافطار نیز طلوع فجر اور غروب آفتاب وغیرہ کے اوقات متعین کر لیں اور روزہ رکھیں۔

سحری کا حکم

موذن کے بارے میں اگر یہ معروف ہو کہ وہ فجر طلوع ہونے کے ساتھ ہی اذان دیتا ہے توایسی صورت میں اس کی اذان سنتے ہی کھانے پینے اور دیگر تمام مفطرات سے رک جانا ضروری ہے لیکن اگر کلینڈر کے اعتبارسے ظن و تخمین سے اذان دی جائے توایسی صورت میں اذان کے دوران کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے آپ نے فرمایا:بلال رات میں اذان دیتے ہیں سوکھاؤ اور پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتومؓ اذان دیں۔

اس حدیث کے آخر میں راوی کہتے ہیں کہ ابن ام مکتومؓ نابینا شخص تھے وہ اسوقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک کہ ان سے یہ نہ کہا جاتا کہ تم نے صبح کر دی۔(متفق علیہ)

اہل ایمان مرد و عورت کے لئے احتیاط اسی میں ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم کی درج ذیل احادیث پر عمل کرتے ہوئے وہ طلوع فجرسے پہلے ہی سحری سے فارغ ہو جائیں آپ نے فرمایا :جو چیز تمہیں شبہ میں ڈالے اسے چھوڑ کر جو شبہ میں ڈالنے والی نہ ہو اسے لے لو۔

نیز فرمایا:جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا۔

لیکن اگر یہ بات متعین ہو کہ موذن کچھ رات باقی رہنے پرہی طلوع فجرسے پہلے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے اذان دیتا ہے جیساکہ بلال کرتے تھے توایسی صورت میں مذکورہ بالا احادیث پر عمل کرتے ہوئے کھانے پینے  میں کوئی حرج نہیں یہاں تک کہ طلوع فجر کے ساتھ اذان دینے والے موذن کی اذان شروع ہو جائے۔

خصوصی فتاویٰ

 حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لئے روزہ کا حکم

حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کا حکم مریض کا حکم ہے  اگر روزہ رکھنا ان کے لئے بھاری ہو تو روزہ نہ رکھیں اور بعد میں جب وہ روزہ رکھنے کے لائق ہو جائیں تو مریض کی طرح وہ بھی چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کر لیں  بعض اہل علم کا یہ خیال ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو ہر دن کے بدلے ایک ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا لیکن یہ ضعیف اور مرجوح قول ہے صحیح بات یہی ہے کہ انہیں بھی مریض اور مسافرکی طرح چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہو گی  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس جو تم میں سے مریض ہویا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔ (سورۃ البقرۃ:184)

سیدناانس بن مالکؓ کی درج ذیل حدیث بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے مسافرسے روزہ کی اور آدھی نماز کی تخفیف کر دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں سے روزہ کی۔(صحیح مسلم وسنن اربعہ)

 عمر رسیدہ مرد و عورت اور ایسا مریض جس کے شفا یاب ہونے کی امید نہ ہواس کے لیے رمضان کا حکم

جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے یا کسی ایسی بیماری کی وجہ سے جس سے شفا یاب ہونے کی امید نہ ہو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو اسے ہر دن کے بدلے بصورت استطاعت ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا جیساکہ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت جن میں ابن عباسؓ بھی ہیں، کا فتویٰ ہے۔

حیض اور نفاس والی عورتوں کے لئے روزہ رکھنے کا حکم

حیض اور نفاس والی عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ حیض اور نفاس کے وقت وہ روزہ توڑ دیں حیض اور نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا جائز نہیں اور نہ ہی ایسی حالت کی نماز اور روزہ صحیح ہے انہیں بعد میں صرف روزوں کی قضا کرنی ہو گی نماز کی نہیں سیدہ عائشہؓ کی حدیث ہے ان سے سوال کیا گیا کہ کیا حائضہ عورت نماز اور روزے کی قضا کرے ؟ تو انہوں نے فرمایا: ہمیں روزوں کی قضا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا اور نماز کی قضا کرنے کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔(متفق علیہ)

سیدہ عائشہؓ کی بیان کردہ حدیث پر علماء کا اتفاق ہے کہ حیض ونفاس والی عورتوں کو صرف روزوں کی قضا کرنی ہے نماز کی نہیں۔  اور یہ اللہ سبحانہ کی طرف سے ایک طرح کی رحمت اور آسانی ہے کیونکہ نماز ایک دن میں پانچ مرتبہ پڑھی جاتی ہے اس لئے نماز کی قضا مذکورہ عورتوں پر بھاری تھی اس کے برخلاف روزہ سال میں صرف ایک بار فرض ہے اور وہ ماہ رمضان کا روزہ ہے  اس لئے اس کے قضا میں کوئی مشقت و دشواری نہیں۔

مریض رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھ سکا اور رمضان کے بعد انتقال کر گیا اس کے روزوں کا حکم

مسلمان اگر رمضان کے بعد بیماری کی حالت میں انتقال کر جائے تواس پر روزوں کی قضا اور مساکین کو کھانا کھلانا نہیں ہے کیونکہ وہ شرعاً معذور ہے اسی طرح مسافراگرحالت سفرمیں یاسفرسے واپس آتے ہی انتقال کر جائے تواس پربھی روزوں کی قضا اور مسکینوں کو کھانا کھلانا نہیں ہے کیونکہ وہ شرعاً  معذور ہے۔  البتہ وہ مریض جس نے شفا یاب ہونے کے بعد روزوں کی قضا کرنے میں سستی برتی پھر انتقال کر گیا یا وہ مسافرجس نے سفرسے واپس آنے کے بعد روزوں کی قضا کرنے میں سستی برتی  پھر انتقال کر گیا ایسے لوگوں کے اقرباء کو چاہئے کہ وہ ان کی طرف سے روزوں کی قضا کریں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :جو شخص انتقال کر گیا اور اس کے ذمہ روزہ تھا تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے۔ (متفق علیہ)

لیکن اگر ان کی طرف سے کوئی روزہ رکھنے والا نہ ہو تو ان کے ترکہ میں سے ان کے ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو نصف صاع جو تقریباً ڈیڑھ کلو ہوتا ہے کھانا دینا ہو گا جیسا کہ عمررسیدہ (بوڑھے ) اور دائمی مریض کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح حیض اور نفاس والی عورتوں سے اگر رمضان کے روزوں کی قضا میں سستی ہوئی اور پھر وہ انتقال کر گئیں تو اگر ان کی طرف سے کوئی روزوں کی قضا کرنے والا نہ ہو تو  ہر روزہ کے بدلے ان کی طرف سے ایک ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا۔

مذکورہ اشخاص میں سے اگر کسی نے کوئی ترکہ بھی نہیں چھوڑا کہ جس سے مسکینوں کو کھانا دیا جا سکے تواس کے ذمہ کچھ نہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔ (سورۃ البقرۃ:286)

 اور فرمایا اللہ سے ڈرو جتنی تم میں طاقت ہو: (التغابن:16)

روزہ دار کے لیے رگ میں اور عضلات (پٹھے ) میں انجکشن لگوانے کا حکم

صحیح بات یہ ہے کہ رگ میں اور عضلات میں انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ غذا کے انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے  اسی طرح چیک اپ کے لئے خون نکلوانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ اس کی شکل سینگی لگوانے کی نہیں ہے ہاں پچھنا لگوانے سے علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق لگوانے والے اور لگانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :سینگی لگانے والے اور لگوانے والے نے روزہ توڑ دیا۔

روزہ دار کے لئے ٹوتھ پیسٹ یا منجن استعمال کرنے نیز کان،  ناک  اور آنکھ کے قطرے (دوائیں) ڈالنے کا حکم

پیسٹ (منجن) کے ذریعہ دانت صاف کرنے سے مسواک کی طرح روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ روزہ دارکواس کا سخت خیال رکھنا چاہئے کہ منجن کا کچھ حصہ پیٹ کے اندر نہ جانے پائے لیکن غیر ارادی طور پر اگر کچھ اندر چلا بھی جائے توا س پر قضا نہیں ہے۔

اسی طرح آنکھ اور کان کے قطرے ڈالنے سے بھی علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق روزہ نہیں ٹوٹتا اور اگر ان قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے تو اس روزہ کی قضا کر لینا احوط(احتیاط)ہے واجب نہیں کیونکہ آنکھ اور کان کھانے پینے کے راستے نہیں ہیں البتہ ناک کے قطرے استعمال کرنا جائز نہیں کیونکہ ناک کھانے پینے کا راستہ شمار ہوتی ہے اور اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :  اور ناک میں (وضو کے وقت) خوب اچھی طرح پانی چڑھاؤ الا یہ کہ تم روزہ سے ہو(تو پھر اس سے اجتناب کرو)

لہٰذا مذکورہ حدیث نیز اس معنی کی دیگر احادیث کی روشنی میں اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک کے قطرے استعمال کئے اور حلق میں اس کا اثرمحسوس ہوا تو اس روزہ کی قضا کرنی واجب ہے۔

جس شخص نے روزہ کی حالت میں بھول کر کچھ کھا پی لیا اس کا حکم

ایسے شخص پر کچھ نہیں اور اس کا روزہ صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اے ہمارے رب! ہم اگر بھول گئے یا غلطی کر بیٹھے تو ہماری گرفت نہ کر۔ (سورۃ البقرۃ:286)

