FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اردو زبان و ادب

                   ماخذ: اردو انسائیکلو پیڈیا

http://urdupedia.in

 

 

اردو زبان

اردو، ترکی زبان کا لفظ ہے اس کے لفظی معنی ’’خیمہ‘‘ یا چھاؤنی (لشکر گاہ) کے ہیں اس لفظ کا استعمال شہنشاہ اکبر کے زمانے کے سکوں پر پایا جاتا ہے۔  اکبر سے پہلے امیر علاؤ الدین جو بنی کی ’’تاریخ جہاں کشا‘‘ اور فضل اللہ کی ’’جامع التواریخ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ چنگیز خاں اور اس کی اولاد کے زمانے میں مغل بادشاہوں اور شہزادوں کے خیموں کو اردو کہا کرتے تھے چنگیز خاں کے فرزند جو جی خاں کے زمانے میں اس کے نائب اور امرا جب کسی مہم پر مستقر سے روانہ ہوتے تھے تو زریں خیموں میں قیام کرتے تھے جس کے باعث ان کی لشکر گاہیں اردوئے مطلآ (Golden Hord)کہلاتی تھیں۔  لفظ اردو کے مابعد معنی ’’دربار‘‘ ہو گئے۔  اس کے بہت عرصہ بعد سترہویں صدی میں درباری زبان بھی اردوئے معلی کہلانے لگی۔  جب مغل بادشاہوں نے فارسی کے مقابلے میں اردو کی سرپرستی کی اور خود بھی اس میں لکھنے پڑھنے لگے تو رفتہ رفتہ اردو زبان کے لئے اس طویل ترکیب زبان اردوئے معلی کے بجائے صرف لفظ ’’اردو‘‘ باقی رہ گیا۔  زبان کے معنوں میں اردو کا استعمال سترہویں صدی میں ہونے لگا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس زبان کا آغاز سترہویں صدی میں ہوا۔  یوں تو اردو کی ابتدا ۱۱۹۳ء میں یعنی اس وقت ہوئی جب مسلمان پونے دو سو برس تک لاہور میں متمکن رہنے کے بعد ترکوں اور افغانوں کی قیادت میں دہلی اور نواح دہلی میں داخل ہوئے۔  ابتدا میں دہلی تہذیبی مرکز ہونے کی بجائے فوجی چھاؤنی کی حیثیت رکھتا تھا۔  اس لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ’’اردو ایک مخلوط زبان ہے ‘‘ کیونکہ مسلمانوں کے داخلۂ ہند کے بعد ہندو مسلم قوموں میں اختلاط شروع ہو ا اس اختلاط کے نتیجہ میں اس زبان کا آغاز ہوا۔  یعنی شعوری طور پر جب دو لسانی گروہ سمجھوتہ کرتے ہیں اور کچھ اپنی زبان کے اور کچھ دوسری زبان کے الفاظ ملا کر کام چلانے لگتے ہیں۔  تو ایک مخلوط زبان کا آغاز ہوتا ہے۔  اردو کو مخلوط زبان کہنا درست نہیں کیونکہ اس زبان کی نشو و نما کا عمل ترکیبی ہے۔  یہ آریائی زبان ہے جس کا تعلق زبانوں کے سب سے اہم اور سب سے بڑے خاندان یعنی ’’ہند، یورپی‘‘ کی شاخ ’’ہند آریائی‘‘ سے ہے۔  ہند آریائی کی سب سے حیرت انگیز اور قابل ذکر خصوصیت اس کا طویل اور مسلسل ارتقا ہے جو ۱۵۰۰ ق۔  م  (قبل مسیح) سے لے کر آج تک چلا آ رہا ہے۔  اردو کے ارتقا کا تعلق جدید ہند آریائی سے ہے۔  ہند آریائی کے تین ادوار ہیں۔  قدیم دور، متوسط دور، جدید دور۔  ہند آریائی کا جدید دور اپ بھرنشوں کا دور ہے۔  اردو وسطی ہندوستان کی زبان شعور سینی اب بھرنش کی بولیوں میں سے ایک بولی کھڑی بولی کا نشو و نما پایا ہوا روپ ہے لیکن اس پر شورسینی اپ بھرنش سے ماخوذ مغربی ہندی کی دیگر بولیوں ہریانی، برج اور پنجابی کے بھی اثرات مسلم ہیں۔  مسلم حملہ آوروں کے ہندوستان میں داخلے کے وقت شورسینی اپ بھرنش سے ماخوذ مغربی ہندی کی بولیاں کھڑی، ہریانی، برج، بندیلی، قنوجی دو آبہ گنگ و جمن میں رائج تھیں۔  اصل میں مغربی ہندی دو شاخوں میں بٹی ہوئی ہے ایک وہ شاخ جس میں افعال کا خاتمہ علامت ’’اُو‘‘ ‘(o)’پر ہوتا ہے۔  دوسری وہ شاخ جس میں افعال کا خاتمہ علامت ’’ا‘‘ ‘(a)’پر ہوتا ہے۔  اس شاخ میں کھڑی بولی اور ہریانی شامل ہیں۔  کھڑی بولی مغربی روہیل کھنڈ، دوآبہ گنگ و جمن اور مشرقی پنجاب یعنی انبالہ میں بولی جاتی ہے۔  اردو جیسا کہ سابق میں بیان کیا جا چکا ہے اپنے ڈول اور کینڈے کے اعتبار سے مغربی ہندی کی دوسری بولیوں کی بہ نسبت کھڑی بولی سے زیادہ قریب ہے اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ اردو کا ماخذ کھڑی بولی ہے۔  اردو کی اہمیت کے مد نظر اکثر علما نے اس کے ماخذ اور اس کے آغاز کے بارے میں غور کیا اور الگ الگ نتیجوں پر پہنچے ہیں۔  محمد حسین آزاد اردو کو برج بھاشا سے مشتق بتاتے ہیں۔  مولانا سید سلیمان ندوی کا قیاس ہے کہ اردو کا ہیولیٰ سندھ میں تیار ہوا ہو گا لیکن چونکہ اس زمانے کے تحریری آثار موجود نہیں اس وجہ سے اس رائے کو مستند نہیں مانا جاتا۔  نصیرالدین ہاشمی اردو کی پیدائش مدراس کے سواحل پر بتاتے ہیں جب عرب تاجروں کا اہل ہند سے میل جول شروع ہوا لیکن یہ نظریہ قابل قبول نہیں۔  کیونکہ عربی زبانوں کے دوسرے خاندان سامی سے تعلق رکھتی ہے جب کہ اردو کا تعلق ہند آریائی سے ہے۔  حافظ محمود شیرانی، ڈاکٹر زور، مولوی عبدالحق حکیم، شمس اللہ قادری اور کسی حد تک پروفیسر عبدالقادر سروری اردو کا ماخذ پنجابی کو مانتے ہیں۔  محمود شیرانی نے اپنے خیال کی تائید میں تاریخی و لسانی حقائق پیش کیے ہیں کہ غوریوں کے غزنہ پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی کی اولاد پنجاب میں منتقل ہو گئیں جہاں پونے دو سو برس تک پنجاب پر ان کی حکومت رہی۔  جدید ماہرین لسانیات، جن میں ڈاکٹر سنیتی کمار چٹر جی، جولیس بلاک بیمز، ڈاکٹر مسعود حسین خان، ڈاکٹر شوکت سبزواری وغیرہ شامل ہیں۔  اردو کا ماخذ کھڑی بولی بتاتے ہیں۔  زبان اردو کی تاریخ کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے اس کو ادوار میں تقسیم کرنا مناسب ہے یہ ادوار حسب ذیل ہیں۔

دور موجدین: (۱۱۹۳ء۔  ۱۳۴۷ء) (یعنی کھڑی بولی کا ادب) کھڑی بولی مسلمانوں کی آمد سے پہلے لسانی اعتبار سے پس ماندہ زبان تھی مسلمانوں کی آمد کے بعد ایک مدت تک وہ صرف روزانہ کاروبار اور عام بول چال کی زبان رہی۔

دور متقدمین: (۱۳۴۷ء۔  ۱۷۵۰ء) دکن کا اردو ادب جن کو ادبی نظم و نثر کے نمونے پیش کرنے میں اولیت حاصل ہے۔

دور متاخرین: ۱۸۰۰ء۔  ۱۸۵۷ء

دور جدید: ۱۸۵۷ء۔  ۱۹۳۵ء

دور حاضر: ۱۹۳۵ء۔  ۱۹۷۶ء

کھڑی بولی کا ادب مسلمانوں کی فتح دہلی سے فوراً قبل اور بعد ملتا ہے چنانچہ راسو  (رزمیہ نظمیں ) جو مسلمان حملہ آوروں کے خلاف ہندوستانی ویروں وسورماؤں کو جوش دلانے کے لیے لکھی گئی ہیں۔  ان میں بھی کھڑی بولی کا پٹ ملتا ہے۔  تاہم فتح دہلی کے نوے برس بعد امیر خسرو سامنے آتے ہیں۔  جن کو بعض اشخاص نے اردو کا پہلا شاعر کہا ہے۔  مگر یہ بات قطعی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔  امیر خسرو کے ساتھ دوسرے سنت اور صوفی شاعر ایسے ملتے ہیں جو گو اردو کے شاعر نہیں لیکن انہوں نے اپنی زبانوں کے علاوہ کھڑی بولی میں بھی لکھا۔  ان میں نام دیو، گرو نانک، گیانیشور اور کبیر اہم ہیں۔  امیر خسرو اپنی ایک مثنوی کے دیباچے میں بتاتے ہیں کہ انہوں نے اردو میں بھی بہت کچھ کہا ہے اور آج ان کے نام سے کثیر تعداد میں گیت، دوہے ، پہلیاں وغیرہ مشہور ہیں لیکن یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب خسرو کی تخلیقات ہیں اور ان میں خسرو کی زبان کسی رد و بدل کے بغیر محفوظ رہ گئی ہے۔  بہر حال امیر خسرو سے اردو کی جو چیزیں منسوب کی جاتی ہیں۔  اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو ان میں زبان کے تین روپ ملتے ہیں۔  ایک روپ ٹھیٹھ کھڑی بولی، جو اکثر پہیلیوں ، کہہ مکرنیوں اور دوسخنوں میں ملتا ہے دوسرا گیتوں وغیرہ میں جو عام فہم برج بھاشا میں ہیں۔  تیسرا روپ کھڑی اور برج کا آمیزہ۔  گرو نانک اور کبیر داس کے یہاں بھی کھڑی بولی کے ایسے نمونے ملتے ہیں جنہیں اردو کا ابتدائی روپ کہا جا سکتا ہے۔  ان بزرگوں کے علاوہ صوفیا نے بھی اس نوزائدہ زبان یعنی اردو کو اپنے مذہب کے افہام و تفہیم کا ذریعہ بنایا چنانچہ صوفیا کے فارسی ملفوظات میں اردو جملے بھی بکثرت ملتے ہیں۔  چودہویں صدی تک اردو صرف بول چال کی زبان تھی اس میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔  فخرالدین نظامی کی مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ اور اشرف کی مثنوی ’’نوسرہار‘‘ اس وقت تک اردو شاعری میں سب سے قدیم ہیں۔  شیخ عین الدین گنج العلم کے رسائل کا شمس اللہ قادری نے ذکر کیا ہے۔  مگر ابھی تک ان کا سراغ نہیں ملا ہے۔  ان کے علاوہ بہاؤ الدین باجن اور علی جیوگام دھنی کی تصانیف سے اردو کے قدیم روپ کا پتہ چلتا ہے۔  یہ حقیقت ہے کہ اردو میں باقاعدہ تحریر و انشا کا آغاز دکن سے ہوا۔  دکن ہی میں اردو نے چودہویں صدی کے لگ بھگ نظم اور نثر کے لیے ایک معیاری زبان کا درجہ پایا۔  دکن اور گجرات میں ’’دکنی‘‘ کے نام سے دہلی کی زبان کو قلم بند کیا گیا۔  اس کے حروف ہجا اور رسم خط کو مرتب کیا گیا۔  ہندی کی آوازیں ٹ، ڈ، ڑ شامل کی گئیں۔  ساتھ ہی عربی فارسی کی نئی آوازوں ز، خ، غ، ف، ق کا اضافہ کیا گیا۔  اس عہد کے مخطوطات میں عام طور پر خط ثلث استعمال کیا گیا ہے۔  چنانچہ بہمنی دور کے ختم ہونے کے بعد قطب شاہی، عادل شاہی، نظام شاہی، عماد شاہی اور برید شاہی سلطنتوں نے اس نوزائدہ زبان کی دل کھول کر سرپرستی کی۔  قطب شاہی خاندان کے پانچویں حکمراں محمد قلی قطب شاہ کو اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔  قلی قطب شاہ، وجہی، نصرتی، علی عادل شاہ شاہی، عبد اللہ قطب شاہ، ابن نشاطی، ملک خوشنود، فیروز محمود کمال خاں رستمی، برہان الدین جانم، غواصی، امین الدین اعلیٰ شمس العشاق میراں جی اور دکنی کے سیکڑوں مصنفین کے ادبی کارناموں میں اس زبان کے مستند نقوش ملتے ہیں۔  دکنی نے اپنی پڑوسی زبانوں سے بھی تاثر قبول کیا۔  بعض علما یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ ’’دکنی‘‘ قدیم اردو کا روپ نہیں اس کا ارتقا اپنے طور پر علاحدہ ہوا۔  اول تو یہ مفروضہ صحیح نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ شمالی ہند کی اردو زبان کی قدیم مستند و معتبر کتابوں جیسے افضل کی ’’بکٹ کہانی‘‘ فضلی کی کربل کتھا، عیسوی خان کی ’’قصہ مہر افروز و دلبر‘‘ وغیرہ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’قدیم اردو‘‘ کی خصوصیات ہر جگہ یکساں ہیں مثلاً شمالی ہند کی بھی اس دور کی کتابوں میں دکنی کی طرح جمع ’’اں ‘‘ کے اضافے سے بنائی جاتی ہے۔  البتہ سترہویں صدی میں حاتم اور مظہر جان جاناں نے اصلاح زبان کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ اردو کو دوسری زبانوں بالخصوص برج، کھڑی، ہریانی کے اثرات سے پاک کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ فارسی عربی الفاظ کا استعمال کیا جائے۔  مخصوص دکنی الفاظ و محاورات کو متروک قرار دیا گیا ہے۔  دکن میں ۱۷۵۰ء تک اردو(دکنی) شعرو ادب کی کئی منزلیں طے کر چکی تھی۔  شمالی ہند میں فارسی کے تہذیبی تسلط کی وجہ سے اردو کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی گئی اکبر اور جہانگیر کے عہد میں برج بھاشا کی خاصی سرپرستی ہوتی رہی۔  اس کا سبب یہ بھی تھا کہ ۱۶۴۸ء تک آگرہ دارالسلطنت رہا جو برج کے علاقے میں ہے۔  چنانچہ ولی کی آمد دہلی تک شمالی ہند میں متفرق اشعار۔  چند منظوم لغات اور محمد افضل کی ’’بکٹ کہانی‘‘ کے سوا اردو زبان میں زیادہ ادب نہیں ملتا۔  ولی کے سفر دہلی اور اور نگ زیب عالم گیر کی فتح دکن کے بعد دہلی میں اردو شاعری کا چرچا ہوا۔  فائز (صدر الدین خاں ) یک رنگ، حاتم، آبرو اور ان کے متبعین کا ایک قافلہ سانکل آیا جنہوں نے فارسی کی اجارہ داری کو ختم کر کے اردو شاعری (ریختہ) کو فروغ دیا۔  حاتم نے اپنے ’’دیوان زادہ‘‘ (۱۷۵۵ء) میں روز مرہ دہلی کو ایک طرف فارسی کے تسلط سے آزاد کیا تو دوسری طرف عربی فارسی الفاظ اور صحت تلفظ و املا پر زور دیا اور پہلی تحریک اصلاح زبان کا آغاز کیا۔  ان شاعروں نے اردو کو فارسی اور زبان دکنی دونوں کے اثرات سے صاف کر کے سودا اور میر کے ہاتھوں میں اس کا ٹکسالی روپ دے دیا۔  اس طرح ۱۸۰۰ء تک ادبی اردو کا معیار متعین ہو گیا۔  میرو سودا کی شاعری نے اردو کے اصناف شعر متعین کر دئیے۔  دہلی کی ادبی زبان اس کے بعد اردو کے مختلف مرکزوں مثلاً دکن، فیض آباد، لکھنؤ، عظیم آباد وغیرہ میں پھیلتی پھولتی رہی۔  دہلی کے ساتھ لکھنؤ نے بھی اردو ادب کی دل کھول کر سرپرستی کی۔  اس طرح دہلی اور لکھنؤ اردو زبان و ادب کے بڑے مرکز بن گئے۔  لکھنؤ والوں نے فارسی عربی الفاظ کو ٹھیٹھ بول چال کے لفظوں پر ترجیح دی۔  ناسخ نے بہت سے الفاظ متروک قرار دئیے اور اردو کو کتابی اور خواص پسند بنا دیا۔

شمال میں ۱۸۳۵ء تک اردو نے سرکاری زبان کی حیثیت حاصل کر لی اور شمالی ہند کی سب سے وسیع اور اہم زبان بن گئی۔  چنانچہ انگریزوں نے ہندوستان میں حکومت کرنے کی خاطر اردو کی تحصیل کو لازمی قرار دیا۔  ۱۸۰۰ء میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا جہاں انگریزوں کو اردو سکھانے کا انتظام تھا۔  اس زمانے میں لاہور تا کلکتہ اور دہلی تا میسور اردو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی اہم علمی ادبی اور تعلیمی زبان بن گئی۔  یہ زمانہ اردو کی عام مقبولیت کا نقطۂ عروج تھا۔  اسی زمانہ میں اردو نثر کی طرف بھی توجہ کی گئی۔  ۱۸۳۲ء سے ۱۸۳۵ء تک علوم و فنون کی کئی کتابوں کے تراجم ہوئے۔  لیکن اردو کی ترقی کا یہ باب کھلا ہی تھا کہ ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ ہو گیا جس کے بعد انگریزوں کے دور حکومت میں بہار سے جدید ہندی کی تحریک کا آغاز ہوا۔  ادھر انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا اور اردو کی سرپرستی کم ہو گئی لیکن سرسیداحمد خاں اور ان کے ساتھیوں حالی، شبلی، محمد حسین آزاد اور نذیر احمد نے اپنی تخلیقات سے اردو کے دامن کو مالامال کیا۔  سرسید احمد خاں کے زمانے سے اردو زبان و ادب میں نمایاں انقلاب شروع ہوا۔  سرسید کی تصانیف نیز سائنٹفک سوسائٹی انسٹی ٹیوٹ گزٹ تہذیب الاخلاق اور ایم۔  اے۔  او کالج کے ذریعہ سے تعلیم اور وسائل تعلیم بھی وسیع ہوئے اور ان کے زیر اثر بہترین مصنف پیدا ہونے لگے ، جن کی اختراعات ادبی نے اردو ادب کو ترقی یافتہ زبانوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔  علمی سطح پر اردو زبان کی توسیع ہوئی اور تاریخ، فلسفہ، سیاسیات، تنقید ادب کی نئی اصطلاحات سے اردو پہلی بار آشنا ہوئی۔  ۱۹۰۰ء تک اردو زبان کی ہمہ گیریت مسلم ہو گئی لیکن اس دور میں لسانی کشمکش بھی شروع ہوئی۔  ۱۹۰۰ء میں بنارس میں ناگری پر چار فی سبھا اور ۱۹۰۳ء میں انجمن ترقی اردو کے قیام کے بعد اردو ہندی تنازعے نے ایک واضح شکل اختیار کر لی۔  تقسیم ہند ۱۹۴۷ء کے بعد اردو سیاست کا شکار بن گئی۔  مہاتما گاندھی کے نظریۂ ہندوستانی کونہ تو ہندی والوں نے مانا نہ اردو والوں نے۔  ادھر کانگریس میں بعض عناصر ہندی اور سنسکرت کے احیا کو ہندی قومیت کا جزو لاینفک سمجھنے لگے چنانچہ ۱۹۳۷ء میں جب پہلی کانگریسی وزارتیں صوبوں میں برسراقتدار آئی تھیں تو ان کے تعلیمی پروگرام نے اس مقصد کی وضاحت کر دی کہ ہندوستانی قومیت اب ہندی اور سنسکرت کی مدد سے ترقی کرے گی۔  ادھر مسلم لیگ نے اردو کی عام حمایت کا اعلان کر کے ہندوستان میں اردو کی ترقی کی راہوں میں رکاوٹ پیدا کر دی۔  رفتہ رفتہ تعصب اور تنگ نظری کم ہوئی، ریاستوں کی تنظیم نو کے لیے جو کمیشن بنا تھا اس نے لسانی اقلیتوں کے ساتھ انصاف پر زور دیا۔  اور ۱۹۶۹ء کے بعد مرکزی حکومت نے ایک بار پھر اردو کی اہمیت تسلیم کر لی اور تمام بڑی بڑی ریاستوں جیسے اتر پردیش، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، بہار میں اردو اکیڈمیاں قائم کیں۔  آزاد ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد یوپی، دہلی، بہار اور آندھراپردیش کے علاقہ تلنگانہ میں ہے شہری اور قصباتی سطح پر اس کے جاننے والے پنجاب، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی ہیں۔  گجرات، میسور، تامل ناڈ کے مسلمانوں میں یہ زبان خاص طور پر پڑھائی جاتی ہے اور کرناٹک میں کافی مسلمان اردو بولتے بھی ہیں۔  اردو بولنے والوں کی سب سے بڑی تعداد دو آبہ کے بالائی حصہ روہیل کھنڈ، خاص طور پر میرٹھ، سہارن پور، مظفر نگر، مرادآباد، بجنور، بریلی، رامپور، لکھنؤ، بارہ بنکی، حیدرآباد میں آباد ہے۔  اردو کا ایک اور مرکز سرینگر ہے۔  ریاست جموں و کشمیر کی سرکاری زبان اردو ہے۔  اردو دستور ہند کی آٹھویں جدول میں شامل ہے جس میں ان قومی زبانوں کے نام درج کیے گئے ہیں جن سے مرکز کی زبان کو مدد لینی ہے اردو رسم الخط عربی سے لیا گیا لیکن جس میں فارسی کے چار حروف پ، چ، گ، ژ کا اضافہ پہلے ہی ہو چکا تھا اردو کے لیے اس میں ہندی کی آوازیں بھی شامل کی گئیں۔  ٹ، ڈ، ڑ، بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، ڑھ، کھ، گھ۔  اردو رسم الخط میں ۴۵ حروف تہجی ہیں جن میں ۲۸ حروف عربی کے ہیں اردو کا تقریباً ۴؍۳ سرمایہ ہندوستانی ہے۔  چنانچہ فرہنگ آصفیہ کے اندرجات کے مطابق اردو کے 25½فی صد الفاظ سامی، فارسی، ترکی ایک فیصد یورپی اور 73½فیصد الفاظ ہندوستانی ہیں اور ان ہندوستانی الفاظ کے ذخیرے میں ہی برابر اضافہ ہو رہا ہے۔

