FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ریاض الصالحین

 

امام نوویؒ

جلد اول – ث

حرام کردہ کاموں کا بیان

 

۲۵۴۔ باب: غیب کی حرمت اور زبان کی حفاظت کرنے کا حکم

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے ،کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟تم اسے نا پسند کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو، یقیناً اللہ بہت رجو ع کرنے والا ،نہایت مہربان ہے۔ (الحجرات:۱۲)

نیز فرمایا: اس چیز کے پیچھے مت پڑ و جس کا تمہیں علم نہیں ، بے شک کان، آنکھ اور دل ان سب ہی سے باز پرس ہو گی۔ (الاسرا:۳۶)

اور فرمایا: ’’انسان جو لفظ بھی بولتا ہے تو اس کے پاس ہی ایک نگران تیار ہے۔ ‘‘ (ق:۱۸)

امام نو وی ؒ بیان کرتے ہیں : جان لیجئے کہ ہر مکلف کو چاہئے کہ وہ اپنی زبان کو ہر قسم کی گفتگو سے محفوظ رکھے ، وہ صرف وہ گفتگو کرے جس میں مصلحت ہو۔ اور جب مصلحت کے اعتبار سے بولنا اور خاموش رہنا برابر ہو تو پھر خاموش رہنا سنت ہے ،اس لیے کہ بعض دفعہ جائز گفتگو بھی حرام یا مکروہ تک پہنچا دیتی ہے اور یہ عام طور پر ہوتا ہے اور سلامتی کے برابر تو کوئی چیز نہیں۔

۱۵۱۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ اور یوم آخر ت پر ایمان رکھتا ہے اور وہ خیرو بھلائی کی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔ (متفق علیہ)

امام نو وی۔ ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بارے میں واضح ہے کہ بندے کو گفتگو صرف اسی وقت کرنی چاہیے جب اس میں بھلائی ہو اور یہ وہی بات ہے جس کی مصلحت ظاہر ہو اور جب مصلحت کے ظاہر ہونے میں شک ہو تو پھر گفتگو نہ کی جائے۔

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۳۰۹) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۱۲۔ حضرت ابو موسیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !مسلمانوں میں سے کون افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : أخر جہ الخباری (/۵۴۱۔ فتح)و مسلم (۴۲)۔

۱۵۱۳۔ حضرت سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھے اس چیز کی ضمانت دے دے جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے اور جو چیز اس کی دو ٹانگوں کے درمیان ہے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۰۸۱۱۔ فتح)،ولم أرہ فی ( (صحیح مسلم))

۱۵۱۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :بندہ کبھی ایک بات کرتا ہے اور وہ اس کے (خیر و شر ہونے کے) بارے میں غور و فکر نہیں کرتا تو وہ اس ایک بات کی وجہ سے مشرق و مغرب کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ جہنم کی آگ کی طرف گر جاتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۰۸۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۹۸۸)

۱۵۱۵۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: بے شک بندہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی والا (ایک ایسا)کلمہ بولتا ہے، اس کی طرف اس کی توجہ بھی نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسکے درجات بلند فرما دیتا ہے اور (بعض اوقات) بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والا کلمہ بولتا ہے ، وہ یہ کلمہ بے خیالی میں کہہ دیتا ہے لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں گر جاتا ہے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۰۸۱۱۔ فتح)۔

۱۵۱۶۔ حضرت ابو عبد الرحمن بلال بن حارث مزنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی اللہ تعالیٰ کی رضامندی والا کلمہ بو لتا ہے ، اسے گمان بھی نہیں ہو تا کہ یہ کہاں تک پہنچ جائے گا؟ اللہ تعالیٰ اس کلمے کی وجہ سے قیامت تک کے لئے اس آدمی کے لیے اپنی رضامندی لکھ دیتا ہے اور آدمی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا کلمہ بولتا ہے ، اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں تک پہنچے گا؟لیکن اللہ اس کی وجہ سے اپنی ملاقات کے دن (قیامت) تک اس کے لیے اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے۔             (مؤ طا، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

۱۵۱۷۔ حضرت سفیان بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسا کام بتائیں کہ جس پر میں مضبوطی سے عمل پیرا ہو جاؤں ؟آپ نے فرمایا: تم کہو میرا رب اللہ ہے پھرا س پر قائم اور ثابت ہو جاؤ۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ میرے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ کونسی چیز خیال کرتے ہیں ؟آپ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا، پھر فرمایا: یہ (یعنی زبان)۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح بطرقہ۔ اخرجہ الترمذی (۲۴۱۰)و ابن ماجہ (۳۹۷۲)و احمد (/۴۱۳۳)۔

اس حدیث کی سند ضعیف ہے اس میں عبد الرحمن بن ماعز ہے اور اس سے صرف زہری روایت کرتا ہے۔ لیکن یہ اختصار سے مسلم (۳۸)میں بھی موجود ہے اور اسے دارمی (/۲۹۸۲۔ ۲۹۹)نے بھی روایت کیا ہے۔

۱۵۱۸۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ اور زیادہ باتیں نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ اور زیادہ باتیں دل کی سختی ہے اور اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور سخت دل (والا آدمی)ہے۔ (ترمذی)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ الترمذی (۲۴۱۱)

اس حد کی سند میں ابراہیم بن عبداللہ بن حاطب ہے جس کے بارے میں ابن القطان نے التہذیب (/۱۳۳۱) میں کہا ہے ’’لا یعرف حالہ‘‘ کہ یہ غیر معروف ہوتے ہے۔

۱۵۱۹۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس چیز کے شر سے بچا لیا جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے (زبان) اور اس چیز کے شر سے بچا لیا جو اس کی دو ٹانگوں کے درمیان ہے (شرم گاہ) تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (ترمذی۔ حدیث ہے)

توثیق الحدیث : صحیح بشواھدہ۔ اخرجہ الترمذی (۲۴۰۹)۔

یہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے ، اس میں محمد بن عجلان صدوق راوی ہے اور مسلم میں موجود سہل بن سعد ؓ والی روایت اس کا شاہد گزر چکی ہے۔

۱۵۲۰۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! نجات کس طرح ممکن ہے ؟ آپ نے فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھو، تمہارا گھر تمہیں کافی ہونا چاہیے اور اپنی غلطیوں پر خوب رویا کرو۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح بشواھدہ۔ اخرجہ ابن المبارک فی ( (الزھد) (۱۳۴)وعند احمد (/۲۵۹۵)و الترمذی (۲۴۰۶)۔

یہ حدیث اس سند سے تو ضعیف ہے ،کیونکہ اس میں عبید اللہ بن زحر اور علی بن یزید ضعیف راوی ہیں لیکن مسند احمد (/۱۳۸۴) اور طبرانی (/۱۵۹۰۔ من المنتخب منہ) وغیرہ میں اس کے شاہد موجود ہیں ،اس لئے یہ حدیث بالجملہ صحیح ہے۔

۱۵۲۱۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب انسان صبح کرتا ہے تو تمام اعضا زبان سے بڑ ی عاجزی کے ساتھ درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں

اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ،ہم تو تیرے ساتھ وابستہ اور تیرے۔ تابع ہیں ،پس اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔           (ترمذی)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ الترمذی (۲۴۰۷)و احمد (/۹۵۳۔ ۹۶)و ابن المبارک فی ( (الزھد)) (۱۰۱۲)

۱۵۲۲۔ حضرت معاذؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے اور جہنم کی آگ سے دور کر دے ؟ آپ نے فرمایا: تم نے یقیناً بہت بڑ ی چیز کے بارے میں پوچھا ہے ، لیکن وہ اس شخص پر یقیناً آسان ہے جس پر اللہ تعالیٰ اسے آسان فرما دے ،تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،نماز قائم کرو،زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں خیرو بھلائی کے دروازے نہ بتاؤں ؟ روزہ ڈھال ہے ،صدقہ گنا ہوں کوا س طرح ختم کر دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو ختم کر دیتا ہے اور رات کے آخر ی حصے میں آدمی کا نماز پڑھنا۔ پھر آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں : ان کے پہلو بستروں سے دور رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ آپ نے (یعلمون) تک تلاوت فرمائی ،پھر فرمایا: کیا میں تمہیں دین کے سر، اس کے ستون اور اس کے کوہان کی بلندی کے بارے میں نہ بتاؤں ؟میں نے عرض کیا: کیوں نہیں یار سول اللہ ! آپ نے فرمایا: دین کا سر اسلام ہے ، اس کا ستون نماز ہے اور اسکے کوہان کی بلندی جہاد ہے پھر فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس پر ان سب کا دارو مدار ہے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں یا رسول اللہ !پس آپ نے اپنی زبان پکڑ ی اور فرمایا اسے روک کر رکھو۔ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ ! ہم جو اس کے ذریعے بات چیت کرتے ہیں ، کیا اس پر ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں تجھے گم پائے !لوگوں کو ان کی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتیاں ہی تو اوندھے منہ جہنم میں گرائیں گی۔ (ترمذی، حدیث حسن صحیح ہے اس کی شرح اس سے پہلے گزر چکی ہے)

توثیق الحدیث : صحیح بطرقہ۔ اخرجہ الترمذی (۲۶۱۶)و ابن ماجہ (۳۹۷۳)و احمد (۵ /۲۳۱)۔

اس کے کئی ایک طرق ہیں جو علت سے خالی نہیں ، لیکن اس کے جملوں کے الگ الگ شواہد موجود ہیں جن کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے۔ (واللہ اعلم)

۱۵۲۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تیرا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا جو اسے ناپسند ہو۔ آپ سے عرض کیا گیا: آپ فرمائیں کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں اگر وہ میرے بھائی میں ہو (تو کیا پھر بھی وہ بات غیبت ہو گی)؟ آپ نے فرمایا:اگر تو وہ چیز اس میں ہے جو تم کہتے ہو تو یقیناً تم نے غیبت کی اور اگر وہ چیز اس میں نہیں جو تم نے بیان کی تو پھر تم نے اس پر بہتان باندھا ہے۔          (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۵۸۹)۔

۱۵۲۴۔ حضرت ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عید الاضحی کے دن منیٰ کے مقام پرا پنے خطبے میں فرمایا: بے شک تمہارے خون تمہارے اموال، تمہاری عزتیں تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے ،سن لو!کیا میں نے (دین)پہنچا نہیں دیا۔ (متفق علیہ)۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۵۷۱۔ ۱۵۸۔ فتح)و مسلم (۱۶۷۹)۔

۱۵۲۵۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے عرض کیا : آپ کے لیے صفیہؓ۔ (آپ کی زوجہ محترمہ) کا ایسا ایسا ہونا کافی ہے ،بعض راویوں نے بیان کیا ہے ان کی مراد یہ تھی کہ وہ پستہ قد ہیں۔ پس آپ نے فرمایا :تم نے ایسی بات کہی ہے اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو یہ اس کا ذائقہ بدل ڈالے۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے۔ آ پ کے سامنے ایک آدمی کی نقل ہی اتاری ہے۔ تو آپ نے فرمایا:میں پسند نہیں کرتا کہ میں کسی آدمی کی نقل اتاروں اگرچہ مجھے اس کے بدلے میں اتنا اتنا مال ملے۔ (ابوداؤد۔ ترمذی حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح اخرجہ ابو داؤد (۴۸۷۵) ،و الترمذی (۲۵۰۲) ،و احمد (/۱۸۹۶)۔

۱۵۲۶۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے میں نے کہا اے جبرائیل!یہ کون لوگ ہیں ؟ تو انھوں نے بتایا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتوں کو پا مال کرتے تھے۔              (ابوداؤد)

۱۵۲۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کا خون، اس کی عزت اور اس کا مال حرام ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۵۶۴)۔

۲۵۵۔ باب :غیبت سننا حرام ہے ،اگر کوئی شخص غیبت محرمہ سنے تو وہ اس کا رد کرے اور غیبت کرنے والے کو منع کرے ،اگر وہ عاجز ہو یا اس کی بات نہ مانی جائے تو ممکن ہو تو اس مجلس سے الگ ہو جائے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور جب وہ کوئی بے ہو دہ بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کر لیتے ہیں۔ (القصص : ۵۵)

نیز فرمایا: مومن بے ہودہ باتوں سے اعراض کرنے والے ہوتے ہیں۔ (المؤمنون:۳)

اور فرمایا:بے شک کان، آنکھ اور دل، ان سب سے باز پرس ہو گی۔ (الا سرا :۳۶)

نیز فرمایا: جب تو ایسے لوگوں کو دیکھے جو ہمارے حکموں میں طعن و تشنیع کر رہے ہوں تو اس ان سے اعراض کر لے یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مصروف ہو جائیں اور اگر تجھے شیطان بہلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے پا س مت بیٹھ۔     (الأنعام:۶۸)

۱۵۲۸۔ حضرت ابودردا ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کیا تو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اس کے چہرے کو آگ سے محفوظ رکھے گا۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح أوحسن۔ اخرجہ الترمذی (۱۹۳۱)و احمد (/۴۵۰۶)والدولابی فی ( (الکنی)) (/۱۲۴۱)و ابن أبی دنیا فی ( (الصمت)) (۲۵۰)۔

۱۵۲۹۔ حضرت عتبان بن مالک ؓ اپنی اس مشہور اور طویل حدیث میں جو ’’باب الرجا‘‘ میں گزر چکی ہے بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا: مالک بند خشم کہا ہے ؟ ایک آدمی نے کہا:وہ تو منافق ہے ،وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت نہیں کرتا۔ پس نبیﷺ نے فرمایا ایسے مت کہو،کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا ہے وہ اس کے ذریعے اللہ کی رضا مندی چاہتا ہے ، بے شک اللہ نے اس شخص کو آگ پر حرام قرار دیا ہے جس نے اللہ کی رضا مندی کی خاطر لا الہ الا اللہ کہا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۴۱۷)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۳۰۔ حضرت کعب بن مالک ؓ اپنی اس طویل حدیث میں جو ان کی توبہ کے قصے کے بارے میں ہے ،وہ بیان کرتے ہیں کی نبیﷺ جب تبوک میں لوگوں کے ساتھ تشریف فرما تھے تو آپ نے فرمایا:کعب بن مالک نے کیا کیا ؟بنو سلمہ کے ایک آدمی نے کہا : یا رسول اللہ ! اس کو اس کی دونوں چادروں اور اسکے دونوں کناروں پر نظر کرنے (یعنی خود پسندی)۔ نے روک لیا۔ (یہ سن کر)حضرت معاذ بن جبل ؓ نے کہا : تم نے بہت بری بات کی، اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ !ہم توا س کے بارے میں صرف خیر ہی جانتے ہیں َپس رسول اللہﷺ خاموش رہے۔    (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۱) ملاحظہ فرمائیں۔

۲۵۶۔ باب: غیبت کی جائز صورتیں

جان لیجئے کہ کسی صحیح شرعی مقصد کے لیے غیبت کرنا جائز ہے ،جب کہ اس کے بغیر اس مقصد تک پہنچنا ممکن نہ ہو اور اس کے چھ اسباب ہیں :۔

(۱)کسی سے ظلم کی شکایت کرنا :مظلوم کے لیے جائز ہے کہ وہ بادشاہ ،قاضی یا کسی صاحب اختیار شخص یا ایسے شخص سے اپنے ظلم کی شکایت کرے جس سے ظالم کے خلاف انصاف ملنے کی توقع ہو۔ اس کے پاس جا کر کہے فلاں شخص نے اس طرح مجھ پر ظلم کیا ہے۔

(۲)برائیوں اور گنا ہوں کو روکنے اور گناہ گار کو راہ راست پر لانے کے لیے مدد طلب کرنا پس جس شخص سے یہ امید ہو کہ اس میں برائی کو روکنے کی قوت ہے تو اسے یہ بتانا کہ فلاں شخص یہ برائی کر رہا ہے ، پس وہ اس شخص کو ڈانٹ۔ ڈپٹ کرے یا اس طرح کی کوئی بات کرے اور اس کا مقصد یہ ہو کہ برائی کو روکا جائے۔  اگر یہ مقصد پیش نظر نہ ہو تو پھر ایسی شکایت کرنا جرم ہو گا۔

(۳)     فتویٰ طلب کرنا: کوئی شخص مفتی کو یہ  بتائے کہ میرے باپ یا میرے بھائی یا میرے خاوند یا فلاں شخص نے میرے ساتھ یہ ظلم کیا ہے ، کیا اس کو یہ حق پہنچتا ہے ؟ اور اس سے نجات پانے کا میرے لیے کیا طریقہ ہے ،تاکہ مجھے میرا حق مل جائے اور میں اس کے ظلم سے بچ جاؤں ؟ اور اس طرح کی کوئی بات کرے تو بوقت ضرورت جائز ہے لیکن افضل اور محتاط طریقہ یہ ہے کہ وہ نام لیے بغیر اس طرح کہے کہ آپ ایسے آدمی یا شخص یا خاوند کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس کا معاملہ اس طرح ہے ؟ اس طرح وہ کسی کا نام لیے بغیر اپنا مقصد یعنی فتویٰ حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن کسی کا نام لینا بھی جائز ہے جیسا کہ ہم حدیث ہند میں اس کا تذکرہ کریں گے۔ (ان شا اللہ)

(۴)     مسلمانوں کو برائی سے ڈرانا اور ان کی خیر خواہی کرنا: اس کے متعدد طریقے ہیں ،مثلاً سند کے مجروح راویوں اور گوا ہوں کے بارے میں جرح کرنا ،یہ مسلمانوں کے اجماع سے جائز ہے بلکہ ضرورت کے تحت واجب ہے۔ یا جیسے کسی سے شادی کا تعلق قائم کرنے یا کاروباری شراکت کرنے یا اس کے پاس امانت رکھوانے یا اس کے ساتھ کسی قسم کا معاملہ کرنے یا اس کی ہمسائیگی اختیار کرنے کے بارے میں ایک دوسرے سے مشورہ کرنا ہے پس اس صورت میں جس شخص سے مشورہ کیا جائے اس پر واجب ہے کہ وہ اس کی کوئی بات نہ چھپائے بلکہ خیر خواہی کی نیت سے اس کی تمام برائیاں بیان کر دے (تاکہ وہ شخص اس قسم کے لوگوں سے معاملات کرنے سے بچ جائے)۔

اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص کسی طالب علم کو کسی بد عتی یا فاسق شخص کے پاس علم حاصل کرنے کیلئے جاتا ہوا دیکھے اور اسے اندیشہ ہو کہ اس طالب علم کو ایسے شخص سے نقصان پہنچے گا تو پھر اس طالب علم سے خیر خواہی کرتے ہوئے اس کے حالات بیان کرنا اس شخص پر واجب ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ خیر خواہی ہی مقصود ہو۔ اور یہ معاملہ ایسا ہے کہ اس میں غلطیوں کا ارتکاب ہو جا تا ہے ، کبھی حسد ایسی بات کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور شیطان اس پر معاملے کو غلط ملط کر دیتا ہے اور اسے یہ بات باور کراتا ہے کہ یہ خیر خواہی ہے۔ پس اس مسئلے میں انسان کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ شیطان کی چال کا شکار نہ ہو جائے۔ یا یہ صورت ہو کہ کسی شخص کے پاس کوئی عہد ہو منصب ہو لیکن وہ اس کا صحیح حق ادا نہ کر رہا ہو ،یا تو اس لیے کہ اس میں اس کی صلاحیت ہی نہیں یا یہ کہ وہ فاسق ہے یا اس ذمہ داری سے غافل ہے تو پھر ایسے شخص کے بارے میں اس کے امیر کو بتانا واجب ہے تاکہ وہ اسے ہٹا دے اور ایسے شخص کو اس منصب پر فائز کرے جواس کی اصلاح کرے یا وہ اس معاملے کی اصل صورت حال سے باخبر ہو جائے گا تاکہ وہ حالات کے تقاضے کے مطابق اس میں۔ معاملہ کرے اور اسکے بارے میں کسی دھوکے میں مبتلا نہ ہو اور یہ اس بات کی کوشش کرے کہ اسے سیدھے راستے پر قائم رہنے کی ترغیب دے یا پھر اسے بدل دے۔

(۵)     یا  پھر کوئی اعلانیہ طور پر اپنے فسق یا بدعت کا ارتکاب کرنے والا ہو جیسے کوئی اعلانیہ شراب نوشی کرے، لوگوں پر ظلم کرے، ٹیکس وصول کرے، لوگوں سے ظلماً مال حاصل کرے اور امور باطلہ کی سر پرستی کرے۔ پس وہ جو کام کھلم کھلا کرے تو اسے بیان کرنا جائز ہے ، اس کے علاوہ اس کے دوسرے مخفی عیوب بیان کرنا حرام ہے ،الا یہ کہ اس کے جواز کا کوئی دوسرا سبب ہو جو ہم نے بیان کیا ہے۔

(۶)      کسی کو معروف نام سے پکارنا : جب انسان کسی لقب سے معروف ہو جیسے اعمش (چندھا)، اعرج (لنگڑا) ،اصم (بہرا)،اعمی (اندھا)اور احول (بھینگا)وغیرہ تو ان ناموں کے ساتھ جو تعارفی نام ہیں ، پکارنا جائز ہے ،لیکن کسی کی تحقیرو تنقیص کے لیے اس طرح پکارنا حرام ہے اور اگر اس کے علاوہ اس کا تعارف ممکن ہو تو بہتر ہے۔ یہ وہ چھ اسباب ہیں جو علما نے بیان کیے ہیں اور ان میں سے اکثر پر علما کا اتفاق ہے اور احادیث صحیحہ سے ان کے دلائل مشہور ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :۔

۱۵۳۱۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: اسے اجازت دے دو، یہ اپنے خاندان کا برا آدمی ہے۔          (متفق علیہ)

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے اہل فساد اور مشتبہ لوگوں کی غیبت بیان کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۷۱۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۵۹۱)۔

۱۵۳۲۔ حضرت عائشہ ؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نہیں سمجھتا کہ فلاں فلاں شخص ہمارے دین کے بارے میں کچھ جانتے ہوں۔ (بخاری)اس حدیث کے راوی لیث بن سعد بیان کرتے ہیں کہ یہ دونوں آدمی منافقین میں سے تھے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۸۱۰۔ فتح)۔

۱۵۳۳۔ حضرت فاطمہ بنت قیس ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو عرض کیا کہ ابو جہم اور معاویہ ان دونوں نے مجھے پیغام نکاح بھیجا ہے (آپ مجھے مشورہ دیں) رسول اللہﷺ نے فرمایا: معاویہ تو فقیر آدمی ہے اس کے پاس کوئی مال نہیں ہے اور جو ابوجہم ہے وہ تو اپنے کندھے سے لاٹھی اتارتا ہی نہیں۔            (متفق علیہ)

اورمسلم کی ایک روایت میں ہے :ابو جہم تو عورتوں کو بہت مارنے والا ہے۔ اور یہ پچھلی روایت کے الفاظ ’’وہ تو اپنے کندھے سے لاٹھی اتارتا ہی نہیں ’’کی تفسیر ہے اور بعض نے کہا اس کے معنی ہیں۔ وہ بہت زیادہ سفر کرنے والا۔ ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۴۸۰)۔

تنبیہ : امام بخاریؒ نے اس حدیث کو روایت نہیں کیا بلکہ صرف امام مسلم ؒ نے روایت کیا ہے۔

۱۵۳۴۔ حضرت زید بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہﷺ کے ساتھ میں نکلے ، جس میں لوگوں کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ،تو عبداللہ بن ابی نے کہا تم رسول اللہﷺ کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو حتیٰ کہ وہ منتشر ہو جائیں۔ اس نے کہا:اگر ہم مدینہ واپس پہنچ گئے تو ہم میں سے معزز شخص وہاں سے ذلیل شخص کو نکال دے گا۔ حضرت زید ؓ بیان کرتے ہیں پس میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو اس بارے میں بتا یا۔ آپ نے عبد اللہ بن ابی کو بلا بھیجا تو اس نے بڑ ی پختہ قسم کھا کر کہا کہ اس نے تو ایسے نہیں کہا۔ پس لو گوں نے کہا زید نے رسول اللہﷺ کو جھوٹ بتایا ،ان کی اس بات پر مجھے دلی صدمہ ہوا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق میں سورۃ المنافقون (اذَا جَائکَ المُنَافِقُو’نَ)نازل فرمائی ، نبیﷺ نے پھر ان (منافقین)کو بلایا تاکہ آپ ان کے لیے مغفرت طلب کریں لیکن انھوں نے اعراض کرتے ہوئے اپنے سروں کو پھر لیا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۶۴۴۸۔ فتح)و مسلم (۲۷۷۲)۔

۱۵۳۵۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ابو سفیان ؓ کی بیوی ہند ؓ نے نبیﷺ سے عرض کیا کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہیں ،وہ مجھے اتنا خرچہ بھی نہیں دیتے کہ مجھے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو، الا یہ کہ جو میں انہیں بتائے بغیر ان کے مال میں سے خود لے لوں۔ آپ نے فرمایا:تم معروف طریقے سے اتنا لے لیا کرو جو تجھے اور تیرے بچوں کو کفایت کر جائے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۰۴۹و۵۰۷۔ فتح)و مسلم (۱۷۱۴)۔

۲۵۷۔ باب:چغل خوری حرام ہے ،چغل خوری سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے کے لیے ایک کی بات دوسرے سے بیان کرنا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بہت عیب جو، یا غیب کرنے والے اور چغلی کے ذریعے سے فساد برپا کرنے والے کی (بات نہ مان)۔            (ن:۱۱)

نیز فرمایا: انسان جو لفظ بھی بولتا ہے تو اس کے پاس ہی نگران فرشتہ موجود ہے۔ (ق:۱۸)

۱۵۳۶۔ حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۷۲۱۰۔ فتح)و مسلم (۱۰۵)۔

۱۵۳۷۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرتے تو آپ نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں وہ عذاب کسی بڑ ی بات پر نہیں ہو رہا۔ پھر فرمایا: کیوں نہیں وہ بڑ ی بات ہی تو ہے ، ان میں سے ایک تو چغل خوری کیا کر تا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ (متفق علیہ)

اور یہ الفاظ بخاری کی ایک روایت کے ہیں۔

علما نے کہا ہے۔ انہیں کسی بڑ ی بات کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے خیال میں یہ کوئی بڑ ی بات نہیں تھی، (یعنی انھوں نے اسے معمولی سمجھا)اور بعض نے کہا ہے کہ ان دونوں کاموں کا ترک کرنا ان کے لیے کوئی بڑ ی بات نہیں تھی (وہ بڑ ی آسانی سے ان دونوں کاموں کو چھوڑ سکتے تھے)۔

توثیق الحدیث :۔ اخرجہ البخاری (/۳۱۷۱۔ فتح)و مسلم (۲۹۲)۔

۱۵۳۸۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ’’عضہ‘‘ کے متعلق نہ بتاؤں کہ وہ کیا چیز ہے ؟ وہ چغلی ہے (یعنی)لوگوں میں (کسی کی)بات کرنا۔             (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۰۶)۔

۲۵۸۔ باب:جب کسی مصلحت کا تقاضا یا کسی فساد وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو تو پھر امرا سے لوگوں کی شکایت کرنا منع ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو۔             (المائدہ :۲)

اور اس باب میں وہی حدیثیں ہیں جو اس سے ما قبل باب میں بیان ہوئی ہیں (ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں)۔

۱۵۳۹۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ میں سے کوئی شخص کسی کے متعلق کوئی بات مجھ تک نہ پہنچائے ، اس لیے کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میں تمہارے درمیان اس حال میں آؤں کہ (ہر ایک کے بارے میں)میرا سینہ صاف ہو۔ (ابوداؤد ،ترمذی)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ ابوداؤد (۴۸۶۰)الترمذی (۳۸۹۶، ۳۸۹۷)و احمد (/۳۹۵۱۔ ۳۹۶)۔

اس حدیث کی سند میں ولید ابن ابی ہشام مولی حمد ان اور اس کے استاد زید بن زائد دونوں مجہول راوی ہیں ،اسے لیے یہ حدیث ضعیف ہے۔

۲۵۹۔ باب:دو رخے شخص کی مذمت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:و ہ لوگوں سے چھپتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپتے حالانکہ و ہ ان کے ساتھ ہوتا ہے ، وہ راتوں کو ایسی باتوں میں مشورہ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے عملوں کا احاطہ کرنے والا ہے۔ (النسا :۱۰۸)

۱۵۴۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم لوگوں کو کانوں کی طرح پاؤ گے ، ان میں جو جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں ،جب وہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کر لیں۔ تم اس امارات و حکمرانی کے بارے میں ان لوگوں کو بہتر پاؤ گے جو اس کو سب سے زیادہ ناپسند کرتے ہوں گے اور تم سب سے زیادہ برا دو رخے شخص کو پاؤ گے جو ان لوگوں کے پاس ایک رخ لے کر جا تا ہے اور دوسرے لوگوں کے پاس ایک اور (دوسرا) رخ لے کر جاتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : أخرجہ البخاری (/۵۲۵۶۔ فتح)و مسلم (۲۵۲۶)۔

۱۵۱۴۱۔ حضرت محمد بن زید سے روایت ہے کہ لوگوں نے ان کے دادا حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے عرض کیا کہ جب ہم اپنے بادشاہوں اور حکمرانوں کے پاس ہوتے ہیں تو ہم ان سے ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان باتوں کے خلاف ہوتی ہیں جو ہم ان کی عدم موجودگی میں کرتے ہیں تو حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا:ہم رسول اللہﷺ کے دور میں ایسے رویے کو نفاق شمار کرتے تھے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۷۰۱۳، فتح)

تنبیہ : پہلی بات تو یہ ہے کہ بخاری کی روایت میں (سلاطینا)جمع کی بجائے (سلطاننا)مفرد کا صیغہ ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ (علی عھد رسول اللہﷺ) کے الفاظ بخاری میں نہیں بلکہ ابو داؤد طیا لسی کی روایت میں ہیں۔

۲۶۰۔ باب : جھوٹ کی حرمت

جھوٹ کے معنی ہیں کہ کسی چیز کے بارے میں خلاف واقعہ خبر دینا، خواہ یہ عمداً ہو یا جہالت کی وجہ سے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس چیز کا علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ و۔           (الاسرا :۳۶)

اور فرمایا: انسان جو لفظ بھی بولتا ہے تو اس کے پاس ایک نگران فرشتہ تیار رہتا ہے۔ (ق:۱۸)

۱۵۴۲۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بلاشبہ سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بلاشبہ نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ

اللہ تعالیٰ کے ہاں ’’صدیق‘‘ (سچا) لکھ دیا جاتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ گنا ہوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ’’کذاب‘‘ (جھوٹا)لکھ دیا جاتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۵۴)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۴۳۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: چار خصلتیں (ایسی) ہیں جس شخص میں وہ ہوں گی وہ خالص منافق ہو گا اور جس شخص میں ان میں سے ایک خصلت ہو گی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی حتیٰ کہ وہ اسے چھوڑ دے (اور وہ یہ ہیں)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ،جب بات کرے تو جھوٹ بولے ،جب عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۶۸۹۔ ۶۹۰)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۴۴۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص ایسا خواب بیان کرے جو اس نے نہیں دیکھا تو روز قیامت اسے اس بات کا پابند  کیا جائے گا کہ وہ جَو کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگائے اور وہ یہ کام نہیں کر سکے گا اور جو شخص لوگوں کی باتوں کو کان لگا کر سنے حالانکہ و ہ اس کے لیے اس (سننے) کو ناپسند کرتے ہوں تو قیامت والے دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا اور جس شخص نے (کسی جاندار کی) تصویر بنائی تو اسے عذاب دیا جائے گا اور اسے اس بات کا پابند کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے حالانکہ وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخا (/۴۲۷۱۲۔ فتح)

۱۵۴۵۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ؓ نے فرمایا: سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں کو وہ چیز دکھائے جو انھوں نے نہیں دیکھی۔ (بخاری) اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کہے کہ میں نے (خواب میں) فلاں چیز دیکھی ہے حالانکہ اس نے اسے نہیں دیکھا۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۲۸۱۲۔ فتح)۔

۱۵۴۶۔ حضرت سمرہ بن جندب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اکثر اپنے صحابہ کرام سے پوچھا کرتے تھے :کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ پس کوئی شخص جو اللہ تعالیٰ چاہتا ، آپ کے سامنے بیان کرتا۔ ایک روز صبح کے وقت آپ نے ہمیں فرمایا: بے شک رات کے وقت دو آنے والے (خواب میں)میرے پاس آئے اور انھوں نے مجھے کہا چلیے ،میں ان کے ساتھ چل پڑا ،ہم ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو لیٹا ہوا تھا اور دوسرا آدمی پتھر لیے اسکے اوپر کھڑا تھا ،وہ اس کے سر پر پتھر مارتا اور اسکے سر کو پاش پاش کر دیتا ہے پس پتھر لڑھک کر دور جاگر تا ہے ، وہ آدمی اس پتھر کے پیچھے جاتا ہے اور اسے پکڑ لاتا ہے ،وہ ابھی واپس نہیں پہنچتا کہ اس کا سر پہلے کی طرح ٹھیک ہو جاتا ہے۔ وہ آدمی پھر اس کی طرف لوٹتا ہے اور اس کے ساتھ پھر پہلی مرتبہ والا سلوک کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا : میں نے ان دونوں سے پوچھا :سبحان اللہ !یہ دونوں کیا ہیں ؟ان دونوں (جو میرے ساتھ چل رہے تھے)نے مجھے کہا : چلیے چلیے ، پس ہم چلتے گئے اور ایک ایسے آدمی کے پاس پہنچے جو اپنی گدی کے بل لیٹا ہوا تھا اور ایک اور آدمی لوہے کا آنکڑا لیے اس کے اوپر کھڑا تھا، وہ اس کے چہرے کی ایک طرف آتا ہے اور اس کے جبڑے کوا س کی گدی تک چیر دیتا ہے اور اس کے نتھنے اور اس کی آنکھ کو بھی اس کی گدی تک چیر دیتا ہے پھر وہ دوسری طرف ہو جاتا ہے اور ادھر بھی اسی طرح کرتا ہے جس طرح اس نے پہلی طرف کیا تھا۔ ابھی وہ دوسری طرف سے فارغ نہیں ہوتا تو اس کی پہلی طرف پہلے کی طرح صحیح ہو جاتی ہے۔ وہ پھر اس کی طرف لوٹتا ہے اور وہ ایسے ہی کرتا ہے جس طرح پہلی مرتبہ کیا تھا۔ آپ نے فرمایا:میں نے کہا :سبحان اللہ! یہ کیا ہیں۔ آپ نے فرمایا:۔ ’’ان دونوں نے مجھے کہا چلیے چلیے ،پس ہم چلتے گئے تو ہم ایک تنور جیسے گڑھے پر آئے۔ (راوی بیان کرتا ہے)میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا : اس میں بہت شور اور آوازیں تھیں ، ہم نے اس میں جھانکا تو اس میں ننگے مرد اور ننگی عورتیں تھیں ،ا نکے نیچے سے ان کی طرف آگ کا ایک شعلہ بلند ہوتا ہے ، جب وہ شعلہ ان تک پہنچتا تو وہ چیختے چلاتے ہیں آپ نے فرمایا: میں نے پوچھا :یہ کون لوگ ہیں ؟ان دونوں نے مجھے کہا :چلیے چلیے ، پس ہم چلتے گئے اور ایک نہر پر پہنچ گئے۔ (راوی بیان کرتا ہے)میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا: وہ خون کی طرح سرخ تھی اور اس نہر میں ایک تیراک تیر رہا تھا جب کہ نہر کے کنارے پر ایک آدمی تھا جس نے اپنے پاس بہت سے پتھر جمع کیے ہوئے تھے ،جب وہ تیراک تیرنا ہوا اس آدمی کے پاس پہنچتا ہے جس نے اپنے پاس پتھر جمع کیے ہوئے ہیں تو یہ اس کے سامنے اپنا منہ کھولتا ہے اور یہ اس کے منہ میں۔ ایک پتھر ڈال دیتا ہے ،یہ شخص پھر چلا جاتا ہے ، تیر نے لگتا ہے اور دوبارہ پھر اس آدمی کی طرف لوٹتا ہے۔ یہ جب بھی اس کی طرف لوٹتا ہے تو اس کے سامنے اپنا منہ کھول دیتا ہے اور وہ اس کے منہ میں ایک پتھر ڈال دیتا ہے میں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون ہیں تو وہ مجھے کہتے ہیں چلیے چلیے۔ ہم چلتے گئے تو پھر ایک بہت ہی کریہہ منظر آدمی کے پا س پہنچے ،یا (فرمایا) سب سے بد صورت آدمی کی طرف جو تم نے دیکھا ہو، اس کے پاس پہنچے ،اس کے پاس آگ ہے اور وہ اسے جلا رہا ہے اور اس کے ارد گرد دوڑ تا ہے ، میں نے ان دونوں سے پو چھا: یہ کون ہے ؟ انھوں نے مجھے کہا چلیے چلیے۔ پس ہم چلتے گئے اور ایک بڑے شاداب باغ میں پہنچے جس میں۔ لمبے لمبے درخت کثرت سے لگے ہوئے تھے اور اس میں بہار کے ہر قسم کے کھلے ہوئے پھول تھے ، جبکہ باغ میں ایک طویل القامت انسان تھا اور اس کے لمبے قد کی وجہ سے قریب نہیں تھا کہ میں اس کا سر دیکھ سکوں اور اس کے اردگرد بہت سے بچے ہیں جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ میں نے پو چھا: یہ کیا ہے ؟ او ریہ بچے کون ہیں ؟ لیکن انھوں نے مجھے یہی کہا کہ چلیے چلیے۔ پس ہم چلتے گئے اور ایک بہت بڑے درخت کے پاس آئے ،اور میں نے اس سے بڑا اور اچھا درخت کبھی نہیں دیکھا، ان دونوں نے مجھے کہا اس پر چڑھیے۔ پس ہم اس پر چڑھے تو وہاں ایک شہر نظر آیا جو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ ہم شہر کے دروازے پر پہنچے تو ہم نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو اسے ہمارے لیے کھول دیا گیا۔ ہم اس میں داخل ہو گئے توہم نے وہاں بہت سے آدمی دیکھے ان کا آدھا جسم تو اس خوبصورت ترین آدمی کی طرح تھا جسے تم نے دیکھا ہو اور ان کا باقی آدھا جسم اس قبیح ترین آدمی کی طرح تھا جسے تم نے دیکھا ہو۔ اور ان دونوں نے انہیں کہا چلو اور اس نہر میں کود جاؤ اور وہ نہر عرضاً بہہ رہی تھی اور اس کا پانی دودھ کی طرح نہایت ہی سفید تھا۔ پس وہ گئے اور اس میں کود گئے پھر وہ ہمارے پاس لوٹ کر آئے تو ان کے آدھے جسم کا قبیح پن دور ہو چکا تھا اور وہ مکمل طور پر بہت خوبصورت بن گئے تھے۔ آپ نے فر مایا:کہ ان دونوں نے مجھے بتا یا کہ یہ جنت عدن ہے اور یہی آپ کی منزل ہے۔ میری نظر جو اوپر اٹھی تو سفید بادل کی طرح ایک محل تھا،پھر ان دونوں نے مجھے بتایا کہ یہ ہے آپ کا مقام میں نے انہیں کہا : اللہ تعالیٰ تمہیں برکت عطا فرمائے ، مجھے ذرا چھوڑ دو کہ میں اس میں داخل ہو جاؤں ،ان دونوں نے کہا:ابھی نہیں ،البتہ آپ ہی داخل اس میں ہوں گے ،میں نے انہیں کہا میں نے اس رات بڑ ی عجیب چیزیں دیکھی ہیں ،پس میں نے جو دیکھا ہے وہ کیا ہے ؟ان دونوں نے مجھے بتایا کہ ہم عنقریب آپ کو بتلائے دیتے ہیں ،وہ جو پہلا آدمی تھا ،جس کے پا س آپ گزرے تھے اور اس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا ،یہ وہ شخص تھا جس نے قرآن یاد کیا تھا اور اسے بھلا دیا تھا اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جاتا تھا۔ اور وہ آدمی جس کے پاس آپ آئے تھے اور اس کے جبڑے ،نتھنے اور آنکھ کو اس کی گدی تک چیرا جا رہا تھا ، یہ وہ شخص تھا جو صبح اپنے گھر سے نکلتا تو ایسا جھوٹ بولتا جو آفاق (آسمان کے کناروں)تک پہنچ جاتا۔ اور وہ جو برہنہ مرد اور برہنہ عورتیں تندور نما گھڑے میں تھیں ،وہ زانی مرد اور زانی عورتیں تھیں۔ وہ آدمی جس کے آپ پا س گئے تھے اور وہ نہر میں تیر رہا تھا اور اس کے منہ میں پتھر ڈالا جا رہا تھا ، وہ سود خور تھا۔ اور وہ آدمی جس کے پاس آپ گئے تھے اور وہ کریہہ المنظر تھا اور آگ کے پاس تھا ، اسے جلا رہا تھا اور اس کے گرد  دوڑ رہا تھا ،وہ جہنم کا  داروغہ تھا۔ اور جو طویل القامت آدمی باغ میں تھا ،وہ ابراہیم ؑ تھے اور جو بچے ان کے اردگرد تھے ،یہ وہ تمام بچے تھے جو فطرت اسلام پر فوت ہوئے تھے۔ برقانی کی روایت میں ہے :یہ وہ بچے ہیں جو فطرت پر پیدا ہوئے تھے۔ بعض مسلمانوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ !مشرکوں کے بچے (بھی وہیں تھے)؟رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مشرکین کے بچے بھی۔ اور وہ لوگ جن کے جسم کا آدھا حصہ خوبصورت اور آدھا قبیح تھا یہ وہ لو گ تھے جنھوں نے اچھے برے ہر قسم کے ملے جلے عمل کیے تھے اور اللہ نے ان سے درگزر فرمایا۔ (بخاری)

اور بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: میں نے رات کو دو آدمی دیکھے کہ وہ میرے پاس آئے اور مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے۔ پھر وہی واقعہ بیان کیا اور فرمایا: ہم چلتے چلتے تنور جیسے گڑھے کے پاس پہنچے ،اس کا اوپر والا حصہ تنگ اور نیچے والا حصہ کشادہ تھا ،اس کے نیچے آگ جل رہی تھی ، جب وہ آگ اوپر کو اٹھتی تو اس میں موجود لوگ بھی اوپر کو اٹھتے حتیٰ کہ وہ باہر نکلنے کے قریب ہو جاتے اور جب وہ آگ بجھ جاتی تو وہ پھر اس میں واپس نیچے چلے جاتے اور اس میں برہنہ حالت میں مرد اور عورتیں تھیں۔ اور اس روایت میں یہ بھی ہے۔ ہم خون کی ایک نہر پر آئے۔ اس میں راوی نے شک نہیں کیا (جیسے پہلی روایت میں شک تھا)اس میں ایک آدمی نہر کے وسط میں کھڑا ہے اور ایک آدمی نہر کے کنارے پر کھڑا ہے اور اس کے سامنے پتھر ہیں اور جو آدمی نہر میں ہے ،وہ آگے بڑھتا ہے اور نکلنے کا ارادہ کرتا ہے تو باہر کنارے والا آدمی اس کے منہ میں ایک پتھر پھینک دیتا ہے اور اسے وہیں لوٹا دیتا ہے جہاں وہ تھا ،پس وہ شخص جب بھی نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کے منہ میں پتھر پھینک دیتا ہے اور وہ وہیں واپس لوٹ جاتا ہے جیسے وہ تھا ،اور اس میں یہ بھی ہے :وہ مجھے لے کہ درخت پر چڑھے اور انھوں نے مجھے ایک گھر میں داخل کر دیا ،جس سے خوبصورت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا ،اس میں کچھ بوڑھے مرد تھے اور کچھ جوان۔ اور اسی روایت میں ہے : آپ نے جو اس شخص کو دیکھا جس کا جبڑا چیرا جا رہا ہے ،وہ بہت جھوٹا آدمی تھا، وہ جھوٹ بولتا اور وہ جھوٹی بات اس کی طرف سے بیان کی جاتی اور وہ پہنچتی پہنچتی آفاق تک پہنچ جاتی۔ پس آپ نے جو دیکھا قیامت تک اس کے ساتھ ویسے ہی کیا جاتا رہے گا۔ اور اس روایت میں یہ بھی ہے : آپ نے جو وہ شخص دیکھا کہ اس کے سر کو کچلا جا رہا ہے پس وہ آدمی ہے جسے اللہ نے قرآن سکھایا لیکن یہ اس سے بے پروا ہو کر رات کو سویا رہتا اور دن کو بھی اس پر عمل نہیں کرتا تھا، پس اس کے ساتھ بھی روز قیامت تک یہی سلوک کیا جائے گا۔ وہ پہلا گھر جس میں آپ داخل ہوئے تھے وہ عام مومنوں کا گھر تھا اور جبکہ یہ گھر شہدا کا گھر ہے ،میں جبریل ہوں اور یہ میکائیل ہیں، آپ اپنا سر اٹھائیں۔ پس میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ میرے اوپر بادل کی مانند کوئی چیز ہے ان دونوں نے کہا : آپ کا ٹھکانہ ہے۔ میں نے کہا مجھے چھوڑ دو تاکہ میں اپنے گھر میں داخل ہو جاؤں۔ ان دونوں نے کہا ابھی آپ کی عمر باقی ہے جسے آپ نے مکمل نہیں کیا،پس جب آپ اسے مکمل کر لیں گے تو اپنے ٹھکانے میں تشریف لے۔ آئیں گے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۳۸۱۲۔ ۴۳۹۔ فتح)والروایۃ الثانیۃ (/۲۵۱۳۔ ۲۵۲۔ فتح)۔

۲۶۱۔ باب:جھوٹ کی بعض جائز صورتیں

جان لیجئے کہ جھوٹ اگر چہ اصل میں تو حرام ہے لیکن بعض احوال میں چند شروط کے ساتھ بولنا جائز ہے جنہیں میں نے ’’کتاب الا ذکار‘‘ میں واضح کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کلام مقاصد حا صل کرنے کا ذریعہ ہے ،پس وہ ہرا چھا مقصود جس کا حصول جھوٹ کے بغیر ممکن ہے تو اس بارے میں جھوٹ بولنا حرام ہے اور اگر اس کا حصول جھوٹ کے بغیر ممکن نہ ہو تو پھر جھوٹ بولنا جائز ہے پھر اگر اس مقصود کا حصول مباح ہے تو اس کے لیے جھوٹ بولنا بھی مباح ہو گا اور اگر اس مقصود کا حصول واجب ہے تو پھر اس کے بارے میں جھوٹ بولنا بھی واجب ہو گا۔ مثال کے طور پر جب کوئی شخص کسی ظالم سے چھپ جائے ،جو اسے قتل کرنا چاہتا ہے۔ یا اس کا مال حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ اپنا مال چھپا لے اور کسی انسان سے اس کے بارے میں پوچھا جائے تو پھر اس کے معاملے کو چھپائے رکھنے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے اور اسی طرح اگر اس کے پاس کوئی امانت ہے اور ظالم اسے لینا چاہتا ہے تو بھی اسے چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے ان تمام صورتوں میں زیادہ محتاط طریقہ یہ ہے کہ ’’توریہ‘‘ اختیار کیا جائے اور  ’’توریے‘‘ کا معنی یہ ہے کہ ایسی بات کی جائے جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو ایک باطنی ،یعنی وہ اپنی گفتگو سے صحیح مقصد کی نیت اور قصد کرے اور اس کی طرف نسبت کرنے میں وہ جھوٹا نہ ہو، اگر چہ ظاہری الفاظ میں اور اس چیز کی طرف نسبت کرنے میں جسے مخاطب سمجھے ، وہ جھوٹا ہوا اور اگر توریے کی بجائے صاف ہی بول دے تو بھی اس حالت میں جھوٹ بولنا حرام نہیں ہے۔

علما نے اس حالت میں جھوٹ بولنے کا جواز حضرت ام کلثوم ؓ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کراتا ہے ،وہ بھلائی کی بات پہنچاتا ہے یا بھلائی کی بات کرتا ہے‘‘ ۔       (متفق علیہ)

امام مسلم نے اپنی روایت میں یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ ام کلثوم ؓ بیان کرتی ہیں :میں نے آپﷺ کو تین مواقع کے سوا لوگوں کو گفتگو سے متعلق رخصت دیتے ہوئے نہیں سنا۔ ا نکی مراد یہ تھی جنگ کا موقع ،لوگوں کے درمیان صلح کرانا اور مرد کا اپنی بیوی سے اور بیوی کا اپنے خاوند سے گفتگو کرنے کا موقع۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۹۹۵۔ فحیح)وملسم (۲۶۰۵)۔

۲۶۲۔ باب :انسان جو بات کرے یا اسے آگے بیان کرے اس کی تحقیق کرنے کی ترغیب

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور اس چیز کے پیچھے مت پڑ و جس کا تمہیں علم نہ ہو۔           (الاسرا :۳۶)

نیز فرمایا:انسان جو لفظ بھی بولتا ہے تو اس کے پاس ہی ایک نگران فرشتہ تیار ہوتا ہے۔ (ق:۱۸)

۱۵۴۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو سنے اسے (تحقیق کیے بغیر اگے) بیان کر دے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم فی مقدمۃ (صحیحۃ) (۵)

۱۵۴۸۔ حضرت سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص میری طرف سے کوئی حدیث بیان کرے جبکہ وہ سمجھتا ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم فی فقدمۃ ( (صحیحۃ)) (/۹۱)

۱۵۴۹۔ حضرت اسما ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری ایک سوتن (سوکن) ہے ،کیا مجھے پر گناہ ہو گا کہ اگر میں ظاہر کروں کہ مجھے خاوند کی طرف سے یہ کچھ ملا ہے حالانکہ و ہ اس نے مجھے نہ دیا ہو ؟نبیﷺ نے فرمایا: متشبع (وہ شخص جو تکلیف کے ساتھ کسی چیز کے ملنے کا اظہار کرے جبکہ وہ اسے نہ ملی ہو)اس شخص کی طرح ہے جو جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۱۷۹۔ فتح)و مسلم (۲۱۳۰)۔

۲۶۳۔ باب: جھوٹی گواہی کی شدید حرمت

جھوٹی گواہی بھی جھوٹ اور بہتان کے زمرے میں اتی ہے لیکن یہ حرمت کے لحاظ سے دیگر مہکات سے زیادہ شدید ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم جھوٹی بات سے بچو۔ (الحج:۳۰)

نیز فرمایا:اس چیز کے پیچھے مت پڑ و جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ (الاسرا :۳۶)

اور فرمایا: انسان جو لفظ بھی بولتا ہے تو اس کے پاس ہی ایک نگران فرشتہ موجود ہوتا ہے۔ (ق:۱۸)

نیز فرمایا: تیرا رب یقیناً گھات میں ہے۔            (الفجر :۱۴)

اور فرمایا:اور وہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔     (الفرقان:۷۲)

۱۵۵۰۔ حضرت ابو بکرؓ۔ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے متعلق نہ بتاؤں ؟ہم نے عرض کیا:کیوں نہیں یا رسول اللہ !آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافر مانی کرنا، آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ بیٹھ گئے پھر آپ نے فرمایا: سنو!اور جھوٹی بات۔ آپ یہ جملہ بار بار دہراتے رہے حتیٰ کہ ہم نے کہا:کاش!آپ خاموشی اختیار فرما لیں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۳۳۶) ملاحظہ فرمائیں۔

۲۶۴۔ باب: کسی خاص شخص یا جانور پر لعنت کرنا حرام ہے

۱۵۵۱۔ حضرت ابو زید ثابت بن ضحاک انصاری ؓ جو بیعت رضوان کے شرکا میں سے ہیں بیان کرتے ہیں ،کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی عمداً جھوٹی قسم کھائی تو وہ ویسے ہی ہے جیسے اس نے کہا اور جس شخص نے کسی چیز کے ساتھ خود کشی کی تو قیامت والے دن اسے اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا اور آدمی پر اس نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں جس کا وہ مالک نہیں ہے  اور مومن کو لعنت کر نا اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۲۶۳۔ فتح)و مسلم (۱۱۰)۔

۱۵۵۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:صدیق (راست باز شخص) کے لیے مناسب نہیں کہ بہت زیادہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۵۹۷)۔

۱۵۵۳۔ حضرت ابو دردا ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لعن طعن کرنے والے قیامت والے دن سفارشی ہوں گے نہ گواہ۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۵۹۸)۔

۱۵۵۴۔ حضرت سمرہ بن جندب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم آپس میں اللہ تعالیٰ کی لعنت،اس کے غضب اور جہنم کی آگ کے ساتھ لعن طعن نہ کرو۔ (ابوداؤد، ترمذی۔ دونوں نے کہا کہ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : حسن بشواھدہ۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۹۰۶)و الترمذی (۱۹۷۶)و احمد (/۵۵)والحاکم (/۴۸۱)۔

اس حدیث کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں لیکن اس میں حسن عنعنہ ہے ،لیکن مصنف عبدالرزاق (۱۹۵۳۱)۔ اور شرح السنۃ (/۱۳۵۱۳)میں بھی یہ حدیث موجود ہے جس کے سب راوی ثقہ ہیں لیکن وہ مرسل ہے اور بالجملہ یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر حسن ہے۔

۱۵۵۵۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن (کسی پر)طعنہ زنی کرنے والا ہوتا ہے نہ لعن طعن کرنے والا اور وہ فحش گو ہوتا ہے نہ فضول گو اور چرب زبان۔              (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۳۳۲)و الترمذی (۱۹۷۷)و احمد (/۴۰۴۱۔ ۴۰۵)والحاکم (/۱۲۱)وابونعیم فی ( (الخلیۃ)) (/۲۳۵۴، /۵۸۵)والخطیب البغدادی فی ( (تاریخہ)) (/۳۳۹۵)۔

۱۵۵۶۔ حضرت ابو دردا ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے لیکن اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں پھر وہ زمین کی طرف اترتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بھی بند کرد یے جاتے ہیں ،پھر وہ دائیں اور بائیں جاتی ہے ، پس جب وہ کوئی راستہ نہیں پاتی تو وہ اس چیز کی طرف اتی ہے جس پر لعنت کی گئی ہوتی ہے اگر تو وہ اس لعنت کا مستحق ہوتی ہے تو ٹھیک ورنہ پھر وہ لعنت کرنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ (ابو داؤد)

توثیق الحدیث : حسن لغیرہ۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۹۰۵)و ابن أبی الدنیا فی ( (الصمت)) (۳۸۱)،

یہ حدیث اور سند کے ساتھ مسند احمد (/۴۰۸۱،۴۲۵)اور شعب الایمان (//۲۹۲۲)میں بھی موجود ہے اور یہ بالجملہ حسن درج کی ہے۔       (واللہ اعلم)

۱۵۵۷۔ حضرت عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے کسی سفر پر تھے اور انصاری عورت اپنی اونٹنی پر سوار تھی، پس اس نے اونٹنی کے رویے سے تنگ آ کر اس پر لعنت کی۔ پس رسول اللہﷺ نے اسے سنا تو فرمایا:اس اونٹنی پر جو کچھ ہے وہ اتار لو اور اسے چھوڑ دو، اس لیے کہ اس پر لعنت کی گئی ہے۔ حضرت عمران ؓ بیان کرتے ہیں گویا میں اب بھی اونٹنی کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ لوگوں کے درمیان چل رہی ہے اور کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۵۹۵)۔

۱۵۵۸۔ حضرت ابوبرزہ، نضلہ بن عبید اسلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک لڑ کی ایک اونٹنی پر سوار تھی اور اس پر لوگوں کا کچھ سامان بھی تھا ،اس نے اچانک نبیﷺ کو دیکھا تو (دشوار گزار راستہ ہونے کی وجہ سے)لو گوں پر پہاڑ تنگ ہو گیا اور اونٹنی رک گئی، پس اس لڑ کی نے اونٹنی کو چلانے کیلئے)کہا : ’’حل‘‘ (اونٹ کو تیز چلانے کے لیے کلمہ زجر)اے اللہ !اس پر لعنت فرما۔ پس نبیﷺ نے فرمایا: وہ اونٹنی ہمارے ساتھ نہ رہے جس پر لعنت ہو۔ (مسلم)

امام نو وی۔ ؒ بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث کے معنی میں اشکال پیش کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ، بلکہ اس ممانعت سے مراد یہ ہے کہ یہ اونٹ ان کے ساتھ نہ چلے ، جبکہ اس کو بیچنے، ذبح کرنے اور اس پر سواری کرنے کی ممانعت نہیں ہے ،بس یہ شرط ہے کہ اس میں نبیﷺ کی صحبت نہ ہو، جبکہ نبیﷺ کی مصاحبت کے علاوہ مذکورہ تمام کام اور دیگر تصرفات جائز ہیں ،ان میں کوئی ممانعت نہیں۔ اس لیے کہ یہ سارے تصرفات بنیادی طور پر جائز تھے آپ نے ان میں سے صرف اس چیز سے منع فرما دیا کہ یہ میرے ساتھ مصاحبت اختیار کر سکتی اور باقی تمام تصرفات کو آپ نے ان کی اصل اور بنیادی حالت پر قائم رکھا۔ اللہ اعلم!

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۵۹۶)۔

۲۶۵۔ باب:متعین کیے بغیر اہل معاصی پر لعنت بھیجنا جائز ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سن لو!ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ (ھود :۱۸)

نیز فرمایا:پس ان کے درمیان ایک اعلان کر نے والا اعلان کرے گا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔     (الاعراف:۴۴)

اور آپﷺ نے فرمایا:اللہ سود خور پر لعنت فرمائے۔

اور آپﷺ نے تصویر بنانے والے پر لعنت فرمائی۔

اور آپ ؐ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ زمین کی حدود میں رد و بدل کرنے والے پر لعنت فرمائے۔

اور آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس چور پر لعنت کرے جو انڈے کی چوری کرتا ہے۔

اور آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جو اپنے والدین پر لعنت بھیجتا ہے۔

اور آپ ؐ نے فرمایا: اللہ اس شخص پر لعنت فرمائے جو اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے جانور ذبح کرے۔

اور آپ نے فرمایا: جس شخص نے اس (مدینے) میں کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی ،پس اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔

اور آپ نے فرمایا: اے اللہ !رعل، ذکوان اور عصیہ قبیلوں پر لعنت فرما جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ اور یہ تینوں عرب کے قبیلے ہیں۔

اور آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت فرمائے انھوں نے اپنے انبیا ؑ کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔

اور آپ نے ان مردوں پر لعنت کی جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور عورتوں پر لعنت کی جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔

یہ تمام جملے جو مذکور ہوئے ہیں صحیح احادیث میں ہیں ،ان میں سے بعض تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں ہیں اور بعض کسی ایک میں ہیں ، میں نے ان کی طرف اشارہ کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے اور ان احادیث کا بیشتر حصہ میں اس کتاب کے مختلف ابواب میں ذکر کروں گا۔ (ان شا اللہ)

امام نو وی ؓ بیان کرتے ہیں کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’واصلہ‘‘ (جو دوسروں کے بال اپنے بالوں کے ساتھ ملائے) پر اور ’’مستو صلہ‘‘ (جو کسی دوسری سے بال لگوائے) پر اللہ لعنت فرمائے۔

(۱)اس حدیث کی توثیق اور شرح ان شا اللہ حدیث نمبر (۱۶۴۲)کے تحت آئے گی

(۲)اس حدیث کی توثیق اور شرح ان شا اللہ حدیث نمبر (۱۶۱۵)کے تحت آئے گی۔

(۳)اخرجہ البخاری (/۳۱۴۴۔ ۴۲۶)

(۴)اخرجہ مسلم (۱۹۷۸)

(۵)اخرجہ مسلم (۱۹۷۸)

(۶)اخرجہ مسلم (۱۹۷۸)

(۷)اخرجہ مسلم (۱۹۷۸)

(۸)توثیق الحدیث اور اس کی شرح ان شا اللہ حدیث نمبر (۱۸۰۴)کے تحت آئے گی۔

(۹)اخرجہ البخاری (/۳۸۵۷۔ فتح)و مسلم (۶۷۵)۔

(۱)اخرجہ البخاری (۱!۵۳۲۔ فتح)،و مسلم (۵۳۰)۔ (۲)اس کی توثیق اور شرح ان شا اللہ حدیث نمبر (۱۶۳۱)کے تحت آئے گی۔

۲۶۶۔ باب: مسلمانوں کو ناحق برا بھلا کہنا حرام ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو ناحق تکلیف پہنچاتے ہیں تو انھوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔       (الأ حزاب:۵۸)

۱۵۵۹۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گا لی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔             (متفق علیہ)۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۱۰۱، فتح)و مسلم (۶۴)۔

۱۵۶۰۔ حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی پر فسق یا کفر کی تہمت نہ لگائے ،اس لیے کہ اگر وہ (جس پر تہمت لگائی جا رہی ہے)ایسا نہ ہوا تو پھر یہ تہمت اسی لگانے والے کی طرف لوٹ اتی ہے۔       (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۶۴۱۰۔ فتح)

۱۵۶۱۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: گالی دینے والے دو شخص ایک دوسرے کو جو بھی کہیں گے تو اس کا گناہ ان میں سے ابتدا کرنے والے کو ہو گا حتیٰ کہ مظلوم زیادتی کا ارتکاب کرے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۵۸۷)۔

۱۵۶۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی،آپ نے فرمایا: اسے مارو۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں :ہم میں سے کوئی اسے ہاتھ سے مارتا تھا اور کوئی جوتے سے اور کوئی اپنے کپڑے سے ،پس جب وہ (مار کھانے کے بعد)واپس جانے لگا تو لوگوں میں سے کسی نے کہا :اللہ تجھے رسوا کرے۔ آپ نے فرمایا:تم یہ نہ کہو ،اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۷۵۱۲۔ فتح)۔

۱۵۶۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے اپنے غلام پر زنا کی تہمت لگائی تو قیامت والے دن اس مالک پر حد لگائی جائے گی مگر یہ کہ وہ (مملوک)۔ ویسے ہو جیسے اس نے کہا۔ (متفق علیہ)۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۸۵۱۲۔ فتح)و مسلم (۱۶۶۰)۔

۲۶۷۔ باب:فوت شدگان کو ناحق اور کسی شرعی مصلحت کے بغیر برا بھلا کہنا حرام ہے  اور شرعی مصلحت یہ ہے کہ کسی بدعتی اور فاسق وغیرہ کی بدعت اور فسق وغیرہ میں پیروی کرنے سے لوگوں کو بچانا اور اس میں وہی آیات اور احادیث ہیں جو اس سے پہلے باب میں گزریں۔

۱۵۶۴۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم فوت شدگان کو برا بھلا نہ کہو ،اس لیے کہ انھوں نے جو عمل آگے بھیجے وہ ان کو پہنچ گئے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۵۸۳۔ فتح)

۲۶۸۔ باب:تکلیف پہنچانے کی ممانعت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اور وہ لوگ جو ناحق مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا پہنچاتے ہیں انھوں نے یقیناً بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھا یا۔        (الأحزاب:۵۸)

۱۵۶۵۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۳۱۔ فتح)و مسلم (۴۱)۔

۱۵۶۶۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو عاص بن عاص ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اسے آگ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے تو چاہیے کہ اس کو موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ اور یوم آخر ت پر ایمان رکھتا ہو اور وہ لوگوں سے وہی سلوک کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۶۶۸)ملاحظہ فرمائیں۔

۲۶۹۔ باب :باہم بغض رکھنے ،قطع تعلق کر لینے اور ایک دوسرے سے اعراض کرنے کی ممانعت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:مومن تو بھائی بھائی ہیں۔ (الحجرات:۱۰)

نیز فرمایا: وہ مومنوں پر نرم ہیں کافروں پر سخت ہیں۔ (المائدہ:۵۴)

اور فرمایا:محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھی کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان۔              (الفتح:۲۹)

۱۵۶۷۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: باہم بغض رکھو نہ حسد کرو،ایک دوسرے سے اعراض کرو نہ قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۸۱۱۰، ۴۹۲۔ فتح)و مسلم (۲۵۵۹)۔

۱۵۶۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت کے دروازے پیر اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں ،پس ہر اس بندے کو بخش دیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ،سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے کسی (مسلمان) بھائی کے درمیان عداوت ہو۔ پس کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو مہلت دی جائے حتیٰ کہ یہ دونوں صلح کر لیں ،ان دونوں کو مہلت دی جائے حتیٰ کہ یہ صلح کر لیں۔ (مسلم)

اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے :ہر جمعرات اور پیر کو اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ اور آگے وہی حدیث بیان کی۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۵۶۵)والرایۃ الثانیۃ عندہ (۲۵۶۵) (۳۶)۔

۲۷۰۔ باب: حسد کی حرمت

کسی صاحب نعمت سے زوال نعمت کی آرزو کرنے کا نام حسد ہے ،وہ نعمت خواہ دینی ہو یا دنیوی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا وہ لوگوں سے اس نعمت پر حسد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے۔ (النسا:۵۴)

۱۵۶۹۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: حسد سے بچو،اس لیے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑ ی کو کھا جاتی ہے یا آپ نے فرمایا: جس طرح آگ خشک گھاس کو کھا جاتی ہے جلا دیتی ہے۔ (ابوداؤد)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۹۰۳)۔

اس کی سند ابراہیم بن ابی اسید کے دادا کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن ماجہ (۴۲۱۰)میں اس کا ایک شاہد ہے لیکن اس کی سند میں یحییٰ بن ابی عیسیٰ الحناط ہے ،وہ متروک ہے ، قابل اعتبار نہیں۔

۲۷۱۔ باب: ٹوہ لگانے اور کسی کے نا پسند کرنے کے باوجود اس کی بات سننے کی ممانعت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ٹوہ مت لگاؤ۔ (الحجرات:۱۲)

اور فرمایا: اور و ہ لوگ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ناحق تکلیف پہنچاتے ہیں پس انھوں نے یقیناً بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔          (الاَحزاب:۵۸)

۱۵۷۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : بد گمانی سے بچو،اس لیے کہ

بد گمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے اور کسی کے عیبوں کی ٹوہ میں مت لگو،جاسوسی نہ کرو، کسی کے حصے کو غصب کرنے کی حرص اور رغبت نہ کرو،باہم حسد نہ کرو بغض نہ کرو،اور ایک دوسرے سے اعراض نہ کرو۔ اور اللہ کے بندو!تم بھائی بھائی بن جاؤ جیسا کہ اس نے تمہیں حکم دیا ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،وہ اس پر ظلم کرے نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑے اور نہ اسے حقیر سمجھے۔ تقویٰ یہاں ہے ،تقویٰ تو یہاں ہے۔ اور آپ اپنے سینے کی طرف اشارہ فرماتے (پھر فرمایا)آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ،ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پراس کا خون، اس کی عزت اور اس کا مال حرام ہے۔ بلاشبہ اللہ تمہارے جسموں کو دیکھتا ہے نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے ،تو وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔

ایک روایت میں ہے :تم باہم حسد کرو نہ بغض،جاسوسی کرو نہ ٹوہ لگاؤ اور محض دھوکا دینے کے لیے بولی بڑھا کر مت لگاؤ اور اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔

اور ایک روایت میں ہے : ’’ایک دوسرے سے تعلقات نہ توڑ و، ایک دوسرے سے اعراض نہ کرو، باہم بغض۔ رکھو نہ حسد کرو اور اللہ تعالیٰ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔ ‘‘

اور ایک روایت میں ہے : آپس میں تعلقات نہ توڑ و اور تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے۔

یہ ساری روایات مسلم نے بیان کی ہیں اور ان میں سے اکثر باتیں امام بخاری نے بھی روایت کی ہیں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۹۸۸۔ ۱۹۹۔ فتح)و مسلم (۲۵۶۳، ۲۵۶۴)والرایۃ الثانییہ عند مسلم      (۲۵۶۳) (۳۰)والثالثۃ (/۱۹۸۶۴) والرابعۃ (۲۵۶۳) (۲۹)۔

۱۵۷۱۔ حضرت معاویہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :اگر تم مسلمانوں کے عیوب تلاش کرو گے تو تم انہیں فساد میں مبتلا کر دو گے یا قریب ہے کہ تم انہیں فساد میں مبتلا کر دو۔ (حدیث صحیح ہے۔ ابو داؤد نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے)

توثیق الحدیث : صحیح اخرجہ ابوداؤد (۴۸۸۸)وسندہ صحیح کما قال المصنف۔

۱۵۷۲۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا تو اس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ فلاں آدمی ہے جس کی داڑھی سے شراب کے قطرے گر رہے ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا:ہمیں عیب تلاش کرنے سے منع کیا گیا ہے ،لیکن اگر ہمارے سامنے کوئی چیز ظاہر ہو گی تو ہم اس پر اس کی گرفت کریں گے۔ (حدیث حسن صحیح ہے۔ ابو داؤد نے اسے ایسی سند سے روایت کیا ہے جو بخاری و مسلم کی شرط پر ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ ابوداؤد (۴۸۹۰)بسند صحیح

۲۷۲۔ باب:بلا ضرورت مسلمانوں سے بد گمانی کرنا منع ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے ایمان والو!زیادہ بدگمانی کرنے سے بچو ،اس لیے کہ بدگمانی گناہ ہے۔ (الحجرات :۱۲)

۱۵۷۳۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بدگمانی سے بچو،اس لیے کہ بد گمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔        (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۵۷۰)ملاحظہ فرمائیں۔

۲۷۳۔ باب: مسلمانوں کو حقیر جاننا حرام ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو!کوئی قوم کسی قوم سے استہزا نہ کرے ،ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے استہزا کریں ،ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور اپنے (مومن بھائیوں) کو عیب مت لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے کاموں سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں پس وہی لوگ ظالم ہیں۔ (الحجرات:۱۱)

نیز فرمایا: ہر اس شخص کے لیئے ہلاکت ہے جو طعنہ زنی کرنے والا ،عیب جو اور چغل خور ہے۔ (الھمزۃ: ۱)

۱۵۷۴۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’آدمی کے برا ہونے کے لیے۔ یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ‘‘ (مسلم) اور یہ روایت تفصیل کے ساتھ قریب ہی گزری ہے۔

توثیق الحدیث کے لیے (۱۵۷۰)ملاحظہ فرمائیں۔

۵۷۵۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا۔ پس ایک آدمی نے عرض کی: بے شک آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا (لباس)اچھا ہو اور اس کی جوتی اچھی ہو (کیا یہ بھی تکبر ہے ؟)آپ نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے ،تکبر تو حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔            (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۶۱۲)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۷۶۔ حضرت جندب بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ایک آدمی نے کہا : اللہ کی قسم !اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو معاف نہیں کرے گا ،تو اللہ عزوجل نے فرمایا: کون ہے وہ جو مجھ پر اس بات کی قسم کھاتا ہے کہ میں فلاں شخص کو معاف نہیں کروں گا؟ (یہ بات کرنے والے سن لے) بے شک میں نے اسے تو معاف کر دیا اور تیرے اعمال میں نے برباد کر دیے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۲۱)۔

۲۷۴۔ باب:مسلمان کی تکلیف پر خوشی کا اظہار کرنا منع ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مومن تو بھائی بھائی ہیں۔ (الحجرات:۱۰)

نیز فرمایا:بے شک وہ لوگ جو اہل ایمان کے اندر بے حیائی پھیلانے کو پسند کرتے ہیں ،ان کے لیے دنیا و آخر ت میں درد ناک عذاب ہے۔ (النور:۱۹)

۱۵۷۷۔ حضرت واثلہ بن اسقعؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے کسی (مسلمان)

بھائی کی تکلیف پر خوشی کا اظہار نہ کرو (کہیں ایسا نہ ہو کہ)اللہ تعالیٰ اس پر تو رحم فرما دے اور تجھے کسی تکلیف سے دوچار کر دے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ الترمذی (۲۵۰۶)۔

اس کی سند ضعیف ہے ،اس میں مکحول شامی ثقہ مدلس ہے اور  ’’عن‘‘ سے روایت کرتا ہے اور اس کے واثلہ سے سماع کے متعلق اختلاف ہے ،ابو حاتم نے ’’مراسیل (ص۱۶۶)میں لکھا ہے کہ وہ واثلہ کے پاس پہنچا لیکن اس سے سنا نہیں۔              (واللہ اعلم)

او راس باب میں سیدنا ابو ہریرہؓ کی حدیث بھی ہے جو اس سے پہلے ’’باب التجس‘‘ میں گزر چکی ہے کہ (رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’)ہر مسلمان (کا خون،عزت اور مال) دوسرے مسلمان پر حرام

ہے۔ ‘‘

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۵۷۰)ملاحظہ فرمائیں۔

۲۷۵۔ باب :شرعی طور پر ثابت نسب میں طعن کرنا حرام ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور وہ لوگ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ناحق تکلیف دیتے۔ ہیں یقیناً انھوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔ (الأحزاب:۵۸)

۱۵۷۸۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں میں دو چیزیں ایسی ہیں جو ان کے کفر کا باعث ہیں :نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۷)

۲۷۶۔ باب : ملاوٹ کرنے اور دھوکا دہی کی ممانعت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اور وہ لوگ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ناحق تکلیف دیتے ہیں انھوں نے یقیناً بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھا یا۔ (الأحزاب:۵۸)

۱۵۷۹۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں اور جو ہمیں دھوکا دے وہ بھی ہم میں سے نہیں۔ (مسلم)

اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا تو آپ کی انگلیوں کو تری لگی ،آپ نے فرمایا:اے غلے والے !یہ کیا ہے ؟اس نے عرض کیا :یا رسول اللہ ! اس پر بارش ہو گئی تھی۔ آپ نے فرمایا:تم نے اسے غلے کے اوپر کیوں نہ کر دیا حتیٰ کہ لوگ اسے دیکھ لیتے ! سن لو !جس شخص نے ہمیں دھوکا دیا تو وہ ہم میں سے نہیں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۰۱)والراویۃالثانیۃ لہٗ (۱۰۲)۔

۱۵۸۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:صرف دھوکا دینے اور قیمت بڑھانے کے لیے بولی نہ دو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۳۵)اور (۱۵۷۰)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۷۱۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے محض دھوکا دینے کے لیے قیمت بڑھا کر بولی دینے سے منع فرمایا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۵۵۴۔ فتح)و مسلم (۱۵۱۶)۔

۱۵۸۲۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ایک آدمی نے ذکر کیا کہ خریدو فروخت کے وقت وہ دھوکا کھا جاتا ہے۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم جس سے سودا کرو تو اسے کہہ دیا کرو کہ دھوکا نہیں ہونا چاہیے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۷۴۔ فتح)و مسلم (۱۵۳۳)۔

۱۵۸۳۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی آدمی کی بیوی یا اس کے مملوک کو ورغلایا (یعنی کوئی الٹی سیدھی پٹی پڑھائی)تو وہ ہم میں سے نہیں۔ (ابو داؤد)

توثیق الحدیث : صحیح اخرجہ ابوداؤد (۲۱۷۵و۵۱۷۰)و احمد (/۳۹۷۲)۔

۲۷۷۔ باب:بد عہدی حرام ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! عہدوں کو پورا کرو۔    (المائدۃ :۱)

اور فرمایا: ’’عہد کو پورا کرو، اس لیے کہ عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ‘‘ (الاسرا:۳۴)

۱۵۸۴۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :چار خصلتیں (ایسی)ہیں کہ وہ جس شخص میں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو گی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی حتیٰ کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرے ،جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب عہد کرے تو بے وفائی کرے اور جب کسی سے جھگڑے تو گالی گلوچ کرے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۶۹۰)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۸۵۔ حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عمر اور حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:ہر عہد توڑ نے والے کے لیے قیامت والے دن ایک جھنڈا ہو گا ،کہا جائے گا یہ فلاں کی بد عہدی کا جھنڈا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۸۳۶۔ فتح)و مسلم (۱۷۳۶)

۱۵۸۶۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ہر بد عہدی کرنے والے کے لیے قیامت والے دن اس کی سرین کے پاس ایک جھنڈا ہو گا ،اسے اس کی بد عہدی کے برابر بلند کیا جائے گا۔ سنو!عام لوگوں کے بد عہد ا میر و حاکم سے بڑا بد عہدی کرنے والا کوئی نہیں۔    (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۷۳۸)۔

۱۵۸۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، تین آدمی ایسے ہیں جن سے قیامت والے دن میں خود جھگڑا کروں گا۔ ایک وہ آدمی جس نے میرے نام سے عہد کیا پھر اسے توڑ ڈالا ،دوسرا وہ آدمی جس نے کسی آزاد شخص کو بیچ ڈالا اور اس کی قیمت کھا لی اور تیسرا وہ آدمی جس نے کسی مزدور کو اجرت پر رکھا ،اس سے پوری خدمت لی لیکن اسے اسکی۔ اجرت نہیں دی۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۱۷۴۔ فتح)

۲۷۸۔ باب:عطیہ وغیرہ دینے کے بعد احسان جتلانا منع ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو!احسان جتا کر اور تکلیف دے کر اپنے صدقات ضائع مت کرو۔  (البقرۃ:۲۶۴)

نیز فرمایا:وہ لوگ جو اپنے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد احسان جتلاتے ہیں نہ تکلیف پہنچاتے ہیں۔ (البقرۃ:۲۶۲)

۱۵۸۸۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت والے دن کلام نہیں فرمائے گا،ان کی طرف (نظر رحمت سے)نہیں دیکھے گا اور انہیں پاک بھی نہیں کرے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔ حضرت ابوذر ؓ نے عرض کیا :وہ نامراد ہوئے اور خسارے میں رہے ،یا رسول اللہ !یہ کون لوگ ہیں ؟آپ نے فرمایا:ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا ،احسان کر کے احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کے ذریعے اپنا سودا بیچنے والا۔ (مسلم)

اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے : اپنے ازار کو نیچے لٹکانے والا یعنی اپنے ازار اور کپڑے کو تکبر کی وجہ سے ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۷۹۴) ملاحظہ فرمائیں۔

۲۷۹۔ باب :فخر کرنے اور سرکشی کرنے کی ممانعت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:تم اپنے بابت پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو،تم میں سے جو متقی ہیں انہیں وہ خوب جانتا ہے۔ (النجم:۳۲)

نیز فرمایا :بے شک ملامت کے لائق وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں ،یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (الشوری:۴۲)

۱۵۸۹۔ حضرت عیاض بن حمار ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے میری طرف یہ وحی بھیجی ہے کہ تم تواضع اختیار کرو حتیٰ کہ کوئی کسی پر ظلم و سرکشی نہ کرے اور نہ ہی کوئی کسی پر فخر کرے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۸۶۵) (۶۴)۔

۱۵۹۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی آدمی یہ کہتا ہے کہ لوگ ہلاک ہو گئے تو وہ سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔  (مسلم)

امام نو وی ؒ نے فرمایا: مشہور روایت کے مطابق (أَھْلَکُھُمْ)کاف پر پیش ہے اور یہ زبر کے ساتھ بھی مروی ہے۔ یہ کہنا کہ ’’لوگ ہلا ک ہو گئے‘‘ اس شخص کے لیے منع ہے جو اپنے آپ کو سب سے اچھا سمجھے اور لوگوں کو حقیر جانے اور اپنے آپ کو ان پر برتر خیال کرے ،پس یہ صورت حرام ہے۔ ہاں جو شخص لوگوں میں دین داری کے لحاظ سے کوئی نقص دیکھتا ہے اور اس پر اظہار افسوس کرتے ہوئے وہ یہ الفاظ کہہ دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ علما نے اس کی تفسیر اور تفصیل اسی طرح بیان کی ہے اور جن ائمہ اعلام نے یہ تفسیر بیان کی ہے ان میں امام مالک بن انس ،امام خطابی ،امام حمیدیؒ اور دیگر ائمہ ہیں۔ میں نے اسے ’’کتاب الا ذکار‘‘ میں واضح کیا ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۲۳)۔

۲۸۰۔ باب:مسلمانوں کو آپس میں تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرنا حرام ہے ،البتہ بدعتی شخص سے یا علانیہ فسق و فجور کے مرتکب وغیرہ سے قطع تعلق کر نا جائز ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مومن تو بھا ئی بھائی ہیں پس اپنے (لڑے ہوئے)بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو۔ (الحجرات :۱۰)

نیز فرمایا: گناہ اور زیادتی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ (المائدۃ:۲)

۱۵۹۱۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم آپس میں تعلقات منقطع نہ کرو ، ایک دوسرے سے بے رخی بر تو، نہ آپس میں بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے حسد کرو اور

اللہ تعالیٰ کے بند و!بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلقات منقطع رکھے۔     (متفق علیہ)۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۵۶۷)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۹۲۔ حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلقات منقطع رکھے ،دونوں آمنے سامنے۔ آ جائیں تو یہ اس سے اور وہ اس سے منہ پھیر لے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۹۲۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۵۶۰)۔

۱۵۹۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ہر پیر اور جمعرات کو اعمال  (اللہ تعالیٰ کے حضور)پیش کیے جاتے ہیں ،پس اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو معاف کر دیتا ہے جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا سوائے اس شخص کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان عداوت ہو۔ پس وہ فرماتا ہے ان دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو حتیٰ کہ یہ صلح کر لیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۵۶۸)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۹۴۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک شیطان اس چیز سے مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرۂ عرب میں مسلمان اس کی عبادت کریں گے لیکن وہ ان کے درمیان فساد ڈالتا رہے گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۸۱۲)۔

۱۵۹۵۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان)بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلقات منقطع کرے ،پس جس شخص نے تین دن سے زیادہ تعلقات منقطع کیے اور وہ اسی حالت میں فوت ہو گیا تو وہ جہنم میں جائے گا۔ (ابوداؤد۔ اس کی سند بخاری اور مسلم کی شرط پر ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۴۹۱۴)باسنادصحیح۔

۱۵۹۶۔ حضرت ابو خراش حدرد بن ابی حدرداسلمی اور بعض کے نزدیک سلمی صحابی ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی سے سال بھر تعلقات منقطع رکھے تو اس کا یہ عمل اس کا خون بہانے کی طرح ہے۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۴۰۴، ۴۰۵)وابو داؤد (۴۹۱۵)و احمد (/۲۲۰۴)۔

۱۵۹۷۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:کسی مومن کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی مومن سے تین دن زائد تعلقات منقطع کرے۔ پس اگر تین دن گزر جائیں تو اسے چاہیے کہ اس سے ملاقات کرے اور اسے سلام کرے ،اگر اس نے سلام کا جواب دے دیا تو پھر وہ اجر میں دونوں شریک ہو گئے اور اگر اس نے سلام کا جواب نہ دیا تو پھر وہ گناہگار ہوا۔ اور سلام کرنے والا ترک تعلق کے گناہ سے نکل گیا۔ (ابوداؤد۔ سند حسن ہیں)

امام ابوداؤد۔ ؒ فرماتے ہیں :اگر ترک تعلق اللہ کی رضا کی خاطر ہو تو پھر اس میں کوئی گناہ نہیں۔

توثیق الحدیث : حسن بالشواھد۔ اخرجہ البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۴۱۴)وابو داؤد (۴۹۱۲)۔

اس حدیث کی سند ہلال مدنی راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ،لیکن اس کے شواہد موجود ہیں کہ ابو ایوب کی حدیث (۱۵۹۲)جوا بھی گزری اور سیدہ عائشہ ؓ کی حدیث جوابو داؤد (۴۹۱۳)ہے۔ لہٰذا بالجملہ یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر حسن ہے۔ (واللہ اعلم!)

۲۸۱۔ باب:تیسرے آدمی کی اجازت کے بغیر دو آدمیوں کا آپس میں سرگوشی کرنا منع ہے مگر کسی ضرورت کے تحت تیسرے کی اجازت سے ایسے راز دارانہ انداز میں بات کرنا کہ وہ ان کی باتیں نہ سن سکے تو یہ جائز ہے اور اسی معنی میں یہ بھی ہے کہ وہ دو آدمی ایسی زبان میں بات چیت کریں کہ وہ اسے سمجھ نہ سکے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سرگوشی کرنا تو شیطان کی طرف سے ہے۔ (المجادلۃ:۱۰)

۱۵۹۸۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تین آدمی ہوں تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں۔              (متفق علیہ)

ابوداؤد نے اسے روایت کیا تو اس میں یہ اضافہ نقل کیا کہ ابو صالح بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عمرؓ سے پو چھا : اگر چار آدمی ہوں ؟تو انھوں نے فرمایا: اس میں تیرے لیے کوئی حرج نہیں۔

امام مالک ؒ نے اسے مؤطا میں روایت کیا ہے ،حضرت عبد اللہ بن دینار بیان کرتے ہیں کہ میں اور ابن عمر ؓ خالد بن عقبہ کے اس گھر کے پاس تھے جو بازار میں تھا،پس ایک آدمی آیا جو ان (ابن عمرؓ)سے سرگوشی کرنا چاہتا تھا۔ ابن عمرؓ کے ساتھ میرے علاوہ کوئی اور نہیں تھا ،پس انھوں نے ایک اور آدمی کو بلایا حتیٰ کہ ہم چار ہو گئے ، پس انھوں نے مجھے اور تیسرے آدمی کو جسے انھوں نے بلایا تھا کہا: کچھ دیر کے لیے (ہم سے)الگ ہو جاؤ ،اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے ،آپ نے فرمایا: ایک کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سر گوشی نہ کریں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۸۱۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۱۸۳)والزیادۃعند البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۱۱۷۰)وأبی داود (۴۸۵۲)، و احمد (/۱۸۲، ۱۴۱، ۱۴۲)واسنادھا صحیح علی شرط الشیخین۔ والروایۃ الأخیرۃعند مالث (/۹۸۸۲)۔

۱۵۹۹۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب تم تین ہو تو پھر تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کریں حتیٰ کہ تم لوگوں میں گھل مل جاؤ ،اس لیے کہ ایسا کرنا اس (تیسرے آدمی) کو غمگین کر دے گا۔      (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۸۲۱۱۔ ۸۳۔ فتح)و مسلم (۲۱۸۴)۔

۲۸۲۔ باب:غلام، جانور، بیوی اور اولاد کو کسی شرعی عذر کے بغیر یا حد ادب سے زیادہ سزا دینا منع ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور رشتے داروں ،یتیموں ،مسکینوں ،رشتے دار پڑوسی اور دور کے پڑوسی،ہم نشین ساتھی اور مسافر کے ساتھ اور ان کے ساتھ جو تمہارے غلام ہیں ،بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے ،فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النسا:۳۶)

۱۶۰۰۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ عذاب دیا گیا، اس نے اسے قید کر دیا حتیٰ کہ وہ مر گئی پس وہ اس کی وجہ سے جہنم میں گئی۔ نہ اس نے خود اسے کھلایا پلایا ،جب قید کیا اور نہ ہی اس نے اسے چھوڑا کہ وہ خود زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔              (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۱۵۔ فتح)و مسلم (۲۲۴۲)۔

۱۶۰۱۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے ،انھوں نے ایک پرندے کو نشانہ بنایا ہوا تھا اور اسے تیر مار رہے تھے اور انھوں نے پرندے کے مالک سے یہ طے کیا تھا کہ جو تیر نشانے پر نہیں لگے وہ اس کا ہے۔ پس جب انھوں نے حضرت ابن عمرؓ کو دیکھا تو وہ منتشر ہو گئے۔ پس حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا یہ کام کس نے کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو جس نے یہ کام کیا ہے ،بے شک رسول اللہﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو کسی جاندار چیز کو نشانہ بنائے۔              (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۶۴۳۹۔ فتح)و مسلم (۱۹۵۸)۔

۱۶۰۲۔ حضرت انس ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (قتل یا نشانے کے لیے)جانوروں کو باندھنے سے منع فرماتا ہے۔ (متفق علیہ) ا س کا معنی ہے کہ قتل کرنے کے لیے اسے قید کیا جائے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۶۴۲۹۔ فتح)و مسلم (۱۹۵۶)۔

۱۶۰۳۔ حضرت ابو علی سوید بن مقرن ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو بنو مقرن کے سات (بیٹوں)میں سے ساتواں دیکھا (یعنی ہم سات بھائی تھے)اور ہماری صرف ایک ہی کنیز تھی،ہمارے سب سے چھوٹے بھائی نے اسے طمانچہ مارا تو رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم اس کنیز کو آزاد کر دیں۔ (مسلم) اور ایک روایت میں ہے کہ میں اپنے بھائیوں میں سے ساتواں تھا۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۶۵۸) (۳۲)والروایۃ الثانیۃ لہٗ (۱۶۵۸) (۳۳)۔

۱۶۰۴۔ حضرت ابو مسعود بدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں کوڑے کے ساتھ اپنے ایک غلام کو مارتا رہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی : ابو مسعود!جان لیجئے۔ لیکن میں غصے کی وجہ سے وہ آواز پہچان نہ سکا،پس جبو ہ (آواز دینے والا)میرے قریب ہوا تو وہ رسول اللہﷺ تھے اور فرما رہے تھے : ابو مسعود!جان لیجئے !اللہ تجھ پر اس سے زیادہ قدرتو اختیار رکھتا ہے جتنا تم اس غلام پر رکھتے ہو۔ حضرت ابو مسعود ؓ بیان کرتے ہیں :میں نے کہا کہ میں اس کے بعد کبھی غلام کو نہیں ماروں گا۔

اور ایک اور روایت میں ہے کہ آپ کی ہیبت سے میرے ہاتھ سے کوڑا گر گیا۔

اور ایک اور روایت میں ہے :پس میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ !یہ اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہے۔ آپ نے فرمایا: اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو آگ تجھے جلا ڈالتی یا آگ تمہیں ضرور چھوتی۔ (یہ تمام روایت مسلم نے بیان کی ہیں)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۶۵۹)۔

۱۶۰۵۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنے غلام پر کسی نا کردہ جرم کی حد لگائی یا اسے طمانچہ مارا تو اس کا کفارہ یہ ہے وہ اسے آزاد کر دے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۶۵۷)۔

۱۶۰۶۔ حضرت ہشام بن حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ وہ ملک شام میں کچھ عجمی کا شتکاروں کے پاس سے گزرے ،جنہیں دھوپ میں کھڑا کیا گیا تھا اور ان کے سروں پر زیتون کا تیل ڈالا گیا تھا۔

حضرت ہشام ؓ نے یہ منظر دیکھ کر دریافت فرمایا: یہ کیا بات ہے ؟انھیں بتایا گیا کہ انہیں خراج کی وجہ سے سزا دی جا رہی ہے اور ایک اور روایت میں ہے کہ انہیں جزیے کی وجہ سے قید کیا گیا ہے۔ پس حضرت۔ ہشام ؓ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یقیناً رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :آپ نے فرمایا: بے شک اللہ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے ہیں۔ پھر وہ گورنر کے پاس گئے اور اسے حدیث سنائی تو اس نے انکے بارے میں حکم دیا تو انہیں چھوڑ دیا گیا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۱۳)۔

۱۶۰۷۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے کو (علامت کے طور پر)داغا ہوا تھا ،پس آپ نے اسے ناپسند فرمایا تو (رسول اللہﷺ نے یا حضرت ابن عباس ؓ نے)کہا : اللہ کی قسم! میں اسے اس کے چہرے سے سب سے زیادہ دور والے حصے کو داغوں گا۔ اور پھر انھوں نے اپنے گدھے کے بارے میں حکم دیا تو اس کے دونوں سرینوں کے کناروں پہ داغا گیا۔ پس یہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے سرینوں کے کناروں کو داغا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۱۱۸)۔

۱۶۰۸۔ حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ کا ایک گدھے کے پاس سے گزر ہوا ،جس کے چہرے کو داغا ہوا تھا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت فرمائے جس نے اسے داغا ہے۔ (مسلم)

اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے چہرے پر مارنے اور چہرے کو داغنے سے منع فرمایا ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۱۱۷)والروایۃ الثانیۃ عندہ (۲۱۱۶)۔

۲۸۳۔ باب: تمام حیوانات حتیٰ کہ چیونٹی وغیرہ کو بھی آگ میں سزا دینا حرام ہے

۱۶۰۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا تو فرمایا: ’’اگر تم فلاں فلاں شخص کو پاؤ‘‘ آپ نے قریش کے دو آدمیوں کا نام لیا۔ تو انہیں آگ میں جلا دو۔ پھر جب ہم نے روانہ ہونے کا ارادہ کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں شخص کو جلا دینا لیکن (اب نہ جلانا ،اس لیے کہ)اگ کا عذاب تو صرف اللہ ہی دے گا ، پس اگر تم ان دونوں کو پاؤ تو انہیں قتل کر دینا۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۴۹۶۔ فتح)

۱۶۱۰۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ،پس آپ۔ رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے ہم نے (چڑ یا کی طرح کا) ایک چھوٹا سا سرخ پرندہ دیکھا،اس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے ، ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا تو وہ پرندہ پر پھیلائے ان پر چکر لگانے لگا۔ اتنے میں نبیﷺ بھی تشریف لے آئے تو آپ نے پوچھا : اس پرندے کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے بے چینی سے دوچار کیا ہے ؟ اس کے بچے اسے لوٹا دو۔ اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی (گھر ،بل)دیکھی جسے ہم نے جلاد یا تھا ، آپ نے پوچھا : اسے کس نے جلایا ہے ؟ ہم نے عرض کیا : ہم نے۔ آپ نے فرمایا: آگ کا عذاب تو صرف آگ کا رب (مالک) ہی دے سکتا ہے۔ (ابو داؤد۔ اس کی سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۳۸۲)وابو داؤد (۲۶۷۵)۔

۲۸۴۔ باب:قدرت کے باوجود صاحب حق کے مطالبے پر حق ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا حرام ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے اہل کو دے دو۔ (النسا:۵۸)

نیز فرمایا: پس اگر بعض تمہارا بعض پر اعتبار کرے تو چاہیے کہ جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے وہ امانت واپس کر دے۔ (البقرۃ:۲۸۳)

۱۶۱۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :صاحب مال شخص کا (ادائیگی قرض کے وقت)ٹال مٹول کرنا حرام ہے اور جب تم میں سے کسی شخص کو (قرض کی وصولی کے لیے)کسی مالدار آدمی کے سپرد کر دیا جائے تو اسے چاہیے کہ اس (مالدار)کے پیچھے لگ جائے (اور اپنے قرض کا مطالبہ کرے)۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۶۴۴۔ فتح)و مسلم (۱۵۶۴)۔

۲۸۵۔ باب: ہبہ واپس لینے کی کراہت ،سوائے اس ہبہ کے جو ابھی موہوب لہٗ (جیسے ہبہ کیا جائے)کے سپر دہی نہ کیا ہوا اور وہ ہبہ جو اپنی اولاد کو کیا ہو اور خواہ وہ سپرد کیا ہو یا نہ کیا ہو، اس شخص سے وہ چیز خریدنے کی کراہت جو اس پر صدقہ کی ہو یا اسے بطور زکوٰۃ یا کفارہ وغیرہ کے ادا کیا ہو ،لیکن کسی دوسرے شخص سے اسے خریدنے میں کوئی حرج نہیں جس کی طرف وہ چیز منتقل ہو گئی ہو

۱۶۱۲۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے ہبے کو واپس لیتا ہے۔ وہ اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کی طرف لوٹتا ہے۔ (متفق علیہ)

اور ایک اور روایت میں ہے :اس شخص کی مثال جو اپنے صدقے کی طرف لوٹتا (یعنی اسے واپس لیتا) ہے اس کتے کی ہے جو قے کرتا ہے پھر اپنی قے کی طرف لوٹتا اور اسے کھاتا ہے۔

اور ایک روایت میں ہے اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اپنی قے کی طرف لوٹنے والے کی طرح ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۳۴۵۔ ۲۳۵۔ فتح)و مسلم (۱۶۲۲) (۸)الروایۃ الثانیۃ عند البخاری (/۲۱۶۵۔ فتح)و مسلم (۱۶۲۲)والثالثۃ عند البخاری (/۲۳۴۵۔ فتح)و مسلم (۱۶۲۲) (۷)۔

۱۶۱۳۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی مجاہد کو ایک گھوڑا بطور صدقہ دے دیا لیکن جس شخص کے پاس یہ گھوڑا تھا اس نے اسے ضائع کر دیا (یعنی اس کی صحیح دیکھ بھال نہ کی)تو میں نے اسے خریدنا چاہا اور میرا خیال تھا کہ وہ اسے معمولی قیمت پر فروخت کر دے گا۔ پس میں نے نبیﷺ سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: تم اسے نہ خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو اگرچہ وہ تمہیں ایک درہم میں دے دے ، اس لیے کہ اپنے صدقے کو واپس لینے والا اس شخص کی طرح ہے جو اپنی قے کی طرف لوٹے (یعنی اسے چاٹ لے)۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۵۳۳۔ فتح)و مسلم (۱۶۲۰)۔

۲۸۶۔ باب : یتیم کے مال کی حرمت کی تاکید

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بے شک وہ لوگ ناجائز طریقے سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ یقیناً اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ ڈال رہے ہیں اور عنقریب وہ بھڑ کتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔           (النسا:۱۰)

نیز فرمایا:مال یتیم کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو بہتر ہو۔ (الأنعام:۱۵۲)

اور فرمایا: یہ آپ یتیموں کے بارے میں پو چھتے ہیں ،ان سے فرما دیجیے ان کی اصلاح کرنی بہتر ہے اور اگر تم ان کو خرچ میں اپنے ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے ہی بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ خرابی کرنے والا کون ہے اور اصلاح کرنے والا کون؟

۱۶۱۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ !وہ سات مہلک چیزیں کون سی ہیں ؟آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ،جادو کرنا ،ناحق کسی جان کو قتل کرنا ،جسے اللہ نے قتل کرنا حرام کیا ہے ،سود کھانا،یتیم کا مال کھانا،کافروں کے ساتھ معرکے کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جا نا اور بھولی بھالی ،پاک دامن ، ایماندار عورتوں پر تہمت لگانا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۹۳۵۔ فتح)و مسلم (۸۹)

۲۸۷۔ باب:حرمت سود کی شدت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں وہ (روز قیامت)اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جس کو شیطان نے چھو کر بے حواس کر دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا کہ سود تو کاروبار ہی کی طرح ہے ، حالانکہ اللہ نے کاروبار کو تو حلال کیا ہے اور سود کو حرام (پھر دونوں کیسے ایک ہو سکتے ہیں ؟)پس جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آئی اور وہ (سود خوری سے)باز۔ آ گیا تو اس کے لیے (معاف) ہے جو (وہ زمانہ جاہلیت میں)پہلے لے چکا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو (اس حکم کے باوجود) دوبارہ سودی معاملہ کرے گا تو یہی لوگ ہیں دوزخ والے ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقوں کو بڑھاتا ہے۔ (البقرۃ:۲۷۵۔ ۲۷۸)

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان تک:اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور پچھلا سود چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔

اس سے متعلق ’’صحیح‘‘ میں بکثرت احادیث ہیں اور مشہور ہیں ، انہی میں سے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی وہ حدیث ہے جو اس سے پہلے باب میں گزر چکی ہے۔

۱۶۱۵۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سود کھانے والے اور کھلانے والے (دونوں)پر لعنت فرمائی ہے۔ (مسلم)

ترمذی وغیرہ نے یہ زیادہ روایت کیا ہے :اور سودی لین دین کے دونوں گوا ہوں اور اس کے لکھنے والے پر (بھی لعنت فرمائی)۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۹۵۸)والزیادۃعند أبی داود (۳۳۳۳)و الترمذی (۱۲۰۶)۔

۲۸۸۔ باب: ریا کاری کی حرمت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور انہیں صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ عبادت کریں ،اس کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے اور اسکی طرف یکسو ہو کر۔ (البینۃ:۵)

نیز فرمایا:اپنے صدقے احسان، جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر ضائع مت کرو،اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ (البقرۃ:۲۶۴)

اور فرمایا: وہ لوگوں کے سامنے دکھلاوا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا بہت کم ذکر کرتے ہیں۔ (النسا:۱۴۲)

۱۶۱۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمام شریک ٹھہرانے والوں کے شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جو کوئی ایسا عمل کرے کہ اس میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۹۸۵)۔

۱۶۱۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک قیامت والے دن جن لوگوں کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا (ان میں سے)ایک وہ آدمی ہو گا جسے شہید کر دیا گیا تھا،پس اسے اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا ،وہ اسے اپنی نعمتیں یاد کر آئے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو نے انہیں کیسے استعمال کیا ؟وہ عرض کرے گا: میں تیری راہ میں جہاد کیا حتیٰ کہ میں شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا البتہ تو تو اس لیے لڑا تھا کہ تجھے جری اور بہادر کہا جائے پس وہ (دنیا میں)کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور پھر وہ شخص ہو گا جس نے علم سیکھا اور قرآن مجید پڑھا ،پس اسے (اللہ کے حضور)پیش کیا جائے گا تو وہ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کر آئے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا،پھر اللہ فرمائے گا: تو نے ان کا استعمال کیسے کیا؟وہ عرض کرے گا : میں نے علم سیکھا اور اسے دوسروں کو سکھایا اور میں نے تیری رضا کے لیے قرآن مجید پڑھا۔ اللہ فرمائے گا : تو نے جھوٹ کہا، تو نے تو اس لیے علم حاصل کیا تھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے گا اور تو نے قرآن مجید اس لیے پڑھا تھا تاکہ یہ کہا جائے کہ وہ بڑا قاری ہے ،پس وہ تو (دنیا میں)کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتیٰ کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اور ایک اور آدمی ہو گا جسے اللہ تعالیٰ نے کشائش عطا فرمائی اور اسے مختلف قسم کا مال عطا کیا تھا،پس (اسے اللہ کے حضور)پیش کیا جائے گا تو اللہ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کر آئے گا،پس وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا کہ تو نے ان کی وجہ سے کیا عمل کیا؟وہ عرض کرے گا:میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑ ی کہ تو پسند کرتا ہو کہ اس راہ میں خرچ کیا جائے مگر میں تیری رضا کی خاطر وہاں ضرور خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا بلکہ تو نے تو یہ اس لیے کیا تھا کہ کہا جائے کہ وہ بڑا سخی ہے ،پس وہ تو (دنیا میں)کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۹۰۵)۔

۱۶۱۸۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے انہیں کہا کہ جب ہم اپنے حکمرانوں کے پاس جاتے ہیں تو ہم ان سے ایسی باتیں کرتے ہیں جوان باتوں کے خلاف ہوتی ہیں جو ہم ان کی عدم موجودگی میں کرتے ہیں (اس کیفیت کے بارے میں کیا حکم ہے)؟حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: ہم رسول اللہﷺ کے دور میں اسے نفاق شمار کرتے تھے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۵۴۱)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۶۱۹۔ حضرت جندب بن عبد اللہ بن سفیان ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو اللہ (قیامت والے دن) اسے رسوا کر دے گا اور جو شخص لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے نیک عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چھپے ہوئے عیبوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گا۔ (متفق علیہ)

اسے مسلم نے ابن عباسؓ سے بھی روایت کیا ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۶۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۹۸۷)وحدیث ابن عباس رضی اللہ عنھماعند مسلم (۲۹۸۶)۔

۱۶۲۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اس علم کو جس کے ذریعے سے اللہ کی رضا مندی حاصل کی جاتی ہے ،اس لیے سیکھتا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے دنیا کا مال و متاع حاصل کرے تو ایسا شخص قیامت والے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ (ابوداؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۳۶۶۴)و ابن ماجہ (۲۵۲)و احمد (/۳۳۸۲)۔

اس کی سند اگر چہ ضعیف ہے اس لیے کہ فلیح بن سلیمان صدوق اور  ’’سیء الحفظ‘‘ ہے لیکن ابو۔ سلیمان خزاعی نے جامع بیان العلم (/۱۹۰۱)میں اس کی متابعت کی ہے اور ابن عبد البر ؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔           (واللہ اعلم!)

۲۸۹۔ باب:ایسی چیزیں جن کے بارے میں ریا کا وہم ہوتا ہے حالانکہ وہ ریا نہیں ہوتیں

۱۶۲۱۔ حضرت ابو ذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے عرض کیا گیا : آپ اس آدمی کے بارے میں بتائیں جو کوئی نیک عمل کرتا ہے تو لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں (کیا یہ ریا کاری تو نہیں)؟

آپ نے فرمایا:یہ تو مومن کے لیے فوری انعام اور بشارت ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۴۲)۔

۲۹۰۔ باب:اجنبی عورت اور بے ریش خوبصورت لڑکے کی طرف کسی شرعی ضرورت کے بغیر دیکھنا حرام ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آپ مومن مردوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ (النور :۳۰)

نیز فرمایا: بے شک کان ،آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ (الا سرا:۳۶)

اور فرمایا: وہ آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں میں چھپی باتوں کو جانتا ہے۔        (غافر:۱۹)

نیز فرمایا: یقیناً تیرا رب گھات میں ہے (ہر ایک عمل کو دیکھ رہا ہے)۔ (الفجر :۱۴)

۱۶۲۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ابن آدم کے لیے اس کے زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے ،وہ یقیناً اسے پانے والا ہے ،آنکھوں کا زنا (غیر محرم کی طرف) دیکھنا ہے ،کانوں کا زنا (حرام آواز کا)سننا ہے ،زبان کا زنا (ناجائز)کلام کرنا ہے ،ہاتھ کا زنا (ناجائز)پکڑ نا ہے اور پاؤں کا زنا (نا جائز کام کی طرف)چل کر جانا ہے اور دل خواہش اور آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ (متفق علیہ۔ یہ الفاظ مسلم کے ہیں اور بخاری کی روایت مختصر ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۶۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۶۵۷) (۲۱)۔

۱۶۲۳۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہمارے لیے وہاں بیٹھے بغیر چارہ نہیں ، ہم وہاں گفتگو کرتے ہیں۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر تم نے وہاں ضرور بیٹھنا ہے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! راستے کا حق کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: نظر نیچی رکھنا، تکلیف دو چیز کو روکنا (ہٹا نا)، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا، اور برائی سے منع کرنا۔       (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر ۱۹۰ملاحظہ فرمائیں۔

۱۶۲۴۔ حضرت ابو طلحہ زید بن سہیل ؓ نے بیان کیا کہ ہم گھر سے باہر چبوترے پر بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا:تمہیں کیا ہے کہ تم راستوں پر مجلسیں قائم کرتے ہو؟راستوں پر مجلسیں قائم کرنے (بیٹھنے) سے بچو۔ ہم نے عرض کیا:ہم تو یہاں صرف پر امن طریقے سے بیٹھتے ہیں ، ہم یہاں مذاکرے اور بات چیت کے لیے بیٹھتے ہیں آپ نے فرمایا : اگر تم بیٹھنا ترک نہیں کر سکتے تو پھر اس (راستے)کا حق ادا کیا کرو:نظر نیچی رکھنا، سلام کا جواب دینا اور اچھی گفتگو کرنا (اس کا حق ہے)۔         (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۱۶۱)۔

۱۶۲۵۔ حضرت جریر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے اچانک نظر پڑ جانے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اپنی نظر پھیر لو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۱۵۹)۔

۱۶۲۶۔ حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہ ؓ رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت ابن ام مکتومؓ آ گئے اور یہ ہمیں پردے کا حکم ملنے کے بعد کا واقعہ ہے ،پس نبیﷺ نے فرمایا:تم دونوں اس سے پردہ کرو۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ !کیا وہ نا بینا نہیں ہیں ،وہ ہمیں دیکھتے ہیں نہ ہمیں پہچانتے ہیں ؟پس نبیﷺ نے فرمایا: کیا تم بھی نا بینی ہو؟کیا تم اسے نہیں دیکھتیں ؟        (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ ابو داود (۴۱۱۲)و الترمذی (۲۷۷۸)۔

یہ حدیث ضعیف ہے اس کی سند میں نبہان مولی ام سلمہ راوی مجہول ہے۔

۱۶۲۷۔ حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مرد مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور عورت عورت کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ دو آدمی (برہنہ حالت میں)ایک کپڑے میں لیٹیں اور نہ دو عورتیں (برہنہ حالت میں)ایک کپڑے میں لیٹیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۳۳۸)۔

۲۹۱۔ باب:اجنبی عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرنا حرام ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جب تم ان (امہات المومنین)سے کوئی چیز مانگو تو پردے کی اڑ میں مانگو۔  (الاحزاب:۵۳)

۱۶۲۸۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :تم (اجنبی)عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ پس ایک انصاری آدمی نے عرض کیا:آپ ’’حمو‘‘ (شوہر کے قریبی رشتہ دار)کے بارے میں فرمائیں ؟آپ نے فرمایا: شوہر کا قریبی رشتہ دار تو موت ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۰۹۔ فتح)و مسلم (۲۱۷۲)۔

۱۶۲۹۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص محرم کے بغیر کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۰۹۔ ۳۳۱۔ فتح)و مسلم (۱۳۴۱)۔

۱۶۳۰۔ حضرت برید ہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:مجاہدین کی عورتوں کی حرمت جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں پر ایسے ہی ہے جیسے ان کی اپنی ماؤں کی حرمت ہے۔ جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں میں سے جو شخص کسی مجاہد کے گھر والوں کا نگران بنتا ہے اور پھر وہ ان کے بارے میں خیانت کرتا ہے تو قیامت والے دن اسے مجاہد کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور یہ مجاہد اس شخص کی نیکیوں میں سے جتنی چاہے گا، لے لے گا حتیٰ کہ یہ راضی ہو جائے گا۔ پھر رسول اللہﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے (کیا یہ اس کے پاس کوئی نیکی چھوڑے گا)؟       (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۸۹۷)۔

۲۹۲۔ باب:لباس اور حرکت و ادا میں مردوں کو عورتوں کی اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے

۱۶۳۱۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عورتوں جیسی عادات و اطوار اور اخلاق و لباس اختیار کر نے والے مردوں اور مردوں جیسی عادات و اطوار اور اخلاق و لباس اختیار کر نے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔

ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں سے مشابہت اختیا ر کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔         (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۲۱۰۔ ۳۳۳۔ فتح)۔

۱۶۳۲۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورتوں کا سا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کا سا لباس پہنتی ہے۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۰۹۸)۔

۱۶۳۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا ،ایک تو وہ لوگ ہوں گے جن کے پاس گائے کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے اور وہ عورتیں ہوں گی جو لباس پہنے ہوئے ہوں گی لیکن وہ ننگی ہوں گی ،لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں گی اور خود ان کی طرف مائل ہونے والی ہوں گی،ان کے سر بختی اونٹ کے (لچکدار)کوہان کی طرح ہوں گے۔ وہ جنت میں جائیں گی نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو تو اتنی اتنی مسافت سے آئے گی۔            (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۱۲۸)۔

۲۹۳۔ باب:شیطان اور کفار کی مشابہت اختیار کرنے کی ممانعت

۱۶۳۴۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:بائیں ہاتھ سے مت کھاؤ ،اس لیے کہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۰۱۹)

۱۶۳۵۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی ایک بائیں ہاتھ سے کھائے نہ پیے ،ا س لیے کہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۰۲۰) (۱۰۶)

۱۶۳۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہودو نصاریٰ (داڑھی اور سر کے سفید بالوں کو زرد یا سرخ رنگ سے)رنگتے نہیں پس تم انکی مخالفت کرو۔ (متفق علیہ)

مطلب یہ ہے کہ داڑھی اور سرکے سفید بالوں کو زرد یا سرخ رنگ کے ساتھ رنگنا چاہیے ،البتہ انہیں سیاہ کرنا منع ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۵۴۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۰۳)۔

۲۹۴۔ باب:مرد اور عورت دونوں کو اپنے بال سیاہ رنگ کرنا منع ہے

۱۶۳۷۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے والد حضرت ابو قحافہؓ کو فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو ان کا  سر اور داڑھی ثغامہ بوٹی کی طرح سفید تھے۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس کے سفید بالوں کو بدل دو اور انہیں سیاہ کرنے سے بچو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۱۰۲)۔

۲۹۵۔ باب :سرکے کچھ بال مونڈنا اور کچھ چھوڑ دینا منع ہے ،البتہ سرکے سارے بال مونڈنا جائز ہے لیکن عورت کے لیے نہیں

۱۶۳۸۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سر کے کچھ بال مونڈ نے اور کچھ چھوڑ دینے سے منع فرمایا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۶۴۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۲۰)۔

۱۶۳۹۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک بچے کو دیکھا جس کے سر کے کچھ حصے کو مونڈا ہوا تھا اور کچھ کو چھوڑا ہوا تھا، پس آپ نے انہیں منع فرمایا اور فرمایا:اس کا سارا سر مونڈو یا سارا چھوڑ دو۔ (ابو داؤد۔ اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داود (۴۱۹۵)والنسائی (/۱۳۰۸)۔

۱۶۴۰۔ حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے آل جعفر کو (حضرت جعفر ؓ کی شہادت پر رونے کی) تین دن مہلت دی، پھر آپ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا۔ ‘‘ پھر فرمایا: ’’میرے بھتیجوں کو میرے پاس بلاؤ۔ ‘‘ ،پس ہمیں لا یا گیا تو ہماری حالت یہ تھی کہ گو یا ہم چوزے ہیں ، آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس حجام کو بلاؤ‘‘ پس آپ نے اسے حکم فرمایا تو اس نے ہمارے سر مونڈ دیے۔ (ابو داؤد۔ اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ )

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داود (۴۱۹۲)،،والنسائی (۸!۱۲۸)

۱۶۴۱۔ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عورت کو اپنے سرکے بال منڈوانے سے منع فرمایا ہے۔      (نسائی)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ النسائی (/۱۳۰۸)و الترمذی (۹۱۴)۔

امام ترمذی نے اسے مضطرب قرار دیا ہے اس لیے کہ ہمام کبھی اسے حضرت علی ؓ سے روایت کرتے ہیں اور کبھی حضرت عائشہ ؓ سے۔

۲۹۶۔ باب:مصنوعی بال ملانے (وگ لگانے) گودنے اور دانتوں کو باریک کرنے کی حرمت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:یہ اللہ تعالیٰ کے سوا مؤنث چیزوں ہی کو پکارتے ہیں اور صرف سرکش شیطان کی پوجا کرتے ہیں ، جس پر اللہ کی لعنت ہے اور شیطان نے (اللہ سے)کہا کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک مقرر حصہ ضرور لوں گا اور انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور انہیں آرزوؤں میں مبتلا کروں گا اور میں انہیں حکم دوں گا کہ وہ (بتوں کے نام)پر جانوروں کے کانوں کو چیریں اور میں انہیں حکم دوں گا،پس وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں میں مزید تبدیلی کریں گے۔ (النسا:۱۱۷۔ ۱۱۹)

۱۶۴۲۔ حضرت اسماءؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبیﷺ سے مسئلہ پوچھتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری بیٹی کو خسرے کی بیماری لگی جس سے اس کے بال جھڑ گئے ہیں اور میں نے اس کی شادی کر دی ہے ، کیا میں اس میں مصنوعی بال ملا سکتی ہوں ؟ا پ نے فرمایا: اللہ نے ’’واصلہ‘‘ اور  ’’موصولہ‘‘ پر لعنت فرمائی ہے۔ (متفق علیہ)

اور ایک اور روایت میں ہے : ’’الواصلہ‘‘ اور ’’مستوصلہ‘‘ پر لعنت فرمائی ہے۔ ‘‘

حضرت عائشہ ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : آخر جہ

البخاری (/۳۷۴۱۰۔ ۳۷۸۔ فتح)و مسلم (۲۱۲۲)وأماحدیث عائشہ ھو عند البخاری (/۳۷۴۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۲۳)۔

۱۶۴۳۔ حضرت حمید بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انھوں نے حج کے سال حضرت معاویہؓ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا اور انہوں نے بالوں کا ایک گچھا پکڑا جو ایک شاہی محافظ کے ہاتھ میں تھا،انھوں نے فرمایا: اے مدینہ والو!تمہارے علما کہاں ہیں ؟میں نے نبیﷺ کو اس طرح کے کاموں سے منع کرتے ہوئے سنا آپ فرماتے تھے :بنو اسرائیل اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی عورتوں نے اس کام کو اختیا ر کیا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۷۳۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۲۷)۔

۱۶۴۴۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بال ملانے والی اور ملوانے والی، جسم گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۷۴۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۲۴)۔

۱۶۴۵۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بدن گودنے والیوں اور گدوانے والیوں ، پلکوں کے بال اکھڑوانے والیوں اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان فاصلہ کرنے والیوں اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والیوں پر لعنت فرمائے۔ پس ایک عورت نے ان سے اس بارے میں بحث کی تو انھوں نے فرمایا:مجھے کیا ہے کہ میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی ہے اور وہ کتاب اللہ میں موجود ہے ؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’رسول جو تمہیں دے وہ لے لو اور جس سے تمہیں روک دے اس سے رک جاؤ۔            (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۷۴۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۲۵)۔

۲۹۷۔ باب:داڑھی اور سر وغیرہ کے سفید بال اکھاڑ نا اور بے ریش لڑ کے کو داڑھی کے بال اکھاڑ نا منع ہے جب اس کی داڑھی کے بال نکلنا شروع ہوں

۱۶۴۶۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: سفید بالوں کو نہ اکھیڑ و،ا س لیے کہ قیامت والے دن یہ مسلمان کا نور ہوں گے۔ (حدیث حسن ہے۔ ابو داؤد، ترمذی اور امام نسائی نے اچھی سند سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا :حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح اخرجہ ابو داؤد (۴۲۰۲)و الترمذی (۲۸۲۱)والنسائی (/۱۳۶۸)و ابن ماجہ (۳۷۲۱)۔

۱۶۴۷۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ عمل مردود ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۶۹)ملاحظہ فرمائیں۔

۲۹۸۔ باب: دائیں سے استنجا کرنے اور بلا عذر دائیں ہاتھ سے شرم گاہ کو چھونے کی کراہت

۱۶۴۸۔ حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرے تو وہ اپنے دائیں ہاتھ سے شرم گاہ کو پکڑے نہ دائیں ہاتھ سے استنجا کرے اور ہی برتن میں سانس لے۔     (متفق علیہ۔ اور اس باب میں بہت سی صحیح احادیث ہیں)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۵۳۱۔ ۲۵۴۔ فتح)و مسلم (۲۶۷)۔

۲۹۹۔ باب:کسی عذر کے بغیر ایک جوتے یا ایک موزے میں چلنا اور کھڑے کھڑے جوتا اور موزہ پہننے کی کراہت

۱۶۴۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص ایک جوتا پہن کر نہ چلے ،اسے چاہیے کہ دونوں جوتے پہنے یا پھر دونوں ہی اتار دے۔

ایک اور روایت میں ہے :یا دونوں پاؤں کو ننگا کر لے۔       (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۰۹۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۰۹۷)۔

۱۶۵۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب تم میں سے کسی شخص کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ جب تک اس کی مرمت نہ کرالے دوسرا جوتا بھی پہن کر نہ چلے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۰۹۸)۔

۱۶۵۱۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے کھڑے کھڑے جوتا پہننے سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح بشواھدہ۔ اخرجہ ابو داود (۴۱۳۵)۔

اس کی سند اگرچہ ابو زبیر کی تدیس کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن اس کے کئی شاہد ہیں جیسے سیدنا عمر ،اور سید انس اور سیدنا ابو ہریرہؓ۔ سے لہٰذا بالجملہ یہ حدیث صحیح ہے۔

۳۰۰۔ باب: سوتے وقت یا اس طرح کے کسی اور وقت گھر کے اندر جلتی ہوئی آگ کی چھوڑ نے کی ممانعت ،خواہ وہ چراغ کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں

۱۶۵۲۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: تم سوتے وقت اپنے گھروں میں جلتی ہوئی آگ نہ چھوڑا کرو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۸۵۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۰۱۵)۔

۱۶۵۳۔ حضرت ابو موسی اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ایک گھر رات کے وقت اپنے گھر والوں سمیت جل گیا ، جب رسول اللہﷺ کو ان کے بارے میں بتایا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ آگ تمہاری دشمن ہے ،پس جب تم سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۶۱)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۶۵۴۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: برتنوں کو ڈھانپ دیا کرو، مشکیزہ کا منہ بند کرو، دروازہ بند کر دیا کرو اور چراغ بجھا دیا کرو،اس لیے کہ شیطان (بند)مشکیزے کو (بند) دروازے کو اور (ڈھکے ہوئے)برتن کو نہیں کھولتا ،اگر تم سے کسی کوئی چیز نہ ملے وہ اس کی چوڑ آئی میں ایک لکڑ ی ہی رکھ دے اور اللہ تعالیٰ کا نام لے ،اس لیے کہ ایک چوہا بھی گھرکو گھر والوں سمیت جلا دیتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۸۵۱۱۔ ۸۷۔ فتح)مختصرا،و مسلم (۲۰۱۲)واللفظ لہٗ۔

۳۰۱۔ باب:تکلیف برتنے سے ممانعت اور یہ قول و فعل میں کسی مصلحت کے بغیر مشقت کا نام ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اے پیغمبر !)آپ فرما دیں میں اس (دعوت و تبلیغ)پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔ (ص:۸۶)

۱۶۵۵۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے۔             (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۶۴۱۳۔ ۲۶۵۔ فتح)

۱۶۵۶۔ حضرت مسروق بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پا س گئے تو انھوں نے فرمایا: اے لوگو!جسے جس بات کا علم ہو وہ اسے بیان کرے اور جسے جس بات کا علم نہ ہو وہ وہاں کہہ دے ’’اللہ اعلم‘‘ (اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے)اس لیے کہ جس چیز کے بارے میں علم نہ ہوا س کے بارے ’’اللہ اعلم‘‘ کہہ دینا ہی علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے فرمایا: آپ فرما دیں میں اس (دعوت و تبلیغ)پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۴۷۸۔ فتح)

۳۰۲۔ باب:میت پر بین کرنا ،رخسار پیٹنا ،گریبان چاک کرنا ،بال اکھاڑ نا ،سر کے بال منڈوانا اور ہلاکت و بربادی کی بد دعا کرنا حرام ہے

۱۶۵۷۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: میت کو اس کی قبر میں اس پر بین کیے جانے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔

اور ایک اور روایت میں ہے : جب تک اس پر بین کیا جاتا ہے اسے عذاب دیا جاتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۶۱۳۔ فتح)و مسلم (۹۲۷) (۱۷)

۱۶۵۸۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو رخسار پیٹے، گریبان چاک کرے اور جاہلیت کے بول بولے (بین کرے)۔       (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۶۳۳۔ فتح)و مسلم (۱۰۳)۔

۱۶۵۹۔ حضرت ابو بردہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسی ؓ بیمار ہو گئے اور ان پر غشی طاری ہو گئی ان کاسر ان کی بیوی کی گود میں تھا ،وہ بلند آواز سے رونے لگی اور حضرت ابو موسی (بے ہوشی کی وجہ سے)اسے منع نہ کر سکے جب انہیں افاقہ ہوا تو فرمایا:میں اس سے بیزار ہوں جس سے رسول اللہﷺ نے بیزاری کا اظہار فرمایا ہے ،بیشک رسول اللہ !صالقہ، حالقہ اور شاقہ عورت سے بیزار ہیں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۶۵۳۔ فتح)و مسلم (۱۰۴)

۱۶۶۰۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص پر بین کیا جائے اسے اس بین کیے جانے کی وجہ سے قیامت والے دن عذاب دیا جائے گا۔       (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۶۰۳۔ فتح)و مسلم (۹۳۳)۔

۱۶۶۱۔ حضرت ام عطیہ نسیبہ ؓ (نون پر پیش اور زبر،دونوں طرح مروی ہے)بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے بیعت لیتے وقت یہ عہد لیا کہ ہم بین نہیں کریں گی۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۷۶۳۔ فتح)و مسلم (۹۳۶)۔

۱۶۶۲۔ حضرت نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ بے ہوش ہو گئے تو ان کی بہن رونے لگی اور وہ کہتی تھی :ہائے اے پہاڑ !ہائے ایسے اور ایسے !وہ ان کی خوبیاں شمار کرتی تھی۔

حضرت نعمان بیان کرتے ہیں کہ جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے فرمایا:تم نے جو بھی کہا اس کے بارے میں مجھ سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا تم اسی طرح ہی ہو؟ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۱۶۷۔ فتح)۔

۱۶۶۳۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ بیمار ہوئے تو رسول اللہﷺ حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی معیت میں ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ ان کے پا س گئے تو وہ غشی کی حالت میں تھے، آپ نے فرمایا: کیا یہ فوت ہو گئے ہیں ؟صحابہ نے کہا نہیں یا رسول اللہ !پس رسول اللہﷺ رو پڑے۔ جب لوگوں نے نبیﷺ کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی رونے لگے۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا ’ کیا تم سنتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے اور دل کے غم کی وجہ سے عذاب نہیں دیتا بلکہ وہ تو اس کی وجہ سے عذاب دیتا ہے اور آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا ’’یا رحم فرماتا ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۹۲۵)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۶۶۴۔ حضرت ابو مالک اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بین کرنے والی اگر موت سے پہلے تو بہ نہ کرے تو اسے قیامت والے دن اس طرح کھڑا کیا جائے گا کہ اس پر تار کول کا کرتہ اور خارش کی زرہ ہو گی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۹۳۴)۔

۱۶۶۵۔ حضرت اسید بن ابو اسید تابعی بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ایک عورت سے روایت کرتے ہیں انھوں نے بتا یا کہ بھلائی کے وہ کام جن سے متعلق رسول اللہﷺ نے ہم سے یہ عہد لیا تھا کہ ہم ان کاموں میں آپ کی نافرمانی نہ کریں (وہ یہ ہیں)ہم چہرہ نہ نوچیں، ہلاکت کی بد دعا نہ کریں، گریبان چاک نہ کریں اور ہم بال نہ بکھیریں۔ (ابو داؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن اخرجہ ابوداؤد (۳۱۳۱)باسناد حسن کما قال المصنف رحمہ اللہ۔

۱۶۶۶۔ حضرت ابو موسی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی فوت ہو جاتا ہے اور اس پر رونے والے کھڑے ہو کر کہتے ہیں :ہائے پہاڑ !ہائے سردار !یا اس طرح کے اور الفاظ تو اس میت پر دو فرشتے مقرر کر دیے جاتے ہیں جو اسے سینے میں مکے (گھونسے)مارتے ہیں اور کہتے ہیں کیا تو ایسا ہی تھا ؟ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح لغیرہ۔ اخرجہ الترمذی (۱۰۰۳)و ابن ماجہ (۱۵۹۴)۔

اس حدیث کی سند حسن ہے لیکن اسی باب میں سید نا نعمان بن بشیر ؓ کی حدیث گزر چکی ہے ،جو اس کی شاہد ہے۔

۱۶۶۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں میں دو چیزیں ایسی ہیں جو ان کے کفر کا باعث ہیں نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۵۸۷)ملاحظہ فرمائیں۔

۳۰۳۔ باب: کاہنوں، نجومیوں، قیافہ شناسوں، اصحاب رمل اور کنکریوں اور جَو وغیرہ کے ذریعے سے پرندوں کو اڑا کر نیک شگونی یا بد شگونی لینے والوں کے پاس جانے کی ممانعت

۱۶۶۸۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے کاہنوں کے بارے میں رسول اللہﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ان کی کچھ بھی حیثیت نہیں۔ لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ بعض اوقات ہمیں کسی چیز کے بارے میں بتاتے ہیں تو وہ صحیح نکلتی ہے ؟رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ حق کی بات جو صحیح نکلتی ہے وہ ہے جسے جنا چک لیتا ہے اور اسے اپنے (کاہن)دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے پھر وہ اس ایک سچی بات کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتے ہیں۔            (متفق علیہ)

اور بخاری کی ایک روایت میں حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک فرشتے بادلوں میں اترتے ہیں اور اس امر کے بارے میں بات کرتے ہیں جس کا فیصلہ آسمان میں کیا گیا ہوتا ہے ،پس شیطان اس بات کو چوری سے سن لیتا ہے اور اسے کاہنوں تک پہنچا دیتا ہے پھر وہ اپنی طرف سے سو جھوٹ اس کے ساتھ ملا  دیتے ہیں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۱۶۱۰۔ ۵۹۵۔ فتح)و مسلم (۲۲۲۸)۔

۱۶۶۹۔ حضرت صفیہ بنت ابی عبید نبیﷺ کی ازواج مطہرات ؓ میں سے کسی ایک سے روایت کرتی ہیں کہ نبی نے فرمایا:جو شخص کسی نجومی یا پیشین گو کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پو چھے پھر اس کی تصدیق کرے تو ایسے شخص کی چالیس روز کی نماز قبول نہیں کی جائے گی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۲۳۰)۔

۱۶۷۰۔ حضرت قبیصہ بن مخارق ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : عیافہ، طیرہ اور طرق سب جبت سے ہیں۔

(ابو داؤد نے اسے حسن سند سے روایت کیا ہے اور فرمایا: ’’طرق‘‘ کا معنی ہے پرندے کا اڑ آنا کہ وہ اڑ کر دائیں جانب جاتا ہے یا بائیں جانب اگر تو وہ اپنی دائیں طرف اڑے تو اسے نیک شگون سمجھتے اور اگر وہ اپنی بائیں جانب اڑے تو پھر اسے بد شگون سمجھتے تھے)۔                (ابو داؤد)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ ابو داؤد (۳۹۰۷)و احمد (/۴۷۷۳)۔

اس کی سند میں حیان بن علا راوی مجہول ہے جس وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔

۱۶۷۱۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جس کسی نے علم نجوم میں سے کچھ حصہ سیکھا تو اس نے جادو کا ایک حصہ سیکھا ،وہ جس قدر علم نجوم بڑھتا گیا اسی قدر جادو میں بڑھتا گیا۔ (ابوداؤد۔ سند صحیح ہے۔ )

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۳۹۰۵)و ابن ماجہ (۳۷۲۶)و احمد (/۲۲۷۱۔ ۳۱۱)۔

۱۶۷۲۔ حضرت معاویہ بن حکم ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ !میرا عہد جاہلیت ابھی قریب ہی ہے اور اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی توفیق عطا فرما دی ہے اور ہم میں سے بعض آدمی کاہنوں کے پاس جاتے ہیں (ان کے بارے میں کیا حکم ہے)؟آپ نے فرمایا: تم ان کے پاس نہ جانا۔ میں نے عرض کیا اور ہم میں سے بعض لوگ شگون لیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ وہ چیز ہے جسے وہ اپنے سینوں میں پاتے ہیں لیکن یہ انہیں (کام وغیرہ کرنے سے)نہ روکے۔ میں نے عرض کیا اور ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں (اور ان کے ذریعے فال لیتے ہیں ؟)آپ نے فرمایا: انبیا ؑ میں سے ایک نبی لکیریں  کھینچا کرتے تھے ،پس جس کی لکیر ان کی لکیر کے موافق ہو گئی وہ درست ہے۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۷۰۱)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۶۷۳۔ حضرت ابو مسعود بدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی شیر ینی سے منع فرمایا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۲۶۴۔ فتح)و مسلم (۱۵۶۷)۔

۳۰۴۔ باب: بد شگونی لینے کی ممانعت

۱۶۷۴۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی بیماری متعدی ہے نہ بد شگونی لینے کی کوئی حیثیت ہے لیکن مجھے فال اچھی لگتی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : فال سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا: اچھی بات۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۱۴۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۲۲۴)۔

۱۶۷۵۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی بیماری متعدی ہے نہ بد شگونی لینے کی کوئی حقیقت ہے ،اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو وہ گھر میں ،عورت میں اور گھوڑے میں ہوتی ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۱۲۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۲۲۵)۔

۱۶۷۶۔ حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ بد شگونی نہیں لیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح اخرجہ ابود اود (۳۹۲۰)و احمد (/۳۴۷۵)۔

۱۶۷۷۔ حضرت عروہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سامنے فال لینے کا  ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ان میں سب سے اچھی چیز تو نیک فال ہے اور بد شگونی کسی مسلمان کو (کسی کام کے کرنے سے)نہ روکے ،پس جب تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے ناگوار گزرے تو اسے یہ کلمات کہنے چاہییں ’’اے اللہ ! تمام بھلائیاں صرف تو ہی لا تا ہے اور تمام تکلیفیں صرف تو ہی دور کرتا ہے ، نیز برائی سے بچنا اور نیکی کرنا محض تیری ہی توفیق سے ممکن ہے۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ ابوداؤد (۳۹۱۹)با سناد ضعیف۔

یہ حدیث ضعیف ہے ،اس لئے کہ اس کی سند میں عروہ بن عامر مختلف فیہ اور حبیب بن ابی ثابت مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے پس ضعیف حدیث قابل حجت نہیں۔

۳۰۵۔ باب:بستر، پتھر، کپڑے، درہمو دینار اور تکیے وغیرہ پر کسی جاندار کی تصویر بنانے کی حرمت ،اسی طرح دیوار، پردے، عمامے اور کپڑے وغیرہ پر تصویر بنانے کی حرمت اور تصویروں کو تلف کرنے کا حکم

۱۶۷۸۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک جو لوگ یہ تصویریں بناتے ہیں انہیں قیامت والے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو چیزیں تم نے بنائی تھیں اب انہیں زندہ کرو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۸۲۱۰۔ ۳۸۳۔ فتح)و مسلم (۲۱۰۸)۔

۱۶۷۹۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ سفر سے واپس تشریف لائے تو میں نے گھر کی ڈیوڑھی یا طاقچے پر ایک پردہ ڈالا ہوا تھا ،جس پر  تصویریں تھیں، جب رسول اللہﷺ نے اسے دیکھا تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور فرمایا:اے عائشہ !قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے مشابہ چیزیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کر تی ہیں :ہم نے اس (پردے) کے ٹکڑے کر دیے اور اس کے ایک یادو تکیے بنا لیے۔     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۶۵۰)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۶۸۰۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :ہر مصور جہنمی ہے ،اس کی ہر تصویر کے بدلے میں جو اس نے بنائی ہو گی ،ایک شخص بنایا جائے گا جو اسے جہنم میں عذاب دے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے (سائل سے)فرمایا:اگر تم نے ضروری ہی تصویر بنانی ہے تو درخت کی اور بے جان چیز کی تصور بناؤ۔              (متفق علیہ)۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۱۶۴۔ فتح)،و مسلم (۲۱۱۰).

۱۶۸۱۔ حضرت ابن عباس ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنا ئی تو قیامت والے دن اسے مجبور کیا جائے گا وہ اس میں روح پھونکے اور وہ روح پھونکنے کی استطاعت نہیں رکھے گا۔      (متفق علیہ)۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۹۳۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۱۰) (۱۰۰)

۱۶۸۲۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : قیامت والے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۱۰ /۳۹۳۔ فتح)و مسلم (۲۱۰۹)۔

۱۶۸۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو میری تخلیق کی طرح تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے !پس انہیں چاہیے کہ وہ ایک ذرہ ہی پیدا کر دیں یا ایک دانہ پیدا کر دیں یا پھر ایک جَو (کا دانہ)ہی پیدا کر دکھائیں۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۸۵۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۱۱)۔

۱۶۸۴۔ حضرت ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی کتا یا کوئی تصویر ہو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۸۰۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۰۶)۔

۱۶۸۵۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل ؑ نے رسول اللہﷺ کے پاس آنے کا وعدہ کیا لیکن انھوں نے تاخیر کر دی حتیٰ کہ یہ تاخیر رسول اللہﷺ پر گراں گزری۔ پس آپ باہر تشریف لائے تو جبرائیل ؑ آپ کو ملے ،آپ نے ان سے تاخیر کی شکایت کی تو انھوں نے فرمایا:ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی کتا ہو یا کوئی تصویر ہو۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۹۱۱۰۔ فتح)۔

۱۶۸۶۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت جبرائیل ؑ نے کسی گھڑ ی میں رسول اللہﷺ کے پاس آنے کا وعدہ کیا،پس وہ وقت موعود تو آ گیا لیکن حضرت جبرائیل ؑ تشریف نہ لائے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ آپ کے ہاتھ میں لاٹھی تھی،آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمانے لگے : اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف کرتا ہے اور نہ اس کے رسول۔ پھر آپ نے ادھر ادھر دیکھا تو آپ کی چار پائی کے نیچے کتے کا ایک بچہ تھا،آپ نے فرمایا: یہ کتا کب آیا تھا؟پس میں نے عرض کیا : اللہ کی قسم !مجھے تو اس کے بارے میں کوئی پتا نہیں۔ پس آپ نے اس کے بارے میں حکم فرمایا تو اسے باہر نکال دیا گیا۔ تب جبرائیل ؑ آپ کے پاس آئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: آپ نے مجھ سے آنے کا وعدہ کیا تھا ، میں آپ کے لیے رہا لیکن آپ میرے پاس نہیں آئے۔ جبرائیل ؑ نے عرض کیا:مجھے اس (پلّے)نے آنے سے روک دیا تھا جو آپ کے گھر میں تھا ،اس لیے کہ ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی کتا یا تصویر ہو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۱۰۴)۔

۱۶۸۷۔ حضرت ابو ہیاج حیان بن حصین بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے مجھے فرمایا:کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہﷺ نے مجھے بھیجا تھا؟وہ یہ ہے کہ تم ہر تصویر کو مٹا ڈالو اور ہر اونچی قبر کو برابر کر دو۔             (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۹۶۹)۔

۳۰۶۔ باب:شکار یا مویشی یا کھیتی کی حفاظت کے علاوہ کتا رکھنے کی حرمت

۱۶۸۸۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:جو شخص شکار یا مویشی کی حفاظت کے علاوہ کتا پالے تو اس کے اجر سے روزانہ دو قیراط کم ہو جاتے ہیں۔ (متفق علیہ)

ایک اور روایت میں ہے : ’’ایک قیراط کم ہو جاتا ہے۔ ‘‘

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۶۰۸۹۔ فتح)و مسلم (۱۵۷۴)

۱۶۸۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کھیتی یا مویشی کی حفاظت کے علاوہ (کسی اور مقصد کے تحت) کتا باندھا تو اس کے عمل میں سے روزانہ ایک قیراط کم ہوتا رہتا ہے۔ (متفق علیہ)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے :جس شخص نے شکار یا مویشی یا زمین کی حفاظت کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے کتا پا لا تو اس کے اجر سے روزانہ دو قیراط کم ہوتے رہتے ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۵۔ فتح)و مسلم (۱۵۷۵) (۵۹)۔

۳۰۷۔ باب:اونٹ یا دیگر جانوروں کی گردن میں گھنٹی لٹکانے اور دوران سفر کتے اور گھنٹی کو ساتھ رکھنے کی ممانعت

۱۶۹۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: فرشتے اس قافلے کے ساتھ نہیں ہوتے جس میں کتا یا گھنٹی ہو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۱۱۳)۔

۱۶۹۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ؐ نے فرمایا : گھنٹی شیطان کا الہ موسیقی ہے۔ (ابو داؤد۔ صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ ابو داؤد

(۲۵۵۶)۔ ایک نسخہ میں یہ حدیث صحیح مسلم (۲۱۱۴)کی طرف منسوب ہے۔

۳۰۸۔ باب:جلالہ پر سوار ہونا منع ہے ، جلالہ سے مراد گندگی کھانے والا اونٹ یا اونٹنی ہے ، اگر وہ پاک چارہ کھائے اور اس کا گوشت پاک ہو جائے تو پھر ممانعت کا حکم باقی نہیں رہے گا۔

۱۶۹۲۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے گندگی کھانے والے اونٹوں پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۲۵۵۸)باسنادصحیح۔

۳۰۹۔ باب:مسجد میں تھوکنا منع ہے اور اگر اس میں تھوک پڑا ہو تو اسے دور کرنے اور مسجد کو دیگر گندگیوں سے پاک رکھنے کا حکم

۱۶۹۳۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن (صاف)کر دینا ہے۔             (متفق علیہ)

دفن کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب مسجد میں مٹی یار یت وغیرہ ہو یعنی وہ کچی ہو تو پھر اسے مٹی کے نیچے چھپا دے۔ یہ بات ہمارے ساتھیوں میں سے ابو المحا سن رویانی نے اپنی کتاب ’’الجزا‘‘ میں بیان کی ہے اور بعض نے کہا دفن کرنے سے مراد اسے مسجد سے باہر نکال دینا ہے لیکن جب مسجد پتھروں کی بنی ہو ئی یا چونا گچ ہو تو پھر جوتے یا جھاڑ و و غیرہ کے ذریعے اسے وہاں مل دینا جیسا کہ بہت سے جاہل لوگ کرتے ہیں ایسا کرنا تھوک کو دفن کرنا نہیں بلکہ گناہ میں زیادتی اور مسجد میں گندگی کو بڑھانا ہے اور اگر کوئی شخص ایسا کرے۔ تو پھر اسے اس کے بعد اپنے کپڑے یا اپنے ہاتھ وغیرہ سے اسے صاف کرے یا پھرا سے دھو دے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۱۱۱۔ فتح)و مسلم (۵۵۲)۔

۱۶۹۴۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مسجد میں قبلے والی دیوار پر رینٹ، تھوک یا بلغم دیکھا تو اسے کھرچ کر صاف کر دیا۔        (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۰۹۱۔ فتح)و مسلم (۵۴۹)۔

۱۶۹۵۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک یہ مساجد پیشاب کرنے اور گندگی وغیرہ پھیلانے کیلئے نہیں ہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا ذکر اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے لیے ہیں یا جیسے رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۸۵)۔

۳۱۰۔ باب: مسجد میں جھگڑا کرنے، آواز بلند کرنے، گمشدہ چیز یا جانور کا اعلان کرنے، خریدو فروخت کرنے اور مزدوری وغیرہ کے معاملات کرنے کی ممانعت

۱۶۹۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:جو شخص کسی آدمی کومسجد میں گمشدہ چیز یا جانور کا اعلان کرتے ہوئے سنے تو اسے چاہیے کہ یہ کہے :اللہ تعالیٰ!تجھ پر یہ (چیز، حیوان وغیرہ)نہ لوٹائے اس لیے کہ مساجد اس مقصد کے لیے نہیں بنائی جاتیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۵۶۸)۔

۱۶۹۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب تم کسی شخص کومسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو:کہو اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت کو نفع مند نہ بنائے۔ اور جب تم کسی شخص کو (مسجد میں)کسی گمشدہ جانور یا چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنو تو کہو ’’اللہ تعالیٰ اسے تم پر نہ لوٹائے۔  (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۱۳۲۱)والدارمی (/۳۲۶۱)والحاکم (/۵۶۲)وغیرھم

۱۶۹۸۔ حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے مسجد میں اعلان کرتے ہوئے کہا کون ہے جو مجھے سرخ اونٹ کے بارے میں بتائے ؟رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’تو نہ پائے‘‘ مسجدیں تو صرف اسی لیے بنائی گئی جس کے لیے بنائی گئی ہیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۵۶۹)۔

۱۶۹۹۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا۔  ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مسجد میں خریدو فروخت کرنے، گمشدہ چیز یا جانور کا اعلان کرنے اور شعر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔        (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۰۷۹)و الترمذی (۳۲۲)والنسائی (/۴۷۲۔ ۴۸)و ابن ماجہ (۷۴۹)۔

۱۷۰۰۔ حضرت سائب بن یزید صحابی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی نے مجھے کنکری ماری، میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ تھے انھوں نے مجھے فرمایا:جاؤا ور ان آدمیوں کو میرے پاس لاؤ۔ پس میں ان دونوں کو آپ کے پاس لے آیا تو حضرت عمرؓ نے پوچھا :تم دونوں کہاں سے آئے ہو؟انھوں نے کہا ہم طائف سے آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اگر تم مدینہ شہر کے رہنے والے ہوتے تو تمہیں ضرور سز ا دیتا، تم رسول اللہﷺ کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کر رہے ہو۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۶۰۱۔ فتح)

۳۱۱۔ باب:لہسن ،پیاز یا گندنا یا کوئی اور بد بو دار چیز کھا کر اس کی بدبو زائل کیے بغیرمسجد میں داخل ہونا منع ہے ،مگر بوقت ضرورت جائز ہے

۱۷۰۱۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص اس درخت سے کھائے یعنی لہسن کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب بھی نہ آئے۔              (متفق علیہ)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے ہماری مساجد کے قریب نہ آئے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۹۲۔ فتح)و مسلم (۵۶۱)۔

۱۷۰۲۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص اس درخت سے کھائے تو وہ ہمارے قریب آئے نہ ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۹۲۔ فتح)و مسلم (۵۶۲)۔

۱۷۰۳۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص لہسن کھائے یا پیاز کھائے تو وہ ہم سے دور رہے یا فرمایا ہماری مسجد سے دور رہے۔              (متفق علیہ)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے : جو شخص پیاز لہسن اور گندنا کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے ،اس لیے کہ فرشتے بھی اس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۹۲۔ فتح)و مسلم (۵۶۴)۔

۱۷۰۴۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرمایا تو اپنے خطبے میں فرمایا :لوگو!تم دو ایسے درخت (سبزیاں)کھاتے ہو جنہیں میں اچھا نہیں سمجھتا ،وہ پیاز اور لہسن ہیں میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے کہ جب آپ مسجد میں کسی آدمی سے ان دو چیزوں کی بد بو محسوس کرتے تو آپ اس کے بارے میں حکم  فرماتے تو اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔ پس جو شخص انہیں کھائے تو وہ پکا کر ان کی بدبو زائل کر لے۔    (مسلم)

۳۱۲۔ باب:جمعہ کے دن دوران خطبہ گھٹنوں کو پیٹ کے ساتھ ملا کر بیٹھنا مکروہ ہے اس لئے کہ اس سے نیند اتی ہے جس وجہ سے خطبہ نہیں سنا جاتا اور وضو کے ٹوٹنے کا بھی اندیشہ ہے

۱۷۰۵۔ حضرت معاذ بن انس جہنیؓ سے روایت ہے کہ نبی۔ ؐ نے جمعہ کے دن دوران خطبہ گھٹنوں کو پیٹ کے ساتھ ملا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔      (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابوداؤد (۱۱۱۰)و الترمذی (۵۱۴)وغیرھما واسنادہ حسن۔

۳۱۳۔ باب:قربانی کا ارادہ رکھنے والے کو ذوالحجہ کا چاند دیکھنے سے قربانی کرنے تک اپنے بال یا ناخن نہیں کاٹنے چاہییں

۱۷۰۶۔ حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص کے پا س قربانی کا جانور ہو،جسے وہ ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ جب ذوالحجہ کا چاند نظر آئے تو وہ قربانی کرنے تک اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ نہ کاٹے۔           (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۹۷۷) (۴۲)۔

۳۱۴۔ باب: مخلوق کی قسم کھانے کی ممانعت جیسے نبی، کعبہ ،فرشتوں، با پ دادا، زندگی، روح، سر، بادشاہ کی زندگی اور اس کے انعامات کی اور کسی کی قبر کی اور امانت کی قسم کھانا نیز امانت کی قسم کھانے کی شدید ممانعت ہے

۱۷۰۷۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:بے شک اللہ تمہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپ دادا کی قسم کھاؤ ،پس جس شخص نے قسم کھانی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔             (متفق علیہ)

اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے : پس جس شخص نے قسم کھانی ہو تو وہ صرف اللہ کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۳۰۱۱۔ فتح)و مسلم (۱۶۴۶) (۳)

۱۷۰۸۔ حضرت عبد الرحمن بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم بتوں کی قسم کھاؤ نہ باپ دادا کی۔            (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۶۴۸)والریۃ الثانیہ عند النسائی (/۷۷)۔

۱۷۰۹۔ حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فر مایا: جس شخص نے امانت کی قسم کھائی وہ ہم میں سے نہیں۔    (حدیث صحیح ہے۔ ابوداؤد نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۳۲۵۳)و احمد (/۳۵۲۵)والحاکم (/۲۹۸۴)۔

۱۷۱۰۔ حضرت بریدہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص قسم کھائے اور یہ کہے میں اسلام سے بیزار ہوں ، اگر وہ جھوٹا ہے تو پھر وہ ویسے ہی ہے جیسے اس نے کہا اور اگر وہ سچا ہے تو پھر بھی وہ اسلام کی طرف سلامتی کے ساتھ ہرگز نہیں لوٹے گا۔ (ابوداؤد)

توثیق الحدیث : صحیح اخرجہ ابوداؤد (۳۲۵۸)والنسائی /۶۷)و ابن ماجہ (۲۱۰۰)۔

۱۷۱۱۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو کعبے کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو انھوں نے فرمایا: تم اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم نہ کھاؤ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائی تو اس نے کفر کیا یا شرک کیا۔          (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

بعض علما نے ’’اس نے کفر کیا یا شرک کیا‘‘ ۔ کی تفسیر اور وضاحت کی ہے کہ آپ نے یہ الفاظ سخت تنبیہ کے طور پر فرمائے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ریاکاری شرک ہے۔

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۱۵۳۵)و احمد (/۳۴۲، ۶۹، ۸۶، ۸۷)با سناد صحیح۔

۳۱۵۔ باب:عمداً جھوٹی قسم کھانے کی شدید ممانعت

۱۷۱۲۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان آدمی کا مال ہتھیانے کے لیے ناحق قسم اٹھائی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا، حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر رسول اللہﷺ نے اس بات کی تصدیق کے لیے قرآن مجید کی یہ آیات پڑھ کر ہمیں سنائی : ’’جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑ ی سی قیمت لے لیتے ہیں‘‘ ۔ ایت کے آخر۔ تک۔     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۵۔ فتح)و مسلم (۱۳۸)۔

۱۷۱۳۔ حضرت ابوا مامہ آیاس بن ثعلبہ حارثیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنی جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان آدمی کا حق لے لے ،تو اللہ ایسے شخص کے لیے جہنم کو واجب اور جنت کو اس پر حرام کر دیتا ہے۔ ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اگرچہ وہ چیز معمولی اور تھوڑ ی سی ہو؟آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۱۴)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۷۱۴۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: بڑے بڑے گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ،والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا، اور جھوٹی قسم اٹھانا۔         (بخاری)

اور ایک اور روایت میں ہے : ’’ایک دیہاتی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! بڑے بڑے گناہ کون سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، اس نے عرض کیا :پھر کون سا؟آپ نے فرمایا: ’’جھوٹی قسم۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا :جھوٹی قسم کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ’’جو کسی مسلمان آدمی کا مال لے لے‘‘ یعنی ایسی قسم کے ساتھ مال لے لے جس میں وہ جھوٹا ہو۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۳۳۷)ملاحظہ فرمائیں

۳۱۶۔ باب:جو شخص کسی کام پر حلف اٹھا لے پھر وہ اس کے علاوہ دوسرے کام کو بہتر سمجھے تو اس کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ اسے اختیار کر لے اور قسم کا کفارہ ادا کر دے

۱۷۱۵۔ حضرت عبد الرحمن بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: جب تم کسی کام پر حلف اٹھا لو ،پھر تم اس کے علاوہ دوسرے کام کو بہتر سمجھو تو اس سے بہتر کام کو اختیار کر لو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۶۷۴)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۷۱۶۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کام پر حلف اٹھائے پھر وہ اس کے علاوہ دوسرے کام کو بہتر سمجھے تو وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے اور جو بہتر کام ہے وہ کر لے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۶۵۰)۔

۱۷۱۷۔ حضرت ابو موسی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:بے شک اللہ کی قسم !اللہ نے چاہا تو میں جب کسی کام پر حلف اٹھاؤں گا پھر میں اس سے بہتر کام دیکھوں گا تو میں اپنی قسم کا کفارہ ادا کروں گا اور وہ کام اختیار کر لوں گا جو بہتر ہے۔             (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۱۷۱۱۔ فتح)و مسلم (۱۶۴۹)۔

۱۷۱۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کا اپنے گھر والوں کے بارے میں قسم پر اڑے رہنا اور اس کا کفارہ ادا نہ کرنا اس کے لیے اللہ کے ہاں اس بات سے زیادہ گناہ کا باعث ہے کہ وہ اس قسم کا کفارہ ادا کر دے جو اللہ نے اس پر فرض کیا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۱۷۱۱۔ فتح)و مسلم (۱۶۵۵)۔

۳۱۷۔ باب: لغو قسم کے معاف ہونے کا بیان اور یہ کہ اس میں کفارہ نہیں اور لغو قسم وہ ہے جو ارادۂ قسم کے بغیر عادت کے طور پر زبان پر۔ آ جائے ،جیسے لا واللہ، وبلی واللہ اور اس طرح کے دیگر الفاظ

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ لغو (لا یعنی ،بے فائدہ)قسم پر تمہارا مؤاخذہ نہیں فرماتا بلکہ وہ ان قسموں پر مؤاخذہ کرتا ہے جن کو تم نے مضبوطی سے باندھا۔ پس اس کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر کو والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے پہنانا ہے یا ایک گردن آزاد کرنا ہے۔ پس جو اس کی طاقت نہ رکھے تو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ (المائدۃ :۸۹)

۱۷۱۹۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ قرآن مجید کی یہ آیت ﴿لَا یُؤَاخِذُکُمُ اﷲُ بِاللَّغْوِفِیْ أَیْمَانِکُمْ﴾ ایسے آدمی کے بارے میں نازل ہوئی جو ویسے ہی کہتا رہتا ہے اللہ کی قسم!کیوں نہیں اللہ کی قسم ! (وغیرہ)۔      (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۷۵۸۔ فتح)۔

۳۱۸۔ باب:بیع کرتے وقت قسم اٹھانے کی کراہت اگرچہ وہ سچا ہی ہو

۱۷۲۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا:قسم سودے کے بکنے کا ذریعہ ہے لیکن کمائی (برکت)مٹانے کا بھی ذریعہ ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۷۵۸۔ فتح)و مسلم (۱۶۰۶)۔

۱۷۲۱۔ حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بیع کرتے وقت زیادہ قسمیں اٹھا نے سے بچو، اس لیے کہ اس سے سودا تو زیادہ اور جلد بک جاتا ہے لیکن یہ طریقہ برکت کو ختم کر دیتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۶۰۷)۔

۳۱۹۔ باب : اللہ تعالیٰ کے واسطے سے جنت کے علاوہ کسی اور چیز کا سوال کرنا نامناسب ہے اور اللہ تعالیٰ کے نام پر مانگنے والے اور اس کے ذریعے سفارش کرنے والے کو انکار کرنا ناپسندیدہ ہے

۱۷۲۲۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دے کر صرف جنت کا سوال  کیا جائے۔ (ابو داؤد)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۶۷۱)۔

یہ حدیث ضعیف ہے ، اس لیے اس کی سند میں سلیمان بن معاذ راوی ضعیف ہے ، بہت سے ائمہ جرح و تعدیل نے اس پر کلام کیا ہے۔

۱۷۲۳۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ کے واسطے سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو،جو شخص اللہ کے واسطے مانگے تو اسے عطا کر دو اور جو شخص تمہیں دعوت دے تو اسے قبول کرو اور جو شخص تمہارے ساتھ نیکی اور احسان کرے تو تم اسے بدلہ اور اگر تم اسے بدلہ دینے کے لیے کوئی چیز نہ پاؤ تو اس کے لیے اتنی دعا کرو حتیٰ کہ تمہیں یقین۔ آ جائے کہ تم نے اسے بدلہ دے دیا ہے۔ (ابوداؤد اور نسائی نے اسے صحیحین کی سندوں سے روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۱۶۷۲)والنسائی (/۸۲۵)وغیرھم با سناد صحیح۔

۳۲۰۔ باب:بادشاہ وغیرہ کو شہنشاہ کہنا حرام ہے ،اس لیے کہ اس کے معنی ہیں بادشاہوں کا بادشاہ اور یہ وصف صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے شایان شان ہے

۱۷۲۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے ذلیل ترین۔ نام یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنا نام شہنشاہ (بادشاہوں کا بادشاہ)رکھے۔ (متفق علیہ)

سفیان بن عینیہ بیان کرتے ہیں کہ ملک الاملاک اور شہنشاہ دونوں ہم معنی ہیں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۸۸۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۴۳)۔

۳۲۱۔ باب :فاسق اور بدعتی کو سید (سردار، آقا)وغیرہ کہنے کی ممانعت

۱۷۲۵۔ حضرت بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم منافق کو سید (سردار، آقا)نہ کہو ، اس لیے کہ اگر وہ سردار بھی ہوا تو تم نے (اسے سردار کہہ کر)اپنے رب عزوجل کو ناراض کر لیا۔ (ابوداؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۷۶۰)وابو داؤد (۴۹۷۷)و احمد (/۳۴۶۵۔ ۳۴۷)۔

اس کی سند کی شر ط پر صحیح ہے۔

۳۲۲۔ باب:بخار کو برا بھلا کہنا نا پسندیدہ ہے

۱۷۲۶۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت ام سائب یا امسیب ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو فرمایا: اے ام سائب!یا اسے ام مسیب ! کیا وجہ ہے کہ تم کانپ رہی ہو؟انھوں نے عرض کیا : بخار ہے ،اللہ تعالیٰ اس میں برکت نہ دے۔ آپ نے فرمایا:تم بخارا کوبرا بھلا نہ کہو، اس لیے کہ یہ انسان کے گناہ اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کی میل کچیل اور زنگ وغیرہ دور کر دیتی ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۵۷۵)۔

۳۲۳۔ باب:ہوا کو بر ابھلا کہنے کی ممانعت اور ہوا کے چلتے وقت کی دعا

۱۷۲۷۔ حضرت ابو منذرابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہوا کو برا بھلا نہ کہو ، جب تم اس میں کوئی نا پسندیدہ چیز دیکھو تو یہ دعا پڑھو ’’اے اللہ !ہم تجھ سے اس ہوا کی بھلائی کا اور اس بھلائی کا جواس میں ہے اور اس بھلائی کا جس کا اسے حکم دیا گیا ہے ، سوال کرتے ہیں اور تجھ سے اس ہوا کے شر سے اور اس شر سے جو اس میں ہے اس شر سے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے پناہ طلب کرتے ہیں‘‘ ۔         (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۷۱۹)و الترمذی (۲۲۵۲)والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیۃ) (۹۳۳)و احمد (/۱۲۳۵)وغیرہ ھم

۱۷۲۸۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ہوا بھی بندوں کے لیے اللہ کی رحمت ہے ،یہ رحمت لے کر اتی ہے اور کبھی عذاب لاتی ہے ، جب تم اسے دیکھو تو اسے بر ابھلا نہ کہو ،اللہ تعالیٰ سے اس کی خیرو بھلائی کا سوال کرو اور اس کی برائی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو۔ (ابوداؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۷۲۰)و ابو داؤد (۵۰۹۷)،ابن ماجہ (۳۷۲۷)۔

۱۷۲۹۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب تیز ہوا چلتی تو نبیﷺ فرمایا کرتے تھے :اے اللہ !میں تجھ سے اس کی بھلائی کا اور اس بھلائی کا جو اس میں ہے اور اس بھلائی کا جس کے ساتھ اسے بھیجا گیا ہے ، اور میں اس کے شر سے اور اس شر سے جو اس میں ہے اور اس شر سے جس کے ساتھ اسے بھیجا گیا ہے ، تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔     (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۸۹۹) (۱۵)۔

۳۲۴۔ باب:مرغ کو برا بھلا کہنا نا پسندیدہ ہے

۱۷۳۰۔ حضرت زید بن خالد جہنیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مرغ کو برا بھلا نہ کہو، اس لیے کہ وہ نماز کے لیے بید ار کرتا ہے۔    (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۱۰۱)۔

۳۲۵۔ باب:یہ کہنا منع ہے کہ ہمیں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نصیب ہوئی

۱۷۳۱۔ حضرت زید بن خالد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر رات کی بارش کے بعد ہمیں صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے ؟صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میرے بندوں میں سے کچھ نے یہ صبح مجھ پر ایمان کے ساتھ کی ہے اور کچھ نے میرے ساتھ کفر کر کے کی ہے۔ پس جس نے تو یوں کہا کہ ہمیں اللہ کے فضل و کرم اور اس کی رحمت سے بارش نصیب ہوئی ہے تو یہ مجھ پر ایمان لانے والا ہے اور ستاروں کا منکر ہے اور جس نے یوں کہا کہ ہمیں فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نصیب ہوئی ہے تو یہ میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے اور ستاروں پر ایمان لانے والا ہے۔              (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۳۲۔ فتح)و مسلم (۷۱)۔

۳۲۶۔ باب: کسی مسلمان کو کافر کہنا حرام ہے

۱۷۳۲۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب آدمی اپنے (مسلمان)

بھائی کو اے کافر!کہتا ہے تو یہ کلمہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹ آتا ہے ،اگر تو وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے تو ٹھیک ورنہ پھر یہ کلمہ کفر اس کہنے والے کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۱۴۱۰۔ فتح)و مسلم (۶۰)۔

۱۷۳۳۔ حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے کسی آدمی کو کافر کہہ کر پکارا یا اسے اللہ تعالیٰ کا دشمن قرار دیا ،جب کہ ایسا نہ ہو ،تو یہ کفر اسی کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۶۴۱۰۔ فتح)و مسلم (۶۱)۔

۳۲۷۔ باب: فحش گوئی اور بد زبانی کی ممانعت

۱۷۳۴۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن طعنہ زنی کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت کرنے والا اور وہ فحش گو تا ہے نہ بد زبان۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۵۵۵) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۷۳۵۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے ہودگی جس چیز میں بھی ہو گی اسے عیب دار اور ناقص بنا دے گی اور حیا جس چیز میں بھی ہو گی اسے خوبصورت اور کامل بنا دے گی۔           (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۶۰۱)و الترمذی (۱۹۷۴)و ابن ماجہ (۴۱۸۵)۔

۳۲۸۔ باب: گفتگو میں تصنع کرنا ،با چھیں کھولنا، تکلف سے فصاحت کا اظہار کرنا اور عوام وغیرہ سے مخاطب ہوتے وقت غیر معروف الفاظ اور دقیق معافی بیان کرنا نا پسندیدہ ہے

۱۷۳۶۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:مبالغہ آرائی کرنے والے اور تکلف سے کام کرنے لینے والے ہلاک ہو گئے۔ آپ نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۴۴)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۷۳۷۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ آدمیوں میں سے بلاغت کا اظہار کرنے والے اس شخص کو برا جانتا ہے جو بات کرتے وقت اپنی زبان کو اس طرح پھیر تا ہے جس طرح گائے جگالی کرتے وقت اپنی زبان کو پھیر تی ہے۔ (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح بشواھد ہ۔ اخرجہ ابوداؤد (۵۰۰۵)و الترمذی (۲۸۵۳)و احمد (/۱۶۵۲و۱۸۷)۔

اس کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں سوائے عاصم بن سفیان کے ،وہ صدوق ہے اور مسند احمد (/۱۷۵۱۔ ۱۷۶،۱۸۴) میں سید نا سعد ؓ کی حدیث اس کی شاہد ہے اور بالجملہ یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔

۱۷۳۸۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک تم میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت والے دن میرے سب سے زیادہ قریبو ہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق تم میں سے بہت اچھے ہوں گے اور بے شک تم میں سے مجھے سب سے زیادہ نا پسندیدہ اور قیامت والے دن مجھ سے سب زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو تکلف سے زیادہ باتیں کرنے والے، با چھیں کھول کر گفتگو کرنے والے منہ بھر کر کلام کرنے والے ہیں۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۶۳۱)ملاحظہ فرمائیں۔

۳۲۹۔ باب : یہ کہنا نا پسندیدہ ہے کہ میرا نفس خبیث ہو گیا ہے

۱۷۳۹۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میرا نفس خبیث ہو گیا لیکن اسے چاہیے کہ یہ کہے میرا نفس لقیس (بے چین ،سست)۔ ہو گیا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۶۳۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۲۵۰)۔

۳۳۰۔ باب :انگور کا نام کرم رکھنا ناپسندیدہ ہے

۱۷۴۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: انگور کا نام کرم نہ رکھو،اس لیے کہ کرم تو مسلمان ہے۔ (متفق علیہ۔ یہ الفاظ مسلم کے ہیں)

اور ایک اور روایت میں ہے :کرم تو مومن کا دل ہے۔ اور صحیحین کی ایک روایت میں ہے :یہ لوگ (انگور کو)کرم کہتے ہیں ،حالانکہ کرم تو مومن کا دل ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۶۴۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۲۴۷) (۸)والروایۃ الثانیۃ عند مسلم (۲۲۴۷) (۹)والثانیۃ عند البخاری (/۵۶۶۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۲۴۷) (۷)۔

۱۷۴۱۔ حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: تم انگور کو کرم نہ کہو ،بلکہ تم اسے عنب اور حبلہ کہو۔           (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۲۴۸) (۱۲)۔

۳۳۱۔ باب: کسی مرد کے سامنے عورت کے محاسن بیان کرنا منع ہے ،بجز اس کے کہ کسی شرعی مقصد جیسے نکاح وغیرہ کے لیے اس کی ضرورت ہو

۱۷۴۲۔ حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:کوئی عورت دوسری عورت کے جسم کے ساتھ اپنا جسم نہ ملائے اور نہ اپنے خاوند سے اس کے اوصاف اس طرح بیان کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۸۹۔ فتح)۔

۳۳۲۔ باب: انسان کا یہ کہنا ’’اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کر دے‘‘ نا پسندیدہ ہے ،بلکہ یقین کے ساتھ دعا کی جائے

۱۷۴۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی یہ نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے ،اے اللہ !اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما،اسے چاہئے کہ یقین کے ساتھ سوال کرے، اس لیے کہ اس (اللہ تعالیٰ)کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں۔           (متفق علیہ)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے : اور لیکن عزم و یقین کے ساتھ سوال کرے اور خوب رغبت و الحاح کا اظہار کرے ،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز بڑ ی یا مشکل نہیں جو وہ مانگنے والے کو عطا کرتا ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۳۹۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۶۷۹) (۹)۔

۱۷۴۴۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو یقین کے ساتھ سوال کرے ،ایسے نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا فرما،اس لیے کہ اسے کوئی مجبور کرنے والا نہیں ہے۔       (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۳۹۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۶۷۸)۔

۳۳۳۔ باب:جو اللہ تعالیٰ چاہے اور جو فلاں چاہے کہنا نا پسندیدہ ہے

۱۷۴۵۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: تم اس طرح نہ کہو کہ جو اللہ چاہے اور جو فلاں چاہے بلکہ یوں کہو کہ جو اللہ چاہے پھر جو فلاں چاہے۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۹۸۰)و احمد (/۳۸۴۵و۳۹۴و۳۹۸) والبیھقی (۳ /۲۱۶)۔

۳۳۴۔ باب:عشا کے بعد باتیں کرنے کی کراہت

اس سے مراد وہ باتیں ہیں جو اس وقت کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں مباح اور جائز ہیں اور ان کا کرنا اور چھوڑنا برابر ہو۔ جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے جو اس وقت کے علاوہ دیگر اوقات میں حرام یا مکروہ ہوں تو ان کا اس وقت کرنا زیادہ حرام اور زیادہ مکروہ ہو گا۔ لیکن خیرو بھلا ئی کی بات جیسے علمی مذاکرہ، صالحین کی حکایات، مکارم اخلاق کا تذکرہ، مہمان کے ساتھ بات چیت اور کسی ضرورت مند کے ساتھ بات چیت کرنا تو اس میں کوئی کراہت نہیں بلکہ یہ تو مستحب ہے۔ اور اسی طرح کسی عذر یا سبب کی وجہ سے گفتگو کرنا، تو اس میں بھی کوئی کراہت نہیں۔ میں نے جو کچھ بیان کیا ہے اس پر صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں۔

۱۷۴۶۔ حضرت ابو برزہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نماز عشا سے پہلے سونا اور اس کے بعد بات چیت کرنا ناپسند فرماتے تھے۔        (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۹۲۔ فتح)و مسلم (۶۴۷) (۲۳۷)۔

۱۷۴۷۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے۔ اپنی حیات کے آخر ی دور میں نماز عشا پڑھائی ،جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا:مجھے بتاؤ کہ یہ رات کون سی ہے ؟پس جو شخص آج رُوئے زمین پر زندہ ہے وہ ایک سو سال (صدی) کے پورے ہونے تک باقی نہیں رہے گا (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۵۲)و مسلم (۲۵۳۷)۔

۱۷۴۸۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے (نماز عشا کے لیے)نبیﷺ کا انتظار کیا،آپ تقریباً نصف شب کے وقت ان کے پاس تشریف لائے تو انہیں عشا پڑھائی پھر آپ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو فرمایا: سنو!بے شک (دوسرے)لوگ نماز پڑھ کر سو چکے ہیں لیکن تم جتنی دیر تک نماز کا انتظار کرتے رہے برابر (مسلسل)نماز ہی میں رہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۷۳۲۔ فتح)و مسلم (۶۴۰)۔

۳۳۵۔ باب:شرعی عذر کے بغیر عورت کے لیے اپنے خاوند کے بلانے پر اس کے بستر پر جانے سے انکار حرام ہے

۱۷۴۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے اور خاوند اس سے ناراضی کی حالت میں رات بسر کرے تو فرشتے صبح ہونے تک اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (متفق علیہ)

ایک روایت میں ہے : حتیٰ کہ وہ عورت لوٹ آئے۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۸۱)ملاحظہ فرمائیں۔

۳۳۶۔ باب : خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر عورت کا نفلی روزہ رکھنا حرام ہے

۱۷۵۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھے اور یہ بھی جائز نہیں کہو ہ اس کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر کسی کو داخل ہونے کی اجازت دے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۸۲)ملاحظہ فرمائیں۔

۳۳۷۔ باب:مقتدی کا رکوع یا سجدے سے امام سے پہلے سر اٹھا نا حرام ہے

۱۷۵۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:کیا تم میں سے کوئی ایک جب اپنا سر امام سے پہلے اٹھاتا تو وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سرکو گدھے کا سر بنا دے یا اللہ اس کی صورت کو گدھے کی صورت بنا دے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۸۲۲۔ ۱۸۳۔ فتح)و مسلم (۴۲۷)

۳۳۸۔ باب:نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنا ناپسندیدہ ہے

۱۷۵۲۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے سے منع کیا گیا ہے (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۸۸۳۔ فتح)و مسلم (۵۴۵)۔

۳۳۹۔ باب: کھانے کی موجودگی میں جب کہ طبیعت کھانے کی طرف راغب ہو یا پیشاب ،پاخانے کی شدید حاجت کے وقت نماز پڑھنا مکروہ ہے

۱۷۵۳۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ،آپ نے فرمایا:کھانے کی موجودگی میں نماز نہیں ہوتی اور نہ اس وقت جب پیشاب ،پاخانے کی شدید حاجت ہو۔ ۔ ۔  (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۵۶۰)۔

۳۴۰۔ باب: دوران نماز آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا منع ہے

۱۷۵۴۔ حضرت انس ؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھا تے ہیں۔ پس یہ بات کرتے ہوئے آپ کا لہجہ سخت ہو گیا حتیٰ کہ آپ نے فرمایا: وہ اس حرکت سے باز۔ آ جائیں یا پھر ان کی نگاہیں ا چک لی جائیں گی (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۳۳۲۔ فتح)۔

۳۴۱۔ باب: کسی عذر کے بغیر دوران نماز ادھر اُدھر دیکھنا ناپسندیدہ ہے

۱۷۵۵۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:یہ تو ایک جھپٹ ہے جو شیطان بندے کی نماز سے اچانک جھپٹ لیتا ہے۔            (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۳۴۲۔ فتح)۔

۱۷۵۶۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا:نماز میں ادھر ادھر دیکھنے سے بچو،اس لیے کہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنا ہلاکت ہے۔ اگر ضرور ہی دیکھنا ہو تو نفلی نماز میں دیکھا جا سکتا ہے ، فرض نماز میں نہیں۔    (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ الترمذی (۵۸۹)با سناد ضعیف

یہ حدیث ضعیف ہے ، حافظ ابن قیم ؒ نے زاد المعاد (/۲۴۹۱)میں دو علتوں کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

(الف)سعید کی انس سے روایت کا کوئی علم نہیں۔

(ب)اس کی سند میں علی بن زید بن جدعان ہے۔

۳۴۲۔ باب: قبروں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا منع ہے

۱۷۵۷۔ حضرت ابو مرثد کناز بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :آپ نے فرمایا: قبروں کی طرف منہ کر کے نما ز پڑھو نہ ان کے اوپر بیٹھو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۹۷۲) (۹۸)۔

۳۴۳۔ باب:نمازی کے آگے سے گزرنا حرام ہے

۱۷۵۸۔ حضرت ابو جہنم عبد اللہ بن حارث بن صمہ انصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو معلوم ہو جائے کہ اس کا کتنا گناہ ہے تو وہ چالیس (دن،ماہ یا سال)تک کھڑے رہنا اس کے آگے سے گزرنے سے بہتر سمجھے۔

راوی بیان کرتے ہیں مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال فرمایا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۸۴۱۔ فتح)و مسلم (۵۰۷)۔

۳۴۴۔ باب: مؤذن کے اقامت شروع کرنے کے بعد مقتدی کے لیے نفلی نماز پڑھنا مکروہ ہے خواوہ اس نماز کی سنت ہو یا کوئی اور نماز

۱۷۵۹۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:جب فرض نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو پھر فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۱۰)۔

۳۴۵۔ باب:جمعے کے دن کو روزے کے لیے یا جمعے کی رات کو دیگر راتوں سے نماز کے لیے مخصوص کرنا ناپسندیدہ ہے

۱۷۶۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: باقی راتوں میں سے جمعے کی رات کو قیام کے لیے مخصوص کرو نہ باقی ایام میں سے جمعے کے دن کو روزے کے لیے خاص کرو،الا یہ کہ وہ جمعہ اس مدت میں۔ آ جائے جس میں تمہارا کوئی ایک روزے رکھتا ہو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۱۴۴) (۱۴۸)

۱۷۶۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :آپ نے فرمایا:تم میں سے کوئی ایک جمعے کے دن روزہ نہ رکھے ،البتہ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد (بھی روزہ رکھے ،تو پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں)۔  (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۳۲۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۴۴)۔

۱۷۶۲۔ محمد بن عباد بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر ؓ سے پوچھا :کیا نبیﷺ نے جمعہ کے دن کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ؟تو انھوں نے کہا : ہاں (منع فرمایا ہے)۔           (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۳۲۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۴۳)۔

۱۷۶۳۔ حضرت ام المومنین جویریہ بنت حارثؓ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جمعہ کے دن ان کے پاس تشریف لائے جب کہ وہ روزے سے تھیں۔ آپ نے فرمایا:کیا تم نے کل روزہ رکھا تھا ؟انھوں نے عرض کیا : نہیں ! آپ نے فرمایا: کیا تم کل کا روزہ رکھنا چاہتی ہو؟ انھوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: پس تم روزہ افطار کر لو۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۳۲۴۔ فتح)۔

۳۴۶۔ باب :صوم وصال کی حرمت یعنی دو یا اس سے زیادہ دن کچھ کھائے پیے بغیر مسلسل روزہ رکھنا منع ہے

۱۷۶۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے وصال کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔      (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخای (/۲۰۵۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۰۳)من حدیث أبی ھریرۃؓ واخرجہ البخاری (/۲۰۲۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۰۵)من حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا۔

۱۷۶۵۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے وصال کے روزے سے منع فرمایا: تو صحابہ نے عرض کیا: آپ خود تو وصال کا روزہ رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: بے شک میں تم جیسا نہیں ہوں اس لیے کہ مجھے تو اللہ کی طرف سے کھلایا پلایا جاتا ہے۔ (متفق علیہ۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۰۲۴۔ فتح)و مسلم (۱۱۰۲)۔

۳۴۷۔ باب:قبر پر بیٹھنے کی حرمت

۱۷۶۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کا انگارے پر بیٹھنا جو اس کے کپڑوں کو جلا دے اور اس کا اثر اس کی جلد تک پہنچ جائے تو یہ اس کے لیے کسی قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۹۷۱)۔

۳۴۸۔ باب:قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے کی ممانعت

۱۷۶۷۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے قبر کو پختہ کرنے اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع فرمایا۔             (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۹۷۰)۔

۳۴۹۔ باب :غلام کا اپنے آقا سے فرار ہونا سخت حرام ہے

۱۷۶۸۔ حضرت جریر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو غلام (اپنے آقا کی خدمت کرنے سے)فرار ہو جائے تو اس سے عہدو پیمان کا ذمہ ختم ہو گیا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۹)

۱۷۶۹۔ سابق راوی ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:جب غلام (اپنے آقا کی خدمت سے) بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔ (مسلم)

اور ایک روایت میں ہے ’’پس اس نے کفر کیا‘‘

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۰)والرایۃ الثانیۃ عندہ (۶۸)

۳۵۰۔ باب: حدود میں سفارش کرنے کی حرمت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’زانی مرد اور زانیہ عورت،ان میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو اور ان دونوں پر

اللہ تعالیٰ کے دین کی تعمیل میں تمہیں رحم کھانے کی ضرورت نہیں ہے اگر تم اللہ اور یوم آخر ت پر رکھتے ہو‘‘ ۔ (النور:۲)

۱۷۷۰۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک مخزومی عورت کے معاملے نے ،جس نے چوری کی تھی ، قریش کو پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا انھوں نے مشورہ کیا کہ اس عورت کے بارے میں رسول اللہﷺ سے کون گفتگو (سفارش)کرے ؟ پس انھوں نے کہا کہ یہ جرأت تو رسول اللہﷺ کے چہیتے اور پیارے حضرت اسامہ بن زید ؓ ہی کر سکتے ہیں۔ حضرت اسامہ ؓ نے آپ سے سفارش کی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد میں سفارش کرتے ہو؟پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اس میں فرمایا : اسی چیز نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا تھا کہ اگر ان میں سے کوئی معزز اور طاقتور شخص چوری کر لیتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی ضعیف اور کمزور آدمی چوری کرتا تو وہ اس۔ پر بے حد قائم کر دیتے تھے ،اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتیں تو میں ان کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ (متفق علیہ)

اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا پھر آپ نے فرمایا: کیا تم اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟ اسامہ ؓ نے عرض کیا : یار سول اللہ۔ ! میرے لیے مغفرت طلب فرمائیں۔ راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ نے اس عورت کے بارے میں حکم فرمایا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۶۵۱)ملاحظہ فرمائیں۔

۳۵۱۔ باب:لوگوں کے راستے، ان کی سایہ دار جگہوں میں اور پانی کے گھاٹ اور اس طرح کی دیگر جگہوں میں قضائے حاجت کی ممانعت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اور وہ لوگ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو نا حق تکلیف پہنچاتے ہیں ،پس تحقیق انھوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔ (الأحزاب:۵۸)

۱۷۷۱۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:لعنت کا سبب بننے والے دو کاموں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا : لعنت کا سبب بننے والے دو کام کون سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: جو لوگوں کے راستے میں یا ان کی سایہ دار جگہوں میں قضائے حاجت کرتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۹)۔

۳۵۲۔ باب:ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب وغیرہ کرنا منع ہے

۱۷۷۲۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے کھڑے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۸۱)۔

۳۵۳۔ باب:باپ کا ہبہ یا عطیہ میں اپنی اولاد سے کسی ایک دوسروں پر تر جیح دینا نا پسندیدہ ہے

۱۷۷۳۔ حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ میرا باپ مجھے لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے جو میرا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اپنے سارے بچوں کو اس طرح ہبہ کیا ہے ؟انھوں نے عرض کیا :نہیں۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: پس تم اس سے بھی واپس لے لو۔

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:کیا تم نے اپنے سارے بچوں کے ساتھ ایسے ہی کیا؟انھوں عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا:اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے بارے میں عدلو انصاف کرو۔ پس میرے والد واپس آئے اور وہ صدقہ (ہبہ)واپس لیا۔

اور ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:اے بشیر!کیا اس بچے کے علاوہ بھی تمہاری اولاد ہے ؟انھوں نے عرض کیا: جی ہاں !آپ نے فرمایا:کیا تم نے ان سب کو اسی طرح کا ہبہ کیا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا:پس پھر تم مجھے گواہ نہ بنا ؤ اس لیے کہ میں ظلم اور نا انصافی پر گواہ نہیں بنتا۔

ایک اور روایت میں ہے :تم مجھے ظلم پر گواہ مت بناؤ۔

اور ایک اور روایت میں ہے :اس پر میرے سوا کسی اور کو گواہ بنا لو۔ پھر فرمایا: کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ حسن سلو ک اور نیکی کرنے میں برابر ہو؟انھوں نے عرض کیا: جی ہاں !کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر ایسے نہ کرو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۱۰۵۔ ۲۱۱۔ فتح)و مسلم (۱۶۲۳)والروایۃ الثانیۃ عند البخاری (/۲۱۱۵۔ فتح)و مسلم (۱۶۲۳) (۱۱)والروایۃ الثانیۃ عند مسلم (۱۶۲۳) (۱۴)والرابعۃ عند البخاری (/۱۱۵۔ فتح)و مسلم (۱۶۲۳) (۱۶)والخامسۃ عند مسلم (۱۶۲۳) (۱۷)۔

۳۵۴۔ باب :عورت کے لیے کسی میت پر تین دن سے زائد سوگ کرنا حرام ہے البتہ اپنے خاوند پر چار مہینے دس دن سوگ کرے

۱۷۷۴۔ حضرت زینب ابی سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نبیﷺ کی زوجہ محترمہ ام حبیبہ ؓ کے پاس گئی، جب ان کے والد حضرت ابو سفیان بن حزبؓ فوت ہو چکے تھے ، انھوں نے ایک خوشبو منگائی جس میں زرد رنگ کی خلوق یا کوئی اور چیز ملی ہوئی تھی۔ حضرت ام حبیبہ ؓ نے وہ خوشبو ایک لونڈی کو لگائی پھر اسے اپنے رخساروں پر مل لیا اور فرمایا: اللہ کی قسم !مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہیں تھی سوائے اس کے میں نے رسول اللہﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا:کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخر ت پر ایمان رکھتی ہے جائز نہیں کہ وہ میت پر تین دن سے زائد سوگ کرے سوائے خاوند پر ،اس پر چار مہینے دس دن تک جائز ہے۔

حضرت زینب ؓ بیان کرتی ہیں پھر میں حضرت زینب حجش ؓ کے پاس گئی جب ان کا بھائی وفات پا چکا تھا انھوں نے بھی خوشبو منگائی اور اس میں سے کچھ لگائی پھر کہا :سنو!اللہ کی قسم!مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہیں بجز اس کے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا:کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخر ت پر ایمان رکھتی ہے جائز نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے خاوند پر، وہ چار مہینے دس دن تک جائز ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۴۶۳۔ فتح)و مسلم (۱۴۸۶و۱۴۸۷)۔

۳۵۵۔ باب:شہری کا دیہاتی کے لیے سودا کرنا، تجارتی قافلوں کو (بازار پہنچنے سے پہلے راستے میں) ملنا، اپنے (مسلمان)بھائی کی بیع پر بیع کرنا اور اس کی منگنی کے پیغام پر منگنی کا پیغام بھیجنا حرام ہے مگر یہ کہ وہ اجازت دے دے یا وہ رد کر دے

۱۷۷۵۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے سودا کرے، اگر چہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہی ہو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۷۲۴۔ ۳۷۳۔ فتح)و مسلم (۱۵۲۳)۔

۱۷۷۶۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم (اگے بڑھ کر)سامان (مال تجارت) نہ ملو حتیٰ کہ اسے بازاروں میں آتا لیا جائے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۵۳۴۔ فتح)و مسلم (۱۵۱۷)۔

۱۷۷۷۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم (سامان لانے والے) قافلوں سے نہ ملو اور کوئی شہری دیہاتی کے لیے سودا نہ کرے۔ حضرت طاؤس نے اپنے استاد حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ، شہری دیہاتی کے لیے سودا نہ کرے۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟انھوں نے فرمایا: دیہاتی کا کوئی دلال (بروکر) نہ بنے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۷۰۴و۳۷۳و۴۵۱۔ فتح)و مسلم (۱۵۲۱)۔

۱۷۷۸۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے بیع کرے اور فرمایا صرف دھوکا دینے کے لیے قیمت نہ بڑھاؤ، کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرے نہ اس کی منگنی کے پیغام پر منگنی کا پیغام دے اور نہ کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ اس کے بر تن میں جو کچھ ہے اسے الٹ دے۔

اور ایک اور روایت میں ہے :راوی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے تجارتی قافلوں کو (اگے بڑھ کر)ملنے سے منع فرمایا ہے اور اس بات سے بھی منع فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے خریدو فروخت کرے اور یہ کہ عورت اپنی بہن کی طلاق کی شرط کرے اور یہ کہ آدمی اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے اور آپ نے دھو کا دینے کے لیے قیمت بڑھا نے اور جا نور کے تھنوں میں دودھ روک کر جانور کو فروخت کرنے سے بھی منع فرمایا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۵۳۴و/۳۲۳۵۔ فتح) (۱۵۱۵) (۱۰، ۱۱، ۱۲)۔

۱۷۷۹۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع کرے نہ اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کا پیغام بھیجے مگر یہ کہ وہ اس کی اجازت دے دے۔    (متفق علیہ اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۷۴۴۔ فتح)و مسلم (۱۴۱۲) (۵۰)۔

۱۷۸۰۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن مومن کا بھائی ہے پس کسی مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرے اور نہ اپنے بھائی منگنی کے پیغام پر منگنی کا پیغام بھیجے حتیٰ کہ وہ خود چھوڑ دے۔    (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۴۱۴)۔

۳۵۶۔ باب: ایسی جگہوں میں جہاں شریعت نے اجازت نہیں دی مال ضائع کرنا منع ہے

۱۷۸۱۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزیں پسند کرتا ہے اور تین چیزیں نا پسند ،پس وہ تمہارے لیے یہ پسند کرتا ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا ؤ اور یہ کہ تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور متفرق نہ ہو جاؤ اور وہ تمہارے لیے بے فائدہ اور بے مقصد باتوں، کثرت سوال اور مال ضائع کرنے کو ناپسند کرتا ہے۔            (مسلم اس کی شرح گزر چکی ہے۔ )

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۷۱۵)۔

۱۷۸۲۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے کاتب حضرت وراد بیان کرتے ہیں کہ حضرت مغیرہ ؓ نے حضرت معاویہ ؓ کے نام ایک خط میں مجھ سے لکھوایا کہ نبیﷺ ہر فرض نماز کے بعد یہ پڑھا کرتے تھے :اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،اس کے لیے بادشاہی ہے اور ہر قسم کی حمدو تعریف بھی اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ !تو جو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور تو جسے منع کر دے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کسی بڑے کی بڑائی تیرے ہاں کوئی نفع مند نہیں، اور ان کی طرف یہ بھی لکھا : آپﷺ بے مقصد گفتگو کرنے، مال کر ضائع کرنے، بے مقصد کثرت سے سوال کرنے سے منع فرماتے تھے اور آپ ماؤں کی نا فرمانی کرنے سے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے سے اور لوگوں کو خود نہ دینے اور ران سے مانگتے رہنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ (متفق علیہ۔ اس کی شرح گزر چکی ہے)

حدیث کے پہلے حصے کی توثیق کے لیے حدیث نمبر (۱۴۱۶) اور دوسرے حصے کے لیے حدیث نمبر (۳۴۰)ملاحظہ فرمائیں۔

۳۵۷۔ باب: کسی مسلمان کی طرف قصد۱ً یا  مزاحاً ہتھیار وغیرہ سے اشارہ کرنا منع ہے اور ننگی تلوار پکڑ نا بھی منع ہے

۱۷۸۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ شیطان اس کے ہاتھ سے (وہ ہتھیار)چلوا دے اور وہ جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ (متفق علیہ)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو القاسمﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کسی تیز دھار آلے کے ذریعے مسلمان بھائی کی طرف اشارہ کیا تو فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ وہ اسے رکھ نہ دے، اگرچہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہی ہو۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۳۱۳۔ فتح)و مسلم (۲۶۱۷) والرایۃ الثانیۃ عند مسلم (۲۶۱۶)۔

۱۷۸۴۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ننگی تلوار پکڑ آنے سے منع فرمایا ہے۔            (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۲۵۸۸)و الترمذی (۲۱۶۳)۔

۳۵۸۔ باب: اذان کے بعد کسی عذر کے بغیر فرض نماز پڑھے بغیر مسجد سے نکلنا نا پسندیدہ ہے

۱۷۸۵۔ حضرت ابوشعثا بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابو ہریرہ ؓ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مؤذن نے اذان دی، پس ایک آدمی مسجد سے کھڑا ہوا اور چلنے لگا تو حضرت ابو ہریرہ ؓ بغور اسے دیکھتے رہے حتیٰ کہ کہ وہ مسجد سے باہر نکل گیا، تب حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: سنو ! اس شخص نے ابو القاسمﷺ کی نافرمانی کی۔        (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۵۵)۔

۳۵۹۔ باب: بلا عذر خوشبو کا ہدیہ واپس کرنا نا پسندیدہ ہے

۱۷۸۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص کو ریحان (خوشبو دار بوٹی) پیش کی جائے تو وہ اسے نہ لوٹائے ،اس لیے کہ وہ ہلکی اور خفیف سی ہے اور اس کی خوشبو بہت اچھی ہے۔        (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۲۵۳)۔

۱۷۸۷۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ خوشبو کا ہدیہ رد نہیں فرماتے تھے۔     (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۰۹۵۔ فتح)۔

۳۶۰۔ باب: کسی ایسے شخص کی منہ پر تعریف کرنا ناپسندیدہ ہے جس کے بارے میں یہ اندیشہ ہو کہ وہ فخر و غرور میں مبتلا ہو جائے گا اور جس کے بارے میں یہ اندیشہ نہ ہو تو اس کے منہ پر اس کی تعریف کرنا جائز ہے

۱۷۸۸۔ حضرت ابو موسی اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ کسی آدمی کو کسی کی تعریف کرتے ہوئے سنا ، جو تعریف میں مبالغہ آرائی کر رہا تھا تو آپ نے فرمایا:تم نے ہلاک کر دیا یا تم نے اس آدمی کی کمر توڑ دی۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۷۶۵۔ فتح)و مسلم (۳۰۰۱)

۱۷۸۹۔ حضرت ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے پاس ایک آدمی کا ذکر کیا گیا تو دوسرے آدمی نے اسکی تعریف کی، پس نبیﷺ نے فرمایا: افسوس ہے تجھ پر، تم نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی، آپ نے کئی بار ایسے فرمایا (پھر فرمایا) اگر تم میں سے کسی نے ضرور ہی کسی کی تعریف کر نی ہو تو اسے ایسے کہنا چاہیے کہ میں اسے ایسا اور ایسا سمجھتا ہوں، اگر وہ سمجھتا ہے کہ وہ اسی طرح ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کا حساب لینے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی کے پاک صاف ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔            (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۷۴۵۔ فتح)و مسلم (۳۰۰۰)۔

۱۷۹۰۔ حضرت ہمام بن حارث حضرت مقدادؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عثمان ؓ کی (ان کے منہ پر) تعریف کرنے لگا تو مقدادؓ نے (اس کے منہ میں مٹی ڈالنے کا)ارادہ کیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور اس کے منہ میں کنکریاں ڈالنے لگے۔ حضرت عثمان ؓ نے ان سے پو چھا : یہ تم کیا کر رہے ہو؟ انھوں نے بتا یا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم (منہ پر)تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے مونہوں میں مٹی ڈالو۔      (مسلم)

یہ ممانعت کی احادیث ہیں جبکہ منہ پر تعریف کرنے کے جواز کی بہت سی احادیث وارد ہیں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۳۰۰۲) (۶۹)۔

۳۶۱۔ باب: جس شہر میں وبا پھیل جائے وہاں سے جانے اور کسی دوسرے شہر سے اس شہر میں آنے کی کراہت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم جہاں ہو گے موت تمہیں پالے گی، اگر چہ مضبوط قلعوں میں ہو۔ (النسا:۷۸)

اور فرمایا: تم اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (البقرۃ :۱۹۵)

۱۷۹۱۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ملک شام کی طرف روانہ ہوئے حتیٰ کہ آپ مقام ’’سرغ‘‘ پر پہنچے تو آپ کو ’’اجناؤ‘‘ (شام کے شہروں) کے امرا حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ اور ان کے ساتھی ملے تو انھوں نے حضرت عمرؓ کو بتا یا کہ۔ ملک شام میں تو وبا پھیل چکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے مجھے فرمایا کہ مہاجرین اولین کو میرے پاس بلاؤ۔ میں نے انہیں بلایا تو حضرت عمر ؓ نے ان سے مشورہ طلب کیا اور انہیں بتایا کہ ملک شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے (اب کیا کرنا چاہیے)؟ ان کے درمیان اختلاف ہو گیا، بعض نے کہا : ایک (اچھے) مقصد کے تحت روانہ ہوئے ہیں ، ہم نہیں سمجھتے کہ۔ آ پ اس مقصد سے رجو ع کریں، بعض نے کہا :آپ کے ساتھ رسول اللہﷺ کے صحابہ اور دیگر لوگ ہیں اور ہم نہیں سمجھتے کہ آپ انہیں لے کر اس وبا میں چلے جائیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا:تم میرے پاس سے چلے جاؤ، پھر فرمایا کہ میرے پاس انصار کو بلاؤ۔ پس میں نے انہیں بلایا تو انھوں نے ان سے مشورہ کیا تو انھوں نے بھی مہاجرین کا سا انداز اختیار کیا اور انہی کی طرح اختلاف رائے کا اظہار کیا، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم بھی میرے پاس سے چلے جاؤ، پھر فرمایا: میرے پاس یہاں موجود قریش کے ان عمر رسیدہ لوگوں کو بلاؤ جنھوں نے فتح مکہ کے وقت ہجرت کی۔ میں نے انہیں بلایا تو ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اس مسئلے میں اختلاف نہ کیا بلکہ ان سب نے کہا: ہم تو یہی سمجھتے ہیں کے آپ ان لوگوں کو لے کر واپس چلے جائیں اور انہیں اس وبا کی طرف لے کر نہ جائیں۔ پس حضرت عمرؓ نے لوگوں میں اعلان کرا دیا کہ میں صبح کو (مدینے کی طرف) واپس لوٹوں گا، لہٰذا تم بھی صبح اس کی تیاری کرو۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے فرار اختیار کرتے ہو؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: کاش!یہ بات آپ کے علاوہ کوئی اور کہتا ،حضرت عمرؓ ان سے اختلاف کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے ، (اور کہا)ہاں !ہم اللہ کی تقدیر سے، اللہ کی تقدیر ہی کی طرف بھاگ رہے ہیں، مجھے بتاؤ اگر تمہارے پاس اونٹ ہو اور تم ایسی وادی میں اترو جس کے دو کنارے ہوں ان میں سے ایک سر سبز و شاداب ہو اور دوسرا بنجر تو کیا ایسے نہیں کہ اگر تم سرسبز و شاداب حصے میں چراؤ گے توا للہ کی تقدیر سے چراؤ گے اور اگر بنجر حصے میں چراؤ گے تو بھی اللہ کی تقدیر ہی سے چراؤ گے ؟ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں : اتنے میں حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ تشریف لائے ،وہ اپنی کسی ضرورت کے تحت کہیں گئے ہوئے تھے ، انھوں نے فرمایا: میرے پاس اس میں علم ہے ، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :جب تم اس وبا کے بارے میں سنو کہ یہ فلاں جگہ پھیلی ہوئی ہے تو تم وہاں نہ جاؤ اور جب یہ وبا ایسی جگہ پھیلے جہاں تم موجود ہو تو پھر وہاں سے بھاگنے کے لیے مت نکلو۔ پس حضرت عمر ؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور وہاں سے واپس ہو گئے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۱۰!۱۷۹۔ فتح)و مسلم (۲۲۱۹)۔

۱۷۹۲۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب تم سنو کہ کسی جگہ وبا پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب یہ وبا ایسی جگہ پھیل جائے جہاں تم موجود ہو تو پھر وہاں سے نہ نکلو۔     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۷۸۱۰۔ ۱۷۹۔ فتح)و مسلم (۲۲۱۸)۔

۳۶۲۔ باب: جادو کی شدید حرمت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (حضرت)سلیمانؑ نے کفر نہیں کیا لیکن شیطانوں نے کفر کیا،وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ (البقرۃ:۱۰۲)

۱۷۹۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: سات مہلک چیزوں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ وہ کیا ہیں !آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے قتل کرنا اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، لڑ آئی کے موقع پر پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور بھو لی پاک دامن عورتوں ہر تہمت لگانا۔            (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۶۱۴)ملاحظہ فرمائیں۔

۳۶۳۔ باب: کافروں کے علاقوں میں قرآن مجید ساتھ لے کر سفر کرنا منع ہے، جب اس کا دشمن کے ہاتھوں میں جانے کا اندیشہ ہو

۱۷۹۴۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے قرآن مجید کے ساتھ دشمن کی سرزمین کی طرف سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔         (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۳۳۶۔ فتح)و مسلم (۱۸۶۹)۔

۳۶۴۔ باب: کھانے پینے، طہارت اور استعمال کی دیگر صورتوں میں سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا حرام ہے

۱۷۹۵۔ حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص چاندی کے برتن میں پیتا ہے تو وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔              (متفق علیہ)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے : بے شک جو شخص سونے اور چاندی کے برتن میں کھاتا یا پیتا ہے (تو وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے)۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۷۷۸)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۷۹۶۔ حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے ہمیں ریشم اور دیباج کے استعمال سے اور سونے اور چاندی کے برتن میں پینے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا: یہ دنیا میں ان (کافروں) کے لیے ہیں اور آخر ت میں تمہارے لیے ہوں گے۔      (متفق علیہ)

اور صحیحین میں ایک اور روایت ہے، حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: تم ریشم پہنو نہ دیباج اور نہ ہی سونے چاندی کے برتنوں میں پیو اور نہ ہی ان کے پیالوں، پلیٹوں میں کھاؤ۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۷۷۷)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۷۹۷۔ حضرت ابن سیرین ؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک ؓ کے ساتھ مجوسیوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ چاندی کے برتن میں مٹھائی لائی گئی تو حضرت انس ؓ نے اسے نہیں کھایا ،پس اسے کہا گیا کہ اسے کسی اور برتن میں ڈالو لیں۔ اس نے اسے ایک پیالے میں بدل دیا اور پھر اسے لایا گیا تو آپ نے اسے تناول فرمایا۔  (بیہقی، سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ البیھقی (/۲۸۱)۔

۳۶۵۔ باب: آدمی کے لیے زعفرانی رنگ کا لباس پہننا حرام ہے

۱۷۹۸۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے آدمی کو زعفرانی رنگ کا کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے۔     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۰۴۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۰۱)۔

۱۷۹۹۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے مجھے زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا تیری ماں نے تجھے یہ کپڑے پہنے کا حکم دیا ہے ؟ میں نے عرض کیا: کیا میں انہیں دھو ڈالوں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ انہیں جلادو۔

اور ایک روایت میں ہے ، آپ نے فرمایا: یہ کافروں کا لباس ہے، پس تم اسے مت پہنو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۰۷۷) (۲۸)والرایۃ الثانیۃ عندہ (۲۰۷۷) (۲۸)۔

۳۶۶۔ باب: ایک دن اور رات تک خاموش رہنا منع ہے

۱۸۰۰۔ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے یہ فرمان یاد کیا ہے : بالغ ہونے کے بعد یتیمی نہیں اور ایک دن اور رات تک خاموش رہنے کی کوئی حیثیت نہیں (ابو داؤد۔ سند حسن ہے)

امام خطابی۔ ؒ نے اس حدیث کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ جاہلیت کی عبادات میں خاموش رہنا بھی تھا، پس اسلام میں ایسی عبادت سے منع کر دیا اور انہیں ذکر الہیٰ کرنے اور خیرو بھلائی کی بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

توثیق الحدیث : صحیح دون قولہ ( (ولا صمات یوم الی اللیل))،اخرجہ ابو داؤد (۲۸۷۳)بھذا اللفظ۔

حدیث کا پہلا حصہ صحیح ہے کہ بالغ ہونے کے بعد یتیمی نہیں۔ جبکہ دوسرا حصہ ایک دن اور رات خاموش رہنے کی کوئی حیثیت نہیں صحیح سند سے ثابت نہیں۔

۱۸۰۱۔ حضرت قیس بن ابو حازم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ احمس قبیلے کی عورت کے پاس تشریف لائے ،جسے زینب کہا جاتا تھا،آپ نے اسے دیکھا کہ وہ بولتی نہیں تو آپ نے فرمایا: اسے کیا مسئلہ ہے ،یہ بات کیوں نہیں کرتی؟ انھوں نے بتایا کہ اس نے خاموش رہنے کا ارادہ کیا ہے۔ آپ نے اسے فرمایا:تم بات چیت کرو، اس لیے کہ یہ جائز نہیں ، یہ تو عمل جاہلیت میں سے ہے پس اس نے بات چیت کرنا شروع کر دیا۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۴۷۷۔ ۱۴۸۔ فتح)۔

۳۶۷۔ باب: انسان کا اپنے باپ یا اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کی طرف کی طرف منسوب ہونے کی حرمت

۱۸۰۲۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنے آپ کو۔ اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف جھوٹا منسوب کیا اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۴۱۲۔ فتح)و مسلم (۶۳)۔

۱۸۰۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: اپنے باپ سے اعراض اور بے رغبتی نہ کرو، پس جس شخص نے اپنے باپ سے اعراض کیا تو یہ کفر ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۴۱۲۔ فتح)و مسلم (۶۲)۔

۱۸۰۴۔ حضرت یزید بن شریک بن طارق بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ کو منبر پر دیکھا اور ا نہیں خطاب فرماتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کی قسم !ہمارے پاس کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب نہیں جسے ہم پڑھتے ہوں اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ انھوں نے اس صحیفے کو پھیلایا تو اس میں (دیت کے)اونٹوں کی عمریں اور کچھ زخموں (کی دیت) کے بارے میں احکامات تھے اور اس میں یہ بھی تھا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مدینہ عیر سے ثور تک حرم ہے۔ پس جس شخص نے اس میں کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اس سے فرض قبول کرے گا نہ نفل۔ مسلمانوں کا عہد ایک ہے جس کے ساتھ ان کا ایک ادنی آدمی بھی کوشش کر سکتا ہے (یعنی وہ پناہ دے سکتا ہے اور اس کی پناہ کی حفاظت کی جائے گی)

جس شخص نے کسی مسلمان کے عہد کو توڑا تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ قیامت والے دن اس سے فرض قبول کرے گا نہ نفل اور جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف یا اپنے اقا کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا تو اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ قیامت والے دن اس کا فرض قبول فرمائے گا نہ نفل۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۸۱۴۔ فتح)و مسلم (۱۳۷۰)۔

۱۸۰۵۔ حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: جس شخص نے بھی جانتے بوجھتے اپنے آپ کو اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا تو اس نے کفر کیا اور جس نے کسی ایسی چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے اور جس شخص نے کسی کو کافر کہہ کر پکارا یا اسے کہا : اے اللہ کے دشمن ! اور وہ ایسا نہ ہوا تو وہ کلمہ اس کہنے والے پر لوٹ آتا ہے۔             (متفق علیہ۔ یہ الفاظ مسلم کی روایت کے ہیں)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۳۹۶۔ فتح)و مسلم (۶۱)۔

۳۶۸۔ باب:اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان کے ارتکاب سے ڈرانا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جوا س کے رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈر جانا چاہیے کہ ان پر کوئی بڑ ی افت۔ آ پڑے یا انہیں دردناک عذاب پہنچے۔ ‘‘ (سورۃ النور:۶۳)

اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے۔ ‘‘ (سورۃ العمران:۳۰)

نیز فرمایا: ’’بے شک تیرے رب کی گرفت بہت سخت ہے۔ ‘‘ (سورۃ البروج :۱۲)

اور فرمایا: ’’او راسی طرح ہے تیرے رب کی گرفت جب وہ بستیوں والوں کو پکڑ تا ہے جب کہ وہ ظلم کا ارتکاب کرتی ہیں ، بے شک اس کی پکڑ نہایت دردناک ہے۔ ‘‘ (ھود:۱۰۲)

۱۸۰۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کو غیرت اتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی غیرت یہ ہے کہ آدمی وہ کام کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حرام کیا ہے۔ ‘‘  (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۶۴) ملاحظہ فرمائیں۔

۳۶۹۔ باب: جب کوئی شخص کسی منع کردہ کام کا ارتکاب کر لے تو وہ کیا پڑھے اور کیا کرے ؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اگر شیطان کی چھیڑ چھاڑ تمہیں (اللہ تعالیٰ کی نافرمانی) پر ابھارے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کر و۔ ‘‘ (سورۃ فصلت : ۳۶)

نیز فرمایا: ’’بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے وسوسہ پہنچتا ہے تو وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں۔ اور وہ (دل کی۔ آنکھیں کھول کر) دیکھنے لگتے ہیں۔ ‘‘

(سورۃ الأعراف: ۲۰۱)

اور فرمایا: ’’وہ لوگ جو کوئی برا کام کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم طلب کر لیتے ہیں تو (فوراً)اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گنا ہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کون گنا ہوں کو بخش سکتا ہے ؟ او ر وہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ، جب کہ وہ جانتے ہوتے ہیں۔ یہی و ہ لوگ ہیں جن کو بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور (نیک) کام کرنے والوں کو کیا اچھا اجر ہے۔ ‘‘ (سورۃ آل عمران : ۱۳۵، ۱۳۶)

اور فرمایا: ’’تم سب کے سب اللہ کی طرف رجوع کر و، اے ایمان والو! تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ‘‘

(سورۃ النور : ۳۱)

۱۸۰۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے قسم اٹھائی اور اپنی قسم میں کہا:لات و عزیٰ کی قسم !       تو اسے چاہیے کہ وہ لا الہ الا اللہ پڑھ لے اور جو اپنے ساتھی سے کہے : آؤ جوا کھیلیں تو اسے چاہیے کہ وہ صدقہ کرے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۸!۶۱۱۔ فتح)،،و مسلم (۱۶۴۷)