اس آیت کی تفسیرمیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث ہے کہ بندے کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :میں نے تمہاری بات قبول کر لی  نیز ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :جس نے روزہ کی حالت میں بھول کر بیوی سے جماع کر لیا تو مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیث شریف کی روشنی میں علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق اس کا روزہ صحیح ہے نیزرسول  صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے :جس نے رمضان میں بھول کر روزہ توڑ دیا تواس پرنہ قضا ہے نہ کفارہ اس حدیث کو امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔  اس حدیث کے الفاظ جماع اور دیگر تمام مفطرات کو شامل ہیں اگر روزہ دار نے بھول کرایسا کیا ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا فضل واحسان ہے۔

تارک نماز کے روزہ رکھنے کا حکم

صحیح بات یہ ہے کہ عمداً نماز ترک کرنے والا کافر ہے لہٰذا جب تک وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ نہ کر لے اس کا روزہ اور اسی طرح دیگر عبادات درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا  ارشاد ہے اور اگر انہوں نے شرک کیا ہوتا تو وہ سب اکارت (ضائع) ہو جاتا جو وہ کرتے تھے :(سورۃ الانعام:88)

نیزاس معنیٰ کی دیگر آیات اور احادیث بھی تارک نماز کے اعمال اکارت ہو جانے کی دلیل ہیں۔

لیکن کچھ اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ تارک نماز اگر نماز کی فرضیت کا معترف ہے لیکن سستی اور لاپروائی کی وجہ سے نماز چھوڑتا ہے تواس کا روزہ اور دیگر عبادات برباد نہیں ہوں گی یعنی عمداً نماز ترک کرنے والا کافر ہے  بھلے ہی وہ نماز کی فرضیت کا معترف ہو کیونکہ اس قول پر بے شمار دلائل موجود ہیں انہیں دلائل میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے :بندہ کے درمیان اور کفر و شرک کے درمیان بس نماز چھوڑنے کا فرق ہے اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں جابر بن عبد اللہ سے روایت کیا ہے۔

 اور آپ  صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث بھی :ہمارے اور ان کافروں کے درمیان جو معاہدہ ہے وہ نماز ہے تو جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا اس حدیث کو امام احمد نیز ائمہ اربعہ (ابوداؤد،نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ ) نے بریدہ بن حصین اسلمیؓ سے روایت کیا ہے۔

 رمضان کے روزہ کی فرضیت کا انکار کئے بغیر روزہ چھوڑنے کا حکم

جب کسی نے شرعی عذر کے بغیر عمداً رمضان کا روزہ چھوڑ دیا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا اس کی وجہ سے وہ علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق کافر قرار نہیں دیا جائے گا البتہ اس کو چھوڑے ہوئے روزے کی قضا کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی ہو گی بے شمار دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ کی فرضیت کا انکار کئے بغیر محض سستی ولا پروائی کی بنا پر اگر کوئی شخص رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو اس کی وجہ سے وہ کافر شمار نہیں ہو گا۔

روزہ دار کے جسم سے اگر خون نکل جائے  تو اس کا حکم

روزہ دار کے جسم سے اگر خون نکل جائے مثلاً نکسیرپھوٹ جائے یا استحاضہ ہو جائے تو اس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا البتہ حیض اور نفاس آنے سے نیز سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، بوقت ضرورت چیک اپ کے لئے خون نکلوانے میں کوئی حرج نہیں اس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا البتہ روزہ کی حالت میں خون کا صدقہ کرنے کی بابت احتیاط اسی میں ہے کہ یہ کا م روزہ افطار کرنے کے بعد کیا جائے کیونکہ اس صورت میں عموماً خون زیادہ نکالا جاتا ہے اس لئے یہ پچھنا لگوانے کے مشابہ ہے۔

 رمضان کے روزہ کی حالت میں بیوی کے قریب جانا اور اس کا حکم

جس نے رمضان میں روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کر لیا اور اس پر روزہ فرض تھا تو اس پر کفارۂ  ظہار واجب ہے ساتھ ہی اسے اس روزہ کی قضا نیز جو غلطی سرزد ہوئی ہے اس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی ہو گی۔ لیکن اگر وہ سفرمیں تھا یا کسی ایسے مرض کا شکار تھا جس سے اس کے لئے روزہ نہ رکھنا درست ہے تو ایسی صورت میں اسے صرف اس روزہ کی قضا کرنی ہو گی کوئی کفارہ وغیرہ لازم نہیں ہو گا کیونکہ مسافر اور مریض کے لئے روزہ توڑ دینا جائز ہے خواہ وہ جماع (ہمبستری) کے ذریعہ ہو یا کسی اور چیز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفرپرہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر لے۔  (سورۃ البقرۃ:184)

اس سلسلہ میں عورت کا حکم بھی وہی ہے جو مرد کا حکم ہے  یعنی اگر وہ فرض روزہ سے تھی تواس پر کفارہ اور قضا دونوں واجب ہیں اور اگر سفرمیں تھی یا کسی ایسے مرض کا شکار تھی جس سے اس کے لئے روزہ رکھنا دشوار تھا توایسی صورت میں اس پر کفارہ نہیں  بلکہ صرف اس روزہ کی قضا لازم ہے۔

تنفس ( دمہ) وغیرہ کے مریض کے لئے روزہ کی حالت میں منہ میں اسپرے استعمال کرنے کا حکم

مریض اگر اسپرے استعمال کرنے کے لئے مجبور ہو تو جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اللہ نے تمہارے لئے بیان کر دیا ہے جو اس نے تم پر حرام کیا ہے  ہاں مگر وہ چیزیں جن کے لئے تم مجبور ہو جاؤ۔ (سورۃ الانعام:119)

 اور اس لئے بھی اسپرے کا استعمال جائز ہے کہ یہ کھانے پینے کے قبیل سے نہیں بلکہ چیک اپ کے لئے خون نکلوانے اور غیر مغذی انجکشن لگوانے کے زیادہ مشابہ ہے۔

روزہ کی حالت میں کسی کو خود بخود قے ہو جائے تو اس کا حکم

روزہ کی حالت میں خودبخود قے ہو جانے سے روزہ کی قضا نہیں لیکن اگر کسی نے عمداً قے کی ہے تو اسے اس روزہ کی قضا کرنی ہو گی کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : جسے خود بخود قے ہو جائے اس پر قضا نہیں اور جس نے عمداً قے کی اس پر قضا ہے۔

اس حدیث کو امام احمد نیزسنن اربعہ (ابوداؤد،نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ ) نے ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے۔

گردہ کے مریض کے لئے روزہ کی حالت میں خون تبدیل کرانے کا حکم

مسؤلہ صورت میں روزہ کی قضا دینی ہو گی کیونکہ اس سے مریض کو تازہ خون مل جاتا ہے خون کے ساتھ ہی اگر اسے اور کوئی مادہ دے دیا گیا تو وہ ایک دوسرا مفطر (روزہ توڑنے والا) شمار ہو گا۔

مرد اور عورت کے لئے اعتکاف کا حکم اور آداب

اعتکاف مرد اور عورت دونوں کے لئے سنت ہے  کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ رمضان میں اعتکاف فرماتے تھے اور آخر زندگی میں صرف آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے آپ کے ساتھ بعض ازواج مطہرات بھی اعتکاف کرتی تھیں اور آپ کی وفات کے بعد بھی انہوں نے اعتکاف کیا۔اعتکاف کرنے کی جگہ وہ مساجد ہیں جن میں با جماعت نماز قائم کی جاتی ہو اعتکاف کے دوران اگر جمعہ پڑے تو افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کیا جائے اعتکاف کرنے کے لئے علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق کوئی متعین وقت نہیں اور نہ ہی اس کے لئے روزہ رکھنا شرط ہے البتہ روزہ کی حالت میں اعتکاف افضل ہے۔ سنت یہ ہے کہ معتکف نے جس وقت سے اعتکاف کرنے کی نیت کی ہے اسوقت وہ اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ ) میں داخل ہو اور جتنی دیر کے لئے اعتکاف کی نیت کی تھی وہ وقت پورا ہونے پر باہر آ جائے۔  کوئی ضرورت پیش آ جائے تو اعتکاف توڑ بھی سکتا ہے کیونکہ یہ سنت ہے  اس کا پورا کرنا ضروری نہیں البتہ اس صورت میں اعتکاف پورا کرنا ضروری ہے جب اس کی نذر مانی گئی ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع میں رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا مستحب ہے اور جو شخص اس عشرہ میں اعتکاف کی نیت کرے اس کے لئے مستحب یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا کرتے ہوئے اکیسویں رمضان کو فجر کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف میں داخل ہو اور آخری عشرہ مکمل ہونے پر باہر آئے۔  درمیان میں اگر وہ اعتکاف توڑ دے تو اسمیں کوئی حرج نہیں الا یہ کہ اس نے اعتکاف کرنے کی نذر مانی ہو تو اس صورت میں اعتکاف پورا کرنا ضروری ہے جیساکہ اوپر مذکور ہوا افضل یہ ہے کہ معتکف مسجد کے اندر اپنے لئے کوئی مخصوص جگہ بنا لے تاکہ ضرورت محسوس ہونے پراس میں کچھ آرام کرسکے۔  معتکف کو کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہئے اور ذکر و اذکار اور دعا واستغفارمیں مشغول رہنا چاہئے نیز غیر ممنوع اوقات میں بکثرت نفل نمازیں پڑھنی چاہئیں۔ معتکف کے بعض احباب و اقارب اگر اس سے ملنے کے لئے آئیں اور یہ ان کے ساتھ گفتگو کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اعتکاف کی حالت میں بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آپ سے ملنے کے لئے آتیں اور آپ کے ساتھ گفتگو کرتی تھیں ایک مرتبہ سیدہ صفیہؓ آپ سے ملنے کے لئے آئیں اس وقت آپ رمضان میں اعتکاف میں تھے  جب وہ واپس جانے کے لئے کھڑی ہوئیں تو آپ انہیں رخصت کرنے کے لئے مسجد کے دروازہ تک تشریف لے گئے۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ معتکف سے ملنے اور اس کے ساتھ گفتگو کر لینے میں کوئی حرج نہیں نیزاس واقعہ میں مذکور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فعل آپ کے انتہائی تواضع اور ازواج مطہرات کے ساتھ آپ کے حسن معاشرت کی دلیل ہے۔