 

دکن میں اردو کا آغاز و ارتقا

دکن میں اردو کا آغاز و ارتقا اردو دہلی اور اس کے نواح کے علاقے میں پیدا ہوئی اور علاء الدین خلجی، ملک کافور اور محمد تغلق کے حملوں کی وجہ سے دکن پہونچی۔  جہاں اس کو مختلف نام دیے گئے ، مثلاً، ہندی، ہندوی، گوجری، گجری، ، دکنی، مسلمانی، ترکاماٹا، زبان اہل ہند، زبان دہلی، زبان ہندوستان وغیرہ۔  دکنی اسی اردو کا وہ قدیم روپ ہے جو تیرہویں صدی عیسوی سے سترہویں صدی عیسوی تک دکن اور گجرات میں پروان چڑھتا رہا۔

 ۱۷۰۰ء میں جب دہلی میں ’’ریختہ‘‘ کے نام سے اردو شاعری کا احیا ہوا تو دہلی کی زبان دکنی سے بہ اعتبار صوتیات و صرف و نحو وغیرہ کسی قدر مختلف ہو گئی اور معیاری اردو کہلائی اور اس کی وہ شکل جو دکن میں تھی اسے دکنی کہا جانے لگا۔  دکن کے اولین مراکز گجرات اور دولت آباد تھے۔  چنانچہ دکنی زبان ’’گوجری‘‘ اور ’’گجری‘‘ بھی کہلائی۔  ڈاکٹر چٹرجی گجری کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں : دکنی کا نام گجری، اس کی اصلیت اور مشاہبت کا آئینہ دار ہے۔  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے گوجر جنہوں نے پنجاب کے شہروں کو گجرات اور گوجر انوالہ کا نام دیا شمالی ہند کی فوجوں کے ساتھ ہجرت کر کے دکن گئے تو انہوں نے اپنے نام اور بولی کو کچھ دن کے لئے زندہ رکھا۔  شوکت سبزواری کے خیال میں :۔  ’’دکنی، گجری، گجراتی دراصل وہی زبان ہے جو دلی سے ان علاقوں میں پہونچی البتہ ان میں مقامی الفاظ اور ترکیبیں شامل ہو گئیں ‘‘ دکنی کا علاقہ دکنی اور گجراتی کے اس اختلاط کی وجہ یہ ہے کہ ’’دکنی‘‘ کا لسانی خطہ جنوب کی مختلف ریاستوں یعنی گجرات، مہاراشٹر، آندھرا، میسور، تامل ناڈو کے موجودہ علاقوں پر مشتمل تھا جہاں اردو زبان کا یہ روپ دکنی کی شکل میں ترقی کرتا رہا۔  جو بہ اعتبار صوتیات صرف و نحو، لغت و عروض معیاری اردو سے مختلف تھا۔  اس کی وجہ سے بعض علما دکنی کو اردو سے علیحدہ زبان تسلیم کرنے لگے۔  ڈاکٹر محی الدین قادری زور، جنہوں نے ’’دکنی‘‘ کی بازیافت میں نمایاں حصہ لیا اور محمود شیرانی، جنہوں نے اردو کے آغاز کے بارے میں سب سے پہلے قلم اٹھایا ’’دکنی اور پنجابی‘‘ کی جزوی مماثلتوں کی بنا پر دکنی کا ماخذ پنجابی قرار دیتے ہیں۔  ڈاکٹر زور ہندوستانی صوتیات میں معیاری اردو کو کھڑی بولی سے مشتق اور ’’دکنی‘‘ کو ’’پنجابی‘‘ سے مشتق بتاتے ہیں۔  لیکن ڈاکٹر چٹر جی، ڈاکٹر ژول بلاک اور ڈاکٹر مسعود حسین خاں کی تحقیقات کی رو سے :۔  ’’دکنی‘‘، معیاری اردو کا قدیم روپ ہے جس کا ہیولیٰ، نواح دہلی کی بولیوں ، کھڑی، ہریانی اور میواتی سے تیار ہوا‘‘۔  دکن کا علاقہ ایک آریائی زبان مراٹھی سے بھی گھرا ہوا ہے اس لیے ’’دکنی‘‘ نے مراٹھی اور اس سے قبل مہاراشٹری پراکرت کا خاصا اثر قبول کیا۔  اس کے علاوہ دراوڑی خاندان کی زبانوں ، تامل، تلنگی، ملیالم، کنڑی سے گھری ہونے کی وجہ سے تلنگی، کنڑی اور تامل کے بعض الفاظ بھی دکنی میں شامل ہو گئے۔  لیکن ان زبانوں کے اثرات سے اردو قواعد محفوظ رہی۔  حقیقت یہ ہے کہ (۱) دکنی بہ استثنائے چند الفاظ اور اختلافات تلفظ، سلاطین دہلی کے عہد کی اردوئے قدیم کے سوا اور کچھ نہیں۔  (۲) ’’دکنی‘‘ کی فرہنگ اور خصوصیات صرف و نحو کی توجیہ نواح دہلی کی بولیوں ، بالخصوص ہریانی اور کھڑی سے مکمل طور پر کی جا سکتی ہے۔  (۳) ’’دکنی‘‘ نہ تو برج بھاشا سے نکلی نہ پنجابی سے۔  اس کا مولد و منبع نواح دہلی کی بولیاں ہیں۔  دکنی ’’صوتی تغیر‘‘ کے زیر اثر معیاری اردو بنی۔  ’’دکنی‘‘ یا اردوئے قدیم کی لسانیات کی مندرجہ ذیل خصوصیات ایسی ہیں جو بعد کے مرحلہ میں نہیں ملتیں۔  مثلاً: صوتی خصوصیات مصوتوں کی سطح پر اردوئے قدیم یا دکنی کی سب سے بڑی خصوصیت تخفیف صوت ہے یعنی:۔  (۱) اسمان بجائے آسمان (۲) ہائے ہوز کی تخفیف جیسے یہاں کے بجائے یاں (۳)د کنی میں بعض اوقات ’’ہ‘‘ زائد کر دی جاتی ہے جیسے مٹی کے بجائے مٹھی۔  (۴) ’’ق‘‘ اور ’’کھ‘‘ کی جگہ ’’خ‘‘ کی آواز جیسے ’’صندوخ‘‘ بجائے ’’صندوق‘‘ ’’راخ‘‘ بجائے ’’راکھ‘‘۔  (۵) ’’گ‘‘ کی جگہ ’’غ‘‘ کی آواز مثلاً ’’اغال دان‘‘ بجائے ’’اگال دان‘‘۔  (۶) ’’دکنی کا‘‘ میلان تشدید حرف کی طرف ہے جیسے چونا کے بجائے چننا۔  پھیکا کے بجائے پھکّا۔  صرفی خصوصیات جمع بنانے کے لئے ’’اں ‘‘ کا استعمال جیسے ’’کھیت‘‘ کی جمع ’’کھیتاں ‘‘۔  صرفی سطح پر دکنی زبان کی ایک خاص کلید ’’چ‘‘ تاکید کااستعمال ہے۔  چ تاکیدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مراٹھی سے مستعار لی گئی ہے۔  دکنی کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ دکنی لکھنے والوں نے عربی فارسی الفاظ کی بھی ’’تارید‘‘ کی نیز اپنا رشتہ کھڑی بولی اور شور سینی اپ بھرنش سے استوار رکھا۔  جس کے توسط سے وہ سنسکرت کے بھی قریب رہی چنانچہ دکنی لفظیات پر سنسکرت کے ’’تت سم‘‘ الفاظ کا چلن رہا ’’تدبھو‘‘ الفاظ دکنی نے قبول کئے۔  جیسے صنم کے بجائے ’’پیو‘‘ یا ’’پیا‘‘ محبت کے لئے پریم۔  دکنی کی ایک اور خصوصیت ہکار حروف کی تخفیف بھی ہے جیسے سمدھی بجائے سمدی۔  باندھنا کے بجائے باندنا۔  دکنی میں نیم مصوتے عام ہیں جیسے پٹا۔  ڈپا وغیرہ۔  دکنی میں جملوں کی ساخت میں فعل کو فاعل کے مطابق لایا جاتا ہے مثال کے طور پر لڑکی لڈو کھائی۔  لڑکیاں کاماں کرتیاں۔  دکنی نے اپنی ہمسایہ زبانوں تلنگی، کنڑی سے بھی الفاظ مستعار لئے جیسے کنڑی کا ہچّا بہ معنی دیوانہ۔  تلنگی کے الفاظ بونتا، دھپڑا، گھڑسی، راوٹی، بنڈی۔  واو عطف جو شمالی ہند کی اردو میں صرف فارسی عربی الفاظ کے درمیان لایا جاتا ہے۔  دکنی میں ہند آریائی اور عربی فارسی الفاظ کے درمیان بھی مروج ہے جیسے : گھر و دولت۔  دولت (فارسی) +گھر (ہندی) اس اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ دکن و گجرات کی اردو نے پنجابی کے علاوہ راجستھانی، گجراتی، برج زبانوں کے اثرات بھی قبول کئے تھے۔  مثلاً ہمنا، تمنا، راجستھان زبانوں کے ضمائر دکنی والوں نے اپنائے۔  اس وجہ سے ’’دکنی‘‘ اور ’’معیاری اردو‘‘ دو الگ الگ دھارے بن گئے

تیرہویں صدی سے سترہویں صدی تک دکنی ادب کے کئی اہم کارنامے منظر عام پر آئے۔  دکنی میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ ۱۸۶۷ء تک برقرار رہا چنانچہ ۱۸۶۷ء میں حیدرآباد کے ایک صوفی فقیر اللہ شاہ حیدر نے نہال چند لاہوری کی تصنیف ’’بکاولی‘‘ کے مقابل میں اپنی تصنیف ’’تناولی‘‘ پیش کی۔  باقر آگاہ اپنی مثنوی ’’گلزار عشق‘‘ کے دیباچے میں جو ۱۷۹۶ء میں لکھی گئی ’’دکنی‘‘ پر کئے ہوئے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :۔  ’’مقصود اس تمہید سے یہ ہے کہ اکثر جاہلان و ہرزہ سرایاں زبان دکنی پر اعتراض اور ’’گلشن عشق‘‘ و ’’علی نامہ‘‘ کے پڑھنے سے احتراز کرتے ہیں اور جہل مرکب سے نہیں جانتے کہ جب تک ریاست سلاطین دکن کی قائم تھی زبان ان کی درمیان ان کے خوب رائج تھی اور طعن شماتت سے سالم تھی اکثر شعرا وہاں کے ابن نشاطی، فراقی، شوقی، خوشنود، غواصی، ایاغی، ہاشمی، شغلی، بحری، نصرتی، مہتاب وغیرہ ہم نے اپنی زبان میں بے حساب قصائد، غزلیات، مثنویات اور قطعات رقم کئے اور داد سخنوری کا دئے ‘‘۔

  دکنی کے ادوار دکنی کی ترقی کا اندازہ لگانے کے لئے دکنی ادب کی تاریخ کو ان چار ادوار میں منقسم کیا جاتا ہے۔  پہلا دور:۔  گجرات میں دکنی یا قدیم اردو کا چلن۔  دوسرا دور:۔  ۱۳۲۴ء سے ۱۶۸۶ء تک علاء الدین خلجی اور محمد بن تغلق کے حملوں کے بعد بہمینہ سلطنت کے قیام اور بہمینہ سلطنت کے سقوط کے بعد گولکنڈہ، بیجا پور اور احمد نگر کے شمالی ہند میں انضمام تک۔  تیسرے دور:۔  اور نگ زیب کے عہد میں دکنی کا اہم مرکز اور نگ آباد تھا۔  چوتھا دور:۔  دور آصفی۔  مرکز گجرات گجرات میں اس زبان کی سرپرستی حضرت عین الدین گنج العلم، شاہ علی جیو گام دھنی، بہلاء الدین باجن، شیخ خوب محمد چشتی، جیسے علما و صوفیا نے کی۔  شاہ علی جیوگام دھنی نے اپنی یادگار ایک اردو دیوان ’’جواہر اسرار اللہ ‘‘ چھوڑا شیخ خوب محمد نے اپنے مرشد بہاء الدین باجن کے کلام کی شرح ’’خوب ترنگ‘‘ کے نام سے لکھی۔  ما بعد کے زمانے میں محمد امین گجراتی کی تصنیف ’’یوسف زلیخا‘‘ قدیم اردو کی اہم تصنیف ہے۔  سید علی جیوگام دھنی کے کلام کو ان کے ایک شاگرد نے ترتیب دیا اس میں ان کی شاعری کے متعلق لکھتا ہے۔  ’’دربیان توحید و اسرار باالفاظ گجری بطریق فرمودہ‘‘ یہ نام گجری اور گوجری دکنی کے لیے اس دور میں خاصہ مقبول رہا۔  چنانچہ بیجاپور کے مشہور صوفی شاہ برہان الدین جانم اپنی تصانیف ’’کلمۃالحقائق‘‘ اور ’’حجۃ البقاء‘‘ میں دکنی کو گجری کے ہی نام سے یاد کرتے ہیں ۔

  گجرات کے ساتھ دکنی کی سرپرستی دکن کی جن سلطنتوں نے کی ان میں سلطنت بہمینہ اور اس کے انفراض کے بعد عادل شاہی، قطب شاہی، نظام شاہی، عماد شاہی، برید شاہی وغیرہ مشہور ہیں۔  بہمینی سلطنت کے زمانے میں دکنی کی ترقی علاء الدین خلجی ملک کافور نے ۱۳۱۰ء تک دکن کا کچھ حصہ فتح کر لیا تھا ۱۳۲۴ء میں محمد تغلق نے دیو گڑھی دولت آباد کو ہندوستان کا پایۂ تخت بنانا اور دہلی سے کثیر پیمانے پر آبادی کا انتقال عمل میں آیا۔  اس طرح ’’دکنی‘‘ (قدیم اردو) خاص طور سے مہاراشٹر (دولت آباد) کے اطراف کے علاقہ میں تیزی سے پھیلنے لگی۔  کیونکہ دکن میں مراٹھی، کنڑی، تلنگی اور تامل زبانیں بولی جاتیں تھیں۔  اس لئے اردو یا دکنی ہی مشترک زبان کے طور پر حاکم و محکوم کے مابین ارتباط کا ذریعہ بنی۔  دکنی کی اشاعت و ترویج دو محاذوں سے ہوئی ’’خانقاہ‘‘ اور ’’دربار‘‘ خانقاہوں میں صوفیا نے عقائد و مذہب کی تبلیغ کا ذریعہ اس مشترک زبان کو بنایا جو دکن میں مقبولیت حاصل کر رہی تھی۔  اس لیے جب محمد بن تغلق کے خلاف دکنی امرا نے علم بغاوت بلند کر کے علاء الدین حسن بہمینی کو اپنا فرماں روا تسلیم کیا تو دربار میں بھی اس زبان کی سرپرستی کی گئی۔  بہمینی خاندان کے حکمرانوں نے جہاں مقامی زبانوں کی سرپرستی کی وہیں عربی، فارسی، اردو (دکنی) کو بھی فروغ دیا۔  بہمینی دور کے اکثر فرماں روا علم دوست اور ادب پر ور تھے۔

  احمد شاہ بہمینی کے زمانے میں حضرت سید بندہ نواز گیسو دراز دن تشریف لائے آپ نے عربی فارسی کی تصانیف کے علاوہ چند رسائل ’’دکنی‘‘ میں تصنیف فرمائے ، اور بعض رسائل کو غلط طور پر آپ سے منسوب کر دیا گیا۔  بہر حال یہ امر مسلم ہے کہ اس زمانے تک دکنی زبان میں اتنی سکت آ گئی تھی کہ وہ اظہار خیال کا ذریعہ بن سکے۔  خواجہ بندہ نواز کے خلفاء اور تلامذہ میں بھی کئی نے اس زبان میں تصنیف و تالیف کا کام کیا۔  بہمینی دور کے مشہور شعرا اور ادبا جن کے کارنامے منظر عام پر آ چکے ہیں مندرجہ ذیل ہیں :

 ۱۔  حضرت عین الدین گنج العلم گجرات سے دکن تشریف لائے۔

 ۲۔  سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز

 ۳۔  حضرت اکبر حسینی

 ۴۔  خصرت عبد اللہ حسینی

 ۵۔  نظامی۔  مصنف کدم راو پدم راؤ

 ۶۔  امیر الدین شاہ میراں جی شمس العشاق

 ۷۔  فیروز مصنف پرت نامہ یا توصیف نامہ میراں محی الدین

۸۔  اشرف مصنف نوسرہار

 ان کے علاوہ احمد، محمود، آذری، خیالی وغیرہ کے بھی نام ملتے ہیں۔  ۱۵۶۷ء مطابق ۹۳۴ھ؁ میں بہمینی حکومت کمزور ہو گئی اور اس کے پانچ صوبوں ، یعنی بیجاپور، گولکنڈہ، احمد نگر، برار اور بیدر کے صوبہ داروں نے بغاوت کر کے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔  بیجا پور میں عادل شاہی، گولکنڈہ میں قطب شاہی، احمد نگر میں نظام شاہی، اور بیدر میں برید شاہی سلطنتوں کی بنیاد بڑی جس میں سے برید شاہی اور عماد شاہی سلطنتیں کمزور ہونے کے باعث عادل شاہی نظام شاہی اور قطب شاہی میں ضم ہو گئیں بیدر کی برید شاہی کو عادل شاہی سلطنت نے برار کی عماد شاہی کو احمد نگر ک ی نظام شاہی حکومتوں نے ختم کر دیا۔  بقیہ تین سلطنتوں کے حکمرانوں یعنی عادل شاہی، قطب شاہی اور نظام شاہی سلطنتوں نے نہ صرف شعر و ادب کی سرپرستی کی بلکہ خود بھی اس زبان کو ادبی اظہار کا وسیلہ بنایا۔  سلطنت قطب شاہی قطب شاہی خاندان کے پانچویں فرمانروا محمد قلی قطب شاہی جس نے پچاس ہزار کے قریب شعر کہے یہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا۔

اس خاندان کے دوسرے فرماں رواؤں سلطان محمد، سلطان عبد اللہ، اور ابوالحسن تانا شاہ نے بھی اس زبان میں شاعری کی۔  لیکن ظل اللہ کو زور صاحب نے سلطان محمد قطب شاہ کا تخلصی بتایا ہے وجہی اس عہد کا مشہور شاعر اور نثر نگار ہے جس نے نظم میں ’’قطب مشتری‘‘ لکھنے کے علاوہ نثر میں ’’سب رس‘‘ لکھ کر دکنی نثر کو ادبی رنگ دیا۔  ابھی تک دکنی نثر صرف مذہبی اور فلسفیانہ موضوعات کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔  وجہی پہلا شخص تھا جس نے اس زبان کے لیے ’’دکنی‘‘ کا لفظ استعمال کیا اگرچہ سب رس میں ہی اپنی زبان کو ’’زبان ہندوستان‘ ‘ کہتا ہے۔  وجہی کے علاوہ اس عہد کے دوسرے اہم شاعر غواصی اور ابن نشاطی ہیں غواصی (مثنوی سیف الملوک و بدیع الجمال، طوطی نامہ، مینا ست ونتی، ابن نشاطی کی مثنوی پھول بن، جو ایک فارسی مثنوی بساتین کا ترجمہ ہے ، شاعرانہ صنعت گری کا کمال ہے۔  جن میں مصنف نے انتالیس صنعتیں استعمال کی ہیں۔  اس دور کے دوسرے مشہور شاعر اور ادیب حسب ذیل ہیں۔

 ۱۔  حسن شوقی ۲۔  جنیدی (مثنوی ماہ پیکر) ۳۔  قطبی (تحفۃ النصائح) ۴۔  سلطان (دیوان) ۵۔  سید بلاقی (معراج نامہ) ۶۔  شاہ راجو، میراں جی خدا نما (تمہیدات عین القضاۃ) ۷۔  طبعی (بہرام و گل اندام) ۸۔  سیوک (مرثیے ) ۹۔  خواص (مرثیے ) ۱۰۔  غلام علی خان لطیف (ظفر نامہ محمد حنیف) ۱۱۔  غلام علی (مصنف پدماوت) ۱۲۔  احمد (مصنف لیلیٰ مجنوں ) ۱۳۔  افضل قصیدہ گو۔

ان مصنفین کی زبان قدیم اردو یا دکنی کے مستند نمونے پیش کرتی ہے یہ اپنی زبان کو ’’دکنی‘‘ کہتے ہیں۔  ابن نشاطی کہتا ہے اسے ہر کسی کے تئیں سمجھا کوتوں بول- دکن کی بات سوں سرّیاں کو کہہ کھول۔  ایک گمنام شاعر کہتا ہے۔

دکنی میں مجکوں مہارت ایتی

کہ النصر منکم کہے نصرتی

 عادل شاہی بیجا پور کی عادل شاہی سلطنت نے بھی قطب شاہیوں کی طرح دکنی کی سرپرستی کی۔  اس خاندان کے دو فرماں روا ابراہیم عادل شاہ ثانی اور علی شاہ ثانی المتخلص بہ شاہی نے دکنی میں شاعری بھی کی۔  ابراہیم عادل شاہ نے نورس میں برج بھاشا کے علاوہ بعض گیت دکنی میں بھی لکھے تھے اگرچہ ان گیتوں پر برج بھاشا کا اثر زیادہ غالب ہے تاہم اس کے درباری شاعر عبدل کی مثنوی ’’ابراہیم نامہ‘ شمالی ہند کی دہلوی اور جنوبی ہند کی دکنی کا بڑا اچھا امتزاج پیش کرتی ہے۔  اس شاعر نے اپنے آپ کو دہلوی ظاہر کرتے ہوئے دکنی میں لکھنے پر فخر کیا ہے۔  علی عادل شاہ شاہی کا دیوان محمد قلی کے دیوان کی طرح تمام اصناف پر محیط ہے۔

ان بادشاہوں کے علاوہ بیجا پور کے صوفیا نے بھی اردو نثر و نظم کو مالا مال کیا۔  ان میں شمس العشاق میرا ں جی، ان کے بیٹے برہان الدین جانم اور پوتے شاہ امین الدین اعلی و نیز ان کے خلفا و تلامذہ شامل ہیں۔  شاہ میراں جی شمس العشاق کی تصانیف لسانی اہمیت کے حامل ہیں مثنوی شہادت الحقیقت، خوش نامہ، خوش نغز، مغز مرغوب کے مخطوطات مختلف کتاب خانوں میں موجود ہیں۔  شاہ برہان الدین جانم کی تصانیف میں کلمۃ الحقائق (نثر) سکھ، سہیلا، مثنوی ارشاد نامہ، مثنوی بشارت الذکر وغیرہ دستیاب ہیں شاہ امین الدین اعلیٰ نے بھی کئی مثنویاں لکھیں۔  گفتار شاہ امین، محب نامہ اور گنج مخفی وغیرہ شائع ہو چکی ہیں۔  اس کے علاوہ عادل شاہی دور کے جن شعرا و ادبا کے کارنامے دستیاب ہوئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔

مثنوی ابراہیم نامہ از عبدل، مثنوی چندر بدن و ماہ از مقیمی، مثنوی کشف الوجود مثنوی کشف الانوار از شاہ داول، مثنوی بہرام و حسن بانو از امین و دولت، مثنوی فتح نامہ از نظام شاہ، مثنوی میزبانی نامہ از حسن شوقی۔

حسن شوقی کا تعلق دکن کے تینوں درباروں سے رہا۔  مثنوی قصہ بے نظیر اور گلدستہ از صنعتی، مثنوی نجات نامہ از ایاغی، مثنوی جنت سنگار از ملک خوشنود، مثنوی خاور نامہ از رستمی (۲۴ ہزار اشعار پر مشتمل رزمیہ مثنوی لکھی جو اردو کی سب سے ضخیم مثنوی مانی جاتی ہے۔  ) مثنوی علی نامہ، گلشن عشق و تاریخ اسکندری از ملک شعرا بیجا پور ملا نصرتی مثنوی یوسف زلیخا از ہاشمی، دیوان ہاشمی (ریختی) بھی اہم ہیں۔  اس کے علاوہ مثنوی قصص الانبیاء از قدرتی، مثنوی اسرار عشق از مو من مثنوی گنج مخفی، شجرۃ الاتقیا، نظم سی حرفی، دیوان شاہ معظم از معظم، روصۃ الشہدا از سیوا وغیرہ۔  مغل عہد ۱۶۸۶-۱۷۵۰ء سترہویں صدی عیسوی میں دکن کی سلطنتوں عادل شاہی، قطب شاہی اور نظام شاہی کا مغل سلطنت میں انضمام عمل میں آیا۔  اس دور میں مرثیہ گوئی کی کافی ترقی ہوئی۔  ڈاکٹر زور اس کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ اور نگ زیب اور اس کے کارندوں کی سیاست کے ڈر سے دکنی ادیب اور شاعر اپنے جذبات و خیالات کو صاف ظاہر نہیں کر سکتے تھے۔  اس لیے انہوں نے مرثیے کو اپنے جذبات کے اظہار کا وسیلہ بنا لیا۔

اس دور میں جن شاعروں اور ادیبوں نے دکنی میں اپنے کارنامے چھوڑے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔  قاضی محمود بحری (من لگن وبنگاب نامہ اور دیوان) پیرزادہ روحی ہاشم علی، مرزا، ضعیفی (ہدایات ہندی)، شاہ عنایت (نور نامہ)، شاہ عبد الرحمن قادری (مصنف باغ حسینی)، سید محمد خان عشرتی (مصنف دیپک پتنگ وچت لگن) عشرتی کے فرزند سید احمد خان ہنر بھی صاحب تصنیف تھے۔  ان کی مثنوی ’’نیہہ درپن‘‘ جو پھول بن کے جواب میں لکھی گئی خاصی اہم ہے۔  یہ مثنوی اس زمانے کی دکنی تہذیب کی عکاس ہے۔  ہنر نے اس زمانے کی سجاوٹ اور زیبائش، کھانوں ، سالنوں ، میٹھوں وغیرہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔  شاہ حسین ذوقی کی تصانیف بحر العرفان، وصال العاشقین، وفات نامہ، ماں باپ نامہ، غوث نامہ مذہبی رنگ کی ہیں۔  اس دور کا ایک اور مشہور شاعر وجیہہ الدین وجدی ہے جس کی تصنیف ’’پنچھی باچھا‘‘ ہے۔  یہ منطق الطیر کا ترجمہ ہے اور باغ جاں فزا اور تحفۂ عاشقاں بھی فارسی صوفیانہ مثنویوں کے تراجم ہیں۔  لیکن ولی اور نگ آبادی اس پورے دور کے سب سے اہم شاعر ہیں۔  ان کی شاعری کو بجا طور پر عہد آفریں اور عہد ساز کہا جا سکتا ہے۔  اور نگ زیب نے بیجا پور، احمد نگر اور حیدرآباد کی رونق تو کم کر دی وہاں کی محفلیں اجڑ گئیں اور چہل پہل ختم ہوئی لیکن اس کی وجہ سے اور نگ آباد شعرو ادب، علم و فن اور تہذیب و ثقافت کا ایک ایسا مرکز بن گیا جس کی اہمیت اور نگ زیب کی وفات کے تقریباً ایک صدی بعد تک قائم رہی۔  بیجا پور اور حیدرآباد کے باقی ماندہ شعرا وہاں جمع ہو گئے۔  ولی کے علاوہ اس عہد کے دکنی شعرا میں سراج اور عزلت دوسرے اہم شاعر ہیں جنہوں نے دکنی بالخصوص قدیم غزل کو نئی آب و تاب دی۔  لیکن ولی کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ ولی نے دلی کا سفر کیا اور وہاں کے مشاعروں میں اپنا کلام سنا کر وہاں کے شاعروں کو اردو کی طرف مائل کیا۔  یہ گویا مفتوح کی فاتح پر فتح تھی۔  کیونکہ شمالی ہند کی فوجوں نے دکن پر سیاسی فتح حاصل کی تھی۔  لیکن دکن کے اسی شاعر نے پر ادبی فتح حاصل کر لی اور اس زبان کا ڈنکا دی کہ مشاعروں اور محفلوں میں اس طرح بجوایا کہ ’’دکنی‘‘ وہاں کی محفلوں کی جان بن گئی اور دلی کے شعرا نے اسے ریختہ کا نام دے کر شاعری کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔  چنانچہ شمالی ہند کے شاعروں اور تذکر رہ نگاروں نے ولی ہی کو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر سمجھ لیا۔

ولی کے علاوہ جن دکنی شعرا نے وی میں شہرت حاصل کی ان میں فقیر اللہ آزاد اور فراقی مشہور ہیں۔  لیکن دہلی میں ’’دکنی‘‘ نے بہت جلد اپنی ہیئت تبدیل کر لی۔  مرزا مظہر جان جاناں اور حاتم نے ’’اصلاح زبان‘‘ کی تحریک شروع کی جس کے تحت دکنی کی لفظیات کو تبدیل کیا۔  دکنی سے برج، راجستھانی، پنجابی اور کھڑی کی آمیزش ختم کر کے اسے عربی اور فارسی کے قریب کر دیا۔  اس کا ثبوت دیوان زادہ حاتم کا فارسی پیش لفظ ہے جس میں حاتم نے وضاحت کر دی کہ ’’ملک کی زبان اور ہندوی کہ اس کو بھاکا کہتے ہیں موقوف کر کے فقط روز مرہ کہ عام فہم اور خاص پسند تھا اختیار کیا۔  اس کے بعد لکھتے ہیں کہ: ’’ا س انتخاب میں قدیم (دکنی) طرز کے اشعار میں نے نہیں درج کئے اگر کوئی ملیں تو مجھے معاف کیجئے ‘‘ اس طرح اٹھارویں صدی کے اوائل تک دکنی، صوتی تغیرات کے زیر اثر شمال میں ’’اردوئے معلی ‘ ‘بن گئی۔  لیکن جنوبی ریاستوں جیسے مدراس، کرناٹک اور حیدرآباد میں ۱۸۶۷ء تک اسی زبان میں تصنیف و تالیف کا کام ہوتا رہا۔  ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب مدراس میں اپنے قدم جمائے تو انہوں نے فورٹ سینٹ جارج کالج کے معلمین سے دکنی میں کتابیں لکھوائیں۔  جس کا نمونہ ’’انوار سہیلی‘‘ مصنفہ، محمد ابراہیم ہے۔  لیکن سترہویں صدی کا اواخر اور اٹھارہویں صدی کا اوائل اردو شعر و ادب کے لئے بڑا ساز گار رہا۔  کیونکہ اسی زمانے میں اردو نے مغل دربار میں بار پایا۔  شاہان اودھ نے اس کی سرپرستی کی اور پرتگیزی، فرانسیسی اور انگریز نو واردین نے زبان ہندوستان یا ہندوستانی کی ترویج و اشاعت کے لئے سینٹ جارج کالج مدراس، فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور دلی کالج قائم کئے۔  اس دوران بھی دکنی کا تسلسل قائم رہا۔  گو نظم کا رواج کم ہو گیا لیکن نثر میں یہ روایت برقرار رہی۔  بالآخر سرسید تحریک نے دکنی کے چلن کو بالکل موقوف کر دیا۔  جامعہ عثمانیہ کے قیام کے بعد تو یہ داستان پاستاں صرف ’بولی‘ کے روپ میں رہ گئی۔  اور صرف و نحو و محاورہ و زبان کے اعتبار سے معیاری اردو دکنی سے اس حد تک مختلف ہو گئی کہ ’’دکنی‘‘ کو اردو کا بگڑا ہوا روپ سمجھا جانے لگا۔

 

اردو ادب سقوط دکن سے ۱۸۵۷ء تک

اردو ادب سقوط دکن سے ۱۸۵۷ء تک ہندوستان میں ترکوں کی حکومت قائم ہو جانے کے بعد گجرات میں گجراتی، بنگال میں بنگالی، سندھ میں سندھی، دہلی میں کھڑی بولی، متھرا میں برج بھاشا، اودھ میں اودھی اور دکن میں دکنی یا قدیم اردو کو فروغ حاصل ہوا اور ان کے لکھنے کے لیے ابتداء میں بالعموم فارسی رسم الخط استعمال کیا گیا۔  سکندر لودی ۱۴۸۸۔  ۱۵۱۸ء کے زمانے میں تو فارسی رسم الخط میں ہندوستانی آوازیں مثلاً ٹ، ڈ، ڑ بھی شامل ہو گئی تھیں۔  دکنی یا ہندوی کا لفظ جس کی روداد ہم آگے بیان کریں گے کبھی کبھی فارسی ادب سے ممیز کرنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔  اس میں دکنی ریاستوں کی بدولت قابل توجہ ادب کا اضافہ ہو چکا ہے۔  اور نگ زیب نے ۱۶۸۶ء میں بیجا پور اور اس کے ایک سال بعد گول کنڈہ پر قبضہ کر لیا اب کابل سے کاویری تک مغلوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔  یہ واقعہ سیاسی اعتبار ہی سے نہیں بلکہ تہذیبی اور لسانی نقطۂ نظر سے بھی اہم ہے۔  اور نگ زیب نے اور نگ آباد کو اپنا دوسرا دارالخلافہ بنایا جو محمد بن تغلق کے انتظامیہ کے مرکز یعنی دولت آباد سے صرف چند میل پر واقع ہے۔  اس لیے اور نگ آباد کی زبان دکن کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں دہلی سے قریب ہے۔  دکن کا دہلی کے رشتے میں منسلک ہو جانا معمولی واقعہ نہیں ہے۔  یہ فوج کشی ۱۶۸۱ء میں شروع ہوئی اور ۱۶۹۰ء میں پورا دکن اور نگ زیب کے قبضۂ اختیار میں تھا۔  گول کنڈہ اور بیجا پور کی ریاستیں ہمیشہ کے لیے نابود ہو گئیں اور اور نگ آباد مغلوں کا دکنی دار السلطنت بن گیا۔  مغلوں کے تسلط نے اس علاقے کا رشتہ نواح دہلی کی زبان سے ، جو اردو کا مولد و مصدر تھا، پھر قایم کر دیا۔  دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ شعرا اور نثر نگار جو نئے حالات سے مقابلہ یا مفاہمت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔  وہ جنوب بعید، یعنی مدراس، ارکاٹ، میسور اور ویلور کے علاقے میں جا بسے۔  اس سے بھی اردو شعر و ادب کی نشر و اشاعت ہوئی اور ان علاقوں میں اردو اپنی تمام پرانی ادبی روایات کے ساتھ ایک صدی تک رائج رہی۔  دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ویلور، مدراس اور میسور میں قدیم دکنی اردو فروغ پاتی رہی۔  اور نگ آباد اور حیدرآباد کے علاقوں میں وہ تازہ زبان دہلی جو شمالی ہند میں بہت سے تشکیلی مراحل سے گذر چکی تھی پھولتی پھلتی رہی۔  اس لیے کہ مغلوں کے ساتھ دہلی کے بہت سے باشندے آ کر دکن میں بس گئے تھے۔  اسی لسانی رجحان کا نمائندہ ولی دکنی ہے۔

گول کنڈہ اور بیجا پور کا خاتمہ ایک عہد اور ایک تہذیب کا خاتمہ ہے۔  اس تہذیب کے تانے بانے شیعی عقائد نے بنے تھے۔  انضمام سلطنت کے بعد دکنی شعرا نے مرثیے کی طرف خاص توجہ کی۔  اس سے نہ صرف ایک اہم صنفِ سخن کو فروغ حاصل ہوا بلکہ ان شعرا کا تزکیۂ نفس بھی ہوا۔  وہ محض شہدائے کربلا کے غموں ہی کو بیان نہیں کرتے بلکہ اس پیرائے میں گول کنڈہ اور بیجا پور کے زوال کا بھی ماتم کرتے ہیں۔  روحی، قادر اور مرزا اس عہد کے معروف مرثیہ نگار ہیں اور ان کا ذکر جستہ جستہ اردو کے شہ پارے کے علاوہ بعض تذکروں اور فہرستوں میں بھی ملتا ہے۔  لیکن ان کے حالات پردۂ خفا میں ہیں۔  اسی زمانے میں شیخ داؤد نے عام رجحان کے خلاف اور نگ زیب کی تعریف میں اشعار لکھے۔  ان کا ’’ہدایت نامہ ہندی‘‘ (۱۶۸۸) خاص طور پر مشہور ہے۔  اسی طرح شاہ عنایت کی مثنوی ’’نور نامہ‘‘ (۱۶۹۹) حضور رسالت مآب کی نعت میں لائق ذکر ہے۔  دور مغلیہ کے شاعروں میں محمود بحری کا نام سرفہرست ہے جو بیجا پور کے زوال کے بعد حیدرآباد میں رہنے لگے تھے۔  یہیں انہوں نے اپنی صوفیانہ مثنوی ’’من لگن‘‘ لکھی جو مضامین تصوف و معرفت سے مملو ہے۔  بحری کی زبان قدیم دکنی محاوروں سے معمور ہے۔  انہوں نے ہندی الفاظ اور دیسی خیالات و افکار سے بھی استفادہ کیا ہے۔

دکنی اردو میں ایک دوسرا اہم رجحان ولی دکنی ۱۶۶۷۔  ۱۷۴۱ء سے شروع ہوتا ہے۔  ان کے آخری زمانے کے کلام دہلی کے تازہ اور فارسی آمیز محاورے سے قریب تر ہے۔  اردو میں یہ بحث ایک عرصے سے چلی آر ہی ہے کہ ولی گجراتی تھے یا اور نگ آبادی۔  لیکن حقیقت یہ ہے کہ گجراتی اور اور نگ آبادی اردو میں زیادہ فرق نہیں ہے۔  ان کا دہلی جانا اور سعد اللہ گلشن سے ملنا اور ان کی نصیحت پر عمل کرنا تذکروں سے ثابت ہے۔  اسی وجہ سے ابتدائی کلام دکن کے محاورے سے قریب ہے اور آخری کلام محاورہ دہلی سے اثر پذیر ہے۔  ولی کے اولیات میں یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے غزل کو نیا رنگ و آہنگ بخشا اور اسے اس قابل بنایا کہ وہ خانقاہوں ، مراختوں اور ادبی محفلوں کو گرما سکے۔  اس عہد کے لکھنے والوں میں سید شاہ محمد قادری، شاہ ولی اللہ قادری مترجم ’’طوطی نامہ‘‘ ابو الفضل خاص طور پر لائق ذکر ہیں۔  اس کے بعد محمد باقر آگاہ، مولانا محمد غوث اور قاضی بدر الدولہ نے اردو کے مذہبی ادب میں اضافہ کیا لیکن ان کی زبان قدامت آمیز ہے اور شمال کے مقابلہ میں ادبی محاسن سے عاری ہے جن لوگوں نے دکن کے قدیم محاورے کی پیروی کی اور اور نگ آباد سے متاثر نہیں ہوئے ان میں عشرتی اور وجدی کا نام لیا جا سکتا ہے۔  عشرتی کا مقابلہ بیجا پور کے مشہور شاعر نصرتی سے کیا جاتا ہے۔  ان کی مثنوی ’’دیپک پتنگ‘‘ اور ’’چت لگن‘‘ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں۔  لیکن ’’منطق الطیر‘‘ کا منظوم ترجمہ ’’پنچھی باچھا‘‘ شائع ہو چکا ہے۔  دکن پر مغلوں کا تسل ۱۶۸۷ء سے ۱۷۷۴ء تک یعنی ۸۷ برس رہا۔  یہ مدت اتنی کم ہے اور اس زمانے میں رسل و رسائل کی دشواریاں اتنی زیادہ تھیں کہ نئے رجحانات زیادہ نہیں ابھر سکے۔  اور اردو کا قافلہ کم و بیش ان ہی معنوی خطوط پر چلتا رہا جو سلاطین گول کنڈہ اور بیجا پور کے زمانے میں مرتب ہوئے تھے۔  دکنی اردو کا قدیم رجحان میسور اور ویلور میں قائم رہا۔  لیکن اور نگ آباد اور حیدرآباد میں دہلی کے متبع پر فخر کیا جانے لگا۔  بعض شعرا دکن کو چھوڑ کر شمالی ہندوستان چلے آئے اور طرز دہلی کی پیروی کرنے لگے۔  دکن میں مغلوں کا اقتدار ختم ہونے کے بعد اردو کا مرکز پھر شمالی ہندوستان میں منتقل ہو گیا۔

ولی اور مظہر جان جاناں کی زبان درحقیقت وہ زبان ہے جس کو تاریخ عرصہ سے سنوار رہی تھی دکنی ادب کے ذریعہ اردو میں جو ہندوستانی رنگ آیا تھا وہ پھیکا پڑ گیا اور اب وہ فارسی کے قالب میں ڈھلنے لگی۔  ۱۷۳۹ء میں جب نادر شاہ کا حملہ اور دہلی میں قتل عام ہوا تو ہندوستانیوں میں نہ صرف نادر شاہ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی بلکہ اس کی زبان کے خلاف بھی رد عمل ہوا۔  اسی زمانے میں غلام قادر روہیلہ نے شاہی خاندان پر طرح طرح کے مظالم کیے اور بادشاہ (شاہ عالم) کی آنکھیں نکال لیں۔  مرہٹوں اور جاٹوں کی شورش نے بھی دہلی کا امن و امان برہم کیا۔  غرض یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں کوئی بھی آسودہ حال نہ تھا۔  یہ صورت حال صوفیانہ فکر کے فروغ کا سبب بنی۔  یہ تصوف جس کا اظہار اردو شاعر ی میں گونا گوں طریقے سے ہوا ہے اس نے ان نامساعد حالات میں جینے کا ایک طریقہ سکھایا۔  صوفی شعرا نے دربار کی زوال آمادہ روایات کے خلاف خاموش احتجاج کیا۔  اور دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچا۔  جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ ذاتِ واحد یعنی ابدی سچائی اور انسانی درد مندی ہے۔

یہ دور جو ۱۸۵۷ ء پر ختم ہوتا ہے عظیم الشان مغل تہذیب کا بھی اختتامی دور ہے۔  اسی زمانہ میں بہت سے شاعر دہلی کی مصیبتوں سے تنگ آ کر لکھنؤ چلے گئے اور اس عدن آباد کی خزاں سے لکھنؤ کی چمن بندی کی گئی۔  جب لکھنو کی سیاسی آزادی مستحکم ہو گئی تو ادب میں بھی دہلی کا تسلط ہو گیا۔  یہ مہاجرت تو آسان تھی لیکن دہلی سے سب رشتوں کا منقطع کرنا گوشت کا ناخن سے جدا کرنا تھا۔  اس لیے کہ اصلاً دونوں تہذیبیں ایک ہی تھیں۔  مہاجر شاعر لکھنؤ میں بھی یہ کہتے تھے ’’از خاک پاک دہلی ہستم‘‘ اور ابتدا میں دہلی ہی کی روایات کو سند سمجھتے تھے۔  مگر مرثیے کا عروج اور مثنوی کی ترقی بہرحال لکھنؤ کی مرہونِ منت ہے۔

مغلیہ سلطنت کا یہ آخری دور سیاسی اعتبار سے ضرور زوال و انحطاط کا دور تھا لیکن فکری اعتبار سے اس کو ارتقائی دور کہا جا سکتا ہے۔  اس دور کے اہل علم زمانے کے نبض شناس تھے اور اہل تصوف نے ان روادارانہ رجحانات کو تقویت دی جو دارا شکوہ سے شروع ہوئے تھے۔  مثلاً ان کا خیال تھا کہ ہندو موحدین اور مسلمان صوفیا ایک ہی حقیقت کی تلاش کرتے ہیں اور ان کا اختلاف لفظی زیادہ ہے ، حقیقی کم۔  حضرت شاہ عبدالعزیز ’’بھگوت گیتا‘‘ کو اور مرزا مظہر جان جاناں ویدوں کو مقدس کتاب سمجھتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہندو توحید سے خالی نہیں ہیں۔  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے وسط سے ہندو اور مسلم تہذیبیں شیر و شکر ہو گئی تھیں۔  ان کے رسم و رواج اور آدابِ زندگی اور میزان اقدار میں کوئی فرق نہیں رہ گیا تھا۔

انیسویں صدی میں وہابی تحریک بھی ابھری جس کو در اصل ولی اللہی تحریک کہنا چاہئے۔  یہ حضرت مذہبی اصلاح کے ذریعہ ایک ایسا فعال معاشرہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔  جو انگریزوں کا مقابلہ کر سکے۔  اسی وجہ سے حضرت شاہ رفیع الدین اور حضر شاہ عبدالقادر نے قرآن پاک کے اردو میں ترجمے کیے تاکہ لوگ اسلام کی اصلی خوبیوں کی طرف رجوع کر سکیں۔  وہابی تحریک ہندوؤں کے خلاف نہیں تھی، انگریزوں کے خلاف تھی۔  وہابی علما نے کوئی فتویٰ مرہٹوں یا سکھوں کے خلاف شائع نہیں کیا۔  انگریزوں کے خلاف شائع کیا۔  ان کا سارا لٹریچر، ان کا روپیہ ان کے سپاہی ہندو ریاستوں میں سے ہو کر گزرتے تھے۔  اور ہندو راجاؤں اور تحصیلداروں کی مدد سے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے تھے۔  شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز نے ہندو مذہب کی مخالفت نہیں کی۔  چند ہندو رسوم کے اختیار کرنے کی مخالفت کی ہے۔  شاہ عبدالعزیز اور شاہ ولی اللہ دونوں مذہب کے معاملے میں کشادہ دل تھے اور موخر الذکر کرشن جی کو بہت بڑا درجہ دیتے تھے۔  وہابی تحریک میں جو لوگ شامل تھے وہ زیادہ تر غریب اور نچلے طبقہ کے لوگ تھے۔  جن کی تعلیم زیادہ نہیں تھی۔  ان لوگوں نے آسان نثر میں کتابیں لکھیں اور اپنے چھاپہ خانہ میں چھپوائیں تاکہ عوام تک پہنچ سکیں۔  اس سے اردو نثر کو یہ فائدہ پہنچا کہ اس میں آسان اور سلیس اسلوب کا رواج ہو گیا۔  وہابی تحریک پشاور سے پٹنہ تک اور ہگلی سے کرنول تک پھیلی ہوئی تھی۔  اس لیے وہابی علما نے آسان نثر کو چھاپے کے حروف میں پورے ملک تک پھیلا دیا۔  بغیر ان کی کوششوں کے دہلی کالج اور سر سید کی کوششیں بار آور نہیں ہو سکتی تھیں۔  وہابی ادب نے ان کے لئے راستہ کھول دیا اور جدید اردو نثر کی شاہراہ متعین کر دی۔  دلی کالج اور وہابی مصنفین کی کوششیں اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ وہ اس نظریے کی قطعی تردید کرتی ہیں کہ میرا من اور سر سید کا درمیانی زمانہ ادبی سرگرمیوں سے خالی ہے۔  اس زمانے میں فارسی سرکاری زبان تھی اور بنگال کی دیوانی تفویض کرتے وقت بھی اس کے تحفظ کا پورا سروسامان کیا گیا تھا۔

اردو کئی اعتبار سے تہی دامن تھی۔  وہ نرم و نازک بیل کی طرح فارسی کے درخت سے چمٹی ہوئی تھی۔  اس لیے اردو نثر و نظم پر فارسی کا اثر ایسا حیرت انگیز نہیں ہے۔  حیرت انگیز یہ امر ہے کہ وہابی مصنفین نے سر سید کی تحریک سے پہلے آسان نثر لکھنے کی کوشش کی اور اس کو عوامی ضروریات کا تابع کر دیا۔

فورٹ ولیم کالج لارڈ ویلزلی کے زمانے میں فتح میسور کی خوشی میں قائم کیا گیا تھا۔  ویلزلی اس کو مشرق کا دانش کدہ بنانا چاہتا تھا۔  تاکہ اس کے ذریعہ ایشیائی علوم اور ہندوستانی زبانوں پر تحقیق ہو سکے لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹر ایک ایسے اقامتی کالج کے لیے بھی تیار نہیں تھے جس میں اردو کے بتیس لڑکے فارسی کے چھتیس لڑکے ، عربی کے آٹھ لڑکے اور بنگالی کے چھ لڑکے زیر تعلیم ہوں۔  چنانچہ ۲۷؍ جنوری ۱۸۰۲ء کو یہ حکم صادر کیا گیا کہ کالج کو فوراً بند کر دیا جائے۔  لیکن ویلزلی اپنی بات پر اڑا رہا اور اس نے لکھا کہ اگر اس چھوٹے سے کالج کو بھی بند کر دیا گیا تو برطانوی حکومت ختم ہو جائے گی اور اس کے اقتدار کا جنازہ نکل جائے گا۔  بالآخر ۱۸۰۳ء میں کمپنی کے ڈائرکٹر کالج کو چلانے پر آمادہ ہو گئے لیکن لارڈ ولیم بینٹک کے زمانے میں انگریزی زبان کے ہم نوا غالب آ گئے اور گورنر جنرل نے ۱۸۳۱ء میں کالج کی کونسل کو برطرف کر دیا۔  لیکن یہ کالج پورے طور پر لارڈ ڈلہوزی کے زمانے میں ۲۴؍ جنوری ۱۸۵۴ء کو بند ہوا۔  فورٹ ولیم کالج سے اردو کو بالواسطہ فائدہ پہنچا لارڈ ویلزلی کا خیال تھا کہ ہندوستان پر حکومت کرنے کے لیے ہمیں ہندوستان کو جاننا چاہئے۔  اور س ملک کو جاننے کے لیے لوگوں سے گفتگو کرنا چاہئے۔  اور گفتگو کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کی زبان کی واقفیت ہو۔  چنانچہ اس کالج کا ایک اہم مقصد یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازموں کو اردو پڑھائی جائے اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ نئے طرز کی کتابیں تیار نہ کرائی جائیں۔  چنانچہ اس کالج کے منشیوں کو یہ ہدایت کی گئی کہ وہ تکلفات سے الگ ہو کر روز مرہ کی زبان میں ایسی کتاب لکھیں جو ہندوستانی ذہن اور ہندوستانی معاشرت کو سمجھنے میں مدد دیں۔  اس سلسلے کی سب سے اہم کتاب ’’باغ و بہار‘‘ ہے جس کے ایک سو سے زیادہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اہل لکھنؤ نے اس کو شائستہ زبان قرار نہیں دیا۔  یہ ہی نہیں بلکہ انہوں نے اس کالج کے مصنفین کی کسی کتاب کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔  اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فورٹ ولیم کالج ایک جزیرہ تھا جو مروجہ میلانات سے الگ تھلگ تھا۔  اس نے اپنے گرد و پیش کے ماحول پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا اور اس کی کتابیں باہر درس میں شامل نہیں ہوئیں۔  البتہ برطانوی اقتدار قائم ہو جانے کے بعد اس رجحان کو مزید تقویت حاصل ہوئی جو وہابی مصنفین اور فورٹ ولیم کالج کی بدولت شروع ہوا تھا۔

برطانوی اثر انیسویں صدی کی دوسری دہائی سے نمایاں ہوتا ہے۔  ۱۸۲۵ء میں (قدیم) دلی کالج قائم ہوا جس کی بدولت اردو میں نئے اور سائنسی خیالات داخل ہوئے۔  ۱۸۴۴ء میں اس کالج نے ایک ورناکیولر ٹرانسلیشن سوسائٹی قائم کی جس کے ذریعہ اردو میں سائنسی کتابوں کا اضافہ ہوا۔  کالج کے استاد رام چندر نے دو اخبارات ’’محب وطن‘‘ اور ’’مفید الناظرین‘‘ شائع کیے۔  جن کے ذریعہ اہل اردو مغربی خیالات اور ایک نئے طرز فکر سے روشناس ہوئے اور ایک پرنسپل ڈاکٹر اشپر نگر کی کوششوں سے ایک اخبار ’’قران السعدین‘‘ شائع ہونا شروع ہوا۔  جس کا مقصد مشرق اور مغرب کو ملانا تھا۔  جب ہم ان کوششوں کو یکجا کرتے ہیں اور ان افکار تازہ کا جائزہ لیتے ہیں جو اس وقت اردو کے حلقے میں پیدا ہوئے تو بلا تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہلی میں ایک سائنسی نشاۃ ثانیہ قائم ہو گئی تھی۔  اور غدر سے پہلے مغربی علوم و فنون کی چونچوں نے ذہن اور ضمیر میں تبدیلیاں پیدا کر دی تھیں۔

۱۸۶۴ء میں دہلی سوسائٹی قائم ہوئی جس کا مقصد ادبی مسائل پر بحث کرنا تھا۔  مرزا غالب جن کی وفات ۱۸۶۹ء میں ہوئی اس سوسائٹی سے وابستہ تھے۔  انہوں نے اردو نثر میں ایک نیا طرز نکالا اور بقول خود مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا۔  اردو کی تاریخ میں قدیم دلی کالج کی بھی نمایاں حیثیت ہے۔  اس کے مخاطب فورٹ ولیم کالج کے برخلاف انگریز نہیں بلکہ ہندوستانی تھے۔  اس کو قدیم سے بھی محبت تھی اور جدید سے بھی۔  اس نے اردو کو بھی فروغ دیا اور نئے خیالات کو بھی رائج کیا۔  اس میں سائنس، تاریخ، جغرافیہ اور ریاضی تمام علوم اردو کے ذریعہ پڑھائے جاتے تھے یہ سیکولر ادارہ تھا۔  اس میں رام چندر بھی تھے مولانا صہبائی بھی، پیارے لال آشوب بھی اور منشی ذکاء اللہ بھی۔  بنگال میں جو نشاۃ ثانیہ آئی تھی اس کی حیثیت تمام تر ادبی تھی لیکن دہلی میں اس کی حیثیت سائنسی، فکری اور عقلی تھی۔  مولوی نذیر احمد نے لکھا ہے کہ اگر میں دلی کالج میں نہ پڑھتا تو اندھا بہرا گونگا رہتا۔  دلی کالج کی شخصیتوں میں ماسٹر رام چندر کی حیثیت بہت ممتاز ہے انہوں نے سترہ کتابیں مرتب کیں جو سائنس، تاریخ، ریاضی اور جغرافیہ سے متعلق ہیں انہوں نے عقلی فکر اور سادہ اسلوب پر زور دیا۔  وطن دوستی اور سائنسی اور غیر جذباتی طرز فکر کو رائج کرنے کی کوشش کی۔  سماجی شعور، سائنسی اور سادہ اسلوب میں وہ بلاشبہ سرسید اور حالی کے پیش رَو ہیں۔  فورٹ ولیم کالج کا ایک بڑا کارنامہ اردو پریس کا قیام ہے۔  ڈاکٹر جان گل کرسٹ اور کالج کے منشیوں کی ساری تصانیف اسی پریس میں چھپتی تھیں۔  اودھ کے فرماں روا غازی الدین حیدر نے لکھنؤ میں ٹائپ کا چھاپہ خانہ قائم کیا۔  اور سب سے پہلے مشہور لغت ’’ہفت قلزم‘‘ شائع کی۔  دوسری قابلِ ذکر کتاب ’’لارڈ بروگ ہین‘‘ (Brooghan)کی انگریزی کتاب پلیژر آف سائنس (Pleasure of Science)کا ترجمہ ہے۔  کالج میں چھاپے کی جو سہولتیں تھیں وہ صرف مصنفین کالج کے لیے محدود تھیں۔  بیرون کالج کے مصنفین پریس کی سہولتوں سے ۱۸۳۷ء کے بعد ہی استفادہ کرسکے۔  حکیم شریف خاں نے قرآن پاک کا ۱۷۷۰ء میں اردو میں ترجمہ کیا لیکن یہ اشاعت سے محروم رہا اور اس لیے مشہور نہیں ہوا۔  ۱۷۹۰ء میں شاہ عبدالقادر نے قرآن پاک کا اردو میں ترجمہ کیا جس کی سنگ میل کی سی حیثیت ہے۔  بیرون کالج کے مصنفین میں انشاء اللہ خاں انشاء کی ’’رانی کیتکی کی کہانی ‘‘اور ’’دریائے لطافت‘‘ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔  موخر الذکر مرزا محمد حسن قتیل کے اشتراک سے مرتب کی گئی اور اردو قواعد پر پہلی کتاب ہے۔  انشا کی تصانیف سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں انگریزی الفاظ بھی داخل ہونے لگے تھے۔  ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ ایک چھوٹی سی داستان ہے جس میں صرف ہندوستانی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔  انشا نے ’’سلک گوہر‘‘ کے نام سے بھی ایک قصہ لکھا جس میں کوئی نقطہ دار حرف استعمال نہیں ہوا ہے۔  صاحبِ فسانہ عجائب مرزا رجب علی بیگ سرور کا نام غیر معمولی شہرت کا حامل ہے اس فسانہ کا قصہ طبع زاد نہیں ہے لیکن اس کی رنگین نثر اس تاریخی دور کی یادگار ہے۔

اس زمانے کی اردو نثر صرف داستانوں اور قصوں تک محدود نہیں ہے۔  اردو میں سائنسی لٹریچر بھی ۱۷۹۸ء سے مسلسل ملتا ہے اردو زبان میں سائنس کی سب سے قدیم کتاب ’’بحر حکمت‘‘ ہے جو ۱۷۹۸ء میں لکھنؤ کے مطبع مسیحائی سے شائع ہوئی۔  اس کے بعد نواب محمد فخرالدین خان امیر کبیر شمس الامرائے ثانی کی کوششوں سے اردو میں انگریزی اور فرانسیسی کی سائنسی کتابیں ترجمہ ہوئیں اور ۱۸۳۴ء میں انہوں نے ایک دار الترجمہ کی بنیاد رکھی۔  اس دار الترجمہ میں غلام محی الدین خان متین حیدرآبادی، میر امان علی دہلوی، میر شجاعت علی، رتن لال اور مسٹر جونس کام کرتے تھے۔  شمس الامرا نے دار الترجمہ کے ساتھ ایک سنگی چھاپہ خانہ بھی قائم کیا جس میں سائنسی آلات کے نقشے بھی چھپتے تھے۔  ۱۸۰۳ء میں لارڈ لیک کی فوجیں دہلی میں داخل ہوئیں اسی سال سدا سکھ لال نے ’’ہدایت نامہ مال گزاری‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔  انہوں نے ایک کتاب زراعت پر ’’گنگا کی نہر‘‘ کے نام سے بھی لکھی ہے۔  ۱۸۲۱ء میں اردو میں مغربی طب پر ایک کتاب شائع ہوئی جس پر کیپٹن جون ولیم ٹیلرنے نظر ثانی کی۔  یہ کتاب در اصل (Materia Medica)کا اردو ترجمہ ہے۔  اسی زمانے میں زراعت، معدنیات، میکانیات، طبیعات، علم ہیئت، کیمیا، ریاضی، فوجی علوم اور سیر و سیاحت اور فن لغت پر کتابیں شائع ہوئیں۔  اسی زمانے کے مورخوں نے اردو میں فارسی کے طرز پر تاریخی کتابیں لکھیں۔  بعض کتابیں فارسی سے ترجمہ ہیں۔  میر بہادر علی حسینی کی ’’تاریخ آسام‘‘ حیدر بخش حیدری کی ’’تاریخ نادری‘‘ اور میر شیر علی افسوس کی’’ آرائش محفل‘‘فارسی کے تراجم ہیں۔  ان میں آخری کتاب سبحان رائے کی خلاصۃ التواریخ کی تلخیص ہے۔  ۱۸۴۷ء میں سر سید احمد خان نے صہبائی کی مدد سے مرصع نثر میں ’’آثار الصنا دید‘‘ لکھی اور ابو الفضل کی ’’طبقات اکبری‘‘ کی تقلید میں شاعروں ، صوفیوں اور فنکاروں کا بھی ذکر کیا۔  اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۸۵۴ء میں شائع ہوا جو نسبتاً صاف اور سادہ اردو میں ہے۔  اس کتاب کا فرانسیسی میں ترجمہ ہوا اور اسی کی بنیاد پر سرسید رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے فیلو مقرر ہوئے۔

اس زمانے کی اردو نثر کا تذکر رہ نامکمل رہے گا اگر سیاحت ناموں کا ذکر نہ کیا جائے۔  یوسف خاں کمبل پوش پہلے سیاح تھے جو انگلستان گئے اور جنہوں نے اپنا سفر نامہ اردو میں لکھا۔  وہ ۱۸۳۷ء میں روانہ ہوئے اور ۲۵؍ جولائی ۱۸۳۸ء کو واپس آئے۔  یوسف خاں کمبل پوش حیدرآباد کے رہنے والے تھے۔  انگریزی سے واقف تھے۔  انہوں نے شاہ اودھ نصیر الدین حیدر کی ملازمت کے زمانے میں انگلستان جانے کا قصد کیا اور ’’عجائبات فرنگ‘‘ نام سے ایک کتاب لکھی جو ۱۸۴۷ء میں ماسٹر رام چندر کے رسالے ’’محب ہند‘‘ میں قسط وار شائع ہوئی۔  بعد میں یہ سفرنامہ کتابی صورت میں نول کشور سے شائع ہوا۔

اس زمانے کی اردو نثر میں ضخیم داستانیں بھی لکھی گئی ہیں ان میں جنوں اور پریوں ، بھوت پریت، جادو گر اور درویش، بادشاہ اور وزیر کی داستانیں ہیں۔  ان میں عشق و عاشقی بھی ہے۔  اور مہم جوئی تھی۔  زیادہ تر داستانیں فارسی یا سنسکرت کی تلخیص یا چربہ ہیں۔  ان کی ضخامت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔  ’’داستان امیر حمزہ‘‘ اور داستان ’’طلسم ہوش ربا‘‘ سترہ ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔  ’’بوستان خیال‘‘ میں چار ہزار صفحات ہیں۔  اسی طرح فورٹ ولیم کالج نے بھی بہت سے قصے شائع کیے جن سے اس زمانے کی معاشرت پر روشنی پڑتی ہے۔  اس سلسلے میں میر امن کی ’’باغ و بہار‘‘ حیدر بخش حیدری کی ’’طوطا کہانی‘‘ اور ’’آرائش محفل‘‘ اور خلیل خاں اشک کی ’’داستان امیر حمزہ‘‘ خاص امتیاز کی مالک ہیں۔

انیسویں صدی کے شروع میں اردو ڈرامے کا بھی آغاز ہوا۔  اس کی ابتدائی تاریخ ابھی تک پردۂ خفا میں ہے۔  بعض مورخین کا خیال ہے کہ ڈرامہ پرتگالیوں کی بدولت ہندوستان میں داخل ہوا اور بعض یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خالص ہندوستانی چیز ہے۔  لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب اردو ڈرامہ کا آغاز ہوا اس وقت سنسکرت ڈرامہ تھا اور اسکی حیثیت زندہ روایت کی باقی نہیں رہی تھی۔  البتہ اس کے کچھ آثار عوامی میلوں ، رہس اور سوانگ میں نظر آتے تھے۔  اب تک جو ڈرامے دریافت ہوئے ہیں ان میں مرزا محمد علی اور جانی بیگم کا ڈرامہ سب سے پہلا ہے۔  یہ ۱۸۱۶ء میں اور ۱۸۱۸ ء کے درمیان لکھا گیا اور پہلی دفعہ دہلی یونیورسٹی کے اردوئے معلی قدیم اردو نمبر میں شائع ہوا ہے۔  اسی سلسلے میں واجد علی شاہ کی تصنیف ’’رادھا کنہیا‘‘ کے قصے کا ذکر کیا جا سکتا ہے جو ایک قسم کا اوپیرا ہے اور ۱۸۴۲ء اور ۱۸۴۶ کے درمیان لکھا گیا سید آغا حسن امانت کی ’’اندر سبھا‘‘ ۱۸۵۲ء میں شائع ہوئی۔  یہ ایک طربیہ ہے جو موسیقی کی مدد سے مرتب کی گئی ہے اور جس کے بعض اجزا میر حسن کی ’’سحر البیان‘‘ سے ملتے جلتے ہیں۔

اردو کا پہلا اخبار ’’فوجی اخبار‘‘ تھا جو ٹیپو سلطان کی سرپرستی میں شائع ہوتا تھا۔  یہ انگریزوں کا سخت مخالف تھا اور صرف میسور کے فوجیوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔  سری رنگا پٹم کے سقوط کے بعد یہ اخبار بند ہو گیا۔  ۱۸۲۲ء میں کلکتہ سے ’’جام جہاں نما‘‘ شائع ہوا۔  اس کے ایڈیٹر لالہ سدا سکھ اور پیرس (W.E. Pearce)تھے۔  ۱۸۳۵ء میں چارلس مٹکاف (Charles Metcalfe)نے دیسی اخبارات کو آزادی دے دی اور اس کے ایک سال بعد ۱۸۳۶ء میں اردو کو عدالتی زبان قرار دے دیا گیا۔  ان دو وجوہ سے اردو اخبارات کوبڑی ترقی ہوئی۔  ۱۸۳۶ء میں آغا محمد باقر نے ’’دلی اردو اخبار‘‘ شائع کیا۔  اس کے اگلے سال سید احمد خاں کے بھائی سید محمد نے ’’سید الاخبار‘‘ نکالا۔  ۱۸۴۵ء میں دہلی کا ہفتہ وار اخبار ’’قران السعدین‘‘ شائع ہوا۔  اس پرچے کو ڈاکٹر اسپرانگر نے سائنس کے فروغ کے لیے نکالا تھا۔  ۱۸۴۵ء اور ۱۸۴۷ء سے ماسٹر رام چندر کے دو ماہوار رسالے ’’ فوائد الناظرین‘‘ اور ’’محب ہند‘‘ شائع ہونا شروع ہوئے۔  ان کا بھی مقصد سائنسی خیالات کو رائج کرنا تھا۔  ان کی بدولت اردو میں آسان نثر اور فکر و نظر کے نئے پیمانے آئے ۱۸۴۵ء میں دہلی کالج کے مولوی کریم الدین نے اپنا اخبار نکالنا شروع کیا۔  ۱۸۵۰ء میں لاہور سے ’’کوہِ نور‘‘ شائع ہوا اور ۱۸۵۴ء میں سید جمیل الدین نے دہلی سے ’’صادق‘‘ اخبار نکالا جو ۱۸۵۷ء کی بغاوت میں گھر گھر مقبول ہو گیا تھا۔  ۱۸۴۹ء میں شمالی مغربی صوبے میں اردو کے ۲۳؍ اخبار اور ۲۳؍ پریس تھے۔

ان اخباروں کو تنقید نے ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے لیے فضا ہموار کر دی اور وطن دوستی کا ایک نیا احساس پیدا کر دیا۔  ۱۸۰۰ء کے درمیان جو شعری تخلیقات پیش کی گئیں ان کے مصنف ہندوستانیوں کے علاوہ ہندوستان میں بسے ہوئے یورپی باشندے یا مخلوط نسل کے (Indo-European)بھی تھے۔  ایسے اردو شاعروں کی لمبی فہرست تیار کی جا سکتی ہے جو ہند پرتگالی، ہند فرانسیسی، ہند جرمن، ہند اطالوی اور ہند برطانوی تھے۔  شعری اعتبار سے ان کی تخلیقات کوئی بڑا درجہ نہیں رکھتیں لیکن اس سے اردو کی وسعت اور مقبولیت کا ضرور اندازہ ہوتا ہے۔  ۱۷۹۰ء اور ۱۸۰۷ء کے درمیان سرولیم جونس (Sir William Jones)نے کالی داس کی شکنتلا کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔  یہ واقعہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔  اس کے بعد برطانیہ نے مشرق کو سمجھنے کی کوشش کی، چاسر (Chaucer)ہندوستانی قصوں سے روشناس تھا۔  ڈرائڈن نے اور نگ زیب کی زندگی کو ڈرامے کی شکل میں پیش کیا تھا۔  ٹنی سن (Tennyson)غزلوں سے دلچسپی رکھتا تھا۔  یہ عجیب زمانہ تھا۔  کمپنی کے افسران بالادست بے ایمانی سے روپیہ جمع کرنے کے درپے تھے۔  ان کا سارا وقت بوالہوسی اور رقص و سرور کی محفل میں گزرتا تھا۔  لیکن اسی زمانے میں کچھ ایسے انگریز بھی تھے جو ہندوستانی تہذیب اور اردو فارسی کے سرمائے سے باخبر ہونا چاہتے تھے اور اس تہذیب کے قدردان تھے لیکن ویلزلی (Wellesly)کے زمانے میں کالے اور گورے کا فرق اور ان کی باہمی منافرت بہت بڑھ گئی تھی۔  اس افتراق کو بڑھانے میں عیسائی مشنریوں نے خاص حصہ لیا۔  انیسویں صدی کے شروع میں انگریز فارسی، اردو شعر کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔  ہندوستانی عورتوں سے شادی کرنا بڑا شرف تھا۔  ہندوستانی لباس پہننا فیشن میں داخل تھا لیکن ۱۸۲۷ء کے قریب یہ صورت حال بدل گئی اور انگریزوں نے اپنا آشیانہ ہندوستانی عوام سے بہت دور بسایا اور ہندوستانیوں کی قسمت میں بھی صرف دور کا جلوہ رہ گیا۔  تاہم الگزنڈر (Alexander) آزاد جیمس اسکنر (James Skeiner)اور گارڈ نرفنا کی شاعری دلچسپی سے خالی نہیں۔

انیسویں صدی میں اہل یورپ نے اردو کی اہمیت کے پیش نظر اس کے قواعد و لغات کو مرتب کیا اس سلسلے میں جوزف ٹیلر (Joseph Taylor)ڈاکٹر گل کرسٹ، ڈاکٹر اشپرنگر، جان شیکپیر(John Shakespear) فیلن (Fallon)اور ڈنکن فوربس (Duncan Forbes(کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔  اسی زمانے میں انجیل کے تراجم ہوئے۔  مرزا محمد فطرت اور ہنری مارٹن کے ترجمے مشہور ہیں۔  اس زمانے کی نثری تخلیقات دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزی اثرات خاموشی کے ساتھ اردو میں سرایت کر رہے تھے۔  عالمی ادب کی مشہور کتابوں کے اردو میں تراجم بھی ہوئے۔  اور فلسفے ، سیاسیات، اقتصادیات، تعلیم اور سائنس پر اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا کہ گارساں د تاسی یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ انیسویں صدی میں اردو کی وہی حیثیت ہے جو فرانسیسی کی یورپ میں ہے۔

اس دور کی خصوصیت شاعروں کے کثرت ہے۔  گارساں د تاسی نے ۱۸۷۷ء کے لیکچر میں لکھا ہے کہ اردو میں تین ہزار شاعر ہیں۔  لیکن اس نے اپنی تاریخ ادب میں صرف ۸۰۰ شاعروں کو انتخاب کیا ہے۔  اس وقت قریب قریب ہر طبقے کے لوگ شعر کہتے اور مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔  یہ مشاعرے یا مراختے یا جلسے ہر مہینے کی پندرہ تاریخ کو منعقد ہوتے تھے۔  اور کبھی کبھی ان مشاعروں کی رودادوں کو گلدستے کی شکل میں شائع کیا جاتا تھا۔  مثلاً مولوی کریم الدین نے ۱۸۴۵ء میں ’’گل رعنا ‘‘ کے نام سے مشاعرہ کی روداد شائع کی۔  ان مشاعروں کے ذریعہ شعر کے معیار مقرر ہوتے تھے۔  اصلاحِ سخن کی کوشش کی جاتی تھی۔  بیاضیں اور تذکرے جمع اور شائع ہوتے تھے۔  بعض رقابتوں کو ہوا دی گئی، بعض شاعروں کو بڑھایا اور بعض کو گھٹایا گیا۔  ۱۸۰۰ء سے ۱۸۵۷ء کے درمیان بہت سے تذکرے لکھے گئے جو اس زمانے کے ادبی رجحانات اور معاشرتی زندگی کی غمازی کرتے ہیں۔  ان میں سے بعض کی حیثیت بیاض کی ہے اور او ان کی تنقید نے فہرست سے آگے قدم نہیں اٹھایا۔  یہ بات قابل ذکر ہے ہے کہ اردو شاعروں کے تذکرے عام طور پر فارسی میں لکھے گئے۔  اس کی وجہ ہے کہ اس زمانے میں فارسی کا بول بالا تھا اور علمی مطالب اسی زبان میں ادا کئے جاتے تھے۔  مرزا علی لطف کا تذکر رہ ’’گلشن ہند‘‘ پہلا تذکر رہ ہے جو اردو زبان میں لکھا گیا۔  آخر میں یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ انیسویں صدی میں تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت، مناظرہ اور تصوف کا ایک بڑا سرمایہ جمع ہو گیا جو اردو کے علاوہ کسی ہندوستانی زبان میں اتنا وافر موجود نہیں ہے۔

 

اردو ادب: ۱۸۵۷ ۔ ۱۹۱۴

اردو ادب: ۱۸۵۷ -۱۹۱۴ اردو ادب پر مغربی اثرات انیسویں صدی کے آغاز سے ہی پڑنے لگے تھے۔  مگر ان کا فیصلہ کن اثر ۱۸۵۷ء کے بعد ہوا۔  فورٹ ولیم کالج کی سادہ نثر دہلی کالج میں درسی کتابوں کے لیے مفید مطلب اور واضح انداز بیان، ماسٹر رام چندر کے مضامین اور غالب کے خطوط میں یہ اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔  شاعری کا تعلق روایت سے زیادہ ہوتا ہے۔  اس لیے ۱۸۵۷ء سے پہلے کی شاعری میں صرف غالب کے یہاں تشکیک، ارضیت اور انفرادیت کے نقوش ایک ایسے ذہن کے آئینہ دار ہیں جو روایت کے ساتھ نئے امکانات اور میلانات پر بھی نظر رکھتا ہے۔  ادب سیاسی تبدیلیوں کا یکسر تابع نہیں ہوتا، نہ ادبی ارتقا کی منزلیں سیاسی بنیاد پر متعین کی جا سکتی ہیں۔  مگر زمانے اور مزاج کی تبدیلیوں کا اثر ادب پر بہرحال پڑتا ہے۔  اسی لیے ۱۸۵۷ء سے جب انگریزوں کے الفاظ میں غدر ہوا اور ہندوستانی مورخوں کے الفاظ میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی لڑی گئی، اردو ادب کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔  اس سے پہلے کے ادب کو سہولت کے لیے کلاسیکی اور اس کے بعد کے ادب کو جدید کہا جا سکتا ہے۔  مگر اس کے معنی یہ نہیں لینا چاہئیں کہ ۱۸۵۷ء کے بعد کلاسیکی اثرات ختم ہو گئے۔  کلاسیکی یا روایتی ادب کا سلسلہ جاری رہا۔  مگر جدید فکرو فن جو پہلے تجربے کے طور پر شروع ہوا، رفتہ رفتہ اپنی جگہ بناتا گیا یہاں تک کہ انیسویں صدی کے آخر تک نئے میلانات حاوی ہو گئے۔

ہمارا کلاسیکی ادب مجموعی طور پر ازمنہ وسطیٰ کی قدروں کا نمائندہ ہے۔  اس کی بنیا دہندوستانی ہے مگر اس میں عجم کے حسنِ طبیعت کے بہت سے رنگ شامل ہیں۔  اس میں نمایاں فکر تصوف سے آئی ہے۔  اور اس کے نقش و نگار اس مشترک تہذیب سے لیے گئے ہیں جو تاریخی اسباب کی بنا پر پروان چڑھ رہی تھی۔  اس کی شاعری میں تخیل کی پرواز ملتی ہے اور فطرت، تہذیب اور سماج کی مصوری بھی۔  صوفیوں کے اثر سے اس میں ایک انسان دوستی آئی اور دربار نے اسے ایک رنگینی اور صنّاعی سکھائی۔  اس دور میں نثر پر توجہ کم ہوئی اور زیادہ تر یہ راہِ نجات یاداستان سرائی کے لیے ہی استعمال ہوئی اور شاعری سے آرائش کے لیے زیور لیتی رہی۔

فورٹ ولیم کی جدید نثر تفریحاً نہیں فرمائش پر لکھی گئی تھی۔  اس میں قصے کہانیوں کا سرمایہ زیادہ تھا۔  دہلی کالج میں درسی ضروریات کے لیے علمی نثر بھی وجود میں آئی صحافت رفتہ رفتہ قدیم اسلوب سے آزاد ہوئی ا ور کار آمد اور عام فہم ہونے لگی۔  مغرب کے معلم، مشنری اور منتظم سب یورپ کے اٹھارویں صدی کے ادب سے متاثر تھے۔  اسی لیے مغربی اثرات شروع شروع میں وہاں کے نوکلاسیکی ادب کی قدروں کے مظہر تھے۔  انہیں کی رہنمائی میں ہمارے یہاں جدید ادب حقیقت نگاری کا علم بردار بن کر سامنے آیا۔  ناول کی تاریخ میں نذیر احمد کے بعد رتن ناتھ سرشار کی اہمیت ہے (۱۸۴۶ء۔  ۱۹۰۲ء) سرشار کے یہاں رجب علی سرور کے فسانۂ عجائب کا رنگ بھی ہے اور مکالمات میں لکھنؤ کی بیگماتی زبان کی بے تکلفی بھی۔  سرشار کا فسانۂ آزاد سب سے پہلے قسط وار منشی نول کشور کے اودھ اخبار میں نکلا، بعد میں یہ کتابی صورت میں چھپا۔  فسانۂ آزاد میں اصل قصہ گویا ایک کھونٹی ہے جس پر ہزاروں واقعات ٹنگے ہوئے ہیں۔  سرشار ہندوستانی نشاۃ الثانیہ سے متاثر تھے اور نئے خیالات کے حامی تھے۔  مگر لکھنؤ کی تہذیب کے عاشق۔  پہلی جلد کے آخر میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’میاں آزاد کا ہر شہرو دیار میں جانا اور وہاں کی بری رسموں پر جھلّانا‘‘ ناول کا عمدہ پلاٹ ہے انہوں نے پرانے خیالات اور رسم و رواج پر اپنی شوخی و ظرافت سے خوب خوب وار کیے ہیں۔  ان کا ہیرو آزاد ایک مثالی کردار ہے جو مردانہ حسن کے ساتھ سپہ گری میں بھی طاق ہے اور علم و ادب کا رسیا بھی مگر ان کے طنزیہ کردار خوجی کی اپیل زیادہ ہے جس پر ڈان کخوٹے (Don Quixote)کا اثر صاف نمایاں ہے۔  ’’فسانۂ آزاد‘‘ چار ضخیم جلدوں میں ہے۔  مگر آج اس کی اپیل زیادہ تر بیگمات کے مکالموں یا خوجی کے کردار کی وجہ سے ہے۔

’’فسانۂ آزاد‘‘ کے علاوہ سرشار کا ’’سیر کہسار‘‘ بھی لکھنؤ کی نوابی معاشرت پر گہرا طنز ہے۔  سرشار کے دوسرے ناول چنداں اہمیت نہیں رکھتے۔  انہوں نے ’’خدائی فوجدار‘‘ کے نام سے ڈان کخوٹے کا ترجمہ بھی کیا ہے۔  سرشار کے یہاں ناہمواری ہے اور ضبط و نظم کی کمی ہے مگر ان کی خلاقی، ان کی مرقع نگاری، کرداروں اور کارٹونوں کی ایک دنیا ایک تندرست اور کہیں کہیں بے رحم ظرافت اور زبان پر قدرت کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔

اس دور میں اردو کی پہلی جامع لغت ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ کے نام سے لکھی گئی۔  مولوی سید احمد دہلوی (۱۸۴۶ء۔  ۱۹۲۰ء) نے چوبیس سال کی محنت کے بعد ۱۸۹۲ء میں چار جلدوں میں یہ لغت شائع کی جس میں اردو کی لغات کے معنی اردو میں دیئے گئے ہیں۔  اس سے پہلے وہ ’’ارمغان دہلی‘‘ کے نام سے اس کا ایک حصہ شائع کر چکے تھے۔  اس لغت کی تیاری میں انہیں ڈاکٹر ایس ڈبلیو فیلن کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرنے کی وجہ سے خاصی مدد ملی۔  ڈاکٹر فیلن کی ’’ہندوستانی انگریزی لغت‘‘ ۱۸۷۹ء میں شائع ہو گئی تھی۔  فرہنگ آصفیہ میں اگرچہ جا بجا مولف نے غیر ضروری باتیں بیان کی ہیں اور بعض غیر مصدقہ روایات پر تکیہ کیا ہے ، پھر بھی یہ لغت اور بعد کی مولوی نورالحسن نیّر کا کوروی کی ’’نور اللغات‘‘ اب تک اردو کی سب سے اچھی لغات سمجھی جاتی ہیں گو لغت نویسی (Lexicography) کے جدید معیار کے لحاظ سے دونوں میں خامیاں ہیں۔  امیر مینائی کی ’’امیر اللغات‘‘ اگر چہ صرف الف مقصورہ تک ہی ہے مگر قابلِ قدر ہے۔  ۱۸۵۷۔  ۱۹۱۴ کا دور ہر لحاظ سے اردو ادب کا زرّیں دور ہے۔  کلاسیکی طرز کی شاعری کے علاوہ اس دور میں نظمِ جدید کا آغاز ہوا اور اس نے نمایاں ترقی کی اور موضوعات اور ہئیت دونوں کے لحاظ سے اردو شاعری کا دامن وسیع ہوا۔  مگر دراصل یہ دور نثر کی ترقی اور وسعت کا دور ہے۔  سرسید کی تحریک کے اثر سے نثر علمی مضامین کے اظہار پر قادر ہوئی۔  اس کے علاوہ کئی نئی اصناف، ناول، سوانح عمری، مضمون نگاری (انشائیہ)، مختصر افسانہ تنقید کا آغاز ہوا اور ہر صنف میں قابلِ قدر نمونے سامنے آئے۔  ادب میں مقصد کی آنچ اور اخلاقی اور اصلاحی نقطۂ نظر کی تب و تاب آئی۔  مغربی شاہکاروں کے تراجم ہونے لگے۔  انیسویں صدی کی آخری دہائی میں جب انگریزی تعلیم پھیلنے لگی تو مقصدی ادب کے علاوہ رومانی لے بھی شروع ہوئی جس نے بعد میں ادب کے ساتھ تخلیقی ادب بھی پیش کیا اور پڑھنے والوں کے مذاق کو متاثر کیا۔  ۱۹۱۴ء میں جب حالی اور شبلی کا انتقال ہوا تو شاعری کی بساط پر حسرت موہانی کے ساتھ اقبال کا نام لیا جانے لگا اور پریم چند نے اپنے افسانے لکھنے شروع کر دیئے تھے۔  ابوالکلام آزاد کا ’’الہلال‘‘ افقِ صحافت پر طلوع ہو چکا تھا۔  سجاد حیدر کے ساتھ لطیف الدین احمد اکبر آبادی اور نیاز فتح پوری، ادب لطیف کی بنیادیں مضبوط کر رہے تھے۔  اردو ادب اب اپنے پیرو پر کھڑا تھا اور اسے مذہبی یا سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت نہ رہی تھی۔  وہ مذہب اور سیاست سے کام لیتا تھا۔  مگر ان کا غلام نہ رہا تھا۔

اس دور کے ان شعرا میں جنہوں نے نئی شاعری کو وقعت اور بلندی عطا کی نادر کاکوروی اور درگاسہائے سرور جہاں آبادی کا نام لینا بھی ضروری ہے۔  نادر کاکوروی (۱۸۵۷ء۔  ۱۹۱۲ء)  اپنے ہم عصر ادیبوں میں انگریزی ادب سے زیادہ واقف تھے۔  انہوں نے آزاد اور حالی کی نیچرل شاعری کی لے کو آگے بڑھایا۔  سادگی اور واقعیت ان کی شاعری کی خصوصیات ہیں۔  ان کا کلام ’’جذباتِ نادر‘‘ کے نام سے دو حصوں میں شائع ہوا۔  انہوں نے کئی انگریزی نظموں کے کامیاب ترجمے کیے اور ان کی طبع زاد نظموں میں بھی انگریزی شاعری کا اثر جھلکتا ہے۔  ان کا کارنامہ ٹامس مور کی نظم ’’لالہ رخ‘‘ کے ایک قصے کا ترجمہ ہے۔  ان کی نظموں میں دھرتی ماتا، بہارِ ہند اور شاعری اہمیت رکھتی ہیں۔  ’’مخزن‘‘ میں ان کا کلام برابر چھپتا تھا اور اقبال نے ان کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے۔

اردو ادب ۱۹۱۴-۱۹۳۵

ادبی روایتیں ، تاریخی واقعات، سماجی اسباب اور اقتصادی حالات کے ماتحت بنتی اور بگڑتی ہیں۔  اس لیے جو تبدیلیاں جنگِ عظیم اور اس کے بعد ہندوستان میں ہوئیں ان کامختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔  ۱۹۱۴ء تک ترقی یافتہ مغربی ممالک کا تسلط تقریباً ساری دنیا پر قایم ہو چکا تھا اور اصل میں یہ جنگ ان یورپی ممالک میں ان ہی کے مقبوضات کو دوبارہ تقسیم کرنے کے لیے لڑی گئی تھی لیکن اس جنگ نے ساری دنیا کے سامراجی نظام کو جڑوں سے ہلادیا۔  ایک طرف یہ ممالک جنگ کے زبردست اخرا جات اور معیشت کی تباہی کی وجہ سے سخت مشکلوں میں مبتلا ہو گئے۔  دوسری طرف روس میں مزدوروں اور کسانوں نے زار شاہی کا تختہ الٹ کر پورے سامراجی نظام میں زبردست رخنہ ڈال دیا۔  ان حالات نے ایک طرف سارے یورپ میں سخت ہیجانی کیفیت پیدا کر دی جگہ جگہ مزدوروں اور محنت کشوں نے بغاوت کر دی اور دوسری طرف چین، ہندوستان، مصر اور دوسرے بہت سارے محکوم ملکوں میں آزادی کی لہر تیز ہونے لگی۔  ہندوستان میں گاندھی جی کی سرکردگی میں جدوجہد آزادی نے ایک نیا موڑلیا۔  پہلی مرتبہ لاکھوں عوام جن میں درمیانی طبقہ کے صرف پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں تھے۔  بلکہ غریب عوام خاص طور پرمزدور اور کسان بھی بڑی تعداد میں شامل ہونے لگے۔  ترک موالات، عدم تعاون اور خلافت کی تحریکوں میں لاکھوں ہندوستانیوں نے جیل کی سزائیں بھگتیں۔  بعض پھانسی پر چڑھے اور بڑی بڑی قربانیاں دیں اور انگریز حاکموں کے ظلم و تشدد کا جم کر مقابلہ کیا۔

جنگ کے بعد کے اس ابھارنے یورپ کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا اور ادب میں بھی بالکل نئی تحریکیں ، رومانیت، حقیقت پسندی اور پھر فاشزم کے عروج کے ساتھ ترقی پسندی کی تحریکیں پروان چڑھنے لگیں۔  ان سب کا اثر ہندوستان پر بھی پڑنا ضروری تھا۔  یہاں بھی حب الوطنی اور قوم پرستی نے ادب کے میدان میں راہ پائی۔  ادب کی مختلف اصناف نے بڑے پیمانے پر مغرب کا اثر قبول کیا۔  سرسید، حالی اور ان کے ساتھیوں نے جو کام شروع کیا تھا وہ اب ایک نئی سطح پر آگے بڑھنے لگا

ناول، افسانہ، ڈرامہ اور تحقیق و تنقید میں نئے نئے زاویے سامنے آئے۔  ان کے ساتھ سرسید کی خشک کلاسیکیت کے ردِّعمل کے طور پر اردو ادب میں لطافت اور جمال پرستی کے رویہ کا اظہا ر ہوا۔  اس کے علمبردار سجاد حیدر یلدرم تھے۔  نیاز فتح پوری نے اردو نثر کو لطیف انشائیہ نگاری سے ہم آہنگ کیا۔  یہ رجحان جسے رومانیت سے تعبیر کیا جاتا ہے اس دور کی نظم و نثر میں پہلوبہ پہلو نظر آتا ہے۔

اسی درمیان ۱۹۱۷ء کے روسی اشتراکی انقلاب کے اثرات نوجوان نسل تک پہنچے تواس رجحان کو روکنے کے لیے بعض اہلِ قلم نے اسلام کے سیاسی وفکری نظام کو سمجھانے کی ضرورت محسوس کی جس کے نتیجے میں کافی مذہبی و دینی لٹریچر و جود میں آیا۔  ایم اے او کالج علی گڑھ نے مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کی۔  دلی میں جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی گئی۔  ان میں صرف عثمانیہ یونیورسٹی کے لیے ممکن ہوسکا کہ اس نے جامعی سطح پر اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا۔  انگریزی علوم کے اردو ترجمہ کے لیے دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا۔  مجموعی طور پر بیسویں صدی کا ذہن انیسویں صدی کے ذہن سے قدرتی طور پرزیادہ رسا تھا جس سے فکرِ انسانی کی وسعتوں میں قابل لحاظ اضافہ ہوا۔  اس دور کی نظم اپنے عروضی رشتے اور روایات کو برقرار رکھنے کے ساتھ موضوعات واسباب کے اعتبار سے ایک نئے سنگ میل کی نشاندہی کرتی ہے۔  اقبال اور ظفر علی خاں نے مذہبی، سیاسی اور اخلاقی پس منظر کو پیش نظر رکھا۔  حفیظ جالندھری نے مسد س حالی کی فکری روایات کو مستحکم کیا اختر شیرانی نے اپنا رشتہ حسن و محبت سے جوڑا۔  جن شاعروں نے زندگی کے مسائل کوسمجھنے میں فلسفہ تاریخ اور سماجی علوم سے کام لیااور زندگی کی گہرائیوں میں اتر کر اندرونی کش مکش کا پتہ لگانے کی کوشش کی ان میں اس جستجو کا سب سے خوبصورت اور دل کش بیان ڈاکٹر اقبال کی شاعری میں ملتا ہے۔

اردو غزل پر اگرچہ تنقید کاسلسلہ پہلی جنگ عظیم سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا لیکن اس باد مخالف میں بھی غزل کی شمع برابر جلتی رہی۔  یہ سلسلہ امیرو داغ اور پھر جلیل مانک پوری تک چلتا رہا۔  تاہم غزل گو شاعروں میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو اپنی فکر کا انداز بدل رہا تھا۔  پرانے روایتی شاعروں کے مقابلہ میں ان کی فکر اور ان کے اسلوب میں نیا پن تھا۔  مثلاً عزیز لکھنوی، یگانہ، اصغر، فانی، حسرت اور جگر وغیرہ کادور کم و بیش ۱۹۱۲ء سے ۱۹۳۵ء تک کاہے ان کے یہاں بیسویں صدی کاذہن بھی ہے اور کائنات و حیات کی پوری وسعتیں بھی موجود ہیں۔  اس طرح اس دور میں غزل کو غیر متوقع طور پر پھر عروج نصیب ہوا۔  غزل داخلیت سے نکل کر اجتماعی زندگی کے قریب آ گئی۔

اقبال غزل کے میدان میں بھی اپنی مشعل جلائے سب کے آگے چلے انہوں نے اپنے پیغام کے لیے صنف غزل کو اس کامیابی سے برتا کہ اس میں گیرائی اور گہرائی آ گئی۔  اقبال کی غزل کا انداز نیا ہے۔  انہوں نے غزل میں فکری حقائق کو بھی جذب کیا اور شعر کی دلکشی و تازگی کو بھی قائم رکھا۔  غزلیں اگرچہ انہوں نے بہت کم لکھی ہیں مگر ان کی قدر و قمیت بہت زیادہ ہے۔

اصغر گونڈوی (۱۸۸۴ء۔  ۱۹۳۶ء) کے پاس روایت وہی ہے جسے میر درد کی روایت کا نام دیا جاتا ہے۔  ان کی شاعری میں تفکر کا عنصر زیادہ ہے انہوں نے محبت کے مضامین کے علاوہ کائنات کی حقیقتوں پر بھی نگاہ ڈالی ہے۔  لکھنوی طرز کے پس منظر میں ان کے لہجہ میں ایک تھما ہوا جو ش ہے جس میں ایک روحانی لَے بھی ملتی ہے۔  ان کے تصوف میں پژمردہ گی و افسردگی کی جگہ رقص و وجد کی کیفیت پائی جاتی ہے۔  نغمۂ روح، اور سرود زندگی ان کی غزلوں کے مجموعے ہیں۔

حسرت موہانی کی عمر سیاسی اور سماجی زندگی کے طوفان میں گزری ملک کی تحریک آزادی، عدم تعاون اور خلافت کی تحریکوں میں انہوں نے اہم حصہ لیا باوجوداس کے حسرت ان اردو شاعروں کے میرکا رواں ہیں جنہوں نے نظم جدید کے مقابلہ میں اردو غزل کی ساکھ دوبارہ قائم کی۔  چنانچہ حسرت رئیس المتغزلین کہلائے۔  خلوص، بے باکی اور حق گوئی ان کی شاعری کے اہم عناصر ہیں اور انہیں کی ترجمانی سے انہوں نے غزل کو نئی لذت سے آشنا کیا۔  حسرت نے بلاشبہ اردو غزل کو ایک ایسی لطافت بخشی جو روایتی، رنگینی ورعنائی کے باوجود اتنی پاکیزہ ہے کہ اس کی مثال ان کے کسی ہم عصر کے یہاں نہیں ملتی۔  لکھنؤ کے شاعروں میں عزیز لکھنوی ان کلاسیکی انداز کے علم برداروں میں تھے جنہوں نے دورجدید کی غزل کو سنوارا۔  ان کے کلام پر میر و غالب کااثر ہے۔  فکر غالب کی گہرائی اور میرکے سوز و گداز دونوں سے استفادہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے مخصوص لب و لہجہ کی تشکیل کی ہے۔  تصوف کی بازگشت ان کے یہاں بھی ہے۔  غزل کے علاوہ قصیدہ نگاری میں بھی عزیز کامقام اونچا ہے۔  ان کے دو مجموعے ’’گل کدہ‘‘ اور ’’صحیفہ ولا‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔

صفی لکھنوی ۱۸۶۲ء۔  ۱۹۵۰ء نے غزل کی روایت کے احترام کے ساتھ غزل میں کچھ تجربے کیے۔  عام انداز وہی رسمی وروایتی ہے لیکن اردو شاعری میں اس وقت جو نئے عناصر داخل ہو رہے تھے ان سے وہ اچھی طرح باخبر تھے۔  صفی کہ شہرت میں ان کی نظموں کا حصہ زیادہ ہے۔

سید انور حسین آرزو کو لکھنؤ کے دور آخر کے شعرا میں امتیازی حیثیت حاصل تھی۔  ان کا بھی ابتدائی رنگ وہی لکھنؤ دبستان کا تھا لیکن بعد کی عمر میں انہوں نے رنگ قدیم ترک کر کے جدید میلانات قبول کر لیے تھے۔  چنانچہ ۱۹۲۶ء میں ان کا جو مجموعہ شائع ہوا اس کی غزلیں کلاسیکی غزل کارس اور رچاؤ رکھنے کے باوجود نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔  انہوں نے اردو میں فارسی و عربی استعمال نہ کرنے کی تحریک بھی چلائی تھی۔  اس رنگ کے اشعار ان کے آخر مجموعے ’’سریلی بانسری‘‘ ملتے ہیں۔

واجد حسین یاس (یگانہ) اپنے معاصرین سے بالکل الگ ہیں۔  وہ پہلے لکھنوی رنگ کے پرستار رہے پھر اس رنگ سے بغاوت کی اور بڑا جوشیلا انداز اختیار کیا۔  غالب شکنی کے جنون نے ان کی شاعری پر اثر ڈالا جس سے ان کی شاعرا نہ صلاحیتوں کو پوری طرح ابھرنے کاموقع نہ ملا تاہم ان کی ذہانت و انفرادیت سے انکار ممکن نہیں۔  یگانہ کے پاس جذبہ اور فکر کااچھا امتزاج ملتا ہے۔  ان کی غزلوں میں جو توانائی، اسلوب کا بانکپن اور جرأت گفتار ہے وہ ان کے سوا اور کہیں نہیں ملتی ان کی غزلوں کامجموعہ ’’آیاتِ وجدانی‘‘ شائع ہو چکاہے۔

 مرزا جعفر علی خاں اثر کو زبان اور بیان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔  میر کی شاعری کاان پر بہت گہرا اثر ہے۔  انہوں نے نظمیں بھی کہی ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں۔  ان کی غزلوں میں کہیں گہرے صوفیانہ اور فلسفیانہ خیالات کااظہار بھی ملتا ہے۔  لیکن ان کے وہی اشعار زیادہ موثر ہیں جن میں واردات محبت کا بیان کیا گیا ہے۔  نظموں میں انہوں نے عصری میلانات کو جگہ دی ہے۔  داغ کے شاگردوں میں سیماب اکبرآبادی قابل ذکر ہیں۔  غزل میں فن زبان اور محاورہ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔  جدید میلانات ان کے کلام میں نہیں ملتے۔

سیماب نے ایک مرکز’’آگرہ اسکول ‘‘ چلانے کی بھی کوشش کی تھی۔  دبستان لکھنؤ کے سلسلہ میں اثر اور امیر سے تعلق رکھنے والے دوشاعروں ریاض خیرآبادی اور جلیل مانکپوری کاذکر اس دور کے شاعروں میں ضروری ہے جنہوں نے اپنی غزل کو روایتی مفہوم تک محدود رکھا۔

ریاض خیرآبادی نے اردو خمریات میں بڑا نام پیدا کیا۔  جو رندانہ بانکپن، شوخی اور سرمستی ان کے کلام میں ہے وہ کسی اور کے حصہ میں نہیں آئی۔  ان کے کلام کاایک اور خصوصی وصف شوخی ہے انہیں دو عناصر سے ان کی شاعری کا خمیر بناہے۔  اس طرز کے وہ آپ موجد تھے۔  یہ طرز انہی پر ختم ہو گیا۔

امیر مینائی کے شاگردوں میں جلیل مانکپوری کے مقام کا تعین اس سے کیا جا سکتا ہے کہ استاد کی وفات کے بعد ان کے سینکڑوں نامور شاگردوں کی موجودگی میں جلیل کو بلا کسی احتلاف کے امیر مینائی کی جانشینی ملی۔  بقول قاضی عبدالغفار جلیل نے انیسویں صدی کے نصف آخر کے دو مکاتب کی خصوصیات یکجا کر لی تھیں۔  وہ امیر مینائی کے جا نشین تھے اور داغ کے بھی۔  داغ کی زبان کی بے ساختگی اور امیر مینائی کے تفکر دونوں سے جلیل کی شاعرانہ فطرت نے اپنا حصہ حاصل کیا تھا۔  حقیقت یہ ہے کہ جلیل غزل کے روایتی آہنگ کے استاد تھے۔  نکھری ہوئی زبان اور نرم رچی ہوئی موسیقیت ان کے کلام کی ممتاز خصوصیت ہے۔  دربار دکن سے انہیں فصاحت جنگ کا خطاب ملا تھا۔  وہ قدیم سلسلہ تلمذ کے آخری استاد تھے۔

بیسویں صدی کے اس دور سے تعلق رکھنے والے اور کچھ شاعر ہیں جو اردو ادب کی تاریخ میں جگہ پانے کے مستحق ہیں مثلاً مضطر خیرآبادی، بیخود دہلوی، نوح ناروی، سائل دہلوی، اسد حیدرآبادی، ساغر نظامی، روش صدیقی اور وحشت کلکتوی وغیرہ۔  اردو ناول اور افسانہ دونوں انگریزی اثرات کی پیداوار ہیں۔

سرشاروشرر کی ناول نگاری کے روایت کو راشد الخیری اور محمد علی طبیب وغیرہ نے آگے بڑھایا پھر اس قافلے میں نئے لکھنے والے آگئے۔  مختصر افسانہ ابتدائی دور میں داستان کی روایت لیے ہوئے تھا بعد میں پریم چند، یلدرم اور سلطان حیدر جوش وغیرہ کے ہاتھوں جمال دوستی، فن پرستی، مقصدیت اور اصلاحی محرکات ایک دوسرے سے متصادم رہے۔  ۱۹۳۰ ء کے بعد افسانویت و تخلیقیت کا زور ٹوٹا اور مثالیت کی جگہ حقیقت نے لی۔  سماجی اور معاشرتی اصلاح نے اس احساس کو تقویت دی کہ نچلے طبقہ کے افراد کسانوں اور مزدوروں کے مسائل پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔  چنانچہ شہری زندگی کے بجائے دیہاتی زندگی کی تصویر کشی ناول و افسانہ کاموضوع بن گئی۔  راشد الخیری کے زیادہ ناول ۱۹۱۴ء سے پہلے کے ہیں۔  انہوں نے معاشرہ کی ان مذموم رسوم پر کڑی تنقید کی جن کی بدولت عورت مظلوم ہو کر رہ گئی تھی۔  ان کے تمام ناول نذیر احمد کی قائم کردہ روایت کی توسیع ہیں جس میں دردو کسک کے عنصر کااضافہ کیا گیا ہے۔  پریم چند کی چھوڑی ہوئی روایت تھوڑے ہی وقت میں اتنی مقبول ہوئی کہ بہت سے لکھنے والے جو تھوڑا بہت دیہاتی زندگی کا تجربہ رکھتے تھے اسی راہ پر گامزن ہو گئے۔  علی عباس حسینی، سدرشن، اعظم کریوی اور اپندرناتھ اشک پر ان کا نمایاں اثر دیکھا جا سکتا ہے

علی عباس حسینی شروع میں رومانیت کے دلدادہ تھے بعد میں مقصدی اصلاحی کہا نیاں لکھنے لگے۔  قومیت اور عوام کی اقتصادی حالت بھی ان کے افسانوں میں جگہ پا گئی۔  ان کی سوچ کا انداز پریم چند کی طرح سیاسی نہیں تھا۔  ان کی رومانیت صرف حسن و عشق کی باتوں کو ایک تخیلی ماحول میں پیش کر دینے کی حد تک ہے۔  ان کے افسانوں کے کئی مجموعے باسی پھول، کچھ ہنسی نہیں ہے اور ’’میلا گھومنی‘‘ مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔

پریم چند کی روش کواپنانے والوں میں ایک سدرشن بھی ہیں جو اردو کے کامیاب افسانہ نگار ہیں۔  پریم چند اور سدرشن کا انداز نظر ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہوئے بھی مختلف ہے۔  سدرشن نے شہری ہندوؤں کے متوسط گھرانوں کی طرف زیادہ توجہ دی ہے۔  اگرچہ دیہاتی معاشرت بھی ان کے بعض افسانوں میں نظر آتی ہے لیکن ان میں کوئی ایج یا گہرائی نہیں۔

سلطان حیدر جوش نے اردو افسانوں کی پیش رفت میں اہم حصہ لیا۔  ان کے افسانے زیادہ تر سیاسی نوعیت کے ہیں۔  مسلمانوں کی تہذیبی و معاشرتی اصلاح ان کامحبوب موضوع ہے۔  لیکن ان کا تبلیغی مقصد اتنا غیرمعتدل ہے کہ فن پر غالب آ گیا ہے۔  انہوں نے مغرب اور مشرق کی تہذیبوں اور معاشرتوں کے تصادم کو اپنے افسانوں میں جگہ دے کر اصلاح کی کوشش کی ہے۔  کہیں کہیں طنز و مزاح کی چاشنی بھی ہے۔  ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’فسانۂ جوش‘‘ اور ’’جوش فکر‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔

نیاز فتح پوری (۱۸۸۷ء۔  ۱۹۶۶ء)افسانہ نویس بھی تھے اور ناول نگار بھی۔  اپنے ہم عصروں کے برخلاف ان کے ناول اور افسانے دونوں مقصدی نہیں۔  ان کا پسندیدہ موضوع حسن و عشق کی داستان اور محبت و عورت کا ذکر ہے۔  انہوں نے فن کو فن کی اولین غایت قرار دیا۔  نیاز کے پاس فلسفہ طرازی کا فن نرالا ہے رومانیت اور مخصوص طرز بیان ان کا امتیازی وصف ہے۔  شعریت و فلسفیت کا امتزاج جس حسن سے ان کے یہا ں ہے کسی مصنف کے پاس نہیں۔  جس موضوع پر قلم اٹھایا انشا پردازی غالب رہی۔  ان کی جدت پسندی انہیں عام رشتوں سے الگ لے جاتی ہے۔  نیاز نے صرف دو ہی ناول لکھے۔  ’’شاعر کا انجام‘‘ اور ’’شہاب کی سرگزشت‘‘ آخر ی ناول ان کی نمائندہ تصنیف ہے جس میں تحلیل نفسی کے اصول کو برتا گیا ہے۔  انہوں نے اپنی رومانی بغاوت سے آنے والے ناول نگاروں کے انقلابی رجحانات کے لیے راستہ ہموار کیا۔

قاضی عبد الغفار بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں وہ صاحب طرز انشا پرداز تھے۔  ترقی پسند ادب سے انہوں نے اپنا ناتا جوڑ لیا تھا وہ یورپی ناولوں کی تکنیک سے واقف تھے۔  انہی کے طرز پر دو مختصر ناول ’’لیلے کے خطوط‘‘ اور ’’مجنوں کی ڈائری‘‘ لکھے۔  اس طرز نو سے پہلی بار اردو ناول متعارف ہو ا جس میں خطوط کی ترتیب کے ذریعہ ناول آگے بڑھتا ہے۔  ناول ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ اپنے دور میں بہت مقبول ہوا۔  اس کی مقبولیت کا راز قاضی صاحب کی داخلی حقیقت نگاری اور ان کی مسلم انشا پردازی ہے۔  ’’مجنوں کی ڈائری‘‘ ناول سے زیادہ روزنامچے کی حیثیت رکھتا ہے۔

مرزا محمد سعید نے دو کامیاب ناول ’’خواب ہستی‘‘ اور ’’یاسمین‘‘ لکھے۔  ان ناولوں میں سماجی حالات کے تغیرات اور فرد کی کشمکش کو بڑے فن کارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔  اردو ناولوں کی ترقی میں ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔  منشی فیاض علی نے بھی دو اچھے ناول ’’شمیم‘‘ اور ’’انوار ‘‘ اردو ادب کو دیے جن میں معاشرت حاضرہ کی ماہرانہ مصوری کی ہے ان کے تمام ناولوں کا موضوع ایک ہی ہے یعنی طوائف اور طوائف کی زندگی۔  فضل حق قریشی کے ناولوں میں زندگی، حقیقت اور افسانویت کا بہت عمدہ امتزاج ہے۔  ان کے ناولوں میں ’’شاہد رعنا‘‘ سب سے بہتر ہے۔  اس سلسلے کے دوسرے قابل ذکر نام مجنوں گورکھپوری، افسر میرٹھی اور ظفر عمرو غیرہ ہیں۔

اس دور میں اپنے ناولوں ، افسانوں اور انشائیوں کو جن ادیبوں نے اپنا مقصد تحریر بنایا ان میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جنہوں نے مزاح کی چاشنی سے اردو ادب کو روشناس کرایا۔  مرزا فرحت اللہ بیگ (۱۸۸۴ء۔  ۱۹۴۷ء) کی شہرت ان کے مزاحیہ خاکوں کی بدولت ہے۔  ’’نذیر احمد کی کہانی‘‘ اور ’’دہلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ ان کے شاہکار ہیں۔  محمد حسین آزاد کی مرقع کشی اور شخصیت نگاری کا پرتو ان کی تحریروں میں ملتا ہے۔  مرزا صاحب کردار سے نہیں بلکہ اسلوب کی شگفتگی سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔  لیکن کہیں واقعہ اور کردار کے مضحکہ خیز پہلوؤں سے بھی کام لیا ہے۔  مرزا الم نشرح کے نام سے بھی لکھتے رہے۔  عظیم بیگ چغتائی (۱۸۹۵ء۔  ۱۹۴۱ء) نے طویل ناول بھی لکھے اور افسانے بھی۔  ان کے کردار زندگی کے عام واقعات اور حالات کے گرد گھومتے ہیں۔  اصلاح رسوم کا مقصد بھی ان کے یہاں موجود ہے۔  شوخی اور بذلہ سنجی ان کی تحریر کی خصوصیات ہیں۔  چغتائی کی تصانیف میں طنزیہ عناصر بھی ملتے ہیں لیکن مزاح نگاری اس قدر شوخ ہے کہ طنز کے جوہر نہیں ابھرتے۔  عظیم بیگ کے ناولوں میں ’’خانم‘‘، ’’چمکی‘‘ ’’کولتار‘‘ اور ’’شریر بیوی‘‘ کو بہت شہرت ملی۔

احمد شاہ بخاری پطرس کی تحریرات پر انگریزی مضامین کا پرتو ہے جس کو معاشرہ کے پس منظر میں انہوں نے دبا رکھا ہے۔  ان کی ظرافت میں عمومیت ہے۔  وہ لفظوں سے زیادہ واقعات سے ظرافت پیدا کرتے ہیں۔  واقعہ نگاری ان کے مزاح کا بنیادی وصف ہے۔

رشید احمد صدیقی طنز کے واحد لکھنے والے تھے۔  انہوں نے اپنے رنگ میں انفرادیت پیداکی۔  وہ علی گڑھ کی فضا کی پیداوار تھے۔  چنانچہ انہوں نے اپنے موضوعات کو زیادہ تر مقامی ماحول یعنی علی گڑھ کی اقامتی زندگی تک محدود رکھا۔  ان کا طنز، مزاح میں ملفوف ہوتا ہے۔  انہوں نے ’’طنزیات و مضحکات‘‘ کے نام سے جو کتاب لکھی ہے وہ اردو میں طنز و ظرافت پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔  ملا رموزی نے اپنے مزاحیہ انشائیوں کی بدولت خاصی مقبولیت حاصل کی۔  وہ ’’گلابی اردو‘‘ کے موجد خیال کیے جاتے ہیں۔  ان کی مضمون نگاری کا راز ان کی حقیقت نگاری میں ہے۔

امتیاز علی تاج اچھے ڈرامہ نگار تھے لیکن انہوں نے مزاح نگاری میں بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں اردو مزاح نگاری کو ان کی سب سے بڑی دین ’’چچا چھکن‘‘ کا مزاحیہ کردار ہے۔  ان کی اس تخلیق میں قاری پہلی بار اردو ادب کے ایک دلکش اور مکمل مزاحیہ کردار سے متعارف ہوتا ہے۔  جہاں تک ڈرامہ نگاری کا تعلق ہے اس دور میں کچھ ڈراما نگار تو وہی ہیں جنہوں نے اپنا کیریر۱۹۱۴ء سے پہلے بنا لیا تھا۔  کچھ نئے لکھنے والے بھی اس میدان میں آئے۔  بیسویں صدی کے آغاز تک ڈرامہ نگاری ادنیٰ درجہ کے نثر نگاروں کے ہاتھ میں رہی پھر نامور ادیبوں نے بھی ادھر توجہ کی۔

آغا حشر کاشمیری (۱۸۷۹ء۔  ۱۹۳۵ء) عظیم ڈرامہ نگار تھے۔  جو چوتھائی صدی تک اردو اسٹیج پر چھائے رہے۔  انہوں نے اردو تھیٹر کی روایت کو فنی لوازم و تدبیر کاری سے آراستہ و پیراستہ کیا۔  ۱۹۱۴ء تک وہ ۱۲ ڈرامے لکھ چکے تھے جن میں ترجمے زیادہ تھے۔  ان ڈراموں میں قدیم روایتی انداز اور عبارت آرائی کے نقائص موجود تھے بعد کے دور کے ڈراموں میں انہوں نے ڈرامے کو محض عوامی تفریح کے مقصد سے آزاد کر کے فنی لطافتوں سے معتبر بنایا۔  ان میں وہ تمام صلاحیتیں موجود تھیں جن کی وجہ سے وہ قدیم اور جدید ڈرامہ نگاری کے درمیان ایک اہم کڑی بن گئے۔  اس دور کے حشر کے قابل ذکر ڈرامے ’’رستم و سہراب‘‘، ’’ ترکی حور‘‘، ’’پہلا پیار‘‘، ’’سیتا بن باس‘‘ اور ’’آنکھ کا نشہ‘‘ وغیرہ ہیں۔  پنڈٹ نرائن پر شاد بیتاب کی شہرت کا آغاز ان کے کامیاب ڈرامے ’’مہا بھارت‘‘ سے ہوا۔  وہ ہندی، سنسکرت اور ہندو دیومالا سے اچھی واقفیت رکھتے تھے۔  اس لیے ان کے ہندی ڈراموں کو زیادہ خراج تحسین ملا۔  ’’ زہری سانپ‘‘، ’’امرت‘‘، ’’رامائن‘‘، ’’شکنتلا‘‘ اور ’’کرشن سداما‘‘ ان کے مقبول ڈرامے ہیں۔

حکیم احمد شجاع نے آغا حشر کی روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔  ان کے ڈراموں میں قدیم روایات اور جدت کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔  حکیم صاحب کے قابل ذکر ڈراموں میں ’’باپ کا گناہ‘‘، ’’آخری فرعون‘‘، بھیشم پرتگیہ‘‘ اور ’’بھارت کا لال‘‘ ہیں۔  امتیاز علی تاج نے اسی دور میں اپنا تاریخی ڈرامہ ’’ انار کلی‘‘ لکھا جو عام طور پر جدید اردو ڈرامہ نگاری کانقش اول سمجھا جاتا ہے۔  انار کلی اپنی دل کش ادبیت اور فنی نگہداشت کی بنا پر بہت مقبول ہوا۔  مکالموں کی برجستگی اور کامیاب کردار نگاری اس کی خصوصیات تھیں۔  اشتیاق حسین قریشی طرز جدید کے لکھنے والوں میں ہیں۔  وہ جدید ڈرامہ کی تکنیک سے بخوبی واقف تھے اس لیے ان کے ڈرامے نئے فنی شعور کی تمثیل کا بہترین نمونہ ہیں۔  محمد مجیب مغربی تعلیم سے بہرہ ور تھے۔  انہوں نے اردو ڈرامہ نگاری کو بہت کچھ دیا۔  ان کے ڈراموں میں ’’خانہ جنگی ‘‘، ’’کھیتی‘‘، ’’حبہ خانم‘‘ اور ’’آزمائش‘‘ بہت ممتاز ہیں جن میں جدید اسلوب کے تمام فنی لوازمات پائے جاتے ہیں۔  اس عہد کے دوسرے ڈرامہ نویسوں میں میر غلام عباس، مخلص حیدرآبادی، نازاں ، محشر انبالوی، شاہد احمد، فضل حق قریشی، کیفی، آرزو لکھنوی اور نشتر لکھنوی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔  لیکن واقعہ یہ ہے کہ دوسرے اصناف کے مقابلہ میں ڈرامے کی صنعت کم پائدار رہی۔

اس دور کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ اس درمیانی مدت میں ادبی تاریخ اور تنقید و تحقیق سے متعلق کافی سرمایہ وجود میں آیا۔  مولوی عبد الحق اس دور کے اہم محقق ہیں انہوں نے حالی کے ادبی کام کو واضح تر صورت میں پیش کیا۔  ’’مکاتیب حالی‘‘ اور ’’مقالات حالی‘‘ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔  ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دکنی ادب کے پرانے قلمی نسخوں کو برآمد کر کے بسیط مقدموں کے ساتھ مرتب و شائع کیا۔  ان کے مقدمات مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتے ہیں۔  ان کی زیر ادارت نکلنے والے اردو وسائل کے ذریعہ بھی اردو میں تحقیقی و تنقیدی مقالات کا بڑا ذخیرہ فراہم ہوا۔

عبد الرحمن بجنوری ذہنی تربیت کے لحاظ سے مغرب سے متاثر تھے۔  ان کا کارنامہ ’’محاسن کلام غالب‘‘ ہے۔  بجنوری اردو کے پہلے نقاد ہیں جنہوں نے یورپی فنکاروں کے نقطۂ نظر سے غالب کی شاعری کا مطالعہ کیا اور ان کو نفسیاتی تنقید کی روشنی میں جانچا۔  بجنوری کی اس انتہا پسندی کے جواب میں دکن کے ڈاکٹر عبد اللطیف نے غالب کی زندگی اور شاعری کا تنقیدی جائزہ انگریزی میں لیا جس کا اردو ترجمہ ۱۹۲۸ء میں شائع ہوا۔  اسی زمانے میں حبیب الرحمن شروانی کے تحقیقی و تنقیدی مضامین ’’مقالات شروانی‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔  برج موہن دتاتر یہ کیفی بھی اچھے محقق اور تنقید نگار تھے۔  ان کے تنقیدی تصورات میں مشرقی اور مغربی تنقیدی تصورات کا امتزاج ملتا ہے۔  ’’کیفیہ‘‘ اور ’’منثورات‘‘ ان کی تنقیدی صلاحیتوں کا مظہر ہیں۔  وحید الدین سلیم نے اپنی مشہور تصنیف ’’اصطلاحات علمیہ‘‘ کے علاوہ جو تنقیدی مقالات تحریر کیے ہیں وہ بڑے کام کی چیز ہیں۔  مہدی افادی اگرچہ رومانی رنگ کے لکھنے والوں میں تھے لیکن ان کے مضامین محض انشائیے نہیں ان میں ہمیں تاریخ بھی ملتی ہے اور تنقید بھی۔  ’’افادات مہدی‘‘ کے بیشتر مضامین بڑی تنقیدی نوعیت کے حامل ہیں۔

شیخ عبد القادر نے اپنے رسالہ مخزن کے ذریعہ اردو ادب میں تنقیدی شعور پیدا کیا۔  خود انہوں نے اپنی تنقیدات میں ادب کی معنوی اور صوری دونوں صورتوں پر روشنی ڈالی ہے۔  چکبست جنہوں نے شاعری میں بڑا نام پیدا کیا ان کی تنقیدی صلاحیتیں ’’معرکہ چکبست و شرر‘‘ سے منظر عام پر آئیں ان کی مزید تنقیدی تحریریں ’’مضامین چکبست‘‘ میں شامل ہیں۔  سلیمان ندوی اپنے وقت کے بہترین مورخ، سوانح نگار، نقاد اور محقق تھے۔  تحقیق و تنقید کا جوہر ان کی ہر تصنیف میں ملتا ہے۔  ان کی تنقیدات پر شبلی کا گہرا اثر ہے۔  اپنی کتاب ’’خیام‘‘ میں انہوں نے خیام سے متعلق جو غلط تصورات تھے ان کی تحقیقی طور پر تردید کی ہے۔  ’’نقوش سلیمانی‘‘ کے مضامین اردو کے عہد بعہد ترقی کی مکمل تاریخ ہیں۔

عظمت اللہ خاں کی تنقیدی صلاحیت اس وقت سامنے آئی جب انہوں نے اردو شاعری کو محض قافیہ پیمائی قرار دے کر قافیہ اور بحر کی پابندیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور اردو میں ہندی بحروں کی شمولیت کی وکالت کی۔  حامد حسن قادری بھی اچھے مورخ و نقاد تھے۔  ’’داستان تاریخ اردو‘‘ ان کی قابل قدر تصنیف ہے جس میں اردو کی نشو و نما اور ترقی کے مدارج کا جائزہ تحقیقی انداز میں لیا گیا ہے۔  ان کی دیگر تنقیدات میں تاریخ و تنقید اور ماثر عجم قابل ذکر ہیں۔  محمود شیرانی نے تحقیق و تنقید کے میدان میں اہم کام انجام دیے۔  انہوں نے اپنے دلائل کی روشنی میں پچھلی کئی تحقیقات و نظریات کو غلط ثابت کیا۔

نیاز فتح پوری بحیثیت تنقید نگار بہت اونچا قد رکھتے ہیں۔  ان کی تنقیدیں تاثراتی، ہیتی، اور تشریحی ہوتی ہیں جس کی بنیاد ان کے ذاتی نظریات ہوتے ہیں۔  ان کے تنقیدی مجموعوں ’’انتقادیات‘‘، ’’نقشہائے رنگ رنگ اور مالہ وماعلیہ‘‘ نے ادب کی چاشنی میں بڑا اضافہ کیا۔  دکن کے محققین اور تنقید نگاروں میں زور کا نام پہلا ہے۔  ان کی سرگرمیوں کا جائزہ زیادہ تر دکنی ادب و ثقافت تک محدود رہا پھر بھی ان کی تصانیف سے ادبی تاریخ کے بہت سے خلا پر ہوئے۔  ان کی ریسرچ سے دکنی مخطوطات منظر عام پر آئے۔  ان کے تحقیقی و تنقیدی کارنامہ ’’اردو شہ پارے ’’روحِ تنقید‘‘ اور سلطان محمد قلی قطب شاہ، وغیرہ ہیں۔  دکن کے شمس اللہ قادری کی کتاب ’’اردوئے قدیم‘‘ ان اہم تصنیفات میں سے ہے جو دکن میں اردو ادب کا خاصا مواد فراہم کرتی ہے۔

نصیر الدین ہاشمی کا شمار بھی دکنی ادب کے محققین میں ہوتا ہے۔  ان کی تحقیقی تخلیقات ’’دکن میں اردو‘‘ مدراس میں اردو اور ’’یوروپ میں دکنی مخطوطات‘‘ ہیں۔  مولانا عبد الماجد دریابادی بھی اپنے دور کے منفرد نقاد تھے۔  ان کی تنقیدات کا انداز خالص مشرقی ہے۔  ان کی تنقیدیں اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔  رشید احمد صدیقی نے مزاحیہ نگاری کے ساتھ تنقیدی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا جس کا انداز ان کی تصنیفات ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘، ’’ترقی پسندادب‘‘اور ’’زبان اردو پر ایک نظر ‘‘ سے کیا جا سکتا ہے۔  ’’طنزیات و مضحکات‘‘ ان کا بڑا وقیع کام ہے۔

 

اردو ادب ۱۹۳۵۔ ۱۹۷۶

۱۹۳۵ء کے لگ بھگ اردو ادب کی رومانیت سماجی معنویت کی نئی جہت سے آشنا ہونے لگی۔  تخیلیت، جذباتیت، انفرادی درد مندی پر پلنے والی رومانیت کی سرحدیں محض ذات تک محدود نہ رہیں۔  بلکہ انفرادیت کا جوش و خروش اپنی خوشی اور سماج کو خوش حال دیکھنے کی تمنا میں ان تمام سماجی اداروں سے ٹکرانے لگا جو اس کی تمنا ؤں کی تکمیل میں حائل تھے۔  سب سے پہلی یلغار جنس اور مذہب کے مسلمہ اداروں پر ہوئی اور اس کے بعد سیاست پر۔  مگر ہر صورت میں اس یلغار کی بنیادی حیثیت انفرادی اور رومانی تھی اور اس کے ہتھیار جذبے کا وفور اور تخیل کی بے پناہ قوت ہی کے ذریعہ فراہم کیے گئے تھے۔

اس امتزاج کی سب سے واضح مثالیں اقبال اختر شیرانی اور جوش کی شاعری سے اور قاضی عبدالغفار، نیاز فتح پوری اور ابوالکلام آزاد کی نثر سے فراہم کی جا سکتی ہیں جو ذات ہی کے راستے سے ایک بت شکن رومانی انانیت تک پہنچے تھے اور یہ رومانی انانیت محض حجاب امتیاز علی کے ’صنوبر کے سائے ‘ خلیق دہلوی کے ’ادبستان‘ اور سجاد حیدر یلدرم کے ’خیالستان‘ تک محدود نہ تھی بلکہ ’لیلیٰ کے خطوط‘ میں طوائف کے بدنام کردار کو موضوع سخن بناکر سماج سے انتقام لیتی تھی۔  کبھی اختر شیرانی کے لفظوں میں اٹھ ساقی، اٹھ تلوار اٹھا کا راگ الاپتی تھی۔  کبھی جوش کی طرح مذہب کے سکہ بند ادارے کو للکار تھی تھی، کبھی ابوالکلام کی نثر کا رجزیہ اسلوب بن کر سیاست کے رموز کھولتی تی اور کبھی اقبال کے تصور خودی کی شکل اختیار کر کے مرد کامل کے عشق کو عقل پر فوقیت دے کر تخیل اور جذبے کے رومانی آدرشوں کا پرچم بلند کرتی تھی۔  اس دور کے تخلیقی فن پاروں میں بنیادی فنی آویزش تغزل اور باطنی تجربے کی توسیع ہے۔  جن شاعروں نے اس کوشش میں کامیابی حاصل کی وہ خارج کے تجزیے سے حاصل ہونے والی سماجی بصیرت کو بھی تجربے کی واقفیت اور شعریت کی رنگینی دے سکے۔  باقی مانگے کے خیالات پر شاعرانہ انداز بیان کی ملمع کاری میں لگے رہے

 اس ضمن میں نظم میں سب سے اہم تجربے فیض، مجاز اور مخدوم نے کیے اور اپنی شاعری کو ذاتی تجربے کی واقعیت اور کلاسیکی درو بست کو سرشار شعریت سے پیوند کیا۔  فیض نے اپنے دور کے دکھ درد کو اپنی ذات کا حصہ بناکر اسی کرب امروز کو نشاط فردا کی عظمت اور کج کلاہی کا ضامن بنا کر سطوت غم سے معمور چٹیل شعریت سے نئے آہنگ میں ڈھالا۔  مجاز کے سرشار لب و لہجے اور مخدوم کی رنگین غنائیت میں ڈوبے رجزیوں نے شعریت کو ایک نئی جہت دے دی۔  غزل میں فراق نئے دور کے کائنات آشنا انسان کی ربودگی کی آپ بیتی لکھ رہے تھے جبکہ جذبی کلاسیکی درو بست کے ساتھ غزلیہ رمز و ایما میں اور مجروح سلطانپوری بھر پور رومانی سرمستی سے سیاسی حالات کو غزل کی علامتوں میں سمونے کا تجربہ کر رہے تھے۔

اس کے پہلو بہ پہلو شعری سانچوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی تھی۔  راشد نے سب سے پہلے مؤثر طریقے پر آزاد نظم کو پرانے عروضی سانچوں سے آزاد کر کے شعری اظہار کا وسیلہ بنایا۔  (گو تصدق حسین خالد اس قسم کی کوششوں کا آغاز کر چکے تھے ) اور نظم کو براہ راست بیانیہ اظہار کے بجائے متنوع اور مختلف جہات کے پیرایہ بیان کے لیے اختیار کیا جس میں کرداری پیرایہ بھی تھا اور ڈرامائی صورتحال سے نظم کے تاثر پیدا کرنے کی کوشش بھی تھی۔  (دریچے کے قریب) میراجی نے آزاد نظم کو لاشعوری کی پہنائیوں میں بکھیر کر اسے نجی اظہار کا پیرایہ بنایا اور ذاتی علامتیں ڈھال کر اسے ابہام اور اہمال کے قریب لے گئے جبکہ سلام مچھلی شہری نے عروضی تجربوں میں رقص اور مصوری کے طرز کو آزاد نظم کے لیے برتنے کی کوشش کی اور مختار صدیقی نے موسیقی کے طرز کو اپنایا۔

اس کے پہلو بہ پہلو قدیم طرز شاعری بھی پروان چڑھتا رہا گو اس طرز میں بھی مذاق عصر کے مطابق تبدیلیاں آنے لگیں۔  جگر مرادآبادی کے تغزل کی رنگینی اور سرمستی اب بھی مشاعروں پر چھائی ہوئی تھی مگر وہ بھی اب اپنی غزلوں میں سیاسی رمزیت کو جگہ دینے لگے۔  یگانہ کا آخری زمانہ تھا مگر اس زمانے میں بھی غزل میں خود داری اور بانکپن ان کا طرۂ امتیاز تھا۔

افسانوی ادب میں کرشن چندر کے ناول ’شکست‘ اور افسانے ’زندگی کے موڑ پر‘ اور ’بالکونی‘ میں جس رنگین اور سرشار رومانی نثر کو اس دور کے بے بس نوجوانوں کی تصویر کشی کے لیے استعمال کیا گیا اس نے ایک طلسماتی فضا پیدا کر دی تھی۔  کرشن چندر اسی اسلوبیاتی طلسمات کے جادو گر تھے لیکن جیسے جیسے وہ رومانیت کی اس امتیازی فضا سے نکل کر سیاسی حقیقت پسندی سے قریب ہوتے گئے ان کی رنگینی اکہری ہوتی چلی گئی اور اس دور کی بہترین کہانیاں ’مہا لکشمی کا پل‘ اور ’کالو بھنگی‘ بھی کرشن چندر کی اس امتیازی سحر کاری سے محروم ہیں۔  راجندر سنگھ بیدی نے اسلوب کے بجائے کرداروں کی دروں بینی اور فرد کی سماج سے مطابقت کے مسئلے کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور انہیں چھوٹے چھوٹے اشاروں سے انسانی شخصیت اور بصیرت کی داستانیں بیان کی ہیں۔

عصمت مسلم گھرانوں کی دبی کچلی جوانیوں کی بے جھجک فریاد بیان کرتی ہیں اور غلام عباس کی ’آنندی‘ اور حیات اللہ انصاری کی ’آخری کوشش‘ دونوں کہانیاں اردو مختصر افسانے کو سماجیاتی سطح پر اقدار کی آبادکاری اور انسانی خواہشات کی چوکھٹ پر اقدار کی شکست و ریخت کی رزمیہ کہی جا سکتی ہیں۔

سعادت حسن منٹو نے سماج کے معیاروں سے گرے ہوئے کرداروں کی تصویر کشی کر کے فرد کی تکمیل ذات کے نئے مطالبوں اور سماجی اقدار کے از کار رفتہ شکنجے کی کشمکش کو بے نقاب کر کے انسان کی بنیادی سچائی اور معصومیت کی کہانی بیان کی اور تکنیک کے اعتبار سے رومانی طرز احساس کو حقیقت پسندانہ سادگی میں بے محابا ادا کیا۔

اس دور میں انڈین پیپلز تھیٹر کے عروج کی بنا پر اسٹیج ڈراموں پر بھی توجہ کی گئی اور پھر پرتھوی تھیٹر کے قیا م سے ڈرامہ نگاری کو اور بھی فروغ ملا۔  پرتھوی راج نے ’غدار‘، ’پیسہ‘، ’پٹھا‘ن اور ’دیوار‘ جیسے ڈرامے کامیابی سے اسٹیج کیے۔  احمد عباس نے پہلی حقیقت پسندانہ فلم قحط بنگال کے موضوع پر ’دھرتی کے لال‘ کے عنوان سے بنائی۔  ریڈیائی ڈراموں کا بھی فروغ ہوا اور کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، شوکت تھانوی، انصار ناصری کے ریڈیائی ڈراموں نے اس صنف کو ادبی معنویت اور اہمیت بخشی۔

طنز و مزاح میں رشید احمد صدیقی نے نئی ادبی اور فکری تہہ داری پیدا کی اور شوکت تھانوی نے اسے سماجی طنز کے طور پر برتا۔  کنہیا لال کپور کے ہلکے پھلکے مزاح نے سماجی ناہمواری اور ذات کے غیر متوازن رد عمل کو موضوع بنایا۔

تقسیم ہند کے بعد اردو کی ادبی قلم رو بھی دو مملکتوں میں تقسیم ہو گئی اور ہندوستان میں اردو کو نئی مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑا۔  ناشروں کا کاروبار سرد پڑا اور رسالے بند ہونے لگے یا ان کی اشاعت میں زبردست کمی ہوئی۔  ریڈیو اور دوسرے سرکاری محکموں میں بھی اردو والوں کی ملازمت کی گنجائش کم ہونے لگیں پھر تقسیم ہندوستان کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ فسادات کی لہر آئی، زمینداری کا خاتمہ ہوا اور ان دونوں موضوعات نے اردو ادب کو بڑی شدت سے متاثر کیا۔  راما نند ساگر، کرشن چندر نے فرقہ وارانہ فسادات کو موضوع بنایا اور ناول اور افسانے لکھے اور پھر قرۃ العین حیدر سے قاضی عبدالستار اور جیلانی بانو تک تقسیم اور جاگیرداری نظام کے زوال کا موضوع اردو کے افسانوی ادب میں زیریں لہر کی طرح موجود رہا۔

پاکستان میں ’اداس نسلیں ‘ سے لے کر ’خدا کی بستی‘، ’آنگن‘ اور ’چاند گہن‘ تک اور پھر تمام ناسٹلجیائی افسانوی ادب میں فسادات، تقسیم اور جاگیرداری ثقافت کا زوال موضوع بنا رہا گو وہاں کے رویے مختلف تھے۔  صنعتی دور کی طرف بڑھنے والے سماج کا اعصابی تشنج، احساس تنہائی اور بکھرے ہوئے شعور نے فکر اور فن دونوں میں عہد آفریں تبدیلیاں پیدا کیں۔  شاعری میں ایک طرف سردار جعفری کی گھن گرج کی شاعری ابھری جس نے ’نئی دنیا کو سلام‘ سے لے کر ’پیراہن شرر‘ تک شعری تمثیل اور آزاد نظم کی انصاف میں مثبت سماجی مقصدیت کو سمویا اور دوسری طرف اخترالایمان کا شعری آہنگ ابھرا جس میں براہ راست اظہار کے بجائے نظم کے مختلف پیرایوں (مثلاً ڈرامائی یک کرداری تمثیل اور طنزیہ قصوں اور تاثر پاروں ) کو پہلی بار اردو میں ہمہ جہتی اور تہہ داری کے ساتھ برتا کہ نظم محض سادہ تسلسل ہی کی نہیں پیچیدہ ارتقا کی مظہر بن گئی اور سماج میں ابھرنے والی منافقت اور مصلحت پرستی پر گہرے طنز کی حیثیت اختیار کرگئی۔  نظم و نثر دونوں میں بکھرے تاثر پاروں سے وحدت تاثر کی مرکزیت حاصل کرنے کا تجربہ عام ہونے لگا جس کی مثالیں نظم میں اخترالایمان کی نظم ’ایک لڑکا‘ اور ’سبزۂ بے گانہ‘ سے عمیق حنفی کی ’سند باد‘ تک بکھری ہوئی ہیں۔ اسی طرح قرۃ العین حیدر  کے ناولوں ’میرے بھی صنم خانے ‘ اور ’آگ کا دریا‘ میں یہی ریزہ کاری مرکزی تاثر کی تشکیل کرتی ہے۔

غزل میں بلند آہنگی کے بجائے نرمی اور آہستگی کے رواج نے میر کی تقلید کی طرف متوجہ کیا اور پاکستان میں ابن انشا اور ناصر کاظمی کی غزل میں نئے آہنگ نے رواج پایا۔  ہندوستان میں غزل کے نرم اور تہہ دار لہجے میں فکری صلاحیت اور ربودگی سمونے کی کوشش نے پرویز شاہدی، مخدوم اور جاں نثار اختر کے یہاں نیا آہنگ پیدا کیا اور خورشید احمد جامی کی غزل میں نیا رنگ بھر دیا۔

۱۹۶۰ء کے بعد اردو ادب میں فکری اور فنی تقاضے نیا روپ اختیار کرنے لگے۔  رومانیت، سماجی معنویت کے راستے سے مڑ کر پھر ایک بار فرد کی طرف متوجہ ہوئی اور اس نئی رومانیت نے فلسفہ وجودیت اور خود اجنبیت کے تصورات کا سہارا لے کر باطن اور تلاش ذات کو فن کا موضوع بنایا۔  اس کے علاوہ فنی سطح پر علامت کے استعمال پر زور دیا گیا اور شاعری اور افسانوی ادب دونوں میں علامتی پیرایہ اظہار نے قبول عام پایا۔  مقصد، ادب میں کئی جہات کی معنویت پیدا کرنا تھا جس کی بہ یک وقت باطنی معنویت کے اعتبار سے توجیہ کی جا سکے اور سماجی معنویت کے اعتبار سے بھی جہاں اس کوشش نے کیفی، پرویز شاہدی، عمیق حنفی، شہریار کی نظموں رتن سنگھ، اقبال مجید، رام لعل اور سلام بن رزاق بلراج مین را اور سریندر پرکاش کے بعض کامیاب شہہ پاروں کو جنم دیا وہاں نئی نسل کے بہت سے لکھنے والوں کی تخلیقات کو نہ بوجھی جانے والی پہیلی بھی بنایا۔  مجموعی طور پر یہ دور فکر اور ہیئت کے تجربات کا دور ہے جس نے ابھی تک اپنا یادگار کارنامہ اور نمائندہ فن کار پیدا نہیں کیا ہے۔  البتہ تجربات کے دوران فنی اور فکری معنویت سے بھر پور ٹکڑے ضرور اس دور کی تخلیقات میں بکھرے ہوئے مل جاتے ہیں۔

 

اردو صحافت: ۱۸۵۷ ۔ ۱۹۱۴

اردو صحافت نے اس دور میں بڑی ترقی کی۔  ۱۸۵۸ء میں منشی نول کشور نے اودھ اخبار جاری کیا اور اس نے بہت جلد شمالی ہند میں ایک مرکزی حیثیت حاصل کر لی۔  ۱۸۶۶ء میں سرسید کا ’’انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ اور ۱۸۷۰ء میں رسالہ ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ نکلا۔  اور ان دونوں نے نہ صرف صحافت بلکہ ادب اور تہذیب کا تصور بھی بدلا۔  ۱۸۷۷ء میں انگریزی ’پنچ‘ کے نمونے پر منشی سجاد حسین نے ’’اودھ پنچ‘‘ جاری کیا۔  یہ پرچہ سرسید، حالی اور نئے خیالات کے خلاف تھا اور مغربی تہذیب پر برابر طنز کرتا تھا۔  مگر سیاسی عقاید میں قوم پرست تھا۔  اس کے مضمون نگاروں میں کئی کہنہ مشق لکھنے والے تھے۔  اکبر الہ آبادی نے طنز و ظرافت کی وادی میں اس اخبار کے ذریعہ سے قدم رکھا۔

 ۱۸۸۷ء میں شرر کا ’’دلگداز‘‘ جاری ہوا۔  اس پر چے میں تاریخی معلومات کے علاوہ نئی شاعری کی ضرورت خصوصاً نظم کو اس نے مقبول بنایا۔  اس کے بے قاعدہ اشاعت کی وجہ سے اس کا اثر پیہم اور مسلسل نہ ہوسکا۔  پھر بھی اس رسالے کے ذریعے سے نئے ادبی اور تہذیبی نقطۂ نظر کو فروغ ہوا۔

مگراس سلسلے میں سب سے اہم خدمات ’’مخزن‘‘ لاہور اور ’’زمانہ‘‘ کا نپور نے انجام دیں۔  ’’مخزن‘‘ ۱۹۰۱ء سے اور زمانہ ۱۹۰۳ء سے منظر عام پر آیا۔  ’’مخزن‘‘ کے ایڈیٹر شیخ عبدالقادر نے بہت جلد اپنے گرد نئی نسل کے اچھے لکھنے والوں کا ایک حلقہ بنالیا جس میں سرِ فہرست اقبال تھے۔  دیا نراین نگم کے رسالے نے بھی بہت جلد اپنی جگہ بنا لی۔  ’’مخزن‘‘ میں نئی شاعری پر زیادہ توجہ تھی لیکن ا س نے سجادحیدر اور نیاز فتحپوری جیسے ادیبوں کی تربیت کی۔  ’’زمانہ‘‘ ایک طرف ہندوستانی تاریخ اور ہندوستانی ادبیات سے اردو داں طبقے کو واقف کراتا رہا۔  دوسری طرف اس نے قدیم وجدید دونوں طرز کے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کی۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے پہلے ایک رسالہ ’’خدنگِ نظر‘‘ نکالا اور اس کے بعد ۱۹۱۲ء میں ’’الہلال‘‘ جاری کیا جو ٹائپ میں چھپتا تھا۔  ’’گزٹ‘‘ اور ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے بعد یہ ٹائپ میں سب سے اہم صحیفہ ہے۔  ’’ادیب‘‘ الہ آباد، ’’دکن ریویو‘‘ اور ’’اردوئے معلی‘‘ جس کے ایڈیٹر حسرت موہانی تھے اس دور کے ممتاز رسالے ہیں۔

 

اردو میں ڈرامہ: ۱۸۵۷ ۔۱۹۱۴

اردو میں ڈرامے کی ابتدا واجد علی شاہ کے ’’رہس‘‘ اور امانت کی ’’اندر سبھا‘‘ سے ہوئی۔  لکھنؤ کے بعد ڈھاکے اور بمبئی میں اردو اسٹیج کا رواج ہوا بمبئی میں ۱۸۵۴ء میں ناٹک ’’گوپی چند‘‘ دکھایا گیا۔  غدر کے بعد پارسی سرمایہ داروں نے اس فن کی سرپرستی کی۔  ۱۸۷۱ء میں بہرام جی فریدوں جی مرزبان نے ڈرامہ ’’خورشید‘‘ پیش کیا۔  اس دور میں اردو ڈراموں کا عام معیار خاصا پست تھا۔  مقفیٰ زبان گانوں کی کثرت اور عامیانہ مذاق ہوتا تھا۔  ’’بلبل بیمار‘‘ پہلا نثری ڈراما ہے۔  ’’لیل ونہار‘‘ ادبی حیثیت سے اس سے کچھ بہتر ہے۔  احسن لکھنوی، طالب بنارسی، بے تاب بنارسی اسی دور کے اہم ڈرامہ نویس ہیں۔

اس کے بعد آغا حشر کاشمیری (۱۸۷۹ء۔  ۱۹۲۵ء) اس بساط پر ابھرے۔  آغا حشر اچھے شاعر تھے اور انہیں ڈراما لکھنے کا فن آتا تھا۔  اس زمانہ میں ڈراموں کے پلاٹ یا تو شیکسپئر سے یا ہندوستانی قصوں سے ماخوذ ہوتے تھے مگر ان میں عام مذاق کا اتنا لحاظ رکھا جاتا تھا کہ قوافی کی رعایت یا شاندار مکالمے ضرور ہوتے تھے۔  آغا حشر کے ڈراموں میں سفید خون، صید ہوس، خواب ہستی، خوبصورت بلا، یہودی کی لڑکی، بلوا منگل، ۱۹۱۴ء تک ڈرامے کے ارتقا کی نشان دہی کرتے ہیں عمر کے ساتھ آغا حشر کا فن بھی ترقی کرتا رہا اور آخر میں شاعری اور خطابت کم ہوتی گئی۔  اس دور میں کچھ ادیبوں نے ڈرامے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس صنف میں تجربے کیے ، مگر اسٹیج کے فن سے ناواقفیت کی وجہ سے ان کی صرف تاریخی اور ادبی اہمیت ہے۔  شرر نے ’’شہیدِ وفا ‘‘اور ’’میوۂ تلخ‘‘۔  رسوا نے ’’مرقع لیلیٰ مجنوں ‘‘ (منظوم) احمد علی شوق قدوائی نے ’’قاسم و زہرہ‘‘ (منظوم) ظفر علی خاں نے ’’جنگِ روس و جاپان‘‘ (۱۹۰۵) لکھے۔

بیسویں صدی کے آغاز سے نثری ڈراموں کا رواج بڑھا لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد تک اردو ڈراموں پر آغا حشر کی آواز حاوی رہی۔  گو اسٹیج کی گہری روایت نہ ہونے کی وجہ سے اردو ڈراما زیادہ ترقی نہ کرسکا۔

 

اردو نظم ۔ ۱۸۰۰ء تا ۱۸۵۷ء

 شمالی ہندوستان میں شاعری کی باقاعدہ ابتدا اٹھارہویں صدی کے اوائل سے ہوتی ہے۔  ولی کا دیوان جو ۱۷۲۰ء میں دہلی آیا اس نے شاعروں کو بہت متاثر کیا۔  اس دیوان کو دیکھ کر شاعروں کو حیرت ہوئی کہ وہ زبان جس کو ہم گھر میں بولتے اور جس میں سودا سلف بیچنے خریدنے کی گفتگو کرتے ہیں اس میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ جذبات کی نزاکتوں کو پیش کر سکے۔  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت سعد اللہ گلشن نے ولی کو یہ نصیحت کی تھی کہ آپ فارسی سے مضامین کو ریختے میں منتقل کریں۔  اس وقت یوں بھی فارسی زبان زوال پذیر تھی اور فارسی کے مشہور شعرا بھی تفنن کے طور پر اردو میں شعر کہنے لگے تھے۔

اٹھارہویں ، انیسویں صدی سیاسی اعتبار سے بہت پر آشوب تھی۔  ہر طرف بے چینی اور بد امنی تھی۔  لیکن اس سیاسی ابتری کے باوجود اردو ترقی کرتی رہی۔  آبرو (ف ۱۷۴۷ء)، حاتم (ف ۱۷۹۱ء)، ناجی (ف ۱۷۵۴ء) مضمون (ف تقریباً ۱۷۴۵ء) اور مرزا مظہر (ف ۱۷۸۱ء) اور دیگر معاصرین ولی نے اردو کی بڑی خدمت انجام دی۔  انہیں بزرگوں نے اردو زبان کو مضامین عالی کے لائق بنا دیا۔

 لیکن ۱۸۰۰ء سے ۱۸۵۷ء تک جن دو شاعروں کا طوطی بولتا رہا اور جنہوں نے اردو کے اسالیب پر بے انتہا اثر ڈالا وہ سودا اور میر ہیں۔  سودا کا انتقال ۱۷۸۰ء میں اور میر کا ۱۸۱۰ء میں ہوا۔  یہ شعرا اس دور میں باقی تو نہیں تھے لیکن ان کے کارنامے زندہ تھے اور شعرا ان کی تقلید پر فخر کرتے تھے۔  اس دور کے سب سے معروف شاعر اور خدائے سخن میر تقی میر ہیں جن کا لکھنؤ میں انتقال ہوا۔  جرأت، نظیر اکبرآبادی اور مصحفی وغیرہ نے اس دور کی اقتصادی بے چینی اور سماجی بدحالی کو اپنی آشوبیہ نظموں کے ذریعہ شعر کے پیکر میں ڈھال دیا ہے۔  ان شہر آشوبوں میں انتظامیہ کی بد نظمی، رشوت ستانی، بے جا تکلفات، مبالغہ آمیزیوں اور بے ہودہ رسموں کا مذاق اڑایا ہے۔  ان نظموں میں اخلاقی پستی، اقتصادی بدحالی، نودولتوں کے چھچھو ر پن اور شاعروں کی مصیبتوں کی بڑی خوبصورتی سے ترجمانی کی گئی ہے۔  سودا کی مثنوی شیدی فولاد خاں پر محض ایک شخص کی تضحیک ہی نہیں ہے بلکہ پورے دور کی بد انتظامی پر طنز ہے۔  میر کی شہرت کا انحصار ان کی غزلوں اور مثنویوں پر ہے۔  مفلسی اور گداگری سے لے کر عشق کی ناکامی تک کوئی مصیبت ایسی نہ تھی جو میر نے نہ جھیلی ہو۔  میر کے یہاں جو درد مندی اور انسان دوستی ہے وہ اردو شاعری کی بڑی دولت ہے۔

اسی دور کے ایک ممتاز صوفی شاعر خواجہ میر درد ہیں جن کا انتقال ۱۷۸۵ء میں ہوا لیکن اردو کی متصوفانہ شاعری کا قافلہ ان کے بتائے ہوئے خطوط پر چلتا رہا۔  خواجہ میر درد سارے انقلابات کے باوجود دہلی ہی میں مقیم رہے۔  لیکن لکھنؤ اس وقت اہل کمال کی سب سے زیادہ قدر اور دولت کی ریل پیل تھی۔  اس لیے شاعروں کی سب سے بڑی تعداد لکھنؤ منتقل ہو گئی۔  لکھنؤ میں بہار دہلی میں پت جھڑ کے بعد آئی جیسے جیسے لکھنؤ سیاسی اعتبار سے آزاد ہوتا گیا اس نے ادب و شعر میں بھی اپنے سکے رائج کیے۔  لیکن سودا، میر تقی میر، میر حسن، مصحفی، انشا اور جرأت سب دہلی چھوڑ کر لکھنؤ جا بسے۔  بعض شاعر فرخ آباد، ٹانڈا، عظیم آباد اور حیدرآباد چلے گئے۔  لیکن اودھ کا علاقہ کھڑی بولی سے دور ہے۔  اس لیے وہاں کی زبان میں ٹھیٹ اردو کامزہ کم ہے۔  تکلف اور تصنع زیادہ ہے۔

لکھنؤ میں آ کر اردو کا تعلق دربار سے زیادہ گہراہو گیا اور درباروں کا معیار اخلاقی اعتبار سے بہت گرا ہوا تھا۔  شاعر قرب سلطانی حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی ریشہ دوانیاں کرتے تھے۔  ہجویہ نظمیں لکھتے تھے۔  اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے سوقیت اور ابتذال سے بھی نہ چوکتے تھے۔  انشا (ف ۱۸۱۷ء) اور مصحفی (ف ۱۸۲۴ء) کے معرکے دل چسپ بھی ہیں اور عبرت آمیز بھی۔  اسی زمانے میں ایسی شاعری کا رواج ہوا جس میں لفظی صنعت گری پر زیادہ زور دیا گیا اسی زمانے میں ریختی کا بھی چلن ہوا جس نے شوقین عورتوں اور طوائفوں کی زبان کو محفوظ کر لیا۔

لکھنؤ اسکول کا سب سے ممتاز شاعر ناسخ ہے جس نے زبان کے قواعد مرتب کیے اور اس کو مانجھ کر آئینہ بنا دیا لیکن وہ اس مواخذے سے نہیں بچ سکتا کہ اس کے زمانے میں شاعری رعایات و تکلفات کامجموعہ بھی بن گئی اور اس کی سادگی اور فطری پن کو نقصان پہنچا۔

مصحفی کا انتقال ۱۸۲۴ء میں ہوا۔  ان کا شمار اساتذہ سخن میں کیا جاتا ہے۔  انہوں نے میر اور سودا کے طرز کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ان کے سب سے دل کش اشعار وہی ہیں جہاں انہوں نے مختلف اساتذہ ٔ سخن کے رنگ کو ملا کر اپنا رنگ بنایا ہے۔  انہوں نے اردو کے دو تذکرے بھی لکھے جو ہماری ادبی تاریخ میں اہم ہیں۔

انشاء اللہ خاں انشا کا انتقال ۱۲۳۳ھ (۱۸۱۷۔  ۱۸۱۸ء) میں ہوا۔  فن پر پوری قدرت رکھتے تھے اور بے مثل صلاحیتوں کے حامل تھے۔  لیکن ان کے بارے میں بے تاب کا یہ فقرہ اہمیت رکھتا ہے کہ انشا کو شاعری نے اور ان کی شاعری کو سعادت علی خاں نے تباہ کیا۔  انشا کے کلیاتِ نظم میں تقریباً تمام اصناف کے نمونے موجود ہیں۔  جرأت (ف ۱۸۱۰ء) نے میر کی تقلید کی لیکن ان کے یہاں نہ میر کا ساسوز و گداز ہے نہ ان کی درد مندی نہ ان کا تجربہ۔  ان کا نظریہ عشق ابتذال سے خالی نہیں ہے۔

اسی زمانہ کا ایک شاعر سعادت یار خاں رنگین (ف ۱۸۰۲ء) ہے۔  جو اپنی ریختی کی وجہ سے مشہور ہے۔  ریختی کانقطۂ عروج جان صاحب کے یہاں ملتا ہے جو عورتوں کی طرح دوپٹہ اوڑھ کر شعر سناتے ہیں۔

اس وقت جب لکھنؤ میں پر تصنع شاعری رواج پذیر ہو گئی تھی اردو کے افق پر نظیر اکبرآبادی نمودار ہوا جس نے شاعری کا رشتہ دوبارہ عوام سے جوڑا اور اس کو پھر انسانی قدروں کا آئینہ دار بنا دیا۔  نظیر اکبرآبادی کے یہاں وہ گنگا جمنی تہذیب بھی پوری طرح نمایاں ہے جس پر اردو کو ہمیشہ فخر رہا ہے۔  انہوں نے غزلیں بھی کہیں اور ان میں میر سے لے کر ناسخ تک کے رنگ کو برتا۔  مگر ان کا بہت بڑا کارنامہ نظم ہی ہے جس میں ہندوستانی تہذیب و تمدن کے تمام نقوش جلوہ گر ہیں۔

ناسخ نے جو خدمت صحتِ زبان اور فن شعر کی کی ہے وہ قابل قدر ہے لیکن اصول شعر پر اتنا زور دیا گیا کہ اس میں شاعری اور جذبات دونوں دب کر رہ گئے۔  ان کے اشعار میں جذبات کی گرمی نہیں ہے محض لفظوں کی تراش خراش ہے ان کے مقابلے پر خواجہ حیدر علی آتش (ف ۱۸۴۶ء) کے یہاں جذبے کی گرمی اور شعر کی لطافت نمایاں ہے۔  ان کے یہاں بھی لفظی آرائش اور مرصع سازی ہے لیکن تصوف کی چاشنی اور جذبے کی گرمی بھی ہے۔

اس دور کے مشہور مثنوی نگار دیا شنکر نسیم ہیں ، جن کا انتقال ۱۸۴۵ء میں ہوا۔  ان کے یہاں اختصار سے تشبیہات اور استعارات ہیں بڑی تراش خراش ہیں اور لفظوں کی صناعی ہے لیکن لکھنؤ اسکول کا سب سے بڑا کمال مرثیے میں نظر آتا ہے۔

 اس لفظی صنعت گری کی تلافی اگر قدرت کی طرف سے ہوئی تو وہ یہ کہ میر انیس (ف ۱۸۷۴ء) اور مرزا دبیر (ف ۱۸۷۵ء) کو پیدا کر دیا۔  میر انیس نے فصاحت اور بلاغت کا ایک بلند معیار قائم کر دیا۔  ان کی منظر کشی اور جذبات نگاری کے بعض نمونے دنیائے ادب میں ایک خاص امتیاز رکھتے ہیں۔

اسی زمانے میں اردو ڈرامے ، اوپیرا کی شکل میں ملتے ہیں۔  اس کی سب سے خوبصورت مثال امانت (ف ۱۸۵۸ء) کی اندر سبھا ہے۔  اسی زمانے میں مرزا شوق نے اپنی مثنویاں ’’بہار عشق‘‘ اور ’’زہر عشق‘‘ لکھیں جو زبان و بیان کے اعتبار سے بے مثل ہیں یہ شاعرانہ رفعتوں سے نا آشنا ہیں اور ان میں کوئی بے کراں جذبہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں زبان و بیان کی ایسی قدرت ہے جو اور جگہ نہیں ملتی۔

۱۸۵۶ء میں تمام معاہدوں کو توڑ کر انگریزوں نے اود ھ کو برطانوی ہند میں شامل کر لیا اور واجد علی شاہ کو معزول کر کے کلکتہ بھیج دیا۔  یہ واقعہ سیاسی اعتبار سے ہی اہم نہیں بلکہ تہذیبی سانحہ بھی ہے۔  اس کے بعد لکھنؤ کی رونق ختم ہو گئی اور بیسیوں شاعر سرپرستی سے محروم ہو گئے۔  اودھ کے آخری تاجدار واجد علی شاہ شعرو ادب کے سرپرست اور خود بھی بہت سی کتابوں کے مصنف تھے۔  اور عبدالحلیم شرر نے ان کو ابو الفضل کا ہم رتبہ قرار دیا ہے۔  اودھ پر انگریزی تسلط قائم ہو جانے اور واجد علی شاہ کے معزول ہو کر کلکتہ چلے جانے کے بعد لکھنؤ کی شعری فضا پر افسردگی چھا گئی۔  انگریزوں کے داخلۂ دہلی کے بعد اوائل ۱۸۵۷ء تک دہلی میں امن و امان قائم رہا۔  مغلیہ سلطنت کی شمع جھلملاتی رہی لیکن گل نہیں ہوئی۔  ادب اور فن کے بہت سے چراغ اسی کی بدولت روشن تھے۔

 اس زمانے میں دہلی کے افق پر بعض ایسے شاعر ابھرے جن کو ادبی تاریخ میں دوامی شہرت حاصل ہے۔  اس فہرست میں مومن (ف ۱۸۵۱ء) ذوق (ف ۱۸۵۴ء)، نسیم دہلوی (ف ۱۸۶۴ء)، صدر الدین آزردہ (ف ۱۸۶۸ء) اور شیفتہ (ف ۱۸۵۹ء) کا نام بہت مشہور ہے۔  لیکن اس فہرست میں سب سے اونچا نام مرزا غالب کا ہے۔  غالب کی آواز اردو میں بالکل نئی آواز ہے۔  ان کے یہاں جو انسانی درد مندی، رواداری فلسفیانہ بے نیازی اور خوش طبعی ہے وہ ادب کی دولت ہے۔  غالب سے پہلے زبان و بیان کے کرشمے تو نظر آتے ہیں لیکن فکرو نظر نہیں ہے۔  غالب نے غزل کو نیا رنگ و آہنگ بخشا اور اپنے تخیل کی لالہ کاری اور جذبے اور فکر کی حسین آمیزش سے غزل میں بڑی وسعت پیدا کر دی اور اس کی معنویت کے دائرے کو بڑھا دیا۔  غالب کی بڑائی ان کی درد مندی، انسان دوستی، اور سنجیدہ ظرافت میں پوشیدہ ہے۔  انہوں نے اپنے فکر و فن سے نہ صرف اپنے عہد کو متاثر کیا بلکہ شعرائے مابعد پر بھی اثر ڈالا۔  اگر غالب نہ ہوتے تو حالی اور اقبال بھی نہ ہوتے۔

غالب کے معاصرین میں ذوق جو بادشاہ کے استاد بھی تھے بہت مشہور ہیں لیکن ان کے یہاں وہ بصیرت نہیں جو ہمیں غالب کے یہاں ملتی ہے۔  حکیم مومن خاں مومن (۱۸۵۱ء) کی غزلوں میں معنی آفرینی، تراکیب کی چستی اور لب و لہجے کی د ل رباعی تو ہے لیکن ان کا اسلوب پر پیچ ہے۔  فارسی کا اثر بھی ان کے یہاں بہت زیادہ ہے۔

۱۸۵۷ء کی بغاوت، جاگیردارانہ نظام کی آخری کوشش تھی کہ وہ پرانی اقدار پر قائم رہیں اور وہ عظمت رفتہ پھر لوٹ آئے لیکن انگریزوں کے نو آبادیاتی نظام نے جو ہندوستانی اقتصادیات کو نقصان پہنچایا تھا اور جس طرح لوگ نان و نمک سے محروم ہو گئے تھے۔  اس نے اس بغاوت کو مہمیز کیا۔  اس زمانے کے اخبارات، اس زمانے کے گیت، اس زمانے کے شہر آشوب اور اس زمانے کی غزلیں اس دردو کرب کو ظاہر کرتی ہیں جن سے اہل ملک گزر رہے تھے۔  اور جن کی وجہ سے غدر برپا تھا بہادر شاہ ظفر (ولادت ۱۷۷۵ء۔  ف ۱۸۶۲ء) کے کلام میں وہ درد و سوز پوری طرح موجود ہے جو ان حالات نے پیدا کر دیا تھا۔  ان کی یہ ہمت قابل داد ہے کہ بیاسی برس کی عمر میں اور مئی اور جون کی تپتی ہوئی دھوپ میں انہوں نے انگریزوں سے لڑنا پسند کیا لیکن ہتھیار ڈالنا منظور نہیں کیا۔  بہادر شاہ ظفر کا رنگون میں انتقال ہوا اور ان کے ساتھ ہی ہماری ادبی تاریخ کا ایک دور ختم ہو گیا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://urdupedia.in

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید