سائنس: خدا کی نشانیاں اور ہماری میراث
عظیم احمد
قرآن مجید تقریباً پندرہ سو سال پہلے نازل ہوا۔ اس کے نزول کا مقصد موجودہ عارضی زندگی میں انسان کی بحیثیت فرد اور معاشرہ رہنمائی کرنا ہے۔ انسان کو چونکہ ہمیشہ ہی سے ہدایت کی ضرورت رہی ہے اور رہے گی، اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے اس آخری پیغام کو ہمیشہ کے لیے ہر قسم کی تحریف سے محفوظ کر لیا ہے:
’’بے شک ہم نے ہی اس پیغام کو نازل کیا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘ (الحجر15:9)
اگرچہ قرآن مجید کے پڑھنے والے کو اس میں متعدد ایسی آیات ملیں گی جو کسی نہ کسی طرح سائنسی مظاہر سے متعلق ہیں، تاہم ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید اصلاً کوئی سائنس کی کتاب نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد سائنس کی تعلیم ہے۔ اس کا بنیادی پیغام آیندہ آنے والی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کی یاددہانی اور منادی ہے۔ وہ اس حقیقت کی جانب مختلف اسالیب میں توجہ دلاتا ہے۔ اسی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے وہ انسان کو خود اس کے اپنے اندر موجود نشانیوں اور کائنات میں پھیلے ہوئے مختلف مظاہر پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ان سائنسی مظاہر کے متعلق قرآن مجید کا بیان مختصر اور جامع ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ ان اشاروں کو مشعل راہ بنا کر تحقیق کریں اور حقائق کی تہ تک پہنچیں۔ یہ عمل نہ صرف ان کے آخرت کے متعلق موروثی عقیدے کو یقین میں بدلنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، بلکہ علم اور ایجادات کی دنیا میں بھی انھیں سب سے ممتاز بنا سکتا ہے۔
ابتداً امت مسلمہ نے قرآن کی اسی ہدایت پر عمل کیا اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ جدید سائنسی علوم کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ انہی سے اہل یورپ نے یہ علم سیکھا (جیسا کہ آپ کو اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوگا)، اسے آگے بڑھاتے چلے گئے اور اس طرح وہ دنیا کے لیڈر بن گئے۔
اکیسویں صدی میں انسانی علم کی سطح بہت بلند ہو چکی ہے۔ جدید سائنس نے ایسے ایسے انکشافات کیے ہیں، جن کے متعلق انسان پہلے تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب تک کے تمام دریافت شدہ مسلمہ حقائق بغیر کسی استثنا کے قرآن مجید میں درج بیانات کے عین مطابق ہیں۔ اسی حقیقت کو مشہور فرنچ سرجن سائنس دان موریس بوکیل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سائنس، قرآن اور بائبل‘‘ میں بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق جدید سائنس نے قرآن مجید کی بیشتر ایسی آیات کو سمجھنا آسان کر دیا ہے جن کی صحیح تشریح سائنسی علوم کی کمی کی وجہ سے پہلے ممکن نہ تھی۔ مثال کے طور پر:
رحم مادر میں بچے کی تخلیق کے مدارج کا علم یعنی ایمبریالوجی (Embryology) جس تفصیل اور صحت کے ساتھ ہمیں اب حاصل ہے، وہ پہلے ممکن نہ تھا، کیونکہ رحم مادر کے اندر کا عمل فلمانے والے خوردبینی کیمرے ایجاد ہی نہیں ہوئے تھے، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کیمروں کی مدد سے جو حقائق سامنے آ رہے ہیں، وہ قرآنی بیانات کے عین مطابق ہیں۔ دنیا کے مشہور ترین ایمبیریالوجسٹ ڈاکٹر کیتھ مور کے مطابق قرآن مجید اس علم یعنی ایمبریالوجی میں وقت سے بہت آگے ہے۔
قرآن مجید ایمبریو کے دوسرے مرحلے کو ’’علقہ‘‘ یعنی جونک کہتا ہے۔ اس بیان کی حقیقت پہلے کسی بھی انسان کی سمجھ سے باہر تھی۔ دو مسلمان ڈاکٹروں نے اس علم کے ماہر ترین انسان ڈاکٹر کیتھ مور سے رابطہ کیا اور انھیں تحقیق پر آمادہ کیا، تاکہ حقیقت سامنے آ سکے۔ تحقیق کے نتیجے میں ڈاکٹر کیتھ مور پر حیرت ناک انکشاف ہوا کہ واقعی حمل کے تقریباً چوتھے ہفتے میں ایمبریو کی شکل ہو بہو جونک جیسی ہوتی ہے اور وہ جونک ہی کی طرح رحم مادر کی دیوار سے چپک کر ماں سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے۔ ڈاکٹر مور نے کینیڈین ٹیلی ویڑن پر انٹرویو میں اپنی ریسرچ کی تفصیل بتائی اور کہا:
’’آج سے پہلے کسی انسان کو اس حقیقت کا علم ہونا قطعاً ناممکن ہے کیونکہ خوردبینی کیمرے ایجاد ہی اب ہوئے ہیں۔ چنانچہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس کا علم ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ چودہ سو سال پرانی کتاب میں اس کے ذکر کی صرف اور صرف ایک ہی توجیہ ہو سکتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) پر اس ہستی کی وحی نازل ہوئی ہے جس نے ہر شے کو تخلیق کیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر مور نے اپنی کتاب ’’تعمیر انسان‘‘ (مطبوعہ 1982ء) کے تیسرے ایڈیشن میں ’’علقہ‘‘ کا مرحلہ بیان کیا ہے اور جونک اور علقہ کی تصاویر ساتھ ساتھ دی ہیں جنھیں دیکھ کر پہچاننا محال ہے کہ ان میں ایمبریو کون سا ہے اور جونک کون سی ہے۔ دیکھیے قرآن مجید دوسری زندگی پر دلیل دیتے ہوئے کس خوبی سے ایمبریو کے مراحل بیان کر رہا ہے:
’’اے لوگو! اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے باب میں شبہ میں ہو تو دیکھو کہ ہم نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر پانی کے ایک قطرے سے، پھر جونک سے، پھر لوتھڑے سے، (جس میں سے) کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص۔ ایسا ہم نے اس لیے کیا تاکہ تم پر اپنی قدرت و حکمت اچھی طرح واضح کر دیں اور ہم رحموں میں ٹھیرا دیتے ہیں، جو چاہتے ہیں اور ایک مدت معین کے لیے۔ پھر ہم تم کو ایک بچے کی شکل میں برآمد کرتے ہیں، پھر ایک وقت دیتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے بعض پہلے مر جاتے ہیں اور بعض بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں، حتی کہ وہ کچھ جاننے کے بعد کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘ (الحج22:5)
’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا، ہم نے پانی کی ایک بوند کو جونک کی شکل میں ایک محفوظ مستقر میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو جونک کی شکل دی، پھر جونک کو گوشت کا لوتھڑا بنایا۔ پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں۔ پس بڑا ہی با برکت ہے، اللہ بہترین پیدا کرنے والا، پھر ان سب کے بعد لازماً مرنا ہے۔ پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔‘‘ (المومنون 23:12-16)
’’پڑھ اپنے مالک کے نام سے جس نے تخلیق کیا انسان کو ایک جونک کی سی چیز سے۔‘‘ (العلق96:1-2)
قرآن مجید ایک ایسے زمانے میں نازل ہوا جب انسان کی افزائش نسل سے متعلق معلومات نہایت محدود تھیں۔ قرون وسطی میں اور جدید زمانے تک بھی اس موضوع کو ہر قسم کی بے سروپا کہانیاں گھیرے ہوئے تھیں۔ اس ضمن میں صحیح معلومات کا آغاز خوردبین کی ایجاد کے بعد شروع ہوا۔ لہذا ایمبریالوجی کے بنیادی تصورات سے متعلق معلومات نزول قرآن اور اس کے بعد کی صدیوں تک نا معلوم تھیں، مگر حیرت انگیز طور پر قرآن افزائش نسل کے مراحل کو نہ صرف واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے، بلکہ کسی ایک مقام پر بھی ان کے غیر صحیح ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ قرآن میں ان مدارج سے متعلق ہر بات آسان لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے، جو آسانی سے انسان کی سمجھ میں آنے والی ہے اور صدیوں بعد دریافت ہونے والے حقائق سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ مثلاً بار آوری کا عمل رقیق مادے کی نہایت قلیل مقدار سے انجام پانا، مرد کے مادہ منویہ کا بچے کی جنس کا ذمہ دار ہونا، بار آور شدہ بیضہ کا استقرار تین پردوں کے اندر ہونا اور رحم کے اندر ایمبریو کا ارتقا۔ ڈاکٹر موریس بوکیل کے بقول پندرہ سو سال پرانی کتاب کے ان بیانات اور جدید سائنس سے حاصل شدہ ان حقائق میں مطابقت کے نتیجے میں آدمی مکمل طور پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر قرآن اجرامِ فلکی کے حرکت پذیر ہونے کو بیان کرتا ہے۔ یاد رہے کہ قرآن مجید کے نزول کے وقت یونانی مفکر بطلیموس کا نظریہ کائنات مانا جاتا تھا جس کے مطابق زمین کائنات کا مرکز ہے اور اس کے علاوہ تمام اجرام فلکی اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ چاند ایک کھوکھلے کرے میں جما ہوا ہے جو شیشے جیسی کسی شے سے بنا ہوا ہے۔ دیگر سیارے اور سورج بھی کھوکھلے کرے میں ہیں، جس میں ستارے جامد ہیں۔ اس نے تمام نظام کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ستاروں کا ظاہر ہونا اور ڈوبنا بھی اسی کرے کی حرکت کی وجہ سے ہے۔
اہل یورپ پندرھویں صدی تک ان نظریات کو درست سمجھتے رہے۔ اس کے بعد یورپ میں سائنسی ریسرچ کے دور کا آغاز ہوا۔ سولہویں صدی میں پولینڈ کے ماہر فلکیات کوپرنیکس نے اپنا انقلابی نظریہ پیش کیا جس کے مطابق مرکز زمین نہیں، بلکہ سورج ہے۔ زمین اور دیگر سیارے اپنے اپنے مرکز کے گرد گھومتے ہوئے، دائروں میں سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ ایک اور ماہر فلکیات جوہانس کپلر نے سترھویں صدی میں بتایا کہ سیارے دائرے میں نہیں، بلکہ بیضوی شکل میں گردش کر رہے ہیں۔ اطالوی سائنس دان گلیلیو نے اپنی بنائی ہوئی دوربین سے مشاہدہ کر کے ان حقائق کی تصدیق کی۔ یہ سائنسی نتائج، چونکہ بائبل کے بیانات سے مطابقت نہ رکھتے تھے، اس لیے کلیسا نے ان تحقیقات کو نہ صرف مذہب کے خلاف قرار دیا، بلکہ فتوی لگا دیا کہ جو کوئی انھیں تسلیم کر ے گا، وہ کافر تصور ہوگا اور اسے سخت ترین سزائیں دی جائیں گی۔ جب بھی کوئی اہل علم ان تحقیقات کے حق میں آواز بلند کرتا تو اسے کافر قرار دے کر سخت ترین سزائیں دی جاتیں اور اسے بائبل میں موجود نظریات ماننے پر مجبور کیا جاتا۔ اسی سبب سے مغرب میں اہل علم مذہب سے باغی ہو گئے۔ بعض وجوہ کے باعث ہمارے ہاں کا تعلیم یافتہ طبقہ چونکہ ذہنی طور پر اہل مغرب کے پیچھے چلتا ہے، لہٰذا ان کی تقلید میں اس نے بھی اپنے دین سے باغیانہ روش اختیار کر لی اور مذہب اور سائنس کو جدا تصور کیا۔ انھوں نے یہ زحمت ہی نہ کی کہ قرآن کا خود مطالعہ کرتے اور دیکھتے کہ کیا اس میں بھی ایسے ہی غلط نظریات موجود ہیں؟
ہم نے قرآن مجید پر ملاؤں کا قبضہ تسلیم کر لیا۔ ان کی بے سروپا کہانیاں سن کر تصور کر لیا کہ شاید قرآن بھی اسی قسم کی حکایتوں اور قصوں کا مجموعہ ہے۔ چونکہ ملا کو جدید تعلیم اور قرآن حکیم پر غور و فکر اور تدبر سے کوئی سروکار نہ تھا، لہذا ہم لوگوں تک یہ بات پہنچ ہی نہ سکی کہ قرآن حکیم کے بیانات نہ صرف ثابت شدہ سائنسی تحقیقات کے عین مطابق ہیں، بلکہ محققین کی آیندہ تحقیق کے لیے بھی اس میں رہنمائی موجود ہے۔
گلیلیو کے بعد آئزک نیوٹن نے 1668ء میں بہتر دوربین بنائی اور اپنے مشہور قانونِ تجاذب کے ذریعے سے اجرام فلکی کی حرکات کے اصول وضع کیے۔ انسانی علم کا دائرہ وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتا گیا اور امریکہ کے ایڈمن ہبل نے بیسویں صدی کی اہم ترین دریافت یہ کی کہ ساری کہکشائیں بڑی تیزی سے ایک دوسرے سے پرے ہٹ رہی ہیں، تمام اجرام فلکی تیر رہے ہیں اور کوئی شے بھی ساکن نہیں ہے۔
بطلیموس سے لے کر ہبل تک تقریباً دو ہزار سال کی سائنسی ترقی کے بعد انسان اس چیز کو معلوم کرنے میں کامیاب ہوا ہے کہ ہر شے اپنے اپنے مدار میں حرکت پذیر ہے اور کوئی چیز بھی ساکن نہیں ہے۔ یہی حقیقت تقریباً انہی الفاظ میں قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ اگر اہل علم نے قرآن سے رہنمائی لی ہوتی تو انھیں ان حقائق کو دریافت کرنے میں اتنا وقت صرف نہ کرنا پڑتا:
’’اور وہی ہے جس نے رات اور دن، سورج اور چاند بنائے۔ ان میں سے ہر ایک ایک خاص مدار کے اندر گردش کر رہا ہے۔‘‘ (الانبیاء 21:33)
’’نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات اور دن پر سبقت کر سکتی ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے خاص دائرے میں گردش کر رہا ہے۔‘‘ (یاسین 36:40)
’’اور سورج اپنے ایک معین مدار پر گردش کر رہا ہے۔ یہ خدائے عزیز و علیم کی منصوبہ بندی ہے۔‘‘ (یاسین36:38)
’’اس نے آسمانوں اور زمین کو ایک مقصد کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ رات کو دن پر ڈھانکتا ہے اور دن کو رات پر۔ اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک چل رہا ہے، ایک خاص مقرر شدہ مدت تک کیلئے۔‘‘ (الزمر39:5)
’’وہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک گردش کر رہا ہے، ایک معین مدت کے لیے۔‘‘ (فاطر35:13)
برسوں کی تحقیق کے بعد انسانی علم اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ اس کائنات میں موجود کوئی شے ہمیشہ کے لیے نہیں ہے، خواہ وہ سورج ہو، کوئی اور ستارہ ہو یا کہکشاں، ایک مدت کے بعد انھیں ختم ہو جانا ہے۔ ہم غور کریں تو مذکورہ آیات قرآنی سے جہاں یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ ہر چیز حرکت میں ہے، وہاں یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ یہ حرکت ہمیشہ کے لیے نہیں، بلکہ ایک مقرر شدہ مدت تک ہی کے لیے ہے۔
قرآن مجید کے مطابق موجودہ زمین و آسمان یعنی کائنات ازلی نہیں، بلکہ اسے ایک خاص لمحے میں تخلیق کیا گیا ہے اور ایک مقررہ مدت کے بعد یہ ختم کر دی جائے گی۔ اس کائنات کا واحد مقصد قرآن مجید کے مطابق انسانوں اور جنوں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔
قرآن مجید کے تصور کے برعکس مدتوں سے انسان کا خیال تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، مگر جدید سائنس نے بیسویں صدی کے اختتام پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ ازلی نہیں، بلکہ ایک خاص لمحے ایک زبردست دھماکے یعنی بگ بینگ (Big Bang) سے اس کا آغاز ہوا ہے۔ اگرچہ جارج لیماٹر نے اس نظریے کو 1927ء میں پیش کیا تھا، لیکن سائنس دانوں کی تائید اسے مدتوںکے تجربات سے گزرنے کے بعد اس صدی کے آخر ہی میں پہنچ کر حاصل ہوئی ہے۔ کائنات کے اختتام کے بارے میں اگرچہ سائنس دان ابھی یک سو نہیں، مگر وہ دن دور نہیں جب اس معاملے میں بھی قرآن مجید کے بیانات کی تصدیق ہو جائے گی:
’’وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس اس کے لیے فرما دیتا ہے ہو جا، تو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘ (البقرہ2:117)
’’اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔‘‘ (ہود11:7)
’’اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو ایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہے، تاکہ بدلہ دیا جائے، ہر جان کو، اس کے کیے کا اور ان کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہو گی۔‘‘(الجاثیہ45:22)
’’ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جواس کے مابین ہے، با مقصد اور ایک معین مدت تک کے لیے بنایا ہے۔‘‘ (الاحقاف46:3)
’’کیا انھوں نے اپنے دلوں میں غور نہیں کیا، اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، نہیں پیدا کیا، مگر ایک مقصد کے ساتھ اور ایک مدت مقررہ تک کے لیے۔ اور لوگوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔‘‘ (الروم 30:8)
جدید تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پہاڑ اصل میں زمین کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ جدید جغرافیائی اصطلاح میں اس توازن کو آئسوٹیسی (Isostasy) کہا جاتا ہے، جس کے مطابق زمین کی سطح پر جو ہلکا مادہ تھا، وہ پہاڑوں کی شکل میں ابھر آیا اور جو بھاری مادہ تھا، وہ گہری خندقوں کی صورت میں دب گیا جن میں اب سمندر کا پانی بھرا ہوا ہے۔ اس طرح ابھار اور دباؤ نے مل کر زمین کا توازن برقرار رکھا ہے۔
آئیں دیکھیں کہ اس ضمن میں پندرہ سو سال قبل نازل ہونے والی عظیم کتاب کیا فرماتی ہے، جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اس کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے:
’’اور ہم نے زمین میں پہاڑ گا ڑ دیے کہ وہ ان کو لے کر لڑھک نہ جائے اور ان پہاڑوں کے اندر ہم نے راستے کے لیے درے بنائے، تاکہ وہ راہ پائیں۔‘‘(الانبیاء 21:31)
’’اس نے بنایا آسمانوں کو، بغیر ایسے ستونوں کے جو تمھیں نظر آئیں اور زمین پر پہاڑ گاڑ دیے کہ و ہ تمہارے سمیت لڑھک نہ جائے۔‘‘ (لقمان 31:10)
قرآن مجید میں شہد کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس میں شفا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
’’اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر القا کیا کہ تو پہاڑوں، اور درختوں، اور لوگ جو چھتیں اٹھاتے ہیں، ان میں چھتے بنا، پھر ہر قسم کے پھلوں سے رس چوس، پھر اپنے پروردگار کے ہموار راستوں پر چل۔ اس کے پیٹ سے مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ بے شک اس کے اندر بڑی نشانی ہے، ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔‘‘(النحل 16:28-29)
مسلمانوں نے اس آیت کی روشنی میں، شہد کے طبی پہلوؤں پر بہت زور دیا اور ان کے ہاں دوا سازی کے فن میں اسے غیر معمولی درجہ حاصل رہا، جبکہ مغربی دنیا اس کے اس پہلو سے اس صدی تک ناواقف رہی۔ ان کے ہاں یہ محض ایک سیال غذا تھا، لیکن اس صدی میں یورپ کے سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ شہد میں واقعی جراثیم کش خواص موجود ہیں۔
شہد ہی کے ضمن میں قرآن حکیم کے ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ خوراک کی تلاش میں نکلنے والی مکھیاں نر نہیں، بلکہ مادہ ہوتی ہیں، کیونکہ قرآن مجید نے یہاں ان کے لیے مونث کے صیغے استعمال کیے ہیں۔ یہ فرق ماضی قریب تک کسی کو معلوم نہیں تھا، کیونکہ اس موضوع پر اتنی تحقیق خوردبینی کیمروں کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔ نر اور مادہ مکھی کا یہ فرق آج بھی کوئی ماہر ہی جان سکتا ہے، لیکن قرآن مجید نے چودہ صدیاں پہلے ہی اس حقیقت کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔
قرآن مجید کا اپنے بیانات سے متعلق دعویٰ ہے کہ یہ ہر قسم کے تضادات سے پاک ہیں:
’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے۔ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت سے تضادات پاتے۔‘‘ (النساء 4:82)
تضاد کے دو پہلو ہو سکتے ہیں: ایک داخلی اور دوسرا خارجی۔ داخلی تضاد یا غیر مطابقت یہ ہے کہ کتاب کا ایک بیان دوسرے بیان سے ٹکرا رہا ہو اور خارجی تضاد یہ ہے کہ کتاب کا کوئی بیان خارجی دنیا یا کائنات کے مسلمہ حقائق سے متصادم ہو جائے۔
اس مقام پر ہمارے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ سائنسی نظریات اور مسلمہ سائنسی حقائق میں فرق ہوتا ہے، جسے ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے بڑے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کچھ چیزیں ہمیشہ نظریات کی حد تک رہتی ہیں اور کچھ نظریات ایک طویل عرصے تک تجربات کی کٹھالی سے گزرنے کے بعد مسلمہ حقائق کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے، کسی زمانے میں نظریہ تھا، لیکن اب یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اور اسی طرح یہ کہ چاند کی اپنی روشنی نہیں یہ محض سورج کی روشنی کا عکاس ہے، کبھی نظریہ تھا، لیکن اب ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اسی طرح اور کئی نظریات اب مسلمہ حقائق بن چکے ہیں۔ اگر کائنات اپنے طبعی قوانین برقرار رکھتی ہے تو کوئی زمانہ ایسا نہیں آئے گا، جب سائنسدان ان حقائق کے متعلق مختلف رائے قائم کر سکیں۔
ہمارے اکثر و بیشتر مذہبی علما نظریات اور مسلمہ حقائق کے اس فرق سے آگاہ نہیں، لہٰذا وہ اپنے ’’مذہبی عقائد‘‘ کے تحت سائنس کی ہر شے کو رد کرنے کے در پے رہتے ہیں اور دوسری طرف کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگ، اس فرق کو نہ جاننے کی وجہ سے اپنے ’’سائنسی عقائد‘‘ کے تحت سائنس کی ہر چیز کو قرآن مجید میں ٹھونسنے پر تلے رہتے ہیں۔ یہ دو انتہائیں ہیں، جبکہ حقیقت ان کے مابین ہے۔ ہمارے پیش نظر یہ ہمیشہ رہنا چاہیے کہ قرآن مجید نہ کوئی سائنس کی کتاب ہے اور نہ اس کا مقصد سائنس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے۔ اس کا بنیادی پیغام آخرت کی یاد دہانی ہے۔ اس پر دلائل دیتے ہوئے وہ ہلکے پھلکے حوالے کے طور پر کائنات کے مختلف مظاہر کا ذکر کرتا ہے۔ ان حوالوں اور مسلمہ سائنسی حقائق میں کوئی تضاد نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا قرآن مجید داخلی تضادات ہی سے نہیں بلکہ خارجی تضادات سے بھی پاک ہے، جبکہ کوئی بھی انسانی تصنیف ان عیوب سے مبرا نہیں ہو سکتی، جس کی وجہ انسان کا ایک خاص زمان و مکان میں محدود ہونا ہے۔ چونکہ اللہ تعالی کا علم زمان و مکان سے بالا ہے، اس لیے اس کی تصنیف میں تضادات نہیں ہو سکتے۔
آئیں دیکھیں کہ قرآن مجید یہ دعوی انسانی تاریخ سے کیسے ثابت کرتا ہے۔
انسان کو دلائل دیتے ہوئے قرآن مجید نے قدرتی مظاہر کے علاوہ رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی قوموں کی تاریخ کے ایسے حوالے دیئے ہیں جن کا نزول قرآن کے وقت کسی کو علم نہ تھا اور جو صدیوں بعد آثار قدیمہ کی کھدائی کے نتیجے میں معلوم ہوئے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہم عصر مصری بادشاہ کو فرعون کہتا ہے، مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے ہم عصر مصری بادشاہ کو فرعون نہیں بلکہ ’’ملک‘‘ کہتا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید کے نزول کے وقت مصری تاریخ کے واحد حوالے بائبل میں دونوں پیغمبروں کے ہم عصر بادشاہوں کو فرعون کہا گیا ہے، لیکن اب ہر صاحب علم جانتا ہے کہ بائبل کی یہ بات تاریخی اعتبار سے غلط ہے، کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں مصر پر ان لوگوں کی حکومت تھی جنہیں ’’چرواہے بادشاہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ عرب نسل سے تعلق رکھتے تھے اور باہر سے آ کر مصر پر قابض ہو گئے تھے، مگر بعد میں مصریوں نے ان غیر ملکی حکمرانوں کو اپنی سرزمین سے نکال دیا اور اپنی حکومت قائم کر لی۔ ان مصری حکمرانوں نے اپنے لیے فرعون (یعنی سورج دیوتا کی اولاد) کا لقب اختیار کیا۔
قرآن مجید کے نزول کے زمانے میں یہ تاریخی واقعات لوگوں کو معلوم نہ تھے۔ بہت عرصے بعد آثار قدیمہ کی کھدائی کے نتیجے میں یہ حقائق دریافت ہوئے اور پھر ان کی بنیاد پر قدیم مصر کی تاریخ مرتب کی گئی لیکن دیکھئے چودہ سو سال پہلے نہ صرف قرآن مجید نے زمین میں دفن تاریخ ہمارے سامنے رکھ دی، بلکہ بائبل میں تحریف کی نشان دہی بھی کر دی۔
دوسری طرف دیکھئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں غرق ہونے والے فرعون کا ذاتی نام ’’مرن پتا‘‘ تھا اور وہ رعمسیس دوئم کا فرزند تھا۔ نزول قرآن کے وقت فرعون کے غرق ہونے کے واقعہ کا ذکر صرف بائبل کے مخطوطات میں تھا اور اس میں بھی صرف اتنا لکھا تھا: ’’خداوند نے سمندر کے بیچ ہی مصریوں کو تہ و بالا کر دیا اور فرعون کے سارے لشکر کو سمندر میں غرق کر دیا۔‘‘ (خروج 14:28) اس وقت قرآن نے حیرت انگیز طور پر یہ اعلان کیا کہ فرعون کا جسم محفوظ ہے اور وہ دنیا والوں کے لیے سبق بنے گا۔
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار کرا دیا تو ان کا پیچھا کیا فرعون اور اس کے فوجیوں نے، سرکشی اور زیادتی کی غرض سے۔ یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو بول اٹھا کہ ایمان لایا کہ نہیں ہے کوئی معبود، مگر وہی جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، میں اس کے فرماں برداروں میں بنتا ہوں۔ جواب دیا گیا۔ اب ایمان لاتا ہے، حالانکہ تم نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ پس آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے اور بے شک بہت سارے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔ (یونس 10: 92 تا95)
جب قرآن کی یہ آیت اتری تو یہ نہایت عجیب بات تھی۔ اس وقت کسی کو خیال تک نہ تھا کہ فرعون کا جسم کہیں محفوظ موجود ہوگا، مگر پروفیسر لاریٹ نے 1898ء میں آیت کے نزول سے تقریباً تیرہ سو سال بعد اس فرعون کے جسم کو مصر کے ایک قدیم مقبرے میں دریافت کر لیا۔
نیشنل جیوگرافک کے شمارہ دسمبر 1978ء جلد 154 کے مطابق ڈاکٹر پٹی ناٹو کو عبلہ (شام) میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کرتے ہوئے سنگی الواح کی صورت میں لائبریری ملی جس میں انہیں بہت سے ایسے شہروں کے نام بھی ملے جن کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بعد کے ادوار میں بنے ہیں مثلاً بیروت، بابل، دمشق اور غزہ۔ ان کے علاوہ دو شہروں کے مزید نام ملے جو بائبل میں مذکور ہیں یعنی سدوم اور عمورہ۔ اسی طرح ایک اور شہر ارم کا ذکر بھی ملا جو ڈاکٹر پٹی ناٹو کے مطابق تاریخ دانوں کے لیے تو گمنام ہے، مگر قرآن کی 89 ویں سورہ میں مذکورہ ہے۔ یعنی 1978ء میں عبلہ کی کھدائی سے ثابت ہو گیا کہ ارم نام کا شہر اس دنیا میں کبھی موجود تھا۔
فروری 1992ء کے ٹائم میگزین کے مطابق مصنوعی سیارے سے لی گئی تصاویر کی مدد سے عمان کے قریب اسی شہر کے آثار دریافت کر لیے گئے ہیں۔ تقریباً 1900 فٹ ریت کے نیچے سے جو پہلی عمارت برآمد ہوئی، اس کی نمایاں چیز اس کے تقریباً نوے فٹ کے سربلند ستون ہیں:
’’دیکھا نہیں، کیا کیا تیرے خداوند نے عاد کے ساتھ، ستونوں والے ارم کے ساتھ۔‘‘ (الفجر89:6-7)
رسولوں کی تاریخ ہی کے حوالے سے قرآن مجید حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا ذکر کرتا ہے کہ وہ دنیا والوں کے لیے نشانی ہے۔ کچھ سال پہلے ایک روسی ہوا باز نے (جو راستہ بھٹک گیا تھا) برف میں پھنسی ہوئی ایک بہت بڑی کشتی کی موجودگی محسوس کی ہے۔ لہٰذا وہ دن دور نہیں جب قرآن مجید میں بیان کردہ دیگر نشانیوں کی طرح یہ نشانی بھی ایک انسان کے سامنے آ جائے گی:
’’اور ہم نے اس کو اپنے تختوں اور میخوں والی پر اٹھا لیا اور جو چلتی رہی، ہماری حفاظت میں۔ یہ ہم نے بدلہ لینے کے لیے کیا، اس کا جس کی ناقدری کی گئی اور ہم نے اس کو ایک نشانی بنا چھوڑا، تو ہے کوئی کہ سوچے سمجھے۔‘‘(قمر54:13-15)
’’پھر ہم نے نوح اور کشی والوں کو نجات دی اور کشی کو اہل عالم کے لیے نشانی بنا دیا۔‘‘ (العنکبوت29:15)
اگر ہم غور کریں تو کیا جدید تحقیقات نے موروثی عقیدے کے طور پر نہیں، بلکہ شعوری طور پر یہ یقین کرنا آسان نہیں کر دیا کہ اس کائنات کو بنانے والی ایک ذی شعور ہستی موجود ہے اور قرآن اس کا پیغام ہے جو اس نے ہماری رہنمائی کے لیے ہم تک پہنچایا ہے، ورنہ جن حقائق سے پردہ اب اٹھ رہا ہے، ان کی خبر نہایت صاف اور واضح الفاظ میں پندرہ سو سال پہلے کی کسی کتاب میں کیسے موجود ہے؟
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ ان حقائق کو ثابت کرنے کے لیے آیات کی کھینچ تان کر تشریح نہیں کی گئی، بلکہ یہ آیات کا سادہ ترجمہ ہے۔ اس ترجمہ کی تصدیق بغیر کسی تردد کے ہو سکتی ہے، کیونکہ قرآن مجید کا متن ایک زندہ زبان میں محفوظ ہے جسے تقریباً بیس کروڑ انسان بولتے ہیں اور بے شمار دوسرے اگر بولتے نہیں تو سمجھ سکتے ہیں۔
یہ سائنسی علم جو انسان نے صدیوں کی تحقیق اور مشقت کے بعد حاصل کیا ہے، کیسے ممکن ہے کہ پندرہ سو سال پہلے ایک انسان اس کا ادراک کر لے، اور پھر دنیا کے سامنے اسے کتاب کی صورت میں اس دعوے کے ساتھ پیش کرے کہ اس کا کوئی بیان کسی بھی زمانے میں غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا؟ ذرا غور کریں، کیا کوئی انسان، خواہ وہ نیوٹن ہو یا آئن سٹائن، ارسطو ہو یا افلاطون، دنیا جہان کے علوم سے متعلق صدیوں بعد کی پیش رفت کا محض اندازہ لگا کر اپنی کتاب میں ایسے چیلنج کے ساتھ پیش کر سکتا ہے؟ ہم جتنا بھی غور کر لیں، اس کی کوئی وضاحت ممکن نہیں، ماسوائے اس کے کہ یہ اس ہستی کا کلام ہے جو ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گی اور جس کا علم زمان و مکان کی قید سے بالا ہے:
’’ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اندر بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ قرآن بالکل حق ہے۔‘‘ (حم السجدہ 41:53)
کیا ہم تعلیم یافتہ لوگ اس لحاظ سے خوش قسمت نہیں کہ ہم اپنے علم کے ذریعے سے دو اور دو چار کی طرح اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اگر پندرہ سو سال قبل دی گئی قرآن کی یہ خبریں درست ہیں تو وہ خبریں بھی یقیناً درست ہوں گی، جو اس وقت ہمارے حواس کے دائرے میں نہیں آ رہیں۔
قرآن خبر دے رہا ہے کہ کسی اور جگہ پر ہماری ابدی زندگی ہوگی۔ قرآن خبر دے رہا ہے کہ جنت و جہنم واقعی ہیں، یہ محض استعارے نہیں۔ قرآن خبر دے رہا ہے کہ وہاں سزا بھی جسمانی ہوگی اور جزا بھی، وہاں ہم سب باقاعدہ ایک دوسرے سے مل سکیں گے، ایک دوسرے سے بات چیت کر سکیں گے، حتیٰ کہ جنتی اور جہنمی بھی ایک دوسرے سے رابطہ کر سکیں گے۔
قرآن خبر دے رہا ہے کہ اے انسانو! یہ دنیا تمہارا گھر نہیں، بلکہ دار العمل ہے۔ اسے گھر سمجھتے رہو گے تو مارے جاؤ گے، یہ زندگی تو محض کچھ دیر کی آزمائش اور امتحان ہے۔ اس کائنات کو بنانے اور اس میں زندگی اور موت کا سلسلہ تخلیق کرنے سے مقصود میرٹ پر تمہاری درجہ بندی ہے:
’’اور وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین (کائنات) کو چھ دنوں میں اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تمہارا امتحان کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے۔‘‘ (ہود 11:7)
’’ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو بھی ان کے مابین ہے، با مقصد اور ایک معین مدت تک کے لیے بنایا ہے۔‘‘ (الاحقاف 46:3)
’’وہی ہے جس نے زندگی اور موت کا سلسلہ تخلیق کیا، تاکہ وہ تمہارا امتحان کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے۔‘‘ (ملک 67:2)
اور قرآن ہی خبر دے رہا ہے کہ تمہاری اصل زندگی پردے کے پیچھے آخرت کی زندگی ہے جو کامیابی کی صورت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بادشاہی اور ناکامی کی صورت میں مدتوں کی ذلت اور ایسی دردناک سزا ہو گی کہ جس کا قرآن مجید میں تذکرہ پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قرآن بتاتا ہے کہ یہ محض ڈراوے نہیں ہیں، بلکہ ایسا ہو کر رہے گا:
’’اے انسانو! یقینی طور پراللہ کا وعدہ سچا ہے، سو کہیں تمھیں یہ دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔‘‘ (فاطر 35:5)
’’یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے سچا بھلا کون ہو سکتا ہے۔‘‘ (النساء 4:122)
’’یہ اللہ کا حتمی وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ وہ اس دنیا کے صرف ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ بالکل ہی بے خبر ہیں۔‘‘ (روم 30:6-7)
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اس دنیا سے رخصت ہونا پڑے گا۔ اب اگر وہ بطور عقیدہ نہیں، بلکہ بطور حقیقت کسی اور دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کو تسلیم کر لے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شعوری طور پر اس کی آسائش حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی نہ کرے، جبکہ موجودہ دنیا کی تھوڑی سی آسائش کے حصول کے لیے وہ اپنے دن رات لگا دیتا ہے۔ جب وہ اس عارضی دنیا کے لیے اتنی منصوبہ بندی اور محنت کرتا ہے تو ہمیشہ رہنے والی دنیا کے لیے کیوں نہیں کرتا؟ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا ہوگا، کیونکہ یہ کسی اور کا نہیں، ہمارے اپنے مستقبل کا معاملہ ہے:
’’اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کر رہا ہے تو وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے کر رہا ہے۔ اللہ عالم والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘ (العنکبوت 29:6)
’’جو نیک عمل کرے گا تو اپنے لیے کرے گا۔ اور جو برائی کرے گا، اس کا وبال اسی پر آئے گا اور تیرا رب بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں۔‘‘ (حم السجدہ 41:46)
ہر انسان اپنے عمل کے عوض رہن ہے۔ یہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ تزکیہ یا پاکیزگی کا کم سے کم معیار اسی دنیا میں حاصل کر کے اپنے آپ کو جہنم سے بچائے، وگرنہ آخرت میں اسے قیمت بہر صورت چکانی ہوگی:
’’ہر شخص اپنے اعمال کے بارے میں رہن ہوگا۔ صرف داہنے والے اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔‘‘ (المدثر74:38-39)
’’ہر ایک اپنی کمائی کے بدلے میں گروی ہوگا جو اس نے کی ہوگی۔‘‘ (الطور 52:21)
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جہنم تو ایک صفائی خانہ ہے، غلط طریقے سے زندگی گزارنے کے نتیجے میں جو گندگی انسان اپنے اوپر اس دنیا سے لے جاتا ہے، اس کی صفائی جہنم ہی میں ممکن ہے، مگر اس صفائی کے عمل میں گندگی کے تناسب سے لاکھوں کروڑوں سال بھی لگ سکتے ہیں، کیونکہ وہاں کے پیمانے ہماری دنیا کے مقابلے میں بہت بڑے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالی کو علم ہے کہ انسان آسانی سے ان سب چیزوں کا یقین کرنے والا نہیں، لہٰذا وہ قرآن مجید میں بار بار نہایت منطقی طریقے سے انسان کی توجہ کائنات میں موجود اپنی نشانیوں کی طرف دلاتا ہے تاکہ انسان جان سکے کہ وہ ہر چیز کو صرف اپنے پیمانوں سے ناپ تول نہیں سکتا۔
کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہماری زمین جو ہمیں اتنی وسیع و عریض نظر آتی ہے، کائنات میں اس کی حیثیت سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے سے بھی کم ہے؟ حالانکہ اس کا قطر تقریباً تیرہ ہزار کلومیٹر ہے۔ ہماری زمین، سورج کا ایک سیارہ ہے اور اس کا سورج سے اوسطاً فاصلہ چودہ کروڑ اٹھاسی لاکھ کلومیٹر ہے۔ یہ اپنے مرکز کے گرد سولہ سو کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گردش کر رہی ہے اور خلا میں سورج کے گرد ایک لاکھ دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ یعنی ہم جتنی دیر میں دو گھنٹے کی ایک وڈیو فلم دیکھتے ہیں، یہ ہمیں لے کر دو لاکھ بیس ہزار کلومیٹر فاصلہ طے کر جاتی ہے اور وہ بھی یوں کہ ہمیں کسی قسم کی حرکت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ سورج کے گرد اس کا ایک چکر چھیانوے کروڑ کلومیٹر کا ہوتا ہے اور وہ اسے ایک سال میں مکمل کرتی ہے۔
ہماری زمین کے علاوہ، سورج کے خاندان میں آٹھ سیارے اور بھی ہیں۔ مشتری اس خاندان کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔ اس کے حجم کا حال یہ ہے کہ اس میں ہماری زمین جیسی ایک ہزار زمینیں سما سکتی ہیں۔ یہ سورج سے 773280000 کلومیٹر دور ہے۔ دیگر سیارے عطارد، زہرہ، مریخ، زحل، یورینس، نیپچون اور پلاٹو ہیں۔ پلوٹو سورج کی فیملی کا آخری سیارہ ہے اور سوج سے اس کا فاصلہ 5872000000 کلومیٹر ہے۔
خود ہمارا یہ سورج جسے ہم روز دیکھتے ہیں اور جو ہمیں ایک معمولی گیند کی طرح دکھائی دیتا ہے، ہماری زمین جیسی چودہ لاکھ زمینوں کو اپنے اندر سمو سکتا ہے۔ یہ بھی ساکن نہیں، بلکہ خلا میں گیارہ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔ یہ اپنے عظیم حجم کے باوجود ہماری کہکشاں ’’ملکی وے‘‘ کا درمیانے حجم کا ایک ستارہ ہے۔
ہماری اس کہکشاں کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سورج اس کے اندر اپنا ایک چکر گیارہ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے سفر کرتا ہوا پچیس کروڑ سال میں پورا کرتا ہے۔ ہماری اس گلیکسی کا قطر تقریباً ایک لاکھ نوری سال ہے۔ یعنی اگر ہم ایک ایسا راکٹ یا خلائی جہاز بنا لیں جو 297600 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر سکے تو تب بھی اسے ہماری کہکشاں کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے میں ایک لاکھ سال لگیں گے۔
ہماری کہکشاں میں سورج کے علاوہ ایک سو ارب مزید ستارے ہیں جن میں سے بعض سورج سے کروڑہا گنا بڑے اور ہزارہا گنا زیادہ روشن ہیں مثلاً ستارہ انطورس سورج سے 3500 گنا زیادہ روشن ہے اور اپنے اندر چھ کروڑ سورج سمو سکتا ہے۔ یہ ہم سے تقریباً 330 نوری سال دور ہے۔ اس سے بھی بڑا ایک اور ستارہ بطل جوز سورج سے سترہ ہزار گنا زیادہ روشن اور ہم سے 270 نوری سالوں کی دوری پر ہے۔ ہماری کہکشاں میں اس سے بھی بڑے کئی ستارے ہیں جنہیں ’’دیو قامت اجرام‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان سے کروڑہا کلومیٹر بلند اٹھنے والے شعلے اللہ تعالی کی جلالی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر ان ستاروں کو سورج کی جگہ پر رکھ دیا جائے تو نہ صرف ہماری دنیا بلکہ ہمارے نظامِ شمسی میں سوائے آگ کے کچھ نہ ہو۔ مثلاً اگر شیاط نامی ستارے کو سورج کے مقام پر رکھ دیا جائے تو زہرہ اس کے محیط میں آ جائے اور اگر بطل جوز سورج کی جگہ آ جائے تو ہماری زمین اور مریخ کو اپنے اندر نگل لے اور اگر ارگائی نامی ستارہ سورج کے مقام پر آ جائے تو سیارہ یورینس اس کے محیط میں آ جائے گا۔ یعنی سورج سے لے کر یورینس تک آگ ہی آگ ہوگی اور نظام شمسی کی آخری حدود تک شعلے ہی شعلے ہوں گے۔
انسان ان اجرام فلکی کے حجم، چمک اور رفتار کے تصور سے کانپ جاتا ہے۔ ان کی تخلیق کے متعلق سوچنے لگیں تو عقل ساتھ نہیں دیتی، ذرا فاصلوں پر غور کریں تو اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں تو بھی اپنی ساری زندگی میں ان تک نہیں پہنچ سکتے۔ ان میں سے بعض ستارے بغیر کسی دوربین کے آسمان پر چمکتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چونکہ ہمیں ان کی عظمت کا علم نہیں، لہٰذا وہ ہمارے لیے محض ایک معمولی نقطہ ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں سب سے زیادہ اصرار اس بات پر کیا گیا ہے کہ ہم عقل استعمال کر کے اپنے گرد و پیش میں بکھرے مظاہر قدرت کی حقیقت کو جاننے کی سعی کریں۔ چونکہ اس کے بغیر نہ ان سب کو بنانے والی ہستی کی عظمت کا ہمیں شعور ہو سکے گا نہ ہم اس کی صحیح معرفت حاصل کر سکیں گے اور نہ اس سے اتنا ڈریں گے جتنا کہ اس سے ڈرنا چاہیے:
’’بے شک، اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈریں گے جو علم رکھنے والے ہیں، بے شک اللہ غالب اور بخشنے والا ہے۔‘‘ (فاطر 35:28)
بہرحال یہ حقیقت تو صرف ہماری کہکشاں کے 100 ارب ستاروں میں سے چند ایک کی ہے جس کے پیمانے بھی شاید ہماری محدود عقل میں آنے مشکل ہیں۔ اس سے آگے چلیں تو خود ہماری کہکشاں کا کائنات میں کوئی مقام نہیں۔ ہم اپنی کہکشاں کے علاوہ محض آنکھ سے مزید تین کہکشائیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک ’’انڈرومیڈا‘‘ ہے جو ہم سے اکیس لاکھ اسی ہزار نوری سال دور ہے۔ یہ ہماری کہکشاں سے ڈھائی گنا بڑی ہے۔ یعنی اس میں ستاروں کی تعداد ڈھائی سو ارب ہے۔
اس کائنات میں اربوں کہکشائیں ایسی بھی ہیں جنھیں محض عام انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ انھیں دیکھنے کے لیے انتہائی طاقت ور دوربینیں درکار ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے قریب نہیں، بلکہ ان کے درمیان لاکھوں کروڑوں نوری سال کے فاصلے ہیں۔ یہ تمام کہکشائیں ساکن نہیں، بلکہ اپنے مرکز کے گرد گردش کر رہی ہیں اور خلا میں چل بھی رہی ہیں۔ ان میں سے بعض کی رفتار کروڑ ہا میل فی گھنٹا ہے اور یہ ہم سے لاکھوں کروڑوں نوری سال دور ہیں۔ ان لاتعداد کہکشاؤں کے گھومنے اور ناقابل تصور رفتار سے سفر کرنے کا جادوئی منظر دوربینوں کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی دوربینیں لے کر اس فاصلے کے آخر تک پہنچ جائیں تو تب بھی یہی نظارہ ہوگا اور اس سے آگے بھی یہی نظارہ ہوگا، کیونکہ کائنات میں مسلسل وسعت ہو رہی ہے۔ انسانی علم ترقی کرتے کرتے، اس صدی میں پہنچ کر یہ چیزیں بیان کرنے کے قابل ہوا ہے، لیکن قرآن مجید نے پندرہ سو سال پہلے ہی یہ اطلاع ہمیں دے دی تھی:
’’اور آسمان کو ہم نے بنایا قدرت کے ساتھ اور ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں۔‘‘ (الذاریات 51:47)
یہ ہے اس کائنات کے پیمانوں کا ہلکا سا عکس، جو انسان بھی اس بے پایاں قوت، حیرت انگیز رفتار اور نور کے سیلاب پر غور کرے گا، وہ یقیناً پکار اٹھے گا:
’’اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ کارخانہ بے مقصد نہیں بنایا۔ تو اس بات سے پاک ہے کہ کوئی عبث کام کرے، سو تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘ (آل عمران 3:191)
پھر انسان کو اپنی یہ زندگی اور دنیا مصنوعی سی لگنے لگے گی۔ اس کا دل کانپنے لگے گا اور اس کے لیے یہ یقین کرنا قطعاً مشکل نہ رہے گا کہ اصل زندگی واقعی پردے کے پیچھے آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے، جسے ممکن بنانے والا کوئی ہماری طرح کا انسان نہیں، بلکہ وہ ہستی ہے جس نے یہ حیرت انگیز کائنات بنائی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی بارہا انسان سے سوال پوچھتے ہیں:
’’کیا تمھیں (مر کھپ جانے کے بعد دوبارہ) بنانا مشکل ہے یا اس کائنات کو جسے ہم نے بنایا ہے؟‘‘ (النٰزعٰت 79:27)
’’کیا انھوں نے نہیں سوچا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، وہ قادر ہے کہ ان کی مانند پھر پیدا کر دے۔‘‘ (بنی اسرائیل 17:99)
’’کیا انھوں نے غور نہیں کیا کہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں، وہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔‘‘ (احقاف 46:33)
ان سوالات کا جواب کوئی بھی انسان جسے اللہ کے وجود پر یقین ہے، کیا دے سکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ اے اللہ، واقعی تیرے لیے میرا دوبارہ پیدا کرنا مشکل نہیں، لیکن یہ جواب دینے سے پہلے اسے اپنے اوپر، اپنے گرد و پیش میں پھیلی ہوئی اللہ تعالی کی نشانیوں پر غور کرنا ہوگا، ورنہ اسے ہمیشہ اپنا دوبارہ پیدا کیا جانا مشکل نظر آتا رہے گا، حالانکہ اگر کسی شے کو بنانے میں مشکل پیش آسکتی ہے تو پہلی دفعہ آ سکتی ہے، دوبارہ بنانا تو آسان تر ہے۔
اس حقیقت کی طرف اللہ تعالی سورہ روم میں انسان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اور وہی ہے جو خلق کا آغاز کرتا ہے، پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے زیادہ آسان ہے۔‘‘ (الروم 30:27)
قرآن مجید میں اللہ تعالی انسان کو بے شمار سوالوں پر غور کی دعوت دیتے ہیں، لیکن اگر ہم قرآن مجید کو نظرانداز ہی کیے رکھیں گے، اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کریں گے تو کیسے پتا چلے گا کہ اللہ تعالی ہم سے کیا چاہتے ہیں؟
اگر ہم اپنا وقت اور ذہانت اللہ کے پیغام کو سمجھنے کے لیے صرف نہیں کریں گے تو ہمیشہ ہمارا ایک ہی اعتراض ہوگا کہ قرآن مجید سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمیں سنجیدگی سے اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ واقعی قرآن سمجھ میں نہیں آتا یا اصل بات یہ کہ ہم اسے سمجھنا ہی نہیں چاہتے؟ ہم پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ ہم ورثے میں ملے ہوئے عقیدے، سنی سنائی باتوں اور فرقہ بندی ہی میں نہ پھنسے رہیں، بلکہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے قرآن مجید کا بذات خود مطالعہ کریں۔ ہم ملاؤں کے دیے ہوئے تصور ہی کو نہ لے کر بیٹھے رہیں کہ قرآن ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ منطقی طور پر سوچیں، یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جس ہستی نے انسان کو بنایا ہے، اسے ہی معلوم نہیں کہ اسے بات کیسے سمجھانی ہے:
’’وہ تو دلوں کے بھیدوں سے بھی با خبر ہے۔ کیا وہ نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے، وہ تو بڑا ہی باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ (الملک 67: 13 ، 14)
اب بتائیں کیا ہمارے پاس اللہ تعالی کی اس دلیل کا کوئی جواب ہے؟ انسان کے ذہن میں جو شبہات اور سوالات ہوتے ہیں، ان کا جواب سب سے بہتر طریقے سے بھلا کون دے سکتا ہے؟ ظاہر ہے وہی جس نے انسان کو بنایا ہے:
’’اور ہم نے قرآن کو تذکیر کے لیے نہایت سازگار بنایا ہے، تو ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا۔‘‘ (القمر 54:32)
’’اور ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں طرح طرح سے ہر قسم کی حکمت کی باتیں بیان کی ہیں، لیکن اکثر لوگ انکار ہی پر اڑے ہوئے ہیں۔‘‘ (بنی اسرائیل 17:89)
قرآن کے طالب علم کو متعدد ایسی آیات ملیں گی جن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے، تاکہ قیامت کے دن کم سے کم اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے والے کوئی بہانہ پیش نہ کر سکیں۔ اگر اب بھی ہم اپنی خواہشات کی وجہ سے بے پروائی اور کنی کترانے کی روش اپنائے رکھیں، اللہ کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں تو یہ خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا اور اس کا خمیازہ کسی اور کو نہیں، بلکہ خود ہمیں ہی بھگتنا ہوگا:
’’جو ہدایت کی راہ پر چلتا ہے، وہ اپنے ہی لیے ہدایت کی راہ پر چلتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ہی اوپر وبال لاتا ہے اور کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ اٹھانے والی نہیں بنے گی۔‘‘ (بنی اسرائیل 17:15)
’’یہ تو بس دنیا والوں کے لیے ایک یاددہانی ہے۔‘‘ (یوسف 12:104)
’’اب تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور ایک واضح کرنے والی کتاب آ گئی۔ اس کے ذریعے سے اللہ ان لوگوں کو جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں، سلامتی کی راہیں دکھا رہا ہے اور اپنی توفیق بخشی سے ان کی تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لا رہا ہے اور ایک صراط مستقیم کی طرف ان کی رہنمائی کر رہا ہے۔‘‘ (المائدہ ،5 :15تا 16)
اب بھلا اس کتاب کو سمجھے بغیر ہمیں سلامتی کی راہیں کیسے معلوم ہو سکتی ہیں یا اسے غلاف میں لپیٹ کر رکھنے سے خود ہمارے اور دوسروں کے گھروں میں روشنی کیسے ہو سکتی ہے؟ جہالت اور گمراہی کے اندھیروں کو دور کرنے والی شمع قرآن کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اگر ہم نے اسے صرف طاق ہی میں سجا کر رکھا تو نہ صرف ہم، بلکہ ہمارے ساتھ ساتھ وہ بھی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے جنھیں یہ روشنی ورثے میں ملی ہی نہیں اور اس کی تمام تر ذمہ داری ہم ہی پر ہو گی۔
قرآن مجید سے دوری کے باعث ہم مسلمانوں میں کئی غلط فہمیاں رائج ہو گئی ہیں۔ ہم میں سے اکثریت کا تصور یہ ہو گیا ہے کہ ہم مسلمان بحیثیت امت بخشے ہوئے ہیں۔ نماز روزے کی پابندی اگر ہو گئی تو کیا کہنے، مزید درجات بلند ہوں گے۔ اس سے آگے بڑھ کر اپنا وقت اور توانائیاں صرف کر کے اللہ تعالی کے پیغام پر غور و فکر اور اس کی ترویج کو ضروری نہیں سمجھا جاتا، بلکہ بعض اوقات اسے انتہا پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ہماری طرح یہودی بھی اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم پیغمبروں کی امت ہیں، لہٰذا ہمیں جہنم کی آگ چھو نہیں سکتی۔ یہ سوچ نہ صرف قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے، بلکہ عقلی طور پر بھی صحیح نہیں ہو سکتی، کیونکہ کوئی انسان بھی اپنی مرضی سے مسلمان، یہودی، عیسائی یا ہندو کے گھر پیدا نہیں ہوتا۔ چونکہ پیدائش میں اس کی اپنی کوئی کوشش یا حصہ نہیں ہوتا، لہٰذا منطقی طور پر بھی محض پیدائش کی بنیاد پر اسے سزا یا انعام نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس کائنات کو بنانے والے کے نزدیک انصاف کی کوئی قدر نہیں۔ دیکھئے، کس خوبی سے اللہ تعالی یہ غلط فہمی دور کر رہے ہیں:
’’وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں۔ ہاں اگر چند دنوں کی سزا مل جائے تو مل جائے۔ ان سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھا ہے، جس کی وہ خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کرتے ہو جس کا تمھیں علم نہیں ہے۔ کیوں نہیں! جو کوئی بھی برائی کرے گا اور اپنی خطا کاری میں پڑا رہے گا، وہ جہنمی ہے اور جہنم میں ہمیشہ رہے گا۔‘‘ (البقرہ :2، 80 تا 81)
’’کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیے، ان کو زمین میں فساد مچانے والوں کی طرح کر دیں گے، یا ہم متقیوں کو کافروں کی طرح بنا دیں گے۔‘‘ (ص 38:28)
ہمارے تصورات کے بالکل برعکس، حقیقت یہ ہے کہ ہم سے پہلی مسلم امت بنی اسرائیل پر بھی اللہ تعالی نے شہادت علی الناس یعنی دوسری قوموں پر اپنے قول و عمل سے حق کی گواہی دینے کی ذمہ داری ڈالی تھی، لیکن انھوں نے بھی ہماری طرح اس ذمہ داری کو منصب سمجھ لیا تھا، لہٰذا وہ مغضوب قوم ٹھیری، کیونکہ جو لوگ بھی ذمہ داریاں اٹھا کر اسے نہیں نبھاتے، وہ اللہ کے نزدیک بدترین لوگ ٹھیرتے ہیں۔
آج ہم مسلمانوں کی حالت بھی ان جیسی ہے۔ ہم خود کو اللہ کی پارٹی کے رکن کہتے ہیں، لیکن ہم میں سے بیشتر یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ آخر بحیثیت پارٹی ممبر، ہمارے حقوق ہی ہیں یا کوئی ذمہ داری بھی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو فرد یا گروہ ذمہ داری اٹھا کر اسے نبھانے کی کوشش نہیں کرتا، اسے اللہ تعالی کبھی معاف نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ محض، عقیدے یا کلمہ پڑھ لینے کی بنیاد پر بخشے جانے کی نفی بھی اللہ تعالی نے بارہا، قرآن میں کی ہے:
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔‘‘ (تحریم 66:6)
غور فرمائیں، خطاب ایمان والوں سے ہو رہا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو کلمہ پڑھ چکے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو آگ سے بچائیں، لہٰذا محض کلمہ پڑھ لینے سے آگ سے چھٹکارا نہیں ہو سکتا۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالی ایک اور مقام پر ہمیں خبردار کر رہے ہیں:
’’اے ایمان والو! کیا میں بتاؤں تمھیں ایسی تجارت جو تمھیں ایک دردناک عذاب سے نجات دلا دے۔ وہ یہ ہے کہ (حقیقت میں) ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور پھر جدوجہد کرو اللہ کی راہ میں، اپنی جانوں اور اپنے مال کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو۔‘‘ (الصف 61: 10، 11)
غور کیجیے کہ خطاب پھر انہی سے ہو رہا ہے جو ایمان کے دعوے دار ہیں۔ انھیں انتباہ کیا جا رہا ہے کہ وہ الم ناک عذاب سے اسی صورت میں بچ سکتے ہیں اگر وہ حقیقت میں ایمان لائیں اور پھر اپنی جانوں اور اپنے مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جدوجہد بھی کریں۔ سورہ نازعات میں اللہ تعالی نے نجات کے مسئلے کو بالکل واضح کر دیا ہے:
’’تو جس شخص نے سرکشی اختیار کی اور آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو ترجیح دی، اس کا ٹھکانا جہنم ہی بنے گی۔ اور وہ جو اپنے رب کے حضور میں پیشی سے ڈرا اور جس نے اپنے نفس کو خواہش کی پیروی سے روکا تو اس کا ٹھکانا لاریب جنت ہے۔‘‘ (79: 37 تا 41)
لہٰذا، ایمان کوئی پیدائش کی بنیاد پر حاصل شدہ لیبل یا ٹائٹل نہیں، بلکہ ہر شخص کی ذہنی کیفیت ہے۔ محض لیبل لگا لینے، یا زبانی دعووں سے ہمارا اپنا اطمینان تو شاید ہو جائے، لیکن یہ سب بے کار ہوگا اگر ہماری سوچ تبدیل نہیں ہوتی، یعنی ہمارا ذہن صحیح معنوں میں اللہ تعالی کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا اور ہماری ترجیحات تبدیل نہیں ہوتیں۔
ایمان بالغیب کا مطلب کسی چیز کو بلا سوچے سمجھے ماننے کا نہیں، بلکہ سوچ سمجھ کر، عقل و فطرت کے قطعی دلائل کی بنیاد پر بن دیکھے ماننے کا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق آیندہ زندگی ہمارے حواس سے ماورا سہی، لیکن ہماری عقل سے ماورا نہیں۔ لہٰذا قرآن مجید کے مطابق ایمان ’’اندھا اعتقاد‘‘ نہیں، بلکہ ایک خالص عقلی حقیقت ہے، اور اسے عقلی طریقے ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ میراث میں ملنے والی کوئی شے نہیں۔
ایک اور خطرناک تصور جس میں انسان کی بے جا خواہشات اسے مبتلا رکھتی ہیں، وہ اللہ تعالی کی رحمت پر بھروسہ کر کے نا فرمانی اور گناہ کیے جانا ہے۔ حالانکہ جہاں وہ رحیم و کریم ہے، وہاں وہ عادل، بدلہ لینے والا اور منصف بھی تو ہے۔ لہٰذا، مکمل انصاف کرنا اس نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے:
’’اس نے اپنے اوپر اس رحمت کو لازم کر لیا ہے کہ تم سب کو قیامت کے روز جس کے ہونے میں کوئی شک نہیں، ضرور جمع کرے گا (تاکہ تمہارے مابین انصاف کر سکے)، لیکن وہ جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال رکھا ہے، اس بات کا یقین نہیں کرتے۔‘‘ (الانعام 6:12)
’’کیا ہم اپنے فرماں برداروں کو مجرموں کے برابر کر دیں گے؟ کیا ہو گیا ہے تم کو! یہ تم کس قسم کا فیصلہ کر رہے ہو؟‘‘ (القلم 68:35-36)
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں ہی نہ دیتے رہیں اور خود کو دھوکے ہی میں مبتلا نہ کیے رکھیں، اگر ہم نے نافرمانی ہی کی روش اپنانی ہے، تو اچھی طرح سوچ سمجھ لیں، کیونکہ اللہ تعالی کی کہی ہوئی بات اور اللہ کے کیے ہوئے وعدے کبھی جھوٹے نہیں ہو سکتے:
’’اے لوگو! یقینی طور پر اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ سو کہیں تمہیں یہ دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔‘‘ (فاطر35:5)
’’یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے، اور اللہ تعالی سے زیادہ وعدے کا سچا کون ہو سکتا ہے؟‘‘ (النساء 4:122)
’’یہ اللہ کا حتمی وعدہ ہے، اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ (الروم 30:6)
چونکہ اللہ تعالی نے ہماری موجودہ زندگی کو آزمائش کے اصول پر تخلیق کیا ہے لہٰذا وہ زبردستی انسانوں کو صحیح راستے کی طرف نہیں موڑتا، ورنہ آزمایش کا بنیادی تصور ہی ختم ہو جائے۔ پیغام اور پیغامبر کی ضرورت نہ رہے۔ زندگی اور موت کا سلسلہ بے معنی ہو جائے، بلکہ پوری کائنات کی تخلیق ہی بے مقصد ہو جائے۔
اللہ تعالی نے انسان کو ارادے اور انتخاب کی آزادی دے رکھی ہے، خیر و شر کی پہچان کی صلاحیت وجدانی طور پر ہمارے اندر رکھ دی ہے، اب اگر ہم اس صلاحیت سے کام نہ لیں اور اسے ضائع کر کے اندھے، بہرے بن جائیں تو اللہ تعالی ہمیں زبردستی ہدایت کی طرف نہیں لائے گا، ورنہ سزا و جزا کا تصور ہی بے معنی ہو جائے گا۔
ہدایت سے متعلق اللہ تعالی کا قانون تمام انسانوں کے لیے یہ ہے کہ وہ صرف اسے ہدایت دیتا ہے جو پہلے خود ہدایت کا طلب گار بنے۔ اس کا قانون اندھا، بہرہ نہیں ہے کہ ایک شخص ہدایت چاہتا ہی نہیں، وہ اسے زبردستی ہدایت کے راستے پر لے آئے اور دوسرا شخص ہدایت کا طلب گار ہو اور وہ اسے گمراہ کیے رکھے۔ لہٰذا اللہ تعالی اپنے بندوں کو اسی وقت ہدایت دیتے ہیں جب بندہ خود تہ دل سے ہدایت کا طلب گار بن جائے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے بقول یہ دروازہ صرف اسی کے لیے کھلتا ہے جو اسے کھٹکھٹاتا ہے اور جو اسے کھٹکھٹانے کی زحمت نہیں کرتا، اس کے لیے یہ کبھی نہیں کھلتا۔
قرآن مجید میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ قانون الٰہی نبیوں کی بیویوں، اولاد اور والدین تک کے لیے تبدیل نہیں ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹا، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ایک طرف، اور دوسری طرف فرعون کی بیوی، اس قانون کی واضح مثالیں ہیں۔ انتخاب کی اس آزادی کے متعلق اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’ہم نے انسان کو راہ سجھا دی ہے۔ اب وہ چاہے تو شکر گزاری کی روش اپنائے اور چاہے تو ناشکری کی۔‘‘ (الدہر 76:3)
گذشتہ کئی صدیوں سے ایسے ہی انتخابات کے اثرات ہم اسلامی تاریخ پر مرتب ہوتے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مسلمانوں نے علم، تحقیق اور حکمت کی راہ منتخب کی اور ترقی کے اس عروج پر پہنچے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں اس سے پہلے کہیں ملتی نہیں، اور پھر وہ وقت آیا جب انہوں نے تغافل، تن آسانی اور توہم کا راستہ اپنایا اور اس کا نتیجہ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے کہا، اللہ ربّ العزت کی اِس وسیع و عریض کائنات میں اُس کی قدرت کی نشانیاں ہر سُو بکھری پڑی ہیں۔ آخری وحی قرآنِ مجید جہاں بنی نوعِ اِنسان کے لئے حتمی اور قطعی ضابطہ حیات ہے، وہاں اِس کائناتِ ہست و بُود میں جاری و ساری قوانینِ فطرت بھی اِنسان کو الوہی ضابطہ حیات کی طرف متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔ قرآنِ مجید خارجی کائنات کے ساتھ ساتھ نفسِ اِنسانی کے درُوں خانہ کی طرف بھی ہماری توجہ دِلاتا ہے اور اُن دونوں عوالم میں قوانینِ قدرتِ الٰہیہ کی یکسانی میں غور و فکر کے بعد اپنے خالق کے حضور سر بسجدہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔ قرآنی علوم کے نور سے صحیح معنوں میں فیضیاب ہونے کے لئے ہمیں قرآنی آیات میں جا بجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق پر غور و فکر کرنا ہو گا۔
اِسلام نے اپنی پہلی وحی کے دِن سے ہی بنی نوعِ اِنسان کو آفاق و انفس کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کا حکم دیا۔ یہ اِسلام ہی کی تعلیمات کا فیض تھا کہ دنیا کی اُڈ ترین قوم احکامِ اِسلام کی تعمیل کے بعد محض ایک ہی صدی کے اندر دُنیا بھر کی اِمامت و پیشوائی کی حق دار ٹھہری اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے دنیا کو یونانی فلسفے کی لاحاصل مُوشگافیوں سے آزاد کراتے ہوئے فطری علوم کو تجربے کی بنیاد عطا کی۔ قرآنِ مجید کی تعلیمات کے زیر اثر یہ اُنہی کے اِختیار کردہ سائنسی طریقِ تحقیق کی بنیاد تھی جس کی بدولت ہزار ہا سال سے جاری سلسلہ علم انسانی نے عظیم کروَٹ لی اور موجودہ صدی نے اس کا پھل پایا۔
صدی جب کروَٹ بدلتی ہے تو ایک ممکن کو حقیقت کا روپ مل چکا ہوتا ہے۔ پچھلی نسل جس ترقی کی خواہش کرتی تھی موجودہ نسل اسے کئی منزلیں پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ سائنسی تحقیقات کی موجودہ تیزی نے زمین و آسماں کی پہنائیوں میں پوشیدہ لاتعداد حقائق بنی نوعِ اِنسان کے سامنے لا کھڑے کئے ہیں۔ آج سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے بنی نوعِ اِنسان کے ذِہن میں علم کے موجودہ عروج کا ادنیٰ سا تصور بھی موجود نہ تھا۔ اِنسان یوں جہل مرکب میں غرق تھا کہ اپنی جہالت کو عظمت کی علامت گردانتے ہوئے اُس پر نازاں ہوتا تھا۔ اِسلام کی آفاقی تعلیمات نے اُس دَورِ جاہلیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ہزارہا ایسے فطری ضوابط کو بے نقاب کیا جن کی صداقت پر دَورِ حاضر کا سائنسی ذِہن بھی محوِ حیرت ہے۔
قرونِ وسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں نے جن سائنسی علوم کی فصل بوئی تھی آج وہ پک کر جوان ہو چکی ہے اور موجودہ دَور اُسی فصل کو کاشت کرتے ہوئے اُس کے گوناگوں فوائد سے مستفید ہو رہا ہے۔ مسلمان جب تک علمی روِش پر قائم رہے سارے جہان کے اِمام و مقتدا رہے اور جونہی علم سے غفلت برتی ’’ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘‘۔ اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارے اسلاف کا علمی وِرثہ اپنے اندر ہونے والے بے شمار اِضافہ جات کے ساتھ اَغیار کا اوڑھنا بچھونا ہے اور ہم اُن کے پیچھے علمی و ثقافتی اور سیاسی و معاشی میدانوں میں دَر دَر کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
2جنوری 1492ء کا تاریخی دِن مغربی دنیا کیلئے علم و فن، تہذیب و تمدّن اور سائنس و ٹیکنالوجی کا تحفہ لئے طلوع ہوا۔ غرناطہ میں ہونے والی سیاسی شکست کے بعد مسلم قوم ذہنی شکست خوردگی کی دلدل میں اُلجھ کر سو گئی اور عالمِ مغرب مسلمانوں کی تحقیقات و اِکتشافات پر سے اُن کے موجدوں کا نام کھرچ کر اُنہیں اپنے نام سے منسوب کرنے لگا۔ اِسلامی سپین کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم عیسائی و یہودی طلباء مسلمانوں کا علمی وطیرہ اپنے ساتھ اپنے ممالک کو لے گئے اور ہم غرناطہ میں سیاسی شکست کھانے کے بعد اُسے مقدّر کا لکھا کہتے ہوئے رو پیٹ کر بیٹھ رہے اور سیاسی میدان میں ہونے والی شکست کے بعد علمی میدان سے بھی فرار کا راستہ اِختیار کر لیا۔ اَغیار نے ہمارے علمی وِرثے سے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور سائنسی ترقی کی اوجِ ثریا تک جا پہنچے۔ غفلت کی نیند بے سُدھ پڑی مسلمان قوم کو فقط ایک ٹہوکے کی ضرورت ہے، فقط اپنی میراث سے شناسائی ضروری ہے، جس روز اِس قوم نے اغیار کے قبضے میں گھری اپنی قیمتی متاع کو پہچان لیا یقیناً اپنے کھوئے ہوئے وِرثے کے حصول کے لئے تڑپ اُٹھے گی، وہ دِن تاریخ عالم کا سنہری دِن ہو گا۔
بیسویں صدی عالم اِسلام کے لئے اللہ ربّ العزت کی بے شمار نعمتیں لئے آئی۔ اِس صدی میں جہاں کرۂ ارضی کے بیشتر مسلمان سیاسی آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے وہاں علمی میدان میں بھی مثبت تبدیلی کے آثار نمودار ہوئے، لیکن مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف آزادی کے اثرات کو اپنے عوام کی پہنچ سے دُور رکھا بلکہ صحیح فطری خطوط پر اُن کی تعلیم کا خاطر خواہ اِنتظام بھی نہ کیا، جس کی وجہ سے قحط الرجال کا مسئلہ جوں کا توں باقی رہا۔ اِس وقت دنیا کی اکانومی کا بڑا اِنحصار تیل پید ا کرنے والے مسلمان ممالک پر ہے۔ عرب کی دولت مسلمانوں کی معاشی اَبتری سے نجات اور عالمی سطح پر سیاسی تفوق کی بحالی کے لئے بہترین مددگار ثابت ہو سکتی تھی مگر افسوس کہ وہ بھی شاہی اللوں تللوں میں ضائع ہو گئی اور مِن حیث المجموع اُمت مسلمہ اُس سے کوئی خاص فائدہ نہ اُٹھا سکی۔
عالم اِسلام کے موجودہ زوال و اِنحطاط کا بنیادی سبب جہالت، علمی روِش سے کنارہ کشی اور صدیوں کی غلامی کے بعد ملنے والی آزادی کے با وجود جاہل حکمرانوں کا اپنی قوم کو حقیقی علومِ اِنسانی کے حصول میں پس ماندہ رکھنا ہے۔ نئی نسل کی ذہانت صدیوں سے مسلّط عالمی محکومی کے زیر اثر دب کر رہ گئی ہے۔ دورِ حاضر کے مسلم نوجوان کے تشکیک زدہ اِیمان کو سنبھالا دینے کی واحد صورت یہ ہے کہ اُسے اِسلامی تعلیمات کی عقلی و سائنسی تفسیر و تفہیم سے آگاہ کرتے ہوئے سائنسی دلائل کے ساتھ مستحکم کیا جائے۔ قومی سطح پر چھائے ہوئے اِحساسِ کمتری کے خاتمے کے لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ نئی نسل کو مسلمان سائنسدانوں کے کارناموں سے شناسا کیا جائے تاکہ اُس کی سوچ کو مثبت راستہ ملے اور وہ جدید سائنسی علوم کو اپنی متاع سمجھتے ہوئے اپنے اسلاف کی پیروی میں علمی و سائنسی روِش اپنا کر پختہ علمی بنیادوں کے ساتھ احیائے اِسلام کا فریضہ سرانجام دے سکے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ سائنسی علوم جانتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ اِسلامی تعلیمات سے اِستفادہ کر سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں مستشرقین کی طرف سے اِسلام پر ہونے والے اِعتراضات کے ٹھوس عقلی و سائنسی بنیادوں پر جواب کے لئے جدید علمِ کلام کو باقاعدہ فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ اِس سے نہ صرف مغربی اَفکار کی یلغار کی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں اپنے عقائد و نظریات کے بارے میں جنم لینے والی تشکیک سے نجات ملے گی بلکہ غیر مسلم اقوام پر بھی اِسلام کی حقانیت عیاں ہو گی۔
ہماری یہ کتاب اسی راہ پر پہلا قدم ہے۔ اگر آپ کا تعاون شامل حال رہا تو انشاء اللہ اس موضوع پر دیگر گزارشات بھی یکے بعد دیگرے پیش کرتے رہیں گے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے ہم اس کتاب میں پیش کردہ ہستیوں کے حالاتِ زندگی پڑھ کر ان سے inspiration حاصل کریں اور اپنی زندگی اس انداز میں تعمیر کریں جو موجودہ دنیا کے لئے باعث نفع اور آنے والی نسلوں کے باعث رہنمائی ثابت ہو سکے۔
٭٭٭
٭٭٭
یہ کتاب القلم ریسرچ لائبریری میں شامل عظیم احمد کی کتاب ’مسلم سائنس دانوں کا انسائکلو پیڈیا‘ کا حصہ ہے، جسے رفاہ عام کے لئے الگ سے شائع کیا جا رہا ہے۔
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اسلام علیکم اچھی کاوش ہے اللہ اپکو جزاے خیر عطا کر میرا مشورہ یہ ہے اگر میس بک پر ہو سکے تو ایسے تحریر پوسٹ کی جاے تو بہت سود مند ثابت ہوں گی واں پر ملحد بہت زور شور سے اندھرہ پھلا رے ہیں