FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

بادۂ نو

 

 

میکش ناگپوری

 

 

 

 

ترکیب میں جدّت ہے تو الفاظ میں شوکت

میکش ترا نکھرا ہوا اندازِ بیاں ہے

 

 

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نعت

 

مظہرِ کبریا محمدؐ ہیں

گوہرِ بے بہا محمدؐ ہیں

غیب سے آشنا محمدؐ ہیں

رازدارِ خدا محمدؐ ہیں

سارے عالم نے روشنی پائی

آفتابِ ضیا محمدؐ ہیں

لالہ و گل میں چاند تاروں میں

دوستو ہر جگہ محمدؐ ہیں

روح رہ رہ کے پھڑ پھڑاتی ہے

سازِ دل کی صدا محمدؐ ہیں

ظلم سہہ کر بھی اُف نہ کی میکشؔ

کتنے صبر آزما محمدؐ ہیں

 

 

 

 

غزلیں

 

 

اب دردِ محبت مِری رگ رگ میں رواں ہے

صرف ایک جگہ ہو تو بتاؤں کہ یہاں ہے

اِک روز رہا تھا ترے جلوؤں کی فضا میں

آنکھوں میں ابھی تک وہی رنگین سماں ہے

یاد آیا ہے اک وعدہ فراموشِ محبت

اب قلب کی دھڑکن پہ بھی آمد کا گماں ہے

اب نالۂ جاں سوز سے بیدار ہے دنیا

جو بات نوا میں ہے خموشی میں کہاں ہے

میں خوب سمجھتا ہوں دو عالم کی حقیقت

آرام سے انسان یہاں ہے نہ وہاں ہے

اُڑتا ہوا پھرتا ہے جو کاندھوں پہ ہوا کے

وہ ابر نہیں ہے میری آہوں کا دھواں ہے

ترکیب میں جدَّت ہے تو الفاظ میں شوکت

میکشؔ ترا نکھرا ہوا اندازِ بیاں ہے

 

 

 

تم اپنی آنکھوں میں کیفِ شراب بھر لینا

ہمارے آنے سے پہلے یہ کام کر لینا

اُلجھ رہے ہیں جو کانٹے ذرا اُدھر دیکھو

پھر اپنے دامنِ رنگیں میں پھول بھر لینا

بھٹک نہ جائے کہیں میرا کاروانِ حیات

اے میرے رہبرِ منزل مری خبر لینا

تمہارے جلوؤں سے کھیلے گا میرا ذوقِ نظر

نقاب اٹھانے سے پہلے ذرا سنور لینا

کنارے آ کے سفینہ ہے لرزہ بر اندام!

تم اپنے ڈوبنے والے کی اب خبر لینا

اے باغباں پئے شادابیِ چمن ہم سے

ملے نہ آب تو خونِ دل و جگر لینا

ہے کارِ عشق جہاں میں محال اے میکشؔ

بہت ہی سوچ کے یہ بار اپنے سر لینا

 

 

 

 

میرا دل چاک ہوا چاکِ گریباں کی طرح

اب گلستاں نظر آتا ہے بیاباں کی طرح

میرے سینے میں منّور ہوئے یادوں کے چراغ

بزمِ خوباں کی طرح شہرِ نگاراں کی طرح

کوئی مونس کوئی ہمدم کوئی ساتھی نہ ملا

میں پریشاں ہی رہا زلفِ پریشاں کی طرح

ختم ہو جائیگی ہر روشنی دنیا کی مگر

تم چمکتے ہی رہو گے مہِ تاباں کی طرح

میں نے چاہا کہ سنبھل جائے طبیعت میری

دل ٹپکتا ہی رہا دیدۂ گریاں کی طرح

چشمِ الفت سے نہ دیکھا کبھی دنیا نے مجھے

میں کھٹکتا ہی رہا خارِ مغیلاں کی طرح

میرے ساقی ترے اندازِ کرم کے صدقے

اب تو میکشؔ بھی نظر آتا ہے انساں کی طرح

 

 

 

 

کم سے کم دیر و حرم کا فاصلہ ہوتا نہیں

اب کوئی مشکل سے بھی مشکل کشا ہوتا نہیں

آہ اپنا کام کرجائے تو دنیا جل اٹھے

کون کہتا ہے غریبوں کا خدا ہوتا نہیں

اب کہاں سے لائے کوئی لالہ و گل کا لہو

زخمِ دل شبنم کے قطروں سے ہرا ہوتا نہیں

حسنِ الفت کے تصادم کو زمانہ ہوگیا

اب تو ان کا اور میرا سامنا ہوتا نہیں

یہ حقیقت ہے کہ راہِ عشق میں ہر گام پر

تو ہی تو ہوتا ہے کوئی دوسرا ہوتا نہیں

کعبہ و بت خانہ ہو یا خانقاہ و میکدہ

کونسی محفل میں تیرا تذکرا ہوتا نہیں

میکشؔ ابنائے غرض سے اور امیدِ وفا

آج کل کوئی کسی کا آشنا ہوتا نہیں

 

 

 

مِرا دیوانگی پر اس قدر مغرور ہو جانا

کہ رفتہ رفتہ حدِّ آگہی سے دور ہو جانا

پتہ دیتا ہے گمراہیِ رہگیرِ محبت کا

بچھڑنا اور بچھڑ کر قافلے سے دور ہو جانا

کہیں دنیائے اُلفت کو تہہ و بالا نہ کرڈالے

غرورِ حسن کے آئین کا دستور ہو جانا

ازل سے تیرہ بخت عشق کے حصے میں آیا ہے

شبِ غم دل کا جل جل کر چراغِ طور ہو جانا

مری دانستِ ناقص میں کمالِ خود نمائی ہے

زمیں سے آسماں تک آپ کا مشہور ہو جانا

کسی کا جشنِ آزادی منانا ہے بہت آسان

مگر دشوار ہے غارت گرِ جمہور ہو جانا

رگوں کا خون رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو چلا میکشؔ

مِرے دردِ جگر کو آگیا کافور ہو جانا

 

 

 

 

خاطرِ مجروح لیتا ہے مزہ تاثیر کا

زخم بھرتا ہی نہیں ان کی نظر کے تیر کا

آب و تابِ آئینہ کم ہو گئی تو کیا ہوا

رفتہ رفتہ رنگ اڑ جاتا ہے ہر تصویر کا

بے خودی میں بھی کیا ضبطِ خودی کا اہتمام

یوں تو اکساتا رہا جذبہ مجھے تقصیر کا

کیا بساطِ بے قراری اور کیا ہستیِ دل

تیری نظروں نے بھرم کھولا مری توقیر کا

کہنے کو تو خم بہ خم حلقہ بہ حلقہ تھی مگر

زلفِ پیچاں نے مجھے دھوکا دیا زنجیر کا

جس کی تابانی سے روشن ہو گئے کون و مکاں

آج میرا دل بھی ہے مرکز اُسی تنویر کا

روز و شب جلتا ہے وہ تو آپ اپنی آگ میں

حالِ نو کیا پوچھتے ہو میکشِؔ دلگیر کا

 

 

 

دنیا میں آج کوئی بھی اپنا نہیں رہا

وہ ہم نہیں رہے کہ زمانہ نہیں رہا

اسرارِ حسن و عشق تو افسانہ ہو گئے

پردے کی بات یہ ہے کہ پردا نہیں رہا

جس دن سے ہو گئی ہے نگاہِ کرم نواز

گردش میں عاشقوں کا ستارا نہیں رہا

دریائے غم کا زورِ تلاطم نہ پوچھئے

طوفان رہ گیا ہے سفینہ نہیں رہا

کیوں کر قرار آئے کسی بے قرار کو

دل کو تری نظر کا سہارا نہیں رہا

طے ہوچکے ہیں مرحلے ناز و نیاز کے

اب امتیازِ قطرہ و دریا نہیں رہا

سچ تو یہ ہے کہ حضرتِ میکشؔ کے سر میں اب

سودا نہیں رہا کوئی سودا نہیں رہا

 

 

 

 

بے وفائی کے صلے میں با وفا پکڑے گئے

آپ سے کس نے کہا ہم بے خطا پکڑے گئے

صرف اک میں ہی نہیں پکڑا گیا اے ہم نشیں

تیرے کوچے میں ہزاروں پارسا پکڑے گئے

اب اسیرانِ وفا کا حال و مستقبل نہ پوچھ

بارہا چھوٹے قفس سے بارہا پکڑے گئے

یوں نگاہِ ناز نے پھینکی کمندِ التفات

اہلِ دل، اہلِ نظر، اہلِ وفا پکڑے گئے

عالمِ انسانیت میں حشرِ نو برپا ہوا

راہزن کے آڑ میں جب رہنما پکڑے گئے

دشمنوں کی دشمنی کا تذکرہ بے سود ہے

دشمنی کے راستے میں آشنا پکڑے گئے

 

 

 

خدا کے واسطے دل کی لگی کا حال نہ پوچھ

میں بے خودی میں ہوں میری خودی کا حال نہ پوچھ

تری تلاش، تری جستجو میں رہتا ہوں

مرے ندیم مری زندگی کا حال نہ پوچھ

وہ دَورِ ماضی بہت خوب دَور تھا لیکن

اب حالِ نو کی ستم پروری کا حال نہ پوچھ

کسی کا کوئی بھی پُرساں نہیں زمانے میں

اب آدمی سے دلِ آدمی کا حال نہ پوچھ

نہ جانے کتنوں کے ارمان لٹ گئے اے دوست

مریضِ ہجر سے ان کی گلی کا حال نہ پوچھ

چڑھا رہا ہوں مگر تشنگی نہیں جاتی

میں تشنہ لب ہوں مری تشنگی کا حال نہ پوچھ

غموں کا ذکر کروں یہ بھی نامناسب ہے

خوشی کی بات تو یہ ہے خوشی کا حال نہ پوچھ

 

 

 

 

 

مالی کے عشق نے نہ گلستاں کے پیار نے

دھوکا دیا ہے مجھ کو ادائے بہار نے

دیکھا جو اُن کو قلب پہ قابو نہیں رہا

مجبور کردیا دلِ بے اختیار نے

ساقی تِری شراب سے کچھ واسطہ نہیں

بے خود بنا دیا مجھے صہبائے یار نے

جذبہ جو سو رہا تھا وہ بیدار ہوگیا

نغمے کچھ ایسے چھیڑے ہیں دل کے ستار نے

آنکھیں بچھائے راہ میں تکتا رہا تجھے

کچھ دیکھنے دیا نہ ترے انتظار نے

دنیائے عقل و ہوش میں کیا جاؤں دوستو

دیوانہ کردیا دلِ دیوانہ وار نے

 

 

 

نہیں معلوم مسیحا مجھے کیا دیتا ہے

زہر دیتا ہے کہ کم بخت دوا دیتا ہے

مشکلیں جھیل لے طوفان و حوادث سے نہ ڈر

درد انسان کو انسان بنا دیتا ہے

آتشِ عشق بھڑک اٹھتی ہے دل میں میرے

جب کوئی دامنِ الفت کی ہوا دیتا ہے

آدمی کیلئے مشکل نہیں کوئی مشکل!

آدمی وقت کی تقدیر جگا دیتا ہے

آنکھ کھل جاتی ہے بے ساختہ اہلِ دل کی

جب تڑپ کر کوئی مجبور صدا دیتا ہے

شکوۂ تشنہ لبی کون کرے اے میکشؔ

میرا ساقی مجھے جی بھر کے پلا دیتا ہے

 

 

 

 

 

زمیں کے چاند ستاروں کو نیند آتی ہے

حیات بخش بہاروں کو نیند آتی ہے

ابھی چمن کا مقدر چمک نہیں سکتا

ابھی چمن کی بہاروں کو نیند آتی ہے

جنازہ اشکوں کا پلکوں کے دوش پر ہے ابھی

اسی لئے تو نظاروں کو نیند آتی ہے

نظامِ بزمِ گلستاں بدل گیا شاید

چمن کی گود میں خاروں کو نیند آتی ہے

اب انقلابِ زمانہ کی فکر کون کرے

تری نگاہ کے ماروں کو نیند آتی ہے

نہ ڈوب جائے کہیں نبضِ زندگی میکشؔ

سحر کا وقت ہے تاروں کو نیند آتی ہے

 

 

 

بقدرِ ظرف محبت کا کاروبار چلے

مزہ تو جب ہے کہ ہر لمحہ ذکرِ یار چلے

تری نگاہ کے جب اہلِ دل پہ وار چلے

خزاں نصیب چمن جانبِ بہار چلے

اتر نہ جائے کہیں تیرے حُسن کی رنگت

کہ تیری بزم سے اب تیرے جاں نثار چلے

جو آ گئی کبھی سر دینے کی گھڑی اے دوست

خوشی خوشی تِرے دیوانے سوئے دار چلے

اُداس دیکھ کے ماحولِ میکدہ ساقی

نیاز مندِ وفا آج سُوگوار چلے

مآلِ لذّتِ شوقِ وصال کی سوگند

قرار مانگنے آئے تھے بے قرار چلے

خیالِ بادہ کشی آگیا جو اے میکشؔ

ادب سے جانبِ میخانہ بادہ خوار چلے

 

 

 

 

عالم کا ہر اک رنگِ دگر دیکھ رہا ہوں

بدلا ہوا ماحولِ بشر دیکھ رہا ہوں

آ اور گلِ نقش کفِ پا ہی کتر جا

میں کب سے تری راہ گزر دیکھ رہا ہوں

دن رات ہوا کرتی ہے معراجِ تمنا

میں حُسنِ تمنا کا اثر دیکھ رہا ہوں

اب دل کے تڑپنے کی صدا کم نہیں ہوتی

اس دور میں ہر آنکھ کو تر دیکھ رہا ہوں

منزل پہ پہنچ کر بھی ہوں گم کردۂ منزل

ہر گام پہ اب خوف و خطر دیکھ رہا ہوں

عرفانِ فن و علم عجب چیز ہے میکشؔ

ہر عیب میں امکانِ ہُنر دیکھ رہا ہوں

 

 

 

میں کہاں اور کہاں مری آواز

کوئی ہمدم نہ ہے کوئی ہمراز

آہِ دل ہو گئی اثر انداز

سہمی سہمی سی ہے نگاہِ ناز

جامۂ ہست و بود جل اٹھّا

کتنا پُر سوز ہے شکستہ ساز

طائرِ ہوش کچھ بتا تو سہی

کیا ہوئی آج کل تری پرواز

آپ تو روکے چپ ہوئے لیکن

عام ہو جائے گی نوائے راز

دم نکلتا ہے دم نکلنے دے

دم دلاسا نہ دے مرے دمساز

آپ کے اک اشارے پر میکشؔ

جان دے دیں گے آپ کے جانباز

 

 

 

 

بہاروں کی نمائش ہو رہی ہے

ہمارے ساتھ سازِش ہو رہی ہے

ہوئی چشمِ کرم جب سے کسی کی

نوازِش ہی نوازِش ہو رہی ہے

غریبوں کے کھلے آنگن میں یارو

تمناؤں کی بارِش ہو رہی ہے

کہاں جائیں چمن کے رہنے والے

ابھی سے آزمائش ہو رہی ہے

نتیجہ ٹھیک ہی نکلے گا میکشؔ

ہماری بھی سِفارِش ہو رہی ہے

 

 

 

 

احباب کے قریب محبت سے بیٹھئے

عزت جو مل گئی ہے تو عزت سے بیٹھئے

ان کی گلی میں جانا ضروری نہیں مگر

جانا جو ہوگیا تو شرافت سے بیٹھئے

انجامِ عشق ٹھیک ہی ہوگا جنابِ شیخ

فرصت سے آ گئے ہو تو فرصت سے بیٹھئے

ساحل سے ہر خوشی کا نظارہ فضول ہے

طوفانِ غم میں رہ کے بھی ہمت سے بیٹھئے

نفرت کی بات کرنا گناہِ عظیم ہے

محبوب کے قریب تو چاہت سے بیٹھئے

رہ رہ کے گِر رہی ہیں نگاہوں کی بجلیاں

آکر ہمارے پاس محبت سے بیٹھئے

میکشؔ کو پینے دیجئے زلفوں کی چھاؤں میں

کچھ دیر اس کے پاس محبت سے بیٹھئے

 

 

 

بھرم کھلنے نہ پائے بندگی کا

وہ ماتم کررہے ہیں زندگی کا

تعجب ہے خلوصِ دوستاں پر

نہیں غم دشمنوں کی دشمنی کا

بھڑک اٹھتی ہے دل میں آتشِ غم

خیال آتا ہے جب ان کی گلی کا

ابھی ہے بند آنکھ انسانیت کی

ابھی دم گھٹ رہا ہے آدمی کا

تمہاری یاد نے کی رہ نمائی!

خیال آیا مجھے جب بے خودی کا

لگی دل کی ہو الفاظ و بیاں میں

یہی ایک خاص فن ہے شاعری کا

وہی دشمن بنے بیٹھے ہیں میکشؔ

جو دم بھرتے تھے اپنی دوستی کا

 

 

 

درد کی انتہا نہیں معلوم

حشر کیونکر اٹھا نہیں معلوم

کون ہے آشنا نہیں معلوم

کون دے گا دغا نہیں معلوم

وہ تو رخصت ہوئے گلے مل کر

کب ٹلے گی بلا نہیں معلوم

اے مسیحا مرا علاج نہ کر

تجھ کو میری دوا نہیں معلوم

دوستوں کا خلوص یاد رہا

دشمنوں کی ادا نہیں معلوم

پھول مرجھا گئے گلستاں کے

کیسا جھونکا چلا نہیں معلوم

کس کو میں باوفا کہوں میکشؔ

کون ہے باوفا نہیں معلوم

 

 

 

 

خیرہ مری آنکھیں تھیں قابو میں کہاں دل تھا

نقشِ کفِ پا ان کا رشکِ مہہِ کامل تھا

جینے کی تمنا میں مرنا ہی پڑا آخر

تقدیر سے وابستہ حالِ دلِ بسمل تھا

پیچ و خم دل نے بھی کیا کیا نہ کھلائے گُل

گم کردۂ منزل پھر گم کردۂ منزل تھا

اس شوخ کے آگے تھی ہر جنبشِ لب مشکل

مانا مرے سینے میں موجود مرا دل تھا

کشتیِ مقدر کا دریائے محبت میں

بچ بچ کے نکل جانا طوفان سے مشکل تھا

عقبیٰ کا ہر اک منظر دنیا میں نظر آیا

سوزِ غمِ دیوانہ کونین کا حاصل تھا

بے خوف و خطر میکشؔ ٹکرا گیا میں غم سے

سینے میں نیا دل تھا یا جذبۂ کامل تھا

 

 

 

کچھ اس انداز سے چھیڑو مرے سازِ رگِ جاں کو

کہ تڑپا دے ہر اک لے گیت کی اربابِ عرفاں کو

یہاں لانا اگر بہتر نہیں صحنِ بیاباں کو

وہیں کیونکر نہ لے جائیں در و دیوارِ زنداں کو

جسے غنچوں کی رعنائی گلوں کا حُسن کہتے ہیں

مری نظروں نے دیکھا ہے اسی جانِ گلستاں کو

جنونِ عاشقی اب دیکھئے کیا گل کھلاتا ہے

بڑی حسرت سے تکتے ہیں وہ میرے جیب و داماں کو

پتنگوں نے اسے اپنا لہو دے کر جلایا ہے

نہیں ممکن کہ گُل کردے کوئی شمعِ فروزاں کو

جہاں ان کا ٹھکانا ہے وہیں میری رسائی ہے

مقیّد کر نہیں سکتا کوئی پروازِ انساں کو

بکھیری زلفِ پیچاں مصحفِ رخ پر تو اے میکشؔ

بدل کر رکھ دیا اس نے مذاقِ کفر و ایماں کو

 

 

 

 

غنچہ و گل میں تازگی نہ رہی

اب بہاروں میں دلکشی نہ رہی

اب تو قندیلِ دل کرو روشن

بزمِ ہستی میں روشنی نہ رہی

جو بھی کرنا ہے آج ہی کرلے

کل یہ دنیا رہی رہی نہ رہی

وہ گلے مل کے کیا ہوئے رخصت

زندگی جانِ زندگی نہ رہی

کر رہے ہیں وہ اہتمامِ غم

اب تو میری خوشی خوشی نہ رہی

میکدہ ہوگیا تہہ و بالا

کوئی شئے میرے کام کی نہ رہی

سارا میخانہ کشمکش میں ہے

طرزِ میکشؔ میں دلکشی نہ رہی

 

 

 

کیا کرے وہ اعتبارِ زندگی

ہوگیا ہے جو شکارِ زندگی

آپ کیا بدلے قیامت آ گئی

آپ ہی پر تھا مدارِ زندگی

رشکِ ظلمت ہے مکانِ آرزو

بجھ گئی شمعِ دیارِ زندگی

زندگی کی لاج رکھنے کے لئے

کر رہا ہوں انتظارِ زندگی

جبر پر چلتا نہیں زورِ بشر

ہے کسی کو اختیارِ زندگی

اب کہاں وہ جذبۂ حُسنِ عمل

ہم بھلا بیٹھے شعارِ زندگی

گلشنِ ہستی خزاں بردوش ہے

لٹ گئی میکشؔ بہارِ زندگی

 

 

 

انصاف کے ماتھے پہ شکن دیکھ لیا ہے

ہم نے اثرِ دار و رسن دیکھ لیا ہے

غنچوں کا لڑکپن ہوکہ پھولوں کی جوانی

ہر ایک نے ماحولِ چمن دیکھ لیا ہے

میں نے تجھے ہر موڑ پہ اک خاص نظر سے

کچھ اور ہی عالم میں مگن دیکھ لیا ہے

موسم کی لطافت پہ خزاؤں کے ہیں پہرے

پھولوں نے بہاروں کا چلن دیکھ لیا ہے

جس سیم بدن کو نہیں دیکھا تھا کسی نے

ہم نے اسے بے گور و کفن دیکھ لیا ہے

جس خار کا تم ذکر کیا کرتے ہو پیہم

چھالوں نے مرے اُس کی چبھن دیکھ لیا ہے

تنقید کی نظروں سے نہ دیکھے کوئی میکشؔ

احباب نے احباب کا فن دیکھ لیا ہے

 

 

 

درد مندوں کا احترام کرے

آدمی عمر بھر یہ کام کرے

خانۂ دل میں جو قیام کرے

کیوں وہ جلوؤں کو اپنے عام کرے

کوئی سنتا نہیں حدیثِ دل

کیا کسی سے کوئی کلام کرے

اس کو دنیا مٹا نہیں سکتی

ذکر جو تیرا صبح و شام کرے

کشمکش میں ہے سارا میخانہ

کون توبہ کو غرقِ جام کرے

آ بھی جا اے مری بہارِ حیات

نیند کب تک کوئی حرام کرے

پینے والے پہ فرض ہے میکشؔ

اپنے ساقی کا احترام کرے

 

 

 

 

کبھی بچتے ہوئے پی لوں کبھی کُھل کر پی لوں

اپنی آنکھوں سے پلادے تو برابر پی لوں

دیکھتا کیا ہے مرے ظرف کی گہرائی کو

تو اگر زہر بھی دے دے تو میں ہنس کر پی لوں

تیری آنکھوں سے ٹپکتی ہے جو خوش رنگ شراب

ہاتھ آئے کوئی موقع تو میں بڑھ کر پی لوں

تیرے آنے سے تو آئی مرے گلشن میں بہار

تو جو پھر جائے تو آبِ رخِ خنجر پی لوں

تو اگر چاہے تو یہ کام بہت آساں ہے

کبھی زمزم کا پیالہ کبھی کوثر پی لوں

بادہ نوشی پہ اتر جاؤں تو یہ ممکن ہے

ایک ساغر ہی نہیں سارا سمندر پی لوں

کبھی وہ دن مرے حصے میں بھی آئے میکشؔ

پی لوں میں شربتِ دیدارِ پیمبر پی لوں

 

 

 

 

نام ہی کا رہ گیا ہے کام کا اب دل نہیں

یہ وہ بدبختِ ازل ہے جو کسی قابل نہیں

اب مذاقِ عاشقی اظہار کے قابل نہیں

دل اسیرِ غم ہے میرا، غم اسیرِ دل نہیں

کیا ہے تاروں کی حقیقت اور گل کیا چیز ہے

جلوۂ منزل سے واقف رہروِ منزل نہیں

ہر جگہ موجِ بلا، ہر سمت گردابِ الم

یعنی دریائے محبت کا کہیں ساحل نہیں

آج ہر شئے میں سکونِ جانفزا پاتا ہوں میں

کار فرمائے دو عالم وحشتِ کامل نہیں

ایک ہلکی سی نگاہِ چشمِ جاناں چاہئے

عاشقی مشکل سہی دیوانگی مشکل نہیں

حال ہی آئینۂ فردا ہے اے میکشؔ مرا

اور ہے وہ شخص جس کو فکرِ مستقبل نہیں

 

 

 

سوزِ بلا ہے سازِ مسرت ہے زندگی

دوزخ ہے زندگی کبھی جنت ہے زندگی

فتنے ہیں لے میں گیت میں طوفانِ انتشار

میری نظر میں سازِ قیامت ہے زندگی

رنگینیِ بہار تو بے کیفیِ خزاں

جلوت ہے زندگی کبھی خلوت ہے زندگی

اب اس کو احتیاجِ سجود و سلام کیا

جس کی بجائے خود ہی عبادت ہے زندگی

اَے عشق اب خیالِ خیانت سے باز آ

حسنِ خود آشنا کی امانت ہے زندگی

ہر سانس کو رہینِ خیالِ حبیب کر

یک جنشِ نگاہ کی فرصت ہے زندگی

کچھ تو سمجھ سے میکشِؔ بدمست کام لو

اپنے ہی دم قدم سے عبادت ہے زندگی

 

 

 

تعلق جام و پیمانے سے اپنا ہے نہ اب خم سے

تعلق ہے تمہاری مد بھری آنکھوں سے اور تم سے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا ذرا سمجھائیے ہم کو

تمہیں کیا ہوگیا تم کس لئے رہتے ہو گم سم سے

نہ وہ آئے نہ نیند آئی سحر کا وقت آپہنچا

ہماری بے کلی کا حال پوچھو ماہ و انجم سے

میں خود ہی ناخدا ہوں مجھ پہ تم کیا دوش رکھوگے

میری کشتی بھی ٹکرا جائے گی موج و تلاطم سے

کبھی تو باعثِ تسکین ہوتی ہیں تری باتیں

کبھی تکلیف ہوتی ہے ترے طرزِ تکلّم سے

میں تم کو بھول جاؤں ایسا ہرگز ہو نہیں سکتا

مجھے اب خاص نسبت ہے تمہارے نام سے تم سے

بہت بے جان ہوکر رہ گئے ہیں حضرتِ میکشؔ

غزل اپنی سنا سکتے نہیں تم کو ترنّم سے

 

 

 

مجھ کو لگ رہے ہیں یوں موت کے گھنے سائے

جیسے کوئی دوشیزہ بال اپنے بکھرائے

ایک آدمی آخر مختصر سے جیون میں

کس کے کس کے کام آئے کس کا کس کا غم کھائے

اے مرے شریکِ غم اے مرے کرم فرما

چھوڑ کر گلی تیری کون بھیڑ میں جائے

آپ ہی بتائیں خود عاقلوں کی بستی میں

کون کس کی سنتا ہے کون کس کو سمجھائے

مجھ سے کیا چھپائیں گے میں نے پڑھ لیا سب کچھ

ان کے جتنے خط آئے میری معرفت آئے

 

 

 

قلب لذت کشِ آزار ہوا جاتا ہے

راستہ موت کا ہموار ہوا جاتا ہے

جو ترے غم میں گرفتار ہوا جاتا ہے

شعلہ اس کے لئے گلزار ہوا جاتا ہے

بندۂ عشق کی تربت پہ لگا ہے میلہ

کام آسان بھی دشوار ہوا جاتا ہے

اپنے دشمن کی شکایت تو بجا ہے لیکن

دوست بھی سایۂ دیوار ہوا جاتا ہے

برقِ ساقی نے جلایا دلِ میکشؔ شاید

سارا مئے خانہ شرر بار ہوا جاتا ہے

 

 

 

سوزِ آگیں صدا نہیں دیتا

سازِ ہستی مزا نہیں دیتا

جو سراپا نماز ہو جائے

وہ نمازی دغا نہیں دیتا

ہر کلی میں مہک نہیں ہوتی

ہر ستارہ ضیا نہیں دیتا

باز آجاؤں مئے پرستی سے

کوئی ایسی دعا نہیں دیتا

نفس کا جو غلام ہو اے دوست

وہ مسیحا دوا نہیں دیتا

آہِ دل کام کرگئی ہوگی

کوئی یونہی صدا نہیں دیتا

وہ بڑا بدنصیب ہے میکشؔ

جو کسی کو دعا نہیں دیتا

 

 

 

جب دل میں میرے قدرِ وفا اور بڑھ گئی

شرمندگیِ اہلِ جفا اور بڑھ گئی

غنچے کی شکل میں بڑے معصوم تھے مگر

جب پھول بن گئے تو حیا اور بڑھ گئی

گلدستۂ حیات کی رعنائیاں نہ پوچھ

اب زینتِ بہارِ قضا اور بڑھ گئی

جب ترک مئے کیا تری زلفوں کی چھاؤں میں

توبہ شکن گھٹا کی ادا اور بڑھ گئی

جامِ بقا وہ پی کے ہوئے اس طرح نہاں

انساں کی قدر بعدِ فنا اور بڑھ گئی

ساحل شناسِ غم ہوئی جب کشتیِ حیات

دیوانگیِ موجِ بلا اور بڑھ گئی

راہِ وفا میں لپٹا ہوا دیکھ کر مجھے

میکشؔ کسی کی طرزِ جفا اور بڑھ گئی

 

 

 

زندگی کی سخت زنجیروں میں جکڑا دیکھ کر

آج تم بھی ہنس رہے ہو مجھ کو تنہا دیکھ کر

اب تو وہ بھی مجھ سے کتراکر گزر جانے لگے

میرے ماحولِ پریشانی کا نقشا دیکھ کر

حوصلہ کس میں تھا جو دیتا برابر کا جواب

صبر کرنا ہی پڑا ان کا رَویّا دیکھ کر

آج تجھ کو بھی ہنسی آنے لگی اے باغباں

نوجواں پھولوں کے ارمانوں کو پیاسا دیکھ کر

اہلِ ساحل رو رہے ہیں قطرے قطرے کے لئے

ظرفِ دریا رو رہا ہے ظرفِ دریا دیکھ کر

میری آنکھوں سے بھی میکشؔ گر پڑے اشکِ الم

پیرِ میخانہ کو تنہائی میں روتا دیکھ کر

 

 

 

 

آرزوئے زیست کو زنجیرِ زنداں کردیا

اب ہمیں زلفِ پریشاں نے پریشاں کردیا

اب نہ وہ رنگینیاں باقی نہ وہ جوشِ بہار

باغباں نے باغ کو نذرِ بیاباں کردیا

اپنے اندازِ مسیحائی کو رہنے دیجئے

آپ نے میرے لئے مرنے کا ساماں کردیا

اس کی شرمیلی نگاہوں میں ہے جادو کا اثر

جس نے میری حسرتوں کو خاکِ زنداں کردیا

اس کی تقسیمِ کرم کی شانِ یکتائی نہ پوچھ

اس نے جس ذرّے کو چاہا طورِ رخشاں کردیا

 

 

 

 

میری ہر خوشی خوشی تھی تری ہر خوشی سے پہلے

مجھے کوئی غم نہیں تھا غمِ عاشقی سے پہلے

کوئی کشمکش نہیں تھی غمِ دشمنی سے پہلے

مجھے خوف ہی کہاں تھا تری دوستی سے پہلے

نہ بہارِ میکدہ تھی نہ سرور نجش نغمے

ترے میکدے میں کیا تھا مری میکشی سے پہلے

میں دعائیں چاہتا ہوں میں دعا کا مستحق ہوں

تمہیں کون جانتا تھا میری دوستی سے پہلے

ہوئی شمع حُسن روشن تو میں بن گیا پتنگا

تری بندگی تھی سونی میری زندگی سے پہلے

کہیں تیرگی تھی میکشؔ کہیں تیرگی کے ڈیرے

کہیں روشنی نہیں تھی مری روشنی سے پہلے

 

 

 

دیر سے دامِ واردات میں ہے

آدمی کوششِ نجات میں ہے

کس قدر خوش نصیب ہوں میں بھی

آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے

تم کو جس کی تلاش رہتی ہے

وہ ہمارے تصورات میں ہے

کس مسیحا نفس نے دم توڑا

شور کیسا یہ کائنات میں ہے

کوئی رہبر نظر نہیں آتا

قافلہ قیدِ مشکلات میں ہے

ایسا محسوس ہو رہا ہے مجھے

جیسے کوئی کمی حیات میں ہے

کیا کریں ذکرِ دوستی میکشؔ

دشمنی اب تو بات بات میں ہے

 

 

 

زندگی نقصِ زندگی تو نہیں

بندگی میں کوئی کمی تو نہیں

آپ کی دوستی سے ڈرتا ہوں

آپ سے کوئی دشمنی تو نہیں

بے اصولی اصول ہو جائے

آپ پر ایسی بے خودی تو نہیں

آج ظلمت کے چہرے پر ہے نور

ان کا غم باعثِ خوشی تو نہیں

میں گناہوں میں غرق ہوں لیکن

اس کی رحمت میں کچھ کمی تو نہیں

میرے سینے میں سیکٹروں بَل ہیں

ان کی زلفوں میں برہمی تو نہیں

عام ہے ذکرِ خاص اے میکشؔ

اب کوئی بات راز کی تو نہیں

 

 

 

 

سادگی ہے حُسن ہے اور دلربا انداز ہے

اے مرے محبوب تیری ہر ادا اعجاز ہے

آپ جو چاہیں کریں روکا ہے کس نے آپ کو

آپ کی آواز میں شامل مری آواز ہے

آپ جس کو چاہتے ہیں بخشتے ہیں زندگی

آپ کی قاتل نگاہوں کا عجب انداز ہے

وہ کسی کی رہنمائی کیا کرے گا دوستو

اس سے میں بھی مل چکا ہوں وہ تو کینہ ساز ہے

راز کو بس راز میں رہنے دے میرے ہم نشیں

میں ترا ہمراز ہوں اور تو میرا ہمراز ہے

 

 

 

 

آ سما جا مری نگاہوں میں

کچھ تو رونق ہو دل کی راہوں میں

دل میں حسرت رہی ثوابوں کی

زندگی کٹ گئی گناہوں میں

ہم نے انسانیت کا خون کیا

کیا اثر ہو ہماری آہوں میں

اب ضرورت نہیں زمانے کی

تو ہی تو ہے مری نگاہوں میں

ان میں پہلے اُجالا رہتا تھا

اب اندھیرا ہے خانقاہوں میں

بڑھ کے آواز دے اسے اے دل

جو بھی ہو تیرے خیر خواہوں میں

ہم بھی کچھ دیر رک گئے میکشؔ

میکدہ مل گیا جو راہوں میں

 

 

 

 

 

 

آسماں پر ابر چھاتے ہی رہے

آپ ہم کو یاد آتے ہی رہے

ہم رہِ الفت میں تھے ثابت قدم

لوگ پھر بھی آزماتے ہی رہے

صبح سے پہلے مسافر مرگیا

اور تارے جھلملاتے ہی رہے

یہ ہمارے حوصلے کی بات ہے

چوٹ کھاکر مسکراتے ہی رہے

ناز برداری کی عادت ہے ہمیں

دوستوں کے ناز اٹھاتے ہی رہے

کیا بتائیں آپ کے میکشؔ کا حال

عمر بھر پیتے پلاتے ہی رہے

 

 

برقِ نَو گر پڑی دل و جاں پر!

کیا بھروسہ کریں مہرباں پر

گر گیا میرے چاک داماں پر

اشک ٹھہرا نہ نوکِ مژگاں پر

میں اگر جل گیا تو فکر نہیں

آنچ آئے نہ ان کے داماں پر

پارسائی مرا اصول نہیں

میری نظریں ہیں میرے عصیاں پر

سیکٹروں انقلاب آئے مگر

حرف آیا نہ شہرِ خوباں پر

خون آنکھوں سے بہہ گیا دل کا

خوب نشتر لگا رگِ جاں پر

دورِ جمہوریت میں اے میکشؔ

راج انسان کا ہے انساں پر

 

 

 

یک بیک شاخ سے گل جدا ہوگیا

کتنا غم ناک یہ واقعا ہوگیا

نبضِ دل رک گئی جب وہ جانے لگے

آن کی آن میں کیا سے کیا ہوگیا

مجھ مسافر کو بھٹکا ہوا جان کر

تیز گام اور بھی قافلا ہو گیا

دل مرا جل کے سوزِ غمِ یار میں

ہو گیا ہو گیا کیمیا ہو گیا

جانے کیا حال ہو کشتیِ زیست کا

مجھ سے برہم مرا ناخدا ہو گیا

نام سن کر ترا چونک جاتا ہے کیوں

تیرے بیمارِ غم کو یہ کیا ہو گیا

کچھ خبر بھی ہے اے میکشِؔ بے خبر

ہم نوائے چمن بے نوا ہو گیا

 

 

 

مسکرا لیتا ہوں میں وقت پہ ہو کر بھی ملول

کتنے سنگین ہیں آداب محبت کے اصول

تیری چاہت میں لٹا بیٹھا متاعِ ہستی

بے خیالی میں ہوئی مجھ سے بڑی بھاری بھول

کس طرح ہو کوئی انگشتِ بدنداں تجھ پر

تو بھی معقول ترا طرزِ عمل بھی معقول

باغباں تیری شرر بار نگاہوں کی قسم

شاخِ امید میں مرجھا گئے احساس کے پھول

میرے ساقی مجھے اک بات بتانی ہوگی

کس طرح ہوتی ہے رندوں کی دعائیں مقبول

کارواں کون سے رخ پر گیا معلوم نہیں

جس طرف دیکھئے آتی ہے نظر دھول ہی دھول

ان کے فیضانِ توجہ کی بدولت میکشؔ

آج اقلیمِ سخن میں ہے بہر سو مقبول

 

 

 

 

 

 

گلشنِ حُسن کی ہر شئے سے محبت ہے مجھے

تو نے ہمت جو دلائی ہے تو ہمت ہے مجھے

ان کو جو کچھ بھی سمجھنا تھا سمجھتے ہی رہے

تم بھی کچھ اور سمجھتے ہو تو حیرت ہے مجھے

تو لگاتا ہے تو لگوا دے گلوں کا بستر

یوں تو کانٹوں پہ بھی سو جانے کی عادت ہے مجھے

پہلے پھولوں میں رہا کرتا تھا دن رات مگر

اب تو کانٹوں سے بھی اک خاص محبت ہے مجھے

کل خدا جانے کہ کیا حال ہو اپنا میکشؔ

آج جی بھر کے پیو آج تو فرصت ہے مجھے

 

 

 

 

شہر سے دور نیا شہر بسایا جائے

ہوش والوں کو بھی مدہوش بنایا جائے

ایک ہی گھونٹ پلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

لطف تو جب ہے کہ جی بھر کے پلایا جائے

دور کرنے کے لئے تیرگیِ بزمِ حیات

اپنے سینے کا ہر اک داغ جلایا جائے

زیست کا فاصلہ اب موت سے کچھ دور نہیں

کسی ویرانے میں میخانہ بنایا جائے

جس نے پھولوں کا لہو چوس لیا ہے یارو

ایسے مالی کو تو سولی پہ چڑھایا جائے

بعد کی بعد میں دیکھیں گے مگر اے میکشؔ

اور کچھ روز ابھی ڈھونگ رچایا جائے

 

 

 

کیا سے کیا ہو جائے گا اور کیا سے کیا مل جائے گا

تو مرے ہمراہ چل تجھ کو خدا مل جائے گا

اب اکیلا ہی چلا میں اپنی منزل کی طرف

تو نہیں تو تیرے جیسا دوسرا مل جائے گا

اے مری جانِ غزل تاریک راہوں سے نہ ڈر

روشنی کے واسطے روشن دیا مل جائے گا

میں تو اپنی دھن میں نکلا تھا ترے گھر کی طرف

کیا خبر تھی راستے میں میکدا مل جائے گا

چل تجھے میں آئینہ خانے کی جانب لے چلوں

آئینے کے واسطے اک آئینہ مل جائے گا

حوصلہ اونچا رہے اور لیجئے ہمت سے کام

آپ کو بھی کوئی کامل رہنما مل جائے گا

تیری دنیا بھی بدل جائے گی میکشؔ ایک دن

کوئی دیوانہ اگر بہکا ہوا مل جائے گا

 

 

 

کچھ اتنا گر گئے نگہِ دوستاں سے ہم

جی چاہتا ہے بات کریں آسماں سے ہم

کیا پوچھتے ہو ہم سے کہ آئے کہاں سے ہم

دو بات کر کے آئے ہیں اک بے زباں سے ہم

ہے کون کس مقام پہ اس کی خبر نہیں

بچھڑے تو پھر بچھڑ ہی گئے کارواں سے ہم

ایسا یقین ہے انھیں دیکھیں گے ایک دن

پردے اٹھا رہے ہیں ابھی درمیاں سے ہم

اے نو بہارِ ناز تجھے آخری سلام

مایوس جا رہے ہیں ترے آستاں سے ہم

بلبل اُداس، غنچے ملول، اور گل حزیں

کس کس کا ذکرِ خیر کریں باغباں سے ہم

میکشؔ وہ دورِ بادہ کشی اب کہاں رہا

کترا رہے ہیں اس لئے پیرِ مغاں سے ہم

 

 

 

اپنے ماحولِ جوانی کو بچائے رکھئے

چاند کو چاند کے آنچل میں چھپائے رکھئے

آنے والا ہے کوئی آج عیادت کے لئے

اپنی محفل کو ستاروں سے سجائے رکھئے

غیر کے سامنے اظہار نہ ہونے پائے

یار کی بات کو سینے میں چھپائے رکھئے

ہم تو مایوسِ کرم ہوکے چلے جائیں گے

آپ ارمانوں کے دیپک کو جلائے رکھئے

بھول جائے یہ زمانہ تو کوئی بات نہیں

ہاں مگر آپ ہمیں اپنا بنائے رکھئے

میں تو احباب کے کاندھوں پہ چلا جاؤں گا

آپ دنیا کو مگر سر پہ اٹھائے رکھئے

شام ہوتے ہی وہ آ جائے گا پینے کے لئے

اپنے میکشؔ کے لئے آپ بچائے رکھئے

 

 

 

 

وہ بت کرم و لطف پہ مائل نہیں ہوتا

سرمایۂ عشرت مجھے حاصل نہیں ہوتا

وہ عیش نہیں جو مرے قابلِ نہیں ہوتا

وہ غم نہیں جو شوق سے حاصل نہیں ہوتا

ہر کام میں ہر آدمی کامل نہیں ہوتا

نا اہلوں میں قابل کسی قابل نہیں ہوتا

جس دل میں لگی آتشِ الفت نہیں ہوتی

ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دل نہیں ہوتا

جب مجھ کو خود اپنی بھی خبر کچھ نہیں ہوتی

سفّاک تری یاد سے غافل نہیں ہوتا

دیکھا ہے کہ ان باتوں میں رہتا ہے زمانہ

جن باتوں سے مقصد کوئی حاصل نہیں ہوتا

جب پینے پہ میخانہ میں آ جاتا ہے میکشؔ

تو اس کا کوئی مدِّ مقابل نہیں ہوتا

 

 

 

 

 

جانِ جاں کتنے مزے کی بات ہے

آپ ہیں اور موسمِ برسات ہے

اس حقیقت کی مجھے بھی ہے خبر

کیا ہو تم اور کیا تمہاری بات ہے

اب رہائی کی کوئی صورت نہیں

زندگی سے زندگی کا سات ہے

اک نظر اس کی بھی جانب دیکھ لو

اس کا عالم عالمِ سکرات ہے

آؤ میکشؔ خوب مئے نوشی کریں

رُت حَسیں ہے اور سہانی رات ہے

 

 

 

 

صبحِ عشرت کا مزہ شامِ فنا میں ضم ہوا

ناز بردارِ محبت بے نیازِ غم ہوا

اس ترقی کے زمانے میں یہی کیا کم ہوا

آبرو لوٹی گئی تہذیب کا ماتم ہوا

آپ سے کس نے کہا دل کا تڑپنا کم ہوا

زخم کا رسنا علاجِ گریۂ شبنم ہوا

گلستانِ زندگی کے پھول، کانٹے ہو گئے

تب کہیں جا کر مجھے حاصل تمہارا غم ہوا

گل کھلے ہیں آرزوؤں کے چمن کی گود میں

کتنا عبرت ناک میرے درد کا عالم ہوا

جب تمناؤں کی آنکھوں سے بہا خونِ جگر

ساز و سامانِ محبت درہم و برہم ہوا

 

 

 

 

چشمِ ساقی میں احترام تو ہے

بادہ نوشوں کا کچھ مقام تو ہے

غم نہیں، سست ہے اگر رہبر

کارواں اپنا تیز گام تو ہے

پیر میخانہ! شکریہ تیرا

رنگ پر آج دورِ جام تو ہے

میں جو رسوا ہوا تو فکر نہیں

آپ کا نام نیک نام تو ہے

حُسن کی بات کچھ نہیں لیکن

خاص میں رنگِ طرزِ عام تو ہے

فرشِ رہ ہو گئی نگاہِ خلوص

ان کی آمد کا اہتمام تو ہے

چاہے جیسا بھی ہو مگر میکشؔ

میکدے میں کوئی امام تو ہے

 

 

 

 

بات ہی بات میں اے مرے ہم نشیں اپنا دامن بچانے سے کیا فائدہ

آج جی بھر کے سن لے تو رودادِ غمِ دل کسی کا دکھانے سے کیا فائدہ

سونا سونا ہوا گلشنِ زندگی پھول کملا گیا خار مرجھا گیا

اب ستائے ہوئے کو ستایا تو کیا یوں کسی کو ستانے سے کیا فائدہ

کاروانِ خرد راہ پر آگیا اور جنونِ محبت کے ہوش اڑ گئے

ہوش میں آئیے ہوش میں آئیے چوٹ پر چوٹ کھانے سے کیا فائدہ

نشۂ عشق میں مست و سرشار ہوں آپ کا حسن میری نگاہوں میں ہے

باز آ جائیے باز آ جائیے مجھ کو ناحق ستانے سے کیا فائدہ

میرا کیا میں تو بدنام ہوں عشق میں آپ پر کوئی الزام عائد نہ ہو

راز ہی میں رکھیں آپ ہر راز کو برسرِ بزم لانے سے کیا فائدہ

جس طرف دیکھئے آپ ہی آپ ہیں آپ کے فیض سے لوگ بیزار ہیں

اپنے کردار پر بھی نظر کیجئے مجھ پہ تہمت لگانے سے کیا فائدہ

نشۂ جاودانی پلا دے مجھے تیرے میکشؔ کی ہے بس یہی آرزو

جس میں ان کی محبت کا نشہ نہ ہو ایسا نشّہ پلانے سے کیا فائدہ

 

 

 

کون ہے جو کسی کو روتا ہے

آدمی آدمی کو روتا ہے

کل حکومت تھی جس کی گلشن پر

آج اک اک کلی کو روتا ہے

غم کے طوفان گھیر لیتے ہیں

آدمی جب خوشی کو روتا ہے

دشمنوں کا گلہ نہ کر اے دوست

دوست ہی دوستی کو روتا ہے

کوئی مفلس اندھیری راتوں میں

اپنی ہی زندگی کو روتا ہے

قافلہ پھر بھٹک گیا شاید

پھر کوئی رہبری کو روتا ہے

یاد آتی ہے اپنے میکشؔ کی

جب کوئی میکشی کو روتا ہے

 

 

 

ساغر نہیں، شراب نہیں، یا گھٹا نہیں

ان کی سیاہ زلف کے سائے میں کیا نہیں

ہمدم نہیں، عزیز نہیں، آشنا نہیں

تیرے سوا کوئی بھی مرا آسرا نہیں

تاکید کر رہے ہیں وہ اپنی نگاہ سے

یہ ان کا خاص رنگ ہے حسنِ ادا نہیں

کروٹ بدل رہے ہیں جوانی کے رات دن

کس کا پتہ بتائیں خود اپنا پتا نہیں

ہم خود بدل گئے ہیں تو وہ بھی بدل گئے

ساری خطا ہماری ہے ان کی خطا نہیں

کہتے ہیں جس کو موت وہ آئے گی ایک دن

ہے یہ مرض ہی ایسا کہ جس کی دوا نہیں

اپنی برائی دیکھ کسی کو برا نہ بول

میکشؔ بساطِ دہر میں کوئی برا نہیں

 

 

 

 

حیات کھینچ کے لے آئی ہے کہاں مجھ کو

سنا رہا ہے وہ میری ہی داستاں مجھ کو

توجہ دی نہ کبھی اس کی بات پر میں نے

بنانا چاہا کئی بار راز داں مجھ کو

کسی کی شکل کسی کو نظر نہیں آتی

تمام شہر لگے ہے دھواں دھواں مجھ کو

بہت سے چاند ستارے وہاں پہ روشن ہیں

زمینِ دوست بھی لگتی ہے آسماں مجھ کو

ابھی سے تھک کے میں بیٹھوں یہ ہو نہیں سکتا

ابھی تو اور بھی دینا ہے امتحاں مجھ کو

ستم شعار اندھیروں کو اپنے پاس رکھو

بلا رہا ہے اجالوں کا کارواں مجھ کو

زبان ہوکے بھی میں بے زبان ہوں میکشؔ

لہو رلائے ہے خود میرا مہرباں مجھ کو

 

 

 

 

سائباں ہے نہ سایہ ترے شہر میں

دھوپ ہی دھوپ پایا ترے شہر میں

تو بھی اب اپنا دامن بچانے لگا

ہوگیا میں پرایا ترے شہر میں

ہاں مری آبرو کا جنازہ اٹھا

خوب انعام پایا ترے شہر میں

چھوڑ کر اپنے رنگین ماحول کو

اپنی دنیا بسایا ترے شہر میں

جب نہ آئی نظر دور تک روشنی

داغ دل کا جلایا ترے شہر میں

جا بجا جل رہے ہیں خوشی کے دیئے

کون دیوانہ آیا ترے شہر میں

تیرے میکشؔ کے تو ہوش ہی اڑ گئے

کس نے اتنا پلایا ترے شہر میں

 

 

 

 

 

درد کی ترجماں نہیں نہ سہی

زندگی راز داں نہیں نہ سہی

باعثِ عز و شاں نہیں نہ سہی

میں اگر کامراں نہیں نہ سہی

پر تو حُسنِ دوست کافی ہے

جلوۂ بے کراں نہیں نہ سہی

تیری کافر نگاہ کے صدقے

کرمِ دوستاں نہیں نہ سہی

لٹ گئے راہِ عشق میں میکشؔ

تیز رَو کارواں نہیں نہ سہی

 

 

 

 

 

گمراہ ہیں منزل کا نشاں بھول گئے ہیں

ہم عظمتِ آوازِ اذاں بھول گئے ہیں

غنچوں کے لڑکپن کی ادا یاد ہے لیکن

پھولوں کی جوانی کا سماں بھول گئے ہیں

تیزی ہے بہت دھوپ میں اور دور ہے منزل

اب قافلہ ٹھہرے گا کہاں بھول گئے ہیں

آذر کے تراشیدہ خداؤں سے یہ کہہ دو

ہم اہلِ وفا دَورِ بتاں بھول گئے ہیں

کچھ اتنا ستم ہو گیا دیوانوں پہ میکشؔ

وہ بھی ستم تیر و سناں بھول گئے ہیں

 

 

 

ان کا جلوہ مری نظر میں ہے

گھر کا مہمان اپنے گھر میں ہے

کیا پیوں تیرے میکدے کی شراب

قلزمِ زیست چشمِ تر میں ہے

ان کی زلفوں سے مئے ٹپکتی ہے

عالمِ کیف ابرِ تر میں ہے

مجھ کو حیرت سے دیکھنے والو

ہر تجلی مری نظر میں ہے

کس سے پوچھوں نشان منزلِ کا

میرا رہبر ابھی سفر میں ہے

کیا کرے گا کوئی علاجِ اثر

زخم ہی زخم اس جگر میں ہے

بے ہنر بھی سمجھ گئے میکشؔ

بات جو آپ کے ہنر میں ہے

 

 

 

 

درد مندوں کا احترام کرے

آدمی عمر بھر یہ کام کرے

خانۂ دل میں جو قیام کرے

کیوں وہ جلوؤں کو اپنے عام کرے

آ بھی جا اے مری بہارِ حیات

نیند کب تک کوئی حرام کرے

کوئی سنتا نہیں حدیثِ دل

کیا کسی سے کوئی کلام کرے

کشمکش میں ہے سارا میخانہ

کون توبہ کر غرقِ جام کرے

اس کو دنیا مٹا نہیں سکتی

جو ترا ذکر صبح و شام کرے

پینے والے پہ فرض ہے میکشؔ

اپنے ساقی کا احترام کرے

 

 

 

 

دل اس انداز سے تڑپے بہائیں اشکِ خوں وہ بھی

ابھی تک جو نہیں دیکھا تھا عالم دیکھ لوں وہ بھی

جنہیں ادراکِ داماں ہے نہ عرفانِ گریباں ہے

تعجب ہے کیا کرتے ہیں تنقیدِ جنوں وہ بھی

میرے رونے پہ لوگوں کو ہنسی آتی ہے آنے دو

سمجھتے تو اٹھاتے لذّتِ سوزِ دروں وہ بھی

ابھی نوکِ مژہ تیرِ نظر کا کام کرتی ہے

کبھی ہو کر رہے گی دیکھنا پیوستِ خوں وہ بھی

ابھی کچھ سانس ہے تو مجھ کو ان کی آس ہے ورنہ

تہیہ کر چکا تھا میں کہ رشتہ توڑ دوں وہ بھی

تماشا خلوت و جلوت کا دنیا دیکھنے آئے

یہاں کچھ سرنگوں میں بھی وہاں کچھ سرنگوں وہ بھی

کم از کم جذبۂ الفت کا ہو اتنا اثر میکشؔ

تڑپ کر دیکھنے آئے مرا حالِ زبوں وہ بھی

 

 

 

مرے مسیح نہ ہو جائے غم سے سینہ فگار

تڑپ رہا ہے بہت دیر سے ترا بیمار

یہ شہر شہرِ نگاراں ہے یا کوئی مرگھٹ

میں اجنبی کی طرح پھر رہا ہوں مثلِ غبار

تم ہی بتاؤ کہ صحنِ چمن سے کون گیا

بجھے بجھے سے ہیں غنچے اداس اداس ہیں خار

لپیٹ میں کہیں آئے نہ باغِ نَو اپنا

ہر ایک غنچۂ نورس ہے آج شعلہ بار

کسی کی جادوگری کارگر نہ ہو جائے

تو اپنے حسن کا صدقہ ذرا سنبھل کے اتار

ہماری شاخِ تمنا کبھی ہری نہ ہوئی

چمن میں آنے کو آئی ہزار بار بہار

مثال کے لئے ملتی نہیں مثال کہیں

بہت ہی خوب ہے میکشؔ ادائے جانِ بہار

 

 

 

میرا ظرفِ مئے پرستی آزمانے کے لئے

آج وہ بھی آ گئے چرکا لگانے کے لئے

کھیلتے کیا ہو کسی سے آؤ ہم سے کھیل لو

ہم سے اچھا کون ہے تم کو ستانے کے لئے

رفتہ رفتہ آ گئے ہم قاتلوں کے شہر میں

سر جھکانا ہی پڑے گا سر کٹانے کے لئے

آج کیا تم کو ہماری یاد بھی آتی نہیں

کل بہت روتے تھے تم اپنا بنانے کے لئے

مجھ کو کیا معلوم تھا ایسی گھڑی بھی آئیگی

پھول برساؤ گے تم خنجر چلانے کے لئے

آپ ہی فرمائیے کیا حاضرِ خدمت کروں

آنسوؤں کا ہار لایا ہوں چڑھانے کے لئے

اپنے میکشؔ کو پلا دے اپنی آنکھوں سے شراب

کون تیرے بعد آئے گا پلانے کے لئے

 

 

 

 

اب کیا کروں گا حُسنِ شرر بار دیکھ کر

کترا رہے ہیں وہ مرا کردار دیکھ کر

جنسِ مذاقِ عشق کی قیمت ہی گھٹ گئی

اب کیا کریں گے حُسن کا بازار دیکھ کر

دردِ فراقِ دوست کی تکلیف کیا کہیں

سب رو رہے ہیں عشق کا آزار دیکھ کر

دل باغ باغ ہے کبھی میں باغ باغ ہوں

رشکِ بہار ہوں نگہِ یار دیکھ کر

اہلِ وفا نے سیکڑوں چرکے دیئے مجھے

راہِ وفا میں برسرِ پیکار دیکھ کر

غرقاب کر دیا ہمیں سیلابِ عشق نے

سطحِ یمِ حیات کو ہموار دیکھ کر

جو آگ دب گئی تھی اچانک بھڑک اٹھی

میکشؔ کسی کی چشمِ شرر بار دیکھ کر

 

 

 

پردۂ گل میں خار قید ہوئے

جاں نثارِ بہار قید ہوئے

نسبتِ خاص تھی جنہیں تم سے

آہ وہ راز دار قید ہوئے

گرد بن کر تلاشِ منزل میں

ہم مثالِ غبار قید ہوئے

دوستوں کے خلوص میں آ کر

صاحبِ ذی شعار قید ہوئے

ساقیا میکدے کے رستے میں

بے غرض بادہ خوار قید ہوئے

جب سے چھوٹا ہے آپ کا دامن

ہم یونہی بار بار قید ہوئے

صرف اک آپ کے لئے میکشؔ

آپ کے جاں نثار قید ہوئے

 

 

 

 

اس طرح وہ اپنی الفت کا صلا دینے لگے

ابتدا ہی میں سزائے انتہا دینے لگے

کیا بتائیں حشر کیا ہو غنچۂ امّید کا

وہ بھی اپنے گرم دامن کی ہوا دینے لگے

زندگی سے جو مری کل تک بہت بیزار تھے

آج وہ بھی میرے جینے کی دعا دینے لگے

میرے ساقی تیری چشمِ مئے نوازی کی قسم

خالی پیمانے بھی محفل میں صدا دینے لگے

میکدے کی سر زمیں پر ہے بہاروں کا ہجوم

جتنے دیپک بجھ گئے تھے سب ضیا دینے لگے

غنچۂ نورس کی آنکھوں میں ہے آنسو موت کے

مہرباں کیا مہربانی کا صلا دینے لگے

بڑھ گئی میری خطائے عشق میکشؔ اور بھی

جب مجھے وہ جرمِ الفت کی سزا دینے لگے

 

 

 

 

چراغِ حسن کا چاروں طرف اجالا ہے

ہمارے گھر میں اندھیروں کا بول بالا ہے

غموں کی دھوپ میں تپتا ہے حسرتوں کا چمن

بدن میں آگ ہے پاؤں میں میرے چھالا ہے

شراب پی کے بھی دل مطمئن نہیں ہوتا

یہ تو نے کون سے سانچے میں ہم کو ڈھالا ہے

گُلوں کے ساتھ بھی کچھ دن بڑے مزے میں رہے

چمن کے کانٹوں نے لیکن بہت سنبھالا ہے

ابھی سے اپنوں نے اپنی نظر کو پھیر لیا

نہ جانے کون سا طوفان آنے والا ہے

شراب کون پلائے گا تیرے میکشؔ کو

نہ چوڑیوں کی کھنک ہے نہ مئے کا پیالا ہے

 

 

 

 

رہروِ الفت تلاشِ رہبر کامل میں ہے

ہر قدم پر خوفِ گمراہیِ منزل دل میں ہے

دیکھئے کھلتے ہیں کس کس کی تمنا کے کنول

نقشۂ موجِ بہاراں دیدۂ قاتل میں ہے

اہلِ ساحل ہنس رہے ہیں زورِ طوفاں دیکھ کر

اب سفینہ زندگانی کا بڑی مشکل میں ہے

دیکھتا سب کچھ ہے لیکن منہ سے کچھ کہتا نہیں

تیرا دیوانہ نہ جانے کونسی منزل میں ہے

ہم فقیروں کو نہ چھیڑو جاؤ اپنی راہ لو

ہم سمجھتے ہیں تڑپ کتنی تمہارے دل میں ہے

بے خبر کو کیا خبر تجھ کو خبر ہو تو بتا

میں تری محفل میں ہوں یا تو میری محفل میں ہے

آج پورا ہو گیا میکشؔ مذاقِ زندگی

حاصلِ کونین میری سعیِ لاحاصل میں ہے

 

 

 

 

میرا عالم میرے میرِ کارواں دیکھا کئے

اک زباں داں آدمی کو بے زباں دیکھا کئے

نوجواں پھولوں سے پوچھو ان کو سب معلوم ہے

کتنے ارمانوں کا ماتم باغباں دیکھا کئے

جن کو جانا تھا گئے وہ منزلِ مقصود تک

اور ہم ان کی جوانی کا سماں دیکھا کئے

میکدے کی سر زمیں پر دورِ ناؤ نوش ہے

اور اک ہم صورت پیرِ مغاں دیکھا کئے

شکوۂ اہلِ کرم لب تک نہ آیا دوستو

دیکھنے والے مجھے جب نیم جاں دیکھا کئے

جب غزل میکشؔ نے چھیڑی خامشی کے ساز پر

نکتہ داں بھی اس کا اندازِ بیاں دیکھا کئے

 

 

 

 

ارادہ نیک ہوتا ہے مگر محکم نہیں ہوتا

زہے قسمت کہ اب ان سے علاجِ غم نہیں ہوتا

ہمارا زخمِ دل منّت کشِ مرہم نہیں ہوتا

یہی وہ درد ہے جو زندگی بھر کم نہیں ہوتا

وہ جاتے ہیں تو سارے غم گلے ملتے ہیں آ آ کر

وہ جب تک پاس رہتے ہیں تو کوئی غم نہیں ہوتا

کبھی قربت کبھی دوری کبھی ہنسنا کبھی رونا

محبت میں ہمیشہ ایک ہی عالم نہیں ہوتا

رہِ الفت میں یوں تو سیکٹروں احباب ملتے ہیں

تمہاری یاد سے بہتر کوئی ہمدم نہیں ہوتا

اگر ان کی نگاہِ مہر میری سمت اٹھ جاتی

نظامِ کائناتِ دل کبھی برہم نہیں ہوتا

توجہ کی نظر سے دیکھ لو تم اپنے میکشؔ کو

چراغِ دل ہوائے یاس سے مدھم نہیں ہوتا

 

 

 

 

 

کرم کی عادی نہیں ہے دنیا کسی کے دل میں ترس نہیں ہے

بہت ہیں فریاد سننے والے مگر کوئی درد رس نہیں ہے

بہت ہے جو کچھ بھی مل رہا ہے بہت ہے جو کچھ بھی دے رہے ہیں

مجھے مبارک مری فقیری تونگری کی ہوس نہیں ہے

خودی کے اسرار کس کو سونپوں خدا کی باتیں کسے سناؤں

یہاں کوئی ہمنوا نہیں ہے یہاں کوئی ہم نفس نہیں ہے

غرور بن کر سما گئی ہے فقط تری شانِ کبریائی

اسی لئے تو ہمارے دل میں مقام حرصِ و ہوس نہیں ہے

مری نگاہوں میں پھر رہے ہیں خزاں رسیدہ چمن کے سائے

سنا ہے اہلِ چمن سے میں نے بہار اب کی برس نہیں ہے

حیات چولا بدل رہی ہے بھڑک رہا ہے چراغِ ہستی

کچھ اور آواز آ رہی ہے صدائے سازِ نفس نہیں ہے

 

 

 

 

تڑپ جگر میں نگاہوں میں اضطراب بھی ہے

بساطِ قلب پہ اک شورِ انقلاب بھی ہے

ہر ایک باب ہے اس کا رہینِ درسِ وفا

مری حیات کسی کے لئے کتاب بھی ہے

جو مل سکے کبھی فرصت تو یاد کر لینا

تمہارے شہر میں اک خانماں خراب بھی ہے

جہاں میں سیکڑوں یوسف جمال ہیں یوں تو

تمہارے حسن کا لیکن کوئی جواب بھی ہے

وہ چاہے جس کو سرورِ حیات کر دے عطا

نگاہِ دوست میں کیفیتِ شراب بھی ہے

اب آ بھی جاؤ زمانہ گزر گیا میکشؔ

تمہارا ذکر بھی ہے دَور میں شراب بھی ہے

 

 

 

 

ہر ایک چیز زمانے کی مسکرانے لگی

یہ کس کی یاد دلِ ناتواں کو آنے لگی

نسیم غنچۂ رنگیں کو گدگدانے لگی

بہت دنوں میں تمنائے دل ٹھکانے لگی

اداس اداس کنارے پہ دیکھ کر تم کو

شکستہ کشتیِ امید ڈگمگانے لگی

خزاں رسیدہ مناظر کو بھولنے والے

نئی ادا سے عروسِ بہار گانے لگی

مقامِ عشق کو میں نے بلند تر پایا

جب اپنی نظروں سے دنیا مجھے گرانے لگی

منائیں خیر گلستاں کے چاہنے والے

خزاں کا بھیس بدل کر بہار آنے لگی

کسی کی چشمِ کرم گل کھلا گئی شاید

بلا قریب سے میکشؔ مجھے بلانے لگی

 

 

 

 

 

آئینہ دیکھنے پہنچا بھی تو پہنچا کیسے

جوش میں آگیا جذبات کا دریا کیسے

تم کو معلوم نہیں ہم کو خبر ہے لیکن

لوٹ لیتی ہے مسافر کو یہ دنیا کیسے

چھاؤنی ڈالنے والے کبھی سوچا تو نے

چھاؤنی ڈال کے دنیا میں رہے گا کیسے

مجھ کو سب علم ہے میں خوب سمجھتا ہوں اسے

میرے محسن نے مرا قرض اتارا کیسے

 

 

 

 

ایک عنوان لاکھ افسانے

کس نے کیا کیا لکھا خدا جانے

کھول دے گھر کی کھڑکیاں ساری

دم گھٹا جا رہا ہے دیوانے

میکشی چھوڑ دے خدا کے لئے

اب تو آباد کر خدا خانے

دور جانا ہے اب اجازت دے

پھر کسی اور وقت دیوانے

لوگ گھیرے ہیں اس طرح تم کو

شمع کے گرد جیسے پروانے

جن کو نفرت تھی نام سے میرے

آج آئے ہیں وہ بھی اپنانے

مرگیا کون پارسا میکشؔ

پھوٹ کر رو رہے ہیں پیمانے

 

 

 

 

ہمدم لٹے ، عزیز لٹے، راز داں لٹے

راہِ غمِ حیات میں کُل مہرباں لٹے

اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں

ایسا نہ ہو کہ عظمتِ پیرِ مغاں لٹے

یوں راہِ دل میں لٹ گئے دیوانگانِ عشق

جیسے بھری بہار میں حُسنِ بتاں لٹے

اب عالمِ شباب کی رنگینیاں نہ پوچھ

ہم موسمِ بہار میں مثلِ خزاں لٹے

قلب و جگر، نگاہ و خرد دے چکے جواب

اتنی بری طرح نہ کسی کا جہاں لٹے

ان کی تباہیاں ہمیں تسلیم ہے مگر

ہم بھی مثالِ یوسفِ بے کارواں لٹے

میکشؔ لسانی فتنوں کا احساس کیا کریں

ممکن نہیں کہ دولتِ اردو زباں لٹے

 

 

 

 

اس قدر بدلا ہوا ماحول کا نقشہ نہ تھا

آج تم بھی روٹھ جاؤ گے کبھی سوچا نہ تھا

آج پہلی مرتبہ ٹکرا گئی ان سے نظر

اس سے پہلے غور سے میں نے انھیں دیکھا نہ تھا

آ گئی ہے نیند تو آرام کرنے دو اسے

دیر تک جاگا ہوا تھا نیند بھر سویا نہ تھا

آپ نے کچھ اور سمجھا ہے تو حیرت ہے مجھے

اک محبت کے سوا سر میں کوئی سودا نہ تھا

اور بھی نامی گرامی ہستیاں موجود تھیں!

آپ کی محفل میں کوئی آپ کے جیسا نہ تھا

بے خیالی میں یہی اک بھول ہم سے ہو گئی

جس کو ہم اپنا سمجھتے تھے وہی اپنا نہ تھا

میکدے کی ساری باتیں یاد ہیں میکشؔ مجھے

میری گستاخی پہ بھی اس نے کبھی ٹوکا نہ تھا

 

 

 

 

آج کتنا حَسین منظر ہے

ان کی چوکھٹ ہے اور مرا سر ہے

ساتھ میں حادثوں کا لشکر ہے

میرا سایہ ہی میرا رہبر ہے

تم ملے تو ملی بہارِ حیات

کتنا اونچا مرا مقدر ہے

کوئی اپنی زبان کیا کھولے

ان کا ہر لفظ لعل و گوہر ہے

تم حقارت سے اس کو مت دیکھو

وہ بشر وقت کا سکندر ہے

اپنے ساقی کے سامنے میکشؔ

کوئی اعلیٰ نہ کوئی کمتر ہے

 

 

 

 

محبت کی نشانی چاہتا ہوں

حیاتِ جاودانی چاہتا ہوں

ابھی دل ٹوٹنے میں کچھ کسر ہے

کسی کی مہربانی چاہتا ہوں

ابھی ساکن ہیں جذباتِ تمنا

محبت میں روانی چاہتا ہوں

خوشی بخشی ہے مجھ کو سوزِ غم نے

بلائے ناگہانی چاہتا ہوں

ستارے رک گئے پلکوں پہ آ کر

فضائے آسمانی چاہتا ہوں

دلِ سوز آشنا عشرت طلب ہے

گدازِ جاودانی چاہتا ہوں

ٹپک جائے لہو آنکھوں سے میکشؔ

شرابِ ارغوانی چاہتا ہوں

 

 

جب سے ہوئی ہے مجھ پر چشمِ کرم کسی کی

دھجّی اڑا رہا ہوں دامانِ زندگی کی!

دانستہ ایسی حرکت میں نے کبھی کبھی کی!

پھولوں کی آڑ لے کر کانٹوں سے دوستی کی

کیا دیکھتا ہے ظالم حسرت بھری نظر سے

پانی اتارنے میں تو نے بھی کیا کمی کی

کیسی ہوا چلی ہے گلزارِ زندگی میں

صورت اتر گئی ہے ہر پھول ہر کلی کی

شاید کوئی سپیرا جادو جگا رہا ہے

آواز آ رہی ہے کانوں میں بانسری کی

اب موت کی گھٹائیں منڈلا رہی ہیں سر پر

کچھ قدر کر لے میکشؔ تھوڑی سی زندگی کی

 

 

 

 

 

برق اس انداز سے گلشن پہ لہرائی گئی

دوستوں کے واسطے جھوٹی قسم کھائی گئی

عقل سے جو دور تھی جس کو سمجھنا تھا محال

اُن کو ایسی بات بھی فرصت سے سمجھائی گئی

آج کیا کرنا ہے اس پر غور فرماؤ ذرا

اُس کو کیا دہرا رہے ہو بات جو آئی گئی

آنکھ بھی حیران تھی اور ہوش بھی تھے گم مرے

میری ہی صورت مجھے جس وقت دکھلائی گئی

بات کیا تھی کچھ تو سمجھاؤ خدا کے واسطے

کس خطا پر آپ کو زنجیر پہنائی گئی

شاعر بے باک ہے، بدنام ہے میکشؔ بہت

یہ صدا ہر شخص کے کانوں میں پہنچائی گئی

 

 

 

 

 

وحدت کی انگوٹھی میں جو اک ہیرا لگا ہے

اللہ کا پیارا ہے وہ محبوبِ خدا ہے

ایسا نہ سمجھنا کہ اُسے ہوش نہیں ہے

دیوانہ ہے دیوانے کو دنیا کا پتہ ہے

دنیا کی تمنا ہے نہ دنیا سے محبت

وحدت کے پرستار کو وحدت کا نشہ ہے

سر دینا ضروری ہے اسے خوب سمجھ لو

منصور کے ہونٹوں پہ انالحق کی صدا ہے

ہر ایک کو سینے سے لگا لیتا ہے اپنے

یہ بھی مرے محبوب کی اک خاص ادا ہے

تم جس کی طرف غور سے دیکھا کئے میکشؔ

وہ آدمی معلوم نہیں کون ہے کیا ہے

 

 

 

 

 

خوب دَور آیا زندگانی میں

لٹ گئے ہم بھری جوانی میں

میرے دل کی لگی بجھا ظالم

کیا لگاتا ہے آگ پانی میں

اے مرے راہبر نہ روک مجھے

قافلہ ہے ابھی روانی میں

ہے کہاں اب کوئی کسر باقی

مہربانوں کی مہربانی میں

ان کا انداز دیکھ کر میکشؔ

پڑ گئے لوگ بدگمانی میں

 

 

 

 

 

اے دیکھنے والے نگہِ ناز و ادا سے

میں خوب سمجھتا ہوں تجھے تیری دعا سے

ہم بھی ذرا دیکھیں ترے جلوؤں کی نمائش

چلمن سے لگے بیٹھے ہیں دیدار کے پیاسے

اے موت ترے حوصلے ہم بھی ذرا دیکھیں

وہ اور ہیں ڈر جاتے ہیں جو خوفِ قضا سے

اب کوئی وفا کیش نظر میں نہیں جچتا

دل بھر گیا میکشؔ مرا اربابِ وفا سے

 

 

 

 

نمازِ زندگی تم ہو نیازِ بندگی تم ہو

مکانِ آرزو کی اک مکمل روشنی تم ہو

تم اپنے ہاتھ سے کوئی مناسب فیصلہ کر دو

میں مجرم ہوں تمہارا اور میرے مدعی تم ہو

تمہارے نام پر ہم بھی متاعِ دل لٹا بیٹھے

بیاضِ سر خوشی تم ہو کتابِ دوستی تم ہو

ذرا سی بات پر یوں روٹھ کر جایا نہیں کرتے

بھلے انسان دنیا میں انوکھے آدمی تم ہو

بشر کا تذکرہ کیا ہے فرشتے وجد کرتے ہیں

مری جانِ غزل کتنی سریلی بانسری تم ہو

خدا محفوظ رکھے شعلۂ غم سے تمہیں میکشؔ

جو پوری ہو نہیں سکتی یقیناً وہ کمی تم ہو

 

 

 

 

 

چراغِ آرزو مدھم ہے کیا کیا جائے

بہت ہی غمزدہ عالم ہے کیا کیا جائے

خزاں بدوش نظر آ رہا ہے موسم گل

گلوں کو حسرت شبنم ہے کیا کیا جائے

یہ آرزو ہے کروں سجدۂ خلوص و وفا

تلاشِ دامنِ مریم ہے کیا کیا جائے

ضرور کوئی خطا مجھ سے ہو گئی سرزد

نگاہ ان کی اِدھر کم ہے کیا کیا جائے

جو مجھ کو بخشا گیا تھا کسی نے چھین لیا

زمینِ قلب پہ ماتم ہے کیا کیا جائے

شراب پینے کو جی چاہتا ہے اے میکشؔ

نظامِ میکدہ برہم ہے کیا کیا جائے

 

 

 

بہاروں کی نمائش ہو رہی ہے

گلوں کے ساتھ سازِش ہو رہی ہے

سرِ میخانہ تیرے میکشوں پر

نوازش ہی نوازش ہو رہی ہے

جلانے کے لئے میرا نشیمن

یقیناً کوئی سازش ہو رہی ہے

بجھانے کے لئے دل کی لگی کو

تمناؤں کی بارش ہو رہی ہے

چلو دیکھیں تماشا آج ہم بھی

حسینوں کی نمائش ہو رہی ہے

زباں خاموش ہے اس بت کی لیکن

نگاہوں سے گزارش ہو رہی ہے

تمہارے چاہنے والوں کی میکشؔ

ابھی سے آزمائش ہو رہی ہے

 

 

 

 

میری جان لینے والے ترا دم نکل نہ جائے

میرا عشق تو جواں ہے ترا حسن ڈھل نہ جائے

مرے حال پر کرم کر مری زندگی کے داتا

ترا نام لیتے لیتے مرا دم نکل نہ جائے

نہیں خوف بجلیوں کا مجھے ڈر جو ہے تو یہ ہے

سرِ بزم بے ارادہ مرا دل مچل نہ جائے

تری جستجو میں گم ہوں تری یاد میں مگن ہوں

کہیں شامِ غم سے پہلے مری صبح ڈھل نہ جائے

یہ زمانہ لاکھ بدلے اگر اپنا رخ تو کیا ہے

اے مرے ندیم لیکن ترا رخ بدل نہ جائے

یہی آرزو ہے یا رب دلِ غمزدہ کی میری

یہ بلائے زندگانی مرے سر سے ٹل نہ جائے

ہے بہار رقص فرما مری کاوشِ نظر پر

کہیں گرتے گرتے میکشؔ کوئی پھر سنبھل نہ جائے

 

 

 

 

 

 

ڈولتا ہے رہ رہ کے اب تو میرا من تنہا

کیوں نہ سب پہ بھاری ہو تیرا بانکپن تنہا

اک نہ ایک چکر میں مبتلا ہے ہر کوئی

چاند کو بھی لے ڈوبا چاند کا گہن تنہا

سب بری ہوئے یارو سب کو مل گئی فرصت

پھنس گیا ہے کانٹوں میں میرا پیرہن تنہا

رات کی سیاہی پھر رات کی سیاہی ہے

جل کے بجھ گئی ہوگی شمعِ انجمن تنہا

کچھ نہ کچھ ترس کھاؤ اس کی خستہ حالی پر

آپ کے وطن میں ہے ایک بے وطن تنہا

بار بار توبہ کو توڑ دیتا ہوں میکشؔ

بار بار پیتا ہوں بادۂ کہن تنہا!

 

 

 

 

آنکھیں چراغ، قلب چراغ اور جگر چراغ

لے جا رہا ہے کون اِدھر سے اُدھر چراغ

اے باغبان تیری نوازش کا شکریہ

گل کرنے پر تلی ہے ہوائے سحر چراغ

روشن ہے کل جہان اندھیرا کہیں نہیں

سورج اگر ہے دن میں تو شب میں قمر چراغ

قندیلِ التفات جلاؤ نہ دوستو!

محسوس ہو رہا ہے نگر کا نگر چراغ

دن بھی نکل گیا ہے تو دیکھو بجھا نہیں

کس نے جلا دیا ہے سرِ رہگزر چراغ

آگاہ کر رہا ہوں مجھے جان لیجئے!

روشن کیا تھا میں نے کبھی دار پر چراغ

میکشؔ بھی ساتھ ساتھ ہے جانا بھی دور ہے

رکھ لینا اپنے ساتھ میں اے راہبر چراغ

 

 

 

نوازشات و عنایات کو سمجھتا ہوں

حضور آپ کی ہر بات کو سمجھتا ہوں

الاپ گیت کہیں اور جا کے تو اپنا!

میں سازِ حسن کے نغمات کو سمجھتا ہوں

بقدرِ ظرف پلانا مجھے مرے ساقی

میں میکدے کی کرامات کو سمجھتا ہوں

مجھے کھلونا سمجھتے ہو کیا قیامت ہے

عروسِ شب کے خیالات کو سمجھتا ہوں

مجھے نہ دیکھ میں نبّاض ہوں زمانے کا

میں تیرے رخ سے تری بات کو سمجھتا ہوں

میں دل دکھاؤں کسی کا یہ ہو نہیں سکتا

نصیب والا ہوں جذبات کو سمجھتا ہوں

کسی کی بھیک مرے کام آ گئی میکشؔ

فقیرِ حسن ہوں خیرات کو سمجھتا ہوں

 

 

 

 

 

پتھر دل انسان بہت ہیں

دانا کم نادان بہت ہیں

جن کو سمجھتے ہیں ہم مشکل

کام وہی آسان بہت ہیں

کس کو خبر کب پورے ہوں گے

سینے میں ارمان بہت ہیں

جان بڑی مشکل میں پڑی ہے

اپنوں میں انجان بہت ہیں

زخموں کی تعداد نہ پوچھو

چھوٹا گھر مہمان بہت ہیں

تیری متوالی آنکھوں کے

میکشؔ پر احسان بہت ہیں

 

 

 

 

جلوۂ حُسنِ یار نے مارا

زندگی کی بہار نے مارا

موسمِ خوشگوار نے مارا

آب و رنگِ بہار نے مارا

آپ کے انتظار نے مارا

دامِ لیل و نہار نے مارا

وعدہ خود ہی فریب تھا لیکن

جذبۂ اعتبار نے مارا

دامنِ آب ریز کی سوگند

دیدۂ اشکبار نے مارا

محورِ حُسن سے ہٹا کے مجھے

گردشِ روزگار نے مارا

 

 

 

 

نگاہِ پیر میخانہ اگر کچھ خام ہو جائے

زمیں سے عرش تک کہرام ہی کہرام ہو جائے

مرے ہاتھوں سے یا رب کوئی ایسا کام ہو جائے

یہاں بھی نام ہو جائے وہاں بھی نام ہو جائے

شفاعت کا اسے اعزاز حاصل ہو زمانے میں

زہے قسمت جو تیرے عشق میں بدنام ہو جائے

مجھے اپنی تباہی کا کوئی غم ہے نہ شکوہ ہے

کہیں ایسا نہ ہو تو موردِ الزام ہو جائے

نہ چھوڑا ہے نہ چھوڑوں گا تمہارا دامنِ رنگیں

بلا سے زندگی وقفِ غم و آلام ہو جائے

 

 

 

 

کوئی مونس نہ کوئی ہمدم ہے

میرا عالم عجیب عالم ہے

روشنیِ حیات مدھم ہے

آ بھی جاؤ کے زندگی کم ہے

جاں فزا، دل فروز موسم ہے

پھر بھی مجبور ابنِ آدم ہے

آرزوئے ثواب کی سوگند

زندگانی عذابِ پیہم ہے

دیکھ ساقی ادھر بھی ایک نظر

میکدے کا نظام برہم ہے

کس کے آنسو ہوئے اثر انداز

آج ہر ایک محوِ ماتم ہے

محفلِ عقل و ہوش میں میکشؔ

آج انسانیت کا ماتم ہے

 

 

 

 

دل اگر درد آشنا ہو جائے گا

زندگی کا حق ادا ہو جائے گا

ذرۂ خاکی فنا ہو جائے گا

آفتاب ارتقا ہو جائے گا

زحمتِ درماں نہ کر اے چارہ گر

دردِ الفت لا دوا ہو جائے گا

جذبۂ صادق رہا تو دیکھنا

راہزن بھی رہنما ہو جائے گا

جیت لے ہر دل کو حُسنِ خلق سے

کُل جہاں تجھ پر فدا ہو جائے گا

مہرباں اتنی کرم فرمائیاں

ہر ستم مجھ پر روا ہو جائے گا

ترکِ مئے کرتا تو ہوں میکش مگر

سارا میخانہ خفا ہو جائے گا

 

 

 

 

نظامِ عاشقی برہم نہیں ہے

حسیں زلفوں میں پیچ و خم نہیں ہے

مرا عالم ترا عالم نہیں ہے

مگر تسخیرِ عالم کم نہیں ہے

ہمیں بخشا متاعِ سوزِ الفت

یہی احسان تیرا کم نہیں ہے

فریبِ رنگ و بو نے مار ڈالا

کوئی اپنی جگہ محکم نہیں ہے

ہماری چارہ سازی کرنے والو

ہمارے زخم کا مرہم نہیں ہے

گلا گھوٹا گیا انسانیت کا

دلِ آدم دلِ آدم نہیں ہے

تری تصویر آئینہ ہے لیکن

تری تصویر میں دم خم نہیں ہے

 

 

 

 

اب چشمِ خود تماشا اپنا اثر نہ جانے

یہ تو نہیں ہے ممکن دل کو نظر نہ جانے

نقصِ نظر تو سمجھے حُسنِ نظر نہ جانے

نیرنگِ عاشقی کو ہم عمر بھر نہ جانے

آنسو ٹپک چکے ہیں آہیں نکل رہی ہیں

گل اور کیا کھلائے بادِ سحر نہ جانے

اس بے خبر کا رنگِ ایثار کون سمجھے

جو سب سے باخبر ہے اپنی خبر نہ جانے

دنیا کا ہر تماشا جانِ فریب نکلا

اسرارِ زندگی کو اہلِ نظر نہ جانے

عیبوں کی جستجو میں عمرِ عزیز گزری

اربابِ علم و فن بھی شانِ ہنر نہ جانے

رگ رگ لئے ہوئے ہے پیکانِ عشق میکشؔ

کیوں پھیلتا چلا ہے دردِ جگر نہ جانے

 

 

 

 

نغمۂ نو بہار کا موسم

یار ہی جانے یار کا موسم

چھیڑ سوجھی ہے باغبانوں کو

آؤ دیکھیں بہار کا موسم

آنکھ پتھرا گئی بہاروں کی

خوب ہے انتظار کا موسم

مصلحت چل رہی ہے تیزی سے

ہو گیا ختم پیار کا موسم

گلشنِ زیست ہے خزاں بردوش

توبہ توبہ بہار کا موسم

مجھ غریب الدّیار سے پوچھو

مجھ غریب الدّیار کا موسم

یاد ہے آج تک مجھے میکشؔ

ان کے سولہ سنگھار کا موسم

 

 

 

 

 

حقِ الفت ادا نہیں ہوتا

ختم یہ سلسلہ نہیں ہوتا

لوگ ناحق برا بناتے ہیں

آدمی خود برا نہیں ہوتا

جب بگڑتا ہے کھیل قسمت کا

آشنا آشنا نہیں ہوتا

ہم اسی راستے پہ چلتے ہیں

صاف جو راستا نہیں ہوتا

دشمنوں کا گلہ مناسب ہے

دوستوں کا گلہ نہیں ہوتا

سب جدا ہو گئے مگر اے دوست

درد دل سے جدا نہیں ہوتا

 

 

 

 

جو نہ ہونا تھا وہ سودا  ہو گیا

ہو گیا خونِ تمنا ہو گیا

رازِ حسن و عشق افشا ہو گیا

ہائے کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا

دیکھتے ہی دیکھتے شامِ فراق

دیدنیِ دل تماشا ہو گیا

اس کی مجبوری کا ماتم کیوں کریں

جا بجا جو مفت رسوا ہو گیا

کیا کہوں کیسے کہوں کس سے کہوں

دل کسی کا تھا کسی کا ہو گیا

دیکھئے شیرازۂ ہستی مرا

دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا

وہ ہمارا مونس و ہمدرد ہے

خود بہ خود دل جس پہ شیدا ہو گیا

 

 

 

ماہ پاروں سے رسم و راہ کیا

میں نے کتنا حسیں گناہ کیا

وہ سمجھتا ہے عظمتِ گلشن

جس نے کانٹوں سے بھی نباہ کیا

یوں تو میں نے کئی گناہ کئے

تم کو چاہا بڑا گناہ کیا

مردنی چھا گئی گلستاں پر

موسمِ گل میں کس نے آہ کیا

 

 

 

 

 

طوفان کیوں اٹھا ہے کیا آپ جانتے ہیں

یہ قتل کیوں ہوا ہے کیا آپ جانتے ہیں

بن کے نجومی سب کے دل کی بتا رہے ہو

کیا میرا مدعا ہے کیا آپ جانتے ہیں

مئے نوش پی رہے ہیں جو چیز میکدے میں

شربت ہے یا دوا ہے کیا آپ جانتے ہیں

پھولوں کا خون چوسا خود اپنے باغباں نے

یہ کون سی سزا ہے کیا آپ جانتے ہیں

اپنی نظر کے آگے اپنی زمیں کے اوپر

رہزن بھی رہنما ہے کیا آپ جانتے ہیں

اک رندِ لا ابالی کہتے ہیں جس کو میکشؔ

کیوں آپ پر فدا ہے کیا جانتے ہیں

 

 

 

 

اس طرح ان کو میں نے پکارا کبھی کبھی

مجھ کو بھی دیجئے گا سہارا کبھی کبھی

گردش میں آگیا ہے ستارا کبھی کبھی

یا انقلابِ وقت نے مارا کبھی کبھی

جوشِ جنونِ عشق کا عالم نہ پوچھئے

زلفِ غمِ حیات سنوارا کبھی کبھی

ہوش و حواس کا یہی عالم رہا اگر

دے دینا ساقی مجھ کو دو بارا کبھی کبھی

کس منہ سے اپنا حال سناؤں کسی کو میں

حسن و جمالِ یار نے مارا کبھی کبھی

بے شک تصورات میں اس مست ناز کا

کرتے رہے ہیں ہم بھی نظارا کبھی کبھی

میکشؔ یہ واقعہ ہے کہ راہ حیات میں

ان کے خلوص نے مجھے مارا کبھی کبھی

 

 

 

 

 

ایک سے ایک حسیں اور جواں ملتے ہیں

آپ کی شکل کے معشوق کہاں ملتے ہیں

موت کے نام سے ڈرتے نہیں تیرے عاشق

موت کی آڑ میں جینے کے نشاں ملتے ہیں

ان کے اندازِ تغافل نے غضب کر ڈالا

روز ملتے ہیں مگر دل سے کہاں ملتے ہیں

ان کی تبدیلیِ حالت پہ ترس آتا ہے

موسمِ گل میں بھی وہ مثلِ خزاں ملتے ہیں

آپ کے بارے میں جب مجھ سے کسی نے پوچھا

میں نے بھی ان سے یہی کہہ دیا ہاں ملتے ہیں

اپنے میکشؔ سے تو ہر روز ہی ملتے ہیں مگر

شیخ جی سے بھی مرے پیرِ مغاں ملتے ہیں

 

 

 

 

تیرے اوپر کیا کوئی منتر چلے

تو تو وہ منتر ہے جو گھر گھر چلے

آپ تو حاضر ہیں ہر ہر موڑ پر

آپ سے کتنا کوئی بچ کر چلے

ہے عجب بازارِ دنیا آج کل

کوڑیوں کے بھاؤ میں گوہر چلے

یہ نہیں معلوم جانا ہے کدھر

بے ارادہ گھر سے ہم اکثر چلے

اے مرے ساقی بوقتِ میکشی

میری جانب سے ترا ساغر چلے

جنگ کا آغاز اس طرح ہوا

پہلے پتھر بعد میں خنجر چلے

ہے اسی گلشن میں اپنا آشیاں

لالہ زاروں پر جہاں خنجر چلے

 

 

 

 

بے سہاروں کے لئے کوئی سہارا نہ ہوا

تو کسی طرح مری آنکھ کا تارا نہ ہوا

ہم تڑپتے ہی رہے دید کی خاطر لیکن

شومیِ بخت کہ اس بت کا نظارا نہ ہوا

اب کسے دل میں جگہ دیں کسے اپنا سمجھیں

جس کو ہم اپنا سمجھتے تھے ہمارا نہ ہوا

خیر جینا اگر ہوتا تو کوئی بات بھی تھی!

میرا مرنا بھی تو ظالم کو گوارا نہ ہوا

اس پہ کیا خاک بھروسہ کریں دنیا والے

بے کسوں کے لئے جو کوئی سہارا نہ ہوا

پھر تو میخانے میں رکنا ہی پڑا اے میکشؔ

وادیِ غیر میں جب اپنا گزارا نہ ہوا

 

 

 

وہ ہستی بقا آشنا ہو گئی ہے

ترے عشق میں جو فنا ہو گئی ہے

ذرا ان کی محشر خرامی تو دیکھو

ہر اک سو قیامت بپا ہو گئی ہے

میں اپنی محبت کے قربان جاؤں

ترے حسن کی اک ادا ہو گئی ہے

بصد شوق و ارماں وہیں ہم چلے ہیں

جہاں سرکشی بھی روا ہو گئی ہے

سرِ شام وہ بے نقاب آ گئے ہیں

کہ اب صبحِ نو رونما ہو گئی ہے

جوانی اور اس بت کی الھڑ جوانی

خدا کی قسم پارسا ہو گئی ہے

سنبھل کر اٹھاؤ قدم اپنا میکشؔ

مکدر جہاں کی فضا ہو گئی ہے

 

 

 

 

اب کیا سنائیں آپ کو نغمے شباب کے!

خالی پڑے ہوئے ہیں کٹورے شراب کے

جرأت کہاں تھی دیکھتا بدلی میں چاند کو

اک ماہتاب چھپ گیا اندر نقاب کے

صحنِ چمن میں دوستو کیسی ہوا چلی

رنگین رُت میں جل گئے پودے گلاب کے

ان کی نوازشاتِ مسلسل کا شکریہ!

ہم رفتہ رفتہ ہو گئے عادی شراب کے

کہنا تو چاہتا تھا مگر کہہ نہیں سکا

حائل تھے درمیان میں پردے حجاب کے

میکشؔ ابھی بھی وقت ہے توبہ سے کام لو

سر پر سوار ہو گئے بادل عذاب کے

 

 

 

یہ جام یہ موسم یہ گھٹا میرے لئے ہے

واعظ درِ میخانہ کھلا میرے لئے ہے

قسمت میں اسیری ہے تو کس بات کا ماتم

کونین کی مغموم ہوا میرے لئے ہے

بدلا نہ گیا نغمۂ جاں سوز کا عالم

سازِ غمِ ہستی کی صدا میرے لئے ہے

جاؤں تو کدھر جاؤں غمِ دہر سے بچ کر

ہر گام پہ اک حشر بپا میرے لئے ہے

ڈر ہے کہ نہ ہو جائے کہیں خونِ تمنا

شمشیر بکف دستِ حنا میرے لئے ہے

میں روزِ ازل سے ہوں پرستارِ محبت

سجدہ درِ جاناں پہ روا میرے لئے ہے

اب خیر نہیں جذبۂ توبہ شکنی کی

میکشؔ ہوں مئے ہوش ربا میرے لئے ہے

 

 

 

 

چوٹ پر چوٹ کھانا بڑی بات ہے

کام غیروں کے آنا بڑی بات ہے

خیر خوشیوں میں تو مسکراتے ہیں سب

غم میں بھی مسکرانا بڑی بات ہے

بوئے گل کس کو بھاتی نہیں دوستو

خار سے دل لگانا بڑی بات ہے

مرغِ دل دے رہا ہے اذانِ وفا

ایسے میں جاگ جانا بڑی بات ہے

راج کرنا زمینوں پہ مشکل نہیں

گھر دلوں میں بسانا بڑی بات ہے

آپ کا کوئی ثانی نہیں دہر میں

آپ کو آزمانا بڑی بات ہے

ساقیا اپنے میکشؔ کو آواز دے

اس کی قسمت جگانا بڑی بات ہے

 

 

 

 

موت آئے گی عاشقی کے لئے

جان دینی ہے دوستی کے لئے

اس نے سب کچھ عطا کیا لیکن

کچھ نہیں اپنی زندگی کے لئے

خار زاروں کو ہم نے سینچا ہے

خوں بہایا کلی کلی کے لئے

شمعِ ہستی بجھی تو بجھنے دو

دل جلائیں گے روشنی کے لئے

منّتِ غیر ہو نہیں سکتی

آپ کافی ہیں رہبری کے لئے

دوستوں کی نوازشوں کی قسم

ہم نہ روئیں گے دشمنی کے لئے

موت کا تذکرہ نہ کر میکشؔ

زندگی مل گئی کسی کے لئے

 

 

 

 

 

 

اندھیری رات میں تم روشنی کو ترسو گے

ہمارے بعد ہماری خوشی کو ترسو گے

وہ دن بھی دور نہیں ہے چمن کے باشندو

چمن میں رہ کے بھی اک اک کلی کو ترسو گے

تمہاری بزم سے جانے کو جا رہا ہوں مگر

تمام عمر مری دوستی کو ترسو گے

نہ جاؤ چھوڑ کے اپنے مریضِ الفت کو

حسینوں ورنہ مری عاشقی کو ترسو گے

قدم بڑھاؤ چلو سوئے میکدہ میکشؔ

نہیں تو حشر میں دیوانگی کو ترسو گے

 

 

 

روشن نہ ہوئی یارو قندیل سحر برسوں

تاریک رہا میری امید کا گھر برسوں

اے موجِ بلا ہم سے تو سوچ کے ٹکرانا

طوفانوں سے کھیلے ہیں بے خوف و خطر برسوں

خاموش جوانی پھر خاموش نہیں رہتی!

یادوں کی چتا میں جب جلتا ہے جگر برسوں

معلوم نہ تھا مجھ کو اے میرے کرم فرما

تو مجھ سے بچائے گا دامانِ نظر برسوں

واعظ کی نصیحت میں کچھ جان نہیں لیکن

مظلوم کی آہوں کا رہتا ہے اثر برسوں

 

 

 

جس دل میں محبت نہیں اس دل میں اثر کیا

جس میں خلش و درد نہیں وہ بھی جگر کیا

دل نور ہے تو روشنیِ شمس و قمر کیا

مستوں کے لئے مشغلۂ شام و سحر کیا

منزل پہ پہنچ کر بھی تو منزل نہیں ملتی

بھٹکے ہوئے راہی کے لئے شمعِ سفر کیا

رکھا نہ کہیں کا بھی ترے لطف و کرم نے

کس حال میں ہوں ان کی زمانے کو خبر کیا

تو نے تو گلے مل کے گلا کاٹا ہے ظالم

ہوگا تری باتوں کا مرے دل پہ اثر کیا

 

 

 

 

 

کرتے تھے جاں نثار ابھی کل کی بات ہے

ان کو تھا ہم سے پیار ابھی کل کی بات ہے

موسم تھا سازگار ابھی کل کی بات ہے

ہم کو تھا اختیار ابھی کل کی بات ہے

مالی کی گرم نظروں نے جھلسا دیا ہے آج

پھولوں پہ تھا نکھار ابھی کل کی بات ہے

وہ میری بزمِ خاص میں کچھ خاص کام سے

آتے تھے بار بار ابھی کل کی بات ہے

اب نقد مانگو بھی تو وہ دیتے نہیں شراب

لیتے تھے ہم ادھار ابھی کل کی بات ہے

میکشؔ ہوائے عشق نے مرجھا دیا اسے

گلشن میں تھی بہار ابھی کل کی بات ہے

 

 

 

 

تیر سے بڑھ کر اس کی چبھن ہے

خوب ترا اندازِ سخن ہے

کون لگائے تیری قیمت

تو تو اک انمول رتن ہے

کھلتا ہے ہر روز نیا گل!

اپنا چمن پھر اپنا چمن ہے

اب نہ اٹھے گا بوجھ وفا کا

ٹوٹا ہوا ہوں ٹوٹا بدن ہے

زلف تلے آرام کریں گے

تیرے مریضِ غم کو تھکن ہے

اپنی اپنی دھن ہے سب کو

کون کسی کے غم میں مگن ہے

نشہ ہے میکشؔ بادۂ نو کا

ہاتھ میں لیکن جامِ کہن ہے

 

 

 

 

نہ گھبراؤ فریبِ زندگی سے

مصیبت جھیل لو زندہ دلی سے

بہت ہی خوب ہے یہ بھی تصادم

اندھیرے مل رہے ہیں روشنی سے

حسیں یوں تو جہاں میں سیکٹروں ہیں

ہمیں الفت ہے لیکن آپ ہی سے

طلب گارِ مئے دیدار ہم ہیں

ہمیں دیکھو نہ چشمِ برہمی سے

مقامِ مئے پرستی ان سے پوچھو

جو واقف ہیں عروجِ میکشی سے

مقدر کا سکندر ہے وہ اپنے

جو بچ جائے خلوصِ آدمی سے

نہ لو اب دوستی کا نام میکشؔ

طبیعت بھر گئی ہے دوستی سے

 

 

 

 

اہلِ ساحل کی خبر ہر رَوِ دریا لے گی

اب اسی ڈھنگ سے قدرت مرا بدلا لے گی

فصلِ گل میں مری وحشت کوئی پلٹا لے گی

زندگی منہ پہ ابھی دامنِ صحرا لے گی

موت آتی ہے تو آنے دو ڈراتے کیوں ہو

جان ہی لے گی مری اور مرا کیا لے گی

میرے آغاز کا انجام غضبناک نہ پوچھ

صبحِ ارماں کے مزے شامِ تمنا لے گی

آؤ نظروں سے پئیں اور پلائیں میکشؔ

نگہِ ساقیِ کوثر ہمیں اپنا لے گی

 

 

 

 

 

جن کے سینے میں خلش پاؤں میں چھالے ہوں گے

در حقیقت وہی انسان نرالے ہوں گے

غنچہ و گل کو نہ توڑے کوئی بے دردی سے

باغباں نے بڑے ارمانوں سے پالے ہوں گے

جن کی خوددار طبیعت کا خدا حافظ ہے

ان کی محفل میں اجالے ہی اجالے ہوں گے

جب نظر آئے گا بے پردہ حقیقی جلوہ

میرے ہاتھوں میں بھی توحید کے پیالے ہوں گے

آنے والا ہے وہی دَور ابھی اے میکشؔ

کہیں خنجر کہیں برچھی کہیں بھالے ہوں گے

 

 

 

 

بے سود اپنی آگ میں جلتا ہوں بار بار

سیماب وار غم سے مچلتا ہوں بار بار

تونے مجھے یہ کیسا پتنگا بنا دیا

امید کے چراغ میں جلتا ہوں بار بار

میرا مذاقِ عشق عجیب و غریب ہے

آنکھیں بچھائے راہ میں چلتا ہوں بار بار

احباب کے سلوک نے چونکا دیا مجھے

دامن جھٹک کے راہ سے چلتا ہوں بار بار

مجھ کو مٹا کے عود بنایا ہے عشق نے

آتش کدے میں حسن کے جلتا ہوں بار بار

تم کیا سما گئے مرے خواب و خیال میں

لعل و گوہر دہن سے اگلتا ہوں بار بار

میکشؔ عجیب چیز ہے معراجِ میکشی

گر گر کے راہِ غم میں سنبھلتا ہوں بار بار

 

 

 

 

یہ کیسا کرشمہ ہے اے دار و رسن  والے

پیتے ہیں لہو اپنا اپنے ہی وطن والے

یہ کیسی بہار آئی گلزارِ تمنا میں

پھولوں کی تباہی پر ہنستے ہیں چمن والے

مٹی ہی میں ملنا ہے مل جائیں گے مٹی میں

سونے کے خدا والے چاندی کے بدن والے

خوددار طبیعت کا اللہ محافظ ہے

کچھ کام نہیں آتے دنیا میں یہ دھن والے

میں وقت کا حاکم ہوں کہتے ہیں مجھے میکشؔ

چھوتے ہیں قدم میرا سورج کی کرن والے

 

 

 

 

گلوں کی آگ میں اک خانماں خراب جلا

کتابِ زیست کا کتنا حسین باب جلا

ہم اس حَسین کے آتش کدے سے واقف ہیں

ہمارا دل بھی جہاں صورتِ کباب جلا

چمن میں کس نے یہ لی گرم گرم انگڑائی

کلی کی جان گئی پھول کا شباب جلا

یہ دیکھنا ہے کدھر ٹوٹتے ہیں پروانے

میں دل جلاتا ہوں اپنا تو آفتاب جلا

عجب عجب طرح چلتی رہی ہوائے چمن

کبھی کلی، کبھی پتّہ، کبھی گلاب جلا

تمازتِ رخِ جاناں بھی اک قیامت ہے

کہ جس کی آنچ سے ہر آنکھ کا حجاب جلا

جفا پرست بھی میکشؔ اسے سمجھتے ہیں

وفا کی دھوپ میں اک عاشق شراب جلا

 

 

 

 

ہر پھول ہر کلی کا چہرہ اتر گیا ہے

اپنا چمن بھی اب تو ماتم کدہ بنا ہے

پھونکا گیا چمن میں پھولوں کا آشیانہ

گلشن کا گوشہ گوشہ ویران ہو گیا ہے

لوٹے گئے وطن میں اہلِ وطن کے ہاتھوں

اپنی وفا کا ہم کو اچھا صلہ ملا ہے

کس کو سنائیں یارو اپنی تباہ حالی!

سینے میں حسرتیں ہیں ہونٹوں پہ التجا ہے

جی بھر کے تم بجھا لو اب اپنی تشنگی کو!

مظلوم کے لہو سے دریا بھرا ہوا ہے

طوفاں اگر اٹھے تو طوفاں کا رخ بدل دے

ہمت نہ ہار ساتھی اللہ بہت بڑا ہے

بے سود کٹ رہے ہیں لاکھوں حُسین میکشؔ

بھارت کی سر زمیں بھی میدانِ کربلا ہے

 

 

 

 

سادگی ہے بڑی شرافت ہے

آپ کی ہر ادا قیامت ہے

میں بھی پینے لگا شرابِ وفا

میرے ساقی کی یہ عنایت ہے

میرے جذبے کی کوئی قدر نہیں

آپ جو کچھ کہیں صداقت ہے

میرے اخلاق میں کمی نہ ہوئی

پھر بھی ان کو بڑی شکایت ہے

موسمِ گل میں جل گیا کوئی

باغبانوں کی یہ کرامت ہے

جلسۂ عام ہے گلستاں میں

اور صیاد کی صدارت ہے

ہوش اپنے سنبھالئے میکشؔ

سامنے حُسن کی عدالت ہے

 

 

 

نگاہِ عشق کو ہے تیرا انتظار ابھی

مرے ندیم نہ دے دعوتِ بہار ابھی

تو اپنے سر سے اداسی کا بوجھ اتار ذرا

شباب پر ہے بہاروں کا کاروبار ابھی

برس نہ جائے کہیں ابرِ نَو گلستاں پر

تو اپنی زلفِ معطّر ذرا سنوار ابھی

بجھی بجھی سی طبیعت اداس اداس ہے دل

خدا کے واسطے مت چھیڑ میرے یار ابھی

 

 

 

کیا سمجھنا تھا کیا سمجھ بیٹھے

بد دعا کو دعا سمجھ بیٹھے

زیست کا آسرا سمجھ بیٹھے

زہرِ غم کو دوا سمجھ بیٹھے

کیا سنائیں کسی کو اپنا حال

نا روا کو روا سمجھ بیٹھے

حکمت میکشی نہیں معلوم

راز میخانے کا سمجھ بیٹھے

ہوکے پامالِ آرزو میکشؔ

عشق کا مدّعا سمجھ بیٹھے

 

 

 

 

اپنے ہی غم میں مسرور کیوں ہے

آدمی اتنا مجبور کیوں ہے

اجنبی کی طرح مل رہے ہو

فاصلہ اس قدر دور کیوں ہے

بھول جاتے ہو وعدے کو اپنے

آپ کا ایسا دستور کیوں ہے

آرہا ہے نظر چہرہ مدھم

آئینہ اتنا بے نور کیوں ہے

وہ مہکتے رہے پھول بن کر

میرے دل میں بھی ناسور کیوں ہے

کل تو با ہوش لگتا تھا میکشؔ

آج نشے میں پھر چور کیوں ہے

 

 

 

 

 

اشک اس طرح ڈھلتا رہے

کارواں جیسے چلتا رہے

دَور پر دَور چلتا رہے

اور مرا دم نکلتا رہے

ہم نہ بدلیں گے اپنا چلن

رخ زمانہ بدلتا رہے

جل سکے گا نہ دامن مرا

وقت شعلے اگلتا رہے

اپنے مخصوص انداز سے!

چاند بدلی میں ڈھلتا رہے

لاکھ دنیا گرائے مگر!

پھر بھی میکشؔ سنبھلتا رہے

 

 

 

 

 

دلوں میں گھر بنایا جا رہا ہے

مقدر آزمایا جا رہا ہے

مسلسل ظلم ڈھایا جا رہا ہے

کوئی ناحق ستایا جا رہا ہے

اشاروں سے بلایا جا رہا ہے

مجھے اپنا بنایا جا رہا ہے

مقید کر کے کانٹوں کی جوانی

گلوں کا ناز اٹھایا جا رہا ہے

بسیرا ہے جہاں مجھ غم زدہ کا

وہیں محشر اٹھایا جا رہا ہے

پرستارانِ اہلِ دل کو میکشؔ

نگاہوں سے گرایا جا رہا ہے

 

 

 

 

 

یہ کیسی بہار آئی یہ کیسا برس آیا

پھولوں کی تباہی پر کانٹوں کو ترس آیا

چلتا ہوں چمن والو اللہ محافظ ہے

میرے دلِ وحشی کو پیغامِ قفس آیا

دستور یہی دیکھا میں نے تری دنیا کا

چکّر میں حسینوں کے ہر اہلِ نفس آیا

کس ناز و ادا سے وہ کہتے ہیں سرِ محفل

کچھ دیر ٹھہر جاؤ آیا ابھی بس آیا

تقسیم ہوا جس دن انعامِ خداوندی

میکشؔ ترے حصے میں انگور کا رس آیا

 

 

 

 

نظر کیا چیز ہے حُسنِ نظر کیا

نہ ہو جس میں ترا سودا وہ سر کیا

بجھانے کو نہیں تیار کوئی

یونہی جلتا رہے گا میرا گھر کیا

زمیں جس کی جڑوں کو کھا گئی ہے

کہیں دیتا ہے پھل ایسا شجر کیا

نہیں آتا ترس تجھ کو کسی پر!

ہے تیرے پاس پتھر کا جگر کیا

مسافر ڈھونڈ لے گا اپنی منزل

اندھیری رات کیا وقتِ سحر کیا

زمانہ جانتا ہے اس کو میکشؔ

ہنر جانے گا کوئی بے ہنر کیا

 

 

 

 

 

تاثرات

قطعات

یوں تو کہنے کو ایک کانٹا ہوں

خاص نسبت ہے پھر بھی پھول کے ساتھ

نارِ دوزخ حرام ہے مجھ پر

ہے محبت مجھے رسولؐ کے ساتھ

 

 

اوڑھ کر جامۂ دجّال برنگِ مُلّا

نامِ مذہب پہ زمانے کو دغا دیتے ہیں

لوگ مر مٹتے ہیں بے سود و زیاں اے میکشؔ

گوشِ اقوم میں یہ ایسی صدا دیتے ہیں

 

 

جذبۂ اتفاق پیدا کر

حوصلہ رکھ قدم بڑھانے کا

آدمی اتحاد کی دھن میں

موڑ سکتا ہے رخ زمانے کا

 

 

 

سکوں طلب ہے دلِ بے قرار برسوں سے

بھٹک رہا ہوں مثالِ غبار برسوں سے

اب آ بھی جا مری جانِ حیات، روحِ نشاط

نگاہِ شوق کو ہے انتظار برسوں سے

 

 

وہ نگاہوں سے کیا ہوئے اوجھل

زندگی اور ہو گئی بے کل

ہائے اس بت کے روٹھ جانے سے

دل کی دنیا میں مچ گئی ہل چل

 

 

کون سا کھیل بچ گیا باقی

کھیلنے والو زندگانی سے

وقت سے پہلے تھک گیا ہوں میں

اب نہ کھیلو مری جوانی سے

 

 

 

 

 

نظمیں

 

وطن کے نام پر

 

ہمنوائے وقت ہیں اور قوم کی آواز ہیں

اپنی رفعت کی طرف ہم مائلِ پرواز ہیں

بھید بھاؤ کو بہرِ کوشش مٹانا چاہئے

اب اندھیرے پر اجالا بن کے چھانا چاہئے

دب نہیں سکتا کسی صورت ہمارا حوصلہ

حملہ آور کے مقابل ہوگا ہر چھوٹا بڑا

حرف ہم آنے نہ دیں گے اپنی صبح و شام پر

جان کی بازی لگا دیں گے وطن کے نام پر

 

لہلہاتی وادیوں پر ہے لٹیروں کی نظر

ہم بھی اپنی ذمہ داری سے نہیں ہیں بے خبر

دیکھتے ہی دیکھتے ظلمت کا بادل چھا گیا

آگیا اب ایک ہونے کا زمانہ آگیا

شدّتِ احساس سے پہلو میں دل ہے بے قرار

ہر نفس شعلہ بداماں ہر نظر آتش بکار

پھر بھی لہرائے گا پرچم اپنا ہر اک گام پر

جان کی بازی لگا دیں گے وطن کے نام پر

دامنِ امّید کو پھولوں سے بھر سکتا نہیں

اب کوئی بیرونی حاکم راج کر سکتا نہیں

اب فضائے دوستی کی ہی ضرورت ہے ہمیں

یعنی اپنے ملک سے بے حد محبت ہے ہمیں

ایک ہو کر چلتے ہیں اس دیش میں گنگ و جمن

ہر سمن قلبِ چمن ہے ہر چمن روحِ وطن

حکمرانی ہوگی اپنی گردشِ ایام پر

جان کی بازی لگا دیں گے وطن کے نام پر

 

مایۂ ہستی لٹایا ہے وطن کے واسطے

ہم نے اپنا خوں بہایا ہے وطن کے واسطے

رائیگاں ہوتی نہیں یوں دیش بھگتوں کی ادا

کارگر ہو کر رہے گی ہر نمازی کی دعا

آسرا ہندوستاں کا کون ہے تیرے سوا

آبرو رکھنا بہرِ صورت ہماری اے خدا

کامیابی چھائے گی ہر ایک خاص و عام پر

جان کی بازی لگا دیں گے وطن کے نام پر

دشمنوں کا سامنا ہے اور دلِ جانباز ہے

ناز ہے ہم کو ہماری کاوشوں پر ناز ہے

رفتہ رفتہ بحرِ برزخ میں روانی پائیں گے

مرنے والے مر کے بھی اک زندگانی پائیں گے

اور ہوں گے وہ جو اپنی ناؤ کھے سکتے نہیں

دشمنوں کو چَین سے ہم رہنے دے سکتے نہیں

اب حکومت ہوگی اپنی ہر دلِ خود کام پر

جان کی بازی لگا دیں گے وطن کے نام پر

 

 

 

 

شرابی

 

 

 

شرابی، فلسفی، شاعر، مغنّی ہوکے بھی کیا ہے

ذرا تم غور فرماؤ کہ اس کی زندگی کیا ہے

شرابی ظرف کو ظرفِ وضو کو بیچ دیتا ہے

شرابی اپنی عزت آبرو کو بیچ دیتا ہے

شرابی خوب پیتا ہے تو خود کو بھول جاتا ہے

مثالِ خار وہ سب کی نگاہوں میں کھٹکتا ہے

نہ اس کو فکر ممتا کی نہ بچوں کا خیال اس کو

نکلنے ہی نہیں دیتا کبھی لعنت کا جال اس کو

زباں سے کیا نکل جائے بتا سکتا نہیں کوئی

شرابی کس کو کیا کہہ دے بتا سکتا نہیں کوئی

جسے دیکھو وہی پیچھا چھڑاتا ہے شرابی سے

ہر اک انسان دامن کو بچاتا ہے شرابی سے

جہاں جاتا ہے اپنی میکشی کو عام کرتا ہے

وہ اپنی آبرو کو ہر جگہ نیلام کرتا ہے

 

نہ گھر میں کوئی عزت ہے نہ باہر کوئی عزت ہے

شرابی ہر کسی کے واسطے زحمت ہی زحمت ہے

حقیقی زندگی کی لذّتوں سے بے خبر ہے وہ

جسے کچھ بھی نہیں دکھتا یقیناً وہ نظر ہے وہ

شرابی اپنے وعدوں کو ہمیشہ بھول جاتا ہے

وہ اپنے جاں نثاروں کو ہمیشہ بھول جاتا ہے

نشہ چڑھتے ہی سارے بندھنوں کو توڑ دیتا ہے

وہ اپنے ہاتھ سے اپنا مقدر پھوڑ دیتا ہے

بجائے پھول کے اک آہنی تلوار ہے گویا

شرابی آدمی گرتی ہوئی دیوار ہے گویا

نہیں ہے نام کو بھی فکر اس کو اپنے عقبیٰ کی

جو خود سے بے خبر ہو کیا خبر لے گا وہ دنیا کی

دھرم کی بات بھی کر کے دھرم سے دور رہتا ہے

وہ اپنی مئے پرستی کے نشے میں چور رہتا ہے

ستم کے تیر چلتے ہیں جفائیں یاد آتی ہے

نشے کے دھن میں نازیبا ادائیں یاد آتی ہے

 

حواس و ہوش کی دنیا سے منہ کو پھیر لیتا ہے

وہ اک شیطان ہے شیطاں کو شیطاں گھیر لیتا ہے

کبھی خنجر، کبھی برچھی، کبھی وہ تیر ہوتا ہے

شرابی بے حیائی کی کھلی تصویر ہوتا ہے

سمجھتا ہی نہیں ظالم وہ پاکیزہ محبت کو

ہمیشہ ٹھیس پہنچاتا ہے وہ انساں کی عظمت کو

کبھی اپنے روئیے سے کبھی وہ اپنی فطرت سے

شرابی فطرتاً مجبور ہے اپنی حماقت سے

شرابی آدمیت کے نشے سے دور رہتا ہے

شرابی مئے پرستی کے نشے میں چور رہتا ہے

ارے نا قدر داں انسان قدرِ زندگی کر لے

اندھیرے گھر میں رہنے کے لئے کچھ روشنی کر لے

پہاڑوں کی چٹانوں پر شجر پیدا نہیں ہوتا

شرابی کی دعاؤں میں اثر پیدا نہیں ہوتا

خدا کے واسطے یہ جام و ساغر توڑ دے میکشؔ

ابھی بھی وقت ہے پینا پلانا چھوڑ دے میکشؔ

 

مصنف کی اجازت سے

تشکّر: ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ اور محمد رفیع الدین

ان پیج سے تبدیلی، تدوین،  اور برقی کتاب کی تشکیل: اعجاز عبید