٭٭٭

حج سے متعلق اہم فتاوے

سوال 1: حج کی تین اقسام کون کون سی ہیں اور ہر ایک کی ادائے گی کا طریقہ کیا ہے ؟ نیز ان تین اقسام میں سب سے افضل حج کون سا ہے ؟

جواب :اہل علم نے حج کی تین قسمیں بیان کی ہیں،  اور ان میں سے ہرقسم رسول اللہ ﷺ کی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

پہلی قسم :یہ ہے کہ صرف عمرہ کا احرام باندھے،  یعنی عمرہ کی نیت کرے اور (اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً ) یا (لَبَّیْکَ عُمْرَۃً) کہہ کر تلبیہ پکارے۔ مشروع یہ ہے کہ غسل کرنے خوشبو لگانے اور ضرورت ہو تو مونچھ کاٹنے ناخن تراشنے اور بغل کے اور زیر ناف کے بال صاف کرنے نیز اگر احرام باندھنے والا مرد ہو تو سلے ہوئے کپڑے اتار کر احرام کے کپڑے چادر اور تہبند پہننے کے بعد نیت کی جائے اور مذکورہ کلمات کہے جائیں یہی افضل ہے۔  عورت کے لئے احرام کے تعلق سے کوئی خاص لباس نہیں بلکہ وہ جس لباس میں چاہے احرام باندھ سکتی ہے ہاں افضل یہ ہے کہ وہ لباس جاذب نظرحسین و جمیل اور دیکھنے والوں کے لئے باعث فتنہ نہ ہو یہی اس کے لئے افضل ہے۔

اگر محرم نے مشروط احرام باندھا، یعنی احرام باندھتے وقت اس نے یہ کہا کہ،  اگر مجھے کوئی عذر پیش آ گیا تو جس جگہ عذر پیش آئے گا میں وہیں حلال ہو جاؤں گا، یا اسی قسم کے کوئی اور الفاظ اس نے کہے،  اور اسے واقعتاً کوئی ایسا عذر پیش آ گیا جو اتمام حج سے مانع ہے، تو وہ حلال ہو جائے گا اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہو گی کیونکہ ضباعہ بنت زبیر بن عبد المطلب نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے بیمار ہونے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا:، حج کرو اور مشروط احرام باندھو کہ مجھے جہاں کوئی عذر پیش آ جائے گا میں وہیں حلال ہو جاؤں گی، (متفق علیہ)

لہذا اگر کوئی عورت عمرہ کے لئے مکہ آئے اور اسی طرح مشروط احرام باندھے،  پھراسے حیض آ جائے اور ساتھ والے قافلہ کے انتظار نہ کرنے کی وجہ سے اپنے پاک ہونے تک اس کا مکہ میں قیام کرنا مشکل ہو، تواس کے لئے یہ عذر تصور کیا جائے گا اور وہ حلال ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی مرد کو کوئی مرض لاحق ہو گیا جو اتمام عمرہ سے مانع ہے،  یا اس کے علاوہ کوئی بھی عارضہ لاحق ہو گیا جس کے سبب وہ اپنا عمرہ مکمل نہیں کرسکتا، تو وہ حلال ہو جائے گا۔  یہی حکم حج کا بھی ہے جو حج کے مذکورہ بالا اقسام میں سے دوسری قسم ہے۔

دوسری قسم: یہ ہے کہ صرف حج کا احرام باندھے، یعنی حج کی نیت کرے اور (اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ حَجًّا) یا (لَبَّیْکَ حَجًّا) کے الفاظ کے ساتھ تلبیہ پکارے، یہاں بھی عمرہ کی طرح مشروع کاموں مثلاً غسل کرنے خوشبو لگانے اور سلے ہوئے کپڑے اتار کر احرام کے کپڑے پہننے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد یہ الفاظ اپنی زبان سے ادا کرے گا جیساکہ عمرہ کے بیان میں بیان ہوچکا ہے یہی افضل ہے۔  اگر ضرورت ہو تو جس طرح عمرہ کے لئے مشروط احرام باندھنا مشروع ہے اسی طرح حج کے لئے احرام باندھتے وقت بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ،  اگر مجھے کوئی ایسا عذر پیش آ گیا جو اتمام حج سے مانع ہو تو جس جگہ عذر پیش آیا میں تو وہیں حلال ہو جاؤں گا۔

احرام کا میقات سے باندھنا واجب ہے، احرام باندھے بغیر میقات سے آگے نہیں جا سکتا، لہٰذا اگر کوئی نجد سے یا طائف سے یا مشرق کی طرف سے آئے تو اسے طائف کی میقات سیل (وادی قرن) سے احرام باندھنا ہو گا، اگر کوئی شخص میقات سے پہلے احرام باندھ لے تو یہ کفایت کر جائے گا لیکن میقات سے پہلے احرام نہ باندھنا افضل ہے، یعنی سنت یہی ہے کہ احرام پہلے نہ باندھے، بلکہ میقات پہنچنے تک موخر رکھے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے میقات ہی سے احرام باندھا تھا۔کوئی شخص اگر اپنے گھر ہی سے غسل کر کے،  خوشبو لگا کر اور دیگر مشروع کام مثلاً مونچھ کاٹنے وغیرہ سے فارغ ہو کر نکلے،  یا موقع پا کرراستہ میں ان کاموں سے فارغ ہو جائے،  تو یہ کفایت کر جائے گا بشرطیکہ احرام باندھنے کا وقت قریب ہو۔

جمہور اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ احرام باندھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے ان کی دلیل رسول اللہ کی یہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا:میرے پاس میرے رب کا فرستادہ (فرشتہ) آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو : حج کے ساتھ عمرہ بھی۔ یعنی حج اور عمرہ کا ایک ساتھ تلبیہ پکارو۔( بخاری)

یہ واقعہ وادی ذوالحلیفہ میں پیش آیا تھا۔نیز رسول اللہﷺ نے ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد احرام باندھا تھا اور یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ نماز کے بعد احرام باندھنا افضل ہے۔  مذکورہ قول درست ہے،  لیکن واضح رہے کہ احرام کی دو رکعت نماز کی مشروعیت پر کوئی واضح دلیل یا صحیح حدیث موجود نہیں،  اس لئے اگر کوئی شخص دو رکعت نماز پڑھ کر احرام باندھے تو اسمیں کوئی حرج نہیں،  اور اگر وضو کر کے دو رکعت تحیۃ الوضوء پڑھ کر احرام باندھ لے تو بھی کافی ہے۔

تیسری قسم :یہ ہے کہ حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھے، یعنی حج اور عمرہ کی ایک ساتھ نیت کرے اور (اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً وَّحَجًّا) یا (حَجًّاوَّعُمْرَۃً) کہ کر تلبیہ پکارے، یا میقات پر صرف عمرہ کا تلبیہ پکارے،  پھرراستہ میں عمرہ کے ساتھ حج بھی شامل کر لے اور طواف شروع کرنے سے پہلے پہلے حج کا تلبیہ بھی پکار لے۔  اور حج کی یہ تیسری قسم، حج قران،  کہلاتی ہے،  جسکا مطلب حج اور عمرہ کا ایک ساتھ ادا کرنا ہے،  نبی کریمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر،حج قران، ہی کا احرام باندھا تھا، اور عمرہ اور حج کا ایک ساتھ تلبیہ پکارا تھا،  اور ہدی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے، جیساکہ سیدنا انس اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم وغیرہم کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔  اس لئے قربانی کے جانورساتھ لانے والے کے لئے، حج قران، ہی افضل ہے،  البتہ جو شخص ہدی ساتھ نہ لائے اس کے لئے، حج تمتع، (یعنی عمرہ سے حلال ہونے کے بعد حج کا احرام باندھنا) افضل ہے،  نبیﷺ کے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے اور طواف اور سعی سے فارغ ہونے کے بعد یہی بات طے پائی، اور جن صحابہ نے حج قران یا حج افراد کا احرام باندھا تھا آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام کو عمرہ سے بدل دیں،  چنانچہ انہوں نے طواف کیا، سعی کی، بال کٹوائے اور پھر حلال ہو گئے۔  اس سے ثابت ہوا کہ قربانی کا جانورساتھ نہ لانے والے کے لئے، حج تمتع،  افضل ہے۔

حج قران یا افراد کا احرام باندھنے والا جب اپنے احرام کو عمرہ سے بدل دے تو وہ متمتع شمار ہو گا، جس شخص نے حج افراد یا قران کی نیت کی ہو اور اس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو تو اس کے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ طواف اور سعی کر کے اور بال کٹوا کر حلال ہو جائے اور متمتع بن جائے،  جیساکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبیﷺ کے حکم سے کیا تھا، نیز آپﷺ نے فرمایا تھا:، جو بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی وہ اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو قربانی کا جانور میں ساتھ نہ لاتا اور اپنے احرام کو عمرہ سے بدل دیتا۔

عمرہ کرنے والا اگر حج کا ارادہ نہیں رکھتا تو وہ صرف معتمر کہلائے گا، اسے متمتع بھی کہا جا سکتا ہے جیسا کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کلام میں استعمال ہوا ہے، مگر فقہاء کی اصطلاح میں ایسا شخص جو موسم حج مثلاً شوال یا ذی القعدہ میں مکہ آئے اور عمرہ کر کے وطن واپس چلا جائے معتمر ہی کہلائے گا، ہاں اگر وہ حج کی نیت کر کے مکہ میں ٹھہر جائے تو متمتع شمار ہو گا، اسی طرح جو شخص رمضان میں یا کسی اور مہینہ میں عمرہ کے لئے مکہ آئے وہ بھی معتمر کہلائے گا،عمرہ کے معنی بیت اللہ کی زیارت کے ہیں۔

حاجی اس صورت میں متمتع کہلائے گا جب وہ رمضان کے بعد موسم حج میں عمرہ کرے اور پھر حج کی نیت سے مکہ میں ٹھہرا رہے اور حج کا وقت ہونے پر حج کرے،  جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اسی طرح جس نے حج قران کا احرام باندھا اور احرام کو فسخ کئے بغیر حج کے لئے احرام ہی کی حالت میں باقی رہا، وہ بھی متمتع کہلائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ضمن میں شامل ہے :

فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہدْیِ

پس جو شخص عمرہ کو حج سے ملا کر تمتع کرنا چاہے تو جو میسرآئے قربانی کرے۔ (البقرہ:196)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قارن کو متمتع کہا جا سکتا ہے،  نبی کریم ﷺ کے اصحاب کے یہاں یہی بات معروف بھی تھی،  چنانچہ ابن عمرؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کو حج سے ملا کر تمتع فرمایا ہے،  حالانکہ آپ نے حج قران کا احرام باندھا تھا۔ لیکن فقہاء کی اصطلاح میں متمتع وہ شخص ہے جو عمرہ کر کے حلال ہو جائے، پھر مثلاً 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر حج کرے،  اور اگر حج اور عمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھے اور درمیان میں عمرہ کر کے حلال نہ ہو تو قارن کہلائے گا،  لیکن اگر مطلب اور حکم واضح ہو تو اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں۔

قارن اور متمتع دونوں کے احکام ایک ہیں، چنانچہ دونوں کو قربانی قربان کرنی ہو گی اور ہدی میسرنہ ہونے کی صورت میں تین دن ایام حج میں اور سات دن وطن واپس ہو کر( کل دس دن ) روزہ رکھنا ہو گا، اسی طرح ہر ایک کو متمتع بھی کہا جا سکتا ہے

سوال 2: ایک شخص نے حج کے کسی مہینہ مثلاً ً ذی القعدہ میں عمرہ کیا، پھر مکہ سے مدینہ چلا گیا اور حج کا وقت آنے تک وہیں ٹھہرا رہا، کیا ایسے شخص کے لئے حج تمتع کرنا ضروری ہے، یا اسے اختیار ہے کہ حج کی تین قسموں میں سے جو چاہے ادا کر لے ؟

جواب :ایسے شخص کے لئے حج تمتع کرنا ضروری نہیں اب اگر وہ چاہے کہ دوسرا عمرہ کر کے متمتع ہو جائے۔  البتہ اگر اس نے مدینہ منورہ سے (احرام باندھ کر) عمرہ ادا کیا، پھراس کے بعد حج کیا، تو تمام اہل علم کے نزدیک اس پردم واجب ہو گا اور وہ متمتع مانا جائے گا۔  لیکن اگر وہ چاہے کہ صرف حج کر کے واپس ہو جائے توایسا بھی کرسکتا ہے،  لیکن اس صورت میں یہ اختلاف ہے کہ وہ (قربانی) قربان کرے گا یا نہیں ؟ ویسے صحیح یہی ہے کہ اسے ہدی قربان کرنی ہو گی، کیونکہ صحیح قول کے مطابق عمرہ کے بعد مدینہ جانے سے حج تمتع منقطع نہیں ہوتا۔

سوال3: جو شخص حج یا عمرہ کا تلبیہ پکارنے کے بعد میقات سے آگے بڑھ گیا اور کوئی شرط نہیں باندھی،  پھراسے کوئی عارضہ مثلاً مرض وغیرہ لاحق ہو گیا جو حج یا عمرہ کی ادائے گی سے مانع ہے،  توایسی صورت میں اسے کیا کرنا چاہئے ؟

جواب : ایسا شخص محصر مانا جائے گا، اگراسنے احرام کے وقت کوئی شرط نہیں باندھی تھی، پھراسے کوئی عارضہ پیش آ گیا جو حج یا عمرہ کی تکمیل سے مانع ہے، تو اگر وہ اس امید پر رک سکتا ہو کہ شاید یہ عارضہ دور ہو جائے اور وہ اپنا حج یا عمرہ مکمل کر لے تو رکا رہے گا،  اور اگر اس کے لئے رکنا ممکن نہ ہو تو صحیح مسلک کے مطابق وہ محصر شمار ہو گا، اور محصر کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ فَإِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہدْیِ ﴾ (سورۃ البقرۃ:     (196 اگر تم راستے میں روک دئے جاؤ تو جو ہدی میسرہو قربانی کرو۔

صحیح قو ل کے مطابق، احصار، دشمن کے ذریعہ بھی ہوتا ہے اور اس کے علاوہ بھی، لہذا جو شخص راستہ میں روک دیا جائے وہ ہدی قربان کرے اور حلق یا قصر کروا کر حلال ہو جائے،  محصر کا یہی حکم ہے کہ وہ جس جگہ روکا گیا ہے وہیں ایک جانور قربان کرے،  خواہ وہ حدود حرم میں ہویا اس سے باہر، اور اس کا گوشت وہیں کے فقراء میں تقسیم کر دے،  اگر وہاں فقراء نہ ہوں تو وہ گوشت حرم کے فقراء کو یا بعض دیہات کے فقراء کو پہنچا دے،  اور پھر حلق یا قصر کروا کر حلال ہو جائے،  اور اگر قربانی کا جانورمیسرنہ ہو تو دس دن روزہ رکھے، پھر حلق یا قصر کروائے اور حلال ہو جائے۔

سوال 4:ایک شخص نے میقات سے احرام باندھا لیکن تلبیہ میں، لبیک عمرۃمتمتعا بہا الی الحج، کہنا بھول گیا، تو کیا حج تمتع پورا کرے گا ؟ اور عمرہ سے حلال ہونے کے بعد جب مکہ سے حج کا احرام باندھے تو اسے کیا کرنا ہو گا؟

جواب :مذکورہ شخص نے احرام باندھتے وقت اگر عمرہ کی نیت کی تھی لیکن تلبیہ پکارنا بھول گیا، حالانکہ اس کی نیت عمرہ کی تھی، تو وہ تلبیہ پکارنے والوں کے حکم میں ہے،  چنانچہ وہ طواف اور سعی کرے،  اور قصر کرائے اور پھر حلال ہو جائے،  راستہ میں اسے تلبیہ پکارنا چاہئے، لیکن اگر نہیں پکارا تواس پر کوئی چیز واجب نہیں، کیونکہ تلبیہ پکارنا سنت موکدہ ہے،  لہذا وہ طواف کرے،  سعی کرے،  قصر کرائے اور اسے عمرہ بنا لے، کیونکہ اس کی نیت عمرہ کی تھی۔لیکن اگر اس نے احرام کے وقت حج کی نیت کی تھی،  اور وقت میں گنجائش ہو تو افضل یہ ہے کہ حج کو فسخ کر کے عمرہ بنا لے اور طواف وسعی کرے،  پھر قصر کرا کے حلال ہو جائے اور اس کا حکم حج تمتع کرنے والوں کا حکم ہو گا۔

سوال5:کسی شخص نے اپنی ماں کی طرف سے حج کیا،  اور میقات پراس نے حج کا تلبیہ بھی پکارا، لیکن ماں کی طرف سے نہیں پکارا، اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب : مذکور شخص کا ارادہ جب اپنی ماں کی طرف سے حج کرنے کا تھا، لیکن تلبیہ کے وقت کہنا بھول گیا تو یہ حج ماں کا حج شمار ہو گا،کیونکہ نیت ہی زیادہ قوی مانی جاتی ہے، رسول اللہ کا ارشاد ہے :،یقیناً اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔

لہٰذا جب اس کے سفرکا مقصد ماں یا باپ کی طرف سے حج کرنا تھا، پھر احرام کے وقت ماں یا باپ کی طرف سے تلبیہ پکارنا بھول گیا، تو ماں یا باپ یا جس کی طرف سے بھی حج کرنے کی نیت تھی اسی کا حج شمار ہو گا۔

سوال 6:عورت کے لئے موزے اور دستانے میں احرام باندھنا کیساہے ؟ اور جس کپڑے میں وہ احرام باندھ چکی ہے کیا اس کا نکالنا جائز ہے ؟

جواب:عورت کا موزے یا جوتے میں احرام باندھنا افضل اور زیادہ پردے کا ذریعہ ہے اور اگر کشادہ کپڑے میں احرام باندھ لے تو بھی کافی ہے،  موزے پہن کر احرام باندھنے کے بعد اگر موزے اتار دے تواسمیں کوئی حرج نہیں،  جس طرح کہ مرد جوتے پہن کر احرام باندھے،  پھر جب چاہے جوتے اتار دے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

البتہ عورت دستانے میں حرام نہیں باندھ سکتی، کیونکہ محرم عورت کودستانے استعمال کرنے سے منع کیا گیا، اسی طرح اس کے لئے چہرے پر نقاب جیسے برقع وغیرہ ڈالنا بھی درست نہیں،  کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، ہاں غیر محرم (اجنبی ) مردوں کی موجودگی میں نیز طواف اور سعی کے دوران اس کے لئے چہرے پر اوڑھنی ڈالنا یا پردہ کرنا ضروری ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ سوارہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے،  پس جب سوارہمارے سامنے پہنچتے تو ہم میں سے ہر عورت اپنے سرسے پردہ گرا کر چہرہ ڈھک لیتی،  اور جب وہ ہمارے پاس سے گزر جاتے تو ہم اپنے چہرے کھول لیتیں۔  (سنن ابی داؤد وسنن ابن ماجہ)

مرد کے لئے احرام کی حالت میں خف (موزے ) کا پہننا جائز ہے، بھلے وہ ٹخنوں کے نیچے سے کٹے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں،  جمہور کے نزدیک موزوں کا ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دینا ضروری ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ جوتے نہ ملنے کی صورت میں خفین (موزوں ) کا ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا ضروری نہیں،  کیونکہ رسول اللہﷺ نے عرفہ میں لوگوں کو خطبہ دیا تو ارشاد فرمایا : جو تہبند نہ پائے وہ پائجامہ پہن لے،  اور جو جوتے نہ پائے وہ خف (موزے ) پہن لے۔ (متفق علیہ)

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنے کا حکم نہیں دیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موزوں کو کاٹنے والا حکم منسوخ ہے۔

سوال 7: کیا احرام کی نیت زبان سے بول کرکی جائے گی؟ اور اگر کوئی شخص دوسرے کی طرف سے حج کر رہا ہو توکس طرح نیت کرے ؟

جواب:نیت کی جگہ دل ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے دل میں یہ نیت کرے کہ وہ فلاں شخص کی طرف سے یا اپنے بھائی کی طرف سے، یا فلاں بن فلاں کی طرف سے حج کر رہا ہے،  اس کے ساتھ ہی زبان سے (اللہم لبیک حجا عن فلان )یا (لَبیک عمرۃ عن فلاں ) کہنا مستحب ہے، یعنی اپنے باپ یا جس فلاں کی طرف سے حج کی نیت ہو اس کا نام لے تاکہ دل کی نیت کو الفاظ کے ذریعہ موکد کر دے،  کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حج اور عمرہ کے الفاظ کے ساتھ نیت کی ہے،  اس لئے آپﷺ کی اتباع میں زبان سے حج اور عمرہ کی نیت کرنا مشروع ہے،  اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کے سکھلائے ہوئے طریقہ کے مطابق زبان سے نیت کی ہے، چنانچہ وہ بلند آوازسے تلبیہ پکارتے تھے سنت یہی ہے لیکن اگر کوئی شخص بلند آواز سے نیت نہ کرے اور صرف دل کی نیت پر اکتفا کر لے تو یہ بھی کافی ہے۔

سوال 8:جو شخص کسی کا م سے مکہ آئے اور پھراسے حج کرنے کا موقع مل جائے، تو کیا وہ اپنی قیام گاہ سے احرام باندھے گا یا اسے حدود حرم سے باہر جانا ہو گا؟

جواب :جو شخص کسی ضرورت،  مثلاً کسی قریبی سے ملاقات کرنے یا کسی مریض کی تیمار داری کرنے یا تجارت کی غرض سے مکہ آئے اور اس کا حج یا عمرہ کرنے کا ارادہ نہ رہا ہو، پھراسے موقع مل جائے اور وہ حج یا عمرہ کرنا چاہے تو جس جگہ مقیم ہے وہیں سے حج کا احرام باندھے گا، خواہ مکہ میں مقیم ہو یا مکہ کے مضافات میں۔  اور جب عمرہ کرنا چاہے تو اس کے لئے سنت بلکہ واجب ہے کہ حدود حرم سے باہر مقام تنعیم یا  جعرانہ یا کہیں اور جا کر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھے،  کیونکہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمرہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ مقام تنعیم جا کر وہاں سے احرام باندھیں،  اور ان کے بھائی عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ وہ انہیں حدود حرم سے باہر مقام تنعیم یا کہیں اور لے جائیں۔  یہ مسئلہ اس شخص کے لئے ہے جو عمرہ کرنا چاہے۔  اور جو حج کرنا چاہے وہ جس جگہ مقیم ہے وہیں سے احرام باندھ کر تلبیہ پکارنا شروع کر دے گا، خواہ وہ حدود حرم کے اندر مقیم ہو یا اس سے باہر جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔

سوال 9:کیا احرام باندھتے وقت دو رکعت نماز پڑھنی واجب ہے ؟

جواب :احرام کے لئے دو رکعت نماز پڑھنا واجب نہیں،  بلکہ اس کے مستحب ہونے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے،  چنانچہ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ احرام باندھتے وقت دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے، یعنی وضو کر کے اور دو رکعت نماز پڑھے، پھر احرام باندھے،  ان کی دلیل یہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پررسول ﷺ نے نماز کے بعد احرام باندھا تھا،یعنی آپ نے ظہر کی نماز ادا فرمائی اور اس کے بعد احرام باندھا، نیز آپ نے فرمایا :،میرے پاس میرے رب کا فرستادہ (فرشتہ ) آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: حج کے ساتھ عمرہ بھی،  یعنی حج اور عمرہ کا ایک ساتھ تلبیہ پکارو۔  مذکورہ واقعہ اور حدیث احرام کی دو رکعت نماز کے مشروع ہونے کی دلیل ہے۔

 اور بعض دیگر اہل علم کا خیال یہ ہے کہ احرام کی دو رکعت نماز کے بارے میں کوئی صریح دلیل موجود نہیں،  کیونکہ مذکورہ بالا حدیث میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد کہ،  میرے رب کا فرستادہ(فرشتہ) آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھو، یہ احرام کی دو رکعت نماز کے بارے میں صریح دلیل نہیں،  بلکہ اس میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ فرض نمازوں میں سے کوئی نماز مراد ہو، اور آپ ﷺ کا فرض نماز کے بعد احرام باندھنا احرام کی دو رکعت نماز کے مشروع ہونے کی دلیل نہیں،  بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کسی شخص کو نماز کے بعد حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کا موقع ملے تو یہ افضل ہے۔

سوال 10:کیا دھلنے کے لئے احرام کے کپڑے تبدیل کرنا جائز ہے ؟

جواب :احرام کے کپڑے دھلنے میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح احرام کے کپڑے تبدیل کرنے اور ان کی جگہ دوسرے نئے یا دھلے ہوئے احرام کے کپڑے پہننے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

سوال 11:نیت کرنے اور تلبیہ پکارنے سے پہلے احرام کے کپڑے میں خوشبو لگانا کیسا ہے ؟

جواب :احرام کے کپڑے چادر اور تہبند میں خوشبو لگانا درست نہیں،  ہاں بدن میں جیسے سر،داڑھی اور بغل وغیرہ میں خوشبو لگانا سنت ہے،  کیونکہ رسول ﷺ کا ارشاد ہے :،محرم کو ئی ایسا کپڑا نہ پہنے جس میں زعفران یا ورس (کی خوشبو) لگی ہو۔

اس لئے نیت کرنے اور تلبیہ پکارنے سے پہلے صرف بدن میں خوشبو لگانا سنت ہے، کپڑوں میں نہیں،  اور اگر کسی نے کپڑوں میں خوشبو لگا لی تو وہ انہیں دھلے بغیر نہ پہنے،  یا پھر انہیں بدل کر دوسرے کپڑے استعمال کرے۔

سوال 12:جو شخص یوم ترویہ (8/ذی الحجہ) سے پہلے ہی سے منیٰ میں موجود ہواس کا کیا حکم ہے ؟ کیا احرام باندھنے کے لئے اس کا مکہ آنا ضروری ہے یا وہ منی سے احرام باندھ لے ؟

جواب :جو شخص پہلے ہی سے منیٰ میں موجودہواس کے لئے منیٰ ہی سے احرام باندھ لینا مشروع ہے،  اسے مکہ آنے کی ضرورت نہیں، بلکہ وقت ہونے پروہ اپنی قیام گاہ سے ہی حج کا احرام باندھ کر تلبیہ پکارنا شروع کر دے گا۔

سوال 13:کیا متمتع کے لئے تمتع کرنے کو کوئی متعین وقت ہے ؟ اور کیا وہ یوم ترویہ (8ذی الحجہ) سے پہلے حج کا احرام باندھ سکتا ہے ؟

جواب :جی ہاں ! حج تمتع کا احرام باندھنے کے لئے ایک متعین وقت ہے،  اور وہ ہے شوال اور ذی قعدہ کے دو مہینے اور ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور یہی مدت اشہر حج (حج کے مہینے ) کہلاتی ہے، شوال شروع ہونے سے پہلے حج تمتع کا احرام نہیں باندھ سکتے،  اور نہ ہی بقرہ عید کی رات کے بعد باندھ سکتے ہیں۔  متمتع کے لئے افضل یہ ہے کہ پہلے عمرہ کا احرام باندھے، تمتع کی یہی کامل صورت ہے،  لیکن اگر حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھ لیا تو بھی متمتع کہلائے  گا، اور قارن بھی ہو گا، اور دونوں صورتوں میں اسے دم دینا ہو گا۔ جسے، دم تمتع، کہا جاتا ہے،  اور وہ یا تو ایک کامل ذبیحہ ہو جو قربانی کے لئے درست ہو،یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ہو(یعنی ایک اونٹ یا ایک گائے میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں ) کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہدْیِ﴾   ) سورۃ البقرۃ:196)

’’پس جو شخص عمرہ کو حج سے ملا کر تمتع کرنا چاہے تو جو میسر آئے قربانی کرے۔ ‘‘

 اور اگر دم دینے سے قاصر ہے تو دس دن کے روزے رکھے، تین دن ایام حج میں اور سات دن اپنے وطن واپس آنے کے بعد، اور اس روزہ کے لئے کسی مدت کی تحدید نہیں، جیسا کہ پہلے مذکور ہو چکا ہے۔ اگراس شخص نے ماہ شوال کے شروع میں عمرہ کا احرام باندھا اور عمرہ کر کے حلال ہو گیا، تو اس عمرہ کے درمیان اور حج کا احرام باندھنے کے درمیان کی مدت 8/ذی الحجہ تک کافی طویل ہو جاتی ہے، اس لئے افضل یہ ہے کہ وہ 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے، جیساکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے کیا تھا،چنانچہ جب صحابہ کرام حج افراد کا احرام باندھ کر آئے اور بعض صحابہ حج قران کا،  تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ( عمرہ کر کے ) حلال ہو جائیں، البتہ جو لوگ، ہدی، ساتھ لائے ہیں وہ اپنے اپنے احرام میں باقی رہیں،  چنانچہ جن کے پاس، ہدی،  کا جانور نہیں تھا انہوں نے طواف کیا، سعی کی اور قصر کرایا اور حلال ہو گئے،  اور اسطرح سے وہ متمتع بن گئے،  پھر یوم ترویہ یعنی 8/ ذی الحجہ کورسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی قیام گاہوں سے حج کا احرام باندھ لیں،  اور یہی طریقہ افضل ہے۔  لیکن اگر کسی نے 8/ذی الحجہ سے پہلے مثلاً یکم ذی الحجہ کو یا اس سے بھی پہلے حج کا  احرام باندھ لیا  تو یہ بھی کافی اور درست ہے،  مگر افضل یہی ہے کہ 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھا جائے، جیساکہ صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے کیا تھا۔

سوال 14:جو شخص حج یا عمرہ کی نیت سے یا کسی اور غرض سے مکہ آئے اور بغیر احرام باندھے میقات سے آگے بڑھ جائے اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب :جو شخص حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ آئے اور بلا احرام باندھے میقات سے آگے بڑھ جائے اس کے لئے واپس آ کر میقات سے احرام باندھنا واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی کا حکم دیا ہے،  جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:، مدینہ کے رہنے والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں،  اور شام کے رہنے والے جحفہ سے،  اور نجد کے رہنے والے قرن منازل سے،  اور یمن کے رہنے والے یلملم سے، نیز سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :،نبی ﷺ نے اہل مدینہ کے لئے مقام ذوالحلیفہ کو میقات مقرر فرمایا ہے،  اور اہل شام کے لئے جحفہ کو،  اور اہل نجد کے لئے قرن منازل کو،  اور اہل یمن کے لئے یلملم کو، اور فرمایا کہ مذکورہ مقامات ان علاقوں کے رہنے والوں کے لئے میقات ہیں،  اور ان لوگوں کے لئے بھی جو وہاں کے رہنے والے نہ ہوں مگر حج یا عمرہ کے ارادہ سے وہاں سے گزریں۔

سوال 15: کیا عورت کسی بھی کپڑے میں احرام باندھ سکتی ہے ؟

جواب : جی ہاں ! عورت کسی بھی کپڑے میں احرام باندھ سکتی ہے، اس کے لئے احرام کا کوئی لباس مخصوص نہیں،  جیساکہ بعض عوام کا خیال ہے،  البتہ افضل یہ ہے کہ وہ لباس خوبصورت اور جاذب نظر نہ ہوں،  کیونکہ اسے مردوں کے مابین اٹھنا بیٹھنا پڑے گا، اس لئے اس کے لباس خوبصورت نہیں ہونے چاہئیں۔  بلکہ عام لباس جیسے ہوں جس میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ ویسے اگر وہ خوبصورت لباس میں احرام باندھ لے تو اس کا احرام درست ہے،  مگر خوبصورت لباس سے دور رہنا ہی افضل ہے۔

سوال 16:فضائی راستہ (ہوائی جہاز) سے آنے والے حاجی اور معتمر احرام کب باندھیں؟

جواب :فضائی راستہ (ہوائی جہاز) سے یا سمندری راستہ سے آنے والے حجاج و معتمرین بھی خشکی کے راستہ سے آنے والوں کی طرح میقات کے پاس سے احرام باندھیں،  یعنی فضا میں یا سمندرمیں جب میقات کے برابر پہنچیں تو احرام باندھیں،  یا ہوائی جہاز اور سمندری جہاز یا کشتی کی تیز رفتاری کے پیش نظر احتیاطاً میقات سے تھوڑا پہلے ہی احرام باندھ لیں۔

سوال 17:جس شخص کی رہائش گاہ مکہ مکرمہ اور میقات کے درمیان ہو وہ احرام کہاں سے باندھے ؟

جواب:جس کی رہائش گاہ مکہ اور میقات کے درمیان ہو وہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھے،  جیسا کہ ام سلم کے لوگ اور اہل بحرہ  نیز جدہ میں رہنے والے اپنے گھروں سے احرام باندھتے ہیں،  کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اور جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہوں تو وہ جہاں سے روانہ ہوں وہیں سے احرام باندھیں۔

 اور دوسری روایت میں ہے : وہ اپنے گھر والوں کے پاس سے ہی احرام باندھیں،  یہاں تک کہ مکہ والے خود مکہ سے احرام باندھیں۔

سوال 18:یوم ترویہ (8ذی الحجہ) کو حاجی کہاں سے احرام باندھیں ؟

جواب:یوم ترویہ کو حاجی صاحبان اپنی اپنی قیام گاہوں سے احرام باندھیں گے،  جیساکہ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم ﷺ کے حکم سے مقام، ابطح، میں اپنی اپنی قیام گاہوں سے احرام باندھا تھا، اسی طرح مکہ مکرمہ میں رہنے والے بھی اپنے گھروں سے احرام باندھیں گے،  کیونکہ نبی ﷺ کا یہ ارشاد ہے : جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہوں وہ اپنے گھر والوں کے پاس سے ہی احرام باندھیں،  یہاں تک کہ اہل مکہ خود مکہ سے احرام باندھیں۔ (متفق علیہ)

سوال 19:ایک شخص کسی ملک سے حج کی نیت سے آیا اور جدہ ہوائی اڈہ پر اترا، لیکن میقات سے احرام نہ باندھ کر جدہ شہرسے احرام باندھا،اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب :جدہ ہوائی اڈہ پر اترنے والا اگر ملک شام یا  مصرکا باشندہ ہے تو وہ مقام’’رابغ‘‘سے احرام باندھے،  یعنی کاریاکسی بھی سواری سے وہ ’’رابغ‘‘ اتر جائے اور وہاں سے احرام باندھ کر آئے،  جدہ شہر سے احرام نہ باندھے۔  اور اگر نجد کے علاقہ سے آیا ہے اور احرام نہیں باندھا یہاں تک کہ جدہ پہنچ گیا، تو وہ مقام سیل یعنی وادی، قرن منازل، جائے اور وہاں سے احرام باندھے،  اور اگر میقات واپس نہیں گیا اور جدہ ہی سے احرام باندھا تو اسے حج یا عمرہ کا نقص پورا کرنے کے لئے، دم،  دینا ہو گا،  اور دم جیسا کہ پہلے مذکور ہو چکا ہے۔  یا تو ایک کامل بکری ہے جو قربانی کے لئے درست ہو اسے مکہ میں ذبح کر کے فقراء میں تقسیم کرنا ہو گا، اور یا تو اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ہے۔

سوال 20:ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جس نے حج کیا مگر نماز نہیں پڑھتا، خواہ وہ عمداً نماز چھوڑے ہوئے ہے یا محض سستی و کاہلی میں ایسا کرتا ہے ؟ اور کیا اس کا یہ حج فرض حج کے لئے کافی ہو گا؟

جواب :جس نے اس حال میں حج کیا کہ وہ نماز نہیں پڑھتا، تو اگر وہ نماز کی فرضیت کا منکر ہے تو متفقہ طور پر کافر ہے اور اس کا حج بھی درست نہیں،  اور اگر محض سستی و کاہلی کی وجہ سے نماز چھوڑے ہوئے ہے تو اس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، بعض علماء کا خیال ہے کہ اس کا حج درست ہے،  اور بعض کا خیال ہے کہ یہ حج درست نہیں،  لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ حج درست نہیں، کیونکہ نبی ﷺ کی حدیث ہے :،ہمارے اور ان (کافروں ) کے درمیان جو فرق ہے وہ نماز ہے، توجس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔

دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا :آدمی کے اور کفر و شرک کے درمیان بس نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔

 اور نبی ﷺ کا مذکورہ فرمان، نماز کی فرضیت کا انکار کرنے والے اور سستی و کاہلی میں نماز چھوڑنے والے سب شامل ہے۔

سوال 21:عورت کا ایام حج میں مانع حیض گولیاں استعمال کرنا کیسا ہے ؟

جواب :ایام حج میں مانع حیض گولیاں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس سے فائدہ اور اچھائی مقصود ہے، تاکہ عورت بھی دیگر لوگوں کے ساتھ طواف کر سکے،  اور اس کے قافلہ والے محض اس کی وجہ سے معطل ہو کر نہ رہ جائیں۔

سوال 22:احرام باندھنے کے بعد عورت کو حیض یانفاس کا خون  آ جائے تو وہ کیا کرے ؟ کیا اس حال میں بیت اللہ کا طواف کرنا اس کے لئے درست ہے ؟ اور کیا اس پر طواف وداع واجب ہے ؟

جواب :عمرہ کے لئے مکہ پہنچتے ہی اگر اسے حیض یا نفاس کا خون آ جائے تو پاک ہونے تک وہ رکی رہے،  اور پاک ہونے کے بعد طواف اور سعی کرے،  بال کٹوائے اور اسی طرح عمرہ پورا کرے۔  لیکن اگر عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد یا 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھنے کے بعد اسے حیض یا نفاس کا خون آیا، تو وہ حج کے اعمال مثلاً عرفہ میں ٹھہرنا مزدلفہ میں رات گزارنا، کنکری مارنا، نیز ذکر و  اذکار اور تلبیہ پکارنا وغیرہ ادا کر لے،  اور جب پاک ہو جائے تب حج کا طواف (طواف افاضہ) اور سعی کرے۔  اور اگر طواف افاضہ اور سعی سے فارغ ہونے کے بعد طواف وداع سے پہلے اسے حیض آ گیا تو طواف وداع اس سے ساقط ہو جائے گا، کیونکہ حیض اور نفاس والی عورتوں پر طواف وداع واجب نہیں ہے۔

سوال 23:کیا ہر طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے ہی طواف کی دو رکعت نماز پڑھنی ضروری ہے ؟ اور جو شخص بھول کر نہ پڑھے اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب:طوا ف کی دو رکعت نماز مقام ابراہیم کے پیچھے ہی پڑھنا ضروری نہیں،  بلکہ پورے حرم شریف میں کہیں بھی دو رکعت پڑھ لینا کافی ہے،  اور اگر کوئی شخص بھول کر نہ بھی پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ نماز واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔

سوال 24:ایک شخص نے طواف افاضہ کو طواف وداع تک موخر کر دیا،پھر طواف افاضہ اور طواف وداع دونوں کی نیت سے ایک طواف کیا، اس کا کیا حکم ہے ؟ اور کیا رات میں طواف افاضہ کرنا جائز ہے ؟

جواب: اعمال حج سے فارغ ہونے کے بعد مکہ سے واپسی کے وقت اگر طواف افاضہ کیا تو یہی طواف،  طواف وداع کے لئے بھی کافی ہو گا، خواہ اس نے طواف افاضہ کے ساتھ طواف وداع کی نیت کی ہویا نہ کی ہو،حاصل یہ ہے کہ طواف افاضہ کو اگر مکہ سے واپسی کے وقت موخر کر دیا جائے تو یہی طواف،  طواف وداع کے لئے بھی کافی ہو گا، اور ایسا کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے،  اور اگر ایک ہی ساتھ، طواف افاضہ اور طواف وداع دونوں کی نیت کر کے ایک طواف کر لے تو بھی درست ہے،  اسی طرح طواف افاضہ یا طواف وداع رات میں یا دن میں کسی بھی وقت کرنا جائز ہے۔

سوال 25:نماز کے لئے اقامت ہوچکی ہو اور حاجی یا معتمر ابھی طواف سے یاسعی سے فارغ نہ ہوا ہو تو وہ کیا کرے ؟

جواب :جماعت کے ساتھ وہ نماز ادا کر لے،  پھر جہاں سے اس نے طواف یا سعی کو روکا تھا وہیں سے شروع کر کے،  مکمل کر لے۔

سوال 26:کیا طواف اور سعی کے لئے با وضو ہونا لازم ہے ؟

جواب :طواف کے لئے با وضو ہونا لازم ہے، البتہ سعی کے لئے وضو کر لے تو افضل ہے اور اگر بغیر وضو کے سعی کرے تو بھی درست ہے۔

سوال 27:کیا عمرہ میں طواف وداع واجب ہے ؟ اور کیا طواف وداع خواہ وہ حج کا ہو یا عمرہ کا کر لینے کے بعد مکہ سے کوئی چیز خرید نا جائز ہے ؟

جواب :عمرہ میں طواف وداع واجب نہیں،  لیکن کر لینا افضل ہے،  اور اگر طواف وداع کئے بغیر ہی مکہ سے روانہ ہو گیا تو بھی کوئی حرج نہیں، البتہ حج میں طواف وداع واجب ہے،  کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے جو آپ نے حج کرنے والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا:،تم میں سے کوئی اس وقت تک مکہ سے کوچ نہ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو،

طواف وداع کے بعد ضرورت کی کوئی بھی چیز مکہ سے خریدی جا سکتی ہے، بلکہ اگر وقفہ طویل نہ ہو تو تجارتی سامان بھی خریدا جا سکتا ہے،  البتہ وقفہ۔ عرف عام میں۔  طویل ہو جانے کی صورت میں دوبارہ طواف وداع کرنا ہو گا۔

سوال 28:کیا حج میں یا عمرہ میں طواف سے پہلے ہی سعی کر لینا جائز ہے ؟

جواب:سنت یہ ہے کہ پہلے بیت اللہ کا طواف کیا جائے اور اس کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی لیکن اگر کسی شخص نے مسئلہ نہ جانتے ہوئے پہلے سعی کر لی تو اسمیں کوئی حرج نہیں، نبی سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی،  تو آپ نے فرمایا :،کوئی حرج نہیں،  اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طواف سے پہلے سعی کر لی جائے تو بھی کافی ہے لیکن سنت یہ ہے کہ پہلے طواف کیا جائے،  پھرسعی کی جائے، خواہ حج میں ہویا عمرہ میں۔

سوال 29:سعی کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ اور سعی کہاں سے شروع کی جائے گی ؟ نیزسعی کے کل کتنے چکر لگانے ہوں گے ؟

جواب :سعی صفا سے شروع ہو کر مروہ پر ختم ہو گی، اور کل سات چکر لگانے ہوں گے،  پہلا چکرصفاسے شروع ہو گا اور آخری چکر مروہ پر ختم ہو گا،  سعی کے دوران اللہ تعالی کے ذکر،تسبیح اور دعا میں مشغول رہنا چاہئیے، نیز صفا اور مروہ پر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر تین تین بار تکبیر کہنا بھی ثابت ہے۔

سوال 30:حج یا عمرہ میں دیگر اعمال سے فارغ ہونے کے بعد حلق کرانا افضل ہے یا قصر کرانا ؟ اور کیا سرکے بعض حصہ کا قصر کرا لینا کافی ہے ؟

جواب:حج میں یا عمرہ میں حلق کرانا ہی افضل ہے،  کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حلق کرانے والوں کے لئے تین بار رحمت و مغفرت کی دعا فرمائی اور قصر کرانے والوں کے لئے ایک بار، اس لئے حلق کرانا ہی افضل ہے لیکن عمرہ کے بعد اگر حج کا وقت قریب ہو تو افضل یہ ہے کہ عمرہ میں قصر کرا لے تاکہ حج میں حلق کرا سکے، کیونکہ حج، عمرہ سے اکمل ہے،  اس لئے اکمل ( حج) کے لئے اکمل(حلق کرانا) ہی ہونا چاہئے، لیکن عمرہ کے بعد اگر حج کا زمانہ دور ہے،  مثلاً شوال میں عمرہ کیا،  اور اسوقت سے حج تک میں اس کے بال اتنے بڑھ سکتے ہیں کہ حلق کراس کے،  توایسی صورت میں عمرہ میں بھی حلق کرالے تاکہ حلق کرانے کی فضیلت حاصل کرسکے۔ رہا مسئلہ سرکے بعض حصہ کے حلق کرانے یا قصر کرانے کا،  تو علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق یہ کافی نہیں، بلکہ پورے سرکا حلق کرانا یا قصر کرانا واجب ہے، یہ بھی ملحوظ رہے کہ حلق یا قصر کراتے وقت سرکے دائیں جانب سے شروع کرنا افضل ہے

سوال 31:حاجی عرفہ کے لئے کب روانہ ہو اور وہاں سے کب واپس لوٹے ؟

جواب :عرفہ کے لئے 9/ذی الحجہ کی صبح کو آفتاب طلوع ہونے کے بعد روانہ ہونا مشروع ہے،  وہاں پہنچ کر نبی اکرم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتباع کرتے ہوئے ظہر اور عصر کی نماز قصر کر کے اور جمع و تقدیم کے ساتھ ایک اذان اور دو اقامت سے پڑھے، پھر آفتاب غروب ہونے تک وہیں ذکر و دعا، تلاوت قرآن اور تلبیہ پکارنے میں مصروف رہے، عرفہ کے دن اس دعا کا کثرت سے پڑھنا مشروع ہے :

لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک و لہ الحمد وہوعلی کل شیئ قدیر،وسبحان اللہ، والحمدللہ ولاالہ الا اللہ، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ

ہاتھ اٹھا کر اور قبلہ رخ ہو کر دعا کرے،  اور دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور نبی کریم پر درود سلام پڑھے، واضح رہے کہ پورا میدان عرفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔

غروب آفتاب کے بعد اطمینان و وقار کے ساتھ مزدلفہ کے لئے روانہ ہو، اور راستہ میں کثرت سے تلبیہ پکارے،  مزدلفہ پہنچ کر ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی دو رکعت نماز قصر اور جمع تاخیر کر کے پڑھے۔

سوال 32:مزدلفہ میں رات گزارنے کا کیا حکم ہے ؟ اور وہاں کتنا ٹھہرنا ہے ؟ نیز منیٰ کے لیے حجاج کب واپس ہوں گے ؟

جواب :صحیح قول کے مطابق مزدلفہ میں رات گزارنا واجب ہے،  اور بعض علماء نے مستحب اور بعض نے حج کا رکن بتایا ہے،  لیکن صحیح قول وجوب کا ہے،  جس نے مزدلفہ میں رات نہیں گزاری اسے دم دینا ہو گا۔سنت یہ ہے کہ فجر کی نماز کے بعد جب خوب اجالا ہو جائے تب مزدلفہ سے روانہ ہوں،  یعنی مزدلفہ میں فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور دعا واستغفار میں مشغول رہیں،  اور جب خوب اجالا ہو جائے تب تلبیہ پکارتے ہوئے منیٰ کیلئے روانہ ہوں۔ کمزور مرد  و عورت نیزعمررسیدہ لوگ آدھی رات گزر جانے کے بعد مزدلفہ سے منی کے لئے روانہ ہوسکتے ہیں،  رسول اللہ ﷺ نے ایسے لوگوں کو رخصت دی ہے، لیکن صحت مند لوگوں کے لئے سنت یہی ہے کہ وہ پوری رات مزدلفہ میں گزاریں،  اور فجر کی نماز کے بعد ذکر و اذکار میں مشغول رہیں،  اور آفتاب طلو ع ہونے سے پہلے منی کے لئے روانہ ہوں، عرفہ کی طرح مزدلفہ میں بھی قبلہ رخ ہو کر اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مسنون ہے، نیز عرفہ ہی کی طرح پورے میدان مزدلفہ میں کہیں بھی ٹھہرا جا سکتا ہے۔

سوال 33: ایام تشریق میں عمداً یا جگہ نہ ملنے کے سبب منیٰ سے باہر رات گزارنا کیسا ہے ؟ نیز حجاج کرام منیٰ سے کب واپس روانہ ہوں گے ؟

جواب :صحیح قول کے مطابق ذی الحجہ کی گیارہویں اور بارہویں رات منیٰ میں گزارنی واجب ہے،  محقق اہل علم نے اسی کو راجح قرار دیا ہے،  البتہ منی میں جگہ نہ مل سکنے کی صورت میں یہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے اور رات نہ گزارنے کی وجہ سے کوئی فدیہ وغیرہ واجب نہیں ہوتا،  لیکن بلا عذر منیٰ میں رات نہ گزارنے کی صورت میں دم واجب ہو جاتا ہے۔ ذی الحجہ کی بارہ تاریخ کو زوال آفتاب کے بعد جمعرات کو کنکریاں مار کر حجاج منی سے واپس ہوسکتے ہیں، لیکن تیرہ تاریخ کو زوال آفتاب کے بعد کنکریاں مارکرواپس ہونا افضل ہے۔

سوال 34:حاجی کے لئے یوم النحر(10ذی الحجہ) کے اعمال کی ادائے گی کے لئے کیا طریقہ افضل ہے ؟ اور کیا یوم النحر کے اعمال میں تقدیم و تاخیر جائز ہے ؟

جواب :سنت یہ ہے کہ یوم النحر کو جمرۂ  عقبہ کو، جو مکہ مکرمہ سے قریب ہے، سات الگ الگ کنکریاں مارے،  اور ہر کنکری کے ساتھ، اللہ اکبر،کہے، پھراگراس کے پاس ہدی کا جانور ہے تواسے قربان کرے، پھر حلق یا قصر کرائے، ویسے حلق کرانا زیادہ بہتر ہے،  پھر عام لباس میں طواف افاضہ کرے اور اگر اس کے ذمہ سعی ہے توسعی بھی کرے،  یہی طریقہ افضل ہے،  نبی ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا، یعنی اس ترتیب سے اعمال حج کا ادا کرنا افضل ہے :رمی جمرہ، پھر قربانی، پھر حلق یا قصر، پھر طواف اور اگر سعی واجب ہے توسعی بھی۔ لیکن اگر کسی نے یہ ترتیب برقرار نہیں رکھی، مثلاً رمی جمرہ سے پہلے قربانی کر دی یا طواف کر لیا یا حلق کرا لیا،یا قربانی سے پہلے حلق کرا لیا تواسمیں کوئی حرج نہیں،  رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرنے والوں میں جنہوں نے اس ترتیب کو برقرار نہیں رکھا تھا ان کے بارے میں آپ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:،  کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں۔

سوال 35:مریض، عورت اور بچہ کی طرف سے رمی جمار کے لئے نائب مقرر کرنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب :مریض کی طرف سے اور معذور عورت مثلاً حاملہ یا بھاری بھرکم جسم والی یا  کمزور عورت جو رمی نہ کرسکتی ہو،  ان سب کی طرف سے رمی جمار کے لئے نائب مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ طاقتور اور نشاط والی عورت خود کنکری مارے،  اسی طرح جو شخص دن میں زوال آفتاب کے بعد کنکری مارنے کی طاقت نہ رکھتا ہو،  وہ رات میں کنکریاں مارے،  اور جو 10ذی الحجہ کو عید کے دن کنکری نہ مارسکا وہ اس کے عوض گیارہویں رات میں کنکری مارے،  اور جو گیارہ تاریخ کو دن میں کنکری نہ مارسکا وہ اس کے عوض بارہویں رات میں کنکری مارے،  اور جو بارہ تاریخ کو کنکری نہ مارسکا یا زوال کے بعد نہ مارسکا وہ اس کے عوض تیرہویں رات میں کنکری مارے اور تیرہویں رات میں طلوع فجر کے ساتھ ہی کنکری مارنے کا وقت بھی ختم ہو جاتا ہے، واضح رہے کہ ایام تشریق (یعنی 13،12،11ذی الحجہ) میں دن کے وقت زوال آفتاب کے بعد ہی رمی کی جائے گی۔

سوال36:کیا ایام تشریق میں تینوں جمرات کو بلا عذر رات میں کنکریاں مارسکتے ہیں ؟ اور کیا قربانی کی رات عورتوں اور کمزوروں کے ساتھ آدھی رات کے بعد مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہو جانے والا شخص رات ہی میں جمرۂ  عقبہ کو کنکری مارسکتا ہے ؟

جواب : صحیح قول کے مطابق غروب آفتاب کے بعد کنکری مارنا جائز ہے،  لیکن سنت یہ ہے کہ دن میں زوال آفتاب کے بعد سے لے کر غروب آفتاب کے درمیان کنکری ماری جائے لہٰذا ممکن ہونے کی صورت میں یہی افضل ہے،  البتہ کوئی دشواری ہو تو صحیح قول کے مطابق غروب آفتاب کے بعد رمی کرسکتا ہے۔ جو شخص آدھی رات کے بعد عورتوں اور کمزوروں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ چلا آئے وہ کنکری مارنے کے سلسلہ میں انہی عورتوں اور کمزوروں کے حکم میں ہے، لہٰذا عورتوں کے محرم،  ڈرائیور اور اسی طرح وہ طاقتور مرد جو عورتوں اور کمزوروں کے ساتھ مزدلفہ سے آدھی رات کے بعد منی چلے آئیں وہ عورتوں کے ساتھ اخیر رات ہی میں کنکری مارسکتے ہیں۔

سوال37:حاجی جمرات کو کنکری مارنا کب شروع کریں گے اور کب ختم کریں گے ؟نیز کنکری مارنے کا طریقہ کیا ہے اور کنکریوں کی تعداد کیا ہو گی؟ اور کس جمرہ سے کنکری مارنا شروع کریں گے ؟

جواب :عید کے دن صرف پہلے جمرہ کو کنکری ماریں گے جو مکہ سے قریب ہے اور جسے، جمرۂ  عقبہ، کہا جاتا ہے،  قربانی کی رات آدھی رات کے بعد اگر جمرۂ  عقبہ کو کنکری مار لے تو کافی ہو گا، مگر افضل یہ ہے کہ دن میں چاشت کے وقت سے لے کر غروب آفتاب کے درمیان کسی بھی وقت کنکری مارے،  اگر دن میں کنکری نہیں مارسکا تو اس کے عوض گیارہویں رات میں غروب آفتاب کے بعد مارے۔ کنکری مارنے کا طریقہ یہ ہے کہ سات کنکریاں یکے بعد دیگرے مارے اور ہر کنکری کے ساتھ، اللہ اکبر،کہے،  البتہ ایام تشریق میں زوال آفتاب کے بعد کنکری ماری جائے گی، سب سے پہلے، جمرۂ اولی، کوسات کنکریاں ماری جائیں گی جومسجد خیف کے قریب ہے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہا جائے گا،  پھراسی طرح،جمرۂ  وسطی، کو سات کنکریاں،  اور پھر،جمرۂ  عقبہ، کو سات کنکریاں ماری جائیں گی، یہ کام گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو، اور جو شخص واپس ہونے میں جلدی نہ کرے اس کو تیرہ ذی الحجہ کو بھی کرنے ہوں گے۔

سنت یہ ہے کہ جمرۂ  اولی اور جمرۂ  وسطی کو کنکری مارنے کے بعد ان کے پاس کھڑا ہو کر دعا کرے،  جمرۂ  اولی کو کنکری مارنے کے بعد جمرہ کو اپنے بائیں جانب کر کے قبلہ رخ کھڑا ہو جائے اور دیر تک دعا کرے، پھر جمرۂ  وسطی کو کنکری مارنے کے بعد جمرہ کو اپنے دائیں جانب کر کے قبلہ رخ کھڑا ہو جائے اور دیر تک دعا کرے،  ذی الحجہ کی گیارہ اور بارہ تاریخ کو، اور اگر واپس ہونے میں جلدی نہ ہو تو تیرہ تاریخ کو بھی تینوں دن ایسا ہی کرے،  البتہ جمرۂ  عقبہ جو مکہ مکرمہ کے قریب ہے اسے کنکری مار کر آگے بڑھ جائے اور اس کے پاس کھڑا ہو کر دعا نہ کرے، کیونکہ رسول ﷺ نے اس کی صرف رمی کی ہے،  اس کے پاس کھڑے ہو کر دعا نہیں فرمائی ہے۔

سوال 38:جس شخص کو یہ شبہ ہو کہ بعض کنکریاں حوض میں نہیں گری ہیں وہ کیا کرے ؟

جواب :جس کو اس قسم کا شبہ ہو جائے وہ منیٰ ہی سے دوسری کنکریاں لے اور تعداد پوری کرے۔

سوال 39:کیا حجاج کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ جمرات کے ارد گرد پڑی ہوئی کنکریوں سے جمرات کی رمی کریں ؟

جواب :ہاں ایسا کرسکتے ہیں،  کیونکہ حقیقت میں ان کنکریوں سے رمی نہیں کی گئی ہوتی ہے،  البتہ حوض میں پڑی کنکریوں سے رمی کرنا درست نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

٭٭٭

٭٭٭

ماخذ: جریدہ اسوہ

http://uswah.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید